{"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv20nxzl544o", "summary": "پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور آٹے پر سبسڈی جیسے معاملات پر گذشتہ چند ماہ سے احتجاج جاری ہے جس میں حالیہ دنوں میں تیزی آئی ہے۔ اس تمام تر صورتحال پر کشمیری شہریوں اور متعلقہ حکام کا کیا کہنا ہے؟", "title": "پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟ ’پورا پاکستان ہمارے وسائل استعمال کرتا ہے، بدلے میں کچھ نہیں ملتا‘", "firstPublished": "2023-10-06T06:51:11.061Z", "id": "cv20nxzl544o", "article": "پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاج تو کئی ہفتوں سے جاری تھا لیکن صورتحال اس وقت کشیدہ ہو گئی جب گذشتہ سنیچر کو احتجاجاً بجلی کے بلوں کے جہاز بنا کر دریائے نیلم میں پھیکنے پر عوامی ایکشن کمیٹی کے ارکان اور مظاہرین کے خلاف مقدمات درج کر کے نہ صرف انھیں گرفتار کیا گیا بلکہ دھرنے کے مقام پر لگے کیمپ کو بھی اکھاڑ دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ احتجاج مئی کے ماہ میں شروع ہوئے اور اس کا آغاز راولاکوٹ سے ہوا تھا جہاں پر آٹا اور اشیائے خوردونوش پر سبسڈی ختم یا کم کرنے کے معاملے پر احتجاجی کیمپ لگائے گئے۔ وہاں پر یہ احتجاج کئی ہفتے جاری رہا جس کے بعد یہ کشمیر کے مختلف شہروں تک پھیل گیا۔ دوسری جانب کشمیر میں محکمہ واپڈا کے ایس ڈی او راجہ ارشد کا کہنا تھا کہ بجلی کے بلوں میں ٹیکسز اور اضافہ حکومت پاکستان کی ایما پر کیا جاتا ہے اور ڈسڑی بیوٹر کمپنی حکومت کی پالیسیوں پر عملدر آمد کرتی ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کشمیر میں زیادہ تر چاول شوق سے کھائے جاتے ہیں لیکن ان کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بھی آٹے کی طلب پر اثر پڑا ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قائم کردہ مرکزی ایکشن کمیٹی کے ممبر اور مظفر آباد میں تاجر رہنما شوکت نواز میر کا کہنا تھا کہ ’حالیہ احتجاج کی وجہ تو بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور آٹا و دیگر اشیائے خوردونوش پر سبسڈی کا ختم کرنا اور کم کرنا شامل ہے مگر عوام کے اندر لاوا 75 سال سے پک رہا ہے۔‘ عوامی شکایات پر کشمیر کی حکومت کیا کر رہی ہیں اور کیا یہ الزامات درست ہیں؟ اس سوال کے جواب پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر چوہدری محمد رشید کا کہنا تھا کہ ’کشمیر سے کوئی بھی امتیازی سلوک نہیں ہو رہا بلکہ پاکستان کی مدد سے کشمیر کے معاملات چل رہے ہیں۔ اب پاکستان میں معاشی صورتحال اچھی نہیں تو کشمیر میں بھی اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے ایک یونٹ پر کشمیر کو پندرہ پیسے ملتے تھے، پھر چالیس پیسے ہوئے اور اب ایک روپیہ دس پیسے مل رہے ہیں، اور اکھٹی ہونے والی تمام تر رقم کشمیر کا بجٹ بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ 2010 سے کشمیر میں جو پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ معاہدے کے تحت یہ تمام سسٹم 25 سال کے بعد حکومت کی ملکیت ہوں گے جس سے صورتحال اور بھی بہتر ہوجائے گی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c109pqg9v1vo", "summary": "پاکستان میں معیشت اور ٹیکس کے ماہرین کے مطابق ملک میں ٹیکس وصولی کے نظام میں غریبوں سے زیادہ ٹیکس وصولی کی وجہ ملک میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار ہے جو تمام صارفین سے وصول کیے جاتے ہیں تاہم غریبوں کی کم آمدن کی وجہ سے ان پر اس ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن کا بہت زیادہ اضافی بوجھ پڑتا ہے۔", "title": "پاکستان میں متوسط طبقے اور غریبوں پر ٹیکسوں کا بوجھ امیروں سے زیادہ کیوں ہے؟", "firstPublished": "2023-10-05T03:03:41.630Z", "id": "c109pqg9v1vo", "article": "اس شرط کے تحت زیادہ ٹیکس وصولی کے مختلف شعبوں اور طبقات پر ٹیکس لگانے کی بات کی گئی ہے تاہم ابھی تک پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام کچھ ایسا ہے جس میں غریب طبقات پر ٹیکس کے بوجھ کی زیادہ شکایات ہیں جب کہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کے مقابلے میں امیر طبقات پر ٹیکس کی وصولی کا بوجھ ان کی آمدن کے لحاظ سے نہیں ہے۔ پاکستان میں معیشت اور ٹیکس کے ماہرین کے مطابق ملک میں ٹیکس وصولی کے نظام میں غریبوں سے زیادہ ٹیکس وصولی کی وجہ ملک میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار ہے جو تمام صارفین سے وصول کیے جاتے ہیں تاہم غریبوں کی کم آمدن کی وجہ سے ان پر اس ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن کا بہت زیادہ اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ ٹیکس اُمور کے ماہرین کے مطابق اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر شہری اِس وقت ٹیکس دے رہا ہے جس کی بڑی وجہ ملک میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح کا زیادہ ہونا ہے۔ انھوں نے کہا جہاں تک بات ہے آمدن پر ٹیکس دینے کی تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ٹیکس نظام کے بارے میں عوام میں اعتماد کا فقدان ہے اور اس کے علاوہ ٹیکس کے نظام کی پیچیدگیوں اور زیادہ شرح ٹیکس کی وجہ سے پاکستان میں ٹیکس دینے کا کلچر پروان نہیں چڑھ سکا۔ پاکستان میں ٹیکس اور معیشت کے امورکے ماہرین کے مطابق یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں غریبوں پر ٹیکس کا بوجھ زیادہ ہے جب کہ امیر طبقات پر ٹیکسوں کا بوجھ اس کے مقابلے میں کم ہے۔ انھوں نے کہا ان ڈائریکٹ ٹیکس یقینی طور پر صارفین سے لیا جاتا ہے جس میں امیر و غریب دونوں شامل ہیں تاہم غریبوں کی محدود آمدنی کی وجہ سے ان پر ان ٹیکسوں کا بوجھ زیادہ ہے جب کہ امیروں کی زیادہ آمدنی کی وجہ سے ان پر ان ٹیکسوں پر اس طرح بوجھ نہیں پڑتا ہے جس طرح ایک غریب صارف جھیلتا ہے۔ ماہر معیشت حزیمہ بخاری نے اس سلسلے میں کہا امیروں پر زیادہ ٹیکس کا نفاذ اس وقت ہو سکتا ہے جب ڈائریکٹ ٹیکسوں کا نفاذ زیادہ ہو اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح کم ہو۔ انھوں نے کہا جو ٹیکس قوانین اس وقت موجود ہیں ان میں بھی ان ڈائریکٹ ٹیکسوں پر زیادہ زور ہے جب کہ ڈائریکٹ ٹیکس اس شرح سے اکٹھے نہیں ہو رہے جتنا ان کا ملک میں پوٹیشنل ہے۔ ڈاکٹر اکرام نے اس سلسلے میں بتایا کہ پاکستان میں زرعی شعبے کی جانب سے ٹیکس میں حصہ بمشکل محض تین ارب روپے تک ہے۔ انھوں نے کہا اگرچہ صنعتی شعبے کی جانب سے بھی بعض اوقات کم ٹیکس ادا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاہم پھر بھی اس کی جانب سے زرعی شعبے کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cj78ev79mdmo", "summary": "تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ ماسکو کا ساتھ نہ دینے والے ممالک کی تقریباً 700 کمپنیوں نے سنہ 2022 میں 20,375 ملین امریکی ڈالر کے قریب منافع حاصل کیا جو کہ یوکرین پر روسی حملے سے پہلے حاصل کیے گئے منافع سے کہیں زیادہ ہے۔", "title": "معاشی پابندیوں پر روس کا جواب: ’دشمن‘ مغربی ممالک کی کمپنیوں کا اربوں ڈالر کا منافع روک دیا", "firstPublished": "2023-10-04T02:20:54.824Z", "id": "cj78ev79mdmo", "article": "تاہم، تحقیقات میں یہ بھی پتا چلا ہے کہ کریملن انھیں ’دشمن‘ سمجھے جانے والے ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے انھیں ان کی آمدن تک رسائی سے روک رہا ہے۔ مطالعاتی مرکز کا تخمینہ ہے کہ ماسکو کا ساتھ نہ دینے والے ممالک کی تقریباً 700 کمپنیوں نے سنہ 2022 میں 20,375 ملین امریکی ڈالر کے قریب منافع حاصل کیا جو کہ یوکرین پر روسی حملے سے پہلے حاصل کیے گئے منافع سے کہیں زیادہ ہے۔ ماسکو فنڈز کو منجمد کرنے جیسے تجارتی اقدامات کو مکمل طور پر جائز سمجھتا ہے کیونکہ مغربی اتحاد والے ممالک نے بھی روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں اور روسی افراد اور کمپنیوں کے بیرون ملک مالیاتی اثاثوں کو روک دیا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اگست میں کہا تھا کہ ’یوکرین پر حملے کے لیے روس کو سزا دینے اور مالی طور پر تنہا کرنے کی مغرب کی کوششیں ’پابندیوں کا ایک ناجائز سلسلہ ہیں‘ اور خودمختار ریاستوں کے اثاثوں کو غیر قانونی طور پر منجمد کرنا ہے، جو وہ آزاد تجارت کے تمام بنیادی اصولوں اور ضابطوں کو پامال کر رہے ہیں۔‘ کلمیکوف کا استدلال ہے کہ یورپی اور امریکی کمپنیوں کو اب ایک مشکل انتخاب کا سامنا ہے۔ یا تو وہ روس میں بغیر کسی یقین دہانی کے اس امید پر پیسہ کمانا جاری رکھیں کہ وہ کبھی منافع حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں گے، یا روس چھوڑ دیں، لیکن یہ سب کریملن کی شرائط پر ہوں گے۔ اور کچھ معاملات میں بات کافی آگے بڑھ چکی ہے۔ مثال کے طور پر کریملن نے ڈینش شراب بنانے والی کمپنی کارلسبرگ کے روسی کمپنی میں حصص کے ساتھ ساتھ فرانسیسی دہی بنانے والی کمپنی ڈینون کی ایک روسی ذیلی کمپنی کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اگست میں پوتن نے ’دشمن‘ ممالک کے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بڑی روسی کمپنیوں اور بینکوں میں حصص رکھنے پر پابندی لگانے کے قانون پر دستخط کیے، جس سے ملک میں غیر ملکی کارروائیوں پر نئی حدیں مقرر کی گئیں۔ یہ قانون نہ صرف ان ممالک کے سرمایہ کاروں کے حقوق کو محدود کرتا ہے جنھوں نے خود کو ماسکو کے ساتھ منسلک نہیں کیا بلکہ یہ بھی سہولت فراہم کرتا ہے کہ ان کے حصص کسی کمپنی کے روسی مالکان میں متناسب طور پر تقسیم کیے جاسکتے ہیں۔ چونکہ کریملن نے اپنی روسی ذیلی کمپنیاں بیچ کر ملک چھوڑنے کی کوشش کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے رکاوٹیں بڑھا دی ہیں ایسے میں بہت سی بڑی کارپوریشنز جنھوں نے جنگ کے بعد روس میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا انھیں اب لاکھوں کے نقصانات کا سامنا ہے جس سے ان کے کاروبار کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان سب کا انھیں اس وقت شاید اندازہ بھی نہیں تھا جب انھوں نے جنگ کے باوجود روسی مارکیٹ میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gl4pp0gzgo", "summary": "رقبے کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک کے تینوں شہروں میں سے ہر ایک کی اپنی انفرادیت ہے۔ ہم نے ہر شہر کے رہائشیوں سے بات کی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ان کو اپنے شہروں میں رہنے اور یہاں کی کس چیز سے محبت ہے۔", "title": "کینیڈا کے تین شہر رہائش کے لیے دنیا کے 10 بہترین شہروں میں شامل: لوگ یہاں رہنا کیوں پسند کرتے ہیں؟", "firstPublished": "2023-10-03T04:25:50.938Z", "id": "c3gl4pp0gzgo", "article": "سمانتھا فالک، جو مونٹریال، کیلگری اور ٹورنٹو میں بھی رہ چکی ہیں نے 24 سال کی عمر کو پہنچنے تک اپنا ڈرائیونگ لائسنس حاصل نہیں کیا تھا جبکہ ان کے ایک دوست نے ڈرائیونگ لائسنس 53 سال کی عمر میں حاصل کیا۔ اور اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ انھیں شہر میں گھومنے پھرنے کے لیے کبھی ذاتی گاڑی کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام اتنا بہتر ہے۔ تاہم، رہائشیوں کو جو چیز سب سے زیادہ پسند ہے وہ یہاں کے شہریوں کا گھروں سے میدانوں میں جانے کا شوق ہے۔ سمانتھا فالک کہتی ہیں کہ ’کینیڈا کے تینوں (سب سے زیادہ قابل رہائش) شہر جو کہ کینیڈا میں اور بھی بہت سے ہیں، فطرت کے قریب ہیں اور انھوں نے اس فطرت کو اپنے ڈیزائن میں بھی شامل کر لیا ہے۔‘ رقبے کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک کے تینوں شہروں میں سے ہر ایک کی اپنی انفرادیت ہے۔ ہم نے ہر شہر کے رہائشیوں سے بات کی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ان کو اپنے شہروں میں رہنے اور یہاں کی کس چیز سے محبت ہے۔ یہاں کے رہائشیوں کے مطابق کیلگری ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں بڑے شہروں کی سہولیات موجود ہیں اور یہ کینیڈا کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں رہائش کے لیے قدرے سستا ہے۔ رہائشی اور ٹریول بلاگر لورا پوپ کا کہنا ہے کہ ’کینیڈا کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک ہونے کے باوجود کیلگری میں ایک مخصوص دلکشی ہے، جو یہاں کے دوستانہ مقامی افراد، کمیونٹی کو فروغ دینے والی ذہنیت اور فارمرز مارکیٹس (جہاں تازے پھل اور سبزی کھیتوں سے براہِ راست آتے ہیں) کے باعث ہے۔ یہ کینیڈا کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ یہاں آپ کو ایک بڑے شہر کا ماحول بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور یہاں 1500 پارکس بھی ہیں جو رہائشیوں کو باہر کی دنیا سے جوڑے رکھتے ہیں۔ خاص طور پر انسانی ضروریات کو مدِنظر رکھ کر بنائے گئے انفراسٹرکچر کی بدولت یہاں زندگی دوسرے بڑے شہروں سے زیادہ آسان محسوس ہوتی ہے۔ رہائشی عموماً اس راستے کی تعریف کرتے دکھائی دیتے ہیں جو رہائشیوں کے لیے زیرِ زمین بنایا گیا ہے۔ یہ انھیں خاص طور پر سردیوں میں آسانی دیتا ہے۔ یہاں ٹورونٹو میں نئے کاروبار کرنے کی امنگ موجود ہے اور بڑے کاروبار جیسے اوبر، گوگل، فیس بک وغیرہ کے تو یہاں دفاتر ہیں ہی لیکن نئے سٹارٹ اپس بھی پنپ رہے ہیں۔ گذشتہ چند سالوں میں یہ شہر شمالی امریکہ کا تیسرا سب سے بڑا ٹیکنالوجی کا گڑھ بن چکا ہے، صرف نیویارک اور سیلیکون ویلی اس سے آگے ہیں۔ جب اس شہر کی متنوع کمیونٹی کو اس کے ٹیکنالوجی مارکیٹ سے ملایا جاتا ہے تو یہ لوگوں کے لیے ایک بہترین ایکسپوژر ہوتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2q3k4nq39no", "summary": "انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر اعلان کردہ انڈیا، مشرق وسطی، یورپ کوریڈور منصوبہ آنے والے سینکڑوں برسوں تک عالمی تجارت کی بنیاد بنے گا۔ مگر کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟", "title": "کیا انڈیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ کا راہداری منصوبہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا مقابلہ کر سکتا ہے؟", "firstPublished": "2023-10-03T03:20:38.534Z", "id": "c2q3k4nq39no", "article": "انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک حالیہ ریڈیو خطاب میں کہا ہے کہ دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر ایک نئے ٹرانسپورٹ کوریڈور منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے جو آنے والے سینکڑوں برسوں تک عالمی تجارت کی بنیاد بنے گا۔ مگر کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے جیسا کہ وزیراعظم مودی نے کہا ہے؟ ’کنیکٹیوگرافی‘ کے مصنف پاراگ کھنہ کا کہنا ہے کہ ’اس منصوبے کا حصہ بننے سے امریکہ کو مادی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہے، لیکن اسے کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والے جاپان، جنوبی کوریا سربراہی اجلاس کے زمرے میں دیکھا جا سکتا ہے۔‘ آئی ایم ای سی راہداری منصوبے کو بہت سے لوگ امریکہ کی جانب سے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے مقابلے کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں، جو کہ ایک عالمی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کا منصوبہ ہے جو چین کو جنوب مشرقی ایشیا، وسطی ایشیا، روس اور یورپ سے جوڑتا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ منصوبے کے بڑے عزائم میں نمایاں طور پر کمی آئی ہے، کیونکہ چین کی اقتصادی سست روی کے درمیان منصوبوں کو قرض دینے کی رفتار کم ہو گئی ہے۔ اٹلی جیسے ممالک اس منصوبے سے نکلنے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں اور سری لنکا اور زیمبیا جیسی قوموں نے خود کو قرضوں کے جال میں پھنسا لیا ہے جو اب اپنے قرض واپس کرنے کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ اسے مکمل کرنا بہت پیچیدہ ہو گا۔ اگروال کھنہ کا کہنا ہے کہ ’میں اس منصوبے میں اہم سرکاری اداروں کو دیکھنا چاہتا ہوں جو سرمایہ کاری کے لیے دستخط کریں گے، ہر ملک کی حکومت اس کے لیے کتنے وقت میں کتنی سرمایہ کاری کی حامی بھرتی ہے۔‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اس منصوبے کے تحت باہمی تجارت کے لیے کاغذی کارروائی کو ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک نئے رواج اور تجارتی قوائد کو بھی لاگو کرنے کی ضرورت ہو گی۔‘ اس کے علاوہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب جیسے شراکت دار ممالک کے درمیان تعلقات کو استوار کرنے کی واضح جغرافیائی سیاسی پیچیدگیاں بھی ہیں جو اکثر بظاہر دکھائی نہیں دیتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کے ٹیکٹیکل تعاون کو خراب ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ متحدہ عرب امارات کے لیے سابق انڈین سفارتکار نودیپ پوری نے دی نیشنل نیوز میں اپنے ایک کالم میں یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ لیکن اس منصوبے کے عزائم کواڈ جیسے سکیورٹی فورمز میں ہونے والی بات چیت کی بنیاد پر تجارت اور معاشیات کے تنگ دائرہ کار سے بالاتر ہیں تاکہ بجلی کے گرڈ سے لے کر سائبر سکیورٹی تک ہر چیز کو شامل کیا جاسکے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ceqenw2e12lo", "summary": "عثمان رفیق اپنے انسٹاگرام اور یوٹیوب چینل پر ایسے ہی لوگوں کو ’ہر روز نیا کاروبار‘ کر کے یہ بتا رہے ہیں کہ وہ کس کس کاروبار میں پیسے لگا کر منافع حاصل کر سکتے ہیں۔ ", "title": "ہر روز ایک نیا بزنس: پاکستانی یوٹیوبر جو نوجوانوں کو محنت طلب کاروبار کے گُر سکھاتے ہیں", "firstPublished": "2023-10-03T02:45:04.972Z", "id": "ceqenw2e12lo", "article": "اگرچہ کباڑ خریدنے والوں کی یہ مخصوص آوازیں لگ بھگ روزانہ میرے کانوں میں پڑتی ہیں مگر کبھی بھی میرے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا کہ یہ بزنس آخر ہے کیا، لیکن لاہور میں رہنے والے 17 سالہ عثمان رفیق یہی نہیں بلکہ ایسے ہی کئی دیگر کاموں کو بغیر کسی عذر کے انجام بھی دے رہے ہیں اور اُن کے مطابق اس سے پیسے بھی کماتے ہیں۔ ناصرف یہ بلکہ وہ اپنے انسٹاگرام اور یوٹیوب چینلز کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں کو نئے کاروبار کرنے کے طریقے انتہائی پریکٹیکل انداز میں سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عثمان رفیق اپنے انسٹاگرام اور یوٹیوب چینل پر ایسے ہی لوگوں کو ’ہر روز نیا کاروبار‘ کر کے یہ بتا رہے ہیں کہ وہ کس کس کاروبار میں پیسے لگا کر اپنا روزگار چلا سکتے ہیں۔ عثمان کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور اس لیے اُنھوں نے یوٹیوب پر اپنے چینل کا نام بھی ’مڈل کلاس عثمان‘ رکھا ہے جو دیکھنے والوں کے لیے اپنائیت کا احساس پیدا کرنے کے لیے اہم تھا۔ چار سال پہلے شروع ہونے والا یہ سفر اب عثمان کو انسٹاگرام پر ایک انفلوئینسر بنا چکا ہے۔ پاکستان میں ایسے کتنے ہی نوجوان ہیں جو ایک کامیاب وی لاگر بننا چاہتے ہیں، جس کے لیے وہ ایک عرصے سے محنت کر رہے ہیں مگر عثمان نے صرف چار سال میں ہی ایسی کامیابی حاصل کر لی ہے کہ پاکستان کے کئی مشہور وی لاگرز اُن کے ساتھ مل کر ویڈیوز بنا رہے ہیں۔ ان کی کامیانی کی وجہ ان کا مواد ہے، جسے دیکھ کر لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ یہ تو وہ خود بھی کر سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں روزانہ دیکھتا تھا کہ لوگ نوکری تلاش کر رہے ہیں، کبھی کوئی نیا بزنس شروع کرنے کا سوچ رہا ہے، مگر کسی بڑے بزنس میں پیسے لگانے سے ہر کوئی ڈر رہا تھا، پھر میں نے سوچا کیوں نہ ایسے لوگوں کو میں خود روزانہ ایک نیا بزنس کر کے آئیڈیا دوں۔‘ عثمان کے مطابق وہ ایک مہینے میں اپنے یوٹیوب چینل اور سوشل میڈیا سے مجموعی طور پر ایک سے دو لاکھ روپے کما لیتے ہیں۔ ’پھر میں صبح کام شروع کرتا ہوں اور شام تک کام کرنے کے بعد اپنے انسٹاگرام پر لوگوں کو بتاتا ہوں کہ مجھے اس سے کتنا فائدہ حاصل ہوا اور اگر کوئی اسی کاروبار کو کرنا چاہتا ہے تو وہ اس سے کتنے پیسے کما سکتا ہے۔‘ عثمان کے تایا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمیں عثمان پر فخر ہے، اتنی عمر میں عثمان جو کر رہا ہے وہ دوسروں کے لیے مثال ہے۔ اس کام سے یہ کئی لوگوں کی مدد کر رہا ہے جو اس مہنگائی میں پریشان ہیں کہ وہ کیا کریں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c88e33q29d2o", "summary": "انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں افغانستان کے سفارتخانے کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سفارتخانہ یکم اکتوبر 2023 یعنی اتوار سے اپنا کام بند کر رہا ہے۔", "title": "دہلی میں افغانستان کا سفارتخانہ 21 سال بعد دوبارہ بند کیوں ہوا؟", "firstPublished": "2023-10-02T06:32:16.883Z", "id": "c88e33q29d2o", "article": "انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں افغانستان کے سفارتخانے کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سفارتخانہ یکم اکتوبر 2023 یعنی اتوار سے اپنا کام بند کر رہا ہے۔ بہرحال 21 سال کام کرنے کے بعد ایک بار پھر سے دارالحکومت دہلی میں موجود افغانستان کے سفارتخانے نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔ بہر حال حالیہ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ سفارتخانے میں کام کرنے والے انڈین ملازمین کو بغیر اطلاع کے نوکری سے نکال دیا گیا ہے اور بہت سے افغان سفارتکار انڈیا چھوڑ کر مغربی ممالک میں پناہ حاصل کر چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ تو سب جانتے ہیں کہ انڈیا کا کابل میں موجود سفارتخانہ کسی نہ کسی صورت کام کر رہا ہے اور وہاں انڈیا کی ٹیم ٹیکنیکل طور پر موجود ہے لیکن انڈیا میں موجود افغان سفارتخانے میں صورتحال مختلف ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ دہلی میں تعینات بہت سے افغان اہلکار کے ویزوں کی میعاد ختم ہو گئی ہے اور اس میں انڈین حکومت کی جانب سے اضافہ نہیں کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ایک قسم کا تعطل پیدا ہو گيا ہے۔ سفارتخانے نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 'یہ فیصلہ تین اہم وجوہات کی بنا پر کیا گیا ہے۔ سفارتخانے نے کہا کہ پہلے تو ہمیں میزبان ملک سے کوئی خاص مدد نہیں مل رہی جس کی وجہ سے ہم اپنا کام مؤثر طریقے سے نہیں کر پا رہے ہیں۔ ’تیسرے، ملازمین کی تعداد اور وسائل میں کمی کی وجہ سے ہمارے لیے اپنا کام جاری رکھنا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ سفارتکاروں کے ویزے کی تجدید سے لے کر دیگر کاموں تک ہمیں وقت پر ضروری مدد نہیں مل رہی، جس کی وجہ سے ٹیم کے اندر مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ اور اس سے کام متاثر ہو رہا ہے۔‘ سفارتخانے نے ملازمین کے درمیان اختلافات بڑھنے کے متعلق الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 'سفارتکاروں اور سفارت خانے کے عملے کے درمیان اختلافات یا لڑائی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہمارے سفارتکار کسی تیسرے ملک میں پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ سب محض افواہیں ہیں۔ ہم افغانستان کے مفاد میں ایک ٹیم کے طور پر کام کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ افغانستان کی موجودہ حکومت اپنے پڑوسیوں سے بہتر تعلقات بحال کرنے کی کوششوں میں مستقل لگی ہوئی ہے اور چین کی جانب سے سفارتخانے کا کھولا جانا اس کی کامیابی ہے۔ تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا نے 2001 اور 2021 کے درمیان 20 برسوں میں افغانستان کے 34 صوبوں میں 500 سے زیادہ منصوبوں پر کام کیا ہے اور اس طرح وہ رفتہ رفتہ افغانستان کی ترقی کے کاموں میں سب سے بڑا شراکت دار بن گیا اور اس نے اس دوران تین ارب ڈالر سے زیادہ کا تعاون کیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/clm0x7pxg0do", "summary": "ایک ایسا ملک جہاں موجود ’حکومت‘ کو دنیا کا کوئی ملک تسلیم نہیں کرتا، جو عالمی پابندیوں کی زد میں ہے، جس کے بیرون ممالک اثاثے منجمد ہیں اور جہاں بھوک اور افلاس کے ڈیرے ہیں اس کی کرنسی میں ایسا خاص کیا ہے کہ یہ گذشتہ تین ماہ کے دوران دنیا کی ’بیسٹ پرفارمنگ‘ کرنسی رہی ہے؟", "title": "غربت کے شکار افغانستان میں طالبان ’دنیا میں بہترین کارکردگی دکھانے والی کرنسی افغانی‘ کو کیسے کنٹرول کرتے ہیں؟", "firstPublished": "2023-10-02T02:30:30.500Z", "id": "clm0x7pxg0do", "article": "تاہم لوگ اس بات پر بھی حیران ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں موجود ’حکومت‘ کو دنیا کا کوئی ملک باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کرتا، جو عالمی پابندیوں کی زد میں ہے، جس کے بیرون ممالک اثاثے منجمد ہیں اور جہاں بھوک اور افلاس کے ڈیرے ہیں اس کی کرنسی میں ایسا خاص کیا ہے کہ یہ گذشتہ تین ماہ کے دوران دنیا کی ’بیسٹ پرفارمنگ‘ کرنسی رہی ہے؟ انھوں نے کہا کہ ’یہ مصنوعی اس لیے ہے کہ ایسا افغانستان کے پیدواری عمل میں بہتری کے نتیجے میں نہیں ہے۔ طالبان کی حکومت میں افغانستان میں کوئی بہتر انداز میں تجارتی اور پیداواری سرگرمی نہیں ہو رہی بلکہ بھوک اور افلاس پر قابو پانے کے لیے اقوام متحدہ سے ملنے والی امدادی رقوم (جو ڈالر کی شکل میں ہوتی ہیں) اور کچھ ترسیلات زر کو بینکوں میں جمع کیا جا رہا ہے جس کے باعث افغانستان کی کرنسی بہتر نظر آئی ہے۔‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ افغان کرنسی کی قدر میں کمی واقع نہ ہونے کی مختلف وجوہات ہے اور ان میں ایک وجہ یہ ہے کہ افغان کرنسی عالمی مارکیٹ میں تو ابھی تک نہیں آئی ہے کیونکہ جب سینٹرل بینک ڈالر اوپن مارکیٹ میں لے آئے اور اس کو متوازن رکھ لے تو صورتحال واضح ہو سکتی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان جیسے ممالک میں کرنسی ایکسچینج ریٹ ملک کی معاشی ترقی سے جڑا ہوا فیکٹر نہیں ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ تاہم جمہوری حکومت کے خاتمے کے بعد نئے مسائل نے بھی جنم لیا ہے جن میں سے ایک تو یہ ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد افغانستان کو گذشتہ 20 سالوں سے عالمی امداد اور اداروں کا تعاون حاصل تھا جو دو سال پہلے ختم ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اِس وقت افغانستان میں کہیں مسائل ہیں مگر بعض شعبوں میں سخت کنٹرول کے باعث بہتری بھی آ رہی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ جہاں تک افغانستان کی بات ہے یہاں ڈالر مارکیٹ میں تو ہے لیکن اس میں ملک کا سینٹرل بینک مداخلت کرتا ہے اور یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ افراط زر کو قابو میں رکھا جا سکے اور افغانی کے ایکسچینج ریٹ اس سطح پر رکھے جا رہے ہیں کہ ہمسایہ ممالک یا پارٹنر ممالک سے جب تجارت ہو تو سامان تجارت کم قیمت پر دستیاب ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں فیزیکل ڈالر کی آمد ہے، اس کے علاوہ تجارتی معاہدے بھی بینک کے ذریعے نہیں ہو رہے کیونکہ جو ممالک دور ہیں ان کے ساتھ تجارت مشکل ہے اور جو ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت ہو رہی ہے وہ مقامی صرافہ بازار کے ذریعے ہوتی ہے جس کی ادائیگی حوالہ کے ذریعے ہوتی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1kyp510xlo", "summary": "دنیا کی سب سے دولت مند رئیل سٹیٹ کمپنیوں میں سے ایک کے سربراہ ہوئی کایان کئی ہفتوں سے لاپتہ تھے۔ جمعرات کوایور گرینڈ نے تفصیلات میں جائے بغیر ایک بیان شائع کیا جس میں کہا گیا ہے ’غیر قانونی کام میں ملوث پائے جانے اورجرائم کے الزام میں ہوئی کایان کو قانون کے مطابق کارروائیوں اور تحقیقات کا سامنا ہے۔‘", "title": "ہوئی کایان: ایشیا کے امیر ترین شخص جن کے زوال سے چین کی معیشت کو خطرہ ہے", "firstPublished": "2023-10-01T03:30:29.669Z", "id": "cd1kyp510xlo", "article": "چین کی سب سے بڑی پراپرٹی کمپنیوں میں سے ایک ایورگرینڈ کے بانی اور چیئرمین ہوئی کایان کبھی ایشیا کے امیر ترین شخص تھے۔ چین کی بڑی رئیل سٹیٹ کمپنیوں میں سے ایک ایور گرینڈ کے بانی ہوئی کایان ان دنوں شدید مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ تعمیرات اور پراپرٹی کے کام میں یکتا اور ماضی قریب میں ایشیا کے سب سے امیر آدمی کی حیثیت سے پہچان رکھنے والے ہوئی کایان کو ’کنسٹرکشن میگنیٹ‘ بھی کہا جاتا تھا۔ دنیا کی سب سے دولت مند رئیل سٹیٹ کمپنیوں میں سے ایک کے سربراہ ہوئی کایان کئی ہفتوں سے لاپتہ تھے۔ جمعرات کوایور گرینڈ نے تفصیلات میں جائے بغیر ایک بیان شائع کیا جس میں کہا گیا ہے ’غیر قانونی کام میں ملوث پائے جانے اورجرائم کے الزام میں ہوئی کایان کو قانون کے مطابق کارروائیوں اور تحقیقات کا سامنا ہے۔‘ والدہ کی وفات کے بعد ان کی پرورش ان کے والد اور دادی نے کی جو گھر کا بنا ہوا سرکہ بیچ کر گزارا کیا کرتی تھیں۔ سنہ 2017 میں ایک تقریر میں ہوئی کایان نے کہا تھا کہ وہ اپنے بچپن میں زیادہ تر شکر قندی کے ساتھ روٹی کھاتے تھے۔ 1982 میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد، انھوں نے اگلی دہائی تک سٹیل ٹیکنیشن کے طور پر کام کیا اور پھر جنوبی چین کے شہر گوانگزو میں ایک رئیل سٹیٹ پراپرٹی ڈویلپر کے سیلز مین کے طور پر کام کیا۔ یہیں پر انھوں نے 1996 میں ایورگرینڈ کمپنی قائم کی۔ فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ہوئی کایان نے چند سال قبل اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ’ملک میں اصلاحات اور افتتاح کے بغیر ایور گرینڈ وہ نہیں ہوتی جو آج ہے۔ ایور گرینڈ کے پاس جو کچھ ہے، وہ سب کچھ پارٹی، ریاست اور سماج نے دیا ہے۔‘ ایورگرینڈ تیزی سے ترقی کر رہی تھی، لیکن جب ہوئی نے رئیل سٹیٹ کے سب سے بڑے کاروباریوں سے دوستی کی اور کمپنی کو ہانگ کانگ سٹاک ایکسچینج میں درج کیا، تو اس کی ترقی کی رفتا ناقابل یقین ہو گئی۔ سنہ 1996 میں قائم کی گئی کمپنی ایور گرینڈ بینکوں سے بھاری قرض لے کر ترقی کے رستے پر چلتی گئی جس کے باعث ہوئی کو ’قرضوں کا بادشاہ‘ بھی کہا گیا۔ اور ایورگرینڈ کے بانی ہوئی کایان کا پولیس کی تحویل میں ہونا اس خدشے کو ہوا دے ر ہا ہے کہ فرم کی تنظیم نو کام نہیں کرے گی اور ان کا ’غائب ہونا‘ نا گزیر ہو جائے گا۔ اگرچہ چینی حکومت نے ابھی تک ہوئی کے خلاف تحقیقات پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ ملک میں عام لوگوں کی خوشحالی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c807p1xd40wo", "summary": "پاکستان سمیت افغانستان کے بیشتر ہمسایہ ممالک القاعدہ، دولت اسلامیہ اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں سے منسلک عسکریت پسند گروپوں کی افغاستان میں موجودگی سے کافی پریشان ہیں۔", "title": "طالبان کے دور میں افغانستان میں کیا بدلا جو پاکستان سمیت ہمسایہ ممالک کو پریشان کر رہا ہے؟", "firstPublished": "2023-09-29T11:34:05.751Z", "id": "c807p1xd40wo", "article": "القاعدہ، نام نہاد دولتِ اسلامیہ اور تحریک طالبان پاکستان جیسی تنظیموں سے پریشان افغانستان کے پڑوسی ممالک پاکستان، چین، روس، ایران اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک 29 ستمبر (آج) کو ایک اجلاس میں افغانستان کے مسائل پر غور کر رہے ہیں۔ پاکستان سمیت افغانستان کے بیشتر ہمسایہ ممالک القاعدہ، دولت اسلامیہ اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں سے منسلک عسکریت پسند گروپوں کی افغاستان میں موجودگی سے کافی پریشان ہیں۔ اس گروپ کو سنہ 2001 میں امریکی قیادت میں ہونے والے اتحادی ممالک کے حملے کے بعد افغانستان میں حکومت سے بے دخل کر دیا گیا تھا، لیکن 20 سال کی مہم کے بعد اگست 2021 میں طالبان نے دوبارہ ملک کا اقتدار حاصل کر لیا۔ افغانستان میں القاعدہ اور دولت اسلامیہ سے منسلک کئی عسکریت پسند اسلامی گروپوں کی میزبانی بھی کی گئی ہے، جنھوں نے اپنی موجودگی کو بڑھانے کے لیے ملک کی حالیہ عدم استحکام والی صورتحال کا فائدہ اٹھایا ہے۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ اس کا جی ڈی پی سکڑ کر تقریباً 30 فیصد رہ گیا ہے اور اندازے کے مطابق 700,000 لوگ ملازمتیں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کے 38 ملین افراد میں سے 90 فیصد غربت میں رہتے ہیں اور ان میں سے تقریباً دو تہائی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی ملک باضابطہ طور پر طالبان کو افغانستان کی حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کرتا لیکن ان میں سے کچھ کے اس گروپ کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ لندن میں قائم تھنک ٹینک آر یو ایس آئی کے اینتونیو گیوستوزی کا کہنا ہے کہ ’ان ممالک کو افغانستان میں مقیم عسکریت پسند گروپوں کے تشدد کا بنیادی خوف ہے۔‘ پاکستان تحریک طالبان پاکستان، ٹی ٹی پی، کے نام سے ایک گروپ کو مسئلے کے طور پر پیش کرتا ہے، جس کا ہیڈ کوارٹر افغانستان میں ہے۔ یہ گروپ طالبان سے الگ ہے لیکن پاکستان میں بھی ایسی ہی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے جیسی کہ افغان طالبان نے افغانستان میں قائم کی ہے۔ ٹی ٹی پی برسوں سے پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور عوام کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔ ’درحقیقت طالبان افغانستان میں عسکریت پسند گروپوں سے نمٹنے کے لیے کافی مؤثر رہے ہیں حالانکہ اس گروپ کے پاس ان سے لڑنے کے لیے محدود وسائل ہیں۔‘ تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سنہ 2022 میں افغانستان کی پوست کی پیداوار گذشتہ سال کے مقابلے میں صرف دس فیصد کم تھی اور یہ کہ ایک سال میں 250 سے 580 ٹن ہیروئن پڑوسی ممالک کو سمگل کی جا رہی تھی۔ افغانستان میں معدنیات کے ذخائر ہیں جن میں تانبا، ماربل، سونا، تیل، قدرتی گیس، یورینیم اور لیتھیم شامل ہیں، جن کی مالیت گذشتہ حکومت نے ایک کھرب سے تین کھرب ڈالر کے درمیان بتائی تھی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cl7x2j58rvpo", "summary": "تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آنے والی عالمی تباہی کے خدشات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے لیکن ملٹی نیشنل کارپوریشنز، ان کے ملازمین اور یہاں تک کہ وہ لوگ جن کا چین سے براہ راست کوئی تعلق نہیں وہ بھی اس صورتحال کے کچھ نہ کچھ اثرات ضرور محسوس ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ ", "title": "چین کے معاشی مسائل باقی دنیا کے لیے ’مالی وبا‘ کی شکل اختیار کر سکتے ہیں؟", "firstPublished": "2023-09-29T08:45:14.181Z", "id": "cl7x2j58rvpo", "article": "تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آنے والی عالمی تباہی کے خدشات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے لیکن ملٹی نیشنل کارپوریشنز، ان کے ملازمین اور یہاں تک کہ وہ لوگ جن کا چین سے براہ راست کوئی تعلق نہیں، وہ بھی اس صورتحال کے کچھ نہ کچھ اثرات ضرور محسوس ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ اس کا جواب وہ نہیں جو آپ تصور کر سکتے ہیں لیکن یہ یقینی طور پر ان فرمز کو متاثر کرے گا جو گھریلو چینی کھپت پر براہ راست انحصار کرتی ہیں۔ سینکڑوں بڑی عالمی کمپنیاں جیسے ایپل، ووکس ویگن وغیرہ چین کی وسیع مارکیٹ سے اپنی آمدنی کا بہت زیادہ حصہ حاصل کرتی ہیں۔ یہاں کسی بھی معاشی بحران کے اثرات دنیا بھر کے ہزاروں سپلائرز اور ملازمین محسوس کریں گے جو ان کمپنیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ تاہم بعض ماہرین اقتصادیات کے مطابق اس خیال کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے کہ چین عالمی خوشحالی کا انجن ہے۔ لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ چین کا نقطہ نظر نرم ہو رہا ہے۔ بیجنگ ان پابندیوں کے باوجود جوابی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے، اکثر مغربی ممالک ’سرد جنگ کی ذہنیت‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے روس کے ولادیمیر پوتن اور شام کے بشار الاسد جیسے پابندیوں کے شکار آمرانہ روش والے رہنماؤں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اس سب کے باوجود امریکہ اور یورپی یونین کے حکام کے وفود ہر ماہ دو طرفہ تجارت پر بات چیت جاری رکھنے کے لیے چین کا رخ کر رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ چین کے ظاہری بیانیے اور چینی پالیسی کے درمیان کیا فرق پایا جاتا ہے۔ سنہ 2008 کی بازگشت نے کچھ تجزیہ کاروں کو اس بارے میں فکر مند کر دیا ہے جسے ’مالیاتی بحران کا وبائی شکل اختیار کرنا‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں چین کے املاک کے ممکنہ بحران کا ڈراؤنا خواب بھی شامل ہے، جس کے نتیجے میں چینی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو سکتی ہے اور دنیا بھر میں مالیاتی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ جارج میگنس کے مطابق یہ خیال مکمل طور پر درست نہیں۔ ان کے مطابق ’اس بات کا امکان نہیں کہ چین اپنے بڑے بینکوں کو تباہ ہونے دے اور ان کے پاس امریکہ کے ہزاروں علاقائی اور کمیونٹی بینکوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ’بیلنس شیٹس‘ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم عالمی سطح پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب آپ کے پاس ترقی کے بڑے انجنوں میں سے ایک کام نہیں کرتا تو یہ ہم میں سے باقیوں کو متاثر کرتا ہے اور یہ اکثر ہم میں سے باقی لوگوں کو ان طریقوں سے متاثر کرتا ہے، جن کی توقع نہیں کی جاتی‘۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp9x2ywn4llo", "summary": " ایک ہی حکومت کے زیر انتظام چلنے والے چند ادارے اربوں روپے منافع جبکہ دیگر اربوں روپے خسارے میں کیوں ہیں اور وہ کیا مشترک عوامل ہیں جو کسی حکومتی ادارے کو نفع بخش یا نقصان والا ادارہ بناتے ہیں؟", "title": "ریلوے سے پی آئی اے تک: حکومتی اداروں کے مالیاتی خسارے کی وجوہات کیا ہیں؟", "firstPublished": "2023-09-27T01:56:20.734Z", "id": "cp9x2ywn4llo", "article": "پاکستان کی نگراں وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے حال ہی میں حکومتی کنٹرول میں چلنے والے ایسے 20 اداروں کی فہرست پیش کی ہے، جن میں سے دس ادارے منافع بخش ہیں جبکہ دس بڑے خسارے کا شکار ہیں۔ اربوں روپے کے خسارے کا شکار ان اداروں میں پاکستان ریلوے، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے)، پاکستان سٹیل مل اور بجلی بنانے والی کمپنیاں سرِفہرست ہیں، جنھیں فعال رکھنے کے لیے حکومت پاکستان کو ہر سال اربوں روپے قومی خزانے سے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ تاہم دوسری جانب حکومتی تحویل میں ہی چلنے والے تیل و گیس اور بینکاری جیسے شعبے بھی ہیں جو سالانہ کئی سو ارب کا نفع کماتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایک ہی حکومت کے زیرِ انتظام چلنے والے چند ادارے اربوں روپے منافعے جبکہ دیگر اربوں روپے خسارے میں کیوں ہیں اور وہ کیا مشترک عوامل ہیں جو کسی حکومتی ادارے کو نفع بخش یا نقصان والا ادارہ بناتے ہیں؟ پاکستان ریلوے کے ترجمان نے بی بی سی کے سوالات کے جواب میں بتایا کہ ریلوے کا کبھی بھی آپریشنل خسارہ نہیں ہوا بلکہ یہ خسارہ اس پر موجودہ اور ریٹائرڈ ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن پر پڑنے والا بوجھ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ریلوے میں اس وقت 65 ہزار ملازمین ہیں جبکہ دوسری جانب ادارے کو ایک لاکھ 32 ہزار ریٹائرڈ ملازمین کو ہر ماہ پینشن دینی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر بنگالی این ایچ اے کے خسارے کو بھی خسارہ نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے مطابق این ایچ اے منافع کمانے کے لیے بنایا ہی نہیں گیا تھا۔ انھوں نے کہا ترقیاتی کاموں کے حکومتی اداروں کو اس طرح پیش نہیں کیا جا سکتا جس طرح دوسرے منافع بخش اداروں کی مالی حالت کو پیش کیا جاتا ہے۔ این ایچ اے کے نقصان میں ہونے کے بارے میں ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا جو مالی خسارہ دیکھا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ این ایچ اے ایک ترقیاتی ادارہ ہے کہ جس نے ملک میں سٹرکیں اور ہائی وے بنانا ہوتی ہیں اور یہ وہ منصوبے ہوتے ہیں جن پر خرچ ہونے والی رقم کوئی خسارہ نہیں کیونکہ کسی بھی سڑک یا ہائی وے کی تعمیر پر فنڈ خرچ کیے جاتے ہیں تو انھیں ریکور نہیں کیا جا سکتا اس لیے اسے خسارہ لکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق خسارہ کرنے والے ان سارے اداروں میں ایک چیز تو یہ مشترکہ ہے کہ یہ حکومتی ادارے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ ان اداروں ہر دور حکومت میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں ہوئیں اور وقت کے ساتھ ان اداروں کا گورننس ماڈل بہتر نہیں کیا گیا۔‘ انھوں نے پی آئی اے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایک مسافر طیارے پر 600 سے 700 افراد پر مشتمل عملہ موجود ہے جو دنیا کی کسی بھی منافع بخش ائیرلائن کے لیے مطلوبہ عملے کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c88j4rn3320o", "summary": "سوشل میڈیا پر انفلوئنسرز کی ایک بڑی تعداد بچت کرنے، سرمایہ کاری کرنے اور اخراجات کو کنٹرول میں رکھنے جیسی تجاویز فراہم کرتے ہیں۔ مگر کیا ان تجاویز پر عمل کرنا آپ کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے یا کسی بڑے خطرے کی گھنٹی؟", "title": "خرچ پر کنٹرول، بچت، سرمایہ کاری: ’فِنفلوئنسر‘ کون ہوتے ہیں اور کیا اُن کے مشوروں پر عمل کرنا چاہیے؟", "firstPublished": "2023-09-22T04:21:05.182Z", "id": "c88j4rn3320o", "article": "ایک آسان مالیاتی تصور کی ایک مثال ’کیش سٹفنگ‘ ہے۔ یہ اپنا ذاتی بجٹ بنانے کا ایک طریقہ ہے جو 2022 میں ٹک ٹاک پر وائرل ہوا تھا۔ کیش سٹفنگ سسٹم مختلف مدوں میں، یعنی گروسری، شوق اور ديگر اخراجات پر ہونے والے اخراجات کو نقد رقم کی شکل میں الگ الگ لفافوں رکھنے کی وکالت کرتا ہے تاکہ زیادہ خرچ کرنے کے امکان کو کم کیا جا سکے۔ یہ کوئی نیا تصور نہیں ہے لیکن یہ بہت سے نوجوان سوشل میڈیا صارفین کے لیے نیا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جن کے پاس ذاتی مالیات کے محدود وسائل ہیں۔ کچھ معاملات میں تنظیموں نے ذاتی مالیاتی مواد کے تخلیق کاروں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنے فالوورز کی تعداد بڑھانے کے لیے قرض میں ڈوبی ہوئی نسل کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پچھلے سال یوکے کی فنانشل کنڈکٹ اتھارٹی (ایف سی اے) نے قرض ادا کرنے پر مرکوز آن لائن پروموشنز کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان پوسٹوں میں شامل انفلوئنسرز ’کمزور یا مقروض صارفین‘ کو ’گمراہ کن‘ مالی مشورے پر عمل کرنے کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ خاص طور پر نئی کرپٹو کرنسیوں کی توثیق کرنے والے انفلوئنسرز کے ہائی پروفائل کیسز سامنے آنے کے بعد خطرے کی گھنٹی بجانی پڑی۔ کرپٹو کرنسی کے بے ترتیب اُتار چڑھاؤ کا مطلب ہے کہ اس مارکیٹ کی پیش گوئی کرنا انتہائی مشکل ہو سکتا ہے مگر پھر بھی انفلوئنسرز کی طرف سے سوشل میڈیا صارفین کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی ایک اچھی سرمایہ کاری ہے۔ 33سالہ جیمز بیکٹ نے خراب سرمایہ کاری کے مشورے کو آن لائن پر گردش کرتا ہوا دیکھنے کے بعد مواد کی فراہمی کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ سابق سوشل میڈیا مارکیٹر کا اپنا یوٹیوب چینل ہے جس کے کئی ہزار سبسکرائبرز ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بہت سے مالیاتی انفلوئنسرز جانتے ہیں کہ لوگ جلد دولت مند بننے کی سکیموں اور ان کی متوقع دولت کو ظاہر کرنے سے ان کے پاس آتے ہیں۔ بیکٹ نے مزید کہا کہ ’اگرچہ فنفلوئنسرز کی ساکھ بری ہو سکتی ہے لیکن وہ مبہم، اور بعض اوقات جان بوجھ کر مبہم بنائی جانے والی فنانس اور سرمایہ کاری کی دنیا میں بھی راستہ فراہم کر سکتے ہیں۔ معروضی انفلوئنسرز جو پارٹنرشپ سے فائدہ نہیں اٹھاتے یا اپنے مشورے کو بالکل محفوظ کے طور پر پیش نہیں کرتے وہ ان کے لیے اچھے ثابت ہو سکتے ہیں جنھوں نے بچت کرنے یا اپنی دولت کو بڑھانے کے بارے میں نہیں سوچا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cqlg1j3lq8go", "summary": "مجھے اس پرانی فلم کا ڈراپ سین یاد ہے کہ میاں صاحب کا باؤنسر زمین پر پڑا تھا، لارڈ نذیر پتا نہیں کہاں تھے، لیکن بغیر وردی والوں کا ایک دستہ میاں صاحب کو لے کر ایک جہاز کی طرف جا رہا تھا جو پہلے ہی رن وے پر انتظار کر رہا تھا۔", "title": "نواز شریف کی واپسی، ایک بار پھر: محمد حنیف کا کالم", "firstPublished": "2023-09-16T05:53:23.988Z", "id": "cqlg1j3lq8go", "article": "اس سے بہت پہلے انھوں نے ٹی وی پر قوم سے تاریخی خطاب کیا تھا کہ میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔ جو اس وقت بچے تھے وہ اب خود بچوں والے ہو گئے ہیں اور اب انھیں یہ بھی یاد نہیں ہو گا کہ نواز شریف کسی سے ڈکٹیشن نہیں لے رہے تھے اور اس کے کتنے گھنٹوں بعد اپنی وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو گئے تھے۔ صحافی اسلام آباد کے پرانے باتھ روموں میں بند، کیمرے غائب، میاں صاحب کے ساتھ آنے والے ان کے سنگی ساتھی فرش پر، اور جب میاں صاحب کو ڈنڈا ڈولی کر کے جہاز میں واپس سعودی عرب روانہ کیا گیا تو اس وقوعہ کی کوئی تصویر، کوئی فوٹیج نہیں بنی، اگر بنی تو میری نظروں سے نہیں گزری لیکن منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ میاں صاحب کا جہاز لینڈ کرنے والا تھا اور سپریم کورٹ نے کوئی ریلیف نہیں دیا۔ میاں صاحب کی آخری لائن آف ڈیفنس دو برطانوی شہری تھے۔ لارڈ نذیر احمد کو سب جانتے تھے لیکن ایک دیو ہیکل نوجوان بھی تھا جو کہتا تو اپنے آپ کو ن لیگ کا کارکن تھا لیکن پتا چلا کہ برمنگھم کے کسی کلب میں باؤنسر تھا۔ باؤنسر وہ لوگ ہوتے ہیں جو نشے میں دھت نوجوانوں کو ڈرانے دھمکانے یا کبھی کبھی کلب سے اٹھا کر باہر پھینکنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ منصوبہ یہ تھا کہ ان دو برطانوی شہریوں کی موجودگی میں پاکستانی اہلکار میاں صاحب کے ساتھ جو بھی کریں لیکن کم از کم ’گھسن مکا‘ نہیں کریں گے۔ جہاز رن وے پر رکا تو لارڈ نذیر احمد نے کمانڈ سنبھالی، باہر ایک وردی والوں کا دستہ موجود تھا، مطالبہ ہوا کہ ہم جہاز سے اس وقت تک نہیں اتریں گے جب تک یہ وردی والا دستہ نہیں ہٹایا جائے گا۔ گھنٹوں تک چلنے والی کارروائی بڑے صبر کے ساتھ کی گئی، صحافیوں کو آہستہ آہستہ کونوں میں لے جا کر، سر پاسپورٹ دیں آپ کی امیگریشن ہم کرواتے ہیں، سر پلیز ایک طرف ہو جائیں، کسی سے پیار کی بات، کسی کے کندھے پر ہاتھ، کسی کو دھکا۔ اس پوری کارروائی میں برمنگھم کا باؤنسر سائے کی طرح میاں صاحب کے ساتھ رہا۔ مجھے اس پرانی فلم کا ڈراپ سین یاد ہے کہ میاں صاحب کا باؤنسر زمین پر پڑا تھا، لارڈ نذیر پتا نہیں کہاں تھے، لیکن بغیر وردی والوں کا ایک دستہ میاں صاحب کو لے کر ایک جہاز کی طرف جا رہا تھا جو پہلے ہی رن وے پر انتظار کر رہا تھا۔ ہماری تاریخ دائرے میں چلتی ہے لیکن کچھ کرداروں کو بھول جاتی ہے۔ مجھے پتہ نہیں برمنگھم کا باؤنسر کہاں ہے۔ لارڈ نذیر احمد برطانیہ کی جیل میں ہیں، جنسی جرائم کی سزا میں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72jyg27delo", "summary": "مہنگائی اور آئے روز پیٹرول کی قیمت میں اضافے سے تنگ پاکستانی عوام کو صبح کے وقت جب یہ خبر ملی تو انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنے غم اور غصے کا اظہار کیا۔", "title": "پیٹرول کی قیمت میں 26 روپے کا اضافہ: ’میں اس ملک میں کیسے زندہ رہ سکتا ہوں؟ اسے چھوڑنے کا وقت آ گیا ہے‘", "firstPublished": "2023-09-16T05:29:55.114Z", "id": "c72jyg27delo", "article": "پاکستان کی وزارت خزانہ نے جمعے کی رات کو ایک بار پھر ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا جس کے بعد پیٹرول کی قیمت میں 26 روپے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 17 روپے سے زائد کا اضافہ ہو گیا ہے۔ وجہ جو بھی ہو مہنگائی اور آئے روز پیٹرول کی قیمت میں اضافے سے تنگ پاکستانی عوام کو صبح کے وقت جب یہ خبر ملی تو انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنے غم اور غصے کا اظہار کیا۔ یاد رہے کہ پیٹرول کی قیمت میں 15 روز میں کل 41 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین ایک بار پھر مراعات حاصل کرنے والے طبقے پر ناراض ہوتے نظر آئے کہ ’اگر ان لوگوں کا مفت پیٹرول بند کر دیا جائے تو شاید عوام کو 175 روپے لیٹر پیٹرول میں سکتا ہے۔‘ سابق گورنر پنجاب اور تحریک انصاف کے سابق رہنما چوہدری سرور نے اپنی پوسٹ میں لکھا ’ کبھی بجلی کے نرخوں میں تو کبھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ معمول بن چکا ہے لیکن ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ پہلے سے مفلوک الحال غریب عوام کیسے جان لیوا مہنگائی کو برداشت کریں گے۔غریب کا کوئی پرسان حال نہیں۔مہنگائی کےبڑھتے طوفان کو عوام مسترد کرتےہیں۔‘ صحافی حامد میر نے لکھا ’ایک زمانہ تھا جب پٹرول کی قیمت میں دو یا تین روپے اضافے پر ہاہاکار مچ جاتی تھی اب تو سیدھا 26 روپے فی لیٹر بڑھا دیا جاتا ہے اور بجلی کے بلوں کے ستائے عوام کی چیخ بھی نہیں نکلتی اب 331 روپے فی لیٹر پٹرول کون ڈلوائے گا؟‘ نعمت اللہ چانڈیو نے لکھا ’ ڈالر سستا مگر پیٹرولیم مصنوعات پھر مہنگی۔ میں شروع دن سے کہتا ہوں کہ اس ملک میں چاہے فوجی یا جمہوری حکومت ہو، عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے کچھ نہیں۔ سارے پیکیجز سرمایہ داروں اور حکمرانوں کو دیے جاتے ہیں۔ عام عوام کا جینا محال ہوتا ہے۔‘ انہی میں سے ایک ایکس کے صارف سیار علی شاہ نے پیٹرول کی قیمت میں اضافے کی بارے میں لکھا ’حکومت کبھی نہیں رکے گی پٹرول، بجلی اور دیگر ضرورت زندگی کے اشیاء میں دن بہ دن اضافہ کرنے سے جب تک عوام نہ روکے۔ ان کو پتہ ہے ہم پٹرول 400 روپے لیٹر اور بجلی 100 روپے یونٹ کردیں لوگ پھر بھی خریدیں گے،‘ پاکستان میں مہنگائی کی شرح کو دیکھا جائے تو ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے جہاں لوگوں کے ایندھن کے اخراجات کو بڑھایا ہے تو اس کے ساتھ ڈیزل کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے کھیتوں، منڈیوں، فیکٹریوں اور بندرگاہوں سے مال لے جانے والی ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ck53p6d960yo", "summary": "پاکستان کی قومی ایئرلائن کے پاس موجود لگ بھگ آدھے جہاز اس وقت پرواز کے قابل نہیں ہیں اور انھیں دوبارہ فعال کرنے کے لیے جو پیسے درکار ہیں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کو ان پیسوں کا بندوبست کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔", "title": " پی آئی اے کا بحران: ’کچھ جہازوں کے انجن لیز پر ہیں، ان کو بھی اڑانے کی اجازت نہیں‘", "firstPublished": "2023-09-14T13:32:29.782Z", "id": "ck53p6d960yo", "article": "پاکستان کی قومی ایئرلائن کے پاس موجود لگ بھگ آدھے جہاز اس وقت پرواز کے قابل نہیں ہیں اور انھیں فعال بنانے کے لیے درکار پیسوں کا بندوبست کرنے میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ان میں 15 کے لگ بھگ جہاز ایسے ہیں جو پی آئی اے نے لیز پر حاصل کر رکھے ہیں یعنی پاکستانی قومی ایئر لائن کو لگ بھگ ہر ماہ لیزنگ کمپنیوں کو جہاز استعمال کرنے کے عوض پیسوں کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ لیز کے علاوہ جہاز کو پرواز کے قابل رکھنے کے لیے پی آئی اے کو ایندھن، سپیئر پارٹس اور ایئر پورٹ کی سروسز استعمال کرنے کے لیے بھی پیسوں کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ ٹیکس اور قرضوں کی اقساط اس کے علاوہ ہیں۔ گزشتہ چند ماہ سے شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنے کی وجہ سے پی آئی اے ان فوری ادائیگیوں میں سے زیادہ تر مکمل نہیں کر پائی۔ پی آئی اے حکام کے مطابق یہ قابل ادا رقم 100 ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ انھوں نے بتایا ’یہ ادائیگیاں لگ بھگ 16 سے 17 ملین ڈالرز کے قریب بنتی ہیں۔ ملک کی معاشی حالت اور روپے کی گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے جب پی آئی اے نے پاکستانی روپےمیں اپنی آمدن کو ڈالر میں تبدیل کر کے حساب کیا تو اس کے پاس ان ادائیگیوں کے پیسے جمع نہیں ہو پائے۔‘ صحافی طاہر عمران کے خیال میں پی آئی اے کو اس ضمن میں زیادہ مشکلات کا سامنا اس وقت سے کرنا پڑ رہا ہے جب سے یورپ اور امریکہ وغیرہ کی طرف اس کی پروازوں پر پابندی عائد ہوئی ہے۔ پی آئی اے کے جنرل مینیجر اطلاعات عامہ عبداللہ حفیظ کے مطابق پاکستان کی قومی ایئر لائن کے پاس کل 31 جہاز ہیں جن مین سے لگ بھگ 15 ایسے جہاز ہیں جو لیز پر حاصل کیے گئے ہیں۔ انھوں نے بتایا ’31 میں سے لگ بھگ 25 جہاز پرواز کے قابل ہیں جن میں سے مزید کئی جہاز لیزنگ کمپنیوں کو ادائیگیاں نہ ہونے اور دیکھ بھال میں تاخیر کی وجہ سے کھڑے ہو گئے ہیں۔‘ صحافی طاہر عمران کا کہنا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ حکومت نے شاید اب پی آئی اے کو پیسے دینے سے انکار کیا ہے اور اس لیے اس کو نجی بینکوں کے پاس جانا پڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر بار اس گارنٹی کی منظوری کے لیے پی آئی اے کو حکومت کے پاس جانا پڑتا ہے جس کے بعد نجی بینک انھیں قرضہ فراہم کر دیتے ہیں۔ ’لیکن یہ اصلاحات کرنے میں وقت بھی درکار ہے اور ایسا کرنے کے لیے حکومت کے پختہ عزم کی بھی ضرورت ہے۔ اس وقت پی آئی اے کو فوری ادائیگیاں تو کرنی ہیں اور کمپنی کو تو چلانا ہے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1r52pqqql7o", "summary": "ایک ایسی مارکیٹ جہاں چند ہفتے پہلے تک خاصی گہما گہمی ہوا کرتی تھی، کرنسی کی بولیاں لگتی تھیں اور ڈیلر جمع ہو جایا کرتے تھے اب مکمل طور پر سیل کر دی گئی ہے اور آج کل وہاں ویرانی ہے۔\n", "title": "کیا پشاور کی مشہور کرنسی مارکیٹ پر کریک ڈاؤن نے پاکستان میں ڈالر کی بڑھتی قیمت کو لگام ڈالی؟", "firstPublished": "2023-09-14T03:38:12.873Z", "id": "c1r52pqqql7o", "article": "ایک ایسی مارکیٹ جہاں چند ہفتے پہلے تک خاصی گہما گہمی ہوا کرتی تھی، کرنسی کی بولیاں لگتی تھیں اور ڈیلر جمع ہو جایا کرتے تھے اب مکمل طور پر سیل کر دی گئی ہے۔ ایک کرنسی ڈیلر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چند روز پہلے وفاقی تحقیقاتی ادارے اور دیگر قانون نافد کرنے والے اہلکاروں نے تمام غیر لائسنس یافتہ کرنسی ایکسچینج کی دکانیں اور دفاتر بند کرا دیے تھے۔ پشاور کی چوک یادگار میں قائم غیر لائسنس یافتہ دفاتر اور دکانیں سیل کر دی گئی ہیں اور 28 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ پاکستان کرنسی ڈیلرز اسوسی ایشن کے رہنما ظفر پراچہ نے بتایا کہ چوک یادگار میں قائم کرنسی مارکیٹ میں لگ بھگ چار سو چھوٹی بڑی دکانیں اور دفاتر ہیں جہاں کرنسی کی ایکسچینج کا کام ہوتا ہے۔ ان میں چند ایک کے پاس باقاعدہ لائسنس ہے اور وہ اس کے تحت کام کرتے ہیں لیکن بیشتر کے پاس اس کاروبار کے لیے کوئی لائسنس نہیں۔ کرنسی ڈیلرز کے مطابق یہاں چھاپوں سے پہلے جب کاروبار عروج پر تھا تو کسی بھی ڈیلر کے پاس اگر کسی ملک کی کرنسی آ جاتی اور وہ کرنسی بیچنا چاہتا تو وہ کھلی جگہ پر آ جاتا اور بتاتا کہ اتنی رقم ہے وہ بیچنا چاہتا ہے تو باقی لوگ اس کی قیمت لگاتے اور یوں کامیاب بولی دینے والے کو وہ کرنسی دے دی جاتی۔ ایک کرنسی ڈیلر جو ماضی میں اسی چوک یادگار مارکیٹ میں کام کرتے رہے ہیں، اب وہ ایک ایکسچینج کمپنی کے ساتھ کسی اور علاقے میں کام کرتے ہیں۔ کابل میں ماضی میں جو کرنسی تھی اسے روپیہ بھی کہا جاتا ہے اور عام زبان میں کرنسی کے لیے ’کالدار‘ کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ آج بھی کچھ لوگ کالدار کا لفظ استعمال کرتے ہیں جبکہ اب افغان کرنسی کو ’افغانی‘ کہا جاتا ہے۔ کرنسی ڈیلرز کے مطابق 1970 سے پہلے یہاں کرنسی ایکسچینج کے لیے کوئی لائسنس نہیں ہوا کرتے تھے اور لوگ اپنے طور پر ہی کاروبار کیا کرتے تھے۔ سنہ 1981 کے بعد سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کچھ ڈیلرز کو لائسنس جاری کیے تھے لیکن پھر وہ کینسل کر دیے گئے تھے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ ایف آئی اے نے کسی مارکیٹ پر چھاپے مارے ہیں بلکہ گذشتہ سال بھی پاکستان کی مختلف کرنسی مارکیٹ میں چھاپے مارے گئے تھے لیکن پھر کچھ دنوں بعد یہی کاروبار دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔ ’اگر کرنسی مارکیٹ پر پابندی لگا دی جائے گی اور دفاتر سیل کر دیے جائیں گے تو سب کام لوگ گھروں سے اور دیگر مقامات سے شروع کر دیں گے۔ اب تو آن لائن نطام ہے، حوالہ ہنڈی اور دیگر غیر قانونی کام کہیں سے بھی ہو سکتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ بہتر پالیسی ترتیب دی جائے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv23398jnqno", "summary": "انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان حالیہ برسوں میں بڑھتی ہوئی قربت کئی عالمی فورمز پر نظر آئی ہے۔ G20 سربراہی اجلاس ختم ہو چکا ہے اور کانفرنس میں شرکت کرنے والے تمام رہنما اپنے اپنے ملک واپس جا چکے ہیں لیکن سعودی ولی عہد ابھی بھی دلی میں موجود ہیں۔", "title": "محمد بن سلمان اور نریندر مودی کی بڑھتی ہوئی قربت: ’سعودی عرب انڈیا کو قابل اعتماد دوست کے طور پر دیکھتا ہے‘", "firstPublished": "2023-09-11T02:54:47.877Z", "id": "cv23398jnqno", "article": "سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی صدر جو بائیڈن نے جب انڈیا میں منعقد ہونے والے جی 20 اجلاس کے سٹیج پر ایک دوسرے سے مصافحہ کیا تو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ان کا ہاتھ تھام لیا۔ درحقیقت انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان حالیہ برسوں میں بڑھتی ہوئی قربت کئی عالمی فورمز پر نظر آئی ہے۔ دارالحکومت دلی میں منعقدہ G20 سربراہی اجلاس ختم ہو چکا ہے اور کانفرنس میں شرکت کرنے والے تمام رہنما اپنے اپنے ملک واپس جا چکے ہیں لیکن سعودی ولی عہد ابھی بھی دلی میں موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی ولی عہد انڈیا کے سرکاری دورے پر ہیں اور وہ پیر کو وزیر اعظم نریدنر مودی کے ساتھ دو طرفہ بات چیت کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے سال 2016 اور 2019 میں دو بار سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اس دوران انڈیا اور سعودی عرب کے درمیان کئی اہم معاملات پر اتفاق ہوا اور کئی معاہدے کیے گئے۔ انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز کے سینئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر فضل الرحمن صدیقی کہتے ہیں کہ ’ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ملک کو سماجی، ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی طور پر متنوع بنا رہے ہیں۔ تیل کی معیشت کے علاوہ وہ مینوفیکچرنگ، سیاحت اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ایسے میں انڈیا ان کے سامنے ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ ہے اور اسی لیے ان کے لیے انڈیا اہمیت رکھتا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’ایک نیا ورلڈ میٹرکس بن رہا ہے۔ سعودی عرب اپنے لیے مختلف شراکت داروں کی تلاش میں ہے۔ پہلے وہ صرف امریکہ کے ساتھ ہوتا تھا لیکن محمد بن سلمان کے آنے کے بعد حالات بدل رہے ہیں۔‘ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے ہفتہ، 9 ستمبر کو دلی میں ’انڈیا-مڈل ایسٹ-یورپ اکنامک کوریڈور‘ کے منصوبے کا اعلان کیا جس میں امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کا بھی اہم کردار ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ محمد بن سلمان اور نریندر مودی کی ملاقات میں بھی یہ پراجیکٹ زیر بحث ہو گا۔ 2014 میں اس وقت کے ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز السعود نے انڈیا کا دورہ کیا۔ اگر ہم وزیر اعظم نریندر مودی کی بات کریں تو انھوں نے سال 2016 میں ریاض کا دورہ کیا تھا اور خاص بات یہ ہے کہ اس دورے کے دوران انھیں شاہ سلمان نے ملک کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز سے نوازا تھا۔ اس کے بعد جب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سال 2019 میں انڈیا کا دورہ کیا تو انھوں نے ملک میں 10 ہزار کروڑ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کے کئی معاہدوں پر دستخط کیے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6p00dy4wnyo", "summary": "دلی میں جی ٹوئنٹی کے سربراہ اجلاس میں انڈیا سے امریکہ تک براستہ مشرقِ وسطی ایک معاشی کاریڈور بنانے کا ابتدائی خاکہ طے پا گیا ہے۔ مگر ہمیں اس لیے اس بارے میں کوئی ٹینشن نہیں کیونکہ ہماری اعلیٰ ترین قیادت نے یقین دلایا ہے کہ اگلے تین سے پانچ برس میں برادر خلیجی ممالک سے پچھتر ارب سے سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان آنے والی ہے۔ کیا یہ بات برادر خلیجی ممالک کو بھی پتہ ہے؟", "title": "اک اڑن کھٹولا آئے گا اور عرب شیخ کو لائے گا: وسعت اللہ خان کا کالم", "firstPublished": "2023-09-10T14:04:58.795Z", "id": "c6p00dy4wnyo", "article": "ہمارے سیاہ و سفید کے مالک چاہتے تو ایسا کوئی بھی اقتصادی گیم چینجر کہیں سے بھی اٹھا کے لاگو کر سکتے تھے جس میں ہر طبقے کی جیت ممکن ہے۔ مگر انھوں نے ہمارے لیے دیسی گیم چینجر چنا۔ یعنی وسائل و مواقع کی تین ڈھیریاں بنائیں۔ ان میں سے ایک ڈھیری صرف میری، دوسری ڈھیری میرے خاندان، عزیزوں اور سہولت کاروں کی اور تیسری ڈھیری باقی پچیس کروڑیوں کی۔ ہمت ہے تو اٹھا لو۔ ثبوت یہ ہے کہ پچھتر برس میں سی پیک منصوبوں سمیت ایک سو پچیس ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ کہیں نہ کہیں تو استعمال ہوا ہو گا۔ امریکہ سے ستر ارب ڈالر سے زیادہ دفاعی، اقتصادی، سماجی و ادارہ جاتی امداد ملی۔ کہیں نہ کہیں تو بہرحال لگی لپٹی ہو گی۔ میرے اپارٹمنٹ کمپلیکس کے صدر دروازے پر گذشتہ سات برس سے متعین چوکیدار صوبے دار خان کئی بار بتا چکا ہے کہ اس کے چار بچے ہیں۔ ان فلیٹوں میں رہنے والی ایک خدا ترس ٹیچر انھیں روزانہ دو گھنٹے پڑھا دیتی ہے کیونکہ فیس دینے کی تو اوقات نہیں۔ میں نے ایک دن بقراطی جھاڑی کہ صوبیدار خان پاکستان میں ایک بھی ایسا انسان نہیں جو مقروض نہ ہو۔ دو لاکھ پینسٹھ ہزار پانچ سو اسی روپے کے حساب سے تم، تمہاری بیوی اور چار بچوں پر کل قرضہ پندہ لاکھ ترانوے ہزار چار سو اسی روپے بنتا ہے۔ صوبے دار خان کو بالکل سمجھ میں نہیں آیا کہ میں کیا بک رہا ہوں کیونکہ اس کا تو واحد غرور ہی یہ ہے کہ آج تک کسی سے قرضہ نہیں لیا۔ اس ملک کے پچیس کروڑ میں سے چوبیس کروڑ اسی لاکھ صوبیدار خان اور ان کے بچے نہیں جانتے کہ ان کے نام پر کس نے کب قرضہ لیا۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ نام نہاد ٹیکس نیٹ سے باہر ہونے کے باوجود زندگی کی ہر شے پر بلاواسطہ ٹیکس دے رہے ہیں اور اسی فیصد ٹیکس انہی صوبیدار خانوں سے جمع ہو رہا ہے جن کی ماہانہ آمدنی بیس ہزار سے اوپر نہیں۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ یہی لچھن رہے تو سن دو ہزار اٹھائیس تک پاکستان کا بیرونی قرضہ موجودہ ایک سو پچیس ارب ڈالر سے بڑھ کے ایک سو اسی ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ اگرچہ دلی میں جی ٹوئنٹی کے سربراہ اجلاس میں انڈیا سے امریکہ تک براستہ مشرقِ وسطی ایک معاشی کاریڈور بنانے کا ابتدائی خاکہ طے پا گیا ہے۔ مگر ہمیں اس لیے اس بارے میں کوئی ٹینشن نہیں کیونکہ ہماری اعلیٰ ترین قیادت نے یقین دلایا ہے کہ اگلے تین سے پانچ برس میں برادر خلیجی ممالک سے پچھتر ارب سے سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان آنے والی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2qld9g1qneo", "summary": "پہلے ہی ہم نے سپہ سالار کو اتنا متحرک کر رکھا ہے کہ یوں لگتا ہے وہ صبح اٹھتے ہی فوج کے بنائے محکمہ زراعت والے جدید فارم پر ہل چلاتے ہیں تاکہ غذائی بحران سے بچا جا سکے۔ پھر دفتر جاتے ہوئے راستے میں رک کر کدال سے سنگلاخ پہاڑوں کا سینہ چیرتے ہیں کہ اتنی معدنیات تو نکل آئیں کہ قوم کا ایک دن کا خرچہ نکل آئے۔ محمد حنیف کا کالم۔", "title": "محمد حنیف کا کالم: سپہ سالار کے شب و روز", "firstPublished": "2023-09-10T04:10:35.377Z", "id": "c2qld9g1qneo", "article": "لیکن ہمارے سپہ سالار کے نصیب میں اتنی پرسکون زندگی کہاں۔ اسلام آباد کے جید صحافی ہمیں چلا چلا کر بتا رہے ہیں کہ ہمارے سپہ سالار کو متحرک ہونا پڑا۔ انھوں نے سیٹھوں کی جیبوں سے ڈالر نکلوائے ہیں، زراعت، معدنیات، ڈالر کا ریٹ، بجلی کے بل، سوشل میڈیا پر بیٹھے سازشی، یہ سارے کام ہم نے سپہ سالار کے ذمے لگا دیے ہیں۔ ایسے میں سپہ سالار کا دن کب شروع ہوا، وہ دفتر سے جا کر گالف کیسے کھیلے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہماری افواج نے چند انتہائی شاندار گالف کورس بنا رکھے ہیں لیکن میں نے کئی سال سے کسی حاضر سروس سپہ سالار کو گالف کورس پر نہیں دیکھا۔ آخری سپہ سالار جن کو گالف کورس پر شاٹ لگاتے دیکھا گیا تھا وہ مرحوم جنرل ضیا الحق تھے۔ ان کے بعد آنے والوں کو اس قوم نے اتنا متحرک کر رکھا ہے کہ وہ اپنی تین سال کی مدت ملازمت گزار کے بھی اپنے فرائص پورے نہیں کر پاتے۔ اس لیے کبھی مانگ تانگ کر تو کبھی ڈنڈے کے زور پر ایکشن لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ شکر ہے چیف کو کسی نے یہ مشورہ نہیں دیا کہ ملک میں سے سو دو سو غریب لوگوں کو جمع کر کے ایک بار ان سے بھی مشورہ کر لیا جائے کہ اس ملک کا اور اس کی معیشت کا کیا کرنا ہے۔ ایسا کرنے سے سپہ سالارکے شب و روز اور مشکل ہو جاتے۔ پہلے ہی ہم نے سپہ سالار کو اتنا متحرک کر رکھا ہے کہ یوں لگتا ہے وہ صبح اٹھتے ہی فوج کے بنائے محکمہ زراعت والے جدید فارم پر ہل چلاتے ہیں تاکہ غذائی بحران سے بچا جا سکے۔ پھر دفتر جاتے ہوئے راستے میں رک کر کدال سے سنگلاخ پہاڑوں کا سینہ چیرتے ہیں کہ اتنی معدنیات تو نکل آئیں کہ قوم کا ایک دن کا خرچہ نکل آئے۔ قربانیوں کا موسم بھی جاری ہے تو کتنے شہدا کے گھروں کو جائیں۔ 9 مئی والے دہشت گردوں کے کیسوں کو بھی دیکھنا پڑتا ہو گا۔ پھر بارڈر سے نوجوانوں کی ایک ٹولی آ جاتی ہے، ان کے ساتھ گپ شب، یہ خبر رکھنا کہ اٹک والے قیدی کی چھت تو نہیں ٹپک رہی، روس اور امریکہ سے آنے والی ٹیلی فون کالیں، عربی شہزادوں کو پیغامات اور اتنا کچھ کر کے رات کو جیب پھر خالی۔ سوچتا ہوں کہ اتنے کٹھن دن کے بعد جب سپہ سالار آخر سونے جاتا ہو گا تو نیند کیسے آتی ہو گی۔ ملنے والے بتاتے ہیں کہ سپہ سالار اپنی تقاریر میں آیتوں اور حدیثوں کے حوالے اکثر دیتے ہیں تو یقیناً سونے سے پہلے کوئی دعا پڑھ کر قوم پر پھونک دیتے ہوں گے تاکہ قوم کو رات کو ڈراؤنے خواب نہ آئیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n40gr31v9o", "summary": "پنجاب کی نگران حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کے 11 ججز کو گھروں کی تعمیر کے لیے 36 کڑور روپے سے زائد کے بلاسود قرض دینے کی منظوری دی ہے جس پر وکلا تنظیموں نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔", "title": "لاہور ہائیکورٹ کے ججز کو 36 کروڑ روپے کے بلاسود قرضے دینے پر تنازع: ’نئی غلطیاں نہ کریں اس ملک پر رحم کریں‘", "firstPublished": "2023-09-09T15:10:02.403Z", "id": "c4n40gr31v9o", "article": "لاہور ہائیکورٹ بار کونسل کی سیکریٹری صباحت رضوی نے یہ بات بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پنجاب کی نگران حکومت کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے 11 ججز کو گھروں کی تعمیر کے لیے منظور کیے گئے بلاسود قرضوں پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہی۔ پنجاب کی نگران حکومت نے اس مد میں گیارہ ججز کو 36 کروڑ روپے سے زائد کے بلاسود قرضے دینے کی منظوری دی ہے جس کی تصدیق نگراں حکومت کے وزیرِ اطلاعات عامر میر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کی ہے۔ رواں ہفتے صوبائی کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں ایجنڈا نمبر 17، 18 اور 19 میں 11 ججز کو گھروں کی تعمیر کے لیے ’بلاسود قرض‘ منظور کیے گئے جو ہر جج کے لیے اوسطاً قریب ساڑھے تین کروڑ روپے کی رقم بنتی ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ ’ججوں کی قرضوں کے لیے درخواستیں لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس کی جانب سے آئی تھیں جنھیں روٹین کے مطابق پنجاب کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ نے منظور کر لیا۔‘ عامر میر کا کہنا ہے کہ ’ججز کے لیے گھروں کی تعمیر کے لیے سود سے پاک قرضوں کی منظوری کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔ ’یہ وہ 11 جج حضرات ہیں جو قرضے لینے سے رہ گئے تھے۔ لاہور ہائی کورٹ کے باقی تمام ججز ماضی میں گھر بنانے کے لیے مختلف حکومتوں سے سود فری قرض حاصل کر چکے ہیں۔ ان 11 ججوں نے بھی یہی مؤقف اختیار کیا تھا۔‘ لاہور بار کی سیکریٹری صباحت رضوی کے مطابق ایک طرف عوام کو مہنگائی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری طرف ججز سمیت اشرافیہ کو مالی طور پر مزید مضبوط کیا جا رہا ہے پاکستان بار کونسل نے لاہور ہائیکورٹ کے ججز کے لیے بلاسود قرضوں پر ’شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مبینہ نوٹیفکیشن فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہم لاہور ہائی کورٹ کے ججوں سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس غیر اخلاقی اور بلا جواز قرض کو قبول کرنے سے انکار کر دیں گے۔۔۔ ججوں سمیت تمام مراعات یافتہ طبقے کو پہلے سے موجود تمام مراعات فوری طور پر بند کی جائیں۔‘ 14 ستمبر کو سپریم کورٹ بار نے ہڑتال کی کال دی ہے جس کی لاہور بار نے حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔ صحافی عادل شاہزیب نے لکھا کہ ’انڈسٹریز اور کاروبار 25 فیصد سود کی وجہ سے دیوالیہ ہو کر بند ہو رہے ہیں لیکن پنجاب حکومت ججز کو بلا سود قرضہ دی گی واہ! جو غلط ہے اس کو ٹھیک کرنے کا پہلا اصول یہ ہے کہ نئی غلطیاں نہ کریں، اس ملک پر رحم کریں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6p6lm735qro", "summary": " اس گروپ کی طاقت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی معیشت کا 85 فی صد جی ڈی پی اور 75 فی صد عالمی تجارت انھیں ملکوں کے ہاتھوں میں ہے۔", "title": "جی 20 اجلاس: دنیا کے سب سے طاقتور ملکوں کا دلّی میں اجلاس اتنا اہم کیسے بنا؟", "firstPublished": "2023-09-08T01:39:43.912Z", "id": "c6p6lm735qro", "article": "دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں والے 20 ممالک کی تنظیم جی-20 کا سربراہی اجلاس نو اور 10 ستمبر کو انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں منعقد ہو رہا ہے۔ جی-20 کے موجودہ صدر کی حیثیت سے انڈیا اس اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ دلی اور اس کے نواحی شہروں کےبڑے بڑے ہوٹل سربراہان حکومت اور مندوبین کے لیے ریزرو کیے گئے ہیں۔ پورا شہر خوبصورتی سے سجایا گیا ہے اور نئی دہلی اس وقت غیر معمولی سکیورٹی کے حصار میں ہے۔ آئندہ تین دنوں تک شہر میں تعطیل ہے اور شہر کے وہ علاقے جہاں یہ اجلاس ہو رہا ہے کو عام لوگوں کی آمد و رفت کے لیے تقریباً بند رکھا گیا ہے۔ ان کی جگہ چین کے وزیر اعظم اور روس کے وزیر خارجہ ان کی نمائندگی کریں گے۔ جی-20 کے صدر کے طور پر انڈیا نے بنگلہ دیش، مصر، نائجیریا، متحدہ عرب امارات، عمان، سنگاپور، نیدر لینڈز، سپین اور ماریشیئس کو بھی مہمان کے طور اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ جی-20 ایشیائی معاشی بحران کے بعد 1999 میں قائم کیا گیا تھا۔ ابتدائی سالوں میں اس کے اجلاس میں رکن ممالک کے وزرا خزانہ اور سینٹرل بینکوں کے گورنر شریک ہوتے تھے لیکن سنہ 2007 کے عالمی معاشی بحران کے بعد اسے سربراہی اجلاس میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس کا پہلا سربراہی اجلاس سنہ 2008 میں واشنگٹن میں منعقد ہوا تھا۔ جی-20 کا سربراہی اجلاس سال میں ایک بار ہوتا ہے۔ اس کی سربراہی باری باری سبھی رکن ممالک کے پاس آتی ہے۔ آئندہ اجلاس کی سربراہی برازیل کے پاس ہو گی۔ اس گروپ کی طاقت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی معیشت کا 85 فی صد جی ڈی پی اور 75 فی صد عالمی تجارت انھیں ملکوں کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ ممالک دنیا کی دو تہائی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ویسے تو اس گروپ کا مقصد معاشی نظام کے مختلف پہلوؤں اور مسائل پر غور کرنا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں دیر پا ترقی، صحت، زراعت، توانائی، ماحولیاتی تبدیلی اور انسداد بدعنوانی جیسے معاملات بھی شامل ہوتے گئے۔ یہ اقتصادی طور پر طاقتور ملکوں کا گروپ ہے اس لیے یہاں کیے گئے فیصلے عالمی تجارت پر کافی حد تک اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ان فیصلوں کا عالمی سطح پر گہرا اثر پڑتا ہے اور اقتصادی بحران میں یہ گروپ اچتماعی طور پر قدم اٹھانے مین کارگر ثابت ہوتا ہے۔ اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ذمے داری میزبان ملک کی ہوتی ہے۔ اس وقت یوکرین کی جنگ کے سوال پر روس اور چین ایک طرف اور مغربی ممالک دوسری جانب کھڑے ہیں۔ انھوں نے یہ تشویش بھی ظاہر کی ہے کہ چین اور روس اجلاس میں اتفاق رائے بنانے کے حوالے سے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4ne67vd5ego", "summary": "کیا آرمی چیف سے تاجروں کی ملاقات اور سمگلنگ کی روک تھام کے اعلانات نے ڈالر کی قیمت کو کم کیا؟ اس کے بارے میں کرنسی کے کاروبار سے جڑے افراد اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صرف یہی نہیں بلکہ کچھ دوسرے عوامل بھی اس میں شامل ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ یہ عوامل کیا ہیں۔", "title": "اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں بڑی کمی کیا گرے مارکیٹ میں کریک ڈاون کا نتیجہ ہے؟", "firstPublished": "2023-09-06T13:29:08.030Z", "id": "c4ne67vd5ego", "article": "اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں ہونے والی بڑی کمی اس وقت سامنے آئی جب گذشتہ ہفتے کے اختتام پر ملک کے آرمی چیف نے کراچی اور لاہور میں کاروباری افراد سے ملاقات کی جہاں معیشت کی بحالی کے مختلف اقدامات کے علاوہ سمگلنگ کے خلاف کارروائیوں پر بھی بات ہوئی جس میں ڈالر کی سمگلنگ کی روک تھام کی بات بھی کی گئی۔ تاہم کیا آرمی چیف سے تاجروں کی ملاقات اور سمگلنگ کی روک تھام کے اعلانات نے ڈالر کی قیمت کو کم کیا؟ اس کے بارے میں کرنسی کے کاروبار سے جڑے افراد اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صرف یہی نہیں بلکہ کچھ دوسرے عوامل بھی اس میں شامل ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ یہ عوامل کیا ہیں۔ انگریزی روزنامہ ڈان سے وابستہ مالیاتی امور کے سینیئر صحافی شاہد اقبال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا کاروبار قیاس آرائیوں پر چلتا ہے اور اسی بنیاد پر اس کی قیمت بڑھ رہی تھی۔ ’اسی طرح ایکسچینج کمپنیوں سے بھی جانچ پڑتال ہو رہی ہے جس کے بعد خریدار فی الحال آنے سے کترا رہے ہیں ورنہ دوسری طرف صورتحال ایسی نہیں کہ ڈالر کی سپلائی بڑھ گئی ہے اور اس سے اس کی قیمت گر گئی ہے۔‘ انھوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’اس کے ساتھ کچھ ایکسچینج کمپنیاں بھی گرے مارکیٹ میں کام کرتی ہیں، مثلاً ایک شخص کسی ایکسچینج کمپنی سے ڈالر 320 روپے پر خریدنے گیا تو اسے کہا گیا کہ اس ریٹ پر دستیاب نہیں اور یہ ڈالر اسے 325 کے ریٹ پر ملے گا اگرچہ اس وقت مارکیٹ کا ریٹ 320 ہوتا ہے۔ ملک کے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اس سلسلے میں اعلان کیا ہے کہ اجناس اور کرنسی کی سمگلنگ کی کسی صورت اجاز ت نہیں دی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ ’سمگلنگ کا جو مال پاکستان ان دونوں ملکوں سے آتا ہے اس کی ادائیگی ڈالروں میں ہوتی ہے اور اسی طرح وہ افغان جن کا پاکستان میں آنا جانا لگا رہتا ہے وہ روپوں کے بدلے ڈالر لے جاتے ہیں کیونکہ افغانستان میں تو ڈالر کہیں سے آتے نہیں اور پاکستان ہی واحد مارکیٹ ہے جہاں سے وہ ڈالر لے جا سکتے ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسی طرح ایران سے ہونے والی سمگلنگ پر حکومت نے جان بوجھ کر چپ سادھی ہوئی ہے تاہم اس کے لیے بھی ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے جو سملگنگ کے زمرے میں آتی ہے کیونکہ اس کا بینکنگ سسٹم میں اندراج نہیں ہوتا۔‘ ظفر پراچہ نے اس سلسلے میں بتایا کہ ’سمگلنگ کے خلاف اقدامات تو ہونے چاہیے لیکن انھیں مستقل بنیادوں پر ہونا چاہیے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ڈالر جہاں سے سمگل ہو کر پڑوسی ملک میں جاتا ہے تاہم یہ وقتی اقدام نہیں ہونا چاہیے بلکہ مستقبل بنیادوں پر اس کا حل نکالنا چاہیے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckrlkyy0m08o", "summary": "چلیں مان لیا کہ ہم چاند پر نہیں پہنچ سکتے مگر چاند ہی زمین پر پٹخ ڈالنے کا زعم کیسا۔۔ ستاروں پر کمند نہیں ڈال سکتے مگر مملکت ستارہ شناسوں کے ہاتھ دینے کی ادا کیسی۔۔۔ تاروں سے اٹھکیلیاں نہیں کر سکتے مگر تارے گُم کرنے کے گُر کیسے۔۔۔ آخر ہم ایسے کیوں ہیں؟", "title": "ہم سچ کب بولیں گے؟ عاصمہ شیرازی کا کالم", "firstPublished": "2023-09-05T06:16:45.368Z", "id": "ckrlkyy0m08o", "article": "خود سے آنکھیں چار کرنا ہم نے سیکھا نہیں اور غلطیاں دہرانے کا عہد باندھ کر اس مقام پر آ کھڑے ہوئے ہیں جہاں آگے سمندر ہے اور پیچھے کھائی۔ اب وقت کہاں کہ یہ سوچا جائے کہ یہ سب کیا، کب اور کیسے ہوا؟ اب تو انتظار ہے کہ یہ سب ایسے، کیسے، یوں کیوں ہوا؟ چلیں مان لیا کہ ہم چاند پر نہیں پہنچ سکتے مگر چاند ہی زمین پر پٹخ ڈالنے کا زعم کیسا۔ ستاروں پر کمند نہیں ڈال سکتے مگر مملکت ستارہ شناسوں کے ہاتھ دینے کی ادا کیسی۔ تاروں سے اٹھکیلیاں نہیں کر سکتے مگر تارے گُم کرنے کے گُر کیسے۔ آخر ہم ایسے کیوں ہیں؟ نہ ہم آزاد نہ ہماری معیشت آزاد اور نہ ہی ریاست آزاد۔ تینوں کا آپس میں جُڑا گہرا تعلق ہمیں جتنا آج محسوس ہو رہا ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ خالی خولی حقیقی آزادی کے نعرے اور غلامی نامنظور کے دعوے نہ تو ہمیں عالمی معاشی سامراج سے نجات دلا سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں آزاد مملکت بنا سکتے ہیں۔ انڈیا کا سالانہ جی ڈی پی سات فیصد کے قریب ہے۔ یاد نہیں پڑتا کہ آخری بار انڈیا نے آئی ایم ایف کا دروازہ کب کھٹکھٹایا مگر تاریخ بتا رہی ہے کہ انڈیا نے 32 برس پہلے آئی ایم ایف کو خیر باد کہا اور پھر مُڑ کر نہیں دیکھا۔ ایک سیاسی حکومت نے معاشی منصوبہ بنایا جس کے روح رواں سابق وزیراعظم من موہن سنگھ تھے۔ بی جے پی کی سرکار میں کانگریس کے بنائے منصوبے چلتے رہے اور کانگرس کی سرکار میں بی جے پی کی معاشی پالیسی رواں رکھی گئی۔ سیاست بدلتی رہی، انداز بدلتے رہے مگر ترقی کا راستہ نہ بدلا۔ ان تین سیکٹرز کی آزادانہ پالیسیوں نے انڈیا کو انڈیا بنایا۔ اگلے چند برسوں میں انڈیا امریکہ کے ساتھ خلائی پروگراموں کا آغاز کرے گا اور کم لاگت میں خلائی مشن کامیاب کرنے کے گُر سیکھے گا۔ دنیا بھر کی آئی ٹی سیکٹر کی تقریباً تمام بڑی کمپنیوں کے سربراہوں کا تعلق انڈیا سے ہے۔ 30 سال پہلے شروع ہونے والا انڈیا کا سفر منزل کی جانب رواں دواں ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس سب کے پیچھے نہ صادق اور امین راہنما ہیں، نہ ہی کرپشن نمبر ون مسئلہ، ہاں مگر آئین کی پاسداری ضمانت اور جمہوریت کے تسلسل کا ایک نہ ٹوٹنے والا سلسلہ۔ گذشتہ 76 برسوں میں صرف ایک بار آئین معطل ہوا جس کا خمیازہ کانگریس آج بھی بھگت رہی ہے۔ معاشی بحران میں گھرے پاکستان کو نہ تو کسی میثاق کی ضرورت ہے نہ کسی کمیشن کی، ضرورت ہے تو صرف سچائی کی۔ سچ تلاش کرنے کے لیے صرف یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم نے وطن عزیز کے ساتھ کیا کیا؟ کتنی بار آئین توڑا؟ کتنی بار پاکستان کے مفادات کا سودا کیا؟ کتنی بار عدل کو گروی رکھا؟ اور کتنی بار عوام کے مینڈیٹ کو پیروں تلے روندا؟ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw0k1pxgyjlo", "summary": "پاکستان کے مختلف شہروں میں چینی کی فی کلو قیمت 200 روپے سے زیادہ ہو چکی ہے اور حکام کے مطابق ایسا رواں برس چینی کی برآمد کے باعث ہوا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان میں چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کن بنیادوں پر کیا جاتا ہے اور کیا حکومت کے پاس چینی کی دستیابی اور پیداوار کے حوالے سے مستند اعداد و شمار جمع کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود ہے؟", "title": "سرکاری محکمے یا شوگر مِلز: پاکستان سے اضافی چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کن بنیادوں پر اور کون کرتا ہے؟", "firstPublished": "2023-09-05T04:12:34.287Z", "id": "cw0k1pxgyjlo", "article": "پاکستان میں چینی کی طلب اور رسد میں بڑھتا فرق اور قیمتوں میں دگنا اضافہ اس وقت زیرِ بحث ہے مگر چینی کی صنعت و پیداوار پر نظر رکھنے والے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں چینی کی ’وافر‘ مقدار موجود ہی نہیں تھی۔ ان کا خیال ہے کہ گذشتہ حکومت کا چینی برآمد کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ اس معاملے کی سیاسی نوعیت میں جائے بغیراہم سوال یہ ہے کہ پاکستان میں چینی کو برآمد کرنے کا فیصلہ کون کرتا ہے اور یہ کن بنیادوں پر کیا جاتا ہے اور کیا حکومت کے پاس چینی کی دستیابی اور پیداوار کے حوالے سے مستند اعداد و شمار جمع کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود ہے؟ ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ ان اعداد و شمار ہی کی بنیاد پر ای سی سی فیصلہ کرتی ہے کہ کیا وافر چینی کو برآمد کرنے کی اجازت دی جائے یا نہیں۔ ’اس میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ گنے کی آئندہ پیداوار کا ہدف کیا ہے اور کرشنگ کے سیزن میں چینی کا آؤٹ فلو کیا ہو گا۔‘ عارف حبیب کموڈیٹیز کے چیف ایگزیکیٹیو آفیسر احسن محنتی کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس چینی کے حوالے سے اعداد و شمار حاصل کرنے کا ایک طریقہ کار موجود ہے۔ ’ساتھ ہی وہ چینی کی صنعت یعنی شوگر ملوں سے بھی اعداد و شمار حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’سابق وزیر خزانہ نے یہ باضابطہ فیصلہ کیا تھا کہ اگر چینی وافر بھی ہو گی تو برآمد نہیں کی جائے گی لیکن بعد میں جب حکومت نے اعداد و شمار کا جائزہ لیا تو اس کے بعد وافر چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔‘ یاد رہے کہ رواں برس کے آغاز میں اس وقت کی حکومت نے چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ملک میں چینی کی کھپت سات ملین ٹن کے لگ بھگ ہے تاہم گذشتہ برس کے آخر میں شوگر ملز ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ ملک میں آٹھ ملین ٹن سے زیادہ چینی موجود تھی۔ ڈاکٹر وقار احمد کہتے ہیں کہ اس طرح اعداد و شمار کے برعکس ذخائر بدل جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا صرف رواں برس نہیں ہوا۔ ’ایسا پاکستان میں لگ بھگ ہر برس ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اعداد و شمار جمع کرنے کا طریقہ کار درست نہیں ہوتا۔‘ تاہم ڈاکٹر وقار احمد کہتے ہیں کہ یہ نظام زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ حکومتیں اعداد و شمار کے لیے زیادہ تر شوگر ملز ایسوسی ایشنز پر ہی انحصار کرتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چینی کی برآمد کے حوالے سے فیصلے میں غلطی کے امکانات موجود رہتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0v5p7e5n4lo", "summary": "مئی 2022 میں کی جانے والی گندم پر پابندی کے بعد گشتہ مہینے انڈیا نے نان باسمتی سفید چاول کی برآمدات پر پابندی لگا دی۔ گشتہ دور میں ہی وزارت خزانہ نے برآمدات کی حوصلہ شکنی کے لیے اور مقامی ترسیل بہتر کرنے کے لیے پیاز پر 40 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی تھی۔", "title": "انڈیا میں بڑھتی ہوئی خوراک کی قیمتیں اور برآمدات پر پابندیاں ایک عالمی مسئلہ کیوں؟", "firstPublished": "2023-09-03T02:09:52.415Z", "id": "c0v5p7e5n4lo", "article": "مئی 2022 میں گندم کی برآمد پر پابندی کے بعد گشتہ مہینے انڈیا نے نان باسمتی سفید چاول کی برآمدات پر پابندی لگا دی۔ گشتہ دور میں ہی وزارت خزانہ نے برآمدات کی حوصلہ شکنی کے لیے اور مقامی ترسیل بہتر کرنے کے لیے پیاز پر 40 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی تھی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے ردعمل میں حکومت مزید اقدامات اٹھا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک گذشتہ نوٹ میں عالمی بروکریج کے ادارے نومورا نے کہا چاول کی لگاتار برآمدی پابندی مقامی سطح پر چاول کی قیمتوں میں کمی نہیں لا سکی لہذا ’حکومت زیادہ جامع پابندی لگا سکتی ہے۔‘ انڈیا کی برآمدات پر پابندی کے بعد کینیڈا میں ایک گروسری سٹور نے چاول کے ایک بیگ کو ایک فیملی تک محدود کر دیا تھا گذشتہ دہائی میں انڈیا چاول بیچنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن کر اُبھرا اور چینی اور پیاز کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ بن گیا۔ چاول کی مارکیٹ میں 40 فیصد حصہ انڈیا کا ہے۔ اس کی بڑی وجہ انڈیا میں چاول کی قیمت میں اضافہ ہے جس کی برآمد پر انڈیا نے پابندی لگا دی ہے۔ ایف اے او کے مطابق انڈیا کے اس اقدام کی وجہ سے دوسرے خطوں میں بھی چاول کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ لیکن عالمی سطح پر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کا الزام صرف انڈیا کے اقدامات پر نہیں لگایا جا سکتا۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد ’بلیک سی گرین انیشی ایٹیو‘ کا خاتمہ اور دنیا بھر میں انتہائی موسمی حالات اہم کردار ادا کرنے والے دیگر عوامل ہیں۔ نومورا کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خوراک کی عالمی سطح کی مہنگائی میں حصہ ڈالنے کے علاوہ، ’برآمدات پر پابندی کے دیگر منفی پہلو بھی ہیں جیسے کہ انڈیا کی ایک قابل بھروسہ سپلائر کے طور پر ساکھ کو نقصان پہنچنا اور کسانوں کو عالمی سطح پر منافع بخش قیمتوں سے فائدہ اٹھانے سے روکنا۔‘ ’تجارت میں پابندی سے قیمتوں کے اتار چڑھاؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، 2015-16 میں دالوں کی مہنگائی کی وجہ سے انڈیا کو درآمدات میں نمایاں اضافہ کرنا پڑا لیکن مون سون اور مضبوط مقامی پیداوار کی وجہ سے اگلے سال سپلائی زیادہ ہو گئی اور 2017-18 میں قیمتیں گر گئیں۔‘ ماضی میں پیاز جیسی فصلوں کی بڑھتی قیمت انڈیا میں انتخابی شکست کا باعث بن چکی ہے۔ اس کے ساتھ پہلے سے ہی کھپت معمول پر آنے کا عمل بھی غیر مستحکم ہے۔ انڈیا کا مرکزی بینک پہلے ہی چھ بار سود کی شرح بڑھا چکا ہے، اور خوراک کی افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے کم ہی کچھ کر سکتا ہے کیونکہ یہ سپلائی کا مسئلہ ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy6ljnelz3go", "summary": "آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے مطابق پاکستان میں پیٹرول کی ایکس ریفائنری قیمت 228.59 روپے فی لیٹر ہے۔ فی لیٹر پیٹرول پر عوام کی جانب سے دیے جانے والے لگ بھگ 77 روپے کے ٹیکس کون کون سے مد میں وصول کیے جاتے ہیں اور ایک ایسے ملک میں جہاں شہریوں کی قوت خرید انتہائی کم ہے ایسے ٹیکسوں کو کیوں نافذ کیا گیا ہے؟", "title": "پیٹرول کی اصل قیمت کیا ہے اور حکومت عوام سے ایک لیٹر پیٹرول پر کتنا ٹیکس وصول کر رہی ہے؟", "firstPublished": "2023-09-01T11:26:35.275Z", "id": "cy6ljnelz3go", "article": "وزارت خزانہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر 14.91 روپے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 18.44 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے اور اب آئندہ 15 دن کے لیے جہاں پٹرول کی فی لیٹر قیمت 305.36 روپے ہو گئی ہے وہیں ایک لیٹر ڈیزل 311.84 روپے میں ملے گا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل نگران حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان قیمتوں میں بالترتیب ساڑھے 17 اور 20 روپے فی لیٹر اضافے کا اعلان کیا تھا یوں نصف ماہ میں پیٹرول کی قیمت میں قریب 35 روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا گیا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 15 اگست کو عالمی سطح پر برینٹ خام تیل کی قیمت 85.08 ڈالر تھی جو یکم ستمبر کو 87.01 ڈالر ہے۔ یعنی عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں اتنا رد و بدل نہیں ہوا ہے اور پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس حالیہ اضافے کو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط، روپے کی تسلسل سے جاری بےقدری اور حکومتی ٹیکسز سے جوڑا جا رہا ہے۔ اگر پیٹرول کی تازہ ترین فی لیٹر قیمت کو دیکھا جائے تو پاکستان کی آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 305.36 روپے میں سے ایندھن کی ایکس ریفائنری فی لیٹر قیمت 228.59 روپے بنتی ہے۔ قیمت میں تیسرا حصہ ان اخراجات کا ہے جو ایندھن کی ترسیل، اسے فروخت کرنے والے ادارے اور پیٹرول پمپ ڈیلران کے کمیشن کی مد میں آتا ہے۔ ان تمام اخراجات کو اکٹھا کریں تو صارف فی لیٹر 16.77 روپے اس مد میں ادا کر رہا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے رواں برس جولائی میں آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا اس کے تحت ایک لیٹر پر پی ڈی ایل کی مد میں 60 روپے وصول کیے جانے ہیں۔ شہباز رانا کے مطابق استعمال پر ضرور ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں مگر ایسا کرنے سے قبل لوگوں کی قوت خرید کو بھی مدنظر رکھا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق اس وقت ملک میں 38 فیصد سے زیادہ افراط زر ہے جبکہ پاکستان میں اکثریت لوگوں کی فی کس آمدن دو ڈالر سے بھی کم ہے۔ ان کے مطابق اس وقت امریکہ اور یورپی ممالک میں فی لیٹر پیٹرول کی قیمت تین ڈالر تک ہے جبکہ سعودی عرب میں قیمت لگ بھگ پاکستان جتنی ہی بنتی ہے لیکن ان ممالک میں بسنے والے افراد کی قوتِ خرید پاکستانی شہریوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے۔ ان کے مطابق ایک طرف تو ان کی تنخواہ کا بڑا حصہ ٹیکسز میں چلا جاتا ہے اور دوسری طرف انھیں اب فی لیٹر پیٹرول پر علیحدہ سے بھی اپنی جیب سے بھاری ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، جس کے بعد گھر کا بجٹ خراب ہو جاتا ہے۔ اب یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ حکومت کا ٹیکسز عائد کرنے کا طریقہ کار کیا ہے اور اس نظام میں ایسی کون سی ممکنہ خرابیاں ہیں کہ عام شہریوں کو اپنی قوت خرید کی نسبت زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c25zplwvg4po", "summary": "پاکستان میں چینی کی قیمت میں گذشتہ کئی مہینوں سے اضافہ جاری ہے اور صرف آٹھ مہینوں میں یہ قیمت 180 روپے کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی ہے۔ مگر کیا اس بحران کی وجہ برآمد کرنے کا فیصلہ، ذخیرہ اندوزی، سٹے بازی اور سمگلنگ ہیں؟", "title": "برآمد، سمگلنگ یا سٹے بازی: چینی کی قیمت میں ریکارڈ اضافے کی وجہ کیا ہے؟", "firstPublished": "2023-09-01T07:26:16.762Z", "id": "c25zplwvg4po", "article": "پاکستان میں اس وقت چینی کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہے۔ چینی کی قیمت میں گذشتہ کئی مہینوں سے اضافہ جاری ہے اور اس کی قیمت، جو اس سال کے شروع میں 85 سے 90 روپے فی کلو تھی، صرف آٹھ مہینوں میں 180 روپے کی سطح تک پہنچ گئی ہے۔ ملک میں اشیائے خوردو نوش کے اعداد و شمار مرتب کرنے والے وفاقی ادارہ شماریات نے ملک کے مختلف حصوں میں چینی کی قیمت کو گذشتہ ہفتے اختتام تک 156 روپے سے 165 روپے کلو کے درمیان ظاہر کیا ہے تاہم ملک کے مختلف حصوں میں چینی 180 روپے کلو سے زائد پر دستیاب ہے۔ ملک کی اناج منڈیوں میں کام کرنے والے تاجروں کے مطابق اس وقت چینی کی ایکس فیکٹری قیمت 168 روپے پر موجود ہے۔ ہول سیل پر یہ قیمت 172 سے 175 روپے تک پہنچ چکی ہے اور اس کی ریٹیل قیمت 180 روپے فی کلو یا اس سے زائد سطح پر پہنچ چکی ہے۔ معیشت سے منسلک افراد اور تجزیہ کار چینی کی قیمت میں اضافے کی وجہ چینی کی برآمد کے فیصلے کو قرار دیتے ہیں تاہم اس کے ساتھ ملک میں چینی کی ذخیرہ اندوزی، سٹے بازی اور سمگلنگ کو بھی اس کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب ملک میں کام کرنے والی شوگر ملز بھی اس وقت تنقید کی زد میں ہیں اور ان کے مطالبے پر چینی برآمد کرنے کی اجازت ملنے کے بعد چینی کی قیمت بڑھنے پر انھیں مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے تاہم شوگر ملز کی نمائندہ تنظیم کی جانب سے اس تاثر کی نفی کی گئی ہے اور اسے ’حقائق کے برعکس‘ قرار دیا ہے۔ پی ڈی ایم کی گذشتہ حکومت کی جانب سے اس سال جنوری کے مہینے میں چینی کی برآمد کے فیصلے کی منظوری دی گئی۔ مارچ کے مہینے میں چینی کی قیمت میں اضافے کا سلسلہ شروع ہوا اور اس میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ایک تو انھوں نے غیر ملکی مارکیٹ سے چینی برآمد کر کے زرمبادلہ کمایا۔ دوسری جانب جب یہاں سے چینی برآمد کی گئی تو جو چینی 85 روپے کلو تھی وہ 180 روپے تک پہنچ گئی تو اس کا انھوں نے فائدہ اٹھایا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ایک دن میں چینی کی قیمت میں چار روپے اور اگلے روز پانچ روپے کا بڑھ جانا اس بات کی علامت ہے کہ اس میں سٹے بازی جاری ہے۔‘ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اپنے موقف میں بتایا کہ ’گذشتہ شوگر سیزن 22-2021 کے اختتام پر پاکستان کے پاس تقریباً 10 لاکھ ٹن چینی کا اضافی ذخیرہ تھا۔ اس بھاری سرپلس کی وجہ سے حکومت نے 2.5 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی اور اس کے بعد مزید 2.5 لاکھ ٹن چینی برآمد کی اجازت دینی تھی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cx08ljylqpgo", "summary": "جمعرات کے دن روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں ایک اور اضافے کے بعد جب سٹاک مارکیٹ میں بھی شدید مندی کا رجحان نظر آیا تو ایک جانب جہاں سیاسی غیر یقینی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا وہیں دوسری جانب سوشل میڈیا پر یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ معاشی تنزلی کی رفتار کو روکنے میں کامیاب ہو سکے گا۔", "title": "ڈالر کی اڑان، سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی: کیا پاکستان کے معاشی بحران کو سیاسی استحکام کی ضرروت ہے؟", "firstPublished": "2023-08-31T15:11:48.069Z", "id": "cx08ljylqpgo", "article": "جمعرات کے دن روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں مزید اضافے کے بعد جب سٹاک مارکیٹ میں بھی شدید مندی کا رجحان نظر آیا تو ایک جانب جہاں سیاسی غیر یقینی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا وہیں دوسری جانب سوشل میڈیا پر یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ معاشی تنزلی کی رفتار کو روکنے میں کامیاب ہو سکے گا۔ ایسے میں صحافی طلعت حسین نے جمعرات کے دن ڈالر کے ریٹ میں ردوبدل اور سٹاک مارکیٹ میں مندی کی جانب توجہ دلائی تو سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس پر نجم علی صارف نے جواب میں لکھا کہ ’اس کی وجہ آپ کو معلوم ہے، مستقبل کی غیر یقینی اور سرمایہ کاروں میں اعتماد کی کمی۔‘ سوشل میڈیا پر جہاں تحریک انصاف کے حامی حالیہ معاشی تنزلی کو پی ڈی ایم کی کارکردگی اور الیکشن نہ کروانے کی وجہ بیان کرتے رہے وہیں ایک طبقہ ایسا بھی تھا جس کی رائے تھی کہ اس وقت کسی پر الزام لگانے سے زیادہ ضروری ان مسائل کا فوری حل ہے۔ انھوں نے کہا ’سب سے سب پہلے یہ واضح رہے کہ نگران سیٹ اپ کے آنے کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے میں تاخیر سیاسی بے یقینی کو بڑھا رہی ہے اور اس کی وجہ سے مارکیٹ میں بہت زیادہ منفی رجحان پیدا ہوا ہے کیونکہ سرمایہ کاروں کے اندر یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ سیاسی بے یقینی کا سب سے بڑا منفی اثر اقتصادی صورتحال پر پڑے گا۔‘ انھوں نے کہا ’اسی طرح بجلی کے نرخوں میں اضافے کے بعد جو ردعمل آیا اور آئی ایم ایف پروگرام کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تو اس خدشے نے بھی جنم لیا کہ کیا ایسی صورتحال میں کہیں پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام کھٹائی میں نہ پڑ جائے کیونکہ بجلی کے نرخوں میں اضافے پر سخت ردعمل کے بعد آئی ایم ایف شرائط کے تحت کیا گیس ٹیرف بھی بڑھ پائیں گے یا نہیں۔‘ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’اگرچہ آئی ایم ایف کی جانب سے نومبر میں اگلی قسط جاری ہونی ہے تاہم ابھی اس میں دو مہینے کا وقت ہے اور اس دوران سوال یہ ہے کہ کیا نگران حکومت مزید مشکل فیصلے کر پائے گی جس کے تحت آئی ایم ایف شرائط کو پورا کیا جا سکے کیونکہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے بعد آنے والے سخت رد عمل نے مزید شرائط پر عملدرآمد کو مشکل بنا دیا ہے۔‘ تجزیہ کار فرح ضیا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ نہیں کہا جا سکتا کہ معیشت کے معاملات نگران حکومت کے آنے کے بعد ہی خراب ہوئے کیوںکہ معاشی حالات کے تسلسل کو دیکھیں تو یہ چیزیں عمران خان کی حکومت کے دوران ہی شروع ہو چکی تھیں کہ معیشت ٹھیک نہیں چل رہی اور ان کی حکومت جانے میں ایک کردار اس مسئلے کا بھی تھا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjld1n34pg2o", "summary": "گذشتہ چھ ماہ چین کی معیشت کے لیے بری خبریں لے کر آئے ہیں: چین کو سست ترقی، نوجوانوں میں بے روزگاری کی ریکارڈ سطح، کم غیر ملکی سرمایہ کاری، کمزور برآمدات اور کرنسی، اور رئیل سٹیٹ سیکٹر کے بحران کا سامنا ہے۔", "title": "کیا چین کی ’سست‘ معیشت ’ایک ٹائم بم‘ کی طرح پھٹ سکتی ہے؟", "firstPublished": "2023-08-31T07:08:10.785Z", "id": "cjld1n34pg2o", "article": "گذشتہ چھ ماہ چین کی معیشت کے لیے بری خبریں لے کر آئے ہیں: چین کو سست ترقی، نوجوانوں میں بے روزگاری کی ریکارڈ سطح، کم غیر ملکی سرمایہ کاری، کمزور برآمدات اور کرنسی، اور رئیل سٹیٹ سیکٹر کے بحران کا سامنا ہے۔ تاہم چین کے صدر شی جن پنگ نے ملکی معیشت سے متعلق امریکی صدر کے بیان کا جواب یہ کہہ کر دیا کہ ’چین کی معشیت ’مضبوط، ہر قسم کے چیلنج کا سامنا کرنے کی زبردست صلاحیت رکھنے والی اور پر جوش انداز میں آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘ اگرچہ یہ امکان بہت کم ہے کہ معیشت تباہ ہو جائے یا کوئی بڑا عمل اسے غیر مستحکم کرے، لیکن یہ ضرور ہے کہ چین کو اس وقت چند بڑے پیمانے کے معاشی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دو دہائیوں تک، اس شعبے میں تیزی آئی جب اس میں نجکاری کے عمل کو پروان چڑھایا گیا۔ لیکن 2020 کا وہ وقت جب کورونا کی وبا نے دُنیا بھر کو ہی متاثر کیا اور چین میں بھی رئیل سٹیٹ انڈسٹری سُکڑنا شروع ہو گئی، جس کی وجہ سے یہ شعبہ شاید دوبارہ اب تک سنبھل ہی نہیں پایا۔ اہم بات یہ ہے کہ چین پیسے کے ضیاع کو روکنے کے لیے کُچھ اور بھی کر سکتا ہے۔ ملک کو اپنے لوگوں کے لیے خوشحالی پیدا کرنے کا کوئی اور راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی ایک جھلک تو ہمیں بڑی تعداد میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی صورت میں دکھائی دیتی ہے۔ پورے چین میں، لاکھوں پڑھے لکھے گریجویٹس شہری علاقوں میں وائٹ کالر نوکریاں تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ پروفیسر فاتاس کے مطابق ’یہ مرکزی معیشت کے نظام میں اُس سختی کو ظاہر کرتا ہے جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں اب تک نوجوانوں کی موجودگی کے باوجود انھیں نظام کا حصہ نہیں بنایا جا سکا ہے یا اس عمل میں مُشکلات کا سامنا ہے۔‘ صارفین کو نیا ٹی وی خریدنے، سٹریمنگ سروسز کو سبسکرائب کرنے یا چھٹیوں پر جانے کے لیے با اختیار بنانا معیشت کو متحرک کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے، لیکن یہ چین کی قومی سلامتی یا امریکہ کے ساتھ اس کے مقابلے کے لیے ناکافی ہے۔ یہ نظریہ گرتی ہوئی معیشت پر حکومت کے محدود ردعمل کی وضاحت بھی کر سکتا ہے۔ چین میں غیر ملکی سرمایہ کار پریشان ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت جلد ایکشن لے لیکن حکام طویل کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کے لیے یہ ٹھیک ہے جب معیشت اچھی طرح چل رہی ہو۔ لیکن جیسا کہ چین تین سال کے کورونا کے وبا کے دور سے نکلنے کی کوشش میں ہے، بہت سے لوگوں کو نوکری تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c107jpjjl33o", "summary": "ملک بھر میں بجلی کے زیادہ بلوں کے خلاف تقریباً ایک ہفتے سے جاری احتجاج اور نگراں حکومت کے ریلیف دینے کے اعلان کے باوجود اب تک کوئی لائحہ عمل سامنے نہ آنے کی کیا وجوہات ہیں؟ اور کیا حکومت بجلی کے بلوں میں کمی لانے میں کامیاب ہو گی؟", "title": "’40 ہزار کا بل، ہمیں تو کوئی اتنا ادھار بھی نہیں دے گا‘: حکومت بجلی کے بلوں میں عوام کو ریلیف دینے میں ناکام کیوں؟", "firstPublished": "2023-08-31T03:30:20.780Z", "id": "c107jpjjl33o", "article": "پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے دور میں بجلی کی قیمت میں اوسط 100 گنا تک اضافہ تو ہو ہی چکا تھا اور اب نگران حکومت نے بھی فی یونٹ قیمت کو آتے ہی مزید بڑھا دیا ہے جس کے بعد اگست کے مہینے میں موصول ہونے والے بجلی کے بلوں نے آمنہ سمیت محدود آمدنی رکھنے والے پاکستانی عوام کے چودہ طبق روشن کر دیے ہیں۔ ملک کے طول و عرض سے احتجاج سامنے آنے پر سنیچر کے دن نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ انھوں نے ’بجلی کے بھاری بِلوں کے معاملے پر ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں وزارت بجلی اور تقسیم کار کمپنیوں سے بریفنگ لی جائے گی اور صارفین کو بجلی کے بِلوں کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے حوالے سے مشاورت کی جائے گی۔‘ نگران وزیر اعظم کے اعلان نے لوگوں میں امید کی ایک کرن جگائی۔ مگر چار دن گزرنے کے باوجود یہ وعدہ اب تک وفا نہ ہو سکا۔ حکومت کے ریلیف دینے کے اعلان کے باوجود اب تک کوئی لائحہ عمل سامنے نہ آ سکا۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اور حکومت بجلی کے بلوں میں کمی سامنے لانے کے اقدامات سے آگاہ کرنے کی پوزیشن میں کب ہو گی؟ تاہم گذشتہ روز مقامی ٹی وی چینل دنیا نیوز میں اینکر کامران خان کے پروگرام میں نگران وزیر توانائی نے شرکت کی تھی جس میں اینکر کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اب تک حکومت ریلیف کا کوئی لائحہ عمل دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی مگر وزیر اعظم ہر روز اس پر میٹنگ کر رہے ہیں اور ’پوری کوشش ہے کہ عوام پر اس کا بوجھ کم سے کم ڈالا جائے۔ ‘ انھوں نے کہا کہ ’مالی ریلیف تو نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں ہیں تاہم بلوں کی ادائیگی میں جو بھی آسانی ہو سکتی ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کے تحت جتنا ممکن ہوا وہ کریں گے۔ ایک سے دو روز میں اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔‘ بدھ کے روز سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال ان کے اندازے سے کہیں زیادہ خراب ہے اور فی الحال مالی گنجائش نہ ہونے کے باعث حکومت کسی قسم کی سبسڈی نہیں دے سکتی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہی وجہ ہے کہ جب یہ معاملہ کابینہ کے پاس گیا تو وہاں بھی فیصلہ نہیں ہوا اور معاملہ آئی ایم ایف کو بھیج دیا۔ تو پاکستان یہ معاملہ آئی ایم ایف کے سامنے اٹھا چکا ہے اور کسی بھی قسم کی ریلیف جس میں بلوں کا کم ہونا یا بجلی کی قیمتوں کا کم ہونا ہے شاید وہ ممکن نہیں ہو پائے گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw56qen0k4ko", "summary": "تو اگر واپڈا سے آنے والی بجلی مہنگی ہے تو اس کا متبادل کیا ہو سکتا ہے؟ فی الحال سولر پینلز ہی اس کا سب سے موزوں حل دکھائی دیتے ہیں لیکن کیا یہ عام آدمی کے پہنچ میں بھی ہیں؟ ", "title": "پاکستان میں بجلی کے بلوں سے تنگ افراد کے لیے سورج امید کی کرن، مگر اس پر کتنا خرچہ آتا ہے؟", "firstPublished": "2023-08-30T16:23:30.263Z", "id": "cw56qen0k4ko", "article": "تو اگر واپڈا سے آنے والی بجلی مہنگی ہے تو اس کا متبادل کیا ہو سکتا ہے؟ فی الحال سولر پینلز ہی اس کا سب سے موزوں حل دکھائی دیتے ہیں لیکن کیا یہ عام آدمی کے پہنچ میں بھی ہیں؟ اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سولر پینلز کی سروسز دینے والے عبدالستار صدیقی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سولر پینلز کی مقامی مینوفیکچرنگ نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے جتنے بھی پینلز اور انورٹر درآمد کیے جاتے ہیں وہ زیادہ تر چین سے ہی آتے ہیں۔ وہ مثال دے کر بتاتے ہیں کہ آپ کم از کم دو پلیٹس بھی لگاتے ہیں تو آپ کو ایک لاکھ 12 ہزار تو ایک طرف رکھنا ہو گا، اس میں اگر آپ ایک کلو واٹ کا انورٹر بھی خریدتے ہیں جو معیاری بھی نہیں ہے تو وہ بھی اس وقت آپ کو لگ بھگ 80 ہزار تک کا پڑ جائے گا۔ اس میں بیٹری کی قیمت بھی شامل کر لیں تو بات سوا دو سے ڈھائی لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس بارے میں سولر انرجی سروسز فراہم کرنے والی کمپنی کے سربراہ عثمان ایک اور اہم چیز کی جانب توجہ دلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’فی الحال اس بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ ایسے سسٹمز کی عمر کتنی طویل ہے۔ ’کمپنیاں دعوے تو کر رہی ہیں کہ یہ 10 سال سے 12 سال تک چلیں گی لیکن فی الحال ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ واقعی اتنا چلیں گی یا نہیں اور کمپنی معیاری نہیں ہے تو پھر تو بالکل بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘ سروس فراہم کرنے والے عبدالستار کا کہنا تھا کہ ’تین کلو واٹ کا سسٹم جس میں آپ کے سات لاکھ روپے لگ رہے ہیں اس میں آپ کا ایک اے سی بھی چل سکتا ہے لیکن صرف کچھ گھنٹوں کے لیے۔ اس کے علاوہ موٹر اور دیگر چیزیں چلائی جا سکتی ہیں۔‘ اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی کی یک مشت رقم ادا کرنے کی استطاعت نہ ہو پاکستان میں بینکوں کی جانب سے بھی سولر پینل فراہم کرنے کے لیے قرضے فراہم کرنے کی آفر موجود ہے۔ اس حوالے سے سولر انرجی سے جو سب سے بڑا فائدہ صارفین حاصل کر سکتے ہیں وہ آن گرڈ سسٹم کا ہے جس میں انھیں نیٹ میٹرنگ کی سہولت بھی حاصل ہوتی ہے۔ نیٹ میٹرنگ سے مراد یہ ہے کہ آپ سولر پینلز کی جانب سے سورج کی روشنی سٹور کرنے کے بعد حاصل ہونے والی بجلی کو تو استعمال کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ واپڈا کو اضافی بجلی بھی دے رہے ہوتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw9gjqw8nrro", "summary": "آرجنٹینا میں ریکارڈ مہنگائی اور آئی ایم ایف قرض پروگرام کے سہارے چلنے والی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال کم و بیش پاکستان جیسی معلوم ہوتی ہے۔\nتاہم وہاں اب ایک ابھرتے ہوئے سیاست دان ہاویئر میلی کی جانب سے معاشی مسائل کا حل میعشت کی ’ڈالرائزیشن‘ کو قرار دیا گیا ہے۔", "title": "ارجنٹینا کی بدحال معیشت کو ’ڈالرائز‘ کرنے کی گونج: کیا ایسا پاکستان میں بھی کیا جا سکتا ہے؟", "firstPublished": "2023-08-17T09:02:05.252Z", "id": "cw9gjqw8nrro", "article": "جنوبی امریکہ کے ملک آرجنٹینا میں ریکارڈ مہنگائی اور آئی ایم ایف قرض پروگرام کے سہارے چلنے والی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال کم و بیش پاکستان جیسی معلوم ہوتی ہے۔ تاہم وہاں اب ایک اُبھرتے ہوئے سیاست دان ہاویئر میلی کی جانب سے معاشی مسائل کا حل معیشت کی ’ڈالرائزیشن‘ کو قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہاویئر اگر صدر بننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو آرجنٹینا میں ڈالر بطور کرنسی رائج ہو جائے گی۔ ان کی جانب سے جن اقدامات کو معیشت کی بہتری کے لیے اہم قرار دیا گیا ان میں سرکاری خرچے کم کرنے، سرکاری املاک کی نجکاری اور مرکزی بینک کو ختم کرنا شامل ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران ہاویئر کی تقاریر کا محور عوام کو ’مہنگائی سے نجات دلوانا‘ ہے۔ اس وقت آرجنٹینا میں مہنگائی کی شرح 100 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے اور وہاں کی مقامی کرنسی پیسو کی قدر ڈالر کے مقابلے میں اس قدر گر چکی ہے کہ اب ایک ڈالر 350 پیسو کے برابر ہے۔ اس سے قبل میلی کی جانب سے دی گئی یہ تجویز ڈھائی سال کے اندر معیشت کو ڈالرائز کرنے کی تھی لیکن حالیہ عرصے میں انھوں نے اس منصوبے کو کم سے کم وقت میں مکمل کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ اس بارے میں بی بی سی نے جن معاشی ماہرین سے بات کی ہے ان کے خیال میں یہ بہت مشکل ہے کہ معیشت کی ڈالرائزیشن کی جا سکے اور اگر ایسا کر لیا گیا تو یہ معیشت کی مشکلات کا حل نہیں ہے۔ پاکستان میں جہاں معیشت ایک وقت پر ڈیفالٹ کے خطرے کا شکار تھی، مہنگائی کی شرح اب بھی خاصی بلند ہے اور اس وقت بھی ملک آئی ایم ایف قرض پروگرام کا حصہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’یہ عمل ویسے تو کسی حکومت کی جانب سے باضابطہ طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن یہ مرحلہ عموماً اس وقت عمل میں آتا ہے جب ایک ملک کی کرنسی وقت کے ساتھ اپنی قدر تیزی سے کھونا شروع کر دیتی ہے اور لوگ ڈالر کو مہنگائی کا توڑ یا بچت کرنے کے لیے خریدنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ہم نے پاکستان میں دیکھا ہے۔‘ بیس سال پہلے ایکواڈور نے ڈالرائزیشن کا آغاز اس وقت کیا جب اس کی معیشت اس قدر گہرے بحران سے گزر رہی تھی کہ اس اقدام کو ملک کو بچانے کے لیے آخری کارڈ کے طور پر تصور کیا جا رہا تھا۔ یہاں مہنگائی کی شرح 96 فیصد تک پہنچ گئی تھی اور ایک مقامی کرنسی سوکر مکمل طور پر قدر میں کھو چکی تھی۔ ’لیکن نقصان یہ ہے کہ آپ کا تمام تر انحصار ایک دوسرے ملک کی معیشت پر ہو جاتا ہے، اور وہاں کسی وجہ سے معاشی بحران آئے تو اس کا اثر آپ کے ملک پر بھی پڑتا ہے جو ایک خطرناک پالیسی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c14z759p075o", "summary": "حیران کن بات یہ ہے کہ انسانوں کی متوقع عمر کے بارے میں یہ قانون کسی ایسی سائنس سے نہیں آیا جو لافانی یا کم از کم زندگی کو طول دینے کی کوشش کرتا تھا بلکہ یہ علم کے ایک اور شعبے سے ہے جو طویل عمر کے موضوع میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ اسے ’ایکچوریل سائنس‘ کہتے ہیں۔ \n", "title": "آپ کی عمر کتنی ہو گی یا آپ کب مریں گے؟ کیا اس کا حساب لگانا ممکن ہے؟", "firstPublished": "2023-08-15T13:37:03.049Z", "id": "c14z759p075o", "article": "اس چھوٹی سے شفاف دکھائی دینے والی جیلی فش کے پاس ایک غیر یقینی خصوصیت موجود ہے۔ یہ کسی بھی قسم کی ضرب پہنچنے، بھوکے رہنے یا دباؤ کے وقت میں خود کو جوانی کی عمر میں تبدیل کر سکتی ہے اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہ سکتی ہے۔ اگرچہ اس میں کچھ اضافہ ہوا اور اس بارے میں انسان کی زندگی اور موت سے متعلق ایک نظریہ یا قانون ہے جسے دو صدیاں قبل پیش کیا گیا تھا اور آج بھی یہ نافذ ہے یا اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ انسانوں کی متوقع عمر کے بارے میں یہ قانون کسی ایسی سائنس سے نہیں آیا جو لافانی یا کم از کم زندگی کو طول دینے کی کوشش کرتا تھا بلکہ یہ علم کے ایک اور شعبے سے ہے جو طویل عمر کے موضوع میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ اسے ’ایکچوریل سائنس‘ کہتے ہیں۔ یہ علم کی وہ شاخ ہے جو بنیادی طور پر انشورنس اور مالیاتی صنعتوں میں ممکنہ خطرے یا نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے شماریاتی اور ریاضیاتی ماڈلز بناتی ہے۔ اور جس شخص نے سائنس کی اس نئی شاخ کو متعارف کروایا تھا وہ 19ویں صدی کے ایک ریاضی دان بنجامن گومپرٹز تھے جو دراصل ایک انشورنس ایکچوری تھے۔ سنہ 1852 میں انھوں نے لندن میں رائل سوسائٹی کے سامنے انسانی زندگی اور اٹل موت سے متعلق ایک تحقیقی مقالہ پیش کیا۔ یہ ریاضی اور حساب پر مبنی ایک ایسا ماڈل تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ہماری عمر کے بڑھنے کے ساتھ موت کا خطرہ تیزی سے بڑھتا ہے اور اب اسے ’گومپرٹز لا آف مورٹیلیٹی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جب سے گومپرٹز نے اپنا یہ قانون تجویز کیا، اموات کے اعداد و شمار نے اس کی تصدیق کی ہے۔ ان کا یہ تجویز کردہ ماڈل بہت سارے ممالک، وقت کے ادوار اور یہاں تک کہ جانوروں کی مختلف انواع پر بھی تقریباً بالکل درست ثابت ہوتا ہے جبکہ اصل اوسط متوقع عمر میں تبدیلی آتی ہے تو یہ ہی اصول اس وقت بھی لاگو ہوتا ہے۔ یہ حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ پراسرار بھی ہے کیونکہ اس بارے میں یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسا کیوں ہے مگر اس معاملے میں دو ’لیکن‘ ہیں۔ پہلا ’لیکن‘ یہ ہے کہ جیسا کہ آپ نے دیکھا ہو گا ہم جس ماڈل کے بارے میں بات کر رہے ہیں اسے گومپرٹز میکھم قانون کہا جاتا ہے، لہذا ہم کچھ بھول رہے ہیں۔ لیکن یہ میکھم ہی تھے جنھوں نے اس جزو کو ریاضی کے فارمولے میں شامل کیا، جو ماڈل میں ایک زیادہ متغیر عنصر ہے جسے سماجی و اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی خطرات کو کم کرکے کم کیا جا سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy0plkm5mrjo", "summary": "چین ایسی بہت سی چیزیں تیار کرتا ہے جسے وہ پوری دنیا میں فروخت کرتا ہے۔ اگر چین میں چیزوں کی قیمتیں نیچے آتی ہیں تو یہ بعض ممالک کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے جو چین سے اشیا خریدتے ہیں کیونکہ اس سے ان کا درآمدی بل کم ہو جائے گا۔", "title": "چین میں مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے عالمی سطح پر کیا اثرات ہوسکتے ہیں؟", "firstPublished": "2023-08-12T07:59:30.060Z", "id": "cy0plkm5mrjo", "article": "بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اعداد و شمار تشویش کا باعث ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ صورتحال مزید کچھ عرصے تک جاری رہی تو رواں سال چین کی اقتصادی ترقی کی شرح کم ہو سکتی ہے۔ ملک میں اخراجات پہلے ہی کم ہیں جس کی وجہ سے پیداوار بھی کم ہو سکتی ہے اور یوں بے روزگاری میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن چین میں ایسا نہیں ہوا۔ چین میں جب معیشت کووڈ کی وبا سے باہر آئی تو اس نے کچھ عرصے تک تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی، لیکن پھر چیزوں کی مانگ میں اضافہ ہوتا نظر نہیں آیا۔ فروری 2021 میں کنزیومر انڈیکس گر گیا۔ ڈیمانڈ گرتی رہی اور رواں سال کے آغاز تک حالات اتنے خراب ہو گئے کہ کمپنیوں کے لیے پیداواری لاگت بھی پوری کرنا مشکل ہو گیا۔ وہ کہتے ہیں: ’ابھی ہم چین میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ اسی کا اثر ہے۔ کم قیمتوں سے وہاں کے صارفین کے لیے سامان سستا ہو جائے گا اور گھریلو کھپت بڑھے گی۔ اگر گھریلو کھپت میں اضافہ رُک جاتا ہے، تو تفریط زر اس سے نمٹنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔ دوسری جانب پروفیسر فیصل احمد کا کہنا ہے کہ تفریط زر کی صورتحال ایک قلیل مدتی پالیسی ہے، اگر حکومت مارچ 2024 تک صورتحال پر قابو پالتی ہے تو اس کی معیشت دوبارہ پٹری پر آجائے گی، اس سے پہلے ملکی کھپت بڑھے گی، جس سے طلب بڑھے گی، پیداوار متاثر ہوگی اور بے روزگاری کم ہوگی، جس کی وجہ سے اس کی برآمدات بڑھیں گی، لیکن اگر حکومت حالات پر قابو نہ پا سکی تو اس سے نہ صرف چین کی مشکلات بڑھیں گی، بلکہ حالات مزید خراب ہوں گے۔ ان ممالک میں بھی حالات خراب ہوں گے جو چین سے درآمد کرتے ہیں۔' دوسرے ممالک کی بات کریں تو چین ایسی بہت سی چیزیں تیار کرتا ہے جسے وہ پوری دنیا میں فروخت کرتا ہے۔ اگر چین میں چیزوں کی قیمتیں نیچے آتی ہیں تو یہ برطانیہ جیسے ممالک کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے جو چین سے اشیا خریدتے ہیں کیونکہ اس سے ان کا درآمدی بل کم ہو جائے گا۔ لیکن اس سے دوسرے ممالک کے پروڈیوسرز پر منفی اثر پڑے گا اور وہ چین کی سستی اشیا کے مقابلے میں اپنا سامان فروخت نہیں کر سکیں گے۔ اس سے ان ممالک میں سرمایہ کاری کم ہو سکتی ہے اور بے روزگاری بڑھ سکتی ہے۔ چین یہ بھی جانتا ہے کہ اس وقت بہت سے ممالک اسے پیداوار کے مرکز کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے، اس لیے وہ ایسی پالیسی چاہتا ہے کہ جس کے ذریعے وہ چین میں پیداواری لاگت کو اتنا کم کردے کہ دوسرے ممالک اپنے یہاں پیداوار کے بجائے چین سے مصنوعات کی درآمد کو سستا سمجھیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pn4d8704po", "summary": "گذشتہ ڈیڑھ سال کی حکومت کے بعد ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے اور معیشت کو واپس پٹڑی پر لانے کے دعوے کیے گئے ہیں تاہم دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور دوسرے معاشی اشاریے بھی گراوٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔ ", "title": "وزیراعظم شہباز شریف کے دورِ حکومت میں کتنی مہنگائی ہوئی اور پاکستان کی معاشی کارکردگی کیسی رہی؟", "firstPublished": "2023-08-11T03:16:36.396Z", "id": "c6pn4d8704po", "article": "گذشتہ ڈیڑھ سال کی حکومت کے بعد ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے اور معیشت کو واپس پٹڑی پر لانے کے دعوے کیے گئے ہیں تاہم دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور دوسرے معاشی اشاریے بھی گراوٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔ تاہم پروگرام میں بحالی میں تاخیر کی وجہ سے پاکستانی روپے پر بے پناہ دباؤ بڑھا اور ملک میں بیرونی ذرائع سے ڈالر کے ذرائع سکڑے تو ڈالر کی قلت پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے درآمد کے لیے ایل سیز نہ کھل پائیں تو دوسری جانب ڈالر بھی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے اختتام پر پاکستان میں مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد تھی جو موجودہ حکومت کے دور میں جولائی کے مہینے کے اختتام پر 28.3 فیصد پر بند ہوئی ہے۔ مخلوط حکومت کے ڈیڑھ سالہ دور میں مہنگائی کی شرح ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر رواں سال مئی میں 38 فیصد تک بھی پہنچی۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح اور روز مرہ اشیا کی قیمتوں میں ہونے والے بڑے اضافے کی وجہ ڈیڑھ سال کے دوران معیشت سے جڑے مسائل ہیں۔ ملک میں ڈالر کی کمی کی وجہ سے دالوں، گھی، گندم اور دوسری اشیائے خورد و نوش کے درآمدی کارگوز کی کلیئرنس دیر سے ہوئی یا پھر ہو ہی نہیں سکی جس کی وجہ سے سپلائی چین میں تعطل آیا اور دوسری طرف ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ان کی درآمد پر لاگت بھی بڑھی کیونکہ پاکستان خوردنی اشیا یا ان کی تیاری مین استعمال ہونے والے خام مال کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔ ترسیلات زر میں ہونے والی کمی کے بارے میں تحریک انصاف کی جانب سے دعوے کئے گئے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو موجودہ حکومت پر اعتماد نہیں تاہم اس کی کچھ دوسری بنیادی وجوہات ہیں جن میں ایک سب سے بڑی وجہ ملک میں ڈالر کے سرکاری اور اوپن ریٹ کے درمیان بہت زیادہ فرق رہا ہے جس کی وجہ سے بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے سرکاری چینل کی بجائے حوالہ ہنڈی کے ذریعے رقوم بھیجی گئیں کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام سے پہلے سرکاری اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے ریٹ میں بیس سے پچیس روپے کا فرق رہا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس وصولی کا زیادہ ہدف آئی ایم ایف شرائط کے تحت رکھا گیا تاکہ ملک کے بجٹ خسارے کو کم کیا جا سکے تاہم اس ٹیکس وصولی کے لیے حکومت کی جانب ایک جانب تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی تو دوسری جانب سیلز ٹیکس کی شرح سترہ سے اٹھارہ فیصد اور لگژری اشیا پر اس کی شرح 25 فیصد کر دی گئی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cld94z37ld6o", "summary": " کچھ لوگ نوکری شروع کرنے کے کچھ دن بعد ہی اسے چھوڑنے کا انتخاب کر رہے ہیں۔ وہ ایسی ملازمتیں چھوڑ رہے ہیں جس سے وہ ناخوش ہیں اور وہ بھی محض ہفتوں یا چند دنوں کے بعد۔", "title": "ملازمت کے دوران ’ریڈ فلیگ‘ نظر آئیں تو کیا فوراً استعفیٰ دے دینا ہی درست فیصلہ ہے؟", "firstPublished": "2023-08-10T07:54:39.158Z", "id": "cld94z37ld6o", "article": "ایسے میں کچھ لوگ نوکری چھوڑ کر فوراً نکلنے کا انتخاب کر رہے ہیں۔ وہ ایسی ملازمتیں چھوڑ رہے ہیں جس سے وہ ناخوش ہیں اور وہ بھی محض ہفتوں یا چند دنوں کے بعد۔ موشے جوہن کہتے ہیں کہ ’کارپوریشنز اب اپنے لوگوں کا دھیان نہیں رکھ رہیں۔ ملازمین اپنے آپ کو عارضی اور کسی بھی وقت فارغ کیے جانے والی چیز محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے وہ کسی ملازمت دینے والے سے وابستگی کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتے۔‘ وہ لیبر مارکیٹ میں ہونے والی تبدیلیوں کی طرف روشنی ڈالتے ہیں جس میں کمپنیوں نے ملازمت کی پیشکشوں کو منسوخ یا موخر کر دیا۔ برطرفیاں کافی عام ہیں اور کمپنیاں ہمیشہ اپنے ملازمین سے کیے گئے وعدوں پر عمل نہیں کرتیں۔ کچھ ملازمین نے ان حالات کے خلاف مزاحمت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ اگر ان کی ملازمت ان کی اپنی مدد نہیں کر رہی، یا ویسی نہیں جیسا وہ توقع کر رہے تھے یا وہاں کے ماحول سے انھیں اچھا محسوس نہیں ہو رہا تو وہ اسے جلدی چھوڑنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ غیر یقینی معاشی صورتحال کی وجہ سے کچھ شعبوں میں ملازمت کے مواقع کم ہونا شروع ہو گئے ہیں، کچھ کمپنیاں اب بھی ملازمین کی کمی سے دوچار ہیں اور بہت سے ملازمین کا پلڑا بھاری ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ریڈ فلیگ (پریشان کن عندیے) واضح یا باریک ہو سکتے ہیں۔ کئی بار یہ واضح ہوتے ہیں جیسے کسی غیر فعال ٹیم کی وجہ سے پروجیکٹ کا ناکام ہو جانا لیکن دوسری صورتحال میں یہ بہت زیادہ واضح نہیں ہوتے جیسے کسی شخص کی اقدار اور کمپنی کے کاروبار کرنے کے طریقے کے درمیان تضاد ہونا۔ بوبی تھامسن کا کہنا ہے کہ اگر ملازمین دیکھتے ہیں کہ کمپنی کا منفی کلچر بہت گہرا ہے اور ان کے پاس سٹیٹس کو کو چیلنج کرنے کی طاقت، توانائی یا خواہش کی کمی ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ جتنی جلدی ہو سکے ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’میں اس بارے میں گھبراتی تھی کہ آیا میں کچھ تلاش کر سکوں گی لیکن میں یہ بھی جانتی تھی کہ میں مزید ایک اور دن اپنی پرانی کمپنی میں نہیں رہ سکتی،‘ بوبی تھامسن اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ وہ ملازمین کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ اپنے عہدوں کی نوعیت کو تبدیل کرنے اور تنظیم میں لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اعلیٰ افسران کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کر کے اپنے حالات کو بدلنے کے ممکنہ طریقوں پر غور کریں۔ اس کے باوجود بوبی تھامسن یہ بھی کہتی ہیں کہ وہ لوگوں کی ’چھٹی حس‘ پر بھروسہ کرنے میں بہت زیادہ یقین رکھتی ہیں، خاص طور پر جب انھوں نے نوکری چھوڑنے کے ممکنہ نتائج کے بارے میں سوچ لیا ہو۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyjgkm892n8o", "summary": "بہت سے ممالک میں وبائی امراض کی وجہ سے جو سرکاری خزانے پر بوجھ پڑا اس کے بعد بہت ساری دوسری حکومتیں ڈبلن کو حسد کی نگاہ سے دیکھ سکتی ہیں۔ مگر یہ اتنا پیسہ خزانے میں آیا کہاں سے ہے؟", "title": "آئرلینڈ: وہ چھوٹا سا ملک جس کے لیے ’اضافی کیش‘ درد سر بن گیا، مگر اتنا پیسہ اس کے پاس آیا کہاں سے؟ ", "firstPublished": "2023-08-08T12:52:42.888Z", "id": "cyjgkm892n8o", "article": "کارپوریشن ٹیکس کی خطیر آمدنی، جو بنیادی طور پر عالمی ٹیکنالوجی اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے ذریعے حاصل ہوتی ہے وہ سرکاری خزانے کو بھرے جا رہی ہے۔ بہت سے ممالک میں وبائی امراض کی وجہ سے جو سرکاری خزانے پر بوجھ پڑا اس کے بعد بہت ساری دوسری حکومتیں ڈبلن کو حسد کی نگاہ سے دیکھ سکتی ہیں۔ پروفیسر بیرٹ کے مطابق اس چیز نے آئرلینڈ کو ایک ’آؤٹ لیئر‘ (منفرد یا نمایاں) بنا دیا ہے کیونکہ انھوں نے نشاندہی کی ہے کہ جمہوریہ آئرلینڈ میں ٹیکس ریونیو کا 25 فیصد سے زیادہ کارپوریشن ٹیکس سے آتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں یہ پورے یورپ میں اوسطاً 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ ریاستی خزانے میں آنے والے اربوں یورو کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’یہ ہماری جیبوں میں نہیں ہیں۔ ہم پر مہنگائی کا بوجھ پڑ رہا ہے، ہم توانائی کے بلوں میں اضافے اور زیادہ کرایوں کو محسوس کرتے ہیں۔ یہاں امیر اور غریب کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔‘ یہ یورپی یونین کے شماریاتی ادارے یوروسٹیٹ کے ذریعہ کیے گئے 40 سے زیادہ مقامات کے مطالعے میں جنیوا اور لندن کے بعد یورپ میں تیسرے نمبر پر ہے۔ لورا مرفی نے ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے اور وہ فنانس انڈسٹری میں کام کرتی ہیں۔ لیکن وہ نوجوان پیشہ ور افراد کی اس نسل سے آتی ہیں جو پراپرٹی مارکیٹ سے خود کو باہر محسوس کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ انھوں نے اوسط سے کم قیمت پر ایک بیڈروم کی پراپرٹی حاصل کی لیکن انھیں یہ بھی لگتا ہے کہ اپنا گھر ہونا ’مختصر مدت میں غیر حقیقی‘ ہے۔ ’آپ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں آپ سوچتے ہیں کہ کیا میں پانچ سے 10 سال تک اپنے پاس موجود ہر ایک پیسہ کو (مکان) ڈپازٹ کے لیے بچانے جا رہی ہوں، یا کیا میں چھٹیاں گزارنے جا رہی ہوں؟‘ اس حوالے سے عالمی سطح پر اختیار کی جانے والی حکمت عملی کی بہترین مثال ناروے ہے، جہاں حکومت نے تیل کی آمدنی کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ان کے مطابق ’اب ہم اس پوزیشن میں ہیں جہاں ہمارے پاس اربوں یوروز ہیں حالانکہ یقیناً مطالبات ہمیشہ اس رقم سے زیادہ ہوتے ہیں جو ہمارے پاس خزانے میں خرچ کرنے کے لیے موجود ہوتی ہے۔‘ وزرا اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ہاؤسنگ کے بحران سے نمٹنے کے لیے پہلے ہی قابل ذکر رقم کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ بائیں بازو کی سن فین پارٹی فی الحال مقبول سمجھی جاتی ہے۔ آئرلینڈ کی بھاگ ڈور سنبھالنے کی دوڑ میں یہ بحث مرکزی حیثیت اختیار کر جائے گی کہ اس وقت خزانے میں پڑے اربوں یوروز سے متعلق کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cpez2y0e41jo", "summary": "پاکستان اور چین کی اقتصادی راہداری کی ابتدا بہت دھوم دھام سے ہوئی تھی لیکن پھر یکایک ان منصوبوں کی ڈیڈ لائن مِس ہونے لگیں اور ان منصوبوں کی اہمیت پر سوالات بھی ہونے لگے۔ ", "title": "سی پیک کے 10 سال: ’گیم چینجر‘ تصور کی جانے والی اقتصادی راہداری سے پاکستان نے کیا کھویا کیا پایا؟", "firstPublished": "2023-08-05T03:38:49.906Z", "id": "cpez2y0e41jo", "article": "چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کے 10 سال مکمل ہونے پر اسلام آباد میں عام تعطیل کے اعلان کے ساتھ ساتھ خصوصی تقریبات کا بھی انعقاد کیا گیا۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی ابتدا تو بہت دھوم دھام سے ہوئی تھی اور اسے پاکستان کے لیے ’گیمر چینجر‘ قرار دیا جا رہا تھا لیکن پھر یکایک ان منصوبوں کی ڈیڈ لائن مِس ہونے لگیں اور ان منصوبوں کی اہمیت پر سوالات بھی ہونے لگے۔ واضح رہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت چین پاکستان میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کے تحت سڑکیں، زراعت، بجلی اور پانی کے منصوبوں پر کام ہو گا۔ پاکستان اور چین کی اقتصادی راہداری کی ابتدا بہت دھوم دھام سے ہوئی تھی لیکن پھر یکایک ان منصوبوں کی ڈیڈ لائن مِس ہونے لگیں اور ان منصوبوں کی اہمیت پر سوالات ہونے لگے۔ ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی چینی کمپنی ’چائنا تھری گورجس ساؤتھ ایشیا انوسٹمنٹ لمیٹڈ‘ کی رپورٹ کے مطابق مکمل ہونے والے منصوبوں میں 11 کا تعلق توانائی کے شعبے سے ہے اور سات پراجیکٹ پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کی بہتری لانے کے لیے تھے۔ ان منصوبوں کی تکمیل میں ہونے والی تاخیر سے انکار تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اس تاخیر نے ایک وقت میں سیاسی شکل بھی اختیار کی۔ سی پیک کے بارے میں ’گیم چینجر‘، ’فیٹ چینجر‘ جیسے الفاظ کئی بار استعمال کیے گئے لیکن اس بارے میں سرگودھا یونیورسٹی میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف چائنا سٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فضل الرحمان نے کہا کہ ’سی پیک کو بہت سیاسی بنا دیا گیا۔ اس سے کئی زیادہ امیدیں کی جا رہی ہیں اور منصوبوں میں تاخیر کے باعث کہا جاتا ہے کہ سی پیک اس طرح کار آمد ثابت نہیں ہو پا رہا جتنا سوچا تھا۔‘ ایک حکومتی ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان نے ’پچھلے دورِ حکومت میں ان منصوبوں پر جلدی کام کیا گیا جن پر قرضہ کم لگا۔ ایک عام تاثر یہی ہے کہ سی پیک منصوبے ترقی کے لیے بہت اچھے ہیں لیکن ان سے قرض میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔‘ ترجمان نے کہا کہ سڑکوں اور ہائی وے بنانے پر قرض کی شرح نہیں بڑھتی جس کے وجہ سے ان منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق اس کے علاوہ تھر کوئلے کے منصوبہ جس رفتار سے پہلے چل رہے تھے اب بھی ویسے ہی چل رہے ہیں لیکن دوسری جانب توانائی کے شعبے میں قرض کی شرح محدود کرنے کے لیے ان منصوبوں کو روکا جا رہا ہے یا اس رفتار کے ساتھ عمل میں نہیں لایا جا رہا جیسا کہ حکومتی دعوے کیے جا رہے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2xkjd35d3o", "summary": "پاکستان سٹاک مارکیٹ میں گذشتہ کئی ہفتوں سے تیزی کا رجحان جاری ہے اور جمعرات کے روز سٹاک مارکیٹ کا انڈیکس 49000 پوائنٹس کی سطح کو عبور کر گیا جو گذشتہ چھ سال کی مدت میں بلند ترین ہے۔ مگر وہ کون سی کمپنیاں اور شعبے ہیں جن میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے اور کیوں؟", "title": "پاکستان میں کمزور معاشی حالات کے باوجود سٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ تیزی کی وجوہات کیا ہیں؟", "firstPublished": "2023-08-04T03:01:29.488Z", "id": "cv2xkjd35d3o", "article": "ارسلان کے مطابق وہ اپنے کلائنٹس کی سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے رہنمائی کرتے ہیں اور ایسی کمپنیوں کے حصص خریدنے کے لیے انھیں مشورے دیتے ہیں، جہاں سے نفع ملے۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ میں گذشتہ کئی ہفتوں سے تیزی کا رجحان جاری ہے اور جمعرات کے روز سٹاک مارکیٹ کا انڈیکس 49000 پوائنٹس کی سطح کو عبور کر گیا جو گذشتہ چھ سال کی مدت میں بلند ترین سطح ہے۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ میں صرف پانچ ہفتوں میں انڈیکس میں 8000 پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ جون کے مہینے کے اختتام پر انڈیکس 41000 کی سطح پر ٹریڈ کر رہا تھا جو تین اگست 2023 کو 49000 کی سطح سے اوپر چلا گیا۔ تو سوال یہ ہے کہ ان حالات میں سٹاک مارکیٹ میں ہونے والا تاریخی اضافہ مستقبل میں معیشت کی تیزی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور وہ کون سے شعبے ہیں جو سٹاک مارکیٹ کو اوپر لے جا رہے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ بینکوں نے ڈالر اور روپے دونوں صورتوں میں زیادہ کمایا۔ ان کے مطابق سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود زیادہ ہے جس کی وجہ سے بینکوں میں زیادہ پیسہ جا رہا ہے جو ان کے منافع میں اضافہ کر رہا ہے۔ اسی طرح تیل و گیس کے شعبے کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی اطلاعات آ رہی ہیں جیسا کہ حکومت نے ایک ساورن فنڈ (خودمختار فنڈ) بھی قائم کیا، جو تیل و گیس کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری سے متعلق ہے جس نے اس شعبے میں سرمایہ کاری کے رجحان کو بڑھایا ہے۔ محمد رمیز کے مطابق گیس کمپنیوں کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ گیس کے نرخ بڑھائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے حصص میں تیزی آئی ہے۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے گیس شعبے میں گردشی قرضے کو ختم کرنے کے بارے میں بھی خبریں آ رہی ہیں جو اس شعبے کی کمپنیوں کے لیے اچھا ہے۔ ان میں سے بہت ساری کمپنیاں سٹاک مارکیٹ پر لسٹڈ ہیں اور ان کی جانب سے وقتاً فوقتاً قانون کے تحت سٹاک مارکیٹ کو بھی مطلع کیا جا تا رہا کہ پلانٹس بند کر دیے گئے یا ان میں پیداواری عمل عارضی طور پر بند کر دیا گیا۔ محمد رمیز نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات صحیح ہے کہ صنعتی شعبے کے حالات میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی تاہم اگر او جی ڈی سی ایل یا پی پی ایل جیسی کمپنیوں کے حصص میں خریداری ہو رہی ہے تو وہ ایک امید پر ہو رہی ہے کہ ان کمپنیوں کے حالات بہتر ہو جائیں گے جیسا کہ ان میں سرمایہ کاری کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ ملک کی صنعتی پیداوار میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔ پاکستان کی برآمدات میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے تو دوسری جانب ملک کے صنعتی شعبے میں کوئی خاص سرمایہ کاری ریکارڈ نہیں کی گئی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw5r62lzpypo", "summary": "مقامی قیمتوں کو بڑھنے سے روکنے کے لیے انڈیا نے سفید چاول کی برآمدات پر پابندی لگا دی ہے۔ اس اعلان کے بعد امریکہ اور کینیڈا میں انڈین دکانوں پر گھبراہٹ میں خریداری اور خالی شیلفوں کی خبریں اور ویڈیوز سامنے آئیں۔", "title": "کیا انڈیا کی چاول کی برآمد پر پابندی خوراک کے بحران کو جنم دے سکتی ہے؟", "firstPublished": "2023-08-03T10:21:04.742Z", "id": "cw5r62lzpypo", "article": "مقامی قیمتوں کو بڑھنے سے روکنے کے لیے انڈیا نے 20 جولائی سے نان باسمتی سفید چاول کی برآمدات پر پابندی لگا دی ہے۔ اس اعلان کے بعد امریکہ اور کینیڈا میں انڈین دکانوں پر گھبراہٹ میں خریداری اور خالی شیلفوں کی خبریں اور ویڈیوز سامنے آئیں۔ اس وجہ سے چاول کی قیمت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ انڈیا چاول برآمد کرنے والے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق عالمی سطح پر چاول کی تجارت میں 40 فیصد حصہ انڈیا کا ہے۔ باقی ملکوں میں تھائی لینڈ، ویتنام، پاکستان اور امریکہ شامل ہیں۔ انڈیا کی برآمدات پر پابندی کے بعد کینیڈا میں ایک گروسری سٹور نے چاول کے ایک بیگ کو ایک فیملی تک محدود کر دیا عالمی تجارت میں انڈیکا سفید چاول کا سب سے بڑا حصہ ہے جو 70 فیصد ہے۔ انڈیا نے اب اس کی برآمد روک دی ہے۔ اس سے پہلے گذشتہ سال انڈیا نے ٹوٹے ہوئے چاول کی برآمدات پر پابندی لگا دی تھی اور باسمتی کے علاوہ باقی چاول کی برآمدات پر 20 فیصد ڈیوٹی لگا دی۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے چیف اکانومسٹ پیئر اولیور گورنچاس کا خیال ہے کہ اس پابندی کی وجہ سے اس سال عالمی سطح پر اناج کی قیمتوں میں 15 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت کے ادارے (ایف او اے) میں چاول کی منڈی کی تجزیہ کار شرلی مصطفیٰ نے مجھے بتایا کہ انڈیا کی طرف سے یہ پابندی مناسب وقت پر نہیں آئی۔ انڈیا میں مون سون کی بارشیں اور پاکستان میں سیلاب، جنوبی ایشیا کے خراب موسم کی وجہ سے چاول کی سپلائی متاثر ہوئی ہے۔ کھاد کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے چاول کی فصل اگانے کے خرچ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سٹریٹیجک ریزرو اور پبلک ڈسٹریبیوشن سسٹم (پی ڈی ایس) کے لیے انڈیا نے اپنے سرکاری اناج خانوں میں 41 ملین ٹن چاول زخیرہ کر رکھا ہے۔ پی ڈی ایس انڈیا کے 700 ملین سے زیادہ غریب لوگوں کو سستی خوراک کی رسائی دیتا ہے۔ انڈونیشیا نے پام آئل کی برآمدات پر پابندی لگا دی، ارجنٹائن نے گائے کے گوشت کی برآمد پر پابندی لگا دی، ترکی اور کرغزستان نے اناج کی متعدد مصنوعات پر پابندی لگا دی۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کی برآمدات پر پابندی سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ دلی میں مقیم تھنک ٹینک انڈین کونسل فار ریسرچ آن انٹرنیشنل اکنامک ریلیشنز (آئیکریئر) کے اشوک گلاٹی اور رایا داس نے خبردار کیا کہ یہ ’یقینی طور پر سفید چاول کی عالمی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنے گا اور بہت سے افریقی ممالک کے غذائی تحفظ کو بری طرح متاثر کرے گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw48xppne01o", "summary": "اس سال لیبیا اور مصر جانے والے 13 ہزار پاکستانیوں میں سے زیادہ تر واپس نہیں آ سکے۔ ان میں دو نوجوان بھی شامل تھے جن کا اپنی والدہ کو آخری پیغام یہ تھا کہ وہ فکر نہ کریں۔", "title": "پاکستانی شہری یورپ جانے کے لیے لیبیا کا خطرناک راستہ کیوں استعمال کر رہے ہیں؟", "firstPublished": "2023-08-01T12:31:39.224Z", "id": "cw48xppne01o", "article": "اس سال لیبیا اور مصر جانے والے 13 ہزار پاکستانیوں میں سے زیادہ تر واپس نہیں آ سکے۔ ان میں دو بھائی بھی شامل تھے جن کا اپنی والدہ کو آخری پیغام یہ تھا کہ وہ فکر نہ کریں۔ یہ کشتی لیبیا سے یونان جا رہی تھی جب 14 جون کو حادثے کا شکار ہو گئی۔ اس واقعے میں کشتی پر سوار 300 پاکستانی لاپتہ ہیں اور خدشہ ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ سال 2023 کے پہلے چھ ماہ میں تقریباً 13 ہزار لوگ پاکستان سے لیبیا اور مصر گئے جبکہ سال 2022 میں تقریباً 7 ہزار لوگ گئے تھے۔ ان 13 ہزار میں سے 10 ہزار واپس نہیں آئے۔ پاکستان غیر قانونی تارکین وطن کو روکنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اسلم شنواری مجھے بتاتے ہیں کہ اس خطرے سے کہ لوگ سمگلنگ کا شکار نہ ہوں انھوں نے 10 ہزار لوگوں کو بیرون ملک جانے سے روکا اور 20 ہزار پاکستانیوں کو واپس بلوایا۔ صورتحال کافی پیچیدہ ہے۔ ان کے اہلخانہ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کو سمگلرز نے روک کر رکھا ہوا ہے یا لیبیا کے حکام نے یا کسی اور نے۔ انھوں نے ہمیں اپنی شناخت اس ڈر سے چھپانے کا کہا ہے کہ کہیں ان سے بدلا لینے کے لیے ان کے پیاروں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ ان حالات میں بھی خاندان والے اس بارے میں متفق نہیں کہ اب وہ آگے کیا چاہتے ہیں۔ ابتدا میں جب ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا وہ چاہتے ہیں کہ ان نوجوانوں کو بحفاظت یورپ تک کا سفر کرنے دیا جائے لیکن بعد میں انھوں نے کہا وہ چاہتے ہیں ان کے نوجوان واپس گھر آ جائیں۔ کچھ تو سماجی دباؤ کی بھی بات کرتے ہیں۔ ایک شخص نے بتایا کہ ان کے زیادہ تر کزنز اور بھائی اس سفر میں کامیاب رہے اور اب سماجی تقریبات میں ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ وہ کیوں نہیں گئے۔ ان کے پاس بچوں کی ویڈیوز ہیں جن میں وہ جہاز پر بورڈنگ کرتے ہوئے پرجوش ہیں۔ ان کہ پاس لیبیا کے سیف ہاؤس کی ویڈیو بھی ہے جس میں درجنوں لڑکوں اور نوجوانوں کو فرش پر سویا دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد کسی اور کے موبائل فون سے صبح کے 4 بجے ان کا وائس نوٹ آتا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں ’ہم نکل رہے ہیں، والدہ کو بتائیں یہ ہمارا آخری پیغام ہے۔‘ اس کے بعد گھر والوں کو بچوں کی طرف سے کوئی پیغام نہیں ملتا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ 14 جون کو یونان کے قریب دونوں ڈوب گئے ہیں۔ ان کی عمر 18 اور 15 سال تھی۔ ان کے والدین کو شاید دفنانے کے لیے ان کی لاشیں نہیں ملیں گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2d8kyyz7jo", "summary": "بدھ کے دن دلی میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک تقریب کے دوران اعلان کیا کہ ان کی حکومت کے تیسرے دور میں انڈیا دنیا کی تین بڑی معیشتوں میں شامل ہو جائے گا۔", "title": "مودی تیسرے دور حکومت میں انڈیا کو دنیا کی تیسری بڑی معیشت بنانے کی گارنٹی کیسے دے رہے ہیں؟", "firstPublished": "2023-07-31T05:40:08.087Z", "id": "cv2d8kyyz7jo", "article": "بدھ کے دن دلی میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک تقریب کے دوران اعلان کیا کہ ان کی حکومت کے تیسرے دور میں انڈیا دنیا کی تین بڑی معیشتوں میں شامل ہو جائے گا۔ ایسے میں اگر مودی 2024 میں ہونے والے عام انتخابات جیت کر پھر وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو ان کی حکومت کے پاس 2029 تک کا وقت ہوگا۔ تاہم نریندر مودی کے اس اعلان پر طنز کرتے ہوئے کانگریس پارٹی نے کہا ہے کہ ’حکومت بہت چالاکی سے وہ ریکارڈ بنانے کی گارنٹی دیتی ہے جو پہلے سے طے شدہ ہیں۔‘ کانگریس لیڈر جئے رام رمیش نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ’اس دہائی میں انڈیا کے دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر ابھرنے کی پیشگوئی طویل عرصے سے کی جا رہی ہے اور اس کی ضمانت دی گئی ہے - جو بھی اگلی حکومت بنائے گا۔‘ واضح رہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بھی گزشتہ سال اکتوبر میں اندازہ لگایا تھا کہ انڈیا سال 2027-28 تک دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی فرم مورگن اسٹینلے نے بھی گزشتہ سال اندازہ لگایا تھا کہ 2027 تک انڈیا امریکہ اور چین کے بعد دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔ مودی کے دور حکومت میں انڈیا کی معیشت دنیا کی 10ویں سب سے بڑی معیشت سے پانچویں سب سے بڑی معیشت بنی لیکن اس کی وجہ کیا ہے؟ تاہم کانگریس کے دور حکومت یعنی 2010 میں سب سے زیادہ جی ڈی پی کی شرح نمو 8.5 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ کورونا وبا کے دور میں، دنیا کی تمام معیشتوں کی طرح، انڈیا میں بھی ترقی کے بجائے تنزلی ہوئی۔ دوسری جانب ان نو سال میں امریکی جی ڈی پی میں شرح نمو 54 فیصد رہی لیکن ان تین معیشتوں کو چھوڑ کر جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل کچھ ممالک کی جی ڈی پی میں شرح نمو میں کمی آئی ہے یا اضافہ نہیں ہوا۔ اس دور میں انڈیا پانچ ممالک کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیا۔ ان میں سے برطانیہ، فرانس اور روس کی جی ڈی پی میں اضافے کی شرح بالترتیب تین، دو اور ایک فیصد رہی۔ اگر انڈیا کا جی ڈی پی 6-7 فیصد کی موجودہ اوسط شرح سے بڑھتا رہا تو یہ 2027 تک جرمنی اور جاپان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گی کیونکہ ان ممالک کے لیے 6-7 فیصد کی شرح نمو حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ جرمنی اور جاپان کی شرح نمو بالترتیب صرف 2.5 اور 1.5 فیصد ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nvjq2we51o", "summary": "جب تک ہم اپنے سرمایہ داروں کو شہزادہ بنا کر رکھیں گے کوئی ترغیب کام نہیں آئے گی۔ ان کا ایک ہاتھ کریڈٹ کام گھماتا رہے گا اور دوسرا سرکاری خزانے سے اپنا خرچ وصول کرتا رہے گا۔", "title": "پاکستان کے ٹیکس فری شہزادے: محمد حنیف کا کالم", "firstPublished": "2023-07-27T04:23:32.878Z", "id": "c4nvjq2we51o", "article": "ایک نیم ریٹائرڈ صحافی دوست ہیں وہ ہم صحافیوں کی طرح اخبار پہلے صفحے سے نہیں پڑھتے بلکہ اخبار کا بزنس سیکشن نکال کر پڑھنا شروع کرتے ہیں۔ بین الاقوامی اخباروں میں بھی صرف وال سٹریٹ جنرل اور فنانشل ٹائمز کو مستند سمجھتے ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ سیاست اور طاقت کے کھیل کو ہم نے خواہ مخواہ گورکھ دھندا بنایا ہوا ہے حالانکہ یہ صرف ایک دھندہ ہے۔ اپنے ایک تازہ دردمندانہ مضمون میں انھوں نے اعداد و شمار کا کچھ انبار سا لگایا ہے اور پھر ملک کو اس معاشی اندھے کنویں سے نکالنے کے لیے کچھ تجاویز پیش کی ہیں۔ مضمون کا نام انھوں نے رکھا ہے دیوالیہ دیس کے شہزادے۔ انھوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں 26 ہزار سے زیادہ شہزادے ایسے ہیں جن کے پاس ایک ملین ڈالر سے زیادہ پیسے ہیں اور پھر پوچھنا یہ ہے کہ ان میں سے کتنے ٹیکس دیتے ہیں۔ پھر بتایا ہے کہ پاکستانی امارات میں بڑے بڑے پراپرٹی انویسٹر ہیں، اس پر کوئی ٹیکس کیوں نہیں لگ سکتا؟ ہماری اتنی بڑی معیشیت کہ ہم ایک ہاتھ سے کریڈٹ کارڈ گھما کر چار ارب ڈالر خرچ کر دیں اور دوسرا ہاتھ تین ارب ڈالر کے لیے صبح شام پھیلائے رکھیں؟ کیا ہمارے گلشن کا کاروبار صرف اتنی چھوٹی سی رقم کا محتاج ہے؟ بزنس کے صفحات سے دن کا آغاز کرنے والے میرے دوست نے یاد کرایا کہ نہیں ان تین ارب ڈالر سے ہمارا گزارا نہیں ہوگا، اس سے ہم صرف اپنا پرانا سود چکائیں گے اور پھر نئے قرضے لیں گے اور شاید ہماری ساکھ تھوڑی بہتر ہو، کہ ہو سکتا ہے ہم لگتے دیوالیہ ہیں لیکن ہیں نہیں۔ ہر حکومت کوئی نہ کوئی ایمنسٹی سکیم جاری کرتی رہی ہے کہ ہمیں کچھ تھوڑا سا ٹیکس دے دو گے تو ہم نہیں پوچھیں گے کہ آپ کے پاس آخر سرمایہ ہے کتنا اور کہاں سے آیا ہے۔ ان سکیموں کے نتیجے میں سرکار کے خزانے میں کچھ آیا ہو نہ ہو ہمارے شہزادوں کے کریڈٹ کارڈ کچھ تیزی سے گھومتے رہے ہیں۔ میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ اگر اس طرح کی ترغیبات پہلے کام نہیں آئیں تو اب کیوں آئیں گی؟ انھوں نے فرمایا کہ اب کوئی چارہ نہیں اور مجھے ملکی قرضوں اور گردشی قرضوں کے ایسے اعداد و شمار بتائے جو میرے چھوٹے دماغ میں سما بھی نہ سکے۔ ٹیکس دینا رعایا کا کام ہے اور وہ ٹیکس ریاست مزدور کی جیب سے نکال بھی لیتی ہے۔ جب تک ہم اپنے سرمایہ داروں کو شہزادہ بنا کر رکھیں گے کوئی ترغیب کام نہیں آئے گی۔ ان کا ایک ہاتھ کریڈٹ کام گھماتا رہے گا اور دوسرا سرکاری خزانے سے اپنا خرچ وصول کرتا رہے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckrj341715mo", "summary": "چار دہائیوں کی سب سے بلند سطح کو چھونے کے بعد امریکہ میں گزشتہ سال مہنگائی نو اعشاریہ ایک سے کم ہوتی ہوئی جون کے مہینے میں تین فیصد پر آ چکی تھی۔", "title": "امریکہ نے مہنگائی کی 40 سالہ ریکارڈ لہر پر اتنی جلدی کیسے قابو پایا؟ ", "firstPublished": "2023-07-22T15:44:49.928Z", "id": "ckrj341715mo", "article": "چار دہائیوں کی سب سے بلند سطح کو چھونے کے بعد امریکہ میں گذشتہ سال مہنگائی نو اعشاریہ ایک سے کم ہوتی ہوئی جون کے مہینے میں تین فیصد پر آ چکی تھی۔ جی سیون میں شامل دنیا کے دیگر امیر ممالک جن میں جرمنی، برطانیہ، فرانس، اٹلی، کینیڈا اور جاپان شامل ہیں، سے موازنہ کیا جائے تو امریکہ میں مہنگائی کی شرح میں ریکارڈ اضافے کے بعد ہونے والی کمی سب سے تیز تر تھی۔ امریکہ بھی یورپ کی طرح ہی یوکرین کی جنگ سے متاثر ہوا تھا تاہم یورپ کے روس پر انحصار کی وجہ سے توانائی بحران کافی شدت اختیار کر گیا تھا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ، جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، کو مہنگائی کا دباؤ کم کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔ تاہم ماہر معیشت وینڈی ایڈلبرگ کا کہنا ہے کہ امریکہ کی کامیابی کا راستہ کافی پیچیدہ تھا۔ امریکی فیڈرل ریزرو بینک، جو مرکزی بینک ہے، کی جانب سے بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں متواتر اضافے کی پالیسی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ اس پالیسی کی وجہ سے مکان یا گاڑی خریدنا یا کسی نئے انوسٹمنٹ منصوبے کے لیے قرض لینا پہلے سے زیادہ مہنگا ہو گیا جسے عوام کی جانب سے پیسہ خرچ کرنے کی روش پر بریک لگانے سے تعبیر کیا گیا تاکہ مہنگائی میں اضافے کے رجحان کو روکا جا سکے۔ امریکہ میں افراط زر میں کمی کی ایک وجہ دستیاب مصنوعات کی فراہمی میں تعطل کا خاتمہ بھی ہے۔ ڈیوڈ ولکوکس کا کہنا ہے کہ کوورنا کی وبا کے بعد اس تعطل کی وجہ سے کافی مسائل پیدا ہوئے تھے۔ ان کے مطابق یہ ایک ’کنٹینر بحران‘ تھا جس میں مصنوعات کی قلت پیدا ہوئی اور شپنگ کی لاگت میں اضافہ ہوا لیکن رفتہ رفتہ یہ مسئلہ حل ہونا شروع ہو گیا۔ لیکن امریکہ کو اس بات کا فائدہ ہوا کہ وہ توانائی کی ضروریات کے لیے روس پر اس حد تک انحصار نہیں کرتا جتنا یورپ کرتا ہے۔ اسی لیے مہنگائی جنگ کے بعد فوری طور پر بڑھی لیکن پھر اسی تیزی سے کم بھی ہوئی۔ عام طور پر جب شرح سود میں اضافہ کیا جاتا ہے تو معاشی ترقی کی رفتار متاثر ہوتی ہے اور بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن حیران کن طور پر اب تک امریکہ میں ایسا نہیں ہوا جو ماہرین معیشت کے لیے ایک معمہ ہے۔ ایک ایسی لیبر مارکیٹ موجودہ حالات میں کافی حیران کن ہے جہاں وینڈی ایڈلبرگ کے مطابق کام کرنے والوں کی مانگ بڑھنے کا رجحان نظر آنا شروع ہوا ہے۔ تاہم ڈیوڈ ولکوکس کو جہاں اس بات کی امید ہے کہ کسی بڑے بحران سے ملک بچ جائے گا وہیں وہ خبردار کرتے ہیں کہ کسی حد تک معیشت کساد بازاری سے متاثر ضرور ہو گی جس کا نتیجہ بیروزگاری کی شرح میں اضافے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cmlxn0rnewjo", "summary": "پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے گذشتہ چند روز کے دوران متعدد خبریں رپورٹ کی گئی ہیں جس کے بعد سے اکثر افراد اپنے بجلی کے بلوں کو لے کر فکرمند دکھائی دے رہے ہیں۔ ", "title": "نیپرا کی بجلی کی قیمت میں اضافے کی تجویز، کیا ’پیک آورز‘ بھی بڑھیں گے؟", "firstPublished": "2023-07-17T14:14:39.239Z", "id": "cmlxn0rnewjo", "article": "پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ میں گذشتہ چند روز کے دوران بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے متعدد خبریں رپورٹ کی گئی ہیں جس کے بعد سے اکثر افراد کو فکر لاحق ہے کہ اب بل کتنے بڑھیں گے۔ سنیچر کو نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے وفاقی حکومت کو بیس ٹیرف میں چار روپے 96 پیسے اضافے کی تجویز دی تھی جس کے بعد سے تاحال اس بارے میں حکومت کی جانب سے حتمی منظوری نہیں دی گئی ہے۔ نیپرا کی تجویز کے بعد مختلف اخبارات میں ایسی خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ حکومت کی جانب سے پیک آورز میں، یعنی دن کا وہ دورانیہ جس میں بجلی کے نرخ سب سے زیادہ ہوتے ہیں، دو گھنٹوں کا اضافہ کیا جانے کا امکان ہے۔ تاہم سوشل میڈیا پر اکثر افراد کی جانب سے اس بارے میں بھی تنقید کی جا رہی ہے اور لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان مجوزہ تبدیلیوں کا ان کے بلوں پر کیا اثر پڑے گا۔ نیپرا کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافے سے فی یونٹ بنیادی ٹیرف 29 روپے 78 پیسے ہو جائے گا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نیپرا کے ڈی جی ٹیرف ساجد اکرم نے بجلی کی فروخت میں کمی اور ادائیگیوں کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت جب پاور کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کرتی ہے تو ان میں انھیں مخصوص رقم کی ادائیگی ہر صورت کرنی ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح پیداواری صلاحیت میں اضافہ بھی اس کی ایک وجہ ہے کہ اگر آپ کے سسٹم میں مزید بجلی شامل ہو رہی ہے تو ظاہر ہے آپ کو اس حوالے سے ادائیگیاں کرنی پڑیں گی۔ تاہم ڈی جی ٹیرف ساجد اکرم کا کہنا تھا کہ یہ خبریں کہاں سے پھیلی ہیں اس کا ہمیں علم نہیں ہے اور اگر حکومت کی جانب سے ایسا کوئی فیصلہ کرنے کا ارادہ ہوتا تو وہ ہمارے ساتھ کی گئی میٹنگ میں اس کا ذکر ضرور کرتے۔ اس حوالے سے اکثر افراد کی جانب سے ابھی سے ہی حکومت کے اس ممکنہ اقدام پر تنقید کی جا رہی ہے اور مہنگائی سے گھری عوام کو مزید بوجھ تلے دبانے کی بات کی جا رہی ہے۔ ’جس سے ملک میں غربت اور بیروزگاری کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بجلی کے بل میں پانچ روپے فی یونٹ اضافے کے بعد اب بجلی اوسطاً 50 روپے فی یونٹ تک پہنچ گئی ہے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ ’بجلی کا بنیادی نرخ 25 سے بڑھا کر 29 کر دیا گیا ہے۔ بیشک ہر گھر میں لیپ ٹاپ دے دیں، جس کے گھر بجلی کا بل جا رہا ہے، آٹا خرید کر کھا رہا ہے وہ انھیں الیکشن پر 440 وولٹ کا کرنٹ لگائے گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cqevyy5ygr6o", "summary": "ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے رواں ہفتے مغرب کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی لانے کے لیے ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ ترک صدر اس سیاسی حکمت عملی کے تحت ملک کے طویل اور بگڑتے معاشی بحران کے حل کی تلاش میں ہیں۔", "title": "کیا ترکی کی ابتر ہوتی معاشی صورتحال صدر اردوغان کو مغرب کی جانب دیکھنے پر مجبور کر رہی ہے؟", "firstPublished": "2023-07-17T05:44:18.740Z", "id": "cqevyy5ygr6o", "article": "ان کے رویے میں اچانک تبدیلی یہ واضح کرتی ہیں کہ نومنتخب صدر اردوغان کس قدر مغرب سے اپنے تعلقات بہتر کرنا اور بیرونی سرمایہ کاروں کو یقین دہانی کروانا چاہتے ہیں جنھوں نے حالیہ برسوں میں ترکی کے ساتھ معاشی اختلافات کے باعث وہاں سرمایہ کاری روک رکھی ہے۔ ترکی اب طویل انتظار کے بعد امریکہ سے ایف 16 لڑاکا طیارے حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے، اور صدر اردوغان کا کہنا ہے کہ برسلز، انقرہ کی طویل عرصے سے یورپی یونین میں شمولیت کی درخواست اور ویزوں کے حصول سے متعلق عمل کو آسان بنانے کے بارے میں ’مثبت‘ ہے۔ لیکن اتنی جلدی ان کے خیالات میں تبدیلی اس بات کی عکاس ہے کہ وہ امریکہ اور یورپی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو تعمیری انداز میں بہتر بنانا چاہتے ہیں جو برسوں سے ترکی میں جمہوریت کے بارے میں فکر مند ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار باتو کوشکن کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں انتخابات کے بعد صدر اردوغان روس اور مغرب دونوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں زیادہ بااعتماد ہو گئے ہیں۔‘ جہاں دنیا بھر میں ممالک کے مرکزی بینکوں نے بڑھتی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کیا گیا ہے وہیں صدر اردوغان نے اس اقتصادی رویے کی مزاحمت کرتے ہوئے دلیل دی کہ زیادہ شرح سود قیمتوں کو مزید اوپر لے جائے گی۔ اس کے برعکس انھوں نے ترکی کے مرکزی بینک پر کم شرح سود پر قرض دینے کا بوجھ ڈالا تھا۔ عوام پر مہنگائی کے اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے ترکی کے وزیر خزانہ مہمت سمسک جنھیں صدر اردوغان نے گذشتہ ماہ ہی یہ ذمہ داری دی ہے نے ملک میں ’منطقی اقتصادی پالیسی‘ کی بحالی کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ رواں برس کے پہلے پانچ ماہ کے دوران ترکی کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 37.7 ارب ڈالرز تک پہنچ گیا ہے جو کہ ایک ریکارڈ سطح ہے اور اس کا مطلب ہے ملک نے برآمدات سے کہیں زیادہ درآمدات پر خرچ کیا ہے۔ صدر اردوغان نے گذشتہ ہفتے روس کو اس وقت ناراض کر دیا تھا جب انھوں نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو اپنے پانچ کمانڈروں کے ہمراہ واپس یوکرین آنے کی اجازت دی جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ باقی جنگ کے دوران ترکی میں ہی رہیں گے۔ کریملن نے ترکی کو خبردار کرتے ہوئے یہاں تک کہا ہے کہ وہ یورپی ممالک کو مثبت نگاہ سے نہ دیکھے۔ لیکن صدر اردوغان اگست میں ولادیمیر پوتن کی میزبانی کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں، اور وہ روس کو بحیرۂ اسود کے معاہدے کو بچانے کے لیے قائل کرنے کی امید رکھتے ہیں جو اگلے ہفتے ختم ہو جائے گا اور جو یوکرین کو اناج برآمد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/pakistan-66219301", "summary": "کوئٹہ میں وکیل کے قتل کے مقدمے میں نامزدگی کے خلاف جمع کروائی گئی درخواست پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے وکیل چیئرمین پی ٹی آئی لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ریلیف لینے کے لیے درخواست گزار کو ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر عدالت کے سامنے سرنڈر کرنا ہوتا ہے۔‘", "title": "کوئٹہ میں وکیل کے قتل کے معاملے پر عمران خان سپریم کورٹ کے سامنے ذاتی حیثیت میں طلب", "firstPublished": "2023-07-17T03:06:00.000Z", "id": "ed663b41-ff7b-4ef8-a938-a6968c01a177", "article": "جسٹس یحییٰ خان آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔\n جسٹس یحیی آفریدی نے وکیل چیئرمین پی ٹی آئی لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ریلیف لینے کیلئے درخواست گزار کو ذاتی حثیت میں پیش ہو کر عدالت کے سامنے سرنڈر کرنا ہوتا ہے۔ وکیل لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ایک گھنٹے میں سپریم کورٹ آ جائیں گے جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ چئیرمین پی ٹی آئی کو آج آنے کا کہہ دیتے ہیں۔ پراسیکیوٹر جنرل بلوچستان نے جواب جمع کروانے کیلئے مہلت کی استدعا کی تو عدالت نے فریقین کو جواب جمع کروانے کیلئے مہلت دیتے ہوئے چیرمین پی ٹی آئی کو کوئٹہ وکیل قتل کیس میں 24 جولائی کو صبح دس بجے ذاتی حثیت میں طلب کر لیا۔ چیئرمین\nپی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے کوئٹہ میں وکیل کے قتل کے مقدمے میں نامزدگی کے\nخلاف جمع کروائی گئی درخواست سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے مقرر کر دی ہے۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی پیش ہوئے تو خواجہ حارث نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر دونوں کیسز پر دلائل دوں گا۔ وکلا نے طبی بنیادوں پر بشریٰ بی بی کی آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی۔ سلمان صفدر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی حاضری لگوا کر دیگر عدالتوں میں جانے کی اجازت دی جائے۔ بیرسٹر\nگوہر نے جج پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے نام کا فیس بک اکاؤنٹ\nہے جہاں چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف پوسٹس لگیں ہیں۔ جس پر ایڈیشل سیشن جج ہمایوں\nدلاور نے اپنا فیس بک اکاؤنٹ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فیس بک اکاؤنٹ میرا ہی\nہے لیکن یہ پوسٹیں میری نہیں ہیں۔ بیرسٹر\nگوہر نے اس سے متعلق تصویریں بھی عدالت کے سامنے پیش کر دیں جس پر عدالت نے کہا کہ\nآپ تحقیقات کے لیے ان کو کسی فورم پر کیوں نہیں لے کر جاتے ؟ وکیل\nالیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ سے متعلق سوشل میڈیا پر کیا کیا لکھا گیا وہ بھی ریکارڈ\nکا حصہ ہے، جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیئے کہ آج بیرسٹر گوہر نے بھی وہی کام کیا\nہے جو سوشل میڈیا پر ہوا ، آپ نے یہ سارا مواد اوپن کورٹ میں سب کے سامنے دکھایا ہے۔ میری درخواست پر ہائیکورٹ آپ کے خلاف\nتوہین عدالت کی کارروائی کر سکتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ce5ry5vm737o", "summary": "ہم بھی بظاہر ہر افریقی ملک کی طرح آزاد ہیں۔ پر ہم پچیس کروڑ عوام کو بھی نہیں معلوم کہ ہماری قسمت کے فیصلے کہاں ہوتے ہیں؟ دوبئی، ریاض، بیجنگ، لندن، واشنگٹن؟ کہاں؟ \n", "title": "وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: تاریخ کا سب سے بڑا ڈاکہ", "firstPublished": "2023-07-16T16:31:40.072Z", "id": "ce5ry5vm737o", "article": "کسی افریقی کو اس کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا۔ زنجبار کے سلطان کی جانب سے شرکت کی درخواست کو ٹھٹھول میں اڑا دیا گیا۔ کسی قبیلے کو خبر تک نہ ہوئی کہ ہزاروں میل پرے ایک میز کے اردگرد بیٹھے چند اجنبیوں نے بنا پوچھے مصنوعی لکیریں لگا کے انھیں علاقہ بہ علاقہ قبیلہ در قبیلہ تقسیم در تقسیم کر دیا ہے۔ صرف ایک ملک اس کاٹ چھانٹ سے بچ پایا۔ ایتھوپیا۔ برلن کانفرنس افریقیوں کی نظر میں کیا تھی اور ہے؟ اس بابت نائجیریا کے ایک جریدے لاگوس آبزرور نے کانفرنس کے خاتمے کے فوراً بعد لکھا کہ ’اس سے بڑا ڈاکہ تاریخ میں کبھی نہیں پڑا۔ پہلے انھوں نے ہمیں جبری غلام بنا کے باہر بیچا۔ اب غلاموں کی آبائی سرزمین کی بھی کاٹ پیٹ کی جا رہی ہے۔‘ آج برلن کانفرنس کے انعقاد کے 139 برس بعد بھی افریقہ کا خام مال افریقیوں کے خون سے زیادہ قیمتی ہے۔ افریقہ کی مالی و اقتصادی و سیاسی قسمت کے بنیادی فیصلے آج بھی افریقہ سے باہر ہوتے ہیں۔ ہم بھی بظاہر ہر افریقی ملک کی طرح آزاد ہیں۔ پر ہم پچیس کروڑ عوام کو بھی نہیں معلوم کہ ہماری قسمت کے فیصلے کہاں ہوتے ہیں؟ دوبئی، ریاض، بیجنگ، لندن، واشنگٹن؟ کہاں؟ ہم نہیں جانتے ہمارے کس رہنما کے تار کہاں کہاں جڑے ہوئے ہیں؟ اس کھیل میں دیسی اور بدیسی ایجنسیوں، اعلیٰ آئینی و سٹرٹیجک، مقدس، نیم مقدس اداروں، کارپوریٹ سیکٹر اور لینڈ ڈویلپرز کے درمیان کیا رشتہ ہے اور کس کو کس سے کیا فائدہ یا نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ گیم کتنی بڑی یا اوپر کی ہے یہ بھی نہیں معلوم۔ ہمارے سامنے تو بس چند معزز پیادے ہیں۔ ان کے اوپر کون کون سے مہرے ہیں۔ چال چلتے ہوئے ہاتھ تو نظر آتے ہیں پر ماسک زدہ شاطر دکھائی نہیں دیتے۔ حتٰی کہ ہم میڈیائی ڈھولیے بھی جو جھوٹا، سچا، کچا پکا، تحقیقی و تحقیری، نیلا پیلا مصالحہ جان کاری، آگہی و تجزیے کا لیبل لگا کے اخبار در اخبار چینل بہ چینل، گلی گلی، گھر گھر فروخت کر رہے ہیں، اس کی سپلائی اور پیکیجنگ بھی کس کارخانے سے بن کے آ رہی ہے، یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ نقشے میں آپ کو آج بھی پورا افریقہ یکجا خطہِ زمین کے طور پر نظر آتا ہے۔ نقشے میں تو آپ کو میرا ملک بھی ایک اکائی کی شکل میں نظر آتا ہے۔ بس دور سے دیکھتے رہیے۔ ذرا سا بھی کھرچیے گا ہرگز نہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crgjeeernn5o", "summary": "موجودہ سیاسی صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے اور دوست ممالک سے پیسے ملنے کے بعد مسلم لیگ ن کو انتخابی اعتماد فراہم ہوا ہے یا وہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناؤ کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی خلا کا فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہیں؟", "title": "مسلم لیگ ن کا آئندہ انتخابات میں پنجاب میں سیاسی اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ کیسا ثابت ہو گا؟", "firstPublished": "2023-07-15T10:44:37.814Z", "id": "crgjeeernn5o", "article": "اس تمام صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے اور دوست ممالک سے قرضہ لینے کے اقدام نے مسلم لیگ ن کو انتخابی اعتماد فراہم کیا ہے یا پھر یہ جماعت پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناؤ کے بعد صوبے میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا کا فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے؟ اس کے جواب میں مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ ’معاملہ اس سے آگے بڑھ چکا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے مؤثر افراد نے اپنی نئی جماعت بنا لی ہے۔ پی ٹی آئی کو اس وقت تنظیمی مشکلات درپیش ہیں اور پارٹی کو از سر نو تنظیم سازی کی ضرورت ہے ایسے میں اگر عمران خان جیل چلے جاتے ہیں تو ووٹر اور پارٹی کے درمیان رابطے کی کڑی کمزور پڑ سکتی ہے اور ایسی صورت میں مسلم لیگ ن کو فائدہ ملے گا۔‘ کیا مسلم لیگ ن آئی ایم ایف معاہدے کے بعد سے بااعتماد ہوئی ہے کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کا اثر تو ہوا ہے۔ ’ملک میں غیر یقینی ختم کرنے سے مسلم لیگ ن کے اعتماد میں تو اضافہ ہوا ہے اور جیسے اب عسکری و سیاسی قیادت نے زراعت کے شعبے میں کام کرنے اور گرین پاکستان کے خواب دکھائے ہیں، اس سے انھیں یقین ہے کہ وہ اپنے ووٹر کو کچھ امید دلا سکیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سب پر واضح ہے کہ ’ملکی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کے خلاف ہوا چل رہی ہے اور انتخابات کے ماحول میں جو رابطہ کاری اور میسیجنگ ہوتی ہے اس سے یقیناً عمران خان کے حریفوں خصوصاً مسلم لیگ کو فائدہ ہو گا۔‘ وہ کہتی ہیں کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران پنجاب کا ووٹ نواز کے حامیوں اور مخالفوں میں بٹا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے خلاف ووٹ پی ٹی آئی کے پاس تھا۔ اب وہ ووٹ پی ٹی آئی کے پاس ہے یا نہیں اس کا فیصلہ اگلے انتخابات میں ہو گا لیکن پنجاب میں عمران خان کے علاوہ مسلم لیگ کے خلاف کوئی ایسا سیاسی رہنما نہیں تھا اور ہے جو انھیں چیلنج دے سکے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر مسلم لیگ کے کریڈٹ لینے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’میرا نہیں خیال کہ آئی ایم ایف معاہدے کے نتیجہ میں عوام کو کوئی بہت بڑا ریلیف ملے گا اور اس کی بڑی مثال معاہدے کے فوراً بعد بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں مسلم لیگ ن کی طرف آئی ایم ایف کے معاہدے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس پر قیاس آرائی کرنا مناسب نہیں ہو گا تاہم اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا پی ٹی آئی کے حوالے سے رویہ سب کے سامنے ہیں اور اس سے مسلم لیگ کو کیا پیغام دیا گیا ہے اس پر کچھ کہنا مشکل ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgxeyl3qx2vo", "summary": "فرانس شہریوں کو اپنے پھٹے پرانے کپڑے اور جوتوں کو پھینک کر نئے خریدنے کی بجائے مرمت کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ایک بونس سکیم شروع کر رہا ہے۔", "title": "فرانس: اپنے پھٹے ہوئے کپڑے سینے اور پرانے جوتے مرمت کرنے والوں کے لیے بونس", "firstPublished": "2023-07-14T13:38:13.737Z", "id": "cgxeyl3qx2vo", "article": "فرانس اپنے شہریوں کو پھٹے پرانے کپڑے اور جوتوں کو پھینک کر نئے خریدنے کی بجائے انھیں مرمت کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ایک بونس سکیم شروع کر رہا ہے۔ حکومت پانچ سال کے دوران بونس کی فنڈنگ کے لیے 154 ملین یورو مختص کرے گی۔ برانجے کوئلاریہ، جو ماحولیات کے جونیئر وزیر ہیں، کا کہنا ہے کہ فرانس میں ہر سال سات لاکھ ٹن کپڑا کوڑے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ کوئلاریہ نے ’تمام سلائی ورکشاپس اور جوتا بنانے والوں سے اس سسٹم میں شامل ہونے کی اپیل کی‘ جس کے مطابق حکومت انھیں نئی ہیل لگانے کے لیے سات یورو اور جیکٹ، سکرٹ یا دیگر کپڑوں میں نئی ​​استر لگانے کے لیے 10 سے 25 یورو تک کی چھوٹ دے گی۔ اس سکیم کا مقصد مرمت کے شعبے کو سپورٹ کرنا اور نئی ملازمتیں پیدا کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت فیشن کے جدید تقاضوں سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے اور صارفین کو نئی اشیا خریدنے کی بجائے ان کی مرمت کرنے کی ترغیب دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ ری فیشن نامی ایک گروپ، جس سے اس سکیم کو قائم کرنے کے لیے کہا گیا ہے، کا کہنا ہے کہ فرانس میں گذشتہ سال کپڑے، جوتے اور گھریلو ٹیکسٹائل کی 3.3 ارب اشیا مارکیٹ میں خریداری کے لیے پیش کی گئیں۔ لیکن فرانس میں ہر کوئی حکومت کے اس طریقہ کار سے متاثر نہیں ہوا۔ کاروباری گروپوں نے اس اقدام کو فرانس کی ایک اہم صنعت کو ’بدنام‘ کرنے کے متصادم قرار دیا جبکہ دائیں بازو کے ریپبلکن ایم پی ایرک پاوگیٹ کا کہنا ہے کہ حکومت پہلے ہی تین کھرب یورو قرضے میں ڈوبی ہوئی ہے اور اسے ’فرانسیسی عوام کے پیسے کو اس طرح اڑانا بند کرنا چاہیے۔‘ فرانس میں پائیدار فیشن کو فروغ دینے والے ایک اور منصوبے میں یکم جنوری 2024 سے عمل کرتے ہوئے کپڑے کی صنعت میں شامل ہر شے کے ماحولیاتی اثرات کی تفصیل اس پر درج ہو گی۔ نئے قوانین کے تحت مینوفیکچررز کو کپڑوں کی تیاری کے لیے پانی کی مقدار، کیمیکلز کے استعمال، مائیکرو پلاسٹک کے اخراج کے خطرات اور اس بات کی تفصیل بھی بتانا ہو گی کہ آیا اس لباس کی تیاری میں کوئی ری سائیکل شدہ ٹیکسٹائل استعمال کیا گیا یا نہیں۔ فیشن انڈسٹری، فرانس کے سب سے بڑے شعبوں میں سے ایک ہے جس میں گذشتہ سال تقریباً 66 ارب یورو کا کاروبار ہوا اور ہزاروں نوکریاں پیدا ہوئیں۔ اگرچہ فیشن کے حوالے سے فرانس یورپی یونین کا چوتھا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے لیکن حالیہ برسوں میں اس صنعت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ فیشن یونائیٹڈ کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ 2020 میں فرانسیسی صارفین نے لباس پر اوسطاً 430 یورو خرچ کیے جو کہ یورپی یونین کی اوسط سے کم ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxepyg7ky0ro", "summary": "ایک وقت ایسا بھی تھا جب کمیونیکیشن، انفراسٹریکچر، بجلی، بندرگاہوں کی تعمیر اور مالیاتی شعبے میں انیل امبانی کی کمپنیوں کا بول بالا تھا لیکن اب ان کی بیشتر کمپنیاں دیوالیہ ہو جکی ہیں۔\n", "title": "کیا انڈیا کی دیوالیہ نجی کمپنی رفال جنگی طیارے تیار کر سکے گی؟", "firstPublished": "2023-07-13T03:40:19.535Z", "id": "cxepyg7ky0ro", "article": "مودی کا فرانس کا یہ چھٹا دورہ ہے۔ فرانس کے صدر ایمینول میکخواں وزیر اعظم مودی کے اعزاز میں جمعرات کو ایک عشائیہ دیں گے اور جمعے کو مودی فرانس کے قومی دن کی پریڈ میں مہمان خصوصی ہوں گے۔ اس میں ریلائنس کا حصص 51 فیصد اور ڈاسو کا حصہ 49 فیصد تھا۔ اس کمپنی کے مالک انڈیا کے سب سے بڑے صنعت کار مکیش امبانی کے بھائی انیل امبانی ہیں۔ انیل کا شمار ایک مرحلے پر انڈیا کے دس بڑے ارب پتی افراد میں ہوتا تھا لیکن اس وقت وہ انتہائی برے دور سے گزر رہے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب کمیونیکیشن، انفراسٹریکچر، بجلی، بندرگاہوں کی تعمیر اور مالیاتی شعبے میں انیل امبانی کی کمپنیوں کا بول بالا تھا لیکن اب ان کی بیشتر کمپنیاں دیوالیہ ہو چکی ہیں۔ چین کے بعض بینکوں سے لیے گئے قرضوں کی عدم ادائیگی کا معاملہ جب برطانیہ کی ہائی کورٹ میں پہنچا تو انیل امبانی نے اعتراف کیا تھا کہ وہ دیوالیہ ہو چکے ہیں اور قرض ادا کرنے کی حالت میں نہیں۔ انیل امبانی کا شمار ایک مرحلے پر انڈیا کے دس بڑے ارب پتی افراد میں ہوتا تھا لیکن اس وقت وہ انتہائی برے دور سے گزر رہے ہیں جس وقت مودی حکومت نے سنہ 2017 میں انیل امبانی کی ریلائنس کمپنی کو انڈیا میں رفال طیارے بنانے کی منظوری دی تھی اس وقت ملک کی اپوزیشن جماعتوں نے کمپنی کی مالی حالت اور جہاز بنانے میں اس کی ناتجربہ کاری پر سوال اٹھایا تھا لیکن حکومت نے ان خدشات کو مسترد کر دیا تھا۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہاں مرحلے وار طریقے سے جنگی طیاروں کے پرزے تیار کیے جا رہے ہیں لیکن یہ کمپنی بھی اب قرض میں ڈوب گئی ہے اور قرض دینے والے بعض بینک عدم ادائیگی کے معاملے کو نیشل کمپنی لا ٹرائیبونل لے گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس جوائنٹ وینچر میں دونوں کمپنیوں کا حصہ تقریباً نصف ہے۔ دونوں کمپنیوں نے مساوی پیسہ لگانا ہے۔ ان حالات میں ڈاسو تو اپنے حصے کی سرمایہ کاری کرے گی لیکن انیل امبانی کے حصے کا کیا ہو گا؟‘ ان کا کہنا ہے کہ ان حالات میں جب انیل امبانی پیسے کی کمی کے سبب ایک کے بعد ایک اپنی بنی بنائی کمپنیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں وہ کس طرح رفال جہازوں کی تیاری کے لیے بنائی گئی مشترکہ کمپنی کو چلا پائیں گے یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ مشترکہ کمپنی بنانے کا مقصد ان جنگی طیاروں کو ملک کے اندر تیار کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی تھا کہ انھیں تیزی کے ساتھ ملک میں تیار کیا جا سکے اور ان کے پرزوں کے لیے فرانس پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ انڈیا کی فضائیہ اور بحریہ کو اپنی جدت کاری کے منصوبے کے تحت یہ طیارے بھی جلد سے جلد اپنے بیڑے میں شامل کرنا ہے۔ ان حالات میں انڈیا اور فرانس کے اس مشترکہ وینچر پر مزید دباؤ بڑھے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c809e89lgvzo", "summary": "بائیجو کا کبھی دنیا کے سب سے قابل قدر ایجوکیشن ٹیکنالوجی سٹارٹ اپس میں شمار ہوتا تھا اور یہ کووڈ 19 کی وبا کے دوران سرمایہ کاروں کو انتہائی عزیز ہوا کرتا۔ لیکن اب حالیہ مہینوں کے دوران اس کی قدرو قیمت میں ڈرامائی گراوٹ دیکھی گئی ہے۔", "title": "دنیا کا سب سے قابل قدر ایجوکیشن سٹارٹ اپ بائیجوز زوال پذیر کیسے ہوا؟", "firstPublished": "2023-07-11T13:11:20.199Z", "id": "c809e89lgvzo", "article": "بائیجو کا کبھی دنیا کے سب سے قابل قدر ایجوکیشن ٹیکنالوجی سٹارٹ اپس میں شمار ہوتا تھا اور یہ کووڈ 19 کی وبا کے دوران سرمایہ کاروں کو انتہائی عزیز ہوا کرتا۔ لیکن اب حالیہ مہینوں کے دوران اس کی قدرو قیمت میں ڈرامائی گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کے آپریشن کو دھچکہ پہنچا ہے جس کی وجہ سے اسے مالیاتی نقصان بھی ہوا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ دھچکہ انڈیا میں سٹارٹ اپس کی کانٹے کی دوڑ میں ضروری اصلاح کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ کووڈ 19 کی وبا کے دوران اس میں کافی حد تک مزید توسیع ہوئی کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے طلبا نے آن لائن کلاسز کا رخ کیا۔ لیکن سنہ 2021 میں اس نے 32 کروڑ 70 لاکھ امریکی ڈالر کے نقصان کا اعلان کیا جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں 17 گنا زیادہ تھا۔ اس کے بعد سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ اس بڑی کمپنی غیر معمولی گراوٹ شروع ہو گئی اور گذشتہ سال اس کی مالیت جہاں 22 ارب ڈالر تھی وہیں اس کمپنی میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والی اور شیئر ہولڈر کمپنی پورس این وی کے مطابق رواں سال اس کی مالیت کم ہو کر پانچ اعشاریہ ایک ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ کووڈ وبا کے دوران تیزی سے بڑھنے کے ساتھ بائیجو نے سنہ 2021 میں دوسری ایجوکیشن کمپنیوں کو حاصل کرنے کی مہم شروع کردی اور اس نے وائٹ ہیٹ جونیئر، آکاش، ٹاپر، ایپک اور گریٹ لرننگ جیسے سٹارٹ اپس اور کمپنیوں کو خرید لیا۔ لیکن حالیہ مہینوں میں کمپنی کو شکایات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور بہت سے والدین اس پر اپنے وعدوں کو پورا نہ کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ انھیں ایسے کورسز خریدنے پر مجبور کر رہے ہیں جس کے اخراجات وہ برداشت نہیں کر سکتے اور پھر وعدہ کی گئی خدمات بھی فراہم نہیں کر رہے ہیں۔ بعض نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ فرم نے صارفین کا استحصال کرنے کے لیے شکاری طریقوں کا استعمال کیا ہے۔ آڈیٹرز نے کہا کہ اس بات نے کمپنی کے حساب کتاب کا اندازہ لگانے کی ان کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔ اس کے بعد فوراً یہ خبر آئی کہ اس کے بورڈ کے تین ممبران نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے، جس کے بعد صرف کمپنی کے سی ای او بائیجو رویندرن، ان کی اہلیہ دیویہ گوکل ناتھ اور بھائی ریجو رویندرن ہی بورڈ میں بچ گئے ہیں۔ ایسی خبریں بھی ہیں کہ رواں ہفتے شیئر ہولڈرز کی میٹنگ میں سی ای او کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن کمپنی کے دو سرمایہ کاروں نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔ گنیش کہتے ہیں کہ سٹارٹ اپ کمپنیوں کی مالیت کا جو اندازہ کورونا وبا کے دوران لگایا گیا وہ غیر حقیقی تھا اور اب حقیقی سطح پر تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/clm1npmvjjpo", "summary": "پاکستان نے اپنی ضروریات کو ابتدا سے ہی سستے میں برائے فروخت پیش کر دیا۔ چنانچہ ایک طاقتور دفاع کی تلاش میں اسے اپنی خود مختاری سیٹو اور سینٹو جیسے بیگانے اتحادوں کے پاس رہن رکھنا پڑی۔", "title": "وسعت اللہ خان کا کالم: ہماری با اختیاری کس نے اغوا کر لی؟ ", "firstPublished": "2023-07-09T13:09:03.585Z", "id": "clm1npmvjjpo", "article": "جیسے انھوں نے آئی ایم ایف کے نمائندوں کی سیاسی رہنماؤں سے حالیہ ملاقات اور آئی ایم ایف کے تازہ مالیاتی پیکیج کی حمایت کے تناظر میں فرمایا کہ ’مالی اختیار تو پہلے ہی چلا گیا اب سیاسی خودمختاری بھی خطرے میں ہے۔ آئی ایم ایف والوں کی پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے ملاقات ایسٹ انڈیا کمپنی کی یاد دلاتی ہے۔ جب مقامی معززین کو کمپنی اپنی پالیسیوں کی حمایت پر مجبور کرتی تھی۔‘ رضا ربانی کے والدِ محترم میاں عطا ربانی گورنر جنرل محمد علی جناح کے اے ڈی سی تھے۔ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ پاکستان بننے کے محض ڈھائی ماہ بعد اکتوبر 1947 میں ایم اے ایچ اصفہانی کی قیادت میں ایک وفد نے واشنگٹن کا دورہ کیا۔ ٹرومین انتظامیہ کو پیش کش کی گئی کہ مارشل پلان کی طرز پر اگر امریکہ اگلے پانچ برس کے لیے پاکستان کو دو ارب تیس کروڑ ڈالر کی اقتصادی و دفاعی امداد دے تو پاکستان سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ میں صفِ اول کا امریکی اتحادی بننے کو تیار ہے۔ امریکہ اس وقت نہرو جی کو رام کرنے کے چکر میں تھا لہٰذا وفاداری بشرطِ استواری کی پیش کش مسترد ہو گئی اور پاکستان کو ساڑھے چار کروڑ ڈالر کا قرض عالمی بینک سے دلوانے کے لیے امریکی تعاون کی پیش کش کی گئی۔ پاکستان کے ساتھ یہی ہوا کہ اس نے اپنی ضروریات کو ابتدا سے ہی سستے میں برائے فروخت پیش کر دیا۔ چنانچہ ایک طاقتور دفاع کی تلاش میں اسے اپنی خود مختاری سیٹو اور سینٹو جیسے بیگانے اتحادوں کے پاس رہن رکھنا پڑی۔ امداد اور خوشنودی کی مجبوری میں امریکہ نے جب چاہا اس ریاست کو اپنے اڈے کے طور پر پچاس کی دہائی، اسی اور نوے کی دہائی اور نائن الیون کے بعد کی دہائی میں استعمال کیا۔ اس کے بدلے گذشتہ سات عشروں میں جو ستر ارب ڈالر امریکہ سے اور جو ایک سو چھبیس ارب ڈالر عالمی مالیاتی اداروں اور دو چار دوست ممالک سے بطور قرض ملے۔ اس بوجھ کے بعد کون سا اختیار اور کیا اقتدارِ اعلی؟ جب نوبت سوا ارب ڈالر کی قسط کے عوض پورا قومی بجٹ اور سٹیٹ بینک کا اختیار آئی ایم ایف کی انگلیوں پر ناچے تو پھر سیاسی خود مختاری کی بحث اٹھانا بنتا نہیں۔ کسی نے کنپٹی پر گن تھوڑا رکھی تھی کہ آپ ستر برس میں آئی ایم ایف کا تئیس بار طواف کریں اور اپنی خود مختاری اور اقتدارِ اعلی کے لیے ٹسوے بھی بہاتے جائیں۔ کاش مجھے کوئی وہ خود مختاری اور اقتدارِ اعلی ڈھونڈھ دے جو آئین کے صفحہِ اول سے باہر بھی کہیں پایا جاتا ہو۔ تاکہ آئی ایم ایف جیسے اداروں کے سامنے بروقت ایک رسمی سرخ لکیر کھینچنے میں آسانی ہو۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjrlx5njxjlo", "summary": "نو جولائی کو صدر گوٹابھایا راجا پکشے کو اقتصادی بحران کی وجہ سے اقتدار سے ہٹائے جانے کو ایک سال مکمل ہو رہا ہے۔", "title": "سری لنکا معاشی بحران: ’ہم اب گوشت اور انڈے نہیں خرید سکتے کیونکہ قیمتیں چھ گنا بڑھ چکی ہیں‘", "firstPublished": "2023-07-09T01:30:41.614Z", "id": "cjrlx5njxjlo", "article": "آمدن میں کمی کی وجہ نادیکا کے لیے اپنے بچوں کو سکول بھیجنا مشکل ہو گیا ہے سری لنکا کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے، جہاں دو میں سے ایک گھر اپنی آمدنی کا 70 فیصد سے زیادہ خوراک پر خرچ کرتا ہے۔ ناریل کے چھلکوں سے چولہا جلاتے ہوئے دھوئیں میں ڈوبی ہوئی نادیکا کہتی ہیں ’اب جب کہ ایک سلنڈر کی قیمت دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے، روایتی طریقے سے کھانا پکانے کا واحد آپشن بچا ہے۔‘ جب سے سری لنکا 2022 میں اپنے بدترین مالی بحران کا شکار ہونا شروع ہوا ہے، آمدنی میں کمی آئی ہے اور خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ مہینوں کی مسلسل بجلی کی کٹوتی اور ایندھن کی قلت کے ساتھ، لوگوں نے نو جولائی 2022 کو صدر گوٹابھایا راجا پکشے کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا، اور انھیں ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد سے حکومت کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے مالی امداد حاصل کرنے کی کوششیں کامیاب رہی ہیں تاہم غربت کی شرح دوگنی ہو گئی ہے۔ فروری میں افراط زر کی شرح 54 فیصد سے کم ہو کر جون میں 12 فیصد پر آگئی، لیکن حکومت گھریلو آمدنی میں کمی کے باعث بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ پرنسپل وزیر ظہیر کہتے ہیں کہ ’یہاں زیادہ تر بچے ایسے خاندانوں سے آتے ہیں جو پچھلے سال غربت کی لکیر سے نیچے تھے، اس لیے ہم نے ان بچوں کو کئی کھانے، ہفتے میں دو انڈے فراہم کرنا شروع کیے۔‘ ایک سال سے زائد عرصے سے جاری معاشی مشکلات نے سری لنکا میں 22 ملین افراد کے لیے مفت صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بھی متاثر کیا ہے۔ کینڈی کی پہاڑیوں میں رہنے والے ایک ممتاز ماہر سیاسیات دان ڈی سویزا بھی معاشی بحران سےسے براہ راست متاثر ہوا۔ وہ نو ماہ قبل اپنے پلمونری فائبروسس کے علاج کے لیےدوا نہ ملنے کی وجہ سے انتقال کر گئے تھے سری لنکا کے وزیر صحت کیہیلیا رامبو ویلا نے خبردار کیا ہے کہ ادویات کی بلند قیمتوں اور قلت کو ’فوری طور پر مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔‘ ’ذرا تصور کریں، ہمیں یہ فیصلہ کرنے کے لیے ایک مشکل انتخاب کرنا پڑا کہ پیسے کے ایک چھوٹے سے ذخیرے کے ساتھ کیا درآمد کرنا ہے؟ خوراک یا دوائی؟ ہمیں خوراک کے آنے والے بحران سے بچنے کے لیے خوراک لانے کی ضرورت ہے۔ اب یہ صورتحال قدرے پرسکون ہو گئی ہے۔ یہ آہستہ آہستہ بڑھے گی۔‘ چونکہ کروپائیا کی زمین پر کوئی درخت نہیں ہیں، اس لیے اس کا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ایک مختلف قسم کا سودا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ce76rx6dzwxo", "summary": "پاکستان میں گذشتہ ایک سال میں ڈالر کی قیمت میں 80 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا مگر منگل کو انٹر بینک میں ڈالر کی قدر میں گراوٹ حقیقی ہے یا یہ کمی مارکیٹ میں قیاس آرائیوں پر مبنی ہے؟", "title": "کیا ڈالر کی قدر میں بڑی کمی حقیقی ہے اور مستقبل میں یہ رجحان برقرار رہ پائے گا؟", "firstPublished": "2023-07-04T13:11:30.363Z", "id": "ce76rx6dzwxo", "article": "پاکستان میں منگل کے روز مارکیٹ میں کاروبار کے آغاز کے پہلے ایک گھنٹے میں ڈالر کی قیمت میں 15 روپے کی کمی واقع ہوئی تاہم بعد میں اس نے ریکور کیا اور انٹرا ڈے کاروبار میں اس کی قیمت میں پانچ روپے کا اضافہ ہوا۔ پاکستان میں گذشتہ ایک سال میں ڈالر کی قیمت میں بڑا اضافہ دیکھا گیا اور گذشتہ مالی سال میں ڈالر کی قیمت میں 80 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ تاہم منگل کے روز مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں ہونے والی کمی کیا مارکیٹ کے اصولوں کے مطابق ہے یا یہ قیاس آرائیوں پر مبنی تھی کیونکہ پاکستان میں گذشتہ ایک سال میں مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت پر سٹے بازی کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی معاہدے کی منظوری گذشتہ ہفتے ہوئی جس کے بعد منگل کے روز پہلے کاروباری دن کے آغاز پر انٹر بینک میں ڈالر کی قدر میں 15 روپے کمی دیکھی گئی۔ گذشتہ ہفتے منگل کے دن انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 285.50 پر بند ہوئی تھی جو آج (منگل) مارکیٹ میں کاروبار کے آغاز پر دس روپے کم ہو کر 275 روپے کی سطح پر آگئی اور کاروبار میں ایک گھنٹے کے دوران اس کی قیمت 271 روپے تک پہنچ گئی تھی۔ انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت میں ہونے والی کمی حقیقی ہے یا یہ کمی مارکیٹ میں قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔ اس بارے میں کرنسی کے کاروبار سے وابستہ افراد کے مطابق یہ کمی فی الحال مارکیٹ اصول کے مطابق ہے کیونکہ اس وقت ڈالر کی ڈیمانڈ کم ہے کیونکہ فی الحال مارکیٹ میں ڈالر کے خریدار ڈالر کی قیمت میں مزید کمی کی توقع کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ لیکن منگل کے روز جو بڑی کمی واقع ہوئی وہ بھی صحیح نہیں کیونکہ ایک دن میں اتنی بڑی کمی میں یقینی طور پر قیاس آرائیوں پر مبنی ٹریڈنگ کا بھی دخل ہے کیونکہ ایک خاص ماحول تیار کیا گیا۔ مالیاتی امور کی ماہر ثنا توفیق نے اس سلسلے میں کہا کہ اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک میں ڈالر ریٹ کے درمیان کم فرق رہ گیا ہے جس کی وجہ سے اب ڈالر انٹر بینک میں آئیں گے اور دوسرے ذرائع سے بھی ڈالر آئیں گے اس لیے سپلائی سائیڈ بہتر ہوگی تاہم دوسری جانب ڈالر کی طلب بھی بڑھے گی کیونکہ درآمدات پر پابندی ختم ہو چکی ہے اور اس کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگا۔ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے لیکن ڈالر کی قیمت میں مزید کمی کی توقع کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق آئی ایم ایف کے پیسے آنے کے بعد امکان ہے ڈالر کا ریٹ 250 روپے تک آ جائے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd18vllp87jo", "summary": "پاکستان سٹاک ایکسچینج میں سوموار کے روز ملکی تاریخ کی سب سے ریکارڈ تیزی پاکستان کے لیے آئی ایم ایف معاہدے کی منظوری کے دو دن بعد ریکارڈ کی گئی لیکن کیا سٹاک مارکیٹ معاشی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے؟", "title": "آئی ایم ایف معاہدے کے بعد سٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ تیزی، کیا معیشت میں بہتری کا اشارہ ہے؟ ", "firstPublished": "2023-07-03T14:09:25.266Z", "id": "cd18vllp87jo", "article": "پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں سوموار کے روز کاروبار کے آغاز کے پہلے چند منٹوں میں ہی انڈیکس 2200 پوائنٹس سے زائد بڑھ گیا۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ میں چند منٹوں میں 2200 پوائنٹس سے زائد تاریخی اضافہ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی معاہدے کی منظوری کے چند دن بعد ریکارڈ کیا گیا۔ 30 جون کو پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی معاہدے کی منظوری کے بعد سوموار کے روز پاکستان سٹاک ایکسچینج میں کاروبار کا پہلا روز تھا اور اس کے آغاز کے ساتھ ہی مارکیٹ میں خریداری کا رجحان غالب رہا جو پورے کاروباری سیشن میں جاری رہا۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں گذشتہ کئی مہینوں سے مندی کا رجحان غالب تھا تاہم سوموار کے روز انڈیکس میں ہونے والا اضافہ ایک دن میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ یہ اضافہ پاکستان میں سابقہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے دو دن بعد ریکارڈ کیا گیا تھا جبکہ اس سے پہلے پانچ جون 2017 کو 1566 پوائنٹس کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں سوموار کے روز ملکی تاریخ کی سب سے ریکارڈ تیزی پاکستان کے لیے آئی ایم ایف معاہدے کی منظوری کے دو دن بعد ریکارڈ کی گئی۔ مالیاتی اور سٹاک مارکیٹ امور کے ماہر فرحان محمود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مارکیٹ میں اضافے کی وجہ آئی ایم ایف معاہدے کی منظوری کے بعد مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہونا ہے جو کافی عرصے سے متزلزل تھا۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف معاہدہ سے ملکی معیشت کو ایک شارٹ ٹرم ریلیف ملا جس کا سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کو بھی انتظار تھا کیونکہ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں اس وقت حصص کی قیمتیں نچلی سطح پر موجود ہیں جو سرمایہ کاری کے لیے پرکشش ہے اور آئی ایم ایف معاہدے کی منظوری نے انھیں یہ موقع فراہم کیا کہ وہ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کریں اور حصص کی پرکشش ویلیوز سے فائدہ اٹھائیں۔ آئی ایم ایف معاہدے کی منظوری کے بعد پاکستان سٹاک مارکیٹ نے مثبت رد عمل دکھایا اور ڈالر کے ریٹ میں بھی کمی کی توقع کی جا رہی ہے جبکہ دوسری جانب سونے کی بلند قیمت میں بھی تنزلی ہوئی ہے۔ اس بارے میں ماہر معیشت اور بینک آف پنجاب کے چیف اکنامسٹ صائم علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے کے بعد سٹاک مارکیٹ میں تو تیزی آئی ہے لیکن ایک عام آدمی کے لیے شارٹ ٹرم مدت میں کوئی ریلیف ممکن نہیں، جس میں خاص کر مہنگائی کا معاملہ ہے۔ پاکستان میں سٹاک مارکیٹ کو معیشت کی حالت کو دیکھنے کے لیے استعمال کیوں نہیں کیا جا سکتا اس کا اندازہ ملک کی سٹاک مارکیٹ میں سرمائے کی مالیت سے لگایا جا سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cz4nd7yrqqdo", "summary": "سمائلی فیس کی تاریخ متنازع رہی ہے۔ جدید سمائلی کا ڈیزائن امریکی آرٹسٹ ہاروی بال کی ایجاد ہے۔ اگرچہ انھوں نے اسے رجسٹر نہیں کروایا تاہم اس مسکراتے چہرے سے بعض کمپنیوں کا کاروبار خوب چمکا۔ ", "title": "’سمائلی فیس‘ کس نے ایجاد کیا اور یہ کیسے منافع بخش کاروبار بنا", "firstPublished": "2023-07-01T12:16:58.521Z", "id": "cz4nd7yrqqdo", "article": "محض دو سیاہ نقطے اور ایک لکیر مسکراتے ہوئے انسانی چہرے کا نچوڑ ہیں اور اس سے خوشی کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن آج یہ ایک ایسی کمپنی کا اہم اثاثہ بھی ہے جو اس سے سالانہ 500 ملین امریکی ڈالر کما رہی ہے۔ اگرچہ یہ ایک متنازع معاملہ رہا ہے مگر آج یہ کم و بیش واضح ہے کہ جدید ’سمائلی‘ کا مشہور آئیڈیوگرام ڈیزائن کرنے والے سب سے پہلے امریکی آرٹسٹ اور ڈیزائنر ہاروی بال تھے۔ ورسسٹر ہسٹوریکل میوزیم کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ولیم والیس کا کہنا ہے کہ ہاروی بال کی طرف سے بنائے گئے سمائلی چہرے کے نمایاں عناصر میں روشن پیلے رنگ کا پس منظر، ایک مکمل گول شکل اور آنکھوں اور منھ میں ہلکی سی ہم آہنگی کا ہونا ہے۔ اور چونکہ نہ تو ہاروی بال اور نہ ہی سٹرن، نہ ہی وورسسٹر انشورنس کمپنی اور نہ ہی سیاٹل بینک نے مسکراہٹ والے چہرے کے کاپی رائٹس حاصل کرنے کی زحمت گوارا کی تو ایسے میں ان بھائیوں نے اس خلا کو پُر کیا۔ مؤرخ ولیم والیس کے ساتھ بات چیت میں ہاروی بال نے کہا کہ جب انھوں نے ’دی نیویارکر میگزین‘ میں اس ننھے چہرے کو دیکھا تو انھیں معلوم ہوا کہ انھوں نے کچھ ایسا کیا ہے، جس نے دنیا کے تصور کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس مقبول سمائلی کی پیچیدہ تاریخ میں اضافہ سنہ 1971 میں اخبار ’فرانس سوئر‘ کے ایک فرانسیسی صحافی فرینکلن لوفرانی نے کیا، جس نے مثبت خبروں کی نشاندہی کرنے کے لیے ہاروی بال جیسا چہرہ استعمال کیا۔ فرینکلن لوفرانی، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کے مؤجد ہیں، چھوٹے چہرے کی معاشی افادیت سے واقف تھے۔ وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اسے بطور ٹریڈ مارک رجسٹر کیا۔ لوفرانی کی کمپنی کے لیے 80 کی دہائی سنہری ثابت ہوئی اور 1990 کی دہائی تک انھوں نے پہلے ہی 70 سے زیادہ ممالک میں سمائلی فیس رجسٹر کرا لیا تھا۔ آج یہ تقریباً سو ممالک میں رجسٹرڈ ہے۔ سمتھسونین میگزین کے مطابق نکولس لوفرانی نے کہا ہے کہ سمائلی کا ڈیزائن اتنا سادہ ہے کہ کوئی بھی شخص اسے بنانے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ تاہم سمائلی کمپنی کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ فرینکلن لوفرانی نے اسے بنایا تھا۔ ان سب کے ساتھ، ہاروی بال نے کبھی بھی ’سمائلی‘ کو رجسٹر کرنے یا کاروبار پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کے بیٹے چارلس بال نے ان کی موت کے بعد کہا کہ ’ان کے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھتے تھے اور انھیں پسند کرتے تھے۔ انھیں دنیا بھر سے خطوط موصول ہوئے، جس میں اس ننھے چہرے کو متعارف کرانے پر ان کا شکریہ ادا کیا گیا۔ ان کی موت کے بعد سنہ 2001 میں ان کے بیٹے نے ہاروی بال ورلڈ سمائل فاؤنڈیشن بنائی۔ سنہ 2012 میں فاؤنڈیشن سب سے پہلے امریکہ میں اپنے نام پر سمائلی کو رجسٹر کرنے میں کامیاب ہوئی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g0ynnyd37o", "summary": "آئی ایم ایف کی ویب سائٹ کے مطابق ’سٹینڈ بائی ارینجمنٹ‘ سے مراد ہے کہ قلیل مدتی فنانسنگ کے ذریعے کسی ملک کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات پوری کی جائیں۔ ایسے میں کم آمدنی والے ممالک کی اسی صورت میں مدد کی جاتی ہے اگر وہ ان مشکلات کو دور کریں جن کی بدولت انھیں فنڈنگ کی ضرورت پیش آئی تھی۔ ", "title": "پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کے ’سٹینڈ بائی‘ معاہدے کا مطلب کیا ہے؟", "firstPublished": "2023-06-29T11:23:00.722Z", "id": "c3g0ynnyd37o", "article": "آئی ایم ایف کے مطابق سٹینڈ بائی معاہدہ پاکستان کو حالیہ بیرونی دباؤ کی شکار معیشیت کو استحکام کی طرف لے جانے میں مدد دے گا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اس معاہدے کے لیے پیشگی شرائط پر عملدرآمد کر چکا ہے۔ مشن نے اس حوالے سے ٹیکس نیٹ ورک کو بڑھانے اور بجٹ کی منظوری کی مثالیں بھی دی ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستان سے افراط زر کو قابو میں رکھنے کے لیے اقدامات اٹھانے پر بھی زور دیا ہے تا کہ عام آدمی پر بوجھ کم کیا جا سکے۔ آئی ایم ایف نے بے نظیر انکم سپورٹس پروگرام کی بھی خصوصی تعریف کی ہے جس کے تحت غریب خاندانوں تک مدد کو یقینی بنانا ہے۔ آئی ایم ایف نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ اب پاکستان مختلف دیگر فورمز سے بھی قرضے حاصل کر سکے گا جس سے اسے معاشی استحکام کی طرف بڑھنے میں مدد مل سکے گی۔ آئی ایم ایف کی ویب سائٹ کے مطابق ’سٹینڈ بائی ارینجمنٹ‘ سے مراد ہے کہ قلیل مدتی فنانسنگ کے ذریعے کسی ملک کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات پوری کی جائیں۔ ایسے میں کم آمدنی والے ممالک کی اسی صورت میں مدد کی جاتی ہے اگر وہ ان مشکلات کو دور کریں جن کی بدولت انھیں فنڈنگ کی ضرورت پیش آئی تھی۔ ایس بی اے، آئی ایم ایف کا ترقی پذیر معیشتوں کے لیے مرکزی منصوبہ ہوتا ہے۔ عموماً یہ ان ملکوں کو دیا جاتا ہے جنھیں کم وقت میں ادائیگیوں میں توازن لانے کے لیے قرضے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی شرح سود عالمی مارکیٹ کے مطابق ہوتی ہے لیکن آئی ایم ایف کے مطابق یہ ہمیشہ دوسرے نجی قرضوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ وہ ممالک جنھوں نے آئی ایم ایف سے اصلاحاتی قرضہ لیا لیکن اس کی شرائط میں طے کیے گئے ہدف پورے نہ کر سکے تو انھیں سہارے کے لیے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت مزید قرض دیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق ملک کی معیشت کی خراب صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ٹھیک راہ پر لانے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے اصلاحات ضروری ہیں جس کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اسی وجہ سے ای ایف ایف کا دورانیہ زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ایس بی اے کی مدت بھی کم ہوتی ہے، اس میں شرائط بھی کم ہوتی ہیں اور یہ اس وقت دیا جاتا ہے جب آپ پہلے سے اصلاحاتی پروگرام پر چل رہے ہوتے ہیں لیکن اس کو مکمل کرنے کے لیے آپ کو کچھ مزید مدد چاہیے ہو۔ پاکستان اور آئی ایم ایف پروگرام کے امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی شہباز رانا نے کہا ہے کہ ’عوام پر پروگرام کی بحالی کے بعد بھی بوجھ پڑے گا۔‘ صحافی شہباز رانا نے کہا کہ ’پاکستان اور آئی ایم ایف مذاکرات میں بجلی کی قیمت میں اضافہ شامل ہے تو اسی طرح پٹرولیم مصنوعات پر لیوی زیادہ وصول کرنا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1w4e3ed71o", "summary": "چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ایوان بالا کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے بل کا دفاع کرتے ہوئے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے اور مستعفی ہونے کی بھی پیشکش کی ہے۔ ", "title": "’کچن کے خرچ کے لیے آج کل 50 ہزار روپے کیا ہے؟‘ سینیٹرز کی تنخواہوں و مراعات میں مجوزہ اضافے پر اعتراض کیوں", "firstPublished": "2023-06-21T13:12:20.776Z", "id": "cd1w4e3ed71o", "article": "چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ایوان بالا کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے بل کا دفاع کرتے ہوئے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے اور مستعفی ہونے کی بھی پیشکش کی ہے۔ سینیٹ کی جانب سے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے علاوہ تمام سینیٹرز کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے بل کی منظور پر حکمران اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ اس بل کو کبھی بھی قانون کا حصہ نہیں بننے دیا جائے گا اور جب یہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہوگا تو اس کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔ ادھر سینیٹ کے سابق ڈپٹی چیئرمین اور سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیف وہیپ سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کی قیادت سینیٹ میں اس بل کے پاس ہونے پر سخت نالاں ہے اور انھوں نے اس بل کے پاس ہونے پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سینیٹ سے اس بل کے پاس ہونے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے انھیں طلب کیا اور انھیں ڈانٹ پلائی کہ کیسے سینیٹ کے چیئرمین کی مراعات میں اضافے کا بل پاس کروایا گیا۔ سلیم مانڈوری والا کا کہنا تھا کہ ملک مشکل حالات میں ہے اور حکومت نے پاس سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے پیسے نہیں جبکہ دوسری جانب سینیٹ کے چیئرمین اور ارکان کے تنخواہوں کے بل منظور کیے جا رہے ہیں۔ بعدازاں ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے مصدق ملک کا کہنا تھا کہ جب سے پی ڈی ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئے ہیں اس وقت سے وزیر اعظم نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ کوئی بھی وزیر تنخواہ اور مراعات نہیں لے گا اور وزیر اعظم کے احکامات کی روشنی میں تمام وزرا اکانومی کلاس میں سفر کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف چیئرمین سینیٹ کے لیے چارٹر طیارے تک بک کروانے کے بل کی منظوری دی جا رہی ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین کی تنخواہ اور مراعات میں اضافے کے علاوہ ان کے تین سال کا عرصہ مکمل کرنے کے بعد عہدے سے سبکدوش ہونے سے متعلق جو بل سینیٹ سے منظور کروایا گیا ہے اس کے اہم نکات میں یہ بھی ہے کہ چیئرمین کی تنخواہ دو لاکھ پانچ ہزار روپے ہو گی اور چیئرمین جس گھر میں رہے گا اس کا ماہانہ کرایہ ڈھائی لاکھ روپے ہوگا اور اس کی تزئین و آرائش پر پچاس لاکھ روپے سے زیادہ کا خرچہ نہیں ہوگا۔ سینیٹ کے موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی جن کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔ انھوں نے اس بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بل کے پاس ہونے سے قومی خزانے پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c519ejgzk0ro", "summary": "ہر سال کی طرح اس بار بھی سعودی عرب میں لاکھوں مسلمان مذہبی فریضہ حج ادا کرنے کے لیے جمع ہیں لیکن عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی اور اشیا کی بڑھتی قیمتوں کے وجہ سے یہ مذہبی فریضہ ادا کرنا بھی اب مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔", "title": "’میری تمام جمع پونجی حج ادا کرنے کے لیے کافی نہیں‘", "firstPublished": "2023-06-27T10:43:33.343Z", "id": "c519ejgzk0ro", "article": "ہر سال کی طرح اس بار بھی سعودی عرب میں لاکھوں مسلمان مذہبی فریضہ حج ادا کرنے کے لیے جمع ہیں لیکن عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی اور اشیا کی بڑھتی قیمتوں کے وجہ سے یہ مذہبی فریضہ ادا کرنا بھی اب مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ مصر کے دارالحکومت قائرہ میں ایک نجی ٹوور آپریٹر میں کام کرنے والے ایک عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس برس حج کے لیے ہونے والی بکنگ میں واضح کمی آئی ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کے لیے یہ بہت مہنگا ہو گیا ہے۔‘ حج مذہب اسلام کے پانچ بنیادی اراکین میں سے ایک ہے۔ مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ اگر وہ جمسانی اور مالی طور پر اس قابل ہیں تو وہ زندگی میں ایک بار حج ضرور کریں۔ اس سال حج 26 جون سے لے کر یکم جولائی 2023 کے درمیان ادا کیا جا رہا ہے۔ مصر میں بڑھتی قیمتوں کی ایک وجہ مقامی کرنسی کا اپنی قدر کھو دینا ہے۔ مارچ 2022 سے اب تک مصری پاؤنڈ ڈالر کے مقابلے میں اپنی نصف قدر کھو چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں اخراجات زندگی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں اور مصر کی تقریباً 30 فیصد آبادی کا گزارہ انتہائی مشکل سے ہو رہا ہے۔ فریدہ عمرہ ادا کرنے کے لیے چار بار پہلے بھی مکہ جا چکی ہیں، جو سال کے کسی بھی وقت میں ادا کیا جا سکتا ہے۔ حج دنیا بھر میں ہونے والے بڑی مذہبی اجتماعات میں سے ایک ہے اور ہر سال دنیا بھر سے تقریباً 15 سے 20 لاکھ عازمین حج سعودی عرب میں مقدس مقامات کا رخ کرتے ہیں۔ سعودی عرب ہر ملک کے لیے سالانہ حج کوٹہ مختص کرتا ہے۔ سب سے بڑا کوٹہ انڈونیشیا کو دیا جاتا ہے۔ 270 کروڑ کی آبادی کے ساتھ انڈونیشیا دنیا بھر میں مسلم آبادی والا سب سے بڑا ملک ہے۔ انڈونیشا کے لیے حج کا کوٹہ دو لاکھ بیس ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ انڈونیشیا کے حکام نے گزشتہ برس حج کے اخراجات میں تقریباً 60 فیصد سبسڈی دی تھی لیکن اس سال 50 فیصد سے بھی کم شرح کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے بعد حج کے خواہشمند ہر شخص کو تقریباً 3,000 ڈالر خرچ کرنا ہوں گے۔ سنہ 2016 کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اس سال صنعا سے عازمین حج مقدس فریضے کی ادائیگی کے لیے براہ راست سعودی عرب پہنچے ہیں۔ لڑائی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان کوئی کمرشل پروازیں نہیں چل رہی تھیں۔ یمن میں حج کی اوسط قیمت تین ہزار امریکی ڈالر ہے۔ یمن کے ایک صحافی نے بتایا کہ ’سنہ 2016 میں، میں نے اس سے نصف قیمت میں حج کیا تھا۔ اب یہ میرے لیے بہت مہنگا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c8vy8mer7jmo", "summary": "پاکستان کی قومی اسمبلی نے نئے مالی سال کے بجٹ کی منظوری دے دی ہے، جس میں تنخواہ دار طبقے کے ایسے افراد جو سالانہ چوبیس لاکھ کماتے ہیں ان پر ٹیکس کی شرح میں ڈھائی فیصد کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ٹیکس شرح میں یہ اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت کیا گیا ہے۔ ", "title": "انکم ٹیکس میں ڈھائی فیصد اضافہ پاکستانی مڈل کلاس کو کیسے متاثر کرے گا؟", "firstPublished": "2023-06-26T11:29:11.698Z", "id": "c8vy8mer7jmo", "article": " خرم نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تو اضافہ کر دیا گیا ہے تاہم نجی شعبے میں کام کرنے والے ملازمین اس وقت شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ مہنگائی کی وجہ سے ایک تو گھریلو اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب معیشت کی خراب صورتحال کی وجہ سے نجی شعبے نے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا اور اب حکومت نے تنخواہ دار طبقے کے ایسے افراد جو دو لاکھ سے زائد کماتے ہیں ان پر اضافی ٹیکس لگا دیا ہے۔ واضح رہے پاکستان کی قومی اسمبلی نے نئے مالی سال کے بجٹ کی منظوری دے دی ہے، جس میں تنخواہ دار طبقے کے ایسے افراد جو سالانہ چوبیس لاکھ کماتے ہیں ان پر ٹیکس کی شرح میں ڈھائی فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ٹیکس شرح میں یہ اضافہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت کیا گیا ہے تاکہ پاکستان اضافی ریونیو جمع کر پائے جو قرضہ پروگرام کی بحالی کی شرائط میں سے ایک ہے۔ ٹیکس شرح میں یہ اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط تحت کیا گیا ہے تاکہ پاکستان اضافی ریونیو جمع کر پائے جو قرضہ پروگرام کی بحالی کی شرائط میں سے ایک ہے موجودہ مالی سال کا بجٹ جب جون 2022 میں پیش کیا گیا تھا اور اس میں تنخواہ دار طبقے کی ٹیکس سلیب کو 12 سے کم کر کے سات کر دیا گیا تھا تاہم نئے مالی سال کے لیے منظور کیے جانے والے فنانس بل میں اب ان کی تعداد چھ کر دی گئی ہے۔ پانچواں سلیب 36 لاکھ سے 60 لاکھ کی سالانہ آمدن والے افراد کے لیے ہے، جنھیں چار لاکھ 35 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 36 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 27.5 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا ۔ پہلے ٹیکس کی یہ شرح 25 فیصد تھی جو اب 27.5 فیصد کر دی گئی ہے۔ واضح رہے موجودہ مالی میں ساتویں سلیب میں ایسے افراد شامل ہیں، جن کی سالانہ آمدن ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ ہے اور وہ 29 لاکھ 55 ہزار فکسڈ ٹیکس جبکہ ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ آمدن پر35 فیصد ٹیکس ادا کر رہے ہیں تاہم اب نئے مالی سال کے لیے یہ سلیب موجود نہیں۔ نئے مالی سال کے منظور شدہ فنانس بل کے مطابق چوبیس لاکھ سالانہ تنخواہ پانے والوں پر ٹیکس کی شرح میں 2.50 فیصد کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے تنخواہ دار طبقے کے ایسے افراد جو دو لاکھ سے زائد کماتے ہیں ان پر اضافی ٹیکس لگا دیا ہے انھوں نے کہا کہ اگر حکومت ٹیکس کی یہ شرح نہ بڑھاتی اور انکم ٹیکس کی چھوٹ کی مد میں جو سالانہ ساڑھے سات سو ارب روپے ہیں ان کو آدھا ہی کر دیتی تو اس سے اضافی آمدنی بھی ہوتی اور مڈل کلاس طبقے پر اضافی ٹیکس کے بوجھ سے بھی بچا جا سکتا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c9e7jgz49emo", "summary": "ترکی کی درخواست پر اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے ’ترکی‘ کے بجائے ’ترکیہ‘ کا نام استعمال کرنا شروع کیا ہے ایک سال بعد سفارتی اور سماجی میدانوں میں اس نئے نام کو کتنی پذیرائی ملی؟", "title": "ترکی نے اپنا نام کیوں بدلا اور دنیا ’ترکیہ‘ کہنے میں ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہے؟", "firstPublished": "2023-06-26T08:26:41.352Z", "id": "c9e7jgz49emo", "article": "لگ بھگ ایک برس قبل ترکی کی درخواست پر اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے ’ترکی‘ کے بجائے ’ترکیہ‘ کا نام استعمال کرنا شروع کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران ترکی کی جانب سے اپنا نام بدلنے کی کوشش کو سفارتی اور سماجی میدانوں میں کتنی پذیرائی ملی؟ اس سرکلر کے فوراً بعد ترکی کی حکومت نے بین الاقوامی تنظیموں سے بھی خط و کتابت میں بھی ’ترکیہ‘ کا نام استعمال کرنے کا عندیہ دیا۔ ترکی کی درخواست پر اقوام متحدہ نے گذشتہ سال جون میں اعلان کیا تھا کہ آئندہ ترکی کے بجائے اس ملک کا نام ’ترکیہ‘ استعمال کیا جائے گا، اور یہ تبدیلی فوری طور پر نافذ کر دی گئی۔ اقوام متحدہ سے ملنے والی کامیابی کے بعد ترکی کی وزارت خارجہ نے بھی یہی درخواست دیگر بین الاقوامی اتحادوں اور اداروں اور سفارتی مشنوں کو دی۔ نیٹو، یورپی یونین، عالمی ادارہ صحت، یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم (OSCE) اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسی بین الاقوامی تنظیموں نے گذشتہ سال سرکاری رابطوں اور خط و کتابت میں ترکی کی درخواست پر عمل درآمد کیا یعنی اس ملک کا نام ترکی کے بجائے ترکیہ لکھا۔ اسی سال جنوری میں امریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ سفارتی اور سرکاری رابطوں کے لیے ترکیہ کا نام استعمال کرنا شروع کرے گا۔ تاہم امریکہ میں متعلقہ حکام نے ترکی کی وزارت خارجہ کو مشورہ دیا کہ جہاں ضروری اور مناسب ہو وہاں ’ترکی‘ اور ’جمہوریہ ترکی‘ کے نام استعمال کیا جائے۔ اس کے لیے یہ جواز پیش کیا گیا کہ ’یہ نام امریکی معاشرے کے لیے زیادہ قابل فہم ہیں۔‘ ابتدا میں روسی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر ترکی اور ترکیہ دونوں کے نام استعمال کیے گئے ہیں۔ کریملن کے اعلانات میں جون 2022 کے بعد ملک کا نام ’ترکیہ‘ لکھا ہوا دیکھا گیا ہے۔ اگرچہ ترکی کی کوششوں کو بین الاقوامی اداروں اور سفارتی سطح پر پذیرائی ملی ہے، لیکن یہ دیکھا جا رہا ہے کہ ترکی کے بارے میں خبروں اور سوشل میڈیا پر آج بھی لفظ ’ترکی‘ غالب ہے۔ ’ترکی کے بجائے ترکیہ کے نام کی تجویز اس تناظر میں ایک نیک نیتی پر مبنی لیکن ناکافی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ Ü خط کے بین الاقوامی متبادل بدقسمتی سے بہت کم ہے۔ یہ ترکی کے علاوہ ہنگری، سٹونین، آذربائیجانی، ترکمان اور کریمیائی تاتار حروف تہجی میں موجود ہے۔‘ اس تناظر می، ’ترکیہ‘ برانڈ کو مضبوط کرنے کی کوششوں کے دائرہ کار میں، دیگر ریاستوں اور بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کے ساتھ سرکاری تعلقات، ہر قسم کی سرگرمیوں اور خط و کتابت میں ’ترکیہ‘ کے فقرے کا استعمال کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ضروری حسّاسیت کا مظاہرہ کیا جائے گا۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cqvq99wwz3go", "summary": " دبئی اور جبل علی کی بندرگاہیں اب بہت پرہجوم ہو چکی ہیں اور اب اگر ابوظہبی گروپ منصوبے کے تحت کراچی بندرگاہ میں برتھوں کو وسعت دیتے ہوئے انھیں مزید گہرا کرتا ہے تو پاکستان خطے کے دوسرے پورٹس سے آنے والے سامان کے لیے مرکز بن سکتا ہے۔", "title": "کراچی بندرگاہ پر ابوظہبی گروپ کی سرمایہ کاری کا 50 سالہ معاہدہ کیا ہے اور اس سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟", "firstPublished": "2023-06-26T04:03:31.892Z", "id": "cqvq99wwz3go", "article": "ابوظہبی گروپ کی جانب سے پاکستان میں جہاز رانی اور بندرگاہوں کے شعبے میں اس سرمایہ کاری اور اس کے سلسلے میں معاہدے پر دستخط ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب پاکستان مالی بحران کا شکار ہے اور تمام دوسرے معاشی اشاریوں کی طرح ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے شعبے میں بھی تیزی سے تنزلی ہوئی ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کے تازہ ترین حکومتی اعداد و شمار کے مطابق موجودہ مالی سال کے پہلے گیارہ مہینوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری 21 فیصد کمی کے بعد محض 1.3 ارب ڈالر تک محدود ہو گئی ہے۔ ابوظہبی گروپ کی جانب سے کیا جانے والا معاہدہ ایک ایسے وقت میں بھی سامنے آیا ہے جب حکومت کی جانب سے اقتصادی بحالی کے منصوبے کے تحت سرمایہ کاری کے لیے ایک سہولت کاری کونسل بھی حال ہی میں قائم کی گئی ہے اور اس کی اپیکس کمیٹی میں ملک کے آرمی چیف بھی بطور رکن شامل ہے۔ عاصم کے مطابق حال ہی میں ہونے والے نئے معاہدے کے تحت ابوظہبی گروپ کے پاس اب ’پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل‘ کے مقابلے میں دو برتھیں زیادہ ہوں گی۔ انھوں نے ابوظہبی گروپ سے پہلے دو کنٹینر ٹرمینلز چینی کمپنیاں چلا رہی ہیں جن میں سے ایک ساؤتھ ایشیا پورٹ ٹرمینل ہے اور دوسرا کراچی انٹرنینشل کنٹینر ٹرمینل ہے۔ انھوں نے کہا کہ اِسی طرح پورٹ قاسم پر دبئی کا گروپ ’دبئی پورٹس‘ ایک ٹرمینل چلا رہا ہے۔ عاصم اقبال نے کہا ابوظہبی کا گروپ اور دبئی پورٹس ایک دوسرے کے ساتھ بندرگاہوں کے شعبے میں مسابقت کی دوڑ میں شامل ہیں۔ دبئی پورٹس تو پہلے سے پاکستان میں موجود ہے اور اب ابو ظہبی کی ’اے ڈی پورٹس‘ نے بھی پاکستانی مارکیٹ میں قدم رکھ دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ٹرانسشپمنٹ کارگو دبئی اور جبل علی کے پورٹس میں بٹا ہوا ہے لیکن وہاں پر اب بہت زیادہ ہجوم ہو چکا ہے تو اگر ابوظہبی گروپ منصوبے کے بعد اسے ڈویلپ کرتا ہے تو ٹرانسشپمنٹ کے ذریعے پاکستان خطے کے دوسرے پورٹس سے آنے والے سامان کے لیے مرکز بن سکتا ہے، جس سے پاکستان کے بندرگاہوں کے شعبے کو فائدہ ہو گا۔ زبیر موتی والا کے مطابق ابوظہبی کی یہ سرمایہ کاری ایک مثبت پیغام دنیا بھر میں بھیجے گی کہ پاکستان میں حالات سرمایہ کاری کے لیے اتنے زیادہ خراب نہیں ہیں ۔ تاہم انھوں نے کہا اگر ابوظہبی کے گروپ کی جانب سے پاکستان میں ایک ایسے وقت میں سرمایہ کاری ہوئی ہے کہ جہاں رسک بہت زیادہ ہے تو اس کا فائدہ انھیں بھی ہو گا کیونکہ جہاں رسک زیادہ ہوتا ہے وہاں پر زیادہ فائدہ حاصل ہونے کا بھی موقع ہوتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pnl01pxy9o", "summary": "یہ وقت گڑے مردے اکھاڑنے کا ہرگز نہیں۔ بعض دل جلے سوشل میڈیا پر بک رہے ہیں کہ اتفاق گروپ کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور شریف خاندان کے سمدھی ہونے کے علاوہ ڈار صاحب نے معیشت بطور مضمون کہاں کہاں سے پڑھا؟ پڑھیے وسعت اللہ خان کا کالم۔ ", "title": "وسعت اللہ خان کا کالم ’بات سے بات‘: دیکھو دیکھو کون آیا، ڈار آیا ڈار آیا", "firstPublished": "2023-06-25T05:54:28.248Z", "id": "c6pnl01pxy9o", "article": "ایک منسوب قولِ علی ہے کہ ’بے وقت کا مذاق دشمنی کا سبب بن سکتا ہے۔‘ اور وہ بھی ایک ایسے نازک مرحلے پر جب آئی ایم ایف کے موجودہ مالیاتی پروگرام کی زندگی کے محض پانچ دن باقی رہ گئے ہوں۔ ہم سب کا اجتماعی فرض ہے کہ ڈار صاحب سے چبھتے سوالات پوچھنے یا بحث میں الجھنے یا پنجے جھاڑ کے پیچھے پڑنے کے بجائے ان کا دل بڑھانے کی کوشش کریں۔ یہ وقت گڑے مردے اکھاڑنے کا ہرگز نہیں۔ بعض دل جلے سوشل میڈیا پر بک رہے ہیں کہ اتفاق گروپ کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور شریف خاندان کے سمدھی ہونے کے علاوہ ڈار صاحب نے معیشت بطور مضمون کہاں کہاں سے پڑھا ؟ اس طرح کی دل شکنی کی حوصلہ شکنی وقت کی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر لوگ باگ خلیجی ممالک سے اگلے چند ماہ میں بیس سے پچیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کھینچنے کے لیے تشکیل دی جانے والی سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل کے سربراہ شہباز شریف اور ان کے شریکِ کار جنرل عاصم منیر کے بارے میں پوچھنے لگیں گے کہ اکنامکس کا مضمون ایف اے سے پڑھنا شروع کیا یا بی اے میں رکھا تھا۔ اس نے یہ بے وقت سوال اٹھایا ہے کہ عاطف میاں نے گذشتہ ماہ پاکستانی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ایک ٹوئٹر تھریڈ میں جو بن مانگے مشورے دیے تھے اس کا مہذب انداز میں شکریہ ادا کرنے کے بجائے وزارتِ ڈار نے یہ فقرہ کسنا کیوں مناسب سمجھا کہ تھیوری پڑھانے والے ماہرین کیا جانیں کہ عملی معیشت کیسے چلائی جاتی ہے۔ اگر ہم نے اپنے بظاہر حکمرانوں، اصل حکمرانوں اور وزراِ باتدبیر کی معاشی اہلیت کو اکیڈمک ترازو میں تولنے کی مشقِ لاحاصل جاری رکھی تو کل کلاں کوئی ایسے سوالات اٹھانے والوں سے پلٹ کے یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ یہ جو ہماری یونیورسٹیوں میں ایک سے ایک چیتا پی ایچ ڈی بیٹھا ہے آج تک سامنے آ کے اسحاق ڈار یا دیگر کی طرح سینے پر ہاتھ مار کے کیوں نہیں کہہ پایا کہ ہٹو تم ایک طرف۔ مجھے دو وزارتِ خزانہ کی کمان میں بتاتا ہوں کہ لالٹین کیسے پکڑی جاتی ہے۔ بینکر شوکت عزیز یا بینکر شوکت ترین کو تو کسی نے نہیں کہا کہ باؤ جی یہ کسی میوچل فنڈ کی مینیجمنٹ نہیں بلکہ قومی معیشت کا جہاز ہے۔ آپ بس تھوک لگا کے نوٹ گنیں یا پھر لیجر بک بیلنس کرنے کا کام کریں۔ ان دونوں شوکتوں نے پاکستان کو کون سا جرمنی بنا دیا۔ وہ بھی آئے گذر گئے۔ یہ بھی گذر جائیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ اس ملک میں فی مربع میل دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ذہین پائے جاتے ہیں۔ ہمیں بس کسی ایک ایسے کی ضرورت ہے جو کامن سنس کا ماہر ہو اور اس ریاست کو بزعمِ خود کی دلدل سے نکال لے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czd4q9zypdeo", "summary": "پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک ’داؤد فیملی‘ کے کاروبار کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک یتیم نوجوان احمد داؤد نے پتھارے پر کپڑے کے تھان لگانا شروع کیے اور پھر بمبئی میں یارن کی دکان کھولی۔", "title": "پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک ’داؤد فیملی‘ کون ہے؟ ", "firstPublished": "2023-06-24T12:41:52.831Z", "id": "czd4q9zypdeo", "article": "داؤد فیملی کے کاروبار کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک یتیم نوجوان احمد داؤد نے پتھارے پر کپڑے کے تھان لگانا شروع کیے اور پھر بمبئی میں یارن کی دکان کھولی۔ احمد داؤد نے 20ویں صدی کے اوائل میں پتھارے پر کپڑے کے تھان اور بمبئی میں یارن کی دکان کھولنے سے داؤد خاندان کے کاروبار کا آغاز کیا پاکستان کے سب سے بڑے صنعت کاروں میں شامل داؤد فیملی نے 20ویں صدی کے اوائل میں ایک پتھارے سے کاروبار کا آغاز کیا اور چند دہائیوں میں اس خاندان کا شمار خطے کے امیر ترین گھرانوں میں ہونے لگا۔ ’احمد داؤد ایک پیکر اوصاف‘ نامی کتاب کے مصنف عثمان باٹلی والا لکھتے کہ احمد داؤد نے 16 سال کی عمر میں پتھارے پر کپڑے کے تھان لگا کر اپنے کاروبار کا آغاز کیا جبکہ داؤد انویسٹمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق یتیم نوجوان احمد داؤد نے 1920 میں بمبئی میں یارن کی دکان کھولی تھی۔ عثمان لکھتے ہیں کہ جب انھوں نے خوردنی تیل کا کارخانہ لگایا تو پھر ان کے کاروبار میں وسعت آئی اور یہ کامیابی سے چل پڑا۔ اس کاروبار میں ان کے بھائی سلیمان داؤد، علی محمد داؤد، صدیق داؤد اور ستار داؤد بھی شریک رہے۔ 17 جنوری 1969 میں نیویارک ٹائمز نے اپنی اشاعت میں احمد داؤد فیملی کو پاکستان کا دوسرا سب سے امیر خاندان قرار دیا جس کے اثاثوں کی مالیت اس وقت 200 ملین ڈالرز تھی۔ ان کے پاس کاٹن، وولن، ٹکسٹائل، یارن، کیمکلز، مائننگ، بینکنگ، انشورنس، پیپر اور فرٹیلائزر کے کارخانے تھے۔ عثمان باٹلی والا کے مطابق ان بائیس خاندانوں میں سے 14 میمن گھرانے تھے اور داؤد فیملی دوسرے نمبر پر تھی۔ اس عرصے میں سیٹھ داؤد کو نظر بند کر دیا گیا اور جب وہ رہا ہوئے تو امریکہ چلے گئے۔ خیال ہے کہ اس وقت انھیں ’دو ارب روپے کا نقصان‘ ہوا تھا۔ احمد داؤد نے امریکہ میں آئل ایکسپلوریشن کمپنی کے ساتھ کاروبار کا آغاز کیا اور ایک جگہ ڈریلنگ کی تو وہاں سے پیٹرول نکل آیا اور ان کے اچھے دن دوبارہ آگئے جب پاکستان میں جنرل ضیا الحق بھٹو کی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار پر قابض ہوگئے۔ اس دور میں احمد داؤد واپس پاکستان آگئے اور ان کی صنعتوں اور سرمایہ کاری کا دوبارہ آغاز ہوگیا۔ خیال ہے کہ ان کے جنرل ضیا الحق کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ داؤد فاونڈیشن نے کراچی میں پبلک سپیس کے فروغ کے لیے ٹی ڈی ایف گھر بنایا۔ 1930 میں تعمیر کیے گئے اس گھر میں کراچی کی تاریخ اور پرانی یادوں سے وابستہ فرنیچر، گراموں فون سمیت دیگر اشیا موجود ہیں اور یہاں سے پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے مزار کا نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cm58xrry1rpo", "summary": "ملک کے مختلف علاقوں میں گرمی کے اضافے کے ساتھ ہی بجلی کی آنکھ مچولی شروع ہو گئی ہے۔ وزارت توانائی کے حکام کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت بجلی کا شارٹ فال چھ ہزار 765 میگاواٹ ہے۔", "title": "پاکستان میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ: ’رات بھر تیری یاد نہیں بار بار جانے والی لائٹ جگاتی ہے‘", "firstPublished": "2023-06-24T09:16:15.710Z", "id": "cm58xrry1rpo", "article": "ان دنوں پاکستان کا طول و عرض شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ کہیں دن بھر سورج آگ برساتا ہے تو کہیں رات کو شدید حبس کے باعث لوگ پسینے میں شرابور ہیں۔ ایسے میں ملک کے مختلف حصوں میں بجلی کی آنکھ مچولی نے گرمی کے ستائے عوام کے صبر کا پیمانے بھی لبریز کر دیا ہے اور سوشل میڈیا پر لوگ موسم گرما میں غیر اعلانیہ بجلی کی بندش کی دہائیاں دے رہے ہیں۔ وزارت توانائی کے حکام کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت بجلی کا شارٹ فال چھ ہزار 765 میگاواٹ ہے۔ حکام کے مطابق اس وقت بجلی کی مجموعی پیداوار 20 ہزار 235 میگاواٹ ہے جبکہ ملک بھر میں بجلی کی طلب 27 ہزار میگا واٹ ہے۔ بجلی کی طلب و رسد میں اس قدر فرق کے باعث ملک کے مختلف علاقوں میں بسنے والوں کو لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ مگر ایسا پہلی بار نہیں کہ گرمی میں اضافے کے ساتھ ہی پاکستان میں بجلی کی آنکھ مچولی شروع ہو جائے لیکن اس بار پاکستان میں جون کے آخری عشرے میں پڑنے والی شدید گرمی کی شدت غیر معمولی ہے اور پاکستان کے بیشتر علاقوں میں ہیٹ ویو کے دوران درجہ حرارت معمول سے چار سے چھ ڈگری سینٹی گریڈ بڑھا ہوا ہے۔ آخر مختلف علاقوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ مختلف کیوں ہے۔ اس پر بات آگے چل کر۔ پہلے جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر گرم موسم کے دوران بجلی کی بندش پر کیا بحث جاری ہے۔ غیر اعلانیہ اور طویل لوڈ شیڈنگ سے متعلق ایک صارف کے جواب میں کراچی میں بجلی فراہم کرنے کے ذمہ دار ادارے کے الیکٹرک کی جانب سے کہا گیا کہ ’غیر اعلانیہ یا 16 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ نہیں کی جا رہی ہے۔ لوڈ شیڈنگ علاقے میں بجلی کی چوری اور نقصان کی شرح کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ اس پالیسی پر پورے ملک میں عمل کیا جاتا ہے۔ فی الحال، لوڈ شیڈنگ کا زیادہ سے زیادہ شیڈول 10 گھنٹے ہے۔‘ سیکریٹری توانائی راشد محمود لنگڑیال سے جب بی بی سی نے ملک میں حالیہ لوڈ شیڈنگ کے حوالے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ دو گھنٹے ہے۔ وزارت توانائی کے حکام کے مطابق پاکستان میں مختلف ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی مجموعی صلاحیت 23 ہزار 500 میگاواٹ ہے۔ پاکستان میں موسم گرما کے شروع ہوتے ہی بجلی کی لوڈ شیڈنگ شروع ہو جاتی ہے اس کا آسان جواب یہی ہے کہ اس دوران بجلی کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ایندھن پرمہنگی بجلی بنائے جانے کے باعث طلب اور رسد کا فرق لوڈ شیڈنگ کی وجہ بنتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51qq1590ylo", "summary": "وزیر اعظم شہباز شریف نے مشرق وسطیٰ کے ممالک سے پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بھی اس کا حصہ بنایا ہے۔ مگر کیا چند ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری کے وعدوں کی بنیاد پر بیمار پاکستانی معیشت کی بحالی ممکن ہو سکتی ہے؟", "title": "سرمایہ کاری میں سہولت کاری پر خصوصی کونسل کی تشکیل: کیا محض وعدوں کی بنیاد پر بیمار پاکستانی معیشت کی بحالی ممکن ہے؟", "firstPublished": "2023-06-21T09:22:08.318Z", "id": "c51qq1590ylo", "article": "وزیر اعظم شہباز شریف نے مشرق وسطیٰ کے ممالک سے پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بھی اس کا حصہ بنایا ہے۔ وزیر اعظم نے اس کونسل کے تحت تین مختلف کمیٹیاں بھی تشکیل دی ہیں جن میں اولین ایپکس کمیٹی کی سربراہی شہباز شریف خود کریں گی جبکہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو خصوصی دعوت پر اس کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آرمی چیف اس کونسل میں کیا کردار ادا کریں گے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے لیے تشکیل دی گئی خصوصی کمیٹی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شامل ہوں گے وفاقی وزیر پٹرولیم مصدق ملک نے جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے اس کمیٹی کی تشکیل کو غیر ملکی سرمایہ کاری کی سہولت کاری کے لیے ون ونڈو آپریشن کی طرز پر ایک منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ تمام ادارے جن کا کسی بھی طرح سرمایہ کاری سے تعلق ہے وہ اکھٹے کر دیے گئے ہیں۔‘ صحافی تنویر ملک سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ وعدے تو بہت خوبصورت ہیں کہ 2035 تک ملک کی جی ڈی پی تین گنا بڑھ کر ایک کھرب ڈالر ہو جائے گی اور اگر یہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ملک میں کوئی غریب نہیں رہے گا مگر فی الوقت زمینی صورتحال یہ ہے کہ ملکی آبادی کا 40 فیصد حصہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے جبکہ پاکستان اس وقت کاروبار میں آسانی کے انڈیکس میں دنیا کے نچلے ترین ممالک میں شامل ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم پاکستان کے کوآرڈینٹر برائے صنعت و تجارت رانا احسان افضل نے بی بی سی کو بتایا کہ وعدے اور دعوے کیے گئے ہیں تو انھیں پورا بھی کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اگر یہ حکومت اگلے دو مہینوں میں 25 سے 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں تمام رکاوٹیں دور کر دیتی ہے اور نئی حکومت میں وہ سرمایہ کاری پاکستان آ جاتی ہے تو ایسا دعویٰ کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں معیشت کے پروفیسرعدیل ملک جو پاکستان اور مشرق وسطیٰ کی معیشتوں پر کام کرتے ہیں نے صحافی تنویر ملک کو بتایا کہ پاکستان میں اس وقت جو ’اتھاریٹرین پاور شیئرنگ‘ انتظام ہے اسے برقرار رکھنے کے لیے ڈالر کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا سیاسی طور پر اندرونی ملکی حالات پر کسی حد تک قابو پا لیا گیا ہے تاہم معاشی طور پر استحکام کے لیے بدستور ڈالر کی ضرورت ہے اور یہ منصوبہ بیرون ملک خاص کر خلیجی ممالک سے ڈالر لانے کا منصوبہ ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c9rnd152n1po", "summary": "پاکستان کی جانب سے روسی خام تیل چینی کرنسی میں خریدنے کو ایک جانب تو ایک بڑے پالیسی فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ اس سے قبل پاکستان تیل خریدنے کے لیے امریکی ڈالر استعمال کرتا تھا لیکن اس سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟", "title": "روسی خام تیل چینی کرنسی میں خریدنے سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟", "firstPublished": "2023-06-17T03:52:42.132Z", "id": "c9rnd152n1po", "article": "وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے گذشتہ پیر کو خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ ان کی حکومت نے روس سے خام تیل خریدنے کے لیے چینی کرنسی کا استعمال کیا ہے۔ روس سے رعایتی نرخوں پر خام تیل کی فراہمی کو بحران کی شکار پاکستانی معیشت اور مہنگائی میں گھری عوام کے لیے ریلیف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف گذشتہ ہفتے کے دوران اپنی تقاریر میں یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ پاکستان کو عالمی منڈی کے مقابلے میں روس سے 15 ڈالر فی بیرل سستا تیل مل رہا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ یہ ایک لاکھ ٹن کا سودا ہے جس میں سے 45 ہزار ٹن کراچی بندرگاہ پر پہنچ چکا ہے اور باقی راستے میں ہے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس خام تیل کو ریفائنری میں پراسیس کیا جائے گا جس کا فائدہ مقامی مارکیٹ کو ہو گا۔ مصدق ملک کا کہنا تھا کہ ’ایک تو ہماری فرنس آئل کے زیادہ بننے سے قیمت بڑھے گی جو ہم نے اپنے اکاؤنٹنگ ماڈل میں ڈال دی ہے۔ دوسرا ہماری آمدورفت کی قیمت میں اضافہ ہو گا، اس لیے ہم نے ایک لاکھ ٹن کا جہاز بک کیا جسے پاکستان کی بندرگاہ کے قریب لا کر 50، 50 ہزار کے دو بحری جہازوں میں منتقل کر دیا گیا کیونکہ پاکستان میں کوئی ایسی بندرگاہ نہیں ہے جہاں ایسا کوئی جہاز اتر سکے۔ اسی طرح ہماری انشورنس کی قیمت بھی بڑھی ہے، لیکن پھر بھی ہمارا فائدہ ہوا ہے۔‘ مصدق ملک کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے نقطہ نظر سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس کرنسی میں معاہدہ ہو رہا ہے۔ کیونکہ ہم پہلی مرتبہ چین کے ساتھ معاہدہ کرنے جا رہے تھے اس لیے بینک کوئی معاہدہ کرنے سے گھبرا رہے تھے۔ انڈیا روپے کا استعمال کرتے ہوئے روسی خام تیل کی خریداری کو بھی فروغ دینا چاہتا تھا۔ انڈیا نے روس کے ساتھ روپوں میں تجارت کرنے کی بہت کوشش کی لیکن اس میں کامیابی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ لیکن یہ سپلائی اب بند ہو گئی ہے کیونکہ امریکہ نے اس طریقہ کار پر پابندی لگا رکھی ہے جس کے ذریعے انڈیا روس کو رقم کی ادائیگی کرتا ہے۔ چینی امور کے ماہر اتل بھاردواج کا کہنا ہے کہ ’ڈی ڈالرائزیشن کی مہم روس اور چین نے شروع کی ہے اور اسے کامیابی تصور کیا جائے گا۔ روس کی چین کے ساتھ تجارت بہت بڑھ گئی ہے اس لیے یہ کرنسی استعمال کی جائے گی۔ پاکستان کی چین کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوا ہے اور امریکہ سے ڈالر خریدنا ان کے لیے مہنگا ثابت ہو گا، اگر وہ چین کے ساتھ تجارت کے لیے یوآن کا استعمال کریں تو ان کی کمزور معیشت کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c88xdjmjm3jo", "summary": "سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان ایک بار پھر فرانس کے دورے پر پیرس پہنچ گئے ہیں۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں سعودی عرب کے محمد بن سلمان کا فرانس کا دورہ کیا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اب فرانس امریکہ سے دوری اختیار کر رہا ہے؟", "title": "محمد بن سلمان ایک بار پھر پیرس میں: فرانس سعودی ولی عہد کو اتنی اہمیت کیوں دے رہا ہے؟", "firstPublished": "2023-06-15T13:54:30.919Z", "id": "c88xdjmjm3jo", "article": "سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان بُدھ کو فرانس کے دورے پر روانہ ہو گئے ہیں۔ ایسے میں پیرس میں ایک سال کے اندر ایک بار پھر سعودی ولی عہد سے ملاقات کے بعد یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا فرانس امریکہ سے دور اور اس کے مخالف کیمپ کے قریب ہو رہا ہے۔ اپریل 2023: چین کے دورے کے دوران چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے بعد بیجنگ سے چینی شہر گوانزو جاتے ہوئے ایک انٹرویو میں میکخواں نے تائیوان کے معاملے پر کہا کہ ’یورپ ایسے مسائل میں پھنس کر ’بڑا خطرہ‘ مول لیتا ہے جو ہمارے مسائل نہیں ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو یورپ کو اپنی سٹریٹجک خود مختاری کو قبول کرنے سے روک رہی ہے۔ چین تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے جبکہ امریکہ تائیوان کی حمایت کرتا ہے اور اسے ہتھیار بھی دیتا ہے۔‘ ترکی میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد محمد بن سلمان کو شدید تنقید کا سامنا تھا۔ تب سے مغربی ممالک سعودی عرب کے ولی عہد سے ملاقات کرنے سے گریز کر رہے تھے۔ لیکن فرانس نے گذشتہ سال جس طرح سعودی ولی عہد کا استقبال کیا وہ دنیا کی توقع سے کہیں زیادہ تھا۔ ان کے مطابق فرانس میں اس طرح کی بات کر کے اپنی اہمیت ظاہر کرنے کی روایت ہے۔ ایک طویل عرصے سے انجیلا مرکل، جو جرمنی کی چانسلر تھیں، کو یورپ کی قیادت کرنے والی ’ڈیفیکٹو لیڈر‘ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اب ان کی روانگی کے بعد یہ مقام ابھی ایک طرح سے خالی پڑا ہے۔ میکخواں اس مقام کو حاصل کرنے کے بھی خواہاں ہیں۔‘ پروفیسر ہرش پنت کا کہنا ہے کہ ’فرانس ایک طرح سے امریکہ کی مدد کر رہا ہے۔ اگر سعودی عرب پوری طرح سے چین کے کیمپ میں چلا جاتا ہے تو یہ مغربی ممالک کے لیے بہت بڑا نقصان ہو گا کہ دونوں ملک ایک دوسرے سے الگ چل رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ فرانس یہ بھی محسوس کر رہا ہے کہ وہ اپنی الگ پالیسی پر عمل پیرا ہے لیکن میخکواں بالواسطہ طور پر امریکہ کی مدد کر رہے ہیں۔‘ پروفیسر ہرش پنت کا کہنا ہے کہ ’مغربی ممالک کے سامنے توانائی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سعودی ولی عہد کے آخری دورے میں یہ ایک بڑا مسئلہ تھا۔ چونکہ روس پر پابندیاں تھیں، اس لیے یہ ملک چاہتا تھا کہ سعودی عرب تیل کی قیمتوں میں اضافے کی اجازت نہ دے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgxzngdy5zvo", "summary": "شیل کمپنی کی جانب سے پاکستان میں اپنے موجودہ حصص فروخت کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر کئی سوالات ابھرے ہیں کہ کیا ملک میں شیل کے پیٹرول پمپس بھی بند ہو جائیں گے۔ ", "title": "کیا شیل پاکستان میں اپنا کاروبار ختم کر رہا ہے؟", "firstPublished": "2023-06-15T09:12:57.061Z", "id": "cgxzngdy5zvo", "article": "شیل کمپنی کی جانب سے حال ہی میں منظر عام پر آنے والے اس اعلان میں کہا گیا ہے کہ کمپنی 75 سال سے پاکستان میں کام کرنے کے بعد یہاں اپنے شیئرز فروخت کرنے جا رہی ہے۔ شیل کمپنی کی جانب سے پاکستان میں اپنے موجودہ حصص فروخت کرنے کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر کئی ایسے سوالات بھی ابھرے ہیں کہ کیا ملک میں شیل کے پیٹرول پمپس بھی بند ہو جائیں گے۔ اس سلسلے میں شیل پاکستان سے رابطہ کیا گیا تو کمپنی نے اپنے تحریری جواب میں بی بی سی کو بتایا کہ شیل پیٹرولیم کمپنی لمیٹڈ نے شیل پاکستان میں اپنے 77.42 حصص فروخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یوسف سعید نے مزید وضاحت کی کہ شیل کمپنی نے پاکستان میں موجود اپنی کمپنی کے حصص فروخت کر دینے ہیں اور یہاں سے اس کا انخلا ہو جائے گا۔ شیل پاکستان نے سٹاک مارکیٹ میں موجود حصص کے بارے میں اپنے تحریری جواب میں بتایا کہ کمپنی کی جانب سے فروخت کا سارا عمل ریگولیٹری قواعد و ضوابط کے مطابق ہو گا اور اس سلسلے میں سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے پاس حصص حاصل کرنے کے لیے ٹینڈر آفر بھی شامل ہو گی۔ سٹاک مارکیٹ میں اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ جس کے پاس اکثریتی حصص ہیں یعنی کمپنی یہ آفر شیئر ہولڈرز کو دے سکتی ہے کہ وہ اپنے شیئرز اسے فروخت کر دیں اور اس کی ایک قیمت آفر ہوتی ہے اور اس قیمت کا تعین ایک خاص مدت میں اس کمپنی کے حصص کی خرید و فروخت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ شیل پیٹرولیم کمپنی کی جانب سے اپنے حصص فروخت کرنے کا اعلان کیا صرف پاکستان سے کاروبار بند کرنے کی پالیسی کا حصہ ہے یا دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی وہ ایسا کر رہی ہے؟ انرجی کے شعبے کے ماہرین کے مطابق اگرچہ شیل پیٹرولیم کمپنی دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی اپنا کاروبار کم رہی ہے، جس میں ان کا ریٹیل کا شعبہ یعنی پیٹرول پمپس شامل ہیں تاہم پاکستان سے تو وہ مکمل طور پر نکل رہے ہیں۔ معاشی امور کے تجزیہ کار خرم شہزاد نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ شیل پیٹرولیم کمپنی دنیا کی چھوٹی مارکیٹوں سے نکل رہی ہے، جن میں پاکستان بھی شامل ہے کیونکہ وہاں پر انھیں مالی خسارے کا سامنا تھا۔ شیل پیٹرولیم کمپنی کی جانب سے پاکستان میں اپنے حصص کی فروخت کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف سوال کیے گئے ہیں، جن میں سے ایک شیل کے پیٹرول پمپس کی بندش کے بارے میں بھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ فیصلہ معاہدے میں طے پائے گا کہ پیٹرول پمپس شیل کے حصص لینے والی کمپنی اپنے نام سے کھولے رکھے گی یا پھر اسے ہی جاری رکھے گی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp4ky0dj1l0o", "summary": "پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ پر عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی جانب سے اعتراضات سامنے آنے کے بعد بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے ایک بار پھر ملک کے کم زرمبادلہ ذخائر کی نشاندہی کرتے ہوئے ڈیفالٹ ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔", "title": "آئی ایم ایف کو پاکستان کے حالیہ بجٹ پر کیا اعتراضات ہیں؟", "firstPublished": "2023-06-15T07:33:10.407Z", "id": "cp4ky0dj1l0o", "article": "پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ پر عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی جانب سے اعتراضات سامنے آنے کے بعد بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے ایک بار پھر ملک کے کم زرمبادلہ ذخائر کی نشاندہی کرتے ہوئے ڈیفالٹ ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے حال ہی میں پیش کیے جاںے والے وفاقی بجٹ پر بدھ کی رات آئی ایم ایف پاکستان کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا جس میں مختلف نکات پر اعتراض کیا گیا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے متعدد اعلانات اور مختلف اقدامات کے باوجود پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی معاشی امداد کی قسط کے لیے متوقع سٹاف لیول معاہدہ کئی ماہ سے تعطل کا شکار ہے۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز نے اپنے بیان میں وفاقی حکومت کی جانب سے تجویز کردہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو ’نقصان دہ مثال‘ قرار دیتے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام کی بنیادی شرائط کی خلاف ورزی قرار دیا۔ دوسری جانب ایستھر پیریز نے بیان میں یہ بھی کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے لیے پیش کیے جانے والے بجٹ میں ٹیکس کے نظام کو پھیلانے کے موقع کو ضائع کیا گیا۔ وفاقی وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث بخش پاشا نے بدھ کی شام سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف نے بجٹ کے مختلف امور پر سوالات کیے ہیں۔ واضح رہے کہ بجٹ پیش کیے جانے کے بعد جب یہ سوال اٹھا کہ کیا حکومت نے آئی ایم ایف کی تجاویز کے مطابق بجٹ تیار کیا ہے تو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم نے بجٹ خسارے میں جو تبدیلیاں کی ہیں وہ آئی ایم ایف کے نکتہ نظر سے مثبت تبدیلیاں ہوں گی۔ جو بجٹ ہم نے آئی ایم ایف کو دکھایا، یہ نمبرز اس سے بہتر ہیں۔‘ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ ’بجٹ کے نمبرز ملنے کے بعد آئی ایم ایف ہم سے کئی بار سوالات کر چکا ہے۔ مجھے توقع ہے کہ بجٹ کے حوالے سے کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جو مسئلہ ثابت ہو۔‘ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے بجٹ پر اعتراضات کے ساتھ ہی بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے ڈیفالٹ کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ وفاقی بجٹ پر آئی ایم ایف کے اعتراضات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’بجٹ کا جائزہ لیں تو ٹیکس اکھٹا کرنے کے لیے سارے ایسے اقدامات لے گئے جو پہلے ہی تھے، ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے پتا چلے کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے گا اور آئی ایم ایف کا یہی اعتراض ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2rnjn2d2yo", "summary": "گلوکارہ بیونسے اس وقت ایک بین الاقوامی دورے پر ہیں جہاں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں کانسرٹ کریں گی، تاہم ان کے گذشتہ ماہ سویڈن کے دورے کے دوران ملک میں اتنی ہلچل مچی اور ہوٹلوں اور ریستوارانوں کی طلب میں اتنا اضافہ دیکھنے کو ملا کہ یہ ملک کہ معاشی اعداد و شمار میں بھی نظر آیا۔", "title": "’بیونسے ایفیکٹ‘: گلوکارہ کے کانسرٹ کی اتنی دھوم کہ مہنگائی بڑھ گئی", "firstPublished": "2023-06-15T06:12:58.298Z", "id": "cv2rnjn2d2yo", "article": "اگر آپ کو لگتا ہے کہ مہنگائی کی وجہ روس یوکرین جنگ اور اس کے باعث سپلائی چین میں پیدا ہونے والی رکاوٹیں ہیں تو آپ کو بیونسے کے بارے میں علم نہیں۔ گلوکارہ بیونسے اس وقت ایک بین الاقوامی دورے پر ہیں، جس کے دوران وہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں کانسرٹ کریں گی تاہم ان کے گذشتہ ماہ سویڈن کے دورے کے دوران ملک میں اتنی ہلچل مچی اور ہوٹلوں اور ریستوارانوں کی طلب میں اتنا اضافہ دیکھنے کو ملا کہ یہ ملک کہ معاشی اعداد و شمار میں بھی نظر آیا۔ دانسکے بینک میں معاشی امور کے ماہر مائیکل گراہن کا کہنا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ بیونسے بھی ہوٹلوں کی قیمتوں میں اضافے کی اہم وجہ تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں بیونسے تفریح اور ثقافت سے متعلق مصنوعات اور سروسز کی قیمتوں میں اضافے کی اہم وجہ تھیں۔ انھوں نے بی بی سی کو ایک ای میل کے ذریعے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’میں بیونسے کو مہنگائی میں اضافے کے لیے قصور وار نہیں ٹھہراتا لیکن ان کی پرفارمنس اور دنیا بھر سے ان کو سویڈن میں پرفارم کرنے کی ڈیمانڈ نے اس حوالے سے مدد ضرور ک۔‘ اس میں زیادہ شک نہیں کہ گلوکارہ کا سات برس میں پہلا دورہ معاشی طور پر ایک اہم لمحہ ضرور ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کا یہ دورہ ستمبر میں اختتام تک دو ارب پاؤنڈ کمانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ ایئر بی این نی کے مطابق جب بیونسے کے دورے کی تاریخوں کا اعلان ہوا تو جن شہروں میں ان کے کانسرٹ ہونا تھے وہاں رہنے کی جگہیں ڈھونڈنے میں تیزی آ گئی۔ کانسٹرس کے لیے ٹکٹس چند ہی روز میں فروخت ہو گئے اور ان کی ری سیل مارکیٹ میں قیمتوں میں چند ہی روز میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملا۔ برطانیہ میں کارڈف شہر میں 60 ہزار سے زیادہ افراد مختلف ممالک سے ان کے کانسرٹ کے لیے آئے۔ ان میں لبنانی، امریکی اور آسٹریلوی باشندے شامل تھے۔ لندن میں ان کے کانسرٹ کے باعث ہوٹل کے کمروں کی ڈیمانڈ اتنی بڑھ چکی تھی کہ ایک موقع پر کچھ بے گھر افراد جنھیں مقامی کونسل کی جانب سے ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا، کو مبینہ طور پر ہوٹل بدر کر کے بیونسے کے مداحوں کو جگہ فراہم کی گئی۔ سٹاک ہوم، جہاں بیونسے نے 46 ہزار افراد کے لیے دو راتوں کو کانسرٹ کیے، وہاں دنیا بھر سے لوگوں نے شرکت کی، خاص طور پر امریکہ سے کیونکہ مقامی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قدر زیادہ ہے اس لیے یہاں ٹکٹس کی قیمتیں سستی ہوتی ہیں۔ گراہن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی ایک سٹار کا اتنا زیادہ اثر ہونا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے اور عام طور پر اس طرح کا اثر بڑے فٹبال ٹورنامنٹس کا ہوتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyrvnn1ey85o", "summary": "20 ویں صدی کے وسط سے دنیا پر امریکی کرنسی یعنی ڈالر کا غلبہ ہے اور گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران متعدد واقع پر اس غلبے کے ٹوٹنے، ختم ہونے یا کمزور پڑنے کی پیش گوئیاں کی جاتی رہی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہر کوئی ڈالر میں تجارت کیوں کرتا ہے اور کیا ڈالر کا کوئی متبادل ہے؟", "title": "کیا دنیا پر ڈالر کا غلبہ ختم ہو سکتا ہے اور ایسا کب اور کون کر سکتا ہے؟", "firstPublished": "2023-06-13T04:21:12.759Z", "id": "cyrvnn1ey85o", "article": "20 ویں صدی کے وسط سے دنیا پر امریکی کرنسی یعنی ڈالر کا غلبہ ہے اور گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران متعدد مواقع پر اس غلبے کے ٹوٹنے، ختم ہونے یا کمزور پڑنے کی پیش گوئیاں کی جاتی رہی ہیں۔ یکم جنوری 1999 میں یورپی کرنسی ’یورو‘ کے متعارف ہونے کے بعد اور سنہ 2008 میں امریکہ سے شروع ہونے والے عالمی مالیاتی بحران کے بعد بھی امریکی ڈالر کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا۔ گذشتہ سال روس کے یوکرین پر حملے کے بعد بھی ڈالر کے خاتمے کی بات کی گئی، مگر یہ کرنسی بدستور بڑی کرنسی کی صورت میں دنیا میں موجود ہے۔ ان بانڈز کی قیمت گر رہی ہے کیونکہ امریکی قرضے پر شرح سود میں اضافہ ہوا ہے۔ سیٹسر کا خیال ہے کہ 2022 میں، یہ دیگر ریزرو کرنسیوں کو جاری کرنے والے ممالک کے مقابلے میں تیزی سے ہوا، جس کی وجہ سے ذخائر میں ڈالر کا حصہ کم ہوا ہے۔ سیٹسر نے کہا کہ ’اگر آپ امریکی حکومت کے بانڈز کی اس صورتحال کو آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھیں تو آپ کو ڈالر کہیں بھاگتا ہوا نظر نہیں آئے گا۔ اس کے علاوہ 2022 میں کسی اور بڑی کرنسی کی عالمی سطح پر اتنی مانگ نہیں تھی جتنی ڈالر کی تھی۔‘مالیاتی نظام کے مؤرخ نیل فرگوسن کا کہنا ہے کہ ڈالر کی بالادستی کے خاتمے کے بارے میں نصف صدی سے بھی زیادہ سے بات کی جا رہی ہے۔ اپنے حالیہ دورہ چین کے دوران برازیل کے صدرسے متعدد مواقع پر یہ سوال پوچھا گیا کہ ’ہر کوئی ڈالر میں تجارت کیوں کرتا ہے، یہ فیصلہ کس نے کیا؟‘ حقیقت یہ ہے کہ یورو کی گردش کے 20 سالوں کے دوران، ڈالر نے عالمی ذخائر میں اپنا حصہ صرف 10 فیصد کھویا ہے، یعنی 21ویں صدی کے آغاز میں ذخائر میں اس کا تقریباً 70 فیصد تھا، اور اب یہ تقریباً 60 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ، ڈالر میں تمام ادائیگیاں دنیا کے سب سے بڑے امریکی بینکوں کے ذریعے کی جاتی ہیں، اور امریکی حکام اس کرنسی کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسٹیفن لی جین دلیل دیتے ہیں کہ ڈالر وقت کے ساتھ تصفیہ کی کرنسی (سیٹلمنٹ کرنسی) کے طور پر اپنی جگہ کھو دے گا، تاہم ایسا مستقبل قریب کا معاملہ نہیں ہے۔ وہ زور دیتے ہیں کہ کیونکہ دنیا میں امریکی مالیاتی منڈیوں کا سائز، استحکام یا کھلے پن کے لحاظ سے کوئی متبادل نہیں ہے اس لیے ڈالر کا مقابلہ کرنا مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کافی نہیں ہے کہ امریکہ دنیا میں ڈالر کی بالادستی کی حمایت کرنا چاہتا ہے یا نہیں کرنا چاہتا۔ ڈالر ایک بین الاقوامی کرنسی کے طور پر زبردست فوائد حاصل کر رہا ہے، جس کی بڑی وجہ بڑی، لیکویڈ اور اچھی طرح سے کام کرنے والی مالیاتی منڈیاں ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1vzrerg9dko", "summary": "سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں دیا گیا 35 فیصد تک ایڈہاک ریلیف الاؤنس کیا ہے اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ٹیکسز اور خصوصی ریلیف کی مد میں کیا تجاویز دی گئی ہیں؟", "title": "تنخواہوں اور پینشن میں اضافے کے علاوہ آپ کے لیے اس بجٹ میں کیا خاص ہے؟", "firstPublished": "2023-06-09T16:36:37.693Z", "id": "c1vzrerg9dko", "article": "پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 2023-24 کا بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے جسے حکومت کی جانب سے مشکل معاشی حالات میں ایک ’ذمہ دارانہ‘ بجٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس بجٹ میں تنخواہوں اور پینشن میں اضافے کا اعلان کیا گیا، کچھ مخصوص ٹیکس بھی لگائے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مختلف شعبوں میں خصوصی ریلیف بھی دیا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ کے لیے ان تنخواہوں اور پینشنز، ٹیکسز اور خصوصی ریلیف کی مد میں کیا تجاویز دی گئی ہیں اور ان کا عام آدمی کے لیے مطلب ہے، آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے نئے مالی سال میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد تک کے ’ایڈہاک ریلیف الاؤنس‘ کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ ایک سے 16ویں گریڈ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد جبکہ 17 سے 22ویں گریڈ کے افسران کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ ایڈہاک ریلیف الاؤنس کی مد میں کیا گیا ہے۔ اب یہ ایڈہاک ریلیف الاؤنس کا مطلب کیا ہے؟ ایسا ایڈہاک ریلیف الاؤنس اس سے قبل بھی حکومتوں کی جانب سے دیا جاتا رہا ہے، تاہم بعد میں اسے ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں ضم کر دیا جاتا ہے۔ تاہم فی الحال یہ الاؤنس ایک سال کے لیے ہو گا۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی 17ویں گریڈ کے ملازم کی تنخواہ پچاس ہزار ہے تو اسے تنخواہ کی مد میں ساڑھے 17 ہزار روپے زیادہ دیے جائیں گے۔ تاہم اس کے ساتھ سرکاری ملازمین کو ملنے والی مراعات میں یہ اضافہ شامل نہیں کیا جائے گا، اور یہ ان کی پینشن میں بھی کاؤنٹ نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازمین کی پینشنز میں ساڑھے 17 فیصد کا فلیٹ اضافہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ عام طور پر بجٹ میں جو اقدام نجی شعبے کے تنخواہ دار طبقے کو متاثر کرتا ہے وہ انکم ٹیکس کی مد میں اضافہ یا سلیبز میں تبدیلی ہوتی ہے تاہم اس مرتبہ نہ تو کوئی اضافہ کیا گیا ہے اور نہ ہی سلیبز میں کوئی تبدیلی کی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے جن تین شعبوں میں ریلیف دیا گیا ہے ان میں زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبے شامل ہیں۔ تاہم سب سے پہلے ایک ایسا ریلیف جس پر اکثر افراد خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں برآمدات بڑھانے کے لیے انکم ٹیکس کی موجودہ رعایتی شرح جو 0.25 فیصد ہے اسے تیس جون 2026 تک بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔ ساتھ ہی 1300 سی سی کی اوپر کی گاڑیوں کے لیے ڈیوٹی اور ٹیکسز کی مد میں جو کیپ لگایا گیا تھا وہ ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاہم اس حوالے سے مزید وضاحت آنا باقی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c25vjy5qw91o", "summary": "خرچہ کتنا ہو گا؟ آمدن کتنی ہو گی؟ اور فرق کہاں سے پورا ہو گا؟ حکومت نے ان سوالوں کے جواب دیتے ہوئے آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا ہے جس کا اثر پورے ملک پر پڑے گا۔ ماہرین اقتصادیات سمجھتے ہیں کہ عام آدمی کے لیے بجٹ میں یہ پانچ چیزیں اہم ہیں۔ ", "title": "ٹیکس، آمدن، مہنگائی اور سبسڈی: بجٹ کے پانچ نکات جو ایک عام پاکستانی کے لیے اہم ہیں", "firstPublished": "2023-06-09T02:56:34.948Z", "id": "c25vjy5qw91o", "article": "مہنگائی کے اس دور میں آمدن اور اخراجات کا فرق کیسے پورا ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں حکومت نے آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا ہے جس کا اثر پورے ملک پر پڑے گا۔ اسی لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ضروری ہے جس میں تاخیر پر تاخیر ہو رہی ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر چکی ہے۔ دوسری جانب اس حکومت کی جانب سے متوقع طور پر یہ آخری بجٹ بھی ہے کیوں کہ اسی سال عام انتخابات ہونا ہیں۔ ایسے میں رواں مالی سال کے بجٹ کے حوالے سے ماہرین اقتصادیات سمجھتے ہیں کہ عام آدمی کے لیے بجٹ میں یہ پانچ چیزیں اہم ہیں۔ علی حسنین لاہور کی لمز یونیورسٹی میں اقتصادیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ’پاکستان اس وقت جس مشکل مقام پر کھڑا ہے اس کا فائدہ اسی میں ہے کہ آئی ایم ایف اور دیگر قرضداروں کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے۔‘ لاہور سے ماہرِ اقتصادیات علی حسنین کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف اور دیگر قرض دینے والے اداروں سے تعاون کا ’ایک عام پاکستانی کو فائدہ یہ ہو گا آئندہ پانچ سال کے دوران قرض لینے اور واپس کرنے کے طریقہ کار میں اصلاحات کی جا سکیں گی۔‘ سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے دنیا نیوز کے پروگرام میں میزبان کامران خان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی ایم پاکستان کے بجٹ پر سوال اٹھا سکتا ہے اگر حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم اتنے اخراجات کریں گے، اتنا ٹیکس جمع ہو جائے گا، تو کیا آئی ایم ایف مانے گا کہ واقعی جتنا ٹیکس اکھٹا کرنے کا دعوی کیا گیا وہ اکھٹا ہو سکتا ہے یا نہیں۔‘ ماہرِ اقتصادیات ساجد امین کہتے ہیں حکومت ٹیکسوں کی مد میں جمع ہونے والی آمدن کا لگ بھگ 60 فیصد حصہ ان ڈائریکٹ یا بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل کرتی ہے۔ یہ وہ ٹیکس ہیں جو ان اشیا پر لگا دیا جاتا ہے جو لوگ استعمال کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ جب بنیادی ضرورت کی کچھ ایسی اشیا اتنی زیادہ مہنگی ہو جائیں کہ ان تک رسائی عام آدمی کے لیے مشکل ہو جائے تو حکومت اس کی مدد کرنے کے لیے ان اشیا پر سبسڈی دیتی ہے یعنی امداد دیتی ہے۔ اس سبسڈی سے حکومت اس چیز کی قیمت کا حصہ خود ادا کرتی ہے۔ حکومتیں بجٹ میں ایسی سبسڈیز کے لیے علیحدہ سے خاص طور پر رقوم رکھتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں عام آدمی کو تاریخ کی بدترین مہنگائی کا سامنا ہے۔ ایسے میں وہ خاص طور پر بجٹ میں حکومت کی طرف دیکھ رہا ہو گا کہ حکومتی کتنی چیزوں پر اور کتنی سبسڈی دیتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/pakistan-65852216", "summary": "روس سے درآمد کیے جانے والے خام تیل کا پہلا کارگو پاکستان میں کراچی کی بندرگاہ پر اتوار کو پہنچ گیا ہے جس میں 45 ہزار ٹن خام تیل ہے۔ روسی خام تیل کے جہاز کی آمد سے متعلق خبر کی تصدیق کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی ٹویٹ میں اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔", "title": "روس سے خام تیل کا پہلا کارگو پاکستان پہنچ گیا", "firstPublished": "2023-06-09T00:52:27.000Z", "id": "07f5c433-18a4-43fe-b18a-98f68f32f92a", "article": "پاکستان نے اس سال اپریل میں ایک لاکھ ٹن خام تیل روس سے منگوانے کے لیے آرڈر دیا تھا جسے لے کر پہلا آئل ٹینکر پاکستان آ گیا ہے۔ پاکستان ریفائنری لمیٹیڈ روسی خام تیل کا پہلا کارگو حاصل کرے گی۔ روس سے درآمد کیے جانے والے خام تیل کا پہلا کارگو پاکستان میں کراچی بندرگاہ پر اتوار کو پہنچ گیا ہے جس میں 45 ہزار ٹن خام تیل ہے۔ ایک لاکھ ٹن روسی خام تیل کا جہاز کچھ دنوں پہلے عمان کی بندرگاہ پر پہنچا تھا جسے دو چھوٹے جہازوں کے ذریعے پاکستان پہنچانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ دوسری جانب روسی خام تیل کے جہاز کی آمد سے متعلق خبر کی تصدیق کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی ٹویٹ میں خوشی کا اظہار کیا۔ شہباز شریف نے لکھا ’ یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہوئی کہ روس کا پہلا رعایتی خام تیل کا کارگو کراچی پہنچ گیا ہے۔ ہم خوشحالی، اقتصادی ترقی اور توانائی کی حفاظت اور سستی کی طرف ایک ایک قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔‘ شہباز شریف نے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا جو ان کے مطابق اس قومی کوشش میں شامل رہے اور روسی تیل کی درآمد کے وعدے کو حقیقت میں بدلنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم جس کی منصوبہ بندی، جس کے کہنے پر ہم نے یہ کیا ہے، تو وہ جو بھی ہے اس میں آئے گا۔۔۔ ابھی سارے عمل کو 20، 25 روز ہوئے ہیں۔ میرا خیال ہے اس میں دو، تین ہفتے اور لگیں گے۔‘ عمران خان کے مطابق ’جو آدمی 27 سال سے ایک تحریک پر لگا ہوا ہے تو کیا وہ ڈیل کرے گا۔ بتائیں کہ میرے ضمیر کی کیا قیمت ہے میں وزیر اعظم بن چکا ہوں۔ میں طاقتور کو قانون کے نیچے لانا چاہتا ہوں میں نے اس لیے بار بار کہا کہ میں نے غلطی کی مجھے شروع میں انتخابات کروا دینا چاہیے تھے۔‘ اس موقع پر علی محمد کی جانب سے ایک وڈیو پیغام بھی سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے عمران خان کے ساتھ ہونے کا عزم دہراتے ہوئے کہا ’ ہر سیاسی لیڈر کے ساتھ جو ہوتا رہا ہے میں اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہوں، آج تو میرے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ہیں لیکن جب میاں صاحب کو ہتھکڑیاں پہنائی گئیں تو میں اس کے بھی خلاف تھا اور میرا اس پر بیان ہے۔ ‘ پی ٹی آئی کے مستقبل کے حوالے سے پوثھے گئے سوال کے جواب میں شاہ محمود نے دعوی کیا کہ ’تحریک انصاف ایک وفاقی جماعت ہے جس کی پہنچ شہر شہر گاوں گاوں ہے۔ پی ٹی آئی ایک وفاقی سوچ کی جماعت ہے اور اس کا مستقبل روشن دکھائی دیتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cx9pjq4wqjqo", "summary": "بی بی سی نے افغانستان کا سفر کیا اور پوست کی کاشت پر براہ راست کارروائی کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے اس نے سیٹلائٹ تجزیے کا استعمال کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان رہنما پوست کی کاشت کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے میں پہلے کسی سے بھی کہیں زیادہ کامیاب رہے ہیں۔", "title": "منشیات کے خلاف کارروائی: ’طالبان نے افغانستان میں وہ کام کیا جو مغرب بھی نہ کر سکا‘", "firstPublished": "2023-06-08T08:52:06.305Z", "id": "cx9pjq4wqjqo", "article": "ان لوگوں کا افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگرہار میں طالبان کے انسداد منشیات یونٹ سے تعلق ہے، اور انھوں نے ہمیں پوست کی کاشت کو ختم کرنے کے لیے اپنی گشت میں شامل ہونے کا نادر موقع فراہم کیا ہے۔ طالبان کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ پابندی افیون کے مضر اثرات کی وجہ سے عائد کی گئی ہے جو کہ پوست کے بیجوں سے حاصل کیا جاتی ہے۔ ان کہنا تھا کہ یہ پابندی اس لیے عائد کی گئی ہے کہ یہ ان کے مذہبی عقائد کے منافی ہے۔ بی بی سی نے افغانستان کا سفر کیا اور پوست کی کاشت پر براہ راست کارروائی کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے اس نے سیٹلائٹ تجزیے کا استعمال کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان رہنما پوست کی کاشت کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے میں پہلے کسی سے بھی کہیں زیادہ کامیاب رہے ہیں۔ ہمیں افیون کی کاشت کرنے والے بڑے صوبوں میں پوست کی افزائش میں بہت زیادہ کمی نظر آئی ہے۔ ایک ماہر کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال کی نسبت سالانہ کاشت میں 80 فیصد کی کمی ہو سکتی ہے۔ اس کی جگہ کم منافع بخش گندم کی فصلوں نے لے لی ہے۔ ایسے میں بہت سے کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ مالی طور پر نقصان اٹھا رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’اس بات کا امکان ہے کہ کاشت سنہ 2022 کے مقابلے میں 20 فیصد سے بھی کم ہو گئی۔ اور یہ کمی اپنے آپ میں بہت بڑی کمی ہو گی جو کہ پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ہے۔‘ نعمت اللہ اپنی عمر کی بیس کی دہائی کے اوائل میں ہیں۔ ان کی زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ وہ باہر نکلتے وقت بم سے نہیں ڈرتے۔ لیکن ایک طویل جنگ سے متاثرہ لوگوں کے لیے افیون کی کاشت پر پابندی ایک بڑا دھچکا ہے اور یہ اس وقت سامنے آيا ہے جب افغانستان کی معیشت بیٹھ چکی ہے اور ملک میں تقریباً ہر طرف غربت کا راج ہے۔ آبادی کا دو تہائی حصہ یہ نہیں جانتا کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے آئے گا۔ ہم نے پوچھا کہ جب طالبان حکومت نے خواتین کے تمام این جی اوز کے لیے کام کرنے پر پابندی لگا کر ان کے آپریشنز اور فنڈنگ کو خطرے میں ڈال دیا ہے تو وہ بین الاقوامی تنظیموں سے مدد کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں۔ جہاں تک برطانیہ اور باقی یورپ میں ہیروئن کی لت کا تعلق ہے تو مائیک ٹریس کا کہنا ہے کہ افغانستان میں افیون کی کاشت میں ڈرامائی کمی سے منشیات کی کھائی جانے والی قسم میں تبدیلی کا امکان ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ممکنہ طور پر لوگ مصنوعی ادویات کی طرف رجوع کر سکتے ہیں جو افیون سے کہیں زیادہ غلیظ ہو سکتی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv216d4p5j6o", "summary": "سعودی عرب کی جانب سے جولائی میں یومیہ دس لاکھ بیرل تیل کی کٹوتی کے اعلان کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔", "title": "تیل کی پیداوار میں کٹوتی، عالمی قیمتوں میں اضافہ", "firstPublished": "2023-06-05T12:19:53.591Z", "id": "cv216d4p5j6o", "article": "سعودی عرب کی جانب سے جولائی میں یومیہ دس لاکھ بیرل تیل کی کٹوتی کے اعلان کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اوپیک پلس دنیا کے خام تیل کا تقریباً 40 فیصد پیدا کرتا ہے اور اس کے فیصلوں کا تیل کی قیمتوں پر بڑا اثر پڑ سکتا ہے۔ پیر کے روز ایشیا میں برینٹ خام تیل کی قیمت میں 2.4 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 77 ڈالر فی بیرل پر بند ہوا۔ تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کا اتوار کو سات گھنٹے تک جاری رہنے والا یہ اجلاس توانائی کی گرتی ہوئی قیمتوں کے پس منظر میں ہوا۔ گزشتہ سال جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا ، لیکن اب یہ تنازع شروع ہونے سے پہلے کی سطح پر واپس آ گیا ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں اوپیک پلس نے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اور اس کے اتحادیوں کے حوالے سے پیداوار میں 20 لاکھ بیرل کمی پر اتفاق کیا تھا جو عالمی طلب کا تقریبا 2 فیصد ہے۔ اتوار کے روز سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے کہا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو ان کے ملک میں دس لاکھ بیرل یومیہ کی کٹوتی کو جولائی کے بعد بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک سعودی لالی پاپ ہے،‘ جسے مارکیٹ کو مستحکم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اوپیک پلس کے دو روزہ اجلاس کے آغاز سے قبل یہ توقع کی جا رہی تھی کہ تیل کا کارٹل قیمتوں میں اضافے کے لیے پیداوار میں کٹوتی کرے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ زیادہ تر ارکان اس خیال کے خلاف تھے، کیونکہ کسی بھی کٹوتی سے تیل کی آمدنی متاثر ہوگی، جو ان کی معیشتوں کو چلانے کے لیے اہم ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے یومیہ دس لاکھ بیرل تیل کی رضاکارانہ کمی کا فیصلہ غیر متوقع تھا لیکن یہ کوئی بڑی حیرت کی بات نہیں ہے۔ تیل پیدا کرنے والے ملکوں کے رہنما کی حیثیت سے، اور تیل کے سب سے بڑے برآمد کنندہ کے طور پر، یہ واحد ملک تھا جو پیداوار کو کم کرنے کے قابل تھا۔ ریاض کے نقطہ نظر سے یہ ضروری ہے کہ خام تیل کی قیمت 80 ڈالر فی بیرل سے زیادہ رہے۔ سعودی حکام چاہتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے زیر قیادت منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ ہوتے رہیں کیونکہ وہ مملکت کی معیشت کو تیل سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودیوں کا یہ اقدام آنے والے مہینوں میں ایندھن کی طلب کے بارے میں غیر یقینی نقطہ نظر کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ عالمی معیشت کے بارے میں خدشات، خاص طور پر امریکہ اور یورپ میں کساد کے خدشات سے خام تیل کی قیمتوں پر مزید دباؤ پڑنے کی توقع ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c28pxyd47d3o", "summary": "پاکستان کی معیشت اور جمہوریت گذشتہ کچھ عرصے سے مشکلات کا شکار ہیں۔ ایسے میں یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے؟ کیا پاکستان میں جمہوریت خطرے میں ہے؟ اور موجودہ حالات کی بنیاد پر ملک کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟", "title": "معیشت اور جمہوریت: پاکستان کس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے؟", "firstPublished": "2023-06-05T05:41:49.574Z", "id": "c28pxyd47d3o", "article": "پاکستان کی معیشت گذشتہ کچھ عرصے سے بڑی مشکلات کا شکار ہے، اور خاص کر گذشتہ ایک سال پاکستان کے لیے معاشی محاذ پر کافی تباہ کن رہا ہے۔ ایسے میں یہ سوالات اب شد و مد سے اٹھ رہے ہیں کہ کیا پاکستان واقعی ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے؟ کیا پاکستان میں جمہوریت خطرے میں ہے؟ اور موجودہ حالات کی بنیاد پر ملک کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟ ماہرین کے مطابق نومئی کے تناظر میں شروع کیے گئے اقدامات کے بعد عمران خان اب بظاہر بیک فٹ پر نظر آ رہے ہیں جب کہ ان کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہے۔ روئٹرز کو دیے گئے اپنے حالیہ انٹرویو میں عمران خان نے ایک مرتبہ پھر الزام عائد کیا ہے کہ ان کی پارٹی کے خلاف جاری کریک ڈاؤن میں ملٹری اسٹیبلیشمنٹ ملوث ہے۔ تاہم ماضی قریب میں فوج متعدد مواقع پر سیاست میں مداخلت جیسے الزامات کی تردید کرتی آئی ہے۔ ملک کی سیاست میں فوج کی مداخلت اور اثرورسوخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وسعت نے وضاحت کی کہ وہ لوگ جو گذشتہ ستر سالوں سے ملک کو چلا رہے ہیں وہ ہی موجودہ بحران کے ذمہ دار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کی سیاست میں مداخلت اس یقین سے ہوتی ہے کہ سویلین بدعنوان اور کم نظر ہوتے ہیں اور یہ کہ اگر ملک کو سیاست دانوں کے حوالے کر دیا گیا تو تباہی ہو گی۔ چند ماہرین کے مطابق پاکستان کے سیاسی اور معاشی بحران ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سیاسی اتھل پتھل شاید براہ راست معاشی بحران کا سبب نہ بنی ہو لیکن یہ اس میں اضافے کا باعث ضرور بنی ہے۔ حال ہی میں سٹیٹ بینک آف پاکستان نے آگاہ کیا تھا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 4.19 ارب ڈالر پر آ گئے ہیں جبکہ ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ رقم ایک ماہ کی درآمدات کے لیے مشکل سے کافی ہے۔ تاہم ماہر اقتصادیات اشفاق حسن کا خیال ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کے راستے پر نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک نے 1998 میں جوہری تجربات کے بعد ابتر حالات دیکھے ہیں، ملک پہلے ڈیفالٹ نہیں ہوا تو اب بھی ڈیفالٹ نہیں ہو گا۔ دوسری جانب ماہر اقتصادیات شبر زیدی کا کہنا ہے کہ ڈیفالٹ ہو یا نہ ہو، پاکستان کی معیشت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے اور یہ حکومت اس سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’معیشت میں اصلاحات کو سیاسی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ سیاست کو اس سے دور رکھنا چاہیے۔ ہماری برآمدات کم ہو رہی ہیں اور ہمارے قرضے بڑھ رہے ہیں۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے کوئی بھی حکومت اپنے طور پر سنبھال سکتی ہے۔ ملک کو بچانے کے لیے معاشی انقلاب کی ضرورت ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pl40l0vd1o", "summary": "پاکستان کی کمزور معیشت اور آئی ایم ایف پروگرام پر غیر یقینی کی صورتحال میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت آئی ایم ایف کی جانب سے ’حقیقت پسندانہ‘ بجٹ بنانے کے مطالبے کے برعکس ’عوام دوست‘ بجٹ دینے کے وعدے پر پورا اتر سکے گی", "title": "حکومت کو بجٹ پیش کرنے میں کیا مشکلات ہیں اور عوام کے لیے اس میں کیا سرپرائز ہو سکتے ہیں؟", "firstPublished": "2023-06-04T10:19:04.688Z", "id": "c6pl40l0vd1o", "article": "اس صورتحال میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت آئی ایم ایف کی جانب سے ’حقیقت پسندانہ‘ بجٹ بنانے کے مطالبے کے برعکس ’عوام دوست‘ بجٹ دینے کے وعدے پر پورا اتر سکے گی؟ معیشت پر رپورٹ کرنے والے صحافی مہتاب حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس وقت حکومت کے لیے عوام کو ریلیف دینے اور آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے درمیان توازن برقرار رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔‘ انھوں نے کہا کہ ویسے تو ہم ہر چند سالوں بعد یہ فقرہ سنتے ہیں کہ پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے لیکن موجودہ صورتحال بہت زیادہ سنگین ہے، حکومت کے لیے آئی ایم ایف کے نویں اور دسویں قرض پروگرام کا حصہ بننا بھی ضروری ہے اور اس وقت مہنگائی کی یہ صورتحال ہے کہ یہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے تو اس میں عوام بھی ریلیف کے منتظر ہیں۔ ایسے میں بظاہر تو حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر پورا اترنے اور عوام کے لیے ریلیف بجٹ پیش کرنے کے درمیان خاصا مشکل فیصلہ درپیش ہو سکتا ہے تاہم ماہرین کے مطابق حکومت اسے اپنی مرضی کا بجٹ بنانے کے موقع کے طور پر دیکھ سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پروگرام کی بحالی کے حوالے سے دیے گئے اشارے کے بارے میں خرم حسین کا کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف کا بیان بظاہر یہ اشارہ ضرور دیتا ہے کہ پروگرام بحال ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی ایسا ہونا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف کا پروگرام نہ ہوتے ہوئے بجٹ بناتے ہوئے عمومی تاثر یہی ہوتا ہے کہ حکومت زیادہ رقم خرچ کرے گی اور عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کرے گی۔ چاہے وہ تنخواہیں بڑھائے، سبسڈیز میں اضافہ کرے یا ترقیاتی بجٹ بڑھائے جس سے شرح نمو میں اضافے کا امکان ہو۔‘ ماہر معیشت ثنا توفیق کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایک پاپولسٹ بجٹ دینے کی بجائے حقیقت پسندانہ بجٹ دینے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کے لیے آئی ایم ایف سے قرضے کا حصول یقینی بنایا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ ’جب سے آئی ایم ایف کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ بجٹ کے حوالے سے اعداد و شمار شیئر کیے جائیں تو میرے نزدیک حکومت ریلیف بجٹ دیتے ہوئے محتاط ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اصل سوال یہ ہے کہ آپ نے جو بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے، مالیاتی خسارہ پورا کرنا ہے اس کے لیے ڈالر کہاں سے آئیں گے۔ یہاں آپ کو مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کی جانب دیکھنا پڑتا ہے کیونکہ پاکستان کے پاس برآمدات کی مد میں اتنا بڑی تعداد نہیں ہے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1xvj1jpq6o", "summary": "ماہرین کے مطابق پاکستان کی ایران اور افغانستان کے ساتھ بارٹر تجارت غیر رسمی طریقے سے کافی عرصے سے ہو رہی تھی تاہم اس کا حجم زیادہ نہیں تھا اور اب صرف اسے ایک قانونی شکل دے دی گئی ہے۔", "title": "بارٹر ٹریڈ کیا ہوتی ہے اور کیا روس، ایران اور افغانستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ پاکستان کے لیے فائدہ مند ہو گی؟ ", "firstPublished": "2023-06-03T08:53:43.450Z", "id": "cd1xvj1jpq6o", "article": "پاکستان نے اپنے ہمسایہ ملکوں ایران اور افغانستان کے علاوہ روس کے ساتھ بارٹر تجارت کی اجازت دے دی ہے ۔ پاکستان کی وزارت تجارت نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے حکومتی کمپنیوں کے ساتھ نجی شعبے کو بھی تینوں ملکوں کے ساتھ مصنوعات کی درآمد اور برآمد کی اجازت دی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی ایران اور افغانستان کے ساتھ بارٹر تجارت غیر رسمی طریقے سے کافی عرصے سے ہو رہی تھی تاہم اس کا حجم زیادہ نہیں تھا اور اب صرف اسے ایک قانونی شکل دے دی گئی ہے۔ پاکستان نے ایران، افغانستان اور روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کے نظام کو قانونی شکل دے دی ہے۔ لیکن یہ بارٹر ٹریڈ ہوتی کیا ہے؟ افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کے نظام کے فوائد پر بات کرتے ہوئے عثمان قادر نے کہا کہ اس سے ملک اور حکومت دونوں کو فائدہ ہو گا کیونکہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کی کمی ہے جس کی درآمدات کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ ایران، افغانستان اور روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کی تازہ ترین پیش رفت اور ماضی میں ایسی کسی انتظام کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماہرِ معیشت زبیر موتی والا نے بتایا کہ ’ایران اور افغانستان کی سرحد پر موجود آبادی کی جانب سے تو ایسا ہوتا آیا ہے کہ وہ محدود پیمانے پر بارٹر ٹریڈ کرتے چلے آئے ہیں تاہم اب حکومت کی جانب سے اسے قانونی شکل دی گئی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’تین سال سے اس پر کام ہو رہا تھا اور اب جا کر اسے حتمی شکل دے کر قانونی شکل دی گئی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اس سے پہلے سٹیٹ بینک نے چمن اور طورخم سرحد پر کاؤنٹر بھی بنائے تھے تاکہ جو لین دین ہو رہا تھا اس کی مانیٹرنگ کرے تاہم بارٹر ٹریڈ کے بعد اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی کیونکہ اس میں روپے یا ڈالر کا لین دین نہیں ہے۔‘ عثمان قادر نے اس سلسلے میں کہا کہ ’بارٹر ٹریڈ کی تازہ ترین کوشش 2022 میں پاکستان ایران دوطرفہ تجارت کے تناظر میں کی گئی تھی، بنیادی طور پر پاکستان سے چاول اور کینو اور ایران سے سیب جیسی زرعی مصنوعات کی تجارت ہو رہی تھی۔‘ ان تینوں ملکوں پر بین الاقوامی پابندیوں کے تناظر میں پاکستان کی جانب سے ان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کی اجازت کے بارے میں بات کرتے ہوئے عثمان قادر نے کہا ’موجودہ تناظر میں پابندیاں بنیادی طور پر مالیاتی پہلو پر ہیں، اور بارٹر ٹریڈ پابندیوں کی تلافی کے لیے کی جا رہی ہیں۔ اس سے قبل، حکومت نے بارٹر ٹریڈ کے انعقاد کے لیے ایک فریم ورک کی منظوری دی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crgd2jm1dzzo", "summary": "پاکستان کے بیشتر علاقوں میں مئی کے آخری ہفتے کے دوران شروع ہونے والا غیرمعمولی بارشوں اور ژالہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اپریل اور مئی کے مہینوں میں اوسط درجہ حرارت کم رہا جبکہ بارشیں اوسط سے زیادہ ہوئی ہیں۔ مگر یہ صورتحال پاکستان کو کیسے متاثر کر رہی ہے؟", "title": "’نہ آم پکے گا نہ مٹھاس آئے گی‘: بےموسمی بارشیں اور ژالہ باری پاکستان کو کتنا نقصان پہنچا رہی ہیں؟", "firstPublished": "2023-06-01T03:46:23.980Z", "id": "crgd2jm1dzzo", "article": "پاکستان میں جاری بارشیں اور ژالہ باری شہری علاقوں میں رہنے والوں کو تو بھلے اچھی لگ رہی ہوں مگر ضلع مظفر گڑھ کے علاقے کوٹ ادو سے تعلق رکھنے والے آم کے کاشتکار ملک اشتیاق اس صورتحال پر بہت پریشان ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ساتھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اپریل اور مئی میں کم گرمی پڑی، جس کے نتیجے میں لگا کہ شاید فصل شاندار ہو گئی مگر اب بارشیں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ ان کے مطابق کھیتوں میں پانی کھڑا ہے اور یہ کھڑا پانی فصل کو تباہ کر رہا ہے۔‘ محکمہ موسمیات کے ترجمان ڈاکٹر ظہیر بابر کے مطابق پاکستان میں اس سال بھی غیر معمولی موسمی صورتحال کا سلسلہ جاری ہے۔ اپریل اور مئی میں اس سال اوسط سے نہ صرف کم گرمی پڑی ہے بلکہ بارشیں اوسط سے زیادہ ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ سال مارچ ہی میں مغربی ہواؤں کا دباؤ کم ہو گیا تھا، جس وجہ سے گرمی کی شدید لہر پیدا ہوئی تھی مگر اس سال ہم دیکھ رہے ہیں کہ مئی کے آخر تک ان ہواؤں کا دباؤ جاری ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں مئی کے آخری دن بھی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ مختلف علاقوں بالخصوس شمالی علاقہ جات میں یہ سلسلہ جون کے پہلے دو، تین دن تک جاری رہے گا۔‘ ڈاکٹر سردار سرفراز کہتے ہیں مئی میں کم از کم بارشوں کے تین سلسلے ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ ’ہمارے اندازوں کے مطابق سنہ 1987 کے بعد مئی کے ماہ میں ریکارڈ کی جانی والی بارش اوسط سے زیادہ ہوئی ہیں۔ یہ مغربی ہواؤں کے دباؤ ہی کا نتیجہ ہے۔ مغربی ہواؤں ہی کی وجہ سے ہم نے دیکھا کہ شمالی علاقہ جات میں اپریل اور مئی میں برفباری بھی ریکارڈ ہوئی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ عموماً ژالہ باری زیادہ تر مارچ کے ماہ ہی میں دیکھنے میں آتی ہے۔ مگر اس سال غیر معمولی حالات کی وجہ سے مئی میں پاکستان کے چند علاقوں میں شدید ژالہ باری ہوئی ہے جو کہ اس سے قبل کم ہی دیکھی گئی ہے۔ اس کا سبب بھی غیر متوقع طور پر مغربی ہوائیں تھیں۔ ڈاکٹر سردار سرفراز کا کہنا تھا کہ گذشتہ سالوں سے ہم ہر سال مختلف موسمی حالات دیکھ رہے ہیں۔ ’گزشتہ تین سالوں میں ہم نے دیکھا کہ مون سون کی بارشیں اوسط سے زیادہ ہوئی ہیں۔ مگر اس سال ابھی تک جو عالمی موسمی حالات ہیں ان کے مطابق لگ رہا ہے کہ مون سون کی بارشیں پاکستان میں اوسط سے کم ہوں گی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gndgvd9d0o", "summary": "ملک میں کاروباری اور ملازمت پیشہ طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد گذشتہ ایک سال کے دوران اپنی آمدن میں کمی اور بڑھتی مالی مشکلات کی شکایت کرتے ہیں، مگر اس کم آمدن کی وجوحات اور زندگیوں پر اثرات کیا ہیں؟", "title": "آمدن میں کمی: ’یہ بہت ذہنی اذیت ہے کہ ملازمت بھی کر رہے ہوں لیکن خاندان کی ضروریات پوری نہ کر سکیں‘", "firstPublished": "2023-05-30T05:38:54.047Z", "id": "c3gndgvd9d0o", "article": "’اگر حالات یہی رہے تو لگتا ہے میرے جیسے متوسط طبقے کے افراد سڑک پر آ جائیں گے۔ ایک سال میں میری ماہانہ آمدن تین لاکھ روپے سے کم ہو کر ایک لاکھ سے نیچے آ گئی ہے۔ پہلے میں اپنے بھائیوں کی بھی مالی مدد کرتا تھا لیکن اب تو اپنے خاندان کے اخراجات پورا کرنا بھی ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔‘ کراچی کے رہائشی منیر احمد کہارو نے ملک میں عام افراد کی کم ہوتی فی کس آمدنی کے مسائل پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’چھوٹے بھائیوں کی بھی وقتاً فوقتاً مالی مدد کرتا رہتا تھا مگر اب کسی کی مالی مدد کی بجائے خود اپنے مالی اخراجات کے لیے تگ و دو کر رہا ہوں۔‘ رمشا کے مطابق ملک میں اس وقت مہنگائی کی بلند شرح ہے جس کی وجہ سے ایک سال پہلے والی تنخواہ بھی بہت کم لگتی ہے اور جب تنخواہ ہی کم ہو جائے تو پھر مالی اخراجات کو پورا کرنا کسی پہاڑ کو سر کرنے سے کم نہیں۔ ایک سال کے دوران ملک میں ایسا کیا ہوا کہ منیر احمد اور رمشا منہاس جیسے کئی افراد کی آمدنی میں کمی ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ گذشتہ سال ایک بجلی کے یونٹ کی قیمت 18 سے 22 روپے تھی وہ اب پچاس روپے سے اوپر چلا گیا ہے۔ پہلے جو بجلی کا بل ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے تھا وہ اس وقت ماہانہ بنیاد پر چھ لاکھ تک پہنچ گیا جبکہ دوسری طرف کاروبار کم ہو گیا۔ منیر احمد اور رمشا منہاس اپنی کم ہوتی آمدن سے ایک جانب فکر مند ہیں تو دوسری جانب وہ اس کی وجہ سے کچھ چیزوں پر سمجھوتہ کرنے پر بھی پریشان ہیں۔ منیر احمد اور رمشا منہاس کاروباری اور ملازمت پیشہ طبقات سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد ہیں جو ایک سال کے دوران اپنی آمدن میں کمی اور اس کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مالی مشکلات کے بارے میں شکایت کرتے ہیں۔ پاکستان انسٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں کام کرنے والے ماہر معیشت شاہد محمود بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر موجودہ مالی سال کا جائزہ لیا جائے تو جی ڈی پی میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا اور شرح نمو بھی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ دوسری جانب آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے اب جب اس آبادی کو دیکھا جائے تو لازمی طور پر نمبر نیچے ہو گا۔ پاکستان میں اس وقت صنعتی شعبہ درآمدات پر پابندی کی وجہ سے خام مال کی عدم دستیابی کے باعث مشکلات کا شکار ہے۔ پاکستان کی برآمدات بھی موجودہ مالی سال میں گراوٹ کا شکار رہی ہیں جبکہ دوسری جانب بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے نے بھی صنعتی شعبے کو شدید متاثر کیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2d22qve20o", "summary": "سنہ 2014 میں وزارت عظمی کی ذمے داری سنبھالنے کے بعد وزير اعظم نے بیرونی ممالک کے دوروں کو اپنی پالیسی کا ایک اہم جزو بنا لیا ہے۔ ماضی میں غالبآ انڈیا کے کسی بھی وزیراعظم نے غیر ممالک کے اتنے دورے نہیں کیے جتنے وزیراعظم مودی نے اپنے اب تک کے نو سال کے دور اقتدار میں کیے ہیں۔ ", "title": "انڈیا عالمی طاقت بننے کی راہ پر گامزن یا دیگر عالمی طاقتوں کے کھیل میں ایک مہرہ؟", "firstPublished": "2023-05-28T11:42:09.090Z", "id": "cv2d22qve20o", "article": "سنہ 2014 میں وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد وزير اعظم نے بیرونی ممالک کے دوروں کو اپنی پالیسی کا ایک اہم جزو بنا لیا تھا۔ ماضی میں غالباً انڈیا کے کسی بھی وزیراعظم نے غیر ممالک کے اتنے دورے نہیں کیے جتنے وزیراعظم مودی نے اپنے اب تک کے نو سال کے دور اقتدار میں کیے ہیں۔ ستمبر میں جی 20 کا سربراہی اجلاس ہو گا۔ اس کی ایک میٹنگ حال ہی میں سرینگر میں رکھی گئی تھی۔ پاکستان کے اعتراض کے بعد سعودی عرب، ترکی، چین، اور مصر نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ حالانکہ انڈیا کو امید تھی کہ اس کی سفارتی کوششوں اور ان ملکوں سے بہترین تعلقات کے پس منظر میں یہ ممالک اس میں شریک ہوں گے۔ ’وزیر اعظم نریندر مودی کی سوچ ہمیشہ مثبت ہوتی ہے۔ وہ پوری دنیا کو ایک خاندان تصور کرتے ہیں۔ ان کی شبیہ بہت بڑی ہے۔ وہ ترکی کا زلزلہ ہو، انڈونیشیا کا سیلاب ہو، افریقہ میں قحط سالی ہو یا کووڈ کی وبا ہو، وزیر اعظم مودی کی قیادت میں انڈیا ہر جگہ کھڑا ہوا نظر آتا ہے۔‘ وزیر اعظم مودی کے غیر ملکی دورے کا ایک پہلو ان ممالک میں مقیم انڈین نژاد شہری ہیں۔ امریکہ، آسٹریلیا، عرب ممالک اور یورپ میں ڈھائی کروڑ سے زیادہ انڈین آباد ہیں۔ مودی نے بیرون ملک مقیم ہندوستانیوں کو اپنے ساتھ ملا کر انڈیا کی سافٹ پاورمیں تبدیل کر دیا ہے۔ غیر ممالک کے دوروں میں وہاں مقیم انڈینز سے مودی کے خطاب کو پورے انڈیا میں سیکڑوں ٹی وی چینلز براہ راست نشر کرتے ہیں۔ وہ مودی حکومت کی پالیسیوں پر اکثر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اپنے جواب میں کہا کہ اپنے جمہوری نظام، سیکولر آئینی ڈھانچے اور اصولی خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے سبب انڈیا کا بین الاقوامی سطح پر ہمییشہ ایک خصوصی مقام رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا آمریت اور اکثریتی فرقے کے ملک میں بدل رہا ہے۔ اس سے انڈیا کی شبیہ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اںڈیا ایک اخلاقی سپر طاقت بننا چاہتا ہے لیکن کسی بھی عالمی بحران بالخصوص یوکرین کے سوال پر اصولی موقف نہ اختیار کرنے سے یہ امید اب ٹوٹ گئی ہے۔‘ انڈیا میں ایک رہنما کے طور پر مقبولیت میں مودی کو اپنے تمام سیاسی حریفوں پر سبقت حاصل ہے۔ عوام کی ایک بڑی اکثریت اس امر پر متفق ہے کہ وزیراعظم مودی نے بین الاقوامی سطح پر ملک کے وقار میں اضافہ کیا اور انڈیا کے آرٹ اور کلچر کو فروغ دیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1k119vg8do", "summary": "گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ عمران خان کی صورت میں انھیں ملک بچانے والا ایک سیاست دان مل گیا ہے۔ تاہم اقتدار سے ہٹنے کے ایک برس بعد ہی وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے زوال کی وجہ بننے کے خطرے کے طور پر سامنے آئے ہیں اور فوج اپنا پورا زور لگا کر خود کو عمران خان کے اعتاب سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ \n", "title": "عمران خان اور فوج کا ’افیئر‘ کیسے اختتام پذیر ہوا؟", "firstPublished": "2023-05-28T03:55:18.066Z", "id": "cd1k119vg8do", "article": "گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ عمران خان کی صورت میں انھیں ملک کو بچانے والا نجات دہندہ سیاست دان مل گیا ہے۔ تاہم اقتدار سے ہٹنے کے ایک برس بعد ہی وہ ایک ایسے خطرے کے طور پر سامنے آئے ہیں جو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے زوال کی وجہ بن سکتے ہیں اور اب فوج خود کو عمران خان کے عتاب سے بچانے کے لیے اپنی پوری طاقت استعمال کر رہی ہے۔ ایک برس قبل جب عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا گیا تھا تو ان کے حامیوں کی جانب سے کہا گیا تھا کہ عمران خان ہماری 'ریڈ لائن' ہیں اور اگر انھیں گرفتار کیا جاتا ہے تو ملک جلے گا۔ عمران خان کو گرفتار کرنے کی کئی ناکام کوششوں کے بعد رینجرز کی جانب سے نو مئی کو باکل ایسا ہی کیا گیا۔ اس حوالے سے عام تاثر یہ ہے کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔ فوج میں ایسے افسر اور ان کے خاندان ہیں جو عمران خان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف عدلیہ ہے جو ان کی ضمانت میں توسیع کیے جا رہی ہے۔ عمران خان نے پاکستان میں ایک ایسے حلقے کی حمایت حاصل کر لی ہے جسے ان کے آنے سے پہلے تک سیاست اور سیاست دانوں سے شدید نفرت تھی۔ ان کے انصاف اور کرپشن سے پاک گورننس کے بیانیے کی عام عوام میں خاصی مقبولیت ہے حالانکہ جب عمران خان خود اقتدار میں تھے تو کرپشن میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ انھوں نے اپنے متعدد سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈالا۔ انھیں اکثر سیاسی لاشعوری کا طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ موجودہ بحران کو تاریخی سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے وہ اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ وہ اپنے آپ کو ایک ایسی اصلاحی تحریک کا حصہ سمجھتے ہیں جو ملک سے تمام کرپٹ سیاستدانوں کو نکالنا چاہتی ہے۔ عمران خان کی جانب سے فوجی سربراہان پر مسلسل تنقید کے باوجود اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ فوج کا اثرورسوخ کم نہیں کرنا چاہتے، وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ فوج کے جنرل دوبارہ سے ان سے محبت کریں اور ان کی جماعت کی حمایت کریں جیسے وہ پہلے کیا کرتے تھے۔ خدیجہ شاہ کی گرفتاری اور انھیں جیل میں بھیج کر فوج کی جانب سے فوجی خاندانوں کو ایک واضح پیغام دیا گیا ہے کہ وہ عمران خان کی سیاست سے خود کو دور رکھیں۔ تاریخی طور پر بھی جب بھی سویلین رہنما فوج کے ساتھ متصادم ہوئے تو فوج کو ہی برتری حاصل ہوئی۔ عمران خان نے اپنے کارکنوں سے غلامی کی زندگی پر موت کو ترجیح دینے کا کہا ہے۔ اس ڈیڈلاک میں عام پاکستانیوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw45zk91n55o", "summary": "ٹک ٹاک کے چینی ورژن میں پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز کی وجہ سے زیبو میں سٹریٹ بار بی کیو کے لیے ایک غیر متوقع جنون پیدا ہو گیا جس کی وجہ سے لاکھوں بھوکے مسافر شہر میں آ رہے ہیں۔ \n", "title": "ٹک ٹاک پر جی للچاتی ویڈیوز کا اثر: چینی بار بی کیو کے لیے لاکھوں لوگوں کا رُخ زیبو کی طرف", "firstPublished": "2023-05-27T13:10:21.598Z", "id": "cw45zk91n55o", "article": "ٹک ٹاک کے چینی ورژن میں پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز کی وجہ سے زیبو میں سٹریٹ بار بی کیو کے لیے ایک غیر متوقع جنون پیدا ہو گیا جس کی وجہ سے لاکھوں بھوکے مسافر شہر میں آ رہے ہیں۔ ٹک ٹاک کے چینی ورژن میں پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز نے مشرقی چین کے صوبے شانڈونگ میں تقریبا 45 لاکھ آبادی کے شہر زیبو میں سٹریٹ بار بی کیو کے لیے ایک غیر متوقع جنون پیدا کر دیا ہے۔ ملک بھر سے مسافروں نے بڑے پیمانے پر زیبو آنا شروع کر دیا۔ مارچ میں صرف 48 لاکھ لوگ یہاں آئے اور قومی میڈیا نے فوری طور پر شہر کو ’بار بی کیو کی مقدس سرزمین‘ کا نام دے دیا۔ آزادی کا یہ اچانک احساس چینی کاروباری جوش و جذبے سے پوری طرح مطابقت رکھتا تھا، جس میں مقامی ریستوراں اور شہری حکومت نے مل کر بیرونی لوگوں کے لیے اپنی بانہیں کھول دیں۔ مارچ کے بعد سے ،’بار بی کیو سپیشل‘ تیز رفتار ٹرینوں نے بڑی تعداد میں سیاحوں کو شہر میں پہنچایا ہے ، جہاں بڑے پیمانے پر ، نئے تعمیر شدہ اوپن ایئر فوڈ کورٹس کو میزوں اور پلاسٹک کی کرسیوں سے سجایا گیا ہے۔ اس ماہ کے اوائل میں جب ملک بھر میں یوم مئی کی تعطیل کے دوران بار بی کیو شائقین کا سونامی آیا تو ریستوراں مالکان نے بھیڑ کو کنٹرول کرنے، بھوکے گاہکوں کو ان کی میزوں تک پہنچانے کے لیے میگا فون استمعال کیے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی تشنہ نہ جائے۔ تاہم، چین میں، کباب کھانا ہمیشہ اپنا پیٹ بھرنے سے کہیں زیادہ رہا ہے۔ یہ دوستوں اور کنبے کے ساتھ وقت گزارنے کا ایک بہت پسندیدہ طریقہ بھی ہے۔ چینی اکثر ایک اچھے بار بی کیو کے لیے ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں یانہوکی۔ لفظی طور پر، اس کا مطلب ہے ’دھوئیں اور آگ کی بو‘ نیچے کوئلے سے ٹکرانے والی چربی کا ایک دلکش، جادوئی جھونکا۔ ’اولڈ وی کے بار بی کیو‘ کے مالک وی فینفو، جو کہ زیبو میں سب سے طویل عرصے تک چلنے والا بار بی کیو ریستوراں ہے، کا کہنا ہے کہ وہ اصل میں 1980 کی دہائی میں سنکیانگ کے کباب فروش سے متاثر ہؤیے تھے۔ سنکیانگ کے کباب یونیورسٹیوں کے آس پاس اور گلیوں میں قائم بارز پر پائے جاتے ہیں۔ قریب ترین دکاندار کو تلاش کرنا ہو تو بھیڑ کی چربی کی دلکش بو والے دھوئیں کو تلاش کریں۔ یہاں تک کہ جنوبی چین کے گرم علاقوں میں بھی لوگ بار بی کیو کے لیے دیوانے ہو جاتے ہیں۔ ہانگ کانگ سے پرل ریور ڈیلٹا کے بالکل اوپر، گوانگ ڈونگ شہر آئسٹر گرل اور تازہ گرلڈ سمندری غذا کی کثرت کے لیے مشہور ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cmlwly943rxo", "summary": "اگرچہ بہت سے لوگ یہ سوچ کر ہنستے ہیں کہ اتنی بڑی مالیت کا سکہ بہت بڑا اور وزنی ہو گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی 25 سینٹس جتنا چھوٹا سکہ ہو گا اور آپ اسے اپنی جیب میں رکھ سکیں گے۔ \n", "title": "ایک کھرب ڈالر مالیت کا وہ پلاٹینیم سکہ جو امریکہ کو دیوالیہ ہونے سے بچا سکتا ہے ", "firstPublished": "2023-05-26T12:00:16.031Z", "id": "cmlwly943rxo", "article": "اگر جون سے قبل دونوں سیاسی جماعتیں کسی حتمی نتیجہ پر نہ پہنچ سکیں تو واشنگٹن اپنے قرض سے متعلق وعدے اور ادائیگیاں کرنے کے قابل نہیں رہے گا اور اس کے عالمی معیشت پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے کیونکہ امریکہ دنیا کا مرکزی اقتصادی انجن تصور کیا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں وائٹ ہاؤس اور ریپبلیکنز نے امریکی کانگریس میں یہ اشارے دیے ہے کہ مذاکرت مثبت طور پر آگے بڑھ رہے ہیں تاہم اس سے متعلق ہیجان کو روکا نہیں جا سکا ہے۔ اس صورتحال نے چند معاشی پنڈتوں اور تجزیہ کاروں کو امریکہ کے پاس موجود آخری حل کو زیر بحث لانے پر مجبور کر دیا ہے۔ اگرچہ یہ حل بہت سوں کے لیے دور کی کوڑی ہے مگر وہ حل ہے کیا؟ امریکہ کو دیوالیہ پن سے بچانے کا وہ آخری حربہ ایک کھرب ڈالر مالیت کا پلاٹینیم سکہ جاری کرنا ہے اور یہ سنہ 1997 کے اس قانون کے تحت کیا جا سکے گا جو امریکہ وزیر خزانہ کو کسی بھی وجہ اور کسی بھی مالیت کے پلاٹینیم سکے جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ اس مالیت کے سکے جاری کرنے کا دفاع کرنے والے کہتے ہیں ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس کے درمیان قرض کی حد بڑھانے سے متعلق مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں یہ امریکی حکومت کو ملکی اخراجات پورے کرنے اور دیوالیہ ہونے سے بچائے گا۔ لیکن اگر وہ ایک ٹریلین ڈالر مالیت کے پلاٹینیم سکے کو جاری کرنے کا فیصلہ کر لیں تو کیا ہو گا؟ اگرچہ بہت سے لوگ یہ سوچ کر ہنستے ہیں کہ اتنی بڑی مالیت کا سکہ بہت بڑا اور وزنی ہو گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی 25 سینٹس جتنا چھوٹا سکہ ہو گا اور آپ اسے اپنی جیب میں رکھ سکیں گے۔ ولیمیٹ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر روہن گرنے نے اوریگن میں این پی آر کو بتایا کہ ’اگر آپ کو دیوالیہ ہونے یا نئی کرنسی جاری کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنا ہو تو ایگزیکٹو برانچ آپ کو دیوالیہ ہونے کی بالکل اجازت نہیں دیتی۔‘ موچا نے اس فورم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس نے پہلے ہی وزارت خزانہ کو ایک ٹریلین ڈالر کا سکہ بنانے اور جاری کرنے کا اختیار تفویض کر رکھا ہے۔‘ ایک سنوبال ایفیکٹ کی طرح اس بلاگ پر یہ تبصرہ سوشل میڈیا پر مقبول ہوا اور سنہ 2011 میں یہ عوامی سطح پر زیر بحث آیا اور یہ صدر باراک اوبامہ کے پہلے دور حکمرانی کہ دوران قرض کی حد کے بحران کے دوران کا وقت تھا۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریپبلکنز کے ساتھ لڑائی میں ڈیموکریٹس کے سیاسی مذاکراتی ہتھیاروں میں سے ایک کے طور پر ایک ٹریلین امریکی ڈالر کے سکے کا خیال میز پر رکھا گیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg2y98702xo", "summary": "چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے جبکہ انڈیا پانچویں نمبر پر ہے، دوسری جانب بیجنگ کے پاس دستیاب جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت نئی دہلی کے مقابلے ڈھائی گنا زیادہ ہے مگر اب یہ صورتحال بدلتی نظر آ رہی ہے؟", "title": "کیا انڈیا چین کو پیچھے چھوڑ کر عالمی سُپر پاور بن سکتا ہے؟", "firstPublished": "2023-05-26T04:42:45.709Z", "id": "crg2y98702xo", "article": "اقوامِ متحدہ کے مطابق حال ہی میں انڈیا، چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گیا ہے۔ لیکن کیا انڈیا چین کی برابری کر سکتا ہے یا اپنے اس عالمی سپر پاور پڑوسی کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے؟ اقتصادی، جیوپولیٹیکل اثرورسوخ اور فوجی طاقت کے لحاظ سے چین کو انڈیا پر اچھی خاصی برتری حاصل ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے، جو انڈیا (جو پانچویں نمبر پر ہے) کے مقابلے میں تقریباً پانچ گنا بڑی ہے۔ لیکن پھر چین کے پاس ’چائنا وڈ‘ ہے: چین کی اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی پاور ہاؤس فلم انڈسٹری جس نے 2020 میں پہلی بار ہالی وڈ کو دنیا کے سب سے بڑے باکس آفس کے طور پر پیچھے چھوڑ دیا، اور 2021 میں دوبارہ ایسا ہی کیا۔ پروفیسر مارک فریزیئر جو نیویارک میں ڈائریکٹر اف انڈیا چائنہ انسٹیٹیوٹ ہیں، کا کہنا ہے کہ ’انڈیا میں 1990 کی دہائی میں بڑھتی ہوئی اصلاحات کا فائدہ اب ہو رہا ہے۔ لیکن اس کی افرادی قوت کس حد تک تعلیم یافتہ، صحت مند، ہنر مند اور معیشت میں حصہ ڈالنے کے قابل ہو گی، یہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔‘ انڈیا کی جی ڈی پی پہلے ہی چین کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے اور آئی ایم ایف کے تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے جاری رہنے کا امکان ہے۔ امریکی سائنسدانوں کے فیڈریشن کا اندازہ ہے کہ بیجنگ کے پاس دستیاب جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت نئی دہلی کے مقابلے ڈھائی گنا زیادہ ہے۔ دفاعی شعبے میں چین کو واضح برتری حاصل ہے تاہم انڈیا کے یورپ اور امریکہ سے بہتر تعلقات ہیں اور یہ وہ ممالک ہیں جہاں دنیا کی طاقتور فوجی قوت موجود ہے۔ مغرب انڈیا کو اہم علاقائی شراکت دار سمجھتا ہے مگر بیجنگ ان پانچ ملکوں میں سے ہے جن کے پاس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت ہے۔ یعنی یہ کسی بھی بڑے عالمی فیصلے کو ویٹو (رد) کر سکتا ہے۔ چین میں 2007 کے بعد سے سنیما گھروں کی تعداد 20 گنا بڑھی ہے۔ چین میں 80 ہزار سے زیادہ سنیما گھر ہیں جبکہ امریکہ میں ان کی تعداد 41 ہزار اور انڈیا میں 9300 ہے۔ ’چین میں بھی بالی وڈ کی فلمیں چینی شہریوں کو محظوظ کرتی ہیں۔ دنگل (سابق ریسلر پر عامر خان کی فلم جو 2016 میں ریلیز ہوئی) نے چین میں تمام ہالی وڈ فلموں سے بہتر کارکردگی دکھائی تھی اور یہ فلم 16 مسلسل دنوں تک چینی بوکس آفس پر سرفہرست رہی تھی۔ اس کی نمائش 60 دنوں تک جاری رہی، جو تاریخ میں سب سے طویل نمائشوں میں سے ایک ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cmmegn93pjlo", "summary": "سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے دس مہینوں میں ترسیلات زر میں پچھلے مالی سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں 13 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ مگر غیریقینی سیاسی صورتحال ، روپے کی ریکارڈ تنزلی، خلیجی ممالک میں پاکستانی ورکرز کی تعداد میں کمی اور عالمی حالات سمیت وہ کیا عوامل ہیں جو اس صورتحال کا باعث بن رہے ہیں؟", "title": "بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اب اپنے ملک میں پیسے کیوں کم بھیج رہے ہیں؟", "firstPublished": "2023-05-25T03:49:15.692Z", "id": "cmmegn93pjlo", "article": "سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے دس مہینوں میں ترسیلات زر میں پچھلے مالی سال کے مقابلے میں 13 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ پچھلے مالی سال کے پہلے دس ماہ میں ترسیلات زر 26.1 ارب ڈالرز تھیں جو کہ رواں برس اسی دورانیے میں کم ہو کر 22.7 ارب ڈالرز رہ گئی ہیں۔ ’بیرون ممالک مقیم پاکستانی گذشتہ چند مہینوں سے یہ دیکھتے آ رہے ہیں کہ روپے کی قدر میں تنزلی کا سلسلہ لگاتار جاری ہے اور شنید یہی ہے کہ یہ سلسلہ مزید جاری رہ سکتا ہے۔ اس لیے وہ پیسہ پاکستان بھیجنے سے کترا رہے ہیں کیونکہ پیسے کی قدر کو لے کر بے یقینی کی صورتحال ابھی بھی برقرار ہے۔ کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ آنے والے دنوں میں روپے کی تنزلی کہاں جا کر رُکے گی اور بے یقینی کی یہی صورتحال ترسیلات زر میں کمی کی بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔‘ پچھلے مالی سال کے پہلے دس مہینوں کے مقابلے میں اس سال ترسیلات زر 3.4 ارب ڈالرز کم رہی ہیں، اور اس کمی میں سب سے زیادہ حصہ مڈل ایسٹ یعنی سودی عرب اور یو ای اے سے بھیجی جانے والی رقوم کا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق رواں برس گذشتہ سال کے مقابلے میں ان ممالک سے بھیجی جانے والے رقوم 2.5 ارب ڈالرز کم رہیں۔ ’کورونا وبا سے پہلے سال 2019 میں ان ممالک میں تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ کے قریب پاکستانی ورکرز کام کر رہے تھے، لیکن عالمی وبا کے باعث جب دنیا بھر میں روزگار کے مواقعوں میں کمی آئی تو بہت سے پاکستانی بھی نوکریاں ختم ہونے کے باعث وطن واپس آگئے تھے۔ اور رواں برس اپریل میں یہ تعداد ایک لاکھ بہتر ہزار کے لگ بھگ ہو گئی ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ترسیلات زر میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔‘ ڈاکٹر حفصہ حناسمجھتی ہیں کہ ’جس طرح کی مہنگائی ان ممالک نے اس سال دیکھی ہے اس کا بھی لازمی طور پر ترسیلات زر کم ہونے میں اس کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہے۔ برطانیہ میں مہنگائی کا 50 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہےاور ظاہری سی بات ہے وہاں مقیم پاکستانیوں کو اپنے روزمرہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے زیادہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے، اور اسی وجہ سے برطانیہ اور یورپی یونین سے ترسیلات زر میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1rjy8gnl0o", "summary": "اس ہجوم کے نڈر ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے کیونکہ ریاست کے پاس لالی پاپ کا آخری زخیرہ بھی ختم ہوا چاہتا ہے۔", "title": "وسعت اللہ خان کا کالم: ہجوم کے نڈر ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے", "firstPublished": "2023-05-21T16:42:02.934Z", "id": "cd1rjy8gnl0o", "article": "عاصم 12 برس کا ہے۔ لاہور میں گلبرگ کے کاروباری علاقے میں پھیری لگاتا ہے۔ صبح دس بجے سے شام سات بجے تک وہ تمام مارکیٹوں کے اندر اور باہر گھومتا گھماتا چھوٹی موٹی چیزیں بیچ کے پانچ سے چھ سو روپے کما لیتا ہے اور ماں کے ہاتھ پر دھر دیتا ہے۔ عاصم کا ایک چھ سالہ بھائی بھی ہے۔ باپ چونکہ چھ برس پہلے مہنگے علاج کی دہلیز پر دم توڑ گیا لہذا جب عاصم کا چھوٹا بھائی پیدا ہوا تو اس نے بس عاصم کو ہی باپ کی شکل میں دیکھا۔ عاصم کی ماں گھروں میں کام کرتی ہے۔ دونوں مل کے اتنا کما لیتے ہیں جس سے ایک کمرے کا بھاڑہ نکل سکے اور تین کے بجائے ڈیڑھ وقت کا کھانا مل سکے (ایک برس پہلے تک دو وقت کا کھانا میسر آ جاتا تھا)۔ دو ماہ پہلے تک اس کی کمپنی اسے 15 ہزار روپے دیتی تھی مگر واؤچر پر 25 ہزار لکھواتی ہے کیونکہ تب قانوناً کم سے کم تنخواہ 25 ہزار روپے ہی تھی۔ اب جان محمد کی اصل تنخواہ 15 ہزار سے بڑھ کے 22 ہزار روپے ہو گئی ہے مگر ’32 ہزار روپے وصول پائے‘ لکھوا کے واؤچر پر دستخط کروائے جاتے ہیں، کیونکہ کم ازکم تنخواہ بھی قانوناً 25 ہزار سے 32 ہزار ہو گئی ہے اور دیگر کمپنیوں کی طرح جان محمد کی کمپنی بھی قانونی کاغذ پورے رکھتی ہے۔ اگر متوسط طبقے کا نوجوان اس بے صبری و مہم جویانہ محرومی کا شکار ہو چکا ہے تو معاشی اعتبار سے بالکل زمین سے لگے 12 سالہ پھیری والے عاصم اور سکیورٹی گارڈ جان محمد جس طرح جسم اور سانس کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں وہ معجزہ نہیں تو کیا کہلائے گا؟ اگر کم سن عاصم کے دل میں اب تک چوری کا خیال نہیں آیا اور ادھیڑ عمر جان محمد نے اپنی بندوق کسی شہری کا بٹوہ اور موبائل چھیننے کے لیے نہیں تانی تو ان دونوں کو اس دور کا ولی سمجھنا چاہیے۔ یہ دونوں اب بھی اس زندگی پر اعتماد کر رہے ہیں جو عرصہ ہوا ان پر عدم اعتماد کر چکی۔ اور یہ عاصم اور جان محمد کروڑوں میں ہیں، چہار جانب ہیں اور اب تک آسمان تک رہے ہیں۔ بقول سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل اس ملک کی 70 فیصد افرادی قوت کی آمدنی اس وقت بھی اوسطاً 34 ہزار روپے ماہانہ ہے۔ عاصم اور جان محمد تو اس زیریں طبقے کی بھی تلچھٹ ہیں۔ کیا اس تحریر کا مقصد کسی طبقے کے لیے کسی طبقے کی ہمدردی حاصل کرنا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بس یہ بتانا ہے کہ اس ملک کے 24 کروڑ انسانوں میں سے 23 کروڑ کے پاس پانا تو دور کی بات کھونے کے لیے بھی اب کچھ نہیں۔ اس ہجوم کے نڈر ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے کیونکہ ریاست کے پاس لالی پاپ کا آخری زخیرہ بھی ختم ہوا چاہتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c9rx5g09e6ko", "summary": "جی سیون تنظیم کے سربراہان کی جانب سے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کو ہیروشیما مدعو کرنا جہاں روس کے لیے ایک واضح پیغام تھا وہیں ان عالمی رہنماوں کی ایک اور حریف پر بھی نظر تھی اور وہ چین تھا۔ ", "title": "G7 اجلاس: چین کی ’معاشی غنڈہ گردی‘ سے پریشان ترقی یافتہ ممالک کیا منصوبہ بنا رہے ہیں؟", "firstPublished": "2023-05-21T13:13:49.323Z", "id": "c9rx5g09e6ko", "article": "جی سیون تنظیم کے سربراہان کی جانب سے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کو ہیروشیما مدعو کرنا جہاں روس کے لیے ایک واضح پیغام تھا وہیں ان عالمی رہنماوں کی ایک اور حریف پر بھی نظر تھی اور وہ ہے چین۔ دنیا کے سب سے امیر جمہوری ممالک کے سربراہان نے ایک نہیں بلکہ دو بیانات کے ذریعے تائیوان اور انڈو پیسیفک جیسے متنازع امور پر چین کو اپنا موقف واضح کیا۔ لیکن ان کے پیغام کا سب سے اہم حصہ وہ تھا جس میں ’معاشی غنڈہ گردی‘ کی بات کی گئی۔ جی سیون کے لیے معتدل رہنا کچھ مشکل ہو چکا ہے۔ ان ممالک کی معیشت کا انحصار تجارت کی وجہ سے چین پر ہے لیکن انسانی حقوق سمیت مختلف معاملات پر اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں اور تجارتی محاذ پر بھی چین سے مقابلہ بڑھ چکا ہے۔ اس پالیسی کو وان ڈر لیئین کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے جس میں چین سے سفارتی معاملات پر سخت طریقے سے بات چیت، تجاری ذرائع میں تنوع لانے اور ٹیکنالوجی اور تجارت کو محفوظ بنانے کے نکات شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ایسی ہی ایک پالیسی امریکہ کی جانب سے بھی سامنے آ چکی ہے۔ جی سیون کی جانب سے ایک پلیٹ فارم بھی تشکیل دیا گیا ہے تا کہ چین کی ’معاشی غنڈہ گردی‘ کو روکا جا سکے اور ترقی پذیر ممالک سے تعاون بڑھایا جا سکے۔ جی سیون کی جانب سے برآمدات پر کنٹرول ایک ہتھیار بن سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ مل کر اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی ٹیکنالوجی (خصوصا عسکری اور انٹیلیجنس شعبہ جات) ’بدنیت عناصر‘ کے ہاتھ نہ لگیں۔ امریکہ نے پہلے ہی چپس اور چپ ٹیکنالوجی کی چین کو برآمدات پر پابندی لگا دی ہے جس میں جاپان اور نیدر لینڈز شامل ہو چکے ہیں۔ چین کے احتجاج کے باوجود جی سیون نے واضح کیا ہے کہ ایسی کوششیں جاری رہیں گی اور ان میں اضافہ ہو گا۔ دوسری جانب جی سیون کا کہنا ہے کہ تحقیقی سرگرمیوں کے ذریعے ٹیکنالوجی کے ’غیر مناسب ٹرانسفر‘ پر بھی کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔ امریکہ اور دیگر ممالک کو انڈسٹریل جاسوسی پر پریشانی لاحق ہے اور چین کے لیے ٹیکنالوجی کے راز چرانے کے الزام میں کئی لوگوں کو جیل بھیجا جا چکا ہے۔ ان کی جانب سے ’کھل کر بات چیت‘ پر بھی زور دیا گیا جس کے ذریعے چین تک براہ راست تحفظات پہنچائے جا سکیں۔ تلخ ماحول میں بات چیت کا ذکر جی سیون کی جانب سے اشارہ تھا کہ وہ مزاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ چینی رہنما اور سفارت کار جی سیون کے اس پیغام کو کیسے دیکھتے ہیں۔ تاہم چین کے سرکاری میڈیا نے ماضی میں مغرب پر تنقید کی ہے کہ ایک جانب وہ چین پر الزام لگاتا ہے اور دوسری جانب معاشی شراکت داری کا فائدہ بھی اٹھانا چاہتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjlng164z55o", "summary": "جمعہ کو جاری کردہ اپنے بیان میں آر بی آئی نے کہا ہے کہ دو ہزارکے نوٹ 30 ستمبر 2023 تک بینکوں میں جمع کروائے جا سکتے ہیں۔ آر بی آئی کے اس اعلان کے بعد حزب اختلاف کی جما‏عتوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔", "title": "انڈیا: ’2000 کا نوٹ جو کالے دھن کو روکنے آیا لیکن اس کی وجہ سے بند ہو گیا‘", "firstPublished": "2023-05-20T08:04:41.815Z", "id": "cjlng164z55o", "article": "جمعہ کو جاری کردہ اپنے بیان میں آر بی آئی نے کہا ہے کہ دو ہزارکے نوٹ 30 ستمبر 2023 تک بینکوں میں جمع کروائے جا سکتے ہیں۔ آر بی آئی کے اس اعلان کے بعد حزب اختلاف کی جما‏عتوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے اور اس کے انڈیا کی مارکیٹ سے خاتمے کو ماضی میں کی گئی نوٹ بندی کی ناکامی کی توثیق قرار دیا ہے۔ انڈیا کے سرکاری بینک آر بی آئی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ لوگ اپنے بینک اکاؤنٹ میں 2000 کے نوٹ جمع کروا سکتے ہیں یا کسی بھی بینک برانچ میں جا کر اپنے نوٹ بدل سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آر بی آئی نے بینکوں سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر 2000 کے نئے کرنسی نوٹ جاری کرنا بند کر دیں۔ نوٹوں کے تبادلے کے لیے تمام بینکوں کو ہدایات بھیج دی گئی ہیں۔ آر بی آئی نے کہا ہے کہ 30 ستمبر 2023 تک 2000 کے نوٹ جمع یا تبدیل کروائے جا سکتے ہیں۔ حالانکہ آر بی آئی نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔ امکان ہے کہ آر بی آئی اس سلسلے میں نئی گائیڈ لائن جاری کرے گا۔ انڈیا میں حزب اختلاف کی اہم جماعت کانگریس پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے کہا کہ 2000 کے نوٹ کبھی بھی ’کلین‘ نوٹ نہیں تھے۔ لوگوں نے کبھی بھی اس نوٹ کو بڑی تعداد میں استعمال نہیں کیا۔ اس کا استعمال صرف وقتی طور پر کالے دھن کو رکھنے کے لیے کیا گیا۔ میں آر بی آئی اور نریندر مودی کے 2000 روپے کی نوٹ کے بندش کے فیصلے سے بہت مایوس ہوا ہوں۔ یہ اقدام معیشت اور لوگوں کے تئیں ناقابل یقین حد تک غیر حساس ہے۔ اس کے ملکی اور بین الاقوامی کاروبار کے ساتھ ساتھ سٹیک ہولڈرز پر بھی نقصان دہ اثر پڑے گا۔ یہ ایک ناقص فیصلہ ہے جوملکی ترقی کو کمزور کرے گا۔ خیال رہے کہ کئی جب سنہ 2016 میں 2000 کے نوٹ پہلی بار متعارف کرائے گئے تھے تو بعض میڈیا چینل سے دعوی کیا گیا تھا کہ اس میں ایک چپ لگی ہے جس سے اس کا پتہ چلایا جا سکتا ہے جو کہ بعد میں محض افواہ ثابت ہوئی تھی اور لوگوں نے اس وقت بھی اسے مضحکہ خیز کہا تھا اور اب تک اسے مذاق کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آٹھ نومبر 2016 کی رات کو وزیر اعظم نریندر مودی نے نوٹ بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ رات 12 بجے کے بعد پانچ سو اور ہزار روپے کے نوٹ بند ہو جائیں گے اور ان کی جگہ ریزرو بینک آف انڈیا نئے نوٹ جاری کرے گا۔ یہ دو ہزار اور پانچ سو روپے کے کرنسی نوٹ ہوں گے۔ سنہ 2021 میں اس وقت کے وزیر مملکت برائے خزانہ انوراگ ٹھاکر نے بتایا تھا کہ سنہ 2019 اور 2020 میں آر بی آئی نے دو ہزار روپے کے نئے نوٹ نہیں چھاپے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nk473427ro", "summary": "امریکی حکومت اس وقت تاریخ کا سب سے اہم اور پرخطر داؤ کھیل رہی ہے۔ اگر ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز امریکہ کو مزید قرض لینے کی اجازت نہیں دیتے یا ان کی زبان میں کہے تو قرض حاصل کرنے کی حد کو مزید نہیں بڑھاتے تو دنیا کی سب سے بڑی معیشت 31.4 ٹریلن ڈالرز کے قرض پر دیوالیہ ہو جائے گی۔ ", "title": "امریکہ کا دیوالیہ ہونا دیگر عالمی معیشتوں کو کیسے متاثر کر سکتا ہے؟", "firstPublished": "2023-05-19T07:10:38.278Z", "id": "c4nk473427ro", "article": "امریکی حکومت اس وقت تاریخ کا سب سے اہم اور پرخطر داؤ کھیل رہی ہے۔ اگر ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز امریکہ کو مزید قرض لینے کی اجازت نہیں دیتے یا سادہ الفاظ میں قرض حاصل کرنے کی بالائی حد میں مزید اضافہ نہیں کرتے تو 31.4 کھرب ڈالرز کی مقروض دنیا کی سب سے بڑی معیشت دیوالیہ ہو جائے گی۔ امریکہ کو دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے یکم جون تک قرض کی حد بڑھانے سے متعلق حتمی معاہدے پر پہنچنا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر پاتے ہیں تو امریکی چانسلر جرمی ہٹ کے بقول اس کے اثرات ’بہت تباہ کن‘ ہو سکتے ہیں۔ اگر امریکہ اپنے قرض حاصل کرنے کی حد کو نہیں بڑھاتا تو وہ مزید قرض نہیں کر سکے گا اور اس کے بعد اسے حکومت کے خرچے پر اپنی عوام کو دی جانے والی مراعات، سہولیات اور دیگر ضروری ادائیگیوں کے لیے پیسوں کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی اقتصادی امور کے مشیروں کی کونسل نے تخیمنہ لگایا ہے کہ اگر طویل عرصے تک حکومت قرض حاصل کرنے کی حد بڑھانے کے کسی معاہدے ہر نہیں پہنچتی تو اس سے امریکی معیشت اپنے موجودہ حجم سے 6.1 فیصد تک سکڑ سکتی ہے۔ سائمن فرنچ کا کہنا ہے کہ ’اگر امریکی حکومت اپنا قرض واپس نہ کر سکے یا حتی کہ اس پر سود کی رقم کی ادائیگی بھی نہ کر سکے تو سرمایہ کار اس کو دیکھتے ہوئے کہیں گے کہ اگر امریکہ دیوالیہ ہو سکتا ہے تو برطانیہ بھی ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’قرض پر شرح سود میں اضافہ ، چاہے یہ رہن کا قرض ہو یا دوسرا قرض، وہ (سرمایہ دار) اس میں حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اور معاشی صورتحال اور ممکنہ دیوالیہ ہونے کے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا حصے ضرور لیں گے۔ لہذا تما تر قرض کی سہولیات راتوں رات بہت مہنگی ہو جائیں گی۔ عالمی سطح پر ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی اس کا مطلب ہے کہ خوردنی تیل، پیٹرول، اناج خریدنے کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر امریکی حکومت دیوالیہ ہوتی ہے تو ڈالر کی قدر میں تیزی سے کمی آئے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یقیناً ہمیں ہر چیز کی قیمت کا تعین دوبارہ سے کرنا پڑے گا اور معاشی زبان میں اسے رسک پریمیئم کہا جاتا ہے۔ آپ رسک پریمیئم کو موجودہ قیمت میں شامل کرتے ہیں اور اس وجہ سے بریڈ اور دیگر اشیا مزید مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اگر خوراک اور تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا تو یہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرے گا۔ سنہ 2011 میں بھی ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز ملک کے ممکنہ دیوالیہ ہونے سے چند گھنٹوں قبل تک قرض کی حد مقرر کرنے پر ڈیڈ لاک کا شکار تھے۔ اس وقت بھی امریکی سٹاک مارکیٹ گر گئی تھی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgxlp1exnkqo", "summary": "رواں سال اپریل میں ارجنٹینا میں مہنگائی کی شرح کا سالانہ تخمینہ 109 فیصد لگایا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ لاطینی امریکہ کے ملک میں کروڑوں افراد اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ بی بی سی نے آرجنٹینا کے ایسے باشندوں سے ملاقات کی جو اس وقت یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان کی زندگی مزید کتنی مشکل ہو سکتی ہے۔ \n", "title": "’ہم مہینے میں صرف ایک مرتبہ گوشت کھاتے ہیں‘: 109 فیصد شرح مہنگائی والے ملک میں رہنا کیسا ہوتا ہے؟", "firstPublished": "2023-05-18T10:04:26.043Z", "id": "cgxlp1exnkqo", "article": "رواں سال اپریل میں ارجنٹینا میں مہنگائی کی شرح کا سالانہ تخمینہ 109 فیصد لگایا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ لاطینی امریکہ کے ملک میں کروڑوں افراد اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ بی بی سی نے ارجنٹینا کے ایسے باشندوں سے ملاقات کی جو اس وقت یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان کی زندگی مزید کتنی مشکل ہو سکتی ہے۔ یانینا کے لیے ایسے ملک میں رہنا جہاں زندگی کی عام ضروریات پوری کرنے والی اشیا کی قیمتوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے بالکل بھی نیا نہیں ہے۔ جب انھوں نے بیونس آئرس کے پاس ایک پسماندہ علاقے میں ایک چھوٹا سا گروسری سٹور کھولا تھا تو اس وقت سالانہ مہنگائی کی شرح 25 فیصد سے زیادہ ہو چکی تھی۔ سنہ 2018 کے بعد سے ارجنٹینا میں مہنگائی کی سالانہ شرح میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اپریل میں شائع کیے گئے تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت یہ شرح 109 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور ایسا تین دہائیوں میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جو خوش قسمت ہیں کیونکہ آرجنٹینا کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق مارچ میں ملک کے 40 فیصد باشندوں غربت کا شکار ہو چکے ہیں۔ 14 سال سے کم عمر بچوں میں سے 55 فیصد اس وقت غربت میں رہ رہے ہیں۔ آرجنٹینا میں کم از کم اجرت ساڑھے تین سو ڈالر ماہانہ ہے جو جنوبی امریکہ کے ممالک میں دوسری سب سے کم اجرت بنتی ہے۔ تاہم ایک خاندان جس میں دو ادھیڑ عمر افراد اور دو بچے ہوں ان کے لیے اپریل میں اوسطاً کھانے پینے پر آنے والے ماہانہ اخراجات 829 ڈالر ہیں۔ اور ابھی اس میں گھر کی دیگر اخراجات شامل نہیں کیے گئے۔ سنتھیا 37 سال کی ہیں اور وہ یانیا کے سٹور میں بچے کے لیے بسکٹ خریدنے کے لیے آئی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی ایک بچوں کے ہسپتال میں اچھی نوکری ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے والدین کے ساتھ رہنے پر اس لیے مجبور ہونا پڑا کیونکہ اب گھروں کے کرائے بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔ بیونس آئرس کے شمالی علاقے نارڈیلٹا جہاں مالی طور پر آسودہ افراد رہتے ہیں میں ایک سپر مارکیٹ میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے گوئلیرمو کا کہنا تھا کہ ’اس سال میں نے اپنی پوتی کے سکول کی فیس بھی دینا شروع کی کیونکہ اس کے والدین ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ صرف چار ماہ میں اس کی ٹیوشن فیس دوگنی ہو گئی۔‘ تاہم جیسیکا اور بی بی سی کی جانب سے جن دیگر افراد کا انٹرویو کیا گیا ان کا ماننا ہے کہ ارجنٹینا میں معاشی صورتحال سنہ 2023 میں مزید خراب ہو سکتی ہے کیونکہ اکتوبر میں صدارتی انتخابات ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-65587346", "summary": "پاکستان میں اپریل کے دوران افراط زر کی شرح 36.4 فیصد تک جا پہنچی جو کہ 2022 میں ڈیفالٹ اور معاشی بحران سے متاثرہ سری لنکا سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔", "title": "پاکستان میں مہنگائی نے آپ کے گروسری بل میں کتنا اضافہ کیا؟", "firstPublished": "2023-05-14T05:59:27.000Z", "id": "49e4e85c-6395-4d29-be18-cf6f90bf3f6f", "article": "پاکستان میں اکثر لوگ اپنے گروسری بل کا گذشتہ سال سے موازنہ کر کے اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ آخر اتنی ہی مقدار میں اتنی چیزیں اس قدر زیادہ قیمت پر کیوں خریدنی پڑ رہی ہیں۔ مثلاً اگر گذشتہ سال آپ نے سبزی، گوشت اور دیگر سودا سلف خریدنے پر چھ ہزار روپے کے قریب ادا کیے تھے تو اب یہ قریب 35 فیصد اضافے کے ساتھ آٹھ ہزار روپے سے زیادہ بنیں گے۔ ملک میں اپریل کے دوران افراط زر کی شرح 36.4 فیصد تک جا پہنچی جو کہ 2022 میں ڈیفالٹ اور معاشی بحران سے متاثرہ سری لنکا سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔ پاکستان میں اس وقت فوڈ انفلیشن، یعنی کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ، 48 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد پیدا ہونے والی اس صورتحال میں امیر ورکنگ کلاس کو بھی اپنے معیارِ زندگی میں کچھ تبدیلیاں لانا پڑی ہیں۔ مثلاً ملک میں 20 کلو آٹے کا تھیلا، جو مئی 2022 میں 967 روپے کا تھا، اب قیمت میں 177 فیصد اضافے کے بعد 2683 روپے کا ہے۔ بی بی سی نے سینسیٹو پرائس انڈیکیٹر (ایس پی آئی) کے ذریعے سودا سلف اور روزمرہ خریداری میں شامل اشیا کی قیمتوں کا جائزہ لیا ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ مہنگائی نے آپ کی گروسری باسکٹ کو کس حد تک متاثر کیا ہے۔ آپ یہاں اپنی گروسری باسکٹ پر خرچ کا حساب لگا سکتے ہیں: Grocery basket cost سینسیٹو پرائس انڈیکس (ایس پی آئی) کا ہفتہ وار حساب لگایا جاتا ہے تاکہ قلیل مدت میں ضروری اشیا کی قیمتوں میں رد و بدل کا جائزہ لیا جاسکے، جس سے ملک میں اشیا کی قیمتوں کا اندازہ لگ سکتا ہے۔ ایس پی آئی کیلکولیشن کا بیس ایئر 2015-16 ہے۔ موجودہ کیلکولیشن میں پاکستان کے ادارۂ شماریات کے جاری کردہ 5 مئی 2023 اور 4 مئی 2022 کے ایس پی آئی کا موازنہ کیا گیا ہے۔ جب صارف اشیا کا انتخاب کرتا ہے تو کیلکولیٹر اس کی قیمت کا موازنہ کرتا ہے اور نتائج ظاہر کرتا ہے۔ جب گروسری باسکٹ میں کسی چیز کا انتخاب نہ کیا جائے تو ڈیفالٹ آئٹمز: پیاز (ایک کلو)، آلو (ایک کلو)، بیف (ایک گلو)، مٹن (ایک کلو)، چائے (190 گرام) اور ڈالڈا آئل کے ٹِن ظاہر کیے جاتے ہیں۔ ہر شخص اس مہنگائی کا توڑ کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی حل نکال رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کے پاس اس کا ایک حل یہ ہے کہ مہنگی اشیا خریدنے کی بجائے وہی اشیا سیل میں سے خریدی جائیں تو آپ اچھی خاصی بچت کر سکتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ceq65dp5wx1o", "summary": "اگر بات کی جائے امریکہ کے لیے قرض کی حد کو بڑھانے سے متعلق ہونے والی گفت و شنید کی تو یہ ہفتہ امریکہ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اگر کانگریس یکم جون سے قبل قرض کی حد نہیں بڑھاتی تو پھر ایسے میں امریکہ ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔", "title": "قرضوں کی حد مقرر کرنے پر تنازع امریکہ کو معاشی بحران کی طرف دھکیل رہا ہے؟", "firstPublished": "2023-05-13T12:08:38.818Z", "id": "ceq65dp5wx1o", "article": "اگر بات کی جائے امریکہ کے لیے قرض کی مقررہ حد کو بڑھانے سے متعلق ہونے والی گفت و شنید کی تو رواں ہفتہ امریکہ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اگر کانگریس یکم جون سے قبل قرض کی حد نہیں بڑھاتی تو پھر ایسے میں امریکہ ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ قرض کی آخری حد کو چھونے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت اب اس وقت تک مزید رقم قرض نہیں لے سکتی جب تک کانگریس قرض حاصل کرنے کی حد کو بڑھانے پر راضی نہ ہو جائے۔ اس وقت امریکی حکومت کی قرض حاصل کرنے کی حد تقریباً 31.4 کھرب ڈالر ہے۔ قرض کی حد ایک ایسا نازک معاملہ ہے کہ جس پر ڈیموکریٹس کسی بھی قسم کی سیاسی چال نہیں چلتے۔ انھوں نے کبھی دیوالیہ ہونے کی دھمکی تک نہیں دی۔ جیسا کہ ماضی میں جب ریپبلکن کم از کم اجرت میں اضافہ کرنے، حکومت کی مالی امداد سے چلنے والی صحت کی دیکھ بھال کو بڑھانے یا دولت مندوں پر ٹیکس بڑھانے سے انکار کر دیا تھا تو ڈیموکریٹس نے کوئی تنازع نہیں کھڑا کیا۔ جب بیروزگاری بڑھے گی اور سٹاک مارکیٹ میں کمی آئے گی تو یہ سب ملبہ حکومت پر ہی گرے گا۔ بہت سے ڈیموکریٹس سیاسی نقصانات کے باوجود کانگریس کو قلیل مدتی رعائت دینے کے خلاف ہیں اور ان کے خیال میں اس نقصان کا ازالہ ہو سکتا۔ ان کے مطابق انھیں آئندہ برس کانگریس میں مزید اکثریت حاصل ہو جاتی ہے تو پھر صدارت ان کے پاس آ جائے گی تو پھر ان اقدامات کا ازالہ ممکن ہے۔ اگر اس پر پارٹی تقسیم ہوتی ہے تو پھر صدر بائیڈن پر اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے، جس سے ان کی جماعت کے قرض کی حد سے متعلق سخت گیر مؤقف رکھنے والے ناراض ہو جائیں گے، جس سے وہ سیاسی طور پر آئندہ قیادت کے لیے کمزور ہو سکتے ہیں۔ ان کی جماعت میں پہلے ہی سے ایسے لوگ ہیں جو آئندہ برس کے لیے ان کی پارٹی پر گرفت سے متعلق صلاحیت کے بارے میں پریشان ہیں۔ اگر عوام ریپبلکنز کو انتہا پسندوں کی جماعت کے طور پر دیکھتی ہے جو حکومت کرنے سے کے اہل نہیں ہیں تو یہ جو بائیڈن کی دوبارہ انتخابی مہم کا اہم پیغام بن کر ابھرے گا۔ قرض کی حد سے جڑا معاشی بحران ایوان کے سپیکر کیون میکارتھی کے لیے بھی خاص چیلنجز میں سے ایک ہے۔ اس ایوان میں اقتدار پر ان کی گرفت کمزور ہے۔ اگر وہ مذاکرات میں کسی ایک طرف جھکاؤ دکھاتے ہیں تو پھر ایسے میں ان کے لیے جہاں آئندہ انتخاب مشکل ہو جائے گا وہیں انھیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپنے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czkxn1rd80no", "summary": "عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والے حالات نے ملک کے معاشی شعبے کو بھی شدید متاثر کیا، جس کا منفی اثر ملکی سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کے رجحان کے ساتھ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی میں ہونے والی کمی ہے، جس کے باعث ڈالر اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہے۔ \n", "title": "عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کمزور پاکستانی معیشت کو کیسے متاثر کر رہی ہے؟", "firstPublished": "2023-05-11T11:40:37.575Z", "id": "czkxn1rd80no", "article": "پاکستان میں منگل کے روز تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد احتجاج اور پرتشدد واقعات سے جہاں ملک میں سیاسی کشیدگی اور بحران میں اضافہ ہوا تو وہیں اس صورتحال نے ملک کے معاشی شعبے کو بھی بظاہر متاثر کیا۔ اور اس کا منفی اثر ملکی سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کے رجحان کے ساتھ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی میں ہونے والی تاریخی کمی کی صورت میں نکلا ہے، جس کے باعث ڈالر اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 300 روپے پر موجود ہے۔ ملک میں سونے کی قیمت بھی گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے تو اس کے ساتھ انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں بھی شدید طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ ملکی معیشت سے جڑے افراد اور ماہرین کے مطابق عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے کاروباری افراد اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بہت زیادہ کم ہوا، جو پہلے ہی خراب ہوتی معاشی صورتحال کی وجہ سے نچلے درجے پر ہے۔ منگل کے روز عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا منفی اثر سب سے پہلے پاکستان کی سٹاک مارکیٹ پر پڑتا نظر آیا۔ اگرچہ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں معاشی شعبے میں کسی حوصلہ افزا پیشرفت نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی کاروباری رجحان منفی تھا تاہم سابق وزیراعظم کی گرفتاری اور اس کے بعد جاری احتجاج میں پرتشدد واقعات نے ان منفی رجحانات کو مزید فروغ دیا۔ دوسری جانب ملک میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مزید کمی ریکارڈ کی گئی۔ منگل کے روز ڈالر کے ریٹ میں ایک گھنٹے میں ہونے والے اضافے کے بعد بدھ کے روز روپے کی قدر میں بہت زیادہ کمی دیکھی گئی، جب ایک ڈالر پانچ روپے کے اضافے کے بعد 290 روپے پر بند ہوا جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ معاشی تجزیہ کار اور بینک آف پنجاب کے چیف اکنامسٹ سید صائم علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا گذشتہ دو روز کے واقعات نے یقینی طور پر ملکی معیشت کو منفی طور پر متاثر کیا، جس کا منفی اثر آئندہ آنے والے دنوں میں عام آدمی پر پڑتا نظر آئے گا۔ پاکستان میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال نے تو معیشت کو منفی طور پر متاثر کیا ہی ہے تاہم اس کے ساتھ کچھ دوسری وجوہات نے بھی اس دوران معاشی اشاریوں کومتاثر کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ پاکستان میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی کشیدہ صورتحال کی وجہ سے ملک میں کاروباری طبقات کے اعتماد کے متاثر ہونے کے بارے میں بات کرتے ہوئے صائم علی نے کہا کہ یقینی طور پر کاروباری اعتماد کم ہو رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کو یقین نہیں کہ سیاسی اور معاشی طور پر معاملات کیسے سنبھلیں گے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv24403v13do", "summary": "ڈالر کے بدلے سونا۔ بہت سے ممالک کے مرکزی بینک امریکہ پر انحصار کم کرنے کی کی کوششوں میں ایسا کر رہے ہیں۔ قیمتی دھات کی صنعت کی نمائندگی کرنے والے ادارے عالمی گولڈ کونسل نے بتایا ہے کہ سنٹرل بینکوں نے گذشتہ سال اپنے ذخائر میں سب سے زیادہ سونا جمع کیا ہے۔", "title": "دنیا کے بڑے بینک تیز رفتاری سے سونا کیوں خرید رہے ہیں اور اس سے ڈالر کو کیا خطرہ ہے؟", "firstPublished": "2023-05-11T05:31:26.398Z", "id": "cv24403v13do", "article": "ڈالر کے بدلے سونا۔ دنیا میں بہت سے ممالک کے مرکزی بینک امریکہ پر انحصار کم کرنے کی کوششوں میں ایسا کر رہے ہیں یعنی ڈالر کے بجائے سونے کو ترجیح۔ سونے کی صنعت کی نمائندگی کرنے والے ادارے عالمی گولڈ کونسل نے بتایا ہے کہ سینٹرل بینکوں نے گذشتہ سال اپنے ذخائر میں سب سے زیادہ سونا جمع کیا ہے۔ یہ سنہ 1950 میں جب سے سونے کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا گیا اس وقت سے اب تک کا ریکارڈ ہے۔ ڈالر نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر کام کیا ہے اور عالمی تجارت پر غلبہ حاصل کر رکھا ہے لیکن یوکرین پر روس کے حملے نے عالمی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور معیشت سے متعلقہ حکام امریکی ڈالر پر انحصار کے اصول سے انحراف کر رہے ہیں اور یہ بات ڈالر کے خلاف جا رہی ہے۔ امریکی بینکوں میں عالمی اجناس کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’مغربی ممالک نے سنہ 2022 کے یوکرین پر حملے کی وجہ سے کچھ اثاثے منجمد کر دیے، جس نے دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کو قابل تبادلہ سونے کے ذخیرے کو مزید بڑھانے کے لیے ترغیب دی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’اس کی مثال روس ہے جو کہ اب دنیا کا سب سے زیادہ پابندیوں کا سامنے کرنے والا ملک ہے اور شاید اسی وجہ سے وہ حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ ڈالر پر انحصار کم کرنے کے ساتھ ساتھ سونے کے بڑے خریداروں میں سے ایک ہے۔‘ ایسیڈ میں شعبہ اقتصادیات، مالیات اور اکاؤنٹنگ میں معاون پروفیسر عمر رشیدی کہتے ہیں کہ ’یوکرین کی جنگ کے نتیجے میں امریکی پابندیوں کے بعد کئی ممالک نے مستقبل میں ممکنہ پابندیوں کے حوالے سے (ڈالر پر اپنے) انحصار کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اس چیز نے سونے اور چینی (کرنسی) کو ذخیرہ کرنے کے رجحان کو فروغ دیا ہے۔‘ جارج میسن یونیورسٹی میں شعبہ اقتصادیات کے پروفیسر لارنس ایچ وائٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’مرکزی بینکوں کے سونا جمع کرنے کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں، لیکن شاید سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ انھیں اپنے ریزرو اثاثوں کو متنوع بنانے کی ضرورت ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’مثال کے طور پر چین سونا خرید رہا ہے اور ساتھ ہی امریکی خزانے کے اپنے بڑے پورٹ فولیو کا کچھ حصہ فروخت کر رہا ہے۔ ڈالر کے اثاثوں کے بجائے سونا رکھنا بھی ڈالر کی قدر میں کمی کے خطرے کو کم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔‘ گونزالو ٹوکا نے کہا کہ ڈالر نے جتنا خوب راج کیا ہے وہ ’یورو‘ اور ’یوآن‘ کے اضافے کے ساتھ کمزور ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اور یہ آنے والے برسوں میں مزید کمزور ہوتا رہے گا کیونکہ ان کی اہمیت ریزرو اور ادائیگی کی کرنسیوں کے طور پر اضافہ ہوتا جائے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp911ylz29do", "summary": "بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ’موڈیز‘ نے آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج کے بغیر پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ ماہ یعنی جون کے مہینے کے بعد پاکستان کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت میں کمزور ہے۔ مگر کیا آئی ایم ایف پروگرام بحالی میں مزید تاخیر سے پاکستان کے دیوالیہ کے امکانات مزید بڑھ گئے ہیں؟", "title": "آئی ایم ایف ڈیل میں تاخیر: پاکستان کے بیرونی ادائیگیوں پر ڈیفالٹ کے خدشات پھر کیوں سر اٹھا رہے ہیں؟", "firstPublished": "2023-05-09T08:36:18.936Z", "id": "cp911ylz29do", "article": "بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ’موڈیز‘ نے آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج کے بغیر پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ ماہ یعنی جون کے مہینے کے بعد پاکستان کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت میں کمزور ہے۔ واضح رہے کہ زرمبادلہ کی کمی کے شکار ملک پاکستان کے لیے بیرونی فنانسنگ کی سہولت کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے سٹاف لیول معاہدے پر ابھی تک رضامندی ظاہر نہیں کی ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف قسط کے علاوہ دوسرے ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی فنانسنگ بھی رُکی ہے ۔ ماضی قریب میں پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے با رہا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر ’جلد دستخط‘ ہونے کا عندیہ دیا گیا ابھی تک اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ معاہدے میں تاخیر کی وجہ سے پاکستان کے لیے اس وقت بیرونی فنانسنگ کے دروازے تقریباً بند ہیں اور سوائے چین کے کمرشل بینک کی جانب سے دیے جانے والے قرض پاکستان کسی دوسرے ملک یا ادارے سے فنڈنگ حاصل کرنے میں ناکام نظر آتا ہے جس کی وجہ سے اس کے زرمبادلہ ذخائر میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نظر نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر کی وجہ سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات ایک بار پھر سر اٹھا رہے ہیں جن میں رواں برس فروری کے مہینے کے آغاز پر آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اور معاہدے پر دستخط کے امکان کی وجہ سے کمی آئی تھی۔ آئی ایم ایف پروگرام بحالی میں مزید تاخیر سے کیا پاکستان کے لیے بیرونی ادائیگیوں میں مشکلات بڑھ سکتی ہیں اور پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے کتنے امکانات ہیں، اس سلسلے میں بینک آف امریکہ نے حال ہی میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ آئی ایم ایف سے ڈیل جلد نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان بیرونی ادائیگی روک سکتاہے۔ تاہم بینک آف امریکہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چین پاکستان کا دوست ہونے کی وجہ سے پاکستان کو اس بحران سے نکال سکتا ہے۔ ماہر معیشت عمار حبیب خان نے کہا کہ اگر آئی ایم ایف سے ڈیل نہیں ہوتی تو پھر بھی اس سال پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے امکانات کم ہیں کیونکہ پاکستان کو بین الاقوامی بانڈ مارکیٹ میں اگلی ادائیگی اپریل 2024 میں کرنی ہے جس کی ادائیگی نہ کرنے سے کوئی ملک دیوالیہ ہوتا ہے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ ڈیل نہ ہونے سے دوسری بہت ساری مشکلات بڑھیں گی جن میں درآمدی کارگو کی کلیئرنس میں مشکلات اور مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c28mj040e4mo", "summary": " روس کے لیے روپے کو دوسری کرنسی میں تبدیل کرنے کی لاگت روز بروز بڑھ رہی ہے، اس لیے وہ روپے میں ادائیگی قبول کرنے سے انکار کر رہا ہے۔", "title": "روس کی تیل کے عوض روپے میں ادائیگی قبول کرنے میں ہچکچاہٹ انڈین معیشت کو کتنا متاثر کر سکتی ہے؟", "firstPublished": "2023-05-09T05:23:46.777Z", "id": "c28mj040e4mo", "article": "چونکہ عالمی پابندیوں کے باعث روس کے لیے روپے کو دوسری کرنسی میں تبدیل کرنے کی لاگت روز بروز بڑھ رہی ہے، اس لیے وہ روپے میں ادائیگی قبول کرنے سے انکار کر رہا ہے۔ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق لاوروف نے صحافیوں کو بتایا ’ہمیں یہ رقم استعمال کرنی ہے، لیکن ایسا کرنے کے لیے اسے دوسری کرنسی میں منتقل کرنا ہو گا۔ اس حوالے سے بات چیت جاری ہے۔‘ اس کا مطلب ہے کہ روس اب اپنے تیل، ہتھیاروں اور دیگر چیزوں کی ادائیگی روپے میں لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یوکرین پر حملے کے بعد لگائی گئی پابندیوں کے بعد یہ روس ہی تھا جس نے انڈیا کو اس کی کرنسی یعنی روپے میں تجارت کرنے کی ترغیب دی تھی۔ روس چونکہ سستا تیل دے رہا تھا اس لیے انڈیا نے اپنی درآمدات بڑھانا شروع کر دیں۔ چونکہ اس تیل کی ادائیگی روپے میں کی جانی تھی اس لیے خریداری بڑھانے کا یہ اچھا موقع تھا۔ لیکن انڈیا کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی آئی ہے اور اس کی کسی دوسری کرنسی میں تبدیلی کی لاگت بڑھ گئی ہے۔ اس روپے کو دوسری کرنسی میں تبدیل کرنا اسے مہنگا پڑ رہا ہے۔ انڈیا کو ہتھیاروں اور دیگر فوجی ساز و سامان کی فراہمی کے لیے روس کو دو ارب ڈالر ادا کرنے ہیں لیکن پابندی کی وجہ سے یہ ادائیگی گذشتہ ایک سال سے التوا کا شکار ہے۔ انڈیا کو خدشہ ہے کہ ایسا کرنے سے وہ امریکی پابندیوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب روس روپے میں ادائیگی قبول کرنے کو بھی تیار نہیں۔ ڈیٹا انٹیلیجنس فرم وورٹیکسا لمیٹڈ کے مطابق اس اپریل میں روس سے انڈیا کی خام تیل کی درآمد بڑھ کر 16.80 لاکھ بیرل یومیہ ہو گئی۔ انڈیا میں حکام کے مطابق انھوں نے روس سے سستا تیل خرید کر اب تک 35 ہزار کروڑ روپے بچائے ہیں لیکن ماہرین کو خدشہ ہے کہ اب شاید انڈیا اس سے مزید فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔ روس کا انڈیا سے روپے میں ادائیگی قبول کرنے سے انکار ایک بڑا مسئلہ بننے والا ہے کیونکہ یوکرین پر حملے کے بعد روس سے انڈیا کی درآمدات 10.6 ارب ڈالر سے بڑھ کر 51.3 ارب ڈالر ہو گئی ہیں۔ جیسا کہ واضح ہے کہ اب انڈیا کو بہت زیادہ قیمت ادا کرنا ہو گی۔ روپے میں ادائیگی قبول کرنے سے انکار کے بعد اب انڈیا کو دوسری کرنسی میں ادائیگی کرنی ہو گی۔ یہ خبر انڈیا کے زرمبادلہ کے ذخائر کے لیے اچھی نہیں۔ اس کی وجہ سے انڈیا کے معاشی مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ فی الحال تیسرے فریق کو روس کے ساتھ کاروبار میں ادائیگی کے تصفیے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسی لیے انڈیا تیسرے ملک کو ادائیگی کر کے تصفیہ کر رہا ہے۔ یہاں سے یہ رقم روس جا رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c14p998ee1xo", "summary": "پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کی قیمت اور معیار سے ناخوش بعض شہری جاپان سے منگوائی جانے والی استعمال شدہ گاڑیوں میں دلچسپی لیتے ہیں اور اب ریگولیٹری ڈیوٹی کی معیاد ختم ہونے کے بعد بعض لوگوں کو امید ہے کہ پرانی امپورٹڈ گاڑیوں کی قیمتیں میں ریلیف مل سکتا ہے۔ مگر روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے کیا یہ ممکن بھی ہے؟ ", "title": "کیا ریگولیٹری ڈیوٹی ختم ہونے سے پاکستان میں چھوٹی گاڑیوں کی قیمت کم ہو گی؟", "firstPublished": "2023-05-08T08:23:24.157Z", "id": "c14p998ee1xo", "article": "پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کی قیمت اور معیار سے ناخوش بعض شہری جاپان سے منگوائی جانے والی استعمال شدہ گاڑیوں میں دلچسپی لیتے ہیں اور اب ریگولیٹری ڈیوٹی کی معیاد ختم ہونے کے بعد ایسے افراد کو امید ہے کہ پرانی امپورٹڈ گاڑیوں کی قیمتیں میں کمی ہو سکتی ہے۔ ملک میں گاڑیوں کے ڈیلرز کی ایسوسی ایشن نے کہا تھا کہ ریگولیٹری ڈیوٹی ختم ہونے سے 1800 سی سی کی کاروں کی قیمت میں کمی واقع ہو گی۔ تاہم اس شعبے کے بعض ماہرین کے مطابق گذشتہ ایک سال میں ڈالر کی قدر میں سو روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے لہذا ریگولیٹری ڈیوٹی کم ہونے کے باوجود درآمد کی گئی استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں زیادہ کمی کا امکان کم ہے۔ ایسے میں بعض صارفین پرانی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی جانب راغب ہوتے ہیں تاہم اس سلسلے میں بھی حکومت کی جانب سے امپورٹ بِل میں کمی کے لیے پہلے درآمدات پر پابندی اور پھر ڈیوٹی میں اضافے نے صنعت کو متاثر کیا۔ کار ڈیلرز کے مطابق ریگولیٹری ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد بھی مارکیٹ میں ایسی قیاس آرائیاں ہیں کہ حکومت دوبارہ اس فیصلے کی توسیع کر سکتی ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد نے مقامی میڈیا کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ریگولیٹری ڈیوٹی 31 مارچ کو ختم ہوئی جسے کسی بھی وقت دوبارہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔ آل پاکستان موٹر ڈیلر ایسوسی ایشن کے سربراہ ایچ ایم شہزاد کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے آر ڈی ہٹائے جانے سے قیمت پر فرق تو پڑے گا تاہم حالیہ عرصے میں روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر میں اضافے سے ریٹ میں بہت زیادہ کمی نہیں آئے گی۔ شہزاد نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ سال 660 سی سی کی پرانی درآمد شدہ کار کی قیمت لگ بھگ 22 سے 23 لاکھ روپے کے درمیان تھی جو سو فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگنے کے بعد 33 سے 34 لاکھ روپے کی ہو گئی تھی۔ تاہم وہ بتاتے ہیں کہ اب دوبارہ ڈیوٹی ہٹنے کے بعد بھی اس کی قیمت 30 سے 31 لاکھ روپے سے نیچے نہیں آئے گی۔ اُدھر گاڑیوں کے شعبے کے ماہر سنیل سرفراز منج کا کہنا ہے کہ یہ درست نہیں کہ گاڑیاں پہلے سے سستی ہو جائیں گی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ گاڑیاں آر ڈی ہٹنے کے باوجود مہنگی رہیں گی اور اس کی وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ سال کے مقابلے اب درآمد شدہ 660 سی سی کار کی قیمت میں تین سے چار لاکھ روپے اور 1000 سی سی کار کی قیمت میں پانچ لاکھ روپے تک کا اضافہ ہوا ہے۔ ایف بی آر کے مطابق پاکستان میں کوئی بھی شخص تمام تقاضے پورے کر کے، یعنی ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کر کے، نئی گاڑی درآمد کر سکتا ہے تاہم استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے لیے سمندر پار پاکستانیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c13pk5zzyl6o", "summary": "سنہ 2022 میں یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد روس نے چین کی کرنسی یوآن کو زیادہ ترجیح دینا شروع کر دی ہے اور اس سال اس نے زیادہ تر بین الاقوامی تجارت ڈالر کے مقابلے یوآن میں کی ہے۔ کیا چینی کرنسی امریکی ڈالر کو برابری کی ٹکر دینے کی تیاری کر رہی ہے؟ ", "title": "کیا چینی کرنسی یوآن عالمی منڈی میں امریکی ڈالر کو ٹکر دے سکے گی", "firstPublished": "2023-05-04T01:14:57.429Z", "id": "c13pk5zzyl6o", "article": "روس نے چین کی غیر ملکی کرنسی یوآن کو زیادہ ترجیح دینا شروع کر دی ہے رواں برس اپریل کے مہینے میں بلومبرگ نیوز میں ایک چونکا دینے والی خبر شائع ہوئی۔ خبر تھی کہ چین کی کرنسی یوآن نے روس میں اپنا سکہ جماتے ہوئے امریکی ڈالر کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سنہ 2022 میں یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد روس نے چین کی غیر ملکی کرنسی یوآن کو زیادہ ترجیح دینا شروع کر دی اور اس سال روس نے زیادہ تر بین الاقوامی تجارت ڈالر کے مقابلے یوآن میں کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین کا یوآن جسے رینمنبی بھی کہا جاتا ہے اب امریکی ڈالر کو برابری کی ٹکر دینے کی تیاری کر رہا ہے؟ پہلی جنگ عظیم تک برطانوی پاؤنڈ سٹرلنگ زیادہ تر ممالک کی ’ریزرو کرنسی‘ ہوا کرتی تھی۔ لیکن سنہ 1930 کی دہائی کے بعد سے امریکی معیشیت اور عسکری قوت نے اپنی دھاک جمانی شروع کر دی اور ڈالر نے عالمی تجارت میں پاؤنڈ کو پیچھے دھکیل دیا، جو آج تک برقرار ہے۔ برازیل کی جانب سے تجارت کے لیے امریکی ڈالر کے بجائے یوآن کو غیر ملکی کرنسی کے طور پر استعمال کرنے کے فیصلے کے بعد ہی اس کے پڑوسی ارجنٹائن نے بھی چین کے ساتھ تجارت میں ڈالر کے بجائے یوآن کو استعمال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دریں اثنا چین نے آئی ایم ایف یا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کی نیت سے ایک ایشیائی مالیاتی فنڈ قائم کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جس میں اسے ملائشیا جیسے کچھ ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے۔ گزشتہ سال ایران نے کہا تھا کہ اس نے روس کے ساتھ تجارت کے لیے امریکی ڈالر ترک کر دیا ہے اور اب تمام لین دین روسی روبل میں ہو گا۔ ایران نے یہ بھی کہا تھا کہ انڈیا، ترکی اور چین کے ساتھ مستقبل میں تجارت کے لیے اس کا یہی ارادہ ہے۔ اس وقت چین کی سالانہ جی ڈی پی 17.7 ٹریلین امریکی ڈالر ہے، جو اسے امریکہ اور یورپی یونین کے بعد تیسری بڑی منڈی بناتی ہے۔ لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ چین کی رینمنبی کرنسی یا یوآن عالمی تجارت کا صرف تین فیصد ہے جبکہ 87 فیصد حصہ ابھی بھی امریکی ڈالر کا ہے۔ ڈالر کے مقابلے یوآن کے لیے شفافیت بھی ایک بڑا چیلنج ہو گا کیونکہ آج بھی چین کی معیشت میں بہت سے بڑے فیصلے متفقہ طور پر نہیں کیے جاتے۔ اسی طرح کے کچھ الزامات روس کی معیشت پر بھی لگائے گئے ہیں۔ کیونکہ دوسرے ممالک کو ڈالر کے بجائے کسی اور غیر ملکی کرنسی کے ذخائر بنانے سے پہلے اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ اس ملک کی کرنسی طویل عرصے تک قابل اعتماد رہ سکے گی یا نہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0wge79rq5go", "summary": "ہالو وُوڈ کی فلموں اور ڈراموں اور ٹاک شوز کے مکالمہ نگار اور کہانیاں لکھنے والے وہاں کے بڑے بڑے پروڈکشن ہاؤسز کے خلاف اس لیے ہرتال کر رہے ہیں کیونکہ انھیں کم معاوضے ملتے ہیں اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی وجہ سے ان کا مستقبل خطرے میں ہے۔", "title": "ہالی وُوڈ کے لکھاریوں کی ہڑتال کے بعد ڈراموں، ٹاک شوز اور فلموں کی صنعت افراتفری کا شکار", "firstPublished": "2023-05-02T16:25:25.850Z", "id": "c0wge79rq5go", "article": "دنیا کی سب سے بڑی اور امریکہ کی فلمی اور فنکاروں کی صنعت کے مرکز ہالی وُوڈ کے بڑے اسٹوڈیوز کے ساتھ اجرتوں پر آخری لمحات میں ہونے والی بات چیت معطل ہوجانے کے بعد ٹیلی ویژن اور فلم کی کہانیاں اور مکالمے لکھنے والے منگل کو ہڑتال کر رہے ہیں۔ اس مرتبہ لکھاریوں اور کہانی نگاروں کی ’الائنس آف موشن پکچر اینڈ ٹیلی ویژن پروڈیوسرز‘ (AMPTP) کے خلاف ٹکر ہے، جو کہ ڈزنی (Disney) اور نیٹفلِکس (Netflix) سمیت اسٹوڈیوز کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہڑتال کرنے والے زیادہ تنخواہیں اور جدید اسٹریمنگ سے زیادہ منافع میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔ بات چیت میں کلیدی مسائل یہ رہے کہ لکھاریوں کو اُن شوز کی ادائیگی کیسے کی جاتی ہے جو اکثر سالوں تک اسٹریمنگ پلیٹ فارمز پر موجود رہتے ہیں، اس کے علاوہ یہ معاملہ بھی زیرِ غور ہے کہ لکھاریوں اور کہانی نگاروں کا آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے مستقبل کیسے متاثر ہو گا۔ اوکیف نے کہا کہ جب وہ اور ان کے ساتھیوں نے رائٹرز گلڈ آف امریکہ ایوارڈز میں بہترین کامیڈی سیریز کا انعام حاصل کیا تھا تو وہ اپنے دوستوں اور خاندان والوں کی طرف سے ان کے لیے خریدے گئے سوٹ پہن کر تقریب میں گئے تھے۔ بڑے مشہور اور مقبول ٹاک شوز، سِٹ کامز اور پرائم ٹائم ڈراموں کی بھی پروڈکشن رک گئی تھی، جن میں ’اگلی بیٹی‘، ’ڈیسپیریٹ ہاؤس وائفز‘اور ’دی آفس‘ جیسے شوز بھی شامل تھے۔ اس ہڑتال نے ’بریکنگ بیڈ‘ کے شائقین کو اپنے پہلے سیزن کی دو اقساط سے محروم کردیا تھا۔ اگرچہ اس کی بہترین مثال شاید جیمز بانڈ کی فلم، ’کوانٹم آف سولس‘ تھی، جیسا کہ اسٹار ڈینیئل کریگ نے ایک انٹرویو میں خود کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے پاس اسکرپٹ کے خاکے تھے اور پھر لکھاریوں کی ہڑتال تھی اور ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ ’ہم اسے ختم کرنے کے لیے کسی لکھاری کو ملازمت نہیں دے سکے۔ میں اپنے آپ سے کہتا ہوں، 'دوبارہ کبھی نہیں'، لیکن کون جانتا ہے؟ میں سین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کر رہا تھا - اور میں ایسا مکالمہ نگار نہیں ہوں‘۔ لکھاریوں کی ہڑتال نے نادانستہ طور پر صدارت کا امیدوار بننے سے پہلے کے دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بڑا اسٹار بنانے میں مدد کی۔ ٹی وی شو ’اپرنٹس‘ کا ٹرمپ کا ورژن بند ہونے کے قریب تھا لیکن لکھاریوں کی ہڑتال نے اسے ایک نئی زندگی دے دی۔ اسکرپٹس نہ ہونے کی وجہ سے، ریلیٹی ٹی وی لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا۔ ’پروجیکٹ رن وے‘ اور ’دی بگسٹ لوزر‘ جیسے شوز کو زیادہ جگہ ملی اور انھیں نئے نئے سامعین ملے۔ اور ہر ایک نے ’ای‘ پر کارداشیئن کے شو کو دیکھنا شروع کردیا تھا!"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4njwj2pdeeo", "summary": "’کریڈٹ سکور‘ تین ہندسوں پر مبنی ایسے اعداد ہیں جو امریکہ میں آپ کے اور آپ کے بچوں کی ذاتی معیشت کا اشاریہ ہو سکتے ہیں۔ ", "title": "قرض لینے کی اہلیت بتانے والا ’کریڈٹ سکور‘ کیسے کام کرتا ہے اور یہ امریکیوں کی زندگیوں کو کتنا متاثر کرتا ہے؟", "firstPublished": "2023-04-30T10:49:59.327Z", "id": "c4njwj2pdeeo", "article": "’کریڈٹ سکور‘ تین ہندسوں پر مبنی ایسے اعداد ہیں جو امریکہ میں آپ کے اور آپ کے بچوں کی ذاتی معیشت کا اشاریہ ہو سکتے ہیں۔ امریکہ میں کریڈٹ سکور اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کیا آپ قرض، کریڈٹ کارڈ یا رہن حاصل کر سکتے ہیں اور اس کی حد کیا ہو گی۔ یہاں تک کہ یہ آپ کی کار انشورنس کی رقم کی ادائیگی یا گھر کرائے پر لیتے وقت ادا کیے جانے والے سکیورٹی ڈپازٹ کا بھی تعین کرتا ہے۔ شہریوں کو مالی معاملات سے آگاہی کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے سینٹر فار ریسپانسبل لینڈنگ کے سینیئر وکیل سلبرمین کا کہنا ہے کہ ’پوری طرح سمجھ نہ آنے والی بعض وجوہات کی بنا پر کریڈٹ سکور اور گاڑیوں کے نقصان کی تعداد رپورٹ ہونے کے درمیان ایک مضبوط تعلق ہے۔ جبکہ دوسری طرف کوئی اور مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں جو انشورنس کمپنی کو یہ بتائیں کہ آیا آپ ایک اچھے یا خراب ڈرائیور ہیں جس کی بنیاد پر بیمہ کنندگان یہ طے کر سکیں کہ اس بات کا کتنا خطرہ ہے کہ آپ کسی حادثے کا شکار ہو جائیں گے اور انھیں ہرجانہ ادا کرنا پڑے گا۔‘ سلبرمین کہتے ہیں کہ ’اس نظام سے قبل متبادل یہ تھا کہ لوگوں کو یہ فیصلہ کرنے دیا جائے کہ وہ کس کو قرض دیں اور ان سے کتنا سود لیا جانا چاہیے۔ اور بہت سی وجوہات کے باعث یہ فیصلے انتہائی متعصب بھی ہو سکتے ہیں۔ کریڈٹ سکور، کم از کم، ایک ایسا اشاریہ ہے جو خطرے کی پیمائش کا معروضی اور موثر طریقہ ہے کیونکہ آپ کو اس کے متعلق معلومات کی فوری رسائی حاصل ہوتی ہے اور یہ آپ کو فوری طور پر فیصلہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔‘ وہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے مثال دیتے ہیں کہ مالی وسائل رکھنے والے والدین اپنے بچوں کو پہلے قرضے حاصل کرنے اور ایک اچھا کریڈٹ سکور بنانے میں مدد کر سکتے ہیں، یا اگر وہ مالی طور پر پریشان ہوں تو ان کی مالی مدد کر کے ان کے کریڈٹ سکور کو گرنے سے بچا سکتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’کریڈٹ سکور کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں آپ کے بارے میں کافی ڈیٹا ہونا ضروری ہے تاکہ آپ کو کریڈٹ سکور تفویض کیا جا سکے۔ اس لیے مثال کے طور پر، اگر آپ حال میں ہی نقل مکانی کر کے امریکہ پہنچے ہیں تو آپ کے بارے میں وہاں کوئی معلومات نہیں ہیں اور الگورتھم کچھ نہیں جانتا۔ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ وقت پر اپنا قرض ادا کیا ہو، لیکن چونکہ اس ملک میں آپ کے بارے میں کوئی ڈیٹا نہیں ہے، اس لیے آپ کو سکور نہیں دیا جا سکتا اور سسٹم آپ کو ایسے دوسرے لوگوں کی طرح بیان کرتا ہے جن کی کریڈٹ ہسٹری نہیں ہے، اور یہ بہت غیر منصفانہ ہو سکتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn0733r4vx0o", "summary": "انڈیا کی ریاست مغربی بنگال کی ایک یونیورسٹی نے نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین کو نوٹس دیا ہے کہ وہ 5 مئی تک یونیورسٹی کے کمیپس میں واقع اپنا آبائی مکان رضاکارانہ طریقے سے خالی کر دیں ورنہ بذریعہ طاقت ان سے یہ مکان خالی کرایا جائے گا۔ ", "title": "نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات امرتیہ سین کو ان کے گھر سے نکالنے کی کوشش کیوں ہو رہی ہے؟ ", "firstPublished": "2023-04-27T15:33:36.461Z", "id": "cn0733r4vx0o", "article": "مغربی بنگال کی وشو بھارتی یونیورسٹی نے نوبل انعام یافتہ معروف ماہر اقتصادیات امرتیہ سین کو نوٹس دیا ہے کہ وہ 5 مئی تک یونیورسٹی کے کمیپس میں واقع اپنا آبائی مکان رضاکارانہ طریقے سے خالی کر دیں ورنہ بذریعہ طاقت ان سے مکان خالی کرایا جائے گا۔ وشو بھارتی یونیورسٹی کے جوائنٹ رجسٹرار کی جانب سے 19 اپریل کو پرفیسر امرتیہ سین کے نام جاری کیے گئے ایک نوٹس میں کہا گیا ہے کہ وہ تقریبآ 600 گز زمین جس پر بنے ہوئے اپنے آبائی گھر کو، جس پر بقول یونیورسٹی حکام پروفیسر سین نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے نوٹس کے 15 دن کے اندر یا 6 مئی سے پہلے خالی کر دیں ورنہ اسے جبرآ خالی کرایا جائے گا۔ پروفیسر امرتیہ سین نے 17 اپریل کو یونیورسٹی حکام کو ای میل کے ذریعے بھیجے گئے ایک جواب میں لکھا ہے 'میں نے وشو بھارتی میں واقع اپنے آبائی مکان کے بارے میں یونیورسٹی حکام کا ایک بیان دیکھا ہے۔ میرا مکان سنہ 1943 سے مستقل میری فیملی کے قبضے اور استعمال میں ہے۔ میں اس زمین کا مالک ہوں جو میرے والد کے انتقال کے بعد میرے نام منتقل کی گئی تھی۔ میرے والدین نے اس لیز کی زمین سے متصل دوسری زمین بھی خریدی تھی۔ یہ زمین تقر یبآ 80 برس سے ہمارے استعمال میں ہے۔ اس زمین کے بارے میں اس کی لیز ختم ہونے سے پہلے کوئی دوسرا دعوی نہیں کیا جا سکتا۔ مقامی مجسٹریٹ نے حکم دیا ہے کہ موجودہ ملکیت تسلیم کی جانی چاہئیے اور اس میں کسی بھی مداخلت یا نقص امن کی اجازت نہیں دی جانی چاہیئے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ وہ جون کے مہینے میں وشو بھارتی لوٹیں گے۔ دوسری جانب بنگال کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس کے رہنما تنموئے گھوش نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بہت غلط ہو رہا ہے۔ رابندر ناتھ ٹیگورنے اعتدال پسند نظریے کو فروغ دینے کے لیے اس یونیورسٹی کو قائم کیا تھا۔ یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر بی جے پی کی حکومت کے نظریے کو یونیورسٹی پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ امرتیہ سین بی جے پی کی حکومت کے خلاف ہیں۔ ان کی پالیسیوں کے خلاف ہیں اسی لیے وہ انھیں تنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پروفیس امرتیہ سین ملک کا افتخار ہیں۔ وہ بنگال کا افتخار ہیں۔ بنگال کے عوا م وائس چانسلر کی حرکتوں کی مذمت کر رہے ہیں۔‘ یونیورسٹی کے اطراف میں پولیس کا پہرہ بڑھا دیا گیا ہے۔ کیمپس میں غیر متعلقہ افراد کو آنے کی اجازت نہیں ہے۔ بنگال میں لوگ انتطار کر رہے ہیں کہ 6 مئی کے بعد یونیورسٹی حکام نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین کے آبائی مکان کے سلسلے میں کیا قدم اٹھاتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1r974dym2o", "summary": "چین کے گذشتہ چند دہائوں کے دوران ناصرف معیشت، عسکری قوت اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ترقی کی ہے بلکہ اپنا دنیا پر اپنا سفارتی اثرورسوخ بھی قائم کیا ہے۔ مگر یہ سفر کیسے طے ہوا اور اعدادوشمار کی روشنی میں کیا چین امریکہ کو عالمی قیادت کے تخت سے ہٹانے کے قابل ہو چکا ہے؟", "title": "معیشت، عسکری قوت، سفارتی اثرورسوخ: چین اور امریکہ طاقت کے توازن کے اعتبار سے کہاں کھڑے ہیں؟", "firstPublished": "2023-04-27T09:33:24.711Z", "id": "cd1r974dym2o", "article": "اپنے اس مضمون میں اگنیشئیس نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان چین کی ثالثی کے ذریعے حاصل کی گئی سفارتی کامیابی پر تبصرہ کیا اور ساتھ ہی سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر کے ماضی میں کہے جانے والے الفاظ کا بھی حوالہ دیا کہ امریکہ اب دنیا میں واحد ناگزیر طاقت نہیں ہے اور یہ کہ چین کے پاس ایک نیا ورلڈ آرڈر بنانے کی طاقت ہے۔ چین امریکہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بحری جنگی جہازوں کی تعداد کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی بحری قوت بننے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ یہ بحری برتری 484 امریکی بحری یونٹوں کے مقابلے میں 730 چینی بحری یونٹوں تک محدود ہے۔ بیجنگ سے ایشیائی امور کے ایک محقق حسین اسماعیل، امریکہ کے مقابلے میں چینی فوجی طاقت کی صلاحیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’چینی عسکری قوت اگلے چند سالوں میں امریکی فوجی طاقت کے برابر ہو سکتی ہے، کیونکہ چینی فوجی میں ترقی اور جدت کی رفتار نے امریکہ اور یہاں تک کہ کچھ بین الاقوامی ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔‘ اسماعیل کا مزید کہنا ہے کہ چینی فوجی طاقت اس کے سٹریٹجک مفادات کے علاقوں یعنی جنوب مشرقی ایشیا اور بحر الکاہل کے علاقے میں تعینات ایک قوت ہے جبکہ امریکی فوج پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے چین کو بحر الکاہل اور تائیوان کے جزیرے کے علاقوں میں فوجی تصادم کے نتیجے میں برتری حاصل ہے۔ بین الاقوامی تنازعات میں تصفیہ کے پروفیسر اور اقوام متحدہ کی ماہرین کی کمیٹی کے سابق رکن محمد الشرقاوی کا ماننا ہے کہ امریکی فوجی ٹیکنالوجی چین سے بہت بہتر ہے۔ اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ اب بھی ’یورپ کی قومی سلامتی کو اپنی جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ تحفظ فراہم کرتا ہے۔‘ چین کا ایک پرجوش اور جدید خلائی پروگرام ہے۔ امریکہ کی جانب سے چین کو بین الاقوامی خلائی سٹیشن میں شرکت سے روکنے کے بعد چین نے گذشتہ سال کے آخر میں اپنا ایک مستقل خلائی سٹیشن ’تیانگونگ‘ کو تیار کرنے کا جشن منایا۔ خلائی سٹیشن ’تیانگونگ‘ کے نام کا مطلب ’آسمانی محل‘ ہے۔ حال ہی میں چین نے یوکرین پر روسی جنگ میں امن ثالث کے طور پر کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور گذشتہ شب ایک طویل انتظار کے بعد یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اعلان کیا کہ انھوں نے چینی ہم منصب سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے۔ اور یہ اقدام ان کے لیے نہ صرف حوصلہ افزا ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط اور فروغ دے گا۔ جبکہ دوحہ انسٹی ٹیوٹ فار گریجویٹ سٹڈیز کے پروفیسر ابراہیم فریحات اس سفارتی پیش رفت کی اہمیت سے زیادہ متفق نہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مصالحت میں بغداد اور عمان نے بھی اپنا کردار ادا کیا تھا۔ ان کے مطابق چین اس سب میں اپنے معاشی مفاد کو ترجیح پر رکھنا چاہتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cped1j099y1o", "summary": "پاکستان کا موجودہ معاشی بحران سنبھلنے کا نام نہیں لے رہا اور آئے روز بڑھتی مہنگائی اور ہر چند سال بعد سامنے آنے معاشی اعشاریوں کی تنزلی کے بعد اس مسئلے کا ایک حل ’ڈی مانٹائزیشن‘ کو قرار دیا گیا ہے۔ لیکن کیا یہ پاکستانی معیشت میں مفید ثابت ہو سکے گی؟", "title": "ڈی موناٹائزیشن کیا ہے اور پانچ ہزار کا نوٹ ختم کرنے سے پاکستان کی معیشت میں بہتری آ سکتی ہے؟", "firstPublished": "2023-04-26T08:30:52.458Z", "id": "cped1j099y1o", "article": "پاکستان کا موجودہ معاشی بحران سنبھلنے کا نام نہیں لے رہا اور آئے روز بڑھتی مہنگائی اور ہر چند ہفتوں بعد سامنے آنے معاشی اعشاریوں کی تنزلی کے بعد اکثر افراد یہ سوال پوچھتے نظر آتے ہیں کہ اس مسئلے کا مستقل حل کیا ہے۔ یہ سوال گذشتہ ایک سال سے پاکستان میں معاشی ماہرین سے کئی مرتبہ پوچھا جا چکا ہے تاہم اس کے روایتی حل ہی سامنے آتے ہیں جنھیں چند حلقوں کی جانب سے قلیل مدتی حل قرار دیا جاتا ہے تاہم دو روز قبل ایک پوڈکاسٹ میں ماہر معیشت عمار خان نے ایک غیر روایتی حل پیش کیا ہے جو فی الحال سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہے۔ انھوں نے اس دوران بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ساڑھے آٹھ کھرب روپے ملکی معیشت میں موجود ہیں، لوگوں کے پاس کیش تو ہے، کھپت بھی ہو رہی ہے لیکن یہ انفارمل (غیررسمی) معیشت کا پیسہ ہے جو ٹیکس دیے بنا فارمل (رسمی) معیشت کی کھپت بڑھا رہا ہے اور یہی مسئلہ ہے۔ جب پیسہ سسٹم سے باہر ہے تو اسے پیداواری کاموں کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔‘ عمار کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر یہ آٹھ کھرب روپے بینکوں کے پاس واپس آ جائیں، یا چلیں چار یا پانچ کھرب ہی آ جائیں، تو آپ کے پاس اضافی رقم ہو گی جس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت پانچ ہزار کے نوٹ کو ڈی موناٹائیز کرنے کی ضرورت ہے، کہہ دیں کہ چھ مہینے بعد یہ نوٹ نہیں چلے گا۔ بہت لوگ روئیں گے لیکن وہی لوگ روئیں گے جن کے پاس پانچ ہزار کا نوٹ ہو گا۔‘ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ ڈی موناٹائزیشن ہے کیا ہے، اس کا مقصد کیا ہوتا ہے اور آیا یہ پاکستانی معیشت کے لیے مفید ثابت ہو بھی سکتی ہے یا نہیں؟ اس پالیسی کے تحت مخصوص بینک نوٹ کی معیاد مقرر کر دی جاتی ہے اور عوام کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ کتنے عرصے بعد اس کرنسی نوٹ کو استعمال نہیں کیا جا سکے گا یعنی مارکیٹ میں یہ قابل قبول نہیں ہو گا۔ اس کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ جن لوگوں کے پاس بڑی تعداد میں کالا دھن (وہ پیسہ جس پر ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا) موجود ہے وہ قانونی کارروائی کے خوف سے اسے بینک میں جمع نہیں کروائیں گے اور یوں یہ رقم تلف ہو جائے گی۔ خیال رہے کہ انڈیا کی سپریم کورٹ نے رواں برس کے آغاز میں اس پالیسی کو قانوی قرار دیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد متعدد انڈین جریدوں کی جانب سے اس پالیسی کا جائزہ لیا گیا اور کہا گیا کہ جہاں اس پالیسی کے آغاز کے مقاصد پورے نہیں ہو سکے، لیکن طویل المدتی اعتبار سے اس کے باعث انڈیا کی معیشت کو ’فارملائز کرنے میں مدد ملی‘ اور ملک میں لوگ ڈیجیٹل ادائیگیوں کی طرف راغب ہوئے اور ’معیشت کو ڈیجیٹائز کرنے کا موقع ملا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c801p5g2x7go", "summary": "بہت سے لوگ جو سونے کے زیورات خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ اب آرٹیفیشل جیولری استمعال کر رہے ہیں۔ جیولری آرٹسٹ خدیجہ کا کہنا ہے کہ آرٹیفیشل زیورات کے کاروبار میں اس قدر اضافہ ’تین سال میں پہلی بار دیکھا ہے۔‘", "title": "’سونے کے زیورات کی ہو بہو نقل تیار کرتی ہوں تاکہ لوگوں پر مالی بوجھ نہ پڑے‘", "firstPublished": "2023-04-25T05:10:56.051Z", "id": "c801p5g2x7go", "article": "چاہے آپ مستقبل کی پلاننگ کی خاطر سونے کے بسکٹ خریدنا چاہیں یا شوق کے لیے زیورات بنوانا چاہیں، حقیقت یہی ہے کہ اب پاکستان میں سونا خریدنا اکثریت کی پہنچ سے بہت دور ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور معاشی بحران کے باعث گذشتہ ایک سال میں سونے کی فی تولہ قیمت میں ایک لاکھ روپے کا اضافہ ہوا اور یوں سونے کی فی تولہ قیمت دو لاکھ روپے سے تجاوز کر گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’پانچ سال سے پیسے جوڑ رہی تھی کہ شادی پر سونے کا سیٹ خریدوں گی اور اب جب شادی ہونے والی ہے تو جو پیسے جوڑے ہیں، اُس میں سیٹ بھی نہیں آ رہا۔‘ بہت سے لوگ جو سونے کے زیورات خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ اب آرٹیفیشل جیولری استمعال کر رہے ہیں۔ مہوش بھی پانچ سال پیسے جوڑنے کے باوجود منہگائی کی وجہ سے اب آرٹیفیشل جیولری شادی پر خریدنے کا سوچ رہی ہیں۔ اس ضمن میں وہ جیولری آرٹسٹ خدیجہ حسن سے بات کر رہی ہیں۔ آرٹیفیشل جیولری بنانے والی ماہر خدیجہ کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس صرف جنوری میں برائیڈل جیولری کے پچاس سے زیادہ آرڈر آئے تاہم وہ کوالٹی اور وقت کی کمی کی وجہ سے صرف پچیس بنا سکیں۔ مہوش کا آرڈر بھی اُنھی میں سے ایک ہے۔ امتیاز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ’جب بیٹے کی شادی کرتے ہیں تو لڑکی کو بھی تحفے میں سونے کے زیورات دینے پڑتے ہیں۔ آج کل جو حالاات چل رہے ہیں، اس میں سونے کے زیورات خریدنا مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والوں کے لیے بہت مشکل ہے۔‘ امتیاز کے مطابق رواں سال جب وہ شادی پر گئیں تو اُنھوں نے دیکھا کہ لڑکی نے سونے کی جگہ آرٹیفیشل جیولری پہنی ہوئی تھی تو اُن کو اندازہ ہوا کہ دلہنیں اب سونے کی جگہ آرٹیفیشل جیولری کا زیادہ استعمال کر رہی ہیں۔ ایک طرف اگر سونے کی خریداری میں کمی آئی ہے تو ساتھ ہی آرٹیفیشل جیولری کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے جس سے آرٹیفیشل جیولری بنانے والے افراد کے کاروبار کو کافی وسعت ملی ہے۔ خدیجہ حسن نے بھی کورونا کی عالمی وبا کے دوران اپنا کاروبار شروع کیا اور تین سال بعد اُن کو اس کاروبار میں ایسی کامیابی ملی جس کا اُنھوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ خدیجہ کا کہنا ہے کہ کندن جیولری کے کاروبار میں اس قدر اضافہ ’تین سال میں پہلی بار دیکھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کندن کے بنے ہوئے زیورات سونے کی مانند لگتے ہیں اور آج کل دلہنیں زیادہ اسی کو پہنتی ہیں۔‘ خدیجہ نے بتایا کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سونے کے سیٹ بنوا سکیں مگر ’میری کوشش ہوتی ہے کہ میں ان کو ہو بہو نقل بنا کر دے سکوں جو دیکھنے میں اچھا بھی لگے اور ان کے اوپر مالی بوجھ بھی نہ پڑے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyjrjmyjwxxo", "summary": "یہ دوہری پالیسی اس بات کی تازہ ترین مثال ہے کہ چین کیسے دنیا کے سامنے اپنے دو روپ ظاہر کرتا ہے۔ ایک روپ اس کی جانب سے دنیا میں ثالث کے طور پر سامنے آنا ہے اور دوسرا چہرہ ایک جارحانہ ملک کا ہے جو اس علاقہ کا دفاع کرنے کے لی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے جسے وہ اپنا حصہ سمجھتا ہے۔", "title": "’کہیں امن تو کہیں جنگ‘ پر مبنی اپنی حکمتِ عملی سے چین کیسے دنیا میں مرکزی حیثیت حاصل کرنا چاہتا ہے؟", "firstPublished": "2023-04-18T04:00:11.587Z", "id": "cyjrjmyjwxxo", "article": "چین کی یہ دوہری پالیسی اس امر کی تازہ ترین مثال ہے کہ کیسے چین دنیا کے سامنے اپنے دو روپ ظاہر کرتا ہے۔ یعنی ایک روپ جس میں وہ امن کی بات کرتا ہے اور جس کا مقصد دنیا کے سامنے بطور ایک ثالث سامنے آنا ہے جبکہ دوسرا روپ ایک جارحانہ ملک کا سا ہے جو اس علاقہ کا دفاع کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے جسے وہ اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ اس سفارتی رویے کے باعث چین دنیا میں ایک ثالث کے طور پر ابھرا ہے اور اسے مقبول چینی نظریے میں بھی تلاش کیا جا سکتا ہے جو ’چینی قوم کے دوبارہ عروج‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ نظریہ دراصل چین کا دنیا میں مرکزی حیثیت حاصل کرنے کا ایک منصوبہ ہے۔ اسے چینی صدر کی جانب سے اقتدار میں آنے کے بعد ’چائنیز ڈریم‘ کا نام دیا گیا تھا۔ ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹیٹیوٹ سے منسلک چینی سیاست میں فیلوشپ کرنے والے نیل تھامس کہتے ہیں کہ ’شی جن پنگ کو معلوم ہے کہ چینی قوم کا عروج اچھی معیشت کے بغیر ممکن نہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ اگر چین نے اپنے سفارتی کردار کو فروغ دینا ہے تو اسے مزید ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔ چین ایسا مغرب کو مکمل طور پر خود سے دور کر کے نہیں کر سکتا، اس لیے اسے ان کے ساتھ اچھے معاشی تعلقات برقرار رکھنے ہیں۔ اس کے لیے چین کو سفارت کاری کی ضرورت ہے اور اسے اپنے جارحانہ رویے سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔‘ چین اکثر عراق اور افغانستان میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کی ناکامیوں کو اجاگر کرتا ہے جبکہ وہ خود اپنے آپ کو ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کرتا ہے جس کے دنیا میں خون خرابہ یا اقوام کو جنگوں میں دھکیلنے کا کوئی ریکارڈ نہیں یعنی وہ اپنے آپ کو دنیا کی قیادت کرنے کے لیے ایک بہتر امیدوار کے طور پر پیش کرتا ہے۔ زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کا تائیوان پر جلد ہی حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن اس بات کا خدشہ ہے کہ فوجی کارروائی میں اضافہ امریکہ کے ساتھ ایک خطرناک غلط فہمی اور جنگ کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ واشنگٹن تائیوان پر حملے کی صورت میں اس کے دفاع میں مدد کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ جیسا کہ بیجنگ دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اپنی مہم کو تیز کرتا جا رہا ہے، وہ اپنے اقدامات کو بھی بڑھتی ہوئی جانچ کی زد میں آتا دیکھے گا اور تجزیہ کاروں کے مطابق چین کو جلد ہی ’امن کی فاختہ‘ یا ’شکاری کتے‘ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا، یعنی وہ کون سا روپ اپناتا ہے اسے جلد ہی اس کا فیصلہ کرنا ہو گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gv5zyr7yjo", "summary": "جب حالات بے قابو ہو جائیں اور بظاہر کوئی بھی انھیں سدھارنے کے قابل نہ رہے تو خود کو تسلی دینے اور نااہلی چھپانے کے لیے یا تو ’شان دار ماضی‘ کی داستانیں کام آتی ہیں یا پھر اردگرد کی ہم سے بھی گئی گذری مثالیں۔", "title": "وسعت اللہ خان کا کالم: ہم طوطا فال نکالنے والی ریاست بن چکے ہیں؟", "firstPublished": "2023-04-16T09:20:15.667Z", "id": "c3gv5zyr7yjo", "article": "جب حالات بے قابو ہو جائیں اور بظاہر کوئی بھی انھیں سدھارنے کے قابل نہ رہے تو خود کو تسلی دینے اور نااہلی چھپانے کے لیے یا تو ’شان دار ماضی‘ کی داستانیں کام آتی ہیں یا پھر اردگرد کی ہم سے بھی گئی گذری مثالیں۔ جب 1990 کے عشرے میں کراچی میں اوسطاً 50 لاشیں روزانہ مل رہی تھیں تو ابتری پر قابو پانے والے ذمہ دار یہ کہہ کے حوصلہ بڑھاتے تھے کہ مانا کراچی میں حالات اچھے نہیں مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ کولمبیا کے دارلحکومت بوگوٹا میں روزانہ کراچی سے دوگنی لاشیں گرتی ہیں اور سٹریٹ کرائمز کی وبا پر شور مچانے والے ذرا نیویارک اور جوہانسبرگ کی پولیس سے پوچھیں کہ وہاں سٹریٹ کرائمز کا کیا بھاؤ چل رہا ہے۔ ان کے مقابلے میں کراچی اب بھی جنت ہے میاں جنت۔ یا 30 برس پہلے تک اس پر سینہ پھلایا جاتا تھا کہ بھائی ہم معاشی طور پر کمتر سہی پر انڈیا سے تو اچھے ہیں جہاں کے سب سے بڑے شہر ممبئی میں لاکھوں لوگ فٹ پاتھ پر رہتے ہیں۔ اب کسی محبِ وطن کے منہ سے یہ مثال سنے عرصہ ہو گیا۔ اور یہ جو تم میڈیا والے آسمان سر پہ اٹھا رہے ہو کہ افراطِ زر 45 فیصد سے بھی اوپر چلا گیا ہے اور عام آدمی کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور ڈالر نے روپے کا بلادکار کردیا ہے، تمہیں کچھ پتہ بھی ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ بھائی صاحب وینزویلا میں افراطِ زر کی شرح 1200 فیصد، سوڈان میں 350 فیصد، لبنان میں 201 فیصد اور ارجنٹینا میں 104 فیصد ہے۔ تو کیا ان ملکوں میں لوگ زندہ نہیں یا یہ ملک دنیا کے نقشے سے غائب ہو گئے۔ معلوم ہے آج پاکستانی پاسپورٹ 198 ممالک کی فہرست میں 194 نمبر پر ہے۔ مگر ہم پھر بھی یمن، صومالیہ، عراق اور شام سے اس معاملے میں بہتر ہیں۔ 40 سال پہلے ہمارا پاسپورٹ ٹاپ 20 میں تھا۔ ایک دن یہ پاسپورٹ اوپر والے کے حکم سے ٹاپ 10 میں نظر آئے گا۔ اب تو لگتا ہے کہ ہم بحیثیت ریاست اس فٹ پاتھی ماہر دست شناس کی طرح ہو گئے ہیں جو طوطا فال نکال کے ہر کسی کا نصیب بتا اور بنا سکتا ہے سوائے اپنی قسمت کے۔ حالات کی درستی کا سفر خود احتسابی سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن جب میں عقلِ کل ہوں اور کسی سے کچھ سیکھنے اور پھر اس سیکھ کو خود پر لاگو کرنے پر بھی آمادہ نہ ہوں اور بحرانی بیل کے سینگ سامنے سے پکڑنے کی نیت بھی نہ ہو تو ساری افلاطونی آزمائش کے ترازو میں برف کے باٹ رکھ کے باتوں کے خربوزے تولنے میں صرف ہو جاتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxep8d48em7o", "summary": "آئی ایم ایف کی نئی شرط، روپے کی قدر میں کمی یا عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ، پٹرول کی قیمت میں حالیہ اضافے کی وجہ کیا ہے؟ یہ سجھنے کے لیے بی بی سی نے ماہرینِ معاشیات سے بات کی ہے۔", "title": "آئی ایم ایف کی شرط، روپے کی قدر یا عالمی منڈی: پیٹرول کی قیمت میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟", "firstPublished": "2023-04-16T08:25:22.914Z", "id": "cxep8d48em7o", "article": "واضح رہے کہ حالیہ اضافے کے ساتھ پیٹرول کی نئی قیمت 282 روپے فی لیٹر تک جا پہنچی ہے جو ملکی تاریخ میں پیٹرول کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔ حکومت نے اس دوران پانچ مرتبہ قیمتوں میں کمی بھی کی جو مجموعی طور پر 49.18 روپے ہے۔ یعنی پی ڈی ایم حکومت نے اپنی حکومت کے ایک سال کے دوران پیٹرول کی قیمت میں کل 132.14 روپے کا اضافہ کیا ہے۔ ایک صارف نے حالیہ قیمتوں پر ردِعمل دیتے ہوئے لکھا کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے ملک کو تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا گیا ہے۔ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر ردِعمل دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بلند ترین سطح پر تھی، تب پاکستان میں پیٹرول پمپوں پر قیمت صرف 145 اور 150 روپے لیٹر تھی۔ اب عالمی منڈی میں قیمت اُس بلند سطح سے کافی کم ہے لیکن پاکستان میں قیمت 282 روپے تک جا پہنچی ہے۔‘ انھوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’اس کی وجہ پی ڈی ایم کی تباہ کن حکمرانی ہے۔ پاکستانی روپیہ صرف ایک سال میں ڈالر کے مقابلے میں 100 روپے اپنی قدر کھو بیٹھا ہے۔ اب عالمی منڈی کا سستا تیل بھی ہمیں مہنگا پڑتا ہے۔‘ آئی ایم ایف کی نئی شرط، روپے کی قدر میں کمی یا عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ، پیٹرول کی قیمت میں حالیہ اضافے کی وجہ کیا ہے؟ یہ سجھنے کے لیے بی بی سی نے ماہرینِ معاشیات سے بات کی ہے۔ معاشی امور پر نظر رکھنے والے صحافی شہباز رانا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس تاثر کو رد کیا کہ حالیہ اضافہ آئی ایم ایف سے معاہدے کی کسی شرط کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ مطالبہ آج کل نہیں کیا گیا بلکہ یہ کافی پرانی بات ہے۔ آئی ایم ایف کا یہی موقف ہے کہ کنزیومر گڈز (روزمرہ اشیائے ضرورت) کو آپ ان کی قیمتِ خرید سے نیچے فروخت نہیں کر سکتے اور پیٹرول کے اس اضافے میں آئی ایم ایف کی کوئی نئی شرط شامل نہیں ہے۔‘ اس بارے میں شہباز رانا کا کہنا ہے کہ ’اس کا انحصار اس تاریخ (مثلاً حکم مئی) کو عالمی منڈی میں پٹورل کی قیمتوں، پاکستانی روپے کی قیمت اور حکومت ایکسچینج ریٹ کا کتنا اثر صارفین تک منتقل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اس تینوں عوال پر منحصر ہے۔ 15 دن پہلے کچھ نہیں کہا جا سکتا، نئی قیمت 301 روپے یا اس سے ّزیادہ یا کم بھی ہو سکتی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2nvprrkdxo", "summary": "جوتوں کا ایک جوڑا، جو کبھی باسکٹ بال کے کھلاڑی مائیکل جارڈن پہنا کرتے تھے، ایک بولی میں دو عشاریہ دو ملین امریکی ڈالر یعنی 63 کروڑ روپے سے زیادہ قیمت پر فروخت ہوا ہے اور اس اعتبار سے دنیا کا سب سے مہنگا جوتوں کا جوڑا بن گیا ہے۔", "title": "مائیکل جارڈن: دنیا کا سب سے مہنگا جوتوں کا جوڑا 63 کروڑ روپے میں نیلام", "firstPublished": "2023-04-12T09:06:59.532Z", "id": "cv2nvprrkdxo", "article": "جوتوں کا ایک جوڑا، جو کبھی باسکٹ بال کے کھلاڑی مائیکل جارڈن پہنا کرتے تھے، ایک بولی میں 2.2 ملین امریکی ڈالر یعنی 63 کروڑ روپے سے زیادہ قیمت پر فروخت ہوا ہے اور اس اعتبار سے دنیا کا سب سے مہنگا جوتوں کا جوڑا بن گیا ہے۔ واضح رہے کہ ان جوتوں پر مائیکل جارڈن کے دستخط بھی موجود ہیں اور بولی لگانے والی کمپنی سوتھبیز کا خیال تھا کہ اس کی فروخت سے دو سے چار ملین ڈالر تک حاصل ہوں گے۔ واضح رہے کہ جوتوں کا یہ جوڑا مائیکل جارڈن کی ملکیت میں رہنے والی پہلی چیز نہیں جس کی اتنی زیادہ بولی لگی ہو۔ اس سے قبل 2022 میں ان کی ایک جرسی، جو انھوں نے 1998 کے این بی اے فائنلز میں زیب تن کی تھی، 10.1 ملین ڈالر کی فروخت ہوئی تھی۔ تازہ ترین بولی نے مائیکل جارڈن کو کھیلوں کے یادگاری سامان کی بولی کے حساب سے سب سے زیادہ اہم بنا دیا ہے۔ سوتھبیز کے براہم واچر نے اس بولی کے بعد کہا کہ ’یہ ریکارڈ توڑ نتیجہ ثابت کرتا ہے کہ مائیکل جارڈن کے زیر استعمال رہنے والی چیزوں کی کتنی مانگ ہے جو تمام توقعات سے زیادہ بہتر نتائج دیتے ہیں۔‘ اس سے قبل مائیکل جارڈن کے ہی جوتوں کا ایک اور جوڑا 2021 میں تقریبا ڈیڑھ ملین ڈالر کا فروخت ہوا تھا۔ منگل کے دن مائیکل جارڈن کا جو جوڑا فروخت ہوا اس کا نام ایئر جارڈن تھرٹینز ہے اور یہ جوتے انھوں نے شکاگو بلز کی ٹیم کے ساتھ 1997-1998 میں اپنی آخری چیمپیئن شپ کے دوران پہنے تھے۔ شکاگو بلز نے بعد میں یہ چیمپیئن شپ جیت لی تھی اور مائیکل جارڈن کی شکاگو بلز کے ساتھ اس آخری سیریز پر 2020 میں ’لاسٹ ڈانس‘ کے عنوان سے ایک دستاویزی سیریز بھی بنی تھی۔ مائیکل جارڈن کے لیے یہ چھٹی این بی اے چیمپیئن شپ فتح تھی اور ایسا پانچویں بار ہوا کہ ان کو این بی اے کا موسٹ ویلیوایبل پلیئر قرار دیا گیا۔ سوتھبیز آکشن ہاؤس نے بتایا ہے کہ جوتوں کا یہ جوڑا جو اب دنیا کا سب سے مہنگا جوڑا بن چکا ہے، مائیکل جارڈن نے دوسری گیم میں فتح کے بعد ایک بال بوائے کو بطور شکریہ دے دیا تھا جس نے ان کی کھوئی ہوئی ایک جرسی تلاش کر کے دی تھی۔ یاد رہے کہ مائیکل جارڈن کے نام سے شناخت پانے والا ایئر جارڈن جوتا انھوں نے پہلی بار 1984 میں پہنا تھا اور اس سے اگلے سال یہ جوتا عام صارفین کے لیے بھی مارکیٹ میں دستیاب ہوا۔ اب تک ایئر جارڈن جوتے کے 30 سے زیادہ ماڈل تیار کیے جا چکے ہیں۔ دنیا کے عظیم کھلاڑیوں میں شمار کیے جانے والے مائیکل جارڈن نے چھ بار این بی اے فائنلز چیمپیئن شپ، دو بار اولمپک گولڈ میڈل اور متعدد دیگر ایوارڈ جیت رکھے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2403j3nyko", "summary": "گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات اور وزیرِ آباد سمیت کئی شہروں کے سینکڑوں باسی اپنی بیشتر جمع پونجی لٹا چکے ہیں۔ یہ سب گذشتہ کئی ماہ سے ایک ایسی موبائل ایپلیکیشن میں پیسے لگا رہے تھے جسے کرپٹوکرنسی انٹیلیجنٹ ڈیٹا اینالٹکس کارپوریشن آئی ڈی اے کہا جاتا تھا۔\n", "title": "آئی ڈی اے: وہ ایپ جس کے ذریعے سینکڑوں پاکستانی اپنی ساری جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے", "firstPublished": "2023-04-12T03:57:21.742Z", "id": "cv2403j3nyko", "article": "یہ گروپ آئی ڈی اے نامی ایپ استعمال کرنے والے صارفین پر مبنی تھا اور یہ وائس نوٹس اس گروپ کو چلانے والے سینیئر مینیجرز کی جانب سے ’ایپ میں تکنیکی خرابی‘ کے سبب بھیجے جا رہے تھے۔ علیشبہ اس ایپ کے ذریعے تین مرتبہ رقم نکلوا بھی چکی تھیں لیکن حالیہ دنوں میں ایپ میں ایک منافع بخش سکیم لانچ ہونے پر انھوں نے سب کچھ داؤ پر لگا دیا اور اب ان کے مطابق ’جتنے لگائے تھے اس سے زیادہ نکل گئے۔‘ گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات اور وزیرِ آباد سمیت کئی شہروں کے سینکڑوں باسیوں کی صورتحال علیشبہ جیسی ہے۔ یہ تمام افراد گذشتہ کئی ماہ سے ایک ایسی موبائل ایپلیکیشن میں پیسے لگا رہے تھے جسے کرپٹو کرنسی انٹیلیجنٹ ڈیٹا اینالٹکس کارپوریشن آئی ڈی اے کہا جاتا تھا۔ کرپٹوکرنسی اور ٹریڈنگ سے منسلک کئی ایپس اور ویب سائٹس ایسی ہیں جن کا استعمال پاکستان میں ممنوع ہونے کے باوجود بھی کیا جا رہا لیکن اس ایپ میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ اس نے سینکڑوں افراد کی دن دیہاڑے جیب کاٹ لی۔ اس ایپ کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے چند ماہ پہلے تک ایک لنک دیا جاتا تھا جہاں سے اس کی اے پی کے کی فائل ڈاؤن لوڈ کی جاتی تھی تاہم مارچ کے مہینے میں یہ ایپ گوگل پلے سٹور پر بھی دستیاب تھی۔ سمیر اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’شروعات میں اگر آپ 130 ڈالر جمع کرواتے تھے تو ایپ کی طرف سے آپ کو 15 ڈالر کا انعام ملتا تھا۔ یہ رقم آپ بائنانس کے ذریعے آئی ڈے اے میں منتقل کرتے تھے۔‘ گوجرانوالہ میں آج سے کئی برس قبل ’ڈبل شاہ‘ کا فراڈ مشہور ہوا تھا جو لوگوں کے پیسے ڈبل کرنے کا وعدہ کرنے کے کچھ عرصے بعد ساری رقم لے اڑا تھا۔ پنجاب کے اکثر شہروں میں جائے نماز میں پیسے اور سونا رکھ کر ڈبل کرنے کا دعویٰ کرنے والے گروہ بھی خاصے مشہور رہے ہیں۔ علیشبہ اور سمیر سمیت جتنے بھی متاثرہ افراد سے بی بی سی نے بات کی ان میں ایک قدر مشترک تھی، وہ یہ کہ یہ سب تعلیم یافتہ نوجوان ہیں تاہم ان سب میں ایک دلچسپ بات یہ بھی نظر آئی کہ ان سب کو اس ایپ میں رقم جمع کروانے کا طریقہ کار زبانی یاد تھا۔ یہ مثال ہمیں آئی ڈے اے فراڈ میں بھی نظر آتی ہے۔ آئی ڈی اے یوٹیوب چینل اور سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو موجود ہے جس میں پاکستانی نوجوان آئی ڈی اے ایپ کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ’اس نے ان کی زندگی کیسے بدلی۔‘ علیشبہ ایسی ایپس پر فوری طور پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں کیونکہ ’ہمارے تو جتنے پیسے لگے وہ لگے لیکن کئی ایسے افراد بھی ہیں جنھوں نے ساری جمع پونجی اس میں لگا دی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/clw1p543e89o", "summary": "اتحادی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر ہم نے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ کیا ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کی وجہ اتحادی حکومت کے ایسے فیصلے ہیں جن میں معاشی پہلوؤں کی بجائے سیاسی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا۔", "title": "’سیاسی مفادات‘ پر مبنی فیصلے یا ناقص حکمت عملی: پاکستانی معیشت اس نہج تک کیسے پہنچی؟", "firstPublished": "2023-04-10T03:55:56.076Z", "id": "clw1p543e89o", "article": "آج سے لگ بھگ ایک سال قبل عمران خان کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ایک کامیاب عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں ختم ہوئی تو پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں سیاسی جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم اتحاد نے اس تحریک کو لانے کی پس پردہ بڑی وجوہات میں ملک میں مہنگائی اور عام آدمیوں پر اس کے اثرات کو قرار دیا تھا۔ اتحادی حکومت کے ایک سال کے دورِ حکومت میں مختلف معاشی اشاریوں میں تنزلی دیکھی گئی جن میں روپے کی قدر میں زبردست کمی، ڈیزل و پیٹرول کی قیمتوں اور شرح سود کا ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح پر پہنچنا، درآمدات پر پابندی اور ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے اقتصادی شعبے کو بڑے نقصانات شامل ہیں۔ اس صورتحال کے باعث بہت سے حلقوں کی جانب سے اب یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آیا تحریک انصاف کے خاتمے کے وقت ملکی معیشت واقعی اس نہج تک پہنچ چکی تھی کہ اس پر قابو پانا ایک سال کے قلیل عرصے میں ممکن نہیں تھا یا آیا موجودہ حکومت ’سیاسی مفادات‘ پر مبنی اس نوعیت کے فیصلے کیے جو مزید خرابی کا باعث بنے؟ ہم نے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ کیا ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کی وجہ اتحادی حکومت کے ایسے فیصلے ہیں جن میں معاشی پہلوؤں کی بجائے مبینہ ’سیاسی مفادات‘ کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا؟ ملکی معیشت اور عوام کو گذشتہ ایک سال کے دوران بدترین معاشی صورتحال نے کیسے متاثر کیا، آئیے جانتے ہیں کہ اس پر ماہرین کی کیا رائے ہے۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ موجود حکومت کی سابقہ معاشی ٹیم نے آئی ایم ایف سے مذاکرات تو کیے لیکن سیاسی مجبوریوں کے باعث ان اقدامات پر عملدرآمد نہیں کیا اور دو ماہ تک پیٹرول کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ نہ کر پانا بھی ایک غلطی تھی۔ جب مزمل اسلم سے پی ٹی آئی دورِ حکومت کے اواخر میں آئی ایم ایف پروگرام سے انحراف کرتے ہوئے پیٹرول کی قیمتوں کو برقرار رکھنے اور اس کے باعث معیشت پر بڑھتے دباؤ کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’جب ہم نے گذشتہ برس دس روپے پیٹرول کی قیمت کم کی اس وقت ہماری معیشت ٹیکس ہدف سے چھ فیصد زیادہ تھی۔ ملک میں مہنگائی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سیاسی مبصر ندیم ملک کا کہنا تھا کہ اگر تین سال میں پاکستان کو 75 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے۔ اس میں روپے پر دباؤ پر آئے گا اور مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ندیم ملک کا کہنا ہے کہ ملک میں رواں ماہ کے دوران تقریباً 50 فیصد تک شرح مہنگائی کسی بھی سیاسی حکومت کے لیے سازگار نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کسی طرح سے بجلی اور پیٹرول کی سپلائی کو ممکن بنائے ہوئے ہیں ورنہ یہاں بھی صورتحال سری لنکا سے مختلف نہ ہوتی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg51ew4p22o", "summary": "ہماری حکمران اشرافیہ نے عوام کو بھوک اور بے عزتی کے ایسے شکنجے میں پھنسایا ہے کہ ہر کوئی اپنا انا کو ایک طرف رکھ کر آٹے کی تلاش میں نکل پڑا ہے۔ \n", "title": "آٹا مہنگا خودی سستی: محمد حنیف کا کالم", "firstPublished": "2023-04-08T04:21:51.657Z", "id": "crg51ew4p22o", "article": "بچپن سے ایک جھوٹ اتنی مرتبہ سنا ہے کہ اس پر یقین سا آ چلا تھا۔ وہ یہ کہ پاکستان میں رات کو کوئی بھوکا نہیں سوتا۔ زمین زرخیز ہے لوگ ایک دوسرے کے اتنا قریب رہتے ہیں کہ جو دال دلیہ ہو وہ آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔ ایک بزرگ نے ایک دفعہ یہ بھی سمجھایا تھا کہ غریب اور جاہل عوام نے شاید کبھی علامہ اقبال کا نام بھی نہ سنا ہو لیکن خودی کا فلسفہ گھول کر پیا ہوا ہے۔ اس لیے کوئی رات کو بھوکا سوئے گا بھی تو وہ کسی وہ بتائے گا نہیں۔ اگلی صبح اٹھ کر پھر رزق کی تلاش میں نکل جائے گا۔ تو یہ ملک ہمارے امرا کی سخاوت پر نہیں چل رہا بلکہ غربا کی انا پر چل رہا ہے۔ اقتصادی امور کے ایک ماہر سے ایک دفعہ پوچھا تھا کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے تو ملک میں صرف ایک کے بعد ایک اقتصادی بحران کا ہی سنا ہے۔ تو اس ملک کی معیشت کا پہیہ کیسے چلتا ہے۔ اس نے بڑے استادوں کی طرح سمجھایا کہ گندم پر، جب گندم کی فصل ہو اور اچھی ہو اور جب اس کی کٹائی کا موسم آتا ہے تو ملک کی زمینی معیشت ایک انگڑائی لے کر آباد ہوتی ہے۔ گندم کی کٹائی اور اس کے بعد اس میں سے دانہ نکالنے کی کارروائی میں ایک ایک دانہ کسی کی جھولی میں اکٹھا ہوتا تھا۔ چند ہی ہفتوں میں لوگ کئی مہینوں کی روٹی کا بندوبست کر لیتے تھے۔ گاؤں میں جو روایتی پیشے تھے ان کے کاریگروں کو بھی سال کے دانے پہنچ جاتے تھے۔ اب باقی سارا سال زندگی کی سو پریشانیاں ہوں، روٹی کی پریشانی نہیں رہتی تھی۔ اس طرح کے مناظر دیکھ کر کھاد بیچنے والوں کے وہ اشتہار جس میں وہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہماری مٹی سونا اگلتی ہے کوئی زیادہ مبالغہ آمیز نہیں لگتے تھے۔ معاشی ماہرین کئی مسلمہ توجہیات دیتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ ہے، ہمارے پیٹ بھرے بابوؤں کی منصوبہ بندی میں نالائقی ہے، زرعی زمینوں پر بنتی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں، ہمارے کسانوں کی بد بختی ہے کہ وہ جدید زراعت کی طرف نہیں آئے۔۔۔ لیکن ساتھ ساتھ ہمارے حکمران اشرافیہ اور ان کے ساتھی سیٹھ بھائیوں کے دل بھی بہت کٹھور ہو گئے ہیں۔ ایک پرانے ڈرائیور بھائی سے ملاقات ہوئی کہنے لگا ’لینڈ کروزر چلاتا ہے لیکن سیٹھ جو حاجی صاحب بھی ہیں انھوں نے اپنے باورچی کو حکم دے رکھا ہے کہ یہ ڈرائیور دو کے بعد تیسری روٹی مانگے تو کہے تندور سے خود اپنی خرید لائے۔ بھوک بھی نہیں مٹتی اور بے عزتی بھی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اگر نوکری چھوڑ دوں گا تو ان حالات میں نوکری کون دے گا؟‘ ہماری حکمران اشرافیہ نے عوام کو بھوک اور بے عزتی کے ایسے شکنجے میں پھنسایا ہے کہ ہر کوئی اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر آٹے کی تلاش میں نکل پڑا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c29nzl4kweko", "summary": "ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان کی طرف سے حکومت کو دو سال کے لیے 24 بلین ڈالرز اکٹھا کر کے دینے کی پیشکش کیا واقعی قابل عمل ہے اور یہ رقم کیسے اکٹھی کی جائے گی۔ کیا حکومت اس تجویز کو مانے گی؟", "title": "کیا ایکسچینج کمپنیاں حکومت کو آئی ایم ایف سے زیادہ قرض دے سکتی ہیں؟", "firstPublished": "2023-04-02T11:02:46.263Z", "id": "c29nzl4kweko", "article": "ایسے میں پاکستان ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے حکومت کو دو سال کی مدت کے دوران 24 بلین ڈالرز تک کا قرض دینے کی پیشکش کی ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں ایکسچینج کمپنیزایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے چھ ماہ قبل حکومت کو یہ پیشکش کی تھی کہ ملک کے وسیع مفاد میں ہم انھیں 24 سے 25 بلین ڈالرز دو سال کے لیے اکٹھا کر دیتے ہیں۔‘ کیا واقعی ان کی یہ پیشکش پرعمل ممکن ہے، اور اگر ایسا ہے تو حکومت پاکستان ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کی پیشکش کے بجائے آئی ایم ایف کی شرائط کیوں مان رہی ہے؟ اور ملک بوستان اس رقم کا بندوبست کیسے کریں گے؟ ملک بوستان کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے ہم سے مدد مانگی تو ہم نے دنیا بھر میں موجود سمندر پار پاکستانیوں کو متحرک کیا اور اس وقت دو سال میں دس بلین ڈالر سویپ ارینجمنٹ کے تحت حکومت کو لے کر دیے۔ تب ڈالر کا ریٹ بھی کم ہوا۔ اب بھی ہم یہی کرنا چاہتے ہیں۔‘ اس منصوبے پر کیسے عمل ہو گا اور رقم کی واپسی کا ’طریقہ کیا ہو گا اس بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اورسیز پاکستانیوں جن کے پاس بینک میں ڈالرز پڑے ہیں انھیں ہم دو طرح کی پیشکش کرتے ہیں کہ وہ ہمیں یہ ڈالر بیچ دیں یا پھر ہمیں دو سال کے لیے ادھار دے دیں۔ دو سال بعد ہم واپس کر دیں گے۔ دو سال بعد ہم انھیں ان کے ڈالر اور اس کی قیمت میں آنے والا فرق بھی ادا کر دیتے ہیں۔ اور یہ معاملات بلا سُود ہوتے ہیں۔‘ ظفر پراچہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں شریک تھے۔ انھوں نے اجلاس میں ملک بوستان کی جانب سے کی گئی پیشکش پر بتایا کہ’کچھ تجاویز کے ساتھ ہم زرمبادلہ اور ترسیلات زر کی شرح تو بڑھا سکتے ہیں۔ ابھی سالانہ چھ بلین ڈالرز ترسیلات زر ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے آ رہے ہیں۔ یہ پیسہ عوام سے لے کر عوام کو دیتے ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا ’اب ملک میں غیر ملکی زرمبادلہ بڑھانے کے لیے کچھ تجاویز پر عمل ہو سکتا ہے۔ چھ سے 12 بلین بن سکتے ہیں۔ لیکن سویپ کرنا یعنی آج 285 کے ریٹ پر ڈالر لیں اور دو سال بعد کے ریٹ پر واپس کر دیں اور فرق ادا کریں۔ اب یہ فرق حکومت کہاں سے دے گی۔‘ دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین قیصر شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ سینٹ کی کمیٹی کے بعد اب یہ بریفنگ رواں ہفتے قومی اسمبلی کی کمیٹی میں بھی لی جائے گی جس میں اس تجویز کے قابل عمل ہونے سے متعلق غور کیا جائے گا جہاں وزارت خزانہ، ایف بی ار اور دیگر متعلقہ حکام موجود ہوں گے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czq9nej2x9go", "summary": "یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے موجودہ معاشی حالات نے ہر طبقے کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے، اور یہ تمام طبقات ان حالات کا ذمہ دار ملک کے موجودہ سیاسی بحران کو ٹھہراتے ہیں۔ ", "title": "سیاست دان، اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ: پاکستان کے موجودہ بحران کا ذمہ دار کون ہے؟", "firstPublished": "2023-04-01T04:05:27.905Z", "id": "czq9nej2x9go", "article": "’سیاست کے بحران نے عوام کا بیڑا غرق کر دیا ہے‘۔۔۔ یہ الفاظ کسی دیہاڑی دار، مزدور پیشہ ایسے شخص کے نہیں جن کے لیے اب دو وقت کا کھانا مشکل ہو گیا ہے، یہ الفاظ پشاور کی بڑی کاروباری شخصیت ایوب زکوڑی کے ہیں جو زکوڑی گروپ آف کمپنیز کے مالک ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے موجودہ معاشی حالات نے ہر طبقے کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے، اور یہ تمام طبقات ان حالات کا ذمہ دار ملک کے موجودہ سیاسی بحران کو ٹھہراتے ہیں۔ لیکن کیا سیاستدان بھی یہ مانتے ہیں کہ اس افراتفری کے ذمہ دار وہ خود ہیں؟ یا اسٹیبلشمنٹ خود کو اس کا ذمہ ٹھہراتی ہے؟ خیال رہے کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران کا آغاز اس وقت ہوا جب گذشتہ برس عمران خان کو پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ معاشی حالات کی بات کریں تو ڈالر کی قیمت بڑھ کر تین سو روپے کے قریب ہو گئی ہے جبکہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ مارچ 2023 میں مہنگائی کی شرح 46 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے حال ہی میں قومی اسمبلی کے فلور پر کھل کر اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی سزا سیاستدانوں اور ملک کو بھگتنا پڑتی ہے۔ کچھ یہی بات رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے بھی بی بی سی سے کی۔ علی وزیر سمجھتے ہیں کہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کا حل بھی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور کرنے میں ہی ہے۔ بی بی سی نے ملک کے وزیر دفاع اور مسلم لیگ نواز کے سینیئر رکن خواجہ آصف سے یہی سوال پوچھا کہ کیا ان کی حکومت موجودہ حالات کا ذمہ دار خود کو سمجھتی ہے تو ان کا جواب تھا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے، ’کیا آپ عمران خان کو اس سب سے بری الذمہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو وہ کر گئے ہیں؟‘ ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ حکومت اپنے رویے میں لچک کیوں نہیں دکھا رہی تو خواجہ آصف نے کہا کہ ایسی کوشش کئی بار کی گئی ہے: ’ہم نے بہت کوشش کی ہے کہ بات چیت کی جائے مگر عمران خان کو یہ سمجھ نہیں آتا۔ وہ خود کو سب کچھ سمجھنے والے انسان ہیں۔‘ لیکن پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر بیرسٹر ظفر ملک اپنی پارٹی اور چیئرمین عمران خان کے موقف پر قائم ہیں اور کہتے ہیں کہ ملک کو مسائل سے نکالنے کا حل ایک ہی ہے: ’حکومت اعلان کرے کہ الیکشن کب ہوں گے۔ صرف اسی صورت میں قوم کو ریلیف ملے گا، آئی ایم ایف آئے گا اور پاکستان کے دوست ممالک مطمئن ہوں گے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyrpe564kxxo", "summary": "اولیگارکی ایک ایسی صورت حال ہوتی ہے جب چند لوگ اپنی بے پناہ دولت یا کاروباری مفادات کے ذریعے سیاسی طاقت حاصل کرتے ہیں اور پالیسیوں پر اثر انداز ہونا شروع کر دیتے ہیں۔", "title": "انڈیا کے ’بگ فائیو‘: اڈانی، امبانی اور ٹاٹا جیسے ’کاروباری خاندانوں کا غلبہ‘ جو انڈین معیشت کو متاثر کر رہا ہے", "firstPublished": "2023-03-31T09:42:57.547Z", "id": "cyrpe564kxxo", "article": "آچاریہ، جو نیویارک یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر ہیں، کا کہنا ہے کہ صنعتی ارتکاز (ایک ایسی صورت حال جس میں چند کمپنیاں کسی ملک کی کل پیداوار پر غلبہ رکھتی ہیں) میں 1991 میں لبرلائزیشن اپنانے کے بعد کمی آئی ہے لیکن 2015 کے بعد دوبارہ عروج کا مرحلہ شروع ہوا۔ وائرل اچاریہ کے مطابق یہ رجحانات تشویشناک ہیں جو کرونی کیپٹلزم (ایک ایسی صورتحال جس میں کاروبار کو سیاسی رابطوں کے ذریعے محفوظ بنایا جاتا ہے) کی علامت ہیں۔ ان کے مطابق ایسے حالات میں کارپوریٹ کمپنیوں کے گروپوں میں غیر قانونی لین دین ہوتا ہے اور جو کمپنیاں حکومت یا سیاسی قیادت کے قریب تر ہوتی ہیں وہ بینکوں سے زیادہ سے زیادہ قرضہ حاصل کرتی ہیں۔ آئی ایم ایف کے سابق افسر جوش فیلڈمین نے بی بی سی سے اس معاملے پر بات چیت میں کہا کہ ایسی ’قومی چیمپئن کمپنیاں آسانی سے اوور لیوریج ہو جاتی ہیں اور پھر ڈوب جاتی ہیں۔‘ اولیگارکی ایک ایسی صورت حال ہوتی ہے جب چند لوگ اپنی بے پناہ دولت یا کاروباری مفادات کے ذریعے سیاسی طاقت حاصل کرتے ہیں اور پالیسیوں پر اثر انداز ہونا شروع کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف، انڈیا اپنی گھریلو صنعتوں اور بڑے کاروباری گروپوں کو عالمی مسابقت سے بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ تحفظ پسند پالیسیاں اپنا رہا ہے۔ اور یہ سب انڈیا کی ان کوششوں کو متاثر کر رہا ہے جس کے تحت ملک کو دنیا کی اگلی فیکٹری بنانا مقصود ہے۔ آچاریہ کا کہنا ہے کہ صنعتی ارتکاز کا گھریلو معیشت پر اثر پڑ سکتا ہے۔ مارکیٹ میں بگ فائیو کی بڑھتی ہوئی طاقت مسلسل بڑھتی ہوئی بنیادی افراط زر کی شرح کو بلند رکھ سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کمپنیوں کے پاس قیمتوں کا تعین کرنے کی بے مثال طاقت ہے اور وہ اس معاملے میں صنعت کی دیگر کمپنیوں کے مقابلے میں برتری کی پوزیشن میں ہیں۔ قیمتوں کا تعین کرنے کی طاقت کا مطلب یہ ہے کہ یہ بڑی کمپنیاں اپنی مصنوعات اور خدمات کی قیمتیں طویل عرصے تک کم رکھ سکتی ہیں۔ اس سے مسابقتی کمپنیوں کے لیے مارکیٹ میں زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ فیلڈ مین کہتے ہیں کہ ’اگر بگ فائیو کمپنیاں کسی نئے شعبے میں داخل ہوتی ہیں، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بڑی بن سکتی ہیں لیکن اس شعبے میں مقابلہ بھی بڑھ سکتا ہے اور قیمتیں نیچے آ سکتی ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ صارفین کی سطح پر وہ شعبے جو بنیادی افراطِ زر کی بنیاد ہوتے ہیں (خوراک اور ایندھن کی قیمتوں کو چھوڑ کر) ان میں ان کمپنیوں کی موجودگی نہیں ہے جیسا کہ تفریح، تعلیم، صحت، گھریلو اشیاء، صارفین کی دیکھ بھال وغیرہ۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cz9jj8nlz8go", "summary": "یہ صورتحال دراصل انٹرنیٹ بینکنگ اور سوشل میڈیا کے ملاپ کے باعث پیدا ہوتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے نظام جو بھروسے، اعتماد اور یقین پر بنائے گئے تھے اب انہی کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ \n", "title": "انسٹاگرام اور ٹک ٹاک بینکنگ نظام کے لیے کیسے خطرہ بن رہے ہیں؟", "firstPublished": "2023-03-30T08:27:27.878Z", "id": "cz9jj8nlz8go", "article": "امریکہ کے مرکزی بینک جیروم پاول کے مطابق سلیکون ویلی بینک امریکی کی تاریخ کا تیز ترین بینک ہے۔ ان کے وائس چیئرمین مائیکل بار نے امریکی سینیٹ کو گذشتہ روز بتایا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر یہ افواہ اڑی کہ اس بینک کو بھی بحران کا سامنا ہو سکتا ہے اور ایسے افراد جنھوں نے بینک میں انشورنس کے بغیر رقم رکھوائی تھی، انھوں نے فوری طور پر رقم نکلوانے میں ہی عافیت جانی اور ایک دن میں 40 ارب ڈالر بینک سے نکلوا لیا گیا۔‘ بینک آف انگلینڈ کے گورنر اینڈریو بیلے نے اس ہفتے کے شروع میں کہا تھا کہ ’سلیکون ویلی بینک سے جو سبق ہم سیکھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے زمانے میں کتنی تیزی سے لوگ رقوم بینکوں سے نکلوا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل بینکنگ کے دور میں سوشل میڈیا کو کس طرح خسارے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ 15 سال قبل ناردرن راک کے باہر لگی قطار سے بہت مختلف ہے۔‘ یہ صورتحال دراصل انٹرنیٹ بینکنگ اور سوشل میڈیا کے ملاپ کے باعث پیدا ہوتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے نظام جو بھروسے، اعتماد اور یقین پر بنائے گئے تھے اب انہی کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ اس کی ایک وجہ عام ماہرِین پر اعتماد کی کمی اور کرپٹو کرنسی کے حوالے سے مہارت رکھنے والوں پر یقین ہے۔ بٹ کوائن اور کرپٹو کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عام بینکنگ پر آن لائن بہت زیادہ تنقید کی جاتی رہی ہے۔ اس وقت ایسے افراد اکثریت میں موجود ہیں جو سنہ 2008 کے مالیاتی بحران کے دوران موجود نہیں تھے۔ اس سب کے دوران جس بات نے چیزوں کو مزید پیچیدہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ میں بینکوں میں رقوم رکھوانے کی گارنٹی میں کیا شامل ہوتا ہے اور کیا نہیں۔ اس بات کو یوں کہیں تو ٹھیک رہے گا کہ سوشل میڈیا پر بد اعتمادی کی فضا کے باعث بھروسے پر چلنے والے نظام کی کمزوری عیاں ہوئی ہے۔ اس لیے اس بارے میں انتظامی ردِ عمل دینے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ شاید یہ ایس وی بی کے خصوصی کیس پر آنے والا ردِ عمل ہے۔ یہ توازن برقرار رکھنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ دیگر نگران ادارے بھی اس حوالے سے ترمیم کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اس حوالے سے تنقید بالکل جائز ہے لیکن اس وقت یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ کاروبار بینکنگ کی سہولت استعمال کر سکتے ہیں اور ان کے ذریعے تنخواہیں جاری کر سکتے ہیں اور درجنوں بینک اکاؤنٹس کے ذریعے اپنے ڈپازٹ محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ برطانیہ کا ریگولیٹری نظام فی الحال اچھا کام کر رہا ہے تاہم ہم جس طرح بینکوں کے تحفظ کو ناپنے لگے ہیں اس میں رواں ماہ کے ’انسٹا رن‘ کے باعث تبدیلی آ سکتی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1rggl5j5v5o", "summary": "پاکستان کے مختلف شہروں میں آٹے کے حصول کے لیے کھڑے افراد کی اموات اور زخمی ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی تھیں۔ اکثر جگہوں پر بھگدڑ اور دیواریں گرنے سے خواتین اور بزرگ بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ", "title": "مفت آٹے کے لیے قطاریں: ’چوتھا روز ہے کہ میں خالی ہاتھ گھر واپس چلی جاتی ہوں‘", "firstPublished": "2023-03-30T04:08:04.903Z", "id": "c1rggl5j5v5o", "article": "اس طرح کی ہزاروں خواتین اس رمضان میں مفت آٹے کے حصول کے لیے صوبے کے مختلف پوانٹس پر سارا دن انتظار کرتی ہیں۔ ہاتھوں میں شناختی کارڈ لیے یہ خواتین امید رکھتی ہیں کہ شاید آج انھیں آٹے کا تھیلہ مفت مل جائے گا۔ مفت آٹا تقسیم کرنے والے مقامات پر آٹے کی لوٹ کے واقعات بھی پیش آ رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے شہروں پشاور ڈیرہ اسماعیل خان اور اورکزئی میں لوگ آٹے سے لدے ہوئے ٹرکوں سے سے تھیلے زبردستی اٹھا کر لے گئے۔ پاکستان کے دیگر صوبوں سے بھی آٹے کے حصول کے لیے کھڑے افراد کی اموات اور زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔ اکثر جگہوں پر بھگدڑ اور دیواریں گرنے سے خواتین اور بزرگ بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ پشاور میں حیات آباد کے سپورٹس کمپلیکس، ہزار خوانی، اشرف روڈ اور دیگر مقامات پر آٹا پوائنٹس قائم کیے گئے ہیں لیکن اس آٹے کی تقسیم کا کوئی بہتر نظام نہ ہونے کی وجہ سے بد انتظامی کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگوں کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے۔ پشاور کی اشرف روڈ پر ایک مقام پر بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے۔ یہ لوگ سحری کے بعد یہاں پہنچ گئے تھے ان میں بڑی تعداد میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین شامل تھیں۔ ایک شخص لوگوں سے شناختی کارڈ جمع کر رہا تھا اور سب لوگ اس پر ایسے چڑھ دوڑے جیسے اسے روند دیں گے۔ گل زمان رکشہ ڈرائیور ہیں۔ ان کے آٹھ بچے ہیں اور گھر میں آٹا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حالات انتہائی مشکل ہیں۔ اشرف روڈ پر وہ ان ہزاروں لوگوں کی طرح اس انتظار میں تھے کہ آج شاید انھیں آٹا مل جائے۔ پشاور کے علاقے حیات آباد سپورٹس کملیکس میں ہماری ملاقات ایک ایسے شخص سے بھی ہوئی، جن کو آٹے کے تین تھیلے مل گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں موبائل فون پر میسج آیا تھا کہ فلاں تاریخ کو آٹا لینے کے لیے پہنچ جائیں، اس لیے آج انھیں آٹا مل گیا۔ اس بارے میں خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر خوراک فضل الہی نے بی بی سی کو بتایا کہ بنیادی طور پر یہ آٹا صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹر خاندانوں کے لیے ہے لیکن بڑی تعداد میں اور لوگ آ گئے ہیں، جس وجہ سے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ ان کا کہا تھا کہ مفت آٹے کے حصول کے لیے موبائل فون پر میسج آنا ضروری ہے لیکن لوگ میسج نہیں کرتے اور اس کے بغیر ہی آ جاتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ لائنوں میں کھڑی کئی خواتین اور بزرگ موبائل فون اور بی آئی ایس پی کا نمبر تک نہیں جانتے تو انھیں کیسے معلوم ہوگا کہ کسے میسج کرنا ہے، جس پر انھوں نے معذرت کی کہ وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کر سکتے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cpvqnzdndk4o", "summary": "رمضان کے آغاز سے ہی مختلف افراد روزے کی حالت میں پیاس کم لگنے کے ٹوٹکے شیئر کرتے ہیں لیکن کیا واقعی الائچی اور دہی کا استعمال مفید ہے۔ ماہرین سحری و افطاری میں کیا تجویز کرتے ہیں۔ ", "title": "رمضان: سحر و افطار میں الائچی اور دہی کھانے سے کیا واقعی پیاس کم لگتی ہے؟", "firstPublished": "2023-03-26T09:27:10.083Z", "id": "cpvqnzdndk4o", "article": "اسلامی کیلینڈر کے اعتبار سے رمضان کے روزے کبھی سردی میں آتو کبھی گرمی میں آتے ہیں۔ اب چاہے کم دورانیہ والے روزے ہوں یا طویل دورانیے کے ایک سوال اکثر کی زبان پر ہوتا ہے کہ پیاس لگی تو کیا کریں گے؟ ان دنوں پاکستان میں ماہ رمضان مارچ اور اپریل کے موسم میں آیا ہے جب ملک کے اکثرعلاقوں میں موسم قدرے بہتراور معتدل ہے لیکن رمضان شروع ہوتے ہی ہر کوئی پیاس سے بچنے کے اپنے اپنے آزمودہ ٹوٹکے دوست احباب کے ساتھ شیئر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ان میں سرفہرست سحری کے وقت الائچی، پودینہ اور دہی کھانے کے ساتھ ساتھ ڈھیر سارا پانی پینا شامل ہیں۔ ان ٹوٹکوں کے بارے میں کہا جاتا ہےکہ اگر آپ نے سحری میں ان چیزوں کو استعمال کیا تو آپ کا 14 گھنٹے سے زائد دورانیے کا روزہ بنا پیاس کے آرام سے گزر جائے گا۔ لیکن ان تمام مفروضوں میں کتنی صداقت ہے اور کیا واقعے یہ ٹوٹکے روزے میں پیاس کو کم کرنے میں مفید ثابت ہوتے ہیں؟ ہم نے اسی حوالے سے اسلام آباد کے شفا انٹرنیشنل ہسپتال کی ماہر غذائیت زینب غیورسے نہ صرف ان ٹوٹکوں پر تفصیلی بات کی بلکہ یہ بھی جانا کہ اس مہنگائی کے دور میں کم خرچ میں سحر و افطار میں کیا کھانا چاہیے اور کیا پلیٹ سے باہر کر دینا عقلمندی کا تقاضا ہے۔ ہمارے ہاں رمضان کے دسترخوان کو روایتی اور ثقافتی اعتبار سے خاص اہمیت ہوتی ہے۔ اگر ہم سحری کے وقت کی بات کریں تو اس میں کھجلے پھینی سے لے کر پراٹھے، انڈے، سالن خصوصاً گوشت کی ڈش، دہی، لسی، ملک شیک غرض ایک لمبی فہرست ہے جو روزہ دارکھاتے ہیں۔ ’سحری کے وقت دہی کا استعمال بہت اچھا ہے۔ دودھ سے بنی اشیا سے حاصل ہونے والے ملک پروٹین ہمارے معدے میں بہت دیر تک موجود رہتے ہیں اور اس کی وجہ سے ذیادہ دیر تک بھوک کا احساس نہیں ہوتا۔‘ اس سوال پر کہ کیا سبزالائچی اور پودینے کے پتے روزے کی حالت میں پیاس کو کم کرتے ہیں انھوں نے بتایا کہ ’سبز الائچی اور پودینے کے پتے سلاد میں یا ویسے ہی چبانے میں مضائقہ نہیں کیونکہ یہ دونوں چیزیں ہمیں بلاشبہ تازگی کا احساس دیتی ہیں تاہم اس کا براہ راست تعلق آپ کی پیاس کم کرنے سے نہیں ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ کیونکہ روزے کی حالت میں ہمیں کئی گھنٹوں تک خالی پیٹ رہنا ہوتا ہے لہذا غذا کے استعمال میں ہمیں کچھ چیزوں کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔ ’جیسا کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہمیں پیاس کم سے کم لگے تو اس کے لیے کم سے کم نمک والی چیزیں کھانی چاہیئں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cl46gepj01xo", "summary": "90 کے دہائی کے اوائل میں ارجنٹینا میں مہنگائی بے قابو ہوچکی تھی۔ اس سے نمٹنے کے لیے صدر منم کے وزیر معیشت ڈومنگو کاوالو نے مالیاتی اصلاحات میں مصنوعی ایکسچینج ریٹ یا کنورٹیبلٹی کا قانون متعارف کرایا۔ ", "title": "جب مہنگائی سے تنگ ارجنٹینا نے پیسو اور امریکی ڈالر برابر کرنے کا فیصلہ کیا", "firstPublished": "2023-03-25T08:27:57.874Z", "id": "cl46gepj01xo", "article": "کاوالو نے مصنوعی ایکسچینج ریٹ یا کنورٹیبلٹی کا قانون متعارف کرایا 90 کے دہائی کے اوائل میں ارجنٹینا میں مہنگائی بے قابو ہوچکی تھی۔ اس سے نمٹنے کے لیے صدر منم کے وزیر معیشت ڈومنگو کاوالو نے مالیاتی اصلاحات میں مصنوعی ایکسچینج ریٹ یا کنورٹیبلٹی کا قانون متعارف کرایا۔ خیال رہے کہ 90 کی دہائی کے اوائل میں لاطینی امریکہ کے کئی ملک 80 کی دہائی کے قرض بحران کے بعد سے اپنی معیشتیں مستحکم کرنے کی کوششوں میں تھے۔ یہ خطے کے بدترین بحرانوں میں سے تھا جس نے غربت کی سطح میں بے انتہا اضافہ کیا تھا۔ اسی لیے اسے ’گمشدہ دہائی‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ تاہم ماہرِ معیشت مارینا ڈی پوگیتو کے مطابق ارجنٹینا لاطینی امریکہ کا واحد ملک تھا جس نے افراتفری سے بچنے کے لیے اپنے ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی طور پر قابو کیا۔ جب ایکسچینج ریٹ کی کڑی نگرانی کے لیے کنورٹیبلٹی کا ماڈل اپنایا گیا تو شروع میں اس سے فائدہ نظر آیا تاہم آہستہ آہستہ اس کے منفی اثرات سامنے آنے لگے۔ ماہرین معیشت کے مطابق اس اقدام سے ارجنٹینا کو اس لیے نقصان پہنچا کیونکہ ڈالر ایک مضبوط تجارتی کرنسی تھی اور یوں بیرونی ادائیگیوں میں دشواری پیش آئی جبکہ برآمدات کی قدر گِر گئی۔ ماہرِ معیشت یاویر میلی، جو ملک کے صدر بننا چاہتے ہیں، نے کہا ہے کہ مصنوعی ایکسچینج ریٹ ملک کی پالیسی کامیاب تھی جس سے میکرو اکمانک ویری ایبلز (افراط زر، فسکل پالیسی، روزگار، قومی آمدن اور بین الاقوامی تجارت) کو قابو میں لایا گیا اور مستقبل میں بھی اسی راستے کو اپنانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ’یکم اپریل 1999 کو کنورٹیبلٹی کی پالیسی اپنائی گئی۔ جنوری 1993 تک ہمارے ملک میں دنیا میں سب سے کم مہنگائی تھی۔ میں مالیاتی نظام میں اصلاحات اور فری کرنسی کمپٹیشن کی تجویز دیتا ہوں۔ ممکنہ طور پر ارجنٹینا کے لوگ ڈالر کا انتخاب کریں گے اور آپ کو ڈالر میں آمدن کما کر دیں گے۔‘ ڈی پوگیتو کا کہنا ہے کہ مصنوعی ایکسچینج ریٹ تمام مسائل کا حل نہیں۔ ان کے مطابق ’اگر مالی اکاؤنٹس اور قیمتوں میں تصحیح نہ کی جائے تو مہنگائی بے قابو رہتی ہے۔ آپ کو مالی استحکام کا پروگرام درکار ہوتا ہے۔‘ لیوی کے مطابق مصنوعی ایکسچینج ریٹ صرف تبھی ممکن ہے اگر ایک ملک کے پاس پہلے سے عالمی ذخائر موجود ہوں۔ جیسے 90 کی دہائی میں ارجنٹینا کے مرکزی بینک اور کمرشل بینکوں کے پاس ڈالروں میں بڑی رقوم موجود تھیں۔ ’اگر آج کریڈٹ سوئس جیسا بحران پیدا ہوتا ہے تو افراتفری روکنے کا کوئی طریقہ نہیں، سوائے اس کے کہ حکومت اور بینک ذخائر جمع کر لیں۔‘ لیوی کے مطابق استحکام کے لیے مالیاتی توازن اور اصلاحات درکار ہوتی ہیں اور مصنوعی ایکسچینج ریٹ ان کا نعم البدل نہیں۔ ’آج اسے استحکام کے لیے شارٹ کٹ سمجھنا میری رائے میں بیوقوفی ہوگی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g752jg344o", "summary": "فرانس کے صدر ایمانویل میکخواں پنشن پالیسی میں اصلاحات پر ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دے رہے تھے جب انھوں نے اچانک اپنی لگژری گھڑی اتار دی مگر ایسا کرنے پر وہ تنقید کی زد میں ہیں۔ ", "title": "فرانسیسی صدر نے انٹرویو کے دوران لگژری گھڑی کیوں اتاری؟", "firstPublished": "2023-03-25T06:13:31.827Z", "id": "c3g752jg344o", "article": "فرانس کے صدر ایمانویل میکخواں پنشن پالیسی میں اصلاحات پر ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دے رہے تھے جب انھوں نے اچانک اپنی لگژری گھڑی اتار دی مگر ایسا کرنے پر وہ تنقید کی زد میں ہیں۔ میکخواں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ فرانس میں اب ریٹائرمنٹ کی عمر 62 کی بجائے 64 ہو گی جس پر ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ مگر حکومت کے مطابق اس نے ایسا بجٹ خسارہ کم رکھنے کے لیے کیا ہے۔ گھڑی اتارنے کا واقعہ اس وقت ہوا جب میکخواں بدھ کو انٹرویو کے دوران پنشن کی عمر میں تبدیلی پر دلائل دے رہے تھے۔ جب انھوں نے اپنے بازو میز پر رکھے تو ایک آواز سنائی دی۔ تو صدر نے ہاتھ میز کے نیچے رکھ لیے اور اپنی بات جاری رکھی۔ مگر وہ دوبارہ اپنے ہاتھ میز کے اوپر لائے تو ان کی کلائی سے گھڑی غائب تھی۔ ملک میں حزب اختلاف کی ایم پی کلیمنس گیتی پنشن اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیتی رہتی ہیں۔ انھوں نے ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ صدر نے دعویٰ کیا کہ سب سے کم آمدن والوں کے پاس پہلے سے کہیں زیادہ قوت خرید ہے مگر پھر میز کے نیچے چپکے سے اپنی لگژری گھڑی اتار لی۔ ’یہ آدمی ایک مذاق ہے۔‘ ان کی ساتھی فریدہ امرانی نے کہا کہ ’صدر نے اپنی گھڑی چھپائی جس کی قیمت سب سے کم آمدن کمانے والوں کی ماہانہ تنخواہ سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ امیروں کے صدر ہیں۔‘ اسی دوران انٹرنیٹ پر اس گھڑی کی اصل قیمت پر بحث شروع ہوگئی اور کچھ ناقدین نے دعویٰ کیا کہ یہ 80 ہزار یورو سے زیادہ کی ہوسکتی ہے۔ جبکہ ایلیزے پیلس نے فرانسیسی میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہا کہ یہ گھڑی بیل اینڈ راس نامی کمپنی کی ہے جس کا ماڈل بی آر وی 1-92 ہے۔ فروری کے دوران ان پر اس وقت تنقید کی گئی جب انھوں نے دنیا کے سب سے امیر آدمی اور ایمیزون کے بانی جیف بیزوس کو فرانس کے سب سے اعلیٰ اعزاز سے نوازا۔ اس وقت بھی لوگ اپنے مستقبل اور مالی حالات پر سڑکوں پر سراپا احتجاج تھے۔ عجب بات یہ ہے کہ میکخواں کبھی کبھار خود کو ’وقت کا ماسٹر‘ کہتے ہیں کیونکہ وہ ’فرانسیسی سیاست کی رفتار طے‘ کرتے رہے ہیں۔ ان کی حکومت نے گذشتہ ہفتے خصوصی آئینی طاقت کے ذریعے یہ اصلاحات بغیر ووٹ کرائے منظور کرا لیں کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ قومی اسمبلی سے اس کی منظوری مشکل ہوسکتی ہے۔ اس اقدام پر حکومت کے خلاف دو بار تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ کرائی گئی مگر وہ دونوں میں ہی بچ گئے۔ میکخواں کی حکومت نے جنوری میں اپنے منصوبوں کا اعلان کیا تھا اور اب اس تنازع نے ایک بار پھر ملک میں افراتفری پیدا کی ہے۔ اس کے نتیجے میں شاہ چارلس سوم کا رواں ہفتے دورہ منسوخ کر دیا گیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ce904yl601vo", "summary": "کس طرح کریڈٹ سوئس کی تباہی نے سوئٹزرلینڈ کی پیسے کے لیے محفوظ جگہ کہلائی جانے والی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔", "title": "کریڈٹ سوئس: کس طرح بینکنگ کے ’شاہ‘ کے زبردست زوال نے سوئٹزرلینڈ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے", "firstPublished": "2023-03-22T16:29:27.402Z", "id": "ce904yl601vo", "article": "1856 میں قائم کیا جانے والا بینک کریڈٹ سوئس شروع سے ہی سوئس مالیاتی شعبے کا ایک اہم ستون رہا ہے۔ اگرچہ یہ بینک بھی 2008 کے مالیاتی بحران کا شکار ہوا تھا، لیکن اس نے اپنے حریف بینک یو بی ایس کے برعکس، حکومتی بیل آؤٹ کے بغیر اس طوفان کا مقابلہ کیا۔ تاہم یو بی ایس نے اب اسے 3.24 ارب ڈالر میں خریدا ہے۔ 15 سال پہلے مالیاتی بحران کے بعد، سوئٹزرلینڈ نے اپنے سب سے بڑے بینکوں کے لیے سخت قوانین متعارف کرائے تھے تاکہ وہ ناکام نہ ہو سکیں۔ انھوں نے کبھی نہیں سوچا تھا سوئس ٹیکس دہندگان کو سوئس بینک کو بیل آؤٹ کرنا ہوگا، جیسا کہ یو بی ایس نے کیا تھا۔ لیکن کریڈٹ سوئس ایک ’ٹو بگ ٹو فیل‘ بینک ہے۔ اس کے پاس اس ہفتے کی تباہی سے بچنے کے لیے سرمایہ تھا۔ جب تک لوگوں کو احساس ہوا کہ کیا ہو رہا ہے، اتنا نقصان ہو چکا تھا کہ کریڈٹ سوئس کو مزید بچایا نہیں جا سکتا تھا۔ اس کے نتائج سے نہ صرف سوئٹزرلینڈ بلکہ یورپ کے پورے مالیاتی شعبے کو بھی خطرہ لاحق ہونا شروع ہو گیا تھا۔ بینک کے ٹیک اوور کا اعلان کرتے ہوئے سوئس صدر ایلین بیرسیٹ نے کہا کہ ’کریڈٹ سوئس کی بے قابو تباہی کے ملک اور بین الاقوامی مالیاتی نظام کے لیے ناقابلِ حساب نتائج ہوں گے۔‘ کچھ سوئس باشندے اب کہتے ہیں کہ اس نتیجے سے نجات مشکل ہے جن لوگوں کو کریڈٹ سوئس کے خاتمے کو روکنے کے لیے کام کرنا چاہیے تھا وہ اس وقت سو رہے تھے۔ سوئٹزرلینڈ کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے توجہ کا یہ فقدان بہت مہنگا پڑے گا۔ یو بی ایس کا تین ارب ڈالر کا معمولی حصول، کریڈٹ سوئس کے لیے ایک مکمل ذلت کے علاوہ، اس کے شیئر ہولڈرز کو تھوڑا غریب بھی کر سکتا ہے۔ ملازمتوں کے نقصانات بھی ہوں گے، شاید ہزاروں لوگوں کی نوکریاں جائیں۔ تقریباً ہر سوئس شہر میں کریڈٹ سوئس اور یو بی ایس کی شاخیں ہیں۔ جیسے ہی ٹیک اوور مکمل ہو جاتا ہے تو یو بی ایس کے لیے انھیں کھلا رکھنا ضروری نہیں ہے۔ لیکن شاید سب سے بڑا نقصان سرمایہ کاری کے لیے محفوظ جگہ کے طور پر جانے والے سوئٹزرلینڈ کی ساکھ کا ہو سکتا ہے۔ ڈی فیکٹو حکمرانوں کے خفیہ بینک اکاؤنٹس (بشمول فلپائن کے فرڈینینڈ مارکوس، کانگو کے موبوتو سیسی سیکو اور کئی دیگر) کے سکینڈلز کے باوجود، یا ڈرگ لارڈز اور ٹیکس چوروں کے ذریعے منی لانڈرنگ، سوئس بینکوں نے اپنی ساکھ اسی طرح رکھی جیسا کہ راجر فیڈرر کا بل بورڈ بتا رہا ہے: مضبوط اور قابل اعتماد۔ اس سے شہرت کو بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سوئس بینکنگ سیکٹر، سوئٹزرلینڈ کے مالیاتی ریگولیٹرز اور اس کی حکومت کا کہنا ہے کہ بینک کی اکویزیشن یا حصول ہی بہترین حل ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjmz27n7v4wo", "summary": "حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمتوں میں رعایت کے منصوبے کے اعلان کے بعد یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ آیا پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت پیٹرول پر سبسڈی دینے کا سیاسی فیصلہ کر رہی ہے جو ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے یا پھر یہ واقعی ایک قبل عمل منصوبہ ہے جو غیر معمولی مہنگائی کی لہر میں عوام کو کچھ ریلیف فراہم کر سکے گا۔ ", "title": "کیا موٹرسائیکل، چھوٹی گاڑیوں کے لیے رعایتی پیٹرول کی فراہمی کا منصوبہ آئی ایم ایف معاہدے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے؟", "firstPublished": "2023-03-21T09:48:51.304Z", "id": "cjmz27n7v4wo", "article": "’پی ڈی ایم کی جانب سے پیٹرول سبسڈی کا اعلان ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اس دن ڈاکٹر کے پاس نشے کی حالت میں پہنچ جائے جب اسے صحتیابی کا سرٹیفیکیٹ ملنے والا تھا۔‘ عزیر یونس نے ٹوئٹر پر اس رائے کا اظہار حکومت کی جانب سے اس اعلان کے بعد کیا جس کے مطابق موٹر سائیکل سواروں اور 800 سی سی سے چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے والوں کو رعایتی نرخوں پر محدود حد تک پیٹرول فراہم کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے فی الحال اس ضمن میں صرف اعلان کیا گیا ہے، تاہم یہ رعایت کس طرح اور کس حد تک دی جائے گی اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمتوں میں رعایت کے منصوبے کے اعلان کے بعد یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ آیا پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت پیٹرول پر سبسڈی دینے کا سیاسی فیصلہ کر رہی ہے جو ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے یا پھر یہ واقعی ایک قبل عمل منصوبہ ہے جو غیر معمولی مہنگائی کی لہر میں عوام کو کچھ ریلیف فراہم کر سکے گا۔ واضح رہے کہ حکومت نے موٹر سائیکل اور چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے والے صارفین کو رعایتی نرخوں کو پیٹرول فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے جس پر چھ ہفتوں بعد عملدرآمد ہو گا۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف حکومت کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے تیل کی قیمتوں پر سبسڈی کا اعلان کیا تھا اور بعد میں اس فیصلے پر مختلف تجزیہ کاروں نے تنقید کی تھی۔ ’اگر واقعی حکومت امیر سے پیسہ لے کر غریب کو سبسڈی دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو شاید اس کا آئی ایم ایف پروگرام پر اثر نہ پڑے۔‘ واضح رہے کہ فروری میں آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹیلینا جیورجیووا نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ سبسڈی سے امیر کو فائدہ نہ پہنچے بلکہ ان لوگوں کو فائدہ پہنچے جو غریب ہیں اور حقدار ہیں۔‘ ثنا توفیق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’موجودہ حکومت ایسے غیر مقبول اقدمات کر چکی ہے جو آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے ضروری تھے تاہم اب الیکشن سے قبل عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے اور اقدامات سامنے آ سکتے ہیں۔‘ خرم حسین کا کہنا ہے کہ ’رعایتی پیٹرول فراہم کرنے کا منصوبہ پی ڈی ایم کے لیے سیاسی طور پر زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہو گا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’پی ڈی ایم کی سیاسی مقبولیت اس قدر متاثر ہو چکی ہے کہ اس کی بحالی کے لیے یہ ایک منصوبہ کافی نہیں اور نہ ہی اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم ابھی الیکشن کی تیاری کر رہی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cz7wp7pz9jyo", "summary": "پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک بیان پر وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’آئی ایم ایف یا کسی ملک نے پاکستان کی جوہری صلاحیت سے متعلق کوئی شرط نہیں رکھی ہے۔ ", "title": "’آئی ایم ایف کا قرض پاکستان کے جوہری ہتھیاروں سے مشروط‘ ہونے سے متعلق قیاس آرائیاں کیسے شروع ہوئیں؟", "firstPublished": "2023-03-20T13:20:47.253Z", "id": "cz7wp7pz9jyo", "article": "تاہم پیر کو پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک بیان پر وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’آئی ایم ایف یا کسی ملک نے پاکستان کی جوہری صلاحیت سے متعلق کوئی شرط نہیں رکھی ہے۔ وزارت خزانہ نے اسحاق ڈار کا ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’میں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بیان ایک ساتھی سینیٹر کے جواب میں دیا تھا جس کا آئی ایم ایف سے جاری مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں۔‘ اس سے قبل آئی ایم ایف کی نمائندہ برائے پاکستان ایستھر پریز رز نے کہا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق قیاس آرائیوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ان قیاس آرائیوں کی شروعات اس وقت ہوئی جب چھ مارچ کو پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے وزیر اعظم کے نام ایک خط لکھا جس میں آئی ایم ایف سے ممکنہ معاہدے میں تاخیر کی وجوہات، خطے میں چین سے تعلقات اور ملک میں بڑھتے دہشتگردی کے واقعات اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا کہا گیا تھا۔ اس کے جواب میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ’پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ کسی کو حق نہیں کہ پاکستان کو بتائے کہ وہ کس رینج کے میزائل اور جوہری ہتھیار رکھ سکتا ہے۔‘ سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک بات آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کی ہے تو یہ کوئی نیا پروگرام نہیں جسے اس حکومت نے شروع کیا نہ ہی حتمی شکل دی۔ تاخیر حکومت پاکستان کی وجہ سے نہیں، ہم سے کئی مطالبے کیے گئے جنھیں ہم نے پورا کیا۔‘ جمعرات کو ہی وزیراعظم آفس اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ان دعوؤں کی تردید کی کہ ملک کے جوہری پروگرام پر کوئی سمجھوتہ ہونے جا رہا ہے۔ جس کے جواب میں ایستھر پریز نے بتایا کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان کسی بھی معاہدے میں نیو کلیئر پروگرام کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی، پاکستان سے مذاکرات صرف معاشی پالیسی پر ہو رہے ہیں۔ انھوں نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک حکومتی وزیر کا غیر ذمہ دارانہ بیان تھا جس میں انھوں نے آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر پر اپنی نااہلی چھپانے کے لیے دو بالکل مختلف ایشوز آئی ایم ایف کا پروگرام اور پاکستان کے میزائل اور جوہری پروگرام کو جوڑنے کی کوشش کی۔‘ ملیحہ لودھی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام بہت پرانا ہے اور اس کو دہائیاں ہو چکی ہیں۔ میرے علم میں ایسا کوئی دباؤ نہیں جو کسی ملک نے پاکستان پر ڈالا ہو۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cqqzd6x2de3o", "summary": "مصر کو اس وقت سنگین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ معاشی صورتحال اتنی بدتر ہے کہ عوام کو اپنے خاندانوں کے لیے خوراک کا حصول بھی مشکل ہو چکا ہے۔ ", "title": "مصر میں مہنگائی: ’خدایا اب ہمیں مرغی کے پنجے کھانے پر مجبور نہ کرنا‘", "firstPublished": "2023-03-19T12:13:47.317Z", "id": "cqqzd6x2de3o", "article": "مصر کو اس وقت سنگین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ معاشی صورتحال اتنی بدتر ہے کہ عوام کو اپنے خاندانوں کے لیے خوراک کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ریاست کی طرف سے غدائیت کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تازہ ترین مشورے میں چکن کے پنجے پکانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ مرغی کا یہ پروٹین سے بھرپور حصہ عام طور پر کتوں اور بلیوں کو بطور خوراک ڈالا جاتا ہے۔ حکومت کے اس مشورے نے عوام میں شدید غم و غصہ کو جنم دیا ہے اور حکومت پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ مصر میں سنگین معاشی بحران کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی 100 ملین سے زیادہ آبادی کو کھانا کھلانے کے لیے ملکی زراعت کے بجائے درآمدی خوراک پر بہت زیادہ انحصار کررہا ہے۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اکثرسنہ 2011 کی مصری بغاوت اور آبادی میں تیزی سے اضافے کو اپنے ملک کی موجودہ معاشی مشکلات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ وہ یوکرین کی جنگ اور کووڈ کی وبا کو بھی اس کی وجوحات میں سے ایک جانتے ہیں۔ گذشتہ سال مارچ میں یوکرین پر روسی حملے نے معیشت کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ مصر گندم کا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک ہے، اور دونوں ممالک اس کے بنیادی سپلائر تھے۔ جب جنگ نے برآمدات کو متاثر کیا تو گندم اور اس کے نتیجے میں روٹی کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ روسی اور یوکرینی سیاح بھی چھٹیاں منانے کے لیے بڑی تعداد میں مصر کا رخ کرتے تھے لیکن جنگ کے باعث اس کے سیاحتی شعبے کو بھی نقصان ہوا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کی طرف سے غلط اقدامات نے خراب صورتحال کو مزید بدتر بنا دیا ہے۔ کالداس کا کہنا ہے کہ یہ حکومتی ملکیت والے اداروں کی توسیع کے ذریعے ہوا ہے، مثال کے طور پر فوج کو بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں کے لیے ریاستی ٹھیکے دیے گئے۔ مصر کی معاشی مشکلات نے اسے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور کیا ہے جس نے گذشتہ چھ برسوں میں چار مرتبہ مصر کی خراب معیشت کو سنبھالنے کے لیے قرض دیا ہے۔ ریاست کی آمدنی کا تقریباً نصف حصہ ان قرضوں کی ادائیگی میں جاتا ہے، جو کہ جی ڈی پی کا 90 فیصد بنتا ہے۔ ماضی میں معاشی مشکلات نے فسادات کو جنم دیا تھا اور دونوں سابق صدور حسنی مبارک اور محمد مرسی کے زوال میں اہم کردار ادا کیا۔ اور اس بات کے آثار پہلے ہی موجود ہیں کہ معیشت پر بڑھتا ہوا عوامی اشتعال دوبارہ بدامنی کا باعث بنے گا۔ اس بارے میں سوچ کر وہ کہتی ہیں کہ ’میں اس سال کیا کروں گی۔‘ وہ تصور کرتی ہے کہ جلد ہی مرغی کا گوشت بھی ان کے دسترخوان کی پہنچ سے دور ہو جائے گا۔ وہ سر ہلاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں تو مشکل سے دالوں کا سوپ ہی بنا سکتی ہوں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cpr5ddzy81go", "summary": "دنیا کا چوتھا امیر ترین ملک جہاں سخت شرعی قوانین نافذ ہیں اور یہاں کے سلطان گاہے بگاہے عوام میں مفت پلاٹ اور گھر بانٹتے ہیں۔ ایک ایسا معاشی ماڈل جو اپنی مدد آپ کے تحت چلتا ہے، مگر اب اسے کس چیز سے خطرہ ہے؟", "title": "وہ امیر مسلم ریاست جہاں کے شہری نہ تو انکم ٹیکس دیتے ہیں اور نہ ہی اس ملک پر کوئی قرضہ ہے", "firstPublished": "2023-03-16T07:51:50.114Z", "id": "cpr5ddzy81go", "article": "کورونا کی وبا کے دوران دنیا کے بڑے بڑے ممالک عوام کی فلاح کے لیے مختص رقم کو وبا سے نمٹنے کے لیے استعمال کرنے پر مجبور ہوئے، تو اُس وقت بھی برونائی وہ ملک تھا جس کے قرض کا تناسب مجموعی قومی آمدن کے مقابلے میں انتہائی کم تھا یعنی صرف 1.9 فیصد۔ یہ چھوٹی سی ریاست اپنے تیل اور گیس کے وافر ذخائر کی بدولت دنیا میں اعلیٰ ترین معیار زندگی کے حامل ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ دنیا کا چوتھا امیر ترین ملک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق برونائی کے پاس سنہ 2017 کے آخر میں 1,100 ملین بیرل تیل کے ذخائر موجود تھے، جو تیل کے عالمی ذخائر کا 0.1 فیصد ہے۔ جبکہ اس ملک کے پاس 2.6 کھرب کیوبک میٹر گیس کے ذخائر بھی ہیں جو گیس کے عالمی ذخائر کا 0.13 فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ برونائی کے سلطان، جو عوام میں کافی مقبول ہیں،گاہے بگاہے مختلف سرکاری سکیموں کے تحت مستحق شہریوں میں پلاٹ اور مکان بانٹتے رہے ہیں تاکہ شہریوں کو رہائش کا کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو۔ ’یہ آبادی کے لحاظ سے ایک چھوٹا ملک ہے، اس کی آبادی پانچ لاکھ بھی نہیں اور اس ملک کا مجموعی رقبہ 5700 سکوائر کلومیٹر تک محدود ہے۔برونائی پر اتنے کم قرض کی ایک وجہ ہائیڈرو کاربن کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن بھی ہے۔ پروفیسر وولز کہتے ہیں کہ ’اپنے فوسل فیول کی برآمدات کی بدولت برونائی ایک بڑا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رکھتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ ملک باقی دنیا کے لیے خالص قرض دہندہ ہے مگر دوسری جانب اسے قرض لینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘ برونائی اپنی تیل کی صنعت کی بدولت غیر ملکی قرضوں سے پاک ایک نایاب ملک ہے جو اپنے بینکوں اور حکومتی خزانوں کے لیے بھاری رقوم پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ’برونائی مسلسل کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس چلاتا ہے، جس سے اس کے غیر ملکی قرضوں کی مالی اعانت میں مدد ملی ہے۔ حالیہ برسوں میں قرض لینے کے اخراجات نسبتاً کم رہے ہیں اور اس سے قوم کو عوامی اخراجات کو کم کرنے کے لیے کفایت شعاری کے اقدامات کا سہارا لیے بغیر قرض کی خدمات کو کم سے کم رکھنے کی اجازت ملتی ہے۔ برونائی کے سلطان حسن البلقیہ کا شمار قدیم ترین مطلق العنان بادشاہوں کے خاندان سے ہے۔ اور یہ ان چند باقی مانندہ ممالک میں ہے جہاں آج بھی بادشاہت کا نظام رائج ہے۔ لیکن 2019 میں سخت بین الاقوامی تنقید اور بائیکاٹ جیسی صورتحال کا سامنا کرنے کے بعد برونائی نے ہم جنس پرستی اور زنا جیسے جرائم کے مجرموں کو سنگسار کرنے کی سزا دینے کے اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ گیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c884q90l6q9o", "summary": "سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے تحت بنائی جانے والی نئی سعودی قومی ایئر لائن ’ریاض ایئر‘ آئندہ دو برسوں میں آپریشنل ہو جائے گی اور اطلاعات کے مطابق سعودی حکام امریکی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ سے 80 مسافر طیارے حاصل کرنے کی ڈیل کے قریب ہیں۔ مگر اس نئی سعودی ایئرلائن کو متحدہ عرب امارات کے لیے ایک بڑے چیلنج کے طور پر کیوں دیکھا جا رہا ہے؟", "title": "’ریاض ایئر‘: روزگار کے ’دو لاکھ مواقع‘ پیدا کرنے والی سعودی عرب کی نئی قومی ایئرلائن کا منصوبہ کیا ہے؟", "firstPublished": "2023-03-16T03:26:04.769Z", "id": "c884q90l6q9o", "article": "اس ایئرلائن کے قیام کے سلسلے میں سعودی عرب امریکہ کی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ سے 80 مسافر طیارے حاصل کرنے کی ڈیل مکمل کرنے کے قریب ہے (فائل فوٹو) سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے اعلان کردہ نئی سعودی قومی ایئر لائن ’ریاض ایئر‘ آئندہ دو برسوں میں آپریشنل ہو جائے گی۔ یاد رہے کہ رواں ماہ 12 مارچ کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے نئی سعودی ایئر لائن ’ریاض ایئر‘ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ منصوبے کے مطابق یہ ایئر لائن سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کو سو کے لگ بھگ انٹرنیشنل ایئرپورٹس سے منسلک کرے گی۔ اس مجوزہ ایئر لائن کے سی ای او کی جانب سے حالیہ بیان معروف اخبار وال سٹریٹ جنرل میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے بعد آیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس ایئرلائن کے قیام کے سلسلے میں سعودی عرب امریکہ کی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ سے 80 مسافر طیارے حاصل کرنے کی ڈیل مکمل کرنے کے قریب ہے۔ اخبار کے مطابق یہ ڈیل لگ بھگ 35 ارب ڈالر مالیت کی ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ برس سعودی عرب نے ریاض میں ایک نئے اور بڑے ایئرپورٹ کی تعمیر کا اعلان بھی کیا تھا۔ محمد بن سلمان سعودی عرب کو ایک ٹرانسپورٹ کے مرکز کے طور پر تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جسے خلیجی ممالک میں متحدہ عرب امارات کے لیے ایک بڑے چیلنج کے طور پر دیکھا جاتا ہے کیونکہ متحدہ عرب امارات کا دبئی ایئرپورٹ دنیا کے مصروف ترین ایئرپورٹس میں سے ایک ہے جہاں سے یو اے ای کی قومی ایئر لائنز ’اتحاد‘ اور ’ایمرٹس‘ آپریٹ کرتی ہیں۔ یاد رہے کہ نئی ایئرلائن کے اعلان سے قبل ولی عہد محمد بن سلمان نے گذشتہ سال ریاض میں دنیا کے سب سے بڑے ایئرپورٹ کی تعمیر کے منصوبے کا اعلان تھا اور یہ پراجیکٹ بھی اُن کے سعودی وژن 2030 کا حصہ تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے سعودی عرب کے وژن 2030 کے بڑے منصوبے کا حصہ ہیں جس کے تحت سعودی عرب اپنی معیشت کو تیل پر انحصار سے چھٹکارا دلانے کے لیے پُرعزم ہے۔ شاہ سلمان ایئرپورٹ سے تقریباً ایک لاکھ تین ہزار افراد کو بالواسطہ اور بلاواسطہ روزگار ملنے کا دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے۔ اس کے تحت بحرِ احمر کی جانب سعودی عرب کے صحرا کے ایک آخری حصے کی جانب ’نیوم‘ نامی مستقبل کے ایک جدید قسم کے شہر کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ اس شہر کی تعمیر500 ارب ڈالر کی لاگت سے ہو گی جس میں منصوبے کے مطابق اڑنے والی ٹیکسیاں اور گھریلو کام کاج کے لیے روبوٹِس (خود کار مشینوں) کی مدد حاصل ہو گی، اور اِس میں دس لاکھ افراد آباد ہوں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cpvq9ng629po", "summary": "انتخابات کی سیاسی رسہ کشی کے بیچوں بیچ آئین عملاً بےعمل ہے جبکہ عالمی سطح پر جمہوریت متروک ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ممکنہ نئے ورلڈ آرڈر میں ہم اور ہمارا جمہوری نظام کہاں کھڑا ہو گا؟", "title": "نئے ورلڈ آرڈر کی چاپ؟", "firstPublished": "2023-03-14T07:24:19.837Z", "id": "cpvq9ng629po", "article": "ہمارے اردگرد بہت کچھ بدل رہا ہے۔ کیا دُنیا نئے ورلڈ آرڈ کی جانب بڑھ رہی ہے یا امکان کے خانے میں کچھ قُفل کُھل رہے ہیں؟ ایک ایسے وقت میں جب ایک بحران خطے کے دروازے پر دستک دے رہا تھا اور کئی تبصرہ نگار اس بات کی پیش گوئی کر رہے تھے کہ اسرائیل اور ایران کے مابین لڑائی کسی بھی لمحے شروع ہو سکتی ہے تو عین اُس لمحے چین نے دونوں ملکوں کے درمیان ایک ایسے معاہدے کی بُنیاد رکھی جس پر آج اقوام عالم انگُشت بدنداں ہے۔ چین توانائی کے لیے دونوں ملکوں پر بھروسہ کرتا ہے جبکہ سعودی عرب بھی جانتا ہے کہ اب اُسے امریکہ کی بجائے خطے پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔ نئے معاشی نظام میں روس کے ساتھ بڑھتی تجارت بھی سعودی عرب کے لیے انتہائی اہم ہے جبکہ چین ایک قدرتی اتحاد کی راہ نکال سکتا ہے۔ ’انتخابات کی سیاسی رسہ کشی کے بیچوں بیچ آئین عملاً بے عمل ہے جبکہ عالمی سطح پر جمہوریت متروک ہوتی دکھائی دے رہی ہے‘ چین اس وقت ایک ایسی طاقت ہے جو نظام بدل سکتی ہے یعنی ایسی طاقت جو ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہے اور جو ’نئے عالمی نظام، نیو ورلڈ آرڈر‘ کو جاری کرنے کے لانچنگ پیڈ پر موجود ہے اور ہواؤں میں نئے ورلڈ آرڈر کی سر سراہٹ۔۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ پاکستان کو خطے میں اعتماد سازی کے لیے چند اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ اس اعتماد سازی کے لیے پاکستان کو ماضی کی ’غلطیوں‘ کو درست کرنا ہو گا، اعتماد بحال کرنا ہو گا۔ حال ہی میں پاکستان اور ایران کے درمیان گوادر کے لیے ایک سو میگاواٹ بجلی معاہدہ اور روس کے ساتھ حتمی مراحل تیل کی بات چیت کو کسی طور نظر انداز نہیں کی جا سکتا۔ خطے میں پاکستان کی اہمیت اور ضروریات چین کے ساتھ ازسر نو اسٹریٹجک تعلقات کا تقاضا کر رہی ہیں جبکہ پاکستان کو چند پیمانوں پر پورا اُترنا ہے۔ دو عالمی قوتوں کے ’تقاضوں‘ کے درمیان اہم فیصلوں کا ہونا بھی خارج از امکان نہیں۔ موجودہ حالات میں چین کے ساتھ مؤثر تعلقات اسی وقت ممکن ہیں جب سیاسی بحران کا خاتمہ ہو، سیاسی استحکام کے تقاضے البتہ الگ ہیں۔ انتخابات کی سیاسی رسہ کشی کے بیچوں بیچ آئین عملاً بے عمل ہے جبکہ عالمی سطح پر جمہوریت متروک ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ممکنہ نئے ورلڈ آرڈر میں ہم اور ہمارا جمہوری نظام کہاں کھڑا ہو گا؟"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckr4g2vk49do", "summary": "لوسیو ارٹوبیا کے لیے ڈکیتی ایک ’انقلابی استعارہ‘ تھا جب تک کہ ہم یہ کام ’اجتماعی بھلائی‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے کریں نہ کہ صرف اپنی ذات کے لیے۔ لوسیو وہ شخص ہیں جنھوں نے دنیا کے سب سے بڑے بینک کو تگنی کا ناچ نچوا دیا تھا۔", "title": "’بینک لوٹنا تو اعزاز کی بات ہے‘: وہ ’انقلابی‘ جس نے ’عبادت‘ سمجھ کر دنیا کے سب سے بڑے بینک کو لوٹا", "firstPublished": "2023-03-10T08:33:51.099Z", "id": "ckr4g2vk49do", "article": "لوسیو ارٹوبیا کے لیے ڈکیتی ایک ’انقلابی استعارہ‘ تھا مگر اس وقت تک یہ کام ’اجتماعی بھلائی‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے نہ کہ اپنی ذات کے لیے۔ لوسیو وہ شخص ہیں جنھوں نے دنیا کے سب سے بڑے بینک کو تگنی کا ناچ نچوا دیا تھا۔ دن کے اوقات میں بطور مزدور کام کرنے والے لوسیو رات کو بڑے جعلساز کا روپ دھار لیتے تھے، وہ ناخواندہ تھے اور اپنی زندگی کے آخیر وقت تک ’باغی‘ رہے۔ ایک ڈاکو، مبینہ اغوا کار اور سمگلر کے طور پر معروف لوسیو ارٹوبیا 1980 کی دہائی میں دنیا کو مطلوب ترین افراد میں سے ایک تھے۔ لوسیو ارٹوبیا سنہ 1931 میں کاسکینٹ نامی قصبے کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اپنی سوانح عمری میں وہ لکھتے ہیں کہ اپنے بچپن میں ’میں نے کبھی ایسی چیز کا احترام نہیں کیا جو ممنوع تھی۔ اگر مجھے کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو اسے حاصل کرنے کے لیے میں ہر وہ کام کر گزرتا جو مجھے مناسب معلوم ہوتا تھا۔‘ ان کے لیے بینک لوٹنا آسان ہوتا تھا کیونکہ اس دور میں کوئی سکیورٹی کیمرے نہ تھے مگر وہ اس کام کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ انھیں ڈر تھا کوئی زخمی نہ ہو جائے۔ بعد کے انٹرویوز میں انھوں نے بغیر مسکرائے کہا تھا کہ ’جب میں پہلے بینک کو ضبط (لوٹنے) کرنے جا رہا تھا تو میں نے اپنی پینٹ میں پیشاب کر دیا تھا۔‘ دستاویزات کے بعد ان کا اگلا ہدف کرنسی نوٹ بن گیا۔ لوسیو کے ہاتھ امریکی ڈالر کی اچھی نقل لگ گئی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’دوسرے کام جو ہم نے کیے تھے ان کے مقابلے ڈالر کی نقل تیار کرنا قدرے آسان تھا۔ کرنسی کی سطح پر سب سے مشکل کام کاغذ لانا ہے۔‘ فگارٹ نے بتایا کہ ’فرسٹ نیشنل سٹی بینک کے وکلا نے کہا کہ یہ کاروبار کے لیے نقصان دہ تھا لہذا یہ رکنا چاہیے اور یہ اس طرح جاری نہیں رہ سکتا۔ بہت سے لوگ جیل جا چکے تھے مگر یہ مسئلہ جاری تھا تو یوں سٹی بینک اور لوسیو کے وکلا نے مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے سے نمٹنے کا سوچا۔ سب کو معلوم تھا کہ لوسیو ہی اس کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔‘ تاریخ دان ہرنینڈز کہتے ہیں کہ ’کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہم کبھی نہیں جان سکیں گے اور ہمیں اسے قبول کرنا ہو گا۔ مگر سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک دوسرے ملک سے آیا شخص جس کے پاس سیاسی حمایت اور بیداری نہ تھی، فرانس آیا اور انارکسٹ نظریات سیکھے۔ وہ کارکن بنا اور ایسے اقدامات کیے جن سے دیو مالائی ہیرو بن گیا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy6j61088ppo", "summary": "مارچ کا انٹرنیٹ پر مذاق اڑایا گیا، لیکن سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ مارچ دراصل ایک بڑے سماجی اور معاشرتی مسئلے کی جانب اشارہ کرتا ہے", "title": "کنواروں کا مارچ: ’دعا کی ہے کہ ہماری شادیاں بھی جلد ہو جائیں‘", "firstPublished": "2023-03-10T01:30:31.650Z", "id": "cy6j61088ppo", "article": "اس انوکھے مارچ میں حصہ لینے والے مردوں کا انٹرنیٹ پر مذاق اڑایا گیا، لیکن سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ مارچ دراصل ایک ایسے سماجی اور معاشرتی مسئلے کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کا سامنا اس خطے کو ایک عرصے سے ہے۔ اس ضلع میں پیدائش کے وقت لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب کئی عشروں سے غیر متوازن رہا ہے اور سماجی کارکنوں کے مطابق یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ یہاں مردوں کو شادی کے لیے لڑکی تلاش کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مارچ میں حصہ لینے والے ایک غیر شادی شدہ شخص، مالیشا ڈی پی کا کہنا ہے کہ ’جب مجھے کسی سے محبت کرنی چاہیے تھی، میں اس وقت کام میں مصروف تھا۔ (اس دوران) میں نے پیسہ کما لیا اور اب جبکہ میری زندگی میں ہر چیز موجود ہے، مجھے شادی کے لیے کوئی لڑکی نہیں مل رہی۔‘ مانڈیا کا علاقہ زرخیز ہے اور یہاں آبپاشی کا نظام بھی اچھا ہے۔ یہاں کی بڑی فصلوں میں سے ایک گنّا ہے، لیکن چونکہ کھیتوں سے آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے اس لیے اس لیے زراعت اب یہاں زیادہ پرکشش پیشہ نہیں رہا ہے۔ مالیشا بتاتے ہیں کہ گذشتہ چند برسوں میں تقریباً 30 خواتین ان سے شادی سے انکار کر چکی ہیں۔ ان خواتین نے انکار کی وجہ یہ بتائی کہ مالیشا کا پیشہ ٹھیک نہیں ہے اور وہ دیہات میں رہتے ہیں۔‘ ایک کسان رہنما، درشن پٹانیاہ کا کہنا تھا کہ ’ کوئی یہ بات نہیں سمجھ رہا کہ فصلوں کے لیے ضروری تمام اشیا (کھاد بیج پانی وغیرہ) کی قیمتیں بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔‘ تاہم، ایک مقامی سماجی کارکن، نیگریواکا کے مطابق ’پیدائش سے پہلے بچے کی جنس کا تعین کرنے والے ٹیسٹ پر سنہ 1994 میں پابندی لگا دی گئی تھی، لیکن پیدائش سے پہلے بچے کی جنس معلوم کر کے حمل ضائع کروا دینے کا رواج اس علاقے میں اب بھی جاری ہے۔‘ جیاشیلا کا تعلق مانڈیا سے ہے لیکن اب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ بینگلورو کے مضافات میں رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ’ذاتی طور پر‘ گاؤں میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ وہاں آپ قدرتی ماحول سے قریب ہوتے ہیں اور لوگوں سے رشتے بنانا بھی آسان ہوتا ہے۔ دوسری جانب مسٹر شیوا پرساد کا کہنا ہے کہ تین دن جاری رہنے والے کنواروں کے مارچ کے بعد انھیں کرناٹک کی قریبی ریاستوں، آندھرا پردیش اور کیرالا کے کسانوں کی جانب سے بھی اسی قسم کی پیغامات ملے تھے۔‘ مارچ کے شرکاء کو امید ہے کہ مندر پر حاضری کے بعد اب ان کی قسمت بدل جائے گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1n17qee7xo", "summary": "چین کی ٹیکنالوجی کی صنعت کے بڑے سرمایہ کار باؤ فین کی گزشتہ ماہ گمشدگی نے نہ صرف ایک بار ملک میں ہلچل مچا دی ہے بلکہ ارب پتی افرادکے غائب کیے جانے سے متعلق لوگوں کی کے تجسس کا رجحان بھی ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے۔ارب پتی باؤ فین کی کمپنی کے جانب سے اس بیان نے ان خدشات کو ہوا دی ہے کہ بیجنگ بڑی کمپنیوں کے خلاف کوئی آپریشن کر رہا ہے۔", "title": "چینی ارب پتی کیوں غائب ہو رہے ہیں؟", "firstPublished": "2023-03-09T12:20:13.440Z", "id": "cd1n17qee7xo", "article": "چین کی ٹیکنالوجی کی صنعت کے بڑے سرمایہ کار باؤ فین کی گزشتہ ماہ گمشدگی نے نہ صرف ایک بار ملک میں ہلچل مچا دی ہے بلکہ ارب پتی افراد کے غائب کیے جانے سے متعلق لوگوں کے تجسس اور تشویش کے رجحان میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا ہے۔ باؤ فین چائنا رینیسنس ہولڈنگز کے بانی ہیں جن کے صارفین کی فہرست میں بڑی انٹرنیٹ کمپنیاں بشمول علی بابا، ٹینسینٹ اور بیدو شامل ہیں۔ اور اس کمپنی کو ملک کے ٹیکنالوجی سیکٹر میں ایک نشان کی حیثیت حاصل ہے اور انھیں چین کے ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ باؤ فین کی گمشدگی کا واقعہ ان کی کمپنی کے اس اعلان کے ایک ہی روز بعد سامنے آیا جب انھوں نے اعلان کیا کہ وہ ’عوامی جمہوریہ چین میں بعض حکام کے خلاف کی جانے والی تحقیقات میں تعاون کر رہے ہیں۔‘ باؤ فن کی گمشدگی نے ایک بار پھر اس سوچ کو تقویت دی ہے کہ یہ طریقہ بھی انہی اقدامات کی ایک کڑی ہے جس سے صدر شی جن پنگ چین کی معیشت پر اپنا کنٹرول سخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چین کی ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنی اینٹ گروپ میں شیئرز کی فروخت پر بھی پاندی عائد کر دی۔ حکومت کے مشترکہ خوشحالی فنڈ میں تقریبا دس ارب ڈالر کی خطیر رقم عطیہ کرنے کے باوجود انھیں وہ دو سال سے زیادہ عرصے سے چین میں نہیں دیکھا گیا جبکہ ان پر کسی جرم کے ارتکاب کا الزام بھی عائد نہیں کیا گیا۔ چین کے ارب پتیوں کی ایک بڑی تعداد کے منظر عام سے غائب ہونے کے معاملات اب کھل کر سامنے آنے لگے ہیں کہ ایسے ارب پتی افراد ، جو اپنی بے پناہ دولت کے ساتھ کافی طاقت ور سمجھے جاتے ہیں، ان کو کس طرح زبان بندی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ’بیجنگ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ بڑے ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز اور کھلاڑی اپنے برانڈز اور اثر و رسوخ کا ایسا استعمال نہ کریں جس کی وجہ سے ان کو قابو کرنا بھی مشکل ہو جائے اوران کمپنیوں کا بیجنگ کی ترجیحات کے خلاف جانے کا امکان زیادہ ہو۔‘ دوسری جانب بیجنگ کا موقف ہے کہ اس پالیسی کا مقصد دولت کے بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنا ہے، جس پر بہت سے لوگ متفق ہیں۔ اور اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو یہ ایک بڑا مسئلہ بن کر کمیونسٹ پارٹی کی پوزیشن کو کمزور کر سکتا ہے۔ چین میں اس وقت عدم مساوات بڑھ رہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ صدر شی کو انتہائی بائیں بازو کے لوگوں کے دباؤ کا سامنا ہے جو پارٹی کو ایک بار پھر اس کی روح کے مطابق ’سوشلسٹ روٹ`کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd103465zwro", "summary": "ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے قسط کے اجرا کے بعد ہی دوسرے عالمی مالیاتی اداروں اور امیر ممالک سے دوسرے فنڈز پاکستان میں آ سکیں گے اور اس تاخیر سے فناننشل مارکیٹ میں ایک غیریقینی صورتحال پیدا ہوئی۔ ", "title": "پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کا ملکی معیشت پر کیا منفی اثر پڑا؟", "firstPublished": "2023-03-08T04:03:18.439Z", "id": "cd103465zwro", "article": "پاکستان اور بین الا قوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کے درمیان ایک ماہ قبل شروع ہونے والے مذاکرات کے بعد فریقین کے درمیان سٹاف لیول معاہدہ جلد ہونے کی توقع ہے جس کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر قرضے کی قسط جاری ہو سکے گی۔ ان کے مطابق پاکستان جن حالات کا شکار ہے اس میں آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں کیونکہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کے بعد ہی پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر منجمد بیرونی فنانسنگ کی آمد ممکن ہو سکے گی۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹاف لیول معاہدے میں تاخیر اور اس کی وجہ سے پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر کی قسط جاری نہ ہونے میں بین الاقوامی ادارے کی جانب سے پیش کی جانے والی کچھ شرائط ہیں جن پر عمل درآمد کے بعد ہی سٹاف لیول معاہدہ ممکن ہو پائے گا۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے میں تاخیر اس وقت ہوئی جب پاکستان کو اس پروگرام کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے ساتھ پاکستان دوسرے عالمی اداروں اور بیرونی ممالک سے فنڈز بھی حاصل کر سکے کیونکہ پاکستان کے گرتے ہوئے زرمبادلہ ذخائر کی وجہ سے ایک جانب ملک کو بیرونی قرضے کی ادائیگیوں میں مشکلات پیش آ رہی ہیں تو دوسری جانب ملک میں ڈالروں کی کمی وجہ سے اس وقت بھی درآمدی مال کے ہزاروں کنٹینرز ملکی بندرگاہوں پر رکے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ایک اعتماد کا فقدان بھی ہے کیونکہ آئی ایم ایف سمجھتا ہے کہ ہم ایک ارب ڈالر دے دیں اور پھر پاکستان ان شرائط کو بعد میں تسلیم کرنے سے پیچھے ہٹ جائے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے فیصلوں اور اقدامات نے بھی اس سلسلے میں نقصان پہنچایا ۔ مثلآ جب انھوں نے کہا ہمیں آئی ایم ایف کی پرواہ نہیں اور اس طرح کے کچھ دوسرے اقدامات جنھوں نے پاکستان کے آئی ایم ایف سے پروگرام میں رکاوٹیں پیدا کیں۔‘ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے میں تاخیر کی وجہ سے ملکی معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں ماہرین معیشت نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے موجودہ معاشی حالات کی وجہ سے ملک کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا کیونکہ دوسرے عالمی مالیاتی اداروں اور امیر ممالک نے پاکستان کے لیے فنڈنگ کو اس آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے جوڑ رکھا ہے اور آئی ایم ایف کی جانب سے قسط کے اجرا کے بعد ہی دوسرے فنڈز پاکستان میں آ سکیں گے۔ معاشی امور کی تجزیہ کار ثنا توفیق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر نے سب سے بڑا منفی اثر غیریقینی کی صورتحال میں پیدا کیا جس کی وجہ سے فنانشنل مارکیٹ میں منفی اثرات پیدا ہوئے جس کی مثال موڈیز اور فچ کی جانب سے پاکستان کی بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ کا کم کرنا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72zyn1ny5zo", "summary": "جمعرات کے دن پاکستان میں ایک ڈالر کی قیمت میں 18 روپے سے زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا ہے جو پاکستانی روپے کی قدر میں سات فیصد کمی کے مترادف ہے۔ مگر اس کی وجوہات کیا ہیں، پاکستانی روپے کی بےقدری کا سلسلہ کہاں جا کر رُکے گا اور کیا اس کا نتیجہ ہائپر انفلیشن کی صورت میں نکلے گا؟ ", "title": "ڈالر کی قیمت میں 18 روپے کا تاریخی اضافہ: وجوہات کیا ہیں اور کیا ہمیں مہنگائی کی نئی لہر کے لیے تیار رہنا چاہیے؟", "firstPublished": "2023-03-02T09:28:45.101Z", "id": "c72zyn1ny5zo", "article": "آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر کا اثر ایک بار پھر پاکستان کی کرنسی کی قدر پر بُری طرح اثرانداز ہوا ہے اور دو مارچ (جمعرات) کو پاکستان میں ایک ڈالر کی قیمت میں اچانک 18 روپے سے زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا جو پاکستانی روپے کی قدر میں ساڑھے چھ فیصد سے زیادہ کمی کے مترادف ہے۔ ڈالر کی قدر میں اضافے کا سلسلہ بدھ سے ہی شروع ہو گیا تھا اور کاروبار کے اختتام پر یکم مارچ کو ڈالر کا پاکستان میں انٹربینک ریٹ چار روپے اضافے کے بعد 266 روپے 11 پیسے تھا۔ تاہم جمعرات کو مارکیٹ کھلتے ہی ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا اور چند ہی گھنٹے میں ایک ڈالر کی قیمت انٹر بینک میں ہی تقریباً 19 روپے اضافے کے بعد 285 روپے تک پہنچ گئی جو ملکی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ ہے۔ ڈالر کی قدر میں اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان کو ایک معاشی بحران کا سامنا ہے جس میں زرمبادلہ ذخائر بھی چار ارب ڈالر سے کم رہ چکے ہیں۔ دوسری جانب حکومت اس بحران سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب دیکھ رہی ہے۔ جنوری کے آخر میں پاکستان میں زرِ مبادلہ کی ایکسچینج کمپنیوں نے اعلان کیا تھا کہ ڈالر کی قیمت پر لگایا جانے والا مصنوعی کیپ ختم کر دیا گیا ہے جس کے بعد کرنسی مارکیٹ میں کچھ استحکام دیکھنے کو ملا تھا اور آئی ایم ایف کی ٹیم کے دورۂ پاکستان کے بعد روپے کی قدر میں کچھ اضافہ بھی دیکھا گیا تھا۔ حکومت آئی ایم ایف کو مالی مدد کے لیے منا پائے گی یا نہیں، اس سے قبل پاکستان میں اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے معیشت اور ایک عام آدمی پر کتنے گہرے اثرات پڑیں گے اور آیا روپے کی قدر بحال ہو بھی سکتی ہے؟ مزمل اسلم کے مطابق جب ڈالر صرف ایک روپیہ مہنگا ہوتا ہے تو مجموعی طور پر پاکستان پر 130 ارب روپے کا قرض مزید بڑھ جاتا ہے۔ دو دن میں تقریباً ڈالر کی قدر میں اصافے سے روپے کی قدر میں 21 روپے کی کمی ہوئی جس سے 250 ارب روپے کا قرض بڑھ گیا ہے۔ معیشت پر نظر رکھنے والے صحافی شہباز رانا کے مطابق پاکستان میں اس وقت پہلے ہی مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور ڈالر کی قدر بڑھنے سے فوری طور پر اس مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ پاکستان تقریباً تمام اشیا امپورٹ کرتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ceqvz3p4ex3o", "summary": "اس جیل بھرو تحریک نے تو برصغیر میں پچھلے 100 برس میں چلنے والی تمام ایسی تحریکوں کو مات دے دی ہے ۔پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ رہنما تحریک منظم کرنے کے جھنجھٹ میں پڑنے کے بجائے پہلی فرصت میں جیل چلے گئے اور کارکن ٹاپتے رہ گئے اور رہنماؤں کے لواحقین دوسرے ہی دن حبسِ بے جا کی شکایت لے کر عدالت پہنچ گئے۔", "title": "وسعت اللہ خان کا کالم: ’گریٹ لکی پاکستانی سرکس‘ ", "firstPublished": "2023-02-26T05:11:03.374Z", "id": "ceqvz3p4ex3o", "article": "اس دور میں کسی سیاسی کارکن کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست یا بعد از گرفتاری اچھے کردار کے مظاہرے کے تحریری وعدے پر رہائی کو معیوب حرکت سمجھا جاتا تھا تاوقتیکہ حکومتِ وقت ازخود مقدمات واپس لے کر رہا کرنے پر مجبور ہو جائے۔ 1977 میں انتخابی دھاندلیوں کے ردِعمل میں نو جماعتی قومی اتحاد کی سول نافرمانی، پہیہ جام اور جیل بھرو تحریک پر مشتمل بلوہ ناک احتجاج کا نتیجہ قوم نے دیکھا بھی اور اگلے 11برس بھگتا بھی۔ اور پھر اسی آمرانہ گھٹن کے عشرے کے دوران 1983 میں ایم آر ڈی کی تحریک بھی اسی ملک نے دیکھی۔ تب تک لگنے والے تین مارشل لاؤں کے خلاف چلنے والی تحریکوں میں سب سے شدید مزاحمتی تحریک بھی یہی تھی جو سندھ میں پورے جذبے سے اور پنجاب میں جزوی طور پر چلی۔ پھر کبھی ایسی عوامی مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی۔ کیونکہ لوگوں نے جن رہنماؤں پر اندھا اعتماد کیا ان رہنماؤں نے لوگوں پر اعتماد کرنے کی راہ سے بتدریج کنارہ کشی اختیار کر لی اور سیاست رفتہ رفتہ جدوجہد کی چلچلاتی دھوپ سے بچنے کے لئے موقع پرستی کی چھتری پکڑ کے سمجھوتوں کی پگڈنڈی پر چڑھتی چلی گئی۔ ’پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ رہنما تحریک منظم کرنے کے جھنجھٹ میں پڑنے کے بجائے پہلی فرصت میں جیل چلے گئے اور کارکن ٹاپتے رہ گئے‘ وزیرِاعظم کو یقین ہے کہ تاریخ کی سب سے بڑی شہبازی کابینہ اگر سادگی و کفایت شعاری اپنا لے تو باقی قوم اور ادارے بھی خود بخود کفایت شعار ہوتے جائیں گے۔ انھیں یقینِ کامل ہے کہ بال مونڈھنے سے مردے کا وزن کم کیا جا سکتا ہے۔ قبل از گرفتاری ضمانت کروا کے جیل بھرو آنڈولن کا آدیش دینے والے عمران خان کو اس بار بھی پورا بھروسہ ہے کہ جہاں درجن بھر بجلی کے بل جلانے والی ڈھائی دن کی تحریکِ سول نافرمانی، 126 دن کا دھرنا، وفاقی دارالحکومت کا لاک ڈاؤن، پونے چار برس کی بے اختیار بااختیاری، دو عدد آزادی مارچ اور دو صوبائی اسمبلیوں کی تڑواہٹ مطلوبہ نتائج پیدا نہ کر سکی وہاں اب جیل بھرو تحریک ضرور کوئی نہ کوئی چمتکار دکھا دے گی۔ مگراس جیل بھرو تحریک نے تو برصغیر میں پچھلے 100 برس میں چلنے والی تمام ایسی تحریکوں کو مات دے دی ہے۔ پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ رہنما تحریک منظم کرنے کے جھنجھٹ میں پڑنے کے بجائے پہلی فرصت میں جیل چلے گئے اور کارکن ٹاپتے رہ گئے اور رہنماؤں کے لواحقین دوسرے ہی دن حبسِ بے جا کی شکایت لے کر عدالت پہنچ گئے۔ یہ پہلی جیل بھرو تحریک ہے جس میں پولیس وینز کھڑی کھڑی اباسیاں لے رہی ہیں اور نوکری سے بیزار پولیس والے موبائل فون پر ’کنے کنے جانا اے بلو دے گھر‘ سن رہے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy05jzpnzlzo", "summary": "پاکستان کے اندر کی خبریں سنیں تو وہاں سری لنکا جیسی صورتحال پیدا ہونے کا چرچا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان کی ایسی صورت حال پر ہمسایہ ملک انڈیا کو کتنا فکر مند ہونا چاہیے اور کیا انڈیا پاکستان کی مدد کر سکتا ہے؟", "title": "کیا انڈیا موجودہ معاشی بحران میں پاکستان کی مدد کر سکتا ہے؟", "firstPublished": "2023-02-26T04:26:48.716Z", "id": "cy05jzpnzlzo", "article": "پاکستان کے اندر کی خبریں سنیں تو وہاں سری لنکا جیسی صورتحال پیدا ہونے کا چرچا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان کی ایسی صورت حال پر ہمسایہ ملک انڈیا کو کتنا فکر مند ہونا چاہیے اور کیا انڈیا پاکستان کی مدد کر سکتا ہے؟ اس وقت پاکستان میں ڈیفالٹ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ملک کے وزیر دفاع آصف خواجہ تو یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کر چکا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے آر ایس ایس کا ہٹلر کی نازی پارٹی سے موازنہ کیا تھا۔ جموں و کشمیر پر انڈین اقدام کے بعد پاکستان نے انڈیا کے ساتھ تجارت بند کر دی، حالانکہ یہ تجارت سرکاری اور غیر سرکاری طور پر جاری ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے جب ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا انھوں نے سیلاب سے ہونے والی تباہی پر انڈیا سے مدد مانگی ہے یا انڈیا نے مدد کی پیشکش کی ہے تو انھوں نے دونوں سوالوں کا جواب ’نہیں‘ میں دیا ۔ یاد رہے کہ ترکی میں آنے والے زلزلے کے بعد انڈیا نے ایک ایسے وقت میں اس ملک کی مدد کی جب انڈین مخالفت کے باوجود ترکی مسئلہ کشمیر کو عالمی فورمز پر اٹھاتا رہا ہے اور پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات مضبوط ہوئے ہیں۔ انڈین میڈیا میں ملک کی وزارت خارجہ کے ذرائع کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ اگر پاکستان سے مدد کی درخواست کی گئی تو انڈیا مدد کرے گا تاہم سرکاری سطح پر ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ راناڈے کے مطابق انڈیا ہر سال 60 سے 70 ارب ڈالر کا ریفائنڈ پیٹرول اور ڈیزل دنیا کو برآمد کرتا ہے اور پاکستان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھ سکتی ہے۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان انڈیا سے مدد کی درخواست کر سکتا ہے؟ دوسری جانب ٹائمز آف انڈیا کے ایک پوڈ کاسٹ میں جب پاکستانی دفاعی ماہرعائشہ صدیقہ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’برسوں سے افغانستان دنیا کے لیے جہنم کی طرح رہا ہے، پاکستان نے اس میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن آپ نہیں چاہیں گے کہ پاکستان بھی اس فہرست میں شامل ہو جائے۔‘ ماہر اقتصادیات اجیت رانا ڈے نے ایک مضمون میں لکھا کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان کا ٹوٹنا انڈیا کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’ایک غیر مستحکم پاکستان کا مطلب ہے زیادہ عسکریت پسند اسلام اور زیادہ انڈیا مخالف زہر۔ اس کا مطلب ہے کہ انڈیا کو اپنی مغربی سرحد کے دفاع کے لیے مزید وسائل لگانے ہوں گے، جس سے چین کی سرحد سے وسائل کو ہٹانا پڑے گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckmd26j1ypmo", "summary": "کرپٹوکرنسی جہاں خصوصاً نوجوانوں میں بہت مقبول ہے وہیں امریکہ میں ایک سکول کے نیچے زیر زمین ڈرین کی جگہ پر کرپٹو کرنسی کی مائینگ کرنے والے شخص نے عدالت میں اسے سزا نہ دینے کی استدعا کی ہے۔", "title": "کرپٹو کرنسی جس کی مائینگ سکول کے نیچے زیر زمین ڈرینیج کی جگہ کی گئی ", "firstPublished": "2023-02-25T13:13:40.085Z", "id": "ckmd26j1ypmo", "article": "کاغذی نوٹوں کے بجائے اب ڈیجیٹل یا کرپٹوکرنسی جہاں خصوصاً نوجوانوں میں بہت مقبول ہے وہیں دنیا بھر میں مختلف شعبوں میں کام کرنے والے سرکاری اہلکار بھی اب ڈیجیٹل کرنسی پراعتماد کرنے لگے ہیں اور اس کے حصول میں میں پیش پیش نظر آ رہے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال امریکہ کی ریاست میساچوسٹس سے ملتی ہے جہاں ایک ٹاؤن میں ایک انتظامی اہلکارایک سکول میں زیر زمین (ڈرینیج کی جگہ میں) غیر قانونی کرپٹو کرنسی کی مائینگ میں ملوث پائے گئے ہیں۔ وہاسیٹ میں اسسٹنٹ فیسیلیٹی کے ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات 39 سالہ ندیم نہاس نے مقدمہ چلنے پر جمعہ کو عدالت سے استدعا کی ہے کہ انھیں اس معاملے میں سزا نہ دی جائے ۔ ندیم نہاس پر بوسٹن کے بالکل ساتھ واقع کوہاسٹ ہائی سکول میں آلات کے ساتھ توڑ پھوڑ اور بجلی کےغیر قانونی استعمال کا الزام عائد ہے۔ کرپٹو ایک ایسی ڈیجیٹل کرنسی ہے جسے خصوصی کمپیوٹرکے پروسیسرز کے ذریعے مائن جاتا ہے۔ اس ڈیجیٹل کرنسی کے لین دین میں بھاری بھرکم توانائی استعمال کرنے والے کمپیوٹر استعمال کئے جاتے ہیں جس میں بہت ذیادہ بجلی کا استعمال کیا جاتا ہے پولیس چیف کے مطابق’یہ آپریشن سکول کے زیر زمین موجود (ڈرینج کے پائپ کے لیے ) خلا سے چلایا جا رہا تھا جس کے متعلق کوہاسٹ ہائی سکول نے اگاہ کیا تھا۔‘ اس معاملے کی تحقیق کرنے والوں نے ڈائریکٹر ندیم نہاس سے تفتیش کی تو انھوں نے بتایا کہ سکول کے معمول کے معائنے کے دوران انھوں نے بجلی کی تاریں، عارضی ڈکٹ ورک، اور متعدد کمپیوٹرز دیکھے جو اپنی جگہ سے ہٹے ہوئے تھے۔ پولیس نے بتایا کہ کے اس دوران حکام کو زیرزمین کمپیوٹرز ملے جو کرپٹو کرنسی مائننگ آپریشن میں استعمال ہو رہے تھے اور انھیں غیر قانونی طور پر سکول کے برقی نظام سے منسلک کیا گیا تھا۔ اس واقعہ کی تفتیش میں امریکی کوسٹ گارڈ اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کا محکمہ شامل تھا جنھوں نے تین ماہ تک اس معاملے کی چھان بین کی اور ڈائریکٹر ندیم نہاس کو اس معاملے میں ملوث قرار دیا۔ عدالتی ریکارڈ کے مطابق کرپٹو کرنسی کی مائینگ کا آپریشن 2021 میں اپریل سے دسمبر تک چلتا رہا تھا جس دوران ہائی سکول کے بجلی کا بل تقریبا ساڑھے سترہ ہزار ڈالر تک جا پہنچا تھا۔ بی بی سی نے اس معاملے پر کوہاسٹ پبلک سکولزسے ان کا موقف لینے کے لیے رابطہ کیا تو انھوں نے پولیس کے بیان پر ہی اکتفا کرنے کی درخواست کی۔ تاہم سی بی ایس نیوز کے ساتھ اپنے ایک بیان میں انھوں نے دوران تفتیش پولیس کے ساتھ اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw0ew18w836o", "summary": " اکثر ماہرینِ معیشت کا خیال ہے کہ اندازوں کے برعکس سنہ 2022 میں جنگ کے باوجود روسی معیشت حیران کن طور پر ٹھیک رہی لیکن کیا یہ رجحان جاری رہے گا؟", "title": "عالمی پابندیوں کے باوجود روسی معیشت معمول کے مطابق کیسے چل رہی ہے؟", "firstPublished": "2023-02-25T08:49:38.624Z", "id": "cw0ew18w836o", "article": "ماہرینِ معیشت کے اندازوں کے برعکس سنہ 2022 میں روسی معیشت حیران کن طور پر ٹھیک رہی یوکرین میں ’خصوصی فوجی آپریشن‘ شروع کرنے کے بعد روس پر تاریخی عالمی اقتصادی پابندیوں کی نتیجے میں روسی معیشت بری طرح متاثر ہوئی، لیکن ایک سال گزر جانے کے بعد بھی روسی معیشت بڑی حد تک معمول کے مطابق چل رہی ہے۔ دنیا کے اکثر ماہرینِ معیشت کا خیال ہے کہ ان کے اندازوں کے برعکس سنہ 2022 میں روسی معیشت حیران کن طور پر ٹھیک رہی۔ روس کے ایک سابق صدارتی مشیر، سرگئی گورییوو نے حال ہی میں ’فوربز‘ میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ روس میں افراطِ زر میں اضافہ نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سنہ 2022 کے ابتدائی ماہ میں عالمی سطح پر توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا تھا اور روس نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2022 میں روسی معیشت کے خراب نہ ہونے کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ سنہ 2022 میں روسی معیشت کے تباہ نہ ہونے کی تیسری وجہ بتاتے ہوئے نتالیا زوبروچ کا کہنا تھا کہ کچھ شعبوں میں روسی حکومت نے ’نہایت دانشمندانہ فیصلے‘ کیے۔ اگرچہ یوکرین میں جنگ کے باوجود روسی معیشت ممکنہ تباہی سے بچی رہی، لیکن مغربی ممالک کی جانب سے لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں کے اس کی دفاعی صنعت پر کچھ براہ راست اثرات ضرور مرتب ہوئے ہیں۔ تاہم، اب بھی لگتا یہی ہے کہ عمومی طور پر روس کی دفاعی صنعت بہت زیادہ متاثر نہیں ہوئی ہے اور وہ یوکرین میں جنگ کے لیے درکار بنیادی ساز و سامان ملک میں ہی بنا رہا ہے۔ تیل و گیس کی آمدن میں کمی سے روسی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے، یہاں تک کہ بجٹ میں خسارے پر قابو پانے کے لیے حکومت کو قومی بچت فنڈ کا استعمال کرنا پڑا۔ دسمبر میں وزیر خزانہ انتون سلینوف نے خبردار کر دیا تھا کہ اگرچہ سنہ 2023 میں بجٹ میں خسارے کا تخمینہ 2 فیصد لگایا گیا ہے لیکن خسارہ اس سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ علامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جوں جوں تیل و گیس کی آمدن میں کمی ہو رہی اور روس کو اپنے مالی ذخائر استعمال کرنا پڑ رہے ہیں، آنے والے دنوں میں ملک میں شدید مہنگائی ہو سکتی ہے۔ ایک یو ٹیوب چینل کو انٹریو دیتے ہوئے تیل و گیس کی صنعت کے تجزیہ کار، میخائل کروتخن کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں روس کو جلد ہی مہنگائی کے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کے مطابق اب صورت حال اتنی خراب ہو چکی ہے کہ روس کے پاس اس ’جنگ کو جاری رکھنے کے لیے زیادہ پیسہ نہیں ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g6jvjxxpno", "summary": "وفاقی وزیر خزانہ نے چین کی جانب سے 70 کروڑ ڈالر قرض وصول ہونے کا اعلان کیا تو غالبا ان کی خوشی کی وجہ پاکستان کے کم ہوتے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ تھا لیکن چین اور چینی بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضے اب پاکستان کے ذمے واجب الادا مجموعہ قرض کا ایک تہائی ہو چکے ہیں۔", "title": "کیا چینی قرض ہی پاکستان کے معاشی بحران کی اصل وجہ ہے؟", "firstPublished": "2023-02-25T04:35:10.433Z", "id": "c3g6jvjxxpno", "article": "وفاقی وزیر خزانہ نے چین کی جانب سے 70 کروڑ ڈالر قرض وصول ہونے کا اعلان کیا تو غالبا ان کی خوشی کی وجہ پاکستان کے کم ہوتے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ تھا لیکن چین اور چینی بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضے اب پاکستان کے ذمے واجب الادا مجموعہ قرض کا ایک تہائی ہو چکے ہیں۔ موجودہ مالی سال کے باقی مہینوں میں پاکستان کو آٹھ ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے تو اس سے زیادہ بڑا مسئلہ اگلے دو مالی سالوں میں پاکستان کے ذمے واجب الادہ 50 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ ہے جو ان دو سالوں میں پاکستان کو واپس کرنا ہے جن میں چین اور چینی کمرشل بینکوں کو واپس کیا جانے والا قرض بھی شامل ہے۔ موجودہ صدی کے پہلے عشرے میں پیرس کلب کے رکن ممالک کی جانب سے فراہم کیا جانے والے قرضے کا تناسب پاکستان کے ذمے واجب الادہ قرضے میں بڑا تھا تاہم گزشتہ سات سے آٹھ برسوں میں چین کی جانب سے دیا گیا قرضہ سب سے زیادہ ہے تو اس کے ساتھ چینی بینکوں کی جانب سے دیا گیا قرضہ بھی بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ماہرین معیشت کے مطابق چینی قرضے کے بڑھنے کی وجہ پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں انرجی اور انفراسٹرکچر منصوبوں میں قرضے کی شکل میں چینی سرمایہ کاری ہے تو اس کے ساتھ پاکستان نے بجٹ خسارے کو پورا کرنے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے اور زرمبادلہ ذخائر کو بڑھانے کے لیے بھی چینی کمرشل بینکوں سے قرضہ حاصل کیا ہے۔ گزشتہ سات آٹھ برسوں میں پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضے میں چینی قرضوں کے اضافے کے بارے میں پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چین کی جانب سے دیے جانے والے قرضے تین قسم کے ہیں۔ ’ایک تو وہ چینی قرضہ ہے جو سی پیک کے منصوبوں کے لیے دیا گیا۔ دوسرا قرضہ چینی کمرشل بینکوں کی جانب سے دیا گیا اور تیسرا چین کی جانب سے پاکستان کے سٹیٹ بینک میں رکھے گئے ڈیپازٹس ہیں۔‘ اسلام آباد میں مقیم معاشی امور کے سینیئر صحافی شہباز رانا کے مطابق اگرچہ سی پیک کے مختلف منصوبوں میں چین اور اس کے کمرشل بینکوں کی جانب سے پاکستان کو قرضہ دیا گیا تھا تاہم اس وقت جو قرضے پاکستان کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں وہ چین اور اس کے کمرشل بینکوں کی جانب سے ایکسٹرنل فنانسگ، کرنٹ اکاونٹ خسارے کو کم کرنے اور زرمبادلہ ذخائر کو بڑھانے کے لیے دیے گئے تھے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ck7jv9y0nnyo", "summary": "امریکی صدر جو بائیڈن نے انڈین نژاد امریکی تاجر اجے بنگا کو عالمی بینک کی سربراہی کے لیے نامزد کیا ہے۔\n", "title": "امریکہ کی جانب سے ورلڈ بینک کی سربراہی کے لیے نامزد انڈین نژاد کاروباری شخصیت اجے بنگا کون ہیں؟", "firstPublished": "2023-02-24T07:41:53.129Z", "id": "ck7jv9y0nnyo", "article": "امریکی صدر جو بائیڈن نے انڈین نژاد امریکی اور کاروباری شخصیت اجے بنگا کو عالمی بینک کی سربراہی کے لیے نامزد کیا ہے۔ امریکی حکام نے کہا ہے کہ ان کے پاس یہ تجربہ ہے کہ وہ بینک کو نجی شعبے کے ساتھ مل کر اپنے اہداف کے حصول میں مدد کریں۔ بدھ کو، بینک نے کہا کہ اس نے تین امیدواروں کو شارٹ لسٹ کیا ہے، جن کا انٹرویو کیا جائے گا تاکہ مئی کے اوائل تک نئے لیڈر کا انتخاب کیا جا سکے۔ امریکہ، عالمی بینک کا سب سے بڑا شیئر ہولڈر ہے اور روایتی طور پر اس ادارے کی سربراہی کے لیے شخصیت کو منتخب کرتا رہا ہے۔ یہ بینک ہر سال ملکوں کو اربوں ڈالر کا قرض دیتا ہے۔ امریکہ کی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے کہا ہے کہ وہ عالمی بینک کو ’صحیح ایجنڈا ترتیب دے کر اچھائی کے لیے طاقت بڑھانے والے‘ ادارے کے طور پر کام کرتے دیکھنا چاہتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اجے بنگا حکومتوں، کمپنیوں اور غیر منافع بخش اداروں کے درمیان شراکت داری قائم کرنے کے اپنے ٹریک ریکارڈ کی وجہ سے اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے لیے ’منفرد‘ طور پر قابلیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے وائٹ ہاؤس کے ساتھ پارٹنرشپ فار سینٹرل امریکہ کے شریک چیئرپرسن کے طور پر بھی کام کیا، جس کا مقصد علاقے میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو بڑھانا ہے۔ سینٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ کی ایگزیکٹو نائب صدر، امینڈا گلاس مین نے کہا ہے کہ اجے بنگا کے برسوں تک کاروباری دنیا میں رہنے کی وجہ سے بینک کے حوالے سے کانگریس میں اعتماد پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے، بشمول ریپبلکنز کے جو اکثر بین الاقوامی تنظیموں پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ جو بھی بینک کا اگلا لیڈر بنے گا اسے کم آمدنی والے ممالک کی فوری مالی ضروریات کو متوازن کرنے کی کوشش کرنے کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا، جن میں سے بہت سے قرضوں کے بحران کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ موسمیاتی تبدیلی، عالمی تنازعات اور وبائی امراض جیسے مسائل سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گلاس مین کہتی ہیں کہ ’عالمی بینک کی حکمت عملی کے اگلے مرحلے پر بہت کچھ منحصرہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جب ورلڈ بینک یا تو واقعی متعلقہ ہونے کے لیے قدم بڑھا سکتا ہے یا غیر اہم ہو سکتا ہے۔‘ اگر اجے بنگا کے نام کی توثیق کر دی جاتی ہے تو وہ ڈیوڈ مالپاس کی جگہ لیں گے، جنھیں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نامزد کیا تھا۔ ماحولیاتی تحفط کے کارکنوں کی جانب سے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بینک کے وسائل کو بروقت استمعال کرنے سے قاصر رہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg4xpwzjjeo", "summary": "پاکستان کی حکومت نے آئی ایم ایف سے مزاکرات کے بعد جہاں ایک جانب 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا وعدہ کیا تو وہیں سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو راتوں رات بڑھا دیا جس کے بعد پاکستان میں سگریٹ برینڈز کی قیمتوں میں تقریبا دو گنا اضافہ ہوا۔", "title": "پاکستان میں سگریٹ کی قیمتوں میں اضافہ: صرف مالی فائدہ یا سگریٹ نوشی کے رجحان میں کمی بھی ممکن؟", "firstPublished": "2023-02-21T04:26:38.773Z", "id": "crg4xpwzjjeo", "article": "واضح رہے کہ پاکستان کی حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد جہاں ایک جانب 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا وعدہ کیا تو وہیں سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو بڑھا دیا جس کے بعد پاکستان میں سگریٹ برینڈز کی قیمتوں میں تقریبا دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس پیش رفت کے بعد سوشل میڈیا پر طرح طرح کے تبصرے اور میمز سامنے آئے۔ کسی نے سگریٹ کا برینڈ بدلنے کا مشورہ دیا تو کسی نے سگریٹ پینے کے اوقات کار مخصوص کرنے کا، وہیں ایسے بھی لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ سگریٹ مہنگے ہونے سے اب ملک میں تمباکو نوشی کا مضر صحت رجحان کم ہونے میں مدد ملے گی۔ پاکستان ٹوبیکو کمپنی کے ترجمان مدیح پاشا کے مطابق ملک میں سالانہ تقریبا 82 ارب سگریٹ سٹِکس فروخت ہوتی ہیں جس سے حکومت کو سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں سالانہ 148 ارب روپے سے زیادہ آمدن ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان ٹوبیکو کمپنی کی جانب سے قیمتوں میں اضافہ کیا جا چکا ہے تاہم فلپ مورس نے ابھی تک نئی قیمتوں کا اعلان نہیں کیا۔ فلپ مورس کمپنی کی جانب سے بھی ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ 2019 سے 2021 تک فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 26 فیصد اضافہ کیا گیا جبکہ حالیہ مالی سال میں پہلے ہی ایف ای ڈی 25 فیصد تک بڑھائی جا چکی تھی جس کے بعد مجموعی طور پر ایف ای ڈی میں 150 فیصد اضافہ کیا گیا جو صارفین کے لیے قیمتوں میں 250 فیصد اضافے کی وجہ بنے گا۔ پاکستان کی تمباکو انڈسٹری سے منسلک ایک اہم عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’اس حکومتی قیمت کے باوجود پاکستان میں ایسے برانڈز اب بھی فروخت ہو رہے ہیں جو 40-50 روپے میں دستیاب ہوتے ہیں۔‘ پاکستان ٹوبیکو کمپنی کے ترجمان مدیح پاشا کا کہنا ہے کہ سگریٹ کی غیر قانونی فروخت سے حکومت کو تقریبا 77 ارب روپے کا سالانہ نقصان ہوتا ہے۔ تاہم صحافی شہباز رانا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بار جب حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات ہوئے تو آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ تھا کہ ایسے ٹیکس لگائے جائیں، جو دور رس نتائج دے سکیں اور جن کو عدالت میں چیلنج نہ کیا جا سکے۔‘ اس مد میں، شہباز رانا، کے مطابق ’آئی ایم ایف کا خیال یہ تھا کہ پاکستان میں سگریٹ پر دنیا کے حساب سے ٹیکس کافی کم ہے۔‘ یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ’شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ تمباکو پر ایکسائز ٹیکس اور اس کی قیمتوں میں واضح اضافہ اس کے استمعال کو روکنے کا سب سے زیادہ مؤثر اور قابل عمل طریقہ ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1d780y3v9o", "summary": "وزیر دفاع کی جانب سے ملک کے دیوالیہ ہو جانے کا بیان آنے پر لوگ یہ سوال کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ آخر ملک کا دیوالیہ ہونا کس کو کہتے ہیں اور اس اصطلاح کو درحقیقت کب استعمال کیا جاتا ہے۔ ", "title": "ملک دیوالیہ کیسے ہوتا ہے اور اس کے منفی اثرات کیا ہوتے ہیں؟", "firstPublished": "2023-02-19T07:40:22.348Z", "id": "cd1d780y3v9o", "article": "ایسے میں ملک کے وزیر دفاع کی جانب سے ملک کے دیوالیہ ہو جانے کا بیان آنے پر لوگ یہ سوال کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ آخر ملک کا دیوالیہ ہونا کس کو کہتے ہیں اور اس اصطلاح کو درحقیقت کب استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے وزیر دفاع کے بیان پر جب بی بی سی نے سوال کیا تو ڈاکٹرعابد قیوم سلہری نے اس کو بین الاقوامی مروجہ قوانین کی زبان میں سمجھاتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان ابھی دیوالیہ نہیں ہوا۔‘ کسی ملک کے دیوالیے ہونے کے بارے میں ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ ایک ملک جب اپنے بیرونی قرضے کی قسطیں اور اس پر سود کی ادائیگی سے قاصر ہو تو اس ملک کو دیوالیہ قرار دیے دیا جاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک ملک اس قرضے کی واپسی کے لیے عالمی مالیاتی اداروں اور دوسرے ممالک کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے کہ قرضہ اور اس پر سود کی ادائیگی ایک خاص وقت اور مدت میں کی جائے گی تاہم جب کوئی ملک اس سلسلے میں قرضے کی قسط اور اس پر سود کی ادائیگی میں ناکام ہو جائے تو یہ ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’جاری کھاتوں کا خسارہ اس لیے بڑھتا ہے کہ ملک میں درآمدات (امپورٹ) زیادہ ہوتی ہیں ا ور اس کے مقابلے میں برآمدات (ایکسپورٹ) اس رفتار سے نہیں بڑھ پاتیں کہ درآمدات پر بیرون ملک جانے والے ڈالر برآمدات کی صورت میں واپس آئیں اور اس کا دباؤ زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑتا ہے کیونکہ وہاں سے درآمدات کے لیے ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ اس ادائیگی کی وجہ سے بیرونی قرضے کی قسط اور اس پر سود کی واپسی مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ بیرونی قرضے کی ادائیگی بھی ڈالر میں کرنی ہوتی ہے۔‘ ڈاکٹر امجد راشد نے بتایا کہ ’جب کوئی ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہوتا ہے تو اس کی جانب سے بین الاقوامی مارکیٹ میں قرضے لینے کے لیے جاری کیے جانے والے بانڈذ بھی زیادہ شرح سود پر لیے جاتے ہیں یعنی ملک کو ان بانڈذ میں انویسٹ کرنے والوں کو زیادہ منافع دینا پڑتا ہے اور بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی جانب سے اس ملک کی ریٹنگ کم کر دی جاتی ہے۔‘ ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ ’دیوالیہ ہونے کی صورت میں کرنسی کی قدر روازنہ کی بنیادوں پر بہت تیزی سے گرنا شروع ہو جاتی ہے جیسا کہ وینزویلا میں ہوا کہ جب یہ ملک دیوالیہ ہوا تو اس کی کرنسی اس قدر بے وقعت ہو گئی تھی کہ یہ سڑکوں پر بکھری رہتی تھی اور لوگ اس پر چلا کرتے تھے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn342vd9g14o", "summary": "جب معاہدہ ہوا تو حالات ایسے نہیں تھے جو اب ہیں۔ خاص طور پر بین الاقوامی منڈی میں ایندھن کی قیمت آسمان کو نہیں چھو رہی تھی۔ اس لیے کوئی ایسا منصوبہ نہیں بنایا گیا تھا کہ کسی خاص صورت حال میں ایندھن کی قیمت کیسی ہو گی۔", "title": "اڈانی گروپ سے بجلی خریدنا بنگلہ دیش کے لیے پھندا بن سکتا ہے؟", "firstPublished": "2023-02-19T01:21:57.162Z", "id": "cn342vd9g14o", "article": "لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب معاہدہ ہوا تو حالات ایسے نہیں تھے جو اب ہیں۔ خاص طور پر بین الاقوامی منڈی میں ایندھن کی قیمت آسمان کو نہیں چھو رہی تھی۔ اس لیے کوئی ایسا منصوبہ نہیں بنایا گیا تھا کہ کسی خاص صورت حال میں ایندھن کی قیمت کیا ہو گی۔ ایندھن کی قیمت کا تعین عام طور پر نیو کیسل انڈیکس کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ توانائی کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عام حالات میں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن موجودہ حالات میں، چونکہ اس انڈیکس سے کسی ایندھن کی قیمت کو سمجھنا مشکل ہے، اس لیے یہ بنگلہ دیش کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ ڈاکٹر اعجاز حسین کا کہنا ہے کہ ’موجودہ حالات میں اگر اڈانی گروپ بنگلہ دیش پر یہ قیمت عائد کرتا ہے تو بنگلہ دیش کے لیے یہ مناسب ہوگا کہ وہ بجلی خریدنے کے بجائے ایندھن کی قیمت کم ہونے کا انتظار کرے۔‘ سنہ 2017 میں بنگلہ دیش الیکٹریسٹی ڈویلپمنٹ بورڈ (PDB) کے اڈانی پاور کے ساتھ کیے گئے 25 سالہ معاہدے میں کہا گیا تھا کہ ایندھن کی درآمد اور نقل و حمل کے اخراجات خریدار ملک (بنگلہ دیش) برداشت کرے گا۔ یہ قیمت اس وقت کے مارکیٹ ریٹ کے مطابق طے کی جائے گی۔ یہ بین الاقوامی مارکیٹ کی قیمت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ بین الاقوامی منڈی میں کوئلے کی قیمت فی ٹن 250 امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ اس وجہ سے کوئلے کی قیمت پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ کوئلے کی جو قیمت طے کی گئی ہے وہ ملک کے پائرہ پاور سٹیشن سے تقریباً 45 فیصد زیادہ ہے۔ اس لیے اڈانی گروپ سے بجلی خریدنے کی صورت میں اس کی قیمت انڈیا سے درآمد کی جانے والی بجلی سے تین گنا زیادہ ہوگی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ انڈیا سے بجلی کی درآمد پر تقریباً سات روپے فی یونٹ لاگت آتی ہے اور اڈانی گروپ سے خریدنے کی صورت میں اس کی قیمت تقریباً اٹھارہ روپے فی یونٹ ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ اڈانی کی بجلی کے لیے تقریباً چار ہزار کروڑ روپے ہر سال کیپیسٹی چارج کے طور پر ادا کرنے ہوں گے۔ لیکن اس سے پہلے یہ ڈیڈ لائن پہلے مارچ کے پہلے ہفتے اور پھر مارچ کے وسط میں طے کی گئی تھی۔ پانچ فروری کو ایندھن اور معدنی وسائل کے وزیر مملکت نصر الحامد نے کہا تھا کہ مارچ کے پہلے ہفتے میں 750 میگاواٹ بجلی آنا شروع ہو جائے گی۔ لیکن اڈانی گروپ کی طرف سے بجلی سپلائی شروع کرنے کی ڈیڈ لائن کو کئی بار ٹالنے کی وجہ سے اب اس بیان پر بھی شکوک پیدا ہو گئے ہیں کہ مارچ کے آخر تک بجلی کی سپلائی شروع ہو سکے گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjlyy5lz3j0o", "summary": "پاکستان اس وقت شدید مہنگائی کی لپیٹ میں ہے اور بدھ کو منی بجٹ پیش کیے جانے کے کچھ دیر بعد پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اب مہنگائی کی ایک نئی لہر یقینی ہے۔ ", "title": "پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے اور اس میں کمی کب ہو گی؟", "firstPublished": "2023-02-17T05:11:38.872Z", "id": "cjlyy5lz3j0o", "article": "پاکستان اس وقت شدید مہنگائی کی لپیٹ میں ہے اور بدھ کو منی بجٹ پیش کیے جانے کے کچھ دیر بعد پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اب مہنگائی کی ایک نئی لہر یقینی ہے۔ \r دیگر اعداد و شمار کے علاوہ مہنگائی کا تعین بھی پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس یعنی قومی ادارہ شماریت کے ذمے ہے اور اس کے لیے یہ کنزیومر پرائس انڈیکس کے طریقہ کار کا استعمال کرتا ہے۔ \r اس کے لیے بنیادی ضروریات اور خوراک کی کئی چیزوں کی ایک تصوراتی باسکٹ یا ٹوکری بنائی جاتی ہے اور پھر دیکھا جاتا ہے کہ پہلے ایک ہفتے، ماہ یا سال میں اس ٹوکری کو خریدنے کے لیے کتنے پیسوں کی ضرورت تھی اور اب کتنے کی ضرورت ہے۔ \r تاہم چند ماہرین کے مطابق کچھ چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ اس ڈیٹا سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ ہمیشہ مہنگائی کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ لیکن فی الوقت پاکستان میں مہنگائی دیگر ممالک کی طرح اسی طریقے کے ذریعے جانچی جاتی ہے۔ \r اس کے علاوہ اُنھوں نے کہا کہ ’یوکرین میں امریکہ کی پراکسی جنگ، چین اور امریکہ کے تنازعے میں اضافے سمیت دیگر جیوپولیٹیکل معاملات کا بھی اثر مہنگائی پر پڑ رہا ہے جو سب سے زیادہ ایندھن اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔‘ \r اس کے علاوہ ڈالر کی بڑھتی قیمت کی وجہ سے بھی جو چیز پہلے کم پیسوں میں پاکستان پہنچ رہی تھی اب اس کے لیے کہیں زیادہ پیسے ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔\r کسی بھی ملک کا مرکزی بینک (پاکستان کے کیس میں سٹیٹ بینک آف پاکستان) مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے شرحِ سود میں اضافہ کرتا ہے جس کی وجہ سے معیشت کچھ حد تک سست ہو جاتی ہے اور چیزوں کی قیمتیں نیچے آنے لگتی ہیں۔ \r اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ عالمی سطح پر ان چیزوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں جو پاکستان خریدتا ہے اور انھیں خریدنے کے لیے درکار ڈالرز بھی مہنگے ہو رہے ہیں۔ \r مختلف اقتصادی ماہرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ طلب میں کمی اگر صرف قیمتوں کی وجہ سے ہو تو ان کے واپس بڑھنے کا امکان رہتا ہے جب تک کہ لوگ مستقل طور پر ان کے متبادل پر نہ منتقل ہو جائیں۔ \r جب ہم نے یہ سوال ڈاکٹر عائشہ خان کے سامنے رکھا تو اُنھوں نے کہا کہ اگر بنیادی مسائل کو حل کیے بغیر لوگوں کی تنخواہیں بڑھ گئیں تو اس سے مہنگائی کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر شروع ہو جائے گا۔ \r اُنھوں نے کہا کہ ’اس وقت اجرتیں اور تنخواہیں بالکل بھی مہنگائی کے حساب سے نہیں بڑھ رہیں کیونکہ جب مہنگائی 30 فیصد کی شرح کو چھو رہی ہو تو ایسا کرنا ناممکن ہے۔‘ \r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp6zz3y0k3ko", "summary": "اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر ٹیکس اور اضافے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کیوں چاہتا ہے کہ پاکستان میں ہر چیز عوام کے لیے مہنگی ہو؟ ", "title": "آئی ایم ایف پاکستان میں پیٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیوں چاہتا ہے؟", "firstPublished": "2023-02-16T09:30:04.102Z", "id": "cp6zz3y0k3ko", "article": "پیٹرول، گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر ٹیکس اور اضافے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کیوں چاہتا ہے کہ پاکستان میں ہر چیز خصوصاً پیٹرول، بجلی، گیس وغیرہ عوام کے لیے مہنگی ہو؟ \r ثنا توفیق کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پاکستان سے کہتا ہے کہ آپ اپنی کرنسی کو فری فلوٹ پر رکھیں اور مصنوعی طور پر اس کو مت روکیں تو اس سے آپ کے روپے کی قدر میں کمی ہوتی ہے۔ اور درآمدات کی صورت میں آپ مہنگی چیزیں درآمد کرتے ہیں اور اس کا اثر بھی صارف پر پڑتا ہے۔ \r صحافی و ماہر اقتصادی امور شہباز رانا کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ آپ صارفین سے کسی بھی چیز یعنی، گیس، بجلی و پیٹرول کی اصل قیمت وصول کریں۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ جہاں ہم آئی ایم ایف کو مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ جس قسم کے ٹیکسز ابھی ضمنی مالیاتی بل میں لگائے گئے ہیں آئی ایم ایف کو یہ قبول نہیں کرنے چاہیے تھے۔ \r یہاں یہ سوال بھی ذہن میں جنم لیتا ہے کہ اگر آئی ایم ایف پاکستان کے معاشی معاملات پر اتنا اثر رسوخ رکھتا ہے تو پاکستان کو قرض دینے میں تاخیر کیوں کر رہا ہے؟ ثنا توفیق کے مطابق آئی ایم ایف پاکستان کو قرض کی قسط جاری کرنے سے اس لیے ہچکچا رہا ہے کیونکہ گذشتہ برس ستمبر میں ساتویں اور آٹھویں جائزہ اجلاس کے بعد آئی ایم ایف نے پاکستان کو معیشت کے حوالے سے چند اقدامات اٹھانے کے لیے کہا تھا جن میں گیس، بجلی پیٹرول سمیت دیگر چند سبسڈیز ختم کرنا شامل تھا لیکن حکومت نے اس اقدامات میں تاخیر کی ملکی خزانہ کے ذخائر تین ارب سے بھی نیچے آ گئے۔ \r ان کا کہنا تھا کہ اب آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ پہلے آپ (پاکستان) یہ اقدامات اٹھائیں، غیر ضروری سبسڈیز کو ختم کریں اور اپنے خسارے کو کم کریں تو ہم آپ کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھا سکتے ہیں اور امید ہے کہ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے حالیہ اقدامات جو یقیناً بہت سخت ہیں، سے آئی ایم ایف کا اعتماد بحال ہو گا اور مارچ میں پاکستان کو قسط جاری ہو سکتی ہے۔ \r\r اس سوال کے جواب میں ثنا توفیق کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کو کسی بھی ملک کے غریب اور کم آمدنی والے طبقے کی فکر ہوتی ہے اور وہ ان کے سماجی تحفظ کے لیے اقدامات کے سلسلے میں کہتا ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرے لیکن ان کی سوشل پروٹیکشن پر خرچ کرے۔ \r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c8055leppkqo", "summary": "آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پوری کرنے اور بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے منی بجٹ سے مختلف شعبوں میں ٹیکس کی شرح کو بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق جن بنیادی ضرورت کی اشیا کو اضافی سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، جیسے گندم اور گوشت، وہ تو ویسے بھی کھلی فروخت ہوتی ہیں۔", "title": "منی بجٹ کے واضح اور پوشیدہ ٹیکسوں سے عام آدمی کیسے متاثر ہو گا؟", "firstPublished": "2023-02-16T03:27:38.749Z", "id": "c8055leppkqo", "article": "آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پوری کرنے اور بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے منی بجٹ سے مختلف شعبوں میں ٹیکس کی شرح کو بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔\r اس اضافی ریونیو کے لیے سب سے نمایاں سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی شرح کو سترہ سے اٹھارہ فیصد کرنے کا اقدام ہے جس کا اطلاق تمام شعبوں پر ہو گا جبکہ لگژری اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح کو سترہ سے بڑھا کر پچیس فیصد کر دیا گیا ہے۔\r وفاقی حکومت کے مطابق دودھ، دالوں، گندم، چاول اور گوشت کو سیلز ٹیکس کی شرح میں ہونے والے اضافے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔\r معاشی ماہرین کے مطابق سیلز ٹیکس کی شرح میں ہونے والا اضافہ دراصل مہنگائی کی شرح میں اضافے کا سبب بنے گا کیونکہ سیلز ٹیکس کھپت، یعنی اشیا کے استعمال، پر لگتا ہے اور اس اضافے سے چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس کی قیمت ایک عام صارف کو ادا کرنا پڑے گی۔\r اسی طرح ملک کے اندر تیار ہونے والے اشیا کی فروخت پر بھی سیلز ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ جب وہ چیز صارف خریدے گا تو اسے اضافی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔\r انھوں نے کہا کہ جن چیزوں کو مستنثیٰ قرار دیا گیا ہے وہ تو ویسے ہی کھلی فروخت ہوتی ہیں، اس لیے حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کرنا کہ عام آدمی کے استعمال کی چیزوں کو اس میں سے چھوٹ دی گئی ہے، صحیح نہیں۔ \r معاشی امور کی ماہر ثنا توفیق نے بھی یہی کہا کہ حکومت کی جانب سے جن چیزوں کو اضافی سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، وہ تو کھلی صورت میں فروخت ہوتی ہیں تاہم بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جو عام استعمال کی چیزیں ہیں اور ان پر اضافی سیلز ٹیکس صارفین کو ادا کرنا پڑے گا۔ کراچی چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئیر نائب صدر توصیف احمد نے کہا کہ سیلز ٹیکس ہر شعبے میں بڑھا دیا گیا ہے۔ ’اس کا مطلب ہے کہ صنعت میں استعمال ہونے والا خام مال بھی اس کی زد میں ہو گا اور وہ انڈسٹری کی پیداواری لاگت کو بڑھا ئے گا جو لازمی طور پر صارفین سے وصول کی جائے گی۔‘ \r انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں کاروبار پر کوئی نگرانی تو ہے نہیں کہ وہ قیمتوں کا تعین کر سکے۔ ایک جانب اضافی سیلز ٹیکس صارفین کے لیے چیزوں کو مہنگی کرے گا تو دوسری جانب کاروباری افراد اور دکاندار اپنے حساب سے چیزوں کو بیچیں گے۔‘ \r تو مہنگائی کا یہ سلسلہ کب تھمے گا؟ اس پر وہ کہتے ہیں کہ جب تک آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان موجود ہے تو مہنگائی کی شرح بڑھتی رہے گی کیونکہ یہ پروگرام اس طرح ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ جن میں ملکوں کو جکڑ کر وہاں کی عوام پر مہنگائی کا اضافی بوجھ ڈالا جائے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c87ypnxkv5xo", "summary": "وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار جب بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں منی بجٹ پیش کرتے ہوئے \nعوام پر مزید ٹیکس لگانے کی بات کر رہے تھے تو ایوان میں موجود ’اپوزیشن‘ ایسے خاموش ہو کر بیٹھی تھی جیسے منی بجٹ حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن کا کوئی رکن پیش کر ر ہا ہو۔", "title": "اسحاق ڈار نے منی بجٹ پیش کر دیا: ’روز روز ٹیکس لگانے کی بجائے ایک دفعہ عوام پر ایٹم بم کیوں نہیں گرا دیتے‘", "firstPublished": "2023-02-15T15:46:30.360Z", "id": "c87ypnxkv5xo", "article": "وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار جب بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں منی بجٹ پیش کرتے ہوئے \rعوام پر مزید ٹیکس لگانے کی بات کر رہے تھے تو ایوان میں موجود ’اپوزیشن‘ ایسے خاموش ہو کر بیٹھی تھی جیسے منی بجٹ حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن کا کوئی رکن پیش کر ر ہا ہو۔\r وزیر خزانہ کی تقریر کے دوران نہ کوئی شور شرابا ہوا نہ کوئی ڈیسک بجایا گیا اور نہ ہی کسی رکن نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر سپیکر قومی اسمبلی اور نہ ہی وزیر خزانہ کی طرف پھینکیں اور نہ ہی اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا گیا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے منی بجٹ پیش کرتے ہوئے اس کو لانے کی تمام تر ذمہ داری سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف پر عائد کر دی اور کہا کہ انھوں نے جو آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تھا موجودہ حکومت اس معاہدے کا پاس کر رہی ہے اس لیے آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لینے کے لیے منی بجٹ لانا ضروری تھا۔\r وزیر خزانہ کی تقریر کے دوران کوئی شور شرابہ تو نہ ہوا تاہم قومی اسمبلی کے اجلاس سے پہلے حکمراں اتحاد کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے یہ بیان جاری ہوا کہ ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت تنخواہ اور مراعات نہیں لیں گے تاکہ لوگوں میں یہ رائے قائم کروائی جا سکے کہ مہنگائی کی وجہ سے وہ بھی متاثر ہوئے ہیں۔\r وزیر خزانہ قومی اسمبلی میں اپنی تقریر ختم کر کے مشکل سے ہی اپنی سیٹ پر بیٹھے ہوں گے کہ اُنھیں بتایا گیا کہ اگلے ہال میں سینیٹ کا اجلاس ہو رہا ہے اور اجلاس کے ایجنڈے پر منی بل پیش کرنا بھی ہے۔ عمومی طور پر بجٹ پر بحث کا آغاز قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کرتے ہیں لیکن ان کی جگہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم حان نے بحث کا آغاز کیا اور وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’ان لوگوں کو غریب عوام صرف اس وقت یاد آتے ہیں جب ان سے ووٹ لینا ہو۔‘ سائرہ بانو کو ایوان میں بات کرنے کا موقع تو نہیں ملا البتہ انھوں نے ایوان سے باہر آکر میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔ چیئرمین سینیٹ نے اجلاس کے ایجنڈے میں موجود آئیٹم کی نشاندہی کی تو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف وسیم سجاد نے نکتہ اعتراض پر بات کرنا چاہی تو چیئرمین نے اس کی اجازت نہیں دی جس پر حزب مخالف کے سینیٹرز نے ایوان کے اندر نعرے بازی اور ڈیسک بجانا شروع کر دیے۔ مالیاتی بل کی منظوری قومی اسمبلی میں ہوتی ہے اور سینیٹ سے اس بل میں کوئی تجاویز دی جاتی ہیں تو اس کو منظور کر نا یا مسترد کرنے کا اختیار قومی اسمبلی کے پاس ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gp4251e15o", "summary": "لاہور میں کینیڈین کافی شاپ کے باہر قطار تو راشن کی دکانوں کے باہر مایوس چہرے۔۔۔ یہ مناظر دیکھ کر بعض افراد یہ پوچھ رہے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان میں ’مڈل کلاس‘ سکڑ رہی ہے یعنی ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ", "title": "پاکستان میں دو قطاروں کی کہانی: کیا پاکستان میں ’مڈل کلاس‘ سکڑ رہی ہے؟", "firstPublished": "2023-02-14T03:25:02.873Z", "id": "c3gp4251e15o", "article": "پاکستان میں ان دنوں دو قطاریں توجہ حاصل کر رہی ہیں۔ \rایک طرف صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں گذشتہ ہفتے کھُلنے والی کینیڈین کافی شاپ ٹِم ہارٹنز کے باہر لگی لائن جس میں لوگ بڑے حوصلے سے پیسے تھامے اپنی باری کے منتظر ہیں۔ \r دوسری طرف وہ قطاریں جہاں مایوس چہروں کے ساتھ لوگ آٹا اور بنیادی راشن کا سامان لینے کے لیے سستے راشن ڈپو اور سٹورز کے باہر کھڑے ہیں۔ یہ قطاریں کئی کئی جگہ پر دیکھی جا سکتی ہیں اور مقامی ذرائع ابلاغ میں کئی روز سے ان کی تصاویر سامنے آ رہی ہیں۔ \r بعض لوگوں کے خیال میں یہ دونوں تصاویر پاکستان میں معاشی اعتبار سے دو انتہائی طبقوں یعنی ’انتہائی امیر‘ اور ’انتہائی غریب‘ کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ \r اگر مڈل کلاس کا حجم بڑا ہو گا تو یہ ظاہر کرے گا کہ خطِ غربت سے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد کم ہو رہی ہے یعنی وہ لوگ ’مڈل کلاس‘ میں داخل ہو رہے ہیں۔ \r پاکستان میں راشن کی دکانوں کے باہر حالیہ مناظر کو دیکھنے والے بعض افراد یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان میں ’مڈل کلاس‘ سکڑ رہی ہے یعنی ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ \r ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت نے حالات پر قابو پانے کے لیے درآمدات پر پابندیاں لگائیں اس کی وجہ سے ملک میں صنعت کاری رُک گئی اور دوسری طرف زر مبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں معاشی نمو (اقتصادی ترقی) کی شرح انتہائی کم رہی ہے اور مزید کم ہو گی۔‘ \r ان کے خیال میں اس کا ایک نقصان یہ بھی ہو گا کہ پیسے بچانے والے افراد کی تعداد کم ہو جائے گی۔ عام طور پر اپر کلاس سرمایہ کاری پیدا کرتی ہے جبکہ بینکوں کے اندر پیسے جمع کر کے بچت مڈل کلاس ہی سے آتی ہے، وہ بھی ختم ہو جائے گی۔‘ \r ڈاکٹر ساجد امین سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان میں مڈل کلاس کے سکڑنے کا رجحان جاری رہا اور پاکستان کی معیشت بہتر نہ ہوئی تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب پاکستان میں مڈل کلاس ختم ہو جائے گی۔ \r ڈاکڑ حفیظ پاشا سمجھتے ہیں کہ جب تک پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر ڈبل ڈجٹ میں نہیں جاتے یعنی دس یا اس سے زیادہ بلین ڈالر کی سطح تک نہیں جاتے تو بہتری کے امکانات بہت کم ہیں۔ \r ’اگر اندازہ لگانا ہو تو یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو جو سود قرضوں پر ادا کرنا ہے ہر سال وہ پانچ ہزار ارب روپے ہے۔ اس کے مقابلے میں جو حکومت کی سب سے بڑی ریلیف سکیم یعنی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے اس کا کل حجم 360 ارب روپے بنتا ہے۔‘ \r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c512k0eg308o", "summary": "جیسا کہ اب بہت سے لوگ دنیا کے مختلف حصوں میں افراط زر کے بارے میں فکر مند ہیں ایسے میں یہ پوچھنا مناسب ہوگا کہ تاریخ کی بدترین افراط زر کی وجہ کیا تھی اور اس سے کیا سبق ملا۔ \n", "title": "وہ ملک جس کی کرنسی ردی اور جہاں ہر 15 گھنٹے بعد قیمتیں دگنی ہو جاتی تھیں", "firstPublished": "2023-02-12T17:14:23.599Z", "id": "c512k0eg308o", "article": "جیسا کہ اب بہت سے لوگ دنیا کے مختلف حصوں میں افراط زر کے بارے میں فکر مند ہیں ایسے میں یہ پوچھنا مناسب ہوگا کہ تاریخ کی بدترین افراط زر کی وجہ کیا تھی اور اس سے کیا سبق ملا۔ \r اور اس میں مزید اضافہ ہوتا گیا جب 11جولائی 1946 کو ہنگری کے قومی بینک نے ایک ہزار کھرب کا نوٹ جاری کیا تو یہ دنیا کی تاریخ میں جاری ہونے والا سب سے بڑا نوٹ تھا۔ \r ٹومکا کہتے ہیں کہ ’ اس کے علاوہ، دنیا میں افراط زر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کمپنیوں کو خوراک کی ایک خاص مقدار اور معیار فراہم کرنا پڑا، جس کا تعین کارکنوں اور ان کے خاندان کے افراد کی ہفتہ وار کیلوری کی ضروریات سے کیا جاتا۔‘\r وہ کہتے ہیں کہ ’اسی طرح دیہی علاقوں میں رہنے والے وہ لوگ جو اناج پیدا کرتے تھے ان کی مالی حالت بھی بہتر تھی لہذا شہریوں اور قصبوں میں رہنے والے ہی سب سے زیادہ غریب تھے۔‘\r سیکلوس کہتے ہیں کہ ’اس کی تیاری میں کچھ ماہ لگے تھے۔ حکومت نے خوراک کا ذخیرہ کر لیا تھا تاکہ جب نئی کرنسی متعارف کروائی جائے تو کم از کم کچھ منڈیوں میں خوراک کی دستیابی اور زیادتی ہو تاکہ عوام یہ سوچے کے ان اصلاحات سود مند ہیں۔‘\r ’اس کے علاوہ اصلاحات سے قبل کے چند ہفتوں میں لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے کی بھی کوشش کی جاتی رہی کہ مہنگائی ٹیکس پر انحصار ختم ہو جائے گا، چیزوں کی قیمتوں کا تعین دوسری چیزوں کی قیمتوں کے اعتبار سے نہیں کیا جائے گا، اور یہ کہ مستقبل میں کافی عرصے تک ان پالیسیوں کو جاری رکھا جائے گا۔‘\r ٹومکا کہتے ہیں کہ ’اسے جنگ کے آخری مراحل میں ملک سے باہر لے جایا گیا تھا تاکہ سوویت فوج اس پر قبضہ نہ کر لے۔ اور یہ آسٹریا کے امریکہ کے زیرِ قبضہ علاقے میں پہنچ گئے تھے۔‘\r اس ٹرین میں 22 ٹن سونا بسکٹس اور سکوں کی شکل میں تھا اور یہ جرمنی سے انتہائی سخت پہرے اور رازداری کے ساتھ لیا گیا۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ کسی دشمن ملک کو تمام تر مالی اثاثے ایک ساتھ واپس کر دیے گئے ہوں۔‘\r اُنھوں نے ایسے اقدامات کرنے شروع کیے جو بالآخر غیر ملکی اور مقامی نجی کمپنیوں کو قومیانے کی وجہ بنے۔ ساتھ ہی ساتھ معیشت کو مرکزی کنٹرول میں لانے کے لیے بھی اقدامات کیے گئے جیسے کہ ایک سرکاری دفتر ہر چیز کی قیمت طے کرتا اور ایک ہی دفتر کے ذریعے معیشت کے ہر شعبے میں تنخواہوں کا تعین کیا جاتا۔\r کیا دنیا کے کئی ممالک میں اس وقت جاری مہنگائی کی شدید لہر سے نمٹنے کے لیے ہم یہاں سے کوئی سبق حاصل کر سکتے ہیں؟ \r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cx09ygx10nwo", "summary": "ایران کے پاس گیس کے بڑے ذخائرہیں لیکن وہ اپنے ہی شہریوں کو مناسب مقدار میں گیس کی فراہمی نہیں کر پا رہا، اور یہ صوریحال اس شدید سردی میں ایک بڑے بحران کے طور پر سامنے آئی ہے۔\n", "title": "ایران کے پاس گیس کے بڑے ذخائر لیکن ملکی صارفین کے لیے گیس کی قلت کیوں؟", "firstPublished": "2023-02-11T06:20:25.520Z", "id": "cx09ygx10nwo", "article": "ایران کے پاس گیس کے بڑے ذخائرہیں لیکن وہ اپنے ہی شہریوں کو مناسب مقدار میں گیس کی فراہمی نہیں کر پا رہا، اور یہ صوریحال اس شدید سردی میں ایک بڑے بحران کے طور پر سامنے آئی ہے۔\r علی رضا مثنوی کا کہنا ہے کہ ’گرمیوں میں گیس کی معمولی کمی ہوتی ہے، سردیوں میں اس کی طلب اچانک بڑھ جاتی ہے، لیکن حکومت اس طلب کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ ایران میں اب جو کچھ دیکھا جا رہا ہے، وہ گیس کی کمی نہیں ہے، بلکہ یہ بحران ہے۔ یہ ’انسان کا کیا دھرا‘ ہے۔ یہ انتظامیہ کی بدانتظامی کا ثبوت ہے۔\r وہ کہتے ہیں ’کاغذ پر یہ ایران کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے، اس کے باوجود ملک کو موسم سرما میں بجلی کی مستقل بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایران کی قدرتی گیس کی پیداوار کافی مستحکم ہے لیکن سردیوں کے مہینوں کے دوران اس کی طلب آسمان کو چھوتی ہے۔‘ \r آصف شجاع کہتے ہیں کہ ’آپ جانتے ہیں کہ ایران (امریکہ اور یورپ کی طرف سے) پابندیوں کی زد میں ہے، جس کی وجہ سے اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ زرمبادلہ فراہم کرنا ہے۔ اس کے لیے ایران کو اپنی گیس کی پیداوار کا بڑا حصہ برآمد کرنا ہوگا۔ زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانا ہے تاکہ دوسری چیزیں درآمد کر سکیں، اگر ملک میں کوئی بحران ہو تب بھی گیس برآمد کرنا اس کی مجبوری ہے۔‘ \r ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف گیس کی دستیابی کی بات نہیں ہے، پابندیوں کی وجہ سے ایران میں ہر چیز کی قلت ہے اور مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آپ نے خبروں میں پڑھا ہوگا کہ کچھ لوگوں کو روٹی خریدنے کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔‘\r کیا گیس کی شدید قلت کی وجہ سے ہونے والے مظاہروں کا سیاسی اثر ہو سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب گذشتہ ستمبر سے ایران کی مورالٹی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد حکومت کی جانب سے خواتین کے ساتھ ناروا سلوک میں اضافہ ہو رہا ہے؟ علاج اور دیگر مسائل پر دہائیوں کی تلخی کے پس منظر میں ملک گیر احتجاج نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے؟\r آصف شجاع ایران کو بحران کے حل کے لیے یہ مشورہ دیتے ہیں، ’ کہاوت ہے کہ بچہ بغل میں ڈھنڈورا شہر میں‘ ۔ ایران کے پاس پہلے ہی توانائی کے بہت بڑے ذخائر موجود ہیں اگر آپ تیل اور گیس دونوں کو لیں تو ایران کے پاس دنیا میں ہائیڈرو کاربن کے سب سے زیادہ ذخائر ہیں۔‘\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/clwrj4deqj4o", "summary": "ملک کو درپیش معاشی بحران کے پیش نظر ان تقرریوں پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔ لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ایک معاونِ خصوصی پر حکومت کتنا خرچ کرتی ہے؟ ", "title": "وفاقی کابینہ میں سات نئے معاونین خصوصی کے اضافے سے خزانے پر کتنا بوجھ پڑے گا؟", "firstPublished": "2023-02-09T15:25:31.812Z", "id": "clwrj4deqj4o", "article": "پاکستان کے وزیرِ اعظم کی جانب سے سات مزید معاونینِ خصوصی کی تقرری کے بعد سے کابینہ کی کل تعداد 86 ارکان تک پہنچ چکی ہے۔ ملک کو درپیش معاشی بحران کے دوران مزید تقرریاں ہونے پر اس وقت سخت تنقید کی جارہی ہے۔ جہاں چند لوگ اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ ان تقرریوں کی منطق کیا ہے، وہیں یہ سوال بھی کیے جارہے ہیں کہ ایک معاونِ خصوصی پر حکومت کتنا خرچہ کرتی ہے؟ معاونِ خصوصی ٹیکنوکریٹ ہوتے ہیں جن کو ایک مخصوص مقصد کے لیے حکومت کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ اور ان کے لیے عام انتخابات میں شامل ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ تمام تر معاونینِ خصوصی بنیادی طور پر اپنے اپنے شعبہ کے ماہر ہوتے ہیں۔ \r مثال کے طور پر حکومت کے ایک ترجمان نے بتایا کہ معاونینِ خصوصی کی تقرری کے بعد کابینہ ان کے قلمدان یا ’پورٹفولیو‘ طے کرتی ہے اور اس کا اعلامیہ جاری کرتی ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں مقرر ہونے والے ان معاونینِ خصوصی کے پورٹفولیوز کے بارے میں اب تک کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔\r لیکن اتنے خراب معاشی حالات میں کابینہ کیوں بڑھائی جا رہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’کابینہ کا سائز اتنا ہی ہے جتنا تھا۔ یہ تو لوگوں کو عزت دینے والی بات ہے۔‘ تاہم رانا ثنا اللہ اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ معاونِ خصوصی کن شعبوں میں مقرر کیے ہیں۔ \r تجزیہ کار ہارون شریف نے بتایا کہ معاونِ خصوصی کی تقرری کا طریقہ کار غلط ہے۔ ’غلط بات یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ یہ واضح کیا جائے کہ یہ لوگ کیوں مقرر کیے گئے ہیں، ان کی تقرریوں کو ’اوپن اینڈڈ‘ رکھا جاتا ہے۔ یعنی آپ کوئی بھی مطلب اخذ کرلیں۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ معاشی بحران میں ایسی تقرریاں کرنا کیوں ضروری ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’اس وقت یہ تقرریاں بغیر کسی مراعات دیے کی گئی ہیں۔‘ کابینہ کے ایک رکن نے بتایا کہ ’اگر کسی معاونِ خصوصی کو وزیر مملکت کے درجے پر لایا جاتا ہے، جیسا کہ اس نوٹیفیکیشن میں بھی واضح طور پر لکھا گیا ہے، تو ان کو وہ مراعات ملتی ہیں جو کسی وزیر مملکت کو ملتی ہیں۔ اس طرح سے ایک معاونِ خصوصی پر سرکاری خرچہ پانچ لاکھ سے 10 لاکھ ماہانہ کے قریب آتا ہے۔ جس میں گھر کا کرایہ، گاڑی، پٹرول اور دفتر شامل ہیں۔ یہ ماہانہ خرچہ اس سے تجاوز بھی کرسکتا ہے۔‘ جبکہ رکن نے بتایا کہ ’انتخابات کے نزدیک اس طرح کی تقرریاں کی جاتی ہیں تاکہ ووٹ بنک میں اضافہ کیا جاسکے۔‘ \r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn0e2w1124xo", "summary": "موجودہ حکومت اور عمران خان کی جماعت، تحریک انصاف، دونوں کے ہی آئی ایم ایف سے اختلافات رہے ہیں تاہم موجودہ معاشی بحران کے پیش نظر پاکستان کو فوری طور پر معاہدے کے تحت امداد کی ضرورت ہے۔", "title": "معاشی بحران: پاکستان کے لیے آئی ایم ایف امداد کتنی اہم ہے؟", "firstPublished": "2023-02-09T13:14:44.343Z", "id": "cn0e2w1124xo", "article": "جنوری میں ایک حکومتی وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی دو بندرگاہوں پر آٹھ ہزار سے زیادہ کنٹینر پھنسے ہوئے تھے جن میں خوراک سے لیکر ادویات جیسا سامان موجود تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق ان میں سے چند کنٹینر اب کلیئر ہو رہے ہیں تاہم بڑی تعداد اب تک وہیں موجود ہے۔ موجودہ حکومت اور عمران خان کی جماعت، تحریک انصاف، دونوں کے ہی آئی ایم ایف سے اختلافات رہے ہیں تاہم موجودہ معاشی بحران کے پیش نظر پاکستان کو فوری طور پر معاہدے کے تحت امداد کی ضرورت ہے۔\r پاکستان کی حکومت کے مطابق یہ مزاکرات آسان نہیں تھے۔ گذشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف پاکستان کو مشکل وقت دے رہا ہے۔\r دوسری جانب گذشتہ ماہ عمران خان نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان سری لنکا کے نقش قدم پر جا سکتا ہے جہاں گذشتہ سال حکومت کے پاس خوراک، ایندھن اور دیگر اشیا کی درآمد کے لیے پیسہ نہیں بچا تھا جس کے بعد حکومت مخالف مظاہروں کے نیتجے میں صدر کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔ پاکستان کی موجودہ حکومت اور عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے درمیان شدید محاذ آرائی جاری ہے۔ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملک بھر میں ریلیاں اور مارچ منعقد کر چکے ہیں اور اس وقت عوام کی ایک بڑی تعداد میں مقبول ہیں۔\r پاکستان کی موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ عمران خان کے اس مطالبے کو پورا نہیں کریں گے کہ ملک میں عام انتخابات قبل از وقت کروائے جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ملک کی معیشت کو ترجیح دے رہے ہیں۔\r معاشی امور کے صحافی خرم حسین کا کہنا ہے کہ ’اگر آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو جاتا ہے تو سعودی عرب اور یو اے ای سے اربوں ڈالر امداد کا راستہ بھی ہموار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ادائیگوں کا بحران شاید کچھ وقت کے لیے موخر ہو جائے گا۔‘\r تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’طویل مدتی اعتبار سے اس پروگرام کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ پاکستان کو ایک بڑے قرض کا سامنا ہے جس کی ری سٹرکچرنگ کے بغیر ملک بار بار اس مقام پر لوٹے گا جہاں بیلنس آف پیمنٹ کا بحران دوچار ہو گا۔‘\r تاہم آئی ایم ایف سے کامیاب ڈیل کے لیے حکومت کو تونائی کے شعبے میں سبسڈی ختم کرنا پڑ سکتی ہے۔\r خرم حسین کہتے ہیں کہ ’آئی ایم ایف سے ڈیل عام لوگوں کے لیے تکلیف دہ ثابت ہو گی۔‘ تاہم ان کے نزدیک بڑا خطرہ یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کے بعد اس پر عمل شروع کرے اور پھر اپنا ذہن تبدیل کر لے۔\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c721ex83320o", "summary": "دال کو پاکستان میں غریب کی خوراک سمجھا جاتا ہے تاہم ملک میں مہنگائی کی بلند شرح اور دالوں کی قیمت میں ہونے والے بڑے اضافے کی وجہ سے اب معاشرے کے کم آمدنی والے طبقات کے لیے دال کھانا بھی مشکل تر ہو چکا ہے۔", "title": "پاکستان میں ’غریب کی خوراک‘ سمجھی جانے والی دالوں کو خریدنا اب مشکل کیوں ہو گیا ہے؟", "firstPublished": "2023-02-09T04:06:18.217Z", "id": "c721ex83320o", "article": "فاطمہ کے خاندان کا تعلق معاشرے کے کم آمدنی والے طبقے سے ہے۔ ملک میں مہنگائی کی تازہ ترین لہر نے ملک کے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے تاہم کم آمدنی والا طبقہ اس سے اس وقت شدید متاثر نظر آتا ہے۔ \r دال کو پاکستان میں غریب کی خوراک سمجھا جاتا ہے تاہم ملک میں مہنگائی کی بلند شرح اور دالوں کی قیمت میں ہونے والے بڑے اضافے کی وجہ سے اب معاشرے کے کم آمدنی والے طبقات کے لیے دال کھانا بھی مشکل تر ہو چکا ہے۔\r ملک میں مہنگائی کی بلند شرح نے دالوں کی قیمتوں میں تو اضافہ کیا تاہم اس کی ایک اور بڑی وجہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں ہونے والا بے تحاشا اضافہ اور اس کے ساتھ ملکی بندرگاہوں پر دالوں سے بھرے کنٹینروں کا پھنسنا بھی ہے جو ایل سیز نہ کھلنے کے باعث گذشتہ دو ڈھائی مہینوں سے پھنسے ہوئے ہیں اور جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں دالوں کی قیمت میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔\r مقامی مارکیٹ میں دالوں کی قیمت اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہے جس کی وجہ سے کم آمدنی والے افراد شدید متاثر ہیں۔ پاکستان میں دالوں کی قیمت میں اضافہ اس لحاظ سے عجیب ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود مقامی ضرورت کو پورا کرنے کےلیے بیرون ملک سے دال امپورٹ کرتا ہے اور اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان دال کی مقامی ضرورت پورا کرنے کے لیے ایک ارب ڈالر سالانہ کی دالیں درآمد کرتا ہے۔\r انھوں نے بتایا کہ ’ان کنٹینرز کو فوری طور پر ریلیز کر کے سپلائی چین کو بہتر بنا کر دالوں کی قیمت کو کم کیا جا سکتا ہے ‘\r تاہم ان کے بقول ’قیمتوں میں بڑی کمی ممکن نہیں کیونکہ دالیں درآمد ہوتی ہے اور ملک میں ڈالر کے ریٹ کے بڑھنے کی وجہ سے اس کی قیمت میں اضافہ ہوا۔\r اگرچہ پاکستان میں گذشتہ مالی سال میں دالوں کی پیداوار میں 29 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا تاہم ملک کی آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے گھریلو اور تجارتی مقاصد کے استعمال کے لیے دالوں کی کھپت بڑھتی جا رہی ہے اور اس کی وجہ سے مقامی پیداوار جو پہلے ہی ملکی ضرورت کے لیے ناکافی تھی وہ مزید کم ہوتی جا رہی ہے۔ \r سندھ کے علاقے ٹنڈو جام میں کام کرنے والے سندھ ایگری کلچر ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر لیاقت علی بھٹو نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دالوں کی پیداوار میں اضافہ نہ ہونے کی بنیادی وجہ سرٹیفائیڈ بیج میں کسی خاص پیشرفت کا نہ ہونا ہے اسی طرح دالوں کی کاشت اور کٹائی کے لیے مشینری اور آلات بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ \r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2jpn9xdpk9o", "summary": "ملک میں 20 دن کا پیٹرول ہے تو بعض شہروں میں کچھ پیٹرول پمپ بند کیوں اور کوئی فلنگ سٹیشن کھلا بھی ہے تو پیٹرول ڈلوانے کے لیے طویل قطاروں میں کیوں لگنا پڑ رہا ہے۔ ", "title": "’ملک میں 20 دن کا پیٹرول ہے‘ تو پیٹرول نہ ملنے کی شکایات کیوں؟", "firstPublished": "2023-02-08T15:21:45.983Z", "id": "c2jpn9xdpk9o", "article": "ملک میں 20 دن کا پیٹرول ہے تو بعض شہروں میں کچھ پیٹرول پمپ بند کیوں اور کوئی فلنگ سٹیشن کھلا بھی ہے تو پیٹرول ڈلوانے کے لیے طویل قطاروں میں کیوں لگنا پڑ رہا ہے۔ \r یہ وہ سوال ہیں جو کئی لوگوں کے ذہنوں میں ہے جنھیں ڈر ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے تک اس کی ایک مصنوعی قلت پیدا ہوسکتی ہے۔ شاید اسی لیے جسے ایک ہزار روپے کا پیٹرول بھروانا ہے، وہ ٹینک فُل رکھنے کی کوششوں میں ہے۔\r ان کا کہنا ہے کہ قرض کی قسط کی بحالی کے لیے حکومت کے آئی ایم ایف وفد سے جاری مذاکرات اور عالمی منڈی میں تیل کے نرخ دیکھتے ہوئے جو پیٹرول پمپ ذخیرہ اندوزی کریں گے، ان کے لائسنس منسوخ کیے جائیں گے۔ \r خیال رہے کہ گذشتہ ماہ کے اواخر میں بھی حکومت نے پیٹرول کی ’مصنوعی قلت‘ ختم کرنے کے لیے چند روز قبل ہی تیل کی قیمتیں بڑھانے کا اعلان کر دیا تھا۔ مصدق ملک نے بدھ کی شب پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پاکستان کے پاس 20 دن کا پیٹرول اور 25 دن کا ڈیزل موجود ہے اور ملک کے بعض شہروں میں ان کی عدم دستیابی کی اطلاعات مصنوعی قلت کی عکاسی کرتی ہیں۔ \r مصدق ملک نے کہا کہ ’کچھ لوگوں کا خیال ہے پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے لگی ہیں کیونکہ ہمارے (آئی ایم ایف سے) مذاکرات ہو رہے ہیں۔ تیل کی قیمت بڑھانے کا کوئی پلان نہیں۔ قیمتوں کے حوالے سے مقررہ وقت پر عالمی منڈی میں اتار چڑھاؤ کی مطابقت سے اعلان ہوگا۔‘\r گذشتہ روز بھی انھوں نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آئی ایم ایف سے مذاکرات میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا ابھی تک کوئی تعلق نہیں۔ عالمی مارکیٹ میں اگر تیل کی قیمتیوں میں تبدیلی آتی ہے تو پیٹرول پمپ والوں کو ایسا لگتا ہے کہ تھوڑا ذخیرہ ہو تو منافع ہوسکتا ہے۔ ہمارے پاس 20 دن کا پیٹرول اور 25 دن کا ڈیزل موجود ہے۔ \r ادھر پاکستان کے مختلف شہروں سے ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ پیٹرول پمپس پر فیول دستیاب نہیں یا پھر اگر دستیاب بھی ہے تو ان پر لمبی قطاریں ہیں جبکہ پیٹرول کی فروخت پر خود ساختہ حد عائد کی جا رہی ہے۔ \r جبکہ شنیلا عمار سکندر بھی پوچھتی ہیں کہ ’اسلام آباد میں پٹرول پمپس پٹرول کیوں نہیں دے رہے؟‘ ان کی ٹویٹ پر ڈپٹی کشمنر اسلام آباد نے جواب دیا کہ ’اسلام آباد میں پیٹرول کی کوئی قلت نہیں۔۔۔ پی ایس او اور اٹک کے تمام پمپ آپریشنل ہیں۔‘\r اپنے شہر اوکاڑہ میں بعض پیٹرول پمپ بند ہونے پر عاطف راجپوت کو اعتراض ہے کہ ’انتظامیہ کہاں ہے۔ وہ کیوں نہیں ان کو چیک کرتے ان کے پاس کتنا پیٹرول ہے۔‘\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cled473l076o", "summary": "سال 2022 میں انڈیا نے عشاریہ پانچ بلین ڈالر کی ماچس برآمد کی تھی تاہم اس دوران روس پر معاشی پابندیوں کے باعث اب دنیا کی نظریں دیگر ممالک پر ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ \n", "title": "روس یوکرین جنگ سے پاکستان میں زوال پذیر ماچس انڈسٹری کیسے بحال ہوئی؟", "firstPublished": "2023-02-07T05:28:02.994Z", "id": "cled473l076o", "article": "سال 2022 میں انڈیا نے 50 کروڑ ڈالر کی ماچس برآمد کی تھی تاہم اس دوران روس پر معاشی پابندیوں کے باعث اب دنیا کی نظریں دیگر ممالک پر ہیں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ فیضان احمد پچھلے 10 سال سے ماچس بنانے کا کارخانہ چلا رہے ہیں تاہم اُنھوں نے خراب معاشی صورتحال کی وجہ سے کئی یونٹ بند کر کے پیداوار کم کر دی تھی۔ اب انھوں نے نہ صرف اپنی مشینری دوبارہ فعال کر دی ہے بلکہ انڈسٹریل اسٹیٹ میں بند کچھ یونٹ کو شیئرز کی بنیاد پر دوبارہ بحال کر دیا ہے۔ \r آٹھ سال پہلے پاکستان میں ماچس کے ماہانہ پانچ لاکھ کارٹن تیار کیے جاتے تھے جن میں ڈیڑھ لاکھ برآمد کیے جاتے تھے تاہم برآمدات ختم ہونے کے بعد کئی کارخانے بند کیے گئے اور پیداوار ماہانہ ڈیڑھ لاکھ ٹن سے بھی کم ہو گئی جو صرف ملکی ضرریات کو پورا کرنے کے لیے کافی تھی۔\r فیضان احمد کا کہنا ہے کہ 10 برس پہلے ڈیڑھ لاکھ ٹن ماچس بیرونی ممالک برآمد کی جاتی تھی تاہم حکومت کی طرف سے کیمیکل کے درآمدات پر ٹیکس میں اضافہ اور بیرونی منڈیوں تک رسائی میں عدم تعاون کے باعث پاکستان مکمل طورپر اس مقابلے سے باہر ہو گیا۔ انھوں نے کہا کہ پچھلے سال کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا نے 50 کروڑ ڈالر کی ماچس درآمد کی تھی تاہم پاکستان کی ماچس معیار میں انڈیا سے کئی گنا بہتر ہے۔\r انھوں نے کہا کہ ’بیرونی دنیا میں پاکستان کی ماچس کی بہترین مارکیٹ موجود ہے تاہم اس میں حکومت کے تعاون کی ضرورت ہے۔‘ ماچس انڈسٹری کے دوبارہ فغال ہونے سے 15 سے 20 ہزار مزدوروں کو براہ راست دوبارہ روزگار کے مواقع ملے ہیں جبکہ اس کے ساتھ جڑے دیگر شعبوں میں بھی ہزاروں لوگوں کو کمائی کا موقع مل رہا ہے تاہم حاجی نعمت اللہ کا کہنا ہے کہ ملک کو اس وقت ڈالر کی شدید ضرورت ہے اور واحد ماچس کی برآمدات کی وجہ سے ملکی بینکوں کو ڈالر آ رہے ہیں تاہم حکومت اس مد میں مزید تعاون کرے تاکہ اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔\r موجودہ وقت میں افغانستان، تاجکستان اور ازبکستان کے علاوہ کسی دوسرے ملک کو تیار ماچس برآمد نہیں کی جاتی، جس کی بنیادی وجہ تیلی کے سر پر جلنے والا کیمیکل ہے جو بیرونِ ملک سے درآمد کیا جاتا ہے اور یہ کافی مہنگے داموں پاکستان پہنچتا ہے۔ پاکستان سے برآمد کی جانے والے تیلی کو ان ممالک میں مزید مراحل سے گزارا جاتا ہے جس کے بعد یہ مکمل طور پر تیار ہوتی ہے۔ حاجی نعمت اللہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی ماچس کی ان علاقوں میں بہترین مارکیٹ ہے تاہم حکومتی سطح پر آسان تجارتی پالیسیاں نہ ہونے کی وجہ سے ایران، انڈیا اور دیگر ممالک نے اپنی مصنوعات کو کنٹرول کر کے پاکستان کو ایک طرف کر دیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2prrdznr7o", "summary": "بی بی سی نے پاکستان کی سیاست اور معیشت سے تعلق رکھنے والے افراد سے سوال کیا کہ پاکستان اس نہج تک کیسے پہنچا، ان مسائل کا حل کیا ہے اور کیا پاکستان ان مسائل سے کبھی نکل سکے گا؟ ", "title": "پاکستان میں معاشی بدحالی: کیا پاکستان ان مسائل سے کبھی نکل سکے گا؟", "firstPublished": "2023-02-07T04:17:54.250Z", "id": "cv2prrdznr7o", "article": "پاکستان اس نہج تک کیسے پہنچا؟ اس بارے میں سابق وزیرِ خزانہ مِفتاح اسماعیل نے بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ اس خام خیالی میں ہیں کہ اگلے پانچ سال میں پاکستان کا قرض ختم ہو جائے گا۔ مصنف اور محقق عافیہ شہربانو ضیا نے اس بارے میں کہا کہ ’ٹیکس نہ جمع کرنا اس نہج تک پہنچنے کی ایک وجہ ہے۔ درآمدات زیادہ ہیں جبکہ برآمدات کم ہیں۔ جس کے نتیجے میں بیلنس آف پیمنٹ کے مسائل آ جاتے ہیں۔ جس سے مراد یہ ہے کہ ملک کی معیشت مالی ادویات پر چل رہی ہے۔ جس سے مریض کو تھوڑے عرصے کے لیے آرام تو آجاتا ہے لیکن یہ کوئی علاج نہیں۔‘ \r شہربانو کا کہنا ہے کہ ایک واضح اور اجتماعی پالیسی بنانی پڑے گی۔ ’ایک فرد یا ایک ماہر پاکستان کی معیشت کا حل نہیں نکال سکتا۔ آپ کو اتفاق پیدا کرنا ہو گا۔ یہ ایک سیاسی جماعت کا کام بھی نہیں۔‘ ’کوئی ذمہ دار ماہرِ معاشیات اس قابل تو ہو جو آزادانہ طریقے سے تمام تر جماعتوں اور حلقوں کے ساتھ بیٹھ کر اس کا حل نکال سکے اور ہر صوبے و طبقے سے ان کی نمائندگی ہو تاکہ لوگوں کی خواہشات کے مطابق ایمرجنسی معاشی پالیسی بنائی جا سکے۔‘ \r مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ’اس وقت جو بھی آئی ایم ایف کہہ رہا ہے وہ آپ نے ماننا ہے۔ آئی ایم ایف آپ کے ساتھ ٹیبل پر آ جائے گا تو کچھ باتیں آپ بھی منوا سکتے ہیں۔ گیس مہنگی کر لیں، بجلی تھوڑی سی مہنگی ہو گی۔ بجلی میں تھوڑی بہتری لے آئیں۔ ڈالر کو چھوڑ دیں، دیوالیہ ہونے کا خطرہ جیسے ہی کم ہو گا تو ڈالر خود بخود نیچے آ جائے گا۔ میں نے کوشش کی تھی کہ دکانداروں پر ٹیکس لگا دوں جو مجھے نہیں لگانے دیا گیا تھا۔ کوشش کریں کہ دکانداروں پر ٹیکس لگائیں۔ اگر 22 لاکھ دکانداروں میں سے صرف 30 ہزار دکاندار ٹیکس بھر رہے ہیں، تو یہ زیادتی ہے۔ جن سے ٹیکس لے رہے ہیں ان سے تو لیں لیکن اپنا ٹیکس نیٹ مزید وسیع کریں۔ ‘\r ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتے۔ ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں اور دوسری جانب سے بھی جواب آتا ہے اور سیاست میں ایک بہت برا ماحول ہے جو ٹھیک کرنا ہوگا اور اس کے بعد معاشی استحکام لانے کے لیے لوگوں کے ساتھ سچ بولنا پڑے گا۔ اگر آج ہمیں آئی ایم ایف سے قسط مل جاتی ہے تو چھ مہینے بعد کیا ہو گا؟ سال بعد کیا ہو گا؟ ہم پھر اسی مقام پر کھڑے ہوں گے۔ ‘\r ’اگر ہم ماضی سے کوئی بھی سبق سیکھ سکے ہیں تو حل نکل سکتا ہے لیکن یہ کتنا دیرپا حل ہو گا اس کا انحصار آپ کی دور اندیش پالیسی پر ہے۔‘\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgxnyqny1j4o", "summary": "یہ کرنسی اتنی بیش قیمت تھی کہ عالمی دنیا پر اس کا راج تین سو برس تک جاری رہا۔ برطانوی پاونڈ اور امریکی ڈالر کے عروج سے قبل یہی دنیا کی عالمی کرنسی مانی جاتی تھی۔", "title": "وہ عالمی کرنسی جس نے امریکی ڈالر سے قبل تین سو سال تک دنیا پر راج کیا", "firstPublished": "2023-02-06T06:10:58.211Z", "id": "cgxnyqny1j4o", "article": "یہ کرنسی اتنی بیش قیمت تھی کہ عالمی دنیا پر اس کا راج تین سو برس تک جاری رہا۔\r برطانوی پاونڈ اور امریکی ڈالر کے عروج سے قبل یہی دنیا کی عالمی کرنسی مانی جاتی تھی۔\r اس کا نام ’ریال ڈی اوچو‘ تھا اور یہ جدید تاریخ میں بین الاقوامی طور پر استعمال ہونے والی پہلی کرنسی تھی۔\r اس کرنسی کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ہسپانوی طاقت کا زوال شروع ہوا تب بھی یہ کرنسی عالمی دنیا پر حاوی رہی حتیٰ کہ انیسویں صدی کے اختتام تک اس کا سورج غروب ہو گیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ سونے کے سکے، جسے اونزا کہا جاتا تھا، کے ساتھ اس طرح چاندی کا یہ سکہ یورپ میں داخل ہوا اور سب اس بات پر متفق تھے کہ یہ بہت معیاری چاندی تھی۔ 18ویں صدی تک ریاک ڈی اوچا عالمی کرنسی بن چکا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب یورپی طاقتیں ہسپانوی تخت کی لڑاائی میں ایک دوسرے سے نبردآزما تھیں۔\r اس کے بعد ریال کو جدید طرز پر بنایا جانے لگا اور یہ ’دنیا اور سمندروں کی کرنسی‘ کہلائی جانے لگی۔ ان کا کہنا ہے کہ لاطینی امریکہ سے ہر طرف تجارتی راستہ کھلا تھا۔\r یہیں سے یہ سکہ ایشیا تک پہنچا جہاں چین، جاپان اور انڈیا سمیت کئی ممالک نے بھی اسے تسلیم کیا۔\r ہسپانوی سکہ 18ویں اور 19ویں صدی کے دوران پروان چڑھتی ہوئی برطانوی نو آبادیوں میں بھی تسلیم کیا جاتا تھا جہاں اس کا نام ’پلر ڈالر‘ کے طور پر مشہور ہوا جس کی وجہ اس کے ڈیزائن پر موجود ہرکولیس کے پلر تھے تاہم آسٹریلیا میں اسے ’ہولی ڈالر‘ کہا جاتا تھا۔\r ایک بار برطانوی کرنسی کی قلت کی وجہ سے آسٹریلیا کے حکام نے 40 ہزار ہسپانوی سکے درآمد کیے اور ان میں سوراخ کر دیے تاکہ سکوں کی تعداد دوگنی ہو جائے۔ \r اس سکے کو ہسپانوی ڈالر بھی کہا جاتا تھا جو شمالی امریکہ کی کالونیوں میہں بھی مشہور تھا کیوں کہ برطانوی سکوں کے مقابلے میں یہ باآسانی دستیاب ہو جاتے تھے۔ امریکی ڈالر 1785 میں معرض وجود میں آیا لیکن ہسپانوی ڈالر 1857 تک چلتا رہا جب ’کوائنیج ایکٹ‘ کے تحت ہسپانوی سکے کو شمالی امریکہ سے ختم کر دیا گیا۔\r لاطینی امریکہ کی سکوں کی کانیں ہاتھ سے چھن جانے کے بعد سپین زول پذیر ہونے لگا تاہم ریال پھر بھی 19ویں صدی کے اختتام تک ایک عالمی کرنسی کے طور پر زندہ رہا۔\r ماریا روئیز ٹراپیرو نے کرنسی پر اپنی کتاب میں لکھا کہ چین، انڈیا اور مشرق وسطی میں ہسپانوی سکہ بہت اہم مانا جاتا تھا اور یہ صرف امریکی ڈالر کا رول ماڈل ہی نہیں تھا بلکہ کینیڈا کا ڈالر، چین اور کوریا کے علاوہ لاطینی امریکہ کی ریاستوں کی کرنسیوں کی بنیاد بھی یہی سکہ تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy0570mj49do", "summary": "تحقیق کے مطابق آپ جتنا امیر ہوتے جاتے ہیں پیسہ خوشی پر زیادہ فرق نہیں ڈالتا۔ ", "title": "ریاضی کا فارمولا جو بتاتا ہے کہ پیسہ ہمیں کس حد تک خوشی دیتا ہے", "firstPublished": "2023-02-05T15:39:30.523Z", "id": "cy0570mj49do", "article": "ایسا لگتا ہے کہ زیادہ پیسے کا مطلب زیادہ خوشی ہے۔ تاہم ایک بار جب بنیادی ضروریات پوری ہو جائیں تو چیزیں حیران کن طور پر بدل سکتی ہیں۔\r یقیناً اس میں کوئی شک نہیں کہ پیسہ بڑی طاقت رکھتا ہے اور لوگوں کے فیصلوں اور طرز عمل پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ لیکن تحقیق کے مطابق آپ جتنا امیر ہوتے جاتے ہیں پیسہ خوشی پر زیادہ فرق نہیں ڈالتا۔ ڈی نیو نے وضاحت کی کہ زیادہ آمدنی اور زیادہ خوشی کے درمیان تعلق ’لوگارتھمک‘ ہے۔\r لیکن اگر آپ اپنی خوشی اور تندرستی میں اسی سطح کے اضافے کا دوبارہ تجربہ کرنا چاہتے ہیں، تو مزید 20 ہزار کافی نہیں ہوں گے۔ یہ آپ کو خوش کرے گا، لیکن زیادہ نہیں۔\r اس لیے اگر 40 ہزار ڈالر نے آپ کو خوش کیا، اسی حد تک خوشی کا دوبارہ تجربہ کرنے کے لیے آپ اپنی آمدنی کو دوگنا کرکے 80 ہزار ڈالر اور پھر دوبارہ 160 ہزار ڈالر تک لے جائیں۔ اور پھر اس سلسلے کو جاری رکھیں۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ آپ اپنی تنخواہ کو دوگنا کرنے کی کوشش میں مسلسل وقت ضائع کر سکتے ہیں، کم از کم ایک حد سے زیادہ، جس سے آپ کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ برطانیہ کے لیے 120 ہزار پاؤنڈ رقم تقریباً 150 ہزار ڈالر کے برابر بن جاتی ہے۔ بہت سے لوگ آمدنی کی اس سطح تک نہیں پہنچ پاتے ہیں لیکن وہ لوگ جو اس تک پہنچ جاتے ہیں جسے پروفیسر ڈی نیو ’ایک سطح مرتفع‘ کہتے ہیں، جس کے اوپر ’وہ مزید رقم اور زیادہ زندگی کی تسکین کے درمیان اعدادوشمار کے لحاظ سے اہم تعلق کا پتا نہیں لگا سکیں گے۔‘\r ملکی سطح پر دنیا میں خوشی کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک، ڈی نیو نے اس پر روشنی ڈالی کہ ایک زیادہ مساوی معاشرہ باشندوں کی اوسط فلاح و بہبود یا زندگی سے اطمینان کو بلند رکھنے کا ایک اہم عنصر ہے۔\r رپورٹ میں سویڈن، ڈنمارک اور ناروے مسلسل درجہ بندی میں سب سے اوپر نظر آتے ہیں اور پروفیسر نے اشارہ کیا کہ اس کی وجہ دیگر چیزوں کے علاوہ یہ حقیقت ہے کہ فلاحی ریاستیں ’ایک قسم کی نفسیاتی سلامتی‘ فراہم کرتی ہیں جہاں عوام کا حکومتی مالیاتی منصوبوں پر اعتماد ہوتا ہے۔ پیسے کے بارے میں ایک اور دلچسپ نفسیاتی بات یہ ہے کہ ہم پیسہ کمانے سے زیادہ اس کے کھو جانے سے نفرت کرتے ہیں۔\r پروفیسر ڈی نیو کا کہنا ہے کہ تحقیق کے مطابق: ’آمدنی میں کمی یا قوت خرید کے مقابلے میں خوشحالی دو گنا زیادہ حساس ہوتی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0x98v678llo", "summary": "پاکستان میں عموماً گوشت کو ہی غذائیت سے بھرپور تصور کیا جاتا ہے مگر ماہرین کے مطابق دالیں اور سبزیاں بھی پروٹینز کا اچھا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ ", "title": "پاکستان میں مہنگائی کے دور میں گوشت نہیں خرید سکتے تو پروٹین کیسے حاصل کریں؟ ", "firstPublished": "2023-02-05T05:06:35.811Z", "id": "c0x98v678llo", "article": "پاکستان میں شادی بیاہ جیسی خوشی کا موقع ہو یا غم سے جُڑی کوئی سوگوار تقریب، مہمانوں کی خاطر مدارت کے لیے عام طور پر گوشت کی ڈشز کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ انھیں غذائیت سے بھرپور بھی سمجھا جاتا ہے اور ذائقے کی تو کیا ہی بات کی جائے۔ مگر کیا واقعی گوشت میں ایسے پروٹین پائے جاتے ہیں جن کا نعم البدل دال یا سبزیاں نہیں ہو سکتیں یا گوشت کے مقابلے میں دال سبزی کے ارزاں نرخوں نے ان کی اصل قدر و قیمت اور فائدوں کو گوشت خوروں کی نظر سے اوجھل کر رکھا ہے۔ \r تو آئیے ماہر غذائیت سے یہ جان لیتے ہیں کہ کیا واقعی گوشت کا متبادل سبزیاں اور دالیں بن سکتی ہیں یا اس کے لیے کچھ مزید بھی اپنی خوراک میں شامل کرنا ہو گا جوغذائیت کے لحاظ سے گوشت کا نعم البدل بھی ہو اور ہمیں چست و توانا رہنے کے لیے مکمل توانائی بھی فراہم کر سکے۔ \r ماہرین کے مطابق گوشت میں موجود پروٹینز کو ایک مکمل پروٹین سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں ہمارے جسم کو مطلوب امائینو ایسڈ (پروٹین کے بلڈنگ بلاکس) کی اچھی مقدار موجود ہوتی ہے۔ لیکن کیا یہ تناسب ہم دالوں اور سبزیوں سے بھی پورا کر سکتے ہیں تو ہاں ایسا بآسانی ممکن ہے کیونکہ مختلف اجناس سے مختلف پروٹینز حاصل کر کے ہم گوشت کا صحیح متبادل پا سکتے ہیں۔\r ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ تمام قسم کی دالیں اور بینز پروٹین کے بہت اچھی ذرائع اور گوشت کے متبادل ضرورہیں تاہم صحت مند جسم اور دماغ کے لیے ہمیں کچھ اضافی چیزوں کا خیال رکھنا ہوگا جیسے فائدے مند فیٹ (چکنائی) اور وٹامن بی 12 کا حصول جو اعصابی نظام کو فعال رکھنے میں معاون ہیں، اور یہ ہمیں پودوں کے ذریعے نہیں مل سکتا۔\r ’وٹامن بی 12 پلانٹ سورسز یعنی دالوں لوبیا اور چنے اور سبزیوں میں نہیں پایا جاتا لیکن یہ ہمارے نروس سسٹم کے لیے بہت ضروری ہے تو جو لوگ گوشت نہ کھائیں وہ وٹامن بی 12 کی ضرورت کو دودھ اور انڈے سے پورا کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اپنی خوراک میں روزانہ کم از کم ایک گلاس دودھ یا ایک کپ دہی کا ضرور شامل کریں۔‘ ماہرین کے مطابق گوشت کے متبادل پر جانے کے ساتھ ہمیں فیٹس یعنی فائدے مند چکنائی کا حصول بھی ترجیحات میں شامل کرنا ہو گا جو مختلف بیجوں سے ہمیں بآسانی حاصل ہو جاتی ہیں۔ \r ’فولاد حاصل کرنے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ سبزی کے ساتھ انتہائی معمولی مقدار میں گوشت ملا کر پکایا جائے اس سے سبزی اور گوشت (ہیم اور نان ہیم) دونوں سے حاصل شدہ آئرن پر مشتمل کھانا وہ توانائی دیتا ہے جو آسانی سے جذب ہو کر خون کا حصہ بنتا ہے۔‘ \r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cledglp5xpvo", "summary": "یہ 18 سالہ نوجوان لڑکی اتنا بڑا انعام جیتنے والی اب تک کا سب سے کم عمر کینیڈین بن گئیں ہیں۔\n", "title": "لڑکی نے پہلی بار لاٹری ٹکٹ خریدا اور جیک پاٹ نکل آیا", "firstPublished": "2023-02-05T01:19:30.994Z", "id": "cledglp5xpvo", "article": "جولیٹ لیمور نامی کینیڈا کی نوجوان لڑکی جس نے پہلی مرتبہ ہی لاٹری ٹکٹ خریدا اور اس کا لوٹو جیک پاٹ نکل آیا، انھوں نے سمجھداری کا مظاہر کرتے ہوئے بقول ان کے اپنے مالیاتی مشیر یعنی والد سے رابطہ کیا۔ \r یہ 18 سالہ نوجوان لڑکی اتنا بڑا انعام جیتنے والی اب تک کا سب سے کم عمر کینیڈین بن گئیں ہیں۔\r عموماً اچانک ناقابل تصور دولت سے مالا مال بہت سے نوجوان بے ہنگم ہو جاتے ہیں، جولیٹ نے اپنے قدم جمانے کا فیصلہ کیا۔ \r یونیورسٹی کی یہ طالبہ پہلے اپنی پڑھائی ختم کرکے ڈاکٹر بننے کا ارادہ رکھتی ہیں۔\r وہ کہتی ہیں ’میں رو رہی تھی، یقیناً خوشی کے آنسوؤں سے ۔‘ \r ’مجھے اب بھی یقین نہیں آرہا کہ میں نے اپنے پہلے ہی لاٹری ٹکٹ پر جیک پاٹ حاصل کیا۔ ‘\r جولیٹکا کہنا تھا کہ وہ لاٹری ٹکٹ کے بارے میں سب کچھ بھول چکی تھیں جب تک انھیں یہ خبر نہیں ملی کہ ان کے آبائی شہر سے کسی نے سات جنوری کی قرعہ اندازی جیت لی ہے۔\r ’میرے ساتھ کام کرنے والا ایک ساتھی بے یقینی سے گھٹنوں کے بل گر گیا۔‘\r ان کا کہنا تھا ’وہ چیخ رہا تھا۔ درحقیقت، ہر کوئی چیخ رہا تھا کہ میں نے 48 ملین ڈالر جیتے ہیں۔‘\r جولیٹ نے کہا کہ وہ اپنے پیسوں کا انتظام سنبھالنے والے والد کی مدد سے جیک پاٹ کی زیادہ تر رقم کو ’احتیاط سے‘ خرچ کریں گی۔\r درحقیقت، ان کے والد پہلے ہی انھیں بہترین مالی مشورہ دے چکے ہیں، یہ لوٹو لاٹری خریدنے کا ان کا مشورہ ان ہی کا تھا۔\r جولیٹ کا ارادہ ہے کہ وہ گرانٹس یا قرضوں کی فکر کیے بغیر ڈاکٹر بننے کے اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے کچھ رقم لگائیں۔\r انھوں نے کہا کہ وہ طب کے شعبے میں جا کر اپنی کمیونٹی کی خدمت کرنے کے لیے شمالی اونٹاریو واپس جانا چاہتی ہے۔\r لیکن جولیٹ جیک پاٹ کی جیت کے ساتھ تھوڑا مزہ کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔\r انھوں نے کہا ’ایک بار سکول ختم ہونے کے بعد، میں اور میرا خاندان کسی ایک براعظم کا انتخاب کریں گے اور اس کی سیر کو جائیں گے۔‘ \r ’میں مختلف ممالک کی سیر کرنا چاہتی ہوں، ان کی تاریخ اور ثقافت کا مطالعہ کرنا چاہتی ہوں، ان کا کھانا چکھنا چاہتی ہوں، اور ان کی زبانیں سننا چاہتی ہوں۔‘\r وہ اپنے پیاروں کے مشوروں پر عمل کرنے کی بھی امید کر رہی ہے۔ \r ان کا کہنا تھا ’پیسہ آپ کی پہچان نہیں، کام ہے جو آپ پہچان ہوتا ہے۔‘\r "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c06zjp75vpeo", "summary": "آئی ایم ایف 190 رکن ممالک پر مشتمل ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو عالمی معیشت کو مستحکم کرنے کی کرتا ہے۔ جو ملک جتنا امیر ہو، وہ سبسکرپشن کے لیے اتنے زیادہ پیسے دیتا ہے جبکہ کم آمدنی والے ممالک کو صفر شرح سود پر قرض دیے جاتے ہیں۔ ", "title": "آئی ایم ایف کیا ہے اور یہ پاکستان جیسے معاشی مشکلات کے شکار ممالک کو قرض کیوں دیتا ہے؟", "firstPublished": "2023-02-03T05:28:42.538Z", "id": "c06zjp75vpeo", "article": "آئی ایم ایف نے پاکستان کو دیے جانے والے قرض کی قسط کو روک رکھا ہے اور حکومت سے ٹیکس اکھٹا کرنے کے حوالے سے سخت مطالبات رکھے ہیں جن پر گفت و شنید اب جاری ہے۔ آئی ایم ایف 190 رکن ممالک پر مشتمل ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔ یہ سب مل کر عالمی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔\r سبسکرپشن کے لیے جو ملک جتنا امیر ہوتا ہے، اسے اتنے زیادہ پیسے ادا کرنے ہوتے ہیں۔\r رکن ممالک کو دینے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس کل رقم ایک ٹریلین ڈالر ہے۔ اکثر آئی ایم ایف کو قرض کے حصول کا ’آخری راستہ‘ سمجھا جاتا ہے۔ معاشی بحران سے متاثرہ کسی بھی ملک کی آخری امید آئی ایم ایف سے امیدیں وابستہ کرتا ہے۔\r ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرِ معیشت بنجامن فریڈمین کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے اثرات کا تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ جاننا ناممکن ہے کہ ’آیا اس کی مداخلت نے کسی ملک میں معاملات کو بہتر بنایا ہے یا بدتر اور اس کا متبادل کیا ہو سکتا تھا۔‘\r آئی ایم ایف قرض دیتے ہوئے بعض اوقات رکن ممالک پر سختیاں عائد کرتا ہے جن پر یہ کہہ کر تنقید کی جاتی ہے کہ یہ ضرورت سے زیادہ مشکل ہیں۔\r ناقدین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے اصرار پر یونان کی کم خرچہ کرنے کی پالیسی سخت تھی جس نے ملک کی معیشت اور معاشرے دونوں کو نقصان پہنچایا۔ آئی ایم ایف کے آغاز کے بعد سے عمومی طور پر ادارے کا سربراہ یورپی ہوتا ہے جبکہ عالمی بینک کی صدارت امریکی شہری کے پاس رہتی ہے۔\r اس کانفرنس میں عالمی معاشی معاملات کے ساتھ ساتھ ایک مستحکم ایکسچینج ریٹ کا نظام بنانے اور جنگ سے متاثرہ یورپی ممالک کی معیشت کو بحال کرنے پر بات چیت ہوئی تھی۔\r ان مقاصد کو پورا کرنے کے لیے عالمی بینک اور آئی ایم ایف معرض وجود میں آئے۔\r پاکستان کی آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت کے بارے عالمی ادارے کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی تک 23 پروگرام ہوئے اور پہلا پروگرام دسمبر 1958 میں طے پایا جس کے تحت پاکستان کو ڈھائی کروڑ ڈالر دینے کا معاہدہ طے ہوا۔\r ترقیاتی بینکوں کے برعکس آئی ایم ایف کسی مخصوص پراجیکٹ کے لیے قرض نہیں دیتا۔ اس کا مقصد ملکوں کو معاشی بحران میں مالی معاونت فراہم کرنا ہے۔ ایسے میں معاشی استحکام اور پیداوار کے لیے پالیسیوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جاتا ہے۔ کسی ملک میں معاشی بحران کی وجہ بیلنس آف پے منٹ کرائسس (یعنی ادائیگیوں میں عدم توازن) ہوسکتی ہے جس میں ایک ملک کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنا غیر ملکی قرض ادا کر سکے یا درآمدات حاصل کرسکے۔\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cz9pd6xr9qdo", "summary": "ورلڈ بینک کے مطابق دسمبر 2021 سے اکتوبر 2022 تک طالبان حکومت نے ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ ٹیکس اکھٹا کیا جو اس سے پہلے دو سال کے اسی عرصے میں اکھٹا ہونے والے ٹیکس سے زیادہ ہے۔", "title": "ٹیکس، زکوٰۃ اور منشیات: افغانستان میں طالبان حکمران اپنے ملک کی معیشت کیسے چلا رہے ہیں؟", "firstPublished": "2023-02-03T03:53:55.267Z", "id": "cz9pd6xr9qdo", "article": "عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 368 ملین ڈالر جی ڈی پی کے ساتھ افغانستان دنیا کے سب سے غریب ممالک میں شمار ہوتا ہے۔\r ملک کی تقریباً آدھی آبادی، یعنی چار کروڑ سے زیادہ افراد، کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ یہ اعداد و شمار دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق افغانستان میں غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد میں گذشتہ سال کے مقابلے میں 11 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔\r اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان حکومت نے زیادہ ٹیکس اکھٹا کرنا شروع کیا ہے۔ \r کینیڈین محقق گریم سمتھ نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان نے پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے جو ان سے پہلے دہائیوں تک کوئی اور نہیں کر سکا تھا اور اس سے انھیں زیادہ ٹیکس اکھٹا کرنے میں مدد ملی ہے۔ \r ورلڈ بینک کے مطابق دسمبر 2021 سے اکتوبر 2022 تک طالبان حکومت نے ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ ٹیکس اکھٹا کیا جو اس سے پہلے دو سال کے اسی عرصے میں اکھٹا ہونے والے ٹیکس سے زیادہ ہے۔\r طالبان حکومت نے ملک بھر میں ٹیکس اکھٹا کرنے کا ہفتہ منانے کے رواج کا بھی آغاز کیا ہے۔ سنہ 2021 میں اقتدار سنبھالنے سے پہلے بھی طالبان اپنے زیر اثر علاقوں سے یہ ٹیکس وصول کیا کرتے تھے۔ طالبان حکومت کے پہلے سال میں کوئلے کی فروخت میں 20 فیصد اضافہ ہوا جو حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تقریبا روزانہ 10 ہزار ٹن کے قریب ہے۔ \r ایک حالیہ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق کوئلے کی برآمد میں اضافے کی وجہ سے افغانستان کی سالانہ برآمدات میں مجموعی طور پر 90 فیصد اضافہ ہوا جو 1.7 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہیں۔\r اس کا 65 فیصد حصہ پاکستان جاتا ہے جو افغان ٹیکسٹائل اور زرعی مصنوعات کی بھی اہم منزل ہے جبکہ 20 فیصد انڈیا جاتا ہے۔\r سنہ 2021 تک افغانستان میں 126 چھوٹی کانیں موجود تھی اور طالبان کی وزارت معدنیات اور تیل کے مطابق ایک سال میں اس تعداد میں 60 کانوں کا اضافہ ہوا ہے جبکہ متعدد نئے معاہدے بھی کیے جا رہے ہیں۔\r رواں ماہ طالبان حکومت نے اعلان کیا کہ وہ چینی کمپنی کے ساتھ تیل نکالنے کا معاہدہ کرنے والے ہیں جو اب تک کا سب سے بڑا بیرونی معاہدہ ہو گا۔ جولائی میں امریکہ کی حکومت نے ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق طالبان حکومت منشیات پر پابندی کے اعلان پر قائم ہے اگرچہ اس فیصلے کے بعد انھیں کسانوں اور منشیات کے کاروبار میں ملوث دیگر افراد کی حمایت کھونے کا خدشہ ہے۔\r علی حسینی کا کہنا ہے کہ اس کاشت سے اکھٹا ہونے والا پیسہ ماضی کی حکومت کے برعکس حکومتی خزانے میں پہنچا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czky7k10l2po", "summary": "گزشتہ برس موجودہ حکومت کے پہلے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے فارغ ہونے کے بعد اسحاق ڈار نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا تو آئی ایم ایف پروگرام اس وقت معطل ہو گیا جب ان کی جانب سے شرائط پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ مگر اس پالیسی کا نقصان پاکستان کو کس طرح اٹھانا پڑا؟", "title": "آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کا امکان: لیکن اسحاق ڈار کی معاشی پالیسی سے پاکستان کو کتنا نقصان ہوا؟", "firstPublished": "2023-02-02T05:35:56.931Z", "id": "czky7k10l2po", "article": "پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا حالیہ پروگرام گذشتہ سال ستمبر کے مہینے میں معطل ہو گیا تھا جس کی وجہ پاکستان کی جانب سے اس پروگرام سے منسلک شرائط پر عمل درآمد نہ کرنے کو قرار دیا گیا۔\r چار مہینے کے بعد پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قرضہ پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات کا آغاز تو ہو گیا تاہم اس پروگرام سے جڑی ہوئی شرائط پر پاکستان کی جانب سے عمل درآمد کی صورت میں ملک میں مہنگائی کی ایک نئی لہر آنے کے خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے جو جنوری کے مہینے میں 27.6 فیصد کی شرح سے بڑھی۔ یہ شرح ملک میں 47 سالوں میں مہنگائی کی بلند ترین سطح ہے۔\r گزشتہ برس موجودہ حکومت کے پہلے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے فارغ ہونے کے بعد اسحاق ڈار نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا تو آئی ایم ایف پروگرام اس وقت معطل ہو گیا جب ان کی جانب سے آئی ایم شرائط پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ ان میں سب سے بڑی شرط ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ فورسز پر چھوڑنا تھا۔ اسحاق ڈار کی جانب سے ڈالر کے ریٹ کو مصنوعی طور پر روکا گیا تو اس کے ساتھ ساتھ پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کو بھی فوری طور پر نہیں بڑھایا گیا جب کی دوسری جانب گیس اور بجلی کے شعبوں کے گردشی قرضوں کو ختم کرنے کے لیے ان کے نرخوں میں اضافہ نہ کرنے سے بھی پروگرام تعطل کا شکار ہو گیا۔\r انھوں نے کہا کہ ’اگر آئی ایم ایف پروگرام جاری رہتا تو پاکستان کو ان قرضوں کی مؤخر ادائیگیوں کی سہولت بھی مل جاتی جو پروگرام کے معطل ہونے سے پاکستان کو ادا کرنے پڑے مثلاً متحدہ ارب امارات کے تجارتی بینک کو ادا کیے جانیوالے 1.1 ارب کے ری شیڈول ہونے کی سہولت مل جاتی اور اسی طرح چین کو واپس کیے جانے والے 50-70 کروڑ ڈالر کی ادائیگی کی ری شیڈولنگ میں بھی گنجائش مل جاتی جو پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر کے لیے بہتر رہتے اور اس کے ساتھ دوسری ان فلوز بھی پاکستان میں آتے۔‘\r آئی ایم ایف کی شرائط کے بارے میں ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ ’پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کی سب سے بڑی شرط پر تو پہلے سے عمل درآمد کر دیا گیا جب پاکستان نے ایکسچینج ریٹ کو گزشتہ ہفتے مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے کی پالیسی کا خاتمہ کیا۔‘\r آئی ایم ایف کی جانب سے شرائط میں کسی نرمی کی توقع کے بارے میں ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ ’بین الاقوامی ادارہ پہلے ہی نرمی دکھا چکا ہے جب اس نے سیلاب کے بعد اٹھنے والے اضافی پانچ سو سے ساڑھے پانچ سو ارب روپے سے بجٹ خسارے کے بڑھنے کو قبول کیا کہ ایمرجنسی حالات کی وجہ سے پاکستان کو یہ اضافی اخراجات کرنا پڑے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/pakistan-64494364", "summary": "انٹربینک مارکیٹ میں مسلسل دوسرے روز ڈالر کی قدر میں کمی کا رجحان جاری ہے، جمعرات کو ٹریڈنگ کے آغاز پر ڈالر مزید تین روپے 33 پیسے سستا ہو کر 270 روپے کی سطح پر آگیا ہے۔", "title": "ڈالر کی قدر میں مسلسل دوسرے روز کمی، انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 270 کا ہو گیا", "firstPublished": "2023-02-02T03:48:44.000Z", "id": "7585a925-4f94-44e3-81fa-bc2344635b87", "article": "انٹربینک مارکیٹ میں مسلسل دوسرے روز ڈالر کی قدر میں کمی کا رجحان جاری ہے، جمعرات کو ٹریڈنگ کے آغاز پر ڈالر مزید تین روپے 33 پیسے سستا ہو کر 270 روپے کی سطح پر آگیا ہے۔ شیخ رشید کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوٹس کو معطل کیا پھر بھی ایف آئی آر درج کی گئی، درخواست گزار نے کہا شیخ رشید نے جس سازش کا ذکر کیا ہے اس پر شیخ رشید سے تحقیقات کروائی جائے ، جو دفعات ایف آئی آر میں لگائی گئی وہ دفعات وفاقی یا صوبائی حکومت لگا سکتی ہے، کوئی شہری درج نہیں کروا سکتا۔ جج نے شیخ رشید کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا پولیس نے شیخ\nرشید کو معلومات کے حوالے سے تفتیش کرنے کے لیے بلایا؟ جس پر شیخ رشید کے وکیل سردار عبدالرازاق نے کہا کہ انفارمیشن\nپولیس ریکارڈ میں موجود ہے جو شیخ رشید نے شئیر کر دی ہے۔ جج نے ریمارکس دیے کہ ’پولیس نے نوٹس بھیجا اور نوٹس\nمیں نہ آپ کو ملزم کہا گیا نہ ہی ایف آئی آر کا ذکر کیا گیا۔ آپ پولیس کے سامنے پیش\nہونے کے بجائے ہائیکورٹ چلے گئے۔‘ انٹربینک مارکیٹ میں مسلسل دوسرے روز ڈالر کی قدر میں کمی\nکا رجحان جاری ہے، جمعرات کو ٹریڈنگ کے آغاز پر ڈالر مزید تین روپے 33 پیسے سستا\nہو کر 270 روپے کی سطح پر آگیا۔ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق انٹر بینک\nمارکیٹ میں روپے کی قدر میں تین روپے 33 پیسے کا اضافہ دیکھا گیا، جس کے بعد ڈالر 270\nروپے کا ہو گیا ہے، جو گذشتہ روز 273 روپے 33 پیسے پر بند ہوا تھا۔ گذشتہ چار روز کے دوران روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں\nچھ روپے 58 پیسے کی کمی آئی ہے۔ سرکاری سطح پر جاری کردہ بیان کے مطابق اس ملاقات میں ’دونوں صوبوں کے درمیان بالخصوص تعلیم کے شعبے میں رابطے کو مزید بڑھانے پر زور دیا گیا۔ دونوں ہم منصب نے خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر پر تشویش کا اظہار کیا۔‘ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے پیر\nکو ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ ’وزیر اعظم شہباز شریف کی دہشتگردی کے مسئلے پر\nبلائی گئی اے پی سی سات فروری کے بجائے نو فروری جمعرات کو اسلام آباد میں منعقد\nہو گی جس میں ملک کی تمام قومی و سیاسی قیادت کو مدعو کیا گیا ہے۔‘ یاد رہے 30 جنوری کو پشاور کی پولیس لائنز کی مسجد میں دہشت گردی کے واقعے\nمیں 101 افراد کی ہلاکت کے بعد دہشت گردی سمیت اہم قومی اہمیت کے مسائل و معاملات\nپر غور و فکر اور اتفاق رائے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا\nتھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyry6y3083eo", "summary": "بنگلہ دیش کسی زمانے میں جنوبی ایشیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت تھا اور صرف دو ہی سال قبل بنگلہ دیش نے جی ڈی پی کے معاملے میں انڈیا کو مات دی تھی۔", "title": "معاشی ترقی میں انڈیا کو پچھاڑنے والا بنگلہ دیش آئی ایم ایف سے مدد مانگنے پر کیوں مجبور ہوا؟", "firstPublished": "2023-02-01T07:48:28.986Z", "id": "cyry6y3083eo", "article": "لیکن بنگلہ دیش کسی زمانے میں جنوبی ایشیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت تھا اور صرف دو ہی سال قبل بنگلہ دیش نے جی ڈی پی کے معاملے میں انڈیا کو مات دی تھی۔\r پروفیسر تیتومیر کہتے ہیں ’بنگلہ دیش کی جی ڈی پی اور ٹیکس کا تناسب جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ یہ بنگلہ دیش کی معیشت کا بنیادی مسئلہ ہے۔ افغانستان کے بعد بنگلہ دیش میں جی ڈی پی-ٹیکس کا تناسب سب سے کم ہے۔‘\r کورونا کی وبا اور پھر روس یوکرین جنگ جیسے بیرونی عوامل نے بنگلہ دیش کی معیشت کو براہ راست متاثر کیا اور یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کی معیشت جو کبھی تیزی سے ترقی کر رہی تھی، اب مشکلات کا شکار نظر آتی ہے۔\r اکتوبر 2020 میں یہ اندازے سامنے آئے تھے کہ بنگلہ دیش فی کس جی ڈی پی کے لحاظ سے 2021 میں انڈیا کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ جولائی 2021 میں بنگلہ دیش نے جی ڈی پی کی شرح نمو کے لحاظ سے انڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ \r بنگلہ دیش کی جی ڈی پی 1960 میں 4 بلین ڈالر تھی۔ سال 2021 میں یہ ہندسہ 416 بلین ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ یعنی 50 سالوں میں بنگلہ دیش کی معیشت میں 100 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا لیکن کورونا کی وبا اور یوکرین کی جنگ کا بنگلہ دیش کی معیشت پر براہ راست اثر پڑا۔\r بنگلہ دیش کپڑے کی برآمدات سے ادائیگی کا توازن برقرار رکھتا تھا۔ یہ زیادہ تر یورپی ممالک اور ترقی یافتہ ممالک میں کپڑے بھیجتا ہے۔ لیکن وبائی امراض اور جنگ نے ان منڈیوں کو بھی متاثر کیا اور بنگلہ دیش کی ملبوسات کی برآمدات میں کمی آئی۔ بنگلورو میں کرائسٹ چرچ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور انڈیا-بنگلہ دیش تعلقات کے ماہر ڈاکٹر راجیب کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش کی معیشت اب اتنی خراب نہیں ہے کہ اس کا سری لنکا کی معیشت سے موازنہ کیا جائے۔ بنگلہ دیش دو سال تک سب سے تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔‘\r بنگلہ دیش انڈیا کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے اور انڈیا کے کئی شعبے بنگلہ دیش پر منحصر ہیں۔\r تجزیہ کار بنگلہ دیش کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کو انڈیا کے لیے جنوبی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ایک موقع کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔\r ڈاکٹر راجیب کہتے ہیں ’اس کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اگر بنگلہ دیش کی معیشت خراب ہوتی ہے، تو انڈیا کو جنوبی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع مل سکتا ہے جس طرح سری لنکا میں چین کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا اور پھر انڈیا نے مدد کی اور اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ اسی طرح اگر انڈیا چاہے تو بنگلہ دیش میں بھی ایسا کر سکتا ہے۔‘\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cmlv3mn3pjko", "summary": "گندم، پیٹرول، ڈالر، چاول اور کوکنگ آئل جیسے پراڈکٹس کی قیمتیں حالیہ عرصے میں بڑھی ہیں مگر شاید کچھ لوگ سموسے اور دیگر سنیکس کے مہنگے ہونے پر معاشی صورتحال کا بہتر اندازہ لگا پاتے ہیں۔", "title": "پاکستان میں سموسہ کہیں 40 کہیں 50 روپے کا: ’دلی آ جائیں یہاں 15 روپے کا ہے‘", "firstPublished": "2023-02-01T04:49:52.320Z", "id": "cmlv3mn3pjko", "article": "بہت سے صارفین اب سوشل میڈیا پر ایسی سٹریٹ فوڈ یا سنیکس کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں جو پچپن میں تو جیب خرچ میں آرام سے آ جاتی تھی مگر اب ان کے دام حیرت انگیز طور پر زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ تاہم کچھ صارفین نے انعم کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ ان کے شہر یا علاقے میں سموسہ اب اس سے بھی مہنگا ہو گیا ہے جبکہ کچھ نے پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جبکہ سموسہ صرف پانچ یا دس روپے کا ہوا کرتا تھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ گندم، پیٹرول، ڈالر، چاول اور کوکنگ آئل جیسے پراڈکٹس کی قیمتیں حالیہ عرصے میں بڑھی ہیں مگر شاید کچھ لوگ سموسے اور دیگر سنیکس کے مہنگے ہونے پر معاشی صورتحال کا بہتر اندازہ لگا پاتے ہیں۔ سموسے یا پکوڑے عام طور پر گھروں یا دفتروں میں چائے کے ساتھ کھانے کی روایت ہے جبکہ بازاروں میں خریداری کے لیے آئے افراد کے لیے ’سموسہ پلیٹ‘ یا ’سموسہ چاٹ‘ کھانے کی روایت خاصی پرانی ہے۔ پاکستان میں اس وقت معاشی اعتبار سے مزید سخت فیصلے لیے جانے کا امکان ہے اور آنے والے دنوں میں مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے۔ ایسے میں رمضان میں سموسوں کی قیمت بھی مزید اضافہ ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔ سموسے عموماً تہواروں کے موقع پر بھی اور خصوصاً رمضان میں افطار کے موقع پر بازار سے منگوائے جاتے ہیں اور گھروں پر بھی بنائے جاتے ہیں۔ شاید سموسوں سے جڑی یادوں کے باعث ان کے مہنگے ہونے پر اکثر صارفین نے افسوس کا اظہار کیا۔ سموسے عام طور تیل میں تلے جاتے ہیں جس کی قیمت پاکستان میں گذشتہ کئی ماہ کے دوران بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح اگر آلو والا سموسہ ہے تو آلو کی قیمت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور اس میں شامل کیے جانے مصالحے میں بھی۔ تاہم اس دوران ایسے انڈین صارفین نے جلتی پر تیل کا کام کیا جنھوں نے بتایا کہ ان کے ہاں تو سموسے 10 یا 15 روپے کے ہی ملتے ہیں۔ ایک صارف نے ریٹ بڑھنے کے ساتھ سموسے کا سائز کم ہونے کا شکوہ بھی کیا جب ایک نے پوچھا کہ کیا اس میں ’پیٹرول شامل کیا جاتا ہے جو یہ اتنا مہنگا ہے۔‘ پیکٹ والے بسکٹس اور چپس کے مہنگے ہونے پر ایک صارف نے لکھا کہ ’دس والی لیز 20 روپے میں۔ نوڈلز دن بدن چھوٹے ہوتے جا رہے۔ 10 روپے کے پرنس بسکٹ میں صرف دو بسکٹ۔ چاکلیٹس کی تو بات نہ کرے کوئی۔ مجھے نہیں رہنا یہاں۔‘ کچھ صارفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک کو مہنگائی کی ایک مخصوص شکل ’شرینک فلیشن‘ کا بھی سامنا ہے جس میں پیکچ پراڈکٹس کی قیمت اگر برقرار رہے تو ان کی مقدار اور سائز کم کر دیے جاتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0vpe3q1yr5o", "summary": "’کانٹے بوئے ببول کے تو آم کہاں سے کھائے۔‘ اب جب کانٹوں کی فصل تیار ہے تو ہاتھ کون لگائے۔ کانٹے بونے والے دامن بچا رہے ہیں اور تیار کرنے والے ہاتھ۔ ", "title": "ریاست یا سیاست؟ عاصمہ شیرازی کا کالم", "firstPublished": "2023-01-31T07:35:59.179Z", "id": "c0vpe3q1yr5o", "article": "’کانٹے بوئے ببول کے تو آم کہاں سے کھائے۔‘ اب جب کانٹوں کی فصل تیار ہے تو ہاتھ کون لگائے۔ کانٹے بونے والے دامن بچا رہے ہیں اور تیار کرنے والے ہاتھ۔  بات کہاں سے شروع کی جائے اور کہاں ختم؟ قصوروار کون ہے اور سزاوار کون؟ گناہ کس کے ہیں اور سنگسار کون؟ چند کریں اور سب بھریں ایسا کیوں؟  ستم سا ستم ہے کہ دوست مُنہ موڑ گئے ہیں۔ ایسا کیا ہوا کہ محض تین برسوں میں خوشی خوشی اربوں ڈالر کے قرض کی دیا دینے والے شرائط پر اَڑ بیٹھے ہیں؟ برادرانہ تعلقات کا دم بھرنے والے شکار گاہ سے ہی نکل لیے، ہمالیہ سے اونچی دوستی کا دعویٰ کرنے والے ناک ہی اونچی کر بیٹھے، سمندروں سے گہرا درد رکھنے والے ہمارے درد کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ یہ بات اب زبان زد عام ہے کہ ’تبدیلی‘ کا بیج بونے سے پہلے ایسے کھلیان تیار کیے گئے کہ جہاں خوابوں کی فصل اور سپنوں کی منڈی سجائی گئی، صادق اور امین سیٹ اپ سے توقعات ہی توقعات وابستہ کی گئیں اور عطیات کو بنیاد بنا کر معاشیات کی عمارت کھڑی کی گئی۔ نتیجہ کیا نکلنا تھا سوائے ’قرض‘ بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ گذشتہ چند سالوں میں جو معیشت گردی ہوئی اس کے پیچھے کون ہے؟ جب تک اس کا پتہ نہیں چلایا جائے گا حل نہیں نکلے گا۔ بات کچھ یوں ہے کہ اس وقت خالی بنک کو ڈالرز کی سخت ضرورت ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر تین اعشاریہ چھ بلین کی کم ترین سطح پر بتائے جا رہے ہیں اور آئی ایم ایف ہنٹر لے کر پیچھے کہ چھ سو ارب پیدا کرو۔ حالات مگر بے حد سنگین ہیں۔ ہمیں فوری طور پر گرتی معیشت کو سنبھالنا ہے اور اس کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کو ماننا ہے۔ آئی ایم ایف کے شرائط پر عملدرآمد سیاسی بحران کو جنم دے سکتی ہے، عوام میں اضطراب فزوں تر ہو سکتا ہے جس کی نشاندہی کئی ایک عالمی ادارے کر چکے ہیں، ایسے میں عام انتخابات کے امکانات معدوم ہو رہے ہیں۔ ریاست کو آئینی پیرائے میں رہ کر چند سخت فیصلے کرنا پڑ سکتے ہیں اور اُس کے لیے قومی مصالحت کی بہرحال ضرورت ہے۔ معیشت کے بارے فیصلوں سے قبل قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور ریاست کو بھی اپنے اخراجات میں کمی کر کے عوام کو یقین دلانا ہو گا کہ صرف وہ اس چکی میں نہیں پس رہے بلکہ اشرافیہ بھی قربانی دینے کو تیار ہے۔ بدقسمتی سے جو حکومت اب تک بازار جلد بند کرانے کے فیصلے پر عملدرآمد سے ہچکچا رہی ہے اُسے قومی اداروں کو اعتماد دینا ہو گا، ان سب اقدامات کے لیے مصالحت کی ضرورت ہے اور مصالحت کے لیے مفادات کو پسِ پُشت ڈالنا ہو گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czvevlw02e5o", "summary": "پاکستان میں گذشتہ چند روز سے ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافے کے بعد اسحاق ڈار کی جانب سے دیا گیا متنازع بیان عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔", "title": "اسحاق ڈار کا متنازع بیان: ’یہ باضابطہ طور پر نااہلی کا اعلان ہے، اب ہمارا ملک اللہ کے ہاتھ میں ہے‘", "firstPublished": "2023-01-28T06:28:05.651Z", "id": "czvevlw02e5o", "article": "رواں ہفتے ڈالر کی قیمت پر لگے ’مصنوعی کیپ‘ کے ہٹنے کے بعد سے ڈالر کی قدر میں تیزی سے ہونے والے اضافے کا جو سلسلہ شروع ہوا اس کے بعد جمعے کے روز انٹر بینک میں ایک ڈالر کی قیمت لگ بھگ 262 روپے ہو گئی ہے۔ ایسے میں وزیر حزانہ اسحاق ڈار کے مہنگائی اور معاشی ترقی سے متعلق حالیہ بیان نے عوام کے گویا زخموں پر نمک پاشی کر دی ہے۔ اسحاق ڈار نے جمعے کے روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہنگائی کا ذمہ دار گذشتہ حکومت کو ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستان کی حفاظت، ترقی اور خوشحالی اللہ کے ذمے ہے۔‘ وزیر خزانہ کے اس بیان کے ساتھ ہی سوشل میڈیا صارفین کی توپوں کا رُخ اسحاق ڈار کی طرف ہوا اور ان کے خلاف تنقید کا سلسلہ آج سنیچر کے روز بھی تھم نہیں سکا۔ کئی صارفین نے نہ صرف اسحاق ڈار کے حالیہ بیان پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے بلکہ انھیں معیشت کی باگ ڈور دوبارہ تھما دینے کے حکومتی فیصلے کو ایک بار پھر غلط قرار دیا ہے۔ صحافی خرم حسین نے لکھا کہ ’وہ ( اسحاق ڈار) ڈالر کو 200 سے نیچے لانے کے عزم کے ساتھ آئے اور ملکی تاریخ میں روپے کی قدر کی سب سے بڑی کمی کا سبب بنے۔‘ اسحاق ڈار نے گذشتہ روز کہا تھا کہ پانچ سال میں پاکستان کی معیشت تباہ کی گئی مگر اتحادی جماعتوں کی حکومت اگلے عام انتخابات تک بہتری لانے کی خواہاں ہے۔ گرین لائن ٹرین کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ ’یہی وہ ملک تھا جس کے بارے میں (2013 میں) کہا گیا تھا کہ یہ مالی طور پر مستحکم نہیں۔ اس وقت بھی کہا گیا تھا کہ جو بھی حکومت آئے گی وہ ڈیفالٹ کا اعلان کرے گی۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’انشا اللہ ہم معاشی دلدل سے نکلیں گے۔ اپاکستان ترقی کرے گا، یہ میرا ایمان ہے۔ پاکستان دنیا میں رہنے کے لیے اللہ تعالی نے قائم کیا ہے، یہ واحد ملک ہے جو کلمہ شریف کے نام پر بنا تھا۔ حتیٰ کہ سعودی عرب کلمہ شریف کے نام پر نہیں بنا۔  واضح رہے کہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے عہدہ سنبھالتے ہی یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ ڈالر کی قیمت 200 روپے سے بھی نیچے لے جائیں گے تاہم گذشتہ دو روز کے دوران نہ صرف روپے کی قدر میں کمی کے نئے ریکارڈ بن رہے ہیں بلکہ آئندہ آنے والے دنوں میں ’مزید سخت فیصلوں‘ کی بات بھی کی جا رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxwkvxz18neo", "summary": "انٹربینک میں ایک امریکی ڈالر کی قدر 260 روپے سے اوپر چلی گئی ہے مگر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس کا قصوروار سابقہ حکمراں جماعت تحریک انصاف کو ٹھہرایا ہے جس نے ان کے مطابق پاکستان کو ’دلدل میں کھڑا کیا۔‘", "title": "پاکستان دلدل میں کھڑا ہے، معاشی ترقی اللہ کے ذمے: اسحاق ڈار ", "firstPublished": "2023-01-27T06:41:25.524Z", "id": "cxwkvxz18neo", "article": "پاکستان اس وقت معاشی اعتبار سے ایک بار پھر ’ایک نازک دور‘ سے گزر رہا ہے جہاں مصنوعی ریٹ کے خاتمے کے بعد گذشتہ روز امریکی ڈالر کی قیمت میں 25 روپے کا ریکارڈ اضافہ ہوا اور آج اب تک انٹر بینک ریٹ میں یہ قدر 10 روپے مزید اوپر جا چکی ہے۔ اب تک کے اندازوں کے مطابق انٹربینک میں ایک امریکی ڈالر کی قدر 260 روپے سے اوپر چلی گئی ہے مگر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس کا قصوروار سابقہ حکمراں جماعت تحریک انصاف کو ٹھہرایا ہے جس نے ان کے مطابق پاکستان کو ’دلدل میں کھڑا کیا‘ اور معیشت ’پانچ سال میں تباہ کی۔‘ اس سب کے دوران، جہاں تنقید کا رُخ کچھ ماہ پہلے تک سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کی طرف تھا، اس وقت سوشل میڈیا صارفین کی توپوں کا رُخ موجودہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی طرف ہے جنھوں نے عہدہ سنبھالتے ہی یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ ڈالر کی قیمت 200 روپے سے بھی نیچے لے جائیں گے۔ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پانچ سال میں پاکستان کی معیشت تباہ کی گئی مگر اتحادی جماعتوں کی حکومت اگلے عام انتخابات تک بہتری لانے کی خواہاں ہے۔ گرین لائن ٹرین کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ ’یہی وہ ملک تھا جس کے بارے میں (2013 میں) کہا گیا تھا کہ یہ مالی طور پر مستحکم نہیں۔ اس وقت بھی کہا گیا تھا کہ جو بھی حکومت آئے گی وہ ڈیفالٹ کا اعلان کرے گی۔‘ اس وقت اوپن مارکیٹ میں ڈالر 260 سے بھی تجاوز کر گیا ہے جس کے بعد اس بات کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ دنوں میں پاکستان میں ایک بار پھر مہنگائی میں اضافہ اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ مفتاح اسماعیل کے وزیرِ خزانہ کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد سے وہ خاموش نہیں بیٹھے تھے بلکہ انھوں نے مختلف فورمز پر جا کر اسحاق ڈار کی پالیسیوں اور یہاں تک کہ اس بارے میں دبے لفظوں میں نواز شریف پر بھی تنقید کرتے دکھائی دیے۔ انھوں نے کہا کہ اس انتہائی مشکل وقت میں آئی ایم ایف کے پروگرام میں تعطل لانے سے بہت زیادہ نقصان اور کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ہے۔ اگر پاکستان نے آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا ہوتا تو آج ڈالر کی قیمت اتنی زیادہ نہ ہوتی۔‘ تجزیہ کار مشرف زیدی کا کہنا تھا کہ ہم آج مفتاح اسماعیل کو اسحاق ڈار سے تبدیل کرنے کے فیصلے کو جانچنے کی کوشش کر سکتے ہیں کیوںکہ ’انھیں آئی ایم ایف سے بات کرنی آتی ہے۔‘ اسحاق ڈار نے جو اب آ کر کیا ہے وہ مفتاح اسماعیل شروع سے کر رہے تھے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n819n8wzyo", "summary": "تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت نے ڈالر کا ریٹ فکس رکھنے کی پالیسی کو ترک کر دیا ہے اور اب آئی ایم ایف کی شرط مان لی ہے تاکہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ساتھ مزاکرات کو کامیاب بنایا جا سکے۔", "title": "روپے کی ریکارڈ تنزلی کہاں جا کر رُکے گی اور ڈالر کی قدر میں بے تحاشا اضافے کے کیا اثرات ہوں گے؟", "firstPublished": "2023-01-27T01:43:23.255Z", "id": "c4n819n8wzyo", "article": "ڈالر کی قدر میں اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان کو ایک معاشی بحران کا سامنا ہے جس میں زرمبادلہ ذخائر بھی چار ارب ڈالر سے کم رہ چکے ہیں۔ دوسری جانب حکومت اس بحران سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب دیکھ رہی ہے۔\r\n تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت نے ڈالر کا ریٹ فکس رکھنے کی پالیسی کو ترک کر دیا ہے اور اب آئی ایم ایف کی شرط مان لی ہے تاکہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ساتھ مزاکرات کو کامیاب بنایا جا سکے۔\r\n حکومت آئی ایم ایف کو مالی مدد کے لیے منا پائے گی یا نہیں، اس سے قبل پاکستان میں اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے معیشت اور ایک عام آدمی پر کتنے گہرے اثرات پڑیں گے اور آیا روپے کی قدر بحال ہو بھی سکتی ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ ’ڈالر کے انٹر بینک ریٹ میں تبدیلی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت نے اسحاق ڈار کی پالیسی کو ترک کر دیا ہے جس کی وجہ ان کے مطابق آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا۔‘\r ثنا توفیق کہتی ہیں کہ ’ان حالات میں روپے کی قدر میں کمی نہ ہونا اس بات کا ثبوت تھا کہ کرنسی کو مینیج کیا جا رہا ہے۔‘\r ڈالر کی قدر میں ایک دن کے ریکارڈ اضافے کے اثرات پر بات کرتے ہوئے عزیر یونس کا کہنا تھا کہ اس کا ایک مثبت پہلو تو یہ ہے کہ حکومت آخر کار آئی ایم ایف کی شرائط ماننے پر راضی ہو گئی ہے۔\r\n روپے کی قدر میں کمی کے معیشت پر اثرات کے حوالے سے عائشہ خان کا کہنا تھا کہ اس سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا کیونکہ ہر چیز جو ہم استعمال کر رہے ہیں وہ سب باہر سے آ رہی ہیں اور ڈالر اوپر جانے سے ان سب کی قیمتیں اوپر جائیں گی۔ سعد نامی صارف نے لکھا کہ ’گذشتہ دس ماہ میں پاکستان عوام کی قوت خرید تقریبا تیس فیصد تک کم ہو جانے کے بعد سمجھ آئی کہ 2013 سے 2017 تک اسحاق ڈار کا ڈالر کا ریٹ سو روپیہ رکھنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ کوئی جادوگر تھے بلکہ اس کی وجہ اس وقت سی پیک اور آئی ایم ایف سے ملنے والی مدد تھی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2xrvy2kx50o", "summary": "درآمدی مال کی ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے اس وقت پاکستان کے پورٹس پر ہزاروں کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں۔ان کنٹینرز میں خوردنی تیل، ادویات اور ان کا خام مال، پیاز، کھانے پینے کی دوسری اشیا، خام تیل، مشینری، گاڑیوں کے پرزہ جات اور دوسری بہت سی اشیا موجود ہیں۔", "title": "’جہنم میں گئیں لگژری گاڑیاں اور موبائل، میری زندگی بچانے والا انجیکشن بلیک مارکیٹ سے 60 ہزار میں مل رہا ہے‘", "firstPublished": "2023-01-26T03:50:41.600Z", "id": "c2xrvy2kx50o", "article": "انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے کنٹینرز ایل سیز کے سیٹل نہ ہونے کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں۔\r پاکستان میں درآمدی مال کے لیے ڈالروں میں ادائیگی معمول کے مطابق ہو رہی تھی کہ گذشتہ سال کے وسط میں بیرون ملک بینکوں کی جانب سے پاکستان کے درآمدی مال کی ایل سیز کو کنفرم کرنے میں مسائل پیدا ہونا شروع ہوئے اور گذشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں یہ مسائل اتنے بڑھ گئے کہ مقامی بینکوں نے بھی ایل سی کھولنا بند یا بہت محدود پیمانے پر کھولنا شروع کیا۔\r ڈارسن سیکورٹیز کے ہیڈ آف ریسرچ یوسف سعید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ایل سی کھولنے میں مشکلات کی بڑی وجہ پاکستان میں ڈالروں کی کمی ہے کیونکہ ’ملک کے زرمبادلہ ذخائر سکڑتے جا رہے ہیں اور بیرون ملک سے ڈالر کی آمد کا سلسلہ مکمل طور پر رُکا ہوا ہے۔‘\r درآمدی مال کی ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے اس وقت پاکستان کے پورٹس پر ہزاروں کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بحری امور کے وزیر فیصل سبزواری نے گزشتہ دنوں میڈیا کو بتایا کہ اس وقت پاکستان کی بندرگاہوں پر آٹھ ہزار سے زائد درآمدی مال کے کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں۔\r ان کنٹینرز میں خوردنی تیل، ادویات اور ان کا خام مال، پیاز، کھانے پینے کی دوسری اشیا، خام تیل، مشینری، گاڑیوں کے پرزہ جات اور دوسری بہت سی اشیا موجود ہیں۔\r ایوان صنعت و تجارت پاکستان کے نائب صدر شبیر منشا نے اس سلسلے میں بتایا کہ اگرچہ حکومتی پورٹس کے چارجز تو کم کر دیے گئے ہیں تاہم شپنگ کمپنیوں کے چارجز بہت زیادہ ہیں کیونکہ مال رکھا ہوا ہے، ’اس لیے یہ کمپنیاں ڈیٹنشن چارجز کے طور پر جرمانہ وصول کرتی ہیں جو اس وقت بہت زیادہ ہو چکا ہے جس میں رعایت کی ضرورت ہے۔‘ بزنس کمیونٹی کی جانب سے احتجاج اور ملک میں اشیائے خودو نوش، ادویات اور دوسری چیزوں کی کمی کے امکان کے پیش نظر سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے بینکوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایسے تمام درآمدکنندگان کو ایک بار سہولت فراہم کریں جو یا تو اپنی ادائیگی کی میعاد کو 180 دن (یا اس سے زائد) تک توسیع دے سکتے ہوں یا جو اپنی زیر التوا درآمدی ادائیگیوں کے تصفیے کے لیے بیرون ملک سے رقوم کا بندوبست کر سکیں۔\r سٹیٹ بینک کا یہ اقدام ملکی بندرگاہوں پر پھنسے ہزاروں کنٹینرز کو کسی حد تک تو ریلیف فراہم کریں گی تاہم درآمدات کے لیے ایل سی کھولنے کے مسائل کا مکمل تدارک نہیں کر سکیں گی کیونکہ ملک میں ڈالروں کی کمی کی وجہ سے درآمدات کے لیے ادائیگی مشکل ہو گی۔\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw0xzddlvygo", "summary": "پاکستان میں زرمبادلہ کی ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے ڈالر کی قیمت پر لگایا جانے والا کیپ ختم کر دیا گیا ہے۔ مگر کیا اس اقدام سے پاکستان میں ڈالر کی بلیک مارکیٹ، انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹس میں موجود بڑا فرق ختم ہو پائے گا؟", "title": "ڈالر سے مصنوعی ’کیپ‘ کا خاتمہ: کیا بلیک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت کم ہو گی؟", "firstPublished": "2023-01-25T07:57:31.691Z", "id": "cw0xzddlvygo", "article": "اس سوال اور اس سے جڑی چہ مگوئیوں کی وجہ پاکستان میں زرِ مبادلہ کی ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے منگل کی رات کیا جانے والا وہ اعلان ہے جس کے مطابق ڈالر کی قیمت پر لگایا جانے والا کیپ بدھ کے روز (یعنی آج) سے ختم کر دیا جائے گا۔\r واضح رہے کہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی کے بعد ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کی جانب سے ڈالر کی قیمتوں کو مستحکم رکھا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے بھی انٹربینک ریٹ کو مستحکم رکھا جا رہا تھا تاکہ مارکیٹ میں افراتفری کی صورتحال پر قابو رکھا جا سکے۔\r ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے یہ بتایا گیا ہے کہ اس کا مقصد ڈالر کی بلیک مارکیٹ، انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں موجود ڈالر کی قیمتوں میں فرق کو ختم کرنا ہے۔\r منگل کی شب پاکستان کی فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے اعلان کیا کہ ’ڈالر کی قیمت پر لگایا گیا کیپ منفی ثابت ہوا ہے اور اس سے ڈالر کا ریٹ کم ہونے کے بجائے مزید اوپر چلا گیا ہے۔‘\r پاکستان کی فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے منگل کو کہا کہ ’یہ کیپ حکومت اور ملک کے مفاد میں لگایا گیا تھا مگر اب ایکسچینج کمپنیوں کا متفقہ مطالبہ ہے کہ یہ کیپ ختم کر دیا جائے۔‘\r ’ریمیٹینس بھی اسی لیے کم ہوئی ہے، تین ارب ڈالر سے کم ہو کر دو ارب ڈالر ہو گئی ہے، کیونکہ مارکیٹس میں 20 سے 30 روپے کا فرق بہت زیادہ ہے، اسی طرح ایکسپورٹرز نے بھی پیسہ ہولڈ کر لیا ہے کیونکہ فری مارکیٹ، انٹربینک اور بلیک مارکیٹ کا فرق بہت زیادہ ہے، اسے کم کرنے کی ضرورت ہے۔‘ بدھ کے روز ٹریڈنگ کے آغاز پر ملک میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں 12 روپے کا اضافہ ہوا ہے اور یہ اس وقت 252 روپے پر ٹریڈ ہو رہا ہے۔ اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک میں ڈائریکٹر پاکستان انیشیٹیو اور معاشی تجزیہ کار عزیر یونس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام درست سمت میں ایک قدم ہے کیونکہ اس سے منی مارکیٹ میں حوالہ ہنڈی میں کمی آئے گی اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے ریٹ کے فرق میں کمی آئے گی۔ ایک جانب جہاں ملک بوستان کو امید ہے کہ بلیک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت کم ہو گی وہیں دوسری جانب سوشل میڈیا پر اس اندیشے کا بھی اظہار کیا گیا معاملہ الٹ بھی ہو سکتا ہے۔\r کامران خان نے لکھا کہ ’جی ہاں، کل یہ فرق دور ہو جائے گا، یکمشت روپے کی قدر میں کم از کم 10 فیصد گراوٹ ہو گی اور ڈالر کی سرکاری اوپن مارکیٹ قیمت 250 پار کر جائے گی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1x0x1dvkno", "summary": "ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی برآمدات جو گذشتہ مالی سال میں ماہانہ بنیادوں پر اوسطاً ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد تھیں وہ موجودہ مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں ماہانہ بنیادوں پر اوسطاً ایک ارب ڈالر تک محدود ہو گئی ہیں۔ ", "title": "پاکستان نے انڈیا اور بنگلہ دیش پر ٹیکسٹائل برآمدات میں برتری حاصل کرنے کا سنہری موقع کیسے گنوایا", "firstPublished": "2023-01-24T03:51:56.779Z", "id": "cd1x0x1dvkno", "article": "حسن احسان اور سیما خان ٹیکسٹائل کے شعبے میں ایسے کام کرنے والے افراد ہیں جو پاکستان کی ٹیکسٹائل کے شعبے میں برآمدات میں کمی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوئے۔  ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی برآمدات جو گذشتہ مالی سال میں ماہانہ بنیادوں پر اوسطاً ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد تھیں وہ موجودہ مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں ماہانہ بنیادوں پر اوسطاً ایک ارب ڈالر تک محدود ہو گئی ہیں۔ دوسری جانب سیما خان نے بتایا کہ ان کے پرانے خریدار تو موجود ہیں اور وہ ان سے مال ابھی بھی لے رہے ہیں تاہم ان کے آرڈرز میں جو کمی واقع ہوئی ہے ان کے بارے میں جاننے پر پتا چلا کہ اب یہ بنگلہ دیش سے پورے ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مثلًا ان کے امریکہ کی منڈی میں موجود خریدار کہتے ہیں کہ ہمیں ٹی شرٹ دس ڈالر میں فراہم کرو کیونکہ امریکہ کی منڈی میں بنگلہ دیشی مال اس قیمت پر میسر ہے اور ریٹیلرز صرف اس قیمت پر مال اٹھائیں گے لیکن ’پاکستان میں بڑھتی ہوئی کاروباری لاگت کی وجہ سے اب میرے لیے مشکل ہے کہ میں ایک ٹی شرٹ دس ڈالر میں امریکہ فراہم کروں۔‘ انٹرنیشنل اپیرل فورم کے ریجنل صدر اور ٹیکسٹائل شعبے میں کام کرنے والے ایسوسی ایشن سے منسلک اعجاز کھوکھر نے بتایا کہ پاکستان کی داخلی سیاسی صورتحال نے معیشت کو متاثر کیا ہے جس کا اثر ٹیکسٹائل برآمدات پر پڑا اور اس کے دنیا میں کساد بازاری نے بھی پاکستان کی برآمدات کو متاثر کیا تاہم بنگلہ دیش اس سے محفوظ ہے۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل شعبے کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین نوید احمد نے بتایا کہ ’بنگلہ دیش کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ وہاں اب برآمدی کلچر اتنا زیادہ فروغ پا چکا ہے کہ وہاں بین الاقوامی خریدار اور سرمایہ کاروں کو ایک وی آئی پی درجہ دیا جاتا ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’بنگلہ دیش میں کاروباری لاگت پاکستان کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے تاہم پاکستان میں حکومت اس شبعے کو رعایتیں دیتی ہے مگر ایک بنیادی فرق ان کا گارمنٹس کا ایکسپورٹ کلچر ہے جو اب اتنا زیادہ عام ہو چکا ہے کہ بنگلہ دیش میں پوری قوم اور حکومت اس شعبے میں برآمدات کو بڑھانے کے لیے سرگرم ہے اور اس کی بنیاد پر وہ اپنی ایکسپورٹ بڑھا رہے ہیں۔‘ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق امریکی منڈی میں پاکستان کی گارمنٹس مصنوعات کی مختلف اقسام میں 15 سے 19 فیصد کی کمی موجودہ مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں واقع ہو چکی ہے۔  انڈیا کے ریزور بینک آف انڈیا کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق نومبر کے مہینے میں ٹیکسٹال مصنوعات میں اضافہ دیکھا گیا۔ امریکہ کو جانے والی مصنوعات انڈین روپوں میں 485 ارب روپے تک چلی گئیں جو اس سے پہلے 469 ارب روپے تھیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cpw13evv8q5o", "summary": "امریکہ اور یورپ ایک زمانے میں جاپانی معیشت سے اسی طرح خوفزدہ تھے جس طرح وہ آج چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت سے ڈرتے ہیں۔ لیکن جس جاپان کی دنیا کو توقع تھی وہ کبھی نہیں آیا۔ 1980 کی دہائی کے آخر میں جاپانی لوگ امریکیوں سے زیادہ امیر تھے۔ اب وہ برطانوی شہریوں سے بھی کم کماتے ہیں۔", "title": "معاشی ترقی سے ’امریکہ اور یورپ کو خوفزدہ‘ کرنے والے جاپان کی ترقی سست روی کا شکار کیوں ہے؟", "firstPublished": "2023-01-23T07:09:28.863Z", "id": "cpw13evv8q5o", "article": "ایک زمانے میں امریکہ اور یورپ جاپان کی معیشت سے اسی طرح خوفزدہ تھے جس طرح وہ آج چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت سے ڈرتے ہیں۔ تاہم دنیا کو جاپان کے جس عروج تک جانے کی توقع تھی وہ کبھی نہیں آیا۔ سنہ 1980 کی دہائی میں جاپان کے لوگ امریکیوں سے بھی زیادہ امیر تھے لیکن آج وہ برطانوی شہریوں سے بھی کم کماتے ہیں۔ جاپان اب بھی جاپان کی طرح محسوس ہوتا ہے، نہ کہ امریکہ کی پیداوار۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا پاؤڈر سنو سے لے کر فیشن تک تمام جاپانی چیزوں کو ذوق و شوق سے دیکھتی ہے۔ ٹوکیو اپنے کھانوں کے باعث بہترین ریسٹورینٹس کا مرکز ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں ٹوکیو خلیج کے دور دراز حصے میں جزیرہ نما بوسو کے ایک گاؤں کے ہال میں بیٹھا تھا۔ میں وہاں اس لیے تھا کیونکہ اس گاؤں کو جاپان میں خطرے سے دوچار 900 سو میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔ ہال میں جمع بوڑھے لوگ فکر مند تھے۔ 1970 کی دہائی کے بعد سے انہوں نے نوجوانوں کو شہروں میں ملازمتوں کے لیے جاتے دیکھا ہے۔ باقی 60 میں سے صرف ایک نوعمر تھا اور کوئی بچہ نہیں تھا۔ ایک ممتاز ماہر تعلیم نے مجھے بتایا کہ ’دیکھیں آپ کو اس بارے میں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جاپان کس طرح کام کرتا ہے۔ سنہ 1868 میں ساموریوں نے ہتھیار ڈال دیے، اپنے بال کٹوا دیے، مغربی سوٹ پہنے اور کاسومیگاسیکی (وسطی ٹوکیو کا سرکاری ضلع) کی وزارتوں میں پہنچ گئے اور آج بھی وہاں موجود ہیں۔ دادا کیشی جنگی جنتا کے رکن تھے اور امریکیوں نے انھیں ایک مشتبہ جنگی مجرم کے طور پر گرفتار کیا تھا لیکن وہ پھانسی سے بچ گئے اور سنہ 1950 کی دہائی کے وسط میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) قائم کرنے میں مدد دی، جس نے تب سے جاپان پر حکمرانی کی ہے۔ کچھ لوگ ازراہ مذاق کہتے ہیں کہ جاپان ایک جماعتی ریاست ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ لیکن یہ سوال مناسب ہے کہ جاپان ایک ایسی پارٹی کو دوبارہ کیوں منتخب کر رہا ہے جو اشرافیہ کے زیر انتظام ہے، جو امریکہ کی طرف سے مسلط کردہ امن پسندی کو ختم کرنے کی خواہش مند ہے، لیکن 30 سالوں سے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں ناکام رہی ہے۔ حالیہ انتخابات کے دوران میں نے ٹوکیو سے دو گھنٹے مغرب میں پہاڑوں میں ایک تنگ وادی کا دورہ کیا۔ مقامی معیشت کا انحصار سیمنٹ بنانے اور پن بجلی پر ہے۔ ایک چھوٹے سے قصبے میں میری ملاقات ایک بزرگ جوڑے سے ہوئی جو پولنگ سٹیشن کی طرف پیدل جا رہا تھا۔ شوہر نے بتایا کہ ’ہم ایل ڈی پی کو ووٹ دیں گے۔ ہمیں ان پر بھروسہ ہے، وہ ہماری دیکھ بھال کریں گے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0wd2wgng1yo", "summary": "امریکہ جمعرات کو قرض لینے کی اپنی طے شدہ آخری حد تک پہنچ گیا ہے اور محکمہ خزانہ نے ادائیگی کے ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے فوری طور پر خصوصی اقدامات کیے تاکہ یہ تباہ کن ثابت نہ ہو۔ ", "title": "امریکہ قرض لینے کی آخری حد پر: سپرپاور کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات سمیت ڈالر کی قیمت غیرمستحکم ہونے کے اندیشوں تک", "firstPublished": "2023-01-21T07:19:02.683Z", "id": "c0wd2wgng1yo", "article": "امریکہ 19 جنوری کو قرض لینے کی اپنی حد تک پہنج چکا ہے جمعرات کے روز امریکہ قرض لینے کی اپنی طے شدہ آخری حد تک پہنچ گیا جس کے بعد امریکہ کے محکمہ خزانہ نے ادائیگی کے ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے چند فوری اور خصوصی اقدامات اٹھائے ہیں۔ قرض کی آخری حد کو چھونے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت اب اس وقت تک مزید رقم قرض نہیں لے سکتی جب تک کانگریس قرض حاصل کرنے کی لِمٹ یعنی حد کو بڑھانے پر راضی نہ ہو جائے۔ اس وقت امریکی حکومت کی قرض حاصل کرنے کی حد تقریباً 31.4 کھرب ڈالر ہے۔ ایسی صورت یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ اس بار سیاست دان ردِ عمل ظاہر کرنے میں (یعنی قرض حاصل کرنے کی حد میں اضافے کے حوالے سے) سست روی کا مظاہرہ کریں گے، جس کی وجہ سے امریکہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یہ صورتحال امریکہ کو اپنی تاریخ میں پہلی بار جان بوجھ کر ڈیفالٹ کی جانب لے جا سکتی ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ قرض لینے کی حد کو تجاوز کرنے سے روکنے کے لیے اقدامات کر کے صورتحال کو سنبھال سکتا ہے۔ خط میں مزید کہا گیا کہ ’قانون کے مطابق، قرض کی حد میں اضافہ یا اس کے معطل ہونے کے بعد ان دونوں فنڈز کا دوبارہ اجرا کر دیا جائے گا‘ اور یہ کہ ’ریٹائرڈ اور وفاقی ملازمین ان اقدامات سے متاثر نہیں ہوں گے۔‘ ڈیفالٹ ملک کے اعتبار کو برباد کر سکتا ہے، عالمی مالیاتی منڈیوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور وہ اس طرح کہ وہاں امریکی قرضوں کی بہت زیادہ تجارت کی جاتی ہے کیونکہ امریکی بانڈز کی خریداری کو روایتی طور پر کم خطرناک سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے۔ کرنسی کے طور پر ڈالر کمزور ہو جائے گا اور ابتدائی طور پر حکومت کے لیے قرض لینے پر شرح سود بڑھ جائے گی یعنی مہنگے قرضے ملیں گے اور بالآخر اس کا اثر عام لوگوں پر بھی ہو گا کیونکہ اس کے نتیجے میں رہن، کریڈٹ کارڈ کے قرضوں اور دیگر قرضوں کے لیے سود کی شرح زیادہ ہو جائے گی۔ صورت حال کا یہاں تک پہنچنا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا ہے اور اس سے صارفین کے اعتماد اور معیشت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچے گا، جو پہلے سے ہی ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ یہ جزوی طور پر (سنہ 2008 کے) مالیاتی بحران اور (کووڈ) وبائی امراض کے دوران حکومت کی طرف سے کیے گئے نمایاں اخراجات کی وجہ سے ہے، لیکن یہ اس کا نتیجہ بھی ہے کہ ملک سنہ 2001 سے مسلسل بجٹ خسارے میں چل رہا ہے اور یہ اپنی آمدن سے زیادہ خرچ کر رہا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgl5p0zngxzo", "summary": "برطانیہ کے وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے کہا ہے کہ وہ ایرانی حکومت کے سابق وزیر علی رضا اکبری کی سزائے موت کے بعد اس اقدام پرغور کر رہے ہیں۔", "title": "کیا پاسدارانِ انقلاب کو دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے؟", "firstPublished": "2023-01-20T12:25:21.049Z", "id": "cgl5p0zngxzo", "article": "برطانیہ کے وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے کہا ہے کہ وہ ایرانی حکومت کے سابق وزیر علی رضا اکبری کی سزائے موت کے بعد اس اقدام پرغور کر رہے ہیں۔ علی رضا اکبری برطانیہ میں مقیم  تھے اور برطانوی شہریت کے حامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ علی رضا اکبری کو ’لالچ‘ دے کر ایران واپس لے جایا گیا، جہاں انھیں ’حکومت کے بدنام اور من مانے قانونی عمل کا نشانہ بنایا گیا‘۔  اکبری کو برطانیہ کے لیے جاسوسی کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے اس الزام کی تردید کی اور کہا کہ ایرانی انٹیلی جنس ایجنٹوں نے اعتراف جرم حاصل کرنے کے لیے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ برطانوی انٹیلی جنس سروسز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے ایرانی ہم منصبوں نے گذشتہ ایک سال کے دوران برطانیہ میں ایرانی صحافیوں سمیت 10 دیگر افراد کو نشانہ بنایا۔ جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک اور یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیئن دونوں نے یورپی یونین پر زور دیا ہے کہ وہ پاسداران انقلاب کو بھی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرے۔ انھوں نے 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران میں شروع ہونے والے حالیہ مظاہروں کو دبانے میں پاسداران انقلاب کے کردار کا حوالہ دیا۔ جب ان کی موت ہوئی تو وہ ملک کی گشت ارشاد (اخلاقی پولیس) کی تحویل میں تھیں۔ یورپی پارلیمنٹ نے پاسداران انقلاب کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کے حق میں ایک قرارداد منظور کی ہے لیکن یورپی یونین کے رکن ممالک کو اس اقدام کی منظوری دینے کی ضرورت ہوگی۔ پاسداران انقلاب اسلامی نے دفاع، انجنیئرنگ اور تعمیرات جیسے شعبوں میں کمپنیوں کی مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی کاروباری سلطنت قائم کر رکھی ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ ایران کی معیشت کا ایک تہائی حصہ اس کے کنٹرول میں ہے۔ ڈاکٹر وکیل کہتے ہیں کہ’ایرانی حکومت امریکہ کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتی ہے اور دوسرے ممالک میں اس پر حملے کرنے والے گروہوں کی سرپرستی کرتی ہے۔ امریکہ نے قدس فورس اور اس کی پشت پناہی کرنے والے گروہوں پر عراق اور مشرق وسطیٰ کے دیگر علاقوں میں سینکڑوں امریکی فوجی اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ لیکن انھوں نے متنبہ کیا کہ ایران جوابی کارروائی کرتے ہوئے برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک کی مسلح افواج کو دہشت گرد گروہ قرار دے سکتا ہے، جس سے وہ مشرق وسطیٰ میں ہدف بن سکتے ہیں۔ تاہم پروفیسر علیم زادہ کو شک ہے کہ اس اقدام سے پاسداران انقلاب کی کارروائیوں کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ 'اس سے کوئی عملی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ایران کے خلاف پہلے ہی بہت سی پابندیاں عائد ہیں۔ یہ صرف علامتی ہوگا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c87p480ger0o", "summary": "اگر بڑی معیشتوں کی بات کی جائے تو جاپان سب سے بڑا مقروض ملک ہے تاہم قرضے کہ اس بڑے حجم کے باوجود حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار سرمایہ کاری کے لیے جاپان پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ جاپان کی معیشت کس اصول کی بنیاد پر چلتی ہے؟قرضوں کے اتنے بڑے حجم کی وجہ کیا ہے؟", "title": "دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہونے کے باوجود جاپان ڈیفالٹ کیوں نہیں کرتا؟\r", "firstPublished": "2023-01-19T09:26:19.383Z", "id": "c87p480ger0o", "article": "گذشتہ سال ستمبر کے آخر تک جاپان اس حد تک مقروض ہو چکا تھا کہ قرضوں کے اس حجم کو سُن کر ہی آپ دنگ رہ جائیں گے اور بڑی بات یہ ہے کہ قرضوں کا یہ بوجھ یہاں رُکے گا نہیں بلکہ مستقبل میں بڑھتا ہی جائے گا۔ جاپان پر قرضوں کا مجموعی حجم 9.2 کھرب امریکی ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو اُس کے جی ڈی پی کا 266 فیصد ہے۔ قرضے کی یہ رقم دنیا کی بڑی معیشتوں میں سب سے زیادہ ہے۔\r ان کے مطابق اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ جاپان میں بڑی آبادی کا عمررسیدہ یا بزرگی کی عمر میں ہونا ہے جس کے باعث حکومت کے سوشل سکیورٹی اور صحت کی خدمات پر اٹھنے والے اخراجات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ جاپان کی بیشتر آبادی کو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے مستقبل کے بارے میں بہت زیادہ بے یقینی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی لیے وہ ذاتی بچت کو ترجیح دیتے ہیں۔\r تاہم قرضے کہ اس بڑے حجم کے باوجود حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار سرمایہ کاری کے لیے جاپان پر بھروسہ کرتے ہیں۔\r باالفاظ دیگرجاپان اپنا قرض بین الاقوامی منڈیوں میں اس وعدے کے ساتھ بانڈز کی صورت میں فروخت کر دیتا ہے کہ وہ ناصرف سرمایہ کاروں کی مکمل رقم بلکہ اس پر کچھ نہ کچھ منافع مکمل طور پر سرمایہ کار کو واپس کر دے گا۔\r تاہم، قرض کا حجم ملک کی مجموعی معیشت کے حجم سے تقریباً ڈھائی گنا زیادہ ہو تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت کو اس بڑی رقم کی ادائیگی میں یقینی طور پر مشکل پیش آئے گی؟\r ماہرین کے مطابق قرضوں کے اس بڑھتے حجم کے باوجود ملک کے ڈیفالٹ میں نہ جانے کی وجہ یہ ہے کہ جاپان سرکاری بانڈز پر دیے جانے والا منافع انتہائی کم رکھتا ہے مگر دوسری جانب محفوظ سرمایہ کاری کی مارکیٹ میں اس پر بہت زیادہ اعتماد اور بھروسہ کیا جاتا ہے۔ پروفیسر کین کٹنر کہتے ہیں کہ قرض اپنی کرنسی میں ہونے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جاپان کے مرکزی بینک کو بین الاقوامی منڈیوں میں ہر کچھ عرصے بعد ہونے والے اُتار چڑھاؤ سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ درحقیقت جاپان پر موجود قرض کا 90 فیصد سرمایہ کاری کرنے والوں نے خرید رکھا ہے۔ یہ بنیادی طور پر حکومتی خسارے کو موناٹائز کر رہا ہے، جو عام طور پر کسی بھی معیشت کو بلند افراط زر کی جانب لے جاتا ہے مگر جاپان کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہواوراس لیے جب کہ باقی دنیا میں شرح سود میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے تو جاپان میں شرح سود کم ہی ہے۔\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd17gqzq95ko", "summary": "آکسفیم کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق سنہ 2021 میں انڈیا کی مجموعی دولت کا 40 عشاریہ پانچ فیصد سے زیادہ حصہ ملک کے صرف ایک فیصد دولت مند افراد کے پاس رہا ہے، جبکہ غریب طبقہ ’زندہ رہنے کے لیے بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہے۔‘", "title": "انڈیا: غریب طبقہ بنیادی ضروریات سے محروم، ملک کی 40 فیصد سے زیادہ دولت ایک فیصد کے پاس", "firstPublished": "2023-01-16T13:38:14.872Z", "id": "cd17gqzq95ko", "article": "آکسفیم کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق سنہ 2021 میں انڈیا کی مجموعی دولت کا 40 عشاریہ پانچ فیصد سے زیادہ حصہ ملک کے صرف ایک فیصد دولت مند لوگوں کے پاس رہا ہے۔ جبکہ غریب طبقہ ’زندہ رہنے کے لیے بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہے۔‘\r\n رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022 میں ملک میں ارب پتیوں کی تعداد 102 سے بڑھ کر 166 ہو گئی ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انڈیا میں غریب طبقہ ’زندہ رہنے کے لیے بنیادی ضروریات بھی پوری کرنے کے قابل نہیں ہے۔\r‘\r\n ’سروائیول آف دی ریچسٹ‘ نام کی یہ رپورٹ سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم میں جاری کی گئی ہے۔\r\n\r\nرپورٹ میں انڈیا میں دولت کی تقسیم میں بڑے فرق کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2012 سے 2021 تک ملک میں آنے والی 40 فیصد سے زیادہ دولت صرف 1 فیصد آبادی کے پاس چلی گئی تھی جبکہ صرف 3 فیصد نچلی سطح کی 50 فیصد آبادی تک پہنچی تھی۔\r\n\r\n2022 میں، انڈیا کے امیر ترین شخص گوتم اڈانی کی دولت میں 46 فیصد اضافہ ہوا ہے، جب کہ انڈیا کے 100 امیر ترین افراد کی مشترکہ دولت 660 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔\r\n\r\n2022 میں، اڈانی بلومبرگ کے دولت کے انڈیکس میں دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص تھے۔ وہ ان لوگوں کی فہرست میں بھی سرفہرست رہے جن کی دولت میں عالمی سطح پر اس سال سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔\r\n دریں اثنا، آکسفیم نے کہا ہےکہ ملک کے غریب اور متوسط طبقے پر امیروں کے مقابلے میں زیادہ ٹیکس لگایا گیا ہے۔\r\n\r\nرپورٹ میں کہا گیا کہ ملک میں’گڈز اینڈ سروسز ٹیکس‘ (جی ایس ٹی) کا تقریباً 64 فیصد نیچے کی 50 فیصد آبادی سے آیا، جبکہ صرف 4 فیصد، دس فیصد دولت مندوں سے آیا ہے۔\r\n\r\nآکسفیم انڈیا کے سی ای او امیتابھ بہار نے کہا، ’بدقسمتی سے انڈیا تیزی سے صرف امیروں کا ملک بننے راستے گامزن پر ہے‘۔\r\n\r اس فرق کو درست کرنے کے لیے آکسفیم نے وزیر خزانہ سے کہا کہ وہ آئندہ بجٹ میں ترقی پسند ٹیکس اقدامات جیسا کہ ویلتھ ٹیکس کو نافذ کریں۔\r\n\r\nرپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا کے ارب پتیوں کی پوری دولت پر محض 2 فیصد ٹیکس اگلے تین سالوں تک ملک کی غذائی قلت کی شکار آبادی کی بھوک مٹانے کے لیے کافی ہوگا۔\r\n\r\nرپورٹ میں مزید کہا گیا کہ’ایک فیصد ویلتھ ٹیکس نیشنل ہیلتھ مشن کو فنڈ دے سکتا ہے، جو کہ 1.5 سال سے زیادہ عرصے کے لیے انڈیا میں صحت کی دیکھ بھال کی سب سے بڑی سکیم ہے۔\r\n"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c036133597do", "summary": "گذشتہ چند دہائیوں سے جب بھی پاکستان کو اس نوعیت کی معاشی صورتحال کا سامنا ہوا تو فوجی اور سیاسی حکمرانوں کی نظریں سعودی عرب کی جانب اٹھتی دکھائی دیں اور سعودی عرب کی جانب سے بھی ملنے والا ردعمل عموماً مایوس کُن نہیں رہا۔", "title": "سعودی عرب پاکستان کی مالی امداد کیوں کرتا ہے اور کیا پاکستان سعودی عرب کے لیے ایک طاقت ہے یا بوجھ؟", "firstPublished": "2023-01-14T04:21:03.612Z", "id": "c036133597do", "article": "گذشتہ چند دہائیوں سے جب بھی پاکستان کو اس نوعیت کی معاشی صورتحال کا سامنا ہوا تو فوجی اور سیاسی حکمرانوں کی نظریں سعودی عرب کی جانب اٹھتی دکھائی دیں اور سعودی عرب کی جانب سے بھی ملنے والا ردعمل عموماً مایوس کُن نہیں رہا۔ اس مرتبہ بھی سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان نے پاکستانی فوج کے جنرل عاصم منیر سے رواں ہفتے ہونے والی ملاقات کے فوراً بعد اپنے مالیاتی اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری اور قرضوں کو بڑھانے کا جائزہ لیں۔ سعودی اعلان کے مطابق پاکستان میں جاری سرمایہ کاری کا حجم 10 ارب جبکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان میں ڈیپازٹ سعودی رقم کا حجم پانچ ارب ڈالر تک کرنے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان اور سعودی عرب دونوں ہی کی جانب سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی تھی۔  ایسی اطلاعات بھی تھیں کہ امریکہ کو خدشہ تھا کہ کہیں پاکستان کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلاؤ شروع نہ ہو جائے اور سعودی عرب کے وزیرِ دفاع کے اس دورے کو ملک کی جوہری ہتھیاروں کی خواہش سے بھی جوڑا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی بنیاد دراصل وہ معاہدہ ہے جو 1984 میں کیا گیا تھا جس کے تحت ’اگر شاہی خاندان کو کسی بھی قسم کا خطرہ ہو گا تو پاکستان اپنی فوج مہیا کرے گا۔‘ اس کے بعد ہینری ایل سٹیمسن سینٹر فار سٹڈی آف سکیورٹی افیئرز کے صدر مائیکل کریپن نے نیویارک ٹائمز کو بتایا تھا کہ ’سعودی عرب کا تعاون پاکستان کو صرف رقم دینے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی دلچسپی اس سے زیادہ ہے۔‘ ان کے مطابق ’سعودی شاہی خاندان اور وہاں کے مذہبی اداروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر مالی مدد آئی تھی۔ پاکستان کے مدارس کو فنڈز اب بھی سعودی عرب سے آتے ہیں۔‘ اس کے بعد سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قریبی فوجی تعلقات کبھی نہیں رُکے۔ ’اس سے بھی اہم سٹریٹیجک اور نظریاتی ہم آہنگی ہے۔ اگر آپ 80 کی دہائی دیکھیں تو چاہے ایران کا انقلاب ہو یا افغان جنگ، سعودی عرب، پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹیجک کنورجنس تھی۔‘  ڈاکٹر ہما بقائی کا پاکستان کا سعودی عرب پر ’بوجھ‘ بننے کے مفروضے پر کہنا تھا کہ ’آپ یہ کہہ سکتے ہیں اور اس وقت امداد دینے اور پاکستان کو اس معاشی صورتحال سے نکالنے کے حوالے سے سعودی عرب کی جانب سے ہچکچاہٹ دکھائی جاتی ہے اس کی وجہ ان کی سوچ میں تبدیلی ہے۔‘ ’پہلے امریکہ کے کہنے پر سعودی عرب پاکستان کو خراب معاشی صورتحال سے نکالنے میں مدد کرتا تھا۔ اب وہاں پر بھی تھوری کمی ہوئی ہے لیکن یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان ایک بار پھر اپنے سرد جنگ والے کردار نبھانے میں واپس جا رہا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cqemz195359o", "summary": "بہت سے لوگوں نے نینو کو اپنی پہلی کار رکھنے کا خواب پورا کرنے کے لیے بُک کیا اور کچھ نے خاندان میں دوسری کار کے طور پر نینو کو بُک کرایا، لیکن بکنگ سے لے کر گاڑی کی ڈیلیوری تک حالات بدلتے رہے اور نینو کو بھی بدلنا پڑا۔", "title": "انڈیا کی ایک لاکھ کی کار نینو: کیا رتن ٹاٹا کا ادھورا خواب نئے انداز میں پورا ہوسکے گا؟", "firstPublished": "2023-01-13T11:40:33.375Z", "id": "cqemz195359o", "article": "رتن ٹاٹا بڑے جوش و خروش کے ساتھ ایک بہت ہی چھوٹی نلی نما کار میں اسٹیج پر نمودار ہوئے۔ لوگوں نے اس گھونگھے کی شکل والی گاڑی کو دیکھتے ہی بہت پسند کیا۔ نام تھا نینو اور گاڑی کی قیمت رتن ٹاٹا کے وعدے کے مطابق ایک لاکھ روپے تھی۔ یہ کار اپنی قیمت کی وجہ سے سرخیوں میں رہی۔ بہت سے لوگوں نے نینو کو اپنی پہلی کار رکھنے کا خواب پورا کرنے کے لیے بُک کیا اور کچھ نے خاندان میں دوسری کار کے طور پر نینو کو بُک کرایا، لیکن بکنگ سے لے کر گاڑی کی ڈیلیوری تک حالات بدلتے رہے اور نینو کو بھی بدلنا پڑا۔ درحقیقت ایک لاکھ روپے کی گاڑی حاصل کرنے کا خیال جتنا دلچسپ تھا اتنا ہی چیلنجنگ بھی تھا۔ اس کو پورا کرنا آسان نہیں تھا۔ لیکن ٹاٹا موٹرز نے کچھ سال پہلےٹاٹا ایس کے نام سے ایک مِنی ٹرک لانچ کیا تھا۔ یہ مِنی ٹرک چھوٹے ہاتھی کے نام سے بازار میں بکنے لگا۔ 2018 کے دہلی آٹو ایکسپو میں گریش واگھ نے بی بی سی مراٹھی کو بتایا، ’جب نینو پروجیکٹ پر کام شروع ہوا تو ہمارے اس وقت کے چیئرمین رتن ٹاٹا اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر روی کانت نے مجھے بتایا کہ یہ پروجیکٹ آپ کے لیے سب سے اہم ہے۔ پوری کار کو کاغذ پر ڈیزائن کرنے سے لے کر نئی فیکٹری بنانے میں کافی وقت لگا۔‘ ہر کوئی صرف ایک لاکھ روپے کی کار کی بکنگ کی تلاش میں تھا۔ لوگوں کی درخواستوں کے بعد قرعہ اندازی کے ذریعے گاڑی عوام تک پہنچنا شروع ہوگئی۔ لیکن ابتدائی چند ماڈلز کو چھوڑ کر نینو کی قیمت کو ایک لاکھ روپے سے کم رکھنا زیادہ دیر تک ممکن نہیں تھا۔ ٹاٹا نینو کی ساکھ پر سب سے بڑا سوال 2014 میں تھا جب گلوبل این سی اے پی نے، جس نے کار کی حفاظت کی درجہ بندی کی، اسے زیرو سٹار دیا۔ کچھ کاروں میں آگ لگنے سے اس کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا۔ سینکڑوں لوگوں نے زیرو ریٹنگ کے بعد اپنی بکنگ منسوخ کر دی۔ ٹاٹا موٹرز نے ابتدائی طور پر سالانہ تین لاکھ نینو کی فروخت کا ہدف مقرر کیا تھا۔ لیکن کمپنی کبھی بھی یہ مقصد حاصل نہیں کر سکی۔ سائرس مستری کو جب ٹاٹا گروپ کی کمان ملی تو انھوں نے سب سے پہلے ٹاٹا گروپ میں خسارے میں چلنے والے پروجیکٹوں کو بند کرنے کا مشورہ دیا۔ اور اس مشورے کے مرکز میں ٹاٹا نینو پروجیکٹ تھا جو رتن ٹاٹا کا پسندیدہ پروجیکٹ بھی تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cpel9l2553ko", "summary": "چین میں کاغذ کے نوٹ اس لیے ایجاد ہوئے کیونکہ سکے اتنے بھاری ہو چکے تھے کہ ان کو رکھنا ہی ایک مسئلہ تھا۔ اور صرف 70 سال پہلے، ایک پہاڑی سلسلے میں موجود ہوٹل میں رات گئے ہونے والے خفیہ سیاسی مذاکرات کے نتیجے میں ایک ہرے رنگ کا کاغذ، ڈالر، دنیا کی سب سے طاقت ور کرنسی بن گیا۔", "title": "پیسہ کب ایجاد ہوا اور امریکی ڈالر دنیا کی سب سے اہم کرنسی کیسے بنا؟", "firstPublished": "2023-01-13T09:32:30.455Z", "id": "cpel9l2553ko", "article": "اس کے کافی عرصہ بعد چین میں کاغذ کے نوٹ سامنے آئے جو اس لیے بنائے گئے کیوںکہ سکے اتنے بھاری ہو چکے تھے کہ ان کو رکھنا ہی ایک مسئلہ تھا۔ اور صرف 70 سال پہلے، ایک پہاڑی سلسلے میں موجود ہوٹل میں رات گئے ہونے والے خفیہ سیاسی مذاکرات کے نتیجے میں ایک ہرے رنگ کا کاغذ، ڈالر، دنیا کی سب سے طاقت ور کرنسی بن گیا۔ اگر ان کی بات کو مانا جائے تو چاندی اور جو بھی کرنسی کی ہی ایک شکل تھے اور شاید پیسے کی سب سے پرانی مثال بھی۔ پروفیسر ولیم نے عراق میں قدیم میسوپوٹامیا کے ان علاقوں میں کھدائی کی جہاں تجارت ہوا کرتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ لین دین کی بناد یہ ہوتی تھی کہ کوئی شخص کسی دوسرے سے کیا حاصل کر سکتا ہے اور اس کے بدلے مستقبل میں کیا دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ اور یہاں سے ہی جنم لیتا ہے قرض کا نظام۔ چند میں لکھا گیا کہ جو کا قرض تختی کے مالک کو ادا کیا جائے گا۔ اس طرح کی روایت کا مطلب ہے کہ مٹی کی یہ تختی بھی پیسے کی ہی ایک قسم بن گئی تھی۔ تنخواہ کا انگریزی زبان کا لفظ بھی لاطینی زبان کے لفظ سیلیریئم سے نکلا ہے۔ روم کی سلطنت سپاہیوں اور سرکاری افسران کو نمک میں ادائیگی کرتی تھی جو اس وقت ایک قیمتی چیز سمجھی جاتی تھی جس سے خوراک محفوظ رکھنے کا کام لیا جاتا تھا۔ قدیم زمانے کے چند سکے نایاب بھی ہیں اور خوبصورت بھی جن سے اہم معلومات ملتی ہیں۔ ان میں سے ایک چاندی کا سکہ ہے جو ایتھنز میں بنا اور اس یونانی دیوی ایتھینا کا نشان بنا ہوا ہے۔ جیسے جیسے تجارت پھیلی، زیادہ سکوں کی مانگ بڑھی۔ ایک وقت تھا جب تانبہ نایاب ہو گیا لیکن اس سے بھی اہم نکتہ یہ تھا کہ حکمرانوں کو اس بات کا احساس ہوا کہ کرنسی کا کنٹرول تو انکے ہاتھ میں ہونا ضروری ہے۔ یہ حکمران نہیں چاہتے تھے کہ ان کی قیمتی کرنسی کسی اور سرزمین میں ضائع ہو جائے۔ انھوں نے قانون بنا دیا کہ اب صرف لوہے کے سکے استعمال ہوں گے۔ اس نتیجے میں جیاوزی نامی پہلی کاغذی کرنسی وجود میں آئی جو سلطنت سونگ نے جاری کی اور کرنسی کے نظام کو قابو میں کر لیا تاکہ تاجر اپنی کرنسی کا استعمال نہ کریں۔ یوں پہلے باقاعدہ سرکاری نوٹ کا آغاز ہوا۔ اس دوران دو شخصیات میں دو بدو لڑائی بھی ہوئی جس میں برطانوی جان کینز ایک عالمی کرنسی کا تصور لیے ہوئے تھے جبکہ دوسری جانب امریکی محکمہ خزانہ کے ہیری ڈیکسٹر تھے۔ اس کانفرنس کے بعد طے ہوا کہ امریکی ڈالر بین الاقوامی تجارت کے لیے استعمال کیا جائے گا اور اسی ملاقات میں بنائے جانے والے ادارے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک، جنگ کے بعد معاشی مشکل کا سامنا کرتے ممالک کو امریکی ڈالر میں ہی قرض دیں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cmmzejj9zd6o", "summary": "امریکہ کا آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک ہونا ہی بڑے انعامات کا واحد سبب نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ اس کھیل کے اصول بھی بدلتے رہے ہیں۔", "title": "امریکہ میں لاٹری کے جیک پاٹس پر اربوں ڈالر کے انعامات کیسے نکلتے ہیں؟", "firstPublished": "2023-01-12T09:04:20.987Z", "id": "cmmzejj9zd6o", "article": "1.35 ارب ڈالر کی انعامی رقم کے ساتھ یہ امریکہ کی تاریخ کی دوسری بڑی انعامی رقم والی لاٹری بن گئی ہے۔ یاد رہے کہ چند ماہ پہلے مشہور ’پاور بال‘ جیک پاٹ میں 2.04 ارب ڈالر کی انعامی رقم جیتی گئی تھی۔ پاور بال جیک پاٹ امریکی تاریخ کی سب سے بڑی لاٹری ہے۔ بلاشبہ بہت سے دوسرے ممالک میں بھی لاٹریاں ہیں لیکن امریکہ میں حالیہ دنوں میں تسلسل کے ساتھ لاٹری میں ریکارڈ توڑ انعامی رقوم ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر امریکہ میں لاٹری میں جیتے جانے والے انعامات اتنے بڑے کیوں ہیں؟ کتاب ’فار اے ڈالر اینڈ اے ڈریم: سٹیٹ لاٹریز ان ماڈرن امریکا‘ کے مصنف جوناتھن کوہن نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے اس معاملے کی وضاحت کی ہے۔ مثال کے طور پر الینوا کی آبادی آیووا سے بہت زیادہ ہے اور اس وجہ سے لاٹری کھیلنے والے زیادہ ہیں۔ اگر کسی کو لاٹری نہیں ملتی تو جیک پاٹ چلتا رہتا ہے اور جمع ہوتا رہتا ہے۔ آیووا میں کم لوگ ہیں اس لیے وہ کم ٹکٹ خریدیں گے اور چونکہ وہ آسانی سے سرحد عبور کر کے الینوا جا سکتے ہیں اس لیے وہ بڑے جیک پاٹ کے لیے وہاں کے ٹکٹ خرید لیتے ہیں۔ نتیجتاً ریاستوں نے سنہ 1980 کی دہائی میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر لاٹری کھیلنا شروع کر دیا اور اس طرح نیشنل لاٹری سامنے آئی۔ پاور بال اور میگا ملینز اب امریکہ کی 45 ریاستوں میں کھیلی جاتی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اب جیک پاٹس اتنے بڑے کیوں ہوتے ہیں۔ امریکہ کا آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک ہونا ہی بڑے انعامات کا واحد سبب نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ اس کھیل کے اصول بھی بدلتے رہے ہیں۔ مسٹر کوہن نے کہا کہ ’لاٹری واقعی ایک ایسا واحد طریقہ بن گیا ہے جس سے لوگ اپنے لیے ایک ارب ڈالر حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی لیے یہ اب کسی ثقافتی بخار کی طرح لوگوں کو ترغیب دیتا ہے، حالانکہ کہ اس کے جیتنے کے امکانات پہلے کے مقابلے میں کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں۔‘ ان کی کتاب میں جن لوگوں سے انٹرویوز کیے گئے ہیں ان میں سے بہت سے لوگوں نے لاٹری کھیلنے کے بارے میں اس وقت تک سوچا بھی نہیں تھا جب تک کہ انھوں نے خبروں میں بڑے جیک پاٹ کو نہیں دیکھا۔ اگر کوئی فاتح سامنے نہیں آتا ہے، تو رقم اگلی قرعہ اندازی میں شامل کر دی جاتی ہے اور اس طرح جیک پاٹ کی رقم میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میڈیا کی اور بھی زیادہ توجہ اس پر ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر لاٹری کے زیادہ کھلاڑی بھی ہو سکتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxrn0e3eygzo", "summary": " ماہرین کے مطابق جس وقت تک آئی ایم ایف پاکستان سے سمجھوتہ نہیں کرتا اور اسے کسی ڈسپلن میں نہیں لے کر آتا اس امداد کا حصول مشکل ہو جائے گا۔", "title": "کیا سعودی عرب اور چین جیسے دوست ممالک آئی ایم ایف کی وجہ سے پاکستان کی فوری مدد نہیں کر پا رہے؟", "firstPublished": "2023-01-10T06:49:53.963Z", "id": "cxrn0e3eygzo", "article": "ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان کے پاس پانچ ارب ڈالر سے کم کے ذخائر ہیں جن سے صرف تین ہفتے کی درآمدات کی ادائیگیاں ہی ممکن ہو سکیں گی اور اگر جلد بیرونی امداد یا قرض نہ ملا تو ایسی صورت میں ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔\r اسحاق ڈار نے ابھی تک یہ تو نہیں بتایا کہ جن قریبی دوستوں سے جلد امداد ملنے کا امکان تھا وہ امداد ابھی تک کیوں نہیں مل سکی تاہم سکیورٹی امور پر کڑی نظر رکھنے والے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے پنجاب کے صنعتی شہر فیصل آباد میں چند دن قبل ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ دوست ممالک نے ہمیں بتایا ہے کہ پہلے اپنے معاملات آئی ایم ایف سے ٹھیک کریں اور اس کے بعد پھر ہمارے پاس آئیں۔\r ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا آئی ایم ایف مشن کے ساتھ نواں جائزہ اکتوبر میں ہونا تھا مگر ان مذاکرات میں اس وجہ سے تعطل آیا کہ اسلام آباد اور آئی ایم ایف کے درمیان ایکسچینج ریٹ پالیسیز، درآمدات پر پابندیوں، اضافی ٹیکس لگانے کی شرط اور بجلی پر نرخوں میں اضافے کے ذریعے تقریباً پانچ ہزار ارب روپے کے گردشی قرضوں کو ختم کرنے جیسے اقدامات اٹھانے پر اختلافات پیدا ہوئے۔\r ان کے مطابق یہ بات 1983 پھر 1987 اور 2008 کے عالمی بحران سے بھی واضح ہو گئی ہے کہ پہلے کسی بھی ملک کو اپنی عادات سنوارنی ہوں گی اور آئی ایم ایف کا اعتماد حاصل کرنا ہو گا اس کے بعد ہی دوسرے ادارے اور ملک پھر اس پر اعتبار کر سکیں گے۔\r ان کے مطابق آئی ایم ایف کی مداخلت سے اعتماد بڑھنے کا اس وجہ سے تعلق ہے کہ یہ عالمی مالیاتی ادارہ کسی بھی ملک کو پروگرام میں لانے سے پہلے ایک ضابطے میں اور قاعدے پر لے کر آتا ہے، جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی ملک قرضے واپس کیسے کر سکے گا۔\r ڈاکٹر ندیم الحق کے مطابق قرضے واپس کرنے سے متعلق پاکستان کا ریکارڈ بہت کمزور ہے۔ ان کے مطابق یہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا 23 واں پروگرام چل رہا ہے مگر ابھی تک پاکستان ایک آدھ ہی پروگرام رعایتی نمبرز لے کر پورا کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل اسے اچھی پیشرفت قرار دے رہے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ امداد پاکستان کی توقعات سے زیادہ ہے اور اب پاکستان کو آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔‘\r ان ماہرین کے مطابق جس وقت تک آئی ایم ایف پاکستان سے سمجھوتہ نہیں کرتا اور اسے کسی ڈسپلن میں نہیں لے کر آتا اس امداد کا حصول مشکل ہو جائے گا۔\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51gp11y4e4o", "summary": "یوکرین کے ارب پتی افراد کو دوسرا دھچکا 2021 کے اواخر میں اس وقت لگا، جب یوکرین نے ان ارب پتیوں کے خلاف ایک قانون سازی کی جسے ’ڈی اولیگارکائزیشن بل‘ کہا گیا۔", "title": "یوکرین کی امیر کاروباری شخصیات کو اربوں کا نقصان: کیا بدنامِ زمانہ ’اولیگارکس‘ کا عروج ختم ہو رہا ہے؟", "firstPublished": "2023-01-09T04:22:23.455Z", "id": "c51gp11y4e4o", "article": "وہ یوکرین میں سٹیل اور کوئلے کی صنعت کے ایک بہت بڑے حصے کے مالک ہیں۔ ’آزووسٹل سٹیل ورکس کمپنی‘ جو جنگ کے باعث اب کھنڈرات میں بدل چکی ہے، اس کے مالک بھی رینات اخمتوف ہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ملک کی بہترین فٹ بال ٹیموں میں سے ایک ’شاہکتر دونسٹک فٹبال کلب‘ کے بھی مالک ہے، اور یوکرین کا ایک معروف اور اہم ٹی وی چینل بھی ان ہی کی ملکیت میں ہے۔ لیکن بہت سارے عام شہریوں کی طرح سنہ 2014 میں یوکرین کے مشرقی علاقوں پر روسی حملے کے بعد سے، ان امیر ترین افراد کے کاروباروں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور ان کی املاک روسی قبضے کی وجہ سے تباہ ہو گئی ہیں۔ خاص طور پر جب ان کا موازانہ ایک اور یوکرینی ارب پتی شخص اہور کولوموسکی سے کیا جائے تو انھوں نے اس تنازع میں یوکرین کی بہت کم مالی اعانت کی ہے۔ مارچ 2014 میں انھیں جنوب مشرقی یوکرین کے نیپروپیٹروسک خطے کا گورنر مقرر کیا گیا تھا۔ جیسے جیسے تنازع بڑھتا گیا، اہور کولوموسکی نے لاکھوں افراد کو یوکرین کی رضاکار فوج میں بھیج دیا۔ انھوں نے روسی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کو پکڑنے پر انعامات کی پیشکش کی اور یوکرین کی فوج کو ایندھن فراہم کیا۔ اس اختلاف کی وجہ پارلیمنٹ کی جانب سے ایک قانون منظور کیا جانا تھا جس کے نتیجے میں کولوموسکی ایک تیل کمپنی پر کنٹرول کھو بیٹھے تھے۔ اس کے جواب میں مبینہ طور پر مسلح افراد آئل کمپنی کے ہیڈ کوارٹر پر چڑھ دوڑے تھے۔ یوکرین کے ارب پتی افراد کو دوسرا دھچکا 2021 کے اواخر میں اس وقت لگا، جب یوکرین نے ان ارب پتی شہریوں کے خلاف ایک قانون سازی کی جسے ’ڈی اولیگارکائزیشن بل‘ کہا گیا۔ صدر زیلنسکی کے متعارف کروائے گئے اس نئے قانون نے ایک اولیگارک کی تعریف ایسے شخص کے طور پر کی گئی ہے جو درج ذیل چار شرائط میں سے تین کو پورا کرتا ہے: میڈیا یا سیاست پر اثر و رسوخ رکھنے والا، اجارہ داری قائم کرنے والا، لاکھوں ڈالرز سالانہ کمانے والا شخص۔  یوکرین کے سابق مقبول تحقیقاتی صحافی اور اب صدر کے چیف آف سٹاف کے مشیر سرحی لیشاچنکو کہتے ہیں کہ ’ڈی اولیگارکائزیشن کا قانون ان کے خاتمے کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔‘ سیوگل موسیاوایا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جیسے جیسے جنگ میں شدت آئی اس نے ان ارب پتی افراد کی زندگی کو مزید مشکل بنایا۔ کیونکہ اس نے انھیں داخلی سیاست پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے اپنے بچاؤ پر توجہ دینے پر مجبور کیا۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’جنگ یوکرین میں ان ارب پتی افراد کے خاتمے کا آغاز ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c512p05nm7zo", "summary": "متعدد پاکستانی بینک غیر ملکی ادائیگیوں کے لیے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے ریٹ کا سہارا لے رہے ہیں۔ جہاں سرکاری ریٹ 227 روپے ہے تو وہیں معاشی ماہرین ایک ’تیسری مارکیٹ‘ کا حوالہ دیتے ہیں جس کے پاس ڈالر تو دستیاب ہیں مگر 35 سے 40 روپے مہنگے۔ مگر ایسا کیوں ہے؟", "title": "پاکستان میں ڈالر کا ’اصل ریٹ‘ کیا ہے اور ماضی کے مقابلے میں اس بار حالات ’زیادہ خراب‘ کیوں ہیں؟", "firstPublished": "2023-01-08T04:02:57.145Z", "id": "c512p05nm7zo", "article": "بینکاری کی زبان میں ڈالر کی قیمت کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ ڈالر خریدنا چاہتے ہیں یا اسے فروخت کرنا اور کام کے لیے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں رائج ریٹ موجود ہوتے ہیں۔ \r عموماً بینکوں کے ذریعے ڈالر میں کی جانے والی ادائیگیوں پر انٹر بینک یعنی سرکاری ریٹ نافذ العمل ہوتا ہے تاہم متعدد پاکستانی بینک غیر ملکی ادائیگیوں پر ’اوپن مارکیٹ‘ میں ڈالر کے ریٹ کا سہارا لے رہے ہیں۔ جہاں سرکاری ریٹ 227 روپے ہے تو وہیں معاشی ماہرین ایک ’تیسری مارکیٹ‘ کا حوالہ دیتے ہیں جس کے پاس ڈالر تو دستیاب ہیں مگر 35 سے 40 روپے مہنگے۔ ماہر معیشت اشفاق حسن کہتے ہیں کہ ڈالر کے اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک ریٹ میں 35 سے 40 روپے کا فرق پڑ چکا ہے، یعنی کسی شخص کو بیرون ملک سفر پر جانے کے لیے یا یہیں بیٹھے باہر سے کوئی چیز خریدنے کے لیے ہر ڈالر کے بدلے سرکاری ریٹ کے بجائے لگ بھگ 260 روپے ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔ \r انھوں نے کہا کہ ڈالر کا سرکاری ریٹ روک کر رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایل سی (بینکوں کے ذریعے عالمی تجارت کا طریقہ) بند ہے اور ڈالر کی طلب بھی کم رکھی گئی ہے۔ ’ڈالر کو کسی نے رسی سے باندھ کر نہیں رکھا ہوا بلکہ اس کی طلب کم کر دی گئی ہے۔ اوپن مارکیٹ میں قیاس آرائیاں کرنے والے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے (ریٹ میں) فاصلہ بڑھ رہا ہے۔‘\r اسی ’تیسری مارکیٹ‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے انگریزی اخبار بزنس ریکارڈر کی مدیر انجم ابراہیم کہتی ہیں کہ یہ وہ اوپن مارکیٹ ہے جس کے پاس ڈالر دستیاب ہے ’مگر اس میں 30 سے 35 روپے کا فرق آ رہا ہے۔‘ \r اسد سعید کہتے ہیں کہ ماضی میں بھی یہ ہوتا تھا کہ ’جب ملکی ذخائر اچھے ہوتے تھے تو یہ مارکیٹ میں ڈالر پھینک کر اس کا ریٹ طے کر دیتے تھے۔ اب بھی انھوں نے بینکوں اور سٹیٹ بینک پر دباؤ ڈال کر ان سے (انٹر بینک) ریٹ کم رکھوایا ہوا ہے۔‘\r ان کا کہنا ہے کہ ڈالر میں کی جانے والی بہت کم ادائیگیاں سرکاری ریٹ پر ہوتی ہے جبکہ اکثر ادائیگی اوپن مارکیٹ ریٹ پر کرنی پڑتی ہیں۔ ’اس سے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ کوکنگ آئل کی سپلائی ختم ہو رہی ہے کیونکہ ڈالر ختم ہو رہے ہیں۔ درآمدات میں ایل سیز نہیں کھولی جا رہیں۔ یہ بہت مشکل حالات ہیں۔‘\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c13ee4ll6j4o", "summary": "لاہور کے ایک پٹرول پمپ پر پٹرول ڈلوانے کے لیے خواتین کی ایک الگ قطار دیکھ کر ایک صارف نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ کیا لکھی کہ ایک دم ایک نئی بحث شروع ہو گئی۔", "title": "’کم قیمت پٹرول ملنے پر مجھے زیادہ خوشی ہوگی، یہ پِنک پمپ صرف ڈرامہ ہے‘", "firstPublished": "2023-01-07T12:54:21.897Z", "id": "c13ee4ll6j4o", "article": "آپ کے ساتھ کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ پٹرول کی لائن میں کھڑے ہوتے ہوئے آپ کو سروس پرسن نے آگے بلا لیا ہو تاکہ آپ کو بہت دیر انتظار نہ کرنا پڑے؟ اور کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ آپ کا دل کیا ہو کہ کاش خواتین کے لیے باقی جگہوں کی طرح یہاں بھی الگ لائن ہو؟ پاکستان میں اب بہت سے شعبوں میں خواتین کو فوقیت دینے کے حوالے سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح کا ایک اقدام لاہور کے گرجہ چوک پر موجود پٹرول سٹیشن نے اٹھایا ہے۔ یہاں پر پٹرول ڈلوانے کی غرض سے آنے والی خواتین کے لیے الگ لائن مختص کردی گئی ہے۔ اس بات کا نوٹس لاہور کی رہائیشی علشبہ نے اس وقت لیا جب وہ خود پٹرول ڈلوانے پٹرول سٹیشن پہنچیں۔ ٹوئٹر پر اپنے فولوورز سے پٹرول سٹیشن کی تصویر شئیر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ ’میں نے پہلی دفعہ کسی پٹرول سٹیشن پر خواتین کے لیے علیحدہ لائن دیکھی اور مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں نے اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا اور مجھے یہ دیکھ کر خاصی خوشی ہورہی ہے۔‘ ان کی ٹوئیٹ کے ساتھ لگی ہوئی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پٹرول پمپ کے ایک باکس کو گلابی رنگ کردیا گیا ہے اور اس پر ایک ربن بھی لگائی گئی ہے۔   ان کی ٹوئیٹ کے ساتھ لگی ہوئی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پٹرول پمپ کے ایک باکس کو گلابی رنگ کردیا گیا ہے اور اس پر ایک ربن بھی لگائی گئی ہے۔   ان کی اس پوسٹ کے نیچے متعدد خواتین نے یا تو خوشی کا اظہار کیا ہے یا پھر ایسا کرنے کے پیچھے کیا جواز یا منطق ہے کے بارے میں سوال کیے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک لڑکی نے لکھا ہے کہ ’یہ تو میرے گھر سے بہت نزدیک ہے۔‘ جبکہ ایک اور صارف محمد نے لکھا ہے کہ ’خواتین کو بااختیار بنانا اپنی جگہ ایک بہت اہم ضرورت ہے، لیکن یہ خواتین کی لائن کے پیچھے کوئی منطق سمجھ نہیں آئی۔‘ اسی صارف کے جواب کے نیچے سلیمان اسلم نے لکھا ہے کہ ’پی ایس او کا یہ اقدام قابلِ تعریف ہے اور یہ ہر پٹرول پمپ پر ہونا چاہیے۔‘ جبکہ صائمہ نامی صارف نے لکھا ہے کہ ’کم قیمت پٹرول ملنے پر مجھے زیادہ خوشی ہوگی! یہ پِنک پمپ صرف ڈرامہ ہے۔ خواتین کو اپنا معیار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اور ایسی چیزوں پر فدا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘ پاکستان میں پٹرول پمپ ان چند جگہوں میں سے ایک ہیں جہاں عموماً خواتین اور مردوں کی ایک ہی لائن ہوتی ہے۔ اور یہاں جنس کے لحاظ سے کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں برتا جاتا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0x44n1j1yjo", "summary": "پاکستان کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ انھیں اس بات پر افسوس ہے کہ انھوں نے موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت سے ’تعلقات‘ کا ناگوار انداز میں ذکر کیا۔ تاہم انھوں نے اس بیان کی ویڈیو شیئر کر کے اپنی غلطی کا اعتراف کیا ہے۔ ", "title": "’مفتاح بھائی ویڈیو شیئر کرنے کا شکریہ‘ اسحاق ڈار سے متعلق بیان پر مفتاح اسماعیل کو ’پچھتاوا‘", "firstPublished": "2023-01-06T05:51:45.345Z", "id": "c0x44n1j1yjo", "article": "پاکستان کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ انھیں اس بات پر افسوس ہے کہ انھوں نے موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت سے ’تعلقات‘ کا ناگوار انداز میں ذکر کیا۔ \r خیال رہے کہ اپریل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت جانے کے بعد مفتاح اسماعیل اتحادی جماعتوں (پی ڈی ایم) کی حکومت کے وزیر خزانہ بنے تھے مگر انھیں اس عہدے سے ہٹا کر اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنا دیا گیا تھا۔ \r گذشتہ سال وزیر خزانہ بننے سے قبل اپنے انٹرویوز میں اسحاق ڈار پیٹرول اور دیگر اشیا کی قیمتیں بڑھانے پر مفتاح اسماعیل کی مخالفت کرتے تھے۔ انھوں نے وزیر خزانہ بننے پر یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ وہ ڈالر کی قدر کو 200 روپے سے نیچے لا سکتے ہیں۔ \r تاہم اب مفتاح نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ انھیں اپنے بیان پر افسوس ہے اور انھیں ان کی غلطی کا احساس سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق پرنسپل سکریٹری فواد حسن فواد نے کروایا۔ ادھر مسلم لیگ ن کے رہنما علی گوہر بلوچ نے سنو ٹی وی کو بتایا کہ مفتاح صاحب کی یہ اپنی ذاتی رائے ہے اور بہتر ہوتا اگر وہ اسحاق ڈار صاحب سے براہ راست یہ بات کرتے، بجائے میڈیا اور عوام میں آ کر یہ بات کہتے۔ بدھ کو نشر کی گئی اس ویڈیو میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’چھ ماہ تک (موجودہ وزیر خزانہ) اسحاق ڈار نے میرے خلاف مہم چلائی تھی۔ وہ آ کر ٹی وی پر بولتے تھے کہ وہ 180، 160 روپے کا ڈالر کر دیں گے۔ میرے خلاف پروگرام کروائے جاتے تھے۔۔۔ چھ ماہ سے وہ مجھے ’انڈر مائن‘ کر رہے تھے۔‘ \r انھوں نے کہا کہ اسحاق ڈار کو ’وزیر بننے کا بہت زیادہ شوق تھا۔ وہ آخر کار (بن گئے) کیونکہ وہ پارٹی میں میاں نواز شریف کی بیٹی کے سسر بھی ہیں اور وہاں لندن میں ان کے پاس تھے۔۔۔ انھوں نے کہا میں جاؤں گا ڈالر بھی سستا کر دوں گا، پیٹرول بھی سستا کر دوں گا، دودھ اور شہد کی نہریں بھی آجائیں گی۔ تو پارٹی نے فیصلہ کیا کہ مفتاح کو ہٹا دو، یا میاں صاحب نے فیصلہ کیا کہ مفتاح کو ہٹا دو۔‘ مفتاح نے کہا کہ اسحاق ڈار سے ’نہیں دیکھا گیا کہ کوئی اور آدمی وزیر تھا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن میں انھیں ہی وزیر ہونا چاہیے۔‘ \r بعد ازاں انھوں نے ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ ’میں نے نادر علی کی پوڈکاسٹ میں ڈار صاحب کے پارٹی قیادت سے تعلقات کا ذکر کیا جسے میڈیا نے سپن دیا (سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا)۔ اب مجھے اس پر پچھتاوا ہے۔ \r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckr37nddgjvo", "summary": "’الیکٹرانک کچرا‘ یا پھر ای ویسٹ جو بالکل ناکارہ ہونے کے باعث سمندر کے پاس پھینک دیا جاتا ہے۔ ابراہیم حیدری کا شمار کراچی کے مضافات میں ہوتا ہے اور یہاں کے مقامی لوگوں کا بنیادی پیشہ ماہی گیری ہے۔ لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو سہولیات کی کمی کے باعث کچرا چننے پر مجبور ہے۔ ", "title": "پاکستانی ساحلوں پر ’امپورٹڈ‘ الیکٹرانک کچرا: ’جو آپ کے لیے کچرا ہے وہ میرے لیے بہت قیمتی ہے‘", "firstPublished": "2023-01-05T03:51:14.698Z", "id": "ckr37nddgjvo", "article": "مگر یہ وہ کچرا نہیں جو آپ اپنے گلی محلے میں دیکھتے ہیں بلکہ یہ ’الیکٹرانک کچرا‘ یا پھر ای ویسٹ ہے جو ناکارہ ہونے کے باعث سمندر کے پاس پھینک دیا جاتا ہے۔ ابراہیم حیدری کا شمار کراچی کے مضافات میں ہوتا ہے اور یہاں کے مقامی لوگوں کا بنیادی پیشہ ماہی گیری ہے۔ لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو سہولیات کی کمی کے باعث کچرا چننے پر مجبور ہے۔ ابراہیم حیدری میں اس کچرے کے ساتھ کیا ہوتا ہے یہ آگے چل کر پڑھیں گے، مگر اس سے پہلے سوال یہ ہے کہ یہ ’الیکٹرانک کچرا‘ سمندر کے کنارے کیسے پہنچتا ہے اور پاکستان میں اس کا کاروبار کیسے چلتا ہے؟ رواں سال جولائی میں پاکستان کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی نے اپنے ایک اجلاس میں رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ کے مطابق برطانیہ سے 40 ہزار ٹن کچرا پاکستان پہنچتا ہے جبکہ 25 ہزار ٹن کچرا ایران سے آتا ہے اور اسے ’امپورٹڈ کچرے‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ کراچی کی شیر شاہ کباڑی مارکیٹ ہے جہاں ہر روز کنٹینرز ’امپورٹڈ کچرے‘ کو لا کر مختلف دکانوں پر مشتمل کمپاؤنڈز میں کھولتے ہیں۔ اس سامان میں ایسا کچھ نہیں جو کام کا نہ ہو۔ چاہے وہ استعمال شدہ موبائل فون ہوں یا پھر لیپ ٹاپ، یا آئی پیڈ، یا پھر اس میں استعمال ہونے والی گولڈن چِپ، ہر چیز استعمال کے اور بیچنے کے قابل ہوتی ہے۔ اور جو چیز بالکل قابلِ استعمال نہیں رہتی، اسے مزید توڑ پھوڑ کے بعد سمندر کنارے پھینک دیا جاتا ہے۔ دکاندار نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سارا سامان کوئٹہ سے لاتے ہیں لیکن شیرشاہ کباڑی مارکیٹ میں امپورٹڈ کچرے کے ٹرک سے بھی بہت سامان مل جاتا ہے۔ ’یہ فیوجی فِلم کیمرہ ہے اور میری ضرورت کا ہے۔ تو ہوتا یہ ہے کہ ہر دکاندار آنے والے کنٹینر سے اپنی مرضی کا سامان چُن کر اس کی بولی لگاتا ہے۔ یہ بولی پانچ ہزار سے پچاس ہزار کے درمیان لگتی ہے۔ خریدنے کے بعد اسے ہم لوگوں کو بیچتے ہیں۔‘ اسی دکان پر صدر بازار سے آئے ایک اور دکاندار بھی موجود تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ’میں پہلی بار یہاں آیا ہوں۔ اور آنے کی وجہ یہی ہے کہ الیکٹرانکس کا سامان جو ویسے بہت مہنگا ملتا ہے یہاں سستا مل جاتا ہے۔ اور اب اس کی ڈیمانڈ بھی بہت ہے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72vn5g2d4po", "summary": "ماہرین کے مطابق متعدد اقدامات کا ہر کچھ برس بعد اعلان کیا جاتا ہے مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا جبکہ حکومت ایک بڑے بحران کو نظرانداز کر رہی ہے۔", "title": "بازاروں، شادی ہالز کی جلد بندش: کیا یہ نمائشی اقدامات ہیں یا اِن کا کچھ فائدہ بھی ہو گا؟", "firstPublished": "2023-01-04T03:52:43.074Z", "id": "c72vn5g2d4po", "article": "تاہم اقتصادی شعبے سے وابستہ ماہرین کے نزدیک ان میں سے بہت سے اقدامات وہ ہیں جن کا ہر چند برس بعد اعلان تو کیا جاتا ہے مگر اُن پر زیادہ عرصے عملدرآمد نہیں ہو پاتا۔  چند ماہرین کے نزدیک اس نوعیت کے اقدامات کا اعلان کرنا احسن اقدام تو ضرور ہے مگر یہ سب کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے ایک بڑے بحران کو نظرانداز کیا جا رہا ہے جو کہ درحقیقت ادائیگیوں کے توازن کا بحران ہے۔  بازاروں اور شادی ہالز کی جلد بندش کا اعلان ہر حکومت کی جانب سے کچھ عرصے بعد کیا جاتا ہے تاہم اس پر عمل شاید ہی کبھی ہوا ہو۔ شادی ہالز کی بات کی جائے تو وقتِ مقررہ پر پولیس موبائلز انھیں بند کروانے کے لیے پہنچ تو جاتی ہیں مگر عام طور پر دیکھا یہ جاتا ہے کہ سامنے کی روشنیاں بند کر کے ’سامان سمیٹنے اور مہمانوں کو رخصت کرنے‘ کے نام پر پھر بھی ایونٹ کو مختص وقت کے بعد طول دے لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے یہ بندش بھی اپنا مقصد کھو بیٹھتی ہے۔  یہ تو ہوا تاجروں کا مؤقف۔ ماہرینِ معیشت سمجھتے ہیں کہ حکومت کے اقدامات ان بنیادی مسائل سے نظریں چرانے کے مترادف ہیں جو اس وقت پاکستان کی معیشت کو لاحق ہیں جبکہ اعلان کردہ اقدامات کا بھی کوئی فوری نتیجہ نظر نہیں آئے گا اور کچھ ہی عرصے میں انھیں بھلا دیے جانے کا خدشہ موجود ہے۔  ماہرین کے مطابق حکومت کی جانب سے درآمدی بل میں کمی کے جس اقدام کا اعلان کیا گیا ہے وہ معیشت کو سکیڑنے کے مترادف ہے کیونکہ اس وقت ملک میں ڈالرز کی کمی ہے جس کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی۔  پنکھوں، بلبوں اور گیزروں کے حوالے سے اعلان کیے گئے اقدامات پر عمار حبیب خان نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ یہ آلات بہت زیادہ توانائی کا استعمال کرتے ہیں مگر انھیں فوری طور پر روکا نہیں جا سکتا بلکہ یہ کئی برسوں پر محیط مرحلہ ہو گا جس کے تحت کم توانائی استعمال کرنے والی چیزوں کی پیداوار بڑھانا، ان کی مارکیٹ پیدا کرنا، پرانی طرز کے آلات کی بندش وغیرہ شامل ہیں کیونکہ لامحالہ گھروں میں لگے آلات تب تک چلتے رہیں گے جب تک کہ خراب نہیں ہو جاتے۔  اُنھوں نے اس کی مثال یوں دی کہ ایک زمانے میں ہر گھر میں متعدد ٹیوب لائٹس ہوا کرتی تھیں مگر اب یہ انرجی سیورز اور ایل ای ڈی سے بدلتی جا رہی ہیں لیکن اس میں کافی عرصہ لگا ہے اور اب سے لے کر چار یا پانچ برسوں میں مکمل عملدرآمد کے ساتھ اس کے نتائج سامنے آئیں گے۔  معاشی شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت جس جانب توجہ نہیں دے رہی وہ ادائیگیوں کے توازن کا بحران ہے جو سر اٹھائے کھڑا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckk62y73ddlo", "summary": "انڈین حکومت کے ادارے شمالی پن بجلی کارپوریشن یا این ایچ پی سی نے کئی پروجیکٹوں کو حاصل کر لیا ہے، لیکن وہاں پیدا ہونے والی بجلی شمالی انڈیا کی مختلف ریاستوں کو فراہم کی جاتی ہے۔ اس مسئلے پر سیاسی حلقوں میں دہائیوں سے ناراضگی پائی جاتی ہے۔ ", "title": "انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے نوجوان جو پن بجلی کے منصوبوں سے توانائی بحران ختم کر رہے ہیں", "firstPublished": "2023-01-03T05:10:44.291Z", "id": "ckk62y73ddlo", "article": "دفتری طوالت، پہاڑوں کے درمیان راستے بنانے اور آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر دیو ہیکل مشینیں پہنچانے جیسے کٹھن مراحل سے گزر کر محسِن نے بالاخر چھ میگاواٹ کی صلاحیت والے نجی پن بجلی گھر کا پروجیکٹ تیار کر لیا ہے۔ کشمیر واپسی پر محسن نے دیگر دو دستوں کے ہمراہ پن بجلی منصوبوں کی تعمیر سے متعلق ایک کمپنی کی بنیاد رکھی اور اسی دوران حکومت نے ہائیڈرو پاور کی پیدوار کو نجی کمپنیوں کے لیے کھول دیا۔ کئی مشکلات کے بعد محسن کی کمپنی کو ایک پن بجلی گھر کے منصوبے کی تیاری کا ایک ٹھیکہ مل گیا اور حکومت نے انھیں اس مقصد کے لیے سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر سرینگر کے مشرق میں سونہ مرگ کے قریب ایک دشوار گزار پہاڑی قطعہ الاٹ کر دیا۔  مُحسن جیسے کئی دیگر نوجوان بھی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں نجی پن بجلی کے منصوبے قائم کر چکے ہیں اور ان منصوبوں سے تقریباً 100 میگاواٹ بجلی پیدا ہونے کا امکان ہے۔ ان نجی بجلی گھروں میں پیدا ہونے والی بجلی حکومت کی ترسیلی لائنوں کے ذریعہ سرکاری گرِڈ میں جمع ہوتی ہے اور پھر اسے مقامی حکومت یا کشمیر سے باہر کارپوریٹس یا حکومتوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ تاہم حکومت کے پن بجلی کے منصوبوں سے فی الوقت اڑھائی ہزار میگاواٹ سے بھی کم بجلی پیدا کی جارہی ہے جو سردیوں میں ہزار میگاواٹ سے بھی کم رہ جاتی ہے جبکہ بجلی کی ڈیمانڈ سردیوں میں دستیاب پیداوار سے کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ حالانکہ انڈین حکومت کے ادارے شمالی پن بجلی کارپوریشن یا این ایچ پی سی نے کئی پروجیکٹس کو حاصل کر لیا ہے لیکن وہاں پیدا ہونے والی بجلی شمالی انڈیا کی مختلف ریاستوں کو فراہم کی جاتی ہے۔ اس مسئلے پر سیاسی حلقوں میں دہائیوں سے ناراضگی پائی جاتی ہے۔ ’بٹ کُلن‘ پہاڑ کی مخالف سمت میں گُنڈ گاؤں کے قریب ایک اور پہاڑ پر نوجوان صنعت کار عمر فاروق نے دو میگاواٹ صلاحیت والا پن بجلی گھر قائم کیا ہے جو کامیابی کے ساتھ دو سال سے چل رہا ہے۔ لیکن کشمیر کو بیرونی دنیا سے ملانے کے لیے واحد زمینی راستہ ہمالیائی پہاڑی سلسلے سے ہو کر گزرتا ہے جو برفباری کی وجہ سے کئی کئی ماہ تک بند رہتا ہے۔ عمر کہتے ہیں کہ ’توانائی سیکٹر ہمارا مستقبل ہے۔ پوری دنیا اس وقت ماحول دوست انڈسٹری کی بات کرتی ہے۔ پن بجلی منصوبے سے کوئی ماحولیاتی آلودگی نہیں پھیلتی اور پانی سے توانائی حاصل کی جاتی ہے اور پانی واپس ندی نالوں میں جاتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyewdpx89lyo", "summary": "دنیا بھر میں کم سے کم اجرت حاصل کرنے متعدد خواتین نے سال 2022 میں روز بروز بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے ایسی بہت سی چیزوں کا استعمال بند کر دیا ہے جو پہلے ان کی زندگی کا لازمی حصہ تھیں۔", "title": "دنیا بھر میں خواتین بڑھتی مہنگائی کا کیسے مقابلہ کر رہی ہیں؟", "firstPublished": "2023-01-01T02:16:19.301Z", "id": "cyewdpx89lyo", "article": "دنیا بھر میں کم سے کم اجرت حاصل کرنے متعدد خواتین نے سال 2022 میں روز بروز بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے ایسی بہت سی چیزوں کا استعمال بند کر دیا ہے جو پہلے ان کی زندگی کا لازمی حصہ تھیں۔ جن خواتین سے ہم نے بات کی ان میں ایک خاتون ایسی بھی ہیں جنھیں حکومت کی پالیسیوں میں تبدیلی کا فائدہ ملا ہے اور ان کی تنخواہ میں اضافہ ہوا ہے لیکن پھر بھی ان کے لیے اخراجات پورے کرنے میں مشکل ہو رہی ہے۔ اوڈیشہ کی ریاستی حکومت نے اس تعداد کو بڑھا کر 2020 میں 200 دن اور جولائی 2022 میں 300 دن کر دیا ہے تاکہ فاربانی کے علاقے سے لوگوں کی نقل مکانی کو کم کیا جا سکے۔ برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں رہنے والی جوسارا باکیلو کہتی ہیں کہ ایک سال پہلے خریداری سے واپسی پر اگر وہ اپنے بیگ کا موازنہ آج کی خریداری سے کریں تو ان کا بیگ ’صرف آدھا بھرتا ہے۔‘ وہ کہتی ہیں ’میں تیل میں پکاتی ہوں اور جب تیل استعمال کے قابل نہیں رہتا، تو میں اسے پلاسٹک کی بوتلوں میں محفوظ کر لیتی ہوں اور اپنے پڑوسیوں کو دیتی ہوں جو اس سے صابن بناتے ہیں۔‘ جوسارا ایک انجینئرنگ فرم میں کلینر اور باورچی کے طور پر کام کرتے ہوئے ماہانہ 225 ڈالر کی کم از کم اجرت حاصل کرتی ہیں۔ ایک سال پہلے وہ اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کے ساتھ کبھی کبھار فلم دیکھنے جاتی تھیں اور عادتاً اپنے ہینڈ بیگ میں کھانا لے کر بے گھر افراد کو عطیہ کرتی تھیں۔  ربیکا ایک ٹیچر ہیں۔ وہ ماہانہ 4,500 نیرا کماتی ہیں، جو نائیجیریا میں کم سے کم اجرت سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ پھر بھی، یہ آمدنی ان کے خاندان کی بقا کے لیے کم ہے۔ گھر میں آرام کرنا بھی ان کے لیے آسان نہیں ہے۔ پرانے گدے سے ان کی کمر میں درد ہوتا ہے لیکن وہ پرانے کو بدل کر نیا گدا نہیں خرید سکتیں۔ اس کے بعد انھیں نوکری تبدیل کرنے کا مشورہ دیا گیا لیکن ان کی عمر میں ایسا کرنا آسان نہیں ہے۔ قیمتوں میں اضافے سے نہ صرف ان کا بجٹ متاثر ہوا ہے بلکہ شرح سود میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے اپنے فلیٹ کی رقم جمع کروانے کے لیے قرض لیا تھا، اب اس کی ماہانہ قسط بھی بڑھ گئی ہے۔ جیونگ کہتی ہیں کہ ’اب میں صرف زندہ رہنے کے لیے کام کرتی ہوں۔ پہلے میں اپنے والدین کے لیے کچھ رقم بچاتی تھی لیکن اس سال میں نے اپنی ساری بچت روزمرہ کے اخراجات کے بلوں کی ادائیگی کے لیے خرچ کر دی۔‘ وہ مزید کہتی ہیں ’حکومت نے 2022 میں کم از کم اجرت کو پانچ فیصد بڑھا کر6.80 ڈال فی گھنٹہ کر دی لیکن قیمتیں اس سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھی ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c7245v28zlyo", "summary": "پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر یعنی وہ امریکی ڈالرز جن کی مدد سے وہ قرضے واپس کر سکتا ہے یا پھر اشیائے ضروریہ برآمد کرتا ہے، ان کا ایک بڑا حصہ دوست ممالک کی طرف سے دیے گئے ڈالرز پر مشتمل ہے۔ تو ایسے میں پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے اسحاق ڈار کو کیا کرنا ہوگا؟ ", "title": "’ڈیفالٹ کا کوئی امکان نہیں‘، وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دعوے کی حقیقت کیا ہے؟", "firstPublished": "2022-12-29T07:20:43.390Z", "id": "c7245v28zlyo", "article": "واضح رہے کہ ان دوست ممالک نے یہ پیسے اس شرط پر پاکستان کے پاس رکھوائے ہیں کہ وہ ان کو خرچ نہیں کر سکتا۔ تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ قابلِ خرچ ڈالرز کے کم ہونے کی وجہ سے پاکستان بیرونی قرضہ جات پر ڈیفالٹ کر سکتا ہے؟ اس بارے میں ہم نے چند معاشی ماہرین سے بات کی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا جب پاکستان کے پاس اتنے پیسے نہیں رہے ہیں کہ وہ آنے والے چند ماہ میں واجب الادا قرضے واپس کر پائے اور ساتھ ہی اشیائے ضروریہ کی درآمد بھی نہ کر پائے تو پاکستان دیوالیہ ہونے سے کیسے بچ سکتا ہے؟ ڈاکٹر ساجد امین سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار جس اعتماد کے ساتھ یہ دعوٰی کر رہے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کی جانب نہیں جا رہا ہے اس کے پیچھے ان دو عوامل کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی ہے  کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کا اگلا پروگرام مل جائے گا۔  خاقان نجیب کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام انتہائی اہم ہے اور اس پر واضح فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم نے اس کو نہیں چھوڑنا۔ وزیر اعظم کی جانب سے آئی ایم ایف ہی آخری حل کا بیان معاشی استحکام کے  لیے درست سمت میں ہے۔   وہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا پروگرام اگلے چھ ماہ کے لیے بہت اہم ہے اور اگر پاکستان اس کے تاخیر کا شکار جائزہ پروگرام کو کامیابی سے ڈیل کر لیتا ہے تو عوامی حلقوں میں ملک کے دیوالیہ ہونے کا تاثر ختم ہو گا کیونکہ فنڈز فلو کریں گے اور سٹاک مارکیٹ، کرنسی مارکیٹ، کریڈٹ مارکیٹ مثبت رحجان ظاہر کریں گی۔ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر یعنی وہ امریکی ڈالرز جن کی مدد سے وہ قرضے واپس کر سکتا ہے یا پھر اشیائے ضروریہ برآمد کرتا ہے جیسا کہ ایندھن وغیرہ، ان کا ایک بڑا حصہ دوست ممالک کی طرف سے دیے گئے ڈالرز پر مشتمل ہے۔   تاہم پاکستان یہ ڈالرز خرچ نہیں کر سکتا یعنی ان کو وہ قرض کی ادائیگی یا برآمدات کی ادائیگی کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر ان ڈالرز کا پاکستان کو کیا فائدہ ہو ریا ہے؟   اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکڑ ساجد کہتے ہیں کہ دوست ممالک کی طرف سے پاکستان کے پاس رکھے گئے ان اربوں ڈالرز کا فائدہ یہ ہے کہ ’اس سے پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام رہے گا اور اس کی قدر مزید نہیں گرے گی۔‘ ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اربوں ڈالرز کی موجودگی مارکیٹ میں یہ تصور قائم کرتی ہے کہ پاکستان کے پاس ڈالرز ہیں جن کی مدد سے اسے مزید قابلِ خرچ ڈالرز بھی مل جائیں گے جیسا کہ آئی ایم ایف۔  "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw4k9w12ypvo", "summary": "پاکستان میں گاڑیاں بنانے اور اسمبل کرنے والی بعض کمپنیوں نے درآمد شدہ آٹو پارٹس کی قلت اور مانگ میں کمی کی وجہ سے اپنے پروڈکشن پلانٹس سال کے آخر میں کچھ دنوں کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ", "title": "پاکستان میں گاڑیوں کے پروڈکشن پلانٹس کی عارضی بندش: ’ٹماٹر پیاز کے پیسے نہیں، کار کی باری بہت بعد میں آئے گی‘", "firstPublished": "2022-12-27T09:29:15.255Z", "id": "cw4k9w12ypvo", "article": "پاکستان میں گاڑیاں بنانے اور اسمبل کرنے والی بعض کمپنیوں نے درآمد شدہ آٹو پارٹس کی قلت اور مانگ میں کمی کی وجہ سے اپنے پروڈکشن پلانٹس سال کے آخر میں کچھ دنوں کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ \r پاک سوزوکی نے پیر کو بتایا کہ ان کا پیداواری پلانٹ دو جنوری (پیر) سے چھ جنوری (جمعے) تک بند رہے گا۔ \rکمپنی کے اعلامیے کے مطابق یہ فیصلہ اسمبل کی جانے والی گاڑیوں کے پارٹس (سی کے ڈی کٹس) کی درآمد پر عائد رکاوٹوں کے باعث کیا گیا۔ درآمد شدہ مال کی کلیئرنس میں تاخیر سے پارٹس کی قلت پیدا ہوئی جس کے بعد کمپنی کی انتظامیہ نے پانچ روز کے لیے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے پلانٹ کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ \r اس سے قبل ٹویوٹا انڈس پاکستان نے 20 سے 30 دسمبر تک پروڈکشن پلانٹ بند رکھنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ کمپنی اور اس کے وینڈرز کو خام مال اور پارٹس کی درآمدی کلیئرنس میں تاخیر کا سامنا ہے۔ پاک سوزوکی نے گاڑیوں کے درآمدی پارٹس کی قلت کے باعث پانچ روز تک پروڈکشن بند کرنے کا اعلان کیا ہے ٹویوٹا کے اعلامیے کی مثال دیتے ہوئے (جس میں اس نے نان پروڈکشن ڈیز کے باوجود ملازمین لے آف نہ کرنے کا وعدہ کیا) سنیل منج نے کہا کہ بڑی پبلک لمyٹڈ کمپنیاں شاید اتنی جلدی لے آف نہ کریں مگر جب پروڈکشن مسلسل بند رہے گی تو مزدوروں کو نوکریوں سے نکالا جاسکتا ہے۔ \r جب بی بی سی نے سنیل منج سے پوچھا کہ درآمدات کی تاخیر کا معاملہ کب تک حل ہوگا، تو انھوں نے بتایا کہ ماضی میں بھی کار کمپنیوں کے نان پروڈکشن ڈیز میں اضافہ دیکھا گیا ہے مگر اس بار صورتحال اس لیے مختلف ہے کیونکہ گذشتہ ’سات ماہ سے ہمارے پاس بندرگاہ پر پھنسے پیاز، ٹماٹر کلیئر کرانے کے پیسے نہیں اس لحاظ سے آٹو سیکٹر کی سی کے ڈی کٹس کی باری تو بہت بعد میں آئے گی۔‘\r وہ کہتے ہیں کہ یہ تاثر غلط ہے کہ حکومت نے ایسا لوکلائزیشن بڑھانے کے لیے کیا ہے بلکہ یہ واضح ہے کہ سٹیٹ بینک کے پاس ڈالرز کی قلت ہے اور اسے لیے آٹو پارٹس کی درآمدات کو منظوری تاخیر سے ملتی ہے۔ \r خیال رہے کہ رواں سال مئی میں وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے معاشی استحکام کے لیے آٹو سیکٹر اور موبائل فونز سمیت تمام ’لگژری اور غیر ضروری اشیا‘ کی درآمد پر پابندیاں عائد کی تھی۔ بڑھتے کرنٹ اکاؤنٹس خسارے، غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی اور روپے کی قدر میں گراوٹ کا حوالے دیتے ہوئے حکومت نے یہ ’ایمرجنسی اقدامات‘ کیے تھے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ce92rem0mpmo", "summary": "پاکستان کی تیزی سے آگے بڑھتی ہوئی ٹیک انڈسٹری میں اپنے منفرد آئیڈیاز کے ساتھ اب خواتین بھی خاصی سرگرم نظر آتی ہیں۔ آئیے آپ کی ایسی ہی چند خواتین سے ملاقات کراتے ہیں جو بڑی کامیابی سے اس شعبے میں اپنے مشن کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ ", "title": "پاکستان کی ٹیک انڈسٹری میں خواتین: ’کمپنی کا آغاز کیا تو سننے کو ملا کہ تم لنڈا بیچ رہی ہو‘", "firstPublished": "2022-12-19T08:26:05.277Z", "id": "ce92rem0mpmo", "article": "\r’لیکن اس میں بھی سو مسئلے سامنے آنے لگے۔ لڑکیاں کہتی تھیں کہ پتا نہیں جس کے کپڑے میں پہن رہی ہوں اس کی قسمت کیسی تھی، اس کی وجہ سے میری قسمت نہ خراب ہوجائے۔ اس لیے میں نے شادیوں والے کپڑوں کے علاوہ بھی کپڑے رکھنے شروع کر دیے، جن کی طلب زیادہ تھی۔ اس وقت ہماری ویب سائٹ کے علاوہ بھی ایسی ایپس ہیں جہاں خواتین باآسانی کپڑے بیچنے کے لیے تصوریر کھینچ کر اپ لوڈ کر سکتی ہیں۔‘\r ’ہم اس کی کوالٹی چیک کرتے ہیں اور اس کو اپنی پیکیجنگ میں پیک کرکے کسٹمر کو بھیجتے ہیں۔ ہم تمام آڈرز خواتین کے گھروں سے خود اٹھاتے ہیں اور پھر اپنی انڈسٹری سے چیک کرنے کے بعد ان کو پیسے آن لائن ٹرانسفر کرتے ہیں۔ اس میں سے ہم اپنا کمیشن بھی رکھتے ہیں۔\r‘ سحرش رضا واحد خاتون نہیں، جو پاکستان کی تیزی سے آگے بڑھتی ہوئی ٹیک انڈسٹری کا حصہ ہیں۔ ان جیسی درجنوں خواتین منفرد قسم کے آئیڈیاز پر کام کرتے ہوئے دنیا میں اپنا نام بنا رہی ہیں۔ ایسی کئی کہانیوں میں سے ایک کہانی جویریہ شکیل کی ہے، جو پچھلے تین سال سے ٹیک انڈسڑی کا حصہ ہیں اور کامیانی کے ساتھ اپنی کمپنی چلا رہی ہیں۔ ’ٹیک انڈسٹری میں کام کرنے کے بہت مواقع موجود ہیں \rاور خواتین کے لیے تو بلاشبہ بہت ہی زیادہ گنجائش ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ ٹیک انڈسٹری میں جانے سے بہت عورتوں کو چیلنجز آئیں گے۔ پاکستانی سوسائٹی اور لوگوں کا مائنڈ سیٹ تبدیل ہو رہا ہے۔ \rاب اس انڈسٹری میں خواتین کو مردوں سے زیادہ سپورٹ ملتی ہے اگر وہ واقعی کام کرنا چاہتی ہیں۔‘\r اس بارے میں دیوویا نے بات کرتے ہوئے کہا کہ آپ سوچیں کہ اگر آپ پاکستان کی تاریخ قائد اعظم سے پڑھیں یا پھر آپ کراچی میں رہتے ہوئے یہ دیکھ سکیں کہ اسلام ٓاباد کی فیصل مسجد اندر سے کیسی دکھتی ہے۔\r ہم نے اسی چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستان کی تاریخی عمارتوں کے تھری ڈی ماڈل تیار کیے ہیں۔ ’اگر آپ کو ٹیکنالوجی کا شوق ہے اور آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس سے جڑی ہر چیز سیکھنا انتہائی آسان ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ خواتین کے لیے تو بہت ہی زیادہ آسان ہے کیونکہ آپ سب گھر بیٹھے بھی سیکھ سکتے ہیں اور پیسے کما سکتے ہیں۔‘ دیوویا مزید کہتی ہیں کہ ’بطور خاتون میں جانتی ہوں کہ اکثر لڑکیوں کو گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ملتی۔\r اس لیے میں تو ہمیشہ یہی کہتی ہوں کہ بس آپ کے پاس ایک لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ اور سیکھنے کی لگن ہونی چاہیے۔ اس کے بعد کامیابی ان کا مقدر ہو گی کیونکہ مستقبل کا دور تو صرف ٹیکنالوجی کا ہی ہے۔‘\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c9rl535p0lko", "summary": "عام طور پر بٹ کوائن کے ایک سکے کی قیمت، جو مارکیٹ کی قدروقیمت کا پیمانہ سمجھی جاتی ہے، اس وقت 18 ہزار امریکی ڈالر کے آس پاس ہے۔ نومبر 2021 میں بٹ کوائن کے عروج کے بعد سے یہ 70 فیصد تک کی کمی ہے۔", "title": "سکینڈل، ہیکنگ اور قدر و قیمت میں تاریخی کمی: کیا کرپٹو مارکیٹ دوبارہ سنبھل پائے گی؟", "firstPublished": "2022-12-16T11:50:40.174Z", "id": "c9rl535p0lko", "article": "بٹ کوائن ایک ایسی کہانی ہے جو بلکل فلمی انداز میں کسی غریب کی امارت تک کے سفر کی داستان لگتی ہے۔\r\n اس سفر میں بٹ کوائن کی مالیت ہزاروں ڈالرز کے برابر جا پہنچی اور اس کی شناخت ایک طاقت ور کرنسی کے متبادل کے طور پر ہونے لگی۔ مخصوص ویب سائٹس اور کیفیز میں تو پیسے کی جگہ بٹ کوائن کو بطور کرنسی استعمال کیا بھی جانے لگا۔\r\n رفتہ رفتہ بٹ کوائن کی ہزاروں نقلیں مارکیٹ میں آ گئی جن میں ایتھیریئم، ڈوجیکوائن اور لائٹ کوائن بھی شامل تھیں۔ \r\n2021 غالبا بٹ کوائن کی مقبولیت کا عروج تھا جب اسے غیر معمولی شہرت اور کامیابی ملی۔\r\n لوگ بٹ کوائن پر سارا سرمایہ لٹا رہے تھے اور اس ایک ڈیجیٹل سکے کی قیمت 70 ہزار امریکی ڈالر کے قریب پہنچ چکی تھی۔ 2021 کے نومبر میں ہی بٹ کوائن کی قدر میں کمی ہونا شروع ہوئی اور دن بدن حالات بدتر ہوتے چلے گئے۔\r\n سکینڈلز کی بہتات اور یکے بعد دیگرے نقصانات کی وجہ سے بٹ کوائن کی قیمت اور اس پر اعتماد شاید اس وقت تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر ہے۔\r\n کمپنی کے بانی سیم بینک مین فرائیڈ، جو اس وقت حراست میں ہیں، پر امریکہ میں الزام ہے کہ انھوں نے ’دھوکے کی بنیاد پر ریت کا محل بنایا اور سرمایہ کاروں کو بتایا کہ یہ کرپٹو کی سب سے محفوظ عمارت ہے۔‘\r\n دیگر چھوٹے سکینڈلز نے بھی بٹ کوائن کے پورے نظام پر سے اعتماد کم کیا ہے۔ ان میں امریکی فنکار کم کرداشیئن پر ایک بدقسمت کرپٹو کرنسی کو پروموٹ کرنے کی وجہ سے ایک عشاریہ 26 ملین ڈالر جرمانہ بھی شامل ہے۔\r\n عام طور پر بٹ کوائن کے ایک سکے کی قیمت، جو مارکیٹ کی قدروقیمت کا پیمانہ سمجھی جاتی ہے، اس وقت 18 ہزار امریکی ڈالر کے آس پاس ہے۔ نومبر 2021 میں بٹ کوائن کے عروج کے بعد سے یہ 70 فیصد تک کی کمی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ کرپٹو کی پہلی اہمیت ایک ٹیکنالوجی کے طور پر ہے اور ان کے خیال میں اس نظر سے دیکھا جائے تو سب ٹھیک ہے بلکہ ’کئی لحاظ سے پہلے سے بھی بہتر ہے۔‘\r\n ان کا ماننا ہے کہ بٹ کوائن نے دکھایا ہے کہ معاشی انفراسٹرکچر سے محروم ترقی پذیر ممالک میں بٹ کوائن کی پذیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹیکنالوجی زندگیاں بہتر بنا رہی ہے۔\r\n ان کا کہنا ہے کہ کرپٹو کی مالیت میں اتار چڑھاؤ کا اس کی ترقی کے سفر سے تعلق نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ خیراتی ادارے کرپٹو کے استعمال سے ان مقامات تک سرمایہ منتقل کرنے کے قابل ہوئے ہیں جہاں تنازعات کی وجہ سے پیسہ پہنچانا ممکن نہیں ہوتا۔\r\n"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n2dzlkr0jo", "summary": "کالی بارش کے چھ سال بعد تیل وینیزویلا کی سب سے اہم برآمد اور ملک کی آمد کا اولین ذریعہ بن چکا تھا۔", "title": "وینیزویلا کی تقدیر بدلنے والے تیل کی دریافت جسے ابتدا میں ’شیطان کی آنتوں میں سوراخ  کرنے کی سزا‘ کہا گیا", "firstPublished": "2022-12-16T07:11:18.914Z", "id": "c4n2dzlkr0jo", "article": "مگر جب وہ ان دھماکوں کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے اپنے گھروں سے نکلے تو اُن کو معلوم ہوا کہ اس کی وجہ کچھ اور ہی تھی۔ انھوں نے کچھ ایسا دیکھا جو پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ باہر بارش ہو رہی تھی لیکن آسمان سے پانی نہیں بلکہ کالے رنگ کا گاڑھا سا مائع برس رہا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایسا ہی واقعہ تھا جیسا 1901 میں امریکی ریاست ٹیکساس میں رونما ہوا تھا جس کے بعد امریکہ میں تیل کی دریافت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ یہ خبر بھی دنیا میں آگ کی طرح پھیلی کہ وینیزویلا کے ایک قصبے میں ایک ایسا کنواں دریافت ہوا ہے جس سے تیل کے اخراج کو 45 کلومیٹر دور تک دیکھا گیا۔‘\r ایگور ہرنینڈیز وینیزویلا کے ماہر معیشت ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس دریافت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1922 میں وینیزویلا سے اوسطا چھ ہزار بیرل خام تیل کی پیداوار ہوتی تھی۔ تاہم ان کے مطابق اس حادثے نے تیل انڈسٹری کی توجہ اور سرمایہ کاری کا رُخ وینیزویلا کی جانب موڑ دیا جس کے بعد ملک کی معاشی حالت بدلنا شروع ہو گئی۔\r کالی بارش کے چھ سال بعد تیل وینیزویلا کی سب سے اہم برآمد اور ملک کی آمد کا اولین ذریعہ بن چکا تھا۔ دہائیوں سے وینیزویلا کے معاشرے میں تیل بحث اور تنازعات کا موضوع رہا ہے جس کی وجہ اس کے فوائد اور نقصانات ہیں۔ ’1920 اور 1980 کے درمیان لگاتار 60 برسوں میں وینیزویلا دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والا ملک تھا، اور یہ صرف تیل کی صنعت کی وجہ سے تھا۔‘ مونالڈی بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ تیل ملک کے لیے فائدہ مند رہا۔ تاہم ان کے مطابق ایک صدی بعد بھی ملک کی سب سے اہم برآمد تیل ہی کا ہونا ایک ناکامی ہے کیوںکہ ’اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم دیگر صنعتوں کو ترقی دینے کے اہل نہیں ہیں۔‘ مونالڈی کا کہنا ہے کہ ’وینیزویلا کے پاس دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر رہ جائیں گے کیوںکہ ہم اسے نکال نہیں پا رہے اور دنیا میں توانائی کے شعبے میں جو تبدیلی آ رہی ہے، اس کا مطلب ہے کہ اس دولت کا بڑا حصہ زمین میں ہی دبا رہ جائے گا۔‘\r اوپیک کی عالمی تنظیم کے مطابق اس وقت وینیزویلا روزانہ کی بنیاد پر چھ سے سات لاکھ بیرل تیل ہی نکال پا رہا ہے۔\r مونالڈی خبردار کرتے ہیں کہ ’آئندہ صدی میں تیل تونائی کا سب سے اہم ذریعہ نہیں رہے گا اور اپنی دولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ملک کے پاس اب ایک صدی پہلے کی نسبت بہت کم وقت ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c25xdl7zlngo", "summary": "گذشتہ رات وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا ہے جن پیٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں 10 روپے کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ ", "title": "پیٹرول 10 روپے فی لیٹر سستا: ’عالمی منڈی میں کمی ہوئی ہے، اسحاق ڈار کا کوئی کمال نہیں‘", "firstPublished": "2022-12-16T01:32:04.470Z", "id": "c25xdl7zlngo", "article": "پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ یا کمی کے فیصلے ہمیشہ سے ہی بڑی خبر بنے رہے ہیں کیونکہ اس فیصلے کا براہِ راست عام آدمی کی زندگی پر اثر پڑتا ہے۔ تاہم رواں سال ملک کا سیاسی و معاشی منظر نامہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے گرد گھومتا رہا ہے اور اب اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ متنازع ہو جاتا ہے۔ گذشتہ رات وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس اعلان کے مطابق اب پیٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمت 10 روپے کم ہو گی۔ خیال رہےکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اور برینٹ کروڈ فی بیرل 81 اعشاریہ دو ڈالر تک آن پہنچا ہے جو رواں سال کے اوائل 100 ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا۔ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے پیٹرولیم مصنوعات میں کم کا اعلان ٹی وی پر ایک خطاب میں کیا اور کہا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف چاہتے ہیں کہ عوام تک زیادہ سے زیادہ ریلیف منتقل کیا جائے۔ تاہم رواں برس کے بجٹ سے قبل قیمتوں میں مرحلہ وار اضافے کا اعلان کیا گیا جس کے باعث ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ دیکھنے کو ملا اور اس وقت کے وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جب پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی واپسی کا اعلان کیا گیا تھا تو اس وقت اسحاق ڈار کی جانب سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم کرنے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کے وعدے کیے گئے تھے۔ اسحاق ڈار کے آنے کے بعد سے یہ تیسرا موقع ہے جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے۔ اس سے پہلے انھوں نے عہدہ سنبھالتے ہی 30 ستمبر کو پیٹرول اور ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 12 روپے کم کی تھی جبکہ نومبر 30 کو لائٹ ڈیزل کی قیمت ساڑھے سات روپے جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت میں 10 روپے کمی کی گئی تھی۔ اس فیصلے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک صارف نے لکھا کہ ’حکومت کو اس وقت قیمتوں میں کمی کا اعلان نہیں کرنا چاہیے تھا اور اس کے ذریعے ٹیکس اہداف پورے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھے کیونکہ اس کا اثر عام آدمی تک نہیں پہنچے گا۔‘ پاکستان بزنس کونسل کی جانب سے ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ ’یہ موقع آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کو واپس اپنی جگہ پر لانے کا تھا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کا نہیں۔ سیاسی مصلحت کی بنا پر کیے گئے فیصلوں سے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا امکان ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی آئی ہے اس میں اسحاق ڈار کا کوئی کمال نہیں ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg9l49vje4o", "summary": "سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق ولیعہد محمد بن سلمان نے گذشتہ ماہ ریاض میں دنیا کے سب سے بڑے ایئرپورٹ کی تعمیر کا منصوبہ جاری کیا ہے جو کہ 2030 کے ان کے حوصلہ مندانہ وژن کا حصہ بن رہا ہے۔", "title": "محمد بن سلمان کا وژن 2030: مستقبل کے جدید شہر کے بعد دنیا کے سب سے بڑے ایئرپورٹ کی تعمیر کا منصوبہ کیا ہے؟", "firstPublished": "2022-12-14T07:20:03.785Z", "id": "crg9l49vje4o", "article": "سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ایس پی اے‘ کے مطابق ولی عہد محمد بن سلمان نے گذشتہ ماہ ریاض میں دنیا کے سب سے بڑے ایئرپورٹ کی تعمیر کے منصوبے کا اعلان ہے اور یہ پراجیکٹ اُن کے سعودی وژن 2030 کا حصہ بن رہا ہے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق وزیر ٹرانسپورٹ اینڈ لاجسٹک سروسز انجینئرنگ صالح بن ناصر الجاسر نے اس منصوبے کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ شاہ سلمان بین الاقوامی ہوائی اڈہ، جس کا اعلان ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز السعود نے کیا تھا، عالمی طور پر سعودی عرب کی حیثیت کو بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔ سعودی عرب کے پاس رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ پہلے سے ہی موجود ہے اور یہ شاہ فہد ایئرپورٹ ہے جو کہ سعودی عرب کے تیل سے مالا مال علاقے دمام میں موجود ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جس منصوبے کا اعلان کیا ہے وہ در اصل دارالحکومت ریاض میں موجود شاہ خالد انٹرنیشنل ایئرپورٹ میں توسیع ہے۔ لیکن اب اسے شاہ سلمان انٹرنیشنل ایئرپورٹ کہا جائے گا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ سعودی عرب کے وژن 2030 کے بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت سعودی عرب اپنی معیشت کو تیل پر انحصار سے چھٹکارا دلانے کے لیے پُرعزم ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ریاض ایئرپورٹ کو ایوی ایشن کے بڑے مرکز میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے ذریعے سالانہ 12 کروڑ مسافر سفر کر سکیں گے۔ سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی ایس پی اے کے مطابق یہ کام سنہ 2030 تک مکمل کر لیا جائے گا۔ سعودی عرب کے آزاد ویلتھ فنڈ (پبلک انویسٹمنٹ فنڈ یعنی پی آئی ایف) کو اس بین الاقوامی ہوائی اڈے کی تعمیر کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ درحقیقت سعودی عرب اب تیل پر اپنی معیشت کا انحصار کم کرنے کے لیے اپنے وژن 2030 پر کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ شہزادہ محمد نے سنہ 2017 مین اس وژن کا اعلان کیا تھا جس کے تحت ایک نئے جدید شہر کے آباد کرنے کا بھی منصوبہ ہے۔ اس کے تحت بحرِ احمر کی جانب سعودی عرب کے صحرا کے ایک آخری حصے کی جانب ’نیوم‘ نامی مستقبل کے ایک جدید قسم کے شہر کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ اس شہر کی تعمیر500 ارب ڈالر کی لاگت سے ہو گی جس میں منصوبے کے مطابق اڑنے والی ٹیکسیاں اور گھریلو کام کاج کے لیے روبوٹِس (خود کار مشینوں) کی مدد حاصل ہو گی، اور اِس میں دس لاکھ افراد آباد ہوں گے۔ سرکاری خبررساں ایجنسی کے مطابق ’ہوائی اڈے کا منصوبہ سنہ 2030 تک ریاض کو دنیا کی 10 بڑی معیشتوں میں شامل کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔‘ یہاں سے 250 مقامات پر بین الاقوامی پروازیں شروع کرنے کا بھی ہدف ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72eyz4w9nzo", "summary": "پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو ڈالر کی قیمت کو قابو کرنے کے دعویدار تھے اس صورتحال میں ناکام نظر آتے ہیں کیونکہ ایک طرف ڈالر کا سرکاری نرخ 224 سے 225 تک پہنچ چکا ہے تو دوسری جانب جب درآمد کنندگان ڈالر کے لیے بینکوں سے رابطہ کرتے ہیں تو انھیں ڈالر فراہم نہیں کیے جاتے ہیں۔ ", "title": "پاکستان میں ڈالر کی عدم دستیابی: کیا اسحاق ڈار کا ڈالر ریٹ کو قابو کرنے کا دعویٰ صرف سیاسی نعرہ تھا؟", "firstPublished": "2022-12-13T03:48:58.234Z", "id": "c72eyz4w9nzo", "article": "’اس درآمدی مال کی ایل سی تو کھل چکی تھی تاہم اس ایل سی کی ادائیگی کے لیے بینک کی جانب سے ڈالر فراہم نہیں کیے جا رہے تھے۔ بیرون ملک اس خام مال کا فروخت کنندہ بار بار اپنی رقم مانگ رہا تھا۔ میں نے اس خام مال کی رقم بینک میں جمع کرا دی تھی اور اب بینک کو اس رقم کو ڈالروں کی صورت میں بیرون ملک بھجوانا تھا تاہم بینک کی جانب سے یہ ڈالر نہیں بھیجے جا رہے تھے۔‘ پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو ڈالر کی قیمت کو قابو رکھنے کے دعویدار تھے اس صورتحال میں ناکام نظر آتے ہیں کیونکہ ایک جانب ڈالر کا سرکاری نرخ 224 سے 225 تک پہنچ چکا ہے تو دوسری جانب جب درآمد کنندگان ڈالر کے لیے بینکوں سے رابطہ کرتے ہیں تو انھیں ڈالر فراہم نہیں کیے جاتے جبکہ گرے مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 240 روپے سے اوپر جا چکی ہے۔ موجودہ حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد جب مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ بنے تو ڈالر کے ریٹ میں اضافہ دیکھا گیا اور 29 جولائی 2022 کو روپے کے مقابلے میں ڈالر انٹر بینک میں 240 تک چلا گیا تھا، جس پر مفتاح اسماعیل تنقید کا نشانہ بنے تو اس کے بعد اسحاق ڈار کی ملک واپسی کی خبریں آنا شروع ہوئیں۔ اسحاق ڈار کی جانب سے کیے جانے والے اس دعوے کے دو مہینے گزرنے کے بعد ڈالر کی قیمت 200 روپے سے نیچے نہیں آ سکی بلکہ اس وقت ڈالر کی قیمت 224 روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 230 سے اوپر تک جا چکی ہے۔ ماہر معیشت اور سٹی بینک سے منسلک سابق بینکر یوسف نذر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بات غلط ہے کہ اسحاق ڈار نے گذشتہ دور وزارت میں ڈالر کو قابو کیا، ان کی خوش قسمتی تھی کہ اس دور میں عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتیں کریش کر گئیں تھیں اور اس کا فائدہ پاکستان کو تیل کی خریداری پر کم ڈالر خرچ کرنے کی صورت میں ہوا تھا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے ڈالر کے ریٹ کو نیچے لانے کے دعویٰ کے بارے میں ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ ’یہ ایک سیاسی نعرہ تھا جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہ تھا۔‘ ’بہت ساری ملٹی نیشنل کمپنیاں تو اس وقت ملازمین کو فارغ کرنے اور کچھ پاکستان سے نکلنے کا بھی سوچ رہی ہیں کیونکہ ایک تو ڈالر کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان کی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں تو ان کے منافع کو ڈالروں کی صورت میں باہر لے جانا بھی مسئلہ بنا ہوا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6p8jwe5663o", "summary": "پاکستان میں مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے سونے کے زیورات کی طلب میں کمی دیکھی گئی تاہم دوسری جانب سونے کے بسکٹوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ملک میں سونے کی قیمت میں حالیہ مہینوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔", "title": "کیا پاکستان میں سونے کی قیمت میں بے تحاشا اضافے کی وجہ اس میں ہونے والی سرمایہ کاری ہے؟", "firstPublished": "2022-12-11T03:32:55.490Z", "id": "c6p8jwe5663o", "article": "’مارکیٹ میں کام نہیں اور جیولرز کے پاس سونے کے زیورات بنانے کے آرڈر کم ہیں جس کی وجہ سے کام شدید متاثر ہوا ہے تاہم دوسری جانب سونے کی طلب زیادہ ہے کیونکہ لوگ اب بسکٹ کی صورت میں زیادہ سونا خرید رہے ہیں۔‘ پاکستان میں مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے سونے کے زیورات کی طلب میں کمی دیکھی گئی ہے تاہم دوسری جانب سونے کے بسکٹوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے ملک میں سونے کی قیمت میں حالیہ مہینوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور سونے کی قیمت 165000 روپے فی تولہ تک پہنچ گئی جو ملکی تاریخ میں سونے کی قیمت کی بلند تریں سطح ہے۔ اگرچہ سونے سے بنے ہوئے زیورات جو شادی بیاہ کے موقع پر تیار کیے جاتے ہیں انھیں محفوظ رکھ لیا جاتا ہے اور اکثر خاندانوں میں اسے مشکل وقت میں بیچا جاتا ہے تاہم پاکستان میں سونا سٹاک مارکیٹ، فارن کرنسی اور رئیل اسٹیٹ کے ساتھ سرمایہ کاری کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور سونے کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ اس میں زیادہ سرمایہ کاری ہے جسے ’محفوظ سرمایہ کاری‘ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں سونے کی قیمت میں اضافہ ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آرہا ہے جب ملک کے معاشی اشاریے گرواٹ کا شکا رہیں۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر گر رہے ہیں جبکہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے ساتھ سٹاک مارکیٹ گذشتہ کئی مہینوں سے مندی کا شکار ہے جبکہ دوسری جانب ملک میں مہنگائی کی شرح 25 فیصد پر موجود ہے۔  پاکستان میں سونے کی طلب میں اضافے پر بات کرتے ہوئے عدنان قادری نے بتایا کہ اگر جیولرز کے کاروبار کو دیکھا جائے تو سونے کے زیورات کے کم آرڈ آرہے ہیں اور جیولرز اس صورتحال پر پریشان ہیں تاہم انھوں نے کہا کہ مجموعی طور پر سونے کی طلب بڑھی ہے کیونکہ اب لوگ اس میں زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور انھیں اس وقت سونے میں سرمایہ کاری سب سے زیادہ پرکشش نظر آرہی ہے۔ احسن الیاس نے اس سلسلے میں  بتایا کہ سونے میں سرمایہ کاری کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں معیشت دستاویزی نہیں اور لوگوں کے پاس کیش کی صورت میں بہت زیادہ پیسہ موجود ہے اور جب سونے کا نرخ ہر روز بڑھ رہا ہو تو ان کے لیے سب سے زیادہ پرکشش سرمایہ کاری سونے کی صورت میں ہوتی ہے جہاں وہ کیش میں کام کر کے منافع کما سکتے ہیں۔ عدنان قادری نے اس سلسلے میں بتایا کہ سونے میں سرمایہ کاری کو پرکشش اور محفوظ سمجھنا ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ہے تاہم انھوں نے  کہا کہ اگر سونے کو خرید کر رکھ لیا جائے اور کل پاکستان میں بہت زیادہ معاشی حالات خراب ہوں اور لوگوں کے پاس پیسہ نہ ہو تو یہ سونا کون خریدے گا لیکن اس کے باوجود سونے میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp3y4z3rp1lo", "summary": "ٹیکنو کریٹس کے خیال میں جدت اور تکنیکی ترقی نے نئے مواقع پیدا کر دیے تھے لیکن اس ترقی اور جدت نے بڑے پیمانے پر بے روزگاری، ماحولیاتی انحطاط، زیادہ آبادی اور عدم مساوات جیسے نئے سماجی مسائل بھی پیدا کیے تھے۔ ", "title": "سیاستدانوں کی جگہ انجینیئرز اور سائنسدانوں کو حکمراں بنانے والی ٹیکنوکریٹ تحریک کیا تھی؟", "firstPublished": "2022-12-10T11:21:30.225Z", "id": "cp3y4z3rp1lo", "article": "یقیناً ٹیکناٹو کی خیالی دنیا کبھی وجود میں نہیں آئی لیکن ٹیکنو کریٹ تحریک، یعنی سائنسدانوں اور دانشوروں کا وہ گروپ جس نے 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں اس ’بے مثال دنیا‘ کا خواب سجایا تھا، کے ارکان کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہو گئی تھی اور انھوں نے اپنی تحریک میں ایسے سوالات اٹھائے جو آج بھی متعلقہ ہیں۔ شاید یہ بات آپ کو سنی ہوئی محسوس ہو لیکن ٹیکنو کریٹس کے خیال میں جدت اور تکنیکی ترقی نے نئے مواقع پیدا کر دیے تھے لیکن اس ترقی اور جدت نے بڑے پیمانے پر بے روزگاری، ماحولیاتی انحطاط، زیادہ آبادی اور عدم مساوات جیسے نئے سماجی مسائل بھی پیدا کیے تھے۔  ان کا خیال تھا کہ اس کا حل سائنس میں ہے۔ اس نئی تکنیکی دنیا کا انتظام انجینیئرز اور ماہرین نے کرنا تھا، جو روزمرہ کے مسائل پر سائنسی اصولوں کا سختی سے اطلاق کریں گے۔ اور اگرچہ مارکسزم کے نظریے میں اس کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں، سماجی اور معاشی مساوات پر یقین کی وجہ سے، یا مطلق العنانیت، جمہوریت کو ختم کرنے کی خواہش کی وجہ سے، اس تحریک نے خود کو اس وقت کے تمام ’نظریات‘ کے خلاف قرار دیا۔ نہ کمیونزم، نہ سوشلزم، نہ فاشزم، نہ نازیزم، نہ لبرل ازم، نہ قدامت پرستی اور نہ ہی یقیناً سرمایہ داری نظام کے نظریے کے خلاف قراد دیا تھا۔ خود سیکھے ہوئے انجینیئر، اگرچہ بعد میں کچھ لوگوں نے اس کی تربیت پر سوال اٹھائے تھے لیکن وہ ایک خاص مقناطیسی کشش والے شخص تھے۔ دنیا کو اپنی تحریک کی طاقت دکھانے کے لیے، سکاٹ نے اس بات کی وکالت کی جسے وہ ’ٹوکن‘ کہتے تھے۔ یعنی ان کی تحریک کے بڑے بڑے اجتماعات میں سینکڑوں اراکین شامل ہوتے تھے تاکہ اپنی قوت کو ظاہر کیا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان میں انجینیئرز اور سائنسی جھکاؤ رکھنے والے لوگ بھی ہیں، لیکن ’ہمارے پاس کچھ کریک پاٹس بھی ہیں، ایسے لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ٹیکنو کریسی کو سڑکوں پر آنا ہوگا اور ایک ایسا نظام مسلط کرنے کے لیے ہتھیاروں سے لڑنا ہوگا جو ایک بہتر دنیا بناتا ہے۔ بہرحال، وہ آہ بھرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں کرتے، کیونکہ ہم غیر سیاسی لوگ ہیں۔‘ جیسا کہ 1930 کی دہائی میں، نئی ٹیکنالوجیز نے اس کام کی جگہ لے لی ہے جو پہلے لوگ کرتے تھے۔ کنسلٹنسی ’آکسفورڈ اکنامکس‘ کے مطابق، اب اور 2030 کے درمیان ، مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں میں روبوٹس 20 ملین ملازمتوں کی جگہ لے لیں گے۔ ٹیکنو کریٹک موومنٹ نے ایسے سوالات اٹھائے جو آج بھی درست ہیں جیسا کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ملازمت کے نقصانات سے کیسے نمٹا جائے؟ وسائل کا استحصال کیے بغیر ان کا استعمال کیسے کیا جائے؟ عدم مساوات کو کیسے ختم کیا جائے؟"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cmm6rdj6jrvo", "summary": "دی چائنا انڈیکس 2022 میں دنیا کے 82 ممالک میں چین کے عالمی اثر رسوخ کے جائزہ لیتے ہوئے پاکستان کو سرفہرست قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین کا پاکستان میں ٹیکنالوجی، خارجہ پالیسی، دفاع، معیشت اور مقامی سیاست سمیت میڈیا پر اثر و رسوخ ہے۔ مگر اس کی وجوہات کیا ہیں؟", "title": "پاکستان چین کے زیرِ اثر ممالک کی فہرست میں اول نمبر پر: مگر اس کا مطلب کیا ہے؟", "firstPublished": "2022-12-09T05:52:05.776Z", "id": "cmm6rdj6jrvo", "article": "چین اور پاکستان کی ہمالیہ سے اونچی اور بحیرۂ عرب سے گہری دوستی کی مثالیں تو آپ نے بہت سُن رکھی ہو گی مگر چین کے دنیا پر بڑھتے اثرورسوخ کے بارے میں جاری کردہ فہرست چائنا انڈیکس 2022 میں پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں چین کا اثر و رسوخ سب سے زیادہ ہے۔\r چین کے عالمی دنیا پر بڑھتے اثر و رسوخ سے متعلق تحقیق میں دنیا کے 82 ممالک کی فہرست مرتب کی گئی ہے جن میں چین کے اثر و رسوخ کو مدنظر رکھا گیا ہے۔\r اسی طرح یورپی ممالک میں سے جرمنی وہ ملک ہے جہاں چین کا اثر و رسوخ سب سے زیادہ ہے اور دنیا کے 82 ممالک کی فہرست میں اس کا نمبر 19 واں ہے۔ دی چائنا انڈیکس 2022 اپنی نوعیت کی ایسی پہلی تحقیق ہے جس میں دنیا کے 82 ممالک میں چین کے عالمی اثر و رسوخ کے جائزہ لیا گیا ہے۔\r یہ فہرست تائیوان میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم ڈبل تھنک نے ’چائنا ان دی ورلڈ نیٹ ورک‘ کے تحت جاری کی ہے۔ \r\nاس فہرست میں دنیا کے 82 ممالک پر چین کے اثر و رسوخ کو نو شعبوں کے تحت درجہ بندی میں شامل کیا گیا ہے جن میں میڈیا، تعلیم، معیشت، معاشرہ، فوج، ٹیکنالوجی، قانون نافذ کرنے والے ادارے، مقامی سیاست اور خارجہ پالیسی شامل ہیں۔ چائنا انڈیکس کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق چین کا پاکستان میں مختلف شعبوں پر اثر و رسوخ ہے جن میں پاکستان کا سب سے زیادہ انحصار 97.7 فیصد ٹیکنالوجی پر ہے۔\r فہرست کے مطابق دوسرے نمبر پر چین کا پاکستان کی خارجہ پالیسی پر 81.8 فیصد اثر و رسوخ ہے اور تیسرے نمبر پر چین پاکستان کی دفاعی افواج پر بھی 80 فیصد اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ دی چائنا انڈیکس کے مطابق تعلیمی شعبے پر 62.5 فیصد، معیشت پر 54.5 فیصد مقامی سیاست میں 52.8 فیصد، میڈیا میں 52.3 فیصد، قانون کے نفاذ پر 47.7 فیصد جبکہ معاشرتی سطح پر 43.2 فیصد اثرو رسوخ ہے۔ چین کے پاکستان پر اثر و رسوخ سے پاکستان کو عالمی سطح پر کن اثرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس بارے میں بات کرتے ہوئے صحافی و تجزیہ کار خرم حسین کا کہنا تھا کہ ’چین کا دوسرے ممالک میں جا کر تعلقات بنانا اور اپنی موجودگی ثابت کرنے کے پیچھے اولین مقصد اس کی فوڈ سکیورٹی کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’چین سنہ 2007 سے اپنی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دنیا پر انحصار کر رہا ہے اور اپنی آمدن کا ایک حصہ خوراک درآمد کرنے پر صرف کر رہا ہے۔ اس لیے وہ پاکستان سمیت دنیا کے ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cj7z9k19m50o", "summary": "روس اور یوکرین کی جنگ سے سابق سوویت یونین کی چھوٹی سی ریپبلک جارجیا کی ایسی چاندی ہوئی جس کی اسے بلکل توقع نہیں تھی۔", "title": "وہ چھوٹا سا ملک جو روس، یوکرین جنگ کی وجہ سے امیر ہو رہا ہے", "firstPublished": "2022-12-08T09:28:24.800Z", "id": "cj7z9k19m50o", "article": "روس اور یوکرین کی جنگ کے نتیجے میں سابق سوویت یونین کی چھوٹی سی ریاست جارجیا کی ایسی چاندی ہوئی جس کی اس ملک کے حکام کو بھی توقع نہیں تھی۔\r تقریبا 37 لاکھ نفوس پر مشتمل جارجیا کا ملک روس کی جنوبی سرحد پر واقع ہے۔ جنگ کے آغاز کے بعد سے ہزاروں روسی شہری نقل مکانی کر کے جارجیا پہنچے ہیں۔ اور یہ روسی تارکین وطن اپنے ساتھ غیر معمولی رقوم بھی لے کر آئے۔\r اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہی ملک جس کی ترقی کی شرح جنگ سے قبل پانچ فیصد تک تھی، اب 10 فیصد کے حساب سے ترقی کر رہا ہے۔\r اندازوں کے مطابق روس، یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک 70 ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان روسی شہری جارجیا منتقل ہو چکے ہیں۔ ان کی درست تعداد کا تخمینہ لگانا اس لیے مشکل ہے کیوںکہ روس، یوکرین اور بیلاروس سے آنے والے لوگوں سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ وہ جارجیا چھٹی منانے آ رہے ہیں یا پھر مستقل رہائش اختیار کرنے۔\r حتی کہ ان ممالک سے جارجیا آنے والے شہریوں کو ایک سال تک رہنے اور کام کرنے کی قانونی اجازت بھی دی جاتی ہے۔\r وہ جب چاہیں ملک چھوڑ سکتے ہیں اور پھر سے ایک سال کے لیے جارجیا سکونت اختیار کر سکتے ہیں اور اس طرح روس، یوکرین اور بیلاروس کے ہزاروں لوگ بنا کسی پابندی کے جارجیا میں رہائش پذیر ہیں۔\r ٹبیلیسی جیسے شہروں میں روسی شہریوں کی آمد کے بعد بینکوں کے باہر قطاریں لگنا شروع ہو گئیں اور کرائے کے مکانوں کی مانگ ایسے بڑھی کہ مقامی لوگ اتنے کرائے دینے کے قابل نہیں رہے۔ جارجیا کا روس سے تعلق پیچیدہ ہے۔ سنہ 2008 میں روس اور جارجیا کے درمیان ایک مختصر جنگ بھی ہو چکی ہے۔ چند مقامی لوگوں کو اندیشہ ہے کہ روسی شہریوں کی نقل مکانی کے جارجیا پر منفی معاشرتی اور معاشی اثرات ہوں گے۔ دھماکہ اس لیے کہ ان کے خیال میں مستقبل میں روس جارجیا پر اسی طرح دھاوا بول سکتا ہے جیسے اس نے یوکرین پر حملہ کیا۔\r مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے سنگم پر واقع جارجیا میں حالیہ عرصے میں سیاحت میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے جس سے ملک کی میعشت کو مزید فائدہ ہوا ہے۔ جارجیا کی حکومت کا خیال ہے کہ 2023 تک معاشی ترقی کی رفتار میں کمی آئے گی جبکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا اندازہ ہے کہ معاشی ترقی جنگ سے پہلے کی سطح پر واپس آ جائے گی۔\r انھوں نے خبردار کیا کہ جارجیا اور روس کی متنازع تاریخ کی وجہ سے معاشرتی تلخیاں بڑھ سکتی ہیں۔\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cg6ve76p1xqo", "summary": "’اس انگیٹھی میں چھوٹا سا پنکھا لگا ہوا ہے جو کم بجلی یا موبائل چارج کرنے والے پاور بینک سے بھی چلتا ہے۔ اس میں جلانے والا میٹریل جانوروں کے گوبر اور لکڑی کے برادے سے تیار کیا جاتا ہے جو ناصرف وزن میں ہلکا ہے بلکہ پشاور شہر میں 80 سے 90 روپے فی کلو دستیاب ہے۔ یہ میٹریل ایک دفعہ آگ پکڑ لے تو دو گھنٹے تک جلتا رہتا ہے۔‘\n", "title": "’ہمارے لیے تو پرانا دور واپس آ گیا‘: گیس کی قلت جو شہریوں کو نت نئے تجربات پر مجبور کر رہی ہے", "firstPublished": "2022-12-08T07:13:13.618Z", "id": "cg6ve76p1xqo", "article": "’اس انگیٹھی میں چھوٹا سا پنکھا لگا ہوا ہے جو کم بجلی یا موبائل چارج کرنے والے پاور بینک سے بھی چلتا ہے۔ اس میں جلانے والا میٹریل جانوروں کے گوبر اور لکڑی کے برادے سے تیار کیا جاتا ہے جو ناصرف وزن میں ہلکا ہے بلکہ پشاور شہر میں 80 سے 90 روپے فی کلو دستیاب ہے۔ یہ میٹریل ایک دفعہ آگ پکڑ لے تو دو گھنٹے تک جلتا رہتا ہے۔‘ پاکستان کے مختلف علاقوں میں اِن دنوں بہت سے شہری اس انگیٹھی کا استعمال کر رہے ہیں۔ پشاور کے ریتی بازار میں یہ انگیٹھی فروخت کرنے والے دکاندار مدثر کے مطابق مٹھی بھر میٹریل انگیٹھی میں ڈال کر اس پر تھوڑا سا مٹی کا تیل ڈال دیتے ہیں اور آگ لگاتے ہیں، جب میٹریل آگ پکڑ لیتا ہے تو پھر اس میں لگا دو، تین انچ کا چھوٹا سا پنکھا چلا دیا جاتا ہے جو آگ کو بھڑکا دیتا ہے اور چولہا دیر تک دہکتا رہتا ہے۔ انگیٹھی میں جلائے جانے والا یہ ایندھن لکڑی کے برادے اور جانوروں کے گوبر سے بنایا جاتا ہے پشاور کے مقامی صراف حاجی ظاہر شاہ بتاتے ہیں کہ ’میرے گھر میں پہلے بھی دو اس طرح کی انگیٹھیاں استعمال ہو رہی ہیں اور گھر میں خواتین ان کی کارکردگی سے خوش ہیں۔ یہ کم خرچ ہے اور اس سے کھانا پکانے کے علاوہ کمرہ گرم بھی ہو جاتا ہے۔‘ اس کا جواب نوشہرہ کے شہری سرفراز کچھ ان الفاظ میں دیتے ہیں ’ہمارے لیے تو پرانا دور واپس آ گیا ہے، وہی دور جب گھروں میں لکڑیاں یا اُوپلے (جانوروں کے گوبر سے بنایا جانے والا ایندھن) جلا کر کھانا بھی بنایا جاتا تھا اور انگیٹھی میں یہی ایندھن ڈال کر کمرہ گرم کیا جاتا تھا۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے علاقے میں گیس پائپ لائن اور میٹر تو موجود ہیں لیکن گیس نہیں ہے۔‘ سرفراز کے گھر صبح کے وقت پہنچے تو اُن کی اہلیہ لکڑیوں سے آگ جلا کر ناشتہ تیار کر رہی تھیں۔ سرفراز نے بتایا کہ سردیاں آتے ہی ان کے علاقے میں لکڑیوں کے ٹال آباد ہو گئے ہیں مگر اب خشک لکڑیوں کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔ ’جو جھاڑیاں 200 سے 300 روپے میں ایک من جاتی تھی اب اس کی قیمت 500 سے 600 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ ایک من لکڑی کسی گھر میں 15 دن تو کہیں 20 سے 25 دن تک بھی چل جاتی ہے۔‘ جب ہم رحیم بخش کے گھر پہنچے تو وہ اپنے بچوں کے ساتھ پرانی انگیٹھی کے اردگرد بیٹھے سردی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی تو درجہ حرارت منفی ایک اور منفی تین تک ہے لیکن آگے چل کر یہ درجہ حرارت منفی 15 تک گِر جاتا ہے اور اس خون جما دینے والی سردی میں گیس نہیں ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw47v9en7glo", "summary": "شپنگ شعبے کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں کنٹینر شپ ٹرن آراؤنڈ ٹائم تقریباً دو ہفتے ہے جو دوسرے ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور اس سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں لیکن آخر اتنا وقت لگنے کی وجوہات کیا ہیں؟ ", "title": "کنٹینر لوڈ اور ان لوڈ کرنے میں تاخیر پاکستان میں کاروبار کو کیسے متاثر کر رہی ہے؟ \r", "firstPublished": "2022-12-05T04:14:44.900Z", "id": "cw47v9en7glo", "article": "تاہم تاجر اور صنعت کاروں کے مطابق ایک مہینہ لگنے کی بات مبالغہ آرائی ہے لیکن دس پندرہ دن ایک عام سی بات ہے جو بہت زیادہ وقت ہے جبکہ پاکستان کے مقابلے میں خطے کے دوسرے ممالک اس سلسلے میں بہت بہتر صورتحال میں ہیں اور وہاں اس پورے عمل میں اس میں خرچ ہونے والا وقت پاکستان کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ شپنگ شعبے کے ماہرین اس سے اتفاق نہیں کرتے جبکہ بیرونی تجارت کے ماہرین کے مطابق سوشل میڈیا پر درج کردہ وقت شاید اس حوالے سے ہے کہ ایک کنٹینر کے پاکستان میں درآمدی مال کے ساتھ آمد سے لے کر اسے واپس برآمدی مال کے ساتھ روانگی کا وقت دیا گیا ہے جو ان کے مطابق کافی وقت لیتا ہے۔ پاکستان میں جہاز رانی کے شعبے کے ماہرین کے مطابق کنٹینر کا ملک میں آنا اور اس کا ملک سے نکل جانا ’کنٹینر ٹرن آراؤنڈ ٹائم‘ کہلاتا ہے۔\r انھوں نے کہا کہ پاکستان میں کراچی اور پورٹ قاسم کی بندرگاہوں میں یہ وقت دو دن سے زیادہ نہیں ہوتا تاہم انھوں نے بتایا کہ ایک کنٹینر کا شپنگ ٹرن آراؤنڈ ٹائم مختلف چیز ہے۔ بین الاقوامی تجارت کے امور کے ماہر اقبال تابش کنٹینر شپنگ ٹرن آراؤنڈ ٹائم وہ وقت ہے جو ایک کنٹینر کے درآمدی مال سے لے کر اس میں برآمدی مال لے کر بیرون ملک جانے کا وقت ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب ایک کنٹینر درآمدی سامان لے کر پاکستان آتا ہے تو اس کی کلیئنرس میں دو تین دن لگ جاتے ہیں اسی طرح اسے ملک کے جنوب میں واقع بندرگاہوں سے نکل کر وسطی اور شمالی علاقے میں پہنچانے کے لیے چھ سے سات دن کا وقت لگتا ہے۔ \r عاصم اقبال نے کہا کہ بیرونی تجارت کا حجم اس سارے معاملے میں بہت اہم ہے اور اس کے ساتھ انڈیا میں بہت ساری بندرگاہیں ہیں اور وہاں پر برآمدی مال جلدی پہنچ کر بیرون ملک پہنچ جاتا ہے جبکہ پاکستان میں کراچی اور پورٹ قاسم کا فاصلہ ملک کے شمالی اور وسطی علاقوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے زیادہ وقت لگتا ہے اور یہ ٹرن آراؤنڈ شپ ٹرن آراؤنڈ سے مختلف ہے۔ \r خرم نے کہا کہ اس سے برآمدات کا شعبہ بھی متاثر ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایکسپورٹ کو وقت پر پہنچنا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں کنٹینر کے زیادہ وقت لگنے کی وجہ سے تاخیر بھی ہوتی ہے۔\r ان کے مطابق انڈیا اور چین میں سمارٹ پورٹس کا تصور ہے جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی بہت بہتر ہے اور وہاں سے مال کی کلیئرنس جلد ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی اس کی ضرورت ہے تاکہ مال کو جلد روانہ کیا جا سکے۔ \r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyjer92dm8go", "summary": "دی اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کے سالانہ سروے کے مطابق امریکہ کا شہر نیو یارک اور سنگا پور دنیا کے سب سے مہنگے شہر ہیں جبکہ پاکستان کا شہر کراچی دنیا کے سب سے سستے شہروں میں شامل ہے۔", "title": "نیو یارک اور سنگاپور دنیا کے سب سے مہنگے شہر، کراچی سب سے سستے شہروں میں شامل", "firstPublished": "2022-12-02T06:23:27.679Z", "id": "cyjer92dm8go", "article": "دی اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کے سالانہ سروے کے مطابق امریکہ کا شہر نیو یارک اور سنگاپور دنیا کے سب سے مہنگے شہر ہیں جبکہ پاکستان کا شہر کراچی دنیا کے سب سے سستے شہروں میں شامل ہے۔\r واضح رہے کہ نیو یارک پہلی بار اس فہرست میں پہلے نمبر پر آیا ہے۔ گذشتہ سال کی رینکنگ میں اسرائیل کا شہر تل ابیب پہلے نمبر پر تھا جو اب تیسرے نمبر پر آ چکا ہے۔\r اس سروے کے مطابق رواں سال دنیا کے بڑے شہروں میں رہائش کا خرچ اوسطا 8.1 فیصد تک بڑھ گیا۔\r اس مہنگائی کی وجوہات میں یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے ساتھ ساتھ کورونا کی وبا کے بعد سامان کی رسد کی فراہمی پر پڑنے والا دباؤ سرفہرست ہے۔\r مہنگائی کی اس عالمی لہر سے ترکی کi شہر استنبول سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں قیمتوں میں 86 فیصد تک اضافہ ہوا ہے جب کہ بیونس آئرس میں 64 فیصد تک اور ایران کے دارالحکومت تہران میں افراط زر میں 57 فیصد اضافہ ہوا۔\r امریکہ میں بھی افراط زر میں اضافہ ہوا اور یہی وجہ ہے کہ اس سال نیو یارک نے مہنگے شہروں کی فہرست میں ترقی کی ہے۔\r امریکہ کے شہر لاس اینجیلس اور سان فرانسسکو بھی دنیا کے مہنگے ترین شہروں کی فہرست میں پہلے 10 شہروں میں شامل ہیں۔ رواں سال کے آغاز پر امریکہ میں مہنگائی کی شرح 40 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی تھی۔ رواں سال کی فہرست میں امریکی شہروں کی ترقی میں ایک اور وجہ ڈالر کی قدر میں اضافہ بھی بتایا جا رہا ہے۔\r\nدوسری جانب یوکرین پر روس کے حملے کے بعد مغربی پابندیوں کی وجہ سے روسی شہروں نے بھی مہنگے شہروں کی فہرست میں ترقی کی ہے۔\r ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ 88 اور 70ویں نمبر سے 37ویں اور 73ویں نمبر پر آ چکے ہیں۔ دی اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کے سالانہ سروے میں دنیا کے 172 شہروں کا موازنہ کیا گیا ہے۔ تاہم اس بار یوکرین کے شہر کیئو کو اس سروے میں شامل نہیں کیا گیا۔\r اس سروے کی سربراہی کرنے والی اپسانا دت نے بتایا کہ ’یوکرین جنگ اور روس پر مغرب کی پابندیوں کے ساتھ چین کی زیرو کورونا پالیسی نے عالمی رسد کی فراہمی میں مسائل پیدا کیے۔‘\r ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے ساتھ ساتھ ایکسچینج ریٹ میں اتار چڑھاؤ اور شرح سود میں اضافے کی وجہ سے دنیا بھر میں مہنگائی بڑھی ہے۔‘\r انھوں نے بتایا کہ 172 شہروں میں جس طرح مہنگائی بڑھی وہ 20 سال کے دوران سب سے زیادہ اوسط ہے۔ 1۔ نیو یارک، سنگا پور\r 10۔ کوپن ہیگن 161۔ بنگلور (انڈیا)\r\n161۔ چنئی (انڈیا)\r 165۔ احمد آباد\r 166۔ الماتے\r 167۔ کراچی\r 168۔ تاشقند\r 169۔ تیونس\r 170۔ تہران\r 171۔ طرابلس\r 172۔ دمشق"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c806xd0yzxdo", "summary": "پاکستان کے معاشی حالات کے تناظر میں دو نوجوانوں کے درمیان دلچسپ سوال و جواب نے سوشل میڈیا پر اس بحث کو جنم دیا ہے کہ پاکستان میں مڈل کلاس کی تعریف کیا ہے؟", "title": "’نویں جماعت میں امریکہ چھٹیاں منانے جانے والے خود کو مڈل کلاس کیسے کہہ سکتے ہیں‘", "firstPublished": "2022-12-01T07:37:24.689Z", "id": "c806xd0yzxdo", "article": "پاکستان کے معاشی حالات کے تناظر میں دو نوجوانوں کے درمیان اس دلچسپ سوال و جواب نے سوشل میڈیا پر اس بحث کو جنم دیا ہے کہ نویں کلاس میں امریکہ جانے اور مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھائی کرنے والے کیا واقعی مڈل کلاس ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی پاکستان کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے مڈل کلاس کی تعریف آخر ہے کیا؟\r یہ گفتگو شہزاد غیاث شیخ اور مزمل حسن زیدی کے درمیان ’دی پاکستان ایکسپیریئنس پوڈ کاسٹ‘ پر 30 نومبر کو بظاہر ہلکے پھلکے انداز میں ہو رہی تھی جس میں شہزاد مزمل کو یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ خود بھی ایک ایلیٹ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر اس گفتگو پر مزید تبصرے ہوئے جس میں اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا گیا کہ لمز اور بیکن ہاوس جیسے مہنگے سکولوں میں پڑھنے والے، کورولا گاڑی رکھنے والے اور نویں جماعت میں امریکہ چھٹیاں منانے جانے والے خود کو مڈل کلاس کیسے کہہ سکتے ہیں۔ کچھ نے سوال کیا کہ مڈل کلاس کی اصل تعریف کیا ہے؟\r عائشہ اعجاز خان نے لکھا کہ ’کیا پاکستان میں کورولا ہونا مڈل کلاس کی نشانی ہے؟ قطعی نہیں، اگر آپ اوسط آمدن کو دیکھیں تو۔‘ انھوں نے لکھا کہ ’دوسری جانب لندن جیسے شہر میں لاکھوں کمانے والے کچھ ایسے لوگ ہیں جو اپنی ذاتی گاڑی نہیں رکھتے۔‘ شہزاد غیاث نے بعد میں ٹوئٹر پر واضح کیا کہ ’اس گفتگو کی وجہ مزمل کی ایک پوسٹ بنی جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ غیاث کو ڈی ایچ اے کراچی کے ایلیٹ غبارے سے باہر نکل کر دیکھنا چاہیے کہ امیر لمز طلبا کو جو پڑھایا جا رہا ہے اس سے ہٹ کر کیا مسائل ہیں۔‘\r انھوں نے لکھا کہ ’جب لوگ ہمارا مذاق اڑانا چھوڑ دیں گے تو میں امید کرتا ہوں کہ وہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ یہ دو لوگوں کے درمیان اختلافات طے کرنے کی کوشش تھی۔‘ مگر اسی بحث کے دوران بہت سے صارفین یہ سنجیدہ کوشش کرتے نظر آئے کہ وہ بتا سکیں کہ پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے آج مڈل کلاس کی تعریف کیا ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں متوسط طبقہ اور اس کی آمدنی کے بارے میں سابق وزیر خزانہ اور ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا نے صحافی تنویر ملک کو بتایا کہ پاکستان کی معاشی صورتحال اور بین الاقوامی سطح پر غربت اور آمدنی کے اصولوں کو دیکھا جائے تو اس وقت ملک میں متوسط طبقہ پچاس ہزار سے اسی ہزار کے درمیان ماہانہ آمدنی والے افراد پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر پاشا نے کہا پاکستان میں متوسط طبقہ کی جو آمدن ہونی چاہیے وہ ملک میں مہنگائی کی شرح اور ان کے اخراجات پر مشتمل اعداد و شمار اور عالمی سطح پر غربت کے پیرا میٹرز کو مد نظر رکھ کر کی جاتی ہے جو تمام ممالک کے لیے یکساں نہیں ہوتی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c037e2vy4jzo", "summary": "دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک قطر بھی غربت سے پاک نہیں ہے اور ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کے بقول یہاں غربت پر بات کرنا اتنا آسان نہیں۔ پاکستان سمیت دیگر ایشیائی ممالک سے روزگار کمانے کے لیے قطر آنے والے غیر ہنر مند افراد کیسے کم تنخواہ پر گزارا کرتے ہیں؟", "title": "قطر: دنیا کے امیر ترین ملک میں ’نظروں سے پوشیدہ‘ غربت جس پر بات کرنا آسان نہیں", "firstPublished": "2022-12-01T04:21:51.426Z", "id": "c037e2vy4jzo", "article": "دنیا کے امیر ترین ملک قطر میں غربت کو دیکھنا اور اس کے بارے میں بات کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی منڈو کو بتایا کہ جو لوگ اس کے بارے میں بات کرنے پر آمادہ ہوتے بھی ہیں وہ بھی اپنے الفاظ کا انتخاب احتیاط سے کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک ’پیچیدہ مسئلہ ہے جس سے آپ کو خود کو بچانا پڑتا ہے کیونکہ حکام اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘ دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک قطر بھی غربت سے پاک نہیں ہے۔ اور اگر اس کے بارے میں کافی بات نہیں کی جاتی ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں موجود غربت دنیا کی نظر سے پوشیدہ ہے۔ ایسے غیر ملکی افراد جو قطر میں رہتے ہوئے بھی غربت کی زندگی کا سامنا کرتے ہیں وہ الگ تھلگ اور کم رابطے میں آنے والے ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں غیر ملکی سیاح یا فٹبال شائقین نہیں جاتے۔ قطر میں تقریباً 30 لاکھ آبادی ہے جس میں سے صرف 350,000 افراد (آبادی کا 10فیصد) قطری ہیں، باقی سب غیر ملکی ہیں۔ قطری شہری اور یہاں بسنے والے مغربی تارکین وطن قطر میں ملنے والی زیادہ تنخواہوں اور دستیاب اچھی سماجی سہولیات پر فخر کرتے ہیں۔ قطری حکومت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اگرچہ قطر نے عملی طور پر غربت کا خاتمہ کر دیا ہے مگر پاکستان سمیت جنوب مشرقی ایشیا سے آنے والے بہت سے تارکین وطن کے لیے یہ اب بھی ایک حقیقت ہے۔ پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کا کہنا تھا کہ ’ان میں سے بہت سے افراد جو انڈیا، نیپال، بنگلہ دیش یا پاکستان جیسے ممالک سے آتے ہیں اور کوئی قابلیت نہیں رکھتے اور بمشکل انگریزی بولتے ہیں اُن کا بڑا حصہ اس ملک میں کم از کم اجرت کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ اگرچہ ان کا معیار زندگی اپنے آبائی ممالک کے مقابلے میں بہتر ہے، مگر وہ اپنے ممالک میں پیسے بھیجنے کے لیے ایک کمرے میں چھ، چھ افراد رہتے ہیں۔‘ ایک ایسے ملک میں جہاں قطری اور مغربی تارکین وطن تو سالانہ دسیوں ہزار ڈالر اور دیگر فوائد اور سہولیات کما سکتے ہیں وہیں بہت سے غیر ہنر مند غیرملکی ملازمین کم از کم ماہانہ اجرت یعنی 275 ڈالر سے زیادہ تنخواہ حاصل نہیں کر پاتے۔ لیکن قطر میں اس شہر جس کے لیے کروڑوں ڈالر مختص کیے گئے ہیں، پریس کو وہاں تک رسائی بہت محدود ہے اور اسے دوحہ کے مضافات میں قائم کرنے کے باعث تنقید کے نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ یہ دنیا بھر کی ٹیلی ویژن سکرینوں پر نظر آنے والے عیش و آرام سے بہت دور اور مختلف ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c80g5lqdv57o", "summary": "چین کو پہلے ہی بے روزگاری کے بحران کا سامنا تھا، خاص طور پر نوجوانوں میں۔ لاک ڈاؤن کے خوف نے بہت سے خاندانوں اور کاروباروں کو مزید خرچ نہ کرنے کا فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جس سے ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار کم ہو گئی ہے۔", "title": "چین میں ملک گیر مظاہرے صدر شی جن پنگ کے لیے چیلنج کیوں بن گئے ہیں؟", "firstPublished": "2022-11-30T01:33:01.271Z", "id": "c80g5lqdv57o", "article": "چین کے مختلف شہروں میں ہونے والے مظاہروں نے صدر شی جن پنگ اور چینی کمیونسٹ پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مظاہروں اور بے اطمینانی کی یہ لہر ایک ایسے ملک میں بہت ہی غیر معمولی ہے جہاں سینسر شپ اور پولیس کے جبر سے اختلاف کی علامتیں کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ اگرچہ گذشتہ برسوں کے دوران مختلف وجوہات کی بنا پر چین میں کبھی کبھار مظاہرے ہوتے رہے ہیں، زمینی تنازعات سے لے کر پولیس کے ساتھ بدسلوکی کے مخصوص واقعات تک، چین میں ان دنوں جو کچھ ہو رہا ہے، جہاں کچھ مظاہرین نے چینی قیادت صدر شی جن پنگ پر کھل کر تنقید کرنے کی جرات کی ہے یہ بے مثال ہے۔ چین کی عوام کی مشکلات کووڈ کے پھیلاؤ کے خلاف سخت اقدامات کی وجہ سے بڑھی ہیں اور جن کے بارے میں فی الحال کوئی واضح وقت نہیں دیا گیا ہے کہ وہ کب ختم ہوں گی۔  کووڈ کے خلاف سخت پابندیاں ایک ایسا تجربہ بن گیا ہے جس نے بہت سے شہریوں کو متحد کیا ہے اور ملک کے چاروں کونوں تک مظاہروں کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔  جہاں بہت سے مظاہرین نے محض ایک خالی صفحہ دکھا کر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں وہ علامتی طور پر سب کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن حکام نے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔ باقی دنیا نے کووڈ ویکیسن کی تیاری کے وقت کے دوران لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کے اقدامات کا استعمال کیا اور بعدازاں ممالک میں بڑے پیمانے پر ویکسینیشن مہم چلائی گئی، جبکہ چین کا کووڈ کے پھیلاؤ کو قابو میں رکھنے کے لیے پابندیوں پر انحصار جاری ہے۔ اگرچہ ملک نے اپنی ویکسین خود تیار کی ہیں، لیکن یہ فائرز یا موڈرنا ویکیسن کی طرح موثر نہیں ہیں، جو ایم آر این اے ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے تیار کی گئی ہں ، اور جسے چین نے درآمد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور یہاں تضاد پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ چین میں کووڈ سے ہونے والی اموات کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے۔ وائرس کے نتیجے میں ملک میں سرکاری طور پر صرف 5,200 اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔ چین کی صفر کووڈ پالیسی کا معاشی اثر خود چین اور عالمی منڈیوں پر بھی پڑتا ہے، جس کا نقصان اس وقت ہوتا ہے جب دنیا کی فیکٹری لاک ڈاؤن کی وجہ سے رک جاتی ہے۔ بی بی سی کی ایشیا میں اقتصادی نامہ نگار سوریانا تیواری کے مطابق چین کو پہلے ہی بے روزگاری کے بحران کا سامنا تھا، خاص طور پر نوجوانوں میں۔ لاک ڈاؤن کے خوف نے بہت سے خاندانوں اور کاروباروں کو مزید خرچ نہ کرنے کا فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جس سے ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار کم ہو گئی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1enwj4790yo", "summary": "ایک دوسرے پر آئے روز الزامات کی بھرمار کے باوجود مرکزی اتحادی حکومت اور پنجاب و خیبر پختونخوا کی تحریک انصاف کی حکومتیں ایک معاملے پر ایک صفحے پر ہیں۔ یہ معاملہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے عائد کی گئی شرائط کے تحت ملک کے پرائمری بجٹ کو سرپلس کرنا ہے۔", "title": "نون لیگ اور تحریک انصاف سیاسی اختلافات کے باوجود آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کے لیے ایک صفحے پر کیسے ہیں؟", "firstPublished": "2022-11-29T08:59:27.718Z", "id": "c1enwj4790yo", "article": "مرکز میں پاکستان مسلم لیگ نون کی سربراہی میں پی پی پی، جے یو آئی ایف اور دوسری جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے مختلف امور پر شکایات رہتی ہیں تو دوسری جانب پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کو مرکزی حکومت کے بارے میں تحفظات ہیں۔ ایک دوسرے پر آئے روز الزامات کی بھرمار کے باوجود مرکزی اتحادی حکومت اور پنجاب و خیبر پختونخوا کی تحریک انصاف کی حکومتیں ایک معاملے پر ایک صفحے پر ہیں اور پاکستان کے موجودہ مالی سال کے پہلی سہ ماہی میں مرکزی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں نے اس پر یکسوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ممکن کر دکھایا۔ یہ معاملہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے قرضے کی قسط ریلیز کرنے کے لیے دوسری شرائط کے علاوہ ایک بنیادی شرط ملک کے پرائمری بجٹ کو سرپلس کرنا ہے۔ چاروں صوبوں خاص کر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی تحریک انصاف کی حکومتوں کی جانب سے پرائمری بجٹ سرپلس کرنا اس لحاظ سے نمایاں ہے کہ چند مہینے قبل سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی دونوں صوبوں کے وزرائے خزانہ سے ٹیلی فونک گفتگو کی ایک آڈیو لیک میں شوکت ترین نے دونوں کو کہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کو شرائط پوری نہ کرنے کے بارے میں بتائیں۔ اگلی قسط کے حصول کے لیے آئی ایم ایف پاکستان کے لیے نویں نظر ثانی جائزے کے لیے جلد اجلاس بلانے والا ہے اور اس سے پہلے جہاں پاکستان دوسری شرائط کو پوری کرنے کے لیے تگ و دو کر رہا ہے، وہیں پر پاکستان کی جانب سے پرائمری بجٹ سرپلس کرنے کی شرط پوری کر دی گئی ہے جو وفاقی حکومت کی جانب سے پہلی سہ ماہی کے لیے جاری کردہ اعداد و شمار سے واضح ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نے پہلی سہ ماہی میں 125 ارب روپے کا سرپلس پرائمری بجٹ دیا اور تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے اس سہ ماہی میں تین ارب روپے کے لگ بھگ سرپلس پرائمری بجٹ رہا۔ سندھ اور بلوچستان میں مرکز میں قائم مخلوط حکومت کے اتحادیوں کی حکومت ہے تاہم پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت جو اس وقت مرکزی حکومت کے خلاف سیاسی طور پر صف آرا ہیں اور اس حکومت کو گرا کر ملک میں فوری عام انتخابات چاہتی ہے تاہم مرکز کی اتحادی حکومت اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومتوں نے آئی ایم ایف شرط کے تحت پرائمری بجٹ کو سرپلس کر دکھایا۔ انھوں نے کہا سیاسی اختلافات تو چلے آر ہے ہیں لیکن آئی ایم شرط کے تحت پرائمری بجٹ کو سرپلس کرنا تھا۔ انھوں نے کہا کہ مرکزی حکومت سے سیاسی اختلاف ہے لیکن آئی ایم ایف پروگرام ملک کے لیے ہے، اس لیے یہ کام کیا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cqv4w87yzzpo", "summary": "’ہمارے پاس کھانا خریدنے کے لیے کوئی پیسہ نہیں تھا، اسی لیے میں نے مقامی مسجد میں اعلان کر دیا ہے کہ میں اپنی بیٹی کو فروخت کرنا چاہتا ہوں۔‘ بھوک کیسے افغان شہریوں کو اپنی بیٹیاں اور اعضا فروخت کرنے پر مجبور کر رہی ہے؟", "title": "’میں نے اپنی پانچ سال کی بیٹی ایک لاکھ کے عوض فروخت کر دی‘", "firstPublished": "2022-11-25T09:40:48.150Z", "id": "cqv4w87yzzpo", "article": "افغانستان میں کئی والدین اپنے بھوک سے نڈھال بچوں کو سلانے کے لیے نیند والی ادوایات دینے پر مجبور ہو چکے ہیں اور کچھ محض زندہ رہنے کے لیے اپنی بیٹیاں اور اپنے اعضا فروخت کر چکے ہیں۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے اور بیرونِ ملک افغانستان کے اثاثے منجمد کیے جانے کے بعد ان دنوں میں لاکھوں افغان قحط اور بھوک کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔  ان کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ میں نے سُن رکھا تھا کہ آپ ایک مقامی ہسپتال کو اپنا گردہ فروخت کر سکتے ہیں۔ میں وہاں گیا اور بتایا کہ میں بھی گردہ دینا چاہتا ہوں۔ چند ہی ہفتے بعد مجھے ان کا فون آ گیا اور انھوں نے مجھے بُلا لیا۔‘  افغانستان میں لوگوں کا اپنے اعضا فروخت کر دینا کوئی ایسی بات نہیں جو ہم نے پہلے نہ سنی ہو اور ایسا طالبان کے آنے سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ لیکن آج کل اس درد ناک تجربے سے گزرنے کے بعد بھی لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پاس زندگی گزرانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ’اب ہمیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ ہم اپنی دو سالہ بیٹی کو بھی فروخت کر دیں۔ جن لوگوں سے ہم نے قرض لیا تھا وہ ہمیں روزانہ ڈراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر پیسے واپس نہیں کر سکتی تو اپنی بیٹی ہمیں دے دو۔‘ نازیہ کے والد، حضرت اللہ نے ہمیں بتایا کہ ’ہمارے پاس کھانا خریدنے کے لیے کوئی پیسہ نہیں ہے، اسی لیے میں نے مقامی مسجد میں اعلان کر دیا ہے کہ میں اپنی بیٹی کو فروخت کرنا چاہتا ہوں۔‘ ’ان میں سے زیادہ تر رقم میں خوراک خریدنے پر خرچ کر چکا ہوں، اور کچھ اپنے چھوٹے بیٹے کی دواؤں پر لگا چکا ہوں۔ آپ میرے بیٹے کو خود دیکھ لیں، اس میں خوراک کی کتنی کمی ہے۔‘ یہ کہتے ہوئے حضرت اللہ نے ہمیں شمس اللہ کا پھُولا ہوا پیٹ دکھانے کے لیے اس کے پیٹ سے کرتا اوپر اٹھا دیا۔ پچھلے ایک سال کے دوران بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مقابلہ کرنے کے لیے انتظامیہ نے مرکز میں بستروں کی تعداد میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ یہاں کوئی بستر خالی پڑا ہو۔ یہاں لائے جانے والے ایسے بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جنہیں غذائیت کی کمی کے ساتھ ساتھ کئی دیگر امراض کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ صورتحال افغانستان پر لگائی جانے والی بین الاقوامی پابندیوں اور بیرون ملک ہمارے اثاثے منجمد کرنے کا نتیجہ ہے۔ ہماری حکومت کوشش کر رہی ہے کہ ان لوگوں کا اندازہ لگایا جائے جن کو اصل میں خوراک کی ضرورت ہے۔ بہت  سے لوگ اپنی حالت کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے انھیں امداد مل جائے گی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0418k141yno", "summary": "اب تو تھینکس گیونگ یا یوم تشکر کے بعد کرسمس خریداری کے موسم کے آغاز کی نشاندہی کرتا نومبر کے مہینے کا آخری جمعہ ’بلیک فرائیڈے‘ کے نام کے ساتھ شاپنگ کے ہیجان سے جڑا ہے مگرفرائیڈے سے پہلے ’بلیک‘ کے سابقہ کو بعض اور الفاظ سے بدلنے کی کوشش دنیا میں اور مقامات پر بھی ہوئی کیونکہ صدیوں سے ’بلیک‘ یا ’سیاہ‘ کی صفت ایسے دنوں پر لاگو ہوتی رہی ہے، جن پر آفتیں آئیں۔", "title": "بلیک فرائیڈے: پولیس کے لیے زحمت کا دن جو دکانداروں کے لیے رحمت کا روز بن گیا", "firstPublished": "2022-11-25T07:27:21.753Z", "id": "c0418k141yno", "article": "فرائیڈے یا جمعے کے ساتھ ان تمام ’اسمائے صفات‘ کے اضافے سے چند سال پہلے کی وہ بحث یاد آ گئی جب ایک پاکستانی آن لائن دکان نے پہلے تو دوسرے ملکوں کے ہم پیشہ لوگوں کی دیکھا دیکھی اپنی سالانہ سیل کو ’بلیک فرائیڈے‘ کا نام دے دیا مگر پھر احتجاج کے بعد جمعہ کے مبارک دن کی نسبت سے اسے ’بلیسڈ فرائیڈے‘ قرار دے کر دھڑا دھڑ کمائی کی۔\r اب تو تھینکس گیونگ یا یوم تشکر کے بعد کرسمس خریداری کے موسم کے آغاز کی نشاندہی کرتا نومبر کے مہینے کا آخری جمعہ ’بلیک فرائیڈے‘ کے نام کے ساتھ شاپنگ کے ہیجان سے جڑا ہے مگرفرائیڈے سے پہلے ’بلیک‘ کے سابقہ کو بعض اور الفاظ سے بدلنے کی کوشش دنیا میں اور مقامات پر بھی ہوئی کیونکہ صدیوں سے ’بلیک‘ یا ’سیاہ‘ کی صفت ایسے دنوں پر لاگو ہوتی رہی ہے، جن پر آفتیں آئیں۔ تھینکس گیونگ کی شاپنگ سے متعلق ’بلیک فرائیڈے‘ کی روایت کے پیچھے سب سے زیادہ دہرائی جانے والی کہانی یہ ہے کہ پورا سال خسارے، جسے محاورے میں ’ان دی ریڈ‘ کہا جاتا ہے، میں کام کرنے کے بعد سٹورز کا تھینکس گیونگ سے اگلے دن سوچ سے زیادہ منافع کمانا ’ان دی بلیک‘ کہلایا کیونکہ ان چھٹیوں میں خریدار رعایت پا کر بہت زیادہ رقم اڑا دیتے تھے۔\r محقق سارہ پرواِٹ کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ درست ہے کہ ریٹیل کمپنیاں اکاؤنٹنگ کے وقت نقصانات کو سرخ اور منافع کو سیاہ میں لکھتی تھیں لیکن ’بلیک فرائیڈے‘ کا اصل اس کہانی میں نہیں اور ان کے مطابق نہ ہی حالیہ برسوں میں منظر عام پر آنے والا یہ افسانہ سچ ہے کہ 1800 کی دہائی میں جنوبی باغات کے مالکان تھینکس گیونگ کے اگلے دن غلاموں کو کم قیمت پر خرید سکتے تھے۔ ’بلیک فرائیڈے‘ کی اس کہانی کے بعد بہت جلد فلاڈیلفیا میں ابھری اصطلاح کا پس منظر بڑی حد تک بھلا دیا گیا تاہم برطانیہ میں ’بلیک فرائیڈے‘ کی اصطلاح پولیس اور صحت کے ادارے این ایچ ایس، میں کرسمس سے پہلے کے جمعہ کے حوالے سے شروع ہوئی۔ امریکی صحافی ڈان واگھان کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں ’بلیک فرائیڈے‘ کے بعد خریداری کے دیگر دن یہ ہیں: سمال بزنس سیٹرڈے، جو خریداروں کو مقامی ریٹلرز کے ہاں جانے کی ترغیب دیتا ہے اور سائبر مَنڈے، جس کا ہدف آن لائن خریداری کا فروغ ہے۔ منگل ’گیونگ ڈے‘ یعنی خیراتی عطیات کی حوصلہ افزائی کے لیے سامنے آیا۔ سٹورز جمعہ کے دن سے پہلے ہی کھلنا شروع ہو گئے ہیں اور اب خریدار اپنے تھینکس گیونگ کھانے کے فوراً بعد ہی خریداری کو نکل سکتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cj59zz2zg31o", "summary": "پاکستان کو اس وقت شدید مالی بحران کا سامنا ہے اور معاشی حالات تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہے ہیں جس کے باعث مالیاتی امور کے ماہرین کی جانب سے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا تاہم حکومت اس نوعیت کے کسی بھی خطرے کو مسترد کر رہی ہے، تو حقیقت کیا ہے؟", "title": "کرنسی بحران: کیا پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے امکانات واقعی بڑھ رہے ہیں؟\r", "firstPublished": "2022-11-25T03:52:33.150Z", "id": "cj59zz2zg31o", "article": "پاکستان کو آئندہ ماہ یعنی دسمبر کی پانچ تاریخ کو ایک ارب ڈالر کے یورو بانڈز کی ادائیگی کرنی ہے جو پانچ سال پہلے بین الاقوامی مارکیٹ سے قرض اٹھانے کے لیے جاری کیا گیا تھا تاہم اس قرض کی ادائیگی کی تاریخ قریب آنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔ پاکستان میں مالیاتی امور سے متعلق ریسرچ ہاؤسز اور افراد کی جانب سے سی ڈی ایس کے بڑھنے کو خطرناک قرار دیا گیا اور پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا تاہم حکومت پاکستان کی جانب سے ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرے کو مسترد کیا گیا۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی بانڈز کے سی ڈی ایس میں بے تحاشا اضافے کی پیشرفت کے بعد جاپانی بینک نومارا کی جانب سے پاکستان کو درپیش کرنسی بحران کی رپورٹ سامنے آئی اور بینک کی جانب سے پاکستان کو ان سات ملکوں کی فہرست میں رکھا گیا جو اس وقت شدید کرنسی بحران سے دوچار ہیں۔ \r سی ڈی ایس میں ہونے والے اضافے اور پاکستان کو درپیش کرنسی بحران کے بارے میں پاکستان کے معاشی اور مالیاتی امور کے ماہرین تبصرہ کرتے ہیں کہ ملک کو اس وقت شدید مالی بحران کا سامنا ہے اور معاشی حالات تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہے ہیں۔ تاہم ماہرین اگلے مہینے ایک ارب ڈالر یورو بانڈ کے قرضے کی ادائیگی پر ڈیفالٹ کے امکان کو مسترد کرتے ہیں لیکن اس کے بعد مزید قرضے کی ادائیگی کے لیے پاکستان کو مشکلات پیش آ سکتی ہیں کیونکہ ملک کو اس وقت کہیں سے قابل ذکر مالی امداد یا قرض نہیں مل پا رہا جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ اگلے مہینے ایک ارب ڈالر کی ادائیگی تو پاکستان کر لے گا تاہم اس کے بعد کی صورتحال بہت خطرناک ہے اور پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے فوری طور پر ڈیفالٹ ہونے کا تو خطرہ نہیں تاہم آنے والے مہینوں میں اس کا خطرہ بڑھ سکتا ہے کیونکہ ملک کو کہیں سے کوئی قابل ذکر فنڈ نہیں مل رہے جو ہماری بیرونی ادائیگیوں میں توازن پید ا کرسکیں۔ جاپانی بینک ’نومارا‘ کی جانب سے پاکستان کو دنیا کے ان سات ملکوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے جو اس وقت کرنسی کے خطرناک بحران سے دوچار ہیں ۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کو جن ملکوں کی فہرست میں رکھا گیا اس سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کس قدر خراب ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی کرنسی اس وقت امریکی ڈالر کے سامنے 223 پر ٹریڈ کر رہی ہے جبکہ پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر اس وقت 13 ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہیں اور مرکزی بینک کے پاس آٹھ ارب ڈالر سے بھی کم ذخائر رہ گئے ہیں۔ \r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cer4genkrxeo", "summary": "1950 میں قطر کی آبادی محض 24 ہزار خانہ بدوش مسافروں پر مشتمل تھی جن کا ذریعہ معاش ماہی گیری اور موتی جمع کرنا تھا۔ جب قطر نے اپنا ’کالا سونا‘ دریافت کیا تو تب بھی اس کا ایک قوم کے طور پر وجود نہیں تھا مگر پھر تین ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جنھوں نے اس ملک کو امیر ترین ملک بنا دیا۔ ", "title": "قطر: ماہی گیروں کی چھوٹی سی بستی دنیا کی امیر ریاست کیسے بنی؟", "firstPublished": "2022-11-19T07:06:51.262Z", "id": "cer4genkrxeo", "article": "جب قطر نے اپنا ’کالا سونا‘ دریافت کیا تو اس کا ابھی تک ایک قوم کے طور پر وجود نہیں تھا یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب قطر کا دارالحکومت دوحہ جو اس وقت فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے تیار ہے ایک جدید اور امیر ملک کے تصور سے بہت دور تھا۔ یوں کہہ لیں کہ یہ ماہی گیروں اور موتی جمع کرنے والوں کی ایک عاجز سی بستی تھی جہاں کے باشندوں کی اکثریت جزیرہ نما عرب کے وسیع صحراؤں سے آنے والے خانہ بدوش مسافروں پر مشتمل تھی۔ آج قطر کے نوے سال سے زیادہ عمر کے چند ہی باشندے سنہ 1930 اور سنہ 1940 کی دہائیوں میں پیش آنے والی خوفناک معاشی مشکلات کو یاد کر سکتے ہیں، جب جاپانیوں نے موتیوں کی فارمنگ ایجاد کی اور بڑے پیمانے پر اس کی پیداوار یقینی بنا کر قطری معیشت کو تباہ کر دیا۔ اب جبکہ قطر اپنی فلک بوس عمارتوں، پرتعیش مصنوعی جزیروں اور جدید ترین سٹیڈیمز کے باعث دنیا بھر میں نمایاں ہو گیا ہے تو بی بی سی کی جانب سے ان تین تبدیلیوں کا تجزیہ کیا گیا ہے جنھوں نے اس ملک کو کرہ ارض کے امیر ترین ممالک میں سے ایک میں تبدیل کیا ہے۔ جب قطر نے اپنا ’کالا سونا‘ دریافت کیا تو اس کا ابھی تک ایک قوم کے طور پر وجود نہیں تھا اور یہ انگریزوں کے ہاتھ میں تھا، جنھوں نے سنہ 1916 میں اس علاقے کا کنٹرول سنبھالا تھا۔ جب سنہ 1971 میں ’ایکسپلورر‘ انجینئرز نے قطر کے شمال مشرقی ساحل پر نارتھ فیلڈ میں قدرتی گیس کے وسیع ذخائر کو دریافت کیا تو چند لوگوں نے اس کی اہمیت کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ سنہ 1996 میں قدرتی گیس سے بھرا ایک کارگو جاپان کے لیے روانہ ہوا۔ یہ قطری گیس کی پہلی بڑی برآمد اور اربوں ڈالر کی صنعت کا آغاز تھا جس نے قطریوں کو عالمی دولت کے عروج پر پہنچا دیا۔ سنہ 2021 میں قطر میں فی کس جی ڈی پی 61,276 ڈالر تھی۔ اگر ہم قوت خرید کو بھی مدنظر رکھیں تو عالمی بینک کے مطابق یہ 93,521 امریکی ڈالر تک پہنچ جاتی ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ قطر اور فیفا کے خلاف بدعنوانی اور رشوت ستانی کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ  جب اسے 2010 میں ایونٹ کے انعقاد کی ذمہ داری سونپی گئی تھی تو یہ عمل شفافیت پر مبنی نہیں تھا۔ ان مذمتوں کے علاوہ، یہ واضح ہے کہ یہ اس چھوٹے سے ملک کے لیے ورلڈ کپ سے کہیں زیادہ ہے جو ریکارڈ وقت میں امیر ہوا اور جو اب ایک جدید اور ترقی پسند ملک کے طور پر خود کو ایک اہم جیو پولیٹیکل کھلاڑی دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crgj8pp0z60o", "summary": "یوکرین پر روس کے حملے کے بعد انڈیا بڑی مقدار میں سستا روسی تیل خرید رہا ہے اور چین کی روسی تیل کی درآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔", "title": "انڈیا اور چین روس کے سستے تیل اور گیس سے کیسے مستفید ہو رہے ہیں؟", "firstPublished": "2022-11-18T02:10:42.776Z", "id": "crgj8pp0z60o", "article": "یوکرین پر روس کے حملے کے بعد انڈیا بڑی مقدار میں سستا روسی تیل خرید رہا ہے اور چین کی روسی تیل کی درآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انڈیا اور چین اس وقت روسی خام تیل کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ انڈیا کی روسی تیل کی درآمدات رواں برس کے آغاز میں بڑھ کر جون اور جولائی میں اپنے عروج پر پہنچ گئی اور اکتوبر تک یہ سلسلہ برقرار رہا۔ \n\nچین کی طرف سے روسی تیل کی خریداری میں اس سال اتار چڑھاؤ آیا ہے، جو فروری میں روس کے یوکرین پر حملے کے شروع میں کم ہوئی، لیکن پھر اگلے مہینوں میں نمایاں طور پر اس میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ یوکرین کے حملے کے بعد روس اس سال مارچ سے رعایتی نرخوں پر تیل فروخت کر رہا ہے۔ مارچ میں روس سے چین اور انڈیا کی مشترکہ تیل کی درآمدات یورپی یونین کے 27 رکن ممالک کی تیل کی مجموعی درآمدات سے بھی بڑھ گئی تھی۔ یوکرین پر حملے کے بعد روس کے یورل نامی خام تیل کے خریداروں میں واضح کمی واقعی ہوئی۔ کچھ غیر ملکی حکومتوں اور کمپنیوں نے روس کی توانائی کی برآمدات کو روکنے کا فیصلہ کیا جس سے روسی تیل کی قیمت گرنا شروع ہو گئی۔ \nرواں برس کے آغاز میں ایک موقع پر روسی یورال خام تیل عالمی معیار کے برینٹ کروڈ کے مقابلے میں 30 ڈالر فی بیرل سے زیادہ سستا تھا۔\nستمبر کے آخر تک، یہ تقریباً 20 ڈالر فی بیرل سستا تھا۔\nانڈین حکومت نے روس سے اپنی خریداری کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے تیل وہاں سے حاصل کرنا ہوگا جہاں سے یہ سستا ملے گا۔ اس کے علاوہ دسمبر میں یورپی یونین کو یوکرین پر حملے کے بعد روس کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کے سلسلے میں سمندری راستے سے روسی تیل کی درآمد مکمل طور پر روکنے کا منصوبہ بھی بنا رکھا ہے۔ انڈیا جس آپشن پر غور کر رہا ہے ان میں سے ایک مقامی کرنسیوں پر مبنی نظام ہے، جہاں روس کو انڈین برآمد کنندگان کو ڈالر یا یورو کے بجائے روبل میں ادائیگی کی جاتی ہے اور درآمدات کی ادائیگی روپے میں کی جاتی ہے۔ لیکن ایک بار ایک نئی پائپ لائن، جسے پاور آف سائبیریا کہا جاتا ہے، اس دہائی کے آخر میں مکمل ہو جائے گی، جس کے بعد روس چین کو گیس فراہم کرنے والے سب سے بڑا سپلائر کے طور پر ابھر کر سامنے آ سکتا ہے۔ \nاور رواں برس روس سے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، حالانکہ چین کی زیادہ تر ایل این جی اب بھی دوسرے ممالک سے آتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd108e212evo", "summary": "گذشتہ ماہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے صرف 2.2 ارب ڈالر کی ترسیلات زر پاکستان کو بھیجی گئی ہیں۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ غیرملکی پیسے اب بھی بھیج رہے ہیں مگر وہ قانونی یا سرکاری چینل کے بجائے غیر رسمی چینل جیسا کہ حوالہ اور ہنڈی کو ترجیح دے رہے ہیں، مگر ایسا کیوں ہے؟", "title": "بیرون ملک مقیم پاکستانی سرکاری چینل کے بجائے ہنڈی، حوالہ کے ذریعے زیادہ پیسے کیوں بھیج رہے ہیں؟", "firstPublished": "2022-11-17T04:22:30.806Z", "id": "cd108e212evo", "article": "پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر 2022 میں ستمبر 2022 کے مقابلے میں بھی نو فیصد کی کمی دیکھی گئی اور موجودہ مالی سال کے چار مہینوں کا موازنہ اگر گذشتہ مالی سال کے انھی مہینوں سے کیا جائے تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں ساڑھے آٹھ فیصد سے زیادہ کی کمی دیکھی گئی۔ کرنسی کے کاروبار کے وابستہ ماہرین کا دعویٰ ہے غیرملکی پیسے اب بھی بھیج رہے ہیں مگر وہ قانونی یا سرکاری چینل کے بجائے غیر رسمی چینل جیسا کہ حوالہ اور ہنڈی کو ترجیح دے رہے ہیں پاکستان میں کرنسی کے کاروبار کے وابستہ ماہرین کا دعویٰ ہے غیرملکی پیسے اب بھی بھیج رہے ہیں مگر وہ قانونی یا سرکاری چینل کے بجائے غیر رسمی چینل جیسا کہ حوالہ اور ہنڈی کو ترجیح دے رہے ہیں جس کی وجہ سے سرکاری چینل سے پاکستان پہنچنے والی رقوم میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ ترسیلات زر کی غیر سرکاری چینلز کے ذریعے آمد ملک کی معیشت کے لیے بھی نہایت خطرناک ہے کیونکہ ترسیلات زر کی مد میں آنے والے ڈالر پاکستان میں زرمبادلہ ذخائر میں اضافے اور ملک کے جاری کھاتوں کے خسارے کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ کرنسی کے کاروبار سے وابستہ افراد اور ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ترسیلات زر میں کمی کی سب سے بڑی وجہ پاکستان میں ڈالر کا سرکاری ریٹ اور گرے مارکیٹ میں ملنے والے ریٹ کا فرق ہے جس کی وجہ سے اب زیادہ تر پیسے حوالے اور ہنڈی سے آ رہے ہیں۔ 30 جون 2022 کو ختم ہونے والے مالی سال میں بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے مجموعی طور پر 31.2 ارب ڈالر پاکستان بھیجے گئے جو گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں چھ فیصد زیادہ تھے تاہم موجودہ مالی سال میں ان میں کمی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ پاک کویت انوسٹمنٹ کمپنی میں ہیڈ آف ریسرچ سمیع اللہ طارق نے بی بی سی کو بتایا کہ دنیا کے معاشی حالات نے پاکستان میں بیرون ملک سے ترسیلات زر کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ دنیا کی بڑی معیشتوں کی جانب سے شرح سود میں اضافہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہاں سرمایہ کاری میں زیادہ نفع حاصل ہو رہا ہے، اس لیے ڈالر زیادہ تر ان ملکوں میں جا رہا ہے اور بیرون ملک پاکستانی بھی اپنی بچت ان ہی معیشتوں میں لگا رہے ہیں تاکہ زیادہ نفع کما سکیں۔ مرکزی بینک کے ترجمان نے بی بی سی کی جانب سے بھیجے گئے سوالات کے جواب میں کہا کہ دنیا بھر میں ہونے والی مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی بچت کم ہو رہی ہے اس لیے وہ کم پیسے بھیج رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یورپ، برطانیہ اور امریکہ میں معاشی سست روی نے پاکستان میں بھیجی جانے والی ترسیلات زر کو بھی متاثر کیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c726w534k89o", "summary": "بنگلکہ دیش میں غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کتنے ہیں ارو آئی ایم ایف کو کیا اعتراض ہے", "title": "بنگلہ دیش کے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر آئی ایم ایف کا اعتراض کیا؟", "firstPublished": "2022-11-16T15:32:06.749Z", "id": "c726w534k89o", "article": "بنگلہ دیش بینک کے گورنر عبدالرؤف تالقدار نے 9 نومبر کو آئی ایم ایف کے نمائندوں سے ملاقات کے بعد کہا کہ ’ملک کے پاس اس وقت 34.3 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ اس میں سے آٹھ ارب ڈالر گھٹا کر جو رقم بچے گی وہ زرمبادلہ کے نیٹ ذخائر ہیں ۔ اس تناظر میں نیٹ ذخائر کی رقم 26.3 ارب ڈالر ہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مجموعی کے بجائے نیٹ میں ظاہر کیا جائے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ \r\nبنگلہ دیش بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ملک میں زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر کی مقدار 34.23 ارب ڈالر ہے۔ آئی ایم ایف نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق بنگلہ دیش بینک کو وہی رقم ظاہر کرنی چاہیے جو اس نے استعمال کے لیے رکھی ہے۔ ورنہ ذخائر کے معاملے پر درست پیغام نہیں جائے گا۔ \r\n یم ن امیں ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ ای ڈی ایف میں 60 کروڑ ڈالر شامل ہیں تاکہ برآمد کنندگان کو مختلف اشیاء کی برآمدات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے غیر ملکی کرنسی میں قرضے حاصل کرنے کے قابل بنایا جا سکے، ماحول دوست صنعتوں میں سرمایہ کاری کے لیے قائم کیے گئے گرین ٹرانسفارمیشن فنڈ جی ٹی ایف میں 20 کروڑ ڈالر، لانگ ٹرم فائنینشل فیسیلٹی میں سے 3.5 ملین ڈالر کو بھی بنگلہ دیش کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر کے حصے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ \r\n لیکن برآمدات اور ترسیلات سے آمدنی میں کمی کے باعث موجودہ تجارتی خسارہ مزید بڑھ رہا ہے۔ اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے بنگلہ دیش کے ذخائر سے ہر ماہ 833 ملین ڈالر کی رقم کم کی جا رہی ہے۔ ماہریِن اقتصادیات اس سے پریشان ہیں۔ ماہرین اقتصادیات اور محقق غلام معظم کا کہنا ہے کہ درآمدی اخراجات کے مقابلے برآمدی آمدنی اور ترسیلات میں اضافہ نہیں ہو رہا بلکہ کم ہو رہا ہے، اس سے فرق بڑھ رہا ہے۔ اس کی تلافی کے لیے ذخائر سے فنڈز دینے پڑتے ہیں۔ \r\n\r\nلیکن یہ فرق مسلسل بڑھ رہا ہے. بنگلہ دیش کی حکومت صرف اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرض لے رہی ہے۔ لیکن بنگلہ دیش کا تجارتی خسارہ جس سطح پر پہنچ چکا ہے، اس قرض سے بھی اسے پورا کرنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف نے اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے کچھ اصلاحات تجویز کی ہیں۔ ان میں ریونیو اور ٹیکسز کی مد میں بہتری، اخراجات کا معقول نظام تیار کرنا، اور زرِ مبادلہ کی جدید پالیسی تیار کرنا شامل ہے۔\r\n"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyxr5v5ndvzo", "summary": "اس وقت چین کی معیشت میں کئی شگاف نظر آ رہے ہیں۔ چین میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور کووڈ لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت بھی متاثر ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق رواں سال اقتصادی پیداوار کے لحاظ سے چین باقی ایشیائی ممالک سے پیچھے رہ جائے گا۔", "title": "کیا چین کی معیشت واقعی مشکلات کا شکار ہے؟", "firstPublished": "2022-11-16T01:00:09.770Z", "id": "cyxr5v5ndvzo", "article": "اس وقت چین کی معیشت میں کئی شگاف نظر آ رہے ہیں۔ چین میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور کووڈ لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت بھی متاثر ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق رواں سال اقتصادی پیداوار کے لحاظ سے چین باقی ایشیائی ممالک سے پیچھے رہ جائے گا۔ فی الحال چین کے عوام کی گھریلو بچت کا تقریباً 70 فیصد ریئل اسٹیٹ میں لگا ہوا ہے۔ پراپرٹی مارکیٹ چینی معیشت کا ایک تہائی حصہ ہے۔ لیکن اب اس میں بہت سی خامیاں بھی نظر آ رہی ہیں۔ ڈین وانگ کا کہنا ہے کہ ’ہم کہہ سکتے ہیں کہ چین میں 100 ٹاپ ریئل اسٹیٹ ڈویلپرز میں سے تقریباً 60 ڈیفالٹر ہو چکے ہیں اور باقی 40 بھی جلد ہی ڈیفالٹر ہو سکتے ہیں۔ اس بات کے پیش نظر گھر کے خریدار ایک قسم کی غیر اطمینان بخش حالت میں ہیں۔ بہت سے لوگ معاہدے سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ جن لوگوں نے ادائیگی کی ہے وہ اپنے سرمائے کی ضمانت اور تحفظ چاہتے ہیں۔‘ عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ رواں سال چینی معیشت کی ترقی کی شرح باقی ایشیا پیسفک خطے کے ممالک سے پیچھے رہے گی۔ اور ایسا 30 سال سے زیادہ عرصے میں پہلی بار ہو گا۔ جارج کا کہنا ہے کہ چین نے باقی دنیا کے ساتھ کاروباری روابط جوڑ کر اقتصادی ترقی حاصل کی اور اب وہ ان رابطوں کو منقطع کر رہا ہے۔ امریکہ اور دیگر ممالک بھی اسے الگ کر رہے ہیں۔ سارہ کا کہنا ہے کہ اس وقت لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ مالی بحران کی وجہ سے ان کی نوکریاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ وہ پراپرٹی کی گرتی ہوئی قیمتوں سے بھی پریشان ہیں۔ لوگوں کو ڈر ہے کہ جو رقم انھوں نے جائیداد میں لگائی ہے وہ بھی ڈوب سکتی ہے۔ اب وہ اپنی بچت میں اضافہ کریں گے اور اتنی رقم خرچ نہیں کریں گے۔ سارہ سو کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں چین میں افراط زر کی شرح کم ہے۔ بلکہ کئی جگہوں پر قیمتیں پہلے سے بھی کم ہیں۔ جیسا کہ مغربی ممالک میں دیکھا جاتا ہے، چین میں صورتحال اس کے آس پاس بھی نہیں ہے۔ کیونکہ وہاں مانگ ہی نہیں۔‘ سارہ سو کہتی ہیں: ’میرے خیال میں یہ ایک مشکل صورتحال ہے۔ ماضی میں لوگ معاشی ترقی کی وجہ سے نسبتاً مطمئن تھے۔ اب معیشت شاید ہی کہیں چمک دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ چین ترقی کرتا رہے گا۔ خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔ چین کے پاس نئی ٹیکنالوجی جیسے مصنوعی ذہانت، بلاک چین، کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور بگ ڈیٹا کے شعبے میں مہارت ہے۔ اس لیے وہ ان شعبوں میں ترقی کرتا رہے گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn0x758dvpgo", "summary": "انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں صدیوں سے اگنے والے زعفران کی کاشت موسمیاتی تبدیلی اور ٹیکنالوجی سے متاثر ہورہی ہے۔ ", "title": "سونے جتنا مہنگا مسالا: کیا کشمیری زعفران چند سال کا مہمان ہے؟", "firstPublished": "2022-11-14T06:50:11.362Z", "id": "cn0x758dvpgo", "article": "کئی سال سے زعفران کی فصل میں ریکارڈ گراوٹ دیکھی گئی اور اس سال بھی زعفران کے کھیت ماضی کی طرح لہلاتے نظر نہیں آئے۔ جاثیہ علی کہتی ہیں کہ ’پُوری دُنیا اس وقت موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پریشان ہے۔ زعفران کی کاشت بھی متاثر ہوئی ہے لیکن ہمارے یہاں غیرضروری ٹیکنالوجی کے استعمال نے بھی زعفران کے بیچ کو خراب کردیا ہے، جس کی وجہ سے اب فصل پہلے جیسے نہیں ہوتی۔‘ جاثیہ نے ’پلانٹ پیتھولوجی‘ میں اعلیٰ ڈگری لینے کے بعد زعفران کی تجارت کرنے کی ٹھان لی تھی ’لیکن اب لگتا ہے کہ میں کسی یونیورسٹی میں پڑھاوٴں گی کیونکہ جس حساب سے فصل کم ہورہی ہے لگتا ہے زعفران چند سال کا مہمان ہے۔‘ دُنیا کا سب سے بیش قیمتی مسالہ کہلانے والے زعفران کو ’کشمیری گولڈ‘ کہتے ہیں کیونکہ سونے اور زعفران کی قیمتیں تقریباً برابر ہوتی ہیں۔ فی دس گرام زعفران چار سے پانچ ہزار روپے تک بکتا ہے۔ زعفران کی کاشت جنوبی کشمیر کے پام پورہ گاوٴں میں ہوتی ہے۔ یہ قصبہ ڈھلانوں والی زمین کے لیے مشہور ہے۔ یہاں کے 90 فیصد لوگوں کا روزگار زعفران کی کاشت پر ہی منحصر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے پیداوار کم کیوں ہوئی؟ اس کے جواب میں ایک اور نوجوان شوکت احمد کہتے ہیں ’بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ زعفران کا بیچ ایک بار بویا جاتا ہے اور تین نسلوں تک اُسی بیچ سے زعفران اُگتا رہتا ہے۔ ‘ کشمیر میں ہر سال انڈیا کے کونے کونے سے لاکھوں سیاح سیر کے لیے آتے ہیں۔ کوئی اور چیز وہ خریدیں نہ خریدیں لیکن زعفران خریدنا اُن کی پہلی ترجیح ہوتا ہے۔ فصل میں گراوٹ کی وجہ سے زعفران کے دام بھی بڑھ چکے ہیں اور بہت کم مقدار میں کشمیری زعفران ایکسپورٹ ہوتا ہے۔ حالانکہ دنیا میں ایران واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ زعفران اُگتا ہے، لیکن 700 سال قبل ایرانی اور وسط ایشیائی اسلامی مبلغین نے کشمیر میں زعفران کی کاشت کو متعارف کرایا تھا۔ جاثیہ علی کہتی ہیں ’زعفران مشن اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن کسانوں کو مشینیں نہیں، مناسب مشوروں اور تربیت کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا ہم کچھ نہیں کرسکتے لیکن جتنی فصل ہورہی ہے کم از کم اس کو بچایا جاسکتا ہے۔‘ زعفران کی صنعت کو بچانے کے لیے اب پام پورہ کے لوگ ’اِن ڈور زعفران‘ کا تجربہ کررہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اب زعفران کی کاشت گھروں کے اندر کی جائے گی کیونکہ سینچائی کا مناسب انتظام نہ ہونے اور تیزی سے ہونے والی تعمیرات کے سبب یہ صنعت زبردست بحران کا شکار ہے۔ زعفران سے متعلق حکومت کے ’ایڈوانس ریسرچ سٹیشن‘ کے سربراہ ڈاکٹر بشیر احمد علائی کہتے ہیں کہ ’موسمیاتی تبدیلی سے سبھی فصلوں کا یہی حال ہے۔ پہلے تو سینچائی کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، لیکن اب بارشیں کم ہورہی ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nrg1dm4xdo", "summary": "بٹ کوائن کی قیمت دو سال کی کم ترین سطح پر آ چکی ہے اور کئی لوگ سوال کر رہے ہیں کہ اگر ایف ٹی ایکس کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے تو اگلی باری کس کی ہو گی؟", "title": "اربوں ڈالر مالیت کی کمپنی بنانے والے نوجوان کا ڈرامائی زوال جس نے کرپٹو دنیا کو ہلا کر رکھ دیا", "firstPublished": "2022-11-14T03:07:14.257Z", "id": "c4nrg1dm4xdo", "article": "سیم بینک مین فرائیڈ کو ’کرپٹو کنگ‘ کا خطاب ملے ابھی آٹھ ہی دن ہوئے تھے کہ ان کی کمپنی نے دیوالیہ ہونے کا دعویٰ کر دیا اور وہ چیف ایگزیکٹیو کے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ اب ان کو امریکہ میں تحقیقات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔\r اس دوران بینک مین کی نظریں مسلسل سکرین پر دوڑ رہی ہوتیں۔ ان ویڈیوز سے واضح نہیں ہوتا کہ وہ اپنے کمپیوٹر پر ایسا کر رہے ہوتے تھے لیکن ان کی سوشل میڈیا پر ٹویٹس سے کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔\r کرپٹو کرنسی ایکسچینج ایف ٹی ایکس کے سابق باس ویڈیو گیمز کے شوقین ہیں۔ اپنے 10 لاکھ فالوورز کو انھوں نے بتایا کہ اس سے ان کو روزانہ کی بنیاد پر اربوں ڈالر کی ٹریڈنگ کرنے والی اپنی دو کمپنیوں کے کاروباری معاملات سے ذہن کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔\r ایف ٹی ایکس کے تقریبا 12 لاکھ رجسٹرڈ صارفین تھے جو اس ایکسچینج کے ذریعے بٹ کوائن اور ہزاروں دیگر کرنسیوں کی سودے بازی کر رہے تھے۔\r ان میں چھوٹی سرمایہ کاری کرنے والوں سے لے کر بڑی کمپنیاں تک شامل تھیں جو اب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ایف ٹی ایکس کے ڈیجیٹل بٹوے میں پھنسا ہوا ان کا پیسہ کبھی واپس ملے گا یا نہیں۔ انھوں نے دیکھا کہ کس طرح بٹ کوائن کی قیمت مختلف ایکسچینج میں یکساں نہیں تھی اور اسی وجہ سے انھوں نے ایک جگہ سے سستا بٹ کوائن خرید کر دوسری جگہ مہنگے داموں فروخت کرنے کا کام شروع کر دیا۔ جیکس جونز اور مارٹن وارنر شو پوڈ کاسٹ پر ایک سال قبل بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’ہم کام کرتے چلے گئے۔ اگر ہمارے راستے میں رکاوٹ آتی تو ہم نیا راستہ تلاش لر لیتے۔ اگر ہمارا سسٹم بوجھ برداشت نہیں کر پاتا تو ہم نیا سسٹم تخلیق دے لیتے۔‘\r ایف ٹی ایکس کے اصل مالی استحکام کے بارے میں اس وقت سوال اٹھنا شروع ہوئے جب کائن ڈیسک نامی ویب سائٹ نے دعوی کیا کہ المائدہ ریسرچ دراصل ایک ایسے کوائن کی بنیاد پر کھڑی ہے جس کو ایف ٹی ایکس کی ایک اور کمپنی نے خود ہی ایجاد کیا ہے۔\r اس قدم کے بعد پریشان صارفین نے ایف ٹی ایکس کرپٹو ایکسچینج سے اپنا پیسہ نکالنا شروع کر دیا جو مجموعی طور پر اربوں ڈالر تھا۔\r بینک مین نے پیسہ نکالنے کے عمل کو روک دیا اور مدد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ بائنانس نے بھی ایک موقع پر ایف ٹی ایکس کو خریدنے کے بارے میں سوچا لیکن پھر کہا کہ صارفین کے پیسے کے غلط استعمال اور امریکی ایجنسی کی ممکنہ تحقیقات کے باعث یہ فیصلہ نہیں کیا گیا۔\r بٹ کوائن کی قیمت دو سال کی کم ترین سطح پر آ چکی ہے اور کئی لوگ سوال کر رہے ہیں کہ اگر ایف ٹی ایکس کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے تو اگلی باری کس کی ہو گی؟\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cydqdmgj1p7o", "summary": "ایسے تارکین وطن کی کہانیاں جو دیار غیر میں بھی نہ صرف اپنے کلچر کو اپنے کھانوں اور کاروبار کے ذریعے فروغ دے رہے ہیں بلکہ اپنے ممالک کی معیشت میں اہم کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔", "title": "وہ کاروبار جو لوگوں کا تعلق اپنے آبائی ممالک سے جوڑے ہوئے ہیں", "firstPublished": "2022-11-14T01:11:58.141Z", "id": "cydqdmgj1p7o", "article": "انھوں نے مزید کہا کہ یہ صرف پہلی نسل کے تارکین وطن نہیں یا وہ لوگ جو حال ہی میں برطانیہ منتقل ہوئے ہیں جو کہ مستقل گاہک بن جاتے ہیں۔ اس کے بجائے اس میں وہ دوسری نسل بھی شامل ہے جو اپنے خاندانوں کے لیے کھانا خرید رہی ہے اور تیزی سے اس کاروبار کو آن لائن وسعت دے رہی ہے۔\r یہ دکان جنوبی ایشیا سے مصنوعات درآمد کرنے کے علاوہ کینیا سے بھی اشیا خریدتی ہے۔\r دنیا کے تارکین وطن ممالک کے درمیان تجارت کو جو فروغ دیتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن حکومتیں تارکین وطن کی آبادی اور ان کی نسل کی اقتصادی ضروریات اور اہمیت سے تیزی سے آگاہ ہو رہی ہیں۔\r لیکن دنیا کے مختلف ممالک میں تارکین وطن کی تعداد کتنی ہے؟ اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کی سنہ 2022 کی ورلڈ مائیگریشن رپورٹ کے مطابق اس وقت 28 کروڑ 10 لاکھ لوگ ہیں جو اس ملک کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں رہتے ہیں جس میں وہ پیدا ہوئے تھے۔\r یہ تعداد عالمی آبادی کا 3.6 فیصد یا 30 میں سے ایک شخص کے برابر ہے اور اس میں ان لوگوں کے بچے شامل نہیں، جو ان کے نئے ملک میں پیدا ہوئے ہیں اور نہ ہی اس میں سابقہ ​​تارکین وطن کی اولاد شامل ہے۔\r آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ کی سنہ 2010 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ تارکین وطن کاروباری حضرات اپنے مقامی ہم منصبوں کے مقابلے میں بہتر تعلیم یافتہ تھے اور ان کے نئے کاروبار بنانے کے زیادہ امکانات پائے جاتے تھے۔\r اور اکثر وہ کمپنیاں کسی تارکین وطن کے سابقہ ​​ملک سے خوراک، کپڑوں یا دیگر سامان کی درآمد میں مشغول ہوتی ہیں، جیسا کہ انڈین نژاد وجیا پوپٹ اور لیسٹر میں ان کی پھلتی پھولتی دکان، سٹور اور ان جیسے دیگر کاروباری شخصیات نے گذشتہ سال انڈیا کی برطانیہ کے لیے کل 10.4 ارب ڈالر کی برآمدات کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پیرس میں مقیم اولیور ہیبیامبیری یورپ کے لیے کینیا کی برآمدات کو بڑھانے میں مدد کر رہے ہیں۔ وہ کینیا ڈایاسپورا مارکیٹ کی ویب سائٹ کے بانی ہیں، جو افریقی ملک سے خوراک اور کپڑے بڑی تعداد میں درآمد کرتی ہے اور پھر اسے پورے یورپی براعظم میں صارفین کو فروخت کرتی ہے۔ پروفیسر پرگیہ اگروال، جو یونیورسٹی آف لافبرو میں رویے اور ڈیٹا کی ماہر ہیں، باقاعدگی سے اپنے آبائی ملک انڈیا سے آنے والی مصنوعات اپنے اور برطانیہ میں اپنے خاندان کے لیے خریدتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب بھی تارکین وطن کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو اس کے بارے میں آگاہ ہونا ضروری ہے، جس میں تارکین وطن کو اکثر دو طریقوں میں سے ہی کسی ایک سے متعارف کروایا جاتا ہے۔ \r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ck5rkdykklpo", "summary": "پاور بال کا ٹکٹ آن لائن خریدا جا سکتا ہے اور اس کے لیے امریکی شہریت ضروری نہیں۔", "title": "پاور بال: دو ڈالر کا لاٹری ٹکٹ جس پر ایک ارب ڈالر کا انعام نکل آیا", "firstPublished": "2022-11-09T07:19:25.977Z", "id": "ck5rkdykklpo", "article": "امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں دنیا کی سب سے بڑی لاٹری کا ایک ٹکٹ غیر معمولی طور پر دو ارب ڈالر کے پاور بال جیک پاٹ کے ہر نمبر سے میچ کر گیا ہے۔\r اس کا مطلب ہے کہ اس ٹکٹ کے مالک کو یک مشت تقریباً ایک ہزار ملین (ایک ارب) امریکی ڈالر کی خطیر رقم بطور انعام ملے گی۔ تاہم اس رقم میں سے ان کو ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔\r گذشتہ رات پاور بال نے اعلان کیا تھا کہ لاٹری کا ڈرا 10 گھنٹے تک تاخیر کا شکار ہوا ہے کیوں کہ 48 لاٹریوں میں سے ایک میں ابھی تک سیلز مکمل نہیں ہوئی تھیں۔ اس لاٹری کے حتمی ڈرا، یعنی انعام جیتنے کا فیصلہ، کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس میں شامل تمام 48 لاٹریاں اپنی سیلز مکمل کر لیں۔\r تنظیم کی جانب سے کہا گیا کہ اس کھیل کی حفاظت اور تمام کھلاڑیوں کو جیتنے کا برابر موقع دینے کے لیے سخت سکیورٹی انتظامات کیے جاتے ہیں تاکہ کسی قسم کی دو نمبری نہ ہو سکے۔\r چند ریاستوں میں ٹکٹ جیتنے والوں کو اپنی شناخت چھپا کر رکھنے کی اجازت ہے تاہم کیلیفورنیا سمیت چند ریاستوں میں لاٹری جیتنے کے بعد انعامی رقم حاصل کرنے کے لیے شناخت ظاہر کرنا ضروری ہوتا ہے۔\r پاور بال کا ٹکٹ صرف دو ڈالر میں خریدا جا سکتا ہے اور جیتنے والے کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ پوری رقم حاصل کر سکے۔\r جیک پاٹ جیتنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ٹکٹ پر وہی چھ ہندسے درج ہوں جو لاٹری میں نکلیں۔\r آخری بار پاور بال کا جیک پاٹ تین اگست کو جیتا گیا تھا۔ جیتنے والے شخص نے 206 ملین امریکی ڈالر وصول کیے۔\r\nجولائی میں میگا ملین ٹکٹ پر ا1.34 ارب ڈالر جیتے گئے تھے۔ پاور بال کا ٹکٹ آن لائن خریدا جا سکتا ہے اور اس کے لیے امریکی شہریت ضروری نہیں۔\r تاہم جیت کی صورت میں انعامی رقم وصول کرنے کے لیے اسی ریاست میں جانا پڑتا ہے جہاں کا ٹکٹ ہوتا ہے۔\r واضح رہے کہ پاور بال کے علاوہ بھی امریکہ میں لاٹری کی کئی گیمز ہیں اور ان میں بھی ایسے ہی قوانین ہیں۔\r 2015 میں ایک 37 سالہ عراقی شہری نے 6.4 ملین ڈالر کا انعام جیتا تھا۔ انھوں نے ’میگا بکس‘ نامی جیک پاٹ جیتا تھا جس کا ٹکٹ انھوں نے ایک ویب سائٹ کے ذریعے خریدا تھا۔\r اس تنظیم کی بنیاد 1987 میں رکھی گئی تھی اور ایک سال بعد ’لوٹو امریکہ‘ کے نام سے پہلی گیم شروع کی گئی تھی۔\r\nٹکٹ کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے ہی انعام دیا جاتا ہے جبکہ باقی بچ جانے والی رقم حکومت کے زیر انتظام ان ریاستی لاٹریز کو دے دی جاتی ہے جو پاور بال کا حصہ ہیں۔\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ce9qr5zpnk3o", "summary": "ڈیموکریٹک قیادت ملازمتوں کی تعداد میں زبردست اضافے اور اس حقیقت کے باوجود کہ مہنگائی کی وجوہات کسی کے قابو میں نہیں ہیں، معیشت کے بارے میں اپنا موقف عام لوگوں تک پہنچانے میں ناکام رہی ہے۔", "title": "امریکہ: مڈ ٹرم الیکشن میں مہنگائی اور معیشت عوام کے لیے سب سے اہم", "firstPublished": "2022-11-08T13:06:45.478Z", "id": "ce9qr5zpnk3o", "article": "ان کے خیال میں واشنگٹن میں موجودہ ڈیموکریٹک قیادت کوئی پرواہ نہیں کرتی اور اوہایو کے عام لوگوں کو بھول چکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ڈیموکریٹس غیر متعلقہ چیزوں کی پرواہ کرتے ہیں، مثال کے طور پر الیکٹرک کاروں کی طرف دھکیلنا جس کی وہ متحمل نہیں ہو سکتی ہیں۔ ملازمتوں کی تعداد میں زبردست اضافے اور اس حقیقت کے باوجود کہ مہنگائی کی وجوہات کسی کے قابو میں نہیں ہیں، وہ معیشت کے بارے میں اپنا موقف عام لوگوں تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔ مس سٹیفنز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے لیے یہ اہم ہے کہ دکانوں پر انڈے کتنے میں فروخت ہو رہے ہیں۔ 18 انڈوں کی قیمت ساڑھے سات ڈالر سے بھی زیادہ ہے جو تین بچوں والے کسی بھی خاندان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ یہاں تک کہ ہم دونوں کے کام کرنے کے باوجود یہ ناقابل برداشت ہے۔‘ دوسری طرف 59 سالہ جیروم فلپس نے سنہ 2020 میں صدر جو بائیڈن اور ڈیموکریٹس کو ووٹ دیا۔ وہ نہیں جانتے کہ وہ اس بار کس کو ووٹ دیں گے۔ جیروم نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ’ بدحال معیشت‘ کا ذمہ دار ٹھہرایا لیکن کہا کہ مسٹر بائیڈن کی کارکردگی بھی اب تک  ’مکمل طور پر مایوس کن‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’صدر بائیڈن نے معیشت کو بہتر کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا، کچھ بھی نہیں۔‘  جیروم فلپس کا کہنا ہے کہ ’قیمتیں بڑھ رہی ہیں، آپ کھا نہیں سکتے۔ آپ کے پاس نوکریاں نہیں ہیں، لوگ کام نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ آپ کو تنخواہ نہیں دینا چاہتے جس کی وجہ سے لوگوں کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔‘ پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام خدشات مختلف آبادیوں اور آمدنی کے لحاظ سے مختلف طبقات میں وسیع پیمانے پر پائے گئے۔ اگرچہ سروے کے جوابات میں کسی حد تک متعصبانہ جھکاؤ تھا پھر بھی ڈیموکریٹس اور ریپبلکن دونوں کی ایک بڑی اکثریت نے کہا کہ وہ افراط زر کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔ ڈیموکریٹس میں یہ تعداد 66 فیصد جبکہ ریپبلکن میں 81 فیصد تھی۔ ڈیموکریٹس نے مسٹر بائیڈن کے ریکارڈ کا دفاع کرتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مہنگائی ایک عالمی رجحان ہے اور وبائی امراض کے باوجود روزگار میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کی معیشت نے اکتوبر میں دو لاکھ اکسٹھ ہزار ملازمتوں کا اضافہ کیا۔ اس طرح صدر بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے نئی ملازمتوں کی کل تعداد 10 ملین سے زیادہ ہو گئی۔ یہ تعداد اس سے زیادہ ہے جو دوسرے صدور نے اپنے پہلے 20 مہینوں میں دیکھی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72zddw3gwgo", "summary": "’روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں سرمایہ کاری اب اتنی پُرکشش نہیں رہی۔‘ وہ سکیم جو خصوصاً سمندر پار پاکستانیوں کے لیے رقم کی منتقلی کا ذریعہ بنی، اب اس کے بارے کچھ ایسا تاثر بن رہا ہے۔ ", "title": "روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ: کم ہوتی سرمایہ کاری کی وجہ سیاسی ہے یا معاشی؟", "firstPublished": "2022-11-08T09:19:40.428Z", "id": "c72zddw3gwgo", "article": "’روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں سرمایہ کاری اب اتنی پُرکشش نہیں رہی۔‘ وہ سکیم جو خصوصاً سمندر پار پاکستانیوں کے لیے رقم کی منتقلی کا ذریعہ بنی، اب اس کے بارے کچھ ایسا تاثر بن رہا ہے۔ ان اکاونٹس میں بیرون ملک مقیم پاکستانی سرمایہ کرتے ہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے بارے میں ایک عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کی بڑی تعداد تحریک انصاف کی ہمدرد ہے اور پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کی جانب سے سرمایہ کاری میں کمی کی گئی ہے۔ \r اس کی وجہ کیا بنی، اس پر وہ کہتے ہیں کہ اب ان اکاونٹس میں سرمایہ کاری اتنی منافع بخش اور پُرکشش نہیں رہی۔ \r ’پہلے فارن کرنسی میں ان اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری پُرکشش تھی لیکن اب کچھ اب عالمی مارکیٹ میں کچھ دوسرے سرمایہ کاری کے ذرائع بھی میسر ہو چکے ہیں‘ جن کی وجہ سے اب وہ ان اکاؤنٹس میں زیادہ سرمایہ نہیں لگا رہے۔‘ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری کا آغاز ستمبر 2020 میں ہوا جب پہلے مہینے ستر لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی جو مئی 2021 میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ اس مہینے میں 31 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری ان اکاؤنٹس کے ذریعے کی گئی جبکہ مارچ 2022 میں ان اکاؤنٹس میں 29 کروڑ کی سرمایہ کاری ہوئی۔ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں کم ہوتی سرمایہ کاری کے بارے میں جب مالیاتی شعبے کے ماہرین سے بات کی گئی اور پوچھا گیا کہ اس کی وجہ کیا ملک میں سیاسی تبدیلی ہے، تو ان کے مطابق اس میں سیاسی صورتحال کا تعلق ضرور ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’جب روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس شروع ہوئے تو اس وقت فارن کرنسی میں پاکستان میں ان اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری پر بہت پُرکشش منافع مل رہا تھا کیونکہ اس وقت امریکہ یا برطانیہ کی مارکیٹ میں سرمایہ کاری اور روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری پر منافع کا فرق چھ فیصد تھا۔ ’کیونکہ اس وقت وہاں پر شرح منافع 0.25 فیصد تھا جبکہ ان اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری سے فارن کرنسی میں ریٹرن چھ سے ساڑھے چھ فیصد مل رہا تھا، جو بہت زیادہ پُرکشش تھا۔‘ ان کے مطابق تاہم، اب یہ فرق کم ہو کر دو سے تین فیصد رہ گیا ہے کیونکہ امریکہ اور یورپی مارکیٹ میں شرح سود کے بڑھنے سے پاکستان کے ان اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری کا نفع اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ زاہد منیر نے اس سلسلے میں کہا یہ بات ٹھیک ہے کہ ان روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری پُرکشش نہیں رہی۔ انھوں نے کہا ’فرق کم رہ گیا ہے جبکہ پاکستان کا کنٹری رسک بڑھنے سے سرمایہ کار اب پاکستان کی جانب راغب نہیں۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyj89peeyv1o", "summary": "کینیڈا کے وزیر برائے امیگریشن شان فریزر کے کہا کہ ’ہمیں ملک کے تمام خطوں میں تمام شعبوں میں مزید کارکنوں کی ضرورت ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ فرنٹ لائن ہیلتھ کیئر ورکرز، ٹرک ڈرائیور، گھر بنانے والے یا سافٹ ویئر انجینئرز ہوں۔‘", "title": "کینیڈا کو نئی امیگریشن پالیسی کے تحت کن شعبوں میں 14 لاکھ ملازمین کی ضرورت ہے؟", "firstPublished": "2022-11-04T11:43:32.369Z", "id": "cyj89peeyv1o", "article": "کینیڈا کے امیگریشن کے وزیر شان فریزر نے آئندہ تین برسوں میں تقریباً 14 لاکھ تارکین وطن کو خوش آمدید کہنے کے منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ شان فریزر کے اعلان کے مطابق کینیڈا سنہ 2023 میں 465,000 نئے مستقل باشندوں کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہے گا۔ سنہ 2024 میں چار لاکھ پچاسی ہزار جبکہ سنہ 2025 میں پانچ لاکھ مزید افراد مستقبل رہائش کی غرض سے کینیڈا کا رُخ کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تارکین وطن کو اپنے ملک میں بسانے کے کینیڈا کی حکومت کے ابتدائی اہداف میں تقریباً 13 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ کینیڈا کے اس اقدام کا بنیادی مقصد تمام محکموں میں ملازمتوں کی موجودہ کمی کو پورا کرنا ہے۔ کینیڈا کے مختلف محکموں میں ہزاروں ملازمتیں دستیاب ہیں جنھیں پُر کرنا باقی ہے۔ شان فریزر نے کہا کہ کینیڈا میں رائج نئے امیگریشن پلان کے ذریعے اب مختلف شعبہ ہائے جات کے لیے ملازمین کو تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔\r \rیاد رہے کہ کینیڈا کے دس لاکھ تک شہری فی الحال بیروزگار ہیں مگر اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یا تو وہ کام کرنے کے قابل نہیں ہیں یا پھر وہ ایسی ملازمتیں کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں جو کے مارکیٹ میں فی الحال دستیاب ہیں۔ اسی لیے کینیڈا کو باہر سے ملازمین کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ \r شان فریزر نے نئے منصوبے کی افتتاحی تقریب کے دوران کہا ’کینیڈین اپنی آبادی میں اضافے کی ضرورت کو سمجھتے ہیں۔ ہم افرادی قوت کی ضروریات کو پورا کرنے جا رہے ہیں، اگر ہم ایک تشویشناک آبادیاتی رجحان کو متوازن کرنے اور خاندانوں کو دوبارہ ملانے کے لیے جا رہے ہیں۔‘\r اگرچہ حکومت نے نشاندہی کی ہے کہ ہنر مند مزدوروں کی کمی کینیڈا کی معیشت کے تمام شعبوں کو متاثر کرتی ہے، لیکن حکومتی تجزیوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبوں میں ایک طبی خدمات کی فراہمی کا مسئلہ ہے۔\r شان فریزر کے کہا کہ ’ہمیں ملک کے تمام خطوں میں تمام شعبوں میں مزید کارکنوں کی ضرورت ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ فرنٹ لائن ہیلتھ کیئر ورکرز، ٹرک ڈرائیور، گھر بنانے والے ہوں (یعنی مزدور ہوں) یا سافٹ ویئر انجینئرز ہوں۔‘\r\n\r کینیڈا کی کنزرویٹو پارٹی، جو جسٹن ٹروڈو کی حکومت کی مخالف ہے، نے رواں ہفتے اعلان کیے گئے حکومتی فیصلے پر تنقید کی ہے، تاہم اس نے امیگریشن کھولنے کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔\r اس طرح یونیورسٹی آف واٹرلُو کے ماہر اقتصادیات میکال سکوٹروڈ نے نشاندہی کی ہے کہ اگرچہ کینیڈا میں تارکین وطن کی تعداد میں اضافے کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن موجودہ صورتحال اس آغاز کے لیے زیادہ سازگار نہیں ہے، جسے شمالی امریکی ملک حاصل کرنا چاہتا ہے۔\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0jn25qdpqyo", "summary": "ڈیٹنگ کی ایپس کے حالیہ اعداد وشمار کے مطابق مہنگائی کے اس دور میں صارفین ویڈیو سٹریمِنگ جیسی تفریحی چیزوں سے لیکر کھانے پینے پر کم پیسے خرچ کر رہے ہیں، لیکن لگتا ہے کہ اکثر لوگ ابھی تک ڈیٹِنگ پر اخراجات کم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔", "title": "مہنگائی کے باوجود لوگ ڈیٹِنگ ایپ پر زیادہ خرچ کر رہے ہیں", "firstPublished": "2022-11-03T12:39:34.630Z", "id": "c0jn25qdpqyo", "article": "ڈیٹنگ کی ایپس کے حالیہ اعداد وشمار کے مطابق مہنگائی کے اس دور میں صارفین ویڈیو سٹریمِنگ جیسی تفریحی چیزوں سے لیکر کھانے پینے پر کم پیسے خرچ کر رہے ہیں، لیکن لگتا ہے کہ اکثر لوگ ابھی تک ڈیٹِنگ پر اخراجات کم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ڈیٹِنگ کی مشہور ایپ ’ٹِنڈر‘  کے مالک کا کہنا ہے کہ جولائی اور ستمبر کے مہینوں میں عالمی سطح پر پیسے دیکر ان کی سروس استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں سات فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ کمپنی کے مطابق بری معاشی صورت حال کے اثرات ان کی سستی ایپس پر دکھائی دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے کمپنی نے اپنی ڈیٹِنگ ایپ ’پلنٹی آف فِش‘ کی مثال دی جو کم آمدنی والے صارفین کی ضروریات پوری کرتی ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ تین ماہ میں دنیا کی مقبول ترین ڈیٹِنگ ایپس میں ایک، ٹِنڈر کی آمدن اور اس کے صارفین کے تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ کمپنی مفت خدمات بھی فراہم کرتی ہے۔ ٹِنڈر کا کہنا ہے کہ اس کے صارفین میں اضافے کی ایک وجہ ان کا ایک نیا فیچر ہے جس میں صارفین اپنے کمپیوٹر کی ٹچ سکرین پر دائیں یا بائیں انگلی پھیر کے ویب سائٹس پر آگے پیچے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ حالیہ عرصے میں ٹِنڈر کے صارفین میں اضافہ ہوا ہے، تاہم کمپنی کا کہنا تھا کہ ان کے صارفین ٹِنڈر کے ’سُپر لائیک‘ اور ’بُوسٹ‘ جیسے فیچرز پر کم پیسے خرچ کر رہے ہیں جس سے یہ لگتا ہے کہ کمپنی کو بہت منافع ہو رہا ہے۔ میچ کی پیشنگوئی بھی یہی ہے کہ اس سال کی آخری سہ ماہی میں ٹِنڈر کے منافعے میں اضافہ نہیں ہوگا بلکہ یہ ایک سطح پر جا کر رک جائے گا۔ میچ کا دعویٰ ہے کہ اب تک سیکنڑوں ہزاروں صارفین کمپنی کی سہولیات سے مستفید ہو چکے ہیں۔ کمپنی کے مطابق گزشتہ سہ ماہی میں دنیا بھر میں اس کی مختلف ایپس کے پیسے دیکر خدمات حاصل کرنے والے صارفین کی کل تعداد ایک کروڑ 65 لاکھ ہو چکی تھی۔ میچ کا کہنا تھا کہ اگست کے بعد اس کی انتظامیہ نے ٹِنڈر کے نئے چیف ایگزیکٹِو کی تلاش جاری رکھی، تاہم اس دوران انتظامیہ نے اس بات پر بھی توجہ مرکوز رکھی کہ خواتین صارفین کو بھی ٹِنڈر پر بہتر سے بہتر خدمات فراہم کی جائیں۔ یاد رہے کہ ٹِنڈر کو اس الزام کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ اس ایپ پر خواتین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ میچ کے تازہ ترین اعداد وشمار ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب ٹیکنالوجی کی بڑی بڑی کمپنیوں کو خدشہ ہے کہ عالمی معیشت کی بدحالی کی وجہ سے ان کے کاروبار متاثر ہو سکتے ہیں۔ مثلاً گزشتہ ہفتے ایپل اور ایمازون، دونوں نے کہا تھا کہ جوں جوں لوگ اپنے اخراجات کم رہے ہیں ، ان کمپنیوں کو بھی خدشہ ہے کہ ان کی آمدن بھی کم ہو جائے گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cevgp74zpeyo", "summary": "انڈیا کی آبادی میں ہر تین میں سے ایک شخص اب مڈل کلاس یا متوسط طبقے میں شامل ہے جس کی سالانہ آمدنی پانچ لاکھ روپے سے 30 لاکھ روپے تک ہے۔ ", "title": "انڈیا کی ایک تہائی آبادی اب مڈل کلاس: متوسط آمدن کے لوگ ملکی ترقی کے لیے اہم کیوں؟", "firstPublished": "2022-11-03T01:03:11.784Z", "id": "cevgp74zpeyo", "article": "انڈیا کی آبادی میں ہر تین میں سے ایک شخص اب مڈل کلاس یا متوسط طبقے میں شامل ہے جس کی سالانہ آمدنی پانچ لاکھ روپے سے 30 لاکھ روپے تک ہے۔ اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ملک کی آبادی میں مڈل کلاس کی شرح 2047 تک 63 فیصد ہو جانے کی توقع ہے۔ ’دی رائز آف مڈل کلاس‘ نامی اس رپورٹ کے سربراہ راجیش شکلا کے حوالے سے میڈیا میں بتایا گیا ہےکہ ’اگر ملک میں اقتصادی اور سیاسی اصلاحات صحیح سمت کی طرف جاتے ہیں تو انڈ یا میں آمدنی کا جو پیرامڈ ہے اس میں نیچے کا حصہ یعنی کم آمدنی والے یا غریب لوگوں کا حصہ بہت چھوٹا رہ جائے گا۔ اس میں سب سے بڑا گروپ مڈل کلاس کا ہوگا اور سب سے اوپر امیر اور امیر ترین لوگوں کی ایک خاصی بڑی تعداد ہو گی۔ اس رپورٹ میں 10 لاکھ سے زیادہ آبادی والے 63 شہروں میں سروے کیا گیا ہے۔ غریب ترین لوگوں کو اس زمرے میں رکھا گیا ہے جن کی آمدنی ایک لاکھ 25 ہزار روپے سے کم ہے۔سروے میں پایا گیا کہ اس زمرے کے لوگ عموماً کار خریدنےکی حالت میں نہیں ہوتے۔ ان میں سے کسی کے پاس ایئر کنڈیشنر (اے سی) نہیں ہے۔ جبکہ ان سے ذرا اوپر کے طبقے میں جو دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا ہے ان میں 10 میں سے چار سے کم لوگوں کے پاس موٹر سائيکل ہے۔ ان میں دو فیصد کے پاس اے سی بھی ہے۔ مڈل کلاس کے اس زمرے میں جن کی سالانہ آمدنی 5 لاکھ سے 15 لاکھ روپے تک ہے ، ان میں ہر 10 گھروں میں سے تین کے پاس کار ہے۔ جبکہ 30 لاکھ روپے سے زیادہ انکم والے امیر لوگوں میں ہر گھر میں کار ہے۔ امیر ترین گھروں میں اوسطاً تین کاریں ہیں۔ عالمی بینک اور دیگر عالمی اداروں کا ماننا ہے کہ جس کی آمدنی 10 سے 100 ڈالر یومیہ ہے وہ متوسط طبقے میں شمار ہوتا ہے۔ گذشتہ صدی میں دنیا کے سبھی ملکوں کے مڈل کلاس نے عالمی معیشت کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ماہر اقتصادیات ابھیجیت رائے نے انڈیا کے مڈل کلاس پر اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’گذشتہ چند عشروں میں دنیا میں جو اقتصادی ترقی ہوئی ہے اس میں امریکہ ، یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کے  مڈل کلاس کی خریداری کی قوت میں اضافے کا بہت بڑا کردار ہے۔ متوسط طبقہ بیشتر اشیا اور خدمات کے لیے سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ براہ راست یا بالواسطہ ٹیکس آبادی کے اسی زمرے سے آتا ہے۔ ساتھ یہی گروپ کسی بھی ملک کے سیاسی استحکام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔‘ عالمی بینک کے موجودہ پیمانے کے مطابق جن ممالک کی مجموعی قومی آمدنی فی کس 1036 ڈالر سے 4045 ڈالر تک ہے وہ لور مڈل کلاس یعنی متوسط طبقے سے کم والے زمرے میں آتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ck7ek9j82k8o", "summary": "امریک بازارِ حصص (سٹاک مارکیٹ) میں لسٹڈ چینی کمپنیوں کے حصص ان خدشات کی وجہ سے گروٹ کا شکار ہیں کہ صدر شی جن پنگ اقتصادی ترقی کی قیمت پر اپنے نظریات پر مبنی اپنی پالیسیاں جاری رکھیں گے۔ ", "title": "شی جن پنگ کے تیسرے دور کے آغاز کے ساتھ چینی شیئرز کی امریکی مارکیٹ میں گراوٹ", "firstPublished": "2022-10-25T16:35:46.467Z", "id": "ck7ek9j82k8o", "article": "امریک بازارِ حصص (سٹاک مارکیٹ) میں لسٹڈ چینی کمپنیوں کے حصص ان خدشات کی وجہ سے گروٹ کا شکار ہیں کہ صدر شی جن پنگ اقتصادی ترقی کی قیمت پر اپنے نظریات پر مبنی اپنی پالیسیاں جاری رکھیں گے۔ چینی ٹیکنالوجی کمپنیاں علی بابا اور بیدو کے حصص کی نیویارک کی مارکیٹ میں 12 فیصد سے زیادہ گر گئیں۔ ایک تجزیہ کار نے کہا کہ بیجنگ میں ترقی کو فروغ دینے کے اقدامات اور اس کی صفر کوویڈ پالیسیوں کے درمیان ایک ’طاقت کی کشمش‘ جاری ہے۔ پیر کو ٹیکنالوجی کی ایک بڑی کمپنی ’علی بابا‘ کے حصص کی قیمتیں نیویارک سٹاک ایکسچینج میں 12.5 فیصد گر کر بند ہوئیں، جو دن کے اوائل میں 52 ہفتے کی کم ترین سطح پر پہنچ گئے تھے۔ انٹرنیٹ کمپنی بیدو (Baidu) کو 12.6 فیصد کا نقصان ہوا، جبکہ ای کامرس پلیٹ فارم ’پنڈوڈو‘ (Pinduoduo) کے حصص کی قیمتوں میں تقریباً 25 فیصد کمی ہوئی۔ چینی کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں یہ کمی چین کی حکمراں کمیونسٹ پارٹی کے اتوار کو ایک دہائی میں ہونے والی دو بار کانگریس کے اجلاس کے اختتام کے بعد سامنے آئی ہے۔ ایک ہفتہ تک جاری رہنے والے اس اس اجلاس کے دوران صدر شی جن پنگ نے تیسری مدت کے لیے صدارتی عہدے کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں، جو کہ خود اپنی جگہ ایک تاریخ ہے۔ انھوں نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے ملک کے سخت اقدامات میں نرمی کے لیے کوئی ٹائم لائن پیش نہیں کی۔ بی این پی پریباس اثاثہ جات کی منیجمنٹ سے تعلق رکھنے والے مینیو لیو نے بی بی سی کو بتایا کہ چین کی معیشت کو ’پالیسی محرک اور متعدد اقسام کی نمو کے چیلنجوں کا سامنا ہے جس میں کوویڈ پابندیاں، پراپرٹی مارکیٹ میں مندی اور برآمدات میں کمی‘ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم توقع کرتے ہیں کہ (چینی) حکومت اپنی صفر کوویڈ پالیسی پر مسلسل داخلی دباؤ کا سامنا کرے گی۔‘ برطانوی بینک ایچ بی ایس سی کے گریٹر چائنا کے ماہر اقتصادیات، ارِن زِن نے سرمایہ کاروں کو ایک نوٹ میں کہا  کہ اگرچہ پیر کو شائع ہونے والے سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جولائی اور ستمبر کے درمیان معیشت نے توقع سے بہتر شرح پر ترقی کی تاہم ’ابھی بھی تناؤ کے آثار موجود ہیں کیونکہ کوویڈ-19 کی جاری وبا کے پھر سے بھڑک اٹھنے اور پراپرٹی مارکیٹ کی کمزوری کی وجہ سے کھپت کمزور رہی ہے‘۔ نیٹیکسس کے سینئر ماہر اقتصادیات ترِن نگوین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وضاحت کی کمی کے ساتھ، لوگ یہ فرض کر رہے ہیں کہ ہم نے جو سمت دیکھی ہے وہ اور زیادہ مضبوط ہو گی۔ یہی سبب ہے جس کی وجہ سے حصص کی فروخت میں اضافہ ہوا اور چینی معیشت کی بڑھتی ہوئی توقعات آگے بڑھ رہی ہیں‘۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72zjl8xp65o", "summary": "پیزا کو مزیدار بنانے والی ٹاپنگ کا صحیح فارمولا حاصل کرنا ایک چیلنج ہوسکتا ہے کیونکہ اگر ٹاپنگز زیادہ ہو جائیں تو پیزا کے نان میں نمی آ جاتی ہے اور غلط مرکب ہو تو ذائقہ متاثر ہو سکتا ہے۔\n", "title": "انڈیا میں پیزا ٹاپنگ پر ٹیکس، آخر معاملہ کیا ہے؟", "firstPublished": "2022-10-25T10:03:36.167Z", "id": "c72zjl8xp65o", "article": "پیزا کو مزیدار بنانے والی ٹاپنگ کا صحیح فارمولا حاصل کرنا ایک چیلنج ہوسکتا ہے کیونکہ اگر ٹاپنگز زیادہ ہو جائیں تو پیزا کے نان میں نمی آ جاتی ہے اور غلط مرکب ہو تو ذائقہ متاثر ہو سکتا ہے۔ لیکن اگست میں پیزا ٹاپنگز بنانے والی ایک انڈین کمپنی کو عدالت میں ایک مختلف قسم کے چیلنج کا سامنا تھا۔\r\nیہ معاملہ ٹاپنگ کے ذائقے کا نہیں بلکہ گڈز اینڈ سروسز ٹیکس یعنی جی ایس ٹی کی شرح سے متعلق تھا۔\r\n ان کا کہنا ہے کہ ان کی ٹاپنگ میں پنیر اور دودھ کے مادے کا ایک تہائی سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ \r\nلیکن دارالحکومت دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ کی ایک عدالت نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ ٹاپنگ میں استعمال ہونے والے پنیر کو صحیح معنوں میں صرف پنیر کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔\r عدالت کا کہنا ہے کہ ٹاپنگز میں سبزیوں کا تیل ہوتا ہے اور صحیح معنوں میں یہ ٹاپنگ کے اجزا کا 22 فیصد ہوتا ہے۔ فرم نے کہا کہ تیل اس کے ٹیکسچر یا ساخت میں مدد کرتا ہے اور یہ پیزا میں ذائقے کو بڑھاتا ہے اور سستا بھی ہوتا ہے۔\r جب بات انڈین فوڈ انڈسٹری کی ہوتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ٹیکس کے اس نظام میں گرہیں پڑ جاتی ہیں۔\r\nستمبر میں ایک عدالت نے 20 ماہ تک جاری رہنے والے پراٹھے کے طویل کیس پر فیصلہ سنایا کیونکہ اس پر 18 فیصد جی ایس ٹی لگتا ہے جبکہ روٹی پر پانچ فیصد ٹیکس عائد ہوتا ہے حالانکہ دونوں کا بنیادی جزو ایک ہی ہوتا ہے۔\r\n کمپنی کا کہنا تھا کہ ان کی مصنوعات میں ’92 فیصد دودھ، اور صرف 8 فیصد شکر‘ شامل ہے۔ لیکن عدالت نے کہا کہ ذائقہ دار دودھ قوانین میں ’دودھ کی تعریف‘ کے تحت نہیں آتا ہے اور اس لیے وہ ٹیکس سے مستثنیٰ نہیں اور پھر اس بات پر تنازع پیدا ہوا کہ کیا پکنے کے لیے تیار ڈوسے (ایک مقبول ناشتہ) اور اڈلی ( ابلے چاول والے کیک) پر اس کے بیٹر (گھول) سے زیادہ ٹیکس لگانا چاہیے۔\r\n عالمی اکاؤنٹنگ اور کنسلٹنسی کمپنی ای وائی میں پارٹنر اور انڈیا میں بالواسطہ ٹیکس و خدمات کے ماہر ادے پمپریکر کہتے ہیں کہ ’جس لمحے آپ شرحوں کو اکٹھا کریں گے یا کم کریں گے، درجہ بندی کے تنازعات کم ہو جائیں گے لیکن انڈیا جیسے ملک میں جہاں آمدنی میں بڑا فرق ہے وہاں ایک ہی قسم کا ٹیکس یا دو قسم کے ٹیکس متعارف کرانے سے غریبوں پر ٹیکس کا بڑا بوجھ ڈالنے کا خطرہ موجود ہے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-63355513", "summary": "منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکالے جانے کے بعد انڈیا نے اس پر محتاط ردعمل ظاہر کیا ہے۔", "title": "پاکستان کو گرے لسٹ سے کیوں نکالا؟ انڈین صارفین امریکہ سے اتنے مایوس کیوں؟", "firstPublished": "2022-10-22T07:44:24.000Z", "id": "e99e16cf-1a56-40be-93e6-2c9bd50bed10", "article": "منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکالے جانے کے بعد انڈیا نے اس پر محتاط ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ خیال رہے کہ جمعہ کو پیرس میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کے اختتام پر ادارے کے سربراہ ٹی راجہ نے منی لانڈرنگ اور انتہا پسندی کی مالی معاونت کے خلاف پاکستان کے اقدامات میں قابل ذکر پیش رفت کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس گرے لسٹ سے باہر نکالنے کا اعلان کیا تھا۔ گذشتہ سال جون ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ سامنے آنے سے ایک روز قبل پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا تھا کہ انڈیا ایف اے ٹی ایف کے فورم کو ’سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے‘ اور یہ کہ انڈیا کو اس فورم کے سیاسی استعمال کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔ ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا تھا جب انڈین وزیر خارجہ جے شنکر نے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں کے لیے خارجہ پالیسی سے متعلق منعقدہ ایک ٹریننگ سیشن میں دعویٰ کیا تھا کہ ایف اے ٹی ایف نے انڈیا کے دباؤ پر پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ صحافی آدتیہ راج کول نے لکھا کہ ’چار سال پہلے میں بھی کشمیر میں تھا جب میں نے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈالے جانے کی خبر دی تھی۔ پھر سے میں کشمیر میں ہوں جب پاکستان کو (اس فہرست سے) نکالا گيا ہے۔ کشمیریوں کے خلاف پاکستان کی سپانسر کردہ دہشت گردی جاری ہے۔ امید کہ چین اور امریکہ کے زیر اثر (ادارہ) ایف اے ٹی ایف خودکشی کے راستے پر نہیں جا رہا ہے۔ وقت ہی بتائے گا۔‘ ایک صارف نے لکھا کہ ’جب انڈیا نے یوکرین کے تنازعے پر امریکہ کی پالیسی کی پیروی کرنے سے انکار کر دیا تو بائیڈن نے پاکستان اور اس کی دہشتگرد مشینری کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ پہلے تو اس نے پاکستان کی ایف-16 فلیٹ کو اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ کیا اور اب پاکستان کو ایف اے ٹی ایف سے نکالنے میں مدد کی۔ انڈیا کو امریکہ اور برطانیہ پر کبھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔‘ جمعہ کو پیرس میں ایف اے ٹی ایف کے سربراہ ٹی راجہ نے کہا کہ حکومت پاکستان نے منی لانڈرنگ اور انتہا پسندوں کو فنڈز فراہم کرنے کے خلاف اقدامات کر کے بلند عزم کا مظاہرہ کیا ہے، ایجنسی کی ٹیم ان اقدامات کی تحقیقات کے لیے پاکستان گئی تھی اور مطمئن ہو کر واپس لوٹی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-63352958", "summary": "سابق اور موجودہ حکومت کی کوششوں سے بلآخر پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب رہا ہے اور سرکاری سطح پر اسے ’بڑی کامیابی‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد پاکستان کے لیے کیا آسانیاں پیدا ہوں گی اور کیا ملکی معیشت پر اس کے اثرات نظر آئیں گے؟", "title": "ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکلنے کا پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟", "firstPublished": "2022-10-22T03:42:54.000Z", "id": "342928fe-16c0-4934-b6c3-7903e15b558c", "article": "منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کے لیے مالی معاونت پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دینے کے بعد امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس اہم پیش رفت کا پاکستان کو فائدہ ہو گا ملک کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی۔ دہشتگردی اور ٹیرر فنانسنگ کے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو چار سال بعد گذشتہ روز بلآخر اپنی گرے لسٹ سے نکال دیا تو سرکاری سطح پر اس اعلان کا خیر مقدم کیا گیا اور اسے پاکستان کی ’بڑی کامیابی‘ قرار دیا گیا کیونکہ جون 2018 سے پاکستان اس لسٹ کا حصہ رہا اور کئی بار یہ تاثر بھی ملا کہ شاید پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اب آگے کا لائحہ عمل کیا ہو گا اور اس لسٹ سے نکلنے سے پاکستان کے لیے کیا آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں؟ ماہرین کے مطابق اس لسٹ سے نکلنے کے بعد پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر ملک میں معیشت کی بہتری کے لیے سرمایہ کاری کا دروازہ کُھل سکے گا اور ملک میں براہ راست سرمایہ کاری ممکن ہو سکے گی کیونکہ گرے لسٹ میں موجودگی کے باعث کوئی بھی بین الاقوامی کمپنی پاکستان میں سرمایہ لگانے یا بینکوں پر اعتماد کرنے سے ہچکچاتی تھی۔ اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک میں پاکستان انیشیٹو کے ڈائریکٹر عزیر یونس کہتے ہیں کہ ’ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے براہِ راست معاشی فوائد تو نظر نہیں آئیں گے لیکن اس سے کم از کم ہم پر سے بلیک لسٹ ہونے کا خطرہ ٹل چکا ہے۔‘ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عزیر یونس نے کہا کہ ’جب کوئی ملک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہوتا ہے تو غیر ملکی کمپنیوں اور اداروں کو اس ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے قائل کرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہونے سے مالیاتی لین دین میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔‘ تاہم عزیر نے کہا کہ ’یہ ایک سست رفتار مرحلہ ہوتا ہے اسی لیے اس کے معیشت پر اثرات نظر آنے میں کچھ وقت لگے گا، تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ ہم اب بلیک لسٹ میں نہیں جا رہے اور نہ ہی گرے لسٹ میں رہیں گے۔‘ جب ہم نے عزیر یونس سے پوچھا کہ مستقبل میںاس لسٹ سے باہر رہنے کا کیا راستہ ہے تو اُنھوں نے کہا کہ ’ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ میں ہونے کے دو حصے تھے، جن میں ایک تو مالیاتی نظام کو مضبوط کر کے منی لانڈرنگ کا سدِباب کرنا تھا تو دوسری طرف داخلی سطح پر ان افراد اور ان تنظیموں کے خلاف گھیرا تنگ کرنا تھا جو عالمی پابندیوں کی زد میں ہیں۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-63242754", "summary": "منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو اپنی گرے لسٹ سے نکال دیا ہے۔ فیٹف کے صدر ٹی راجہ کمار کے مطابق پاکستان نے 35 سفارشات پر بہتر انداز میں عمل کیا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔", "title": "ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا", "firstPublished": "2022-10-21T15:12:00.000Z", "id": "e0d6f5b1-c509-4057-8297-0766d14b08e3", "article": "منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کے لیے مالی معاونت پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو اپنی گرے لسٹ سے نکال دیا ہے۔ فیٹف کے صدر ٹی راجہ کمار نے کہا کہ پاکستان نے 35 سفارشات پر بہتر انداز میں عمل کیا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا جا رہا ہے۔ جون 2022 میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا ہے کہ پاکستان نے ’منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ‘ کی مد میں اصلاحات کی ہیں اور اب فیٹف کی ٹیم کی جانب سے پاکستان کا دورہ کر کے اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے یہ اقدامات مستقبل میں نافذ العمل رہ پائیں گے یا نہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے نجات ملی اور عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ اور وقار کی بحالی قوم کو مبارک ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ ہماری عظیم قربانیوں کا اعتراف ہے۔ میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزارت خارجہ ، تمام متعلقہ حکام اور وزارتوں کو مبارک پیش کرتا ہوں۔‘ رواں سال مارچ میں اور اس سے پہلے 2021 میں منی لانڈرنگ کا جائزہ لینے والے ایشیا پیسیفک گروپ نے پاکستان کو اپنی دوسری فالو اپ رپورٹ میں مزید نگرانی کی فہرست میں شامل کیا تھا لیکن اس کے باوجود ادارہ گاہے گاہے پاکستان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا رہا ہے۔ سنہ 2021 کی رپورٹ کے مطابق ادارے نے فروری 2021 میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ تین اہم ترین سفارشات کی تکمیل کرے جن میں دہشتگردوں کو سزا، ان معاملات کی قانونی چارہ جوئی اور مالی معاونت پر پابندیاں شامل ہیں۔ ان تمام سفارشات میں ایک نکتہ رہ گیا تھا جس میں ایف اے ٹی ایف نے دہشت گردوں کے خلاف قانون سازی اور ان کو ملنے والی مالی معاونت کی تفتیش کرنے پر بھی زور دیا تھا۔ اسی سلسلے میں ادارہ پاکستان سے دہشتگردوں کی مالی معاونت پر پابندی کے قانونی اطلاق کا ثبوت بھی مانگتا رہا ہے۔ اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک میں پاکستان انیشیٹو کے ڈائریکٹر سے پوچھا کہ اس مرتبہ تو ہم گرے لسٹ سے بچ گئے ہیں مگر مستقبل میں بھی اس لسٹ سے باہر رہیں، اس کے لیے کیا کرنا ہو گا، تو اُنھوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ میں ہونے کے دو حصے تھے جن میں ایک تو مالیاتی نظام کو مضبوط کر کے منی لانڈرنگ کا سدِباب کرنا تھا تو دوسری طرف داخلی سطح پر ان افراد اور ان تنظیموں کے خلاف گھیرا تنگ کرنا تھا جو عالمی پابندیوں کی زد میں ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-63299257", "summary": "’چانسنکارٹ‘ کی خاص بات یہ ہے کہ غیر ملکی افراد اب کام کی تلاش میں جرمنی آ سکیں گے اور ان کے پاس ویزا کے حصول کے لیے جرمن ملازمت ہونا لازمی نہیں ہو گا۔", "title": "کیا ’موقع کارڈ‘ جرمنی میں ملازمت کرنے کا سنہری موقع لائے گا؟", "firstPublished": "2022-10-18T11:57:11.000Z", "id": "caf15616-c69c-4131-83e9-7850c297c9e6", "article": "غیر یورپی لوگوں کے لیے بھی اب ممکنہ طور پر جرمنی میں قانونی طور پر کام کرنا آسان ہونے والا ہے اور اس کی وجہ اس کا اپنا ’موقع کارڈ‘ ہے جو راوں سال کے اواخر میں نافذ العمل ہو جائے گا۔ جرمنی ایک طویل عرصے سے مزدوروں کی کمی کا شکار رہا ہے اور دوسرے ممالک سے لوگوں کو اپنے پاس آنے کی ترغیب دیتا رہا ہے مگر اب اس کی امیگریشن پالیسیوں میں تبدیلی کے باعث غیر یورپی افراد کے لیے جرمنی آنے کا مرحلہ پہلے سے آسان ہونے کی توقع ہے۔ چانسنکارٹ کی خاص بات یہ ہے کہ غیر ملکی افراد اب کام کی تلاش میں جرمنی آ سکیں گے اور ان کے پاس ویزا کے حصول کے لیے جرمن ملازمت ہونا لازمی نہیں ہو گا۔ دنیا کے کئی ممالک میں ورک ویزا حاصل کرنے کے لیے مذکورہ ملک میں ملازمت کی پیشکش ہونا لازمی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب غیر ملکی افراد کو جرمنی سے باہر رہ کر یہاں ملازمت کی درخواست دینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس نئے کارڈ سسٹم کے تحت درج ذیل چار میں سے کم از کم تین خصوصیات کے حامل افراد کو جرمنی آ کر یہاں کام تلاش کرنے کی اجازت ہو گی: اس کے علاوہ اُنھیں یہ بھی ظاہر کرنا ہو گا کہ جب تک اُنھیں جرمنی میں ملازمت نہیں مل جاتی، تب تک وہ اپنا خرچ اٹھا سکیں گے۔ جرمن اکنامک انسٹیٹیوٹ (آئی ڈبلیو) میں خاندانی پالیسی اور ترکِ وطن کے معاملات پر مہارت رکھنے والے ویڈو گیس تھون کہتے ہیں کہ ’مزدوروں کی کمی جرمنی میں ملازمت کے تمام شعبوں کو متاثر کر رہی ہے مگر اس وقت سب سے زیادہ مسائل سائنسی، تکنیکی، طبی اور نرسنگ کے شعبوں میں ہیں۔‘ ملازمین کی کمی سے کئی شعبے اور کمپنیاں متاثر ہو رہے ہیں۔ ایسوسی ایشن آف جرمن چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق 56 فیصد جرمن کمپنیوں کو خدشہ ہے کہ اہل ملازمین کی کمی کے باعث ان کا کاروبار متاثر ہو گا۔ وزیرِ محنت ہیوبرتس ہائل کے مطابق یہ کارڈ محدود تعداد میں جاری کیے جائیں گے اور ان کی تعداد لیبر مارکیٹ کی ضروریات پر منحصر ہو گی۔ الف رینے کہتے ہیں کہ ’طریقہ کار کو تیز تر اور ڈیجیٹائز کرنا چاہیے اور ضوابط کی رکاوٹوں کو کم کرنا چاہیے کیونکہ ضروری نہیں کہ جرمن معیارات کے ہم پلّہ معیارات دنیا میں ہر جگہ رائج ہوں۔‘ اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ بھی ہے جو بین الاقوامی مقابلے کی فضا میں جرمنی کے سامنے آئے گا۔ گیس تھون کہتے ہیں کہ ’دیگر ممالک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہنر مند مزدوروں کی کمی ہے اور وہ بھی ان میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انگریزی بولنے والے ممالک کو یہ فائدہ ہے کہ دنیا میں بھر میں زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ویسے ہی اچھی انگلش بول لیتے ہیں۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-63236886", "summary": "انڈیا کی ریاست پنجاب نے حال ہی میں مرکز کے زیر انتظام ایک کانفرنس میں مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ پاکستان سے تجارت دوبارہ شروع کی جائے کیونکہ تجارت بند ہونے سے پنجاب کے کسانوں اور تاجروں کا بہت نقصان ہو رہا ہے۔حکمراں بی جے پی اور اپوزیشن دونوں نے پنجاب حکومت کے اس مطالبے پر شدید نکتہ چینی کی ہے اور ریاست کی ‏عام آدمی پارٹی کی حکومت کو 'پاکستان پرست قرار دیا ' ہے۔", "title": "انڈیا: پاکستان سے تجارت بحال کرنے کے مطالبے پر پنجاب کے رہنما ’پاکستان پرست‘ قرار", "firstPublished": "2022-10-13T00:53:02.000Z", "id": "caffc725-f84e-4923-afe0-14f45c4581e9", "article": "انڈیا کی ریاست پنجاب نے حال ہی میں مرکز کے زیر انتظام ایک کانفرنس میں مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ پاکستان سے تجارت دوبارہ شروع کی جائے کیونکہ تجارت بند ہونے سے پنجاب کے کسانوں اور تاجروں کا بہت نقصان ہو رہا ہے۔حکمراں بی جے پی اور اپوزیشن دونوں نے پنجاب حکومت کے اس مطالبے پر شدید نکتہ چینی کی ہے اور ریاست کی ‏عام آدمی پارٹی کی حکومت کو 'پاکستان پرست قرار دیا ' ہے۔ پاکستان سے تجارت بحال کرنے کا مطالبہ پنجاب کے زراعت اور کسانوں کی بہبود کےوزیر کلدیپ سنگھ دھالیوال نے مرکز کے زیر اہتمام ریاستی وزراء زراعت کی ایک کانفرنس میں کیا تھا۔ اس میٹنگ کی تفصیلات حال میں جاری کی گئیں جس سے پنجاب کے مطالبے کے بارے میں پتہ چلا۔ دھالیوال نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان سے تجارت دوبارہ کھول دی جائے۔ اطلاعات کے مطابق اس میٹنگ کے بعد جن معاملات پر قدم اٹھانے یا مزید غور کرنے کافیصلہ کیا گیا تھا اس میں پنجاب سے تجارت کی بحالی کا سوال بھی شامل تھا۔ لیکن اس خبر کے میڈیا میں آتے ہی بی جے پی اور کانگریس نے پنجاب کی عام آدمی پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ بی جے پی کے سینئر ترجمان شہزاد پونے والا نے ‏عام آدمی پارٹی کو ’پی پی پی یعنی پاک پرست پارٹی‘ قرار دیا۔ ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ 'آپ پارٹی کی پاکستان پرستی کانگریس کے پاک پریم کے مترادف ہے۔ کانگریس کی ہی طرح آپ پارٹی نے بھی سرجیکل سٹرائیک کے بارے سوالات اٹھائے تھے۔ بالاکوٹ کے بارے میں ثبوت مانگا تھا اور پلوامہ کے لیے انڈیا کوہی مورد الزام قرار دیا تھا۔‘ کانگریس کے سینیئر رہنما منیش تیواری نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے ’کیا پنجاب کے وزیر کلدیپ سنگھ دھالیوال کو پاکستان کے سرکاری موقف کے بارے میں پتہ ہے۔ انڈیا سے تب تک کوئی بات چیت نہیں ہوگی جب تک کشمیر سے متعلق قانونی ترامیم کو واپس نہیں لیا جاتا۔ ابھی تک ہم نے ہائی کمشنر کا عہدہ بھی بحال نہیں کیا ہے۔ ان حالات میں تجارت؟‘ بی جے پی ایک اور رہنما منجندر سنگھ سیرسہ نے بھی پنجاب حکومت پر نکتہ چینی کتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ’پاکستان سے آنے والی غیر قانونی منشیات نے پنجاب کے نوجوانوں کو تباہ کر دیا ہے۔ لیکن پنجاب کی آپ پارٹی کی حکومت پاکستان سے تعلقات بحال کرنے کے لیے بے چین ہے۔‘ انڈیا اور پاکستان کے درمیان 2017- 18 میں باہمی تجارت کا حجم 2 ارب 41 کروڑ ڈالر تھا جو 2021 -22 میں گھٹ کر 516 ملین ڈالر پر آ گیا ہے۔ یہ تجارت بھی بیشتر دوسرے ملکوں کے توسط سے ہو رہی ہے۔ حال ہی میں ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے جموں میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-63210581", "summary": "ایک ایسے وقت میں جب اسحاق ڈار آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے مذاکرات کے لیے امریکہ روانہ ہوئے ہیں، سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ پاکستان پیرس کلب کے پاس قرضوں کی ری شیڈولنگ کے لیے نہیں جانا چاہتا؟", "title": "پاکستان قرضوں کی ری شیڈولنگ کے لیے پیرس کلب کیوں نہیں جا رہا؟", "firstPublished": "2022-10-12T03:13:28.000Z", "id": "46e22068-e1b5-45ad-b35e-4cc6e4eadecd", "article": "پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے حالیہ دنوں میں قرضے کی ری شیڈولنگ کے لیے پیرس کلب سے رجوع نہ کرنے کے فیصلے پر متعدد بار بیانات دیے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ پاکستان کے مالی معاملات اور قرضوں کی بروقت ادائیگی کے لیے پالیسی مرتب کی جا چکی ہے۔ اسحاق ڈار سے پہلے پی ڈی ایم حکومت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے رہے کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی وجہ سے پاکستان پیرس کلب سے قرضوں کی ری شیڈولنگ چاہتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب اسحاق ڈار آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے مذاکرات کے لیے امریکہ روانہ ہوئے ہیں، سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ پاکستان پیرس کلب کے پاس قرضوں کی ری شیڈولنگ کے لیے نہیں جانا چاہتا؟ ’حکومت یہ سمجھتی ہے کہ پیرس کلب کے پاس قرضوں کی ری شیڈولنگ کے لیے جانے سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ متاثر ہو گی جو کہ بانڈز مارکیٹ میں پاکستان کی ساکھ کو متاثر کرے گی اور اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ کار بھی پاکستان آنے سے گھبرائیں گے۔ اسی لیے پاکستان نے پیرس کلب نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں وزیر خزانہ رہنے والے سینیٹر شوکت ترین نے بھی اسحاق ڈار کے اس فیصلے کی حمایت کی ہے۔ ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کا پیرس کلب کے پاس نہ جانے کا فیصلہ درست قدم ہے۔ پاکستان کے ایک ارب ڈالرز کے بانڈز کی مدت دسمبر میں پوری ہو رہی ہے اور وزیر خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ ادائیگی وقت پر کی جائے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ادائیگی بھی کریڈٹ مارکیٹ میں پاکستان سے متعلق مثبت رجحان پیدا کرنے کا باعث بنے گی۔ تاہم پاکستان کو رواں مالی سال میں قرضوں کی ادائیگیوں اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کی مد میں تقریباً 35 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے اور جب پوری دنیا عالمی کساد بازاری کے خطرے سے دوچار ہے تو ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حکومت کے پاس کیا راستہ ہے؟ خرم حسین سمجھتے ہیں کہ اسحاق ڈار صاحب آئی ایم ایف سے بھی نرمی اور ریلیف کی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں اور اسی لیے حکومت نے پیرس کلب کے پاس نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ ’سب سے پہلے تو پاکستان کو ہر حال میں آئی ایم ایف پروگرام میں رہنا ہو گا تاکہ دنیا کا پاکستان پر اعتماد بنا رہے ۔اس کے بعد پاکستان کو اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو سنبھالنے کی ضرورت ہو گی تاکہ ادائیگیوں کا توازن خراب نہ ہو۔ پاکستان کو ایک ارب ڈالر کے بانڈز کی ری فائنانسنگ کی طرف بھی جانا چاہیے جو کہ اس سال دسمبر میں میچور ہو رہا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-63181281", "summary": "پاکستان میں بینکوں کی جانب سے ڈالر کے ریٹ کو مبینہ طور پر مصنوعی طریقے سے اوپر لے جانے کا انکشاف سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کیا تھا اور اس کے بعد اس پر پارلیمان کی کمیٹی میں بینکوں کے نمائندوں کو بلا کر ان سے اس سلسلے میں جانچ پڑتال بھی کی گئی تھی۔", "title": "کیا پاکستانی بینک ملک میں ڈالر کی قدر میں ’مصنوعی‘ اضافے کا باعث بنے؟", "firstPublished": "2022-10-08T02:05:38.000Z", "id": "8007e6ba-d78e-4d40-b063-a7ed7ea0d53a", "article": "تیل کمپنی کے چیف ایگزیکٹو سے حاصل کی گئ معلومات گذشتہ چند مہینوں میں ڈالر کی قیمت میں ہونے والے بے تحاشا اضافے کے پس منظر میں حاصل کی گئی ہیں جب حکومت کی جانب سے ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافے پر یہ بیان سامنے آیا کہ آٹھ بینک ڈالر کے ریٹ کو مصنوعی طور پر اوپر لے جانے میں مبینہ طور پر ملوث ہیں۔ واضح رہے کہ بینکوں کی جانب سے ڈالر کے ریٹ کو مبینہ طور پر مصنوعی طریقے سے اوپر لے جانے کا انکشاف سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کیا تھا اور اس کے بعد اس پر پارلیمان کی کمیٹی میں بینکوں کے نمائندوں کو بلا کر ان سے اس سلسلے میں جانچ پڑتال بھی کی گئی تھی۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بی بی سی کو بتایا کہ 'بینکوں سے جولائی کے مہینے میں ڈالر کے ریٹ کو منصوعی طریقے سے اوپر لے جانے پر شو کاز نوٹس ایشو کیے گئے ہیں۔' بی بی سی کی جانب سے تحقیقات کے لیے جب بینکوں میں ٹریژری ڈیپارٹمنٹ میں فون کیے تو ان میں سے اکثر نے بات کرنے سے انکار کر دیا تاہم ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کچھ معلومات فراہم کیں اور اس کے ساتھ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ساتھ اس مسئلے پر ڈیل کرنے والے ایک حکومتی فرد نے بھی نام ظاہر کرنے کی شرط پر کچھ معلومات فراہم کیں انھوں نے کہا کہ اس کے بعد حکومت کی جانب سے یہ انکشاف کیا گیا کہ کچھ بینک ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طریقے سے اوپر لے جا رہے ہیں اور اس کے بعد ان بینکوں کو پارلیمان کی ایک کمیٹی کے سامنے بھی پیش ہونا پڑا۔ خیال رہے کہ پارلیمان کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں جانچ پڑتال کی غرض بلائے گئے بینکوں میں نیشنل بینک، الائیڈ بینک، بینک الحبیب، سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک، میزان بینک، حبیب بینک، حبیب میٹرو بینک اور یونائیٹڈ بینک شامل ہیں جنھیں بلا کر ان سے اس بارے میں جانچ پڑتال کی گئی تھی۔ بینکوں کی جانب سے ڈالر کے ریٹ کو مصنوعی طور پر اوپر لے جانے اور درآمدات کے لیے مارکیٹ ریٹ سے زیادہ قیمت وصول کرنے پر پارلیمان کی کمیٹی اور حکومت کی جانب سے نوٹس لیے جانے کے بعد بینکوں کو شو کاز نوٹس جاری کیے گئے ہیں کہ وہ اس سسلے میں اپنی وضاحت دیں۔ 'مفتاح نے اس سلسلے میں سٹیٹ بینک پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی تاہم انھوں نے سٹیٹ بینک کو تجویز دی کہ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طریقے سے بڑھانے میں جو بینک ملوث ہیں ان پر جرمانہ عائد ہونا چاہیے اور یہ جرمانہ اتنا زیادہ عائد ہونا چاہیے کہ بینکوں نے فارن ایکسچینج انکم کی مد میں ڈالر کی مصنوعی قیمت کے ذریعے جو بہت زیادہ منافع کمایا اس پر بڑے جرمانے کی صورت میں کمی واقع ہو۔' "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-63151793", "summary": "امریکی کرنسی دنیا کی کچھ مضبوط کرنسیوں کے مقابلے میں 20 سالوں میں اپنی بلند ترین قیمت پر پہنچ گئی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے اور باقی ممالک پر اس کے اثرات کیا ہو رہے ہیں۔", "title": "دنیا کی مضبوط ترین کرنسیاں ڈالر کے سامنے ڈھیر کیوں ہو رہی ہیں؟", "firstPublished": "2022-10-07T09:10:39.000Z", "id": "a9b8c841-4086-4c62-917c-238261ca9f6b", "article": "ڈالر دنیا کی چند مضبوط ترین کرنسیوں کے مقابلے میں گذشتہ 20 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان ممالک میں ڈالر خریدنا زیادہ مہنگا ہو گیا ہے جو پیسو، یورو، ین یا کوئی اور کرنسی استعمال کرتے ہیں۔ جوں جوں مقامی کرنسیوں کی قدر میں کمی ہوتی ہے توں توں ان تمام اشیا کی قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں جو ملک میں درآمد کی جاتی ہیں۔ ’ڈی ایکس وائی انڈیکس‘ ڈالر کے مقابلے میں یورو، پاؤنڈ اور ین سمیت چھ دیگر بڑی کرنسیوں کی قدر کی پیمائش کرتا ہے۔ اس انڈیکس کے مطابق دیگر بڑی کرنسیوں کے مقابلے میں اس وقت ڈالر کی قیمت 20 برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ عالمی سطح پر ڈالر کی قدر میں اضافہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب شرح سود میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کئی ممالک کے مرکزی بینک افراط زر پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ملک میں معاشی ترقی کی رفتار کم ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب یوکرین میں جنگ کی وجہ سے عالمی طور پر عدم استحکام پایا جاتا ہے، حالیہ عرصے میں دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے امریکی بانڈز کی شکل میں سرمائے کو محفوظ کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرید لیے ہیں۔ ڈالر کی اس بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے اس کی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ چونکہ تیل کی قیمت امریکی ڈالر سے منسلک ہے، اس لیے دنیا بھر میں پٹرول اور ڈیزل جیسی مصنوعات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، جو کئی ممالک میں مہنگائی کی لہر کا بنیادی محرک ہے اور اس سے یہ ممالک بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ لیکن جوں جوں ڈالر کی قدر بڑھتی ہے، ان قرضوں کو مقامی کرنسی میں ادا کرنا زیادہ مہنگا ہو جاتا ہے۔ مثلاً ارجنٹائن میں بھی ایسے ہی ہوا ہے اور ایک ایسا ملک جو برسوں سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ لین دین کر رہا ہے، اس وقت وہاں افراط زر کی شرح 78.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ بلند شرح سود، کم اقتصادی ترقی اور بڑے پیمانے پر بیروزگاری کا یہ چکر ممالک کو کساد بازاری کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے یورپی حکومتوں کی رات کی نیند حرام کر دکھی ہے اور یہ ممالک روس کی جانب سے گیس کی پائپ لائن بند کیے جانے کے بعد اپنی تاریخ کے بدترین توانائی کے بحران سے گزر رہے ہیں۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے ڈالر کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ایک بری خبر ہوتا ہے، لیکن برآمد کنندگان اور ان لوگوں کے لیے ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے جنھیں ان کے رشتہ دار بیرون ملک سے پیسے بھجواتے ہیں یا وہ لوگ جو اپنی بچت ڈالرز میں رکھتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-63153633", "summary": "چین کی معیشت کی رفتار سست ہو رہی ہے۔ حکومت کی زیرو کووڈ پالیسی پر سختی سے عمل درآمد اور عالمی طلب میں کمی کی وجہ سے چینی معیشت سست روی کا شکار نظر آتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جنھوں نے چینی معیشت میں اس قدر تنزلی کو ہوا دی ہے؟", "title": "پانچ وجوہات جو چین جیسی معیشت سے سرمایہ کاروں کو ہاتھ کھینچنے پر مجبور کر رہی ہیں", "firstPublished": "2022-10-06T15:04:21.000Z", "id": "1fbd8086-6a87-4dff-8e78-8007f6eb4d68", "article": "چین کی معیشت کی رفتار سست ہو رہی ہے۔ حکومت کی زیرو کووڈ پالیسی پر سختی سے عمل درآمد اور عالمی طلب میں کمی کی وجہ سے چینی معیشت سست روی کا شکار نظر آتی ہے۔ کمزور کرنسی کے باعث بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے، سرمایہ کار منہ موڑ لیتے ہیں اور عالمی منڈی میں غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہونے کے علاوہ اس سے مرکزی بینک کے لیے معیشت میں سرمایہ کاری کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ 16 اکتوبر کو چینی کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس میں انھیں تیسری بار صدر قرار دیا جا سکتا ہے۔ آئیے غور کرتے ہیں کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جنھوں نے چینی معیشت میں اس قدر تنزلی کو ہوا دی ہے؟ نجی سروے کے مطابق ستمبر میں فیکٹریوں کی سرگرمیوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ طلب کی کمی نے پیداوار، نئے آرڈرز اور روزگار کو متاثر کیا ہے۔ بلند شرح سود، مہنگائی اور یوکرین جنگ کی وجہ سے امریکہ جیسے ملک میں مانگ کم ہو رہی ہے۔ ایس اینڈ پی گلوبل ریٹنگز کے چیف ایشیا اکانومسٹ لوئس کوئز کہتے ہیں کہ ’اس وقت معیشت میں پیسہ لگانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اگر کمپنیاں نہیں پھیل سکتیں اور لوگ خرچ کرنے کے قابل نہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔‘ ریئل اسٹیٹ کی سرگرمیوں اور ہاؤسنگ سیکٹر میں منفی رجحان کی وجہ سے ترقی کی رفتار میں کمی کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے۔ ریئل اسٹیٹ سے منسلک دیگر صنعتیں چین کی جی ڈی پی کا ایک تہائی حصہ ہیں۔ نئے گھروں کی مانگ میں کمی آئی ہے اور اس کی وجہ سے تعمیراتی شعبے میں استعمال ہونے والے خام مال کی درآمد میں بھی کمی آئی ہے۔ چینی حکومت ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو ریلیف دینے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود پراپرٹی کی قیمتیں گر رہی ہیں۔ اس سال کئی شہروں میں جائیداد کی قیمتوں میں 20 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔ حالیہ مہینوں میں دسیوں ہزار افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جو پہلے سے جاری ملازمتوں کے بحران کو مزید نمایاں کر رہا ہے۔ اس وقت چین میں 16 سے 24 سال کی عمر کا ہر پانچواں نوجوان بے روزگار ہے۔ طویل مدت میں اس کا اثر چین کی پیداواری صلاحیت اور ترقی پر پڑ سکتا ہے۔ سرمایہ کار بھی حکومت کے رویے میں تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ جیسے جیسے ژی جن پنگ کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہو رہی ہے، چین کی کچھ کامیاب کمپنیوں کی مشکلات میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ دنیا بھی اب یہ سمجھ رہی ہے کہ چین صنعتیں لگانے کے لیے اتنا موزوں ملک نہیں رہا جتنا پہلے تھا۔ پچھلی چند دہائیوں کے دوران چین کو جس اقتصادی ترقی نے آگے بڑھایا ہے وہ اب تنزلی کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-63154417", "summary": "ایشیا کی تیسری بڑی معیشت کے طور پر انڈیا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے خود کو مینوفکچرنگ اور برآمدی مرکز کے طور پر پیش کرنے کے لیے کافی محنت کر رہا ہے۔", "title": "’چین پلس ون‘ حکمت عملی: کیا انڈیا عالمی منڈی میں چین کا متبادل بننے جا رہا ہے؟", "firstPublished": "2022-10-06T07:58:46.000Z", "id": "e3d6d754-0c2f-461a-b9bd-45bd03bfcb1c", "article": "ان کا کہنا تھا کہ یہ اعلان انڈیا میں مینوفیکچرنگ اور الیکٹرانکس جیسے شعبوں میں بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کی وجہ سے کیا گیا جہاں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت ملک میں مصنوعات تیار کرنے کی خواہش مند کمپنیوں کو بدلے میں معاشی فوائد دینے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ ایشیا کی تیسری بڑی معیشت کے طور پر انڈیا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے خود کو مینوفکچرنگ اور برآمدی مرکز کے طور پر پیش کرنے کے لیے کافی محنت کر رہا ہے۔ نریندر مودی انتظامیہ نے انڈیا کو عالمی رسد کی فراہمی میں اہم کردار حاصل کرنے اور سست رفتار مزاکراتی پارٹنر کے تصور کو بدلنے کے لیے دو طرفہ تجارتی معاہدوں پر کافی زور دیا ہے اور کاروباری افراد ان کوششوں کو سراہ رہے ہیں۔ تاہم ماہرین کے مطابق آزادانہ تجارت کی کوششوں میں انڈیا نے اگر ایک قدم آگے کی جانب بڑھایا ہے تو ساتھ ہی تین قدم پیچھے کی جانب بھی لیے ہیں۔ ایک جانب جہاں معاہدے کرنے میں تیزی دکھائی جا رہی ہے، وہیں خود انحصاری کے نعرے بھی بلند کیے جا رہے ہیں اور تین ہزار مصنوعات پر ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے جن میں سے اکثریت مینوفکچرنگ کے عمل کے لیے ناگزیر ہیں۔ کئی بیرونی سرمایہ کار کمپنیاں برابری کے مواقع کی کمی اور بڑھتی ہوئی تحفظ پسندی کی شکایت کرتی ہیں جبکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کی کمپنیاں، جو انڈین معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہیں، مقامی بیوروکریسی کو اب بھی ایک بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ آبزرور ریسرچ فاونڈیشن کے ڈائریکٹر مہر شرما کہتے ہیں کہ ’ایپل واقعی ایک ایسی کہانی ہے جسے کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے تاہم انڈیا کو مینوفکچرنگ کا مرکز بنانے کے لیے سرمایہ کاری کا ایک بڑا ٹکٹ کافی نہیں بلکہ اس کے لیے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو سازگار ماحول اور سہارا فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔‘ شرما کے مطابق ایشیا کی دوسری بڑی معاشی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انڈیا کو اپنے ہنر مندوں کو بہتر کرنے اور ایک سازگار کاروباری ماحول تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی بینک کی کاروباری آسانی کی فہرست میں تھائی لینڈ، ویت نام اور جنوبی کوریا انڈیا سے کئی درجے اوپر ہیں۔ ویت نام نے 2030 تک ایک ایسی راہداری تیار کرنے کا منصوبہ بھی بنا رکھا ہے جس سے بڑے پیمانے پر مینوفکچرنگ آسان ہو جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ اور اس کے اتحادی چین سے دوری اختیار کر رہے ہیں، انڈیا کے چند مخصوص علاقے، جیسا کہ تمل ناڈو، تیلنگانا اور دلی، مینوفکچرنگ میں وسعت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایلکس کیپری کہتے ہیں کہ انڈیا کو ایک اور فائدہ تائیوان کی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے سستے ہنرمندوں کی تلاش سے بھی ہو گا جو اپنی صلاحیتیں اسی بنا پر یہاں منتقل کرنا چاہتی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-63124478", "summary": "کِم کارڈیشین نے اپنے انسٹاگرام پیج پر ایتھیریم میکس نامی کرپٹو کرنسی کی تشہیر کرنے پر 1.16 ملین ڈالر جرمانہ ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔", "title": "کِم کارڈیشین کو کرپٹو کرنسی کی تشہیر کرنے پر 11 لاکھ ڈالر جرمانہ", "firstPublished": "2022-10-04T01:19:31.000Z", "id": "e981d86c-6e48-483f-a9c4-b17fe198f99b", "article": "کِم کارڈیشین نے اپنے انسٹاگرام پیج پر ایتھیریم میکس نامی کرپٹو کرنسی کی تشہیر کرنے پر 11 لاکھ 60 ہزار ڈالر جرمانہ ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ یو ایس سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے کہا ہے کہ ریئلیٹی ٹی وی سٹار کارڈیشین نے کرپٹو کرنسی کی تشہیر کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر وصول کیے تھے، یہ ظاہر کیے بغیر کہ انھیں ایسا کرنے کے لیے پیسے دیے گئے تھے۔ انھوں نے تین سال تک کرپٹو ایسٹ سکیورٹیز کو فروغ نہ دینے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ ان کے وکیل نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’مس کارڈیشین ایس ای سی کے ساتھ مل کر اس معاملے کو حل کرنے پر خوش ہیں۔‘ سرمایہ کاروں نے جنوری میں مس کارڈیشین، باکسر فلوئڈ مے ویدر جونیئر، باسکٹ بال کھلاڑی پال پیئرس اور ایتھیریم میکس کرپٹو کرنسی کے تخلیق کاروں کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔ اس مقدمے میں ان پر الزام تھا کہ انھوں نے سرمایہ کاروں کو فروخت کرنے سے پہلے قیمت کو بڑھانے کے لیے ڈیزائن کردہ ’پمپ اینڈ ڈمپ‘ سکیم میں کرپٹو کرنسی کو 'گمراہ کن طور پر فروغ دینے اور فروخت کرنے' کے لیے تعاون کیا تھا۔ ایتھیریم میکس نے اس وقت ان الزامات سے اختلاف کیا تھا حالانکہ اپنے نام میں ایتھیریم ہونے کے باوجود ان کا معروف کرپٹو کرنسی ایتھیریم کے ساتھ کوئی قانونی یا کاروباری تعلق نہیں ہے۔ ایتھیریم میکس نے کم کارڈیشین جیسی مشہور شخصیات پر ایڈورٹائزنگ میں بہت زیادہ رقم لگائی - اور پہلے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ یہ چیز کام کر رہی ہے۔ اگر ایتھیریم میکس نے مشہور شخصیت کی جانب سے توثیق کرنے کے بعد حاصل ہونے والی قدر کو برقرار رکھا ہوتا، تب بھی امریکہ اور برطانیہ دونوں میں ریگولیٹرز اس کرنسی کی مارکیٹنگ کے بارے میں تحفظات رکھتے تھے۔ کرپٹو انڈسٹری اب بھی بڑی حد تک غیر منظم ہے - اور کم کارڈیشین ان لوگوں اور کمپنیوں کی بڑھتی ہوئی فہرست میں شامل ہو گئی ہیں جنھیں اس خطرناک پروڈکٹ کو فروغ دینے کی وجہ سے سزا ملی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’مس کارڈیشین کا کیس مشہور شخصیات اور دیگر لوگوں کے لیے ایک یاد دہانی کا بھی کام کرتا ہے کہ قانون ان سے عوام کے سامنے یہ بتانے کا تقاضا کرتا ہے کہ انھیں سکیورٹیز میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے کب اور کتنی رقم ادا کی گئی۔‘ ’جب بات کرپٹو کی ہو تو یاد رکھیں کہ ان میں سے بہت سے اثاثے انتہائی قیاس آرائی پر مبنی ہوتے ہیں۔ آپ سوچتے ہیں کہ کیا یہ آپ کے لیے صحیح ہیں یا پھر یہ کہ یہ ایک سکیم یا دھوکہ ہوسکتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-63084127", "summary": "لندن میں موجود قیادت سے براہ راست رابطہ رکھنے والے مسلم لیگی رہنما اس سلسلے میں نہایت اعتماد کے ساتھ اشارے دیتے ہیں کہ سینیٹر اسحاق ڈار کی پاکستان آمد دراصل میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی جانب پہلا قدم ہے اور زیادہ سے زیادہ اوائل دسمبر میں وہ پاکستان میں ہوں گے۔", "title": "کیا نواز شریف کی واپسی کا دارومدار ’اسحاق ڈار کی کارکردگی‘ پر ہے؟", "firstPublished": "2022-10-03T02:55:52.000Z", "id": "fd6a896f-f3da-4e25-ba63-166df5868cf4", "article": "مسلم لیگ ن کے رہنما اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار ایوان اقتدار سے نکلے تھے تو جلاوطنی ان کا مقدر بنی تھی۔ یہ جلاوطن اسی شان کے ساتھ دوبارہ اپنے منصب پر ’بحال‘ ہو چکا ہے۔ مگر ان کی وطن واپسی اور وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بعض حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ ان کے بعد کیا اب نواز شریف کی واپسی متوقع ہے؟ سینیٹر اسحاق ڈار کی وطن واپسی کے بعد مسلم لیگ ن جس دور میں داخل ہوئی ہے، اس کے اظہار کے لیے لیگی رہنما کے خیال میں اس سے بہتر عنوان کوئی ہو نہیں سکتا۔ لندن میں موجود قیادت سے براہ راست رابطہ رکھنے والے مسلم لیگی رہنما اس سلسلے میں نہایت اعتماد کے ساتھ اشارے دیتے ہیں کہ سینیٹر اسحاق ڈار کی پاکستان آمد دراصل میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی جانب پہلا قدم ہے اور زیادہ سے زیادہ اوائل دسمبر میں وہ پاکستان میں ہوں گے۔ میاں نواز شریف پاکستان کی جانب دوسرا قدم کب اٹھائیں گے؟ اس سوال کا حتمی جواب اس منصوبے کی کامیابی میں ہے جس کے ساتھ اسحاق ڈار کی واپسی ہوئی ہے۔ سابق وزیر اعظم تک براہ راست رسائی رکھنے والے ممتاز صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ بجلی کی بڑھی ہوئی قیمتیں، پیٹرول و اشیائے صرف کے نرخوں میں ہوش ربا اضافہ اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری اسحاق ڈار کے لیے سب سے بڑے چیلنج ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’یہی سبب تھا کہ وہ مفتاح اسماعیل کی کامیابی کی خواہش مند رہی اور ماضی قریب میں ایک بار جب اسحاق ڈار کی واپسی کی خبریں سامنے آئیں تو اس موقع پر مسلم لیگ کا یہ حلقہ کھل کر سامنے آ گیا جس سے یہ تاثر قوی ہوا کہ خود پارٹی کے اندر ایک مؤثر لابی اسحاق ڈار کی واپسی نہیں چاہتی۔‘ وہ محمد زبیر کے اس تاثر کی تائید کرتے ہیں کہ اسحاق ڈار کی واپسی کے معاملے میں پارٹی میں اختلاف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ’یہ فیصلہ مرکزی قیادت نے کیا ہے جسے مفتاح اسماعیل نے ملک اور جماعت دونوں کے مفاد میں خوش دلی کے ساتھ تسلیم کیا ہے۔‘ جس پر میاں نواز شریف نے فیصلوں کا اختیار واپس اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسحاق ڈار کو پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔ میاں نواز شریف کے قریب اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ سخت اقتصادی فیصلوں کی وجہ سے پارٹی کی مقبولیت میں کمی ہو رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے اہم کردار ادا کیا ہے جس کی بدولت اسحاق ڈار کے راستے کی یہ بڑی رکاوٹ دور ہو گئی ہے۔ اس اطلاع کی تائید مریم نواز کی ایک ویڈیو بھی کرتی ہے جس میں وہ کہتی ہیں کہ اسحاق ڈار کے لیے انھیں سخت محنت کرنی پڑی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-63093949", "summary": "آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر پاکستان نے چین سے 30 ارب ڈالر کا قرض لے رکھا ہے جو اس کے کل بیرونی قرضوں کا ایک تہائی حصہ بنتا ہے۔", "title": "کیا پاکستان چین سے قرضوں کی واپسی میں سہولت حاصل کرنے سے ہچکچا رہا ہے؟", "firstPublished": "2022-10-02T02:43:59.000Z", "id": "91b1a123-dc26-4d76-9631-10f20e306879", "article": "چین کے قرضوں کی واپسی پر نظرِ ثانی اور اس ضمن میں سہولت حاصل کرنے کے حوالے سے امریکہ کی جانب سے ماضی میں بیانات دیے جاتے رہے ہیں لیکن حال ہی میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو کے ایک بیان نے ایک مرتبہ پھر اس جانب توجہ مبذول کروا دی ہے۔ ڈان اخبار کے مطابق بلاول بھٹو نے جریدے فارن پالیسی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان نے چین سے قرضوں کی واپسی کو ری سٹرکچر کرنے، مؤخر کرنے یا سواپ کرنے کے بارے میں بات نہیں کی اور اگر ایسا ہو گا بھی تو یہ پاکستان کی شرائط پر ہو گا۔ سیلاب سے متاثرہ پاکستانی معیشت کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے پاکستان کو عالمی برادری کی مدد درکار ہے لیکن ماہرین کے مطابق سنہ 2010 کے سیلاب کے برعکس اس مرتبہ زیادہ بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کے بعد پاکستان کو امریکہ اور چین دونوں سے ہی وہ امداد نہیں مل سکی جس کی اسے ضرورت ہے۔ چین کے پاکستان میں سفیر کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستاں میں تباہ کن سیلاب آنے کے بعد چین نے تقریباً 90 ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا ہے، جو پاکستان کے لیے سب سے بڑی امداد ہے۔ اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے گذشتہ ہفتے شائع کیے گیے ایک پیپر میں کہا گیا کہ پاکستان سے بیرونی قرضوں کی واپسی کے عمل کو فوری طور پر معطل کرتے ہوئے قرض دینے والے ممالک اور ادارے انھیں ری سٹرکچر کریں۔ اس حوالے سے تھنک ٹینک ایس ڈی پی آئی کے سربراہ عابد قیوم سلہری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرضوں میں پہلے پیرس کلب کے ممبران سے لیا گیا قرضہ آتا ہے اس کے بعد چین کی باری آتی ہے۔ انھوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’جیسے سنہ 2002 کے بعد پاکستان کو بہت بڑی قرضوں کی ری سٹرکچرنگ ملی تھی جو افغان جنگ کے حوالے سے دی گئی تھی اور پاکستان کو اس وقت 10 یا 12 ارب ڈالر ملے تھے۔‘ اس مشکل وقت میں کیا چین پاکستان کو قرضوں کی واپسی کے حوالے سے سہولت دے گا؟ اس بارے میں خرم حسین کہتے ہیں اس بات کا امکان تو ہے لیکن یہ ایک پیچیدہ عمل ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’کیونکہ چین پاکستان سے بہت پہلے سے نظام بہتر کرنے کے بارے میں بات کرتا آیا ہے اس لیے اب ری سٹرکچرنگ کی بات کرنے پر پاکستان کو چین کی جانب سرزنش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘ خرم حسین کے مطابق یہ پاکستان کی لائف لائن بن گئی اور یہ قرضے ’نہ صرف چین ری سٹرکچر کرے، پیرس کلب ری سٹرکچر کرے بلکہ سب ہی ایسا کریں لیکن سب ایک دوسرے سے اس امر کو مشروط کر رہے ہیں۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62548751", "summary": "پاکستان کے75 برس مکمل ہونے پر سٹیٹ بینک نے 75 روپے کا جو یادگاری نوٹ ڈیزائن کیا تھا اسے اب بطور کرنسی نوٹ بھی جاری کر دیا یعنی سبز رنگ کے اس نوٹ کو خریداری کے لیے اپنے ساتھ بازار بھی لے کر جا سکتے ہیں۔", "title": "سٹیٹ بینک نے 75 روپے کے یادگاری نوٹ بطور کرنسی جاری کر دیے", "firstPublished": "2022-08-15T10:12:05.000Z", "id": "6d823cec-72ce-40e1-86fd-0cdedd2993db", "article": "پاکستان کے 75 برس مکمل ہونے پر سٹیٹ بینک نے 75 روپے کا جو یادگاری نوٹ ڈیزائن کیا تھا اسے اب بطور کرنسی نوٹ بھی جاری کر دیا گیا ہے یعنی اب اس سبز رنگ کے نوٹ کو آپ خریداری کے لیے بازار بھی لے کر جا سکتے ہیں۔ سٹیٹ بینک کے ایک مراسلے کے مطابق یہ نوٹ جس کی ملک کے قیام کے 75 برس پورے ہونے پر یادگاری نوٹ کے طور پر رونمائی کی گئی تھی اب کرنسی نوٹ کے طور پر کمرشل بینکوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق اب اس نوٹ سے ہر کوئی خرید و فروخت کر سکتا ہے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق اہم دنوں پر سکّے اور ڈاک ٹکٹوں جاری ہوتے ہیں لیکن ایسا کم ہوتا ہے کہ سٹیٹ بینک کوئی یادگاری بینک نوٹ جاری کرے۔ یہ اب تک جاری ہونے والا دوسرا بینک نوٹ ہے اس سے قبل، سٹیٹ بینک نے پاکستان کی آزادی کی گولڈن جوبلی کے موقع پر 1997میں پہلا ایسا نوٹ جاری کیا۔‘ اپنے تحریری موقف میں سٹیٹ بینک نے کہا ’نوٹ بنیادی طور پر سبز ہے، اسے پُر کشش بنانے کے لیے اس میں سفید شیڈز اور کسی قدر زرد رنگ کی آمیزش کی گئی ہے۔ سبز رنگ ترقی اور نمو کو ظاہر کرتا ہے اور ملک کی اسلامی شناخت کی علامت ہے، جبکہ سفید رنگ آبادی کے مذہبی تنوع پر زور دیتا ہے۔‘ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اس یادگاری نوٹ کے سلسلے میں جاری کردہ سرکلر کے مطابق سر سید احمد خان نے آزادی کی بنیاد علی گڑھ تحریک کے ذریعے رکھی اور انہیں دو قومی نظریے کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ فاطمہ جناح کی تصویر کے بارے میں سٹیٹ بینک کہتا ہے کہ انھوں نے اپنے بھائی محمد علی جناح کی تحریک پاکستان میں بھرپور مدد کی اور اس کے ساتھ ان کی اس نوٹ پر تصویر کی صورت میں موجودگی تحریک پاکستان میں خواتین کے کردار کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ اس نوٹ کے ڈیزائن اور کلر سکیم پر مرکزی بینک کی داخلی نوٹ کمیٹی نے کام کیا اور اس کی باقاعدہ منظوری وفاقی حکومت نے دی۔ پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی یوم آزادی پر سٹیٹ بینک کی جانب سے 75 روپے کے یادگاری نوٹ کی رونمائی تو کر دی گئی تاہم یہ نوٹ 30 ستمبر 2022 کو جاری کیا جائے گا اور سٹیٹ بینک کے کاؤنٹر پر دستیاب ہوگا۔ یادگاری نوٹ ایک باقاعدہ قانونی نوٹ ہے اور اس کی 75 روپے کی مالیت کا ضامن سٹیٹ بینک آف پاکستان ہوتا ہے۔ سٹیٹ بینک کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق اگرچہ یادگاری نوٹ کو لین دین کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے تاہم عموماً ایسا نہیں ہوتا کیونکہ لوگ یادگاری نوٹ اور سکے اپنے پاس یادگار کے طور پر جمع کر لیتے ہیں۔ اسی طرح دکانداروں کو بھی یادگاری نوٹ کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں ہوتی اس لیے وہ بھی اس کو لینے سے کتراتے ہیں تاہم یہ باقاعدہ ایک نوٹ ہوتا ہے اور اسے لین دین میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-63071418", "summary": "ابراہام اکارڈز کے بعد سے اسرائیل اسلحہ کی فروخت کا ریکارڈ توڑ رہا ہے۔ اسرائیلی وزارت دفاع کے مطابق 2021 میں اس کی اسلحہ برآمدات 11 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی تھیں جس کا سات فیصد حصہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کو دیا گیا۔", "title": "یو اے ای اور اسرائیل میں بڑھتے تجارتی تعلقات دونوں ممالک کو کیسے فائدہ پہنچا رہے ہیں؟", "firstPublished": "2022-09-29T06:15:37.000Z", "id": "7d8864d5-da1a-4471-95aa-f275ac99ae63", "article": "یہ اسرائیل کی سٹاک مارکیٹ کے دن کی کوئی عام شروعات نہیں۔ بلکہ یہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات میں ایک اہم سنگ میل ہے جو دو سال قبل امریکی سفارتکاری کے نتیجے میں طے پانے والے ابراہام اکارڈز کا نتیجہ ہے، جس میں بحرین بھی شامل تھا۔ اس معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کا بائیکاٹ ختم کرتے ہوئے مکمل سفارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔ ان کا ماننا ہے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان کاروباری تعلقات میں سب کے لیے فائدہ ہی فائدہ ہے۔ معیشت دان اس بات پر متفق ہیں کہ ابراہام معاہدہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تجارت میں اضافہ کرے گا۔ ایک جانب اسرائیل مضبوط ٹیکنالوجی سیکٹر رکھتا ہے جس میں عسکری ٹیکنالوجی بھی شامل ہے تو دوسری طرف یو اے ای سعودی عرب کے بعد مشرق وسطیٰ کی دوسری بڑی معیشت بن کر ابھرا ہے۔ تیل کی دولت سے مالامال ملک اب دیگر ذرائع آمدن پر توجہ دے رہا ہے۔ انھوں نے اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کی جانب توجہ مبذول کروائی جس کے مطابق 2020 سے 2021 تک اسرائیل کی متحدہ عرب امارات کو سالانہ برآمدات 74 ملین ڈالر سے بڑھ کر 384 ملین ڈالر تک جا پہنچی تھیں۔ اسی عرصے میں یو اے ای کی اسرائیل کو برآمدات 115 ملین ڈالر سے بڑھ کر 632 ملین ڈالر تک پہنچ چکی تھیں۔ ابراہام اکارڈز کے بعد سے اسرائیل اسلحہ کی فروخت کا ریکارڈ توڑ رہا ہے۔ اسرائیلی وزارت دفاع کے مطابق 2021 میں اس کی اسلحہ برآمدات 11 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی تھیں جس کا سات فیصد حصہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کو دیا گیا۔ ان کے مطابق ’گذشتہ دہائی میں اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کو مشترکہ دشمنوں کا سامنا رہا یعنی ایران اور اس کی حمایتی تنظیمیں، اور اگرچہ فلسطین کا مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے لیکن اب عرب اسرائیل تنازع باقی نہیں رہا۔‘ ’مشرق وسطیٰ کے ممالک کو احساس ہو رہا ہے کہ ان کو تیل کے علاوہ بھی کچھ کرنا ہو گا اور اس کے لیے ان کو ٹیکنالوجی، صحرا میں زراعت اور پانی کی ضرورت ہے۔ اسرائیل میں ہم ایسی ٹیکنالوجی ایجاد کر چکے ہیں۔ اس لیے ہمارے کئی مشترکہ مفادات ہیں۔‘ اسرائیلی اور متحدہ عرب امارات کی فرمز کے درمیان توانائی کے شعبے میں بھی معاہدے ہو رہے ہیں۔ گذشتہ سال ستمبر میں اسرائیلی کمپنی نیو میڈ نے اسرائیلی آف شور گیس فیلڈ تمار کا 22 فیصد حصہ یو اے ای کی مدابلا پٹرولیم کو ایک ارب ڈالر کے عوض فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ابراہام معاہدہ ایک گیم چینجز ثابت ہوا کیونکہ اب وہ اور ان کی ٹیم اسرائیل، یو اے ای اور بحرین کے درمیان آرام سے گھوم سکتے ہیں۔ انھوں نے اپنا گھر بھی ابو ظہبی منتقل کر لیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-63057553", "summary": "اسحاق ڈار کے بارے میں عمومی تاثر ہے کہ وہ ڈالر کو کنٹرول کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور اسی تاثر کی بنیاد پر مارکیٹ نے اپنا ردعمل کچھ اس طرح دکھایا کہ دو روز میں انٹربینک میں ایک ڈالر کی قیمت چھ روپے جبکہ اوپن مارکیٹ میں 11 روپے تک گِری ہے۔ مگر کیا یہ رجحان پائیدار ہو گا؟", "title": "ڈالر کی قیمت میں کمی کا وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی واپسی سے کیا تعلق ہے؟", "firstPublished": "2022-09-28T07:02:22.000Z", "id": "fef9939c-0cc4-403a-a2b2-e6d017f469f9", "article": "پاکستان میں گذشتہ دو روز میں ملکی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ انٹربینک میں ایک ڈالر کی قیمت دو روز میں چھ روپے کے لگ بھگ گر چکی ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں 11 روپے کی کمی دیکھی گئی ہے۔ کرنسی مارکیٹ سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کرنسی مارکیٹ اور سٹاک مارکیٹ ملک میں ہونے والی ہر پیش رفت پر ردعمل دیتی ہیں، اسحاق ڈار کیونکہ بطور وزیر خزانہ ڈالر کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے ایک عمومی تاثر رکھتے ہیں اس لیے کرنسی مارکیٹ نے ان کی بطور وزیر خزانہ واپسی پر اپنا ردعمل دیا ہے۔ اسی طرح جب آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے قرضہ پروگرام کی بحالی کی منظوری دی تو اس وقت بھی ڈالر کی قیمت میں کمی ریکارڈ کی گئی تھی اور مفتاح اسماعیل کی جگہ پر اسحاق ڈار کی وزیر خزانہ کی پیش رفت اسی مارکیٹ سینٹیمنٹ یعنی تاثر کا حصہ ہے کہ جب مارکیٹ ایسے مواقع پر اپنا ردعمل دیتی ہے۔ اُنھوں نے کہا یہ بھی حقیقت ہے کہ مارکیٹ میں قیاس آرائیوں کی بنیاد پر بھی ڈالر کی قیمت اوپر نیچے ہو رہی تھی کیونکہ لوگ اپنی بچت ڈالروں میں بدلتے ہیں اور جب کوئی ایسی پیش رفت ہوتی ہے کہ جس سے قیمت کم ہونے کا اندیشہ ہو تو اس پر فوراً ڈالرز کو فروخت بھی کر دیتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اسحاق ڈار کے بارے میں عمومی تاثر ہے کہ وہ ڈالر کو کنٹرول کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں اس لیے ممکنہ طور پر لوگوں نے ڈالر فروخت کیے ہیں۔ ظفر پراچہ نے کہا کہ اسحاق ڈار کے بارے میں ایک عمومی تاثر پایا جا رہا ہے کہ وہ ڈالر کو نیچے لے آئیں گے اس لیے کرنسی مارکیٹ میں بھی اس بنیاد پر ڈالر کو قیاس آرائیوں کی بنیاد پر نیچے گرایا گیا ہے مگر ان کے نزدیک ایسا نہیں کہ اسحاق ڈار کی واپسی کے بعد ڈالر رکھنے والے افراد جلدی میں ڈالر فرو خت کر رہے ہیں۔ معاشی اشاریوں میں بہتری نہ ہونے کے باوجود ڈالر کی قیمت میں کمی پر فہد رؤف نے کہا معاشی اشاریوں میں تو فی الحال کوئی بہتری نظر نہیں آئی تاہم اسحاق ڈار کی آمد سے کچھ حرکت پیدا ہوئی کہ وہ کچھ پالیسی بیان دیں گے اور بینکوں سے بات کریں گے، اسی طرح درآمدات کو کم کرنے کے بارے میں کچھ اقدامات اٹھائیں گے، ان تمام عوامل کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ظفر پراچہ نے کہا کہ دنیا میں خام تیل کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں جس کا اثر انرجی درآمدات پر کم ڈالر خرچ کرنے کی صورت میں ہو گا۔ اسی طرح عالمی مالیاتی اداروں سے بھی فنڈنگ آنے کی امید ہے جس کا اثر ڈالر کی قیمت میں کمی کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-63056017", "summary": "میراج، جیگوار، سخوئی اور رافیل جیسے لڑاکا طیارے ہوں یا اپاچی اور چنوک جیسے جنگی ہیلی کاپٹرز، انڈین فوج کی ’ریڑھ کی ہڈی‘ زیادہ تر وہی ہتھیار سمجھے جاتے ہیں جو بیرون ملک سے درآمد کیے جاتے تھے۔ مگر اب ان ہتھیاروں کی درآمد پر پابندی انڈین فوج کو کیسے متاثر کرے گی؟", "title": "’میک اِن انڈیا‘ پروگرام: فوجی ساز و سامان کی درآمد پر پابندی کا انڈین فوج پر کیا اثر پڑے گا؟", "firstPublished": "2022-09-28T04:18:54.000Z", "id": "9811c01b-c665-4186-9b09-7acb21a6b7f9", "article": "گذشتہ کئی برسوں سے انڈیا دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چاہے وہ مگ، میراج، جیگوار، سخوئی اور رافیل جیسے لڑاکا طیارے ہوں یا اپاچی اور چنوک جیسے جنگی ہیلی کاپٹر ہوں، انڈین فوج کی ’ریڑھ کی ہڈی‘ زیادہ تر وہی ہتھیار اور فوجی ساز و سامان سمجھے جاتے تھے جو بیرون ملک سے درآمد کیے جاتے تھے۔ دریں اثنا، یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ ’میک ان انڈیا‘ پالیسی کو ترجیح دینے کی وجہ سے انڈیا کی بری فوج، فضائیہ اور بحریہ اب بہت سے پرانے آلات کو تبدیل کرنے کے لیے بہت سے ضروری ہتھیاروں کے آلات یا پرزے درآمد کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اور اس کی وجہ سے اُن کی عسکری تیاری اور مہارت متاثر ہو رہی ہے۔ بلومبرگ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہتھیاروں اور آلات کی درآمد پر پابندیوں کی وجہ سے انڈین فوج کو سنہ 2026 تک جنگی ہیلی کاپٹروں اور 2030 تک سینکڑوں لڑاکا طیاروں کی کمی کا خطرہ ہے۔ ان فہرستوں کو مقامی سطح پر دفاعی ساز و سامان کی تیاری کی مثبت فہرست (پازیٹو انڈیجنائزیشن لسٹ) کا نام دیا گیا ہے اور ان میں وہ دفاعی آلات شامل ہیں جو سنہ 2020 سے 2028 تک انڈیا میں تیار کیے جائیں گے اور جن کی درآمد پر سال بہ سال پابندی عائد رہے گی۔ ان فہرستوں میں کل 310 دفاعی ہتھیار یا آلات شامل کیے گئے ہیں اور یہ طے کیا گیا ہے کہ کس سال تک ان کی درآمد کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ مقامی سطح پر ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان کی تیاری اور میک ان انڈیا پر زور دینے کی وجہ سے سب سے زیادہ خدشات انڈین فضائیہ کے بارے میں اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس وقت انڈین فضائیہ کے پاس لڑاکا طیاروں کے 42 سکواڈرن ہیں لیکن ان میں سے صرف 32 سکواڈرن فعال ہیں۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ انڈین فضائیہ کو نئے لڑاکا طیاروں کی فوری ضرورت ہے اور ہلکا جنگی جہاز تیجس مارک-1 ان عمر رسیدہ مگ-21 لڑاکا طیاروں کی جگہ لے گا جو فی الحال مرحلہ وار سروس سے ریٹائر کیے جا رہے ہیں۔ رافیل لڑاکا طیاروں کی مثال دیتے ہوئے سوشانت سرین کہتے ہیں کہ ان طیاروں کو خریدنے کے لیے بات چیت شروع ہونے سے انڈین فضائیہ میں شامل ہونے تک تقریباً 20 سال لگے۔ وہ کہتے ہیں ’یا تو آپ ایسا کرتے رہیں یا آپ اپنا نظام خود تیار کریں۔ ہم اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں اور یہی وہ سمت ہے جس میں ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-63043481", "summary": "مسلم لیگ جانتی تھی کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد لیے گئے سخت معاشی فیصلے اسے عوام میں غیرمقبول بنائیں گے، اسی لیے مفتاح اسماعیل کے فیصلوں پر سوچا سمجھا مؤقف اختیار کیا گیا تاکہ بوقت ضرورت ان فیصلوں کا بوجھ آسانی سے پارٹی کے کاندھوں سے اُتارا جا سکے اور جب انتخابی میدان میں اُترا جائے تو پارٹی ہلکی پھلکی ہو۔", "title": "اسحاق ڈار کی واپسی اور اُمیدیں: ’مفتاح اسماعیل کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی‘", "firstPublished": "2022-09-27T07:41:21.000Z", "id": "5f36c866-d89b-459f-91a5-8ee3e1152a05", "article": "اسحاق ڈار کی وطن واپسی پاکستان کی معیشت کے لیے کتنی مفید ثابت ہو گی اور غربت کی چکی میں پستے ہوئے عوام کے لیے خیر کی کیا خبر لائے گی، یہ ایک مختلف سوال ہے۔ اس سوال سے زیادہ اہمیت اس سوال کی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ اور اتحادی حکومت کے اندر اور خاص طور مسلم لیگ ن میں اس تبدیلی کا استقبال کِس انداز میں کیا جائے گا؟ مسلم لیگ کا دوسرا اور نہایت اہم ردعمل وہ ہے جو مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف کی طرف سے مختلف مواقع پر سامنے آیا۔ مثلاً وزارت خزانہ نے جب تاجروں کے لیے بجلی کے بلوں میں ٹیکس شامل کر دیا تو اس موقع پر انھوں نے ایک دلچسپ ٹویٹ کیا: ’مفتاح بھائی، بجلی کے بِل پر ٹیکس واپس لیں، تاجر بھائی پریشان ہیں اور شکوہ کر رہے ہیں۔ امید ہے آپ کوئی حل نکالیں گے۔‘ ن لیگ کے اندرونی ذرائع کے مطابق اُن کی جماعت حکومت میں آنے سے پہلے ہی سمجھتی تھی کہ ملک کی اقتصادی صورتحال کے پس منظر میں کاروبار مملکت سنبھالنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ آئی ایم ایف سے مدد لیے بغیر ملک چلایا نہیں جا سکے گا اور آئی ایم ایف سے معاہدے کا نتیجے عوام پر شدید معاشی دباؤ کی صورت میں برآمد ہو گا۔ پارٹی جانتی تھی کہ یہ صورتحال تھوڑے ہی دنوں میں مسلم لیگ کو مقبولیت کے اعتبار سے اس پوزیشن پر لاکھڑا کرے گی جو تحریک عدم اعتماد سے قبل پاکستان تحریک انصاف کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مسلم لیگ نے ابتدا سے ہی وزارت خزانہ کے فیصلوں اور مفتاح اسماعیل کے بارے میں نہایت سوچا سمجھا موقف اختیار کیے رکھا۔ بظاہر اس حکمت عملی کا مقصد ہی یہی تھا کہ مفتاح اسماعیل کے زمانے کے فیصلوں کا بوجھ آسانی سے پارٹی کے کاندھوں سے اُتارا جا سکے تاکہ جب مسلم لیگ ن انتخابی میدان میں اُترے تو وہ ہلکی پھلکی ہو۔ یوں بدلے ہوئے حالات میں بدلی ہوئی اقتصادی قیادت اتحادی حکومت اور خاص طور پر مسلم لیگ ن کو آسانی کے ساتھ سانس لینے کا موقع ہی مہیا نہیں کرے گی بلکہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کہ وجہ سے یہ جماعت جس عدم مقبولیت کا شکار ہو گئی ہے، ایک تازہ دم وزیر اور اس کی طرف سے فراہم کی گئی اقتصادی رعایتوں کی وجہ سے کھوئی ہوئی مقبولیت کو دوبارہ حاصل کرنے بھی کامیاب ہو جائے گی۔ بی بی سی نے ان سے سوال کیا تھا کہ ان کی حکومت اسحاق ڈار سے کیا توقعات رکھتی ہے۔ تو اُن کا کہنا تھا کہ ’اسحٰق ڈار مسلم لیگ ن کے انتہائی سینیئر رہنما ہیں۔ ان کے حوالے سے ہماری حکومت اور جماعت میں مکمل یکسوئی ہے۔ اسحاق ڈار کی جماعت کے لیے بے شمار خدمات اور قربانیاں ہیں۔ معاشی میدان میں اسحاق ڈار کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-63029895", "summary": "پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی معاشی ٹیم کے سرخیل سمجھے جانے والے اسحاق ڈار کو ایک مرتبہ پھر پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے اور عوام کو ریلیف دینے کا کام سونپا جا رہا ہے لیکن معاشی غیر یقینی کے اس دور میں کیا وہ ملکی معیشت کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کر پائیں گے؟", "title": "اسحاق ڈار کی بطور وزیر خزانہ واپسی کیا حکومت اور معیشت کو فائدہ پہنچا پائے گی؟", "firstPublished": "2022-09-26T01:16:09.000Z", "id": "33e7199a-c9d3-408c-8578-5295d4761280", "article": "پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی معاشی ٹیم کے سرخیل سمجھے جانے والے اسحاق ڈار کو ایک مرتبہ پھر پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے اور عوام کو ریلیف دینے کا کام سونپا جا رہا ہے۔ پانچ ماہ سے زائد وزیر خزانہ رہنے والے مفتاح اسماعیل کے بعد اب یہ قلمدان اسحاق ڈار کو دے دیا گیا ہے جو اس سے پہلے سابق وزیرا عظم نواز شریف کے دوسرے اور تیسرے وزارت عظمیٰ کے دور میں وفاقی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ اسحاق ڈار ایک ایسے وقت میں وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے جا رہے ہیں جب پاکستان میں ملکی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کی سطح 27 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ملک کے لیے معاشی طور پر مشکل حالات کے اس دور میں اسحاق ڈار کی بطور وزیر خزانہ واپسی کیا ملکی معیشت کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کر پائے گی؟ سابقہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پانچ سال بعد پاکستان واپسی کے بارے میں نواز لیگ کے ایک سینیئر رہنما نے بی بی سی نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ معیشت اس وقت بدترین صورت حال کا شکار ہے اور مہنگائی کی وجہ سے عام فرد کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کے کاروباری حلقوں نے لندن میں میاں نواز شریف سے رابطہ کیا کہ نواز لیگ کی موجودہ معاشی ٹیم سے معاملات نہیں سنبھل رہے۔ جس کے بعد میاں نواز شریف نے اسحاق ڈار کو یہ ذمہ داری دینے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ ان کی ماضی میں خراب صورتحال میں کارکردگی تھی۔‘ ’جب سنہ 1998 میں پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے بعد ملک پر معاشی پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں اور دوسری بار 2013 میں نواز لیگ کو معیشت ایک بری صورتحال میں ملی تھی۔‘ ڈاکٹر فرخ نے بتایا کہ نواز لیگ کی حکومت اسحاق ڈار سے دو کام چاہے گی۔ ’ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں وہ مقامی کرنسی کو نیچے لائیں اور دوسرا وہ مالیاتی سپیس یعنی گنجائش پیدا کریں کیونکہ اگلے سال انتخابات کا سال ہے اور مالیاتی گنجائش کے بغیر انفراسٹرکچر جیسے ترقیاتی منصوبوں کو شروع نہیں کیا جا سکتا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اسی طرح این ایف سی کے تحت 56 فیصد وسائل کا حصہ صوبوں کو ملتا ہے۔ اب موجودہ معاشی صورت حال میں یہ بھی نہیں چل سکتا۔ ایک آؤٹ آف باکس حل اس صورت حال میں اختیار کرنا ہو گا اور دیکھنا یہ ہے اسحاق ڈار کے پاس کونسا ’آؤٹ آف باکس‘ حل ہے جس کی بنیاد پر ان سے توقعات باندھی جا رہی ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62938022", "summary": "ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا میں سفارت کاری کی سطح پر انڈیا کا قد بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ انڈیا جہاں اگلے سال شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی میزبانی کرنے جا رہا ہے وہیں وہ کئی بین الاقوامی تنظیموں اور دھڑوں کی صدارت بھی کرے گا۔", "title": "انڈیا کو بین اقوامی سطح پر ملنے والی ذمہ داریاں: پاکستان کو کتنا فکر مند ہونے کی ضرورت ہے؟", "firstPublished": "2022-09-18T03:37:47.000Z", "id": "df75c07e-2f5c-4bf4-aa0f-20b24ba3f42d", "article": "انڈیا کو رواں سال بین الاقوامی سطح پر متعدد بڑے فورموں کے اجلاسوں کی سربراہی کی ذمہ داری دی جا رہی ہے جس سے بین الاقوامی سطح پر اس کے قد میں اضافے کا امکان نظر آتا ہے۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا میں سفارت کاری کی سطح پر انڈیا کا قد بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ انڈیا جہاں اگلے سال شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی میزبانی کرنے جا رہا ہے وہیں وہ کئی بین الاقوامی تنظیموں اور دھڑوں کی صدارت بھی کرے گا۔ ایس سی او کے علاوہ انڈیا کو رواں سال دنیا کے 20 طاقتور ممالک کے G-20 گروپ کی صدارت کا عہدہ بھی ملنے والا ہے۔ اس کا سربراہی اجلاس اگلے سال انڈیا میں ہو رہا ہے۔ اسے سفارت کاری کے میدان میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ کئی بین الاقوامی اداروں میں انڈیا کی صدارت حاصل کرنے کو ایک بڑی سفارتی فتح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ انڈیا اس کے ذریعے دنیا پر ایک بڑا سفارتی نشان قائم کرے گا۔ شرنگلا نے انڈیا کے عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے کردار کی کئی وجوہات بتائی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا میں 150 ارب ڈالر کی ریکارڈ ایف ڈی آئی ہوئی ہے، ملک کی 60 فیصد آبادی نوجوان ہے، زرمبادلہ کے ذخائر 600 بلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں اور مالی سال میں ترقی کی شرح کا تخمینہ نو فیصد تک ہے، جس کی وجہ سے انڈیا مسلسل ترقی کرتا چلا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کو اس سال کے آخر میں جی 20 کی صدارت ملے گی۔ جی 20 ممالک دنیا کی جی ڈی پی کا 80 فیصد ہے، جبکہ یہ ممالک بین الاقوامی تجارت کے 75 فیصد اور آبادی کے 60 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ اہم سماجی، اقتصادی اور عصری مسائل پر عالمی گفتگو کو تشکیل دیتے ہیں۔ انڈیا کو سال کے آخر میں جی 20، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور ایس سی او کی صدارت ملنے والی ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ انڈیا مستقبل میں کیا کردار ادا کرے گا۔‘ عبدالباسط کا کہنا ہے کہ G-20 ایک بہت اہم تنظیم ہے، جس کا اجلاس اگلے سال انڈیا میں ہو گا۔ اور اس کا مطلب ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ سمیت دنیا کے کئی بڑے ممالک کے سربراہان انڈیا میں ہوں گے۔ . اس کے ساتھ ہی ایس سی او کا اجلاس بھی اگلے سال انڈیا میں ہونے جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ عبدالباسط نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ کسی وقت بھی انڈیا کو جی سیون کی رکنیت کے لیے مدعو کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد یہ تنظیم جی ایٹ بن جائے گی، اس بار اس میں روس نہیں بلکہ انڈیا ہوگا کیونکہ وہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-62867676", "summary": "یوکرین پر روس کے حملے کے بعد دنیا کے کئی ممالک میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لیکن کسی ملک میں پیٹرول یا ڈیزل مہنگا ہے یا نہیں، اس کا انحصار کافی حد تک وہاں کے لوگوں کی قوت خرید پر بھی ہے۔", "title": "پٹرول کہاں سستا اور کہاں مہنگا ہے", "firstPublished": "2022-09-11T09:02:35.000Z", "id": "91b696fd-dabf-4c10-9817-0402edb18c7a", "article": "یوکرین پر روس کے حملے کے بعد دنیا کے کئی ممالک میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لیکن کسی ملک میں پیٹرول یا ڈیزل مہنگا ہے یا نہیں، اس کا انحصار کافی حد تک وہاں کے لوگوں کی قوت خرید پر بھی ہے۔ 'گلوبل پیٹرول پرائسز' اور گلوبل اکانومی پروجیکٹ کے ڈائریکٹر نیوین ویلیف کہتے ہیں کہ قطر اور کویت جیسے تیل برآمد کرنے والے ممالک سبسڈی دے کر پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بہت کم رکھتے ہیں۔ امریکہ اور آسٹریلیا جیسی ترقی یافتہ معیشتوں میں پٹرول مہنگا ہے لیکن وہاں لوگوں کی آمدنی زیادہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسری طرف بہت سے غریب ممالک ہیں جہاں پٹرول اتنا مہنگا نہیں ہے لیکن وہاں کے لوگوں کی آمدنی بہت کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قطر، کویت، لگزمبرگ، امریکہ اور آسٹریلیا میں لوگوں کو پیٹرول بہت سستا لگتا ہے۔ دوسری جانب موزمبیق، مڈغاسکر، ملاوی، سیرا لیون اور روانڈا میں پیٹرول کی قیمتیں بہت زیادہ دکھائی دیتی ہیں۔ یہ مختلف ممالک میں لوگوں کی آمدنی کی سطح کا اثر ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا میں توانائی کا بحران ہے، پیٹرول کی قیمتیں کئی ممالک کے لیے بڑا درد سر بن چکی ہیں۔ بیشتر ممالک کو اپنے شہریوں کو سستا تیل فراہم کرنے کے لیے بین الاقوامی مارکیٹ سے مہنگے داموں پیٹرول خریدنا پڑتا ہے۔ پیٹرول، ڈیزل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے عالمی معیشت میں مہنگائی کی نئی لہر پیدا ہو گئی ہے جس نے عالمی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ عوام کا گھریلو بجٹ بگڑ چکا ہے جبکہ شرح سود میں اضافے اور گرتی ہوئی معاشی ترقی کی وجہ سے افراتفری کا ماحول ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث عام صارفین کو مہنگا تیل خریدنا پڑ رہا ہے۔ لیکن مختلف ممالک میں صورتحال بھی مختلف ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آیا یہ ممالک خام تیل درآمد کرتے ہیں یا برآمد کرتے ہیں۔ تیل کی قیمتوں کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ کس کے پاس ریفائننگ کی کتنی صلاحیت ہے۔ قیمتیں دیگر عوامل پر بھی منحصر ہوتی ہیں، جیسے کہ حکومتی سبسڈی کی سطح۔ اس سال کے شروع میں دنیا میں پیٹرول کی اوسط قیمت 1.23 ڈالر فی لیٹر تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ اس کی قیمتیں بڑھ گئیں اور جون تک یہ عروج پر پہنچ گئی۔ اس دوران یہ قیمتیں 1.50 ڈالر فی لیٹر تک بڑھ گئی تھیں۔ تاہم اس وقت یہ 1.31 ڈالر فی لیٹر کی سطح پر پہنچ رہا ہے۔ یہ قیمت یوکرائن کی جنگ سے پہلے کی ہے۔ خام تیل کی قیمتیں بھی جنگ سے پہلے کی سطح پر پہنچتی دکھائی دے رہی ہیں۔ لیکن اس کی وجہ دنیا بھر میں معاشی سرگرمیوں میں سست روی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62818389", "summary": "بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ اور انڈیا میں مودی حکومت کے آنے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئی ​​گرم جوشی آئی ہے اور دونوں رہنما گذشتہ سات برسوں میں 12 بار ملاقات کر چکے ہیں۔ آخر بنگلہ دیش انڈیا سے کیا چاہتا ہے اور انڈیا کو بنگلہ دیش سے مضبوط تعلقات رکھنے کی ضرورت کیوں ہے؟", "title": "پاکستان، چین سے کشیدہ تعلقات کے بیچ انڈیا کا بنگلہ دیش سے مضبوط ہوتا تعلق کیا ظاہر کرتا ہے؟", "firstPublished": "2022-09-08T06:20:48.000Z", "id": "1eafabd6-cd0c-4776-bcbb-0170b1693e4c", "article": "بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ اور انڈیا میں نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئی ​​گرم جوشی آئی ہے۔ اور اس گرم جوشی کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اور نریندر مودی سنہ 2015 سے لے کر اب تک 12 بار ملاقات کر چکے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کو شیخ حسینہ سے ملاقات کے بعد کہا کہ بنگلہ دیش انڈیا کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے۔ انڈیا اب بنگلہ دیش کے ساتھ آئی ٹی، خلائی اور جوہری شعبوں میں تعاون بڑھائے گا۔ بی بی سی بنگلہ کے نامہ نگار شوبھا جیوتی گھوش کا کہنا ہے کہ ’بنگلہ دیش نے انڈیا کو چٹاگانگ بندرگاہ استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ آج اگرتلہ سے اکھوڑہ تک ریل لنک بنایا گیا ہے۔ آج اگرتلہ سے کوئی ڈھاکہ کے راستے کولکتہ آنا چاہتا ہے تو وہ آسانی سے آ سکتا ہے۔ انڈیا نے حسینہ حکومت کی مدد سے تریپورہ میں پاور پلانٹ کھولا ہے۔ اس طرح انڈیا اور بنگلہ دیش کی شمال مشرقی ریاستوں کے درمیان رابطے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حسینہ حکومت کے تعاون پر مبنی نقطہ نظر نے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی ایک نئی جہت کھول دی ہے۔‘ شوبھا جیوتی گھوش کا مزید کہنا ہے کہ ’حسینہ حکومت نے بنگلہ دیش کے کیمپوں سے شمال مشرقی انڈیا میں علیحدگی پسند تحریک کی حمایت کو کچلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ حسینہ حکومت نے وہاں رہنے والے علیحدگی پسند تحریک کے بڑے لیڈروں کو انڈیا کے حوالے کر دیا۔ ان میں ULFA لیڈر اروند راجکھوا سمیت بہت سے دوسرے علیحدگی پسند لیڈر ہیں۔ اب وہ انڈیا کے ساتھ امن مذاکرات کر رہے ہیں۔‘ ’یہی وجہ ہے کہ انڈیا کو بنگلہ دیش کی مدد کی ضرورت ہے۔ رابطے کے اقدامات نئے طریقے سے کیے جا رہے ہیں۔ سارک آج فعال نہیں ہے لیکن انڈیا BBIN (بنگلہ دیش بھوٹان، بھارت اور نیپال) لنک کے ذریعے بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے تعاون کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘ ’بنگلہ دیش نے پدما ندی پر حال ہی میں بنایا گیا پُل بھلے ہی اپنے پیسوں سے بنایا ہو لیکن اس کی تعمیر میں چینی کمپنیوں کی مدد لی گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ڈھاکہ کے اردگرد چینی مزدوروں کی بستیاں آ گئی ہیں۔ بہت سے چینی شادی کے بعد وہاں آباد ہو چکے ہیں۔ اس طرح چین کی موجودگی انڈیا کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ اس تناظر میں بنگلہ دیش کے ساتھ انڈیا کے تعاون کو مضبوط کرنا بھی ضروری ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62804411", "summary": "انڈیا کی حکومتی ملک میں موتیوں کی صنت کو فروغ دینے کے لیے کاشتکاروں کو مدد فراہم کر رہی ہے۔", "title": "موتیوں کی فارمنگ: ’منافع بخش‘ کاروبار جو نوجوانوں میں تیزی سے فروغ پا رہا ہے", "firstPublished": "2022-09-07T04:14:11.000Z", "id": "5459eccc-127e-4ba3-89be-a4b1f07dde8a", "article": "سنہ 2016 میں نریندرا گروا کو شدید مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ راجھستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں رینوال میں اُن کی کتابوں کی ایک چھوٹی سی دکان کافی نقصان میں جا رہی تھی۔ نریندرا گروا کو معلوم ہوا کہ سیپی میں موجود کیڑے یا مولسک کو موتی بنانے کی ترغیب دینے کے لیے ایک مصنوعی چڑچڑاپن سیپ میں داخل کیا جاتا ہے۔ تاہم، یہ ایک نازک عمل ہے اور اس دوران سیپ کو احتیاط سے سنبھالنا چاہیے۔‘ ’اعلیٰ معیار اور پیداوار کے حجم کو حاصل کرنے کے لیے نشوونما کی پوری مدت میں پانی کی نگرانی بہت ضروری ہے۔‘ اس طریقہِ کار کے زیادہ مواقف ہونے کے باعث اُن کے مسلز کی بقا کی شرح 30 فیصد سے بڑھ کر 70فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔ نریندر گروا اس سال تقریباً 3,000 موتیوں کی پیداوار کی توقع رکھتے ہیں، جن میں سے ہر موتی وہ 400 سے 900 روپے میں فروخت کر سکیں گے۔ انڈین حکومت اپنے بلیو ریوولیوشن کے منصوبے کے تحت پرل فشنگ کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے جو کہ ملک کی ماہی گیری کی صنعت کو جدید بنانے کا منصوبہ ہے۔ اس سکیم کے تحت حکومت موتیوں کی ماہی گیری کے لیے تالاب بنانے کی نصف لاگت ادا کرتی ہے اور اب تک محکمہ ماہی گیری نے 232 پرل فارمنگ تالابوں کو مالی مدد فراہم کی ہے۔ متعلقہ ادارے کے جوائنٹ سیکریٹری جوجاواراپو بالاجی کہتے ہیں ’موتیوں کی کاشتکاری آبی زراعت کے سب سے زیادہ منافع بخش کاروباروں میں سے ایک ہے اور حکومت کسانوں کو اس کاشتکاری کو شروع کرنے کی ترغیب دے رہی ہے۔‘ ممبئی میں مقیم بابلا انٹرپرائزز کے مالک کا کہنا ہے کہ ’انڈیا میں موتیوں کی کاشت کاری کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے لیکن میرے خیال میں ہر جگہ اگائے جانے والے موتی بہت اچھے معیار کے نہیں ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا بہت زیادہ غلط قسم کے موتی پیدا کر رہا ہے۔ ’کلچرڈ ساؤتھ سی موتی آج کل مارکیٹ میں سب سے قیمتی قسم ہیں۔ ان موتیوں کے سائز، اشکال اور رنگ خوبصورت اقسام کے ہیں۔ جنوبی سمندر کے موتیوں کا ایک ہار دس ہزار ڈالر یا اس سے زیادہ مہنگا ہو سکتا ہے۔ یہ موتی انڈیا میں بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔‘ اُن کا کہنا ہے کہ حکومت کو صنعت کے اس حصے کو ترقی دینے کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ جہاں تک نریندر گروا کا تعلق ہے وہ موتیوں کی کاشتکاری کے لیے دوسرے لوگوں کو کورسز بھی کرواتے ہیں۔ اپنا کاروبار شروع کرنا رینا چوہدری کے لیے ایک بڑا قدم تھا خاص طور پر جب اُن کے علاقے میں خواتین سے اکثر توقع کی جاتی ہے کہ وہ کام کے بجائے صرف گھر کی دیکھ بھال کریں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-62725669", "summary": "برطانیہ میں شراب بنانے والی کمپنیوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ توانائی کی قیمتوں میں 300 فیصد تک اضافے کی وجہ سے پورے برطانیہ میں لوگ شراب خانے بند کرنے پر مجبور ہوں گے۔", "title": "برطانیہ میں بجلی کے بلوں میں اضافے کے سبب شراب خانے بند ہونے کا خطرہ", "firstPublished": "2022-08-31T08:31:42.000Z", "id": "85f56791-c0ff-4861-bb1e-0a45a9d12c69", "article": "شراب بنانے والی کمپنیوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ توانائی کی قیمتوں میں 300 فیصد تک اضافے کی وجہ سے پورے برطانیہ میں لوگ شراب خانے بند کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ملک میں شراب تیار کرنے والی چھ بڑی کمپنیوں کے مالکان نے موسم سرما میں بجلی اور گیس کے بڑے بڑے بلوں کے پیشِ نظر حکومت سے ‘فوری مداخلت` کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ان کی مدد یا تعاون نہ کیا گیا تو توانائی کے اس بحران اور بجلی اور گیس کی آسمان کو چھونے والی قیمتوں سے اس صنعت کو ‘حقیقی معنوں میں سنگین اور ناقابِل تلافی' نقصان ہوگا۔ پب اور شراب کشید کرنے والے اور پبوں کے مالکان کے چھ گروپوں نے حکومت کو ایک کھلے خط میں فوری مداخلت کا مطالبہ کیا، ساتھ ہی ایک سپورٹ پیکج اور کاروبار کے لیے توانائی کی قیمتوں کو ایک سطح سے اوپر نہ جانے دینے کی تجویز بھی دی ہے۔ کرس جوسی پبوں کی ایک چین ایڈمِرل کے مالک ہیں اور ان کے 1600 پب ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پب کے کرایہ دار اب کرائے سے زیادہ توانائی کے بل ادا کرتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ایک کرایہ دار نے انہیں بتایا کہ وہ 20 سال کاروبار کرنے کے بعد اب پب چھوڑ رہے ہیں کیونکہ ان کے گیس اور بجلی کے بلوں میں 450 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ اتنا بڑا اضافہ ہے کہ وہ اس کا بوجھ پب کے گاہکوں پر نہیں ڈال سکتے۔ برطانیہ میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں زبردست اضافے کے سبب بپوں کا کاروبار متاثر ہو رہا ہے حکومت نے کہا کہ وہ 'پورے برطانیہ میں کاروباروں کے لیے توانائی کی شرحوں میں 50 فیصد ریلیف فراہم کر رہی ہے، بیئر، سائڈر، وائن اور اسپرٹ پر الکوحل ڈیوٹی کی شرح کو منجمد کر رہی ہے اور مالکان کی نیشنل انشورنس ( جو کہ ایک طرح کا ٹیکش' ہے) کو کم کر رہی ہے۔‘ لیکن مسٹر جوزی نے کہا 'مجھے یہ ناقابل یقین لگتا ہے کہ ہمیں حقیقت میں کچھ فیصلے اور کچھ پالیسی پر عمل کرنے سے پہلے ایک شخص کے منتخب ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا جو نہ صرف ملازمتوں، لوگوں کی روزی روٹی، بلکہ ان کے گھروں کو بھی تحفظ فراہم کریگی۔ کیونکہ جو لوگ اس ملک میں پب چلاتے ہیں وہ دراصل پب کے اوپری حصے میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔‘ برطانیہ کے سب سے بڑے پب گروپس میں سے ایک گرین کنگ کے مالک نک میکنزی نے کہا کہ ممکن ہے کہ زیادہ تر پب بلوں کی ادائیگی نہ کر سکیں ،لوگوں کی ملازمتیں ختم ہونگی اور لوگ اپنے پبوں کے دروازے بند کرنے پر مجبور ہونگے۔‘ انہوں نے کہا کہ مقررہ قیمتوں کے معاہدوں کی تجدید کا وقت نزدیک ہے اس لیے اب عمل کرنے کا وقت آگیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62718805", "summary": "ان مشہور برینڈز نے انڈیا کو آزادی کے بعد خودکفیل بننے میں مدد دی اور صارفین کے رویوں کا بھی تعین کیا۔ یہی نہیں ان برینڈز نے اپنے اپنے شعبوں کو جدت بخشی۔", "title": "وہ پانچ برینڈ جنھوں نے آزادی کے بعد انڈیا کی پہچان بنائی", "firstPublished": "2022-08-30T07:58:02.000Z", "id": "134316c2-09e7-4ba6-b67f-bd9d67b15397", "article": "یہی وہ چیز ہوتی ہے جو صارفین کو کسی برینڈ کی محبت میں گرفتار کر دیتی ہے اور پھر وہ اسی کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ انڈیا میں بھی ایسے کئی مقامی برینڈ ہیں جنھوں نے گذشتہ دہائیوں کے دوران لوگوں کے گھر اور دل دونوں میں ہی جگہ بنائی۔ ان مشہور برینڈز نے انڈیا کو آزادی کے بعد خودکفیل بننے میں مدد دی اور صارفین کے رویوں کا بھی تعین کیا۔ یہی نہیں ان برینڈز نے اپنے اپنے شعبوں کو جدت بخشی۔ 75 سال بعد بھی یہ برینڈز عالمی سرمایہ کاروں کو انڈیا کی مارکیٹ کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں ان میں سے چند نامور برینڈز کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں جنھوں نے انڈیا اور اس کے شہریوں کو ایک پہچان دی۔ امول نے معاشرے کو ایک ایسے وقت میں آئینہ دکھانے کا کام بھی کیا جب کوئی اور برینڈ ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ’امول گرل‘ کے اشتہاروں کے ذریعے سیاسی سکینڈل سے لے کر کسی اداکار کی موت تک ہر اہم واقعے پر تبصرہ کیا گیا۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس بسکٹ نے انڈیا کو متحد کیا۔ ماروتی نے انڈیا کی مڈل کلاس کا خواب پورا کرنے کے ساتھ ساتھ صارفین کے رویے کو بھی بدلا۔ سفر اور خواب، دونوں ہی جمہوری یعنی عام ہو گئے۔ خاندانوں نے ماروتی سے جانا کہ ان کا جغرافیائی اور سماجی دائرہ وسیع ہو سکتا ہے۔ اس طرح سے احتیاط اور تحمل مزاجی کے لیے مشہور انڈین معاشرے نے بخوشی کھپت کی اگلے سرحد کا سفر طے کیا۔ 1980 تک انڈیا کی مارکیٹ پر پرانے برینڈز کا غلبہ تھا لیکن نرما، جو ایک ڈیٹرجنٹ برینڈ تھا، نے گجرات کے احمد آباد شہر سے اس وقت اپنے سفر کی شروعات کے بعد بڑے بڑے برینڈز کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس برینڈ کی ایک اور قابل ستائش حکمت عملی یہ تھی کہ اس نے ان نکتوں پر بھرپور توجہ دی جو نہایت اہم تھے یعنی ایک معیاری پراڈکٹ مناسب قیمت پر فراہم کیا جس کے لیے بہترین ڈسٹریبیوشن ماڈل کا استعمال کیا گیا۔ یہ برینڈ اب ایک ایسے کاروباری جذبے کی علامت بن چکا ہے جو کامیابی کے لیے بھوکا ہے اور جسے انڈیا کی مارکیٹ میں کامیابی کا راستہ بنانا بھی آتا ہے۔ لیکن جیو نے شاطرانہ حکمت عملی کے ذریعے پانسہ پلٹ دیا۔ چھ ماہ تک مفت ڈیٹا اور کالز کی آفر نے لاکھوں صارفین کو اس کی جانب متوجہ کیا اور انڈیا کی ڈیجیٹل مارکیٹ کو بدل کر رکھ دیا۔ جیو نے انڈیا میں ڈیجیٹل ادائیگی نظام کو بھی فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اگر اس کی کوئی ایک خامی ہے تو وہ یہ کہ اسی ڈیجیٹل انقلاب نے انڈیا میں معاشرے کی اس تقسیم میں بھی حصہ ڈالا جس میں آج یہ ملک پھنسا ہوا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-62680363", "summary": "ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں پیدائش کی شرح میں ہونے والی کمی کے پیچھے حالیہ برسوں میں بڑھنے والا معاشی دباؤ اور کریئر پر عوام کی مزید توجہ بھی ہے۔", "title": "جنوبی کوریا: ’ہم بچے پیدا کرنے کی ہڑتال پر ہیں‘", "firstPublished": "2022-08-28T09:52:32.000Z", "id": "095f641d-594f-43fe-9f69-3f9e5bad860a", "article": "جنوبی کوریا میں شرح پیدائش میں کمی چند نسلوں سے ہوئی اور خاندانوں کے سائز سکڑتے چلے جا رہے ہیں۔ جنوبی کوریا میں 1970 کی دہائی کے آغاز تک اوسطاً ہر خاتون کے چار بچے ہوا کرتے تھے۔ کسی ملک کی کم ہوتی آبادی اس پر شدید دباؤ اور اس کے مستقبل پر بڑا سوال کھڑا کر سکتی ہے۔ جیسے جیسے عمر رسیدہ آبادی کی طبی ضروریات اور پینشن کی ضروریات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے۔ ملک کی کم ہوتی نوجوان آبادی کے سبب لیبر مارکیٹ متاثر ہوتی ہے، ضرورت کے باوجود نوکریوں کو پر کرنے والے لوگوں کی قلت محسوس کی جانے لگتی ہے جس کا ملک کی معیشت پر اثر پڑتا ہے۔ سنہ 2020 سے ملک میں اس بارے میں خاصی فکر پائی جاتی ہے۔ رواں برس پیدائش کی شرح پہلی بار ملک میں ہونے والی اموات سے کم تھی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں پیدائش کی شرح میں ہونے والی کمی کے پیچھے حالیہ برسوں میں بڑھنے والا معاشی دباؤ اور کریئر پر عوام کی مزید توجہ بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک میں زندگی کی بنیادی ضروریات کے اخراجات بڑھ گئے ہیں، گھروں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کووڈ کی وبا کے سبب بھی بہت سے نوجوان جوڑوں نے بچے پیدا کرنے کے منصوبے کو مؤخر کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو آہستہ آہستہ بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ اگر جنوبی کوریا کی آبادی مزید گھٹتی چلی جاتی ہے، تو وہاں معیشت کو چلانے کے لیے لوگ نہیں بچیں گے۔ اس کے علاوہ ملک کی بوڑھی آبادی کا خیال کون رکھے گا یا فوج میں کون بھرتی ہو گا؟ یہ مسئلہ سیاست دانوں کو بھی ایک عرصے سے پریشان کر رہا ہے لیکن وہ اس کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انھوں نے لوگوں کو بچے پیدا کرنے کے لیے راضی کرنے کی تمام کوششوں پر ہزاروں خرچ کیے، لیکن بات نہیں بنی۔ اس کی ایک اور بڑی وجہ خواتین کے لیے برابری کے مواقعوں کی کمی ہے۔ جنوبی کوریا کی خواتین تعلیم یافتہ تو ہیں لیکن کام کے مقامات پر انھیں اکثر برابری کے مواقع نہیں ملتے۔ ملک میں عورتوں اور مردوں کی تنخواہوں میں فرق دنیا کے کسی بھی دولت مند ملک سے زیادہ ہے۔ گھروں کے کام کے علاوہ بچوں کی پرورش کے بھی زیادہ تر کام خواتین کے حصے میں ہی آتے ہیں۔ ایسے میں بچے ہو جانے کے بعد خواتین کو مجبوراً کام چھوڑنا پڑتا ہے یا ان کے کریئر کو شدید دھچکہ لگتا ہے۔ آج بھی وہاں خواتین کو کریئر اور بچوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ اور آہستہ آہستہ ایسی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو بچوں کی خاطر کریئر کی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62630950", "summary": "وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بجلی استعمال کرنے والے ایک کروڑ 71 لاکھ صارفین کو ریلیف دینے کے اعلان کے ساتھ ہی ساتھ یہ سوال بھی گردش کرنے لگا کہ حکومت یہ رعایت کیسے دے گی اور اس ریلیف کے لیے رقم کہاں سے آئے گی۔", "title": "بجلی کے بل: ایک کروڑ 71 لاکھ صارفین کو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سے استثنیٰ کیسے دیا جائے گا؟", "firstPublished": "2022-08-24T03:29:30.000Z", "id": "8eefb5f4-8e5a-4d23-9c3a-e391d18bdb77", "article": "اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے منگل کی شام اعلان کیا کہ ملک میں بجلی کے تین کروڑ صارفین میں سے ایک کروڑ 71 لاکھ کو بجلی کے بلوں پر فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز نہیں دینا پڑیں گے۔ شہباز شریف نے کہا کہ ایک کروڑ 71 لاکھ صارفین کو ریلیف دینے کا یہ فیصلہ حکومتی اتحاد میں شامل ان کی حلیف جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد کیا گیا ہے تاہم اس اعلان کے ساتھ ہی یہ سوال بھی گردش کرنے لگا کہ حکومت یہ رعایت کیسے دے گی اور اس ریلیف کے لیے رقم کہاں سے آئے گی۔ توانائی کے شعبے کے ماہر مصطفیٰ امجد کا کہنا ہے کہ فیول ایڈجسٹمنٹ کا ایک سیدھا سادھا مینکنزم ہے جس کے تحت بجلی کی پیداوار کی لاگت میں اضافے کو صارفین سے وصول کیا جاتا ہے اور اگست کے مہینے میں بھی یہی نظر آیا کہ بجلی کی پیداوار کی لاگت میں اضافے کو صارفین سے وصول کیا گیا، جس کی وجہ سے بجلی کے بل بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ امور توانائی کے ماہر سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ صارفین کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ حکومت معاف کر سکتی ہے تاہم بجلی کمپنیاں تو اسے وصول کریں گی اور اس کے لیے ایک ہی طریقہ ہے کہ حکومت اس کے لیے کمپنیوں کو سبسڈی دے۔ انھوں نے کہا ’لگتا یہی ہے کہ حکومت ٹارگٹڈ سبسڈی دے گی جس میں بجلی کے کم یونٹ استعمال کرنے والے صارفین شامل ہیں، جو گھریلو صارفین ہوتے ہیں اور ان میں بھی جو کم بجلی استعمال کرتے ہیں‘۔ ’اگر صرف 14 ارب یونٹ کو لیا جائے اور اسے مکمل طور پر سبسڈی دی جائے تو ایک مہینے میں نو اور دس روپے کے حساب سے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کل رقم 130 سے 140 ارب بنتی ہے اور حکومت اتنی زیادہ سبسڈی نہیں دے سکتی کیونکہ ایک تو حکومت کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں، دوسرا آئی ایم ایف اس کی اجازت نہیں دے گا جہاں سے ہمیں قرض کی اگلی قسط ملنی ہے۔ سمیع اللہ طارق کے مطابق فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج کی معافی کی تفصیلات تو حکومت ہی بتا سکتی ہے تاہم لگتا یہی ہے کہ یہ فیول ایڈجسٹمنٹ یا تو ٹکڑوں میں اگلے مہینوں میں ایڈجسٹ کیا جائے گا یا پھر حکومت ٹارگٹڈ سبسڈی دے گی جس کے لیے شاید اس نے آئی ایم ایف سے بات کی ہو۔ ان کے خیال میں یہ ٹارگٹڈ سبسڈی ہی ہو سکتی ہے جس میں وہ گھریلو صارفین جو دو سے تین سو یونٹ بجلی استعمال کرتے ہیں اس کی ادائیگی حکومت کرے تاہم اسے ممکن بنانے کے لیے بھی حکومت کو اضافی ٹیکس ہی جمع کرنا ہو گا۔ وزیر اعظم شہاز شریف کی جانب سے ایک کروڑ 71 لاکھ صارفین کے اگست کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ معاف کرنے کے بارے میں جب وزیر اعظم پاکستان کے کوآرڈینیٹر برائے انرجی بلال اظہر کیانی سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اس کی تفصیلات وزیر توانائی ایک پریس کانفرنس میں دیں گے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62634733", "summary": "سوشل میڈیا پر بجلی کے بلوں کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے پر ایک طرف تو صارفین کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے لیکن ساتھ ہی بجلی کے بل کا بغور جائزہ لینے والے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سے متعلق سوال اٹھا رہے ہیں۔ تو یہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کیا ہے اور اس کا تعین کون اور کیسے کرتا ہے؟", "title": "فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کیا ہے اور اس سے آپ کے بجلی کے بل میں کیسے اضافہ ہو رہا ہے؟", "firstPublished": "2022-08-23T05:14:07.000Z", "id": "b6e19f37-ea5c-46cd-bb72-bf55baa75433", "article": "جیسے امتحان میں توقع سے زیادہ نمبر آنے پر رزلٹ کارڈ کو کئی مرتبہ غور سے دیکھنے پر بھی یقین نہیں آتا کہ یہ آپ کا ہی رزلٹ ہے، ایسی ہی صورتحال اگست میں آنے والے بجلی کے بل کے بعد بھی ہے لیکن اس مرتبہ یہ حیرت خوشگوار ہرگز نہیں۔ بدقسمتی سے اس موسمِ گرما میں یہ کہانی گھر گھر کی ہے اور گذشتہ دو ماہ سے سب ہی اپنے گھر کے بجٹ یہ سوچ کر بنا رہے ہیں کہ ابھی بجلی کا بل آنا ہے۔ یہی نہیں بجلی کے بلوں کے خلاف ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاج بھی ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بجلی کے بلوں کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے پر ایک طرف تو صارفین کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے لیکن ساتھ ہی بجلی کے بل کا بغور جائزہ لینے والے ایف پی اے سے متعلق سوال بھی اٹھا رہے ہیں۔ تو یہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کیا ہے، اس کا تعین کون اور کیسے کرتا ہے اور کیا اس کا بوجھ عوام پر ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں؟ یوں ہر ماہ کے اختتام پر اس ماہ کی مجموعی فیول کاسٹ کا موازنہ ریفرنس فیول کاسٹ سے کیا جاتا ہے اور اسی حساب سے یہ ’ایڈجسٹمنٹ‘ دو ماہ کے بعد بجلی کے بلوں میں لگ کر آتی ہے۔ عمار خان کہتے ہیں کہ ’اگر آپ کبھی بل دیکھیں تو اس کا 30 سے 32 فیصد حصہ ٹیکسز ہوتے ہیں یعنی جب آپ کے یونٹ کی قیمت بڑھتی ہے اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ میں اضافہ ہوتا ہے تو ساتھ ہی آپ کا جی ایس ٹی بڑھتا ہے کیونکہ یہ تمام چیزیں منسلک ہوتی ہیں۔‘ اس تمام بحث میں ایک بات صارف کے لیے سمجھنی ضروری ہے کہ اگست کے مہینے میں بجلی کے بل میں شامل کی جانے والی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا براہِ راست تعلق جون کے مہینے میں آپ کے بجلی کی استعمال سے ہے یعنی آپ نے اگر جون کے مہینے میں جولائی سے زیادہ بجلی استعمال کی ہے تو عین ممکن ہے کہ اگست کے بل میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں لی جانے والی رقم آپ کے اصل بل کی رقم سے بھی زیادہ ہو۔ بجلی کے بلوں کی قیمتوں میں اضافے پر سوشل میڈیا پر خاصا سخت ردِ عمل دیکھنے میں آ رہا ہے اور لوگ موجودہ حکومت سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ وہ اتنا زیادہ بل کیسے ادا کریں۔ صارف راجہ فہیم نے لکھا کہ ’جناب وزیر اعظم شہباز شریف صاحب ہم لوگ آپ کے ورکر ہیں۔ جس طرح آپ کی لائی مہنگائی سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں اور جو بجلی کے بل آ رہے ہیں، کچھ دن بعد عوام سڑکوں پر ہو گی اور ووٹ تو کیا آپ کو پوچھے گا بھی کوئی نہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-62640329", "summary": "کپڑوں کی مرمت اور تزئین سے متعلق ایپس اور کاروبار آسان ٹیلرنگ کے ساتھ ساتھ کپڑوں کو دوبارہ تیار کر کے دیتی ہیں تاکہ وہ زیادہ دیر تک چل سکیں۔", "title": "اُن کپڑوں کا کیا کریں جو اب آپ نہیں پہنتے؟", "firstPublished": "2022-08-23T00:48:28.000Z", "id": "793c15a4-46f8-473c-8781-92a27c34cc8f", "article": "وہ کہتی ہیں کہ تقریباً 35 فیصد مواد گاہک تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہو جاتا ہے اور ہم ہمیشہ سے زیادہ کپڑوں کو ضائع کر رہے ہیں۔ سالویج کہتی ہیں کہ ’مسئلے کی بنیادی وجہ کو حل کرنے کے لیے، ہمیں نئے کپڑے کم استعمال کرنے اور پرانوں نو زیادہ دیر تک استعمال میں رکھنے کی ضرورت ہے۔‘ جو بھی بنوانا ہو آپ پانچ منٹ کی ورچوئل اپوائنٹمنٹ لے کر اپنے مطلوبہ ڈیزائن کے بارے میں بات کریں گے۔ اس کے بعد آپ انھیں اپنے پرانے لباس یا کوئی کپڑا بھیجتے ہیں، وہ اس پر دوبارہ کام کرتے ہیں اور ایک بالکل نیا لباس آپ کو واپس بھیج دیتے ہیں۔‘ لیکن پہلے لاک ڈاؤن کے دوران بونیان کو معلوم ہوا کہ وہ اب خریداری نہیں کر سکتیں۔کچھ نیا کرنے کی اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے اپنی ہی الماری میں موجود کپڑوں پر دوبارہ کام شروع کر دیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے دوستوں کے لیے ان کی خواہش کے مطابق اپ سائیکل کرنا شروع کر دیا اور ان کپڑوں کو نئی چیزوں میں تبدیل کر دیا جو انھیں پسند نہیں تھیں۔ وہ کہتی ہیں ’مرمت اور دوبارہ پیش کرنے والی خدمات کم عمر صارفین کے لیے زیادہ قابل رسائی اور دلچسپ ہوتی جا رہی ہیں، صارفین کی عادات بدل رہی ہیں۔‘ سوجو کے ذریعے مرمت کے لیے چھ پاؤنڈ اور ایک بلیزر کو تیار کرنے کے لیے 35 پاؤنڈ تک لاگت آتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’ہم سمجھتے ہیں کہ سب کو کئی سال تک اپنے کپڑوں سے پیار کرنا چاہیے۔ سلائی اور مرمت ایک حقیقی سست فیشن کا رویہ ہے۔‘ ریپ کے مطابق ، برطانیہ کے تقریباً دو تہائی بالغوں کا کہنا ہے کہ، وبا کے بعد سے انھیں فیشن کے ماحولیاتی اثرات اور اپنے لباس کو زیادہ دیر تک برقرار رکھنے کی اہمیت سے متعلق زیادہ آگاہی ملی ہے۔ سالویج کہتی ہیں ’ہم کئی کاروبار کو دوبارہ فروخت، کرایہ پر لینے اور مرمت کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور ساتھ ہی ایسی ایپس جو ہمیں نئے کپڑے خریدنے کے بجائے اپنے پرانے لباس خریدنے کی ترغیب دیتی ہیں۔‘ ’یہ حوصلہ افزا اقدامات ہیں لیکن ان ماڈلز کی پیمائش کرنے اور صارفین کو ان کے استعمال کی ترغیب دینے کے لیے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ ہمیں فیشن انڈسٹری کے لیے ایک سرکلر اکانومی کو حقیقت بنانے کے لیے کاروبار اور شہری دونوں کو آن بورڈ کرنے کی ضرورت ہے۔‘ وہ کہتی ہیں ’فاسٹ فیشن کے ساتھ ایک بدنامی جڑ گئی ہے، فیشن کا مستقبل اب سست ہے، یعنی ایسے کپڑے ہوں جو آپ کو پسند ہوں، جو آپ کو اچھی طرح سے فٹ آئیں اور جو طویل عرصے تک چل سکیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-62612879", "summary": "شمالی یورپ کے کچھ حصوں میں لوگوں کو یہ تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ 24 گھنٹے سورج کا ہونا کیسا لگتا ہے کیونکہ ان کے علاقے میں یہ حقیقت ہے۔", "title": "آدھی رات کو چمکتا سورج، جس کے سویڈن کو بے شمار فائدے ہیں", "firstPublished": "2022-08-22T08:05:26.000Z", "id": "71c06d41-e4f3-443a-aabd-67531abde44f", "article": "شمالی یورپ کے کچھ حصوں میں لوگوں کو یہ تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ 24 گھنٹے سورج کا چمکنا کیسا لگتا ہے کیونکہ ان کے علاقے میں یہ حقیقت ہے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ 24 گھنٹے اندھیرا رہے۔ ان دنوں میں سورج اُفق سے اوپر نظر ہی نہیں آتا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ شمالی سویڈن میں ہیں تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب سردیوں میں کوئی روشنی نہیں ہوتی۔ گرمیوں میں روشنی کی بہتات ہوتی ہے جو زبردست بات ہے۔ یہ دن سب سے زیادہ کارآمد ہوتے ہیں جب ہر چیز اگ رہی ہوتی ہے اور آپ کے مویشی چر سکتے ہیں۔‘ سٹاک ہوم میں سورج گرمیوں میں کچھ گھنٹے کے لیے غروب ہوتا ہے مگر شمال میں سویڈش لیپ لینڈ میں یہ افق سے نیچے نہیں جاتا۔ شمالی سویڈن میں گرمیوں کی سیاحت کا انفراسٹرکچر نہایت مضبوط ہے۔ لیپ لینڈ میں آرکٹک سرکل سے 200 کلومیٹر شمال میں واقع ایبیسکو آج کل نصف شب کو سورج دیکھنے کے لیے ایک مقبول جگہ ہے۔ ایک لگژری ریزورٹ میں ٹھہری ہوئی امریکی سیاح لارا ارینٹ نے کہا کہ ’ہم لوگ بالٹک خطے کے سات ہفتے کے دورے پر ہیں۔ ہم نے ڈنمارک سے شروع کیا اور پولینڈ تک گئے۔ ہم آرکٹک سرکل تک جانا چاہتے تھے کیونکہ ہم کبھی اتنے شمال تک نہیں آئے۔ ہم نصف شب کے سورج کا بھی تجربہ کرنا چاہتے تھے کیونکہ ظاہر ہے کہ یہ امریکہ میں نہیں نظر آ سکتا۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ عجیب ہے۔ ہم نے کل رات نصف شب کا سورج دیکھنے کے لیے ہائیکنگ کی اور رات ساڑھے 12 بجے ہم پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو دن کا سماں تھا اور اتنا عجیب لگ رہا تھا۔ یہ بہت غیر معمولی ہے کہ آپ رات کے دو بجے موسم کا حال دیکھیں اور لکھا آئے کہ دھوپ نکلی ہوئی ہے۔‘ مگر روشنی کا واحد اثر شمالی سویڈن میں سیاحتی معیشت پر نہیں ہوتا بلکہ یہ کچھ بہت روایتی معاشی سرگرمیوں کے لیے بہی اہم ہے، خاص طور پر جب بات مویشیوں کی آئے تو۔ ایک مقامی گاؤں میں رینڈیئر (قطبی بارہ سنگھے) پالنے والے نیلس نٹی کہتے ہیں کہ نصف شب کے سورج سے جانوروں کو توانائی بھی ملتی ہے اور ان کی چراگاہیں بھی دوبارہ سبز ہو جاتی ہیں۔ سالانہ تعمیراتی کام کے لیے برف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے بڑی مقدار میں برف پورے سال جمع کر کے رکھی جاتی ہے اور نصف شب کا سورج اس پورے مرحلے کا اہم حصہ ہے۔ آئس ہوٹل کی مینیجر سارا ہومکوئیسٹ کہتی ہیں کہ ’جب دریا جم جاتا ہے تو برف ایک میٹر گہرائی میں ہوتی ہے۔ ہمارے پاس آری والا ٹریکٹر ہے جو دو دو ٹن وزنی برف کے بلاک کاٹتا ہے۔ پھر ایک اور ٹریکٹر انھیں اٹھاتا ہے اور ایک ٹھنڈے گودام میں لے جاتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62576057", "summary": "ہر شخص اس مہنگائی کا توڑ کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی حل نکال رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کے پاس اس کا ایک حل یہ ہے کہ مہنگی اشیا خریدنے کی بجائے وہی اشیا سیل میں سے خریدی جائیں تو آپ اچھی خاصی بچت کر سکتے ہیں۔", "title": "پاکستان میں مہنگائی: ’اب تو انتظار کرتے ہیں کہ سیل لگے تو خریداری کریں‘", "firstPublished": "2022-08-19T08:47:20.000Z", "id": "2a810917-c1fa-4a2d-b25c-55d631de4713", "article": "ہر شخص اس مہنگائی کا توڑ کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی حل نکال رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کے پاس اس کا ایک حل یہ ہے کہ مہنگی اشیا خریدنے کی بجائے وہی اشیا سیل سے خریدی جائیں تو آپ اچھی خاصی بچت کر سکتے ہیں۔ ‘جب ایک دم سے مہنگائی بڑھی تو ہم نے زیادہ خیال نہیں کیا اور پرانے انداز میں شاپنگ کی۔ جہاں ہمارے گھر کا مہینے کا سامان 25 ہزار روپے کا آتا تھا تو وہی سامان اب 40 ہزار کا آیا اور یہی حال کپڑوں، جوتوں اور گھر کی دیگر ایشا کا ہے۔ اس لیے اب ہم مہنگے سٹور پر جانے کی بجائے ان سٹورز پر جاتے ہیں جہاں سیل لگی ہوتی ہے۔‘ ’اب ہم سوچتے ہیں کہ کپڑوں، جوتوں اور دیگر اضافی اشیا چھوڑ کر صرف کھانا پینا پورا ہو جائے تو وہی کافی ہے۔ پہلے ہم مہنگے چاول لے کر آتے تھے لیکن اب تو جو سستے مل جائیں وہی استعمال کر لیتے ہیں۔ جہاں سیل نظر آتی ہے وہاں سے چیزیں لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ میری اہلیہ بھی اب سیل سے ہی شاپنگ کرتی ہیں تاکہ پیسوں کی بچت ہو سکے۔‘ اعتزاز احمد کہتے ہیں کہ ‘اگر مجھ سے پوچھا جائے تو پیسے بچانے کے لیے ہم سیل سے چیزیں خرید تو لیتے ہیں لیکن سیل میں لگی ستر فیصد چیزیں اکثر غیر معیاری ہوتی ہیں یا ان کی میعاد ختم ہونے والی ہوتی ہے۔ جہاں سیل کا فائدہ ہوتا ہے تو یہ نقصانات بھی ہیں کہ آپ ایک مخصوص چیز لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ آپ سو فیصد اپنی پسند سے چیز نہیں لے پاتے۔‘ ’اگر کوئی چیز سو روپے کی ہے تو سیل کا بورڈ لگا دیتے ہیں اور وہی چیز سو روپے میں ہی سیل میں فروخت کر رہے ہوتے ہیں اور ہم لوگ بیوقوف بنتے ہیں کہ سیل ہے، سستی مل رہی ہے اس لیے فوراً خرید لیتے ہیں۔‘ ’اس لیے وہ آف سیزن سیل لگا دیتے ہیں کہ کم از کم خواتین فوری ضرورت نہ ہونے کے باوجود خریدیں گی تو سہی۔ یہی حکمت عملی ہر چیز کو فروخت کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور خریدار کی نفسیات سے کھیلا جاتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’دیکھا جائے تو یہ سب اس لیے کیا جاتا ہے کہ کاروبار کرنے والے شخص کا پیسہ مارکیٹ میں گردش کرتا رہے۔ جہاں پیسے کی گردش رک جاتی ہے وہاں مارکیٹ نیچے چلی جاتی ہے۔‘ ’اس لیے برینڈز کی بھی مجبوری بن گئی ہے کہ وہ ہر چند ہفتوں بعد اپنی نئی کلیکشن نکالتے ہیں۔ اس وجہ سے اپنا سٹوریج خالی کرنے کے لیے دکانداروں کو سیل لگانا پڑتی ہے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-62574559", "summary": "دنیا بھر میں کھانا مہنگا بھی ہوتا جا رہا ہے اور اس کی قلت بھی ہو رہی ہے چنانچہ ہر جگہ لوگوں کو خود کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنا پڑ رہا ہے۔", "title": "پانچ ملک، پانچ کھانے: دنیا کے مختلف حصوں میں غذائی بحران سے کیسے نمٹا جا رہا ہے؟", "firstPublished": "2022-08-18T08:41:28.000Z", "id": "4a9791c1-d809-411c-a5d4-67f5951eed33", "article": "دنیا بھر میں کھانا مہنگا بھی ہوتا جا رہا ہے اور اس کی قلت بھی ہو رہی ہے۔ ہر جگہ لوگوں کو خود کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنا پڑ رہا ہے اور اس کا کبھی کبھی مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ لوگوں کو اپنی غذائیں ہی تبدیل کرنی پڑیں۔ امریکی سکولوں کا یہ فیڈرل سکول میلز پروگرام نہایت سخت قواعد و ضوابط کا حامل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی چکن نگٹ پر موجود ڈبل روٹی کے چورے کو بھی غذائیت کا حامل ہونا چاہیے اور تمام غذاؤں میں چینی اور نمک کم ہونا چاہیے۔ چنانچہ ڈونا مارٹنز کو ہر چیز کی خصوصی قسم خریدنی پڑتی ہے۔ ہر کوئی اتنا خوش قسمت نہیں کہ اُن کے پاس اتنی زمین ہو چنانچہ کئی سری لنکن اب کٹھل (جیک فروٹ) کو اپنا رہے ہیں۔ انوما کہتی ہیں کہ ’ہر دوسرے باغیچے میں آپ کو کٹھل کا درخت نظر آئے گا۔ اب سے کچھ عرصے پہلے تک لوگ کٹھل پر توجہ ہی نہیں دیتے تھے۔ یہ درختوں سے گرتا اور اکثر کچرے کی نذر ہو جاتا۔‘ اس ملک میں بجلی کی فراہمی بھی اکثر معطل رہتی ہے چنانچہ زیادہ تر کاروبار ڈیزل سے چلنے والے جنریٹرز کا استعمال کرتے ہیں مگر ایندھن کی قیمتوں میں بھی 30 فیصد کا اضافہ ہوا ہے حالانکہ نائیجیریا تیل کی دولت سے مالامال ہے مگر اس کے پاس کوئی ریفائنریاں نہیں اور اسے تمام تر ڈیزل باہر سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔ دو سال بعد اب وہ 75 لوگوں کو ہفتے میں تین مرتبہ کھانا کھلا رہی ہیں۔ جسٹینا اس وبا سے پہلے ایک کچن اسسٹنٹ تھیں اور اب وہ اپنی برادری میں ایک لیڈر سی بن گئی ہیں۔ ’میں لوگوں کے دروازوں پر جاتی ہوں اور مدد مانگتی ہوں۔‘ حال ہی میں قیمتوں میں اضافے کے باعث جسٹینا نے گوشت کھلانا بند کر دیا ہے۔ وہ خون، جگر، ہڈیوں اور پوٹے کا استعمال کرتی تھیں مگر پھر کلیجی بھی مہنگی ہو گئی اور اُنھوں نے اسے تلے ہوئے انڈوں سے بدل دیا۔ جب تیل کی قیمت بڑھ گئی تو اُنھوں نے لوگوں کو انڈے دینے شروع کر دیے تاکہ وہ خود ہی انھیں ابال لیں۔ اُنھوں نے حال ہی میں اپنے خریداری کے بل میں اضافہ نوٹ کیا تھا۔ وہ دو بچوں کی ماں ہیں جنھیں اپنے والدین، بہنوں، بھانجوں اور بھانجیوں کے لیے باقاعدگی سے کھانا پکڑنا پڑتا ہے۔ چنانچہ وہ بہت زیادہ چکن خریدتی ہیں۔ عالمی عوامل کی وجہ سے بھی ایندھن اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ چین سوائن فلو کے بعد اپنے پاس سوروں کی تعداد بڑھا رہا ہے، جنوبی امریکہ میں قحط آیا ہوا ہے اور یوکرین میں جنگ جاری ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بدقسمتی سے سب سے زیادہ نقصان چھوٹے فارمرز اور مرغی فروشوں کو ہو رہا ہے، نہ کہ بڑے تاجروں کو جنھوں نے فارمرز کی ضرورت کی ہر چیز کی قیمت بڑھا دی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62576052", "summary": "پاکستان گذشتہ کئی ماہ سے ایک معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ روپے کی گرتی قدر، توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور حالیہ تاریخ کی بلند ترین شرحِ مہنگائی کے درمیان گھرے ہوئے عوام اس وقت شدید مشکلات کے شکار ہیں۔", "title": "اگر پاکستان دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا چاہتا تو اسے کیا کرنا ہو گا", "firstPublished": "2022-08-18T07:36:32.000Z", "id": "237fc689-290e-46df-8ea9-d6646d908181", "article": "مہنگائی اور معاشی مشکلات اس وقت ایک عالمی مسئلہ ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ میں بھی کساد بازاری کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان بھی گذشتہ کئی ماہ سے ایک معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ روپے کی گرتی قدر، توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور حالیہ تاریخ کی بلند ترین شرحِ مہنگائی کے درمیان گھرے ہوئے عوام، اس وقت شدید مشکلات کے شکار ہیں۔ اب سے چند دن قبل جب ہم نے موجودہ معاشی صورتحال پر آپ کے سوالات طلب کیے تھے تو ایک سوال جو سب سے زیادہ پوچھا گیا تھا وہ یہ کہ کیا پاکستان دیوالیہ ہونے والا ہے اور کیا معاشی صورتحال میں کچھ بہتری آنے کی توقع ہے؟ شروعات کرتے ہیں ڈالر کی قیمت سے جو 28 جولائی کو تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 240 روپے کو چھونے کے بعد اب تیزی سے نیچے آ رہی ہے اور گرتے گرتے 213 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ معاشی تجزیہ کار و صحافی خرم حسین کہتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت میں جولائی کے بعد سے جو کمی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے وہ پاکستانی برآمد کنندگان کی جانب سے پیسہ واپس لانے اور کم ہوتی ہوئی برآمدات کی وجہ سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت حکومت کے پاس آپشنز بہت کم ہیں کیونکہ صنعتیں اپنی پیداوار بڑھانے کے لیے سبسڈیز مانگیں گی جو کہ حکومت کے لیے مالی مشکلات اور آئی ایم ایف معاہدوں کی وجہ سے دینا ممکن نہیں جبکہ بلند شرحِ سود اور گیس کی کمی کی وجہ سے بھی کاروبار کے لیے مشکلات اپنی جگہ موجود ہیں۔ پاکستان گذشتہ 75 برس میں کئی مرتبہ آئی ایم ایف سے امداد طلب کر چکا ہے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے پروگرام تعطل کا شکار ہوا۔ عزیر یونس کہتے ہیں کہ اب چونکہ پاکستان میں عام انتخابات کا وقت قریب ہے، اس لیے آئی ایم ایف سے کیے گئے سخت معاہدے کی شرائط کو توڑنا ایک سیاسی مجبوری بن جائے گی، چنانچہ یہ ہو سکتا ہے کہ اگلے برس ہمیں پھر ایسی ہی مالیاتی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے۔ ماہرین اکثر و بیشتر اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ پاکستان اگر چاہتا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس واپس نہ جائے تو اسے اپنے معاشی ڈھانچے میں بے حد اصلاحات کی ضرورت ہے۔ وہ تاجروں پر سے ٹیکس ہٹانے کے حکومتی اقدام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات مشکلات پیدا کیے رکھیں گے تاہم اگر پاکستان چاہتا ہے کہ وہ واقعی اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے تو اسے اپنے زرعی، ریٹیل، اور ریئل سٹیٹ شعبوں پر ٹیکسز لگانے ہوں گے مگر ساتھ ہی ساتھ کاروبار کے لیے سازگار ماحول بھی پیدا کرنا ہو گا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62549640", "summary": "پاکستان میں مہنگائی کی حالیہ لہر سے ہر شہری ہی پریشان دکھائی دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں لوگ گھر کے ماہانہ اخراجات کا نئے سِرے سے حساب کتاب اور خرچوں میں کٹوتی کر رہے ہیں، وہیں تعلیمی اداروں میں بڑھتی فیسوں نے والدین کو اپنے بچوں کے سکول تبدیل کرنے پر بھی مجبور کر دیا ہے۔", "title": "تعلیمی اخراجات سے پریشان والدین: ’مہنگائی کے خلاف کس عدالت میں مقدمہ کریں‘", "firstPublished": "2022-08-16T03:19:42.000Z", "id": "a3d80afc-4b48-4678-ac7b-faf5d68edd54", "article": "پاکستان میں مہنگائی کی حالیہ لہر سے ہر شہری ہی پریشان دکھائی دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں لوگ گھر کے ماہانہ اخراجات کا نئے سِرے سے حساب کتاب اور خرچوں میں کٹوتی کر رہے ہیں، وہیں تعلیمی اداروں میں بڑھتی فیسوں نے والدین کو اپنے بچوں کے سکول تبدیل کرنے پر بھی مجبور کر دیا ہے۔ ’میری بیٹی نے دس سال اس سکول میں گزارے لیکن کسی نے یہ تک نہیں پوچھا کہ آپ کیوں اچانک سے سکول چھڑوا رہے ہیں۔ اب میں نے بچوں کا داخلہ اکیڈمی میں کروا دیا ہے۔ 21000 سے ماہانہ فیس 9000 پر پہنچ گئی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کسی نے بہت بھاری بوجھ میرے کندھوں سے اٹھا دیا ہو۔‘ احمد نے کہا کہ ’اس میں تو فرق آیا ہے لیکن کیا اور کوئی حل ہے؟ یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں پرائیوٹ سکولوں کے مدمقابل کوئی نہیں۔ ہمارے زمانے میں گورنمنٹ سکول سے پڑھ کر بھی بچے اچھے نمبر لے لیتے تھے۔ اب پرائیوٹ سکول میں پڑھانا لازم ہو گیا ہے کیونکہ سرکاری سکولوں کی حالت صحیح نہیں۔ وہاں کوئی نہیں چاہے گا کہ ان کے بچے پڑھیں اور اس بات کا فائدہ باقی اٹھا لیتے ہیں۔‘ منصور احمد کے مطابق ’یہاں فیس کے علاوہ بھی اخراجات ہیں۔ سکول میں فنکشن ہیں، بچے سوشلائز کر رہے ہیں۔ پھر انھیں برتھ ڈے پارٹی میں جانا ہے۔ اس سب کے لیے بہت سارے پیسے چاہییں اور یہ اضافی خرچے اور فیس آپ نہیں بھر پاتے ہیں۔‘ منصور نے بتایا کہ سکول کی انتظامیہ نے بات کرنے پر اپنے مسائل گنوائے کہ کیسے ڈالر کا ریٹ بڑھ گیا ہے اور اس کے نتیجے میں زمین کا کرایہ بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے فیس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہر ماہ ایک نیا اضافہ ہو رہا ہے۔ ’پہلے کہا گیا کہ ہر سیشن کے ساتھ نئی کتابیں لینی پڑیں گی۔ ہم نے کہا کہ گھر پر بڑے بچوں کی اسی کورس کی کتابیں موجود ہیں اور باقی دو بچے وہ ہی استعمال کر لیں گے تو کہا کہ نہیں کورس تھوڑا مختلف ہوا ہے۔ پھر کہا گیا کہ جہاں سے کتابیں لے رہے ہیں یونیفارم بھی وہیں سے لیں۔ ان کتابوں اور یونیفارم کا خرچہ الگ ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’سکول والے کتابیں خود دے دیتے ہیں۔ یونیفارم کا انتظام بھی کر دیتے ہیں اور سکول میرے گھر سے نزدیک بھی ہے تو میں بچوں کو خود پیدل چھوڑ کر آجاتا ہوں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میں نے پوری کوشش کرلی ہے کہ کسی طرح ان اخراجات کو پورا کر لوں۔ میری ماہانہ تنخواہ 80 ہزار روپے ہے۔ میرے گھر کا خرچہ 40 ہزار روپے ہے۔ دو بچوں کے سکول کا خرچ 35 ہزار روپے ہے اور اب بتایا گیا ہے کہ ڈالر ریٹ میں اضافے کے بعد اس فیس میں مزید اضافہ ہو گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-62557074", "summary": "یہ سالانہ بنیادوں پر 90 فیصد اضافہ ہے اور توانائی برآمد کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کی اب تک کی سب سے بڑی آمدنی ہے۔", "title": "سعودی تیل کمپنی نے منافع کمانے کا اپنا ہی ریکارڈ توڑ ڈالا", "firstPublished": "2022-08-15T23:55:42.000Z", "id": "1ae45826-2ca1-4c62-b73f-c5b87be04e9e", "article": "سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل کمپنی سعودی آرامکو نے سنہ 2022 کی دوسری سہ ماہی میں 48 ارب 40 کروڑ ڈالر کا منافع کما کر اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ یہ سالانہ بنیادوں پر 90 فیصد اضافہ ہے اور توانائی برآمد کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کی اب تک کی سب سے بڑی آمدنی ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے تیل اور گیس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ روس دنیا میں تیل کے سب سے بڑے برآمد کنندگان میں سے ہے مگر مغربی ممالک نے توانائی کے لیے روس پر انحصار کم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ خبر رساں ادارے بلومبرگ کے مطابق اس سعودی کمپنی کے منافعے کی رقم سٹاک مارکیٹ میں لسٹڈ کسی بھی کمپنی کا سب سے بڑا سہ ماہی منافع ہے۔ ریکارڈ منافعے کے علاوہ اس سرکاری کمپنی نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ تیسری سہ ماہی میں اپنے ڈیویڈینڈ کی رقم 18.8 ارب ڈالر ہی رکھے گی اور کوئی تبدیلی نہیں کرے گی۔ کمپنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ طلب کو پورا کرنے کے لیے اپنے آپریشنز میں وسعت لاتی رہے گی۔ آرامکو کے صدر اور چیف ایگزیکٹیو امین نصر نے کہا کہ 'جہاں عالمی مارکیٹ میں عدم استحکام اور اقتصادی غیر یقینی اب بھی موجود ہے وہیں اس سال کے پہلے نصف میں ہونے والے واقعات سے ہمارے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ ہماری صنعت میں سرمایہ کاری کا جاری رہنا منڈیوں میں رسد کی وافر فراہمی اور متبادل توانائی کی جانب ہموار انداز میں منتقلی یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔' اُنھوں نے مزید کہا کہ درحقیقت اُنھیں توقع ہے کہ تیل کی طلب میں منفی معاشی پیش گوئیوں کے باوجود اگلی ایک دہائی تک اضافہ ہوتا رہے گا۔ واضح رہے کہ یوکرین پر روسی حملے سے پہلے سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا تھا کیونکہ کووڈ 19 سے بحالی کے دور میں دنیا بھر میں تیل کی طلب میں اضافہ ہو رہا تھا جبکہ اس کی رسد کم تھی۔ دنیا میں تیل پیدا کرنے والی سب سے بڑی کمپنیوں ایگزون موبل، شیورون اور برٹش پیٹرولیم سبھی نے رواں سال بھاری منافعے ظاہر کیے ہیں جس کے باعث حکومتوں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ان کمپنیوں پر بھاری ٹیکس عائد کریں۔ جون میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ ایگزون موبل نے \"اس سال خدا سے بھی زیادہ پیسہ بنا لیا ہے۔' سعودی عرب تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہے۔ گذشتہ ہفتے اوپیک+ نے تیل کی پیداوار میں معمولی سے اضافے کی منظوری تھی تاکہ بلند قیمتوں کو نیچے لایا جا سکے۔ مگر اس کے باوجود پیداوار میں تازہ ترین اضافہ بھی حالیہ مہینوں کے مقابلے میں کافی سست رو ہے۔ یہ فیصلہ صدر جو بائیڈن سمیت کئی عالمی رہنماؤں کے لیے ایک دھچکا تھا کیونکہ وہ تیل کی پیداوار میں اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62500672", "summary": "بلومبرگ نے سنہ 2021 میں اس کاروباری خاتون کی کل دولت کا تخمینہ تقریباً 33.9 ارب ڈالرز لگایا تھا، جو گذشتہ ماہ جولائی میں کیے گئے اندازے کے مطابق کم ہو کر 16.1 ارب ڈالرز رہ گئی ہے۔", "title": "ایشیا کی امیر ترین خاتون جس نے اپنی آدھی دولت ایک سال میں گنوا دی", "firstPublished": "2022-08-12T12:53:01.000Z", "id": "e67e9282-34e8-4e3f-94f1-a49b4b4466ef", "article": "برسوں سے جس خاتون کی دولت چین سے باہر بھی شہ سرخیوں، تبصروں اور حساب کتاب کا مرکز رہی ہے۔ وہ ہیں صرف 41 سالہ چین کی شہری یانگ ہوئیان، جو نہ صرف چین کی امیر ترین شخصیت میں شامل ہوتی ہیں بلکہ وہ ایشیا کی بھی امیر ترین عورت ہیں۔ ایک دہائی قبل جب سے انھیں ان کے والد کی جانب سے وراثت میں ایک رئیل سٹیٹ ایمپائر ملی ہے ان کی دولت میں مسلسل اضافہ ہی ہوا ہے۔ لیکن سنہ 2022 میں ان کے لیے چیزیں بدل گئیں، گذشتہ ایک برس کے دوران انھیں شدید معاشی نقصان اور تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بلومبرگ کی ارب پتی افراد کی فہرست کے مطابق گذشتہ برس کے دوران یانگ کی دولت میں مجموعی طور پر 52 فیصد سے زیادہ کمی ہوئی ہے۔ بلومبرگ نے سنہ 2021 میں اس کاروباری خاتون کی کل دولت کا تخمینہ تقریباً 33.9 ارب ڈالرز لگایا تھا، جو گذشتہ ماہ جولائی میں کیے گئے اندازے کے مطابق کم ہو کر 16.1 ارب ڈالرز رہ گئی ہے۔ چین میں رئیل اسٹیٹ کی بری حالت کی وجہ سنہ 2020 سے اس شعبے میں مکانات کی قیمتوں میں کمی، خریداروں کی مانگ میں کمی اور قرض کی ادائیگی میں صارفین کا دیوالیہ ہونے کے بحران کے باعث سنگین مسائل سامنے آئے ہیں جس نے ملک کے چند بڑے ڈویلپرز کو متاثر کیا ہے۔ بلومبرگ کے مطابق، ان کے بعد کیمیکل فائبر کی صنعت سے وابستہ خاتون فین ہونگ وے کا نمبر آتا ہے، جن کے اثاثے بھی تقریباً 16 بلین ڈالر ہیں۔ گوانگزو میں 1992 میں قائم کی گئی ریئل سٹیٹ کمپنی، کنٹری گارڈن ہولڈنگز ہانگ کانگ میں اپنے آئی پی او کے بعد کامیاب ہوئی اور وہاں اس نے تقریباً 1.6 بلین ڈالر اکٹھے کیے، جو کہ گوگل کے 2004 کے امریکی آئی پی او کے بعد کے برابر ہے۔ اور ایسا اس لیے تھا کہ کیونکہ سنہ 2020 سے ملک کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں زیادہ پیچیدگیاں شروع ہو گئی تھیں، اور اس کی وجہ صرف کورونا وبا نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ چینی حکام کی جانب سے رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں ضرورت سے زیادہ قرضوں کو روکنے کی کوشش کرنا تھی۔ یہ بحران اس وقت مزید بڑھ گیا جب چین کی سب سے زیادہ مقروض رئیل اسٹیٹ کمپنی ایورگرانڈ سنہ 2021 میں مہینوں کے مالی مسائل کے بعد دیوالیہ ہو گئی اس سب صورتحال نے کنٹری گارڈن کمپنی جوکووڈ وبا کی ابتدا میں بھی کامیابی سے کام کرتی رہی کو بھی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور یہاں تک کہ گذشتہ جولائی میں اس کمپنی کو پیسے اکٹھے کرنے کے لیے اپنے حصص کو 13 فیصد کم قیمت پر فروخت کرنا پڑا تھا۔ گزشتہ جولائی میں ایک رپورٹ میں کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ایس اینڈ پی نے اندازہ لگایا تھا کہ اس سال چین میں قرض اور گروی رکھے جانے پر ہڑتالوں کے باعث جائیداد کی فروخت میں ایک تہائی کمی آ سکتی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-62515747", "summary": "لبنان میں اقتصادی بحران کے باعث بینکوں نے رقم نکلوانے کی حدود مقرر کر رکھی ہیں۔", "title": "لبنان میں بینک والوں کو یرغمال بنانے والا مسلح شخص عوام کا ‘ہیرو‘ بن گیا!", "firstPublished": "2022-08-12T08:56:01.000Z", "id": "37dc0879-bad3-43f1-8eab-231db4dc9f70", "article": "جلد ہی عوام کی بڑی تعداد بینک کے باہر جمع ہو گئی اور مذکورہ شخص کے حق میں نعرے بازی کرنے لگے لبنان میں عوام ایک ایسے شخص کو ہیرو قرار دے رہے ہیں جس نے بیروت کے ایک بینک سے اپنی رقم نکلوانے میں ناکامی پر پورے بینک کو چھ گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔ واضح رہے کہ اقتصادی بحران کے باعث لبنان میں بینکوں نے رقم نکلوانے کی حدود مقرر کر رکھی ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مذکورہ شخص رائفل لے کر بینک میں داخل ہوا، پیٹرول چھڑکا اور کہا کہ ہسپتال کے بلوں کی ادائیگی کے لیے اس کی رقم دی جائے۔ ان کے اس اقدام نے جلد ہی عوامی حمایت حاصل کر لی اور بینک کے باہر جمع ہونے والے لوگ نعرے بازی کرنے لگے کہ ’تم ہیرو ہو۔‘ بالآخر یہ معاملہ کسی نقصان کے بغیر حل ہو گیا اور ایک مقامی ٹی وی چینل ایل بی سی ٹی وی کے مطابق اس شخص کو اپنی بچت کردہ رقم میں سے 35 ہزار ڈالر نکلوانے کی اجازت دے دی گئی۔ بعد میں پولیس نے فیڈرل بینک کی حمرہ سٹریٹ برانچ سے یرغمالیوں اور مذکورہ شخص کو نکال لیا۔ حکام نے اب تک یہ نہیں بتایا ہے کہ کیا مذکورہ شخص کو مقدمے کا سامنا کرنا ہو گا یا نہیں۔ ایل بی سی کے مطابق مذکورہ شخص کے خاندان کے کچھ افراد ہسپتال میں تھے، اس لیے اُنھیں پیسوں کی سخت ضرورت تھی۔ اس شخص کے بھائی نے صحافیوں کو بتایا کہ ’میرے بھائی کے بینک اکاؤنٹ میں دو لاکھ 10 ہزار ڈالر پڑے ہیں اور وہ ہسپتال کے بل ادا کرنے کے لیے صرف ساڑھے پانچ ہزار ڈالر نکالنا چاہ رہا تھا۔‘ بینک کے باہر موجود اس شخص کی اہلیہ اور بھائی نے کہا کہ ’ہر کسی کو اپنے حق‘ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ’یہی کرنا چاہیے۔‘ لبنان میں بینک اکاؤنٹس پر سخت پابندیوں کے باعث عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ یہ پابندیاں سنہ 2019 سے نافذ ہیں۔ اس کے علاوہ ملک سے پیسے باہر بھیجنے پر بھی پابندیاں ہیں۔ یہ ملک اس وقت دنیا میں حالیہ دور کے بدترین اقتصادی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے جس کی وجہ سے خوراک اور دواؤں کی قلّت ہے جبکہ اخراجاتِ زندگی بڑھ رہے ہیں۔ بینک کی برانچ کے باہر مظاہرین بینکوں کے خلاف نعرے بازی کرتے نظر آئے۔ لبنان کی بینک ایمپلائز یونین کے صدر جارج الحاج نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔‘ واضح رہے کہ جنوری میں ایک مشتعل صارف نے لبنان ہی کے ایک بینک میں درجنوں افراد کو یرغمال بنا کر اپنے پیسے ڈالروں میں نکلوانے کا مطالبہ کیا تھا۔ لبنان کی مقامی کرنسی کی قدر اس بحران کے آغاز سے اب تک 90 فیصد کم ہوئی ہے اور اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ ملک کی 80 فیصد آبادی غربت کی شکار ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62471962", "summary": "افغانستان پر طالبان کے قبضہ کے دوران بی بی سی کے نامہ نگار سکندر کرمانی وہاں موجود تھے اور اب ایک برس بعد دوبارہ انھوں نے افغانستان کا دورہ کیا اور ان افراد سے ملاقات کی، جن سے وہ گذشتہ برس ملے تھے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان کی زندگیوں میں کیا تبدیلی آئی ہے۔", "title": "طالبان حکومت کا ایک سال: طالبان کا سنائپر جو اب سرکاری ادارے میں ڈائریکٹر ہے", "firstPublished": "2022-08-10T07:26:29.000Z", "id": "809e2e1f-d576-4037-8e92-38a82b7fa99d", "article": "گذشتہ برس اگست میں جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تب سے اب تک سینکڑوں افغان شہریوں کی زندگیاں بدل گئی ہیں۔ گذشتہ ایک برس کے دوران دسیوں ہزار افغان شہریوں نے ملک چھوڑ دیا ہے، بیشتر لڑکیوں کے سیکنڈری سکولوں کو بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ملک میں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن چار دہائیوں میں پہلی بار ملک تشدد کی لپیٹ میں نہیں اور یہاں بدعنوانی میں بھی واضح کمی آئی ہے۔ افغانستان پر طالبان کے قبضہ کے دوران بی بی سی کے نامہ نگار سکندر کرمانی وہاں موجود تھے، اور اب ایک برس بعد دوبارہ انھوں نے افغانستان کا دورہ کیا اور ان افراد سے ملاقات کی، جن سے وہ گذشتہ برس ملے تھے۔ اس وقت جب ہم نے ان سے بات کی تھی تو ان کی آنکھوں میں سختی اور سرد مہری تھی۔ اس گفتگو کے دوران جب ہم نے ان سے پوچھا تھا کہ وہ اس تشدد کو کیسے جائز قرار دیتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ ’ہم شہریوں کو نقصان نہ پہنچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ لڑائی ہے اور لوگ مریں گے۔ ہم یہاں افغانستان میں اسلامی نظام کے علاوہ کوئی اور چیز قبول نہیں کریں گے۔‘ انھوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے اندازاً افغان سکیورٹی فورسز کے درجنوں اہلکاروں کو ہلاک کیا اور دس مختلف واقعات میں وہ زخمی ہوئے تھے تاہم طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد انھیں بلخ صوبے میں لینڈ اینڈ اربن ڈویلمپنٹ کا ڈائریکٹر تعینات کر دیا گیا۔ اب ایک سال بعد اپنے دفتر میں اپنی ایک جانب اسلامی امارات کا سفید و سیاہ جھنڈا لگائے، لکڑی کے میز کے پار بیٹھے وہ ابھی بھی اپنی نئی زندگی میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے فرائض اور کردار کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ طالبان امریکہ پر افغانستان کے مرکزی بینک کے ذخائر کو منجمد کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ مغربی سفارتکاروں نے اکثر یہ تجویز کیا ہے کہ طالبان کی خواتین سے متعلق جابرانہ پالیسیوں کا مطلب ہے کہ افغان عوام کے لیے کسی بھی مدد کا مطلب ان کی حکومت سے بالا ہو کر کرنا ہے۔ افغانستان میں طالبان پر سرعام تنقید کم ہوتی جا رہی ہے لیکن طالبان کی جیت نے چند لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں مدد کی ہے تاہم بہت سے دوسرے لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ جس ملک کی تعمیر میں انھوں نے مدد کی تھی وہ ان کی آنکھوں کے سامنے ختم ہو رہا ہے اور وہ اس بات پر گہری تشویش میں مبتلا ہیں کہ اسے کس چیز سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62461969", "summary": "پاکستان کی معیشت اس وقت جمود کا شکار ہے۔ اشیائے خوردونوش کی بڑھتی قیمتوں، تنزلی کے شکار روپے اور توانائی کی قلت نے ایک معاشی بحران کو جنم دیا ہے۔ دوسری جانب سیاسی طور پر بھی پاکستان اس وقت دو سیاسی کیمپوں میں تقسیم نظر آ رہا ہے۔ تو کیا قبل از وقت انتخابات ہونے سے حالات بہتر ہو سکتے ہیں؟", "title": "کیا پاکستان میں نئے انتخابات سے مہنگائی کم ہو جائے گی؟", "firstPublished": "2022-08-09T04:25:57.000Z", "id": "ec98e849-3da8-4ef6-bf28-bcafe60ffd92", "article": "پاکستان کی معیشت اس وقت جمود کا شکار ہے۔ اشیائے خوردونوش کی بڑھتی قیمتوں، مہنگائی، تنزلی کے شکار روپے اور توانائی کی قلت نے ایک معاشی بحران کو جنم دیا ہے۔ سیاسی طور پر بھی پاکستان اس وقت دو سیاسی کیمپوں میں تقسیم نظر آ رہا ہے اور ایسے میں سیاستدان ایک دوسرے پر ’غدار، بیرونی ایجنٹ اور کرپٹ مافیا‘ جیسے الزامات لگا رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے مطابق پاکستان کے تمام سیاسی اور معاشی مسائل کا حل جلد از جلد نئے انتخابات کے انعقاد میں ہے۔ 18 جولائی کو اپنے ایک خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ’جب تک سیاسی بحران ختم نہیں ہو گا ہماری معیشت اور مزید نیچے جائے گی۔‘ ان کا کہنا ہے کہ مارکیٹس واضح حالات کا تقاضا کرتی ہیں اور پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت نے اس بارے میں کوئی واضح منصوبہ نہیں بنایا ہوا کہ اگر وہ الیکشن جیت جاتی ہیں تو وہ معیشت کو کیسے چلانا چاہتی ہیں۔ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جو بھی اقتدار میں آئے گا، وہ مثلاً ٹیکس یا انفراسٹرکچر کی ترقی یا زراعت کے ضمن میں کون سی پالیسیاں مرتب کرے گا؟ ان کا وزیر خزانہ کون ہو گا؟ ان تفصیلات پر بات کرنا ضروری ہے۔ اگر آپ یہ تفصیلات کسی سیاسی جماعت یا اسٹیبلشمنٹ سے پوچھیں گے تو کوئی جواب نہیں ملے گا۔‘ عمیر جاوید کی دلیل ہے کہ سیاسی مینڈیٹ منقسم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اب یہ نظر آ رہا ہے کہ اتحادی حکومت کے ذریعے ایک اقلیتی حکمرانی قائم ہے۔ کم از کم انتخابات سے تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات کا تو ادراک ہو جائے گا کہ وہ کہاں کھڑی ہیں۔‘ عمیر جاوید کہتے ہیں کہ ’اگر کوئی انتخابی نتائج کو قبول نہیں کرتا تو پھر آپ کے پاس سیاسی عدم استحکام کا ایک اور دور ہوگا۔ پی ٹی آئی نے تاریخی طور پر انتخابی نتائج کو تباہ کن طریقوں سے چیلنج کیا ہے۔‘ پچھلے مہینے کی ایک بیٹھک میں اتحادی حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ عمران خان کے مطالبے کے مطابق قبل از وقت انتخابات نہیں کرائے گی اور اگست 2023 کو ختم ہونے والی اپنی مدت پوری کرے گی۔جمعیت علمائے اسلام کے سینئیر رہنما کامران مرتضی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ یہ فیصلہ اتنا آسان نہیں تھا۔ ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پی ڈی ایم نے ایک بہت بڑا رسک لیا ہے۔‘ اب ان کا کہنا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام براہ راست معیشت پر اثر ڈال رہا ہے اور مارکیٹ میں الجھن پھیلا رہا ہے۔ عمر چیمہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’لیکن محض الیکشن کروانے سے تو معاملات حل نہیں ہوں گے۔ جب تک صاف شفاف انتخابات نہیں ہوتے سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62410583", "summary": "پاکستان میں بدھ کے روز ڈالر کی قیمت میں لگ بھگ 10 روپے کی کمی ریکارڈ کی گئی جو نومبر 1998 کے بعد بننے والا نیا ریکارڈ ہے۔ مگر اس ریکارڈ کمی کی وجوہات کیا ہیں اور یہ سلسلہ کب تک جاری رہ سکتا ہے اور اس کا عام آدمی کو کیسے فائدہ پہنچے گا۔", "title": "ڈالر کی قدر میں ایک دن میں 10 روپے کی ریکارڈ کمی کی وجوہات کیا ہیں؟", "firstPublished": "2022-08-03T13:55:41.000Z", "id": "c0e34586-33ad-4a56-9db1-bbff461d645f", "article": "یاد رہے کہ بدھ کے روز پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں ریکارڈ 9.58 روپے کی کمی ہوئی ہے جو ایک دن میں ڈالر کی قیمت میں ہونے والی کمی کا ملک میں نیا ریکارڈ ہے۔ اس سے پہلے ایک دن میں سب سے بڑی کمی کا ریکارڈ دو نومبر 1998 کو بنا تھا جب ایک دن میں ڈالر کی قیمت 5.1 روپے کم ہوئی تھی۔ ملک بوستان کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے آنے والا مثبت بیان بھی ڈالر کی قیمت میں کمی کی وجہ بنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آرمی چیف کی جانب سے قرض کے حصول کی غرض سے امریکی حکام کو فون اور اس کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے جاری ہونے والے بیان جس میں بتایا گیا کہ پاکستان کی جانب سے سارے اقدامات مکمل ہو چکے ہیں، نے آئی ایم ایف کے قرضے کی اگلی قسط کے جاری ہونے کے امکانات کو بڑھا دیا ہے اور اس عمل نے روپے کی قدر کو سہارا دیا۔ پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے ہیڈ آف ریسرچ طارق سمیع اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ بڑی عید کے بعد ترسیلات زر میں بھی واضح ہوا اور ایکسپورٹرز بھی ڈالر مارکیٹ میں لا رہے ہیں جب کہ کم درآمدات کی وجہ سے امپورٹرز کی جانب سے ڈالر کی طلب بھی کم ہوئی ہے جس نے روپے کی قدر کو سہارا دیا اور اس میں ریکوری کا عمل گذشتہ کئی دنوں سے دیکھا جا رہا تھا جو بدھ کے روز ملکی تاریخ میں ریکارڈ قائم کر گیا۔ ڈالر کی قیمت میں ہونے والی کمی کے عام آدمی پر معاشی اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے سمیع اللہ طارق نے کہا کہ اگر ڈالر کی قیمت میں مزید کمی ہوتی ہے تو اس کا فائدہ عام آدمی کو تیل اور دوسری خوردنی چیزوں کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں ملے گا، کیونکہ پاکستان میں تیل، خوردنی تیل، گندم اور دالیں تک درآمد ہوتی ہیں جو ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ماضی قریب میں کافی مہنگی ہوئیں۔ انھوں نے کہا بدھ کے روز جو کمی ہوئی اگر اس کا رجحان برقرار رہتا ہے تو اس کا فائدہ لازمی طور پر مقامی صارفین کو تیل کی قیمت میں کمی کی صورت میں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ اگر ڈالر کی قیمت میں ہونے والی دس روپے کی کمی کو ایک دن میں لیا جائے تو اس سے دس سے پندرہ روپے کمی کا فائدہ تیل کی ایک لیٹر قیمت کی صورت میں صارفین کو ملے گا تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ رجحان برقرار رہے اور جب اوسط نکالی جائے تو ڈالر کی قیمت میں کمی کی وجہ سے تیل مصنوعات کی درآمدی لاگت ڈالروں میں کم ہو۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62377912", "summary": "پاکستان بھر میں بجلی کے صارفین جولائی کے مہینے میں بجلی کے بلوں میں بہت زیادہ ہونے والے اضافے کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے مطابق بجلی کے بلوں میں ہونے والا اضافہ جولائی کے مہینے کے بل میں ہوا جبکہ اس مہینے انھوں نے بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کو بھی برداشت کیا۔ آخر ا سکی وجوہات کیا ہیں؟", "title": "جولائی میں بجلی کے بل جیبوں پر بھاری کیوں پڑے؟", "firstPublished": "2022-08-02T03:04:19.000Z", "id": "ded7e9ce-139f-48f1-9a0f-a989c7541e1c", "article": "کراچی میں جوس کارنر چلانے والے یاسر بھی بجلی کا بل زیادہ آنے پر خاصے پریشان ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا جولائی کا بل تو زیادہ آیا ہے تاہم اس کے ساتھ ان کے بل میں تین ہزار ریٹیلر ٹیکس بھی لگا ہوا ہے جس کی وجہ سے انھیں زیادہ اضافی بل ادا کرنا پڑا۔ پاکستان بھر میں بجلی کے صارفین جولائی کے مہینے میں بجلی کے بلوں میں ہونے والے اضافے کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے مطابق بجلی کے بلوں میں ہونے والا اضافہ جولائی کے مہینے کے بل میں ہوا جبکہ اس مہینے انھوں نے بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کو بھی برداشت کیا۔ پاکستان میں بجلی کے شعبے کے امور کے تجزیہ کار بل میں اضافے کی مختلف وجوہات پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں سب سے بنیادی فرق فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج نے ڈالا، جس کی وجہ سے جولائی کے بل بہت زیادہ آئے۔ انھوں نے کہا کہ بجلی پیدا کرنے کے لیے درآمدی فیول جیسے گیس، کوئلہ اور فرنس آئل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو اس اضافے کو فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج کی صورت میں صارفین سے وصول کیا گیا۔ توانائی کے شعبے کے ماہر فرحان محمود نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار مہنگی ہوئی اور اپریل اور مئی کے مہینوں کی فیول کاسٹ کو جولائی کے مہینے میں وصول کیا گیا جس کی وجہ سے بجلی کے بل میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ انھوں نے بتایا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے پیٹرول و ڈیزل پر دی جانے والی سبسڈی کے ساتھ بجلی پر بھی پانچ روپے فی یونٹ سبسڈی کا اعلان کیا تھا تاہم نئی حکومت آنے کے بعد اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کے ساتھ قرضہ پروگرام کی بحالی کی شرائط کے تحت بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کا بھی خاتمہ کیا گیا جس کی وجہ سے بیس ٹیرف میں اضافہ ہوا اور جولائی کے بلوں میں سبسڈی کے خاتمے کا بعد کا اثر نظر آیا۔ فرحان محمود نے بتایا کہ سابقہ حکومت نے بجلی کے بنیادی نرخ کو منجمد کر دیا تھا، جس کی وجہ سے اس وقت بجلی کے بلوں میں کچھ کمی دیکھی گئی تھی تاہم موجودہ حکومت نے جب سبسڈی کا خاتمہ کیا تو اس کا ایک واضح اثر بھی بجلی کے بل میں نظر آیا اور جولائی کے بل میں کم یونٹ کے استعمال کے باوجود زیادہ ادائیگی کرنا پڑی۔ پاکستان میں جولائی کے بلوں میں ہونے والے اضافے کے بعد آنے والے مہینوں میں بجلی کے بل میں مزید اضافے پر خلیق کیانی نے بتایا کہ جون کے مہینے کا فیول ایڈجسٹمنٹ ابھی وصول کرنا باقی ہے جو آنے والے مہینے میں ہو گا تاہم اس کے ساتھ اب بجلی کے بیس ٹیرف یعنی بنیادی نرخ میں بھی اضافہ اگلے چند مہینوں میں بلوں میں اضافی رقم کی صورت میں نکلے گا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62376446", "summary": "اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے اعلان کیا ہے کہ وہ افغان باشندے جو پاکستان اور ایران میں مقیم ہیں اور یکم اگست سے رضاکارانہ طور پر واپسی کے عمل کے ذریعے اپنے ملک افغانستان جانا چاہتے، تو ایسے خاندان کے ہر فرد کو 375 ڈالر دیے جائیں گے۔ اس اعلان کے بعد پاکستان کی معاشی حالت سے تنگ بہت سے افغان مہاجرین اب اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔", "title": "’پاکستان میں بجلی کا بل نہیں دے سکتا، اس لیے افغانستان واپس جا رہا ہوں‘", "firstPublished": "2022-08-01T09:21:36.000Z", "id": "ac3073fa-08c9-496c-ac17-c94cb9c049d9", "article": "حکیم خان کو بھی کچھ مقامی افغان دوستوں سے پتا چلا کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر نے اعلان کیا ہے کہ وہ افغان باشندے جو پاکستان اور ایران میں مقیم ہیں اور یکم اگست سے رضاکارانہ واپسی کے عمل کے ذریعے اپنے ملک افغانستان جانا چاہتے، تو ایسے خاندان کے ہر فرد کو 375 ڈالر دیے جائیں گے تاہم یہ سہولت صرف ان مہاجرین کو حاصل ہو گی جن کے پاس پی او آر (پروف آف رجسٹریشن) کارڈ ہو گا جبکہ افغان سٹیزن کارڈ کے حامل اور غیر قانونی طور پر یہاں رہنے والے مہاجرین کو یہ سہولت حاصل نہیں ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس سال اب تک 1300 افغان شہری واپس جا چکے ہیں۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ دونوں میزبان ممالک پاکستان اور ایران کے ساتھ ساتھ خود افغانستان میں مہنگائی بہت بڑھی ہے اسی لیے کوشش کی گئی ہے کہ واپس لوٹنے والے افراد کی زیادہ سے زیادہ مدد کی جائے۔ ہم کسی مہاجر کو زبردستی واپس بھیجنے کے کسی عمل کی حمایت نہیں کرتے۔‘ پاکستان میں افغان مہاجرین کے حقوق کے لیے ’افغان مہاجرینو متحدہ عالی شوری‘ نامی ایک شوری موجود ہے جو پاکستان کے تمام کیمپوں یا آبادیوں میں مقیم مہاجرین کی مشکلات کے لیے پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں اور عالمی اداروں سے رابطے کرتی ہے۔ اس تنظیم کی پاکستان میں 18 کمیٹیاں ہیں اور ہر شہر میں اس کے نمائندے موجود ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو مہاجرین پاکستان میں رہتے ہیں وہ خوش اور پرسکون ہیں اس لیے جب ان میں سے کوئی واپس افغانستان جاتا ہے تو ہم انھیں تاکید کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں پاکستان کے خلاف ہونے والی کسی بات کا خود جواب دیں اور سفیر کے طور پر اپنا کام کریں۔ ان تمام معاملات اور افغان مہاجرین کی پاکستان سے واپسی پر بات کرتے ہوئے کابل میں پاکستان کے سفیر منصور علی خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی پالیسی بہت واضح ہے ہم نے 40 سال سے زائد تک خندہ پیشانی سے افغانوں کو اپنے ہاں رکھا ان کے لیے تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع بنائے اور جب بھی افغانستان میں کسی بحران نے جنم لیا پاکستان میں اپنے لیے حالات بہتر دیکھ کر ہر افغان نے پاکستان جانے کو ترجیح دی۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد جو لوگ ویزا پر پاکستان گئے ان کے ویزے بھی اب ختم ہو چکے ہیں اور اب ان کی حیثیت غیر قانونی ہے اسی لیے ہم کوشش کر رہے ہیں کہ یو این ایچ سی آر کے ذریعے افغانستان، پاکستان اور ایران کی کوئی مشترکہ میٹنگ ہو سکے تاکہ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے مستقبل کے بارے میں کوئی نئی پالیسی بنائی جاسکے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62365715", "summary": "محمد باوا کے دوست نے جب بتایا کہ وہ ایک کروڑ روپے کی وہ لاٹری جیت چکے ہیں جس کے لیے وہ ایک سال سے کوشش کر رہے تھے تو تھوڑی دیر پہلے تک وہ اپنا گھر بیچنے والے تھے۔", "title": "قرض میں ڈوبا شخص جو گھر بکنے سے دو گھنٹے پہلے لاٹری جیت گیا", "firstPublished": "2022-07-31T04:24:43.000Z", "id": "4523163a-7933-4b7d-93c9-7b7fbcb78648", "article": "جب محمد باوا کے دوست نے ان کو ایک غیر متوقع خوش خبری سنائی تو یہ ان کے لیے ایک انتہائی خوشگوار موقع تھا۔ ان کے دوست نے بتایا تھا کہ وہ ایک کروڑ روپے کی وہ لاٹری جیت چکے ہیں جس کے لیے وہ ایک سال سے کوشش کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر پہلے تک وہ اپنا گھر بیچنے والے تھے۔ محمد باوا کے لیے یہ خبر اس سے بہتر موقع پر نہیں آ سکتی تھی۔ وہ قرض تلے ڈوبے ہوئے تھے جس کو واپس کرنے کی کوشش میں وہ بے پناہ مالی اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو چکے تھے۔ اسی کوشش میں ناکامی کے بعد انھوں نے خاندان سے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ قرض اتارنے کے لیے اپنا گھر بیچ دیں گے۔ لاٹری کی جیت کی خبر ملنے سے چند ہی گھنٹے قبل انھوں نے اپنا گھر بیچنے کا سودہ تقریبا طے کر لیا تھا۔ ’قرضہ دینے والے میری جیت کے بعد سے خاموش ہیں۔ جب پیسہ نہیں ہوتا تو لوگ شور مچاتے ہیں۔ لیکن جب ایک بار ان کو معلوم ہوا کہ آخرکار میرے پاس اتنا پیسہ آنے والا ہے کہ میں قرض لوٹا سکوں گا تو معاملات ٹھیک ہو گئے ہیں۔‘ ان کا خاندان کبھی ایک ایسا متوسط خاندان تھا جس کے ذمے کوئی قرض واجب الادا نہیں تھا۔ محمد باوا تعمیراتی شعبے میں کنٹریکٹر تھے جن کام کچھ برسوں سے متاثر ہوا تھا۔ کورونا کی وبا کے بعد ان کے حالات خراب ہونا شروع ہو گئے۔ ایک سال سے محمد باوا لاٹری پر بھی قسمت آزما رہے تھے بڑھتا ہوا قرضہ ان کے خاندان کے لیے درد سر بن چکا تھا۔ جب آمدن کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیا تو انھوں نے خاندان سے مل کر اپنا گھر بیچنے کا مشکل فیصلہ اٹھایا۔ وہ حال ہی میں اپنے گھر میں منتقل ہوئے تھے۔ باوا نے کرائے پر رہنے کے لیے ایک مکان تلاش کیا اور پھر اپنا گھر بیچنے کے لیے اشتہار دے دیا۔ ایک سال سے وہ لاٹری پر بھی قسمت آزما رہے تھے لیکن ان کو کوئی کامیابی نہیں ملی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک آخری کوشش تھی‘ اور وہ جانتے تھے کہ کوئی معجزہ ہو گا تو وہ لاٹری جیتیں گے کیوں کہ اس کا امکان تو لاکھوں میں ایک ہوتا ہے۔ باوا اپنے دوست گنیش سے لاٹری ٹکٹ خریدتے تھے جن کی ایک چھوٹی سی دکان ہے۔ ہر دن وہ گنیش سے ٹکٹ خریدتے اور پھر ان کو معلوم ہوتا کہ وہ نہیں جیتے۔ یہ سلسلہ ایک سال تک چلتا رہا۔ جس دن گنیش کو معلوم ہوا کہ ان کا دوست لاٹری جیت گیا ہے وہ بہت ہی خوش تھے اور انھوں نے فورا باوا کو فون کیا۔ اس وقت یہ لاٹری کافی بڑی رقم لگتی ہے لیکن قرض اتارنے کے بعد باوا کے پاس کچھ زیادہ باقی نہیں بچے گا۔ وہ چاہتے ہیں کہ باقی رقم سے گنیش کی گھر خریدنے میں مدد کریں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62365713", "summary": "پاکستان میں غریب، متوسط اور امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے مہنگائی کی لہر سے یکساں پریشان نظر آتے ہیں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 30 جون 2022 کو ختم ہونے والے مالی سال میں مہنگائی کی شرح 21 فیصد سے تجاوز کر گئی تھی جو ماہرین کے مطابق ابھی مزید بڑھے گی۔", "title": "پاکستان میں مہنگائی سے پریشان عوام: ’اب ہم ایک وقت کا کھانا ہی کھا سکتے ہیں‘", "firstPublished": "2022-07-31T02:39:27.000Z", "id": "ba5db925-7b7e-4eb0-b427-216da9f4804a", "article": "راحیل بٹ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ملازم پیشہ شخص ہیں جن کی اہلیہ بھی ملازمت کرتی ہیں۔ راحیل بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی سے بہت پریشان ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پہلے وہ گاڑی پر کام کے لیے جاتے تھے۔ پیٹرول کی قیمت میں بے تحاشا اضافے کے بعد اب وہ موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں اور دفتر کی جانب سے رعایت کی وجہ سے ہفتے میں ایک دو دن گھر سے کام کر لیتے ہیں۔ رضیہ، راحیل بٹ اور ندیم میمن پاکستان میں غریب، متوسط اور امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے تین افراد ہیں جو ملک میں مہنگائی کی لہر سے یکساں پریشان نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی میں کس قدر اضافہ ہوا ہے اس کی جانب خود حکومتی اعداد و شمار اشارہ کرتے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 30 جون 2022 کو ختم ہونے والے مالی سال میں مہنگائی کی شرح 21 فیصد سے تجاوز کر گئی تھی جو ماہرین کے مطابق ابھی مزید بڑھے گی۔ اس اضافے کی وجہ پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ڈالر کی قیمت میں اضافہ بھی شامل ہے جس کا منفی اثر آنے والے دنوں میں شدت سے محسوس ہو گا کیونکہ پاکستان توانائی اور غذائی ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے جو ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے مزید مہنگی ہوں گی۔ پاکستان تحریک انصاف کی اپریل کے شروع میں ختم ہونے والی حکومت سے پہلے مہنگائی کی شرح کے اعداد و شمار کو دیکھ جائے تو گزشتہ مالی سال کے پہلے نو مہینوں یعنی جولائی سے مارچ تک کے عرصے میں مہنگائی کی شرح 10.77 فیصد پر بند ہوئی تھی اور صرف مارچ کے مہینے میں یہ 13 فیصد پر بند ہوئی۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی سربراہی میں قائم کردہ مخلوط حکومت کے پہلے مہینے یعنی اپریل میں مہنگائی کی شرح 13.37 فیصد ریکارڈ کی گئی جو مئی کے مہینے میں 13.76 فیصد تک بڑھ گئی جب کہ جون کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 21.32 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس سلسلے میں بتایا کہ مالی سال کے اختتام پر مہنگائی کی شرح 21 فیصد سے زائد بن رہی ہے اور اگر پاکستان کی تاریخ میں دیکھا جائے تو ایسی بلند شرح 2008 اور 1974 میں ریکارڈ کی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر پاکستان تحریک انصاف کے ساڑھے تین سال اور موجودہ حکومت کے تقریباً چار مہینوں کو ملا کر چار سال میں مہنگائی کی شرح کو دیکھا جائے تو کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں 55 فیصد اضافہ ہوا جب کہ اس عرصے کے دوران پلمبرز، مستری، مزدور، الیکٹریشن، ٹیکنیشن، میکنک وغیرہ کی آمدن میں 24 سے 27 فیصد اضافہ ہوا جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کی آمدن میں اضافے سے دوگنی قیمتیں بڑھیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/magazine-62288868", "summary": "ماضی میں یہ تصور موجود تھا کہ جب آپ کسی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں تو آپ کی وفاداری کا تنخواہ اور ترقی کی شکل میں فائدہ ہو گا۔ لیکن 1980 کی دہائی میں یہ تصور ٹوٹنا شروع ہو گیا۔", "title": "جاب ہاپنگ: جلد نوکری تبدیل کرنا کب نقصان دہ ثابت ہوتا ہے؟", "firstPublished": "2022-07-31T01:31:49.000Z", "id": "445d045c-540b-48d4-a07e-1536021172b8", "article": "اس تیز رفتار تبدیلی کا ایک اور فائدہ بھی ہوا ہے۔ ان کی تنخواہ قلیل عرصے میں 30 فیصد بڑھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اگر میں نوکری نہیں بدلتی تو میں اس پوزیشن میں نہیں ہوتی۔‘ ماضی میں یہ تصور موجود تھا کہ جب آپ کسی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں تو آپ کی وفاداری کا تنخواہ اور ترقی کی شکل میں فائدہ ہو گا۔ لیکن 1980 کی دہائی میں یہ تصور ٹوٹنا شروع ہو گیا۔ تاہم لیک کہتے ہیں کہ کام کی جانب رویے میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیریئر کے معنی لوگوں کے لیے بدل رہے ہیں۔ روایتی ماڈل یہ تھا کہ آپ ایک کمپنی کے لیے کام کرتے تھے جو یہ طے کرتی تھی کہ آپ کی ترقی کیسے ہو گی۔ آج لوگ خود مختار ہیں اور اپنے کیریئر کی باگ دوڑ خود سنبھالنا چاہتے ہیں۔‘ لیکن اس رویے کی ایک وجہ نسل کے درمیان سوچ کا فرق بھی ہے۔ ایک ہی کمپنی میں دہائیاں بتا دینے والے لوگ، جو اعلی عہدوں پر پہنچ چکے ہیں، اکثر ان کمپنیوں کے فیصلے کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے زیادہ نوکریاں بدلنے والا خطرے کی گھنٹی ہوتا ہے لیکن بحرانی کیفیت میں اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ لیکن جب مارکیٹ میں جگہ نہیں ہو گی تو پھر کمپنی کے پاس یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ زیادہ جلد حرکت کرنے والے کو نہ رکھیں، ایسے میں اس طرح کے امیداروں کے لیے نئی نوکری تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک نوکری سے دوسری پر چھلانگ لگانے والوں میں ایک نفسیاتی مسئلہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ جب ایسے کسی فرد کو محسوس ہوتا ہے کہ مسائل بڑھ رہے ہیں تو ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے وہ نوکری بدلنے کو ترجیح دے گا جس سے طویل المدتی کیریئر خطرے کا شکار ہو سکتا ہے۔ لیک کہتے ہیں کہ ’اس کا نفسیاتی اثر ہوتا ہے کیوں کہ کچھ عرصے بعد ایسے افراد کو لگتا ہے کہ اب ان کو یہ نوکری پسند نہیں رہی تو وہ اگلی کی تلاش شروع کر دیتے ہیں اور یہ عمل ذہن کو تھکا دیتا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’کوئی ملازم یہ خود سے نہیں سوچ سکتا کہ کمپنی اس کا خیال رکھے گی۔ ترقی کے مواقع، کامیابی اور ٹریننگ جیسے عمل ملازمین کو کسی بھی کمپنی میں زیادہ عرصے تک رہنے میں مدد دیتے ہیں۔ لیکن آگے بڑھنے کے لیے اور بہتر کیرئر کے لیے ملازمین کو خود محنت کرنی پڑتی ہے اور جاب مارکیٹ میں حرکت میں رہنا پڑتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62334395", "summary": "سری لنکا میں سنگین معاشی بحران کے پیش نظر ایسے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جو کشتیوں کے ذریعے آسٹریلیا پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔", "title": "’مجھے ڈر تھا کہ سمندر میں دفن ہو جاؤں گا‘", "firstPublished": "2022-07-30T04:24:42.000Z", "id": "789f44b5-b083-4af8-a888-a1d12fa1258a", "article": "'چھوٹے بچوں کے ہمراہ ایسے خاندانوں کی تعداد بڑھی ہے جو کشتیوں پر سوار ہیں' سری لنکا سے غیر قانونی طور پر کشتی کے ذریعے آسٹریلیا پہنچنے والے شیوا نے بتایا کہ ’ہم میں سے ایک شخص بیمار ہوگیا تھا اور وہاں ادویات دستیاب نہیں تھیں۔ ہم میں سے کچھ لوگ اپنے ساتھ شراب لائے تھے۔ موت کے خوف سے بچنے کے لیے میں شراب کے نشے میں دھت تھا۔‘ سری لنکن بحریہ کے مطابق رواں سال ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو غیر قانونی طور پر بذریعہ کشتی آسٹریلیا پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں جوڈ کا کہنا ہے کہ کشتی پر نہر سوئز کے ذریعے اٹلی کے پانیوں تک پہنچنے میں 25 سے 30 دن لگتے ہیں۔ جبکہ آسٹریلیا پہنچنے میں 10 سے 15 دن لگتے ہیں۔ لیکن اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ جوڈ کے مطابق سمگلرز نے کئی برسوں سے اٹلی کے لیے انسانی سمگلنگ مکمل طور پر روک دی ہے کیونکہ اس پر زیادہ خرچ آتا ہے اور تارکین وطن کی آمد پر سختیاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ سال قبل تک لوگوں کو آسٹریلیا سمگل کرنا آسان تھا لیکن اب یہ مشکل کام بن گیا ہے۔‘ مگر پچھتاوے سے زیادہ جوڈ کا خیال ہے کہ وہ تو ان کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ ’اگر ہم 50 لوگ بھیجتے ہیں تو ہم اکثر قریبی گاؤں کے نوجوانوں کو جگہ دیتے ہیں جو اس سفر پر جانے کے پیسے نہیں دے سکتے۔‘ جوڈ کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کو ہمارے بارے میں دوسرے لوگوں سے پتا چلتا ہے۔ وہ ایسے لوگوں کے بارے میں سنتے ہیں جو بذریعہ کشتی آسٹریلیا گئے، ویزا ملا اور اب اچھے پیسے کما رہے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ لوگ صرف وہ چیز دیکھتے ہیں جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔‘ سری لنکن بحریہ کے مطابق رواں سال ایسے لوگوں کی تعداد بڑھی ہے جو بذیعہ کشتی سری لنکا جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیپٹن انڈیکا ڈی سلوا نے کہا کہ سمگلر اکثر سمگل ہونے والوں سے کہتے ہیں کہ خاندان کے ہمراہ جانے قانونی طور پر فائدہ مند ہے۔ ’کشتیوں پر خاندانوں اور چھوٹے بچوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سمگلر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ کچھ ملکوں میں انسانی حقوق کے قوانین ایسے ہیں کہ اس سے فائدہ ہوتا ہے۔‘ سری لنکا واپسی کے بعد سے شیوا اب شراب نہیں پیتے اور انھوں نے قرضوں کی ادائیگی کے بعد اپنا خود کا کاروبار بھی شروع کر لیا ہے۔ سری لنکن معیشت ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر کی تاریخی کمی کے بعد شدید بحران سے دوچار ہے۔ حکومت کے پاس کھانا، ادویات اور ایندھن خریدنے کے پیسے نہیں اور قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ معاشی بحران کے دوران شمالی سری لنکا سے پڑوسی ملک انڈیا جانے والوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62343800", "summary": "امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور اس کی معیشت پر مرتب ہونے والی منفی اثرات دنیا کی دوسری معیشتوں میں بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔", "title": "امریکہ میں کساد بازاری کا خدشہ: کیا اس کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا؟", "firstPublished": "2022-07-29T08:55:22.000Z", "id": "f8fd205a-1bd3-4e52-83dd-3d35174eec57", "article": "عالمی معیشت پر بے یقینی کے بادل چھا رہے ہیں کیونکہ امریکی معیشت مسلسل دوسری سہ ماہی میں سکڑی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اسے اقتصادی کساد بازاری تصور کیا جاتا ہے تاہم امریکہ اس کا حتمی اعلان کرنے کے لیے اضافی ڈیٹا پر انحصار کرے گا۔ چونکہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور اس کی کرنسی کو عالمی ریزرو کرنسی کی حیثیت حاصل ہے اس لیے اس کی معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات دنیا کی دوسری معیشتوں میں بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے خدشات موجود ہیں کہ کیا امریکہ کی معیشت میں کساد بازاری کے اثرات پاکستان پر بھی محسوس کیے جائیں گے؟ پاکستان میں اس وقت زرِ مبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر کی سطح پر ہیں اور مرکزی بینک کے پاس اس میں سے صرف تقریباً ساڑھے آٹھ ارب ڈالر ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17 ارب ڈالر کی بلند سطح پر ہے اور ڈالر کی قیمت میں روز اضافہ ہو رہا ہے۔ بدھ کو مرکزی بینک نے شرحِ سود میں غیر معمولی طور پر 0.75 فیصد کا اضافہ کر دیا جس سے اسے امید ہے کہ گھروں اور گاڑیوں کی خریداری میں کمی آئے گی۔ اس اقدام سے قیمتوں میں اضافہ روکنے میں مدد مل سکتی ہے مگر طلب میں کمی کا مطلب اقتصادی سرگرمی میں کمی بھی ہے۔ اُنھوں نے بی بی سی کی مُنڈو سروس کو بتایا کہ ’سب سے زیادہ دباؤ بیرونی جانب سے ہے۔ چین اور یورپ یوکرین میں جاری جنگ کے باعث توانائی کی بڑھتی قیمتوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ کئی دیگر ممالک میں سنگین مسائل ہیں۔ ان کے متاثر ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے اور اس کا نتیجہ ہم تک بھی پہنچ سکتا ہے۔‘ ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے تکنیکی گفتگو تو ہو سکتی ہے کہ کساد بازاری کیا ہے مگر موجودہ صورتحال کا حقیقی خطرہ یہ ہے کہ ایک معیشت میں کساد بازاری کا اثر دوسری معیشتوں پر بھی پڑتا ہے اور یوں پوری دنیا تک پھیل سکتا ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ پاکستان اپنی سب سے زیادہ ٹیکسٹائل مصنوعات یورپی یونین اور امریکہ کو برآمد کرتا ہے اور ان ممالک کی کمپنیوں نے عالمی سطح پر جاری کساد بازاری کے خدشات اور یوکرین جنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث خریداری میں کمی کی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اس صورتحال کو اپنی مصنوعات کی بہتر مارکیٹنگ اور خریداروں کو اچھی پیشکش کر کے سنبھال سکتا ہے مگر مقامی سطح پر توانائی کے مسائل کے باعث انڈسٹری مسائل سے دوچار ہیں۔ ماہرِ معیشت عمار حبیب خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں کساد بازاری کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے جو شرحِ سود میں اضافہ کیا گیا ہے اس سے ڈالر مضبوط ہو گا جبکہ پاکستان میں داخلی صورتحال کی وجہ سے روپیہ کمزور ہو رہا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62342067", "summary": "پاکستان میں اس وقت امریکی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی تیزی سے اپنی قدر کھو رہی ہے۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور بظاہر موجودہ حالات میں اس کے نیچے آنے کے امکان کم لگتے ہیں۔", "title": "ڈالر کی مسلسل ’اونچی اُڑان‘ کی وجوہات سیاسی ہیں یا معاشی؟", "firstPublished": "2022-07-29T03:17:38.000Z", "id": "68051857-b9ec-49fa-88e7-a9c7ad127eb3", "article": "پاکستان میں اس وقت امریکی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی تیزی سے اپنی قدر کھو رہی ہے۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور بظاہر موجودہ حالات میں اس کے نیچے آنے کے امکان کم لگتے ہیں۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اگست میں ایکسچینج ریٹ میں استحکام آنے کا امکان ظاہر کیا ہے تاہم کرنسی اور مالیاتی امور کے ماہرین کے مطابق یہ استحکام اسی وقت آ سکتا ہے جب پاکستان کو بیرونی ذرائع سے فنانسنگ شروع ہو جو اس وقت مکمل طور پر بند ہے۔ ماہرین پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی بحران پر بھی تشویش کا اظہار کر تے ہیں جو ان کے مطابق معاشی اشاریوں کے لیے منفی ثابت ہو رہا ہے اور اس کا اثر ڈالر اور روپے کی قدر پر بھی ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے مہنگائی کی ایک نئی لہر جنم لے گی کیونکہ پاکستان اپنی توانائی اور خوردنی ضروریات کے لیے درآمدی اشیا پر انحصار کرتا ہے جو ڈالر کے مہنگا ہونے سے مزید مہنگی ہو جائیں گی۔ پاکستان مسلم لیگ نون کی سربراہی میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت کے قیام کے وقت یعنی گیارہ اپریل کو ایک ڈالر کی قیمت 182 پر موجود تھی جس میں تسلسل سے اضافہ جاری رہا اور 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال پر ڈالر کی قیمت 205 روپے کی سطح تک پہنچ گئی۔ پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے ہیڈ آف ریسرچ سمیع اللہ طارق نے اس سلسلے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد سٹیٹ بینک آف پاکستان کا ایکسچینج ریٹ میں مداخلت کا کردار محدود ہو گیا ہے جس کی وجہ سے اب یہ ڈالر کو ایک خاص سطح پر برقرار رکھنے کے سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے کہا کہ اس وقت افغانستان کی جانب ڈالر کی سمگلنگ بھی بڑھ گئی ہے جو ڈالر کی قیمت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس وقت پشاور میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر 250 روپے تک فروخت ہو رہا ہے جبکہ افغانستان میں 255 روپے میں اس کی فروخت ہو رہی ہے۔ مستقبل میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں رجحان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ملک بوستان نے کہا کہ ڈالر فی الحال بے لگام ہو چکا ہے اور اس بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کہاں جا کر رُکے گا۔ ادھر سمیع اللہ طارق کے مطابق جون کے مہینے میں ہونے والی درآمدات کی جولائی میں ایل سی سیٹل ہونے کا اب دباؤ کم ہو رہا ہے جس کی وجہ سے امکان ہے کہ روپے پر دباؤ کم ہو گا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62329717", "summary": "کمپنیوں کے مطابق آٹو پارٹس کا بڑا حصہ بیرون ملک سے منگوایا جاتا ہے اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ان درآمدات میں مشکل پیش آ رہی ہے۔", "title": "’اپنا ایڈوانس واپس لے لیں‘: پاکستان میں آٹو کمپنیاں نئی گاڑیوں کی بُکنگ بند کیوں کر رہی ہیں؟", "firstPublished": "2022-07-28T07:28:17.000Z", "id": "ccdab1fc-2ed4-47cf-af11-599987f7384c", "article": "کاریں بنانے والی کمپنیوں نے گذشتہ ہفتے پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا تھا کہ ملک میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے صارفین سے 150 ارب روپے لیے گئے ہیں جو بکنگ کے لیے دی گئی ایڈوانس رقم کی مد میں ہیں۔ کمیٹی کی جانب سے گاڑیوں کی فراہمی میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کیا گیا اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے کمپنیوں کے مالی حسابات کے بارے میں تفصیلات بھی مانگی گئیں۔ کمپنیوں کی جانب سے گاڑیوں کی ڈیلیوری میں تاخیر کی جو وجوہات بتائی گئیں، ان میں ڈالر کی بڑھتی قیمت کے باعث گاڑیاں تیار کرنے کے لیے پارٹس کی درآمد میں مشکل سرِفہرست ہے۔ کمپنیوں کے مطابق پارٹس کا بڑا حصہ بیرون ملک سے منگوایا جاتا ہے اور عدم دستیابی کی وجہ سے پیداواری سرگرمی متاثر ہو رہی ہے اور گاڑیوں کی تیاری ممکن نہیں جس کی وجہ سے صارفین کو گاڑیوں کی ڈیلیوری میں تاخیر ہو گی۔ دوسری جانب ملک میں گاڑیوں کی قیمت میں بھی بے پناہ اضافہ دیکھا گیا جس کی وجہ کار کمپنیوں کی جانب سے ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافے کو قرار دیا جاتا ہے۔ گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنی ٹویوٹا انڈس موٹرز نے ہماری جانب سے پوچھے گئے سوالات پر اپنے تحریری مؤقف میں آگاہ کیا کہ سٹیٹ بینک اُنھیں اپنی ضرورت کا صرف 35 سے 40 فیصد ڈالر دینے کی اجازت دے رہا ہے جو پارٹس کی درآمد کے لیے چاہییں جس کی وجہ سے اُنھوں نے اسی تناسب سے اپنی پیداوار کم کر دی ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں ڈالر کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہے اور ایک ڈالر کی قیمت 236 روپے سے زیادہ ہے۔ اس وقت درآمد کے لیے کھولی جانے والی ایل سی 240 روپے فی ڈالر سے اوپر سیٹل ہو رہی ہے اور ملک میں ڈالر کی بیرون ذرائع سے کم آمد کی وجہ سے درآمدات کے لیے ایل سی کھولنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں جس کا شکار آٹو سیکٹر میں کام کرنے والی کمپنیوں کا بھی ہے کیونکہ بڑھتے ہوئے درآمدی بل کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر بہت زیادہ دباؤ موجود ہے۔ آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود علی خان نے بتایا کہ ملک میں ڈالر کی کمی اس وقت اصل میں سے بڑا مسئلہ ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ گاڑیوں کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال اور سپیئر پارٹس زیادہ تر بیرون ملک سے منگوائے جاتے ہیں تو ایسی صورت میں جب بینک ایل سی نہیں کھولیں گے تو لازمی طور پر پیداوار متاثر ہو گی۔ اُنھوں نے کہا کہ صورتحال اس وقت گھمبیر ہے جس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ملک میں ڈالر کی کمی ہے جس کے لیے پالیسی سازوں کو مل کر سوچنا ہو گا۔ اُنھوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے سی کے ڈی کٹ کی درآمد کے قواعد و ضوابط میں سختی کی وجہ سے بھی مسائل بڑھے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62318998", "summary": "گذشتہ چند برسوں کے دوران انڈیا اور پاکستان میں بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کی مثالیں دی جاتی رہی ہیں اور اسے ترقی پذیر ممالک میں ایک ماڈل کے طور پر دیکھا جا تا ہے تاہم اب بنگلہ دیش نے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے ساڑھے چار ارب امریکی ڈالر کے قرض کی درخواست کی ہے، مگر اس کی وجوہات کیا ہیں؟", "title": "بنگلہ دیش: پاکستان اور انڈیا کے لیے ’ماڈل معیشت‘ نے آئی ایم ایف سے مدد کیوں مانگی؟", "firstPublished": "2022-07-28T05:36:24.000Z", "id": "514e6cd7-701f-426c-90ac-5ad7138b6cef", "article": "بنگلہ دیش نے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے ساڑھے چار ارب امریکی ڈالر کے قرض کی درخواست کی ہے۔ ’چینل نیوز ایشیا‘ پر شائع خبر کے مطابق بنگلہ دیش کے وزیر خزانہ مصطفیٰ کمال نے بنگالی زبان کے اخبار ’پروتھم الو‘ کو بتایا کہ انھوں نے آئی ایم ایف سے قرض کے سلسلے میں بات چیت شروع کی ہے لیکن اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ملکی معیشت ’کسی بھی طرح سے مشکل کا شکار نہیں۔‘ واضح رہے کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران انڈیا اور پاکستان میں بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کی مثالیں دی جاتی رہی ہیں اور اسے ترقی پذیر ممالک میں ایک ماڈل کے طور پر دیکھا جا تا رہا ہے۔ کووڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران بھی جب دنیا بھر میں معاشی ترقی تنزلی کا شکار نظر آئی تو اس دوران بھی بنگلہ دیش نے اپنی ترقی کی مثبت شرح برقرار رکھی تھی لیکن اچانک اسے آئی ایم ایف کے قرض کی ضرورت پڑ جائے گی یہ کسی کے گمان میں نہیں تھا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ملک کی 416 ارب ڈالر کی معیشت برسوں سے دنیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک رہی ہے لیکن روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی وجہ سے توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے نے اس کے درآمدی بل اور کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو بڑھا دیا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کے حوالے سے ملک میں مختلف بحثیں جاری ہیں تاہم وزیر منصوبہ بندی ایم اے منان کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے بجٹ پر عمل درآمد کے لیے آئی ایم ایف سے قرض کی کچھ امداد مانگی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ ڈی-8 کے بینر تلے مصر، ایران، ملائیشیا، نائیجیریا، پاکستان، ترکی اور بنگلہ دیش کے مندوبین نے منگل کو متبادل مالیاتی تجارت پر بات کی۔ اس میں زرمبادلہ کے ذخائر کے دباؤ سے نجات کے لیے ایک دوسرے کی کرنسی میں لین دین پر بھی غور کیا گیا۔ رواں ماہ کے شروع میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو چار ارب ڈالر قرض دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ اس کے علاوہ تنزانیہ کو 1.05 ارب ڈالر، گھانا کو 1.5 ارب ڈالر قرض دینے پر اتفاق کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں بنگلہ دیشی اشیا کو دوسرے ممالک میں فروخت کرنے سے حاصل ہونے والی رقم اور بنگلہ دیش کی طرف سے دوسرے ممالک سے خریدی گئی اشیا پر خرچ ہونے والی رقم میں فرق بڑھ گیا ہے۔ اسے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کہتے ہیں۔ مالی سال 2021-22 کے پہلے 11 مہینوں میں بنگلہ دیش کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ چھ گنا سے زیادہ بڑھ کر 17.2 بلین ڈالر ہو گیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62282774", "summary": "موجودہ حکومت کے مطابق گھروں کی اس سکیم کو شروع کرتے ہوئے اس کا ملکی بجٹ پر طویل مدتی اثر نہیں دیکھا گیا تھا جبکہ پاکستان تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ موجودہ حکومت پی ٹی آئی دور کی اس سکیم کو اس لیے جاری نہیں رکھنا چاہتی کہ کہیں سابقہ حکومت کو کریڈٹ نہ مل جائے لیکن آخر اس سکیم کی معطلی کی وجوہات کیا ہیں؟", "title": "نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام: کیا قرضہ سکیم کی معطلی کی وجہ حکومت پر بڑھتا مالی بوجھ ہے؟", "firstPublished": "2022-07-25T03:40:50.000Z", "id": "7f9f9c32-b9ec-4080-820b-2322b658760b", "article": "پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کے تحت گھروں کی سکیم ’میرا پاکستان میرا گھر` کا اجرا کیا تھا جس کے تحت ایسے افراد کو بینکوں کی جانب سے گھر یا پلاٹ کے لیے قرض دیا جاتا تھا جن کے پاس اپنے نام پر گھر نہیں۔ وزیر مملکت خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کے مطابق اس سکیم کو جاری کرتے ہوئے اس کا ملکی بجٹ پر طویل مدتی اثر نہیں دیکھا گیا جبکہ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے معاشی امور کے ترجمان مزمل اسلم نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت پی ٹی آئی دور کی اس اچھی سکیم کو جاری نہیں رکھنا چاہتی کہ کہیں سابقہ حکومت کو کریڈٹ نہ مل جائے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ پاشا نے رابطہ کرنے پر بی بی سی کو بتایا کہ جب اس سکیم کا آغاز ہوا تھا تو اسے جس طرح ڈیزائن کیا گیا اس کے تحت قرضوں کی فراہمی کے لیے حکومت کی جانب سے سبسڈی دی جاتی تھی جو شرح سود میں فرق پر دی جاتی تھی۔ ڈاکٹر پاشا نے کہا بہت ساری سکیم ایسی رکھی جاتی ہیں جو جذباتی بنیادوں پر جاری کی جاتی ہیں جن کا طویل مدتی اثر نہیں دیکھا جاتا اور نہ ہی ان کی فیصلہ سازی کسی ٹھوس بنیاد پر ہوتی ہے کہ یہ سکیم کیا ہے اور اس کے لیے کتنے عرصے سبسڈی دی جائے گی اور اس کا طویل مدتی میں ملک کی مالی حالات پر کیا اثر ہوگا۔ مزمل اسلم نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے اس سکیم کی معطلی کی سوائے ایک کہ اور کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی کہ اس سے کہیں تحریک انصاف کو کریڈٹ نہ مل جائے۔ انھوں نے کہا کہ اس کے تحت دی جانے والی سبسڈی کا کوئی اتنا بڑا مالیاتی اثر نہیں تھا بلکہ یہ سکیم دو کام کر رہی تھی: ’ایک تو یہ لوگوں کو سستے مکان فراہم کر رہی تھی اور دوسرا اس کی وجہ سے تعمیراتی شعبے میں سرگرمیاں تیز ہو رہی تھیں جو ملک کی معیشت کے لیے بہتر تھا۔‘ شہاب نے بتایا کہ فی الحال تو سکیم رک گئی ہے اور ہو سکتا ہے کہ حکومت کی جانب سے اسے کچھ عرصے بعد نئی شرائط کے تحت جاری کر دیا جائے جس میں شرح سود میں تبدیلی ہو سکتی ہے کیونکہ جب سکیم جاری ہوئی تھی تو اس وقت شرح سود کم تھا اور اب یہ بہت اوپر چلا گیا ہے۔ یوسف سعید نے بتایا کہ جب یہ پروگرام شروع ہوا تھا تو اس وقت شرح سود سات سے آٹھ فیصد کے درمیان تھی اور حکومت کو رعایتی شرح سود اور مارکیٹ میں اصل شرح سود کے فرق پر بہت کم پیسے ادا کرنے پڑ رہے تھے تاہم اب شرح سود پندرہ فیصد تک پہنچ گئی ہے اور یہ فرق بھی بہت بڑھ گیا ہے جو شاید اب مالی طور پر حکومت کے لیے ممکن نہیں رہا کہ وہ زیادہ فرق پر سبسڈی دے سکے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62255689", "summary": "ماہر معیشت عاطف میاں نے ٹوئٹر پر پاکستان کے حالیہ معاشی بحران پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے معیشت کو سیاسی مقاصد کے لیے قربان کیے جانے کی بات کی اور پاکستانی معیشت اور سیاست کے نئے رخ کے تعین کے لیے کچھ تجاویز بھی پیش کیں۔", "title": "عاطف میاں کی معیشت میں ’بارودی سرنگیں‘ بچھانے پر سیاستدانوں پر تنقید", "firstPublished": "2022-07-21T14:43:12.000Z", "id": "c4eb70e3-9348-48b8-af17-d18fd2dc63d6", "article": "معروف ماہر معیشت عاطف میاں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں پاکستان کے حالیہ معاشی بحران پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے معیشت کو سیاسی مقاصد کے لیے قربان کیے جانے کی بات کی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایک حکومت کی جانب سے آنے والی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھانے، معیشت کے لیے ایک وسیع البنیاد مکالمے اور سیاست میں مذہب کارڈ کے استعمال کے نکات اٹھائے ہیں اور اس سلسلے میں کچھ تجاویز بھی پیش کی ہیں۔ عاطف میاں نے بحران میں پھنسی معیشت کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ خرابی بہت گہری ہے اور اس کی جڑیں ماضی میں بہت پیچھے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کے مطابق روس کے یوکرین پر حملے کے بعد بین الاقوامی مارکیٹ میں جب تیل کی قیمتیں بڑھیں تو پاکستان نے مقامی قیمتوں کو کم کر دیا۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے اس سال مارچ کی پہلی تاریخ کو چار مہینوں کے لیے پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں کو منجمد کر دیا تھا اور بین الاقوامی اور مقامی قیمت میں فرق کو پورا کرنے کےلیے سبسڈی دینا شروع کی جو مئی کے اختتام تک دو سو ارب روپے سے زائد ہو گئی تھی۔ عاطف میاں تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے نواز لیگ حکومت کے لیے بچھائی جانے والی بارودی سرنگ اور موجودہ حکومت کی جانب سے تیل قیمتیں بڑھانے کی وجہ سے عوامی غصے کا سامنا کرنے پر نواز لیگ حکومت کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں تاہم انھوں نے کہا نواز لیگ نے بھی یہی کچھ اس وقت کیا جب وہ اس سے پہلے اقتدار میں تھے اور ملک کے ایکسچنج ریٹ یعنی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت کو ایک خاص سطح تک منجمد کیے رکھا۔ عاطف میاں نے بڑے سیاسی سمجھوتے کے دوسرے حصے پر بات کرتے ہوئے کہا پاکستان کی معیشت پر اشرافیہ کا قبضہ ہے جو زمینوں اور چینی کے شعبوں جیسے غیر پیداواری شعبوں میں چھائے ہوئے ہیں اور معیشت کی اس سے جان چھڑانی پڑے گی۔ انھوں نے کہا کہ معیشت میں میں پیداواری شعبوں پر ٹیکس اور مراعات کم ہونا چاہیئں اور غیر پیداواری شعبے پر زیادہ اور معیشت کو خواتین کے لیے کھولنا چاہیے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62239048", "summary": "سری لنکا میں معاشی اور سیاسی بحران کے بعد وہاں کے عوام کا انڈیا کے بارے میں نظریہ کس طرح بدل رہا ہے۔", "title": "کیا انڈیا بحران کے شکار سری لنکا میں چین پر سبقت حاصل کر رہا ہے؟", "firstPublished": "2022-07-20T15:11:08.000Z", "id": "d326c0c5-d570-4a83-8a2a-88c48e4e9b36", "article": "اگرچہ اس طرح کے انڈیا مخالف جذبات ابھی بھی موجود ہیں، شاید یہ ضرور بدل رہا ہے کہ اب سری لنکن باشندے سیاسی اور معاشی بحران میں انڈیا کو کس طرح دیکھنے لگے ہیں۔ سری لنکا اس وقت ایک گہرے اور بے مثال معاشی بحران میں پھنسا ہوا ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوئے اور اس کا صدر ملک چھوڑنے اور اس کے بعد اپنے عہدے سے استعفی دینے پر مجبور ہوا۔ کئی سالوں سے سری لنکا قرضہ لے رہا ہے اور اب وہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ ضروری اشیا جیسے خوراک، تیل اور ادویات لینے کے لیے بھی اسے مشکلات کا سامنا ہے۔ سری لنکا کے کچھ سیاسی گروہ اپنے بڑے اور طاقتور پڑوسی ملک انڈیا کی موجودگی کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں۔ میں نے سری لنکا میں اکثریتی سنہالی قوم پرستوں اور بائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے گزشتہ برسوں میں کئی انڈیا مخالف مظاہرے دیکھے ہیں۔ لیکن جب سری لنکا نے چند ماہ قبل اچانک خود کو ایک گہرے معاشی بحران میں پایا تو اس نے انڈیا کا رخ کیا اور دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے فوراً اس کی مالی مدد بھی کی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سری لنکا کی شدید مالی ضرورت نے، ایک طرح سے، دہلی کو 22 ملین آبادی والے جزیرے پر اپنا اثر و رسوخ دوبارہ حاصل کرنے میں مدد کی ہے۔ اس سے پہلے پچھلے 15 سالوں میں چین بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے قرضوں اور دیگر قسم کی مالی امداد سے اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ لیکن موجودہ مسائل سے نمٹنے کے لیے اضافی قرضوں کے باوجود سری لنکا میں ایندھن کی شدید قلت ہے اور خوراک کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ تاہم بیجنگ نے ابھی تک کسی نئے قرضے کا وعدہ نہیں کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کی اربوں ڈالر کی مالی امداد سری لنکا کے عوام کے تاثرات میں تبدیلی کا باعث بنی ہے۔ امرسوریا کہتی ہیں کہ انڈیا کی طرح سری لنکا کو بھی ایسے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے جو اس کے بہترین مفاد میں ہوں، اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا ملک کو اپنے اقتصادی اور سٹریٹجک مقامات پر کنٹرول چھوڑنا پڑے گا۔ 1980 کی دہائی میں سری لنکا کے بہت سے تمل باغی گروپوں کے انڈیا میں پناہ لینے کے بعد دو طرفہ تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا تھا۔ کولمبو نے دہلی پر عسکریت پسندوں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کرنے کا الزام لگایا تھا، جو سری لنکا میں تملوں کے لیے علیحدہ وطن کے لیے لڑ رہے تھے۔ مئی 2009 میں باغیوں کی شکست کے ساتھ خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا تھا اور انڈیا جنگ کے دوران سری لنکا کی حکومت کے ساتھ کھڑا رہا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62211234", "summary": "شرح سود میں مسلسل اضافے کی وجہ سے ترقی پزیر ممالک کے لیے بیرونی قرضوں کی ادائیگی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے اور ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔", "title": "سری لنکا کا معاشی بحران خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی", "firstPublished": "2022-07-20T12:39:11.000Z", "id": "655ac868-04f2-48a2-9902-6c02177e1368", "article": "ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی ماہ سے ترقی پزیر ممالک سے سرمایہ مسلسل بیرون ملک جا رہا ہے جس کی وجہ سے ان ممالک کے اس خواب کو دھچکہ لگا کہ وہ بھی ترقی یافتہ معیشتوں کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ مسائل اب سری لنکا تک محدود نہیں رہے بلکہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی اب افراط زر اور شرح سود میں اضافہ، کرنسی کی قدر میں کمی، بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں اور زرمبادلہ کی شدید کمی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خطے کے یہ ترقی پزیر ممالک ایک عرصے سے بیرونی قرضوں کے لیے زیادہ انحصار چین پر کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے اپنے اندرونی معاشی معاملات پر ان ممالک کی گرفت کمزور پڑتی رہی ہے۔ چین ان ممالک کو قرض دیتے وقت کیا شرائط طے کرتا ہے، اس حوالے سے صورتحال خاصی غیر واضح ہے اور یہ بھی واضح نہیں کہ ان قرضوں کی بروقت واپسی نہ ہونے کی صورت میں انھیں کیسے ریسٹرکچر کیا جاتا رہا ہے۔ لاؤس کی کرنسی ( کِپ) کی قدر مسلسل کم ہوتی رہی ہے اور اس سال ڈالر کے مقابلے میں اس کی قیمت ایک تہائی سے زیادہ گر چکی ہے۔ امریکہ میں شرح سود میں اضافے سے ڈالر مضبوط ہو گیا ہے جس سے ترقی پزیر ممالک کی کرنسیاں مزید کمزور پڑ گئی ہیں اور ان ممالک پر قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے اور درآمدات مہنگی ہو گئی ہیں۔ لاؤس، جو کہ پہلے سے ہی قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا اب اسے قرضے واپس کرنے اور بیرون ملک سے ایندھن خریدنے میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال دسمبر تک لاؤس کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر محض ایک اعشیارہ تین ارب ڈالر رہ گئے تھے۔ سنہ 2025 تک لاؤس کو تقریباً اتنی ہی رقم بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی مدد میں درکار ہوگی، اور یہ رقم مجموی ٹیکس کے نصف کے برابر ہے۔ وہ ممالک جن کی معیشت کا بڑا انحصار سیاحت پر ہوتا ہے وہاں قرضوں کے خلاف عوامی مظاہروں کا رجحان زیادہ ہوتا ہے تاہم عالمی بینک کا کہنا ہے کہ مالدیپ کے جزیرے میں پیٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے پر معمول سے زیادہ بے چینی دیکھنے میں آتی ہے۔ ایس این پی گلوبل سے منسلک ماہر معاشیات، کِم اینگ ٹین کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ممالک جنھیں کرنٹ اکاؤٹ میں خسارے کا سامنا رہتا ہے، وہاں اگر حکومتیں سبسڈی میں اضافہ کرنا چاہیں تو انھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انھیں قرضوں کے لیے لامحالہ آئی ایم ایف اور دوسرے ممالک کا رخ کرنا پڑتا ہے تاہم اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ’بنگلہ دیش کو حکومتی اخراجات کی ترجیحات میں تبدیلی کرنا پڑی اور صارفین پر مختلف پابندیاں لگانا پڑیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62231236", "summary": "وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبد القدوس بزنجو نے کہا ہے کہ ریکوڈک منصوبے پر کام کا باقاعدہ آغاز 14 اگست سے ہوگا اور یہ منصوبہ بلوچستان سمیت ملک بھر کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہوگا۔", "title": "ریکوڈک منصوبے کا آغاز 14 اگست سے: ’بلوچستان کو فوائد کے لیے انتظار نہیں کرنا پڑے گا‘", "firstPublished": "2022-07-19T21:03:46.000Z", "id": "732b20a3-7e51-4fb5-9c70-191770ac3c85", "article": "وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبد القدوس بزنجو نے کہا ہے کہ ریکوڈک منصوبے پر کام کا باقاعدہ آغاز 14 اگست سے ہوگا اور یہ منصوبہ بلوچستان سمیت ملک بھر کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہوگا کیونکہ اس کے ذریعے اس خطے کی تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری آرہی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے اس پریس کانفرنس میں جو نئی باتیں بتائیں ان میں سے ایک منصوبے پر کام کے آغاز کی تاریخ کے حوالے سے تھی۔ انھوں نے مارک برسٹو کو خوش آمدید کہتے ہوئے بتایا کہ آج ہمارے لیے ایک تاریخی دن ہے کیونکہ ایک ایسے منصوبے پر کام ہورہا ہے جس کا ہمارا تقدیر بدلنے میں ایک اہم کردار ہوگا۔ ان کا کہنا تھا ’بیرک گولڈ کی آمد بلوچستان سمیت ملک بھر میں سرمایہ کاری کا گیٹ وے ثابت ہوگا۔ بلوچستان میں ایک غلط فہمی تھی کی ماحول خراب ہے اور یہاں کے لوگ کام نہیں کرنا چاہتے ہیں لیکن بیرک گولڈ کے آنے سے یہ تاثر غلط ثابت ہوگا'۔ مارک برسٹو کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ سنہ2028 سے اپنی پیداوار شروع کر دے گا جس سے سالانہ چار ہزار ٹن تانبا سونا اور دیگر دھاتیں نکلنے کی امید ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس منصوبے سے مقامی افراد کو روز گار ملے گا جس میں نہ صرف غربت میں کمی واقع ہو گی بلکہ کمپنی کی طرف سے اس علاقے میں فلاح و بہبود کے کام بھی کرے گی تاہم اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو نے فلاح و بہبود کے کاموں پر صرف کی جانے والی رقم کا حجم نہیں بتایا۔ بلوچستان میں بعض قوم پرست جماعتوں کو ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے نئے معاہدے پر تحفظات ہیں اور ان کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اس کے معاہدے کو منظر عام پر لایا جائے ۔ معاہدے کے نقول حاصل کرنے کے لیے ایک شہری نے بلوچستان ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے جس میں یہ استدعا کی گئی ہے کہ بلوچستان حکومت کو یہ ہدایت کی جائے کہ وہ انہیں معاہدے کی نقل فراہم کرے اور اس معاہدے کو منظر عام پر لایا جایا جائے۔ اس شہری کے وکیل شاہزیب ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ درخواست دہندہ نے معاہدے کے نقل کے لیے وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ سے رجوع کیا تھا لیکن انہیں یہ کہہ کرمعاہدے کا نقل دینے سے انکار کیا تھا کہ یہ معاہدہ خفیہ ہے اس لیے اسے منظر عام پر نہں لایا جاسکتا ہے۔ ایک سوال پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’اس میں کوئی چیز خفیہ نہیں ہے‘ اور اسے نہ صرف اسمبلی کے اراکین کے سامنے رکھا گیا بلکہ وہ اس کے حوالے سے یہاں کی سیاسی قیادت کے پاس بھی گئے اور انہیں اس سے آگاہ کیا۔ اس سوال پروزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے سکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62217980", "summary": "فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ منگل کے روز ڈالر کی قیمت میں تقریباً سات روپے ہونے والا اضافہ ملکی تاریخ میں کسی ایک دن میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔", "title": "ڈالر کی قدر میں ایک دن میں سات روپے کا ریکارڈ اضافہ: وجوہات کیا ہیں؟", "firstPublished": "2022-07-19T11:10:41.000Z", "id": "3482e68a-6210-4ee1-b522-a2c763eaff1d", "article": "پاکستان میں منگل کے روز روپے کے مقابلے میں ایک ڈالر کی قیمت میں تقریباً سات روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں گذشتہ کئی مہینوں سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور ایک ڈالر کی قیمت انٹرا ڈے ٹریڈ میں 222 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جو ملکی تاریخ میں ڈالر کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔ گذشتہ روز ایک ڈالر کی قیمت 215.19 روپے کی سطح پر بند ہوئی تھی جو گذشتہ روز ملکی تاریخ کی سب سے بلند سطح تھی تاہم منگل کے روز کاروبار کے آغاز کے ساتھ ہی ڈالر کی قیمت میں اضافہ دوبارہ دیکھا گیا جو بڑھتے بڑھتے 222 روپے کی سطح تک پہنچ چکا ہے۔ سوموار (18 جولائی) کو کاروبار کے اختتام پر پاکستان میں ایک ڈالر کی قیمت 215.19 روپے پر بند ہوئی تھی جو منگل کے روز کاروبار کے دوران 222 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، جو ایک دن میں تقریباً سات روپے کا اضافہ ہے۔ فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ منگل کے روز ڈالر کی قیمت میں تقریباً سات روپے ہونے والا اضافہ ملکی تاریخ میں کسی ایک دن میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سے سے پہلے ایک دن میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ گزشتہ روز ریکارڈ کیا گیا تھا جو لگ بھگ چار روپے سے زیادہ تھا۔ ملک بوستان نے اس سلسلے میں کہا کہ اس وقت ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافے کی سب سے بڑی وجہ ملک میں دو دن میں پیدا ہونے والی غیر یقینی سیاسی صورتحال ہے جو پنجاب میں ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد ابھری ہے۔ انھوں نے کہا ان نتائج کے بعد قیاس آرائیوں نے جنم لیا جن میں موجودہ سیٹ اپ کے مزید چلنے کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ملک بوستان نے کہا کہ اس صورتحال کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام کے بحال ہونے کے بارے میں بھی سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے ہیں کہ اگر یہ سیٹ اپ نہیں چلتا تو پروگرام کی بحالی ہو پائے گی یا نہیں۔ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل ظفر پراچہ کے خیال میں ڈالر کی قیمت میں ہونے والا بے تحاشا اضافہ شاید آئی ایم ایف کی کسی شرط کے تحت کیا جا رہا ہے جس میں پاکستانی کرنسی کو ڈی ویلیو کرنا ہے کیونکہ سیاسی صورتحال اور ڈالر کی رسد و طلب کا اتنا بڑا اثر نہیں آنا چاہیے تھا کہ دو دونوں میں ڈالر بارہ روپے تک بڑھ جائے۔ ملک بوستان نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے شرح سود میں اضافے کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے اور یہ دنیا بھر کی کرنسیوں کو اس کے خلاف کمزور کر رہا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-62195632", "summary": "سری لنکا اس وقت ایک معاشی اور سیاسی بحران سے گزر رہا ہے اور ایسے میں اس ملک کو ایسے کون سے سخت اقدامات ہاتھ اٹھانے ہوں گے جو اسے اس معاشی بحران سے نکال سکتے ہیں۔", "title": "سری لنکا کو اب کون سے مشکل اقدامات کرنے ہوں گے؟", "firstPublished": "2022-07-17T12:00:05.000Z", "id": "1f5bc5e9-1600-4899-ab8d-7089ec137eb5", "article": "سری لنکا کے لوگ انھیں اور ان کے بڑے بھائی سابق صدر مہندا پکشے کو بنیادی طور پر اپنے ملک کی معاشی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ تمام توقعات کے برعکس مظاہرین کے مؤقف کی فتح ہوئی ہے۔ گذشتہ ہفتے سری لنکا کے سابق صدر ’گوتا‘ مستعفی ہونے کے بعد ملک سے فرار ہو گئے۔ سری لنکا میں خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔ ملک کے مرکزی بینک نے بی بی سی کو بتایا کو ان کے پاس اتنا زرمبادلہ نہیں ہے کہ وہ اس ماہ کے آخر میں تیل خرید سکیں۔ ملک کو فوری طور پر ایک ایسے حکمران کی ضرورت ہے جو اپنے قرضوں کے انتہائی ضروری بیل آؤٹ کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بات چیت کرے۔ کیا مظاہرین کوئی سمجھوتہ کر سکتے ہیں، اور معاشی بحران سے نکلنے کے لیے وکرما سنگھے کو فی الحال قبول کر سکتے ہیں؟ بی بی سی نے جتنے بھی مظاہرین سے گذشتہ ہفتے بات کی ان میں سے ہر ایک نے اس سوال کا نفی میں جواب دیا ہے۔ سنیچر کو احتجاج کی منتظم نزلی حمیم نے اراکین پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ لوگوں کی بات سنیں اور وکرماسنگھے کو صدارت کی دوڑ سے باہر رکھیں۔ انھوں نے خبردار کیا کہ ’اگر آپ رانیل وکرماسنگھے کو اگلے انتخابات میں اس ملک کے صدر کے طور پر حمایت کرنے جارہے ہیں تو پھر ایسے میں عوام آپ کی حمایت نہیں کریں گے اور آپ کو یہ یاد رکھنا چاہیے۔‘ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مظاہرے صرف ایک ایسے وقت میں رکاوٹ اور توجہ ہٹائیں گے جب ملک کو گڑھے سے نکالنے کے لیے اتحاد کی ضرورت ہے۔ آراگالیا تحریک کی طاقت اس کی بے قائدانہ احتجاج اور اس میں شامل عام شہری رہے ہیں۔ یہ خود بخود بڑے پیمانے پر شروع ہونے والی بغاوتوں کو بہتر بنا دیتی ہے لیکن ایسی تحریک کے خاتمے کی پیشن گوئی یا اسے قابو کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کچھ شہریوں کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے سری لنکا کے اداروں کے تقدس کو پامال کیا ہے اور ان سرکاری عمارتوں میں زبردستی داخل ہوئے جو ریاستی طاقت کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں سری لنکا کے سامنے آنے والے مشکل حالات کون سے ہیں، وہ پہلے ہی بہت کچھ حاصل کر چکے ہیں۔ یہ تاریخ میں ایک ایسے لمحے کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب عام لوگوں کو اپنے ملک کو آگے لے جانے سے متعلق ایک بڑا مطالبہ کرنے کی ہمت ہوئی تھی۔ سری لنکا کے سیاستدان اب جانتے ہیں کہ اگر وہ کارکردگی نہیں دکھا سکے تو پھر آگے چل کر انھیں کس قسم کے حالات سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62188845", "summary": "سنہ 1987 میں حکومت ہند نے سری لنکا میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا جسے 1990 میں واپس بلا لیا گیا تھا۔ بہت سے ماہرین حکومت ہند کے اس قدم کو ایک تاریخی غلطی سمجھتے ہیں، جس سے انڈیا نے بہت سے سبق سیکھے ہیں۔", "title": "انڈیا سری لنکا میں 1987 والی ’غلطی‘ کیوں نہیں دہرائے گا؟", "firstPublished": "2022-07-16T11:55:03.000Z", "id": "aa03a862-01e7-4308-8eb9-78b3c40cba36", "article": "ان کا خیال ہے کہ اب انڈیا کے لیے اپنے ہنگامی منصوبے کو نافذ کرتے ہوئے امریکہ کی مدد سے سری لنکا میں داخل ہونے کا صحیح وقت ہے۔ انڈیا کو امریکہ اور 'کواڈ' (امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور انڈیا 'کواڈ' میں شامل ہیں جسے ایک غیر رسمی اتحاد کہا جاتا ہے) کی ​​مدد سے وہاں امن بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انڈیا اس سے پہلے بھی سری لنکا میں ایسا کر چکا ہے۔ جمعرات کو سبرامنیم سوامی نے ایک نجی انگریزی ٹی وی چینل نیوز ایکس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’راجا پاکشے اور ان کے بھائی الیکشن جیت کر اقتدار میں آئے، یہ منتخب حکومت تھی اور آج کچھ لوگ انھیں اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں۔۔۔۔ انھیں استعفیٰ دینے پر مجبور کرنا بہت خطرناک صورتحال ہے۔ سری لنکا انڈیا کی سرحد پر ایک جزیرہ نما ملک ہے۔‘ سنہالا کو ملک کی واحد قومی زبان قرار دینے کے لیے 1956 میں ایک متنازعہ قانون منظور کیا گیا جس نے سرکاری شعبے میں تامل کارکنوں کو ناراض کیا کیونکہ اس سے ان کی ملازمتیں متاثر ہوئی تھیں۔ رفتہ رفتہ ان وجوہات کی وجہ سے تاملوں نے الگ ملک کا مطالبہ اٹھانا شروع کر دیا۔ سری لنکا میں بہت سے لوگ اس معاہدے سے ناراض تھے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ انڈیا ایک بڑا ملک ہونے کے ناطے چھوٹے پڑوسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ بہت سے ماہرین آج بھی حکومت ہند کے اس اقدام کو تاریخی غلطی قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تاریخی طور پر بھی گوریلا فوج کے خلاف لڑائی کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ سری لنکا کی حکومت جنگ جیت گئی کیونکہ اس نے شہریوں پر بمباری بھی کی۔ انڈین حکومت ایسا نہیں کر سکی۔ اس لیے ہم کامیاب نہیں ہوئے لیکن بڑی تعداد میں نوجوان انڈین فوجیوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ راجیو گاندھی کو بہت غلط مشورہ دیا گیا۔ ’مجھے لگتا ہے کہ ہم نے سبق سیکھا ہے۔ ہم سری لنکا میں داخل ہونے کے بجائے اس وقت نہ صرف بہت مدد کر رہے ہیں بلکہ وہاں کے لوگوں کی سڑک پر آنے سے پہلے ہی مدد کر رہے ہیں۔ ایک ماہ قبل، ہم نے 3.5 بلین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ اس بار ہمارے قدم درست سمت میں ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ فوج کو کسی بھی طرح مدد کرنی چاہیے۔‘ اشوک کانتھ کہتے ہیں کہ 1987 میں حالات مختلف تھے۔ اس بار سیاق و سباق بالکل بدل گیا ہے۔ اس وقت جو سیاسی بحران چل رہا ہے وہ سری لنکا کا اندرونی معاملہ ہے۔ جہاں تک معاشی بحران کا تعلق ہے، تو انھیں عالمی برادری کی مدد کی ضرورت ہے۔ سب سے زیادہ مدد انڈیا سے آئی ہے جو جاری رہے گی لیکن ہم معاشی بحران اور سیاسی بحران میں فرق کو بھی سمجھ رہے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62175265", "summary": "ماہرین کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے قیمتوں میں کمی، عالمی مارکیٹ کے رجحان کے تقریباً مطابق ہے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر عالمی سطح پر قیمتوں میں کمی کی وجوہات کیا ہیں؟", "title": "کیا پیٹرولیم مصنوعات کی عالمی قیمتوں میں کمی پر مکمل ریلیف عوام کو منتقل کیا گیا؟", "firstPublished": "2022-07-15T08:39:27.000Z", "id": "657bced1-cfe0-454e-ac7c-870c65a264a0", "article": "حکومت پاکستان کی جانب سے ڈیزل و پیٹرول کی قیمتوں میں گزشتہ رات کمی کا اعلان کیا گیا، جس کے تحت ڈیزل کی قیمت میں 40 روپے فی لیٹر اور پیٹرول کی قیمت میں 18 روپے فی لیٹر کی کمی کی گئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے قیمتوں میں کمی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گری ہیں جس کی وجہ سے ملک میں قیمتوں کو کم کرنے کا موقع ملا۔ حکومت نے اب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی وجہ عالمی مارکیٹ میں گرتی قیمتوں کو قرار دیا ہے جبکہ تیل اور معیشت کے شعبے کے ماہرین نے بھی عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والی کمی کو ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے قیمتوں میں کمی، عالمی مارکیٹ کے رجحان کے تقریباً مطابق ہے۔ پاکستان ریفائنری کے چیف ایگزیکٹو زاہد میر نے اس سلسلے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں ہر 15 روز بعد تیل کی قیمتوں کا تعین ہوتا ہے اور ان 15 دن میں عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کی اوسط پر پاکستان میں تیل کی مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر قیمتوں میں کمی کی وجوہات کیا ہیں؟ عالمی مارکیٹ میں خام تیل اور تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والی کمی کی وجوہات کے بارے میں بات کرتے ہوئے عارف حبیب لمٹیڈ میں معاشی امور کی تجزیہ کار ثنا توفیق نے بتایا کہ جس طرح عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں اضافہ ہوا اس کے بارے میں یہی پیشگوئی تھی کہ یہ کم ہو گی کیونکہ ان قیمتوں میں ہونے والے بے تحاشا اضافے کی وجہ سے بہت سے ملکوں کی قوت خرید سے تیل کی مصنوعات کی خریداری باہر ہو رہی تھی، جو طلب کو کم کر رہی تھی۔ پاکستان میں حکومت کی جانب سے ڈیزل و پیٹرول کی قیمتوں میں ہونے والی کمی کیا عالمی مارکیٹ میں ان کی کم قیمت کے مطابق ہے؟ اس بارے میں زاہد میر کہتے ہیں کہ پاکستان میں قیمتوں میں ہونے والی کمی عالمی مارکیٹ میں کمی کے رجحان کے مطابق ہے اور حکومت نے اس سلسلے میں پورا ریلیف دیا کیونکہ حکومت کی جانب سے پیٹرول و ڈیزل پر جمع کیے جانے والے ٹیکس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ان کے خیال میں حکومت کو پوری کمی منتقل نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ اسے آئی ایم ایف کے مطالبے پر پیٹرولیم لیوی بڑھانی ہے اور یہ اچھا موقع تھا کہ وہ تھوڑی سی لیوی بڑھا دیتے اور عالمی مارکیٹ میں قیمت میں کمی کا باقی فائدہ عوام کو منتقل کرتے۔ ثنا توفیق نے کہا کہ ’عالمی منڈی میں تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا پورا فائدہ عوام کو منتقل کیا گیا، جو پاکستان میں تیل کی مصنوعات پر موجود ٹیکس میں کسی ردوبدل کے نہ ہونے سے ظاہر ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62144249", "summary": "سری لنکا کے صدر راجاپکشے نے متعدد بار سری لنکن پارلیمان کے سپیکر کو یقین دلایا تھا کہ وہ بدھ تک اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے تاہم جمعرات کی صبح تک ان کا استعفی موصول نہیں ہوا۔", "title": "سری لنکا کے صدر راجا پکشے سعودی ایئرلائن کے ذریعے مالدیپ سے سنگاپور فرار", "firstPublished": "2022-07-12T22:54:36.000Z", "id": "fbbdde7e-6614-4811-abd4-0784c3fd28dc", "article": "سری لنکا کے صدر راجاپکشے نے متعدد بار سری لنکن پارلیمان کے سپیکر کو یقین دلایا تھا کہ وہ بدھ تک اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے تاہم جمعرات کی صبح تک ان کا استعفی موصول نہیں ہوا اور بدھ کو انھوں نے وزیراعظم وکرما سنگھے کو عبوری صدر بنا دیا تھا، جس کے بعد سری لنکا کے مغربی حصہ میں پرتشدد احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ سپیکر اسمبلی نے بدھ کو کہا تھا کہ صدر گوتابایا راجاپکشے نے سری لنکا کے آئین کے آرٹیکل 37.1 کے تحت وزیراعظم کو قائم مقام صدر بنانے کا کہا تھا تاہم صدر گوتابایا راجاپکشے کی جانب سے براہ راست ایسی کوئی بات اب تک سامنے نہیں آئی۔ اس وقت مشتعل مظاہرین کی ایک بڑی تعداد سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں وزیر اعظم دفتر کے اندر اور باہر موجود ہے۔ مظاہرین وزیر اعظم وکرما سنگھے کو بھی بطور وزیر اعظم عہدے پر نہیں چاہتے اور انھوں نے صدر اور وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ سری لنکا کی عوام صدر گوتابایا راجا پکشے کی انتظامیہ کو ملک کے بدترین معاشی بحران کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے ملک میں روزانہ کی بنیاد پر شدید لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ عوام لوگوں کو بنیادی ضرورت کی اشیا جیسا کہ ایندھن، خوراک اور ادویات کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ صدر گوتابایا ایک مطلق العنان رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے جن کو اس وقت تک کسی قسم کی قانونی کارروائی سے استثنی حاصل تھا جب تک کہ وہ صدر کے عہدے پر موجود تھے۔ ملک کے آئین کے تحت اگر صدر مستعفی ہو جاتے ہیں تو ان کی جگہ وزیر اعظم سنبھال سکتے ہیں۔ سری لنکا میں وزیر اعظم کو پارلیمان میں صدر کا نائب تصور کیا جاتا ہے۔ سنیچر کے دن مشتعل مظاہرین نے وزیر اعظم وکرما سنگھے کی نجی رہائش گاہ کو نذر آتش کر دیا تھا جب وہ اور ان کا خاندان وہاں موجود نہیں تھے۔ انھوں نے بعد میں اعلان کیا تھا کہ نئی اتحای حکومت کو راستہ فراہم کرنے کے لیے وہ بھی مستعفی ہو جائیں گے لیکن انھوں نے کوئی تاریخ نہیں دی تھی۔ سری لنکا کے آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے میں نگران صدر کے طور پر ملک کی پارلیمان کے سپیکر کام کر سکتے ہیں۔ پیر کے دن سری لنکا کی حزب اختلاف کے اہم رہنما سجتھ پریماداسا نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ بھی صدارت کے امیدوار ہو سکتے ہیں۔ لیکن سری لنکا میں اس وقت عوام میں سیاست دانوں پر بھروسہ نہیں کیا جا رہا اور ان کے پاس عوامی حمایت بھی موجود نہیں ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62160754", "summary": "مہندا راجاپکشے کو کچھ برس پہلے تک سنہالیوں کی اکثریت کی جانب سے ایک ہیرو کے طور پر دیکھا جاتا تھا جنھوں نے تین دہائیوں پر محیط خانہ جنگی کا خاتمہ کرنے کا باعث سمجھا جاتا ہے لیکن پھر کچھ ہی عرصے میں یہ جذبات شدید نفرت میں بدل گئے۔", "title": "سری لنکا کا ’ہیرو خاندان‘ کیسے عوام کی نفرت کے باعث ملک چھوڑنے پر مجبور ہوا؟", "firstPublished": "2022-07-14T12:09:32.000Z", "id": "d35b9c94-a36d-4b2f-a1c4-4c627d2ebc76", "article": "سری لنکا کے صدر گوٹابایا راجاپکشے 13 جولائی کو علی الصبح ملک سے فرار ہو گئے تھے لیکن یہ ایک ایسے خاندان کے لیے انتہائی شرمندگی کا باعث تھا جو گذشتہ دو دہائیوں سے اقتدار میں ہے۔ تیزی سے بڑھتی قیمتوں کے خلاف اپریل میں بڑے پیمانے پر مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے جس کے بعد اس بڑھتے غصے نے وزیرِاعظم مہندا راجاپکشے کو مئی میں اقتدار سے بے دخل کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ مہندا راجاپکشے فرار ہونے والے صدر کے بڑے بھائی ہیں۔ سیاست دانوں کے درجنوں مکانات جلائے گئے جن میں سے کچھ راجاپکشے خاندان کی ملکیت بھی تھے۔ مہندا کو ان کی سرکاری رہائش گاہ سے اس وقت نکالنا پڑا تھا جب غصہ میں بھرپور مظاہرین نے اس کا محاصرہ کر لیا تھا۔ یہاں تک کہ نو جولائی کو ہزاروں مظاہرین نے صدر کی سرکاری رہائش گاہ کا رخ کر لیا اور کچھ ہی دیر میں اس میں داخل ہو گئے۔ اس سے پہلے ہی صدر کو ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا بالکل ویسے جیسے ان کے بھائی کو مئی میں بھیجا گیا تھا اور اطلاعات کے مطابق انھیں سری لنکا کے شمال مشرقی علاقے کے ایک بحری اڈے میں پناہ ملی تھی۔ وہ ملک سے فرار تو ہو گئے لیکن انھوں نے فوری طور طور مستعفی ہونے کا اعلان نہیں کیا جس پر ناقدین کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنا چاہتے تھے جب تک وہ کسی محفوظ مقام تک نہ پہنچ جائیں تاکہ انھیں سری لنکا واپس لا کر عدالتوں کے سامنے نہ پیش ہونا پڑے۔ تاہم یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ ایک عرصے تک سری لنکا کا ’ہیرو‘ مانا جانے والا راجاپکشے خاندان کیسے بطور حکمران عوام کے لیے قابلِ نفرت بن گیا؟ مہندا راجاپکشے کو کچھ برس پہلے تک سنہالیوں کی اکثریت کی جانب سے ایک ہیرو کے طور پر دیکھا جاتا تھا جنھوں نے تین دہائیوں پر محیط خانہ جنگی کا خاتمہ کرنے کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ سنہ 2009 میں بطور صدر ان کے پہلے دورِ حکومت میں انھوں نے تمل ٹائیگر باغیوں کا خاتمہ کیا تھا۔ جلد ہی ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی حکومت کا حصہ بننے لگے۔ وہ مہندا ہی تھے جنھوں نے راجاپکشے خاندان کو سری لنکا میں سیاسی راج کا حصہ بنایا۔ یہ مطالبہ ایک ایسے شخص کے لیے ایک دھچکے کا باعث تھا جس نے اپنے چھوٹے بھائی کو اقتدار میں لانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور وہ اپنے سیاسی کریئر کا اختتام ایسے نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ان پر میڈیا کے خلاف ہلاکت خیز حملوں کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔ تاہم کچھ ہی سنہالیوں نے اس بااثر خاندان کے خلاف بات کرنے کی جسارت کی تھی۔ ایک انسانی حقوق کے وکیل بھوانی فونسیکا کا کہنا ہے کہ ’معاشی بحران کے باعث برادری کی اکثریت کو نقصان پہنچا جس کے بعد اکثر افراد کا مؤقف بدل گیا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62117308", "summary": "پاکستان کی آئی ایم ایف پروگرام میں شمولیت نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ پاکستان کی آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت کے بارے میں ملک کے ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کے مالی نظم و ضبط کے لیے تھے تو چند کے خیال میں یہ پروگرام ملک پر قرض کے بوجھ میں اضافے اور غربت میں اضافے کا سبب بنے ہیں۔", "title": "پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ: پاکستان کی معیشت میں عالمی مالیاتی فنڈ کا کردار کیا رہا؟", "firstPublished": "2022-07-11T04:16:28.000Z", "id": "d365d054-76cb-4e62-a446-08e10670bb30", "article": "پاکستان کی آئی ایم ایف پروگرام میں شمولیت نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ پاکستان کی آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت کے بارے میں ملک کے ماہرین معیشت اور ان پروگراموں کے دوران حکومتوں میں رہنے والے افراد نے پاکستان کی معیشت پر آئی ایم ایف پروگراموں کے اثرات کے متعلق مختلف رد عمل دیا ہے۔ کچھ کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کے مالی نظم و ضبط کے لیے تھے تو دوسروں نے ان پروگراموں سے ملک پر قرض کے بوجھ میں اضافے اور غربت میں اضافے کے بارے میں نشاندہی کی ہے۔ اس کے بعد آئی ایم ایف پروگراموں کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور آخری اور موجودہ پروگرام کے معاہدے پر جولائی 2019 میں دستخط ہوئے جس کے تحت پاکستان کو چھ ارب ڈالر ملنے تھے جس میں سے تین ارب ڈالر مل چکے ہیں اور باقی تین ارب ڈالر کے لیے موجودہ حکومت کے عالمی ادارے سے مذاکرات جاری ہیں۔ سنہ 1958 سے لے کر 2022 تک آئی ایم ایف کے 22 پروگراموں میں پاکستان کی شمولیت اور اس کے پاکستان کی معیشت کے کردار کے بارے میں ماہر معیشت اور وزارت خزانہ کے ڈیبٹ آفس کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اشفاق حسن نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کا پاکستانی معیشت سے بہت گہرا تعلق رہا ہے۔ انھوں نے کہا اس کی وجہ یہ بھی رہی ہے کہ پاکستان کو ’پل اور پش‘ فیکٹر کے ذریعے آئی ایم ایف پروگرام میں شامل کیا گیا۔ انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کیونکہ آئی ایم ایف امریکہ کے زیر اثر ہے اس لیے وہاں سے ’پل‘ کیا گیا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام میں لاؤ اور یہاں سے ہماری حکومتوں نے ملک کو اس آئی ایم ایف کی جانب ’پش‘ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ 80 کی دہائی سے پہلے پاکستان کے ساتھ پروگراموں کے لیے آئی ایم ایف کی کوئی لمبی چوڑی شرائط نہیں ہوتی تھی تاہم اس کے بعد ساختی اصلاحات اور مالی نظم و ضبط کے نام پر آئی ایم ایف کی جانب سے بہت ساری شرائط عائد کی گئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام اس طرح ڈیزائن کیے گئے کہ اس کی وجہ سے پاکستان پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا اور اس کے ساتھ غربت میں بھی اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ آئی ایم ایف پروگراموں کی وجہ سے ملک میں صنعتی ترقی رک گئی کیونکہ آئی ایم ایف ایکسچینج ریٹ کو کم رکھنے اور شرح سود میں اضافے کا مطالبہ کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر وہ ایسا چاہتا ہے تو کبھی شرح سود میں اضافے کی شرط نہ لگائے۔ ایک فیصد شرح سود بڑھنے سے ملکی قرضے میں 250 ارب روپے کا اضافہ ہو جاتا ہے اس لیے جب آئی ایم ایف شرح سود میں اضافے کی بات کرتا ہے تو اس سے یہ طویل مدت میں ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62139844", "summary": "سری لنکا میں شدید معاشی اور سیاسی بحران کے سبب بجلی کی کٹوٹی، ادویات، گیس پٹترول کی قلت سے لوگوں کی روز مرہ کی زندگی انتہائی مشکل ہو گئی ہے۔ مناسب کھانا مل رہا ہے نہ ہی ننھے بچوں کا دودھ دستیاب ہے۔ لوگ پہلے سے زیادہ بے بسی محسوس کر رہے ہیں۔", "title": "سری لنکا: دیوالیہ ہونے والے ملک میں رہنا کیسا ہوتا ہے؟", "firstPublished": "2022-07-13T14:27:02.000Z", "id": "8ae22e7b-5c01-467e-b0ff-a296947e2b6e", "article": "بجلی کی قلت کے بعد کٹوٹی کی وجہ سے شدید گرمی اور حبس بھری راتوں میں سونا مشکل ہو گیا ہے۔ ملک کے دیوالیہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی روز مرہ کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ لوگوں کو نہ تو ٹھیک سے ناشتہ مل رہا ہے اور نہ ہی مناسب کھانا نصیب ہو رہا ہے۔ لوگ ایسے ہی حالت میں کام کر رہے ہیں۔ صبح اپنے گھروں سے نکلتے ہی انہیں ٹرانسپورٹ کے ذرائع تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ تازہ مچھلی کبھی سری لنکا میں وافر مقدار میں دستیاب تھی اور وہ سستی بھی تھی۔ لیکن اب مچھلی پکڑنے والی کشتیوں کے لیے سمندر تک پہنچنا مشکل ہو گیا ہے، کیونکہ وہاں ڈیزل نہیں ہے۔ اور مچھلی پکڑنے والے ماہی گیر اپنا سامان ہوٹلوں اور ریستورانوں میں مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں۔ اس کی قیمت اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ اکثر لوگوں کے لیے مچھلی کھانا ان کے بس کے باہر ہو چکا۔ ملک میں موجودہ معاشی بحران نے ایک ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث ملک میں خوراک، ادویات اور ایندھن کی شدید قلت ہے۔ ملک میں بجلی کی سپلائی محدود کر دی گئی ہے۔ ناراض لوگ مہینوں سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسی صورتحال کے لیے راجا پاکشے خاندان اور ان کی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ بچوں کے دل، دماغ، پٹھے اور ہڈیوں کو وہ نہیں مل رہا جس کی انہیں اشد ضرورت ہے؟ ملک میں دودھ کے پاؤڈر کی زیادہ تر ضرورت درآمدات سے پوری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دودھ کا پاؤڈر بازاروں میں غائب ہے۔ سری لنکا کئی دہائیوں سے اپنے پبلک ٹرانسپورٹ کے ذرائع میں مناسب سرمایہ کاری نہیں کر پایا ہے۔ ساتھ ہی بہت سے لوگ بسوں اور رکشہ ڈرائیوروں کی من مانے طریقے سے کرایا لینے کی شکایت کر رہے ہیں۔ لوگوں میں یہ بات تیزی سے پھیل گئی ہے کہ ملک کی سیاسی اور معاشی دنیا کے اشرافیہ کی وجہ سے سری لنکا میں ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں لیکن اس کا سب سے بُرا اثر نچلے متوسط اور محنت کش طبقے پر پڑ رہا ہے۔ لوگ کام پر جانے کے لیے سائیکل خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کرنسی کی قدر میں کمی کا ایسا اثر ہوا کہ اب سائیکل بھی لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہے۔ سری لنکا کو ایسے گڑھے میں دھکیلنے والے انہی لیڈروں نے دعویٰ کیا کہ وہ ملک کو دوبارہ اس بحران سے نکال سکتے ہیں۔ اور پھر انہوں نے جو پالیسیاں بنائیں اس پر سخت تنقید ہوتی رہی۔ مثال کے طور پر، لوگوں کو مغربی ایشیا میں گھریلو ملازموں، ڈرائیوروں اور مکینک کے طور پر کام کرنے کے لیے بھیجنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تا کہ وہ وہاں سے پیسے کما کر سری لنکا کو بھیج سکیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62145751", "summary": "ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا سری لنکا تعلقات صرف اقتصادی بنیادوں تک محدود نہیں بلکہ وہ جغرافیائی طور پر ایک دوسرے کے قریب ہیں جبکہ چین اور سری لنکا کے تعلقات اقتصادی اور مالیاتی بنیادوں پر استوار ہیں تاہم حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان عسکری اور سیاسی میدان میں بھی قربتیں بڑھی ہیں۔", "title": "کیا انڈیا اور چین، سری لنکا کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں؟", "firstPublished": "2022-07-13T08:15:46.000Z", "id": "0034b502-30a9-4b92-ad16-05545e0e1d1b", "article": "ان کا کہنا ہے کہ ایک ساتھ کام کرنے سے ان دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے مواقع پیدا ہوں گے ایسا کچھ نہیں کیونکہ یہ چین کی حکمت عملی کا حصہ ہے اور آخر میں فتح صرف اسی کی ہوتی ہے۔ دونوں ماہرین ایشیائی طاقتوں کے ایک ساتھ مل کر سری لنکا کو اس معاشی بحران سے نکالنے کے حق میں ہیں، ان کا خیال ہے کہ اس سے علاقائی سطح پر ایشیائی خطے کے مسئلے کے حل کے لیے بہتر پیغام جائے گا۔ دونوں کا ماننا ہے کہ سری لنکا کے معاشی بحران اور اس سے پیدا ہونے والے سیاسی مسئلے کو جلد از جلد حل کرنا انڈیا کے مفاد میں ہے اور اس کا اثر انڈیا کے اندرونی معاملات پر بھی پڑ سکتا ہے۔ دلی میں سری لنکا کے سابق سفیر آسٹن فرنینڈو نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ سری لنکا کا سیاسی استحکام انڈیا کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ انڈیا شمال، شمال مشرق اور مغرب میں جاری کشیدہ صورتحال کے درمیان جنوب میں دوسرا محاذ نہیں کھولنا چاہے گا۔ سری لنکا کو خدشہ ہے کہ تامل ٹائیگرز جیسے گروہ دوبارہ متحد نہ ہو جائیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا سری لنکا تعلقات صرف اقتصادی بنیادوں تک محدود نہیں بلکہ وہ جغرافیائی طور پر ایک دوسرے کے قریب ہیں اور دونوں ممالک برطانوی سلطنت کا حصہ رہے ہیں۔ جبکہ چین اور سری لنکا کے تعلقات اقتصادی اور مالیاتی بنیادوں پر استوار ہیں تاہم حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان عسکری اور سیاسی میدان میں بھی قربتیں بڑھی ہیں۔ پروفیسر پشپا ادھیکاری کا خیال ہے کہ انتہا پسند تنظیموں اور کچھ دیگر معاملات پر انڈیا کی انتہائی غیر عملی پالیسیوں نے بھی سری لنکا کو چین کی طرف دھکیل دیا، حالانکہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں سری لنکا میں جو کچھ ہوا اس میں بدعنوانی نے بڑا کردار ادا کیا۔ چین اور سری لنکا کے درمیان مضبوط اقتصادی اور مالیاتی تعلقات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی بار سری لنکا کے چین کے قرضوں میں پھنسنے کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن پروفیسر سری کانت کونڈاپلی کا سوال یہ ہے کہ سری لنکا کے قرض میں چین کا حصہ کم ہونے کے باوجود چین جو خود کو سری لنکا کا دوست کہتا ہے، نے اس سنگین صورتحال میں اس کی مدد کیوں نہیں کی اور جس کریڈٹ لائن کی بات کی گئی تھی وہ بھی فراہم نہیں کی گئی۔ اس وقت انڈیا اور سری لنکا کے تعلقات بہت مضبوط بنیادوں پر ہیں۔ پروفیسر کونڈاپلی کا اصرار ہے کہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انڈیا اور سری لنکا کے تعلقات میں جغرافیہ بہت اہم کردار ادا کرے گا۔ چین سری لنکا سے چھ ہزار کلومیٹر دور ہے جبکہ انڈیا صرف چند کلومیٹر دور ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62145104", "summary": "میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پولیس نے ایک آٹو رکشہ کو غیر معمولی تیز رفتاری سے جاتے دیکھ کر اسے روکنے کی کوشش کی لیکن ڈرائیور نے پولیس کو دیکھ کر رکشہ اور تیز بھگا دیا جس پر پولیس نے اس کا پیچھا کیا اور رکنے پر مجبور کر دیا۔", "title": "ایک ٹک ٹک میں 27 مسافر۔۔۔ ’یہ تو ورلڈ ریکارڈ ہے‘", "firstPublished": "2022-07-13T04:04:16.000Z", "id": "5ae31316-9fe8-4c68-b4fc-97d40f6238e6", "article": "انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے شہر فتح پور میں جب پولیس نے ایک ٹک ٹک یعنی آٹو رکشہ کو روکا تو اس میں موجود مسافروں کی تعداد دیکھ کر وہ بھی دنگ رہ گئے۔ اتنی چھوٹی سی سواری میں اتنے سارے لوگ کیسے سمائے، یہ دیکھنے والوں کے لیے حیران کن نظارہ تھا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچوں اور بوڑھوں سمیت اس آٹو رکشہ سے ایک ایک کر کے 27 افراد باہر نکلتے ہیں۔ جی ہاں، اس آٹو رکشہ میں 27 لوگ سوار تھے۔ اسی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس والا باہر نکلنے والے ہر فرد کی گنتی کرتا ہے۔ ویسے تو آٹو رکشہ بنانے والوں نے تین لوگوں کی سواری بنائی تھی لیکن چند رکشے ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں چھ یا اس سے کچھ زیادہ لوگ بیٹھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اتر پردیش انڈیا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پولیس نے ایک آٹو رکشہ کو غیر معمولی تیز رفتاری سے جاتے دیکھ کر اسے روکنے کی کوشش کی لیکن ڈرائیور نے پولیس کو دیکھ کر رکشہ اور تیز بھگا دیا جس پر پولیس نے اس کا پیچھا کیا اور رکنے پر مجبور کر دیا۔ فتح پور پولیس کے سپرنٹنڈنٹ راجیش کمار نے ٹائمز آف انڈیا اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس اس رکشہ میں دو درجن سے زیادہ افراد کو بیٹھا دیکھ کر دنگ رہ گئی۔‘ پولیس نے تیز رفتاری اور اوور لوڈنگ کا پرچہ کاٹتے ہوئے اس آٹو رکشہ کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ انڈیا میں سوشل میڈیا پر اس واقعے کی ویڈیوز کو ہزاروں افراد دیکھ چکے ہیں اور ٹوئٹر پر طرح طرح کے تبصرے بھی ہو رہے ہیں۔ ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا قسطیں مواد پر جائیں ان میں سے ایک سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ ’یہ تو ورلڈ ریکارڈ کا حقدار ہے‘ جبکہ چند صارفین نے اس واقعے کو انڈیا میں ٹرانسپورٹ کی سہولیات کے فقدان کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ایک صارف نے کہا کہ ایندھن کی موجودہ قیمتوں میں ایسا ہی کرنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ پاکستان کی طرح انڈیا میں بھی آٹو رکشہ سفر کے لیے استعمال ہونے والی عام سواری ہے لیکن ان کا کرایہ بس یا پبلک ٹرانسپورٹ کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ پھر بھی یہ ٹیکسی سے کہیں سستے ہوتے ہیں اور مڈل کلاس کے لیے شہر میں سفر کے لیے ترجیحی درجہ رکھتے ہیں۔ چند سال قبل انڈیا میں میکسیکو کے سفیر اس وقت خبروں میں آئے جب انھوں نے دارالحکومت دلی میں گاڑی کے بجائے رکشہ پر سفر کرنے کو ترجیح دی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62129602", "summary": "اگر کوئی کہے کہ اُس نے صرف 100 روپے دے کر سرینگر شہر کا سفر کیا ہے تو کوئی یقین نہیں کرے گا کیونکہ یہاں پیٹرول فی لیٹر 110 روپے ہے اور ایک لیٹر پیٹرول میں 15 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر ممکن نہیں۔", "title": "الیکٹرک رکشہ جو سرینگر میں سفر 10 روپے میں ممکن بنا رہا ہے", "firstPublished": "2022-07-12T03:51:18.000Z", "id": "09d36154-e83d-471a-9fe9-4541ffafbd4d", "article": "پیٹرول کی مہنگائی کے باوجود اگر کوئی کہے کہ اُس نے صرف 100 روپے دے کر انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے 250 مربع کلومیٹر پر پھیلے سرینگر شہر کا سفر کیا ہے تو کوئی یقین نہیں کرے گا کیونکہ یہاں پیٹرول فی لیٹر 110 روپے ہے، اور ایک لیٹر پیٹرول میں 15 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر ممکن نہیں۔ لیکن اسی ناممکن کو سرینگر میں ممکن بنایا ہے ریچارجیبل آٹو رکشہ یعنی ’ای رکشہ‘ نے۔ شہر میں جس سفر کے لیے پیٹرول پر چلنے والا رکشہ 100 روپے لیتا تھا، وہی سفر اب فقط 10 روپے دے کر کیا جا سکتا ہے۔ پُرانے سرینگر کے رہائشی بشارت احمد کُمہار تین ماہ سے ای رکشہ چلا رہے ہیں۔ ان کے مطابق ’اس کی نہ تو آواز ہے اور نہ ہی پیٹرول یا انجن آئل کا خرچہ۔ ہماری کمائی بھی ہوتی ہے اور مسافر بھی خوشی خوشی پیسے دیتے ہیں کیونکہ کرایے میں سو فیصد کمی ہوئی ہے۔‘ پیٹرول مہنگا مگر سرینگر میں ای رکشہ کی سواری سستی ای رکشہ کو سرینگر میں متعارف کرانے والے آٹو ڈیلر عادل فاروق گورکھو کہتے ہیں کہ یہ تجربہ نہایت کامیاب رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان رکشوں میں لیتھیم آئن Lithium Ion بیڑی ہے جسے زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم درجہ حرارت کے لیے آزمایہ جا چکا ہے۔ ’ہم اب حکومت سے کہتے ہیں کہ کچرا اُٹھانے کے لیے چھوٹے بیٹری والے ٹرکس بھی لائے جائیں تاکہ وہ چھوٹی اور تنگ گلیوں میں جا سکیں۔‘ انسٹیٹیوٹ آف ہوٹل مینجمنٹ میں ملازمت کرنے والی حسینہ خالد کو پہلے دفتر آنے جانے میں روزانہ کی بنیاد پر 200 روپے خرچ کرنے پڑتے تھے۔ ’اب تو میں صرف 20 روپے میں یہ سفر کرتی ہوں۔ حکومت کو چاہیے کہ شہر کے سبھی راستوں پر ای رکشہ ہی چلائیں۔‘ ای رکشہ ڈرائیور بشارت کہتے ہیں کہ پیٹرول کے رکشہ چلانے والے ڈرائیور ان کی ہُوٹنگ کرتے ہیں۔ ’وہ ہمیں تنگ بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کو نہیں معلوم کہ یہی مستقبل ہے۔ جن گلی کُوچوں میں وہ والے آٹو نہیں جا پاتے ہم وہاں آرام سے سواری کو چھوڑ کر آتے ہیں۔‘ ای رکشہ چلانے والا کوئی بھی شخص دن میں 1000 سے 1500 روپے کماتا ہے جبکہ پیٹرول پر چلنے والا رکشہ 2000 سے 2500 روپے کماتا ہے۔ لیکن اس میں سے کم از کم 800 روپے پیٹرول پر ہی خرچ ہو جاتے ہیں۔ بشارت کمہار بھی اُنہی میں سے ایک نوجوان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پیٹرول والا رکشہ تو پانچ لاکھ روپے کا ہے جبکہ ای رکشہ اُس کی آدھی سے بھی کم قیمت میں ملتا ہے اور مفت میں چلتا ہے۔ میرے لیے یہ کسی معجزے سے کم نہ تھا، کیونکہ میں سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ میں رکشہ خرید سکوں گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-62062261", "summary": "اگر دنیا کے سب سے بڑے کنٹینر جہازوں کی فہرست پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب ہی لمبائی میں 400 میٹر یا کچھ کم ہیں اور 60 میٹر چوڑے ہیں۔ آج کے دور میں ان کا حجم اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا، جس کی کئی حیران کن وجوہات ہیں۔", "title": "مال بردار جہاز جو برج خلیفہ کی بلندی کو چھو سکتے ہیں", "firstPublished": "2022-07-11T10:16:11.000Z", "id": "b438430d-df13-4f7b-a429-dcf8ad53d39b", "article": " تقریباً 400 میٹر لمبا اور 62 میٹر چوڑا یہ مال بردار جہاز واقعی دیو ہیکل حجم کا ہے لیکن اس جیسے کم از کم ایک درجن اور جہاز بھی موجود ہیں جب کہ کئی زیر تعمیر ہیں۔ اگر ان میں سے کسی دو کو ملا کر اوپر تلے کھڑا کر دیا جائے تو وہ دنیا کی طویل ترین عمارت، دبئی کے برج خلیفہ، جتنے بلند ہوں گے۔ اگر دنیا کے سب سے بڑے کنٹینر جہازوں کی فہرست پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب ہی لمبائی میں 400 میٹر یا کچھ کم ہیں اور 60 میٹر چوڑے ہیں۔ آج کے دور میں ان کا حجم اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا، جس کی کئی حیران کن وجوہات ہیں، اور یہ بھی کہ مستقبل میں بلکہ آئندہ کبھی بھی ان سے بڑے مال بردار بحری جہاز بنائے جانے کا امکان نہیں ہے۔ لیکن یہ وجوہات ہیں کیا؟ لیکن گرفتھس کہتے ہیں کہ یہ جہاز دنیا کی سب سے بڑی بندرگاہوں کو بھی مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔ ان سے سامان اتارنے اور لادنے کے لیے کرینز کو جہاز کی دوسری جانب تک رسائی درکار ہوتی ہے۔ ان جہازوں کو بھی سوئز اور پانامہ کینال جیسے مقامات سے گزرنا پڑتا ہے جہاں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج کی دنیا میں موجود جہازوں سے بھی بڑے حجم کے کنٹینر شپ بنانے کے لیے موجودہ بندرگاہوں کے نظام کو بھی بہتر کرنا ہو گا۔ اور گرفتھس کہتے ہیں کہ یہ نہایت مہنگا عمل ثابت ہو گا۔ سٹیورس کرمپیریڈس کہتے ہیں کہ بڑے جہاز ہر جگہ جانے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے کیوں کہ ان پر موسمی حالات کا اثر بھی زیادہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ جہاز بحر الکاہل میں سفر نہیں کرتے جہاں ان کو شدید طوفانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ درمیانے حجم کے مال بردار جہاز اکثر بحرالکاہل میں سینکڑوں کنٹینرز کھو دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زیادی تر امریکی بندرگاہیں بھی اتنی بڑی نہیں ہیں کہ وہ دنیا کے سب سے بڑے کنٹینر جہازوں کو سنبھال سکیں۔ اب تک 20000 سے زیادہ کی صلاحیت رکھنے والے چند ہی جہاز امریکی بندرگاہوں پر آئے ہیں۔ جب کسی بھی جہاز کو سامنے سے آنے والی سمندی لہروں کا سامنا ہو تو پیرا میٹرک رولنگ ہو سکتی ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ جب کسی نہایت چوڑے جہاز کے ساتھ سمندری لہر گزرے تو جہاز کا اگلا اور پچھلا حصہ اس وقت پانی سے باہر ہوتا ہے جب یہ لہر جہاز کے درمیان میں سے گزر رہی ہوتی ہے۔ ایسے میں جہاز ادھر ادھر لہرانا شروع کر دیتا ہے۔ روزالنڈ بلیزجزک کہتی ہیں کہ ’یہ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے جوتے کا ڈبہ ہو لیکن اوپر سے کھلا ہوا ہو۔‘ پرسکون سمندر میں ان کو کسی مسئلے کا سامنا نہیں ہوتا لیکن مقام اور وقت کے حساب سے اس جہاز کی افادیت کم ہو سکتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-62110972", "summary": "سری لنکا میں مظاہرین کی جانب سے صدارتی محل پر دھاوے کے بعد صدر گوتابایا راجاپکشے نے اعلان کیا ہے کہ وہ عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل مظاہرین نے سری لنکا کے وزیر اعظم کے گھر کو بھی نظر آتش کر دیا تھا۔ سری لنکا کو 70 سالہ تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔", "title": "سری لنکا میں سیاسی بحران: صدر اور وزیر اعظم کا مستعفی ہونے کا اعلان", "firstPublished": "2022-07-10T03:21:13.000Z", "id": "9db0c045-b654-4706-bc64-0909867056f4", "article": "سری لنکا میں مظاہرین کی جانب سے صدارتی محل پر دھاوے کے بعد صدر گوتابایا راجاپکشے نے اعلان کیا ہے کہ وہ عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل مظاہرین نے سری لنکا کے وزیر اعظم کے گھر کو بھی نظر آتش کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ ہزاروں مظاہرین نے ملک کے دارالحکومت کولمبو کا رخ کیا جہاں وہ صدر کے استعفی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس سے قبل سری لنکا میں معاشی بحران پر کئی ماہ سے مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔ سری لنکا کی پارلیمنٹ کے سپیکر نے کہا ہے کہ صدر نے ’اقتدار کی پرامن منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے‘ استعفی دینے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ’قانون کا احترام کریں۔‘ فیونا سرمنا، جو صدر کے گھر پر ہونے والے مظاہرے میں شریک تھیں، نے کہا کہ ’اب وقت آ چکا ہے کہ صدر اور وزیر اعظم سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور سری لنکا کے ایک نئے دور کا آغاز ہو۔‘ سری لنکا کو 70 سالہ تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے جہاں مہنگائی عروج پر ہے اور اس وقت خوراک، ایندھن اور ادویات کی درآمد میں مشکلات درپیش ہیں۔ سری لنکا کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور حال ہی میں حکومت نے نجی گاڑیوں کو پیٹرول اور ڈیزل کی فروخت پر پابندی عائد کر دی تھی جس کی وجہ سے ایندھن حاصل کرنے کے لیے طویل قطاریں لگ گئیں۔ یاد رہے کہ اتوار کو مظاہرین کا ایک بڑا ہجوم صدر راجاپکشے کی سرکاری رہائش گاہ کی جانب نعرے لگاتا اور قومی پرچم لہراتا آیا تھا جس نے بعد میں رکاوٹوں کو عبور کیا اور رہائش گاہ کے اندر داخل ہو گئے۔ میں بھی ایک احتجاجی مقام پر موجود تھا۔ بہت سے مظاہرین گھروں کو لوٹ رہے ہیں لیکن ہزاروں اب بھی یہاں موجود ہیں۔ کچھ موسیقی کے آلات بجا رہے ہیں تو کچھ گیت گا رہے ہیں اور خوشی منا رہے ہیں۔ مظاہرین نے وزیر اعظم وکرما سنگھے کے گھر کو بھی نظر آتش کر دیا تھا جو کولمبو کے ایک متمول سمجھے جانے والے علاقے میں واقع ہے۔ انھوں نے اس واقعے سے قبل کہا تھا کہ وہ ’عام شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مستعفی ہونے کو تیار ہیں تاکہ تمام جماعتوں پر مشتمل حکومت قائم کی جا سکے‘ لیکن ان کے اعلان کے کچھ ہی دیر بعد ان کے گھر کو آگ لگانے کی ویڈیوز سامنے آئیں۔ صدر اور وزیر اعظم کی جانب سے استعفوں کے اعلان کے بعد مظاہرین مطمئن ہو جائیں گے یا نہیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ کولمبو کے انسانی حقوق کے وکیل بھوانی فونسیکا نے کہا کہ ’صرف دو استعفوں سے مطالبات پورے نہیں ہوں گے کیوں کہ مطالبہ سسٹم کی تبدیلی کا ہے لیکن کم از کم یہ ایک شروعات ضرور ہے کہ صدر اور وزیر اعظم رخصت ہو رہے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-62082535", "summary": "سری لنکا کے صدر نے روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے ایندھن برآمد کرنے کے سلسلے میں مدد مانگی ہے۔", "title": "سری لنکا کے صدر نے روسی صدر پوتن سے تیل مانگ لیا", "firstPublished": "2022-07-07T14:21:46.000Z", "id": "4ba085e1-5857-4e2a-ba0e-974461b12ce4", "article": "سری لنکا کے صدر نے روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے ایندھن برآمد کرنے کے لیے مدد مانگی ہے۔ سری لنکا کے پاس زرِ مبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں اور ملک کو سنہ 1948 میں برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سب سے شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔ صدر گوتابا راج پکشے کا کہنا ہے کہ ان کی صدر پوتن کے ساتھ بہت مفید بات چیت ہوئی ہے۔ سری لنکا کہ توانائی کے وزیر نے چند روز قبل کہا تھا کہ ملک میں پیٹرول ختم ہونے کے قریب ہے۔ صدر گوتابا راج پکشے نے بتایا کہ انھوں نے صدر پوتن سے ادھار میں ایندھن دینے کی درخواست کی ہے۔ معاشی بحران کے دوران ایندھن کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے سری لنکا پہلے ہی حالیہ مہینوں میں روس سے تیل خرید چکا ہے اور حکومت یہ واضح کر چکی ہے کہ وہ روس سے مزید تیل خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ صدر راج پکشے کی جانب سے ملک میں جاری بدترین معاشی بحران کو کم کرنے کی کوششیں اب تک کامیاب نہیں ہو سکیں ہیں۔ ان کوششوں میں انڈیا اور چین سے معاشی مدد حاصل کرنا بھی شامل ہے۔ لیکن ملک کو اب بھی ایندھن، خوراک اور دیگر ضروری اشیاء کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ ملک میں مہنگائی کو قابو میں کرنے کے لیے جمعرات کو سینٹرل بینک نے شرحِ سود میں ایک فیصد اضافہ کیا ہے۔ اس طرح بینک سے قرض لینے کی شرحِ سود بڑھا کر پندرہ عشاریہ پانچ فیصد جبکہ بینک میں رکھی ہوئی رقوم پر شرحِ سود چودہ عشاریہ پانچ فیصد کر دی گئی ہے جو گزشتہ 21 برس میں سب سے زیادہ ہے۔ بی بی سی کے جنوبی ایشیا کے ایڈیٹر اینبراسین ایتھیراجن کہتے ہیں کہ سری لنکا کو ایندھن اور سیاحت کے سلسلے میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ یہ دونوں شعبے ملک کی معیشت کو بحال کرنے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ ملک میں ایندھن تقریبا ختم ہو چکا ہے جس کی وجہ سے کاروبار اور پبلک ٹرانسپورٹ مفلوج ہو گیا ہے۔ سری لنکا کو زرِ مبادلہ نہ ہونے کی وجہ سے خلیجی یا دیگر ممالک سے ایندھن کی ترسیل میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ادھر سری لنکا کی ایک عدالت نے گزشتہ مہینے رقم کی ادائیگی کے ایک تنازع پر روسی ایئر لائن ایروفلوٹ کے ایک جہاز کو کچھ دیر کے لیے تحویل میں لینے کا حکم دیا تھا جس کے بعد ایروفلوٹ نے سری لنکا کے لیے اپنی پروازیں معطل کر دی تھیں۔ اس سے سری لنکا کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا کیونکہ سری لنکا میں آنے والے سیاحوں کا پانچواں حصہ روس سے آنے والے سیاح ہوتے تھے۔ کئی روسی بینکوں کو ادائیگیوں کے بین الاقوامی نظام 'سوئفٹ' سے نکال دیا گیا ہے اور ویزا اور ماسٹر کارڈ نے روس میں کام بند کر دیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-62061147", "summary": "ایک اہم سروے کے مطابق مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ میں بسنے والے عرب شہریوں کا ملک میں معاشی استحکام کے لیے جمہوری نظامِ حکومت سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے۔", "title": "عرب شہریوں کے نزدیک جمہوری نظام میں معیشت کمزور کیوں ہے؟", "firstPublished": "2022-07-07T14:13:28.000Z", "id": "e0e15da9-f921-45cb-9fa9-b784c2cdcc81", "article": "ایک اہم سروے کے مطابق مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ میں بسنے والے عرب شہریوں کا اپنے ملکوں میں معاشی استحکام کے لیے جمہوری نظامِ حکومت سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے۔ عرب بیرومیٹر نیٹ ورک کی طرف سے بی بی سی نیوز عربی کے لیے نو ممالک اور فلسطینی علاقوں میں تقریباً 23,000 لوگوں سے انٹرویو کیے گئے ہیں۔ ان افراد میں سے بیشتر نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ جمہوری نظام حکومت میں ملک کی معیشت کمزور ہوتی ہے۔ مظاہروں کے دو سال سے بھی کم عرصے کے بعد، ان ممالک میں سے صرف ایک ملک تیونس میں جمہوری نظام قائم رہا تھا، لیکن گزشتہ ہفتے شائع ہونے والے آئین کا مسودہ منظور ہونے کی صورت میں ملک میں واپس آمریت آ سکتی ہے۔ پرنسٹن یونیورسٹی میں قائم ایک تحقیقی نیٹ ورک عرب بیرومیٹر کے ڈائریکٹر مائیکل رابنز جنھوں نے 2021 کے آخر سے 2022 کے موسم بہار کے درمیان یہ سروے کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی یونیورسٹیوں اور پولنگ اداروں کے ساتھ کام کیا، کہتے ہیں کہ سنہ 2018 -19 میں کیے جانے والے سروے کے بعد سے علاقائی سطح پر جمہوریت سے متعلق نظریات میں تبدیلی آئی ہے۔ پرنسٹن سکول آف پبلک اینڈ انٹرنیشنل افیئرز کے ڈین اور عرب بیرومیٹر کے شریک بانی امانے جمال کہتے ہیں کہ 'بدقسمتی سے اب تیونس آمرانہ نظام حکومت کی جانب واپس جا رہا ہے یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جمہوری پسپائی کا شکار ہے، یہ آج پوری دنیا میں ایک رحجان ہے۔' ان ممالک میں سے صرف دو ممالک میں معاشی صورتحال کو سب سے اہم نہیں سمجھا جاتا، ان میں سے ایک عراق ہے جہاں لوگوں کی نظر میں سب سے زیادہ بڑا مسئلہ کرپشن ہے جبکہ دوسرا ملک جنگ زدہ لبیا ہے جہاں لوگوں کے نزدیگ سب سے بڑا مسئلہ عدم استحکام ہے۔ اس سروے میں لبنان کی درجہ بندی سب سے کم ہے۔ لبنانی شہریوں میں ایک فیصد سے بھی کم نے کہا کہ ان کے ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال اچھی ہے۔ عالمی بینک نے لبنان کے معاشی بحران کو 19سویں صدی کے وسط کے بعد سے دنیا کا سب سے شدید معاشی بحران قرار دیا ہے۔ مجموعی طور پر زیادہ تر لوگوں کو یہ امید نہیں ہے کہ اگلے چند برسوں میں ان کے ملک کی معاشی صورتحال بہتر ہو گی۔ تاہم کچھ امید ہے۔ چھ ممالک میں، سروے کیے گئے ایک تہائی سے زیادہ شہریوں کا کہنا ہے کہ آنے والے دو سے تین برسوں میں صورت حال بہتر یا کسی حد تک بہتر ہو جائے گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-62075552", "summary": "برطانوی اور امریکی سکیورٹی ایجنسیوں کے سربراہوں نے پہلی مرتبہ ایک ساتھ آ کر چین سے خطرے پر خبردار کیا ہے۔ ایف بی آئی کے سربراہ نے خبردار کیا کہ اگر چین نے تائیوان پر قبضہ کیا تو یہ ’دنیا کی سب سے خوفناک کاروباری رکاوٹوں میں سے ایک ہو گی۔‘", "title": "’چین ہماری معیشت اور قومی سلامتی کے لیے طویل مدتی خطرہ ہے:‘ امریکی و برطانوی انٹیلیجنس کا انتباہ", "firstPublished": "2022-07-07T06:59:36.000Z", "id": "ecb4c567-455e-4b2d-b5a9-b1b2f462804e", "article": "دونوں ممالک کی سیکورٹی ایجنسیوں کے ڈائریکٹرز نے پہلی مرتبہ ایک ساتھ ایم آئی فائیو کے صدر دفتر تھیمز ہاؤس لندن میں آ کر بات چیت کی ہے برطانوی اور امریکی سکیورٹی ایجنسیوں کے سربراہوں نے پہلی مرتبہ ایک ساتھ آ کر چین سے خطرے پر خبردار کیا ہے۔ برطانوی سکیورٹی ایجنسی ایم آئی فائیو کے سربراہ کین میک کیلم کا کہنا تھا کہ ان کی سکیورٹی ایجنسی نے گذشتہ تین برس میں چینی سرگرمیوں کے خلاف دگنا کام کیا اور اب دوبارہ ان کے خلاف کارروائیوں کو دگنا کر رہے ہیں۔ ایف بی آئی کے سربراہ کرسٹوفر رے نے خبردار کیا کہ اگر چین نے زبردستی تائیوان پر قبضہ کیا تو یہ ’دنیا کی سب سے خوفناک کاروباری رکاوٹوں میں سے ایک ہو گی۔‘ دونوں ممالک کی سکیورٹی ایجنسیوں کے ڈائریکٹرز نے پہلی مرتبہ ایک ساتھ ایم آئی فائیو کے صدر دفتر تھیمز ہاؤس لندن میں آ کر بات چیت کی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین نے ’بڑے پیمانے پر دھوکہ دینے اور چوری کرنے‘ کے لیے سائبر جاسوسی بھی شروع کر رکھی ہے اور ان کا ہیکنگ پروگرام کسی بھی دوسرے ملک کے پروگرام سے بڑا ہے۔ امریکی و برطانوی سیکورٹی ایجنسیز کے سربراہوں نے خبردار کیا کہ چین روس جنگ سے تمام سبق سیکھ رہا ہے انھوں نے بتایا کہ ایک چینی کمپنی جو دراصل چینی خفیہ ایجنسی کے افسروں کے لیے ایک فرنٹ کے طور پر کام کرتی تھی، نے اس شخص سے ایک فوجی جہاز کے بارے میں تکنیکی معلومات پوچھنے سے قبل اسے دو مرتبہ چین کا دورہ کروایا اور اسے وہاں ’کھلایا پلایا‘ گیا۔ ایف بی آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ امریکہ میں رواں برس موسم بہار کے دوران چینی حکومت نے نیویارک میں ہونے والے کانگریس کے انتخابات میں براہ راست مداخلت کی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایک ایسا امیدوار منتخب کیا جائے جو چین پر تنقید کرنے والا اور اس کے خلاف احتجاج کرنے والا ہو۔ ’اگر چین تائیوان پر حملہ کرتا ہے تو اس سے دنیا کے کاروبار پر پڑنے والے اثرات رواں برس روس یوکرین تنازعے سے پیدا ہونے والے حالات سے بہت زیادہ سنگین ہوں گے کیونکہ چین میں مغربی کمپنیوں کی سرمایہ کاری متاثر ہوگی اور سپلائی چین بری طرح خراب ہو گی۔ ‘ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے خطاب کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ’میرے پاس یہ سوچنے کی کوئی وجہ نہیں کہ چین کی تائیوان میں دلچسپی کسی بھی طرح کم ہوئی ہے۔ ایم آئی فائیو کے سربراہ کا کہنا تھا کہ نئی قانون سازی ان خطرات سے نمٹنے میں مدد دے گی لیکن برطانیہ کو معاشرے کے تمام افراد کو اس خطرات کے متعلق زیادہ آگاہی فراہم کر کے ایک ’سخت ہدف‘ بننے کی ضرورت ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-62033015", "summary": "سنہ 1955 میں برطانیہ کے مڈلینڈ بینک میں کسی کو خیال آیا کہ انھیں روسی بینک سے ڈالر خریدنے کی ضرورت نہیں۔ وہ انھیں ادھار پر بھی لے سکتے ہیں جس سے غیر ملکی کرنسی کی خریداری پر برطانوی پابندیاں لاگو نہیں ہوں گی۔ یوں اس ڈیل سے روسی بینک نے امریکی پابندیوں سے بچ کر پیسے بنائے اور مڈلینڈ نے برطانوی پابندیوں سے بچ کر پیسے بنائے۔", "title": "جب لندن کے بینکروں نے منی لانڈرنگ ایجاد کی", "firstPublished": "2022-07-05T06:23:48.000Z", "id": "da4aaf82-1898-47d8-99fc-74e44cb52a0e", "article": "مڈلینڈ بینک کو مزید پیسہ درکار تھا۔ سنہ 1955 میں اسے بہترین خیال آیا کہ قریب ہی ایک ایسا بینک بھی ہے جس کے مسائل اس سے الٹ ہیں۔ سوویت یونین کے سرکاری بینک ماسکو ناروڈنی کی تجوری ڈالروں سے بھری پڑی تھی۔ مڈلینڈ میں کسی کو خیال آیا کہ انھیں ڈالر خریدنے کی ضرورت نہیں۔ وہ ادھار پر بھی لے سکتے ہیں جس سے غیر ملکی کرنسی کی خریداری پر برطانوی پابندیاں لاگو نہیں ہوتی تھیں۔ اس کی تفصیلات بہت پیچیدہ ہیں مگر آسان لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ڈیل سے روسی بینک نے امریکی پابندیوں سے بچ کر پیسے بنائے اور مڈلینڈ نے برطانوی پابندیوں سے بچ کر پیسے بنائے۔ آکسفرڈ کی مورخ کیتھرن شینک بتاتی ہیں کہ بینک آف انگلینڈ اور محکمہ خزانہ نے پاؤنڈ کا بین الاقوامی استعمال کم کر دیا جس سے ڈالر مزید پرکشش ہو گیا کیونکہ وہ اس کی نگرانی کے باہر تھا۔ وہ اسے یورو ڈالر کہتے تھے کیونکہ یہ ڈالر تھا بھی اور نہیں بھی تھا۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا تھا کہ اس وقت زیادہ منافع بخش کیا ہے۔ بینکرز کسی بحری جہاز پر سوار قزاقوں کی طرح تھے جن کے پیروں تلے پیسوں کا سمندر تھا۔ سب جن اصولوں کی پیروی کر رہے تھے، بینک وہی اصول نظر انداز کر کے منافع کما رہے تھے۔ بینکرز پہلے سے ڈالروں کی تجارت میں امریکی پابندیوں سے بچنے کے لیے سٹی آف لندن کا سہارا لے رہے تھے۔ اپنا پیسہ جرسی کے خفیہ بینک اکاؤنٹس میں منتقل کرنے سے وہ برطانوی پابندیوں سے بھی بچ گئے۔ ان مختلف مقامات میں بینک اکاونٹس اور کمپنیاں قائم کر دی جائیں تو رقم کی منتقلی آسان ہوجاتی ہے۔ اگر یہ کمپنیاں برطانوی ہیں اور ان کے سربراہ برطانوی شہری ہیں تو بظاہر حکام کو لگتا تھا کہ دوسرے ملک میں بھی ان کی کارروائیاں قانونی طریقے سے کی جا رہی ہوں گی۔ کمپنی بنانے کے لیے جھوٹ بولنا غیر قانونی ہے لیکن اس جرم کی سزا بہت معمولی سی ہے۔ وہ لوگ جو اپنے چوری کے پیسے چھپانا چاہتے ہیں اور اپنی مرضی سے انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا چاہتے ہیں، وہ برطانوی کارپوریٹ نظام کو استعمال کرتے ہوئے اور اپنی شناخت خفیہ رکھتے ہوئے ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کرسٹنسن کا کہنا ہے کہ سال 1997 سے 2007 تک کی ٹونی بلیئر حکومت نے جرسی اور دیگر علاقوں پر دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ ان کے مطابق اس نظام کی کئی خامیاں دور کی گئی ہیں لیکن لیگیسی کسٹومرز کی ایک بڑی فہرست ہے جو 1970 اور 1980 کے دوران جرسی میں رہائش پذیر ہوئے تھے۔ ان کے پرانے اکاؤنٹس اب بھی موجود ہیں اور ماضی کی یاد دلاتے ہیں جب معلومات کی اتنی نگرانی نہیں کی جاتی تھی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62034961", "summary": "گاڑیوں کے اس اتوار بازار میں دوپہر دو بجے سے گاڑیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور مغرب تک سودے ہوتے ہیں، ان میں مختلف ادوار اور مختلف اقسام کی کاریں، سوزوکی پک اپس اور جیپیں لائی جاتی ہیں۔", "title": "گاڑیوں کا اتوار بازار جو ’سستی گاڑی‘ کا خواب پورا کر رہا ہے", "firstPublished": "2022-07-05T04:04:10.000Z", "id": "fc79b4e4-8044-4ccd-b497-9fdf2a5386cd", "article": "گاڑیوں کے اس اتوار بازار میں دوپہر دو بجے سے گاڑیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور مغرب تک سودے ہوتے ہیں، ان میں مختلف ادوار اور مختلف اقسام کی کاریں، سوزوکی پک اپس اور جیپیں لائی جاتی ہیں۔ اسی طرح انٹرنیٹ پر پاک وہیلز اور او ایل ایکس جیسی کمپنیاں بھی موجود ہیں جو گاڑیوں کی آن لائن خرید و فروخت میں معاونت فراہم کرتی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اس اتوار بازار کا رخ کیوں کرتے ہیں۔ بازار میں آپ کو کئی لوگ، گاڑیوں کے نیچے لیٹ کر اندرونی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہاں کوئی بونٹ کھول کر گاڑی کے انجن کی کنڈیشن چیک کر رہا ہو گا تو کوئی اس کی باڈی کو انگلیوں سے بجا کر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا ہو گا کہ کہیں کوئی ڈینٹ تو نہیں پڑا ہوا، کیا اس کا رنگ اصلی حالت میں ہے یا نہیں۔ فرحت بخاری بتاتے ہیں کہ ’لوگوں کو گاڑی چلانے کا تو تجربہ ہوتا ہے لیکن اس کی جانچ پڑتال کا علم نہیں ہوتا، اس لیے وہ اپنے ساتھ ڈینٹر اور مستری لاتے ہیں جو متعلقہ گاڑی کو چیک کرتے ہیں، اس کے علاوہ بازار میں بھی یہ دونوں موجود ہوتے ہیں۔‘ نوجوان عادل حبیب بتاتے ہیں کہ ’اگر کوئی گاڑی پسند آ جائے تو دو ہزار روپے بیانہ دے کر ’رننگ پیپر‘ کی کاپی لیتے ہیں، اس کو سٹیزن پولیس لیاژان کمیٹی اور محکمہ ایکسائیز کی ویب سائٹ سے چیک کرتے ہیں کہ گاڑی چوری کی تو نہیں، جب تصدیق ہو جاتی ہے اور دل مطمئن ہو جاتا ہے تو پھر باقی ادائیگی کر دیتے ہیں۔‘ اس بازار میں فی گاڑی سے تین سو روپے داخلہ ٹکٹ لیا جاتا ہے، میدان میں چاروں طرف سے گاڑیاں داخل ہو سکتی ہیں جبکہ چالیس، پچاس افراد ان کی مدد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم گاڑیاں قطار میں لگواتے ہیں تاکہ ٹریفک جام نہ ہو، اس کے علاوہ اگر کسی کی گاڑی خراب ہو جاتی ہے تو اس کی بھی مدد کی جاتی ہے اور یہاں ماہرین بھی موجود ہوتے ہیں۔‘ کراچی میں گاڑیاں چھینی بھی جاتی ہیں اور چوری بھی ہوتی ہیں۔ محمد عرفان کے مطابق ’کراچی پولیس کے اینٹی کار لفٹنگ سیل کی ٹیم بھی یہاں آتی ہے اور اگر کسی پر شک ہوتا ہے تو اس کو تفتیش کے لیے لے جاتے ہیں۔ انھیں چیسز نمبر اور نمبر پلیٹ سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ جعلی ہے یا اصلی، ایسے لوگ یہاں پکڑے بھی گئے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-62006056", "summary": "سری لنکا کی حکومت پر تیل کے نئے ذرائع تلاش کرنے کے دباؤ کے باعث اب حکومت نے روس سے مدد کے لیے رابطہ کیا ہے۔ سستے تیل کی خریداری پر بات چیت کے لیے ہفتے کے آخر میں ایک وفد ماسکو پہنچنے والا ہے، اور صدر گوتابایا راجا پاکسے نے اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے ولادیمیر پوتن کو خط لکھا ہے۔", "title": "سری لنکا میں ایندھن کا بحران: ’یہاں پیٹرول ڈلوانے کے لیے کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے‘", "firstPublished": "2022-07-01T12:09:43.000Z", "id": "fc206f93-52ad-45dd-ac9b-7f43bf3864e4", "article": "بطور ایک ٹیکسی ڈرائیور کے تیل ان کے لیے زندگی کی مانند ہے لیکن سری لنکا کے پاس ایندھن کی رسد نہیں آ رہی ہے۔ جیون سداسیوم نے ہمیں گاڑی کے ڈیش بورڈ پر فیول ٹینک دکھائی جہاں میٹر کی سوئی خالی ٹینک کا اشارہ دے رہی تھی۔ کم از کم دو ہفتوں تک ایندھن کی کوئی بین الاقوامی کھیپ نہ آنے کے بعد، سری لنکا کے دوسرے حصوں سے دارالحکومت کولمبو کو ایندھن سپلائی کیا جا رہا ہے، جہاں ابھی بھی پیٹرول کے کچھ ذخائر موجود ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر سری لنکا میں ایندھن کی شیدید قلت ہے۔ اس پیٹرول پمپ کے باہر لگی طویل قطار کے آخر میں ہمیں جیانتھا اتھوکورالا ملے جو قریبی گاؤں سے سفر کر کے اور تقریباً 12 لیٹر پیٹرول خرچ کر کے یہاں اس امید پر پہنچے ہیں تاکہ انھیں مزید پیٹرول مل سکے۔ ان کے پاس جیون کی طرح پیٹرول لینے کے لیے ٹوکن نہیں ہے اور ان کے ایک اندازے کے مطابق وہ قطار میں 300ویں نمبر پر کھڑے ہیں۔ وہ ایک کار سیلز مین ہیں جنھیں پیٹرول کے انتظار میں اب مجبوراً اپنی کار میں ہی سونا پڑتا ہے۔ جبکہ کچھ پیٹرول پمپ صرف ضروری سروسز جیسا کہ ہیلتھ کیئر، خوراک سپلائی کرنے والے ادارے اور پبلک ٹرانسپورٹ کو ہی صرف پیٹرول دے رہے ہیں۔ جبکہ کچھ دیگر پیٹرول پمپ حکومت کی راشن سکیم کے تحت عام عوام کو بھی کچھ پیٹرول ڈال کر دے رہے ہیں۔ سری لنکا کی حکومت پر تیل کے نئے ذرائع تلاش کرنے کے دباؤ کے باعث اب حکومت نے روس سے مدد کے لیے رابطہ کیا ہے۔ سستے تیل کی خریداری پر بات چیت کے لیے ہفتے کے آخر میں ایک وفد ماسکو پہنچنے والا ہے، اور صدر گوتابایا راجا پاکسے نے اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے ولادیمیر پوتن کو خط لکھا ہے۔ اپنے چہرے پر ایک بڑی سے مسکراہٹ لیے انھوں نے ہمیں اپنی نئی سائیکل دکھائی جو انھوں نے حال ہی میں خریدی ہے اور اس پر اب بھی پلاسٹک کے لفافے چڑھے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اب وہ کہیں آنے جانے کے لیے سائیکل چلاتے ہیں اور اس کے عادی بن رہے ہیں۔ یہ قطار تیزی سے چل رہی تھی کہ سری جو ایک مزدور ہیں اس لاٹری کے بچے ہوئے تمام 26 ٹکٹ خریدنے میں کامیاب ہو گئے۔ سری کہتے ہیں کہ انھوں نے لاٹری کے یہ ٹکٹ اپنے خاندان کے لیے خریدے ہیں۔'میرا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے، یہ بہت مشکل وقت ہے لیکن ہمیں صبر سے کام لینا ہے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62006003", "summary": "پاکستان حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریبا ڈیڑھ ماہ کے دوران چوتھی بار اضافے کے بعد سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل میں یہ خدشہ سرفہرست تھا کہ قیمتوں میں اضافے کا یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا۔", "title": "پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں ایک اور اضافہ، یہ سلسلہ کہاں جا کر تھمے گا؟", "firstPublished": "2022-07-01T06:52:08.000Z", "id": "0c11acc0-afdc-438d-a086-bb9568417e41", "article": "یہ وہ چند سوالات اور تبصرے ہیں جو گذشتہ روز پاکستان حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریبا ڈیڑھ ماہ کے دوران چوتھی بار اضافے کے بعد سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل کی عکاسی کرتے نظر آئے جس میں یہ خدشہ سرفہرست تھا کہ قیمتوں میں اضافے کا یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ عالمی منڈی میں بڑھتی قیمتوں کے ساتھ ساتھ حالیہ اضافے کی ایک بڑی وجہ، جس کے تحت پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 248 روپے 74 پیسے اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت 276 روپے 54 پیسے ہو گئی ہے، آئی ایم ایف شرط کے تحت پیٹرولیم ڈویلیپمنٹ لیوی کا نفاذ ہے۔ رات دیر گئے اس فیصلے کے بعد عوامی ردعمل سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کی شکل میں دیکھنے کو ملا جس میں کسی نے سنجیدہ سوالات اٹھائے تو کسی نے میمز کی صورت میں حالات کی منظر کشی کی۔ سوشل میڈیا پر جاری بحث کا ایک ایم پہلو قیمتوں میں اضافے کے رجحان کے مستقبل کے حوالے سے تھا۔ ایک صحافی نے صرف یہ سوال کیا کہ ’آگے کیا ہو گا؟ تین سو روپے فی لیٹر؟‘ اس سوال کے جواب میں عزیر یونس نے لکھا کہ ’معاملہ اسی جانب جا رہا تھا لیکن مجھے یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ ہر چند ہفتے بعد منفی خبروں کا رجحان پیدا کرنے کی حکمت عملی کا مقصد کیا ہے؟‘ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے جب بی بی سی کے عماد خالق نے اوگرا کے سینیئر ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور ترجمان عمران غزنوی سے رابطہ کیا گیا اور ان سے سوال کیا گیا کہ پیٹرولیم لیوی لگانے کے فیصلے کے بعد اگلے چار سے چھ ماہ میں قیمت کتنی اوپر جا سکتی ہے تو انھوں نے کہا کہ ’قیمتیں تو عالمی منڈی کی قیمت، سیاسی صورتحال اور ڈالر ایکسچیج ریٹ سے جڑی ہیں۔‘ دوسری جانب وزارت خزانہ کے سابق ترجمان اور معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر خاقان نجیب کہتے ہیں کہ ’روپے کی قدر میں 30 فیصد کمی ہوئی اور برینٹ کی قیمت 108 ڈالر سے 120 ڈالر فی بیرل تک گئی اور تیسری وجہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت پیٹرولیم لیوی کا نفاذ ہے۔‘ لیکن صحافی شہباز رانا کا موقف کچھ الگ تھا۔ انھوں نے لکھا کہ ’اب جبکہ حکومت اپنے بجٹ میں سٹاک ایکسچینج کو آٹھ ارب روپے کا ٹیکس ریلیف دے چکی ہے اور قومی اسمبلی سپیکر اور سینیٹ چیئرمین کو اپنی مرضی سے سہولیات میں اضافہ کرنے کی اجازت دے چکی ہے تو عام آدمی سے مزید کسی قسم کی قربانی نہیں مانگی جا سکتی۔‘ اس سنجیدہ بحث سے ہٹ کر سوشل میڈیا پر ایک طبقہ ایسا بھی تھا جنھوں نے اس پورے معاملے کا مذاح سے جواب دیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61991368", "summary": "پاکستان میں کاریں تیار کرنے والی کمپنیاں اون منی یا اضافی رقم میں اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتی ہیں جبکہ آٹو سیکٹر کے ماہرین کے مطابق اس اون منی میں ایک منظم طریقے سے کار ڈیلرز اور سرمایہ کار شامل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ کار کی اصل قیمت سے زیادہ پیسے ادا کرنے پر مجبور ہیں۔", "title": "گاڑیوں کی خرید و فروخت پر اون منی کی بلیک مارکیٹ جس میں ’کمپنی، ڈیلر اور گھوسٹ سرمایہ کار سب شامل‘", "firstPublished": "2022-07-01T03:42:28.000Z", "id": "613cc7a6-402a-45ec-bc35-4219e5a306d4", "article": "پاکستان میں کاروں کے شعبے میں خرید و فروخت میں اون منی کا شور بہت سنا جاتا ہے۔ آٹو سیکٹر کے شعبے سے وابستہ ماہرین اون منی کو اس شعبے میں ایک غیر رسمی متوازی شعبہ سمجھتے ہیں جس میں سالانہ اربوں روپے شامل ہیں اور فوری طور پر کار حاصل کرنے والوں کو اون منی کی صورت میں کار کی اصل قیمت پر اضافی پیسے دینے پڑتے ہیں۔ پاکستان میں کاریں تیار کرنے والی کمپنیاں اون منی میں اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتی ہیں جبکہ آٹو سیکٹر کے ماہرین کے مطابق اس اون منی میں ایک منظم طریقے سے کار ڈیلرز اور سرمایہ کار شامل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ کار کی اصل قیمت سے زیادہ پیسے ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں کاریں تیار کرنے والی ایک بڑی کمپنی ٹویوٹا آئی ایم سی کی جانب سے کاروں کی ڈیلیوری میں تاخیر پر اپنے گاہکوں سے معذرت کا اشتہار گذشتہ دنوں اخبارات میں چھپا تاہم کمپنی کی جانب سے تاخیر کی وجہ سی کے ڈی درآمدات پر سٹیٹ بینک کی نئی پالیسی اور روپے کی قدر میں کمی کو قرار دیا گیا ہے۔ اگر ایک شخص نے گاڑی خریدنی ہے تو شوروم اسے کچھ مہینوں یا کچھ کیسز میں تو ایک سال کا وقت دیتا ہے لیکن اگر خریدار کو فوری گاڑی چاہیے تو اسے گاڑی کی اصل قیمت سے زیادہ پیسے ادا کرنا پڑیں گے جسے اون منی کہا جاتا ہے۔ ایسے میں آپ کمپنی کے بجائے کسی ایسے شخص سے کار خرید لیتے ہیں جس نے پہلے سے بُک کروا کر ڈیلیوری حاصل کر رکھی ہو۔ شہزاد نے بتایا کہ اس میں کار کمپنیوں سے لے کر ان کے مجاذ ڈیلرز، ان مجاذ ڈیلرز کے ذیلی ڈیلرز اور سرمایہ کار شامل ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق اون منی کے کاروبار میں اربوں روپے شامل ہیں جن میں بڑے بڑے سرمایہ کاروں کے ساتھ ڈیلرز اور کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اب اون منی اس وقت لی جاتی ہے جب ایک شخص کو جلدی کار چاہیے اور وہ ڈیلر سے رابطہ کرتا ہے اور ایسے انویسٹر جو ڈیلروں کے رابطے میں ہوتے ہیں اور جن کے پاس کار ڈیلیور ہونے والی ہوتی ہے وہ اضافی پیسے لے کر یہ کار بیچ دیتے ہیں۔ یہاں ایک مسئلہ روپے کی قدر میں عدم استحکام بھی ہے کیونکہ صارف یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اگر اون منی دے کر ابھی کار نہ خریدی گئی تو اس کی قیمت میں اضافے کے بعد اس سے زیادہ رقم ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔ کاروں کے شعبے میں اون منی کے حصول کے لیے کیا کارٹل کام کر رہا ہے، اس کے بارے میں مسابقتی کمیشن آٖف پاکستان سے رابطہ کیا گیا ہے تو کمیشن نے اپنے تحریری مؤقف میں کہا کہ اون منی عموماً ایک کار کی قیمت سے زیادہ قیمت وصول کرنے کو سمجھا جاتا ہے جو کار کی فوری ڈیلیوری کے لیے لیا جاتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-61974497", "summary": "دنیا میں ہجرت کے سب سے بڑے روٹس سے لوگوں کی ہجرت میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ کووڈ 19 کی عالمی وبا کے باعث کئی ممالک میں داخلے پر کڑی پابندیاں عائد ہیں۔", "title": "نقل مکانی کے لیے دنیا کے سب سے خطرناک راستے کون سے ہیں؟", "firstPublished": "2022-06-29T10:08:52.000Z", "id": "0d1039d8-e159-49c4-90a6-497352bbe003", "article": "دنیا میں تارکین وطن کی نقل مکانی کے سب سے بڑے روٹس سے لوگوں کی ہجرت میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ کووڈ 19 کی عالمی وبا کے باعث کئی ممالک میں داخلے پر کڑی پابندیاں عائد ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس سے اموات کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے نقل مکانی (آئی او ایم) کا اندازہ ہے کہ سنہ 2014 سے اب تک تقریباً 50 ہزار تارکینِ وطن یورپی یونین یا امریکہ پہنچنے کی کوشش میں یا تو ہلاک یا پھر لاپتہ ہو چکے ہیں۔ ادارے کا ماننا ہے کہ ہلاک شدگان و لاپتہ افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ وسطی بحیرہ روم کے روٹ کو دنیا میں ہجرت کے لیے سب سے خطرناک راستہ تصور کیا جاتا ہے آئی او ایم کے مطابق یہ تارکینِ وطن کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک روٹ ہے۔ اندازہ ہے کہ سنہ 2014 سے اب تک شمالی افریقہ سے یورپی یونین پہنچنے کی خاطر بحیرہ روم عبور کرنے کی کوشش کرنے والے ساڑھے 19 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ آئی او ایم کی ترجمان صفا مسیحلی کہتی ہیں کہ ’اس دوران وسطی بحیرہ روم کے خطے سے تارکینِ وطن کی روانگی جاری ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات دنیا کے اس سب سے خطرناک سمندری راستے پر اموات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہے۔ ریاستوں کی جانب سے ٹھوس اقدامات کی عدم موجودگی میں یہاں جانوں کا ضیاع جاری ہے۔‘ ایک تارکِ وطن عبداللہ ابراہیم نے اے ایف پی کو صحارا عبور کرنے کے اپنے تجربے کے بارے میں بتایا کہ ’صحرا میں آپ لوگوں کو مرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ کچھ لوگ تکان کے باعث مر جاتے ہیں تو کچھ لوگ پانی ختم ہو جانے کی وجہ سے۔‘ اس روٹ پر سب سے زیادہ ہلاکتیں ڈوبنے کے باعث ہوتی ہیں اور آئی او ایم کا اندازہ ہے کہ سنہ 2014 سے اب تک 3000 سے زیادہ افراد اس کوشش میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ آئی او ایم کا کہنا ہے کہ سنہ 2020 میں دنیا بھر میں ترکِ وطن کرنے والے ہر 10 میں سے چار افراد کا تعلق ایشیا سے تھا اور اس برِاعظم میں ترکِ وطن کے کئی اہم روٹس ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے ہجرت کا کہنا ہے کہ ایشیا میں گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران ہجرت کی کوشش میں 5000 کے قریب افراد یا ہلاک یا لاپتہ ہوئے ہیں۔ ایک اور مشکل روٹ ایران اور ترکی کے درمیان کا روٹ ہے جس پر ہجرت میں گذشتہ برس افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد سے بے نظیر اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین افراد (یو این ایچ سی آر) کا کہنا ہے کہ ایران اور قریبی ممالک میں 20 لاکھ سے زیادہ افغان افراد بطور پناہ گزین رجسٹرڈ ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-61980617", "summary": "دہائیوں کے بدترین معاشی بحران کے دوران سری لنکا نے غیر ضروری گاڑیوں کے لیے پیٹرول کی فروخت پر پابندی لگا دی ہے۔", "title": "سری لنکا میں عوام پر ذاتی گاڑیوں میں پیٹرول ڈلوانے پر پابندی، بات یہاں تک کیسے پہنچی؟", "firstPublished": "2022-06-29T09:43:38.000Z", "id": "97f608a3-c92a-4b71-a4d2-27e199eb4f6a", "article": "دہائیوں کے بدترین معاشی بحران کے دوران سری لنکا نے غیرضروری گاڑیوں کے لیے پیٹرول کی فروخت پر پابندی لگا دی ہے۔ اگلے دو ہفتوں کے دوران سری لنکا میں بسوں، ٹرینوں اور ایسی گاڑیوں کو ہی کو ایندھن بھروانے کی اجازت ہو گی جو میڈیکل سروسز یا خوراک کی نقل و حمل کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ فنانشل سروسز کمپنی انویسٹک میں آئل اینڈ گیس پر تحقیق کرنے والے نیتھن نیپیئر بتاتے ہیں کہ سری لنکا وہ پہلا ملک ہے جس نے عام آدمی کے لیے ایندھن کی فراہمی پر پابندی عائد کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ پابندی تیل کی قیمتوں میں بڑے اضافے اور سری لنکا میں زرِمبادلہ کے محدود ذخائر کے باعث لگائی گئی ہے۔ پیر کو حکومت نے اعلان کیا کہ ذاتی گاڑیوں پر پیٹرول اور ڈیزل بھروانے پر 10 جولائی تک کے لیے پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ کابینہ کے ترجمان بندولا گنیوردنا نے کہا کہ سری لنکا نے 'اپنی تاریخ میں ایسا شدید معاشی بحران پہلے نہیں دیکھا۔' گذشتہ ہفتے کے اختتام پر حکام نے بتایا تھا کہ ملک کے پاس صرف نو ہزار ٹن ڈیزل، اور چھ ہزار ٹن پیٹرول رہ گیا ہے جسے ضروری سروسز کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ مئی میں ملک تاریخ میں پہلی بین الاقوامی اداروں سے لیے جانے والے قرضے واپس کرنے میں ناکام ہوا تھا۔ اس کے بعد صدر راجاپکسے کی حکومت کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہوا تھا۔ ان کے بھائی مہندرا نے بطور وزیرِ اعظم کرسی چھوڑ دی تھی لیکن صدر پر اب بھی استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ 'پڑھے لکھے نوجوانوں' کو ملک چلانا چاہیے۔ گذشتہ ہفتے آئی ایم ایف کی ایک ٹیم سری لنکا میں آئی اور یہاں تین ارب ڈالر کے بیل آؤٹ معاہدے کے لیے مذاکرات شروع کیے۔' گذشتہ چند ہفتوں کے دوران وزرا نے کسانوں سے زیادہ چاول اگانے کی اپیل کی اور سرکاری اہلکاروں کو ہفتے میں مزید ایک دن چھٹی بھی دی تاکہ وہ اناج اگا سکیں، کیونکہ انھیں خوراک کی قلت کا بھی خدشہ ہے۔ حکومت اس بحران کا ذمہ دار کووڈ کی عالمی وبا کو ٹھہراتی ہے جس کے باعث سری لنکا میں سیاحت کا شعبہ متاثر ہوا، کیونکہ یہی شعبہ اس کے لیے سب سے بڑا زرِمبادلہ حاصل کرنے والا سیکٹر ہے۔ تاہم متعدد ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے کی گئی بدانتظامی اس معاشی بحران کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ سری لنکا کے زرِمبادلہ کے زخائر کئی سالوں بعد نہ ہونے کے برابر ہو گئے کیونکہ اس دوران اس کی درآمدات کا حجم برآمدات سے کہیں زیادہ تھا اور اس نے چین سے متنازع انفراسٹرکچر پراجیکٹس میں بہت زیادہ قرضہ لیا۔ جب سری لنکا کی زرِ مبادلہ کی قلت سنہ 2021 کے اوائل میں ایک سنجیدہ مسئلہ بن گئی تو حکومت نے کیمیکل کھاد کی درآمدات پر پابندی عائد کی اور کسانوں سے کہا کہ وہ آرگینک کھاد کا استعمال کریں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-61962222", "summary": "کورونا وائرس کے باعث معاشی صورتحال کی بدحالی، سپلائی چین میں رکاوٹوں اور یوکرین پر روسی حملے سمیت کئی عوامل نے افراط زر کو ایک ایسی سطح تک پہنچا دیا ہے جو دہائیوں میں نہیں دیکھی گئی اور بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ آنے والے دنوں میں کساد بازاری کا اشارہ ہے۔", "title": "کیا عالمی معیشت میں مندی کو روکا نہیں جا سکتا؟", "firstPublished": "2022-06-29T03:54:30.000Z", "id": "1c586bf4-d5e2-441e-aee3-e9038ac4f584", "article": "زیادہ سے زیادہ ماہرینِ معاشیات آج کل کساد بازاری پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔ کورونا وائرس کے باعث معاشی صورتحال کی بدحالی، سپلائی چین میں رکاوٹوں اور یوکرین پر روسی حملے سمیت کئی عوامل نے افراط زر کو ایک ایسی سطح تک پہنچا دیا ہے جو دہائیوں میں نہیں دیکھی گئی۔ اور بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ آنے والے دنوں میں کساد بازاری کا اشارہ ہے: معاشی سرگرمیوں میں مندی یا کل پیداوار میں کمی کی بار بار آنے والی مدت۔ ' وہ کہتی ہیں کہ یہ کورونا وبا کے اثرات، اس کے باعث طلب و رسد میں فرق اور رکاوٹوں، روس کے یوکرین پر حملہ کرنے، غذائی قلت یا توانائی کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے نہیں ہو گا بلکہ اگر اسے آسٹریلوی نظریہ معیشت کے الفاظ میں کہیں تو یہ بنیادی طور پر حکومتوں کی جانب سے معیشت کی فرضی توسیع کے باعث پیدا ہونے والی معاشی ترقی کا رحجان ختم ہو جائے گا۔ یہ تیزی ختم ہو جائے گی اور پیداواری سطح گرنے سے معاشی بحران پیدا ہو گا۔ چونکہ ابھی تک سپلائی چین میں گڑ بڑ جاری ہے اور امریکہ کی اپنی سرحدوں سے دور جنگ بھی جاری ہے، امریکی صارفین کی مصیبتوں میں کمی نہیں آ رہی ہے اور انھیں مسلسل مہنگائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور اب جبکہ فیڈ 4 فیصد کی مجوزہ شرح کے مطابق شرح سود میں اضافہ کر رہا، ایسے میں اسے ایک قدرے کمزور معیشت کو بھی سہارا دینا ہوگا۔ آخر کار، ہوتا تو یہی ہے کہ سرمائے کی قیمت میں اضافے سے سرمایہ کاری میں کمی ہو جاتی ہے، جس سے طلب پر دباؤ کم ہو جاتا ہے۔ یہ رجحان پہلے ہی شروع ہو چکا ہے اور مصنوعات کی فروخت میں کمی کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ لیکن اس سے رسد پر لگی پابندیوں کے اثرات پر قابو پانا اتنا آسان نہیں ہوگا، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب کورونا کی وبا کو ختم ہوئے زیادہ عرصہ نہ گزرا ہو یا دنیا میں جنگ ہو رہی ہو۔ اینڈریاس مورینو جاراملو، ماہر معاشیات، معاشی مشیر اور سٹاک مارکیٹ کے تجزیہ کار کے مطابق کچھ ماہرین اقتصادیات سمجھتے ہیں کہ شرح سود بڑھ رہی ہے، ہم کساد بازاری میں گھرے ہوئے ہیں، اور ان لوگوں کا خیال ہے کہ یہ چکر واپس آنے والا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا ممکن ہے، لیکن اگر حالات مزید کسی جنگ، اشیاء کی کمی، یا کووڈ میں اضافے سے خراب نہیں ہوتے تو ہو سکتا ہے کساد بازاری نہ ہو۔ میرا خیال شدید برا وقت گزر چکا ہے اور امریکہ بھی تمام دیگر ممالک کی طرح افراط زر میں اضافے کا شکار ہے۔ اس افراط زر سے کسی حد تک معیشت سست ہو جائے گی، حتی کہ ترقی کی شرح منفی بھی ہو سکتی ہے، لیکن یہ کوئی اتنی بُری بات بھی نہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61940000", "summary": "بینک اشورنس میں انشورنس کمپنی بینک کا کاؤنٹر استعمال کرتی ہے اور اس میں بینک ایک کارپوریٹ ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں اور عملہ کمیشن حاصل کرتا ہے جس کی وجہ سے یہ ممکن ہے کہ صارفین سے غلط بیانی کر کے انھیں بینک انشورنس بیچ دی جائے۔", "title": "بینک اشورنس میں ’فراڈ‘ کیا ہے اور صارفین اپنی ڈوبی رقوم کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟", "firstPublished": "2022-06-27T03:32:32.000Z", "id": "d6ee5167-2a68-4aee-96eb-8e4bd72a559b", "article": "بینک اشورنس میں انشورنس کمپنی بینک کا کاؤنٹر استعمال کرتی ہے اور اس میں بینک ایک کارپوریٹ ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ جس طرح ایک انشورنس کمپنی کی پراڈکٹ کے لیے ایجنٹ ہوتے ہیں جو پالیسی کروانے پر اپنی کمیشن لیتے ہیں، اسی طرح بینک اشورنس میں متعلقہ بینک کاروپوریٹ ایجنٹ کے طور پر یہ کمیشن حاصل کرتا ہے۔ بینک اشورنس کے نام پر ’دھوکہ‘ کھانے والے صارفین کی فہرست لمبی ہے اور لوگوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ان کی رقم جو انھوں نے سرمایہ کاری کے طور پر لگائی تھی، اسے بینک اشورنس کے ذریعے پالیسی میں لگا دیا گیا اور اس پر کٹوتی کر لی گئی یا پھر دیگر بعض صارفین کہتے ہیں کہ انھیں اس سے منافع نہیں ہوا، الٹا سخت شرائط و ضوابط سے وہ اپنا نقصان کر بیٹھے۔ انھوں نے کہا کہ بینکوں کے عملے پر اعلیٰ انتظامیہ کی جانب سے بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے اور یہ لوگوں کو ہر صورت میں بینک اشورنس میں لانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ اس عملے کو انشورنس پراڈکٹ بیچنا ہوتی ہے اور اپنے کلائنٹس کو وہ ’مس گائیڈ‘ کرتے ہیں اور ان کی سرمایہ کاری کو مختلف حیلے بہانوں سے بینک اشورنس میں لاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر عملہ دس لاکھ کی بینک اشورنس کی پالیسی کرتا ہے تو پانچ سے چھ لاکھ اسے کمیشن میں مل جاتے ہیں۔ ارسلان نے بتایا کہ جس طرح عام انشورنس ایجنٹ کمیشن پالیسی کرنے پر کمیشن حاصل کرتے ہیں، اسی طرح بینک کارپوریٹ ایجنٹ کے طور پر یہ کمیشن حاصل کرتے ہیں۔ ’بینک انتظامیہ ہر صورت میں ٹارگٹ پورا کر کے زیادہ سے زیادہ کمیشن حاصل کرنا چاہتی ہے، اس لیے عملہ مس سیلنگ یعنی غلط انداز میں بینک اشورنس کے ذریعے پراڈکٹ فروخت کرتا ہے اور اس کے لیے لوگوں کو غلط معلومات فراہم کرتا ہے۔‘ این اے عثمانی نے اس سلسلے میں کہا کہ انشورنس کمپنیوں کی جانب سے جب بینکوں کو ایک ہدف دیا جاتا ہے تو یہ ایک روٹین کی بات ہے اور اگر بینک کے عملے کی جانب سے لوگوں کو غلط طریقے سے انشورنس پالیسی دیتے ہیں تو ’اس میں انشورنس کمپنی کا کوئی قصور نہیں۔‘ تاہم انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ بینک اشورنس کے غلط طریقے سے روایتی انشورنس کے لیے اگر بدنامی ہوتی ہے تو یہ پریشانی کی بات ہے۔ ’انشورنس شعبے کے افراد اس بارے میں فکرمند ہیں کیونکہ بینک اشورنس کی وجہ سے ان پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں۔‘ صدیقی نے بتایا کہ بینک کا عملہ جب کسی کو بینک اشورنس پراڈکٹ بیچتا ہے تو وہ اسے انشورنس پالیسی نہیں بلکہ بینک کی پراڈکٹ کے طور پر بیچ رہا ہوتا ہے، اس لیے اکثر اوقات لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں اور پھنس جاتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-61920539", "summary": "کیا آپ کو معلوم ہے کہ کسی کرپٹو کرنسی کی قدر کا انحصار، عام پیسوں کی طرح، ’بیوقوف‘ لوگوں پر ہوتا ہے۔ جیسے ہم کاغذ کے ٹکڑوں کی تجارت سے روز بس کا ٹکٹ اور کھانا خریدتے ہیں۔ پیسے کی قیمت صرف اس صورت میں ہوتی ہے جب آپ کو یقین ہو کہ ان کی کوئی قیمت ہے۔۔۔", "title": "کرپٹو کرنسی کو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے مگر اس کا استعمال ہر کسی کے بس کی بات نہیں!", "firstPublished": "2022-06-27T01:28:54.000Z", "id": "e4bfaaf7-f7b6-4c8f-9699-0be7ae6cedd7", "article": "میں نے اپنے تمام پاؤنڈز کو بٹ کوائن میں بدل کر کرپٹو کرنسی کا سفر شروع کیا۔ میں نے ایسا کرنے میں کافی سکون محسوس کیا کیونکہ بٹ کوائن بالکل عام پیسوں کی طرح ہے۔ بینک اور حکومت کے کنٹرول کی بجائے اس کرنسی کو کمپیوٹرز اور کے ایک غیر مرکزی نیٹ ورک کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے جسے ’بلاک چین‘ کہتے ہیں۔ میں نے کیا سبق سیکھا؟ کریپٹو کرنسی کا مالک ہونا ایسا ہی ہے جیسے آپ اپنے پیسوں کو اپنے گدے کے نیچے رکھیں۔ اور پھر آپ اپنے آپ سے پوچھیں کہ یہ گدا کتنا محفوظ ہے؟ اور گدے پر سونے والا شخص کتنا محفوظ ہے؟ میں ذاتی طور پر ایک بچے کی طرح سوتا ہوں، براہ کرم مجھے لوٹ نہ لینا۔ اپنے شو کے اختتام تک، میں پیداوار کے ذرائع پر قبضہ کرنے کے لیے بے چین تھا لہٰذا میں نے اپنی کرنسی متعارف کرانے کا فیصلہ کر لیا۔ اگر ایسا کچھ تھا تو یہ بہت آسان تھا۔ میری چیٹ روم میں تقریباً 20 منٹ تک ایک شخص سے ملاقات ہوئی، جسے پھر میں نے ناک آؤٹ کر دیا۔ جب بات کرپٹو کرنسی کی ہو تو پھر کوئی بھی اپنی رقم خود پرنٹ کر سکتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے۔ صرف ایک دو کلک سے اسے حقیقت میں بدلا جا سکتا ہے! کرپٹو کرنسی اور ہارڈ منی کے درمیان ایک اہم فرق یہ ہے کہ کرپٹو میں متعدد افادیتیں، یا اضافی فوائد بھی ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کسی ایونٹ کے ٹکٹ یا کسی کمپنی میں حصہ داری کی نمائندگی کر سکتا ہے۔ پریشان کن طور پر، اپنی کرپٹو کرنسی واپس فروخت کرتے ہوئے میں نے اس کی افادیت کے بارے میں بہت سے جھوٹ بولے اور ایک وکیل نے مجھے مشورہ دیا کہ میں نے دھوکہ دہی کی ہے، اس لیے مجھے روکنے پر مجبور کیا گیا۔ آپ کچھ جیت جاتے ہیں، کچھ ہارتے ہیں۔ اگر آپ اب بھی کرپٹو کی دلچسپ دنیا کو سمجھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں تو شاید آپ کو سکون کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں، تمام رقم بنی بنائی ہے، چٹانوں سے لے کر کاغذ تک، سونے تک، ڈیجیٹل بِٹس تک، پیسے کی قیمت صرف اس صورت میں ہوتی ہے جب آپ کو یقین ہو کہ وہ قیمتی ہے۔ کرپٹو کی قدر کا انحصار، عام پیسوں کی طرح، بیوقوف لوگوں پر ہوتا ہے جو بے تکی چیزوں پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ اچھے مقاصد کے لیے ہر ایک دن کاغذ کے ٹکڑوں کی تجارت کرتے ہیں تاکہ کھانے پینے اور بس پر سواری کرنے یا دیگر ضروریات زندگی پوری کر سکیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61938821", "summary": "پاکستان تحریک انصاف کے مداح گذشتہ کئی روز سے سٹینفورڈ یونیورسٹی سے منسوب احساس پروگرام پر ایک ورکنگ پیپر شیئر کر رہے ہیں اور اسے عمران خان کے منصوبے کی کامیابی کی دلیل قرار دے رہے ہیں۔ لیکن اس کی حقیقت کیا ہے؟", "title": "سٹینفورڈ کے ورکنگ پیپر میں احساس پروگرام کی تعریف مگر اس تحقیق پر اعتراض کیوں؟", "firstPublished": "2022-06-26T01:40:42.000Z", "id": "abade677-f92e-46f4-a5bb-46c18686fd58", "article": "سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ایک ذیلی ادارے نے احساس پروگرام پر ایک ورکنگ پیپر شائع کیا ہے جسے گذشتہ دنوں پی ٹی آئی دور میں احساس پروگرام کی سابق چیئرپرسن ڈاکٹر ثانیہ نشتر اور پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کی جانب سے شیئر کیا گیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ احساس پروگرام کی کامیابی کو سٹینفورڈ یونیورسٹی نے بھی مان لیا ہے۔ تاہم اس ورکنگ پیپر کے حوالے سے متعدد دعوے کیے جا چکے ہیں اور اس کی حیثیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کے حوالے سے ہم نے احساس پروگرام کی سابق چیئرپرسن ڈاکٹر ثانیہ نشتر سے بات کی ہے۔ اس ورکنگ پیپر میں بتایا گیا ہے کہ 2018 سے (تحریک انصاف کے دور میں) حکومتِ پاکستان کی طرف سے شروع کیے گئے احساس پروگرام نے غربت کے خاتمے کے عالمی پروگرامز میں اپنا نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ اس کے نتائج کے مطابق ’اصلاحات سے احساس (پروگرام) بڑے پیمانے پر اثر انداز ہوسکا، اس کی شفافیت بڑھی اور تبدیلیوں سے کارکردگی میں اضافہ ہوا جبکہ اس سے فائدہ اٹھانے والوں اور پروگرام کی انتظامیہ کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہوا۔‘ خیال رہے کہ ورکنگ پیپر سے مراد ایسا ابتدائی مقالہ ہے جسے پیئر ریویو نہیں کیا گیا، یعنی متعلقہ ماہرین نے اس پر باقاعدہ نظرثانی نہیں کی اور نہ ہی اسے متعلقہ موضوع کے جریدے میں شائع کیا گیا ہے جس سے اس کے مستند ہونے پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے۔ ’دوسرا اگر آپ کسی پروگرام کی امپیکٹ اویلیوئیشن (یعنی جائزہ) بھی لیتے ہیں تو رگورس امپیکٹ ایوولیوئیشن کی جاتی ہے جس کے اپنے مراحل ہوتے ہیں۔ تاہم اس ورکنگ پیپر کو یہ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ان کی اپنی رائے ہے، اور یہ تحقیق کے پیچیدہ مراحل سے نہیں گزرا۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اس ورکنگ پیپر کی اہمیت سے قطع نظر یہ ایک کامیاب پروگرام ہے جسے پاکستان پیپلز پارٹی سے لے کر پاکستان تحریکِ انصاف تک تمام جماعتوں کی جانب سے آگے بڑھایا گیا ہے اور وسیع کیا گیا، جو خوش آئند ہے۔‘ جب پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو انھوں نے کوشش کی کہ اس کا نام تبدیل کر کے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے نیشنل انکم سپورٹ پروگرام رکھا جائے۔ تاہم کیونکہ ایسا کرنے کے لیے کچھ آئینی مسائل درپیش تھے اور اس پر پیپلز پارٹی کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا تھا، اس لیے ایسا کرنے سے اجتناب کیا گیا۔ محمد سلیم کے مطابق جب پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت آئی تو اس کا نام باضابطہ طور پر تو تبدیل نہیں ہوا لیکن اسے ’غیر رسمی طور پر تبدیل کر کے احساس پروگرام رکھ دیا گیا، جس میں مزید منصوبے بھی شامل کیے گئے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61934397", "summary": "400 ارب روپے اضافی ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے جہاں حکومت نے کچھ دوسرے اقدامات اٹھائے ہیں جس میں 13 بڑے صعنتی شعبوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس لگانے کی تجویز ہے تو اس کے ساتھ ساتھ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح میں ردو بدل کر دی گئی ہے جس کے تحت اضافی ٹیکس وصول کرنے کی تجویز ہے۔", "title": "نئے تجویز کردہ ریٹ کے تحت تنخواہ سے کتنا ٹیکس کٹے گا؟", "firstPublished": "2022-06-25T09:36:14.000Z", "id": "55526b8b-e767-41a7-a386-2b3f54b871d2", "article": "’10 جون 2022 کو پیش کیے جانے والے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو شرحِ ٹیکس میں رعایت دے کر 47 ارب کا ریلیف دیا تھا تاکہ مہنگائی کے دور میں انھیں کچھ ریلیف مل سکے۔۔۔ مگر اب حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح میں ردو بدل کرتے ہوئے نا صرف 47 ارب کا ریلیف واپس لے لیا ہے بلکہ اس طبقے سے 33 ارب روپے اضافی وصول کیے جائیں گے۔‘ 400 ارب روپے اضافی ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے جہاں حکومت نے کچھ دوسرے اقدامات اٹھائے ہیں جس میں 13 بڑے صعنتی شعبوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس لگانے کی تجویز ہے تو اس کے ساتھ ساتھ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح میں ردو بدل کر دیا گیا ہے اور 10 جون کو پیش کیے جانے والے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس سلیب تو سات ہی رہیں گے تاہم ان پر ٹیکس کی شرح کو بڑھا دیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعے اضافی 33 ارب روپے اکٹھے کیے جائیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت اضافی ٹیکس اکٹھے کرنے کے لیے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی نئی شرح تجویز کی گئی ہے تاہم سلیب کی تعداد سات ہی رکھی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے تنخودار طبقے کی ٹیکس کی نئی شرح کی تجویز کو ترمیم شدہ فنانس بل کا حصہ بنایا گیا ہے۔ معاشی امور کے سینئر صحافی شہباز رانا کہتے ہیں کہ 10 جون 2022 کو پیش کیے جانے والے بجٹ میں حکومت تنخواہ دار طبقے کے ٹیکس شرح میں رعایت دے کر انھیں 47 ارب کا ریلیف دیا تھا تاکہ مہنگائی کے دور میں انھیں کچھ ریلیف مل سکے۔ ’تاہم اب آئی ایم ایف کے مطالبے پر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح میں جو ردو بدل کیا گیا ہے اس کے بعد نا صرف 47 ارب کا ریلیف واپس لے لیا گیا ہے بلکہ اس طبقے سے 33 ارب روپے اضافی وصول کیے جائیں گے جو مہنگائی کے اس دور میں ان میں مزید بوجھ ڈالے گا جب حکومت اگلے مہینے سے پٹرولیم لیوی لگانے جا رہی ہے۔‘ مرچںٹ نے کہا کہ ٹیکس کی نئی شرح سے تنخواہ دار طبقے کی قوت خرید کم ہو گی جو ان کے لیے مزید مالی مشکلات پیدا کرے گا۔ ان کے مطابق دنیا میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح کافی زیادہ ہے خاص کر ترقی یافتہ ممالک میں تاہم وہاں پر انھیں تعلیم، صحت اور تحفظ کی سہولیات حاصل ہوتی ہیں اس لیے وہاں ٹیکس کی شرح کے زیادہ ہونے سے ان کی قوت خرید پر زیادہ اثر نہیں پڑتا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-61926269", "summary": "منجو یادو انڈیا کے شہر جے پور کے ٹرین سٹیشن پر واحد خاتون قلی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ قلی کا پیشہ اتنا آسان نہیں جتنا انھوں نے شروع میں سمجھا تھا۔", "title": "انڈیا میں جے پور کی واحد خاتون قلی جن سے مرد ساتھی بھی مدد مانگتے ہیں", "firstPublished": "2022-06-25T03:29:07.000Z", "id": "84466ce4-be0d-494c-9f32-debb96592d2f", "article": "بازو پر قلی نمبر 15 کا بیج، سر اور کندھوں پر سواریوں کا سامان اور گھر پر تین بچوں کی ذمہ داریاں۔۔۔ لیکن ان کے چہرے پر کوئی شکن نہیں۔۔۔ یہ انڈیا کے شہر جے پور کے ٹرین سٹیشن پر واحد خاتون قلی منجو یادو کا منظر ہے۔ قلی کا پیشہ ان پیشوں میں سے ایک ہے جسے عام طور پر مرد اپناتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود منجو یادو یہ کام گذشتہ 10 سال سے کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں تمام ٹرینوں کے بارے میں جانتی ہوں۔ ممبئی سپر ایکسپریس کس وقت پہنچتی ہے، چنئی والی ٹرین کس سٹیشن پر آتی ہے۔ مجھے تمام گاڑیوں کا ٹائم ٹیبل یاد ہے۔ میں ان پڑھ ہوں لیکن میرا دماغ ان پڑھ نہیں ہے۔‘ 15 سال پہلے منجو یادو کے شوہر کی موت ہو گئی تھی، جس کے بعد انھیں روزگار خود تلاش کرنا پڑا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’گاؤں میں جو عورتیں گھاس کاٹتی ہیں، بھینسیں چراتی ہیں، وہی محنت قلی کے کام میں بھی ہے۔‘ کام کی تلاش میں جب وہ پہلی بار ٹرین سٹیشن آئیں تو دیکھا کہ کوئی قلی ٹرالی کھینچ رہا تھا تو کسی کے کندھے پر دو بیگ تھے اور سر پر دو۔ وہ کہتی ہیں ’مجھے لگا یہ کام تو آسان ہے۔ یہ کام تو میں بھی کر لوں گی۔‘ پھر انھوں نے وہاں مرد قلیوں سے اس کام کے بارے میں دریافت کیا۔ وہ کہتی ہیں ’انھوں نے میری مدد کی۔ پھر میں قلی بن گئی۔‘ وہ شوہر کی موت کا حوالہ دیتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’ان کی وفات کے بعد گاؤں میں پینے کا پانی نہیں تھا، گھر نہیں تھا۔ پانی ہوتا تو زمین میں فصل ہو جاتی۔ پھر میں نے سوچا کہ عورتیں جو برتن میں پانی بھر کر اٹھاتی ہیں وہی کام تو قلی کا ہے۔‘ لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ قلی کا پیشہ اتنا آسان نہیں ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’ایک مسافر کا 30 کلو وزنی سامان تھا۔ جب میں نے سامان اٹھانے کی کوشش کی تو اسے اٹھا نہ سکی اور گر گئی۔‘ منجو یادو کے خاندان میں متعدد لوگ قلی کا کام کر چکے ہیں۔ اس سے پہلے ان کے سسر یہ کام کرتے تھے، جس کے بعد ان کے شوہر نے یہ کام سنبھالا۔ لیکن شوہر کی موت کے بعد بچوں کی پرورش کے لیے انہیں بھی اسی پیشے میں آنا پڑا۔ وہ خاتون کارکنان کے لیے پیغام دیتی ہیں ’میرا تو اتنا کہنا ہے کہ عورتیں ہمت دکھائیں اور عورتوں کا نام آگے بڑھائیں۔‘ ان کی اسی سوچ نے گذشتہ 10 برسوں میں انہیں متعدد اعزازات کا حقدار بنایا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرے گھر میں ایوارڈ رکھنے کی جگہ نہیں، میرے پاس اتنے ایوارڈ ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61920353", "summary": "پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے بڑی صنعتوں پر دس فیصد کے حساب سے ’سپر ٹیکس‘ لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ جس کے بعد ایک جانب تو ’امیر طبقے‘ پر ٹیکس لگانے کے فیصلے کو خوش آّئند قرار دیا جا رہا ہے تو دوسری جانب اس خدشے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ اس کے اثرات بھی قیمتوں میں اضافے کی شکل میں عوام کو ہی برداشت کرنا ہوں گے۔ مگر ون ٹائم سپر ٹیکس ہے کیا اور یہ کیوں لگایا جاتا ہے؟", "title": "’سپر ٹیکس‘ کیا ہے اور یہ کیوں لگایا جاتا ہے؟", "firstPublished": "2022-06-24T09:04:30.000Z", "id": "96d3ea5b-ef18-4533-b3ea-adf4fb14d4f4", "article": "پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے آج بڑی صنعتوں پر دس فیصد کے حساب سے ’سپر ٹیکس‘ لگانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا ہے کہ اس اقدام سے اکٹھے ہونے والے پیسوں کو ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ’سپر ٹیکس‘ کے بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سپر ٹیکس چار فیصد کے حساب سے تمام شعبوں پر لگے گا جبکہ 13 صنعتی شعبوں پر چھ فیصد کے حساب سے اضافہ کر کے ان سے دس فیصد کی شرح سے یہ سپر ٹیکس وصول کیا جائے گا جس کے بعد ان پر ٹیکس وصولی کی شرح 29 فیصد سے 39 فیصد ہو جائے گی۔‘ وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’یہ ٹیکس صرف ون ٹائم یعنی ایک مالی سال کے لیے لگایا گیا ہے اور اس کے ذریعے سابقہ چار ریکارڈ بجٹ خساروں کو کم کیا جائے گا۔‘ حکومت کی جانب سے ’سپر ٹیکس‘ کی اصطلاح استعمال ہونے کے بعد جہاں سوشل میڈیا صارفین اس ’نئے‘ ٹیکس کی وضاحتیں طلب کرتے نظر آ رہے ہیں وہیں معاشی ماہرین اس ٹیکس کے نفاد کے پاکستان کی معاشی صورتحال پر پڑنے والے اثرات پر اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ جبکہ اپوزیشن تحریک انصاف نے دعویٰ کیا ہے سپر ٹیکس کا نفاذ ملک میں مہنگائی میں اضافے کا باعث بنے گا۔ حکومت کی جانب سے بڑے صعنتی شعبوں پر سپر ٹیکس لگانے کے اعلان کے بعد اس ٹیکس کی نوعیت کے بارے میں ماہر ٹیکس امور اشفاق تولہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ایک خاص ٹیکس ہوتا ہے اور عمومی ٹیکس کے اوپر لگایا جاتا ہے۔‘ ایک جانب تو امیر طبقے پر ٹیکس لگانے کے فیصلے کو خوش آّئند قرار دیا گیا تو دوسری جانب اس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا کہ اس کے اثرات بھی قیمتوں میں اضافے کی شکل میں عوام کو ہی برداشت کرنا ہوں گے۔ چند افراد نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ اس ٹیکس کے بعد قیمتوں میں اضافہ کر دیا جائے گا اور یہ پیسہ صارف سے ہی وصول کیا جائے گا۔ علی عباس زیدی، جنھوں نے امیر ترین افراد پر سپر ٹیکس کی حمایت میں ٹویٹ کی، نے ساتھ ہی حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا کہ ’ریئل سٹیٹ پر بھی یہ ٹیکس لاگو کیا جائے اور اس بات کو بھی یقینی بنانے کے لیے اقدامات اور پالیسی بنائی جائے کہ یہ ٹیکس صارف کی جیب سے ہی ادا نہ ہو رہا ہو۔‘ واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے ٹیکس کی مد میں اضافے کی کوششوں کا اعلان بھی کیا گیا ہے اور وزیر اعظم نے اپنے خطاب کے دوران سالانہ دو ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری روکنے کے لیے اقدامات پر بھی زور دیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61910307", "summary": "سی پیک سے جڑے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ حالیہ حملوں کے بعد چینی افراد، خاص طور سے وہ جن کا تعلق سی پیک منصوبوں سے ہے، کو ان کے ملک واپس بھیجا گیا ہے جبکہ جن منصوبوں پر تاحال کام جاری ہے ان پر افرادی قوت کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔", "title": "پاکستان میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات کا سی پیک منصوبوں پر کیا اثر پڑا؟", "firstPublished": "2022-06-24T04:05:47.000Z", "id": "0fc95172-5cb3-4a13-8170-ec86abd900b7", "article": "اس کے بارے میں سی پیک سے جڑے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ حالیہ حملوں کے بعد چینی افراد، خاص طور سے وہ جن کا تعلق سی پیک منصوبوں سے ہے، انھیں ان کے ملک واپس بھیجا گیا ہے جبکہ جن منصوبوں پر تاحال کام جاری ہے ان پر افرادی قوت کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب سی پیک کے منصوبوں سے جڑے ایک ترجمان نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سی پیک کے جاری منصوبوں پر حالیہ حملوں کا تین طریقے سے اثر پڑا ہے۔ سی پیک منصوبوں کی کُل تعداد کے حوالے سے حکومت نے ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان منصوبوں پر لگنے والی رقم 49 ارب ڈالر ہے۔ ان میں سے ایک سی پیک کے تحت نئے منصوبے شروع کرنے کے بارے میں تھا، جس کے بارے میں حکومت کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ان منصوبوں کے لیے مزید فنڈز جاری کیے جائیں گے اور ان پر جلد کام شروع کیا جائے گا۔ لیکن سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے وفاقی حکومت کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ چینی حکام نے خاصے واضح الفاظ میں حکومت کو کہا ہے کہ وہ ’پہلے سے جاری منصوبوں کو نمٹانے کے بعد ہی کسی نئے منصوبے پر بات کریں گے۔‘ ترجمان کا کہنا ہے کہ ان حملوں کا ایک اثر اس بات پر پڑا کہ منصوبوں پر کام کرنے والے چینی مزدوروں یا انجینئیرز کو فوری طور پر پاکستان سے واپس چین بھیجا گیا اور ’افسران کو اسلام آباد تک محدود رہنے کی ہدایت کی گئی۔‘ سی پیک سے ہی جڑے ایک اور افسر نے بتایا کہ ’چینی حکام اور پاکستان کے درمیان حفاظتی امور کو لے کر خاصی بات چیت ہوئی ہے لیکن ہم ان سے امید نہیں کر سکتے کہ وہ اپنے لوگوں کو یہاں مرنے کے لیے چھوڑ دیں۔‘ اسی سلسلے میں گوادر اور لسبیلہ سے رکنِ قومی اسمبلی اسلم بھوتانی نے بی بی سی کو بتایا کہ بلوچ شدت پسندوں کی جانب سے حملوں کے بعد جاری منصوبوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ جبکہ اسی اجلاس میں شامل وزارتِ داخلہ کے ترجمان کو بھی بتایا گیا کہ جو حفاظتی پروٹوکول سی پیک پر کام کرنے والے افراد کے لیے وضع کیے گئے ہیں ’وہ ان اقدامات پر عمل بھی کروائیں۔‘ حکومتی ترجمان نے اس کے بارے میں کہا کہ ’چینی افراد پر لازم نہیں کہ وہ یہیں رہیں اور خود پر ہونے والے حملوں کا سامنا کرتے رہیں۔ حکومت انھیں بہت اچھی حفاظت فراہم کر رہی ہے لیکن ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ چین پاکستان کے علاوہ مختلف ممالک میں منصوبے چلا رہا ہے تو وہ کہیں بھی جا سکتے ہیں اور چاہیں تو اپنی نفری یہاں سے کم کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-61891274", "summary": "یہ یو ٹیوبرز وہی بات کرتے ہیں جو انڈیا کے نوجوان سرمایہ کار سننا چاہتے ہیں۔ ان میں سے لاکھوں نے حصص بازار (سٹاک مارکیٹ) کی گھڑ دوڑ میں حصہ لینے کے لیے تجارتی اکاؤنٹس کھولے اوراپنی ہی طرح کے لوگوں سے آن لائن سرمایہ کاری کی خدمات حاصل کیں۔", "title": "نوجوان سرمایہ کاروں کو پیسے کمانے کا راستہ دکھانے والے انڈین یوٹیوبرز جو راتوں رات مشہور ہوئے", "firstPublished": "2022-06-23T01:08:11.000Z", "id": "a50678cf-2601-494f-982c-061f1334261b", "article": "انھوں نے اس کے متعلق کتابیں پڑھیں اور انٹرنیٹ پر موجود مواد (ویڈیوز) کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ انھیں جلد ہی یہ پتا چل گیا کہ ویڈیو پلیٹ فارم ’یو ٹیوب‘ پر مالیاتی مواد (فنانشل کانٹینٹ) تیار کرنے والے زیادہ تر نوجوان تخلیق کار تھے جو اُن کی ہی کی زبان بول رہے تھے یعنی سادہ، سہل اور عام لوگوں کو سمجھ آنے والی زبان۔ شیوم کھتری کہتے ہیں کہ ’اُن نوجوانوں کی ویڈیوز سادہ اور سمجھنے میں آسان ہیں۔ اور یہ یو ٹیوبرز مختلف موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔‘ یہ بالکل وہی ہے جو انڈیا کے نوجوان سرمایہ کار چاہتے ہیں۔ ان میں سے لاکھوں نے وبائی امراض کے دوران بازار حصص (سٹاک مارکیٹ) کی گھڑ دوڑ میں حصہ لینے کے لیے تجارتی اکاؤنٹس کھولے اور انھوں نے اُن کی طرح کے ہی لوگوں سے آن لائن سرمایہ کاری کی خدمات حاصل کیں۔ انکور واریکو بتاتے ہیں کہ یہ محرک کرنے والے عوامل کا ایک ’مضبوط مرکب‘ تھا جس میں سستے ڈیٹا، انٹرنیٹ اور ٹی وی کی بڑھتی ہوئی رسائی اور انڈیا کی نوجوان ملینیئل آبادی نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر موضوع ’پیسہ‘ ہو تو وہ خاص طور پر نوجوان انڈینز کے ذہن میں گونجتا ہے: ’یہ ایک ایسی چیز ہے جسے ہم سب سمجھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں [سمجھنے] کا موقع بہت کم ہی دیا گیا ہے۔‘ برسوں سے انڈیا میں کئی کاروباری چینلز ہیں جو ریئل ٹائم مالیاتی مارکیٹ کی خبریں نشر کرتے ہیں۔ لیکن وہ بہت حد تک نئے سرمایہ کاروں کے بجائے بڑے اور پرانے تاجروں اور ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کی ضرورتوں پورا کرتے ہیں۔ اس طرح اس مارکیٹ میں ایک خلا تھا جسے بہت سے یوٹیوبرز نے پُر کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اور ان کی کامیابی کی وجہ سے اب انھیں اشتہار دینے والے اور برانڈ مینیجرز بڑی رقم کے عوض اپنی طرف راغب کر رہے ہیں۔ اگرچہ کاروباری نیوز چینلز کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے لیکن زیادہ تر ڈیجیٹل مواد کے تخلیق کار گرے زون میں کام کرتے ہیں۔ راناڈے اور واریکو انفرادی سٹاک کی سفارش نہیں کرتے ہیں، لیکن بہت سے دوسرے اس کی سفارش کرتے ہیں اور وہ بھی اکثر ضروری مہارت یا قابلیت کے بغیر۔ ایک کاروباری چینل کے سابق ایڈیٹر گوندراج اتھیراج اب فیکٹ چیک کی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب طویل مدتی سرمایہ کاری کے قدرے بہتر مسائل کی بات آتی ہے، تو میں ان لوگوں پر بھروسہ کروں گا جو مارکیٹ کے چند چکروں سے گزر چکے ہیں۔ ابھی جبکہ ڈیجیٹل کا دور ہے تو سب کچھ بس اوپر ہی گیا ہے۔‘ دو سال کی گھڑ دوڑ کے بعد انڈیا کے ایکویٹی بازار کو بہت زیادہ اتار چڑھاؤ کا سامنا ہے اور ملک سے اربوں ڈالر کا غیر ملکی پیسہ نکالا جا رہا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61889633", "summary": "حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف مثبت سمت میں بڑھ رہے ہیں اور پروگرام کی بحالی میں جلد پیش رفت کا امکان ہے۔ جبکہ ملکی معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی بہت ضروری ہے ورنہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پیش کیے جانے والے آمدنی اور اخراجات کے سارے تخمینے بےکار ثابت ہوں گے۔", "title": "آئی ایم ایف آخر پاکستان سے چاہتا کیا ہے اور قرض پروگرام میں تعطل ملکی معیشت کو کیسے متاثر کر رہا ہے؟", "firstPublished": "2022-06-22T02:03:24.000Z", "id": "4758fd12-ae5e-487f-b83c-74d8c0aed709", "article": "پاکستان اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے مسائل کا شکار ہے کیونکہ درآمدات کے لیے بیرون ملک جانے والے ڈالروں کی تعداد برآمدات اور ترسیلات زر کے ذریعے اندرون ملک آنے والے ڈالروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور آئی ایم ایف کی جانب سے 2019 میں طے پانے والے قرض پروگرام کی بحالی نہ ہونے سے بیرونی فنانسنگ مکمل طور پر رک چکی ہے۔ پاکستان کی وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف مثبت سمت میں بڑھ رہے ہیں اور مفتاح اسماعیل کے بیان کے مطابق اس پروگرام کی بحالی کے سلسلے میں جلد پیش رفت ہونے والی ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں معیشت اور آئی ایم ایف پروگرام سے جڑے امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی بہت ضروری ہے ورنہ پاکستان کے نئے مالی سال کے لیے پیش کردہ بجٹ میں پیش کیے جانے والے آمدنی اور اخراجات کے سارے تخمینے بےکار ثابت ہوں گے۔ سبسڈی کے باوجود ابھی تک آئی ایم ایف پروگرام کے بحال نہ ہونے کے سلسلے میں پاکسان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات پر رپورٹنگ کرنے والے انگریزی اخبار سے منسلک سینیئر صحافی خلیق کیانی نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ 'ہم آمدنی بڑھائیں اور اخراجات کو کم کریں اور ہم یہ دونوں کام نہیں کر رہے جس کی وجہ سے پروگرام کی بحالی تعطل کا شکار رہی۔' پاکستان کے وزیر خزانہ کی جانب سے آئی ایم ایف پروگرام کی جلد بحالی کے اعلان کے بارے میں خلیق کیانی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پروگرام کو بجٹ منظوری سے پہلے بحال کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ جو بجٹ اگلے مالی سال کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ ’اس میں آمدنی اور اخراجات کے سارے تخمینے ہی آئی ایم ایف کی جانب سے پروگرام بحالی اور اس کے نتیجے میں اس کا اپنی فنانسنگ اور دوسرے عالمی اداروں اور ملکوں کی جانب سے آنے والی فنڈنگ پر منحصر ہے۔‘ خلیق کیانی کہتے ہیں کہ بجٹ کے 26 یا 27 جون کو منظور ہونے کا امکان ہے اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کو اس سے پہلے پروگرام بحال کرانا ہے اور بجٹ کو تخمینوں کے مطابق اگلے مالی سال کا آغاز کرنا ہے۔ پاکستان کی وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا جو حکومت کی آئی ایم ایف سے مذاکراتی ٹیم کا حصہ بھی ہیں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے پروگرام کے جلد بحالی کے اعلان کی وجہ پاکستان کے آئی ایم ایف سے مذاکرات کی صحیح سمت ہے۔ انھوں نے کہا کہ 'آئی ایم ایف پروگرام بحالی میں جلد پیش رفت ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے بجٹ میں جو خلا تھے انھیں پرُ کر دیا ہے جس کی وجہ سے پروگرام بحالی کا جلد امکان ہے۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61854860", "summary": "ماہرین اور تیل انڈسٹری سے وابستہ افراد اس امکان کو مسترد نہیں کرتے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دوبارہ بڑھ سکتی ہیں۔", "title": "پیٹرول کی قیمت کم ہونے کی امید رکھی جائے یا یہ صرف بڑھتی جائے گی؟", "firstPublished": "2022-06-19T02:45:18.000Z", "id": "c1bce939-e037-414b-8014-5f12162b8b83", "article": "ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ محمد جنید ڈیزل کی قیمت میں بے تحاشہ اضافے سے پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے اپنی ایک پارٹی کو مئی میں ڈیزل کی قیمت بڑھنے پر ریٹ دیے تھے۔ ابھی ان کی منظوری ہوئی تھی کہ جون کے شروع میں ڈیزل کے قیمت میں مزید 30 روپے کا اضافہ ہو گیا۔ پاکستان میں تیل کے شعبے کے ماہرین کہتے ہیں کہ روس یوکرین تنازعے، روپے کی گرتی ہوئی قدر اور حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت اگر پیٹرول و ڈیزل پر اگر پیٹرولیم لیوی اور سیلز ٹیکس لگا دیا گیا تو تیل کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اُنھوں نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کی سب سے بڑی وجہ بین الاقوامی سطح پر قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو قرار دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ روس کا بین الاقوامی منڈی میں تیل مصنوعات کی سپلائی کا حصہ 12 فیصد ہے اور جب اس پر پابندیاں لگیں اور اس کی سپلائی بند ہوئی تو تیل کی قیمتوں کو بڑھنا ہی تھا۔ فرحان نے بتایا کہ عموماً یہ فرق 10 سے 12 ڈالر کا ہوتا ہے تاہم اس وقت اگر خام تیل کی قیمت 120 ڈالر فی بیرل ہے تو ڈیزل کی قیمت 150 ڈالر فی بیرل اور پیٹرول کی قیمت 145 ڈالر فی بیرل ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ مارچ سے لے کر اب تک ڈالر کی قیمت میں 40 روپے کا اضافہ ہو چکا ہے اور اس کی وجہ سے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 35 سے 40 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ اگر ڈالر کی قیمت 200 تک گرتی ہے تو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 10 سے 12 روپے اور اگر 190 روپے کی سطح تک گر جاتی ہے تو ڈیزل اور پیٹرول کی قیمت میں 20 سے 25 روپے تک کی کمی آ سکتی ہے۔ جب 15 دن کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر نظر ثانی کی جائے گی تو کیا ان دونوں مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا؟ ماہرین اور تیل انڈسٹری سے وابستہ افراد اس امکان کو مسترد نہیں کرتے۔ ڈاکٹر زیدی کے نزدیک بین الاقوامی سطح پر ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ اُن کے مطابق یورپ میں طلب بڑھ رہی ہے جبکہ روس پر پابندیوں کی وجہ سے سپلائی میں کمی ہے جو عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کو بلند سطح پر رکھے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک روس یوکرین تنازعے کا حل نہیں نکلتا عالمی منڈی میں قیمتیں بلند رہیں گی۔ اُنھوں نے بتایا کہ روس پر پابندیوں کی وجہ سے یورپ نے مشرق وسطیٰ کی مارکیٹ سے ڈیزل اٹھانا شروع کر دیا ہے جس نے قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے اور پاکستان جیسے ممالک کے لیے مشکلات کھڑی ہو گئی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-61789799", "summary": "ترقی یافتہ ممالک کی اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم او ای سی ڈی کے مطابق امریکہ میں قیمتوں میں گزشتہ سال 4.7 فیصد کی سالانہ شرح سے اضافہ ہوا ہے، جو کہ گروپ آف سیون کی ترقی یافتہ معیشتوں کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ تیزی سے ہونے والا اضافہ بنتا ہے۔", "title": "امریکہ جیسی بڑی معیشت مہنگائی کے ہاتھوں کیسے مجبور ہوئی؟", "firstPublished": "2022-06-18T11:22:14.000Z", "id": "0fddc7d3-290c-4584-b56a-a736ace4aca5", "article": "گزشتہ برس ہر کاروبار میں قیمتوں میں اس رفتار سے اضافہ ہونا شروع ہوا جو اس سے پہلے دہائیوں میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ بڑی معیشتوں میں، جو ایک ملک سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ امریکہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (OECD) کے مطابق، امریکہ میں قیمتوں میں گزشتہ سال 4.7 فیصد کی سالانہ شرح سے اضافہ ہوا، جو کہ گروپ آف سیون (G7) کی ترقی یافتہ معیشتوں کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ تیزی سے ہونے والا اضافہ بنتا ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں افراط زر صرف 2.5 فیصد تھا۔ لندن سکول آف اکنامکس کے پروفیسر اور ماہر معاشیات ریکارڈو ریس کہتے ہیں، فیڈرل ریزرو بینک - جس نے وبائی امراض کے آغاز میں معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے والی پالیسیاں شروع کی تھیں - قیمتوں میں اضافے کا حل ڈھونڈنے میں سست تھی، یہاں تک کہ امریکہ میں افراط زر میں اضافہ توقعات سے زیادہ ہونے لگا۔ یورو کے علاقے میں، قیمتیں مئی میں 8.1 فیصد کی سالانہ شرح سے بڑھیں، روس کے قریب کے ممالک جو اُس کے تیل اور گیس پر انحصار کرتے ہیں جیسے ایسٹونیا، وہاں قیمتوں میں 20.1 فیصد تک کا اضافہ ہوا۔ او ای سی ڈی نے کہا کہ برطانیہ خوراک اور توانائی کی درآمدات پر بھی بہت زیادہ انحصار کرنے والا ملک ہے، اس میں اپریل میں افراط زر 7.8 فیصد تک بڑھ گیا، جو کہ ترقی یافتہ معیشتوں میں امریکہ سے بہرحال پیچھے ہے، یہاں توانائی پر زیادہ سے زیادہ بل کی ایک حد مقرر تھی۔ برطانوی حکومت کی طرف سے صارفین کی قیمتوں کے اعداد و شمار، جو کہ او ای سی ڈی کے اعداد و شمار میں شامل ہاؤسنگ کی لاگت کے ایک پیمانہ کو چھوڑ دیتے ہیں، نے 9 فیصد کا اور بھی تیز اضافہ دکھایا۔ یہاں تک کہ جاپان، جس نے اپنی افراط زر کی شرح کو صفر سے اوپر رکھنے کے لیے کافی جدوجہد کی ہے، وہاں بھی اپریل میں قیمتوں میں 2.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ او ای سی ڈی کو توقع ہے کہ اس سال افراط زر کی شرح سنہ 2023 میں واپس آنے سے پہلے، ترقی یافتہ معیشتوں میں اوسطاً 5.5 فیصد اور تنظیم کے تمام 38 ممالک کے لیے 8.5 فیصد ہو گی۔ پروفیسر ریس نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ فیڈرل ریزرو بینک، بینک آف انگلینڈ اور دیگر کے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے جن میں شرح سود میں اضافہ بھی شامل ہے، حالات بہتر ہوں گے۔ مختصر مدت میں افراطِ زر کی شرح میں اضافہ صرف معاشی غیر یقینی صورتحال میں اضافہ کر سکتا ہے، خاص طور پر چھوٹے ممالک میں، جو کہ پیسے کی فراوانی میں اچانک تبدیلیوں اور شرح مبادلہ کے اتار چڑھاؤ کے خطرے سے دوچار ہوتے ہیں، اور یہ اکثر شرح میں اضافے سے فعال اور متحرک ہوتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61838639", "summary": "پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی تمام شرائط پر عملدرآمد کیا ہے اب یہ ادارہ جلد پاکستان کا دورہ کرے گا لیکن یہ کریڈٹ کس کو جاتا ہے۔", "title": "ایف اے ٹی ایف: ’ایک سابق وزیراعظم نے کہا کوئی جھوٹ بول کر جان چھڑاؤ‘", "firstPublished": "2022-06-18T03:12:45.000Z", "id": "3c244eb2-6ee2-4062-9cab-1850903d5881", "article": "`ایف اے ٹی ایف کے معاملے کو تو سمجھیں سنہ 2017 میں جا کر سنجیدگی سے لیا گیا آپ یوں سمجھیں کہ یہ تھا کہ ہم جب ایف اے ٹی ایف کی شرائط کے حوالے سے میٹنگز کرتے تھے تو تاثر ہوتا تھا بس کوئی جھوٹ بول دو اور جان چھڑاؤ۔ ایک بڑی اہم میٹنگ میں ایک سابق وزیراعظم نے کہا کہ بس یار کوئی جھوٹ بول کر جان چھڑا دو لیکن میں نے اور فارن سیکرٹری نے ان کو واضح طور پر کہا کہ اب جھوٹ بولنے کا وقت گزر گیا ہے۔' سنہ 2008 میں ایف اے ٹی ایف نے اپنی ویب سائٹ پر جاری بیان میں پاکستان میں منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسگ کے خلاف جامع سسٹم نہ ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور یہ مانیٹرنگ لسٹ میں آ گیا۔ ایک سال میں تین بار ادارے کی جانب سے بیانات جاری ہوئے اور خدشہ ظاہر ہوا کہ اس کی وجہ سے منی لانڈرنگ ہو سکتی ہے اور دہشت گردی کی مالی معاونت ہو سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’ایف اے ٹی ایف کا اصول ہے کہ یا تو تمام نکات پورے کریں یا ان کے قریب ہوں تو آپ دیکھیے کہ پاکستان نے بہت سے اقدامات کیے اور کریڈٹ سابقہ سیاسی حکومت اور اداروں کو تو جاتا ہے لیکن دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف اگر ہمیں عملی اقدامات پر دیکھ رہی ہوتی تو پچھلی بار ہی ہمیں لسٹ سے نکال دیتی کیونکہ کارکردگی تو پچھلی بار بھی ٹھیک تھی۔ چاہے منی لانڈرنگ کے خلاف ہو یا پھر ٹیرر فنانسگ کے بارے میں ہو، لیکن دوسرا پہلو سفارتی یا سیاسی نوعیت کا تھا اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایف اے ٹی ایف نیوٹرل نہیں ہے، یہ پولیٹیکل میکنزم ہے، اس کا سیاسی پس منظر ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے اصول و قواعد کا اطلاق تمام ممالک پر یکساں ہوتا ہے۔‘ کریڈیٹ کس کو جاتا ہے؟ اس حوالے سے نیکٹا سے منسلک ایک عہدے دار نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ گرے لسٹ میں جب پاکستان آیا تھا تو اس وقت ملک میں نگراں حکومت تھی اور اس کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت آئی اور اب مسلم لیگ کی اتحادی جماعتوں کے ساتھ حکومت ہے اور ان تمام حکومتوں نے سیاسی طور پر ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61822717", "summary": "فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے اپنے تمام اہداف مکمل کر لیے ہیں اور اب ایف اے ٹی ایف کی ٹیم پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے اس بات کا تعین کرے گی کہ پاکستان نے سفارشات پر حقیقی معنوں میں عمل کیا ہے یا نہیں۔ پاکستانی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے اس فیصلے کو 'خوش آئند پیش رفت' قرار دیا ہے۔", "title": "ایف اے ٹی ایف: اہداف مکمل مگر پاکستان گرے لسٹ میں برقرار", "firstPublished": "2022-06-17T01:14:33.000Z", "id": "a81d9380-d172-4763-8751-7c4ffbe1d4f5", "article": "فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ پاکستان نے اپنے تمام اہداف مکمل کر لیے ہیں جس کے بعد فیٹف کی ٹیم مستقبل میں پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے اس بات کا تعین کرے گی کہ پاکستان نے سفارشات پر عمل کیا ہے یا نہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کی مد میں اصلاحات کی ہیں اور پاکستان کا دورہ کر کے اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے یہ اقدامات مسقتبل میں نافذ العمل رہ پائیں گے یا نہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کی ٹیم رواں سال اکتوبر میں پاکستان کا دورہ کرے گی اور پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے سے متعلق اعلان اس کے بعد کیا جائے گا۔ ایف اے ٹی ایف کے اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ فیٹف نے پاکستان کے دونوں اہداف 2018 اور 2021 کی تکمیل کو تسلیم کیا ہے اور گرے لسٹ سے نکالنے کے آخری مرحلے کے طور پر پاکستان کے آن سائٹ وزٹ کی منظوری دی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کو سنہ 2018 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کا حصہ بنایا گیا تھا اور مارچ 2022 میں ہونے والے نظرثانی اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پاکستان نے ’سفارشات کی تکمیل میں خاصی پیشرفت کی ہے‘ تاہم چند نکات پر مزید پیشرفت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے وزارت خارجہ نے فیٹف کے اعلان پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے اپنے پلینری اجلاس کے دوران ایکشن پلان کے تحت پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لیا ہے۔ برلن میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں شرکت کرنے والے پاکستانی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اس فیصلے کو 'خوش آئند پیش رفت' قرار دیا ہے۔ اُن کے مطابق انھیں یہ بتانے میں بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اب اس فیٹف پروسیجر کے تحت ہمارا گرے لسٹ سے نکلنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ گرے لسٹ سے نکلنے کی صورت میں ’ایف اے ٹی ایف ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی تاکہ خود تسلی کر سکیں کہ ان کی سفارشات پر کام مکمل ہو چکا ہے۔‘ اس کی ایک وجہ سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان بھی ہے جس میں انھوں نے پاکستان کے پڑوسی ملک انڈیا پر الزام عائد کیا تھا۔ سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود نے کہا تھا کہ انڈیا ایف اے ٹی ایف کے فورم کو ’سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61838577", "summary": "میکڈونلڈز نے اعلان کیا ہے کہ لارج فرائز (یعنی عام فہم زبان میں آلو کے فنگر چپس) اب سے ’سپلائی چین کے مسائل‘ کے باعث میسر نہیں ہوں گے اور صرف ریگولر فرائز ہی خریدے جا سکیں گے۔", "title": "’میکڈونلڈز چپس بھی نہیں دے پا رہا، ہمیں پاکستان میں استحکام چاہیے‘", "firstPublished": "2022-06-17T11:51:55.000Z", "id": "4c194a22-25a4-4511-bbff-3d2800fbf58c", "article": "میکڈونلڈز نے اعلان کیا ہے کہ لارج فرائز (یعنی عام فہم زبان میں آلو کے فنگر چپس) اب سے ’سپلائی چین کے مسائل‘ کے باعث میسر نہیں ہوں گے اور صرف ریگولر فرائز ہی خریدے جا سکیں گے۔ ان کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’سپلائی چین کے مسائل کے باعث ہمیں مشکل فیصلے لینے ہوں گے۔ ہر دل پسند اور دنیا بھر میں مقبول میک فرائز میں اب ہم صرف ریگولر فرائز ہی پیش کر سکیں گے۔‘ ایسے میں یہ بتانا مشکل ہے کہ پاکستان میں میکڈونلڈز کی جانب سے لارج اور میڈیم سائز فرائز کی فراہمی منقطع کرنے کے پیچھے پاکستانی حکومت کی امپورٹ پالیسی کا کوئی عمل دخل ہے یا نہیں لیکن یہاں یہ بات ضرور اہم ہے کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ جواد خان نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’میں سوچتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے کہ حکومت یا عوامی سطح پر یہ مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا کہ میکڈونلڈز مکمل طور پر اپنی ہر چیز مقامی سطح پر ہی پیدا کرے۔‘ فیضان صدیقی نامی صارف نے لکھا کہ ’گولڈن آرچز (میکڈونلڈز کا لوگو) یہاں 1998 سے ہے اور تقریباً 24 برسوں میں وہ آلوؤں یا کسی اور شہ کا ایک بھی مقامی ذریعہ نہیں بنا سکے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ہم کھپت کے اعتبار سے تو بہترین ہیں لیکن ہم پیداوار کے حساب سے کبھی بھی اچھا ذریعہ نہیں رہے۔‘ تاہم ان کو جواب دیتے ہوئے کچھ صارفین نے اس کی وجوہات بتائیں۔ صارف بلال خان نے لکھا کہ ’نہ میکڈونلڈز بلکہ تمام ملٹی نیشنل فوڈ چینز ہی فرائز امریکہ، یورپ، مشرقِ وسطیٰ سے درآمد کرتے ہیں اور پیپسی کو چپس لیز کے لیے سب زیادہ آلو درآمد کرتا ہے۔ ’آلو اور فرائز درآمد کرنے کی وجہ مخصوص اقسام کی عدم دستیابی ہے جو صرف مخصوص موسم میں اگائے جا سکتے ہیں اس لیے امریکہ، کینیڈا اور یورپ ان کی پیداوار کے لیے موزوں ہوتا ہے اور یہاں سے عالمی مارکیٹ کی 75 فیصد ضرورت پوری کی جاتی ہے۔‘ رامین نے لکھا کہ ’کل سے سوچ رہی ہوں کہ اب مجھے دو ریگولر فرائز لینے پڑیں گے یا تین تاکہ لارج فرائز کی کمی پوری کی جا سکے۔‘ ایک صارف نے لکھا کہ ’لوگ اس بارے میں ایسے ردِ عمل دے رہے ہیں جیسے گھربار لٹ گیا ہو۔ دیگر پاکستانیوں کے لیے خرچہ پورا کرنا مشکل ہو رہا ہے اور آپ میکفرائز پر غصہ کر رہے ہیں۔ بازار سے آلو لاؤ اور گھر میں بناؤ۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-61828533", "summary": "روزگار کے مواقعوں میں کمی اور طالبان کے دور میں بڑھتی ہوئی اشیا کی قیمتوں کی وجہ سے افغان عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔", "title": "’مجھے اپنے گھر والوں سے شرم آتی ہے کہ میں اتنا غریب ہوں کہ انھیں کھانا بھی نہیں کھلا سکتا‘", "firstPublished": "2022-06-16T15:41:49.000Z", "id": "138e2818-4de0-4c30-aa77-a78c7e45ef87", "article": "کابل کی پلِ خشتی مارکیٹ میں شفیع محمد گذشتہ 30 سال سے باسی روٹیاں بیچنے کا کاروبار کر رہے ہیں۔ بازار میں رش ہے اور وہاں موجود جس شخص سے بھی ہم نے بات کی وہ ملک کو درپیش معاشی مسائل کا رونا رو رہا تھا۔ گذشتہ اگست طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اوسط آمدنی ایک تہائی تک کم ہو گئی، جبکہ خوراک کی قیمتیں تیزی سے اوپر گئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اس وقت افغان عوام کی زندگی پنجرے میں قید ایک پرندے کی طرح ہیں جس کے پاس کھانا ہے نہ پانی۔ میں خدا سے یہ دعا مانگتا ہوں کہ میرے ملک سے یہ مصیبت اور غربت ختم ہو جائے۔‘ افغان عوام کی خوراک کا بڑا حصہ نان روٹی ہے اور اب اکثر لوگ یہ بھی نہیں خرید سکتے یہ بحران بنیادی طور پر مغربی ممالک کی طرف سے ترقیاتی امداد کو بند کرنے کے فیصلے کی وجہ سے ہوا ہے، جس پر افغانستان بہت زیادہ انحصار کرتا تھا، اور اس کے علاوہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک کے مرکزی بینک کے ذخائر کو بھی منجمد کر دیا گیا تھا۔ یہ اقدام جزوی طور پر ان کے دور حکومت میں خواتین کے ساتھ سلوک پر تشویش کی وجہ سے کیے گئے تھے، اور طالبان کی طرف سے نئی سخت گیر پابندیوں نے جیسا کہ خواتین کو کیا پہننا چاہیے، مسئلے کے حل کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ وہ بازار میں دوسرے لوگوں کی شاپنگ اٹھانے کا کام کرتے ہیں، لیکن ان کی پہلے سے ہی معمولی آمدنی گزشتہ سال کے مقابلے میں پانچ گنا کم ہو گئی ہے۔ باسی روٹی اکٹھی کر کے بیچنے والی ایک چھوٹی سی صنعت بن گئی ہے۔ سکریپ (کباڑ) جمع کرنے والے اسے ریستورانوں، ہسپتالوں اور لوگوں کے گھروں سے اٹھاتے ہیں اور پھر اسے مڈل مین (دلالوں) کے پاس لے جاتے ہیں، جو اسے سٹال والوں کو فروخت کرتے ہیں۔ ایک کباڑی یہ کہتے ہوئے کہ ’لوگ بھوک سے مر رہے ہیں‘، ایک ہفتے کے دوران اکٹھی کی گئی روٹیوں کی ایک بوری کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں وہ روزانہ ایک بوری جمع کیا کرتے تھے۔ وہ بہت سے دوسرے خاندانوں کے برخلاف اپنے تین بیٹوں کو سکول میں رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ بہت سے دوسرے خاندانوں نے اپنے بچوں کو سکول سے ہٹا کر کام پر لگا دیا ہے۔ دوسری طرف کابل کی بیکریوں کے باہر شام کے اوائل میں خواتین اور لڑکیوں کے گروہ عطیہ کیے گئے مفت تازہ نان کے ٹکڑوں کے لیے قطار میں کھڑے عام نظر آتے ہیں۔ جب افغانستان میں اربوں ڈالر آ بھی رہے تھے، تو اس وقت بھی بدعنوانی اور جنگ کے اثرات کی وجہ سے زندگی ایک جدوجہد ہی تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-61821366", "summary": "متحدہ عرب امارات نے اپنے فیصلے کی وجہ موجودہ بین الاقوامی صورتحال کو قرار دیا۔ تاہم انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق انڈیا نہیں چاہتا کہ دبئی یا ابوظہبی اس کی بھیجی گئی گندم دوسرے ممالک کو دے۔", "title": "متحدہ عرب امارات کی جانب سے انڈین گندم کی برآمدات پر چار ماہ کی پابندی کی وجوہات", "firstPublished": "2022-06-16T12:10:51.000Z", "id": "d9d93f49-de63-4fc9-8167-696223a43546", "article": "متحدہ عرب امارات نے بدھ کو فیصلہ کیا ہے کہ وہ اگلے چار ماہ تک انڈیا سے خریدی گئی گندم کسی اور کو فروخت نہیں کرے گا۔ متحدہ عرب امارات نے اپنے فیصلے کی وجہ موجودہ بین الاقوامی صورتحال کو قرار دیا۔ تاہم انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق انڈیا نہیں چاہتا کہ دبئی یا ابوظہبی اس کی بھیجی گئی گندم دوسرے ممالک کو دے۔ رپورٹ میں ایک اہم ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’انڈیا نہیں چاہتا کہ اس نے دبئی یا ابوظہبی کو جو اناج یا گندم برآمد کیا ہے وہ کسی دوسرے ملک کو دیا جائے، انڈیا چاہتا ہے کہ اسے مقامی طور پر استعمال کیا جائے۔‘ انڈین ایکسپریس نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ انڈیا بدلے میں ان ممالک کو اپنی گندم کی برآمدات پر پابندیوں کی فہرست سے باہر رکھنے کے لیے تیار ہے۔ انڈیا نے 14 مئی کو گندم کی برآمد پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم یہ بھی کہا گیا کہ جن ممالک کی خوراک کی سلامتی خطرے میں ہے انہیں اس پابندی کے دائرے سے باہر رکھا جائے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان اس بات پر عمومی اتفاق رائے ہے کہ اگر گندم کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا تو انڈیا متحدہ عرب امارات کو برآمدی چھوٹ دینے کے لیے تیار ہے۔ یہ رعایت بنگلہ دیش، متحدہ عرب امارات اور ان ممالک کو دی جا رہی ہے جن کے بھارت کے ساتھ مضبوط سفارتی تعلقات ہیں اور جو ضرورت مند ہیں۔ انڈیا نے 2021-22 کے درمیان متحدہ عرب امارات کو 4.71 لاکھ ٹن گندم برآمد کی۔ اس کی قیمت تقریباً 13653 ملین ڈالر تھی۔ پچھلے سال انڈیا کی طرف سے برآمد کیے گئے اناج میں سے 6.5 فیصد یو اے ای کو بھیجا گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی وزارت اقتصادی امور کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس سے کاروبار متاثر ہوا ہے اور اسی لیے یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے کہا ہے کہ وہ یہ فیصلہ انڈیا کے ساتھ اپنی مضبوط اور اسٹریٹجک شراکت داری کے پیش نظر لے رہا ہے۔ جب کورونا وائرس اپنے عروج پر تھا، انڈیا نے متحدہ عرب امارات کو فضائی راستے سے ضروری سامان فراہم کیا۔ اس وقت، چین کی سپلائی چین ٹوٹ گئی تھی اور دال، چینی، اناج، سبزیاں، چائے، گوشت اور سمندری غذا سمیت دیگر بہت سی ضروری اشیا کی قلت کے درمیان انڈیا متحدہ عرب امارات کو ایک اہم برآمد کنندہ ثابت ہوا تھا۔ متحدہ عرب امارات نے 21 جون کو بین الاقوامی یوگا ڈے کے موقع پر ایک بڑی تقریب کی تیاریاں کی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر رواداری نہیان بن مبارک النہیان یہاں ایک تقریب کے دوران انڈین سفیر سنجے سدھیر کے ساتھ بات چیت کریں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-61799731", "summary": "پاکستان میں ڈیزل کا زیادہ استعمال زراعت کے شعبے میں ہوتا ہے اور اسی لیے اس کی قیمت میں اضافے کے بعد قوی امکان ہے کہ خوراک کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گا کیونکہ ڈیزل اشیا کی ٹرانسپورٹ اور زراعت میں جنریٹرز کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔", "title": "ڈیزل کی قیمت میں اضافہ پیٹرول سے بھی بڑا دردِ سر کیوں؟", "firstPublished": "2022-06-16T01:50:58.000Z", "id": "6e171647-a069-4352-a8c1-3232273ecb5c", "article": "پاکستان میں بدھ کو رات گئے ڈیزل کی قیمت میں 59 روپے اضافہ کر دیا گیا، جس کے بعد اس کی نئی قیمت 264 روپے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہو گا کیونکہ آپ کے پاس کار نہیں یا آپ کے پاس کار تو ہے لیکن یہ پیٹرول پر چلتی ہے تاہم اگر آپ نے اپنی زندگی میں کبھی ڈیزل کا استعمال نہیں کیا، تب بھی آپ جہاں کہیں بھی ہوں گے یہ بحران آپ کی جیب کو متاثر کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ڈیزل کا زیادہ استعمال زراعت کے شعبے میں ہوتا ہے اور اسی لیے اس کی قیمت میں اضافے کے بعد قوی امکان ہے کہ خوراک کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گا۔ دوسری جانب ڈیزل ٹرانسپورٹ اور جنریٹرز کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے پاکستان حکومت کی جانب سے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافے کے بعد کہا کہ اس کا اثر ٹرانسپورٹ، زراعت اور کاروبار پر ہو گا اور مجموعی طور پر مہنگائی میں 30 فیصد اضافہ ہو گا لیکن یہ تو صرف مقامی اثرات ہیں۔ ماہرین کو تشویش ہے کہ اس کی قیمت میں اضافہ اس لیے ہوا کیونکہ عالمی سطح پر ڈیزل کی قلت ہے اور مختصر مدت میں ان قیمتوں کو کم کرنا مشکل ہو گا۔ کیونکہ ڈیزل زیادہ تر کارگو گاڑیوں میں استعمال ہونے والا ایندھن ہے اور ہماری خوراک، ادویات یہاں تک کہ وہ پیٹرول جو ہم سروس سٹیشنوں پر اپنی کاروں میں بھرتے ہیں ڈیزل سے چلنے والے ٹرکوں کے ذریعے ہی آتا ہے۔ یہی ڈیزل ٹرک سامان ان بحری جہازوں تک پہنچاتے ہیں جو پوری دنیا میں اس کی ترسیل کرتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے حصے میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کے برعکس یہاں پرائیویٹ کاروں کے بہت سے ڈرائیور ڈیزل کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ پیٹرول کے مقابلے توانائی کا زیادہ مؤثر اور کم آلودگی پھیلانے والا ذریعہ ہے۔ روس کے یوکرین پر حملہ کرنے سے پہلے یورپ نے روس سے خام تیل کا تقریباً دو تہائی حصہ درآمد کیا جس کی ریفائننگ سے ڈیزل حاصل ہوتا ہے لیکن مغرب کی طرف سے ماسکو پر عائد اقتصادی پابندیوں کے بعد یورپ اپنے ڈیزل کے لیے زیادہ تر امریکہ پر انحصار کر رہا ہے۔ ملک میں استعمال ہونے والے ڈیزل کا تقریباً ایک تہائی حصہ درآمد کیا جاتا ہے اور یوکرین میں جنگ کے اثرات کی وجہ سے تیل کمپنیوں کے لیے نہ صرف اسے حاصل کرنا زیادہ مشکل ہو گیا ہے بلکہ حکومت کی جانب سے عائد کردہ کم مقامی قیمتوں کی وجہ سے موجودہ قیمتوں پر اسے درآمد کرنا بھی ان کے لیے منافع بخش نہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ شمال مشرق کے ہنگامی ذخیرے کو بازار میں لانے کے اثرات محدود ہوں گے کیونکہ 10 لاکھ بیرل ڈیزل مارکیٹ میں لانا قیمتوں کو کم کرنے کے لیے کافی نہیں ہو گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-61779090", "summary": "بی بی سی نے ایسے طریقوں پر غور کیا ہے جو عام طور پر ڈرائیور حضرات فیول کی کھپت کم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ان میں سے کون سے طریقے کام کرتے ہیں اور کون سے طریقے صرف اور صرف افسانوی ہیں۔", "title": "وہ طریقے جن سے گاڑی میں پیٹرول کی کھپت کم کی جا سکتی ہے", "firstPublished": "2022-06-13T07:15:01.000Z", "id": "68c199c3-bc52-4dde-94c5-f72dd8115591", "article": "ایک ایسے وقت میں جب مہنگائی بڑھ رہی ہے اور ایک عام آدمی کی قوت خرید مسلسل کم ہو رہی ہے، یہ جاننا اہم ہے کہ موجودہ وسائل میں کس طرح پیٹرول کی کھپت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ خصوصاً ایسے افراد جن کے لیے گاڑی کا سفر لازم و ملزوم ہوتا ہے۔ بی بی سی نے ایسے طریقوں پر غور کیا ہے جو عام طور پر ڈرائیور ایندھن کی کھپت کم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ان میں سے کون سے طریقے کام کرتے ہیں اور کون سے طریقے صرف اور صرف افسانوی ہیں۔ کئی ڈرائیوروں کا خیال ہے کہ اگر گاڑی کو نوے کی رفتار پر چلایا جائے تو ایندھن کم استعمال ہوتا ہے لیکن آر اے سی آٹو موٹیو گروپ کے مطابق گاڑی کی کوئی ایک مستقل رفتار نہیں جسے فیول کی بچت کے حوالے سے اہم قرار دیا جا سکے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایئر کنڈیشنر کے استعمال سے جڑی پیٹرول کی بچت نسبتاً کم فاصلے کے سفر میں زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایئر کنڈیشنر کو شروع میں زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے کیوںکہ گاڑی کا اندرونی درجہ حرارت کم کرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں گاڑی کے شیشے نیچے کرنا ایک بہتر حکمت عملی ہو سکتی ہے لیکن اس سے ایک اور مسئلہ پیدا ہوتا ہے جسے ’کریپنگ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس میں گاڑی کا انجن کھلے ہوئے شیشوں سے آنے والے ہوا کے دباؤ کی وجہ سے زیادہ کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن یہ صرف اسی صورت میں مفید ہے جب آپ کسی ہموار ہائی وے پر سفر کر رہے ہوں کیوںکہ اگر آپ کسی پہاڑی علاقے میں سفر کر رہے ہیں تو کروز کنٹرول کو چڑھائی کے مطابق ایڈجسٹ ہونے میں زیادہ وقت اور فیول درکار ہو گا۔ عام طور پر جب بھی کسی پہاڑے راستے میں گاڑی ڈھلوان کی جانب سفر کرتی ہے تو ہم ایکسلریٹر سے پاؤں ہٹا لیتے ہیں لیکن کروز کنٹرول تو یہ نہیں جانتا کہ آگے کیا ہے، اس لیے یہ زیادہ وقت لیتا ہے اور گاڑی میں فیول کی کھپت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اگر آپ کی گاڑی کے ٹائر میں ہوا کم ہے تو یہ زیادہ پیٹرول استعمال کرے گی۔ اس لیے ہمارا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ باقاعدگی سے گاڑی کے ٹائر کی ہوا چیک کرتے رہیں خصوصاً لمبے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے۔ آپ کی گاڑی کے ٹائر کے لیے ہوا کا کتنا دباؤ بہترین ہے؟ یہ جاننے کے لیے آپ کو اپنی گاڑی کے ساتھ ملنے والا کتابچہ ضرور دیکھ لینا چاہیے لیکن اگر آپ کی گاڑی میں سامان اور مسافروں کی تعداد زیادہ ہے تو پھر اس دباؤ کو اسی حساب سے بڑھا لیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61793441", "summary": "اتوار کے دن سیلسیئس کی اپنی ڈیجیٹل کرنسی سی ای ایل کی قیمت میں کمی ہونا شروع ہوئی اور سیلسیئس فرم نے صارفین پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا جس کے تحت کسی کو اکاوئنٹ سے پیسے نکلوانے، منتقل کرنے یا کرپٹو کرنسی کو پیسے میں تبدیل کرنے کی سہولت ختم کر دی گئی۔", "title": "بٹ کوائن کو بڑا دھچکہ، کرپٹو کرنسی کا مستقبل کیا ہے؟", "firstPublished": "2022-06-15T15:28:18.000Z", "id": "04cb0554-9843-4fa8-b2ae-d3f0c73f5509", "article": "لیکن گزشتہ اتوار کو اس کمپنی نے منڈی کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اپنے 17 لاکھ صارفین کے اکاوئنٹ منجمند کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے نے، جسے کرپٹو کرنسی کے ماہرین ’کورالیٹو‘ کا نام دے رہے ہیں، دو بڑی کرنسیز بٹ کوائن اور ایتھیریم کی قیمتوں میں کمی کے رجحان کا آغاز کیا جو اس کے بعد سے اب تک جاری ہے۔ کورالیٹو کی اصطلاح عام طور پر ایسے معاشی فیصلوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جب پیسہ موجود ہو لیکن اسے استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو۔ اس کا آغاز 2001 میں ارجنٹینا کے اس فیصلے سے ہوا تھا جب حکومت نے بینک سے پیسہ نکالنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ وزڈم ٹری فرم کی سینیئر ایسوسی ایٹ ایلس لیو کا کہنا ہے کہ فیڈرل ریزرو کی جانب سے رواں سال کے آغاز پر شرح سود میں اضافے، افراط زر اور عالمی منڈیوں میں مندی کے رجحان کی وجہ سے کرپٹو مارکیٹ غیر یقینی کا شکار تھی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس وجہ سے دیگر ڈیجیٹل کرنسیوں پر بھی منفی اثر پڑا ہے اور ان کی قیمت میں بھی کمی ہوئی جس سے دیگر کرپٹو کرنسی پلیٹ فارم بھی مشکل میں آ گئے ہیں۔ اتوار کے دن سیلسیئس کی اپنی ڈیجیٹل کرنسی سی ای ایل کی قیمت میں کمی ہونا شروع ہوئی اور وہیں سے اس معاملے کا آغاز ہوا۔ جیسے ہی سی ای ایل کی قیمت میں کمی ہوئی، سیلسیئس فرم نے صارفین پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا جس کے تحت کسی کو اکاوئنٹ سے پیسے نکلوانے، منتقل کرنے یا کرپٹو کرنسی کو پیسے میں تبدیل کرنے کی سہولت ختم کر دی گئی۔ سیلسیئس کے اس فیصلے نے بائنانس، جو دنیا میں کرپٹو کرنسی ایکسینچ کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے، بھی متاثر ہوا اور ان کو بٹ کوائن نکلوانے کے عمل کو کئی گھنٹوں کے لیے روکنا پڑا۔ سیلسیئس کمپنی، جس کے دفاتر امریکہ، برطانیہ اور لتھوینیا میں موجود ہیں، کے مطابق اکاوئنٹ منجمند کرنے کا فیصلہ صارفین کے ہی فائدے میں لیا گیا تاکہ ان کے اثاثوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات اٹھائے جا سکیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی بٹ کوائن رکھنے والا اپنی کرنسی سیلسیئس کے پلیٹ فارم پر سٹور رکھے گا تو اس کو اس کے بدلے انعام ملے گا۔ اس کے بدلے صارف اپنی کرنسی سے کسی قسم کا لین دین نہ کرنے پر اتفاق کرتا ہے۔ عام طور پر کوئی اپنی ڈیجیٹل کرنسی جتنے زیادہ دن تک سٹور میں محفوظ رکھتا ہے، اس کا انعام اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے۔ دوسری جانب صارف کی کرنسی کو بلاک چین کے ذریعے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اس سے قبل مارچ میں تین یورپی معاشی اتھارٹیز نے بھی صارفین کو خبردار کیا تھا کہ کرپٹو کرنسی کے کاروبارمیں خطرات ہیں اور ان کا بطور سرمایہ کاری یا پھر لین دین کے لیے استعمال زیادہ تر لوگوں کے لیے مفید نہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-61807689", "summary": "سری لنکا کی حکومت نے سرکاری ملازمین کو ہفتے میں ایک دن کی افافی چھٹی دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مقصد خوراک کی قلت کے خطرے کے پیش نظر پھل اور سبزیاں اگانے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔", "title": "ہفتے میں ایک اضافی چھٹی تاکہ سرکاری ملازمین ’سبزیاں اور پھل اگائیں‘", "firstPublished": "2022-06-15T06:58:08.000Z", "id": "bfb1194b-0a28-4004-9de3-3ab2ddeff0ee", "article": "سری لنکا کی حکومت نے سرکاری ملازمین کو ہفتے میں ایک دن کی اضافی چھٹی دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مقصد خوراک کی قلت کے خطرے کے پیش نظر پھل اور سبزیاں اگانے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب دو کروڑ بیس لاکھ آبادی والا ملک اپنی 70 برس کی تاریخ میں بدترین معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ زرمبادلہ ذخائر میں کمی کی وجہ سے سری لنکا کو خوراک، تیل اور ادویات جیسی ضروری اشیا کی درآمد میں مشکلات کا سامنا ہے۔ سوموار کو سری لنکا کی حکومت نے اس تجویز کی باقاعدہ منظوری دی جس کے تحت سرکاری ملازمین کو اگلے تین ماہ تک ہر ہفتے میں ایک دن، جمعے کو، اضافی چھٹی دی جائے گی۔ سری لنکا کی حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد پیٹرولیم مصنوعات کی قلت کی وجہ سے دفاتر پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ملازمین کی مدد کرنا بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ اس چھٹی کا استعمال کرتے ہوئے وہ اپنے خاندان کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سبزیاں اور پھل بھی اگائیں۔ آن لائن پورٹل پر حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ مناسب سمجھا گیا کہ سرکاری ملازمین کو ہفتے میں ایک اضافی چھٹی دی جائے اور ان کو درکار سہولیات دی جائیں تاکہ وہ زرعی سرگرمیوں کے ذریعے اپنے گھر کے باغیچے میں یا پھر کسی اور مناسب جگہ پر مستقبل میں خوارک کی قلت کے خطرے کے پیش نظر کام کر سکیں۔‘ ادھر سوموار کے دن ہی امریکہ کی جانب سے سری لنکا کی مدد کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں وزیر اعظم وکرما سنگھے نے کہا تھا کہ سری لنکا کو رواں مالی سال کے دوران انتہائی ضروری درآمدات کے لیے پانچ ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ سری لنکا کی حکومت اس وقت معاشی امدادی پیکج کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات میں مصروف ہے اور آئی ایم ایف کا وفد آئندہ سوموار کو کولمبو پہنچنے والا ہے۔ بین الاقوامی منڈی میں افراط زر، سری لنکا کی مقامی کرنسی کی مالیت میں کمی اور کیمیکل فرٹیلائزر پر پابندی (جس کو اب ختم کر دیا گیا ہے) کی وجہ سے اپریل تک کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں 57 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ گزشتہ مہینے کے اختتام پر سری لنکا کے وزیر زراعت مہندا امرا ویرا نے کسانوں سے کہا کہ وہ زیادہ چاول اگائیں کیوںکہ یہ واضح ہے کہ خوارک کی صورتحال خراب ہونے والی ہے۔ سری لنکا کی حکومت نے معاشی مسائل پر قابو پانے کے لیے ٹیکس میں بھی اضافہ کیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61799554", "summary": "پاکستانی عوام کو احسن اقبال کی چائے کم کرنے کی تجویز بھی کچھ خاص پسند نہیں آئی اور بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ وفاقی بجٹ میں دفاع کے لیے 1523 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز اور ججز کی تنخواہوں میں اضافے کے بعد غریب عوام سے ان کی واحد ’لگژری‘ چائے بھی چھوڑنے کا کہنا کیا کچھ تضاد نہیں؟‘", "title": "’آپ کو مہنگائی کرنی ہے کریں، عوام کو مشورے نہ دیں‘", "firstPublished": "2022-06-14T14:53:52.000Z", "id": "836fa341-fbf3-4d7a-aae2-7ba47e36788d", "article": "دنیا میں سب سے زیادہ چائے درآمد کرنے والے ملک یعنی پاکستان کے لوگوں اور پڑوسی ملک سے آنے والے ’حملہ آوروں کی تواضح‘ بھی چائے کی پیالی سے کرنے والی پاکستانی قوم کو شاید احسن اقبال کا چائے کم کرنے کا مشورہ کچھ پسند نہیں آیا۔ بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ ’وفاقی بجٹ میں دفاع کے لیے 1523 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز اور ججز کی تنخواہوں میں اضافے کے بعد غریب عوام سے ان کی واحد ’لگژری‘ یعنی چائے بھی چھوڑنے کا کہنا کیا کچھ تضاد نہیں؟‘ انھوں نے مزید کہا ’غریب لوگ صبح کا ناشتہ انڈے کے ساتھ نہیں کرتے بیچارے اسی چائے میں پراٹھا یا روٹی ڈبو کر کھاتے ہیں، آپ ان سے یہ واحد لگژری بھی چھیننا چاہتے ہیں؟‘ وجیہ حلال پوچھتی ہیں ’مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ چار بھائی ایک روٹی مل کر کھاؤ، احسن اقبال کہتے ہیں کہ دو کپ چائے پینا چھوڑ دو، لیکن یہ جو 200 لوگوں کا ٹولہ حج پر جا رہا ہے اور بیرونی دورے پر جو عیاشیاں چل رہی ہیں اس کو کب کم کیا جائے گا؟ کیا عوام سے ہی روٹی چائے کم کر کے معیشیت ٹھیک کی جائے گی؟‘ پاکستان میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور کے ذاتی سٹاف اور وزارت کے 200 افراد کے فری حج پر جانے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جس کے بعد وزیرِاعظم شہباز شریف نے وزارت سے وضاحت بھی طلب کی تھی۔ جس کے بعد مفتی عبدالشکور کا کہنا تھا کہ 200 افراد پر مشتمل سیزنل سٹاف یا ویلفیئر عملہ وزارت مذہبی امور اور حاجی کیمپوں کے سرکاری ملازمین ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی میرا رشتہ دار، ذاتی ملازم، باورچی یا نجی گارڈ نہیں ہے۔ زہرہ لیاقت نے لکھا ’دن میں چائے کم پینے کا کہنے پر احسن اقبال نے تاحیات دشمنی مول لے لی ہے۔ انھوں نے احسن اقبال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم پتھر کھا کر گزارا کر لیں گے مگر چائے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا !! یاد رہے سنہ 2018 میں حکومت میں آنے کے بعد عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں موجود گاڑیوں، بھینسوں اور ہیلی کاپٹروں کو نیلام کیا جائے گا۔ ان بیانات پر حکومت پر نہ صرف تنقید ہوئی بلکہ اس کا مذاق بھی اڑایا گیا اور ان بیانات کو کفایت شعاری کی مد سے فائدہ مند سے زیادہ نقصان دہ گردانا گیا، کیونکہ حکومت نے اس کام کے لیے اخباروں میں اشتہارات بھی دیے تھے مگر اس میں انھیں اتنی کامیابی نہیں ملی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ صحافی ہارون رشید کا کہنا ہے کہ ’احسن اقبال کا چائے کم پینے کا مشورہ بالکل درست ہے۔ زیادہ چینی اور چائے نقصان دہ ہے۔ زر مبادلہ بھی ضائع ہوتا ہے۔ کسی رائے کو محض اس لئے مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ رائے دینے والا آپ کو پسند نہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61770719", "summary": "معاشی ماہرین کے مطابق اس بجٹ میں کچھ ایسے ٹیکس اور لیویز شامل ہیں جن کا بجٹ تقریر میں تو ذکر نہیں تھا لیکن ان کی وجہ سے ملک میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا اور اس کا سب سے بڑا نشانہ متوسط طبقہ ہو گا۔", "title": "نئے وفاقی بجٹ میں چھپے وہ ٹیکس جو متوسط طبقے کی مالی مشکلات میں اضافہ کر سکتے ہیں", "firstPublished": "2022-06-11T12:24:20.000Z", "id": "e46d50a5-7892-4f33-aad4-af35722b8bcf", "article": "’اس بجٹ میں جو طبقہ سب سے زیادہ نظر انداز ہوا اور جس پر سب سے زیادہ بوجھ پڑنے والا ہے یہ ملک کا متوسط طبقہ ہے۔ ٹیکسوں کی مد میں ہونے والے اضافے اور تیل اور گیس پر لیوی کی مد میں زیادہ محصولات نے مہنگائی میں اضافہ کرنا ہے اور متوسط طبقے نے اس بوجھ کا سہنا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ بجٹ میں غریب طبقات کے لیے تو سوشل سکیورٹی نیٹ کی صورت میں کچھ امدادی رقم دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی 15 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی صورتحال میں انھیں کچھ ریلیف فراہم کر ے گا۔ معاشی ماہرین کے مطابق اس بجٹ میں کچھ ایسے ٹیکس اور لیویز شامل ہیں جن کا بجٹ تقریر میں ذکر نہیں تھا لیکن فنانس بل میں یہ شامل ہیں اور ان کی وجہ سے ملک میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا اور اس کا سب سے بڑا نشانہ متوسط طبقہ ہو گا۔ شہروز خان لودھی نے اس بارے میں کہا کہ ’ان ٹیکسوں کا مطلب ہے کہ صارفین کو اب زیادہ پیسے دینے پڑیں گے اور متوسط طبقہ اس کا سب سے بڑا شکار ہو گا کیوںکہ سیلز ٹیکس اشیا کی فروخت پر لگایا جاتا ہے اور صارفین کو اس کے لیے اضافی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔‘ ان کے مطابق اگلے مالی سال میں متوسط طبقے کو بجلی، گیس اور پیٹرول کے زیادہ نرخ ادا کرنے پڑیں گے کیوںکہ سیلز ٹیکس اور لیوی کے باعث ان بلز کی رقوم کے علاوہ مہنگائی کی شرح میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہو گا۔ حکومت کی جانب سے پٹرولیم لیوی، گیس پر سرچارج اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی مد میں زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے اور اس کے متوسط طبقے پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں شہروز لودھی نے کہا کہ ’آئندہ سال میں مہنگائی کی شرح کا ہدف 11 فیصد رکھا گیا ہے جو غیر حقیقی ہے کیوںکہ اس وقت بھی فوڈ انفلیشن بیس فیصد تک پہنچ چکی ہے۔‘ ڈاکٹر عالیہ ہاشمی نے کہا کہ ’اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک میں صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا ہے تو اس کے ساتھ ٹیکس سلیب میں رد و بدل سے تنخواہ دار طبقے کو کچھ فائدہ ہو گا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اضافی ٹیکسوں کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کی شرح بے حد اضافے کا خدشہ ہے جس کے اس طبقے کی قوت خرید کم ہو گی۔ اور اس کم ہوتی قوت خرید سے انھیں کچھ ضروریات پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔‘ ان کے مطابق ’اس بجٹ میں غریب طبقے کے لیے تو کچھ ریلیف موجود ہے اور اس طبقے کی ضروریات بھی محدود ہیں اسی طرح امیر طبقے کو بھی اس سےکچھ خاص فرق نہیں پڑنے والا تاہم اس بجٹ کا سب سے زیادہ منفی اثر متوسط طبقے پر پڑے گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-61741971", "summary": "نیو یارک ٹائمز کی خبر کے مطابق امریکہ محکمہ خارجہ کی ایک کیبل سے معلوم ہوا کہ مئی کے وسط میں امریکہ نے تقریبا 14 ممالک، جن میں سے اکثریت افریقی ممالک کی تھی، کو خبردار کیا کہ یوکرین کی گندم سے لدے روسی مال بردار بحری جہاز بندرگاہوں سے نکل رہے ہیں۔", "title": "کیا روس یوکرین کی گندم چوری کر رہا ہے؟", "firstPublished": "2022-06-11T03:52:06.000Z", "id": "d24635cb-a422-40bd-9e55-0abcbab6339a", "article": "یہ دعویٰ، جس کی تصدیق کرنے سے بی بی سی اس وقت قاصر ہے، ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یوکرین حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ روس نے یوکرین کی چھ لاکھ ٹن گندم چوری کی اور اس کا کچھ حصہ برآمد کر دیا۔ ادھر امریکہ نے الزام عائد کیا ہے کہ روس یوکرین کی گندم افریقہ کے ان ممالک کو بیچنے کی کوشش کر رہا ہے جن کو قحط کا سامنا ہے۔ یہ الزام امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ کیا۔ نیو یارک ٹائمز کی خبر کے مطابق امریکہ محکمہ خارجہ کی ایک کیبل سے معلوم ہوا کہ مئی کے وسط میں امریکہ نے تقریباً 14 ممالک، جن میں سے اکثریت افریقی ممالک کی تھی، کو خبردار کیا کہ یوکرین کی گندم سے لدے روسی مال بردار بحری جہاز بندرگاہوں سے نکل رہے ہیں۔ کریمیا میں روسی ترجمان اولیگ کرچکوو کے مطابق زیپوریزہزیا کے شہر ملیٹوپول سے گندم سے بھری 11 ٹرینیں کریمیا پہنچی تھیں۔ انھوں نے روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی آر آئی اے سے بات کی۔ اس ایجنسی نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ خیرسون علاقے سے بھی گندم بھجوائی جا رہی ہے۔ بی بی سی نے روسی حکام سے اس معاملے پر ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروو نے ترکی کے وزیر خارجہ سے انقرہ میں بدھ کے دن گندم کے معاملے پر بات چیت کی تھی لیکن اس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ سکا۔ روسی وزیر خارجہ کا موقف ہے کہ روس نے یوکرین کی گندم برآمد کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی بلکہ یہ یوکرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اوڈیسہ سمیت دیگر بندرگاہوں کے پانیوں سے بارودی سرنگوں کو ختم کرے۔ ادھر یوکرین کے وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’یوکرین ان بندرگاہوں سے بارودی سرنگیں اس لیے نہیں ہٹا سکتا کیوں کہ اگر ایسا کیا گیا تو گندم کی برآمد کے لیے قائم کیے جانے والے راستوں کے ذریعے روس جنوبی یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے۔‘ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یوکرین کے سفیر نے بیان دیا تھا کہ ’ہم نے ترکی سے مدد کی درخواست کی ہے اور ترکی کے مشورے پر ہی ہم گندم کی چوری اور اسے بیچنے کے معاملے پر فوجداری مقدمہ کر رہے ہیں۔‘ یوکرین کی گندم ایسوسی ایشن کے چیف مائیکولا گورباچوو نے خبردار کیا ہے کہ اگر یوکرین کی بندرگاہوں سے جلد تجارت اور برآمد شروع نہیں کی گئی تو جولائی کے اواخر میں نئی فصل شدید متاثر ہو سکتی ہے۔ یوکرین کے حالیہ محاصرے اور چند ممالک کی جانب سے گندم کی ذخیرہ اندوزی نے بھی عالمی بحران کو بڑھانے میں مدد کی ہے جس سے خوارک کی کمی کا سامنا کرتے کئی ممالک مذید عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61761524", "summary": "اپوزیشن بھی اس دن کا انتظار کرتی ہے کہ اِدھر حکومت سے کوئی چُوک ہو، اُدھر اپوزیشن انھیں آڑے ہاتھوں لے۔ اس لیے بجٹ سے متعلق ٹی وی اور اخبارات کئی دن پہلے ہی خصوصی کوریج شروع کر دیتے ہیں۔", "title": "’پہلی بار وزیر خزانہ نے ہیڈ فونز لگائے بغیر بجٹ کی تقریر کی‘", "firstPublished": "2022-06-10T20:02:57.000Z", "id": "0234b57e-0911-4f00-9c9c-099e1b492db4", "article": "بجٹ خود حکومتی جماعت کے لیے بھی ایک بڑا امتحان ہوتا ہے کیونکہ اس دستاویز پر منحصر ہے کہ عوام انھیں اگلے الیکشن میں ووٹ دے گی یا نہیں اور ان کے فیصلوں کا ملک کی معیشت اور عام آدمی کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا۔ اپوزیشن بھی اس دن کا انتظار کرتی ہے کہ اِدھر حکومت سے کوئی چُوک ہو، اُدھر اپوزیشن انھیں آڑے ہاتھوں لے۔ اس لیے بجٹ سے متعلق ٹی وی اور اخبارات کئی دن پہلے ہی خصوصی کوریج شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار وزیرخزانہ پُرسکون انداز میں تقریر کر رہے ہیں۔ اپوزیشن اراکین میں سے بعض بجٹ دستاویز پڑھ رہے ہیں اور دیگر خاموشی سے بجٹ تقریر سن رہے ہیں۔ گیلری میں موجود سینیئر صحافیوں کے مطابق وہ پہلی بار ’ایک پُرامن ماحول میں بجٹ پیش ہوتا دیکھ رہے ہیں، جمہوری روایت یہ رہی ہے کہ بجٹ تقریر کے موقع پر اپوزیشن احتجاج کرتی ہے، اور وہ طبقہ جنھیں بجٹ سے فائدہ نہیں، ان کی نمائندگی کی جاتی ہے۔‘ اجلاس کی کوریج کے لیے آنے والے سینیئر صحافی ان سیاسی ادوار کو بھی یاد کرتے رہے جب اپوزیشن نہایت ’فرینڈلی‘ ہوتی تھی ’مگر پھر بھی بجٹ کے دوران ہنگامہ آرائی تو اس دن کا لازمی حصہ رہا ہے۔ آج قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران جو مناظر دیکھے گئے وہ اس سے قبل پارلیمنٹ کی تاریخ میں نہیں دیکھے گئے تھے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر پی ٹی آئی جیسی مضبوط اپوزیشن آج قومی اسمبلی میں بیٹھی ہوتی تو مسلم لیگ ن کو خون کے آنسو رلا دیتی۔ اور بجٹ منظور کرنا مشکل ہو جاتا۔ حکومت اور اپوزیشن اراکین کی تعداد میں اتنا کم مارجن ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے اراکین بجٹ کی منظوری کے لیے پورے ہو جاتے تو قومی اسمبلی میں ایک بار پھر تحریک عدم اعتماد والی صورتحال پیدا ہو سکتی تھی۔‘ ان کا کہنا تھا ’آج پہلی بار ایسا ہوا کہ بجٹ تقریر کرنے والے کانوں پر شور روکنے والے ہیڈ فونز لگائے بغیر تقریر کی ہے۔ اس بات پر افسوس ہے کہ اپوزیشن موجود ہونے کے باوجود موجود نہیں تھی۔ یہی جمہوری روایات کے منافی ہے کہ اپوزیشن لیڈر کی طرف سے کوئی حرف ملامت تھا نہ اس عوام کی ترجمانی جو اس بجٹ سے خوش نہیں۔ مضبوط اپوزیشن، اور ایسی اپوزیشن جو آواز رکھتی ہو اور آواز اٹھاتی ہو، جمہوریت کا حسن ہے جو آج قومی اسمبلی میں دُور دُور تک نظر نہیں آیا۔‘ نوشین يوسف کہتی ہیں کہ ’بجٹ پر بحث کے دوران اپوزیشن اور حکومت دونوں اطراف سے اراکین زبردست تقاریر کرتے ہیں۔ ڈیسک بجائے جاتے ہیں، نعرے بازی کی جاتی ہے۔ مگر اس بار ایسا لگتا ہے کہ اراکین ایک تو ہیں ہی دو درجن، اور پھر بجٹ کی مخالفت میں تقاریر بھی نہیں ہوں گی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61757317", "summary": "وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 2022-23 کا بجٹ پیش کر دیا گیا ہے اور اس حوالے سے جس خبر پر سب سے زیادہ بحث کی جا رہی ہے وہ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس میں کمی ہے۔ مگر انکم ٹیکس کے نئے سلیب ہیں کیا اور اب آپ کی تنخواہ سے کتنا ٹیکس کٹے گا؟", "title": "انکم ٹیکس کے نئے سلیب: اب آپ کی تنخواہ میں سے کتنا ٹیکس کٹے گا؟", "firstPublished": "2022-06-10T15:59:17.000Z", "id": "3ca79956-6c0c-444c-873f-e22a1d545497", "article": "وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 2022-23 کا بجٹ پیش کر دیا گیا ہے اور اس حوالے سے جس خبر پر سب سے زیادہ بحث کی جا رہی ہے وہ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس میں کمی ہے۔ بجٹ تقریر میں وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ اب ماہانہ ایک لاکھ روپے یعنی 12 لاکھ سالانہ آمدن والے افراد کو انکم ٹیکس کی ادائیگی سے استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔ تقریر میں وزیرِ خزانہ نے ٹیکس سلیبز کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کیں، تاہم کابینہ کی جانب سے منظور ہونے والے فنانس بل کے مطابق انکم ٹیکس کے سلیبز کی تعداد 12 سے کم کر کے سات کر دی گئی ہے۔ گذشتہ فنانس بل میں 60 لاکھ سے زیادہ آمدن والوں کے لیے ایک ہی سلیب رکھا گیا تھا، تاہم اس فنانس بل میں اسے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ ایک عام آدمی کی تنخواہ پر ان سلیبز کا کیا اثر پڑے گا۔ ٹیکس سلیب میں تبدیلی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ انکم ٹیکس کے سلیبز میں تبدیلی سے کم آمدنی والے افراد کو ریلیف ملا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’سلیب میں کم دراصل آئی ایم ایف کی شرائط میں سے ایک تھی تاکہ زیادہ آمدنی والے افراد پر ٹیکس کو منطقی بنایا جائے۔‘ انھوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت جو مہنگائی کی شرح ہے، یہ کم آمدنی والے تنخواہ دار افراد کو تھوڑا ریلیف فراہم کرے گا۔ ڈاکٹر اکرام نے بتایا کہ ’یہ اقدام ملک کی ٹیکس بیس کو بڑھانے کی طرف ایک پیش رفت ہے کیونکہ ٹیکس سلیب کی اوپر کی سطح کو بڑھا دیا گیا ہے۔‘ آئی ایم ایف کی جانب سے پرسنل انکم ٹیکس میں اصلاحات کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ پرسنل انکم ٹیکس پر بات کرتے ہوئے ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے بتایا کہ اس سے مراد تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی شرح کو بڑھانا ہے۔ ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ ’پرسنل ٹیکس میں اصلاحات سے مراد یہی ہے کہ آئی ایم ایف زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والے افراد پر ٹیکس میں اضافہ چاہتا ہے۔‘ واضح رہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے تنخواہ دار طبقے سے زیادہ ٹیکس وصولی کا مطالبہ نیا نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی یہ مطالبہ کیا جا چکا ہے تاہم سابقہ حکومت کی جانب سے اس مطالبے پر رضامندی ظاہر نہیں کی گئی تھی۔ آئی ایم ایف کی جانب سے تنخواہ دار طبقے سے 130 سے 150 ارب روپے اضافی اکٹھا کرنے کا کہا گیا تھا تاہم بعد میں حکومت نے سیلز ٹیکس میں دی جانے والی چھوٹ ختم کرنے پر رضامندی کا اظہار کر کے یہ مطالبہ قبول نہیں کیا تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/pakistan-61757312", "summary": "وفاقی بجٹ 2022-23 میں حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد جبکہ پینشن میں پانچ فیصد اضافے کی تجویز پیش کی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس چھوٹ چھ لاکھ سے بڑھا کر 12 لاکھ کر دی گئی ہے جبکہ نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح کو 100 فیصد سے بڑھا کر 200 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔", "title": "مشکل وقت ہے، عام پاکستانی کو دبایا گیا تو تاریخ معاف نہیں کرے گی: مفتاح اسماعیل", "firstPublished": "2022-06-10T08:55:50.000Z", "id": "1781f28c-57d2-4522-9505-4fdd0c19ba5a", "article": "وفاقی بجٹ 2022-23 میں حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد جبکہ پینشن میں پانچ فیصد اضافے کی تجویز پیش کی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس چھوٹ چھ لاکھ سے بڑھا کر 12 لاکھ کر دی گئی ہے جبکہ نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح کو 100 فیصد سے بڑھا کر 200 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے بجٹ میں موبائل فونز پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔ کریڈٹ، ڈیبٹ اور پری پیڈ کارڈز کے ذریعے پاکستان سے باہر رقم بھیجنے والے فائلرز کے لیے ایک فیصد جبکہ نان فائلرز کے دو فیصد ایڈوانس ود ہولڈنگ ٹیکس صول کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے بینکنگ کمپنیوں پر ٹیکس کی موجودہ شرح 39 فیصد سے بڑھا کر 42 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اسی طرح نان فائلر کے لیے ٹیکس کی شرح کو 100 فیصد سے بڑھا کر 200 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ وہ تمام افراد جن کی پاکستان میں ڈھائی کروڑ روپے سے زیادہ کی ایک سے زائد غیر منقولہ جائیداد ہے، اس پر حکومت کی جانب سے مارکیٹ ویلیو کے حساب سے پانچ فیصد کے برابر فرضی آمدن یا کرایہ تصور کیا جائے گا اور اس پر ایک فیصد کی شرح سے ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔ پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح ایک فیصد سے بڑھا کر دو فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ جبکہ جائیداد خریدنے والے نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح پانچ فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس چھوٹ کی موجودہ حد سالانہ چھ لاکھ روپے سے بڑھا کر، 12 لاکھ روپے کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے بہبود سیونگ سرٹیفیکیٹ، پینشنر بینیفٹ اکاؤنٹ اور شہدا فیملی ویلفیئر اکاؤنٹ میں سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح کو دس فیصد سے پانچ فصید کرنے کی تجویز دی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سالانہ ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے 800 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو موجودہ سال کے بجٹ میں 900 ارب روپے رکھا گیا تھا، تاہم گذشتہ حکومت نے اس پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے اسے ساڑھے 500 ارب روپے کر دیا تھا۔ پاکستان میں وفاقی حکومت کی سالانہ پلان کوارڈینیشن کمیٹی کی جانب سے آئندہ مالی سال کے لیے ملکی معاشی شرح نمو کا ہدف پانچ فیصد رکھا گیا ہے۔ موجودہ مالی سال میں معاشی شرح نمو چھ فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق وزارت خزانہ کے اعداد و شمار کا مطلب یہ ہے کہ ملکی معیشت ’اوور ہیٹڈ‘ ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61755432", "summary": "سوشل میڈیا پر اکثر صارفین پریشان ہیں کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں رکاوٹیں دور کرنے کے لیے مزید ایسے سخت فیصلے کرے گی ،جن سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔", "title": "بجٹ پر خدشات: ’یہ عوام دوست نہیں، آئی ایم ایف دوست بجٹ ہو گا‘", "firstPublished": "2022-06-10T06:55:22.000Z", "id": "12306739-2ca1-418e-bff1-3d1307f3bbfc", "article": "پاکستان کی نئی مخلوط حکومت وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں آج 10 جون کو اگلے مالی سال 2022-2023 کا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔ حالیہ عرصے میں پیٹرول، ڈیزل سے لے کر بجلی کے نرخوں میں اضافے کا اعلان کیا گیا جس کے بعد عوام آج پیش ہونے والی بجٹ میں مہنگائی میں مزید اضافے کے امکانات سے پریشان نظر آتی ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے سابقہ حکومت پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ کیے جانے والے وعدوں کی پاسداری نہ کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے عالمی ادارے نے ابھی تک پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط جاری نہیں کی جس نے پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے اور ایسے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ شاید آج پیش ہونے والا بجٹ ’عوام دوست‘ نہیں بلکہ ’آئی ایم ایف دوست‘ ہو گا۔ سوشل میڈیا پر اکثر صارفین پریشان ہیں کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں رکاوٹیں دور کرنے کے لیے مزید ایسے سخت فیصلے کرے گی جن سے مہنگائی میں اور اضافہ ہو گا۔ محمد فاروق ملک نے لکھا کہ ’آنے والا بجٹ عین آئی ایم ایف کی مرضی کے مطابق ہو گا جس میں غریب کے گھر کے چولہے جو جل رہے ہیں وہ بھی ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔‘ صحافی کامران خان نے لکھا کہ ’22 کروڑ پاکستانی تیاری رکھیں آج شہباز بلاول حکومت کا آئی ایم ایف بجٹ اس سسکتی بلبلاتی قوم پر نئے ٹیکسز اور مزید مہنگائی کی صورت میں نئی آفت ڈھائے گا۔ چار سال تک آج کی حکومت کل تک آئی ایم ایف کا بھرکس نکالتی رہی وہی قیادت آج اسی آئی ایم ایف کے قدموں پر سرنگوں ہے۔‘ محمد وسیم نے لکھا کہ آج ایک بار پھر آئی ایم ایف کا تیار کردہ بجٹ پیش کیا جائے گا جس میں غریبوں پر بوجھ ڈالا جائے گا جبکہ امرا اور اشرافیہ کو مزید امیر سے امیر ترین ہونے کا موقع دیا جائے گا۔ ابراہم اسماعیل نے لکھا ’موجودہ مہنگائی کی لہر کی وجہ ماہانہ گھریلو بجٹ بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے۔ تکلیف اس وقت مزید بڑھے گی جب اگست کے مہینے میں تاریخی مہنگی بجلی اور الگ سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا وبال سر پر پڑے گا، پتا نہیں کیسے نظام چلے گا۔‘ دوسری جانب مقامی میڈیا پر ایسی خبریں چل رہی ہیں جن کے مطابق سرکاری ملازم کی تنخواہ میں اضافہ آئی ایم ایف کی منظوری سے مشروط ہے۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’جب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی بات آئے گی تو خزانہ خالی ہو جائے گا یا پھر آئی ایم ایف کی کڑی شرائط یاد آ جائیں گی ۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61751320", "summary": "کچھ تو ایسے لازم اخراجات ہیں جن سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی مگر اس کے باوجود کچھ ایسے اقدامت ہیں، جن کے ذریعے بچت ضرور کی جا سکتی ہے۔", "title": "مہنگائی کے اس دور میں گھریلو بجٹ کیسے بنایا جائے؟", "firstPublished": "2022-06-10T04:02:53.000Z", "id": "862e8d44-0ff4-4599-8022-12e07c1bdd85", "article": "’دوسرا حصہ آپ کی خواہشات ہیں یعنی وہ اشیا جن کے بغیر آپ کا یا آپ کے اہلخانہ کا گزارا تو ہو جائے گا مگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ چیز بھی آپ کے پاس ہو۔ اس میں زیادہ تر چیزیں آپ کے طرزِ زندگی سے جڑی ہوتی ہیں جبکہ تیسرا حصہ ہے ’بچت‘ یعنی آپ شروع میں ہی فیصلہ کر لیں کہ آپ نے کتنی بچت کرنی ہے۔‘ انوشے نوید کے مطابق ’جب تین حصے بن جائیں تو آپ پر یہ واضح ہو گیا ہے کہ لازم اخراجات کیا ہیں یعنی وہ خرچے جن سے جان چھڑانا تقریباً ناممکن ہے۔ ایسا کرنے سے آپ پر یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ کون سے اخراجات لازم نہیں اور ان میں رد و بدل کی جا سکتی ہے۔‘ ’مثال کے طور پر آپ کو بلب ضرورت ہے تو آپ دکان سے 200 روپے کا سستا بلب لاتے ہیں لیکن آپ یہ نہیں سوچتے کہ اس بلب کا فیوز جلدی اڑ جائے گا اور یہ زیادہ بجلی استعمال کرتا ہے۔ اگر اس کے بجائے 300 روپے کا انرجی سیور خرید لیں گے تو وہ زیادہ عرصہ چلے گا اور سب سے بڑھ کر بجلی کی بچت ہو گی۔‘ ’اگر آپ قیمتوں کا موازنہ کریں تو اس سے بھی بچت کی جا سکتی ہے۔ مثلاً آپ کو ایک برانڈ کی چائے کی پتی پسند ہے تو آپ ہمیشہ وہی خریدتے ہیں لیکن کیا آپ نے اس کے ساتھ رکھی دوسری برانڈ کو ٹرائی کیا؟ ہو سکتا ہے وہ بھی ذائقے میں آپ کی پسندیدہ چائے جیسی ہو مگر قیمت میں کم ہو۔ اس سے آپ کے پیسے بچ سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیشہ دیکھیں کہ کوالٹی پر سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے وہی چیز دیگر کمپنیاں کتنے میں بیچ رہی ہیں۔‘ اس کا جواب ہے کہ بالکل بڑھائی جا سکتی ہے مگر ہم یہ نہیں بھول سکتے کہ جس طبقے کا بجٹ ہم ترتیب دینے کی کوشش کر رہے ہیں وہ محنت کش لوگ ہیں اور یہ دن بھر کسی دفتر میں یا کھلے آسمان تلے کام کرتے ہیں اور شاید ان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ دن بھر کام کے بعد شام کو نئے سرے سے محنت کریں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’آپ دیکھیں کہ آپ کے خاندان میں اور کون ہے جن کے پاس کوئی ہنر ہے۔ یہ ہنر سلائی کڑھائی ہو سکتا ہے، بچوں کو ٹیوشن پڑھانا ہو سکتا ہے یا پھر اچھا کھانا پکانا یعنی کیا کوئی شیف بھی ہے؟ تو اب یہ تمام کام بہت آسانی سے گھر بیٹھے کیے جا سکتے ہیں۔ اب ایسی موبائل ایپس موجود ہیں جن کے ذریعے آپ گھر میں کھانا پکائیں اور ڈیلیور کروا دیں۔ ہمارے پاس ایسی خواتین بھی ہیں جنھوں نے اپنے گھر کے قریب ہی کسی بلڈنگ میں موجود مختلف دفاتر کے ملازمین کو کھانا سپلائی کرنا شروع کیا اور یوں ان کی آمدنی میں بڑا اضافہ ہوا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61729426", "summary": "معاشی ماہرین موجودہ اور سابقہ حکومت کی جانب سے ایک دوسرے پر ملک کی معاشی صورتحال کو خراب کرنے جیسے الزامات پر کہتے ہیں کہ دونوں حکومتوں کی پالیسیوں کے ساتھ ملک میں موجود غیر یقینی صورتحال معیشت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن کر ابھری، جس کا خمیازہ ایک عام فرد کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔", "title": "ملکی معیشت کے اس نہج پر پہنچنے کی وجہ آئی ایم ایف شرائط پوری نہ کرنا یا سیاسی غیر یقینی؟", "firstPublished": "2022-06-09T04:02:27.000Z", "id": "230a80c1-cfa9-4dbd-8616-ff937ddaf6b0", "article": "ملک کی خراب معاشی صورتحال اور اس کی وجہ سے عوام کے لیے بڑھتی ہوئی مشکلات پر موجودہ اتحادی حکومت جس کی سربراہی پاکستان مسلم لیگ نون کر رہی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کے درمیان الزام تراشی کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے جس میں ایک دوسرے کو ملک کی خراب معاشی صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے سابقہ حکومت پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ کیے جانے والے وعدوں کی پاسداری نہ کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے عالمی ادارے نے ابھی تک پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط جاری نہیں کی جس نے پاکستان کے لیے بیرونی ادائیگیوں کے شعبے کو سنگین مشکلات سے دوچار کر دیا اور ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تسلسل سے کمی دیکھی جا رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے موجودہ حکومت پر صرف دو ماہ کی حکمرانی میں معیشت کو خراب کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے عام فرد مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ پاکستان میں معاشی ماہرین موجودہ اور سابقہ حکومت کی جانب سے ایک دوسرے پر ملک کی اقتصادی صورتحال کو خراب کرنے پر رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دونوں حکومتوں کی پالیسیوں کے ساتھ ملک میں موجود غیر یقینی صورتحال معیشت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن کر ابھری، جس کا خمیازہ ایک عام فرد کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے معاشی امور کے ترجمان اور سابقہ حکومت میں وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جہاں تک آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کی بات ہے تو سابقہ حکومت کے ساتھ تو یہ چل رہا تھا اور ہمارے مذاکرات بھی ہو رہے تھے تاہم اب صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف موجودہ حکومت کے ساتھ پروگرام جاری کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا جس کی وجہ یہ ہے کہ اس حکومت میں شامل جماعتوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کو توڑنے کی بات کی تھی جس کی وجہ سے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل دو بار آئی ایم ایف کے ساتھ جا چکے ہیں تاہم ابھی تک انھیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔‘ پاکستان کی خراب معاشی صورتحال اور سابقہ اور موجودہ حکومت کی جانب سے ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے خراب معاشی صورتحال کی سب سے بڑی وجہ سیاسی غیر یقینی رہی اور اس کے ساتھ نئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے بروقت ایکشن نہ لیے جانا تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61644981", "summary": "ایک جانب حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات کے ذریعے قرضہ پروگرام کی بحالی کے لیے کوشاں ہے تو دوسری جانب نئی حکومت کو اقتدار کے پہلے دو ماہ میں ہی بجٹ پیش کرنے کے چیلنج کرنے کا بھی سامنا ہے۔", "title": "پاکستان میں حکومت کو بجٹ بنانے میں کون سے چیلنج درپیش ہیں؟", "firstPublished": "2022-06-07T02:59:48.000Z", "id": "d1038aa6-f279-4018-9340-5ee6348df91d", "article": "ایک جانب حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات کے ذریعے قرضہ پروگرام کی بحالی کے لیے کوشاں ہے تو دوسری جانب نئی حکومت کو پہلے دو مہینوں میں بجٹ پیش کرنے کے بڑے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان میں جون کے مہینے میں بجٹ پیش کرنے کی روایت ہے اور نئے مالی سال کا آغاز جولائی سے ہوتا ہے۔ حکومت کی جانب سے بجٹ کی تیاری ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ملک کا مالیاتی خسارہ بلند ترین سطح پر ہے اور معاشی ماہرین کے مطابق اس سال بجٹ خسارہ 3400 ارب روپے کی بجائے 30 جون 2022 تک 5000 ارب روپے تک پہنچ جائے گا اور اس بڑے خسارے کے ساتھ اگلے سال کا بجٹ بنانا ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ اتفاق رائے پیدا نہیں ہوتا تو پھر حکومت کے لیے اگلا بجٹ بنانا مشکل ہو جائے گا کیونکہ ملک کو بیرونی ادائیگیوں کے لیے بیرونی فنڈنگ نہیں ملے گی جو اس وقت ملک کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ موجودہ حکومت کے لیے مہنگائی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے جس سے نمٹنے کے لیے اسے بجٹ کی تیاری میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ نے کہا کہ مہنگائی بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ انھوں نے بتایا کہ گزشتہ حکومت نے پٹرول و ڈیزل پر سبسڈی تو دی تو لیکن اس نے اس کے لیے بجٹ مختص نہیں کیا جس کا منفی اثر یہ ہوا کہ اس نے ملک کے مالیاتی خسارے کو بڑھا دیا۔ ’اب یہ اضافی ٹیکس کن افراد اور کاروباری شعبوں پر لگے گا، یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں مختلف لابیوں کا اثر و رسوخ حکومتوں پر رہا ہے اور پاکستان مسلم لیگ نون پر کاروباری اور تاجر برادری کا اثر بہت زیادہ ہے۔ اب حکومت اضافی ٹیکسوں کے مسئلے سے کیسے نمٹے گی کہ وہ بجٹ بھی تیار کر لے اور آئی ایم ایف کی شرائط کے ساتھ ٹیکسوں کا اضافی بوجھ نہ ڈالے۔‘ ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ یہ خسارے بلاشبہ بہت بڑے چیلنج کی صورت میں حکومت کو درپیش ہیں تاہم انھوں نے کہا کہ امید ہے کہ پاکستان کو ان شعبوں میں ہونے والے خسارے کو پورا کرنے کے لیے کہیں نہ کہیں سے فنانسنگ مل جائے گی کیونکہ دنیا ایک ایسے ملک کو ان حالات میں نہیں چھوڑ سکتی کہ جو ایٹمی قوت ہو اور دیوالیہ ہو جائے۔ ماہرین کے مطابق سب سے بڑا چیلنج اس سلسلے میں اخراجات پر قابو پانا ہو گا۔ اس وقت موجودہ حکومت مخلوط حکومت ہے اور اتحادی چاہیں گے کہ ان کے تجویز کردہ منصوبوں کے لیے زیادہ ترقیاتی فنڈ رکھے جائیں تاہم دوسری جانب آئی ایم ایف سے معاہدے کی وجہ اخراجات پر قابو پانے کے لیے دباؤ ہوگا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61697227", "summary": "اس دنیا میں کہیں بھی فری لنچ نہیں۔ نیوٹرل نہ رہنے کی بھی قیمت ہے اور رہنے کی بھی ۔باز کل سے خود کو کبوتر کہنا شروع کر دے تو باقی پرندے اس کا ادب کرنا چھوڑ دیں گے؟ پڑھیے وسعت اللہ خان کا کالم۔", "title": "آخری پاجامہ اور داتا صاحب کا لنگر!", "firstPublished": "2022-06-05T12:21:07.000Z", "id": "22f71de6-10b9-4f83-a965-118ef0a08e84", "article": "اوروں کا تو پتہ نہیں البتہ ہمیں ذاتی طور پر خوشی ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے آخری سویلین پاجامہ بھی اس امید پر آئی ایس آئی کے حوالے کر دیا کہ کم ازکم ڈیڑھ برس کی یکسوئی تو ہو جائے۔ اس دنیا میں کہیں بھی فری لنچ نہیں۔ نیوٹرل نہ رہنے کی بھی قیمت ہے اور رہنے کی بھی ۔باز کل سے خود کو کبوتر کہنا شروع کر دے تو باقی پرندے اس کا ادب کرنا چھوڑ دیں گے؟ ضروری نہیں کہ دفاعی قیادت نے اس کڑکی کے سمے بجٹ میں اضافے کا زبانی یا تحریری مطالبہ کیا ہو۔ مگر نبض شناسی بھی تو کوئی فن ہے۔ یہاں تو ایک سے بڑھ کے ایک نسلی سند یافتہ نباض گھوم رہے ہیں۔ ویسے بھی جو حکومت مانگے کے دو ووٹوں کی اکثریت پر ٹکی ہو، جس حکومت کا انتظامی سربراہ عدالتی ضمانت پر چل رہا ہو اور پیچھے نیب اور ایف آئی اے لگی ہو۔ جس کے بیٹے کی ادھاری وزارتِ اعلیٰ مسلسل معلق ہو۔ آپ ان کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ بہت سراہنا ہوئی تھی جب نواز شریف اور شہید بے نظیر بھٹو نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے تھے اور یہ کہہ کر کیے تھے کہ اس میثاق پر عمل درآمد کے نتیجے میں سیاستدانوں اور فوج کے درمیان بے ضابطہ سیاسی رابطے منقطع ہو جائیں گے اور ہر ادارے کو اپنے اپنے آئینی دائرے میں رکھنے کا راستہ سیدھا ہو جائے گا۔ اب کیا خیال ہے؟ پردہِ سکرین پر ہیرو بھلے شاہ رخ خان اور سلمان خان ہی کیوں نہ ہو۔ آخری حرف ڈائریکٹر کا ہی ہوتا ہے کہ کس کو فائنل کٹ میں کتنا دکھانا یا ایڈٹ کرنا ہے۔ ہمارے ہیرو نے اس ڈائریکٹرانہ حقیقت کو تحریری طور پر تسلیم کر کے سویلین جسدِ خاکی سے چپکا آخری انجیری پتہ (فگ لیف) بھی ہٹا دیا۔شکریہ شہباز شریف۔ جھگڑا یہ نہیں تھا کہ زرداری یا نواز شریف نے ملک کھوکھلا کر دیا یا عمران خان نے معیشت تباہ کر دی۔ جھگڑا یہ ہے کہ جب ہم آپ کی قے صاف کرنے کے لیے ہر وقت پوچا لیے حاضر ہیں تو ایک ناتجربہ کار منھ پھٹ اضافی خادم کی ضرورت کیوں پڑ گئی۔ اب تشفی ہو گئی یا کوئی حسرت باقی ہے۔ اگر اب بھی بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ سسٹم کیسے چل رہا ہے تو ایک اور آسان مثال سن لیجے۔ ضرورت ہے ایک ملازم کی جسے تنخواہ کے بجائے کھانا اور سر چھپانے کی جگہ ہی ملے گی۔ کام بس اتنا ہے کہ دو وقت داتا صاحب جا کے لنگر کھائے اور واپسی پر مالک کے لیے بھی چاول ڈبل شاپر کروا کے لے آئے۔ اب یہ ملازم خود کو سی ای او سمجھے یا چیف ایگزیکٹو کہہ لے،اس کی مرضی۔ مالک کا کیا جاتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61694493", "summary": "پاکستان میں وفاقی حکومت کی سالانہ پلان کوارڈینیشن کمیٹی کی جانب سے آئندہ مالی سال کے لیے ملکی معاشی شرح نمو کا ہدف پانچ فیصد رکھا گیا ہے۔ موجودہ مالی سال میں معاشی شرح نمو چھ فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق وزارت خزانہ کے اعداد و شمار کا مطلب یہ ہے کہ ملکی معیشت ’اوور ہیٹڈ‘ ہے۔", "title": "پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار اگلے مالی سال میں کیوں برقرار نہیں رہ پائے گی؟", "firstPublished": "2022-06-05T11:49:49.000Z", "id": "1953a75b-733a-4a9b-9502-9158d4d70133", "article": "پاکستان میں وفاقی حکومت کی سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی کی جانب سے آئندہ مالی سال کے لیے ملکی معاشی شرح نمو کا ہدف پانچ فیصد رکھا گیا ہے۔ موجودہ مالی سال میں معاشی شرح نمو چھ فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ اس سے پہلے پاکستان کی وفاقی وزارت خزانہ کی جانب سے آئندہ مالی سال میں ملک کی مجموعی معاشی ترقی چھ فیصد کی رفتار سے نہ بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ پاکستان کی وزارت خزانہ کی جانب سے اگلے مالی سال میں ملکی معاشی ترقی چھ فیصد کی رفتار سے نہ بڑھنے کی پیش گوئی اور سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی کی جانب سے پانچ فیصد کا ہدف اس وقت سامنے آیا جب ملک میں تقریباً دو ماہ پہلے قائم ہونے والی حکومت اپنا پہلا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی کی جانب سے پانچ فیصد کا ہدف اور وزارت خزانہ کی جانب سے اگلے مالی سال میں مجموعی معاشی شرح نمو کے چھ فیصد کی رفتار سے نہ بڑھنے کی پیش گوئی حکومت کی نیشنل اکاونٹس کمیٹی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے بعد کی گئی ہے جس میں کہا گیا کہ موجودہ مالی سال میں معاشی شرح نمو یا جی ڈی پی کی ترقی کی رفتار چھ فیصد تک رہے گی۔ وزارت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگرچہ موجودہ مالی سال میں ملکی معیشت کی رفتار چھ فیصد تک رہنے کی توقع ہے تاہم مالیاتی دباؤ اور بیرونی شعبے کی کارکردگی کی وجہ سے اگلے سال میں یہ گروتھ برقرار نہیں رہ سکتی۔ انھوں نے کہا موجودہ حکومت کی جانب سے اگلے مالی سال میں معاشی شرح نمو چھ فیصد پر برقرار نہ رہنے کے خدشے کا اظہار اس لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ بلند شرح سود اور توانائی کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہونے کی وجہ معیشت کی ترقی میں اضافہ ممکن نہیں لگتا۔ موجودہ مالی سال میں ترقی کے چھ فیصد تک رہنے کے بارے میں شاہد محمود نے کہا تحریک انصاف اور نواز لیگ دونوں پارٹیوں کے معاشی ماہرین بات کرنے سے کتراتے ہیں کہ زیادہ جی ڈی پی نے پاکستان کے لیے زیادہ مشکلات پیدا کر دی ہیں جس کی وجہ ادائیگیوں میں عدم توازن کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اگلے سال ترقی کی شرح برقرار نہ رہنے کی وزارت خزانہ کی پیش گوئی کے بارے میں معاشی ماہر مزمل اسلم کہتے ہیں کہ ’اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں توانائی کا بحران ہے اور اقتصادی ترقی کے لیے توانائی کی فراہمی بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ اب تک یہ حکومت شرح سود میں چار فیصد تک اضافہ کر چکی ہے اور امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں اس شرح سود میں مزید اضافہ ہو گا جو 20 فیصد تک جا سکتا ہے۔ اس بلند شرح سود کے ساتھ آنے والے مالی سال میں چھ فیصد گروتھ ممکن نہیں۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61688619", "summary": "پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کے ناقص نظام کے باعث زیادہ تر افراد اپنے روزانہ کے سفر کے لیے سستی رائیڈ شیئرنگ ایپ کا استعمال کرتے ہیں۔", "title": "’سوئیول مڈل کلاس کے لیے نعمت تھی، متبادل 8000 روپے مہینے میں پڑے گا‘", "firstPublished": "2022-06-04T08:51:06.000Z", "id": "f56c3b50-4fb2-47e7-9881-21f838585433", "article": "حال ہی میں رائڈ شیئرنگ ایپ ’سوئیول‘ نے اپنی گاڑیوں کی سروس دنیا کے مختلف شہروں میں بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دبئی میں قائم اس ایپ کے مالکان نے ایک اعلامیے یعنی پریس ریلیز میں ایپ بند کرنے کے پیچھے وجہ حالیہ عالمی مہنگائی کی لہر کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیے اپنی سروس کو جاری رکھیں گے لیکن روزانہ استعمال ہونے والی گاڑیاں بند کی جا رہی ہیں۔ اب اس کے نتیجے میں پاکستان میں رہنے والے وہ تمام شہری افسردہ ہیں جن کا روز کا آنا جانا اس ایپ پر منحصر رہا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں زیادہ تر افراد اپنے روزانہ کے سفر کے لیے سستی رائیڈ شیئرنگ ایپ کا استعمال کرتے آرہے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ ملک کے مختلف شہروں سے بس کے روٹ ختم ہونے یا ناقص ٹرانسپورٹ کا نظام ہے۔ ٹرانسپورٹ کے ناقص انتظام سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔ کراچی کی رہائشی نورین خان نے اپنے فیس بُک پر سوئیول ایپ کے منسوخ ہونے کے بعد لکھا کہ پاکستان میں خواتین کے لیے بائیکیا جیسی ایپ شروع کیوں نہیں کی جا سکتی؟ واضح رہے کہ بائیکیا ایک پاکستانی ایپ ہے جس میں کریم اور اوبر کی طرح موٹربائیک بک کروائی جا سکتی ہے۔ چونکہ پاکستان میں خواتین کا موٹرسائیکل چلانے کا رجحان اتنا زیادہ نہیں ہے اس لیے بائیکیا میں صرف مرد حضرات ہی بائیک چلاتے نظر آتے ہیں جن کے پیچھے بیٹھنے میں خواتین آسانی محسوس نہیں کرتیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ہمیں ملک میں ایک بہتر ٹرانسپورٹ کا نظام چاہیے۔ ہم صرف یہی دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ کونسے رنگ کی میٹرو چلے گی اور کب تک چلے گی۔‘ پاکستان کے زیادہ تر شہروں میں اب بھی ماس ٹرانزٹ نظام موجود نہیں ہیں اور کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں میں جہاں یہ سسٹم ہیں بھی، وہاں بھی یہ پورے شہر کو آپس میں نہیں جوڑتے، چنانچہ پبلک ٹرانسپورٹ یا رکشہ، ٹیکسی یا موٹرسائیکل کی ضرورت بہرحال باقی رہ جاتی ہے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر کئی صارفین اس حوالے اپنی پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں۔ حمزہ نے ایک تھریڈ پوسٹ کیا۔ وہ لکھتے ہیں ’میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ سوئیول ہمارے مڈل کلاس کے لیے کیا نعمت تھی۔ میری بہن سوئیول میں کالج جاتی ہے جس کا خرچہ صرف 100-150 روپے فی دن ہے۔ اس کا متبادل پرائیویٹ پک اپ وین ہے جو 8000 روپے ماہانہ چارج کرتی ہے اور اسے وقت سے 2 گھنٹے پہلے پک کرتی ہے اور کالج ختم ہونے کے 3 گھنٹے بعد چھوڑتی ہے۔‘ صحافی انس ملک نے لکھا کہ پاکستان میں معاشی حالات کے باعث پہلے ایئرلفٹ اور اب سوئیول بند ہو گئی ہے، وہ پوچھتے ہیں کہ اتنے تھوڑے وقت میں ان نئے سٹارٹ اپس کے ساتھ ناجانے کیا ہوا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61687824", "summary": "پاکستانی حکومت کی جانب سے ایک ہفتے میں دو مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد یقیناً اکثر گھروں میں یہ بات موضوعِ بحث ہو گی کہ اب کیا ہو گا، خرچہ کیسے چلے گا اور کیا حالات بدتر ہونے جا رہے ہیں؟", "title": "پاکستان میں مہنگائی کب تک جاری رہے گی اور کیا اس میں کمی کا امکان ہے؟", "firstPublished": "2022-06-04T05:36:49.000Z", "id": "b2ae1dfe-8c4d-4a6f-b59c-bc3bbc17e58c", "article": "پاکستانی حکومت کی جانب سے ایک ہفتے میں دو مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد یقیناً اکثر گھروں میں یہ بات موضوعِ بحث ہو گی کہ اب کیا ہو گا، خرچہ کیسے چلے گا اور کیا حالات بدتر ہونے جا رہے ہیں؟ انتہائی تکنیکی وجوہات نہ صحیح لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا براہِ راست اثر مہنگائی پر پڑتا ہے اور کچھ روز میں کسی بھی دکان پر پہنچ کر آپ کو روز مرہ کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی خبر ملے گی اور آپ کا دل کھٹا ہو گا۔ تاہم مسئلہ صرف پیٹرولیم مصنوعات کا نہیں ہے بلکہ نیپرا کی جانب سے جمعرات کو جولائی کے مہینے سے 7.91 روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔ اس ممکنہ اضافے کا اثر عام عوام کی جیب پر براہِ راست تو پڑے گا ہی، لیکن ساتھ اس کے باعث مہنگائی میں بھی اضافہ ہو گا۔ ہارون شریف نے بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد تین رجحانات کی جانب توجہ دلوائی۔ دوسرا یہ کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ٹرانسپورٹ کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیا بھی مہنگی ہو جاتی ہیں۔ حکومت اور اکثر معاشی ماہرین کی جانب سے یہ بات کئی مرتبہ دہرائی جا چکی ہے کہ یہ اضافہ ناگزیر تھا۔ تاہم ناقدین کا ماننا ہے کہ تمام بوجھ غریب عوام پر ہی کیوں ڈالا گیا ہے، جو اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ ’لیکن چارہ بالکل ہے اگر ہم اصلاحات لائیں تاکہ ہم جو اس کا بوجھ لوگوں پر مہنگائی کی شکل میں ڈال رہے ہیں، لوگوں کو امید نظر آئے۔ اگر ہم نے ایک وسط مدتی اصلاحاتی منصوبہ آئی ایم ایف کو دیا ہوتا جو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومتی اتحاد کے پاس نہیں تھا، کیونکہ کوئی سمت دکھائی نہیں دیتی، اس لیے اس کی تکلیف اور بھی زیادہ ہے کیونکہ اس غیر یقینی صورتحال ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔‘ ’اس کے گہرے معاشی اثرات بھی ہیں اور اس کے سیاسی اعتبار سے بھی اثرات دیکھنے کو ملیں گے کیونکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ عوام کی طرف سے خاصا سخت ردِ عمل آنا شروع ہو گیا ہے کہ اشرافیہ سے آپ قربانی نہیں مانگ رہے، سارا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔‘ ’ہمیں چاہیے کہ زراعت میں ویلیو ایڈیشن لائیں، ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کپڑے کے بجائے سوٹ بنائے تاکہ ہمارے زرِ مبادلہ میں اضافہ ہو۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی نالج بیسڈ اکانمی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں چھوٹ دیں اور سرمایہ کاری کی ترغیب دیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61678580", "summary": "مئی کے مہینے سے قبل بھی لوڈ شیڈنگ ہو رہی تھی تاہم عید کی چھٹیوں کے دوران اس میں کمی واقع ہوئی۔ مئی کے آخر اور جون کے شروع میں بجلی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کافی طویل ہو گیا ہے۔ لوڈشیڈنگ میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟", "title": "بجلی تو پہلے بھی جاتی تھی مگر آج کل لوڈ شیڈنگ میں اضافے کی کیا وجہ ہے؟", "firstPublished": "2022-06-03T03:44:37.000Z", "id": "ae0f901c-4343-4fd4-8f4b-b0d3b18f9619", "article": "مئی کے مہینے سے قبل بھی لوڈ شیڈنگ ہو رہی تھی تاہم عید کی چھٹیوں کے دوران اس میں کمی واقع ہوئی۔ مئی کے آخر اور جون کے شروع میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کافی طویل ہو گیا ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ جو پہلے تین گھنٹے تھا اب وہ بڑھ کر چھ گھنٹوں تک چلا گیا ہے۔ دانیال کے مطابق بجلی کے متبادل ذرائع کے ذریعے یو پی ایس سے پنکھا تو چلا لیتے ہیں تاکہ گرمی سے بچا جائے تاہم جب علاقے میں بجلی جاتی ہے تو انٹرنیٹ کنکشن ڈاؤن ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے انھیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور امتحان کی تیاری میں انھیں کافی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ’گھر کے سب افراد اس کے بعد سو جاتے تھے تاہم گذشتہ کئی روز سے اچانک بجلی کے دورانیے میں اضافہ ہو گیا ہے اور اب تو بجلی اس وقت چلی جاتی ہے جب ہم گہری نیند سو رہے ہوتے ہیں اور پھر گرمی کی وجہ سے اٹھنا پڑتا ہے۔‘ اسلام آباد میں ترنول کے رہائشی شبیر احمد بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پریشان ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس وقت بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی دورانیہ بہت بڑھ چکا ہے۔ حکومت اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے ایک جانب اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا اعلان کیا جاتا ہے جسے لوڈ مینیجمنٹ کہا جاتا ہے تو دوسری جانب غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے کیونکہ اس وقت ملک میں درجہ حرارت زیادہ ہے۔ بجلی کے شعبے کے ماہرین کے مطابق اس وقت ملک میں بجلی کی طلب بلند ترین سطح پر موجود ہے اور اس بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے پیداوار ناکافی ہے جس کی وجہ سے ملک میں بجلی کی بہت زیادہ لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ ماہرین نے طلب میں اضافے کے ساتھ بجلی بنانے کے ایندھن یعنی کوئلے، آر ایل این جی اور فرنس آئل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو بھی اس کی ایک وجہ قرار دیا ہے جس کی وجہ سے بجلی بنانے والے کارخانے اپنی پیداواری استعداد سے کم بجلی بنا رہے ہیں کیونکہ مہنگا ایندھن خریدنے کے لیے فنانسنگ چاہیے جو پوری طرح دستیاب نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں مختلف ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی مجموعی صلاحیت 36 ہزار میگاواٹ کے لگ بھگ ہے تاہم کبھی بھی اس استعداد تک بجلی پیدا نہیں کی جا سکی جس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اس گیس کی خریداری کے باوجود بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے جبکہ پانی سے پیدا ہونے والی بجلی بھی کم بن رہی ہے تو دوسری جانب کوئلے کی قیمت بھی بہت بڑھ چکی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61678582", "summary": "حکومت اور متعدد معاشی ماہرین کی جانب سے اس فیصلے کو ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے اور نشاندہی کی جا رہی ہے کہ اس کی وجہ عمران خان کی گذشتہ حکومت کے آخری ایام میں دی گئی سبسڈی ہے لیکن اس کے باوجود موجودہ حکومت کو بھی خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔", "title": "’عام آدمی اشرافیہ کی ناکامی کی قیمت کیوں ادا کرے؟‘", "firstPublished": "2022-06-03T00:07:13.000Z", "id": "ceb21f23-6b43-4274-86db-1cbe9b389184", "article": "گذشتہ شام اس وقت پاکستان کی عوام کو ایک ہی دن میں دوسرا جھٹکا لگا جب پہلے نیپرا کی جانب سے جولائی کے مہینے سے بجلی کے نرخوں میں 7.91 روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری دی گئی اور پھر شام میں وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے پیٹرول اور ڈیزل 30، 30 روپے مہنگے کرنے کا اعلان کر دیا۔ حکومت اور متعدد معاشی ماہرین کی جانب سے اس فیصلے کو ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے اور نشاندہی کی جا رہی ہے کہ اس کی وجہ عمران خان کی گذشتہ حکومت کے آخری ایام میں دی گئی سبسڈی ہے لیکن اس کے باوجود موجودہ حکومت کو بھی خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اکثر صحافی اور تجزیہ کار نہ صرف حکومت سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے خرچے کم کرے اور عوام کو یہ دکھائے کہ انھیں بھی اس مشکل وقت میں ان کا احساس ہے بلکہ ایسی اصلاحات بھی کی جائیں جن کے ذریعے بوجھ صرف غریب اور متوسط طبقے پر ہی نہیں بلکہ امیروں پر بھی پڑے۔ حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ ایک ہفتے کے دوران دوسرا بڑا اضافہ ہے۔ اس سے قبل، 26 مئی کو بھی پٹرول کی قیمت میں 30 روپے کا اضافہ کیا گیا تھا۔ جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ’اب بھی ہم پیٹرول پر آٹھ روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں اور ڈیزل پر یہ سبسڈی 23 روپے ہے۔‘ انھوں نے عندیہ دیا کہ اس حوالے سے 10 جون کو دیے جانے والے بجٹ میں ’بہت سے معاملات سمٹ جائیں گے۔‘ معاشی ماہر عزیر یونس نے لکھا کہ ’پونے شہر پراپرٹی ٹیکس کی مد میں اتنی رقم اکٹھی کرتا ہے جتنا پورا صوبہ سندھ بھی نہیں کرتا۔ امیر کئی دہائیوں سے اپنی دولت ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں جھونک رہے ہیں۔ اور انھیں ایسا کرنے کے لیے ایمنسٹی سکیمز بھی دی گئی ہیں۔‘ ایک ہفتے میں دوسری مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافے کے فیصلے کے بارے میں شاہ رخ وانی نے لکھا کہ ’یہ فیصلہ تکلیف دہ ضرور ہے لیکن ناگزیر بھی ہے۔ پاکستان عالمی مارکیٹ سے تیل خریدتا ہے اور اس پر سبسڈی لگانا کسی حکومت کے لیے بھی صحیح نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ وسیع تر معاشی اصلاحات کرنی ہوں گی۔‘ صحافی کامران یوسف نے لکھا کہ ’غلط معاشی پالیسیوں اور اصلاحات کے نام پر سزا صرف عوام کو نہیں ملنی چاہیے۔ اس ملک میں ایلیٹ جس کو کبھی ٹیکس کی مد میں اور کبھی سبسڈی کی مد میں اربوں کی مراعات دی جاتی ہیں وہ سب واپس ہونی چاہیے۔ سرکاری تیل مفت میں جو افسران، وزرا کو دیا جاتا ہے وہ بند ہونا چاہیے، سب قربانی دیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-61655975", "summary": "انڈیا نے فروری کے اواخر میں یوکرین پر روس کے حملے اور اس پر عائد کی گئی پابندیوں کے بعد روس سے انتہائی رعایتی نرخوں پر 34 ملین بیرل خام تیل در آمد کیا ہے جو 2021 کے پورے سال میں درآمد کیے جانے والے تیل کی مجموعی مقدار سے تین گنا زیادہ ہے مگر کیا پاکستان ایسا کر سکتا ہے؟", "title": "انڈیا روس سے رعایتی نرخوں پر کتنا تیل درآمد کر رہا ہے اور کیا پاکستان ایسا کر سکتا ہے؟", "firstPublished": "2022-06-02T00:20:15.000Z", "id": "5a3a8c59-9e63-46cf-ad56-744be0b51655", "article": "ایک طرف جہاں یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا روس نے سابق حکومت کو تیل فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی یا نہیں، وہیں یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا پاکستان روس سے تیل درآمد کر بھی سکتا ہے یا نہیں جبکہ انڈیا ایسا کر رہا ہے؟ انڈیا نے فروری کے اواخر میں یوکرین پر روس کے حملے اور اس پر عائد کی گئی پابندیوں کے بعد روس سے انتہائی رعایتی نرخوں پر 34 ملین بیرل خام تیل در آمد کیا تھا۔ یہ مقدار 2021 کے پورے سال میں درآمد کیے جانے والے تیل کی مجموعی مقدار سے تین گنا زیادہ ہے۔ انڈیا کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق انڈیا جون میں روس سے خام تیل کی درآمد مزید بڑھا کر اس کی مقدار 28 ملین بیرل کرنے جا رہا ہے۔ تیل کی درآمد بڑھنے سے روس سے انڈیا کی درآمد کی مالیت 24 فروری اور 26 مئی کے درمیان 6.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ گذشتہ برس اس مدت میں یہ مالیت محض دو ارب ڈالر تھی، یعنی اس میں تین گنا سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ سنہ 2021 میں انڈیا نے اپنی ضروریات کا صرف دو فیصد تیل یعنی تقریباً 12 ملین بیرل خام تیل روس سے درآمد کیا تھا۔ روس، یوکرین تنازع کے باعث روسی خام تیل کی قیمت عالمی مارکیٹ میں کافی گر گئی ہے یہی وجہ ہے کہ روس نے انڈیا کو خام تیل بہت رعایتی داموں پر دیا ہے۔ یوکرین پر فروری میں روس کے حملے کے بعد امریکہ نے یورپی ملکوں اور انڈیا سے کہا تھا کہ وہ روس کے تیل کا بائیکاٹ کریں۔ انڈیا پر کئی طرف سے دباؤ پڑ رہا تھا کہ وہ روسی تیل نہ خریدے لیکن انڈیا نے امریکہ اور یورپی ملکوں کی اپیل یہ کہہ کر مستر کر دی کہ پورپی ممالک روس سے کہیں زیادہ تیل خریدتے ہیں اور یہ کہ انڈیا تو صرف اپنی ضرورت کا دو فیصد تیل روس سے خرید رہا ہے۔ ایک بات اب پوری طرح واضح ہے کہ انڈیا اس وقت روس سے پہلے کے مقابلے کئی گنا خام تیل رعایتی داموں پر درآمد کر رہا ہے۔ دو ہفتے قبل انڈیا نے ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں سات سے نو روپے فی لیٹر کی کمی کی تھی۔ انھوں نے کہا ’روس سے آنے والے خام تیل سے اگر صارفین کو کوئی فائدہ پہنچانا ہے تو اس کے لیے حکومت کو سستا خام تیل خریدنے کی وجہ سے ڈالر میں تو بچت ہو گی لیکن جب اس سے بننے والی ڈیزل اور پٹرول کی مصنوعات کا تعین ان کی عالمی مارکیٹ کی قیمتوں پر ہو گا تو اس کے لیے حکومت کو سبسڈی دینی پڑے گی تاہم اس کی مالیت اتنی زیادہ نہیں ہو گی کیونکہ خام تیل رعایتی نرخوں پر مل رہا ہو گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-61554821", "summary": "ڈیووس کے ایوانوں میں اس وقت کا اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ آیا عالمی معاشی بحران آ رہا ہے یا نہیں۔ عالمی سطح پر اور دنیا کے معاشی طور پر طاقتور ملکوں میں عالمی مندی کے بارے میں شدید تشویش پائی جاتی ہے اور ان ممالک کا کہنا ہے عالمی معیشت کے افق پر سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔", "title": "عالمی معیشت کے افق پر ’تاریکی کے بادل‘: دنیا بھر میں سرمایہ کاروں پر گھبراہٹ کیوں طاری ہے؟", "firstPublished": "2022-06-01T09:44:29.000Z", "id": "f9096c54-1844-4d9e-a42b-3ce7be05403d", "article": "سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس کے ایوانوں میں اس وقت کا اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ آیا عالمی معاشی بحران آ رہا ہے یا نہیں۔ دنیا میں سرمایہ کاری کے سب سے بڑے فنڈز کے منتظمین کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں آنے والے معاشی خطرات کے بارے میں ایک ایک کر کے آگاہ کیا جاتا رہا ہے، گو کچھ سابقوں اور لاحقوں کے ساتھ۔ تصویر کا تاریک پہلو دیکھنے والے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مایوس ہیں۔ عالمی بینک کے سربراہ ڈیوڈ مالپاس نے چند روز قبل ایک تقریب میں خبردار کیا تھا کہ توانائی، خوراک اور کھاد کی قیمت بڑھنے پر یہ دیکھنا مشکل ہے کہ ہم کس طرح کساد بازاری سے بچ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معیشت کو سکڑنے سے بچانے کے بارے میں بات ہو رہی ہے، اگرچہ ہم امید کی کرن روشن رکھنا چاہتے ہیں، اس کے باوجود اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک پوشیدہ خطرہ ہے۔ اس بحث کے درمیان یہ سوال ایک بار پھر زور پکڑ رہا ہے کہ کساد بازاری یا مندی اصل میں ہے کیا؟ ایشیا کی دیو قامت معیشت، جو تمام عالمی پیداوار کا 19 فیصد ہے تجزیہ کاروں کی نظروں میں اس کی معیشت میں سست روی کا براہ راست اثر باقی دنیا پر پڑے گا۔ ایسا دو اعتبار سے ہو گا، دوسرے ممالک سے اشیا اور خدمات کے خریدار کے طور پر اس کی اہمیت اور بین الاقوامی تجارت کی فراہمی کرنے والی سپلائی کی کڑیوں میں اس کا کلیدی کردار ہے۔ ڈیوڈ مالپاس نے چین کے بعض بڑے شہروں میں بندشوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے کیونکہ ان کے مطابق ’اب بھی دنیا پر اثرات یا سست اثرات ہیں۔‘ طاقت کے عظیم مراکز سے باہر کم ترقی یافتہ ممالک میں خوراک کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ان میں غریب ترین افراد قحط کا شکار ہیں۔ ماہرین معاشیات اور بینکاروں میں اس بارے میں رائے منقسم ہے کہ آیا دنیا براہ راست مندی کی طرف جا رہی ہے یا یہ صرف معاشی سست روی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی شرح سود اگرچہ افراط زر پر قابو پا سکتی ہے، قرض لینے اور قرضوں کی ادائیگی کی لاگت میں اضافہ کر سکتی ہے لیکن معاشی ترقی پر بریک کا کام بھی کر سکتی ہے۔ اس آفاقی منظر نامے میں ہمیں یہ بھی کہنا ہو گا کہ چین میں کووڈ 19 کی تازہ ترین وبا کی وجہ سے حالیہ ہفتوں میں اسے مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ ان میں سے ایک مالیاتی صنعت کی عالمی ایسوسی ایشن انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس کے چیف اکنامسٹ رابن بروکس نے ٹوئٹر پر ایک پیغام جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’عالمی مندی آنے والی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61635522", "summary": "شاہ ہنواز آفریدی پچھلے تیس سال سے چھوٹے اسلحے کے کاروبار کرتے ہیں تاہم موجودہ وقت میں حکومت کی طرف سے درہ آدم خیل کو اکنامک زون کے لیے جاری مشاورت کے حوالے سے اُنھوں نے کہا کہ مقامی صنعت کاروں کو اس عمل سے الگ رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے تاجر برادری باہر سے مسلط کیے گئے فیصلے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔", "title": "درہ آدم خیل میں اسلحہ سازی کی قدیم صنعت قانونی دائرے میں شامل کیوں نہیں ہو پا رہی؟", "firstPublished": "2022-05-31T06:58:17.000Z", "id": "c299b12e-dbe7-4299-9792-f350cef3c35f", "article": "شاہنواز آفریدی گذشتہ 30 سال سے چھوٹے اسلحے کے کاروبار کرتے ہیں تاہم موجودہ وقت میں حکومت کی طرف سے درہ آدم خیل کو اکنامک زون بنانے کے لیے جاری مشاورت کے حوالے سے اُنھوں نے کہا کہ مقامی صنعت کاروں کو اس عمل سے الگ رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے تاجر برادری باہر سے مسلط کیے گئے فیصلے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ عہدیدار کے مطابق مذکورہ منصوبہ حکومت نے اس وجہ سے ختم کر دیا کہ درہ آدم خیل میں اسلحے کے کاروبار سے وابستہ افراد نے اپنے علاقے سے باہر جانے سے انکار کیا اور موقف اپنایا کہ وہ نئی مشینری اور پلاٹ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے جبکہ بڑی تعداد میں گھروں کے اندر خواتین اور بچے بھی اسی روزگار سے منسلک ہیں۔ موجودہ منصوبے کے بارے میں اُنھوں نے بتایا کہ آگر اس پر عملدرآمد ہوتا ہے تو ادارے کے طرف سے صنعت کاروں یا کاروباری افراد کو کسی قسم کے مراعات دینا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ درہ آدم خیل کے تقریباً پندرہ مربع کلومیٹر کے علاقے میں اسلحے سازی کی صنعت قائم ہے تو کیسے بجلی، گیس اور سڑکوں کی سہولت مہیا کریں گے۔ ملک فیصل آفریدی کو 22 سال پہلے اسلحے کا کاروبار وارثت میں ملا تھا۔ موجودہ وقت میں سرکاری سطح پر اسلحہ سازی کی صنعت کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے وہ اپنی تاجر برادری اور بحیثیت سیاسی رہنما نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق تاجر برادری سب کچھ چھوڑ کر چلی گئی۔ اُنھوں نے بتایا کہ انتہائی مشکل سے لوگوں نے دوبارہ کاروبار شروع کیا لیکن ساتھ بازار کے مختلف اطراف میں سکیورٹی چیک پوسٹوں کی وجہ سے گھروں میں تیار کیے گئے اسلحے کے پرزہ جات کو بازار تک لانے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہاں کے مقامی تاجروں کو اب تک حکومت کے طرف سے اسلحے کے کاروبار کے لیے قانونی اجازت نامہ یا لائسنس جاری نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے پشاور میں لائسنس رکھنے والے تاجروں کو اسلحہ بھیج دیا جاتا ہے جو تمام قانونی تقاضے پورے کر کے نہ صرف ملک کے مختلف بڑے شہروں تک پہنچاتے ہیں بلکہ بیرونی ممالک کو برآمد بھی کر لیتے ہیں۔ عبدالکریم خان نے بتایا کہ درہ آدم خیل کے علاوہ صوبے کے دیگر اضلاع میں قائم چھوٹی اور گھریلو صنعت کو اکنامک زون کا درجہ دینے کے لیے صوبائی سطح کام جاری ہے جن میں چارسدہ کی چپل کی صنعت، سوات میں سلام پور کے کپڑے کی صنعت وغیرہ شامل ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ درہ اکنامک زون کے حوالے سے مقامی افراد کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے آگاہی کی ضرورت ہے تاکہ ان کو معلوم ہو سکے کہ اس منصوبے سے ان کو کیا فائدہ حاصل ہو گا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-61639414", "summary": "یورپی ملک سربیا نے روس کے ساتھ گیس خریدنے کا تین سال کا معاہدہ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس معاہدے کے تحت سربیا کو دوسرے یورپی ممالک کے مقابلے میں تین گنا کم قیمت پر گیس ملے گی۔", "title": "سربیا کا روس کے ساتھ گیس کی خریداری کا ’انتہائی فائدے مند‘ معاہدہ", "firstPublished": "2022-05-31T00:11:25.000Z", "id": "99afd280-48a3-4009-a959-468fa56fd173", "article": "یورپی ملک سربیا نے روس کے ساتھ گیس خریدنے کا تین سال کا معاہدہ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس معاہدے کے تحت سربیا کو دوسرے یورپی ممالک کے مقابلے میں تین گنا کم قیمت پر گیس ملے گی۔ 29 مئی کو روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے سے فون پر اپنی گفتگو کے بعد سربیا کے صدر ایلیگزینڈر ووچچ نے اس 'انتہائی فائدے مند' معاہدے کا اعلان کیا۔ اتوار 29 مئی کو صدر ایلیگزینڈر ووچچ نے صحافیوں کو بتایا کہ انھوں نے روس کے ساتھ گیس کی سپلائی کے ایک 'انتہائی فائدے مند' معاہدے پر اتفاق کیا ہے جو تین سال پر محیط ہو گا۔ روس اور سربیا کے درمیان ایک 10 سالہ معاہدہ پہلے ہی موجود ہے جو منگل 31 مئی کو ختم ہو رہا ہے۔ سربیائی اور خطے کے میڈیا کے مطابق دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں سربیا روس سے تین گنا سستی گیس خریدے گا جبکہ اس سال سردیوں میں توقع ہے کہ یہ قیمت دوسرے یورپی ممالک کے مقابلے میں 10 گنا کم ہو گی۔ صدر ووچچ نے کہا کہ سربیا ہزار کیوبک میٹر گیس کے لیے 310 ڈالر سے 408 ڈالر ادا کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ وہ معاہدے کی دیگر تفصیلات طے کرنے کے لیے روس کی سرکاری کمپنی گیزپروم سے رابطہ کریں گے۔ روس نے بھی اتوار کو اعلان کیا ہے کہ وہ سربیا کو بلاتعطل گیس سپلائی کرے گا۔ سربیا کے صدر نے کہا ہے کہ گیس اور خوراک کے حوالے سے سربیا کے عوام اب محفوظ سردیاں گزاریں گے۔ صدر ووچچ نے صدر پوتن کے ساتھ اپنی گفتگو کو 'بہت اچھا' قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے درمیان باہمی تعلقات سمیت کئی معاملات پر بات چیت ہوئی۔ صدر ووچچ نے بتایا کہ انھوں نے صدر پوتن سے کہا کہ سربیا یوکرین میں جلد از جلد امن چاہتا ہے جبکہ صدر پوتن نے انھیں بتایا کہ روس نے یوکرین اور مغربی ممالک کو ایک معاہدہ پیش کر دیا ہے۔ صدر ووچچ نے کہا کہ ’ایسے تنازع کو حل کرنے کے لیے سربیا ایک چھوٹا سا ملک ہے اور وہ صرف امن کی امید ہی کر سکتا ہے۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ صدر پوتن کے ساتھ ان کی بات چیت سے کیا ان کے ملک پر روس پر پابندیوں سے متعلق دباؤ میں اضافہ تو نہیں ہو گا تو انھوں نے کہا کہ سربیا روز ہی ایسے دباؤ کا سامنا کر رہا ہے لیکن وہ اپنے مؤقف پر قائم رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ کوسوو سے متعلق بھی سربیا پر بہت دباؤ ہے لیکن اس معالمے پر بھی سربیا اپنے موقف پر قاہم رہے گا۔ سربیا گیس اور تیل کے لیے روس پر بہت انحصار کرتا ہے اور اس نے روس کی جانب سے یوکرین پر حملے سے متعلق اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی حمایت کی ہے لیکن روس پر اقتصادی پابندیوں کی مسترد کر دیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61596464", "summary": "پاکستان میں کئی لوگوں کو خدشہ ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں 30 روپے فی لیٹر اضافے سے ’مہنگائی کا طوفان‘ آئے گا۔ وہیں بعض لوگ حکومتی رہنماؤں کو ان کے وہ بیان یاد دلا رہے ہیں جن میں ان کا کہنا تھا کہ وہ عوام پر ایک روپے کا بھی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔", "title": "’مہنگائی کا شور مچاتے ہیں، مگر حکومت میں آتے ہی مزید مہنگائی کر دیتے ہیں‘", "firstPublished": "2022-05-26T20:25:33.000Z", "id": "2b028c23-539a-4934-bc1f-11f455e47454", "article": "پاکستان میں بعض حلقے کئی دنوں سے متنبہ کر رہے تھے کہ پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ناگزیر ہے مگر حکومتی رہنما کہتے رہے کہ وہ عوام پر ایک روپے کا بوجھ بھی نہیں ڈالنا چاہتے۔ مگر پھر جمعرات کی شب وزیرخزانہ مقتاح اسماعیل نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ’ریکارڈ‘ اضافے کا اعلان کیا۔ عموماً ہر حکومت کی جانب سے پیٹرول، ڈیزل کی قیمت میں اضافے پر سیاسی اور معاشی وجوہات کی بنا پر تنقید ہوتی ہے اور عالمی منڈیوں کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بار معاملہ ماضی سے یوں مختلف ہے کیوںکہ قیمت میں اضافہ 30 روپے کا ہوا، جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ کئی لوگوں کو خدشہ ہے کہ اس سے ’مہنگائی کا طوفان‘ آئے گا مگر جمعے کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر میں کمی آئی ہے اور سٹارک مارکیٹ میں بھی تیزی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ یاد رہے کہ سابق حکومت کی جانب سے تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا اعلان فروری میں کیا جا چکا تھا جس کو تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کے بعد موجودہ حکومت نے برقرار رکھا لیکن وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے بیانات سے واضح تھا کہ یہ فیصلہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا۔ لیکن ایک صارف نے تحریک انصاف کے سابق وزیر فیصل واوڈا کا ایک پرانا بیان بھی یاد دلایا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ یہ قوم 200 روپے تک پیٹرول فی لیٹر کی قیمت بھی برداشت کرے گی۔ جبکہ پاکستان بزنس کونسل نے ایک پیغام میں کہا ہے کہ فیول سبسڈی جزوی طور پر ختم کرنے کا اقدام دیر سے کیا گیا مگر یہ اکاؤنٹس پر دباؤ کم کرے گا۔ اس نے اخراجات میں کمی کے لیے ورک فرام ہوم یعنی گھروں سے کام کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ تمام پیٹرولیم مصنوعات پر جنرل سبسڈی دینے کے بجائے مستحق افراد کے لیے خصوصی سبسڈی دی جانی چاہیے۔ سمیہ رضوان نے کہا کہ ’مہنگائی کا شور مچا کر حکومت میں آنے والوں نے عوام پر مہنگائی بم گرادیا۔‘ ادھر نادیہ مرزا کہتی ہیں کہ ’پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر تھا لیکن قوم کو بتایا گیا تھا کہ نواز شریف ایک روپے کا بوجھ بھی عوام پر ڈالنا نہیں چاہتے اور مریم بی بی کہتی تھیں کہ ایسی حکومت ختم کر دو جس سے عوام پر بوجھ ڈالنا پڑے۔ سوشل میڈیا صارفین میں کچھ ایسے بھی تھے جن کا خیال ہے کہ تیل کی مصنوعات کی قیمتوں کے معاملے کو سیاست کی نظر نہیں کرنا چاہیئے۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹر اکاوئنٹ پر لکھا کہ ’پیٹرول کی قیمت میں اضافے سے اشرافیہ کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61587434", "summary": "حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قطر میں ہونے والے مذاکرات کے بعد عالمی مالیاتی ادارے نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی اور تیل کی مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی طے شدہ معاہدے کے خلاف تھی۔ جبکہ پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف ٹیم کے ساتھ جائزہ مذاکرات کافی مفید اور تعیمری رہے۔", "title": "آئی ایم ایف مذاکرات:’ہمیں ایک سخت مالیاتی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے‘، وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل", "firstPublished": "2022-05-25T19:37:05.000Z", "id": "c0756e1d-f338-4ed4-ad23-d5cd5ead008a", "article": "حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قطر میں ہونے والے مذاکرات کے بعد عالمی مالیاتی ادارے نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں بجلی اور تیل کی مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی طے شدہ معاہدے کے خلاف تھی۔ پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف ٹیم کے ساتھ جائزہ مذاکرات کافی مفید اور تعیمری رہے اور حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور ملک کو مستحکم ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے پر عزم ہے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے سلسلہ وار ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’میں دوحا میں آئی ایم ایف کی ٹیم سے مذاکرات کر کے ابھی واپس لوٹا ہوں، گذشتہ ایک ہفتے کے دوران ہمارے وفد کی آئی ایم ایف ٹیم کے ساتھ بہت مفید اور تعمیری مذاکرات ہوئے ہیں۔ ہم نے مالی سال 2022 کے دوران چند معاشی ناکامیوں پر بات چیت کی ہے جن میں سے ایک رواں برس فروری میں پیٹرول کی قیمتوں پر سبسڈی دینا ہے۔‘ انھوں نے آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ مذاکرات سے متعلق بتاتے ہوئے مزید لکھا کہ ’آئی ایم ایف کی ٹیم نے پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے پر زور دیا ہے۔ یہ سبسڈی گذشتہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دی تھی۔ موجودہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے اور ملک کو دوبارہ مستحکم ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ‘ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قطر کے شہر دوحا میں ہونے والے مذاکرات کا حالیہ دور مکمل ہونے پر آئی ایم ایف کی جانب سے جاری اعلامیے میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں تیل و بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ختم کی جائے تاہم عالمی ادارے کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں پاکستان کے لیے قرضے کی اگلی قسط جاری کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ واضح رہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضے کی اگلی قسط ملنے کی امید تھی۔ ایک ایسے وقت میں جب حکومت کو ملک میں سیاسی چیلنج کا بھی سامنا ہے، مذاکرات کا بے نتیجہ ختم ہونا وزیر اعظم شہباز شریف کی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔ تجزیہ کار مائیکل کگلمین نے ٹوئٹر پر اپنی رائے میں کہا کہ پاکستان کا معاشی اور سیاسی بحران کا نتیجہ اچھا نہیں نظر آ رہا۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات بے نتیجہ ختم ہو گئے جب کہ حکومت کو قرضے کی اشد ضرورت تھی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ورلڈ اکنامک فورم کے دوران کہا کہ آئی ایم ایف سے گزشتہ حکومت کا معاہدہ زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتا اور ’اب حالات بدل چکے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-61514819", "summary": "سری لنکا کے حالیہ معاشی بحران میں انڈیا سری لنکا سے اپنے تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں میں ہے جبکہ سری لنکا میں چند حلقوں انڈیا کے مقاصدر کے بارے میں شدید خدشات پائے جاتے ہیں۔ سری لنکا میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کولمبو میں انڈیا کی بڑھتی ہوئی موجودگی کا مطلب ’خودمختاری کو کمزور کرنا‘ ہو سکتا ہے۔", "title": "بحران میں گھرے سری لنکا کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے انڈیا کیا کر رہا ہے؟", "firstPublished": "2022-05-20T05:20:34.000Z", "id": "a1715453-c727-49b9-a1f3-75d26b3073c8", "article": "عام تاثر یہ ہی ہے کہ اس دوڑ میں چین کو اس ضمن میں انڈیا پر سبقت حاصل ہے۔ سری لنکا میں حالیہ معاشی اور سیاسی بحران نے انڈیا کی خارجہ پالیسی کو جزیرہ نما ملک میں ایک نئی زندگی فراہم کی ہے۔ اس وقت سری لنکا 1948 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد سے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ ملک مظاہروں سے لرز اٹھا ہے کیونکہ لوگ بڑھتی ہوئی قیمتوں، خوراک اور ایندھن کی قلت پر غصے میں ہیں۔ سری لنکا میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کولمبو میں انڈیا کی بڑھتی ہوئی موجودگی کا مطلب ’خودمختاری کو کمزور کرنا‘ ہو سکتا ہے۔ سری لنکا کی بڑی سیاسی جماعت سوشلسٹ پارمی کے رہنما پابودا جیا گوڈا نے انڈیا کی طرف سے پیش کردہ امداد کے بارے میں کہا کہ ’گذشتہ ڈیڑھ سال سے سری لنکا میں بحران ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ انڈیا نے اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ ہاں، انہوں نے کچھ کریڈٹ، کچھ دوائیں اور خوراک دی لیکن [وہ] دوست نہیں ہیں۔ انڈیا کاایک پوشیدہ سیاسی ایجنڈا ہے۔‘ ’ہمیں اب بھی انڈیا سے مناسب قیمت پر پیاز مل رہا ہے اور وہ بحران کے وقت ہمیں کریڈٹ دے رہے ہیں۔ یہ سری لنکا کی حکومت کی ناکامی ہے کہ پیاز کی قیمتیں تین گنا بڑھ گئی ہیں۔‘ کولمبو کے گال فیس گرین میں بہت سے حکومت مخالف مظاہرین اس بات پر قائل ہیں کہ تیزی سے جدید بنانے کے اس دباؤ نے سری لنکا کو اس کی موجودہ صورتحال تک پہنچا دیا۔ جبکہ چین نے اس سے قبل سری لنکا کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو یوآن کے بدلے روپیہ تبدیل کرنے پر اتفاق کیا تھا، اس کے بعد اس نے مدد کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) سے رابطہ کرنے پر کولمبو پر ناراضگی کا اشارہ دیا ہے۔ انڈیا میں سری لنکا کے سابق ہائی کمشنر آسٹن فرنینڈو نے جزیرہ اخبار میں اپنے ایک مضمون میں سوال کیا کہ کیا سری لنکا کو چین کے ساتھ ٹکراؤ کے راستے پر رکھا جا رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو، ہمیں پیدا ہونے والے دیگر منفی حالات کی وجہ سے ایسے واقعات سے بچنے کی ضرورت ہے۔ تعلقات میں توازن رکھنا ضروری ہے۔‘ وہ کہتی ہیں ’سری لنکا میں نسلی اقلیتوں نے ہمیشہ انڈیا کی طرف اپنے مساوی حقوق کے مطالبات کی حمایت کی ہے، جب کہ سنہالی اکثریت کا اب بھی ملا جلا تاثر ہے۔ کچھ لوگوں کو اندرونی معاملات میں انڈیا کی مداخلت پر بھی تشویش ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ پچھلے چند ہفتوں نے اس کو مکمل طور پر بدل دیا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61509203", "summary": "وزیر اعظم شہباز شریف نے اس فیصلے کے بعد کہا کہ اس فیصلے سے ملک کے زرمبادلہ کو بچایا جا سکے گا جو درآمدات پر خرچ ہو رہے تھے۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ اس فیصلے سے غریب عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔", "title": "لگژری اشیا اور گاڑیوں کی درآمد پر پابندی سے حکومت کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے؟", "firstPublished": "2022-05-19T15:48:11.000Z", "id": "1e283cc6-5eeb-4088-bf63-8800b9beea21", "article": "پاکستان کی حکومت کی جانب سے یہ اقدامات اس وقت سامنے آئے ہیں جب ملک کا تجارتی خسارہ زیادہ درآمدات کی وجہ سے بڑھتا جا رہا ہے اور شہباز شریف حکومت پر معاشی فیصلوں کا دباو بڑھتا جا رہا تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس فیصلے کے بعد کہا کہ اس فیصلے سے ملک کے زرمبادلہ کو بچایا جا سکے گا جو درآمدات پر خرچ ہو رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہم خرچ کم کریں گے اور معاشی طور پر مضبوط لوگوں کو اس کوشش میں آگے بڑھنا ہو گا تاکہ معاشرے کے غریب طبقے کو اس بوجھ سے کم نقصان ہو جو گزشتہ حکومت کے فیصلوں کی وجہ سے ملک پر پڑا۔ حکومت کے اس فیصلے پر سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ مثبت قدم ہے لیکن اس فیصلے سے غریب عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔ ماہرین معیشت کے مطابق لگژری چیزوں کی درآمد پر پابندی عائد کرنے سے ملک کے تجارتی خسارے میں تھوڑی کمی تو ہوگی لیکن اس سے روپے کو مستحکم کرنے کا تصور ٹھیک نہیں ہے کیونکہ روپے میں کمی کی وجہ درآمدات کے بڑھتے ہوئے بل کے علاوہ بھی ہیں جن پر اب تک کام نہیں کیا گیا۔ انہوں نے حکومتی کے ان اعداد شمار، جن کے مطابق دعوی کیا گیا کہ چھ ارب ڈالر کے درآمدی بل میں کمی ہو گی، سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ اس کا اثر تین ارب ڈالر تک ہو سکتا ہے۔ طاہر عباس نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کیجانب سے جن چیزوں کی درآمد پر پابندی عائد کی گئی ہے اس سے روپے کو مستحکم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ روپے کی قدر میں اضافے کی درآمدی بل کے علاوہ اور بہت ساری وجوہات ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ آئی ایم ایف سے پاکستان کے مذاکرات کے سلسلے میں غیر یقینی کا ماحول ہے جو روپے کی قدر کو گھٹا رہا ہے۔ صائم علی نے کہا روپے کی قدر پر پریشر تیل کی قیمتوں اور گیس کی قیمتوں کی وجہ سے آیا ہوا ہے جو بین الاقوامی مارکیٹ میں بہت اوپر جا چکی ہیں۔ ’ان کی درآمد تو جاری رہے گی اس لیے نہیں لگتا کہ روپے کی قدر میں کوئی خاص کمی ہو۔‘ حکومت کیجانب سے مختلف چیزوں کی درآمد پر پابندی کے عام آدمی پڑنے والے اثرات کے بارے میں طاہر عباس نے کہا کہ جن چیزوں پر پابندی عائد کی گئی ہے ان کا ایک عام فرد، جو درمیانے اور کم آمدنی والے طبقات سے تعلق رکھتا ہے، پر اثر نہیں پڑے گا کیونکہ وہ یہ چیزیں استعمال نہیں کرتا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-61479739", "summary": "مغربی ممالک نے روس کے یوکرین پر حملے کی پاداش میں روس پر مزید پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔", "title": "یوکرین پر حملہ: روس پر مزید کیا اقتصادی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں؟", "firstPublished": "2022-05-19T04:55:03.000Z", "id": "061470cf-1b51-421a-ad37-18c0b652cb4d", "article": "یورپی یونین نے رواں برس کے آخر تک روس سے تیل کی خریداری کو مکمل طور پر ختم کرنے سمیت مزید اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یوکرین پر روسی یلغار کے بعد سے مغربی ممالک نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور وہ ان پابندیوں میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ کسی ملک کی جارحیت کو روکنے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں روکنے کےلیے اس پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ پابندیاں ان سخت ترین اقدامات میں سے ہیں جو قومیں جنگ میں جانے سے کم کسی ملک کے خلاف اٹھاتی ہیں۔ یوکرین پر حملے کے بعد مغربی ممالک نے تیزی سے روس کے خلاف وسیع پیمانے پر پابندیاں متعارف کرائی ہیں جن میں افراد، بینکوں، کاروباروں اور بڑے سرکاری اداروں اور برآمدات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکہ نے روس کو امریکی بینکوں میں رکھے ہوئے 600 ملین ڈالر کے استعمال کو روک دیا ہے۔ روس اس رقم سے اپنے قرضوں کی ادائیگی کرتا تھا۔ اب روس کے لیے اپنے بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی مشکل ہو گئی ہے۔ روس کے بڑے بینکوں کو ادائیگیوں کے عالمی نظام سوئفٹ سے علیحدہ کیا جا چکا ہے۔ اس سے روس کو توانائی کی برآمدات کی ادائیگیوں میں تاخیر ہوگی۔ برطانیہ نے گولڈن ویزہ بیچنے بند کر دیئے ہیں جن کے تحت روس کے امراء برطانیہ میں سکونت کے حقوق حاصل کر لیتے تھے۔ کوکا کولا اور سٹاربکس سمیت 1,000 سے زیادہ بین الاقوامی کمپنیوں نے یا تو روس میں تجارت معطل کر دی ہے یا مکمل طور پر واپس لے لی ہے۔ میکڈانلڈ نے اعلان کیا ہے کہ وہ تیس برس بعد روس میں اپنے کاروبار کو مکمل طور پر بند کر رہا ہے اور وہاں 850 ریسٹورانٹ کو فروخت کر رہا ہے۔ البتہ بعض برانڈز جن میں مارک اینڈ سپنسر، برگر کنگ، میریٹ اور ایکور نے اعلان کیا ہے کہ وہ روس کو چھوڑ نہیں سکتے ہیں کیونکہ روس میں ان کے کاروبار پیچیدہ فرنچائز ڈیلز کے تحت چلتے ہیں۔. برطانیہ، یورپی یونین اور امریکہ کی طرف سے دوہری استعمال کی اشیا کی برآمد پر پابندی عائد کی گئی ہے، جن میں شہری اور فوجی دونوں مقاصد ہیں، جیسے گاڑیوں کے پرزہ جات۔ برطانیہ روس کے ویگنر گروپ پر بھی پابندیاں عائد کر رہا ہے - ایک نجی ملٹری فرم جس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ روسی فوج کو ہتھیار سپلائی کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ برطانیہ اور یورپی یونین نے روس کو لگژری اشیا کی برآمد روک دی ہے جس میں گاڑیاں، فیشن اور آرٹ شامل ہیں۔ برطانیہ نے روس سے درآمدات پر 35 فیصد ٹیکس عائد کردیا ہے۔ روس نے 2022 کے آخر تک 200 سے زائد مصنوعات کی برآمدات پر پابندی عائد کر دی ہے جن میں ٹیلی کام، میڈیکل، گاڑی، زرعی، برقی آلات اور لکڑی شامل ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61502120", "summary": "آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے ساتھ قرضہ پروگرام کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ابھی تک تیل مصنوعات پر دی جانے والی سسبڈی ہے جس کی ادائیگی حکومت کے خزانے پر ایک بہت بڑا بوجھ بن چکی ہے۔", "title": "پیٹرول اور ڈیزل پر دی جانے والی سبسڈی: ’یہ غریب سے زیادہ امیر کو فائدہ دیتی ہے‘", "firstPublished": "2022-05-19T03:14:35.000Z", "id": "9255cf83-2b2d-4103-9950-e116518547b2", "article": "پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان قرضہ پروگرام کی بحالی کے لیے دوحہ (قطر) میں مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے جس کا مقصد پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کے اگلی ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرنا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ جولائی 2019 میں ہونے والے قرض پروگرام کے تحت پاکستان اب تک تین ارب ڈالر وصول کر چکا ہے تاہم سابقہ حکومت کے آخری ہفتوں میں اس پروگرام پر پیش رفت اس وقت تھم گئی تھی جب پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کی ایندھن اور بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کی شرط کو نہیں مانا گیا تھا۔ مقامی صارفین کو تیل مصنوعات کی عالمی مارکیٹ میں بڑھتی قیمتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے حکومت نے سبسڈی دینا شروع کر دی تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے اس سبسڈی کے خاتمے کو پاکستان کے لیے قرض کی اگلی قسط جاری کرنے سے مشروط کر دیا گیا۔ تاہم پاکستان میں صرف پیٹرول و ڈیزل پر بھی حکومت کی جانب سے سبسڈی فراہم نہیں کی جاتی بلکہ موجودہ سال کے وفاقی بجٹ میں سبسڈی کا ایک پورا الگ سے باب ہے جس میں موجودہ مالی سال میں 682 ارب روپے کی سبسڈی مختلف شعبوں کے لیے مختص کی گئی ہے۔ پاکستان میں حالیہ مہینوں میں تیل مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی جس پر بہت زیادہ شور مچا ہوا ہے اس کے علاوہ بھی سبسڈی فراہم کی جاتی ہے۔ موجودہ مالی سال کی سبسڈی میں سب سے بڑا حصہ توانائی کے شعبے کو دی جانے والی سبسڈی ہے جس کی مالیت 596 ارب روپے ہے جو حکومت بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں سے لے کر اس کی تقسیم کار کمپنیوں میں تقسیم کرتی ہے جس کے تحت بجلی کے نرخ بہت زیادہ نہ بڑھنے پائیں۔ پاکستان میں سبسڈی دینے کا نظام عرصہ دراز سے رائج ہے تاہم گذشتہ حکومت کی جانب سے جب پیٹرول و ڈیزل پر سبسڈی دے کر ان کی قیمتیں کم کرنے کا اعلان کیا گیا تو اس کے بعد ان دونوں پر دی جانے والی سسبڈی کی مالیت مارچ کے مہینے میں چند ارب سے شروع ہو کر مئی کے مہینے میں سو ارب روپے سے اوپر جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے ساتھ قرضہ پروگرام کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ابھی تک تیل مصنوعات پر دی جانے والی سسبڈی ہے جس کی وجہ سے گذشتہ حکومت کے دور میں قرض پروگرام تعطل کا شکار ہوا تو موجودہ حکومت بھی ابھی تک اس سبسڈی کو برقرار رکھے ہوئے ہے تاہم اس کی ادائیگی حکومت کے خزانے پر ایک بہت بڑا بوجھ بن چکی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-61468537", "summary": "چین میں بےروزگاری کی شرح اپریل میں بڑھ کر 6.1 فیصد ہوگئی، جو فروری 2020 میں کووڈ 19 وبائی مراض کے ابتدائی حصے میں دیکھنے میں آنے والی 6.2 فیصد چوٹی کے بعد سے بلند ترین سطح ہے۔", "title": "شنگھائی لاک ڈاؤن: چین میں بےروزگاری انتہائی بلند سطح پر", "firstPublished": "2022-05-17T01:07:52.000Z", "id": "5bd046e6-5643-4645-b686-c40e72c65fc4", "article": "چین میں بے روزگاری کی شرح اپریل میں بڑھ کر 6.1 فیصد ہوگئی، جو فروری 2020 میں کووڈ 19 وبا کے ابتدائی دنوں میں دیکھنے میں آنے والی شرح 6.2 فیصد کے بعد سے بلند ترین سطح ہے۔ مارچ اور اپریل میں درجنوں شہروں میں مکمل یا جزوی لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا، جس میں تجارتی مرکز شنگھائی کی طویل بندش بھی شامل تھی۔ چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ نے حال ہی میں 2020 کے بعد وائرس کے بدترین پھیلنے کے بعد ملک کی روزگار کی صورتحال کو ’پیچیدہ اور سنگین‘ قرار دیا۔ پھر بھی، حکومت کا مقصد اس سال مجموعی طور پر بے روزگاری کی شرح کو 5.5 فیصد سے کم رکھنا ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ اس وقت ہوا جب لاک ڈاؤن کا چین کی معیشت پر اثر پڑا۔ چین کے قومی ادارہ شماریات کے مطابق، پرچون فروخت میں مارچ 2020 کے بعد سب سے بڑی مندی دیکھی گئی کیونکہ وہ اپریل میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں 11.1 فیصد سکڑ گئی۔ یہ مارچ کے 3.5 فیصد گراوٹ سے کہیں زیادہ خراب تھا اور ماہرین اقتصادیات کی 6.1 فیصد کمی کی توقعات پر پورا نہیں اترا۔ اسی وقت صنعتی پیداوار میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں 2.9 فیصد کی کمی واقع ہوئی، کیونکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات کا سپلائی چین پر بڑا اثر پڑا۔ محکمہ صحت کے ملازمین شنگھائی کی گلیوں کو ’ڈس انفیکٹ‘ کر رہے ہیں تاہم، شنگھائی نے پیر کے روز اگلے مہینے کے آغاز سے مزید معمول کی زندگی کی واپسی اور چھ ہفتوں سے زائد عرصے تک جاری رہنے والے لاک ڈاؤن کے خاتمے کے لیے منصوبے مرتب کیے۔ ابھی تک کے واضح ترین ٹائم ٹیبل میں، ڈپٹی میئر زونگ منگ نے کہا کہ مالیاتی، مینوفیکچرنگ اور تجارتی مرکز کو دوبارہ کھولنے کا عمل مرحلہ وار کیا جائے گا، جس میں بتدریج نرمی سے پہلے، انفیکشن میں اضافے کو روکنے کے لیے نقل و حرکت پر پابندیاں بڑی حد تک 21 مئی تک برقرار رہیں گی۔ ان دعووں کے باوجود کہ رہائشیوں کی اکثریت گھومنے پھرنے کے لیے آزاد ہے، زمینی حقائق کی رپورٹنگ بہت مختلف ہے۔ ’میں ابھی تک اپنے گھر میں قید ہوں۔ بی بی سی کی ٹیم کے دیگر ارکان کو بھی مختلف مقامات پر اسی طرح کی پابندیوں کا سامنا ہے۔‘ خوراک اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کچھ لوگوں کے لیے محدود ہے۔ کچھ دکانیں کھل رہی ہیں، لیکن ابتدائی طور پر صرف ’آف لائن‘ کاروبار دوبارہ شروع ہوگا۔ روزانہ رپورٹ ہونے والے مثبت کیسز کی تعداد بھی اب سینکڑوں میں آ گئی ہے، اور یہ ایسی جگہ نہیں ہے جو کھل رہی ہو تاکہ ہر کوئی کم از کم گھومنے پھرنے کے لیے آزاد ہو۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61464494", "summary": "وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادی اب تک مشکل معاشی فیصلوں پر گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔ وزیر اعظم کی اپنی کابینہ کے اراکین کے ساتھ لندن میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد بھی کوئی واضح حکمتِ عملی سامنے نہیں آئی کہ حکومت معیشت کے شعبے میں کیا فیصلے کرنے جا رہی ہے۔", "title": "شہباز حکومت کو چیلنج کرتے مشکل فیصلے اور ان کے عوام پر ممکنہ اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟", "firstPublished": "2022-05-16T12:07:42.000Z", "id": "b40f17ae-7738-4240-9937-fa1725788711", "article": "پاکستان میں گذشتہ ماہ کے آغاز میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی سربراہی میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت کو سیاسی محاذ کے ساتھ معاشی میدان میں اس وقت مشکلات حالات کا سامنا ہے جس میں خاص کر مہنگائی اور عالمی سطح پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں جن کا بوجھ ابھی تک مقامی طور پر صارفین کو منتقل نہیں کیا گیا تاہم اس کے نتیجے میں ملک کا بجٹ خسارہ بڑھ رہا ہے کیونکہ حکومت کو تیل کی قیمتیں کم رکھنے کے لیے خزانے سے سبسڈی کی صورت میں ماہانہ بنیادوں پر اربوں روپے ادا کرنا پڑ رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادی اب تک مشکل معاشی فیصلوں پر گو مگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔ وزیر اعظم کی اپنی کابینہ کے اراکین کے ساتھ لندن میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد بھی کوئی واضح حکمتِ عملی سامنے نہیں آئی کہ حکومت معیشت کے شعبے میں کیا فیصلے کرنے جا رہی ہے۔ حکومت کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بیرونی ذرائع سے حاصل ہونے والی فنڈنگ کا ہے جو ابھی تک کسی ذریعے سے نہیں ملی۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ قرضہ پروگرام کی بحالی کے لیے تیل و بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کی شرط رکھی ہے جب کہ سعودی عرب سے وزیر اعظم کے دورے کے باوجود کوئی فنڈنگ ابھی تک پاکستان کو نہیں ملی۔ پاکستان میں معیشت اور سیاست کے ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت سخت معاشی فیصلوں سے کترا رہی ہے جس کا مقصد عوام پر پڑنے والے بوجھ کی صورت میں عوامی غیض و غضب سے بچنا ہے تاہم ان کے مطابق اس کی وجہ سے ملک کو معاشی طور پر بے پناہ نقصان ہو رہا ہے۔ معاشی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کے پاس ایسا کوئی جواز نہیں کہ وہ اس ساری صورتحال کا الزام سابقہ حکومت پر ڈالے کیوںکہ خراب معاشی صورتحال کے باوجود عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹانے سے پہلے سیاسی قیادت کو معلوم تھا کہ معاشی حالات مشکل ہیں اور اس کے لیے سخت فیصلے لینے پڑیں گے۔ انھوں نے کہا اگر آئی ایم ایف سے پیسے نہیں ملتے تو ملک کی معیشت نہیں چلے گی اسی طرح دوست ممالک سے بھی پاکستان کو مالی معاونت دینے میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا جا رہا۔ انھوں نے کہا حکومت کو عوام کو بتانا چاہیے کہ معاشی حقائق کیا ہیں ورنہ ملک اقتصادی طور پر ڈوب جائے گا۔ ڈاکٹر عالیہ نے کہا اس حکومت کا سابقہ حکومت کے حوالے سے یہ الزام مکمل طور پر درست نہیں کہ سابقہ حکومت نے معیشت کو مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا۔ انھوں میں کہا مہنگائی بھی تھی جس کی وجہ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں تاہم حکومت بیرونی ذرائع سے فنڈنگ لینے کے انتظامات بھی کر رہی تھی اور سسٹم کو چلا رہی تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61453748", "summary": "عجیب بات یہ ہے کہ یہ دستک سننے والے بجائے اس پر کان دھرنے کے حلق پھاڑ پھاڑ کر اپنا ہی راگ الاپے جا رہے ہیں۔ عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے جھنجھنے بجانے والوں کو آنے والا وقت بخوبی نظر آرہا ہے۔ پڑھیے آمنہ مفتی کا کالم۔", "title": "آمنہ مفتی کا کالم ’اڑیں گے پرزے‘: ہماری لنکا کون ڈھائے گا؟", "firstPublished": "2022-05-15T06:04:42.000Z", "id": "59241e4d-2e52-448e-8860-f0e5a94bf879", "article": "یہ وہ دن تھے جب تامل بغاوت دبا دی گئی تھی اور ملک آہستہ آہستہ ترقی کی راہ پر چل رہا تھا۔ قوموں کی زندگی میں ایسے وقت بہت نازک ہوتے ہیں۔ سنہ 2019 کے ایسٹر پر ہونے والے حملوں کے بعد جیسے سری لنکا ایک ڈھلوان پر پھسلنا شروع ہوا اور پھر کہیں نہ رک سکا۔ کورونا کے بعد کی دنیا کی معاشی حرکیات کورونا سے پہلے کی دنیا سے مختلف ہیں۔ یہ بات سمجھنے کے لیے جو دماغ چاہیے تھے بدقسمتی سے وہ راجا پاکشے خاندان میں نہ تھے اور نہ ہی وہ کسی اور کو موقع دینے کو تیار تھے۔ تامل باغیوں کو آہنی ہاتھ سے کچلنے کے بعد یہ ہی ہاتھ انھوں نے عوام پر رکھا۔ مسلمان، ہندو اور تامل اقلیتیں زیادہ خوش نہ تھیں، رہی سہی کسر روس اور یوکرین کی جنگ نے پوری کر دی۔ یوں سری لنکا بد ترین معاشی بحران کا شکار ہوا۔ زراعت کے حالات ہمارے ہاں بھی دگر گوں ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث، بہار کا موسم ہی غائب ہو گیا، جس کی وجہ سے پھلوں کی پیداوار متاثر ہوئی اور شنید ہے کہ آٹے کا بحران بھی سر پر کھڑا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ دستک سننے والے بجائے اس پر کان دھرنے کے حلق پھاڑ پھاڑ کر اپنا ہی راگ الاپے جا رہے ہیں۔ عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے جھنجھنے بجانے والوں کو آنے والا وقت بخوبی نظر آرہا ہے۔ نئی حکومت کے پاس نہ تو جادو کا چراغ ہے اور نہ ہی یہ وہ دنیا ہے جس میں ہم آج سے تین برس قبل تک رہ رہے تھے۔ جنگ، قدرتی آفات اور وبائیں، یہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے آگے انسانی عقل اور سمجھ بوجھ ہیچ ہے۔ آج ہمارا خطہ ان تینوں کی زد میں ہے۔ یوکرین اور روس کی جنگ ایک نیا افغانستان ثابت ہو گی لیکن اس افغانستان سے ہمیں ڈالر نہیں ملنے والے۔ یہ صرف انسانی المیے کو جنم دے گی۔ افغان جنگ کے انسانی المیے سے ہمیں کچھ خاص دکھ اس لیے نہ پہنچا کہ ہماری جیب گرم تھی۔ کورونا کی پھیلائی معاشی بدحالی رخصت ہوئی ہے نہ ہی کورونا کہیں گیا۔ روز کسی نئے ویرئنٹ کی خبر مل جاتی ہے۔ ایسے میں ملک میں پھیلی سیاسی ابتری کیا رنگ لائے گی، اس کی پیشگوئی بھی کرنے کو کس کا جی چاہتا ہے۔ یہ تو سب کو نظر آ رہا ہے کہ حالات اچھے نہیں مگر کس رخ جائیں گے یہ ابھی کسی کو بھی علم نہیں۔ یوں تو لنکا، گھر کا بھیدی ہی ڈھاتا ہے مگر ہماری لنکا کون ڈھائے گا؟ یہ جاننے والے بھی صرف آنے والے وقت کے منتظر ہیں۔ دیکھیے اس وقت کے دامن میں ہمارے لیے کیا ہوتا ہے۔۔۔ پھول، کانٹے یا فقط، دھول ہی دھول۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-61447305", "summary": "سری لنکا کو اس وقت ایندھن کی شدید قلت اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا ہے۔ حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ کچھ سری لنکن شہری ایک وقت کا کھانا چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ پٹرول سٹیشنز پر ٹینک بھرنے کے انتظار میں کچھ لوگ جان سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے ہیں۔", "title": "معاشی بحران ٹھیک ہونے سے پہلے مزید بدتر ہو گا، سری لنکن وزیراعظم کا انتباہ", "firstPublished": "2022-05-14T04:42:22.000Z", "id": "8ee5e2e1-a46d-461a-8a70-f78c45e5a7dc", "article": "سری لنکا کو ایندھن کی قلت اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا ہے، حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ کچھ سری لنکن شہری ایک وقت کا کھانا چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ نئے وزیر اعظم کے مطابق سری لنکا کی معیشت برباد ہو چکی ہے تاہم سری لنکن عوام کے لیے ان کا پیغام تھا کہ ’صبر کریں، میں چیزوں کو واپس پہلے والی صورتحال پر لے آؤں گا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہمیں ایک سال کے لیے آپ کی مدد کی ضرورت ہے، جو کچھ بھی ہم آپ سے ادھار لیں گے، وہ واپس کر دیں گے۔ ملک کی حالت بہتر کرنے میں ہماری مدد کریں۔ ہم ایشیا کی سب سے بڑی اور پرانی جمہوریت ہیں۔‘ سری لنکا کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ خوراک، ادویات اور ایندھن ختم ہو چکے ہیں یا انھیں خریدنا استطاعت سے باہر ہو چکا ہے۔ پٹرول سٹیشنز پر ٹینک بھرنے کے انتظار میں کچھ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایک 68 برس کی خاتون نے دارالحکومت کولمبو میں خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہمارے پاس مٹی کا تیل نہیں، پیٹرول نہیں، ڈیزل نہیں، کھانا پکانے کے لیے گیس نہیں اور ہمارے پاس لکڑیوں سے جلنے والے چولہے تک نہیں۔‘ ’اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے ہم روزانہ کی بنیاد پر بہت مشکل صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں تین گنا بڑھ گئی ہیں۔ ہم ایسے حالات میں کیسے گزارہ کریں۔‘ سری لنکا میں معاشی بحران کی وجہ سے شروع ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں وزیراعظم مہندا راجا پکشے نے پیر کو استعفیٰ دے دیا تھا لیکن اس کے باوجود تشدد کا سلسلہ تھم نہیں سکا۔ سری لنکن فوج نے تصدیق کی ہے کہ صدر کے بڑے بھائی اور خود دو مرتبہ صدر رہنے والے مہندا راجاپکشے ملک کے شمال مشرق میں حفاظت کی غرض سے ایک بحری اڈے پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ حزب اختلاف کے سیاستدانوں نے خبردار کیا ہے کہ فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا بہانہ دینے کے لیے تشدد کے واقعات کو ہوا دی جا سکتی ہے۔ سڑکوں پر بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ بڑی تعداد میں فوجیوں کی موجودگی سے بھی ممکنہ بغاوت کی افواہوں کو ہوا ملی ہے تاہم فوج نے اس بات کی تردید کی تھی۔ سری لنکا میں سنگین مالی اور معاشی صورتحال کی وجہ سے کئی ہفتوں سے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ سری لنکن روپے کی قدر بہت گر چکی ہے اور خوراک، ایندھن اور طبی سامان جیسی بنیادی اشیا کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-61432973", "summary": "اس وقت مارکیٹ میں تمام کرپٹو کرنسی کی کل مالیت 1.12 ٹریلین ڈالر ہے جو گذشتہ برس نومبر میں اس کی قیمت کا ایک تہائی حصہ ہے۔", "title": "دنیا بھر میں کرپٹو کرنسیوں کی قیمت کیوں گر رہی ہیں؟", "firstPublished": "2022-05-13T08:37:58.000Z", "id": "82a319d8-fac9-485a-b5e8-6d168d97bc2a", "article": "دنیا بھر میں کرپٹو کرنسیوں کی قیمتوں میں تیزی سے کمی آئی ہے اور اس کی وجہ ایک مقبول کوائن کی مالیت میں 99 فیصد تک کمی ہے، جس نے اپنے ساتھ ایک ’سٹیبل کوائن‘ (وہ کرنسی جس کی قیمت میں تیزی سے اتار چڑھاؤ نہیں آتا) کی قیمت بھی گروا دی ہے۔ ’ٹیرا لونا‘ نامی کوائن کی قدر گذشتہ ماہ 118 ڈالر تھی جو جمعرات کے روز گر کر 0.09 ڈالر پر آ گئی ہے۔ اس کا اثر اس کوائن سے منسلک ایک اور کرنسی ’ٹیرا یو ایس ڈی‘ پر بھی ہوا، جو عام طور پر کافی مستحکم ہوتی ہے اور ایک سٹیبل کوائن مانی جاتی ہے۔ سٹیبل کوائن کے پیچھے موجود کمپنیاں اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ امریکی ڈالر کے ساتھ برابری میں رہیں، مثال کے طور پر ایک کوائن ایک ڈالر کے برابر ہو۔ ’کرپٹو کریش‘ کی اصطلاح ٹوئٹر اور گوگل پر ٹرینڈ کر رہی ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں تمام کرپٹو کرنسی کی کل مالیت 1.12 ٹریلین ڈالر ہے جو گذشتہ برس نومبر میں اس کی قیمت کا ایک تہائی حصہ ہے۔ ویب سائٹ ’کوائن مارکیٹ کیپ‘ کے مطابق اب ایک بٹ کوائن کی مالیت 27 ہزار ڈالر ہے، جو کہ سنہ 2020 کے بعد سے اس کی کم ترین مالیت ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ برس ایک بٹ کوائن کی قیمت تقریباً 70 ہزار ڈالر تھی۔ اپنی قدر کے لحاظ سے دوسری بڑی کوائن ’ایتھرم‘ کی مالیت میں گذشتہ 24 گھنٹے میں 20 فیصد کمی آئی ہے۔ ماہر معاشیات فرانسس کوپولا کا کہنا ہے کہ ’ٹیرا یو ایس ڈی کے گرنے نے ’خوف و ہراس‘ پیدا کر دیا ہے کیونکہ بڑے مالیاتی اداروں نے اپنے اثاثوں کا بڑا حصہ فروخت کر دیا اور باقی سب بھی جلد از جلد اپنا پیسہ باہر نکالنے کی کوشش میں ہیں۔‘ ٹیرا یو ایس ڈی اور ٹیرا لونا کے پیچھے کمپنی ٹیرا فارم لیبز کے بانی نے ٹویٹ کیا کہ ’میں اس بات کو سمجھتا ہوں کہ گذشتہ 72 گھنٹے آپ سب کے لیے بہت مشکل تھے۔ میں اس بحران سے نکلنے کے لیے آپ سب کے ساتھ کام کروں گا اور ہم اس سے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈ لیں گے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ تیزی سے بڑھتی ہوئی چیز ہے اور یہ کہ مالیاتی استحکام کے حوالے سے خدشات ہیں۔ اس لیے ہمیں ایک ایسے مناسب فریم ورک کی ضرورت ہے۔‘ گذشتہ ماہ امریکی محکمہ خزانہ کی ایک رپورٹ میں سٹیبل کوائن کے حوالے سے قانون سازی کے لیے منصوبے پیش کیے گئے تھے۔ اس رپورٹ میں یہ پیشگوئی بھی کی گئی تھی کہ یہ ’ادائیگی کا وسیع ذریعہ‘ بن سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-61411078", "summary": "سری لنکا میں تباہ کن معاشی بحران سے نمٹنے کی حکومت کی ناکام کوشوں کے خلاف جاری مظاہروں کے دوران سیکورٹی فورسز کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ لوٹ مار کرنے والے لوگوں کو دیکھتے ہی گولی مار دیں۔", "title": "سری لنکا: سابق وزیرِ اعظم راجاپکشے تحفظ کی خاطر بحریہ کے اڈے پر منتقل", "firstPublished": "2022-05-11T13:29:36.000Z", "id": "78b540f7-aa27-4759-a65a-61dfc6398c65", "article": "سری لنکا میں تباہ کن معاشی بحران سے نمٹنے کی ناکام حکومتی کوششوں کے خلاف جاری مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور سکیورٹی فورسز کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ لوٹ مار کرنے والے لوگوں کو دیکھتے ہی گولی مار دیں۔ سری لنکن فوج نے تصدیق کی ہے کہ صدر کے بڑے بھائی اور خود دو مرتبہ صدر رہنے والے مہندا راجاپکشے ملک کے شمال مشرق میں حفاظت کی غرض سے ایک بحری اڈے پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ملک گیر کرفیو کے باوجود مختلف شہروں میں آتش گیر مادے سے حملے جاری ہیں اور کولمبو کے قریب دکانوں اور سابق وزیر اعظم مہندا راجا پکشے کے بیٹے کی ایک نجی تفریح گاہ کو نذر آتش کر دیا گیا۔ صدر گوتابایا راجاپکشے نے ایک ماہ قبل شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد پہلی مرتبہ قوم سے خطاب کیا ہے جس میں انھوں نے قانون کی عملداری بحال کرنے کا عزم دہرایا ہے۔ حزب اختلاف کے سیاستدانوں نے خبردار کیا ہے کہ فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا بہانہ دینے کے لیے تشدد کے واقعات کو ہوا دی جا سکتی ہے۔ سڑکوں پر بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ بڑی تعداد میں فوجیوں کی موجودگی سے بھی ممکنہ بغاوت کی افواہوں کو ہوا ملی ہے۔ سکریٹری دفاع کمل گنارتنے نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ جب ملک میں خطرناک صورتحال ہوتی ہے تو فوج کو اس سے نمٹنے کے لیے اختیارات دیے جاتے ہیں۔ سری لنکا میں سنگین مالی اور معاشی صورتحال کی وجہ سے کئی ہفتوں سے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ سری لنکن روپے کی قدر بہت گر چکی ہے اور خوراک، ایندھن اور طبی سامان جیسی بنیادی اشیاء کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ پیر کی رات کو ہجوم نے سیاست دانوں کے 50 سے زائد مکانات جلا دیے، جب کہ ملک کے جنوب میں ان کے روایتی مرکز، ہمبنٹوٹا میں راجا پاکشے خاندان کے لیے وقف ایک متنازعہ میوزیم کو بھی منہدم کر دیا گیا۔ شہروں میں فوج گشت کر رہی ہے اور انھیں حکم دیا گیا ہے کہ لوٹ مار کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مار دیں سری لنکا کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات کو سکیورٹی خدشات کے پیش نظر اب آن لائن منتقل کر دیا گیا ہے۔ کولمبو کی سڑکیں اس ہفتے کے ہنگامہ آرائی کا ثبوت دیتی ہیں - پولیس کی بھاری موجودگی اور سڑکوں پر فوج۔ پیر کو ہونے والے تشدد کے واقعات میں یہاں کئی بسوں کو جلا دیا گیا تھا۔ مہندا راجا پاکشے، جنھیں کبھی سنہالی اکثریت نے تامل ٹائیگر باغیوں کو شکست دینے کے لیے جنگی ہیرو قرار دیا تھا، اچانک ایک ولن بن گئے ہیں۔ بہت سے لوگ ان کے حامیوں پر حکومت مخالف مظاہرین کو نشانہ بنانے کا الزام لگاتے ہیں، جس کی وجہ سے پرتشدد واقعات کا سلسلہ شروع ہوا۔ دیکھنا یہ ہے کہ برسوں سے سری لنکا کی سیاست پر حاوی رہنے والا یہ خاندان اب کس طرح اس بحران پر قابو پاتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61411682", "summary": "پاکستان کے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ انھوں نے گذشتہ شب سابق وزیرِ اعظم نواز شریف سے رابطہ کیا اور ان کی مشاورت کے بعد ہی وہ یہ بتا رہے ہیں جب تک انتخابی اصلاحات نہیں ہو جاتیں الیکشن نہیں ہو سکتے۔", "title": "نواز شریف سے بات کی ہے، انتخابی اصلاحات کے بعد ہی الیکشن ہوں گے: آصف زرداری", "firstPublished": "2022-05-11T13:11:53.000Z", "id": "d7d7b472-73d1-4ea2-ac8f-dbec03da6de0", "article": "پاکستان کے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ان کا گزشتہ رات سابق وزیرِ اعظم نواز شریف سے رابطہ ہوا ہے، ان کو سمجھایا ہے اور ان کی مشاورت سے یہ بات کر رہا ہوں کہ جیسے ہی انتخابی اصلاحات ہوں الیکشن کروا دیں گے۔ کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ 'ہم کب کہ رہے ہیں کہ الیکشن سے بھاگتے ہیں لیکن ہم نے انتخابی اصلاحات کرنی ہیں، جس کی بدولت معاشی صورتحال اس نہج پر پہنچی ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ 'یہ کیا کر لے گا الیکشن جلدی کروا کے، چار سال اس نے کیا کیا۔ اور میں نے رات ہی میاں صاحب سے بات کی، ان سے مشاورت کی اور انھیں سمجھایا بھی اور ان کی مشاورت کے بعد میں آپ سے بات کر رہا ہوں۔ اس وقت پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف لندن میں نواز شریف سے ملاقات کرنے گئے ہیں اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہاں بھی الیکشن کی ممکنہ تاریخ زیرِ غور آئے گی اور اس بارے میں مشاورت کی جائے گی۔ تاہم آصف زرداری سے خواجہ آصف کے بیان کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ 'خواجہ آصف کی اپنی سوچ ہے لیکن میرا پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ معاہدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تک ہم انتخابی اصلاحات نہیں کر لیتے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ جب تک آئی ایم ایف کا پروگرام نہیں شروع ہو جاتا تب تک ہمیں مشکلات ہو سکتی ہیں۔ باہر کے پاکستانی دوستوں کو گمراہ کیا ہوا ہے، جن کو نہ یہاں کی گرمی کا پتا ہے نہ ہی مہنگائی کا۔‘ آصف زرداری کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی آج کی آبادی 30 کروڑ ہے، جس میں ہم نے ملک بنانا ہے۔ اگر کوئی پاکستان چلا سکتا ہے تو ہم چلا سکتے ہیں یہ نہیں چلا سکتا۔ ’میں نے شروع سے ہی کہا تھا کہ یہ اپنے زور سے گرے گا، اور وہ اپنے زور سے گرا۔ ہمارے ساتھ پاکستان میں اتنی سازشیں ہوتی رہی ہیں کہ اگر سازش نہ بھی ہو تو ہم سازشیں ڈھونڈتے ہیں۔‘ جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ آپ نے کہا کہ باجوہ نیوٹرل ہو گیا ہے تو سیلوٹ کرنے کا دل کرتا ہے، آپ نے کہا کہ فیض حمید نے پی ٹی آئی کی حکومت بنائی، اس کو بھی سیلوٹ کرنے کا دل کرتا ہے؟ اس پر آصف زرداری نے جواب دیا کہ 'فیض حمید بیچارہ تو کھڈے لائن ہے۔' تاہم چند صارفین کو جنرل فیض حمید سے متعلق آصف زرداری کا بیان پسند نہیں آیا اور انھوں نے سوال کیا کہ کیا ایف آئی اے ان کے خلاف بھی کارروائی کرے گی۔ یہ بات متعدد صارفین کی جانب سے دہرائی گئی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-61388926", "summary": "یہ ملک درآمدات پر بڑی حد تک منحصر ہے تاہم اب یہ خوراک اور ایندھن کی مد میں ادائیگیاں کرنے سے قاصر ہے۔", "title": "سری لنکا میں اقتصادی بحران پر احتجاج: پرتشدد مظاہروں میں اضافہ کیوں ہوا؟", "firstPublished": "2022-05-09T23:59:09.000Z", "id": "fb24e370-ff20-495b-97ce-35753a6f3d2e", "article": "اُنھوں نے ملک کے صدر اور اپنے بھائی گوتابایا راجاپکشے کو اپنا استعفیٰ بھجواتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ اس سے ملک کے حالات میں بہتری آئے گی۔ اس وقت ملک سنہ 1948 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد سے اب تک کے بدترین اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ یہ احتجاج اپریل کے آغاز میں دارالحکومت کولمبو میں شروع ہوئے اور اب بڑھتے بڑھتے پورے ملک تک پھیل گئے ہیں۔ اُنھیں گذشتہ برس کے مقابلے میں اب صرف خوراک کی مد میں 30 فیصد زائد ادائیگی کرنی پڑ رہی ہے۔ دیگر اشیا کی مہنگائی الگ ہے۔ ملک میں ایندھن کی دستیابی بھی متاثر ہوئی ہے اور دواؤں کی قلت کی وجہ سے نظامِ صحت بھی تباہی کے کنارے پر کھڑا ہوا ہے۔ صدر راجاپکشے کی حکومت کے تقریباً تمام ہی وزرا نے استعفے دے دیے ہیں اور کئی ارکانِ پارلیمنٹ بھی حکومت کی حمایت سے دستبردار ہو گئے ہیں تاہم صدر کا کہنا ہے کہ اُن کا اقتدار چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہ ملک درآمدات پر بڑی حد تک منحصر ہے تاہم اب یہ خوراک اور ایندھن کی مد میں ادائیگیاں کرنے سے قاصر ہے۔ سنہ 2009 میں 30 سالہ خانہ جنگی کے اختتامی عرصے میں سری لنکا نے غیر ملکی منڈیوں میں اپنی اشیا کی فروخت کے بجائے مقامی منڈیوں پر انحصار کرنا ضروری سمجھا۔ چنانچہ برآمدات سے ہونے والی آمدنی کم رہی اور درآمدی اخراجات بڑھتے رہے۔ اب سری لنکا ہر برس برآمدات سے تین ارب ڈالر زیادہ کی درآمدات کرتا ہے۔ تب سے حکومت نے تمام 'غیر ضروری' سامان کی درآمد پر پابندی کر رکھی ہے جس میں گاڑیوں سے لے کر کچھ اقسام کی غذائیں اور یہاں تک کہ جوتے بھی شامل ہیں۔ سری لنکا کی حکومت پر 51 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ ہے۔ رواں سال اسے ان قرضوں کی مد میں سات ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے اور آئندہ برسوں میں بھی صورتحال ایسی ہی رہے گی۔ اپریل میں سری لنکن حکومت سات کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی قرض ادائیگی کرنے سے قاصر رہی۔ کریڈٹ ریٹنگز ادارے ایس اینڈ پی نے اسے 'محدود دیوالیہ پن' قرار دیا۔ سری لنکا اس وقت اہم درآمدات مثلاً ایندھن وغیرہ کے لیے تین ارب ڈالر کے ہنگامی قرضوں کی تلاش میں ہے۔ عالمی بینک نے اسے 60 کروڑ ڈالر قرض دینے کا وعدہ کیا ہے۔ انڈیا نے 1.9 ارب ڈالر کا وعدہ کیا ہے اور ممکنہ طور پر یہ اسے 1.5 ارب ڈالر مزید فراہم کرے گا۔ تاہم آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ حکومت کو قرض کے حصول کے لیے شرحِ سود اور ٹیکسوں میں اضافہ کرنا ہو گا جس سے عوام کے روز مرّہ کے اخراجات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ چین نے سری لنکا کے روپے کو اپنی کرنسی رینمیبی میں تبدیل کر کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھانے کی پیشکش کی تھی مگر اب کولمبو کے آئی ایم ایف کے پاس جانے پر چین سری لنکا سے نالاں ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-61382088", "summary": "سری لنکا میں معاشی بحران کے خلاف ہونے والے بڑے عوامی مظاہروں کے دوران ملک کے وزیراعظم مہندا راجا پکشے نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے جبکہ مشتعل مظاہرین نے مہندا راجا پکشے کے خاندان سمیت کئی ارکان اسمبلی کے مکانات کو نذرِ آتش کر دیا ہے۔", "title": "سری لنکا میں پرتشدد احتجاج: مظاہرین نے حکمران راجا پکشے خاندان کے گھر جلا دیے", "firstPublished": "2022-05-09T13:52:00.000Z", "id": "966db363-454f-4c4a-a3ac-2880376ff52e", "article": "سری لنکا میں مشتعل مظاہرین نے حکومت کے حامیوں سے پرتشدد جھڑپوں کے بعد حکمران راجا پکشے خاندان اور متعدد اراکین اسمبلی کے مکانات کو نذرِ آتش کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ سری لنکا میں معاشی بحران کی وجہ سے شروع ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں وزیراعظم مہندا راجا پکشے نے پیر کو استعفیٰ دیا لیکن اس کے باوجود تشدد کا سلسلہ تھم نہیں سکا۔ سری لنکا میں جاری پرتشدد مظاہروں میں سوموار سے اب تک حکمران جماعت کے ایک رکنِ پارلیمان سمیت سات افراد ہلاک جبکہ 190 زخمی ہو چکے ہیں اور حکام کی جانب سے ملک بھر میں عائد کرفیو میں بدھ تک توسیع کر دی گئی ہے تاکہ حالات قابو میں لائے جا سکیں۔ سری لنکا میں مہنگائی اور بجلی کی بندش کے خلاف گذشتہ مہینے سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ سری لنکا اس وقت سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے جو کہ جزوی طور پر غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ بحرالہند میں سوا دو کروڑ سے زیادہ آبادی والے اس ملک کو بڑے پیمانے پر بجلی کی لوڈشیڈنگ، ایندھن، ضروری اشیائے خورد و نوش اور ادویات کی کمی کا سامنا ہے جس کے سبب عوام کا حکومت کے خلاف غصہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں امید ہے کہ اس استعفے سے بحران حل ہونے میں مدد ملے گی تاہم صدر گوتابایا راجاپکشے کی موجودگی میں اُن کے مخالفین کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا امکان کم ہے۔ اکثر سری لنکن چاہتے ہیں کہ گوتابایا راجا پکشے بھی اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔ سری لنکا کو سنہ 1948 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد سے اب تک کے سب سے بڑے معاشی بحران کا سامنا ہے۔ حکومت نے فوری مالی امداد کی درخواست کی ہے۔ مظاہرین نے کولمبو میں صدر گوتابایا راجا پکشے کی ذاتی رہائش گاہ کے قریب رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور گاڑیوں کو آگ لگا دی تھی۔ جس کے بعد فوج کو تعینات کیا گیا اور بغیر وارنٹ کے مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا اختیار دے دیا گیا تھا۔ اقتصادی غیر یقینی کے شکار ملک میں مہندا راجاپکشے کا استعفیٰ حیران کُن نہیں تھا۔ کئی دن سے چہ مگوئیاں چل رہی تھیں کہ وہ استعفیٰ دے دیں گے کیونکہ سننے میں آ رہا تھا کہ اُن کے بھائی نے بھی اُن سے اقتدار چھوڑنے کے لیے کہہ دیا ہے۔ جب وزیرِ اعظم کے استعفے کی خبر کولمبو کی گلیوں میں پہنچی تو لوگوں کو خوشی سے ناچتے ہوئے دیکھا گیا۔ کئی ہفتوں سے اُن کا مطالبہ تھا کہ دہائیوں سے سری لنکا پر حکومت کر رہے راجاپکشے خاندان کو اب مستعفی ہونا چاہیے۔ پورٹ سٹی پراجیکٹ کے تحت 269 ​​ہیکٹر پر مشتمل کل اراضی میں سے 116 ہیکٹر اراضی 99 برسوں کے لیے چین کی مواصلاتی تعمیراتی کمپنی کو لیز پر دی گئی ہے۔ یہ سری لنکا کی تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ ہے، جس میں بڑے پیمانے پر معاشی، تجارتی اور رہائشی منصوبے شامل ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61383694", "summary": "پاکستان میں حالیہ ہفتوں میں چکن کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں چکن کی قیمت چھ سے سات سو روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان کے سرکاری ادارے محکمہ شماریات نے بھی گذشتہ دو ہفتوں میں چکن کی قیمتوں میں اضافے کو رپورٹ کیا ہے جبکہ ادارے کی جانب سے ہفتہ وار قیمتوں کے جائزے میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں چکن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔", "title": "پاکستان میں مرغی کا گوشت ایک دم اتنا مہنگا کیوں ہو گیا ہے؟", "firstPublished": "2022-05-09T15:33:46.000Z", "id": "0ca76aff-4132-4d8a-9105-5f456cd71e41", "article": "’بکرے کا گوشت خریدنا تو پہلے ہی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے اور گائے کا گوشت بھی مہنگے داموں دستیاب ہے، تاہم مرغی کا گوشت خرید کر گزارہ ہو رہا تھا۔ مگر حالیہ ہفتوں میں اس کی قیمتوں میں ہونے والا بے تحاشا اضافے کے بعد اب گائے کے گوشت اور مرغی کے گوشت میں فرق بہت کم رہ گیا ہے۔‘ پاکستان میں حالیہ ہفتوں میں چکن کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں چکن کی قیمت چھ سے سات سو روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان کے سرکاری ادارے محکمہ شماریات نے بھی گزشتہ دو ہفتوں میں چکن کی قیمتوں میں اضافے کو رپورٹ کیا ہے جبکہ ادارے کی جانب سے ہفتہ وار قیمتوں کے جائزے میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں چکن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح کوئٹہ میں اس کی قیمت ساڑھے چھ سو روپے تک جا پہنچی۔ لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں بھی اس کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کراچی میں مقیم پولٹری فارمر محمد حنیف جن کے گڈاپ اور ٹھٹھہ میں پولٹری فارمز ہیں، انھوں نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ چکن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے کہا پولٹری فارمنگ میں زندہ مرغی کی لاگت 250-300 سے آرہی ہے اور اس کی ریٹیل قیمت ساڑھے تین سو روپے ہے جبکہ مرغی کے گوشت کی قیمت 600 سے 700 تک جا رہی ہے۔ مرغی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے بارے میں پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن ساؤتھ زون کے چیئرمین سلمان منیر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ کہ چکن کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ اس کاروبار میں لاگت کا بڑھنا ہے۔ چکن کی قیمتوں میں دو ہفتوں میں ہونے والے اضافے کے بارے میں سلمان منیر نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ عید سے پہلے اور عید کے دنوں میں طلب تو بڑھ گئی تاہم سپلائی معمول کے مطابق ہی تھی لاہور میں مقیم پاکستان برڈز کے محمد ارشد نے بھی بی بی سی اردو کو یہی وجہ بتائی۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں چکن کی طلب تو بڑھی ہے تاہم اس کی پیداوار اس طلب کو پوری نہیں کر سکی جس کی وجہ یہ ہے کہ لاگت بڑھنے کی وجہ سے کم پیداوار ہوئی۔ پاکستان میں جب بھی چکن کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اس شعبے میں کارٹیلائزیشن کو اس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ قرار دیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں کچھ بڑے سیاسی لوگوں کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-61300236", "summary": "سخت لاک ڈاؤن کے دوران چین کے شہر شنگھائی کی ڈھائی کروڑ آبادی کی اکثریت گھروں پر خوراک اور دیگر اشیا پہنچانے والے ڈیلیوری رائڈرز پر مسلسل انحصار کر رہی ہے۔ لیکن یہ نظر نہ آنے والی 20 ہزار نفوس پر مشتمل ورک فورس سر پر چھت اور تحفظ کی کمی کا شکار ہے۔", "title": "’میرے پیروں سے شدید بدبو آتی ہے، لاک ڈاؤن ختم ہو گا تو میں بھی نہا لوں گا‘", "firstPublished": "2022-05-06T03:26:52.000Z", "id": "6b8af953-65f2-4b97-9b6b-0afbb4ff32fd", "article": "شنگھائی میں لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کے گھروں تک کھانے پینے کی اشیا پہنچانے کے لیے ڈیلیوری رائڈرز بہت اہم ہیں سخت لاک ڈاؤن کے دوران چین کے شہر شنگھائی کی ڈھائی کروڑ آبادی کی اکثریت گھروں پر خوراک اور دیگر اشیا پہنچانے والے ڈیلیوری رائڈرز پر مسلسل انحصار کر رہی ہے۔ تاہم یہ نظر نہ آنے والی 20 ہزار افراد پر مشتمل ورک فورس خود سر پر چھت اور تحفظ کی کمی کا شکار ہے۔ ایسے ہی دو ڈیلیوری رائڈرز نے اپنی کہانیاں بی بی سی کو سنائی ہیں۔ تاہم کمپاؤنڈز کی انتظامیہ کی اپنی پالیسیاں بھی ہیں جن کے تحت زیادہ تر کمپاؤنڈز میں ڈیلیوری رائڈرز کو اپنے گھروں کو واپس آنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہاں ہوٹل تو ضرور ہیں لیکن اکثر ہوٹل ہمارے لیے کھلے نہیں ہوتے۔ شروع میں تو میں فوری طور پر تیار ہو جانے والے خشک نوڈلز کھا کر گزارا کرتا رہا۔ بعد میں ڈیلیوری رائڈرز کے ایک گروپ نے ایک ایسے ریستوران کا پتا لگا لیا جو خفیہ طور پر کھلا رہتا تھا اور ہم وہاں جا کر کھانا خرید لیتے تھے۔ یہ اطلاعات بھی تھیں کہ ایک ڈیلیوری رائڈر سڑک پر ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا ہے۔ یقیناً مجھے بھی تشویش تھی کہ کہیں میرے ساتھ بھی ایسا نہ ہو جائے، لیکن میں بہت احتیاط کرتا ہوں۔ اکثر لوگ یہ خبریں دیکھتے ہیں کہ ڈیلیوری رائڈرز ایک دن میں 10 ہزار یان تک کما سکتے ہیں۔ کئی لوگ مجھ سے بھی پوچھ چکے ہیں کہ ایک ڈیلیوری رائڈر کیسے بنا جاتا ہے۔ عام طور پر میرا مشورہ تو یہی ہوتا ہے کہ نہ بنو۔ شنگھائی میں ایک ڈیلیوری رائڈر کی حیثیت سے ہماری آمدنی کافی بہتر ہے۔ تاہم زیادہ تر ڈیلیوری رائڈر ایک دن میں چند سو یان ہی کما پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر کوئی اتنی سخت محنت اور حالات برداشت بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر ہم یہ کام نہ کرتے تو لاک ڈاؤن کے دوران ہماری آمدنی کچھ بھی نہ ہوتی۔ یہ حقیقت کافی ذہنی دباؤ کا باعث ہے۔ لہٰذا میں شنگھائی چلا آیا اور اپنے کزن کے ساتھ کمپیوٹر کی فروخت کا کام کرنے لگا۔ یہ کام دو سال تک جاری رہا۔ اس کے بعد کووڈ کی وبا کے باعث کاروبار ٹھپ ہو گیا تو میں کوئی دوسرا کام ڈھونڈنے لگا۔ میں ایک آرڈر پر ساڑھے چار یان کمایا کرتا تھا۔ لیکن اب میں یہ آرڈر نہیں لیتا۔ کوئی بھی نہیں لیتا کیونکہ یہ بہت کم ہے۔ آج کل میں چیٹ گروپس کے ذریعے اپنے صارفین سے نجی طور پر آرڈرز لیتا ہوں۔ اب میں ایک دن میں ہزار یان تک کما سکتا ہوں۔ آج کل ڈیلیوری کے لیے صارفین کو ڈھونڈنا بہت مشکل کام ہے۔ سامان منگوانا بھی ایک مشکل کام ہے خاص طور پر عمر رسیدہ افراد کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ گروپ کی شکل میں سامان کیسے آرڈر کیا جاتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61330550", "summary": "کراچی میں ایک یوٹیوبر کو دیے انٹرویو میں گانا سنا کر سب کے دلوں کو موہ لینے والی آواز کے پیچھے موجود گلوکار عارف خان کون ہیں اور اتنے دکھی کیوں ہیں؟", "title": "’خدا نے دولت نہیں دی، حسن نہیں دیا لیکن آواز تو دی ہے نا‘", "firstPublished": "2022-05-05T08:49:32.000Z", "id": "5a938c21-506c-4efa-9fa1-ecab2efc58c0", "article": "ایسا ہی ایک کردار پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی برنس روڈ پر بھی موجود ہے، جس نے اب صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ انڈیا میں بھی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے۔ ایسے میں ایک یوٹیوبر احمد خان ان کی جانب بڑھے اور ان سے پوچھا کہ وہ ‘جوکر‘ کے علاوہ کیا کام کرتے ہیں۔ عارف نے انتہائی درد ناک لہجے میں جواب دیا کہ وہ گانا گا لیتے ہیں۔ گانے کے دوران ان کی آواز میں چھپا درد ان کے سروں کی گہرائی کو مزید نمایاں کر رہا تھا۔ یہ گانا سننے والے اکثر افراد جہاں مشکل سروں اور جگہوں پر انتہائی اطمینان سے عبور حاصل کرنے پر ان کی تعریف کر رہے ہیں وہیں ان کی آواز میں موجود درد اکثر کے دلوں کو چھو رہا ہے۔ کراچی میں ایک یوٹیوبر کو دیے انٹرویو میں گانا سنا کر سب کے دلوں کو موہ لینے والی آواز کے پیچھے موجود گلوکار عارف خان کون ہیں اور اتنے دکھی کیوں ہیں؟ کراچی کے سرجانی ٹاؤن کے رہائشی عارف خان دو کمروں کے مکان میں رہتے ہیں اور جب عید کے دوسرے دن انھوں نے بی بی سی سے بات کی تو تاحال ان کے محلے میں یہ بات مشہور نہیں ہوئی تھی کہ ان کی گائیکی سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے۔ ان کی جانب سے ہر سوال کا بہت مختصر جواب آنے کے بعد جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی آواز میں موجود درد کہاں سے آتا ہے تو انھوں نے کہا کہ ’درد یہی ہے کہ والد والدہ نہیں ہیں، اس کے بعد دنیا کو ایسے جھیلنا پڑ رہا ہے کہ مجبوریوں کی وجہ سے خواریاں کی وجہ سے۔۔۔ بس درد بھری کہانی اپنی بیان کر دیتے ہیں گا کر۔‘ لیکن عارف قدرت اور نصیب کے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ اسی مقبول ویڈیو میں وہ یہ بھی کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ ’بچوں کو ہنسا رہے ہیں چوری چکاری تو نہیں کر رہے۔‘ پاکستان میں تو سوشل میڈیا پر لوگ عارف خان کی پذیرائی کر ہی رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کی آواز سرحد پار بھی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ہے۔ یوٹیوب کے پیغامات کے سیکشن میں اندراجیت سنگھ لکھتے ہیں کہ ’آپ نے مجھے رلا دیا بھائی، ہمارے درمیان موجود سرحدیں ہمیں بے شک تقسیم کرتی ہیں لیکن اس سب سے پرے ایک ایسی جگہ ہے جہاں میں گھنٹوں آپ کی آواز سن سکتا ہوں۔‘ اشیش گپتا لکھتے ہیں کہ ’مجھے ان کی آواز صحیح معنوں میں محسوس ہوئی، ایسے لوگوں کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے جو اپنے خاندان کے لیے کام کرتے ہیں اور اپنے خوابوں کو الگ کر دیتے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61316778", "summary": "ان کے اس تین سالہ دور میں جہاں ان پر خاصی تنقید کی جاتی رہی ہے، وہیں انھیں پاکستانی سٹارٹ اپس کے لیے اقدامات کرنے پر سراہا بھی گیا ہے۔", "title": "ڈاکٹر رضا باقر کے تین سالہ دور کو کیسے یاد کیا جائے گا؟", "firstPublished": "2022-05-04T13:38:09.000Z", "id": "96d77b61-3730-4a03-8c67-d282bafb00f5", "article": "تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ڈاکٹر رضا باقر پر ماضی میں خاصی تنقید کی جاتی رہی ہے اور انھیں ’آئی ایم ایف کا فرنٹ مین‘ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ سٹیٹ بینک کی خود مختاری کا قانون بھی خاصا متنازع رہا ہے اور حکومتی وزیر خواجہ آصف نے حال ہی میں اسے واپس لینے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ تاہم اس کے علاوہ گورنر سٹیٹ بینک پر شرحِ سود بڑھانے، پاکستان میں ہاٹ منی کے ذریعے سرمایہ کاری سمیت، روپے کی قدر میں نمایاں کمی کے حوالے سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔ دوسری جانب انھیں بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ اور دیگر اقدامات کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری آسان بنانے جیسے اقدامات اور سٹارٹ اپس کو سہولت فراہم کرنے کے لیے پالیسیاں وضع کرنے پر سراہا گیا ہے۔ دوسری جانب اقتصادی امور کی ماہر صحافی اریبہ شاہد نے رضا باقر کے تین سالہ دور کو مجموعی طور پر اچھا قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دوران متعدد نئے اقدامات عمل میں آئے تاہم کچھ ایسے اقدامات بھی تھے جن پر خاصی تنقید کی گئی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’بطور گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے میڈیا کے ساتھ رابطہ برقرار رکھا اور اس فوری رابطے کے علاوہ ان کی جانب سے پالیسیوں کا دفاع کرنے کے لیے وہ ٹاک شوز میں بھی گئے، جو اس سے پہلے نہیں دیکھا گیا تھا اور آج کل میسجنگ کی جتنی اہمیت ہے اس میں یہ بہت ضروری تھا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک انتہائی اہم اقدام یہ بھی ہے کہ پاکستان میں گذشتہ سال میں جو ایک بڑی سرمایہ کاری ہوئی ہے اس کی ایک وجہ سٹیٹ بینک کی جانب سے پالیسیوں میں تبدیلیاں بھی ہیں۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے کچھ ایسی مشکلات تھیں جنھیں دور کرنے کے لیے سٹارٹ اپ ایکو سسٹم میں شامل کرداروں سے فیڈ بیک مانگا گیا تھا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا کہ ’اس دور کے دوران کیے گئے متعدد اقدامات جیسے ٹرف یا گھروں کے لیے دیے گئے قرضوں کا فائدہ عام افراد کو نہیں ہوا، اور سٹیٹ بینک کی جانب سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو مزید سہولت فراہم کرنے کی ضرورت میرا نہیں خیال ہونی چاہیے تھی۔‘ وکیل مبارز صدیقی نے لکھا کہ ’انھوں نے ہمیشہ پاکستانی سٹارٹ اپس کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کو آسان بنانے کے لیے کام کیا ہے۔ ان کی جانب سے نئے قواعد لائے گئے اور فنانشل ٹیکنالوجی کے لیے ڈی آر بیز اور راست گیم چینجر ثابت ہوں گے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-61310182", "summary": "ایلویرا نیبیولینا کے کیریئر میں سب سے اہم موڑ اس وقت آیا جب سنہ 2013 میں وہ سینٹرل بینک آف رشیا کی صدر بنیں جو ملک کے اہم ترین اداروں میں سے ایک ہے۔", "title": "صدر پوتن کی قریبی ساتھی جن کے کپڑے بتاتے ہیں کہ روسی معیشت کس سمت جائے گی", "firstPublished": "2022-05-04T04:17:02.000Z", "id": "6a5da3fd-2bb0-4a1d-b328-3941d0da5789", "article": "ایلویرا نیبیولینا، جو روس کے سب سے بڑے نسلی گروپ تاتار سے تعلق رکھتی ہیں، فرانسیسی شاعری سُنانے اور بحران کے دوران بے رحم رویہ اختیار کرنے کی وجہ سے بااثر حلقوں میں شہرت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی وجۂ شہرت یہ بھی ہے کہ وہ روس کے سینٹرل بینک کی پہلی خاتون سربراہ ہیں۔ وہ صدر پوتن کی اس وقت سے قریبی ساتھی ہیں جب انھوں نے سنہ 2000 میں اقتدار سنبھالا تھا۔ انھیں معاشی ترقی کا وزیر بنایا گیا اور بعد میں جب صدر پوتن دوبارہ منتخب ہوئے تو انھوں نے ایلویرا کو اپنی حکومت کے مشیروں کی ٹیم میں شامل کر لیا۔ ان کے کیریئر میں سب سے اہم موڑ اس وقت آیا جب سنہ 2013 میں وہ سینٹرل بینک آف رشیا کی صدر بنیں جو ملک کے اہم ترین اداروں میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ کئی لوگوں نے اس بات پر غور کیا کہ مغربی ممالک کی جانب سے روس پر پابندیوں کی وجہ سے جب روبل کی قدر میں کمی ہوئی تو وہ بغیر کسی کلپ کے نظر آئیں۔ اولگا شمینا کا کہنا ہے کہ یہ کلپس رابطوں کے اس پیچیدہ نظام کا حصہ ہیں جو ایلویرا نے تیار کیا ہے تاکہ مارکیٹس سے منسلک اہم لوگ یہ سمجھ سکیں کہ کیا ہو رہا ہے اور سینٹرل بینک سے کیا توقع رکھی جائے۔ اپریل 2020 میں جب سب لوگ کورونا کی وجہ سے قرنطینہ میں رہنے پر مجبور تھے تو ایلویرا نے مکان کی شکل والا کلپ پہنا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت کے بعد سے یہ کلپس پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی جا رہی ہیں۔ چیتے، کمان، تیر اور کئی دوسرے اشکال والے کلپس ایسی علامتیں ہیں جن میں چھپے ہوئے پیغام کو سمجھا مشکل ہے۔ یوکرین کے ساتھ جنگ شروع ہونے کے بعد سے ایلویرا کوئی کلپ پہنے ہوئے دکھائی نہیں دی ہیں۔ انھیں سینٹرل بینک کی سربراہی سنبھالے ہوئے تقریباً ایک دھائی ہو چکی ہے اور حال ہی میں کلپس والی اس خاتون کے اس عہدے کو سنہ 2027 تک توسیع دے دی گئی ہے۔ یہی وقت ان کی تمام صلاحیتوں کا امتحان ہو گا کہ وہ کس طرح ایک ایسی معیشت کو بحال رکھتی ہیں جسے اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے۔ ایلویرا نیبیولینا کو اوپرا سے محبت ہے اور ان کی ساکھ ایک سخت محنتی ٹیکنوکریٹ کی ہے۔ سینٹرل بینک کے سربراہ کے طور پر انھیں عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے سراہا گیا ہے جن میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، کاروباری شخصیات، وال سٹریٹ انویسٹرز، بینکرز اور حکومتوں کے معاشی پالیسی ساز شامل ہیں۔ مثال کے طور پر انھوں نے سنہ 2013 سے 2017 کے درمیان ایسے تین سو سے زیادہ بینکنگ لائسنس منسوخ کر دیے جن کی کارکردگی خراب تھی اور جو قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے تھے۔ ان اداروں کی تعداد روسی بینکوں کا ایک تہائی تھی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61253592", "summary": "کیا اگلے پانچ برس میں سود سے مکمل طور پر پاک بینکاری رائج کرنا ممکن ہے، ماہرین کیا کہتے ہیں؟", "title": "اسلامک بینکنگ: پاکستان میں سود سے پاک نظام نافذ ہو سکتا ہے؟", "firstPublished": "2022-04-28T13:21:49.000Z", "id": "29215eb7-e59a-48cb-a2db-32f890ad2b87", "article": "پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے جمعرات کو سود پر مبنی معاشی نظام کو اسلامی شریعت کے برخلاف قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ ملک کے بینکاری نظام کو دسمبر سنہ 2027 تک مکمل طور پر سود سے پاک کیا جائے۔ سود پر مبنی نظام کے خلاف یہ درخواستیں 19 برس سے زیرِ سماعت تھیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل سنہ 1992 میں بھی وفاقی شرعی عدالت حکومتِ پاکستان کو حکم دے چکی ہے کہ ملک کے نظام کو چھ ماہ میں سود سے مکمل طور پر پاک کیا جائے۔ ربا کا عمومی تصور ایسے سود کا ہے جو کسی قرض کے بدلے حاصل کیا جائے۔ اسے اسلامی بینکاری میں استحصال پر مبنی تصور کیا جاتا ہے اور وفاقی شرعی عدالت نے جمعرات کو کہا کہ بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول ربا کے زمرے میں آتا ہے۔ کیا اگلے پانچ برس میں سود سے مکمل طور پر پاک بینکاری رائج کرنا ممکن ہے؟ اس حوالے سے پاکستان کے صفِ اول کے بینکوں میں سے ایک کے اعلیٰ عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ مالیاتی نظام کو تبدیل کرنا آسان کام نہیں کیونکہ پاکستان میں فی الوقت قرضوں کے لین دین سے متعلق جو بھی قوانین ہیں وہ روایتی یا کنونشنل بینکاری پر مبنی ہیں۔ شرعی عدالت کے فیصلے کے تناظر میں جب ہم نے ماہرِ اسلامی بینکاری اور پاکستان کے مختلف بینکوں کے شریعت بورڈز کے رکن ارشاد احمد اعجاز سے پوچھا کہ اسلامی بینکنگ کیسے رائج کی جا سکتی ہے اور اس میں کتنا وقت لگے گا، تو اُنھوں نے کہا کہ اسلامی بنیادوں پر معاشی نظام اگر رائج کرنا ہے تو اس کے لیے متعدد قوانین میں ترامیم کی ضرورت پڑے گی۔ اُنھوں نے کہا کہ تفصیلی فیصلے کے بعد اس پر مزید تبصرہ کیا جا سکتا ہے مگر بنیادی طور پر بینکاری عدالتوں، ثالثی کے قوانین، بینکنگ کمپنیز آرڈیننس اور مرکزی بینک کے نظام میں ترمیم کرنا شامل ہے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ اگر حکومت مکمل طور پر اثاثوں کی بنیاد پر قائم قرض کی طرف جاتے ہوئے صرف سکوک بانڈز پر آ جاتی ہے تو کیا ملک کے پاس اتنے اثاثے ہیں، تو اس سوال پر اُنھوں نے کہا کہ اس حوالے سے کئی مختلف اثاثوں کی کیٹیگریز موجود ہیں جن میں انفراسٹرکچر، انٹرپرائز یعنی حکومتی کمپنیاں، قدرتی ذخائر اور اتھارٹیز شامل ہیں جن کے بدلے قرض حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب بھی اسلامی بینکاری نظام روایتی نظام کے اندر کسی حد تک موجود ہے اور اگر مکمل طور پر قانون سازی اور پالیسی سازی کی جائے تو مزید ایسی پراڈکٹس بنائی جا سکتی ہیں جو سود کے بجائے تجارت کے اصولوں پر قائم ہوں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-61253590", "summary": "کرپٹو کرنسی کے استعمال کے لیے انٹرنیٹ ضروری ہے تاہم سنہ 2019 میں سی اے آر کے صرف چار فیصد افراد کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل تھی۔", "title": "قیمتی معدنیات سے مالا مال مگر غریب ترین ملک جس نے بٹ کوائن کو قانونی قرار دیا", "firstPublished": "2022-04-28T09:17:16.000Z", "id": "076fd848-7ee1-4077-85ba-0a379221438e", "article": "سی اے آر کئی دہائیوں سے مسلح تنازعے کا شکار ہے اور یہاں روسی نیم عسکری تنظیم ویگنر گروپ کے جنگجو بھی حکومت کی باغیوں سے نمٹنے میں مدد کر رہے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ 'اس اقدام سے سی اے آر 'دنیا کے باہمت ترین اور سب سے پیش بین ممالک میں سے ایک بن گیا ہے۔' کچھ دیگر کو خدشہ ہے کہ بٹ کوائن جیسی کرپٹو کرنسیوں سے مجرمان کے لیے کالا دھن سفید کرنا آسان ہو سکتا ہے جبکہ کچھ کا مؤقف ہے کہ ان کرنسیوں کی پیداوار میں بجلی کے بے تحاشہ استعمال کے باعث یہ ماحول کے لیے نقصان دہ ہیں۔ کسی بھی کرپٹو کرنسی کے استعمال کے لیے انٹرنیٹ ضروری ہے تاہم ورلڈ ڈیٹا نامی ویب سائٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2019 میں سی اے آر کے صرف چار فیصد افراد کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل تھی۔ فی الوقت اس ملک میں فرانسیسی پشت پناہی کا حامل سی ایف اے فرینک قانونی کرنسی ہے۔ یہی معاملہ افریقہ میں دیگر سابق فرانسیسی کالونیوں کے ساتھ بھی ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک بٹ کوائن کو اپنانا سی ایف اے کی اہمیت گھٹانے کی کوشش ہے کیونکہ وسائل سے مالامال اس ملک پر اثر و رسوخ کے لیے فرانس اور روس کے درمیان رسّہ کشی جاری ہے۔ ماہرِ اقتصادیات یان داوورو نے بی بی سی افریقہ کو بتایا کہ اس سے زندگی آسان ہو گی کیونکہ لین دین سمارٹ فونز کے ذریعے ہو سکے گا جبکہ بٹ کوائن کو کسی دوسری کرنسی میں تبدیل کروانا آسان ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ 'کاروباری افراد کو بین الاقوامی خریداری کے لیے سی ایف اے فرینکس سے بھرے سوٹ کیسز اٹھا کر اُنھیں ڈالروں یا کسی اور کرنسی میں تبدیل کروانے کے لیے چلتے پھرتے نہیں رہنا پڑے گا۔' اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ سی ایف اے فرینک 'افریقہ کے فائدے' کے لیے نہیں استعمال ہو رہے تھے۔ کئی ممالک میں اس کرنسی کو ترک کر دینے کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں کیونکہ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ کالونیل دور کی کرنسی ہے جس سے فرانس کو اقتصادی کنٹرول جمانے کا موقع ملتا ہے۔ مگر کمپیوٹر سائنٹسٹ سڈنی ٹکایا نے کہا کہ اُن کے نزدیک کرپٹو کرنسی کو اپنانا 'غیر ذمہ دارانہ'، اور 'جلد بازی' میں کیا گیا فیصلہ ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ 'اس ملک میں انٹرنیٹ تک رسائی اب بھی محدود ہے جبکہ بٹ کوائن تو مکمل طور پر انٹرنیٹ پر منحصر ہے۔' سڈنی ٹکایا کا کہنا تھا کہ سی اے آر میں فی الوقت تحفظ، تعلیم اور پینے کے پانی کی فراہمی جیسے کئی اہم مسائل اب بھی موجود ہیں۔ سنہ 1960 میں اپنی آزادی سے اب تک جمہوریہ وسطی افریقہ مسلح تنازعات کی زد میں رہا ہے۔ سنہ 2016 میں صدر فاؤسٹن ارشانگ تودیرا نے کہا تھا کہ ملک نے اپنا تزویراتی جھکاؤ فرانس کے بجائے روس کی طرف کرنا شروع کر دیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-61177219", "summary": "افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ملک کی معیشت تباہ ہو گئی ہے اور فضل الرحمان کے والد عبد الباری کے لیے ایک سو ڈالر تک کمانا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ ادھر 50 سالہ مزاریہ جیسے مریض اپنے علاج پر اٹھنے والے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اپنی تمام چیزیں فروخت کر رہے ہیں۔", "title": "’ہر شخص سے پیسے ادھار مانگ لیے، زندگی بدتر ہوتی جا رہی ہے‘", "firstPublished": "2022-04-23T00:19:37.000Z", "id": "590adfc6-114e-44f7-85b7-6144e800b89b", "article": "پانچ سالہ فضل الرحمان کی گردن میں سٹیج فور ٹیومر ہے اور افغان ڈاکٹر کیموتھراپی کے ذریعے اس کی زندگی کو طول دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کابل کے جمہوریت ہسپتال میں پڑے ہیں جہاں مریضوں کی تعداد زیادہ اور وسائل بہت کم ہیں۔ جمہوریت ہسپتال ملک میں تین بڑے ہسپتالوں میں سے ایک ہیں جہاں اب بھی کینسر کے مریضوں کا علاج جاری ہے۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ملک کی معیشت تباہ ہو گئی ہے اور فضل الرحمان کے والد عبد الباری کے لیے ایک سو ڈالر تک کمانا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے غیر ملکی گرانٹس بند ہو گئی ہیں، البتہ انسانی امداد کا سلسلہ جاری ہے۔ افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں سے تقریباً نو ارب ڈالر کو منجمد کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ملک میں فنڈز اور نقدی دونوں کی کمی ہے۔ شمالی صوبہ تخار سے تعلق رکھنے والی 50 سالہ مزاریہ جیسے مریض اپنے علاج پر اٹھنے والے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اپنی تمام چیزیں فروخت کر رہے ہیں تاکہ وہ ادویات خرید سکیں جو ماضی میں مفت فراہم کی جاتی تھیں۔ ڈاکٹر منوچر بتاتے ہیں کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ان کے ہسپتال کا بجٹ کم ہو گیا ہے یہاں زندگیاں بچانے کے لیے امداد کی اشد ضرورت ہے۔ مشکل کا شکار خاندان اپنی کم عمر بیٹیوں کی شادیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن امدادی کارکن اور سفارتکار اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان کو مزید پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے فوری امداد سے کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم ترقیاتی فنڈز کو دوبارہ شروع کرنا اور افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو غیر منجمند کرنا ایسے مسائل ہیں جن سے عالمی برادری اب بھی نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ خاص طور پر جب طالبان کا رویہ دن بدن سخت گیر ہوتا جا رہا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ طالبان کی جانب سے ملک کے بیشتر حصوں میں لڑکیوں کو دوبارہ سکول جانے کی اجازت نہ دینے کے فیصلے کی وجہ سے عالمی ڈونز فنڈز فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں گے۔ اسی اثنا میں معاشرے کے وہ افراد جو پہلے ہی کمزور تھے وہ دوسروں سے زیادہ تکلیف اٹھا رہے ہیں۔ وہ جس لڑائی کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑ کر یہاں کیمپوں میں پہنچے تھے اب وہ لڑائی بند ہو چکی ہے۔ ان کا شکوہ ہے کہ وہ اپنے گھروں کو دوبارہ لوٹ نہیں سکتے اور نہ ہی ان میں اپنے گھروں کو پھر سے تعمیر کرنے کی سکت ہے۔ ادھر مایوسی کی فضا ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم امدادی کارکن ہیں اور اس امید پر کہ ہم ان کا نام عطیہ لینے والوں کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں، وہ اپنے شناخت کارڈ کی کاپیاں ہمارے سامنے لہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61177222", "summary": "پاکستان مسلم لیگ نواز کی سربراہی میں مخلوط حکومت کے نئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے واشنگٹن روانہ ہو چکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف تحریک انصاف اور نواز لیگ کی حکومتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ ان شرائط پر عمل درآمد کی رفتار دیکھتا ہے جو قرضے کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں۔", "title": "کیا پاکستان کی نئی حکومت آئی ایم ایف سے پروگرام بحال کروا سکے گی؟", "firstPublished": "2022-04-22T06:55:50.000Z", "id": "835fad96-3c09-4216-bb91-193800b8e55f", "article": "پاکستان مسلم لیگ نواز کی سربراہی میں مخلوط حکومت کے نئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے واشنگٹن روانہ ہو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے روانگی سے قبل مفتاح اسماعیل نے ایک پریس کانفرنس میں آئی ایم ایف کی ان شرائط کے بارے میں آگاہ کیا جن پر عمل کرنے سے قرضے کی اگلی قسط مل سکتی ہے۔ واضح رہے پاکستان تحریک انصاف کی گذشتہ حکومت نے آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر قرض کے حصول کے لیے ایک پروگرام کیا تھا جس میں تین ارب ڈالر ملک کو وصول ہو چکے ہیں۔ تاہم گذشتہ حکومت کی جانب سے کچھ شرائط پورے نہ کرنے جیسے کہ تیل پر سبسڈی کے خاتمے اور تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس کے بارے میں واضح یقین دہانی نہ کرانے پر یہ پروگرام کچھ مہینوں سے تعطل کا شکار تھا۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی مدت بظاہر ایک سال کے لگ بھگ ہے اس لیے عالمی ادارہ کسی نئے پروگرام کی بجائے موجودہ پروگرام کو ہی بحال کر سکتا ہے۔ تاہم ماہرین آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنے کی صورت میں ملک میں مہنگائی کے ایک نئے طوفان کی وجہ سے عوام کے متاثر ہونے کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک پریس کانفرنس میں آئی ایم ایف کی شرائط پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پروگرام کی بحالی کے لیے کچھ شرائط رکھی گئی ہیں جن میں ڈیزل و پیٹرول پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ، صنعتوں کے لیے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا خاتمہ، بجلی کے نرخوں میں اضافہ، ٹیکس وصول کی شرح میں اضافہ اور مالیاتی خسارہ کم کرنے کی شرائط شامل ہیں۔ شہباز رانا نے اس سلسلے میں کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کریڈیبلٹی (ساکھ) کا ہے اور پاکستان کو اس بحران سے نکلنا ہوگا جس کے تحت نئی حکومت کو یقین دہانی کرانی ہو گی کہ وہ معاہدے کی شرائط پر عمل کرے گی۔ انھوں نے کہا آئی ایم ایف تحریک انصاف اور نواز لیگ کی حکومتوں کو نہیں دیکھتا وہ ان شرائط پر عمل درآمد کی رفتار دیکھتا ہے جو قرضے کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی ماضی کی حکومت کے آئی ایم ایف پروگرام کے ٹریک ریکارڈ پر ماہر معاشی امور ڈاکٹر اکرام الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ نواز لیگ کا ٹریک ریکارڈ دوسری حکومتوں کے مقابلے میں اس لیے اچھا ہے کہ اب تک آئی ایم ایف ہے ساتھ ہونے والے 22 پروگراموں میں سے صرف ایک ہی پروگرام صحیح معنوں میں پایہ تکمیل تک پہنچا جو نواز لیگ کی گذشتہ حکومت میں اسحاق ڈار نے سٹرکچرل ریفارمز کی صورت میں مکمل کیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61141518", "summary": "اگرچہ اس وقت پاکستان میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت میں مفتاح اسماعیل کو مشیر برائے خزانہ تعینات کیا گیا ہے تاہم اسحاق ڈار کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ پس پردہ اسحاق ڈار لندن میں نئی حکومت کی معاشی پالیسی کو مرتب کرنے میں سرگرم ہیں۔", "title": "نئی حکومت کی معاشی پالیسی میں برطانیہ میں مقیم اسحاق ڈار کا کیا کردار ہو گا؟", "firstPublished": "2022-04-20T04:09:10.000Z", "id": "ccb1e00e-f624-4b22-9010-9d421b56bf82", "article": "پاکستان میں قائم ہونے والی نئی مخلوط حکومت کو درپیش مسائل میں سرِفہرست معیشت کا شعبہ ہے جو موجودہ حکومت کے مطابق تحریک انصاف کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بُری صورتحال کا شکار ہے۔ جبکہ دوسری جانب تیل و اجناس کی عالمی سطح پر بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے مقامی قیمتوں پر بھی دباؤ برقرار ہے جو ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ کر رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں نواز لیگ کی سربراہی میں مخلوط حکومت کو معاشی سطح پر مشکل فیصلوں کے کڑے امتحان کا سامنا ہے اور اس سلسلے میں معاشی ٹیم کے رکن اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کردار ایک بار پھر اہم بتایا جا رہا ہے۔ اسحاق ڈار نومبر 2017 سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ اگرچہ گذشتہ روز مفتاح اسماعیل کو مشیر برائے خزانہ کا قلمدان سونپا گیا ہے تاہم اسحق ڈار کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پس پردہ اسحاق ڈار اس وقت نئی حکومت کی معاشی پالیسی کو مرتب کرنے میں سرگرم ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق ان کی پاکستان واپسی جلد متوقع ہے۔ اسحاق ڈار پاکستانی معیشت اور ڈالر کی قیمت کو نیچے لانے کے حوالے سے کیا سوچتے ہیں اس بارے میں انھوں نے بی بی سی اُردو سے خصوصی گفتگو کی ہے، تاہم پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ بیرون ملک کیوں مقیم ہیں۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بی بی سی اُردو سے خصوصی گفتگو میں اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے مارکیٹ میں اعتماد بحال کرنا ہوتا ہے جس کا آغاز ہو چکا ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا ابھی تک نئی حکومت نے کچھ بھی نہیں کیا لیکن پھر بھی ڈالر کی قیمت میں کمی ہوئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی استحکام آیا جس کے نتیجے میں معاشی استحکام بھی پیدا ہوا جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں کمی دیکھنے میں آئی۔ نئی حکومت کی معاشی پالیسی پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت سٹرکچرل ریفارمز اور مالیاتی و زری پالیسیوں کو نئے سرے سے مربوط کرے گی۔ انھوں نے کہا آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کو دوبارہ ٹریک پر لائیں گے اور اس سلسلے میں آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ پروگرام کو بحال کیا جا سکتا ہے یا ہو سکتا ہے کہ ایک نیا پروگرا م آئی ایم ایف کے ساتھ کیا جائے۔ سابق وزیر خزانہ کی جانب سے ڈالر کی قیمت میں نمایاں کمی کے دعوے کو کرنسی اور معیشت کے ماہرین اس حد تک تسلیم کرتے ہیں کہ نواز لیگ کی ڈالر کو کنٹرول کرنے کی حکومت دوسری حکومتوں کے مقابلے میں اچھی رہی ہے اور جب بھی نواز لیگ اقتدار میں آتی ہے تو کاروباری طبقے میں اعتماد کی بحالی ہوتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61146565", "summary": "پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور وفاقی کابینہ کے رُکن مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ آئندہ بجٹ ’حقیقت پسندانہ‘ ہو گا اور تیل کی قیمتوں پر دی جانے والی سبسڈی پر نظرِ ثانی کرنی پڑے گی۔", "title": "معاشی منصوبہ بندی چند مہینوں کی نہیں 2023 تک کی کریں گے: مفتاح اسماعیل", "firstPublished": "2022-04-19T09:09:25.000Z", "id": "e7f1ffc3-aac9-4daf-b67c-5f0db3518c22", "article": "پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور وفاقی کابینہ کے رُکن مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ آئندہ بجٹ ’حقیقت پسندانہ‘ ہو گا اور تیل کی قیمتوں پر دی جانے والی سبسڈی پر نظرِ ثانی کرنی پڑے گی۔ یاد رہے کہ مفتاح اسماعیل نے منگل کے روز بطور رکن وفاقی کابینہ حلف اٹھایا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ انھیں وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا جائے گا۔ حلف اٹھانے سے ایک روز قبل (گذشتہ روز) صحافیوں اور ماہرینِ معیشت سے غیر رسمی گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ حکومت فی الوقت تیل پر تقریباً 80 ارب روپے ماہانہ کی سبسڈی دے رہی ہے جو وفاقی حکومت کے سالانہ اخراجات اور سول ملٹری پینشنز کے برابر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف پروگرام میں ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پاکستان کو اپنا بجٹ خسارہ کم کرنا ہے اور پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی جاری رکھنے کے باعث شرائط پر عملدرآمد میں مشکلات کا سامنا ہو گا۔ جب بی بی سی نے ان سے سوال کیا کہ کیا معاشی استحکام یقینی بنانے کا مقصد یہ ہے کہ اگلے بجٹ میں آئی ایم ایف کی شرائط کی زیادہ پاسداری کی جائے گی اور عوام کے لیے ریلیف کم ہو گا تو ان کا کہنا تھا کہ آنے والا بجٹ ’حقیقت پسندانہ‘ ہو گا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے برعکس ٹارگٹڈ نہیں ہے چنانچہ یہ خسارے کی بڑی وجہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو اس پر نظر ثانی کرنی پڑے گی تاہم انھوں نے واضح طور پر نہیں بتایا کہ یہ سبسڈی کب تک برقرار رہے گی۔ آمدنی پر ٹیکسز کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ مسلم لیگ ن کے آخری دور حکومت میں انکم ٹیکس کے سلیب میں اضافے کے فیصلے کو درست سمجھتے ہیں اور اگر آئی ایم ایف نے تسلیم کیا تو وہ اس بار بھی یہی کریں گے۔ مالی استحکام کے حوالے سے بی بی سی کے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان پر مالی عدم استحکام کے باعث سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی ہے تاہم وہ کوشش کریں گے کہ انٹرسٹ گروپس مثلآ ریئل سٹیٹ یا کنسٹرکشن شعبے کو سبسڈی دینے کے بجائے عوام کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اسی تناظر میں جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کتنے وقت کی منصوبہ بندی کرنے والے ہیں تو مفتاح اسماعیل نے کہا کہ وہ بجٹ اور معاشی منصوبہ بندی اگلے چند مہینوں کے لیے کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اس سوال کے جواب میں کہ اگر روس کی جانب سے تیل کی قیمتوں کو بطور سٹریٹجک ہتھیار استعمال کیا گیا تو وہ درآمدی بل کو کیسے سنبھالیں گے، مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پاکستان کا مسئلہ فی الوقت درآمدات زیادہ ہونا نہیں بلکہ برآمدات کا کم ہونا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61116478", "summary": "معاشی میدان میں سابق وزیراعظم عمران خان کی کارکردگی کیسی رہی؟ ساڑھے تین سال بعد حکومت کے خاتمے پر بی بی سی نے چند اہم اعشاریوں کا جائزہ لیا، جن میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت، پٹرول کی قیمت، بیرونی قرضوں کا حجم، ترسیلات زر، تجارتی خسارہ اور عام روزمرہ کی چند اشیا کی قیمتیں شامل ہیں۔", "title": "عمران خان کی حکومت کی معاشی کارکردگی چھ چارٹس میں", "firstPublished": "2022-04-15T06:55:40.000Z", "id": "e5fa560c-de68-4872-a614-d5eef86a3f84", "article": "2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو وزیراعظم عمران خان کو درپیش متعدد چیلنجز میں سے ایک بڑا چیلنج معیشت کا میدان تھا۔ الیکشن سے قبل انتخابی مہم اور اس سے پہلے اپوزیشن میں رہتے ہوئے انھوں نے کئی ایسے وعدے اور اعلانات کیے تھے جن کو اب عملی جامہ پہنانے کا موقع ان کے ہاتھ آ چکا تھا۔ معاشی میدان میں وزیر اعظم عمران خان کی کارکردگی کیسی رہی؟ ساڑھے تین سال بعد حکومت کے خاتمے پر بی بی سی نے چند اہم اعشاریوں کا جائزہ لیا، جن میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت، پٹرول کی قیمت، بیرونہ قرضوں کا حجم، ترسیلات زر، تجارتی خسارہ اور روزمرہ کے استعمال کی اشیائے خوراک کی قیمتیں شامل ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت بنی تو اگست 2018 میں روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر تقریبا 124 روپے 18پیسے کا ہو چکا تھا۔ لیکن تحریک انصاف کے دور میں روپے کی قدر میں تیزرفتاری سے کمی آئی اور ڈالر کا ریٹ بڑھتا گیا جس نے افراط زر پر بھی اثر ڈالا۔ تحریک انصاف دور حکومت میں روز مرہ کی اشیا کی قیمتوں کے جائزہ لینے کے لئے چند بنیادی اشیا کا انتخاب کیا گیا۔ ان میں آٹا، چینی، پیاز، ٹماٹر، دال، دودھ، چکن اور ویجیٹیبل گھی شامل ہیں۔ اسی دور میں 2020 میں ایک بحران کے بعد حکومت نے پہلے سے طے شدہ نطام کو تبدیل کرتے ہوئے ہر پندرہ دن بعد قیمتوں کے تعین کا فیصلہ بھی کیا۔ 2020 میں ہی تحریک انصاف حکومت کے دور میں پٹرول کی قیمت سب سے نچلی سطح پر تھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے مارچ میں تیل کی قیمتوں پر سبسڈی کا اعلان کیا جس کے بعد ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 149 روپے 86 پیسے پر برقرار ہے۔ اپوزیشن کے دور میں تحریک انصاف چیئرمین عمران خان نے پاکستان کے بیرونی قرضوں کے حجم کو بار بار تنقید کا نشانہ بنایا اور اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کے چند اہم نکات میں سے ایک بیرونی قرضوں میں کمی بھی تھا۔ اگر اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق اگست 2018 میں پاکستان کی ترسیلات زر تقریبا دو ارب ڈالر سے کچھ ہی زیادہ تھیں۔ تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد سال 2019 تک ترسیلات زر میں اگست 2018 کے مقابلے میں کچھ خاص اضافہ نہیں ہوا۔ اگست 2018 میں تجارتی خسارہ تقریبا تین ارب ڈالر کے قریب تھا۔ حکومت کی کوششوں کی وجہ سے یہ خسارہ کم ہو کر جولائی 2019 میں دو ارب ڈالر تک اور اپریل 2020 میں تقریبا ڈیڑھ ارب ڈالر تک رہ گیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61069092", "summary": "فرانزک آڈٹ کے تحت گاڑیوں کی درآمدی لاگت، مقامی خام مال کی قیمتوں، اس کا کاروں کی قیمتوں پر اثر کو دیکھا جائے گا اور یہ آڈٹ کرنے والی پیشہ وارانہ فرم کو کاروں کی صنعت کے اکاونٹس، مڈل مین اور کاروں کے شو روم تک رسائی ہو گی۔", "title": "کیا فرانزک آڈٹ سے پاکستان میں کاروں کی تسلسل سے بڑھتی قیمتیں کم ہو پائیں گی؟", "firstPublished": "2022-04-12T08:31:18.000Z", "id": "ef48c88b-1a19-4a61-aeb4-b38940a57af1", "article": "کاریں تیار کرنے والی صنعت کی جانب سے گاڑیوں کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو کاروباری لاگت سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ کار ساز صنعت کا موقف ہے کہ ملک میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت نے ان کی کاروباری اور کار بنانے کی لاگت کو بڑھا دیا ہے جس کی وجہ ان کے لیے کم قیمت پر گاڑیاں بیچنا ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ مانیٹرنگ کمیٹی کے اجلاس میں یہ آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاکہ دیکھا جائے کہ کاروں کی قیمتوں میں اضافے کا جو جواز دیا گیا ہے، کیا وہ صحیح ہے یا نہیں۔ عبد الرزاق گوہر نے بتایا کہ اس آڈٹ کی شرائط تیار کی جا رہی ہیں جس کے تحت ایک پروفیشنل فرم کو یہ کام سونپا جائے گا جو کاروں کی قیمتوں اور ان میں ہونے والے اضافے کو دیکھے اور اس پر اپنی سفارشات مرتب کر کے اس کمیٹی کو آگاہ کرے گی۔ انھوں نے کہا اس فرانزک آڈٹ کے تحت ایک تو درآمدی لاگت کو لیا جائے گا اور دوسرا مقامی خام مال کی قیمتوں کو بھی دیکھا جائے گا کہ اس کا کتنا اثر کاروں کی قیمتوں پر پڑ رہا ہے۔ دوسرا اس پروفیشنل فرم کو کاروں کی صنعت کے اکاؤنٹس، مڈل مین اور کاروں کے شو روم تک رسائی ہو گی تاکہ وہ اس سارے معاملے کا جائزہ لے اور اس کے بعد اس پر اپنی حتمی رائے دے۔ عبد الرزاق گوہر کے مطابق اس آڈٹ کے ذریعے تین معاملات کو دیکھا جائے گا جن میں سیفٹی، کوالٹی، اور ڈیلیوری ہو گی۔ سیفٹی میں دیکھا جائے گا کہ کاروں کی قیمتوں کے حساب سے کیا مقامی کاروں میں سیفٹی یعنی ان کے محفوظ سفر کی خصوصیات موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سارے عمل میں کار بنانے سے لے کر اس کی صارف تک ڈیلیوری کے پورے نظام کو دیکھا جائے گا اور اس پر ایک تھرڈ پارٹی کے ذریعے آڈٹ کرایا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کاروں کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی جواز نہیں کیونکہ خام مال کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ تو ہوتا ہے تاہم جس حد تک قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں ان کا کوئی جواز نظر نہیں آتا اور اسی کو اس سارے عمل کے ذریعے دیکھا جائے گا۔‘ تاہم واضح رہے کہ یہ پالیسی اور فرانزک آڈٹ کا فیصلہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کیا تھا اور اب موجودہ سیاسی صورتحال اور نئی حکومت کے قیام کے بعد سے اس ضمن میں اس پالیسی پر عملدرآمد کا دارامدار نئی حکومت کے فیصلے پر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کمپنیاں درآمدی مال کی قیمت میں اضافے کی وجہ قرار دیتی ہیں، تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں خام مال اور پارٹس کی مقامی سطح پر تیاری کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ اسی طرح ان کمپنیوں کی جانب سے لوکلائزیشن پر کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن وہ بھی نہیں ہو رہا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61064616", "summary": "اس سفارتی مراسلے کا متن کیا ہے، یہ ماسوائے وزیراعظم، وفاقی کابینہ اور بعض اعلٰی سرکاری افسران کے اور کوئی نہیں جانتا تاہم ماہرین یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ خط اور پھر عوامی سطح پر غیر سفارتی زبان استعمال کرنے کا امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پر دیرپا اور منفی اثر پڑے گا۔", "title": "’دھمکی آمیز‘ مراسلہ: عمران خان کے بیانیے سے پاکستان کے امریکہ اور دیگر ممالک سے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں؟", "firstPublished": "2022-04-12T04:16:18.000Z", "id": "cfb95083-b758-43bb-a98c-addf40ebf419", "article": "اس سفارتی مراسلے کا متن کیا ہے، یہ ماسوائے وزیراعظم، وفاقی کابینہ اور بعض اعلٰی سرکاری افسران کے اور کوئی نہیں جانتا۔ تاہم ماہرین یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ خط اور پھر عوامی سطح پر غیر سفارتی زبان استعمال کرنے کا امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پر ’دیرپا اور منفی اثر‘ پڑے گا۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات پہلے بھی کچھ بہت اچھے نہیں ہیں تو اس معاملے کے بعد ان میں مزید کیا فرق پڑے گا؟ کیا سفارتی مراسلے کو اس انداز میں استعمال کرنے سے دیگر ممالک کے سفارتکار پاکستان سے بات کرتے ہوئے محتاط ہوں گے؟ اور یہ بھی کہ حزب اختلاف کی نئی حکومت اس معاملے کے بعد کس قسم کے دباؤ کا شکار ہو گی؟ وہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے جس سفارتی کیبل کا ذکر کیا جا رہا ہے، وہ بظاہر ’ایک معمول کی کیبل ہے جو پاکستان میں موجود غیر ملکی سفارتکار اپنے ممالک کو بھیجتے رہتے ہیں اور ہمارے سفارتکاروں کے ذریعے دوسرے ممالک سے پاکستان بھی آتی ہیں۔ ماضی میں اس سے زیادہ خطرناک کیبلز اور مراسلے آتے رہے ہیں۔ لیکن اس بار اس خط کا وقت اس کو اہم بنا رہا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سفارتی خط اتنا اچھالا نہ جاتا مگر اس سے قبل بعض امریکی شخصیات کی پاکستان کی اہم شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے کہ شاید امریکہ پہلے سے ہی اس ملوث تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک اس کیبل کا متن سامنے نہیں آتا اس پر رائے دینا ہی کافی مشکل ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ مستقبل میں ایک طویل عرصے تک اس خط اور عمران خان کے امریکہ مخالف بیانیے کا اثر پاکستان پر ہو گا۔ بین الاقوامی اُمور کی ماہر ہما بقائی کہتی ہیں کہ چین کے ساتھ بہتر تعلقات اور امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کرنے کی کوشش کا خمیازہ تو پاکستان پہلے ہی بھگت رہا ہے اور اب اس غیرجانبداری پر نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پاک امریکہ تعلقات اس سفارتی کیبل سے اتنے متاثر نہیں ہوئے جتنے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اس سفارتی خط کے مبینہ متن کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے ہوئے۔‘ سفارتی خط سکینڈل کا دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر بھی اثر ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں مشرف زیدی نے کہا کہ ’بالکل ہو گا کیونکہ اب کوئی بھی غیر ملکی سفیر پاکستانی سفیر سے بات کرنے میں محتاط ہو گا کیونکہ انھیں خدشہ ہو گا کہ ان کی کہی کوئی بات یا بیان کو توڑ مروڑ کر یا ایسے انداز میں تو نہیں پیش کیا جائے گا کہ جیسے وہ پاکستان کو دھمکی دے رہے ہوں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61059994", "summary": "پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بڑی تنقید یہ کی جاتی تھی کہ وہ ملک میں بڑھتی مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ دنیا بھر میں تیل اور اجناس کی قیمتیں فی الحال بلند سطح پر ہیں اور کیا ایسے میں نئی ممکنہ مخلوط حکومت عوام کو مہنگائی سے کوئی ریلیف دے پائے گی۔", "title": "کیا پاکستان میں نئی ممکنہ مخلوط حکومت مہنگائی کے جن پر قابو پا سکے گی؟", "firstPublished": "2022-04-11T03:59:40.000Z", "id": "91825a21-22ff-4ae4-9c13-88d1e91a590c", "article": "سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعمتاد کی کامیابی اور اُن کی ایوان وزیراعظم سے رخصتی کے بعد پاکستان میں قائم ہونے والی حکومت کو کئی سیاسی جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت چلانے کے ساتھ معیشت کے محاذ پر بھی بڑے چینلجز کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں سرفہرست مہنگائی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے سیاسی مخالفین کی جانب سے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اِس وقت دنیا بھر میں تیل اور اجناس کی قیمتیں بلند سطح پر ہیں اور پاکستان کو توانائی اور خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے درآمدات پر بڑی حد تک انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ملک کے معروف معاشی ماہرین کے نزدیک اس وقت ملکی سطح پر مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل اور اجناس کی بلند سطح پر موجود قیتمیں ہیں اور پاکستان کو مقامی ضرورت پوری کرنے کے لیے ان کی درآمد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ملک میں ایکسچینج ریٹ یعنی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بے تحاشا کمی بھی ملک میں اس مہنگائی کو بڑھا رہی ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عالمی منڈی میں تیل، گیس اور اجناس کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں اور ان میں کوئی بڑی کمی بھی ہوتی نظر نہیں آتی ۔ ڈاکٹر پاشا نے بتایا کہ یوکرین اور روس کے تنازع نے جہاں تیل و گیس کی قیمتوں کو بہت بلند سطح پر پہنچا دیا ہے۔ پاکستان کے مرکزی بینک نے بھی اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل و اجناس کی قیمتوں میں فوری طور پر کمی آنے کا کوئی امکان نہیں ہے جس کی وجہ سے مرکزی بینک نے شرح سود میں بھی اضافہ کیا ہے۔ انھوں نے استفسار کیا کہ عام آدمی کو ریلیف دینے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے کیونکہ اس ملک میں چار ارب ڈالر کی تو صرف گیس چوری ہو جاتی ہے، بجلی کے شعبے میں قرضہ ساڑھے چار سو ارب تک ہے اور اسی طرح کمیوڈیٹیز آپریشن کے لیے اربوں لگا دیے جاتے ہیں اور وہی گندم پھر چوری کر لی جاتی ہے۔ اُن کے مطابق عام آدمی کے لیے مہنگائی کے سلسلے میں فوری ریلیف مشکل نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ اگلے چند مہینوں میں مہنگائی میں کمی لانا بہت مشکل ہے جس کی وجوہات بڑی واضح ہیں کہ تیل و گیس اور اجناس کی قیمتیں بہت اوپر کی سطح پر موجود ہیں اور حکومت سبسڈی دینے کے قابل نہیں ہو گی۔ معاشی اُمور کے صحافی شہباز رانا نے کہا کہ مہنگائی کی بین الاقوامی وجوہات کے ساتھ کچھ پالیسی فیصلے ہوتے ہیں جو تحریک انصاف کی حکومت صحیح طرح سے نہ لے سکی اور اب اگلی حکومت کا یہ کام ہوگا کہ وہ ان فیصلوں کو کیسے لیتی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60962044", "summary": "چاغی میں تانبے اور سونے کے سب بڑے منصوبے ریکوڈک پر بلوچستان میں بعض حلقوں کو تحفظات ہیں جس کے پیش نظر ’ریکو ڈیفنس‘ کے نام سے ایک مہم شروع کی گئی ہے۔", "title": "ریکوڈک منصوبہ: ایک اور ’ڈیل‘ کا الزام، ’معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں گورنر راج لگنے کا خطرہ تھا‘", "firstPublished": "2022-04-02T11:12:49.000Z", "id": "235289d3-9937-4a18-89dc-368797ca982b", "article": "پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں تانبے اور سونے کے سب بڑے منصوبے ریکوڈک پر بلوچستان میں بعض حلقوں کو تحفظات ہیں جس کے پیش نظر ’ریکو ڈیفنس‘ کے نام سے ایک مہم شروع کی ہے۔ اس مہم کے قائدین میں شامل سابق سینیٹر نوابزادہ لشکری رئیسانی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے عام سیاسی کارکنوں کو ریکوڈک کے حوالے سے تحفظات ہیں جس کی وجہ سے یہ مہم شروع کی گئی۔ ’بلوچستان کے لوگوں کو سابقہ معاہدوں کے حوالے سے تلخ تجربات ہیں جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہاں کے گیس کے وسائل کو استعمال میں لایا جا رہا ہے لیکن اس کی آمدنی سے بلوچستان کی ترقی پر خرچ نہیں ہوا۔‘ اگرچہ نوابزادہ لشکری رئیسانی کی طرح بلوچستان میں بعض قوم پرست جماعتوں کو بھی ریکوڈک کے معاہدے کے بارے میں تحفظات ہیں لیکن وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اسے ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’رائلٹی اور بعض ٹیکسز کی مد میں آمدنی اس کے علاوہ ہے اور سب کچھ کو ملایا جائے تو بلوچستان کا حصہ 33 فیصد سے زائد ہو گا۔‘ ’میں نے وہاں پوچھا کہ ریکوڈک میں بلوچستان کا شیئر کتنا ہو گا ۔یہ بتایا گیا آپ کے شیئر طے کیے گئے ہیں۔ ہم ریکوڈک پر کام کرنے والی کمپنی بیرک گولڈ کو واپس لا رہے ہیں کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں امریکہ میں ہمارا روزویلٹ ہوٹل اور پی آئی اے نیلام ہوں گے۔‘ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’مجھے بتایا گیا کہ وہ 25 فیصد بلوچستان کو کہاں سے دیں گے یہ تو ناممکن ہے۔ جس پر مجھے کہا گیا کہ پھر سرمایہ کاری میں حصہ دو تو میں نے کہا سرمایہ کاری کریں گے لیکن 25 فیصد لے کر جاﺅں گا کیونکہ بلوچستان کے لوگوں کو پتا ہے کہ پہلے منصوبے میں 25 فیصد تھا اب 10 فیصد کیسے ہو گیا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے وزیر اعظم کو کہا کہ بلوچستان کے 15 فیصد حصے کی سرمایہ کاری وفاقی حکومت اپنی طرف سے کرے ورنہ میں اس معاہدے سے باہر ہو جاﺅں گا۔ آپ جانیں اور آپ لوگوں کا کام جانیں۔ اس پر مجھے کہا گیا کہ یہ کون سا طریقہ ہے، اس طرح تو نہیں ہوتا تو میں نے کہا جس طرح بھی ہوتا ہے لیکن میں بغیر کوئی پیسہ لگائے 25 فیصد سے کم پر دستخط نہیں کروں گا۔‘ اس سوال پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ کمپنیاں صرف تانبے اور سونے کی ملکیت میں شراکت دار ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ سونے اور تانبے کے سوا باقی جتنی بھی معدنیات ہوں گے وہ سب بلوچستان کی ہوں گی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے مطابق ریکوڈک پر کام کرنے والی کمپنی بیرک گولڈ دنیا میں سونے کی کان کنی کی سب سے بڑی کمپنی ہے لیکن وہ پراسیسنگ نہیں کرتی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60953001", "summary": "پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے گذشتہ تین سال میں 55 لاکھ نئی نوکریاں پیدا کرنے کو ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے اور اس کی سوشل میڈیا پر بڑھ چڑھ کر تشہیر کی جا رہی ہے لیکن اس دعوے کی حقیقت کیا ہے؟", "title": "حکومت کا تین سال میں 55 لاکھ نوکریاں پیدا کرنے کا دعویٰ درست ہے؟", "firstPublished": "2022-04-02T03:36:54.000Z", "id": "ff0f316c-3751-43c1-8433-6ca6204e63ae", "article": "پاکستان میں معیشت کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کی جانب سے اپنے شعبوں میں نئی ملازمتوں کے سلسلے میں آرا کو اس وقت حاصل کیا گیا جب پاکستان کی وفاقی حکومت کے ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ گذشتہ تین برسوں میں ملک میں 55 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا ہوئیں۔ حکومت کے ترجمانوں کی جانب سے 55 لاکھ نئی ملازمتوں کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا جا رہا ہے اور اسے حکومت کی جانب سے ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں لکھا کہ ’پی ٹی آئی حکومت نے پہلے تین سال میں 55 لاکھ نوکریاں پیدا کی، جو سالانہ اوسط کے حساب سے 18 لاکھ بنتی ہے۔ مسلم لیگ ن کی اوسط 11 لاکھ اور پی پی پی کی اوسط 14 لاکھ بنتی ہے۔ پانچ سال میں مجموعی طور پر انشااللہ ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ ضرور پورا ہو گا۔‘ ان کے مطابق پاکستان میں معیشت کے حالات خاص کر اقتصادی شرح نمو ان اعداد و شمار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ تاہم انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ تعمیراتی اور ٹیکسٹائل کے شعبوں میں نئے منصوبوں اور توسیع سے نئی ملازمتیں پیدا ہوئیں مگر 55 لاکھ نوکریوں کے حکومتی دعوے درست نہیں ہیں۔ پاکستان کے محکمہ شماریات کی جانب سے تیار کیے گئے لیبر فورس سروے کے مطابق گذشتہ تین برسوں میں ملک میں 55 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا ہوئیں۔ اس کے مطابق اوسطاً سالانہ 18 لاکھ سے زائد نئی ملازمتیں پید اہوئیں جو 2008 سے 2018 کے عشرے سے زیادہ ہیں۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے حکومت میں آنے سے پہلے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا۔ حکومت کے تین برسوں میں 55 لاکھ ملازمتوں کے پیدا ہونے کے بارے میں مزمل اسلم نے کہا کہ حکومت کے پانچ سال میں ایک کروڑ نوکریوں کے پورا ہونے کا وعدہ پورا ہو گا۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے ریسرچ فیلو شاہد محمود نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت نے ٹیکسٹائل اور تعمیراتی شعبے کو مراعاتی پیکج دیا جس کی وجہ سے زیادہ نوکریاں اس شعبے میں پیدا ہوئی۔ حکومت کے ادارے کی جانب سے تین سال میں 55 لاکھ نئی ملازمتوں کے پیدا ہونے کے اعداد و شمار کو پاکستان کے سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’جب حکومت کا خاتمہ قریب ہے تو اس وقت ایسا دعویٰ سیاسی طور پر فائدہ اٹھانے کے لیے ہو سکتا ہے تاہم اس وقت حقائق سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔‘ وہ کہتے ہیں ملازمتیں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب ملک کی اقتصادی شرح نمو اوپر جا رہی ہو۔ ان کے مطابق ملک میں گذشتہ تین برسوں کے دوران ایک برس معاشی شرح نمو منفی ہو گئی تھی اور اسی کو بنیاد بنا کر حکومت نے اگلے سال زیادہ شرح نمو دکھائی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60943152", "summary": "وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال کی وجہ سے پاکستان کی سٹاک مارکیٹ گذشتہ کئی ہفتوں سے مندی کے رجحان کا شکار ہے۔ اس میں سرمایہ کاری کرنے والے مقامی اور غیر ملکی افراد مزید سرمایہ کاری سے کترا رہے ہیں۔", "title": "ملک کی سیاسی صورتحال کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کار ہاتھ کھینچ رہے ہیں", "firstPublished": "2022-04-01T03:35:27.000Z", "id": "0fd801c5-4f56-48ae-8a98-b59dd23369a5", "article": "پاکستان کی سٹاک مارکیٹ گذشتہ کئی ہفتوں سے مندی کے رجحان کا شکار ہے۔ اس میں سرمایہ کاری کرنے والے مقامی اور بیرون ملک پاکستانی مزید سرمایہ کاری سے کترا رہے ہیں تو دوسری جانب غیر ملکی سرمایہ کار بھی مارکیٹ سے پیسہ نکال رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ویسے تو بیرونی یا غیر ملکی سرمایہ کار پہلے ہی پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں کم ہو گیا تھا جب پاکستان کو ایمرجنگ مارکیٹ سے فرنٹیر مارکیٹ میں ڈالا گیا اور اس کے بعد گذشتہ کئی ہفتوں سے یہ مزید پاکستان کی سٹاک مارکیٹ سے باہر جا رہا ہے۔ مارچ کے مہینے میں پاکستان میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں جب پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد ملک میں سیاسی غیر یقینی کی فضا میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے معیشت منفی اثرات کے دباؤ کا شکار ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس مالی سال میں اب تک ملک سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کا اخراج ہوا ہے جو سٹاک مارکیٹ اور حکومتی بانڈز میں کی گئی تھی جس میں سے ایک ارب ڈالر کا اخراج سٹاک مارکیٹ سے ہوا۔ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ اور حکومتی بانڈز سے غیر ملکی سرمایہ کاری کا اخراج ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب حکومتی بانڈز پر منافع کی شرح بھی پرکشش ہے اور اس کے ساتھ سٹاک مارکیٹ میں حصص کی قیمتیں بھی نچلی سطح پر موجود ہیں تاہم اس کے باوجود سرمایہ کار ان میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کی سیاسی صورتحال بھی اس میں کسی حد تک اپنا کردار ادا کر رہی ہے کیونکہ اس وقت حکومت کی ساری توجہ تو سیاسی امور پر لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ معیشت پر توجہ دینے سے قاصر ہے۔ جس کا اثر غیر ملکی سرمایہ کاروں کے پاکستان کی مارکیٹ میں سرمایہ کاری پر پڑا۔‘ انھوں نے ایک جانب امریکہ کے فیڈرل ریزرو نے شرح سود میں اضافہ کر کے سرمایہ کاری کو اپنی جانب راغب کیا ہے جس کا اثر پاکستان کی مارکیٹ پر بھی پڑا اور یہاں سے سرمائے کا اخراج ہوا۔ اسی طرح ہماری اندرونی سیاسی صورت حال کی وجہ سے بھی ایک غیر یقینی صورتحال نے سٹاک مارکیٹ کو اپنے زیر اثر لیا ہوا ہے۔ شاہد نے کہا کہ ’ڈالر اور روپے کی درمیان قدر میں کچھ استحکام آئے تو غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کی مارکیٹ میں آ سکتا ہے کہ جب اسے اس کا یقین ہو کہ اس کی ڈالر میں کی جانے والی سرمایہ کاری پر جب وہ نفع واپس لے گا تو وہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے کم نہیں ہو گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60919105", "summary": "مغربی ممالک کی پابندیوں کے علاوہ روس کو یوکرین میں جنگ کی وجہ سے بہت زیادہ فوجی اخراجات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔", "title": "روس کو یوکرین میں جنگ پر کتنی رقم خرچ کرنا پڑ رہی ہے؟", "firstPublished": "2022-03-31T01:00:46.000Z", "id": "306a156a-f6f9-4708-91f1-ffa5a2702d2d", "article": "اگرچہ یہ جاننا ناممکن ہے کہ 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کرتے وقت ولادیمیر پوتن کے ذھن میں کیا تھا لیکن زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ چند دن میں تیزی سے فتح کی توقع کر رہے تھے۔ امریکی فوجی تجزیہ کاروں بینجمن جانسن، ٹائسن ویٹزل اور جے بی بارانکو کے مطابق ایک ماہ بعد یہ جنگ اب خطے میں عدم استحکام کی جنگ میں تبدیل ہو گئی ہے، جس میں روس یوکرین کی مزاحمت کو کچلنے کے لیے وحشیانہ حربے استعمال کر رہا ہے۔ اٹلانٹک کونسل کے لیے لکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اندازہ لگاتے ہیں کہ روس ممکنہ طور پر جنگ بندی کی جانب بڑھے جائے گا، یوکرین کی سپلائی روک دے گا، اُس کی بحیرہ اسود تک رسائی روک دے گا اور آخر کار ایک قحط کو جنم دے گا کیونکہ یوکرینی کسان اس وقت اپنی فصلوں کو سنبھالنے سے قاصر ہیں‘ لیکن یہ طویل جنگ روس کے لیے کتنی مہنگی ثابت ہو گی؟ اس وقت یوکرین کے ساتھ جنگ ​​میں روسی لاجسٹکس کو مسائل درپیش ہیں اور ان کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں۔ سب سے واضح طور پر یہ کہ روسی فوجی گاڑیوں کو اس وسیع علاقے میں کسی نقص کے بعد وہیں میدان میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ اگرچہ اس ملک کے پاس دنیا کے سب سے بڑے زرمبادلہ کے ذخائر (تقریباً 600 ارب ڈالر) ہیں لیکن اس رقم کا بڑا حصہ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے اب مغربی بینکوں میں بند ہے۔ ان میں سے کسی بھی اندازے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ بی بی سی کے لیے مشاورت کرنے والے ماہرین غیر یقینی صورتحال کی نوعیت کی وجہ سے اپنے اندازوں میں محتاط تھے حالانکہ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ جنگی مشین چلانا بہت مہنگا کام ہے۔ اگر یہ ادارہ پابندیوں میں توسیع کرتا ہے تو اس سے پوتن کے پاس غیر ملکی کرنسی کی ادائیگیاں وصول کرنے کا کوئی متبادل ذریعہ نہیں رہے گا۔ ماہرین نے اس جنگ پر اثرانداز ہونے کی چین کی صلاحیت کو بہت اہم قرار دیا ہے لیکن تجزیہ کاروں میں اس پر کوئی اتفاق رائے نہیں کہ وہ جنگ میں کیا کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ چین کے نائب وزیرِ خارجہ نے مغربی ممالک کی پابندیوں کو یکطرفہ اور جارحانہ قرار دیا اور کہا کہ یہ عام روسیوں کو سزا دینے کے مترادف ہے۔ فوکارٹ کا کہنا ہے کہ دو عوامل بڑے پیمانے پر اس بات کا تعین کریں گے کہ آیا آنے والے ہفتوں میں پوتِن کے لیے جنگ کی قیمت بہت زیادہ ہو جائے گی یا نہیں۔ پہلا یہ کہ کیا روس کی فوجی اور دفاعی صنعت مغرب سے تکنیکی درآمدات کے بغیر زندہ رہ سکتی ہے اور دوسرا یہ کہ اگر پابندیوں کا اثر کریملن میں اس شخص (پوتِن) کے خلاف ملک کے اندر عوامی رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لیے کافی ہو گا یا نہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60908700", "summary": "روسی ارب پتی رومن ابرامووچ روس اور یوکرین کے مابین استنبول میں جاری امن مذاکرات میں شریک ہیں جہاں انھیں ترک صدر طیب اردوغان سے بات کرتے بھی دیکھا گیا۔ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے برطانیہ میں مقیم روسی ارب پتی ابرامووچ پابندیوں کی زد میں ہیں۔", "title": "رومن ابرامووچ: تین سال کی عمر میں یتیم ہونے سے ارب پتی بننے تک کا سفر", "firstPublished": "2022-03-29T15:08:52.000Z", "id": "41561e4a-867d-4027-8b8a-07a2db3003e9", "article": "روسی ارب پتی رومن ابرامووچ روس اور یوکرین کے مابین استنبول میں جاری امن مذاکرات میں شریک ہیں جہاں انھیں ترک صدر طیب اردوغان سے بات کرتے بھی دیکھا گیا۔ اس سے پہلے ایسی اطلاعات آئی تھیں کہ رواں ماہ کے آغاز میں بیلاروس اور یوکرین کی سرحد پر یوکرین روس امن مذاکرات میں شرکت کے بعد واپس آنے پر رومن ابرامووچ میں مبینہ طور پر زہر کے اثرات کی علامات ظاہر ہونے لگی تھیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ روسی ارب پتی رومن ابرامووچ کئی ہفتوں سے یوکرین اور ماسکو کے درمیان مصالحت کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ تین سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے لیکن آج دنیا کے امیر ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ اب روس کے یوکرین پر حملے کے بعد روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ان کے روابط نے ان کے کاروبار کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور ان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ پچھلے چند ہفتوں کے واقعات کے پیش نظر اب ان کا نام میڈیا میں نہ آنے کے بہت ہی کم امکان ہیں۔ ابرامووچ کے معاملات کی زیادہ سے زیادہ چھان بین کے متعلق کئی سالوں سے کیے جانے والے مطالبات کے بعد حکومت برطانیہ نے برطانیہ میں ان کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں جس میں ان کے گھر، آرٹ ورکس اور چیلسی ایف سی بھی شامل ہے۔ ان پر سفری پابندیاں بھی عائد کر دی گئی ہیں۔ رومن آرکادیوچ ابرامووچ سنہ 1966 میں یوکرین کی سرحد سے چند سو میل کے فاصلے پر جنوب مغربی روس کے شہر سراتوف میں پیدا ہوئے۔ جب وہ ایک سال کے تھے تو ان کی والدہ ارینا کی خون میں زہر پھیلنے سے موت ہوگئی اور دو سال بعد جب وہ تین سال کے ہوئے تو ان کے والد کی ایک تعمیراتی کاموں میں استمعال ہونے والی کرین سے حادثے میں موت ہوگئی۔ اس کے بعد ابرامووچ کی ذمہ داری ان کے رشتہ داروں پر آ گئی اور شمال مغربی روس کے علاقے کومی میں ان کی پرورش ہوئی جہاں پیسہ کم تھا اور سردی زیادہ۔ ان کی یاٹ یعنی پر تعیش کشتیاں سولارس اور ایکلپس دنیا کی ایسی سب سے بڑی کشتیوں میں شامل ہیں۔ ابرامووچ کی تین بار طلاق ہو چکی ہے اور ان کے پاس ذاتی طیارہ بھی ہے۔ لیکن جب روسی افواج نے یوکرین کے ساتھ سرحد پر جمع ہونا شروع کیا اور اور پھر حملہ کیا تو صدر پوتن کے ساتھ ابرامووچ کی وابستگیوں نے انھیں نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔ جب ابرامووچ اور چھ دیگر اولیگارکز کے برطانیہ میں اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کیا گیا تو خارجہ سکریٹری لز ٹرس نے کہا 'پوتن کے ساتھ ان کے قریبی روابط کے باعث، وہ اس کی جارحیت میں شریک ہیں۔ یوکرین کے عوام کے خون سے ان کے ہاتھ رنگے ہیں۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60876036", "summary": "آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز کو ماہرینِ ٹیکس اور معیشت نے ایک ایسے طبقے سے زیادتی کے مترادف قرار دیا ہے جو پہلے ہی مہنگائی کی بلند شرح کی وجہ سے شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔", "title": "آئی ایم ایف کی اضافی ٹیکس کی تجویز ’تنخواہ دار طبقے سے زیادتی کے مترادف ہے‘", "firstPublished": "2022-03-26T06:22:07.000Z", "id": "d6498396-5ce7-4658-96ce-5118c36c9275", "article": "بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز کو ماہرینِ ٹیکس اور معیشت نے ایک ایسے طبقے سے زیادتی کے مترادف قرار دیا ہے جو پہلے ہی مہنگائی کی بلند شرح کی وجہ سے شدید مالی مشکلات کی شکار ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے ملک میں پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں کو آئندہ مالی سال کے بجٹ تک منجمد کرنے کے لیے ٹیکس کی شرح کم یا بالکل ختم کر دی گئی جس پر آئی ایم ایف نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور جس کے باعث تازہ ترین مذاکرات میں کوئی پیش رفت ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔ تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے اب تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا اضافی بوجھ ڈالنے کا کہا جا رہا ہے۔ اس تجویز کے تحت نہ صرف ٹیکس سلیبز میں تبدیلی کے لیے کہا گیا ہے بلکہ ان پر ٹیکس کی شرح میں رد و بدل کی تجویز بھی دی گئی ہے تاکہ پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت اضافی ٹیکس اکٹھا کر کے اپنے مالیاتی نظم و ضبط کو یقینی بنا سکے۔ پاکستان کی وزارت خزانہ کے ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ تنخواہ دار طبقے پر عائد ٹیکس اور ان کی سلیبز میں ردو بدل آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے تاہم اُنھوں نے کہا یہ کوئی نئی تجویز نہیں ہے کیونکہ ماضی میں بھی آئی ایم ایف اس کے بارے میں کہہ چکا ہے۔ ماہر ٹیکس امور اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سابقہ عہدیدار ڈاکٹر اقبال نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ تنخواہ دار طبقے سے جس شرح پر اس وقت ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے وہ مناسب ہے اور اس میں مزید اضافہ اس طبقے میں ٹیکس ادا کرنے والوں کے ساتھ زیادتی ہو گی جو موجودہ حالات میں مہنگائی کی وجہ سے مالی مسائل کا شکار ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے تنخواہ دار طبقے پر زیادہ ٹیکس کی شرح اور سلیبز میں ردوبدل کی تجویز نہ ماننے کی صورت میں پاکستان کے لیے مشکلات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماہر معاشی امور ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بیرونی ادائیگیاں ہے جب کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بہت تیزی سے کمی آئی ہے۔ انھوں نے کہا آئی ایم ایف ٹیکس بڑھانے کی بات کرتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر قسم کی ٹیکس چھوٹ کو ختم کریں جو مراعات یافتہ طبقے کو حاصل ہیں تاکہ وہاں سے پیسہ اکٹھا کر کے تنخواہ دار طبقے کو اضافی ٹیکس سے بچایا جا سکے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60840950", "summary": "یوکرین پر روس کے حملے کے بعد امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ کی جانب صدر پوتن پر پابندیوں کے بعد روسی اولیگارکس اپنی پرتعیش کشتیوں کو پابندیوں سے بچانے کے لیے یورپی یونین سے باہر منتقل کر رہے ہیں۔", "title": "صدر پوتن کے امیر دوستوں کی لگژری کشتیاں کہاں ہیں؟", "firstPublished": "2022-03-24T04:20:49.000Z", "id": "ba3a8d15-eef4-4e0c-abb5-5562f454dd70", "article": "امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے کہا ہے کہ وہ روس کے بااثر امرا کی لگژری کشتیوں کو ضبط کر لیں گے۔ اب تک وہ آٹھ ایسی کشتیوں کو ضبط کر چکے ہیں، لیکن اب بھی ایسی لگژری کشتیاں ڈھونڈی جا رہی ہیں۔ روسی امرا کی کچھ کشتیاں محفوظ علاقوں کی طرف بڑھ رہی ہیں اور کچھ مالدیپ جیسی جگہوں پر موجود ہیں جہاں انھیں ضبط نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پرتعیش کشتیاں روسی صدر کے دوستوں کی ہیں۔ ان کشتیوں کی ملکیت کو خفیہ رکھا جاتا ہے اور انھیں آف شور کمنیوں کے نام پر رجسٹر کیا جاتا ہے۔ ترکی نے کہا ہے کہ وہ روس پر پابندیاں لگانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ روس اور ترکی کے درمیاں براہ راست پروازیں جاری ہیں۔ روسی امرا کی کشتیوں کے ایک کیپٹن نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا ہے کہ ترکی کے حکام نے انھیں بتایا ہے کہ ترکی میں انھیں خوش آمدید کہا جائے گا اور ان کا استقبال ایسے ہی کیا جائے گا جیسے دوسرے جہازوں کا کیا جاتا ہے۔ سی ریپسوڈی جسے روس کے سرکاری بینک وی ٹی بی کے صدر آندرے کوسٹن سے جوڑا جاتا ہے، وہ بھی پانی میں رواں دواں ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے آندرے کوسٹن پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ کچھ کشتیاں ابھی اپنی ابتدائی جگہ سے نہیں ہلی ہیں۔ ان میں ایک کلیو ہے جسے ارب پتی اولیگارک ڈیریپسکا سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ڈیریپسکا ایک روسی صنعت کار ہیں اور انھیں صدر پوتن کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔ برطانیہ اور امریکہ نےاس پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ لیکن روس کے بااثر امرا کی یہ کشتیاں شاید لمبے عرصے تک محفوظ پانیوں میں نہ ٹھہر سکیں۔ ان کشتیوں کو فعال رکھنے کے لیے ان کی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر یورپی یونین نے ان کشتیوں کی دیکھ بھال کے لیے ضروری پرزہ جات پر پابندی عائد کر دی تو انھیں فعال رکھنا شاید ممکن نہ رہے۔ روس کے نو امرا جن پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں صرف ایک کی کشتی یورپی پانیوں میں موجود ہے۔ ٹانگو کشتی کو وکٹر ویکسلبرگ سے منسوب کیا جاتا ہے اور یہ سپین کے پالما ساحل پر کھڑی ہے۔ وکٹر ویکسلبرک کو امریکی اور برطانوی پابندیوں کا سامنا ہے لیکن یورپی یونین نے ان پر پابندیاں عائد نہیں کی ہیں۔ گذشتہ ماہ روسی امرا سے منسوب اور کئی کشتیوں پر لگی ٹریکنگ ڈیوائسز کو بند کیا گیا۔ امریکی حکام اٹلی کے میرینا ڈی کارا ساحل پر کھڑی شیکہرزاد نامی پرتعیش کشتی کی ملکیت کے بارے میں چھان بین کر رہے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60754592", "summary": "روس پر تیل کی برآمدات پر پابندیوں کے بعد دنیا میں تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور فرانس کے وزیرِ خارجہ نے صاف کہا ہے کہ اس وقت یورپ کو سنہ 1973 جیسے ’آئل شاک‘ کا سامنا ہے۔", "title": "عرب ’تیل کا وہ جھٹکا‘ جس کے آگے عالمی معیشتیں مجبور ہو جاتی ہیں", "firstPublished": "2022-03-22T07:44:47.000Z", "id": "035104cb-83a2-4f24-8801-50d85cb2fd0d", "article": "یوکرین کے حالیہ بحران کے بعد روس پر عائد ہونے والی پابندیوں کے بعد تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خدشات کو فرانسیسی وزیر برائے اقتصادیات اور مالیات برونو لی مائر نے گذشتہ ہفتے ان الفاظ میں بیان کیا کہ یورپ کا موجودہ توانائی کا بحران سنہ 1973 کے ’آئل شاک‘ جیسا شدید ہو سکتا ہے۔ سنہ 2022 میں عالمی منڈیوں میں پھر سے تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کی اگرچہ اپنی بھی کئی وجوہات ہیں تاہم روس کی یوکرین میں فوجی پیش قدمی کے بعد اُس پر مغربی دنیا کی جانب سے اُس پر عائد ہونے والی اقتصادی پابندیاں تیل کی قیمتوں میں بے یقینی کا بڑا سبب ہے۔ ان پابندیوں کی وجہ سے امریکہ کی معیشت پر جو اثر پڑا تھا اسے امریکہ کے مرکزی بینک فیڈرل ریزرو کے چیئرمین آرتھر برنز نے سنہ 1974 میں اس طرح بیان کیا تھا: ’تیل برآمد کرنے والے ممالک کی طرف سے تیل کی قیمتوں اور سپلائی میں اچانک اضافہ امریکہ کے لیے انتہائی نامناسب وقت پر آنا تھا۔‘ سنہ 1945 کے بعد کے عرصے میں اپنے سب سے سنگین بحران کا سامنا کرتے ہوئے جاپانی حکومت نے صنعتی تیل اور بجلی کی کھپت میں 10 فیصد کمی کا حکم دیا۔ دسمبر میں اس نے جاپان کی بڑی صنعتوں کے لیے تیل کے استعمال اور بجلی کے استعمال میں فوری طور پر 20 فیصد کمی، اور کاروں کے استعمال کو محدود کر دیا۔ سنہ 1973 کے تیل کے بحران ’آئل شاک‘ کے بعد نیا عالمی مالیاتی نظام تشکیل پایا۔ عرب ممالک جو سیاسی طور پر تو آزاد ہو چکے تھے، اب مالی طور پر آزاد ہو گئے اور ایک لحاظ سے اس بحران کے بعد اپنی برآمدات کا صحیح فائدہ اور منافع حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ سنہ 1973 کے تیل کے بحران کی طرح یوکرین پر حملے اور روس پر پابندیوں کے بعد جس طرح تیل کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے اس کے بھی مالی، جغرافیائی اور سیاسی اثرات مرتب ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ تیل کی قیمتوں کو مستحکم کرنے کے لیے امریکی صدر نے ان سے تیل کی پیداوار بڑھانے کا کہا تھا جیسا کہ پہلے بھی ہوتا رہتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ نہ صرف دو خلیجی ریاستوں کے سربراہوں نے صدر بائیڈن کا فون سننے سے انکار کیا بلکہ سعودی عرب نے تو چین کو تیل کی فروخت چین کی کرنسی میں کرنے کا اعلان کر دیا۔ اسی طرح انڈیا نے روس کے ساتھ روسی کرنسی میں تیل کی درآمد کا معاہدہ کر لیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60813833", "summary": "پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی حکومت اور بیرک گولڈ کارپوریشن نامی کمپنی کے درمیان ضلع چاغی میں سونے اور تانبے کے سب سے بڑے پراجیکٹ ریکوڈک پر غیر ملکی کمپنی آٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ طے پایا ہے جسے ’ملکی تاریخ میں سب سے بڑی سرمایہ کاری‘ قرار دیا جا رہا ہے۔", "title": "ریکوڈک: بیرک گولڈ کا پاکستان سے معاہدہ، منصوبہ دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق", "firstPublished": "2022-03-20T14:58:34.000Z", "id": "8c747616-0534-4754-a29a-23a2650bdc62", "article": "پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی حکومت اور بیرک گولڈ کارپوریشن نامی کمپنی کے درمیان ضلع چاغی میں سونے اور تانبے کے سب سے بڑے پراجیکٹ ریکوڈک پر معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اتوار کو پاکستان کے وزیِر خزانہ شوکت ترین کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کینیڈین کمپنی نے 11 ارب ڈالر کے جرمانے کی تلافی کے ساتھ ساتھ 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سرمایہ کاری سے بلوچستان میں ملازمتوں کے آٹھ ہزار مواقع پیدا ہوں گے اور پاکستان کو بے پناہ فوائد ملیں گے۔ انھوں نے کہا کہ معاہدے سے انکم فلو 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہے، اس سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ٹیکسوں کی مد میں بے پناہ ریونیو حاصل ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’دس سالہ قانونی جنگ اور مذاکرات کے بعد یہ کامیابی ملی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ تقریباً 11 ارب کے جرمانے کی تلافی ہوئی ہے اور بلوچستان میں 10 ارب کی سرمایہ کاری ہو گی، آٹھ ہزار نئی نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔‘ انھوں نے کہا کہ 'پراجیکٹ کمپنی ریکوڈک منصوبے پر آٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی جو کہ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہو گی۔ منصوبے پر تمام صوبائی ٹیکس لاگو ہوں گے۔‘ ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے۔ بعض رپورٹس کے مطابق ریکوڈک کا شمار پاکستان میں تانبے اور سونے کے سب سے بڑے جبکہ دنیا کے چند بڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔ ریکوڈک کے قریب ہی سیندک واقع ہے جہاں ایک چینی کمپنی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے تانبے اور سونے کے ذخائر پر کام کر رہی ہے۔ تانبے اور سونے کے دیگر ذخائر کے ساتھ ساتھ چاغی میں بڑی تعداد میں دیگر معدنیات کی دریافت کے باعث ماہرین ارضیات چاغی کو معدنیات کا ’شو کیس‘ کہتے ہیں۔ بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع معدنیات کے ذخائر کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دنیا میں وہ کاپر اور سونے کی سب سے بڑی کانوں میں سے ایک ہیں جن پر آج تک مکمل انداز میں کام شروع نہیں ہو سکا ہے۔ پاکستان کی حکومت نے ان ذخائر کی تلاش کے لیے 28 برس قبل ریکوڈک منصوبے کا آغاز کیا لیکن اس سے ملک کو کسی فائدے کے بجائے ناصرف چھ ارب ڈالر کا جرمانہ ہوا بلکہ سرمایہ کاری سے متعلق تنازعات کو نمٹانے کے لیے ثالثی کے دو بین الاقوامی اداروں میں مقدمہ بازی پر خطیر اخراجات بھی ہوئے ہیں۔ گذشتہ برس بین الاقوامی ثالثی ٹریبیونل نے پاکستان پر صوبہ بلوچستان میں سونے اور تانبے کے کروڑوں ڈالر مالیت کے ریکوڈک پراجیکٹ کے مقدمے میں تقریباً چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60767354", "summary": "ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند ہفتوں کے سیاسی عدم استحکام نے ایک جانب سٹاک مارکیٹوں کو شدید متاثر کیا ہے تو دوسری جانب پاکستانی روپے کی قدر بھی اس سے متاثر نظر آتی ہے تاہم اس ساری صورتحال کا سب سے منفی اثر ملک کی معاشی فیصلہ سازی کے شعبے پر پڑ رہا ہے جو اس وقت گو مگو کا شکار ہے۔", "title": "سیاسی بحران ملک کے معاشی و انتظامی امور کو کیسے متاثر کر رہا ہے؟", "firstPublished": "2022-03-19T04:00:43.000Z", "id": "417f5260-e46c-4d7b-b675-2b2a978e68e4", "article": "ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند ہفتوں کے سیاسی عدم استحکام نے ایک جانب سٹاک مارکیٹوں کو شدید متاثر کیا ہے تو دوسری جانب پاکستانی روپے کی قدر بھی اس سے متاثر نظر آتی ہے تاہم اس ساری صورتحال کا سب سے منفی اثر ملک کی معاشی فیصلہ سازی کے شعبے پر پڑ رہا ہے جو اس وقت گو مگو کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں کاروباری حلقے بھی اس صورتحال پر فکرمند دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج کے ایم ڈی نے حال ہی میں کہا تھا کہ ایک بڑی ٹیکنالوجی کمپنی نے سیاسی بحران کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ میں داخلے کے منصوبے کو فی الحال مؤخر کر دیا ہے۔ پاکستان کی وفاقی کابینہ کا اجلاس گذشتہ تین ہفتوں میں تین بار ملتوی ہو چکا ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن میں کام کرنے والے ایک حکومتی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ کابینہ کا اجلاس بار بار ملتوی ہونے کی وجہ سے چین پاکستان راہداری سے جڑے منصوبوں گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ اور گوادر فرینڈ شپ ہسپتال کے لیے خام مال کو اینٹی ڈمپنگ قانون سے مستثنیٰ قرار دینے کا اہم فیصلہ تعطل کا شکار ہے۔ پاکستان کے تیل کے شعبے میں ریفائنری پالیسی بھی بظاہر پس پشت چلی گئی ہے۔ ایک تیل کمپنی کے سربراہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کی وجہ سے پاکستان کے لیے جو مشکلات ہیں، اس کے لیے اہم تھا کہ پاکستان کی ریفائنری پالیسی کو جلد منظور کیا جاتا تاہم سیاسی بحران کی وجہ سے حکومت کی توجہ اب اس کی بجائے سیاسی معاملات پر مرکوز ہے۔ صحافی خلیق کیانی کے مطابق اس وقت وزارتوں میں بہت کم وزیر نظر آرہے ہیں کیونکہ سب کے سب اس وقت سیاسی مسائل کو سلجھانے میں لگے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے ان وزارتوں کی بھی فیصلہ سازی متاثر ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘اس کی واضح مثال یہ ہے کہ ملک میں عموماً پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت مالی سال کی آخری سہ ماہی کے شروع یعنی مارچ کے مہینے میں زیادہ فنڈز ریلیز ہوتے ہیں تاہم اس وقت ایسی صورتحال نظر نہیں آرہی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ سیاسی بحران نے حکومت کو ایسا پھنسایا ہوا ہے کہ وہ اس جانب توجہ دینے سے قاصر ہے اور انفراسٹرکچر منصوبوں پر کام کی رفتار میں اس قدر اضافہ نہیں دیکھا جا رہا، جیسے کہ ماضی میں اس سہ ماہی میں دیکھنے میں آتا تھا۔‘ پاکستان کے سابق وفاقی وزیر خزانہ اور معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ آئی ایم ایف بھی اس وقت ملک میں موجودہ سیاسی بحران کو بغور دیکھ رہا ہے اور کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے وہ عدم اعتماد تحریک کے نتیجے کا انتظار کرے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60767072", "summary": "مغربی اقوام کی طرف سے پابندیوں کے جواب میں صدر ولادیمیر پوتن نے منگل کو ایک نئے قانون پر دستخط کیے ہیں جس کا مقصد غیر ملکی کمپنیوں کو روس کو ٹھیکے پر دیے گئے ہوائی جہاز واپس لینے سے روکنا ہے۔", "title": "روس کا غیرملکی کمپنیوں کے مسافر بردار طیارے نہ لوٹانے کا فیصلہ", "firstPublished": "2022-03-17T12:21:20.000Z", "id": "744f6267-ec41-476a-ad02-e106e47ac706", "article": "مغربی اقوام کی طرف سے پابندیوں کے جواب میں صدر ولادیمیر پوتن نے منگل کو ایک نئے قانون پر دستخط کیے ہیں جس کا مقصد غیر ملکی کمپنیوں کو روس کو ٹھیکے پر دیے گئے ہوائی جہاز واپس لینے سے روکنا ہے۔ صدر پوتن نے اس قانون کی منظوری ایک ایسے وقت میں دی ہے جب مغرب کی جانب سے روس پر اقتصادی اور تجارتی پابندیوں کے تناظر میں کئی غیرملکی کمپنیوں نے روس سے کہا ہے کہ انہوں نے جو ہوائی جہاز کرائے پر دیے ہوئے ہیں وہ واپس کیے جائیں۔ 24 فروری کو یوکرین پر روس کی فوجی چڑہائی کے بعد سے مغربی کمپنیاں روسی فضائی کمپنیوں کے پاس موجود اپنے طیاروں کے لِیز منسوخ کرتی رہی ہیں اور روس سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ ان کے طیارے واپس کیے جائیں۔امریکہ، یورپی یونین اور کئی دیگر ملکوں کی جانب سے روسی طیاروں پر اپنی حدود میں داخلے پر پابندی کے بعد سے روس سے معمول کی بین الاقوامی پروازوں کی اکثریت معطل ہے۔ صدر پوتن کی جانب سے نئے قانون کی منظوری کے بعد نہ صرف شہری ہوابازی کے عالمی ماہرین کے درمیان ایک نئی بحث نے جنم لے لیا ہے بلکہ روس کی فضائی کمپنیوں میں بھی بے یقینی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ روسی فضائی کمپنی کے ذرائع نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'ہمیں امید ہے کہ ان طیاروں کو روس میں رجسٹر کیے جانے سے پرہیز کیا جائے گا، کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم یہ جہاز متعلقہ کمپنیوں کو واپس کر دیں۔ اگر ان طیاروں کو روس میں رجسٹر کیا جاتا ہے تو روسی فضائی کمپنی بھی شریک جرم ہو جائے گی۔ اگرچہ نئے قانون میں غیر ملکی طیاروں کو روس میں ہی رجسٹر کرنے کا طریقہ دیا گیا ہے، لیکن فضائی کمپنیوں کے لیے ایسا کرنا ضروری نہیں ہے۔ یہ (قانون) تو طیاروں کو 'ہائی جیک' کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔ مغربی اقوام کی پابندیوں کے جواب میں منگل کو ہی روسی صدارتی محل کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ روس امریکی صدر جو بائیڈن، وزیرِ خارجہ انتھونی بلنکن سمیت امریکہ کے کئی سرکاری حکام کے خلاف پابندیاں لگائے گا۔ بی بی سی کے نامہ نگار تھیو لیگٹ کا کہنا ہے کہ اس وقت غیر ملکی کمپنیوں کے سینکڑوں طیارے روس کے پاس ہیں اور روس پر عائد کی جانے والی پابندیوں پر عمل کرنے اور کسی قانونی پیچیدگی سے بچنے کی غرض سے ٹھیکے پر طیارے فراہم کرنے والی کمپنیوں کی کوشش ہے کہ اپنے طیاروں واپس لے لیے جائیں۔ لیکن اس بات کے امکانات بہت کم ہیں۔ اگر روس اربوں ڈالر مالیت کے یہ طیارے واپس نہیں کرتا تو وہ صرف ملک کے اندر اور چند سابقہ سوویت ریاستوں کی فضائی حدود میں ہی ان جہازوں کا استعمال جاری رکھ سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60754195", "summary": "بلوچستان کے علاقے کلمت میں رہنے والوں کا روزگار ماہی گیری سے جڑا ہے۔ بڑے فشنگ ٹرالرز پر پابندی کے بعد اب ان کے جالوں میں مچھلی آ رہی ہے لیکن برسوں سے مقروض ان ماہی گیروں کے خدشات اب بھی برقرار ہیں۔", "title": "گوادر میں فشنگ ٹرالرز پر پابندی: ’سمندر میں عرصے بعد مشکا، پاپلیٹ اور جھینگا نظر آیا‘", "firstPublished": "2022-03-16T05:44:53.000Z", "id": "aeffdc42-56e6-4567-8f7d-b04e883a194b", "article": "یہ منظر تھا بلوچستان کے علاقے کلمت میں جہاں رہنے والوں میں سے زیادہ تر کا روزگار ماہی گیری سے جڑا ہے۔ صبح چھ بجے کلمت کے ماہی گیر سمندر میں جانے کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں جہاں وہ پانچ سے چھ گھنٹے گزارتے ہیں، اور واپسی پر مچھلیاں لے کر آتے ہیں۔ مگر چند ماہ پہلے صورتحال اس سے قدرے مختلف تھی کیونکہ یہ ماہی گیر سمندر سے خالی ہاتھ لوٹتے تھے کیونکہ بڑے بڑے فشنگ ٹرالر ان کے ’حق پر ڈاکہ مار‘ رہے تھے اور ان کے پکڑنے کے لیے سمندر میں مچھلی بچتی نہیں تھی۔ اس صورتحال کے باعث گوادر میں ماہی گیروں نے احتجاج کیا تھا جس میں ایک مطالبہ ٹرالنگ پر پابندی تھی۔ بلوچستان کے ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ کراچی سے آنے والے ٹرالرز غیر قانونی طور پر اُن کی حدود میں آ کر فشنگ کرتے ہیں۔ جو بھی شکار ہوتا ہے اس کا آدھا حصہ کشتی کے مالک اور باقی آدھی آمدن ماہی گیروں میں تقیسم ہوتی ہے۔ کلمت میں جس بھی ماہی گیر سے معلوم کیا اس نے بتایا کہ وہ مقروض ہے۔ وہ اپنا شکار سیٹھ کو فروخت کرتے ہیں جس کے پاس اس کا کھاتہ ہوتا ہے، وہ اس ماہی گیر کو گھر کا راشن، کشتی کا تیل بھی فراہم کرتا ہے۔ کلمت کوسٹل ہائی وے سے 20 کلومیٹر دور ماہی گیروں کی بستی ہے جس کی قدرتی جیٹی ہے جہاں سے کشتیاں باآسانی سمندر میں جاتیں اور واپس آتی ہیں۔ یہ بستی دو ہزار کے قریب گھرانوں پر مشتمل ہے، یہاں ایک ہائی سکول، ایک دیہی ہیلتھ سینٹر بھی موجود ہیں مگر ہسپتال میں ڈاکٹر نہیں اور ہائی سکول میں اساتذہ کا فقدان ہے۔ پرائمری سکول کے اساتذہ کے لیے گاؤں والوں نے کھانے پینے، کپڑے دھونے کا انتظام کیا ہے تاکہ اساتذہ موجود رہیں اور بچے تعلیم مکمل کریں۔ فشنگ ٹرالرز کے بعد کلمت کی بستی کو ان دنوں ایک اور مشکلات کا سامنا تھا۔ یہاں نیوی نے اپنا کیمپ بنا لیا ہے جو جیٹی کے راستے پر واپڈا کے دفتر میں قائم کیا گیا ہے۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ نیوی 300 ایکڑ زمین مانگ رہی ہے لیکن انھوں نے دینے سے انکار کر دیا جس کے بعد انھیں مبینہ طور پر مختلف بہانوں سے تنگ کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے مقامی انتظامیہ کو شکایت کی لیکن وہ بھی بے بس ہے۔ کراچی میں پچھلے دنوں ٹرالز پر پابندی کے خلاف بندرگاہ کو بلاک کیا گیا جس کے بعد بلوچستان کے ماہی گیروں کو خدشہ ہے کہ یہ ٹرالرز دوبارہ ان کی حدود میں آ کر فشنگ کریں گے جس کے خلاف ایک بار پھر مولانا ہدایت الرحمان نے احتجاج اور گوادر بندرگاہ کے گھیراؤ کا اعلان کیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60743043", "summary": "پاکستان کی سرکاری تیل کمپنی پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) نے وزارت توانائی کو ایک خط میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ آنے والے ہفتوں میں ملک کو ڈیزل کی کمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور اس کی فراہمی کا نظام ملک میں گندم کی کٹائی کے موسم کے دوران خراب ہو سکتا ہے جب ڈیزل کی مانگ بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔", "title": "پاکستان میں ڈیزل بحران کا خدشہ کیوں ظاہر کیا جا رہا ہے؟", "firstPublished": "2022-03-15T05:08:11.000Z", "id": "e99eb005-fcb2-429d-89a4-ca8a3544ee31", "article": "پاکستان کی سرکاری تیل کمپنی پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) کی دستاویزات کے مطابق جنوری سے اب تک ٹارگٹ سے دو لاکھ میٹرک ٹن کم ڈیزل درآمد کیا گیا ہے۔ پی ایس او نے وزارت توانائی کو ایک خط میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ آنے والے ہفتوں میں ملک کو ڈیزل کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال کا ملک میں گندم کی کٹائی کے سیزن پر اثر پڑ سکتا ہے جب ملک میں ڈیزل کی مانگ بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان میں تیل و گیس کے نگران ادارے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے بھی وزارت توانائی کے نام ایک خط میں زور دیا ہے کہ گندم کی کٹائی کے موسم میں ڈیزل کی طلب بڑھنے والی ہے۔ اوگرا نے سفارش کی ہے کہ بینکوں کی جانب سے تیل کمپنیوں کو زیادہ رقم فراہم کی جائے تاکہ وہ ملک میں زیادہ ڈیزل درآمد کر سکیں۔ تاہم وزیر توانائی حماد اظہر نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں اس خدشے کو مسترد کیا کہ ملک میں پیٹرول و ڈیزل کا کوئی بحران ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ملک میں تیل کے ذخائر ایک ماہ کے لیے کافی ہیں اور میڈیا میں آنے والی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ مگر اوگرا اور پی ایس او کے وزارت توانائی کو لکھے گئے خطوط کے مطابق ملک میں تیل، خاص طور پر ڈیزل کی سپلائی چین بہت دباؤ کی شکار ہے اور اگر فوری طور پر اقدامات نہیں اٹھائے گئے کہ ملک میں ڈیزل کا ایک بڑا بحران سامنے آ سکتا ہے۔ اس صورتحال میں اوگرا نے سفارش کی ہے کہ پاکستان کی سرکاری تیل کمپنی پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) بین الاقوامی مارکیٹ سے ڈیزل خرید کر مقامی تیل کمپنیوں کو فراہم کرے، لیکن پی ایس او نے اپنے ایک خط میں ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ عارف حبیب لمیٹڈ کے طاہر عباس نے بتایا کہ فی الحال ڈیزل کا کوئی بحران نظر نہیں آ رہا کیونکہ وزیر توانائی کے مطابق ایک مہینے کا ذخیرہ موجود ہے۔ اُنھوں نے کہا عالمی منڈی میں قیمتوں میں کمی ہوئی ہے جس کا فائدہ پاکستان کو ہو گا اور تیل کمپنیوں کو کیش فلو اور درآمدی لاگت کے لیے اضافی پیسے نہیں چاہیے ہوں گے۔ اوگرا نے بھی اس سلسلے میں خدشات کا اظہار کیا ہے کہ مارچ سے لے کر جون تک ڈیزل کی طلب بہت زیادہ ہوتی ہے جب ملک میں فصل کی کٹائی ہو رہی ہوتی ہے اور اس لیے اس عرصے کے دوران طلب کو پورا کرنے کے لیے زیادہ ڈیزل درآمد کیا جائے۔ پاکستان میں تیل کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم آئل کمپنیز ایڈوائزری کمیٹی کے اعداد و شمار کے مطابق مئی میں جب گندم کی کٹائی کا موسم عروج پر ہوتا ہے تو اس وقت ڈیزل کی کھپت نو لاکھ ٹن تک ہو جاتی ہے جو عموماً دوسرے مہینوں میں سات لاکھ ٹن کے لگ بھگ رہتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60688602", "summary": "ماہرین کا خیال ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ کے باوجود عالمی معیشت رواں برس ترقی کرے گی۔ لیکن اس جنگ کے اثرات دنیا بھر میں محسوس کیے جائیں گے۔", "title": "کیا یوکرین جنگ عالمی معاشی بحران کا سبب بن سکتی ہے؟", "firstPublished": "2022-03-11T00:54:36.000Z", "id": "de6d3323-a2c7-4c3a-8faa-3a278bf93fde", "article": "ماہرین کا خیال ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ کے باوجود عالمی معیشت رواں برس ترقی کرے گی لیکن اس جنگ کے اثرات دنیا بھر میں محسوس کیے جائیں گے۔ اس جنگ کے کتنے بُرے اثرات مرتب ہوں گے، اس کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ یہ جنگ کتنی دیر تک جاری رہتی ہے۔ یہ مدت اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ عالمی منڈی میں حالیہ مہنگائی عارضی دھچکا ہے یا یہ مستقل طور پر رہے گی۔ ہم نے اس مضمون میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ یہ جنگ عالمی معیشت کو کیسے متاثر کر رہی ہے اور کیا یہ عالمی معاشی بحران کی وجہ بن سکتی ہے۔ برطانیہ میں قائم کنسلٹینسی ادارے آکسفورڈ اکنامکس کے مطابق یوکرین اور روس کے لیے اس جنگ کے معاشی نتائج 'سنگین' ہوں گے لیکن دنیا کے دیگر ممالک کے لیے یہ اثرات مختلف ہوں گے۔ پولینڈ اپنی ضرورت کا 50 فیصد تیل روس سے درآمد کرتا ہے جبکہ ترکی اپنی ضرورت کا ایک تہائی حصہ روس سے حاصل کرتا ہے۔ لیکن امریکہ کی روس سے تجارت کا حجم اس کے جی ڈی پی کا صرف 0.5 فیصد ہے جبکہ چین کا 2.5 فیصد ہے لہذا ان ممالک پر اس جنگ کے بہت محدود اثرات مرتب ہوں گے۔ آکسفورڈ اکنامکس میں گلوبل میکرو ریسرچ کے ڈائریکٹر بین مے کا کہنا ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ سے امکان ہے کہ یہ عالمی معشیت کی ترقی میں 0.2 فیصد کمی لائے یعنی رواں برس متوقع چار فیصد ترقی کی بجائے یہ ہدف 3.8 فیصد رہے۔ مگر یہ اس بات سے مشروط ہے کہ یہ تنازع طوالت اختیار نہیں کرتا۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر یہ جنگ طویل عرصے تک جاری رہتی ہے تو اس کے اثرات زیادہ سنگین ہوں گے۔ یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ عالمی سطح پر اشیا خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بھی بن سکتی ہے، کیونکہ روس اور یوکرین دونوں ہی خوراک کی پیدوار کرنے والے بڑے ملک ہیں۔ وہ کہتے ہیں دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کو کھانا صرف کھاد کے استعمال کے نتیجے میں ملتا ہے اور اگر کھیتوں میں اس کا استعمال بند کر دیا جائے تو چند ایک فصلوں کی پیداوار پچاس فیصد تک کم ہو جائے گی۔ روس کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ اناج اور فرٹیلائزر برآمد کرتے ہیں گلوبل اکنامکس سروس کی سربراہ جینیفر میکیون کا کہنا ہے کہ توانائی اور اشیا خور و نوش کی بڑھتی قیمتوں کے باعث ترقی پذیر ممالک میں ایک فیصد تک مہنگائی بڑھنے کی توقع ہے۔ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر یہ جنگ طویل عرصے تک جاری رہتی ہے تو اس سے عالمی معیشت میں مندی آسکتا ہے اب تک جنگ کی وجہ سے پیداوار کو خطرات درپیش ہیں لیکن یہ اثر اس بات پر منحصر ہوگا کہ جنگ کب تک جاری رہتی ہے اور اس میں صورتحال کس حد تک خراب ہوتی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60688711", "summary": "ہیزروگ سنہ 2008 کے بعد وہ پہلے اسرائیلی رہنما ہیں جو ترکی کا دورہ کر رہے ہیں۔ اردوغان نے جولائی میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہیزروگ سے چار مرتبہ فون پر بات کی ہے جسے اسرائیلی میڈیا کی جانب سے تعلقات میں ایک خوشگوار پیش رفت قرار دیا گیا ہے۔", "title": "14 برس میں پہلے اسرائیلی رہنما کا دورہ ترکی کیا معنی رکھتا ہے؟", "firstPublished": "2022-03-10T12:36:00.000Z", "id": "ab29a846-c32b-4d99-9b5a-eba73d00b0d8", "article": "ہیزروگ سنہ 2008 کے بعد وہ پہلے اسرائیلی رہنما ہیں جو ترکی کا دورہ کر رہے ہیں۔ اردوغان نے جولائی میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہیزروگ سے چار مرتبہ فون پر بات کی ہے جسے اسرائیلی میڈیا کی جانب سے تعلقات میں ایک خوشگوار پیش رفت قرار دیا گیا ہے۔ اردوغان نے کہا کہ 'میرے نزدیک یہ توانائی سے متعلق تعاون کے دوبارہ آغاز کا ایک اچھا موقع ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ہمیں سنہ 2022 میں دونوں ممالک کی برآمدات کو 10 ارب ڈالر تک لے کر جانا ہے۔ ہمیں توانائی اور توانائی کی سکیورٹی جیسے شعبوں میں تعاون کی ضرورت ہے۔ ترکی کے پاس ایسے منصوبوں کو لاگو کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔' صدر اردوغان کی جانب سے دیے گیے بیان کے بعد بات کرتے ہوئے ہیزروگ نے فلسطین کا نام تو نہیں لیا لیکن یہ ضرور کہا کہ 'ہمیں اس بات پر پہلے ہی اتفاق کرنا ہو گا کہ ہم ہر بات پر اتفاق نہیں کر سکتے۔' بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق اردوغان کے اسرائیل سے تعلقات بہتر بنانے سے متعلق سوال پر نجی چینل 12 کی بین الاقوامی خبروں کی مدیر ارد نیر کا کہنا تھا کہ ترکی کے 'اتحادی اس سے دور ہو رہے ہیں' اور اس کے مصر اور امریکہ کے ساتھ 'مشکلات کا شکار تعلقات' ہیں، خاص طور پر جب سے امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنا دفتر سنبھالا ہے۔ نیر کے مطابق ترکی کا خیال ہے کہ 'واشنگٹن جانے کا راستہ یروشلم سے ہو کر گزرتا ہے۔' اسرائیلی اخبار ہارٹز نے اپنے اداریے میں لکھا کہ اردوغان نے اسرائیل سے ایک ایسے موقع پر تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے جب ترکی ایک بدترین مالی بحران کا شکار ہے اور وہ خطے میں دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں جن میں مصر سمیت دیگر خلیجی ممالک بھی شامل ہیں۔ ان مذاکرات کے باعث جو بارہا تعطل کا شکار رہے مارچ 2013 میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو نے اس وقت کے وزیرِ اعظم اردوغان کو فون کر کے معافی مانگی۔ پھر جولائی 2016 میں دونوں ممالک نے غزہ کے لیے امداد فراہم کرنے پر اتفاق کیا اور چھ برس بعد دونوں ممالک کے سفیروں نے انقرہ اور تل ابیب میں ذمہ داریاں سنبھالیں۔ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دسمبر سنہ 2017 میں اعلان کیا تھا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اس فیصلے پر بھی ترکی کی جانب سے تنقید سامنے آئی تھی۔ ہیزروگ کے بطور صدر انتخاب کے بعد سے ان کی اور اردوغان کا متعدد مرتبہ فون پر رابطہ ہوا ہے۔ ان میں سے سب سے اہم فون کال نومبر میں کی گئی تھی جب ایک اسرائیلی جوڑے کو مبینہ طور پر جاسوسی کے الزام میں حراست میں لینے کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60655847", "summary": "حکومت پاکستان نے آئندہ بجٹ تک تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا عندیہ دیا تھا تاہم روس اور یوکرین میں بڑھتی کشیدگی کے باعث عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 130 ڈالر فی بیرل کی تجاوز کر گئی ہے جس میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے۔ اس صورتحال میں کیا حکومتی ریلیف پیکج جاری رہ پائے گا؟", "title": "کیا آئندہ بجٹ تک پاکستان میں پیٹرول کی قیمتیں مستحکم رہ پائیں گی؟", "firstPublished": "2022-03-08T06:05:56.000Z", "id": "7f2685a9-e44b-4238-b697-56bcbe339d18", "article": "روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کے شروع ہونے کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان جاری ہے اور عالمی منڈی میں اس کی قیمت 130 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئی ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے جب گذشتہ ہفتے ریلیف پیکج کا اعلان کیا گیا تھا تو اُس وقت تیل کی عالمی منڈی میں قیمت سو ڈالر فی بیرل کے لگ بھگ تھی تاہم گذشتہ چند روز میں اس میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ پاکستان میں جب حکومت کی جانب سے تیل کی قیمتوں کو بجٹ تک منجمد کرنے کا اعلان کیا گیا تو اس وقت تیل کی عالمی قیمتیں سو ڈالر کے لگ بھگ تھیں تاہم سوموار کے روز کاروباری ہفتے کے آغاز پر عالمی قیمتیں 130 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئی ہیں۔ انھوں نے کہا اگر گذشتہ ہفتے کے آخری پانچ روز کو دیکھا جائے تو ڈیزل کی قیمت 22 ڈالر فی بیرل اور پٹرول کی قیمت 18 ڈالر فی بیرل تک بڑھ چکی ہے۔ ’پاکستان میں ماہانہ دو ارب لیٹر پٹرول اور ڈیزل استعمال ہوتا ہے اور اگر تخمینہ لگایا جائے تو عالمی اور مقامی قیمتوں میں چالیس ارب کا فرق ہو گا جو حکومت کو پرائس ڈیفرنشل کلیم (پی ڈی سی) کی صورت میں ادا کرنا پڑ سکتا ہے جب کہ حکومت نے ابتدائی طور پر صرف بیس ارب اس مد میں رکھے ہیں۔‘ انھوں نے کہا ایک سرکاری سمری کے مطابق مارچ کے مہینے میں تیل کی عالمی قیمتوں کا تخمینہ 111 ڈالر فی بیرل رکھا گیا اور اس پر حکومت نے 12 ارب کی سبسڈی دینے کا تخمینہ لگایا، تاہم اب عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 130 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر چکی ہے جس کی وجہ سے سبسڈی کی رقم مزید زیادہ بڑھ جائے گی۔ گذشتہ ایک ماہ سے کوئلے، گیس اور فرنس تیل کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ سے بجلی بنانے کی لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے جسے حکومت فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی صورت میں صارفین سے وصول کرتی ہے تاہم اب حکومت نے ریلیف پیکج کے ذریعے بجلی کے نرخوں کو موجودہ سطح پر منجمد کر دیا ہے یعنی اب بجلی کی زیادہ لاگت کو صارفین سے بجٹ تک وصول نہیں کیا جائے گا۔ تونائی کے شعبے کے ماہر سید اختر علی کے مطابق جس طرح عالمی سطح پر تیل و ایندھن کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اس صورتحال میں امیر ملکوں کے لیے آنے والے دنوں میں مشکل ہو جائے گا تو پاکستان جیسے ملک کے لیے تو حالات اور بھی زیادہ بدتر ہوں گے۔ انھوں نے کہا اس صورتحال میں حکومت کا ریلیف پیکج لوگوں کو کیسے آسانی فراہم کر پائے گا؟"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60634950", "summary": "وزیر اعظم نے 407 ارب روپے کے بلاسود قرضوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ملک کا غریب طبقہ خوشحال ہو گا تاہم ماہرین اسے سیاسی حکمتِ عملی سمجھتے ہیں۔", "title": "کامیاب پاکستان پروگرام: ’مسائل حل کیے بغیر کوئی کاروبار پروان نہیں چڑھ سکتا‘", "firstPublished": "2022-03-06T04:33:55.000Z", "id": "5746fd7a-da45-41fe-bd98-669d11778dd9", "article": "وزیر اعظم عمران خان نے کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت ملک میں 407 ارب روپے مالیت کے بلا سود قرضے دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے ملک کا غریب طبقہ معاشی طور پر خود کفیل ہو گا۔ واضح رہے کہ یہ پروگرام محدود پیمانے پر ملک کے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں جاری ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے تحت ڈھائی ارب روپے کی رقم تقسیم کی جا چکی ہے۔ تاہم اب حکومت کی جانب سے اس پروگرام کو وسیع اور بڑے پیمانے پر شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور اس کی تحت اب بلاسود قرضوں کی رقم 400 ارب سے زائد کر دی گئی ہے۔ کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت 400 ارب سے زائد بلاسود قرض دینے کا اعلان اس وقت کیا گیا ہے جب حکومت نے ملک میں پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی کی ہے۔ وزارت خزانہ کے تحت چلنے والے اس پروگرام پر وزارت کے ترجمان مزمل اسلم نے اس تاثر کو رد کیا کہ اس پروگرام کا مقصد سیاسی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ابھی الیکشن 20 ماہ دور ہیں جبکہ اس پروگرام کا افتتاح نومبر 2021 میں ہو گیا تھا۔‘ واضح رہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف نے حکومت کی جانب سے تعمیراتی شعبے میں دیے جانے والے رعایتی قرضوں پر اعتراض کر رکھا ہے تاہم اب حکومت اس پروگرام کے تحت بینکوں سے قرضے جاری کروائے گی اور اس پر سبسڈی اپنی جیب سے ادا کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں پیلی ٹیکسی سکیم کا اجرا کیا گیا تو پرویز مشرف دور میں غریبوں کو رکشے دینے کی سکیم کا اعلان کیا گیا لیکن ان سکیموں سے معاشرے کے غریب طبقے اوپر نہیں اٹھ سکے۔ انھوں نے بتایا کہ یورپ میں بھی ایسے قرضے فراہم کیے جاتے ہیں لیکن انھوں نے اس کے لیے ایک خاص طریقہ کار اختیار کر رکھا ہے کہ کاروبار کے لیے قرضہ دینے سے پہلے حالات کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور اس کے بعد نگرانی کی جاتی ہے کہ جن مقاصد کے لیے قرضہ دیا گیا ہے کیا وہ واقعی صحیح مقاصد کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس سے مطلوبہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ’پڑوسی ملک انڈیا میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ پاکستان میں اس حکومت کی جانب سے یہ کام اس وقت ہوا ہے جب ملک کا مالی خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اسے اب رعایتی قرضوں پر سبسڈی بھی دینی پڑے گی جس کا مطلب ہے کہ یہ پروگرام ایک سیاسی مقصد بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔‘ راشد مسعود نے بتایا کہ ’حکومت کے تازہ ترین اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ اب تمام اقدامات سیاسی نقطہ نظر سے لیے جا رہے ہیں۔ دنیا میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں یہاں کم ہو گئی ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60629425", "summary": "عالمی بینکاری نظام سوئفٹ سے بے دخلی کے بعد خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اپنی برآمدات کے لیے ادائیگیاں کرنا اب ماسکو کے لیے اتنا آسان نہیں رہے گا۔", "title": "روس پر معاشی پابندیوں کی صورت میں کیا چین پوتن کی مدد کر سکتا ہے؟", "firstPublished": "2022-03-05T10:29:53.000Z", "id": "52e1c90c-944b-4b46-bbe9-d7351818a0c8", "article": "چین کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ روس کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رکھے گا۔ لیکن چند روسی بینکوں کی عالمی بینکاری نظام سوئفٹ، جس کے تحت عالمی طور پر ادائیگیاں ممکن ہوتی ہیں، سے بے دخلی کے بعد خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اپنی برآمدات کے لیے ادائیگیاں کرنا اب ماسکو کے لیے اتنا آسان نہیں رہے گا۔ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک چین اور روس اس کوشش میں بھی مصروف رہے ہیں کہ وہ ادائیگیوں کے لیے کوئی متبادل نظام مرتب کر لیں تاکہ سوئفٹ جیسے مغربی نظام پر انحصار کم ہو جو ڈالر میں سودے بازی کرتا ہے۔ کارنیگی ماسکو سینٹر کی ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چین اور روس کے یہ سسٹم سوئفٹ نظام کا متبادل نہیں بن سکتے۔ دونوں ملکوں کے درمیان توانائی کی زیادہ تر تجارت اب بھی امریکی ڈالر میں ہی ہوتی ہے اگرچہ کہ چینی یوآن کا استعمال اس شعبے میں بھی آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔ گذشتہ ماہ روس کے صدر پوتن نے چین کا دورہ کیا تو دونوں ملکوں کی جانب سے کہا گیا تھا کہ 2024 تک باہمی تجارت کو ڈھائی سو ارب ڈالر تک بڑھا دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ چین روس کی توانائی برآمدات جیسے تیل، گیس، کوئلہ اور زرعی اجناس کی کھپت کی سب سے بڑی منڈی ہے اور یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ حالیہ برسوں میں روس نے چین کو بھیجی جانے والی برآمدات میں ماضی کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ ’میرے خیال میں یہ ناگزیر ہے کہ موجودہ پابندیوں کے نتیجے میں یورپ اور روس کی تجارت کم ہو گی۔ اس بحران نے یورپ کی اس سوچ کو مزید تقویت دی ہے کہ اس کو اپنی ضروریات کے لیے دیگر ذرائع پر بھی غور کرنا ہو گا۔‘ روس کی توانائی کی سب سے زیادہ کھپت اب بھی یورپ میں ہی ہوتی ہے جس کی 40 فیصد گیس اور 26 فیصد تیل کی ضرورت ماسکو پوری کرتا ہے۔ ڈاکٹر ہارڈنگ کے مطابق روس کی چین کو تیل اور گیس کی برآمدات میں گذشتہ پانچ سال سے مسلسل سالانہ بنیاد پر نو فیصد کا اضافہ ہوا رہا ہے۔ ’یہ یقیناً بڑا اضافہ ہے لیکن روس کے تیل کی کھپت اب بھی چین کی نسبت یورپ میں زیادہ ہے۔‘ اب تک یہ بھی واضح نہیں کہ سائبیریا سے گزرنے والی اس پائپ لائن کا آغاز کب ہو گا۔ جلد یا بدیر چین ضرور یہ چاہے گا کہ کوئلے پر بھاری انحصار ختم کرنے اور گرین ہاوس گیسز کم کرنے کے لیے روس سے گیس کی درآمدات میں اضافہ کرے۔ لیکن جس دن روس نے یوکرین پر حملہ کیا، اسی دن چین کے کسٹم حکام نے اعلان کیا کہ روس کی گندم اور مکئی کی درآمد پر عائد تمام پابندیاں ختم کی جا رہی ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60604478", "summary": "حکومت پاکستان کو یہ تجویز دینے والے طاہر محممود کے مطابق انھوں نے یہ تجویز اس لیے دی تاکہ سونا جو ایک ڈیڈ ایسٹ کی صورت میں ملک میں موجود ہے اسے استعمال میں لا کر معاشی سرگرمی کو تقویت دی جائے۔", "title": "آپ کی تجوری میں پڑا سونے کا بسکٹ کیسے پاکستان کی مدد کر سکتا ہے", "firstPublished": "2022-03-04T04:26:02.000Z", "id": "84d29b77-e4e8-4fed-9db6-87461742e0ea", "article": "پاکستان کی وفاقی حکومت کے تحت کام کرنے والی اکنامک ایڈوائزری کونسل میں ملک کے عوام سے سونا لے کر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے ایک تجویز پر گذشتہ دنوں غور کیا گیا۔ پاکستان کے سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس حوالے سے رابطہ کرنے پر بتایا کہ سونا ایک اثاثہ ہے اس لیے اسے ضمانت کے طور پر استعمال کر کے زرمبادلہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں عام لوگوں سے سونا حاصل کر کے اس سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے سلسلے میں آنے والی تجویز کے تحت تجارتی بینک لوگوں سے سونا حاصل کر کے اسے مرکزی بینک کے پاس جمع کروا دیں گے اور مرکزی بینک سونے کے ان ذخائر کا استعمال کر کے زرمبادلہ حاصل کرے گا۔ تجارتی بینک سونے کے مالکان کو ایک سرٹیفکیٹ جاری کریں گے اور اُنھیں اس سونے پر ایک خاص شرح سے منافع ادا کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا جہاں تک حکومت کی جانب سے لوگوں سے سونا لے کر اس کے ذریعے زرمبادلہ حاصل کرنے کا تعلق ہے تو یہ ایک نکتہ گفتگو پر آئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ کسی نے بتایا کہ فلاں ملک میں ایسا ہوا اور انھوں نے اس طرح لوگوں کے پاس سونے کو حاصل کر کے اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھایا۔ حکومت پاکستان کو یہ تجویز دینے والے طاہر محممود جو بیرون ملک مقیم پاکستانی ہیں ان سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ انھوں نے یہ تجویز اس لیے دی تاکہ سونا جو ایک ’ڈیڈ ایسیٹ‘ کی صورت میں ملک میں موجود ہے اسے استعمال میں لا کر معاشی سرگرمی کو تقویت دی جائے۔ انھوں نے سونے کے بدلے زرمبادلہ حاصل کرنے کی اپنی تجویز کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ جب لوگوں سے تجارتی بینک سونا لے کر اسے سٹیٹ بینک کو جمع کروائیں تو لوگوں کو اس سونے کا اونر شپ سرٹیفکیٹ دیا جائے گا اور پھر اس پر ایک خاص شرح منافع یا اس کے بدلے قرضہ بھی لے سکتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سونا کتنی مالیت کا ہے اس کے بارے میں کسیے معلوم ہوگا تو انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں ایک ادارہ مرکنٹائل ایکسچینج کے نام سے موجود ہے جو اس سلسلے میں کام کرے گا۔ لوگوں کے پاس موجود سونے کو لے کر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کا کوئی منصوبہ پاکستان میں کامیاب ہو سکتا ہے اس کے بارے میں ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ اس کی کامیابی پاکستان میں ممکن نظر نہیں آتی کیونکہ پاکستان میں حکومتوں اور لوگوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے اور لوگ اس پر یقین نہیں کریں گے اور اس سلسلے میں سونا جمع نہیں کروائیں گے۔ شاہد محمود نے اس سلسلے میں بتایا کہ کسی ایسے منصوبے کی پاکستان میں کامیابی اس لیے ناممکن ہے کیونکہ لوگوں کے پاس زیادہ تر سونا زیورات کی صورت میں موجود ہوتا ہے جب کہ اس کے لیے سونے کے بسکٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60600516", "summary": "پاکستان میں ٹیکس شعبے کے ماہرین اور معاشی تجزیہ کار اسے تحریک انصاف کی حکومت کی صنعتی شعبے کے لیے ایمنسٹی سکیم قرار دیتے ہیں۔ تاہم وزارت خزانہ کے ترجمان نے اسے ’انڈسٹریلائزیشن پیکج‘ قرار دیا ہے جس سے اس شعبے سرمایہ کاری لائی جاسکتی ہے۔", "title": "حکومت کی نئی ’ایمنسٹی سکیم‘ کیا ملک میں صنعتی ترقی کو فروغ دے پائے گی؟", "firstPublished": "2022-03-03T13:45:53.000Z", "id": "6b3c6fd5-a287-49ae-bcdf-2895d33c9326", "article": "پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک میں صنعتی ترقی کے فروغ کے لیے ایک انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس 2022 جاری کیا ہے جس کے تحت انکم ٹیکس کے قوانین میں ترامیم کی گئی ہیں اور ان کا مقصد ملک میں سرمایہ کاری اور صنعتوں کا فروغ بتایا گیا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس شعبے کے ماہرین اور معاشی تجزیہ کار اسے موجودہ تحریک انصاف کی حکومت کی صنعتی شعبے کے لیے ایمنسٹی سکیم قرار دیتے ہیں جس طرح موجودہ حکومت نے تعمیراتی شعبے کے لیے دو ایمنسٹی سکیمیں متعارف کرائیں تاکہ اس کے ذریعے تعمیراتی شعبے کو فروغ دے کر ملک میں مکانوں کی تعمیر کے ساتھ نوکریاں بھی پیدا کی جا سکیں۔ تاہم وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے اسے کوئی ایمنسٹی سکیم نہیں بلکہ ایک ’انڈسٹریلائزیشن پیکج‘ کہا ہے جس سے اس شعبے سرمایہ کاری لائی جاسکتی ہے۔ صدر پاکستان کی جانب سے انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس پر دستخظ کے بعد جو بیان جاری کیا گیا ہے اس کے مطابق اس آرڈیننس کا مقصد ملک میں سرمایہ کاری اور صنعتوں کا فروغ اور بیمار صنعتی یونٹس کی بحالی ہے۔ ایوان صدر کے پریس ونگ سے جاری بیان کے مطابق آرڈیننس کے تحت نقصان میں جانے والی اور بیمار صنعتوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے پیکیج دیا گیا ہے۔ انجم نثار حکومت کے ساتھ اس ترمیم کے سلسلے میں مشاورتی سلسلے کا حصہ رہے ہیں۔ ان کے مھابق جو اثاثے ظاہر نہیں کیے گئے ہیں انہیں ظاہر کر کے صنعتی شعبے میں استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا اس سکیم کے تحت وہ افراد ہوں گے جنہوں نے پہلے حکومت کی ایمنسٹی اسکیموں سے فائدہ نہیں اٹھایا اور اس جو اثاثے ظاہر کریں گے وہ صنعت کے قیام و فروغ کے لیے استعمال کریں گے۔ موجودہ حکومت کے دور میں یہ تیسری ایمنسٹی سکیم ہے ۔ سابقہ ممبر پالیسی ایف بی آر رحمت اللہ وزیر نے بتایا اگرچہ تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے سے پہلے ایمنسٹی سکیموں کی مخالفت کی تھی تاہم اب تک اس کی تیسری ایمنسٹی اسکیم ہے۔ انھوں نے کہا اگرچہ ایمنسٹی سکیم صحیح طور سے ٹیکس ادا کرنے والوں کے ساتھ زیادتی ہے تاہم یہ ملک سے سرمایے کے فرار کو روکنے کے لیے بھی لازمی ہوتی ہے تاکہ ملک میں موجود سرمائے کو ٹیکس میں چھوٹ اور مراعات اور اس کے ذرائع کے بارے میں نہ پوچھ کر ملک میں ہی رکھا جائے۔ وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے اس سلسلے میں بتایا کہ یہ ایمنسٹی سکیم نہیں بلکہ ایک انڈسٹریلائزیشن پیکج ہے تاکہ سرمایہ کاری کو اس شعبے میں لایا جا سکے۔ تاہم انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان میں ایک بہت بڑی انڈر گراونڈ معیشت ہے اور اس میں موجود سرمائے کو صنعتی شعبے میں لانے کے لیے یہ پیکج ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60528112", "summary": "روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے مغربی ممالک روس پر سخت پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد روسی معیشت کو متاثر کرنا اور اس کی حکومت کو یوکرین میں فوجی کارروائی کی سزا دینا ہے۔", "title": "مغربی ممالک نے اب تک روس پر کون سی پابندیاں عائد کی ہیں اور اس کا کتنا معاشی نقصان ہو رہا ہے؟", "firstPublished": "2022-02-25T14:49:04.000Z", "id": "c2634727-2a5a-44d9-abff-58d841025b00", "article": "روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے مغربی ممالک روس پر سخت پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد روسی معیشت کو متاثر کرنا اور اس کی حکومت کو یوکرین میں فوجی کارروائی کی سزا دینا ہے۔ ان پابندیوں کا اثر ان کمپنیوں پر بھی ہو گا جنھیں روس سےادائیگیاں ہونی ہیں اور اس سے کئی ممالک کو توانائی کی فراہمی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ مغربی ممالک کے اس فیصلے کے بعد روسی کرنسی روبل کی قدر میں 30 فیصد کمی ہو گئی ہے اور روس نے اس رجحان کو روکنے کے لیے شرح سود دگنی کر دی ہے۔ برطانیہ نے کہا ہے کہ تمام روسی بینکوں کے اثاثے منجمند کر دیئے گئے ہیں۔برطانیہ نے روسی کمپنیوں کو برطانوی مارکیٹ سے رقوم اکٹھی کرنے سے بھی روک دیا ہے اور روس شہریوں کی برطانوی اکاونٹس میں رقوم کی منتقلی کی حد مقرر کر دی ہے۔ یورپی یونین نے روس کے بینکنک سیکٹر کے 70 فیصد حصے پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور دیگر ممالک نے روس کو برآمدات پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ان پابندیوں کا اطلاق ایسی برآمدات پر ہو گا جن کا دہرا استعمال ممکن ہے جن میں ہائی ٹیک چیزیں، کیمیکلز اور لیزرز شامل ہیں۔ مغربی ممالک نے روس کے امیر اور طاقتور افراد پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ان افراد میں روسی صدر ولادیمیر پوتن اور وزیر خارجہ سرگئی لوروف شامل ہیں جن کے امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ اور کینیڈا میں تمام اثاثے منجمند کر دیئے گئے ہیں۔ ان افراد کے مغربی ممالک میں سفر کرنے پر بھی عائد کر دی گئی ہے۔ یورپی یونین، امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا نے روسی حکومت اور روسی شہریوں کے اثاثے کا پتہ لگانے کے لیے ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دی ہے۔ برطانیہ نے بھی اپنی فضائی حدود کو روسی جہازوں کے لیے بند کر دیا ہے۔ یورپی یونین روس کے سرکاری نشریاتی اداروں سپٹنک اور رشیا ٹوڈے پر پابندی عائد کرنے والی ہے۔ جرمنی نے روس سے آنے والی پائپ لائن نارڈ سٹریم 2 کی منظوری کے معاملے کو التوا میں ڈال دیا ہے۔ برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا یوکرین پر حملے میں بیلاروس کے کردار کی وجہ سے اس پر بھی پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک روس کی تیل اور گیس برآمدات کو روکنے کے امکانات کا جائزہ لے سکتے ہیں جو روسی معیشت کا پانچواں حصہ ہے اور اس کی برآمدات کا نصف حصہ ہے۔ اگر روس پر یہ پابندی عائد کی گئی تو یہ بہت سخت پابندی ہو گی اور اس سے مغربی ممالک کو بھی نقصان ہو گا جن کا روسی گیس اور تیل پر انحصار ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60430666", "summary": "اولیگارک وہ ارپ پتی روسی شخصیات ہیں جو اقتدار میں شامل لوگوں سے قریب ہوتے ہیں لیکن یوکرین، روس اور مغرب کی لڑائی کے درمیان پھنس گئے ہیں۔", "title": "روسی ’اولیگارک‘: پوتن کے ارب پتی دوستوں نے اتنی دولت کیسے کمائی", "firstPublished": "2022-03-01T07:30:53.000Z", "id": "330bdd82-44fb-4bdb-ac5e-8c5dbf6251aa", "article": "صدر پوتن کی تصویر جو بورس اور ارکادی سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ مغربی میڈیا میں انھیں ’پوتن کے دوست‘ کہا جاتا ہے لیکن اب عام طور پر اس سے مراد وہ انتہائی امیر روسی شخصیات لی جاتی ہیں جو 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اُبھر کر سامنے آئیں۔ موجودہ دور میں اولیگارک وہ انتہائی دولت مند افراد ہیں جو حکومت کے ساتھ مل کر کاروبار کرتے ہیں اور پیسہ کماتے ہیں۔ برطانیہ میں شاید سب سے مشہور اولیگارک چیلسی فٹبال کلب کے مالک اور روسی تاجر رومن ایبرامووچ ہیں جو 14.3 ارب ڈالر کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ یہ دولت انھوں نے سویت یونین کے زوال کے وقت ملنے والے سرکاری اثاثوں کو فروخت کر کے کمائی ہے۔ اپنی رپورٹ میں تنظیم کا کہنا تھا 1990 کی دہائی میں سویت یونین کے زوال کے بعد اور صدر لیوند کچما کی صدارت میں اولیگارک خوب پھلے پھولے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اولیگارکس نے زیادہ تر اثاثے غیر شفاف نجکاری اور افسران کے ساتھ سازباز کر کے حاصل کیے تھے اور اس وقت کے بعد سے اپنے اثاثوں اور کاروبار کو بچانے کے لیے سیاسی نظام پر ان کا کنٹرول جاری ہے۔ اس تنظیم کے ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر وکٹر ایندریو سف نے سنہ 2019 میں ایک تقریب میں کہا تھا کہ ’اولیگارک ایسے لوگوں کا طبقہ ہے جو ایک خاص طریقے سے کاروبار کرتا ہے، ان کا رہن سہن اور اثرورسوخ بھی الگ ہے۔‘ اکثر لوگ روسی اولیگارکس کی بات کیوں کرتے ہیں؟ اس کی ایک وجہ وہ واقعات ہیں بنے جو 1991 میں سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد رونما ہوئے۔ سنہ 1991 میں کرسمس کے روز سابق سویت یونین کے صدر میخائل گورباچیف نے استعفی دے دیا تھا اور اقتدار بورس یلسن کے حوالے کر دیا تھا، جو نئے روس کے صدر بنے۔ اس وقت اگر کوئی صحیح وقت پر صحیح جگہ اور صحیح تعلقات والا انسان تھا تو وہ بڑی بڑی روسی صنعتیں حاصل کر سکتا تھا جو تیل، گیس اور معدنیات جیسے خام مال سے مالا مال تھیں اور دنیا بھر میں اس مال کی زبردست مانگ تھی۔ جب پوتن برسراقتدار آئے تو روسی اولیگارکس کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آ گئی۔ یعنی جو کوئی ان کے سیاسی نظریے کا حامی تھا وہ زیادہ ترقی کر رہا تھا۔ بورس روتن برگ جو بچپن میں پوتن کے ساتھ ایک ہی جوڈو کلب میں ہوا کرتے تھے، اُن کے بارے میں برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایسے روسی تاجر ہیں جن کے پوتن کے ساتھ نزدیکی تعلقات ہیں۔ پوتن کی جانب سے مشرقی یوکرین میں دو علیحدگی پسند خطوں کو تسلیم کیے جانے کے بعد روتن برگ اور ان کے بھائی آرکادے برطانوی پابندیوں کے زد میں آ گئے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60552773", "summary": "روس کے مالیاتی نظام کو جس قسم کی پابندیوں کے ذریعے متاثر کیا جا رہا ہے وہ عام اقتصادی پابندیاں نہیں بلکہ اسے اقتصادی جنگ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔", "title": "دنیا نے روس کے خلاف معاشی جنگ کیوں چھیڑ رکھی ہے؟", "firstPublished": "2022-02-28T15:47:09.000Z", "id": "cccb6d0c-b9b6-4f13-b7fb-782e9702da78", "article": "روس کے مالیاتی نظام کو جس قسم کی پابندیوں کے ذریعے متاثر کیا جا رہا ہے وہ عام اقتصادی پابندیاں نہیں بلکہ اسے اقتصادی جنگ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ جنگ کے مالیاتی تھیئٹر میں بھاری ہتھیاروں کی تعیناتی کی طرح ہے۔ اور اسے پورے روس کو ممکنہ حد تک شدید کساد بازاری کی طرف دھکیلنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روسی بینکوں کو فعال رکھنے کے لیے افراتفری کا عالم ہے۔ یہ اقدامات روس سے یوکرین پر حملے اور بمباری کی فوری قیمت وصول کر سکتے ہیں جس کے تحت اس کے مالی اور سماجی استحکام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اور اس کا اثر روسی عوام اور روسی اشرافیہ کے کسی بھی ایسے فرد پر پڑ سکتا ہے جو کہ اپنے صدر کے اقدامات کے بارے میں شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔ جی 20 ممالک کے گروپ سے تعلق رکھنے والے کسی ایک ملک کے مرکزی بینک کو پہلی بار نشانہ بنایا گیا ہے۔ یورپی کمیشن کے الفاظ میں، روس کے مرکزی بینک پر لگائی جانے والی پابندیوں کا مقصد روسی مالیاتی نظام کا دفاع کرنے کی صلاحیت کو 'مفلوج' کرنا ہے۔ جبکہ وائٹ ہاؤس نے واضح طور پر کہا کہ 'ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ روس اپنے مرکزی بینک کو اپنی کرنسی کو سپورٹ کرنے اور ہماری پابندیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے استعمال نہ کر سکے۔' مرکزی بینکوں کو عام طور پر خودمختارانہ طور پر عمل کرنے کے لیے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ روسی مرکزی بینک کو نشانہ بنایا جانا واضح طور پر روسی ریاست کے 630 ارب ڈالر کے جنگی دفاع کے فنڈ کو بے مصرف کرنے کے لیے ہے۔ حملے کے دن، ان ذخائر کے استعمال نے روبل کو بچانے میں اس وقت مدد کی جب یہ ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ کم سطح پر گر گیا تھا۔ یہ اقدامات شرطیہ طور پر آج کی کرنسی منڈیوں میں روبل کو یک طرفہ نیچے لے جانے کے لیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سوئفٹ میسجنگ سسٹم سے سرفہرست روسی بینکوں کا اخراج بہت حد تک ملکی سطح پر غیر یقینی صورتحال پیدا کرتا ہے۔ روس کے مرکزی بینک کو عوام اور مارکیٹوں کو یقین دلانا پڑا کہ اس کے پاس نظام کے استحکام کو یقینی بنانے کے لیے لامحدود روبل ہیں۔ ایسے میں یہ خطرات بھی ہیں کہ مارکیٹ کی یہ صورتحال روس سے باہر بھی پھیل جائے گی۔ لیکن یہ ایک انوکھا ہتھیار ہے، جسے منفرد صورت حال کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ توانائی کی برآمدات کو رواں دواں رکھتے ہوئے دنیا کی نصف معیشت کی نمائندگی کرنے والے ممالک عالمی معیشت میں دو فیصد کی نمائندگی کرنے والے ایک ملک کے خلاف مالی طاقت کے بہت سے رستوں کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ جوہری ہتھیار بنکروں میں رکھے ہوئے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60526241", "summary": "یورپی یونین، امریکہ اور اتحادیوں نے یوکرین جنگ کے ردعمل کے طور پر روس کے چند بینکوں کو بین الاقوامی ادائیگی کے نظام سوئفٹ سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔", "title": "یوکرین جنگ: سوئفٹ نظام سے بے دخلی، ’روس کی جنگی صلاحیت متاثر ہو گی‘", "firstPublished": "2022-02-26T13:52:12.000Z", "id": "5a6ac1a6-826f-4dce-bc07-29e7a4dc32b5", "article": "یورپی یونین، امریکہ اور اتحادیوں نے یوکرین جنگ کے ردعمل کے طور پر روس کے چند بینکوں کو بین الاقوامی ادائیگی کے نظام سوئفٹ سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ نیٹو ممالک کی جانب سے روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے روزانہ کی بنیاد پر روس کے خلاف اقدامات سامنے آ رہے ہیں جن میں ایک فیصلہ یہ بھی ہے کہ روس کے مرکزی بینک کے اثاثے منجمند کر دیے جائیں تاکہ روس بین الاقوامی مالیاتی ذخائر تک رسائی حاصل نہ کر سکے۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور یورپی یونین کے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ان فیصلوں کا مقصد یہ ہے کہ روس کو بین الاقوامی مالیاتی نظام سے دور کر دیا جائے۔ امریکی اور یورپی بینکوں نے سنہ 1973 میں اس کی بنیاد رکھی اور اس کا ہیڈکوارٹر بیلجیئم میں ہے۔ دنیا کے 200 ممالک کے 11 ہزار بینک اور دوسرے ادارے اس نظام کے ساتھ منسلک ہیں۔ سوئفٹ کو امریکی اور یورپی بینکوں نے مل کر بنایا تھا جو چاہتے تھے کہ کوئی ایک بینک ادائیگیوں کا اپنا نظام وضع کر کے اس پر اجارہ داری قائم نہ کر لے۔ اب اس نیٹ ورک کے ساتھ 2000 بینک اور مالیاتی ادارے جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے جواب میں روس نے کہا تھا کہ اگر اسے سوئفٹ نظام سے علیحدہ کیا گیا تو وہ اسے اپنےخلاف جنگ کا اعلان تصور کرے گا۔ مغربی اتحادی روس کو سوئفٹ نظام سے نکالنے کی دھمکی سے آگے نہیں بڑھے تھے لیکن اس کے بعد روس نے بیرونی دنیا سے لین دین کا اپنا نظام وضع کیا جسے نیشنل پیمنٹ کارڈ سسٹم یا ’میر‘ کا نام دیا گیا۔ لیکن بہت کم ممالک اسے استعمال کرتے ہیں۔ روس کو سوئفٹ نظام سے نکالنے سے ایسی کمپنیوں کو نقصان ہو گا جو روس سے کاروبار کرتی ہیں، خاص طور پر جرمن کمپنیاں۔ جن کمپنیوں کو روس سے رقوم لینی ہیں انھیں ادائیگیوں کے کسی متبادل نظام کو ڈھونڈنا ہو گا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں عالمی بینکاری کے نظام میں افراتفری کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ لیکن روس کی معیشت پر دیرپا اثرات کے بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں۔ روس اپنی ادائیگیوں کو چین جیسے ممالک کے ذریعے کر سکتا ہے جنھوں نے اس پر پابندیاں عائد نہیں کی ہیں۔ چین کے پاس عالمی ادائیگیوں کا اپنا نظام موجود ہے۔ امریکہ کے قانون سازوں کی جانب سے روس کو سوئفٹ نظام سے نکالنے کے مطالبے سامنے آ رہے ہیں لیکن صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ان کی اولین ترجیح دوسری پابندیاں ہیں کیونکہ روس کو سوئفٹ سے نکالنے سے دوسرے ممالک کی معیشتیں متاثر ہو سکتی ہیں۔ روس کو سوئفٹ نظام سے نکالنے کے لیے یورپی ممالک کی حمایت ضروری ہو گی اور کئی یورپی ممالک اپنی معیشت کو نقصان کے ڈر سے اس سے ہچکچا رہے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60395184", "summary": "روسی صدر پوتن کی جانب سے مشرقی یوکرین کے دو خطوں میں اپنی افواج کی تعیناتی کے حکمنامے کے بعد برطانیہ نے پانچ روسی بینکوں اور تین ارب پتی افراد پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔", "title": "روس کے پانچ بینکوں اور تین ارب پتی افراد پر برطانوی پابندیاں: برطانیہ میں روس کی کتنی دولت موجود ہے؟", "firstPublished": "2022-02-16T15:36:19.000Z", "id": "38ef21d2-99ad-48de-9d8f-6b38a84d6307", "article": "یوکرین بحران کے سنگین ہونے کے بعد برطانیہ نے آخر کار پانچ روسی بینکوں اور تین شخصیات پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے کہ صدر پوتن کئی ماہ تک روسی فوج کی جانب سے یوکرین پر حملے کے دعووں کی تردید کرتے رہے لیکن اب انھوں نے اپنے فوجی دستے مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیر کنٹرول دو خطوں میں بھیج دیے ہیں جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان دستوں کا مقصد 'امن قائم رکھنا ہے'۔ برطانوی وزیراعظم نے پانچ بینکوں کے علاوہ تین ارب پتی افراد پر بھی پابندیاں لگائی ہیں جن میں گنیڈی تمشینکو، بورس روٹنبرگ اور ایگور روٹنبرگ شامل ہیں۔ ان افراد کے برطانیہ میں موجود تمام اثاثے منجمد کر دیے جائیں گے اور ان پر برطانیہ آنے پر پابندی لگا دی جائے گی۔ وزیراعظم بورس جانسن کے مطابق تمام برطانوی شہریوں پر پابندی ہوگی کہ وہ ان افراد اور بینکوں سے کسی قسم کا لین دین نہ کریں۔ محققین نے ایسی 700 آف شور کمپنیوں کی نشاندہی کی تھی جو برطانیہ میں پراپرٹی کی مالک تھیں اور ان کو یہ معلوم ہوا کہ ان میں سے پانچ فیصد روسی شہریوں کی ملکیت میں ہیں۔ ایک مثال الیکسی چیپا کی ہے جو ایک روسی سیاستدان اور کاروباری شخصیت ہیں۔ انھوں نے سنہ 2011 میں ایک آف شور کمپنی کے ذریعے ہالینڈ پارک میں 10 کمروں پر محیط ایک بنگلہ خریدا تھا، جسے گذشتہ برس دو کروڑ پچاس لاکھ پاؤنڈ میں بیچا گیا۔ ایک طویل عرصے سے لندن امیر روسیوں کے آباد ہونے کے لیے ایک مقبول شہر رہا ہے۔ برطانیہ کا سرمایہ کاروں کے لیے مخصوص ’گولڈن ویزا‘ جسے ٹیئر ون ویزا سکیم بھی کہتے ہیں، یہاں 20 لاکھ پاؤنڈ یا اس سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والوں کو برطانیہ میں رہائش بھی فراہم کی جاتی ہے اور ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی ملک میں آ کر ان کے ساتھ ٹھہر سکتے ہیں۔ اس ویزا پر آئے افراد بعد میں برطانیہ کی مستقل رہائش کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ ایسا وہ کتنی جلدی کر سکتے ہیں اس کا دارومدار ان کی جانب سے کی گئی سرمایہ کاری کے حجم پر ہوتا ہے۔ برطانیہ کی حکومت نے حالیہ پابندیوں سے پہلے اعلان کیا تھا کہ اگر روس نے یوکرین کے خلاف کارروائی کی تو اس کی جانب سے روس پر موجودہ پابندیوں میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ برطانیہ کے دفترِ خارجہ کا کہنا تھا کہ نئے قوانین کے ذریعے برطانیہ کو ’امریکہ اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر اثاثے منجمد کرنے اور سفری پابندیاں لگانے میں مدد ملے گی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60423827", "summary": "چین کی کیمونسٹ پارٹی اس وقت 'چار اعتمادی' ڈاکٹرائین یعنی راہ عمل، نظریہ، نظام اور چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم کو اپنائے ہوئے ہے۔ تاہم حالیہ ماہ میں چین کے ذرائع ابلاغ میں ’تاریخ پر اعتماد‘ کے موضوع پر تبصرے شائع کیے جا رہے ہیں۔", "title": "چینی میڈیا ’تاریخ پر اعتماد‘ کے بیانیے کی تشہیر کیوں کر رہا ہے؟", "firstPublished": "2022-02-18T00:19:04.000Z", "id": "b493dd21-6878-453c-95e8-0cac9b763dbc", "article": "حالیہ ماہ میں چین کے ذرائع ابلاغ میں ’تاریخ پر اعتماد‘ کے موضوع پر تسلسل کے ساتھ تبصرے شائع کیے جا رہے ہیں جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ حکمران کیمونسٹ پارٹی اس موضوع کی تشہیر کرنا چاہتی ہے۔ چین کی کیمونسٹ پارٹی اس وقت 'چار اعتمادی' ڈاکٹرائین یعنی راہ عمل، نظریہ، نظام اور چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم کو اپنائے ہوئے ہے۔ تائیوان اور ہانگ کانگ کے ذرائع ابلاغ میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید ’تاریخ پر اعتماد‘ کا خیال چین کی کیمونسٹ پارٹی کے اعتمادی ڈاکٹرائین میں ایک نیا اضافہ ہو گا۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ 'تاریخ پر اعتماد' کے خیال کو فروغ صدر شی جن پنگ کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے دیا جا رہا ہے۔ چین کی کیمونسٹ پارٹی تاریخ پر اعتماد کے ڈاکٹرائن کو چین کی ترقی کا ایسا عمل گردانتی ہے جو ناقابل تنسیخ ہے۔ کمیونسٹ پارٹی اپنے ممبران سے کہتی ہے کہ وہ پارٹی کی صلاحیت پر یقین رکھیں کہ وہ ملک کو ترقی کی نئی بلندیوں کی اور ملک کو ایک بار عہد شباب میں لے جانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ حالیہ دنوں میں چین کے ذرائع ابلاغ پر 'تاریخ پر اعتماد' کے نظریے کی ترویج کے حوالے سے سی سی پی پارٹی کے سکول پروفیسر وانگ زوبن نے کہا ہے کہ تاریخ پر اعتماد کا خیال دراصل چار اعتمادی نظریہ کی ایک اور جہت ہے جس پر سوچ و بچار کی ضرورت ہے۔ چین کے ذرائع ابلاغ میں چین کو جدید سوشلسٹ ملک بنانے، کمیونسٹ پارٹی کو نمایاں سیاسی پارٹی بنانے اور حتیٰ کہ تائیوان کے مسئلے کو حل کرنے سے متعلق تبصروں میں بھی ’تاریخ پر اعتماد‘ کے نظریے کو زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ 'تاریخ پر اعتماد' کے نظریے کے فروغ کے ذریعے چین کے حکمران لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ شاندار ہے اور کمیونسٹ پارٹی شی جن پنگ کی قیادت میں عظیم کامیابیاں حاصل کرنے کے اہل ہے۔ شین ہائیزیانگ نے اپنے کالم میں لکھا کہ کمیونسٹ پارٹی عظیم حکمران اور مفکر شی جن پنگ کی قیادت میں تاریخ کے اس موقع پر قومی اور پارٹی کے حالات کو صحیح انداز میں پرکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کیمونسٹ پارٹی کے ترجمان روزنامہ پیپلز ڈیلی میں شائع ہونے والے ایک تبصرے میں کہا گیا ہے کہ کیمونسٹ پارٹی کی سو سالہ تاریخ اسے لوگوں کو متحد کرنے اور نئے منزل اور نئی کامیابیوں حاصل کرنے کا اعتماد فراہم کرتی ہے۔ جس انداز میں 'تاریخ پر اعتماد 'کے خیال کو فروغ دیا جا رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ 'تاریخ پر اعتماد' کے خیال کو سی سی پی کی کانگریس میں پانچ اعتماد ڈاکٹرائن کا حصہ بنا لیا جائے گا جس سے صدر شی جن پنگ کی پارٹی مضبوط ہو جائے گی اور ان کا اقتدار 2022 سے بھی آگے بڑھ سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60392299", "summary": "سڑکوں اور ہائی ویز پر مشتمل مواصلاتی نظام کی تعمیر سے قبل گلگت بلتستان سمیت ملک کے بیشتر شمالی علاقے دنیا بھر سے کٹے ہوئے تھے اور یہاں مقامی افراد کا طرز زندگی صدیوں پرانے طریقوں کے مطابق چلتی تھی۔", "title": "شاہراہِ قراقرم جس کی تعمیر کے دوران ’چند فوجی جوانوں کے ہاتھ کاٹنے پڑے‘", "firstPublished": "2022-02-16T07:15:36.000Z", "id": "b00dcb23-ceb3-413f-9bb2-442285352a75", "article": "سڑکوں اور ہائی ویز پر مشتمل مواصلاتی نظام کی تعمیر سے قبل گلگت بلتستان سمیت ملک کے بیشتر شمالی علاقے دنیا بھر سے کٹے ہوئے تھے اور یہاں مقامی افراد کا طرز زندگی صدیوں پرانے طور طریقوں کے مطابق چلتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’دوسرے دن میں نے جب پوچھا کہ یہ سڑک بننی کہاں ہے تو بتایا گیا کہ چین کی سرحد سے شروع کر کے گلگت لانی ہے۔ میں نے کہا کہ اگر چین سے یہاں لانی ہے تو یہ علاقہ تو دس ہزار فٹ سے بھی زیادہ بلندی پر ہو گا۔ آپ مجھے جگہ کا نام بتائیں تاکہ میں نقشے میں اس علاقے کی بلندی دیکھ سکوں۔ تو انھوں نے مسکرا کر کہا کہ ابھی تم نقشے میں خنجراب ڈھونڈنا۔ بڑی مشکل سے اگلے روز خنجراب ڈھونڈا تو نقشے کے مطابق اس کی اونچائی 16 ہزار پانچ سو فٹ تھی۔‘ ’جما دینے والی سردی، بلندی پر آکسیجن کی کمی اور یہاں سے مرکزی کمانڈ تک رابطوں کا کوئی ذریعہ نہ ہونا سب سے بڑے مسائل تھے۔ ابتدائی دنوں میں ہی ایسے واقعات ہوئے کہ فراسٹ بائٹ کے باعث یہاں تعینات بعض اہلکاروں کے ہاتھ کاٹنے پڑے۔‘ ’پہلے تو وہ خوفزدہ تھے مگر جب ان کو نوکریاں ملیں، پیسے ملنا شروع ہوئے اور ان کی زندگی کا نظام تبدیل ہونا شروع ہوا تو یہ ان کے لیے ایک بہت بڑی تبدیلی تھی۔ اور پھر ان کے حالات بہتر ہوتے گئے۔‘ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہاں بعض مقامات پر چھوٹی، کچی اور موسمی سڑکیں تو موجود تھیں مگر گلگت میں قراقرم ہائی وے کی تعمیر نے یہاں زندگی تبدیل کر دی۔ ’قراقرم ہائی وے بنی تو گلگت کے اردگرد کے علاقے بھی ملک کے دیگر حصوں سے جڑ گئے۔ پھر سیاحت بڑھی، کاروبار پھیلے اور لوگوں نے ترقی کی۔‘ 'لوگوں نے بہت خوشی منائی۔ کئی تو ایسے تھے جنھوں نے کبھی گاڑی دیکھی ہی نہیں تھی، کچھ لوگ کراچی گئے تھے اور وہ گاڑیوں سے مانوس تھے لیکن خاص طور پر خواتین، جن کا کہیں آنا جانا ہی نہیں تھا، ان کے لیے یہاں گاڑیاں آنا ایک عجیب اور انوکھی بات تھی۔‘ ’یہ ہمالیہ اور قراقرم کے سنگم پر بہت بلندی کا علاقہ ہے۔ قرقرام ہائی وے بننے سے اب ایسا لگتا ہے جیسے ایک بند کمرے میں کھڑکی کھل گئی ہو۔ بہت بڑی تبدیلی آئی۔ قراقرم ہائی وے سے ہمارا وسیع دنیا کے ساتھ تعلق قائم ہوا۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60392079", "summary": "پاکستان میں ایک عام صارف کو آج سے ایک لیٹر پیٹرول 159 روپے 86 پیسے میں ملے گا اور ملک میں پیٹرول کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر آ گئی ہے لیکن ان قیمتوں میں اضافے کا عالمی منڈی کی قیمتوں سے کیا تعلق ہے؟", "title": "پیٹرول مزید 12 روپے مہنگا: عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کی کیا صورتحال ہے؟", "firstPublished": "2022-02-16T00:13:56.000Z", "id": "8f029b05-9969-4d14-aed7-9347d8791c9a", "article": "پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے گذشتہ شب پیٹرول کی قیمت میں 12 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد یہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر آ گئی ہے۔ پاکستان میں ایک عام صارف کو آج سے ایک لیٹر پیٹرول 159 روپے 86 پیسے میں ملے گا جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں تقریباً 10 روپے کے اضافے کے بعد ایک لیٹر ڈیزل کی قیمت 144 روپے 62 پیسے سے بڑھ کر اب 154 روپے 15 پیسے کر دی گئی ہے۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی موجودہ قیمتیں 2014 کے بعد بلند ترین سطح پر پہنچی ہیں جس کا براہِ راست اثر پاکستان میں بھی پٹرولیم مصنوعات پر آ رہا ہے۔ زاہد میر نے بتایا کہ پاکستان میں ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں کا تعین عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی عالمی منڈی میں قیمتوں کی بجائے تیار ڈیزل و پٹرول کی قیمتوں پر کیا جاتا ہے۔ زاہد میر کہتے ہیں کہ یہ بات تو صحیح ہے کہ عالمی منڈی میں قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اگر حکومت پاکستان بھی ملک میں قیمت بڑھاتی ہے تو اس کی سمجھ آتی ہے کیونکہ مہنگا ڈیزل و پیٹرول خرید کر اسے سستا نہیں بیچا جا سکتا۔ حکومت کی جانب سے 31 جنوری کو تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری مسترد کی گئی تو حکومت نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے عالمی منڈی میں قیمتوں کے اضافے کو عوام پر منتقل کرنے کی بجائے اس کا بوجھ خود سہا ہے۔ زاہد میر نے اس سلسلے میں کہا کہ حکومتی ٹیکسوں کے علاوہ صارفین کو جس قیمت پر تیل بیچا جاتا ہے اس میں آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ساتھ ڈیلرز کا منافع بھی شامل ہے جو ایک لیٹر پٹرول پربالترتیب 3.68 روپے اور 4.90 ہے۔ عارف حبیب لمٹیڈ میں معاشی امور کی تجزیہ کار ثنا توفیق نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اگر تیل کی قیمتوں کا ملک میں مہنگائی پر اثر کا جائزہ لیا جائے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر بیرونی منڈی میں ایک بیرل میں پانچ ڈالر کا اضافہ ہو تو اس کا براہ راست اثر ملک میں 27 بیسز پوانٹنس کی صورت میں ہوتا ہے یعنی مہنگائی کی شرح 0.27 فیصد بڑھتی ہے جو کہ براہ راست اثر ہے۔ پاکستان میں حکومت کی جانب سے تیل کی قیمتوں میں اضافے کا امکان تو موجود تھا لیکن 12 روپے تک کے ریکارڈ اضافے کے اعلان کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر صارفین نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا شروع کر دیا۔ تیل اور پٹرول کی بڑھتی قیمتیں ایک عام صارف کی جیب پر کتنی مہنگی پڑ رہی ہیں، اس کا اندازہ شیخ حسین کے ٹوئٹر پر اس بیان سے کیا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے لکھا کہ اب سے 'پیٹرول پمپ کی بجائے کسی سونار کی دکان سے پیٹرول لینا پڑے گا۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60375528", "summary": "تقریباً ایک دہائی پر محیط تناؤ کو ختم کرتے ہوئے ترکی کے صدر طیب اردوغان نے متحدہ عرب امارات پہنچے ہیں اور ماہرین کے مطابق اب وقت کے ساتھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ صدر اردوغان نے فیصلہ کیا ہے کہ خطے میں ترکی کے مخالفین کے ساتھ تنازعات کو ختم کر کے ایک نیا راستہ کھولا جائے۔", "title": "ترکی اپنے ’سابقہ حریف‘ یو اے ای سے دوریاں کم کرنے کے لیے کوشاں کیوں ہے؟", "firstPublished": "2022-02-15T02:04:35.000Z", "id": "84620663-c098-4d05-a46f-a752d0be44a2", "article": "تقریباً ایک دہائی پر محیط تناؤ کو ختم کرتے ہوئے ترکی کے صدر طیب اردوغان نے متحدہ عرب امارات پہنچے ہیں اور ماہرین کے مطابق اب وقت کے ساتھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان نے متحدہ عرب امارات کے اپنے طے شدہ دورے سے قبل کہا تھا کہ امن کے اقدامات اور علاقائی تعاون کو آگے بڑھانے کا وقت آ گیا ہے۔ صدر اردوغان کا اس تاریخی دورے پر ابو ظہبی کے ولی عہد محمد بن زید النہیان نے استقبال کیا اور اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے صدر اردوغان نے کہا کہ یہ دورہ ’متحدہ عرب امارات کے ساتھ اگلے پچاس برس کی دوستی اور بھائی چارے کی بنیاد رکھنے میں اہم ثابت ہو گا۔‘ خلیج ٹائمز کے مطابق صدر اردوغان نے اس بات پر زور دیا کہ ترکی اور اماراتی تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں اور ان کا دورۂ ابوظہبی دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور تعلقات میں مزید بہتری کا باعث بنے گا۔ ماضی میں انقرہ ایک سے زیادہ مرتبہ ابوظہبی پر کرد ملیشیا کی حمایت کا الزام بھی عائد کر چکا ہے۔ ترکی نے متحدہ عرب امارات پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ شمالی شام، یونان، قبرص اور اسرائیل کے ساتھ اتحاد بنا کر کرد ملیشیا کو پیسہ اور ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ صدر اردوغان نے، جو اپنے ملک میں اقتصادی بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں اور یہ بحران اگلے برس ہونے والے انتخابات میں ان کے تیسری مرتبہ صدر بننے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، فیصلہ کیا ہے کہ خطے میں ترکی کے مخالفین کے ساتھ تنازعات کو ختم کر کے ایک نیا راستہ کھولا جائے۔ صدر اردوغان کے دفتر نے تصدیق کی تھی کہ اسرائیلی صدر رواں ماہ انقرہ کا دورہ کریں گے۔ صدر اردوغان رواں ماہ کے آخر میں سعودی عرب کا بھی دورہ کرنے والے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ابوظہبی سے ایک بڑی سفارتی تحریک شروع کریں گے اور اس میں دیگر ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ اب جب متحدہ عرب امارات اور ترکی اپنے تنازعات کی تاریخ مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں تو میڈیا میں بیانات میں بھی نرمی آئی ہے اور ان خبروں کی ویب سائٹس سے بھی پابندی ختم کی جا رہی ہے جن پر پہلے رسائی ممنوع تھی۔ متحدہ عرب امارات اور ترکی کے مرکزی بینکوں نے الگ الگ بیانات میں کہا ہے کہ انھوں نے تقریباً پانچ بلین ڈالر کا مشترکہ کرنسی ایکسچینج کا معاہدہ کیا ہے، جو انقرہ کو درپیش اقتصادی مشکلات میں مدد کا ایک ممکنہ ذریعہ فراہم کرے گا۔ ابوظہبی سیکیورٹیز ایکسچینج نے استنبول سٹاک ایکسچینج کے ساتھ شراکت داری کا معاہدہ بھی کیا تھا جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان سٹریٹجک تعاون کو بڑھانا اور متحدہ عرب امارات اور ترکی میں مالیاتی خدمات کے شعبے کو ترقی دینا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-60371266", "summary": "محبت کے اس مہینے یعنی فروری میں عمومی طور پر دکھائی دینے والی ہلچل مٹ گئی ہے۔ پہلے کورونا کی وبا کا خوف اور پھر دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی پابندیوں کے ساتھ ساتھ ہر جگہ رہنے والے لوگ اپنے چاہنے والوں کو کھو دینے کے بعد اس غم سے باہر آنے کی جدوجہد سے گزر رہے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا نوجوانوں نے ویلنٹائنز ڈے پر تحائف خریدنے بند کر دیے ہیں؟", "title": "ویلنٹائن ڈے: کورونا کی وبا نے انڈیا میں محبت کا بازار کیسے بدل دیا؟", "firstPublished": "2022-02-14T02:53:08.000Z", "id": "cccd641c-5a4b-4469-933b-ca924067dcda", "article": "محبت کے اس مہینے یعنی فروری میں عمومی طور پر دکھائی دینے والی ہلچل مٹ گئی ہے۔ پہلے کورونا کی وبا کا خوف اور پھر دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی پابندیوں کے ساتھ ساتھ ہر جگہ رہنے والے لوگ اپنے چاہنے والوں کو کھو دینے کے بعد اس غم سے باہر آنے کی جدوجہد سے گزر رہے ہیں۔ یہ جدوجہد ہم سب کی ہے اور ہمارے اردگرد کے ان لوگوں کی بھی جو محبت کو زندہ رکھنے کا ذریعہ بنتے ہیں، لیکن جو تمام تر کوششوں کے بعد بھی لاک ڈاؤن کے جھٹکے سے نہیں نکل پاتے۔ درحقیقت سڑک کے کنارے پھولوں کو خوبصورت گلدستوں، چھوٹی بیکریوں اور چاکلیٹ اور گفٹ کی شکل دے کر بیچنے والے دکاندار کورونا کی وبا آنے سے پہلے ہی ای کامرس کی دنیا کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے لوگ ہجوم میں جانا پسند نہیں کر رہے اور اس کا براہ راست اثر ان لوگوں پر پڑ رہا ہے جو اپنی دکانیں سجا کر گاہکوں کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا نوجوانوں نے ویلنٹائنز ڈے پر تحائف خریدنے بند کر دیے ہیں؟ بہار کے دربھنگہ ضلع میں رہنے والی 19 سالہ طالبہ نکیتا نکیتا وہاں کے ایک کالج سے انگلش آنرز کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ پچھلے سال انھوں ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اپنے دوست کو آن لائن تحفہ بھیجا گیا کیونکہ وہ خود کہیں اور تھیں۔ 'میں اپنے منگیتر کے لیے کچھ آف لائن خریدوں گی۔ آن لائن ہم صرف چیزیں خرید سکتے ہیں۔ اسے محسوس نہیں کر سکتے۔ اب کون جانتا ہے کہ چیزیں اصل میں کیسی ہوں گی۔ آن لائن رہنے سے بہتر ہے کہ اس دن مزہ کریں، دکان پر جائیں، اور اپنی پسند کی کوئی چیز خرید لیں۔' ویلنٹائن ویک میں فروخت کے حوالے سے ای کامرس ویب سائٹ فلپ کارٹ سے جب سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ کمپنی نے چھوٹے دکانداروں کو فروغ دینے کے لیے گذشتہ سال 'شاپسی' (Shopsy) ے نام سے ایک ایپ شروع کی تھی اور لوگ فلپ کارٹ کی طرح اس ایپ پر بھی خریداری کر سکتے ہیں۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ ویلنٹائنز کے ہفتے میں اب تک ایپ پر ٹریفک ڈیڑھ گنا بڑھ چکی ہے اور اس عرصے میں پھول، انگوٹھیاں، جوڑے، ٹی شرٹس، کھلونے اور فیشن کے لوازمات اس ہفتے میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے آئٹم ہیں۔ ویلنٹائن ڈے ہر سال 14 فروری کو سینٹ ویلنٹائن کے اعزاز میں منایا جاتا ہے لیکن انڈیا میں محبت کے اس تہوار نے 1992 کے آس پاس نوجوانوں کی توجہ حاصل کی۔ ایک اور تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ای کامرس ویب سائٹس پر بھاری رعایت اور مختلف قسم کی مصنوعات حاصل کرنے کی سہولت اور 24 گھنٹے ہوم ڈیلیوری نے قدرے چھوٹے شہروں میں رہنے والے صارفین کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60336049", "summary": "صدر اردوغان کی اقتصادی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ترکی میں عام آدمی کے لیے گھر چلانا دن بہ دن مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے نہ تو طلبا کی تعلیمی ضروریات پوری ہوتی ہیں اور نہ ہی تاجر پیداوار میں استعمال ہونے والی چیزیں خریدنے کے قابل ہو رہے ہیں۔", "title": "ترکی میں معاشی مشکلات اردوغان کے لیے کتنا بڑا مسئلہ بن سکتی ہیں؟", "firstPublished": "2022-02-12T06:03:39.000Z", "id": "b076cc54-2ffe-448d-ab20-0c9e3e92c8ad", "article": "چند ماہ قبل تک ترکی میں جہاں لوگ اپنا تھیلا بھر کر راشن، سبزی اور گوشت لاتے تھے، اب اتنی ہی رقم میں ان کے تھیلے خالی ہوتے ہیں۔ پلیٹوں سے گوشت غائب ہو گیا ہے اور کئی خاندانوں کے لیے گھر چلانا مشکل ہو گیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے سینٹرل بینک سود کی شرح میں اضافہ کرے لیکن تُرکی میں ایسا نہیں ہو رہا کیونکہ صدر رجب طیب اردوغان شرح سود میں اضافے کے خلاف ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مہنگائی کے ساتھ خاندانوں کے لیے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ لوگ سوال کرنے لگے ہیں کہ کیا انھیں پانی گرم کرنے کے لیے گیس یا بجلی استعمال کرنے کے لیے بھی اپنے گھر کے بجٹ میں بھی کٹوتی کرنا پڑے گی۔ لوگ مایوس اور پریشان ہیں اور مزید قرض لے کر اپنی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔‘ اناج، سبزیوں اور گوشت کی پیداوار کے حوالے سے ترکی کا کہنا ہے کہ ترکی اپنی ضروریات کا بیشتر حصہ خود پیدا کرتا ہے لیکن اس کے لیے وہ کھاد جیسی چیزیں درآمد کرتا ہے۔ ان کی پارٹی میں طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے سے بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ بہت سے پرانے رہنما الگ تھلگ ہو گئے ہیں اور ان کی جگہ ان کے حامیوں نے لے لی ہے۔ یہ وہ رہنما ہیں جنھیں اردوغان سے وفاداری کی وجہ سے اہم عہدے ملے۔ ان کی مدد سے اردوغان سیاست کے جمہوری ڈھانچے کو بدل رہے ہیں اور یہاں پارلیمانی نظام کے بجائے مضبوط صدر راج نافذ کر دیا گیا ہے۔‘ گذشتہ ایک سال کے دوران ترک کرنسی لیرا کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 44 فیصد کم ہو گئی ہے۔ معاشی ماہرین کا مشورہ ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کیا جانا چاہیے لیکن اردوغان چاہتے ہیں کہ شرح سود کم رہے۔ یہ اس وقت معیشت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ہے۔ دیکھا جائے تو کم شرح سود اور خرچ کرنے کی آزادی انتخابات کی دوڑ میں اردوغان کے لیے بہت اہم ہے لیکن اس کے علاوہ ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اس سے اپوزیشن کی طاقت کو ختم کرنا آسان ہے۔ گلشین کا کہنا ہے کہ ’ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ایسا لگتا ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں میں پہلی بار اپوزیشن بڑے پیمانے پر اردوغان کے خلاف اتحاد پیدا کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ جیسے جیسے مہنگائی بڑھ رہی ہے، اردوغان کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔ صدر اردوغان کی اقتصادی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ترکی میں عام آدمی کے لیے گھر چلانا دن بہ دن مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے نہ تو طلبا کی تعلیمی ضروریات پوری ہوتی ہیں اور نہ ہی تاجر پیداوار میں استعمال ہونے والی چیزیں خریدنے کے قابل ہو رہے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-60336048", "summary": "انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے ضلع باغپت میں جوتوں کے ایک تاجر اور انکی بیوی نے فیس بک لائیو ویڈیو کے دوران زہر کھا کر خود کشی کرنے کی کوشش کی جس کے بعد تاجر تشویشناک حالت میں ہسپتال میں داخل ہیں جبکہ انکی بیوی نے علاج کے دوران دم توڑ دیا۔", "title": "انڈیا میں جوڑے کی فیس بک لائیو میں خودکشی کی کوشش: ’میری موت کے ذمہ دار مودی ہوں گے‘", "firstPublished": "2022-02-10T15:53:53.000Z", "id": "fadfebf1-a20f-4868-8778-15437caa2990", "article": "راجیو تومڑ نے فیس بک پر لائیو ویڈیو کے دوران خود کشی کی کوشش کی انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے ضلع باغپت میں جوتوں کے ایک تاجر اور انکی بیوی نے فیس بک لائیو ویڈیو کے دوران زہر کھا کر خود کشی کرنے کی کوشش کی جس کے بعد تاجر تشویشناک حالت میں ہسپتال میں داخل ہیں جبکہ انکی بیوی نے علاج کے دوران دم توڑ دیا۔ واقعے کے بعد لوگ انھیں فوراً ہسپتال لے گئے جہاں راجیو کی جان تو بچ گئی اور فی الحال وہ آئی سی یو میں داخل ہیں لیکن ان کی بیوی کو نہیں بچایا جا سکا۔ اس واقعہ کے بارے میں بی بی سی نے باغپت ضلع کے بی جے پی عہدیداروں سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے انتخابات کی مصروفیت کا حوالہ دیتے ہوئے انکار کردیا۔ لائیو ویڈیو کے دوران راجیو تومڑ نے حکومت کی جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کی پالیسیوں پر تنقید کی تھی۔ ان کی بیوی پونم تومڑ روتے ہوئے انھیں منانے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ انکے منہ میں انگلی ڈال کر زہر نکالنے کی کوشش کرتی ہے جس پر تومڑ کہتے ہیں، 'میری موت کے ذمہ دار مودی ہوں گے'۔ لائیو ویڈیو میں راجیو تومڑ کہتے ہیں 'میں یہ نہیں کہتا کہ مودی نے سارے کام خراب کیے ہیں۔ لیکن چھوٹے دکاندار اور کسانوں کے لیے انکا رویہ ٹھیک نہیں ہے۔ میری بیوی اور بچوں کا جو بھی ہوگا، میں اوپر والے میں یقین رکھتا ہوں، مودی کو اوپر والے میں یقین ہو یا نہ ہو'۔ ویڈیو میں ان کی اہلیہ انھیں بچاتے ہوئے نظر آ رہی ہیں لیکن زہر کھاتے ہوئے نہیں دکھائی دیں۔ البتہ راجیو کی اہلیہ پونم کی موت کن حالات میں ہوئی اس کے بارے میں پولیس نے ابھی تک واضح معلومات نہیں دی ہیں۔ علاقے کے ایک رہائشی چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ 'ہم نے ویڈیو دیکھی ہے۔ راجیو نے حالات سے تنگ آکر جان قربان کرنے کی کوشش کی۔ حکومت کو تاجروں اور بے روزگاروں کے بارے میں سوچنا چاہیے، ہم حکومت سے اس خاندان کی دیکھ بھال کے لیے معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘ راجیو کے ایک جاننے والے ستویر سنگھ کا کہنا ہے کہ 'جو کچھ ہوا، راجیو پہلے ہی لائیو میں بتا چکے ہیں۔ حالانکہ انھوں نے خاندان کی مالی مجبوریوں کا کبھی ذکر نہیں کیا۔ فی الحال ہم کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ مالی طور پر پریشان تھے۔‘ ضلع باغپت کی تاجر یونین کے صدر ارون تومڑ کا کہنا ہے کہ 'راجیو نے بار بار کہا ہے کہ وہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی کاروباریوں سے متعلق پالیسیوں سے تنگ آکر اور قرض میں ڈوب کر یہ قدم اٹھا رہا ہوں۔ وہ بار بار یہی کہہ رہے تھے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60329406", "summary": "وزیر اعظم عمران خان نے دس بہترین کارکردگی دکھانے والی وزارتوں میں تعریفی اسناد تقسیم کی ہیں۔ وفاقی وزیر برائے مواصلات مراد سعید پہلے نمبر پر آ گئے۔ فواد چوہدری پہلی دس پوزیشن میں کہیں بھی نہیں۔ انھوں نے وضاحتیں بھی دیں۔ مگر سوشل میڈیا صارفین نے اس تقسیم اسناد کی تقریب کو کچھ اپنے انداز میں ہی دیکھا ہے۔", "title": "’گذشتہ تین برس میں ٹول ٹیکس دگنا ہو گیا ہے اور اس پر پھر انھیں تعریفی سند بھی تھما دی گئی‘", "firstPublished": "2022-02-10T10:00:38.000Z", "id": "e25f2053-60b4-4807-a4c2-053dc7f555d1", "article": "’سزا اور جزا کے بغیر کوئی نظام کامیاب نہیں ہو سکتا، میں وفاقی وزیر مراد سعید کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اُن کی وزارت کارکردگی میں پہلے نمبر پر رہی۔ سب سے نوجوان وزیر اور سب سے بہتر پرفارمنس۔‘ یہ الفاظ وزیراعظم عمران خان کہ ہیں جو انھوں نے دس بہترین وفاقی وزارتوں کی رینکنگ کی تقریب سے اپنے خطاب کے دوران ادا کیے۔ وزیر اعظم کے اس اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر بھی مراد سعید کی کارکردگی پر تبصرے کرنے والوں کا جیسے تانتا بندھ گیا ہو۔ مگر پہلے ایک نظر دوڑاتے ہیں کہ دس وزارتوں پر جنھیں وزیراعظم سے بہترین کارکردگی کا ایوارڈ موصول ہوا ہے۔ ان دس وزارتوں میں وزارت مواصلات پہلے نمبر پر، اسد عمر کی وزارت پلاننگ کا دوسرا نمبر، یہ ریکنگ جاری کرنے والے شہزاد ارباب کی غربت کے خاتمے کی وزارت نے تیسرا، شفقت محمود کی وزارت تعلیم نے چوتھا، شیریں مزاری کی وزارت برائے انسانی حقوق نے پانچواں نمبر حاصل کیا ہے۔ چھٹے، ساتویں اور آٹھویں نمبر پر وزارت صنعت و پیداوار، نیشنل سکیورٹی ڈویژن اور کامرس اور تجارت کی وزارتیں ہیں۔ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے اس رینکنگ کو میعاری قرار دیا ہے مگر پھر بھی سوشل میڈیا پر ان وزارتوں کی کارکردگی کی علیحدہ سے بھی خبر لی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر صارفین یہ سوالات پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ یہ اسناد کن بنیادوں پر دی گئی ہیں، ان کی رپورٹ بھی شیئر کی جائے۔ انیل اقبال نامی صارف نے رینکنگ سے متعلق ایک اہم نقطہ اٹھایا۔ انھوں نے لکھا کہ ’جس ملک میں فنانس اتنی ہی اہم ہے جتنی قومی سالمیت، وہاں وزارتِ خزانہ اور اکنامک ڈویژن کا رینک سب سے بُرا ہے۔ ریلوے کو بھی دیکھ لیں، یہ مکمل طور پر قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے۔‘ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے کیونکہ پہلی دس پوزیشنوں پر آنے والی وزارتوں میں ہی اسناد تقسیم کی گئیں اس لیے جو وزارتیں یہ اسناد لینے میں ناکام رہیں، ان کے وزرا نے اگلی مرتبہ اچھی کاکردگی کی بات کی جن میں فواد چوہدری بھی شامل ہیں۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں کابینہ کی دس وزارتوں کو مبارکباد پیش کی ہے اور ساتھ اس امید کا بھی اظہار کیا کہ وہ اگلی دفعہ اچھی کارکردگی دکھانے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔ صارفین کی بڑی تعداد نے مراد سعید کی کارکردگی کو ہی موضوعِ بحث بنایا تاہم کچھ صارفین کی جانب سے وزارتِ ایوی ایشن کو تیسرا نمبر دینے پر سوالات اٹھائے گا۔ صارف محمد بلال نے بھی شکایت کی کہ مراد سعید کے دور میں گذشتہ تین برس میں ٹول ٹیکسز دگنا ہو گیا ہے اور اس پر پھر انھیں تعریفی سند بھی تھما دی گئی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60308638", "summary": "آئی ایم ایف کی جانب سے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو تعمیراتی شعبے کے لیے رعایتی قرضوں کی سکیم کے خاتمے کے لیے ایسے وقت کہا گیا ہے جب موجودہ حکومت ملک میں تعمیراتی شعبے کو ترقی دینے کے لیے کوشاں ہے۔", "title": "آئی ایم ایف کی رعایتی تعمیراتی قرضوں کے خاتمے کی تجویز کم لاگت مکانوں کے منصوبے کو متاثر کر سکتی ہے؟", "firstPublished": "2022-02-09T09:48:49.000Z", "id": "ff83844e-dbcb-415a-ab8d-8ebf42e62280", "article": "آئی ایم ایف کی جانب سے یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب موجودہ حکومت ملک میں تعمیراتی شعبے کو ترقی دینے کے لیے کوشاں ہے۔ مالیاتی اور تعمیراتی شعبوں کے ماہرین آئی ایم ایف کی جانب سے رعایتی قرضے ختم پر زور دینے کو اس شعبے کے لیے منفی قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ تعمیراتی شعبے کے لیے رعایتی قرضے کی سکیموں کے خاتمے کو آئی ایم ایف کی جانب سے فی الحال لازمی شرط قرار نہیں دیا گیا تاہم انھوں نے اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ مستقبل میں یہ آئی آیم ایف کی لازمی شرائط کا حصہ بن سکتا ہے۔ بی بی سی اردو کے رابطہ کرنے پر سٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئی ایم ایف کے رعایتی قرضوں کے خاتمے پر بات کرنے سے انکار کیا تاہم وزارت خزانہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان قرضوں پر سبسڈی دینے سے ملک کے مالیاتی نظام کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ یہ سبسڈی سٹیٹ بینک کی بجائے حکومتِ پاکستان برداشت کر رہی ہے۔ پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر قرضے کے پروگرام کے سلسلے میں ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے کی منظوری کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب ایک سٹاف رپورٹ بھی جاری کی گئی ہے جس میں دوسرے امور کے ساتھ سٹیٹ بینک سے کہا گیا ہے کہ وہ تعمیراتی شعبے میں اپنی رعایتی قرضوں کی سکیموں کو بند کرے۔ وزارت خزانہ کے ترجمان نے مزید بتایا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے سٹیٹ بینک سے تعمیراتی شعبے کے لیے رعایتی قرضوں کو ختم کرنے پر جو اصرار کیا گیا ہے وہ ان قرضوں کے خاتمے کی بات نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ادارہ چاہتا ہے کہ یہ سٹیٹ بینک کی بجائے ایک الگ سے قائم ڈویلپنگ فنانشنل انسٹیوٹیشن (ایف ڈی آئی) کرے جس کے لیے بین الاقوامی ادارے نے کہا کہ اس پر کام کیا جائے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے سٹیٹ بینک کو تعمیراتی شعبے کے لیے رعایتی قرضے ختم کرنے کے اصرار پر جب مزمل اسلم سے پوچھا گیا کیا یہ آئی ایم ایف کی جانب سے کوئی شرط ہے تو انھوں نے بتایا کہ یہ کوئی پیشگی شرط نہیں ہے کہ جسے پورا کرنا لازمی ہوتا ہے بلکہ یہ ایک تجویز ہے۔ شیخانی نے آئی ایم ایف کے اس مشاہدے کو مسترد کیا کہ مرکزی بینک کی جانب سے رعایتی قرضوں کی سکیم کی وجہ سے مالیاتی نظام کو کوئی خطرہ لاحق ہے جس کی وجہ قرض لینے والوں کی جانب سے اس کی واپسی سے پر نادہندہ ہونا ہے۔ انھوں نے کہا اگر اس شعبے میں دیکھا جائے تو قرض ادائیگی کا تناسب نوے فیصد سے زائد ہے جس کی ایک وجہ یہی ہے کہ قرض لینے والا قسطوں کی ادائیگی کے بعد ایک اثاثے کا مالک بن جاتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-60240049", "summary": "انڈین حکومت کی جانب سے کرپٹو کرنسی کے لین دین پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے جس کے بعد ماہرین اسے ملک میں کرپٹو تجارت کو قانونی درجہ دینے کی سمت میں پہلے قدم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ کیا پاکستان انڈیا کے اس اقدام سے کوئی سبق سیکھ سکتا ہے؟", "title": "انڈیا میں کرپٹو کرنسی پر ٹیکس کا نفاذ، کیا پاکستان اس اقدام سے کچھ سیکھ سکتا ہے؟", "firstPublished": "2022-02-07T05:23:04.000Z", "id": "cbeb7ac7-2396-4434-830e-0be5638f60fc", "article": "کرپٹو کرنسی کا لین دین انڈیا اور پاکستان دونوں میں کافی مقبول ہے۔ پاکستان میں ایک طرف کرپٹو کرنسی پر مکمل پابندی کی بات کی جا رہی ہے جبکہ دوسری جانب انڈیا نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا ہے کہ کرپٹو کرنسی جیسے ڈیجیٹل اثاثہ جات کے لین دین پر 30 فیصد ٹیکس لگایا جائے گا۔ اس اعلان کو انڈیا میں کرپٹو کرنسی کو قانونی درجہ دینے کی سمت میں پہلے قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تو کیا پاکستان انڈیا کے اس اقدام سے کوئی سبق سیکھ سکتا ہے اور کیا انڈیا جیسے اقدامات کرنا پاکستان کے مفاد میں ہو گا؟ اس سوال کا جواب جاننے سے قبل پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ انڈیا نے اس ضمن میں کیا تازہ اقدامات کیے ہیں اور پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے موجودہ صورتحال اور پالیسی کیا ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ کرپٹو کرنسی پر ٹیکس کے اعلان کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت نے اسے قانونی قرار دے دیا ہے بلکہ یہ اس سمت میں پہلا قدم ہے۔ لیکن لوگ یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ ٹیکس کے اعلان کے بعد انڈیا میں کرپٹوکرنسی کا راستہ صاف ہو گیا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ‘اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ پیشگوئی کر رہے ہیں کہ یہ کرپٹو کو قانونی بنانے کی سمت میں پہلا قدم ہے۔‘ لیکن اس میں مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے ہر منتقلی پر 30 فیصد کا ٹیکس عائد کیا ہے نہ کہ ہر فروخت پر، جس سے اسے ٹریس کرنا آسان ہو گا۔ کھرانہ کہتے ہیں کہ ’حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر منتقلی فروخت ہی ہوتی ہے لیکن اس اعلان کے بعد شاید اگر مجھے اپنے ہی ایک والیٹ سے دوسرے والیٹ میں منتقلی کرنی ہو تو اب میں شاید ایسا نہیں کروں گا۔‘ پاکستان میں حکام کی جانب سے کرپٹو کرنسی کے حوالے سے جو رپورٹ سندھ ہائی کورٹ میں جمع کروائی گئی تھی، اس میں کہا گیا تھا کہ اس میں فراڈ کے خطرے کی وجہ سے اس پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ‘ابھی آپ کو فکر یہی ہے کہ کرپٹو کے لیے ڈالر خریدنا پڑتا ہے اور ڈالر ملک سے باہر جاتے ہیں۔ اگر آپ کا اپنا ایک مستحکم ڈیجیٹل کوائن ہو جس کی قیمت پاکستانی روپے کہ ساتھ منسلک ہو تو آپ یہ کر سکتے ہیں کہ جو پاکستانی شہری کرپٹو کرنسی کا لین دن کرنا چاہیے ہیں وہ یہ کوائن خریدیں اور پھر آگے اس سے دوسری کرنسی خریدیں۔۔۔ (اور) پاکستانی روپے کے کوائن میں تبدیل کر کے پیسے حاصل کیے جا سکیں۔‘ سید عون کا کہنا تھا کہ ایک اور سبق جو پاکستانی حکومت کو انڈیا سے سیکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ٹیکس لگانے سے آپ صرف کرپٹو کرنسی کی تجارت کو قانونی حیثیت دے رہے ہیں، بطور کرنسی اس کے استعمال کو نہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60262381", "summary": "ماہرین کا کہنا ہے کہ معاملات اب خاصے مختلف ہیں اور اس کی بنیادی وجہ اس حقیقت پسندانہ سوچ کا فقدان ہے جو ان منصوبوں کی شروعات میں حکومتی حلقوں میں نہیں دیکھا گیا تھا۔", "title": "کیا پاکستان کے لیے سی پیک آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا معاہدے کے آغاز میں تھا؟", "firstPublished": "2022-02-05T09:08:47.000Z", "id": "d81583b1-ec47-4117-ad21-c4f2a0789325", "article": "ان تمام بیانات سے ایک بار پھر یہ تاثر مل رہا ہے کہ جیسے سی پیک کے تحت منظور شدہ منصوبے اب بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے شروعات میں تھے اور ان پر کام اسی طرح چل رہا ہے جیسے پہلے چل رہا تھا۔ تاہم زمینی حقائق ہمیں اس منصوبے کے بارے میں کیا بتاتے ہیں اور ان منصوبوں کے تحت کتنا کام ہو چکا ہے اور اب کتنا باقی ہے؟ کیا پاکستان کے لیے ان منصوبوں کی آج بھی اتنی ہی اہمیت ہے جتنا کہ اس معاہدے کے طے پانے کے وقت تھی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ معاملات اب خاصے مختلف ہیں اور اس کی بنیادی وجہ اس حقیقت پسندانہ سوچ کا فقدان تھا جو ان منصوبوں کی شروعات میں حکومتی حلقوں میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جن کا اثر سی پیک کے تحت منصوبوں پر براہِ راست پڑ رہا ہے۔ اس دوران سی پیک کے بارے میں ’گیم چینجر‘، ’فیٹ چینجر‘ جیسے الفاظ کئی بار استعمال کیے گئے لیکن اس کے بارے میں سرگودھا یونیورسٹی میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف چائنا سٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فضل الرحمان نے کہا کہ ’سی پیک کو بہت سیاسی بنا دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں اس سے کئی زیادہ امیدیں کی جا رہی ہیں اور منصوبوں میں تاخیر کے باعث کہا جاتا ہے کہ سی پیک اس طرح کار آمد ثابت نہیں ہو پا رہا جتنا سوچا تھا۔‘ ان کے مطابق اس کے علاوہ تھر کوئلے کے منصوبہ جس رفتار سے پہلے چل رہے تھے اب بھی ویسے ہی چل رہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب توانائی کے شعبے میں قرض کی شرح محدود کرنے کے لیے ان منصوبوں کو روکا جا رہا ہے یا اس رفتار کے ساتھ عمل میں نہیں لایا جا رہا جیسا کہ حکومتی دعوے کیے جا رہے تھے۔ ’نئے حکومتی حلقوں میں تاثر یہی تھا کہ پاکستان کا رجحان چین کی طرف بہت زیادہ ہے جسے بیلنس کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے پہلے ترقیاتی اور معاشی کاموں کے حل کے لیے پاکستان کا رجحان امریکہ اور یورپ کی طرف رہا ہے۔‘ چین کی طرف پاکستان کے اس جھکاؤ کو ’بیلنس‘ کرنے کے لیے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو وزیرِ اعظم عمران خان نے دعوت دے کر پاکستان بلایا تاہم حکومتی ترجمان کے مطابق پاکستان کو جلد احساس ہو گیا کہ چین ترقیاتی منصوبوں کے لیے سیاسی شرط نہیں رکھتا۔ یعنی انسانی حقوق کی پامالی کو روکنے، ملک میں مختلف مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی بات نہیں کرتا۔ حکومتی ترجمان نے کہا کہ ان دو سال میں حکومت کو اندازہ ہوا کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے چین اور مالیاتی فنڈ کے لیے آئی ایم ایف بہتر ہیں۔ تاہم اس وقت سوال ان دونوں آپشن کو ساتھ لے کر چلنے کا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60239899", "summary": "ٹیکس ماہرین اور معاشی امور کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف جب اصلاحات کی بات کرے تو اس کا مطلب ٹیکس میں اضافہ اور چھوٹ کا خاتمہ ہوتا ہے تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب صرف مختلف شعبوں کو حاصل ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ ہے۔", "title": "آئی ایم ایف کا پرسنل ٹیکس میں اضافے پر زور، کیا تنخواہ دار طبقے کو اضافی ٹیکس دینا پڑے گا؟", "firstPublished": "2022-02-04T03:49:20.000Z", "id": "f6e7262c-d5c3-4194-9c6f-51d0d07f8ec7", "article": "حکومت کی جانب سے اس بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کا مصداق تنخواہ دار طبقہ نہیں بلکہ بہت سارے شعبوں میں انکم ٹیکس کی چھوٹ ہے جسے ختم کرنے کی بات کی گئی ہے اور آئی ایم ایف اس انکم ٹیکس چھوٹ خاتمہ چاہتا ہے۔ تاہم پاکستان میں ٹیکس امور کے ماہرین اور اس شعبے پر رپورٹنگ کرنے والے افراد کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے پرسنل انکم ٹیکس میں اصلاحات سے مراد تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں اضافہ ہے جس کا آئی ایم ایف پہلے بھی مطالبہ کر چکا ہے اور اگلے نظر ثانی جائزے میں وہ اس پر عمل درآمد کو ممکن بنانے کی کوشش کرے گا۔ آئی ایم ایف نے امکان ظاہر کیا ہے کہ ملک کی معاشی ترقی موجودہ سال میں چار فیصد تک بڑھ سکتی ہے تاہم اس کے ساتھ ملک میں رواں سال مہنگائی میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پرسنل انکم ٹیکس بشمول تنخواہ دار پر ٹیکس میں اضافے کو ضروری قرار دینے پر وزیر خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے مجھے بتایا کہ تنخواہ دار طبقہ پہلے ہی سب سے اوپر کی سطح پر ٹیکس دینے والا طبقہ ہے اور اس پر ٹیکس کی بلند شرح یعنی 35 فیصد تک ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پرسنل انکم ٹیکس میں اصلاحات کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ پرسنل انکم ٹیکس پر بات کرتے ہوئے ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس سے مراد تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی شرح کو بڑھانا ہے۔ آئی ایم ایف کے اعلامیے میں پرسنل انکم ٹیکس میں اصلاحات پر بات کرتے ہوئے معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ آئی ایم ایف جہاں جہاں اصلاحات کی بات کرتا ہے اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ٹیکس بڑھانا ہے یا گیس و بجلی کے نرخ بڑھانا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کو تسلسل سے کور کرنے والے دی نیوز کے صحافی سید مہتاب حیدر نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ جو آئی ایم ایف کے اعلامیے میں کہا گیا ہے اس سے مراد یہی ہے کہ انکم ٹیکس کی چھوٹ کو ختم کرنا ہے اور پرسنل ٹیکس کی شرح اور اس کی مختلف سطحوں پر تبدیلی لانا ہے۔ مہتاب نے کہا کہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کا اگلا نظر ثانی جائزہ اپریل میں ہے اور اس کے تحت اگر حکومت تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھائے گی تو اسے یہ کام بجٹ میں کرنا پڑے گا۔ تاہم ان کے خیال میں یہ حکومت شاید ایسا نہ کرے کیونکہ اس سال جون میں پیش ہونے والا بجٹ اس حکومت کا حقیقی معنوں میں آخری بجٹ ہوگا کیونکہ اگلے سال پیش ہونے والے بجٹ کے بعد اس حکومت کو تحلیل ہو جانا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60188228", "summary": "نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں اس سکیم کے تحت قرضے فراہم کرنے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ قرضے دو مہینوں کے ہدف کے مقابلے میں صرف ڈھائی فیصد تک فراہم کیے گئے ہیں۔ تاہم حکومت نے اس سکیم کے بارے میں فقط دو تین مہینوں میں کامیابی اور اس سے مطلوبہ نتائج نکلنے کی توقعات کو مسترد کیا ہے کیونکہ سکیم تین سال پر محیط ہے۔", "title": "لوگ حکومت کے سستے قرضے لے نہیں رہے یا لے پا نہیں رہے؟", "firstPublished": "2022-01-30T12:19:58.000Z", "id": "492ce650-d095-4c91-a319-763016c58017", "article": "افتخار رسول ایک سافٹ وئیر ڈویپلر ہیں اور محدود پیمانے پر سافٹ وئیر ڈویلمپنٹ کا کام کرتے ہیں۔ افتخٓار اپنے کام کو بڑھانا چاہتے ہیں جس کے لیے انھیں سرمائے کی ضرورت ہے۔ یہ سرمایہ انھیں حکومت کی جانب سے بلا سود قرضے کی صورت میں مل سکتا ہے اور وہ یہ قرض حاصل کرنے کے خواہش مند بھی ہیں تاہم افتخار رسول نے ابھی تک اس قرضے کے لیے درخواست نہیں دی۔ تاہم نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں اس سکیم کے تحت قرضے فراہم کرنے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ دو مہینوں کے ہدف کے مقابلے میں صرف ڈھائی فیصد تک فراہم کیے گئے ہیں۔ اس سکیم کے تحت پانچ لاکھ تک کا قرض بلا سود فراہم کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے اس سکیم کے بارے میں فقط دو تین مہینوں میں کامیابی اور اس سے مطلوبہ نتائج نکلنے کی توقعات کو مسترد کیا گیا ہے کیونکہ سکیم تین سال پر محیط ہے اور تین سالوں کے اختتام پر اس کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں کوئی حتمی رائے دی جا سکتی ہے۔ وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر دستیاب کامیاب پاکستان پروگرام کے آپریشنل فریم ورک کے مطابق یہ موجودہ حکومت کا فلیگ شپ منصوبہ ہے جس سے معاشرے کے غریب طبقات کو مالی طور پر خود مختار بنانا ہے۔ اس سکیم کے تحت کامیاب کاروبار، کامیاب کسان کٹیگری کے ساتھ مکان خریدنے کی کٹیگری بھی متعارف کرائی گئی ہے۔ کامیاب کاروبار کے لیے تین سال کے لیے پانچ لاکھ روپے اور اسی طرح کامیاب کسان کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ کے زرعی قرضے اور دو لاکھ زرعی آلات خریدنے کے لیے دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسی طرح مکان خریدنے کے لیے 27 لاکھ تک قرض فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا اگر صرف دو مہینوں کے اعداد و شمار کو لیا جائے تو قرض فراہمی حکومت کے اپنے اہداف سے بھی کم ہے۔ شہباز رانا نے بتایا کہ وہ رکاوٹیں جو اس سکیم کے عملد درآمد کے مرحلے میں پیش آرہی ہیں حکومت انھیں دور کرنے میں کامیاب نظر نہیں آتی۔ حکومت کی جانب سے عام غریب افراد کو رعایتی قرضے سے جڑی مشکلات کے بارے میں ایک مقامی بینک کے ڈیجیٹل شعبے میں قرضے کی درخواستوں کے معاملات دیکھنے والے شہاب رضوان نے بتایا کہ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بینکوں کی جانب سے جب حکومتی سکیموں کے تحت قرضے فراہم کیے جاتے ہیں تو اس کے لیے مخصوص بینکنگ پراڈکٹس تیار کی جاتی ہیں جنھیں تیار کرنے میں کچھ عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اسی طرح ان پراڈکٹس کی ہینڈلنگ کے لیے افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے جو بینک فوری طور پر ہائر نہیں کر سکتا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-60166026", "summary": "نوجوان کے غصے اور پرتشدد مظاہروں نے انڈیا میں بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے بحران کی جانب توجہ دلائی ہے۔ بہت سے افراد کا خیال ہے کہ بہار اور ہمسایہ ریاست اتر پردیش میں اس ہفتے ملازمتوں کے امتحانات کے دوران ہونے والے فسادات حکام کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔", "title": "’آپ گریجویٹس کو پکوڑے تلنے کو کیوں کہہ رہے ہیں؟‘", "firstPublished": "2022-01-28T13:10:20.000Z", "id": "3d8bdcc4-44de-4a42-8786-da6ca5631129", "article": "انڈیا کی سب سے پسماندہ ترین ریاستوں میں سے ایک میں حالیہ دنوں میں بے روزگاری اور نوکری کے حصول پر شروع ہونے والے فسادات تین دن تک جاری رہے۔ نوجوان کے غصے اور پرتشدد مظاہروں نے انڈیا میں بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے بحران کی جانب توجہ دلائی ہے۔ بہت سے افراد کا خیال ہے کہ بہار اور ہمسایہ ریاست اتر پردیش میں اس ہفتے ملازمتوں کے امتحانات کے دوران ہونے والے فسادات حکام کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ کام کرنے والی آبادی میں نوکری کے متلاشی افراد کی تعداد میں کمی آئی ہے: 15-24 سال کی عمر کے صرف 27 فیصد لوگ یا تو کام کر رہے ہیں یا نوکری کی تلاش میں ہیں۔ کوئی شخص جتنا زیادہ تعلیم یافتہ ہوگا، اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ وہ بے روزگار رہیں گے اور کم تنخواہ والی اور معمولی ملازمتیں لینے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ انڈیا کی افرادی قوت میں 15 سال اور اس سے زیادہ عمر کی خواتین کی شرح، دنیا میں سب سے کم ہے۔ 18 سے 29 سال کی عمر کے نوجوان بے روزگاری کا شکار ہیں۔ لیبر اکانومسٹ رادھیکا کپور کے مطابق چونکہ زیادہ تر نوجوان سکولوں اور کالجوں میں جاتے ہیں، لہذا پڑھے لکھے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے اور کافی عرصے سے چلا آ رہا ہے۔‘ انڈیا میں نوجوانوں کے لیے کافی تعداد میں ملازمتیں اور بہتر نوکریاں پیدا نہیں ہو رہیں۔ لیبر سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک چوتھائی نوجوان گھر بیٹھے ’بغیر معاوضہ خاندانی کام‘ کر رہے ہیں، یا فیملی کو مدد فراہم کرتے ہیں اور ساتھ امتحانات کی تیاری کرتے ہیں۔ بہار جیسے شہروں میں زراعت میں آنے والے بحران نے بھی بے روزگاری کو بڑھایا ہے۔ قابلِ کاشت زمینیں کم ہوتی جا رہی ہیں جس کے ساتھ کاشتکاری غیر منافع بخش ہوتی جا رہی ہے۔ اپنے بچوں کو پرائیویٹ کوچنگ کے لیے شہروں میں بھیجنے کے لیے کاشتکاروں کے خاندان زمینیں بیچ رہے ہیں اور قرض لے رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کی پہلی نسل پڑھ لکھ رہی ہے، اور اس بے روزگاری والی معیشت میں وہ وائٹ کالر نوکریوں کے خواہشمند ہیں۔ بنا کسی لیڈر اور قیادت کے اس ہفتے ہونے والے ہنگامے یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ انڈیا کی سیاسی جماعتیں کس طرح ملازمتوں کے بحران سے نمٹنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔ بہار کے مشتعل طلبا کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کے احتجاج پر کسی نے توجہ نہیں دی جس کے بعد وہ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ ایمرجنسی کے شروع کے دنوں میں کیے گئے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 18-24 کی عمر کے تقریباً 24 فیصد نوجوان بے روزگار تھے۔ اور اس کے بعد اب سب سے بڑا احتجاج بہار میں ہوا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60100089", "summary": "ملک میں گاڑیوں کے شعبے سے وابستہ افراد اور ماہرین حکومت کی پالیسی میں تسلسل کی کمی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ صرف چھ ماہ میں اگر حکومت کی جانب سے دی جانے والی ٹیکس مراعات کو واپس لینا تھا تو اسے یہ اقدام بجٹ میں نہیں لینا چاہیے تھا۔", "title": "ٹیکس مراعات کے خاتمے سے گاڑیوں کی قیمتوں میں کتنا اضافہ ہوا اور آگے کیا ہوگا؟", "firstPublished": "2022-01-23T05:52:41.000Z", "id": "804d03c1-6089-484f-a0a4-5c9bfa871c4c", "article": "محمد اسامہ بھی ایک نجی کمپنی میں کام کرتے ہیں اور ان کا ارادہ بینک سے قرض لے کر گاڑی خریدنے کا ہے۔ اسامہ نے بتایا کہ فی الحال ان کا گاڑی لینے کا خواب پورا نہیں ہو پا رہا کیونکہ پہلے تو ملک میں شرح سود میں اضافے کر کے بینکوں سے گاڑی لینے کو مہنگا کر دیا گیا ہے اور اب منی بجٹ میں گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے انھوں نے گاڑی خریدنے کا ارادہ ملتوی کر دیا ہے۔ تاہم ملک میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے درآمدی خام مال کی لاگت میں اضافے پر گذشتہ سال کے اختتامی مہینوں میں گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تو اس موجودہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرنے کے لیے منی بجٹ میں جہاں بہت سارے شعبوں میں ٹیکس کی چھوٹ کو ختم کیا گیا تو اس کے ساتھ گاڑیوں پر دی گئی ٹیکس مراعات کو بھی واپس لے لیا گیا۔ ملک میں گاڑیوں کے شعبے سے وابستہ افراد اور ماہرین حکومت کی پالیسی میں تسلسل کی کمی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ صرف چھ ماہ میں اگر حکومت کی جانب سے دی جانے والی ٹیکس مراعات کو واپس لینا تھا تو اسے یہ اقدام بجٹ میں نہیں لینا چاہیے تھا۔ پاکستان میں گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح کو وفاقی بجٹ میں گھٹانے اور منی بجٹ میں دوبارہ اضافے کی وجہ گاڑیوں کی قیمتوں میں جو تھوڑی بہت کمی اور اضافہ ہوا اس کے بارے میں انجینیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے ہیڈ آف پالیسی اور ترجمان عاصم ایاز نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر گاڑیوں کے شعبے کو وفاقی بجٹ میں ٹیکس کے سلسلے میں مراعات دی گئی تھیں تو اسے چھ مہینے میں واپس نہیں لینا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ٹیکس مراعات کی پالیسی کو کچھ عرصہ چلتے رہنا چاہیے تھا تاہم اب حکومت نے ٹیکس میں چھوٹ یا دی گئی کمی کو واپس لیا ہے تو اس کے بارے میں بھی جائزہ لینا چاہیے کہ پاکستان میں آٹو سیکٹر پر ٹیکس کی شرح کتنی ہے اور دنیا میں اس کی شرح کتنی ہے۔ عاصم کا کہنا ہے کہ 'ہمارے ٹارگٹ کے مطابق ملک میں سالانہ پانچ لاکھ گاڑیوں کی پیداوار ہونی چاہیے۔ تاہم چھ مہینے میں گاڑیوں کی پیداوار ڈیڑھ لاکھ تک رہی ہے اور اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو یہ پورے سال میں پیداوار تین لاکھ گاڑیوں تک محدود رہے گی جس کے لیے سوچنا چاہیے کہ کیا ٹیکس کی بلند شرح تو گروتھ میں رکاوٹ تو نہیں ڈال رہی۔' آٹو شعبے کے ماہر مشہود علی خان نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ منی بجٹ میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کی شرح کو بڑھانے کا اثر 2022 کی دوسری اور تیسری سہ ماہی میں نظر آ سکتا ہے کیونکہ گاڑیوں کی بکنگ دو تین ماہ پہلے ہوتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60035343", "summary": "ایک کروڑ نوکریوں سے لے کر معاشی خوشحالی کے جو دعوے تحریکِ انصاف ک رہنماؤں نے کیے تھے، آج تقریباً ساڑھے تین سال بعد ملک میں شرحِ بیروزگاری پر نظر ڈالیں تو صورتحال ان وعدوں سے یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کر ٹاک شوز تک، اکثر لوگ یہی سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ حکومت میں آنے سے قبل نوکریاں دینے اور کاروبار کے مواقع فراہم کرنے کے جو وعدے کیے گئے ان کا کیا بنا؟", "title": "عمران خان کے ’ایک کروڑ نوکریوں‘ کے وعدے کا کیا بنا؟", "firstPublished": "2022-01-23T04:55:36.000Z", "id": "821fd0f9-b439-4a87-99bb-42cf51da417b", "article": "پاکستان کے وزیِراعظم عمران خان نے حکومت میں آنے سے قبل متعدد مرتبہ جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’تحریکِ انصاف کے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان وہ ملک بنے گا جہاں غریب ملکوں سے لوگ نوکریاں ڈھونڈنے آیا کریں گے۔ اور پاکستانی سفارت خانوں کے باہر ویزا لینے والوں کی قطاریں لگی ہوں گی۔‘ ایک کروڑ نوکریوں سے لے کر معاشی خوشحالی کے جو دعوے تحریکِ انصاف ک رہنماؤں نے کیے تھے، آج تقریباً ساڑھے تین سال بعد ملک میں شرحِ بیروزگاری پر نظر ڈالیں تو صورتحال ان وعدوں سے یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ اسی طرح 5 اکتوبر 2021 کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیِر اطلاعات فواد چوہدری کا بھی کچھ ایسا ہی کہنا تھا کہ ’تین سالوں میں بات ایک کروڑ نوکریوں سے بہت آگے جا چکی ہے۔‘ اور انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ تقریباً ساڑھے 16 لاکھ لوگ نوکریوں کے لیے باہر گئے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت تربیت یافتہ افراد کو ملک میں نوکریاں اور روزگار کے مواقع دینے کے برعکس بیرونِ ملک بھجوانے پر زور دیتی اور حکومت میں آنے سے قبل کیے گئے وعدے پورے کرنے میں کچھ خاص کامیابی نہیں حاصل کر پائی ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کر ٹاک شوز تک، اکثر لوگ یہی سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ حکومت میں آنے سے قبل نوکریاں دینے اور کاروبار کے مواقع فراہم کرنے کے جو وعدے کیے گئے ان کا کیا بنا؟ وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے وزیرِ اعظم عمران خان سے کہا تھا کہ ’اگر آپ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جائیں گے تو ایک کروڑ نوکریوں کا جو وعدہ آپ نے قوم سے کیا ہے وہ پورا ہونا تو دور کی بات، جو ابھی نوکری پیشہ ہیں ان کی نوکریاں ہی بچ جائیں تو بڑی بات ہو گی۔‘ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ’ملک کا روزگار معاشی ترقی سے جڑا ہوتا ہے اور اگر ایک طویل عرصے بعد ملکی معیشیت پانچ فیصد کی شرحِ نمو پر بڑھ رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں نوکریاں پیدا ہو رہی ہیں، بے روزگاری میں کمی آ رہی ہے اور غربت کی شرح میں بھی کمی آئی ہے۔‘ فواد چوہدری کی ٹویٹ کے بعد سوشل میڈیا پر کئی افراد نے ان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک میں نوکریاں نہیں ہیں اور مجبوری کی غرض سے بیرونِ ملک جانے والوں کا کریڈٹ بھی حکومت خود لینے کی کوشش کر رہی ہے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60094662", "summary": "کھانے پینے کی اشیا خریدنے سے لے کر ہمارے گھروں کو گرم رکھنے تک، نہ صرف برطانیہ بلکہ دنیا بھر میں زندگی گزارنے کی ہر چیز تیزی سے مہنگی ہو رہی ہے۔", "title": "دنیا بھر میں بڑھتی مہنگائی کی وجوہات کیا ہیں؟", "firstPublished": "2022-01-22T13:09:07.000Z", "id": "d3e12bc4-93de-41dd-8dab-fce3eb8a81d5", "article": "کھانے پینے کی اشیا سے لے کر ہمارے گھروں کو گرم رکھنے کے لیے ایندھن تک، نہ صرف برطانیہ بلکہ دنیا بھر میں زندگی گزارنے کی ہر چیز تیزی سے مہنگی ہو رہی ہے۔ کووڈ کے آغاز پر تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی تھی، لیکن اس کے بعد سے مانگ میں تیزی آئی ہے اور قیمت سات سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، گھروں کو گرم رکھنے کا بل بھی بہت زیادہ آ رہا ہے۔ ایشیا میں بہت سے صنعتکاروں کو کووڈ پابندیوں کی وجہ سے کاروبار بند کرنا پڑا اور اب وہ بڑھتی مانگ کو پورا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں پلاسٹک، کنکریٹ اور سٹیل جیسے مواد کی قلت ہوئی، جس سے قیمتیں بڑھ گئیں۔ 2021 میں برطانیہ میں لکڑی کی قیمت معمول سے 80 فیصد زیادہ ہے اور امریکہ میں یہ قیمت دگنی ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی فضائی ذرائع سے سامان بھیجنے کی فیس میں بھی اضافہ ہوا ہے اور یورپ میں لاری ڈرائیوروں کی کمی نے بھی حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے کمپنیاں ملازمین کو متوجہ کرنے اور نوکری پر برقرار رکھنے کے لیے اجرت بڑھا رہی ہیں یا نوکری جوائن کرنے کے لیے سائن اپ بونس کی پیشکش کرنے پر مجبور ہیں۔ میک ڈانلڈ اور ایمیزون جیسی کمپنیاں 200 سے 1000 ڈالر تک کے ہائرنگ بونس کی پیشکش کر رہی ہیں۔ دنیا کے کئی حصوں میں موسم کی شدت نے بھی افراط زر میں اضافہ کیا ہے۔ خلیج میکسیکو سے گزرنے والے سمندری طوفان آئیڈا اور نکولس سے تیل کی عالمی سپلائی متاثر ہوئی اور امریکہ میں تیل کے بنیادی انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا۔ کافی کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا جس کی وجہ برازیل میں صدی کی تقریباً شدید ترین خشک سالی کے بعد وہاں فصل کی پیداوار میں کمی ہے۔ یاد رہے برازیل دنیا میں کافی برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ زیادہ مہنگی درآمدات بھی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ بریگزٹ کے بعد کے نئے تجارتی قوانین کے باعث سنہ 2021 کی پہلی ششماہی میں یورپی یونین سے برطانیہ درآمدات میں تقریباً ایک چوتھائی تک کمی آئی ہے۔ چینی ٹیلی کام کمپنی ہواوے نے گذشتہ سال کہا تھا کہ 2019 میں امریکہ کی جانب سے کمپنی پر لگائی گئی پابندیاں امریکی سپلائرز اور عالمی صارفین کو متاثر کر رہی ہیں۔ دنیا بھر کی حکومتوں نے وبا کے آغاز میں کاروباروں کو کورونا وائرس کے اثرات سے نمٹنے میں جو مدد اور تعاون فراہم کیا تھا، اسے ختم کیا جا رہا ہے۔ وبائی مرض کے دوران پوری دنیا میں اخراجات اور قرض لینے میں اضافہ ہوا۔ اس کی وجہ سے ٹیکس میں اضافہ ہوا جس نے روزمرہ زندگی کے اخراجات کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، لیکن زیادہ تر لوگوں کی اجرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60091555", "summary": "مجموعی پیداوار کی اچھی شرح نمو اور بہتر فی کس آمدن کے اعداد و شمار کے باوجود کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں عام عوام کی جیب پر اس کا اثر دیکھنے میں نہیں آ رہا۔", "title": "اگر معیشت کی شرح نمو اتنی اچھی ہے، تو اس کا اثر عام لوگوں کی جیب پر کیوں نہیں پڑ رہا؟", "firstPublished": "2022-01-22T04:24:22.000Z", "id": "b08099d3-e5ef-4f41-8f9a-acfa77e7afd8", "article": "تاہم مجموعی پیداوار کی اچھی شرح نمو اور بہتر فی کس آمدن کے اعداد و شمار کے باوجود کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں عام عوام کی جیب پر اس کا اثر دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ اس حوالے سے معاشی ماہرین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ معیشت کی شرح نمو میں اضافے کا فائدہ عام آدمی کو کیوں نہیں ہو رہا، اور بڑھتی مہنگائی کا اس میں کیا کردار ہے؟ ڈاکٹر عاسمہ بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ جی ڈی پی کا تعین کیسے کیا جاتا ہے دراصل یہ بہت اہم ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’معیشت کی شرح نمو کا ایک بڑا حصہ پبلک سیکٹر کی جانب سے کی گئی سرمایہ کاری دکھاتا ہے جن میں روڈ بنانا، ڈیم بنانا وغیرہ شامل ہوتے ہیں، اس میں صرف اشیا اور سروسز کی پیداوار ہی شامل نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں اضافے کا خاطر خواہ اثر عام آدمی پر نہیں پڑتا۔‘ ڈاکٹر دانش کے مطابق جب معیشت کی شرح نمو زیادہ ہوتی ہے تو اس سے مہنگائی میں اضافہ ضرور دیکھنے میں آتا ہے۔ عام طور پر اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب شرح نمو زیادہ ہوتی ہے تو لوگوں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے، اور جب ایسا ہوتا ہے تو ان کی قوتِ خرید بھی بڑھتی ہے اور جب یہ ہوتا ہے، تو اشیا اور سروسز کی ڈیمانڈ بھی بڑھتی ہے اور جب ڈیمانڈ سپلائی کے اعتبار سے زیادہ ہو، تو قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسے ڈیمانڈ پُل انفلیشن، یعنی ڈیمانڈ بڑھنے کے باعث مہنگائی میں اضافہ کہا جاتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ بیروزگاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور لوگوں کی آمدن میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ اس لیے میرے نزدیک موجودہ مہنگائی کو ’ڈیمانڈ پل انفلیشن‘ کی بجائے ’کاسٹ پش انفلیشن‘ کہنا بہتر ہو گا یعنی بزنس قیمتیں بڑھا رہے ہیں، جو ممکنہ طور ان کی جانب سے بنائی گئی اشیا کی پیداوار استعمال ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔‘ ڈاکٹر عاسمہ کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی ایک وجہ لاک ڈاؤن کا خاتمہ اور معیشت کے مکمل طور پر دوبارہ کھلنے کے بعد کھپت میں اضافہ بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اشیا خوردونوش کے علاوہ دیگر اشیا بھی شامل ہیں اور پروڈکشن سیکٹر فی الحال سست کام کر رہا ہے اس لیے ڈیمانڈ میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور قیمتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60079619", "summary": "قزاقستان کے حکام پر الزام ہے کہ امن بحال کرنے کے لیے انھوں نے اپنی طاقت کے استعمال میں تجاوز کیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس دوران 225 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ حکام کے مطابق ان ہنگاموں کے بعد تقریباً 1000 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔", "title": "’اگر تم نے دوبارہ احتجاج کیا، تو ہم تمھیں مار ڈالیں گے‘", "firstPublished": "2022-01-21T12:28:41.000Z", "id": "20aea085-f9fa-4502-b89e-42fbca7c044e", "article": "فوجی لباس میں ملبوس، مسلح آدمیوں نے تمام وارڈ چیک کیے، وہ چیخ رہے تھے کہ وہ شورش (جس میں بہت سے لوگ ہلاک ہوئے) کے دوران زخمی ہونے والے افراد کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ ایصل جو کشیدگی کے دوران گولی لگنے کے بعد قزاقستان کے سب سے بڑے شہر الماتی کے ایک ہسپتال میں زیرِعلاج تھیں، اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں: ان میں ایک چیخا ’اگر تم لوگ احتجاج کرنے کے لیے دوبارہ باہر نکلے تو ہم تمھیں مار ڈالیں گے۔‘ حکام پر الزام ہے کہ امن بحال کرنے کے لیے انھوں نے اپنی طاقت کے استعمال میں تجاوز کیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس دوران 225 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ حکام کے مطابق ان ہنگاموں کے بعد تقریباً 1000 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ مراتبیک ییسنگازی کے وکیل نے بی بی سی کو بتایا کہ دورانِ حراست انھیں مارا پیٹا گیا ہے اور تصاویر میں ان کی ٹانگ پر کئی زخم دیکھے جا سکتے ہیں قزاقستان کے پراسیکیوٹر جنرل نے تقریباً 700 افراد پر فوجداری مقدمات دائر کیے ہیں۔ ان میں سے کچھ افراد پر دہشت گردی، قتل اور حکومت کا تختہ الٹنے جیسے الزامات شامل ہیں۔ حتیٰ کہ فیس بک پر احتجاج کی حمایت میں پوسٹ کرنے والوں کو بھی حراست میں لیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ انھیں مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ الماتی کے مرکزی سکوائر میں ہونے والے مظاہرے میں حصہ لینے والے ایک کارکن، مراتبیک ییسنگازی پر ہنگامہ آرائی میں حصہ لینے کا الزام ہے۔ ان کے وکیل نے بی بی سی کو بتایا کہ دورانِ حراست انھیں مارا پیٹا گیا ہے اور تصاویر میں ان کی ٹانگ پر کئی زخم دیکھے جا سکتے ہیں۔ الماتی پولیس ڈیپارٹمنٹ کے سلطنت عزیر بیک نے بی بی سی کو بتایا کہ جن لوگوں نے ہنگامہ آرائی میں حصہ نہیں لیا انھیں ’پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ حقائق منظرِعام پر آنے کے بعد ان افراد کو رہا کر دیا جائے گا۔ انھیں ایک ٹرک میں ڈال کر ہسپتال تک لیجایا گیا۔ ’مجھے یاد ہے کہ اس ٹرک کے اندر اور بہت سے لوگ موجود تھے۔ میں درد سے کراہ رہی تھی۔ کئی لوگ میری زخمی ٹانگ کے اوپر تھے۔ ان میں سے کچھ کی سانس نہیں چل رہی تھی۔‘ مظاہرے میں شامل سلطلنت خمزینہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں ’ہم آزادی کی یادگار کے قریب تھے۔ لوگوں نے قزاقستان کا جھنڈا اٹھا رکھا تھا۔ سب قطار میں کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھ ہوا میں لہرا کر دکھایا کہ وہ غیر مسلح ہیں۔‘ دوسری جانب قزاقستان کی حکومت نے شورش کا الزام بین الاقوامی روابط رکھنے والے ’دہشت گردوں ‘ پر عائد کیا ہے تاہم اس انھوں نے اس الزام کے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60077496", "summary": "پاکستان میں کرنسی کے تبادلے کے شعبے میں کام کرنے والی ایکسچینج کمپنیوں پر حکومت کی جانب سے ودہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے اور اس کے تحت نوٹسز کے اجرا پر رد عمل میں ایکسچینج کمپنیوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے ملک میں ڈالر کی قیمت 200 روپے کی حد سے تجاوز کر سکتی ہے تاہم معاشی ماہرین اور حکومت ان خدشات کو مسترد کرتے ہیں۔", "title": "کیا پاکستان میں ڈالر کی قیمت 200 روپے تک جا سکتی ہے؟", "firstPublished": "2022-01-21T03:58:11.000Z", "id": "90ff5a07-c23b-4021-bf32-bd71b86f2954", "article": "پاکستان میں کرنسی کے تبادلے کے شعبے میں کام کرنے والی ایکسچینج کمپنیوں پر حکومت کی جانب سے ودہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے اور اس کے تحت نوٹسز کے اجرا پر رد عمل میں ایکسچینج کمپنیوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے ملک میں ڈالر کی قیمت 200 روپے کی حد سے تجاوز کر سکتی ہے تاہم معاشی ماہرین اور حکومت ان خدشات کو مسترد کرتے ہیں۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معطل شدہ پروگرام کی بحالی اور ایک ارب ڈالر کی قسط وصولی کے لیے حکومت نے حال ہی میں منی بجٹ بھی پاس کروایا تھا تاکہ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر وصول کرنے کے بعد دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان کو فنڈنگ جاری ہو سکے جو ملک کی بیرونی ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے گی اور ایکسچینج ریٹ پر اس کا مثبت اثر پڑے گا۔ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ حکومت کی جانب سے ایکسچینج کمپنیوں پر جو 16 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس لگایا گیا ہے یہ اصل میں سنہ 2014 میں نافذ کیا گیا تھا تاہم سنہ 2016 میں اس ٹیکس کو واپس لے لیا گیا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ پچھلے پانچ سال سے یہ ٹیکس نافذ العمل نہیں تھا مگر اب حکومت کی جانب سے اچانک اس کو لاگو کر دیا گیا ہے اور اس کے تحت فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے نوٹسز جاری کیے گئے ہیں جن میں ایک ارب روپے تک اس ٹیکس کے تحت حکومت کو جمع کروانے کا کہا گیا پے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس ٹیکس کے نفاذ اور اس کے تحت نوٹسز پر ایکسچینج کمپنیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ اچانک سے حکومت نے اس ٹیکس کو نافذ کر دیا ہے جو سنہ 2016 میں واپس لے لیا گیا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے یہ تخمینہ لگایا گیا ہے، اس کے تحت 180 روپے کا ڈالر اگر اوپن مارکیٹ میں ہے اور 16 فیصد کے حساب سے وہ صارفین سے ٹیکس وصول کریں گے تو اس کا مجموعی اثر 200 روپے تک پہنچ جاتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ایف بی آر چاہتا ہے کہ پوائنٹ آف سیل کے ذریعے جو بھی ٹرانزیکشن ہے وہ ریکارڈ کا حصہ بنے اور اس پر ٹیکس دیا جائے تاہم ڈالر کی قیمت اس وجہ سے نہیں بڑھ سکتی کیونکہ اوپن مارکیٹ میں بہت تھوڑا کام ہوتا ہے اور ڈالر کی 90 فیصد سے زائد ضرورت انٹر بینک پوری کرتا ہے۔ ایکسچینج کمپنیوں کی تنظیم کے سربراہ ملک بوستان نے کہا کہ جب ٹیکس لگایا جائے گا تو اس کا بوجھ صارفین کو منتقل ہو گا۔ اُنھوں نے کہا کہ 16 فیصد اضافی ٹیکس جب صارفین کو منتقل ہو گا تو اس کا تقریباً 20 روپے اضافی بوجھ صارفین کو ادا کرنا پڑے گا یعنی اس وقت اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 180 روپے کے لگ بھگ ہے تو ٹیکس کے اضافی 20 روپے سے ایک ڈالر 200 روپے میں پڑے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60019787", "summary": "گذشتہ مالی سال میں مجموعی برآمدات میں اضافہ اٹھارہ فیصد تھا اور اس میں صرف امریکہ کو ہونے والی برآمدات میں 17 فیصد اضافہ دیکھا گیا جو کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں پاکستانی برآمدات میں سب سے بڑا اضافہ تھا۔ مگر اس کی وجوہات کیا ہیں؟", "title": "امریکی منڈی تک رسائی کی دوڑ میں پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش سے آگے کیسے نکلا؟", "firstPublished": "2022-01-20T08:37:36.000Z", "id": "9936de88-15e8-4dcb-914f-3f664cdfc878", "article": "’میری فیکٹری میں تیار ہونے والی ٹیکسٹائل مصنوعات کی امریکہ کو برآمد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر اس مالی سال کے پہلے چھ ماہ کی برآمدات کو دیکھا جائے تو یہ اضافہ 50 فیصد کے لگ بھگ ہے۔‘ ایک ٹیکسٹائل مل کے مالک یاسین صدیق نے بتایا کہ اُن کے کارخانے میں تیار ہونے والا یارن امریکہ برآمد کیا جاتا ہے اور اگر اس مالی سال کے پہلے چھ مہینوں کو لیا جائے تو ان کی مل سے امریکہ برآمد کیے جانے والے یارن کی ایکسپورٹ میں تقریباً 25 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ جاوید بلوانی اور یاسین صدیق کی امریکہ کو بھیجی جانے والی برآمدات میں اضافے کا مجموعی اثر پاکستان کی امریکہ کی جانب برآمدات میں بھی دیکھنے میں آیا جو پاکستان کی ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ٹڈاپ) کے مطابق نمایاں اضافے کے ساتھ بلند سطح کی جانب گامزن ہیں۔ یاد رہے کہ امریکہ کو پاکستان سے برآمد کی جانے والی مصنوعات میں اضافے کے ساتھ پاکستان کی مجموعی برآمدات میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے اور رواں مالی سال کے پہلے چھ مہینے میں 15 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کی گئی ہیں۔ انڈیا کی ’ٹیکسٹائل ایکسیلینس‘ ویب سائٹ کے مطابق 21-2020 میں انڈین ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میںں نو فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق انڈیا کی ٹیکسٹائل برآمدات کی سب سے بڑی مارکیٹ امریکہ تھی تاہم زیر جائزہ سال میں انڈیا سے امریکہ کو ٹیکسٹائل کی برآمدات میں مجموعی طور پر تین فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے جن میں اپیرل کے شعبے میں امریکہ کو کی جانے والی برآمدات میں 29 فیصد اور خواتین کے ملبوسات کی برآمدات میں 26 فیصد اور اسی طرح نٹ وئیر میں بھی کمی دیکھی گئی۔ گذشتہ مالی سال میں مجموعی برآمدات میں اضافہ 18 فیصد تھا اور اس میں صرف امریکہ کو برآمدات میں 17 فیصد اضافہ دیکھا گیا جو کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں پاکستانی برآمدات میں سب سے بڑا اضافہ تھا۔ یہ اضافہ موجودہ مالی سال میں بھی جاری ہے اور اس سال کے پہلے چھ ماہ میں امریکہ جانے والی برآمدات میں اضافہ 40 فیصد سے زائد ہے۔ یاسین صدیق کہتے ہیں کہ سنکیانگ صوبے میں چین کی ٹیکسٹائل صنعت کا ایک بڑا حصہ کام کر رہا ہے اور اس کے ساتھ یہ چین کے کپاس پیدا کرنے والے بڑے خطوں میں شامل ہے۔ امریکہ کی جانب سے اس خطے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ بچوں سے مزدوری کروانے پر بھی تحفظات ہیں اور وہ اس خطے سے تعلق رکھنے والی چینی مصنوعات کو کم کرنا چاہتا ہے۔ ان مصنوعات میں بڑا حصہ ٹیکسٹائل کا ہے اور ان پر امریکہ کی جانب سے مختلف پابندیوں نے پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کو بہت فائدہ دیا ہے جس کے باعث پاکستان کی امریکہ جانے والی برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-60020353", "summary": "حکام کے مطابق جنوبی ایشیا میں اپنی نوعیت کے اس پہلے منصوبے کو مکمل ہونے میں تقریباً 25 برس لگیں گے اور تقریباً 80 ہزار افراد اس نئے شہر میں رہیں گے جہاں کاروبار کرنے والے افراد کو ٹیکس میں خاص چھوٹ دی جائے گی جبکہ تمام تر لین دین امریکی ڈالر میں ہو گا۔ مگر ناقدین کو اس پر تشویش کیوں ہے؟", "title": "کولمبو پورٹ سٹی منصوبہ: ایک نیا دبئی یا ایشیا میں چین کی نئی ’چوکی‘؟", "firstPublished": "2022-01-18T07:43:40.000Z", "id": "11a85559-5575-4f21-b21e-ddac3364e23e", "article": "کولمبو کے کاروباری ڈسٹرکٹ سے قریب ہی ساحل سمندر پر ایک ’ٹیکنالوجی کا شہکار‘ شہر بن رہا ہے۔ ریت کے ذریعے بننے والے اس ساحلی شہر میں ایک آف شور بین الاقوامی مالیاتی مرکز، رہائشی علاقے اور ایک مرینہ بھی ہو گا اور اسی لیے کولمبو پورٹ سٹی کا موازنہ دبئی، ہانگ کانگ اور موناکو جیسے شہروں سے کیا جا رہا ہے۔ کولمبو پورٹ سٹی کے اکنامک کمیشن کے ممبر سالیا وکراماسوریا کے مطابق ساحل پر اس نئے شہر کی تعمیر سے ’سری لنکا کو ایک نادر موقع مل رہا ہے کہ وہ از سر نو نقشہ بنا کر بین الاقوامی معیار کا ایسا شہر تعمیر کرے جو دبئی یا سنگا پور کا مقابلہ کر سکے گا۔‘ 665 ایکڑ پر مشتمل اس علاقے کی تعمیر کے لیے سری لنکا کو چین کی ہاربر انجینئیرنگ کمپنی (سی ایچ ای سے) سے 1.4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت تھی۔ اس کے جواب میں چینی کمپنی کو اس پراجیکٹ کا 43 فیصد حصہ 99 برس کے لیے لیز پر دے دیا گیا۔ حکام کے مطابق جنوبی ایشیا میں اپنی نوعیت کے اس پہلے منصوبے کو مکمل ہونے میں تقریباً 25 برس لگیں گے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ تقریبا 80 ہزار افراد اس نئے شہر میں رہیں گے جہاں کاروبار کرنے والے افراد کو ٹیکس میں خاص چھوٹ دی جائے گی۔ اس خاص معاشی زون میں تنخواہوں سمیت لین دین امریکی ڈالر میں ہو گا۔ اس ساحلی شہر کے منصوبے کا اعلان چین کے صدر شی جن پنگ کے سنہ 2014 میں دورہ کولمبو کے دوران کیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل ہی چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا آغاز کر چکا تھا: ایک ایسا منصوبہ جو ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے سڑکوں، ریلوے اور سمندری انفراسٹرکچر پر مشتمل ہو گا۔ لیکن ہمبنٹوٹا کی بندرگاہ اب سری لنکا کے ہاتھ میں نہیں۔ سنہ 2017 میں سری لنکا کی حکومت نے چینی فرمز کو قرض کی ادائیگی میں ناکامی پر اسے چین کے حوالے کر دیا جبکہ اس بندرگاہ سے حاصل ہونے والی کچھ رقم بھی مبینہ طور پر دوسرے قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کی گئی۔ ٹیکس کے اس نظام نے دوسری پریشانیوں کو بھی جنم دیا ہے۔ امریکا نے خبردار کیا ہے کہ کاروبار میں نرمی کی وجہ سے یہ علاقہ منی لانڈرنگ کرنے والوں کی پناہ گاہ بن سکتا ہے تاہم سری لنکا کے وزیر انصاف محمد علی صابرے اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ حکام کے مطابق جنوبی ایشیا میں اپنی نوعیت کے اس پہلے منصوبے کو مکمل ہونے میں تقریباً 25 برس لگیں گے صرف چین کے پاس طویل المدتی مقاصد اور سرمایہ دونوں ہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ آنے والے برسوں کے دوران سری لنکا میں ہانگ کانگ کی طرز کا ایک شہر ایشیا کے اس حصے میں چین کو قدم جمانے میں مدد کر سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60020350", "summary": "مجموعی طور پر دنیا کے امیر ترین افراد کی دولت 700 ارب ڈالر سے بڑھ کر 1.5 ٹریلین ڈالر ہو گئی۔ اس میں ایلون مسک کی دولت میں ایک ہزار فیصد جبکہ بل گیٹس کی دولت میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔", "title": "کورونا وبا کے دوران 10 امیر ترین افراد کی دولت ’دگنی‘ ہو گئی", "firstPublished": "2022-01-17T08:07:19.000Z", "id": "dc5c08d8-5e72-4919-8281-789abbdec878", "article": "بین الاقوامی ادارے آکسفم کے مطابق کووڈ 19 کی عالمی وبا نے دنیا کے امیر ترین افراد کی دولت میں مزید اضافہ کیا لیکن اسی دوران ایسے لوگوں کی تعداد میں پہلے کی نسبت اضافہ ہوا جو خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ آکسفم کی رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ دنیا کے غریب ترین افراد کی کم آمدن روزانہ کی بنیاد پر 21 ہزار افراد کی موت کا سبب بنی، مگر دوسری جانب مارچ 2020 (کورونا کے آغاز کے بعد) سے دنیا کے دس امیر ترین افراد کی مجموعی دولت دگنی ہو گئی۔ ایلون مسک کی دولت میں ایک ہزار فیصد تک اضافہ دیکھا گیا انھوں نے کہا کہ ’اس برس جو ہو رہا ہے وہ ہٹ کر ہے۔ اس وبا کے دوران تقریباً ہر روز کوئی نیا ارب پتی بنا جبکہ دنیا کی بقیہ 99 فیصد آبادی لاک ڈاؤن، کم ہوتی بین الاقوامی تجارت اور سیاحت کی وجہ سے بدتر حالات میں مبتلا رہی جس کے نتیجے میں دنیا کے مزید 160 ملین سے زیادہ افراد غربت میں جا گرے۔‘ آکسفم نے اپنی رپورٹ میں امریکی جریدے فوربز کے جن اعدادوشمار کا حوالہ دیا ہے، ان کے مطابق دنیا کے دس امیر ترین افراد میں ایلون مسک، جیف بیزوس، برنارڈ ارنالٹ اور ان کا خاندان، بل گیٹس، لیری ایلسن، سرگئی برن، مارک زکربرگ، سٹیو بالمر اور وارن بفیٹ شامل ہیں۔ مجموعی طور پر ان سب کی دولت 700 ارب ڈالر سے بڑھ کر 1.5 کھرب ڈالر ہو گئی ہے۔ اس میں ایلون مسک کی دولت میں ایک ہزار فیصد جبکہ بل گیٹس کی دولت میں 30 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ فوربز کے سروے میں کسی فرد کے اثاثوں کی قیمت، خاص طور پر جائیداد اور زمین جبکہ قرضوں کو نکال کر اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ کوئی شخص کتنی دولت کا مالک ہے۔ ان اعدادوشمار میں اجرت یا آمدن کو شامل نہیں کیا جاتا۔ آکسفم کا یہ بھی کہنا ہے کہ وبائی امراض کے دوران قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے، اس نے افراط زر کو امریکی کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کا استعمال کرتے ہوئے ترتیب دیا ہے، جس سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کی قیمت میں کتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ آکسفم کی اس رپورٹ کے مطابق، جس میں بہت سے اعدادوشمار عالمی بینک سے بھی حاصل کیے گئے ہیں، صحت کے مراکز تک رسائی میں کمی، بھوک، صنفی بنیادوں پر تشدد اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے عوامل کی وجہ سے ہر چار سیکنڈ میں ایک شخص کی موت ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد یومیہ 5.50 ڈالر کمانے والوں کی تعداد میں 160 ملین افراد کا اضافہ ہوا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-59953630", "summary": "ترکی میں جیسے جیسے معاشی صورتحال بدترین ہو رہی ہے ملک میں نوجوان گریجویٹ اور پروفیشنلز بیرونِ ملک نئی زندگی کا آغاز کرنے کے بارے میں کوشاں ہیں۔", "title": "’ترکی میرا گھر ہے لیکن مجھے بیرونِ ملک بہتر زندگی چاہیے‘", "firstPublished": "2022-01-17T07:02:48.000Z", "id": "cfde7be6-e571-4089-8e04-ac3c22da1a93", "article": "’کوکلیئر سپلائی کرنے والی کمپنی کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ جنوری کے بعد سے وہ اپنی مصنوعات کو ترکی درآمد نہیں کر پائے گی اور اس کی وجہ یہ کہ ملک میں کرنسی لیرا کے زرِ مبادلہ کی شرح اور بڑھتی مہنگائی نے اُن کے منافع کی شرح کو کم کر دیا ہے۔ اس لیے اب وہ حکومتی اداروں سے اپنے کاروبار میں معاونت کے لیے مذاکرات کریں گے۔‘ ترکی چھوڑ کے جایا جائے یا نہیں؟ یہ ایک ایسا تکلیف دہ سوال ہے جو ترکی میں اب بہت سے شہری پوچھ رہے ہیں اور ان میں سے اکثر نوجوان ہیں۔ ترکی کی معیشت بحران کا شکار ہے۔ یہاں کرنسی کی قدر میں بے انتہا کمی واقع ہو چکی ہے اور یہ گذشتہ ایک برس میں آدھی قدر کھو بیٹھی ہے، مہنگائی بہت زیادہ ہے اور قیمتیں بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان افراد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جو بیرونِ ملک زندگی کا دوبارہ آغاز کرنے کے فائدے اور نقصانات ڈھونڈ رہے ہیں اور وہ ان افراد سے مشورے مانگ رہے ہیں جو پہلے ہی بیرون ملک منتقل ہونے کا قدم اٹھا چکے ہیں۔ برنا ان متعدد نوجوان اور تعلیم یافتہ ترک باشندوں میں سے ہیں جو شہری متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اب بیرونِ ملک منتقل ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ جنوبی ترکی کے شہر گیزیینٹیپ میں 28 سالہ گریجویٹ ہارون یامان اس نئی نسل میں شامل ہیں جو بیرون ملک منتقلی کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ ہارون نے سنہ 2018 میں گریجویشن مکمل کی تھی جس کے بعد سے وہ اپنے شعبہ تعلیم میں نوکری ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں اور فی الحال ایک ٹیکسٹائل کمپنی کے گودام میں کام کرتے ہیں۔ ان کا خواب ہے کہ وہ آئرلینڈ کے ’ورک اینڈ سٹڈی‘ پروگرام کے تحت وہاں ہمیشہ کے لیے منتقل ہو جائیں۔ اس آئرش پروگرام میں داخلے کے لیے کچھ رقم ادا کرنی ہوتی ہے، جس کا کچھ حصہ وہ ادا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ تاہم لیرا کی قدر میں اچانک کمی کے باعث ان کا منصوبہ تعطل کا شکار ہو چکا ہے۔ اب انھیں مزید وقت درکار ہے تاکہ وہ مکمل ادائیگی یوروز میں کر سکیں۔ میری ترکی میں کوئی سماجی زندگی نہیں ہے۔ میں دن میں 10 گھنٹے کام کرتا ہوں۔ کرنسی کے بحران کے باعث ہماری قوتِ خرید بھی کم ہو گئی ہے۔ ہمارے بہت زیادہ مسائل ہیں۔ حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث متعدد افراد غربت کا شکار ہیں اور لوگوں میں انتشار پیدا ہو رہا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’معاشرے کا ایک بڑا حصہ مستقبل کے بارے میں پرامید نہیں رہا کیونکہ وہ خود کو سیاسی نظام سے علیحدہ محسوس کرتے ہیں۔ ان میں کاروباری افراد، نئے کاروبار کرنے کے خواہشمند افراد، فنکار اور سکالرز شامل ہیں۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59991332", "summary": "نئی قومی سلامتی پالیسی کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اگر معاشی پالیسی درست نہ ہو تو اس سے سکیورٹی متاثر ہوتی ہے کیونکہ عوام پر بوجھ ڈالنا پڑتا ہے۔", "title": "آئی ایم ایف کے پاس جانے سے ملکی سلامتی متاثر ہوتی ہے: عمران خان", "firstPublished": "2022-01-14T09:10:00.000Z", "id": "c6d22873-26f3-4679-8322-185dae3cc180", "article": "پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے جمعے کو قومی سلامتی پالیسی کا اجرا کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس قرض مانگنے جانے سے ملکی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔ جمعے کو وزیر اعظم ہاؤس میں قومی سلامتی پالیسی کے غیر پوشیدہ یا عوام کے سامنے لائے جانے والے حصے کے اجرا کے سلسلے میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اگر ہر کچھ عرصے بعد آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی معاشی پالیسی درست نہیں ہے اور اس سے آپ کی سکیورٹی متاثر ہو گی کیونکہ ہمارے پاس کبھی بھی ہمہ جہت قومی سلامتی کا تصور نہیں رہا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم مجبوری میں آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں اور قرض لینے کے لیے اس کی کڑی شرائط ماننی پڑتی ہیں اور جب شرائط مانتے ہیں تو کہیں نہ کہیں قومی سلامتی متاثر ہوتی ہے جو لازمی نہیں کہ سکیورٹی فورسز سے متعلق ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ کہ آپ کو اپنی عوام پر بوجھ ڈالنا پڑتا ہے اور سب سے بڑی سیکیورٹی یہ ہوتی ہے کہ عوام آپ کے ساتھ کھڑی ہو۔‘ اس موقع پر ملکی معیشت پر بات کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں معیشت کے حوالے سے کبھی یہ نہیں سوچا گیا کہ ہمیں اپنے آپ کو کس طرح محفوظ بنانا ہے۔ ’ہماری شرح نمو بڑھتی تھی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی بڑھ جاتا تھا جس سے روپے کی قدر پر دباؤ پڑتا تھا اور آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ سکیورٹی کے بہت سے پہلو ہیں، اگر ایک ہی پہلو پر توجہ دی جائے تو ہمارے پاس سوویت یونین کی مثال ہے کہ دنیا کی سب سے طاقتور فورسز بھی سوویت یونین کو متحد نہ رکھ سکیں۔ سنہ 2014 میں بنی داخلی سلامتی کی قومی پالیسی میں بھی کہا گیا تھا کہ اس پالیسی کا مقصد ’ایک ایسا محفوظ ماحول قائم کرنا ہے جس میں شہریوں کی جان، مال، سول آزادیاں اور سماجی و معاشی حقوق کا تحفظ ہو اور پاکستان کے شہری آئین کے تحت ہم آہنگی، آزادی، عزت اور وقار کے ساتھ ملک میں زندگی گزار سکیں۔‘ تاہم اس پالیسی میں بنیادی مسئلہ ملک کی سکیورٹی صورتحال پر قابو پانا تھا، تمام سٹیک ہولڈرز سے مذاکرات اور دہشت گردی سے نمٹنے سے متعلق اقدامات کی وضاحت کی گئی تھی۔ اس قومی سلامتی پالیسی میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ حکومت کو اقتدار میں آتے ہی سکیورٹی کے بڑے چیلنج کا سامنا ہے اور اس پر قابو پا کر ہی معاشی استحکام اور شہریوں کی زندگی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59981171", "summary": "ایف آئی اے کی جانب سے کرپٹو کرنسی کے لین دین میں مبینہ طور پر 18 ارب روپے کے آن لائن فراڈ کی نشاندہی کے بعد پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی پر مکمل پابندی کی سفارش کی گئی ہے۔", "title": "کرپٹو کرنسی فراڈ: پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی کے ’ڈبل شاہ‘ سے کیسے بچا جائے؟", "firstPublished": "2022-01-14T03:40:24.000Z", "id": "0056593d-af15-49ff-9e26-b6cb716ceeba", "article": "حال ہی میں ایف آئی اے نے ایک آن لائن فراڈ کی نشان دہی کی جس میں کرپٹو کرنسی کا لین دین کرنے والی کئی کمپنیاں ہزاروں پاکستانی افراد کے پیسے ہڑپ کر گئیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سٹیٹ بینک کے 2018 کے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے لین دین سے منع کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود اس ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار کا رجحان گزشتہ سالوں میں تیزی سے بڑھا ہے۔ لین دین کے اس رجحان کے ساتھ ہی آن لائن دھوکہ دہی میں بھی اضافہ ہوا ہے جس میں ہزاروں افراد جھانسے میں آ کر کرپٹو کرنسی کے ذریعے جلد اور با آسانی پیسے کمانے کے لالچ میں آ جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک آن لائن فراڈ کی تحقیقات پاکستان کا وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کر رہا ہے جس میں ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے کرپٹو کرنسی پر لگایا جانے والا 10 کروڑ ڈالر یا 18 ارب روپے کا مجموعی سرمایہ اچانک غائب ہو گیا۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر کراچی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شہریار احمد خان کی جانب سے چھ جنوری کو جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق اس فراڈ کے ذمہ دار تقریبا 11 ایسے اکاؤنٹ تھے جو کرپٹو کرنسی میں لین دین کے لیے استعمال کیے جاتے تھے اور بین الاقوامی کرپٹو کرنسی ایکسچینج بائنینس سے منسلک تھے۔ ’جب یہ گروپ پاکستان کے کروڑ ڈالر یا 18 ارب روپے بائنینس کے والٹ میں ڈال رہا تھا تو ان کے کان کھڑے ہوتے اور وہ پاکستان کے ایف آئی اے کو بتاتے کہ آپ کے ملک سے فلاں شہری جو یہ کام کرتے ہیں اور جنھوں نے اتنی آمدنی بتائی ہوئی ہے وہ یکدم اتنے پیسے جمع کروا رہے ہیں۔ تب گارنٹیز ہوتیں اور ایسے فراڈ نہیں ہوتے۔‘ بی بی سی کو موصول ہونے والی اس رپورٹ کی دستاویزات میں کمیٹی کی جانب سے سفارش دی گئی ہے کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہیے کیونکہ ملک میں اس وقت لوگوں کو کم مدت میں زیادہ منافع کمانے کی ترغیب دے کر پھانسا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ پاکستان میں بلااجازت کام کرنے والی بائنینس جیسی کرپٹو ایکسچینج کمپنیز کو فی الفور بند کردینا چاہیے اور ان پر جرمانہ عائد کرنا چاہیے۔ کمیٹی کی رپورٹ میں حال ہی میں سامنے آنے والے کرپٹو کرنسی فراڈ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ کرپٹو کرنسی کے لین دین میں رسک پاکستان کے لیے فوائد سے کہیں زیادہ ہے۔ جسٹس کریم آغا نے لکھا کہ موجودہ صورت حال میں ایسے افراد جو پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا لین دین کر رہے ہیں انھیں ایف آئی اے کی جانب سے تفتیش اور بینک اکاؤنٹ منجمد ہونے کی شکل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عدالت نے ہدایت دی کہ اگلی سماعت پر وفاقی وزارت قانون کے نمائندے عدالت کو اپنی رپورٹ پیش کریں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59976230", "summary": "پاکستان کی پارلیمان میں جمعرات کو مالی ضمنی بِل یعنی فنانس سپلمنٹری بِل پر بحث جاری ہے جسے ’مِنی بجٹ‘ کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔ اس بِل کے تحت پاکستان میں جن اشیا پر ٹیکس کی چھوٹ تھی وہ ہٹا دی جائے گی۔", "title": "'بجٹ پہلے سے پاس نہیں ہوچکا، تو پھر یہ مِنی بجٹ کیا ہے؟‘", "firstPublished": "2022-01-13T13:09:33.000Z", "id": "3a16a000-d58e-4153-8094-77521686cf11", "article": "یاد رہے کہ جمعرات کو پاکستان کی پارلیمان میں مالی ضمنی بِل یعنی فنانس سپلمنٹری بِل پر بحث جاری ہے جسے ’مِنی بجٹ‘ کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔ اس بِل کے تحت پاکستان میں جن اشیا پر ٹیکس کی چھوٹ تھی وہ ہٹا دی جائے گی۔ اس کو مِنی بجٹ کا نام دراصل اپوزیشن جماعتوں نے دیا ہے۔ وزیر برائے خزانہ شوکت ترین نے اسے حال ہی میں اسمبلی میں پیش کیا اور اس کا نام مالی ضمنی بِل یعنی فنانس سپلمنٹری بِل بتایا۔ لیکن اپوزیشن نے اس بِل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے مِنی بجٹ کا نام دیا ہے۔ اس بِل کے تحت پاکستان میں جن اشیا پر ٹیکس کی چھوٹ تھی وہ ہٹا دی جائے گی۔ ایسا کرنے کے پیچھے حکومت یہ وجہ بتارہی ہے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یعنی آئی ایم ایف کا فنڈ حاصل کرنے کے لیے چند اصلاحات کی تکمیل لازمی ہیں جن میں سے ایک ٹیکس کی چھوٹ ہے۔ سٹیٹ بینک آرڈیننس میں ترمیم کا پسِ منظر یہ ہے کہ سٹیٹ بینک کے کردار کو سٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956 کے تحت واضح کیا گیا تھا۔ جس کے بعد سے اس میں کئی بار تبدیلیاں اور ترامیم کی گئی ہیں۔ شہباز رانا زیادہ تر فنانس اور پارلیمنٹ کی کارروائی پر نظر رکھتے ہیں اور مہنگائی کے بارے میں اکثر رپورٹنگ اور تجزیے دیتے رہتے ہیں۔ منی بجٹ کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس وقت حکومت کے پاس کوئی اور حل نہیں ہے۔ شہباز نے کہا کہ اکثر پاکستان کے پاس مالی ادائیگیوں کے لیے ڈالرز نہیں ہوتے ہیں، جس کے لیے پاکستان کو ادھار لینا پڑتا ہے۔ 'اس وقت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بھی اچھے نہیں ہیں۔ ماضی میں جب پاکستان آئی ایم ایف کی اصلاحات کی تکمیل نہیں کر پاتا تھا تو امریکہ کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ مدد کر دیتا تھا۔ اب یہ ’کال اے فرینڈ‘ والی سہولت بھی نہیں ہے۔ اس لیے اس وقت جو آئی ایف کہے گا پاکستان کو کرنا پڑے گا۔' اس وقت اپوزیشن کے ارکان حکومت پر کڑی تنقید کرتے سنائی دے رہے ہیں۔ اسی حوالے سے سینیٹر شیری رحمان نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ 'حکومت اس بجٹ کو منظور نہیں بلڈوز کروانا چاہتی ہے۔ سب کو احساس ہے کہ اس بجٹ کے منظور ہونے کے بعد مہنگائی کی سونامی اٹھے گی۔' ان سفارشات میں سے ایک میں نشاندہی کی گئی ہے کہ مِنی بجٹ میں کہیں بھی حکومتی اخراجات پر پابندی نہیں لگائی گئی ہے جبکہ مزید بتایا گیا ہے اس سے روپے کی قدر کمزور ہو جائے گی، اور مہنگائی آسمان تک پہنچ جائے گی۔ لیکن اس کے علاوہ کہیں بھی معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لیے کوئی حل نہیں بتایا گیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59948065", "summary": "حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے فنانس بل یا منی بجٹ کی منظوری، ملک میں بڑھتی مہنگائی اور حالیہ مری سانحے کے بعد ملک کی سیاسی جماعتوں کو ایک مرتبہ پھر حکومت مخالف تحریک چلانے کا موقع ملا ہے لیکن کیا اس مرتبہ اپوزیشن جماعتیں اپنے مشن میں کامیاب ہو پائیں گی اور ان کی حکمت عملی کیا ہے؟", "title": "حکومت بمقابلہ اپوزیشن: ’انشا اللہ بہتر ہو گا‘", "firstPublished": "2022-01-11T12:10:59.000Z", "id": "6b48defd-f3e6-4b0f-8b62-2586f2323381", "article": "رواں برس کے آغاز سے جہاں موسمی درجہ حرارت گرا ہے وہیں ملکی سیاست کا درجہ حرارت بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے منی بجٹ پیش کیا جانا، ملک میں بڑھتی مہنگائی اور حالیہ مری سانحے نے ملک میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو ایک مرتبہ پھر حکومت مخالف تحریک چلانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلے بھی یہ کہا کہ ہمیں حکومت کے خلاف پارلیمان کے اندر موجود آپشنز کو بھرپور استعمال کرنا چاہیے، خصوصاً اس وقت میں جب ملک میں مہنگائی عروج پر ہو اور منی بجٹ آ رہا۔ ان کا کہنا تھا لیکن اس وقت پیپلز پارٹی پر پارلیمان سے مستعفی ہونے کا دباؤ ڈالا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب موجودہ صورتحال میں اس کی اہمیت زیادہ اس لیے بڑھ گئی ہے کیونکہ جہاں ایک جانب اپوزیشن پر کمزور حزب اختلاف ہونے پر عوامی تنقید بھی ہے وہیں معاشی صورتحال کے باعث ملک کی سالمیت اور سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہے۔' پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا ہے کہ جو اس ملک میں بدامنی، مہنگائی اور بری طرز حکمرانی کی صورتحال ہے جس کی واضح مثال مری کا سانحہ ہے۔ یہ صورتحال مہنگائی میں پستے عوام کے لیے ناقابل برداشت ہو چکی ہے اور یہ حالات حکومت کے خلاف تحریک کے لیے بہت سازگار ہیں۔ اس بارے میں مسلم لیگ ن کے رہنما میاں جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ 'جب تک حکومت کو ایوان میں عددی برتری ہے اور بقول شیخ رشید کے جب تک ان پر اداروں کا آشیر باد ہے، جس کا برملا اظہار وزیر اعظم بھی سول ملٹری تعلقات کے ایک صفحے پر ہونے سے کر چکے ہیں۔ لہذا جب تک ادارے اپنے آئینی حدود میں نہیں جائیں گے اور ان اداروں بیٹھے افراد کسی کی حمایت یا مخالفت کرنا بند نہیں کریں گے اس وقت تک آئینی طریقے سے اس حکومت سے جان چھڑانا اتنا آسان نہیں ہو گا۔' مجیب الرحمان شامی کا مزید کہنا تھا تاہم تحریک انصاف کی اپنی صفوں میں کچھ دراڑیں پڑتی دکھائی دیتی ہیں اور اگر پی ٹی آئی کے کچھ لوگ ناراضگی کا اظہار کیا تو اس معاملے میں کوئی پیش رفت ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ہاؤس تبدیلی صرف حکومت پر دباؤ بڑھانا کی حکمت عملی ہے اور فی الحال مجھے ان ہاؤس تبدیلی کی تحریک کامیاب ہوتی نہیں لگتی۔' اپوزیشن کی حکومت مخالف حکمت عملی کیا ہے اس پر رائے دیتے ہوئے مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں اگلے انتخابات تک اپنی طاقت میں اضافہ کرنا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جمعیت علما اسلام (ف) کو کامیابی ہوئی ہے اس کے بعد اب مولانا فضل الرحمان مارچ میں شروع ہونے والے دوسرے مرحلے میں بھی کامیابی کے لیے کوشاں ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-59867867", "summary": "معیشت کی بہتری کے اشارے مل تو رہے ہیں اور اس کی وجہ کافی مہینوں سے رکی ہوئی مانگ میں اضافہ اور حکومت کی طرف سے ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات ہیں لیکن ملک سے روزگار کے مواقع غائب ہو گئے ہیں۔", "title": "انڈیا میں بے روزگاری کی سنگین صورتحال: ڈگری یافتہ نوجوان معمولی نوکریاں کرنے پر مجبور", "firstPublished": "2022-01-08T10:15:56.000Z", "id": "a7150a63-dd89-4205-b18a-9229dfc014af", "article": "معیشت کی بہتری کے اشارے مل تو رہے ہیں اور اس کی وجہ کافی مہینوں سے رکی ہوئی مانگ میں اضافہ اور حکومت کی طرف سے ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات ہیں لیکن ملک سے روزگار کے مواقع غائب ہو گئے ہیں۔ سی ایم آئی ای کے مطابق تنخواہ دار ملازمتوں میں کمی ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بہت سی نجی کمپنیوں اور اداروں نے عالمی وبا کے دوران اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے نوکریوں میں کٹوتیاں کی ہیں۔ ملک کی مجموعی افرادی قوت میں ایسے برسر روزگار افراد کی شرح صرف دو فیصد ہے جن کو سوشل سکیورٹی کی مراعات حاصل ہیں۔ ان مراعات میں ریٹائرمنٹ کے بعد پینشن، صحت اور زچگی کے اخراجات کے علاوہ تین سال سے زیادہ نوکری کا دستاویزی کانٹریکٹ شامل ہے۔ انڈیا میں اونچی شرح نمو کے باوجود بڑے پیمانے پر بے روزگاری کی ایک وجہ ملک کی معیشت کی زرعی شعبے سے سروس کے شعبے کی طرف منتقلی ہے۔ دنیا بھر میں انڈیا جتنے بڑے کسی بھی ملک میں شرح نمو پیداواری شعبے کے بجائے سروس کے شعبے سے نہیں بڑھی۔ پروفیسر باسو کا کہنا ہے کہ انڈیا میں بے روزگاری کی صورتحال تشویشناک ہے کیونکہ ملک کی ترقی کے دوبارہ شروع ہونے کے باوجود، نچلا طبقہ دیگر ممالک کے مقابلے کم تر کام کر رہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حکومت کو مہنگائی پر قابو پانے، روزگار پیدا کرنے اور کارکنوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں ’تقسیم اور نفرت کی سیاست عدم استحکام اور بداعتمادی کا باعث بنی رہی ہے، جو کہ معاشی ترقی کے لیے سب سے نقصان دہ ہے۔‘ نریندر مودی جنھوں نے سنہ 2014 میں روزگار کے وسیع مواقوں کا وعدہ کرتے ہوئے اقتدار سنبھالا تھا، کلیدی صنعتوں کو مالی مراعات کی پیشکش کر رہے ہیں اور مقامی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک پرجوش ’میک ان انڈیا‘ مہم چلا رہے ہیں۔ ان کا کوئی بھی اقدام اب تک پیداوار اور نوکریوں میں تیزی کا باعث نہیں بنا، جس کی ایک وجہ طلب میں کمی ہے۔ ڈاکٹر بھوسلے جیسے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ قلیل المدت اقدام کے طور پر انڈیا کو شہروں میں رہنے والے اور اپنی زندگیوں میں ذرائع معاش کی جدوجہد کرنے والے 20 فیصد طبقے کے لیے فوری طور پر روزگار کے یقینی مواقع فراہم کرنے کے منصوبے یا ان خاندانوں کی نقد رقوم کی منتقلی کے ذریعے مالی مدد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس مشکل دور میں اس طرح کے منصوبے سے فائدہ اٹھا سکیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-59912930", "summary": "حالیہ مظاہروں کے نتیجے میں 30 برس تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک سابق صدر نذربائیف کی اقتدار کے ایوانوں پر گرفت ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔", "title": "قزاقستان میں مظاہرے ’قائد ملت‘ نذربائیف کے دور کے خاتمے کا اشارہ ہیں؟", "firstPublished": "2022-01-08T02:14:29.000Z", "id": "587c630c-1c48-4ab7-a500-221f4de92427", "article": "قطع نظر اس کے کہ یہ مظاہرے کب اور کیسے ختم ہوتے ہیں، ایک چیز واضح ہے کہ ان کے نتیجے میں قزاقستان کے ’قائد ملت‘ اور سابق صدر نورسلطان نذربائیف کے حکومت میں اثر و رسوخ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اگرچہ وہ 2019 میں اقتدار سے الگ ہو گئے تھے مگر حکومت میں ان کا اہم کردار برقرار تھا۔ سکیورٹی کونسل ملک کا ایک آئینی ادارہ ہے اور نذربائیف نے 2019 میں صدارت چھوڑنے سے پہلے اسے بہت بااختیار بنا دیا تھا تاکہ سبکدوشی کے بعد بھی وہ اقتدار پر اپنی گرفت قائم رکھ سکیں۔ انھوں نے خود کو اس اہم ادارے کا تاحیات چیئرمین بھی مقرر کر دیا تھا۔ وہ قومی سلامتی اور دفاع سے متعلق پالیسیوں کی نگرانی کرتے تھے اور صدر توکایف پر لازم تھا کہ وہ تمام اہم عہدوں پر تعیناتی کے لیے نذربائیف کو ’رابطے‘ میں رکھیں۔ اس سے 81 سالہ سابق صدر کو اپنے قریبی ساتھیوں کو اہم عہدوں پر لگانے کا موقع مل گیا جس سے انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ اور فوج پر ان کی گرفت مضبوط رہی۔ اقتدار کے ایوانوں سے نذربائیف اور ان کے رفقا کی بے دخلی ہی ان کے عہد کے خاتمے کی واحد علامت نہیں ہے۔ مظاہروں کے دوران ایک نعرہ جو سب سے زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آیا وہ تھا ’شال کٹ‘ یعنی ’بوڑھے جاؤ‘، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ملکی سیاست میں بھی ان کے لیے جگہ نہیں رہی۔ پانچ جنوری کو قزاقستان کے سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ نذربائیف ملک چھوڑ گئے ہیں۔ ان قیاس آرائیوں کو اس بات سے بھی تقویت ملی کہ وہ مظاہروں کے بعد سے نظر نہیں آئے جبکہ صدر توکایف دو دن میں قومی ٹی وی پر تین مرتبہ خطاب کر چکے ہیں جن میں انھوں نے پرامن رہنے کی اپیل کے علاوہ 'عوام کے ساتھ رہنے' کا وعدہ کیا۔ صدر توکایف مستقبل قریب میں سابق صدر نذربائیف کے حامیوں کی جگہ حکومت میں اپنے حامیوں کی شمولیت کا سلسلہ جاری رکھیں گے بشرطیکہ وہ احتجاجی مظاہروں پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس کی زد میں سابق صدر کے وہ قریبی رشتہ دار بھی آئیں گے جو حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ البتہ صدر توکایف کے لیے اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے میں نذربائیف خاندان کی ہائیڈرو کاربن کے ذخائر پر اجارہ داری بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔ اپنے عہدے سے معزولی کے باوجود نذربائیف اہم ملکی اثاثوں کا انتظام کرنے والے خود مختار فنڈ، سامرُک-کزینا کو کنٹرول کرتے ہیں۔ 2015 میں وہ پانچویں مرتبہ ملک کے صدر منتخب ہوئے۔ نورسلطان نذربائیف نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز فولاد کے ایک کارخانے میں مزدور کی حیثیت سے کیا تھا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے عہدیدار بھی رہے۔ ان کے والد، ابیش نذربائیف، ایک کسان اور چرواہے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-59889028", "summary": "قزاقستان کے بیشتر حصوں میں تیل کی بڑھتی قیمتوں کے معاملے پر درجنوں افراد کی ہلاکت کے بعد ملک میں امن و مان کی بحالی کے لیے صدر قاسم جومارت توکایف کی درخواست پر روسی فوجی دستے ملک میں پہنچ چکے ہیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ، امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے قزاقستان کی حکومت اور مظاہرین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تشدد کا راستہ اپنانے سے گریز کریں۔", "title": "قزاقستان: ’مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلائی گئیں، دس لوگ تو فوراً ہی مر گئے‘", "firstPublished": "2022-01-06T01:15:31.000Z", "id": "5f9c1015-24da-47cf-b2e0-4d50e10d1439", "article": "درجنوں افراد کی ہلاکت کے بعد ملک میں امن و مان کی بحالی کے لیے صدر قاسم جومارت توکایف کی درخواست پر روسی فوجی دستے ملک میں پہنچ چکے ہیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ، امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے قزاقستان کی حکومت اور مظاہرین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تشدد کا راستہ اپنانے سے گریز کریں۔ قزاقستان کے صدر قاسم جومارت توکایف نے بدھ کے روز سرکاری ٹی وی پر خطاب کے دوران روس کی سربراہی میں بنائے جانے والے اتحاد سے مدد کی درخواست کی تھی جس میں روس کے علاوہ قزاقستان، بیلاروس، تاجکستان اور آرمینیا شامل ہیں۔ اس کے بعد ’سی ایس ٹی او‘ نامی اتحاد کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ قزاقستان کی درخواست پر فوجی دستے بھجوائے جا رہے ہیں جو اب وہاں پہنچ چکے ہیں۔ سی ایس ٹی او اتحاد کی جانب سے بھیجے جانے والے فوجی دستوں کی تعداد تقریبا 2500 بتائی جا رہی ہے اور اتحاد کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ دستے امن قائم کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں جو صرف ریاستی اور عسکری عمارتوں کی حفاظت کریں گے۔ روسی خبر رساں ادارے آر آئی اے کے مطابق یہ دستے ہفتوں تک ملک میں قیام کر سکتے ہیں۔ ملک میں مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب تیل کے ذخائر سے مالا مال ملک نے مائع پیٹرولیم گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جس سے صارفین کو مہنگا ایندھن خریدنا پڑ رہا ہے۔ قزاقستان میں بہت سے افراد اپنی گاڑیوں میں ایندھن کے لیے مائع پیٹرولیم گیس کا استعمال کرتے ہیں۔ قزاقستان کے صدر قاسم جومارت توکایف نے حکومت پر بدامنی کی اجازت دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے برطرف کر دیا اور تیل کی قیمتوں کو کم قیمت پر لانے کا بھی اعلان کیا تاکہ ’ملک میں امن و امان اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔‘ بلآخر سنہ 2019 میں حکومت مخالف احتجاج کے پیش نظر نورسلطان اقتدار سے ہٹ گئے۔ انھوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر مظاہروں کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ قزاقستان کے صدر جومارت توکایف ان کی منتخب کردہ جانشین ہے جو ایک متنازع انتخاب کے بعد صدارت کا عہدہ سنبھالیں ہوئے ہیں۔ اس انتخاب پر بین الاقوامی مبصرین کو بھی تحفظات تھے اور انھوں نے اس پر تنقید بھی کی تھی۔ ان مظاہروں کے کوئی باقاعدہ اور واضح رہنما نہیں ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہائیوں قبل ہی ملک میں تمام طرح کی اختلاف رائے کو ابتدائی مراحل میں ہی ختم کر دیا گیا تھا اور قزاقستان میں انتخابی جمہوریت مؤثر طریقے سے موجود نہیں ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-59863072", "summary": "ماہرین کے مطابق ترکی اس وقت صدر اردوغان کی پالیسیوں کے باعث شدید معاشی بحران کا شکار ہے جہاں افراطِ زر 36 فیصد ہو چکا ہے جبکہ بجلی کی قیمتوں میں 50 سے 125 فیصد تک کا اضافہ کیا گیا ہے۔ صدر اردوغان کے حامی ان پالیسیوں کا دفاع جبکہ مخالفین اسے ’ڈراونا خواب‘ قرار دے رہے ہیں۔", "title": "شرح سود کے ساتھ ’تجربہ‘ صدر اردوغان اور ترکی کو کتنا مہنگا پڑا؟", "firstPublished": "2022-01-04T07:10:24.000Z", "id": "6e4c5d64-3c1c-44ba-b280-c9b9e41171b1", "article": "ترکی میں حالیہ معاشی بحران کے باعث بے تحاشہ مہنگائی ہوئی ہے جبکہ ملک میں افراط زر میں 36 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ترک حکومت نے ملک میں بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی کئی گنا بڑھا دی ہیں۔ اب جبکہ ترکی میں افراط زر 36 فیصد تک بڑھ گیا ہے، اسی دوران بجلی کی قیمتوں میں 50 فیصد سے 125 فیصد اضافہ ہوا ہے اور گیس کی قیمت میں فی خاندان 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، تاہم حکومت کے حامی معیشت میں اس رجحان کو ’مثبت‘ قرار دے رہے ہیں جبکہ اپوزیشن نے اسے ’تباہ کُن‘ قرار دیا ہے۔ ترک شماریاتی ادارے کے اعداد و شمار نے پیر کو ظاہر کیا کہ صرف دسمبر میں، صارفین کی قیمتوں کے اشاریے میں ساڑھے تیرہ فیصد اضافہ ہوا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس اضافے نے ’ترکوں کی بچت اور آمدن کو نگل‘ لیا ہے اور وہ اس اقتصادی بحران سے بہت پریشان ہیں۔ کچھ ماہرین اقتصادیات نے پیش گوئی کی ہے کہ موسم بہار تک افراط زر کی شرح 50 فیصد تک پہنچ سکتی ہے جب تک کہ ترکی کی مانیٹری پالیسی کی سمت کو تبدیل نہیں کیا جاتا ہے۔ امریکی ادارے ’گولڈمین سیکس‘ نے کہا کہ یہ (افراط زر) آنے والے سال کے بیشتر حصے میں 40 فیصد سے اوپر رہے گی۔ تاہم مرکزی بینک کی جانب سے ایسا کرنے کا امکان نہیں ہے، یہ کہتے ہوئے اوزلم نے مزید کہا کہ سالانہ افراط زر ’ممکنہ طور پر مارچ تک 40 فیصد سے 50 فیصد تک پہنچ جائے گی‘ جب انتظامی قیمتوں میں اضافے کو اس میں شامل کر دیا جائے گا، جس میں کم از کم اجرت میں 50 فیصد اضافہ بھی شامل ہے۔ توانائی (گیس) کی قیمتوں میں تازہ ترین اضافہ اس وقت سوشل میڈیا پر غالب ہے اور اپوزیشن کے حامی میڈیا کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے، ایک مقالے میں صورتحال کو ’ایک ڈراؤنا خواب‘ قرار دیا گیا۔ اس برس کے آغاز ہی میں یعنی دو جنوری کو اپنی مرکزی خبر میں، حکومت کے حامی اخبار 'حریت' نے بجلی کی قیمتوں میں 'نئے ٹیرف' کا احاطہ کیا لیکن اضافہ کا ذکر نہیں کیا۔ اخبار نے قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بارے میں رپورٹ کیا لیکن اپنی سرخی میں اسے 'تبدیلی' کے طور پر بیان کیا۔ صدر اردوغان اس غیر روایتی نقطہ نظر کے سخت محافظ ہیں کہ سود کی بلند شرح سے افراط زر میں اضافہ ہو گا۔ ان کے ’نئے معاشی ماڈل‘ کا مقصد شرح سود کو کم رکھتے ہوئے پیداوار اور سرمایہ کاری کو بڑھانا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59862409", "summary": "ایک جانب ملک کی برآمدات میں اضافے کو بیرونی تجارت کے شعبے میں خوش آئند پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے مگر دوسری جانب موجودہ مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں تجارتی خسارہ سو فیصد بڑھ گیا ہے۔ تجارتی خسارہ بڑھنے کی وجہ درآمدات میں 60 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہے جو چھ مہینوں میں تقریباً 40 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔", "title": "ملکی برآمدات بڑھنے کے باوجود تجارتی خسارے میں سو فیصد اضافہ کیوں؟", "firstPublished": "2022-01-04T04:23:09.000Z", "id": "f849934d-0911-44ee-b12f-3531d4408aa8", "article": "پاکستان میں وزیر اعظم کے مشیر تجارت رزاق داؤد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ موجودہ مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں ملکی برآمدات 25 فیصد کی شرح سے بڑھتے ہوئے 15 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں جو گذشتہ سال 12 ارب ڈالر تھیں۔ ایک جانب ملک کی برآمدات میں اضافے کو بیرونی تجارت کے شعبے میں خوش آئند پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے مگر دوسری جانب رواں مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں ملک کا تجارتی خسارہ 100 فیصد بڑھ گیا ہے، ان چھ مہینوں میں تجارتی خسارہ تقریباً 25 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ تجارتی خسارے میں اس بے تحاشہ اضافے کی وجہ ملکی درآمدات میں ساٹھ فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہے جو چھ مہینوں میں تقریباً 40 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ پاکستان کے تجارتی خسارے میں 100 فیصد اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں بگاڑ کی وجہ سے بے پناہ مشکلات کا شکار ہے اور اس کے باعث رقم کے حصول کے لیے اسے بیرونی ذرائع پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ جیسا کہ پاکستان کا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے پروگرام ہے جو اپنی سخت شرائط کی وجہ سے پہلے ہی ملک میں مہنگائی کی لہر کو جنم دے چکا ہے۔ بیرونی تجارت کے شعبے کے ماہرین ملکی برآمدات میں اضافے کو تو خوش آئند قرار دیتے ہیں اور حکومت کی جانب سے اسے بڑی کامیابی قرار دینے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تجارتی خسارے میں اضافہ اصل میں سب سے بڑا مسئلہ ہے جو حکومتی پالییسوں اور مرکزی بینک کی جانب سے لیے جانے والے اقدامات کے باوجود مسلسل بڑھ رہا ہے اور پاکستان کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہا ہے موجودہ مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں تجارتی خسارے میں 100 فیصد اضافے کی وجہ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کا دو گنا سے سے بھی زیادہ شرح سے بڑھنا ہے۔ ان چھ مہینوں میں اگر برآمدات میں 25 فیصد اضافہ ہوا تو اس کے مقابلے میں درآمدات میں ہونے والا اضافہ 63 فیصد رہا۔ انھوں نے کہا کہ چھ مہینوں میں تجارتی خسارہ 25 ارب ڈالر تھا اور اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو یہ سال کے اختتام پر 48 سے 50 ارب ڈالر ہو سکتا ہے۔ تاہم اگر درآمدات میں کمی کا رجحان آیا ہے تو اس حساب سے بھی تجارتی خسارہ 40 ارب ڈالر تک جا سکتا ہے جو پاکستان کے بیرونی تجارت کے شعبے کے لیے بہت الارمنگ ہے۔ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کی وجہ سے ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ پر بہت زیادہ دباؤ ہے جو موجودہ مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں سات ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ ملکی درآمدات میں زیادہ اضافہ پاکستانی روپے پر بھی دباؤ ڈال رہا ہے جو امریکی کرنسی کے مقابلے میں اس مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں 155 روپے سے 178 روپے تک جا پہنچا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/magazine-59807200", "summary": "چلی میں سابق طلبا رہنما اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانشور، گیبریئل بورِک کے صدر منتخب ہونے کے بعد کئی ترقی پذیر ملکوں میں بائیں بازو کی طلبا تنظیموں کے مستقبل اور زیادہ فعال کردار ادا کرنے پر بحثیں چِھڑ گئی ہیں۔ پاکستان بھی ایسے ہی ممالک میں سے ایک ہے۔", "title": "کیا پاکستان میں بھی چلی کی طرح کا کوئی نوجوان رہنما اقتدار سنبھال سکتا ہے؟", "firstPublished": "2022-01-03T12:02:23.000Z", "id": "de0f789b-9d4c-4645-a0ae-0287a07db238", "article": "چلی میں 19 دسمبر کو مکمل ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بائیں بازو کے سابق طلبا رہنما اور چلی کی کانگریس میں دو مرتبہ منتخب ہونے والے گیبریئل بورِک کو دائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد کے امیدوار کے مقابلے میں دس لاکھ زیادہ ووٹ ملے۔ وہ اب مارچ میں اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ چلی سمیت لاطینی امریکہ کی بائیں بازو کی تحریکیں اس وقت دنیا بھر میں بائیں بازو کی تحریکوں کے لیے حوصلہ افزائی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ حال ہی میں ترکی کی اپوزیشن نے چلی میں بورِک کی حکمت عملی کو اپنے لیے ایک مثال قرار دیا ہے۔ پاکستان کے بائیں بازو کے نوجوانوں میں بھی ایسے ہی بحث و مباحثے ہو رہے ہیں۔ اب پاکستان میں بھی اس موضوع پر بات ہو رہی ہے اور پیر کی رات کو ایک مذاکرہ طے کیا گیا ہے۔ تو پھر ان حالات میں پاکستان میں بائیں بازو کی طلبا تحریکوں کا مستقبل کیا ہے؟ اس گفتگو کے بعد ذہن میں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا چلی میں ہونے والے واقعات دیگر ممالک کے طلبا یا نوجوانوں کے لیے ایک مثال بن سکتے ہیں، کیا یہ عالمی رجحان بن سکتا ہے، کیا پاکستان میں گیبریئل بورِک جیسا رہنما ابھر سکتا ہے، اگر نہیں، تو کیا وجہ ہے، کیا پاکستان کا مذہبی رجحان ایک رکاوٹ ہے، اور کیا امکانات ہیں؟ اسی کو جاننے کے لیے ہم نے آج کے دور کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے چند معروف اور سرگرم کارکنوں اور سابق طلبا رہنماؤں سے بات کی کہ آیا وہ چلی کی تبدیلی سے کوئی سبق لیتے ہیں یا یہ دو الگ الگ ممالک ہیں اور یہ کہ ان دونوں ممالک میں حالات ایک جیسے نہیں ہیں، اس لیے یہ بحث بے کار ہے۔ ماضی کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے بشریٰ مہ نور کہتی ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر تو ابتدا ہی سے پابندی عائد کر دی گئی تھی، لیکن بائیں بازو کی دیگر سرگرمیوں پر بھی سختیاں بڑھتی گئیں۔ 'پاکستان میں کئی برس تک ڈکٹیٹرشپ کا ہونا اور جمہوریت کے نہ ہونے نے بھی بائیں بازو کے رجحان کو کچلا۔' حال ہی میں مزدور کسان پارٹی کے ایک مقامی لیڈر صوبہ پختون خواہ کے ضلع چارسدہ کی تحصیل تنگی کے میئر منتخب ہوئے ہیں۔ فیاض علی کی عمر بھی 30 کی دہائی میں ہے اور ان کا ایک غریب کسان گھرانے سے تعلق ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بائیں بازو اور نوجوان پاکستان میں فتح یاب ہو سکتے ہیں۔ عمر ریاض کی طلبا یونین پر ایک تحقیق کے مطابق، جنرل ضیاء کے عہد سے پہلے تک پاکستان میں طلبہ یونینز طلبہ کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لیے ایک ترقی پسند کردار ادا کر رہی تھیں۔ طلبہ کی اکثریت بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں سے منسلک تھیں اور فیسوں سے لے کر بسوں کے کرائے تک کے مسائل ان یونینوں نے حل کروائے تھے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59835462", "summary": "حکومتی دعویٰ ہے کہ منی بجٹ سے غریب طبقے پر بوجھ نہیں پڑے گا کیونکہ نئے ٹیکس اُن کے زیرِ استعمال چیزوں پر نہیں لگ رہے مگر معاشی ماہرین اور صنعتی شعبے کے نزدیک یہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔", "title": "کیا واقعی پاکستان کے غریب طبقے پر اس منی بجٹ کا کوئی اثر نہیں پڑے گا؟", "firstPublished": "2021-12-31T07:00:56.000Z", "id": "b1c9a271-90da-40a4-b4af-2ae6943f2ac4", "article": "اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ یہ بجٹ ملک میں مہنگائی کی ایک نئی لہر کر جنم دے گا تاہم وزیر خزانہ نے اس بجٹ سے غریب آدمی کے متاثر ہونے کے امکان کو مسترد کیا ہے۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ چھوٹ درآمدی اشیا پر ختم کی گئی جو غریب آدمی استعمال نہیں کرتا۔ وزیر خزانہ کے اس دعوے کہ منی بجٹ سے غریب آدمی متاثر نہیں ہو گا، کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق نے بتایا کہ وزیر خزانہ کے دعوے میں حقیقت نہیں اور یہ منی بجٹ مہنگائی کی نئی لہر کو جنم دے گا۔ ڈاکٹر اکرام نے کہا درآمد کیے گئے خام مال پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے یا اس پر سیلز ٹیکس کی شرح کو بڑھا دیا گیا ہے جس سے یہ خام مال مہنگا ہو گا جو پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث بنے گا اور صنعت کار عام صارفین کو زیادہ مہنگی مصنوعات بیچے گا جس کے خریدار امیر و غریب سب ہوتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ادویات کے خام مال کی درآمد پر 17 فیصد جی ایس ٹی تجویز کیا گیا ہے اور حکومت کہتی ہے کہ یہ قابلِ واپسی ہو گا مگر پاکستان میں ریفنڈز کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ بہت عرصے بعد ملتے ہیں اور صنعت کار اشیا کی قیمت میں اضافہ کر کے عام آدمی سے قیمت وصول کر لیتا ہے چنانچہ حکومت کی جانب سے لگائے سیلز ٹیکس سے ملک میں دوائیں مزید مہنگی ہوں گی اور اس کا اثر غریب آدمی پر بھی پڑے گا۔ ڈاکٹر اکرام نے بتایا کہ چینی پر درآمد کی سطح پر پہلے سے سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور یہ اس لیے منی بجٹ کا حصہ نہیں۔ اسی طرح دالوں کی مقامی پیداوار بھی ہوتی ہے اور یہ درآمد بھی کی جاتی ہیں۔ درآمد کی جانے والی دالیں پہلے سے سیلز ٹیکس کے نیٹ میں ہیں جبکہ مقامی پیداوار پر یہ نہیں لگایا جاتا۔ معاشی امور پر نظر رکھنے والے صنعت کار زبیر موتی والا نے اس سلسلے میں کہا کہ ایک عام اور غریب آدمی کا اس منی بجٹ سے متاثر ہونا لازمی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جب صنعتی خام پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم ہو گی تو اس کا لازمی نتیجہ چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں برآمد ہو گا۔ اُنھوں نے کہا کہ جس طرح حکومت نے صنعتی شعبے کے خام مال پر سیلز ٹیکس کی شرح کو بڑھایا ہے اور اس پر دی گئی چھوٹ کو ختم کیا ہے اس کا اثر صنعتوں پر پڑے گا اور پیداواری عمل اس سے سست روی کا شکار ہو گا جو عام آدمی کے لیے ملازمتوں کے کم مواقع پیدا کرے گا۔ زبیر موتی والا نے اس سلسلے میں کہا کہ خام مال پر سیلز ٹیکس صنعتی شعبے کی کاروباری لاگت کو بڑھائے گا اور اس کے دو نتیجے نکل سکتے ہیں ایک تو زیادہ لاگت کی وجہ سے مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں گی جو غریب آدمی کو متاثر کریں گی"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59830892", "summary": "پاکستان کی حکومت کی جانب سے متعارف کرائے گئے تقریباً ساڑھے تین سو ارب روپے کے مِنی بجٹ میں تقریباً 150 اشیا کے سیلز ٹیکس کو زیادہ سے زیادہ 17 فیصد تک بڑھانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ اس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔", "title": "'غریب انسان ان اشیا کو استعمال نہیں کرتا، تو اس سے اس پر کیسے کوئی فرق پڑے گا‘: وزیر خزانہ شوکت ترین", "firstPublished": "2021-12-30T14:57:33.000Z", "id": "608ac40d-2197-4cfe-b35c-1ba91181c411", "article": "پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے منی بجٹ پیش کرنے کے بعد پریس کانفرنس میں اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے ایسا کوئی قدم نہیں لیا ہے جس سے غریب پر بوجھ پڑے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے پیش کیے گئے بجٹ کے دفاع میں کہا ہے کہ ٹیکس کی چھوٹ درآمد کی گئی اشیا پر تھیں جو کہ اب واپس لے لی گئی ہے اور یہ کہ 'غریب انسان ان اشیا کو استعمال نہیں کرتا‘۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے متعارف کرائے گئے تقریباً ساڑھے تین سو ارب روپے کے مِنی بجٹ میں تقریباً 150 اشیا پر پہلے سے موجود سیلز ٹیکس میں اضافہ کر کے یا نئے ٹیکسوں کی مد میں اس میں زیادہ سے زیادہ 17 فیصد تک بڑھانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس بجٹ کے ذریعے حکومت کو امید ہے کہ اسے ساڑھے تین سو ارب سے زیادہ کا ریوینیو حاصل ہو سکے گا لیکن اپوزیشن کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے کہ ان اقدامات سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ یہ سوال پوچھنے کے پیچھے جواز یہ تھا کہ جمعرات کے روز ایوان میں اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان مالی (ضمنی) بِل پر تنقید کرنے کے باوجود اسمبلی سے غیر حاضر رہے جہاں آج حکومت نے منی بجٹ کا بل متعارف کرا دیا ہے۔ آج کے اجلاس میں اپوزیشن اور حکومت کے مابین جملے بازی مسلسل جاری رہی اور اس دوران معاملات اس وقت مزید بگڑ گئے جب ایوان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شگفتہ جمانی نے پاکستان تحریک انصاف کی رہنما غزالی سیفی کو تھپڑ مار دیا۔ اس بل کے تحت غیر ملکی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی عائد ہوگی اور اس کے علاوہ کاسمیٹکس پر بھی ٹیکس بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔ مزید یہ کہ امپورٹڈ موبائل فون پر 17 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔ فلیورڈ دودھ جو کسی برینڈ نام سے فروخت کیا جائے، اس پر ٹیکس دس فیصد سے بڑھا کر سترہ فیصد، جب کہ کسی بھی معروف برینڈ کی جانب سے ڈبے کا دہی، پنیر، مکھن، کریم، دیسی گھی اور دودھ پر بھی ٹیکس سترہ فیصد تک بڑھا دیا جائے گا۔ بیرون ملک سے در آمد شدہ اخبارات، جرنلز، کتابوں پر سترہ فیصد ٹیکس سے سالانہ ڈیڑھ ارب روپے کی آمدن کا امکان ظاہر کیا گیا ہے لیکن اس ٹیکس سے مقامی اخبارات کو استثنی حاصل رہے گا۔ ان میں سٹیٹ بینک آف پاکستان امینڈمنٹ ایکٹ 2021 کا منظور ہونا، جس کے ذریعے موجودہ سٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956 میں اسمبلی کے ذریعے تبدیلیاں لائی جائیں گی، ٹیکس کی چھوُٹ ختم کرنا، اور بجلی کی قیمتوں میں حکومتی ڈیوٹی کو زیادہ کرنا شامل ہیں۔ ساتھ ہی پاکستان کو تقریبا ڈیڑھ ارب ڈالر کے اُس قرضے کا حساب بھی دینا ہوگا جو پاکستان کو اپریل 2020 میں کووڈ وبا سے بچاؤ کے لیے دیا گیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59819264", "summary": "سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے ساحلی شہر گوادر کے لیے اعلان کردہ تیل صاف کرنے کے کارخانے کا منصوبہ اب سی پیک کا 'گیٹ وے' کہلائے جانے والے اس شہر کے بجائے کراچی کے قریب بلوچستان کے ساحلی قصبے حب میں منتقل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔", "title": "کیا حب شہر سعودی آئل ریفائنری کے لیے گوادر کا متبادل ہوگا؟", "firstPublished": "2021-12-29T14:45:50.000Z", "id": "4e90aa37-868a-4c4d-9a80-6b2412e10c2a", "article": "سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے ساحلی شہر گوادر کے لیے اعلان کردہ تیل صاف کرنے کے کارخانے (ریفائنری) کا منصوبہ اب سی پیک کا 'گیٹ وے' کہلائے جانے والے اس شہر کے بجائے کراچی کے قریب بلوچستان کے ساحلی قصبے حب میں منتقل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے سے منسلک ایک سے زیادہ سرکاری اور سیاسی عہدیداروں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سعودی ولی عہد کی جانب سے اعلان کردہ اس منصوبے سے متعلق متعدد مسائل کی وجہ سے یہ آئل ریفائنری اب حب میں لگانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے گیٹ وے گوادر میں اس ریفائنری کی تعمیر کے بارے میں کچھ عرصے سے خبریں منظر عام پر آنا شروع ہوئیں کہ سعودی عرب کی جانب سے گوادر میں ریفائنری کا منصوبہ ترک کر دیا گیا اور اب ان کی جانب سے کراچی سے متصل بلوچستان کے صنعتی ٹاون حب میں اس ریفائنری کی تعمیر کی جائے گی۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان سے پہلے سعودی عرب کے وزیر توانائی خالد الفلیح نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب پاکستان کے ساحلی شہر گوادر میں ایک بڑی ریفائنری تعمیر کرے گا۔ اس اعلان پر اس وقت مزید پیش رفت ہوئی جب فروری 2019 میں محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے موقع پر اس ریفائنری کے قیام کے لیے ایک مفاہمتی یاداشت پر دستخط کیے گئے جس کے تحت آٹھ سے دس ارب ڈالر کی لاگت سے یہ گوادر میں بنائی جائے گی۔ انھوں نے بتایا کہ 'کراچی میں کام کرنے والی ریفائنری میں خام تیل سے تیار ہونے والے ڈیزل کو وائٹ پائپ لائن سے پنجاب ترسیل کیا جاتا ہے اور اسی طرح پٹرول کا کچھ حصہ بھی اس پائپ لائن سے پنجاب اور شمال کی جانب سے بھیجا جاتا ہے۔ گوادر کراچی سے بہت دور ہے اور وہاں کی ریفائنری میں تیار ہونے والی مصنوعات کی تیاری اور ان کی ترسیل کے لیے ایک نئی پائپ لائن ڈالنی پڑتی جس کا تخمینہ ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر لگایا گیا ہے اور سعودی عرب کی جانب سے اس کا امکان نہیں ہے کہ وہ انتی بڑی سرمایہ کاری اس پائپ لائن پر کرے۔' حکومتی عہدیدار نے اس سلسلے میں بتایا کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں ریفائنری اب حب میں ہی بنائی جائے گی تاہم اس پر بھی ابھی پیش رفت نہیں ہو پا رہی کیونکہ اس سال پہلے سعودی عرب کی کمپنی آرامکو نے حب میں ریفائنری کے لیے فزیبلٹی رپورٹ بھی بنائی تھی تاہم اس کے بعد اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی جس کی ایک وجہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں آنے والی ہلکی سی تلخی تھی جو اب دور ہو چکی ہے اور اس کے بعد پاکستان کو تین ارب ڈالر ڈیپازٹس میں رکھنے اور موخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی کی سہولت بھی دی گئی ہے تاہم ریفائنری کے منصوبے پر ابھی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-59782784", "summary": "انڈیا کی ریاست اترپردیش کے شہر کانپور میں حکام نے اُس تاجر کو گرفتار کر لیا ہے جن کے گھر سے 275 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم برآمد ہوئی تھی۔ پرفیوم کے کاروبار سے وابستہ تاجر پیوش جین کو ٹیکس چوری کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔", "title": "275 کروڑ روپے سے زائد رقم گھر رکھنے والا تاجر ٹیکس چوری کے الزامات کے تحت گرفتار", "firstPublished": "2021-12-24T13:18:03.000Z", "id": "0dad84b8-6914-4e3f-8d9e-32066dc56a09", "article": "انڈیا کی ریاست اترپردیش کے شہر کانپور میں حکام نے اُس تاجر کو گرفتار کر لیا ہے جن کے گھر سے 275 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم برآمد ہوئی تھی۔ پرفیوم کے کاروبار سے وابستہ تاجر پیوش جین کو ٹیکس چوری کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ کانپور کے اسسٹنٹ کمشنر سوریندر کمار نے خبررساں ادارے پی ٹی آئی کو بتایا ہے کہ ملزم کو مزید تفتیش کے لیے احمدآباد کے جایا گیا ہے۔ گذشتہ جمعرات کو سینٹرل بورڈ آف ٹیکس اینڈ کسٹمز (سی بی آئی سی) نے کانپور میں پیوش جین کے گھر، دفتروں اور فیکٹریوں میں چھاپے مارے تھے اور ابتدائی طور پر حکام کا کہنا تھا کہ اُن کے گھر سے تقریباً 150 کروڑ روپے کی نقد رقم ضبط کی جا چکی ہے، تاہم نوٹوں کی گنتی ابھی جاری ہے۔ ٹیکس حکام نے انڈیا کی سرکاری خبررساں ایجنسی کو بتایا کہ تاجر کے گھر سے لگ بھگ 275 کروڑ روپے سے زائد کی کرنسی کے علاوہ بڑی مقدار میں سونا بھی برآمد ہوا ہے۔ انڈیا میں انکم ٹیکس کے محکموں اور کسٹمز کے حکام اگلے سال فروری مارچ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے پہلے ریاست اتر پردیش میں چھاپے مار رہے ہیں۔ کانپور میں اس کارروائی نے نہ صرف سیاسی حلقوں میں بحث چھیڑ دی ہے بلکہ عام لوگوں کو بھی حیران کر دیا ہے۔ حکام کے مطابق انھوں نے کانپور میں پیوش جین کی فیکٹری اور رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تھا۔ اس کے علاوہ مختلف ٹیموں نے گجرات میں ان کے گھر، فیکٹری، ان کے دفتر، کولڈ سٹوریج اور پٹرول پمپ پر بھی چھاپے مارے تھے۔ پیوش جین کانپور میں کنوج کے رہنے والے ہیں۔ کنوج میں ان کا ایک گھر، پرفیوم فیکٹری، کولڈ سٹوریج اور پیٹرول پمپ ہے۔ حکام کے مطابق پیوش جین تقریباً 40 کمپنیوں کے مالک ہیں جن میں سے دو مشرق وسطیٰ میں بھی ہیں۔ اگرچہ وہ بنیادی طور پر پرفیوم کے تاجر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اتنی بڑی مقدار میں کرنسی نوٹ برآمد ہونے کے بعد ابتدائی طور پر کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ اب تک موصول ہونے والی معلومات کے مطابق پیوش جین کے گھر سے کئی جعلی رسیدیں بھی برآمد ہوئی ہیں۔ پیوش جین کے گھر پر چھاپہ مارنے سے پہلے سی بی آئی سی نے ایک پان مصالحے کے تاجر کے خلاف کارروائی کی تھی اور وہاں سے انھیں پیوش جین سے متعلق معلومات ملیں جس کے بعد یہ کارروائی کی گئی تھی۔ معلومات کے مطابق نوٹوں کی گنتی کے لیے ایس بی آئی حکام کی مدد لی گئی اور رقم کو گننے کے لیے نوٹ گننے والی مشینوں کا استعمال کیا گیا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ کانپور میں تاجر کے املاک پر چھاپے کا سماج وادی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس کا پرفیوم بنانے والوں سے کوئی تعلق ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-59746992", "summary": "انڈین نژاد عذرا ضیا کو امریکا نے تبت کے لیے خصوصی رابطہ کار بنایا تو اس پر چین نے کہا کہ یہ اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ امریکہ تبت پر حال ہی میں اور کیا کر رہا ہے؟", "title": "انڈین نژاد عذرا ضیا کی تقرری: کیا امریکہ تبت کے بہانے چین پر دباؤ بڑھا رہا ہے؟", "firstPublished": "2021-12-24T04:31:18.000Z", "id": "6ed6e2f6-104f-4398-9c0f-fea3576ad683", "article": "امریکہ نے عُذرا ضیا کو تبت کے لیے خصوصی رابطہ کار مقرر کیا ہے۔ امریکہ نے پیر کو محکمہ خارجہ کی ایک اعلیٰ اہلکار عذرا ضیا کو تبت کے لیے خصوصی رابطہ کار (سپیشل کوارڈینیٹر) مقرر کیا ہے۔ چین نے امریکہ کی جانب سے کی جانے والی اس تقرری کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ واشنگٹن میں چینی سفارت خانے نے امریکی اقدام کو ایک ’سیاسی چال‘ قرار دیا ہے۔ سفارت خانے کے ترجمان لیو پینگیو نے کہا کہ ’امریکہ کو چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور عدم استحکام کو روکنا چاہیے۔‘ کیلسانگ ڈولما لکھتی ہیں کہ تبت پر چین کی ہاں میں ہاں ملا کر، امریکہ ایک طاقتور ملک تک اپنی رسائی کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ انسانی حقوق کے بارے میں امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹوں نے اکثر ایسا ہی کیا ہے جیسا کہ سچوان، یونان، چنگھائی، گانسو کے علاقے، اور تبت کے خود مختار علاقے کے لیے۔ پھر سنہ 2020 میں امریکہ نے ’تبت پالیسی اور سپورٹ ایکٹ‘ پاس کیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ تبت میں مذہبی رہنماؤں کی جانشینی بشمول دلائی لامہ کو بدھ مت کے پیروکاروں پر چھوڑ دیا جانا چاہیے اور چینی حکومت کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ حال ہی میں انڈیا، آسٹریلیا، جاپان اور چین نے امریکہ کے ساتھ کواڈ الائنس کا اعلان کیا ہے۔ چین کو لگتا ہے کہ یہ اتحاد بھی اسے نشانہ بنانے کے لیے بنایا گیا ہے، اس تصویر میں وزیر اعظم مودی امریکی نائب صدر کملا ہیرس کے ساتھ موجود ہیں ڈاکٹر دیپک کہتے ہیں کہ ’امریکہ کو لگتا ہے کہ چین ایک چیلنجر کی طرح اس کے سامنے کھڑا ہے۔ اور یہ کہ امریکہ معاشی طاقت اور تکنیکی مہارت کے ساتھ مقابلہ کر رہا ہے۔ جیسا کہ سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین میں تھا۔ یہ ایک نظریاتی تقسیم تھی۔ امریکہ ویسی تقسیم کو واپس لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین بھی اس سے خوفزدہ ہے، اس لیے اس نے اپنی جمہوریت پر ایک وائٹ پیپر بھی جاری کیا ہے۔ چین اپنے ترقی کے ماڈل کو فروغ دینے کی زیادہ کوشش کرتا ہے تاکہ دنیا اس کی حمایت کرے۔‘ انڈیا کے سینیئر جیو سٹریٹجسٹ برہما چیلانی نے اس سال ٹائمز آف انڈیا کے ایک اداریے میں لکھا تھا کہ ’انڈیا کو چین کی طرف سے اپنے اتحاد اور علاقائی سالمیت کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سوچ و بچار کر کے تعمیری قدم اٹھانے ہوں گے۔ تبت پر نیا ایکٹ اس لیے بھی اہم ہے۔ تبت چین کے لیے ایک حساس خطہ ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59741887", "summary": "یہ 24 دسمبر سنہ1957 کا واقعہ ہے جب سٹیٹ بینک آف پاکستان نے پہلی مرتبہ سو روپے مالیت کا ایسا کرنسی نوٹ جاری کیا جس پر بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ سبز رنگ کے اس کرنسی نوٹ کے دوسری جانب بادشاہی مسجد لاہورکی تصویر بنی تھی۔ قائد اعظم کی تصویر والے اس کرنسی نوٹ کا عوام اور علما دونوں کی جانب سے بڑا شدید ردعمل ہوا تھا۔", "title": "کرنسی نوٹ پر بانی پاکستان کی تصویر پر علما معترض کیوں ہوئے؟", "firstPublished": "2021-12-24T04:04:11.000Z", "id": "6536271b-d626-4000-b65e-32618496ca03", "article": "یہ 24 دسمبر 1957 کا واقعہ ہے جب سٹیٹ بینک آف پاکستان نے پہلی مرتبہ سو روپے مالیت کا ایسا کرنسی نوٹ جاری کیا جس پر بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ سبز رنگ کے اس کرنسی نوٹ کے دوسری جانب بادشاہی مسجد لاہور کا عکس تھا۔ یہ کرنسی نوٹ بیک وقت کراچی، لاہور اور ڈھاکہ (موجودہ بنگلہ دیش) سے جاری ہوئے تھے۔ اس نوٹ پر سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اس وقت کے گورنر عبدالقادر کے دستخط تھے جو اُردو زبان میں کیے گئے تھے۔ یہ پاکستان کے پہلے کرنسی نوٹ تھے جن پر کوئی انسانی تصویر شائع ہوئی تھی۔ محمد علی جناح کی تصویر والے اس کرنسی نوٹ کے جاری ہونے کے بعد علما اور دیگر افراد کی جانب سے شدید ردعمل بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ اسی خبر میں مرکزی جمعیت علمائے اسلام کے نائب صدر مولانا مفتی محمد شفیع کا بیان بھی شائع ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ 25 دسمبر کو بانی پاکستان کے یوم پیدائش کے موقع پر بازاروں میں سو روپے کا نیا نوٹ محمد علی جناح کی تصویر کے ساتھ رائج کیا گیا ہے اور اسے بانی پاکستان کی یاد منانا قرار دیا جا رہا ہے۔ 31 دسمبر 1957 کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق سرگودھا کی آٹھ مختلف مذہبی اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ پاکستانی نوٹوں پر تصاویر چھاپنے کے متعلق سٹیٹ بینک آف پاکستان کی نئی تجویز حکومت پاکستان کے دستور کے رہنما اصولوں اور اس کی روح کے سراسر خلاف ہے حالانکہ پاکستانی حکام نے دستور کی وفاداری کا حلف لے رکھا ہے، ہم اس تجویز پر سخت احتجاج کرتے ہیں اور گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس قسم کی تجویز پر عمل درآمد نہ کریں جس سے پاکستانی سکوں پر کسی فرد کی تصویر چھاپنے کی رسم جاری ہو۔ علما کے احتجاج کے باوجود کچھ ہی دنوں میں یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا اور وہ سلسلہ جو سو روپے کے کرنسی نوٹوں سے شروع ہوا تھا دیگر نوٹوں تک بھی وسیع ہو گیا اور پانچ روپے اور اس سے زیادہ مالیت کے تمام نوٹوں پر بانی پاکستان کی تصویر شائع ہونے لگی۔ یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہو گا کہ تین اکتوبر 1948 کو ریاست بہاولپور نے ایک ایسا ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا جس پر بانی پاکستان محمد علی جناح اور امیر آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی کی تصاویر شائع کی گئی تھیں۔ یہ دنیا کا پہلا ڈاک ٹکٹ تھا جس پر محمد علی جناح کی تصویر شائع ہوئی تھی۔ پاکستان کے ڈاک ٹکٹوں پر بانی پاکستان کی تصویر باقاعدہ طور پر پہلی مرتبہ 25 دسمبر 1966 کو شائع ہوئی تھی۔ یہ دو ڈاک ٹکٹوں کا سیٹ تھا جن کی مالیت 15 پیسے اور 50 پیسے تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-59759222", "summary": "سری لنکا کو اس وقت بیرونی قرضوں اور زرِ مبادلہ کے زخائر سے متعلق شدید بحران کا سامنا ہے۔ کورونا وائرس کی وباء کے نتیجے میں سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی میں انتہائی کمی سے ملک کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔", "title": "سری لنکا ایران کا تیل کا قرض چائے بھیج کر چکائے گا", "firstPublished": "2021-12-22T14:42:14.000Z", "id": "e8d8cfed-a020-4798-9e7f-b83fc1557416", "article": "سری لنکا میں حکومت کے ایک وزیر کا کہنا ہے کہ ان کا ملک ایران سے درآمد کیے جانے والے تیل کی قیمت اپنی چائے سے ادا کرے گا۔ رمیش پتھیرانا کا کہنا ہے کہ 251 ملین ڈالر کا قرضہ اتارنے کے لیے سری لنکا ہر مہینے پانچ ملین ڈالر کی چائے ایران کو دے گا۔ سری لنکا کو اس وقت بیرونی قرضوں اور زرِ مبادلہ کے زخائر سے متعلق شدید بحران کا سامنا ہے۔ کورونا وائرس کی وباء کے نتیجے میں سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی میں انتہائی کمی سے ملک کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ سری لنکا میں ’ٹی بورڈ‘ کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ یہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ چائے کے بدلے بیرونی قرضہ ادا کیا جا رہا ہے۔ رمیش پتھیرانا کا کہنا ہے کہ قرضے کی ادائیگی کے اس طریقۂ کار سے ایران پر اقوامِ متحدہ یا امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی نہیں ہو گی کیونکہ چائے کا شمار ان اشیاء میں ہوتا ہے جو انسانی فلاح کے زمرے میں آتی ہیں اور اس معاملے میں کوئی بھی ایسا ایرانی بینک شامل نہیں ہے جسے بلیک لسٹ کیا گیا ہو۔ سری لنکا کی کاشت کاری کی وزارت کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ سکیم سے سری لنکا کو زرِ مبادلہ کے لحاظ سے فائدہ ہو گا کیونکہ ایرانی قرضے کی ادائیگی سیلون چائے کی فروخت کے ذریعے سری لنکا کے روپے میں ہو گی۔ اس کا مطلب ہے کہ سری لنکا کی حکومت چائے کاشت کرنے والی کمپنیوں سے روپے میں ادائیگی کے ذریعے چائے خرید کر ایران بھیجے گی۔ 'اس سے ایکسپورٹر کو فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ ہمیں روپے میں ادائیگی ہو گی۔ یہ فری مارکیٹ سے انحراف ہے اور ہمیں اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔' ذرائع ابلاغ میں چھپنے والی خبروں کے مطابق سری لنکا کو آئندہ برس قرضوں کی مد میں چار عشاریہ پانچ ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔ صرف جنوری میں ’انٹرنیشنل سوورن بانڈ‘ کی مد میں 500 ملین کی ادائیگی ہونی ہے۔ ملک کے مرکزی بینک کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق نومبر کے اختتام تک ملک میں زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہو کر صرف ایک عشاریہ چھ ارب ڈالر رہ گئے تھے۔ مرکزی بینک کے گورنر اجیتھ نیوارد سابرال نے اس مہینے کے شروع میں کہا تھا کہ ان کا ملک پر اعتماد ہے کہ وہ 'بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا وہ سارا بیرونی قرضہ اتار دے گا جو سنہ 2022 میں واجب الادا ہے۔ سری لنکا سالانہ 340 ملین کلو گرام چائے پیدا کرتا ہے۔ گزشتہ برس اس نے 265.5 ملین کلوگرام چائے برآمد کی تھی جس کی لاگت 1.24 ارب ڈالر تھی۔ سری لنکا کی آبادی کا تقریباً پانچ فیصد چائے کی صنعت سے وابستہ ہے جہاں پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر چائے کے باغات سے پتے توڑ کر کارخانوں میں چائے کی پتی تیار کی جاتی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59750503", "summary": "کسی ملک کے دیوالیے ہونے کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ملک جب اپنے بیرونی قرضے کی قسطیں اور اس پر سود کی ادائیگی سے قاصر ہو تو اس ملک کو دیوالیہ قرار دیے دیا جاتا ہے۔ لیکن معاشی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگرچہ پاکستان کے معاشی اشاریے خراب صورت حال کا شکار ہیں تاہم ملک کے دیوالیہ ہونے کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔", "title": "ملک دیوالیہ کیسے ہوتا ہے اور اس کے منفی اثرات کیا ہوتے ہیں؟", "firstPublished": "2021-12-22T04:20:47.000Z", "id": "b641b1ed-a5ba-4a1c-b32d-8eeb6622df92", "article": "یوں تو شبر زیدی نے اپنے بیان کی وضاحت کر دی ہے تاہم ملک میں اس حوالے سے ابھی بھی خاصی بحث کی جا رہی ہے۔ ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ اگرچہ پاکستان کے معاشی اشاریے خراب صورت حال کا شکار ہیں تاہم ملک کے دیوالیہ ہونے کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔ کسی ملک کے دیوالیے ہونے کے بارے میں ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ ایک ملک جب اپنے بیرونی قرضے کی قسطیں اور اس پر سود کی ادائیگی سے قاصر ہو تو اس ملک کو دیوالیہ قرار دیے دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس سلسلے میں کہا کہ ’کسی ملک کے لیے داخلی قرضے بھی ایک مسئلہ ہوتے ہیں تاہم اس کی بنیاد پر ملک کو بین الاقوامی سطح پر دیوالیہ نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ اندرونی قرضے کی ادائیگی کے لیے مقامی کرنسی چھاپ کر ان کی ادائیگی تو ہو سکتی ہے لیکن بیرونی قرضے کی ادائیگی کے لیے عالمی کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ اس وقت ڈالر کو عالمی کرنسی کا درجہ حاصل ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ایک ملک اس قرضے کی واپسی کے لیے عالمی مالیاتی اداروں اور دوسرے ممالک کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے کہ قرضہ اور اس پر سود کی ادائیگی ایک خاص وقت اور مدت میں کی جائے گی تاہم جب کوئی ملک اس سلسلے میں قرضے کی قسط اور اس پر سود کی ادائیگی میں ناکام ہو جائے تو یہ ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر امجد رشید نے اس سلسلے میں بتایا کہ ’جب ملک کے جاری کھاتوں (کرنٹ اکاؤنٹ) کا خسارہ بہت زیادہ بڑھ جائے اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہوں اور اس کے مقابلے میں بیرونی قرضے کی قسطیں اور ان پر سود کی ادائیگی ایک مسئلہ بن جائے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے ک طرف بڑھ رہا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’جاری کھاتوں کا خسارہ اس لیے بڑھتا ہے کہ ملک میں درآمدات (امپورٹ) زیادہ ہوتی ہیں ا ور اس کے مقابلے میں برآمدات (ایکسپورٹ) اس رفتار سے نہیں بڑھ پاتیں کہ درآمدات پر بیرون ملک جانے والے ڈالر برآمدات کی صورت میں واپس آئیں اور اس کا دباؤ زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑتا ہے کیونکہ وہاں سے درآمدات کے لیے ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ اس ادائیگی کی وجہ سے بیرونی قرضے کی قسط اور اس پر سود کی واپسی مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ بیرونی قرضے کی ادائیگی بھی ڈالر میں کرنی ہوتی ہے۔‘ پاکستان کی خراب معاشی صورتحال اور اس کی وجہ سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے امکان پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر پاشا نے کہا اس کا ان کی نظر میں کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ پاکستان کی معاشی صورتحال ایسی نہیں کہ اسے دیوالیہ قرار دے دیا جائے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59741886", "summary": "پاکستان، ترکی اور ایران کےدرمیان اسلام آباد سے تہران اور پھر استنبول تک ریل سروس کی بحالی کے لیے اس منصوبے کا افتتاح کیا گیا ہے۔", "title": "اسلام آباد، تہران، استنبول ریل سروس کا دوبارہ افتتاح، کیا ٹرین پٹری پر چڑھے گی؟", "firstPublished": "2021-12-21T14:13:56.000Z", "id": "2adc56ea-7fb4-4f97-87af-ba1dc91443d0", "article": "پاکستان، ترکی اور ایران کےدرمیان اسلام آباد سے تہران اور پھر استنبول تک ریل سروس کی بحالی کے لیے اس منصوبے کا دوبارہ افتتاح کیا گیا ہے۔ کارگو ٹرین کے بعد مسافر ریل گاڑی چلانے کے عزم کا بھی اظہار کیا گیا تھا۔ اسلام آباد سے استنبول تک کی مسافت تقریباً ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر بنتی ہے۔ ان کے مطابق یہ ٹرین جس کی رواں ماہ افتتاحی تقریب میں وہ خود بھی شریک تھے، صرف 12 دن میں ترکی سے تہران پھر ازبکستان اور قازقستان سے ہوتی ہوئی چین پہنچی ہے۔ ان کے مطابق ترکی سے 21 دسمبر کو بھی چین کے لیے دوسری ٹرین 35 کنٹینر لے کر روانہ ہو گئی ہے۔ یوں تو روٹ کے مطابق یہ ریل اسلام آباد سے لاہور اور سکھر کے راستے کوئٹہ پہنچتی ہے جہاں سے آگے پاکستان کے سرحدی شہر تفتان سے ہوتی ہوئی ایران کے شہر زاہدان تک کا سفر شروع ہوتا ہے۔ ریلوے حکام کے مطابق اسلام آباد سے زاہدان تک ایک طرح کی ریل کی پٹڑی ہے جبکہ زاہدان سے آگے استنبول تک پھر سٹینڈرڈ گیج کی پٹڑی ہے، جس وجہ سے پاکستانی ٹرین اس پٹڑی پر مزید سفر جاری نہیں رکھ سکتی۔ اس لیے زاہدان کے مقام پر ایرانی حکام پاکستانی ٹرین سے کنٹینر اپنی ریل گاڑی میں منتقل کر دیتے ہیں، جو پھر وہاں سے استنبول تک جاتی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان کوئٹہ تفتان ریلوے ٹریک سنہ 1920 میں بنایا گیا تھا۔ اس ٹریک کی اپ گریڈیشن میں سٹرکچر کی تبدیلی، 183 ڈپس کی پلوں میں منتقلی، پرانے پلوں کی بحالی اور سگنلز کی فراہمی کا ایک مکمل نظام شامل ہے۔ کوئٹہ چیمبر کے جمال الدین اچکزئی کے مطابق اس ٹرین سروس کا سب سے بڑا مسئلہ تو یہی ہے کہ ایران پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے کاروباری لین دین میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اب یا تو ’بارٹر ٹریڈ‘ کا نظام وضع کیا جائے، جس کے تحت مال کے بدلے مال دیا جائے یا پھر ایسے بینکوں کے ذریعے کارروبار کیا جائے جنھیں پابندیوں سے استثنیٰ حاصل ہو۔ ان کے خیال میں اگلے سال سے جس سروس کی بحالی پر اتفاق ہوا ہے وہ ٹرین ایک ہفتے سے دس دن تک اسلام آباد سے استنبول تک اپنا سفر مکمل کر سکے گی جبکہ سمندری جہاز کو پاکستان سے استنبول تک 21 دن لگ جاتے ہیں۔ سیکریٹری ٹی ڈی اے پی کا کہنا ہے کہ اس سروس کو بہتر بنانے کے لیے اس بات کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ یہاں سے جب ٹرین استنبول تک سامان لے کر جائے تو پھر کوئی ایسا نظام پہلے سے ایسا ہونا چائیے کہ واپسی پر وہی ٹرین کچھ لے کر بھی واپس آئے۔ پاکستانی حکام کے مطابق تاجر برادری نے اس ریل گاڑی میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس کنٹینر سروس کا خرچہ کم ہو گا اور کم وقت میں سامان یورپ کی منڈیوں تک پہنچایا جا سکے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-59708445", "summary": "خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق رواں سال کی ابتدا سے اب تک لیرا کی قدر میں 55 فیصد کمی ہوئی ہے اور اس میں سے 37 فیصد گراوٹ صرف گذشتہ 30 دنوں میں ہی دیکھنے میں آئی ہے۔", "title": "اردوغان کی پالیسی یا کچھ اور، لیرا تیزی سے اپنی قدر کیوں کھو رہا ہے؟", "firstPublished": "2021-12-18T09:57:36.000Z", "id": "2a50ce8f-c8c2-47f9-8b91-0e0d0d6d09da", "article": "سترہ دسمبر کو ترک مرکزی بینک نے جیسے ہی لیرا پر شرحِ سود میں کمی کا اعلان کیا تو ڈالر کے مقابلے میں لیرا کی قدر میں تیزی سے گراوٹ ہوئی اور ایک ڈالر 17 لیرا سے بھی زیادہ کا ہو گیا۔ مرکزی بینک گذشتہ دو ہفتوں میں متعدد بار کرنسی مارکیٹ میں مداخلت کر کے ڈالر فروخت کر چکا ہے تاکہ لیرا کی گراوٹ کو روکا جا سکے۔ نتیجتاً ترکی کے زرِ مبادلہ کے سکڑتے ذخائر میں مزید کمی ہوئی ہے۔ اس سے لیرا کی قدر میں کمی کا مرحلہ تیز ہو گیا جس سے ترک شہریوں کے حالاتِ زندگی سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح 20 فیصد ہے، جس نے اُن کی جمع پونجی ختم کر کے رکھ دی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق رواں سال کی ابتدا سے اب تک لیرا کی قدر میں 55 فیصد کمی ہوئی ہے اور اس میں سے 37 فیصد گراوٹ صرف گذشتہ 30 دنوں میں ہی دیکھنے میں آئی ہے۔ لیرا کی قدر میں کمی کی وجہ سادہ اور واضح ہے۔ یہ صدر رجب طیب اردوغان کی شرحِ سود کم سے کم رکھنے کی غیر روایتی معاشی پالیسی ہے جو اُن کے مطابق معیشت کی نمو کے لیے ضروری ہے جبکہ اس سے ترک مصنوعات کی برآمد بھی آسان ہوگی کیونکہ یہ بین الاقوامی منڈی میں سستی فروخت کی جا سکیں گی۔ مگر اس پالیسی میں ایک پہلو کو نظرانداز کیا گیا ہے اور وہ یہ ترکی اپنی برآمدی مصنوعات کی تیاری کے لیے خام مال کا بڑا حصہ درآمد کرتا ہے۔ اور لیرا کی قدر میں کمی کے باعث ان درآمدات کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مگر ترک مرکزی بینک ایک اور مرتبہ کرنسی مارکیٹ میں مداخلت کرنے سے نہیں جھجھکا اور لیرا کی قدر میں مزید کمی کے آگے بند باندھنے کی خاطر کروڑوں ڈالر مارکیٹ میں دوبارہ فراہم کر دیے جس سے ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو نقصان پہنچا۔ اردوغان کی درخواست شرحِ سود گذشتہ ستمبر سے اب تک پانچ مرتبہ ایک ایک فیصد کم کی گئی ہے اور اس دوران ترک لیرا کی قدر ڈالر کے مقابلے میں نصف ہو کر رہ گئی ہے اور مہنگائی میں 21 فیصد کا اضافہ (سرکاری ڈیٹا کے مطابق) ہوا ہے، جو کہ پانچ فیصد کے سرکاری ہدف کے مقابلے میں تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔ لیرا کی قدر میں کمی کا سلسلہ 2016 میں شروع ہوا تھا جب ایک ڈالر 2.92 لیرا کا تھا اور اسی سال اس کی قدر میں 17 فیصد کمی ہوئی تھی۔ سال کے اختتام تک ایک ڈالر 3.53 لیرا کا ہو گیا تھا۔ پھر 2017 کے اوائل میں ایک ڈالر 3.779 لیرا کا ہو گیا اور آئندہ سالوں میں اس کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری رہا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59602704", "summary": "سری لنکا کے شہری کے ساتھ پیش آنے والے اندوہناک واقعے سے سیالکوٹ کا ایک منفی امیج ابھرا تاہم سیالکوٹ کا کاروباری طبقہ اس واقعے کے منفی اثرات سے جلد باہر نکلنے کے بارے میں پر امید ہے اور وہ شہر کو غیر ملکی ورکرز اور ملازمین کے لیے ابھی بھی محفوظ سمجھتا ہے۔", "title": "سیالکوٹ کی صنعت میں غیر ملکیوں کی خدمات کتنی اہم ہیں", "firstPublished": "2021-12-10T04:11:41.000Z", "id": "d4feb3df-c0fb-4ff9-a6ab-95efdf92fb49", "article": "غیر ملکی ماہرین کی جانب سے سرجیکل مصنوعات کی سرٹیفکیشن کے نظام میں معاونت کے واقعے کے تین عشروں سے زائد عرصے کے بعد اسی سیالکوٹ شہر میں ایک ہجوم کے ہاتھوں مبینہ توہین مذہب کے الزام کی بنا پر سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا قتل ہوتے ہیں جو گزشتہ نو برس سے شہر کی ایک ٹیکسٹائل کمپنی میں ایک انتظامی عہدے پر کام کر رہے تھے۔ سیالکوٹ میں پیش آنے والے اس اندوہناک واقعے نے جہاں پاکستان کے تشخص کو ٹھیس پہنچایا تو اس کے ساتھ پاکستان کے ایکسپورٹ سٹی سیالکوٹ کے کاروباری تاثر کو بھی بری طرح مجروح کیا۔ سری لنکا کے شہری کے ساتھ پیش آنے والے اندوہناک واقعے سے سیالکوٹ کا ایک منفی تاثر ابھرا ہے تاہم سیالکوٹ کا کاروباری طبقہ اس واقعے کے منفی اثرات سے جلد باہر نکلنے کے بارے میں پر امید ہے اور وہ شہر کو غیر ملکی ورکرز اور ملازمین کے لیے ابھی بھی محفوظ سمجھتا ہے۔ پاکستان کے صنعتی شعبے اور خاص کر برآمدی شعبے میں سیالکوٹ کا ایک بہت اہم کردار ہے۔ سیالکوٹ شہر جہاں کھیلوں کے سامان اور جراحی یعنی سرجیکل مصنوعات کی تیاری اور ان کی برآمد کے لیے معروف ہے تو اس کے ساتھ یہاں دوسرے شعبے کی صنعتیں بھی بہت زیادہ تعداد میں کام کر رہی ہیں۔ قاسم ملک نے اس سلسلے میں کہا کہ ان غیر ملکیوں کا سیالکوٹ کے برآمدی شعبے میں بہت اہم کردار ہے اگرچہ ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں تاہم ان کی تیکنیک سے اس شہر کے صعنتی شعبے کو بہت زیادہ مدد ملی ہے۔ مسٹر تان سے جب پوچھا گیا کہ وہ سیالکوٹ میں سری لنکا کے شہری کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد خود کو محفوظ سمجھ رہے ہیں تو انھوں نے کہا کہ یہ بہت افسوسناک واقعہ تھا تاہم وہ کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے۔ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر ڈاکٹر سرفراز بشیر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ یہ غیر ملکی انتظامی امور بہت اچھے طریقے سے نمٹاتے ہیں اور مزدوروں کے ساتھ ان کا رویہ بھی بہت بہتر ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کا تعلیمی لیول اور اپنے شعبے میں ان کی مہارت بھی انھیں ایک برتری دلاتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جب ایک زمانے میں آئی ایس او کے معیار پر پورا اترنا لازمی تھا تو ان غیر ملکی ماہرین اور پروفینشلز نے سیالکوٹ کی صنعت کو بہت مدد فراہم کی۔ انھوں نے کہا اگرچہ غیر ملکیوں کی تعداد زیادہ نہیں تاہم جو ہیں انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحتیوں سے شہر کے برآمدی شعبے کو بہت مدد فراہم کی۔ قاسم بریار نے سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا کے ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد دوسرے غیر ملکیوں کے تحفظ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فیکٹریوں میں اس بارے میں کونسلنگ کا عمل جاری ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے اور اس سلسلے میں فیکٹریوں کے ہیومن ریسورس کے شعبے کام کر رہے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/magazine-59464346", "summary": "جنوبی ایشیا کے تین بڑے ممالک کی نوآبادیاتی تاریخ اور پھر سیاسی سفر ملتا جلتا ہے لیکن ان تینوں کی سمتیں مختلف نظر آتی ہیں۔ لیکن کیا یہ واقعی مختلف سمتوں میں سفر کر رہے ہیں یا یہ نظر کا دھوکہ ہے؟", "title": "بنگلہ دیش، انڈیا اور پاکستان: مختلف سمتوں میں سفر، حقیقت یا نظر کا دھوکہ ہے؟", "firstPublished": "2021-12-10T04:00:11.000Z", "id": "f40d4d5e-55c8-46ef-864e-1f31f476c96e", "article": "جنوبی ایشا کے بارے میں کئی کتابوں کے مصنف اور سابق امریکی سفارت کار اور سکالر کریگ بیکسٹر نے سنہ 1985 میں ایک مقالے میں لکھا تھا کہ 'اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ انڈیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، اور یہ کہ پاکستان ایک ماڈل پریٹورین سٹیٹ (فوجی ریاست) ہے، اور بنگلہ دیش کی بین الاقوامی ساکھ ایک 'اقتصادی ٹوکری' کے طور پر ہے۔ یہ بات بھی اکثر کہی جاتی ہے کہ ان تینوں ممالک کو لبرل برطانوی روایات وراثت میں ملی ہیں۔ اور یہ کہ انھیں محکوم زمانے کے دور کے حکمرانی کا طاقتور مرکزی شاہی نظام اور اس کے ساتھ موجود سٹیل فریم (نوکر شاہی) کا ڈھانچہ ملا، تاہم ایک اہم نکتے کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے: اوپر بیان کی گئی ان تمام باتوں میں کچھ نہ کچھ سچائی موجود ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی بات مکمل طور پر درست نہیں ہے اور کوئی بھی بات ان قومی ریاستوں کی مقامی ثقافتی روایات کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں پیش کرتی ہے۔‘ انڈیا کے معاشی امور پر لکھنے والے ایک معروف صحافی مناس چکرورتی یہی نکتہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'اگرچہ اقوام متحدہ جنوبی ایشیا کے تینوں ممالک، یعنی انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش سبھی کو اب 'درمیانی انسانی ترقی' والے ممالک کی درجہ بندی میں شمار کرتا ہے اور ان کی معیشتیں اب زیادہ امیر ہیں، تاہم ان کے عوام اب بھی واضح اقتصادی اور سماجی عدم مساوات اور ناانصافیوں اور غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، اور بہت کم تحفظ کے ساتھ غیر معمولی ملازمتوں میں کام کر رہے ہیں۔' ان تینوں ممالک کی سیاسی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے تینوں ممالک سے تعلق رکھنے والے مگر آزاد تحقیق کرنے والے دانشوروں سے چند سوالات کیے تاکہ ان سے جنوبی ایشیا کے ان تین ممالک کی مختلف سمتوں میں سفر کے اسباب کو سمجھا جا سکے۔ سوال 1: پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈیا کا نہ صرف ایک جیسا محل وقوع ہے بلکہ تینوں ممالک کی نوآبادیتی کی تاریخ بھی ایک جیسی ہے۔ تو پھر سات دہائیوں کے بعد بھی ان مملکوں کی مجموعی طور پر ترقی کی سمتیں مختلف کیوں دکھائی دیتی ہیں؟ سوال 10: اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں اقتصادی ترقی ہوئی ہے، تاہم ان ممالک کے عوام کی بڑی تعداد غربت کی لکیر کے نیچے رہ رہی ہے۔ کیا ان ممالک کے غریب عوام کے لیے کوئی امید ہے، یا یہاں عدم مساوات کا برقرار رہنا ناگزیر ہے؟ پروفیسر علی ریاض: کاش میں اس بارے میں پُر امید ہوتا، لیکن میں نہیں ہوں۔ اس قسم کی تقسیم جان بوجھ کر پیدا کی گئی اور ان کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا۔ جنوبی ایشا کی ریاستیں اپنی اقلیتوں کو تحفظ دینے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-59556379", "summary": "لیبیا میں خانہ جنگی کے دوران ترکی وہاں اہم بیرونی فریقوں میں شامل تھا جو ان جنگجوؤں کی حمایت کر رہا تھا جن کا گڑھ طرابلس تھا تاکہ اپنے معاشی، جغرافیائی اور سیاسی مفادات کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔", "title": "لیبیا کے انتخابات پر ترکی کیسے اثر انداز ہو سکتا ہے؟", "firstPublished": "2021-12-09T01:40:09.000Z", "id": "4ee6f91a-1532-4c5d-abba-9dab7239f524", "article": "لیبیا میں خانہ جنگی کے دوران ترکی وہاں اہم بیرونی فریقوں میں شامل تھا جو ان جنگجوؤں کی حمایت کر رہا تھا جن کا گڑھ طرابلس تھا تاکہ اپنے معاشی، جغرافیائی اور سیاسی مفادات کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ لیبیا میں ترکی کی فوج جنوری 2020 سے تعینات ہونا شروع ہوئی تھی۔ نومبر 2019 میں ترکی اور لیبیا کی گورنمنٹ آف نیشنل ایکورڈ (جی این اے) کے درمیان ایک معاہدے کے بعد ترکی کی جانب سے لیبیا میں فوج بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس معاہدے کا مقصد یہ تھا کہ ترکی مشرقی بحیرۂ روم کے مسابقتی علاقے میں اپنا میری ٹائم زون قائم کر سکے۔ اس کے علاوہ ترکی لیبیا میں اپنے وسیع معاشی مفادات کی حفاظت بھی کرنا چاہتا تھا جن میں وہ معاشی معاہدے بھی شامل ہیں جو لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی کے دور میں ہوئے تھے۔ ترکی نے لیبیا کی گورنمنٹ آف نیشنل ایکورڈ کو فوجی تربیت اور آپریشنل سپورٹ کے علاوہ اپنے مسلح اور غیر مسلح ڈرونز کے ذریعے فضائی مدد بھی فراہم کی تھی۔ لیبیا میں مسراتہ نیول بیس اور الواطیہ ایئر بیس وہ اہم جگہیں ہیں جن کی وجہ سے ترکی نے لیبیا میں اپنے قدم جمائے۔ ان دونوں اڈوں پر آج بھی ترکی کی فوج پوری طرح موجود ہے۔ لیبیا بھیجے جانے والے غیر ملکی جنگجو اور رضاکاروں کا مسئلہ ان اہم معاملات میں شامل ہے جو لیبیا میں ترکی کے مستقبل پر اثرا نداز ہوں گے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ اس نے اقوامِ متحدہ کی حمایت والی جی این اے حکومت کی مدد کے لیے اس وقت اپنی فوج بھیجی تھی۔ ترکی نے اپنی حریف بیرونی قوتوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے حمایت یافتہ جنگجوؤں اور رضاکاروں کو لیبیا سے نکالیں۔ عبدالحامد دبیباہ کئی مرتبہ ترکی کا دورہ کر چکے ہیں جہاں ان کی حکام سے کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ دو طرف سے قریبی تعلقات اور تعاون کا اعادہ کیا گیا ۔ وہ نومبر 2019 میں ترکی اور جی این اے حکومت کے درمیان ہونے والے میری ٹائم معاہدے کی حمایت بھی کر چکے ہیں۔ دبیباہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے ترکی کو ایک دوست اور اتحادی قرار دے چکے ہیں۔ لیبیا میں ترکی کی مداخلت نے اسے اپنے کئی علاقائی حریفوں کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ جب لڑائی اپنے زوروں پر تھی تو لیبیا میں جی این اے کی حکومت کے حامی ترکی کے میڈیا نے متحدہ عرب امارات کی حمایت والے جنرل ہفتار پر کڑی نکتہ چینی کی تھی۔ ترکی کے میڈیا نے متحدہ عرب امارات کو ’مشرق وسطیٰ کا شیطانی کردار‘ والا ملک قرار دیا تھا۔ ترکی کے وزیرِ خارجہ نے مئی 2020 میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ یو اے ای خطے میں انتشار پھیلا رہا ہے تاہم حالیہ مہینوں میں ترکی نے اپنے حریفوں کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی ہے جن میں یو اے ای، مصر اور سعودی عرب شامل ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-59558768", "summary": "امریکی کمپنی کے سربارہ کی زوم کال کی ریکارڈ کی جانے والی ویڈیو ٹک ٹاک سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل ہوئی جس میں انھوں نے 900 ملازمین کو ان کی ملازمتیں ختم ہونے کی خبر دی۔", "title": "زوم کال پر 900 ملازمین کو نوکری سے نکالنے والے کمپنی مالک پر تنقید", "firstPublished": "2021-12-07T08:46:30.000Z", "id": "462bc801-7ad1-44f8-a19e-f286ca8e2bcc", "article": "امریکہ میں گھروں کی خریداری کے لیے قرض فراہم کرنے والی ڈیجیٹل کمپنی بیٹر ڈاٹ کام (better.com) کے انڈین نژاد سی ای او اِس وقت دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ اس شہرت کی وجہ ان کا وہ متنازع قدم ہے جو انھوں نے گذشتہ روز زوم کال کے دوران اٹھایا، جس کی ویڈیو ٹک ٹاک سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل ہوئی۔ ’ہم کمپنی کے تقریباً 15 فیصد ملازمین کو نوکری سے برخاست کر رہے ہیں۔۔۔ اگر آپ اس کال پر موجود ہیں تو آپ کا شمار ان بدقسمت لوگوں میں ہوتا ہے جن کو نوکری سے برخاست کیا جا رہا ہے۔‘ کرسمس سے قبل اس فیصلے کے بعد وشال گرگ کو سوشل میڈیا پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کمپنی کے ایک ملازم نے اس زوم کال کو ریکارڈ کیا اور اسے پبلک کر دیا۔ برطانیہ کی لیورپول جان مورز یونیورسٹی میں ایمپلائمنٹ لاء اور بزنس اسٹڈیز کی لیکچرر جیما ڈیل نے کہا کہ یہ قیادت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’اس طرح بڑے پیمانے پر ملازمتوں کی برخاستگی برطانیہ میں قانونی نہیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’صرف اس وجہ سے کہ آپ یہ امریکہ میں کر سکتے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو کرنا چاہیے۔‘’ایسے اقدامات کرنے کے طریقے ہیں جو مشکل حالات میں بھی ہمدردانہ اور مہذب تصور کیے جاتے ہیں۔‘'کمپنی کے موجودہ ملازمین بھی اس بات کو دیکھیں گے کہ کمپنی ان کے ساتھ مستقبل میں کیسا سلوک کرے گی۔' امریکہ میں معاشی بحران کے دوران مائی رچ انکل کمپنی دیوالیہ ہو گئی۔ اس کے بعد رضا اور وشال گرگ نے EIFC کے نام سے ایک نیا پروجیکٹ شروع کیا جو مائی رچ انکل کی طرز پر بینکوں سے زمینداروں کو قرض لینے کے لیے قرض کی شرائط سے آگاہ کرتا تھا۔ 2013 تک رضا اور وشال کے درمیان کمپنی کی مالی حالت پر اختلافات پیدا ہو گئے۔ رضا نے الزام لگایا کہ گرگ، جو کمپنی کے مالی معاملات کی نگرانی کرتا ہے، نے کاروباری ٹیکس ادا نہیں کیا اور کمپنی سے 3 ملین ڈالر نکالے اور ذاتی بینک اکاؤنٹ میں منتقل کر دیے۔ گرگ نے جواب میں رضا پر چار لاکھ ڈالر کی چوری کا الزام عائد کیا، جسے رضا نے مسترد کر دیا۔ اس دوران گرگ نے رضا پر کچھ قابل اعتراض تبصرے بھی کیے جس کے لیے انھوں نے بعد میں معافی مانگ لی۔ جون 2021 میں، گرگ نے دعویٰ کیا کہ آج ان کی کمپنی اس مرحلے پر پہنچ گئی ہے جہاں آپ تین منٹ میں قرض کے لیے پہلے سے منظوری حاصل کر سکتے ہیں۔ مارکیٹ کی حالیہ رپورٹس کے مطابق، سافٹ بینک نے حال ہی میں اس کمپنی کو $750 ملین کی مالی امداد دی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-59516173", "summary": "ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر میں رواں سال 45 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے لیکن ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کو اس سے بظاہر کوئی پریشانی لاحق نہیں ہے۔", "title": "ترک کرنسی کی قدر میں کمی اردوغان کے لیے پریشان کن کیوں نہیں؟", "firstPublished": "2021-12-05T05:46:50.000Z", "id": "e1265866-b25b-41e5-a69e-788752df2a4b", "article": "ترکی کی قومی کرنسی لیرا کی قدر میں رواں سال ڈالر کے مقابلے میں 45 فیصد تک کی کمی واقع ہو چکی ہے اور اس کے باوجود صدر رجب طیب اردوغان اس سے پریشان نظر نہیں آتے۔ رواں ہفتے لیرا کی قدر میں ریکارڈ کمی دیکھی گئی لیکن طویل عرصے سے ترکی کے رہنما اپنی ’آزادی کی معاشی جنگ‘ کی پالیسی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، جو کم شرح سود کی حمایت میں ہے۔ لیرا کی قدر میں کمی کی سادہ سی وجہ ترکی کی اقتصادی ترقی اور مسابقتی کرنسی کے ساتھ برآمدی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے شرح سود کو کم رکھنے کی غیر روایتی اقتصادی پالیسی ہے۔ ترکی میں سالانہ افراط زر کی شرح 21 فیصد سے زیادہ ہے لیکن ترکی کے مرکزی بینک نے شرح سود کو 16 فیصد سے کم کر کے 15 فیصد کر دیا ہے، جو رواں سال میں تیسری کٹوتی ہے۔ دنیا بھر میں افراط زر بڑھ رہا ہے اور مرکزی بینک شرح سود میں اضافے کی بات کر رہے ہیں لیکن ترکی میں ایسا نہیں کیونکہ صدر اردوغان کا خیال ہے کہ آخر کار افراط زر میں کمی آئے گی۔ پچھلے دو برسوں میں مرکزی بینک کے تین صدور کو برطرف کیا گیا ہے اور رواں ہفتے وزیر خزانہ کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب لیرا کی قدر میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔ ترکی کی معیشت کا بہت حد تک انحصار خام مال کی درآمدات پر ہے جن سے کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر کپڑا بنانے کی صنعت تک شامل ہے اور لیرا کی قدر میں کمی کا اثر براہ راست ان اشیاء کی قیمتوں پر پڑا ہے جو صارفین کے لیے مہنگی سے مہنگی تر ہوتی چلی جاتی ہیں۔ کرنسی کی قدر اس حد تک غیر مستحکم ہو گئی ہے کہ قیمتوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور کاشت کاروں کے لیے افراط زر میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حزب اختلاف کی ایک جماعت نے ضمنی انتخابات اور جلسے جلوس نکالنے کی بات کی ہے۔ گذشتہ ماہ کی 23 تاریخ کو جب ایک دن میں لیرا کی قدر میں 18 فیصد کی کمی واقع ہوئی تھی تو کچھ جگہوں پر چھوٹے چھوٹے مظاہرے ہوئے تھے اور کئی مظاہرین کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئی تھیں۔ واضح رہے کہ ترکی میں سنہ 2002 سے رجب طیب اردوغان کی 'جسٹس اور ڈیویلپمنٹ پارٹی' اقتدار میں ہے اور وہاں نوجوان نسل کا سیاست میں اہم کردار ہے۔ سوشل میڈیا پر مقبول ہونے والی ایک ویڈیو میں ایک عورت رجب طیب اردوغان کی تعریفیں کرتی نظر آتی ہے جبکہ اس کا آٹھ سالہ بچہ اس سے اختلاف کر رہا ہے اور ایک حالیہ قدرتی آفت کے دوران حکومت کی ناقص حکمت عملی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ رجب طیب اردوغان کی طرف سے ترکی کی کرنسی لیرا کو بازیاب کرانے کے لیے جو معاشی پالیسی اختیار کی جا رہی ہیں ان پر بہت کم لوگوں کو بھروسہ ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59528083", "summary": "سٹاک مارکیٹ کے کاروبار سے وابستہ اور اس کے ماہرین کے مطابق پاکستانی سٹاک مارکیٹ میں مندی کے رجحان کی وجہ پاکستان کے معاشی میدان میں تواتر سے ظہور پذیر ہونے والے ایسے واقعات ہیں جن کا اثر پاکستان کی سٹاک مارکیٹ پر منفی صورت میں پیدا ہوا۔", "title": "سٹاک مارکیٹ میں تاریخی مندی کیا آنے والے معاشی حالات کا پیش خیمہ ہے؟", "firstPublished": "2021-12-04T04:01:21.000Z", "id": "cae89f6d-d95f-4e22-89ee-b8eece75ddd2", "article": "سٹاک مارکیٹ کے کاروبار سے وابستہ اور اس کے ماہرین کے مطابق پاکستانی سٹاک مارکیٹ میں مندی کے رجحان کی وجہ پاکستان کے معاشی میدان میں تواتر سے ظہور پذیر ہونے والے ایسے واقعات ہیں جن کا اثر پاکستان کی سٹاک مارکیٹ پر منفی صورت میں پیدا ہوا۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں مسلسل مندی کے رجحان اور جمعرات کے روز اس میں موجودہ سال کی سب سے بڑی آنے والی کمی کے بارے میں سٹاک مارکیٹ کے کاروبار سے وابستہ افراد نے کہا کہ یہ معیشت کے میدان میں آنے والی منفی خبروں کے نتیجے میں نچلی سطح پر جا پہنچی ہے۔ سٹاک مارکیٹ کے بورڈ کے رکن احمد چنائے نے اس سلسلے میں بتایا کہ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ بہت حساس ہے اور کسی بھی منفی خبر پر بہت جلدی رد عمل دکھاتی ہے اور موجودہ صورت حال بھی منفی خبروں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ سٹاک مارکیٹ میں ایک چھوٹی سی منفی خبر پر بھی بہت زیادہ رد عمل آتا ہے اور اب تو معاشی میدان سے مکمل طور پر منفی خبریں آ رہی ہیں جس کا سٹاک مارکیٹ میں مندی کے رجحان سے پتا چلتا ہے۔ احمد چنائے نے کہا شرح سود میں ہونے والے اضافے نے حصص کے کاروبار پر بہت زیادہ منفی اثر ڈالا ہے اور اس میں مزید متوقع اضافے کی خبروں نے بھی کاروبار کو متاثر کیا ہے۔ اُن کے مطابق اسی طرح ملک کا بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ اور اس کی وجہ سے جاری کھاتوں کے خسارے میں اضافہ اور مقامی کرنسی پر آنے والے دباؤ نے سٹاک مارکیٹ کو منفی خبروں کی زد میں لے رکھا ہے۔ سٹاک بروکرز ایسوسی ایشن کے رکن عادل غفار نے کہا ہے کہ شرح سود میں اضافے نے منفی اثر ڈالا تو اس کے ساتھ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی سخت شرائط نے بھی کاروبار میں منفی رجحان پیدا کیا کیونکہ ان شرائط کی وجہ سے ملک کی معیشت میں مزید بگاڑ کا امکان ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں مندی کے رجحان کی وجہ سے سرمایہ کاروں کے نقصان کے بارے میں بات کرتے ہوئے سٹاک بروکرز ایسوسی ایشن کے رکن عادل غفار نے کہا کہ عموماً چھوٹے سرمایہ کار ادھار پر کام کرتے ہیں اور مندی کی وجہ سے اس کا بنیادی سرمایہ بھی ڈوب چکا ہے۔ عادل نے بتایا کہ اس وقت مارکیٹ میں میوچوئل فنڈز، مالیاتی ادارے اور بڑے انفرادی سرمایہ کار موجود ہیں اور یہ سب مل کر کام کر رہے ہیں۔ عادل نے کہا کہ اس وقت بیرونی سرمایہ کار بھی مارکیٹ میں نہیں ہیں جس کی وجہ سے مندی کا رجحان زیادہ تیز نظر آ رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ جب مارکیٹ گرتی ہے تو بڑے سرمایہ کار میوچوئل فنڈز سے اپنا سرمایہ نکال لیتے ہیں جس کا منفی اثر سٹاک مارکیٹ پر پڑتا ہے اور مندی کو اس سے بڑھاوا ملتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59501615", "summary": "افراطِ زر یا مہنگائی کی یہ لہر اس وقت صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا بھر میں مہنگائی کی شرح گذشتہ کچھ سالوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ اس لہر نے پاکستان میں حکومتی حلقوں کو یہ کہنے کا موقع دے دیا ہے کہ عالمی منڈی کی مہنگائی کی وجہ سے ملک میں مہنگائی ہورہی ہے۔ کیا یہ بات سچ ہے؟", "title": "پاکستان میں مہنگائی عالمی منڈیوں کی وجہ سے ہو رہی ہے یا حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے؟", "firstPublished": "2021-12-03T08:32:04.000Z", "id": "e937c148-ab1c-4c5a-979a-be47a9a4f120", "article": "حال ہی میں ملک میں وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے ایک نجی ٹی وی چینل پر صحافی کاشف عباسی کے شو میں کہا کہ ہاں مہنگائی ہوئی ہے اور اس کا تنخواہ دار طبقے پر اثر بھی پڑا ہے مگر پھر میں ہمارے ملک میں بجلی، تیل، گھی کی کھپت بڑھ رہی ہے۔ ‘اس کا مطلب یہ ہے کہ مہنگائی کی بات تمام طبقات کے لیے یکساں نہیں۔‘ لیکن افراطِ زر یا مہنگائی کی یہ لہر اس وقت صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں کیونکہ دنیا بھر میں مہنگائی کی شرح گذشتہ کچھ سالوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کے گلوبل اکانومسٹ میتھیو شیروڈ نے خبر رساں ادارے وکس کو بتایا کہ ‘ہر ملک میں مہنگائی کی مخصوص وجوہات اور وہاں کے مخصوص معاملات ہیں مگر ایک عنصر جو سب جگہ کچھ نہ کچھ وجہ بن رہا ہے وہ عالمی سپلائی چین (یعنی عالمی سطح پر اشیا کی آمدورفت اور مواصلات کا نظام) میں خرابی ہے جو کورونا وائرس کی وبا کا نتیجہ ہے۔‘ دنیا بھر میں مہنگائی کی اس لہر نے پاکستان میں حکومتی حلقوں کو یہ کہنے کا موقع دیا ہے کہ دیکھیں یہ تو عالمی منڈی کی مہنگائی کہ وجہ سے ملک میں مہنگائی ہورہی ہے، اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔ اوپر سے حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بڑی غریب دوست حکومت ہے کہ انھوں نے عالمی سطح پر خوردنی اشیا کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو مکمل طور پر صارفین کو منتقل نہیں کیا اور عالمی سطح پر ہونے والے اضافے کو برداشت کر کے صارفین کو قیمتوں میں بہت زیادہ ہونے والے اضافے سے بچایا ہے۔ شاہد مہمند کا کہنا تھا کہ جب حکومت نے معیشت میں پیسے کی رسد بڑھا کر اتنی زیادہ قوتِ خرید بڑھا دی مگر پاکستان میں اشیا کی طلب پورا کرنے کی صلاحیت کو اتنا نہیں بڑھایا جس کی وجہ سے حکومت کا یہ اقدام مہنگائی کو بڑھانے کی وجہ بنتا ہے۔ خرم حسین کا کہنا ہے کہ ‘پاکستان میں شاید اتنے بڑے امدادی پیکج کا جواز نہیں بنتا تھا۔ دوسرا یہ کہ آپ کے پاس امدادی پیکج کے لیے غیر ملکی فنڈنگ بھی موجود تھی۔ تیسرا یہ کہ آپ نے اس امداد پیکج کو بہت طویل عرصے تک جاری رکھا، یہاں تک کہ افراطِ زر کی شرح میں اضافے کا عمل شروع ہونے کے بعد بھی یہ جاری رہا۔‘ خرم حسین کہتے ہیں کہ ‘ایک وقت آیا کہ یہ کووڈ کا امدادی پیکج ہونا بند ہوگیا اور حکومت نے اس کو گروتھ بڑھانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ حکومت کو اس چیز کی لت لگ گئی تھی، کاروباری برادری تالیاں بجانے لگیں، معیشت کے پہیہ چلانا شروع ہوگئے اور وہ خوش ہوتے رہے۔ انھیں یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ سب تو امدادی پیکج کی وجہ سے ہو رہا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59513639", "summary": "ماہرین کے مطابق موبائل فونز کی درآمد پر ٹیکس بڑھانے سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس کا بوجھ صارفین کو برداشت کرنا پڑے گا تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ ٹیکس صرف مہنگے موبائل فونز پر لگایا جائے گا۔", "title": "پاکستان میں درآمد شدہ فونز پر سیلز ٹیکس لگانے کا فیصلہ، صارفین کیسے متاثر ہوں گے؟", "firstPublished": "2021-12-03T01:55:57.000Z", "id": "332b70d9-9f6e-4821-9ca0-eca29f89c0f9", "article": "واضح رہے کہ آئی ایم ایف شرائط کے تحت 350 ارب روپے کی سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کی جائے گی جس کے لیے حکومت فنانس بل میں ترمیم پارلیمنٹ سے منظور کروائے گی۔ حکومت کی جانب سے موبائل فونز کی درآمد پر ٹیکس بڑھانے کا اعلان اس وقت سامنے آیا ہے جب ملک میں موبائل فون کے استعمال میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس شعبے کے ماہرین کے مطابق موبائل فونز کی درآمد پر ٹیکس بڑھانے سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس کا بوجھ صارفین کو برداشت کرنا پڑے گا۔ ماہرین کے مطابق موبائل فونز کی مقامی سطح پر پیداوار کے باوجود درآمدی موبائل فونز کی طلب بہت زیادہ ہے جس کی وجہ ان کا معیار ہے۔ ڈاکٹر اکرام نے بتایا کہ موبائل فونز کی درآمد پر کوئی سیلز ٹیکس نہیں لگایا جاتا مگر اب حکومت سیلز ٹیکس کو نافذ کر کے اس پر ٹیکس کی شرح کو بڑھانے جا رہی ہے۔ ڈاکٹر اکرام نے سیلز ٹیکس کے شیڈول چھ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں دی گئی چھوٹ کے تحت موبائل فونز کی درآمد پر سیلز ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے۔ پاکستان میں موبائل فونز کی درآمد پر ٹیکس بڑھانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ یہ آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے کا حصہ ہے جس کے تحت ٹیکس میں اضافہ کرنا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ دوسری درآمد شدہ اشیا کی طرح موبائل فونز پر ٹیکس کی شرح کو بھی اس سلسلے میں بڑھانا ہے تاکہ ملک کے محصولات میں اضافہ کیا جا سکے۔ موبائل فونز کی درآمد پر ٹیکس کی شرح بڑھانا بھی آئی ایم ایف سے ہونے والی ڈیل کا حصہ ہے۔ دوسری جانب ماہرین کے مطابق ملک کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو بھی قابو میں لانے کے لیے درآمدات پر ٹیکس کی شرح کو بڑھایا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے درآمد شدہ موبائل فونز پر ٹیکس بڑھانے سے موبائل فون صارفین پر اثرات کے سلسلے میں کراچی الیکٹرونکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر رضوان عرفان نے کہا کہ 17 فیصد سیلز ٹیکس نافذ کرنے کا مطلب ہے کہ 10 ہزار روپے کے موبائل کی قیمت 11 ہزار 700 روپے ہو جائے گی، اسی طرح 50 ہزار روپے والے موبائل کی قیمت بڑھ کر 58 ہزار 500 روپے اور ایک لاکھ والے موبائل کی قیمت ایک لاکھ 17 ہزار روپے ہو جائے گی۔ رضوان عرفان نے کہا کہ موبائل فونز انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زمرے میں شامل ہیں جس کی وجہ سے ان پر سیلز ٹیکس عائد نہیں ہوتا تاہم اب حکومت اسے الیکٹرونکس کے زمرے میں ڈال رہی ہے جس کی وجہ سے اس پر سیلز ٹیکس درآمدی سطح ہر لاگو ہو گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کا یہ اقدام اس کی اپنی پالیسی کے خلاف ہے کہ جب حکومت ڈیجیٹل پاکستان کی طرف بڑھ رہی ہے تو وہ اس کے لیے سب سے اہم عنصر یعنی موبائل فونز کی درآمد پر ٹیکس بڑھا کر اسے مہنگا کر رہی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-59495396", "summary": "دنیا بھر میں مال تجارت کی نقل و حمل میں تعطل اور عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی کے دوران تل ابیب کو دنیا کا مہنگا ترین شہر قرار دے دیا گیا ہے۔", "title": "تل ابیب دنیا کا سب سے مہنگا اور دمشق سب سے سستا شہر قرار", "firstPublished": "2021-12-02T02:00:20.000Z", "id": "662cf81d-5cfd-4422-9e2c-7b4004cfa35a", "article": "دنیا بھر میں تجارتی سامان کی نقل و حمل میں تعطل اور عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی کے دوران تل ابیب کو دنیا کا سب سے مہنگا شہر قرار دے دیا گیا ہے۔ اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ (ای آئی یو) کے سالانہ سروے میں اس سال تل ابیب دنیا کے سب سے مہنگے شہروں میں پیرس کو پیچھے چھوڑتا ہوا گذشتہ سال کے سروے میں پانچوں نمبر سے اس سال پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔ پیرس اور سنگاپور اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ خانہ جنگی سے متاثرہ ملک شام کا دارالحکومت دمشق اس فہرست میں بدستور دنیا کا سب سے سستا شہر ہونے کی وجہ سے آخری نمبر پر برقرار ہے۔ اس سروے میں دنیا کے 173 ملکوں میں روز مرّہ کی اشیاء کی قیمتوں اور سہولیات پر ہونے والے اخراجات کا ڈالر میں تخمینہ لگا کر ان کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ ای آئی یو نے اس سال اگست اور ستمبر کے مہینوں میں دنیا بھر کے 173 شہروں مقامی کرنسی میں قیمتوں اور سہولیات پر ہونے والے اخراجات کے اعداد و شمار حاصل کر کے کہا ہے کہ اوسط قیمتوں میں تین اعشاریہ پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ گذشتہ پانچ برس میں افراط زر کی سب سے زیادہ شرح ہے۔ ٹرانسپورٹ یا نقل و حمل پر ہونے والے اخراجات میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا کیونکہ جن شہروں میں سروے کیا گیا وہاں پیٹرول کی قیمتیں اوسطاً 21 فیصد بڑھیں۔ تل ابیب ای آئی یو کی 'کاسٹ آف لیونگ' یعنی رہنے کے اخراجات کی فہرست میں اس لیے اوّل نمبر پر آ گیا کیونکہ اسرائیل کی کرنسی شیکل ڈالر میں مقابلے میں مضبوط سے مضبوط تر ہوئی ہے۔ کم از کم 10 فیصد اشیا، خاص طور پر روزمرہ کے استعمال اور کھانے پینے کی چیزوں کی جن کا شمار گھروں کے سودوں میں ہوتا ہے مقامی قیمتوں میں قابل ذکر اضافہ ہوا۔ سروے میں تل ابیب شراب اور ٹرانسپورٹ کی قیمتوں کے حساب سے دوسرے نمبر پر، ذاتی فلاح و بہود میں پانچویں نمبر پر اور تفریحی سہولیات کے نرخوں کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر رہا۔ تل ابیب کے میئر نے ایک قومی اخبار کو انٹرویو میں خبردار کیا کہ جائیداد یا گھروں کی قیمتیں جو ای آئی یو کے سروے میں شامل نہیں ہوتیں اس کے لحاظ سے تل ابیب انتہائی مہنگا ہوتا چلا جا رہا ہے اور یہ اب ’پھٹنے کے قریب‘ ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ کورونا وائرس سے بہت سے ملک نکل رہے ہیں لیکن بڑے شہروں میں اچانک مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے جس کی وجہ سے سماجی اور تجارتی سرگرمیوں کو محدود کرنا پڑتا ہے۔ اس سے مال تجارت کی نقل و حمل متاثر ہوتی ہے جس سے قیمتوں میں عدم استحکام پیدا ہو جاتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59434466", "summary": "پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی گذشتہ حکومتوں کو پاکستان کے قرضوں میں اضافے پر مورد الزام ٹھہراتی ہے تاہم اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کے 39 ماہ کے اقتدار میں اس کی قرضہ لینے کی رفتار سابقہ حکومتوں سے زیادہ دکھائی دیتی ہے۔", "title": "کیا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے گذشتہ ادوار سے زیادہ قرضہ لیا؟", "firstPublished": "2021-11-27T07:31:26.000Z", "id": "df39b415-4f28-4eed-a4f0-de912d0d7bd3", "article": "پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی گذشتہ حکومتوں کو پاکستان کے قرضوں میں اضافے پر مورد الزام ٹھہراتی ہے تاہم اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کے 39 ماہ کے اقتدار میں اس کی قرضے لینے کی رفتار سابقہ حکومتوں سے زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ ان کے مطابق موجودہ حکومت کی کمزور پالیسیوں کی وجہ سے ملک مالیاتی بگاڑ کا شکار ہے جس کی وجہ سے اسے قرضے پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے اور اس کی وجہ سے ملک کے ذمے واجب الادہ قرضے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق سابقہ دو حکومتوں کے مقابلے میں تحریک انصاف کے دور میں قرضے لینے کی رفتار زیادہ ہے۔ پاکستان میں 2008 میں جمہوریت کی بحالی کے بعد تین حکومتیں برسرِ اقتدار آ چکی ہیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور موجودہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ سنہ 2008 میں جب پاکستان پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت پاکستان کے مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے ذمے واجب الادا غیر ملکی قرضہ 45 ارب ڈالر تھا۔ پی پی پی حکومت کے خاتمے تک یہ قرضہ 61 ارب ڈالر تک جا پہنچا اور پانچ سال بعد نواز لیگ کی حکومت کے اختتام کے وقت جون 2018 میں یہ حجم 95 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ اُنھوں نے کہا کہ پی پی پی کی حکومت میں قرضے لینے کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو حکومت ہر روز پانج ارب روپے کا قرضہ لے رہی تھی، نواز لیگ ہر روز آٹھ ارب روپے کا قرضہ لے رہی تھی، جبکہ موجودہ حکومت ہر روز 17 ارب روپے کا قرضہ لے رہی ہے جو اس کی زیادہ قرضہ لینے کی رفتار کا ظاہر کرتا ہے۔ ماہر معیشت اور پاکستان کی وزارت خزانہ کے تحت ڈیٹ آفس کے سابقہ ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے بتایا کہ گذشتہ حکومتوں نے بھی قرضہ لیا تاہم موجودہ حکومت کی قرضہ لینے کی رفتار زیادہ ہے جو سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہے۔ وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو اُنھوں نے کہا کہ ملک کے ذمے واجب الادا قرضوں پر حقائق کی روشنی میں بات کرنی چاہیے۔ اُنھوں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے گذشتہ حکومتوں سے زیادہ قرضہ لیا۔ پاکستان میں موجودہ حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ زیادہ قرضہ لینے کی ایک وجہ پرانے قرضوں کی سود سمیت واپسی ہے۔ اگرچہ کہ حکومت کے اس دعوے میں کچھ حقیقت ہے تاہم یہ پوری صورت حال کی منظر کشی نہیں کرتا۔ کیونکہ اگر حکومت نے پرانا قرضہ لوٹایا ہے تو اس کے ساتھ اس نے اخراجات پورا کرنے کے لیے قرضہ لیا بھی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-59398407", "summary": "بی بی سی کی صحافی یلدا حکیم افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد پہلی مرتبہ افغانستان واپس آئی ہیں اور انھوں نے طالبان دور حکومت میں تباہ حال معیشت اور غذائی قلت کے پیش نظر ملک کے عوام کی حالت زار کے متعلق رپورٹ کیا ہے۔", "title": "افغانستان: تنخواہ کے بغیر کام کرتے ملازمین اور بحران سے متاثرہ معصوم بچے", "firstPublished": "2021-11-24T06:39:07.000Z", "id": "429315f4-58d8-43e5-87f1-ac8c4a0338c9", "article": "بی بی سی کی صحافی یلدا حکیم افغانستان میں پیدا ہوئی تھیں۔ اُن کا خاندان سنہ 1980 میں افغانستان پر سویت قبضے کے دوران ملک چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ تاہم وہ تب سے مسلسل افغانستان سے رپورٹنگ کرتی رہی ہیں۔ اب ایک بار پھر وہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے تقریباً سو دن بعد اپنے آبائی ملک پہلی مرتبہ واپس آئی ہیں۔ میں جانتی تھی کہ رواں برس اگست میں طالبان کی جانب سے افغانستان کے اقتدار پر قبضے کے بعد میرا پہلی مرتبہ اپنے آبائی وطن واپس آنا میرے لیے بہت سے سوالات کھڑے کرے گا۔ مغربی حمایت یافتہ حکومت کو طالبان کی جانب سے بے دخل کیے جانے کے بعد سے افغان قوم میں کیا کچھ تبدیل ہوا ہے؟ کیا افغان عوام کو بالآخر وہ امن میسر آ گیا ہے جس کا وہ مدت سے انتظار کر رہے تھے؟ اور افغان طالبان کے دور حکومت میں یہاں کی خواتین اور لڑکیوں کا مستقبل کیا ہو گا، جنھیں پہلے ہی روز مرہ زندگی کے معاملات میں دوبارہ پیچھے دھکیل دیا گیا تھا؟ تاہم میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک سوال مجھے خود سے پوچھنے کی ضرورت پیش آئے گی کہ جب تنخواہ بھی نہ مل رہی ہو تو ایسے حالات میں کام پر آنے کے لیے کتنی ہمت درکار ہوتی ہے؟ لیکن اسے سوال کا جواب مجھے مل گیا۔ قندھار میں صحت حکام سے لے کر کابل کے ہسپتالوں میں صفائی کرنے والوں تک افغانستان کے عوامی صحت عامہ کے عملے میں سے کسی کو بھی افغانستان کی سابقہ حکومت کے خاتمے اور بیرونی امداد معطل ہونے کے بعد سے تنخواہ نہیں ملی تھی۔ نسرین کا کہنا ہے کہ وہ ٹرانسپورٹ کا کرایہ برداشت نہیں کر سکتیں، لہذا وہ پیدل چل کر کام پر آتی ہے۔ یہ ایک انتہائی مشکل سفر ہے جو کہ پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر طے ہوتا ہے۔ اور پھر وہ 12 گھنٹوں کی شفٹ کے بعد پہاڑ پر دوبارہ چڑھ کر گھر جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تقریباً 23 ملین افغان باشندوں کو خوراک کی انتہائی قلت کا سامنا ہے اور 95 فیصد عوام کے پاس ناکافی خوراک ہے۔ طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے عالمی برادری پر انگلی اٹھاتے ہوئے انھیں اس سب کا ذمہ دار قرار دیا اور مجھے بتایا کہ افغان عوام کے مصائب اور مشکلیں کی وجہ مغربی ممالک کے اقدامات ہیں۔ سڑک کنارے کام کی تلاش کے انتظار میں بیٹھے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ ’میں اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتا تھا۔ اس وقت میری مہینے کی تنخواہ 25 ہزار افغانی تھی۔ لیکن اب میں مہینے کے دو ہزار بھی نہیں کما پاتا۔‘ گھر پر موجود ان کے چاروں بچے بیمار ہیں اور ان کے پاس دوائی خریدنے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ’میں کوئی مستقبل نہیں دیکھتا ہوں، غریب خاندانوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59370742", "summary": "پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے، آئی ایم ایف، کے درمیان ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسلٹی کی بحالی کے لیے ابتدایی معاہدہ بالآخر طے پا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ سے منظوری کے بعد پاکستان کو 1.059 ارب ڈالر کی نئی قسط جاری کر دی جائے گی۔", "title": "آئی ایم ایف، پاکستان میں قرض کی نئی قسط کا ابتدائی معاہدہ، کیا مہنگائی میں اضافہ ہو گا؟", "firstPublished": "2021-11-22T06:50:19.000Z", "id": "ced60bb1-4bed-4108-82fc-5f46028f8fa7", "article": "پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے، آئی ایم ایف، کے درمیان ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ایف) کی بحالی کے لیے معاہدہ بالآخر طے پا گیا ہے۔ دونوں فریقین کے درمیان گذشتہ کئی مہینوں سے اس پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات ہو رہے تھے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعلامیے کے مطابق اب اس معاہدے کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا جس کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو 1.059 ارب ڈالر کی قسط جاری کر دی جائے گی۔ اس قسط کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف سے جاری کیے جائے والے فنڈز کی مجموعی رقم 3.027 ارب ڈالر ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف معاہدہ پاکستان کے لیے اس صورت میں بھی معاون ثابت ہو گا کہ اس کے بعد پاکستان کو دوسرے بین الاقوامی اداروں سے بھی فنڈنگ آ سکے گی۔ واضح رہے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جولائی 2019 میں چھ ارب ڈالر کی ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ایف) کا معاہدہ ہوا تھا اور اس معاہدے کے تحت پاکستان کو تین سال سے زائد کے عرصے میں چھ ارب ڈالر کی رقم بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی جانب سے قسطوں میں ملنی تھی۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان چھٹے نظر ثانی اجلاس کے بعد ایک ارب ڈالر کی رقم پاکستان کو ملے گی۔ عارف حبیب لمٹیڈ میں ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ایگزیکٹیو بورڈ کا اجلاس دسمبر کے وسط میں ہو گا جس کے بعد پاکستان کو 1.05 ارب ڈالر کی قسط جاری ہو جائے گی۔ انھوں نے بتایا کہ اس پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کی جن شرائط کو مانا گیا ہے اس کا ذکر اس اعلامیے میں نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ایک الگ سے دستاویز جاری کی جائے گی جو کہ ایگزیکٹیو بورڈ کے اجلاس سے پہلے جاری ہو گی۔ اسلام آباد میں مقیم معاشی امور کے صحافی ظہیر عباسی نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام سے معاہدہ پاکستان کی مجبوری تھی کیونکہ اس وقت پاکستان کے بیرونی فناننسگ کے سارے ذرائع بند تھے اور 20 ارب ڈالر کے تاریخی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے نمٹنے اور بیرونی ادائیگیوں کے لیے اس وقت یہ ڈیل بہت ضروری تھی۔ ظہیر عباسی نے بتایا کہ سعودی عرب اور چین سے ملنے والے ڈیپازٹس نے تھوڑی بہت مدد تو فراہم کی تاہم وہ مسئلے کا حل نہیں تھا کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام میں شرکت کے بعد دوسرے عالمی مالیاتی ادارے یعنی عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک بھی فناننسگ جاری کرتے ہیں اور بین الاقوامی بانڈ مارکیٹ میں ملک کی کریڈٹ ریٹنگ بھی بہتر ہوتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59358276", "summary": "ماہرین کے مطابق شرح سود میں ایک فیصد اضافہ مہنگائی کی شرح میں 1.3 فیصد اضافہ کرتا ہے جس سے عام آدمی ہی متاثر ہوتا ہے۔ ماہرین نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ دسمبر میں مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔", "title": "پاکستان میں شرح سود میں اضافہ، عام آدمی کی زندگی پر کیسے اثر انداز ہو گا؟", "firstPublished": "2021-11-20T10:30:07.000Z", "id": "8f10eafe-6f65-44fb-96b8-34442400ec9d", "article": "پاکستان کے سٹیٹ بینک نے ملک میں مہنگائی اور ادائیگیوں میں بڑھتے عدم توازن کے خطرات سے نمٹنے کے لیے شرح سود میں 150 بیس پوائنٹس کا اضافہ کیا ہے جس کے نتیجے میں ملک میں شرح سود 7.25 فیصد سے بڑھ کر 8.75 فیصد تک ہو گئی ہے۔ پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافہ زری پالیسی کے اجلاس میں کیا گیا جس کا انعقاد کیلنڈر کے مطابق 26 نومبر کو کیا جانا تھا تاہم مرکزی بینک کے مطابق کچھ ہنگامی نوعیت کے عوامل کے باعث زری پالیسی اجلاس کو ایک ہفتہ قبل یعنی نومبر 19 کے لیے شیڈول کر دیا گیا تھا جس میں مرکزی بینک نے شرح سود 150 بیس پوائنٹس کا اضافہ کر دیا۔ پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے عارف حبیب لمیٹید کی معاشی تجزیہ کار ثنا توفیق نے بتایا کہ مرکزی بینک نے کچھ روز قبل ہی اس بات کی نشاندہی کر دی تھی کہ کچھ ان دیکھے عوامل کی وجہ سے زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کو ایک ہفتے پہلے منعقد کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’پہلا مرحلہ اس وقت تھا جب جون 2018 میں شرح سود کو 6.5 فیصد سے 13.25 فیصد کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے حکومت کو 1687 ارب روپے کا اضافی سود ادا کرنا پڑا تو پھر روپے کی قیمت کو 125 روپے سے گرا کر 166 روپے تک کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے پیسہ ادھار لیے بغیر پاکستان کا قرضہ 4660 ارب روپے بڑھا گیا تھا۔ اب دوسرے مرحلے میں شرح سود کو پھر بڑھایا جا رہا ہے اور روپے کی قدر تو پہلے ہی بہت زیادہ گر چکی ہے۔‘ ڈاکٹر اشفاق نے مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کی وجوہات کو مسترد کیا اور کہا مہنگائی پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں اضافے کا طریقہ کار بالکل غلط ہے۔ ماہر معیشت نے کہا کہ ’شرح سود میں اضافہ، اضافی طلب کو کم کرنے کے لیے کیا گیا جبکہ تجرباتی شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ شرح سود میں ایک فیصد اضافے سے پاکستان میں کنزیومر بیسڈ انفلیشن (سی پی آئی) میں 1.3 فیصد اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ بینکوں کی جانب سے زیادہ شرح سود پر صارفین کو قرض دینا ہے۔‘ انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ دسمبر میں مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ شرح سود میں اضافے کے عام آدمی پر اثرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ شرح سود میں ایک فیصد اضافہ مہنگائی کی شرح میں 1.3 فیصد اضافہ کرتا ہے جس سے عام آدمی ہی متاثر ہوتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-59198243", "summary": "ٹیسلا کے سربراہ ایلون مسک کی جانب سے ٹوئٹر پر کیے جانے والے ایک پول میں ووٹرز نے انھیں ٹیکس کی ادائیگی کے لیے کمپنی میں اپنے دس فیصد حصص فروخت کرنے کا مشورہ دیا ہے۔", "title": "ٹوئٹر فالوورز کا ایلون مسک کو ٹیکس کی ادائیگی کے لیے ٹیسلا کے دس فیصد حصص بیچنے کا مشورہ", "firstPublished": "2021-11-07T16:03:18.000Z", "id": "463d48df-742c-416d-83e0-75182b94028b", "article": "ٹیسلا کے سربراہ ایلون مسک کی جانب سے ٹوئٹر پر کیے جانے والے ایک پول میں ووٹرز نے انھیں ٹیکس کی ادائیگی کے لیے کمپنی میں اپنے دس فیصد حصص فروخت کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ایلون مسک کی جانب سے سنیچر کو شروع کیے جانے والے پول میں 35 لاکھ سے زیادہ افراد نے حصہ لیا جن میں سے تقریباً 58 فیصد نے حصص کی فروخت کے حق میں ووٹ دیا۔ مسک نے اس پول کے نتائج پر عمل درآمد کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے، جو امریکی ڈیموکریٹس کی طرف سے تجویز کردہ ’ارب پتی ٹیکس‘ کا جواب ہے۔ اتوار کے روز ختم ہونے والی اس ووٹنگ کے بعد ایلون مسک کو الیکٹرک کار کمپنی کے ممکنہ طور 21 ارب ڈالر مالیت کے حصص فروخت کرنا پڑ سکتے ہیں۔ ایلون مسک نے جو دنیا کے امیر ترین شخصیات میں سے ایک ہیں، پول کے نتائج پر تاحال تبصرہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی یہ بتایا ہے کہ وہ کب اور کیسے یہ حصص فروخت کریں گے۔ ٹیسلا کے چیف ایگزیکٹیو 200 ارب ڈالر سے زیادہ کے شیئرز کے مالک ہیں اور اگلے سال ان کی مالیت اور بھی بڑھ سکتی ہے۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے تجویز کردہ منصوبے کے تحت، ارب پتیوں کے ’غیر حقیقی منافع‘ پر ٹیکس لگایا جا سکتا ہے جب ان کے حصص کی قیمت بڑھ جاتی ہے، چاہے وہ اپنا کوئی سٹاک فروخت نہ بھی کریں۔ اتوار کے روز ایلون مسک نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ ’دیکھیں میں کہیں سے بھی کیش میں تنخواہ یا بونس نہیں لیتا۔ میرے پاس صرف سٹاک ہیں تو ذاتی طور پر میرے لیے ٹیکس ادا کرنے کا یہ ہی طریقہ ہے کہ میں اپنے سٹاک فروخت کر دوں۔‘ انھوں نے لکھا کہ ’’غیر حقیقی منافع‘ کو ٹیکس سے بچنے کا ایک ذریعہ قرار دیتے ہوئے، حال ہی میں بہت کچھ گیا ہے لہذا میں اپنے ٹیسلا سٹاک کا 10 فیصد فروخت کرنے کی تجویز دیتا ہوں۔‘ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ منافع پر مجوزہ ٹیکس، چاہے اثاثے فروخت کیے گئے ہوں یا نہ ہوں، امریکہ میں تقریباً 700 ارب پتیوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ ناقدین نے نشاندہی کی ہے کہ اثاثوں کی قدر میں ہمیشہ اضافہ نہیں ہوتا۔ ایلون مسک کے پاس ایک آپشن ہے، جس کے تحت وہ ٹیسلا کے 22.86 ملین شیئر 6.24 ڈالر فی شییر کی قیمت پر خرید سکیں جو ٹیسلا کے موجودہ شیئر کی مالیت کے مقابلےمیں بہت کم رقم ہے۔ ایلون مسک اگلے برس اگست تک اس سہولت کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایلون مسک نے حال ہی میں یہ کہا ہے کہ ٹیسلا کے سٹاک میں چھ ارب ڈالر فروخت کریں گے اور اس رقم کو ورلڈ فوڈ پروگرام کو عطیہ کریں گے بشرطیکہ کہ ادارہ ان معلومات کا انکشاف کرے کہ وہ اپنی رقم کیسے خرچ کرتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-59200195", "summary": "ایک ہزار ارب یا ایک ٹریلین ڈالر مالیت کا یہ قانون سخت بحث و مباحثے کے بعد منظور ہوا ہے اور اس دوران خود ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی ایک تلخ تقسیم نظر آئی۔ بل کی حمایت میں 228 جبکہ مخالفت میں 206 ووٹ آئے۔", "title": "امریکہ میں انفراسٹرکچر بِل کی منظوری، صدر بائیڈن کی بڑی کامیابی", "firstPublished": "2021-11-07T17:24:26.000Z", "id": "68e7b161-f33c-4e8d-a3cc-2cebb6e41880", "article": "ایک ہزار ارب یا ایک ٹریلین ڈالر مالیت کا یہ پبلک ورکس بل سخت بحث و مباحثے کے بعد منظور ہوا ہے اور اس دوران خود ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی ایک تلخ تقسیم نظر آئی۔ بل کی حمایت میں 228 جبکہ مخالفت میں 206 ووٹ آئے۔ ایک ہزار ارب یا ایک ٹریلین ڈالر مالیت کا یہ پبلک ورکس بل سخت بحث و مباحثے کے بعد منظور ہوا ہے ان سب کاموں کے لیے مختلف طریقوں سے رقوم کا انتظام کیا جائے گا۔ اس میں کووڈ ایمرجنسی ریلیف فنڈز کی وہ رقم بھی شامل ہے جو ابھی تک خرچ نہیں کی جا سکی۔ صدر بائیڈن کی گرتی ہوئی ریٹنگز اور اس ہفتے ورجینا میں گورنر کے انتخاب میں ڈیموکریٹ پارٹی کی شکست کے بعد اس پیکج کی منظوری کو صدر بائیڈن کی بڑی کامیابی سمجھا جا رہا ہے۔ تین مہینے قبل سینیٹ میں ریپبلیکن پارٹی کے 19 ارکان نے اس قانون کی منظوری کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کا ساتھ دیا تھا۔ یہ ایک انتہائی منقسم کانگریس میں ایک غیر معمولی کامیابی تھی جس میں دونوں جماعتیں شامل تھیں۔ جمعہ کو ایوانِ نمائندگان میں بھی یہ بل منظور ہو گیا جس میں ریپبلیکن پارٹی کے 13 ارکان نے بھی ساتھ دیا۔ لیکن کانگریس کے زیادہ لبرل ارکان نے یہ اعتراض اٹھایا کہ دونوں پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے کے بدلے میں اس قانون کی اہم لبرل نکات کو نکال دیا گیا۔ اسی وجہ سے ڈیموکریٹک پارٹی کے چھ ارکان نے اس کے خلاف ووٹ دیا جن میں نیویارک کی ایلگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز اور مینوسوٹا کی الہان عمر شامل ہیں۔ چھ ارکان کا یہ گروپ، جنھیں 'دا سکواڈ' کے نام سے پکارا جاتا ہے، ایوانِ نمائندگان کے سب سے بائیں بازو اور ترقی پسند ارکان میں شامل ہے۔ ان ارکان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک اس بل کی حمایت نہیں کریں گے جب تک پونے دو ٹریلین ڈالر کے ایک دوسرے سوشل ویلفیئر بل کو منظور نہیں کیا جاتا جو صحت عامہ، تعلیم اور آب و ہوا میں تبدیلی سے متعلق ہے۔ اس وقت دونوں ایوانوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کو معمولی اکثریت حاصل ہے۔ حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کے کئی ارکان کو بھی اس بِل پر اعتراض ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس بل کے معاشی اثرات کا پوری طرح جائزہ لیا جائے۔ جمعہ کو یہ معاملہ ایک مفاہمت پر پہنچ گیا جس کے تحت انفراسٹرکچر بل پر دستخط اور سوشل ویلفیئر بل پر بحث کے آغاز کے لیے ووٹنگ پر اتفاق ہوا۔ سنیچر کو بحث کے آغاز پر ووٹن ہوئی جس میں 221 ووٹ حق میں اور 213 ووٹ مخالفت میں آئے۔ لہذا اب سوشل ویلفیئر بل پر بحث کا سلسلہ شروع ہو گا۔ سوشل ویلفیئر بل کی مکمل مالیت کا غیر جانبدار جائزہ لینے میں متوقع طور پر دو ہفتوں سے زیادہ کا عرصہ لگے گا۔ حالانکہ ڈیموکریٹک رہنماوں نے کہا ہے کہ نومبر کے آخر تک یہ قانون بھی منظور ہو جائے گا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59173128", "summary": "پاکستان میں ایک مرتبہ پھر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں جس پر سوشل میڈیا صارفین تنقید بھی کر رہے ہیں تو اپنی حالتِ زار بتانے کے لیے مزاح کا سہارا بھی لے رہے ہیں۔", "title": "’رات کے اندھیرے میں پیٹرول بم۔۔۔ ایسا لگا دشمن نے حملہ کر دیا‘", "firstPublished": "2021-11-05T07:43:34.000Z", "id": "a88b054a-6f50-4c41-9571-9366f7e664fd", "article": "تاہم یہ خوشی گذشتہ شب اس وقت کافور ہو گئی جب حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا جس کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 8.03 روپے فی لیٹر اضافہ کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ہر ماہ کی پہلی اور 15 تاریخ کو ملک میں تیل کی مصنوعات کی قیمتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ بیشتر عوام وزیر اعظم کے پانچ روز قبل لیے گئے فیصلے کے تناظر میں سوچ رہے تھے کہ شاید اب کم از کم آئندہ 15 روز کے دوران قیمت میں اضافہ نہیں ہو گا تاہم یہ ممکن نہ ہو سکا۔ پاکستان میں پیٹرول و ڈیزل کی قیمتیں مسلسل کیوں بڑھ رہی ہے اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں ہونے والے حالیہ اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟ یہ سب جاننے سے قبل سوشل میڈیا پر ایک نظر ڈالتے ہیں جہاں صارفین نہ صرف اس حالیہ اضافے پر کڑی تنقید کرتے نظر آ رہے ہیں جبکہ چند ایسے بھی ہیں جو مہنگائی کی موجودہ صورتحال میں بھی مزاح کا پہلو ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے ہیں۔ صارف عبید الرحمان نے ایک مزاحیہ کارٹون شیئر کیا جس میں چار لوگوں کو موٹر سائیکل پر بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔ موٹر سائیکل سوار پولیس اہلکار کو بتا رہے ہیں کہ وہ دو آدمیوں کی اس سواری پر چار افراد کو بٹھانے کے عوض جرمانہ تو دینے کو تیار ہیں مگر مگر چار موٹر سائیکلوں میں پیٹرول نہیں ڈلوا سکتے۔ صارف سعید مسعود نے لکھا کہ حکومت نے گذشتہ روز ریلیف پیکج کا اعلان کیا مگر دوسری طرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دیں جو ناانصافی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سے مہنگائی کی ایک نئی لہر جنم لے گی۔ عام صارفین کی طرح سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی جمعے کے روز ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیٹرولیم مصنوعات کے اضافے پر شدید تنقید کی اور حکمراں جماعت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا تھا کہ پاکستان آج سے کچھ سال قبل 11 سے 12 ارب ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کر رہا تھا اور اب ان مصنوعات کا درآمدی بل 19 سے 20 ارب ڈالر ہو چکا ہے جس کا مطلب ہے کہ امپورٹ سٹیج پر حکومت زیادہ ٹیکس پیٹرولیم مصنوعات پر حاصل کر رہی ہے۔ ڈاکٹر اکرام نے کہا تھا اگر حکومت پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کی مد میں زیادہ ٹیکس نہیں وصول کر رہی تو اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ آئی ایم ایف سے شرائط کے تحت اسے یہ وصول کرنا ہے اور آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت ملنے والے قسط مالی خسارے کو کم کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59059862", "summary": "سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو اربوں ڈالرز کی مالی معاونت ایک ایسے موقع پر دی جا رہی ہے جب ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر گراوٹ کا شکار ہے لیکن کیا یہ مالی معاونت روپے کی قدر کو مستحکم کر پائے گی؟", "title": "سعودی عرب کی مالی معاونت پاکستان میں ڈالر کی اونچی اڑان کو قابو کر پائے گی؟", "firstPublished": "2021-10-28T01:07:48.000Z", "id": "1489d579-97be-468a-8c52-e199030bd735", "article": "سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے مرکزی بینک میں تین ارب ڈالر جمع کروانے کی پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پاکستان بڑھتے جاری کھاتوں کے خسارے اور ادائیگیوں میں عدم توازن کی وجہ سے بے پناہ مشکلات کا شکار ہے اور اس کا منفی اثر ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے پر پڑا ہے جو بے تحاشہ گراوٹ کا شکار ہے۔ یاد رہے سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تین ارب ڈالر پہلی بار نہیں رکھے جا رہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدا میں جب کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ سے پاکستان ادائیگوں کے عدم توازن کا شکار ہوا تو سعودی عرب نے دو ارب ڈالر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں رکھے تھے۔ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے لیے 4.2 ارب ڈالر فراہمی کے اعلان کے فوری بعد ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ کا مثبت اثر پڑا ہے۔ کرنسی ڈیلرز کے مطابق پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں گراوٹ سعودی عرب کی جانب سے دیے جانے والے ڈیپازٹس اور موخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی کا مثبت اثر ہے۔ انھوں نے کہا پاکستانی روپیہ بہت عرصے سے امریکی ڈالر کے مقابلے میں دباؤ میں تھا جس کی وجہ سے اس کی قدر میں مسلسل گراوٹ دیکھنے میں آ رہی تھی تاہم سعودی عرب کی جانب سے اعلان نے اس کی گرتی ہوئی قدر کو سہارا دیا۔ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے کہا کہ ’سعودی اعلان نے ڈالر کی قیمت بڑھنے کے عمل کو فوراً روک دیا ہے اور پاکستانی روپے نے اپنی کھوئی ہوئی قدر کو ایک روپے سے زائد اضافے کے ساتھ واپس حاصل کیا ہے۔ سعودی عرب کی مالی معاونت کے اعلان کے بعد ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں ہونے والے اضافے پر ملک بوستان کا کہنا ہے کہ ’تازہ ترین پیش رفت کے تناظر میں امید ہے کہ ڈالر کی قیمت 170 روپے تک گر جائے گی۔‘ ملک بوستان نے کہا آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو کورونا کے لیے دی گئی امداد کے خرچ کرنے کی بھی اجازت مل گئی ہے اس کا مثبت اثر بھی ڈالر کےمقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر پر پڑے گا۔ ظفر پراچہ نے بھی سعودی عرب کی جانب سے پاکستانی کو مالی سہولت کی فراہمی پر ڈالر کے 170 روپے کی سطح تک گرنے کی پیش گوئی کی۔ انھوں نے افغانستان کی صورت حال کو بھی ڈالر کی قدر میں اضافے کی ایک وجہ قرار دیا۔ طاہر عباس کا کہنا ہے کہ ’افغانستان کا بینکاری کا شعبہ تباہ ہو چکا ہے اور ڈالر کی ڈیمانڈ کو پاکستان سے اوپر کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر کی قیمت پر ایک منفی اثر ہوا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59035466", "summary": "سعودی عرب نے پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے سٹیٹ بینک میں تین ارب ڈالر جمع کروانے اور اسے مؤخر ادائیگی کی سہولت کے ساتھ ایک سال میں ایک ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کا تیل دینے کا اعلان کیا ہے۔", "title": "پاکستان کن شرائط پر تین ارب سعودی ڈالرز سٹیٹ بینک میں رکھ سکے گا؟", "firstPublished": "2021-10-26T20:57:01.000Z", "id": "5c896da1-416c-d04c-b35e-ab839a836f45", "article": "بدھ کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین اور وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر نے بتایا کہ ’سعودی عرب نے ایک سال پر محیط کل چار ارب 20 کروڑ ڈالر کا پیکج دیا ہے، یہ تیل کی قیمتیں اور روپے پر دباؤ کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کے لیے بہت مفید ہے۔‘ پریس کانفرنس میں سعودی عرب سے ملنے والے چار ارب 20 کروڑ ڈالرز کے تفصیلات بتاتے ہوئے مشیر خزانہ اور وفاقی وزیر توانائی نے بتایا کہ اس پیکیج کے تحت سعودی عرب پاکستان کو سالانہ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کا تیل موخر ادائیگی کی سہولت پر دے گا جبکہ پاکستان کے سٹیٹ بینک میں تین ارب ڈالر جمع کروائے جائیں گے۔ واضح رہے منگل کو سعودی عرب نے پاکستان کو ایک ارب 20 کروڑ ڈالر تک تیل مصنوعات کو موخر ادائیگی پر فراہمی اور پاکستان کے سرکاری بینک میں تین ارب ڈالرز جمع کروانے کا اعلان کیا تھا۔ اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان نے بدھ کی صبح سعودی عرب کی جانب سے تین ارب ڈالرز سٹیٹ بینک میں جمع کروانے اور ایک ارب 20 کروڑ ڈالرز مالیت کا تیل موخر ادائیگی کی سہولت پر دینے پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ انھوں نے ٹوئٹر پر اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا پاکستان کی مدد کرنے اور ملک کے مرکزی بینک میں تین ارب ڈالرز جمع کروانے اور ایک ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کے تیل کی موخر ادائیگی کر سہولت پر فراہمی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کے مشکل وقت میں ساتھ کھڑا رہا اور اب بھی جب دنیا کو بڑھتی قیمتوں کا سامنا ہے وہ پاکستان کے ساتھ ہے۔‘ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق سعودی ترقیاتی فنڈ نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ شاہی ہدایت پر پاکستان کے مرکزی بینک میں تین ارب ڈالر جمع کروائے جائیں گے تاکہ پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دیا جا سکے اور حکومت کو کورونا کی وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے میں مدد مل سکے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سنہ 2018 کے اواخر میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو زرمبادلہ ذخائر کے مستحکم رکھنے کے لیے تین ارب ڈالر فراہم کیے گئے تو اس کے ساتھ تین سال تک مؤخر ادائیگیوں پر تقریباً نو ارب ڈالر مالیت تک کا تیل دینے کا معاہدہ بھی طے پایا تھا۔ اس کے بعد رواں برس جون میں وزیر توانائی حماد اظہر اور وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ریونیو وقار مسعود نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کو سعودی عرب کی جانب سے ایک سال کی مؤخر ادائیگی پر 1.5 ارب ڈالر کا تیل فراہم کیا جائے گا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-59043978", "summary": "ماضی کے تجربات کی وجہ سے چین کو بیرونی دنیا کے بارے میں شکوک و شبہات رہتے ہیں۔ صدر شی جن پنگ اس بات کو بالکل بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ بیرونی دنیا ان کے ملک کی تذلیل کرے اور اس کا کوئی جواب نہ دیا جائے۔", "title": "چین کو عالمی منظرنامے پر لانے والے صدر شی پر ملک کے ماضی کا کتنا اثر ہے؟", "firstPublished": "2021-10-26T05:16:57.000Z", "id": "bcf5b466-f0ad-4b4f-a40f-00deb2047454", "article": "تائیوان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کی وجہ سے دنیا کی توجہ چین کی جانب ہے جبکہ یہ بھی تجزیے کیے جا رہے ہیں کہ چینی صدر شی جن پنگ اپنے ملک کو عالمی سٹیج پر کہاں کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ چین نے برطانیہ کو متنبہ کیا ہے کہ ہانگ کانگ کے ان شہریوں کو پناہ دینے کے سنگین نتائج ہوں گے جو وہاں نافذ کیے جانے والے سخت نیشنل سکیورٹی قانون کی وجہ سے ہانگ کانگ سے بھاگ رہے ہیں۔ چین نے تائیوان سے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ واپس چین کا حصہ بننے کے لیے تیار ہو جائے۔ چینی صدر شی جن پنگ کے موجودہ بیانیے کی جڑیں ملک کے قدیم اور نسبتاً جدید ماضی میں موجود ہیں۔ یہ وہ پانچ خیالات ہیں جن کا اظہار ان کی پالیسیوں اور بیانات میں بار بار نظر آتا ہے۔ موجودہ چینی صدر شی جن پنگ کا یہ خیال کہ ’عالمی برادری جس کی ایک ہی منزل ہو‘ میں بھی قدیم فلسفے کی جھلک نظر آتی ہے۔ صدر شی جن پنگ کنفیوشس کی جائے پیدائش قوفو کا دورہ کر چکے ہیں اور کنفیوشس کے اقوال عوام کے سامنے بیان کر چکے ہیں۔ 19ویں اور 20ویں صدی کے تاریخی تنازعات آج بھی دنیا کے بارے میں چین کی سوچ پر گہرائی سے اثرانداز ہوتے ہیں۔ 19ویں صدی کے وسط میں افیون پر ہونے والی جنگیں آج بھی ذہنوں میں ہیں جب مغربی تاجروں نے چین میں گھسنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا تھا۔ ان تجربات کی وجہ سے چین کو بیرونی دنیا کے بارے میں شکوک و شبہات رہتے ہیں۔ صدر شی جن پنگ اس بات کو بالکل بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ بیرونی دنیا ان کے ملک کی تذلیل کرے اور اس کا کوئی جواب نہ دیا جائے۔ ان برسوں میں چین میں ایک کروڑ لوگ ہلاک ہوئے اور چین نے پانچ لاکھ سے زیادہ جاپانی فوج کو روکے رکھا۔ اس کارنامے کو آج بھی چین میں یاد رکھا جاتا ہے اور اس پر کتابیں لکھی گئی ہیں اور فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی جس طرح اپنی قانونی اور سیاسی حیثیت کا تعین کرتی ہے ماضی قریب میں ہونے والے واقعات آج بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ماضی میں ہونے والی کچھ جنگوں کو جدید تنازعوں کے لیے استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ مثلاً گذشتہ برس چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کا برس تھا۔ اس دوران چین میں سنہ 1950 سے 1953 تک جاری رہنے والی کوریائی جنگ پر فلمیں بنائی گئی ہیں۔ چین میں اس تنازع کو امریکہ کے خلاف مزاحمت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اب 40 برس بعد صدر شی جن پنگ کا اصرار ہے کہ تائیوان کو فوراً چین میں واپس شامل ہو جانا چاہیے۔ تاہم تائیوان کے عوام ہانگ کانگ کے چین کو واپس ملنے کے بعد وہاں پر چینی اقدامات اور قانون سازی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59027579", "summary": "مہنگائی، کم ظرفی، بدزبانی، بد امنی، ڈینگی، کورونا اور سیاسی عدم استحکام کے اس دور میں جب بولنے اور اپنی رائے دینے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، نہ تو کسی کالم لکھنے والی کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی کسی ’حساس موضوع‘ پہ قلم اٹھانے کی اجازت ڈرامہ نگاروں کو ہے۔ پڑھیے آمنہ مفتی کا کالم۔", "title": "آمنہ مفتی کا کالم: چار دن کی خدائی", "firstPublished": "2021-10-24T07:36:34.000Z", "id": "8384b06e-d7bf-43e8-8048-00c919b0c304", "article": "لاہور میں سرما کی پہلی بارش پڑی اور چھتوں کے پنکھے بند ہوئے تو ایک عجیب سے سکوت نے آ گھیرا۔ اس سکوت میں بوندوں کی کن من اور پتوں سے پھسل کر حوض میں گرتے قطروں کی جلترنگ کے علاوہ کوئی آواز نہیں ہے۔ اس یاد دہانی میں کہا گیا ہے کہ خواب گاہ کے منظر، لپٹنے چمٹنے کے مناظر، شادی شدہ لوگوں کی بے راہ روی، بے ہودہ لباس وغیرہ دکھانے کے بڑھتے ہوئے رجحان پہ عوام کے پرزور احتجاج کے باعث یہ ہدایت کی جا رہی ہے کہ وغیرہ وغیرہ۔ خیر نظر آتی تو نہیں۔ مہنگائی، کم ظرفی، بدزبانی، بد امنی، ڈینگی، کورونا اور سیاسی عدم استحکام کے اس دور میں جب بولنے اور اپنی رائے دینے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، نہ تو کسی کالم لکھنے والی کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی کسی ’حساس موضوع‘ پہ قلم اٹھانے کی اجازت ڈرامہ نگاروں کو ہے۔ ادیب اور دانشور، کسی بھی معاشرے کی آنکھ، کان اور زبان ہوتے ہیں۔ انھیں خاموش کرانے کے لیے ہر دور اور ہر زمانے میں لوگ موجود رہے۔ انسانی تاریخ کے صفحات کتنے ہی لوگوں کے خون سے رنگے ہیں جنھوں نے آواز اٹھائی اور اپنی جان گنوائی۔ ہمارے ہاں تو ایسے جری لوگ بہت ہی کم ہیں، لیکن اگر کبھی غلطی سے کسی کے منھ سے سچ پھسل جاتا ہے تو پہلی فرصت میں اسے خاموش کرایا جاتا ہے۔ ملک اس وقت عدم استحکام کی جس منزل پہ کھڑا ہے اس بوکھلاہٹ میں جو نہ ہو جائے کم ہے۔ ابھی خبر ملی کہ گجرات کے قریب جی ٹی روڈ پہ گیارہ فٹ گہری خندق کھود کے تحریک لبیک کا راستہ روکا جا رہا ہے۔ بظاہر ان تمام خبروں میں کوئی ربط نہیں لیکن حقیقت یہ ہی ہے کہ جب لکھنے والوں اور سوچنے والوں کو گالیاں دینے، ان کے لکھے میں فحاشی تلاش کر کے انھیں عدالتوں میں گھسیٹنے، ان کے مذہبی رجحانات، ان کی ذاتی زندگی اور صنف کو موضوع بحث بنانا کسی خطے کی روایت بن جائے تو پھر ایسے معاشرے ہی وجود میں آتے ہیں۔ اگر ہم قلم کے آگے، فصیلیں کھڑی نہ کرتے تو شاید آج ہمیں سڑکوں پہ خندقیں نہ کھودنا پڑتیں۔ سنا یہ ہی تھا کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اسی خوش فہمی میں مبتلا آدھی گزر گئی، باقی بھی اسی خیال کے ساتھ گزرے گی کیونکہ یہ خیال نہیں، سچائی ہے۔ پیمرا کے یہ نامے بھی آتے رہیں گے، کچھ لوگ لکھنے والوں پہ ذاتی حملے بھی کرتے رہیں گے۔ ادب کی دنیا میں گھسے سر کٹے، حقیقی ادیبوں کی راہ بھی روکتے رہیں گے لیکن یہ راستہ چننے والے سر پھرے ،تب بھی اپنی بات کہتے ہی رہیں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59016635", "summary": "پاکستان میں بڑھتی مہنگائی کی حالیہ لہر نے متوسط طبقے اور کم آمدن والے خاندانوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ملک کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ جو پہلے ہی غربت کا شکار تھا اب مزید سنگین حالات کا شکار ہے۔", "title": "’دو دن سے گھر میں روٹی نہیں پکی کیونکہ آٹا خریدنے کے پیسے نہیں‘", "firstPublished": "2021-10-23T03:56:50.000Z", "id": "5a2d786d-e2c5-442b-83dc-39b1f484dbb8", "article": "کھولنے بیٹھیں تو عامر شہزاد کے پاس شکایتوں اور مجبوریوں کا ایک پینڈورا باکس ہے۔ اسلام آباد کے نواحی علاقے ترامڑی کے رہائشی عامر پاکستان کی اس نصف سے زائد آبادی کا حصہ ہیں جو پہلے ہی غربت کی چکی میں پس رہی تھی اور اب مہنگائی کی حالیہ لہر نے ان کی کمر ہی توڑ دی ہے۔ یہ تو ایک ایسے گھر کی کہانی ہے جن کی آمدنی کافی کم اور غیر مستحکم ہے۔ بی بی سی نے ایک متوسط طبقے کے خاندان سے بھی بات کی اور جاننے کی کوشش کی کہ ان کی زندگی کیسے متاثر ہو رہی ہے۔ ’پہلے ایک سال بعد بجٹ آتا تھا مگر اب میرے خیال میں ہر آٹھویں دن، ہر چوتھے دن اعلان ہوتا ہے۔ پہلے بجلی مہنگی ہوتی ہے، دو دن بعد پٹرول مہنگا ہو جاتا ہے۔ سبزی لینے جاؤ، گوشت لینے جاؤ، ہر چیز مہنگی ہے۔ ہمیں پہلے نہیں معلوم تھا کہ آٹا کتنے روپے کلو ہے، اب اچھی طرح پتا چل گیا کہ آٹے دال کا کیا بھاؤ ہے۔ جو کہتے تھے کہ بہت خوشحالی آئے گی اب اتنی ہی پریشانی آ گئی ہے۔‘ پاکستان میں مہنگائی کی حالیہ لہر نے ملک کے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے مگر متوسط طبقے اور کم آمدن والے خاندان سب سے زیادہ مشکل کا شکار نظر آتے ہیں۔ عالمی بینک کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور صرف ایک سال میں ہی بیس لاکھ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آ گئے ہیں۔ ملک کی چالیس فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو چکی ہے۔ کورونا کی عالمی وبا کے دوران حالات بدتر ہوئے ہیں۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق وبا کے دوران پاکستان میں کام کرنے والے افراد کی نصف تعداد کی نوکریاں ختم ہو گئیں یا ان کی آمدن کے ذرائع سکڑ گئے جبکہ اس کا سب سے بڑا دھچکا ان ہنرمند افراد کو لگا جو عارضی دیہاڑی کے طور پر کام کر رہے تھے۔ پاکستان میں عام خاندان اپنی آمدن کا نصف سے زیادہ حصہ کھانے پینے اور بجلی، گیس کے بلوں پر خرچ کرنے پر مجبور ہے۔ گزشتہ برس ستمبر میں اگر ایک خاندان کی کل آمدن پچاس ہزار روپے ماہانہ تھی تو اشیائے خوردونوش اور بلوں کے بعد رہائش، تعلیم، علاج معالجے وغیرہ اور باقی تمام خرچوں کے لیے بمشکل بیس یا بائیس ہزار ہی بچتے تھے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58993195", "summary": "رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری میں کمی جبکہ امریکہ کی پاکستان میں سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی انجینیئرز پر حملے، سی پیک کے پہلے مرحلے میں جاری منصوبوں کی تکمیل اور نئے منصوبوں کا آغاز نہ ہونا چند بڑی وجوہات ہیں۔", "title": "پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری میں بتدریج کمی کی وجوہات کیا ہیں؟", "firstPublished": "2021-10-22T03:53:50.000Z", "id": "098c90fa-8120-491f-b9e3-e78d08a14ceb", "article": "پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چین کی جانب سے پاکستان میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں کمی جبکہ امریکہ سے پاکستان میں ہونے والی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ چینی سرمایہ کاری میں کمی کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سی پیک کے پہلے مرحلے میں جاری انفراسٹرکچر اور توانائی کے بہت سارے منصوبوں پر کام مکمل ہو چکا ہے ماہرین کا ماننا ہے کہ چینی سرمایہ کاری میں کمی کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سی پیک کے پہلے مرحلے میں جاری انفراسٹرکچر اور توانائی کے بہت سارے منصوبوں پر کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ جو منصوبے زیر تکمیل بھی ہیں ان کی مد میں سرمایہ کاری پہلے ہی موصول ہو چکی ہے۔ جبکہ دوسری جانب مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ دور حکومت میں سی پیک کے تحت کسی بڑے منصوبے کا آغاز نہیں کیا گیا۔ پاکستان میں چین سے آنے والی لگ بھگ تمام تر سرمایہ کاری سی پیک کے منصوبوں کے تحت ہوتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ گذشتہ تقریباً دو سال میں چین سے پاکستان میں آخری بار سب سے زیادہ سرمایہ کاری دسمبر 2019 میں کی گئی تھی اور اس کا حجم تیس کروڑ ڈالر تھا۔ پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران امریکہ سے آنے والی سرمایہ کاری کا حجم چینی سرمایہ کاری سے زیادہ رہا ہے۔ سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کا دعویٰ ہے کہ موجودہ حکومت پر امریکہ کی جانب سے دباؤ تھا کہ اگر وہ سی پیک کے منصوبوں پر کام کی رفتار سست کریں تو اس کے بدلے میں پاکستانی حکومت امریکہ سے کچھ حاصل کر پائے گی۔ انھوں نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے جہاں ایک جانب چینی سرمایہ کاری کم ہوئی ہے تو دوسری جانب اب امریکہ بھی پاکستان پر اعتبار نہیں کر رہا۔ معاون خصوصی خالد منصور سے جب پوچھا کہ کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد امریکہ کے اشارے پر سی پیک کے منصوبوں پر کام کی رفتار کو سست کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کے دعوے پر ان کا کہنا تھا کہ وہ سیاسی آدمی تو نہیں ہیں مگر یہ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کے امریکہ اور چین دونوں سے بہتر سفارتی تعلقات ہیں۔ معاون خصوصی خالد منصور کے مطابق پاکستان میں سی پیک کے منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری کےمزید آنے کا امکان ہے۔ انھوں نے کہا کہ پانچ صنعتی زونز پر کام جاری ہے جس میں چینی سرمایہ کاری آئے گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58992738", "summary": "رضا باقر نے ملک میں روپے کی قدر گرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایکسیچینج ریٹ کے اوپر جانے سے کچھ لوگوں کا نقصان ہوتا ہے لیکن کچھ لوگوں کا فائدہ بھی ہوتا ہے۔‘", "title": "ڈالر کی بڑھتی قدر: ’گورنر سٹیٹ بینک کی سمجھ بوجھ کا یہ معیار ہے۔۔۔تو اللہ کی پناہ‘", "firstPublished": "2021-10-21T08:33:16.000Z", "id": "d420b211-e605-446c-a336-afcebcfe59d8", "article": "انھوں نے گذشتہ روز مانچسٹر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ملک میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایکسیچینج ریٹ کے اوپر جانے سے کچھ لوگوں کا نقصان ہوتا ہے لیکن کچھ لوگوں کا فائدہ بھی ہوتا ہے۔۔۔ تو جن لوگوں کو فائدہ ہوا ہے، انھیں ہمیں نہیں بھولنا چاہیے۔‘ برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر کا کہنا تھا کہ ’بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے خاندانوں کو فائدہ ایکسچینج ریٹ کی وجہ سے ہو رہا ہے کیونکہ یہاں محنت مزدوری سے کمائی رقم ملک واپس بھیجنے پر اس کی قدر بڑھتی جا رہی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ 'اب میں آپ کو اس کا کوانٹم بتانا چاہتا ہوں تاکہ آپ یہ اچھی طرح سمجھ جائیں کہ ایکسیچینج ریٹ کے اوپر جانے سے کچھ لوگوں کا نقصان ہوتا ہے لیکن کچھ لوگوں کا فائدہ بھی ہوتا ہے۔' رضا باقر کا مزید کہنا تھا کہ 'اس سال میں اگر مثال کے طور پر ہماری ترسیلات زر مثال کے طور پر 30 ارب ڈالر کی ہو جاتی ہے اور اگر ہماری کرنسی کی قدر 10 فیصد بھی گرتی ہے تو یہ تین ارب ڈالر اضافی اوورسیز پاکستانیوں کے خاندانوں تک پہنچ رہے ہیں۔ وکیل صلاح الدین احمد نے رضا باقر کے اس بیان پر ایک مختلف پہلو پر زور دیا اور کہا کہ ’اس نظریے کی بنیاد یہ انوکھی رائے ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ترسیلات زر بھیج کر پاکستان پر احسان کرتے ہیں۔‘ ماہر معاشیات عمار خان کا کہنا ہے کہ ’سٹیٹ بینک آف پاکستان کو اپنے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے مرکزی بینک کا نام تبدیل کر کے سٹیٹ بینک برائے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی رکھ دینا چاہیے۔ روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کے علاوہ اس کے پاس بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو خوش رکھنے کا قانونی حق بھی ہونا چاہیے۔‘ ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر ہیں، بیرونِ ملک پاکستانیوں کے نہیں۔ انھیں 20 کروڑ افراد کے لیے روپے کی قدر کو بہتر کرنا ہے نہ کہ کچھ ہزار افراد کے لیے اچھا ایکسچینج ریٹ یقینی بنانا۔‘ سیاست اور معیشت پر تحقیق کرنے والے بلال غنی نے گورنر سٹیٹ بینک کے بیان کے جواب میں اعداد و شمار کی بنیاد پر دلیل دی۔ انھوں نے کہا کہ 'سٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر نے کہا کہ روپے کی قدر گرنے سے لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ عمران وسیم نامی صارف نے لکھا کہ ’رضا باقر صاحب کی منطق سے اگر اتفاق کر لیا جائے تو یہ بھی بتا دیں کہ روپیہ گرنے سے قرضوں میں کتنا اضافہ ہوتا ہے، ملک پر قرضوں کے بوجھ میں کتنا اضافہ ہوتا ہے، اگر صرف فائدہ ہی دیکھنا ہے تو روپیہ کو کنٹرول نہ کریں، گرنے دیں کیونکہ کسی کو تو فائدہ ہو گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58989785", "summary": "تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے حکمت عملی میں تبدیلی بلاوجہ نہیں ہے اور اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ان جماعتوں کے رہنماؤں کو تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی ہو۔", "title": "’مہنگائی پر اپوزیشن جماعتوں کا حکومت کے خلاف بیانیہ بکے گا‘", "firstPublished": "2021-10-21T06:21:47.000Z", "id": "023e3a3a-21f7-4805-b25d-bfa0da2515a2", "article": "پاکستان کی حزب مخالف کی متعدد جماعتوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی طرف سے مہنگائی کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کے اعلان پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی حکمت عملی میں تبدیلی بلاوجہ نہیں ہے اور اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ان جماعتوں کے رہنماؤں کو تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی ہو۔ صحافی اور تجزیہ نگار سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے معاملے کو لے کر حکومت کا یہ بیانیہ کہ فوج اور حکومت دونوں ایک پیج ہیں، کا بھانڈا پھوٹ گیا جس نے حزب مخالف کی جماعتوں کو حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا موقع فراہم کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’ایسے حالات میں جب حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ بظاہر ایک پیج پر نہیں ہیں اور اس کے علاوہ حکومت مختلف معاملات میں چاروں طرف سے گھری ہوئی ہے اور مہنگائی بھی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں تو حزب مخالف کی جماعتوں نے بھی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے۔‘ سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف حزب مخالف نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی ہے، اگر وہ کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر وفاقی حکومت کا جانا بھی ٹھہر جائے گا کیونکہ صوبے میں برسر اقتدار بلوچستان عوامی پارٹی کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ اس جماعت کو بنانے میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت جس طرح مختلف معاملات جس میں فوج کے ساتھ تعلقات میں مبینہ تناؤ اور عوام کو ریلیف دینے میں ناکامی جیسے مسائل میں گھری ہوئی ہے تو ایسے حالات میں حزب مخالف کی جماعتوں کے لیے احتجاجی تحریک چلانے کے لیے ماحول ساز گار ہیں۔ خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جس تیزی سے ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اس کی وجہ سے وزرا اور حکومتی جماعت کے ارکان اپنے حلقوں میں نہیں جاسکتے۔ انھوں نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ’اب تو پاکستان تحریک انصاف اور حکمراں اتحاد میں شامل ارکان پارلیمنٹ بھی مہنگائی کے خلاف حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور انھوں نے وزیر اعظم کو واضح کیا ہے کہ وہ مہنگائی کی وجہ سے اپنے حلقے کے لوگوں کا سامنا نہیں کر سکتے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’تحریکوں سے حکومتیں نہیں جاتیں اور ایسا ہوتا تو ان کی جماعت نے پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے کئی دن کا دھرنا دیا تھا لیکن اس سے بھی اس وقت کی پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت گھر نہیں گئی تھی۔‘ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ حکومت پرامن احتجاجی ریلی کو نہیں روکے گی لیکن اگر ریلی کے شرکا نے کوئی خلافِ قانون کام کیا تو پھر اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58968756", "summary": "بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے رواں برس پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح کم ہونے کی پیش گوئی کی ہے لیکن پاکستان کے بعض ماہرین معیشت ان اندازوں سے یہ کہتے ہوئے اتفاق نہیں کرتے کہ آئی ایم ایف کے پاس پاکستانی معیشت کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کی کوئی خاص تیکنیکی صلاحیت نہیں ہے۔", "title": "آئی ایم ایف کو پاکستان میں مہنگائی، بیروزگاری کم ہونے کی توقع: وجوہات ’سیاسی‘ ہیں یا ’حقیقت‘ پر مبنی؟", "firstPublished": "2021-10-20T04:18:23.000Z", "id": "2197fe59-ecbb-4542-bf0b-28c47ce462a1", "article": "تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے بیروزگاری اور مہنگائی میں کمی کی پیش گوئی سے پاکستان کے بعض معاشی ماہرین اتفاق نہیں کرتے اور انھوں نے مہنگائی کے مزید بڑھنے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بیروزگاری اور مہنگائی کی شرح میں کمی کی پیش گوئی سے پاکستان میں آزاد معاشی ماہرین اتفاق نہیں کرتے جو ان کے نزدیک خام بنیادوں اور اندازوں پر کی گئی ہے۔ ڈاکٹر پاشا کے مطابق آئی ایم ایف کے تخمینے میں بہت سارے ’نقائص‘ ہیں جس کی وجہ صحیح ڈیٹا کی بجائے اندازوں پر کی گئی پیش گوئی کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ گیس، بجلی اور اجناس کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے رجحان کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ آئی ایم ایف کا مہنگائی کم ہونے کا اندازہ ٹھیک ہو گا۔ ان کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح جانچنے کا بھی کوئی ایسا طریقہ کار موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر کوئی تخمینہ دیا جا سکے۔ ماہر معیشت اور وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن بھی آئی ایم ایف کے ان اندازوں سے اتفاق نہیں کرتے۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ مالی سال میں مہنگائی کی شرح دس فیصد سے اوپر رہنے کی توقع ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح معلوم کرنے کا کوئی پیمانہ موجود نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے موجودہ مالی سال میں پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح میں کمی کی پیش گوئی پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ آئی ایم ایف اس کے ذریعے اس بات کو ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اس کے پروگرام سے پاکستان کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوا ہے جس میں وہ مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح میں کمی کی توقع کا اظہار کر رہا ہے۔ ڈاکٹر پاشا نے دعویٰ کیا کہ آئی ایم ایف کے تخمینے ’سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیں جن میں ان کے اپنے پس پردہ عزائم ہوتے ہیں۔‘ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق آئی ایم ایف کے پاس پاکستان کی معیشت کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کی کوئی خاص تیکنیکی صلاحیت نہیں ہے اس کی وجہ سے اس کے معیشت کے بارے میں تخمینے اور اندازے ’نقائص سے بھرپور ہوتے ہیں‘۔ ڈاکٹر اشفاق حسن نے بھی اس بات سے اتفاق کیا اور انھوں نے دعویٰ کیا کہ جب وہ وزارت خزانہ میں تھے اور آئی ایم ایف سے مذاکرات ہوتے تھے تو وہ جی ڈی پی اور ریونیو کا جو نمبر دے دیتے آئی ایم ایف اسے قبول کر لیتا کیونکہ اس کے پاس پاکستان کی معیشت کو جانچنے کے لیے تیکنیکی صلاحیت موجود نہیں ہے اور وہ اندازوں پر اپنی رائے دیتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-58928686", "summary": "پاکستان کی وزارتِ خزانہ کی جانب سے سنیچر کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد اب پیٹرول 137 روپے جبکہ مٹی کا تیل 110 روپے فی لیٹر ہو گیا ہے۔ پاکستان سمیت عالمی طور پر پورے 2020 اور 2021 کے کچھ مہینوں میں تیل کی قیمتیں کم رہنے کے بعد اچانک بڑھنے کی وجہ کیا ہے؟", "title": "پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں بڑا اضافہ: عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اچانک بڑھنے کیوں لگی ہیں؟", "firstPublished": "2021-10-16T05:34:39.000Z", "id": "260775f8-a233-4f62-86ac-b7481f8f10c4", "article": "پاکستان کی وزارتِ خزانہ کی جانب سے سنیچر کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دو ماہ کے دوران چوتھا اضافہ کیا گیا ہے اور اس کی وجہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کو قرار دیا گیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق ڈیزل کی قیمت میں 12 روپے 44 پیسے، پیٹرول کی قیمت میں دس روپے 49 پیسے اور مٹی کا تیل دس روپے 95 پیسے مہنگا کیا گیا ہے۔ اس اضافے کے بعد اب پاکستان میں ایک لیٹر پیٹرول کی قیمت 137 روپے 79 پیسے ہو گئی ہے جبکہ ایک لیٹر مٹی کے تیل کی قیمت 110 روپے 26 پیسے ہو گئی ہے۔ ہائی سپیڈ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 134 روپے 48 پیسے ہو گئی ہے جبکہ ایک لیٹر لائٹ ڈیزل آئل 108 روپے 35 پیسے کا ہو گیا ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں تقریباً 85 ڈالر فی بیرل ہو گئیں ہیں جو اکتوبر 2018 کے بعد سے ریکارڈ قیمت ہے۔ خیال رہے کہ جب سے عالمی وبا شروع ہوئی ہے، تیل کی قیمتوں کا مسئلہ عوام کی توجہ سے ہٹتا ہوا نظر آیا تھا کیونکہ سنہ 2020 میں وبا کی شروعات کے بعد سے اور سنہ 2021 کے کچھ مہینوں میں تیل کی قیمتیں کم تھیں لہٰذا اس وقت ایندھن کے ٹینک کو بھرنا تشویش کی بات نہیں تھا۔ ان کے مطابق جس طرح 2020 میں کووڈ 19 کے عالمی حملے اور خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے درمیان مضبوط تعلق تھا، اسی طرح اس سال وبائی مرض کے بعد تباہی سے بحالی نے تیل کی طلب اور رسد دونوں کو متاثر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بنیادی وجہ یہی ہے۔ سپلائی چین میں مسائل اور خام مال کی قیمتوں میں اضافے سے بعض اقسام کی مصنوعات کی نسبتاً قلت پیدا ہو رہی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اور اس میں اب خام تیل کی قیمت میں اضافہ بھی شامل ہو گیا ہے۔ ویلیرا کہتے ہیں کہ اوپیک اور دیگر ممالک کی خام پیداوار کو محدود رکھنے کی حکمت عملی کے علاوہ ایک اور عنصر بھی ہے جو پیداوار کو محدود کر رہا ہے۔ وہ یہ حقیقت ہے کہ بہت سی کمپنیاں تیل میں کم سرمایہ کاری کر رہی ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہ یہ سرمایہ عالمی حدت اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف عالمی جنگ کے ایک حصے کے طور پر قابل تجدید توانائی یا ایندھن کی پیداوار پر لگائیں گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-58895096", "summary": "محققین نے دنیا کے ممالک کی گھریلو کاموں اور دولت کی تقسیم اور مجموعی طور پر خواتین اور مردوں میں عدم مساوات پر درجہ بندی کی ہے۔ اس تحقیق کے لیے 45 ممالک اور گذشتہ چار دہایوں یعنی 1973 سے 2016 کے دوران جمع کیے گئے ڈیٹا میں پہلی مرتبہ صنفی بنیادوں پر آمدن کے غیرمتوازی ہونے پر بات کی گئی ہے۔", "title": "دنیا بھر میں بیویاں اپنے شوہروں سے کم کیوں کماتی ہیں؟", "firstPublished": "2021-10-13T07:04:40.000Z", "id": "09109758-8f0d-43a0-9f19-c6dfe42823d3", "article": "اس تحقیق کے لیے 45 ممالک اور گذشتہ چار دہایوں یعنی سنہ 1973 سے سنہ 2016 کے دوران جمع کیے گئے ڈیٹا میں پہلی مرتبہ صنفی بنیادوں پر آمدن کے غیرمتوازی ہونے پر بات کی گئی ہے۔ بنگلور میں انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینیجمنٹ کے سینٹر فار پبلک پالیسی کی پروفیسر ہیما سوامی ناتھن اور پروفیسر دیپک ملگھن نے 18 سے 65 سال کی عمر کے جوڑوں پر مشتمل 28 لاکھ سے زائد گھرانوں کا ڈیٹا اس تحقیق کے لیے استعمال کیا۔ یہ ڈیٹا کو ایک غیر سرکاری تنظیم لگزمبرگ انکم سٹڈی (ایل آئی ایس) نے اکٹھا کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک گھرانے میں کمانے والے افراد کی آمدن کو ایک ساتھ یکجا کیا جاتا ہے اور پھر تقسیم کیا جاتا ہے۔ مگر اکثر گھرانہ ہی عدم مساوات کا سب سے بڑا گڑھ ہوتا ہے اور ہم اسی کے بارے میں جاننا اور بتانا چاہتے تھے۔‘ پروفیسر سوامی ناتھن اور ملگھن اس تحقیق کے ذریعے عالمی صورتحال کا اندازہ لگانا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مثال کے طور پر نورڈک خطے کے ممالک جن میں ڈنمارک، فن لینڈ، آئس لینڈ، ناروے اور سویڈن شامل ہیں اور جنھیں دنیا میں صنفی برابری کی ایک امید کی کرن کے طور پر دیکھا جاتا ہے وہاں خواتین اور مردوں کی تنخواہوں کی صورتحال کیا ہے، کیا گھروں میں کام اور دولت کی تقسیم یکساں ہے؟ محققین نے دنیا کے ممالک کی گھریلو کاموں اور دولت کی تقسیم اور مجموعی طور پر خواتین اور مردوں میں عدم مساوات کی بنیاد پر درجہ بندی کی ہے۔ ان کی تحقیق کے نتائج کے مطابق صنفی عدم مساوات تمام ممالک اور غریب و امیر گھرانوں میں موجود ہے۔ خواتین کے کم کمانے کی چند وجوہات عالمی سطح پر ایک ہی ہیں، کیونکہ مردوں کو ثقافتی طور پر روٹی کما کر لانے والا سمجھا جاتا ہے، جبکہ خواتین کو گھر سنبھالنے والی سمجھا جاتا ہے۔ بہت سی خواتین بچے کی پیدائش کے بعد نوکری سے وقفہ لے لیتی ہیں یا نوکری چھوڑ دیتی ہیں۔ صنفی تنخواہ کا فرق اور غیر مساوی تنخواہ (ایک ہی کام کے لیے مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کم معاوضہ) دنیا کے بہت سے حصوں میں ایک حقیقت ہے۔ پروفیسر سوامی ناتھن کہتی ہیں کہ 'دنیا کے بیشتر حصوں میں معاشی ترقی ہوئی ہے اور لیبر فورس میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں خواتین دوست پالیسیوں نے اس خلا کو کم کرنے میں مدد کی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں ایک جیسے کام کے لیے ایک جیسا معاوضہ دینے کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ یہ سب اقدامات اس فرق کو کم کرنے کا باعث بنے ہیں۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-58860012", "summary": "آپ سوچتے ہیں کہ اگر آپ کی پسندیدہ چیز کی قیمت بڑھ گئی اور آپ اسے خریدنے کا موقع گنوا بیٹھے تو کیا ہوگا۔ یا یہ کہ یہ ختم ہو گئی تو کیا ہو گا؟ یہی چیزیں ہماری غربت کا سبب بن سکتی ہیں۔", "title": "ہمارا دماغ ہمیں غریب کیسے بناتا ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے", "firstPublished": "2021-10-10T15:59:59.000Z", "id": "7a25479a-8f2c-4a91-9bae-0726507bb1a0", "article": "اور آپ سوچتے ہیں کہ اگر اس کی قیمت بڑھ گئی اور آپ اسے خریدنے کا موقع گنوا بیٹھے تو کیا ہوگا۔ یا یہ کہ یہ ختم ہو گئی تو کیا ہو گا؟ اس تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ انسان جب کسی غیر ضروری چیز کو خریدنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے دماغ میں کیا ردعمل ہوتا ہے۔ پروفیسر ریناتا کا کہنا ہے کہ 'اب ہمارے لیے اس بلیک باکس کو کھولنا ممکن ہے جسے ماہر معاشیات انسانی ذہنوں کے فیصلے کہتے ہیں۔ درحقیقت اگر آپ دیکھیں تو سمجھیں گے کہ کیا ہو رہا ہے جب کوئی انسان فیصلہ لینے لگتا ہے تو اس کے دماغ میں کیا ہوتا ہے۔' ساؤ پولو کی وفاقی یونیورسٹی کے پروفیسر اور نیورو سائنسدان ایلوارو ماخادو دیاس کا کہنا ہے کہ 'قدرت نے ہمیں محبت اور منطق دونوں چیزیں عطا کی ہیں اور یہ دونوں اپنی اپنی جگہ بیکار نہیں ہیں۔ جب آپ جذبات سے عاری ہو جاتے ہیں تو دوسروں کے لیے احساس نہیں رکھتے۔ ہمارے فیصلہ زیادہ خود غرض ہو جاتے ہیں اور یہ معاشرہ مجموعی طور پر تباہ حال ہو جاتا ہے۔' 'جب ڈوپامائن خون میں شامل ہوتا ہے تو اس سے ہمارا بلا سوچے سمجھے کام کرنے کا رویہ متحرک ہو جاتا ہے۔ یہ کیسے کام کرتا ہے؟ آپ کو کچھ حاصل کرنے کی اُمید ملتی ہے۔ یہ دولت، صحت، لذت یا دوسروں کے سامنے ایک اچھا تاثر بھی ہو سکتا ہے۔ اور یہ جذباتی رویہ آپ میں فوراً یہ انعام حاصل کرنے کی لگن پیدا کر دیتا ہے۔' 'ہم حساب لگاتے ہیں۔ 'اگر میں سو کماؤں گا تو 50 سپرمارکیٹ میں خرچ کر سکتا ہوں، 20 شراب خانے میں، اور صرف 10 کھانے پر۔ اس کے علاوہ میرے پاس 15 دیگر اخراجات کے لیے بھی ہوں گے۔' تو آپ 15 کا سو کے ساتھ اور 10 کا سو کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں مگر یہ حساب ٹھیک نہیں بیٹھتا۔ پھر معلوم ہوتا ہے وہ بندہ گھاٹے میں ہے۔' 'میں اکثر ایک کام کرتی ہوں کہ اُن ایپس کا استعمال کرتی ہوں جس سے آپ بوڑھے نظر آتے ہیں۔ اس سے آپ اس تصویر سے اپنے آپ کو جوڑ پاتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ آپ اس شخص کے لیے کیا چاہیں گے۔ چنانچہ آپ اپنے اور اپنے مستقبل کے درمیان ایک دماغی کنکشن بنا لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں 'نہ ہی اس کا وقت ہے اور نہ ہی یہ معقول ہے کہ آپ اپنے ہر فیصلے کو منطقی اعتبار سے پرکھنے لگیں۔ آپ کو اپنی جنگ کا انتخاب خود کرنا ہوگا۔ اُن آپشنز پر غور کریں جو آپ کے لیے سب سے زیادہ اہم ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو آپ کی شناخت بنتی ہیں۔' "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58846430", "summary": "یہ پہلا موقع نہیں جب وزرا یا عوامی نمائندگان نے عوام کو ایسے مشورے دیے ہیں بلکہ ماضی میں مسلم لیگ (ن) سمیت کئی جماعتوں کے رہنما اس قسم کی باتیں کرتے رہے ہیں۔", "title": "کیا کم چینی، روٹی کھانے سے پاکستان میں مہنگائی کنٹرول ہوسکتی ہے؟", "firstPublished": "2021-10-09T01:32:19.000Z", "id": "a25dd52e-c829-48ee-9599-52525c3e4950", "article": "وہ پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے جب انھوں نے مہنگائی کے حوالے سے کی جانے والی بحث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر میں چائے میں سو دانے چینی کے ڈالتا ہوں اور نو دانے کم ڈال دوں گا تو کیا وہ کم میٹھی ہو جائے گی۔‘ تاہم یہ پہلا موقع نہیں جب وزرا یا عوامی نمائندگان نے عوام کو ایسے مشورے دیے ہیں۔ حال ہی میں حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف ہی کے قومی اسمبلی کے ممبر ریاض فتیانہ نے بھی بالکل ویسا ہی مشورہ دیا تھا جس کا ذکر علی امین گنڈاپور نے کیا۔ ماضی پر نظر ڈالیں تو پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت کئی جماعتوں کے رہنما اس قسم کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ خود سابق وزیرِ اعظم نواز شریف پاکستان کے لوگوں کو ’روٹی کم کھانے‘ کا کہہ چکے ہیں۔ سنہ 1998 میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان کو امریکہ اور عالمی دنیا کی طرف سے سخت ترین اقتصادیوں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کے خیال میں کفایت شعاری کے مشورے یا مہمات نہ کبھی مہنگائی کا حل رہی ہیں اور نہ ہو سکتی ہیں۔ ’حکومت کا کام ہے کہ وہ عام آدمی کی قوتِ خرید کو بڑھائے یا اس کی حالت کو بہتر کرے۔‘ تاہم سوال یہ ہے کہ عالمی اور قومی سطح پر موجودہ حالات میں مہنگائی پر قابو پانا حکومت کے اختیار میں ہے؟ ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں اس کے لیے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی حالیہ بلند سطح پر ہونے کی وجوہات کیا ہیں۔ اس طرح جن روزمرہ کے استعمال کی اشیا کی تیاری میں یہ ایندھن وغیرہ استعمال ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ نتیجتاً ان کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ پاکستان میں حال ہی میں ایندھن کی قیمتیں بڑھائی گئی ہیں۔ ساتھ ہی پاکستان کا درآمدی بل بہت بڑا رہا ہے۔ ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق پاکستان نیٹ امپورٹر ہے یعنی اس کی کُل درآمدات اس کی کُل برآمدات سے زیادہ ہیں اور یہ کھانے پینے کی اشیا جیسے گندم، چینی وغیرہ بھی درآمد کر رہا ہے۔ اس لیے جب تک اس کا یہ بل چھوٹا نہیں ہوتا اور تجارتی خسارہ کم نہیں ہوتا، روپے کی قدر میں بہتری آنے کی امید بھی کم ہے۔ ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق ایسا نہیں ہے بلکہ حکومت کئی اقدامات کر سکتی ہے۔ ان کے خیال میں سب سے بنیادی دو کام ہیں جو حکومت کو کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مہنگائی کے عوام پر اثرات کو کم کیا جا سکے۔ ڈاکٹر ساجد امین سمجھتے ہیں کہ اس نوعیت کی کمیٹیاں قیمتوں کے مصنوعی اضافے کو کنٹرول کرنے میں انتہائی مؤثر ہوتی ہیں اگر انھیں صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-58796614", "summary": "بحیرہ کیریبین میں برطانوی جزائر پر مشتمل خطہ جس میں کاغذات پر درج ہونے والی بیرونِی سرمایہ کاری کا حجم جرمنی میں ہونے والی بیرونِی سرمایہ کاری سے بھی زیادہ ہے۔", "title": "برطانیہ کا خطہ برٹش ورجِن آئی لینڈز، ٹیکس بچانے کی دنیا کی سب سے بڑی پناہ گاہ", "firstPublished": "2021-10-06T13:20:11.000Z", "id": "4d34b74b-00eb-4ab2-9c6e-5088f0703da7", "article": "اس کے بجائے یہاں خوبصورت ساحل اور محض کاغذات پر درج کاروباری کمپنیاں چل رہی ہیں۔ اور یہ ہیں وہ بی وی آئی جزائر جنھیں ٹیکس چھپانے یا بچانے کا کرہ ارض کا سب سے بڑا ٹھکانہ سمجھا جاتا ہے۔ جیسا کہ بین الاقوامی کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کے صحافی ول فٹزگبن کہتے ہیں کہ یہ جزائر دنیا بھر سے ’قانونی کمپنیوں، مشہور شخصیات، ارب پتی افراد اور مجرموں کو یکساں طور پر اپنی جانب راغب کرتے ہیں۔‘ اس موقع پر برٹش ورجن آئی لینڈز سے متعلق کہانیوں میں سے ایک وہاں رجسٹرڈ ایسی کمپنی کا بھی ذکر آتا ہے جو آج کے روس میں سوویت دور کے پرانے سینما گھروں پر مشتمل کئی کروڑ ڈالر کی جائیدادوں کو مسمار کر کے ان کی جگہ جدید شاپنگ مالز تعمیر کرنے کے آپریشن سے بہت زیادہ مالی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ مشرقی کیریبین میں واقع برٹش ورجن جزائر چار بڑے جزیروں اور 32 چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل علاقے کا نام ہے، جن میں سے تقریباً بیس جزائر غیر آباد ہیں۔ بہت سی درست وجوہات بھی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے کوئی شخص چاہتا ہے کہ اس کی جائیدادوں، دولت یا ان کی سرمایہ کاریوں کے بارے دوسروں کو علم نہ ہو۔ یا دیگر الفاظ میں بعض اوقات کوئی شخص یہ نہیں چاہتا کہ دوسروں کو علم ہو کہ وہ کسی سرمایہ کاری کا مالک ہے، یہی وجہ ہے کہ دولت کو خفیہ رکھنے کی صوابدید کی یہ سہولت جائز اور ناجائز دونوں قسم کے سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش ہے۔ سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی یہ سکیم کافی منافع بخش رہی ہے۔ اس قسم کی مالیاتی اور کارپوریٹ خدمات سے حاصل ہونے والی آمدن ملک کے کل بجٹ کا نصف حصہ ہے۔ اس کے علاوہ برٹش ورجن آئی لینڈز میں آمدن کا دوسرا بڑا ذریعہ سیاحت ہے۔ رسمی طور پر آمدن کی یہ رقم انھیں کینیڈا، جرمنی اور فرانس جیسی ترقی یافتہ معیشتوں سے بہتر بنا دیتی ہے۔ تاہم، چونکہ ان جزائر میں یہ سرمایہ کاری محظ کاغذات میں ہوتی ہے اس لیے اس ملک پر اس سرمایہ کاری کے حقیقی اثرات بہت ہی کم نظر آتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کے باوجود، برٹش ورجن آئی لینڈز کے حکام کے دوسرے ممالک کے حکام کے ساتھ تعاون کرنے کی وجہ سے کیریبین کے جزائر پر مشتمل اس چھوٹے سے خطے کو ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم 'او ای سی ڈی' کی اُس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے جو 'عدم تعاون' کی وجہ سے ٹیکس بچانے کی محفوظ پناہ گاہوں کے ممالک پر مشتمل ہوتی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58811531", "summary": "سرکاری اعداد و شمار کے مطابق موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کا تجارتی خسارہ سو فیصد رہا، جس کی وجہ چینی، گندم سمیت کھانے پینے کی اشیا، مشینری اور گاڑیوں کی بے تحاشہ درآمد ہے۔ ماہرین نے بڑھتے تجارتی خسارے کے رحجان کو ’ریڈ زون‘ قرار دیا ہے۔", "title": "تحریک انصاف کے دور میں بڑھتا تجارتی خسارہ، پاکستان نے دوسرے ممالک سے کیا کیا منگوایا؟", "firstPublished": "2021-10-06T05:21:08.000Z", "id": "504353b4-97e8-4d2b-8ffe-e2c80953a606", "article": "پاکستان کے ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بیرونی تجارت کے شعبے میں موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں سو فیصد تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ملک کی درآمدات میں بے تحاشا اضافے اور اس کی وجہ سے بڑھنے والے تجارتی خسارے کو ماہرین ایک خطرناک رجحان قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے اسے ملکی معیشت کے لیے ’ریڈ زون‘ کہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جو تجارتی خسارہ گذشتہ سال کی پہلی سہ ماہی میں 5.8 ارب ڈالر تھا وہ موجودہ سال میں 11.6 ارب ڈالر تک بڑھ گیا ہے۔ دوسری جانب ملک میں تیل کی مصنوعات میں تقریباً 128 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ گاڑیوں کی درآمد میں دو سو فیصد سے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسی طرح مشینری کی درآمدات میں بھی اضافہ ہوا۔ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کورونا ویکیسن کی درآمد نے بھی درآمدات میں اضافہ کیا۔ خرم شہزاد کے مطابق زیادہ کھپت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب آمدنی کے ذرائع میں اضافہ ہوتا ہے تو کھپت بھی بڑھتی ہے۔ انھوں نے کھپت کو ایک صحت مندانہ رجحان قرار دیا تاہم اگر اسے درآمدی مال سے پورا کیا جائے تو اس کا نقصان ملک کو تجارتی خسارے کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر فرخ نے تجارتی خسارے میں اضافے کی اصل وجہ برآمدات کے نہ بڑھنے کو قرار دیا ہے۔ انھوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے گذشتہ مالی سال میں 31 ارب ڈالر کی برآمدات کا جشن منایا تاہم یہی بر آمدات 14-2013 کے مالی سال میں اتنی ہی تھیں اور اس کے بعد گرنا شروع ہو گئیں۔ انھوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ پاکستان میں درآمد ہونے والی کھانے پینے کی چیزوں میں سے ایک بڑا حصہ افغانستان سمگل ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اضافی درآمد کرنا پڑتی ہے اور کہا کہ افغانستان میں اب لوگوں کے پاس قوت خرید ہی کتنی رہ گئی ہے کہ سمگل شدہ مہنگی چیزوں کو خرید سکیں۔ ڈاکٹر فرخ نے کہا اس وقت ترسیلات زر کی وجہ سے پاکستان کو فائدہ ہو رہا ہے وگرنہ جس رفتار سے تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے وہ پاکستان کے جاری کھاتوں کے خسارے کو بے پناہ بگاڑ سکتا ہے۔ ملک کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو ڈاکٹر فرخ سلیم نے ’ریڈ زون‘ قرار دیا اور کہا کہ اس کی وجہ سے ملک ’شیطانی چکر‘ میں پھنس جاتا ہے کیونکہ تجارتی خسارہ بڑھنے سے جاری کھاتوں کا خسارہ بڑھتا ہے جس کے باعث شرح مبادلہ اور کرنسی کی قدر کم ہوتی ہے اور ملک میں آمدنی کی سطح کم ہونے کی وجہ سے غربت بڑھتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58760953", "summary": "سستے نرخوں پر بجلی کی فراہمی کے فیصلے کا اطلاق یکم نومبر 2021 سے 28 فروری 2022 تک ہو گا جس سے 300 یا اس سے زائد یونٹ استعمال کرنے والے مستفید ہو سکیں گے۔ ماہرین کے مطابق اس حکومتی اقدام کا مقصد سردیوں میں بجلی کی کھپت بڑھانا اور گیس پر کم سے کم انحصار کرنا ہے۔", "title": "حکومت کیوں چاہتی ہے آپ موسم سرما میں گیس کے بجائے بجلی زیادہ استعمال کریں؟", "firstPublished": "2021-10-04T05:45:06.000Z", "id": "b1b8983a-5377-4e3c-b39b-3f3a3b2bc268", "article": "نئے ٹیرف کا اطلاق یکم نومبر 2021 سے 28 فروری 2022 تک ہو گا اور اس سے 300 یونٹ یا اس سے زائد بجلی استعمال کرنے والے مستفید ہو سکیں گے تاہم یہ واضح رہے کہ اس کا اطلاق اُن صارفین پر ہو گا جو ماہانہ تین سو یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرتے ہیں۔ ملک میں تین سو یونٹ یا اس سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین پہلے ہی بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس فیصلے کے اطلاق کے بعد تین سو یونٹ تک اور اس سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے صارفین تقریباً یکساں نرخوں پر بجلی کے بل کی ادائیگی کریں گے۔ وفاقی حکومت کی کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے فیصلے کے تحت اس ٹیرف کا اطلاق یکم نومبر 2021 سے 28 فروری 2022 تک ہوگا، جو پاکستان میں سردی کا سیزن ہوتا ہے۔ اس شعبے کے ماہرین کے مطابق حکومت کی جانب سے سردی کے موسم میں بجلی کے نرخ میں کمی کا مقصد سردیوں میں بجلی کی کھپت کو بڑھانا ہے اور ان کے مطابق حکومت کے اس اقدام سے غریب طبقے کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا تاہم زیادہ آمدنی والے طبقے کو بجلی استعمال کرنے پر وقتی ریلیف ضرور حاصل ہو گا۔ وفاقی حکومت کی کابینہ کیمٹی برائے توانائی نے سردیوں کے مہینے میں 300 یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے پر ایک نئے ٹیرف کی منظوری دی ہے جس کے مطابق 300 یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے پر 12.66 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کا بل وصول کیا جائے گا۔ اس ٹیرف کا اطلاق سردیوں کے چار مہینوں یعنی یکم نومبر 2021 سے 28 فروری 2022 تک رہے گا۔ موجودہ وقت میں 300 یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے والے کو ایک یونٹ پر 22 روپے سے زیادہ بل ادا کرنا پڑتا ہے جن میں ٹیکس شامل نہیں ہے۔ عامرنے بتایا کہ 300 یونٹ سے زائد بجلی وہاں استعمال ہوتی ہے جہاں اے سی چل رہا ہو، اس لیے حکومت چاہتی ہے کہ سردیوں میں اے سی نہیں چل رہا تو بجلی کی کھپت کو برقرار رکھنے کے لیے صارفین ہیٹر اور گیزر بجلی پر چلائیں جس کے لیے انھیں سردیوں میں کم نرخ پر بجلی کی فراہم کی مراعات دی گئی ہے۔ سردی کے موسم میں حکومت کیجانب بجلی کے نرخ میں کمی اس کے استعمال کو بڑھانے کا ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے وہ سردیوں میں گیس کی کھپت کو مینیج کرنا چاہتی ہے۔ راؤ عامر نے بتایا کہ جو لوگ سردیوں کے موسم میں گیزر اور ہیٹر کا استعمال کرتے ہیں وہ گیس کی بجائے بجلی پر کریں گے تو گیس کی بچت ہو گی اور انھیں بھی کم نرخوں پر بجلی فراہم ہو گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58738825", "summary": "پاکستان میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور اس کے نتیجے میں بڑھنے والی مہنگائی کے باوجود حکومت یہی دعویٰ کر رہی ہے کہ یہ قیمتیں خطے کے دیگر ممالک سے کم ہیں تاہم کیا قوتِ خرید کے تناظر میں حکومت کا یہ دعویٰ درست ہے؟", "title": "دنیا سے موازنہ صرف تیل کی قیمت کا ہی کیوں، قوتِ خرید اور مہنگائی کا کیوں نہیں؟", "firstPublished": "2021-10-01T09:46:56.000Z", "id": "9dccb7d5-7b22-4115-a5a7-159fcc1ad1b0", "article": "پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل ہونے والے اضافے اور اس کے نتیجے میں بڑھنے والی مہنگائی پر جہاں عوام اور اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے وہیں حکومت بار بار یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ پاکستان میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمت ابھی بھی دنیا کے بہت سے ممالک اور خاص کر خطے کے ممالک سے کم ہے۔ اس سلسلے میں خاص کر خطے کے دو ممالک انڈیا اور بنگلہ دیش کے حوالے دیے جا رہے ہیں جہاں حکومت کے ترجمانوں کے دعووں کےمطابق پاکستان سے ڈیزل اور پٹرول کی قیمتیں کہیں زیادہ ہیں۔ پاکستان میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں تازہ ترین اضافے کے بعد وزیر توانائی حماد اظہر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ٹویٹ میں کہا ہے ملک میں پیٹرول کی قیمت دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک خاص کر خطے کے ممالک کے مقابلے میں ابھی بھی کم ہے۔ ان کا کہنا تھا ’پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافہ ایک مشکل فیصلہ ہے لیکن اس کی وجہ عالمی منڈی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں۔ پاکستان میں اضافہ عالمی منڈی کے مقابلے میں کم کیا گیا ہے۔ حکومت پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کی شرح کو بتدریج کم کر رہی ہے۔ آج بھی اکثر ممالک سے پاکستان میں تیل کی قیمت کم ہے۔‘ دوسری جانب وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے برطانیہ میں پاکستان سے بھی زیادہ مہنگائی ہے۔ انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا پاکستان کے مقابلے میں برطانیہ میں قیمتیں 31 فیصد بڑھی ہیں جب کہ خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں پٹرول کی قیمت یہاں کم ہیں۔ حکومت کے وزیروں کی جانب سے کیے جانے والے ان دعووں کے مطابق پاکستان میں ڈیزل اور پٹرول کی کم قیمت کا دنیا اور خاص کر خطے کے دوسرے ممالک سے موازنہ صحیح ہے تاہم یاد رہے کہ یہ موازنہ اس وقت کیا جا رہا ہے جب پاکستان کی معیشت میں شرح نمو مستحکم نہیں تو دوسری جانب پاکستان میں آمدنی کے ذریعے سکڑ رہے ہیں۔ وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ڈالر میں ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور دنیا کے دوسرے خطوں میں پٹرول کی قیمت کو پاکستانی روپے میں تبدیل کر کے یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان میں اس کی قیمت ابھی بھی کم ہے جب کہ پاکستان اپنی ضرورت کا زیادہ تر تیل درآمد کرتا ہے۔ انھوں نے کہا حکومت یہ موازنہ صرف پٹرول کی قیمت پر کیوں کر رہی ہے؟ ’حکومت کو یہ موازنہ تمام روزمرہ استعمال کی چیزوں پر کرنا چاہیے تو پھر پتا چلے گا کہ پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی کیا بلند ترین سطح ہے اور اس کے مقابلے میں دوسرے ملک خاص کر خطے کے ملک پاکستان سے بہتر پوزیشن میں ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-58738821", "summary": "چین گذشتہ برسوں کے دوران دنیا کے مختلف ممالک کو ترقیاتی منصوبوں کی مد میں قرض فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن کر ابھرا ہے تاہم ناقدین کو خدشہ ہے کہ بہت سے چینی منصوبوں کے لیے بھاری سود والے قرضے اور چینی سرکاری کمپنوں کے مبہم معاہدے قرض لینے والے ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔", "title": "چین کا قرض دار ہونا ترقی پذیر ممالک کے لیے کتنا بھاری پڑ سکتا ہے؟", "firstPublished": "2021-09-30T04:54:07.000Z", "id": "86c14b30-c566-4b15-9dc1-65185e90a29f", "article": "چین گذشتہ برسوں کے دوران دنیا کے مختلف ممالک کو ترقیاتی منصوبوں کی مد میں قرض فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن کر ابھرا ہے۔ تازہ ترین شواہد سے یہ پتہ چلتا ہے کہ چین نے گذشتہ چند برسوں کے دوران امریکہ اور دیگر معاشی طاقتوں کے مقابلے میں ترقیاتی منصوبوں کی مد میں چینی سٹیٹ بینکوں سے ہائی رسک قرضوں کی صورت میں دگنے پیسے مختلف ممالک پر خرچ کیے ہیں۔ تاہم ناقدین کو خدشہ ہے کہ بہت سے چینی منصوبوں کے لیے بھاری سود والے قرضے اور چینی سرکاری کمپنوں کے مبہم معاہدے ان ممالک کو پریشان کر رہے ہیں۔ چین نے متعدد ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے جو بھاری قرض دیے ہیں اور اس قرض کی بروقت ادائیگی نہ ہونے پر نتیجہ ان کے اثاثوں کی چینی ملکیت میں جانے یا گروی رکھے جانے کی صورت میں نکلا ہے۔ ستمبر 2020 میں جب لاؤس دیوالیہ ہونے کے دہانے پر تھا تو اس نے ملک کا ایک بڑا اثاثہ چین کے حوالے کر دیا۔ یہ اس کے توانائی کے نظام کا ایک حصہ تھا جس کے عوض اس نے چین سے 60 کروڑ ڈالر حاصل کیے تاکہ اسے چینی کمپنیوں سے ہی لیے گئے قرض کی واپسی میں کچھ وقت مل سکے اور یہ سب ٹرین منصوبے کے تحت سروس کے آغاز سے پہلے ہو چکا ہے۔ پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا جنھیں چین کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے اربوں ڈالرز کا قرض مل رہا ہے۔ چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت سب سے زیادہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے جن ممالک کو فنڈ دیا ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ایڈ ڈیٹا کی رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان کو چین سے ملنے والے قرض کا جائزہ لیا جائے تو سنہ 2000 سے لے کر سنہ 2017 تک چین نے پاکستان کو 34 ارب 40 کروڑ ڈالرز کا قرض دیا ہے جس کا بڑا حصہ ملک میں ترقیاتی کاموں کے لیے مختص ہے۔ ایڈ ڈیٹا کا کہنا ہے کہ چین پاکستان کی طرح بہت سے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے لیے قرض کے حصول کے لیے پہلا ملک ہے۔ ماضی میں مغربی ممالک کو افریقی ممالک کو قرض کی دلدل میں دھکیلنے پر مجرم قرار دیا جاتا تھا لیکن چین اس قرض کو مختلف طریقے سے دے رہا ہے بجائے اس کے کہ وہ ایک ملک سے دوسرے ملک کو کسی منصوبے کے لیے قرض دے وہ تمام قرضوں کو ریاستی بینکنگ کے قرضوں کی صورت میں دے رہا ہے۔ بہت سے چینی ریاستی ترقیاتی قرضے بھی ضمانت کے طور پر غیر معمولی شرائط کا مطالبہ کرتے ہیں۔ چینی کمپنیاں قرضوں کی واپسی کے لیے قرض لینے والے ممالک کو قدرتی وسائل بیچ کر نقد رقم ادا کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58728691", "summary": "منی چینجنگ کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کابل میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بلند شرحِ تبادلہ کے باعث پاکستان سے افغانستان ڈالر لے جانا ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔", "title": "درآمدات یا افغانستان سمگلنگ: پاکستان میں ڈالر کی قدر میں تاریخی اضافے کی وجوہات کیا ہیں", "firstPublished": "2021-09-29T04:22:55.000Z", "id": "6a98fa0e-6469-4019-9e22-617eaad09b02", "article": "پاکستان میں اس وقت ڈالر مقامی کرنسی کے مقابلے میں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہے اور ایک ڈالر کی قیمت 170 پاکستانی روپوں سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان کے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں تاریخی اضافے کی ایک بڑی وجہ ملک کا بڑھتا ہوا درآمدی بل ہے جو تجارتی اور جاری کھاتوں کے خسارے میں بے تحاشہ اضافہ کر رہا ہے اور اس کا منفی اثر ملک کے شرح مبادلہ میں روپے پر بہت زیادہ دباؤ کی صورت میں نکل رہا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا افغانستان میں بدلتی ہوئی صورتحال اور ڈالر کی قلت کی وجہ سے پاکستان سے افغانستان ڈالر سمگل ہو رہے ہیں اور اس کا منفی اثر ملکی شرح مبادلہ پر بھی ہو رہا ہے تو گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ کسی حد تک ڈالر کی افغانستان سمگلنگ بھی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کو بڑھا رہی ہے۔ غیر قانونی منی چینجر کا کام کرنے والے کمال خان افغانستان می ڈالر کی سمگلنگ کے سلسلے میں بتاتے ہیں کہ پاکستان سے افغانستان ڈالر دو رستوں سے جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سمگلنگ ٹرکوں کے خفیہ خانوں کے ذریعے بھی کی جاتی ہے اور مختصر تعداد میں ڈالروں کی منتقلی کی صورت میں بھی ہوتی ہے جیسے کہ 10 ہزار، 20 ہزار یا 30 ہزار ڈالر مختلف افراد کے ذریعے پاکستان سے افغانستان منتقل کیے جا سکتے ہیں۔ پاکستان سے افغانستان ڈالر کی سمگلنگ اور اس کے پاکستان کے شرحِ مبادلہ پر منفی اثرات کے حوالے سے گورنر سٹیٹ بینک نے اعتراف تو کیا ہے تاہم پاکستان سے افغانستان ڈالر کیوں سمگل ہو رہے ہیں اس کے بارے میں کمال خان نے بتایا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ کابل میں ڈالر کی پاکستانی روپے کے مقابلے میں قیمت ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ اس وقت کابل میں ایک ڈالر 178 پاکستانی روپے میں مل رہا ہے۔ اگر پاکستان سے آپ ڈالر 170 اور 171 روپے پر بھی لے جاتے ہیں تو بہت زیادہ پرکشش منافع اس سمگلنگ پر ملتا ہے۔ کمال نے بتایا کہ اس وقت ڈالر 174 سے 175 روپے تک کوئٹہ اور پشاور کی گرے مارکیٹ میں دستیاب ہے اور کراچی اور پنجاب کی گرے مارکیٹ میں تو اس سے بھی کم ریٹ میں ڈالر مل جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں کابل میں بہت زیادہ نفع پر ڈالر کی ڈیمانڈ ہے۔ پراچہ نے کہا یہ بات صحیح ہے کہ ڈالر کی سمگلنگ کی ایک وجہ افغانستان میں ڈالر کی کمی ہے اور اس کی بنیادی وجہ امریکہ کی جانب سے نئی طالبان حکومت کے ڈالر اکاؤنٹس کا منجمد کرنا ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ ان درآمدات کی ایک بڑی مقدار افغانستان جا رہی ہے یعنی خوردنی چیزوں کی درآمد صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ افغانستان کے لیے بھی ہو رہی ہے کیونکہ وہاں پاکستان کے علاوہ کسی اور راستے سے فی الحال کچھ جا نہیں رہا اور اس کا اثر زیادہ درآمدی چیزوں کی صورت میں پاکستان پر پڑ رہا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-58716538", "summary": "افغانستان کے سب سے بڑے بینکوں میں سے ایک اسلامک بینک آف افغانستان کے سربراہ سید موسی کلیم ال فلاحی نے کہا ہے کہ افغانستان میں لوگ بڑی تعداد میں بینکوں سے رقم نکال رہے ہیں اور یہ کہ ملک میں بینکنگ کا شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔", "title": "افغانستان میں بینکنگ سیکٹر تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے: افغان بینک کے سربراہ", "firstPublished": "2021-09-28T12:33:18.000Z", "id": "7fa9a1ee-5454-4dba-b69e-22015724640c", "article": "افغانستان کے سب سے بڑے بینکوں میں سے ایک اسلامک بینک آف افغانستان کے سربراہ سید موسی کلیم ال فلاحی نے کہا ہے کہ افغانستان میں بینکنگ کا شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ سید موسی کلیم کا کہنا ہے کہ افغانستان کا مالیاتی شعبہ ایک 'بحران' سے گزر رہا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد دبئی منتقل ہو جانے والے سید موسی کلیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ افغانستان میں لوگ 'بڑی تعداد میں بینکوں سے رقم نکال رہے ہیں۔' 'وہاں پر صورتحال ایسی ہے کہ لوگ صرف پیسے نکال رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بینک اور کوئی خدمات فراہم نہیں کر رہے ہیں۔' اگست میں طالبان کے قبضے سے قبل ہی افغانستان میں بینکنگ کا شعبہ زیادہ مستحکم نہیں تھا اور کام کرنے کے لیے وہ بیرونی امداد پر ہی انحصار کرتا تھا۔ سید موسی کلیم نے کہا کہ اس فیصلے کی بنا پر طالبان مالی امداد کے لیے دوسرے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ چین نے پہلے ہی اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ لینے کا خواہشمند ہے اور طالبان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ چینی ریاست کے زیر انتظام اخبار گلوبل ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک حالیہ اداریے میں کہا گیا کہ 'افغانستان کی تعمیر نو میں بڑے تعاون کے امکانات ہیں اور چین اس حوالے سے بڑا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔' ملک میں مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ملک کی کرنسی افغانی کی قدر گرتی جا رہی ہے۔ عوام میں شدید بے چینی ہے اور کئی لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ان کے پاس کوئی پیسے نہیں ہیں۔ کابل میں ایک بینک کے باہر لوگوں کا جم غفیر ہے اور ایک طالب جنگجو کے پاس سے گزر رہا ہے سید موسی کلیم نے بتایا کہ طالبان کی جانب سے دیے گئے اس بیان کے باوجود کہ خواتین 'کچھ عرصے کے لیے' کام پر واپس نہیں آ سکتیں، کم از کم ان کے بینک میں خواتین نے دوبارہ کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ سید موسی کلیم کا بیان پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے بیان سے مماثلت رکھتا ہے۔ بی بی سی کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ اب طالبان دنیا کو ایک قدرے بہتر اور بدلا ہوا چہرا دکھانا چاہ رہے ہیں جو کہ ان کے پہلے دور حکومت سے یکسر مختلف ہے۔ لیکن دوسری جانب خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے گروپس اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بارے میں کہتی ہیں کہ طالبان کے بیانات زمینی حقائق سے مماثلت نہیں رکھتے، جہاں ایسی کئی خبریں سامنے آئی ہیں کہ خواتین اور بچیوں کو نہ کام کرنے دیا جا رہا ہے نہ تعلیم حاصل کرنے سکول جانے کی اجازت ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-58655007", "summary": "ملک میں بڑی ٹیکنالوجی کی کمپنیوں پر جاری کریک ڈاؤن بھی اس منصوبے کا ایک حصہ لگتا ہے۔ تو کیا شی جن پنگ واقعی کمیونسٹ منصوبے کے خیال پر یقین رکھتے ہیں؟ اس بارے میں سو فیصد یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن بعض ماہرین کے خیال میں یہ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے۔", "title": "کیا چین سوشلزم کے راستے پر واپس جانے کی کوشش کر رہا ہے؟", "firstPublished": "2021-09-27T10:15:39.000Z", "id": "4759eff3-1ab9-0043-97ed-97dda399c251", "article": "ملک میں بڑی ٹیکنالوجی کی کمپنیوں پر جاری کریک ڈاؤن بھی اس منصوبے کا ایک حصہ لگتا ہے۔ تو کیا شی جن پنگ واقعی کمیونسٹ منصوبے کے خیال پر یقین رکھتے ہیں؟ اس بارے میں سو فیصد یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن بعض ماہرین کے خیال میں یہ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے۔ اس میں یہ امر بھی اہم ہے کہ ملک میں دولت کی دوبارہ تقسیم کے پہلوؤں کے ساتھ ساتھ صدر شی جن پنگ بظاہر اس خیال کے حامی بھی نظر آتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کو روز مرہ کی زندگی کے بیشتر پہلوؤں کی طرف دھکیلا جائے جو کہ مقاصد حاصل کرنے کا واحد حقیقت پسندانہ طریقہ ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ شاید وہ مخصوص سیاسی معاملات میں اپنے والد کے خیالات سے بالکل اختلاف کرتے ہیں۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چین کے صدر کسی ایسے منصوبے پر عمل پیرا ہونے کا ارادہ رکھتے ہوں جو کہ ان کے والد کی ترجیحات سے مختلف ہو اور وہ کسی بھی طرح ماؤ دور کی پالیسیوں کے قریب بھی نہ ہو۔ جب ان کے والد کو جیل بھیجا گیا تو شی جن پنگ کی عمر اس وقت 15 برس تھی اور انھیں اس عمر میں برسوں کھیتوں میں کام کرنا پڑا تھا۔ اس دوران وہ غار جیسے ایک گھر میں رہتے تھے۔ ان سخت اور مشکل حالات نے یقیناً انھیں سخت بنایا ہے لیکن وہ آسانی سے سیاست سے خصوصاً سخت گیر قسم کی سیاست سے نفرت کر سکتے تھے۔ لہذا اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ چین میں معاشی سرگرمیوں پر نئے قوانین، نئی پابندیاں یا ضوابط کیا ہوں گے اور یہ معاملہ کہاں تک جائے گا۔ حالیہ کچھ عرصے میں شاید ہی ایک ہفتے کا وقت گزرا ہو جب نئے قوانین لاگو نہیں کیے گئے۔ سچی بات ہے اتنی پابندیاں لگی ہیں کہ ان کا حساب رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں پیداوار کی مختلف سطحوں کو کنٹرول کرنے میں ریاست کا کوئی مسئلہ ہے۔ یہ ماہرین معاشیات کے لیے بحث کرنا ہے کہ سب سے زیادہ موثر کیا ہے۔ یہاں مسئلہ ہمیشہ اچانک غیر یقینی صورتحال کا رہا ہے۔ ایسی غیر یقینی صورتحال میں کوئی کیسے اپنی پائیدار سرمایہ کاری کے فیصلے لے سکتا ہے جب اسے یہ ہی علم نہ ہوں کہ اگلے ایک ماہ میں زمینی حقائق کیا ہوں گے؟ مگر ایک بات یقینی ہے کہ چین میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کو صدر شی جن پنگ کے ’مشترکہ خوشحالی‘ کے چشمے سے ہی دیکھا جائے گا۔ اور جب کمیونسٹ پارٹی اس پر عملدرآمد کرتے ہوئے اپنی طاقت کا ایک انچ بھی نہیں چھوڑے گی۔ ایسے حالات میں یا تو آپ اس سب میں شامل ہو سکتے ہیں یا اس کی مخالفت کر کے کچلے جا سکتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-58692083", "summary": "اس این ایف ٹی کو دبئی کی ایک میوزک پروڈکشن کمپنی تھری ایف میوزک نے خریدا ہے۔ تاہم اس کمپنی نے اس مہنگی خریداری سے متعلق بی بی سی کے پوچھے گئے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔", "title": "دو سالہ بچی کی ’سائیڈ آئینگ کلوئی‘ نامی میم 74 ہزار ڈالر میں فروخت", "firstPublished": "2021-09-25T17:33:35.000Z", "id": "01a2c308-9935-4ca3-b69e-2488060c4e45", "article": "انٹرنیٹ پر دو برس کی بچی کلوئی کِلم کی وائرل ہونے والی ایک تصویر جو بعد میں مشہور میم بھی بن گئی کو این ایف ٹی کی صورت میں تقریباً 74 ہزار ڈالر میں فروخت کر دیا گیا ہے۔ یہ میم دبئی کی ایک میوزک پروڈکشن کمپنی نے خریدی ہے۔ خیال رہے کہ این ایف ٹی سے مراد نان فنجیبل ٹوکن ہے۔ یہ ایک خاص قسم کا ڈیجیٹل سرٹیفیکیٹ ہے جو کہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ کسی تصویر، ویڈیو یا دیگر قسم کے آن لائن مواد کا اصل مالک کون ہے۔ اس تصویر کو دبئی کی ایک میوزک پروڈکشن کمپنی تھری ایف میوزک نے خریدا ہے۔ تاہم اس کمپنی نے اس مہنگی خریداری سے متعلق بی بی سی کے پوچھے گئے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ کیٹی کے مطابق اگر ہم اس میم سیلز کی بنیادی بولی کو دیکھیں تو یہ نئی بولی قدرے کم ہے لیکن ہم اس فروخت پر بہت شکر گزار ہیں۔ ان کے مطابق پیسے کی اپنی دمک ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے یہ سب بطور خاندان کیا جو بہت خوشی والی بات ہے۔ فروری میں نیان کیٹ کی این ایف ٹی جس نے انٹرنیٹ پر خوب دھوم مچائی کو تین سو اتھریم پر فروخت کر دیا گیا جو آٹھ لاکھ 80 ہزار ڈالرز سے زیادہ بنتے ہیں۔ کیٹی کلم کا کہنا ہے کہ وہ اتھریئم کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق جس طرح کرپٹو کرنسی کی قدر میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہیں ایسے میں ہو سکتا ہے کہ اگلے ہفتے اتھریئم کی قیمت کئی گنا بڑھ جائے۔ تاہم یہ خاندان مستقبل قریب میں کچھ اتھریئم کو فروخت کرنا چاہتا ہے۔ مارچ میں آرٹسٹ بیپل کا این ایف ٹیز کا نیلام گھر کرسٹی چھ کروڑ نوے لاکھ ڈالر میں فروخت ہوا۔ اسی مہینے ٹوئٹر کے بانی جیک ڈورسی نے اپنے پہلے ٹویٹ کا این ایف ٹی 2.9 ملین ڈالر سے زائد کا فروخت کیا ہے۔ رواں برس پاکستان کے کرکٹ کے سابق کھلاڑیوں اور سٹار کرکٹرز وسیم اکرم اور شعیب اختر کی جانب سے بھی اپنی چند کرکٹنگ کیرئر کی تصاویر کی این ایف ٹی حاصل کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ حال ہی میں انٹرنیٹ پر وائرل 'فرینڈشپ اینڈڈ ود مدثر' نامی پاکستانی میم کا این ایف ٹی 52 ہزار ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔ اس میم کے خالق گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے آصف نے حال ہی میں اسے فاؤنڈیشن نامی این ایف ٹی پلیٹ فارم پر نیلامی کے لیے پیش کیا تھا۔ اسے کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کی کمپنی میکینزم کیپیٹل کے شریک بانی اینڈریو کینگ نے 20 ایتھر (کرپٹو کرنسی کی قسم) میں خریدا ہے۔ ایتھر کی موجودہ قدرو قیمت کے تحت پاکستانی کرنسی میں یہ رقم قریب 84 لاکھ روپے (قریب 52 ہزار امریکی ڈالر) بنتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58676608", "summary": "سٹیٹ بینک کی جانب سے درآمد شدہ گاڑیوں کی خریداری کے لیے قرضے پر پابندی عائد کیے جانے پر درآمد شدہ گاڑیوں کے ڈیلر اور درآمد کنندہ تشویش کا اظہار کر رہے ہیں تاہم دوسری جانب معاشی امور کے تجزیہ کار نے معیشت میں طلب کی نمو کو معتدل بنانے کے لیے مرکزی بینک کے اقدام کے فیصلے کو بہتر قرار دیا ہے", "title": "درآمد شدہ گاڑیوں کے لیے بینک قرض پر پابندی کی وجہ کیا ہے؟", "firstPublished": "2021-09-25T07:53:35.000Z", "id": "0d58e1ae-04e9-4a21-a6a3-7cc2c5529beb", "article": "تاہم اب پاکستان کے سٹیٹ بینک کی جانب سے درآمد شدہ گاڑیوں کے لیے بینکوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ مرکزی بینک کی جانب سے یہ پابندی آٹو فنانسنگ کے لیے اپنے جاری کردہ ضوابط میں ترمیم کے ذریعے لگائی گئی ہے۔ خیال رہے کہ مرکزی بینک کی جانب سے صرف درآمد شدہ گاڑیوں پر بینکوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضے پر ہی صرف پابندی عائد نہیں گئی ہے بلکہ مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑیوں پر بینکوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضوں پر شرائط میں بھی ترمیم کی گئی ہے۔ ترمیم شدہ ضوابط کے تحت اب ان گاڑیوں پر قرضے کی زیادہ سے زیادہ مدت کو سات سال سے پانچ سال کر دیا گیا ہے تو دوسری جانب گاڑی کے لیے دیے جانے والے قرضے کے لیے ڈاؤن پیمنٹ 15 فیصد سے بڑھا کر 30 فیصد کر دی گئی ہے تاہم ترمیم شدہ ضوابط کا اطلاق مقامی طور پر تیار ہونے والی 1000 سی سی تک انجن رکھنے والی گاڑیوں پر نہیں ہو گا۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے درآمد شدہ گاڑیوں کی خریداری کے لیے قرضے پر پابندی عائد کیے جانے پر درآمد شدہ گاڑیوں کے ڈیلر اور درآمد کنندہ تشویش کا اظہار کر رہے ہیں تاہم دوسری جانب معاشی امور کے تجزیہ کار نے معیشت میں طلب کی نمو کو معتدل بنانے کے لیے مرکزی بینک کے اقدام کے فیصلے کو بہتر قرار دیا ہے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ ضوابط پر نظرِ ثانی کے اقدام سے معیشت میں طلب کی نمو کو معتدل کرنے میں مدد ملے گی، جس سے درآمدی نمو سست ہو گی اور اس طرح توازنِ ادائیگی کو سہار ادیا جائے گا۔ ملک میں درآمد شدہ گاڑیوں پر بینک فنانسنگ کی پابندی پر تبصرہ کرتے ہوئے کراچی میں کار ڈیلر اقبال شاہ نے بتایا کہ ملک میں بکنے والی گاڑیوں میں چالیس سے پچاس فیصد بینکوں کی جانب سے جاری کیے جانے والے قرضے سے خریدی کی جاتی ہیں جن میں مقامی اور درآمد شدہ دونوں گاڑیاں شامل ہیں۔ ان کے اندازے کے مطابق سٹیٹ بینک کے اقدام سے سے گاڑیوں کی خریداری پر پندرہ سے بیس فیصد تک اثر پڑے گا پاکستان میں بینکوں کی جانب سے گاڑیوں کی خریداری کے لیے دیے جانے والے قرضے کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ انھوں نے مجموعی طور پر 326 ارب روپے کا قرضہ دے رکھا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ ان میں سے مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑیوں اور درآمد شدہ گاڑیوں پر کتنا کتنا قرضہ جاری کیا گیا ہے۔ عارف حبیب سکیورٹیز میں انویسٹمنٹ کے تجزیہ کار ارسلان حنیف نے اس سلسلے میں بتایا کہ گاڑیوں کی خریداری کے لیے بینکوں کی جانب سے قرض میں اوسطاً ہر مہینے 12 ارب روپے کا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے تاہم اس شعبے میں درآمد شدہ گاڑیوں پر جاری کیے گئے قرضے کی شرح کم ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58524562", "summary": "بعض پاکستانی معاشی ماہرین نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مقامی کرنسیوں میں تجارت کے اعلان کو مثبت قدم قرار دیا مگر کچھ اسے کوئی قابل ذکر پیشرفت قرار نہیں دیتے۔", "title": "کیا پاکستانی کرنسی میں تجارت افغانستان کی معیشت ’کنٹرول‘ کرنے کی کوشش ہے؟", "firstPublished": "2021-09-11T09:39:19.000Z", "id": "cdd1b313-30ac-42be-affd-b2feb546215a", "article": "اگرچہ پاکستانی برآمد کنندگان کو افغانستان سے زیادہ آرڈرز موصول ہو رہے ہیں تاہم دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کا حجم کچھ زیادہ نہیں ہے اور یہ صرف 1.2 ارب ڈالر تک محدود ہے۔ اس باہمی تجارت کے شعبے میں ایک نئی پیشرفت اس وقت ہوئی جب پاکستان کے وزیر خزانہ نے سینیٹ کی ایک قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ دونوں ملک اب باہمی تجارت مقامی کرنسیوں میں کریں گے۔ یہ تجارت مقامی کرنسیوں میں کب شروع ہو گی، اس کے بارے میں وزیر خزانہ نے وضاحت نہیں کی تاہم خطے میں افغاستان کی بدلتی صورتحال کی وجہ سے اسے اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔ مقامی کرنسیوں میں باہمی تجارت سے پاکستان میں شرح مبادلہ یعنی ڈالر اور روپے کے درمیان باہمی قدر پر کیا اثر پڑے گا، اس پر کرنسی کے کاروبار اور تجارت سے وابستہ افراد سے اسے ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ کی جانب سے دیے جانے والے بیان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تجارت اب مقامی کرنسیوں میں ہو گی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مقامی کرنسیوں میں تجارت کیا ممکن ہے، اس پر بین الاقوامی تجارت کے امور کے ماہر اقبال تابش نے ہاں میں جواب دیا ہے۔ تاہم ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اس سلسلے میں کہا مقامی کرنسیوں میں تجارت کے لیے بہت ساری ادارہ جاتی اور قانونی تبدیلیاں کرنا ہوں گی جن کے بارے میں ابھی حکومت نے کوئی وضاحت نہیں کی کہ وہ یہ کام کیسے کریں گے۔ قیصر بنگالی نے کہا کہ پاکستان نے اس سے پہلے کسی ملک کے ساتھ مقامی کرنسیوں میں باہمی تجارت کا کام نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ عملی طور پر پاکستان اور افغانستان یہ کیسے کریں گے، اس کا میکینزم ابھی تک واضح نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایسی چیزوں کی تجارت ہوتی ہے جو انتہائی ضرورت کی ہیں یعنی کھانے پینے کی مصنوعات اور کچھ دوسری چیزیں۔ ’اگر ہم ان کی یہ ضرورت پوری نہیں کریں گے تو کوئی دوسرا ملک یہ چیزیں وہاں بھیج سکتا ہے۔‘ ان کے مطابق پاکستان کی مجموعی بیرونی تجارت میں افغانستان سے تجارت ایک بہت قلیل حصہ ہے۔ ’افغانستان کی معیشت کیا ہے؟ صرف درآمد پر انحصار کرنے والی معیشت جبکہ ان کے پاس بیچنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ افغانستان کی کل برآمدات ڈھائی ارب ڈالر ہیں اور اس کی درآمدات ساڑھے سات ارب ڈالر۔‘ پاکستان کے وزیر خزانہ کی جانب سے افغانستان کے ساتھ تجارت کو مقامی کرنسی میں کرنے کے بیان پر انڈین میڈیا نے اسے پاکستان کی جانب سے افغانستان کی معیشت پر کنٹرول کا ایک اقدام قرار دیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ افغانستان کی معیشت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے کہ جس پر کنٹرول حاصل کر کے پاکستان کوئی فائدہ اٹھا سکے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58499431", "summary": "دنیا بھر میں ملکوں کے مرکزی بینکوں کے پاس جہاں ڈالر اور دوسری غیر ملکی کرنسیوں کی صورت میں زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ سونا بھی ان ذخائر میں موجود ہوتا ہے۔", "title": "دنیا میں سونا ملکی ذخائر کا حصہ کیوں ہوتا ہے؟", "firstPublished": "2021-09-10T04:24:43.000Z", "id": "07fb2666-8324-40be-873e-13bdd69578ce", "article": "دنیا بھر میں ملکوں کے مرکزی بینکوں کے پاس جہاں ڈالر اور دوسری غیر ملکی کرنسیوں کی صورت میں زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ سونا بھی ان ذخائر میں موجود ہوتا ہے۔ سلیم رضا نے بتایا کہ اگرچہ سونا عالمی تجارت کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے تاہم آج کے دور میں اس کی قیمت میں بہت زیادہ ردوبدل کی وجہ سے اب یہ عالمی تجارت کے لیے ایک ذریعے کے طور پر کم استعمال ہوتا ہے تاہم یہ مرکزی بینک کے ذخائر کا اہم حصہ ہوتا ہے اور آج بھی ایک قابلِ تجارت ذریعے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ کراچی میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن میں معاشیات کے استاد صائم علی نے اس سلسلے میں بتایا کہ یہ بات صحیح ہے کہ سونے کے ذخائر کا ایک تاریخی پس منظر ہے اور ڈالر نے اس کی جگہ عالمی تجارتی کرنسی کی جگہ لی ہے تاہم اس کی اہمیت پھر بھی برقرار ہے کیونکہ سونا ایک فزیکل اثاثہ ہے اور پیپر کرنسی کے مقابلے میں اس کی قدر آج بھی زیادہ سمجھی جاتی ہے۔ عارف حبیب سیکورٹیز میں معاشی امور کی تجزیہ کار ثنا توفیق نے اس سلسلے میں بتایا کہ کسی ملک کے مرکزی بینک میں جہاں غیر ملکی کرنسیوں کی صورت میں ذخائر رکھے جاتے ہیں تو اسی طرح سونا بھی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے ثنا توفیق نے بتایا کہ ایک دور تھا جب ایسا ہوتا تھا کہ کسی ایک ملک کے پاس سونے کے ذخائر کی مالیت کے برابر کرنسی نوٹ چھاپے جاتے تھے تاہم جب سونا مہنگا ہوتا گیا اور اسے بطور ذخائر کا حصہ بنانا مشکل ہوتا گیا تو پھر یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ انھوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ برصغیر میں سونا گھروں میں زیورات کی صورت میں موجود ہوتا ہے اور جب کوئی گھر بہت زیادہ معاشی مصیبت کا شکار ہو جائے اور اسے کہیں سے مالی وسائل کی امید نہ رہے تو پھر خاندانی زیورات بیچ کر مالی بحران سے نکلا جاتا ہے تاہم یہ عمل ہمارے معاشرو ں میں بہت بدشگون سمجھا جاتا ہے۔ اس بارے میں ثنا توفیق نے کہا مارکیٹ میں سونے کی قیمت اور مرکزی بینک کے پاس سونے کے ذخائر کے درمیان کوئی ربط نہیں اور نہ ہی اس کے ذریعے سونے کی مارکیٹ میں قمیت کو مستحکم یا نیچے لایا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں بھی ایسا ہوتا ہے اور سٹیٹ بینک کے پاس 64 ٹن سونے کے ذخائر کی مالیت 3.8 ارب ڈالر ہے اور یہ مرکزی بینک کے پاس 22 ارب ڈالر سے زائد ذخائر کا حصہ ہیں جن کا سونے کی مقامی مارکیٹ میں قیمتوں سے کوئی تعلق نہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58483240", "summary": "ماہرین کے مطابق ٹیکنالوجی کا استعمال ٹیکس اکٹھا کرنے میں ایک مفید ذریعہ ہے لیکن ملک میں ٹیکس کلچر کا فقدان بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایسے میں نادرا کا کیا کردار ہوسکتا ہے؟", "title": "کیا حکومت نادرا کے ذریعے ٹیکس چوری روک پائے گی؟", "firstPublished": "2021-09-08T05:14:54.000Z", "id": "c5b6ee79-2904-400e-b127-f33df109289f", "article": "پاکستان کی وفاقی حکومت ملک میں ٹیکس زیادہ جمع کرنے کے لیے ایک نئے اقدام کی طرف بڑھ رہی ہے جس کے تحت شہریوں کی رجسٹریشن کے ادارے نادرا کو ٹیکس کے نظام تک رسائی دی جائے گی۔ نادرا اس ڈیٹا کی بنیاد پر ایک سٹیزن پورٹل بنا کر ملک میں ایسے افراد کی نشاندہی کرے گا جن کی آمدن اور اخراجات تو بے تحاشا ہیں تاہم وہ پاکستان میں ٹیکس ادا نہیں کرتے اور نان فائلر ہیں۔ اسی طرح ایسے افراد جو ملک کے ٹیکس کے نظام میں فائلر کے طور پر تو رجسٹرڈ ہیں تاہم ان کی جانب سے کم ٹیکس ادا کیا جاتا ہے جو ان کے اخراجات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پاکستان میں ٹیکس نیٹ بڑھانے اور زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کی کوشش کے لیے نادرا کے ساتھ نئے سسٹم کے بارے میں ٹیکس امور سے وابستہ ماہرین کے مطابق یہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے کافی مدد فراہم کر سکتا ہے تاہم نادرا کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ اس ڈیٹا کی بنیاد پر ٹیکس ڈیمانڈ بنا سکے۔ ماہرین کے مطابق ٹیکنالوجی کا استعمال ٹیکس اکٹھا کرنے میں ایک مفید ذریعہ ہے لیکن ملک میں ٹیکس کلچر کا فقدان بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کے لیے حکومت کو انتظامی طریقوں سے کام لے کر ٹیکس اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ اسلام آباد میں مقیم معاشی امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی شہباز رانا نے اس سلسلے میں کہا کہ اس سسٹم کا آئیڈیا 2017 کا ہے کہ جس میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے استعمال کے ذریعے نادرا کی کافی ساری معلومات تک رسائی ہو جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹیکنالوجی کا استعمال ٹیکس اکٹھا کرنے میں ایک مفید ذریعہ ہے لیکن ملک میں ٹیکس کلچر کا فقدان بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے حکومت کی جانب سے اس معاشی گروتھ کے لیے 14 شعبوں کو ٹارگٹ کرنے کا منصوبہ ہے تاکہ اس کے ذریعے ملک میں ملازمتوں کے مواقع بڑھائے جائیں اور غربت کا خاتمہ کیا جا سکے۔ یہ منصوبہ ایک ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب موجودہ حکومت کی مدت دو سال رہ گئی ہے اور اسے ان دو برسوں میں قلیل مدتی پالیسی پر عمل کر کے معاشی گروتھ کو بڑھانا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ انحصار ملکی وسائل کو پیدا کرنا ہے جس میں سب سے اہم زیادہ سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کر کے بجٹ خسارے کو کم کرنا ہے۔ اور ایسے میں نادرا کے اشتراک سے ٹیکس چوری کو روکنا اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ ٹبہ، جو کہ لکی سیمنٹ کمپنی کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہ نادرا کے ساتھ نظام بھی اسی کوشش کا حصہ ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے اور ملکی سطح پر وسائل پیدا ہوں تاکہ بیرونی قرضوں سے چھٹکارا پایا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ بیرونی قرضوں سے نجات ’صرف ملکی سطح پر زیادہ ٹیکس اکٹھا ہونے سے ممکن ہو سکتی ہے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58406004", "summary": "یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان ڈاکٹر امجد ثاقب اور اخوّت فاؤنڈیشن کے کام سے متاثر ہوئے ہوں۔", "title": "ڈاکٹر امجد ثاقب کا اخوّت فاؤنڈیشن اور ’فلاحی ریاست کے قیام کا سفر‘", "firstPublished": "2021-09-01T07:58:38.000Z", "id": "e16cbc3c-b0ef-46b8-b869-57abac255ea0", "article": "پاکستان میں کام کرنے والی فلاحی تنظیم اخوت فاؤنڈیشن کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب کو ایشیا کے معروف اعزازات میں سے ایک، رامون مگسیسے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے جس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی ان کی تعریف کی ہے۔ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں عمران خان نے کہا کہ ریاستِ مدینہ کے ماڈل پر فلاحی ریاست بنانے کے سفر میں ہمیں ڈاکٹر امجد ثاقب کی اس کامیابی پر فخر ہے۔ تاہم یہ پہلا موقع نہیں جب وزیراعظم عمران خان ڈاکٹر امجد ثاقب اور اخوّت فاؤنڈیشن کے کام سے متاثر ہوئے ہوں۔ گذشتہ سال بھی وزیراعظم عمران خان کی توجہ اخوت فاؤنڈیشن کی کامیابی کی جانب مبذول ہوئی تھی اور ڈاکٹر امجد ثاقب کی وزیراعظم سے ان کے دفتر میں ذاتی طور پر ملاقات کے بعد حکومت سے اپنے گھروں کی تعمیر کے لیے دیے جانے والے بلاسود قرضہ جات پروگرام کی مد میں پانچ ارب کی رقم اس کے لیے مختص کی تھی۔ امجد ثاقب صاحب، جو تعلیم کے لحاظ سے ڈاکٹر اور پیشے کے لحاظ سے ایک سرکاری ملازم تھے، نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر 2001 میں اخوت کی بنیاد رکھی۔ ادارے کے ابتدائی دنوں میں ڈاکٹر امجد 10 ہزار روپے تک کی رقم ہی قرض کی مد میں فراہم کر سکتے تھے اور ان کی پہلی قرض خواہ چند خواتین تھیں جو لاہور کی ایک چھوٹی سی آبادی سے تعلق رکھتی تھیں اور اکثر اپنے سینے پرونے کا کام شروع کرنے کے لیے پیسوں کی تلاش میں تھیں۔ ڈاکٹر امجد نے چند ماہ قبل صحافی بینظیر شاہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ابتدائی دنوں میں بھی ہم اس رقم کو بطور خیرات استعمال کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے بلکہ اسے بلا سود قرض حسنہ کے طور پر دینا چاہتے تھے۔' ڈاکٹر امجد نے بتایا کہ جو لوگ ماہانہ صرف 30000 روپے کماتے ہیں وہ اس آمدنی کی بدولت اپنے گھر کی تعمیر کے لیے بنک سے قرض حاصل نہیں کر پاتے تھے۔ 'ہم نے وزیراعظم عمران خان کے سامنے اس منصوبے کو پیش کیا تو وہ پہلے ہی سے کسی اچھے منصوبے کی تلاش میں تھے اس لیے انھوں نے فوراً اس پر حامی بھرلی اور متعلقہ حکومتی محکمے کو اس کی تقسیم کے حوالے سے سکیم کی تیاری کی ہدایات جاری کیں۔' نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان کو اس وقت مجموعی طور پر ایک کروڑ سے زیادہ گھروں کی قلت کا سامنا ہے جبکہ ویب سائٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ رہائشی صنعت زیادہ تر متوسط اور اپر مڈل کلاس کی ضروریات پوری کرتی ہے۔ ڈاکٹر امجد کا کہنا تھا کہ 'وہ لوگ جو اس تکون کے نچلی سطح پر ہیں، وہ کُل آبادی کا تقریباً 20 فیصد حصہ ہیں اور یہ لوگ زیادہ ترغیر قانونی آبادکاریوں، تجاوزات اور کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-58347544", "summary": "طالبان پر دباؤ ہو گا کہ وہ دوسرے ممالک کے ساتھ اپنی تجارت کے حجم کو برقرار رکھیں تاہم، آنے والے دنوں میں افغانستان پر ممکنہ تجارتی اور دیگر پابندیوں کے پیش نظر، اس کا امکان کم ہے کہ طالبان کے لیے یہ کام آسان ہو گا۔", "title": "افغانستان: کیا طالبان پر دیگر ممالک سے تجارت جاری رکھنے کا دباؤ ہوگا؟", "firstPublished": "2021-08-29T12:51:12.000Z", "id": "1f65da4a-8b63-4fef-93cf-550638b6de84", "article": "طالبان کو افغانستان کا قبضہ حاصل ہوئے ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا ہے، تاہم ابھی تک زیادہ تر ممالک کی طرف سے یہ واضح نہیں ہوا کہ آئندہ بننے والی طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات کے حوالے سے ان کا مؤقف کیا ہوگا۔ افغانستان دنیا کے کسی بھی ملک کا بڑا تجارتی ساتھی نہیں ہے، اس لیے اگر طالبان حکومت دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات خراب کرتی ہے تو اس کے اثرات دیگر ممالک کے مقابلے میں خود افغانستان پر بحیثیت مجموعی بہت زیادہ ہوں گے۔ یوں طالبان پر دباؤ ہو گا کہ وہ دوسرے ممالک کے ساتھ اپنی تجارت کے حجم کو کم از کم اسی سطح پر برقرار رکھیں۔ تاہم، آنے والے دنوں میں افغانستان پر ممکنہ تجارتی اور دیگر پابندیوں کے پیش نظر، اس کا امکان کم ہے کہ طالبان کے لیے یہ کام آسان ہو گا۔ افغانستان میں بحران میں اضافے کے ساتھ دیگر ممالک سے تجارتی تعلقات خراب ہو سکتے ہیں، جس کے بعد وہ اپنی بڑی برآمدی منڈیوں سے ہاتھ دھو سکتا ہے اور اسے کئی ممالک سے درآمدات میں بھی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس سے دوسرے ممالک کے کچھ معاشی شعبے متاثر بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ مثلاً، گذشتہ ہفتے ان خبروں کے بعد کہ طالبان کے آنے سے افغانستان کے ساتھ انڈیا کی تجارت متاثر ہوئی ہے، انڈیا میں خشک میوہ جات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ خبروں کے مطابق انڈیا 85 فیصد ڈرائی فروٹ افغانستان سے درآمد کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے تجارت سے متعلق اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں افغانستان 112 ممالک کے ساتھ تجارتی لین دین کر رہا تھا لیکن اکثر ممالک کی درآمدات اور برآمدات میں افغانستان کے ساتھ ان کی تجارت کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان ممالک کے ساتھ افغانستان کی تجارت کا حجم اتنا کم ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان کے آ جانے سے ان کی تجارت متاثر بھی ہوتی ہے تو ان ممالک کی مقامی منڈیوں میں اس کے اثرات کم ہی ہوں گے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بے شک افغانستان ان ممالک کا بڑا تجارتی ساتھی نہیں ہے لیکن یہ ملک پاکستان اور ازبکستان کے لیے ایک اہم برآمدی منڈی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان کا ان ممالک، خاص طور پر انڈیا اور پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنا افغانستان کی اپنی معیشت کے اچھا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو افغانستان اپنی بڑی برآمدی منڈیوں سے ہاتھ دھو سکتا ہے۔ اس لیے افغانستان کے لیے یہ اہم ہے کہ وہ اپنی تجارت جاری رکھنے کے لیے ان ممالک سے اچھے تعلقات برقرار رکھے۔ اگر آنے والے دنوں میں اس کی درآمدات بری طرح متاثر ہوتی ہیں اور افغانستان کو متبادل منڈیوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے، تو ملک میں عام صارفین کے لیے مختلف اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58277924", "summary": "ہمسایہ ملک ہونے کی وجہ سے افغانستان میں آنے والی تبدیلی سے پاکستان براہ راست متاثر ہوتا ہے اس لیے اکثر ذہنوں یہ سوال موجود ہے کہ مستحکم ہونے کی کوششوں میں مصروف پاکستانی معیشت پر یہ صورت حال کس طرح اثر انداز ہو سکتی ہے۔", "title": "افغانستان میں تبدیلی پاکستانی معیشت پر کیسے اثر انداز ہو سکتی ہے؟", "firstPublished": "2021-08-20T04:28:41.000Z", "id": "892749e8-5e75-41c6-8b7a-572dbbf07d09", "article": "افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد خطے میں ایک نئی صورت حال نے جنم لیا ہے۔ ہمسایہ ملک ہونے کی وجہ سے افغانستان میں آنے والی تبدیلی سے پاکستان براہ راست متاثر ہوتا ہے اس لیے اکثر ذہنوں یہ سوال موجود ہے کہ مستحکم ہونے کی کوششوں میں مصروف پاکستانی معیشت پر یہ صورت حال کس طرح اثر انداز ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں آنے والی سرمایہ کاری جو سٹاک مارکیٹ اور گورنمنٹ سکیورٹیز میں آتی ہے اس میں پچھلے کئی ہفتوں سے کافی کمی دکھائی دے رہی ہے۔ صرف جولائی کے مہینے کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز میں کوئی بیرونی سرمایہ کاری نہیں آئی جس کی وجہ افغانستان میں جون کے مہینے سے شروع ہونے والی طالبان کی پیش قدمی اور اس کے پورے خطے پر اثرات تھے۔ ماہرین معیشت کے مطابق ابھی تک افغانستان میں بڑے پیمانے پر خون ریزی اورخانہ جنگی نہ ہونا پاکستان اور اس کی معیشت کے لیے اچھا ہے تاہم پاکستان کے معاشی اور مالیاتی شعبے صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں کہ مستقبل میں حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں۔ ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ 'بانڈزکی قیمتیں گرنے کی وجہ مارکیٹ کا مجموعی ردِعمل تھا کہ سرمایہ کار کس طرح سوچ رہا ہے۔ ایک تو سوچ یہ تھی کہ حالات خراب ہیں اور افغانستان میں خانہ جنگی ہو سکتی ہے جو مہاجرین کو پاکستان کی طرف دھکیل سکتی ہے تاہم ابھی تک جو حالات دکھائی دیے ہیں اس میں کوئی خون خرابہ ہوئے بغیر کابل میں طالبان داخل ہوئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کے لیے بہت زیادہ منفی اثر نہیں ہوا۔ انھوں نے کہا ایک مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے جس کی بنیاد وہ قیاس آرائیاں ہیں کہ پاکستان نے طالبان کی مدد کی اور اس کی وجہ سے وہ افغانستان پر اپنا تسلط جمانے میں کامیاب ہوئے۔ اگر یہ تاثر بڑھا کہ پاکستان نے طالبان کی مدد کی تو رسمی اور غیر رسمی طور پر پاکستان پر دباو آ سکتا ہے جو کچھ معاشی پابندیوں کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ دوسری جانب آصف ارسلان سومرو نے کہا کہ 'اگرچہ ابھی تک حالات نارمل دکھائی دیتے ہیں تاہم پاکستان کے لیے ایک چیز پریشان کن ثابت ہو سکتی ہے کہ افغانستان کی وجہ سے امریکہ کی پاکستان میں بھی دلچپسی تھی اور اس کی وجہ سے ڈالر آ رہے تھے تاہم اگر اب امریکہ کی دلچپسی ختم ہوتی ہے تو امریکہ اور اس کی اشارے پر چلنے والے عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے آنے والےڈالر کا بہاؤ رک سکتا ہے۔' افغانستان سے پاکستان کی باہمی تجارت کے بارے میں فرخ سلیم نے کہا کہ 'اس کا حجم اتنا زیادہ نہیں ہے کہ افغانستان میں بدلتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے ملک کے بیرونی تجارت کے شعبے کو بہت زیادہ اثر پڑے کیونکہ افغانستان جانے والی مصنوعات میں زیادہ تر چیزیں سمگل ہو کر وہاں پہنچتی ہیں۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58068307", "summary": "حکومت کے ترجمان فواد چوہدری نے ٹویوٹا پاکستان کی جانب سے گاڑیوں کی ریکارڈ فروخت کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے ’مہنگائی بہت ہے‘ کا ہیش ٹیگ طنزیہ انداز میں استعمال کیا جس کے بعد ان پر تنقید کی جا رہی ہے۔", "title": "ٹویوٹا گاڑیوں کی ریکارڈ فروخت: ’سات ہزار افراد نے گاڑیاں خرید کر پاکستان میں مہنگائی کو ہرا دیا‘", "firstPublished": "2021-08-03T07:36:44.000Z", "id": "82a7e761-5e90-486d-874b-e1ed1bf8692c", "article": "یہ جواب ایک سوشل میڈیا صارف نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی اس ٹویٹ کی جواب میں دیا جس میں وفاقی وزیر نے ٹویوٹا پاکستان کی جانب سے پاکستان میں گاڑیوں کی ریکارڈ تعداد میں فروخت ہونے کا اعلان پوسٹ کیا اور ساتھ بطور تبصرہ ’مہنگائی بہت ہے‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کیا۔ ٹویوٹا پاکستان کا کہنا ہے کہ کمپنی کے قیام سے اب تک انھوں نے ایک ماہ میں پاکستان میں سب زیادہ گاڑیاں فروخت کرنے کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اعلامیے کے مطابق ’جولائی 2021 میں 6775 یونٹ (گاڑیاں) فروخت کیے گئے جو سنہ 1993 سے اب تک کمپنی کی جانب سے ایک ماہ میں گاڑیوں کی سب سے زیادہ سیلز ہیں۔‘ ٹویوٹا کی جانب سے اس اعلامیے کے جاری ہونے کے بعد حکومتی وزرا اور ترجمانوں نے اسے حکومت کی کامیاب معاشی پالیسی اور ملک کی بہتر ہوتی معیشت کا عکاس ہے۔ مگر کیا حقیقت میں گاڑیوں کی فروخت بہتر معیشت کی عکاس ہے اس کا جائزہ آگے چل کر لیا جائے گا پہلے سوشل میڈیا بحث پر ایک نظر۔ ٹوئٹر پر وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بظاہر ان لوگوں خاص طور پر حزب اختلاف پر طنز کیا جو کہتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ انھوں نے اپنی ٹویٹ میں ’مہنگائی بہت ہے‘ کا ہیش ٹیگ بھی استعمال کیا۔ فواد چوہدری کے اس ٹویٹ کو کئی صارفین نے پسند کیا مگر بہت سے ایسے بھی تھے جو سمجھتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی واقعی بڑھ گئی ہے جس میں عام آدمی کا گزر بسر مشکل ہے۔ احمد فراز نے لکھا کہ ’لوئر مڈل کلاس اور غریب لوگوں کو کیا غرض کہ کتنی گاڑیاں بک گئیں۔ ان کو غرض ہے تو اس بات سے کہ ان کے گھر جینے کی بنیادی چیزیں ہیں یا نہیں۔‘ تاہم کچھ لوگ فواد چوہدری سے متفق بھی دکھائے دیے۔ جیسے راجہ علی سلیم کہتے ہیں کہ ’منسٹر صاحب کے پاس ثبوت ہے کہ پاکستان میں مہنگائی نہیں۔‘ پاکستان میں گاڑیوں کی زیادہ فروخت کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال پر کہ کیا گاڑیاں زیادہ فروخت ہونے کا مطلب معیشت میں بہتری ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی فروخت میں ایک وجہ شرح سود میں کمی ہے تو اس کے ساتھ اس شعبے میں سرمایہ کار بھی سرگرم ہیں جو گاڑیوں کی بڑی تعداد میں بُکنگ کرا کر انھیں فروخت کر کے منافع کما رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاروں کو ’اس شعبے میں بہت اچھا ریٹرن (منافع) نظر آتا ہے کیونکہ پانچ دس گاڑیوں کی بکنگ کرا کر انھیں اچھے داموں فروخت کرنا ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔‘ ’دوسرا طبقہ کاروباری افراد اور صعنت کاروں کا ہے، جو بڑی لگژری گاڑیوں ایس یو ویز کی خریداری میں بہت زیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں، اور تیسرا طبقہ پاکستان کا کاروباری شعبہ ہے جو اپنے ملازمین کو گاڑیاں دے رہا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58061096", "summary": "ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے بارے میں کرنسی بازار میں کام کرنے والے افراد مختلف وجوہات بتاتے ہیں جن میں دیگر عوامل کے ساتھ پاکستان کے پڑوس میں افغانستان میں حکومت اور طالبان میں جاری جنگ بھی ہے۔", "title": "کیا افغانستان کی صورتحال کا پاکستان میں ڈالر کی قدرپر کوئی اثر پڑ رہا ہے؟", "firstPublished": "2021-08-02T15:19:30.000Z", "id": "fc151c24-d941-457a-8d56-fb63d20fbe04", "article": "پاکستان میں گزشتہ دو مہینوں کے دوران مقامی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت میں 163 روپے کی سطح تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافے کا رجحان مسلسل جاری ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں گراوٹ سے ملکی شرح مبادلہ عدم توازن کا شکار ہوا ہے اور درآمدی مصنوعات مزید مہنگی ہوئی ہیں۔ امریکی ڈالر کی قدر میں اضافے کے باعث ملکی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بیرون ملک سے منگوائی جانی والے گندم اور چینی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے بارے میں کرنسی بازار میں کام کرنے والے افراد مختلف وجوہات بتاتے ہیں جن میں دیگر عوامل کے ساتھ پاکستان کے پڑوس میں افغانستان میں حکومت اور طالبان میں جاری جنگ بھی ہے۔ کرنسی بازار میں کام کرنے والے افراد اور ماہرین کے مطابق افغانستان کی بگڑتی صورت حال نے پاکستان کے بارے میں بھی خدشات کو جنم دے رکھا ہے جس کی وجہ سے ملک میں ڈالر بھی کم آ رہے ہیں۔ جس کی ایک مثال پاکستان انوسٹمنٹ بانڈ میں جولائی کے مہینے میں آنے والی زیرو سرمایہ کاری ہے جو ان کے مطابق عالمی سرمایہ کاروں کی جانب سے محتاط پالیسی کی علامت ہے۔ ملکی کرنسی بازار میں امریکی ڈالر کی قیمت 163 پاکستانی روپے کی حد عبور کر چکی ہے اور اگر اس کا مقابلہ مئی کے مہینے سے کیا جائے تو مقامی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں سات فیصد سے زائد اضافہ ہو چکا ہے۔ ان دو ماہ میں ڈالر کی قیمت ملکی کرنسی کے مقابلے میں گیارہ روپے بڑھ گئی ہے۔ کرنسی کے شعبے کے ماہرین کے مطابق 30 جون 2021 پر مالی سال کا اختتام جاری کھاتوں کے خسارے کے ساتھ ہوا جس نے مقامی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں کافی کم کیا۔ اس سال جون اور جولائی کے مہینوں میں ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافے کو کرنسی کے ماہرین مختلف وجوہات سے جوڑتے ہیں جن میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی طلب جو درآمدات کے لیے ضروری ہے کیونکہ پاکستان کی درآمدات میں حالیہ مہینوں میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پڑوسی ملک افغانستان میں گزشتہ کئی ہفتوں سے حکومت اور طالبان کے درمیان جاری لڑائی نے پاکستان کی کرنسی مارکیٹ پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اور بگڑتی صورت حال کے باعث پاکستان سے افغانستان جانے والی برآمدات مکمل طور پر رک گئی ہیں تو دوسری جانب خطے کی صورت حال کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری بھی نہیں ہو رہی۔ جو جولائی کے مہینے میں پاکستان انوسٹمنٹ بانڈز یعنی پی آئی بی میں ہونے والی سرمایہ کاری کے اعداد و شمار سے واضح ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-57889105", "summary": "1991 میں انڈیا میں اقتصادی لبرلائزیشن کا دور شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد انڈیا نے متعدد تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ یہ تبدیلیاں اتنے بڑے پیمانے پر ہوئیں کہ اس کے بعد پیدا ہونے والی نسل کے لیے 30 سال قبل کے انڈیا کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہے۔", "title": "معاشی آزادی کے 30 سال: وہ چار شعبے جنھوں نے انڈیا کو بدل کر رکھ دیا", "firstPublished": "2021-07-21T02:43:33.000Z", "id": "0c7cc826-e86b-4241-9b3a-5c6a38eb30f4", "article": "1991 میں انڈیا میں اقتصادی لبرلائزیشن کا دور شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد انڈیا نے متعدد تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ یہ تبدیلیاں اتنے بڑے پیمانے پر ہوئیں کہ اس کے بعد پیدا ہونے والی نسل کے لیے 30 سال قبل کے انڈیا کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس دور میں بعض نامور صحافی اور پروڈیوسر سرکاری ٹی وی چینلز پر اپنے پروگرام پیش کرتے تھے لیکن کسی کے لیے بھی خود اپنا چینل شروع کرنا ایک خواب تھا۔ 1991 میں اقتصادی لبرلائزیشن کے فیصلے کے بعد، ان پابندیوں کو کم کیا گیا اور نجی ٹی وی چینلز کا خواب حقیقت بن گیا۔ معاشی آزادی کی پالیسی کے عمل میں آنے کے بعد ہی ملک کا بینکنگ سیکٹر بڑھتا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انڈیا میں آج 22 نجی بینک ہیں جبکہ 27 سرکاری بینک ہیں لیکن حقیقت یہ بھی کہ جو بینک اپنے بل بوتے پر کاروبار کرنے میں ناقص ہیں وہ بڑے بینکوں میں ضم ہو رہے ہیں۔ تاہم، اس عرصے میں بہت سے لوگوں نے نجی بینکوں کے آنے کی مخالفت کی۔ بڑے کاروباری گھرانوں کے بینکوں کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے صنعت کار ناراض تھے۔ تاہم بعد میں مالیاتی اداروں کو ترجیح دینے کا دور بھی شروع ہوا۔ 1991 سے قبل انڈین گھروں میں ٹیلی فون کا ہونا ایک بڑی بات یا دولت مند ہونے کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ آج کی نئی نسل کے لیے یہ تصور کرنا بھی ناممکن ہے کہ لوگ ایک فون کال کرنے یا فون سننے کے لیے ایک دوسرے کے گھروں میں گھنٹوں انتظار کیا کرتے تھے اور ٹیلی فون بوتھ پر قطار لگاتے تھے۔ ویسے میں انڈیا میں مواصلاتی شعبے میں انقلاب کا آغاز 1991 میں نہیں ہوا تھا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس شعبے میں ترقی ہونا تبھی شروع ہو گئی تھی۔ ایئر کارپوریشن ایکٹ، 1953 کے تحت ایک وقت ایسا تھا کہ انڈین فضائی شعبے میں صرف سرکاری ائیر لائن کا غلبہ تھا۔ 1991 میں حکومت نے شہری ہوا بازی کے شعبے کو بھی نجی کمپینوں کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے 1994 میں ایئر کارپوریشن ایکٹ میں ترمیم کی گئی۔ 2003 میں کفائتی ائیرلائن شروع ہوئیں۔ اسی برس ائیر دکن نے اکانومی سروس شروع کی۔ اس کے بعد سپائس جیٹ، انڈیگو، گو ائیر، کنگ فشر جیسی کمپنیوں نے سستے ہوائی سفر کی پیش کش کی۔ انڈیا کے ہوائی اڈوں پر لوگوں کا ہجوم لگنا شروع ہو گیا۔ سپائس جیٹ، کنگ فشر اور سہارا ایئر لائن جیسی کمپنیاں بند ہو چکی ہیں۔ ایئر انڈیا فروخت ہونے کے نہج پر ہے لیکن لبرلائزیشن کے بعد اس شعبے میں جو انقلابی تبدیلی آئی تھی اس نے ایک عام انڈین کو بھی زندگی میں کم از کم ایک بار ہوائی سفر کرنے کا خواب دیکھنے کی اجازت ضرور دی تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-57889099", "summary": "آج سے 30 برس قبل انڈیا شدید اقتصادی بحران کا شکار اور دیوالیہ پن کے قریب تھا مگر اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ کا وہ کون سا تاریخی فیصلہ تھا جس نے انڈیا کے معاشی حالات ہمیشہ کے لیے بدل دیے؟", "title": "نرسمہا راؤ کا وہ تاریخی فیصلہ جس نے انڈیا کو ایک معاشی قوت میں بدل دیا", "firstPublished": "2021-07-20T02:43:19.000Z", "id": "838513e4-7474-4e81-a62b-83bf760f2336", "article": "اس کے برعکس آزاد معیشت میں نجی کمپنیوں کی آزادی، نجی کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی، حکومتی سرمایہ کاری کو کم کرنے اور اوپن یا آزاد مارکیٹ کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ تیس برس قبل انڈیا نے آزاد معیشت کے راستے پر چلنے کے لیے متعدد معاشی اصلاحات کے منصوبوں کا اعلان کیا جو 24 جولائی 1991 کے بجٹ کا ایک اہم حصہ تھے۔ دوسری بات یہ کہ ملک کی خوش قسمتی یہ تھی کہ ہمیں اس وقت وزیر اعظم کی حیثیت سے نرسمہا راؤ جیسا سینئیر لیڈر ملا۔انھوں نے جو اقدامات انتہائی سوچ سمجھ کر اٹھائے اس سے ملک کی حالت اور سمت ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔‘ سینئیر صحافی شنکر آئیر کے مطابق ’1988 میں وزیر اعظم راجیو گاندھی کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے کہا تھا کہ انڈیا تیزی سے معاشی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے چنانچہ آپ اس سے بچنے کے لیے قرض لیں۔ راجیو گاندھی اس مشورے سے متفق تھے لیکن عام انتخابات قریب ہونے کی وجہ سے انھوں نے اس پر توجہ نہیں دی اس وقت ان کی پارٹی کے سینئیر رہنما بھی اس کے لیے تیار نہیں تھے۔‘ تب تک ملک کا معاشی بحران اور سنگین ہو چکا تھا۔ اس دور کو یاد کرتے ہوئے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے برسوں بعد سینئیر صحافی شیکھر گپتا کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا ’انڈیا شدید معاشی بحران کا شکار تھا۔ چندر شیکھر وزیر اعظم بنے اور انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں معاشی معاملات میں انھیں صلاح دوں۔ میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ کیا کیا جائے؟‘ اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے چندر شیکھر حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے رجوع کرنا پڑا۔ اس بارے میں صحافی شنکر آئیر کہتے ہیں کہ’پارلیمان میں اکثریت حاصل نہ ہونے کے باوجود انھوں (چندر شیکھر) نے ایک جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ آئی ایم ایف میں ہمیں امریکہ سے حمایت نہیں مل رہی تھی۔ جب سبرامنیم سوامی وزیر تجارت تھے تو چندر شیکھر نے ان سے کہا کہ آپ کو امریکی محکمہ خارجہ سے بات کرنی چاہیے اور ان کا تعاون حاصل کرنا چاہیے۔ وزیر خزانہ کے عہدے کے لیے ان کی پہلی پسند ماہر اقتصادیات آئی جی پٹیل تھے لیکن جب انھوں نے نرسمہا راؤ کی پیش کش کو مسترد کر دیا تو ان کی نظر منموہن سنگھ پر پڑی جو کچھ عرصہ قبل ہی وزیر اعظم چندر شیکھر کے اقتصادی مشیر تھے اور بعدازاں وہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے چئیرمین بن گئے تھے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ کہ اصلاحات کی سست رفتار کو تیز کیا جانا چاہیے جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ معاشی اصلاحات کی وجہ سے معاشرے میں غیر برابری پیدا ہوئی ہے جس کو کم کرنے پر زور دیا جانا چاہئے لیکن کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرتا ہے کہ 30 سال قبل جس اقتصادی تاریخ کو رقم کیا گیا تھا اس نے ملک کو ایک بہت بڑی معیشت بنا دیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57877082", "summary": "چینی کمپنی غضوبہ نے داسو بم دھماکے کے بعد اپنے پاکستانی ملازمین کو نوکری سے فارغ کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ داسو میں ہونے والے دھماکے سے فقط 500 میٹر دوری پر موجود چینی کمپنی کے برسین کیمپ کے زنگ آلود گیٹ پر اب ایک نیا نوٹس چسپاں کر دیا گیا ہے۔", "title": "داسو حادثہ: چینی کمپنی نے پاکستانی ملازمین کو نوکری پر بحال کر دیا", "firstPublished": "2021-07-18T05:45:41.000Z", "id": "49c6a581-64f6-411d-b3fe-aef62f455eb8", "article": "چینی کمپنی غضوبہ نے داسو دھماکے کے بعد اپنے پاکستانی ملازمین کو نوکری سے فارغ کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ داسو میں ہونے والے دھماکے سے فقط 500 میٹر دوری پر موجود چینی کمپنی کے برسین کیمپ کے زنگ آلود گیٹ پر اب ایک نیا نوٹس چسپاں کر دیا گیا ہے۔ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا کام معطل کرنے اور ملازمین کو فارغ کرنے کا اطلاع نامہ اتار کر یہ نوٹس لگایا گیا ہے کہ مجاز اتھارٹی نے اس حوالے سے جاری پہلے فیصلے کی منظوری نہیں دی اور اسے کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ اب تمام پاکستانی ورکرز جن کی تعداد 1900 کے قریب ہے جن میں 700 کنٹریکٹ ملازمین ہیں۔ ان تمام ان کنریکٹ ملازمیں کو داسو ہاییڈرو پاور پراجیکٹ میں ملازمت پر بحال کر دیا گیا ہے۔ چینی کمپنی نے اپنے پراجیکٹ کی سائٹ پر جاری کام تو 14 جولائی کی صبح ساڑھے سات بجے داسو میں پیش آنے والے دھماکے کے بعد روک دیا تھا تاہم کمپنی نے باضابطہ طور پر کام معطل کرنے کا اعلان تیسرے روز ایک تحریری نوٹس کی صورت میں کیا۔ ایک اعلیٰ عہدے دار نے بی بی سی کو بتایا کہ پہلا نوٹیفکیشن دو بار تیار کیا گیا ابتدائی نوٹس میں فارغ کیے جانے والے پاکستانی ملازمین کو گریجویٹی دینے کا ذکر نہیں تھا لیکن دن دو بجے تیار ہونے والے اس نوٹیفکیشن میں ترمیم کی گئی اور سوا پانچ بجے گیٹ پر دوسرا نوٹس چسپاں کر دیا گیا۔ ملازمت کا کنٹریکٹ معطل ہونے کے بعد ایک مزدور نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اسی تنخواہ پر ہی آس تھی اور انھوں نے اپنی متوقع تنخواہ کے حساب سے دو تنخواہوں میں ادائیگی پر قربانی کا جانور خریدا تھا ’اب نہیں معلوم وہ پیسے کہاں سے لا کر قرض چکائیں گے۔‘ علاقے کے مکین بتاتے ہیں کہ تین روز سے صبح سے لے کر شام تک ہمارا مرکزی راستہ وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے بند رہتا ہے۔ فضا میں ہیلی کاپٹرز کی پروازیں بتاتی ہیں کہ داسو واقعے کے بعد پاکستانی اور چینی حکام مسلسل رابطوں میں ہیں اور واقعے کی چھان بین کے علاوہ آنے والے عرصے کے لیے بھی سوچ رہے ہیں۔ سینکڑوں ملازمین کا روزگار تو بحال کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کے لیے اس اہم منصوبے کے کام کی بحالی اور تسلسل کے لیے سکیورٹی کی کیا منصوبہ بندی کی جائے گی۔ اور یہ بھی کہ کیا پاکستان چینی حکام اور یہاں کام کرنے والی کمپنیوں کو تحفظ کا احساس دلانے میں کامیاب ہو سکے گی۔ غضوبہ کمپنی کے ایک عہدے دار نے دونوں نوٹیفکیشنز کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ علاقے میں اس پراجیکٹ سے 30 سے 40 فیصد لوگوں کو روزگار ملا ہے لیکن ملازمتیں ختم کرنے کی خبر پر سب لوگوں بہت مضطرب تھے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57727141", "summary": "ریٹائرمنٹ کے بعد قومی بچت سکیموں میں سرمایہ کاری ایک معقول نفع کمانے کا پرکشش ذریعہ تھا تاہم ٹیکس کی شرح بڑھنے سے اس آمدنی میں کٹوتی ہوگی اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب مہنگائی کی شرح بلندی کی جانب گامزن ہے۔", "title": "قومی بچت سکیموں کے منافع پر ٹیکس میں اضافہ، پنشنروں اور بوڑھے افراد کے لیے کتنا نقصان دہ؟", "firstPublished": "2021-07-06T12:59:51.000Z", "id": "485e438e-4dc5-4444-bcf3-ebf01cbad9ca", "article": "ان افراد کے پاس سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد قومی بچت سکیموں میں سرمایہ کاری کر کے ایک معقول نفع کمانے کا پرکشش ذریعہ تھا تاہم ٹیکس کی شرح بڑھنے سے ان کی آمدنی میں کٹوتی ہوگی اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب مہنگائی کی شرح بلندی کی جانب گامزن ہے۔ واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے قومی بچت سکیموں سے حاصل ہونے والے نفع پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کا اقدام اس وقت اٹھایا گیا ہے، جب ان سکیموں میں پچھلے کچھ عرصے سے سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی ہے۔ جس کے پس پردہ بہت سارے عوامل ہیں جن میں سے ایک اینٹی منی لانڈرنگ کے قوانین میں سختیاں بھی شامل ہیں، جس نے اس شعبے میں بھی سرمایہ کاری کو متاثر کیا ہے۔ حکومت کی جانب سے قومی بچت سکیموں پر ٹیکس کی شرح بڑھانے سے کون سے سرمایہ کار متاثر ہوں گے؟ اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ان سکمیوں میں زیادہ تر چھوٹے سرمایہ کار ہوتے ہیں جو ایک ایک ریگولر اور محفوظ منافع چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق ان سرمایہ کاروں میں بوڑھے افراد، بیواؤں، پنشنرز کے ساتھ وہ افراد بھی شامل ہیں جو سرمایہ کاری کے دوسرے ذرائع جیسے سٹاک مارکیٹ یا بینکوں میں پیسہ نہیں لگاتے کیونکہ سٹاک مارکیٹ ایک رسکی بزنس ہے تو دوسری جانب بینکوں کے مقابلے میں قومی بچت سکیمیں سرمایہ کاری کے لیے زیادہ پرکشش ذریعہ رہی ہیں۔ ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق نے حکومت کی جانب سے قومی بچت سکیموں سے حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کو ایک منفی پیش رفت قرار دیا ہے اور ان کے مطابق یہ اقدام ان سکیموں پر سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرے گا۔ انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا اگرچہ بہبود سرٹیفکیٹ، پنشنرز سرٹیفکیٹ پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے تاہم یہ لازمی نہیں ہے کہ ضعیف افراد اور بیوہ خواتین صرف ان دو سرٹیفکیٹس میں سرمایہ کاری کریں گے۔ قومی بچت سکمیوں میں زیادہ تر سرمایہ کاری کرنے والے افراد چھوٹے سرمایہ کار ہیں جنھیں سالانہ منافع پانچ لاکھ سے کم ملتا ہے اور ان میں اکثریت نان فائلر کی ہے جو 30 فیصد ٹیکس ادا کرنے کے پابند ہوں گے۔ ان افراد کے ٹیکس فائلر نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسے افراد نے جب ان سکیموں میں پیسہ لگایا تھا تو اس وقت ملک میں ٹیکس ریٹرن اور فائلر بننے کا رجحان کم تھا اور اس میں اس وقت اضافہ دیکھنے میں آیا جب حکومت نے فائلر بننے پر رعایتیں دینے کا اعلان کیا، جیسے کہ گاڑی، مکان اور بینک ٹرانزیکشن پر فائلر ہونے کی صورت میں رعایتیں حاصل ہوتی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-57639144", "summary": "انڈیا کے زرمبادلہ کے ذخائر کی حالت ایسی تھی کہ اگست 1990 تک یہ کم ہو کر صرف تین ارب ڈالر سے کچھ تھوڑا زیادہ رہ گئے تھے۔ جبکہ جنوری 1991 میں انڈیا کے پاس صرف 89 ملین ڈالر کا زرمبادلہ رہ گیا تھا۔", "title": "نرسمہا راؤ کے وہ اقدامات جنھوں نے انڈیا کے معاشی مستقبل کا رخ طے کیا", "firstPublished": "2021-06-28T13:10:37.000Z", "id": "e2f77018-965b-5e45-a3f9-317570f8a5e2", "article": "اس وقت انڈیا کے زرمبادلہ کے ذخائر کی حالت ایسی تھی کہ اگست 1990 تک یہ کم ہو کر صرف تین ارب ڈالر سے کچھ تھوڑا زیادہ رہ گئے تھے۔ جبکہ جنوری 1991 میں انڈیا کے پاس صرف 89 ملین ڈالر کا زرمبادلہ رہ گیا تھا۔ اس کی دوسری وجہ یہ تھی کہ کویت پر عراق کے حملے کی وجہ سے انڈیا کو اپنے ہزاروں کارکنوں کو واپس وطن لانا پڑا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ذریعہ بھیجے جانے والا زرمبادلہ مکمل طور پر بند ہو گیا۔ اس کے علاوہ 80 کی دہائی میں انڈیا کی طرف سے لیے گئے مختصر مدتی قرضوں پر سود کی شرح میں اضافہ ہوا تھا اور اگست 1991 تک افراط زر 16.7 فیصد تک بڑھ گیا تھا۔ نرسمہا راؤ کی سوانح عمری 'ہاف لائن ۔ نرسمہا راؤ نے انڈیا کو کیسے تبدیل کیا' کے مصنف ونے سیتاپتی نے لکھا: 'یہ گاڑیاں 21 ٹن سونے سے لدی ہوئی تھیں۔ قافلہ 35 کلومیٹر کے فاصلے پر سحر ہوائی اڈے پر رک گیا، جہاں اسے لینے کے لیے ایک کارگو ایئر لائن کا طیارہ کھڑا تھا۔ یہ سونا لندن پہنچایا گیا تھا اور اسے بینک آف انگلینڈ کے سیل میں رکھا گیا تھا۔ بدلے میں نرسمہا راؤ حکومت کو ملنے والے ڈالروں نے ہندوستان کو اس کے ذریعہ لیے گئے قرضوں کی ادائیگی میں تاخیر کرنے کی اجازت دی۔ لیکن نرسمہا راؤ نے، جن کے پاس خود یہ وزارت تھی، خود کو اس سے دور رکھا۔ اس پالیسی کا سب سے اہم جملہ یہ تھا :'اب سے تمام صنعتوں میں لائسنس دینے کی شرط ختم کردی گئی ہے۔ صرف 18 صنعتوں میں، جن کی تفصیلات کو ضمیمہ میں دیا گیا ہے، لائسنس دینے کی شرط جاری رہے گی۔' جے رام رمیش لکھتے ہیں کہ 'اپنی تقریر کے دوران انھوں نے بار بار اسی خاندان کا نام لیا جس کی پالیسیاں اور نظریے کو وہ اپنے بجٹ کے ذریعے تبدیل کر رہے تھے۔ منموہن سنگھ نے اپنے بجٹ میں کھادوں پر دی جانے والی سبسڈی میں نہ صرف 40 فیصد کمی کی بلکہ چینی اور ایل پی جی سلنڈروں کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام فرانسیسی مصنف اور شاعر وکٹر ہیوگو کی مشہور لائن سے کیا، 'کوئی بھی اس خیال کو روک نہیں سکتا جس کا وقت آ گیا ہے۔' اگلے سال کے وسط تک انڈیا کے زرمبادلہ کے ذخائر معمول پر آ چکے تھے۔ نرسمہا راؤ کی سیاسی بصیرت کے بغیر، جس میں انہوں نے 'تبدیلی' کے عنصر پر توجہ دی، جواہر لال نہرو کے زمانے سے لے کر اب تک کی سب سے بڑی معاشی اصلاحات کی کامیابی کا سوال ہیں پیدا نہیں ہوتا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-57631011", "summary": "خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر اردوغان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس پراجیکٹ کو استنبول کے مستقبل کو بچانے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہم ترکی کی ترقی کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر رہے ہیں۔‘", "title": "استنبول کینال پراجیکٹ: ’یہ کسی فوارے کا نہیں اس صدی کے بڑے نہری منصوبے کا آغاز ہے‘", "firstPublished": "2021-06-27T14:41:17.000Z", "id": "b41e2b78-e72c-4bad-bd09-410bf464f7ff", "article": "ترکی کے صدر طیب اردوغان نے 26 جون کو متنازع ’استنبول کینال‘ (یعنی نہر استنبول) پراجیکٹ کا افتتاح کر دیا ہے۔ اس منصوبے پر 15 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر اردوغان کا کہنا تھا ’ہم اس پراجیکٹ کو استنبول کے مستقبل کو بچانے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہم ترکی کی ترقی کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر رہے ہیں۔‘ صدر اردوغان نے منصوبے کا افتتاح اس پراجیکٹ میں شامل ایک بڑے پُل کا سنگ بنیاد رکھ کر کیا۔ اس بڑے منصوبے کا مقصد آبنائے باسفورس سے گزرنے والے تجارتی جہازوں کے دباؤ کو کم کرنا اور تجارتی مقاصد کے لیے ایک متبادل بحری روٹ فراہم کرنا ہے۔ صدر اردوغان کا مزید کہنا تھا کہ یہ منصوبہ استنبول کے عوام کی زندگیوں کو محفوظ کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ’یہ کسی فوارے کی افتتاحی تقریب نہیں بلکہ یہ اس صدی کے بڑے نہری منصوبے کا آغاز ہے۔‘ صدر اردوغان نے پہلی مرتبہ اپریل 2011 میں اس منصوبے کا اعلان کیا تھا اور اسے ’بڑے بجٹ کے کریزی منصوبے‘ کی حیثیت سے سراہا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اس کا موازنہ پاناما یا سوئز کینال سے نہیں کیا جا سکتا ہے (یعنی یہ ان دونوں منصوبوں سے بہتر اور بڑا منصوبہ ہے)۔ روئٹرز کے مطابق صدر اردوغان کی جانب سے پُل کا سنگ بنیاد رکھے جانے کے بعد وہاں موجود مزدوروں نے 1.6 کلومیٹر طویل پُل کے پلرز میں کنکریٹ بھرا جبکہ اس موقع پر موجود ہجوم میں شامل افراد ترکی کے پرچم لہراتے رہے۔ اس نہر کے منصوبے کی سرکاری ویب سائٹ پر اس نہر کو بنانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آبنائے باسفورس کی بحری ٹریفک، بڑے جہازوں کی بڑی تعداد، جو 'خطرناک' مواد وہ لے کر جاتے ہیں، استنبول شہر کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ رواں برس اپریل میں ترکی کی بحریہ کے 10 ریٹائرڈ ایڈمرلز کو صدر طیب اردوغان کے ’استنبول کینال‘ منصوبے پر کھلے عام تنقید کرنے کے الزامات کے تحت پر حراست میں لیا گیا تھا۔ اس گرفتاریوں کے بعد ترک سیاست میں ایک بھونچال آ گیا تھا۔ حراست میں لیے جانے والے یہ افراد ان 104 ریٹائرڈ ایڈمرلز میں شامل تھے جنھوں نے ایک مشترکہ خط پر دستخط کیے تھے جس کے ذریعے ترک حکومت کو متنبہ کیا گیا تھا کہ نہر کے اس منصوبے سے آبنائے باسفورس پر بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ ترکی کے صدر اردوغان نے افسران کے اس اعلامیے کو ’بدتمیزی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس (خط) سے ’بغاوت کی بو‘ آ رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-57592284", "summary": "بلقان کا خطہ تاریخی طور پر یورپ اور امریکہ کے زیرِ اثر رہا ہے مگر اب چینی منصوبے اور اس کے قرضوں نے ان ممالک کو چین کے زیرنگیں کر دیا ہے۔ 2019 میں 22 ممالک نے اقوامِ متحدہ کو خط لکھا اور چین کی جانب سے اویغور برادری پر مبینہ تشدد کے الزامات عائد کیے مگر اس خط پر بلقان خطے کے کسی رکن ملک نے دستخط نہیں کیے۔", "title": "مشرقی یورپ کے ممالک کیسے چین کے قرضوں کے جال میں پھنسے", "firstPublished": "2021-06-24T09:13:27.000Z", "id": "d35f7d39-e688-4419-8820-d84cf74538b0", "article": "گذشتہ کچھ برسوں میں چین خطہ بلقان میں ایک اہم کردار بن کر ابھرا ہے۔ بلقان کا خطہ تاریخی طور پر یورپ اور امریکہ کے زیرِ اثر رہا ہے۔ ماضی میں اس پہاڑی خطے کے زیادہ تر ممالک نے مغربی یورپ تک چین کی نئی شاہراہِ ریشم کے دہانے کا کردار ادا کیا ہے۔ چین کا نیا شاہراہِ ریشم کا منصوبہ پانچ برِ اعظموں پر پھیلے انفراسٹرکچر پراجیکٹس کا ایک نہایت پرعزم منصوبہ ہے۔ مگر حال ہی میں دو کروڑ 80 لاکھ آبادی والے ملک لیتھوانیا نے چین پر کئی سنگین الزامات لگاتے ہوئے خود کو اس فورم سے علیحدہ کر لیا ہے۔ مونٹینیگرو کا معاملہ شاید سب سے زیادہ حیران کُن ہے۔ سنہ 2014 میں مونٹینیگرو اور چین کے ایگزم بینک نے نو کروڑ 40 لاکھ ڈالر کے ایک ترجیحی قرضے کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس قرض کا مقصد 41 کلومیٹر طویل شاہراہ کی تعمیر تھا۔ اس منصوبے کے ناقدین نے شروع ہی سے خبردار کیا تھا کہ اس منصوبے سے کوئی منافع حاصل نہیں ہو گا۔ اب سربیا کے ہفتہ وار اخبار وریم نے خبردار کیا ہے کہ اس پراجیکٹ نے اس چھوٹے سے ملک کی خود مختاری کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مونٹینیگرو کی آبادی چھ لاکھ 22 ہزار کے قریب ہے۔ مشرقی یورپ کے بلقان ممالک میں چین کی دیگر متنازع سرمایہ کاریوں میں سربیا کے مرکزی سٹیل کارخانے زیلیزارا سمیدریوو کی خریداری، بڈاپسٹ سے بلغراد تک ایک ریلوے پراجیکٹ اور بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا میں ایک بڑے تھرمل پاور پلانٹ کا قیام شامل ہے۔ ریل پراجیکٹ پر اقتصادی طور پر ممکن ہونے کے حوالے سے تحفظات ہیں تو ماہرینِ ماحولیات کو تھرمل پاور پلانٹ کے حوالے سے خدشات ہیں۔ اس نے مغربی بلقان خطے کو جغرافیائی اعتبار سے ایک زیادہ سٹریٹجک اہمیت کا حامل خطہ بنا دیا ہے۔ ان ممالک میں آج اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا مطلب کل دنیا میں اہم اقتصادی اور سیاسی معاملات کو کنٹرول میں رکھنا ہے۔ اس خطے میں چین کے ثقافتی اثر و رسوخ کی سب سے بڑی مثال کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کا پھیلاؤ ہے۔ یہ ادارہ چینی حکومت کے زیرِ انتظام ہے اور دنیا بھر میں ثقافتی اور لسانی پروگرام منعقد کرواتا ہے۔ اُنھوں نے کہا: 'مغربی بلقان کے ممالک کو یورپی یونین کی جانب سے ویکسین کی فراہمی نہ ہونے کے باعث چین یہ خلا پر کر رہا ہے۔' اس کے علاوہ مستقبل میں اس دوستی سے لگائی گئی امیدوں اور یورپ اور ان ممالک میں اٹھائے گئے اقدامات کے علاوہ چین کے بلقان ممالک پر اثر و رسوخ نے اسے سفارتی محاذ پر کامیابی دی ہے۔ سنہ 2019 میں 22 ممالک نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو خط لکھا اور چین کی جانب سے اویغور برادری پر مبینہ تشدد کے الزامات عائد کیے، مگر اس خط پر بلقان خطے کے کسی رکن ملک نے دستخط نہیں کیے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57579448", "summary": "پاکستان میں تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے اسکوک بانڈز کے ذریعے ملک کے ہوائی اڈے اور موٹرویز کو گروی رکھ کر قرضہ حاصل کرنے کے منصوبے کی منظوری دی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ملک کی پہلی حکومت نہیں ہے جو اسکوک بانڈ کی ذریعے قرضہ حاصل کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے۔", "title": "وفاقی حکومت نے کون سے اثاثے گروی رکھ کر قرض حاصل کرنے کی منظوری دی؟", "firstPublished": "2021-06-23T10:33:46.000Z", "id": "ab161f18-8f5d-400a-b74f-2766be5bd608", "article": "پاکستان کی وفاقی کابینہ نے سکوک بانڈز کے ذریعے ملک کے ہوائی اڈے اور موٹرویز کو گروی رکھ کر قرضہ حاصل کرنے کے منصوبے کی منظوری دی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ملک کی پہلی حکومت نہیں ہے جو سکوک بانڈ کی ذریعے قرضہ حاصل کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے ادوار میں بھی سکوک بانڈز کے ذریعے قومی اثاثے گروی رکھ کر قرضہ حاصل کیا گیا تھا۔ سنہ 2008 کے بعد وفاق میں حکومت بنانے والی پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومتوں نے سکوک بانڈز جاری کر کے قرض حاص کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ سکوک بانڈ کے ذریعے قرض حاصل کرنے کے لیے اثاثے کا انتخاب کیسے جاتا ہے کے بارے میں محمد سہیل نے بتایا کہ اس میں اس اثاثے کی ویلیو دیکھی جاتی ہے تو اس کے ساتھ اس کا لیگل ٹائٹل بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے اور اس کے لیے حکومت کے شریعت مشیران حکومت کو تیکنیکی مشاورت فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کی جانب سے قومی اثاثے گروی رکھ کر قرض حاصل کرنے کی پالیسی پر ان جماعتوں کا موقف حکومت اور اپوزیشن میں مختلف رہا ہے۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے سکوک بانڈز کے اجرا کے لیے اثاثے گروی رکھنے کی منظوری کے بعد مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابقہ وزیر اطلاعات پرویز رشید نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر حکومت کا تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے بنائے ہوئے اثاثوں، موٹر ویز اور ہوائی اڈوں کو گروی رکھ کر حکومت سکوک بانڈز فروخت کر کے قرض حاصل کرے گی۔ مسلم لیگ نواز کے سیکریٹری جنرل اور اس کی حکومت میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے ہماری حکومت میں سکوک بانڈز کے جاری کرنے پر بہت سخت مخالفت کی تھی کہ یہ قومی اثاثے گروی رکھ کا قرض حاصل کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں تحریک انصاف کی حکومت کے سکوک بانڈ جاری کرنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ایک پہلو بہت تشویشناک ہے کہ یہ قرض لینے کی ایک اندھی پالیسی پر کاربند ہیں جس نے معیشت کو برا حال کر دیا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے دور میں اسکوک بانڈ کے ذریعے قرض حاصل کرنے کی پالیسی کو تحریک انصاف کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنانے اور اب خود یہ راستہ اختیار کرنے کے سوال پر ڈاکٹر سلمان شاہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ قومی اثاثے گروی رکھ کر قرض حاصل کرنے کی پالیسی پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صدیقی نے کہا کہ ملک کو چلانے کا صحیح طریقہ تو یہ ہے کہ ٹیکس زیادہ اکٹھا ہو اور اس کے ساتھ قومی بچت اور سرمایہ کاری ہو۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57569114", "summary": "سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو مؤخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری کی نشاندہی تو کرتی ہے تاہم ماہرین اور معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق عام افراد کے لیے اس سہولت میں ایسا کچھ نہیں جس کی بنیاد پر اسے تیل کی مقامی قیمتوں میں کوئی ریلیف مل سکے۔", "title": "کیا سعودی عرب سے مؤخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں کمی لا پائے گی؟", "firstPublished": "2021-06-23T01:46:06.000Z", "id": "87f2b315-4f74-46ab-a268-bbd61808ff17", "article": "سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو مؤخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی کی سہولت پہلی بار نہیں دی جا رہی اور ماضی میں بھی یہ سہولت پاکستان کو چند مرتبہ فراہم کی گئی۔ تاہم 1.5 ارب ڈالر مالیت کے تیل کی مؤخر ادائیگی پر فراہمی اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ یہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی تعلقات میں گرم جوشی کے واپس آنے کی عکاسی کرتی ہے جن میں کچھ عرصہ قبل کچھ رنجش اور تلخی پیدا ہو گئی تھی جس کی وجہ سے سعودی عرب نے تحریک انصاف کے دور حکومت میں دی جانے والی تین ارب ڈالر کی مؤخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی معطل کر دی تھی۔ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو مؤخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری کی نشاندہی تو کرتی ہے تاہم ماہرین اور معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق عام افراد کے لیے اس سہولت میں ایسا کچھ نہیں جس کی بنیاد پر اسے تیل کی مقامی قیمتوں میں کوئی ریلیف مل سکے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سنہ 2018 کے اواخر میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو زرمبادلہ ذخائر کے مستحکم رکھنے کے لیے تین ارب ڈالر کے ڈیپازٹ فراہم کیے گئے تو اس کے ساتھ 3.2 ارب ڈالر کی تیل کی فراہمی مؤخر ادائیگی پر کرنے کا معاہدہ بھی طے پایا تھا۔ توانائی کے شعبے پر کام کرنے والے انگریزی اخبار کے نامہ نگار خلیق کیانی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ مؤخر ادائیگی پر 3.2 ارب ڈالر تیل کی فراہمی کا معاہدہ طے پایا تھا اور اس میں پاکستان کو دو ارب سات کروڑ ملین ڈالر فی سہ ماہی کے حساب سے تیل فراہم بھی کیا گیا لیکن پھر سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں پیدا ہونے والی رنجش کی وجہ سے یہ سہولت معطل کر دی گئی جب سعودی عرب پاکستان کی ملائیشیا سمٹ میں شرکت سے خوش نہیں تھا۔ سعودی عرب کی جانب سے فراہمی کی گئی مؤخر ادائیگی پر 1.5 ارب ڈالر تیل کی فراہمی کی سہولت مقامی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کے صارفین کو ان کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گی۔ آصف سومرو نے کہا اس کا کوئی فائدہ ملکی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں واقع نہیں ہو گا کیونکہ یہ سہولت خام تیل کی فراہمی کے لیے ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ خام تیل مقامی ریفائنریو کو فراہم کیا جائے گا اور وہ اسے ریفائن کر کے مارکیٹ میں بیچیں گے۔ الیاس فاضل نے اس سلسلے میں کہا کہ اگر اس سہولت سے عام صارف کو کوئی فائدہ حاصل بھی ہوتا ہے تو وہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ خام تیل کے ساتھ پاکستان ریفائند پیٹرولیم مصنوعات بھی باہر کی دنیا سے منگواتا ہے اور سعودی عرب سے حاصل ہونے والے خام تیل بھی ریفائنریوں کو ملے گا جس سے ایکس ریفائنری ریٹ میں کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-57565044", "summary": "نریندر مودی نے انڈیا کی سیاسی بساط پر آتے ہی روزگار، خوشحالی میں اضافے اور سرخ فیتے کے خاتمے جیسے بڑے وعدوں کی مدد سے تہلکہ مچا دیا تھا اور یہ امید ہو چلی تھی کہ وہ ملک میں قابل ذکر اصلاحات لائیں گے۔ مگر آج صورتحال اس کے برعکس کیوں ہے؟", "title": "نریندر مودی کے سات سالہ دور حکومت میں انڈین معیشت نے اپنی چمک دمک کیسے کھوئی", "firstPublished": "2021-06-22T09:36:30.000Z", "id": "fe98378c-a640-46a4-8be4-482bd2b06469", "article": "نریندر مودی نے انڈیا کی سیاسی بساط پر آتے ہی روزگار، خوشحالی میں اضافے اور سرخ فیتے کے خاتمے جیسے بلند بانگ وعدوں کی مدد سے تہلکہ مچا دیا تھا۔ آج سے سات برس قبل سنہ 2014 اور پھر سنہ 2019 کے انتخابات میں نریندر مودی کی جمات کو ملنے والے بھاری مینڈیٹ سے عوام میں یہ امید ہو چلی تھی کہ وہ ملک میں قابل ذکر اصلاحات لائیں گے۔ کووڈ کی وبا آنے سے قبل ماہرین نے اندازہ لگایا تھا کہ اگر حالات ٹھیک چلتے رہے تو زیادہ سے زیادہ وہ لگ بھگ 26 کھرب ڈالر تک پہنچ سکیں گے، اور اب وبا آنے کے بعد اس تخمینے میں سے دو سو سے تین سو ارب ڈالرز کی مزید کمی ہو گئی ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق بے روزگاری کی شرح گذشتہ 45 سالوں میں سب سے زیادہ دیکھی گئی جب وہ 2017-18 میں 6.1 فیصد تک پہنچ گئی۔ اور سی ایم آئی ای کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق اب یہ شرح دگنی ہو چکی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا ایک بڑا مشن تھا کہ وہ ’میک ان انڈیا‘ یعنی انڈیا میں بنائی گئی مصنوعات کے فروغ کو ترجیح دیں گے اور انڈیا کو عالمی طور پر ایک ایسے طاقتور ملک کے طور پر پیش کریں گے جہاں سرخ فیتے یعنی سرکاری اور بیوروکریٹک رکاوٹوں کو کم سے کم کیا جائے گا اور ملک کو برآمدات کا مرکز بنانے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ نریندر مودی کا مقصد تھا کہ وہ ملک میں صنعت و حرفت یعنی مینوفیکچرنگ کے شعبے کو اتنی وسعت دیں کہ وہ جی ڈی پی کا 25 فیصد حصہ بن جائے۔ لیکن حکومت میں سات برس رہنے کے بعد یہ حصہ 15 فیصد سے زیادہ بڑھ نہیں سکا ہے۔ معاشی ماہرین نے مودی حکومت کی جانب سے چند ایسے عوامی فیصلوں کی بھی تائید کی جن میں ملک بھر میں بیت الخلا کی تعمیر کرنا، اور غریبوں کے لیے بہت کم نرخ پر گیس اور پانی فراہم کرنا اور گھروں کے لیے قرضے دینا شامل ہے۔ نریندر مودی کے دور میں ایک بڑا کام ان کی حکومت نے یہ کیا ہے کہ وہ ڈیجیٹل ادائیگی میں عالمی طور پر ایک بڑی قوت بن کر سامنے آیا ہے۔ ان کی ’جن دھن سکیم‘ کی مدد سے ملک میں لاکھوں غریب خاندانوں کو بینک اکاؤنٹس بنانے کی سہولت میسر ہوئی ہے۔ تقریباً ہر کوئی اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ انڈیا کا زرعی شعبہ اصلاحات کا متقاضی ہے۔ مارکیٹ نواز قوانین کو گذشتہ برس منظور کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد ہونے والے احتجاج کے باعث وہ سلسلہ آگے نہیں بڑھا کیونکہ کسانوں کا کہنا ہے کہ اس سے ان کی آمدنی میں کمی ہو گی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ان اصلاحات سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہو گا اور حکومت کو اس شعبے کو سودمند بنانے کے لیے زیادہ خرچہ کرنا ہو گا تاکہ یہ زیادہ منافع بخش بن سکے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57563433", "summary": "نئے محاذ کھولنے کی بجائے اندرونی بحران اور سیاسی تقسیم کو ختم کرنا ہو گا، سیاسی استحکام سے جُڑی معاشی پالیسیوں کا ادراک کرنا ہو گا، ففتھ جنریشن وار فیئر سے نمٹنے کے لیے اظہار پر پابندی کی بجائے آزادی کو یقینی بنانا ہو گا اور فیصلے پارلیمان میں کرنا ہوں گے", "title": "عاصمہ شیرازی کا کالم: پیش منظر سے پہلے", "firstPublished": "2021-06-22T03:52:27.000Z", "id": "1eb07de8-3eab-4bd4-8ab4-7ebf76137bfd", "article": "نئے دور کے نئے تقاضوں میں معاشی اور سفارتی محاذ گرم رکھے جاتے ہیں، اندرونی بحران اور تقسیم سے کام لیا جاتا ہے، ریاست مخالف بیانیوں کو اُبھارا جاتا ہے جسے ہمارے ہاں ففتھ جنریشن وار فیئر کا نام تو دیا گیا مگر اسے صرف آخری پہلو یعنی میڈیا اور سماجی میڈیا سے منسوب کر کے دبانے کی کوشش کی گئی۔ ففتھ جنریشن وار فیئر کو بغور پڑھیں تو دُنیا میں لڑنے کا یہ پانچواں طریقہ ہے جو دو بدو لڑائی سے جدید اسلحے اور پھر ٹیکنالوجی تک پہنچا ہے۔ جنوری 2020 میں یورپی یونین کی ڈس انفو لیب نے 15 برسوں پر محیط ایک سو سولہ ممالک پر تحقیق شیئر کی جس کے مطابق 500 انڈین جعلی ادارے اور درجنوں این جی اوز یورپی ممالک اور اقوام متحدہ میں پاکستان مخالف بیانیے پر کام کرتی دکھائی گئیں۔ ان حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو اس وار فیئر سے جُڑے کئی ایک عناصر اور بھی ہیں، مثلاً معاشی عدم استحکام، سیاسی استحصال اور آزادی اظہار کا فقدان۔ سنہ 2018 کے انتخابات اور پی ٹی آئی سرکار کے آئی ایم ایف سے فوری رجوع کرنے کی بجائے تاخیر نے اُس وقت بھی معاشی تجزیہ کاروں کو تشویش میں مبتلا کیا، کئی ایک نے تو کُھل کر اس رائے کا اظہار کیا کہ پاکستان کسی بھی طرح آئی ایم ایف کو درگزر کرنا افورڈ نہیں کر سکتا تھا، مگر ایسا ہوا۔ دوسری جانب خطے کی صورتحال، امریکہ کے پاکستان پر ہر لمحہ بڑھتے دباؤ کے تناظر میں وزیر خزانہ کا امریکہ سے کچھ لو اور دو کی بنیاد پر ’سیٹلمنٹ‘ کا بیان الگ خدشات کو جنم دے رہا ہے۔ وزیر اعظم نے دو ٹوک لفظوں میں امریکہ کو اڈے نہ دینے کے موقف کو دُہرایا ہے مگر اس بات کی ضمانت کیا ہے کہ موجودہ معاشی مجبوریاں کسی بڑے ’کمپرومائز‘ کا جواز نہ بنیں؟ ’ففتھ جنریشن وار فیئر سے نمٹنے کے لیے اظہار پر پابندی کی بجائے آزادی کو یقینی بنانا ہو گا اور فیصلے پارلیمان میں کرنا ہوں گے تب کہیں ان حالات کا مقابلہ ہو پائے گا‘ خطے میں ناگزیر ہوتی تبدیلیوں کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے، ایسے میں ریاست کو کیا کرنا ہے؟ نئے محاذ کھولنے کی بجائے اندرونی بحران اور سیاسی تقسیم کو ختم کرنا ہو گا، سیاسی استحکام سے جُڑی معاشی پالیسیوں کا ادراک کرنا ہو گا، ففتھ جنریشن وار فیئر سے نمٹنے کے لیے اظہار پر پابندی کی بجائے آزادی کو یقینی بنانا ہو گا اور فیصلے پارلیمان میں کرنا ہوں گے تب کہیں ان حالات کا مقابلہ ہو پائے گا۔ کیا ارباب اختیار کچھ لو اور دو کے لیے تیار ہیں؟"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57529743", "summary": "وفاقی تحقیقاتی ادارے نے گذشتہ چند ماہ کے دوران نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے والے ایسے افراد کے کوائف اکھٹے کرنے شروع کر دیے ہیں جن کا ماضی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔", "title": "حکومت تعمیراتی شعبے میں مبینہ ممنوعہ ذرائع سے سرمایہ کاری کی تحقیقات کیوں کر رہی ہے؟", "firstPublished": "2021-06-21T08:32:54.000Z", "id": "e66d7449-5ddb-4e91-a80e-0e9ec34e847d", "article": "پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ملک کے نجی تعمیراتی شعبے میں ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدن سے کی گئی سرمایہ کاری سے متعلق تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ایف آئی اے نے گذشتہ چند ماہ کے دوران نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے والے ایسے افراد کے کوائف اکھٹے کرنے شروع کر دیے ہیں جن کا ماضی میں اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اقتصادی امور کی وزارت نے وزارت داخلہ کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہوئے آگاہ کیا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کے ارکان نے یہ معاملہ اٹھایا ہے کہ پاکستان کے نجی تعمیراتی شعبے میں ان افراد نے بھی سرمایہ کاری کی ہے جن کے مبینہ طور پر کالعدم تنظیوں کے ساتھ بلواسطہ یا بلاواسطہ تعلقات رہے ہیں۔ ایف آئی اے کے ذرائع کے مطابق ایف بی آر اور محکمہ مال کے افسران اس معاملے میں ایف آئی اے کی معاونت کر رہے ہیں اور اس ضمن میں مختلف نجی ہاوسنگ سوسائٹیز میں گذشتہ دو، تین ماہ کے دوران بڑے پیمانے پر خریدے گئے رہائشی اور کمرشل پلاٹس کی تفصیلات بھی معلوم کی جا رہی ہیں اور جن افراد نے یہ رہائشی اور کمرشل پلاٹس خریدے ہیں ان کے کوائف بھی حاصل کیے گئے ہیں۔ اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی میں نجی تعمیراتی شعبے سے وابسطہ امجد جاوید کا کہنا ہے کہ چند روز قبل ایف آئی اے کی ٹیم ان کے پاس آئی تھی اور ان سے ان افراد کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں جنھوں نے ان کے توسط سے مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیز میں رہائشی اور کمرشل پلاٹس خریدے تھے۔ ایف آئی اے کے ایک اہلکار کے مطابق تحقیقات کے دوران کچھ ایسے نام سامنے آئے ہیں جنھوں نے اس سے پہلے اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری نہیں کی تھی اور اس کے علاوہ ایف بی آر کے پاس بھی ان کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ راولپنڈی رنگ روڈ سے متصل ہاؤسنگ سوسائٹیز میں جو حالیہ سرمایہ کاری ہوئی ہے اس کی بھی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے کہ کہیں ان میں ان افراد یا تنظیموں نے سرمایہ کاری تو نہیں کی جن پر شدت پسند تنظیموں کو مالی معاونت فراہم کرنے کا الزام ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس شعبے سے وابستہ افراد نے حکومت کو اپنے تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔ انھوں نے کہا کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں اگر کوئی مشکوک ٹرانزیکشن ہو تو اس بارے میں ایف بی آر کے حکام پہلے ہی آگاہ ہوتے ہیں کیونکہ کسی بھی پلاٹ کی خرید و فروخت کے سلسلے میں ایڈوانس ٹیکس جمع کروایا جاتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-57546045", "summary": "گذشتہ روز پاکستان کے سابق فاسٹ بولر شعیب اختر نے اعلان کیا ہے کہ وہ ’دنیا کی پہلی کرکٹ این ایف ٹی مارکیٹ‘ متعارف کرانے جا رہے ہیں اور جو شخص یہ این ایف ٹی خریدے گا وہ آن لائن مواد جیسے 'اوریجنل' تصاویر یا ویڈیوز کا اصل مالک تصور کیا جائے گا۔", "title": "شعیب اختر اور وسیم اکرم اپنے ’قیمتی‘ ڈیجیٹل اثاثے کیوں بیچ رہے ہیں؟", "firstPublished": "2021-06-20T14:10:29.000Z", "id": "693e63c8-5138-4a6f-9f6d-ecdc04119de8", "article": "گذشتہ روز پاکستان کے سابق فاسٹ بولر شعیب اختر نے اعلان کیا ہے کہ وہ ’دنیا کی پہلی کرکٹ این ایف ٹی مارکیٹ‘ متعارف کرانے جا رہے ہیں اور جلد ان کے این ایف ٹیز کی نیلامی ہو گی۔ یعنی جو شخص یہ این ایف ٹی خریدے گا وہ آن لائن مواد جیسے 'اوریجنل' تصاویر یا ویڈیوز کا اصل مالک تصور کیا جائے گا۔ شعیب اختر کا یہ اعلان ایک ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب پاکستان کے بہترین کرکٹرز میں سے ایک وسیم اکرم 24 جون سے اپنے این ایف ٹیز کی نیلامی کر رہے ہیں۔ دراصل ان کے پیچھے ٹینپ اور بائنانس جیسی کمپنیاں ہیں جو کرکٹ فینز کے ذریعے ڈیجیٹل آرٹ اور آن لائن مواد کی این ایف ٹی میں خرید و فروخت کو پاکستان میں بھی متعارف کرانا چاہتی ہیں۔ این ایف ٹی سے مراد نان فنجیبل ٹوکن ہے۔ یہ ایک خاص قسم کا ڈیجیٹل سرٹیفیکیٹ ہے جو کہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ کسی تصویر، ویڈیو یا دیگر قسم کے آن لائن مواد کا اصل مالک کون ہے۔ این ایف ٹی میں جاری ہونے والے ڈیجیٹل ٹوکن یا سرٹیفیکیٹ کے ذریعے یہ پتا چل سکتا ہے کہ کسی آن لائن اثاثے کا اصل مالک کون ہے۔ اسی طرح ہم ٹھوس حالت میں پائے جانے والے اثاثوں کے لیے بھی این ایف ٹی جاری کر سکتے ہیں جو اس کے اصل ہونے کی دلیل دیتا ہے۔ ہانگ کانگ میں پرائیویٹ ایکویٹی فرم اوسیرس گروپ میں پارٹنر سردار احمد درانی کا خیال ہے کہ این ایف ٹی کا اصل مقصد یہ ہے کہ ڈیجیٹل آرٹ (تصاویر، ویڈیوز یا دیگر آن لائن مواد) کی نقل تیار نہ ہوسکے اور اس میں تحریف نہ ہوسکے۔ یہ ایک قسم کی ڈیجیٹل آئی پی (انٹیلیکچوئل پراپرٹی) ہے۔ سردار درانی کے مطابق ڈیجیٹل اثاثوں اور آن لائن مواد کو این ایف ٹی میں تبدیل کیا جا رہا ہے تاکہ اصل مالکان یا فنکار اپنا کام اور اس کے جملۂ حقوق محفوظ رکھ سکیں۔ اس سوال پر کہ آیا پاکستانی شہری این ایف ٹیز خریدنے یا بیچنے پر منافع کما سکتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ یہ ایسا ہی سوال ہے جیسے سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری سے پیسے کمائے جاسکتے ہیں یا نہیں، جس کا تعین اس بات پر منحصر ہے کہ شیئرز کی قیمت کیا ہے اور اس کے اوپر یا نیچے جانے کے کتنے امکانات ہیں۔ پاکستانی معاشی امور پر بلاگ چلانے والے ٹوئٹر صارف عزیر یونس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دوستوں سے اکثر کہتے ہیں کہ پی سی بی کو سعید انور کی 194 رنز کی اننگز، شعیب اختر کے کلکتہ میں کرائے گئے یارکرز اور 36 گیندوں میں آفریدی کی سنچری کے این ایف ٹیز بننے چاہییں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-57516573", "summary": "لبنانی معاشرہ سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر منقسم ہے لیکن فوج ان چند محکموں میں سے ایک ہے جو یکجہتی اور استحکام کی علامت ہیں۔", "title": "لبنان: معاشی بحران میں شدت کے بعد فوج کو بھی کھانے کے لالے پڑ گئے", "firstPublished": "2021-06-18T06:02:08.000Z", "id": "1972fe78-0dba-438d-9ee0-dca604b94c01", "article": "لبنان کی فوج نے عالمی طاقتوں سے مالی امداد کی اپیل کی ہے تاکہ ملک میں جاری معاشی بحران کے باعث ’بھوک اور مشکلات کی شکار‘ فوجیوں کو سہارا مل سکے۔ لبنانی فوج کا کہنا ہے کہ ان کے سپاہی پریشانی اور بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ لبنانی پاؤنڈ کی قدر میں سنہ 2019 سے لے کر اب تک 90 فیصد تک گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے، جس کی وجہ سے فوج کے محکمے کے پاس نہ تو بجٹ ہے اور نہ ہی فوجیوں کو تنخواہیں دینے کے پیسے۔ اس سلسلے میں فرانس نے لبنانی فوج کی امداد کے لیے ایک ڈونر کانفرنس کا اہتمام کیا لیکن اس کانفرنس میں پیسوں کے بجائے کھانے پینے کی اشیا، پیٹرول، دواؤں اور سپیئر پارٹس کی اپیل کی گئی۔ لبنانی معاشرہ سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر منقسم ہے لیکن فوج ان چند محکموں میں سے ایک ہے جو معاشرے میں یکجہتی اور استحکام کی علامت ہیں۔ لبنان میں فوج کے ادارے کو غیر جانبدار سمجھا جاتا ہے اور انھیں ملک میں موجود 18 مختلف مذہبی گروہوں اور سیاسی دھڑوں کی بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہے۔ فرانس میں وزارتِ دفاع کے ترجمان نے اس صورتحال کے حوالے سے بیان میں کہا ’لبنانی فوج لبنان میں ایک ستون ہے اور یہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کو یقینی بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مدد کرنا اس وقت اہم ہے۔‘ فرانس نے جمعرات کو یہ ڈونر کانفرنس لبنان کی فوج کے سربراہ جنرل جوزف عون کی جانب سے مارچ میں جاری کی جانے والی تنبیہ کے پس منظر میں منعقد کی۔ لبنانی فوج کے سربراہ نے خبردار کیا تھا کہ ان کے فوجی بھی لبنانی عوام کی طرح بھوک اور تکلیف میں ہیں۔ لبنان میں سیاسی طاقتیں نگراں وزیر اعظم حسن دیاب کے استعفی کے بعد ابھی تک نئی کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پائی ہیں۔ حسن دیاب گذشتہ برس اگست میں بیروت کی بندرگاہ پر تباہ کن دھماکے کے بعد مستعفی ہو گئے تھے۔ منگل کو ایک تقریر میں جنرل عون نے کہا کہ ’ہم اپنے اتحادیوں سے مدد طلب کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور میں دنیا کے آخری کونے تک جانے کے لیے تیار ہوں تاکہ فوج اپنے پیروں پر کھڑی رہ سکے۔‘ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے فرانس کی وزارت دفاع میں موجود ایک ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ لبنانی فوج کو مخصوص چیزوں کی ضرورت ہے جن میں دودھ، آٹا، دوائیں، پیٹرول اور ملٹری آلات کے لیے سپیئر پارٹس شامل ہیں۔ لبنانی فوج میں ایک عام فوجی ساڑھے 12 لاکھ پاؤنڈ کماتا ہے جو کہ 800 امریکی ڈالر بنتے ہیں تاہم لبنان کی بلیک مارکٹ میں اس کی قدر صرف 80 امریکی ڈالر ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57506228", "summary": "ماہرین معیشت کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام میں رہنے کے لیے اس کی شرائط کو پورا کرنا لازمی ہے اور پاکستان کو آئی ایم ایف سے اس سلسلے میں رعایتیں بھی مل سکتی ہیں تاہم اس کا انحصار خطے اور بین الاقوامی حالات پر بھی منحصر ہے۔", "title": "آئی ایم ایف شرائط نظر انداز، عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ پروگرام کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟", "firstPublished": "2021-06-17T01:45:57.000Z", "id": "e6da9a63-a19b-40b8-97dc-1d3f1b9152f6", "article": "پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے 2021-22 کے مالی سال کے لیے پیش کیے جانے والے بجٹ میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی کچھ شرائط کے تحت اقدامات اٹھائے گئے ہیں تاہم دوسری جانب ان شرائط کے تحت کچھ ایسے اقدامات شامل نہیں بھی کیے گئے جو مستقبل میں آئی ایم ایف پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ کے خسارے کا تخمینہ 3420 ارب لگایا گیا ہے جو حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور غیر ممالک سے قرضوں، گرانٹس اور بین الاقوامی مارکیٹ میں بانڈز جاری کر کے پورا کرنا ہے۔ ملکی معیشت پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام میں رہنے کے لیے اس کی شرائط کو پورا کرنا لازمی ہے اور پاکستان کو آئی ایم ایف سے اس سلسلے میں رعایتیں بھی مل سکتی ہیں تاہم اس کا انحصار خطے اور بین الاقوامی حالات پر بھی منحصر ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر فرخ سلیم نے بتایا کہ پی ڈی ایل کی مد میں 610 ارب روپے ٹیکس جمع کرنا اس بجٹ کا حصہ ہے تو اسی کے ساتھ کارپوریٹ شعبے کو دیا جانے والے 140 ارب روپے کا ٹیکس استثنیٰ بھی بڑی حد تک ختم کر دیا گیا اور اگلے مالی سال میں اضافی ٹیکس جمع ہو گا تاہم آئی ایم ایف شرط کے تحت 1200 ارب زیادہ ٹیکس جمع کرنا اس بجٹ میں شامل نہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب اس سال ستمبر کے مہینے میں آئی ایم ایف اس پروگرام پر جائزہ اجلاس کرے گا اور وہ پاکستان سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے زور دے گا تو پھر ملک کو منی بجٹ کی طرف جانا پڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کو بھی شرائط نہ ماننے کی صورت میں رعایت مل سکتی ہے اور پروگرام جاری رہ سکتا ہے تاہم اس کا تعین علاقائی اور عالمی حالات کر سکتے ہیں۔ ’اگر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ عالمی حالات ملک کے لیے سازگار ہو رہے ہیں اور ستمبر میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے ریلیف ملنے کی امید بن سکتی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اگر ایف ٖاے ٹی ایف میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ہی رکھا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کو ستمبر میں آئی ایم ایف سے شرائط کے سلسلے میں رعایت ملنے کی امید کم ہو گی اور پروگرام میں رہنے کے لیے ان شرائط کو ماننا پڑے گا۔ ورنہ یا تو پاکستان کو خود پروگرام سے باہر آنا پڑے گا یا آئی ایم ایف اس پروگرام کو منسوخ کر سکتا ہے۔‘ ’دوسری جانب آئی ایم ایف پروگرام ملک کی عالمی سطح پر کریڈٹ ریٹنگ بڑھاتا ہے جس کی بنیاد پر بانڈز جاری کر کے پیسے جمع کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کے پروگرام سے نکلنے یا آئی ایم ایف کی جانب سے اس کی منسوخی ملک کی کریڈٹ ریٹنگ کو بھی متاثر کرے گی۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/sport-57497456", "summary": "منگل کو ہنگری کے خلاف ایک گروپ میچ سے قبل رونالڈو نے ایک پریس کانفرنس میں آتے ہی اپنے سامنے رکھی کوکا کولا کی دو بوتلوں کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا۔ پھر انھوں نے پانی کی بوتل اٹھائی اور اسے لہرایا اور پرتگالی زبان میں لفظ ’ایگوا‘ کہا جس کے معنی ہیں ’پانی‘، یعنی بظاہر وہ سافٹ ڈرنک پر پانی کو ترجیح دینے کا اشارہ دے رہے تھے۔", "title": "رونالڈو کی ’معمولی سی حرکت‘ اور کوکا کولا کو چار ارب ڈالر کا نقصان", "firstPublished": "2021-06-16T10:50:54.000Z", "id": "394ef24b-1574-44e7-8a1e-04b26aec4146", "article": "گذشتہ دو روز سے کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا دنیا کے امیر ترین فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو کو بھی ہے اور سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین یہ دعویٰ کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ان کی ’ایک حرکت‘ سے کوکا کولا کے مارکیٹ شیئر 1.6 فیصد تک گر گئے ہیں۔ تو واقعہ کچھ یوں پیش آیا کہ منگل کو ہنگری کے خلاف ایک گروپ میچ سے قبل انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں آتے ہی اپنے سامنے رکھی کوکا کولا کی دو بوتلوں کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا۔ پھر انھوں نے پانی کی بوتل اٹھائی اور اسے لہرایا اور پرتگالی زبان میں لفظ ’ایگوا‘ کہا جس کے معنی ہیں ’پانی‘، یعنی بظاہر وہ سافٹ ڈرنک پر پانی کو ترجیح دینے کا اشارہ دے رہے تھے۔ یہ پریس کانفرنس پیر کے روز ہوئی تھی۔ یہ ویڈیو سامنے آتے ہی دنیا بھر میں شائقین اس پر طرح طرح کے تبصروں میں مصروف تھے مگر جلد ہی صورتحال اس وقت بدل گئی جب معیشت پر رپورٹ کرنے والے جریدوں نے کوکا کولا کے شیئرز میں گراوٹ کی خبر دی۔ کھیلوں کے موقر جریدے 'دا ایتھلیٹک' کے مطابق پیر کی صبح کو کوکا کولا کمپنی کے مارکیٹ میں فی حصص قیمت 56.1 ڈالر تھی مگر لگ بھگ اس وقت جب رونالڈو کی پریس کانفرنس ختم ہوئے تھوڑی دیر ہوئی تھی فی حصص قیمت 1.6 فیصد کم ہو کر 55.2 ڈالر تک گر گئی اور مارکیٹ کی قدر کے اعتبار سے یہ رقم چار ارب ڈالر بنتی ہے، یعنی کوکا کولا کی مجموعی مالیت 242 ارب ڈالر سے گھٹ کر 238 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ رونالڈو کی جانب سے کوکا کولا کی بوتلوں کو ایک طرف رکھنے کے بعد کوکا کولا کے ترجمان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ 'ہر کسی کو اپنی پسند کا مشروب کے انتخاب کی اجازت ہے اور ہر کسی کی پسند کا ذائقہ اور ضرورت مختلف ہوتی ہے۔‘ 'ہم ہر کھلاڑی کو پریس کانفرنس سے قبل ایک پانی کی بوتل، کوکا کولا اور کوک زیرو پیش کرتے ہیں۔' تاہم کمپنی کی جانب سے شیئرز گرنے کے معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔ رونالڈو اس سے قبل بھی بالواسطہ طور پر کوکا کولا نہ پینے کی ترغیب دے چکے ہیں۔ انھوں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ وہ کبھی کبھی اپنے بیٹے سے اس وجہ سے ناراض ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ کوکا کولا اور فانٹا یعنی سافٹ ڈرنکس پیتا ہے۔ اس حوالے سے اکثر صارفین رونالڈو کی جانب سے پانی کو کوکا کولا پر فوقیت دینے کے اقدام کی تعریف کرتے دکھائی دیے تاہم کچھ صارفین نے انھیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ اس طرح کا ایک اور واقعہ اگلے ہی میچ میں فرانس اور جرمنی کے مقابلے سے قبل پیش آیا جب فرانس کی نمائندگی کرنے والے پال پوگبا نے پریس کانفرنس کے دوران اپنے سامنے رکھی بیئر کی بوتل اٹھا کر نیچے رکھ دی۔ خیال رہے کہ پال پوگبا مسلمان کھلاڑی ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57489325", "summary": "اکثر و بیشتر حکومتوں کی جانب سے سٹاک مارکیٹ کی کارکردگی کو اپنی بہتر معاشی پالیسیوں کا ثمر قرار دیا جاتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں تیزی سے نہ ملک کی مجموعی معاشی صورتحال بہتر ہوتی نظر آتی ہے اور نہ ہی عوام کی زندگیاں؟", "title": "پاکستانی معیشت پر بااثر خاندانوں کی اجارہ داری: ’22 نہیں اب 31 خاندان سیاہ سفید کے مالک ہیں‘", "firstPublished": "2021-06-16T06:41:51.000Z", "id": "cfa7c48b-b2a5-4a63-87fb-5b4dec2189e2", "article": "پاکستانی خبرناموں میں اکثر سٹاک مارکیٹ میں تیزی کا رجحان دیکھے جانے یا مارکیٹ گر جانے کی خبریں ہوتی ہیں جس سے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ معیشت بہتر یا گراوٹ کا شکار ہو رہی ہے۔ خود اکثر و بیشتر حکومتوں کی جانب سے بھی سٹاک مارکیٹ کی کارکردگی کو اپنی بہتر معاشی پالیسیوں کا ثمر قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں تیزی سے نہ ملک کی مجموعی معاشی صورتحال بہتر ہوتی نظر آتی ہے اور نہ ہی عوام کی زندگیاں؟ مصنفین لکھتے ہیں: 'اس تحقیق سے ان تصورات کی تصدیق ہو گئی اور یہ حقیقت سامنے آئی کہ سٹاک مارکیٹ پر 31 خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 50 برس پہلے ڈاکٹر محبوب الحق نے جن 22 خاندانوں کی اجارہ داری کا انکشاف کیا تھا، وہی رجحان اب بڑھ کر 31 خاندانوں میں تبدیل ہو چکا ہے اور سٹاک مارکیٹ میں بیشتر دولت بھی ان ہی کے ہاتھوں میں محدود ہے۔‘ رپورٹ میں اس صورت حال کو اشرافیہ کا ایک محدود 'کلب' قرار دیا گیا ہے کیوں کہ رپورٹ کے مطابق سٹاک مارکیٹ حقیقت میں چند بڑے سرمایہ کاروں کی گرفت میں آ چکی ہے یعنی اس میں نئے لوگوں کے لیے مواقع محدود ہو چکے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ کے طریقہ کاروبار کے بارے میں ایک سوال پر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ اس پر چونکہ چند درجن بڑے بروکرز کی اجارہ داری ہوتی ہے، اس لیے یہ لوگ وقتاً فوقتاً قیمتیں بڑھا کر یا گھٹا کر بحران پیدا کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے خسارے کا شکار ہو کر چھوٹے سرمایہ کاروں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے اور وہ اقتصادی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں۔ ایک ٹاسک فورس نے اس بحران کی تحقیقات کیں جس سے معلوم ہوا کہ اس بحران کی ذمہ داری کسی نہ کسی حد تک بروکرز پر عائد ہوتی ہے لیکن اس بحران کے ذمہ داروں کو سزا سے بچانے کے لیے رپورٹ کو دبا دیا گیا اور تقریباً ایک سال کے بعد اس کی تحقیقات ایک امریکی فرانزک کمپنی کے سپرد کر دی گئیں، لیکن اس کا دائرہ کار ہی اتنا محدود کر دیا گیا کہ وہ کسی نتیجے تک پہنچنے میں ناکام رہی جس کے نتیجے میں سٹاک مارکیٹ بحران کے ذمہ داران صاف بچ نکلے۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ سٹاک مارکیٹ میں اس وقت کارٹیلائیزیشن کی بات بے بنیاد ہے اور مارکیٹ کا مجموعی سرمایہ اور اس میں سرمایہ کاروں کی تعداد کے پیشِ نظر ممکن نہیں کہ چند افراد اور گروپ اسے اپنی مرضی کے مطابق چلا سکیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57453584", "summary": "حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے گذشتہ روز قومی اسمبلی میں اپنے دورِ حکومت کا تیسرا بجٹ پیش کیا، لیکن ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی معاشی امور پر بحث سے زیادہ بات بجٹ تقریر کے دوران اور اس کے بعد ہونے والے ’ہلڑ بازی‘ پر کی جا رہی ہے۔", "title": "بجٹ تقریر کے دوران شور شرابہ: ’بچوں میں بھی کلاس میں بیٹھنے کی زیادہ تمیز ہوتی ہے‘", "firstPublished": "2021-06-12T14:28:46.000Z", "id": "c2631823-31ab-4906-b48c-002d3dfa3cc9", "article": "حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے گذشتہ روز قومی اسمبلی میں اپنے دورِ حکومت کا تیسرا بجٹ پیش کیا، لیکن ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی معاشی امور پر بحث سے زیادہ بات بجٹ تقریر کے دوران اور اس کے بعد ہونے والے ’ہلڑ بازی‘ پر کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے دو ویڈیوز پر سوشل میڈیا پر خاصی بحث کی جا رہی ہے، جن میں سے ایک ویڈیو پاکستان تحریکِ انصاف کے رکنِ پارلیمان عبدالمجید خان نیازی کی ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پر جملے کس رہے ہیں جبکہ ان کے ساتھ بیٹھے تحریک انصاف کے دیگر اراکین بشمول علی امین گنڈا پور اور زرتاج گل ہنس رہے ہیں۔ دوسری ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی پاکستان تحریک انصاف کی اسما حدید حزبِ اختلاف کی خواتین رہنماؤں جن میں مریم اورنگزیب بھی شامل تھیں سے ان کے پوسٹرز چھینتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پہلی ویڈیو میں پاکستان تحریکِ انصاف کے رکنِ پارلیمان عبدالمجید خان نیازی جملے کستے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہ جملے مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول کی تقریر کے دوران کس رہے ہیں۔ اس دوران وہ بلاول بھٹو کے لیے جنسی تعصب سے منسلک نازیبہ القابات استعمال کر رہے ہیں۔ اس دوران ان کی پیچھے بیٹھی وفاقی وزیر زرتاج گل اور ان کے بغل میں بیٹھے علی امین گنڈاپور ہنستے ہوئے اپنا منھ چھپا رہے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ بلاول بھٹو کے حوالے سے یہ نازیبہ القابات استعمال کیے گئے ہوں، اس سے قبل بھی موجودہ وفاقی وزیرِ داخلہ بھی اسی قسم کی زبان کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ دوسری ویڈیو میں پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگزیب سمیت حزبِ اختلاف کی دیگر خواتین حکومت مخالف پوسٹرز لے کر حکومتی نشستوں میں جا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہی ہیں۔ ایسے میں پی ٹی آئی کی اسما حدید سمیت دیگر خواتین رہنماؤں کی طرف سے پہلے ان کے قریب آ کر ان کے ساتھ مکالمہ کیا گیا، اور پھر اگلے ہی لمحے ان کے علاوہ چند دیگر خواتین نے پوسٹرز ان کے ہاتھوں سے چھین لیے۔ اس حوالے سے عبدالمجید خان کی جانب سے بلاول بھٹو کو نشانہ بنانے کی ویڈیو پر خاصی تنقید کی جا رہی ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ یہ ہمارے معزز پارلیمانی لیڈر اسمبلی میں بہترین قوانین اور پالیسیاں بنا رہے ہیں۔ دوسری طرف بعض صارفین نے حزب اختلاف کے اراکین کے رویے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ آنیہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ بجٹ کی تقریر کو سن نہیں سکتے یا اس پر بحث نہیں کرسکتے اور وہاں صرف اس لیے گئے کہ نعرے بلند کرسکیں تو پارلیمنٹ نہ جائیں اور ٹیکس دہندگان کے پیسے بچائیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57429706", "summary": "پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے ملک کا 8400 ارب روپے خسارے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے پیش کیا جانے والا یہ تیسرا وفاقی بجٹ ہے۔ وفاقی بجٹ کو حکومت کی جانب سے معاشی ترقی میں اٖضافے کا بجٹ قرار دیا گیا ہے۔", "title": "وفاقی بجٹ 22-2021: کیا یہ بجٹ عام آدمی کے لیے بھی سود مند ہے؟", "firstPublished": "2021-06-11T16:01:56.000Z", "id": "2dd73ee8-b35b-433c-a046-afadb30d8919", "article": "پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے ملک کا 8400 ارب روپے خسارے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے پیش کیا جانے والا یہ تیسرا وفاقی بجٹ ہے۔ وفاقی بجٹ کو حکومت کی جانب سے معاشی ترقی میں اٖضافے کا بجٹ قرار دیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ میں نو سو ارب سے زائد سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے رکھے گئے ہیں تو اس کے ساتھ زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبے کی ترقی کے لیے مختلف مراعات اور ٹیکس چھوٹ کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے وفاقی بجٹ میں جہاں مختلف شعبوں کے لیے مختلف مراعات اور ان پر ٹیکسوں کا نفاذ کیا گیا ہے تو دوسری جانب ایک عام آدمی کے لیے اس بجٹ میں کیا ہے کہ جس کے ذریعے اسے فائدہ حاصل ہو سکے۔ حکومت کی جانب سے ٹیکسوں میں کمی/اضافہ اور معاشی ترقی کے لیے کیے جانے والے اقدامات ایک عام آدمی کی زندگی پر کس طرح اثر انداز ہوں گے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کیا گیا ہے جو دس فیصد ایڈہاک ریلیف کی صورت میں انہیں دیا جائے گا۔ بجٹ میں ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی دس فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔ گزشتہ سال کورونا وائرس کے بحران اور اس کی وجہ سے معیشت میں پیدا ہونے والے منفی رجحان کے باعث حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں کوئی اضافہ نہیں کیا تھا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں اضافے کا اعلان ملک میں مہنگائی کی بلند شرح کے باعث ملازمین کو ریلیف فراہم کرے گا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے بجٹ میں مختلف پیداواری شعبوں کو ٹیکس کی مد میں چھوٹ دی گئی ہے۔ اس اقدام کا مقصد ملک کے پیداواری شعبے کو مراعات دے کر ملکی معاشی پیداوار کو بڑھانا ہے جس کا اگلے مالی سال میں ہدف 4.8 فیصد رکھا گیا ہے۔ ٹیکسوں میں چھوٹ سے پیداواری شعبے میں سرگرمیوں میں اضافہ جہاں معیشت کو فروغ دے گا تو اس کے ساتھ یہ ملک میں نئی ملازمتیں پیدا کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو گا۔ وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں معاشرے کے غریب اور کم آمادنی والے افراد کے لیے سوشل سکیورٹی کے تحت مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔ تحریک انصاف حکومت کے زیر نگرانی چلنے والے احساس کفالت پروگرام کے لیے اگلے مالی سال میں بجٹ بڑھا دیا گیا ہے جس کے ذریعے موجودہ مشکل معاشی حالات میں غریب اور کم آمدنی والے افراد کو نقد رقم کی صورت میں امداد دی جا سکے گی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-57432273", "summary": "اگرچہ بٹ کوائن کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے مگر اسے اب بھی لین دین کے لیے شاذ و نادر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔", "title": "بٹ کوائن کو قانونی کرنسی قرار دے دیا جائے تو آپ کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟", "firstPublished": "2021-06-11T14:18:38.000Z", "id": "885cb45f-d9f4-4252-b6d2-ded1a4d48b7b", "article": "نئے قانون کا مطلب یہ ہے کہ ہر کاروبار کو اپنی خدمات یا اشیا کے بدلے میں بٹ کوائن قبول کرنا ہوگا بشرطیکہ ان کے پاس اس لین دین کے لیے ٹیکنالوجی موجود ہو۔ بٹ کوائن ایک ورچوئل اثاثہ ہے اور اس کا حقیقی معیشت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی قدر میں بہت کم عرصے کے دوران بہت زیادہ اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں معیشت کے پروفیسر اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے سابق چیف اکنامسٹ کین روگوف کہتے ہیں کہ کسی کامیاب کرنسی کی دو اہم خصوصیات یہ ہیں کہ یہ لین دین کے لیے ایک مؤثر حیثیت رکھتی ہو اور یہ آپ کی دولت کی قدر محفوظ رکھ سکتی ہو۔ ’حقیقت یہ ہے کہ یہ قانونی معیشت میں بہت زیادہ استعمال نہیں ہوتا۔ ہاں ایک امیر شخص اسے دوسرے شخص کو بیچ دیتا ہے مگر یہ حتمی استعمال نہیں ہے۔ اور اس کے بغیر اس کا کوئی طویل مدتی مستقبل نہیں ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ بٹ کوائن کا استعمال تقریباً کُلّی طور پر صرف سٹے بازی کے لیے ہو رہا ہے۔ بھلے ہی بٹ کوائن کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے مگر اسے اب بھی لین دین کے لیے شاذ و نادر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ لوگ جن کے پاس بٹ کوائن ہے وہ اپنی کرپٹو کرنسی کو اپنے پاس رکھ کر اس سے مزید رقم کمانا چاہتے ہیں۔ عام طور پر لوگ قدر میں اس کمی کو نوٹس نہیں کر پاتے کیونکہ اُن کے پاس موجود پیسہ اتنا ہی رہتا ہے۔ مگر وہ یہ ضرور نوٹ کرتے ہیں کہ اُن کی خریداری، باہر کھانا پینا اور فلمیں دیکھنا وغیرہ زیادہ سے زیادہ مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ بٹ کوائن کا معاملہ مختلف ہے۔ بٹ کوائنز کی سپلائی کو محتاط طور پر کنٹرول کیا جاتا اور محدود رکھا جاتا ہے۔ کوئی شخص بھی اپنی مرضی سے مزید بٹ کوائنز نہیں بنا سکتا۔ اُنھوں نے ڈیجیٹل کرنسیوں کی لین دین میں بجلی کے ’بے تحاشہ‘ استعمال پر بھی خدشات کا اظہار کیا تھا۔ اس کے مقابلے میں برطانیہ بھر کی بجلی کی کھپت 300 ٹیراواٹ سالانہ سے کچھ اوپر ہے جبکہ ارجنٹینا میں بجلی کی کھپت سی سی اے ایف کے بٹ کوائن سے متعلق اندازوں کے برابر ہے۔ اس کے نقاد یہ بھی کہتے ہیں کہ جہاں روایتی بینک لین دین پر نظر رکھ سکتے ہیں وہیں بٹ کوائن انتہائی امیر افراد کے لیے ٹیکس سے بچنے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔ صدر بوکیلے نے اس سے پہلے ایک بیان میں کہا تھا کہ بٹ کوائن اُن 70 فیصد سلواڈوریئن افراد کے لیے مالی خدمات کے دروازے کھول دے گا جن کے پاس اب بھی بینک اکاؤنٹس موجود نہیں ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57431516", "summary": "پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے مالی سال 21-2020 کا اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے حکومت کی معاشی کامیابیوں کا ذکر کیا اور کہا ہے کہ معیشت میں بہتری کے آثار پیدا ہو چکے ہیں اور یہ ’ٹیک آف پوزیشن میں پہنچ چکی ہے‘۔", "title": "اقتصادی سروے 21-2020: پاکستان کن معاشی اہداف کو حاصل نہیں کر سکا", "firstPublished": "2021-06-10T16:18:45.000Z", "id": "ea8c1c41-e1c8-4fa1-a787-3c87a30f70da", "article": "پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے مالی سال 21-2020 کا اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے حکومت کی معاشی کامیابیوں کا ذکر کیا اور کہا ہے کہ معیشت میں بہتری کے آثار پیدا ہو چکے ہیں اور یہ 'ٹیک آف پوزیشن میں پہنچ چکی ہے'۔ وزیر خزانہ نے زیر جائزہ مالی سال میں مختلف معاشی اہداف کے حصول کا ذکر کیا جن میں ملک کی مجموعی ملکی ترقی میں 3.9 فیصد کی شرح نمو، لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں ترقی، خدمات کے شعبے میں ترقی، برآمدات میں اضافہ، سر پلس اکاؤنٹ اور ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم اقتصادی سروے میں کچھ ایسے معاشی اہداف بھی شامل ہیں جن کی کارکردگی اہداف سے کم یا منفی رہی۔ ان معاشی اہداف میں ملک کے زراعت کے شعبے میں ہدف اور گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں کم پیداوار، بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق اس سال زرعی شعبے کی کارکردگی 2.7 فیصد رہی جب کہ اس کا بجٹ میں ہدف 2.8 فیصد تھا۔ تاہم گزشتہ سال میں زرعی شعبے میں ہونے والی 3.3 فیصد ترقی سے اس سال میں اس کی کارکردگی کافی نچلی سطح پر ہے۔ زرعی شعبے کی تنزلی میں ملک کی اہم فصل کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی ہے جو زیر جائزہ مالی سال میں 22 فیصد کم ہو کر 70 لاکھ بیلز تک محدود ہو گی۔ گزشتہ مالی سال میں اس کی پیداوار 90 لاکھ بیلز سے زائد تھی۔ حکومت نے اقتصادی سروے میں نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں بیرون ملک سے آنے والی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر پیدا ہونے والے حالات ہیں۔ موجودہ مالی سال کے اقتصادی سروے میں پاکستان کے بڑھتے تجارتی خسارے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ سروے میں اس مالی سال کے پہلے دس ماہ یعنی جولائی تا اپریل میں بیرونی تجارت کے اعداد و شمار فراہم کیے گئے ہیں جن کے مطابق ان دس مہینوں میں ملک کا تجارتی خسارہ 21 فیصد سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے اس سال مجموعی طور پر درآمدات کا ہدف 42 ارب ڈالر رکھا تھا تاہم دس ماہ میں ملک میں ہونے والی درآمدات اس ہدف سے تجاوز کر گئیں جس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ بڑھا۔ زیادہ درآمدات کی ایک بڑی وجہ ملک میں کھانے پینے کی اشیاء کی درآمدات ہیں جب حکومت نے چینی اور گندم کی بڑھتی قیمتوں میں اضافے کو روکنے کے لیے ان دونوں اجناس کی اجازت دی جس کا منفی اثر بیرون ملک تجارت کے توازن پر پڑا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے گندم اور چینی کی درآمد کو تجارتی خسارے میں اضافے کی وجہ قرار دیا ہے۔ اگرچہ ملک میں آنے والی ترسیلات زر نے بیرونی ادائیگیوں کے توازن کو مدد فراہم کی تاہم اس کے باوجود بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ ملک کے بیرون تجارت کے لیے ایک منفی رجحان کی علامت ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-57411653", "summary": "ایک خبر رساں ویب سائٹ پر ایسی معلومات سامنے آئی ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی ارب پتی افراد کتنا کم انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔", "title": "دولت میں سب سے آگے، ٹیکس دینے میں پیچھے: امیر ترین امریکیوں کے بارے میں دعویٰ", "firstPublished": "2021-06-09T12:58:53.000Z", "id": "6d0e2023-60f4-4bdf-9900-0affec2d816c", "article": "ایک خبر رساں ویب سائٹ پر ایسی معلومات سامنے آئی ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی ارب پتی افراد انتہائی کم انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ پروپبلکا نامی اس ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ اس نے دنیا کے بعض امیر ترین افراد کے ٹیکس کے گوشوارے دیکھے ہیں جن میں جیف بیزوس، ایلون مسک اور وارن بفیٹ شامل ہیں۔ پروپبلکا نے کہا ہے کہ امریکہ کے 25 امیر ترین افراد کم ٹیکس ادا کرتے ہیں جو کہ مجموعی آمدنی کا اوسطاً 15.8 فیصد ہوتا ہے، اور یہ مرکزی دھارے کے زیادہ تر امریکی ملازمین کے ٹیکس سے کم ہے۔ پروپبلکا کے سینیئر رپورٹر اور ایڈیٹر جیسی آئسنجر نے ٹوڈے پروگرام سے بات کرتے ہوئے کہا: 'ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اگر آپ ایک ارب پتی ہیں تو آپ [ٹیکس] کو نیچے یہاں تک کہ صفر تک لا سکتے ہیں۔ دراصل صفر ٹیکس کی ادائیگی نے واقعتاً ہمیں زمین بوس کردیا کہ انتہائی دولت مند لوگ مکمل طور پر قانونی طریقے سے سسٹم کو نظر انداز کرسکتے ہیں۔' ویب سائٹ پر کہا گیا ہے کہ 'قانونی طور پر ٹیکس کی حکمت عملیوں کا استعمال کرتے ہوئے بہت سارے امیر لوگ اپنے وفاقی ٹیکس بلوں کو کم کر کے صفر تک یا اس کے قریب پہنچا دیتے ہیں' حالانکہ ان کی دولت میں پچھلے کچھ برسوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ تاہم پروپبلکا کے تجزیے نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ 'بائیڈن انتظامیہ کی موجودہ تجاویز کے تحت کچھ دولت مند امریکیوں جیسا کہ ہیج فنڈز کے منیجروں کو زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن امریکہ کے 25 امیر ترین افراد میں سے زیادہ تر پر اس کا معمولی فرق ہی پڑے گا۔‘ جن ارب پتیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں جارج سوروس پر بھی الزام ہے کہ انھوں نے برائے نام ہی ٹیکس ادا کیا۔ ان کے دفتر نے بی بی سی کی جانب سے سوالات کے جواب نہیں دیے لیکن انھوں نے پروپبلکا کو دیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ مسٹر سوروس پر سرمایہ کاری میں ہونے والے نقصانات کی وجہ سے کچھ برسوں میں ٹیکس عائد نہیں ہوتا تھا۔ بیان میں یہ نشاندہی بھی کی گئی کہ وہ ایک طویل عرصے سے امریکہ میں دولت مند افراد پر زیادہ ٹیکس کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ پروپبلکا ایک تحقیقاتی ویب سائٹ ہے۔ اس پر اس بابت متعدد مضامین لکھے گئے ہیں کہ کس طرح امریکی انٹرنل ریونیو سروس کے بجٹ میں کٹوتی نے دولت مندوں اور بڑے کارپوریشنوں پر ٹیکس کے قواعد کو نافذ کرنے کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔ خبررساں ادارے کا کہنا ہے کہ انھیں ان مضامین کے ردعمل میں لیک ہونے والی دستاویزات موصول ہوئی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-57353125", "summary": "انڈیا کے قومی شماریاتی دفتر کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020-21 میں ملک کی مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں 7.3 فیصد کی کمی آئی ہے، جو کہ آزادی کے بعد سے سب سے بدترین شرح ہے۔ انڈیا کی معیشت میں آزادی کے بعد کم از کم پانچ مرتبہ سنگین گراوٹ ہوئی ہے تاہم حالات اتنے شدید کبھی نہیں تھے۔", "title": "انڈیا میں معاشی بحران کی وجہ صرف کورونا یا حکومت کی خراب پالیسیاں بھی؟", "firstPublished": "2021-06-05T01:30:05.000Z", "id": "65bb41e2-17b8-4bbc-923a-1aa7c25ef74c", "article": "انڈیا کے قومی شماریاتی دفتر (این ایس او) کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020-21 میں ملک کی مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں 7.3 فیصد کی کمی آئی ہے، جو کہ آزادی کے بعد سے سب سے بدترین شرح ہے۔ کووڈ 19 کی وبا سے پہلے 2019-20 میں جی ڈی پی میں نمو کی شرح 4 فیصد تھی حالانکہ انڈیا کی معیشت میں آزادی کے بعد کم از کم پانچ مرتبہ انتہائی گراوٹ ہوئی ہے مگر حالات ایسے کبھی نہیں رہے۔ بری معیشت کا اثر سیاحت جیسے شعبوں میں سب سے زیادہ واضح طور پر دیکھنے کو ملتا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عام لوگوں کے پاس خرچ کرنے کے لیے آمدنی ہے لیکن جب وہ بچت کر رہے ہیں تو سیاحت ان کے ذہن میں آخری چیز ہوتی ہے۔ ماہرِ اقتصادیات ڈی ایم دیواکر کہتے ہیں کہ حالیہ معاشی حالات سے ’میں حیران نہیں ہوں۔‘ ان کے مطابق معیشت میں مندی کی وجہ پچھلے کچھ برسوں میں معاشی پالیسی سے متعلق کیے گئے متعدد فیصلے ہیں۔ کسی بھی ملک کی معیشت اپنی نوعیت کے مطابق متعدد عوامل اور متعدد سٹیک ہولڈرز پر منحصر ہوتی ہے۔ ایک عمل یا شعبے کا دوسرے پر اثر ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنی پیداوار فروخت کرنے سے قاصر ہیں تو ممکن ہے کہ آپ خریدنے سے بھی قاصر ہوں گے۔ اسی طرح اگر آپ خریدنے کے قابل نہیں ہیں تو دوسرے لوگ آپ کو فروخت نہیں کرسکتے، جس کا اثر اس سے متعلقہ کاروبار پر ہوتا ہے۔ ماہر معاشیات دیواکر کا کہنا ہے کہ ملک میں شرح نمو خراب ہونے کے باوجود ’فی الحال زرعی شعبہ مثبت صورتحال میں ہے جس کی شرح نمو 3.5 فیصد ہے لیکن جس طرح سے حکومت کا کاشتکاروں کے لیے رویہ ہے، مثال کے طور پر کسانوں کا احتجاج کے سلسلے میں، اس شعبے کا متاثر ہونا تابوت میں آخری کیل کی مانند ہے۔‘ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان کارکنوں کے گاؤں لوٹنے کی وجہ سے ترقی یافتہ ریاستوں میں فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کی تعداد میں شدید کمی آئی ہے جس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن کے ختم ہونے کے بعد بھی وہ اپنی پوری صلاحیت پر کام کرنے کے قابل نہیں۔ محمد رضوان ایک مزدور ہیں اور دارالحکومت دلی کے جنوبی حصے میں ایک جھونپڑی میں رہتے ہیں۔ ان کی روزی روٹی کا ذریعہ ایک ٹھیلہ تھا جس سے وہ لوگوں کا سامان کرائے پر منتقل کرتے تھے لیکن جب سے لاک ڈاؤن ہوا ہے وہ تقریباً پوری طرح بے روزگار ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کی تھی تب بھی حالات بہت بہتر نہیں ہوئے تھے۔ اعداد و شمار کے مطابق نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح گذشتہ 45 برسوں میں سب سے زیادہ ہے اور جی ڈی پی کی شرح میں تقریباً نصف دہائی سے کمی آ رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/vert-tra-57322011", "summary": "انڈیا میں ایک ثقافتی تصور 'پیسہ وصول' کا ہے، جس کا مطلب ہے کہ کسی ایسی چیز پر پیسے خرچ کرنا اور اتنے کرنا کہ آپ اس کے نتیجے سے مطمئن ہوں۔", "title": "پیسہ وصول! ’وہ ذہنیت جو ناقابل یقین حد تک اجنبیوں کو بھی آپس میں جوڑتی ہے‘", "firstPublished": "2021-06-02T13:29:17.000Z", "id": "b252d192-3e71-4f02-997d-fa16f5659b9d", "article": "انڈیا میں ایک ثقافتی تصور 'پیسہ وصول' کا ہے، جس کا مطلب ہے کہ کسی ایسی چیز پر پیسے خرچ کرنا اور اتنے کرنا کہ آپ اس کے نتیجے سے مطمئن ہوں۔ پیسہ وصول، مقامی طرز زندگی کی عکاسی کرتا ہے کہ ہمارے پاس موجود ہر چیز میں قدر تلاش کرنے اور تمام اشیا کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے کوشش کی جائے۔ جیسے کسی ہوٹل میں مفت ناشتے سے لطف اندوز ہونے کے اطمینان سے لے کر شیمپو میں پانی شامل کرنا تاکہ وہ زیادہ دیر تک چلے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی چیز کی کتنی قیمت ادا کرتے ہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس سے ہم کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن پیسہ وصول ایک اہم انسانی جزو بھی ہے۔ یونیورسٹی آف ٹورونٹو میں تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ریتو بِرلا کا کہنا ہے: 'یہ انڈین معاشرے میں ربط اور تعلقات کی عکاس ہے۔ چاہے وہ ایک کے ساتھ ایک مفت کی پیش کش کا فائدہ اٹھانا ہو یا کسی اور کا دیا ہوا تحفہ کسی دوسرے کو بطور تحفہ دینا ہو یا پھر ڈاکٹر سے مشاورت کے دوران پیسے وصولنے کے لیے اضافی سوالات کرنا ہو۔ یہ ایک ایسی ذہنیت ہے جو ناقابل یقین حد تک مختلف لوگوں کو آپس میں جوڑتی ہے۔‘ فراخدلی کے اس جذبے کو لفظ برکت یا کثرت سے جوڑا جاتا ہے جو پیسے کے متعلق فلسفے کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آسٹریلیا کی میلبرن یونیورسٹی میں سوشیالوجی کی اعزازی پروفیسر ڈاکٹر سپریہ سنگھ نے وضاحت کی کہ 'انڈیا میں پیسہ تعلقات کا ایک ذریعہ ہے۔ یہاں تک کہ اگر لوگوں کے پاس بہت زیادہ پیسہ ہے تو بھی وہ اسے احتیاط کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اور بانٹتے ہیں۔' جب میں نے یہ کہانی تنور کے ساتھ شیئر کی تو انھوں نے اتفاق کیا۔ ان کا کہنا تھا 'آپ کسی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں جس کی سفارش آپ کے گھر کے کسی فرد نے کی ہے اس لیے نہیں کہ آپ ڈاکٹر پر اعتماد کرتے ہیں بلکہ اس لیے کیونکہ آپ کو اس شخص پر اعتماد ہے جو آپ سے ڈاکٹر کی سفارش کر رہا ہے​۔' تنور ایک مقامی خاتون سے مچھلی خریدنے کے لیے مقامی ماہی گیروں کے گاؤں جاتے ہیں۔ جب ان کے پاس اچھی مچھلی نہیں ہوتی تو وہ کسی اور سے خریدنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ اس خاتون کی ایمانداری کا اثر اس کے کاروبار پر پڑتا ہے لیکن وہ جانتی ہے کہ اس کا ایک وفادار گاہک برقرار رہے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-57293508", "summary": "پورٹ سٹی پراجیکٹ کے تحت 269 ​​ہیکٹر پر مشتمل کل اراضی میں سے 116 ہیکٹر اراضی 99 برسوں کے لیے چین کی مواصلاتی تعمیراتی کمپنی کو لیز پر دی گئی ہے۔ یہ سری لنکا کی تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ ہے، جس میں بڑے پیمانے پر معاشی، تجارتی اور رہائشی منصوبے شامل ہیں۔", "title": "کیا چین کے ساتھ پورٹ سٹی پراجیکٹ سری لنکا کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالے گا؟", "firstPublished": "2021-05-29T15:59:35.000Z", "id": "cc588a49-5198-431e-b3dd-26a9fe968651", "article": "سری لنکا کی پارلیمان نے 20 مئی کو پورٹ سٹی اکنامک کمیشن بل منظور کیا تھا اور اس نئے قانون کے نفاذ کے ساتھ چین کی مالی مدد سے بنایا گیا کولمبو میں پورٹ سٹی کا علاقہ کچھ قومی قوانین سے مستثنیٰ ہو گا اور اس کے لیے بنائی گئی خصوصی دفعات کا اطلاق یہاں ہو گا۔ تاہم اس حوالے سے اکثر افراد نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس نئے قانون کی وجہ سے ملک کی خودمختاری خطرے میں آ گئی ہے۔ ان خدشات میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پورٹ سٹی منی لانڈرنگ اور دیگر مالی فراڈ کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ سری لنکا کے تجارتی دارالحکومت کولمبو میں 269 ہیکٹر کے ایک کیمپس میں پھیلا یہ منصوبہ چین ہاربر انجینیئرنگ کمپنی کی جانب سے ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر مالیت میں تعمیر ہو گا۔ یہ کمپنی سرکاری سطح پر چلنے والی چین مواصلاتی تعمیراتی کمپنی لمیٹڈ (سی سی سی سی) کا ذیلی ادارہ ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ چین کی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) میں اس کا کردار ہے۔ 269 ​​ہیکٹر پر مشتمل کل اراضی میں سے 116 ہیکٹر اراضی 99 برسوں کے لیے چین کی مواصلاتی تعمیراتی کمپنی لمیٹڈ (سی سی سی سی) کو لیز پر دی گئی ہے۔ یہ سری لنکا کی تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ ہے، جس میں بڑے پیمانے پر معاشی، تجارتی اور رہائشی منصوبے شامل ہیں۔ غیر ملکی سرمائے کو راغب کرنے کے لیے سری لنکن حکومت کی جانب سے اس منصوبے کے لیے دی گئی ٹیکس مراعات کا دفاع کرتے ہوئے کابینہ کے شریک ترجمان، ادیا گامان پیلا نے 31 مارچ کو ڈیلی فنانشل ٹائمز کو بتایا تھا کہ ’پورٹ سٹی کو دبئی، ہانگ کانگ اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی مراکز سے مقابلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا اس منصوبے کی مدد کرنا اہم ہے۔‘ تاہم اس اقدام کو حکومت کے اندر اور حزب اختلاف کی طرف سے دو بنیادوں پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ یہ قانون سری لنکا کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالے گا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سری لنکا نے بھی اس قانون کو چیلنج کیا ہے۔ سائیکلون ٹوڈے اخبار کے مطابق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سری لنکا نے کہا ہے کہ پورٹ سٹی کیس میں سری لنکا کے آئین کی متعدد دفعات کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور اس سے بدعنوانی، غیر قانونی پیسوں کی لین دین اور منی لانڈرنگ ہو گی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سری لنکا نے کہا ہے کہ ’جس جلدی میں یہ قانون منظور کیا گیا وہ لوگوں کے معلومات تک رسائی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ سری لنکا کے ممبران پارلیمان کو بھی اسے دیکھنے اور سمجھنے کے لیے اتنا وقت نہیں ملا۔ اگر ایسا ہوتا تو بہتر فیصلے ہوتے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57210203", "summary": "نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی نے مجموعی ملکی پیداوار میں نمو کے اندازے کو حتمی شکل دیتے ہوئے اس کے 3.94 فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی ہے، جس نے ملک کے مرکزی بینک، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک تک کے تخمینوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔", "title": "ملکی معاشی ترقی کا حکومتی دعویٰ: حقیقت یا اعداد و شمار کا ہیر پھیر؟", "firstPublished": "2021-05-22T11:58:32.000Z", "id": "e5edf0e4-d41d-4dd4-ac12-696c68bfc623", "article": "پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے موجودہ مالی سال میں ملکی معیشت کے تقریباً چار فیصد کی شرح سے بڑھنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ موجودہ مالی سال کے اختتام سے تقریباً ایک مہینہ پہلے وفاقی حکومت نے ملکی معیشت کی شرح نمو کے عبوری اعداد و شمار جاری کیے ہیں جو وفاقی سطح پر کام کرنے والی نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے جاری کیے جاتے ہیں۔ تاہم اس مالی سال میں معاشی ترقی میں تقریباً چار فیصد ترقی کا دعویٰ نہ صرف حکومت اور اس کے اپنے اداروں کے مقررہ کردہ اہداف سے زیادہ ہے بلکہ اس نے عالمی مالیاتی اداروں کے تخمینوں کو بھی مات دے دی ہے۔ پاکستان میں معیشت کے ماہرین بھی اس ملکی معاشی ترقی میں تقریباً چار فیصد ترقی کو حیران کن قرار دیتے ہیں اور اسے ملکی معیشت کی اصل صورتحال سے متضاد بتاتے ہیں۔ نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے رواں مالی سال میں جی ڈی پی کے تقریباً چار فیصد تک بڑھنے کے اعداد و شمار حکومت کی جانب سے مقرر کردہ جی ڈی پی کے ہدف سے تقریباً دوگنا ہے۔ تاہم تازہ ترین اعداد و شمار ملک کے مرکزی بینک کے اقتصادی ترقی کے تخمینے سے بھی زیادہ ہیں جس کے مطابق ملکی معیشت تین فیصد کی شرح سے اس سال ترقی کرے گی۔ حکومت کے عبوری اعداد و شمار نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف کے تخمینے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جس کے مطابق شرح نمو دو فیصد رہے گی جب کہ دوسری جانب عالمی بینک کے 1.5 فیصد شرح نمو کے تخمینے سے بھی حکومتی جی ڈی پی کا نمبر بہت اوپر ہے۔ انھوں نے کہا ان کے نزدیک آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے بہت کم شرح نمو کے تخمینے بھی غلط تھے کیونکہ وہ ملکی ترقی کی شرح نمو کو تین فیصد تک دیکھ رہے تھے تاہم چار فیصد کا نمبر بہت حیران کن ہے جس کی وجہ شاید بیس ایفیکٹ بھی ہے کیونکہ پچھلے برسوں میں شرح نمو کم اور منفی ہو گئی تھی اس لیے نمبر بہت بڑا نظر آ رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے موجودہ مالی سال میں جی ڈی پی کے چار فیصد تک بڑھنے کے دعویٰ پر بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابقہ وزیر خزانہ اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے صحیح یا غلط ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کے بقول لوگوں کی جانب سے زیادہ خرچ کیا گیا جو رواں سال سات فیصد سے زیادہ رہا۔ حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر اپنی مرضی کے اعداد و شمار جاری کر کے ملکی معیشت میں شرح ترقی کو اوپر دکھانے پر تبصرہ کرتے ہوئے حفیظ پاشا نے کہا کہ انھوں نے بتا دیا ہے کہ کس طرح لوگوں کی جانب سے کیے جانے والے اخراجات کو اوپر کی سطح پر دکھایا گیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-57063019", "summary": "گزشتہ سو سال سے ریاست، سرمائے کی نوعیت اور جنس کی جانب رویے چین کی خواتین کے لیے ایک مبہم فریم ورک رہے ہیں۔ یہ فریم ورک ایک طرف تو انھیں جکڑنے کی کوشش کرتا ہے لیکن کبھی کبھی آزادی حاصل کرنے کے ذرائع بھی مہیا کرتا ہے۔", "title": "چینی معیشت کا پہیہ خواتین کی وجہ سے گھومتا ہے!", "firstPublished": "2021-05-16T03:49:06.000Z", "id": "c3ae4db8-e77d-4ede-89ed-d97cc0b29ec5", "article": "آج کے چین میں زیادہ تر کمپنیاں خواتین صارفین کو اپنی جانب راغب کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ متوسط طبقے کی خواتین خاص طور پر ان کا ہدف ہیں۔ جبکہ ورکنگ کلاس کی خواتین بھی بازار میں موجود مشہور برانڈز کی خواہش مند ہیں۔ آپ کو ٹی وی پر کاسمیٹکس، صحت مند کھانوں اور ڈیزائنر کپڑوں کے اشتہارات دیکھنے کے لیے کچھ خاص رقم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ 19 ویں صدی کے اواخر میں چین ایک صنعتی ملک بن گیا تھا یا کم از کم اس نے یہ سمت ضرور اختیار کر لی تھی۔ چین میں سرمایہ دارانہ نظام کے کئی پہلو دہائیوں اور صدیوں پہلے موجود تھے۔ 16ویں صدی سے چین میں پورسلین کی صنعتی پیمانے پر پیداوار ہو رہی ہے جس کی وجہ سے چین میں نہ صرف صارفین کی زندگیاں تبدیل ہو گئیں بلکہ اس کی وجہ سے چین کو عالمی تجارتی نیٹ ورک میں ایک بڑا اور اہم کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ یقیناً انھیں اپنی کمائی اپنے گاؤں بھیجنا پڑتی تھی لیکن پھر بھی ان کے پاس شہر میں باہر نکلنے اور خرچ کرنے کے لیے کچھ رقم ہوتی تھی۔ اور وہ کیا شاندار شہر تھا۔ روشنیوں سے جگمگاتا شہر جو بہت سارے ڈپارٹمنٹل سٹوروں سے بھرا پڑا تھا جہاں لوگ چین کی پہلی لفٹ یا یورپ سے آئے ہوئے نئے انداز کے کپڑے دیکھ سکتے تھے۔ تہذیبی انقلاب کے بارے میں دعوی کیا جاتا تھا کہ وہ خواتین کی آزادی کا دور تھا لیکن بہت ساری خواتین لیے وہ ایک انتہائی دشوار دور تھا۔ کسی بھی نوجوان خاتون کی جانب سے پر کشش نظر آنے کی ذرا سی بھی کوشش کو انقلاب سے انحراف سمجھا جاتا تھا۔ خواتین اور مردوں کے لیے ایک جیسے کپڑے بنائے جانے لگے۔ لیکن دراصل یہ کپڑے دیکھنے میں مردانہ نظر آتے تھے۔ اسے طرح تیانمن سکوائر پر چیئرمین ماؤ کی تعظیم میں کھڑے ہونے والے گارڈز کے لباس بھی تھے۔ کہنے کو تو یہ لباس یونی سیکس یا خواتین اور مردوں دونوں کے لیے تھے لیکن اصل میں یہ مردانہ لباس تھے۔ لیکن ریاست کو یہ فکر بھی لاحق ہو رہی ہے کہ معاشی آزادی کے ساتھ شادی اور خاندان کے بارے میں چینی خواتین کی سوچ تبدیل ہو رہی ہے۔ لیکن ایک دھاگے نے، چاہے وہ روئی کا ہو یا ریشم کا، ان خواتین کو ایک دوسرے سے منسلک کیا ہوا ہے۔ گزشتہ سو سال سے ریاست، سرمائے کی نوعیت اور جنس کی جانب رویے چین کی خواتین کے لیے ایک مبہم فریم ورک رہے ہیں۔ یہ فریم ورک ایک طرف تو انھیں جکڑنے کی کوشش کرتا ہے لیکن کبھی کبھی آزادی حاصل کرنے کے ذرائع بھی مہیا کرتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57019794", "summary": "بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ طے پانے والے موجودہ پروگرام پر نظر ثانی کرنے کی پاکستان کی درخواست کا جائزہ فی الحال نہیں لیا جا رہا بلکہ یہ اس وقت لیا جائے جب قرض معاہدے کے چھٹے جائزے کے حوالے سے پاکستانی حکام سے بات چیت ہو گی۔", "title": "قرض معاہدے کی نظرثانی درخواست پر آئی ایم ایف کا ردعمل: اب پاکستان کو کیا کرنا ہو گا؟", "firstPublished": "2021-05-07T08:33:00.000Z", "id": "1c9e5370-7a56-4726-985b-7ae5056376f8", "article": "بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ طے پانے والے موجودہ پروگرام پر نظر ثانی کرنے کی پاکستان کی درخواست کا جائزہ فی الحال نہیں لیا جا رہا بلکہ یہ اس وقت لیا جائے جب قرض معاہدے کے چھٹے جائزے کے حوالے سے پاکستانی حکام سے بات چیت ہو گی۔ جمعہ کے روز دی جانے والی بریفنگ میں آئی ایم ایف نمائندے سے پوچھا گیا تھا کہ آیا بین الاقوامی مالیاتی ادارہ پاکستان کی قرض معاہدے میں نظر ثانی کی درخواست پر غور کر رہا ہے؟ یاد رہے کہ پیر کے روز پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف سے موجودہ معاہدے پر نظر ثانی کی درخواست کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’موجودہ آئی ایم ایف پروگرام بہت مشکل ہے، آئی ایم ایف نے سخت شرائط رکھیں ہیں جن کی سیاسی قیمت ہے، ہم آئی ایم ایف پروگرام سے نہیں نکلیں گے، پروگرام چل رہا ہے البتہ آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ کورونا کی تیسری لہر ہے، ہمیں سہولت دینا ہو گی۔‘ معاشی امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی شہباز رانا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ آئی ایم ایف کا یہ بیان پاکستان کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی حالیہ نظر ثانی کی درخواست کا جائزہ لینے کے لیے کوئی سپیشل جائزہ اجلاس نہیں ہو گا بلکہ اب اس حوالے سے بات چیت جولائی میں ہی ہو گی جب شیڈول کے مطابق چھٹا جائزہ اجلاس منعقد ہو گا۔‘ انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ کورونا وبا سے درپیش مشکل صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی سپورٹ کرنے کو تیار ہے پاکستانی حکام کے ساتھ گفتگو کرنے کا منتظر ہے مگر اس وقت جب قرض معاہدے کا چھٹا جائزہ لینے کا وقت شروع ہو گا (یعنی جولائی 2021 میں)۔ آئی ایم ایف کا پاکستان سے موجودہ پروگرام اس وقت التوا کا شکار ہو گیا تھا جب گذشتہ برس فروری میں پاکستان نے آئی ایم ایف شرائط کے تحت پاور سیکٹر کے نرخوں میں مزید اضافے کو جون کے مہینے تک ملتوی کرنے کا کہا تھا جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کا اس پروگرام پر دوسرا نظرثانی جائزہ نہیں ہو سکا تھا۔ پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے دو روز قبل ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ طے پانے والے موجودہ پروگرام سے نکلے گا نہیں البتہ اس کے طریقہ کار میں تبدیلی لائی جائے گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56993297", "summary": "پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ کہ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ طے پانے والے موجودہ پروگرام سے نکلے گا نہیں البتہ اس کے طریقہ کار میں تبدیلی لائی جائے گی۔", "title": "حفیظ شیخ کے دور میں آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر نظرثانی کی ضرورت کیوں؟", "firstPublished": "2021-05-05T15:18:40.000Z", "id": "c9d23c47-f4de-4b94-bf3a-1dbc9c5cb792", "article": "پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ طے پانے والے موجودہ پروگرام سے نکلے گا نہیں البتہ اس کے طریقہ کار میں تبدیلی لائی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے کچھ روز قبل قائمہ کمیٹی میں آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے اس پروگرام کی شرائط پر نظرثانی کا کہا تھا جس کے تحت بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے پاکستان کو چھ ارب ڈالر کا قرضہ فراہم کرنا ہے۔ اس سال فروری میں یہ معاہدہ بحال ہوا اور مارچ میں پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر قرضے کی قسط جاری کی گئی جس کے ساتھ پاکستان کو مجموعی طور پر دو ارب ڈالر کی رقم آئی ایم ایف سے وصول ہو گئی۔ تاہم اپریل کے مہینے میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے والے پاکستان کے وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو وزارت خزانہ سے ہٹا دیا گیا۔ پاکستان کے وزیر خزانہ کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر نظرثانی کا بیان کیا اس بات کی علامت ہے کہ اس معاہدے میں کوئی خرابی تھی؟ اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ ’ہمارے وزیر خزانہ یہ کہہ رہے ہیں کہ جن حالات کا پاکستان اس وقت سامنا کر رہا ہے اس میں اس معاہدے کی شرائط قابل عمل نہیں ہیں۔ پاکستان اس وقت کورونا کی تیسری لہر کا شکار ہے اور دن بدن صورت حال خراب ہوتی جا رہی ہے اس صورت حال میں آئی ایم ایف کی شرائط نامناسب ہیں اور یہ ملک میں مزید غربت اور بیروزگاری کا باعث بنیں گی۔‘ انھوں نے کہا وزیر خزانہ شوکت ترین نے ابھی بھی معاہدے پر نہیں بلکہ اس کی چند شرائط پر نظرثانی کا بیان دیا ہے۔ ان کے مطابق ہم ابھی تک مالیاتی خسارے اور مرکزی بینک کی شرائط میں پھنسے ہوئے ہیں جب کہ اصل ترقی انفراسٹرکچر کی بہتری میں ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان موجودہ پروگرام 22واں ہے۔ ان معاہدوں پر ماضی میں بھی نظرثانی ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان معاہدوں کی تاریخ پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ ان 22 معاہدوں میں صرف ایک پروگرام مکمل ہوا جو پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں 2013 سے 2016 تک محیط رہا۔ انھوں نے بتایا کہ شوکت عزیز کی وزارت خزانہ کے دور میں بھی ایک پروگرام مکمل ہونے کے بارے میں کہا جاتا ہے لیکن ’یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اس وقت افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان کو دنیا بھر سے پیسے مل رہے تھے تو پاکستان نے خود ہی اس پروگرام کو خیرباد کہہ دیا تھا‘۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56970710", "summary": "پاکستان کی وفاقی حکومت نے یورپی پارلیمان کی طرف سے پاکستان کے تجارتی سٹیٹس پر نظرثانی کی قرارداد میں شامل نکات پر یورپی ممالک کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی وفود کو جلد ہی ان ممالک میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔", "title": "یورپی پارلیمان کی قرارداد: پاکستان خود کو موجودہ صورتحال سے کیسے نکال سکتا ہے؟", "firstPublished": "2021-05-03T18:05:53.000Z", "id": "903c3ee8-9c27-4b9e-af4f-2d00736d75a8", "article": "پاکستان کی وفاقی حکومت نے یورپی پارلیمان کی طرف سے پاکستان کے تجارتی سٹیٹس پر نظرثانی کی قرارداد میں شامل نکات پر یورپی ممالک کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی وفود کو جلد ہی ان ممالک میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یورپی پارلیمان میں بھاری اکثریت سے منظور کی جانے والی ایک قرارداد میں یورپی یونین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ سنہ 2014 میں پاکستان کو جنرلائزڈ سکیم آف پریفرنسز (جی ایس پی) پلس کے تحت دی گئی تجارتی رعایتوں پر نظرثانی کرے۔ پیر کو وزیر اعظم کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو دیے گیے جی ایس پی پلس سٹیٹس پر نظرثانی کی قرارداد پر غور کیا گیا۔ کالعدم قرار دی جانے والی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے خلاف پرتشدد مظاہرے کرنے اور حکومت کی طرف سے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے سے متعلق قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی قراراداد کے بعد یورپی یونین نے ایک متفہ قرارداد پاس کی ہے جس میں پاکستان کو یورپی یونین کی طرف سے دیے گئے جی اس پی پلس سٹیٹس پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تسنیم نورانی کا کہنا تھا کہ ان ممالک میں جا کر لابئنگ کرنے کی ضرورت ہے اور ان ملکوں کی قیادت کو یہ باور کروانا ہے کہ پاکستان میں یورپی ملکوں کے خلاف جذبات میں کوئی شدت نہیں آئی بلکہ حکومت کی کوششوں سے ملک میں شدت پسندی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’یورپی ملکوں میں یہودی لابی کا اثرو رسوخ ہے اس لیے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے توہین رسالت کے معاملے کے ساتھ ساتھ ہولوکاسٹ کے معاملے کو زیر بحث لانے کی وجہ سے یورپی ملکوں کی قیادت غصے میں آئی ہے اور انھوں نے پاکستان کے جی ایس پی سٹیٹس کا از سر نو جائزہ لینے کی قرارداد پیش کی ہے‘۔ اقتصادی امور پر نظر رکھنے والے صحافی خرم حسین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کو دیے گئے جنرلائزڈ سکیم آف پریفرنس (جی ایس پی) پلس سٹیٹس کو ختم کرنے کی قرارداد منظور کر لی جاتی ہے تو پھر پاکستان کے پاس یورپی یونین میں شامل ممالک اور بالخصوص ’فرانس کی منت سماجت کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوگا‘۔ یورپی پارلیمان میں منظور کی جانے والی اس قرارداد میں پاکستان میں فرانس کی حکومت کے خلاف حالیہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے احتجاج کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ پاکستان کی قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے سے متعلق قرارداد کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ قرارداد میں مذہبی و سیاسی کالعدم تنظیم ٹی ایل پی کا نام لے کر کہا گیا ہے کہ حکومت کو اس جماعت کی طرف سے تشدد کے استعمال کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہییں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56952274", "summary": "پاکستان میں 31 دسمبر 2021 کے بعد 15 ہزار اور سات ہزار پانچ سو روپے مالیت کے پرائز بانڈز کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ مگر کیا زیادہ مالیت کے پرائز بانڈز پر پابندی سے ’کالے دھن کو سفید کرنے کا سلسلہ‘ رُک جائے گا؟", "title": "حکومت نے 15000 اور 7500 مالیت کے پرائز بانڈز پر پابندی کیوں لگائی؟", "firstPublished": "2021-05-01T04:37:50.000Z", "id": "ebef4707-764b-43ed-9142-2a8f96568b0c", "article": "حکومت پاکستان کے فنانس ڈویژن کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے اعلان کیا گیا ہے کہ 15000 اور 7500 روپے مالیت کے پرائز بانڈز 31 دسمبر 2021 تک کیش اور واپس کیے جا سکتے ہیں اور اس کے بعد ان کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ حکومتی اعلان کے مطابق 15000 اور 7500 روپے مالیت کے پرائز بانڈز کی فروخت بند کر دی گئی ہے اور 31 دسمبر 2021 تک یہ کیش یا واپس کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم حکومت نے 15000 اور 7500 روپے مالیت کے پرائز بانڈز رکھنے والے افراد کو یہ سہولت بھی فراہم کی ہے کہ وہ ان بانڈز کو 25000 اور 40000 والے پرئیمیر پرائز بانڈز میں بھی تبدیل کرا سکتے ہیں جو دونوں کے درمیان مالیت کا فرق ادا کر کے تبدیل کرائے جا سکتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے 40000، 25000، 15000 اور 7500 روپے مالیت کے پرائز بانڈز پر پابندی کے بعد اب مارکیٹ میں سب سے بڑا پرائز بانڈ 1500 روپے مالیت کا ہے۔ اس کے علاوہ 750، 200 اور 100 روپے مالیت کے پرائز بانڈز مارکیٹ میں موجود ہیں۔ پاکستان میں بڑی مالیت کے پرائز بانڈز پر حکومتی پابندی کو فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (ایف ٹی اے ایف) کی شرائط سے جوڑا گیا ہے کہ جن میں انسداد منی لانڈرنگ اور کالے دھن کے خلاف اقدامات شامل ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جب کسی کا بانڈ لگ جاتا ہے تو کالے دھن میں ملوث افراد ان سے یہ بانڈ خرید لیتے ہیں اور انھیں رقم ادا کر کے اپنی غیر قانونی دولت کو سفید کرتے ہیں۔ انھوں نے 7500 اور 15000 روپے مالیت کے پرائز بانڈز پر پابندی کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ دنیا میں تو یہ اس پر بہت عرصہ پہلے پابندی لگ چکی ہے یعنی بیرئیر پرائز بانڈ کی خرید و فروخت نہیں کی جا سکتی۔ ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے اس بات کی تصدیق کی پرائز بانڈز کالے دھن کو سفید کرنے کا سب سے آسان ذریعہ ہے جس پر پابندی لگنی چاہیے۔ انھوں نے کہا وہ پانچ سال سے حکومت سے کہہ رہے تھے کہ وہ اس سلسلے میں اقدامات اٹھائے اور بلیک اکانومی کے اس ذریعے کو بند کرے۔ بڑی مالیت کے پرائز بانڈز پر پابندی کے بعد لوگ رجسٹرڈ پرائز بانڈز پر جانے سے کترا رہے ہیں۔ ایسی صورت میں کیا حکومت کو بجٹ خسارے پورا کرنے کے لیے کوئی مشکل پیش آ سکتی ہے۔ 15000 اور 7500 روپے مالیت کے پرائز بانڈز میں سو ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ انھوں نے کہا پرائز بانڈز میں دو تین سو ارب روپے کی سرمایہ کاری ہوئی ہے، دوسری جانب حکومت کے جانب سے لیے جانے والے 11500 ارب روپے کے سامنے یہ کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتی۔ ان کے مطابق اگر لوگ پرائز بانڈز اپنے نام پر رجسٹرڈ نہیں کرانا چاہتے اور اب اپنی بچت کو ڈالروں میں لگانا چاہتے ہیں تو حکومت کو اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56876072", "summary": "معاشی ماہرین کے مطابق ادارہ شماریات کی جانب سے مہنگائی کی شرح کے تعین کے لیے اپنایا گیا ماڈل تو ٹھیک ہے تاہم اعداد و شمار کی حقیقت پر سوالیہ نشان موجود ہے۔", "title": "کیا پاکستان میں مہنگائی جانچنے کا نظام صحیح ہے؟", "firstPublished": "2021-04-25T12:44:18.000Z", "id": "4eeddac0-dc7c-4425-b9a0-800ff0acfd59", "article": "پاکستان میں معیشت کے شعبے کے ماہرین کے مطابق ادارہ شماریات کی جانب سے مہنگائی کی شرح کے تعین کے لیے اپنایا گیا ماڈل تو ٹھیک ہے تاہم اس کے اطلاق پر بہت سارے سوالات ہیں کہ ملک کے مختلف علاقوں سے اکٹھے کیے جانے والے اعداد و شمار میں کتنی حقیقت ہوتی ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات ملک میں معیشت کے مختلف شعبوں کے اعداد و شمار اکٹھا اور جاری کرتا ہے جس میں ملک میں مہنگائی کی شرح کا تعین بھی شامل ہے۔ ادارہ شماریات نے اس وقت 2016 میں ختم ہونے والے مالی سال کو بنیادی سال مقرر کیا ہوا ہے جس کی بنیاد پر وہ قیمتوں میں ردّ و بدل کا تعین کرتا ہے۔ ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کنزیومر پرائس انڈیکس یعنی ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح اس سال مارچ کے مہینے میں گذشتہ سال مارچ کے مہینے میں 9.1 فیصد رہی۔ شہری علاقوں میں اس انڈیکس کے مطابق مہنگائی کی شرح 8.7 فیصد رہی تو دیہاتی علاقوں میں اس کی شرح 9.5 فیصد رہی۔ اس مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں اس کی شرح 8.3 فیصد رہی۔ پاکستان میں ادارہ شماریات کی جانب سے مہنگائی کی شرح کے تعین کے نظام پر بات کرتے ہوئے ماہر معیشت ڈاکٹر عالیہ خان نے کہا کہ ادارے نے قیمتوں کے سروے کے لیے جو نظام اور طریقہ کار اپنایا ہوا ہے اس میں کوئی خامی نہیں ہے، تاہم اُنھوں نے کہا کہ کسی بھی سروے کی طرح اس سروے کے نتائج بھی 100 فیصد ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ تاہم اُن کے نزدیک یہ نظام بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کے 35 شہروں اور چند دیہاتی علاقوں سے اکٹھا کیا جانے والا ڈیٹا مہنگائی کی صحیح شرح کا تعین کر سکتا ہے تو اُنھوں نے کہا کہ ایک مارکیٹ سے دوسری مارکیٹ میں بھی قیمتوں میں فرق ہوتا ہے تاہم اس میں ایک اوسط قیمت نکال کر بتائی جاتی ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح کس سطح پر ہے۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ادارہ شماریات کی جانب سے پاکستان کے مختلف شہروں سے اکٹھے کیے جانے والے اعداد و شمار اور پاکستان میں مہنگائی کی مجموعی کیفیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس لحاظ سے صحیح نہیں ہے کہ اس میں بلوچستان کے اعداد و شمار صحیح طرح سے نہیں دکھائے جاتے۔ حکومتوں کی جانب سے مہنگائی کی شرح کے اعداد و شمار کو مبینہ طور پر اپنی مرضی کے مطابق تیار کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے شہباز رانا نے بتایا کہ ماضی کی حکومتوں میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ شرحِ نمو اور افراطِ زر کے اعداد و شمار کو حکومتوں نے اپنی مرضی کے مطابق جاری کیا جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-56870743", "summary": "بعض ماہرین کے مطابق اگر ڈیجیٹل یوان دنیا میں ڈالر کی تاریخی حاکمیت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو چین امریکی طاقت کو جھنجھوڑ سکتا ہے۔ تاہم چین نے ان خدشات کو دو کرنے کی کوشش کی ہے۔", "title": "امریکی ڈالر کو چینی ’ڈیجیٹل یوان‘ سے کیا خطرہ ہوسکتا ہے؟", "firstPublished": "2021-04-24T10:56:30.000Z", "id": "cd837c55-b606-4393-8ce9-a1644c0519f7", "article": "ماہرین کے مطابق ڈیجیٹل یوان امریکی طاقت کو جھنجھوڑ سکتا ہے اگر وہ برسوں سے دنیا میں ڈالر کی تاریخی حاکمیت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اور اگر چینی حکام اس کے قواعد مزید سخت کر دیں تو اس کے اجرا سے کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ میں بھی ہلچل پیدا ہو سکتی ہے۔ اس طرح ماہرین کو یقین ہے کہ ڈیجیٹل یوان چینی حکومت کو اپنی معیشت اور عوام کے پیسے کے لین دین کی نگرانی کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ بلومبرگ نیوز ویب سائٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اس کرنسی پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے کیونکہ کچھ عہدیداروں کو یہ تشویش لاحق ہے کہ یہ ڈیجیٹل یوان دنیا کے کچھ ممالک کے لیے ایک طویل مدتی پیشکش کے طور پر سامنے آ سکتا ہے اور دنیا میں ڈالر کے بطور ریزرو کرنسی پر غالب آ سکتا ہے۔ تاہم چین نے ان خدشات کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ چین کے سرکاری بینک کے ڈپٹی گورنر لی بو نے اتوار کو کہا ہے کہ 'اس ڈیجیٹل یوان کا مقصد امریکی ڈالر یا کسی بھی بین الاقوامی کرنسی کی جگہ لینا نہیں ہے۔' چین کی سرکاری بینک کے ڈپٹی سیکرٹری کا یہ بھی کہنا تھا کہ فی الوقت ڈیجیٹل یوان کے استعمال کی تحریک کی توجہ 'داخلی سطح' پر ہے البتہ انھوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ 'طویل مدت' میں اسے بین الاقوامی سطح پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 'حالیہ برسوں میں امریکی ڈالر پہلے ہی گراوٹ کا شکار ہے۔ اور جیسا کہ چین اس وقت ایک انتہائی اہم تجارتی ملک کی حثیت اختیار کر چکا ہے اور جو ملک اس کے ساتھ تجارت کریں گے وہ یہ سوچے گے کہ ڈیجیٹل یوان ان کے لیے سود مند ثابت ہوگا لہذا وہ اسے زیادہ سے زیادہ استعمال کریں گے۔' اس خطرے کی ایک وجہ جس کی وضاحت دی جاتی ہے وہ چین کی جانب سے دیگر کرپٹو کرنسیوں پر ممکنہ پابندیاں ہیں جو ڈیجیٹل کرنسی کے پلیٹ فارمز کو متاثر کر سکتی ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی زیر غور رکھنی چاہیے کہ چین نے ستمبر 2017 میں ملک میں ملازمین اور بینکنگ اداروں کو بٹ کوائن میں ٹرانزیکشن کرنے سے منع کیا تھا کیونکہ یہ اس کو فنڈز اکٹھا کرنے کا غیر قانونی طریقہ سمجھتے ہیں۔ تاہم اتوار کو چین کی سرکاری بینک کے ڈپٹی گورنر نے بٹ کوائن کو ایک 'متبادل سرمایہ کاری' قرار دیا۔ انھوں نے اپنے لہجے میں واضح تبدیلی لاتے ہوئے مزید یہ کہا کہ وہ اب بھی اس کی چھان بین کر رہے ہیں اور اس بات کا جائزہ لیاجا رہا ہے کہ اس کو ریگولیٹ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56790454", "summary": "تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں گاڑیوں کی طلب میں اضافے کی وجہ سے اس مالی سال کے پہلے نو ماہ میں گاڑیوں کی فروخت میں 37 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ لیکن حیران کن طور پر گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آ رہا ہے جب ملک میں معیشت کی حالت بہتر نہیں ہے اور مہنگائی کی بلند شرح کی وجہ سے عام افراد شدید متاثر ہیں۔", "title": "کیا پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ معیشت میں بہتری کی نشاندہی ہے؟", "firstPublished": "2021-04-18T07:56:12.000Z", "id": "9ef14da0-ef17-3b43-916f-30189af0efce", "article": "حیران کن طور پر گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آ رہا ہے جب ملک میں معیشت کی حالت بہتر نہیں ہے اور مہنگائی کی بلند شرح کی وجہ سے عام افراد شدید متاثر ہیں فیصل نے بتایا کہ اس سال ان کی گنے اور کیلے کی فصل اچھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے انھیں مالی طور پر بہت فائدہ ہوا ہے۔ فیصل کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایک گاڑی پہلے سے موجود تھی تاہم اس کا ماڈل پرانا ہونے کی وجہ سے انھوں نے اسے بدلنے کا سوچا۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں گاڑیوں کی طلب میں اضافے کی وجہ سے اس مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں گاڑیوں کی فروخت میں 37 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ لیکن حیران کن طور پر گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آ رہا ہے جب ملک میں معیشت کی حالت بہتر نہیں ہے اور مہنگائی کی بلند شرح کی وجہ سے عام افراد شدید متاثر ہیں۔ گاڑیوں کی فروخت میں اس قدر اضافہ اس لیے بھی حیران کن ہے کہ پاکستان میں اس وقت گاڑیاں خطے کے دیگر ممالک کی نسبت بہت مہنگی سمجھی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی فروخت میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں مل رہا ہے۔ معیشت، کاروبار اور گاڑیوں کے شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ معیشت کے ایک خاص شعبے میں ترقی کی نشاندہی تو کرتا ہے تاہم یہ معشیت کی مجموعی صورت حال کی عکاسی نہیں کرتا۔ پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کی تنظیم پاکستان آٹو میٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کاروں کی فروخت میں موجودہ مالی سال کے پہلے نو مہنیوں میں 37 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سٹاک مارکیٹ اور معیشت کے دوسرے شعبوں پر کام کرنے والے ادارے ٹاپ لائن کی ریسرچ کے مطابق لکی موٹرز (جو پاما کا رکن نہیں) اس کی کاروں کی فروخت میں بھی 46 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کراچی میں گاڑیوں کے ڈیلر اقبال شاہ نے بتایا کہ ان کے شو روم پر 90 فیصد گاڑیاں بینک فناننسگ کے ذریعے بک ہوتی ہیں اور شرح سود گرنے کی وجہ سے اس بکنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے کہا اگر گاڑیوں کی فروخت کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو تمام ماڈل اور رینج کی گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ماہر معیشت ڈاکٹر عالیہ خان کے مطابق گاڑیوں کی فروخت میں اضافے سے یہی لگتا ہے کہ ایک خاص طبقہ اس میں شامل ہے جبکہ عام آدمی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر گاڑیوں کی فروخت میں اضافے کو معیشت میں بہتری کی ایک نشانی قرار دیا ہے اور اس پر ان کا کہنا تھا کہ معیشت اپنے ٹریک پر واپس آچکی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-56782755", "summary": "کیا شوگر ملز ملک میں چینی 80 روپے فی کلو کے حساب سے فراہم کر رہی ہیں جن کی تخمینے کے مطابق اپنی پیداواری لاگت اس وقت 90 روپے فی کلو کے لگ بھگ آ رہی ہے؟", "title": "کیا واقعی رمضان میں چینی 80 روپے فی کلو میں مل رہی ہے؟", "firstPublished": "2021-04-17T05:49:14.000Z", "id": "37640a57-f0cb-4959-af8c-bf7ae39c5a6e", "article": "رمضان میں چینی کی قیمت کا 100 روپے اور اس سے تجاوز ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں شوگر ملز کو پابند کیا ہے کہ وہ رمضان کے مہینے میں 80 روپے فی کلو کے حساب سے چینی مارکیٹ میں سپلائی کریں اور پنجاب حکومت نے ریٹیل سطح پر اسے 85 روپے فی کلو پر بیچنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ مگر کیا شوگر ملز چینی 80 روپے فی کلو کے حساب سے فراہم کر رہی ہیں جن کے اپنے تخمینے کے مطابق چینی کی پیداواری لاگت اس وقت 90 روپے فی کلو کے لگ بھگ آ رہی ہے؟ عدالت کی مقرر کردہ قیمت کے بعد چینی دوبارہ 40 روپے فی کلو تک نہیں آسکی اور اب لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اس کی 80 روپے فی کلو فروخت کے احکامات پر چینی کے کاروبار سے وابستہ افراد کے مطابق اس پر عملدرآمد ممکن نہیں ہے۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سکندر خان نے بتایا کہ ملک میں اس کرشنگ سیزن میں چینی کی پیداوار 55 لاکھ ٹن سے زائد رہی۔ ان کے مطابق پیداوار کے یہ اعداد و شمار شوگر ایڈوائزری بورڈ کے جاری کردہ ہیں۔ کراچی کی ہول سیل مارکیٹ جوڑیا بازار میں چینی کے تاجر وسیم غفار کا کہنا ہے کہ انھیں 90 روپے فی کلو کے حساب سے چینی مل رہی ہے۔ اس میں لیبر، ٹرانسپورٹ اور ٹیکسوں کے اخراجات شامل کرکے ہول سیل میں اسے 93 سے 94 روپے فی کلو میں بیچا جا رہا ہے جو پرچون میں کہیں 98 اور کہیں 100 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ گنا تین سو سے چار سو روپے زائد کی قیمت پر خریدا گیا ہے جب کہ حکومت نے گنے کی امدادی قیمت دو سو روپے فی من مقرر کی تھی۔ شوگر ملوں کی جانب سے زیادہ گنا خرید کر اضافی پیداوار حاصل کر کے چینی کی قیمت بڑھانے کے خیال کو انھوں نے مسترد کیا اور اس بات سے انکار کیا کہ افواہوں کے ذریعے مصنوعی بحران پیدا کر کے مستقبل میں چینی کی زیادہ قیمت حاصل کرنے کی ساری باتیں بے بنیاد ہیں۔ اس بارے میں وحید ممین نے کہا اگر انڈیا سے چینی درآمد ہوتی تو وہ 70 روپے فی کلو میں ملک میں درآمد ہوتی جو اخراجات کے ساتھ 80 روپے فی کلو میں دستیاب ہو سکتی تھی تاہم حکومت نے یہ سمری مسترد کر دی ہے۔ عامر نوید نے بتایا کہ اس وقت پنجاب میں چینی کے چار مختلف نرخ چل رہے ہیں۔ پنجاب حکومت کے بچت بازار میں یہ 65 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے، یوٹیلٹی سٹور پر 67 روپے فی کلو جو حکومت رعایتی نرخوں پر انھیں فراہم کر رہی ہے، بڑے سٹوروں پر 85 روپے فی کلو اور اوپن مارکیٹ میں یعنی عام دکانوں پر یہ 100 روپے فی کلو سے بھی زیادہ پر بک رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-56782754", "summary": "اجرک پور میں آپ کا خوش آمدید ہے۔ انڈین ریاست گجرات کے بھوج شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دو دہائی پرانا یہ گاؤں اجرک کے کاروبار کے لیے مشہور ہے۔", "title": "انڈیا کا اجرک پور: جہاں آج بھی آباؤ اجداد کے اجرک کے کاروبار کو زندہ رکھا گیا ہے", "firstPublished": "2021-04-17T04:55:12.000Z", "id": "c7e6176c-59bd-40d4-94dc-07dc7fa20ac9", "article": "اجرک پور میں آپ کا خوش آمدید ہے۔ انڈین ریاست گجرات کے بھوج شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دو دہائی پرانا یہ گاؤں اجرک کے کاروبار کے لیے مشہور ہے۔ فی الحال ان کے گاؤں، جو کہ 2001 میں ایک شدید زلزلے کے بعد نئے سرے سے دوسری جگہ تعمیر کیا گیا تھا، میں کاروبار عروج پر ہے۔ کھتری بتاتے ہیں کہ 'ابھی ہمارے گاؤں میں 50 یونٹس ہیں اور ان میں سے 90 فیصد میں قدرتی ڈائی کا کام چل رہا ہے۔ اور تقریباً 500 لوگ ان کارخانوں میں کام کر رہے ہیں۔' اپنے پرانے گاؤں سے تقریباً 40 کلومیٹر دور انھیں آخرکار اپنے ہی ضلع کچھ میں ایک ایسی زمین ملی جسے اس کے مالکان بیچنے پر راضی تھے اور جو ان کے قبیلے والوں کے گھر اور کارخانے بنانے کے لیے کافی تھا۔ یہ کسی نہر یا ندی کے قریب نہیں تھی لیکن یہاں بورویل لگانے کے لیے زمین کے اندر پانی کی سطح بہتر تھی اور پانی صاف بھی تھا۔ کھتری بتاتے ہیں کہ 'فیصلوں کو جمہوری بنانے اور تنازعات سے گریز کرنے کے لیے ہم نے گاؤں میں 10 افراد کی ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں ہر قبیلے سے ایک شخص شامل تھا۔ ہم معاملات پر غور کرتے اور اگر وہ تنازعہ کا باعث بننے والا ہوتا تو پورے گاؤں کا ایک عام اجلاس طلب کرتے۔' نئے گاؤں کا نام گاؤں والوں کے کاروبار پر رکھا گیا۔ اجرک پور میں آپ کا خوش آمدید ہے! کھتری اب پانی کو ری سائیکل اور اس میں لوہے کی مقدار کم کرنے کے لیے پورے گاؤں کے لیے ایک 'کامن ایفلواینٹ ٹریٹمینٹ پلانٹ' لگا رہے ہیں۔ اس پروجیکٹ کے کنسلٹنٹ مہیشور شرما کہتے ہیں کہ یہ 'ایک دن میں 1.5 لاکھ لیٹر سے زیادہ پانی صاف کر سکتا ہے۔' وہ بتاتے ہیں کہ جہاں تک انھیں معلوم ہے، انڈیا میں اس طرح کا کوئی گاؤں نہیں ہے جہاں اس طرح کا پلانٹ لگا ہو۔ لیکن افسران کے ردعمل نے انھیں حیرت زدہ کر دیا۔ افسران یہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ ایک گاؤں میں انڈسٹریل ایفلوینٹ پلانٹ کیوں لگانا چاہتے ہیں۔ کھتری نے انھیں ماحولیاتی نظریے سے اپنے گاؤں کو بہتر بنانے کی کوشش کے بارے میں بتایا۔ 'جب انھوں نے یہ سنا تو کہا کہ بہت اچھا۔ آپ کا خیرمقدم ہے، خوش آمدید۔ آپ کی تجویز منظور کی جاتی ہے۔' آج اجرک پور خود کفیل ہے، ماحولیاتی نظریات سے اپنے کاروبار کو بہتر بنا رہا ہے، اور اپنی وراثت اور روایت کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن ایک علاقہ جہاں پانی کی شدید قلت ہے اور کسی بھی وقت زلزلہ آنے کا ڈر رہتا ہے، یہ خدشات مستقبل کو غیر یقینی بناتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56774794", "summary": "تجزیہ کاروں کے بقول شوکت ترین بطور ایک بزنس مین، بینکر اور سابق وزیر خزانہ زیادہ کار آمد ہوسکتے ہیں، جس عمر میں وہ ہیں لگتا بھی ہے کہ وہ سمجھوتہ نہیں کریں گے۔", "title": "وزارت خزانہ کا قلمدان: کیا شوکت ترین توقعات پر پورا اتریں گے؟", "firstPublished": "2021-04-16T21:44:53.000Z", "id": "21b98a7e-63f6-40f1-80e6-fa930d4fc33c", "article": "’اتفاق کی بات ہے کہ جو برا وقت تھا گذر گیا اور شوکت ترین ایک آئیڈیل ٹائم میں جب غیر ملکی ذخائر کھڑے ہوچکے ہیں، ترسیلات بہتر ہوچکی ہیں ایک بہترین صورتحال میں انہیں قلمدان ملا ہے اب آئی ایم ایف نے بھی شرح نمو چار فیصد کی بات کردی ہے اگر وہ اس شرح کو 6 فیصد تک لے کر جائیں گے تو بات بنے گی اگر یہ شرح چار سے ساڑھے چار فیصد آجاتی ہے تو وہ تو پہلے سے متعین ہے۔ تجزیہ نگار محمد سہیل کا کہنا ہے کہ شوکت ترین بطور ایک بزنس مین، بینکر اور سابق وزیر خزانہ زیاد کار آمد ہوسکتے ہیں، جس عمر میں وہ ہیں لگتا بھی ہے کہ وہ سمجھوتہ نہیں کریں گے ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ آئی ایم ایف کا جو بہت سخت پروگرام ہے اس میں رہتے ہوئے معشیت کو کیسے بحال کیا جائے؟ ماہر معاشیات، نجکاری اور حکومت کی ٹیکس اصلاحات کمیٹی کے سابق رکن اشفاق تولہ کا کہنا ہے کہ ’سابق وزیر اعظم شوکت عزیز معشیت بٹھاکر چلے گئے تھے اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو آئی ایم ایف کا ایک نقشہ ملا جس پر عمل پیرا کیا گیا۔ شوکت ترین جانتے ہیں اس پر عمل کرنے سے کیا تباہی ہوئی اگر وہ دوباہ اسی تصویر کو پینٹ کرتے ہیں تو تباہی مقدر بن سکتی ہے۔‘ ’آئی ایم ایف کو ہم نے دس بار پروگرام میں چھوڑا ہے اگر وزیر اعظم اور مشیر خزانہ کے درمیان یہ روڑے اٹکاتے ہیں تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو چھوڑ دیں، میری معلومات کے مطابق شوکت ترین کو یہ ٹاسک بھی دیا گیا کہ آئی ایم ایف کو بتائیں کہ ہم بجلی کی قیمتیں مزید نہیں بڑھا سکتے۔‘ تجزیہ نگار محمد سہیل کا کہنا ہے کہ ’حکومت کی اپنی جو اندر کی سیاست ہے یا جو بیورو کریسی کی سیاست ہے وہ سب سے زیادہ خطرناک ہے، اس حکومت میں جتنے وزرا اور مشیر تبدیل ہوئے اس میں ان کا خیال نہیں ہے کہ کوئی عوام کے دباؤ کا نتیجہ تھے کیونکہ عوام کا تو دباؤ ہر وقت ہوتا ہے اس کو مہنگائی کم چاہیے، اس طرح آئی ایم ایف کا بھی ایک دبدبا ہوتا ہے مگر اس کو بھی سنبھالا جاسکتا ہے۔ ’شوکت ترین کے لیے سب ایک چیلنج یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی حکومت یا حکومت کے اندر کی سیاست ہے وہ اس سے آزاد رہیں تو وہ ضرور ڈیلیور کرسکیں گے ورنہ ان کے لیے بھی مشکلات رہیں گی۔ بظاہر یہ ہی لگ رہا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ مہنگائی کو کم کیا جائے اور روزگار کا مواقع فراہم کیے جائیں کیونکہ دو سال رہے گئے ہیں انہیں اگلے الیکشن میں جانا ہے۔ ‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-56775710", "summary": "گذشتہ سال کی اسی سہ ماہی کے مقابلے میں 2021 کی پہلی سہ ماہی میں چین کی معیشت میں ریکارڈ 18.3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 1992 کے بعد سے جب سے چین نے سہ ماہی کے ریکارڈ رکھنا شروع کیے ہیں، مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں یہ سب سے بڑا اضافہ ہے۔", "title": "کووڈ کے بعد چین کی معیشت میں 18.3 فیصد کا ریکارڈ اضافہ", "firstPublished": "2021-04-16T14:15:05.000Z", "id": "9a132dd0-b8ff-4e1e-99ef-534d9148aab5", "article": "گذشتہ سال کی اسی سہ ماہی کے مقابلے میں 2021 کی پہلی سہ ماہی میں چین کی معیشت میں ریکارڈ 18.3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 1992 کے بعد سے جب سے چین نے سہ ماہی کے ریکارڈ رکھنا شروع کیے ہیں، مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں یہ سب سے بڑا اضافہ ہے۔ تاہم، جمعہ کے اعداد و شمار توقعات سے ابھی بھی کم ہیں، خبر رساں ادارے روئٹرز نے معاشی ماہرین سے بات کر کے ایک سروے کیا تھا جس میں ترقی کی شرح میں اضافے کی پیشنگوئی 19 فیصد کی گئی تھی۔ 2020 کی پہلی سہ ماہی میں چین کی معیشت کووڈ۔19 کی عالمی وبا کے عروج پر ملک گیر لاک ڈاؤن کی وجہ سے 6.8 فیصد گھٹ گئی تھی۔ چین کے نیشنل بیورو آف سٹیٹسٹکس (قومی شماریاتی ادارہ برائے اعداد و شمار)، جس نے پہلی سہ ماہی کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں، کہا ہے کہ ’قومی معیشت نے ایک اچھا آغاز کیا ہے۔‘ چین کے محکمہ شماریات کے جاری کردہ دیگر اہم اعداد و شمار بھی مستقل پیچھے کی طرف جانے کی نشاندہی کر رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ غیر معمولی طور پر مضبوط بھی ہیں کیونکہ ان کا موازنہ پچھلے سال کے انتہائی کمزور اعداد سے کیا جاتا ہے۔ یورپی اتحاد اور امریکہ کے رہنما بھی چین سے کہہ رہے ہیں کہ وہ غریب ممالک میں کوئلے سے چلنے والے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس کو فنڈ کرنا بند کر دے جو اس نے نام نہاد بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو کے طور پر شروع کیے ہیں۔ چین کے اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کے پرنسپل اکانومسٹ یو سو کے مطابق اگرچہ تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کی معاشی بحالی وسیع البنیاد ہے، پیداوار اور برآمد کی کچھ سرگرمی پہلی سہ ماہی تک ’فرنٹ لوڈڈ‘ ہو سکتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ آگے رفتار سست ہو سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ملکی معیشت کی حوصلہ افزائی کے اقدامات کی کمی کی وجہ سے باقی سارا سال شاید تجارتی کارکردگی اور ملکی صنعتی سرگرمیاں اس قدر مضبوط رفتار برقرار نہ رکھ پائیں۔‘ اس کے باوجود اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چین نے معاشی رفتار کو جاری رکھا ہے۔ آخری سہ ماہی کی ترقی کا اگر 2020 کی آخری سہ ماہی کے ساتھ موازنہ کریں تو چینی معیشت میں صرف 0.6 فیصد اضافہ ہوا۔ سال کے بدترین آغاز کے باوجود چین واحد بڑی معیشت ہے جس نے 2020 میں ترقی کی ہے، اگرچہ یہ کئی دہائیوں میں سب سے کم 2.3 فیصد ہے۔ چین نے گذشتہ سال ترقی کے اپنے ہدف کو ختم کرنے کے بعد 2021 کے لیے معاشی ترقی کا ہدف 6 فیصد مقرر کیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-56672134", "summary": "فوربز کے مطابق چین کا شہر بیجنگ امریکہ شہر نیو یارک کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سب سے زیادہ ارب پتی افراد کا گھر بن گیا ہے۔", "title": "دنیا میں ہر 17 گھنٹے بعد ایک نیا ارب پتی، بیجنگ ارب پتی افراد کی لسٹ میں سرِفہرست", "firstPublished": "2021-04-08T06:10:02.000Z", "id": "10312f31-1494-4384-a225-af822a008a73", "article": "بیجنگ میں گذشتہ برس 33 ارب پتی تھے جو اس بار 100 ہوگئے دنیا کے امیر ترین افراد سے متعلق فوربز کی سالانہ فہرست کے مطابق چین کا شہر بیجنگ امریکی شہر نیو یارک کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سب سے زیادہ ارب پتی افراد کا شہر بن گیا ہے۔ اس فہرست کے مطابق چین کے دارالحکومت بیجنگ میں رہنے والے 33 افراد گذشتہ برس ارب پتی افراد کی فہرست میں شامل ہوئے جس کے بعد یہاں رہنے والے ارب پتی افراد کی مجموعی تعداد 100 ہو گئی ہے۔ فوربز میگزین کے مطابق بیجنگ نے انتہائی کم فرق کے ساتھ نیویارک کو پیچھے چھوڑا۔ نیویارک میں رہنے والے ارب پتی افراد کی تعداد 99 ہے۔ نیویارک گذشتہ سات برس سے اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھا۔ ارب پتی افراد کی لسٹ میں سرِفہرست آنے کی وجہ چین کی جانب سے کووڈ 19 کی صورتحال پر فوری قابو پانے، ٹیکنالوجی کمپنیوں کی ترقی اور بازار حصص میں بہتری کو قرار دیا جا رہا ہے۔ اگرچہ بیجنگ شہر میں اب ارب پتی افراد کی تعداد زیادہ ہے تاہم نیویارک کے ارب پتیوں کی مجموعی دولت اب بھی چین کے ارب پتیوں سے زیادہ ہی ہے۔ بیجنگ کے امیر ترین شخص یانگ یمینگ ہیں جو ویڈیو شیئرنگ سائٹ ’ٹک ٹاک‘ کے بانی اور ’بائٹ ڈانس‘ کے چیف ایگزیکٹیو ہیں۔ ان کی دولت گذشتہ برس دگنی ہو کر تین ارب 65 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ جبکہ نیویارک کے امیر ترین شخص سابق میئر مائیکل بلومبرگ ہیں جن کے پاس موجود دولت کی مجموعی مالیت 59 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ ہر 17 گھنٹے میں ایک ارب پتی فوربز کے مطابق گذشتہ ایک سال کے دوران کم از کم 493 افراد ارب پتیوں کی فہرست میں شامل ہوئے ہیں یعنی اندازًا ہر 17 گھنٹے بعد ایک شخص ارب پتی بنا۔ ارب پتی افراد کے حوالے سے انڈیا تیسرا نمبر پر ہے جہاں 140 ارب پتی ہیں۔ ایشیا پیسیفک میں مجموعی طور پر 1149 ارب پتی افراد ہیں جن کی مجموعی دولت 4.7 کھرب ڈالر ہے جبکہ امریکی ارب پتیوں کی مجموعی دولت 4.4 کھرب ڈالر ہے۔ ایمازون کے چیف ایگزیکٹیو جیف بیزوس چوتھے برس بھی دنیا کے امیر ترین شخص ہیں جن کی مجموعی دولت میں گذشتہ برس 64 ارب ڈالرز کا اضافہ ہوا اور اب ان کے پاس موجود دولت کی مالیت 177 ارب ڈالر ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56671288", "summary": "پاکستان میں جہاں کورونا کی تیسری لہر کے مضر اثرات پر کاروباری طبقے میں تشویش پائی جاتی ہے تو وہیں قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کی وجہ سے معاشی بحالی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔", "title": "ایک اور لاک ڈاؤن پاکستانی معیشت کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے؟", "firstPublished": "2021-04-08T03:56:45.000Z", "id": "57c5641b-4792-46dc-8642-3b605441a68d", "article": "نوید پیرانی گذشتہ برس کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی طور پر متاثر ہونے کے بعد ملک میں کورونا کی تیسری لہر کی وجہ سے کسی نئے ممکنہ لاک ڈاؤن پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر ملک میں کورونا کی تیسری لہر کے سدباب کے لیے لاک ڈاؤن لگا تو معیشت میں گذشتہ چند مہینوں میں آنے والی تھوڑی بہت بہتری بھی ختم ہو جائے گی۔ اب جہاں کورونا کی تیسری لہر کے مضر اثرات پر تشویش پائی جاتی ہے تو وہیں قرض کے حصول کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط پر عمل درآمد کی وجہ سے معاشی بحالی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ورلڈ بینک نے تازہ ترین پاکستان ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ میں ملکی معیشت کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشی بحالی سست ہو گی جس کی وجہ ملک میں کورونا کیسز کی تازہ ترین لہر ہے۔ ورلڈ بینک نے معاشی بحالی میں سست روی کی ایک وجہ آئی ایم ایف پروگرام کو بھی قرار دیا ہے۔ ورلڈ بینک نے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت مالیاتی نظم و ضبط کی وجہ سے معیشت کی بحالی میں سست روی کی پیش گوئی کی ہے۔ اسی بنیاد پر عالمی بینک نے معاشی ترقی میں صرف 1.3 فیصد ترقی کا امکان ظاہر کیا ہے۔ کورونا وائرس کی تیسری لہر پر بھی ورلڈ بینک نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ نئے متاثرین سامنے آنے اور ویکسین کی فراہمی پر اٹھنے والے سوالات کی وجہ سے بھی معاشی بحالی سست رہے گی۔ پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر کی وجہ سے بڑھتے ہوئے متاثرین اور اس کے تدارک کے لیے ویکسین کی فراہمی کے موضوعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ورلڈ بینک نے اس کی وجہ سے معیشت کے لیے خطرات کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ کورونا کی تیسری لہر اس وقت ابھری ہے جب رمضان اور عید کے تہوار کی مناسبت سے ملک میں پیداواری شعبہ مصنوعات کی بڑی مقدار میں تیاری کرتا ہے تاہم کاروبار کے محدود اوقات کار اس پیداواری عمل کو متاثر کر رہے ہیں۔ انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں معیشت کے استاد صائم علی نے کہا کی دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی کورونا وائرس کی وجہ سے متاثر ہوا ہے اور ابھی معاشی سرگرمی کورونا وائرس کی وبا کے پھوٹنے سے پہلے کی سطح تک نہیں پہنچی تھی کہ ملک میں اس وائرس کی تیسری لہر نے معیشت اور کاروبار کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ ورلڈ بینک نے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے پروگرام کو معیشت کی بحالی میں سست روی کی وجہ قرار دیا ہے۔ اس بارے میں صائم علی نے بتایا کہ معیشت میں گروتھ کا مطلب ہے کہ کتنی مصنوعات کی پیداوار اور کتنی خدمات فراہم کی جا رہی ہیں اور ان پر کیا خرچ ہو رہا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56628136", "summary": "حکومتی فیصلوں کا راتوں رات تین سو ساٹھ ڈگری پر بدل جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ سے اب بہت کچھ پھسل چکا ہے۔ ایوب خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ادوار جیسے عالمی حالات نہیں رہ گئے۔ پڑھیے آمنہ مفتی کا کالم۔", "title": "آمنہ مفتی کا کالم: حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر!", "firstPublished": "2021-04-04T03:23:03.000Z", "id": "92daee62-b00e-42c7-83d2-1418a7bfa677", "article": "کچھ برس پہلے انڈیا جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں کے چند صنعت کاروں سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کی گفتگو سے جو تاثر ملا وہ یہ ہی تھا کہ وہ سب کے سب جی جان سے چاہتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان اچھے تعلقات ہوں اور ان تعلقات کے نتیجے میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت جاری ہو۔ تب مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ پاکستان چین کی منڈی ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے گا۔ جواب میں پاکستان چین کو کیا بیچے گا؟ اس کا جواب میرے پاس نہیں۔ ایسے جواب نہایت مشکل اعدادو شمار کی صورت میں سامنے آتے ہیں جنھیں سمجھنا میرے بس سے باہر ہے۔ اس واقعے کو سالہا سال ہو گئے۔ ابھی حال ہی میں جب اچانک انڈیا کے ساتھ تجارت شروع کرنے کا اعلان کیا گیا اور پھر فوراً ہی فیصلہ بدل دیا گیا تو مجھے یہ بات یاد آئی اور پھر اچانک یہ بات کھلی کہ کون ہے جو اچانک انڈیا کے ساتھ تجارت کو بے قرار ہو جاتا ہے اور کون ہے جو فوراً یوٹرن لے لیتا ہے۔ اب ایک طرف انڈیا ہے اور دوسری طرف چین۔ امریکہ افغانستان سے جا رہا ہے اور طالبان کی طرف اس کا جو رویہ ہے اس سے صاف نظر آتا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد کیا ہو گا۔ ایران سے سینگ اڑانے کا فی الحال امریکہ کا موڈ نظر نہیں آتا تو لے دے کے بچتا ہے چین۔ امریکہ کا مدمقابل، ایک نئی اقتصادی قوت جس سے امریکہ جو کہ فی الحال واحد سپر پاور ہے شدید خائف ہے۔ اس ساری دو جمع دو چار کا نتیجہ جو نظر آرہا ہے وہ یہی ہے کہ پاکستان کے امریکی و بین الاقوامی امدادوں پر پلنے کے دن ختم ہو گئے۔ اب رہ گیا پاکستان تو سعودی عرب اور امریکہ کی لازوال جوڑی سے جو کچھ کشید کر سکتا تھا اب تک کشید کرتا آیا ہے، وہ مال کہاں گیا؟ گھی کہاں گیا، کھچڑی کہاں گئی؟ پیاروں کے پیٹ میں کے مصداق ،مال غائب ہو گیا۔ پیاروں کے حلق میں ہاتھ کون ڈال سکا ہے؟ کاٹھ کی جو ہنڈیا یہاں پچھلے چوہتر برس سے چڑھی ہوئی تھی اب اس کا وقت پورا ہو گیا ہے۔ آنکھیں کھولنے اور سوچ سمجھ کے چلنے کی ضرورت ہے ورنہ اسی دنیا کے نقشے پر ایسے ملک بھی موجود ہیں جن کا نام صرف ان کی بدحالی کی وجہ سے یاد رہتا ہے۔ حکومتی فیصلوں کا راتوں رات تین سو ساٹھ ڈگری پر بدل جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ سے اب بہت کچھ پھسل چکا ہے۔ ایوب خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ادوار جیسے عالمی حالات نہیں رہ گئے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56589268", "summary": "پاکستان کہ وفاقی کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے انڈیا سے کپاس اور چینی درآمد کرنے کی سفارش پر فیصلہ موخر کرتے ہوئے ہمسایہ ملک سے تجارتی تعلقات فی الحال بحال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔", "title": "چینی،کپاس کی درآمد: پاکستان کے انڈیا سے تجارتی تعلقات کی بحالی کا فیصلہ موخر", "firstPublished": "2021-03-31T09:51:32.000Z", "id": "0e3e38d8-8e74-467c-95f8-33a03ef0a4d4", "article": "پاکستان کی وفاقی کابینہ نے انڈیا سے کپاس اور چینی درآمد کرنے کے سفارش پر فیصلہ موخر کرتے ہوئے ہمسایہ ملک سے تجارتی تعلقات فی الحال بحال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خیال رہے کہ بدھ کو وزیرِ خزانہ حماد اظہر کی سربراہی میں ہونے والے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں انڈیا سے پانچ لاکھ ٹن چینی کے علاوہ کپاس اور دھاگہ درآمد کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ جمعرات کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کابینہ نے قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے انڈیا سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کی تجویز کو موخر کر دیا۔ خیال رہے کہ وزیر اعظم نے وزارت تجارت کی سمری خود دیکھ کر اسے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کی منظوری دی تھی مگر کابینہ میں اس معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ بدھ کو قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر نے کہا تھا کہ ملک میں چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے دنیا بھر سے چینی درآمد کرنے کی بات کی گئی لیکن اس دوران معلومات ملیں کہ انڈیا میں چینی کی قیمت پاکستان کے مقابلے میں بہت کم ہے اس لیے انڈیا سے پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ملک میں چینی کی سالانہ پیداوار 55 سے 60 لاکھ ٹن ہے جو کہ ملکی ضرورت کو فی الحال پورا نہیں کر رہی۔ حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ملک کی ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی بیرون ملک مانگ کی وجہ سے پاکستان میں کپاس کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس بار ملک میں کپاس کی پیداوار تسلی بخش نہیں ہوئی۔ وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بڑی صنعتیں مصر اور دنیا کے دوسرے ملکوں سے کپاس درآمد کر سکتی ہیں لیکن چھوٹی صنعتیں اس کی متحمل نہیں ہو سکتیں اسی وجہ سے انڈیا سے کپاس اور دھاگہ درآمد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ دوسری جانب ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا سب سے اہم اور بنیادی خام مال کپاس ہے اور اس شعبے کو ایک کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ گانٹھوں کی ضرورت رہتی ہے تاکہ وہ اس سے اشیا بنا کر انھیں برآمد کر سکے۔ اس شعبے کو ہر سال کپاس درآمد کرنی پڑتی ہے تاہم اس سال فصل میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے یہ مشکلات کا شکار ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت کا سلسلہ پانچ اگست 2019 کو انڈیا کی جانب سے کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیل کرنے کے بعد سے معطل ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر اس کشیدگی سے قبل پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارتی عمل جاری تھا۔ دونوں ممالک دو زمینی راستوں یعنی لاہور میں واہگہ اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ذریعے اشیا کی تجارت کرتے رہے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-56602872", "summary": "بہرحال نہر سوئز کو عالمی معیشت کے لیے انتہائی اہم آبی گزرگاہوں کی اس فہرست میں خاصی اہمیت حاصل ہے۔ بی بی سی منڈو کی جانب سے ایسی بحری گزرگاہوں کی فہرست تیار کی ہے جو تجارت کے لیے انتہائی اہم ہیں۔", "title": "نہر سوئز کے علاوہ تجارت کے لیے دنیا کے اہم بحری راستے کون سے ہیں؟", "firstPublished": "2021-04-01T10:12:31.000Z", "id": "6cd49dee-b302-4420-b795-4fea0af8e891", "article": "جہاں یہ بات درست ہے کہ اس بحری گزرگاہ کا عالمی تجارت میں ایک انتہائی اہم کردار ہے لیکن یہ ایسی اکیلی گزرگاہ نہیں ہے۔ چین بھی ایسی ہی ایک گزرگاہ میں دیگر طاقتوں کے سیاسی اثرورسوخ کے باعث پاکستان کا رخ کر چکا ہے۔ یہ عالمی تجارت کا تقریباً 12 فیصد بنتا ہے اور یہ عالمی معیشت کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ جن اشیا کی تجارت اس نہر کے ذریعے کی جاتی ہے ان میں نمایاں تیل ہے۔ سوئز کینال اتھارٹی کے اندازے کے مطابق یہاں سے خام تیل کے تقریباً 20 لاکھ بیرل یومیہ گزرتے ہیں۔ ہسپانوی بحری انجینیئر اور میریٹائم ٹریفک کے ماہر ہورہے پلا پیرالونسو نے بی بی سی منڈو کوبتایا کہ 'یہ گزرگاہ یورپ تک اشیا کی فراہمی کے لیے انتہائی اہم ہے۔' اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اگر نہر سوئز کی گزرگاہ نہ ہوتی تو ایشیا پیسیفک، بحیرہ ہند، بحیرہ عرب اور یورپ کے درمیان ہونے والے مال بردار بحری جہازوں کو براعظم سے گزرنا پڑتا جس سے نہ صرف قیمتوں میں اضافہ ہوتا بلکہ آمدورفت کا وقت بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک متبادل راستہ 'کیپ آف گڈ ہوپ' سے ہو کر گزرتا ہے جو بحری حادثوں کے باعث مقبول ہے اور یہاں سے نہر سوئز کے مقابلے میں نو دن زیادہ لگ جاتے ہیں۔ یہ نہر مصر کی آمدنی کا ایک انتہائی اہم ذریعہ ہے۔ موڈیز انویسٹر سروس کی جانب سے کیے گئے تجزیے کے مطابق عالمی وبا سے قبل جتنی بھی آمد و رفت یہاں سے ہوتی تھی وہ مجموعی ملکی پیداوار کا دو فیصد بنتا ہے۔ اس نہر کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ یہاں سے تقریباً 144 سمندری راستہ نکلتے ہیں جو 160 ممالک کو ایک دوسرے سے ملاتے ہیں اور ایک ہزار سات سو بندرگاہوں کے درمیان سامان کی تجارت ہوتی ہے۔ ہورہے پلا پیرالونسو کے مطابق یہ پانامہ کے لیے آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ یہ امریکہ سے آنے والے بحری جہازوں کے لیے ایک انتہائی اہم گزرگاہ ہے جو انھیں مشرق سے مغرب آنے والی ٹریفک سے بچ کر آمد ورفت کی ایک مختلف گزرگاہ فراہم کرتا ہے۔ یہ لاطینی امریکہ کے لیے بہت اہم۔ نہر کا انچارج ادارہ آپریشن کو رواں رکھنے کے لیے مختلف اقدامات پر کام کر رہا ہے جس میں یہاں سے گزرنے والے جہازوں کی تعداد کو کم کرنا بھی شامل ہے۔ اگرچہ اس نہر میں نقل و حمل کے بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں لیکن امریکہ کے انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن (ای آئی اے) کے مطابق عالمی تیل کی تجارت کا پانچواں حصہ یہاں سے گزرتا ہے۔ یہ دراصل 'نیوسلک روڈ' کا ایک حصہ ہے جو دونوں ممالک آنے والے سالوں میں مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا مقصد چین کے مغربی خطے کو پاکستان کے ذریعے بحیرہ عرب اور بحیرہ ہند سے جوڑنا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-56552826", "summary": "سنہ 1971 کے فوراً بعد بنگلہ دیش متعدد مشکلات کا شکار تھا اور اسے ’باسکٹ کیس‘ (بحران سے دوچار ملک) کہا جاتا تھا، لیکن آزادی کے ٹھیک 50 سال بعد اب بنگلہ دیش کو ایک معاشی کامیابی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تو اس سارے میں ایسا کیا بدلا اور یہ تبدیلی کیسے ممکن ہوئی؟", "title": "خوراک کی قلت کا شکار بنگلہ دیش خود کفیل کیسے بنا؟", "firstPublished": "2021-03-29T04:17:40.000Z", "id": "0e7b23b7-a81e-4fc2-97f1-33abb1393448", "article": "جب سنہ 1971 میں بنگلہ دیش وجود میں آیا تو دنیا بھر میں اسے ایک ایسے ملک کے طور پر جانا جاتا تھا جو قدرتی آفات میں گھرا ہوا ہے اور اس کی معیشت انتہائی نازک ہے۔ زیادہ آبادی، کم شرحِ خواندگی، شدید غربت، تھوڑے سے قدرتی وسائل اور نہ ہونے کے برابر صنعتیں ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے ذہن میں سوال یہ تھا کہ کیا بنگلہ دیش ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم رہ بھی پائے گا یا نہیں۔ مگر آج آزادی کے ٹھیک 50 سال بعد اس ملک کو ایک معاشی کامیابی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تو اس سارے میں ایسا کیا بدلا اور یہ تبدیلی کیسے ممکن ہوئی؟ آج بنگلہ دیش خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہے۔ یہ اس سے بہت مختلف ہے جب آزادی کے وقت بنگلہ دیش میں خوراک کی قلت ہونا عام بات تھی اور یہاں تک کے سنہ 1974 کے قحط میں دس لاکھ افراد مارے گئے تھے۔ ایک ایسا ملک جسے ایک وقت پر 'باسکٹ کیس' کہا جا رہا تھا اس وقت کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2035 تک دنیا کی 25ویں بڑی معیشت بن جائے گا۔ یہ ملک ترقی پزیر ملک سے ترقی کی راہ پر گامزن ملک بن چکا ہے۔ سنہ 1975 میں اقوامِ متحدہ نے بنگلہ دیش کو کم ترقی یافتہ ترین ممالک کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ ترقی کی راہ پر گامزن ملک قرار پانے کے لیے تین شرائط ہوتی ہیں۔ سنہ 2018 میں بنگلہ دیش نے پہلی مرتبہ یہ تینوں شرائط پوری کیں اور سنہ 2021 میں بنگلہ دیش نے ایک مرتبہ پھر یہ شرائط پوری کی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے معاشی و سماجی امور کے مطابق اگر کوئی ملک ہر تین سال بعد ہونے والے اس جائزے میں دو برابر متواتر یہ شرائط پوری کر پاتا ہے تو اس کم ترین ترقی یافتہ ممالک سے نکال کر ان ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا جاتا ہے جو کہ ترقی کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے بارے میں درجہ بندی میں اس تبدیلی کی تجویز بھیجی جا چکی ہے تاہم ابھی سرکاری اعلان ہونا باقی ہے۔ بنیادی طور پر بنگلہ دیش میں معاشی ترقی لاکھوں لوگوں کے مارجنل سطح پر روزگار لگا ہونا اور پیداوار اور برآمدات میں بہتری کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ابتدا میں زرعی شعبے نے اس میں اہم کردار ادا کیا مگر 1980 کی دہائی کے بعد سے انڈسٹری نے اہم جگہ لے لی ہے۔ بنگلہ دیش کی انسانی ترقی میں بہتری اور مستحکم معاشی ترقی اس طرح ہوئی ہے کہ ایک ایسا ملک جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ بیرونی قرضے کے بغیر چل نہیں سکے گا، آج پدما دریا پر تین ارب ڈالر کا ایک پل اپنے وسائل سے بنا رہا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56491547", "summary": "مالیاتی امور کے ماہرین کے مطابق ان اکاؤنٹس کے ذریعے آنے والے سرمایے کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا ملا ہے، جو ڈالر اور روپے کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں بھی مدد فراہم کرے گا۔", "title": "روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس سے آنے والا سرمایہ پاکستان کی معیشت کے لیے کتنا مفید ہے؟", "firstPublished": "2021-03-28T03:54:23.000Z", "id": "cf27b374-b3ef-47c2-981a-c24d36620bd4", "article": "اس سکیم کے اجرا سے لے کر اب تک ایک لاکھ اکاونٹس کھلنے کو مالیاتی امور کے ماہر ایک اچھی پیشرفت قرار دے رہے ہیں تاہم ان کے نزدیک بیرون ملک پاکستانیوں کے مقابلے میں یہ تعداد ابھی بہت کم ہے اور جیسے جیسے آگاہی بڑھتی جائے گی ان اکاونٹس کے کھلنے کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ ان بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے روشن ڈیجیٹل اکاونٹس کے ذریعے بھیجی جانے والی 67 کروڑ ڈالر سے زائد کی رقم ایک ایسے وقت میں بھیجی گئی ہے جب ان کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر بھی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے جو ہر مہینے دو ارب ڈالر سے زائد رہنے کی وجہ سے اس مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں 18 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں اور اس مالی سال کے اختتام تک تاریخ کی بلند ترین سطح 28 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ سٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر نے بتایا کہ ’اس سکیم کے تحت کھولنے والے بینک اکاونٹس کے دو مقاصد ہوتے ہیں: ایک تو ان اکاونٹس میں آنے والی رقم کو آپ خرچ کر سکتے ہیں جیسے کہ آپ نے بل وغیرہ ادا کرنے ہوں اور اس کا دوسرا مقصد سرمایہ کاری کا ہو سکتا ہے کہ ان اکاونٹس میں آنے والی رقم کو کاروبار میں لگا دیا جائے جن میں ’نیا پاکستان سرٹیفکیٹس‘ کے ذریعے حکومتی سیکورٹیز میں سرمایہ کاری کے ساتھ سٹاک مارکیٹ اور رئیل اسٹیٹ میں پیسہ لگانا بھی شامل ہے۔‘ انھوں نے کہا ’اسی طرح ان اکاونٹس کے ذریعے بیرون ملک پاکستانیوں کو اسلامی قوانین سے مطابقت رکھنے والی سرمایہ کاری کی پراڈکٹس میں پیسہ لگانے کا موقع بھی مل رہا ہے جس کی وجہ سے یہاں سرمایہ زیادہ آ رہا ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ اس سکیم کے تحت بیرون ملک پاکستانیوں کو موقع ملا ہے کہ وہ ملکی معیشت میں حصہ ڈالیں اور اس کی بہتری کے ساتھ اپنا منافع بھی سمیٹیں۔ اقرا ندیم کہتی ہیں کہ اس سرمایے کے آنے کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا ملا ہے جو ڈالر اور روپے کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں مدد فراہم کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ ان اکاونٹس کے ذریعے آنے والی رقم کا سب سے بڑا فائدہ ہے یہ ہے کہ یہ ڈالر ملک میں قرضے کی صورت میں نہیں آ رہے کہ جنھیں ہمیں واپس کرنا پڑے۔ یہ ڈالر ملک کا اثاثہ ہیں جو بغیر شرائط کے پاکستان میں آ رہے ہیں۔‘ یاد رہے کہ پاکستان کو غیر ملکی ادائیگیوں میں عدم توازن کا مسئلہ درپیش ہے اور اسے غیر ملکی قرضوں کی واپسی کے ساتھ درآمدات کے لیے ڈالرز کی ضرورت رہتی ہے جو ملک کی برآمدات اور بیرون سرمایہ کاری کم ہونے کی وجہ سے وقتاً فوقتاً ایک بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-56542603", "summary": "مصر کی نہر سوئز کی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ وہ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ جہاز کو دوبارہ گہرے پانی میں لے جایا جائے اور اس کے لیے جہازوں کو کھینچنے والی کشتیاں، ڈریجرز اور بھاری مشینری کا استعمال کیا جا رہا ہے۔", "title": "سوئز نہر بند ہونے سے آپ کی جیب کیسے متاثر ہو سکتی ہے؟", "firstPublished": "2021-03-27T07:53:26.000Z", "id": "3ac75562-00a2-4c1a-8bd6-97a108b7cbff", "article": "’ایور گرین‘ نامی مال بردار بحری جہاز تائیوان سے تعلق رکھنے والی ’ایور گرین‘ نامی کمپنی کی ملکیت ہے اور اس کی لمبائی فٹبال کے چار میدانوں کے برابر ہے اور اس کا شمار دنیا کے سب سے بڑے کنٹینر بردار جہازوں میں ہوتا ہے۔ دو لاکھ ٹن وزنی اس مال بردار جہاز پر 20 ہزار کنٹینر لادے جا سکتے ہیں۔ بین الاقوامی جہاز رانی کے چیمبر کے سیکریٹری جنرل گائے پلیٹن نے بی بی سی کے 'ٹوڈے پروگرام' میں بتایا کہ ایسی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ بین الاقوامی جہاز راں کمپنیوں نے اپنے مال بردار جہازوں کو افریقہ کی طرف موڑنا شروع کر دیا ہے اور وہ جنوبی افریقہ کے ساحل کیپ آف گڈ ہوپ کا چکر کاٹ کر یورپ پہنچیں گے جس سے ان کے سفر میں ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کا اضافہ ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ جہاز ٹھوس زمین پر پھنس گیا ہے جس کی وجہ سے اس کو نکالنے میں زیادہ وقت لگ رہا ہے اور یہ ایک پیچیدہ اور بہت محنت طلب کام ہے۔ پلیٹن نے کہا کہ اس حادثے کا مال کی ترسیل کے نظام پر شدید اثر پڑے گا اور اس کی قیمت صارفین کو برداشت کرنی پڑے گی۔ جہاز رانی کے بارے میں ایک مشاورتی کمپنی چلانے والے جون مونرو کا کہنا ہے ’ہم کیا سوچ رہے ہیں؟ کیا جہاز بہت بڑے ہو گئے ہیں؟ جو کنٹینر ان جہازوں پر لادے جاتے ہیں ان کی ترسیل میں زیادہ وقت لگ جاتا ہے اور بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے کے لیے جہازوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں۔‘ اس کے علاوہ روز مرہ کے استعمال کی اشیا سے لدے ہزاروں کنٹینروں کی ترسیل میں تاخیر کے علاوہ پھنسے ہوئے بحری جہاز کی وجہ سے بہت سے تجارت اور برآمدات کے لیے درکار خالی کنٹینروں کی دستیابی میں بھی خلل پڑ رہا ہے۔ اگر اس تاخیر کی مدت زیادہ نہ ہوئی تو زیادہ تر کمپنیاں ضائع ہونے والے وقت کا ازالہ کر لیں گی لیکن بحری جہاز کو نکالنے کے کام سے متعلق حکام کا کہنا ہے کہ اس رش کو ختم کرنے میں کئی دن اور کئی ہفتے لگ سکتے ہیں جس سے عالمی سپلائی کو دھچکا لگے گا جو پہلے ہی کووڈ 19 سے دباؤ کو شکار ہے۔ کچھ کمپنیاں اس بات پر غور کر رہی ہیں کہ قیمتی اشیا کو فضائی راستے یا ٹرینوں کے ذریعے پہنچایا جائے۔ دو بڑی جہاز ران کمپنیوں مرسک اور ہیپیگ لائڈ کا کہنا ہے کہ وہ نہر سوئز کا متبادل راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مصر کی نہر سوئز کی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ وہ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ جہاز کو دوبارہ گہرے پانی میں لے جایا جائے اور اس کے لیے جہازوں کو کھینچنے والی کشتیاں، ڈریجرز اور بھاری مشینری استمعال کی جا رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56546909", "summary": "نوے کی دہائی میں ہونے والی ترامیم کے تحت سٹیٹ بینک کو خود مختاری حاصل ہے تاہم آئی ایم ایف شرائط کے تحت تازہ ترین ترامیم اسے بہت زیادہ خود مختار بنا دیں گی اور ماہرین معیشت کے مطابق اب پاکستان کا مرکزی بینک کسی حکومتی ادارے کو اپنی پالییسوں کے لیے جوابدہ نہیں ہو گا۔", "title": "سٹیٹ بینک کی زیادہ خود مختاری پاکستان کی معاشی ترقی پر کیسے اثرانداز ہو گی؟", "firstPublished": "2021-03-27T03:44:11.000Z", "id": "5331a7ce-bf4f-4fff-9b5e-a7a97d273486", "article": "بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی پاکستان کو قرض دینے کی شرائط کے تحت حکومت سٹیٹ بینک آف پاکستان کو زیادہ خود مختاری دینے جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے سٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956 میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں جن کے تحت سٹیٹ بینک زیادہ خود مختار ادارہ بن جائے گا۔ اگرچہ نوے کی دہائی میں ہونے والی ترامیم کے تحت سٹیٹ بینک کو خود مختاری حاصل ہے تاہم تازہ ترین ترامیم اسے بہت زیادہ خود مختار بنا دیں گی اور ماہرین معیشت کے مطابق اب مرکزی بینک کسی حکومتی ادارے کو اپنی پالییسوں کے لیے جوابدہ نہیں ہو گا۔ سٹیٹ بینک کی زیادہ خود مختاری کی ترامیم کے تحت اب اس کا پہلا کردار ملک میں داخلی طور پر قیمتوں میں استحکام لانا ہے یعنی مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے۔ دوسرا کردار مالیاتی استحکام ہو گا یعنی ایکسچینچ ریٹ کا استحکام جبکہ تیسرے نمبر پر حکومت کی معاشی ترقی کی کوششوں میں مدد دینا ہے۔ سٹیٹ بینک کے قانون میں تحت ملک کی زری (مانیٹری) اور مالیاتی (فسکل) پالیسیوں کو مربوط رکھنے کے لیے ایک کوآررڈینیشن بورڈ ہوتا ہے تاہم ترامیم کے تحت اب گورنر سٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ باہمی رابطے سے یہ کام کریں گے۔ وفاقی سیکرٹری خزانہ مجوزہ ترامیم کے مطابق سٹیٹ بینک کے بورڈ کا رکن نہیں ہو گا۔ گورنر سٹیٹ بینک کی مدت ملازمت تین سال کی بجائے پانچ سال ہو گی اور مجوزہ قانون میں تین برس کی توسییع کی بجائے پانچ سال توسیع کی تجویز دی گئی ہے۔ موجودہ قانون میں صدر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ذمہ داریاں نہ نبھانے پر گورنر کو اس کے عہدے سے ہٹا سکتا ہے تاہم مجوزہ ترمیم کے تحت صدر بہت ہی سنگین غلطی پر، جس کا فیصلہ عدالت کر ے گی، گورنر کو ہٹا سکتا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت دیہی علاقوں، صنعتی شعبوں، ہاوسنگ اور دوسرے شعبوں کے لیے سٹیٹ بینک کا قرض دینا لازمی ہے تاہم ترامیم کے تحت اب حکومت کی جانب سے ایسے شعبوں کے لیے قرض کی فراہم کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت سٹیٹ بینک کے قانون میں ترامیم کر کے اسے خود مختار بنا کر معیشت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ حکومت پنجاب کے منصوبہ بندی، ترقی اور اقتصادی امور کے مشیر ڈاکٹر سلمان شاہ نے سٹیٹ بینک کے قانون میں ترامیم کر کے اسے خود مختاری دینے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف شرائط کی وجہ سے یہ ترامیم متنازعہ بنائی جا رہی ہیں ورنہ ان ترامیم میں ایسی کوئی قباحت نہیں جس پر شور مچایا جائے۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے خود مختاری کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ جیسے سٹیٹ بینک اگلے سو سال کے لیے آئی ایم ایف کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-56540799", "summary": "اگر کسی ملک میں شرح سود کم ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بچت کرنے کا سب سے برا وقت ہے۔ اس لیے لوگوں اور کمپنیوں سے زیادہ خرچ کرانے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ سود کی شرح کم کر دی جائے۔ چند ممالک ایسے ہیں جہاں بینک منفی شرح سود پر قرض دیتے ہیں۔", "title": "لوگوں سے پیسے خرچ کروانے کے لیے بعض حکومتیں کیا کر رہی ہیں", "firstPublished": "2021-03-26T14:37:22.000Z", "id": "34949f84-e8cf-4e51-bf15-117fde6e0977", "article": "اگر کسی ملک میں شرح سود کم ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بچت کرنے کا سب سے برا وقت ہے۔ اس لیے لوگوں اور کمپنیوں سے زیادہ خرچ کروانے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ سود کی شرح کم کر دی جائے۔ 2008 کی کساد بازاری کے بعد متعدد ممالک نے شرح سود میں ریکارڈ کمی کی اور 'سستے پیسے' کے دور میں داخل ہو گئے۔ چند ممالک نے تو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے شرح سود منفی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب کووڈ نائنٹین کے سبب جب دنیا بھر کی معیشتیں مشکلات سے دو چار ہیں، تو امریکہ اور یوروپ میں بیاج کی شرح صفر ہے۔ ابھی بھی کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں صفر سے بھی کم شرح سود ہے جیسے ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ اور جاپان۔ جاپان نے اپنی شرح سود مائنس 0.1 فیصد رکھی ہے اور وہ اگلے چند برسوں تک اس میں تبدیلی لانے کے بارے میں غور بھی نہیں کر رہا ہے۔ جاپان میں معاشی پالیسیوں کے لیے ذمہ دار ادارے کے سربراہ، بینک آف جاپان کے گورنر ہاروہیکو کوروڈا نے چند ہفتے قبل کہا تھا کہ شرح سود 'کافی کم رہے گی' تاکہ معیشت کو وباء کے منفی اثرات سے محفوظ رکھا جا سکے۔ 2013 میں سینٹرل بینک کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد کوروڈا نے اشیاء اور خدمات کے گرتے ہوئے داموں سے نمٹنے کے لیے بانڈ خریدنے کے بڑے پروگرام کا اعلان کیا۔ اسے 'کوروڈاز بزوکا' کہا جانے لگا۔ لیکن جب امید کے مطابق نتائج حاصل نہیں ہوئے تو سنٹرل بینک نے شرح سود کو مائنس 0.1 فیصد کرنے کا اس سے بھی بڑا فیصلہ کیا۔ اس کا مقصد تھا کمرشل بینکوں کو اپنے ریزرو کا استعمال کر کے قرض دینے پر مجبور کرنا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قرض ملے اور معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر لایا جا سکے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ گورنر نے ایک مختلف قسم کی کوشش تو کی ہے، لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وباء سے قبل بھی بینک مجوزہ 2 فیصد افراط زر کے ٹارگٹ کو پورا کرنے میں ناکام رہے تھے۔ دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ معاشی نتائج بہت معقول ہیں۔ پیٹرسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کے ایک محقق تاکیشی تشیرو کہتے ہیں 'گذشتہ ایک دہائی میں جاپان میانہ روی سے معاشی بہتری کی جانب بڑھا ہے۔' حال کے چند برسوں میں جاپانی نظام زر کی پالیسی کے تجربے پر معاشی امور کے ماہر پال شیئرڈ بتاتے ہیں کہ جاپان میں کم شرح سود کی مدت کے دوران حکومت نے ملک کے مالی استحکام کو بڑھاوا دیا ہے اور مختلف مدتوں میں اس سے متعلق پالیسیوں کو سخت بھی کیا ہے۔ فی الحال ملک کو ایک وباء کے درمیان کھپت اور سرمایہ کاری کو بڑھانے کی کوششیں جاری رکھنی ہوں گی۔ وہ بھی کم عمر آبادی میں ہونے والی کمی کے ساتھ۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56534341", "summary": "ماہرین معیشت کے مطابق آنے والے دنوں میں اس مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سٹیٹ بینک شرح سود میں اضافہ کر سکتا ہے جو ملکی معاشی پیداوار کو بری طرح متاثر کرے گا اور مصنوعات کو مہنگا کرے گا۔", "title": "آئی ایم ایف شرائط کے تحت قرض، پاکستان میں عام آدمی کو کیسے متاثر کرے گا؟", "firstPublished": "2021-03-26T08:29:23.000Z", "id": "dd918b71-56e0-44e1-9cc7-0e16b7ff1846", "article": "بجلی کے بلوں میں یہ اضافہ ملک میں مہنگائی کی شرح کو بھی بڑھا رہا ہے اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی پاکستان کے لیے پچاس کروڑ ڈالر کی قسط جاری کرنے کی منظوری کے بعد یہ مزید بڑھ سکتی ہے کیونکہ اس قسط کے لیے حکومت نے جن شرائط پر رضامندی ظاہر کی ہے وہ معاشی ماہرین کے نزدیک بہت سخت ہیں۔ ماہرین معیشت کے مطابق آنے والے دنوں میں اس مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سٹیٹ بینک شرح سود میں اضافہ کر سکتا ہے جو ملکی معاشی پیداوار کو بری طرح متاثر کرے گا اور مصنوعات کو مہنگا کرے گا۔ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور ماضی میں آئی ایم ایف سے معاہدوں کی ٹیم کا حصہ رہنے والے ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ موجودہ پروگرام کی بحالی کے لیے شرائط میں سب سے بڑی پریشانی بجلی کے نرخوں میں بے تحاشا اضافے پر پاکستان کا رضامند ہونا ہے جو مہنگائی کی ایک نئی لہر کو جنم دے گا اور اس سے عام آدمی کے ساتھ ملک کا درآمدی شعبہ بھی شدید متاثر ہو گا۔ انھوں نے کہا حکومت نے اس سال افراط زر کا ٹارگٹ سات سے نو فیصد کے درمیان رکھا تھا تاہم اب تک اوسطاً افراط زر کی شرح آٹھ سے نو فیصد کے درمیان چل رہی ہے اور آنے والے دنوں میں یہ دس فیصد کی شرح پر پہنچ سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ جب بجلی کی قیمتوں کے علاوہ ملک میں مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سٹیٹ بینک آئی ایم ایف شرائط کے تحت شرح سود میں اضافہ کر سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس بات کا بھرپور امکان ہے کہ سٹیٹ بینک آنے والے مہینوں میں شرح سود میں اضافہ کر دے گا۔ ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ شرح سود میں اضافہ ملک کی معاشی پیداوار کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو گا تاہم آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کے لیے اسے بڑھانا پڑے گا۔ ایلیا نعیم نے بھی شرحِ سود کے بڑھنے کا امکان ظاہر کیا کیونکہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے سٹیٹ بینک یہ کام کرے گا۔ انھوں نے اگلے تین سے چھ ماہ میں شرح سود میں اضافے کا امکان ظاہر کیا۔ شرح سود بڑھنے سے بینکوں کی جانب سے دیا جانے والا قرضہ مہنگے نرخوں میں حاصل ہو گا جو کاروباری شعبوں کی لاگت کو بڑھا کر ان کی تیار کردہ مصنوعات کو مہنگا کر دے گا۔ انھوں نے کہا کہ اس کا سب سے زیادہ اثر سترہ سے بیس ہزار روپے آمدنی والے افراد پر زیادہ ہو گا تاہم انھوں نے تجویز کیا کہ حکومت اپنے احساس پروگرام کے تحت بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو کم آمدنی والے افراد کے لیے ایک دو ہزار روپے ادا کر کے زائل کر سکتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56532279", "summary": "گوادر میں نئی بندرگاہ کی تعیمر نے مقامی آبادی کو کب کتنا فائدہ پہنچایا اور ان کی معاشی اور سماجی حالت میں کیا بہتری آئی۔ حکومت کے گوادر میں ترقی اور خوشحالی کی دعووں اور وعدوں میں کتنی حقیقت ہے اور مقامی آبادی وہاں جاری ترقیاتی منصوبوں سے متعلق کیا رائے رکھتی ہے؟", "title": "گوادر کی ترقی: ’یہ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا کے لیے ہو گی، ہمارے لیے کچھ نہیں‘", "firstPublished": "2021-03-26T05:26:35.000Z", "id": "8d169a09-a5c3-4aa3-9c7f-4234495475de", "article": "سنہ 2002 میں فوجی آمر اور سابق صدر پرویز مشرف نے یہاں کے لوگوں کو معاشی ترقی کی نوید سنائی تھی۔ ان دو دہائیوں نے گوادر کے نقشے میں بندرگاہ کے ساتھ ساتھ اور بھی تبدیلیاں رونما کی ہیں۔ شاہی بازار ہو یا جنت مارکیٹ وہاں بجلی کی سہولت سے محروم چھوٹی چھوٹی اندھیرے میں ڈوبی دکانیں آپ کو خستہ حال معاشی صورتحال کے بارے میں بنا پوچھے آگاہ کرتی ہیں اور لوگوں سے جب پوچھیں کہ بجلی کتنی دیر آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ایران سے آنے والی بجلی چند گھنٹے ملتی ہے۔ مقامی ماہی گیروں کے مطابق بریک واٹر (گودی) نہ ہونے کے باعث کھلے سمندر میں رہنے سے 2018 سے اب تک 50 سے زائد کشتیاں مکمل تباہ ہو چکی ہیں اور 200 کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’دو سال کے انتظار کے بعد بریک واٹر (گودی) بن رہا ہے جس کی تیاری کے لیے ہمیں مزید دو سال انتظار کرنا ہو گا۔‘ انھوں نے کہا ’17 سال بعد جب گوادر کے لیے دوسرا ماسٹر پلان منظور ہوا تو اس میں اولڈ سٹی کے لیے کچھ منصوبہ بندی نہیں دی گئی تھی تاہم جی ڈی اے نے اب اس علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک پلان بنا کر حکومت کو دیا ہے جس پر عملدرآمد ہو گا۔‘ میں نے ان سے پوچھا کہ کہیں مستقبل میں بندرگاہ سے بہت قریب ہونے کی وجہ سے اس آبادی کو یہاں سے منتقل تو نہیں کیا جائے گا تو شاہ زیب کاکڑ نے کہا ’نہیں ایسا بالکل نہیں ہو گا اور ایکسپریس وے اور گوادر پورٹ چینی حکومت سی پیک منصوبے کے تحت بنا رہی ہے اس کی بھاری مشینری سے ماہی گیروں کے گھروں کو جو نقصان پہنچا ہے اس کے ازالے کے لیے ہم نے حکام سے بات کی ہے۔‘ گوادر پورٹ سے منسلک ایک اہلکار نے مجھے بتایا کہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ جب ان کے پاس 40 کے قریب نوکری کے لیے درخواستیں نہ آتی ہوں لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’چینی کمپنیاں مقامی لوگوں کو کم اور دوسرے شہروں سے آنے والوں کو چار گنا زیادہ تنخواہ دیتی ہیں جن کی وجہ سے لوگ نالاں ہیں۔‘ گوادر پورٹ اتھارٹی کے چیئرمین نصیر خان کاشانی نے بتایا کہ 95 فیصد پورٹ ملازمین کا تعلق بلوچستان سے ہے اور اس میں گوادر کے لوگ بھی شامل ہیں لیکن ایک بڑا مسئلہ اہلیت کا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مقامی افراد ہنر مند نہیں ہیں، پاکستان چین ووکیشنل سینٹر کا 50 فیصد کام ہو گیا ہے، وہاں لوگوں کو مختلف ہنر کے متعلق تربیت دی جائے گی۔ اس انتہائی اہم علاقے کی سمندری حدود میں ٹرالر مافیا کیسے بے دھڑک گھومتا اور شکار کرتا ہے؟ جب میں نے یہ سوال محکمہ فشریز کے ڈائریکٹر احمد ندیم کے سامنے رکھا تو انھوں نے تصدیق کہا کہ ٹرالر مافیا سندھ سے آتے ہیں اور یہ سمندر کی زمین کو کریدتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56519572", "summary": "آئی ایم ایف پروگرام کی پاکستان کے لیے بحالی ایک جانب ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 50 کروڑ ڈالر کا اضافہ کرے گی تو دوسری جانب اس سے جڑی شرائط پر معیشت اور صنعت و تجارت کے ماہرین تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ملکی معیشت اس سے شدید متاثر ہو گی۔", "title": "آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی پاکستانی معیشت کے لیے مثبت یا منفی پیشرفت؟", "firstPublished": "2021-03-25T05:54:22.000Z", "id": "bc7d6b68-fe4e-464f-b09a-0a340d2267bc", "article": "آئی ایم ایف پروگرام کی پاکستان کے لیے بحالی ایک جانب ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 50 کروڑ ڈالر کا اضافہ کرے گی تو دوسری جانب اس سے جڑی شرائط پر معیشت اور صنعت و تجارت کے ماہرین اور اس سے وابستہ افراد تشویش کا اظہار کر رہے ہیں جو ان کے نزدیک پاکستان کی معیشت کو شدید متاثر کریں گی۔ آئی ایم ایف کی جانب سے اس پروگرام کے دوبارہ شروع کرنے سے متعلق کچھ شرائط ہیں جن میں نمایاں بجلی کے قانون یعنی نیپرا ایکٹ میں ترامیم، سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایکٹ میں ترامیم، اضافی ٹیکس کی وصولی اور بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ اور مختلف شعبوں کو دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ شامل ہیں۔ پاکستان کی معیشت میں گروتھ جو گزشتہ مالی سال میں منفی ہو گئی تھی اس میں گزشتہ چند مہینوں میں کچھ بہتری کے آثار نظر آئے تاہم آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے جڑی شرائط سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونے پر تشویش کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر کی رقم حاصل ہو گی جس کے ذریعے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا ملے گا اور ڈالر کے مقابلے میں پاکستان روپے کی قدر کو بھی سپورٹ حاصل ہو گی تاہم چند ماہرین معیشت کے نزدیک ان 50 کروڑ ڈالر کی بہت بڑی قیمت پاکستان کو معاشی نقصان کی صورت میں برداشت کرنی پڑے گا کیونکہ شرائط سے عمل درآمد سے نا صرف ایک عام آدمی کی معیشت متاثر ہو گی بلکہ صنعت و تجارت بھی اس سے شدید متاثر ہوں گے۔ دنیا میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے معاشی نقصانات کے ازالے کے لیے حکومتیں اپنے صنعتی و تجارتی شعبے کو مراعات فراہم کر رہی ہیں تاکہ معاشی گروتھ کو بڑھایا جا سکے تاہم آئی ایم ایف شرائط کے تحت صنعتی شعبے کو دی جانے والی ٹیکس چھوٹ کے خاتمے اور بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافے کو معاشی صورتحال خاص کر صنعت و تجارت کے شعبے کے لیے ایک بری پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے جو اس شعبے میں آنے والی اب تک تھوڑی بہت بہتری کو زائل کر دے گی ان سے جب شرائط کے معیشت پر اثرات، بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافے، سٹیٹ بینک کی ایکٹ میں ترامیم اور اضافی ٹیکس کی وصولی کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ واٹس اپ پر اپنے جواب میں کہا کہ ’آئی ایم پروگرام معاشی اور مالیاتی استحکام کے لیے بہت ضروری ہے خاص کر کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال میں یہ پروگرام بہت ضروری ہو گیا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-56480379", "summary": "حالیہ دنوں میں لیرا کی قیمت مستحکم رکھنے میں گورنر ناجی اقبال کے کردار کو انتہائی اہم قرار دیا جاتا ہے تاہم سنیچر کو ایک حیران کن اقدام کے طور پر صدر اردوغان نے انھیں برطرف کر دیا۔", "title": "مرکزی بینک کے گورنر کی برطرفی، ترک کرنسی کی قیمت 14 فیصد گر گئی", "firstPublished": "2021-03-22T05:19:32.000Z", "id": "21b603f2-147b-0349-97ec-41a5b4a6ffd4", "article": "ترک صدر رجب طیب اردوغان کی جانب سے ملک کے مرکزی بینک کے گورنر کو برطرف کیے جانے کے بعد ترکی کی کرنسی لیرا کی قیمت میں 14 فیصد کمی آئی ہے۔ حالیہ دنوں میں لیرا کی قیمت مستحکم رکھنے میں گورنر ناجی اقبال کے کردار کو انتہائی اہم قرار دیا جاتا ہے تاہم سنیچر کو ایک حیران کن اقدام کے طور پر صدر اردوغان نے انھیں برطرف کر دیا۔ گذشتہ دو سالوں میں یہ تیسرے شخص ہیں جو کہ سنٹرل بینک کے گورنرکے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ ناجی اقبال کو گذشتہ نومبر میں تعینات کیا گیا تھا اور وہ مہنگائی کی شرح پر قابو پانے کے لیے مرکزی انٹرسٹ ریٹ (شرح سود) میں اضافے کی پالیسی اپنائے ہوئے تھے۔ ان کی برطرفی مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں دونوں کے لیے حیران کن بات ہے جو کہ ترکی کی حالیہ مالیاتی پالیسی کی تعریف کر رہے تھے۔ ایک وقت تھا جب لیرا امرجنگ مارکین کی کرنسیوں میں 2021 کی سب سے بہتر کرنسی تصور کی جا رہی تھی اور اس کی امریکی ڈالر کے مقابلے میں قیمت میں تقریباً 20 فیصد اضافہ ہو گیا تھا۔ گذشتہ ہفتے ترک لیرا اور بھی مضبوط اس وقت ہوا جب اقبال نے شرحِ سود میں دو فیصد اضافہ کر دیا جو کہ ماہرینِ معاشیات کی توقعات سے تقریباً دوگنا اضافہ تھا۔ سرمایہ کار بہت عرصے سے ترکی میں سخت تر مالیاتی پالیسی مانگ رہے ہیں تاکہ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح پر قابو پایا جا سکے۔ تاہم اب اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ صدر اردوغان کی جانب سے سہپ سیوگولو کو سنٹرل بینک کے گورنر کے عہدے پر تعینات کرنے سے ناجی اقبال کے قلیل مدتی دور میں آنے والی بہتری ضائع نہ ہو جائے۔ سہپ سیوگولو بینکاری کے پروفیسر اور برسرِاقتدار جماعت کے سابق قانون ساز ہیں۔ وہ شرحِ سود میں اضافے کے ذریعے مہنگائی کی شرح پر قابو پانے کے مخالف کے طور ہر جانے جاتے ہیں۔ ترکی میں شرحِ سود اس وقت 19 فیصد ہے جس کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں نے اپنے اثاثے اس کرنسی میں منتقل کیے ہوئے ہیں۔ اتوار کے روز سنٹرل بینک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘وہ مالیاتی پالیسی کے آلات کو استعمال کرتے ہوئے مستقل بنیادوں پر مہنگائی کی شرح کو کم کرنے کے ہدف کو حاصل کرنے کوششیں جاری رکھیں گے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56473108", "summary": "میڈرڈ ٹریڈ مارک سسٹم میں شمولیت سے نہ صرف پاکستان میں بننے والی مصنوعات کو بین الاقوامی منڈی میں فائدہ حاصل ہو گا بلکہ یہ دنیا کے مشہور برانڈز کو پاکستان میں لانے میں بھی مدد گار ثابت ہو گا۔", "title": "میڈرڈ ٹریڈ مارک سسٹم میں پاکستان کی شمولیت سے ملکی مصنوعات کو کیسے تحفظ ملے گا؟", "firstPublished": "2021-03-21T06:03:54.000Z", "id": "8b3724d6-7451-40d8-b76d-c52106ebae6c", "article": "وزیراعظم پاکستان کے مشیر تجارت رزاق داؤد نے گذشتہ ماہ ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ پاکستان میڈرڈ ٹریڈ مارک سسٹم میں شامل ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سسٹم میں شامل ہونے سے نہ صرف پاکستان میں بننے والی مصنوعات کو بین الاقوامی منڈی میں فائدہ ہو گا بلکہ یہ دنیا کے مشہور برانڈز کو پاکستان میں لانے میں بھی مددگار ثابت ہو گا۔ انھوں نے کہا ان کی تیار کردہ مصنوعات دنیا کے مختلف ممالک میں برآمد ہوتی ہیں اور پاکستان کے ٹریڈ مارک سسٹم میں نہ ہونے کی وجہ سے انھیں مسائل کا بھی سامنا رہا اور ان کی مصنوعات کے نام پر جعلی یا ملتے جلتے ناموں کی مصنوعات بھی بھیجی جاتی رہی ہیں۔ ادھر ملک میں کام کرنے والی الکرم ٹیکسٹائل نے بین الاقوامی سطح پر اپنے برانڈ کے لیے پاکستان کی میڈرڈ سسٹم میں شمولیت کو ایک انتہائی مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔ الکرم ٹیکسٹائل کے مینجنگ ڈائریکٹر فواد انور نے کہا کہ میڈرڈ سسٹم میں پاکستان کی شمولیت سے ان کے برانڈ کو بھی تحفظ حاصل ہو گا۔ مشیر تجارت رزاق داؤد کے سماجی رابطے پر پیغام کے مطابق پاکستان کی اس سسٹم سے شمولیت ملکی مصنوعات کو بین الاقوامی مارکیٹ میں فائدہ حاصل ہو گا تو دوسری جانب یہ ملک میں بین الاقوامی برانڈز کو لانے میں بھی مدد گار ثابت ہو گا۔ شیخ راشد عالم نے اس سلسلے میں کہا کہ یہ دو طرفہ سسٹم ہے۔ ’ایک جانب پاکستان میں کام کرنے والی کوئی کمپنی اپنی مصنوعات کو ٹریڈ مارک سسٹم کے تحت اپنے نام پر رجسرڈ کرائے گی تو عالمی مارکیٹ میں اس کے سوا یہ مصنوعات بیچنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہو گا۔‘ ’اسی طرح انٹرنیشنل برانڈز کو بھی پاکستان میں یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اس سسٹم کے ذریعے رجسٹرد کرا کر اپنی چیزیں فروخت کر سکیں گے اور کسی دوسرے کو یہ اختیار حاصل نہ ہو گا کہ وہ جعل سازی سے ان کی چیزوں کو بیچ سکے۔‘ شیخ راشد نے کہا کہ میڈرڈ سسٹم کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی مصنوعات کو مسئلہ درپیش تھا اور بین الاقوامی مارکیٹ میں کوئی بھی ان چیزوں کو اپنے نام سے بیچ سکتا تھا۔ ’مقامی کمپنیوں کو بین الاقوامی مارکیٹ میں ٹریڈ مارک حقوق کے تحت تحفظ حاصل ہو گا تو انٹرنینشل برانڈز کی آمد بھی اس سلسلے میں سودمند ثابت ہو گی۔ اسی طرح رجسٹریشن فیس کی حکومت کو آمدنی ہو گی تو دوسری جانب قانون کے شعبے سے وابستہ افراد کے لیے بھی اس میں فائدہ ہے کیونکہ رجسٹریشن کے عمل میں ان کی قانونی معاونت درکار ہو گی۔‘ پاکستان میں کام کرنے والی کوئی کمپنی اپنی مصنوعات کو ٹریڈ مارک سسٹم کے تحت اپنے نام پر رجسرڈ کرائے گی تو عالمی مارکیٹ میں اس کے سوا یہ مصنوعات بیچنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہو گا"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54885996", "summary": "اگر ڈالر کی موجودہ قیمت کا جائزہ لیا جائے تو یہ اب اکتوبر 2019 تک کی سطح تک گر چکی ہے جبکہ اکتوبر 2020 میں اس کی قیمت 168 روپے سے بھی اوپر چلی گئی تھی۔", "title": "ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل بہتری کی وجوہات کیا ہیں؟", "firstPublished": "2020-11-12T03:48:14.000Z", "id": "2a054f4b-7ece-ae4e-b064-b286749d9232", "article": "اگر ڈالر کی موجودہ قیمت کا جائزہ لیا جائے تو یہ اب اکتوبر 2019 تک کی سطح تک گر چکی ہے جبکہ اکتوبر 2020 میں اس کی قیمت 168 روپے سے بھی اوپر چلی گئی تھی۔ اُنھوں نے کہا کہ ڈالر کی قیمت حالیہ دنوں میں 154 تک بھی گر گئی لیکن اس کی خریداری کی وجہ سے یہ ایک بار پھر 155 تک چلی گئی ہے۔ ملک بوستان نے کہا کہ ڈالر کی موجودہ قیمت اکتوبر 2019 کی سطح پر گر چکی ہے جو 154 اور 155 کے درمیان تھی جبکہ اکتوبر 2020 میں ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی جب یہ 168 روپے سے تجاوز کر گئی تھی۔ روپے کی قدر میں اکتوبر سے لے کر اب تک ہونے والے اضافے کی وجہ سے پاکستانی روپیہ ایشیا میں تیسرے نمبر پر ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر میں اضافہ کرنے والی کرنسی بن چکا ہے موجودہ مالی سال کے پہلے آٹھ مہینوں میں ترسیلات زر کی مجموعی مالیت 18 ڈالر سے زائد ہے اور مالی سال کے اختتام تک ان کا 28 ارب ڈالر سے اوپر رہنے کا امکان ہے۔ ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن نے اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر بتایا کہ ڈالر کی روپے کے مقابلے میں قدر گرنے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک مقامی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں معاشی سست روی کی وجہ سے ڈالر کی طلب بھی کم ہے۔ پاکستان کی معیشت درآمدات پر بڑی حد تک انحصار کرتی ہے جس میں خام مال سے لے کر مشینری اور آلات شامل ہیں۔ جب ملک کی معاشی شرح نمو منفی ہو جائے یا پھر بہت کم ہو تو اس کا مطلب ہے کہ صنعت و حُرفت نہیں چل رہی۔ ڈاکٹر اشفاق نے ڈالر کی قیمت میں کمی کی دوسری وجہ عالمی سطح پر ڈالر کی طلب میں بھی کمی کو قرار دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ عالمی سطح پر بھی ڈالر دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں نچلی سطح پر ہے جس کی ایک بڑی وجہ جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے 1.9 ٹریلین ڈالر کا کورونا وائرس سے متعلق پیکج ہے۔ اُن کے مطابق اس پیکج کے لیے ڈالر زیادہ پرنٹ کرنا پڑے گا جو اس کی منی سپلائی کو بڑھا رہا ہے جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت نیچے آئی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ عالمی سطح پر اب سرمایہ کار اس لیے ڈالر کے بجائے یورو اور گولڈ میں زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اُنھوں نے ڈالر کی قیمت نیچے آنے کی وجہ سے ملک کے برآمدی شعبے کو نقصان کا تاثر مسترد کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ برآمدی شعبے کے لیے ڈالر کی معقول قیمت 145 سے 154 روپے کے درمیان ہے اور اس سطح پر برآمدی شعبہ بہتر طریقے سے اپنا کاروبار جاری رکھ سکتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-56438993", "summary": "سیبسٹیئن ہمیشہ اسی لمحے کو یاد رکھے گا جب اس نے 407،000 پاؤنڈز کا نقصان اٹھایا، اور اس وقت وہ بیک وقت غصہ میں بھی تھا اور شرمندگی بھی محسوس کر رہا تھا۔", "title": "’میں نے جعلی ایلون مسک کے فراڈ میں چار لاکھ پاؤنڈ گنوا دیے‘", "firstPublished": "2021-03-18T02:03:56.000Z", "id": "2e9b0418-1361-422f-ab3a-b013f083bccb", "article": "سیبسٹیئن ہمیشہ اسی لمحے کو یاد رکھے گا جب اس نے 407،000 پاؤنڈز کا نقصان اٹھایا، اور اس وقت وہ بیک وقت غصہ میں بھی تھا اور شرمندگی بھی محسوس کر رہا تھا۔ سیبسٹیئن نے بی بی سی کو بتایا: ایلن مسک نے ٹویٹ کیا، 'ڈوج فار ڈوج؟' (یعنی دھوکہ بمقابلہ دھوکہ) اور میں حیران تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ 'نیچے ایک نئے پروگرام کا لنک تھا، لہذا میں نے اس پر کلک کیا اور دیکھا کہ وہ بٹ کوئن فروخت کر رہا ہے!' ایمسٹرڈیم سے 133 میل کے فاصلے پر، وہیل الرٹ کے تجزیہ کاروں نے اس فریب کے بارے میں خبردار کیا تھا جب سیبسٹیئن کے 10 بٹ کوائن کو بھیجا گیا تھا اور پھر کچھ دن بعد یہ سب کچھ سب کے علم میں آگیا۔ وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بٹ کوائن کہاں ہیں اور کہاں رکھے جا رہے ہیں، انہیں فریب کرنے والے چلانا جانتے ہیں اور یہ کمائی جانے والی بڑھتی ہوئی رقم کا سراغ لگا لیتے ہیں۔ سیبسٹیئن کا 10 بٹ کوئن سب سے زیادہ تھا جس کا انہیں کسی ایک ٹرانزیکشن میں غائب ہوجانے والے ریکارڈ سے علم ہوا تھا۔ وان ویورٹ نے کہا کہ 'ہمارے پاس اس کی وضاحت کے لئے کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں، لیکن اس کا بٹ کوئنز کی وسیع مارکیٹ سے تعلق ہوسکتا ہے۔ جب بٹ کوئن کی قیمت بڑھ جاتی ہے، لوگ پاگل ہوجاتے ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ مارکیٹ میں نئے ہوتے ہیں اور وہ اپنی رقم دن دوگنی رات چوگنی کرنے پر لگ جاتے ہیں۔' تین ہفتے گزرنے کے بعد اور جب سیبسٹیئن پر سب کچھ واضح ہو چکا تھا وہ تب بھی شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ اس نے ہماری ای میل پر گفتگو کے دوران اصرار کرتے ہوئے کہا کہ وہ 'عام طور پر پوری دنیا کا سب سے بڑا بے وقوف نہیں' ہے۔ 42 برس کے سیبسٹیئن کا کہنا ہے کہ اس نے سنہ 2017 میں بٹ کوائن میں پہلے چالیس ہزار ڈالرز کی سرمایہ کاری کی تھی، اور کھلی مارکیٹ میں ان سکوں کی قیمت بڑھتے ہی اس نے جلدی سے اپنی رقم واپس نکال لی تھی۔ لیکن پھر کئی سالوں میں جب اس نے دوبارہ سے اس مارکیٹ میں جوش و خروش سے دیکھا کیونکہ اس دوران 10 بٹ کوئنز کمی قیمت پچاس ہزار یوروز ہو چکی تھی۔ سب سے بڑا فریب جولائی 2020 میں ہوا تھا، جب بڑے پیمانے پر لیکن بہت کم عرصے کے لیے ٹویٹر ہیک ہوا تھا، جس نے فریب چلانے والوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ بل گیٹس، کم کارڈشیئن-ویسٹ اور ایون مسک جیسی مشہور شخصیات کے اکاؤنٹ کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو دھوکہ دیں۔ اس واقعے میں ہیکرز نے ایک لاکھ اٹھارہ ہزار ڈالر سے زیادہ کا بٹ کوائن چوری کیا۔ اس سلسلے میں تین افراد کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56424972", "summary": "سٹاک ہوم میں قائم عالمی امن کے تحقیقی مرکز (سپری) کی شائع کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2016 سے 2020 کے دوران پاکستان ایشیا اور اوشینیا کے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک میں شامل ہے جبکہ بڑا اسلحہ درآمد کرنے والے ممالک کی عالمی درجہ بندی میں اس کا 10واں نمبر ہے۔", "title": "چین، ترکی اور روس کا اسلحہ پاکستان کی جنگی صلاحیتوں کو کیسے بہتر کر سکتا ہے؟", "firstPublished": "2021-03-17T04:35:30.000Z", "id": "0ef6f2cb-ab86-4eae-9ae4-c22a6b308dd0", "article": "حکومت پاکستان نے سنہ 2016 سے 2020 کے دوران پانچ مختلف ممالک سے آٹھ کے قریب اسلحہ یا ہتھیاروں کے بڑے نظام کی درآمد کی ہے تا کہ ملک کی بحریہ اور فضائیہ کی صلاحیت کو بہتر اور زیادہ طاقتور بنایا جائے۔ یہ بات سویڈن میں قائم تھنک ٹینک 'سپری' (ایس آئی پی آر آئی SIPRI-) نے بتائی ہے اور یہ تمام دفاعی نظام خریدنے کے بعد پاکستان کا نام ایشیا پیسیفک خطے میں عالمی منڈی سے ہتھیار درآمد کرنے والے ممالک میں سرفہرست آ گیا ہے۔ 'سپری' کی دستاویز کے مطابق پاکستان نے لڑاکا طیارے، جنگی ہیلی کاپٹر، آبدوزیں اور جنگی بحری جہاز بیرون ممالک سے منگوائے ہیں لیکن پھر انھیں مقامی طور پر تیار کیا ہے۔ باالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تیاری میں زیادہ تر استعمال ہونے والے حصے باہر سے منگوائے گئے ہیں لیکن اسلحہ کا حتمی نظام مقامی طور پر ہی بنایا گیا ہے۔ سٹاک ہوم میں قائم عالمی امن کے تحقیقی مرکز (سپری) کی شائع کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2016 سے 2020 کے دوران پاکستان سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ایشیا اور اوشینیا کے ممالک میں شامل ہے جبکہ 2.7 فیصد کے ساتھ بڑے اسلحہ درآمد کرنے والوں کی عالمی درجہ بندی میں اس کا دسواں نمبر ہے۔ رواں دہائی کے اولین پانچ سال میں امریکہ انڈیا کو اسلحہ فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک تھا لیکن اس کی برآمدات میں 46 فیصد کمی کے بعد اس کا نمبر نیچے گر کر چوتھا ہوگیا ہے۔ اسی مدت کے دوران فرانس سے انڈیا کی اسلحہ کی درآمد میں 709 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اسرائیل سے اسلحہ کی درآمد 82 فیصد بڑھی۔ ان کا کہنا تھا ’مثال کے طورپر 38 جے ایف 17 لڑاکا طیاروں کے دو معاہدے پر 2017 اور 2018 میں دستخط ہوئے تھے اور یہ سب 2020 کے آخر تک فراہم کئے گئے۔ ان میں سے زیادہ تر 'ڈیلیوریز'(فراہمی) 2016 سے پہلے دستخط شدہ معاہدوں کے تحت ہوئیں، مثال کے طورپر 34 مزید جے ایف 17 طیاروں کی فراہمی 2012 میں ہونے والے معاہدے کے تحت ہوئی تھی۔ جبکہ بہت ساری 'ڈیلیوریز' چھوٹی متعدد مقدار میں معمول کے ان معاہدات کے تحت ہوئیں جن پر 2016 یا اس کے بھی بعد دستخط ہوئے تھے۔‘ انھوں نے کہا کہ 'سپری' کی رپورٹ میں شامل ڈیٹا گذشتہ پیر کو شائع ہوا تھا جس میں بڑے اسلحہ کے سودوں یا ترسیل شدہ سامان کی مقدار کا جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ ساز وسامان کی مقدار کا مالیت کے لحاظ سے تعین نہیں کیا گیا تھا لیکن فوجی سازوسان کی خام صلاحیت کی مناسبت سے اسے دیکھا اور جانچا گیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56372811", "summary": "ایک زمانے میں وادی نیلم میں شادی بیاہ کے موقعوں پر دولہا کے لیے پھلاں کاری کی چادر اوڑھنا لازمی سمجھا جاتا تھا۔ تاہم اب جہاں مقامی لوگوں میں اس کی مانگ کم ہوئی ہے، وہیں سیاحوں کی اس علاقے میں آمد سے اس چادر کو ایک نئی مارکیٹ مل گئی ہے۔", "title": "وہ چادر جس نے صائمہ بی بی کے خاندان کو فاقوں سے بچا لیا", "firstPublished": "2021-03-13T16:25:50.000Z", "id": "4e208016-e3bb-eb4b-9da9-1a535b478df8", "article": "پھلاں کاری کی چادر بُننا وادی نیلم کا مقامی فن ہے۔ بھیڑوں کے اون سے بننے والی یہ موٹی چادر سخت سردی میں بھی انسان کو گرم رکھتی ہے اور اس کے دیدہ زیب رنگ ہر دیکھنے والے کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ پرانے وقتوں میں اس چادر کی تیاری میں استعمال ہونے والا تمام سامان مقامی سطح پر تیار کیا جاتا تھا اور گھر کے تمام افراد اس عمل میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ گاؤں کے مرد بھیڑوں کا اون کاٹ کر گھر کی خواتین کے حوالے کر دیتے جو اس سے دھاگہ تیار کرتیں۔ مرد حضرات اس کو تانڑی پر بُنتے، جس کے بعد کنارے بنانے کی ذمہ داری خواتین کی ہوتی تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کی ترجیحات تبدیل ہوتی رہیں، گھروں میں بھیڑ بکریاں پالنے کا رواج آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا اور مقامی اون کی پیدوار کم ہو گئی۔ پھر چادر بنانے والے زیادہ تر افراد کو بازار سے دھاگہ خرید کر اپنا کام جاری رکھنا پڑا۔ تاہم اب کچھ گنے چنے لوگ مقامی بھیڑ کی اون سے ہی چادریں تیار کرتے ہیں. اُس زمانے میں وادی نیلم میں شادی بیاہ کے موقعوں پر دولہا کے لیے پھلاں کاری کی چادر اوڑھنا لازمی سمجھا جاتا تھا اور دولہا اور اس کے دوستوں کو ان کی چادروں سے پہچانا جا سکتا تھا۔ یہ چادر تحفے کی طور پر بھی دی جاتی تھی۔ تاہم اب جہاں مقامی لوگوں میں اس کی مانگ کم ہوئی ہے، وہیں سیاحوں کی اس علاقے میں آمد سے اس چادر کو ایک نئی مارکیٹ مل گئی ہے۔ سیاحوں کی وجہ سے چادر کی مانگ میں اضافے سے صائمہ بی بی نے بھی فائدہ اٹھایا۔ ’مجھے اپنی پہلی چادر مکمل کرنے میں 15 دن لگے۔ وہ چادر میں نے اب تک سنبھال کر رکھی ہوئی ہے کہ اپنے بھائی کی شادی پر اُس کو تحفے کے طور پر دوں گی۔ شروع میں وہ اپنے بنائی ہوئی چادریں مقامی دکانداروں کے پاس چھوڑ دیتی تھیں اور ان کی فروخت سے ملنے والے پیسے انھیں مل جاتے۔ ’کبھی سیاح چادر ڈھونڈتے ڈھونڈتے آتے تو میں خود ہی ان کو بیچ دیتی ہوں۔‘ صائمہ نے چادریں بیچ بیچ کر جب کافی پیسے کما لیے تو انھوں نے اپنے بھائی کو ایک دکان کھول کر دی اور اس کی ماسٹرز تک پڑھائی مکمل کروائی۔’اب بھی میں چادروں کے پیسے بھائی کو دیتی ہوں جس سے وہ اپنی دوکان کا سامان خریدتا ہے۔ گھر کے اخراجات بھی ان ہی پیسوں سے چلتے ہیں۔‘ صائمہ کے مطابق ہر چادر بنانے میں 15 دن لگتے ہیں اور ایک چادر 10 سے 15 ہزار میں فروخت ہوتی ہے۔ ’جتنی اس پر محنت ہوتی ہے، اتنی اجرت نہیں ملتی۔ لیکن کیا کریں، اس کے علاوہ یہاں کرنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56384202", "summary": "پاکستان ماضی میں کبھی گندم، کبھی کپاس اور کبھی چینی تو درآمد کرتا رہا ہے لیکن موجودہ دور میں یہ تینوں اجناس اکٹھی درآمد ہو رہی ہیں جس کی بینادی وجہ زرعی شعبے کو درپیش مختلف مشکلات ہیں لیکن یہ مشکلات ہیں کیا؟", "title": "پاکستان میں گندم، چینی اور کپاس کی بیک وقت درآمد کی وجوہات کیا؟", "firstPublished": "2021-03-13T06:04:05.000Z", "id": "7d31a0a6-7b4c-43a8-bbf0-c5e1118aadb5", "article": "پاکستان ماضی میں کبھی گندم، کبھی کپاس اور کبھی چینی تو درآمد کرتا رہا ہے لیکن موجودہ دور میں یہ تینوں اجناس اکٹھی درآمد ہو رہی ہیں رابعہ گورمانی کی طرح پاکستان کے کروڑوں افراد زرعی شعبے سے وابستہ ہیں اور اسی سے اپنا روزگار کماتے ہیں۔ یہ شعبہ پاکستان کی معیشت میں دوسرا بڑا شعبہ ہے جو جی ڈی پی میں 21 فیصد حصہ ڈالتا ہے اور ملک کی لیبر فورس کے 45 فیصد حصے کو روزگار فراہم کر رہا ہے۔ زراعت، اجناس اور ملک کے بڑے انتظامی عہدوں پر کام کرنے والے افراد کے مطابق ماضی میں پاکستان کبھی گندم، کبھی کپاس اور کبھی چینی تو درآمد کرتا رہا ہے تاہم بیک وقت گندم، چینی اور کپاس کی درآمد ملک کی تاریخ میں انوکھا واقعہ ہے۔ اجناس کے شعبے کے ماہر شمس الاسلام نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پاکستان میں زرعی شعبے کو جو مشکلات درپیش ہیں وہ اچانک سے ظاہر نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ گزشتہ کئی برسوں کا تسلسل ہے جس کی وجہ سے آج یہ شعبہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان گندم، چینی اور کپاس کی درآمد کے لیے مجبور ہے۔ پاکستان ماضی میں کبھی گندم، کبھی کپاس اور کبھی چینی درآمد کرتا رہا ہے لیکن موجودہ دور میں یہ تینوں اجناس اکٹھی درآمد ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں شمس الاسلام نے کہا ’ماضی میں ہم نے دیکھا کہ گندم، چینی اور کپاس وقتاً فوقتاً درآمد کی جاتی رہی ہیں لیکن ان تینوں کا بیک وقت درآمد ہونا ایک انوکھی پیشرفت ہے۔‘ انھوں نے کہا ’گندم بیس سال پہلے درآمد کی گئی تھی اور جب پاکستان اس کی پیداوار میں خود کفیل ہو گیا تو یہ سلسلہ روک دیا گیا اور مقامی پیداوار ضرورت کے لیے کافی رہی تاہم اب گندم کی درآمد کرنی پڑ گئی تاکہ مقامی طور پر ضرورت کو پورا کرنے کے علاوہ قیمتوں کو بھی مستحکم کیا جا سکے۔‘ سابقہ وزیر خزانہ نے بتایا کہ ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائی میں پاکستان زرعی شعبے کا نیٹ ایکسپورٹر تھا یعنی درآمد سے زیادہ برآمد کیا کرتا تھا لیکن ملک آج اس شعبے میں مجموعی طور پر خسارے کا شکار ہے اور ہمیں ساڑھے تین ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔ ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ ’ہونا تو یہ چاہیے کہ ملک چینی درآمد کرے اور کپاس برآمد کرے لیکن اس کے برعکس ہوا۔ شوگر ملز مالکان نے پہلے چینی کی درآمد پر 50 فیصد ٹیکس لگوایا تاکہ باہر سے چینی درآمد نہ کی جا سکے اور وہ مقامی مارکیٹ میں اپنی چینی اپنی مرضی کے نرخوں پر بیچیں تاہم جب حکومت نے دیکھا کہ اس کی قلت ہو چکی ہے تو پھر اسے چینی درآمد کرنا پڑی۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-56356940", "summary": "سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف انڈیا چین مخالف کاوشوں کا حصہ بن رہا ہے تو دوسرے فورم پر وہ چین کے ہمراہ کھڑا نظر آتا ہے، تو ایسی صورتحال میں نئی دہلی نے بیجنگ کے ساتھ تعلقات میں توازن کیسے برقرار رکھا ہوا ہے؟", "title": "ایک طرف چین کی مخالفت تو دوسری جانب شراکت داری، آخر انڈیا کر کیا رہا ہے؟", "firstPublished": "2021-03-12T06:59:59.000Z", "id": "edf98960-3716-8e45-ba18-d3c5064c7ed3", "article": "تاہم دوسری طرف انڈیا ایک ایسے پلیٹ فارم میں بھی کافی سرگرم ہے جس میں انڈیا اور چین کا اہم کردار ہے۔ یہ برکس (BRICS) کا فورم ہے جس میں انڈیا اور چین کے علاوہ روس، برازیل اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف انڈیا چین مخالف کاوشوں کا حصہ بن رہا ہے تو دوسرے فورم پر وہ چین کے ہمراہ کھڑا نظر آتا ہے، تو ایسی صورتحال میں نئی دہلی نے بیجنگ کے ساتھ تعلقات میں توازن کیسے برقرار رکھا ہوا ہے؟ ان کا کہنا ہے ’برکس ایک 15 برس پرانی تنظیم ہے اور اس میں دونوں ممالک کے درمیان بہت تعاون کیا گیا ہے لیکن یہ ادارہ ایسے وقت میں قائم کیا گیا تھا جب چین کا کردار اچھا تھا اور انڈیا اور چین کے تعلقات بھی اچھے تھے۔ پچھلے تین چار برسوں میں اور خاص طور پر 2020 میں چین کا کردار منفی ہو گیا اور انڈیا، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ چین کے تعلقات خراب ہوئے لہذا کواڈ کو آگے لایا گیا۔‘ انھوں نے مزید کہا ’کواڈ کو پہلے قائم کیا گیا تھا لیکن یہ چل نہیں سکا۔ اس کا دوسرا اوتار 2017 میں سامنے آیا۔ انڈیا کواڈ میں اس لیے شامل ہوا کیونکہ وہ چین کے ساتھ توازن برقرار رکھنا چاہتا تھا اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب انڈوپسیفک کی چار سپر پاورز (انڈیا، امریکہ ، جاپان اور آسٹریلیا) ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور چین کو بتائیں کہ خطے میں جو بھی کام کرنا ہے وہ قانون کے تحت کرنا پڑے گا اور اگر آپ تعاون نہیں کرتے ہیں تو ہم وہ کریں گے جو ہمیں کرنے کی ضرورت پڑے گی۔‘ اب تک اگر ہم برکس کانفرنس میں شی جن پنگ کی شرکت پر نظر ڈالیں تو وہ پچھلے پانچ برسوں سے اس میں مستقل طور پر شریک ہو رہے ہیں اور انڈیا میں خارجہ پالیسی پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس بار بھی اُن کے شامل ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما سبرامنیم سوامی نے ایک ٹویٹ میں تجویز پیش کی تھی کہ انڈیا کا جھکاؤ برکس کی طرف ہونا چاہیے لیکن یہ تجویز انڈیا کی خارجہ پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتی۔ انڈیا کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جےشنکر نے حال ہی میں ’دی انڈین وے: سٹریٹجی فار این انسرٹن ورلڈ‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے چین کے بارے میں ایک مکمل باب لکھا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ چین کو سنبھالا جائے۔ وزارت خارجہ کے ذرائع نے بتایا کہ کواڈ اور برکس دونوں میں انڈیا کی شمولیت سے توازن بگاڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ذرائع نے بتایا کہ انڈیا ہر بین الاقوامی سٹیج پر بڑی ٹیبل پر بیٹھنا چاہتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56330269", "summary": "پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں جب وبا کا زور کم ہونے کے بعد لاک ڈاون اٹھا تو رجب اور شعبان کے مہینوں میں بےشمار شادی کی تقریبات منعقد ہوئیں، جن کی وجہ سے مرغی کی طلب میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ دوسری جانب صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے کا ماننا ہے کہ پولٹری کا شعبہ ناجائز منافع خوری کے لیے چکن کی قیمتوں کو بڑھا رہا ہے۔", "title": "کیا شادی سیزن بازار میں چکن کی قلّت کا باعث بنا؟", "firstPublished": "2021-03-09T05:49:23.000Z", "id": "2d97b393-706b-429a-a073-7d85bb46cd9e", "article": "دوسری جانب ایک نجی کمپنی میں کام کرنے والے محمد اعظم چکن کی قیمتوں میں اضافے سے پریشان ہیں۔ انھوں نے کہا مٹن بارہ تیرہ سو روپے کلو ہونے کی وجہ سے قوت خرید سے باہر ہو چکا ہے تو دوسری جانب بیف کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔ ایک لے دے کے مرغی کا گوشت بچا تھا کہ جو ایک عام آدمی کھا سکتا تھا تاہم وہ بھی اب پہنچ سے باہر ہو رہا ہے۔ دوسری جانب صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے پاکستان کنزیومر ایسوسی ایشن کے مطابق پولٹری کا شعبہ ناجائز منافع خوری کے لیے اس کی قیمتوں کو بڑھا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں چکن کی قیمتوں میں اضافے کے سلسلے میں جب پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن سے رابطہ کیا گیا تو ایسوسی ایشن کے ترجمان معروف صدیقی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ یہ اضافہ رسد اور طلب کی وجہ سے ہوا ہے۔ ان کے مطابق اس وقت سپلائی کم ہے اور اس کی طلب زیادہ ہے جو اس کے اضافے کا سبب بنی ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں کورونا وائرس کی وجہ سے بہت سارے پولٹری فارمز بند ہو گئے تھے اور جب کورونا وائرس میں کمی کے بعد لاک ڈاون اٹھا تو طلب میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ معروف صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان میں رجب اور شعبان کے مہینے شادیوں کے مہینے ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں شادی کی بے پناہ تقریبات منعقد ہوئی ہیں اور ابھی تک جاری ہیں۔ انھوں نے کہا اس کا ثبوت رات کے علاوہ دن کے اوقات میں بھی ولیمے کے تقریبات سے لگایا جا سکتا ہے۔ ’ان تقریبات کی وجہ سے چکن کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور طلب تو زیادہ ہوئی لیکن کورونا وائرس کے لاک ڈاون میں بند ہو جانے والے پولٹری فارمز کی وجہ سے رسد اس طلب کو پورا نہیں کر پا رہا۔‘ ان کے مطابق طلب و رسد میں انتا بڑا فرق کیسے آگیا کہ کچھ دنوں میں چکن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ ان کے مطابق یہ اس شعبے کے افراد کی ملی بھگت ہے اور ان کی زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی کوشش ہے۔ کوکب اقبال نے کہا کہ ملک میں ہر دوسرے شعبے کی طرح پولٹری میں بھی ایک مافیا کام کر رہا ہے جو اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھا دیتا ہے اور پھر اسے طلب و رسد میں فرق سے جوڑتا ہے۔ ان کے مطابق سوشل میڈیا پر اس مہم نے زور پکڑا ہے اور لوگوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ زیادہ نہیں تو صرف دس دن کے لیے برائلر مرغی کا استعمال اور اس کا خریدنا بند کر دیں تو اس کی قیمتیں نیچے آ جائیں گی۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس مہم کے نتیجے میں لوگ چکن کا بائیکاٹ کر کے اس شعبے میں ناجائز منافع خوری کرنے والے عناصر کے ارادوں کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-56310550", "summary": "سنہ 1975 میں آئس لینڈ کی نوے فیصد خواتین نے 24 اکتوبر کو ایک دن کے لیے کھانا پکانے، صفائی کرنے اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے سے انکار کردیا۔ خواتین کے اس اعلان کا اثر یہ ہوا کہ پورا ملک اچانک رک گیا۔ کام پر جانے والے مردوں کو فوری طور پر گھر واپس آنا پڑا اور بچوں کو ریستوران لے کر بھاگنا پڑا اور وہ تمام کام رک گئے جو عام طور پر مرد کرتے تھے۔", "title": "عورتیں اگر گھر کا کام کرنا چھوڑ دیں تو کیا ہوگا؟", "firstPublished": "2021-03-07T11:31:37.000Z", "id": "ac9cfbad-b165-4a6b-8b8a-6024e73e2014", "article": "اور یہ پہلا موقع نہیں تھا جب عدالتوں نے 'گھریلو کام' کو معاشی سرگرمی کے طور پر منظور کرنے کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ چین سے لے کر انڈیا اور مغربی دنیا کے ممالک کی عدالتوں نے بار بار ایسے فیصلے دیے جن میں خواتین کی بنا کسی اجرت مزدوری (بلا معاوضہ مزدوری) کو معاشی پیداوار کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں، اس سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ خواتین گھر کے افراد کی دیکھ بھال کے لیے روزانہ 134 منٹ لگاتی ہیں جبکہ مرد صرف 76 منٹ اس کام میں صرف کرتے ہیں۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا: 'گھریلو خاتون کی آمدنی کا تعین کرنے کا معاملہ بہت اہم ہے۔ یہ ان تمام خواتین کے کام کو تسلیم کرتا ہے خواہ وہ متبادل کے طور پر یا معاشرتی/ ثقافتی اصولوں کے تحت اس سرگرمی میں مصروف ہیں۔ ابھی یہ سارے کام خواتین کر رہی ہیں جو بنیادی طور پر حکومت کے کام ہیں کیونکہ ایک شہری کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ملک کی ہوتی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خواتین مفت میں حکومت کے لیے کام کرنا چھوڑ دیں تو پھر کیا ہوگا؟ وہ کہتی ہیں: 'گھر میں خواتین جو کھانا پکاتی ہیں، کپڑے دھوتی ہیں، بازار سے سامان لاتی ہیں، بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، گھر میں بیمار لوگوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ یہ سب سروسز ہیں جن کا براہ راست پیداوار سے تعلق ہے۔ یہ کام ملک کی آمدنی اور ملک کو صحت مند رکھنے میں ان کی کمائی کا حصہ ہیں۔' سنہ 1975 میں آئس لینڈ کی نوے فیصد خواتین نے 24 اکتوبر کو ایک دن کے لیے کھانا پکانے، صفائی کرنے اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے سے انکار کردیا۔ خواتین کے اس اعلان کا اثر یہ ہوا کہ پورا ملک اچانک رک گیا۔ کام پر جانے والے مردوں کو فوری طور پر گھر واپس آنا پڑا اور بچوں کو ریستوران لے کر بھاگنا پڑا اور وہ تمام کام رک گئے جو عام طور پر مرد کرتے تھے۔ 'لیکن پدر شاہی معاشرے نے خواتین پر گھریلو کام مسلط کر دیا ہے۔ اس سے ان کے پیروں میں ایک طرح کی بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں۔ ان پر دباؤ ہے کہ پہلے وہ گھر کا کام کریں اور پھر کوئی اور کام کریں۔ اگر وہ کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں تو ہمارا کنبہ نامی ادارہ پہلے ختم ہوجائے گا۔ صرف یہی نہیں نجی شعبے سے لے کر سرکاری شعبے تک کا کام رک ہوجائے گا۔ آپ کو یہ یقین کرنا ہوگا کہ بلا معاوضہ محنت کے بغیر معیشت نہیں چل سکتی ہے۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56301623", "summary": "بلیو اکانومی کے شعبے میں اگر پاکستان کا مقابلہ خطے کے دیگر ممالک سے کیا جائے تو بنگلہ دیش اور انڈیا زیادہ آگے ہیں اور اس کی وجہ اس شعبے میں حائل مخلتف قسم کی رکاوٹیں ہیں۔", "title": "بلیو اکانومی کیا ہے اور پاکستان اس میں انڈیا سے پیچھے کیوں ہے؟", "firstPublished": "2021-03-06T12:00:03.000Z", "id": "fe6c6dfa-4899-41f2-af6a-0ef0cd56b2dd", "article": "پاکستان میں بلیو اکانومی کی ترقی کا مقابلہ اگر خطے کے دوسرے ممالک سے کیا جائے جن میں خاص طور پر بنگلہ دیش اور انڈیا شامل ہیں تو پاکستان ان دونوں سے بلیو اکانومی اور اس سے ملنے والے مالی فوائد سمیٹنے میں پیچھے ہے۔ بلیو اکانومی کے شعبے میں اگر پاکستان کا مقابلہ خطے کے ممالک سے کیا جائے تو اس میں بھی ملک کی صورتحال قابل ذکر نہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش اور انڈیا بلیو اکانومی میں زیادہ آگے ہیں۔ ڈاکٹر انیل سلمان نے بتایا کہ بلیو اکانومی کے پیمانے جی ایم پی کے لحاظ سے بات کی جائے تو پاکستان کا جی ایم پی 1.5 ارب ڈالر ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کا جی ایم پی چھ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے اور انڈیا بھی چھ ارب ڈالر تک پہنچا ہوا ہے۔ ڈاکٹر انیل نے کہا کہ انڈیا نے خود کو ’بلیو نیشن‘ بنانے کے لیے ایک 15 برس کا ماسٹر پلان تیار کیا جسے انھوں نے ’ساگر مالا‘ کا نام دیا، جس کے ذریعے وہ بلیو اکانومی کے مختلف شعبوں کو فروغ دے سکے۔ اسی طرح بنگلہ دیش نے بھی بہت سارے ایسے اقدامات اٹھائے جن کی وجہ سے ان کی بلیو اکانومی بہترین طریقے سے چل رہی ہے اور اسے اپنے پانچ سالہ منصوبے کا ایک اہم حصہ بنایا جس میں مچھلی کی صنعت کی ویلیو ایڈیشن چین کو بہتر بنایا گیا۔ ڈاکٹر انیل نے بتایا کہ پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک میں مقابلے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی مچھلی بیرون ملک دو سے تین ڈالر فی کلوگرام کے لحاظ سے فروخت ہو رہی ہے جب کہ بنگہ دیش اور انڈیا سے جانے والی مچھلی چھ سے سات ڈالر فی کلو گرام فروخت ہوتی ہے۔ جس کی وجہ ہمارے ہاں مچھلی کی پراسیسنگ کا ناقص نظام ہے اور ان ممالک میں اس پر خصوصی توجہ دی گئی۔ افتخار راؤ نے بھی تصدیق کی کہ انڈیا اور بنگلہ دیش بلیو اکانومی میں پاکستان سے آگے ہیں تاہم یہاں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ انڈیا کا سائز بڑا ہے اور اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس کی ترقی بھی اتنی شاندار نہیں تاہم پاکستان سے ان کی حالت بہتر ہے۔ ڈاکٹر انیل نے کہا کہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب بھی ملک میں بلیو اکانومی اور ساحلی علاقے کی بات ہوتی ہے تو فوری طور پر پاکستان نیوی کا ذکر ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب اگر انڈیا کے منصوبے ’ساگر مالا‘ کی بات کی جائے تو اس میں نجی سرمایہ کاری پر زور دیا گیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-56226956", "summary": "چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ اُنھوں نے 2012 میں عہدہ سنبھالنے پر 10 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالنے کا جو عزم کیا تھا، وہ اب پورا ہو گیا ہے۔ مگر چین نے واقعتاً کیا کامیابی حاصل کی ہے؟", "title": "کیا چین نے 10 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے؟", "firstPublished": "2021-02-28T05:30:38.000Z", "id": "264b1a5b-b2a0-4467-bde2-62ef4af1be81", "article": "چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ اُنھوں نے 2012 میں عہدہ سنبھالنے پر 10 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالنے کا جو عزم کیا تھا، وہ اب پورا ہو گیا ہے۔ مگر چین نے واقعتاً کیا کامیابی حاصل کی ہے؟ ہم نے چین کے ڈیٹا کا موازنہ ورلڈ بینک کے ترتیب دیے گئے غربت کے عالمی اعداد و شمار سے کیا ہے۔ چین میں غریب ایسے کسی شخص کو قرار دیا جاتا ہے جو دیہی علاقے میں رہتا ہو اور روزانہ 2.30 ڈالر سے کم کماتا ہو۔ یہ معیار 2010 میں طے کیا گیا تھا اور اس میں آمدنی کے ساتھ ساتھ رہن سہن، طبی سہولیات اور تعلیم تک رسائی کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر چین میں 30 سال پہلے آج کے مقابلے میں 74 کروڑ 50 لاکھ لوگ انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ حکومت نے کروڑوں لوگوں کو دور دراز دیہات سے نکال کر اپارٹمنٹ کمپلیکسز میں منتقل کیا ہے۔ کچھ جگہوں پر یہ عمارتیں قصبوں اور شہروں میں بنائی گئیں مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ پرانے دیہات کے قریب نئے گاؤں بسائے گئے۔ مگر یہ بھی تنقید کی جاتی رہی ہے کہ لوگوں کو گھر یا ملازمت تبدیل کرنے میں انتخاب کی آزادی نہیں تھی۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ شدید غربت سے لوگوں کو نکالنے میں یہ کامیابی کُلّی طور پر حکومت کی وجہ سے نہیں ہے۔ ان کے مطابق 'چینی لوگوں نے انتہائی محنت کر کے خود کو غربت سے نکالا ہے اور اس کی کچھ وجہ چیئرمین ماؤ کے بنائی گئی انتہائی بے وقوفانہ اقتصادی پالیسیوں کو سرمایہ دارانہ نظام کی صورتوں سے بدل دینا ہے۔' چین نے شدید غربت سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ کام کیا ہے، مگر کیا اسے خود کو بلند معیار کا حامل قرار دینا چاہیے؟ مثال کے طور پر ورلڈ بینک بالائی متوسط آمدنی کے ممالک کے لیے غربت کی لکیر کو بلند سطح رکھتا ہے جس کا مقصد وہاں موجود معاشی حالات کی بہتر عکاسی کرنا ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ معیار یومیہ 5.50 ڈالر آمدنی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق چین اب بالائی متوسط آمدنی والا ملک ہے۔ اس کے علاوہ چین میں غیر مساوی آمدنی کا مسئلہ بھی وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ گذشتہ سال چینی وزیرِ اعظم لی کی چیانگ نے کہا تھا کہ اب بھی چین میں 60 کروڑ لوگ ایسے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی بمشکل 1000 یوآن (154 ڈالر) ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ آمدنی کسی شہر میں ایک کمرہ بھی کرائے پر حاصل کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ مگر کسی بھی معیار سے دیکھیں، تو چین نے گذشتہ چند دہائیوں میں کروڑوں لوگوں کو سخت ترین حالاتِ زندگی سے نکالنے میں زبردست پیش رفت کی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56218144", "summary": "ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس میں فرانس نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی مخالفت کی ہے، فرانس ایسا کیوں کر رہا ہے۔", "title": "ایف اے ٹی ایف: فرانس نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی پرزور مخالفت کیوں کی؟", "firstPublished": "2021-02-27T05:05:45.000Z", "id": "3533abde-4d99-4645-9246-0ebe4cdc1702", "article": "منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے عالمی ادارے فائنینشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے 25 فروری کو ختم ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو ایک بار پھر گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور پاکستان کو اس لسٹ سے نکلنے مزید تین نکات پر توجہ دینے کی ہدایت کی ہے۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کو تین سفارشات پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اس لیے اسے جون 2021 تک گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے ۔ جون کے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف اس پر غور کرے گا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا جائے یا اس سے 'ڈو مور' کا تقاضا کیا جائے۔ واضح رہے کہ پاکستان کو سنہ 2018 میں گرے لسٹ میں ڈالتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی 40 سفارشات میں سے صرف 13 پر پورا اترتا ہے اور اسے 27 سفارشات پر عملدرآمد کرنے کے لیے ایک سال کا وقت دیا گیا۔ جب سے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا ہے، پاکستان کے پڑوسی ملک انڈیا نے بڑھ چڑھ کر پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کی کوششیں کی ہیں اور کئی بار تو انڈیا کے سینئر وزرا ایف اے ٹی ایف کے اجلاس سے پہلے پاکستان کے بلیک لسٹ میں جانے کی پیشگوئیاں کرتے رہے ہیں لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو پایا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس کی جو اطلاعات سامنے آئیں ہیں ان کے مطابق اس اجلاس میں پاکستان کے روایتی حریف انڈیا سے بھی بڑھ کر یورپ کے ایک بااثر ملک فرانس نے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالنے کی مخالفت کی ہے۔ فرانس کی طرف پاکستان کی کھل کر مخالفت کی وجہ کیا ہے، کیا اس کے پیچھے فرانس کے انڈیا کے ساتھ ہونے والے دفاعی آلات کی فراہمی کے معاہدے ہیں یا حالیہ مہینوں میں پیغمبر اسلام کے توہین آمیز خاکوں کی دوبارہ نمائش پر پاکستان کی حکومت کا ردعمل ہے۔ پاکستان کے ممتاز سفارت کار اور سابق سیکرٹری خارجہ نجم الدین شیخ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کے حوالے سے فرانس کے رویے کو انڈیا کے ساتھ اس کے دفاعی سازو سامان کی فروخت کے روشنی میں دیکھا جائے تو فرانس کی مخالفت کی وجہ سمجھ آتی ہے۔ پاکستان میں ایف اے ٹی ایف کوارڈینشین کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر حماد اظہر نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے اب گرے سے بلیک لسٹ میں جانے کے امکانات ختم ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس موقع تھا کہ وہ کووڈ کی عالمی وبا کی وجہ ایف اے ٹی ایف کے اس اجلاس میں رپورٹ جمع نہ کراتا لیکن پاکستان نے ایسا نہیں کیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56204519", "summary": "پاکستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے وفاقی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے سگریٹ، سیمنٹ، فرٹیلائزر اور چینی کے پیداواری شعبوں میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم متعارف کرانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم نافذ بھی ہو پائے گا؟", "title": "کیا ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم پاکستان میں ٹیکس چوری کو روک پائے گا؟", "firstPublished": "2021-02-26T09:56:49.000Z", "id": "65b442ca-2540-42e0-9c43-b095cd1b5f6b", "article": "پاکستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے وفاقی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے سگریٹ، سیمنٹ، فرٹیلائزر اور چینی کے پیداواری شعبوں میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم متعارف کرانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق اس سسٹم کے نفاذ سے ان پیداواری شعبوں میں ٹیکس چوری کو روکا جائے گا۔ یہ سسٹم پاکستان میں صنعتی شعبے میں ٹیکس چوری کو روک پائے گا یا نہیں، اس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سسٹم تو دنیا کے مختلف ممالک میں کامیابی سے کام کر رہا ہے لیکن کیا پاکستان میں بڑے پیداواری شعبے اس سسٹم کو اپنے پیداواری اداروں میں آسانی سے نافذ ہونے دیں گے؟ ملک میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے ایف بی آر کی ویب سائٹ پر موجود اعلامیے کے مطابق ریونیو کے خسارہ کے تدارک کے لیے 'پیداوار اور فروخت کے اعداد و شمار کو کم ظاہر کرنے کی وجہ سے اور مخصوص اشیا و مصنوعات پر لاگو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی و سیلز ٹیکس کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے ایف بی آر نے مخصوص مصنوعات جیسا کہ سیمنٹ، چینی، کھاد اور مشروبات کی درآمدات اور ان کی پیداوار کو جانچنے کے لیے الیکٹرانک ٹریک اینڈ ٹریس نظام کو رائج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘ شبر زیدی نے کہا کہ ’اس سسٹم کے ذریعے نہ صرف پیداواری شعبوں کی جانب سے پیداوار اور فروخت کا صحیح ڈیٹا ٹیکس جمع کرنے والے ادارے کے پاس ہو گا بلکہ اس کے ساتھ جعلی مصنوعات کی روک تھام بھی ہو سکے گی۔ جب بھی کوئی مخصوص شہ کسی کمپنی سے تیار ہو کر نکلے گی تو اس پر اس سسٹم کے تحت ایک مخصوص سٹیمپ لگی ہو گی جس کے ذریعے پتا چلے گا کہ یہ چیز کمپنی میں تیار کردہ ہے یا جعلی ہے۔‘ ایف بی آر کے ترجمان نے رابطہ کرنے پر بتایا ’جن پیداواری شعبوں میں یہ سسٹم نافذ کیا جا رہا ہے ان کی جانب سے ٹیکس چوری اربوں روپے کی ہے۔‘ انھوں نے اس امید کا اظہار کی کہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے نفاذ سے ان شعبوں سے پانچ سے چھ ارب روپے زیادہ ٹیکس جمع ہو گا اور یہ مستقبل میں دس ارب روپے تک جا سکتا ہے۔ پاکستان میں سگریٹ بنانے والے ادارے پاکستان ٹوبیکو کمپنی سے جب رابطہ کیا گیا اور سگریٹ کے پیداواری شعبے کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے تحت آنے پر پوچھا گیا تو کمپنی کے ترجمان مدیح پاشا نے کہا کہ اگر اس سسٹم کے ذریعے ملک میں غیر قانونی سگریٹ کی خرید و فروخت کی روک تھام ہو سکے تو یہ ایک اچھا اقدام ہو گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56204521", "summary": "سمیرا فاضلی اس وقت امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ میں قومی اقتصادی کونسل کی ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ اس سے پہلے وہ صدر باراک اوبامہ کی انتظامیہ میں اقتصادی امور کی سینیئر مشیر رہ چکی ہیں۔", "title": "وائٹ ہاؤس میں حجاب پہنے بریفنگ دینے والی سمیرا فاضلی کون ہیں؟", "firstPublished": "2021-02-26T05:37:21.000Z", "id": "53eff918-f3f4-4874-8f5a-ed2af4f4f187", "article": "سمیرا فاضلی اس وقت امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ میں قومی اقتصادی کونسل کی ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ اس سے پہلے وہ صدر باراک اوبامہ کی انتظامیہ میں اقتصادی امور کی سینیئر مشیر رہ چکی ہیں۔ سمیرا امریکی ریاست نیویارک کے شہر بفلو کے ایک قصبے فلیمزوائیل میں پیدا ہوئی تھیں جہاں اُس وقت اُن کے والدین ہسپتالوں میں کام کرتے تھے۔ بعد میں سمیرا اپنے شوہر اور تین بچوں کے ہمراہ ریاست جارجیا منتقل ہو گئیں۔ وہیں سمیرا ریزرو بینک آف اٹلانٹا میں ڈائریکٹر بنیں، لیکن وائٹ ہاؤس میں تقرری کے بعد وہ وہاں سے عارضی رخصت پر ہیں۔ وہ جس شعبے کی ڈپٹی ڈائریکٹر بنیں ہیں ان کے ذمے اقتصادی امور پر امریکی صدر جو بائیڈن کو کم آمدن والی امریکیوں کی حالت بہتر کرنے کے لیے مشورے دینا ہے۔ ییل میں وہ مشرق وسطیٰ کے امور کی لیگل سٹڈیز کے سیمینار کی چیئرمین تھیں اور انھوں نے تنقیدی اسلامی عکاسی کانفرنس کے بورڈ میں بھی خدمات انجام دیں۔ لا سکول سے پہلے سمیرا دیگر سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہیں جن میں 'کرامہ' نامی مسلم خواتین وکیل برائے انسانی حقوق تنظیم شامل ہے۔ کرامہ کے ساتھ انھوں نے مغربی یورپ میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کانگریس کے سامنے اپنی تحقیق کی روشنی میں بیانات دیے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق اور ترقی کے اس کے تجربے میں عالمی ادارہ صحت اور مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن میں کام بھی شامل ہے۔ سمیرا فاضلی کو اپنے کام کی بدولت فلسطین، کشمیر اور پاکستان جیسے خطوں میں جانے کے مواقع ملے۔ سمیرا کے والدین خود ڈاکٹر ہیں جنھوں نے سری نگر کے سرکاری کالج سے ڈاکٹر بننے کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے والدین، ڈاکٹر محمد یوسف فاضلی سرجن ہیں، اور والدہ ڈاکٹر رفیقہ فاضلی، جو کہ پیتھالوجسٹ ہیں، دونوں سنہ 1971 میں امریکہ ہجرت کر گئے تھے۔ مبین کی اس عزیز داری کی وجہ سے فاضلی خاندان نے اس کی رہائی کے لیے واشنگٹن میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا تھا۔ سمیرا کی بہن، یُسریٰ فاضلی، جو کہ انسانی حقوق کی ایک وکیل بھی ہیں نے سنہ 2019 میں امریکی کانگریس کے سامنے پیش ہو کر کشمیر کے حالات کے بارے میں بیانات بھی دیے تھے۔ امریکہ میں ان کی تقرری کے موقعے پر سری نگر میں آباد ان کے عزیز و اقارب نے جشن منایا تھا۔ موجودہ امریکی انتظامیہ میں وہ دوسری کشمیری امریکی خاتون ہیں جنھیں انتظامیہ نے ایک اہم عہدے پر تعینات کیا ہے۔ دوسری کشمیری بھی ایک خاتون ہیں جن کا نام عائشہ شاہ ہے اور وہ ڈیجیٹل سٹریٹیجی سے وابستہ ہیں۔ سمیرا فاضلی نہ صرف قابلیت کے لحاظ سے پہچانی جاتی ہیں بلکہ انھیں سپورٹس کا بھی شوق ہے، وہ سکیئنگ، تیراکی، ٹینِس اور سیر و سیاحت میں بھی دلچسپی رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں کشمیری کھانے کھانے کا بھی شوق ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56149591", "summary": "گلابی نمک پاکستان میں جہلم سے کوہاٹ کے درمیان پہاڑی سلسلے میں پایا جاتا ہے اور دنیا بھر میں نمک کی یہ قسم کسی اور ملک میں موجود نہیں۔ اس کا رنگ اور اس میں موجود آئرن کی مقدار اسے عام نمک سے منفرد بناتی ہے اور یہی اس کی مقبولیت کی وجہ ہے۔", "title": "پاکستان کو گلابی نمک کے حقوق محفوظ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟", "firstPublished": "2021-02-22T04:19:36.000Z", "id": "da96e397-b76a-4ff6-935c-c4d4901b12d7", "article": "گلابی نمک صرف پاکستان میں پایا جاتا ہے اور دنیا میں نمک کی یہ قسم کہیں اور موجود نہیں اس اعلان کے مطابق پاکستان گلابی نمک کو جی آئی قوانین کے تحت رجسٹر کرے گا کہ یہ خالص پاکستان میں پیدا ہونے والی پراڈکٹ ہے اور اسے دنیا میں برآمد اور فروخت کرنے کا حق صرف پاکستان کو حاصل ہے۔ گلابی نمک پاکستان میں جہلم سے کوہاٹ کے درمیان پہاڑی سلسلے میں، جو تین سو کلومٹیر سے زائد فاصلے پر محیط ہے، پایا جاتا ہے۔ حب سالٹ کے چیف ایگزیکٹیو افسر اور نمک کے برآمد کنندہ اسماعیل ستار نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ گلابی نمک جہلم سے کوہاٹ کے درمیانی علاقے میں پایا جاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ گلابی نمک صرف پاکستان میں پایا جاتا ہے اور دنیا میں نمک کی یہ قسم کہیں اور موجود نہیں۔ گلابی نمک پاکستان میں جہلم سے کوہاٹ کے درمیان پہاڑی سلسلے میں پایا جاتا ہے عام نمک اور گلابی نمک کے درمیان فرق پر بات کرتے ہوئے اسماعیل ستار نے بتایا کہ گلابی نمک کی سب سے خاص بات اس کا رنگ ہے جو اسے عام نمک سے منفرد کرتا ہے اور اسی وجہ سے یہ پاکستان اور دنیا بھر میں مقبول ہے۔ انھوں نے کہا کہ رنگ کے ساتھ اس میں آئرن یعنی فولاد کی مقدار عام نمک کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر میں لوگ آئرن کی کمی کا شکار ہیں، اس لیے ایسے لوگ بھی اسے زیادہ استعمال کرتے ہیں جو آئرن کی کمی کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہیں۔ اسماعیل ستار نے بھی اس بات کو مسترد کیا کہ انڈیا گلابی نمک پر کوئی اقدام کر سکتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان میں پیدا ہونے والے گلابی نمک کو انڈیا اپنے نام سے دنیا بھر میں بیچتا ہے تو انھوں نے اس سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف سوشل میڈیا پر چلنے والی باتیں ہیں جن میں کوئی حقیقت نہیں۔ پاکستان میں انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن (آئی پی او) کے حکومتی ادارے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر میثاق عارف نے بتایا کہ اگر انڈیا نے پاکستان کا گلابی نمک اپنے نام سے کہیں بیچا تو انڈیا کیا دنیا کا کوئی بھی ملک یہ کام کر سکتا ہے کیوںکہ گلابی نمک کو جی آئی قوانین کے تحت پاکستان میں تحفظ نہیں۔ ’باسمتی اگر انڈیا میں پیدا ہوتا ہے تو یہ انڈیا میں بھی اُگایا جاتا ہے تاہم گلابی نمک پر یہ ممکن نہیں کیونکہ یہ صرف پاکستان کے کچھ مخصوص علاقوں میں پایا جاتا ہے اور دنیا میں کہیں بھی اس کے ذخائر نہیں ملتے۔‘ انھوں نے مزید کہا ’اسی طرح ادارہ کسی بھی ملک کو بتائے گا کہ یہ پراڈکٹ خالص پاکستان میں پیدا ہوتی ہے اور اس کے حقوق پاکستان کے نام پر محفوظ ہونے چاہییں۔ پاکستان یہ درخواست گلابی نمک کی پیداوار کے محل وقوع، اس کے رنگ و دوسری خصوصیات کی بنیاد پر دے گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56122186", "summary": "پاکستان تحریک انصاف نے اپنے ڈھائی سالہ دور حکومت میں 20 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے تو واپس کیے ہیں تاہم ان کے دور اقتدار میں ملک کا مجموعی بیرونی قرضہ تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔ اس بارے میں معاشی ماہرین کے مطابق حکومت نے اس بیرونی قرض کو اتارنے کے لیے نیا قرض لے کر ملک پر قرضوں کا مزید بوجھ ڈال دیا ہے۔", "title": "کیا حکومتِ پاکستان قرض لے کر قرض اتارنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے؟", "firstPublished": "2021-02-20T04:32:05.000Z", "id": "acc1d2b4-37ea-46bb-87c7-592d5d6ec3bd", "article": " وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے ڈھائی سالہ دورِ حکومت میں پاکستان نے 20 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ واپس کیا ہے جو بیرونی قرضوں کی ریکارڈ واپسی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے ڈھائی سالہ دور حکومت میں 20 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے تو واپس کیے ہیں تاہم ان کے دور اقتدار میں ملک کا مجموعی بیرونی قرضہ تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق حکومت نے قرض تو واپس کیا ہے لیکن اس بیرونی قرض کو اتارنے کے لیے اس نے نیا قرض لے کر ملک پر قرضوں کا مزید بوجھ ڈال دیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دعویٰ کے مطابق موجودہ حکومت نے اپنے ڈھائی سالہ دور اقتدار میں 20 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ واپس کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلے گا کہ موجودہ حکومت کی مدت شروع ہونے سے لے کر 31 دسمبر 2020 تک اس حکومت نے 20.454 ارب ڈالر کا بیرونی قرض واپس کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان مسلم لیگ نواز کے پہلے ڈھائی سالہ دور حکومت میں بیرونی قرض کی واپسی کو دیکھا جائے تو اس کی مالیت 9.953 ارب ڈالر تھی۔ ان کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت کے پہلے ڈھائی سالوں میں 6.454 ارب ڈالر کا بیرونی قرض واپس کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہر سال پاکستان کے ذمے بیرونی قرض میں سے آٹھ سے دس ارب ڈالر ادائیگی کے لیے میچور ہوجاتا ہے۔ ان کے مطابق اس کی ادائیگی کے لیے نیا قرض لینا پڑتا ہے تو اس کے ساتھ بجٹ خسارے کے لیے مزید قرض بھی حاصل کرنا پڑتا ہے جو تقریباً پانچ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ ماہر معیشت قیصر بنگالی نے اس سلسلے میں کہا کہ وزیر اعظم کی جانب سے 20 ارب ڈالر قرضے کی واپسی کی تصدیق اگر سرکاری اعداد و شمار سے ہوتی ہے تو اسے جھٹلانے کی کوئی ضرورت نہیں تاہم یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ بیرونی قرضہ پاکستان نے اپنے وسائل پیدا کر کے ادا کیا یا پھر بیرون ملک سے نیا قرض اٹھا کر پرانا قرض ادا کیا۔ عبد الرحمن وڑائچ نے کہا کہ یہ ملک میں حکومتوں کی پالیسی رہی ہے کہ اندرونی و بیرونی ذرائع سے قرض لے کر اپنے بجٹ خسارے کو پورا کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں بین الاقوامی اداروں سے لیے گئے قرضے کے علاوہ مقامی طور پر بینکوں سے لیا جانے والا ادھار بھی شامل ہے۔ انھوں نے کہا یہ حکمت علمی مختلف حکومتوں نے اپنائی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-56034277", "summary": "ہارلی والش نامی خاتون نے اپنے مکینک والد کے لیے نئے گاہک حاصل کرنے کی امید سے ان کی ایک تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی۔ ایک گھنٹے کے اندر ان کی یہ پوسٹ 1000 سے زیادہ دفعہ شیئر کیا گئی اور ایک ہفتے میں یہ تعداد 19 ہزار سے زیادہ ہو گئی۔", "title": "وہ لڑکی جس نے ایک ٹویٹ سے اپنے والد کا ڈوبتا کاروبار بچا لیا", "firstPublished": "2021-02-12T14:43:46.000Z", "id": "e2bb5fe7-daae-405c-ba0f-5799852a8925", "article": "ایک خاتون نے بتایا ہے کہ کیسے انھوں نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اپنے والد کی کاروں کی ورکشاپ کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ ہارلی والش نامی اس خاتون کے والد ایک مکینک ہیں۔ انھوں نے نئے گاہک حاصل کرنے کی امید سے اپنے والد کی ایک تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی۔ ان کی یہ ٹویٹ اس وقت مقبول ہونے لگی جب ان کے والد نے کہا کہ ان کا ایسٹ کلبرائڈ میں 35 سال پرانا کاروبار کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے بحران کا شکار تھا۔ ہارلی بتاتی ہیں کہ ان کے گاہکوں کی تعداد روزانہ پانچ سے کم ہو کر ایک ہفتے میں بھی پانچ سے کم رہ گئی تھی کیونکہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران سڑکوں پر کاروں کی تعداد انتہائی کم ہو گئی تھی۔ ہارلی والش خود ایک آئی لیش ٹکنیشن (یعنی پلکوں کی ٹیکنیشن) ہیں۔ جمعرات کو انھوں نے کاروبار میں کچھ اضافے کی امید سے اپنے والد کی تصویر ٹویٹ کی۔ مگر ایک گھنٹے کے اندر ان کی یہ پوسٹ 1000 مرتبہ سے زیادہ دفعہ شیئر کی جا چکی تھی اور ایک ہفتے میں یہ تعداد 19 ہزار سے زیادہ ہو گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کے والد کی ورکشاپ پورے ہفتے کے لیے بک ہو چکی ہے اور آئندہ دو ہفتوں کے لیے ان کے پاس بہت کام ہے۔ ان کی ٹویٹ میں لکھا تھا: ’یہ میرے والد ہیں۔ ان کا 35 سال سے زیادہ پرانا کار مکینک گیراج موجودہ وبا کی وجہ سے مشکل میں ہے۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو اس کے بچنے کے امکان کم ہیں۔‘ ہارلی نے بی بی سی ریڈیو سکاٹ لینڈ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’گزشتہ کچھ عرصے سے میرے والد کے لیے بہت مشکل ہو گیا تھا۔ انھیں ماضی میں مسائل نہیں تھے مگر جمعرات کو ان کے پاس کوئی گاہک نہیں تھا تو ایسا اب کئی مہینوں سے تھا۔‘ ’مگر میں نے ان سے کہا ’ابو آپ ایمانداری کے ساتھ کام کی تلاش کر رہے ہیں۔ اور پھر اس کا بہت اچھا رد عمل آیا اور ان کے پاس بہت زیادہ کام آ گیا۔‘ ہارلی کہتی ہیں کہ کاروبار میں کمی ان کے والد پر بہت اثر انداز ہو رہی تھی مگر اب وہ اپنے پرانے انداز میں لوٹ آئے ہیں۔ ہارلی کہتی ہیں ’ہمیں بس امید ہے یہ جاری رہے۔ میرے والد کا خیال تھا کہ نوجوانوں کو اپنی کاریں ٹھیک کرانے کی اتنی ضرورت نہیں پڑتی اور اسی لیے وہ کافی حیران ہوئے جب اتنے سارے نوجوان لوگوں نے سروس کے لیے ان سے رابطہ کیا۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ ’گزشتہ ہفتے جب میں اپنے والد کی کام پر مدد کر رہی تھی تو سارا دن بار بار میرے پاس آتے رہے اور مجھے گلے لگاتے رہے۔ انھیں ایسے دیکھ کر اچھا لگا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55966937", "summary": "بینکوں کے ڈیپازٹس جو سترہ ہزار ارب سے تجاوز کر چکے ہیں اگر اس کے مقابلے میں نجی شعبے کو دیے جانے والے قرضے کو دیکھا جائے تو یہ بہت کم اور مجموعی طور پر ڈیپازٹس کا صرف دس فیصد بنتا ہے۔", "title": "پاکستانی بینکوں کی قرضہ پالیسی: سرکار کے لیے کھلیں تجوریاں، مگر عوام کے لیے شرائط کے انبار", "firstPublished": "2021-02-07T05:07:31.000Z", "id": "c5d7ab5d-f25f-4209-811b-2efa28097504", "article": "پاکستان میں بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کو کم قرضے ملنے کا رحجان ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آیا ہے جب پاکستان کے بینکوں کے پاس ڈیپازٹس (جمع ہونے والی رقم) میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اور گذشتہ برس کے اختتام تک یہ ڈیپازٹس سترہ ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گئے۔ مالیاتی نظام کے ماہرین کے مطابق اگرچہ ماضی کے مقابلے میں نجی طور پر قرضے کی فراہمی میں تھوڑی سی بہتری آئی ہے تاہم یہ آج بھی حکومت کو دیے جانے والے قرضے کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ 2016 میں بینکوں کے پاس ڈیپازٹس کی مالیت گیارہ ہزار ارب سے کچھ زائد تھی جو 2017 میں بارہ ہزار ارب سے تجاوز کر گئی۔ یہ اضافہ دس فیصد تھا۔ بینکوں کے ڈیپازٹس جو سترہ ہزار ارب سے تجاوز کر چکے ہیں اگر اس کے مقابلے میں نجی شعبے کو دیے جانے والے قرضے کو دیکھا جائے تو یہ بہت کم ہے اور یہ مجموعی طور پر ڈیپازٹس کا صرف دس فیصد بنتا ہے۔ گذشتہ برس نجی شعبے کو دیا جانے والا قرضہ صرف 332 ارب تھا۔ جب کہ دوسری جانب بینکوں کی جانب سے حکومت کو دیے جانے والے قرضے کی مالیت ساڑھے گیارہ ہزار ارب روپے سے زائد رہی جو بینکوں کی جانب سے حکومتی سکیورٹیز اور بانڈز میں لگائی گئی۔ گذشتہ برس حکومت کی سکیورٹیز اور بانڈز میں بینکوں کی سرمایہ کاری 38فیصد زائد رہی۔ بینکوں کے نزدیک حکومت کی سکیورٹیز میں سرمایہ کاری پر جہاں منافع اچھا ملتا ہے تو دوسری جانب ان کی رقم ڈوبنے کا خطرہ نہیں ہے جب کہ نجی شعبے کو دیے جانے والے قرض میں ڈیفالٹ کا خطرہ رہتا ہے۔ انھوں نے کہا پاکستان میں ٹارگٹڈ فنانسنگ نہیں ہوتی یعنی ایک خاص شعبے کو کتنا کریڈٹ دیا جائے جب کہ اس کے مقابلے میں انڈیا میں یہ کی جاتی ہے اور اگر بینک ایسا نہ کریں تو انھیں جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ مارگیج فنانسنگ کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انڈیا میں یہ 12 سے 13 فیصد ہوتی ہے جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس کی شرح 40 فیصد تک ہوتی ہے تاہم اگر پاکستان میں اس کو دیکھا جائے تو اس کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ یوسف نے کہا کہ نجی شعبے میں زیادہ قرض ملکی معیشت اور عام افراد دونوں کے لیے مثبت ہوتا ہے اور کم قرض اس کے مقابلے میں معاشی سرگرمی کو گھٹائے گا جو نئی ملازمتوں کو پیدا کرنے کی بجائے پہلے سے موجود ملازمتوں کو بھی ختم کر سکتا ہے۔ نجی شعبے کو بینکوں کی جانب سے دیا جانے والا ادھار اگرچہ اس وقت حکومت کی جانب سے لیے جانے والے ادھار سے بہت زیادہ کم ہے تاہم اس میں اضافے کا امکان بھی موجود ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55819530", "summary": "1960 میں حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے کرنل مختار حسین نے باسمتی چاول کا نیا بیج دریافت کیا جس کی کاشت سے باسمتی چاول کی جو فصل تیار ہوئی وہ معیار میں بہت اعلیٰ تھی اور اس چاول کی خوشبو بھی بہت اچھی تھی۔", "title": "پاکستان میں باسمتی چاول ’کرنل باسمتی‘ کیسے بنا؟", "firstPublished": "2021-01-27T03:53:29.000Z", "id": "10ea69fc-36fc-4f32-958d-e222ab5000a2", "article": "زاہد خواجہ نے بتایا کہ کالا شاہ کاکو میں قائم رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے سنہ 1926 میں باسمتی چاول کی ایک قسم دریافت کی جسے باسمتی 370 کا نام دیا گیا ۔ یہ دریافت حافظ آباد کے ضلع میں ہوئی جو چاول کی اس قسم کی کاشت کے لیے بہت سازگار تھا۔ یہ قسم اپنی خوشبو اور ذائقے کی وجہ سے بہت جلد مشہور ہوئی اور اس کی کاشت وسیع پیمانے پر ہونے لگی۔ سنہ 1960 میں حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے کرنل مختار حسین نے باسمتی چاول کا نیا بیج دریافت کیا۔ اس بیچ کی کاشت سے باسمتی چاول کی جو فصل تیار ہوئی وہ معیار میں بہت اعلیٰ تھی اور اس چاول کی خوشبو بھی بہت اچھی تھی۔ سنہ 1960 میں حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے کرنل مختار حسین نے باسمتی چاول کا نیا بیج دریافت کیا زاہد خواجہ نے بتایا کہ کرنل صاحب نے اپنے طور پر یہ بیج دریافت کیا تھا اور اس میں حکومتی سطح سے کوئی معاونت نہ تھی تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ کرنل مختار کا باسمتی ہے۔ کچھ عرصے بعد یہ ’کرنل دا باسمتی‘ کہا جانے لگا اور پھر صرف کرنل باسمتی رہ گیا۔ اپنے معیار اور خوشبو کی وجہ سے یہ بہت مقبول ہو گیا اور پاکستان میں اس کی پیداوار بھی بڑھی۔ انھوں نے کہا کہ ان کے والد کو جب ورثے میں زمین ملی تو ان کی زمین کمزور اور کلراٹھی تھی لیکن باسمتی کی کاشت کے لیے بہت آئیڈیل زمین واقع ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ان کے والد نے ورائٹی دریافت کی یا باسمتی کی پہلے سے موجود ورائٹی سے پیوند کاری کر کے اس ورائٹی کی کاشت کی جو کرنل باسمتی کے نام سے مشہور ہوئی اس کے بارے میں وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے تاہم یہ ورائٹی بہت مشہور ہوئی اور کرنل باسمتی کے نام سے فروخت ہونے لگی۔ پیداوار تو بڑھی لیکن معیار نہیں تھا اور حکومت کیونکہ خود سب سے بڑی خریدار تھی اس لیے کرپشن کا عنصر بھی اس میں شامل تھا ۔ لوگوں نے کرنل باسمتی کو سائیڈ پر رکھا اور باسمتی کی نئی قسم کاشت کی جس کی مقدار بہت زیادہ تھی لیکن وہ کوالٹی میں اچھی نہ تھی۔ فیصل حیسن نے بتایا کہ مارکیٹ میں جو باسمتی کرنل باسمتی کے نام پر بک رہا ہے یہ وہ کرنل باسمتی نہیں جس کی ورائٹی ان کے والد نے متعارف کرائی تھی اور سپر کرنل ایک الگ ورائٹی ہے جسے اوریجنل کرنل باسمتی سے بہتر پیش کر کے بیچا جا رہا ہے۔ انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں کرنل باسمتی کی وہ ورائٹی نہیں ہے جو ان کے والد نے متعارف کرائی تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-55798252", "summary": "اتوار کو اقوامِ متحدہ کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق چین نے نئی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ گزشتہ سال امریکہ میں نئی سرمایہ کاری میں تقریباً نصف کے قریب کمی واقع ہوئی جس کی وجہ سے اس کی پہلی پوزیشن جاتی رہی۔", "title": "چین نئی بیرونی سرمایہ کاری میں پہلے نمبر پر، امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا", "firstPublished": "2021-01-25T14:14:57.000Z", "id": "0251b386-44e7-4110-97cc-e078e3dc11fe", "article": "اتوار کو اقوامِ متحدہ کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق چین نے نئی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ گزشتہ سال بیرون ملک مقیم کمپنیوں کی طرف سے امریکہ میں ہونے والی نئی سرمایہ کاری میں تقریباً نصف کے قریب کمی واقع ہوئی جس کی وجہ سے اس کی پہلی پوزیشن جاتی رہی۔ اس کے برعکس، اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق چینی فرموں میں براہ راست سرمایہ کاری 4 فیصد بڑھی، جو اسے عالمی سطح پر پہلے نمبر پر لے آئی۔ اقوام متحدہ کی تجارت و ترقی کے بارے میں اقوام متحدہ کی کانفرنس (یو این سی ٹی اے ڈی) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چین میں گذشتہ سال 163 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں امریکہ کے حصے 134 ارب ڈالر آئے ہیں۔ سنہ 2019 میں امریکہ میں نئی غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کی مد 251 ارب ڈالر ملے تھے جبکہ چین نے 140 ارب ڈالر حاصل کیے تھے۔ اگرچہ چین نئی غیر ملکی سرمایہ کاری میں اول نمبر پر آ گیا ہے، امریکہ ابھی بھی مکمل غیر ملکی سرمایہ کاری میں سب سے اوپر ہے۔ اس سے ان دہائیوں کی عکاسی ہوتی ہے جو اس نے غیر ملکی کاروباری اداروں کے لیے سب سے پرکشش مقام بننے میں صرف کیں جہاں وہ اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہوں۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار عالمی معیشت کے مرکز کی طرف جانے کی چین کی کوششوں کی نشاندہی کرتے ہیں جس پر دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ کا طویل عرصہ سے غلبہ رہا ہے۔ سنہ 2016 میں امریکہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری عروج پر پہنچ چکی تھی جو تقریباً 472 ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔ اس وقت چین میں غیر ملکی صرف سرمایہ داری 134 ارب ڈالر تھی۔ اس نے چینی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کو بھی متنبہ کیا تھا کہ قومی سلامتی کی بنیاد پر امریکہ میں سرمایہ کاری کرتے وقت انھیں نئی ​​جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس ماہ شائع ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2020 میں گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ (جی ڈی پی) یعنی مجموعی ملکی پیداوار میں چین کی معاشی نمو میں 2.3 فیصد اضافہ ہوا۔ یو این سی ٹی ڈی کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2020 میں مجموعی طور پر براہ راست عالمی غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی، جو کہ 42 فیصد تھی۔ ایف ڈی آئی میں عام طور پر ایک کمپنی شامل ہوتی ہے جو عام طور پر انضمام یا حصول کے ذریعہ بیرون ملک مقیم کمپنی کا کنٹرول سنبھال لیتی ہے۔ برطانیہ نے گزشتہ برس نئی غیرملکی سرمایہ کاری میں 100 فیصد کمی دیکھی ہے، جس میں سنہ 2019 میں 45 ارب کی غیر سرمایہ کاری گزشتہ برس منفی ایک اعشاریہ تین ارب ہو گئی تھی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-55777832", "summary": "اپریل تا جون سنہ 2020 کی سہ ماہی میں دنیا کی چھٹی سب سے بڑی معیشت کی ترقی کی رفتار منفی 23.9 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی لیکن رواں سال جنوری تا مارچ والی سہ ماہی میں یہ 0.7 فیصد کی مثبت شرح سے ترقی کر سکتی ہے۔", "title": "کیا کورونا وائرس سے متاثرہ انڈین معیشت اب ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن ہے؟", "firstPublished": "2021-01-23T07:39:44.000Z", "id": "cedceb2d-d9ba-4d9d-8af1-dd1f66f5eb24", "article": "گذشتہ سال شروع ہونے والی خوفناک عالمی وبائی بیماری کی وجہ سے یہ منفی ترقی کی شرح سے گزرنے اور تحت الثری کے بعد گذشتہ سہ ماہی میں ملکی معیشت مثبت ترقی کی شرح تک پہنچی اور آخری سہ ماہی میں فی الوقت مثبت شرح نمو جاری ہے۔ اپریل تا جون سنہ 2020 کی سہ ماہی میں دنیا کی چھٹی سب سے بڑی معیشت کی ترقی کی رفتار منفی 23.9 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔ اب یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ رواں سال جنوری تا مارچ والی سہ ماہی میں یہ 0.7 فیصد کی مثبت شرح سے ترقی کر سکتی ہے۔ جبکہ آخری سہ ماہی یعنی اکتوبر سے دسمبر کے درمیان ترقی کی شرح 0.1 فیصد تھی۔ اگر ہم پورے مالی سال 2020-21 میں ترقی کی شرح کو دیکھیں تو کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈی کے مطابق یہ منفی 11.5 فیصد ہوگی۔ ایجنسی نے سنہ 2021-22 کے مالی سال میں انڈیا کی معیشت میں 10.6 فیصد مثبت ترقی کی پیش گوئی کی ہے۔ انڈین معیشت پر گہری نظر رکھنے والی ایک مشہور تنظیم سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی نے بی بی سی کے ساتھ ایک حالیہ رپورٹ شیئر کی ہے جس کے مطابق رواں مالی سال میں ترقی کی شرح منفی ہی رہے گی۔ اس بار یہ 7.7 فیصد کی شرح سے کم ہوگی۔ یہ ریزرو بینک آف انڈیا کے تخمینے سے زیادہ ہے جس میں 7.5 فیصد سکڑنے کا امکان ظاہر کیا گيا ہے۔ اس رپورٹ میں برآمدات میں 8.3 فیصد کمی اور درآمدات میں 20.5 فیصد کمی کا تخمینہ لگایا ہے۔ اس کے علاوہ طلب میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔ بینکوں سے قرضوں کی مانگ میں بہت سست روی دیکھی گئی ہے کیونکہ بیشتر کارپوریٹس نے رواں مالی سال میں اپنے منصوبوں کو روک دیا ہے۔ لیکن نومبر سنہ 2020 سے قرض کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ انڈین معیشت کی نگرانی کے مرکز کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 15 جنوری تک بینکوں میں قرضوں کی مانگ میں 6.1 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ وزارت خزانہ سے لے کر ریزرو بینک آف انڈیا تک تمام سرکاری اداروں نے دعوی کیا ہے کہ بازیابی وی (V) شکل میں ہورہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران تمام علاقوں میں ترقی کی شرح کم ہوگئی تھی اور بازیابی کے دوران تمام شعبوں میں چوطرفہ بہتری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'معیشت کو وبائی امراض سے جو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے اس کا علاج ایک سال کے بجٹ سے نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ بازیابی حکومت کی سربراہی میں ہو، جس کے لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت کتنا خرچ کرتی ہے۔ اور مانگ پیدا کرنے کے لیے لوگوں کو کیا راحت فراہم کرتی ہے۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-55510155", "summary": "ایک برطانوی تھنک ٹینک کے مطابق چین 2028 تک امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا اور اس کے مطابق اس کی وجہ کورونا پر قابو پانے میں اس کی کامیابی ہے۔", "title": "چینی معیشت 2028 میں کیوں امریکہ سے آگے نکل جائے گی؟", "firstPublished": "2021-01-02T04:06:41.000Z", "id": "7aa85324-e4bc-44a5-bf15-fef992736bd7", "article": "ایک برطانوی تھنک ٹینک کے مطابق چین 2028 میں امریکہ سے آگے نکل کر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا اور ایسا اس ادارے کے پچھلے اندازوں سے کم از کم پانچ سال پہلے ہی ہو جائے گا۔ سینٹر فار اکنامک اینڈ بزنس ریسرچ (سی ای بی آر) کے مطابق کووڈ۔19 کی عالمی وبا سے ’ماہرانہ‘ طریقے سے نمٹنے کی وجہ سے آنے والے برسوں میں اس کی ترقی کی شرح امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں بڑھے گی۔ انڈیا 2030 میں دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا، اس وقت یہ درجہ جاپان کے پاس ہے۔ اگرچہ چین وائرس سے متاثر ہونے والا پہلا ملک تھا مگر ماہرینِ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اس نے تیز اور انتہائی سخت کارروائی کر کے بیماری پر کنٹرول پایا، اور اس کی اس حکمتِ عملی کی وجہ سے اسے معیشت کو تباہ کرنے والے ایسے لاک ڈاؤن بار بار نہیں لگانے پڑے جیسے دوسرے ممالک میں لگائے جا رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ 2020 میں چین ہی دنیا کی وہ واحد بڑی معیشت ہے جیسے معاشی بدحالی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ 2021 اور 2025 کے درمیان چین کی ترقی کی اوسط شرح 5.7 فیصد ہوگی۔ امریکہ کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ 2021 میں وبا کے بعد اس کی معیشت بڑی تیزی سے مضبوط ہو گی لیکن اس کی ترقی 2022 اور 2024 کے درمیان میں آہستہ آہستہ 1.9 فیصد سالانہ کے حساب سے کم ہوتی جائے گی۔ اگرچہ امریکہ میں ہونے والے معاشی نقصان کو مانیٹری پالیسی اور ایک بہت بڑے امدادی پیکج کے ذریعے کم کیا گیا ہے لیکن شہریوں کو دیے جانے والے ایک نئے پیکج میں امداد پر سیاسی اختلاف کی وجہ سے تقریباً 1 کروڑ 40 لاکھ امریکی اس بنیادی مدد سے محروم رہ سکتے ہیں جس کے وہ منتظر ہیں۔ دوسری طرف جرمنی مضبوط معیشت کے حوالے سے اپنا چوتھا درجہ کھو بیٹھے گا جو کہ اس دہائی کے آخر میں اس کے پاس تھا اور سنہ 2030 سے ​​یہ پانچویں بڑی عالمی معیشت بن جائے گا۔ سی ای بی آر کی رپورٹ کے مطابق ’کچھ عرصے سے امریکہ اور چین کے مابین اقتصادی جدوجہد اور سفارتی اثر و رسوخ دنیا کی معیشت پر چھایا رہا ہے۔‘ کووڈ۔19 کی عالمی وبا اور اس کے معاشی اثرات نے یقینی طور پر امریکہ کے مقابلے میں چین کو فائدہ پہنچایا ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا، اس کا اوسط شہری امریکہ کے اوسط شہری سے کہیں زیادہ غریب رہے گا، اور اس کی وجہ چین کی امریکہ سے چار گنا زیادہ آبادی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-55453475", "summary": "چین دنیا کی ایک طاقتور معیشت ہے اور تازہ اندازوں کے مطابق امریکہ کے ساتھ معاشی دوڑ میں چین 2028 تک اسے پیچھے چھوڑنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ تاہم یاد رہے کہ ماضی میں آنے والی رپورٹز میں اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ چین کو ایسا کرنے میں مزید پانچ برس لگ سکتے ہیں۔", "title": "معاشی دوڑ میں امریکہ سے آگے نکلنے میں چین کی مدد کون کر رہا ہے؟", "firstPublished": "2020-12-26T18:47:14.000Z", "id": "1b77d049-402b-4725-9d1f-6da3979ae9ed", "article": "چین کی معیشت 2025 تک 5.7 فیصد بہتری کا مظاہرہ کرے گی اور 2026 سے 2030 کے درمیان 4.5 فیصد بہتری کی امید ظاہر کی جا رہی ہے چین دنیا کی ایک طاقتور معیشت ہے اور تازہ اندازوں کے مطابق امریکہ کے ساتھ معاشی دوڑ میں چین 2028 تک اسے پیچھے چھوڑنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ تاہم یاد رہے کہ ماضی میں آنے والی خبروں میں اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ چین کو ایسا کرنے میں مزید پانچ برس لگ سکتے ہیں۔ برطانیہ کے ادارے ’سینٹر فار اکنامک اینڈ بزنس ریسرچ کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کی وبا سے نمٹنے کے چین کے ماہرانہ اقدامات، آنے والے برسوں میں اس کی کامیابی کی راہ امریکہ اور یورپ کے مقابلے کہیں زیادہ آسان کرنے جا رہے ہیں۔ یہ ادارہ ہر برس 26 دسمبر کو معاشی دوڑ میں شامل ممالک اور اس دوڑ میں ان کے مقام کے بارے میں ایک فہرست جاری کرتا ہے۔ اس طرح دنیا کی دیگر معیشتوں کے برعکس چین 2020 میں اقتصاد بحران کو ٹالنے میں کامیاب رہا۔ تاہم اس برس چین کی معیشت نے اندازوں کے مطابق دو فیصد بہتری کا مظاہرہ کیا ہے۔ چین کے برعکس امریکہ کورونا وائرس سے ابھی تک سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔ وہاں 330,000 سے زیادہ افراد اس وبا سے متاثر ہو کر ہلاک ہو چکے ہیں اور تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ مصدقہ متاثرین سامنے آ چکے ہیں۔ عوام کو ہونے والے معاشی نقصان پر قومی پالیسیوں کی مدد سے قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن نئے پیکیج پر سیاسی اختلاف کے سبب خدشہ ہے کہ نئے برس میں تقریباً 1.4 کروڑ بے روزگار افراد، حکومت کی جانب سے ملنے والی امداد حاصل نہیں کر سکیں گے۔ رپورٹ کے مطابق ’کچھ عرصے سے عالمی معیشت کا موضوع امریکہ اور چین کے درمیان معیشت اور اجارہ داری کی جدوجہد کی عکاسی کر رہا ہے۔ کووڈ 19 کی وبا اور اس سے ہونے والے معاشی اثرات نے یقینی طور پر اس جدوجہد میں چین کو آگے بڑھنے کا موقع دیا ہے۔‘ رپورٹ کے مطابق عالمی معیشت میں چین کی حصہ داری سنہ 2000 میں 3.6 فیصد تھی جو کہ اب ایک ’اعلیٰ آمدن والی معیشت‘ بننے کے بعد بڑھ کر 17.8 فیصد ہو گئی ہے۔ لیکن چین کے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کے بعد بھی اوسط چینی شخص معاشی اعتبار سے امریکہ کے ایک اوسط شخص کے مقابلے میں کہیں زیادہ غریب رہے گا، کیوں کہ چین کی آبادی چار گنا زیادہ ہے۔ 2019 میں انڈیا برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بن گیا تھا۔ لیکن وبا کے سبب وہ ایک بار پھر پیچھے ہو گیا ہے۔ 2024 تک انڈیا دوبار آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ حالانکہ انڈیا 2027 تک جرمنی اور 2030 تک جاپان سے بھی آگے نکلنے میں کامیاب ہو جائے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-55442972", "summary": "سنہ 2020 دنیا بھر میں عام لوگوں کے لیے ایک انتہائی اندوہناک سال ثابت ہوا لیکن دنیا کے پانچ امیر ترین افراد کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔", "title": "2020 میں پانچ شخصیات کی اربوں کی دولت میں اربوں کا اضافہ ہوا", "firstPublished": "2020-12-25T15:35:20.000Z", "id": "52a62345-2b63-4c1c-af00-dd317c205f85", "article": "پانچ امیر ترین افراد کی مجموعی دولت میں 300 بلین ڈالر سے زیادہ کا اضافہ ہوا وہ پہلے ہی ارب پتی تھے لیکن ان کی دولت بہت سے لوگوں کے لیے اس مشکل سال 2020 میں اور بھی بڑھ گئی۔ بلاشبہ اب جو سال ختم ہو رہا ہے وہ بہت سے لوگوں کے لیے ایک مشکل سال تھا۔ دنیا بھر میں کوڈ 19 کی وبا کی وجہ سے سولہ لاکھ سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ معاشی لحاظ سے بھی دنیا کو ایک بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ سے کاروبار بند ہوئے اور لاکھوں ملازمتوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ تاہم کرۂ ارض کے امیر ترین لوگوں کے لیے یہ سال اتنا برا ثابت نہیں ہوا ہے۔ اس سال یعنی سنہ 2020 میں دنیا کے ارب پتیوں کی دولت میں ساتھ فیصد اضافہ ہوا لیکن امیر ترین لوگوں کی فہرست میں پہلے پانچ نمبر پر جو آتے ہیں ان کی مشترکہ دولت مجموعی طور پر 310.5 بلین ڈالر ہو گئی ہے۔ فوربز میگزین نے جب سے دنیا کے امیر ترین لوگوں کی سالانہ فہرست جاری کرنی شروع کی ہے اس وقت سے یہ پہلا سال ہے جس کے دوران کسی ارب پتی کی دولت میں صرف بارہ مہینوں میں اتنا زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہو۔ برقی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی ریکارڈ توڑ فروخت کی بدولت ٹیسلا کے کاروبار میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ دوسری طرف مسک کی ایک اور کمپنی، سپیس ایکس نے بھی ایک سال میں ترقی کی اور خلانوردوں کو خلا میں بھیجنے کی پہلی نجی کمپنی بن گئی۔ ان کی مجموعی دولت میں 72 بلین ڈالر سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ وبائی امراض کی وجہ سے آن لائن فروخت میں تیزی سے ایمیزون کی آمدنی میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ ژونگ ستمبر میں چین کے سب سے امیر شخص بن گئِے تھے جب ان کی بوتلوں میں پانی فروخت کرنے والی کمپنی نونگ فو سپرنگ نے سٹاک مارکیٹ میں اپنے حصص فروخت کر کے اپنی دولت میں 1.1 بلین ڈالر سے زیادہ کا اضافہ کیا۔ فرانسیسی ارب پتی برنارڈ ارنولٹ اپنے ملک کے سب سے امیر شخص ہیں اور فوربس میگزین نے انھیں اپنے امیر ترین افراد کی فہرست میں پہلے ندوسرے پر رکھا، حالانکہ بلوم برگ کی درجہ بندی نے انھیں چوتھے نمبر پر رکھا ہے۔ ان کی کمپنی کا تعلق جس گروپ سے ہے اس کے لیے سنہ 2020 ایک مشکل سال تھا لیکن اس کے باوجود ارنولٹ کی دولت میں 30 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ بلومبرگ کے اعداد و شمار کے مطابق 2020 میں ان کی مجموعی مالیت میں 28.1 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا (مجموعی طور پر 35.3 ارب ڈالر)۔ 2020 میں گلبرٹ کی مالی حیثیت میں حیرت انگیز اضافہ (جس میں ایک سال میں چھ گنا اضافہ ہوا) کو ’کوئیکن لون‘ کے حصص کی فروخت سے ہوا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-55399589", "summary": "پاکستان نے استنبول تک ریل سروس بحالی کے منصوبے کی حامی بھر لی ہے۔ اس وقت اس ٹرین کو کس طرح کے مسائل کا سامنا ہے اور پاکستان اس سروس کو چلانے کے لیے کتنا تیار ہے۔ بی بی سی نے ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے پاکستانی حکام اور ماہرین سے بات کی ہے۔", "title": "اسلام آباد، تہران، استنبول ریل سروس کی بحالی کا خواب حقیقت کیسے بن سکتا ہے؟", "firstPublished": "2020-12-23T04:28:41.000Z", "id": "34486868-0004-4787-924c-810f1ea9d66f", "article": "قونصلر جنرل بلال پاشا کے مطابق اس منصوبے کی بحالی کا فیصلہ دو ہفتے قبل ایک آن لائن اجلاس کے دوران کیا گیا ہے۔ بلال پاشا کے مطابق تینوں ممالک نے اس ٹرین سروس سے متعلق اپنی اپنی رپورٹس پیش کیں اور اس سروس سے متعلق مسائل اور مشکلات کا ذکر کیا۔ ان کے مطابق ترکی کی صدارت میں ہونے والے اس اجلاس میں ٹرین سروس کو تیز رفتار اور باقاعدہ بنانے کے لیے ایک دوسرے کو فنی مدد دینے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ اس اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ مسائل کے باوجود جو سروس اس وقت دستیاب ہے اسے باقاعدگی سے چلایا جائے اور پھر بعد میں اس میں بہتری لا کر اسے مزید تیز تر بنایا جائے۔ اس وقت اس ٹرین کو کس طرح کے مسائل کا سامنا ہے اور یہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب رہی ہے؟ پاکستان اس سروس کو چلانے کے لیے کتنا تیار ہے اور اس کی بحالی کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟ بی بی سی نے ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے پاکستانی حکام، ماہرین اور تاجروں کے نمائندوں سے بات کی ہے لیکن اس تفصیلی بحث سے قبل اس کنٹینر ٹرین سروس کے تاریخی پس منظر پر نظر دوڑانا ضروری ہے۔ کوئٹہ چیمبر آف کامرس سے وابستہ صلاح الدین خلجی نے بی بی سی کو بتایا کہ تاجر برادری اس سروس کی بحالی سے خوش ہے تاہم ان کے مطابق اس کو مؤثر بنانے کے لیے پاکستانی حکومت کو تاجروں کو درپیش مسائل حل کرنے ہوں گے۔ ان کے خیال میں اگلے سال سے جس سروس کی بحالی پر اتفاق ہوا ہے وہ ٹرین ایک ہفتے سے دس دن تک اسلام آباد سے استنبول تک اپنا سفر مکمل کر سکے گی جبکہ سمندری جہاز کو پاکستان سے استنبول تک 21 دن لگ جاتے ہیں۔ سیکریٹری ٹی ڈی اے پی کا کہنا ہے کہ اس سروس کو بہتر بنانے کے لیے اس بات کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ یہاں سے جب ٹرین استنبول تک سامان لے کر جائے تو پھر کوئی ایسا نظام پہلے سے ایسا ہونا چائیے کہ واپسی پر وہی ٹرین کچھ لے کر بھی واپس آئے۔ بلال پاشا کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان علاقائی روابط بڑھانے کی ڈگر پر چل پڑا ہے اور اب یہ امید بھی کی جا رہی ہے کہ سی پیک کے ذریعے پاکستان گوادر تک اپنی ریل کی پٹڑی کو بہتر بنا سکے گا اور یوں تجارتی حجم کو بھی بڑھا سکے گا۔ پاکستانی حکام کے مطابق تاجر برادری نے اس ریل گاڑی میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس کنٹینر سروس کا خرچہ کم ہو گا اور کم وقت میں سامان یورپ کی منڈیوں تک پہنچایا جا سکے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-55359729", "summary": "بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ سنہ 2020 ابتدا سے اختتام تک کافی بُرا سال رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس برس بہت کچھ بُرا ہوا ہے لیکن شہ سرخیوں کے مقابلے بہت سی ایسی چیزیں تھیں جو ماضی میں بھی ہوچکی ہیں۔", "title": "تاریخ کے وہ بدترین سال جن کے آگے 2020 کچھ بھی نہیں", "firstPublished": "2020-12-18T09:08:26.000Z", "id": "00aaafaf-0d39-4642-a28c-5eda69ea0dbc", "article": "یقیناً سال 2020 کچھ لوگوں کے لیے بُرا تھا، لیکن ماضی میں ہم اس سے بھی بُرے ادوار دیکھ چکے ہیں لیکن تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صورتحال اس سے بھی زیادہ مشکل ہوسکتی تھی اور شاید تاریخی پس منظر جان کر ہمیں لگے کہ سنہ 2020 درحقیقت اتنا بھی برا نہیں تھا! اس تحریر میں ہم یہ جائزہ لیں گے کہ 2020 میں کیا کچھ بُرا ہوا اور ماضی کے مقابلے یہ کتنا مشکل سال تھا۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک دنیا بھر میں سات کروڑ 45 لاکھ افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوچکی ہے جبکہ کووڈ 19 سے 16 لاکھ اموات ہوئی ہیں۔ اگرچہ یہ دنیا کی بدترین عالمی وباؤں میں سے ایک ہے لیکن صورتحال ماضی میں اس سے بھی زیادہ سنگین تھی۔ عالمی وبا سے معیشت کو بھی کافی نقصانات پہنچا اور اس کی وجہ سے دنیا بھر میں کئی لوگوں کا روزگار متاثر ہوا ہے۔ یہ سچ ہے کہ دنیا کے بیشتر حصوں میں لوگوں کو زیادہ وقت گھر پر ہی گزارنا پڑا اور اس دوران وہ اپنے پیاروں سے بھی نہ مل پائے۔ 2020 میں صورتحال کافی مشکل رہی، لیکن آثار قدیمہ کے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سال 536 سنہ جتنا بُرا نہیں تھا یہ سمجھا جاتا ہے کہ آتش فشاں سے پیدا ہونے والی یہ دھند یورپ، ایشیا اور دنیا کے دیگر حصوں تک پھیلی۔ اس سے سردی کی شدید لہر نے کئی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانیت کی بقا غاروں میں رہ کر ممکن ہوئی۔ افریقہ کے جنوبی ساحل پر ایسے ہی غار موجود ہیں۔ ان میں سے ایک غار کا نام ’جنت کا باغ‘ (گارڈن آف ایڈن) ہے۔ یہاں لوگوں نے سمندری غذا (سی فوڈ) پر گزارا کرنا سیکھا۔ دھماکے کے بعد کئی دہائیوں تک شہر میں خطرناک دھند چھائی رہی جس کی وجہ سے آج بھی لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ لیکن آئیے اس سال میں ہونے والی کچھ اچھی باتوں پر بھی نظر دوڑاتے ہیں۔ یہ ایسا سال تھا جس میں۔۔۔ اور یہ وہ سال ہے جس میں کملا ہیرس نے تاریخ رقم کی ہے۔ نائب صدر منتخب ہونے والی وہ پہلی خاتون ہیں، پہلی سیاہ فام خاتون ہیں، پہلی خاتون ہیں جن کا تعلق جنوبی ایشیائی برادری سے ہے، اور وہ پہلی خاتون ہیں جو تارکین وطن کی بیٹی ہے۔ اگر یہ اچھی باتیں آپ کے لیے ناکافی ہیں تو یہ بھی ظاہر ہے کہ کسی وقت پر ہمیں یہ زمین چھوڑنی پڑے گی۔ اکتوبر میں ناسا نے اعلان کیا تھا کہ چاند پر ہمارے ماضی کے مشاہدے سے زیادہ پانی ہے۔ یہ ایسی دریافت ہے جس سے مستقبل کے مشن اور بھی اہم ہوسکتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55329928", "summary": "پی آئی اے کے سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک کا کہنا ہے کہ اس سکیم کا آئیڈیا پہلی بار 2018 میں حکومت کو پیش کیا گیا تھا جس کے بعد تمام متعلقہ اداروں سے منظوری کے بعد اب اس سکیم کو ملازمین کو متعارف کرایا گیا ہے۔", "title": "پی آئی اے: کیا رضاکارانہ ریٹائرمنٹ سکیم سے مالی بحران پر قابو پایا جاسکے گا؟", "firstPublished": "2020-12-16T16:21:15.000Z", "id": "d0182747-0952-0840-9100-8bf9778c9433", "article": "اگر تھوڑا پیچھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پی آئی اے کی انتظامیہ نے کئی بار واضح کیا ہے کہ وہ شدید مالی بحران سے دو چار ہیں۔ اس حوالے سے ادارے کی طرف سے پہلے بھی کئی مرتبہ ایسی سکیمیں متعارف کروائی گئی ہیں جن سے توقع کی گئی کہ یہ ادارے کو اس بحران سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ پی آئی اے کے سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک کا کہنا ہے کہ وی ایس ایس سکیم ان کی جامع اصطلاحات کا حصہ ہے جو پی آئی اے کو معاشی طور پر مستحکم بنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سکیم کا آئیڈیا پہلی بار 2018 میں حکومت کو پیش کیا گیا تھا جس کے بعد تمام متعلقہ اداروں سے منظوری کے بعد اب اسے ملازمین کو پیش کیا گیا ہے۔ سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک کا کہنا ہے کہ اس سکیم سے ملازمین کا فائدہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سکیم کے ذریعے پہلے سال میں 4.5 ارب کی بچت ممکن ہوسکے گی۔ جبکہ ضروری اور غیر ضروری ملازمین کی تقسیم سے پچیس فیصد فائدہ ہوسکے گا۔ یہ رپورٹ پاکستان کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ادارے سے طلب کی تھی تاکہ ادارے کے معاشی پلان اور اس کے مستقبل کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکیں۔ پی آئی اے نے 14 دسمبر کو جمع کی گئی رپورٹ میں بتایا ہے کہ خسارے کے باعث ادارہ اپنے ملازمین کی تعداد کو 13000 سے کم کر کے 7500 تک لانا چاہتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ایسا دو طریقوں سے ممکن بنایا جا رہا ہے: ایک طرف ملازمین کے لیے ادارے سے رضاکارانہ طور پر علیحدہ ہونے کی سکیم متعارف کروائی جائے گئی جسے ’والنٹری سیپریشن سکیم‘ (وی ایس ایس) کہا جاتا ہے۔ اس سکیم کو 58 سال سے کم عمر کے افراد اپنے لیے منتخب کرسکتے ہیں۔ اس سکیم کے ذریعے 2500 ملازمین کو پی آئی اے آپشن دے گا کہ انھیں 'عزت و احترام کے ساتھ' ادارے سے علیحدہ کر دیا جائے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے دو روز قبل ہونے والی سماعت کے دوران جمع کروائی گئی رپورٹ اور پی آئی اے کی اب تک کی کارکردگی کو غیر مطمئن قرار دیا ہے۔ تاہم پی آئی اے کے ترجمان کا مہنا ہے کہ اس اقدام سے ایئر لائن کو معاشی ریلیف ملے گا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر صلاح الدین احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ کئی اداروں نے ماضی میں بھی وی ایس ایس سکیم کا استعمال کیا ہے مثلاً یونائیٹڈ بینک اور حبیب بینک تاہم پی آئی اے میں اس سکیم کا اطلاق کس طریقے سے کیا جائے گا، اس کے بارے میں ہر ادارے کے مختلف قوانین موجود ہیں جن کا ذکر ملازمین کے کانٹریکٹ میں بھی کیا جاتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55299631", "summary": "آصف انعام کا کہنا ہے اگر صرف پاور لومز کی بات ہی کی جائے تو 10 سے 20 لاکھ پاور لومز جو بند پڑی ہوئیں تھی وہ دوبارہ فعال ہو چکی ہیں اور صرف پاور لومز ہی لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کر رہی ہیں۔", "title": "کیا پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت عالمی سطح پر انڈیا کی جگہ لے رہی ہے؟", "firstPublished": "2020-12-15T06:36:54.000Z", "id": "78c1e18a-3d4a-4933-b997-b5a7ab2f218b", "article": "ایک ٹیکسٹائل مل کے مالک آصف انعام نے اس بارے میں بتایا کہ یہ شعبہ اس وقت اپنی پوری پیداواری استعداد پر کام کر رہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ اسے ملنے والے آرڈرز ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے دی جانے والی مراعات بھی اس کی پیداوار کو بڑھانے میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔ پارلیمانی سیکریٹری برائے تجارت، صنعت و پیداوار عالیہ حمزہ ملک نے ٹیکسٹائل کے شعبے کی اچھی کارکردگی میں تسلسل کی امید کا اظہار کیا اور اس کی سب سے بڑی وجہ ان کے مطابق حکومت کی پالیسیاں ہیں جو اس شعبے کو پوری طرح مدد فراہم کر رہی ہیں۔ انھوں نے کہا اس شعبے کی کارکردگی میں آنے والے دنوں میں مزید بہتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نا صرف ٹیکسٹائل کا شعبہ اپنی پوری استعداد پر چل رہا ہے بلکہ پاور لومز بھی اپنی پوری گنجائش پر کام کر رہی ہیں۔ عالیہ ملک نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت پوری طرح آگاہ ہے اور کاٹن کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی کم کرنے پر بھی کام ہو رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اگر ملک میں کاٹن کی پیداوار کم ہو رہی ہے تو اس کی وجہ کپاس کے زرعی رقبے کے قریب و جوار میں شوگر ملیں لگانا ہے جس کی وجہ سے کسان کپاس چھوڑ کر گنے کی پیداوار کر رہے ہیں۔ انھوں نے اس کا الزام گذشتہ حکومتوں کو دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی ذمہ دار ہیں۔ آصف انعام کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل کے شعبے کی بحالی اور اس سے جڑے شعبے پاور لومز کی بات کی جائے تو روزگار کے بے پناہ مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا اگر صرف پاور لومز کی بات ہی جائے تو 10 سے 20 لاکھ پاور لومز جو بند پڑی ہوئیں تھی وہ دوبارہ فعال ہو چکی ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لوم پر ایک سے دو لوگ کام کرتے ہیں، صرف پاور لومز ہی لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کر رہی ہیں۔ عالیہ ملک کا کہنا تھا کہ جب سنہ 2016 میں ملک میں ٹیکسٹائل کی میں صنعت بند ہونا اور یہاں سے ٹیکسٹائل ملز بنگلہ دیش منتقل ہو رہی تھیں تو بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اس نے لاکھوں افراد کو بیروزگار کیا۔ اب جب کہ ملکی ٹیکسٹائل ایک مرتبہ مکمل طور پر بحال ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ بند پڑی پاور لومز بھی چل پڑی ہیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ روزگار کے کتنے زیادہ مواقع پیدا ہو گئے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-55287280", "summary": "انڈیا نے جنوبی افریقہ کے ساتھ مل کر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں ویکسین کے استحقاق سے متعلق قوانین میں عارضی تبدیلیوں کے لیے ایک درخواست دی ہے جو اگر منظور ہو گئی تو کووڈ کی ویکسین کی قیمت میں کمی ممکن ہو گی۔ پاکستان نے بھی اس درخواست کی حمایت کی ہے۔", "title": "انڈیا اور پاکستان کشیدگی کے باوجود کس معاملے پر ایک دوسرے کے ساتھ ہیں؟", "firstPublished": "2020-12-12T14:24:25.000Z", "id": "b600c4fd-0fac-4994-ab85-9ce54bf89a4a", "article": "انڈیا نے جنوبی افریقہ کے ساتھ مل کر عالمی تجارتی تنظیم ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں ویکسین کے پیٹنٹ یعنی استحقاق قوانین میں عارضی تبدیلیوں کے لیے ایک درخواست دی ہے جو اگر منظور ہو گئی تو اس سے کووڈ کی ویکسین کی قیمت میں کمی ممکن ہو سکے گی، پاکستان نے بھی اس درخواست کی حمایت کی ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان وبا کے آغاز سے ہی عالمی برادری سے ٹیکنیکل مہارت اور وسائل کو کورونا کی ویکسین کی تیاری کے لیے یکجا کرنے کی ضرورت پر زور دیتا آیا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں کورونا ویکسین کی تیاری کے متعلق جمع کروائی گئی درخواست کا مقصد دوا ساز کمپنیوں کو اس ویکیسن کے بنیادی فارمولے سے مدد لے کر سستی ویکسین بنانے کی اجازت دینا ہے تاکہ وہ سب کی پہنچ میں ممکن ہو سکے۔ ماضی میں بہت سے ترقی پذیر ممالک نے اس طرح کے خدشات کے وجہ سے ’جنیرک میڈیسن‘ یعنی بنیادی فارمولے کے تحت ادویات تیار کی ہیں جو کہ سستی ہوتی ہیں۔ لیکن اگر کسی ملک کی جانب سےایسی درخواست قبول نہ ہو تو اس طرح کا فعل عالمی تجارتی تنظیم کے پیٹنٹ قانون یعنی حقوق استحقاق کے قوانین کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔ عالمی تجارتی تنظیم میں زیر غور تجویز میں کہا گیا ہے کہ ’عالمی ہنگامی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ممبران کے لیے مل کر کام کرنا ضروری ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ ویکسین اور دوائیوں کی تحقیق، ترقی، پیداوار اور کووڈ کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری طبی ادویات کی فراہمی میں رکاوٹیں پیدا نہ کریں۔‘ اس درخواست کے حامیوں کا مطالبہ ہے کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی یہ رعایت تب تک رہے گی جب تک عالمی سطح پر ویکسین دستیاب نہ ہوں اور دنیا کی اکثریت آبادی کووڈ سے محفوظ نہ ہو جائے۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، مصر اور انڈونیشیا جیسے ممالک نے بھی اس درخواست کی حمایت کی ہے۔ جبکہ یورپی یونین، امریکہ، برطانیہ، جاپان، آسٹریلیا اور برازیل چاہتے ہیں کہ کووڈ ویکسین کے پیٹنٹ پر عالمی تجارتی تنظیم کی عملداری جاری رہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے 164 ممبران میں سے 100 سے زیادہ نے اس تجویز کی حمایت کی ہے۔ سول سوسائٹی کی ایک تنظیم نے بھی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کو ایک خط کے ذریعے اس درخواست کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی سطح پر کورونا کی ویکسین کی تیاری اور ہر طبقہ تک اس کی پہنچ کو ممکن بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-55271488", "summary": "انڈیا میں کسانوں کی تحریک کی تاریخ پرانی ہے اور گذشتہ سو برسوں میں پنجاب، ہریانہ، بنگال، جنوبی اور مغربی انڈیا میں بہت سارے مظاہرے ہوئے ہیں لیکن اس بار کسان انڈین حکومت سے کیا چاہتے ہیں اور حکومت کا ردعمل کیا ہے؟", "title": "انڈیا کے کسان آخر چاہتے کیا ہیں؟", "firstPublished": "2020-12-11T09:20:24.000Z", "id": "6e9fe398-8d43-ca48-b6c1-685c18092785", "article": "انڈیا میں کسانوں کی تحریک کی تاریخ پرانی ہے اور گذشتہ سو برسوں میں پنجاب، ہریانہ، بنگال، جنوبی اور مغربی انڈیا میں بہت سارے مظاہرے ہوئے ہیں۔ مرکزی حکومت یہ کہتی رہی ہے کہ حقیقت میں نیا قانون صرف کسانوں کے مفاد کی بات کرتا ہے کیونکہ اب کسان اپنی فصلیں نجی کمپنیوں کو بیچ پائیں گے اور زیادہ رقم کمائیں گے۔ لیکن کسان تنظیموں نے اس پیشکش کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا ہے کہ انھوں نے تو یہ کبھی طلب ہی نہیں کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ بھی مطالبہ ہے کہ خریداری مراکز زیادہ فصلوں کے لیے اور زیادہ ریاستوں میں کھولے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ کسانوں کو فائدہ ہو۔ لیکن حکومت نے زیادہ تر پنجاب، ہریانہ اور مغربی اتر پردیش جیسی ریاستوں میں خریداری کے مراکز کھولے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہاں خریداری زیادہ اور دوسری ریاستوں میں کم ہوتی ہے۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ متعدد جگہوں پر کانٹریکٹ فارمنگ ہو رہی ہے لیکن اس کا کوئی ضابطہ نہیں بنا ہے، جس کے لیے قانون لایا جائے۔‘ لیکن زیادہ تر تبدیلیاں سست رفتار رہی ہیں جس میں کسانوں کے مفادات رکھنے کے دعوؤں پر بھی سیاست کی گئی ہے۔ پارلیمنٹ میں اس نئے قانون پر ہاتھا پائی ہوئی ہے اور حزب اختلاف نے حکومت پر کسانوں کی رائے نہ لینے کا الزام لگایا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ نئے قانون کی مدد سے کسانوں کو مزید آپشن ملیں گے اور ان کو قیمت بھی اچھی ملے گی۔ اس کے علاوہ زرعی منڈیوں، پروسیسنگ اور بنیادی ڈھانچے میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی جبکہ کسانوں کو لگتا ہے کہ نئے قانون سے ان کا موجودہ تحفظ بھی ختم ہوجائے گا۔ انڈین حکومت میں کسانوں کے قومی کمیشن کے سابق ممبر وائی ایس نندا کا خیال ہے کہ زراعت کے میدان میں ’تجربات زیادہ ہوئے ہیں اور اصل کام کم۔‘ جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ خراب مارکیٹنگ کی وجہ سے کسانوں کو اچھی قیمتیں نہیں مل رہی ہیں لہذا نجی کمپنیوں اور سٹوریج گوداموں کو لانے سے ویلیو چین میں کاشتکاروں کے قد میں اضافہ ہو گا۔ نئے قانون میں منڈیوں کے اثر و رسوخ کو کم کرنے سے شاید حکومت کا یہی ارادہ ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اس عمل میں ایک چیز کی کمی رہی ہے۔ ان کے بقول اس کا سب سے بدترین حل قانون واپس لینا ہوگا۔ ’پھر تو مطلب جو تیس سال کا کام ہوا ہے وہ ختم ہوجائے گا۔ دوسرا کہ انھیں یہ کہنا پڑے گا کہ ایم ایس پی چلے گا، سسٹم چلے گا اور مستقبل میں حکومت کو یہ وضاحت کرنی ہوگی کہ یہ نظام بہت ہی غیر مؤثر ہے۔ ان کو کچھ نہ کچھ دینا پڑے گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-55249210", "summary": "انڈیا میں کسانوں کی تحریک میں شامل مائیں، نانیاں اور دادیاں کو ملک کی تاریخ بدلنے نکلی ہیں اور حکومتی سختی کے باوجود ڈٹی ہوئی ہیں۔", "title": "کسان تحریک کی نانیاں دادیاں: بچوں نے کہا ’اماں جِت کے آئیو‘", "firstPublished": "2020-12-10T05:39:45.000Z", "id": "b355907e-3167-4022-ac5e-cb68c1abd0ce", "article": "سال بھر آکسفورڈ میں انڈیا، سیاست اور سیاسی ایکٹیوزم سے دور رہنے کے بعد میری انڈیا واپسی اس وقت ہوئی جب کسانوں کا احتجاج پنجاب سے ہوتا ہوا دلی کی سرحد تک آ پہنچا تھا، جہاں ایسا لگ رہا تھا کہ مسلح دلی پولیس خار دار تاروں کے پیچھے حملے کی تیاری کر رہی ہے۔ میں نے قرنطینہ کا وقت پنجاب میں اپنے گھر پر گزارنے کے بعد آزادی کے پہلے دن کسانوں کی ’دلی چلو‘ کی کال پر عمل کرتے ہوئے جالندھر سے دلی اور ہریانہ کے درمیان سنگھو سرحد کا رخ کیا جہاں مظاہرین دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ . جن ٹرالیوں میں بیٹھ کر یہ مظاہرین یہاں پہچے انہیں رہنے کے لیے شیلٹر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ سڑکوں کے کنارے کھانے پینے کی اشیا، بجلی اور بیت الخلا کے لیے ٹینٹ لگائے گئے ہیں۔ دن میں چوبیس گھنٹے لنگر پکتا اور تقسیم ہوتا ہے۔ اپنے گھوڑوں اور کرپانوں کے ساتھ وہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان تیار کھڑے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر پولیس نے مظاہرین پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو انہیں پہلے نہنگ فوج سے نمٹنا ہوگا۔ میری ملاقات نیلم گھمن اور جسبیر کور سے ان کے نئے گھر میں ہوئی۔ وہ آٹھ دیگر خواتین کے ساتھ ایک ٹرالی میں رہتی ہیں جس کے اوپر پلاسٹک کی چھت چڑھائی گئی ہے۔ نیلم نے بتایا کہ ان کے دو بچے ہیں، چودہ سال کا بیٹا اور انیس سال کی بیٹی۔ ان کے شوہر بھی ان کے ساتھ احتجاج میں شامل۔ بچوں کو ان کی دادی اور دیگر رشتہ داروں کے پاس چھوڑ کر آئے ہیں۔ نیلم گھمن نے پچھلے سال سی اے اے کے خلاف چلنے والے شاہین باغ احتجاج کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ، ’اب تو وہ وقت آ گیا ہے کہ کوئی بھی تحریک ہو عورتیں بھی پیش پیش ہوتی ہیں۔ آپ نے شاہین باغ کو دیکھا، ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور پنجاب میں ان کے حق میں آواز اٹھائی اور آج ہمارے وہ بہنیں ہمارے مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑی ہیں۔‘ اس سب کے درمیان کورونا وائرس کی وبا بھی منڈلا رہی ہے اور میرے سامنے بیٹھی یہ خواتین کو دیگر بڑے عمر کے کسانوں کی طرح اس وبا سے کافی خطرہ ہے۔ جسبیر نے فون اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے انڈیا کی اس نئی زرعی تحریک کی قیادت کرنے والی یہ خواتین حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اپنی جان پر داؤ لگانے والے مظاہرین سے پیار کرنے والی مائیں اور نانیاں بن گئیں۔ میں نے گھر پر بنی پنی کی چپچپاہٹ والے اپنے ہاتھوں سے ریکارڈر بند کر دیا اور ہم سب جسبیر کے تین سالہ نواسے سے باتیں کرنے لگے۔ ٭گرمہر کور کو ٹائم میگزین نے سنہ 2017 میں اپنی ’اگلی نسل کے لیڈرز’ کی فہرست میں شامل کیا۔ وہ آج کل ’ڈیجیٹل پیس ناؤ‘ نامی غیر سرکاری ادارے کے ساتھ سائیبر وارفئیر کے خلاف کام کر ہی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55243068", "summary": "پاکستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے وفاقی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریوینو (ایف بی آر) نے آٹھ دسمبر 2020 کی ڈیڈ لائن تک 17 لاکھ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کیے ہیں جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں 40 فیصد کم ہیں۔", "title": "انکم ٹیکس ریٹرنز میں 40 فیصد کمی: ملک اضافی ٹیکس کیوں جمع نہیں کر پا رہا؟", "firstPublished": "2020-12-09T08:03:21.000Z", "id": "cb001fff-a87f-4949-954c-cf3fd64baf75", "article": "پاکستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے وفاقی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریوینو (ایف بی آر) کے پاس آٹھ دسمبر 2020 کی ڈیڈ لائن تک 17 لاکھ انکم ٹیکس گوشوارے جمع ہوئے ہیں جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں 40 فیصد کم ہیں۔ سنہ 2019 میں 29 لاکھ انکم ٹیکس گوشوارے جمع ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل ٹیکسوں کے حصول کو تین گنا بڑھانے کا دعویٰ کر چکے ہیں اور انھوں نے اپنے متعدد بیانات میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آنے کے بعد ایک سال میں آٹھ ہزار ارب سے زیادہ کا ٹیکس جمع کر کے دکھائے گی۔ پاکستان کی وفاقی حکومت نے اس مالی سال میں چار ہزار 900 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں جمع ہونے والا ٹیکس گذشتہ سال کے ان مہینوں کے مقابلے میں چار فیصد زائد ہے۔ تاہم پاکستان کو پورے مالی سالی میں ٹیکس کا ہدف حاصل کرنے کے لیے گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں 23 فیصد مزید ٹیکس اکٹھا کرنا ہے جو ٹیکس امور اور معیشت کے ماہرین کے مطابق بہت مشکل نظر آتا ہے۔ آٹھ دسمبر کو ختم ہونے والی ڈیڈ لائن میں کم انکم ٹیکس گوشواروں کا جمع ہونا بھی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس سال کے بجٹ میں ٹیکس کے ہدف کا حصول بہت مشکل ثابت ہو گا۔ ٹیکس امور کے ماہر اشفاق تولہ نے بتایا کہ اگر مالی سال 2020 میں اکٹھا ہونے والے ٹیکس میں سے سیلز ٹیکس ریفنڈ کی رقم نکال دی جائے تو باقی رہ جانے والے ٹیکس کی مالیت گذشتہ مالی سال سے کم ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ پاکستان میں گذشتہ مالی سال میں اکٹھا ہونے والا تقریباً چار ہزار ارب روپے کا ٹیکس اس ہدف کے مقابلے میں بہت کم ہے جو اس سال کے بجٹ میں 5400 ارب رکھا گیا تھا اور پھر اسے نظر ثانی کر کے گھٹا دیا گیا۔ ایف بی آر کی سالانہ ریونیو بک کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ مالی سال میں پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 9.6 فیصد تک گر گیا جس کی ایک وجہ کورونا وائرس کی وجہ سے معیشت میں پیدا ہونے والے بحران کو قرار دیا گیا۔ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ اس سال انکم ٹیکس گوشوارے کم جمع ہونے کی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے وہ کورونا وائرس کی وجہ سے لوگوں کے روزگار پر پڑنے والی ضرب ہے۔ اس سال آٹھ دسمبر 2020 کی ڈیڈ لائن تک 17 لاکھ انکم ٹیکس گوشوارے جمع ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے ایک سال میں آٹھ ہزار ارب کا ٹیکس اکٹھا کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم ان کی حکومت اپنے پہلے دو مالی سالوں میں ٹیکس وصولی میں بہت کم اضافہ کر پائی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-55199971", "summary": "’ملینئرز ٹیکس‘ کہلانے والا یہ یکباری محصول طبی ساز و سامان اور امدادی سرگرمیوں پر خرچ کیا جائے گا۔", "title": "ارجنٹائن میں کووڈ سے نمٹنے کے لیے بارہ ہزار امیر افراد پرٹیکس", "firstPublished": "2020-12-05T15:57:02.000Z", "id": "90d31f2f-2482-4b6d-98e3-44e9e2ecbb2c", "article": "نومبر میں اس مسودہ قانون پر بحث کے دوران قومی اسمبلی کی عمارت کے باہر مظاہرین کا جتماع کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے ارجنٹائن نے ملک کے امیر ترین افراد پر ایک نیا ٹیکس عائد کیا ہے جس سے حاصل ہونے والی رقم طبی ساز و سامان اور دیگر امدادی سرگرمیوں پر خرچ کی جائے گی۔ سینیٹروں نے جمعے کے روز 26 کے مقابلے میں 42 ووٹ سے قانون کی منظوری دی جس کے تحت امیر لوگوں کو ایک بار یہ ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ اس محصول کو 'ملینئرز ٹیکس' یا لکھ پتیوں کا ٹیکس کی عرفیت دی گئی۔ اس کے دائرے میں تقریباً 12000 ایسے افراد آئیں گے جن کے اثاثوں کی مالیت ڈھائی ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔ ارجنٹائن میں کورونا وائرس کی وجہ سے قریباً 15 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ 40 ہزار ہلاک ہو چکے ہیں۔ ارجنٹائن اکتوبر میں وبا سے سب سے زیادہ متاثرہ پانچ والا ملک بن گیا تھا جب اس کی 45 ملین کی مجموعی آبادی میں سے ایک ملین افراد وائرس کا شکار ہوگئے تھے۔ لاک ڈاؤن کے سلسلے میں کیے گئے اقدامات کی وجہ سے اس کی مشکلات سے دو چار معیشت، جسے پہلے ہی بے روزگاری، غربت اور بھاری سرکاری قرض جیسے مسائل کا سامنا تھا، پر مزید بوجھ پڑ گیا ہے۔ ارجنٹائن 2018 سے کسادبازاری کی لپیٹ میں ہے۔ ایک قانون ساز کے مطابق اس نئے ٹیکس کا اثر محض صفر عشاریہ 8 فیصد افراد پر پڑے گا۔ ملکی اثاثوں پر 3.5 فیصد جبکہ بیرونِ ملک اثاثوں پر 5.25 فیصد تدریجی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس طرح حاصل ہونے والے رقم کا 20 فیصد طبی ساز و سامان، 20 فیصد چھوٹے اور درمیانے درجے کے بزنس، 20 فیصد طلبہ کو وظیفے دینے، 15 فیصد سماجی ترقی اور بقیہ 25 فیصد ملک میں قدرتی گیس کی ذخائر تلاش کرنے پر خرچ کیا جائے گا۔ صدر البرٹو فرنانڈیز کی حکومت کو اس مد میں 3.67 ارب ڈالر وصول ہونے کی توقع ہے۔ لیکن حزب اختلاف کو خدشہ ہے کہ اس سے غیرملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہوگی اور یہ یکباری ٹیکس نہیں ہوگا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-55188547", "summary": "برطانیہ میں اراکین پارلیمان کی ایک کمیٹی نے کہا ہے کہ بینک آف انگلینڈ کو یہ معلوم نہیں ہے کہ 50 ارب پاؤنڈ مالیت کی ’لاپتہ‘ برطانوی کرنسی کہاں ہے اور اسے انھیں ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہیے۔", "title": "50 ارب پاؤنڈ مالیت کے برطانوی نوٹ ’لاپتہ‘ ہونے پر تشویش", "firstPublished": "2020-12-04T18:04:16.000Z", "id": "6dbd1de5-4e27-49c1-aa56-76e9826749f9", "article": "برطانیہ میں اراکین پارلیمان کی ایک کمیٹی نے کہا ہے کہ بینک آف انگلینڈ کو یہ معلوم نہیں ہے کہ 50 ارب پاؤنڈ مالیت کی ’لاپتہ‘ برطانوی کرنسی کہاں ہے اور اسے انھیں ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ رقم چھپی ہوئی برطانوی کرنسی کا تین چوتھائی بنتی ہے۔ برطانیہ میں سب سے زیادہ مالیت کا نوٹ 50 پاؤنڈ کا ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کہا ہے کہ بینک کو کرنسی کی صورتِ حال کو سمجھنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔ بینک آف انگلینڈ کے ایک ترجمان نے کہا ’یہ بینک آف انگلینڈ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بینک نوٹوں کی عوامی طلب پوری کرے۔ بینک ہمیشہ ہی یہ طلب پوری کرتا رہا ہے اور آگے بھی کرتا رہے گا۔‘ ’عوام کو یہ بینک کو بتانے کی ہرگز ضرورت نہیں کہ وہ بینک نوٹ کیوں رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کرنسی نوٹ لاپتہ نہیں ہیں۔‘ کمیٹی کی سربراہی کرنے والے میگ ہلئیر کا کہنا ہے کہ ’یہ رقم کہیں اور رکھی گئی ہے، لیکن بینک آف انگلینڈ کو یہ نہیں معلوم کہ کہاں، کس کے پاس یا کس مقصد کے لیے۔ اور یہ اس میں بہت زیادہ دلچسپی دکھاتا بھی نہیں نظر آ رہا۔‘ ’بینک کو اس بارے میں زیادہ فکر ہونی چاہیے کہ لاپتہ 50 ارب پاؤنڈ کہاں ہیں۔‘ ’بینک جس قومی کرنسی کو کنٹرول کرتا ہے اسے اس کے بارے میں بہتر طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘ کمیٹی نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بینک نوٹوں کا مطالبہ باقاعدگی سے مستقل طور پر بڑھتا گیا ہے، اگرچہ ان کا استعمال کم ہو گیا ہے، لیکن لگتا ہے کہ بینک آف انگلینڈ کے پاس ’اس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے کہ نوٹوں کی مانگ میں اضافہ کیوں ہوتا رہتا ہے۔‘ کمیٹی میں موجود ممبر پارلیمان کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ آج اس بات پر بہت کم توجہ دی جا رہی ہے کہ بینک نوٹ کہاں ہیں۔ لیکن یہ آپ کے بینک میں پیسے رکھنے والے اوسط شخص کو سمجھ نہیں آئے گی جو اس کو بینک میں رکھ کر اس سے کچھ منافع کما سکتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی تھوڑا ہو۔ اسی لیے ممبر پارلیمان کو شک ہے کہ بینک نوٹ کسی وجہ سے ہی چھپائے گئے ہیں اور اس کی کوئی معصومانہ وجہ نہیں ہے۔ کمیٹی نے خود ہی یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ بڑھتی ہوئی ’طلب کا یہ رجحان دوسری بڑی کرنسیوں میں بھی دیکھا گیا ہے۔‘ جہاں تک یورو کا تعلق ہے، فرینکفرٹ میں موجود یوروپیئن سینٹرل بینک نے 500 یورو کے نوٹ ختم کر دیے ہیں کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ یہ غیر قانونی سرگرمیوں میں استعمال ہو سکتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-55148252", "summary": "ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائن اپنی سابقہ بلند ترین قدر کی سطح کو عبور کر چکی ہے اور اس کی مالیت 20 ہزار ڈالر کو چھو رہی ہے۔", "title": "بٹ کوائن کی قدر میں 170 فیصد اضافہ", "firstPublished": "2020-12-01T17:44:30.000Z", "id": "402af6e5-41b7-47f2-8972-1410a361bc29", "article": "کرپٹو کرنسی بٹ کوائن کی قدر منگل کو پہلی مرتبہ بیس ہزار ڈالر تک پہنچنے کے قریب ہے۔ کرپٹو کرنسی کی خرید و فروخت کرنے والے ادارے کوائن ڈیسک کے اعداد و شمار کے مطابق ایک بٹ کوائن کی مالیت 19920 ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ دوہزار سترہ میں بٹ کوائن اپنی قدر کی بلند ترین سطح پر پہنچا تھا جب اس کی مالیت 19 ہزار تک پہنچ گئی تھی بعض ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد پیدا ہونے والی صو رتحال میں سرمایہ کار بٹ کوائن کو اپنے اثاثوں کے لیے محفوظ مقام سمجھتے ہیں۔ لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اس بٹ کوائن کی قدر میں اتار چڑھاؤ جاری رہے گا. 2017 میں بٹ کوائن کی قدر بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد اس میں گراؤٹ آ گئی تھی اور وہ 19 ہزار ڈالر سے گھٹ کر 3300 ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ اس کے علاوہ کئی ادارہ جاتی سرمایہ کاروں نے ایسے فنڈز کی خریدای میں دلچسپی ظاہر کی ہے جو کرپٹو کرنسی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان ادارہ جاتی سرمایہ کاروں میں وال سٹریٹ کی فرم گگنہیم پارٹنر بھی ہیں جنہوں نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے پانچ سو تیس ملین ڈالر بٹ کوائن سے متعلقہ انویسٹمنٹ ٹرسٹ میں رکھنے کا سوچ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے 2017 کی نسبت اس بار کرپٹو کرنسی کی طلب بہت زیادہ ہے اور اس کی شاید وجہ یہ ہے کہ سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ کووڈ نائنٹین کی وجہ سے پیدا ہونے والی مالی مشکلات کی وجہ سے ملکوں کے مرکزی بینک ایسے اقدامات اٹھائیں گے جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا اگر بٹ کوائن کی قدر میں مزید اضافہ ہوتا ہے تو اس کی قدر میں اچانک گراوٹ بھی آ سکتی ہے کیونکہ کئی سرمایہ کاروں نے اسے بیس ہزار کی حد چھونے پر خود کار نظام کو اسے بیچنے کی ہدایت جاری کر رکھی ہوں گیں۔ بٹ کوائن ایک ایسا اثاثہ ہے جس کی قدر میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہےاور قرضہ لے کر اس میں سرمایہ کاری کرنا اچھا آئیڈیا نہیں ہے۔ البتہ دوسری کرنسیوں کی طرح اس کی مالیت بھی اس سے طے ہوتی ہےکہ کوئی اس کے بدلے کتنا دینے کو تیار ہے۔ چاہے یہ بینک آف انگلینڈ کے جاری کردہ کرنسی نوٹ اور سِکّے ہوں، قیمتی پتھر ہوں یا اس قسم کی کوئی اور چیز۔ کوئی بھی کرنسی اسی وقت کام کرتی ہے جب ہر کوئی اسے تسلیم کرتا ہے۔ ایک مسئلہ حل کرنے پر ایک بٹ کوائن بنتا ہے اور جو اسے تیار کرتا ہے اسے انعام کے طور مزید بٹ کوائن بنانے کی اجازت ملتی ہے۔ چونکہ بٹ کوائن کا کوئی رجسٹر موجود نہیں ہے تو اس کے بھیجنے اور وصول کرنے کا نام صیغیہ راز میں رہتا ہے۔ بعض لوگ اسے ایسی ڈیجیٹل کرنسی سمجھتے ہیں جو سرحدوں کی محتاج نہیں اور اس کا انحصار کسی خاص ملک کی کرنسی پر نہیں ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55141127", "summary": "پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ فوج کا بطور ادارہ نہیں بلکہ کچھ افراد کی بات کرنی ہو گی، ہیلری کلنٹن بھی ڈیپ سٹیٹ سے متعلق پاکستان کی مثال دے چکی ہیں۔", "title": "’فوج بطور ادارہ نہیں، کچھ افراد جمہوری عمل کو کمزور کر رہے ہیں‘", "firstPublished": "2020-12-01T10:30:16.000Z", "id": "0be9678e-d04c-4098-8447-ab48ed110bc0", "article": "پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ وہ فوج پر بطور ادارہ جمہوری عمل کو کمزور بنانے کا الزام عائد نہیں کرتے بلکہ ’یہ کچھ لوگوں کی خواہش اور منصوبہ ہے، وہی لوگ جو پاکستان میں مارشل لا نافذ کرتے ہیں۔‘ اسحاق ڈار نے جواب دیا کہ ’یہ حقیقت ہے۔ ڈیپ سٹیٹ کے بارے میں سب کو علم ہے کہ وہ ایسا کرتی ہے۔ ہیلری کلنٹن بھی ڈیپ سٹیٹ سے متعلق پاکستان کی مثال دے چکی ہیں۔ بات ڈان لیکس سے شروع ہوئی۔ نواز شریف جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کے لیے لڑ رہے ہیں۔۔۔ کیا اس میں کوئی برائی ہے؟ برطانیہ بھی تو جمہوریت اور جمہوری اقدار کی حمایت کرتا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ آپ تو ہمارا ساتھ دیں گے۔‘ فوج کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی فوج کا پورا ادارہ نہیں، ہمیں کچھ افراد کی بات کرنی ہو گی۔ یہ پورے ادارے کی بات نہیں ہو رہی۔ ہمیں اس میں فرق کرنا ہو گا۔ یہ کچھ لوگوں کی خواہش اور منصوبہ ہے۔ جو پاکستان میں مارشل لا لگاتے ہیں۔‘ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے، اور اگر یہ بغیر کسی شبہ کے اب ثابت ہو گیا ہے۔۔۔ کوئی تو منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ یہ ہم نہیں بلکہ پاکستان کے وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں کہ اگر نواز شریف کے اداروں اور ڈیپ سٹیٹ سے مسائل نہ ہوتے تو وہ چوتھی بار بھی وزیر اعظم بن سکتے تھے۔ وہ ایسا کیوں کہیں گے؟‘ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کی حکومت کی کیا ساکھ ہے؟ دنیا دھاندلی اور چوری شدہ انتخابات دیکھ چکی ہے۔ ہم نے تجربہ کیا ہے، سنہ 2018 میں رائے عامہ کے تمام جائزوں نے پیشگوئی کی تھی کہ مسلم لیگ نواز جیت جائے گی۔ لیکن مبصرین اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے انھیں تاریخ کے بدترین انتخابات قرار دیا۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ ہم سے الیکشن چُرایا گیا۔‘ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف وزیر اعظم یا (عام شہری کی) حیثیت سے فوج کے مخالف نہیں۔ وہ کچھ افراد کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔۔۔ یہ چیز اعلیٰ قیادت میں شروع ہوتی ہے۔ ڈان لیکس کی تاریخ سے آپ واقف ہوں گے۔ ہم نے ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا۔ مجھے لگتا ہے نواز شریف اگر حلف اور آئین کی خلاف وزری کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس میں کیا غلط ہے؟‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55069077", "summary": "ورلڈ اکنامک فورم میں آج پاکستان کے بارے میں اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کا انعقاد ہو رہا ہے جس کے دوران پاکستان کو بہترین اقتصادی مواقع حاصل کرنے کا موقع ملے گا لیکن سوشل میڈیا صارفین کے مطابق اقوامِ عالم پہلے سے پاکستانی صلاحتیوں کے معترف ہو چکے ہیں۔", "title": "کیا عالمی اقتصادی فورم نے 25 نومبر کا دن پاکستان کے نام کیا؟", "firstPublished": "2020-11-25T10:57:14.000Z", "id": "470606a4-8911-894e-8891-cedf78ac3bb8", "article": "اب اسے خوش فہمی کہیں یا غلط فہمی اس کی وجہ آج عالمی اقتصادی فورم یعنی ورلڈ اکنامک فورم میں پاکستان کے حوالے سے ہونے والی ممکنہ بحث ہے۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق ورلڈ اکنامک فورم آج ایک ’سی ایس ڈی‘ یعنی کنٹری سٹریٹجی ڈائیلاگ کا انعقاد کر رہا ہے جس میں پاکستان کی معاشی حکمتِ عملی پر بات چیت کی جائے گی۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے پاس آج یہ موقع ہے کہ وہ اقوامِ عالم کو کورونا وائرس کی وبا کے دوران اپنائی گئی اقتصادی پالیسی اور غریبوں کو معاشی سہارا دینے کے لیے کیے گئے اقدامات سے آگاہ کرے۔ سوشل مڈیا صارفین خصوصاً حکومت کے حامیوں کی سوشل میڈیا پوسٹس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا پہلے سے ہی پاکستان اور عمران خان کی صلاحیتوں کی معترف ہو چکی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی ایک رہنما منزّہ حسن کا کہنا تھا: ’وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی قوم اور معیشت کو جس احسن طریقے سے کورونا وائرس جیسی عالمی وبا سے نکالا، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کا وزیر اعظم عمران خان کو زبردست خراجِ تحسین!‘ ماہرین کے مطابق یہ ایک سالانہ عمل ہے جس کے دوران کسی نہ کسی ملک کو یہ موقع دیا جاتا ہے اور آج یہ پاکستان کی باری ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق ورلڈ اکنامک فورم ایسے ممالک کے لیے پلیٹ فارم ہے جہاں ابھرتی ہوئی معیشت اور نشو و نما میں اضافے کا امکان ہوتا ہے۔ آج کا یہ موقع پاکستان کو رواں برس ملنے والا دوسرا موقع ہے۔ ماضی میں ورلڈ اکنامک فورم سے منسلک رہنے والے تجزیہ کار مشرف زیدی کے مطابق اس فورم پر دنیا بھر سے سرمایہ کار کمپنیوں اور کاروباروں کے سربراہ شرکت کرتے ہیں اس لیے یہ پاکستان کے لیے اچھا موقع ہے کہ وہ اپنی ’معیشت کی متاثر کن کارکردگی کے حوالے سے دنیا کو آگاہ کر سکے۔‘ مشرف زیدی وزیر اعظم عمران خان سے کافی پر امید نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں بینظر بھٹو کے بعد اب عمران خان وہ واحد رہنما ہیں جو مغربی دنیا کو پاکستان کے حوالے سے متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘ سرمایہ کاری: مشرف زیدی کا کہنا تھا کہ پاکستان سب سے پہلے تو اپنی معاشی ترقی اور استحکام کا حوالہ دے کر بڑی کمپنیوں اور کاروباروں کو قائل کر سکتا ہے کہ پاکستان ان کی سرمایہ کاری اور کاروبار کے لیے ایک بہترین مقام ہے۔ برآمدات میں اضافہ: پاکستان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اپنی برآمدات کے حوالےس سے اقوام عالم کو قائل کر سکے۔ پاکستانی رہنماؤں کے پاس ایک دلیل یہ ہوگی کہ یہاں معیاری اور سستی مصنوعات بنائی جا سکتی ہیں اور یہاں لیبر بھی سستی ہے۔ چونکہ کووڈ کی وجہ سے چینی کی برآمدات میں کمی آئی ہے اس لیے پاکستان کے پاس عالمی منڈی میں خود کو منوانے کا ایک موقع ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55054763", "summary": "آئی ایم ایف کی جانب سے اس پروگرام کے دوبارہ شروع کرنے سے متعلق کچھ شرائط ہیں جن میں سب سے نمایاں پاکستان میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور اضافی ٹیکس کی وصولی شامل ہیں۔", "title": "کیا پاکستان مزید قرضے لینے کی سکت رکھتا ہے؟", "firstPublished": "2020-11-24T09:13:51.000Z", "id": "86004e20-3734-4a41-8726-607bd3c21f9f", "article": "تاہم رواں برس فروری میں یہ پروگرام اس وقت التوا کا شکار ہو گیا تھا جب پاکستان نے آئی ایم ایف شرائط کے تحت پاور سیکٹر کے نرخوں میں مزید اضافے کو جون کے مہینے تک ملتوی کرنے کا کہا تھا جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کا اس پروگرام پر دوسرا نظرثانی جائزہ نہیں ہو سکا۔ اب آٹھ سے نو ماہ کے بعد پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اس پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے اس پروگرام کے دوبارہ شروع کرنے سے متعلق کچھ شرائط ہیں جن میں سب سے نمایاں پاکستان میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور اضافی ٹیکس کی وصولی شامل ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کے دوبارہ شروع ہونے اور اس کے ملکی معیشت پر منفی پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر پرویز طاہر نے کہ اس پروگرام کی شرائط کی وجہ سے پاکستان میں معاشی ریکوری کی سرگرمیوں کے رُک جانے کا خدشہ ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں بتایا کہ آئی ایم ایف کی شرائط میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ شامل ہے۔ حکومت نے حال ہی میں صنعتی شعبے کے لیے بجلی کے کم نرخوں کے پیکج کا اعلان کیا ہے اگر آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کی بحالی کے لیے یہ نرخ بڑھائے جاتے ہیں تو صنعتی شعبہ اس سے متاثر ہو گا اور ملکی معیشت میں بحالی کی سرگرمی پر اس کا منفی اثر ہو گا۔ ان کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کی جانب سے بحالی اور ٹیکس کی اضافی وصولیاں اور بجلی کے نرخ بڑھانے کی شرائط پورا کرنے کی صورت میں اس معاشی ریکوری کے رُک جانے کا خطرہ موجود ہے۔ ڈاکٹر پرویز نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کو پاکستان کی معاشی پیداوار سے غرض نہیں کہ یہ بڑھتی ہے یا گھٹتی ہے۔ ’اس کی غرض صرف یہ ہے کہ پاکستان کے پاس قرض واپس کرنے کی گنجائش ہے یا نہیں۔ اور ٹیکس وصولی اور بجلی کے نرخ بڑھانے کی شرائط اسی کی ایک کڑی ہے کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ پیسے اکٹھے کر کے قرض کی واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔‘ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور اس سے جڑی سخت شرائط (جن میں ٹیکس میں اضافہ اور بجلی کے نرخ بڑھانا شامل ہیں) سے ملکی معیشت اور عوام کو کیسے محفوظ رکھا جائے گا اور اس سلسلے میں حکومت کی کیا حکمت عملی ہو گی؟ اس بارے میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو ڈاکٹر وقار مسعود خان نے کہا کہ ہے ’ہماری کوشش ہے کہ اس انداز سے اس پروگرام کو بحال کیا جائے کہ جو ملک کی معیشت کے لیے مفید ہوں۔ ہماری کوشش ہو گی کہ اس کی بحالی سے غریب عوام پر بوجھ نہ بڑھے اور قیمتوں میں اضافہ بھی نہ ہو کیونکہ عام افراد میں چیزوں کی طلب کم ہو چکی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-55033690", "summary": "دنیا میں ان دنوں دو دامادوں کا ذکر زوروں پر ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان کے 42 سالہ داماد برات البیرق نے وزیر خزانہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے، جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر جلد ہی وائٹ ہاؤس چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے۔", "title": "ترکی کے وزیر خزانہ کا استعفی: کیا اردوغان کے داماد باغی ہو گئے ہیں؟", "firstPublished": "2020-11-22T10:55:18.000Z", "id": "ea9a2b77-288e-4ef6-a6d2-57ee99182cc2", "article": "دنیا میں اِن دنوں دو دامادوں کا ذکر زوروں پر ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان کے 42 سالہ داماد برات البیرق نے وزیر خزانہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے، جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر جلد ہی وائٹ ہاؤس چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ برات اور جیرڈ کے درمیان دوستی بھی زیربحث ہے۔ برات نے صدر ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا سے بھی دوستی کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اردوغان صرف اپنے داماد کی دوستی کی بنیاد پر ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ڈیل کرتے تھے۔ وزیر خزانہ سے برات کا استعفی جو بائیڈن کی امریکہ آمد سے بھی جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ جیرڈ کشنر صدر ٹرمپ کے سینیئر مشیر ہیں۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں جیرڈ کے اہم کردار کی بات کی جاتی ہے۔ امریکی کانگریس میں ٹرمپ کی ترکی کے بارے میں پالیسی پر تنقید کی گئی ہے۔ رواں سال ایک ٹی وی انٹرویو میں اردوغان نے برات اور کشنر کی دوستی کو امریکہ اور ترکی کے مابین 'بیک ڈور ڈپلومیسی' قرار دیا تھا۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق روسی میزائل اور بینکوں پر پابندی جیسے دوسرے معاملات میں اردوغان جب بھی پھنسے انھوں نے اپنے داماد برات اور ٹرمپ کے ترک بزنس پارٹنر محمد علی یلسندوغ کو کشنر کے ذریعے وہائٹ ہاؤس بھیج دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ 'اردوغان اپنے داماد کے ذریعے ٹرمپ کے ساتھ کام کر لیتے تھے کیونکہ ان کے داماد جیرڈ کشنر اور بیٹی ایوانکا کے ساتھ اردوغان کے داماد کی دوستی تھی۔ لیکن اب ایسا ہونے والا نہیں ہے۔ اب ان کے داماد بائیڈن انتظامیہ میں کام نہیں آئیں گے۔' رواں سال کے شروع میں جب برات سے اپنے سسر صدر اردوغان کے ساتھ ان تعلقات کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے ترک حکومت کے نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی سے کہا: 'یہ تعلق محض سیاسی نہیں ہے۔ ہمارا رشتہ مثالی اور روحانی ہے۔' برات کے استعفیٰ سے ایک روز قبل ہی اردوغان نے ترکی کے مرکزی بینک کے سربراہ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ترکی کی غلط معاشی پالیسیوں کی وجہ سے معیشت کی حالت مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ رواں سال ترک کرنسی لیرا میں 30 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اردوغان نے سابق وزیر خزانہ نسی اقبال کو مرکزی بینک کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ نسی اردوغان کے داماد کی پالیسیوں کے سخت ناقد رہے ہیں۔ برات نے اپنے استعفی میں جو زبان استعمال کی ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ مایوس ہیں۔ 42 سالہ برات نے نیویارک کی پیس یونیورسٹی میں بزنس کی تعلیم حاصل کی ہے۔ برات ترک پارلیمنٹ جانے سے پہلے ایک ترک کمپنی کے سی ای او تھے۔ سنہ 2015 میں وہ اردوغان حکومت میں وزیر توانائی بنے اور سنہ 2018 میں وزیر خزانہ بنے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55020148", "summary": "پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ ماڈل ہوتا کیا ہے اور اس ماڈل کے تحت منصوبے کیسے مکمل کیے جاتے ہیں اور پھر ان کا نظم و نسق کیسے چلایا جاتا ہے اس حوالے سے بی بی سی نے اس شعبے کے ماہرین سے تفصیل سے بات کی ہے۔", "title": "پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ ماڈل، پاکستان کے لیے سود مند یا نقصان دہ؟", "firstPublished": "2020-11-21T09:01:21.000Z", "id": "4929554f-cc3a-41e3-95e3-a6857d343fa6", "article": "دوسرے طریقے کے تحت پرائیوٹ سیکٹر ایک منصوبے میں پیسہ لگاتا ہے اور اس کا انتظام حکومت کے حوالے کر دیتا ہے یا پھر اس پیسے کی وصولی تک خود چلا کر اسے پھر حکومت کے حوالے کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اس سلسلے میں بتایا کہ اس ماڈل کے بہت سے پہلو ہیں کہ جس میں پرائیوٹ سیکٹر فناننسگ سے لے کر انتظام سنبھال سکتا ہے اور بعض معاملات میں تو حکومت ان منصوبوں کو بھی ان کے حوالے کر دیتی ہے جو کچھ عرصہ حکومتی نگرانی میں چلنے کے باوجود کارکردگی نہیں دکھاتے۔ انھوں نے کہا کہ اس ماڈل کے تحت انفراسٹرکچر کے شعبے سے لے کر سماجی شعبوں یعنی تعلیم اور صحت وغیرہ میں منصوبوں کو مکمل کر کے ان کا انتظام چلایا جاتا ہے۔ حکومت سندھ نے بعد میں اس منصوبے کو پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ ماڈل کی تحت بنانے کا منصوبہ ترک کر کے اسے صوبائی حکومت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت اپنے وسائل سے مکمل کیا۔ پی پی پی ماڈل کے تحت منصوبے ملک کے لیے سود مند ہیں یا اس کا کوئی نقصان ہے کہ بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس ماڈل کے تحت کس طرح کا معاہدہ کیا جاتا ہے اور کس طرح کی شرائط حکومت اور پرائیوٹ پارٹی کے درمیان طے کی جاتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سندھ میں اگرحیدرآباد میر پورخاص ہائی وے کی تعمیر اس ماڈل کے تحت ایک اچھا منصوبہ ہے تو اسی طرح صحت کے شعبے میں بنیادی مراکز صحت کو نجی شعبے کے حوالے کرنا کا منصوبہ ایک ناکام منصوبہ ہے۔ ڈاکٹر بنگالی نے کہا کہ پاکستان جیسے ملکوں میں اس ماڈل کی ضرورت ہے کیونکہ ایک ایسا ملک جس کے پاس وسائل کی کمی ہو اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے بجٹ میں گنجائش نہ ہو تو پھر اس ماڈل کے تحت ہی منصوبے مکمل کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عابد سلہری نے اس سلسلے میں بتایا کہ یہ ماڈل پاکستان جیسے ملک کے لیے فائدہ مند ہے تاہم ایک خاص منصوبہ کی افادیت یا اس کے نقصان دہ ہونے کا تعین ان شرائط سے ہوتا ہے جو حکومت کسی پرائیوٹ پارٹی سے کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کا کام صرف منصوبہ پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کرکے ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی ذمہ داری ہے کہ اگر منصوبہ مکمل ہوتا ہے تو اس کی کوالٹی چیک کرے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں شفافیت کو بھی یقینی بنائے۔ ملک میں حکومتی منصوبوں میں پرائیوٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے کردار سے متعلق بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سلہری نے کہا کہ اس کا انحصار بھی ان شرائط سے ہے کہ جو معاہدے میں شامل ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر سلہری نے بتایا کہ ابھی تک یہ ماڈل پاکستان میں کامیابی سے نافذ ہوا ہے اور اس کے تحت کچھ منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں اور کچھ پر عمل درآمد جاری ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-54983982", "summary": "ترکی اور خلیجی ممالک کے درمیان مصر میں 2013 میں فوج کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹائے جانے، 2017 میں قطر کے خلاف لگائی گئی پابندیاں، صحافی جمال خاشقجی کی استنبول میں سعودی سفارتخانے میں ہلاکت، اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے تناؤ ہے۔", "title": "انقرہ، ریاض میں کشیدگی سے مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقہ میں ترک تجارت کو خطرہ", "firstPublished": "2020-11-20T05:50:43.000Z", "id": "0f97e612-5035-014f-91c5-7a73e9506880", "article": "ترکی اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی تجارتی کشیدگی کے تناظر میں مبینہ طور پر سعودی عرب ترک اشیا کا بائیکاٹ کر رہا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں ترکی کی جانب سے جارحانہ بیان بازی اور مشرقی بحیرہِ روم، لیبیا، اور شام میں بھی جارحانہ اقدامات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ترکی اور خلیجی ممالک کے درمیان مصر میں 2013 میں فوج کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹائے جانے، 2017 میں قطر کے خلاف بلاکیڈ، صحافی جمال خاشقجی کی استنبول میں سعودی سفارتخانے میں ہلاکت، اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے تناؤ ہے۔ اطلاعات کے مطابق گذشتہ چند ماہ میں ترکی کو سعودی عرب کی جانب سے متعدد اہم معاشی چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ‘ترکی سے آنے والے سامان پر درآمدی پابندیاں، یا سست روی کے ساتھ کسٹمز کا عمل لاگو کیا جاتا ہے۔ کارگو کو ٹرمینل پر کافی تاخیر کا سامنا ہوتا ہے، اور یا تو وہ دیر آئے گا یا پھر کسٹمز میں ہی روک لیا جائے گا۔‘ ادھر ترکی میں برآمد کے کاروبار سے منسلک لوگوں کے حوالے سے مقامی میڈیا میں بھی خبریں آ چکی ہیں کہ انھیں سعودی عرب میں پابندیوں کا سامنا ہے۔ مراکش ورلڈ نیوز نامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ مراکش اور ترکی کے درمیان اگست میں طے پانے والے ایک فری ٹریڈ معاہدے میں اکتوبر میں ترمیم کی گئی ہے جس میں کچھ صنعتی اشیا کی برآمد پر 90 فیصد تک ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔ اکادیمیا سے منسلک اسلام اوکان کا کہنا ہے کہ ‘متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب امریکہ کے ساتھ اپنے روابط، مالی وسائل اور عرب لیگ پر اجاراداری کو استعمال کررہے ہیں اور وہ ترکی کے لیبیا، شام، اور مشرقی بحیرہِ روم میں اقدامات سے پریشان ہیں۔‘ ترکی اور متحدہ عرب امارات میں تعلقات پہلے سے ہی کشیدہ ہیں۔ متحدہ عرب امارات مصر میں سابق آرمی چیف عبد الفتح السیسی کا حامی ہے جبکہ انھوں نے 2013 میں اخوان المسلمین کی حکومت کو برطرف کیا تھا۔ صحافی کونی اوزدمیر کا کہنا ہے کہ ترکی کو ان پابندیوں کے خلاف کوششیں کرنی چاہییں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر میں وزیر خارجہ ہوتا تو میں اس وقت پریشان ہوتا۔‘ 2017 میں قطر کے بلاکیڈ میں ترکی نے قطر کی مدد کی تھی اور کارگو اشیا بھیجی تھیں۔ قطر ترکی میں اہم سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔ تاہم حکومت حامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ علاقائی قیادی کی جنگ اور مسلم امہ کی قیادت حاصل کرنے کے لیے یہ قربانی دینا درست ہے۔ یہ اتحاد ترکی کو افریقہ سے لے کر جنوبی ایشیا تک میں کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس اتحاد نے ترک کے خلاف ایک جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54949671", "summary": "پاکستان میں بچوں کو فنی تعلیم کے بجائے ڈگری کے حصول پر زور دیا جاتا ہے۔ لیکن بہت سے نوجوان ہنر مندی یا ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ نوجوانوں نے اپنے تجربات بی بی سی سے شیئر کیے۔", "title": "’آج میں کئی ڈگری ہولڈرز سے زیادہ کماتا ہوں!‘", "firstPublished": "2020-11-19T07:39:10.000Z", "id": "d046d508-8f9f-4fc0-8f2c-b4d7d9870db6", "article": "لیکن یہاں زمینی حقائق کچھ مختلف ہیں۔ 14 یا 16 سال تعلیم یعنی ڈگری کا حصول یہاں زیادہ نوجوانوں کا خواب ہے اور پھر ایک اچھی پوسٹ پر مناسب تنخواہ یا اپنا بزنس اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد آرام کی زندگی۔ لیکن ایسے میں تکنیکی تعلیم یا ہنر مندی کی جانب جانا ہمیں کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہ والدین اور کسی طالب علم کی دوسری چوائس تو ہو سکتی ہے لیکن پہلی شاید کم ہی ہوتی ہے۔ آپ کو کسی ٹائر پنکچر کی شاپ پر چائلڈ لیبر کرتا بچہ تو دکھائی دے گا لیکن یہ کم ہو گا کہ آپ کسی میٹرک پاس لڑکے کو سکول سے آکر شام میں کسی گیراج، کسی پلمبر یا پھر کاریگر کی دکان پر دیکھیں۔ یعنی تعلیم اور ہنرمندی بیک وقت ساتھ ساتھ کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ عدنان کہتے ہیں کہ اصل میں ڈپلومہ کرنے والے کے بارے میں یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ ای میل پر رابطہ کاری میں بی ایس سی اور ڈگری ہولڈر سے کم قابل ہوگا ورنہ پریکٹیکل کام میں ڈپلومہ ہولڈر ہی بہتر ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرا تجربہ اتنا اچھا نہیں رہا۔ سعودیہ کا ویزا ملا اور ٹیکنیشن کے طور پر نوکری ملی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس میں آپ سے بہت زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ میں نے سات سال وہاں کام کیا۔‘ بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ اس وقت مختلف طرح کے کورسز کروائے جا رہے ہیں اور ہم ساتھ ساتھ بچوں کی کاؤنسلنگ بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس تین قسم کی کیٹیگریز ہیں۔ تین سال کا پروگرام ہوتا ہے جس میں ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئرنگ کروایا جاتا ہے۔ گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (جی ٹی ٹی آئی) ہوتے ہیں وہاں دو سال اور ایک سال کے کورسز ہوتے ہیں، یہ ڈپلومہ نہیں ہوتا۔ تیسرے گورنمنٹ ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹس ہیں جہاں بچوں کو تین یا چھ ماہ کے پروگرام آفر کیے جاتے ہیں۔' انھوں نے بتایا کہ `ڈپلومے والے آگے پڑھ بھی لیتے ہیں یا یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں، نہ بھی پڑھیں تو کسی جگہ کسی بھی انڈسٹری میں لیب ٹیکنیشن کے طور پر کام شروع کر لیتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجسٹ ہوتے ہیں، انجینئیر نہیں ہوتے۔ دو سال اور ایک سال کا کورس کرنے والوں کو بیرون ملک میں بھی اچھی نوکری مل جاتی ہے یا پاکستان کی اچھی انڈسٹریوں میں جیسے ہائر ہے، ٹیوٹا ہے، اس میں نوکری مل جاتی ہے۔‘ سمیع اللہ مانتے ہیں کہ اپنے 15 سال سے زیادہ عرصے کے تجربے میں انھوں نے اس نظام تعلیم میں ایڈمیشن لینے والے زیادہ تر طلبہ کو فیس کی مجبوری یا کم نمبروں کی وجہ سے اس فیلڈ کا انتخاب کرتے دیکھا لیکن ان کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں ہنر مندی کا حصول اور انٹرپنیورشپ ہی اچھے مستقبل کی ضمانت ہوں گے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-54983979", "summary": "گذشتہ سال کی درجہ بندی میں سنگا پور اور اوساکا جو ہانگ کانگ کے برابر تھے، اب نیچے چلے گئے ہیں۔", "title": "کووڈ نے دنیا کے مہنگے ترین شہروں کی فہرست بھی اوپر نیچے کر دی", "firstPublished": "2020-11-18T19:06:20.000Z", "id": "f54813f5-023c-a74c-8c1b-35a55956d2fe", "article": "رہنے کے لحاظ سے دنیا کی مہنگے ترین شہروں کی ایک نئی فہرست میں ہانگ کانگ، زیورخ، اور پیرس سب سے اوپر آ گئے ہیں۔ گذشتہ سال کی درجہ بندی میں سنگاپور اور اوساکا جو ہانگ کانگ کے برابر تھے، اب نیچے چلے گئے ہیں۔ اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کے مطابق سنگاپور میں قیمتوں میں کمی کی وجہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے غیر ملکی مزدوروں کا ملک چھوڑنا تھا۔ ادھر بیشتر چینی شہروں میں قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ کا معاشی صورتحال پر منفی اثر ہے۔ اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کی اپسنا دت کہتی ہیں کہ ’گذشتہ چند سالوں میں ایشیائی ممالک اس فہرست میں اونچے رہے ہیں مگر کورونا وائرس کی وبا نے درجہ بندی ہلا کر رکھ دی ہے۔‘ بنکاک 20 درجے نیچے گیا ہے اور اب 46واں مہنگا ترین شہر بن گیا ہے۔ یہ فہرست عموماً غیر ملکی کارکنان کے لیے بنائی جاتی ہے اور اس کی مدد سے عالمی کمپنیاں بزنس دوروں اور غیر ملکیوں کی آمدنی کا تعین کرتی ہیں۔ زیادہ تر چینی شہروں میں امریکہ اور چین کی ٹیکنالوجی کے حوالے سے تجارتی جنگ کی وجہ سے سپلائی چین ٹیسٹ ہوئی ہے اور صارفین کے لیے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ، افریقہ اور مشرقی یورپ میں شہروں میں رہنے کے اخراجات کم ہوئے ہیں جبکہ مغربی یورپ میں شہر اور مہنگے ہوئے ہیں۔ دس مہنگے ترین شہروں میں سے چار مغربی یورپ میں ہیں جن میں زیورخ اور پیرس سرِ فہرست ہیں۔ جنیوا اور کوپن ہیگن ساتویں اور نویں نمبر پر ہیں۔ یہ جزوی طور پر یورپی کرنسیوں کی قدرے مستحکم اور مضبوط پوزیشن کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ اس فہرست میں ہر شہر کا موازنہ نیویارک میں رہنے کی قیمت سے کیا جاتا ہے۔ اس فہرست میں سب سے زیادہ تیزی سے اوپر تہران آیا ہے جہاں امریکی پابندیوں کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کی ’کاسٹ آف لِونگ انڈیکس‘ میں 130 شہروں میں 138 اشیا کی قیمتوں کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا تاہم رپورٹ کا کہنا ہے کہ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں دیگر کے مقابلے میں زیادہ مستحکم رہی ہیں۔ لاجسٹکل مشکلات کی وجہ سے بھی اشیا کی کمی ہوئی جیسے کہ پاسٹا اور ٹوائلٹ پیپر جس کی وجہ سے قیمتیں بڑھی ہیں۔ رپورٹ کی دس کیٹیگریوں میں سے سب سے زیادہ اضافہ تمباکو اور تفریحی اشیا میں ہوا، اور سب سے تیزی سے کمی کپڑوں کی کیٹیگری میں ہوئی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54928173", "summary": "کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان میں لاک ڈاؤن لگنے کی وجہ سے جب معیشت کا پہیہ رکا تو اس نے نجی شعبے میں کاروبار کو شدید متاثر کیا تاہم ملازمتوں سے فارغ ہونے والے بہت سے افراد نے مختلف نوع کے کاروبار شروع کر کے اپنی روزی کمانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔", "title": "پاکستان میں نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟", "firstPublished": "2020-11-14T10:40:39.000Z", "id": "bb696e60-4e5e-4397-8d2a-7667cbdacbfb", "article": "ملک میں لاک ڈاؤن کے باعث جب معیشت کا پہیہ رکا تو اس نے نجی شعبے میں کاروبار کو شدید متاثر کیا جس نے بیروزگاری کو جنم دیا۔ تاہم ملازمتوں سے فارغ ہونے والے بہت سے افراد نے مختلف نوع کے کاروبار شروع کر کے اپنی روزی کمانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں جہاں کورونا وائرس کی وجہ سے ملازمتوں سے فارغ ہونے والے افراد نے محدود پیمانے پر اپنا بزنس شروع کیا تو اس کے ساتھ معیشت کو سہارا دینے کے لیے حکومتی قوانین میں نرمی اور قرضوں کی آسان شرائط پر فراہمی بھی نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن میں اضافے کا باعث بنی۔ قاصف نے بتایا کہ ان کی کمپنی ڈیڑھ دو سال سے کام کر رہی تھی تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے ان کے کاروبار میں بہت اضافہ ہوا، جب ملک میں لاک ڈاؤن لگا اور مارکیٹیں اور بازار بند ہو گئے تو ایسی صورت حال میں ہم نے پیداواری کمپنیوں اور ڈسٹری بیوٹرز کے ذریعے براہ راست کریانہ والوں کو سامان فراہم کیا۔ معیشت میں اس سست وری کی ایک بڑی وجہ کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والا لاک ڈاؤن اور اس کے نتیجے میں اس میں طلب میں کمی کا رجحان ہے، اس صورت حال نے ملک میں بیروزگاری میں بھی اضافہ کیا ہے۔ پاکستان سافٹ وئیر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے قائم مقام سیکرٹری جنرل طلحہ بن افضل کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے بہت سے نئے سٹارٹ اپ کھلے ہیں جس میں خاص کر آئی ٹی کے شعبے میں بہت سی نئی کمپنیوں نے کام شروع کیا اور ان کی رجسٹریشن ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاؤن نے ای کامرس اور آن لائن پلیٹ فارم کو بہت زیادہ مضبوط کیا جس میں آن لائن ٹریڈنگ کمپنیوں نے اس لاک ڈاؤن کے دوران کام کرنا شروع کیا اور آن لائن شاپنگ کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس حوالے سے ماہر معیشت مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ انھوں نے حال ہی میں خود ایک فنانشنل ایڈوائزی کمپنی ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ کروائی ہے۔ مزمل نے بتایا کہ کورونا کی وجہ سے معیشت کو ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے جب حکومت نے اقدامات اٹھائے تو اس میں ٹیکسوں میں مراعات کے ساتھ بینکوں سے آسانی سے قرض بھی مل رہا ہے جس کی وجہ سے نئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔ ان کے مطابق جہاں کورونا وائرس کی وجہ سے نئے سٹارٹ اپ نے کام شروع کیا ہے تو اس کے ساتھ حکومت کی جانب سے معیشت کی بہتری کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے باعث بھی بہت ساری کمپنیوں نے ایس ای سی پی میں رجسٹریشن کرائی۔ ان کے مطابق نے انھوں نے حال ہی میں ایک منرل واٹر کمپنی اور ایک رئیل سٹیٹ کمپنی ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ کروائی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54551197", "summary": "دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سرمایہ کاری کی جعلی سکیمز وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہی ہیں، جن میں کم پیسوں کے بدلے قرضے، رہائشی پلاٹ، انشورنس، بڑے انعام، نوکری یا کثیر منافع کی پیشکش کی جاتی ہے۔ لیکن کیا ان فراڈ سکیموں سے بچ کر محفوظ سرمایہ کاری ہو سکتی ہے؟", "title": "یہ کیسے یقینی بنایا جائے کہ سرمایہ کاری کا دستیاب موقع ’ڈبل شاہ‘ سکیم تو نہیں؟", "firstPublished": "2020-11-02T04:13:05.000Z", "id": "13ba760b-0843-48ec-a091-1b4f42e9b97b", "article": "نیب کے مطابق سبط الحسن ایک سکول ٹیچر تھے۔ پھر وہ نوکری چھوڑ کر کچھ عرصے کے لیے دبئی گئے اور وہاں سے لاکھوں روپے کما کر واپس وطن لوٹے۔ معاشرے میں اُن کی عزت تھی۔ مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ بات زیر بحث رہی تھی کہ انھوں نے اس ’سکیم‘ میں ابتدائی سرمایہ کاری کرنے والے شہریوں کو 100 فیصد منافع کے ساتھ چند ہفتوں یا مہینوں میں پیسے ڈبل بھی کر کے دیے تھے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کئی طرح کی جعلی سکیمیں وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہی ہیں، جن میں کم پیسوں کے بدلے قرضے، رہائشی پلاٹ، انشورنس، بڑے انعام یا نوکری کی پیشکش کی جاتی رہی ہیں۔ آج بھی معروف امریکی جعل ساز چارلز پونزی کے نام پر ان سکیمز کو پہچانا جاتا ہے۔ چارلز پونزی نے 1920 کی دہائی میں ہزاروں افراد کا سرمایہ اس وعدے پر حاصل کیا تھا کہ وہ 90 دنوں میں انھیں 50 فیصد منافع کما کر دے سکتے ہیں۔ پونزی سکیم کی ایک قسم ’پیرامڈ سکیم‘ میں جعل ساز نئے سرمایہ کاروں سے پیسے وصول کر کے پرانے یا ابتدائی سرمایہ کاروں میں بانٹ دیتے ہیں تاکہ انھیں یہ تاثر دیا جا سکے کہ منافع ہوا ہے۔ ان پیسوں سے سرمایہ کاری کے بجائے مزید سرمایہ کاروں کو دعوت دی جاتی ہے تاکہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رکھا جا سکے۔ حال ہی میں عوامی آگاہی کے سلسلے میں ایس ای سی پی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ لوگوں کو سرمایہ کاری کی سکیمز میں حصہ لینے سے پہلے محتاط رہنا چاہیے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کوئی سکیم جعلی ہو سکتی ہے خاص طور پر اگر اس میں لوگوں سے پیسے وصول کرنے کے بدلے کم نقصان کے ساتھ بڑے منافع کا وعدہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہاں ایک اور بات بھی بتانا ضروری ہے۔ اگر کوئی کمپنی ایس ای سی پی کے پاس رجسٹرڈ ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ لوگوں سے کسی جعلی سکیم کے لیے رقم وصول کر سکتی ہے۔ نگراں ادارے کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اپنے سرمایے کے حوالے سے خود بھی احتیاط برتنی چاہیے اور کسی کمپنی یا فرد کی جانب سے گمراہ ہونے سے بچنا چاہیے۔ لوگ سرمایہ کاری سے قبل یہ تصدیق کر سکتے ہیں کہ آیا یہ کمپنی لائسنس یافتہ ہے۔ یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ کمپنی کس شعبے میں سرمایہ کاری کرتی ہے تاکہ آپ کی رقم سے محفوظ اور شفاف سرمایہ کاری ممکن ہو سکے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-54756825", "summary": "دنیا میں کورونا وائرس کی وبا کے بعد سونے کی قیمت آسمان کو چھونے لگی ہے مگر زمین سے سونا نکالنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ کرس بارانیوک نے برطانیہ میں سونے کی کان کے منصوبے کے حوالے سے سب سے بڑی چیلنجز اور مشکلات جا جائزہ لیا۔", "title": "زمین سے سونا نکالنا مشکل سے مشکل تر کیوں ہوتا جا رہا ہے", "firstPublished": "2020-11-01T09:04:02.000Z", "id": "0c66681e-d78c-4714-8165-ffefed344399", "article": "اس سوال کے لیے اِس سے بہتر وقت شاید ہو نہیں سکتا تھا۔ کورونا کی وبا کے دوران دنیا میں سونے کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ اس سے نہ صرف سونے کی تلاش کے لیے دنیا میں کئی مقامات پر کھدائی میں دلچسپی میں ایک نیا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، بلکہ ایمازون کے جنگلات میں تو غیر قانونی کانکنی شروع ہو چکی ہے۔ لیکن اس کے باوجود زمین سے سونا نکالنا زیادہ مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس حوالے سے تکنیکی مسائل کا علم سب کو ہو، لیکن اس کی پیشنگوئی ہر کوئی نہیں کر سکتا کہ ماحول دوست تنظیموں کی طرف سے احتجاج ہوگا یا نہیں اور مقامی سیاست اس قسم کے منصوبے پر کیسے اثر انداز ہو گی۔ لیکن کیا یہ نکتہ اتنا اہم ہے کہ اس کی وجہ سے سونا نکالنے کی کوشش ہی ترک کر دی جائے؟ مِلر کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ ہم پِیک گولڈ تک پہنچ چکے ہیں۔ اِس موسم گرما میں اس چمکدار زرد دھات کی قیمت دو ہزار ڈالر فی اونس سے اوپر نکل گئی تھی اور اب انیس سو ڈالر فی اونس پر رکی ہوئی ہے۔ بیس برس پہلے ایک اونس سونا موجودہ قیمت کے ایک چوتھائی سے بھی کم پر فروخت ہو رہا تھا۔ کورونا وائرس کی وبا میں تیزی کے بعد، سونے کی قیمت میں تازہ ترین اضافے کی وجہ کرنسیوں کی قدر میں کمی بتائی جاتی ہے، جن میں امریکی ڈالر بھی شامل ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کئی حکومتیں وبا سے نمٹنے کے لیے بڑے بڑے قرضے اٹھا رہی ہیں اور خلا کو پُر کرنے کے لیے نوٹ چھاپ رہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ کرنسی کی قدر مزید غیر مستحکم ہو گئی ہے۔ دوسری طرف، سونے کو ایک مستحکم اثاثہ سمجھا جاتا ہے، اور چونکہ دنیا میں سونے کی مقدار محدود ہے، اس لیے سرمایہ کار اِسے قابلِ بھروسہ سمجھتے ہیں۔ شدید مخالفت کے بعد 2019 میں ڈالریڈیئن نے کان والی جگہ پر سایانائیڈ استعمال کرنے کا ارداہ ترک کر دیا۔ یاد رہے کہ سونے کی کچھ کانوں میں زمین سے نکلنے والے دھاتوں کے مرکب سے سونے کو الگ کرنے کے لیے سایانائیڈ استعمال کیا جاتا ہے۔ کمپنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے پانی کے استعمال میں 30 فیصد اور مضر گیسوں کے اخراج کے میں 25 فیصد کمی کا بھی منصوبہ بنا لیا تھا۔ قطع نظر اس بات کے کہ کرنگینالٹ میں آگے چل کر کیا ہوتا ہے، لیکن ڈالریڈیئن کی کوششوں نے اس حوالے سے کئی مباحث کو جنم دیا ہے کہ مقامی لوگ کیا قبول کرنے کو تیار ہوں گے اور کیا نہیں۔ اگر سونا اتنا ہی مہنگا رہتا ہے اور کمپنیاں ایسے مقامات پر کھدائی کے منصوبے بناتی رہتی ہیں جہاں سونے کی کانوں کا کوئی رواج نہیں، تو اس قسم کی بحثیں مزید عام ہو جائیں گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-54744415", "summary": "جمعرات کو ایمازون، فیس بک، ایپل اور گوگل نے رواں سال 30 ستمبر تک کی سہ ماہی رپورٹس جاری کی ہیں جن میں کمپنیوں کو ہونے والے منافع اور آمدن کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔ ان تمام رپورٹس میں ایک چیز قدرِ مشترک تھی اور وہ یہ کہ پیداوار بڑھ رہی ہے اور اس میں سست وری کی کوئی علامات موجود نہیں ہیں۔", "title": "عالمی بحران کے باوجود بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کا کاروبار کیسے چمک رہا ہے؟", "firstPublished": "2020-10-31T02:29:03.000Z", "id": "6f82902c-9056-4609-9348-942d96a5e7d6", "article": "جمعرات کو ایمازون، فیس بک، ایپل اور گوگل نے رواں سال 30 ستمبر تک کی سہ ماہی رپورٹس جاری کی ہیں جن میں کمپنیوں کو ہونے والے منافع اور آمدن کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔ ان تمام رپورٹس میں ایک چیز قدرِ مشترک تھی اور وہ یہ کہ پیداوار بڑھ رہی ہے اور اس میں سست وری کی کوئی علامات موجود نہیں ہیں۔ ایمازون نے صرف ان تین مہینوں میں 6.3 ارب ڈالر کا منافع کمایا ہے۔ رواں سال کا یہ سہ ماہی منافع گذشتہ سال کے مکمل منافع کے مقابلے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔ لیکن اس پیداوار کے نتیجے میں نقصان بھی ہوا ہے۔ ایمازون نے کہا ہے کہ کووڈ 19 سے دوران انھیں اس کی روک تھام اور موزوں انتظامات کے لیے 2.5 ارب ڈالر کے اخراجات اٹھانا پڑے ہیں۔ اس دوران کمپنی کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ ایمازون کے ملازمین کے لیے بعض سخت پالیسیاں زیر بحث رہی ہیں اور ان کے دفاتر میں مشکل حالات کی مخالفت میں کئی مظاہرے کیے گئے ہیں۔ انسٹاگرام اور واٹس ایپ کے مالک فیس بُک نے بتایا ہے کہ ستمبر میں یومیہ صارفین کی تعداد 2.5 ارب رہی ہے۔ گذشتہ سال ستمبر کے مقابلے یہ 15 فیصد زیادہ ہے، لیکن رواں سال جون کے مقابلے محض 3 فیصد کا اضافہ ہے۔ وہ اس لیے کیونکہ کورونا وائرس کے ابتدائی مہنیوں کے دوران لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے تھے اور کچھ کرنے کو نہ ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا کا رُخ کر رہے تھے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کی سب سے منافع بخش مارکیٹ، امریکہ اور کینیڈا، میں بھی فیس بک کے صارفین میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس نے سرمایہ کاروں کو بتایا ہے کہ ان کی توقعات کے مطابق یہ رجحان ایسے ہی جاری رہے گا۔ ٹوئٹر نے بھی اسی رجحان کی نشاندہی کی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جولائی تا ستمبر اس کے یومیہ صارفین کی تعداد 18 کروڑ 70 لاکھ تھی۔ گذشتہ سال اسی دورانیے کے مقابلے یہ محض ایک فیصد اضافہ ہے۔ ایلفابیٹ نے رواں سال اپنی شروع کی سہ ماہی رپورٹ میں بتایا تھا کہ سنہ 2004 میں پبلک لسٹڈ کمپنی بننے کے بعد سے پہلی مرتبہ اس کی آمدن میں بڑے پیمانے پر اتنی کمی واقع ہوئی ہے۔ گوگل کی آمدن میں 14 فیصد اضافہ ہوا جو ماہرین کی پیشگوئی سے زیادہ تھا۔ منافع میں 59 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 11 ارب ڈالر سے زیادہ رہا۔ سٹاک مارکیٹ میں کچھ ہی گھنٹوں میں اس کے شیئرز کی خرید و فروخت کے بعد ان کی قیمت چھ فیصد بڑھ گئی۔ جیسے عام طور پر ہوتا ہے کمپنیوں کی توجہ سیلز اور منافع پر مرکوز رہی اور ان تنازعات پر نہیں رہی جو کہ ان کی کمپنیوں کے گرد گھوم رہے ہیں جیسے کہ امریکہ میں سخت تر قوانین کے مطالبات میں جو تیزی آ رہی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54738782", "summary": "پاکستان میں قومی بچت کی سکیموں میں واضح کمی آئی ہے جس کی وجہ ماہرین کے مطابق شرح منافع میں کمی کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات بھی ہیں۔", "title": "ایف اے ٹی ایف پاکستان کی قومی بچت سکیموں پر کیسے اثرانداز ہو رہا ہے؟", "firstPublished": "2020-10-30T10:17:17.000Z", "id": "198f9096-7ef1-4e7b-a56f-3d39de03c713", "article": "قومی بچت کی سکیموں میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے ذریعے حکومت اپنے بجٹ کی ضروریات کو پوری کرتی ہے، ان سکیموں میں ہونے والی سرمایہ کاری پر حکومت سرمایہ کاروں کو ہر ماہ منافع دیتی ہے۔ تاہم اس سال ان سکیموں پر شرح منافع میں کمی کی گئی جو ماہرین معیشت کے نزدیک ان سکیموں میں کم سرمایہ کاری کی ایک وجہ ہے۔ قومی بچت کی سکیموں میں ڈیفنس سیونگز سرٹیفکیٹس، بہبود سیونگز سرٹیفکیٹس، ریگولر انکم سرٹیفکیٹس، سپیشل سیونگز سرٹیفکیٹس، پرائز بانڈز اور کچھ دوسرے مالیاتی سرٹیفکیٹس شامل ہیں۔ ان میں ایک خاص مدت کے لیے سرمایہ کاری پر منافع دیا جاتا ہے جو مختلف سرٹیفکیٹس پر مختلف شرح سے دیا جاتا ہے۔ ان میں بیواؤں اور بزرگ افراد کو خصوصی رعایت حاصل ہے اور ان کے لیے جاری کیے گئے سرٹیفکیٹس پر دوسروں کے مقابلے میں شرح منافع تھوڑی سی زیادہ ہوتی ہے۔ قومی بچت کی سکیموں میں کم سرمایہ کاری کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا اس کی ایک بڑی وجہ تو ان سکیموں میں کی جانے والی سرمایہ کاری پر دیے جانے والے منافع کی شرح میں کمی ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کے لیے اس میں زیادہ کشش نہیں ہے۔ حکومت نے شرح سود میں کمی کے بعد ان سکیموں میں سرمایہ کاری پر دیے جانے والے منافع پر بھی کمی کر دی تھی۔ قومی بچت سکیموں میں ہونے والی کم سرمایہ کار پر بات کرتے ہوئے ماہر معیشت مزمل اسلم نے کہا کہ اس کی ایک وجہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط بھی ہیں کہ جن میں ان اسکیموں میں لگائی جانے والی رقم کا ذریعہ معلوم کرنے کا کہا گیا کہ سرمائے کے طور پر لگائی جانے والی رقم کہاں سے حاصل کی گئی ہے۔ ان کے مطابق پہلے ایسی کوئی شرط نہیں تھی کہ سرمایہ کاری کرنے پر کوئی ان ذرائع کے بارے میں پوچھتا کہ یہ رقم کہاں سے حاصل کی گئی ہے۔ ان کے مطابق ایف اے ٹی ایف کے قوانین کے تحت ان سکیموں میں لگائے جانے والے پیسے کی جانچ پڑتال بھی کم سرمایہ کاری کا وجہ بنی ہے۔ وڑائچ کے مطابق ایف ٹی اے ایف کی شرائط کے تحت قومی بچت سکیموں پر نگرانی سے وقتی طور پر تو سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہو گی تاہم یہ مستقبل کے لیے ایک اچھا اقدام ہے تاکہ اس کے ذریعے مشکوک پیسے کے استعمال کو روکا جا سکے۔ بچت سکیموں کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم کو حکومت اپنی بجٹ کی ضروریات پورا کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ دو ماہ میں آنے والی کم سرمایہ کاری کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے وڑائچ نے کہا کہ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا کیونکہ حکومت اپنے اخراجات پورا کرنے کے لیے بانڈ مارکیٹ سے پیسہ ادھار لے رہی ہے جہاں کم شرح سود کی وجہ سے سستا قرضہ مل جاتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54729560", "summary": "پاکستان فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے پاکستان کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنی جاز (سابقہ موبی لنک) پر 25 ارب روپے کے ٹیکس نادہندہ ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت میں ان کے دفتر کو سیل کر دیا ہے۔", "title": "جاز پر اربوں روپے کے ٹیکس نادہندہ ہونے کا الزام، کمپنی آفس سیل", "firstPublished": "2020-10-29T08:28:26.000Z", "id": "2e37b4bf-fe1e-4d90-bffb-e50a3cee3602", "article": "پاکستان فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے پاکستان کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنی جاز (سابقہ موبی لنک) پر 25 ارب روپے کے ٹیکس نادہندہ ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت میں کمپنی کے دفتر کو سیل کر دیا ہے۔ ایف بی آر کے لارج ٹیکس پیئرز یونٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان موبائل کمیونیکیشن لمیٹڈ (پی ایم سی ایل) یعنی جاز 25 ارب روپے سے زائد کی انکم ٹیکس نادہندہ ہے اور ٹیکس ادا نہ کرنے کے باعث اس کے اسلام آباد میں موجود دفتر کو سیل کیا جاتا ہے۔ جاز کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن عائشہ سروری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جاز قانون کی پاسداری کرنے والی ایک ذمہ دار کمپنی ہے۔ گذشتہ روز ہمیں ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس نادہندہ ہونے اور دفتر سیل کیے جانے کا نوٹس ملا تھا۔‘ ایف بی آر کا موقف ہے کہ ٹیلی کام کمپنی جاز نے اپنی ذیلی کمپنی سے حاصل ہونے والا منافع یعنی کیپیٹل گین پر انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔ جبکہ ٹیلی کام کمپنی کی قانونی اور آڈٹ ٹیم کا موقف ہے کہ پاکستان کے انکم ٹیکس قوانین کے تحت کمپنی اپنی ہی ذیلی کمپنی سے لین دین پر انکم ٹیکس دینے کی پابند نہیں ہے۔ جاز کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن عائشہ سروری نے ایف بی آر کے ساتھ اس تنازع کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور ٹیلی کام کپمنی جاز کے درمیان پاکستان انکم ٹیکس آرڈینینس کے سیکشن 97 کے تحت اختلاف پایا جاتا ہے اور اب تک یہ موقف ہے کہ پاکستان کے انکم ٹیکس قوانین کے تحت انکم ٹیکس قانون کی شق 97 کی ہماری تشریح ٹھیک ہے اور ہم کوئی ٹیکس نادہندہ نہیں ہیں۔‘ ایف بی آر کی جانب سے کمپنی پر ٹیکس نادہندہ ہونے اور اس کے مرکزی دفتر کو سیل کرنے کے اقدام پر بات کرتے ہوئے عائشہ سروری کا کہنا تھا کہ ’جو کمپنی گذشتہ 25 برس سے ملک میں کام کر رہی ہے اور ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے اس کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے آپ چند کاروباری اخلاقیات کا خیال رکھتے ہیں اور کمپنی کو کچھ وقت دیتے ہیں لیکن ایف بی آر نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوری طور پر سنگین اقدام اٹھایا۔‘ عائشہ سروری نے ایف بی آر کی اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک ایسے وقت میں جب آپ کی معیشت ڈوب رہی ہے اور جب ملک کی بڑی کمپنیاں ٹیکس ادا کرنے کی بجائے ملکی اداروں کے ساتھ قانونی چارہ جوئی کر رہی ہیں، ایسے وقت میں اس کمپنی کے ساتھ جو ملک میں 25 برس سے معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے، کے لیے اس طرح کی خوف کی فضا قائم کرنا مناسب نہیں ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-54719226", "summary": "سعودی عرب غیر ملکی ملازموں کی کفالت کے نظام کو ختم کرنے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے منگل کو عربی زبان میں شائع ہونے والے اخبار 'مال' کےحوالے سے یہ خبر دی ہے۔ اس کے علاوہ یہ خبر سعودی گزیٹ نے ذرائع کے حوالے سے بھی دی ہے۔", "title": "سعودی عرب ’کفالہ کا نظام ختم کرنے پر غور‘ کیوں کر رہا ہے؟", "firstPublished": "2020-10-28T11:50:06.000Z", "id": "2ffc33d5-aaa4-4f83-9c60-cc3b5a638c57", "article": "سعودی عرب اپنے ملک میں رائج غیر ملکی ملازموں کی کفالت کے نظام کو ختم کرنے کے ایک منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے منگل کو عربی زبان میں شائع ہونے والے اخبار ’مال‘ کےحوالے سے یہ خبر دی ہے جبکہ سعودی گزٹ نے بھی مختلف ذرائع کا حوالہ دے کر اس خبر کو شائع کیا ہے۔ سعودی عرب میں رائج اس نظام کے تحت سعودی شہری اپنے ملک میں روزگار کے سلسلے میں آنے والے غیر ملکی شہریوں کو سپانسر کرتے ہیں جسے کفالہ کہا جاتا، سپانسر کرنے کے بدلے سعودی شہریوں کو ایک مختص رقم فراہم کرنی پڑتی ہے۔ تاہم اب سعودی عرب اس کی جگہ ایک دوسرا نظام متعارف کروا رہا ہے جس میں مالک اور ملازم کے درمیان براہ راست معاہدہ ہو گا۔ اور ایسا کر کے وہ مزید غیر ملکی افراد کو سعودی عرب میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب تیل پر اپنی معیشت کا انحصار کم کرنا چاہتا ہے۔ معیشت کے امور پر شائع ہونے والے اخبار ’مال‘ کے مطابق کفالہ نظام سعودی عرب میں گذشتہ سات دہائیوں سے رائج ہے جس کے تحت سعودی عرب میں کام کرنے والا غیرملکی کارکن اپنے مالک کا پابند ہو جاتا ہے۔ ملازموں کے استحصال کے بڑھتے ہوئے الزامات کی وجہ سے ایک طویل عرصے سے کفالہ نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ’مال‘ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی وزارت انسانی وسائل اور سماجی فروغ کی جانب سے اگلے ہفتے اس تناظر بڑا اعلان متوقع ہے۔ توقع ہے کہ اس اعلان سے غیر ملکی کارکنوں اور آجروں یا مالکان کے مابین معاہدے میں بہتری آئے گی۔ مال کی رپورٹ کے مطابق حکومت کے اس اعلان پر سنہ 2021 کے ابتدائی چھ ماہ کے اندر عملدرآمد کیا جائے گا۔ اس وقت سعودی عرب میں ایک کروڑ غیر ملکی کارکنان کفالہ نظام کے تحت کام کر رہے ہیں۔ کفالہ کے نظام کا اطلاق خلیجی ممالک میں کام کرنے والے غیر ملکی کارکنوں پر ہوتا ہے۔ اس نظام کا اطلاق مقامی عرب آبادی کے گھروں میں کام کرنے والے ذاتی ملازمین سے لے کر بڑی بڑی کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین پر ہوتا ہے۔ کفالہ کے نظام کے تحت سب سے زیادہ پیچیدگیاں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب کارکن اپنے کفیل کو بتائے بغیر کام سے غیر حاضر ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں کارکن کی حیثیت ایک مجرم کی سی ہوتی ہے اور پولیس سمیت تمام سرکاری اداروں سے چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ انھیں اکثر خلیجی ممالک کے عدالتی نظام سے بروقت انصاف نہیں ملتا باوجود اس کے کہ وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں کہ ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور کفیل نے ان سے ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-54699339", "summary": "پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کا حساس معاملہ فرانس اور ترکی کے درمیان کشیدگی میں کوئی ایک نیا معاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے لیبیا، وسطی ایشا کی دو ریاستوں (آرمینیا اور آذربائیجان) کے درمیان لڑائی اور شام میں مختلف متحارب گروہوں کی پشت پناہی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی ایک تاریخ ہے۔", "title": "کیا مسلمانوں کا فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کام کرے گا؟", "firstPublished": "2020-10-27T05:03:24.000Z", "id": "f44b19b8-a4b2-43dc-83da-27a67f0081fa", "article": "ترکی نے عرب ممالک کے عوام سے اپیل کی ہے کہ فرانسیسی صدرایمانویل میکخواں کی جانب سے پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز خاکوں کا دفاع کرنے کی وجہ سے وہ فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ عالمِ عرب اور دیگر مسلم ممالک نے اس سے قبل بھی یورپی ممالک کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔ اس سے پہلے جب ڈنمارک کے اخبار یولندے پوستن نے سنہ 2005 میں پیغمبرِ اسلام کے کارٹون شائع کیے تھے تو اس وقت بھی کئی مسلم ممالک نے ڈنمارک کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کا حساس معاملہ فرانس اور ترکی کے درمیان کشیدگی میں کوئی ایک نیا معاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے لیبیا، وسطی ایشا کی دو ریاستوں (آرمینیا اور آذربائیجان) کے درمیان لڑائی اور شام میں مختلف متحارب گروہوں کی پشت پناہی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی ایک تاریخ ہے۔ امکان ہے کہ ترکی فرانس سے کشیدگی بڑھانے میں ایک ایسی حد تک جائے گا جہاں اس کے اپنے بنیادی مفادات کو زد نہ پہنچے۔ ساتھ ساتھ ترکی اپنی نئی اسلامی شناخت کو عالم عرب کی قیادت کے لیے بھی استعمال کرسکتا ہے کیونکہ موجودہ دور میں عالم عرب میں کوئی ایسا نام نہیں ہے جو قائدانہ کردار ادا کرسکے۔ پیغمبرِ اسلام کے کارٹونوں پر فرانسیسی صدر کو مذمت کا نشانہ بنا کر ترک صدر عالمِ عرب میں اس خلا کو پرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس وقت عرب ممالک میں حکمرانوں اور عوام کے درمیان اسرائیلی پالیسی پر شدید تضاد ہے جو کسی وقت بھی ایک زلزلہ پیدا کر سکتا ہے۔ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ناگرنو قرہ باغ پر تنازع اس وقت ایک مکمل جنگ کی صورت اختیار کر چکا ہے اگرچہ امریکہ جنگ بندی کی کوششیں کر رہا ہے جس کی کامیابی کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ بحیرہِ روم میں قبرص کی تقسیم کی وجہ سے فرانس اور ترکی کا ایک پرانا تنازعہ دوبارہ سے متحرک ہو رہا ہے۔ ان ہی حالات کے پس منظر میں لیبیا میں جہاں یورپ کی حکمتِ عملی ناکام نظر آرہی ہے، ترکی نے براہِ راست فوجی مداخلت کرکے کئی یورپی ممالک کو اور خاص کر فرانس کو مزید ناراض کیا ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تنازعات کی وجہ سے ترکی کے صدر نے فرانسیسی صدر کے خلاف سخت زبان استعمال کی ہے۔ لیکن جیسا کہ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ایک مسجد پر توڑ پھوڑ کے واقعے کے بعد معاملہ صرف حکومتوں یا ریاستوں کے ہاتھ سے باہر نکل جانے کا بھی خطرہ ہے۔ سڈنی کی مسجد ترک مسلمانوں سے وابستہ ہے۔ حملہ آور ایک ذہنی مریض بتایا گیا ہے، لیکن کشیدگی بڑھنے کی صورت میں کئی عام افراد ذہنی مریض ہو سکتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54658019", "summary": "فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو فروری 2021 تک بدستور زیرِ نگرانی ممالک کی گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ادارے کے سربراہ کے مطابق پاکستان سفارشات پر عمل کر رہا ہے مگر اسے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔", "title": "ایف اے ٹی ایف: پاکستان کو بدستور ’گرے لسٹ‘ میں رکھنے کا فیصلہ", "firstPublished": "2020-10-23T13:08:26.000Z", "id": "83a5ed88-8d5a-42c2-af6f-94e8ee5a02fb", "article": "منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد کی روک تھام کے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو بدستور زیرِ نگرانی یعنی 'گرے لسٹ' میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ادارے کے صدر کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان 27 میں سے 21 سفارشات پر عمل کر رہا ہے لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی اور اسے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے مطابق اب پاکستان کو فروری 2021 تک ان تمام سفارشات پر عمل کرنے کا وقت دیا گیا ہے جن پر تاحال کام نہیں ہو سکا۔ ایف اے ٹی ایف کے سربراہ مارکس پلیئر نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان کو ادارے کی جن 27 سفارشات پر عملدرآمد کے لیے کہا گیا تھا ان میں سے 21 پر عمل ہو رہا ہے تاہم جب تک پاکستان باقی چھ سفارشات پر عملدرآمد نہیں کرتا اس کا درجہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے یقیناً اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے لیکن اسے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور وہ رک نہیں سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بلیک لسٹ میں جانے کا خطرہ اس وقت تک نہیں ٹلا جب تک وہ ان چھ اہم سفارشات پر عملدرآمد نہیں کر لیتا جن پر کام ہونا ابھی باقی ہے۔ ادارے کے صدر کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان بقیہ سفارشات پر مقررہ مدت میں عملدرآمد کرتا ہے تو ایف اے ٹی ایف کی ٹیم پاکستان کا دورہ کر کے اس بات کو یقینی بنائے گی کہ تمام سفارشات پر عمل ہو رہا ہے اور اگر ایسا پایا گیا تو پاکستان کے گرے لسٹ سے اخراج کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں ضروری اقدامات اٹھانے کے لیے اکتوبر 2019 تک کا وقت دیا گیا تھا جس میں بعدازاں چار مہینے کی توسیع کر دی گئی تھی۔ پاکستان نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ دی گئی اس مہلت کے دوران ضروری قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کے لیے ایک موثر نظام تیار کر لے گا۔ فروری 2020 تک پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی 27 سفارشات میں سے صرف 14 پر عمل کیا تھا اور باقی رہ جانے والی 13 سفارشات پوری کرنے کے لیے اسے مزید چار ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔ کسی ملک کو انہانسڈ فالو اپ لسٹ میں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کی مانیٹرنگ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ کسی بھی ملک کی گرے لسٹ میں شمولیت کے بعد اس ملک کی پیشرفت غیر تسلی بخش ہونے پر مانیٹرنگ میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54644443", "summary": "معاشی تجزیہ کار اسے کسی حد تک تو حکومت کی کامیابی قرار دیتے ہیں تاہم اسے ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال کا پیمانہ نہیں مانتے۔دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ نواز نے وزیر اعظم کےدعوے کو ان کی معیشت کی ساخت سے ’ناواقفیت‘ کہا ہے اور اسے دراصل معیشت کے لیے ’خطرناک‘ قرار دیا ہے۔", "title": "’کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس‘ پاکستان کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟", "firstPublished": "2020-10-22T10:41:11.000Z", "id": "5cb17e99-402d-4f5b-9acb-0fb53451e986", "article": "کرنٹ اکاؤنٹ یعنی جاری کھاتے میں سرپلس (فاضل) کی ملکی معیشت میں اہمیت ہے اور اس معاشی اعشاریے میں مثبت رجحان کے بارے میں معاشی تجزیہ کار اسے کسی حد تک تو حکومت کی کامیابی قرار دیتے ہیں تاہم اسے ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال کا پیمانہ نہیں مانتے۔ دوسری جانب پاکستان میں حکومت کی سب سے بڑی سیاسی حریف پاکستان مسلم لیگ نواز نے وزیر اعظم کے کرنٹ اکاؤنٹ میں سرپلس کو عظیم خوشخبری دینے کو ان کی معیشت کی ساخت سے ’ناواقفیت‘ کہا ہے اور اسے دراصل معیشت کے لیے ’خطرناک‘ قرار دیا ہے۔ عارف حبیب سکیورٹیز میں معیشت کی تجزیہ کار ثنا توفیق نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ برآمدات اور ترسیلات زر سے آنے والے ڈالروں، درآمدات اور پاکستان سے تعلیمی یا دوسرے مقاصد کے لیے بھیجے جانے والے ڈالروں کے درمیان فرق کو کرنٹ اکاؤنٹ میں دیکھا جاتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے آنے والے ڈالروں کے بارے میں ثنا نے کہا وہ فنانشل اکاؤنٹ کا حصہ ہیں اور اسی طرح پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے بیرون ملک منافع کو بھی فنانشل اکاؤنٹ میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں موجودہ حکومت کی سب سے بڑی سیاسی حریف پاکستان مسلم لیگ نواز کی معاشی ٹیم کے رکن اور پاکستان کے سابق وزیر وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ وزیراعظم کا اعلان ان کی معیشت سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ نواز لیگ کے دور میں ملکی تاریخ کے بلند ترین کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس کی وجہ ہمارے دور میں توانائی اور انفراسٹرکچر کے سرمایہ کاری کے وہ منصوبے تھے جن کے لیے مشینری، آلات وغیرہ درآمد کرنے پڑے۔ تاہم وہ ایک وقتی عمل تھا کیونکہ ان منصوبوں کی وجہ سے ’ملک کی معیشت میں گروتھ آتی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوتے۔‘ ’جب ملک میں ڈالروں کی سپلائی کم ہے اور معیشت بھی سست روی کا شکار ہے تو روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے میں یہ ایک اہم رجحان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت میں بھی سکڑنے کا رجحان جاری ہے تو بیرونی دنیا میں طلب کم ہے کہ آپ برآمد کر کے ڈالر کما سکیں۔ تو اس مشکل صورتحال میں کرنٹ اکاؤنٹ کا سرپلس ہونا مثبت عمل ہے کیونکہ اگلے دو تین سال میں پاکستان کو بیرونی قرضے بھی واپس کرنے ہیں تو زیادہ سے زیادہ ڈالر کا ملک میں ہونا ہماری بیرونی ادائیگیوں کو مدد فراہم کرے گا۔‘ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے عالمی معیشت کے ساڑھے چار فیصد تک سکڑنے کی پیشگوئی کی ہے جبکہ پاکستان میں معیشت کی ترقی دو فیصد تک کا ٹارگٹ ہے۔ ان حالات میں آنے والے دنوں میں معاشی محاذ پر بہت بڑا امتحان حکومت کو درپیش ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54639324", "summary": "پاکستان میں گیس کے باقی ذخائر کے بارے میں وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے کہا کہ اگر ملک میں کوئی نئے بڑے ذخائر دریافت نہیں ہوتے تو آئندہ بارہ سے چودہ سال میں گیس ختم ہو جائے گی۔", "title": "’پاکستان کے پاس صرف 12 سے 14 سال کی گیس رہ گئی ہے‘", "firstPublished": "2020-10-22T03:30:07.000Z", "id": "0dcdea8c-7a80-4c17-8ed9-df53ff7f3bec", "article": "پاکستان میں گیس کے باقی ذخائر کے بارے میں وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے کہا کہ اگر ملک میں کوئی نئے بڑے ذخائر دریافت نہیں ہوتے تو آئندہ بارہ سے چودہ سال میں گیس ختم ہو جائے گی۔ بی بی سی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ندیم بابر کا کہنا تھا کہ رواں برس سردیوں میں ملک میں گیس کی قیمت بالکل نہیں بڑھائی جائے گی اور اس مالی سال کے آخر یعنی جون 2021 تک صارفین کو موجودہ قیمت پر ہی گیس فراہم کی جائے گی۔ ندیم بابر کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت گذشتہ دور کے مقابلے میں عالمی منڈی سے کہیں سستی گیس خرید رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس سال قدرتی گیس کے صارفین کے بلوں میں گیس کی قیمت نہیں بڑھے گی۔ اس سوال کے جواب میں ندیم بابر نے کہا ’اس دوران ہم نے (مقامی پیداوار برھانے کے لیے) ای اینڈ پی یعنی ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن سیکٹر پر توجہ بڑھائی مگر اس کے نتائج تین سے چار سال بعد سامنے آئیں گے جب آپ نئی ڈرلنگ کریں گے، نئے ذخائر دریاست کریں گے، اس میں کچھ سال لگتے ہیں۔‘ ’مگر اس دوران درآمد ہی واحد راستہ رہ گیا۔ اس حوالے سے ہم نے کہا کہ یہ ریاست کا کام نہیں کہ وہ خود سے ایل این جی منگواتی جائے اور گردشی قرضے میں اضافہ کرتی جائے۔ ہم نے ایل این جی سیکٹر کو کھول دیا۔ پانچ کمپنیوں نے کہا کہ وہ ٹرمینل لگانا چاہتی ہیں، ہم نے پانچوں کو اجازت دے دی۔ ان میں سے دو کمپنیاں اس مرحلے پر پہنچ چکی ہیں کہ اگلے دو سے تین مہینے میں ان کے ٹرمینل پر گراؤنڈ پر کام شروع ہو جائے گا اور سال یا سوا سال کے اندر یہ دونوں ٹرمینل لگ جائیں گے۔‘ اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ اس سال صارفین کے لیے گیس مہنگی نہیں ہو گی؟’بالکل نہیں، پاکستان میں آئندہ جولائی تک گیس کی قیمت میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔‘ ایک طرف حکومت ملک میں تعمیراتی سیکٹر میں ترقی کے لیے کوشاں ہے اور اس سلسلے میں سیکٹر کو مراعات بھی دی جا رہی ہیں تو دوسری جانب یہ اطلاعات بھی ہیں کہ حکومت گیس کے نئے کنیکشن دینے پر پابندی لگا رہی ہے؟ مگر ندیم بابر اس حوالے سے کہتے ہیں کہ مشکلات ہیں مگر پابندی کوئی نہیں۔ ملک میں گیس کے باقی ذخائر کے بارے میں ندیم بابر نے کہا کہ اگر ملک میں کوئی نئے بڑے ذخائر دریافت نہیں ہوئے تو آئندہ بارہ سے چودہ سال کی گیس رہ گئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ملک میں گذشتہ دس سے بارہ سال میں کوئی بڑی دریافت نہیں ہوئی اور گذشتہ پانچ برسوں میں ملک میں 90 ذخائر دریافت ہوئے۔ گذشتہ دو برسوں میں اس حکومت کے دور میں 26 دریافتیں ہوئی ہیں مگر ان سب کا حجم بہت کم ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-54623287", "summary": "دنیا بھر میں معاشی، عسکری، تقافتی اور سفارتی سطح پر سب سے طاقتور گردانے جانا والا ملک امریکہ کب اور کیسے سپرپاور بنا اور کیا صدر ٹرمپ امریکہ کے اس عالمی تشخص کو برقرار رکھنے کی راہ میں ایک رکاوٹ ہیں۔", "title": "کیا امریکہ اب بھی ’سپر پاور‘ ہے؟", "firstPublished": "2020-10-21T10:42:12.000Z", "id": "24c605b1-ee42-f64f-8d18-11bd30241b6f", "article": "عام فہم زبان میں بات کی جائے تو سپر پاور ایک ایسے ملک کو کہا جاتا ہے جو معاشی، عسکری، ثقافتی، سفارتی طور پر طاقتور ہو۔ سپر پاور ملک میں یہ صلاحیت ہونا بھی ضروری ہے کہ وہ جغرافیائی قید سے آزاد اور بیک وقت دنیا کے مختلف حصوں میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتا ہو۔ سفارتی اثر و رسوخ کے حوالے سے امریکہ کا اس وقت کوئی ثانی نہیں ہے۔ امریکی کمپنیاں دنیا بھر میں کام کرتی ہیں اور سویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکی عقائد جیسا کہ جمہوریت کو عالمی سطح پر فوقیت حاصل ہے۔ امریکہ کے اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کہنے کو جہاں امریکی فوج نہیں پہنچ سکتی، وہاں بھی امریکی کوکا کولا کاروبار ضرور کر رہی ہوتی ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی جگہ ہو جہاں لفظ برگر یا مکڈونلڈز سے لوگ شناسا نہ ہوں۔ امریکی خانہ جنگی کے بعد ملک میں اس سوال پر کہ امریکہ کو دیگر دنیا کے معاملات میں دخل اندازی کرنی چاہیے یا نہیں، ایک شدید بحث چل نکلی۔ ایک طرف امریکہ نے روس سے الاسکا تو خرید لیا مگر امریکی کانگریس نے گرین لینڈ حاصل کرنے کی کوششوں کو روک دیا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ امریکی رائے عامہ میں توسیع پسندی کے حق میں آوازیں بڑھنے لگیں اور آخر کار امریکہ اپنی پہلی جنگ کا حصہ بنا جس میں کوبا کے معاملے پر امریکہ اور سپین میں جنگ ہوئی۔ پہلی جنگِ عظیم نے امریکہ کو عالمی سٹیج پر ایک اہم کھلاڑی بنا دیا۔ اس جنگ کے بعد یورپ کی معیشت تباہ ہو چکی تھی اور امریکی معیشت بڑھتی جا رہی تھی۔ اس جنگ میں امریکہ داخل تو قدرے دیر سے ہوا مگر اس کا کردار اتنا کلیدی رہا کہ امریکی صدر ووڈرو ولسن نے لیگ آف نیشنز کی شکل میں عالمی سربراہی امریکی گود میں ڈالنے کی کوشش کی۔ مگر آئیسولیشن ازم (یعنی الگ تھلگ رہنا) ابھی بھی امریکہ میں مقبول تھا اور امریکی کانگریس نے لیگ آف نیشنز میں شمولیت نہ اختیار کر کے صدر ولسن کا خواب توڑ دیا۔ معاشی اعتبار سے امریکہ نے دنیا بھر کے ممالک میں تجارت اور معیشت کو ریگولیٹ کرنے کے لیے بریٹن وڈ معاہدہ بنایا جس کا مقصد تو دنیا بھر کی معیشتوں کو مضبوط کر کے ایک اور عالمی جنگ روکنا تھا مگر اس سے آئی ایم ایف، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ بینک کے وجود کی بنیاد بھی ڈالی گئی جہاں امریکہ اور امریکی ڈالر کی عالمی بالادستی کو یقینی بنا لیا گیا۔ وہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اصول بھی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح کی کئی اور مثالیں ہیں جن کے تحت ٹرمپ امریکہ کے ان اتحادوں اور معاہدوں کے اس نازک جال کو ادھیڑ رہے ہیں جن کے ذریعے وہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کی سب سے بڑی اور واحد سپر پاور بنا تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-54596853", "summary": "اگست کا مہینہ انڈین آٹو سیکٹر کے لیے اچھا رہا اور یہ انڈیا کی معیشت کے لیے امید کی کرن ہے کیونکہ انڈیا کی ترقی کی شرح پہلی سہ ماہی میں منفی تھی۔", "title": "کیا انڈیا میں کاروں کی فروخت میں تیزی آ رہی ہے؟", "firstPublished": "2020-10-19T17:06:56.000Z", "id": "c941d559-aa75-4dbd-8bdf-ecadf64ada58", "article": "اشون جیسے خریداروں کی وجہ سے اگست کا مہینہ انڈین آٹوموبائل شعبے کے لیے اچھا رہا اور یہ انڈیا کی معیشت کے لیے امید کی کرن ہے کیونکہ انڈیا کی ترقی کی شرح پہلی سہ ماہی میں منفی تھی۔ انڈین ریٹنگ ایجنسی 'کیئر ریٹنگز' کے مطابق ٹریکٹر، ٹو وہیلر اور مسافر گاڑیوں کے شعبے آٹو سیکٹر کے لیے امید افزا ہیں۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس شعبے کا انڈیا کی جی ڈی پی میں سات فیصد حصہ رہتا ہے۔ لیکن آٹو سیکٹر میں جاری سست روی کے لیے صرف کورونا وائرس کو ہی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ معیشت کے دوسرے شعبوں کی طرح، کاربن اخراج کے معیاروں کے متعلق پالیسی میں تبدیلی، ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ، بینکوں کے ذریعے وصول کی جانے والی سود کی زیادہ شرح اور پوری معیشت میں سست روی جیسی وجوہات نے آٹوموبائل کے شعبہ کو گذشتہ سال سے ہی متاثر کر رکھا ہے۔ کچھ عرصے قبل یہ خبریں آئیں تھیں کہ ٹویوٹا کرلوسکر انڈیا میں اپنے توسیع کے منصوبوں کو روک رہا ہے۔ تاہم وکرم کرلوسکر نے واضح کیا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کے لیے موجودہ پلانٹ میں 2000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ 'کیا موٹرز انڈیا' میں سیلز اینڈ مارکیٹنگ کے نائب صدر منوہر بھٹ کا خیال ہے کہ آٹو سیکٹر کی ترقی کا براہ راست جی ڈی پی کی ترقی سے تعلق ہے۔ اگر معیشت ترقی کرتی ہے تو لوگوں کا اعتماد بڑھتا ہے اور وہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ ایم جی موٹر انڈیا کے صدر راجیو چھابا نے بی بی سی کو بتایا: 'ان صارفین کے لیے استعمال کا پیٹرن بدل گیا ہے جن کے پاس بہت پیسہ ہے وہ اپنا پیسہ خرچ کر سکتے ہیں، ہم تہوار کے موسم کے منتظر ہیں۔ عام طور پر ہمارے لیے یہ سیزن پورے سال سے بہتر ہوتا ہے اور اس بار طلب میں اضافہ ہوا ہے، لہذا ہم مزید فروخت کی توقع کر رہے ہیں۔' انڈیا میں تہوار کا سیزن جنوبی ہند میں اگست میں اونم سے شروع ہوتا ہے اور اپریل میں شمالی ہندوستان میں بیساکھی کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس شعبے میں ہارلے ڈیوڈسن کے اعلان سے زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی۔ کیئر ریٹنگز کے ریسرچ تجزیہ کار وشسٹ انوالا نے بی بی سی کو بتایا: 'وہ کروز بائیک کے سیکٹر میں ہیں اور یہ ملک کا بڑا حصہ نہیں ہے۔' انڈیا میں آٹوموبائل کو 'لگژری آئٹم' سمجھا جاتا ہے، لہذا بیشتر گاڑیوں پر جی ایس ٹی کی سب سے زیادہ شرح 28 فیصد وصول کی جاتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت اس شعبے میں ٹیکس کو مناسب بنانے کی سمت کام کر سکتی ہے۔ مرکزی وزیر پرکاش جاوڑیکر نے حال ہی میں یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ حکومت جی ایس ٹی کی شرح پر غور کر رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54587673", "summary": "پاکستان میں سیمنٹ کی پیداوار اور فروخت کے کاروبار سے منسلک لکی سیمنٹ کی پیداوار اور فروخت میں حالیہ عرصے میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔", "title": "سیمنٹ کی فروخت میں اضافہ کیا تعمیراتی شعبے میں تیزی کا مظہر ہے؟", "firstPublished": "2020-10-18T04:46:09.000Z", "id": "2dabe740-0f2e-40a8-a751-59a6ad572809", "article": "پاکستان میں سیمنٹ میں طلب میں اضافے کی وجہ سے موجودہ سال میں ستمبر کے مہینے میں سیمنٹ کی فروخت میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا جس کے باعث اس کی فروخت کسی ایک مہینے میں اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ پاکستان میں سیمنٹ کی پیداوار کی فیکٹریوں کی نمائندہ تنظیم آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (اے پی سی ایم اے) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ستمبر کے مہینے میں سیمنٹ کی مجموعی فروخت پانچ اعشاریہ اکیس ملین ٹن رہی جو گذشتہ سال کے اسی مہینے میں چار اعشاریہ ستائیس ملین ٹن تھی۔ موجودہ سال اگست کے مہینے کے مقابلے میں سیمنٹ کی فروخت میں اڑتالیس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان میں سیمنٹ کی فروخت کے اعداد و شمار کے مطابق سیمنٹ کی مقامی منڈی میں فروخت میں اس سال ستمبر میں موجودہ سال کی اگست اور گذشتہ سال کے ستمبر کے مقابلے میں بالترتیب 46.5 فیصد اور 17.7 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سیمنٹ کی پاکستان سے غیر ملکی منڈیوں میں برآمد کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ان میں بھی بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور اس ستمبر کے مہینے میں اس کی برآمد میں اگست کے مقابلے میں میں 54 فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔ پاکستان میں تیار ہونے والا سیمنٹ کی سری لنکا، بنگلہ دیش اور افریقہ کے جنوبی حصے میں واقع ممالک کے ساتھ حالیہ عرصے میں مشرق بعید میں واقع تھائی لینڈ کو بھی بر آمد شروع ہوئی ہے جس کی وجہ سے بھی پاکستانی سیمنٹ کی فروخت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ یاسین نے کہا بیرون ملک بھی سیمنٹ کی ڈیمانڈ میں اضافہ دیکھنے میں آیا جس کے باعث پاکستان کو سیمنٹ کے ایکسپورٹ آرڈرز ملے جس میں روایتی مارکیٹوں کے ساتھ تھائی لینڈ اور فلپائن کی نئی مارکیٹیں بھی شامل ہیں جہاں حالیہ عرصے میں سیمنٹ کی ایکسپورٹ شروع ہوئی ہے۔ سیمنٹ کی فروخت میں ہونے والے نمایاں اضافے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماہر معیشت اور ٹنجنٹ کیپٹل ایڈوائزرز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مزمل اسلم نے کہا کہ حالیہ عرصے میں سیمنٹ کی فروخت میں ہونے والے اضافے میں مقامی سطح پر کورونا کے بعد ان مکانوں اور منصوبوں کی دوبارہ تعمیر شروع ہونا ہے جو اس وبا کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوئے۔ یہ دراصل وہ بیک لاگ تھا جو کورونا کی وجہ سے بنا جب ہر قسم کی کاروباری اور معاشی سرگرمی رک گئی۔ مکانوں اور منصوبوں کی تعمیر رک گئی ۔ کورونا کے کیسوں میں کمی آنے کے بعد جب دوبارہ سے تعمیراتی شعبے میں کام شروع ہوا تو اس نے سیمنٹ کی طلب میں اضافے کو ہوا دی جو اس کی ریکارڈ فروخت کا باعث بنی۔ سیمنٹ کے شعبے کے تجزیہ کار محمد یاسین نے کہا کہ سردیوں کی آمد سے سیمنٹ کی فروخت میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے اور اس سال بھی یہ رجحان دیکھنے میں آیا۔ انھوں نے کہا سیزن سردیوں سے پہلے سیمنٹ کی خریداری کے لیے بہتر سمجھا جاتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-54535726", "summary": "عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے حال ہی میں جاری ہونے والے سنہ 2020-21 اور سنہ 2021-22 کے معاشی جائزے 'ورلڈ اکنامک آؤٹ لک' سے چند حیران کن باتیں سامنے آئی ہیں۔", "title": "انڈیا کے جی ڈی پی میں ’تاریخی کمی‘ اور چینی تجارت میں اضافے کا راز", "firstPublished": "2020-10-14T14:04:13.000Z", "id": "546d0816-8e6f-4ac9-a45f-db46868ed74c", "article": "عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے حال ہی میں جاری ہونے والے سنہ 2020-21 اور سنہ 2021-22 کے معاشی جائزے سے چند حیران کُن باتیں سامنے آئی ہیں۔ انڈیا میں رواں مالی سال کے لیے پہلے نصف میں آئی ایم ایف نے 5.2 فیصد کمی کا امکان ظاہر کیا تھا لیکن اس نے اپنے تازہ تخمینے میں اسے بڑھا کر 10.3 فیصد کر دیا ہے جو کہ سنہ 1947 میں ملک کے وجود میں آنے کے بعد کسی مالی سال میں سب سے بڑی گراوٹ ہے۔ خیال رہے کہ سنہ 22 - 2021 کے لیے آئی ایم ایف نے انڈیا میں ترقی کی شرح آٹھ فیصد سے زیادہ بتائی ہے۔ اگرچہ آئی ایم ایف نے اس گراوٹ کی وجہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن کو قرار دیا ہے لیکن ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ انڈیا کی معیشت میں اس سے پہلے بھی گراوٹ اور سست روی کے آثار ظاہر تھے۔ ترنامول کانگریس کے رکن پارلیمان اور آل انڈیا یوتھ ترنامول کانگریس کے صدر ابھیشیک بینرجی نے این ڈی ٹی وی کی خبر کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا: ’انڈیا کی معیشت اس قدر خستہ حال ہو گئی ہے کہ آئی ایم ایف کے ورلڈ اکانومک آؤٹ لک کے مطابق فی کس جی ڈی پی کے معاملے میں بنگلہ دیش بھی اس سے آگے جانے کو تیار ہے۔ غور سے سنیں کہ یہ ان کی ترقی نہیں ہے بلکہ ہماری بڑی گراوٹ ہے جو کہ نریندر مودی جی کے پانچ کھرب کے خواب کی تلاش میں ہوئی ہے۔' کانگریس کے روہن گپتا نے طنز کرتے ہوئے لکھا: 'یہ ممکن ہی نہیں کہ بنگلہ دیش جی ڈی پی میں انڈیا سے آگے نکل جائے! یہ مودی کی قوم پرست حکومت کے خلاف بین الاقوامی سازش ہے۔ گودی میڈیا اس کی جانچ کر رہی اور جلد ہی نتائج کے ساتھ سامنے آئے گی۔' جولائی میں معیشیت میں ہونے والی بہتری سے قبل 2020 کے پہلے تین ماہ میں سخت لاک ڈاؤن کے باعث دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت میں زبردست مندی دیکھنے میں آئی تھی۔ ستمبر کے آخر تک چین اور دیگر ممالک کے ساتھ چین کی کُل درآمدات اور برآمدات میں 0.7 فیصد یعنی 120 کھرب یوآن سے زیادہ اضافہ ہوا اور اس طرح کورونا وائرس کے باعث ابتدائی دنوں میں ہونے والے نقصان کا ازالہ ممکن ہوا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) عالمی معیشت کے لیے جون میں دیکھی گئی مندی کے مقابلے میں قدرے کم گراوٹ کی پیش گوئی کر رہا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس برس عالمی معیشت میں 4.4 فیصد کمی آئے گی تاہم یہ ائی ایم ایف کی جانب سے چار ماہ قبل کی گئی پیش گوئی سے بہتر صورتحال ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54533005", "summary": "حکومت بار بار اعلان کرتی ہے کہ ہم کسی کو بھی مقررہ سے زیادہ قیمت پر کوئی چیز فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ آخر اس مہنگائی کا اصل ذمہ دار ہے کون؟", "title": "کیا ٹائیگر فورس مہنگائی پر قابو پانے میں مددگار ہوگی؟", "firstPublished": "2020-10-14T13:34:21.000Z", "id": "d25c504e-ce0c-4053-adfe-b36d1dab01c9", "article": "انھوں نے مزید کہا کہ اس فورس کی کسی قسم کی تربیت نہیں کی گئی ہے نہ ہی انھیں علم ہے کہ انھیں کرنا کیا ہے۔ اس مرتبہ اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو تاجروں کی طرف سے سخت مزاحمت ہو گی اور اگر ہمیں مشکل ہوئی تو تصادم بھی ہو گا۔ دوسری جانب لاہور کے ڈپٹی کمشنر مدثر ریاض نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹائیگر فورس مدد گار ثابت ہو سکتی ہے تاہم ان کے اختیارات صرف اتنے ہیں کہ وہ اپنے علاقے اور آس پاس کی مارکیٹوں پر ایک عام شہری کی طرح نظر رکھیں اور اگر انھیں کہیں کوئی ایسی چیز نظر آتی ہے جو کہ زیادہ قیمت پر فروخت کی جا رہی ہے تو وہ ضلعی انتظامیہ کو اطلاع دیں جس پر حکام خود کارروائی کریں گے۔ حکومت کی جانب سے بار بار یہ بات کی جاتی ہے کہ ہم کسی کو بھی مقرر کی گئی قیمت سے زیادہ داموں پر کوئی چیز فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار ان بڑھتی ہوئی قیمتوں کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ ایک آزاد مارکیٹ میں اشیا کی قیمتوں کا تعین ان کی طلب اور رسد کے مطابق کیا جاتا ہے۔ اگر کسی چیز کی طلب، رسد سے زیادہ ہے تو اس کی قیمت بڑھ جائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ مارکیٹ سے منسلک قوتیں خود ہی اس کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔ کنزیومر ایسوسی ایسشن کے چیئرمین، کوکب اقبال، کے مطابق پاکستان میں کوئی ایسا طریقۂ کار موجود نہیں ہے جس کے تحت اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ مارکیٹ میں فروخت ہونے والی کوئی بھی چیز، خصوصاً اشیاء خورد و نوش، میں کس شخص کو کتنا نفع یا نقصان ہو رہا ہے۔ ڈی سی لاہور مدثر اقبال اس بارے میں کہتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ مڈل مین کا کردار مارکیٹ سے ختم کرنا مشکل ہے۔ ’اس لیے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ منڈی اور مارکیٹ آنے والے اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول کریں۔ جبکہ اشیا خورونوش کی قیمتیں مقرر کرنے کے لیے ہم ہر پندرہ دن یا مہینے بعد پرائس کنٹرول کمیٹی کا اجلاس منعقد کرتے ہیں جس میں حکومتی نمائندے، ضلعی انتظامیہ کے لوگوں سمیت مارکیٹ کے تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہوتے ہیں جو مل کر قیمتوں کا تعین کرتے ہیں جس کے بعد ہی ریٹ لسٹ نکالی جاتی ہے۔ دوسری جانب انتظامیہ کے اس موقف پر آل پاکستان ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے سکریٹری نعیم میر کا دعویٰ ہے کہ قیمتوں کے تعین کے لیے اجلاس تین تین ماہ تک نہیں بلائے جاتے اور اس بد انتظامی کی وجہ سے بھی اشیا کی قیمتوں کا صحیح تعین نہیں کیا جاتا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-54364042", "summary": "صدر ٹرمپ نے گذشتہ انتخابی مہم کے دوران کیا وعدے کیے اور کسی حد تک ان کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوئے اور اب کیا پروگرام انھوں نے عوام کے سامنے رکھا ہے۔", "title": "صدر ٹرمپ اور ان کے انتخابی وعدے", "firstPublished": "2020-10-14T12:11:00.000Z", "id": "ff850fa5-cafb-45cb-8149-7e40ec495792", "article": "اپنی پہلی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ نے عامل یا کام کرنے والے شہریوں کے لیے ٹیکسوں میں بڑی چھوٹ دینے، کارپوریٹ یا بڑی کمپنیوں کے ٹیکس کی شرح کم کرنے، تجارت کے عدم توازن اور امریکی صنعت کو زندہ کرنے کے وعدے کیے تھے۔ عالمی تجارت میں صدر ٹرمپ نے چین کے بارے میں سخت موقف اختیار کیے رکھا اور مقامی صنعتی کو بیرونی مقابلے سے محفوظ رکھنے کی پالیسی اپنائے رکھی اور یہ ہی ان کی تجارتی پالیسی کے دو پہلو تھے۔ سنہ 2016 کی انتخابی مہم کے دوان انھوں نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ امریکہ کے تجارتی خسارے کو ختم کریں گے جو سنہ 2019 میں گذشتہ چھ برس میں پہلی مرتبہ کچھ کم ہوا مگر معاشی ماہرین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس سے معیشت میں بہتر کی نشاندہی ہوتی ہے۔ جب سے انھوں نے اقتدار سنبھالا تھا صدر ٹرمپ نے سینکڑوں ایسے منصوبے ختم کر دیے جو کہ ماحولیات کو محفوظ بنانے کے لیے شروع کیے گئے تھے۔ ان میں بجلی بنانے والے کارخانوں اور گاڑیوں سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو کم سطح پر رکھنے اور وفاقی آبی گزرگاہوں کو محفوظ بنانے کے اقدامات شامل تھے۔ یہ وعدے ان کی گذشتہ انتخابی مہم میں بھی شامل تھے۔ سنہ 2016 کی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ نے اپنے آپ کو قانون پر علمدرآمد یا بالادستی کا سب سے بڑا حامی اور داعی قرار دیا تھا اور وہ اپنے دورِ اقتدار میں اس پر کاربند بھی رہے۔ حال ہی میں قومی سطح پر نسل پرستی کےخلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران انھوں نے بھرپور طریقے سے پولیس کی حمایت جاری رکھی۔ اس سال جون میں صدر ٹرمپ نے بہت سے سرکاری حکمناموں پر دستخط کیے جو پولیس اصلاحات سے متعلق تھے۔ ان میں پولیس کے لیے وفاقی مالی معاونت میں اضافہ بھی شامل تھا تاکہ پولیس کے طریقہ کار کو بہتر کیا جا سکے اور ایسے پولیس اہلکاروں کے اعداد و شمار اکھٹے کیے جا سکیں جن کے خلاف نامناسب رویہ اختیار کرنے کی شکایات ہوں۔ ابتدائی جوش خروش دکھانے کے بعد صدر ٹرمپ نے ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس کے برعکس نے امریکی آئین کی دوسری ترمیم کی حمایت جاری رکھی جو امریکی شہریوں کو اسلحہ رکھنے کا آزادی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ملک کی طاقت ور اور با اثر ’گن لابی‘ اور نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کی بھی حمایت کرتے رہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54531579", "summary": "ماہرین کے مطابق پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے ترغیب دینے والی سکیموں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ملک میں ضروری سازگار ماحول کی کمی ہے، ایسا ماحول جو سرمایہ کاروں کو اعتماد دلا سکے کہ ان کا سرمایہ محفوظ رہے گا۔", "title": "بیرون ملک پاکستانیوں کا سرمایہ ملک میں لانے کی سکیمیں ناکام کیوں ہوتی ہیں؟", "firstPublished": "2020-10-14T03:58:06.000Z", "id": "30176cff-9c69-3244-aca7-e42c616592bf", "article": "تاہم اگر پاکستان میں تارکین وطن کی جانب سے کی جانے والی پرکشش سرمایہ کاری سکیموں کی بات کی جائے تو معیشت اور مالیاتی امور پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ماضی میں ایسی سکیمیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس قسم کی سکیموں کا اجرا تو بہت ہوتا رہا ہے لیکن ان سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے درکار مربوط حکمت عملی اور مارکیٹنگ کا طریقہ کار یا تو مکمل طور پر عنقا رہا یا پھر بہت ہی ناقص۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے ترغیب دینے والی سکیموں اور ان کی ناکامی کے بارے میں بات کرتے ہوئے مالیاتی امور کے ماہر محمد سہیل نے بتایا کہ اِن کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ تو سرمایہ کاری کے لیے ضروری سازگار ماحول کی کمی ہے، وہ ماحول جو سرمایہ کاروں کو اعتماد دلا سکے کہ ان کا سرمایہ محفوظ رہے گا۔ انھوں نے کہا اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان کی سٹاک مارکیٹ ہے جہاں امیر پاکستانی بھی سرمایہ کاری نہیں کرتے۔ دوسرا ملک میں سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے منافع کو واپس لے جانے میں درپیش دشواریاں ہیں۔ ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی غیر یقینی صورتحال یہاں سرمائے کو لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بیرونی سرمایہ کار ہوں یا بیرون ملک مقیم پاکستانی وہ پاکستان میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے یہاں پیسہ لگانے سے کتراتے ہیں۔ ڈاکٹر صدیقی نے کہا کہ ملک میں سرمایہ کاری کا سازگار ماحول نہ ہونے کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری بھی متاثر ہو رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ سنہ 2018 کے مالی سال کے اختتام پر ملک میں مجموعی سرمایہ کاری پانچ ارب ڈالر تھی، جو اگلے سال یعنی مالی سال 2020-2019 میں دو بلین ڈالر تک گر گئی۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج کے ڈائریکٹر احمد چنائے نے ماضی کی سکیموں کی ناکامی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ایک وجہ ان سکیموں کے لیے مؤثر مارکیٹنگ کی کمی تھی اور ان کے لیے مناسب روڈ شوز بھی نہیں کیے گئے جن کی وجہ سے سرمایہ کاروں کو ان کے بارے میں صحیح آگاہی نہیں مل سکی تھی۔ انھوں نے کہا ایک اور وجہ ماضی کی سکیموں کا بڑے سرمایہ کاروں کے تک محدود ہونا تھا۔ مثلاً نواز لیگ کے دور میں پاکستان بانڈز میں سرمایہ کاری بڑے سرمایہ کاروں کے مالی استعداد تک محدود تھی، جس میں چھوٹا سرمایہ کار پیسہ لگانے سے قاصر تھا۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے احمد چنائے نے کہا وہ اس سکیم کی کامیابی کے بارے میں پُرامید ہیں جس کی وجہ بہت نچلی سطح سے سرمایہ کاری کو ملک میں لانے کا پلان ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سکیم کے ذریعے گراس روٹ لیول کے سرمایہ کار کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ ملک میں سرمایہ لگائیں اور اس سے منافع کمائیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-54500840", "summary": "برطانوی تجزیہ کار کمپنی آکسفورڈ اکانومکس کا اندازہ ہے کہ متحدہ عرب امارات میں نو لاکھ نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں اور ایک کروڑ سے کم آبادی والے اس ملک میں یعنی 10 فیصد تک لوگوں کو چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔", "title": "کورونا وائرس: غیر ملکی متحدہ عرب امارت کو چھوڑنے پر مجبور", "firstPublished": "2020-10-11T14:36:01.000Z", "id": "3649ac8d-22ab-4b30-bea6-d15ab5bb6b6a", "article": "ان میں سے بہت سے لوگ کئی دہائیوں سے اس ملک میں ہیں مگر مستقل رہائش یا شہریت حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے پاس واپس جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ جب فوٹوگرافر پؤلا ہینی کو ان مسائل کا پتا چلا تو انھوں نے ملک چھوڑنے کی تیاری کر رہے تارکینِ وطن کو مفت فوٹو سوٹ آفر کیے۔ وہ حیران ہوئیں کہ اس پیشکش کے لیے انھیں بہت سے لوگوں کا پیغام آیا۔ وہ کہتی ہیں ’بہت سے خاندان یہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔ مگر عموماً وہ واپس جاتے تب ہیں جب وہ جانا چاہتے ہیں۔ مگر اس بار وہ واپس جانے پر مجبور ہیں۔ اسی لیے ان تصاویر میں جذبات بالکل مختلف ہیں۔‘ برطانوی تجزیہ کار کمپنی آکسفورڈ اکانومکس کا اندازہ ہے کہ متحدہ عرب امارات میں نو لاکھ نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں اور ایک کروڑ سے کم آبادی والے اس ملک میں یعنی 10 فیصد تک لوگوں کو چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔ ایک مہینے بعد ان کو بتایا گیا کہ جن کی وہ ملازمت کر رہے ہیں وہ ان کی تنخواہ نہیں دے سکیں گے مگر جب تک وہ اپنے گھروں لوٹ نہیں سکتے، کمپنی انھیں لیبر کیمپ میں رہنے دے گی۔ متحدہ عرب امارات کا معاشی ماڈل ان غیر ملکیوں کی بنیاد پر کھڑا تھا جو کہ ملک کی نوے فیصد آبادی بنتے ہیں۔ ملک کی سات ریاستوں میں دبئی کی معیشت ان شعبوں پر بہت زیادہ منحصر ہے جو کہ لوگوں کے پیسے خرچنے پر چلتی ہیں جیسے کہ ہوٹلوں کی صنعت، پرتعیش ریٹیل، تعلیم اور سیاحت۔ امریکی تھینک ٹینک امریکن انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ میں مشرقِ وسطیٰ کے امور کی ماہر کیرن یونگ کو توقع نہیں ہے کہ متحدہ عرب امارات میں صورتحال جلد تبدیل ہوگی۔ بزنس سروے کہتے ہیں کمپنیاں نوکریاں نہیں دے رہیں اور روزگار کی سطح عام طور سے کہیں کم ہے۔ مگر متحدہ عرب امارات کے برعکس دیگر خلیجی ممالک غیر ملکی مزدوروں کو ملک چھوڑنے کا کہہ رہے ہیں۔ جولائی میں کویت کی قومی اسمبلی نے ایک قانون منظور کیا جس میں قومیت کی بنیاد پر غیرملکیوں کی تعداد کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ غیر ملکی کویت کی آبادی کا 70 فیصد ہیں اور حکومت کی کوشش ہے کہ یہ شرح 30 فیصد پر آ جائے۔ گذشتہ ماہ دبئی نے اس سلسلے میں ایک اقدام کیا کہ ریٹائری ویزا پروگرام متعارف کروایا جس میں 55 سال کی عمر سے زیادہ کے امیر غیر ملکیوں کے پانچ سال کا ویزا متعارف کروایا گیا ہے۔ اس وقت رابرٹ اور لیگیا کے لیے یہ پروگرام ایک آپشن نہیں ہے کیونکہ وہ عمر اور مالیت پر پورا نہیں اترتے۔ مگر لیگیا کو امید ہے کہ مستقبل میں جب مالی حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو ان کی فیملی یہاں لوٹ سکے گی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54444568", "summary": "30 جون 2020 کو ختم ہونے والے مالی سال میں زیر گردش نوٹوں میں گزشتہ آٹھ برسوں میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور صرف ایک مالی سال میں گردشی نوٹوں کی تعداد میں 1.1 ٹریلین کا اضافہ دیکھا گیا۔", "title": "حکومتِ پاکستان اتنے نوٹ کیوں چھاپ رہی ہے", "firstPublished": "2020-10-10T09:51:35.000Z", "id": "12670c58-04e7-451f-84d4-136ccb48cb15", "article": "پاکستان میں زیر گردش نوٹوں کی تعداد میں حالیہ برسوں میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ 30 جون 2020 کو ختم ہونے والے مالی سال میں زیر گردش نوٹوں میں گزشتہ آٹھ برسوں میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور صرف ایک مالی سال میں گردشی نوٹوں کی تعداد میں 1.1 ٹریلین کا اضافہ ہوا۔ پاکستان میں معاشی حرکیات پر نگاہ رکھنے والے افراد کے نزدیک یہ اضافہ غیر معمولی ہے اور اس کے معیشت پر بھی منفی اثرات ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر گردشی نوٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت نے پرانے نوٹوں کو نئے نوٹوں سے بدلنے کے علاوہ نئے نوٹ بھی بڑی تعداد میں چھاپے ہیں۔ پاکستان میں نوٹ اور پرائز بانڈ چھاپنے کے لیے کاغذ تیار کرنے والے ادارے سکیورٹی پیپرز لمٹیڈ کے گزشتہ سال کے مالی نتائج میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج پر لسٹڈ کمپنی کے مالی نتائج کے مطابق اس کے منافع میں گزشتہ مالی سال میں ساٹھ فیصد سے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یاد رہے کہ پاکستان میں زیر گردش نوٹوں کی تعداد میں اضافہ اس وقت دیکھنے میں آرہا ہے جب ای کامرس اور ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز کے رجحان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے خاص کر کورونا وائرس کی وبا کے ابھرنے کے بعد آن لائن بینکنگ اور ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں مرکزی بینک کی ویب سائٹ میں آرکائیو میں موجود زیر گردش کرنسی کے اعداد وشمار گزشتہ آٹھ مالی برسوں تک کی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ان کے مطابق مالی سال 2012 کے اختتام پر زیر گردش کرنسی کی تعداد 1.73 ٹریلین تھی جو اگلے سال میں 1.93 ٹریلین ہو گئی۔ مالی سال 2016 میں زیر گردش کرنسی کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا اور یہ 3.33 ٹریلین کی بلند سطح پر بند ہوئی۔ اگلے سال میں یہ 3.91 ٹریلین کی سطح تک بڑھ گئی۔ مالی سال 2018 کے اختتام پر اس کی تعداد 4.38 ٹریلین تک جا پہنچی اور اگلے سال میں اس میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا جو 4.95 ٹریلین تک کی بلند سطح پر بند ہوئی۔ گذشتہ مالی سال 2020 میں اس کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا جب یہ 6.14 کی بلند ترین سطح پر بند ہوئی۔ پاکستان میں زیر گردش کرنسی، جن میں بوسیدہ نوٹوں کے بدلے میں نئے نوٹوں میں اضافہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب حکومت آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے تحت سٹیٹ بینک آف پاکستان سے قرضہ نہیں لے رہی اور بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے کمرشل بینکوں سے اوپن مارکیٹ آپریشن کے ذریعے پیسہ اکٹھا کرے گی۔ عارف حبیب سیکیورٹیز میں معیشت کی تجزیہ کار ثنا توفیق نے اس سلسلے میں کہا کہ گزشتہ پانچ چھ برسوں سے زیر گردش کرنسی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-54421140", "summary": "سعودی عرب میں چیمبر آف کامرس کے چیئرمین نے عوام سے ترکی کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’سرمایہ کاری‘ اور ’سیاحت‘ سمیت ہر سطح پر ترکی سے دوری اختیار کریں۔", "title": "سعودی عرب کی جانب سے ترکی کے معاشی بائیکاٹ کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں", "firstPublished": "2020-10-05T17:39:59.000Z", "id": "36ae2c9b-2666-4f33-9085-54ea1c9cc820", "article": "لیکن اب دونوں ممالک کی جانب سے جس طرح کے بیانات سامنے آرہے ہیں ان سے ان کے سٹریٹیجک تعلقات نئی سمت میں جاسکتے ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے ایک بیان کے بعد سعودی عرب کے چیمبر آف کامرس کے سربراہ نے ہر سطح پر ترکی کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ چند روز قبل سعودی چیمبر آف کامرس کے چیئرمین عجلان العجلان نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’ہر سعودی شہری چاہے وہ تاجر ہو یا سرمایہ کار، اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ترکی کا ہر طرح سے بائیکاٹ کرے۔ قمر آغا مزید کہتے ہیں کہ سعودی حکومت نے ابھی تک ترکی کا بائیکاٹ کرنے سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ لیکن اگر سعودی حکومت اس طرح کا کوئی فیصلہ کرے گی تو بحرین اور متحدہ عرب امارات بھی اسی نویت کا فیصلہ کر سکتے ہیں جس کے بعد ترکی کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا ’ڈبلیو ٹی او کے قانون کے مطابق آپ کسی ملک کا افتصادی بائیکاٹ تب تک نہیں کرسکتے ہیں جب تک قومی سلامتی کا کوئی بڑا مسئلہ در پیش نہ ہو۔ میرے خیال سے اقتصادی بائیکاٹ کی یہ اپیل سیاسی داؤ ہے۔ ایسا ترکی پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عوام اس پر کتنا عمل کرتے ہیں۔‘ وہ مزید کہتے ہیں ’ترکی سعودی عرب سے زیادہ تر تیل خریدتا ہے جبکہ بہت سے چيزیں وہ سعودی عرب کو برآمد کرتا ہے۔ سعودی عرب کے لوگوں کی ترکی میں بہت سرمایہ کاری ہے۔ ان کے گھر اور کمپنیاں یہاں پر ہیں اور گذشتہ برسوں میں سعودی افراد نے تقریباً پانچ سے چھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔‘ ستمبر میں سعودی عرب کی ایک عدالت نے خاشقجی کے قتل میں ملوث پائے گئے پانچ افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد کو روک دیا تھا۔ سرکاری میڈیا کے مطابق استغاثہ کا کہنا تھا کہ صحافی کے خاندان کی جانب سے انھیں معاف کیے جانے کے بعد انھیں 20 سال قید کی سزا دے دی گئی ہے۔ حال میں امریکہ کی ثالثی سے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور باہمی سفارتی رشتوں کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔ یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کی رضا مندی کے بغیر ان ممالک کا یہ اقدام ممکن نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’خاشقجی کے معاملے کو بھول جائیں تو ترکی اور سعودی عرب کے درمیان ایسا کچھ نہیں ہوا ہے جس سے دونوں کے درمیان رشتے خراب ہوں۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا تھا کا جب تک سعودی عرب میں شاہ سلمان ہیں اور ترکی میں اردوغان ہیں تب تک دونوں کے درمیان رشتے خراب نہیں ہوسکتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-54408930", "summary": "جب عالمی وبا شروع ہوئی تو امریکیوں نے ریکارڈ بچت کی، لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔", "title": "لاک ڈاون کے دوران کن کا مالی فائدہ ہوا؟", "firstPublished": "2020-10-04T16:02:04.000Z", "id": "11c87922-1fd7-423b-8102-da692b9c4910", "article": "کوروناوائرس کی وبا نے عالمی معیشت کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے، مگر بعض لوگوں کو ذاتی فائدہ پہنچا ہے۔ انھوں نے اس رقم سے کریڈٹ کارڈ کا قرض لوٹانا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ بچوں کی سکول فیس کی بچت بھی ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ کفایت شعار تو وہ پہلے ہی تھیں، بحران کے دنوں میں یہ عادت اور بھی راسخ ہوگئی۔ ان کی سب سے بڑی عیاشی بائی سائیکل کی سواری ہے۔ امریکی میں فروری سے اپریل کے دوران ذاتی بچت میں 33.6 فی صد کا ریکارڈ اضافہ ہوا جو عام حالات کے مقابلے میں تقریباً چار گنا ہے۔ کورونا وبا سے پہلے اور بعد کے دنوں میں ہونے والی ذاتی بچت ایک نظر میں بچت میں اضافے سے امریکیوں کی خانگی دولت مئی سے جولائی کے عرصے میں ریکارڈ حد تک بڑھ گئی جبکہ مجموعی قرضے میں 2014 کے بعد پہلی بار کمی آئی۔ مگر یہ صورتحال اس وقت بدلنا شروع ہوجائے گی جب سرکاری امداد بند ہوگی۔ فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے کہا کہ ’بچت بہت ہوئی ہے۔ لیکن گیارہ ملین افراد بے روزگار بھی ہوئے ہیں، ان کا گزارہ اب بچت پر ہوگا جس کی وجہ سے خرچ کم ہو جائے گا۔ اس کے منفی اثرات معیشت پر مرتب ہوں گے۔‘ سرکاری امداد کے سبب کنبوں کی ذاتی بچت میں موجود فرق میں کمی واقع ہوئی ہے، مگر تحقیق بتاتی ہے کہ امیر گھرانوں نے، جن کی بے روزگاری اور آمدن میں کمی کا خدشہ کم ہے، زیادہ بچایا ہے۔ ایسے میں ماہرین معاشیات خبردار کر رہے ہیں کہ امیر گھرانے اس وقت تک اپنے اخراجات کم رکھیں گے جب تک صحت سے متعلق خدشات کم اور معیشت بہتر نہیں ہو جاتی۔ ٹنیسی کے رہائشی جان کینیڈی اور ان کی زوجہ دونوں تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ مارچ سے اب تک انھوں نے ہر ماہ 2 ہزار سے 4 ہزار ڈالر کی بچت کی ہے کیونکہ انھیں بچوں کی دیکھ بھال، دفتر میں لنچ اور کافی اور اسی طرح کے دوسرے اخراجات نہیں کرنا پڑے۔ بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات تو دوبارہ شروع ہو جائیں گے۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ معیشت کی غیریقینی حالت کے پیش نظر وہ دوسرے اخراجات انتہائی کم رکھیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے پہلے کے مقابلے میں بہت بچت کی ہے کیونکہ ہم ایسا کر سکتے ہیں، مگر اب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں بچانا ہے۔ ہم دونوں برسرِ روزگار ہیں مگر اگلے چھ سے بارہ ماہ میں کیا ہوتا اس پر انحصار ہوگا کہ ہماری یہ بچت ہمارا ایمرجنسی فنڈ بنتی ہے یا نہیں۔‘ سارہ جانسن کا کہنا ہے کہ ’عالمگیر وبا نے لوگوں کے خرچ کرنے پر زبردست ضرب لگائی ہے اور معیشت کا یہ ہی شعبہ معاشی بحالی کی سمت اور رفتار کا تعین کرے گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-54291460", "summary": "ٹویوٹا کے بعد ہارلے ڈیوڈسن کی جانب سے بھی انڈیا سے اپنی سرمایہ کاری نکال لینا انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی ان کوششوں کے لیے ایک دھچکا ہے جن کے تحت وہ بیرونی اداروں یا کمپنوں کو ملک میں سرمایہ کاری پر ترغیب دے رہے ہیں۔", "title": "ہارلے ڈیوڈسن دنیا کی سب سے بڑی موٹر سائیکل مارکیٹ کیوں چھوڑ رہی ہے؟", "firstPublished": "2020-09-25T06:42:20.000Z", "id": "6ee5d098-e729-4ec2-86df-33321f458d0c", "article": "امریکہ کی مقبول موٹر سائیکل بنانے والی کمپنی ہارلے ڈیوڈسن نے اعلان کیا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی موٹر سائیکل مارکیٹ، یعنی انڈیا سے اپنا کاروبار سمیٹ رہی ہے اور وہ انڈیا میں اپنے موٹر سائیکلز کی فروخت اور تیاری بند کرنے لگی ہے۔ امریکی موٹر سائیکل کمپنی کا یہ ٹویوٹا کے اس بیان کے چند ہفتے بعد آیا ہے جس میں جاپانی کار بنانی والی کمپنی نے کہا تھا کہ وہ انڈیا میں ٹیکس کی زیادتی کے باعث اپنے کاروبار کو مزید وسعت نہیں دیں گے۔ ٹویوٹا کے بعد ہارلے ڈیوڈسن کی جانب سے بھی انڈیا سے اپنی سرمایہ کاری نکال لینا انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی ان کوششوں لے لیے ایک دھچکا ہے جن کے تحت وہ بیرونی اداروں یا کمپنوں کو ملک میں سرمایہ کاری پر ترغیب دے رہے ہیں۔ ہارلے ڈیوڈسن کے اس فیصلے سے 75 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ 70 افراد کی نوکریاں ختم ہو گی اور شمالی انڈیا کے شہر بوال میں اس کا موٹر سائیکل بنانے والا پلانٹ بھی بند ہو گا۔ ہارلے ڈیوڈسن کی جانب سے انڈیا میں یہ پلانٹ سنہ 2011 میں لگایا گیا تھا لیکن امریکی کمپنی کا انڈیا کی موٹر سائیکلوں کی منڈی میں مقامی کمپنی ہیرو اور جاپان کی ہنڈا کے ساتھ مقابلہ تھا۔ اگرچہ انڈیا کی منڈی بہت ساری ترقی پذیر معیشتوں کی نسبت سستی ہے، لیکن انڈیا کی جانب سے ٹیکسوں میں اضافے کے باعث یہ مارکیٹ غیرملکی کمپنیوں کے لیے ایک مشکل مارکیٹ بن گئی ہے۔ امریکی کمپنی جنرل موٹرز نے بھی سنہ 2017 میں انڈیا سے اپنی سرمایہ کاری نکال لی تھی جبکہ فورڈ نے گذشتہ برس اپنا زیادہ تر سرمایہ انڈیا کی بڑی کار ساز کمپنی ماہیندرا اینڈ ماہیندرا کے ساتھ مشترکہ سرمایہ کاری میں لگا دیا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی پہلے انڈیا کی جانب سے غیر ملکی سرمایہ کاروں، خصوصاً ہارلے ڈیوڈسن موٹر سائیکلوں پر بھاری ٹیکس نافذ کرنے کی شکایت کی تھی۔ انڈیا نے اپنی درآمدات پر عائد ٹیکسوں کی مد میں ٹیرف کو پہلے ہی 50 فیصد کم کر دیا ہے لیکن انڈیا کی آٹو انڈسٹری میں سخت مقابلے کے باعث غیر ملکی کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن ہارلے ڈیوڈسن کو رواں برس کچھ اندورنی مسائل کا بھی سامنا تھا اور گذشتہ ایک دہائی میں پہلی مرتبہ انھیں پہلی ششماہی میں اپریل سے جون کے دوران نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کپمنی اس نقصان کے باعث سینکڑوں ملازمین کو فارغ کر رہی ہے اور کمپنی اپنے نئے چیف ایگزیکٹو جوچن زیٹز کے زیر سایہ بنیادی منڈیوں اور موٹر سائیکل کے ماڈلز پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ ہارلے کی بائیکس کو ہالی وڈ کی وجہ سے خاصی پزیرائی ملی، مثلاً ہنری فانڈا کی مشہور فلم ’ایزی رائڈر‘ میں ان موٹر سائیکلوں کا کلیدی کردار تھا ہارلے ڈیوڈسن امریکہ میں اپنے موٹر سائیکلز کے ستر اور اسی کی دہائی کے ماڈلز کی طرز سے بڑھ کر چھوٹے اور الیکٹرک ماڈلز کی مارکیٹ کی تلاش کر رہا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-54276563", "summary": "علی بابا کمپنی کے مالک جیک ما اب چین کے امیر ترین شخص نہیں رہے۔ ان کی جگہ لینے والے ژونگ شنشان ہیں اور ان کا کاروبار بوتلوں میں پانی بیچنا ہے۔ بلومبرگ بیلینئیر انڈیکس کے مطابق ژونگ شنشان کی کُل دولت 58.7 ارب ڈالر ہے۔", "title": "پانی بیچنے والا ارب پتی چین کا امیر ترین شخص قرار", "firstPublished": "2020-09-25T04:44:12.000Z", "id": "133239c8-3bc2-4f96-bdb7-00b25192cdfe", "article": "علی بابا کمپنی کے مالک جیک ما اب چین کے امیر ترین شخص نہیں رہے۔ ان کی جگہ لینے والے ژونگ شنشان ہیں اور ان کا کاروبار بوتلوں میں پانی بیچنا ہے۔ ژونگ شنشان نے 1996 اپنی کمپنی نونگفو سپرنگ کا آغاز کیا تھا جو کہ چین کے مشرقی حصے کے صوبے ژہیجیانگ میں واقع ہے۔ بلومبرگ بیلینئیر انڈیکس کے مطابق ژونگ شنشان کی کُل دولت 58.7 ارب ڈالر ہے۔ حال میں چین کی سٹاک مارکیٹ میں اپنی کمپنی کا نام رجسٹر کرانے اور ایک دوا بنانے والی کمپنی میں ان کے اکثریتی حصص کے باعث ژونگ شنشان کی دولت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا قسطیں مواد پر جائیں ژونگ شنشان کو اکثر 'لوون ولف' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور دولت میں اضافے کے بعد اب وہ انڈیا کے مکیش امبانی کے بعد ایشیا کے دوسرے سب سے امیر انسان بن گئے ہیں۔ دنیا کے امیر ترین انسانوں کی فہرست میں اب ان کا نمبر 17واں ہے۔ عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ چین سے آنے والے امیر ترین افراد کا تعلق ٹیکنالوجی انڈسٹری سے ہوتا ہے لیکن امریکہ اور چین کے درمیان کشیدہ تعلقات کی بنا پر چین کی ٹیکنالوجی کمپنیاں جیسے ہواوے، ٹک ٹاک اور وی چیٹ کی سٹاک مارکیٹ میں مالیت میں کمی آئی ہے۔ چین میں اشیا خورد و نوش کے کاروبار سے منسلک کمپنیاں اب تیزی سے اوپر آ رہی ہیں اور ان کے مالکان کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔ لال ڈھکن والی بوتل اس ماہ جب ہانگ کانگ سٹاک ایکسچینج میں نونگفو سپرنگ نے اپنا نام درج کرایا تو پہلے ہی روز ان کے حصص کی مالیت میں 54 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نونگفو سپرنگ کی بوتلوں پر لال رنگ کا ڈھکن ہوتا ہے جو ان کی خاص پہچان ہیں اور یہ بوتلیں پورے چین میں فروخت ہوتی ہیں چاہے وہ محلے کی چھوٹی سی دکان ہو یا پرتعیش ہوٹل۔ اس کے علاوہ کمپنی چائے، اور مختلف ذائقے والے وٹامن مشروبات اور جوس بھی بیچتی ہے۔ سٹاک ایکسچینج میں اندراج کرنے کے بعد پہلے وہ چین کے دو امیر ترین افراد، علی بابا کے جیک ما اور ٹین سینٹ کمپنی کے مالک پونی ما کے ہمراہ آ گئے تھے لیکن اس ہفتے ٹیکنالوجی کمپنیوں کے حصص کی قیمتیں گر گئیں جس کے بعد ان کی کمپنی آگے نکل گئی۔ علی بابا کے جیک ما گذشتہ چھ برس سے اس فہرست میں سب سے آگے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54168297", "summary": "روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کے ذریعے اب نان ریذیڈنٹ پاکستانی بینک برانچ، سفارتخانہ یا قونصلیٹ جائے بغیر ڈیجیٹل اور آن لائن طریقے سے اکاؤنٹ کھول سکیں گے۔ یہ مرحلہ صرف 48 گھنٹوں میں مکمل ہو سکے گا۔", "title": "روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ: بیرون ملک پاکستانیوں کو کیا سہولیات میسر ہوں گی؟", "firstPublished": "2020-09-16T08:37:04.000Z", "id": "a65d99eb-cd67-4bef-a7d6-a79463e8d48e", "article": "روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کے ذریعے اب ’نان ریذیڈنٹ پاکستانی‘ یا بیرون ملک مقیم پاکستانی بینک برانچ، سفارتخانے یا قونصلیٹ جائے بغیر ڈیجیٹل اور آن لائن طریقے سے اکاؤنٹ کھول سکیں گے۔ یہ عمل صرف 48 گھنٹوں میں مکمل ہو سکے گا۔ صارفین اپنے اکاﺅنٹ کے لیے فارن کرنسی یا پاکستانی روپے یا دونوں کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ ان اکاﺅنٹس میں فنڈز مکمل طور پر واپس منتقل ہو سکیں گے اور اس کے لیے کسی ریگولیٹری منظوری کی ضرورت نہیں ہو گی۔ خیال رہے کہ اس وقت 90 لاکھ کے قریب پاکستانی بیرون ملک رہ رہے ہیں اور وہ سالانہ اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے 23 بلین ڈالر ترسیلات زر پاکستان بھیجتے ہیں۔ اب اس روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ سے حکومت کے خیال میں ترسیلات میں مزید اضافہ ہو گا جس سے قرضوں کا بوجھ بھی کم ہو سکے گا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایسے آٹھ پاکستانی کمرشل بینکوں سے مل کر بیرون ملک پاکستانیوں کی سہولت کے لیے ڈیجیٹل اکاؤنٹ کا نظام متعارف کرایا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بیرون ملک پاکستانیوں کو بینکنگ کی سہولت فراہم کرنے کے لیے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا کہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کروڑوں نان ریذیڈنٹ پاکستانیوں کو فنڈ ٹرانسفرز، بلوں کی ادائیگی اور پاکستان میں سرمایہ کاری سے متعلق سرگرمیوں کے حوالے سے جدید بینکنگ سہولیات فراہم کرے گی۔ اقتصادی امور کے ماہر مزمل اسلم نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ اکیسویں صدی کی پراڈکٹ ہے، جس سے پاکستان بے تحاشا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ان کے مطابق حکومت کے اس اقدام سے بیرون ملک پاکستانیوں کو یہ سہولت ہو گی کہ وہ مناسب شرح سود پر اپنے پیسے ان اکاؤنٹس میں رکھیں۔ ان کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اس بات کی اجازت ہو گی کہ وہ جب چاہیں اپنا پیسہ بغیر حکومتی اجازت کے واپس نکال سکتے ہیں۔ مزمل اسلم کے مطابق اس عمل کے لیے درکار دستاویزات کی تعداد اس لیے زیادہ ہے تاکہ شرپسند عناصر اپنی کارروائیوں کے لیے ان اکاؤنٹس کا استعمال نہ کر سکیں اور ایف اے ٹی ایف کی شرائط کے مطابق ان اکاؤنٹس کی شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر باقر رضا نے بھی اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جب کوئی ڈیجیٹل اکاؤنٹ سے پیسہ واپس نکالنا چاہے گا تو اس میں سٹیٹ بینک سمیت کوئی بینک بھی کسی قسم کی رکاوٹ نہیں بنے گا۔ گورنر سٹیٹ بینک باقر رضا کے مطابق بیرون ملک پاکستانیوں کو پراپرٹی کے کاروبار کے علاوہ ڈیجیٹل اکاؤنٹ کی مدد سے پاکستان کی سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔ ان کے خیال میں اس وقت باہر کے ممالک میں شرح سود صفر کے قریب ہے تو بیرون ملک پاکستانیوں کے پاس اپنا پیسہ پاکستانی بینکوں میں رکھنے کی بھی سہولت ہوگی، جس سے نہ صرف انھیں فائدہ ہو گا بلکہ ملک کا بھی فائدہ ہو گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-54023570", "summary": "کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاؤن کے دوران انڈیا اور پاکستان میں پتنگ بازی میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس کاروبار سے منسلک افراد نے بھی اس دوران کافی پیسے بنائے۔", "title": "’پتنگ خریدنے کے لیے لوگ پاکستان سے بھی کالز کر رہے ہیں‘", "firstPublished": "2020-09-04T07:58:39.000Z", "id": "4df6ce57-d24f-4889-8151-93f624619c0b", "article": "انڈیا کے شہر دلی میں اُن کی دکان میں گذشتہ چھ ماہ کے دوران پتنگوں کی فروخت کافی بڑھی ہے اور یہ سب کورونا وائرس کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے عائد کردہ پابندیوں کے دوران جہاں اٹلی میں شہریوں نے اپنی بالکونی اور کھڑکیوں سے گانے گائے وہیں انڈین شہریوں نے اپنی چھتوں سے پتنگیں اڑائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں لاک ڈاؤن کے دوران ہمسایہ ملک پاکستان سے بھی کالز آئی ہیں جہاں انڈیا کی طرح کورونا وائرس کے دنوں میں پتنگ بازی کا جنون بڑھتا دکھائی دیا ہے۔ صدیوں سے ایشیا کے اس خطے میں پتنگ بازی مصروف رہنے کا ایک مشغلہ رہا ہے۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ پتنگ بازی ابتدائی طور پر یہاں آنے والے چینی سیاحوں نے متعارف کرائی تھی۔ اس کی تیاریاں کئی مہینوں قبل شروع ہو جاتی ہیں اور پورے ملک سے پتنگ بنانے والے گجرات اور ممبئی آ کر تہوار میں انڈیا کی روایتی رنگ برنگی پتنگوں کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ لیکن رواں سال کورونا وائرس کے باعث نافذ ہونے والے لاک ڈاؤن کے دوران پتنگ بنانے کی صنعت ان مہینوں میں بھی متحرک رہی۔ لاک ڈاؤن میں جون سے اگست تک نرمی دیکھنے میں آئی لیکن اس کے باوجود سکول بند رہے جس کے بعد بچوں میں پتنگوں کی طلب بڑھتی رہی۔ انڈیا میں بعض شہروں میں لاک ڈاؤن کے دوران حکام نے پتنگ بازی پر پابندی عائد کر دی تھی کیونکہ انھیں چھتوں کے ذریعے ہمسایوں میں وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے خدشات تھے۔ لیکن مجموعی طور پر پتنگ کی خرید و فروخت عروج پر رہی ہے۔ حبہ بھی یہی کاروبار کرتی ہیں۔ وہ دلی کے قریب بریلی میں اپنے گھر میں اپنی بہن کے ساتھ ایک دن میں 50 پتنگیں بناسکتی ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران بڑی طلب نے ان کی آمدن میں اضافہ کیا ہے کیونکہ پتنگوں کی فروخت اور قیمت میں واضح اتار آیا ہے۔ بریلی کے دکاندار محمد اشرف کہتے ہیں کہ وہ اپنی دکان لاک ڈاؤن کے اصولوں کی وجہ سے صبح جلدی نہیں کھول پاتے لیکن اس کے باوجود اگست سے قبل انھوں نے دو لاکھ روپے کی پتنگیں بیچی ہیں۔ احسن خان کہتے ہیں کہ یہ فروخت انڈیا کے چھوٹے شہروں اور گاؤں میں زیادہ ہوئی ہے کیونکہ وہاں اکثر افراد کے پاس اپنی چھت ہوتی ہے۔ یہ ممبئی جیسے بڑے شہروں کے برعکس ہے جہاں اکثر افراد فلیٹ میں رہتے ہیں اور پتنگ اڑانے کے لیے انھیں باہر اجتماعی جہگوں پر جانا پڑتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران ان جگہوں پر جانے سے منع کیا گیا تھا۔ یہاں سب سے بڑا خدشہ آبادی کی صحت اور حفاظت کے حوالے سے ہے لیکن یہ کافی حد تک ممکن ہے کہ ان مشکل حالات میں بھی پتنگ بازی کا رجحان جاری رہے گا اور اگر لوگوں کو گھر رہنے پر دوبارہ مجبور کیا جاتا ہے تو پتنگ اڑانا ان کے لیے تفریح کا ایک مقبول ذریعہ بنا رہے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54008568", "summary": "ماہرین معیشت کے نزدیک سٹاک مارکیٹ ایک بہت محدود پیمانے پر ملکی اقتصادی صورت حال کی تصویر پیش کرتی ہے۔ کی سٹاک مارکیٹ میں چھوٹے سرمایہ کاروں سے لے کر بڑی کمپنیوں کی لسٹنگ کی شرح دنیا کے مقابلے میں بہت کم ہے۔", "title": "کیا پاکستان سٹاک مارکیٹ کا ایشیا میں ’بہترین درجہ‘ ملکی معیشت میں بہتری کا اشارہ ہے؟", "firstPublished": "2020-09-03T08:57:35.000Z", "id": "9fa6c9fa-5f60-4489-8701-55d7aa358843", "article": "ماہرین معیشت کے نزدیک سٹاک مارکیٹ ایک بہت محدود پیمانے پر تو ملکی اقتصادی صورتحال کی تصویر پیش کرتی ہے تو دوسری جانب ملک کی سٹاک مارکیٹ میں چھوٹے سرمایہ کاروں سے لے کر بڑی کمپنیوں کی لسٹنگ کی شرح بھی دنیا کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اسی طرح سٹاک مارکیٹ میں کاروبار کو جانچنے کے پیمانے کے ایس ای 100 انڈیکس نے سرمایہ کاری پر ڈالر کی صورت میں اڑتیس فیصد سے زیادہ کا منافع دیا۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ نے چار سال پہلے یعنی سنہ 2016 میں بھی ایشیا میں بہترین سٹاک مارکیٹ ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ تام سنہ 2017 میں اس کی کارکردگی بدترین قرار دی گئی جب حکومت کی جانب سے حصص کی خرید و فروخت پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا جس کی وجہ سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں نے اس میں سے سرمایہ نکال لیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے جو معیشت کے لیے بہترین ہے اور دوسری جانب سٹاک مارکیٹ میں بھی تیزی کا رجحان ہے جو معیشت کے لیے ایک مثبت اقتصادی اعشاریہ ہے۔ تاہم اس بنیاد پر معیشت میں مکمل بہتری کی بات کرنا صحیح نہیں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ اس میں حصص کی خرید و فروخت اور اس پر ملنے والے منافع سے سرمایہ کار اس کی جانب راغب ہو سکتے ہیں یا اپنی سرمایہ کاری سمیٹ سکتے ہیں جو صرف سرمایہ کاروں تک محدود ہو سکتی ہے کہ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کا ماحول سازگار ہے یا نہیں تاہم اسے بڑے پیمانے پر معیشت کے رُخ کے تعین کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے مقابلے میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سٹاک مارکیٹ میں سرمائے کی لاگت کی شرح جی ڈی پی کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے اور کچھ ممالک میں تو یہ سو فیصد اور اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس تیس فیصد میں سے تیس فیصد بیرونی سرمایہ کاروں کے پاس اور باقی بچ جانے والے سرمائے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ معیشت کی حالت کو کس تک پیش کرتی ہے۔ اسی طرح خدمات کے شعبے میں ہول سیل کا بزنس بھی سٹاک مارکیٹ میں نہیں ہے۔ اب ایسی صورتحال میں سٹاک مارکیٹ کو ایک بڑے پیمانے پر معیشت کی صورت حال کا عکاس نہیں کہا جا سکتا۔ سٹاک مارکیٹ کے مقابلے میں پاکستان کی رئیل اکانومی یعنی حقیقی معیشت کیوں نہیں بڑھ پا رہی، اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے معیشت پر نظر رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کلچر ایسا وضع کیا گیا ہے کہ معیشت کے حقیقی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے سے آپ کو زیادہ پیسہ ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ سٹاک مارکیٹ اور بنکوں میں پیسہ رکھنے سے حاصل ہونے والے منافع پر کم ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-53972117", "summary": "ایئر ایشیا کے بانی ٹونی فرنینڈز نے کہا ہے کہ وہ خطے میں اگلی 'سُپر ایپ' بنانے کے لیے پُرامید ہیں۔ کورونا وائرس کے باعث فضائی سفر میں واضح کمی کے بعد دیگر ایئر لائنز کی طرح ان کی ایئر لائن بھی متاثر ہوئی ہے۔", "title": "ایشیا کی اگلی ’سُپر ایپ‘ کون سی ہوگی؟", "firstPublished": "2020-09-01T00:24:09.000Z", "id": "3f522141-de33-4eda-bab3-b3a7c2dcac1b", "article": "ایئر ایشیا کے بانی ٹونی فرنینڈز نے کہا ہے کہ وہ خطے میں اگلی 'سُپر ایپ' بنانے کے لیے پُرامید ہیں۔ کورونا وائرس کے باعث فضائی سفر میں واضح کمی کے بعد دیگر ایئر لائنز کی طرح ان کی ایئر لائن بھی متاثر ہوئی ہے۔ وہ 'گریب، 'گوجیک' اور 'وی چیٹ' جیسی حریف ایپس کا متبادل نکالنے کے خواہشمند ہیں۔ ان کے مطابق اس نئی ایپ میں کھانا منگوانے کی سہولت (فوڈ ڈیلیوری)، خریداری (آن لائن شاپنگ)، ادائیگی، تفریح اور سفر جیسے فیچرز ہوں گے۔ عالمی وبا کے اس دور میں ایئر لائن کمپنی کے مالک کی حیثیت سے وہ آمدن کے نئے ذرائع تلاش کر رہے ہیں، اس بات کے پیشِ نظر کہ ان کے کئی ہوائی جہاز اس صورتحال میں پرواز پر نہیں جاسکتے۔ دیگر ایئر لائنز کی طرح ایئر ایشیا بھی عالمی وبا سے متاثر ہوئی ہے اور اس نے اپنے 30 فیصد عملے کو برخاست کر دیا ہے۔ بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں ٹونی فرنینڈز نے کہا ہے کہ انھوں نے سفری پابندیوں کے دوران ایئر ایشیا کی ایپ کو بہتر بنانے کی کوشش میں وقت گزارا ہے اور اس کے ساتھ انھوں نے کمپنی میں ادائیگیوں کے فیچر 'بِگ پے' کو بھی مزید اچھا بنانے کی کوشش کی ہے۔ 'یہ بحران ایک طرح سے پوشیدہ نعمت بن کر سامنے آیا ہے کیونکہ اس سے ہماری توجہ مزید یہاں مرکوز ہوگئی ہے۔ ایک ایئر لائن کو چلانے میں آپ کا کافی وقت صرف ہوجاتا ہے لیکن ہمیں اپنے ڈیجیٹل کاروبار پر توجہ دینے کا موقع اور وقت ملا ہے۔' ایئر ایشیا کی ایپ میں صارفین ایک دوسرے سے پیغامات کا تبادلہ کر سکتے ہیں لیکن اب ان کا مقصد ہے کہ اسے ایک 'سُپر ایپ' بنا دیا جائے، جیسے سنگاپور میں گریب، انڈونیشیا میں گوجیک اور چین میں میٹوان نامی ایپش یہی کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ایئر ایشیا ہمیشہ سے ایک ڈیجیٹل کمپنی رہی ہے۔ ہم ان پہلی ایئر لائنز میں سے تھے جنھوں نے آن لائن فروخت کا کاروبار شروع کیا۔ یہ ہمارے خون میں ہے۔' 'مجھے علم ہے کہ سُپر ایپ کا قیام ایک بڑا ہدف معلوم ہوتا ہے لیکن گریب اور گوجیک نے بھی اپنا سفر چھوٹی کھانے اور آمد و رفت کی ایپس سے شروع کیا تھا۔ اور اس کے علاوہ لوگوں نے اس وقت بھی سوال اٹھائے تھے جب میں ایئر ایشیا قائم کرنا چاہتا تھا۔' ٹونی فرنینڈز کی ایئر ایشیا خطے میں سب سے بڑی بجٹ (سستی) ایئر لائن تصور کی جاتی ہے۔ 'اس ریکارڈ لیبل کے ساتھ ہم بہت خاص کام کرنے جا رہے ہیں۔ کوریا کے لوگوں نے ثابت کیا ہے کہ 'کے پاپ' کیسے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کر سکتا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں بہت ٹیلنٹ ہے۔' "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-53976430", "summary": "انڈیا میں سرکاری سطح پر جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق جون میں ختم ہونے والی سہ ماہی میں ملک کی معیشت میں تشویش ناک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔", "title": "انڈیا کی معیشت میں کئی دہائیوں کی ریکارڈ مندی", "firstPublished": "2020-08-31T20:16:55.000Z", "id": "7f276a6b-16af-41d4-b5e7-a8a14152e172", "article": "انڈیا میں سرکاری سطح پر جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق جون میں ختم ہونے والی سہ ماہی میں ملک کی معیشت میں تشویش ناک مندی دیکھنے میں آئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انڈیا کی معیشت میں اس تین ماہ کے عرصے میں 23 اعشاریہ نو فیصد کمی واقع ہوئی جو کہ سنہ 1996 میں جب سے ہر سہ ماہی کے بعد معاشی نمو کے اعداد و شمار سرکاری طور پر جاری کیے جانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، یہ اب تک کے بدترین اعداد و شمار ہیں۔ کورونا وائرس کی وباء کے بعد عائد کی گئی پابندیوں اور لاک ڈاؤن سے معاشی سرگرمیاں اس سہ ماہی کے دوران بری طرح متاثر ہوئیں۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کو 'ریسیشن' یا معاشی بحران کا سامنا ہے کیونکہ ان کے اندازوں کے مطابق اگلی سہ ماہی میں بھی شرح نمو میں کوئی بہتری ہوتی نظر نہیں آتی۔ کسی بھی معیشت کو اس وقت 'ریسیشن' یا معاشی بحران کی حالت میں قرار دیا جاتا ہے جب مسلسل دو سہ ماہیوں تک اس کی معاشی نمو منفی ریکارڈ کی جائے۔ آخری مرتبہ انڈیا کی معیشت سنہ 1980 میں ریسیشن میں گئی تھی اور آزادی کے بعد سے اب تک چار مرتبہ ایسا ہو چکا ہے۔ کورونا وائرس کی مریضوں کی تعداد میں اب انڈیا کا شمار اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل ہے انڈیا میں اب تک کورونا وائرس کے 36 لاکھ مریض سامنے آ چکے اور گزشتہ اتوار کو 24 گھنٹوں میں 78761 نئے مریض ریکارڈ کے گئے ۔ یہ دنیا بھر میں 24 گھنٹوں میں کسی بھی ملک میں ریکارڈ کیے گئے مریضوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ لیکن ملک میں معمول کی سرگرمیوں کو معطل نہیں کیا گیا کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہا اگر دوبارہ لاک ڈاؤن کیا گیا تو معیشت بالکل تباہ ہو جائے گی۔ ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال کے باعث یہ کوئی حیران کن اعداد و شمار نہیں ہیں۔ انڈیا کی معشیت کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے سے قبل ہی مندی کا شکار تھی۔ گزشتہ سال ملک میں بے روزگاری کی شرح 45 سالوں میں سب سے زیادہ سطح پر تھی اور معاشی نمو کی شرح گر کر چار اعشاریہ سات فیصد پر آ گئی تھی جو سات سالوں میں سب سے کم تھی۔ ملک میں پیداوار گر رہی تھی اور بینکوں پر قرضوں کا بوجھ بہت ْبڑھ گیا تھا۔ ملک میں اس معاشی صورت حال کے دوران کورونا کی وبا پھوٹ پڑی جس سے معیشت کی حالت اور بری ہو گئی۔ مارچ میں ملک میں بے شمار فیکٹریوں اور کاروبار کو بند کرنا پڑا جس سے معاشی سرگرمیاں تقریباً مفقود ہر کر رہ گئیں۔ اس تھنک ٹینک کا کہنا ہے بے روز گار ہونے والے افراد کی اکثریت اب کام پر واپس آ چکی ہے جس کی بڑی وجہ جون سے پابندی میں نرمی کرنے کا فیصلہ ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-53952967", "summary": "چین کی کمپنیوں اور عالمی سرمایہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکی انتخابات کا نتیجہ کچھ بھی رہے چین کے بارے میں امریکی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آنے والی ہے۔", "title": "ٹرمپ یا بائڈن، چین کے بارے میں امریکی پالیسی یہی رہے گی", "firstPublished": "2020-08-29T05:17:23.000Z", "id": "c3b7a5e8-6413-4ce5-99e6-aa878980f30f", "article": "امریکہ میں صدارتی انتخابات سے قبل دو سیاسی جماعتوں ڈیموکریٹ اور رپبلکن کے قومی کنونشن ووٹروں کے لیے ایک موقع ہوتا ہے کہ وہ صدارتی امیدواروں کی داخلی پالیسوں کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکیں۔ چین کی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اندر کام کرنے والے کی افراد نے مجھے بتایا ہے کہ جو بائڈن کا صدارت میں آنا ان کے لیے صدر ٹرمپ کے چار سال مزید اقتدار میں رہنے سے بہت بہتر ہوگا کیونکہ صدر ٹرمپ کا دور انتہائی غیر یقینی ہوسکتا ہے۔ ایک بہت بالکل واضح ہے کہ چین کی کمپنیاں کو یقین ہے کہ امریکی ایوان صدر میں کوئی بھی آئے امریکہ کی چین بارے میں سخت پالیسیاں ایسی ہی رہیں گی۔ رپبلکن کے سمندر پار گروپ کے سربراہ سولومن یو کا کہنا ہے کہ کسی خیال میں نہ رہیں صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کی صورت میں ڈی کپلنگ کا عمل تیز ہو گا۔ چین مخالف پالیسیوں میں صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے ان امریکہ میں رجسٹرڈ چینی کمپنیوں کے بارے میں نئی سفارشات مرتب کی ہیں جن کے تحت انہیں سنہ 2022 تک نئے قواعد و ضوابط کی پابندی کرنا ہو گی۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو ان پر پابندی بھی عائد کی جا سکے گی۔ ہو سکتا ہے کہ جو بائڈن کی انتظامیہ ایسی پابندیاں نہ لگائے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چینی کمپنیوں کی جانچ پڑتال اور ان کے بارے میں سفارشات کا لب و لہجہ اتنا ہی سخت رہے گا۔ ہانگ کانگ میں قائم جی ایف ایم کمپنی کے سرمایہ کاری کے مشیر طارق ڈینیسن نے کہا کہ 'ایک ڈیموکریٹ چاہے وہ وائٹ ہاؤس میں ہو، سینیٹ میں ہو یا وہ کانگرس کا رکن ہو اس کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے چین کے خلاف پابندیوں کو واپس لینے میں کا کوئی جواز نہیں ہو گا جب تک کہ دوسری طرف سے کوئی نرمی نہیں دکھائی جاتی۔ صدر ٹرمپ اصل میں یہ ہی کہہ رہے ہیں کہ اس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ان کی انتظامیہ کہہ رہی ہے کہ چین امیر سے امیر تر ہو چلا گیا ہے جبکہ امریکہ غریب ہو گیا ہے۔ چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز میں حال ہی میں ایک ادارتی مضمون میں کہا گیا کہ امریکی منصوبہ سازی میں چین کے بارے میں ایک تبدیلی آ چکی ہے۔ گوبل ٹائمز کے مطاق چین اور امریکہ کے تعلقات کی نوعیت دوبارہ طے کرنا ہو گی۔ ایشیا میں بڑے کاروبار کے لیے ایک سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ کہیں دو بڑی عالمی معاشی طاقتوں کے درمیان مسلح جنگ نہ چھڑ جائے اور اس تشویش میں حالیہ ہفتے اس وقت اضافہ ہو گیا جب چین نے جنوبی بحیرہ چین میں دو میزائلوں کو تجربہ کیا۔ یہ سمندری راستے جو بڑے منافع بخش ہیں لیکن اتنے ہی متنازع بھی۔ چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں تبدیلی نہ صرف ان دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں بلکہ یہ باقی تمام دنیا کے لیے بھی خطرے کا باعث ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53899578", "summary": "شرح سود اور اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کے ساتھ کورونا وائرس اور پورے ملک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصان، ٹیکسوں کی وصولی میں کمی اور حکومت کی جانب سے مختلف شعبوں کے لیے دیے گئے امدادی اور مراعاتی پیکیج کو بھی خسارے کی وجہ قرار دیا جس نے قرضوں میں اضافہ کیا۔", "title": "پاکستان پر ملکی تاریخ کا بلند ترین قرض کیوں چڑھا؟", "firstPublished": "2020-08-26T04:29:57.000Z", "id": "8d4f85d2-4fbb-4014-be09-ac49c445272d", "article": "ان کے مطابق پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھنے میں ملک کے بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کے علاوہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور شرح سود کا بلند ہونا بھی تھا جن کی وجہ سے بیرونی اور اندرونی قرضوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ وزارت خزانہ کے ترجمان نے شرح سود اور اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کے ساتھ کورونا وائرس اور پورے ملک میں لاک ڈاؤن کی کیفیت کے نتیجے میں ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصان، ٹیکسوں کی وصولی میں کمی اور حکومت کی جانب سے مختلف شعبوں کے لیے دیے گئے امدادی اور مراعاتی پیکیج کو بھی خسارے کی وجہ قرار دیا جس نے قرضوں میں اضافہ کیا۔ کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے سے پہلے پاکستان میں شرح سود سوا تیرہ فیصد پر تھی تاہم کورونا کی وجہ سے ملکی معیشت میں پید ہونے والی سست روی کو دور کرنے کے لیے اسے سات فیصد تک گرا دیا گیا۔ دو سال قبل 120 روپے میں ملنے والے ایک ڈالر کی قیمت اس وقت 165 روپے سے زیادہ ہے جس نے ملک کے بیرونی قرضوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے بھی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور بلند شرح سود کو ملکی قرضوں کے بوجھ میں اضافے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انھوں نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور بلند شرح سود نے پاکستان کے قرضوں کے حجم میں خوفناک حد تک اضافہ کر دیا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق حسن خان ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور بلند شرح سود کو ملکی قرضوں کے بوجھ میں اضافے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں انھوں نے اس ساری صورت حال کا ذمہ دار آئی ایم ایف کے پروگرام کو قرار دیا اور کہا کہ ملک میں معاشی پالیسیوں کو جس طرح نافذ کیا جا رہا ہے تو اس سے یہی لگتا ہے کہ ایک نئے آئی ایم ایف پروگرام کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ ماہر معیشت صائم علی نے ملک پر قرضوں کے بوجھ کی ذمہ داری پر بات کرتے ہوئے کہا قرضوں کا یہ بوجھ اس وقت بے حد تشویشناک صورت اختیار کر چکا ہے اور انھوں نے ملک کے مالیاتی خسارے کو اس کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا۔ ملک پر لدے ہوئے قرضوں کے بوجھ اور انھیں اتارنے کے لیے حکومتی پالیسی پر بات کرتے وزارت خزانہ کے ترجمان نے کہا کہ حکومتی پالیسی کے تحت قرضوں کو کنڑول کرنے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے گئے ہیں کہ جس میں قرضوں کی واپسی کی مدت میں اضافہ ہے جیسے کہ اندرونی قرضےکے لیے یہ مدت ڈیڑھ سال سے چار سال سے زائد کر دی گئی ہے ۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53899576", "summary": "دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کیا معیشت میں نمو ہو رہی ہے یعنی اقتصادی ترقی میں اضافہ ہو رہا ہے؟ اگر ملک میں اقتصادی ترقی نہیں ہو گی تو درآمدات کم ہوجائیں گی اور کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس سرپلس ہو جائے گا۔ یہ مثبت اشارہ نہیں ہو گا اور اس وقت اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ پاکستان میں قومی اقتصادی ترقی کی شرح نمو دو فیصد سے کم ہے۔", "title": "کرنٹ اکاؤنٹ میں سرپلس: امید کی ایک کرن، مگر مدھم مدھم", "firstPublished": "2020-08-25T01:16:24.000Z", "id": "0ea60737-5b1b-4b7d-a91d-73eff3104b76", "article": "کرنٹ اکاؤنٹ کسی بھی ایک بیلنس شیٹ کی طرح آمدن اور اخراجات کی طرح درآمدات و برآمدات کا ایک موازنہ ہوتا ہے۔ اس میں خسارے یا فاضل رقم سے معیشت کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں بنائی جا سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کیا معیشت میں نمو ہو رہی ہے یعنی اقتصادی ترقی میں اضافہ ہو رہا ہے؟ اگر ملک میں اقتصادی ترقی نہیں ہو گی تو درآمدات کم ہوجائیں گی اور کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس سرپلس ہو جائے گا۔ یہ مثبت اشارہ نہیں ہو گا۔ اس وقت اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ پاکستان میں قومی اقتصادی ترقی کی شرح نمو دو فیصد سے کم ہے۔ 'اصل میں ان کا انحصار اُن اساسی عومل پر ہوتا ہے جو اس سرپلس کو پیدا کرنے کا سبب بنے ہوں۔ پاکستان کے معاملے میں کرنٹ اکاؤنٹ میں سرپلس کچھ تو دنیا میں تیل کی قیمتوں کے گرنے کی وجہ سے پیدا ہوا جس کی وجہ سے تیل کی درآمد کے اخراجات میں کمی آئی، اور کچھ درآمدات میں کمی کا ہونا ہے۔ درآمدات میں کمی اقتصادی سست روی کی وجہ سے ہوئی کیونکہ اس وقت نئی مشینری اور ساز و سامان کی طلب میں کمی ہے۔' ان کا کہنا ہے کہ اس وقت کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کے کئی عومل ہیں جن میں تاخیر سے ڈیویلیوایشن کا اثر سامنے آنا، ایکسپورٹ سپورٹ پیکیج کا اعلان کیا جانا اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کی تاجروں کی مدد کرنا شامل ہی۔ ڈاکٹر عدیل ملک کہتے ہیں کہ 'اس وقت یہ کہنا کہ کس وجہ سے برآمدات میں اضافہ ہوا بہت مشکل ہے تاہم یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ لیکن برآمدات کے طویل مدتی اضافے کے لیے ایک برابری کے مقابلے کی پالیسی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔' 'اس کے علاوہ کیونکہ ملک میں کووِڈ-19 کی وجہ سے اقتصادی اور تجارتی سرگرمیاں سکڑ کے رہ گئی ہیں اس لیے بھی درآمدات میں کمی نظر آرہی ہے۔ اس لیے جن وجوہات کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ میں فاضل سرمایہ نظر آرہا ہے یہ ایک عارضی راحت ضرور ہے لیکن یہ اقتصادی سرگرمیوں میں سستی روی ظاہر کر رہی ہے۔' ڈاکٹر اکرام الحق کہتے ہیں کہ معیشت کی مجموعی تصویر کو دیکھا جائے تو نظر آئے گا کووِڈ-19 کے اقتصادی سرگرمیوں میں شدید کمی آجانے کے بعد سرمایہ کاری بند ہوجانے کے بعد ملک کساد بازاری سے گزر رہا ہے، اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان حالات میں 'بہتری کی امید کی بات کرنا غلط ہے اور وقت سے پہلے ہے۔ یہ لوگ ان حقائق کو نظر انداز کر کے کیسے ایک مہینے کے کرنٹ اکاؤنٹ میں سرپلس کی بات کرسکتے ہیں جب مستقبل کی ترقی کی ضامن مشینری کی درآمد رکی ہو، اور سب سے زیادہ یہ کہ لوگوں سے یوٹیلیٹیز کے بھاری بل وصول کیے جا رہے ہوں اور عام آدمی مہنگائی کی چکّی میں پِسا جا رہا ہو۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-53885965", "summary": "کورونا وائرس کی وبا نے دس ممالک کو چھوڑ کر دنیا کے تقریبا ہر ملک کو متاثر کیا ہے۔ لیکن کیا واقعی یہ ممالک کووڈ 19 کے اثرات سے دور ہیں؟ اور اب وہ کیا کر رہے ہیں؟", "title": "دس ممالک جہاں کورونا کا ایک بھی مریض نہیں", "firstPublished": "2020-08-24T14:21:38.000Z", "id": "84a0f907-ac75-4217-9054-99af551cfaa7", "article": "کورونا وائرس کی وبا جس نے دنیا کے تقریبا ہر ملک کو متاثر کیا ہے لیکن دس ممالک ایسے ہیں جہاس اب تک اس کا ایک بھی مریض سامنے نہیں آیا، لیکن کیا واقعی یہ ممالک کووڈ 19 کے اثرات سے دور ہیں؟ جانتے ہیں کہ وبا کے بعد وہاں کیا حالات ہیں؟ پلاؤ کی سرحدیں مارچ کے آخری دنوں سے بند ہیں۔ تقریباً اسی وقت سے جب انڈیا میں پہلے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم پلاؤ دنیا کے ان دس ممالک (شمالی کوریا اور ترکمانستان کو چھوڑ کر) میں سے ایک ہے جہاں پر کورونا انفیکشن کا کوئی سرکاری معاملہ رپورٹ نہیں کیا گیا ہے۔ دی پلاؤ ہوٹل مارچ سے ہی بند ہے۔ اور یہ واحد ہوٹل نہیں ہے۔ پلاؤ کے تمام ریستوراں خالی پڑے ہیں۔ سیاح جہاں سے تحائف خریدتے تھے وہ دکانیں بند ہیں۔ اور صرف وہی ہوٹل کھلے ہیں جو بیرون ملک سے واپس آنے والے پلاؤ کے شہریوں کو قرنطینہ کی سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ برائن اس صورتحال کے لیے حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے ہیں کیونکہ حکومت نے پلاؤ کے رہائشیوں کو مالی مدد کی پیشکش کی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ کورونا کی وبا کو کامیابی سے ملک سے دور رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'حکومت نے اپنی سطح پر اچھا کام کیا ہے۔' لیکن پلاؤ کے سب سے پرانے ہوٹل کی اگر یہ حالت ہے تو وہاں جلد ہی کچھ بدلاؤ کی ضرورت ہے۔ مختصراً یہ کہ آپ وائرس کو ملک سے باہر رکھ سکتے ہیں لیکن اسے شکست نہیں دے سکتے۔ کورونا آپ کو ایک نہیں تو دوسرے راستے سے متاثر کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'اگر آپ امبے کے لوگوں سے بات کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ لوگ سرحدوں کو بند رکھنے کی وکالت کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس وبا کو ختم ہونے تک سرحدوں کو بند رکھنا چاہیے، کیونکہ انھیں وبا کا خوف زیادہ ہے۔ وہ اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔' اس کے باوجود ملک کو نقصان سے بچانا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کا اندازہ ہے کہ وانواتو کی جی ڈی پی میں 10 فیصد کمی واقع ہوگی جو سنہ 1980 میں آزادی کے بعد وانواتو میں سب سے بڑی کمی ہوگی۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کووڈ کا اثر یہاں طویل عرصے تک رہے گا۔ 'لہٰذا، یقینی طور پر یہاں دوہری پریشانی ہے۔ انفیکشن اور بیماری کے ساتھ معاشی بحران بھی ہے۔ صحیح جواب تلاش کرنے میں سالوں کا وقت لگ سکتا ہے کہ کورونا کے دور میں صحیح فیصلہ کس نے لیا تھا اور غلط کس نے۔ لیکن پیچھے مڑ کر دیکھنے پر بحر الکاہل میں پھیلے جزائر کا اپنی سرحدیں بند رکھنے کے فیصلے کو کوئی بھی غلط نہیں کہے گا۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-53859618", "summary": "جنوبی آسٹریلیا میں دو مزدوروں نے خام سونے کے دو ٹکڑے دریافت کیے ہیں جن کی مالیت ساڑھے تین لاکھ آسٹریلوی ڈالر ہے۔", "title": "آسٹریلیا میں ڈھائی لاکھ ڈالر مالیت کے خام سونے کے ٹکڑے دریافت", "firstPublished": "2020-08-21T09:16:39.000Z", "id": "fc353355-5c68-4559-a312-c3451bc6e537", "article": "جنوبی آسٹریلیا میں دو مزدوروں نے خام سونے کے دو ٹکڑے دریافت کیے ہیں جن کی مالیت ڈھائی لاکھ امریکی ڈالر ہے۔ برینٹ شینن اور ایتھن ویسٹ نامی ان مزدوروں کو یہ ٹکڑے ریاست وکٹوریا میں موجود تارناگلا نامی قصبے سے ملے جہاں سونے کے ذخائر پہلے ہی موجود ہیں۔ ان کی اس کھوج کو ایک ٹی وی شو ’اوزی گولڈ ہنٹرز‘ پر دکھایا گیا جو گذشتہ جمعرات کو نشر ہوا۔ ان افراد نے اس علاقے میں کھدائی کی اور میٹل ڈیٹیکٹرز (دھات کی کھوج کے لیے استعمال ہونے والے آلات) کا استعمال کیا۔ ایتھن ویسٹ نے سی این این کو بتایا کہ 'یہ واقعی سب سے اہم کھوج میں سے ایک ہے۔' 'ایک ہی دن میں دو بڑے ٹکڑے حاصل کر لینا حیران کن ہے۔' انھوں نے سونے کے یہ دو ٹکڑوں کی کھوج لگائی جن کا ملا کر وزن 3.5 کلو گرام ہے۔ ڈسکوری چینل، جہاں یہ پروگرام نشر ہوا، کے مطابق وہ ایسا کچھ ہی گھنٹوں میں ویسٹ کے والد کی مدد سے کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا قسطیں مواد پر جائیں یہ شو برطانیہ میں بھی نشر ہوتا ہے جس میں آسٹریلیا کے دو دراز علاقوں میں جانے والی ایسی ٹیموں کا پیچھا کیا جاتا ہے جن کا مقصد سونے کی تلاش ہوتا ہے۔ شینن نے آسٹریلوی ٹی وی شو سنرائز کو بتایا کہ 'مجھے لگا تھا کہ ہمارے پاس موقع ہوگا۔ یہ ایسی زمین تھی جہاں کسی نے کھدائی نہیں کی تھی۔ اس کا مطلب کسی نے یہاں ہاتھ نہیں لگایا تھا اور یہاں کوئی کان کنی نہیں ہوئی تھی۔‘ ویسٹ کا کہنا ہے کہ سونے کی کان کنی کے چار برسوں میں انھوں نے سونے کے 'شاید ہزاروں' ٹکڑے زمین سے اٹھائے ہیں۔ ڈسکوری چینل کا کہنا ہے کہ ان سونے کے ٹکٹروں کی قیمت کے تخمینے کے برعکس ان کی قدر 30 گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔ سنہ 2019 میں ایک آسٹریلوی شخص نے 1.4 کلو گرام کا گولڈ نگٹ (ٹکڑا) میٹل ڈیٹیکٹر کی مدد سے ڈھونڈ نکالا تھا جس کی قیمت کا تخمینہ 69 ہزار ڈالر لگایا گیا تھا۔ آسٹریلیا میں سونے کی کان کنی 1850 کی دہائی میں شروع ہوئی اور یہ آج بھی ملک میں اہم شعبہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک مقامی ویب سائٹ کے مطابق تارناگلا نامی گاؤں وکٹوریا گولڈ رش کے دور میں قائم ہوا تھا اور یہ اپنے عہد میں امیر ترین علاقوں میں سے ایک بن گیا تھا۔ یہاں سونے کی کھوج میں اپنی قسمت آزمانے والے رہائش اختیار کر لیتے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53785609", "summary": "موجودہ مالی سال کے پہلے مہینے جولائی میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ملک میں بھجوائی جانے والی رقوم کسی ایک ماہ میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔", "title": "پاکستان منتقل ہونے والی رقوم میں اضافہ: کیا ہنڈی، حوالہ میں کمی آئی ہے؟", "firstPublished": "2020-08-20T09:21:42.000Z", "id": "8702413e-efb3-46aa-982c-d66f6ab72176", "article": "موجودہ مالی سال کے پہلے مہینے جولائی میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ملک میں بھجوائی جانے والی رقوم کسی ایک ماہ میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔ جولائی 2020 میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ملک میں کر دو اعشاریہ سات ارب ڈالر سے زائد رقوم بھیجی گئیں۔ یہ رقوم جولائی 2019ء کے مقابلے میں 36.5 فیصد اور جون 2020ء کے مقابلے میں 12.2 فیصد بڑھیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ملک میں رقوم بھیجنے میں یہ ریکارڈ اضافہ اس وقت دیکھنے کی آیا جب پوری دنیا کورونا وائرس اور اس کے اثرات سے شدید متاثر ہے اور دنیا بھر میں معیشتیں سست روی کا شکار ہیں جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ ملازمتوں سے فارغ ہو رہے ہیں۔ بیروزگار ہونے والے ان افراد میں وہ پاکستانی بھی شامل ہیں جو دنیا کے مختلف حصوں میں مقیم ہیں۔ تاہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ملک بھیجی جانے والی رقوم جنہیں ترسیلات زر بھی کہا جاتا ہے ان میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان نے اس سلسلے میں کہا کہ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب بین الاقوامی پروازیں بند ہو گئیں تو بیرون ملک پاکستانیوں کے پاس قانونی طریقے سے رقوم بھیجنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا جس نے ہنڈی حوالے کے ذریعے رقوم کی منتقلی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی ۔ ملک بوستان نے بتایا کہ بین الاقوامی پروازوں کی بندش نے بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے رقوم کی منتقلی نے اس طرح بھی مدد کی کہ کو لوگ پاکستان میں آتے ہوئے اپنے ساتھ غیر ملکی کرنسی لاتے ہیں ان کی آمد و رفت رک جانے کی وجہ سے وہ بھی قانونی ذرائع کے ذریعے رقوم بھیجنے پر مجبور ہوئے۔ ہنڈی حوالے کے ذریعے بیرون ملک سے پاکستان رقوم منتقلی کے رجحان میں کمی اور بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے ان کے قانونی راستے سے منتقلی کیا صرف کورونا وائرس کی وجہ سے بند ہو جانے والی بین الاقوامی پروازوں کی وجہ سے ہے یا اس ک دوسری وجوہات بھی ہیں۔ ملک بوستان نے اس سلسلے میں بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے متعارف کروائے گیے سخت قوانین بھی ہنڈی حوالے کے کاروبار کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں ۔ اسی طرح فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے مطالبات کی وجہ سے بھی قانونی ذرائع سے بیرون ملک سے پاکستان رقوم منتقل کرنے کے رجحان میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ پاکستان کے مرکزی بینک نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم میں اضافے کے بارے میں اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عالمی سطح پر کورونا وائرس کے اثرات کے پیش نظر کارکنوں کی ترسیلات ِزر میں یہ اضافہ حوصلہ افزا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53831070", "summary": "پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تناؤ کی بظاہر سب سے بڑی وجہ کشمیر پر ریاض کی جانب سے اسلام آباد کے مؤقف کی کھل کر حمایت نہ کرنا ہے تاہم کئی تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ صرف کشمیر تک محدود نہیں۔", "title": "پاکستان سعودی عرب تناؤ کے پیچھے ’کہانی صرف کشمیر کی نہیں‘", "firstPublished": "2020-08-19T13:22:52.000Z", "id": "24364cfa-3860-40b4-882c-e2f49d053289", "article": "اگلے دن پاکستان کے دفتر خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران جب وزیرخارجہ کے بیان پر صحافیوں کی جانب سے وضاحت طلب کی گئی اور پوچھا گیا کہ کیا یہ بیان سفارتی روایتوں کے خلاف نہیں تو ترجمان نے جہاں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی برادرانہ تعلقات کا حوالہ دیا اور ماضی میں او آئی سی کے کردار کی تعریف کی وہیں یہ بھی دہرایا: تجزیہ کار غنا مہر کہتی ہیں کہ کشمیر کے معاملے پر سعودی عرب اور خاص کر محمد بن سلمان کا انڈیا اور امریکہ کی طرف جھکاؤ واضح ہے اور یہ بالکل بھی حیران کن نہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تناؤ کی بظاہر سب سے بڑی وجہ کشمیر کے معاملے پر ریاض کی جانب سے اسلام آباد کے مؤقف کی کھل کر حمایت نہ کرنا ہے۔ تاہم کئی سیاسی امور کے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ کہانی صرف کشمیر کی نہیں اور یہ کہ دونوں ملکوں میں ’دوریوں‘ کی ایک وجہ ایران کی چابہار بندرگاہ کو چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کا حصہ بنوانے میں پاکستان کا کردار بھی ہے۔ تجزیہ کار ڈاکٹر رضوان نصیر نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر پاکستان نے کوششیں کی ہیں کہ چین پاکستان اقتصادی راہدری ایران سے منسلک ہو جائے اور چابہار بندرگاہ بھی سی پیک کے دائرے میں آ جائے تو اس پر سعودی عرب میں ردِ عمل ضرور ہے۔ کچھ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے جو تین ارب ڈالر دیے تھے ان کی وقت سے پہلے واپسی کا تقاضا کیا ہے۔ اس میں سے تقریباً ایک ارب ڈالر پاکستان نے چین کی مدد سے واپس بھی کیے ہیں۔ سعودی سفیر سے ملاقات کے کچھ دن بعد جنرل باجوہ کے ریاض کے دورے کی خبریں سامنے آئیں۔ پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ دورہ معمول کے دفاعی تعاون کے لیے ہے اور اس کے بارے میں ضرورت سے زیادہ قیاس آرائی کی ضرورت نہیں۔ تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ خانہ کعبہ اور مقدس مقامات کا متولی ہونے کی حیثیت سے سعودی عرب پاکستانیوں کے دلوں میں خاص مقام رکھتا ہے اور پاکستان کی کمزور معیشت کو ریاض نے ہمیشہ سہارا دیا ہے لیکن یمن سے شام تک پراکسی جنگوں میں مصروف سعودی عرب کے لیے پاکستان کی دفاعی مدد انتہائی اہم ہے۔ ماہرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کی سعودی حکومت کی جانب سے بنائے گئے فوجی اتحاد کی کمانڈر کی حیثیت سے تعیناتی اس دفاعی انحصار اور بھروسے کی بڑی مثال ہے۔ ماہرین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اس پاک سعودی تعلقات کے ابھرتے بحران کو قابو میں کرنے کے لیے جنرل باجوہ سے بہتر کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/india-53725463", "summary": "انڈیا کے سابق وزیرِ اعظم اور مشہور ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر منموہن سنگھ نے وبا کے بعد انڈیا کی معیشت کو بحال کرنے کے تین طریقے پیش کیے ہیں۔", "title": "کیا منموہن سنگھ کی تجاویز انڈیا کو اقتصادی بحران سے بچا سکتی ہیں؟", "firstPublished": "2020-08-12T04:50:06.000Z", "id": "67f7ea79-55c6-4f42-a094-547b044c4940", "article": "انڈیا کے سابق وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کے مطابق انڈیا کو کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ہونے والی تباہی سے نکلنے کے لیے فوری طور پر تین اقدامات اٹھانے چاہییں۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو انڈیا کی اقتصادی اصلاحات کا معمار سمجھا جاتا ہے اور اب وہ حزبِ اختلاف کی کانگریس کی جماعت کے سینیئر رہنما ہیں۔ انھوں نے یہ تجاویز بی بی سی کو ای میل کے ذریعے بتائیں۔ ایک لمبے اور اذیت دینے والے لاک ڈاؤن کے بعد اب انڈیا آہستہ آہستہ اپنی معیشت کھول رہا ہے، لیکن انفیکشنز میں اضافے کی وجہ سے مستقبل غیر یقینی لگتا ہے۔ جمعرات کو انڈیا وہ تیسرا ملک بن گیا جہاں کووڈ 19 کے متاثرین 20 لاکھ سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ کئی ممالک نے جاری اقتصادی بحران کے دوران حکومت کے اخراجات کو فنڈ کرنے کے لیے مزید نوٹ چھاپنے کا فیصلہ کیا ہے، اور کئی مشہور ماہرِ اقتصادیات نے بھی انڈیا کے لیے یہی مشورہ دیا ہے۔ ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ وہ خسارہ پورا کرنے کے لیے مزید نوٹ چھاپنے کو رد نہیں کر رہے لیکن ’صرف بتا رہے ہیں کہ اس کی حد زیادہ اونچی کر دیں اور اسے آخری سہارے کے طور پر استعمال کریں جب دوسرے تمام چارے استعمال کیے جا چکے ہوں۔ ایشیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر انڈیا آج 1990 کی دہائی سے کافی زیادہ مضبوط حالت میں ہے۔ میں نے ڈاکٹر سنگھ سے پوچھا کہ کیا یہ طاقت وبا کے خاتمے کے بعد انڈیا کی تیزی سے بحالی میں مدد کر سکے گی؟ تو ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ ’انڈیا کا جی ڈی پی 1990 کی نسبت 10 گنا زیادہ مضبوط ہے، اور انڈیا نے اس وقت سے لے کر اب تک 30 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔ اس لیے ہاں! انڈیا کی معیشت اندرونی طور پر اب بہت زیادہ مضبوط ہے۔‘ ڈاکٹر سنگھ کہتے ہیں کہ انڈیا اب باقی دنیا سے زیادہ ضم ہو چکا ہے۔ ’اس لیے اب جو کچھ عالمی معیشت میں ہوتا ہے اس کا کافی زیادہ اثر انڈیا کی معیشت پر بھی ہوتا ہے۔ اس وبا کے دوران عالمی معیشت بری طری متاثر ہوئی ہے اور یہ انڈیا کے لیے پریشانی کی ایک بڑی وجہ ہو گی۔‘ اب تک کسی کو پتا نہیں ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کا مکمل معاشی اثر کیا ہوا ہے، اور نہ ہی یہ کہ ملکوں کو اس سے بحال ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔ لیکن ایک چیز واضح ہے کہ اس نے ڈاکٹر سنگھ جیسے منجھے ہوئے ماہرِ اقتصادیات کو بھی پریشان کر دیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-53687653", "summary": "کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے گذشتہ ایک سال کے دوران کشمیر کی معیشت کو ہونے والے نقصان کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق کشمیریوں کو مجموعی طور پر 400 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔", "title": "معاشی بدحالی کے باعث ’کامیاب‘ کشمیری بھی ریڑھی لگانے پر مجبور", "firstPublished": "2020-08-10T09:25:57.000Z", "id": "d7436fc4-d042-4a36-b2aa-20b9b8de0061", "article": "اگر یہ کافی نہیں تھا تو اس سال کی بہار سے ہی کورونا کی وبا سے بچاؤ کے لیے لگائے گئے لاک ڈاؤن نے جہاں عالمی معیشت کو بُری طرح متاثر کیا تو وہیں کشمیر کے لوگ مزید محصور ہوگئے اور خوف کا عالم ہر بستی پر طاری رہا۔ تاجروں کی سب سے پُرانی انجمن کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (کے سی سی آئی) نے گذشتہ ایک سال کے دوران کشمیر کی معیشت کو ہونے والے نقصان کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق کشمیریوں کو مجموعی طور پر 400 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ یہاں کی دو تہائی آبادی کا انحصار باغبانی کی صنعت پر ہے لیکن پچھلے سال کشمیر میں اگنے والے سیب یا تو درختوں پر ہی سڑ گئے یا منڈیوں میں پہنچنے سے پہلے ہی قدغنوں کی وجہ سے ٹرکوں میں ضائع ہوگئے۔ دوسرے میوہ جات کا بھی یہی حال رہا۔ ’دُکاندار دکانیں بند کر کے سڑکوں پر ریڑی لگانے لگے اور سیاحوں پر منحصر ٹرانسپورٹر نکڑ پر چائے بیچ رہے ہیں۔' کے سی سی آئی کے صدر شیخ عاشق نے بی بی سی کو بتایا: ’سیاحت سے جُڑے 70 ہزار افراد بے روزگار ہوگئے اور یہی حال سبہی شعبوں کا ہے۔ ہم نے رپورٹ میں مستند اور محتاط اعدادوشمار شائع کئے ہیں جن کے مطابق کُل ملا کر پانچ لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔‘ شیخ عاشق کہتے ہیں کہ کشمیر میں بے روزگاری کے مسئلے کو روایتی معنوں میں نہیں لینا چاہیے۔ ’پڑھے لکھے نوجوانوں کے پاس سرکاری مواقع نہیں یا اُن کے پاس تجارت کے وسائل نہیں، یہ الگ مسئلہ ہے، اُس کو فی الحال رہنے دیجیے۔ ہمارے یہاں اس وقت سنگین مسئلہ یہ ہے کہ جس کے پاس نوکری تھی وہ چلی گئی، جس کی دُکان ہے وہ بند ہے، کارخانہ اور ہے تو اُس پر بھی تالا ہے۔ فوراً کچھ نہ کیا گیا تو لوگ سڑکوں پر آ جائیں گے۔‘ قابل ذکر ہے کہ جموں کشمیر میں سرکاری ملازمین کی تعداد دیگر بھارتی ریاستوں سے بہت زیادہ ہے۔ جموں کشمیر میں ایک لاکھ کروڑ روپے کے سالانہ بجٹ میں سے 38 ہزار کروڑ روپے ساڑھے چار لاکھ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن پر خرچ ہوتے ہیں۔ واضح رہے اس سال مارچ کے بعد لاک ڈاون سے بھارت میں پیدا شدہ صورتحال کے بعد خسارے سے دوچار تاجروں اور بے روزگار ہوچکے نوجوانوں کی امداد کے لئے وزیراعظم نریندر مودی نے 21 لاکھ کروڑ روپے کی سرکاری معاونت کا اعلان کیا۔ تاہم ' کے سی سی آئی' کے صدر شیخ عاشق کہتے ہیں : ''ایسا لگتا ہے کہ جموں کشمیر کو اس اعلان میں شمار ہی نہیں کیا گیا، حالانکہ ہم صرف لاک ڈاون سے نہیں بلکہ اُس اعلان سے بھی متاثر تھے جو یکطرفہ طور پر پچھلے سال پانچ اگست کو کیا گیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53648098", "summary": "پانچ اگست اس پاکستانی بینکار کا یومِ وفات ہے جس نے متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ زید بن سلطان النہیان کی مالی اعانت سے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل کے نام سے ایک عالمی بینک کے قیام کا ڈول ڈالا اور جس کا خواب تھا کہ وہ ورلڈ بینک کی طرز پر ایک عالمی اسلامی بینک قائم کریں۔", "title": "آغا حسن عابدی: ’عالمی اسلامی بینک‘ کے خواب سے بی سی سی آئی تک", "firstPublished": "2020-08-05T08:49:49.000Z", "id": "3afd8e3c-6832-4dfb-8f64-f3536f07de19", "article": "سہگل خاندان نے آغا حسن عابدی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور یوں سات نومبر 1959 کو یونائیٹڈ بینک کا قیام عمل میں آ گیا جس کے لیے سرمایہ سہگل خاندان نے فراہم کیا تھا اور اس کے پیچھے ذہن آغا حسن عابدی کا تھا۔ انھوں نے نو آزاد متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ زید بن سلطان النہیان کا اعتماد حاصل کیا اور ان کی مالی اعانت سے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل کے نام سے ایک عالمی بینک کے قیام کا ڈول ڈال دیا۔ اس بینک کو لکسمبرگ میں رجسٹر کروایا گیا تھا۔ آغا حسن عابدی کا خواب تھا کہ وہ ورلڈ بینک کے طرز پر ایک عالمی اسلامی بینک قائم کریں جس کے سرمایہ کار مسلمان ہوں۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ بینک کمزور مسلمان ممالک کو بہت کم شرح سود پر قرض دے کر انھیں معاشی طور پر مضبوط کرے اور تیسری دنیا کے محروم، پسماندہ اور کم مراعات یافتہ اقوام بھی ترقی یافتہ اقوام کے دوش بدوش آگے بڑھ کرسکیں۔ آغا حسن عابدی، شیخ زید بن سلطان النہیان کی اعانت سے اپنے بینک کو ترقی دیتے چلے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے 72 ممالک میں بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل (بی سی سی آئی) کی چار سو سے زیادہ شاخیں قائم ہو گئیں، اس کے ملازمین کی تعداد سولہ ہزار تک پہنچ گئی اور یہ دنیا کا ساتواں بڑا بینک بن گیا۔ آغا حسن عابدی نے سب سے پہلے تعلیم کے فروغ پر توجہ دی اور کراچی سے لے کر صوابی تک متعدد ادارے قائم کیے جن میں کورنگی اکیڈمی، فاسٹ یونیورسٹی اور غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سرفہرست تھے۔ بے گھر افراد کے لیے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ اور نادار فن کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے انفاق فاؤنڈیشن جیسے اداروں کا قیام ساری دنیا کے لیے حیران کن تھا۔ بی سی سی آئی نے صحت عامہ پر بھی خرچ کرنا شروع کیا اور کراچی میں ایس آئی یو ٹی اور لیڈی ڈفرن ہسپتال کو بھی خطیر عطیات سے نوازا۔ 'رسالے کے اندر بی سی سی آئی کے تعلق سے آغا حسن عابدی کے بارے میں چار صفحات کا طویل مضمون بھی درج تھا۔ مضمون کا فقرہ فقرہ حسد، رقابت، خوف اور نفرت کی بھٹی میں بجھا ہوا تھا، جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ صاحب مضمون کے مطابق بی سی سی آئی ایک ایسا بینک تھا جو خطرناک تیز رفتاری سے دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل رہا تھا۔' سنہ 1988 میں آغا حسن عابدی نے بیماری کے سبب بی سی سی آئی سے ازخود ریٹائرمنٹ لے لی اور پھر زمانے نے یہ بھی دیکھا کہ ان کے اس بینک پر پاکستان کے جوہری پروگرام اور فلسطینی حریت پسندوں کے لیے سرمایہ فراہم کرنے اور مختلف ممالک کے سابق سربراہان اور جرائم پیشہ افراد کا کالا دھن سفید کرنے سمیت بہت سے الزامات عائد کیے گئے اور آغا حسن عابدی دنیا بھر میں مطلوب ترین آدمی بن گئے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-53619697", "summary": "انڈیا میں لوگ سونے کی قیمت سے بخوبی واقف ہے۔ صدیوں سے یہاں گھروں کے ساتھ ساتھ مندروں نے اس قیمتی دھات کو جمع کرنے میں کافی دلچسپی دکھائی ہے۔", "title": "کورونا: انڈیا میں معاشی بحران میں سونے کی چمک میں اضافہ", "firstPublished": "2020-08-01T08:43:41.000Z", "id": "990df794-37cc-48a4-9f94-f982cb875dd3", "article": "انڈیا میں لوگ سونے کی قیمت سے بخوبی واقف ہے۔ صدیوں سے یہاں گھروں کے ساتھ ساتھ مندروں نے اس قیمتی دھات کو جمع کرنے میں کافی دلچسپی دکھائی ہے۔ اس کے نتائج میں سے ایک لیکویڈیٹی یعنی نقدی کی روانی میں کمی تھی۔ اور اسی لیے بہت سے شہریوں نے سرمایہ کاری کے طور پر سونے کی جانب رُخ کیا۔ ایسے وقت میں جب روایتی بینکوں سے قرضے حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، سونے کی قیمتوں میں اضافے نے ان قرضوں کی مقبولیت کو بڑھاوا دیا ہے۔ سونے کی قیمتوں میں رواں سال 28 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور اس کی قیمت فی 10 گرام 50 ہزار روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ دوسری یہ کہ دنیا بھر میں سٹاک مارکیٹس غیر مستحکم ہیں جس سے لوگ سونے میں سرمایہ کاری کرنے پر مجبور ہیں اور اس کی قیمت کو بڑھا رہے ہیں۔ اور متعدد ممالک میں سود کی شرح میں کمی کے سبب بینکوں میں رقم رکھنا فائدہ مند نہیں رہا ہے۔ اس سب سے سونے کی قیمت متاثر ہوئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے مہینوں میں اس کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا۔ انڈیا کے مغربی شہر پونے سے تعلق رکھنے والی دیشا دنیش پر اب ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے وبائی امراض کے دوران اپنے کاروبار کو جاری رکھنے کے لیے سونے کے قرض پر بھروسہ کیا ہے۔ انڈیا میں کسان بھی سونے کے قرضوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ مغربی ریاست مہاراشٹر کے ایک کسان ہوسی لال مالویہ نے اپنے کھیتوں میں بوائی شروع کرنے کے لیے پانچ ہزار ڈالر سے زیادہ کے سونے کے قرض لیے۔ لیکن بہت سے لوگوں کے لیے دونوں آپشنز میں سے سونے کے قرض تک رسائی زیادہ آسان ہے۔ اس کے لیے انھیں کم دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے۔ سونا اکثر اثاثے کے طور پر گھر کے ساتھ آسانی سے دستیاب ہوتا ہے اور فی الحال سونے کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے سونے کے قرض زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ باقاعدہ بینک جو سونے کے قرضوں میں مہارت رکھتے ہیں وہ اس موقع کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ فیڈرل بینک اور انڈین بینک میں بنیادی طور پر چھوٹے شہروں اور قصبوں میں سونے کے قرضوں کی طلب میں دس گنا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اور ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ سونے کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی سونے کے قرضوں میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔ مارچ میں لاک ڈاؤن سے پہلے یہ قیمت 38 ڈالر فی گرام تھی ابھی یہ فی گرام 44 ڈالر کے قریب ہے۔ لہذا سونے کے قرض میں مارچ سے اب تک سات ڈالر فی گرام اضافہ ہوا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53618110", "summary": "پاکستان میں تیل کی کمپنیاں وفاقی حکومت کے حکم کے مطابق آئندہ چند ماہ میں ایسا پٹرول اور ڈیزل درآمد کرنے سے ہچکچا کیوں رہی ہیں جو یورو 5 کے معیار پر پورا اترتا ہو۔", "title": "پاکستان میں تیل کمپنیوں کو صاف تیل بیچنے سے مسئلہ کیا ہے؟", "firstPublished": "2020-08-01T04:16:55.000Z", "id": "9b249d0b-ccec-46a3-b2ff-3debcda40a5d", "article": "پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک میں کام کرنے والی تیل کمپنیوں کو یکم ستمبر سنہ 2020 سے ایسا پٹرول اور یکم جنوری سنہ 2021 سے ایسا ڈیزل درآمد کرنے کا کہا ہے جو یورو 5 کے معیار پر پورا اترتا ہو۔ پاکستان میں اس وقت یورو 2 ڈیزل اور پٹرول درآمد اور مقامی طور پر پیدا کیے جارہے ہیں جن میں سلفر کی مقدار پانچ سو پی پی ایم ہے۔ حکومت کی جانب سے جس یورو 5 کی خصوصیت کے حامل پٹرول اور ڈیزل کے لیے تیل کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے اس میں سلفر کی مقدار دس پی پی ایم ہے جو نہ ہونے کے برابرہے۔ وفاقی حکومت کے ماتحت ڈائریکٹوریٹ جنرل آف آئل کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق تیل کمپنیاں ایسا ڈیزل اور پٹرول درآمد اور بیچنے کی پابند ہوں گی جس میں سلفر کی مقدار دس پی پی ایم سے زیادہ نہ ہو۔ پٹرول کے لیے اس پابندی کا اطلاق اس سال یکم ستمبر سے ہوگا جبکہ ڈیزل کے لیے اگلے سال یکم جنوری سے یہ حکم نافذ ہوگا۔ اس نوٹیفکیشن کے خلاف تیل کمپنیوں کی جانب سے مخالفت دیکھنے میں آرہی ہے اور ان کے نزدیک یہ فی الحال قابل عمل نہیں۔ تیل کے شعبے سے وابستہ افراد کے نزدیک یورو 5 معیار کا ڈیزل اور تیل اس وقت درآمد کرنا، بیچنا اور استعمال کرنا قابل عمل نہیں ہے۔ اس شبعے کے مطابق اس اقدام سے ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا تو دوسری جانب ملک میں گاڑیاں خصوصاً پرانی کاریں، ٹرک اور موٹو سائیکلیں اس قابل نہیں کہ وہ اس ایندھن پر چل سکیں۔ ان کے بقول مقامی ریفائنریوں میں بھی یورو 5 کی معیار کے تیل کے صاف کرنے کی صلاحیت نہیں جو ملک میں ان مصنوعات کی فراہمی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور نیا بحران جنم لے سکتا ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والی تیل کپنی حیسکول کے سابق سربراہ ممتاز حسن خان نے کہا یورو 5 معیار کے ڈیزل اور پٹرول کی درآمد سے ان کی قیمتوں سے سات سے آٹھ روپے کا اضافہ ہو گا۔ انھوں نے کہا اس کے ساتھ اس کی درآمد کے لیے اضافی ڈالر کی بھی ضرورت ہو گی۔ پاکستان ریفائنری کے زاہد میر کے مطابق یورو 5 معیار کا ڈیزل اور پٹرول صاف کرنے کے لیے درکار ٹیکنالوجی اور مشینری کے لیے بہت زیادہ سرمایہ درکار ہے جو حکومت کی مالی معاونت کے بغیر ممکن نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت ریفائنریاں کا مجموعی کاروبار نقصان میں چل رہا ہے۔ حکومت کو ماحول دوست ایندھن تیار کرانے کے لیے ریفائنریوں کی مدد کرنی پڑے گی۔۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53608651", "summary": "کیا یہ تاثر درست ہے کہ ’پنجاب میں نواز لیگ نے لاہور کو نوازا‘ اور ’پیپلز پارٹی نے کراچی میں اپنا سیاسی مفاد نہ دیکھتے ہوئے اسے نظر انداز کیا۔‘ جانیے کہ یہ تاثر کیوں ہے اور صوبائی سے ضلعی سطح تک پیسے کی فراہمی میں کیا مشکلات درپیش ہیں؟", "title": "پاکستان میں صوبے فنانس کمیشن کیوں نہیں بناتے اور اس کی اہمیت کیا ہے؟", "firstPublished": "2020-07-31T15:17:02.000Z", "id": "626a3c01-17c5-45a5-8ff2-3677f09ca957", "article": "نعیم الدین کہتے ہیں کہ جب کراچی کی ضلعی حکومت کے پاس ہی فنڈز نہیں ہوں گے تو یونین کونسل کی سطح پر فنڈز کی فراہمی تو ممکن ہی نہیں ہے۔ انھوں نے شکوہ کیا کہ صوبائی حکومت فنڈز اپنے پاس رکھنے کے باوجود خود یہ کام بھی نہیں کرتی۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس سلسلے میں بتایا کہ سب سے اہم چیز ’فِسکل ایکولائزیشن‘ ہے اور اس کے تحت وسائل کی تقسیم منصفانہ ہوتی ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ اس میں مخلتف عوامل کو مد نظر رکھا جاتا ہے کہ وسائل کی تقسیم میں جو علاقہ زیادہ وسائل پیدا کرتا ہے اسے زیادہ حصہ دیا جائے تو جو سب سے پسماندہ ہے اس کا بھی خیال رکھا جائے، جیسے نینشل فنانس کمیشن میں بلوچستان کو اپنی پسماندگی کی وجہ سے اپنے پیدا کردہ وسائل سے کچھ حصہ زیادہ دیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ صوبہ سندھ میں کراچی صوبائی خزانے میں 90 فیصد سے زیادہ وسائل ڈالتا ہے تو اسے صوبے سے اضلاع کی سطح پر وسائل کی منصفانہ تقسیم میں زیادہ حصہ ملنا چاہیے، اسی طرح ایک ایسا ضلع جو پسماندہ ہو اس کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ وہاں بھی ترقی ہو سکے۔ انھوں نے کہا کہ صوبوں میں فنانس کمیشن کے فعال نہ ہونے کی وجہ سے سندھ میں کراچی صوبائی خزانے میں نوے فیصد حصہ ڈالنے کے باوجود شکایت کرتا ہے کہ اسے اس کا حق نہیں دیا جاتا۔ دوسری جانب پنجاب میں جنوبی حصہ صوبے کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں پیچھے رہ گیا تو اسی طرح خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ سے ترقی میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’پنجاب میں نواز لیگ نے لاہور کو نوازا‘ کیونکہ ان کے سیاسی مفادات اس شہر سے جڑے ہیں تو دوسری جانب ’پیپلز پارٹی نے کراچی میں اپنا سیاسی مفاد نہ دیکھتے ہوئے اسے نظر انداز کیا۔‘ صوبائی حکومت کی جانب سے وسائل کی فراہمی میں رکاوٹ اور مقامی سطح پر ٹیکس اکٹھا کرنے سے محرومی نے مقامی حکومتوں کو مالی مشکلات کا شکار کر رکھا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آکٹرائے ٹیکس سے کراچی کو معقول ٹیکس وصول ہوتا تھا اور اس کے ختم کرتے وقت یہ طے ہوا تھا کہ سیلز ٹیکس کی مد میں وصول ہونے والے ٹیکس سے اس کمی کو پورا کیا جائے گا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا جو ایک افسوسناک صورتحال ہے۔ مزمل اسلم نے کہا کہ مقامی سطح پر کام کرنے والے کونسلر کو مسائل کا صحیح پتا ہوتا ہے لیکن جب وہ وسائل سے محروم ہوں تو وہ مسائل کیسے حل کریں۔ انھوں نے کہا کہ پورے ملک اور خاص کر بڑے شہروں میں بڑھتے ہوئے شہری مسائل اس کا واضح ثبوت ہیں کہ صوبائی فنانس کمیشن ’نہ بننے کی وجہ سے مقامی سطح پر وسائل کی تقسیم منصفانہ نہیں ہو رہی‘۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-53502407", "summary": "برطانیہ اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کی بنیاد جوہری توانائی کے منصوبے، غیر ملکی طلبہ اور تجارت پر قائم ہے اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان معاشی تعلقات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔", "title": "برطانیہ اور چین کے معاشی تعلقات کتنے گہرے ہیں؟", "firstPublished": "2020-07-24T02:03:49.000Z", "id": "d4b71d71-56eb-4dfe-a18f-7b14d720aa93", "article": "گزشتہ دو دہائیوں کے دوران برطانیہ اور چین کے درمیان معاشی تعلقات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ سنہ 1999 میں چین برطانوی منصوعات درآمد کرنے والا چھبیسواں بڑا ملک تھا جو کہ اب چھٹے نمر پر آ گیا ہے۔ برطانیہ کے چینی کمپنی ہواوے کے فائیو جی نیٹ ورک کے منصوبے پر یوٹرن کے بعد لندن اور بیجنگ کے تعلقات میں تناؤ آ گیا ہے اور جن تعلقات کا دونوں ملکوں کو فائدہ ہوا وہ اب خطرے سے دو چار ہیں۔ قومی اعدادوشمار کے دفتر کے مطابق گزشتہ سال برطانیہ نے چین کو 39 ارب ڈالر سے زیادہ کی برآمدات کیں اور اس طرح چین برطانوی مصنوعات کے لیے چھٹی بڑی مارکیٹ بن گیا۔ یہ ریکارڈ برآمدات تھیں۔ سنہ 2018 میں برطانیہ نے چین کو تقریباً 30 ارب ڈالر کی برآمدات کی تھیں۔ برطانیہ چینی مصنوعات کے لیے بھی بڑا درآمد کنندہ ہے اور گزشتہ برس 62 ارب ڈالر سے زیادہ کی درآمدات کی گئیں۔ یہ بھی ریکارڈ اضافہ ہے۔ بیجنگ میں ماہر لیزلی ینگ کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی کشیدگی کا اثر دو طرفہ تجارت پر نہیں پڑے گا۔ ان کے مطابق ’برطانیہ اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا تناؤ اقتصادیات پر اثر انداز نہیں ہو گا۔ البتہ برطانیہ میں اعلٰی تعلیم کا شعبہ اور برطانیہ کا چینی کمپنیوں کے لیے تجارتی مرکز بننا متاثر ہو گا۔‘ چین برطانیہ کے انفراسٹرکچر، بشمول جوہری توانائی کے منصوبوں کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ سمرسیٹ کاؤنٹی میں 25 ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والے ہیکنی پوئنٹ نیوکلیئر پاور سٹیشن میں چینی کمپنی جنرل نیوکلیئر پاور نے بھی سرمایہ کاری کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر چین اپنے طلبہ کے برطانیہ جانے پر پابندی لگا دے تو برطانوی جامعات کو مالی مشکل کا سامنا کرنا پڑا گا تاہم برٹش کونسل کا کہنا ہے کہ سیاسی تعلقات میں وقتی تناؤ کا اثر تعلیم کے شعبے پر نہیں پڑے گا۔ ہواوے ہی سب سے زیادہ زیر بحث رہنے والی کمپنی ہے مگر اس کے علاوہ اس شعبے میں دوسری کمپنیاں بھی ہیں جن کے تعلقات چین اور برطانیہ سے ہیں۔ اگرچہ سرمایہ کاری کا زیادہ بہاؤ چین سے برطانیہ میں ہوا ہے مگر بعض برطانوی کمپنیاں بھی ہیں جو 1.4 ارب آبادی والے چین میں کاروبار کر رہی ہیں جہاں لوگوں کے پاس خرچ کرنے کو پیسہ ہے۔ ان کا کہنا تھا ’ہمیں توقع ہے کہ برطانوی کار سازوں کو، جو چین میں گاڑیاں درآمد کرتے ہیں اور مقامی طور پر بھی تیار کرتے ہیں، برطانوی حکومت کے فیصلوں کی وجہ سے نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔‘ مگر سٹیون لِنچ کا کہنا ہے ’سیاسی کشیدگی کے بڑھتے ہوئے ماحول کے باوجود آنے والے مہینوں کے دوران دونوں ملک ٹھوس تجارتی اور سرمایہ کارانہ تعلقات برقرار رکھ سکیں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-53504244", "summary": "امریکہ نے چین سے کہا ہے کہ وہ ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں اپنا قونصل خانہ بند کر دے۔ چین نے اس فیصلے کو 'اشتعال انگیز اور بلا جواز' قرار دیتے ہوئے جوابی اقدام کی دھمکی ہے۔", "title": "امریکہ کا چینی قونصل خانہ بند کرنے کا فیصلہ، دونوں ممالک میں کشیدگی میں اضافہ", "firstPublished": "2020-07-22T15:42:48.000Z", "id": "77252ed4-37aa-44f1-9390-b3da115d6840", "article": "امریکہ نے چین سے کہا ہے کہ وہ ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں اپنا قونصل خانہ بند کر دے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اسے اس فیصلے پر چینی سیاسی اقدامات نے اکسایا ہے۔ تاہم چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وینگ وینبن نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ 'اشتعال انگیز اور بلا جواز' ہے۔ منگل کو امریکہ کے محکمۂ انصاف نے چین پر الزام لگایا تھا کہ وہ اُن ہیکروں کی مدد کر رہا ہے جو ایسی امریکی لیباریٹریوں پر حملے کر رہے ہیں جہاں کووڈ 19 کی ویکسین تیار کی جا رہی ہے۔ امریکہ میں دو چینی باشندوں پر فردِ جرم بھی عائد کی گئی ہے جنھوں نے مبینہ طور پر امریکہ کی تحقیقی کمپنیوں کی جاسوسی کی اور جنھیں دوسری وارداتوں میں چینی ایجنٹوں کی مدد حاصل تھی۔ امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان مورگن اورٹیگس نے کہا کہ 'امریکی کی انٹیلیکچؤل پراپرٹی اور امریکیوں کی نجی معلومات کے تحافظ کے لیے ہم نے ہیوسٹن میں چین کے قونصل خانے کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔' چین کے اس فیصلے کو غیر معمولی اور ایسا فیصلہ قرار دیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ چین کا کہنا ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ چینی ترجمان وینگ وینبن نے مزید کہا کہ بدنامی اور بلاجواز حملوں کے ذریعے امریکہ سارا الزام چین پر ڈالنا چاہتا ہے۔ وینگ وینبن نے کہا کہ اگر چینی اور امریکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی تعداد اور ان میں کام کرنے والے اہلکاروں کی تعداد کے لحاظ سے دیکھا جائے تو چین میں زیادہ امریکی لوگ کام کر رہے ہیں۔ چین کے سرکاری میڈیا گلوبل ٹائمز نے ایک عوامی سروے شروع کیا ہے کہ چین میں کس امریکی قونصل خانے کو بند کیا جائے۔ چینی قونصل خانے کی بندش کا فیصلہ امریکہ کی جانب سے دو چینی شہریوں پر فردِ جرم عائد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے جن پر امریکہ میں کورونا وائرس کی ویکسین کی تحقیق کی جاسوسی کا الزام ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے یہ کام چین کی سکیورٹی اداروں کے لیے کیا۔ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ لوگ کوڑے دانوں میں کاغذات پھینک رہے ہیں۔ یہ نہیں معلوم کہ وہ کون تھے۔ اس کے بعد کچھ لوگوں کی فلم بنائی گئی جو کوڑے دانوں میں پانی ڈال رہے تھے۔ منگل کی شام کو ایمرجنسی سروس کو بلایا گیا۔ تاہم ہیوسٹن کی پولیس نے ٹویٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ پولیس اہلکاروں کو عمارت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی لیکن انھوں نے دھواں دیکھا تھا۔ وینگ وینبن نے اس آگ کے بارے میں براہ راست کوئی بات نہیں کی اور صرف یہ کہا کہ قونصل خانہ معمول کے مطابق کام کر رہا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-47897372", "summary": "معاشی مشکلات میں گھرے ہوئے پاکستان میں آج کل پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل محمد ایوب کے دور کو بہت یاد کیا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟", "title": "ایوب خان کا دور ترقی کی علامت یا ناہمواری کی نشانی؟", "firstPublished": "2019-04-12T03:32:22.000Z", "id": "3d675299-0e87-9545-a30b-966547112e41", "article": "معاشی مشکلات میں گھرے ہوئے پاکستان میں آج کل پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل محمد ایوب کے دور کو بہت یاد کیا جاتا ہے۔ سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے بعد موجودہ وزیر اعظم عمران خان کئی بار اپنے انٹریوز میں ایوب دور میں ہونے والی اقتصادی ترقی کی تعریف کرتے ہوئے کہ چکے ہیں کہ اگر ایوب خان کے دور سے شروع ہونے والا ترقی کا سفر جاری رہتا تو آج پاکستان ترقی یافتہ ممالک میں نمایاں مقام حاصل کر چکا ہوتا۔ لاہور کے انتہائی مراعات یافتہ طبقوں میں پرورش پانے والے عمران خان پاکستان میں ترقی کو ایوب خان کے دور سے منسلک کر دیتے ہیں: محمد ضیاالدین ’ایوب خان کو اپنی حکومت کو برقرار رکھنےکے لیے جاگیرداروں اور کاروباری لوگوں کی حمایت چاہیے تھے۔ اسی زمانے میں کرپشن بھی بہت شروع ہو گئی۔ ان کے صاحبزادے گوہر ایوب گندھارا انڈسٹری کے مالک بن گئے۔ پھر انتخابات میں فاطمہ جناح کو جس طریقے سے ہرایا گیا وہ سب کو معلوم ہے۔ جو موجودہ دور کی خرابیاں ہیں یہ سب ایوب خان کے دورسےشروع ہو گئی تھیں۔‘ ’نہیں ہرگز نہیں۔ ساری دنیا میں اسی ماڈل پر ہی تو تنقید ہو رہی ہے۔ ابھی حال ہی تھامس پکٹی نے اپنی کتاب ’کیپٹل‘ میں سرمایہ داری نظام کا ایک سو سالہ اعداد و شمار کا جائزہ لے کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس سے دنیا میں معاشی ناہمواری بڑھی ہے اور دنیا کی ستر، اسی فیصد دولت صرف باسٹھ لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد درمیانی طبقے کو جو فاہدہ ہوا تھا وہ تھیچر اور رونلڈ ریگن کے دور میں ختم ہو گیا ہے۔ وہ تمام کام جو پہلے ریاست کی ذمہ داری ہوتی تھی وہ پرائیوٹ سیکٹر کو دے دیئے گئے۔ اتنی دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہونے کے بعد دولت مندوں نے بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کو خرید لیا ہے۔ سابق فوجی حکمران پرویز مشرف ایوب خان کے دور میں ہونے والی ترقی کے بہت معترف تھے ’دراصل پاکستان کی فوج ایوب خان کے دور کو بہت اچھا سمجھتی ہے ۔ میں نے پہلی دفعہ جنرل پرویز مشرف کے منہ سے ایوب خان کے دور کی تعریف سنی۔ پھر عمران خان کی تاریخ بھی اپنی مرضی کی ہے۔ عمران خان کا بچپن اور جوانی لاہور کے بہت ہی امیر علاقوں میں گذرا ہے۔ عمران خان بغیر تاریخ پڑھے پاکستان میں ترقی کو ایوب خان کے دور سے منسلک کر دیتے ہیں۔‘ ’اسی طرح پاکستان کی فوج کی ادارہ جاتی یاداشت بھی اپنی ضرورت کے مطابق ہے۔ وہ صرف قرار داد مقاصد کو یاد رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ محمد علی جناح کی گیارہ اگست 1947کی تقریر کو بھول جانا چاہتے ہیں کیونکہ اس سے ان کے اپنے مفادات پر زد پڑتی ہے لیکن قرار مقاصد میں ان کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے اسی لیے ضیاالحق نے قرار داد مقاصد کو آئین کا حصہ بنا دیا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53497571", "summary": "فاقی حکومت نے دسویں فنانس کمیشن سے وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ حفیظ شیخ کو ہٹاتے ہوئے فنانس ڈویژن کی جانب سے نیشنل فنانس کمیشن کے اراکین اور تشکیل کے حوالے سے ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔", "title": "حکومت نے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو این ایف سی کمیشن سے ہٹا دیا", "firstPublished": "2020-07-22T12:48:56.000Z", "id": "9560d70b-4397-49b8-a02f-7a5e2eeb1032", "article": "وفاقی حکومت نے دسویں فنانس کمیشن سے وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ حفیظ شیخ کو ہٹا دیا ہے اور فنانس ڈویژن کی جانب سے نیشنل فنانس کمیشن کے اراکین اور تشکیل کے حوالے سے ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ن کے رکن اور سابق وزیر دفاع خرم دستگیر نے رواں برس مئی کے وسط میں مشیر برائے خزانہ حفیظ شیخ کی بطور رکن نیشنل فنانس بل تقرری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا تھا۔ اس حوالے سے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عابد سلہری نے ٹویٹ بھی کیا تھا جس میں انھوں نے حکومت کی جانب سے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو ہٹائے جانے کے متعلق بات کی تھی۔ خیال رہے کہ اس سے قبل بلوچستان کے سینئر وکلاء کی جانب سے دسویں این ایف سی ایوارڈ کے لیے قائم کیے جانے والے کمیشن میں رکن کی حیثیت سے حفیظ شیخ کو شامل کرنے کے صدارتی حکم نامے کو بلوچستان ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا تھا۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے اس آئینی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) میں مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو شامل کرنے کے اقدام کو غیرآئینی قرار دیا تھا۔ فنانس ڈویژن کی جانب سے جاری کیا گیا نیا نوٹیفکیشن اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کی درخواست جبکہ بلوچستان میں وکلا کی درخواستوں میں آئندہ ایوارڈ کے لیے قائم کمیشن اور اس کے ٹرمز آف ریفرینس کو چیلنج کیا گیا تھا۔ درخواستوں میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 160کے تحت وفاقی وزیر خزانہ وفاق کی جانب سے نیشنل فنانس کمیشن کا رکن ہوتا ہے اور وہی کمیشن کے اجلاسوں کی صدارت کرتا ہے۔ درخواست گزاروں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اس وقت کوئی وفاقی وزیر خزانہ نہیں بلکہ یہ قلمدان وزیر اعظم کے پاس ہے۔ صدر مملکت نے کمیشن میں وفاقی وزیر خزانہ کی بجائے مشیر خزانہ کو کمیشن میں شامل کیا ہے اور اس حوالے سے نوٹیفیکیشن کے مطابق وہ کمیشن کے اجلاسوں کی صدارت بھی کرے گے۔ انھوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ صدر مملکت نے دسویں نیشنل فنانس کمیشن کے قیام اور اس کے لیے لوگوں کی تقرری سے متعلق جو نوٹیفیکیشن جاری کیئے ہیں وہ آئین کے مطابق ہیں۔ بلوچستان ہائیکورٹ نے آئینی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے این ایف سی ایوارڈ کے لیے قائم کمیشن میں حفیظ شیخ کو بطور رکن، وفاقی سیکریٹری فنانس کو بطور فنانشل ایکسپرٹ شامل کرنے اور کیمشن کے ٹرمز آف ریفرینس کی حد تک صدر مملکت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا تھا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے رواں برس اپریل کے اواخر میں نیشنل فنانس بل کے 11 اراکین کا اعلان کیا گیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-53482887", "summary": "دنیا بھر کے ممالک میں مالی امداد اور کاروباری مقاصد کے لیے دیے گئے قرض ہمیشہ سے خارجہ پالیسی کا حصہ رہے ہیں لیکن جب چین کی بات ہوتی ہے تو لفظ ’ڈِیٹ ڈپلومیسی‘ یعنی قرض کی سفارتکاری کا ذکر ہوتا ہے۔", "title": "ترقی پذیر ممالک چین کے ’قرض کے جال‘ میں", "firstPublished": "2020-07-22T04:09:08.000Z", "id": "5b2ae787-2d5e-4c5e-8b28-d95055bba1bb", "article": "دنیا بھر کے ممالک میں مالی امداد اور کاروباری مقاصد کے لیے دیے گئے قرض ہمیشہ سے خارجہ پالیسی کا حصہ رہے ہیں۔ لیکن جب چین کی بات ہوتی ہے تو لفظ ’ڈِیٹ ڈپلومیسی‘ یعنی قرض کی سفارتکاری کا ذکر ہوتا ہے۔ اس ’ڈِیٹ ڈپلومیسی‘ کے بارے میں جرمنی کے کیئل انسٹیٹیوٹ برائے عالمی معیشت کے ماہر معاشیات کرسٹوف ٹریبیش کا کہنا ہے کہ ’چین ترقی پذیر ممالک کو جو قرضے دیتا ہے اس میں سے نصف حصہ مخفی یا پوشیدہ قرض ہوتا ہے۔‘ ٹریبیش، کارمین رین ہارٹ اور سیبسٹیئن ہورن کی تحقیقات میں سامنے آنے والے نتائج کا یہ ایک حصہ ہے۔ اس ٹیم نے سنہ 1949 سے 2017 کے درمیان چین کی طرف سے دیے جانے والے 5000 قرضوں کا تجزیہ کیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟ ان ترقی پذیر ممالک میں چین نے اپنی جڑوں کو مضبوط کیا ہے اور یہ کام سرکاری اور نجی شعبے کو دیے جانے والے لاکھوں کروڑوں ڈالر کے قرض کے ذریعے کیا گیا ہے۔ اگر چین سے سب سے زیادہ قرض لینے والے 50 ممالک کے بارے میں بات کریں تو تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان ممالک میں اوسط قرض وہاں کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے 15 فیصد سے زیادہ ہوچکا ہے۔ اس معاملے میں صرف سنہ 2016 تک کے اعداد و شمار دستیاب ہیں۔ براہ راست قرضوں کا زیادہ تر حصہ چینی حکومت کے زیر کنٹرول دو اداروں کے ذریعے فراہم کیا گیا ہے۔ یہ ادارے چائنا ڈویلپمنٹ بینک اور ایکزم بینک آف چائنا ہیں۔ لیکن ایسے بھی بہت سارے بالواسطہ انتظامات بھی ہیں جن کے ذریعے چین دوسرے ممالک کو قرض کی رقم مہیا کرتا ہے۔ زیادہ تر قرض حکومت کے زیر کنٹرول یونٹوں کے لیے دیے جاتے ہیں اور ان سے متفید ہونے والی بھی عام طور پر ایسی کمپنیاں ہوتی ہیں جو ملک کی ملکیت ہوتی ہیں۔ سنہ 2018 کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے اس تحقیق میں یہ پیش کیا گیا ہے کہ چین کا باقی دنیا (ترقی یافتہ ممالک سمیت) پر پانچ لاکھ کرور ڈالر سے زیادہ کا قرضہ ہے۔ یہ تعداد دنیا کی جی ڈی پی کا تقریبا چھ فیصد کے برابر ہے۔ 20 سال پہلے یہ قرض جی ڈی پی کا صرف ایک فیصد ہوا کرتا تھا۔ اگر ہم چین کے سب سے زیادہ 50 مقروض ممالک کے بارے میں بات کریں تو ان ممالک پر اوسط قرض جو سنہ 2005 میں عالمی جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم تھا وہ سنہ 2017 میں بڑھ کر جی ڈی پی کے 15 فیصد سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔ دوسرے زاویہ سے دیکھیں تو اس گروپ کا 40 فیصد بیرونی قرض (ایکسٹرنل ڈیٹ) چین سے حاصل ہوتا ہے۔ اس گروپ میں چین سے سب سے زیادہ قرض لینے والوں میں لاطینی امریکہ کے تین ممالک، وینزویلا، ایکواڈور اور بولیویا شامل ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53464421", "summary": "پاکستانی حکام کے مطابق چین کے ساتھ سی پیک منصوبوں میں مسائل سامنے آنے کے بعد چین کی خواہش پر سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ حکام کے مطابق چین نے پاکستان کو بتایا کہ وہ سی پیک کے تحت منصوبوں پر پیش رفت سے مطمئن نہیں ہیں۔", "title": "’سی پیک اتھارٹی کا قیام چین کی خواہش پر عمل میں لایا گیا‘", "firstPublished": "2020-07-20T12:52:48.000Z", "id": "c6a2eaa7-804c-4bb5-9722-168a24f4f919", "article": "بی بی سی نے اس حوالے سے حقائق جانچنے کے لیے پلاننگ کمشن، وزارت منصوبہ بندی اور سی پیک اتھارٹی کے حکام سے رابطہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آخر سی پیک اتھارٹی کو کون سے اختیارات دیے جا رہے ہیں، اس میں چین کو کیسے شامل کیا جا رہا ہے اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ پاکستانی حکام کے مطابق سی پیک منصوبوں میں مسائل سامنے آنے کے بعد چین کی خواہش پر سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ حکام کے مطابق چین نے پاکستان کو بتایا کہ وہ سی پیک کے تحت منصوبوں پر پیش رفت سے مطمئن نہیں ہے۔ سی پیک اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) زکریا علی شاہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ چین کی حکومت نے یہ محسوس کیا کہ منصوبوں کی کوآرڈینشین صحیح طریقے سے نہیں ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق ان منصوبوں میں مانیٹرنگ کے مسائل بھی آ رہے تھے۔ جس کے بعد سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ تجویز کے مطابق سی پیک منصوبوں پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس کی سربراہی مشترکہ طور پر پاکستان کی سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین اور چین کے نیشنل ڈیویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن کے وائس چئیرمین کریں گے۔ پاکستانی حکام کے مطابق سی پیک کے منصوبے التوا کا شکار ہیں۔ یہ التوا کچھ مسائل سامنے آنے کی وجہ سے ہوا۔ حکام نے ان مسائل کی تفصیلات شیئر نہیں کی ہیں۔ تاہم حکام اس کی وجہ کچھ انتظامی اور ضابطے کی رکاوٹوں کو قرار دیتے ہیں۔ خیال رہے کہ چین کے ساتھ پاکستان نے سی پیک کا معاہدہ مسلم لیگ نواز کی گذشتہ حکومت کے دور میں کیا تھا مگر سی پیک اتھارٹی جیسے کسی ادارے کو ان معاہدوں کی نگرانی نہیں دی گئی تھی۔ زکریا علی شاہ کے مطابق صدارتی آرڈیننس سی پیک اتھارٹی کو وہ اختیارات نہیں دے رہا تھا جس کے تحت یہ اپنے قیام کے مقاصد کو بطور احسن انجام دے پاتی۔ لہٰذا وزیر اعظم نے پلاننگ کمشن کے ڈپٹی چیئرمین کو یہ ٹاسک سونپا کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر اس اتھارٹی سے متعلق تجاویز (قانون سازی سے متعلق سفارشات) تیار کریں۔ ذرائع کے مطابق ابھی صوبوں نے اس اتھارٹی کے صوبائی دفاتر کے قیام پر متفق نہیں ہیں۔ تاہم مجوزہ قانون سازی میں صوبائی حکومتوں کے تحت اداروں کو اس اتھارٹی سے تعاون کا پابند بنایا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزارت منصوبہ بندی کے تحت کام کرنے والی اتھارٹیز زیادہ با اختیار ہیں اور ان کے کام میں وزارت کا زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا۔ انھوں نے اس حوالے سے ادارہ شماریات اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلمپنٹ اکنامکس کی مثال دی کہ وہ اپنے معاملات کو آگے بڑھانے میں آزاد ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-53464794", "summary": "تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خلیجی ریاستوں نے اپنے شہریوں کے بلند معیارِ زندگی کی خاطر اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں لیکن اس کا انحصار تیل کی دولت پر تھا اور تیل کی قیمتوں میں کمی نے ان معیشتوں کو زک پہنچائی ہے۔", "title": "کورونا کے باعث امیر عرب ریاستیں قرض لینے کے دہانے پر کیسے پہنچیں؟", "firstPublished": "2020-07-20T04:22:47.000Z", "id": "25d4a0df-31de-48f0-9d2f-1c1de1478409", "article": "سنیئر صحافی اور تجزیہ کار راشد حسین کا کہتے ہیں کہ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ عرب ممالک کی آمدن کا زیادہ تر انحصار تیل پر ہوتا ہے لیکن اس وقت تیل ماضی کے مقابلے میں تقریباً نصف قیمت پر آ چکا ہے اور اس میں مزید کمی کا امکان ہے۔ وہ کہتے ہیں ’کویت اور سعودی عرب جیسے ممالک میں جہاں بادشاہت ہے وہاں اقتدار کی بقا اس وعدے پر ہے کہ وہ عوام کی ضرورتوں کو پورا کریں گے۔ لیکن اس وقت تیل کی قیمتوں کے حالات کو دیکھا جائے تو یہ وعدہ زیادہ دیر تک وفا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی مثال لیں تو اس کا سالانہ خرچ 300 ارب ڈالر کے قریب ہے، جبکہ آمدن میں تیل سے 150 ارب ڈالر کے قریب ہے، اقاموں اور ٹیکسز سے 20 ارب ڈالر تک آتا ہے، اور حج سے بھی 10 یا 20 ارب ڈالر حاصل ہو جاتے ہیں، جو اس سال حاصل نہیں ہوں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’آج اگر قرض کی رقم جی ڈی پی کا ایک فیصد ہے تو کل یہ دو اور پھر دس فیصد اور بعض معاملات میں تو 100 فیصد تک چلا جاتا ہے۔ یہ ایسا کمبل ہے کہ ایک بار اوڑھ لیں تو اس سے جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے اور عین ممکن ہے کہ ایک دن یہ ممالک بھی وہیں کھڑے ہوں جہاں آج پاکستان اور اس جیسے ممالک ہیں۔‘ صحافی راشد حسین کا کہنا ہے کہ ’کویت ایک ٹیکس فری معاشرہ تھا، وہاں کام کرنے کے لیے غیر ملکیوں پر انحصار کیا جاتا رہا ہے، لیکن اپنی عوام کو ہمیشہ بلند معیار زندگی فراہم کیا گیا۔ اب جبکہ تیل یہ ضرورت پوری نہیں کر سکتا تو لوگوں کی ضروریات کے لیے قرض لینا پڑے گا جو یہ ممالک کسی اور سے لیں گے۔‘ راشد حسین بتاتے کہ ’کئی ریاستوں میں برسوں پرانے اقتدار کا تختہ الٹے والی عرب بہار کے خلیجی ریاستوں کے ساحلوں تک نہ پہنچنے کی وجہ یہی تھی کہ یہاں حکومتوں نے لوگوں پر اربوں ڈالر خرچ کر کے ان کی شکایات کو دبا دیا تھا۔ لیکن اب اس قسم کی بغاوت یا تحریک کی صورت میں حکومتوں کے پاس اسے دبانے کے لیے اتنے وسائل نہیں ہوں گے۔‘ 34 سال کی عمر میں شہزادہ محمد بن سلمان ناقابل تسخیر دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں اپنے 84 سالہ والد شاہ سلمان کی حمایت حاصل ہے۔ معمر اور قدامت پسند سعودیوں میں بدگمانیاں ہیں کہ ایم بی ایس کی غیر روایتی پالیسیاں ملک کو ایک خطرناک راہ پر لے جا رہی ہیں لیکن 'خوف کی فضا' کی وجہ سے کوئی بھی اس پر بات کرکے گرفتاری کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-53430946", "summary": "بدھ کے روز جاری ہونے والے اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اپریل سے جون کے مہینوں کے دوران چین کے جی ڈی پی کی شرح نمو میں بہتری آئی ہے۔ مئی میں چین نے کہا تھا کہ وہ سنہ 2020 کے لیے معاشی ترقی کا کوئی ہدف طے نہیں کرے گا کیونکہ اس برس کورونا وائرس کے وبائی مرض سے نمٹا گیا ہے۔", "title": "چین کی معیشت برے دور کے بعد بہتری کی جانب گامزن", "firstPublished": "2020-07-16T14:00:15.000Z", "id": "5c3c0fe4-daa5-424c-a2a6-1fd8ef79c017", "article": "چین کی معیشت میں ریکارڈ کمی کے بعد دوسری سہہ ماہی میں 3.2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت کو اس سال کے پہلے تین مہینوں میں کورونا وائرس کی وجہ سے شدید تنزلی کا سامنا تھا۔ لیکن بدھ کے روز جاری ہونے والے اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اپریل سے جون کے مہینوں کے دوران چین کی مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی) میں بہتری آئی ہے۔ چین کی معیشت کے دوبارہ متحرک ہونے کے بعد ان اعداد و شمار کو دنیا بھر میں انتہائی باریکی سے دیکھا جا رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار ماہرین کی پیشینگوئی سے زیادہ ہیں اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ چین تکنیکی اعتبار سے مندی میں جانے سے بچ گیا ہے، جس کی نشاندہی مسلسل دو ادوار میں پیداوار کی منفی شرح سے ہوتی ہے۔ چین میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے پیش نظر لگائی گئی سخت پابندیوں کی وجہ سے فیکٹریاں اور کاروبار بند کر دیے گئے تھے۔ اب حکومت معیشت کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس میں نرمی جیسے اقدامات کر رہی ہے۔ چینی معیشت لاک ڈاؤن سے باہر آنے کے بعد توقع سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکام کے اعلان کردہ تمام اقدامات فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیں۔ فیکٹریوں میں بڑھتا کام، صنعتی پیداوار کے اعداد و شمار میں اضافے کا واضح ثبوت ہے۔ لیکن ایک ایسا شعبہ جو اتنی تیزی سے بحال نہیں ہوا، جتنی امید کی جا رہی تھی، وہ خرید و فروخت کا ہے۔ یہ شعبہ دوسری سہہ ماہی کے دوران بھی تنزلی کا شکار ہے اور لوگوں کا دوبارہ پیسے خرچ کرنا ایک چیلنج ہی رہے گا۔ اور اب جب چین میں معیشت بحال ہونے لگی ہے تو ہانگ کانگ کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ تناؤ بھی بڑھنے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ ماہر معاشیات اسے ’وی ریکوری‘ کہنے میں ہچکچا رہے ہیں۔ ڈوئچے بینک کے ایک تحقیقاتی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ’وی ریکوری‘(تیزی سے کمی کے بعد تیزی سے بحالی) کو 'بڑے پیمانے پر مکمل کر لیا گیا ہے۔ اس نوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’صارفین کی طرف سے پیسہ خرچ کرنے کی سطح اب بھی کووڈ 19 سے پہلے کے وقت سے کم ہے لیکن یہ بڑا خلا، سیاحت اور کھانے پینے جیسے کچھ سیکٹرز کے گرد مرکوز ہے، جہاں تیزی سے بہتری آنے کا امکان نہیں۔‘ مئی میں چین نے کہا تھا کہ وہ سنہ 2020 کے لیے معاشی ترقی کا کوئی ہدف طے نہیں کرے گا کیونکہ اس برس کورونا وائرس کے وبائی مرض سے نمٹا گیا ہے۔ یہ سنہ 1990 کے بعد پہلی بار ہے کہ بیجنگ نے جی ڈی پی کی شرح نمو کا کوئی ہدف نہیں رکھا۔ چین کے قومی ادارہ برائے شماریات کے مطابق اس برس کے پہلے چھ ماہ میں ملک کی معیشت 1.6 فیصد تک گر گئی تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-53426816", "summary": "اس بل کو کویت کی قومی اسملبی کی قانون ساز کمیٹی نے منظور کیا ہے لیکن اس کو قانون بننے کے لیے حکومت کی منظوری درکار ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو آٹھ لاکھ انڈین شہریوں کو کویت چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔", "title": "کویت میں تارکین وطن کا مجوزہ قانون انڈین شہریوں کی پریشانی کا باعث کیوں ہے؟", "firstPublished": "2020-07-16T10:28:55.000Z", "id": "e14441d8-6167-4306-814d-2ddc44aa60eb", "article": "اس مجوزہ قانون کو کویت کی قومی اسملبی کی قانون ساز کمیٹی نے منظور کیا ہے لیکن اس کو مکمل قانون بننے کے لیے حکومت کی منظوری درکار ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پراتک دیسائی سمیت آٹھ لاکھ انڈین شہریوں کو کویت چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔ انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان انو راگ سریوستوا نے کہا ہے کہ ’کویت اور خلیجی خطے میں انڈین برادری کو نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ ان کے کام کو بھی سراہا جاتا ہے۔ اس بل کے حوالے سے ہم نے اپنی امیدوں کا اظہار کیا ہے اور کویت اپنے فیصلے میں ان کا خیال رکھے گا۔‘ تقریباً تین لاکھ انڈین شہری کویت میں بحیثیت ڈرائیور، باورچی اور گھریلو ملازم کام کرتے ہیں۔ اور بہت سے افراد کا کہنا ہے کہ مقامی طور پر ان آسامیوں کو بھرنا آسان نہیں ہو گا۔ ایسا لگتا ہے کہ کویت نے یہ فیصلہ عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے کیا ہے، جس کی وجہ سے تیل پر انحصار کرنے والی معیشت بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔ اب اس بل کو ایک اور کمیٹی کو بھیجا گیا ہے تاکہ ایک جامع منصوبہ ترتیب دیا جا سکے۔ اخبار کویت ٹائمز کے مطابق کویت کی اسمبلی اس معاملے پر حکومت کی رائے کی بھی منتظر ہے۔ لیکن کیا یہ بل قانون بن سکے گا۔ ماہرین کو اس پر شکوک ہیں۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اے کے پاشا نے بی بی سی کو بتایا 'سنہ 1972 سے، جب سے انڈین شہریوں نے کویت جانا شروع کیا، ہم ایسا کئی بار سن چکے ہیں، جب بھی تیل کی قیمتوں میں کمی ہوتی ہے وہ غیر ملکیوں کی تعداد کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زیادہ تعداد میں انڈین شہری ہونے کی وجہ سے یہ ہیڈ لائن بن جاتی ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ انڈین شہریوں نے کویت کے انفراسٹرکچر کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ہے اور انھیں اس طرح باہر نہیں پھینکا جا سکتا۔ ڈاکٹر پاشا کا خیال ہے کہ اگر غیر ملکی واپس چلے گئے تو تیل کی قیمتوں میں کمی اور کورونا وائرس کے وبائی مرض کے بعد بنیادی ڈھانچے کی توسیع، جیسے ہاؤسنگ منصوبے، سست پڑ جائیں گے۔ انھوں نے مزید کہا 'غیر ہنر مند مزدوری ایک حد تک متاثر ہو گی لیکن انفراسٹرکچر کو برقرار رکھنے کے لیے طویل مدتی بنیادوں پر ان کی پھر بھی ضرورت ہو گی۔' چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کیزار شاکر، جو کویت کی ایک کمپنی میں کام کرتے ہیں، کہتے ہیں یہاں صرف دو لاکھ انڈین شہریوں کے ساتھ کام کرنا اور آٹھ لاکھ کو گھر واپس بھیجنا عملی طور پر ناممکن ہے۔' وہ کہتے ہیں ' میرا نہیں خیال کہ اس بل کو لاگو کیا جائے گا۔ کویت کی حکومت انڈین شہریوں کے بارے میں کافی حساس ہے اور وہ انھیں یہاں سے جانے کے لیے نہیں کہے گی۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-53304376", "summary": "چین اور ایران کے مابین ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے بارے میں ابھی کوئی تفصیلی اعلان نہیں کیا گیا ہے تاہم کہا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین یہ معاہدہ اگلے 25 سالوں تک نافذالعمل رہے گا۔", "title": "’شیر اور ڈریگن' کے درمیان معاہدے سے ایرانی ناخوش کیوں", "firstPublished": "2020-07-06T06:09:13.000Z", "id": "5aa2478c-aa9a-4799-9c31-515393cfdafe", "article": "چین اور ایران کے مابین ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے بارے میں ابھی کوئی تفصیلی اعلان نہیں کیا گیا ہے تاہم کہا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین یہ معاہدہ اگلے 25 سالوں تک نافذالعمل رہے گا۔ انھوں نے کہا تھا: 'اس صورتحال کے پیش نظر آزاد ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ تعاون کرنا چاہیے۔ دونوں فریق آئندہ 25 سالوں تک ایران اور چین کے مابین ہونے والے اس اسٹریٹجک معاہدے پر سنجیدگی سے عمل کریں گے۔' 21 جون کو روحانی نے کابینہ کے ایک اجلاس میں کہا کہ یہ معاہدہ چین اور ایران دونوں کے لیے بنیادی انفرا سٹرکچر سے منسلک منصوبوں میں حصہ لینے کا ایک موقع ہے۔ روحانی نے کہا کہ انھوں نے چینی فریق کے ساتھ بات چیت کرنے اور اس بات چیت کا حتمی خاکہ تیار کرنے کی ذمہ داری وزیر خارجہ جواد ظریف کو سونپی ہے۔ ایرانی ماہر معاشیات علی اصغر زرگر نے ایران کی نیوز ایجنسی آئی ایل این اے کو ایک نیم سرکاری انٹرویو میں کہا تھا کہ ایران، چین اور روس کے مابین تیل سے متعلق کوئی بھی معاہدہ توانائی، سلامتی اور معاشی معاملات میں مددگار ثابت ہوگا۔ زرگر نے کہا: 'چین اپنی پالیسی کے تحت ان ممالک کا انتخاب کرتا ہے جو کسی دوسرے ملک کے زیر اثر نہیں ہیں۔ لہذا چین کو ایران سے آزادانہ طور پر مدد مل سکتی ہے۔ دوسری طرف چین نے بھی ہمارے کچھ منصوبوں میں حصہ لیا اور اس میں کوئی نوآبادیاتی لالچ نہیں ہے۔ لہذا اس معاہدے سے دونوں ممالک کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ چین کو عراق میں ایران کی موجودگی سے بھی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔' زرگر کا کہنا ہے کہ اگر چین کو توانائی کے وسائل کی ضرورت ہے تو ایران کو ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ لہذا یہ معاہدہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہوگا۔ اخبار نے ایرانی پارلیمنٹ مجلس کے سپیکر محمد باقر قالیباف کے اس بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ 'ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح ٹرمپ انتظامیہ دوسرے ممالک کی آزادی اور حکمرانی میں مداخلت کرتی ہے۔ امریکہ نے ایران اور چین کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہے۔ ہم اس کے گواہ رہے ہیں۔ اس لیے چین کے ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی تعاون لازمی ہے۔ ہم اسے نظرانداز نہیں کرسکتے ہیں۔' احمد پوچھتے ہیں کہ کیا ایرانی حکام نے امریکہ اور یورپ کو دھمکانے کے لیے چین کے ساتھ یہ معاہدہ کیا ہے تاکہ ایران پر پابندی لگانے والی پالیسیوں میں وہ نرمی لائیں۔ سوشل میڈیا صارفین نے گذشتہ 24 گھنٹوں میں 'ایران ناٹ فار سیل ناٹ فار رینٹ' یعنی ایران فروخت کے لیے یا کرائے پر دیے جانے کے لیے نہیں ہے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے اور اس کے تحت 17 ہزار بار ٹویٹ اور ری ٹویٹ کیا گیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53291896", "summary": "وفاقی حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی چیئرپرسن نوشین امجد کو فوری طور پر تبدیل کرنے کا حکمنامہ جاری کرتے ہوئے ان کی جگہ ایف بی آر کے بورڈ ممبر برائے کسٹمز پالیسی محمد جاوید غنی کو اس عہدے کا اضافی چارج سونپ دیا ہے۔", "title": "ایف بی آر: دو سال میں پانچواں چیئرمین، آخر حکومت کیا چاہتی ہے؟", "firstPublished": "2020-07-04T17:00:46.000Z", "id": "4fad5bb6-2145-42a4-85d3-b411ac7ab17e", "article": "وفاقی حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کی چیئرپرسن نوشین امجد کو فوری طور پر تبدیل کرنے کا حکمنامہ جاری کرتے ہوئے ان کی جگہ ایف بی آر کے بورڈ ممبر برائے کسٹمز پالیسی محمد جاوید غنی کو اس عہدے کا اضافی چارج سونپ دیا ہے۔ لیکن معاشی امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی شہباز رانا شبلی فراز کی اس بات سے متفق نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جاوید غنی کی تعیناتی بھی مستقل بنیادوں پر نہیں ہوئی بلکہ انھیں چیئرمین ایف بی آر کا اضافی چارج دیا گیا ہے۔ بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سابق چیئرمین ہارون شریف نے بی بی سی سے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس معاملے میں کنفیوژن کا شکار ہے۔ وہ کہتے ہیں ’ایف بی آر کا سٹرکچر بہت پیچیدہ ہو چکا ہے اور پرائیویٹ سیکٹر کا ادارے پر اعتماد بہت کم ہو چکا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ ادارے کی پالیسی میں تسلسل نہ ہونا ہے۔ کسی بھی کاروباری شخص کے لیے یہ منفی اشارہ ہے۔‘ بی بی سی سے گفتگو میں طویل عرصے تک ایف بی آر میں خدمات سرانجام دینے والے ایک سابق آفیسر نے چیئرمین کی بار بار تبدیلی کے حوالے سے کہا کہ ’حکومت کابینہ کی منگل کو ہونے والی میٹنگ تک انتظار کر سکتی تھی لیکن حکومت کو جلدی تھی اور سمری سرکولیشن سے جاری کی گئی۔‘ انھوں نے کہا ’مجھے لگتا ہے کہ یہ سب ایڈہاک بنیادوں پر چل رہا ہے یعنی جاوید غنی کو اضافی چارج دیا گیا ہے۔ یہی لگتا ہے کہ اس وقت حکومت کے ذہن میں ابھی کوئی نام تھا ہی نہیں۔‘ ایف بی آر کے سابق آفیسر نے یہ بھی کہا کہ حکومت ایف بی آر کی اہمیت پر زور دیتی ہے اور مسائل پر بات تو کرتی ہے لیکن ایک مناسب منتظم اس ادارے میں نہیں لگا پا رہی جو ایک مناسب مدت تک کام کرے۔ ’یہ حکومت کے ڈیپارٹمنٹ یا ڈویژن نہیں کہ ایک سیکرٹری آیا اور دوسرا چلا گیا بس کام چلتا رہے گا۔ اس میں ادارے کے بارے میں علم، قوانین اور کام کی سمجھ و آگاہی ہونا ضروری ہے جو جلدی پیدا نہیں ہو سکتی۔ اگر آپ ایف بی آر کے اندر کا بندہ بھی لگائیں تو اسے بھی سمجھنے میں کچھ وقت لگتا ہے ۔پانچ چھ مہینوں میں تو وہ اپنے آپ کو اس لیول پر لے کر آتا ہے کہ وہ چیئرمین کے طور پر ایکٹ کرے پھر پالیسیاں بنتی ہیں اور ان پر عملدرآمد ہوتا ہے اس عہدے کے لیے دو سے تین سال ایک ہی شخصیت کی تعیناتی اہم ہوتی ہے۔‘ اپنی تجاویز دیتے ہوئے ہارون شریف نے کہا کہ حکومت کو ادارے میں ٹیکنالوجی کے حساب سے جدت لانا ہو گی۔ ٹیکس کی وصولی کا طریقہ کار ٹھیک کرنا ہوگا۔ ٹیکس محصولات کی پالیسی کامرس کی وزارت کو دے دی ہے جو کہ کمزور ادارہ ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53229426", "summary": "بعض اوقات شدت پسند اپنے روایتی اہداف کو چھوڑتے ہوئے معاشی سرگرمیوں کے مختلف بڑے مراکز کو نشانہ بناتے ہیں۔ بہت سے لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخر معاشی مراکز پر حملہ آور ہونے کے پیچھے کیا وجوہات کارفرما ہوتی ہیں اور اس کے ذریعے کیا مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں؟", "title": "کیا سٹاک مارکیٹ حملہ پاکستان، چین کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا گیا؟", "firstPublished": "2020-06-30T04:16:10.000Z", "id": "0445cd72-b413-48ea-a9b3-2e1833ce60ba", "article": "شدت پسندوں کی جانب سے مارچ 1993 میں ہونے والے ممبئی حملوں کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ شہر میں موجود دیگر بہت سے اہداف کے ساتھ ساتھ ممبئی سٹاک ایکسچینج کی عمارت کو بھی نشانہ بنایا جائے۔ ماضی میں مختلف ممالک میں ہونے والے بہت سے دہشت گردانہ حملوں میں بھی حملہ آوروں کا ٹارگٹ معاشی سرگرمیوں کے مختلف بڑے مراکز رہے ہیں۔ بہت سے لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخر شدت پسند بعض اوقات اپنے روایتی اہداف کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے معاشی مراکز پر حملہ آور کیوں ہوتے ہیں، ان کے پس پردہ مقاصد کیا ہوتے ہیں اور کیا ایسے حملے ملکی معیشت کو سست روی کا شکار کر سکتے ہیں یا نہیں؟ سکیورٹی امور کے ماہر عامر رانا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ملک میں معاشی سرگرمیوں کے مراکز انتہائی مرکزی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں اور ایسی جگہوں کو ٹارگٹ کرنے کا سب سے بنیادی مقصد کسی بھی گروہ کی جانب سے اپنے مقاصد اور نصب العین کی وسیع اور بین الاقوامی سطح پر تشہیر کرنا ہوتا ہے۔ تجزیہ نگار زاہد حسین بھی اس بات سے متفق ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بڑے شہروں میں ہائی ویلیو ٹارگٹس کو نشانہ بنا کر بڑے پیمانے پر پبلیسٹی حاصل کی جاتی ہے۔ ’جب بڑے ٹارگٹس کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو خبر بڑی بنتی ہے۔ اس قسم کی کارروائیوں میں بڑے اہداف کا چناؤ دراصل اپنے پروپیگنڈا کو دور تک پھیلانے کی کوشش ہوتی ہے۔‘ عامر رانا کہتے ہیں کہ اگر کوئی شدت پسندانہ کارروائی ملک کے کسی دور دراز چھوٹے شہر میں ہوتی ہے تو اس کو ملنے والی میڈیا کوریج اتنی نہیں ہو گی جتنی کسی بڑے شہر میں ہونے والی کارروائی کی، چاہے اس میں ہونے والا جانی اور مالی نقصان کم ہی کیوں نہ ہو۔ انھوں نے کہا جب عالمی میڈیا میں یہ رپورٹ ہو گا کہ پاکستان کی مرکزی سٹاک مارکیٹ پر حملہ ہوا ہے تو یہ بھی بتایا جائے گا کہ حملہ کرنے والے کون تھے اور ان کے اغراض و مقاصد کیا ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں چھوٹے کاروبار بینک کے پاس جاتے ہیں جبکہ بڑے کاروبار بازارِ حصص میں مگر بہت سے جنوب ایشیائی ممالک بشمول پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں صورتحال اس سے یکسر مختلف ہے۔ سکیورٹی امور پر نظر رکھنے والے ایک صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ بڑے شہروں، اہم مقامات اور معاشی مراکز کو نشانہ بنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کالعدم تنظیمیں ایسی کارروائیوں کے ذریعے ملک میں اور ملک سے باہر ہم خیال افراد کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا سکیں اور ان سے مدد حاصل کر سکیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53223320", "summary": "آئندہ والے مالی سال میں 25 فیصد اضافی ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف ایسے وقت میں مقرر کیا گیا ہے جب ملکی معیشت کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی معاشی سست روی کی وجہ سے بری طرح متاثر ہے۔", "title": "کورونا زدہ پاکستانی معیشت 25 فیصد اضافی ٹیکس کیسے حاصل کر پائے گی؟", "firstPublished": "2020-06-29T14:42:31.000Z", "id": "d53ff91f-0e1c-4435-bd03-454993fbbe2e", "article": "تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے مالی سال 21-2020 کے بجٹ میں ٹیکسوں کا ہدف 4963 ارب روپے رکھا ہے۔ نئے مالی سال میں ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف موجودہ مالی سال سے 25 فیصد زائد رکھا گیا ہے۔ آئندہ والے مالی سال میں 25 فیصد اضافی ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف ایسے وقت میں مقرر کیا گیا ہے جب ملکی معیشت کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی معاشی سست روی کی وجہ سے بری طرح متاثر ہے۔ حکومت نے اگلے مالی سال میں معیشت کے 2.1 فیصد کے اضافے سے بڑھنے کا ہدف مقرر کیا ہے تاہم اس کے مقابلے میں ٹیکس جمع کرنے کا ہدف 25 فیصد زائد رکھا ہے جبکہ افراط زر کا ہدف 6.50 فیصد رکھا ہے۔ ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہتے ہیں کہ ٹیکسوں کے اکٹھا کرنے کا ہدف غیر حقیقی ہے ۔ ایک ایسی معیشت جس میں اضافے کی شرح کا ہدف 2.1 فیصد رکھا گیا ہے اس میں پچیس فیصد اضافی ٹیکس وصول کرنا کسی طور پر ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ یاد رہے کہ مالی سال 20-2019 کے بجٹ کو پیش کرتے وقت حکومت نے 5500 ارب روپے ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف مقرر کیا تھا تاہم اس ہدف کو کچھ ماہ بعد 5200 تک گرا دیا گیا۔ موجودہ سال کے شروع میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے اس ہدف میں مزید کمی کا کہا اور اسے 4800 ارب کر دیا گیا جس کی بنیاد ی وجہ ملکی درآمدات میں کمی تھی جو ملکی خزانے میں کسٹم ڈیوٹی، ایکسائز ڈیوٹی اور دوسرے ٹیکسوں کی مد میں پیسہ جمع کرتی ہے۔ ایف بی آر کے ترجمان حامد عتیق سرور نے بتایا کہ 4900 ارب کا بجٹ اس لیے غیر حقیقی نہیں کیونکہ پاکستان موجودہ مالی سال میں 4700 ارب کا ٹیکس ہدف وصول کر سکتا تھا اگر کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی صورتحال خراب نہ ہوتی۔ عتیق سرور کے مطابق اگر ملک میں ٹیکس وصولی کی اس استعداد کو دیکھا جائے تو یہ ہدف غیر حقیقی دکھائی نہیں دیتا تاہم ایف بی آر ترجمان نے بتایا کہ کورونا کے ملکی معیشت پر منفی اثرات اور اس کی وجہ ٹیکسوں کی وصولی کے امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ نئے مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں چار سو ارب تک ٹیکسوں کی وصولی میں کمی کو مدنظر رکھ کر یہ ہدف دیا گیا ہے ۔ تاہم اگر کورونا کے اثرات پہلی سہ ماہی کے بعد بھی جاری رہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں معیشت کو نقصان پہنچتا ہے تو مستقبل کے بارے میں ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اشفاق تولہ نے کہا نئے مالی سال کے بجٹ میں بھی ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا تناسب زیادہ ہے جس کی بنیادی وجہ تقریباً 40 فیصد ایسے شعبوں سے ڈائریکٹ ٹیکسوں کی وصولی میں ناکامی ہے جن میں ٹیکس وصولی کی استعداد موجود ہے۔ ان کے مطابق ہول سیل اور ریٹیلرز اپنی استعداد سے بہت کم ڈائریکٹ ٹیکس ملکی خزانے میں جمع کراتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53212818", "summary": "حزبِ اختلاف کی مختلف جماعتوں کے رہنماؤں نے اتوار کو ایک مشترکہ اجلاس کے بعد موجودہ حکومت کی معاشی پالیسوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے مالی سال 21-2020 کے بجٹ کو مکمل طور مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے۔", "title": "’عمران خان سے جان چھڑانے کے لیے تمام آئینی راستے استعمال کریں گے‘", "firstPublished": "2020-06-28T14:59:13.000Z", "id": "376f8de4-f251-4b03-9b7e-78ce0e16a713", "article": "حزبِ اختلاف کی مختلف جماعتوں کے رہنماؤں نے اتوار کو ایک مشترکہ اجلاس کے بعد موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے مالی سال 21-2020 کے بجٹ کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اجلاس کے بعد حزب اختلاف کے رہنماؤں نے مشترکہ پریسں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوری اور آئینی طریقے سے موجودہ حکومت کو واپس گھر بھیجنے کا بندوبست کیا جائے گا اور اس حوالے سے لائحہ عمل کُل جماعتی اپوزیشن کانفرنس کے دوران ترتیب دیا جائے۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’اس بجٹ نے پورے پاکستان کو سیاسی جماعتوں کو اس حکومت کے خلاف متحد کر دیا۔ اس بجٹ میں عوام کو سہولت فراہم کرنے کی بجائے ان پر اور بوجھ ڈالا گیا ہے، جو سراسر ظلم ہے۔‘ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ ’وزیر اعظم عمران خان اس قوم کے لیے ایک بوجھ بن چکے ہیں، جتنی دیر وہ اس عہدے پر براجمان رہے گے وہ ہمیں مزید تباہی کی طرف لے جائیں گے، جلد چھٹکارا پانے کے بعد شاید یہ ممکن ہو کہ جو بچا کھچا پاکستان ہے ہم اس کو محفوظ بنا سکیں گے۔‘ خواجہ آصف نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم اس حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے ہر طرح کا آئینی آپشن استعمال کریں گے۔ کسی قسم کا غیر آئینی راستہ استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اس حوالے سے متحدہ اپوزیشن میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی، جو پہلے ہی کسی نہ کسی حد تک موجود ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اس وقت نئے مینڈیٹ کی ضرورت ہے۔ نیا مینڈیٹ ہماری مشکلات کو حل کر سکتا ہے۔ گذشتہ دو سال میں جو کچھ ہوا ہے اس کے بعد موجودہ سیٹ اپ کا تسلسل مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ اپوزیشن نے اب تک بہت بہتر رول ادا کیا اور کورونا کے دوران خاص طور پر کوئی سیاست نہیں کی گئی مگر ایک دن بھی ہمارے وزیر اعظم نے اس بات کو سنجیدہ نہیں لیا۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے مالی سال 21-2020 کے بجٹ کو مکمل طور مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ حکومت کی اپنی صفوں میں بیدلی نظر آ رہی ہے اور ان کے اپنے اتحادی انھیں چھوڑتے جا رہے ہیں جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ ’حکومتی ادارے جس طرح اپوزیشن کو ٹارگٹ کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک بزدل حکمران اپنی انا کی تسکین کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53201466", "summary": "پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی منظوری کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 25 روپے فی لیٹر تک اضافہ کر دیا گیا ہے جو ملک کی تاریخ میں اب تک ہونے والا سب سے زیادہ اضافہ ہے۔", "title": "’حکومت نے پیٹرول مافیا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں‘", "firstPublished": "2020-06-26T20:57:04.000Z", "id": "81c1002d-c146-420d-adf5-baea14666b4c", "article": "پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی منظوری کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 25 روپے فی لیٹر تک اضافہ کردیا گیا ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول 25 روپے 58 پیسے فی لیٹر مہنگا کر دیا گیا ہے جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 100روپے 10پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ حکومت کی جانب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرنا تھا کہ سوشل میڈیا پر حزب اختلاف کے سیاسی رہنماؤں سمیت صارفین کی بڑی تعداد نے حکومت کو پیٹرول کی قیمت میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کی صدر اور قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ 'یہ مافیاز کی حکومت اور مافیاز کے لیے قائم حکومت جیت گئی ہے اور پاکستانی عوام ہار گئے ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا بہت ہی معمولی فائدہ عوام کو پہنچایا گیا اور اس نیازی حکومت نے اب انھیں مہنگائی کے ایک اور طوفان میں جکڑ دیا ہے۔' پاکستان انٹرنینمنٹ انڈسٹری کے معروف اداکار اور شو ہوسٹ فہد مصطفیٰ نے بھی اپنا ردعمل کچھ یوں دیا 'وزیر اعظم عمران خان صاحب میں جانتا ہوں کہ ملک چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ جب آپ اپوزیشن میں تھے تو آپ ہمیں کہتے رہے کہ (یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے)۔ مجھے بتایئے کہ کیا میں نے آپ کو ووٹ ڈال کر درست فیصلہ کیا تھا؟' جبکہ ایک ٹوئٹر صارف نے طنزیہ ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ 'یہ عمران خان کی شاندار چال ہے، آپ انھیں پسند کریں یا نا پسند کریں لیکن وہ واحد شخص ہیں جو ہمیں بچا سکتے ہیں۔بیوقوف اسے کبھی نہیں سمجھیں گے کہ انھوں نے پیٹرول کی قیمتیں بڑھا کر کورونا کی وبا کے دوران امرا کو گھروں میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ پاکستان کے غریب عوام کے لیے کیا گیا ہے۔ ہمیں آپ سے پیار ہے عمران خان۔' 'عالمی منڈی میں گذشتہ ایک ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں بھی دو سے تین روپے گراوٹ آئی ہے اور اس صورتحال میں حکومت کے اعداد وشمار کے مطابق پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 31.58 روپے کا اضافہ بنتا تھا لیکن حکومت نے اس میں 25.58 روپے کا اضافہ کیا ہے۔ جبکہ ڈیزل لی قیمت میں 24.31 روپے فی لیٹر اضافہ بنتا تھا لیکن حکومت نے اس میں 21.31 روپے اضافہ کیا۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-53187181", "summary": "انڈیا کے نقطہِ نگاہ سے یہ حل بغیر سنگین اقتصادی مضمرات کے ممکن نہیں ہے، خاص کر زوال پذیر اقتصادی ماحول میں۔ دوسری جانب چین کو کوئی خاص تشویش نہیں کیونکہ اس کی انڈیا میں برآمدات کل برآمدات کا صرف تین فیصد ہیں۔", "title": "کیا انڈیا چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟", "firstPublished": "2020-06-26T13:11:12.000Z", "id": "28bde802-ec1f-4427-af68-5bb473df3392", "article": "ایک تو یہ کہ انڈیا کے لیے امریکہ کے بعد چین سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اور دوسرے یہ کہ چینی درآمدات انڈیا کی کل درآمدات کا 12 فیصد بنتا ہے جن میں کیمیکل مصنوعات، گاڑیوں کے پرزے، الیکٹرانک مصنوعات اور ادویات وغیرہ شامل ہیں۔ انڈیا اور چین چند برسوں سے ایک دوسرے پر بہت زیادہ زیادہ انحصار کرنے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر چینی سرمایہ انڈیا کی ٹیکنالوجی کی صنعت میں لگ رہا ہے، انڈیا کی 'زومیٹو'، 'پےٹم'، 'بِگ باسکٹ' اور 'اولا' جیسی نئی بننے والی ٹیک کمپنیوں میں 'علی بابا' اور 'ٹینسینٹ' جیسی چینی کمپنیاں ایک حکمتِ عملی کے تحت اربوں ڈالروں کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ممبئی کے ایک تحقیقی ادارے 'گیٹ وے' کے مطابق اس طرح چینیوں نے اپنے آپ کو انڈیا کے سماجی، اقتصادی اور ٹیکنالوجی کے ماحول کا ایک ہمسفر بنا لیا ہے۔ اگرچہ چین نے انڈیا پر عالمی تجارتی تنظیم کے اصولوں کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے، لیکن کچھ ہونے کے امکانات کم ہیں کیونکہ، ایم زیڈ ایم لیگل کے مینیجنگ پارٹنر ذوالفقار میمن کے بقول، 'اس بات کا کوئی متبادل نہیں ہے اگر کوئی ملک کسی تجارتی معاملے میں باہمی تصادم کو پیش کرے تو اس تنازع کے حل کا کوئی فورم نہیں ہے۔' اس طریقہ سے انڈیا چاہے تو چین پر اپنا انحصار کم کر سکتا ہے اور خود انحصاری کے مطالبات پر توجہ بھی دے سکتا ہے۔ انڈیا کا چین سے تجارت میں خسارہ 50 ارب ڈالر کا ہے اور یہ ایک تنازع کے طور پر دونوں ملکوں میں کافی عرصے سے زیر بحث بھی ہے، اور موجودہ کشیدگی انڈیا کو اس خسارے کو کم کرنے کا ایک موقعہ فراہم کرتی ہے۔ انڈیا کی ایک ریٹنگ ایجنسی 'اکویٹی' کی نئی تحقیق کے مطابق انڈیا کی اپنی صنعت چینی درآمدات کا زیادہ سے زیادہ 25 فیصد متبادل تیار کر سکتی ہے۔ اس سے درآمدات کی مد میں آٹھ ارب ڈالر سالانہ کی کمی ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور دستکاریوں کی مد میں انڈیا نے سنہ 2020 میں 42 کروڑ ڈالر کی مصنوعات چین سے درآمد کیں جب کہ اپنے ملک سے اس مد میں چین کوئی خاص برآمدات نہیں کیں۔ انڈیا کے نقطہِ نگاہ سے یہ حل بغیر سنگین اقتصادی مضمرات کے ممکن نہیں ہے، خاص کر زوال پذیر اقتصادی ماحول میں۔ دوسری جانب چین کو کوئی خاص تشویش نہیں کیونکہ اس کی انڈیا میں برآمدات کل برآمدات کا صرف تین فیصد ہے۔ روزنامے کے مطابق یہ انڈیا کے لیے 'انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے کہ وہ چین مخالف گروہوں کو رائے عامہ بھڑکانے کی اجازت دے اور اس طرح کشیدگی کو مزید گہرا کرے،' اور مشورہ دیا کہ اب توجہ اقتصادی بحالی کی جانب دی جانی چاہیے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-53187387", "summary": "بین الاقوامی تعاون اور معیشت کے محاذ پر چین کے لیے صدر شی جن پنگ کی یہ اہم حکمت عملی ہے۔ لیکن ناقدین کی رائے اس سے مختلف ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ چین دنیا بھر کے ممالک پر اپنا اثر بڑھانے کے لیے قرض دینے والی سفارت کاری کا استعمال کر رہا ہے۔", "title": "کیا کورونا وائرس کی وبا سی پیک منصوبے کو بھی متاثر کر سکتی ہے؟", "firstPublished": "2020-06-26T04:05:26.000Z", "id": "31550132-3cbe-4073-8c20-1e868abc02e4", "article": "سنہ 2013 میں چینی صدر شی جن پنگ نے انفراسٹرکچر کی ترقی کے اس منصوبے کا آغاز کیا۔ اس کے تحت مشرقی ایشیا سے لے کر یورپ، افریقہ اور لاطینی امریکہ تک کے ترقیاتی اور سرمایہ کاری کے منصوبوں کی ایک پوری سیریز پر کام کیا جانا ہے۔ بین الاقوامی تعاون اور معیشت کے محاذ پر چین کے لیے صدر شی جن پنگ کی یہ اہم حکمت عملی ہے۔ لیکن ناقدین کی رائے اس سے مختلف ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ چین دنیا بھر کے ممالک پر اپنا اثر بڑھانے کے لیے قرض دینے والی سفارت کاری کا استعمال کر رہا ہے۔ چین سے بڑے پیمانے پر قرض لینے والے بہت سے ممالک کو اب بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور ان میں سے بہت سے ممالک نے ایک ایک کر کے چین کو بتایا ہے کہ وہ اس قرض کو واپس کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ در حقیقت چین کی حکمران قیادت میں اس منصوبے پر کبھی اتفاق رائے نہیں ہوا تھا۔ بہت سے لوگوں نے شی جن پنگ کی حکمت عملی اور سمجھداری پر سوال اٹھائے تھے۔ کچھ نے تو یہاں تک کہا کہ یہ ایک غیر ضروری خرچ ہے۔‘ دوسری طرف اگر چین اپنے قرض دہندگان پر ادائیگی کے لیے دباؤ ڈالتا ہے تو پھر اسے بین الاقوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ تنقید اس طبقے سے زیادہ آئے گی جو پہلے ہی 'نیو سلک روڈ' منصوبے کو ’قرضوں کا جال‘ کہہ رہا ہے۔ ہاورڈ چانگ کہتے ہیں 'اہم بات یہ ہے کہ نیو سلک روڈ سے وابستہ ممالک پر قرضہ زیادہ تر امریکی ڈالر میں ہے۔ چین کے امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ میں الجھنے کی وجہ سے ڈالر کی قلت ہوسکتی ہے۔ اور اگر ترقی پذیر ممالک قرض ادا کرنے سے قاصر رہے تو شی جن پنگ کی طاقت ناقابل یقین حد تک کمزور ہو جائے گی۔ لیکن بین الاقوامی محاذ پر صدر شی جن پنگ ’ون بیلٹ، ون روڈ‘ منصوبے کو اپنی اہم معاشی اور سیاسی کامیابی سمجھتے ہیں۔ اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ وہ اس وقت اس پروجیکٹ سے کنارہ کشی کریں گے۔ لیکن بین الاقوامی محاذ پر صدر شی جن پنگ 'ون بیلٹ، ون روڈ' منصوبے کو اپنی اہم معاشی اور سیاسی کامیابی سمجھتے ہیں۔ اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ وہ اس وقت اس پروجیکٹ سے کنارہ کشی کریں گے بی بی سی کی چائنیز سروس کے ایڈیٹر ہاؤرڈ ژانگ کا کہنا ہے کہ اس وبا کی وجہ سے چین اپنی حکمت عملی تبدیل کرسکتا ہے اور نسبتاً کامیاب منصوبوں پر اپنی توجہ بڑھا سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53134110", "summary": "رواں مالی سال پاکستان کو غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی نہیں کرنی پڑے گی جسے ایک سہولت قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن ماہرین کے مطابق اس کے منفی اثرات بھی ہوسکتے ہیں، جیسے ملک کی بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ پر بُرا تاثر۔", "title": "پاکستان کے ذمے قرض کی واپسی مؤخر، ملک کے لیے کتنی سود مند", "firstPublished": "2020-06-23T06:18:59.000Z", "id": "ddd342ea-5ae6-4971-a7d7-1ff26f230cb8", "article": "موجودہ سال 2020 میں پاکستان کو غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ایک بڑی سہولت حاصل ہوئی ہے اور ڈیٹ سروس معطلی اقدام (ڈی ایس ایس آئی) کے تحت دو ارب 41 کروڑ ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کو ری شیڈول کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا نے 2.4 ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگی کی واپسی کے موخر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں اس سے یقینی طور پر وقتی سہولت حاصل ہوئی ہے کہ ملک جو قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے وہ بیرونی ادائیگیوں میں فی الحال دقت کا سامنا نہیں کرے گا۔ یوسف کے مطابق اس وقت پاکستان میں کرونا کی وجہ سے معیشت جس تباہ حالی کو شکار ہے اور ملک کی جانب سے قرضوں کی ادائیگی میں جس دشواری کا سامنا ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسے ایک اچھی پیش رفت کہا جا سکتا ہے۔ ماہرین معیشت جہاں قرض کی ادائیگی کے مؤخر ہونے کو ایک اچھی پیش رفت قرار دیتے ہیں تو دوسری جانب انہوں نے اس کے منفی پہلو کو بھی مسترد نہیں کیا۔ ان کی بقول کسی ملک کا قرض کی ادائیگی کے لیے درخواست دینا اور اس کے نتیجے میں اس کا مؤخر ہونا ملک کی بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ پر ایک برا تاثر چھوڑتا ہے جو لانگ ٹرم میں فنانسنگ حاصل کرنے میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس سلسلے میں کہا قرض کی ادائیگی کے مؤخر ہونے کے مضمرات کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے کیونکہ اس کا بین الاقوامی سطح پر یہ ایک منفی تاثر بنتا ہے کہ ملک کی معاشی حالت خراب ہے اور یہ قرض کی واپسی کے قابل نہیں ہے۔ اس تاثر کو لے کر بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں ملک کی ریٹنگ کو منفی کر دیتی ہیں جس سے مستقبل میں فنانسنگ حاصل کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ ڈاکٹر پاشا نے بتایا کہ منفی کریڈٹ ریٹنگ سے غیر ملکی کمرشل بینک قرض دینے میں ہچکچاتے ہیں تر دوسری جانب غیر ملکی مارکیٹ سے بانڈز کے ذریعے پیسے اکٹھا کرنا بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ بین الاقوامی سرمایہ کار قرض کی واپسی کی صلاحیت کم ہونے کی وجہ سے قرض دینے سے کتراتے ہیں۔ ڈاکٹر پاشا کے مطابق جی 20 کی جانب سے جب مختلف ملکوں کے قرضے ری شیڈول کرنے کو اعلان کیا گیا تو پاکستان بھی اس میں شامل تھا لیکن پاکستان کو چاڈ اور کانگو جیسے غریب افریقی ملکوں کے ساتھ ڈالا گیا حالانکہ پاکستان اپنے آپ کو مڈل انکم ملک قرار دیتا ہے۔ ایسی صورت حال کسی طور سے ملک کی بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ کے لیے اچھی قرار نہیں دی جا سکتی۔ یوسف سعید نے اس سلسلے میں کہا کہ کریڈٹ ریٹنگ کا سب سے زیادہ منفی اثر کمرشل بینکوں اور بانڈز کے ذریعے رقم اکٹھی کرنے پر پڑتا ہے کہ ملک قرض واپسی کی صلاحیت نہیں رکھتا اس لیے اسے قرض نہیں دیا جائے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53121480", "summary": "بلوچستان نے آئندہ مالی سال 21-2020 کے لیے 87 ارب 61 کروڑ روپے سے زائد کے خسارے کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ مالی مشکلات کے باعث وفاقی حکومت کی طرح بلوچستان کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔", "title": "بلوچستان: تاریخی خسارے کا بجٹ پیش، تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہیں کیا گیا", "firstPublished": "2020-06-20T16:32:54.000Z", "id": "64e9581f-72a8-4253-b5c9-a87c2aad9de2", "article": "بلوچستان حکومت نے مالی سال 2020-21 کے لیے 87 ارب 61 کروڑ روپے سے زائد کے تاریخی خسارے کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ مالی مشکلات کے باعث وفاقی حکومت کی طرح بلوچستان کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ بجٹ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے پیش کیا جس کے دوران حزب اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے بطور احتجاج واک آﺅٹ کیا۔ بجٹ کا مجموعی حجم 465 ارب 52کروڑ روپے ہے۔بجٹ میں وفاقی اور صوبائی محاصل سے آمدن کا تخمینہ 377 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 309 ارب جبکہ ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 118 ارب روپے ہے۔ آئندہ مالی سال کے دوران بلوچستان حکومت کو 87 ارب 61 کروڑ روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا جو کہ بلوچستان کی تاریخ میں کسی بھی بجٹ کا سب سے بڑا خسارہ ہے۔ بجٹ میں تعلیم کی مد میں 71 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جو کہ رواں سال کے مقابلے میں نو ارب روپے زیادہ ہیں تاہم شعبہ تعلیم کے بجٹ میں سب سے بڑا حصہ محکمہ تعلیم کے ملازمین کی تنخواہوں کا ہے۔ تعلیم کے بعد امن و امان وہ شعبہ ہے جس کے لیے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے۔ امان و امان کے لیے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 44 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کورونا کے باعث صحت کے بجٹ میں اضافہ کرتے ہوئے اس شعبے کے غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے 31 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں مالی سال کے مقابلے میں صحت کے آئندہ مالی سال کے غیر ترقیاتی اخراجات میں 32 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اس شعبے کے ترقیاتی اخراجات کے لیے سات ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پہلی مرتبہ بلوچستان میں ایمرجنسی ایئر ایمبولینس شروع کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ ایئر ایمبولینس کی خریداری کے لیے مالی سال 2020-2021 میں 2.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بجٹ میں سماجی تحفظ کے شعبوں اور ان کی ترقی کے لیے 11 ارب روپے، ضلعی ترقیاتی پروگرام کے لیے پانچ ارب روپے، کھیل، ثقافت اور مذہبی امور کے لیے تین ارب 10 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بلوچستان میں بے روزگاری ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، بجٹ میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے نئی سرکاری آسامیاں رکھی گئی ہیں لیکن ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں بلکہ صرف 6840 ہے۔ مالی مشکلات کے باعث ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں اضافہ نہیں کیا گیا تاہم کورونا کی صورتحال کے باعث طبی عملے کے لیے فوری طور پر دو بنیادی تنخواہوں کے مساوی ہیلتھ رسک الاﺅنس دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف کیٹیگریز کے ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے لیے ہیلتھ پروفیشنل الاﺅنس کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53060064", "summary": "عالمی ادارے بتا رہے ہیں کہ خدارا سمجھ جائیے کورونا آپ پر حاوی ہو رہا ہے کچھ کیجیے اور ہم ہیں کہ بضد کہ ابھی وہ تعداد نہیں جو ہم سوچ رہے ہیں۔ پڑھیے عاصمہ شیرازی کا کالم۔", "title": "خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں‘", "firstPublished": "2020-06-16T08:58:24.000Z", "id": "282f2e30-fa02-3b4b-a497-a6e99e886509", "article": "عالمی ادارے بتا رہے ہیں کہ خدارا سمجھ جائیے کورونا آپ پر حاوی ہو رہا ہے کچھ کیجیے اور ہم ہیں کہ بضد کہ ابھی وہ تعداد نہیں جو ہم سوچ رہے ہیں کورونا کے اعداد و شمار بتانے والی مشین بتا رہی ہے کہ ابھی جتنا اندازہ تھا اتنا نقصان نہیں ہوا۔ پھر یہی مشین دکھا رہی ہے کہ اندازہ تھا کہ اتنا نقصان ہو گا۔۔۔ مشین کے سینے میں دل کہاں، مشین تو مشین ہے، نہ سانس لیتی ہے نہ جذبات ہیں نہ احساسات، نہ ہی خدشات۔ مشین تو مشین ہے یہ کہاں جانتی ہے کہ اُس کے تخمینیے اور اندازے بس سکور کارڈ پر بدلتا نمبر نہیں بلکہ چلتے پھرتے جاندار ہیں۔ ’ریوڑ کی مدافعت‘ کا راہنما اصول کب سمجھنے دیتا ہے کہ انسان اور جانور میں کیا فرق ہے۔ اس نظریے نے وبا کے دنوں میں جنم لیا ہے کہ جب آپ کے پاس کسی بھی وبا یا صورتحال سے نمٹنے کا نظام موجود نہ ہو تو اُس نظام کے سامنے سرنگوں ہو جائیں، شکست تسلیم کر لیں اور خود کو صورتحال کے حوالے کر دیں۔ جناب! ملک کی معیشت کی زبوں حالی اور ملکی سالمیت اب کورونا کے رحم و کرم پر ہے۔ لاک ڈاؤن نہ کر کے غریبوں کی فلاح کا منصوبہ کیا ہوا جب آپ کو دوبارہ لاک ڈاؤن کی جانب ہی بڑھنا پڑ رہا ہے پاکستان میں کورونا نے جو کرنا تھا سو کرنا تھا مگر جو ہم نے خود کے ساتھ کر لیا تو جون ایلیا کا یہ شعر ہر دوسرے لمحے لبوں پر آتا ہے کہ۔۔۔ عالمی ادارے بتا رہے ہیں کہ خدارا سمجھ جائیے کورونا آپ پر حاوی ہو رہا ہے کچھ کیجیے اور ہم ہیں کہ بضد کہ ابھی وہ تعداد نہیں جو ہم سوچ رہے ہیں۔ جس ’ہرڈ امیونٹی‘ پر عملدرآمد ہم نے کیا ہے اس کے نتیجے میں 10، 20 یا 30 ہزار اموات بھی کافی نہیں مگر کیا آپ کے لیے یہ سکور کافی ہے؟ کیا ہم نے سوچا کہ اگست میں جب کورونا کے متاثرین کی تعداد لاکھوں میں ہو گی تو پیش کیے جانے والے بجٹ کی حیثیت کیا ہو گی؟ جناب! ملک کی معیشت کی زبوں حالی اور ملکی سالمیت اب کورونا کے رحم و کرم پر ہے۔ لاک ڈاؤن نہ کر کے غریبوں کی فلاح کا منصوبہ کیا ہوا جب آپ کو دوبارہ لاک ڈاؤن کی جانب ہی بڑھنا پڑ رہا ہے۔ تب میں فرق یہ تھا کہ لاشیں زیادہ نہیں تھیں اور اب میں فرق یہ ہے کہ کئی قیمتی جانوں کے زیاں کے بعد یہ فیصلہ ہو گا۔ بہر حال۔۔۔ خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں۔ غیر سیاسی مگر سیاسی قوتوں کو تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا تاہم یہ فیصلہ بھی ابھی ضروری ہے کہ نمائندہ سیاسی جماعتیں مقتدر ہوں اور فیصلے صرف عوامی طاقت کے ذریعے طے پائیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53040672", "summary": "پاکستان میں کورونا کے بڑھتے مریضوں، حکومتی بجٹ سے لے کر ملک میں فصلوں پر ٹڈی دل کے حملوں سے متعلق اہم واقعات کی تصویری جھلکیاں۔", "title": "گذشتہ ہفتے کا پاکستان: تصاویر میں", "firstPublished": "2020-06-14T09:50:47.000Z", "id": "5c237e5e-8dd5-c749-a102-fbbc1622ee83", "article": "پاکستان میں کورونا کے بڑھتے مریضوں، حکومتی بجٹ سے لے کر ملک میں فصلوں پر ٹڈی دل کے حملوں سے متعلق اہم واقعات کی تصویری جھلکیاں۔ پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف نے 12 جون کو مالی سال 2020-21 کا سالانہ بجٹ پیش کیا جو 34 کھرب 37 ارب خسارے کا بجٹ ہے۔ وفاقی وزیرِ صنعت و پیداوار حماد اظہر نے بجٹ تجاویز پیش کیں جس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا تاہم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ بھی نہیں کیا گیا ہے۔ پاکستان کے شہر راولپنڈی میں 12 جون کی شب کنٹونمنٹ کے علاقے صدر میں دھماکے کے نتیجے میں کم سے کم ایک شخص ہلاک جبکہ 10 زخمی ہوئے۔ مقامی تھانہ کینٹ کی پولیس کے مطابق آتش گیر مواد ایک موٹر سائیکل میں چھپایا گیا تھا اور اسے صدر میں ہاتھی چوک کے قریب بازار میں کھڑا کیا گیا تھا۔ خون عطیہ کرنے کے عالمی دن کے موقع پر تھلیسمیا کے شکار بچوں کو خون لگایا جا رہا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے نتیجے میں پاکستان کے مختلف شہروں میں موجود تھیلیسیمیا بلڈ بینک میں خون کا عطیہ کرنے والوں کی شدید کمی ہوگئی ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث متاثرین اور ہلاکتوں میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے اور ملک میں 14 جون تک کورونا متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 39 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 2632 ہے۔ متاثرین کی تعداد میں صوبہ پنجاب سرفہرست ہے۔ پاکستان کے صوبہ سندھ کہ شہر حیدر آباد میں ڈاکٹرز اور طبی عملہ حکومت کی جانب سے کورونا وبا کے پیش نظر مناسب سہولیات اور حفاظتی کٹس مہیا نہ کرنے کے خلاف 11 جون کو احتجاج کر رہا ہے۔ پاکستان میں صوبہ سندھ دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے بعد ضلعی انتظامیہ نے اسلام آباد کی تجارتی مرکز جی نائن کراچی کمپنی سمیت متعدد علاقوں کو سیل کر دیا ہے۔ اس تصویر میں سیکورٹی اہلکار سیکٹر جی نائن کو سیک کیے جانے کے بعد ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ پاکستان میں ٹڈی دل کے فصلوں پر حملے جاری ہے، جبکہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ محکمہ قدرتی آفات نے اس کے تدارک کے لیے ملک بھر میں آپریشن کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ ٹڈی دل کے حالیہ حملے صوبہ بلوچستان میں فصلوں پر جاری ہیں۔ مذکورہ تصویر میں آپ ٹڈل دل کے جھنڈ کو کوئٹہ کے نواح میں دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے 13 جون کو پنجاب میں کورونا کے بڑھتے مریضوں کے بعد لاک ڈاؤن کرنے کے جائزہ اجلاس کی سربراہی کرتے ہوئے عوام سے حفاظتی ضابطہ کار اور عوامی مقامات پر ماسک کے استعمال پر سختی سے عمل کروانے کا کہا ہے۔ وزیر اعظم نے مکمل لاک ڈاؤن کی تجویز کو رد کیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-53026282", "summary": "کیا برطانیہ سمیت دنیا بھر میں رات کی رونقیں سماجی فاصلے کے قواعد کے مطابق بحال ہو سکتی ہیں؟ کووڈ 19 سے محفوظ رات کی رنگینیاں کس طرح کی ہوں گی؟", "title": "کورونا وائرس کی وبا کے بعد مستقبل کی نائٹ لائف کیسی ہو سکتی ہے؟", "firstPublished": "2020-06-13T13:37:52.000Z", "id": "9c479c36-1005-9c40-ac3e-07d2a6974b7b", "article": "لیکن کیا برطانیہ میں رات کی رونقیں سماجی فاصلے کے قواعد کے مطابق بحال ہو سکتی ہیں؟ اور کووڈ 19 سے محفوظ رات کی رنگینیاں کس طرح کی ہوں گی؟ الیکس کا کہنا ہے کہ کلبوں کو ہر شام کو ایک ایسے پروگرام کی طرح دیکھنا ہو گا جس میں ڈی جے یا بینڈ آئے اور داخلے کے لیے فیس مقرر ہو۔ برطانوی علاقے سینٹ البانس میں ’دی بوٹ‘ کے نام سے چلنے والے شراب خانے کے شان ہیوز کہتے ہیں کہ ہم عام طور پر یہاں 70 کے لگ بھگ لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت دے سکتے ہیں لیکن دو میٹر کے سماجی فاصلے کے نفاذ کے لیے جب ہم نے نقشہ سازی کی تو ہم لگ بھگ صرف پانچ افراد کو آنے دے سکتے ہیں۔ لیکن شام کی معیشت کو کھولنے کی کوشش میں برطانیہ تنہا نہیں ہے۔ برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا، برازیل، ہالینڈ اور جرمنی سمیت دنیا بھر سے رات کی معیشت کے لیے 40 کے قریب مشیروں نے ممکنہ حل ڈھونڈنے کے لیے ایک واٹس ایپ گروپ میں شمولیت اختیار کی ہے۔ جرمنی نے 15 مئی سے ایسی جگہوں کو کھولنے کی اجازت دی ہے جس سے متصل باہر کھلی جگہیں دستیاب ہیں۔ یہ کھانے کے ساتھ بیئر گارڈن کے طور پر چل رہے تھے۔ تاہم رقص پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور کاروبار بند کرنے کا وقت رات دس بجے مقرر کیا گیا ہے۔ اٹلی اور فرانس کی طرح ہالینڈ نے بھی بارز کھول دی ہیں لیکن اندر 30 کسٹمرز سے زیادہ نہیں جا سکتے۔ اٹلی میں میزوں کے درمیان پلاسٹک کی سکرینز لگائی گئی ہیں۔ سوئٹزرلینڈ نے چھ جون کو رات کی رونقیں بحال کیں، اگرچہ آنے والوں کی تعداد کی حد مقرر ہے اور اس وبا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے صارفین کی تفصیلات ریکارڈ کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بعد ان کی کلائی سے اُن کا درجہ حرارت لیا جاتا ہے اور ان کا نام، فون نمبر اور پاسپورٹ نمبر ایک فارم میں درج کیا جاتا ہے۔ برطانیہ کی صنعت کے لیے اہم سوال صرف یہ نہیں ہے کہ حالات معمول کی طرف جانے پر یہ مقامات کس طرح کے دکھائی دیں گے، اہم بات یہ بھی ہے کہ سماجی فاصلوں کو برقرار رکھتے ہوئے کتنے لوگ ان کا رُخ کر سکیں گے۔ بہت سے لوگوں کے لیے فیصلہ کن بات یہ ہو گی کہ سماجی فاصلے کے لیے دو میٹر کی دوری اختیار کرنے کا اصول ان مقامات میں داخل ہونے کے بعد کس طرح نافذ کیا جائے گا۔ یہاں موسیقی کے سربراہ رواری فریو کا کہنا ہے کہ ہم نے سماجی فاصلے کے نفاذ پر کام کیا اور یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ ہم کتنے لوگوں کو اندر داخل کروا سکتے ہیں مگر ان کوششوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ موجودہ حالات کے مدِنظر فی الحال یہ واضح ہے کہ کورونا وائرس سے پہلے جیسی رات کی رونقوں کی واپسی میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53033090", "summary": "یوں تو ہر سال ہی نئے بجٹ میں محصولاتی آمدنی میں اضافے، ادائیگیوں کے توازن میں بہتری اور بجٹ خسارے کو کم کرنے کرنے پر توجہ مرکوز رہتی ہے، مگر اس بار کورونا وائرس ایک نئے ہیڈ کے طور پر بجٹ میں سامنے آیا۔ ماہرین کہتے ہیں اس بہانے ہی سہی مگر صحت کا بجٹ کچھ بڑھایا گیا ہے۔ مگر یہ اب بھی بہت کم ہے۔", "title": "آئندہ مالی سال کا بجٹ: ’توقع تھی کہ اہم فیصلے کیے جائیں گے مگر ایسا نہیں ہوا‘", "firstPublished": "2020-06-13T06:48:59.000Z", "id": "e5d900e0-1b07-7948-8702-dbc3448ba543", "article": "یوں تو ہر سال ہی نئے بجٹ میں محصولاتی آمدنی میں اضافے، ادائیگیوں کے توازن میں بہتری اور بجٹ خسارے کو کم کرنے کرنے پر توجہ مرکوز رہتی ہے، مگر اس بار کورونا وائرس ایک نئے ہیڈ کے طور پر بجٹ میں سامنے آیا۔ ماہرین کہتے ہیں اس بہانے ہی سہی مگر صحت کا بجٹ کچھ بڑھایا گیا ہے۔ مگر یہ اب بھی بہت کم ہے۔ بجٹ میں حکومت نے نئے ٹیکسز تو نہیں لگائے مگر اسی دوران حکومت آئندہ مالی سال کے لیے 27 فیصد ایف بی آر ریونیو جمع کرنے کا ٹارگٹ بھی طے کر رہی ہے جو کہ ماہرین کے مطابق عملی طور پر ممکن نہیں نظر آتا۔ جہاں ایک جانب حزب اختلاف نے بجٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے تو دوسری جانب کئی ماہرین کا بھی ماننا ہے کہ حکومت سے معیشت میں بہتری کے لیے مثبت اقدامات اور ایک ریلیف بجٹ کی جو توقع کی جا رہی تھی، اس ضمن میں کوئی بڑا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ ماہرین کے خیال میں حکومت کی توجہ تعمیرات اور سیاحت پر رہی ہے۔ نئے ٹیکس کا اعلان تو نہیں کیا مگر بعض شعبوں میں ٹیکس بڑھایا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں حکومت نے اس سے پہلے دو بار منی بجٹ دیا۔ آج یہ تمام معاشی خسارے کی ذمہ داری کورونا وائرس پر ڈال رہی ہے مگر مارچ تک تو کورونا وائرس کے اثرات پاکستانی معیشت پر نہیں پڑے تھے۔ 'حماد اظہر نے ٹیکس ریونیو میں 900 ارب کے شارٹ فال کی وجہ کورونا وائرس کو قرار دیا ہے جو کہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ مارچ تک تو یہ تین ٹریلین روپے اکٹھے کر چکے تھے۔ اس لحاظ سے تو انھیں 4.2 پر کلوز کرنا تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی کریڈیبلٹی اور ان کے اعداد و شمار پر اب کوئی اعتبار نہیں رہا، نہ ہی منصوبہ بندی کے اعداد وشمار پر اور نہ ہی ان کی کارکردگی کی حوالے سے۔' 'موجودہ صورتحال میں کورونا کے علاوہ ٹڈل دل کا سامنا ہے۔ نہ فنانس کمیٹی کو آن بورڈ لیا گیا اور نہ ہی بجٹ پرکوئی بحث ہوئی، یہ کوئی بجٹ نہیں بلکہ اکاؤنٹنگ ایکسرسائز ہے۔ موجودہ حکومت نے 18 ماہ میں جتنے قرض لیے، اتنے کسی حکومت نے نہیں لیے تھے، حکومت اس وقت لوگوں کو روزگار دینے کے بجائے بیروزگار کررہی ہے۔' پاکستان کا نیا بجٹ ایسے وقت میں پیش کیا جا رہا ہے جب پاکستان میں کورونا وائرس کی وجہ سے سوا لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ملکی معیشت لاک ڈاؤن کے باعث شدید دباؤ کی شکار ہے۔ گذشتہ سال کے مقابلے رواں مالی سال دفاعی بجٹ میں 11 اعشاریہ آٹھ فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے، تاہم گذشتہ برس پیش کیے جانے والے ترمیمی بجٹ میں یہ 61 ارب کا اضافہ ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53018788", "summary": "پاکستان کا نیا بجٹ ایسے وقت میں پیش کیا جا رہا ہے جب پاکستان میں کورونا وائرس کی وجہ سے سوا لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ملکی معیشت لاک ڈاؤن کے باعث شدید دباؤ کی شکار ہے۔ گذشتہ سال کے مقابلے رواں مالی سال دفاعی بجٹ میں 11 اعشاریہ آٹھ فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے، تاہم گذشتہ برس پیش کیے جانے والے ترمیمی بجٹ میں یہ 61 ارب کا اضافہ ہے۔", "title": "دفاعی بجٹ میں % 11.8 کا اضافہ، ’تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں‘", "firstPublished": "2020-06-12T14:01:51.000Z", "id": "6aaa194b-fbd2-bd4b-b41e-8d46689772be", "article": "پاکستان میں آج تحریک انصاف کے دورِ حکومت کا دوسرا سالانہ بجٹ پیش کیا گیا ہے جو 34 کھرب 37 ارب خسارے کا بجٹ ہے۔ وفاقی وزیرِ صنعت و پیداوار حماد اظہر نے بجٹ تجاویز پیش کیں جس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا تاہم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ بھی نہیں کیا گیا ہے۔ پینشن کی مد میں 470 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے جو گذشتہ برس پیش کیے جانے والے ترمیمی بجٹ میں رکھی گئی رقم میں ایک اعشاریہ تین فیصد کا اضافہ ہے۔ گذشتہ سال کے مقابلے رواں مالی سال دفاعی بجٹ میں 11 اعشاریہ آٹھ فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے، تاہم گذشتہ برس پیش کیے جانے والے ترمیمی بجٹ میں یہ 61 ارب کا اضافہ ہے۔ گذشتہ سال بجٹ میں احساس پروگرام کے لیے 187 ارب روپے رکھے گئے تھے جسے بڑھا کر 208 ارب روپے کر دیا گیا ہے جس میں سماجی تحفظ کے دیگر پروگرام جیسے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، پاکستان بیت المال اور دیگر محکمے شامل ہیں۔ گذشتہ برس ابتدا میں پیش کیے جانے والا دفاعی بجٹ 11 کھرب 52 ارب کا تھا جس میں اسی برس بعد میں ترمیم کر کے اسے 12 کھرب 27 ارب کر دیا گیا تھا۔ اس طرح سال 20-2019 میں ابتدائی بجٹ میں مختص رقم میں یہ 11 اعشاریہ آٹھ فیصد کا اضافہ ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت نے کورونا اور دیگر آفات کی وجہ سے انسانی زندگی پر ہونے والے منفی اثرات کو زائل کرنے اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے خصوصی ترقیاتی پروگرام وضع کیا ہے جس کے لیے 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے مالی بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے پی ایس ڈی پی میں مںصوبوں کی لاگت میں اضافے سے بچنے کے لیے جاری منصوبوں کے لیے 73 فیصد اور نئے مںصوبوں کے لیے 27 فیصد رقم مختص کی گی ہے۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق درآمدی سگریٹس، الیکٹرانک سگریٹس، بیڑی، سگارز اور تمباکو کی دیگر اشیا پرعائد ایف ای ڈی میں 35 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کورونا کی وبا سے قبل معاشی ترقی کی شرح تین فیصد سے بڑھنے کی امید تھی تاہم مالی سال 20-2019 میں جی ڈی پی کی شرح نمو منفی 0.4 فیصد رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 2.67 فیصد رہی جبکہ صنعتی شعبہ متاثر ہوا اور اس میں ترقی کی شرح منفی 2.64 رہی ہے جبکہ خدمات کے شعبے میں یہ شرح منفی 3.4 فیصد ہے۔ وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان کی جانب سے آج پیش کیے جانے والے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جا رہا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53018780", "summary": "لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب ملک کی معاشی سرگرمیاں رک گئیں تو اس کا براہ راست اثر پیداوار، خدمات اور زراعت کے شعبوں میں کام کرنے والے افراد اور اداروں پر ہوا جس کا نتیجہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کے منفی ہونے کی صورت میں بر آمد ہوا۔", "title": "70 سال میں پہلی دفعہ قومی پیداوار منفی، عوام کیسے متاثر ہوں گے؟", "firstPublished": "2020-06-12T06:45:56.000Z", "id": "d0e547f9-9a2e-3249-9de3-690873266dbe", "article": "لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب ملک کی معاشی سرگرمیاں رک گئیں تو اس کا براہ راست اثر پیداوار، خدمات اور زراعت کے شعبوں میں کام کرنے والے افراد اور اداروں پر ہوا جس کا نتیجہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کے منفی ہونے کی صورت میں بر آمد ہوا فائبر تیار کرنے والا پلانٹ مینوفیکچرنگ یعنی پیداوار کا شعبہ ہے اور ریئل اسٹیٹ اور آن لائن پبلک ٹرانسپورٹ سروسز یعنی خدمات کے شعبے میں کام کرنے والے ادارے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان شعبوں میں جب کام رک گیا تو اس کا براہ راست اثر پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار پر ہوا جسے جی ڈی پی کہا جاتا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب ملک کی معاشی سرگرمیاں رک گئیں تو اس کا براہ راست اثر ان تینوں شعبوں میں کام کرنے والے افراد اور اداروں پر ہوا جس کا نتیجہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کے منفی ہونے کی صورت میں بر آمد ہوا۔ پاکستان کی نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے مطابق موجودہ مالی سال میں مجموعی قومی پیداوار کی شرح منفی 0.38 فیصد رے گی۔ مجموعی قومی پیداوار کی منفی شرح کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ پاشا نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیداواری عمل کی بندش اس کی سب سے بڑی وجہ ہے اور اس کی ایک نمایاں مثال برآمدی شعبہ ہے جب اپریل کے مہینے میں ملک کی برآمدات 50 فیصد تک گر گئیں۔ ان کے مطابق ملک میں صنعتی شعبہ بند پڑا ہوا تھا اور امریکہ اور یورپ کی منڈیاں لاک ڈاؤن کی وجہ سے کچھ بھی درآمد نہیں کر رہیں جس کا براہ راست اثر اُس ایک عام فرد پر پڑتا ہے جو برآمد ہونے والی مصنوعات کی تیاری کے کسی کارخانے میں کام کرتا ہے۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے رواں مالی سال میں جی ڈی پی کے منفی ہونے کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب ملک کی پوری معیشت کا پہیہ رک چکا ہے اور کورونا وائرس کی وجہ سے پیداوار اور خدمات کے شعبوں میں کام بند ہوا تو اس کا براہ راست اثر ملک کی مجموعی قومی پیداوار پر ہوا۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں کمی کا براہ راست اثر ایک عام فرد پر پڑتا ہے کیونکہ مجموعی قومی پیداوار میں کمی اس وقت دیکھنے میں آتی ہے جب ملک کے صنعتی، زرعی اور خدمات انجام دینے والے اداروں میں کام کی رفتار سست روی کا شکار ہوتی ہے یا ان میں کام بند ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر پاشا نے بتایا پاکستان میں چھ کروڑ افراد پر مشتمل ورک فورس ہے جس میں سے کورونا وائرس سے پہلے 50 لاکھ افراد بیروزگار تھے جو مجموعی ورک فورس کا تقریباً چھ سے سات فیصد بنتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب کاروبار ٹھپ ہوگئے اور معاشی سرگرمیاں کو بریک لگ گیا تو اس سے بیروزگاری مزید بڑھ گئی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53011866", "summary": "مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 2.67 فیصد رہی جبکہ صنعتی شعبہ متاثر ہوا اور اس میں ترقی کی شرح منفی 2.64 رہی ہے جبکہ خدمات کے شعبے میں یہ شرح منفی 3.4 فیصد ہے۔", "title": "’تین فیصد کی امید تھی، جی ڈی پی کی شرح نمو منفی 0.4 فیصد رہی‘", "firstPublished": "2020-06-11T13:37:23.000Z", "id": "11951839-e463-4b4b-86e7-b3451d3b2fee", "article": "پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کورونا کی وبا سے قبل معاشی ترقی کی شرح تین فیصد سے بڑھنے کی امید تھی تاہم مالی سال 20-2019 میں جی ڈی پی کی شرح نمو منفی 0.4 فیصد رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 2.67 فیصد رہی جبکہ صنعتی شعبہ متاثر ہوا اور اس میں ترقی کی شرح منفی 2.64 رہی ہے جبکہ خدمات کے شعبے میں یہ شرح منفی 3.4 فیصد ہے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کورونا کی وبا کے بارے مں کوئی بھی چیز یقین سے کہنا مشکل ہے کیونکہ دنیا اس پر مختلف طریقوں سے اندازے لگارہی ہے کہ کس چیز پر کتنا اثر ہوا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پورے ملک کی آمدنی 0.4 فیصد کم ہوگئی حالانکہ ہم سمجھ رہے تھے کہ آمدنی 3 فیصد بڑھے گی، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں قومی آمدن میں 3 سے ساڑھے 3 فیصد نقصان دیکھنا پڑا۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ نے کہا کہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹرانسپورٹ، ریلوے اور ایئر ٹرانسپورٹ بند رہی تو اس میں منفی ترقی ہوئی اور یہ شرح منفی 7.1 ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں حکومت نے کافی کوششں کی اور کچھ ممالک سے قرض اور مؤخر شدہ ادائیگیوں پر تیل حاصل کیا اور اس کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے 6 ارب ڈالر کا پروگرام بھی طے کیا۔ مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ پہلے سال اور خصوصی طور پر رواں برس کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 73فیصد کمی کی گئی۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ 'حکومت نے تیسری اہم چیز جو اس برس کی وہ یہ کہ اس سال بہت سخت انداز میں حکومتی اخراجات کو کنٹرول کیا گیا اور یہ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں کبھی ہوا ہو کہ کسی حکومت نے پرائمری بیلنس قائم کیا ہو، یعنی حکومتی اخراجات، آمدن سے کم ہوگئے جس سے پرائمری بیلنس سرپلس ہوگیا۔' مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 'میں اس کے لیے فنانس سیکریٹری اور وزارت خزانہ کی پوری یم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیر اعظم نے اس شعبے میں قیادت دکھائی اور جنرل باجوہ کا بھی شکر گزار ہوں کہ ہم نےفوج کے بجٹ کو منجمد کیا۔' ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت کی پانچویں اور شاید ایک بہت بڑی کامیابی یہ رہی کہ وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے کہ ہر چیز کا محور پاکستان کے عوام ہیں اور وہ عوام جو کمزور طبقے سے ہیں، جنھیں بھلادیا گیا ہے اور جن کے لیے ماضی میں بہت کم کام کیا گیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-53004731", "summary": "حالیہ دنوں میں ایران میں کورونا وائرس کے مصدقہ متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کورونا کیسز میں حالیہ اضافے نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ آیا ایران کو اس وبا کی دوسری بڑی لہر کا سامنا تو نہیں؟", "title": "کیا ایران میں کورونا وائرس دوبارہ سر اٹھا رہا ہے؟", "firstPublished": "2020-06-11T12:12:13.000Z", "id": "4662ecd6-adf6-5f43-97c5-da42c9eb17a0", "article": "حالیہ دنوں میں ایران میں کورونا وائرس کے مصدقہ متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کورونا کیسز میں حالیہ اضافے نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ آیا ایران کو اس وبا کی دوسری بڑی لہر کا سامنا تو نہیں؟ اُس وقت ایران کے حکام کو اس تنقید کا سامنا تھا کہ وہ اپنے ملک میں مشہور مذہبی مقامات اور مساجد کو بند کرنے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں۔ ایرانی حکام پر یہ تنقید بھی کی جا رہی تھی کہ وہ اپنے عوام اور مذہبی سیاحت پر آنے والے افراد کی نقل و حرکت کو زیادہ محدود کیوں نہیں کر رہے ہیں۔ پابندیوں میں نرمی کے بعد واضح طور پر سماجی رابطے بڑھے ہیں تاہم ایران میں حکام کا کہنا ہے کہ کیسوں کے نمبر بڑھنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حالیہ دنوں میں ٹیسٹنگ زیادہ کی گئی ہے۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ٹیسٹگ میں اضافے کی وجہ سے نئے کیس سامنے آنے کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایران کے شعبہ صحت سے منسلک وبائی امراض کے ماہر محمد مہدی نے اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے کہ ’کیسوں میں اضافے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ایسے مریضوں کی نشاندہی کرنے کا عمل شروع کیا ہے جن میں بیماری کی بظاہر کوئی علامات نہیں ہیں اور اگر ہیں تو بہت ہی کم۔‘ مگر جب آپ مثبت نتائج کے تناسب پر ایک نظر دوڑاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مئی کے وسط سے لے کر مئی کے اختتام تک کیسوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اپریل میں ایرانی پارلیمان کے تحقیقی مرکز ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کورونا کے باعث ہونے والی اموات ان ہلاکتوں سے دگنا ہو سکتی ہیں جتنی کے اس وقت ملک میں سرکاری طور پر رپورٹ ہو رہی ہیں۔ یاد رہے کہ ایران میں صرف ہسپتالوں میں ہونے والی اموات کی تعداد سرکاری سطح پر جاری کی جاتی ہے۔ ایرانی نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ اس وبا کے بارے میں بالکل لاپرواہ ہو چکے ہیں۔ اگر عوام صحت کے ضابطوں کی پابندی میں ناکام رہے۔۔۔ تو ہمیں بدترین صورتحال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘ بی بی سی فارسی کی نمائندے رانا رحیمپور کہتے ہیں کہ تہران میں موجود ایرانی لیڈر شپ وبا کے ’دوسرے دور‘ پر بات کرنے سے گریزاں دکھائی دیتی ہے اس بات سے قطع نظر کے ایران ہی میں چند حکام اس حوالے سے لگاتار متنبہ کر رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ملک کے معاشی حالات کے پیشِ نظر ایران میں لاک ڈاؤن کا نفاذ غیرمعینہ مدت کے لیے جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ معاشی مسائل کی بڑی وجہ امریکہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں، بدعنوانی اور بدانتظامی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53004159", "summary": "ملک کے کچھ حصوں میں پیٹرول کی کمی سنگین صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ پیٹرول سستا ہونے سے قبل باآسانی دستیاب تھا لیکن اب کئی پمپس پر اس کی فروخت بند ہے۔ کیا اس کی وجہ ذخیرہ اندوزی ہے؟", "title": "پاکستان میں ’سستے پیٹرول‘ کی قلت کی وجہ کیا ہے؟", "firstPublished": "2020-06-11T10:27:01.000Z", "id": "fee922ed-5c84-8647-88cb-708eeb70a131", "article": "ملک کے کچھ حصوں میں پیٹرول کی کمی سنگین صورتحال اختیار کر چکی ہے تو بعض علاقوں میں یہ جزوی طور پر دستیاب ہے۔ پاکستان میں گذشتہ ماہ کے اختتام تک پیٹرول باآسانی دستیاب تھا تاہم جون کے مہینے کے شروع ہونے کے بعد اس کے بحران نے سر اٹھانا شروع کر دیا اور اس نے اس وقت سنگین صورت اختیار کر لی جب اکثر پمپس پر پیٹرول کی فروخت بند ہوگئی۔ اس کمی کی وجہ تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کو قرار دیا گیا۔ تاہم پیٹرول سستا ہونے کے بعد اس کی دستیابی مشکل ہوگئی جب ملک کے مختلف حصوں میں تیل کی فراہمی رُک گئی۔ تاہم جون کی پہلی تاریخ کو پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے اوگرا کو لکھا گیا کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ملک میں پیٹرول کی ذخیرہ اندوزی کر سکتی ہیں جس کی ایک وجہ اس سال کے اگلے مہینے میں تیل کی قیمتوں میں متوقع اضافہ ہو سکتا ہے۔ پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے اوگرا کو کہا گیا کہ وہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ہدایات جاری کرے کہ وہ ملک میں پیٹرول اور ڈیزل کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ تاہم اس کے باجود ملک میں پیٹرول کے بحران نے اس وقت سر اٹھانا شروع کر دیا جب جون کے پہلے ہفتے میں ملک کے اکثر حصوں میں پیٹرول پمپس سے پیٹرول غائب ہو گیا۔ اوگرا کے ترجمان کے مطابق آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے ملک کے ایسے حصوں میں پیٹرول کی سپلائی فراہم کرنے کا وعدہ کیا جہاں اس کی کمی ہے۔ اس وعدے کے باجود پیٹرول کی فراہمی کو پورے ملک میں یقینی نہیں بنایا جا سکا۔ حبیب حیدر نے کہا کہ 31 مئی کے بعد پیٹرول کی قلت کو آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ تیل کے جہاز کے لنگر انداز ہونے سے لے کر اس کی ملک بھر میں ترسیل کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ شیل پاکستان کے اہلکار کے مطابق مارچ کے آخر میں طلب میں کمی کی وجہ سے حکومت نے پیٹرول کی درآمد بند کر دی تھی لیکن مئی میں طلب بڑھنے کی وجہ سے جب نئے آرڈر دیے گئے تو ان کے تحت پیٹرول سپلائی میں کچھ وقت لگنا تھا۔ ان کے مطابق آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے ایک خاص قیمت پر تیل برآمد کر کے اس کا ذخیرہ کیا۔ تاہم جون کے لیے پیٹرول کی قیمت میں کمی کی وجہ سے ان کمپنیوں کو ذخیرہ شدہ پیٹرول کو نئی قیمت پر بیچنے سے نقصان ہو رہا تھا جو پیٹرول کی ضرورت کے مطابق فراہم کرنے میں رکاوٹ بنا۔ اوگرا کے ترجمان عمران غزنوی کے مطابق آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو جون کے مہینے میں پیٹرول کی قیمت کی کمی کی وجہ سے درآمد شدہ قیمت کی وجہ سے شاید تھوڑا سا نقصان ہوا ہو۔ تاہم اس کے لیے ذخیرہ اندوزی کرنا قابل قبول نہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-52828187", "summary": "انڈیا میں موجود کورونا کے مصدقہ متاثرین کا پانچواں حصہ، یعنی 31 ہزار سے زائد متاثرین، ملک کے سب سے امیر شہر ممبئی میں بستا ہے جبکہ اس وبا کے باعث ہونے والی ایک چوتھائی ہلاکتیں بھی اسی شہر میں ہوئی ہیں۔", "title": "کورونا نے انڈیا کے امیر ترین شہر میں کیسے تباہی مچائی؟", "firstPublished": "2020-05-28T10:24:12.000Z", "id": "609c2b8b-65aa-4f43-b89f-209d4b90de0d", "article": "انڈیا میں موجود کورونا کے مصدقہ متاثرین کا پانچواں حصہ، یعنی 31 ہزار سے زائد متاثرین، ملک کے سب سے امیر شہر ممبئی میں بستا ہے جبکہ اس وبا کے باعث ہونے والی ایک چوتھائی ہلاکتیں بھی اسی شہر میں ہوئی ہیں۔ سیان ہسپتال اور کے ای ایم ہسپتال میں بنائی گئی ویڈیوز ظاہر کرتی ہیں کہ کورونا مریضوں کا علاج وہیں کیا جا رہا ہے جہاں اس مرض سے ہلاک ہونے والوں کی میتتیں پڑی ہیں اور ہسپتالوں کے وارڈز مریضوں سے کھچا کھچ بھرے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان ویڈیوز کو لے کر خوب واویلا ہو رہا ہے۔ اسی ہسپتال کے ایک اور ڈاکٹر نے بتایا کہ ’ویڈیوزمیں دکھائی جانے والی صورتحال کافی برسوں سے چلی آ رہی ہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ لوگوں کو صحت عامہ کی سہولیات کے اس حد تک ناقص ہونے احساس اس وبائی مرض کی وجہ سے ہوا ہے۔‘ حکومت کی ایک اپنی رپورٹ کے مطابق ممبئی شہر میں 70 سرکاری ہسپتال ہیں جن میں 20 ہزار 700 مریضوں کے علاج کی گنجائش ہے۔ اس کےعلاوہ نجی شعبے کے 1500 ہسپتال موجود ہیں جن کے پاس 20 ہزار بستروں کی گنجائش ہے۔ اس شہر میں اندازاً ہر تین ہزار افراد کے لیے ہسپتال میں اوسطاً ایک بستر کی سہولت موجود ہے۔ نتھیا گنیش کی والدہ اس وقت قرنطینہ میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں روزانہ کورونا وائرس کی خبریں دیکھتا تھا۔ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس سے میں یا میرے خاندان کا کوئی فرد متاثر ہو گا۔ ہم متوسط درجے کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے پاس دولت ہو سکتی ہے لیکن یہ آپ کے پیاروں کی زندگی نہیں بچا سکتی۔‘ محمد رمضان ایک فلاحی تنظیم کے کارکن ہیں۔ ان کی تنظیم ان لوگوں میں خوراک تقسیم کرتی ہے جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنی ملازمتیں چھوڑ چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے کبھی بھی اتنا کام نہیں کیا۔ میں نے کبھی بھی اپنے آپ کو اتنا تھکا ہوا محسوس نہیں کیا ہے۔ اب ہمیں خوراک کی تقسیم کرنے کا کام روکنا پڑ رہا ہے کیونکہ اب ہمارے پاس فنڈز ختم ہو چکے ہیں۔ ہم کب تک یہ کام کر سکتے ہیں؟‘ ڈاکٹر راؤل غولے، جو مقامی حکومت کے حکام کے ساتھ مل کر گھر گھر جا کر کورونا وائرس کے ٹیسٹ کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ’ہم نئے نئے ہستالوں کی تعمیر جاری رکھ سکتے ہیں۔ یہ سب ایک ہی دن میں بھر جائیں گے۔ جب تک ہم اس وائرس کے پھیلنے کی وجہ معلوم نہیں کر لیتے ہیں اور اسے روک نہیں لیتے ہیں، اس وقت تک شہر کو لاک ڈاؤن میں رکھنا پڑے گا جس میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/vert-tra-52223988", "summary": "پیشہ وارانہ سروس کی عالمی فرم پی ڈبلیو سی کی رپورٹ ’دی ورلڈ ان 2050‘ کے مطابق 30 برس میں چھ سے سات عالمی معاشی طاقتیں وہ ملک ہوں گے جو آج معاشی لحاظ سے ترقی پذیر ملک ہیں۔", "title": "سنہ 2050 میں دنیا کی پانچ عالمی طاقتیں کون سی ہوں گی؟", "firstPublished": "2020-05-27T05:30:33.000Z", "id": "60375734-e9e3-0e45-a6e3-4302334a40b0", "article": "اس معاشی نمو سے بے پناہ تبدیلیاں وقوع پذیر ہوں گی لیکن مستقبل میں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں یہ کہنا انتہائی مشکل ہے۔ اکثر ماہرین اقتصادیات اس بات پر متفق ہیں کہ آج کے دور کی ترقی پذیر معیشتیں مستقبل کی ترقی یافتہ اور معاشی طاقتیں ہوں گی۔ پیشہ وارانہ سروس کی عالمی فرم پی ڈبلیو سی کی رپورٹ ’دی ورلڈ ان 2050‘ کے مطابق 30 برس میں چھ میں سے سات عالمی معاشی طاقتیں وہ ممالک ہوں گے جو آج معاشی لحاظ سے ترقی پذیر ملک ہیں اور امریکہ اس فہرست میں دوسرے سے تیسرے درجے پر چلا جائے گا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آنے والے عشروں میں ویتنام، فلپائن اور نائجیریا جیسے ملک بھی معاشی لحاظ سے بے پناہ ترقی کریں گے اور اس فہرست میں بہت اوپر چلے جائیں گے۔ ایسے پانچ ممالک جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں بے حد ترقی کریں گے ہم نے ان میں رہنے والوں سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ وہ اپنے گرد و پیش میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے کیسے نمٹ رہے ہیں، تیزی سے معاشی ترقی کرتے ہوئے خطوں میں ہونے سے انھیں کیا فوائد حاصل ہو رہے ہیں اور کون سے ایسے مسائل یا مشکلات ہیں جو انھیں درپیش ہیں۔ انھوں نے کہا کہ برازیل ایک بہت ہی پیار کرنے والا ملک ہے جو باہر سے آنے والوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ برازیل کے لوگ بہت ملنسار ہوتے ہیں۔ جب کوئی غیر ملکی ان کی ثقافت اور زبان میں دلچسپی ظاہر کرتا ہے تو انھیں بہت اچھا لگتا ہے۔ پرتگالی زبان سیکھ کر یہ آپ کو اپنے گھر کی طرح لگنے لگے گا۔ سفر پر بلاگ لکھنے والے فیڈریکو آرزابالاگا کا کہنا ہے کہ گذشتہ 10 برس میں میکسیکو نے معاشی لحاظ سے ترقی ضرور کی لیکن اتنی نہیں جتنی میرے خیال میں اسے کرنی چاہیے تھی یا یہ کر سکتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ایندھن کی قیمتیں دگنی ہو گئی ہیں اور ڈالر کے مقابلے میکسیکو کی کرنسی پیسو کی قیمت آدھی رہ گئی ہے۔ بہت سے دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح یہاں سڑکوں اور معاشرتی ڈھانچے کا حال کوئی اتنا اچھا نہیں لیکن برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کی خبر کے مطابق حال ہی میں حکومت نے اگلے چار برس میں 44 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ افریقہ کی ایک بڑی معیشت، جو سنہ 2050 تک بہت ترقی کرنے والا ہے۔ وہ ہر سال سوا چار فیصد کی شرح نمو سے ترقی کرتا ہوا سنہ 2050 سے معاشی لحاظ سے ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں 22ویں نمبر سے 14ویں نمبر پر آ جائے گا۔ عالمی کاروبار کے اعداد و شمار کے مطابق نائجیریا کے 30 فیصد افراد کا ذہن کاروباری ہے اور وہ کسی نہ کسی کاروبار کے مالک یا مینجر ہیں جو کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52803201", "summary": "کورونا وائرس نے دیگر شعبوں کی طرح پاکستان میں سیاحت کی صنعت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ سنہ 2020 پاکستان میں سیاحت کا سال ہو گا مگر کورونا کے باعث اس شعبے سے منسلک افراد کے ہاں اب نوبت فاقوں تک آ گئی ہے۔", "title": "پاکستان میں سیاحت پر پابندی ہزاروں خاندانوں کے لیے تباہی کا پیغام", "firstPublished": "2020-05-26T08:51:45.000Z", "id": "e7a87be4-8caf-b244-994b-bb01ca9ff775", "article": "’میں نے نہ صرف اپنی برسوں کی جمع پونجی بلکہ بینک اور دیگر ذرائع سے حاصل کیا گیا قرض صرف اس وجہ سے ضائع کر دیا کہ رواں برس زیادہ سرمایہ کاری کر کے زیادہ منافع کماؤں گا۔ مگر اب صورتحال یہ ہے کہ ہوٹلوں کی صنعت مکمل طور پر بند ہے۔ بینک سے حاصل کیے گئے قرض کی قسط ادا نہیں کر پا رہا ہوں اور ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے کے قابل نہیں رہا ہوں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ رواں برس کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان اور دیگر اداروں نے کہا تھا کہ یہ پاکستان میں سیاحت کا سال ہو گا۔ ’مگر اب کورونا کے باعث لاک ڈاؤن ہے۔ کچھ ٹور آپریٹرز نے کمرے بک کروائے تھے وہ بھی منسوخ کروا دیے گئے ہیں۔ سیزن شروع ہو چکا ہے مگر ہوٹل بند ہیں۔ سوچتا ہوں کہ بند ہوٹل میں کب تک ملازمیں کو تنخواہیں ادا کر سکوں گا؟‘ محمد آصف گذشتہ کئی برسوں سے وادی کاغان، کشمیر اور منسلک علاقوں میں گائیڈ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس سال میرے پاس پہلے سے پانچ غیرملکی سیاحوں کے لیے کام کی بکنگ تھی مگر اب سب منسوخ ہو چکا ہے اور حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ قرضے لے کر گھر کا خرچ پورا کرنا پڑ رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس صورتحال سے اس صنعت سے وابستہ تمام کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے اور نوبت فاقوں تک آ گئی ہے۔ اکرم محمد بیگ کا کہنا تھا کہ یہ ایک نازک وقت ہے۔ اس نازک وقت میں سیاحت کی صنعت سے جڑے لوگ حکومت سے امداد نہیں مانگ رہے بلکہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کی مستقبل کی معیشت کی بنیاد یعنی سیاحت کی صنعت کو سہارا دینے کے لیے ٹھوس اقدامات اور پالیسیاں تربیت دے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاحت پر بدترین حالات 9/11 کے بعد بھی آئے تھے مگر حکومتوں کے ساتھ مل کر اس کاروبار سے وابستہ افراد نے اس کا مقابلہ کیا تھا اور اب بھی ایسا ہو سکتا ہے مگر اس کے لیے حکومت کو ٹھوس پالیساں بنانا ہوں گئی۔ اقبال حسین کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت، گلگت بلتستان حکومت اور پرائیوٹ سیکٹر نے سیاحت کو اس مقام تک پہچانے کے لیے بہت محنت کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ شاید صورتحال کو نارمل ہوتے ہوئے مزید دو سے تین سال کا عرصہ لگے۔ اقبال حسین کا کہنا تھا کہ 15 جون تک تو سیاحوں کو گلگت بلتستان میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ مگر 15 جون کے بعد حکومت کو یہ تجویز دی گئی ہے کہ جزوی طور پر بین الاقوامی اداروں کی رہنمائی میں ایس او پیز کے ساتھ سیاحت کی اجازت دی جائے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-52213708", "summary": "ملک میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ حکمراں جماعت کو جو سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے وہ آٹے اور چینی کے بحران سے متعلق ایف آئی اے کی رپورٹ آنے کے بعد عوام میں اپنی بظاہر کھوئی ہوئی ساکھ اور مقبولیت کو بحال کرنا ہے۔", "title": "چینی آٹا بحران رپورٹ: کیا حکومت رپورٹ منظر عام پر لائے گی؟", "firstPublished": "2020-05-21T08:00:33.000Z", "id": "70d0922e-473e-1d48-8997-93ce1ff6496d", "article": "پاکستان میں آٹے اور چینی کے بحران سے متعلق رواں برس اپریل کے اوائل میں سامنے آنے والی انکوائری رپورٹ کی مفصل فارنزک آڈٹ رپورٹ جمعرات کو وفاقی کابینہ میں پیش کی جائے گی۔ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بلائے گئے اس خصوصی اجلاس میں آٹے اور چینی کے بحران سے متعلق بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ اور ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا کابینہ کے اراکین کو ان بحرانوں سے متعلق بریفنگ دیں گے جس کے بعد اس رپورٹ کو منظرعام پر لانے کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔ اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ساتھ کام کرنے والے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ آٹے اور چینی کے بحران کے بارے میں جو تحقیقاتی رپورٹ تیار کی گئی تھی اور اس میں جن ذمہ داروں کا تعین کیا گیا تھا فارنزک آڈٹ رپورٹ میں اس کی تصدیق ہوئی ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ کے بارے میں متضاد رائے موجود ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ رپورٹ لیک کروائی گئی ہے جس کی تصدیق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنما اور مبینہ طور پر چینی بحران کے اہم کردار جہانگیر ترین نے کی ہے۔ چار اپریل کو منظر عام پر آنے والی چینی اور آٹا بحران کے حوالے سے بنائی گئی رپورٹس نے سیاسی میدان میں ہلچل مچا دی تھی۔ یہ رپورٹ ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا کی سربراہی میں قائم ہونے والی ایک ٹیم نے تیار کی ہے۔ سب سے پہلے اس معاملے کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایف آئی اے کی طرف سےچینی کے بحران کے بارے میں تفتیش کی روشنی میں تیار کی جانے والی اس رپورٹ میں جہانگیر ترین اور حکمراں جماعت کے دیگر رہنماؤں کے بارے میں کیا کہا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے چینی کی برآمد کی اجازت ملنے کے بعد صوبہ پنجاب کی کابینہ کی طرف سے شوگر ملز مالکان کو تین ارب روپے کی سبسڈی دی گئی اور اس سبسڈی کا سب سے بڑا حصہ جہانگیر ترین کو ملا جو کہ 56 کروڑ تھا۔ آٹے کی قلت کے بارے میں ایف آئی اے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے صوبوں کو پاسکو سے گندم خریدنے کے بارے میں کہا تھا جن میں چار لاکھ ٹن سندھ اور ساڑھے چار لاکھ ٹن صوبہ پنجاب کو خریدنے کے بارے میں کہا تھا۔ ملک میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ حکمراں جماعت کو جو سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے وہ آٹے اور چینی کے بحران سے متعلق ایف آئی اے کی رپورٹ آنے کے بعد عوام میں اپنی بظاہر کھورہی ساکھ اور مقبولیت کو بحال کرنا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-52748432", "summary": "وینزویلا کی حکومت نے برطانیہ کے مرکزی بینک (بینک آف انگلینڈ) کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کر دی ہے تاکہ اس سے اپنا 82 کروڑ ڈالر مالیت کا سونا واپس لے سکے۔", "title": "وینزویلا کا برطانیہ کے خلاف اپنا سونا واپس لینے کے لیے مقدمہ", "firstPublished": "2020-05-21T04:10:48.000Z", "id": "ae263cd3-966a-b946-821e-db5cadad3ecb", "article": "وینزویلا کی حکومت نے برطانیہ کے مرکزی بینک (بینک آف انگلینڈ) کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کر دی ہے تاکہ اس 82 کروڑ ڈالر مالیت کا سونا واپس کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ وینزویلا میں حکام کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ بینک آف انگلینڈ میں موجود کچھ سونا بیچ کر اسے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں استعمال کیا جائے۔ وینزویلا کا کہنا ہے کہ یہ رقم اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کو منتقل کر دی جائے تاکہ کووڈ 19 سے نمٹنے کے لیے درکار طبی سامان خریدا جا سکے۔ یہ قانونی رسہ کشی اس وقت شروع ہوئی ہے جب وینزویلا کا صحت عامہ یا پبلک ہیلتھ کا نظام ابتری کا شکار ہوا اور اس عالمی وبا سے نمٹنے کی اس کی صلاحیت کے بارے میں شک و شبہات ظاہر کیے جانے لگے۔ اقوام متحدہ نے بی بی سی کو بھیجے گئے ایک پیغام میں لکھا ہے کہ وینزویلا کی حکومت نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا ہے کہ اس طرح کے طریقہ کار کے بارے میں سوچا جائے۔ بینک آف انگلینڈ دنیا میں سونا ذخیرہ رکھنے کا دنیا کا دوسرا بڑا بینک ہے۔ یہاں چاہ لاکھ کے قریب سونے کی اینٹیں رکھی گئی ہیں۔ نیویارک کا فیڈرل بینک وہ واحد بینک ہے جس کے پاس اس سے زیادہ سونے کی اینٹیں جمع ہیں۔ اطلاعات ک مطابق وینزویلا کی حکومت ایران کو سونا فروخت کرتی رہی لیکن اس کے باوجود وینزویلا کے مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق اس کے زرمبادلہ کے ذخائر اس سال کے شروع میں اتنے کم ہو گئے تھے جتنے تیس برس میں نہیں ہوئے۔ وینزویلا نے سنہ 2018 میں پہلی مرتبہ بینک آف انگلینڈ سے رجوع کیا تھا۔ وینزویلا کے وزیر خزانہ سائمن زیرپا اور مرکزی بینک کے صدر کلیسٹو اورٹیگا لندن آئے تھے جہاں انھوں نے وینزولا کا سونا طلب کیا تھا۔ یون گائڈو کی حکومت کو فوری طور پر امریکہ اور برطانیہ سمیت پچاس ملکوں نے تسلیم کر لیا تھا جس نے بینک آف انگلینڈ سے وینزولا کا سونا واپس نہ کرنے کی درخواست کی تھی اور الزام عائد کیا تھا کہ یہ بدعنوان لوگوں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ برطانیہ کے امریکی امور کے وزیر ایلن ڈنکن کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ وینزویلا اور بینک آف انگلینڈ کے درمیان ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا تھا کہ بینک آف انگلینڈ جب سے اس بارے میں فیصلہ کرے گا تو وہ اس بات کو مد نظر رکھے گا کہ مادورو کی حکومت کو بہت سے ملک تسلیم نہیں کرتے اور یون گائڈو کو ملک کا سربراہ تسلیم کرتے ہیں۔ بینک آف انگلینڈ نے گو اس سے زیادہ کبھی کچھ نہیں کہا کہ وہ اپنے کھاتہ داروں سے تعلقات کے بارے میں تبصرہ نہیں کرتا لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے وینزویلا پر لگی اقتصادی پابندیوں اور منی لانڈرنگ کے ضابطے اس کے فیصلے پر اثر انداز ہوئے ہوں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52673013", "summary": "پاکستان کے سٹیٹ بینک کی جانب سے جمعے کو اس برس کی چوتھی مالیاتی پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت شرح سود نو سے اٹھ فیصد کی سطح پر آگئی ہے۔ سٹیٹ بینک کے پالیسی بیان کے مطابق یہ فیصلہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں کمی کے بعد کیا گیا ہے۔", "title": "پاکستان میں مہنگائی میں کمی کا فائدہ عام آدمی کو ہو گا؟", "firstPublished": "2020-05-15T13:37:04.000Z", "id": "b26394b7-01e1-be45-91bf-6066b804814b", "article": "پاکستان کے سٹیٹ بینک کی جانب سے جمعے کو اس برس کی چوتھی مالیاتی پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت شرح سود نو سے اٹھ فیصد کی سطح پر آگئی ہے۔ سٹیٹ بینک کے پالیسی بیان کے مطابق یہ فیصلہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں کمی کے بعد کیا گیا ہے۔ ملک میں کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لگنے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں لاکھوں افراد کا روزگار متاثر ہوا ہے وہیں مختلف ضروریات اور مصنوعات کی مانگ میں کمی کے باعث مہنگائی کی شرح میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔ سرکاری طور پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں رواں برس جنوری میں مہنگائی کی شرح ساڑھے 14 فیصد تھی اور یہ ملک میں ایک عشرے سے زیادہ عرصے میں بلند ترین سطح پر تھی۔ مہنگائی میں کمی کی وجہ سے پاکستان کے مرکزی بینک نے مارچ اور اپریل کے مہینے میں شرح سود میں مجموعی طور پر 4.25 فیصد کمی کی۔ پاکستان کے مرکزی بینک نے اپریل کے وسط میں شرح سود کم کرنے کے پالیسی بیان میں بھی مہنگائی مزید کم ہونے کا عندیہ دیا تھا۔ ملک میں مہنگائی کی شرح میں کمی کا فائدہ کیا ایک ایسے وقت میں عام افراد کو ہو رہا ہے جب لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت کا پہیہ جام ہے اور بڑی تعداد میں لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں یا ان کی آمدنی کے ذرائع کم ہو رہے ہیں۔ یہ صورت حال معیشت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے جس میں ایک طرف مینوفیکچرنگ کے شعبے میں پیداوار پر منفی اثر پڑتا ہے تو اس کے ساتھ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کمی کا شکار ہوتی ہے جس میں ایک قومی محصولات میں کمی ہے جو حکومت چیزوں کی فروخت پر سیلز ٹیکس کی صورت میں اکٹھا کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں گراوٹ جہاں عام عوام کے لیے بہتر ہے تو اس کے ساتھ یہ شرح سود کو بھی نیچے لائی ہے جو صنعت و کاروبار کے لیے سود مند ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح کبھی بھی منفی زون میں نہیں آئی جسے ڈیفلیشن کہتے ہیں۔ خیال رہے کہ مرکزی بینک نے لاک ڈاؤن سے پہلے شرح سود کو 13.25 فیصد تک بڑھا دیا تھا جس میں ایک وجہ ملک میں مہنگائی پر قابو پانا قرار دیا گیا تھا جس کے ذریعے ’نان فوڈ انفلیشن‘ کے شعبوں میں پھیلاؤ کو قابو میں لانا شامل تھا۔ طلب میں کمی کی وجہ سے گھٹتی مہنگائی کے بارے میں فرحان محمود کہتے ہیں کہ بظاہر تو یہ موجودہ حالات میں معیشت میں طلب کی کمی کی وجہ سے ہے لیکن اس کا مثبت اثر شرح سود میں کمی کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52672963", "summary": "دسویں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ میں بلوچستان سے غیر سرکاری (پرائیویٹ) رکن کی حیثیت سے سابق وفاقی وزیر جاوید جبار کی تقرری کی مخالفت اس وجہ سے کی جا رہی ہے کیونکہ نہ تو ان کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے اور نہ ہی وہ ماہر معیشت ہیں۔", "title": "’کیا سوا کروڑ آبادی میں کوئی ایسا شخص نہیں جو بلوچستان کی نمائندگی کر سکے؟‘", "firstPublished": "2020-05-15T07:09:47.000Z", "id": "e589a16c-ba2e-0b4f-9307-00086998e8b1", "article": "دسویں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ میں بلوچستان سے غیر سرکاری (پرائیویٹ) رکن کی حیثیت سے سابق وفاقی وزیر جاوید جبار کی تقرری کی مخالفت سامنے آ رہی ہے اور بعض سیاسی شخصیات اور وکلا رہنماؤں کی جانب سے ان کی تقرری کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس تنقید کا جواب جاوید جبار نے یہ کہہ کر دیا ہے کہ ’جو شخص جس شہر میں رہتا ہے اس جگہ سے اس کا ایک خاص رشتہ ضرور ہوتا ہے لیکن ہم ایک ہی مملکت کے شہری ہیں۔ اگر آپ پاکستانی ہیں تو آپ کو پاکستان کے تمام حصوں کے لوگوں کی خدمت کرنی پڑے گی۔‘ ان کے بقول بلوچستان سے ان کا گذشتہ دو تین دہائیوں سے کسی نہ کسی حیثیت میں تعلق رہا ہے۔ ’میں نے نہ صرف بلوچستان پر متعدد دستاویزی فلمیں بنائی ہیں بلکہ متعدد ایسی غیر سرکاری اور رضاکار تنظیموں سے وابستہ رہا ہوں جنھوں نے بلوچستان میں مختلف شعبوں میں کام کیا ہے۔‘ دوسری جانب اس تقرری کے ایک بڑے ناقد اور بلوچستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی محمد اسلم بھوتانی کے مطابق نہ تو جاوید جبار کا تعلق بلوچستان سے ہے اور نہ ہی وہ ماہرِ معاشیات ہیں۔ ’اگر بلوچستان پر کوئی دستاویزی فلم بنانی ہو تو اُس کام کے لیے شاید جاوید جبار سے کوئی بہتر شخص نہ ہو لیکن جہاں تک معیشت اور این ایف سی کی بات ہے تو جاوید جبار کو اس کا تجربہ نہیں ہے۔‘ ہر صوبائی وزیر خزانہ اس کا سرکاری رکن ہوتا ہے جبکہ اس کے علاوہ ہر صوبے سے ایک غیر سرکاری رکن کی تقرری صدر مملکت صوبائی حکومتوں کی سفارش پر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جاوید جبار کو نہ بلوچستان کے مسائل اور نہ ہی اس کی مشکلات کے بارے میں پتا ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں بہتر منصوبہ بندی اور بلوچستان کے مالی مشکلات کو کم کرنے کے دیگر اقدامات کی وجہ سے نویں این ایف سی ایوارڈ کے لیے بھی سابق سیکریٹری خزانہ محفوظ علی خان کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بلوچستان سے این ایف سی کا غیر سرکاری رکن مقرر کیا گیا تھا۔ ان کے بقول اس تناظر میں جاوید جبار کی تقرری کہیں ان مبینہ کوششوں کا حصہ نہ ہو جو کہ صوبوں کے وسائل کو کم کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں جس سے بلوچستان کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے کیونکہ وسائل کم ہونے سے بلوچستان ایک مرتبہ پھر مالی بحران سے دوچار ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح جاوید جبار نے دوسرے شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اس کی بنیاد پر وہ دسویں این ایف سی ایوارڈ کے لیے بلوچستان کے کیس کی بھرپور انداز سے وکالت کریں گے جس کے نتیجے میں بلوچستان کو زیادہ سے زیادہ وسائل ملیں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-52644775", "summary": "کورونا وائرس کی وبا نے عالمی معیشت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے لیکن اس کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں بہت سے کاروباروں کو نقصان پہنچا ہے وہیں کچھ کمپنیوں کا کاروبار غیرمتوقع طور پر چمکا بھی ہے۔", "title": "کورونا کی وبا میں کس کا کاروبار چمکا اور کون ڈوبا؟", "firstPublished": "2020-05-13T09:59:34.000Z", "id": "7576b001-540d-2944-877c-ed058e73d5dd", "article": "کورونا وائرس کی وبا نے عالمی معیشت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے لیکن اس کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے کچھ کمپنیوں کا کاروبار غیرمتوقع طور پر چمکا بھی ہے۔ لاک ڈاؤن میں ہوم انٹرٹینمنٹ کی صنعت ایک کامیاب کاروبار کے طور پر ابھری ہے اور گھر پر رہ کر تفریح کا یہ رجحان جو کورونا کی وبا سے پہلے بھی موجود تھا اب مزید کھل کر سامنے آیا ہے۔ اس کے علاوہ وبا کی وجہ سے کئی ممالک میں کرنسی کی قدر کم ہو رہی ہے سو اس کا مطلب نیٹ فلکس کے عالمی صارفین کی جانب سے دی جانے والی رقم کی قدر میں بھی کمی ہے۔ امریکہ کی کمپنیاں فیڈرل ایکسپریس یا فیڈ ایکس اور یو پی ایس دنیا میں سامان کی ترسیل کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ہیں۔ انھوں نے اب امریکی حکومت سے مدد مانگی ہے کیونکہ لاک ڈاؤن کے تحت عائد پابندیوں کی وجہ سے انھیں لاجسٹکس کے مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ جہاں عام افراد کی جانب سے آن لائن خریداری میں اضافہ ہوا ہے وہیں اس کاروبار کا زیادہ منافع بخش پہلو یعنی کاروباری اداروں کے مابین سامان کی ترسیل رک سی گئی ہے کیونکہ کاروبار بند ہیں یا محدود سطح پر کام کر رہے ہیں۔ بہت سے ممالک میں ریستورانوں کو صرف ’ٹیک اوے‘ یا ڈیلیوری کے لیے ہی کھولنے کی اجازت ہے لیکن جہاں لاک ڈاؤن میں آن لائن سودا سلف کی خریداری کا رجحان دیکھا گیا ہے وہیں لوگ پکا پکایا کھانا منگوانے میں دلچسپی لیتے نہیں دکھائی دے رہے۔ کووڈ-19 کی وجہ سے جنسی کھلونوں کی صنعت کو تو فائدہ ہوا ہے لیکن سیکس ورکرز کے لیے نہ صرف یہ مالی طور پر گھاٹے کا سودا ثابت ہوا ہے بلکہ ان کی صحت کے بارے میں بھی خدشات بڑھے ہیں۔ لاک ڈاؤن میں نقل و حرکت اور سفر پر پابندیاں جہاں ورزش گاہوں کے لیے بری خبر بن کر سامنے آئیں وہیں اس صورتحال میں ورزش کے سامان کی فروخت بڑھی ہے۔ لیکن لاک ڈاؤن کے منفی اثرات ایسی کمپنیوں پر پڑے ہیں جو بڑے پیمانے پر جم یا ورزش گاہیں چلاتی تھیں۔ مئی 2020 کے آغاز میں انڈیا کی مقبول کمپنی کلٹ ڈاٹ فٹ نے اعلان کیا کہ وہ اپنے 800 ملازمین کو نکال رہی ہے اور ملک بھر میں اپنی ورزش گاہیں بند بھی کر رہی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ جہاں لوگ مالی مشکلات کی وجہ سے کم خریداری کر رہے ہیں وہیں ایسے لوگ بھی ڈیجیٹل ادائیگیوں کا طریقہ اپنا رہے ہیں جو پہلے ایسا نہیں کر رہے تھے اور یہی پے پال میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے امید کی کرن ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-52622197", "summary": "دنیا 1930 کی دہائی کے گریٹ ڈپریشن کے بعد سب سے بڑے عالمی مالیاتی بحران کی تیاری کر رہی ہے۔ مگر یہ بحران کب تک چلے گا اور اس سے کیسے نکلا جائے گا؟", "title": "کورونا وائرس: عالمی معیشت کی بحالی میں کتنا وقت لگے گا؟", "firstPublished": "2020-05-12T02:53:43.000Z", "id": "c94bf3f4-d30f-6d49-8904-916973be0f3f", "article": "عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ آئندہ عالمی معیشت 3 فیصد تک سکڑ جائے گی جو کہ اس کی گذشتہ پیش گوئی کہ دنیا کی معیشت 3 فیصد بڑھے گی کہ بالکل برعکس ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ آئندہ عالمی معیشت 3 فیصد تک سکڑ جائے گی جو کہ اس کی گذشتہ پیش گوئی کہ دنیا کی معیشت 3 فیصد بڑھے گی کہ بالکل برعکس ہے۔ دنیا 1930 کی دہائی کے گریٹ ڈپریشن کے بعد سب سے بڑے عالمی بحران کی تیاری کر رہی ہے۔ مگر یہ بحران کب تک چلے گا اور اس سے کیسے نکلا جائے گا؟ وی شکل کی کساد بازاری کو ہم بہترین قرار دیتے ہیں۔ اس میں معیشت میں سست روی آتی ہے، جلدی سے اپنی نچلی ترین سطح تک پہنچتی ہے اور جلد ہی معیشت میں بہتری آنے لگتی ہے۔ پال گروئنوالڈ کہتے ہیں کہ ’ہم جو اب دیکھ رہے ہیں وہ شاید یو کی شکل یا ایک چوڑا یو ہے جس میں ہم بحران کے اثرات سے تو نکل آئیں گے مگر اس میں وقت لگے گا۔‘ تاہم وہ چین سے آنے والی خبروں کو مثبت انداز میں دیکھتی ہیں جہاں معیشت کی سست روی اور پھر بہتری باقی دنیا کے مقابلے میں ایک سہہ مائی پہلے شروع ہوئی ہے۔ حکومتیں لاک ڈاؤن جیسے اقدامات ختم کر دیں اور معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کرسکتی ہیں۔ مگر کورونا وائرس کی دوسری لہر کی صورت میں یہ اقدامات واپس لگا دیے جائیں گے اور معیشت کو ایک اور دھچکا لگے گا۔ پال گروئنوالڈ کہتے ہیں مگر اس وقت کوئی ویکسین یا علاج موجود نہیں ہے اور اس کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا ایک اور سلسلے کا سامنا ہے۔ حکومتیں لاک ڈاؤن جیسے اقدامات ختم کر دیں اور معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کرسکتی ہیں۔ مگر کورونا وائرس کی دوسری لہر کی صورت میں یہ اقدامات واپس لگا دیے جائیں گے اور معیشت کو ایک اور دھچکا لگے گا۔ پروفیسر ہوزے تساڈا کہتے ہیں کہ ایسے میں حتمی طور پر بحران سے نکلا کچھ عرصے کے بعد ہی جا سکتا ہے جس کے دوران معیشت بہتر ہوتی ہے مگر پھر گرنے لگتی ہے۔‘ بہت سے لوگ یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا کورونا وائرس دنیا کی معاشی سرگرمی کی نئی سطح کا تعین کر دے گا؟ ایل شکل کی کساد بازاری میں معیشت تیزی سے گرنے کے بعد کچھ سنبھلتی ہے مگر اپنی پرانی سطح پر واپس نہیں جاتی اور ایک نچلی سطح پر لوٹ جاتی ہے۔ پال گروئنوالڈ کہتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں پرانے نظام کو لوٹنا ناممکن ہوگا۔ ’وی یا یو شکل کے بجائے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم پیداوار کی پرانی سطح تک لوٹ سکیں گے یا نہیں۔ اور اس میں کتنا وقت لگے گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-52616139", "summary": "کورونا وائرس کی وبا نے تارکین وطن کے لیے بیرون ممالک اپنی ملازمت جاری رکھنے اور اپنی اجرت کو گھر بھیجنے کی صلاحیت کو محدود کر دیا ہے۔", "title": "کورونا: بیرون ملک مقیم افراد کو گھر پیسے بھیجنے میں کن مشکلات کا سامنا ہے؟", "firstPublished": "2020-05-11T22:03:59.000Z", "id": "a87f2d66-d676-9c4c-b652-29860c83db85", "article": "بیرون ممالک سے ترسیلِ زر یعنی بھیجے گئے پیسے دنیا بھر کے لاکھوں خاندانوں کے لیے ’زندگی رواں دواں رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ‘ ہے۔ لیکن کورونا وائرس کی وبا نے تارکین وطن کے لیے ملازمت جاری رکھنے اور اپنی اجرت کو گھر بھیجنے کی صلاحیت کو محدود کر دیا ہے۔ اس لیے ’زندگی رواں دواں رکھنے کا یہ بڑا ذریعہ‘ اب کمزور پڑ رہا ہے۔ ان کے شوہر متحدہ عرب امارات میں دبئی میں رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ سیلز انجینیئر کے طور پر کام کر رہے تھے لیکن کورونا کی وجہ سے وہ بیروزگار ہو کر دبئی میں اپنی رہائش تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ سمیتھا کہتی ہیں کہ ’گذشتہ ماہ سے وہ اپنے فلیٹ میں بے کار بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی نئی ملازمت کو جوائن نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنے بینک سے اپنا پیسہ نکال سکتے ہیں۔ یہ بہت مشکل ہے کیونکہ انھیں ہمارے (انڈیا میں) فلیٹ کے لیے کافی رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے لاکھوں کنبوں کے لیے بیرون ممالک سے بھیجے جانے والے پیسے ’لائف لائن‘ ہیں اور یہ غربت کو کم کرنے کے لیے بہت اہم ہیں۔ اس کا تعلق صرف خاندانوں کو زندہ رکھنے کے لیے نہیں ہے۔ مسٹر کلیمینس کا کہنا ہے کہ لوگ ترسیلات زر کا استعمال حفظان صحت، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال جیسی طویل المیعاد سرمایہ کاری میں کرتے ہیں جس سے ان کی زندگی ’زیادہ صحت مند اور خوشحال بنتی ہے اور معاشی طور منفعت بخش ہوتی ہے۔‘ سمیتھا اور ان کے شوہر کی طرح بہت سے معاملات میں اس کی وجہ سے تارکین وطن مزدور کام کرنے اور پیسے گھر بھیجنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ دوسری صورتوں میں مسئلہ رسائی میں دقت کے سبب ہے کیونکہ لوگ لاک ڈاؤن کے سبب پیسے منتقل کرنے والوں یا ان ذرائع تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ ’آپ کے گھر پر آپ کے اہلخانہ ہیں، بھائی بہنیں سکول نہیں جا رہے ہیں اور وہ آپ پر انحصار کر رہے ہیں کہ آپ ان کی مدد کریں۔ جب لوگ بھوکے ہوں گے، کنبہ کے افراد بھوکے ہوں گے تو وہ باہر جانے کی کوشش کریں گے اور اس سے ان کو انفیکشن ہو سکتا ہے۔ ایسے حالات میں اس قسم کے خطرات ہیں۔‘ کیرالہ کی سمتھا جیسے لوگوں کو امید ہے کہ آئندہ سال سے وہ دوبارہ کام شروع کر سکتی ہیں تو ان کے شوہر گھر واپس آ سکتے ہیں۔ ’صرف پیسوں کی خاطر وہ وہاں رہتے ہیں اور میں یہاں رہتی ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ پیسہ سب کچھ ہے جس کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ لیکن اس صورتحال یعنی کورونا وائرس نے ہماری ساری امیدوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52613080", "summary": "سعودی وزیر خزانہ محمد الجدان نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ اقدامات تکلیف دہ ہیں لیکن یہ ضروری اس لیے ہیں تاکہ درمیانے اور لمبے عرصے کے لیے مالی اور معاشی استحکام حاصل کیا جاسکے۔", "title": "سعودی کفایت شعاری مہم، ٹیکس میں اضافہ اور الاؤنس ختم", "firstPublished": "2020-05-11T06:50:17.000Z", "id": "5bd0bd78-c1dc-134d-8596-6bfa6ba5d10e", "article": "سعودی عرب نے دو سال قبل وی اے ٹی متعارف کرایا تھا تاکہ یہ اپنی معیشت کا خام تیل کی عالمی منڈیوں پر انحصار کم کر سکے۔سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق 1 جولائی سے وی اے ٹی 5 فیصد کے بجائے 15 فیصد ہوجائے گا۔ جبکہ 1 جون سے رہائشی الاؤنس بھی معطل کر دیا جائے گا۔ اس ایمرجنسی منصوبے سے 26.6 ارب ڈالر کے اضافے کا امکان ہے۔ وزیر خزانہ محمد الجدان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ: ’یہ اقدامات تکلیف دہ ہیں لیکن یہ ضروری اس لیے ہیں تاکہ درمیانے اور لمبے عرصے کے لیے مالی اور معاشی استحکام حاصل کیا جاسکے۔۔۔ اور کورونا وائرس کے بحران پر کم سے کم نقصان کے ساتھ قابو پایا جاسکے۔‘ یونیورسٹی آف کیمبریج کے پروفیسر جان کا کہنا ہے کہ 'بڑے معاشی بحران میں وی اے ٹی تین گنا بڑھا کر آمدن اور اخراجات میں توازن لانا ایک آزمائش ہوگی۔۔۔ یہ کفایت شعاری اور آمدن بڑھانے کے اقدامات ہیں، نہ کہ پیداوار بڑھانے کے۔' یہ اعلان اس وقت سامنے آیا ہے کہ جب ملک میں اخراجات آمدن سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ رواں سال کے پہلے تین ماہ کے دوران سعودی عرب میں بجٹ کا خسارہ نو ارب ڈالر رہا۔ یہ تب ہوا جب گذشتہ سال اسی دورانیے کے مقابلے رواں سال تیل سے ہونے والی آمدن تقریباً ایک تہائی رہ گئی اور اس میں 34 ارب ڈالر کا فرق دیکھا گیا۔ اس کی وجہ سے کل آمدن میں 22 فیصد کمی واقع ہوئی۔ معاشی ماہر حسنین ملک کے مطابق وی اے ٹی بڑھانے سے تیل کے علاوہ آمدن میں 24 سے 26.5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوگا جس سے لوگوں کی پیسے خرچ کرنے کی صلاحیت متاثر ہوگی لیکن معاشی استحکام ملے گا۔ اسی دوران سعودی عرب کے مرکزی بینک میں غیر ملکی ذخائر کم ہوگئے ہیں۔ مارچ میں یہ گذشتہ دو دہائیوں کے مقابلے سب سے زیادہ رفتار سے گِرے اور سنہ 2011 کے بعد سے اپنی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئے۔ خیال ہے کہ کورونا وائرس کی روک تھام اور اس سے مقابلے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی وجہ سے سعودی شہزادے محمد بن سلمان کی جانب سے متعارف کردہ معاشی اصلاحات کی رفتار اور وسعت پر اثر پڑے گا۔ گذشتہ سال ریاض کی سٹاک مارکیٹ میں سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل کی کمپنی آرامکو کے حصص کی قدر میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا تھا۔ اس بڑی کمپنی نے اپنے حصص کی فروخت کے دوران 25.6 ارب ڈالر کمائے تھے۔ حصص کی فروخت سعودی شہزادے محمد بن سلمان کے معاشی منصوبے کا اہم حصہ تھی۔ سعودی شاہی خاندان نے آرامکو کے حصص کی فروخت اس لیے کی تاکہ تیل پر انحصار کم سے کم کیا جا سکے اور معیشت کو جدید طرز پر لایا جاسکے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-52592006", "summary": "کورونا کی وبا کے اس دور میں جب سبھی معاشی اور تجارتی سرگرمیاں بند ہیں اور موٹر گاڑیاں نہ چلنے کے سبب پٹرول کی فروخت نہ ہونے کے برابر ہے، شراب ریاستوں کی آمدنی کا واحد سہارا ہے۔", "title": "انڈیا میں عوام اور حکومت شراب کی فروخت کے لیے بے چین کیوں", "firstPublished": "2020-05-08T15:57:43.000Z", "id": "2dec534d-3110-e446-83aa-7c4b7c44ad14", "article": "انڈیا کی ریاست اتر پردیش کی حکومت کو پہلے دن شراب کی فروخت سے سو کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔ دوسرے روز کرناٹک کی حکومت کو تقریباً دو سو کروڑ روپے ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں موصول ہوئے۔ دلی میں دکان کھلتے ہی لوگ اتنی بڑی تعداد میں باہر آئے کہ سماجی فاصلے کے ضابطے پر عمل نہ ہوا اور پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ غیر متوقع لاک ڈاؤن کے سبب شراب نوشی کرنے والے افراد گھروں میں سوا مہینے سے بند تھے اور کوئی سماجی سرگرمی نہ ہونے کے باعث شراب کی طلب میں شدت سے اضافہ ہوا ہے۔ انڈیا کے معاشرے میں متوسط اور قدرے امیر طبقہ شراب نوشی کو ’اعتدال پسندی اور شخصی آزادی‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران شراب پر پابندی کو بہت سے لوگ ’ریاستی جبر‘ سے تعبیر کر رہے ہیں اور اب شراب حاصل ہونے کو وہ ’کھوئی ہوئی آزادی کی واپسی‘ کی علامت سمجھتے ہیں۔ کورونا کی وبا ابھی مزید کئی ماہ تک جاری رہ سکتی ہے۔ تجربہ کار شراب نوشوں کا ایک مفروضہ یہ ہے کہ اس صورت میں شراب کی کشید میں رکاوٹ آ سکتی ہے اور چند ہفتوں میں شراب کی سپلائی رک سکتی ہے۔ ملک میں کئی افراد یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب پورا ملک کورونا کے خلاف نبرد آزما ہے اور کروڑوں لوگوں کو کھانے پینے کی مشکلات کا سامنا ہے، شراب کی دکانیں کھولنا ایک سنگین مذاق ہے۔ شراب کی تیاری اور فروخت ریاستوں کی نقد اور ٹھوس آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں اقتصادی سرگرمیاں پوری طرح معطل ہیں اور ریاستوں کے پاس اپنے ملازمین کی تنخواہیں دینے تک کے پیسے نہیں ہیں، شراب کی فروخت سے انھیں اربوں کی کمائی ہو رہی ہے۔ موقع کو غنیمت جان کر دلی کی ریاستی حکومت نے شراب پر اضافی 70 فیصد کورونا ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ کرناٹک نے بھی 17 فیصد اضافی ٹیکس لگا دیا ہے۔ آندھرا پردیش نے دلی کے طرز پر عمل کرتے ہوئے 75 فیصد اضافی ٹیکس لگایا ہے۔ کم وبیش سبھی ریاستوں نے شراب پر اضافی ٹیکس عائد کر دیے ہیں۔ اس سے ان ریاستوں کو ہزاروں کروڑ کی اضافی آمدنی ہوگی۔ ریزرو بینک آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019-20 کے مالی سال میں دلی اور پانڈیجری سمیت ملک کی 31 ریاستوں کو شراب کی فروخت سے ایک لاکھ 75 ہزار کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی تھی۔ انڈیا میں مرکزی اور ریاستی ٹیکسوں اور پٹرولیم پر ایکسائز ڈیوٹی کے بعد شراب ریاستوں کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ کورونا کی وبا کے اس دور میں جب سبھی معاشی اور تجارتی سرگرمیاں بند ہیں اور موٹر گاڑیاں نہ چلنے کے سبب پٹرول کی فروخت نہ ہونے کے برابر ہے، شراب ریاستوں کی آمدنی کا واحد سہارا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-52568628", "summary": "چین میں ملکی سطح پر ہونے والے دو ماہ کے طویل لاک ڈاؤن کے قومی معیشت پر بہت تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ رواں برس پہلے تین ماہ کی معیشت 6.8 فیصد سکڑ گئی ہے۔ چیئرمین ماؤزےدنگ کی 1976 میں موت کے بعد پہلی مرتبہ چین کی معشیت پھیلنے کی بجائے کم ہوئی ہے۔", "title": "کیا لائیو سٹریمنگ چینی معیشت کو بچا سکے گی؟", "firstPublished": "2020-05-07T04:18:52.000Z", "id": "01a1cfaa-c9f2-9949-83e1-6eb8e3fcbc08", "article": "عموماً چین کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں سے ہم اس طرح کی باتیں نہیں سنتے ہیں۔ لیکن کورونا وائرس جیسے تباہ کن واقعے کے بعد چین کی معیشت کی بحالی کے لیے کی جانے والی کوششوں کی کامیابی کے ساتھ لی کیانگ عزمِ مصمم لیے ہوئے موجود ہیں۔ ملکی سطح پر ہونے والے دو ماہ کے طویل لاک ڈاؤن کے قومی معیشت پر بہت تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس برس پہلے تین ماہ اس کی معیشت 6.8 فیصد سکڑ گئی ہے۔ چیئرمین ماؤزےدُنگ کی 1976 میں موت کے بعد پہلی مرتبہ چین کی معشیت پھیلنے کی بجائے کم ہوئی ہے۔ ووہان چین کے صوبے ہُوبائی کا دارالحکومت ہے۔ پورے صوبے میں معیشت کی بحالی کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ ہر گھر کے کروڑوں چینیوں کو شامل کیا گیا ہے جہاں ان سے چین کی نامور شخصیت اس مہم میں شامل ہونے کو کہہ رہی ہیں۔ میئر لی اور ان کے رفقا مقامی مصنوعات کی تشہیر کر رہے ہیں اور سیلز کے اعداد و شمار پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم کاروبار بڑھانے کا یہ کوئی اعلیٰ قیادت سے تھونپا گیا طریقہِ کار نہیں ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے لائیو سٹریمنگ میں شامل ہونے سے پہلے ہی سے چین کی ٹِک ٹاک جیسی کمپنی ’ڈوین‘، ’کوائی شاؤ‘ اور ’علی بابا‘ کی تاؤ باؤ جیسی سمجھدار کاروباری کمپنیاں اپنی سیل بڑھانے کے لیے لائیو سٹریمنگ پلیٹ فارموں پر پہنچ چکی تھیں۔ ایسی ہی طرح کے لوگوں میں 27 برس کے لی ٹسیاسی ہیں جنھوں نے مارکیٹنک کے اپنے منفرد انداز کی وجہ سے ایک نئے ’لپ سٹک نمبر 1‘ کے نام سے شہرت پائی۔ وہ پہلے جنوب مشرقی شہر چین کے شہر نانچبگ میں ایک دوکان میں ایک نائب سیلز مین کے طور پر کام کرتے تھے۔ اب ان کے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ’ڈوین‘ پر چار کروڑ فالؤرز ہیں۔ وےیا پہلے ہی سے چین میں لائیو سٹریمنگ پر سیل سے واقف تھیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے فالؤرز اسے ’مصنوعات کی ملکہ‘ کہتے ہیں۔ لائیو سٹریمنگ کے اس کام میں اب غیر ملکی کمپنیاں بھی شامل ہو رہی ہیں۔ پر تعیش مصنوعات بنانے والی کمپنی لوئی ویٹان نے چین کی مارکیٹ میں آنے کے تیس برس بعد پہلی مرتبہ مارچ میں لائیو مارکیٹنگ کا ایک ایونٹ منعقد کیا تھا۔ اس کے بعد اگلے دو ہفتوں میں لُو یونگ ہاؤ نے دو اور لائیو سٹریمنگ کے ایونٹ منعقد کرائے، لیکن انھیں اتنی کامیابی نہیں ہوئی۔ چینی میڈیا کہتا ہے کہ ان کے اگلے ایونٹس کو دیکھنے والے کی تعداد میں 83 فیصد کمی آئی جبکہ سیل کا حجم 48 فیصد کم ہو گیا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-52522353", "summary": "العربیہ ٹی وی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں سعودی عرب کے وزیر خزانہ محمد الجدان نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے معیشت کو دھچکا لگا ہے اور سعودی عرب بجٹ کے خرچوں میں نمایاں کٹوتی کرے گا۔", "title": "سعودی عرب کا اخراجات میں کمی اور ’تکلیف دہ فیصلے‘ کرنے کا اعلان", "firstPublished": "2020-05-03T13:11:01.000Z", "id": "169b1d0b-ba5d-6a41-9463-c0bf26185c18", "article": "کورونا وائرس سے ہونے والے معاشی نقصان کے پیش نظر سعودی عرب نے اپنے بجٹ اخراجات میں کمی لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خزانہ محمد الجدان نے سنیچر کے روز کہا تھا کہ کورونا وائرس سے معیشت کو دھچکا لگا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے کڑے اور تکلیف دہ فیصلے کیے جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ اس بحران سے نکلنے کے لیے سبھی آپشنز کھلے ہیں۔ العربیہ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں الجدان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب بجٹ کے خرچوں میں نمایاں کٹوتی کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے اثرات رواں سال کے دوران دوسری سہ ماہی پر واضح طور پر نظر آئے ہیں۔ الجدان نے کہا کہ سعودی عرب کے مالی معاملات کو سخت کیا جائے گا تاکہ تمام چیزیں قابو میں رہیں۔ سعودی کے وزیر نے کہا کہ اس کے علاوہ میگا پراجیکٹس کے اخراجات میں بھی کٹوتی کی جائے گی۔ دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک سعودی عرب تاریخی طور پر تیل کی کم قیمت سے نبرد آزما ہے۔ تیل کی قیمت گرنے کے بعد پہلی سہ ماہی میں نو ارب ڈالر کا بجٹ میں خسارہ ہوا ہے۔ الجدان نے گذشتہ مہینوں میں کہا تھا کہ سعودی عرب رواں سال 26 ارب ڈالر کا قرض لے سکتا ہے تاکہ زرمبادلہ کے زخائر کو متوازن رکھا جا سکے۔ سعودی عرب کی مالیاتی اتھارٹی نے منگل کے روز کہا تھا کہ مارچ میں سعودی عرب کی غیر ملکی املاک میں 464 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ گذشتہ 19 برسوں میں اپنے سب سے نچلے درجے پر ہے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ ایسا کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ہوا ہے۔ سعودی کے وزیر خزانہ محمد الجدان نے کہا کہ اگلے اقدام اور فیصلوں پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ نقصان کو پورا کیا جاسکے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ تیل کے علاوہ محصولات میں گراوٹ کے اثرات آنے والی سہ ماہی میں نظر آئیں گے۔ سعودی عرب کے سامنے موجودہ اقتصادی چیلنجز کے بارے میں سعودی وزیر خزانہ نے کہا کہ سعودی عرب کی معاشی صورتحال اب بھی بڑے پیمانے پر لوگوں کی قوت خرید پر منحصر ہے اور اس لیے وہ لوگوں کی خرچ کرنے کی اہلیت کو برقرار رکھیں گے تاکہ مستقبل میں معیشت کی حالت درست رہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت دوسری مدات کے اخراجات میں بھی کٹوتی پر غور کر رہی ہے لیکن لوگوں کی بنیادی سہولیات کو متاثر کرنے والے کوئی بھی اقدام نہیں کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ دوسرے سبھی آپشنز حکومت کے پاس ہیں۔ وہ ان آپشنز اور ان کے اثرات پر غور کر رہی ہے۔ 'اس کی بنیاد پر ہم جلد ہی فیصلہ کریں گے۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/vert-fut-52362449", "summary": "اس بات پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ انسانیت آج کل غیر مستحکم اور غیر یقینی راستے پر ہے لیکن ہم اس نقطے پر پہنچنے کے کتنے قریب ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں؟", "title": "مغربی معاشرے کے زوال کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟", "firstPublished": "2020-04-30T21:57:37.000Z", "id": "6046816c-332f-481d-b737-852331b58b5e", "article": "وہ عوامل کیا ہیں اور کیا وہ نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس بات پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ انسانیت آج کل غیر مستحکم اور غیر یقینی راستے پر ہے لیکن ہم اس نقطے پر پہنچنے کے کتنے قریب ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں؟ موتیشارئی اور ان کے ساتھیوں کے لیے یہ بات بڑی حیران کن تھی کہ اقتصادی درجہ بندی اکیلے ہی ڈھیر کر سکتی ہے۔ اس کے مطابق اشرافیہ دولت اور ذرائع کی بڑے پیمانے پر ذخیرہ اندوزی کر کے معاشرے کو عدم استحکام اور حتمی تباہی کی طرف دھکیل دیتے ہیں اور صارفین کے لیے بہت کم یا کچھ نہیں چھوڑتے جو کہ اگرچہ ان سے بہت زیادہ ہیں لیکن پھر بھی اپنی محنت سے ان کی مدد کرتے ہیں۔ انسانیت آج کل غیر مستحکم اور غیر یقینی راستے پر ہے لیکن ہم اس نقطے پر پہنچنے کے کتنے قریب ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں تاہم اس سے بچا بھی جا سکتا ہے۔ موتیشارئی کہتے ہیں ’اگر ہم عدم مساوات، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، قدرتی وسائل کے خاتمے اور آلودگی کی شرح جیسے عناصر کو کم کرنے کے لیے معقول انتخاب کریں، جو کہ ممکن ہے، تو ہم تباہی سے بچ سکتے ہیں اور پائیدار رفتار پر مضبوط ہو سکتے ہیں۔‘ ہومر ڈکسن جو کتاب ’اپ سائیڈ ڈاؤن‘ کے مصنف بھی ہیں، ان متحدہ قوتوں کو ان کے کام کرنے کے طریقے کی وجہ سے ’ٹیکٹونک‘ دباؤ کہتے ہیں، جس میں وہ خاموشی سے بڑھتی رہتی ہیں اورپھر ایک دم پھٹ پڑتی ہیں اور کسی بھی مستحکم کرنے والے مکینیزم پر جو کہ معاشرے میں توازن رکھتا ہے زیادہ بوجھ ڈال دیتی ہیں۔ مستقبل میں کیا ہو گا اس کے اشارے ماضی بھی دے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر رومی سلطنت کا عروج اور زوال، 100ویں صدی (قبل از مسیح) میں رومی بحیرہ روم کے آر پار ان جگہوں پر پھیل گئے تھے جہاں سمندر کے راستے آسانی سے جایا جا سکتا تھا۔ ان کو ادھر رک جانا چاہیے تھا لیکن جب سب چیزیں اچھی طرح سے چل رہی تھیں تو انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ زمینی راستوں سے نئی سرحدوں تک پھیلا جائے۔ ان میں سے کچھ پیش گوئیاں اور ابتدائی انتباہ کی نشانیاں جانی پہچانی لگنی چاہیں کیونکہ وہ پہلے سے ہی جاری ہیں۔ اگرچہ ہومر ڈکسن کو دنیا کے حالیہ واقعات پر حیرانی نہیں ہے کیونکہ انھوں نے سنہ 2006 میں شائع ہونی والی اپنی کتاب میں پہلے ہی ان کے متعلق پیش گوئی کی تھی لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ سنہ 2020 کی دہائی کے وسط سے پہلے کوئی ایسی پیشرفت ہو۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-52480817", "summary": "اگر آپ انڈیا کی معیشت پر قریب سے نظر رکھتے ہیں یا اس سے کسی نا کسی طرح متاثر ہوتے ہیں تو یقیناً وزیرِ اعظم نریندر مودی کا یہ دعویٰ ضرور یاد ہو گا کہ 2024 تک انڈیا پانچ کھرب کی معیشت والا ملک بن جائے گا، تاہم کورونا بحران کے بعد کیا ایسا ممکن ہے؟", "title": "کیا 2024 تک انڈیا پانچ کھرب کی معیشت والا ملک بن سکے گا؟", "firstPublished": "2020-04-30T04:09:56.000Z", "id": "823ec86d-e0f2-c949-a1dc-cd18ca510aa4", "article": "اگر آپ انڈیا کی معیشت پر قریب سے نظر رکھتے ہیں یا اس سے کسی نا کسی طرح متاثر ہوتے ہیں تو یقیناً وزیرِ اعظم نریندر مودی کا یہ دعویٰ ضرور یاد ہو گا کہ 2024 تک انڈیا پانچ کھرب کی معیشت والا ملک بن جائے گا، تاہم کورونا وائرس کے باعث معاشی بحران کے بعد کیا ایسا ممکن ہے؟ پروفیسر سبرامنیم نے بتایا ’اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم اس کا اعلان ابھی کرتے ہیں یا بعد میں۔ کیوںکہ لاک ڈاوٴن کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں تو ابھی کسی قیمت پر شروع نہیں ہو سکیں گی۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’لاک ڈاوٴن نے ہمیں اچھے پیکیج تیار کرنے کا وقت دیا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس بہت سارے مشورے آئے ہیں۔ جب ہم نے انھیں اکٹھا کیا تو پاور پوائنٹ پریزینٹیشن پر تقریباً دو سو سلائڈز بن گئیں۔ اس لیے ان کا تجزیہ کرنے میں وقت لگے گا۔ جب لاک ڈاؤن ختم ہو گا تو ہم اس معاشی پیکیج کے ساتھ تیار ہوں گے۔‘ ’فرض کیجیے کہ لاک ڈاوٴن نافذ نہیں کیا جاتا۔ تب بھی لوگ معاشی سرگرمیوں سے دور رہتے اور اس کا نتیجہ بھی دیکھنے کو ملتا۔ طویل عرصے کی بات کریں تو جب حالات معمول پر لوٹیں گے تو فائدہ انہی کو ہو گا جو صحت مند اور محفوظ ہیں۔‘ پروفیسر کے وی سبرامنیم بتاتے ہیں کہ ’ہم ایک اشاریہ چار ارب کی آبادی والا ملک ہیں۔ اگر چند ہزار لوگوں کو دشواری ہو رہی ہے تو میں یہ نہیں کہوں گا کہ اتنا تو چلتا ہے لیکن اگر ایسے دس ہزار لوگ بھی ہیں تو ہماری مجموعی آبادی کا یہ بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’سووریئن ریٹنگ (کسی ملک کی سنعتکاری سے منسلک خطرات اور سیاسی جوکھم کا معیار) پر دھیان دیے جانے کی ضرورت ہے کیوں کہ پینشن فنڈ اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا انحصار اس پر ہوتا ہے۔ یہ عناصر موثر ہوتے ہیں اور رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ پروفیسر سبرامنیم نے بتایا کہ ’حالات اتنے برے بھی نہیں تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ فروری میں ہی معیشت میں بہتری کی علامات نظر آنے لگی تھیں۔ ہمارا اقتصادی سیکٹر ضرور کمزور تھا لیکن اس کی وجہ بیڈ لونز (ایسے قرض جن کی وصولی کے امکانات نہ رہیں) اور کرونی لینڈنگ (جب قرض قابلیت کے بجائے تعلقات کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں) تھی۔ ہمارے ترقی کے بہتر امکانات ہیں۔ ’سماجی دوری کے قوائد پر عمل کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ کسی کاروبار یا سیکٹر کو چھوٹ دینا اس بنیاد پر طے ہونا چاہیے کہ اس کا معیشت میں کتنا حصہ ہو گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/52476710", "summary": "ماہرین کا کہنا ہے کورونا وائرس کی عالمی وبا دنیا میں نوٹوں کے استعمال میں کمی آنے کے عمل کو اور تیز کر دے گی کیونکہ لوگ اب زیادہ سے زیادہ ادائیگیوں کے لیے ’ڈیجیٹل‘ طریقے اپنا رہے ہیں۔", "title": "کورونا: وبا ’نقد رقم کے استعمال میں کمی کو مزید تیز کر دے گی‘", "firstPublished": "2020-04-29T18:27:53.000Z", "id": "5dcaf825-f103-014d-a09c-a3bdf47db9bd", "article": "ماہرین کا کہنا ہے کورونا وائرس کی عالمی وبا دنیا میں نوٹوں کے استعمال میں کمی کے عمل کو اور تیز کر دے گی کیونکہ لوگ اب زیادہ سے زیادہ ادائیگیوں کے لیے ’ڈیجیٹل‘ طریقے اپنا رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران کیش مشینوں سے رقم نکلوانے میں ساٹھ فیصد کی کمی آئی ہے گو کہ لوگ اب بڑی رقوم نکلوا رہے ہیں۔ کھاتہ داروں کے ایک سروے کے بعد لِکنس کا کہنا ہے کہ 75 فیصد لوگ اب نوٹوں کا استعمال کم کر رہے ہیں اور 54 سے جب پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ نوٹوں کے استعمال سے گریز کر رہے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے ابتدائی دنوں میں اس طرح کی اطلاعات بھی گردش کر رہی تھیں کہ یہ وائرس نوٹوں اور سکوں کے ذریعے پھیل رہا ہے۔ بینک آف انگلینڈ اور عالمی ادارۂ صحت نے یہ وضاحت جاری کی تھی کہ نوٹوں اور سکوں کے ذریعے بھی کرورنا وائرس پھیلنے کا اتنا ہی خطرہ ہے جتنا کسی اور چیز سے ہو سکتا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے لوگوں کو ہاتھ دھونے کا مشورہ دیا تھا۔ سروے میں جن لوگوں سے بات کی گئی ان میں سے 76 فیصد کا یہ ہی کہنا تھا کہ وہ آئندہ چھ ماہ میں نوٹوں کا استعمال کم کریں گے اور وہ ادائیگیوں کے دوسرے طریقے اپنائیں گے یا آن لائن خریداری کریں گے۔ کیش تک رسائی پر ایک رپورٹ کی مصنفہ نیٹلی سینی کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں 30 فیصد لوگ نقد رقوم استعمال کرنا پسند کرتے ہیں لیکن اب لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ دوسرے طریقے استعمال کرنے میں زیادہ سہولت محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ عادت بن جائے گی جو مستقبل میں ان کے ساتھ رہے گی۔ ملک کے 50 فیصد لوگوں نے پہلے ہی بڑی حد تک نوٹوں کا استعمال چھوڑ دیا ہے اور صرف 20 فیصد لوگ ہی نوٹ اور سکے استعمال کر رہے ہیں جن میں سے بھی بہت سے یہ عادت ترک کرتے جا رہے ہیں۔ پیوٹل نامی کمپنی کے مارٹن سمتھ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے کاروبار پر پڑنے والے اثرات کا درست اندازہ لگانا اس وقت تک بہت مشکل ہے جب تک کاروبار دوبارہ نہیں کھل جاتے۔ انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر کیش استعمال کرنے کی بنیادی وجوہات پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے جس میں سہولت اور بینک اکاؤنٹس تک رسائی میں دشواری شامل ہیں۔ دکاندار جو کارڈ کو دیکھ کر ناگواری کا اظہار کرتے تھے اب خوشی خوشی ’کارڈ ریڈر‘ نکال لیتے ہیں۔ یہ نتائج یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ غیر یقینی حالات میں لوگ اپنے نوٹ اور سکے سینوں سے لگا کر رکھتے ہیں۔ شاید اس وقت وہ گھروں سے باہر نہ نکل پانے کی وجہ سے کیش نہ نکلوا رہے ہوں۔ لیکن ایک بات صاف ظاہر ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے الیکٹرانک ادائیگیوں کا رجحان بڑھ گیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-52411120", "summary": "نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات ابھیجیت بینرجی کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن سے شدید متاثر ہونے والے لاکھوں افراد کی مدد کے لیے انڈیا کو ’بہت زیادہ فراخدلی‘ دکھانے کی ضرورت ہے۔", "title": "’غریبوں کی مدد کے لیے انڈیا کو بہت زیادہ فراخدلی دکھانے کی ضرورت ہے‘", "firstPublished": "2020-04-24T15:56:30.000Z", "id": "f24f9bce-d075-4b1a-bd34-88f0d0ead68e", "article": "نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیاتابھیجیت بینرجی کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن سے شدید متاثر ہونے والے لاکھوں افراد کی مدد کے لیے انڈیا کو ’بہت زیادہ فراخدلی‘ دکھانے کی ضرورت ہے۔ 24 مارچ کو لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے بعد انڈیا نے 23 ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ ’آگے کیا ہونے والا ہے، اس بارے میں انڈیا کو ایک واضح اور عمدہ منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ معیشت کو پہلے ہی طلب میں کمی کا سامنا تھا۔ کورونا وائرس کا پھیلاؤ ایک دوہری ضرب ہے اور بہت سے افراد اپنے ذرائع آمدن کھو چکے ہیں۔ اوپر سے اب طلب میں مزید کمی ہو رہی ہے۔‘ پروفیسر بینرجی کا مزید کہنا تھا کہ ’جن افراد کو آمدنی کی کمی کے باعث غربت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، ایسے لوگوں کو بحران سے نکالنے کے لیے انڈین حکومت کو زیادہ فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘ وہ کہتے ہیں ’کچھ لوگوں کو تشویش ہے کہ بازار بند ہیں تو ایسے میں لوگوں کو پیسے دینے کا کیا فائدہ۔ لیکن آپ انھیں یہ بتا کر کہ پیسہ آرہا ہے، طلب کے لیے ماحول بنا سکتے ہیں۔ ’لوگوں کو یقین دہانی کی ضرورت ہے۔ اور انھیں یقین دلانے کے لیے حکومت کو متحرک رہنا ہوگا۔‘ پروفیسر بینرجی کا کہنا ہے کہ جب کاروبار دوبارہ کھلیں اور سامان کی فراہمی شروع ہو، اس وقت لوگوں کے پاس پیسہ ہونا چاہیے تاکہ وہ باہر نکل کر خرچ کرنا شروع کر سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے لاکھوں خاندان جو پہلے ہی انڈین حکومت کے فلاحی منصوبوں میں وصول کنندگان کے طور پر درج ہیں، وہ براہ راست ان نقد فوائد کے اہل ہوں گے۔ لیکن ایسے لوگ جن کی بڑی تعداد اس طرح کی سکیموں سے مستفید نہیں ہوتی، ان کی شناخت کے لیے ’مقامی کمیونٹی کا طریقہِ کار‘ ہونا چاہیے جو یہ یقینی بنائے کہ رقم ان لوگوں کی جیب تک پہنچ رہی ہے۔ پروفیسر بینرجی کو یہ بھی لگتا ہے کہ فلاحی کاموں میں بڑے پیمانے پر مالی اعانت فراہم کرنے کے لیے انڈیا کو نوٹ چھاپنے سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ ’اگر امریکہ نے یہ سوچا ہے کہ وہ نوٹ چھاپ سکتا ہے اور خرچ کر سکتا ہے۔ تو میرا نہیں خیال کہ انڈیا کو ایسا کرنے سے ہچکچانا چاہیے۔ ’اشیائے ضرورت اور روزگار کم میسر ہوں تو ایسے میں ممکنہ طور پر افراط زر کا خدشہ رہتا ہے۔ لیکن آمدنی کا جو فرق پیدا ہو گیا ہے اسے ختم کرنے کے لیے انڈیا کو کچھ کرنا پڑے گا۔ پیسہ خرچ کرنے کے معاملے میں حکومت کو زیادہ جارحیت دکھانا ہو گی۔‘ پروفیسر بینرجی کا کہنا تھا ’سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ سپلائی چین (سامان اور ضروری کام کرنے والوں) اور کاروباروں کو کس طرح سے کھولا جائے کہ اس سے نئے انفیکشن اور اموات نہ ہوں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-52409069", "summary": "بنگلہ دیش کی کپڑوں کی صنعت سے 40 لاکھ لوگ منسلک ہیں اور خدشہ ہے کہ اس میں سے نصف لوگ کورونا وائرس کے باعث مغربی کمپنیوں کی جانب سے آرڈر منسوخ کیے جانے کی وجہ سے اپنی ملازمتیں کھو دیں گے۔", "title": "بنگلہ دیش: کپڑوں کی صنعت کی 20 لاکھ ملازمتیں ختم ہونے کا خدشہ", "firstPublished": "2020-04-24T14:14:11.000Z", "id": "07024b95-77ea-fe4b-b9c7-bce4c9d68eb9", "article": "بنگلہ دیش کی ایک خالی فیکٹری جس کے مالکان اور مزدور مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کیفیت کے شکار ہیں بنگلہ دیش میں کپڑوں کی صنعت کورونا وائرس کی وبا کے باعث بحران کا شکار ہے اور خدشات ہیں کہ اس شعبے سے منسلک 40 لاکھ ملازمتوں میں سے نصف ختم ہو سکتی ہیں۔ چند دن قبل کارخانے کے مالک نے اعلان کیا کہ یورپ میں ان کے تمام خریداروں کی جانب سے کورونا وائرس کے پیشِ نظر آرڈر منسوخ کر دیے جانے کے بعد اب وہ یہ کارخانہ نہیں چلاتے رہ سکتے۔ کپڑوں کی صنعت بنگلہ دیشی معیشت میں ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہے۔ 40 لاکھ لوگوں کی ملازمتیں اس سے وابستہ ہیں جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔ بنگلہ دیش اپنی برآمدات سے جو پیسے کماتا ہے اس کا 83 فیصد سے زیادہ کپڑوں کی صنعت سے منسلک ہے اور یہ سالانہ 32 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ کچھ کارخانے اب بھی کھلے ہوئے ہیں لیکن غیر ملکی آرڈرز کی منسوخی کے باعث طلب میں کمی ہوئی ہے اور زیادہ تر کارخانے بند ہوگئے ہیں ہیومن رائٹس واچ نے کپڑوں کی کچھ مغربی برانڈز کے رویوں پر تنقید کی ہے۔ تنظیم نے ان کمپنیوں پر الزام عائد کیا ہے کہ کارخانوں کی جانب سے کئی مصنوعات مکمل تیار کر لیے جانے کے باوجود انھوں نے کوئی مالی یا اخلاقی ذمہ داری لیے بغیر آرڈر منسوخ کر دیے۔ مگر مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم سینٹر فار گلوبل ورکرز رائٹس کے ایک حالیہ سروے کے مطابق آرڈرز منسوخ ہونے کی وجہ سے کاروبار اور مزدوروں پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ تحقیق میں کہا گیا کہ جب آرڈر منسوخ کیے گئے تو 72.1 فیصد خریداروں نے خام مال (کپڑے وغیرہ) کی ادائیگی کرنے سے انکار کر دیا جو کہ فراہم کنندہ ادارہ خرید چکا تھا، اور 91.3 خریداروں نے تیاری پر ہونے والے اخراجات ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ بنگلہ دیش گارمنٹ مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشین کی صدر روبانہ حق کہتی ہیں کہ ’کپڑے کے کارخانوں میں کام کرنے والے 20 لاکھ سے زیادہ لوگ اپنی ملازمتیں گنوا دیں گے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’کوئی بھی شخص اس وقت کپڑوں پر خرچ نہیں کرے گا بلکہ وہ سب وبا کے باعث خوراک اور دواؤں پر زیادہ خرچ کرنا چاہ رہے ہیں۔‘ بنگلہ دیش 26 مارچ سے لاک ڈاؤن میں ہے جب ٹرانسپورٹ اور کاروبار کو بند کر دیا گیا تھا۔ جمعرات 23 اپریل تک بنگلہ دیش میں 4186 مصدقہ متاثرین سامنے آ چکے ہیں جبکہ 127 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ کپڑوں کی صنعت کو لاک ڈاؤن سے استثنیٰ دیا گیا ہے مگر مزدوروں کا کہنا ہے کہ کچھ کارخانے ان کی حفاظت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ’اس کارخانے میں بہت سے لوگ ایک چھوٹی سی جگہ پر کام کرتے ہیں جس سے کورونا کے انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ مجھے اپنی جان کا خوف لاحق ہے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-52406456", "summary": "یہ ممکن ہے کہ تیل کی انتہائی کم قیمت کی وجہ سے معیشتیں تیزی سے بحال ہو جائیں اور موجودہ معاشی سست روی کسی کساد بازاری میں تبدیل نہ ہو لیکن اس کی وجہ سے بری خبریں بھی آ سکتی ہیں۔", "title": "تیل کی بہت کم قیمت بھی نقصان دہ کیوں ہے؟", "firstPublished": "2020-04-24T04:25:52.000Z", "id": "80d08e72-e2d5-c940-bbc1-e62e4d309431", "article": "آپ کو یہ بات پسند آئے یا نہ آئے لیکن تیل اب بھی دنیا کی سب سے اہم چیز ہے۔ عالمی منڈی میں اس کی قیمت سے یہ تعین کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت عالمی معیشت میں کیا ہو رہا ہے اس کے علاوہ مستقبل میں جو ہونے والا ہے اس پر بھی اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ عالمی سطح پر تیل کی تجارت پہلے سے طے شدہ معاہدوں (فیوچرز) کی صورت میں ہوتی ہے جو کسی متعین کردہ دن کو اپنی مدت پوری کرتے ہیں۔ جس کے پاس بھی یہ معاہدے اور سودے ہوتے ہیں انھیں ان کی مدت پورے ہونے پر تیل وصول کرنا یا اٹھانا ہوتا ہے۔ بہت سے افراد جو تیل کے سودے کرتے ہیں انھوں نے نہ کبھی ایک بیرل بھی تیل دیکھا ہوتا ہے نہ کبھی دیکھتے ہیں اور ایسے میں تیل وصول کرنا تو دور کی بات ہے۔ تیل کی طلب عالمی معاشی سرگرمی کا ایک اہم حصہ ہے اور اس وقت سب یہ بات کر رہے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں جاری لاک ڈاؤن کے باعث طلب بالکل تباہ ہو گئی ہے، جہاز کھڑے ہو گئے ہیں، شہروں میں سڑکیں گاڑیوں سے خالی ہیں اور فیکٹریاں بند پڑی ہیں۔ اس صورت حال میں جب دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیل رہی تھی سعودی عرب اور روس میں تیل کی قیمتوں پر جاری تجارتی جنگ بھی شروع ہو چکی تھی۔ تیل پیدا کرنے والے بڑے ملکوں کی طرف سے تیل کی پیداوار میں کمی کا اعلان بھی کیا گیا۔ لیکن طلب میں کمی اس قدر شدید تھی کہ وہ اپنی پیداوار میں اس تیزی سے کمی نہیں کر سکے اور برینٹ خام تیل کی قیمتیں مسلسل گرتی رہیں اور بدھ کی صبح یہ گذشتہ 20 برس میں اپنی کم ترین سطح 16 ڈالر فی بیرل پر تھی۔ گذشتہ برس آج کے دن تیل کی قیمت 70 ڈالر فی بیرل تھی۔ تیل کی کم قیمت کیا کوئی اچھی بات ہے؟ یہ ایک بہت سیدھا سادا سوال ہے۔ جس طرح آسمان کو چھوتی تیل کی قیمتوں سے معیشتیں سست روی کا شکار ہو جاتی ہیں تو تیل کی کم قیمتوں کی وجہ سے معیشت میں بہتری آتی ہے۔ بڑے پیمانے پر تیل کی قیمتوں میں کمی دنیا بھر میں چھوٹے بڑے کاروبار پر ایک عالمی ٹیکس کی طرح ہوتا ہے۔ پیٹرول کی قیمت گذشتہ ایک دہائی میں پہلی مرتبہ ایک پاؤنڈ فی لیٹر یا اس سے بھی کم ہونے جا رہی ہیں۔ لیکن ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ پیٹرول کی قیمتوں میں وہ اپنے منافع کی شرح میں اضافہ کر دیں تاکہ وہ تیل کی فروخت میں کمی سے ہونے والے نقصان کو پورا کر سکیں۔ یہ ممکن ہے کہ تیل کی انتہائی کم قیمت کی وجہ سے معیشتیں تیزی سے بحال ہو جائیں اور موجودہ معاشی سست روی کسی کساد بازاری میں تبدیل نہ ہو۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-52393149", "summary": "کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں خام مال کی طلب سے لے کر ترسیلاتِ زر تک ہر شعبہ متاثر ہوا ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ اس بحران سے ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں اور عوام کے لیے مسائل کھڑے ہوجائیں گے۔", "title": "کورونا وائرس ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو کیسے تباہ کر رہا ہے؟", "firstPublished": "2020-04-23T14:19:06.000Z", "id": "044656bf-77f5-d64b-a81f-945aa8906086", "article": "دنیا کا تقریباً ہر ملک اس سے متاثر ہوا ہے۔ آئئ ایم ایف کو خدشہ ہے کہ امیر و غریب 170 ممالک رواں سال فی کس اقتصادی سرگرمی میں تنزلی کا سامنا کریں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ اوسط معیارِ زندگی میں گراوٹ آئے گی۔ کئی ممالک صنعتوں کے زیرِ استعمال مال برآمد کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں کئی فیکٹریوں کی بندش کی وجہ سے اس مال کی طلب میں کمی واقع ہوئی ہے چنانچہ ان کی قیمتیں گری ہیں، اور کچھ معاملوں میں تو یہ تنزلی انتہائی زیادہ ہے۔ تیل اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس کی طلب میں زبردست کمی ہوئی ہے کیونکہ کورونا وائرس لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے لیے ایندھن کی طلب کم ہوئی ہے۔ اس ایندھن کا 90 فیصد سے زائد خام تیل سے بنایا جاتا ہے۔ وہ روشنی ڈالتے ہیں کہ کیسے امریکہ اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں بونڈز کی شرحِ منافع (جو کہ مالیاتی منڈیوں میں قرض لینے کی قیمت کی عکاسر کرتی ہے) میں خلیج وسیع ہوا ہے۔ یہ بسا اوقات علامت ہوتا ہے کہ سرمایہ کاروں کو یقین ہے کہ قرض لینے والوں بشمول حکومتوں کے لیے خطرہ زیادہ ہے اور وہ اپنے قرضوں کی وجہ سے دیوالیہ ہوسکتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں طبی بحران اور اس کے اقتصادی اثرات سے نمٹنے کے لیے دباؤ کی شکار ہیں تو قرضوں کی ادائیگی پہلے سے کم وسائل پر ایک سنگین بوجھ بن سکتی ہے۔ چنانچہ ترقی پذیر ممالک کے قرضوں میں نرمی کی مہم چلانے والے افراد کا خیال ہے کہ جی 20 اور دیگران کو مزید کام کرنا چاہیے۔ جوبلی ڈیٹ کیمپین کی خواہش ہے کہ امیر ممالک قانون میں ایسی تبدیلیاں کریں جن کی رو سے نجی قرض خواہ ادائیگی نہ کر پانے والے ممالک کے خلاف قنونی چارہ جوئی نہ کر سکیں۔ یہ خاص طور پر نیویارک اور برطانیہ سے مناسبت رکھتا ہے جن کے قوانین زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کو دیے گئے قرضوں کی بنیاد بنتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو ممکنہ طور پر اس پیسے کی کمی کا بھی سامنا ہوگا جو تارکینِ وطن اپنے گھروں کو بھیجتے ہیں۔ ترسیلاتِ زر اکثر امیر ممالک سے غریب ممالک کو بھیجی جاتی ہیں اور یہ کسی خاندان کے معیارِ زندگی کے لیے اہم سہارا ہوسکتی ہیں۔ بینک کے مطابق ترسیلاتِ زر کی وجہ سے لوگ اچھا کھا سکتے ہیں، تعلیم پر زیادہ خرچ کر سکتے ہیں، اور اس سے بچوں سے مزدوری میں کمی آ سکتی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52243912", "summary": "كورونا کی وبا کستان میں پھیلنے کے بعد پنجاب بھر میں 24 مارچ کو مکمل لاک ڈاؤن لگا دیا گیا تھا اور کچھ روز قبل تمام ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے پر پابندی بھی عائد گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس صنعت سے منسلک ہزاروں لوگ اپنی روزی روٹی کے حوالے سے پریشان ہیں۔", "title": "کورونا وائرس: 'تین سال کی محنت چند دنوں میں جاتی نظر آرہی ہے'", "firstPublished": "2020-04-17T12:21:59.000Z", "id": "1d3177cd-b214-e342-adbc-b40dc7ddacac", "article": "كورونا کی وبا پاکستان میں پھیلنے کے بعد پنجاب بھر میں 24 مارچ کو مکمل لاک ڈاؤن لگا دیا گیا تھا۔ لاک ڈاؤن سے کچھ روز قبل پنجاب کے تمام ریستوران میں بیٹھ کر کھانا کھانے پر پابندی بھی عائد گئی تھی۔ حمزہ کے مطابق انھوں نے اور ان کے دوست نے اپنی ساری جمع پونجی اپنے ریستوران کو بنانے پر لگا دی جس کے بعد تین سال تک سخت محنت کی اور اپنے کاروبار کو کھڑا کیا۔ اس کے بعد وہ لاہور کے تین مخلتف مقامات پر اپنےریستوران کی تین برانچیں بنانے میں کامیاب ہوئے جہاں کل ملا کر اس وقت 26 لوگ ملازمت پر ہیں۔ حمزہ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی تینوں برانچوں کی تنخواہیں ملا کر کل ساڑھے چھ لاکھ روپے ہیں۔ ‘اس کے علاوہ کرائے کے پیسے، بجلی اور گیس کے بل، کھانے بنانے کے اخراجات سمیت دیگر اخراجات ملا کر ہم بمشکل اپنے خرچے پورے کر پا رہے تھے کہ کورونا نے ہمارے کاروبار کو ایک بڑا دھچکہ مارا جس کی وجہ سے ہمیں آگے کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے لاک ڈاؤن کے بعد چند روز تک ریستوران چلانے کی کوشش کی لیکن گاہک خوف کے مارے باہر سے کھانا منگوانے سے گریز کر رہے ہیں۔ ‘ہم نے اپنےریستوران سمیت کھانے اور سٹاف کے لیے مکمل انتظانات کیے ہیں جو حفظان صحت کے مطابق ہیں۔ چھوٹا بزنس مین تو کورونا کے باعث پِس گیا ہے۔ مگر پھر بھی ہم نے اپنے ملازمین کو اس مہینے اپنی جیب سے تنخواہ دی ہے جبکہ اگلے ماہ سے پہلے ہی ہم ان کے گھروں میں راشن بھی لازمی پہنچائیں گے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ 90 فیصد ریسٹورنٹ ماہانہ آمدنی پر ہی چلتے ہیں جبکہ ریستوران انڈسٹری کا شمار پاکستان کی بڑی انڈسٹریوں میں ہوتا ہے، اس کے باوجود بھی کورونا سے متاثر ہونے والی اس انڈسٹری کو حکومت کی جانب سے کسی قسم کی کوئی ٹیکس چھوٹ نہیں دی گئی۔ انھوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ ‘اگر ریسٹورنٹ انڈسٹری متاثر ہوتی ہے تو اس سے جڑی دیگر صنعتیں جیسا کہ پیکنگ، پولٹری، ریل اسٹیٹ اور دیگر کئی کاروبار بڑی طرح متاثر ہوں گے۔‘ انھوں نے اپنے ریستوران کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کی وجہ سے ہمارے ریستوران کی سیل 20 سے 30 فیصد رہ گئی ہے۔ ‘یہی وجہ ہے کہ ہماری شفٹ میں بھی کمی آئی ہے اور ہمارے ملازمین ڈیلیوری کا کام کرنے کو بھی تیار ہیں۔‘ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ لاہور کے بیشتر علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ان کے ڈیلیوری رائڈرز کو ہراساں بھی کیا گیا اور کہا گیا کہ اب ریستوران نہیں جانا گھر جا کر بیٹھو۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52320779", "summary": "عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ نے کوویڈ 19 کی وبا سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو 1.386 ارب امریکی ڈالر کے قرضے دینے کی منظوری دی ہے۔ یہ منظوری آئی ایم ایف کے ریپڈ فنانسنگ انسٹرومنٹ کے تحت دی گئی ہے۔", "title": "آئی ایم ایف کی پاکستان کے لیے 1.386 ارب ڈالر کی منظوری", "firstPublished": "2020-04-17T04:28:20.000Z", "id": "b310edf9-3c12-2041-b818-f80daa15ca70", "article": "عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ نے کوویڈ 19 کی وبا سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو 1.386 ارب امریکی ڈالر کے قرضے دینے کی منظوری دی ہے۔ یہ منظوری آئی ایم ایف کے ریپڈ فنانسنگ انسٹرومنٹ کے تحت دی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کے بورڈ نے 1015.5 ملین ایس ڈی آر کی منظوری دی ہے۔ ایس ڈی آر (سپیشل ڈائنگ رائٹس) آئی ایم ایف کی خصوصی کرنسی ہے جس کی قیمت دنیا کی پانچ بڑی کرنسیوں کی قیمت پر منحصر ہوتی ہے جن میں امریکہ ڈالر، برطانوی پاؤنڈ، یورو، چینی رنمنبی، اور جاپانی ین ہوتے ہیں۔ 1015.5 ملین ایس ڈی آر تقریباً 1.386 ارب ڈالر بنتے ہیں اور یہ پاکستان کے کوٹے کا نصف ہے۔ اس موقعے پر آئی ایم ایف کے ایگزیکٹوو بورڈ کے ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر جعفری اوکاموٹو کا کہنا تھا کہ ’کووڈ 19 کی وبا کے پھیلنے سے پاکستانی معیشت کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔ داخلی طور پر پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات اور عالمی سطح پر مندی کی وجہ سے معیشت پر شدید اثر پڑ رہا ہے اور بیرونی قرضوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اسی وجہ سے ملک میں بیلنس آف پیمنٹ کراسز پیدا ہو گیا ہے۔‘ ’اسی تناظر میں آئی ایم ایف نے یہ فائنینسنگ دی ہے تاکہ حکام کو صحت کے شعبے پر خرچ کرنے، معیشت میں بھروسہ لانے اور دیگر ڈونرز کی حمایت حاصل کرنے کی جگہ مل سکے۔‘ یاد رہے کہ حال ہی میں وزیرِ اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے کمزور معیشتوں پراثرات کو مدّنظر رکھتے ہوئے آئی ایم ایف اور اقوامِ متحدہ سے غریب ممالک کے لیے قرضے معاف کرنے کی اپیل کی تھی۔ گذشتہ روز وزارتِ خارجہ سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف نے اس اپیل کی منظوری دے دی ہے، جس کے نتیجے میں ملنے والا قرضہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے معاشی نقصان کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال نے فیکٹریوں کی بندش کی وجہ سے برآمدی آرڈرز کی تکمیل میں رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں اور اس کے ساتھ ملک میں بیرون سرمایہ کاری کی آمد بھی رک چکی ہے۔ سوائے روزمرہ اور سبزی و فروٹ کی دکانوں کے ہر کاروبار بند کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں منصوبہ بندی کی وزارت کے ذیلی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک کروڑ سے زائد افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ اگر لاک ڈاؤن کی مدت بڑھتی ہے اور اسے تین مہینے تک بڑھایا گیا تو یہ ایک کروڑ افراد کی ملازمتوں کو خطروں سے دوچار کر سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52307540", "summary": "وزیرِ اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے کمزور معیشتوں پراثرات کو مدّنظر رکھتے ہوئے آئی ایم ایف اور اقوامِ متحدہ سے غریب ممالک کے لیے قرضے معاف کرنے کی اپیل کی تھی۔", "title": "آئی ایم ایف کورونا سے نمٹنے کے لیے قرضہ دے گا: شاہ محمود قریشی", "firstPublished": "2020-04-16T11:05:19.000Z", "id": "235a18ef-f037-b243-9fa6-a82217002c35", "article": "وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف نے 76 ترقی پذیر ممالک کو قرضے فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ حال ہی میں وزیرِ اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے کمزور معیشتوں پراثرات کو مدّنظر رکھتے ہوئے آئی ایم ایف اور اقوامِ متحدہ سے غریب ممالک کے لیے قرضے معاف کرنے کی اپیل کی تھی۔ بی بی سی کی نامہ نگار سحر بلوچ کے مطابق وزارتِ خارجہ سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آئی ایم ایف نے اس اپیل کی منظوری دے دی ہے، جس کے نتیجے میں ملنے والا قرضہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے معاشی نقصان کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اسی حوالے سے مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے آئی ایم ایف کے اقدام پر بیان دینے سے پہلے وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کی۔ وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق عبدالحفیظ شیخ نے وزیرِ اعظم کو بتایا کہ آئی ایم ایف کے تیار کردہ پلان کے مطابق، پاکستان کو ایک عشاریہ چار ارب کی اضافی رقم کورونا وائرس کے معاشی اثرات سے نمٹنے کے لیے دی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ترقی پذیر ممالک کے واجب الادا قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کی تجویز دی تاکہ یہ ممالک اپنے محدود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس وبائی چیلنج کا مقابلہ کر سکیں۔ انھوں نے کہا کہ جی 20 فورم اور عالمی بینک کی طرف سے واجب الادا قرضوں میں سہولت کی فراہمی کے معاملے کو زیر غور لانا قابلِ تحسین ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس باہر سے آنے والے مسافروں کو ٹیسٹ کرنے اور قرنطینہ کرنے کی سہولت موجود نہ تھی ’لہٰذا ہم نے اس حوالے سے ایس او پیز مرتب کیے، اور اپنی استعداد کار میں اضافہ کیا۔‘ چین کے حالیہ دورے کے بارے میں بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'دورہِ چین، چین کی حکومت اور عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کیا کیونکہ ہم آئرن برادر ہیں۔' 15 اپریل کو 254 پاکستانی جدّہ سے لاہور واپس آئے تھے۔ وزارتِ خارجہ کے مطابق عمرہ کرنے والے تقریباً 474 پاکستانی بین الاقوامی پروازوں کی منسوخی کے باعث سعودی عرب میں پھنس گئے تھے جو اب پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سعودی عرب سے ایک اور پرواز جمعرات کے روز ملتان پہنچے گی۔ انھوں نے کہا کہ عالمی رہنماؤں نے بھی صدر ٹرمپ سے اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کی ہے تاکہ ڈبلیو ایچ او کو اپنے فرائض سرانجام دینے میں مشکلات پیش نہ آئیں۔ چین کے حالیہ دورے کے بارے میں بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’دورہِ چین، چین کی حکومت اور عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کیا کیونکہ ہم آئرن برادر ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-52290084", "summary": "آئی ایم ایف کی چیف اکانومسٹ گیتا گوپی ناتھ نے کہا ہے کہ اس بحران سے اگلے دو برسوں میں مجموعی عالمی پیداوار میں نو کھرب ڈالر کی کمی آ سکتی ہے۔", "title": "'دنیا کو سنہ 1930 کی دہائی کے بعد بدترین مندی کا سامنا'", "firstPublished": "2020-04-15T17:51:36.000Z", "id": "523236a8-06ad-724c-b656-629c8adfb165", "article": "بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ عالمی معیشت رواں سال تین فیصد تک سکڑے گی کیونکہ کئی دہائیوں میں پہلی بار دنیا بھر کے ممالک کی معیشت تیزی سے سکڑ رہی ہے۔ آئی ایم ایف نے اس عالمی مندی کو سنہ 1930 کی دہائی میں آنے والے ’گریٹ ڈپریشن‘ کے بعد نے والا بدترین بحران قرار دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی چیف اکانومسٹ گیتا گوپی ناتھ نے کہا کہ اس بحران سے اگلے دو برسوں میں مجموعی عالمی پیداوار میں نو کھرب ڈالر کی کمی آ سکتی ہے۔ اگرچہ آئی ایم ایف کی تازہ ترین رپورٹ عالمی معاشی آؤٹ لک نے برطانیہ، جرمنی، جاپان اور امریکہ جیسے ممالک میں اس وبا کے خلاف 'تیز اور بڑے پیمانے پر' ردعمل کی تعریف کی ہے لیکن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ملک اس بحران سے نہیں بچ سکے گا۔ آئی ایم ایف کی چیف اکانومسٹ گیتا گوپی ناتھ نے کہا کہ اس بحران سے اگلے دو برسوں میں مجموعی عالمی پیداوار میں نو کھرب ڈالر کی کمی آ سکتی ہے۔ گیتا گوپی ناتھ نے کہا کہ آج کے اس 'گریٹ لاک ڈاؤن' نے ان پالیسی سازوں کے سامنے ایک 'ہیبت ناک سچائی' پیش کی ہے جنھیں اس 'صدمے کی شدت اور دورانیے کے متعلق شدید غیر یقینی صورت حال' کا سامنا ہے۔ گیتن گوپی ناتھ نے کہا کہ ’سنہ 2021 میں جزوی طور پر بحالی کا اندازہ ہے لیکن مجموعی پیداوار سابقہ رجحانات سے نیچے ہی رہے گی اور اس کے پھر سے سنبھلنے کے متعلق بہت حد تک غیر یقینی کی کیفیت برقرار رہے گی۔ گیتا گوپی ناتھ نے کہا کہ گریٹ ڈپریشن کے بعد پہلی بار ایسی صورت حال دیکھی جا رہی ہے جہاں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں قسم کی معیشتوں کا کساد بازاری کی لپیٹ میں آنے کا خدشہ ہے۔ آئی ایم ایف نے متنبہ کیا ہے کہ جدید ترین معیشتوں میں وبا سے پہلے جو ترقی کی بلند ترین رفتار تھی، وہ سنہ 2022 سے پہلے اس پر واپس نہیں جا سکیں گی۔ یہ توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ رواں سال امریکی معیشت کی ترقی میں 5.9 فیصد کی کمی ہوگی جو کہ سنہ 1946 کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی سالانہ گراوٹ ہے۔ اس کے علاوہ رواں سال امریکہ میں بے روزگاری کی شرح 10.4 فیصد ہوجائے گی۔ ادارے نے کہا ہے کہ اگر وبائی مرض پر قابو پانے میں زیادہ وقت لگتا ہے اور سنہ 2021 میں اس کی دوسری لہر آتی ہے تو اس سے عالمی جی ڈی پی میں مزید آٹھ فیصد پوائنٹس کی کمی ہو گی۔ اگرچہ طویل مدت تک رہنے والے لاک ڈاؤن سے معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ آئے گی تاہم آئی ایم ایف کا کہنا ہے اس کے لیے قرنطینہ اور سماجی دوری برقرار رکھنا اہیمت کا حامل ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-52266965", "summary": "اتوار کو طے پانے والا یہ معاہدہ تاریخ میں تیل کی پیداوار کم کرنے کا سب سے بڑا معاہدہ ہے۔ اگرچہ اوپیک نے اب تک اس معاہدے کا اعلان نہیں کیا ہے مگر انفرادی طور پر رکن ممالک نے اس کی تصدیق کر دی ہے۔", "title": "عالمی سطح پر تیل کی پیداوار کم کرنے کا ’سب سے بڑا معاہدہ‘", "firstPublished": "2020-04-13T07:24:06.000Z", "id": "44bc860d-62d0-7442-9a3b-c52e240b248c", "article": "اتوار کے روز ویڈیو کانفرنس کے ذریغے کیا گیا یہ معاہدہ تاریخ میں تیل کی پیداوار کم کرنے کا سب سے بڑا معاہدہ ہے عالمی سطح پر کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے تیل کی مانگ میں کمی کے پیشِ نظر تیل کی پیداوار 10 فیصد کم کرنے پر اوپیک ممالک اور ان کے اتحادیوں میں اتفاق ہو گیا ہے۔ اتوار کے روز ویڈیو کانفرنس کے ذریعے طے پانے والا یہ معاہدہ تاریخ میں تیل کی پیداوار کم کرنے کا سب سے بڑا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے میں اوپیک ممالک کے ساتھ ساتھ دیگر اتحادی ممالک جیسے کہ روس نے نو اپریل کو اس معاہدے کے حوالے سے تقصیلات کا اعلان کیا تھا تاہم میکسیکو نے اس پر رضامندی ظاہر نہیں کی تھی۔ اگرچہ اوپیک نے اب تک اس معاہدے کا اعلان نہیں کیا ہے مگر انفرادی طور پر رکن ممالک نے اس کی تصدیق کر دی ہے۔ اب تک جس بات کی حتمی تصدیق ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اوپیک ممالک اور اتحادی 9.7 ملین بیرل یومیہ تک کی کمی کی جائے گی۔ تحقیقی کمپنی مارنگ سٹار کی ڈائریکٹر آئل ریسرچ سینڈی فیئلڈن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک نایاب معاہدہ ہے کیونکہ نہ صرف اوپیک ممالک بلکہ ان کے اتحادیوں اور دنیا میں تیل پیدا کرنے والے سب سے بڑے ملک امریکہ سمیت جی 20 کے بھی کچھ ممالک نے اس معاہدے کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔‘ اتوار کو صدر ٹرمپ اور کویت کے وزیرِ تونائی ڈاکٹر خالد علی محمد الفدھل نے اس خبر کو ٹوئیٹ کیا جبکہ سعودی عرب میں وزیرِ تونائی اور روس کے ریاستی خبر رساں ادارے تاس، سب نے اتوار کے روز اس معاہدے کی تصدیق کی۔ اس سے قبل مارچ میں تیل کی قیمتیں اپنی 18 سالہ کم ترین سطح پر پہنچ گئی تھیں کیونکہ اوپیک ممالک کے اتحادی ممالک کے درمیان رسد کم کرنے پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا۔ اس حوالے سے مدآکرات اس وقت پیچیدہ ہوگئیں جب روس اور سعودی عرب کے درمیان اس حوالے سے کشیدگی ہوئی تاہم 2 اپریل کو صدر ٹرمپ کی ٹوئیٹ کہ انھیں دونوں ممالک کی کشیدگی ختم ہونے کی توقع ہے، اس کے بعد تیل کی قیمت میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا تھا۔ ابتدائی تفصیلات کے مطابق جمعرات کو اوپیک ممالک کے اتحادیوں نے 10 ملین بیرل پومیہ کی کمی کا اعلان کیا ہے جس کا اطلاق یکم مئی سے ہوگا۔ یہ عالمی رسد کا تقریباً دس فیصد بنتا ہے۔ اس کے علاوہ اوپیک سے باہر کے ممالک جیسے کہ امریکہ، کینیڈا، برازیل، اور ناروے بھی ملک کر پانچ ملین بیرل فی روز کمی پیدا کریں گے۔ جولائی اور دسمبر کے درمیان رسد کی اس کمی میں نرمی لا کر اسے 15 سے 8 ملین بیرل یومیہ لے جایا جائے گا اور جنوری 2021 اور اپریل 2022 تک اس کمی کو چھ ملین بیرل تک لے جایا جائے گا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-52262707", "summary": "انڈیا کی مرکزی حکومت نے کم مزدوروں کے ساتھ چائے کے باغات میں کام کرنے کی اجازت دی تھی جبکہ چائے کے باغات مالکان کی درخواست پر ریاستی حکومت نے محض 15 فیصد مزدوروں کے ساتھ باغات کو کھولنے کی اجازت دی ہے۔", "title": "انڈیا کی مشہور اور مہنگی ’دارجلنگ‘ چائے کو کورونا سے کیا خطرہ ہے؟", "firstPublished": "2020-04-12T17:03:00.000Z", "id": "70c076ba-7e6e-fa4a-82ed-e7a65ad6f8a3", "article": "انڈیا کی مرکزی حکومت نے کم مزدوروں کے ساتھ چائے کے باغات میں کام کرنے کی اجازت دی تھی جبکہ چائے کے باغات مالکان کی درخواست پر ریاستی حکومت نے محض 15 فیصد مزدوروں کے ساتھ باغات کو کھولنے کی اجازت دی ہے۔ مرکزی حکومت نے ان باغات میں 50 فیصد ملازمین کے ساتھ کام شروع کرنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن ریاستی حکومت نے پہلے بھی اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ مزدوروں میں بھی کرونا وائرس کی زد میں آنے کا خوف ہے۔ جمعرات کے روز چائے کی صنعت کے نمائندوں سے ملاقات کے بعد مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے مشروط اجازت دی ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا: 'چائے کے پودے لگانے والوں کا کہنا ہے کہ اگر سبز پتوں کا انتخاب نہیں کیا گیا تو وہ کچھ ہی دنوں میں بیکار ہوجائیں گے۔ لہذا حکومت نے 15 فیصد کارکنوں کے ساتھ باغات میں کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن وہاں تمام طرح کے حفاظتی اقدامات کو اپنانا ہو گا۔' پہاڑی خطے میں چائے کے باغات کی تنظیم دارجیلنگ ٹی ایسوسی ایشن (ڈی ٹی اے) کے صدر بنود موہن نے کہا؛ 'ہم ریاستی حکومت کی ہدایت پر عمل کریں گے۔ مزدوروں اور ان کی حفاظت ہماری پہلی ترجیح ہے۔' دارجلنگ کے پہاڑی علاقے کے 87 باغات میں ہر سال تقریباً 80 لاکھ کلو چائے تیار ہوتی ہے۔ اس کی پیداوار کا ایک چوتھائی حصہ پہلی بارش کے دوران ہوتا ہے۔ اس کے بعد دوسرے فلش میں کل پیداوار کا 15 فیصد حصہ ہوتا ہے۔ ملک میں چائے کی مجموعی پیداوار میں دارجلنگ چائے کا حصہ بھلے ہی بہت کم ہو سکتا ہے لیکن پوری دنیا میں اس چائے کی بہت قدر و منزلت اور بہت زیادہ مانگ ہے۔ یوروپی یونین نے اسے سنہ 2011 جی آئی درجہ دیا تھا۔ پیداوار کم ہو جانے کی وجہ سے باغات کے مالکوں کے سامنے مزدوروں کو نقد اجرت دینے کا شدید بحران پیدا ہو گیا ہے۔ ڈی ٹی اے نے حکومت سے اس معاملے میں تعاون کرنے کی درخواست کی ہے۔ اس سے قبل چائے کے پودے لگانے والوں کے اہم ادارے پلانٹس ایسوسی ایشنز کی مشاورتی کمیٹی (سی سی پی اے) نے مرکزی حکومت سے صنعت کو اس بحران سے نکالنے کے لیے مالی پیکیج فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سی سی پی اے کا کہنا ہے کہ چائے کی صنعت دیگر صنعتوں سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ کل لاگت کا 60 سے 65 فیصد مزدوروں کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے۔ لیکن لاک ڈاؤن کے دوران محصولات میں جمود کی وجہ سے چائے کے باغات کی انتظامیہ مزدوروں کو تنخواہ نہیں دے پا رہی ہے۔ ایک ماہ کے لاک ڈاؤن کے دوران کام کیے بغیر مزدوروں کی ادائیگی سے کل لاگت میں چھ فیصد اضافہ ہو گا۔ اس کے علاوہ فروخت میں بھی پندرہ فیصد کمی ہو گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-52228653", "summary": "معاشرے کا یہ خیال غلط ہے کہ کمپیوٹر غیرجانبدار مشین ہے جو امتیازی سلوک نہیں کرتا کیونکہ وہ انسانوں کی طرح سوچ نہیں سکتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مشینیں جو تاریخی اعداد و شمار پراسیس کرتی ہیں اور شاید وہ پروگرامرز جو انھیں بناتے ہیں اور ان میں اعداد وشمار ڈالتے ہیں وہ خود ہی متعصب ہوتے ہیں اور اکثر غیر ارادی طور پر جانبدار ہوتے ہیں۔", "title": "کیا قرضہ بھی صنف دیکھ کر دیا جاتا ہے؟", "firstPublished": "2020-04-11T16:48:52.000Z", "id": "8f07e844-0d06-1243-b64c-5c32989bfa04", "article": "معاشرے کا یہ خیال غلط ہے کہ کمپیوٹر غیرجانبدار مشین ہے جو امتیازی سلوک نہیں کرتا کیونکہ وہ انسانوں کی طرح سوچ نہیں سکتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مشینیں جو تاریخی اعداد و شمار پراسیس کرتی ہیں اور شاید وہ پروگرامرز جو انھیں بناتے ہیں اور ان میں اعداد وشمار ڈالتے ہیں وہ خود ہی متعصب ہوتے ہیں اور اکثر غیر ارادی طور پر جانبدار ہوتے ہیں۔ ایپل کارڈ کے معاملے میں ہم نہیں جانتے کہ الگوریتھم کس طرح اپنے فیصلے کرتا ہے یا کون سا ڈیٹا استعمال کرتا ہے لیکن اس میں وہ تاریخی اعداد و شمار شامل ہوسکتے ہیں جس میں مختلف قسم کے افراد کو خطرہ سمجھا گیا ہے یا پھر جنھوں نے روایتی طور پر قرض کے لیے درخواستیں دی ہیں۔ ایپل کارڈ کے منتظم ادارے گولڈمین سیکس کا کہنا ہے کہ وہ درخواست گزار سے نہ ہی ان کی جنس، نسل یا عمر پوچھتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا غیر قانونی ہو گا لہٰذا فیصلے اس بنیاد پر نہیں ہوتے کہ درخواست دینے والا مرد ہے یا عورت۔ مثال کے طور پر کسی الگوریتھم کو کسی کی جنس کا علم نہیں لیکن وہ یہ جان سکتا ہے کہ آپ پرائمری سکول کے استاد ہیں اور تاریخی اعتبار سے پرائمری سکولوں میں خواتین اساتذہ زيادہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعداد و شمار متنازع طور پر زیادہ تر جرم اور انصاف کے معاملے میں اس زمانے سے حاصل کیے جا سکتے جب پولیس یا جج کے فیصلے کسی شخص کی نسل سے متاثر ہوا کرتے تھے۔ ایسے ڈیٹا کو پراسیس کرنا ان کے لیے اور خراب ہوتا ہے جسے انھوں نے پہلے نہ دیکھا ہو۔ اگر کوئی سفید فام نہیں ہے اور اس کا لہجہ زیادہ علاقائی ہے تو خود کار طریقے سے چہرے یا آواز کو پہچاننے والے سافٹ ویئر کے ذریعہ اسے بہت اچھی طرح سے پہچانا نہیں جا سکتا ہے کیونکہ اس میں جو ڈیٹا ڈالا گیا ہے اور جن پر ان کی تربیت کی گئی ہے وہ زیادہ تر ایسے سفید فام لوگوں کے ہیں جن کی بولیوں میں علاقائی لہجے کا شائبہ نہیں ہے اور بہت سے کال سینٹر اس قسم کے سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہیں۔ دوسرا آپشن الگوریتھم کی شفافیت ہے جس میں ایک صارف کو یہ بتایا جائے کہ اگر کوئی فیصلہ کیا گیا ہے تو کیوں کیا گیا ہے اور ان کے اعداد و شمار کے کون سے عناصر سب سے زیادہ اہم ہیں۔ تاہم ایسی معلومات کو متعین کرنے کے بہترین طریقہ پر اب تک کوئی رضامندی نہیں ہے۔ ’ایک بیمہ کرنے والا مخصوص ملازمت پیشہ گروپ کے لیے گروپ ہیلتھ انشورنس فرداً فرداً کے بجائے ان کو پیش کرسکتا ہے جن کے وہ ملازم ہیں۔ پھر ایسے میں انشورنس میں آنے والے افراد کو انفرادی پرچے پُر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انشورنس کرنے والی کمپنی مجموعی طور پر اپنے رسک کا اندازہ کرتی ہے‘۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-52226233", "summary": "خیراتی ادارے آکسفیم نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے معاشی اثرات عالمی غربت میں نصف ارب تک کا اضافہ کر سکتے ہیں۔", "title": "’معاشی نقصان سے غربت میں تقریباً نصف ارب افراد کے اضافے کا خدشہ‘", "firstPublished": "2020-04-09T16:19:32.000Z", "id": "10580501-75c3-4f4b-bc07-0de9be945a2f", "article": "خیراتی ادارے آکسفیم نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے معاشی اثرات عالمی غربت میں تقریباً نصف ارب تک کا اضافہ کر سکتے ہیں۔ آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی اور کنگز کالج لندن کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے آکسفیم نے کہا کہ یہ 30 سال میں پہلی مرتبہ ہوگا جب عالمی سطح پر غربت میں اضافہ ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق اس وائرس سے پیدا ہونے والے حالات کے سبب معاشی بحران طبی بحران سے کہیں زیادہ شدید ہوگا اور عالمی سطح پر غربت میں بڑا اضافہ ہوگا۔ یہ رپورٹ عالمی بینک، عالمی مالیاتی فنڈ اور جی 20 کے وزرائے خزانہ کے اجلاس سے ٹھیک پہلے آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس وائرس کے اثرات اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقی سے متعلق ادارے کے 2030 تک غربت ختم کرنے کے ہدف کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ کِنگز کالج کے پروفیسر اینڈی سمر کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ ترقی پذیر ممالک میں سماجی تحفظ کے دائرے کو جلد از جلد بڑھانے کی سمت اشارہ کرتی ہے اور یہ بھی کہ اس حوالے سے بین الاقوامی برادری کیا مدد کر سکتی ہے۔ برطانیہ میں آکسفیم کے چیف ایگزیکیٹیو ڈینی سرسکندر جاہ کا کہنا ہے کہ غریب ممالک کے کروڑوں مزدور پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں، جن کے لیے بیماری کے دوران اجرت یا سرکاری امداد کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ اگلے ہفتے عالمی بینک اور جی 20 ممالک کی تنظیم کا اجلاس عالمی رہنماؤں کے لیے ایک موقع ہوگا، جس میں وہ کمزور یا غیر محفوظ لوگوں کے لیے کسی اقتصادی پیکیج پر اتفاق کر سکیں گے۔ اس سے قبل سو سے زیادہ عالمی تنظیموں نے ترقی پذیر ممالک کے قرضوں کی ادائیگی اس سال معاف کرنے کی اپیل کی تھی۔ جس سے یہ ملک یہ رقم اپنی معیشت کو سنبھالنے میں لگا سکیں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52209087", "summary": "پاکستان میں منصوبہ بندی کی وزارت کے ذیلی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک کروڑ سے زائد افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔", "title": "کورونا سے پاکستان میں ایک کروڑ افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ", "firstPublished": "2020-04-08T04:32:20.000Z", "id": "c0806c3c-6c46-1b4f-8ad9-22b55eed2a71", "article": "کراچی میں ایک بڑے ٹیکسٹائل گروپ کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے فیکٹری بند ہونے کے باعث تمام ملازمین کو بغیر تنخواہ کے چھٹی دی جا رہی ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال نے فیکٹریوں کی بندش کی وجہ سے برآمدی آرڈرز کی تکمیل میں رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں تو اس کے ساتھ ملک میں بیرون سرمایہ کاری کی آمد بھی رک چکی ہے۔ سوائے روزمرہ اور سبزی و فروٹ کی دکانوں کے ہر کاروبار بند کر دیا گیا ہے۔ ان حالات کی وجہ سے حکومتی ادارے بھی لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان میں منصوبہ بندی کی وزارت کے ذیلی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک کروڑ سے زائد افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران سے لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشات کے بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کی وجہ سے ملک میں ایک خوفناک معاشی منظر نامہ جنم لے رہا ہے۔ معاشی امور کے ماہر خرم شہزاد کی کورونا وائرس کے پیدا کردہ معاشی بحران پر تجزیاتی رپورٹ نشاندھی کرتی ہے کہ لاک ڈاؤن کے طویل ہونے سے معاشی سرگرمی کے نہ ہونے یا کم ہونے سے ایک کروڑ سے زائد افراد کی ملازمتیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ خرم شہزاد کے مطابق ایک کروڑ سے زائد افراد کے ملازمتوں سے ہاتھ دھونے کی صورت میں وہ ایک ارب ڈالر کی آمدنی سے ماہانہ محروم ہو جائیں گے۔ خرم شہزاد کا کہنا ہے یہ تخمینہ تنخواہ کی کم سے کم سطح پر رکھا گیا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی خراب معاشی صورتحال اور اس کے نتیجے میں بیروزگار ہونے والے افراد کے لیے مرکزی حکومت کی جانب سے ریلیف پیکج کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت ملک میں ایک کروڑ سے زائد غریب خاندانوں کو نقد رقم کی صورت میں امداد دی جائے گی جو چار مہینے کے لیے بارہ ہزار روپے پر مشتمل ہو گی۔ یہ سب افراد کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں کے رک جانے کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستانی معیشت کے تازہ ترین جائزوں میں ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور موڈیز نے ملکی معیشت کے کورونا وائرس کے جھٹکوں سے مزید خراب ہونے کی پیشنگوئی کی ہے۔ وفاقی حکومت نے تعمیراتی شعبے کے لیے ’مراعاتی پیکج‘ اور چودہ اپریل سے اسے کھولنے کا اقدام معیشت کی خراب صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اٹھای ہے تاکہ کورونا وائرس کی وجہ سے بیروزگاری کی بلند شرح پر قابو پایا جا سکے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52148895", "summary": "کورونا وائرس میں اضافے کے خدشہ کے باعث عمران خان نے مزدور اور غریب طبقے کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت انھیں تین ہزار روپے ماہانہ ملے گا لیکن کیا یہ ان کی ضروریات کے لیے کافی ہوگا؟", "title": "’وزیر اعظم کی جانب سے امداد کے اعلان پر شکر گزار ہیں لیکن تین ہزار روپے میں کیسے گزارا ہوگا؟‘", "firstPublished": "2020-04-03T10:35:08.000Z", "id": "db9c35ee-335b-3145-9e1a-bdd7bae41d55", "article": "پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ایسے مزدور اور غریب طبقے کے لیے ایک ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان مکمل لاک ڈاؤن کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور اس کی وجہ وہ مزدور پیشہ طبقے کی مشکلات میں اضافے کا خطرہ بتاتے رہے ہیں۔ حالیہ ہفتے سرکاری ٹی وی پر اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ریلیف پیکج ہے۔ اس پیکج سے ملک کے دس ملین افراد مستفید ہوں گے۔ مزدور افراد کو فی خاندان چار ماہ کے لیے بارہ ہزار کی رقم یکمشت ادا کی جائے گی۔ یعنی ایک ماہ کے لیے صرف تین ہزار روپے۔ اسلام آباد کے اسسٹنٹ کمشنر گوہر وزیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ یہ رقم کم ہے مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ موجودہ مشکل حالات اور کورونا جیسی وبا کے دوران یہ کوشش قابلِ ستائش بھی ہے۔ ’کچھ نہ ہونے سے کچھ مدد ہو جانا بہتر ہے۔ ہم ایک مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔ جو ہمارے وسائل ہیں اور جو وبا ہے اس میں بھی میرے خیال میں یہ ہماری پہلی حکومت ہے جو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس غریب طبقے تک پہنچ رہی ہے۔ ہمارا احساس اور کفالت پروگرام اور راشن پیکجز اس رقم کے ساتھ ساتھ جاری ہیں۔ اور امید ہے کہ لاک ڈاؤن جاری رہنے کی صورت میں امداد میں اضافہ بھی ہوگا۔‘ ’بس اللہ کا ہی آسرا ہے، کام تو نہیں ہے۔ ہم وزیر اعظم کے شکرگزار ہیں کہ اس مدد کا اعلان کیا، لیکن تین ہزار روپے میں کیسے گزارا ہوگا؟ کھانا چھوڑ بھی دیں تو غریب ترین مزدور بھی صبح ناشتہ اور دن میں ایک بار چائے کی پیالی پیتا ہے، سو، ڈیڑھ سو روپے تو یہیں پورے ہو جائیں گے۔ پھر تین ہزار میں ایک مہینہ کوئی خاندان کیسے گزارے گا؟ یہ رقم بہت کم ہے۔‘ تاہم گوہر وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے غریب افراد کے لیے پہلے سے جاری احساس اور کفالت پروگرام میں رجسٹر شدہ افراد کے ساتھ ساتھ اب پینتیس لاکھ ان مزدوروں کی فہرستیں مرتب کی جائیں گی، جس کے بعد نادرا کے ذریعے انہیں رقوم کی منتقلی کا مرحلہ طے کیا جائے گا۔ ’چوکی والوں نے بتایا کہ تھانے جاؤ اور وہاں شناختی کارڈ کی کاپی دے کر آؤ، وہاں گئے تو انھوں نے ایک ڈیرے پر بھیج دیا۔ ڈیرے پر پہنچے تو پتا چلا یہاں صرف مسلم لیگ ن والوں کو ملے گا، واپس پولیس چوکی پر آگیا۔ شناختی کارڈ کی کاپی ابھی تک جیب میں ہے اور یہ نہیں پتا کہ کہاں جمع کرانی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52101281", "summary": "معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے قرض کی شرائط نرم کروانا پاکستان کے لیے ناگزیر ہے کیونکہ معیشت کو کورونا کی وجہ سے جو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اس کے بعد آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔", "title": "کیا پاکستان آئی ایم ایف سے قرض کی شرائط نرم کروا سکتا ہے؟", "firstPublished": "2020-03-31T06:54:10.000Z", "id": "251c7029-3677-9644-9dc9-9a1e2d9de25b", "article": "پاکستان کے حزب اختلاف کے رہنماؤں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کورونا وائرس کے ملکی معیشت پر ممکنہ برے اور دور رس اثرات کے پیش نظر بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ساتھ قرض سے جڑی اور اس کی واپسی کی شرائط پر دوبارہ مذاکرات کر کے انھیں نرم کروانے کی کوشش کریں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے قرض کی شرائط نرم کروانا نہ صرف ممکن ہے بلکہ پاکستان کے لیے ناگزیر بھی ہے کیونکہ ملکی معیشت کو کورونا کی وجہ سے جو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اس کے بعد پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر کا قرضہ تین سے چار فیصد کے درمیان شرح سود کے ساتھ گزشتہ برس جولائی میں منظور کیا تھا۔ یہ قرض قسطوں کی صورت میں تین سال کے عرصے میں پاکستان کو ادا کیا جانا ہے۔ اس قرضے کی مکمل وصولی کے 22 مہینے کے بعد اس کے واپس لوٹانے کا عمل شروع ہو گا۔ ان کے مطابق عام حالات میں تو ایسا ممکن نہیں ہوتا تاہم غیر معمولی حالات میں آئی ایم ایف سے اس سلسلے میں بات چیت کی جا سکتی ہے۔ کورونا وائرس نے ملک میں غیر معمولی حالات پیدا کر دیے ہیں جن کے معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ماہر معیشت اور سابقہ معاشی مشیر برائے وزرات خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے آئی ایم ایف سے توسیعی فنڈ سہولت کے معاہدے کی شرائط پر نظر ثانی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ شرائط کوئی آسمانی صحیفہ نہیں کہ جس پر دوبارہ مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے قرض کی شرائط نرم کروانا پاکستان کے لیے ناگزیر ہے کیونکہ معیشت کو کورونا کی وجہ سے جو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اس کے بعد آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا ممکن نہیں ہو گا ڈاکٹر اشفاق حسن کے مطابق آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پاکستان کو اگلے مالی سال میں موجودہ مالی سال کے ٹیکس ٹارگٹ سے ایک ہزار ارب اضافی محصولات اکٹھے کرنے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان موجودہ مالی سال میں 4400 ارب کے محصولات بڑی مشکل سے جمع کر پائے گا تو اگلے مالی سال میں آئی ایم ایف شرائط کے تحت 6300 ارب کی محصولات کا ہدف ایک غیر حقیقی ہدف ہو گا۔ پائیدار ترقی کی پالیسی کے ادارے ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد قیوم سلہری کا کہنا ہے ’ملک کورونا وائرس کی پیدا کردہ صورت حال کی وجہ سے کساد بازاری کا شکار ہونے جا رہا ہے اس صورت میں آئی ایم ایف کے ساتھ توسیعی فنڈ سہولت کی شرائط پر پورا اترنا ممکن نہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52059577", "summary": "پاکستان میں حکومت کی طرف سے یقین دہانی کے باوجود چھوٹی بڑی صنعتوں اور کارخانوں میں کام کرنے والوں کو یا تو نوکریوں سے نکالا جارہا ہے یا غیر معینہ مدت کے لیے بغیر تنخواہ کے گھر بیٹھنے کا کہا جا رہا ہے۔", "title": "کورونا: پاکستان میں کیا صنعتی اداروں کے علاوہ مزدوروں کو بچانے کی بھی ضرورت ہے؟", "firstPublished": "2020-03-28T04:27:26.000Z", "id": "bb8cfce6-2c2e-e742-bd2b-c374a19cd28e", "article": "پاکستان میں کورونا وائرس کے پیش نظر لاک ڈاؤن کے باعث ملک کی متعدد صنعتیں اور کارخانے بند ہیں اور یہاں کام کرنے والے افراد کو متعدد معاشی اندیشوں اور خطرات کا سامنا ہے۔ حکومت کی طرف سے یقین دہانی کے باوجود چھوٹی بڑی صنعتوں اور کارخانوں میں کام کرنے والوں کو یا تو نوکریوں سے نکالا جارہا ہے یا غیر معینہ مدت کے لیے بغیر تنخواہ کے گھر بیٹھنے کا کہا جا رہا ہے۔ سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق حالیہ دنوں میں متعدد صنعتوں سے وابستہ افراد، کئی مزدوروں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کو نکالا گیا ہے۔ ان تمام افراد کو نوکری سے یہ کہہ کر نکالا گیا کہ ملک میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے باعث اس وقت صورتحال غیر یقینی ہے۔ اس بارے میں جب ہاشو گروپ کے ترجمان سے بات کی گئی تو اُن کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ہمارے تمام ہوٹل بند ہیں۔ ہمارے ساتھ جُڑے کسی بھی ہوٹل میں، چاہے وہ میریئٹ ہو، پرل کانٹیننٹل یا پھر ہوٹل ون، ہم نے اپنے لوگوں کو گھر کسی منطق کی بنیاد پر بھیجا ہے۔ جب ہوٹل بند ہیں تو ہم انھیں کام پر بلا کر کیا کریں؟‘ جب ترجمان سے سندھ حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے حالیہ اعلامیہ کی بات کی گئی تو ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ’قانون میں لکھا ہے کہ بزنس بند ہونے کی صورت میں آدھی تنخواہ اور مکمل طور پر بند ہونے کی صورت میں بغیر تنخواہ ملازموں کو چھٹی پر بھیجا جاسکتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کی صورتحال پہلے کبھی نہیں آئی کہ ہر گھنٹے بعد صورتحال مختلف ہو۔ ہم ہر وقت مانیٹر کررہے ہیں کہ اس سب سے کیسے نمٹا جائے۔‘ سندھ اور پنجاب میں اب بھی گارمینٹ فیکٹری اور مِلیں کھلی ہیں اور وہاں پر کام کرنے والوں کے مطابق اُن کو آنا پڑتا ہے۔ اور پابندی کے باعث گھر بیٹھنے کی صورت میں نوکری سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ ملک میں مزدوروں سے منسلک قوانین یا تو ایک صوبے کی حد تک محدود ہیں یا پھر ان کا اطلاق نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں لوگ بیروزگار ہورہے ہیں اور ان کے پاس اپنی بات کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر کرامت علی نے کہا کہ ’اداروں میں اصلاحات لائے بغیر آپ مزدوروں کے حق اور نوکری کے تحفظ کی بات نہیں کرسکتے، یہ زخم صحیح کیے بغیر پٹی کرنے والی بات ہے۔ 3000 روپے میں کیا ہوسکتا ہے؟ قوانین بحال کریں تاکہ ملازم پیشہ یا مزدور پیشہ افراد خود کو سنبھال سکیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-52051698", "summary": "پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر میں گزشتہ چند دنوں سے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس اضافے کے پیچھے ڈالر کا ملک سے مسلسل اخراج بتایا جا رہا ہے۔", "title": "کورونا کے باعث ڈالر کی عالمی ذخیرہ اندوزی", "firstPublished": "2020-03-26T15:46:19.000Z", "id": "70582766-b540-b944-9595-a182b64e8737", "article": "پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر میں گزشتہ چند دنوں سے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور جمعرات کی شام تک انٹر بنک میں ایک ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ ایک سو چھیاسٹھ روپے کی حد تک گر گیا۔ اس اضافے کے پیچھے ڈالر کا ملک سے مسلسل اخراج بتایا جا رہا ہے۔ پاکستان کے سٹیٹ بنک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مارچ کے مہینے میں ٹریژری بلوں میں کی گئی سرمایہ کاری میں سے 1.6 ارب ڈالر نکل کر بیرون ملک جا چکے ہیں۔ ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں اتنی بڑی تعداد میں ڈالر کر حکومتی سیکورٹیز سے اخراج کورونا وائرس کی وبا سے پھیلنے والی غیر یقینی صورتحال ہے جس نے پوری دنیا کی معیشت کو سست روی کا شکار کر دیا ہے اور بین الاقوامی سرمایہ دار غیر یقینی کا شکار ہونے کہ وجہ سے اپنی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کے لیے متحرک ہیں۔ معاشی امور کے ماہر اسد سعید کا اس بارے میں کہنا ہے کہ دنیا بھر کے سرمایہ کار موجودہ حالات میں امریکی بانڈز کو محفوظ ٹھکانہ سمجھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف پاکستانی روپے نے ڈالر کے مقابلے میں قدر نہیں کھوئی بلکہ برطانوی پاؤنڈ، یورو، بھارتی روپیہ بھی ڈالر کے مقابلے میں دباؤ میں ہیں جو ان کے مطابق امریکی حکومت کا کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے Stimulus Package ہے جس نے ڈالر کو دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں مضبوطی فراہم کی ہے۔ ایکسینچ کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سابقہ سیکرٹری جنرل ظفر پراچہ نے ڈالر کی قدر میں اضافے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی سرمایہ کارروں کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کے دو ٹھکانے ہیں۔۔ایک حکومتی سیکیورٹیز اور دوسرا سٹاک ایکسچینج۔ سٹاک مارکیٹ میں بد ترین مندی غیر ملکی سرمایہ کاری کے اخراج کی وجہ بنی تر دوسری جانب مختصر مدت پر مشتمل حکومتی ٹریژری بلز سے بھی ڈالروں کا مسلسل اخراج دیکھنے میں آیا ہے۔ ڈالر کی قدر میں اضافے کا رجحان گزشتہ کئی دنوں سے دیکھنے میں آرہا ہے اور کیا یہ اضافہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں بھی دیکھنے میں آئے گا اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر کہ قدر میں اضافے کا رجحان شارٹ ٹرم ثابت ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق سٹیٹ بنک آف پاکستان شاید ابھی فری مارکیٹ کے رجحان کا جائزہ لے رہا ہے اور ابھی اس میں کوئی مداخلت نہیں کی۔ صائم علی کا کہنا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے نے پچھلے ایک سال میں کافی قدر کھوئی ہے۔ ڈالر کی قیمت میں موجودہ اضافہ ان کی نظر میں بھی قلیل مدتی ثابت ہو سکتا ہے جو گھبراہٹ میں نکالی جانے والی اس سرمایہ کاری کے بعد رک جائے گا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52022456", "summary": "کرنسی نوٹوں کو گننے سے کون بچ سکتا ہے۔ امیر ہوں یا غریب روزمرہ زندگی میں ان کو چھونا پڑ ہی جاتا ہے۔ تاہم نوٹ کو چھونا یا گننا کیا جراثیم کی منتقلی کا بھی سبب بن سکتا ہے؟", "title": "کورونا وائرس: کرنسی نوٹ کیسے جراثیم پھیلا سکتے ہیں؟", "firstPublished": "2020-03-24T14:13:15.000Z", "id": "d56f0c5f-0ee7-3244-a4c9-878a4999987d", "article": "کون ہے جسے رو مرہ زندگی میں نوٹ نہیں گننا پڑتے۔ امیر و غریب ہو یا بزرگ، نوجوان یا بچے سب روز مرہ زندگی میں نوٹوں کو چھوتے ہیں۔ تاہم کورونا وائرس سے پھیلنے والی وبا کے باعث نوٹوں کو سونگھنے یا انہیں گننے کے کام سے اس وبا سے متاثر ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ اس خطرے کو کم کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی بینکوں کو اپنے صارفین کو ایسے کرنسی نوٹ جاری کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں جنہیں باقاعدگی سے قرنطینہ میں رکھا گیا ہو ۔ ان کرنسی نوٹوں میں خاص کر وہ نوٹ شامل ہیں جو مختلف ہسپتالوں سے بینکوں میں جمع کرائے جا رہے ہیں۔ کیا کرنسی نوٹوں سے کورونا وائرس پھیل سکتا ہے۔ اس سلسلے میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرنسی نوٹوں کے ذریعے اس کے پھیلنے کے امکانات بالکل موجود ہیں۔ ماہر متعدی امراض اور ایک لیبارٹری کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر فرحان عیسیٰ عبداللہ کرنسی نوٹوں کے ذریعے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ وائرس پلاسٹک اور کاغذ پر کچھ دن زندہ رہتا ہے۔ ان کے مطابق کاغذ پر اس وائرس کے زندہ رہنے کا دورانیہ ایک سے دو دن ہو سکتا ہے اگر اس کاغذ پر سورج کی روشنی براہ راست پڑ رہی ہو ۔ کورونا وائرس کی کرنسی نوٹوں کے ذریعے منتقلی کے بارے میں ڈاکٹر اوٹھو کا کہنا تھا کہ اس کے مکانات موجود ہیں کہ کسی متاثرہ شخص کے استعمال میں رہنے والے نوٹ اس وائرس کو مزید پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ بینکوں کی جانب سے قرنطینہ میں رکھے گئے کرنسی نوٹوں کی کل رقم کے بارے میں اسٹیٹ بینک کو آگاہ کرنا پڑے گا جو اسٹیٹ بنک کی ملکیت ہوں گے اور اس کے بدلے مرکزی بینک نئے نوٹ چھاپ کر بینکوں کو جاری کرے گا۔ بینکر منیر کمال کے مطابق پاکستان میں ٹوٹل منی سپلائی میں سے تیس فیصد کیش ٹرانزیکشن پر مشتمل ہے ۔ ان کیش ٹرانزیکشنز میں کرنسی نوٹ لاتعداد ہاتھوں سے گزرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ان لائن بینکنگ کا رجحان بڑھ رہا ہے تاہم ابھی بھی کیش ٹرانزیکشنز میں زیادہ تر کاروباری لین دین ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا آج بھی پاکستان میں کریڈٹ کارڈ اور ڈیبٹ کارڈ کا استعمال کیش ٹرانزیکشنز ہے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ان ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان ہے کرنسی نوٹوں کے ذریعے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات بینکوں کی برانچوں تک کار آمد ہو سکتے ہیں۔ نئے کرنسی نوٹ ایک بار بینک برانچ سے نکل کر کن ہاتھوں میں جاتے ہیں اس پر سٹیٹ بینک کا کوئی کنٹرول نہیں ہو سکتا۔ اس لیے جتنا زیادہ اور جلد ی آن لائن اور ڈیجیٹل بینکنک کے شعبے کو ترقی دی جائے گی اتنا ہی مستقل میں کرنسی نوٹوں پر انسانی ہاتھوں سے جراثیم کے پھیلنے کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51956871", "summary": "سٹاک مارکیٹ کے تجزیہ کاروں اور بروکرز کے مطابق مستقبل کے سودوں میں شارٹ سیلنگ بحرانی حالات میں سٹاک مارکیٹ میں مندی کے رجحان میں اضافے کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔", "title": "سٹاک مارکیٹ کو بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟", "firstPublished": "2020-03-20T01:01:19.000Z", "id": "5e48eda9-78c9-0d4b-8ea7-df0f3ac9f9c0", "article": "ایس ای سی پی کے اعلامیے کے مطابق سٹاک مارکیٹ میں ماہ اپریل کے لیے فیوچر مارکیٹ یعنی مستقبل کے سودوں میں شارٹ سیلنگ کو ’اپ ٹک‘ کے اصول سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ سٹاک مارکیٹ کے تجزیہ کاروں کے مطابق سٹاک مارکیٹ میں دو قسم کے سودے ہوتے ہیں۔ ایک سودے ریڈی مارکیٹ میں ہوتے ہیں جس میں آپ کے پاس پیسے ہوں تو آپ وہ پیسے دے کر 500 سے زائد لسٹڈ کمپنیوں کے حصص خرید سکتے ہیں۔ دوسرے سودے فیوچر مارکیٹ میں ہوتے ہیں جنہیں مستقبل کے سودے کہا جاتا ہے۔ مستقبل کے سودے سٹاک مارکیٹ میں صرف 36 کمپنیوں کے حصص میں کرنے کی اجازت ہے۔ مستقبل کے سودے ایک ماہ کی ادائیگی پر کیے جاتے ہیں یعنی مارچ میں مستقبل کے سودوں کی ادائیگی اپریل میں کی جائے گی۔ تاہم مستقبل کے سودوں میں شارٹ سیلنگ یعنی ایک سودے میں کسی کمپنی کے حصص اس کی ڈیلیوری دیے بغیر بیچ دیے جاتے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ میں اس قسم کے حصص کی خرید و فروخت میں شامل افراد کو سٹاک مارکیٹ میں سٹے بازوں کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ سٹاک مارکیٹ کے تجزیہ کاروں اور بروکرز کے مطابق مستقبل کے سودوں میں شارٹ سیلنگ بحرانی حالات میں سٹاک مارکیٹ میں مندی کے رجحان میں اضافے کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ اے کے ڈی سیکیورٹیز میں سٹاک مارکیٹ کے تجزیہ کار فرید عالم نے ایس ای سی پی کی جانب سے لیے گئے اقدامات کے بارے میں کہا کہ مستقبل کے سودوں میں شارٹ سیلنگ میں ’اپ ٹک‘ کے اصول کا مطلب ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کمپنی کے حصص کو ایک خاص قیمت میں خریدتا ہے تو مستقبل کے سودے میں وہ اسے اس سے اوپر کی قیمت میں بیچنے کا پابند ہوگا۔ فرید عالم کے مطابق دنیا کی اکثر سٹاک مارکیٹ میں شارٹ سیلنگ پر پابندی لگ رہی ہے تاہم پاکستان میں ایسی کوئی پابندی ابھی زیر غور نہیں ہے، تاہم اس نوع کی حصص کی خرید و فروخت جس میں اکثر اوقات سٹے باز شامل ہوتے ہیں کو ایس ای سی پی کچھ ضابطوں میں لا کر اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعے ایک بحرانی کیفیت میں سٹاک مارکیٹ کو مزید غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا جاتا ہے۔ ڈریسن سیکیورٹیز کے چیف ایگزیکٹو دل آویز احمد کے مطابق مندی کے رجحان میں جینوئن سرمایہ کار شارٹ سیلنگ میں اپنے حصص بیچ نہیں پاتا یا اگر بیچے بھی تو خسارے میں بیچنے پر مجبور ہوتا ہے کیونکہ حصص کے نرخ گرنے کا نفسیاتی داؤ کھیل کر سٹے باز اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایس ای سی پی کی جانب سے نئے سرمایہ کاروں کو سہولت دینے کے لیے اپنے قواعد و ضوابط میں ایک اہم تبدیلی کی گئی ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں نئے سرمایہ کاروں کا اکاؤنٹ کھولنے کے لیے Know Your Customer یعنی ’اپنے صارف کو پہچانیں‘ نامی قانون نافذ ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51921083", "summary": "کورونا وائرس کے ڈر سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتِحال سے سب سے بڑا دھچکا حکومت کی اس معاشی پالیسی کو لگا جس کے ذریعے حکومت نے ملک میں ’ہاٹ منی‘ کو فروغ دینے کی کامیاب کوشش کی تھی۔", "title": "پاکستان کا ’ہاٹ منی‘ کا تجربہ کیوں ٹھنڈا پڑ گیا", "firstPublished": "2020-03-18T06:01:09.000Z", "id": "eacf9f71-873d-7d46-8780-f29ffdac8998", "article": "کورونا وائرس نے جہاں دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے سے دو چار کر دیا ہے وہیں کئی ملکوں کی معیشت اور معاشی پالیسیاں بھی ان منفی اثرات کا تیزی سے شکار ہو رہی ہیں۔ پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے جہاں سٹاک مارکیٹس، کرنسی کی قدر اور بیرونی سرمایہ کاری کو شدید دھچکا لگا ہے۔ شاید اسی لیے بیرون ملک سے آنے والی سرمایہ کاری میں اچانک کمی کے بعد شرح سود میں کچھ کمی کی گئی ہے۔ تاہم سب سے بڑا دھچکا حکومت کی اس معاشی پالیسی کو لگا جس کے ذریعے حکومت نے ملک میں ’ہاٹ منی‘ کو فروغ دینے کی کامیاب کوشش کی تھی۔ عام اصطلاح میں اس سرمایہ کاری کو ’ہاٹ منی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جو قلیل مدت کے لیے حکومتی بانڈز میں انویسٹ کی جاتی ہے۔ سید عاطف ظفر کے مطابق دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وجہ سے کساد بازاری ہے۔ ان حالات میں سرمایہ کار کہیں پر سرمایہ کاری میں رسک لینے کے بجائے اپنے سرمائے کو محفوظ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ حکومتی بانڈز سے بیرونی سرمایہ کاری کا اخراج اسی گھبراہٹ کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بیرونی سرمایہ کاری کا اخراج صرف بانڈز سے ہی نہیں ہوا بلکہ سٹاک مارکیٹ سے بھی ہوا ہے۔ ڈریسن سیکیورٹیز کے چیف ایگزیکٹو دل آویز احمد نے بتایا کہ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کار کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے سے پہلے ہی غیر یقینی صورتحال کا شکار تھے۔ ملک کی معیشت میں سست روی اور بلند شرح سود نے اقتصادی ماحول کو منفی بنا دیا تھا۔ کورونا وائرس کی وبا نے اس سٹاک مارکیٹ میں منفی رجحان میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ دل آویز کے مطابق ان کے بروکریج ہاؤس کے کلائنٹس سٹاک مارکیٹ میں حصص کے بھاؤ میں شدید کمی کے بعد بہت زیادہ خسارے میں چلے گئے ہیں۔ دل آویز احمد کے خیال میں پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے اگر شرح سود میں کسی کمی کا اعلان ہوتا ہے تو اس سے کسی حد تک سٹاک مارکیٹ کو مدد مل سکتی ہے کہ وہ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے منفی رجحان پر قابو پا سکے۔ یہ ڈے ٹریڈر قلیل وقت کے لیے سرمایہ لگا کر اس سے نفع کماتا ہے تاکہ اس کے گھر کا چولہا جل سکے۔ سٹاک مارکیٹ میں حالیہ دنوں میں شدید مندی نے ان ڈے ٹریڈرز کو بری طرح متاثر کیا ہے کیونکہ انھیں ہر روز دیہاڑی لگانے کے لیے سرمایہ کاری کرنی پڑتی ہے۔ اس وقت چھوٹے سرمایہ کار ہی سب سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51811122", "summary": "اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این سی ٹی اے ڈی کے مطابق چین میں کورونا وائرس کے باعث اس کی برآمدات کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کی کئی معیشتیں اس کی زد میں آئی ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ متاثر ٹیکسٹائل کی صنعت ہوئی ہے۔", "title": "چین سے درآمدات میں کمی، پاکستان کی صنعت پر کیا اثرات ہوں گے", "firstPublished": "2020-03-12T13:00:13.000Z", "id": "d6c0fd42-09fd-6c42-bba6-6dc7e4c4d97f", "article": "پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری سے منسلک بہت سے لوگ پریشان ہیں کہ دھاگہ، بٹن اور زپ وغیرہ مہنگے ہو رہے ہیں۔ اور اس کی وجہ ہے کورونا وائرس۔ کیونکہ پاکستان چین سے سب سے زیادہ دھاگہ درآمد کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یو این سی ٹی اے ڈی‘ یعنی کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ کے مطابق چین میں کورونا وائرس کے باعث اس کی برآمدات کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کی کئی معیشتیں اس کی زد میں آئی ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ متاثرہ ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی ویلیو چین ہے۔ جس میں اب تک 4 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی کمی آئی ہے۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ سی ٹی اے ڈی ترقی پذیر ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری، تجارت اور ترقیاتی منصوبوں پر کام کرتا ہے تاکہ انھیں عالمی سطح پر بڑی معیشتوں سے فائدہ پہنچے اور وہ ان میں اپنا حصہ بھی ڈال سکیں۔ کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ نے گذشتہ ہفتے ایک رپورٹ جاری کی جس میں کورونا وائرس کے باعث عالمی تجارت میں اب تک ہونے والے اور متوقع نقصان کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ میں جاری فہرست کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے باعث دنیا میں 20 معیشتیں نقصان کا شکار ہیں۔ جن شعبوں سے متعلق اعداد و شمار دیے گئے ہیں ان میں سب سے زیادہ متاثرہ صحت سے متعلق آلات، مشینری، آٹوموٹِو اور مواصلات کا سامان ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان فی الحال سی ٹی اے ڈی کی فہرست میں کافی پیچھے ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ صورتحال کئی صنعت کاروں کے لیے رحمت سے کم نہیں۔ ملک میں ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ کئی ایسے صنعتکار ہیں جن کا کاروبار اسی وائرس کے باعث چمک اٹھا ہے۔ یو این سی ٹی اے ڈٰی کے تخمینوں کے مطابق کورونا وائرس یا کووڈ-19 کی وبا کی وجہ سے چین میں مینوفیکچرنگ کی سست روی عالمی تجارت میں خلل ڈال رہی ہے اور اس کا نتیجہ عالمی ویلیو چینزمیں برآمدات میں 50 ارب ڈالر کی کمی ہو سکتی ہے۔ چینی پیداوار میں کمی کسی بھی ملک کے لیے اس لیے اہم ہے اس کی صنعتوں کا چینی سپلائرز پر کتنا انحصار ہے۔ جبکہ رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ متاثر ہونے والی 20 معیشتوں میں یورپی یونین سر فہرست ہے جسے 15.6 بلین یعنی 15 ارب 60 کروڑ ڈالر کی مندی کا سامنا ہے۔ یہ مندی چین سے برآمد ہونے والے اس سامان اور آلات میں دکھائی دیتی ہے جو یورپی یونین میں مختلف صنعتوں میں استعمال ہو رہے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-51766734", "summary": "اخبار ’دی ہندو‘ میں لکھے گئے اپنے ایک کالم میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے انڈیا کو درپیش ’معاشرتی عدم استحکام، معاشی سست روی اور عالمی صحت عامہ کی صورتحال‘ کے حوالے سے متنبہ کیا ہے۔", "title": "منموہن سنگھ: انڈیا کی موجودہ صورتحال ’سنگین‘ ہے", "firstPublished": "2020-03-06T12:24:57.000Z", "id": "bacd041d-80ea-c34e-ade9-369b7475d68b", "article": "انڈیا کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے انڈیا کو درپیش ’معاشرتی عدم استحکام، معاشی سست روی اور عالمی صحت عامہ کی صورتحال‘ کے حوالے سے متنبہ کیا ہے۔ انڈیا کے اخبار ’دی ہندو‘ میں لکھے گئے اپنے ایک کالم میں سابق وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ’موجودہ صورتحال سنگین اور خوفناک ہے۔‘ منموہن سنگھ نے سست شرح نمو اور ملک میں کورونا وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ کا حوالہ بھی دیا ہے۔ دلی میں متنازعہ شہریت کے قانون کے تناظر میں ہونے والے حالیہ مذہبی فسادات میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ منموہن سنگھ نے لکھا ہے کہ ’وہ انڈیا جسے ہم جانتے اور پسند کرتے ہیں اب وہ تیزی سے ہاتھ سے پھسل رہا ہے۔ جانتے بوجھتے بڑھائی گئی فرقہ وارانہ کشیدگی، مجموعی معاشی بدانتظامی اور صحت سے متعلقہ بیرونی صدمہ انڈیا کی ترقی اور استحکام کو غیر مستحکم کر رہا ہے۔‘ منموہن سنگھ کا تعلق انڈیا میں حزب اختلاف کی مرکزی جماعت کانگرس سے ہے۔ منموہن سنہ 2004 سے سنہ 2014 تک انڈیا کے وزیر اعظم رہے ہیں۔ ’معاشرتی ہم آہنگی اور معاشی ترقی کی بنیاد اب خطرے کی زد میں ہے۔ جب اچانک تشدد پھوٹ پڑنے کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہوں تو ٹیکس میں کمی یا دیگر کاروباری ترغیبات جیسے سرکاری اقدامات بھی کسی مقامی یا غیرملکی سرمایہ کار کو سرمایہ کاری پر مجبور نہیں کر سکتے۔‘ گذشتہ ماہ انڈیا کی شرح نمو 4.7 فیصد تک گِری ہے۔ شرح نمو کا اس حد تک گرنا گذشتہ کئی برسوں میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ مینوفیکچرنگ میں کمی نے مجموعی معیشت کو متاثر کیا ہے۔ سابق وزیر اعظم نے لکھا کہ سرمایہ کاری میں کمی کا مطلب کم نوکریاں اور آمدن میں کمی ہے اور ایسی صورتحال ملک میں (اشیا کی) طلب کو بھی کم کرے گا۔ منموہن سنگھ نے اپنے کالم میں انڈیا میں کورونا وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ کے خطرات پر بھی بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کو صحت کے اس بحران سے نمٹنے کے لیے ’بھرپور آپریشن‘ کی ضرورت ہے۔ منموہن سنگھ کا کہنا تھا کہ انڈیا کی معاشی ترقی پہلے ہی سست ہے اور وبا کا پھیلاؤ چیزوں میں مزید بگاڑ کا باعث بنے گا۔ سابق وزیر اعظم نے اپنے کالم کا اختتام برسراقتدار ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو چند مشورے دے کر کیا ہے۔ انھوں نے بی جے پی کو کہا ہے کہ وہ ملک کا ’حوصلہ بحال کریں۔‘ انھوں نے لکھا کہ حکومت کو ’تین نکاتی پلان‘ پر عمل کرنا چاہیے: کورونا وائرس کے خطرے کو کم کیا جائے، شہریت کے قانون کو واپس لیا جائے یا اس میں ترمیم کی جائے اور ایسی معاشی تحریک دی جائے جو ملک میں معیشت کا احیا کرے اور طلب میں اضافہ کرے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51669998", "summary": "سٹیٹ بنک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں نجی شعبے کی جانب سے بنکوں سے لیے گئے قرضوں میں ستر فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن اس کی وجہ کیا ہے؟", "title": "کاروباری افراد بنکوں سے قرضے کیوں نہیں لے رہے", "firstPublished": "2020-03-01T12:11:47.000Z", "id": "420a12fc-d3fc-e141-83ef-d7c738f6c665", "article": "سٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پرائیوٹ سیکٹر باروئنگ یعنی نجی شعبے کی جانب سے بنکوں سے لیے گئے قرضوں میں ستر فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ پاکستان کے مرکزی بنک کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ یعنی جولائی سے جنوری کے عرصے میں نجی شعبے کی جانب سے بنکوں سے 179 ارب روپے کے قرضے لیے گئے جو گزشتہ مالی سال کے انھی مہنیوں میں 587 ارب کے لیے گئے قرضوں سے ستر فیصد کم ہے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں نجی شعبے کی جانب سے بنکوں سے لیے گئے قرضوں میں ستر فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے معاشی امور کے ماہر ثاقب شیرانی نے نجی شعبے کی جانب سے بنکوں سے لیے گئے قرضوں میں کمی کے رجحان کو ملک کی خراب معیشت سے جوڑا ہے۔ ان کے مطابق سنہ 2018 سے معیشت جس بحرانی کیفیت کا شکار ہے یہ اس کا نتیجہ ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان میں بنکوں کی جانب سے نجی شعبے کو دیے گئے قرضوں میں کمی کا رجحان ملکی معیشت کے لیے تشویشناک ہے جس کی وجہ سے صنعتی شعبے میں مزید ابتر صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جس کا ایک نتیجہ مزید بیروزگاری ہے معاشی امور کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں بنکوں کی جانب سے نجی شعبے کو دیے گئے قرضوں میں کمی کا رجحان ملکی معیشت کے لیے بہت تشویشناک ہے جس کی وجہ سے ملکی صنعتی شعبے میں مزید ابتر صورت حال پیدا ہو سکتی ہے جس کا ایک نتیجہ مزید بیروزگاری ہے۔ نجی شعبے کی جانب سے بنکوں سے لیے گئے قرضوں کی شرح میں اس نمایاں کمی کو پاکستانی معیشت میں سست روی کے رجحان سے جوڑا جا رہا ہے جو حکومتی اور عالمی اداروں کے تخمینوں کے مطابق دو فیصد کے قریب شرح نمو میں اضافہ ریکارڈ کر پائے گی۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی میں کمی لانے کے لیے سپلائی چین میں بہتری کے لیے حکومتی اعلانات کے ساتھ ساتھ سٹیٹ بنک نے شرح سود میں بھی اضافہ کیا ہے جو بنکوں کی جانب سے نجی شعبے کو دیے گئے قرضوں میں کمی کی ایک اہم وجہ قرار دی جاتی ہے۔ نجی شعبے کی جانب سے بنکوں کی جانب سے لیے گئے قرضوں اور ان میں رواں مالی سال میں نمایاں کمی کو معاشی امور کے ماہرین ملکی معیشت کی مجموعی صورت حال کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں جو ان کے تجزیوں کے مطابق اس وقت بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ ان کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے سٹیٹ بنک سے قرضہ لینے کے بعد حکومت اب کمرشل بینکوں سے مالیاتی خسارہ کم کرنے کے رقم ادھار لے رہی ہے اور اس مدت میں جب نجی قرضوں میں ستر فیصد تک کمی دیکھی گئی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-51629740", "summary": "صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں جہاں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کی وہی ان کی حالیہ پالیسیوں کے باعث ملکی ترقی کو بھی اجاگر کیا۔ بی بی سی ریئلٹی چیک ٹیم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان دعوؤں میں کتنی صداقت ہے۔", "title": "ٹرمپ کے انڈیا سے متعلق سات دعوے کتنے درست؟", "firstPublished": "2020-02-25T12:42:44.000Z", "id": "2a05476a-fef6-0540-8682-2d1d5cd95e95", "article": "صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں جہاں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کی وہی ان کی حالیہ پالیسیوں کے باعث ملکی ترقی کو بھی اجاگر کیا۔ ہم یہاں جانتے ہیں صدر ٹرمپ کی تقریر میں کیے گئے دعوے کتنے درست ہیں؟ ریئلٹی چیک نے اس سے قبل وزیر اعظم مودی کے انڈیا کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو وسعت دینے کے عہد کا جائزہ لیا تھا۔ ’پہلی مرتبہ وزیر اعظم نریندر مودی کے زیر حکومت انڈیا کے ہر گاؤں میں بجلی کی سہولت موجود ہے۔‘ سنہ 2014 میں جب وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنا عہدہ سنبھالا تھا اس سے قبل ہی ملک کے 96 فیصد دیہات میں بجلی کی سہولت پہنچا دی گئی تھی۔ ہم نے اس دعوے کو گذشتہ برس انتخابی مہم کے دوران بھی اچھی طرح دیکھا تھا۔ ریئلٹی چیک: یہ درست ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک میں سڑکوں کا جال بچھانے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے اس برس کے لیے بھی اسی طرح کا ہدف مقرر کیا ہے اور نومبر 2019 تک ملک میں 5،958 کلومیٹر طویل سڑکیں تعمیر ہوچکی ہیں۔ بی بی سی ریئلٹی چیک نے سڑکوں کی تعمیر کے بارے میں بی جے پی کے ریکارڈ کا بغور جائزہ لیا ہے۔ ریئلٹی چیک: یہ مکمل طور پر واضح نہیں ہے کہ یہاں انٹرنیٹ کنکشن سے کیا مراد ہے۔ ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی آف انڈیا کے شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں اب 600 ملین سے زیادہ انٹرنیٹ صارفین ہیں۔ حالیہ برسوں میں ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد بہت تیزی سے بڑھی ہے اور یہ صدر ٹرمپ کے بیان کردہ اعداد و شمار سے بہت زیادہ ہے۔ گذشتہ برس ریئلٹی چیک کو یہ علم ہوا تھا کیا کہ انڈیا کے تمام دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کے قیام کے لیے ایک پرجوش منصوبے نے ابتدائی آغاز میں مضبوط پیشرفت کی تھی لیکن بعدازاں ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑی تھی۔ ریئلٹی چیک: اکتوبر 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے صاف بھارت یا کلین انڈیا مشن کا آغاز کیا تھا۔ حکومت نے اس سکیم کے تحت ایسے گھرانوں کے لیے بیت الخلاء تعمیر کروائے جنھیں بنیادی صفائی کی سہولیات تک رسائی نہیں تھی۔ اپریل 2018 میں وزیر اعظم مودی نے انڈیا کو سرعام رفع حاجت سے پاک قرار بھی دیا تھا۔ ریئلٹی چیک سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرعام رفع حاجت کے استعمال کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے، حالانکہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عمل ابھی بھی وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ ریئلٹی چیک: وزیر اعظم مودی کی طرف سے سنہ 2016 میں شروع کی گئی ایک سکیم کے تحت غریب گھرانوں کو کھانا پکانے کے لیے گیس مہیا کی گئی تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51612402", "summary": "پاکستان کا ایران کے ساتھ اپنی سرحد کو غیر معینہ مدت تک کے لیے بند کرنے کے بعد ملک میں ایران سے آنے والی روزمرہ اشیا اور تیل کی قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔", "title": "پاک ایران سرحد بندش: تیل، ضروری اشیا کی قلت کا خدشہ؟", "firstPublished": "2020-02-24T14:48:24.000Z", "id": "8f79b6df-5d0a-4048-b315-6ab2f491dddc", "article": "پاکستان کے ایران کے ساتھ اپنی سرحد کو غیر معینہ مدت تک کے لیے بند کرنے کے فیصلے کے بعد ملک میں ایران سے آنے والی روزمرہ اشیا اور تیل کی قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان 904 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں چاغی، واشک، پنجگور، کیچ، تربت اور گودار شامل ہیں۔ یہ اضلاع ایران کی اشیا کی ایک بڑی مارکیٹ ہیں۔ ان علاقوں میں اشیائے خورد و نوش سمیت تیل اور موٹر سائیکلیں بھی ایرانی استعمال ہوتی ہیں، جبکہ یہاں سرکاری طور پر ایران کی جانب سے بجلی بھی فراہم کی جاتی ہے۔ سرحدی شہر تفتان کا بارڈر امیگریشن اور باضابطہ تجارت کے علاوہ ہفتے میں تین روز تجارت کے لیے کھولا جاتا ہے۔ تجارت کے ان دنوں میں پاکستان کے مزدور کندھوں اور ہتھ ریڑھیوں پر ایران سے عام استعمال کی چیزیں لاتے ہیں جن میں زیادہ تر سبزیاں، پھل، شہد، بیکری آئٹمز، مشروبات اور کراکری کا سامان شامل ہوتا ہے۔ حکومت پاکستان نے حال ہی میں کئی سرحدی علاقوں میں باڑ لگا دی ہے جس سے سمگلنگ میں کمی تو آئی ہے لیکن یہ سلسلہ رک نہیں پایا، مقامی لوگوں نے اس بندش کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے۔ ان اضلاع میں کاشت بارشوں کی مرہون منت ہوتی ہے جبکہ چاغی، واشک اور تربت میں دو سال قبل تک خشک سالی تھی جس کے بعد شدید بارشیں ہوئیں۔ یہاں کی آبادی کا ایک اچھا خاصا حصہ سمگلنگ سے ہی گزر بسر کرتا ہے تاہم کرونا وائرس کی پیش نظر ایف سی اور لیویز کی جانب سے نگرانی کے نظام میں سختی لائی گئی ہے۔ پاکستان سے ہر سال شیعہ زائرین ایران جاتے ہیں جبکہ محرم اور چند دیگر مواقع پر ان کی تعداد کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ زائرین پر حملوں کے بعد تفتان میں پاکستان ہاؤس کے نام سے ایک سیف ہاؤس بنایا گیا تھا جہاں سے زائرین کو ایف سی کی سکیورٹی میں کوئٹہ پہنچایا جاتا ہے۔ ’یہاں سے ایران نہ صرف زائرین بلکہ تجارت و مزدوری کے لیے بھی لوگ جاتے ہیں۔ ایسے افراد کی تعداد پانچ سے چھ ہزار کے قریب ہے۔ ہم نے اعلیٰ حکام کو درخواست کی ہے کہ سفارتی ذرائع کو استعمال کر کے ایران کو درخواست کی جائے کہ ہمارے جتنے بھی شہری ہیں ان کی وہاں پر ہی قرنطینہ کی مدت پوری کروائی جائے اور اس کے بعد روانہ کیا جائے۔‘ اسٹنٹ کمشنر نجیب قمبرانی تسلیم کرتے ہیں کہ طبی سہولیات اعلیٰ درجے کی نہیں ہیں تاہم نو کنڈی اور ڈسٹرکٹ ہسپتال میں آئسولیشن سینٹر قائم کر لیا گیا ہے۔ ان کے پاس تھرمل سکینر گنز دستیاب ہیں۔ انھوں نے کہا چونکہ اس وقت تک کسی مسافر میں کورونا وائرس کا شبہ نہیں ہوا اس لیے کٹس کی ضرورت نہیں۔ اگر کسی پر بھی شبہ ہوا تو اس کو پہلے مرحلے میں آئسولیشن سینٹر لائیں گے اور مزید علاج کے لیے ایڈوانس ہسپتال بھیج دیں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-51611994", "summary": "امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں پاکستان کے لئے کوئی منفی بات نہیں کہی۔ ٹرمپ نے کہا کہ دونوں ممالک ساتھ مل کر انتہائی مثبت انداز میں کام کر رہے ہیں۔", "title": "ٹرمپ نے مودی کے سامنے پاکستان کی بات کیوں کی", "firstPublished": "2020-02-24T13:21:35.000Z", "id": "5d989832-35f3-0f4d-9968-d05075dd6f99", "article": "امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا کے دورے کے دوران کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات بہت اچھے ہیں اور ان کی حکومت پاکستان کی سرزمین پر سرگرم شدت پسندوں کو ختم کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ پاکستان کے بارے میں ٹرمپ نے کہا کہ ’ملک کی سرحدوں کی حفاظت کا حق ہر ملک کو حاصل ہے۔ امریکہ اور انڈیا نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مل کر 'دہشت گردی' کو روکیں گے اور ان کے نظریہ کا مقابلہ کریں گے۔ اسی وجہ سے ، صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد، امریکی انتظامیہ پاکستان کے ساتھ انتہائی مثبت انداز میں کام کر رہی ہے تاکہ 'دہشت گرد' تنظیموں اور سرگرم انتہا پسندوں کو پاکستانی سرحدوں سے ختم کیا جاسکے۔ ' ٹرمپ نے کہا کہ ’پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ ان کوششوں کی بنیاد پر ہم پاکستان کے ساتھ بڑی کامیابی کے آثار دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں پوری امید ہے کہ اس سے جنوبی ایشیاء کے تمام ممالک کے مابین تناؤ میں کمی آئے گی، استحکام میں اضافہ ہوگا اور مستقبل میں ایک دوسرے کے درمیان ہم آہنگی میں اضافہ ہوگا۔‘ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں پاکستان کے لئے کوئی منفی بات نہیں کہی بین الاقوامی امور کے ماہر ہرش پنت نے بتایا کہ ٹرمپ دو باتیں کہنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انڈیا کے لوگوں کو دیکھ کر انہوں نے کہا کہ انڈیا اور امریکہ دونوں اسلامی انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو یہ اشارہ بھی کیا کہ ایسے وقت میں جب امریکہ افغانستان سے اپنی فوج واپس بلا رہا ہے، پاکستان ان کی ترجیح ہے۔ ٹرمپ پاکستان کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی مدد کے بغیر، طالبان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا، لہذا پاکستان ان کے لئے اہم ہے۔ ہرش پنت کے مطابق، یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں پاکستان کے لئے کوئی منفی بات نہیں کہی۔ ٹرمپ نے کہا کہ دونوں ممالک ساتھ مل کر انتہائی مثبت انداز میں کام کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہندوستان میں کچھ لوگوں کو یہ بات پسند نہ ہو لیکن ٹرمپ کے لئے افغانستان سب سے اہم ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان اس میں کسی قسم کی مشکل پیدا کرے۔ تاہم ، ٹرمپ پاکستان نہیں جا رہے ہیں۔ پہلے ایسا ہوا کرتا تھا کہ جب بھی امریکی صدر اس علاقے کا دورہ کرتے تھے تو وہ انڈیا اور پاکستان دونوں کے دورے کیا کرتے تھے۔ لیکن براک اوباما کے بعد ایسا ہونا شروع ہوگیا کہ اگر امریکی صدر انڈیا آئے تو، وہ پاکستان نہیں گئے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-51590325", "summary": "برطانیہ میں اگلے چند مہینوں کے دوران40 ارب پاؤنڈ کی مالیت کے کاغذ کے نوٹوں کی جگہ پولیمر کے بنے ہوئے نوٹ لے لیں گے۔", "title": "برطانیہ 40 ارب پاؤنڈ کے نوٹوں کے ساتھ کیا کرنے جا رہا ہے؟", "firstPublished": "2020-02-21T15:42:49.000Z", "id": "8680303c-fff6-cd41-a370-1c311b70a645", "article": "برطانیہ میں 20 پاؤنڈ کا نوٹ عنقریب کھاد کی صورت اختیار کر جائے گا۔ بینک آف انگلینڈ 40 ارب پاؤنڈ مالیت کے کاغذ کے نوٹ ختم کرنے کا عمل شروع کر رہا ہے۔ ان نوٹوں کی جگہ پولیمر کے بنے 20 پاؤنڈ لے لیں گے۔ اس عمل کے دوران کاغذ کے تقریباً 2 ارب نوٹ سرکولیشن سے نکالے جائیں گے اور ان کو کھاد میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ برطانیہ کے دو تہائی نوٹوں کی ذمہ دار ’جی 4 ایس‘ سے تعلق رکھنے والے مارک سانڈرز نے بتایا کہ یہ ایک بہت بڑی کارروائی ہو گی لیکن عوام کو شاید اس کا پتہ بھی نہ چلے۔ 2 ارب نوٹوں کی تبدیلی برطانوی تاریخ میں اپنی نوعیت کی سب سے بڑی کارروائی ہو گی۔ اکانومسٹ ایڈم سمتھ کی تصویر والے 20 پاؤنڈ کے نوٹ گردش سے نکالے جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے جو 20 پاؤنڈ کا نوٹ بینکوں کو یا دکانداروں کی طرف سے کیش سنٹروں کو دیا جائے گا دوبارہ استعمال نہیں ہو گا۔ اس کارروائی میں کئی ماہ لگیں گے۔ لیکن جب نوٹوں کی ایک قابل ذکر تعداد سرکولیشن سے نکل جائے گی تو بینک آف انگلینڈ باقی نوٹوں کی واپسی کے لیے چھ مہینے کا نوٹس دے گا۔ اس سے پہلے سن 2007 میں 20 پاؤنڈ کا نوٹ تبدیل ہوا تھا۔ لندن کی ایک گلی میں ایک انتہائی محفوظ گودام میں نوٹ چھانٹنے کی دو بہت بڑی مشینیں ہیں جو منٹوں میں ہزاروں نوٹ گن سکتی ہیں۔ ان مشینوں پر ایک سیکنڈ میں 33 نوٹ چھانٹی کیے جا سکتے ہیں۔ گزشتہ برس نوٹ سرکولیشن سکیم کے تحت 93 ارب پاؤنڈ کی مالیت کے نوٹوں کی چھانٹی کی گئی۔ مارک سانڈرز نے بتایا کہ پرانے 20 پاؤنڈ کے نوٹوں کو 50 ہزار پاؤنڈ مالیت کے بنڈل بنا کر کیشن سنٹروں میں مضبوط پنجروں میں رکھا جائے گا۔ 1990 تک بینک آف انگلینڈ پرانے نوٹوں کو جلا کر اپنی عمارتوں کو گرم رکھنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ اب 50 ہزار پاؤنڈ کی مالیت کے بنڈل جب بینک میں واپس آتے ہیں تو ان کو کھاد میں تبدیلی کے لیے اسی عمل سے گزارا جاتا جس سے ضائع ہونے والا کھانا گزرتا ہے۔ 20 پاؤنڈ کے نئے نوٹ پرانے نوٹوں سے سائز میں چھوٹے ہیں اور اسی وجہ سے ملک بھر میں ہزاروں اے ٹی ایم مشینیں کو تبدیل کرنا پڑا ہے۔ .\""} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-51504022", "summary": "39 سالہ رشی سُونک نے ایک ایسے وقت پر یہ عہدہ سنبھالا ہے جب چار ہفتوں کے اندر برطانیہ کا مالی بجٹ پیش کیا جانا ہے۔", "title": "رشی سُونک: انڈین نژاد برطانوی وزیر خزانہ کون ہیں؟", "firstPublished": "2020-02-14T13:05:37.000Z", "id": "3a5b7b9b-7be6-9844-bd15-e9a6294b74ee", "article": "39 سالہ رشی سُونک نے ایک ایسے وقت پر یہ عہدہ سنبھالا ہے جب چار ہفتوں کے اندر برطانیہ کا مالی بجٹ پیش کیا جانا ہے۔ سُونک 2015 سے برطانیہ میں یارکشائر کے رچمنڈ علاقے سے برسراقتدار کنزرویٹو پارٹی کے رکن پارلمیان ہیں۔ وہ برطانیہ کے شہر نارتھلیرٹن کے نواح میں کربی سگسٹن میں رہتے ہیں۔ ان کے والد ایک ڈاکٹر اور والدہ فارمیسسٹ تھیں۔ ان کے بھارتی نژاد والدین مشرقی افریقہ سے برطانیہ آئے تھے۔ سُونک کا جنم 1980 میں ہیمپشائر کے علاقے ساؤتھ ہیمپٹن میں ہوا اور انھوں نے ابتدائی تعلیم ایک پرائیویٹ سکول وِنچیسٹر کالج سے حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ آکسفورڈ یونیورسٹی گئے جہاں انہوں نے پولیٹکل سائنس اور اکنامکس کی تعلیم حاصل کی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ بہت سے لوگوں نے برطانیہ کی سیاست کا رخ کیا ہے۔ آکسفورڈ کو سیاست کے لیے ایک قابل اعتبار اور آزمایا ہوا راستہ سمجھا جاتا ہے۔ سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے انہوں نے انویسٹمنٹ بینک گولڈمین سیکس میں کام کیا اور خود کی ایک انویسٹمنٹ فرم بھی قائم کی۔ رشی سونک نے اپنے انتخابی حلقے میں بریگزٹ کے حق میں مہم چلائی تھی اور ان کے حلقے میں 55 فیصد لوگوں نے یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں ووٹ ڈالا تھا۔ جولائی 2019 میں وزیر اعظم بورس جانسن نے سُونک کو وزارت خزانہ کا چیف سیکریٹری منتخب کیا تھا۔ رشی سُونک کو کونزرویٹو پارٹی کے ابھرتے ہوئے ستارے کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ پارٹی کے متعدد سینئر رہنما ان کی تعریف کرتے آئے ہیں۔ رچمنڈ سے کونزرویٹو پارٹی کے سابق رکن پارلمیان لارڈ ہیگ نے سُونک کو ایک ’غیر معمولی شخصیت‘ قرار دیا ہے۔ وہیں ساجد جاوید نے ڈزنی کی سٹار وار فلم کے ایک ڈائیلاگ 'مے دا فورس بی ود یو' کا استعمال کرتے ہوئے لکھا 'دا فورس از سٹرانگ ود یو سُونک' یعنی تمہارے آنے سے فورس زیادہ مضبوط ہوگی۔ رشی سُونک کی ویب سائٹ کے مطابق ان کو فٹ رہنے کے علاوہ، کرکٹ، فٹ بال اور فلمیں دیکھنے کا شوق ہے۔ ساجد جاوید نے بھی رشی کی تعریف کی ہے رشی سُونک کہہ چکے ہیں کہ ان کی ایشیائی شناخت ان کے لیے بہت معنی رکھتی ہے۔ اکتوبر 2019 میں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ’خوش قسمت‘ ہیں کہ انہیں برطانیہ میں بہت زیادہ ’نسل پرستی کا سامنا نہیں کرنا پڑا' لیکن ایک واقعہ ہے جس نے ان کے ذہن میں گھر کرلیا ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں ’میں اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کے ساتھ باہر گیا تھا۔ میری عمر تقریباً 15-17 برس تھی۔ ہم ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورانٹ گئے اور میں ان کی دیکھ بھال کر رہا تھا۔ وہاں کچھ لوگ بیٹھے تھے اور ایسا پہلی بار ہوا کہ میں نے بعض بری باتیں سنیں۔ وہ ’پی' لفظ تھا‘۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-51447325", "summary": "انڈین مرکزی وزیر جی کشن ریڈی نے اتوار کے روز یہ بیان دیا ہے کہ اگر بنگلہ دیش کے لوگوں کو انڈین شہریت ملنے لگے تو آدھا بنگلہ دیش خالی ہو جائے گا۔", "title": "کیا بنگلہ دیشی انڈین شہریت لینا چاہیں گے؟", "firstPublished": "2020-02-13T03:32:08.000Z", "id": "061decb5-b1c0-5249-b0f9-af9fac859b9b", "article": "انڈین مرکزی وزیر جی کشن ریڈی نے اتوار کے روز یہ بیان دیا کہ اگربنگلہ دیش کے لوگوں کو انڈین شہریت ملنے لگے تو آدھا بنگلہ دیش خالی ہو جائے گا۔ اتنا ہی نہیں ریڈی نے تلنگانا کے وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ کو چیلنج کیا کہ وہ یہ ثابت کریں کہ شہریت کا ترمیمی قانون کس طری انڈین شہریوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا ’اگر انڈیا بنگلہ دیش کے لوگوں کو شہریت دینے لگے تو آدھا بنگلہ دیش خالی ہو جائے گا پھر ان کی ذمہ داری کون لے گا۔‘ دوسری طرف بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ عبدل میمن کا کہنا ہے کہ انڈیا کے شہری بنگلہ دیش کی بہتر صورتحال کی وجہ سے وہاں آ رہے ہیں۔ بنگلہ دیش بھی انڈیا کے اس قانون کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ کچھ روز پہلے بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے کہا تھا کہ سی اے اے اور این آر سی انڈیا کا اندورنی معاملہ ہے لیکن ان کی کوئی ضرورت یا مقصد سمجھ میں نہیں آتا۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ انڈین شہری بنگلہ دیش میں مضبوط ہوتی معیشت اور غریبوں کے لیے مفت کھانے کی سہولت کے لیے بنگلہ دیش کا رخ کر رہے ہیں۔ میمن کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کی معیشت انڈیاکے مقابلے بہتر ہے ۔ انڈیا میں لوگوں کو روز گار نہیں مل رہا اس لیے وہ بنگلہ دیش آ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کچھ دلال انڈیا کے غریب شہریوں کو یہ لالچ دیتے ہیں کہ انڈیا کے لوگوں کو بھی بنگلہ دیش میں مفت کھانا ملتا ہے۔ بنگلہ دیش سے ہونے والی دراندازی کے دعوں اور سیاسی بیان بازیوں کے درمیان یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں بنگلہ دیش اپنی معاشی ترقی کی عبارت لکھ رہا ہے۔ انڈیا اور بنگلہ دیش کے تعلقات ہمیشہ سے ہی دوستانہ رہے ہیں لیکن جس طرح سے بنگلہ دیش کی معیشت بڑھ رہی ہے تو کیا یہ دونوں ملک اب ایک دوسرے کے مقابلے میں آ کھڑے ہوئے ہیں اور کیا بنگلہ دیش انڈیا کو پیچھے چھوڑ رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق بنگلہ دیش کی معیشت ابھی 180 ارب ڈالر سے بڑھ کر 322 ارب ڈالر کی ہو جائے گی۔ انڈیا کی معیشت دو عشاریہ سات کھرب ڈالر کی ہے اور انڈیا نے اگلے پانچ سال میں اسے پانچ کھرب ڈالر کی معیشت بنانے کا ہدف رکھا ہے۔ 1974 میں خوفناک قحط کے بعد سولہ عشاریہ 6 کروڑ کی آبادی والا یہ ملک معدنیات کی پیداوار کے معاملے میں خود انحصار بن چکا تھا۔ پچھلے سال بنگلہ دیش میں فی کس آمدنی ایک ہزار سات سو پچاس تک پہنچ گئی تھی۔ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش میں بڑی تعداد میں لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں لیکن عالمی بینک کے اعدادو شمار کے مطابق یومیہ سوا ڈالر میں زندگی گذارنے والوں کی تعداد انیس فیصد سے کم ہو کر نو فیصد رہ گئی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51456249", "summary": "ماہرین اقتصادیات و معاشیات تحریکِ انصاف کی حکومت کی جانب سے مہنگائی سے تنگ پاکستانی عوام کو ریلیف دینے کے حالیہ اقدامات کو ناکافی سمجھتے ہیں اور بعض تو اسے ’کرسی بچاؤ مہم‘ تک قرار دے رہے ہیں۔", "title": "سبسڈی: غریب کی مدد یا کرسی بچاؤ مہم؟", "firstPublished": "2020-02-12T07:47:28.000Z", "id": "9ffb0069-24fc-0040-85f7-1e7a7ceb6482", "article": "پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت نے مہنگائی سے تنگ عوام کو ریلیف دینے اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں اس وقت افراطِ زر کی شرح 14 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ اشیائے خوردونوش میں مہنگائی کی شرح 25 فیصد سے بڑھ چکی ہے۔ اس صورتحال میں ماہرین اقتصادیات و معاشیات ان حکومتی اقدامات کو ناکافی اور عارضی ریلیف سمجھتے ہیں اور بعض تو اس کو ’کرسی بچاؤ مہم‘ تک قرار دے رہے ہیں۔ ماہر معاشیات اشفاق تولہ کا کہنا ہے کہ اگر مہنگائی بہت بڑھ چکی ہو اور اس سے نچلا طبقہ متاثر ہو رہا ہو تو اس صورتحال میں حکومتیں سبسڈی دے کر عوام کی مشکلات میں کمی لاتی ہیں تاکہ محروم طبقے کو ریلیف دیا جا سکے۔ تحریکِ انصاف کی حکومت نے عوام کو ارزاں نرخوں پر کھانے پینے کی اشیا کی فراہمی کے لیے یوٹیلٹی سٹورز کا سہارا لیا ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر میں چھوٹے بڑے پانچ ہزار سے زیادہ سٹور ہیں۔ پاکستان کو قرض دینے والا انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یعنی آئی ایم ایف حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈیز کا مخالف رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خاص طور پر بجلی اور گیس کے شعبوں سے سبسڈیز میں کمی کی جا رہی ہے۔ ماہر معیشت قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ ’موجودہ حکومت کی کوئی بھی سمت متعین نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کی ٹیمیں موجود ہیں اور معیشت چلا رہی ہیں اور یہ سبسڈی کی بات کر رہے ہیں۔ اگر سبسڈی دے رہے ہو تو یہ پالیسی پیکیج کا حصہ ہونا چاہیے آپ آخر کتنے لوگوں کو سبسڈی پر رکھیں گے۔‘ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا ہے کہ اگر معیشت کی بحالی کے لیے ’ہم نے صحیح اقدامات نہیں اٹھائے تو ہم بھی ناکام ہوجائیں گے، یہ اس ملک کے لیے بڑا چیلنج ہے‘۔ انھوں نے کہا کہ اس ملک میں ایسے ادوار آئے تھے کہ ترقی کی رفتار میں تیزی آئی لیکن یہ رفتار 3 سے 4 برس تک مسلسل نہیں چل سکی۔ اقتصادی امور پر نظر رکھنے والے صحافی خلیق کیانی کا کہنا ہے کہ ’مہنگائی کی کمر توڑنے کے حکومت کے دعوے محض دعوے ہی ثابت ہوئے ہیں کیونکہ یوٹیلیٹی سٹورز پر چینی جو پہلے 68 روپے کلو تھی حکومت کی طرف سے عوام کے لیے ریلیف پیکیج کے اعلان کے بعد اب چینی کی قیمت 80 روپے ہوگئی ہے اور اسی طرح یوٹیلٹی سٹورز پر گھی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51445757", "summary": "پاکستان میں حکومت نے پانچ اشیائے خورد و نوش کی رعایتی قیمتوں کو مستحکم کرنے کے لیے یوٹیلیٹی سٹورز کو پانچ ماہ کے لیے دس ارب کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا ہے۔", "title": "حکومت کا ’کمر توڑ مہنگائی کی کمر توڑنے کا فیصلہ‘", "firstPublished": "2020-02-11T16:48:45.000Z", "id": "2d73cc84-51ab-2648-8ee5-b944ffeb040c", "article": "پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ حکومت نے کمر توڑ مہنگائی کی کمر توڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسلام آباد میں صحافیوں کو تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عوام کو ریلیف دینے کی خاطر اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں کو مستحکم رکھتے ہوئے سبسڈی دی جائے گی۔ ابتدائی طور پر پانچ اشیا کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے معاون خصوصی برائے اطلاعات کا کہنا تھا حکومت غریب اور پسے ہوئے طبقے کا بوجھ بانٹے کے لیے مرحلہ وار سپورٹ پروگرام تربتیب دیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں پانچ اشیاء ضرورت کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے اور مستحکم رکھنے کے لیے لائمہ عمل ترتیب دیا گیا اور دس ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے اشتراک سے حکومت 2000 یوتھ سٹورز کھولنے جا رہی ہے۔ یہ سٹورز کامیاب نوجوان پروگرام کے تحت کھولے جائیں گے اور انہیں بلا سود قرض فراہم کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے نہ صرف نوجوانوں کو روز گار ملے گا بلکہ مقامی آبادی کے لیے سستی اشیا کی فراہمی کا باعث بنیں گے۔ اس سے چار لاکھ افراد کو براہ راست اور آٹھ لاکھ کو بالواسطہ کاروبار اور روزگار کے مواقع ملیں گے۔ فردوس عاشق اعوان نے بتایا حکومت کے بڑے شہروں میں 12 کیش اینڈ کیری سٹورز قائم کرنے جا رہی ہے جو قیمتوں میں استحکام لانے میں معاون ثابت ہوں گے۔ یوٹیلیٹی سٹور ملک بھر میں 50 ہزار تندوروں اور ڈھابوں کو رعایتی مقرر کردہ نرخوں پر اشیا فراہم کرے گا۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات کا کہنا تھا کہ راشن کارڈز کا اجرا رمضان سے قبل کر دیا جائے گا۔ ان کارڈز کی مدد سے مستحق افراد کو اشیا ضرورت کی قیمتوں پر 25 سے 30 فیصد تک رعایت ملے گی۔ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں فری زون قائم کرے گا جہاں یوٹیلیٹی سٹورز قائم ہوں گے یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پانچ فری زون قائم کرے گا جہاں یوٹیلیٹی سٹورز قائم ہوں گے تاکہ افغانستان سے درآمد ہونے والی اشیا کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور کھانے پینے کی اشیا کی سمگلنگ کی روک تھام ہو سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے فیصلے کیے ہیں جن میں چینی کی درآمد پر پابندی فی الفور اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ ڈیوٹی ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ حکومت نے گندم اور چینی کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت ایکشن کی ہدایات کی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب تک یوٹیلیٹی سٹورز کے پیکیج سے 50 لاکھ خاندان فائدہ اٹھا رہے تھے لیکن وزیرِ اعظم کی ہدایت پر اب انہیں بڑھا کر ایک کروڑ خاندان کر دیا گیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51453388", "summary": "جب کسی بھی شعبے یا صنعت میں کچھ مخصوص افراد یا کمپنیاں ضرورت سے زیادہ منافع یا اجارہ داری قائم کرنے کے لیے گٹھ جوڑ کر لیتی ہیں تو اسے کارٹلائزیشن کہتے ہیں۔", "title": "کیا پاکستان میں مہنگائی کی وجہ ’کارٹلائزیشن‘ ہے؟", "firstPublished": "2020-02-11T03:21:29.000Z", "id": "33757328-9353-fb43-a069-fe3b2653c697", "article": "جب کسی بھی شعبے یا صنعت میں کچھ مخصوص افراد یا کمپنیاں ضرور سے زیادہ منافع یا اجارہ داری قائم کرنے کے لیے گٹھ جوڑ کرلیتی ہیں تو ایسے کارٹلائزیشن کہتے ہیں یہ سنہ 2008 کی بات ہے جب پاکستان میں بنک صارفین کو اچانک پتا چلا کہ بنک کی اے ٹی ایم مشین سے کیش نکلوانے پر بنک کے سروس چارجز بہت بڑھ گئے ہیں۔ یہ معاملہ صرف ایک یا دو بنکس تک محدود نہیں تھا بلکہ ملک کے تمام بنکوں نے اپنے اے ٹی ایم چارجز میں اچانک اور ایک جتنا اضافہ کر دیا۔ آج کل بھی پاکستان میں اسی گٹھ جوڑ یا کارٹلائزیشن کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور اس کی وجہ ہے ملک میں جاری مہنگائی، خاص طور پر آٹے اور چینی کی قیمت میں اچانک اضافہ۔ دنیا بھر میں کاروباری گٹھ جوڑ یا اجارہ داری قائم کرنا خاصی پرانی روایت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف ریاستی ادارے بھی سرگرم رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں ہے۔ جب کسی بھی شعبے یا صنعت میں کچھ مخصوص افراد یا کمپنیاں ضرورت سے زیادہ منافع یا اجارہ داری قائم کرنے کے لیے گٹھ جوڑ کرلیتی ہیں تو اسے کارٹلائزیشن کہتے ہیں۔ مختلف ملکوں نے اس رجحان کے خلاف مختلف قسم کے قواعد و ضوابط اور قوانین بنا رکھے ہیں۔ گٹھ جوڑ کر کے یا کاروبار پر اجارہ داری قائم کرکے زائد منافع کمانا جرم ہے لیکن اس کو ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔ پاکستان میں کاروباری گٹھ جوڑ کے ذریعے جو بھی کاروبار کیا جاتا ہے اس پر نظر رکھنے کے لیے حکومت نے مسابقتی کمیشن کا ادارہ قائم کیا ہے۔ مسابقتی کمیشن کی ذمہ داریوں میں زائد منافع کے لیے کاروبار میں گٹھ جوڑ کرکے مصنوعی قلت پیدا کرنے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ مسابقتی کمیشن گمراہ کن اشتہاری طریقوں سے مصنوعات بیچنے میں ملوث افراد اور کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرنے اور ان پر جرمانے عائد کرنے کا بھی مجاز ہے۔ دنیا بھر میں کاروباری گٹھ جوڑ یا اجارہ داری قائم کرنا خاصی پرانی روایت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف ریاستی ادارے بھی سرگرم رہتے ہیں اس کے علاوہ اداروں کے انضمام کی منظوری کے لیے مسابقتی کمیشن کی منظوری چاہیے ہوتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اس انضمام سے کسی ادارے کی کسی کاروبار پر اجارہ داری تو قائم نہیں ہو گی۔ مسابقتی کمیشن نے مختلف سیکٹرز پر پچھلے بارہ برسوں میں کاروبار میں گٹھ جوڑ، ذخیرہ اندوزی اجارہ داری کے غلط استعمال اور گمراہ کن اشتہاری اور مارکیٹنگ طریقوں سے مصنوعات بیچنے میں ملوث افراد اور کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 2399 آرڈر جاری کیے اور مختلف سیکٹرز پر 27 ارب روپے کے قریب جرمانے عائد کیے۔ پاکستان میں کاروباری گٹھ جوڑ کے ذریعے جو بھی کاروبار کیا جاتا ہے اس پر نظر رکھنے کے لیے حکومت نے مسابقتی کمیشن کا ادارہ قائم کیا ہے"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-51394288", "summary": "پٹرول یا گیس کے بجائے بجلی سے چلنے والا یہ رکشہ تاحال مارکیٹ میں متعارف تو نہیں کروایا گیا مگر خیال ہے کہ اس کی قیمت کسی عام رکشے سے زیادہ ہو گی مگر سواری سستی پڑے گی۔", "title": "الیکٹرک رکشہ: ’قیمت زیادہ ہو گی مگر سواری سستی‘", "firstPublished": "2020-02-06T03:58:39.000Z", "id": "af594579-5c06-ea44-a330-e374073fc6eb", "article": "آٹو رکشے میں بیٹھنے سے قبل کرائے پر رکشہ ڈرائیور سے بحث ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ ’ارے بھائی اِدھر ہی تو جانا ہے‘ کا جواب اکثر ’جناب پٹرول اور گیس کے ریٹ بڑھ گئے ہیں‘ کی صورت میں ملتا ہے اور تھوڑی بحث اور گلے شکوؤں کے بعد عموماً قابل قبول کرائے پر اتفاق ہو جاتا ہے۔ حالی ہی میں ایک پاکستانی آٹو کمپنی ’سازگار انجینئرنگ ورکس‘ نے ایک ’ماحول دوست‘ الیکٹرک رکشے کی رونمائی کی ہے۔ پٹرول یا گیس کے بجائے بجلی سے چلنے والا یہ رکشہ تاحال مارکیٹ میں متعارف تو نہیں کروایا گیا مگر خیال ہے کہ اس کی قیمت کسی عام رکشے سے زیادہ ہو گی۔ تاہم کمپنی کے مطابق اس کی سواری سستی پڑے گی۔ ’سوائے بیٹری، موٹر اور کنٹرولر کے (جو درآمد شدہ ہیں)۔ وہ بھی پاکستان میں بن سکتے ہیں۔ جیسے ہی پاکستان میں الیکٹرک وہیکل پالیسی آتی ہے، اس کی صنعت پاکستان میں لگ جائے گی تو یہ رکشہ 100 فیصد پاکستانی ہو جائے گا۔‘ بجلی سے چلنے والے اس رکشے میں 48 وولٹ بیٹری، تین کلو واٹ کی موٹر اور کنٹرولر موجود ہیں۔ یہ اس کے انجن کی جگہ یعنی رکشہ ڈرائیور کی سیٹ کے نیچے موجود ہیں۔ الیکٹرک رکشہ کی قیمت روایتی رکشہ سے زیادہ ہو گی تاہم اس کو بنانے والی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس کی سواری سستی پڑے گی علی کہتے ہیں کہ برقی رکشے میں بیٹھنے والوں کو اس لیے بچت ہو گی کیونکہ ’جب رکشہ ڈرائیور کا خرچہ کم ہو گا تو رکشے کی سواری کا کرایہ خود ہی کم ہو جائے گا۔‘ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ برقی رکشے سے ڈرائیور سالانہ ڈھائی لاکھ روپے پٹرول اور گیس یعنی فیول کی مد میں بچا سکیں گے سالانہ 30 ہزار روپے اس کی دیکھ بھال (یعنی ٹیوننگ اور موبل آئل) کے خرچے میں بچائے جا سکیں گے۔ یہ الیکٹرک رکشہ تاحال بازار میں لوگوں کے خریدنے کے لیے دستیاب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی قیمت کا تعین نہیں کیا جا سکا مگر خیال ہے کہ عام آٹو رکشے کے مقابلے اس کی قیمت کافی زیادہ ہو گی۔ سازگار نے اس بارے میں کوئی واضح تاریخ نہیں دی کہ یہ رکشہ مارکیٹ میں کب متعارف کرایا جائے گا اور وہ حکومتی الیکٹرک وہیکل پالیسی کے نفاذ اور ڈیوٹی میں رعایت کے منتظر ہیں جس کے بعد ہی وہ بڑے پیمانے پر الیکٹرک رکشے کی مقامی سطح پر اسمبلی کا باقاعدہ آغاز کر سکیں گے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی اعلان کردہ الیکٹرک وہیکل پالیسی کے مطابق حکومت اگلے پانچ برسوں میں ایک ہزار بجلی سے چلنے والی بسیں خریدے گی اور انھیں سڑکوں پر نجی کمپنیوں کی مدد سے چلائے گی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-51329441", "summary": "چین سے کورونا وائرس کو پاکستان آنے سے روکنے کے لیے پاکستانی حکام نے چین کے راستے کراچی بندر گاہ تک پہنچنے والے سامان کو ریلیز کرنے سے انکار کر دیا ہے۔", "title": "کراچی پہنچنے والے چینی سامان کو ریلیز کرنے سے انکار", "firstPublished": "2020-01-31T13:59:06.000Z", "id": "310d671b-06c8-4940-b753-a67f8e75b067", "article": "چین سے کورونا وائرس کو پاکستان آنے سے روکنے کے لیے پاکستانی حکام نے چین کے راستے کراچی بندر گاہ تک پہنچنے والے سامان کو ریلیز کرنے سے انکار کردیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ جب تک اس سامان پر جراثیم کش ادویات کا سپرے نہیں کیا جاتا یا اس کو اس مشین سے نہیں گزارا جاتا جو اس وائرس کی نشاندہی کرسکے اس وقت تک اس سامان کو بندرگاہ سے ریلیز نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ان اشیا کو درآمد کرنے والے افراد کے حوالے کیا جائے گا۔ بی بی سی کو حاصل ہونے والی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت نے یہ اقدام کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے اُٹھایا ہے۔ اس سرکاری دستاویز میں کہا گیا ہے کہ چین کے شہر ووہان اور دیگر متاثرہ علاقوں میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد ان علاقوں سے منگوائی گئی چیزوں کو کراچی بندر گاہ پر ہی روک لیا گیا ہے۔ اس سرکاری دستاویز میں کہا گیا ہے گشتہ 15 روز کے دوران چین کے مذکورہ شہر اور دیگر علاقوں سے تاجروں نے جو سامان منگوایا ہے اس کو کسی طور پر بھی ریلیز نہیں کیا جائے گا۔ سرکاری دستاویز میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس سامان کی ترسیل صرف اسی وقت ہی ممکن ہو سکے گی جب اس پر جراثیم کش ادویات کا سپرے یا اس مراحل سے نہیں گزارا جاتا جس کے ہونے کے بعد اس بات کا یقین ہو جائے کہ چین سے منگوائی گئی ان چیزوں میں کورونا وائرس موجود نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اُنھوں نے چین سے جو چیزیں منگوائی ہے ان میں زیادہ تر کھانے پینے کی اشیا ہیں جو ڈبوں میں بند ہیں اور ان میں غدا کو محفوظ کرنے والے کیمائی اجزا بھی شامل ہوتے ہیں لیکن اگر زیادہ دیر تک کھانے پینے کی اشیا کراچی بندر گاہ پر ہی پڑی رہیں تو ان چیزوں کے خراب ہونے کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ کورونا وائریس چین کے شہر ووہان اور اس کے کچھ اور علاقوں میں پایا گیا ہے لیکن چین کے دوسرے علاقے تو ابھی تک محفوظ ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستانی تاجر چین کے مختلف شہروں سے سامان منگواتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اس جان لیوا وائرس کی وجہ سے چین سے آنے والے سامان کی مانیٹرنگ سخت کردی گئی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں حزب مخالف کی جماعتوں نے کورونا وائرس سے بچانے کے لیے چین میں مقیم پاکستانیوں کو فوری طور پر وطن واپس لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیٹر مشاہد اللہ خان اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکٹر کا کہنا تھا کہ حکومت ان چار پاکستانی طالبعلوں کو بھی وطن واپس لائے جن میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ان افراد کے لیے ایک الگ سے وارڈ قائم کیا جائے جہاں پر ان کا علاج کیا جاسکے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-51323142", "summary": "امریکہ کے سیکرٹری برائے تجارت ولبر روس نے کہا ہے کہ چین میں پھیلنے والا مہلک کورونا وائرس امریکہ کی معیشت کے لیے مثبت ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کے اس بیان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔", "title": "کورونا وائرس سے امریکہ کو معیشت میں ’بہتری کی امید‘", "firstPublished": "2020-01-31T10:23:14.000Z", "id": "988362bf-3cd6-b445-a681-feb226ce4542", "article": "امریکہ کے سیکرٹری برائے تجارت ولبر روس نے کہا ہے کہ چین میں پھیلنے والا مہلک کورونا وائرس امریکہ کی معیشت کے لیے مثبت ثابت ہو سکتا ہے۔ اس وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ نے چین کی معیشت اور عالمی ترقی پر اس کے اثرات کے حوالے سے خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔ ولبر روس کے اس بیان پر ٹرمپ انتظامیہ کے ناقدین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ فاکس بزنس نیوز پر پوچھے گئے ایک سوال پر کہ آیا اس وائرس کا پھیلاؤ امریکی معیشت کے لیے خطرہ ہے، ولبر روس نے کہا: ’میں ایک انتہائی بدقمست اور مہلک بیماری پر کامیابی کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔‘ انھوں نے مزید کہا ’حقیقت یہ ہے کہ اس سے کاروباروں کو اپنی سپلائی چین پر نظرِثانی کرنے کے لیے ایک اور چیز مل گئی ہے۔۔۔ تو میرے خیال میں اس سے شمالی امریکہ میں ملازمتوں کی واپسی میں تیزی لانے میں مدد ملے گی۔‘ بعد ازاں امریکی محکمہ تجارت نے ان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’جیسا کے سیکرٹری روس نے واضح کیا ہے کہ سب سے پہلا قدم وائرس پر قابو پانا اور اس سے متاثر ہونے افراد کی مدد کرنا ہے۔‘ ولبر روس کے اس بیان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے رکن کانگرس ڈان بیئر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک مہلک وبا کے دوران کاروباری فوائد پر بات کرنے سے متعلق سوال اٹھایا۔ ماہرین معاشیات نے بھی ولبر روس کے بیان پر سوالات اٹھائے ہیں۔ سنگاپور میں برطانوی کمپنی ’دی اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ‘ کے سائمن بیپٹسٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں یہ بیان ’انتہائی عجیب‘ لگا۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ وائرس امریکہ پر مثبت کے بجائے منفی اثرات مرتب کرے گا۔ ’ہر چیز کے باوجود امریکہ درحقیقت ہارنے والا ہے، چین ابھی بھی امریکہ کے لیے بڑی مارکیٹ ہے تو اگر چین کی معیشت میں کمی آتی ہے تو اس سے امریکہ کو بھی دھچکا لگے گا۔‘ کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ نے چین کی معیشت اور عالمی ترقی پر اس کے اثرات کے حوالے سے خدشات میں اضافہ کیا ہے ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ سنہ 2002 اور 2003 میں پھیلنے والی وبا سارس کے مقابلے کورونا وائرس دنیا کی معیشت پر زیادہ اثر انداز ہو گا۔ سارس نے کم از کم آٹھ ہزار افراد کو متاثر کیا تھا جس کی وجہ سے 700 سے زائد اموات ہوئیں اور عالمی معیشت کو 30 بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے چین میں ٹیکنالوجی اور کاریں بنانے والی کمپنیوں سمیت بڑے کاروبار عارضی طور پر بند ہو رہے ہیں جبکہ حکام نے نئے قمری سال کے موقع پر چھٹیوں میں اضافہ اور ملک میں سفری پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51314200", "summary": "ایک اور ٹوئٹر صارف انوراگ سونی نے جب ان سے پوچھا کہ کیا وہ گجراتی زبان پڑھنا، لکھنا اور بولنا جانتے ہیں تو دانش کنیریا کا کہنا تھا کہ وہ گجراتی بول تو سکتے ہیں تاہم لکھ یا پڑھ نہیں سکتے ہیں۔", "title": "#AskDanish: دانش کنیریا کے پاس ’کوئی ذریعہ آمدن نہیں‘", "firstPublished": "2020-01-30T15:58:57.000Z", "id": "1dd92ff2-2ca5-ae41-8235-51fdac731d5a", "article": "بلال شیخ نامی ٹویٹر صارف کے سوال کے جواب میں دانش کنیریا کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ماضی کی بات پر قائم ہیں کہ میچ فکس کرنے والے اور ملک کو بیچنے والے کھلاڑیوں کو دوبارہ ٹیم میں شامل کیا گیا، لیکن انھوں نے کبھی ملک کا سودا نہیں کیا۔ دانش کنیریا سے جب ان کی آمدن کے ذریعے سے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ اُن کا اس وقت کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے۔ اسد بخاری نامی صارف نے جب پاکستانی ٹیم کے سابق فاسٹ باؤلر محمد آصف کے بارے میں سوال پوچھا تو جواب دیتے ہوئے دانش کنیریا نے کہا کہ محمد آصف نئی بال سے بولنگ کرنا جانتے ہیں اور انھیں دوبارہ کھیلنا چاہیے۔ ایک اور ٹوئٹر صارف انوراگ سونی نے جب ان سے پوچھا کہ کیا وہ گجراتی زبان پڑھنا، لکھنا اور بولنا جانتے ہیں تو دانش کنیریا کا کہنا تھا کہ وہ گجراتی بول تو سکتے ہیں تاہم لکھ یا پڑھ نہیں سکتے ہیں۔ مستقبل کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اُن پر عائد کی گئی ’غیر اخلاقی‘ پابندی ہٹانے کے حوالے سے کچھ کرے گا اور وہ اُس کا انتظار کر رہے ہیں۔ دانش کنیریا کا کہنا تھا کہ کرکٹ وہ واحد چیز ہے جس کے بغیر وہ جینے کا تصور نہیں کرتے اور ان کے لیے یہ وقت بہت تکلیف دہ ہے۔ پاکستان سے محبت اور انڈیا نقل مکانی کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں دانش کنیریا کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان سے بہت محبت کرتے اور انھوں نے کبھی بھی انڈیا منتقل ہونے کا ارادہ نہیں کیا۔ یادگار وکٹوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ انڈیا کے شہر موہالی میں کھیلے جانے والے یادگار میچ میں وریندر سیہواگ کو بھی آؤٹ کر چکے ہیں تاہم ان کی زندگی کی یادگار وکٹ سچن ٹنڈولکر کی تھی۔ \"انو\" کے نام سے ایک صارف نے دانش کنیریا سے پاکستان میں عوام کی جانب سے متعصب کے برتاؤ کے بارے میں سوال پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لوگ ان سے بہت پیار کرتے ہیں اور انھیں کبھی تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ اپنے مداحوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے دانش کنیریا نے کہا کہ وہ انضمام الحق کو پاکستان کرکٹ ٹیم کا بہترین کپتان سمجھتے ہیں۔ ٹوئٹر صارف عمر نادر نے جب دانش کنیریا سے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے بارے میں رائے مانگی تو ان کا کہنا تھا کہ ملک ان کی قابل قیادت میں ضرور ترقی کرے گا۔ واضح رہے کہ دانش کنیریا نے 61 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے 261 وکٹیں حاصل کیں۔ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے پاکستانی بولرز میں وسیم اکرم، وقار یونس اور عمران خان کے بعد چوتھے نمبر پر ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51304636", "summary": "پاکستانی فٹ وئیر کی برآمدات رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں 33 فیصد اضافے کے بعد 3 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز رہیں ہیں جبکہ گذشتہ مالی سال بھی فٹ وئیر کی برآمدات میں 27 فیصد اضافہ ہوا۔", "title": "’درآمدی جوتے اب عوام کی قوتِ خرید سے باہر ہوگئے ہیں‘", "firstPublished": "2020-01-30T07:32:04.000Z", "id": "f1ad541f-665e-264a-b3c5-3b1124f54f9a", "article": "جو جوتے آج ظریف خان کی دکان پر فروخت کے لیے موجود ہیں وہ سب کے سب پاکستان میں بنے ہیں۔ ایک ڈیڑھ سال پہلے تک اس دکان پر صرف چینی جوتے بکتے تھے لیکن اب نہیں۔ چین سے جوتوں کی کم ہوتی درآمد نے جوتا سازی کی مقامی صنعت کو مضبوط کیا ہے اور اسی لیے مقامی کھپت میں اضافے کے علاوہ پاکستانی فٹ وئیر کی برآمدات بھی بڑھی ہیں اور وہ رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں 33 فیصد اضافے کے بعد 3 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز رہیں ہیں۔ جبکہ گذشتہ مالی سال بھی فٹ وئیر کی برآمدات میں بھی 27 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ آب پارہ مارکیٹ میں دکاندار محمد مصدق نے بتایا کہ دو سال پہلے تک ان کی دکان پر 60 فیصد چینی اور 40 فیصد کے قریب مقامی بنے ہوئے جوتے بکتے تھے جبکہ اب ان کے پاس نوے فیصد سٹاک مقامی طور پر بنے ہوئے جوتوں پر مشتمل ہے۔ محمد مصدق کا کہنا ہے کہ دو سال پہلے جو چینی جوتا انھیں 300-400 روپے میں ملتا تھا اب وہی 700-800 روپے کا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ متوسط طبقے کے جو گاہک اس کے پاس آتے ہیں وہ مہنگا جوتا خریدنے کی استطاعات نہیں رکھتے اور اب مہنگائی بڑھنے سے وہ مجبوری میں ہی جوتا خریدتے ہیں۔ لاہور میں زارا شوز کے چیف ایگزیکٹو منصور احسن کہتے ہیں ’نہ صرف مقامی طور تیار کردہ جوتوں کی طلب میں اندرون ملک بلکہ ان کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘ گذشتہ مالی سال انھوں نے دس لاکھ ڈالرز مالیت کے جوتے برآمد کیے تھے۔ وہ امید کر رہے ہیں کہ اس سال وہ پندرہ لاکھ ڈالرز تک کے جوتے برآمد کریں گے۔ وہ کہتے ہیں ’چین کی صرف جوتوں کی سالانہ برآمدات 40 ارب ڈالرز ہیں۔ حکومت اگر اس صنعت پر توجہ دے تو نہ صرف ہم مقامی طلب کو باآسانی پورا کر سکتے ہیں بلکہ اپنی برآمدات کو بھی ایک دو سالوں میں ایک ارب ڈالرز سے زائد تک لے جا سکتے ہیں۔‘ سمبا انٹر پرائزز کے میاں محمد سلیمان کے مطابق ان کی فیکٹری میں زیادہ تر برائڈل جوتے تیار ہوتے ہیں لیکن گزشتہ ایک سال میں لوگوں کی قوت خرید متاثر ہونے کی وجہ سے مقامی مارکیٹ سے کم آڈرز مل رہے ہیں اور اس لیے وہ بھی اب برآمدات پر توجہ دے رہے ہیں۔ ’موسم گرما میں کئی دن ایسے بھی تھے جب فروخت صفر رہی، اب سردیوں میں بھی بامشکل چار سے پانچ جوڑے فروخت ہوتے ہیں، جبکہ دو سال پہلے تک اس موسم میں پندہ سے بیس جاگرز اور جوتے یومیہ باآسانی فروخت ہوجاتے تھے۔ پچھلے ایک سال میں منافع تو دور کی بات میں بامشکل اپنا خرچہ نکال پایا ہوں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51291535", "summary": "پاکستان میں گندم کے حالیہ بحران اور آٹے کی بڑھتی قیمت کی وجہ خراب طرزِ حکومت ہے یا پاکستان میں اجناس اور فصلوں کی متوقع پیداوار کے تخمینے کے نظام میں کوتاہی؟", "title": "پاکستان میں گندم کے بحران کی وجہ غلط اندازے ہیں؟", "firstPublished": "2020-01-29T08:48:30.000Z", "id": "cc1f0470-3b67-914d-aac9-e432f9d4d8c6", "article": "پاکستان میں گندم کے حالیہ بحران اور آٹے کی بڑھتی قیمت پر جہاں عوام پریشان ہیں وہیں حزب اختلاف کی جماعتیں اس کا ذمہ دار حکومتی پالیسیوں اور خراب طرزِ حکومت کو قرار دے رہی ہیں۔ کیا پاکستان میں اجناس اور فصلوں کی متوقع پیداوار کے تخمینے کے نظام میں کہیں کوتاہی ہوتی ہے یا اس نظام میں کوئی سقم ہے۔ ڈاکٹر تصور حسین کے مطابق اس مرحلے میں تقریباً تمام ملک سے اعداو شمار اکٹھے کر لیے جاتے ہیں اور کاٹن کروپ ایسسمنٹ کمیٹی کے اجلاس میں چاروں صوبائی سیکرٹری برائے زراعت یہ وہاں پیش کرتے ہیں جس کے بعد فصل کی متوقع پیداوار کا باخوبی تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ اور اگر پیداوار میں کمی ہے تو اس کی وجوہات پر بھی غور کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر تصور حسین ملک نے بتایا کہ فصل کی پیدوار کے اعداد و شمار کا آخری مرحلہ جنرز کے پاس ہوتا ہے اور شاید یہ دنیا میں سب سے اچھا نظام ہے جہاں ہر جنر روزانہ کی جننگ کی جانیوالی کاٹن بیلز کا ڈیٹا اپنے ہیڈ کواٹر یعنی پاکستان جنرز ایسوسی ایشن کے دفتر میں بھیجتے ہیں جو ملتان میں ہے۔ تاہم اس مرتبہ حکومت نے گندم کی فصل کی متوقع پیدوار کو بمپر فصل قرار دیا تھا اور اپنے ذخیرہ میں سے گندم کو برآمد کر دیا جس کے وجہ سے موجودہ بحران پیدا ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی بھی فصل کی متوقع پیدوار کے تخمینے کے لیے متعین طریقہ کار اور نظام دنیا کے بہترین نظاموں میں سے ایک ہے لیکن بعض اوقات یہ نظام موجود ہونے کے باوجود بھی کام نہیں کرتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پورے نظام کا تعلق گڈ گورننس سے ہے اگر وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت اس طرف توجہ نہیں دے رہی تو نیچے کے تمام محکمے اپنا کام مناسب انداز سے نہیں کرتے، اس میں فیلڈ میپنگ، پلانٹ پاپولیشن ڈینسٹی اور پلانٹ سیمپلنگ کو بہتر انداز سے سرانجام نہیں دیا جاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسری کوتاہی یہ ہوتی ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے غیر حقیقی اہداف مقرر کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ملک میں گندم کی پیداوار 22 ملین ٹن ہوتی ہے تو ہدف 26 ملین ٹن رکھ دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر تصور کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ذراعت میں دو گروپ کام کرتے ہیں۔ ایک وہ حکومتی ادارے مثلاً ذرعی تحقیق کا محکمہ، کروپ رپورٹنگ کا محکمہ اور خود وزارت بھی شامل ہوتی ہے جو کسان کو فائدہ دینے کی کوشش میں ہوتے ہیں کیونکہ سالانہ پیداوار سے کسی بھی فصل کے ریٹ کا تعین ہوتا ہے۔ ڈاکٹر وسیم الحسن کا کہنا تھا کہ موجودہ نظام میں سپارکو کا محکمہ ساتھ تو ہے لیکن فنڈنگ کے مسائل کی وجہ سے زیادہ متحرک نہیں ہے اگر اس کو بہتر طریقے سے شامل کریں اور کسی بھی فصل کے فیلڈ میپنگ کے وقت ہم سپارکو سے سیٹلائٹ امیجز سے بہتر رہنمائی لے تو فصل کی پیداوار اور اس کی بیجائی کے عمل کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51283896", "summary": "سٹیٹ بینک نے اگلے دو ماہ کے لیے بھی پالیسی ریٹ یا شرح سود کو 13.25 پر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ شرح سود کم کیے بغیر معاشی سرگرمیاں تیز کرنا ناممکن ہے۔", "title": "’ہاٹ منی‘ کیا ہے اور شرح سود سے اس کا تعلق", "firstPublished": "2020-01-28T13:12:11.000Z", "id": "99b18060-009a-7d45-b5d5-e2ae2182515f", "article": "پاکستان کے مرکزی بینک کے سربراہ رضا باقر نے اگلے دو ماہ کے لیے بھی پالیسی ریٹ یا شرح سود کو تیرہ اعشاریہ پچیس فیصد کی بلند سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انٹرسٹ یا پالیسی ریٹ اس شرح کو کہتے ہیں جس پر مرکزی یا سٹیٹ بنک دیگر بینکوں اور مالیاتی اداروں کو قرضے جاری کرتا ہے۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے سود کی شرح اتنی بلند سطح پر رکھنے کی وجہ سے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری نے بھی پچھلے چھ ماہ میں تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو لیا ہے۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر وقار کے مطابق اتنی بڑی سرمایہ کاری سے سٹیٹ بینک اوپن مارکیٹ سے ڈالرز خرید کر ایکسچینج ریٹ میں وقتی طور استحکام لانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ مارکیٹ ذرائع کے مطابق مرکزی بینک نے پچھلے دو ماہ میں اوپن مارکیٹ سے تین ارب ڈالرز خریدے ہیں اور اب اس کے زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے گیارہ ارب ڈالرز سے تجاوز کرچکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ درآمدات میں کمی کی وجہ سے بھی حکومت کا جاری خسارہ پہلے چھ ماہ میں آٹھ ارب 61 کروڑ ڈالر سے کم ہوکر دو ارب 15 کروڑ ڈالر رہ گیا ہے، لیکن دوسری جانب حکومتی قرضوں میں غیر معمولی اضافے کے باعث قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے سائز سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بانڈز مارکیٹ کو پرکشش بنانا آئی ایم ایف کے فنانشل ماڈل کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے مصر اور انڈونیشیا میں بھی شرح سود میں اضافہ کرکے ان کی بانڈز مارکیٹس میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کیا تھا۔ جبکہ 1997 میں بھی آئی ایم ایف پروگرم میں جانے کے بعد پاکستان کو ایسا ہی کرنا پڑا تھا۔ ڈاکٹر وقار کا کہنا ہے حکومت کو یہ احساس ہے کہ بانڈز سے حاصل ہونے والی رقم پر شرح سود بہت زیادہ ہے جسے کم کرنا بہت ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے شرح سود کم کیے بغیر معاشی سرگرمیاں تیز کرنا ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو بھی اس کا احساس ہے اس لیے وہ اس سال دو ارب ڈالرز کے یورو بانڈز دو ارب ڈالرز کے پانڈا بانڈز اور ایک ارب ڈالر مالیت کے سکوک بانڈز جاری کرنے کا اراداہ رکھتی ہے۔ شجر کیپیٹل کے چیف ایگزیٹو ریحان عتیق کا کہنا ہے یورو یا کسی اوربانڈز پر سات سے آٹھ فیصد پر حکومت کو با آسانی قرضہ مل سکتا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ مرکزی بینک بانڈزز کے ذریعے غیر ملکی سرمایہ کاری فی الحال جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب حکومت بین الاقوامی مارکیٹ میں بانڈز جاری کرنے چاہیئے تا کہ کم شرح سود پر قرضہ حاصل کیا جا سکے، بصورت دیگر اسٹاک مارکیٹ اور صنعتی شعبے کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آنے کا امکان نہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-51274877", "summary": "بیجنگ اور شنگھائی نے ہوبائی سے آنے والے افراد کو 14 دن تک زیرِ معائنہ رکھنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ چین میں اب تک ہونے والی 106 اموات میں سے 100 ہوبائی صوبہ میں ہوئی ہیں۔", "title": "کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 106", "firstPublished": "2020-01-28T00:57:04.000Z", "id": "b6d23743-4f1c-5342-ae41-655293732109", "article": "ساتھ ہی چین میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد ایک دن میں دگنی ہو کر 2835 سے 4515 ہو گئی ہے۔ اب تک ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد میں ادھیڑ عمر یا ایسے افراد جنھیں پہلے سے سانس کی بیماریاں تھیں، شامل ہیں۔ وائرس کا یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب لاکھوں افراد نئے قمری سال پر ہونے والی تقریبات کے سلسلے میں پورے ملک میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے پاس آتے جاتے ہیں۔ بیجنگ اور شنگھائی نے ہوبائی سے آنے والے افراد کو 14 دن تک زیرِ معائنہ رکھنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ چین میں اب تک ہونے والی 106 اموات میں سے 100 ہوبائی صوبہ میں ہوئی ہیں۔ چین میں وائرس سے متاثرہ بہت سے شہروں میں سفری پابندیاں عائد ہیں جبکہ اتوار سے نجی گاڑیوں کو بھی سب سے زیادہ متاثرہ صوبے ہوبائی کے مرکزی اضلاع میں نقل و حرکت نہیں کرنے دی جائے گی کیونکہ یہی علاقہ اس وائرس کا مرکز ہے۔ چین کے سرکاری اخبار پیپلز ڈیلی کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک اور ہسپتال صرف سات دن کی قلیل مدت میں تعمیر کیا جائے گا تاکہ وائرس سے متاثرہ 1300 نئے افراد کا وہاں علاج کیا جا سکے۔ سنہ 2003 میں چمگادڑوں سے شروع ہونے والا وائرس بلیوں سے مماثلت رکھنے والے جانوروں میں منتقل ہوا اور پھر انسانوں تک پہنچا اس سے ان سب کا سے نظام تنفس شدید متاثر ہوا۔ اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے چینی حکام نے سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں اور بہت سی کمپنیوں نے اپنے ملازمین سے کہا ہے کہ وہ گھر سے کام کریں چین میں زیادہ کاروبار کرنے والی کمپنیاں اس رجحان سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں بھی 2.9 فیصد کمی دیکھی گئی ہے اور فی بیرل قیمت 58.14 ڈالر تک پہنچ گئی۔ تیل کے تاجروں کو خدشہ ہے کہ اگر چینی معیشت میں سستی آئی تو تیل کی مانگ میں کمی آ سکتی ہے۔ اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے چینی حکام نے سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں اور بہت سی کمپنیوں نے اپنے ملازمین سے کہا ہے کہ وہ گھر سے کام کریں۔ انتظامیہ خطرناک وائرس کورونا کی وبا کو پھیلاؤ سے روکنے کے لیے شدید جدوجہد کر رہی ہے۔ یہ سب ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب لاکھوں افراد نئے چینی سال کی تقریبات کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ بیجنگ اور ہانگ کانگ میں حکومت نے نئے سال کی بڑی تقریبات کو وائرس سے پھحلنے والے خطرے کے پیش نظر منسوخ کر دیا ہے تاکہ عوام آپس میں گھل مل نہ سکیں جس سے وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ ہے۔ ووہان شہر اور ہوبائی صوبہ جہاں سب سے زیادہ مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے وہاں انتظامیہ نے سخت اقدامات اٹھائے ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-51242062", "summary": "دی اکانومسٹ نے اپنے حالیہ تجزیے میں کہا ہے کہ نریندر مودی کی پالیسیاں انھیں انتخابات جیتنے میں مدد دے سکتی ہیں لیکن وہی پالیسیاں ملک کے لیے سیاسی زہر ثابت ہو سکتی ہیں۔", "title": "دی اکانومسٹ کو مودی کی پالیسیاں کیوں کھٹکنے لگیں؟", "firstPublished": "2020-01-25T07:36:36.000Z", "id": "93d9b91a-6f9e-6041-8e70-6ec282b25a98", "article": "اس میں ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ شہریت کا قانون حکومت کا ایک بڑا قدم ہے۔ حکومت کی پالیسیاں نریندر مودی کو انتخابات جیتنے میں مدد کر سکتی ہیں لیکن وہی پالیسیاں ملک کے لیے سیاسی زہر ثابت ہو سکتی ہیں۔ اب حالیہ تجزیے میں کہا گیا ہے کہ تمام مذاہب کی عزت کرنے والے آئینی اصولوں کی حیثیت کم کرنے کی وزیراعظم مودی کی کوششیں انڈیا کی جمہوریت کو نقصان پہنچائے گی جو دہائیوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ دی اکانومسٹ میں شائع اس تجزیے میں لکھا گیا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم کر کے بی جے پی نے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کیا ہے اور خراب ہوتی معیشت سے دھیان بھٹکایا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ این آر سی سے بی جے پی کو اپنے ایجنڈا آگے بڑھانے میں مدد ہو گی۔ تجزیے میں کہا گیا ہے کہ این آر سی ایک طویل مدتی عمل ہے جس میں فہرست بنائی جائے گی، تبدیل ہو گی اور ایک بار پھر بنائی جائے گی۔ اس عمل کے ذریعے مودی خود کو ملک کے 80 فیصد ہندو افراد کے محافظ کے طور پر پیش کریں گے۔ یہ تجزیہ بھی وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم مودی نے ’اچھے دنوں‘ کا وعدہ کیا جس کے بعد وہ اقتدار میں آئے۔ انھوں نے نوکری، بھائی چارے اور ملک کی بین الاقوامی سطح پر شہرت کا وعدہ کیا لیکن ترقی کی رفتار مایوسی کی حد تک سست ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ وزیراعظم مودی نے زیادہ تر طاقت اپنے ہاتھوں میں رکھی ہے اور ایک اکیلے آدمی کے لیے تبدیلی لانا بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اس تجزیے میں مودی سے وابستہ امیدوں کا اظہار کیا گیا تھا۔ جریدے کے مئی 2015 کے شمارے میں نریندر مودی کی تعریف بھی کی گئی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ مودی کے پختہ ارادوں پر شک نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انڈیا میں بہت قابلیت ہے۔ یہ ملک دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بننے کی راہ پر آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ دنیا کی تین سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک بن سکتا ہے۔ اس رپورٹ میں دی اکانومسٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ مودی نے ملک کو ایسی کوئی معاشی ترقی نہیں دلوائی جس کی امید کی جا رہی تھی۔ اس رپورٹ میں انڈین وزیراعظم کو بہتری لانے والے سے زیادہ ایک حاکم بتایا گیا تھا۔ اس وقت کور سٹوری کا موضوع تھا ’کس طرح انڈیا کی معیشت چین کو پیچھے چھوڑ دے گی۔‘ اس تجزیے میں انڈین معیشت کی تعریف کی گئی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ انڈیا میں نجی کمپنیاں بے حد مضبوط ہیں اور اس سے ملک کی معیشت میں مضبوطی آئے گی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51232408", "summary": "پاکستان کے وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ پاکستان میں ایسے لوگ ہوں گے جنھوں نے اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ رویہ نہیں رکھا ہوگا، لیکن جب بھی کسی نے (ایسا کیا ہے تو) حکومت نے ان لوگوں کے خلاف اقدامات کیے ہیں۔", "title": "’نازی نظریے سے متاثر جماعت نے انڈیا پر قبضہ کر لیا ہے‘", "firstPublished": "2020-01-24T12:22:13.000Z", "id": "bf1f6b2f-d784-e94c-9394-47f8e85b95d9", "article": "پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تفریق پاکستان کے آئین کا حصہ نہیں اور نہ ہی یہ پاکستانی حکومت کی پالیسی میں شامل ہے۔ ڈیووس میں بی بی سی کی مشال حسین کے ساتھ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ایسے لوگ رہے ہوں گے جنھوں نے اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ رویہ نہیں رکھا ہوگا، لیکن جب بھی کسی نے (ایسا کیا ہے تو) حکومت نے لوگوں کے خلاف اقدامات کیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’انڈیا میں لوگ خوفزدہ ہیں۔ اگر بات کسی اقلیت یا خاص طور پر مسلمانوں کی کریں تو جو انڈیا میں ہو رہا ہے اس کا موازنہ پاکستان سے نہیں کیا جا سکتا۔‘ عمران خان سے جب سوال کیا گیا کہ وہ بین الاقوامی برادری کو کشمیر کے معاملے پر تجارتی مفادات سے آگے بڑھ کر دیکھنے کے لیے کہتے ہیں مگر خود بظاہر چین کے معاملے میں تجارت سے آگے دیکھنے پر قائل نظر نہیں آتے، تو انھوں نے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی اگر کچھ ہو رہا ہے اس سے تناؤ کے ایسے خدشات جنم نہیں لیتے جیسا کشمیر کے مسئلے کی وجہ دو جوہری طاقتوں کے درمیان ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر کچھ غلط ہوتا ہے تو برصغیر سے کہیں دور تک اس کے اثرات ہوں گے۔ انڈیا غلط راستے پر جا رہا ہے اور یہ میرا فرض ہے کہ ایک ایسے فورم کو اس بارے میں آگاہ کروں جسے دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم کیا گیا تھا تاکہ کہیں بھی جنگ ہونے سے اسے روکا جائے۔ کسی اور جگہ ایسے جنگ کے خطرات نہیں جیسے کشمیر میں ہیں۔‘ ’مجھے یقین ہے صدر ٹرمپ کو اور بھی مشورے ملے ہوں گے۔ لیکن میں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور میں کسی فوجی حل کے سخت خلاف ہوں۔‘ عمران خان کی طویل سیاسی جدوجہد کے بارے میں جب ان سے پوچھا گیا کہ وزیرِ اعظم بننے سے پہلے کے تصورات اور حقیقت میں کیا موازنہ ہے تو انھوں نے کہا کہ انھوں نے کہا کہ 23 سال کی جدوجہد میں ایک منٹ کے لیے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ پاکستان میں وزیر اعظم بننا آسان کام ہوگا۔ ’1985 سے پاکستان کے لیے ایک اہم موڑ تھا جب چیزیں خراب ہونا شروع ہوئیں۔ بدعنوانی ملک کو تباہ کر دیتی ہے۔ یہ ریاستی اداروں کو تباہ کرتی ہے۔ اس سے ترقی نہیں ہو پاتی کیونکہ لوگوں پر خرچ ہونے والے پیسے جیبوں میں جاتے ہیں۔ اس سے منی لانڈرنگ ہوتی ہے، اس سے آپ کی کرنسی پر بوجھ بڑھتا ہے اور اس کی قدر کم ہوتی ہے۔ اس سے مہنگائی بڑھتی ہے۔ میں کرپشن کے خلاف لڑنے آیا تھا۔ لیکن مجھے اندازہ تھا کہ جب بھی میں اقتدار میں آؤں گا، یہ سب سے بڑی مشقت ہوگی۔ اور یہ رہی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51223075", "summary": "وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سائبر ونگ نے خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں کرپٹو کرنسی کی تیاری اور خریدوفروخت سے منسلک مائیننگ فارم قبضے میں لے کر پنجاب سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو گرفتار کیا ہے۔", "title": "شانگلہ میں کرپٹوکرنسی فارم کہاں سے آیا", "firstPublished": "2020-01-24T04:19:13.000Z", "id": "62965194-8fbb-4a48-9ae8-c4e85ef2c90d", "article": "وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں کرپٹو کرنسی کے ’مائیننگ فارم‘ کو قبضے میں لے کر دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ جن افراد پر اس مائیننگ فارم کو چلانے کا شک ہے ان میں سے ایک کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع اوکاڑہ اور دوسری کا لاہور سے ہے۔ شانگلہ میں موجود کرپٹوکرنسی کے مائیننگ فارم میں ڈیجیٹل مشینیں نصب تھیں۔ اس میں ڈیجیٹل کرنسی یا کریپٹو کرنسی کے 65 یونٹس نصب تھے اور ہر یونٹ کے بارہ چینل تھے یعنی اس فارم سے 780 چینلز کام کر رہے تھے جن کے لیے درکار بجلی مقامی سطح پر نصب ٹربائن سے حاصل کی جا رہی تھی۔ تحقیقاتی ادارے کے مطابق اس فارم کو قبضے میں لینے کے لیے بھاری مشینری کو ٹرکوں میں لایا جائے گا چونکہ اس وقت بارش اور برفباری سے راستے بند ہیں اس لیے چند روز میں مشینری منتقل کر دی جائے گی۔ یہ فارم شانگلہ کے ایک ایسے دیہی علاقے میں قائم کیا گیا تھا جو پہاڑوں میں گھرا ہوا تھا۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے تحقیقاتی ٹیم اور پولیس اہلکاروں کو پیدل جانا پڑا جہاں دو دو فٹ تک برف پڑی تھی۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ یہ مائیننگ فارم پہلے سوات کے دیگر علاقوں میں نصب کیا گیا تھا۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ یہ فارم چترال میں نصب کیا گیا تھا لیکن بجلی کی ترسیل میں کمی کی وجہ سے یہاں شانگلہ منتقل کر دیا گیا تھا اور تقریباً ایک سال سےوہاں کام کر رہا تھا۔ تحقیقاتی ادارے کے اہلکاروں کے مطابق یہ پاکستان میں پکڑا جانے والا سب سے بڑا ڈیجیٹل کرنسی فارم ہے۔ تحقیقاتی ٹیم میں شامل اہلکاروں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں یہ اطلاع تھی کہ اس جگہ پر کوئی ایسا مائیننگ فارم قائم کیا گیا ہے جس سے بیرون ممالک سے بٹ کوائن، ایتھیریم اور دیگر ڈیجیٹل کرنسیوں کا کاروبار کیا جا رہا ہے۔ ان اہلکاروں نے مزید کہا کہ اس مائیننگ فارم کو تحویل میں لینے کے لیے وہ اس انتظار میں تھے کہ اس میں ملوث افراد موقع پر موجود ہوں اور وہ اس کے انتظار میں تھے۔ انھوں نے کہا کہ جب انھیں معلوم ہوا کہ متعلقہ افراد موقع پر پہنچ گئے ہیں تو انھوں نے چھاپہ مارا اور ان افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملزمان پہلے یہ تسلیم ہی نہیں کر رہے تھے کہ وہ اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ شانگلہ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ظاہر شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ شانگلہ کے علاقے برکانا شاہ پور خوڑ کے قریب ایک گھر میں خفیہ طور پر بھاری مشینری نصب تھی جس سے انھیں بھی تشویش لاحق تھی۔ انھوں نے کہا کہ وہ حال ہی میں یہاں تبدیل ہو کر آئے ہیں اور انھیں تھانیدار نے اسں کی اطلاع دی تھی جس پر انھیں نے متعلقہ حکام کو اطلاع کردی تھی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-51192899", "summary": "ڈیواس میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ماہرینِ ماحولیات کو تباہی کے پیغمبر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اِن لوگوں کی پیشگوئیاں کئی دہائیوں سے غلط ثابت ہو رہی ہیں۔", "title": "صدر ٹرمپ: ’ماہرینِ ماحولیات تباہی کے پیغمبر ہیں‘", "firstPublished": "2020-01-21T14:04:22.000Z", "id": "7fa1455e-27c0-7340-b486-4bda59d9bb7f", "article": "امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ماہرینِ ماحولیات کو ’تباہی کے پیغمبر‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اِن لوگوں کی پیشگوئیاں کئی دہائیوں سے غلط ثابت ہو رہی ہیں۔ ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ وقت خوش امیدی کا ہے نہ کہ مایوسی کا اور یہ کہ لوگوں کو خوابوں کی ضرورت ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ آب و ہوا میں تبدیلی کے مسائل کو ٹیکنالوجی کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے اور ایک تخلیقی معیشت ایسے مسائل کے حل تلاش کر لے گی۔ انھوں نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ بیوروکریسی کو کم کر کے امریکہ میں ہونے والی معاشی ترقی کی تقلید کریں۔ صدر ٹرمپ کی تقریر کا زیادہ حصہ اپنی کامیابیاں گنوانے پر تھا اور سیاسی مبصرین کے خیال میں اِس کی ایک وجہ اِس برس ہونے والے انتخابات ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں امریکہ میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی سے معاشرے کے نچلے طبقات کو فائدہ ہوا ہے۔ انھوں نے معاشی نمو میں حالیہ تیزی کو 'بلو کالر بوم' کا نام دیا۔ انھوں نے ’قیامت کی پیشگوئیاں‘ مسترد کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اپنی معیشت کا دفاع کرے گا۔ صدر ٹرمپ نے گریٹا تھنبرگ کو براہ راست مخاطب نہیں کیا جو اس موقع پر ’آب و ہوا کی تباہی کو روکنے‘ کے موضوع پر ایک اجلاس کا افتتاح کر رہی ہیں۔ 16 برس کی گریٹا تھنبرگ کا تعلق سویڈن سے ہے جو ماحول کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہیں۔ انھیں امریکا کے مشہور ’ٹائم میگزین‘ کی جانب سے سال 2019 کی شخصیت یعنی ’پرسن آف دی ایئر‘ قرار دیا گیا ہے۔ عالمی رہنماؤں کے اِس سربراہی اجلاس میں ’ماحول کی تباہی‘ ایجنڈے میں سرِ فہرست ہے۔ نوبل انعام یافتہ ماہرِ معیشت جوزف سٹگلٹز نے صدر ٹرمپ کی تقریر پر تنقید کی ہے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق جوزف سٹگلٹز نے کہا ہے کہ یہ ایسا ہی ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے ایک چیز دیکھ رہے ہوں اور کہیں کہ وہ چیز وہاں نہیں ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51172032", "summary": "فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں برطانیہ، چین اور انڈیا سمیت 35 ارکان ہیں۔ تو پھر پاکستان کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی ’گرے لسٹ‘ سے نکالنے میں امریکہ ہی اس کا مددگار ہو سکتا ہے؟", "title": "ایف اے ٹی ایف: امریکہ پاکستان کی کیا مدد کر سکتا ہے؟", "firstPublished": "2020-01-20T11:59:13.000Z", "id": "eee5dcf8-4aa1-4d46-820a-a606090ab812", "article": "چین میں منگل کو بین الاقوامی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا اجلاس ہونے جا رہا ہے جس کی سربراہی چین اور انڈیا مشترکہ طور پر کریں گے۔ اس اجلاس میں پاکستان کی جانب سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔ ایف اے ٹی ایف کے 35 ارکان ہیں جن میں امریکہ کے علاوہ برطانیہ، چین اور انڈیا بھی شامل ہیں۔ تو ایسے میں پاکستان کو امریکہ سے ہی مدد کی امید کیوں ہے؟ امریکی سیاسی اور سکیورٹی تجزیہ کار مائیکل کگلمین نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کی ایف اے ٹی ایف کی ’گرے لسٹ‘ سے نکلنے کی کوششیں صرف امریکی تعاون سے کامیاب نہیں ہو سکتی ہیں۔ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ انھوں نے ایف اے ٹی ایف کے دیے گئے اہداف میں اہم پیش رفت سے متعلق دیگر ممالک کو بھی بتایا ہے۔ وہ اس بار چین کے علاوہ انڈیا سے بھی ’میرٹ‘ کی امید رکھتے ہیں۔ سکیورٹی امور کے ماہر عامر رانا کی رائے میں امریکہ کا ایف اے ٹی ایف پر ایک محدود اثر تو ہے لیکن مشکلات سے نکلنے کے لیے پاکستان کو ہر صورت اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا تدارک کرنا ہو گا۔ مائیکل کگلمین کے خیال میں امریکہ کا اب بھی ایف اے ٹی ایف سے متعلق پاکستان کے حوالے سے موقف سخت ہے اور وہ اس وقت تک پاکستان کو اس فہرست سے باہر نکالنے پر آمادہ نہیں ہو گا جب تک پاکستان ایسے اقدامات نہیں اٹھائے گا جن سے پیچھے ہٹنا ممکن نہ ہو۔ یاد رہے کہ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو دس نکاتی ایکشن پلان پر جنوری 2019 تک عمل درآمد کرنے کو کہا گیا تھا۔ اس دس نکاتی ایکشن پلان کے مطابق پاکستان کو یہ واضح کرنا تھا کہ وہ منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی مالی معاونت اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی سے متعلق اقدامات کرنے میں کتنا کامیاب ہوا۔ عامر رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ 21 جنوری کو چین میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں انڈیا بھی میزبانی کر رہا ہے جس سے پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جس کا قیام 1989 میں عمل میں آیا تھا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھا جائے اور اس مقصد کے لیے قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات کیے جائیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-51172003", "summary": "دنیا میں سب سے زیادہ پلاڈیئم روس اور جنوبی افریقہ سے نکلتا ہے اور زیادہ تر پلاڈیئم گاڑیوں کے اندر نصب کیٹالیٹک کنورٹرز کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔", "title": "یہ دھات سونے سے زیادہ مہنگی کیوں ہے؟", "firstPublished": "2020-01-20T09:27:31.000Z", "id": "beb505b1-6d7e-1a4d-986c-049b357bb834", "article": "بین الاقوامی منڈیوں میں قیمتی دھات پلاڈیئم کی قدر میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ صرف گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ہی اس کی قیمت میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ گذشتہ ایک سال میں اس کی قیمت تقریباً دو گنا بڑھ چکی ہے۔ اور جس دباؤ کی وجہ سے اس کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے، اس میں مستقبل قریب میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ مگر پلاڈیئم ہے کیا، کس لیے استعمال ہوتا ہے، اور اس کی قیمت کیوں بڑھ رہی ہے؟ سفید رنگ کی یہ چمکدار دھات پلاٹینم کے ہی گروپ میں شامل ہے جس میں روتھینیئم، رھوڈیئم، اوسمیئم اور اریڈیئم شامل ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ پلاڈیئم روس اور جنوبی افریقہ سے نکلتا ہے۔ اس میں سے زیادہ تر پلاڈیئم دیگر دھاتوں مثلاً پلاٹینم اور نِکل کی کان کنی کے دوران ضمنی طور پر نکلتا ہے۔ یہ کیٹالیٹک کنورٹرز میں ایک جُزو کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور یہی اس کا سب سے اہم کمرشل استعمال ہے۔ کیٹالیٹک کنورٹرز پیٹرول اور ہائبرڈ گاڑیوں کے ایگزاسٹ سسٹم کا حصہ ہوتے ہیں اور زہریلے مادوں کے اخراج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ان کا کام کاربن مونوآکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ جیسی زہریلی گیسوں کو کم نقصاندہ نائٹروجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آبی بخارات میں تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ تقریباً 80 فیصد پلاڈیئم ان ڈیوائسز میں استعمال ہوتا ہے۔ گاڑیوں کے کیٹالیٹک کنورٹرز نکالنا نسبتاً آسان کام ہے اس کے علاوہ یہ کچھ حد تک الیکٹرانکس، ڈینٹسٹری اور جیولری میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کا کہنا ہے کہ 2019 کے پہلے چھ ماہ میں چوریوں کی تعداد پچھلے پورے سال کے دوران چوریوں سے 70 فیصد زیادہ تھی۔ مختصراً اس لیے کہ پلاڈیئم کی طلب زیادہ ہے اور رسد کم۔ 2019 میں اس دھات کی پیداوار لگاتار آٹھویں سال عالمی طلب سے کم رہی۔ چونکہ یہ پلاٹینم اور نِکل کی کان کنی کے دوران ثانوی طور پر نکلتا ہے، اس لیے کان کنوں کے پاس بڑھتی ہوئی طلب پوری کرنے کے لیے زیادہ پلاڈیئم نکالنے کی کم ہی گنجائش ہے۔ اور بظاہر یہ عدم توازن جاری رہے گا کیونکہ دنیا کا 40 فیصد پلاڈیئم پیدا کرنے والے جنوبی افریقہ نے گذشتہ ہفتے کہا ہے کہ اس کی پلاٹینم گروپ میں شامل دھاتوں کی پیداوار (بشمول پلاڈیئم) میں نومبر میں گذشتہ سال کے مقابلے میں 13.5 فیصد کمی آئی۔ اس دوران کار تیار کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے کئی وجوہات کی بنا پر پلاڈیئم کی طلب میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دنیا بھر میں خاص طور پر چین میں حکومتیں پیٹرول گاڑیوں سے پھیلنے والی آلودگی پر قابو پانے کے لیے کڑے ضوابط عائد کر رہی ہیں۔ تاجروں کو امید ہے کہ اس معاہدے سے عالمی معاشی نمو میں تنزلی کے رجحان اور چینی گاڑیوں کی فروخت میں ہونے والی گراوٹ میں بھی کمی ہوگی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-51165736", "summary": "اس ہفتے ڈیوس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، نوجوان ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ اور اوبر کے چیف سمیت کئی بڑی کاروباری اور سیاسی شخصیات ڈبلیو ای ایف کی تقریب میں شرکت کریں گی۔", "title": "ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کیا اشرافیہ کی محفل ہے؟", "firstPublished": "2020-01-19T12:31:05.000Z", "id": "efc578b7-889e-e64e-b5ef-a6f929a2d2d5", "article": "اس ہفتے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں دنیا کی بڑی کاروباری شخصیات، سیاست دان اور بعض معروف اداکار ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) میں موجود ہوں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، نوجوان ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ اور اوبر کے چیف ایگزیکٹیو دارا خوسروشاہی مہمانِ خصوصی میں شامل ہیں۔ ہر سال ورلڈ اکنامک فارم کی تقریب ڈیووس کے الپائن ریزارٹ میں منعقد کی جاتی ہے۔ اس کانفرس کے ذریعے کاروباری سربراہان کو اسی کمرے میں بٹھایا جاتا ہے جہاں سیاست، خیرات اور تعلیم کے شعبوں کے بڑے نام موجود ہوتے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگ اپنے ممالک میں سرمایہ کاری کے لیے نجی ملاقاتیں بھی کرتے ہیں اور اس تقریب کے بہانے انھیں کاروباری کے مواقع مل جاتے ہیں۔ دنیا کی امیر اور مقبول شخصیات اکثر اس تقریب کو اپنے عالمی ایجنڈے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ چاہے آپ گذشتہ تقاریب کے دوران شہزادہ ولیم کی ذہنی صحت پر تقریر سن لیں یا ڈیوڈ ایٹنبرا کی ماحول کو درپیش خطرات پر تنبیہ کی مثال لے لیں۔ ڈبلیو ای ایف میں تقریباً تین ہزار لوگ شرکت کرتے ہیں۔ ان میں ایک تہائی افراد کاروبار سے وابستہ ہوتے ہیں۔ یہاں شرکت کرنے کے لیے آپ کو دعوت نامہ درکار ہوتا ہے جس کی کوئی قیمت نہیں۔ یا اگر آپ ڈبلیو ای ایف کے رکن ہیں تب بھی آپ اس تقریب کا حصہ بن سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے آپ کو چار لاکھ 80 ہزار پاؤنڈز دینے ہوتے ہیں۔ دنیا کے بڑے رہنماؤں کے علاوہ یہاں اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے سربراہان موجود ہوتے ہیں جبکہ اس تقریب میں بڑی کمپنیوں جیسے کوکا کولا، گولڈ مین ساچز اور آئی بی ایم کے مالکان بھی شرکت کرتے ہیں۔ اس تقریب میں ارب پتی کاروباری شخصیت جارج سوروس، سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر، فیس بک کے بانی مارک زکربرگ اور یوٹو بینڈ کے گلوکار بونو باقاعدگی سے شرکت کرتے رہتے ہیں۔ سنہ 2007 اور 2008 کے مالی بحران کے دوران ڈیوس کی تقریب میں آنا لازم اور بھلے کا کام تصور کیا جاتا تھا۔ اس تقریب کے کچھ نمایاں پہلو کانفرنس کی پرکشش جگہ، یہاں ہیلی کاپٹرز میں مہمانوں کی آمدورفت اور اشرافیہ کی دعوتیں ہوتی ہیں۔ ان باتوں کی وجہ سے ’امیر ترین لوگوں کی محفل‘ کا یہ دعویٰ مضبوط ہو جاتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی تقریر سے توجہ کا مرکز بن سکتے ہیں۔ وہ گذشتہ سال اس تقریب میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ دوسری طرف گریٹا تھنبرگ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک پیغام پیش کریں گی۔ وہ ڈیوس میں سرکاری ذریعہ آمدورفت کے استعمال کے بجائے پیدل چل کر الپائن ریزارٹ پہنچیں گی۔ اور بالی وڈ اداکارہ دیپیکا پڈوکون بھی ڈیووس کی تقریب میں شرکت کریں گی جہاں وہ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن پر بات کریں گی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-51129551", "summary": "بی بی سی ریئلیٹی چیک ٹیم نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ ایران میں اپوزیشن کس قدر مضبوط ہے اور حکام نے حکومت مخالف حالیہ مظاہروں سے کس طرح نمٹا ہے۔", "title": "ایران مظاہرے: ملک میں حزبِ اختلاف کتنی مضبوط ہے؟", "firstPublished": "2020-01-16T08:05:05.000Z", "id": "336e6774-03c0-0844-ad32-73c5c22c22e9", "article": "ایرانی حکام نے جب سے یوکرینی ایئرلائن کے طیارہ کو ’نادانستہ طور پر‘ مار گرانے کا اعتراف کیا ہے، تب سے ایران کے دارالحکومت تہران اور دیگر شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس طیارے میں 100 سے زائد ایرانی شہری بھی موجود تھے اور ایرانی حکومت لگاتار تین روز تک اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتی رہی یہ مظاہرین حکام کی جانب سے آغاز میں سچ نہ بتانے کی مذمت کر رہے ہیں لیکن ان مظاہروں میں ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای مخالف نعرے بھی سننے میں آئے ہیں۔ بی بی سی کے رعنا رحیمپور کا کہنا ہے کہ ’ان میں سے بہت سارے طلبا ایسے ہیں جو بیرونِ ملک جانے کی استطاعت رکھتے ہیں اور اکثر کے جاننے والے اس طیارے میں موجود تھے۔‘ ایران کا سیاسی نظام انتخابات کروانے کی اجازت دیتا ہے لیکن سیاسی گروہوں کو اسلامی جمہوریہ کے سخت گیر قوانین کے حساب سے کام کرنے کی اجازت ہے۔ یہ طاقتور ادارہ کسی بھی صدارتی امیدوار کو بھی نااہل قرار دے سکتا ہے اور پارلیمان میں منظور کی گئی کسی ایسی قرارداد کو ویٹو بھی کر سکتا ہے جو اس کے نزدیک ایران کے آئین اور اسلامی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہو۔ ایران میں برسوں سے ایک اصلاح پسند تحریک چل رہی ہے جس کا محور ایران کے سابق صدر محمد خاتمی ہیں۔ سنہ 2005 تک حکمرانی کرنے والے خاتمی نے اپنے دورِ حکومت میں محدود سماجی اور معاشی اصلاحات کی تھیں جس کا احساس مغربی ممالک کو بھی ہوا تھا۔ ان انتخابات میں شکست کھانے والے امیدواروں میر حسین موسوی اور مہدی کروبی نے اس کے نتائج پر سوال اٹھا دیے جس کے بعد پورے ملک میں سیاسی اصلاحات کے حق میں دیکھنے میں آئے جنھیں بعد میں سبز تحریک کا نام دیا گیا۔ لاکھوں افراد نے سڑکوں کا رخ کرتے ہوئے دوبارہ انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا لیکن آیت اللہ خامنہ ای اس بات پر زور دیتے رہے کہ انتخابات کے نتائج درست ہیں۔ متوسط طبقے کے قدرے امیر افراد نے بھی ان مظاہروں میں شرکت کی اور صدر روحانی کی حکومت کی معاشی پالسیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ ان مظاہروں میں شامل افراد نے ملک کی اعلیٰ قیادت کے خلاف بھی نعرے بازی کی تھی اور ملک میں بادشاہت کے نظام کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا تھا جس کا خاتمہ 1979 میں کیا گیا تھا۔ نومبر 2019 میں پھر سے مظاہرے اس وقت دیکھنے میں آئے جب حکومت کی جانب سے تیل کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافے کا عندیہ دیا گیا۔ مگر ان حالیہ مظاہروں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اکثر اوقات کسی کی رہنمائی میں نہیں ہوتے، اور ان کی بنیاد مہنگائی، بیروزگاری اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات پر عوام کا غم و غصہ ہوتا ہے۔ مگر شورش کے باوجود حکومت کنٹرول میں رہنے میں کامیاب رہی ہے اور ایسا اپوزیشن رہنماؤں پر کڑی پابندیوں اور عوامی غصے کو ریاستی سطح پر دبا کر کیا گیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-51081495", "summary": "روئٹرز کے مطابق سلطان قابوس کو عمان میں شعور اور بیداری لانے والے حکمران کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ تاہم اب دیکھنا ہے کہ نئے سلطان حیثم بن طارق اپنے پیشرو کے نقش قدم پر چل پائیں گے؟", "title": "سلطان قابوس اپنے والد کے طرز حکومت سے نالاں کیوں تھے؟", "firstPublished": "2020-01-12T06:48:04.000Z", "id": "442e3c5a-d675-704d-bc67-a41aed88d525", "article": "سلطان قابوس نے عمان کو سفارتی طور پر غیر جانبدار ممالک میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ بعض مواقع پر بین الاقوامی ثالث کا کردار بھی ادا کیا۔ اس وقت کے خلیجی حکمرانوں میں برطانیہ کا کافی اثر و رسوخ تھا اور برطانیہ نے ہی قابوس کو اپنے والد کو اقتدار سے بیدخل کرنے میں مدد کی۔ 23 جولائی سنہ 1970 کو قابوس نے اپنے والد کا تختہ الٹ دیا۔ اس وقت نئے سلطان یعنی قابوس کی عمر صرف 30 سال تھی۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق ’قابوس کو عمان میں شعور اور بیداری لانے والے حکمران کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔‘ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تصادم میں انھوں نے عمان کو کسی ایک فریق کی طرف جھکنے نہیں دیا۔ یہاں تک کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے قطر کے ساتھ تنازعے میں بھی عمان مکمل طور پر غیر جانبدار تھا۔ روئٹرز کے مطابق سفید داڑھی والے سلطان قابوس آخری مرتبہ اکتوبر سنہ 2018 میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے ساتھ نظر آئے تھے۔ نتن یاہو نے عمان کا دورہ کیا تھا۔ باقی مسلمان ممالک کے رہنما عمومی طور پر اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو سے کھل کر ملنے سے گریز کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حیثم بن طارق آل سید عمان کی موجودہ پالیسی کو جاری رکھیں گے۔ نئے سلطان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ عمان کی غیرجانبداری کی خارجہ پالیسی کو برقرار رکھیں گے۔ چیٹم ہاؤس مشرق وسطی اور شمالی افریقہ پروگرام کے نائب ڈائریکٹر صنم وکیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ’انھوں نے اپنے پہلے بیان میں ہی اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ وہ سلطان قابوس کی میراث کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ کہنا زیادہ اہم ہے کہ عمان ایک غیر جانبدار ملک کی حیثیت سے خلیجی ممالک میں رہا ہے اور اس پر کئی سالوں سے تنازع رہا ہے۔‘ عمان کو تیل پر مبنی معیشت سے دوسری جانب لے جانے کے لیے انھیں پہلے عمان کے عوام کو جواب دینا ہو گا جو ساری زندگی صرف ایک سلطان کو جانتے تھے۔ نئے سلطان پر اعتماد کرنے میں وقت لگے گا۔ نئے سلطان کے سامنے یہ چیلنج ہو گا کہ کس طرح معیشت کو تیل کے علاوہ کوئی اور بنیاد فراہم کی جائے اس کے ساتھ زیادہ تر لوگوں کی معاشی حالت کو بہتر رکھنے کا بھی چیلنج ہو گا۔ لیکن ایک بند لفافے میں انھوں نے جانشین کی حیثیت سے اپنی پسند ظاہر کی تھی۔ ہفتے کے روز شاہی خاندان نے جمع ہو کر قابوس کے انتخاب پر غور کیا اور رضامندی سے حیثم بن طارق کو نیا سلطان منتخب کیا گیا۔ قابوس کی پانچ دہائیوں پر مبنی حکمرانی کے دوران عمان میں بڑی معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور یہ مشرق وسطی کے ممالک میں ایک بڑے امن ساز کے طور پر ابھرا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50954020", "summary": "گزرے ایک سال میں بہت کچھ تھا۔ امید سے ناامیدی کا سفر، زوال پزیر ہوتی معیشت، پکڑو بچاؤ کی صدائیں، سول ملٹری تعلقات کا ایک صفحہ، اندر باہر آتے جاتے سیاستدان، بند پڑی پارلیمان اور این آر او کی صدائیں: عاصمہ شیرازی کا کالم۔", "title": "تین سو پینسٹھ دن!", "firstPublished": "2019-12-31T05:57:41.000Z", "id": "32d55ec7-b04e-d941-866d-9b580bbe793f", "article": "گزرے ایک سال میں بہت کچھ تھا۔ امید سے ناامیدی کا سفر، معاشی زبوں حالی کی داستان، زوال پزیر ہوتی معیشت، پکڑو بچاؤ کی صدائیں، سول ملٹری تعلقات کا ایک صفحہ، پچھلی حکومتوں کا حساب کتاب، بدعنوانی پر شائع ہوتے مجلے، اندر باہر آتے جاتے سیاستدان، بند پڑی پارلیمان۔۔۔ کیا اس انتظار میں ہم وہ لمحے شمار کریں گے جو ملال سے پُر تھے اور جواب کے متلاشی؟ کیا کھویا کیا پایا کی اس تکرار میں گزرے ایک سال کے تاریک لمحوں پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والا کل گزرے کل کی چاپ سے باہر نکلے۔ گزرے ایک سال میں بہت کچھ تھا۔ امید سے ناامیدی کا سفر، معاشی زبوں حالی کی داستان، زوال پزیر ہوتی معیشت، پکڑو بچاؤ کی صدائیں، سول ملٹری تعلقات کا ایک صفحہ، پچھلی حکومتوں کا حساب کتاب، بدعنوانی پر شائع ہوتے مجلے، اندر باہر آتے جاتے سیاستدان، بند پڑی پارلیمان، اوپر نیچے ہوتی اسٹاک مارکیٹ کی دکان، بیمار رہنما اور ضمانتیں، این آر او دینے اور نہ دینے کی صدائیں، مولانا کا دھرنا اور کلائمیکس پر اُلٹے پیر پھرنا۔ جنّوں، ہم زادوں اور پریوں کی داستانیں، آرمی چیف کی توسیع پر غیر متوقع عدالتی کارروائی اور پھر غیر معمولی فیصلہ، سابق آمر جنرل مشرف کو پھانسی کی سزا کا تاریخی فیصلہ اور گھسیٹنے کی سزا کا نا قابل قبول پیرا 66: غرض اسی ہماہمی میں، جاگتی سوتی آنکھوں نے بہت کچھ دیکھ لیا۔ نئے سال میں امید ہے کہ اپوزیشن خواب غفلت سے بیدار ہو گی، پارلیمان اپنا حق تسلیم کرائے گی، عوامی راج کے سُہانے نعرے پر عمل ہو گا، جوڑ توڑ اور محلاتی سازشوں سے جمہوریت محفوظ رہے گی اور ووٹ کو عزت دینے کے عملی اقدامات کیے جائیں گے کرکٹ میں اس سال جہاں کئی نوجوانوں کو پاکستان کے لیے کھیلنے کا موقع ملا، وہیں فواد عالم پر کسی کی نظر نہیں پڑی اس سب کے باوجود میں 2020 سے قطعی مایوس نہیں ہوں۔ اُمید ہے کہ نئے سال میں معیشت بہتر ہو گی، روزگار بڑھے گا، سیاسی استحکام آئے گا۔ سول ملٹری تعلقات کا ایک صفحہ اپنی جگہ قائم رہے گا اور ہو سکتا ہے کہ عوام بھی اُس صفحے کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ نئے سال میں امید ہے کہ اپوزیشن خواب غفلت سے بیدار ہو گی، پارلیمان اپنا حق تسلیم کرائے گی، عوامی راج کے سُہانے نعرے پر عمل ہو گا، جوڑ توڑ اور محلاتی سازشوں سے جمہوریت محفوظ رہے گی، ووٹ کو عزت دینے کے عملی اقدامات کیے جائیں گے، احتساب بلا امتیاز ہو گا، انصاف بلا روک ٹوک ملے گا جبکہ روٹی، کپڑا اور مکان کے ساتھ ساتھ پانی، بجلی اور گیس بھی سستے نرخوں دستیاب ہوں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50909664", "summary": "بی آئی ایس پی سنہ 2008 میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں خصوصاً عورتوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا جس کو مسلم لیگ ن اور حالیہ حکومت میں بھی جاری رکھا گیا ہے۔", "title": "وہ کون ہیں جنھیں اب بینظیر انکم سپورٹ نہیں ملے گی؟", "firstPublished": "2019-12-25T14:32:54.000Z", "id": "8f51cac0-f6e0-e947-9b61-3447019938be", "article": "واضح رہے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سنہ 2008 میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں غریب اور پسماندہ طبقے خصوصاً عورتوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا جس کو مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں بھی جاری رکھا گیا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے چیئرمین بی آئی ایس پی ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی ٹویٹ میں جاری کردہ فہرست میں واضح طور پر اس معیار کی تفصیل جاری کی ہے جس کے تحت ان افراد کا نام بی آئی ایس پی کے مستحق افراد کی فہرست سے نکالا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے اس پروگرام کو غیر سیاسی بنیادوں پر چلایا ہے تاکہ ملک میں غریب خصوصاً خواتین کو مالی مدد دی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کے بارے میں ہم اسمبلیوں میں آواز اٹھائیں گے کہ حکومت کو اس پروگرام سے اتنی دشمنی کیوں ہے۔ بی آئی ایس پی میں ملک بھر سے شامل افراد کی تعداد کے بارے میں سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اس پروگرام میں 52 لاکھ افراد شامل ہیں جن کو حکومت مالی مدد فراہم کر رہی ہے۔ بیرون ملک دورے کرنے والے افراد کو پروگرام سے نکالے جانے کے تناظر میں کسی کی مالی مدد سے حج یا عمرہ پر جانے والے افراد کے بارے میں سوال پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو کہیں یہ واضح کرنا ہے کہ اس پروگرام کے تحت انتہائی مستحق کون ہے۔ حج اور عمرہ کرنے والے چاہیے کسی کی مالی مدد سے ہی کر رہے ہیں اس پروگرام کے تحت انتہائی مستحق افراد کی فہرست میں شامل نہیں ہو سکتے۔ ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے احساس پروگرام میں 134 مختلف منصوبے چل رہے ہیں جن میں سے 7 صرف بی آئی ایس پی کے تحت چل رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بی آئی ایس پی ایک ادارے کا نام ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو رہی۔ بلکہ اگلے برس جنوری کے آخر میں بی آئی ایس پی کے تحت ایک نیا پروگرام ’کفالت‘ شروع ہو گا جو خواتین کے لیے ڈیجیٹل اور مالی سطح پر شمولیت کا پروگرام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس نئے پروگرام میں مالی مدد کی رقم میں بھی اضافہ کیا جائے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ اس کے تحت رجسڑڈ ہونے والی نئی خواتین کو بھی اس ڈیٹا انالیکٹس سے گزرنا ہوگا جس کا بہت اہم کردار ہو گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50740833", "summary": "ملک میں گاڑیاں بنانے والے بڑے صنعتی پلانٹس اپنی پیداوار میں تیزی سے کمی لا رہے ہیں جس کی وجہ پاکستان میں کاروں کی طلب میں کمی ہے۔", "title": "پاکستانی آخر کاریں کیوں نہیں خرید رہے؟", "firstPublished": "2019-12-14T03:52:39.000Z", "id": "cc148307-ad93-ec44-b867-00210d060d6d", "article": "پاکستان میں گذشتہ ایک سال میں کاروں کی قیمتوں میں کافی تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے جس کی وجہ سے عوام میں گاڑیاں خریدنے کے رجحان میں واضح کمی نظر آ رہی ہے۔ ملک میں کاریں بنانے والے بڑے صنعتی پلانٹس اپنی پیداوار میں تیزی سے کمی لاتے ہوئے پیداوار کے دنوں میں کمی کر رہے ہیں۔ یعنی آئندہ چند ماہ میں بھی یہ رجحان ٹوٹتا نظر نہیں آتا۔ پہلی وجہ تو ہے ڈالر کی قیمت۔ اس سال کے آغاز سے اب تک پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی سے کمی دیکھی گئی ہے۔ اس کی وجہ سے کاروں کی تیاری کے لیے درکار درآمدات کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے کاروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے جیسے جیسے گاڑیاں عام شہری کی دسترس سے نکلتی گئیں وہیں کاریں بنانے والی کمپنیوں نے اپنی پیداوار بھی کم کر دی۔ اس کے برعکس اگر ملک میں موٹر سائیکلوں یا تین پہیوں والی سواریوں کی پیداوار اور فروخت کو دیکھا جائے تو حالات اتنے برے نہیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ دو یا تین پہیوں والی سواریوں کا تقریباً حصہ 92 فیصد ملک میں ہی تیار کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس ملک میں اس صنعت کے لیے ریگیولیٹر کا کردار غائب ہے۔ حکومت اور صارف کے مقاصد یکجا نہیں ہیں۔ جب کار بنانے والی کمپنیاں زیادہ قیمت پر گاڑی بیچیں گی تو حکومت کو ٹیکس کے زیادہ پیسے ملیں گے کیونکہ جی ایس ٹی اور ایف ای ڈی کار کی قیمت کے تناسب سے ہے۔ تو اگر میں (حکومت) آنکھیں بند کر لوں کہ آپ نے 20 لاکھ کی چیز 30 یا 40 کی کر دی ہے تو یہ میری غلطی ہے نا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ کیلے کی ریڑھی پر چھاپہ مار سکتے ہیں تو حکومت کاروں کی قیمت کی چھان بین کیوں نہیں کر سکتی؟ کتنا حصہ درآمد ہوتا ہے اور ڈالر سے متاثر ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان کی قیمتوں میں شفافیت لائے۔‘ پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس اینڈ ایسیسریز مینوفیکچررز (پی اے اے پی اے ایم) کے انصار ہارون کہتے ہیں کہ ’ہم کاروں کے حصوں کو دو کیٹیگری میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک ہے گاڑی کی جلد (باڈی) اور کاسمیٹکس حصے اور دوسرے ہیں ٹرانسمیشن، انجن اور سسپنشن کے حصے۔ جو پہلی کیٹیگری ہے ان میں مڈ گارڈ، ڈیش بورڈ وغیرہ وغیرہ خوبصورتی کے جو پارٹس ہیں وہ پاکستان میں بنتے ہیں۔ ان میں کوئی زیادہ ٹیکنالوجی درکار نہیں ہوتی اور ان کو بنانا قدرے آسان ہے۔ مگر ٹرانسمیشن، انجن اور سسپنشن آپ کو درآمد کرنا پڑتا ہے۔ گاڑی کی اصل ویلیو تو ان تین چیزوں میں ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-50742910", "summary": "سعودی شاہی خاندان آرامکو کے حصص کی فروخت اس لیے کر رہا ہے تاکہ سعودی عرب کا تیل پر انحصار کم سے کم کیا جا سکے، مہنگے شیئرز کی بدولت آرامکو دنیا کی سب سے قیمتی کمپنی بن چکی ہے۔", "title": "کیا آرامکو دنیا کی سب سے ’قیمتی‘ کمپنی بن چکی ہے؟", "firstPublished": "2019-12-12T01:33:13.000Z", "id": "58190e7e-c866-774a-acff-325508041db3", "article": "ریاض کی سٹاک مارکیٹ میں سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل کمپنی آرامکو کے حصص کی قدر میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ آرامکو اپنے مہنگے شیئرز کی بدولت اس وقت دنیا کی سب سے قیمتی کمپنی بن چکی ہے۔ شیئرز کی ابتدائی طور پر جاری کردہ قیمت کے مقابلے میں کمپنی کے حصص کی قدر میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ ہفتے تیل کی اس بڑی کمپنی نے اپنے حصص کی فروخت کے دوران 25.6 ارب ڈالر کمائے تھے۔ یاد رہے کہ آرامکو عالمی سطح پر خام تیل کا دسواں حصہ پیدا کرتی ہے۔ سعودی شاہی خاندان آرامکو کے حصص کی فروخت اس لیے کر رہا ہے تاکہ سعودی حکومت کا تیل پر انحصار کم سے کم کیا جا سکے۔ 1.88 کھرب کی قدر کے ساتھ آرامکو باآسانی دنیا کی سب سے قیمتی کمپنی بن گئی ہے، تاہم یہ مالیت اس تخمینے سے تقریباً دو کھرب کم ہے جس کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان توقع رکھتے ہیں۔ لیکن پھر بھی آرامکو کے حصص دنیا بھر میں آج تک کے سب سے قیمتی شیئرز ہیں۔ ان کی قیمت چینی کمپنی علی بابا سے بھی زیادہ رہی ہے جس نے سنہ 2014 کے دوران نیو یارک میں اپنے شیئرز کی فروخت سے 25 ارب ڈالر کمائے تھے۔ بیرونی ممالک کی جانب سے شیئرز میں عدم دلچسپی کے بعد سعودی عرب کو 1.5 فیصد حصص کی فروخت کے لیے مقامی اور علاقائی سرمایہ کاروں کا سہارا لینا پڑا تھا۔ آرامکو کے حصص کی فروخت سعودی عرب کے تداول حصص بازار اور ایک بیرونی مارکیٹ میں کی گئی اور ابتدائی طور پر 100 ارب ڈالر کا ہدف رکھا گیا تھا۔ ان سب وجوہات کی بنا پر آرامکو نے اپنی توجہ سعودی سرمایہ کاروں اور خلیج میں اپنے امیر اتحادیوں پر مرکوز کر لی تھی۔ ملک بھر میں تشہیر کی ایک مہم کے دوران سعودی بینکوں نے بھی اپنے شہریوں کو سستے قرضے دیے تاکہ وہ یہ حصص خرید سکیں۔ سعودی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور اور تیل پر انحصار کم کرنے کے منصوبوں میں آرامکو کے حصص کی فروخت ایک اہم کڑی ہے۔ یہ معاہدہ تیل کے ذخائر کی کھوج اور کنوؤں کی کھدائی کے لیے ایک نئی کمپنی کی تشکیل سے متعلق تھا۔ اس کے بعد سنہ 1973 سے سنہ 1980 کے درمیان سعودی عرب نے آہستہ آہستہ پوری آرامکو کمپنی ہی خرید لی۔ انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق سعودی عرب میں وینزویلا کے بعد تیل کے سب سے بڑے ذخائر ہیں۔ اس کے ساتھ سعودی عرب تیل کی پیداوار میں امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تیل کے معاملے میں سعودی عرب کو دوسرے ممالک پر ترجیح حاصل ہے کیونکہ یہاں تیل نکالنا بھی نسبتاً سستا اور آسان ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی تیل کمپنی ہے جس کی روزانہ 10 ملین بیرل پیداوار ہوتی ہے اور اس سے 356،000 ملین امریکی ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50689595", "summary": "دبئی میں ایک نجی ادارے کی جانب سے جمعے سے شروع کیے گئے دو روزہ ’پاکستان پراپرٹی شو‘ میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے 32 سرکاری جائیدادوں کی فروخت کے سلسلے میں تشہیر کی جا رہی ہے۔", "title": "بھینسوں اور گاڑیوں کے بعد سرکاری پراپرٹی ’برائے فروخت‘", "firstPublished": "2019-12-06T17:19:17.000Z", "id": "571c789c-5cb6-434c-9656-257c9e5bd336", "article": "دبئی میں ایک نجی ادارے کی جانب سے جمعے سے شروع کیے گئے دو روزہ 'پاکستان پراپرٹی شو' میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے سرکاری املاک کی فروخت کی تشہیر کی جا رہی ہے۔ سیکریٹری نجکاری کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے اس حوالے سے فنانشل ایڈوائزر کی خدمات حاصل کی ہیں جو ان 32 املاک کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن کا اندازہ لگانے کا کام کر رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ تمام 32 املاک کو فروخت کیا جائے گا یا ان میں چند کا کوئی دوسرا مصرف نکالا جائے گا جس کا فیصلہ فنانشل ایڈوئزر کی سفارشات کی روشنی میں کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ دبئی میں ہونے والے پراپرٹی شو میں یہ املاک فروخت نہیں کی جا رہیں بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور دیگر سرمایہ کاروں کو بتایا جائے گا کہ ہمارا یہ عمل جاری ہے اور وہ اس میں حصہ لیں۔ انھوں نے کہا کہ آئندہ دو ماہ تک یہ املاک فروخت کے لیے پیش کر دی جائیں گی۔ سیکریٹری نجکاری کے مطابق اس میں چند چھوٹی پراپرٹیز ہیں جبکہ کچھ بڑے سائز کے پلاٹ ہیں۔ ’16 پلاٹس وہ ہیں جو زلزلے کے بعد بحالی اور تعمیر نو کے ادارے، ایرا، کی جانب سے دیے گئے ہیں۔ یہ پلاٹس ایرا کو نیب سے پلی بارگین کے تحت ملے تھے۔ اسی طرح کچھ بڑے سائز کے پلاٹ ہیں جو بڑے شہروں کی مرکزی شاہراؤں پر موجود ہیں۔ دو ریسٹ ہاؤسز ہیں جو خالی پڑے تھے۔‘ بدھ کو اس حوالے سے وزیرِ اعظم کی زیر صدارت ایک اجلاس بھی منعقد ہوا تھا۔ سرکاری پریس ریلیز کے مطابق اس موقع پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سالہا سال سے غیر استعمال شدہ اربوں کی جائیدادوں کو مثبت طریقے سے برؤے کار لاتے ہوئے ان سے حاصل ہونے والی آمدنی کو عوام کی فلاح و بہبود اور سکولوں، کالجوں، ہسپتالوں جیسی بنیادی سہولتوں کی بہتری کے لیے استعمال کرنا موجودہ حکومت کی پالیسی کا اہم جزو ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کہ اربوں کی جائیدادوں کے باوجود وفاقی حکومت کے مختلف ادارے اربوں روپے کا سالانہ خسارہ اٹھا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں ان بیش قیمت جائیدادوں کو استعمال میں نہ لاکر مجرمانہ غفلت کا مظاہر ہ کیا گیا۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ غیر استعمال شدہ املاک کی نشاندہی نہ کرنے والے یا ان کو مثبت طریقے سے بروئے کار لانے میں رکاوٹ پیدا کرنے والے سرکاری افسران و ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-50669943", "summary": "لبنان، ایران اور عراق کے بیروزگاری اور بدعنوانی سے اکتائے نوجوان غصے سے بھرے ہیں۔ بی بی سی کے مشرق وسطی کے مدیر جیریمی بووین سے جانیے کہ مشرق وسطی میں کیا ہو رہا ہے۔", "title": "کیا مشرق وسطیٰ میں ایک نیا طوفان پنپ رہا ہے؟", "firstPublished": "2019-12-05T08:57:21.000Z", "id": "2b5c6e1e-584c-0d48-944e-497d05f7b337", "article": "بی بی سی کے مشرق وسطی کے ایڈیٹر جیریمی بووین لبنان کے دارالحکومت بیروت میں اس پوری گتھی کو سلجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان ہی سے جانتے ہیں کہ مشرق وسطی میں کیا چل رہا ہے۔ گذشتہ چند مہینوں کے دوران لبنان، عراق اور ایران میں بڑے بڑے مظاہرے دیکھنے کو ملے ہیں۔ مصر کی عوام متشدد ریاستی پولیس کے خلاف غصے سے بھری ہوئی نظر آتی ہے جبکہ گذشتہ موسمِ بہار میں الجیریا کے صدر کو صدارتی محل سے بیدخل کر دیا گیا۔ ان تمام ممالک کے عوام کے اپنے اپنے مسائل اور شکایات ہیں مگر ایک چیز جو مشترک ہے وہ ان میں موجود گہری مایوسی اور احساسِ محرومی ہے۔ زیادہ تر مظاہرین نوجوان ہیں۔ یاد رہے کہ مشرق وسطی کے ممالک کی مجموعی آبادی کا 60 فیصد 30 برس سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان غصے سے بھرے ہیں، بیروزگاری اور بدعنوانی سے اکتائے ہوئے۔ انھیں اپنا مستقبل تابناک نظر نہیں آتا جبکہ دوسری جانب ان کے ممالک کی حکمران اشرافیہ طاقت اور دولت کے نشے سے سرشار ہے۔ عراق کا شمار دنیا کے سب سے بدعنوان اور نااہل طرز حکومت کا شمار ملک کے طور پر ہوتا ہے۔ مظاہرین اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے اس لیے تیار ہیں کیونکہ وہ بدعنوانی اور بیروزگاری کے باعث مکمل طور پر ناامید ہو چکے ہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں تیل کے بڑے ذخائر ہیں وہاں کی حکومت اپنے شہریوں کو بلاتعطل بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھی ہے۔ عراقی عوام نہ صرف اپنے نااہل حکمرانوں کو کوس رہے ہیں بلکہ وہ عراق کے ایران کے ساتھ اتحاد کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ حال ہی میں نجف اور کربلا میں ایران کے سفارت خانوں کو نذرِ آتش کیا گیا ہے۔ یہ سب ہونے سے قبل ایران کے لیے عراق ایک دوستانہ ملک تھا۔ ایسا سمجھیے کہ مشرق وسطی میں دو بڑے گروپ ہیں۔ پہلے گروپ کو ہم ’امریکہ کی ٹیم‘ کہہ سکتے ہیں اور اس گروپ میں سعودی عرب اور اسرائیل بھی شامل ہیں۔ جبکہ دوسرے گروپ کو ہم ’ایران کی ٹیم‘ کہہ سکتے ہیں جسے عراق، مصر اور مشرق وسطی سے سب سے طاقتور گروہ حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔ ایران ٹیم کو اتحادیوں کی ضرورت ہے جنھیں وہ اپنی طاقت کے اظہار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مگر مشرق وسطی میں حالیہ مظاہروں نے فی الحال ٹیم ایران کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے، کیونکہ مظاہروں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ لبنان اور عراق میں اب لوگوں میں ایران مخالف جذبات ہیں۔ پورے مشرق وسطی میں ہوئے مظاہروں میں لوگ اپنے مسائل اور مشکلات پر بات کر رہے ہیں اور سرحدوں سے بالا ہو کر نوجوان لوگ نااہل، بدعنوان اور غیر معتبر حکمرانوں سے نجات چاہتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50662959", "summary": "پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اگست 2018 سے ستمبر 2019 کے درمیان دوست ممالک سے ایک اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کے قرضے حاصل کیے جن میں سرِ فہرست چین جبکہ دوسرے نمبر پر سعودی عرب ہے۔", "title": "پاکستان کے قرضوں میں چھ کھرب روپے کا اضافہ", "firstPublished": "2019-12-04T18:14:09.000Z", "id": "858bdf78-c547-e34f-9689-a4518fcaa8d9", "article": "پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اگست 2018 سے ستمبر 2019 کے درمیان دوست ممالک سے ایک اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کے قرضے حاصل کیے جن میں سرِ فہرست چین جبکہ دوسرے نمبر پر سعودی عرب ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے مجموعی قرضوں میں جون سنہ 2018 سے ستمبر 2019 تک چھ کھرب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ وزراتِ خزانہ کی طرف سے بدھ کو قومی اسمبلی میں پاکستان کے مجموعی قرضوں کے بارے میں پیش کی گئی تفصیلات میں بتایا گیا کہ جون 2018 سے ستمبر 2019 تک پندرہ ماہ میں حکومت نے مجموعی طور پر نو کھرب روپے سے زیادہ کے قرضے حاصل کیے۔ قومی اسمبلی کے سامنے رکھی گئی تفصیلات کے مطابق اس عرصے کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کی وجہ سے ملک کے ذمہ واجب الادا قرضوں میں 28 فیصد یا ڈھائی کھرب روپے کا اضافہ ہوا۔ حکومت نے اسی عرصے کے دوران بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے تین اعشاریہ سات کھرب روپے کے قرضے لیے۔ نیشنل اسمبلی کے سامنے رکھی گئی معلومات میں یہ تفصیلات بھی دی گئی ہیں کہ 18 اگست 2018 سے 30 ستمبر 2019 کے درمیان پاکستان نے کن دوست ممالک اور بین الاقومی اداروں سے قرضے حاصل کیے۔ دوست ممالک سے حکومتوں کی سطح پر تحریک انصاف کی حکومت نے ایک اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر حاصل کیے جن میں سرِ فہرست چین ہے جس سے ایک اعشاریہ پانچ ارب ڈالر اور دوسرے نمبر پر سعودی عرب ہے جس سے ایک سو اکاون ملین ڈالر حاصل کیے گئے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں بین الاقوامی بینکوں سے حاصل کردہ قرضوں کی فہرست میں چین کے بینک اور ادارے سرِفہرست ہیں۔ چین کے بینکوں کے ایک کنسورشیم نے دو اعشاریہ دو ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم فراہم کی۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف جس سے موجودہ حکومت کے طویل مذاکرات چلتے رہے اور جس کی طرف سے معیشت میں اصلاحات نافذ کی گئیں، اس کی طرف سے مذکورہ پندرہ ماہ میں نو سو اکانوے ملین ڈالر ملے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-50612472", "summary": "انڈیا کی مجموعی پیداوار کی ترقی کی شرح میں مسلسل گراوٹ نظر آ رہی ہے اور صنعت کے شعبے کی شرح 6.7 فیصد سے کم ہو کر محض نصف فیصد رہ گئی ہے۔", "title": "انڈیا کی معیشت میں مسلسل گراوٹ", "firstPublished": "2019-11-30T13:29:33.000Z", "id": "02c2b942-9da8-d041-bc73-44ee1e806f0a", "article": "انڈیا میں رواں سال کی تیسری سہ ماہی کے اعداد و شمار جاری کر دیے گئے ہیں جن میں ملک کی مجموعی پیداوار کی ترقی کی شرح میں مسلسل گراوٹ نظر آ رہی ہے۔ خدشات سچ ثابت ہوئے ہیں اور جی ڈی پی کی شرح نمو ساڑھے چار فیصد رہی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے کچھ عرصہ قبل ترقی کی شرح کے پانچ فیصد سے بھی کم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا لیکن اس جائزے میں خدشات کے باوجود ترقی کی شرح 4.7 فیصد بتائی گئی تھی۔ مزید تشویش کی بات تو یہ ہے کہ جی ڈی پی کی ترقی کی شرح میں یہ مسلسل چھٹی سہ ماہی ہے جس میں گراوٹ نظر آئی ہے۔ صنعت کے شعبے کی شرح 6.7 فیصد سے کم ہو کر محض نصف فیصد رہ گئی ہے جسے اقتصادی ماہرین ایک انتہائی پریشان کن بات کہہ رہے ہیں۔ اس میں بھی اشیا کی تیاری میں اضافے کی بجائے نصف فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ دوسری طرف زراعت کے شعبے میں اضافے کی شرح 4.9 سے کم ہو کر 2.1 فیصد ہو گئی ہے اور سروسز کے شعبے میں ترقی کی شرح 7.3 فیصد سے کم ہو کر 6.8 ہوگئی ہے۔ اس میں ہونے والے اضافے کو جی ڈی پی کی ترقی کی شرح کہتے ہیں اور یہی ملک کی ترقی کو جاننے کا پیمانہ ہے۔ اسی کی بنیاد پر فی کس جی ڈی پی طے ہوتی ہے۔ اور اگر یہ فی کس اعداد و شمار کمی کا شکار ہوں تو پھر اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ ملک کے شہری مشکلات سے دوچار ہیں، ان کی ضروریات مشکل سے پوری ہو رہی ہیں۔ گذشتہ ڈیڑھ سال سے جی ڈی پی میں مسلسل گراوٹ نظر آ رہی ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس میں بہتری کے آثار فی الحال نظر نہیں آ رہے ہیں۔ حکومت کا مقصد انڈیا کی معیشت کو پانچ کھرب ڈالر تک لے جانا ہے۔ صرف کیلکولیٹر پر حساب کتاب کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے جی ڈی پی کی ترقی کی شرح 12 فیصد سے زیادہ ہونی چاہیے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ دس سالوں سے ہندوستان دس فیصد کی ترقی کا خواب دیکھتا رہا ہے اور عموماً ترقی کی شرح سالانہ سات سے آٹھ فیصد کے درمیان رہی ہے۔ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اس خدشے کا اظہار نوٹ بندی کے بعد ہی کر دیا تھا کہ جی ڈی پی کی ترقی کی شرح میں ڈیڑھ فیصد تک کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اب جب ان کی بات سچ ثابت ہوتی نظر آتی ہے تو کم سے کم ان سے بات کر کے اس بیماری کا علاج تو پوچھا جا سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-50577328", "summary": "بلیک فرائیڈے سیل کی لمبی قطاروں میں لگ کر آپ کے لیے جگہ رکھنے کے لیے ایک امریکی جوڑا اپنی خدمات پیش کر رہا ہے۔", "title": "کیا آپ کبھی کسی سے پیسے لے کر قطار میں لگے ہیں؟", "firstPublished": "2019-11-27T14:49:05.000Z", "id": "751c4863-5c67-4140-be06-a1455da47f30", "article": "ایک امریکی جوڑا بلیک فرائیڈے سیل کی لمبی قطاروں میں لگ کر آپ کے لیے جگہ رکھنے کے لیے اپنی خدمات پیش کر رہا ہے۔ الیکسز گریناڈو کا کہنا ہے کہ ’جہاں پیسے کی بات آتی ہے تو میرے شوہر کو بہت غطیم آئیڈیاز آتے ہیں‘۔ ان کے شوہر سٹیون ویلاسکز کی حال ہی میں نوکری چلی گئی ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ میں بلیک فرائیڈے کی سیل کے لیے رات سے ہی دکانوں کے باہر قطاریں لگ جاتی ہیں اور یہ جوڑا ان قطاروں میں دوسروں کے لیے جگہ رکھنے کے لیے پیسوں کے بدلے اپنی خدمات پیش کر رہا ہے۔ یہ جوڑا کیلیفورنیا کے علاقے اپ لینڈ کی کسی بھی دکان کے باہر قطار میں دوسروس کے لیے جگہ رکھنے کے لیے 50 ڈالر لے رہا ہے۔ قطار میں لگنے کے لیے پیسے لینا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ برطانوی ویب سائٹس ’ٹاسک ریبٹ‘ اور ’بِڈ وائن‘ پر اپنی خدمات پیش کر کے لوگ ایک وقت میں 15 سے 10 پاؤنڈ کما لیتے ہیں۔ تاہم امریکہ میں دستیاب 'پلیس' نامی ایپ صرف اس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے کہ جو لوگ قطاروں میں لگنے کے لیے بہت مصروف رہتے ہیں وہ اس ایپ کے ذریعے دوسروں کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔ بلیک فرائیڈے سیل کا تصور امریکہ میں شروع ہوا تھا ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا قسطیں مواد پر جائیں امریکہ کی نیشنل ریٹیل فیڈریشن کے مطابق جمعے اور پیر کے درمیان ساڑھے 16 کروڑ افراد شاپنگ کے لیے دکانوں کا رُخ کریں گے۔ بلیک فرائیڈے سیل کا تصور امریکہ میں شروع ہوا تھا اور حپ 'تھینکس گیوِنگ' کی چھٹی کے بعد آنے والے جمعے کو منعقد کی جاتی ہے اور اس دن وہاں قومی سطح پر چھٹی ہوتی ہے۔ الیکسز اور سٹیون کا کہنا ہے کہ اس کام سے انھیں گھر کا خرچہ چلانے میں مدد ملے گی۔ وہ دونوں باقاعدہ نوکری کی تلاش میں ہیں لیکن اس وقت تک وہ جہاں ہو سکے اس قسم کی دیہاڑیاں لگا رہے ہیں۔ ان دونوں میں سے کسی نے ایسا پہلے نہیں کیا اور الیکسز کا کہنا ہے کہ 'مجھے پورا یقین ہے کہ ہم ایسا پہلی اور آخری مرتبہ نہیں کر رہے اور اگر آپ سوچیں تو یہ پیسے کمانے کا آسان طریقہ ہے'۔ انھوں نے اپنی خدمات کا اشتہار سوشل میڈیا پر دیا تو کئی لوگوں نے اس میں دلچسپی دکھائی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ گارنٹی دیتے ہیں کہ قطار میں ایک اچھی جگہ رکھیں گے اور اگر ان کی خدمات حاصل کرنے والا مطمئن نہ ہوا تو پیسے نہیں لیں گے۔ الیکسز کا کہنا ہے کہ 'ہم کبھی بےگھر ہوا کرتے تھے تو اس لیے قطاروں میں لگنا ہمارے لیے تکلیف دہ نہیں ہے اور یہ کہ پیسہ ہمارے لیے بہت معنی رکھتا ہے۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50537540", "summary": "پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے متعلق امریکی موقف مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے سی پیک منصوبوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔", "title": "’پاکستان نے سی پیک پر امریکی موقف مسترد کردیا ہے‘", "firstPublished": "2019-11-24T13:29:18.000Z", "id": "afa5bc85-2f9c-8142-a123-c92152f3e1e0", "article": "پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے متعلق امریکی موقف مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے سی پیک منصوبوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ملتان میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’یہ کہہ دینا کہ سی پیک کی وجہ سے ہمارے اوپر قرضوں میں اضافہ ہو گا، درست نہیں ہے۔‘ جمعے کے روز امریکہ کی جنوبی اور وسط ایشیائی امور کی نائب سیکریٹری ایلس ویلز نے واشنگٹن ڈی سی کے تھینک ٹینک ولسن سینٹر میں ایک تقریب کے دوران کہا تھا کہ چین اس وقت دنیا میں قرضے دینے والا سب سے بڑا ملک ہے تاہم یہ قرضے دینے کی اپنی شرائط کو شائع نہیں کرتا جس کی وجہ سے پاکستانیوں کو سی پیک کے حوالے سے چینی سرمایہ کاری پر سوالات اٹھانے چاہیئیں۔ ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو اس وقت نقصان پہنچے گا جب چار سے چھ سال کے بعد پاکستان کو قرضوں کی مد میں ادائیگیاں کرنا پڑیں گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر یہ ادائیگیاں موخر بھی کر دی گئیں تب بھی یہ پاکستان کی معاشی ترقی پر منڈلاتی رہیں گی۔ اپنی تقریر میں ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے تاہم اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبے سے پاکستان کو طویل المدتی معاشی نقصان ہو سکتا ہے۔ ایلس ویلز نے سی پیک کے حوالے سے متعدد مثالیں بھی دیں تھیں جہاں ان کے خیال میں پاکستانی مفادات کو ترجیح نہیں دی گئی۔ ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ سی پیک کے سب سے بڑے پراجیکٹ، کراچی سے پشاور تک ریل سروس کو بہتر بنانے کے ٹھیکے کی قیمت ابتدا میں 8.2 ارب ڈالر تھی، بعد میں پاکستانی وزیرِ ریلوے نے کہا کہ اسے 6.2 پر لایا گیا ہے تاہم حالیہ میڈیا رپورٹس میں یہ 9 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام کو یہ کیوں نہیں پتا کہ اس کی قیمت کیوں بڑھائی گئی ہے۔ ایلس ویلز کے بیان پر پاکستان میں چینی سفیر یاؤ جِنگ نے سخت ردِعمل ظاہر کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سی پیک پاکستان اور چین دونوں کے مفاد میں ہے اور دونوں ممالک میں میڈیا کو سی پیک کے حوالے سے منفی پراپیگینڈے کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ چینی سفیر کا کہنا تھا کہ ’جب 2013 میں پاکستان میں توانائی کا شدید بحران تھا اور چین ملک میں پاور پلانٹس لگا رہا تھا تو اس وقت امریکہ کہاں تھا۔ امریکی کمپنیوں نے اس وقت وہاں پر پاور پلانٹ کیوں نہیں لگائے؟‘ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پاکستان اور چین کے درمیان 60 ارب ڈالرز مالیت کا منصوبہ ہے جو کئی پراجیکٹس پر مشتمل ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-50534874", "summary": "سابق وزیراعظم نواز شریف کی لندن روانگی سے لے کر لاہور کی سموگ پر عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ، پاکستان میں گذشتہ ہفتے پیش آنے والے اہم واقعات کی تصویری جھلکیاں۔", "title": "گذشتہ ہفتے کا پاکستان تصاویر میں", "firstPublished": "2019-11-24T08:14:24.000Z", "id": "fa4f47d6-ce1c-c04c-a0b8-478bcdd4ac74", "article": "سابق وزیراعظم نواز شریف کی لندن روانگی سے لے کر لاہور کی سموگ پر عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ، پاکستان میں گذشتہ ہفتے پیش آنے والے اہم واقعات کی تصویری جھلکیاں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان کے شہر لاہور کے ہر شہری کی صحت کو سموگ یا گرد آلود زہریلی دھند سے خطرہ لاحق ہے۔ جمعرات کو ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے کہا گیا کہ اس بیان کا مقصد تنظیم کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے حامیوں کو لاہور کی آبادی کے لیے ایک مہم چلانے پر آمادہ کرنا ہے تاکہ شہر میں انتہائی نقصان دہ ہوا اور فضائی آلودگی کے بارے میں عالمی سطح پر آگاہی بڑھائی جا سکے۔ گذشتہ ہفتے سابق وزیراعظم نواز شریف علاج کی غرض سے برطانیہ روانہ ہوئے تھے۔ عدالت کی جانب سے حکومت کی انڈیمنیٹی بانڈ کی شرط ختم کر کے نواز شریف کی واپسی کو ڈاکٹروں کی سفارش سے مشروط کر دیا گیا تھا۔ نواز شریف کے ساتھ مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف بھی لندن میں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے جمعے کو میانوالی میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف کی لندن روانگی اور ان کی میڈیکل رپورٹ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ’تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔‘ عمران خان نے سوال کیا کہ ’کیا جہاز دیکھ کر مریض ٹھیک ہوگیا۔۔۔ رپورٹ میں تو کہا گیا تھا کہ مریض کا اتنا برا حال ہے کہ کسی بھی وقت مر سکتا ہے۔‘ آسٹریلیا نے پاکستان کے خلاف برسبین میں پہلا ٹیسٹ میچ ایک اننگز اور پانچ رنز سے جیت لیا ہے۔ بابر اعظم کی سنچری بھی پاکستان کو اس شکست سے نہ بچا سکی۔ دوسری اننگز میں ٹیم 335 کے سکور پر آؤٹ ہو گئی۔ پہلی اننگز میں 185 کے سکور کی وجہ سے مارنس لابوشین کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا ہے۔ دوسرا ٹیسٹ 29 نومبر سے کھیلا جائے گا۔ پاکستان میں سردیوں کی آمد کے ساتھ مچھلی کے کاروبار کے مناظر۔۔۔ سندھ کے ساحلی شہر کراچی کی ایک مقامی منڈی میں لوگ مچھلی برآمد کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے پلاننگ اسد عمر نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں ہے اور پاکستان امریکہ اور چین کے درمیان کسی کشمکش کا حصہ نہیں بنے گا۔ اس سے قبل امریکی سفارت ایلس ویلز نے کہا تھا کہ چین اس وقت دنیا میں قرضے دینے والا سب سے بڑا ملک ہے تاہم یہ قرضے دینے کی اپنی شرائط کو شائع نہیں کرتا جس کی وجہ سے پاکستانیوں کو سی پیک کے حوالے سے چینی سرمایہ کاری پر سوالات اٹھانے چاہیے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-50531898", "summary": "پاکستان نے ایلس ویلز کے چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بیان کے ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان امریکہ اور چین کے درمیان کسی کشمکش کا حصہ نہیں بنے گا۔", "title": "چین دوست ہے، لیکن امریکہ سے بھی دشمنی نہیں: پاکستان", "firstPublished": "2019-11-23T15:40:31.000Z", "id": "6c0fea4a-2f2a-c245-ba5a-314e9643d2fb", "article": "پاکستان نے جنوبی ایشیا کے بارے امریکی سفارت ایلس ویلز کے چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بیان کے ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں ہے اور پاکستان امریکہ اور چین کے درمیان کسی کشمکش کا حصہ نہیں بنے گا۔ وفاقی وزیر برائے پلاننگ اور سپیشل انیشیئیٹو اسد عمر نے امریکہ کی جنوبی اور وسط ایشیائی امور کی نائب سیکریٹری ایلس ویلز کے بیان پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان چین سے دوستی سے پیچھے نہیں ہٹے گا لیکن امریکہ اور چین کے درمیان کسی قسم کی کشمکش کا حصہ بھی نہیں بنے گا۔ ’اگر چین ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کر رہا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب ہم امریکہ کے خلاف ہو گئے ہیں۔‘ خیال رہے کہ جمعے کے روز ایلس ویلز نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک تقریب کے دوران کہا تھا کہ چین اس وقت دنیا میں قرضے دینے والا سب سے بڑا ملک ہے تاہم یہ قرضے دینے کی اپنی شرائط کو شائع نہیں کرتا جس کی وجہ سے پاکستانیوں کو سی پیک کے حوالے سے چینی سرمایہ کاری پر سوالات اٹھانے چاہئیں۔ اسد عمر کا اس کے ردِ عمل میں کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی معیشت پر بیرونی قرضوں کی وجہ سے بوجھ پڑا ہوا ہے لیکن اس کی وجہ چین نہیں ہے۔ جمعے کے روز پاکستان میں چینی سفیر نے یاؤ جنگ نے ایلس ویلز کے بیان کے ردِ عمل میں کہا تھا کہ چین نے سیاسی مقاصد یا مخصوص حکومتوں سے بالاتر ہو کر ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے اور کبھی بھی ایسے وقت پر پاکستان سے ادائیگی کا تقاضا نہیں کریں گے جب ایسا کرنا پاکستان کے لیے مشکل ہو۔ ایلس ویلز نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو اس وقت نقصان پہنچے گا جب چار سے چھ سال بعد پاکستان کو قرضوں کی مد میں ادائیگیاں کرنا پڑیں گی اور اگر یہ ادائیگیاں موخر بھی کر دی گئیں تب بھی یہ پاکستان کی معاشی ترقی پر منڈلاتی رہیں گی۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کا مجموعی قرضہ 74 ارب ڈالر ہے جس میں سے چین کی جانب سے دیا گیا قرضہ 14 ارب ڈالر ہے یعنی ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔ انھوں نے ایلس ویلز کے اس بیان کی تائید کی کہ امریکہ جہاں بھی سرمایہ کاری کرتا ہے وہاں ٹیکنالوجی منتقل بھی کرتا ہے جس سے ترقی کرنے کے مزید مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ 'امریکی کمپنیاں ٹیکنالوجی منتقل ضرور کرتی ہیں، تاہم حالیہ چند برسوں میں چین نے بھی ٹیکنالوجی کے میدان میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان کے درمیان ٹیکنالوجی کی جنگ ہو رہی ہے کہ 5 جی ٹیکنالوجی دنیا میں پہلے کون متعارف کروائے گا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-50474484", "summary": "اقوام متحدہ نے ایران سے کہا ہے کہ وہ لوگوں کی انٹرنیٹ تک رسائی کو نہ روکے۔ ایران نے ’غیر ملکی‘ دشمنوں کو احتجاج کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور مظاہرین کی مذمت کی ہے۔", "title": "اقوام متحدہ کو ایران میں درجنوں ہلاکتوں کا خدشہ", "firstPublished": "2019-11-19T15:53:10.000Z", "id": "b141011f-0856-154b-b22e-5a808166c127", "article": "ایران میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ملک گیر احتجاج جاری ہے اقوام متحدہ نے ایران میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد سے شروع ہونے والے احتجاج میں درجنوں افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ایران کے سکیورٹی اداروں سے کہا ہے کہ وہ مظاہرین کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال سے گریز کریں۔ اقوام متحدہ نے ایران سے کہا ہے کہ وہ لوگوں کی انٹرنیٹ تک رسائی کو نہ روکے۔ ایران نے ’غیر ملکی‘ دشمنوں کو احتجاج کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور مظاہرین کی مذمت کی ہے۔ ایران میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف جمعے سے شروع ہونے والا ملک گیر احتجاج جاری ہے جس میں کم از کم چار افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق منگل کو مظاہرین نے تین سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا ہے۔ ایران میں جمعے سے شروع ہونے والے احتجاج میں کم از کم پانچ افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ایران میں حکام نے تین روز سے انٹرنیٹ تک رسائی کو روک دیا ہے جس کی وجہ سے مظاہروں کی فوٹیج حاصل کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ ایران میں اے ایف پی کے صحافیوں نے مرکزی تہران میں دو پیٹرول پمپوں، ایک پولیس سٹیشن اور راہ گیروں کے لیے بنائے گئے پل کو نذر آتش ہوتا دیکھا ہے۔ حکام نے ان صحافیوں کو احتجاج کو ریکارڈ کرنے سے روک دیا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف جب جعمے کو احتجاج شروع ہوا تو ڈرائیوروں نے سڑکوں پر اپنی گاڑیوں کو روک دیا جس سے ملک بھر کی بڑی شاہراہوں پر ٹریفک رک گئی۔ جمعے کو تہران میں شروع ہونے والا احتجاج جلد ہی ملک گیر احتجاج میں تبدیل ہو گیا۔ مظاہرین نے ایران کے گیارہ بڑے شہروں میں بینکوں، پیٹرول سٹیشنوں اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ ایران میں حکومت نے گذشتہ ہفتے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا۔ اس اعلان کے مطابق ایران میں ہر شخص اگر ماہانہ 60 لیٹر تیل خریدے گا تو اسے پچاس فیصد اضافی قیمت ادا کرنی ہو گی لیکن اگر اس نے 60 لیٹر سے زیادہ پیٹرول خریدا ہے تو اسے دو سو فیصد اضافی قمیت ادا کرنی ہو گی۔ گذشتہ سال مئی سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر اضافی اقتصادیاں پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جس سے ایران کی معیشت متاثر ہوئی ہے۔ مظاہرین کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے سکیورٹی اہلکاروں میں سے ایک کا تعلق پاسداران انقلاب سے ہے جبکہ دو کا تعلق بیسج ملیشیا سے ہے۔ ہلاک ہونے والے اہلکاروں میں مرتضیٰ ابراہیمی، مجید شیخی اور مصطفیٰ رضائی شامل ہیں۔ جمعے کو شروع ہونے والے مظاہروں میں اب تک سرکاری اہلکاروں سمیت چار افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق کم از کم دس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-50370456", "summary": "امریکہ میں ایک نگراں مالیاتی ادارے نے ان دعوؤں کی تفتیش شروع کی ہے کہ آیا ایپل کمپنی نے صنفی تعصب برتتے ہوئے اپنے کریڈٹ کارڈز میں خواتین اور مردوں کے لیے ادھار حاصل کرنے کی علیحدہ علیحدہ حد مقرر کی ہے۔", "title": "’جنسی تفریق‘ کے الزام پر ایپل کو تفتیش کا سامنا", "firstPublished": "2019-11-11T01:28:06.000Z", "id": "db9c447f-94d6-6944-866d-0fa230d4a5cd", "article": "امریکہ میں ایک نگراں مالیاتی ادارے نے ان دعوؤں کی تفتیش شروع کی ہے کہ آیا ایپل کمپنی نے صنفی تعصب برتتے ہوئے اپنے کریڈٹ کارڈز میں خواتین اور مردوں کے لیے ادھار حاصل کرنے کی علیحدہ علیحدہ حد مقرر کی ہے۔ ایسی شکایات بھی سامنے آئی ہیں کہ ادھار حاصل کرنے کی حدود طے کرنے کے لیے استعمال ہونے والے الگوردھم (حساب کتاب کا مخصوص عمل) خواتین کے خلاف فطری طور پر متعصب ہو سکتے ہیں۔ بلومبرگ نیوز ایجنسی نے سنیچر کو رپورٹ کیا کہ ٹیکنالوجی منتظم ڈیوڈ ہینسن نے شکایت کی ہے کہ انھیں ان کی اہلیہ کی نسبت 20 گنا زیادہ کریڈٹ حد دی گئی ہے۔ ایک ٹویٹ میں ڈیوڈ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ تعصب اس کے باوجود برتا گیا کہ ان کی اہلیہ کا کریڈٹ سکور ان سے زیادہ بہتر ہے۔ اس شکایات کے بعد ایپل کمپنی کے شریک بانی سٹیو وزنیک کی ٹویٹ سامنے آئی کہ ان کے اور ان کی اہلیہ کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا ہے اس کے باوجود کہ ان کی ملکیتی اثاثے اور بینک اکاؤنٹس مشترکہ ہیں۔ بینک اور دوسرے قرض فراہم کرنے والے ادارے اپنے اخراجات کم کرنے اور قرضوں کی درخواستوں کو فروغ دینے کے لیے بڑے پیمانے پر مشین لرننگ ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔ امریکہ میں صحت کے شعبے کی ایک بڑی کمپنی یونائیٹڈ ہیلتھ گروپ کو بھی ان دعوؤں کے بعد تفتیش کا سامنا رہا ہے کہ ان کے سسٹم میں موجود الگوردھمز سیاہ فارم مریضوں کے مقابلے میں سفید فارم مریضوں کو زیادہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ڈیوڈ ہینسن نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ 'ایپل کارڈ ایک صنفی تعصب پر مبنی پروگرام ہے۔ ’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ایپل کمپنی کے انفرادی نمائندوں کی رائے کیا ہے، مگر اس سے فرق پڑتا ہے کہ انھوں نے کون سے الگوردھمز پر اعتماد کرتے ہوئے اسے اپنے سسٹم کا حصہ بنایا۔ اور یہ (الگوردھم) امتیازی سلوک برتتا ہے۔' ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ جیسے ہی انھوں نے اس معاملے کو اٹھایا تو ان کی اہلیہ کی کریڈٹ کی حد بڑھا دی گئی ہے۔ ڈی ایف ایس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ 'اس بات کی تفتیش کریں گے کہ آیا نیویارک میں رائج قانون کی خلاف ورزی تو نہیں کی گئی اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ تمام صارفین سے ان کی صنف سے قطع نظر برابری کی بنیاد پر سلوک کیا جائے۔' ایپل کارڈ کا افتتاح رواں برس اگست میں ہوا تھا اور یہ گولڈ مین کمپنی کا پہلا کریڈٹ کارڈ ہے۔ تاہم آئی فون تیار کرنے والی کمپنی ایپل اس کارڈ کی تعریف اپنی ویب سائٹ پر یہ کہتے ہوئے کرتی ہے کہ 'یہ ایک نئی قسم کا کریڈٹ کارڈ ہے جس کی تخلیق ایپل نے کی ہے نا کہ کسی بینک نے۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-50367064", "summary": "نئی آئل فیلڈ ایران کے جنوب مغربی صوبے خوزستان میں واقع ہے اور اِس کا رقبہ 2400 مربع کلومیٹر ہے۔ ایرانی صدر کے مطابق اِس جگہ پر 53 ارب بیرل تیل موجود ہے۔", "title": "ایران: 53 ارب بیرل تیل کے نئے ذخائر دریافت", "firstPublished": "2019-11-10T14:00:41.000Z", "id": "c3144c4a-9e32-9545-8f66-f84d77794ef0", "article": "صدر روحانی نے آئل فیلڈ کے بارے میں تفصیلات کا اعلان یزد شہر میں خطاب کے دوران کیا۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ایران میں ایک نئی آئل فیلڈ دریافت ہوئی ہے جس سے ملک کے تیل کے ذخائر میں ایک تہائی اضافہ ہو گا۔ یہ آئل فیلڈ جنوب مغربی صوبے خوزستان میں واقع ہے اور اِس کا رقبہ 2400 مربع کلومیٹر ہے۔ ایرانی صدر کا کہنا ہے کہ اِس جگہ پر 53 ارب بیرل خام تیل موجود ہے۔ گزشتہ برس یہ پابندیاں اُس وقت عائد کی گئی تھیں جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے سے امریکہ کی یکہ طرفہ طور پر علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا۔ صدر حسن روحانی نے یزد نامی شہر میں اپنے خطاب میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ تیل کا یہ ذخیرہ زمین میں 80 میٹر کی گہرائی پر ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک بڑی آئل فیلڈ ہے جو بوستان سے اومیدیاہ تک 2400 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ امریکہ کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران کو اپنا تیل دوسرے ممالک کو فروخت کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اھواز شہر میں 65 ارب بیرل والی آئل فیلڈ کے بعد یہ ایران کی دوسری بڑی آئل فیلڈ ہو سکتی ہے۔ اھواز شہر بھی خوزستان صوبے میں واقع ہے۔ ایران تیل پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں شامل ہے جو سالانہ اربوں ڈالر کا تیل برآمد کرتا ہے۔ صدر روحانی کے مطابق ایران کے مجموعی تصدیق شدہ ذخائر 150 ارب بیرل ہیں۔ ایران کے تیل کے ذخائر دنیا میں چوتھے نمبر پر جبکہ گیس کے ذخائر دوسرے نمبر پر ہیں۔ خلیجِ فارس میں ایک بڑی سمندری آئل فیلڈ ایران اور قطر کے درمیان مشترک ہے۔ اِس آئل فیلڈ سے تیل نکالنے کی شرح میں صرف ایک فیصد اضافے سے ایران کو تیل سے حاصل ہونے والی آمدن 32 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی فارس کے مطابق حسن روحانی نے کہا 'میں امریکہ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ جن دنوں آپ نے ایرانی تیل کی فروخت پر پابندیاں لگائی ہوئی ہیں ایرانی ورکروں اور انجینیئروں نے 53 ارب بیرل تیل دریافت کر لیا ہے۔' امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان سنہ 2015 میں ہونے والے تاریخی معاہدے سے امریکہ کو الگ کرنے کے بعد ایران پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ معاہدے کے تحت ایران عالمی اقتصادی پابندیاں نرم کیے جانے کے جواب میں اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کرنے اور عالمی ماہرین کو اپنی جوہری تنصیبات تک رسائی دینے پر آمادہ ہو گیا تھا۔ پابندیوں کے نتیجے میں ایران کی معیشت کو شدید دباؤ کا سامنا ہے، اس کی کرنسی کی قدر انتہائی کم، افراطِ زر بہت زیادہ اور غیرملکی سرمایہ کاری بہت کم ہو گئی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-47980237", "summary": "کرغستان میں ہر آٹھ میں سے ایک شخص روزگار کے لیے ملک سے باہر ہے۔ ایسے تارکین وطن کے بھیجے ہوئے پیسے ملک کی معیشت کے لیے بہت ضروری ہیں لیکن خود انہیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔", "title": "بیرون ملک ملازمت کی بڑی قیمت، بچوں سے دوری", "firstPublished": "2019-11-09T08:40:19.000Z", "id": "fb49b1a8-d793-664c-9b27-a0eec8a1fbd4", "article": "گذشتہ موسم بہار میں کینبک اور ان کی بیوی نسرولو شمالی کرغستان کے ایک گاؤں کو چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں روس چلے گئے۔ سوچ یہی تھی کہ روس میں کام کر کے اتنے پیسے بچا لیں گے کہ بچوں کی تعلیم پوری ہو جائے گی اور گاؤں میں جو ادھورا مکان ہے اسے مکمل کر لیں گے۔ جتنا عرصہ وہ روس میں رہیں گے چار بچے، جن کی عمریں چار، پانچ، آٹھ اور گیارہ سال تھیں، وہ اپنی 54 سالہ نانی کے پاس رہیں گے۔ یہ معمول کی بات ہے۔ کرغزستان میں ہر آٹھ میں سے ایک شخص ملک سے باہر روز گار کررہا ہے۔ یہ لوگ جو پیسہ ملک میں بھیجتے ہیں وہ کرغزستان کی کل قومی پیداوار کا ایک تہائی ہے۔ اور دنیا میں کم اور درمیانی آمدن والے ممالک میں ترسیلِ زر کے اس رجحان میں تیزی آنے والی ہے لیکن اس پیسے کی ایک قیمت ہے اور وہ یہ کہ چھوٹے بچوں کی ایک پوری نسل اپنے رشتہ داروں کے سہارے رہنے مجبور ہو چکی ہے جن میں اکثر عدم توجہی اور زیادتیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ ان کی آٹھ سالہ بچی مدینہ کسی جگہ سے گری اور اس کا انتقال ہو گیا۔ ماں باپ کے پاس اس کے جنازے پر پہنچنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ دونوں میاں بیوی اس کا الزام نانی پر نہیں لگاتے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر وہ دونوں گھر پر ہوتے تو اسے فوری طبی امداد پہنچانا آسان ہوتا۔ اس کے باوجود ان کا یہی کہنا ہے کہ حادثہ تو کہیں بھی اور کسی وقت بھی پیش آ سکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ حادثات صرف ان گھرانوں کے ساتھ پیش نہیں آ رہے جن کے والدین ملک سے باہر ہیں لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ والدین کی عدم موجودگی سے بچے بہت غیر محفوظ ہوجاتے ہیں۔ ماہرِ عمرانیات گلنارہ ابراوا کہتی ہیں کہ بیرون ملک والدین کی ہجرت ان کے بچوں کے لیے ہمیشہ بری ثابت نہیں ہوتی لیکن وہ ممالک جہاں یہ تارکیں وطن کام کرتے ہیں وہ ان کی اولاد کو قبول نہیں کرتے۔ 'اکثر ایسے میاں بیوی ایک دوسرے سے الگ رہنے پر مجبور ہوتے ہیں اور انھیں اپنے اپنے کام کی جگہ کے قریب رہنا پڑتا ہے۔ اور یہ ایک دوسرے سے بھی کم ہی مل پاتے ہیں۔'. ززگل ماداگازیموا کی عمر انتیس برس ہے۔ ان کی والدہ جب روزگار کی تلاش میں روس گئی تھیں تو ززگل صرف تیرہ برس کی تھیں۔ کرغزستان سے دوسرے ممالک سے کام کرنے والے تارکین وطن میں پینتالیس فیصد خواتین ہیں۔ بین الاقوامی تنظیم برائے ہجرت کا کہنا ہے خاص طور پر بیرونی ملک کام کرنے والی خواتین کے زیادتیوں کا نشانہ بنے اور معاشرے سے کٹ جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں بلکہ ان کے بچے اور خاندانوں کو ان مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-50343075", "summary": "امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ کے خاتمے کے حوالے سے معاہدہ جلد ہی منظر عام پر آ سکتا ہے، تاہم دو بڑی عالمی طاقتوں کے مابین یہ لڑائی تجارت سے کہیں آگے کی بات ہے۔", "title": "تجارتی جنگ: آخر امریکہ چین سے چاہتا کیا ہے؟", "firstPublished": "2019-11-08T15:56:17.000Z", "id": "905b3057-17ff-3640-888f-39ecc39b4a80", "article": "واشنگٹن اور بیجنگ پُرامید ہیں کہ دونوں ممالک میں جاری تجارتی جنگ کے خاتمے کے حوالے سے معاہدہ جلد ہی منظرعام پر آ سکتا ہے، تاہم دو بڑی عالمی طاقتوں کے مابین یہ لڑائی تجارت سے کہیں آگے کی بات ہے اور اس کا محور تجارت کے علاوہ معاشیات، دفاع، ثقافت اور ٹیکنالوجی بھی ہے۔ تاہم دونوں ممالک میں جاری کشیدگی تجارت سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے۔ میں نے واشنگٹن میں جتنے لوگوں سے بھی اس حوالے سے بات کی وہ متفق ہیں کہ اوول آفس میں گذشتہ ماہ ہونے والا معاہدہ کچھ زیادہ فرق نہیں ڈالے گا۔ حالیہ برسوں میں امریکہ کے چین کے حوالے سے رویے میں واضح طور پر منفی تبدیلی آئی ہے اور یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ تبدیلی صدر ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں آمد کے ساتھ ہی آ گئی تھی۔ 'میرے خیال میں یہ سوویت یونین سے کہیں زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے جس کی مغربی حکومتوں اور اداروں تک پہنچ ہے اور یہ بات سوویت یونین کی پہنچ سے بھی باہر تھی۔' بونی گلیسنر کا کہنا ہے کہ امریکہ کے حکومتی حلقوں کی سوچ میں امریکہ کو درپیش خطرات کے حوالے سے ایک بڑی تبدیلی آئی ہے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کی جگہ اب بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان (معاشی) جنگ نے لے لی ہے۔‘ ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے ڈین چینگ کے بقول ہر سال ساؤتھ چائنا کے راستے پانچ اعشاریہ تین ٹریلین ڈالر کا تجارتی مال گزرتا ہے۔ اس لحاظ سے ’چین کے اقدامات کا مقصد یہ تھا کہ وہ کسی طرح خون کی اس بڑی شریان کو کاٹنے کے قابل ہو جائے جو عالمی تجارت میں شہہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔‘ اسی طرح روبوٹِکس اور مصنوعی ذہانت جیسی اہم ٹیکنالوجی کے شعبے میں دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جانے کی خواہش سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چین کے عزائم کیا ہیں۔ بونی گلیسنر کہتی ہیں کہ ’یہ چیز اب اس مقابلے بازی میں بنیادی حیثیت اختیار کر چکی ہے، کیونکہ اگر چین ان شعبوں میں امریکہ سے آگے نکل جاتا ہے تو وہ شاید امریکہ کو پیچھے ہٹا کر خود دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن جائے گا۔‘ امریکہ کی عسکری برتری کی بنیاد بہت بڑی فوج نہیں بلکہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہتھیار اور انھیں استعمال کرنے والے سِسٹم ہیں۔ اگر چین اس قسم کی اہم ٹیکنالوجی کے میدان میں برتری حاصل کر لیتا ہے تو ہو سکتا ہے امریکہ زیادہ عرصے تک اس کا مقابلہ نہ کر سکے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے بہت سے رہنما، صدر ٹرمپ کی یکطرفہ پالیسی کے برعکس، امریکہ کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، تاہم زیادہ تر ڈیموکریٹ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر ان کی جماعت چین کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرتی ہے تو پارٹی کو ووٹ بھی کم ہی ملیں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50287583", "summary": "مسلم لیگ ن نے انٹرپول کی جانب سے اسحاق ڈار کے خلاف ’ریڈ نوٹس‘ کے اجرا کی درخواست رد کیے جانے کا خیرمقدم کیا ہے جبکہ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہزاد اکبر کے مطابق یہ خوشی زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہو گی۔", "title": "اسحاق ڈار کی پاکستان واپسی کی فائل بند ہو گئی؟", "firstPublished": "2019-11-04T12:19:49.000Z", "id": "09390b47-4dc1-0340-9fc6-c1b94f37860e", "article": "پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کو وطن واپس لانے کی کوششوں کے سلسلے میں انٹرپول کی جانب سے ’ریڈ نوٹس‘ کی درخواست مسترد کیے جانے پر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں ایسے ریڈ نوٹسز کی کوئی حیثیت نہیں تاہم مسلم لیگ ن نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ اسحاق ڈار کے خلاف ریڈ نوٹس کا اجرا نہ ہونے کی خبریں اتوار کی شب سے گردش کر رہی تھیں تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے بتایا کہ انٹرپول نے یہ ’ریڈ نوٹس‘ جاری کرنے سے متعلق پاکستان کی درخواست اس سال اگست میں مسترد کی تھی۔ شہزاد اکبر کے مطابق انٹرپول کی پوری کارروائی خفیہ ہوتی ہے اور اسحاق ڈار نے انٹرپول کا یہ پرانا فیصلہ میڈیا پر لا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ کوئی نئی پیش رفت ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن نے انٹرپول کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ مسلم لیگ نواز اسے اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے اور جماعت کی ترجمان مریم اورنگزیب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسحاق ڈار کو سرخرو کر دیا ہے۔ تاہم شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ خوشی زیادہ دیرپا نہیں ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل اہمیت ملزم کی وطن واپسی سے متعلق فیصلے کی ہوتی ہے، جس کا ابھی حکومت پاکستان کو انتظار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ دو یا تین اگست کو کیا گیا تھا تاہم برطانیہ میں ایسے ریڈ نوٹسز کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے اور اسحاق ڈار کی پاکستان حوالگی سے متعلق حکومتِ پاکستان کی درخواست برطانیہ کی وزارت داخلہ کے سامنے ایک سال سے زیر التوا ہے، جس پر ابھی غور ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر شہزاد اکبر کے مطابق یہ نوٹس محض ایک ضابطے کی کارروائی ہوتی ہے اور یہ صرف ملزم کی تلاش سے متعلق ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں جب ریڈ نوٹس ہی جاری نہیں ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ اب اسحاق ڈار کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ’ریڈ نوٹس کو ریڈ وارنٹ بھی کہتے ہیں اور وارنٹ جاری ہونے کی صورت میں انٹرپول اس فیصلے کی اپنی ویب سائٹ پر بھی تشہیر کرتا ہے۔‘ بدعنوانی سے متعلق مقدمات کی عدالتوں کے سامنے پیروی کرنے والے ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ ابھی یہ دیکھا جائے گا کہ پاکستان نے کس قانون اور شق کے تحت یہ درخواست بھیجی تھی اور پھر انٹرپول نے کن وجوہات پر اس درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ بیرسٹر خان کے مطابق سیاسی نوعیت کے مقدمات میں برطانیہ سے کسی ملزم کی حوالگی ناممکن سی بات ہوتی ہے۔ انٹرپول غیر یورپین ممالک کے لیے بین الاقوامی تعاون کا ایک ایک ادارہ ہے جہاں پاکستان اپنا کیس ثابت نہیں کر سکا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-50280937", "summary": "سعودی عرب کی سرکاری تیل کی کمپنی آرمکو کے آئی پی او یعنی ’ابتدائی عوامی پیشکش‘ میں شیئرز کی قیمت کا تعین سرمایہ کاروں کی جانب سے اظہارِ دلچسپی کی بنیاد پر کیا جائے گا۔", "title": "سعودی کمپنی آرامکو کا اپنے شیئر فروخت کرنے کا فیصلہ", "firstPublished": "2019-11-04T02:17:42.000Z", "id": "b2629ce6-2fd1-ae46-81e4-169f1b00ac27", "article": "سعودی عرب کی سرکاری تیل کی کمپنی آرمکو کے آئی پی او یعنی ’ابتدائی عوامی پیشکش‘ میں شیئرز کی قیمت کا تعین سرمایہ کاروں کی جانب سے اظہارِ دلچسپی کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’خطے میں کام کرنے والی کسی بھی فرم میں سرمایہ کاری میں سیاسی اور سٹریٹیجک خطرات کے امکانات زیادہ ہیں، نہ صرف ایک ایسی کمپنی میں جو کہ سعودی ریاست کا ایک بازو ہے۔ آرامکو کا اپنی پیداوار کی پالیسی پر بھی محدود کنٹرول ہے جو کہ سعودی عرب کی اوپیک مینیجمنٹ کا ایک اہم حصہ ہے۔‘ سعودی عرب کی تیل کی کمپنی آرامکو کا سفر 1933 سے شروع ہوتا ہے جب سعودی عرب اور کیلیفورنیا کی سٹینڈرڈ آئل کمپنی جو بعد میں شیرون بن گئی، کے درمیان سروے اور تیل تلاش کرنے کا معاہدہ ہوا تھا اور اس مقصد کے لیے ایک نئی فرم بنائی گئی۔ انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق وینزویلا کے بعد سعودی عرب تیل کے ذخائر کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے۔ تیل کی پیداوار کے اعتبار سے سعودی عرب اس وقت امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر بڑا ملک ہے۔ سعودی عرب کی وجہ شہرت ہی یہی ہے کہ تیل کے تمام ذرائع پر اس کا کنٹرول ہے اور تیل کی پیداوار میں بہت سستا بھی ہے۔ ایسی کوئی بھی کمپنی جو منافع بخش ہو وہ زیادہ مالیت کی بن جائے گی۔ اس کے مقابلے میں اس عرصے میں مالیت کی اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی ایپل کمپنی نے 21.6 بلین ڈالر کا منافع ظاہر کیا ہے۔ اسی طرح دنیا کی سب بڑی تیل کی کمپنی ایگزن موبائیل نے 5.5 بلین ڈالر کا منافع کمایا ہے۔ اس سب کا مقصد سعودی عرب کے تاثر کو دیگر دنیا میں بہتر بنانا ہے۔ سعودی عرب کو انسانی حقوق سے متعلق تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ خاص طور گذشتہ برس صحافی جمال خاشقجی کے قتل اور خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی سماجی کارکنان پر کریک ڈاؤن کے بعد سعودی عرب پر تنقید کی گئی تھی۔ ہنٹر کے مطابق سیاسی اعتبار سے صحافی خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب کی تیل کی کمپنی آرامکو کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ’اسی طرح سعودی عرب کا انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ بھی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے ہر بات کو اس پہلو سے دیکھا جاتا ہے۔‘ ہنٹر کے مطابق اس وقت سرمایہ کار زیادہ اخلاقی پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھ رہے ہیں۔ ولی عہد شہزادہ کے منصوبے میں ایک اور مشکل دنیا کی خواہش ہے کہ تیل اور کوئلہ پر انحصار کم کیا جائے۔ اسی طرح گذشتہ سال تیل کی قیمتوں میں کمی بھی شامل ہے، جہاں پہلے قیمت 80 ڈالر فی بیرل سے زیادہ تھی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-49962217", "summary": "بچوں کو یونیورسٹی میں جانے سے پہلے اپنے مالی معاملات قابو میں رکھنے کے بارے میں خصوصی تربیتی کیمپس اور مشورے اب گھریلو صنعت کا درجہ حاصل کرتے جا رہے ہیں۔", "title": "مستقبل کے کروڑ پتی بنانے والا کیمپ", "firstPublished": "2019-11-03T10:15:56.000Z", "id": "d7564118-4e5e-7b4d-a1bf-a2dd321b806d", "article": "مختلف لسانی پس منظر رکھنے والے طالب علموں کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ان کے زیادہ تر شاگرد متوسط یا امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک ہفتے کے لیے اس کیمپ میں شرکت کی فیس 275 کینیڈین ڈالر ہے لیکن حسینہ کا کہنا ہے کہ وہ غریب بچوں کی مالی معاونت بھی کرتی ہیں۔ کیمپ ملینیئر کی طرح کے فنانس کیمپس شمالی امریکہ میں بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ امریکی ریاست ڈینور میں ’جونیئر منی میٹر‘ نامی کیمپ ہے جو بلوغت کی عمر سے پہلے بچوں کو بین الاقوامی تجارت کی تھیوری پڑھاتا ہے۔ اس طرح کے کیمپس نے بہت سے دلچسپ سوالوں کو جنم دیا ہے۔ ایک سات یا 13 سالہ بچے کی عمر کے مطابق اس کے لیے فنانشل یا مالی تعلیم کیا ہو سکتی ہے۔ یہ پیسہ بنانے کی تربیت ان اخلاقی اقدار کے ساتھ کیا مطابقت رکھتے ہیں جو والدین اپنے بچوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن چند ہی دنوں میں جب انھیں زیادہ معلومات حاصل ہوتی ہیں تو وہ کمپنیوں کو زیادہ باریک بینی سے دیکھنے لگتے ہیں۔ لقمان کے بقول آپ بچوں کو صرف پانچ دنوں ہی میں بدلتے دیکھ سکتے ہیں۔ کچھ بچے پہلے ہی سے سبقت رکھتے ہیں۔ دس برس کی الیگزنڈرا ویوز کا کہنا ہے کہ وہ اکثر اکانومی پوڈ کاسٹ سنتی ہیں اور کیمپ میں آنے سے پہلے مالی معاملات کے امریکی جریدے بیرنز کو پڑھ کر آئی تھیں۔ امریکی یونیورسٹی الینوئے کی ایک تحقیق میں تین ہزار نوجوانوں پر کیے جانے والے ایک سروے سے معلوم ہوا کہ ان میں ایک تہائی مالی طور پر سنگین حالت میں ہیں جس کی ایک وجہ مالی معاملات کے بارے میں ناقص رویہ ہے۔ آئی بی ایم کمپنی میں سافٹ ویئر پراڈکٹ مینیجر بینجامن جن کی 14 برس کی بیٹی کیرا کیمپ میں شمولیت کے بعد لوگوں کو مشورے دینے کا کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کیمپ تعلیم میں اس کمی کو پورا کرنے کا ایک بہترین موقع فراہم کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو اپنے فیصلے کرنے اور نفع اور نقصان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انھیں خاص طور پر سٹاک مارکیٹ کے بارے میں تربیتی حصہ بہت اچھا لگا جس میں بچے اکثر بہت سا پیسہ ضائع کر دیتے ہیں۔ نوجوان بچوں کو مالی معاملات کے مشورے یا تعلیم دینا صرف موسم سرما کے کیمپس تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ اب ایک گھریلو صنعت بنتی جا رہی ہے۔ فریزیئر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بچے پیسے کے بارے میں سیکھ رہے ہیں چاہے انھیں اس کا علم ہے یا نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ والدین اپنے بچوں سے گفتگو میں ارادتاً ان معاملات کو شامل کریں۔ فنانس کیمپس تربیت کا ایک ایسا طریقہ ہے جس کے بارے میں آپ واضح بات کرتے ہیں اور بے معنی نصیحت اور اپنے تجربات بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50229109", "summary": "پاکستان میں جاری سیاسی پارٹیوں کے احتجاج کے علاوہ ملک کے مختلف شہروں میں ڈاکٹرز، طالبعلم، تاجر اور آرٹسٹ بھی سراپا احتجاج ہیں۔ ان کے مطالبات کیا ہیں پڑھیے اس رپورٹ میں۔", "title": "پاکستان میں ایسا کیوں لگتا ہے کہ ہر کوئی سراپا احتجاج ہے؟", "firstPublished": "2019-10-30T04:22:53.000Z", "id": "77323235-92b5-2a40-ae3a-e76fbf8f9b76", "article": "اس وقت پاکستان کے مختلف شہروں میں مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن ان احتجاج کرنے والے گروہوں کے مطالبات کیا ہیں؟ یہ جاننے کے لیے بی بی سی نے ان سب لوگوں سے بات کرنے کی کوشش کی جو ان احتجاج میں براہِ راست شامل ہیں۔ جس کے نتیجے میں اُن کے اور چند نامعلوم لوگوں کے درمیان تنازعہ سامنے آیا اور پہلے ان کی نمائش روکی گئی اور بعدازاں فن پاروں کو گرا دیا گیا۔ اس پر سماجی کارکنان بھی سامنے آئے جنھوں نے 27 اکتوبر کے بعد دو روز احتجاج کیا اور فن پاروں کو دوبارہ اپنی جگہ پر رکھا۔ پاکستان بھر میں تاجروں کی نمائندہ تنظیموں نے ملک گیر دو روزہ شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا تھا جو آج (بدھ) بھی جاری رہے گی۔ اس وقت حکومتِ پاکستان اور تاجروں کے درمیان ٹیکس کے معاملات پر تنازعہ چل رہا ہے۔ تحریکِ انصاف کی حکومت چاہتی ہے کہ ان افراد تک پہنچا جائے جو ٹیکس نہیں دیتے جن میں ایک بڑی تعداد تاجروں کی بھی ہے۔ تاجروں کے مطابق حکومت ان کو امپورٹر اور مینیوفیکچرز کے درمیان سہولت کار کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے تاکہ ان امپورٹرز تک پہنچا جا سکے جو ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ تاجر اس عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ اور ساتھ ہی یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ امپورٹرز اور مینیوفیکچرز کے ذریعے سامان کے لین دین کے دوران 17 فیصد ٹیکس ادا ہو جاتا ہے تو پھر مزید حکومتی اقدامات کیوں؟ اسلام آباد کے E-11 سیکٹر میں کچھ طلبہ نے مل کر ایک گھر کرائے پر لیا اور اس کی وجہ یہ تھی جن یونیورسٹیوں میں وہ پڑھتے ہیں وہاں رہنے کا کوئی مناسب انتظام موجود نہیں ہے۔ اسی طرح اسلام آباد کے دیگر رہائشی سیکٹرز میں ہزاروں کی تعداد میں نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کے طالبعلم مشترکہ طور پر ایسے ’نجی ہاسٹلز‘ میں رہ رہے ہیں۔ مشکل میں پھنسے ان طالبعلموں کو دیکھ کر باقی تعلیمی اداروں کے طالبعلم بھی ان کے ساتھ آن ملے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ معاملہ ایک احتجاج کی شکل اختیار کر گیا اور ملک بھر میں جاری بحث مباحثے کا حصّہ بھی۔ یہ احتجاج رواں سال مئی سے شروع ہوا جس کے بعد سے اب یہ احتجاج پاکستان کے مختلف شہروں میں پھیل چکے ہیں جہاں ڈاکٹر، نرس اور پیرا میڈیکل سٹاف اپنے مطالبات منوانے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-50121423", "summary": "دو ہفتوں سے جاری عوامی مظاہروں کے بعد لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری کا کہنا ہے کہ وہ ’بند گلی‘ میں پہنچ چکے ہیں اور اب وہ اپنا استعفی صدر کو پیش کر دیں گے۔", "title": "وزیرِ اعظم سعد حریری کا مستعفی ہونے کا اعلان", "firstPublished": "2019-10-21T06:44:03.000Z", "id": "9f141f88-fa35-334f-abf3-27427b4d30a3", "article": "لبنان میں گذشتہ دو ہفتوں سے جاری ملک گیر عوامی مظاہروں کے پیشِ نظر وزیرِ اعظم سعد حریری نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے لبنان کے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ لبنان جمود کا شکار ہو چکا ہے اور جاری بحران کو ختم کرنے کے لیے اس اقدام کی ضرورت تھی۔ ٹی وی پر اپنی تقریر میں وزیر اعظم حریری کا کہنا تھا کہ وہ ایک 'بند گلی' میں پہنچ چکے ہیں جس نے باعث اب وہ اپنا اور اپنی کابینہ کا استعفی لبنان کے صدر مائیکل عون کو پیش کر دیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 'گذشتہ 13 روز سے لبنان کے لوگوں نے اس سیاسی حل کے فیصلے کا انتظار کیا ہے جو مزید تنزلی کو روک سکے۔ اس دوران کسی مناسب حل کی تلاش کے لیے میں نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔' انھوں نے کہا 'اب ہمارے لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ بحران سے نکلنے کے لیے ایک بڑا قدم اٹھائیں۔ بڑے عہدے آتے جاتے رہتے ہیں، جو چیز ضروری ہے وہ عوام کی حفاظت اور ان کا وقار ہے۔' لبنان کے صدر عون نے ابھی تک اس معاملے پر اپنا ردِعمل نہیں دیا ہے۔ اگر وزیر اعظم کا استعفی منظور ہو جاتا ہے تو لبنان کے آئین کے مطابق سعد حریری کو اس وقت تک اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی پڑیں گی جب تک نئی ایڈمنسٹریشن عنان حکومت سنبھال نہیں لیتی۔ وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کا اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب لبنان میں صورتحال انتہائی پرتشدد ہے۔ یہ صورتحال لبنانی معاشرے میں موجود گہری تفرقہ بازی کی عکاس ہے۔ عسکریت پسند شیعہ گروپ حزب اللہ لبنان میں سعد حریری کی مخلوط حکومت کا اہم حصہ ہے۔ سعد حریری خود سنی ہیں۔ حزب اللہ نے ملک میں جاری مظاہروں کے خلاف سخت موقف اپنایا ہے۔ سعد حریری کا کہنا تھا کہ وہ بند گلی میں پہنچ چکے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ اپنے حکومتی اتحادیوں کو چھوڑ کر پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ سعد حریری کی جانب سے یہ کہنا کہ ہمیں ملک اور معیشت کی بہتری کے لیے نئے راستے کی ضرورت ہے اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ اب آئندہ لبنان کے سیاسی اور معاشی محاذ پر جو بھی ہونے جا رہا ہے حریری اس کا حصہ ہوں گے۔ اب لبنان کے صدر مستقبل کی حکومت کی تشکیل کے لیے پارلیمان سے رجوع کریں گے لیکن پارلیمان میں بھی وہ تمام سیاسی دھڑے موجود ہیں جو حریری کی مخلوط حکومت کا حصہ ہیں۔ لبنان کی معیشت سست شرحِ نمو اور بے تحاشہ قرضوں کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے۔ اخراجات میں کٹوتی کے اقدامات نے عوام میں اشتعال کو جنم دیا ہے جبکہ انفراسٹرکچر کی دگرگوں صورتحال کی وجہ سے بجلی کی معطلی اور سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر روز مرّہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-50210411", "summary": "انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ سعودی عرب کے دوران کئی بڑے معاہدوں کی امید۔", "title": "سعودی عرب انڈیا کے قریب کیوں آ رہا ہے؟", "firstPublished": "2019-10-28T14:18:37.000Z", "id": "242510ca-7909-e743-86d7-b1ca68837214", "article": "انڈین وزیر اعظم نریندر مودی سعودی عرب کا دو دن کا سرکاری دورہ شروع کر رہے ہیں۔ 28 اکتوبر کو ریاض پہنچنے کے بعد وہ 29 اکتوبر کو شاہ سلمان سے ملاقات کریں گے۔ جہاں وزیر اعظم نریندر مودی انڈین معیشت میں اندرونی سست روی سے نمٹ رہے ہیں وہیں عالمی معیشت میں سست روی کی وجہ سے سعودی عرب کی معیشت بھی مشکل میں ہے۔ ایسے میں دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے درمیان ممکنہ طور پر ہونے والے بڑے معاہدوں پر سب کی نظر ہے۔ انڈیا اور سعودی عرب کے تعلقات پر پڑھیے تجزیہ کار قمر آغا کیا کہتے ہیں۔۔ انڈیا اور سعودی عرب کے درمیان بہت گہرے تجارتی تعلقات ہیں۔ انڈیا کا 17 فیصد تیل اور 32 فیصد ایل پی جی سعودی عرب سے آتا ہے اور دونوں کے درمیان تقریباً 27 اعشاریہ 5 ارب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ اس میں 22 ارب ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات انڈیا سعودی عرب سے خریدتا ہے جبکہ انڈیا کی برامدات صرف 5 اعشاریہ 5 ارب ڈالر مالیت کی ہیں۔ انڈیا کے لیے یہ تجارتی عدم توازن تشویشناک ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب انڈیا میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کرنا چاہتا ہے۔ تجارتی اور بین الاقوامی تعلقات کے علاوہ بھی انڈیا اور سعودی عرب کے کئی مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب میں تقریباً 15 لاکھ انڈین شہری کام کرتے ہیں، جن کے ذریعے انڈیا کو کئی ارب ڈالر کا زر مبادلہ بھی ملتا ہے۔ انڈیا تیل کا ذخیرہ بھی بنا رہا ہے۔ جنوبی انڈیا میں اس طرح کے ذخائر بن چکے ہیں۔ اب انڈیا ایسا ہی ایک اور ذخیرہ بنا رہا ہے تاکہ ایمرجنسی میں یا قیمتوں میں اچانک اضافے کی صورت میں اس کا استعمال کیا جا سکے۔ اس منصوبے میں بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کافی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ صرف ایک ملک کی طرف سے کی جانے والی سرمایہ کاری انڈیا کے فوری اقتصادی مسائل کا حل تو نہیں ہوگی لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات سے فرق ضرور پڑے گا۔ یہاں تک کہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد ہی متحدہ عرب امارات اور بحرین نے وزیر اعظم مودی کو اپنے ملک کے اعلیٰ ترین سولین اوارڈ سے نوازا۔ انڈیا اور سعودی عرب کا ایک دوسرے پر انحصار کافی بڑھ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی پاکستان کی مکمل حمایت کرنے والا سعودی عرب اب انڈیا کے قریب آ رہا ہے۔ اس کی ایک اور وجہ اس کی 2008 کی ’لُک ایسٹ‘ کی پالسی بھی ہے۔ اس کے باوجود یہ بات بھی سچ ہے کہ پاسکتان کے ساتھ سعودی عرب کے کئی شعبوں میں قریبی تعلقات ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کی افواج کے درمیان نہایت ہی قریبی تعلقات ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50164851", "summary": "ورلڈ بینک کی سالانہ ’ایز آف بزنس‘ یعنی کاروبار میں آسانی کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان 2018 میں 136ویں نمبر پر تھا اور اس سال 108ویں پوزیشن پر آ گیا ہے۔", "title": "پاکستان نے ’ایز آف بزنس‘ میں اتنی بہتری کیسے حاصل کی؟", "firstPublished": "2019-10-24T11:44:14.000Z", "id": "b106a624-cd07-cd4f-aa4d-997b73e8d7de", "article": "ورلڈ بینک کی سالانہ ’ایز آف بزنس‘ یعنی کاروبار کرنے میں آسانی کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی گذشتہ سال کے مقابلے میں 28 پوزیشنز کی بہتری آئی ہے۔ 190 ممالک کے موازنے میں پاکستان اپنی 2018 کی پوزیشن 136 سے اٹھ کر اس سال 108ویں پوزیشن پر آ گیا ہے۔ اس سال سب سے زیادہ بہتری لانے والی معیشتوں میں انڈیا، سعودی عرب، چین، کویت، نائیجیریا، اردن، ٹوگو، بحرین اور تاجکستان بھی شامل ہیں۔ انڈیا کی اس سال 63 ویں پوزیشن آئی ہے۔ حال ہی میں بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین کا عہدہ چھوڑنے والے ہارون شریف کے وزیراعظم کو بھیجے گئے استعفے کے بارے میں مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس میں انھوں نے عمران خان کو پیش گوئی کی تھی کہ اس سال پاکستان کم از کم 25 پوزیشنز اوپر آئے گا۔ ملک میں موجودہ مہنگائی کا رجحان اور شرحِ نمو میں کمی اپنی جگہ قائم ہیں۔ ورلڈ بینک کی ہی ایک اور حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں سرمایہ کاری میں تقریباً نو فیصد کمی آئی اور صنعتی پیداوار کی شرحِ نمو اس سال صرف 1.4 فیصد رہ گئی ہے۔ ورلڈ بینک کے اندازے کے مطابق حقیقی شرحِ نمو مالی سال 2020 میں کم ہو کر 2.4 فیصد ہو جائے گی اور مہنگائی میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ ایز آف بزنس کی درجہ بندی کا مطلب ہوتا ہے کہ کسی ملک میں کاروبار کرنا یا یوں کہیں کہ کسی مارکیٹ میں داخل ہونا کتنا آسان ہے۔ اس انڈیکس میں بہتری کا مطلب یہ ہے کہ ہم توقع کر سکتے ہیں کہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھنے کا امکان ہے جس سے قومی پیداوار میں اضافہ ہو گا اور ملکی معیشت بہتر ہو گی۔ غیر ملکی کمپنیاں اب یہاں سرمایہ کاری کرنے کو قدرے زیادہ راضی ہوں گی۔ یعنی اس بہتری سے پاکستانی معیشت کو طویل المدتی فوائد ہوں گے اور یہ ایک اہم کامیابی ہے۔ اس درجہ بندی کو بنانے میں ورلڈ بینک کسی بھی معیشت کے دس مختلف پہلوؤں کو جانچتا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں: ورلڈ بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان ان دس میں چھ معاملات میں بہتری لایا ہے۔ عملی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان کو ابھی بھی اس حوالے سے بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ بہتریاں بہت خوش آئند ہیں اور موجودہ حکومت کو اس کی داد دینی چاہیے۔ مگر یہ تبدیلیاں قوانین میں تو لکھ دی گئی ہیں اور کہیں کہیں تو عمل میں بھی لائی گئی ہیں مگر انھیں ہماری کاروباری ثقافت میں پکا ہونے میں وقت لگے گا۔ پاکستان کی پوزیشن میں بہتری اپنی جگہ، لیکن ہم اب بھی 190 میں سے 108ویں پوزیشن پر ہیں۔ یوں سمجھیں کہ ہم کلاس کی پچھلی سیٹوں سے اٹھ کر درمیان میں آ کر بیٹھ گئے ہیں۔ فرسٹ آنے میں ابھی وقت لگے گا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50123214", "summary": "معاشی امور کے ماہر ثاقب شیرانی کا کہنا ہے کہ ابھی تک ایکسپورٹ سیکٹر ہی سب سے اچھا ہے لیکن یہ معیشت کا کُل سات سے آٹھ فیصد تک بنتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ابھی بہتری آنے میں وقت لگے گا۔", "title": "’تحریک انصاف نے محدود معاشی کامیابی حاصل کی‘", "firstPublished": "2019-10-24T05:11:20.000Z", "id": "92222ab2-820a-b94a-a72e-0deee2c70176", "article": "معاشی امور کے ماہر ثاقب شیرانی نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے دعوے کسی حد تک درست ہیں لیکن جہاں بہتری دیکھنے میں آئی ہے وہ معیشت کا ایک محدود حصہ ہی بنتا ہے۔ ثاقب شیرانی کا کہنا ہے کہ یہ ایسی مدات ہیں کہ جن کا عام آدمی سے براہ راست تعلق نہیں بنتا کیونکہ نہ تو اب حکومت اس سے کوئی نیا کاروبار یا ملازمتوں کے مواقع پیدا کرسکتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی اور رعایت دے سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا کہ ملک میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ انڈسٹریزیعنی پیداواری شعبہ مسلسل انحطاط کا شکار ہے۔ ثاقب شیرانی کا کہنا ہے کہ جب فیکٹریاں بند اور بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہو تو اس کا صاف مطلب تو یہی ہے کہ پیداواری شعبہ ابھی تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو ورثے میں جو معیشت ملی وہ زبوں حالی کا شکار تھی اور دعویٰ ہے کہ اس کے باوجود موجودہ حکومت اس میں بہتری لے کر آئی ہے۔ ثاقب شیرانی کا کہنا ہے کہ معیشت کی سب سے زیادہ خرابی گذشتہ حکومت کے پانچ برس میں ہوئی ہے۔ ان کے خیال میں ہر آنے والی حکومت گذشتہ حکومت کو معیشت کی خرابی کا سبب بتاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک ہم نے اپنی پالیسی، طریقہ کار اور اداروں کو ہی نہیں بدلا۔ میرے خیال میں انگریز جو معیشت اور جو ادارے چھوڑ گئے تھے ہم ان پر ہی چل رہے ہیں کچھ طویل عرصے کی پلاننگ نہیں کررہے ہیں۔ تجزیہ نگار قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ ’جب میں بہتری کی باتیں سنتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں کسی اور ملک کے بارے میں یہ سب سن رہا ہوں۔ ان کے خیال میں جسے عمران خان اپنی معاشی کارکردگی بتا رہے ہیں وہ کساد بازاری کی علامتیں ہیں‘۔ وزیر تجارت رزاق داؤد کے ایک میڈیا بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جو بہتری ہوئی ہے وہ درآمدات میں کمی کی وجہ سے ممکن ہو سکی ہے‘۔ ڈاکٹر صمد کے خیال میں اس وقت افراط زر ہے اور شرح پیداوار نیگیٹو میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترسیلات زر کا اکانومی میں بڑا اہم رول ہوتا ہے، ان میں اضافہ اکانومی میں بہتری کی نشاندہی کرتا ہے۔ وہ اس رائے سے متفق ہیں کہ جس وقت سرمایہ کار کو بے یقینی کی کیفیت سے باہر نہیں نکالا جاتا تو اس وقت تک معیشت میں بہتری کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ ثاقب شیرانی کا کہنا ہے کہ ’ابھی تک اکانومی میں ایکسپورٹ سیکٹر ہی سب سے اچھا ہے۔ لیکن یہ معیشت کا کل سات سے آٹھ فیصد تک بنتا ہے‘۔ ان کے خیال میں ’جس طرح کا بحران ہے، ابھی بہتری آنے میں وقت لگے گا‘۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-50103801", "summary": "’وسل بلوئرز‘ نے براہ راست انفوسس کے سی آئی او سلیل پاریکھ اور سی ای او نلجن رائے پر الزام لگایا ہے کہ انھوں نے کمپنی کی آمدنی اور منافع کو بڑھا چڑھا کر دکھانے اور کھاتوں میں رد و بدل کرنے کوشش کی ہے۔", "title": "انڈین کمپنی کے ایک ہی دن میں 53 ہزار کروڑ کیسے ڈوبے؟", "firstPublished": "2019-10-24T01:42:41.000Z", "id": "072af3a3-37ae-7348-b22e-6614e96accdc", "article": "مارکیٹ کیپٹلائزیشن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بازار حصص میں کمپنی کے کاروبار کی قیمت کیا ہے۔ یہ گراوٹ کمپنی کی انتظامیہ پر کچھ سنجیدہ الزامات لگنے کے ایک دن بعد دیکھنے میں آئی ہے۔ ’وسل بلوئرز‘ نے براہ راست انفوسس کے سی آئی او سلیل پاریکھ اور سی ای او نلجن رائے پر الزام لگایا ہے کہ انھوں نے کمپنی کی آمدنی اور منافع کو بڑھا چڑھا کر دکھانے اور کھاتوں میں رد و بدل کرنے کوشش کی ہے۔ کمپنی کے بورڈ کو خطاب کرتے ہوئے لکھے گئے ان خطوط میں شکایت کرنے والوں نے تفتیش کا مطالبہ کیا اور فوراً کارروائی کرنے کی اپیل کی ہے۔ مخبری کرنے والوں نے لکھا ہے کہ وہ اپنے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے ای میل اور آڈیو ریکارڈنگ بھی فراہم کر سکتے ہیں۔ اسی دوران انفوسس کے چیئرمین نندن نلیکنی نے کہا کہ ان الزامات کی تفتیش کی جائے گی۔ آئی ٹی کمپنی انفوسس نے کہا ہے کہ شکایت کو کمپنی کی ’وِسل بلوئر‘ کی پالیسی کے تحت دیکھا جائے گا۔ نندن نلیکنی نے کہا ہے کہ آڈٹ کمپنی الزامات کی آزادانہ تفتیش کرے گی۔ انھوں نے بتایا کہ ایک بورڈ ممبر کو 30 ستمبر کو دو شکایات موصول ہوئی تھیں جن پر 20 ستمبر کی تاریخ لکھی تھی۔ اس خط کا عنوان تھا ’ڈسٹربنگ ان ایتھیکل پریکٹسز‘ اور ایک دوسرا خط جس پر کوئی تاریخ نہیں تھی اس کا عنوان تھا ’وسل بلوئر کمپلین۔‘ سٹاک ایکسچینج کو دیے گئے بیان میں نلیکنی نے کہا کہ دونوں شکایات 20 ستمبر کو آڈٹ کمیٹی کے پاس بھیج دی گئیں اور اس کے بعد انھیں بورڈ کے آزاد ممبران کو بھی بھیج دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ تفتیش کے نتائج آنے پر کمپنی اس کے مطابق اقدامات کرے گی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ سی آئی او اور سی ایف او کو اس تفتیش سے علیحدہ کر دیا گیا ہے تاکہ تفتیش کو آزادانہ طریقے سے کرایا جا سکے۔ گذشتہ دو برس میں ’وسل بلوئرز‘ کی جانب سے متعدد شکایات کی وجہ سے انفوسس تنازعات کا شکار رہی ہے۔ اور اسی وجہ سے وشال سکا کو سی ای او کا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔ اس خط میں انھوں نے یہ بھی لکھا ہے ’سنہ 2019 اور 20 کی سہ ماہی کے نتائج میں دباؤ ڈالا گیا کہ پانچ کروڑ کی ایک اپ فرنٹ ادائیگی کو واپس کرنے کا ذکر نہ کیا جائے۔ ایسا کرنے سے کمپنی کا منافع کم لگے گا اور اس کا اثر شئیر کی قیمتوں پر پڑے گا۔‘ اطلاعات کے مطابق اس ماہ کے شروع میں انفوسس نے اقتصادی ماہرین کے ساتھ ایک کانفرنس کال بھی کی تھی۔ ان میں سے ایک اقتصادی ماہر نے انبلڈ ریونیو میں آئی غیر معمولی تبدیلی کے بارے میں سوال اٹھائے تھے اور پوچھا تھا کہ اکاؤنٹنگ پالیسی میں کوئی تبدیلی کی گئی ہے کیا؟"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-50010571", "summary": "چند دہائیوں پہلے تک دوہری شہریت رکھنا اتنا عام نہیں تھا لیکن اب ’پاسپورٹ برائے فروخت’ کی سرکاری سکیموں سے کئی ممالک کروڑوں ڈالر کما رہے ہیں۔", "title": "مختلف ممالک اپنا پاسپورٹ کیوں فروخت کر رہے ہیں؟", "firstPublished": "2019-10-22T16:24:17.000Z", "id": "3d44b553-cf59-6f47-8ce1-9fe32d0b3171", "article": "’اسے‘ سے یہاں ہماری مراد کسی مخصوص ملک کا پاسپورٹ یعنی اس کی شہریت ہے، اور اب یہ تصور پہلے سے کہیں زیادہ عام ہوچکا ہے۔ 50 سال قبل کسی ملک کا دوہری شہریت کی اجازت دینا کم کم ہی ہوتا تھا لیکن اب یہ تصور تقریباً ہر ملک میں پایا جاتا ہے۔ اب دنیا کے تقریباً نصف سے زیادہ ممالک میں شہریت بذریعہ سرمایہ کاری کے پروگرام رائج ہیں۔ اس حوالے سے مہارت رکھنے والے سوئس وکیل کرسچن کیلن کے مطابق اب یہ 25 ارب ڈالر (20 ارب پاؤنڈ) سالانہ حجم کی بین الاقوامی صنعت بن چکی ہے۔ شہریتوں کے اس کاروبار کے متعلق تحقیق کے دوران ہم بحر الکاہل کے ایک چھوٹے سے جزیرے وانوآٹو تک جا پہنچے۔ چونکہ اس ملک نے چار سال قبل ہی شہریت کی اپنی سکیم متعارف کروائی ہے اس لیے اس میں بے پناہ دلچسپی دکھائی جا رہی ہے۔ پاسپورٹ اب اس ملک کی حکومت کے لیے کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ہانگ کانگ دنیا میں شہریت کی سب سے بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے۔ ہانگ کانگ ایئرپورٹ کے ایک کیفے میں ہم ایک ایجنٹ ایم جے سے ملے۔ وہ ایک پرائیوٹ بزنس مین ہیں جو چینی شہریوں کی دوسرا حتیٰ کہ تیسرا پاسپورٹ تک حاصل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ شہریت کی بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ سخت ہے اور کئی چھوٹے، ممالک جو جزیرے ہیں، بالخصوص کیریبیئن خطے کے ممالک میں پاسپورٹ کی قیمت ڈیڑھ لاکھ ڈالر تک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وانوآٹو کے پاسپورٹ کی قیمت بھی تقریباً اتنی ہی ہے۔ مگر اس کے باوجود چین کے لوگوں کی اس میں دلچسپی برقرار ہے۔ چند سال پہلے تک ہانگ کانگ کے ٹی وی چینلز پر وانوآٹو کی شہریت کے بارے میں دلفریب اشتہار نظر آتے تھے جن کا ہدف یہاں چین کے مرکزی خطے سے لگاتار آنے والے سیاح ہوتے تھے۔ اس ملک کے اپنے لوگ جنھیں نی وانوآٹو کہا جاتا ہے، انھیں بھی 1980 میں سرکاری طور پر شہری اس وقت تسلیم کیا گیا جب ملک نے آزادی حاصل کی۔ اس سے قبل یہ نیو ہیبریڈیز کہلاتا تھا اور فرانس اور برطانیہ کی اس پر مشترکہ حکومت تھی۔ یہاں کے باشندے 80 سے زیادہ جزیروں کی ایک پٹی پر رہائش پزیر ہیں۔ 40 سال سے بھی کچھ کم عرصہ پہلے تک یہ لوگ خود شہریت کے بغیر تھے۔ اور سابق وزیرِ اعظم باراک سوپے اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ وانوآٹو دنیا کے ان تین ممالک میں سے ایک ہے جہاں خواتین سیاست سے مکمل طور پر باہر ہیں، اور اس کی مکمل طور پر مردوں پر مشتمل حکومت اپنے شہریت کے پروگرام کے بارے میں ہم سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ مگر ہم حکومت کے مقرر کردہ شہریت سے متعلق ایک ایجنٹ بِل بنی سے ملنے میں کامیاب رہے اور انھوں نے اس پروگرام پر اپنے نکتہ نظر سے آگاہ کیا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-50097318", "summary": "دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت چین اس وقت امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ لڑ رہا ہے جس سے اس کی معیشت متاثر ہوئی ہے اور تجزیہ نگاروں کو خدشہ ہے کہ اس سے عالمی معیشت میں بھی کساد بازاری بڑھ سکتی ہے۔", "title": "چینی معیشت میں سست روی عالمی معیشت کے لیے خطرہ", "firstPublished": "2019-10-19T02:30:28.000Z", "id": "15164675-6f2e-894d-9be1-c6cec6e41dcd", "article": "امریکہ کے ساتھ جاری تجارتی جنگ کی وجہ سے تیسری سہ ماہی کے دوران چین کی معیشت کی بڑھوتری میں سست روی واقع ہوئی ہے اور ملک کے اندر بھی طلب میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ تازہ اعداد و شمار دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی رفتار میں مزید کمی کا باعث بن رہے ہیں جس کی شرح پیداوار تقریباً گذشتہ تین دہائیوں سے تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ چین کی معیشت میں استحکام کو باریک بینی سے دیکھا جا رہا ہے کیونکہ اس کی شرح پیداوار میں سست روی پوری دنیا کی معیشت پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ کچھ تجزیہ نگار اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ چین میں پیداوار میں تیزی سے کمی واقع ہونے دنیا کی پہلے سے سست روی کا شکار معیشت مزید کساد بازاری کا شکار ہوجائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ فیصلہ سازوں کی اس حوالے سے مداخلت متوقع ہے لیکن پیداوار میں اضافے اور معیشت کو ایک ڈگر پر چلانے کے لیے کچھ وقت درکار ہو گا۔ چین کی گذشتہ برس سے امریکہ سے تجارتی جنگ کی وجہ سے تجارتی سرگرمیوں اور صارفین میں غیر یقینی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ تجارتی تنازعات اور سست رو طلب کے پیش نظر اب اس ہفتے عالمی مالیاتی ادارے، آئی ایم ایف، نے چین سے متعلق سال 2019 میں 6.1 سے 6.2 کی شرح پیداوار کی پیش گوئی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ہفتے کے شروع میں چین اور امریکہ کے درمیان فیز ون مذاکرات کے بعد اب تجارتی جنگ کے حل کی طرف کچھ پش رفت کے آثار دکھائی دیے ہیں۔ اس کے باوجود کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال میں بڑھتے قرضوں اور معیشت سے متعلق بڑھتی ہوئی تشویش کے بعد اب چین کی حکومت بھی اب پہلے سے زیادہ محتاط ہو گئی ہے۔ چین کے معاشی اعداوشمار کا تجزیہ ایک نئے مسئلے کو جنم دیتا ہے۔ کئی ماہرین معاشی امور کے خیال میں ظاہر کی جانے والے اعداوشمار سے حقیقی اعدادوشمار بہت کم ہیں، لیکن یہ حکومت کا پیداوار سے متعلق ایسا طریقہ کار ہے تاکہ آپ اس طرف توجہ دیں۔ چین کی پیداوار کے توقع سے کم اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ چین کی معیشت بہت سے اندازوں سے زیادہ خسارے میں جا رہی ہے۔ . چین کی معیشت تین طریقوں سے متاثر ہو رہی ہے: امریکہ کی تجارتی برتری، ملکی سطح پر طلب میں کمی اور بڑھتے اندرونی چیلنجز جس میں سوائن فلو سے بخار کی وبا کا پھوٹ پڑنا جس نے اس کے سور کے گوشت والے فارم ہاؤس متاثر ہوئے جس سے صارفین کے لیے قیمتیوں میں بھی اضافہ ہوا۔ اور یہی وہ کچھ ہے جو کمیونسٹ پارٹی نے گذشتہ چار دہائیوں میں یقینی بنایا ہے اور اب اس عمل کو جاری رکھنے سے متعلق ان کو شدید دباو کا سامنا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50093108", "summary": "فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو بدستور گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ اگر فروری 2020 تک خاطر خواہ اقدامات نہ کیے گئے تو بلیک لسٹ میں بھی ڈالا جا سکتا ہے۔", "title": "ایف اے ٹی ایف: پاکستان فروری تک گرے لسٹ میں رہے گا", "firstPublished": "2019-10-18T02:08:06.000Z", "id": "44c43621-b34e-054c-8263-2a3dfec6f294", "article": "فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو بدستور گرے لسٹ میں برقرار رکھتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر فروری 2020 تک خاطر خواہ اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کو بلیک لسٹ میں بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ پیرس میں ایف اے ٹی ایف کے صدر ژیانگ من لیو نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان فروری 2020 کی ڈیڈ لائن تک گرے لسٹ میں ہی رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے حوالے سے پیش رفت ہوئی ہے جس کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں تاہم پاکستان کو مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے معاملات میں مزید بہتری کے لیے پاکستان کو فروری 2020 تک کا وقت دیا گیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ اگر فروری 2020 تک پاکستان نے اس حوالے سے تمام شعبہ جات میں خاطر خواہ اقدامات نہ کیے تو ایکشن لیا جائے گا۔ اس ایکشن کے تحت ایف اے ٹی ایف اپنے ممبر ممالک کو کہہ سکتا ہے کہ وہ اپنے اپنے مالیاتی اداروں کو پاکستان کے ساتھ کاروباری تعلقات کا جائزہ لینے کا کہیں۔ پیرس میں ایف اے ٹی ایف کا اجلاس 13 اکتوبر کو شروع ہوا تھا۔ اس اجلاس کے دوران اس امر کا جائزہ لیا گیا کہ پاکستان کو پہلے دی جانے والی 40 سفارشات پر کتنا کام ہوا، کتنے پر مکمل یا جزوی عمل کیا گیا اور کتنی سفارشات ایسی ہیں جن پر بالکل بھی عمل نہیں کیا۔ اس سے قبل پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یہ بین الحکومتی ادارہ جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت میں استعمال ہونے والی رقوم کو روکنے کے لیے بھی اقدامات تجویز کرتا ہے اور پاکستان کا اس وقت دورہ کرنے والے برطانیہ کے شہزادہ ولیم اِس شعبے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان پر جس طرح کا دباؤ ہے اور اجلاس کے بارے میں جو اطلاعات سامنے آئیں ہیں وہ واضح طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے تمام راستے بند کرنے کے لیے دنیا بہت سنجیدہ ہے۔ تاہم دہشتگردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے زیادہ تر مقدمات میں سزاؤں کا نہ ملنا اور موثر اقدامات کے لیے صوبوں اور مرکز کے درمیان رابطے اور ہم آہنگی کے فقدان جیسے معاملات کو ناکامی کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ پاکستان اس وقت گرے لسٹ میں ہے اور اگر گرے لسٹ میں ہی برقرار رکھا جاتا ہے تو اِسے پاکستان میں کسی حد تک کامیابی سے تعبیر کیا جائے گا۔ پاکستان کو اپنی معیشت میں تیزی لانے کے لیے جہاں اصلاحات کی ضرورت ہے، ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے اور غیرترقیاتی کاموں کو کم کرنے کی ضرورت ہے وہیں سستے قرضے بھی ملک کی گرتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-50050448", "summary": "عالمی غربت مٹانے کے لیے تجرباتی تحقیق کرنے پر سال 2019 کے نوبل انعام برائے معاشیات کے لیے انڈین نژاد امریکی پروفیسر ابھیجیت بینرجی، ان کی اہلیہ پروفیسر ایستھر ڈفلو اور پروفیسر مائیکل کریمر کو چنا گیا ہے۔", "title": "معاشیات کا نوبل انعام جیتنے والا جوڑا کون ہے؟", "firstPublished": "2019-10-14T23:45:36.000Z", "id": "f3fa1b52-0538-e447-ab91-0969f4a89d07", "article": "عالمی غربت مٹانے کے لیے تجرباتی تحقیق کرنے پر سال 2019 کے نوبل انعام برائے معاشیات کے لیے انڈین نژاد امریکی پروفیسر ابھیجیت بینرجی، ان کی اہلیہ پروفیسر ایستھر ڈفلو اور پروفیسر مائیکل کریمر کو چنا گیا ہے۔ رائل سویڈش اکادمی برائے سائنس کی جانب سے دیے گئے اعزاز کے حقدار تینوں ماہر معاشیات کے لیے کہا گیا ہے کہ ان کی جانب سے کی گئی تحقیق تجربات پر مبنی تھی جس کی مدد سے عالمی طور پر غربت کو ختم کرنے کے لیے نئی راہ ہموار کی گئی ہے۔ پروفیسر بینرجی اور پروفیسر ڈفلو امریکہ کے میسا چیوسیٹس انسٹٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) میں تدریس و تحقیق کرتے ہیں جبکہ ان کے ساتھ انعام جیتنے والے پروفیسر کریمر ہارورڈ یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔ واضح رہے کہ الفریڈ نوبل کے نام سے منسوب نوبل انعام کو معاشیات کے شعبے میں نوازنے کا سلسلہ 50 سال قبل شروع ہوا تھا اور اس کا باضابطہ نام ویریگس رکس بینک انعام ہے۔ اس انعام کو الفریڈ نوبل کی یاد میں سویڈن کے مرکزی بینک کی جانب سے 1969 میں شروع کیا گیا تھا۔ معاشیات کا نوبل جیتنے والے مائیکل کریمر (دائیں جانب)، ایستھر ڈفلو (درمیان میں) اور ابھیجیت بینرجی (بائیں جانب) انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی پروفیسر ابھیجیت بینرجی کو نوبل انعام جیتنے پر مبارکباد دی ہے لیکن وہ ماضی میں نریندر مودی کے فیصلوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ فروری 2016 میں نئی دہلی کی جواہر لعل یونی ورسٹی (جے این یو) کے حوالے سے ہونے والے تنازع کے بعد پروفیسر ابھیجیت بینرجی نے اپنے کالم میں لکھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو تعلیمی اور تنقیدی سوچ والے اداروں سے دور رہنا چاہیے۔ اس کے علاوہ بھی وہ وقتاً فوقتاً انڈین حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں اور انڈیا کی جانب سے 'ڈی مونیٹائزیشن' کی پالیسی پر اپنے تحفظات کی اظہار کیا اور وہ ان 108 معاشی ماہرین کی فہرست میں شامل تھے جنھوں نے انڈین حکومت کی جانب سے مجموعی ملکی پیداوار کے اعداد و شمار میں ہیر پھیر کرنے کا الزام عائد کیا۔ انڈین نژاد امریکی پروفیسر ابھیجیت بینرجی کے والدین بھی انڈیا کے معروف ماہر معاشیات رہے ہیں۔ پروفیسر بینرجی کے ساتھ انعام جیتنے والی 46 سالہ پروفیسر ایستھر ڈفلو ان کی اہلیہ ہیں جو نہ صرف معاشیات کا نوبل انعام جیتنے والی دوسری خاتون ہیں بلکہ یہ اعزاز حاصل کرنے والوں میں سب سے کم عمر بھی ہیں۔ پروفیسر بینرجی اور پروفیسر ڈفلو سے قبل چار جوڑوں کو ایک ساتھ نوبل پرائز سے نوازا گیا ہے جس میں سنہ 1903 میں پیئر کیوری اور میری کیوری، سنہ 1935 میں فریڈریک جولیوٹ اور آئیرین جولیوٹ، سنہ 1947 میں کارل فرڈینانڈ اور گیرٹی تھریسا کوری اور سنہ 2014 میں ایڈورڈ موزر اور مے برٹ موزر شامل ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-50042569", "summary": "مودی سرکار کی طرح عمران خان حکومت بھی یہ کہہ رہی ہے کہ سب اچھا ہے۔ عوام ان اعدادوشمار کے چکر میں نہ آئے بلکہ یہ دیکھے کہ پچھلے سال کے مقابلے میں رواں سال ٹیکس دہندگان کے نام دگنے ہو گئے ہیں: پڑھیے وسعت اللہ خان کا تجزیہ۔", "title": "مطلب ہے سب اچھا ہے", "firstPublished": "2019-10-14T11:03:38.000Z", "id": "eba86c87-82c0-ff48-b65c-396342606807", "article": "عالمی بینک کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال میں ہندوستانی معیشت میں ترقی کی شرح گذشتہ تین سالوں میں 7.2 فیصد سے گرتے گرتے اب 6.0 فیصد پر آگئی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا کہنا ہے جن ممالک کی معیشت اس وقت سب سے زیادہ سست رفتاری کا شکار ہے ان میں برازیل اور ہندوستان سرفہرست ہیں۔ اگرچہ میں ہندوستانی شہری نہیں ہوں لیکن میرا دل ان اعداد و شمار کو قبول نہیں کررہا ہے۔ کیونکہ ورلڈ بینک ہو یا انٹرنیشنل مالی ادارہ یا پھر سٹیٹ بینک آف پاکستان، ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی معیشت اس قدر نیچے چلی گئی ہے کہ اگر رواں مالی سال میں پاکستان دو فیصد کی ترقی کی شرح کو نہیں چھوتا ہے تو گویا اس نے خود کو نیزہ مار لیا ہے۔ روزانہ خبریں آرہی ہیں کہ آٹو انڈسٹری میں پچھلے سال کے مقابلہ میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ صنعتی ترقی کا پہیہ جام ہے اور روپیہ ڈالر کے پیروں سے لٹک رہا ہے۔ لیکن مودی سرکار کی طرح عمران خان حکومت بھی یہ کہہ رہی ہے کہ سب اچھا ہے۔ عوام ان اعدادوشمار کے چکر میں نہ آئے بلکہ یہ دیکھے کہ پچھلے سال کے مقابلے میں رواں سال ٹیکس دہندگان کے نام دگنے ہو گئے ہیں۔ مہنگائی نہ دیکھیے بلکہ یہ دیکھیے کہ ہم ٹیکس چوروں کو کس طرح لٹکا رہے ہیں۔ آئندہ سال اور بہتر ہوگا۔ بس گھبرائیں نہیں۔ جس طرح مجھے اپنی حکومت پر یقین ہے کہ میری حکومت بہت سچائی کے ساتھ جھوٹ بول رہی ہے اسی طرح مجھے ہندوستان کے وزیر قانون، مواصلات اور آئی ٹی روی شنکر پرساد پر بھی اعتماد ہے جنھوں نے قومی سروے آفس کا نام لیے بغیر کہا کہ کچھ لوگ معیشت اور بے روزگاری کے حوالے سے بی جے پی حکومت کو بدنام کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب پرویز مشرف کے زمانے میں ہندوستان سے ٹماٹر آنا بند ہو گئے تب مشرف صاحب نے کہا کہ کیا غریبوں کا ٹماٹر کھانا بہت ضروری ہے؟ وہ سالن میں دہی نہیں ڈال سکتے؟ اور کون کہتا ہے کہ ہماری معیشت کمزور ہے، اگر ایسا ہوتا تو اتنی موٹرسائیکلیں کیسے بکتیں؟ لیکن ہمارے یہاں تو گویا ہر کرسی پر میری اینٹونیٹ کا بھوت بیٹھا ہے! میرے خیال سے گندگی انسان کے ذہن میں نہیں حکمرانی کی گدی میں ہے۔ اس پر بیٹھتے ہی سب اچھا محسوس ہونے لگتا ہے۔ کیوں؟ اس پر بھی تحقیق ہونی چاہیے۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو بی جے پی اور تحریک انصاف کو اگلی بار اپوزیشن میں بیٹھنے کا موقع دے دیں۔ چند گھنٹوں میں ہی 'سب اچھا ہے' اگر 'سب برا ہے' میں نہ بدل جائے تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50032451", "summary": "پاکستان میں گذشتہ ہفتے پیش آنے والے چند اہم واقعات کی تصویری جھلکیاں", "title": "گذشتہ ہفتے کا پاکستان تصاویر میں", "firstPublished": "2019-10-13T11:47:46.000Z", "id": "69e9411d-3fd5-5c48-b4ed-2160f06466ac", "article": "پاکستان میں گذشتہ ہفتے پیش آنے والے چند اہم واقعات کی تصویری جھلکیاں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ ہفتے چین کا دورہ کیا جہاں ان کی ملاقات صدر شی جن پنگ سے ہوئی۔ اپنے دورے میں ایک خطاب کے دوران عمران خان کا کہنا تھا ’چین نے کبھی بھی پاکستان کی مدد کے عوض کسی ایسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا جو پاکستان کے قومی مفاد کے خلاف ہو اور اس نے پاکستان کی مدد بغیر کسی شرط کے کی ہے۔‘ لاہور کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو میں نواز شریف نے آزادی مارچ کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور کہا ’جتنے مرضی ہتھکنڈے استعمال کر لیں نہ پہلے جھکے، نہ اب جھکیں گے۔‘ سری لنکا نے پاکستان کو لاہور میں تین میچز کی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شکست دی اور وائٹ واش مکمل کیا۔ مہمان ٹیم نے توقعات کے برعکس زبردست کھیل پیش کیا اور ٹی ٹوئنٹی کی عالمی نمبر ون ٹیم کو کسی بھی میچ میں سبقت حاصل کرنے نہ دی۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے آزادی مارچ کو پولیس کی جانب سے روکا گیا اور انھیں لائن آف کنٹرول عبور کرنے نہ دی گئی۔ تصویر میں جسکول کے مقام پر ان مظاہرین کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ملک کے کئی شہروں میں ڈینگی کے مریضوں میں اضافہ ہوا ہے تاہم اس کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر کوششیں جاری ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق ڈینگی پھیلانے والے مچھروں کے انڈوں اور لاروے کی پرورش صاف اور ساکت پانی میں ہوتی ہے جس کے لیے موافق ماحول عام گھروں کے اندر موجود ہوتا ہے۔ سنیچر کو مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس بریفنگ میں ملک کے معاشی حالات کے بارے میں آگاہ کیا۔ اس موقع پر مشیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ مالی سال 20۔2019 کے پہلے کواٹر کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 9 ارب ڈالر سے کم ہو کر 7۔5 ارب ڈالر پر آنے سے 35 فیصد تک کم ہو چکا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-49988247", "summary": "تازہ اعداد و شمار کے مطابق ٹِک ٹاک کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس نے اس سال کے پہلے چھ مہینوں میں سات سے ساڑھے آٹھ ارب ڈالر منافع کمایا ہے اور فیس بک کے سربراہ مارک زوکر برگ اِسے ایک بڑے حریف کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔", "title": "کیا ٹِک ٹاک فیس بک کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی ہے؟", "firstPublished": "2019-10-12T06:44:39.000Z", "id": "102f3266-9c87-bd4d-a05a-76ac3f7ef16f", "article": "اِس ہفتے ہمیں ٹِک ٹاک کے بارے میں دو اہم باتیں معلوم ہوئیں۔ پہلی یہ کہ یہ حیران کن مقدار میں پیسے کما رہا ہے اور دوسری بات یہ کہ فیس بک کے سربراہ مارک زوکر برگ اِسے ایک بڑے حریف کے طور پر دیکھتے ہیں۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے اعداد و شمار کے مطابق ٹِک ٹاک کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس نے اس سال کے پہلے چھ مہینوں میں سات سے ساڑھے آٹھ ارب ڈالر منافع کمایا ہے۔ کمپنی کو امید ہے کہ سال کے دوسرے حصے میں بھی وہ منافعے میں رہے گی۔ مارک زوکر برگ بھی اس سے متفق نظر آتے ہیں۔ فیس بک کے ایک اجلاس کی افشاء ہونے والی ویڈیو میں زوکربرگ اپنی ٹیم سے کہہ رہے ہیں کہ ٹِک ٹاک کس تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ زوکر برگ کہتے ہیں ’چین کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنی کی یہ پہلی کنزیومر انٹرنیٹ پراڈکٹ ہے جو دنیا بھر میں اچھی کارکردگی دکھا رہی ہے۔ یہ امریکہ میں بھی کامیاب ہونا شروع ہو گئی ہے، خاص طور پر نوجوانوں میں۔ یہ انڈیا میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ میرے خیال میں اپنے حجم کے لحاظ سے انڈیا میں اِس نے انسٹاگرام کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ تو یہ ایک بہت دلچسپ معاملہ ہے۔‘ موبائل ایپلیکیشنز کے ڈاؤن لوڈز کا حساب رکھنے والی تحقیقاتی کمپنی 'ایپ اینی' کی تحقیق بھی ٹِک ٹاک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی تصدیق کرتی ہے۔ کمپنی کے یورپ کے تحقیق کار پال بارنس کا کہنا ہے کہ اینڈروائڈ استعمال کرنے والے صارفین نے صرف اگست کے مہینے میں ٹِک ٹاک پر ایک عشاریہ ایک ارب گھنٹے صرف کیے۔ اِن میں چین کے صارفین شامل نہیں ہیں۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں یہ 400 فیصد اضافہ ہے۔ پال بارنس کا کہنا ہے کہ سماجی رابطوں کی دوسری کمپنیوں کے لیے تشویش کا باعث یہ بات ہے کہ اگر آپ انسٹاگرام پر تصویر لگانے والے یا فیس بک پر کچھ پوسٹ کرنے والوں سے مقابلہ کریں تو ٹِک ٹاک کے صارفین بہت وفادار ہیں۔ دوسری جانب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ چینی کمپنی ہونے کی وجہ سے ٹِک ٹاک ایسے موضوعات کو سینسر کرتا ہے جو چین کے لیے حساس ہیں۔ برطانوی اخبار گارڈین نے حال ہی میں افشاء ہونے والی کچھ انٹرنیٹ دستاویزات شائع کیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مواد کی نگرانی کرنے والے اہلکاروں کو تیانمن سکوائر یا ہانگ کانگ سے متعلق مواد سینسر کرنے کی ہدایات دی جاتی ہیں جو چین کے لیے حساس موضوعات ہیں۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ یورپ اور امریکہ میں ٹِک ٹاک کے لاکھوں نوجوان صارفین کو یہ معلوم ہے یا انھیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ٹِک ٹاک ایک چینی کمپنی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49984347", "summary": "حاضر سروس افسر سیٹھوں کے ساتھ بیٹھیں گے تو ظاہر کچھ سیکھیں گے اور سکھائیں گے۔ دل میں شک سا ہے کہ ہمارے افسر سادہ دل ہیں، ہمارا کرنل یہ سمجھ نہیں پائے گا کہ آخر کریم ڈھیڈی کا دھندہ ہے کیا:محمد حنیف کا کالم", "title": "سر باجوہ سیٹھوں سے ذرا بچ کے", "firstPublished": "2019-10-09T09:15:52.000Z", "id": "704d480d-ab31-fe4d-8efe-81f61bac7c18", "article": "یہ سپہ سالار کا ہی کمال ہے کہ وہ صبح لائن آف کنٹرول پر پہرہ دے لیتے ہیں، دوپہر کو ایک نئے ڈی ایچ اے کا افتتاح کرتے ہیں اور رات کو پانچ گھنٹے بیٹھ کر پاکستان کے سب سے بڑے سیٹھوں کے دکھی دلوں کا مداوا بھی کرتے ہیں۔ خبروں میں رپورٹ نہیں ہوا لیکن سر باجوہ نے ہلکی سی ڈانٹ تو پلائی ہو گی کہ اس ملک سے اتنا پیسہ بنایا پھر بھی رو رہے ہو، پھٹ رہے ہو۔ اگر پھٹنا ہی ہے تو ذرا دور جا کر پھٹو۔ میری ٹریننگ فوجی ہے اور میں پھٹنے والی چیزوں سے نمٹنا جانتا ہوں۔ ہمارے دوسرے سب سے بہادر سپہ سالار راحیل شریف کو 70، 80 ایکڑ زمین ملتی ہے تو شور مچتا ہے۔ آپ نے کبھی سیٹھوں کی جائیدادوں کا حساب کیا ہے۔ ایک سیٹھ کے بارے میں سنا تھا کہ اس کے گھر میں اپنا پیٹرول پمپ ہے۔ ایک دفعہ جانے کا موقع ملا تو گھر اتنا بڑا تھا کہ لگا کہ میری گاڑی میں پیٹرول ختم ہو سکتا ہے۔ ایک اور سیٹھ کے ڈرائیور نے بتایا کہ 18 گھنٹے لینڈ کروزر پر ڈیوٹی کرتا ہوں لیکن کھانے کے وقت دو کے بعد تیسری روٹی مانگوں تو سیٹھ کہتا ہے جاؤ اپنی خرید کر کھاؤ۔ کہیں پر یہ پڑھا ہے کہ فوجی فاؤنڈیشن جو کہ ریٹائرڈ فوجیوں کی فلاح و بہبود کا ادارہ ہے ملک کا دوسرا بڑا بزنس گروپ ہے۔ یہ ان سیٹھوں کی ہی کارستانی ہے کہ دنیا کی ایک نمبر فوج کاروبار کے میدان میں ابھی تک دوسرے نمبر پر ہے۔ کوئی پوچھے کہ اتنا پیسہ آیا کہاں سے۔ سیدھی سی بات ہے پاک بحریہ کا نام چرایا، اب پورے پاکستان میں بیچتے ہیں۔ ہماری بحریہ نے نام واپس لینے کی کتنی کوشش کی لیکن کہیں شنوائی نہ ہوئی یہ پاک فوج کے گھر سے چوری کر کے بھاگنے والا سیٹھ اب پاک فوج سے مقابلہ کرتا ہے اور روتا بھی ہے۔ عام طور پر فوجی افسران ریٹائرڈ ہونے کے بعد ان سیٹھوں کے پاس نوکری کی تلاش میں جاتے ہیں۔ اس وقت تک دیر ہو چکی ہوتی ہے اب حاضر سروس افسر سیٹھوں کے ساتھ بیٹھیں گے تو ظاہر ہے کچھ سیکھیں گے اور سکھائیں گے۔ لیکن دل میں شک سا ہے کہ ہمارے افسر بہادر ہیں لیکن سادہ دل بھی ہیں۔ اگر ہمارا کرنل چار ایم بی اے بھی کر لے تو یہ سمجھ نہیں پائے گا کہ آخر کریم ڈھیڈی کا دھندہ ہے کیا۔ چونکہ سپہ سالار منصف مزاج بھی ہیں تو اب انھیں چاہیے کہ 30، 35 مزدور، محنت کش افراد کو بلا کر ان سے بھی ایک میٹنگ کریں، تھوڑی تسلی دیں۔ غریبوں کی دعاؤں میں زیادہ اثر ہوتا ہے اور یہ دعائیں ایکسٹینشن کے تین سالوں میں کام آئیں گی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49968987", "summary": "وزیراعظم عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی تاجروں اور کاروباری شخصیات سے ملاقات میں یقین دہانیوں کے باوجود پاکستانی کارخانہ دار اور تاجر بےیقینی کا شکار ہے اور احتجاج کا سلسلہ تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔", "title": "بہتری کی’یقین دہانی‘کے باوجود تاجر بےیقینی کا شکار کیوں؟", "firstPublished": "2019-10-09T07:14:18.000Z", "id": "8ef530de-f7f5-3a4d-8a54-c0920dd5ff7d", "article": "ایک جانب تو تاجر اجتجاج کر رہے ہیں تو دوسری جانب ملک کے چند بڑے کارخانہ داروں اور کاروباری افراد کے ایک وفد نے اپنے تحفظات پر پہلے پاکستان کی برّی فوج کے سربراہ سے ملاقات کی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی بڑی صنعتی اور تجارتی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی۔ آرمی چیف سے ملاقات میں وفاقی وزیر برائے معاشی امور حماد اظہر اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین شبر زیدی، اور مشیر خزانہ حفیظ شیخ بھی موجود تھے۔ اس ملاقات میں موجود چند کاروباری شخصیات نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انھیں حکومتی عہدیداروں کو اپنے مسائل بتانے کا موقع ملا اور حکومتی اقدامات کے حوالے سے معلومات ملیں۔‘ اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں فوج کے سربراہ کی جانب سے کاروباری شخصیات کو حالات میں بہتری کی یقین دہانی کروائی گئی تاہم ایسی یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان کا کارخانہ دار اور تاجر بےچین اور بےیقینی کا شکار دکھائی دیتا ہے اور احتجاج کا سلسلہ تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔ اے کے ڈی گروپ کے چیئرمین عقیل کریم ڈھیڈی ملک کی معروف کاروباری شخصیات میں سے ایک ہیں جن کا کاروبار کارخانہ داری سے لے کر ٹیلی کام کے شعبے میں خدمات تک پھیلا ہوا ہے۔ وہ بھی زبیر طفیل سے اتفاق کرتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’کارخانہ دار کو کوئی مسئلہ تو ہو گا جس کی وجہ سے وہ شور کر رہا ہے۔ ہر خریدار کارڈ دکھانا نہیں چاہتا اور ہو سکتا ہے کارخانہ دار بھی اتنی پیداوار دکھانا نہیں چاہتا جتنی وہ کر رہا ہے۔‘ زبیر طفیل کا کہنا تھا کہ برآمدات کے ساتھ منسلک کارخانہ داروں کو زیادہ مسئلہ نہیں تاہم اس سے منسلک تاجروں کے ریفنڈز کی ادائیگی ایف بی آر کی جانب سے گزشتہ چھ ماہ اور کچھ جگہوں پر ایک سال سے نہیں کی گئی۔ یاد رہے کہ پاکستان میں احتساب کے قومی ادارے نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے اس ملاقات کے بعد چھ اکتوبر کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ان کا محکمہ ٹیکس سے متعلق تمام مقدمات کو واپس لے رہا ہے اور آئندہ ٹیکس سے متعلق کسی مقدمے کی تحقیق نہیں کرے گا۔ پرچون اور تھوک کا کام کرنے والے تاجروں کے بارے میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ پچاس ہزار روپے سے زائد کی خریداری پر قومی شناختی کارڈ کی شرط ان کے حکومت سے تنازع کی بنیادی وجہ نظر آتی ہے۔ انجمن تاجران لاہور رجسٹرڈ کے نائب صدر راجہ امجد حسین بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کی مطابق پاکستان میں زیادہ تر کاروباری افراد تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور ان کے لیے یہ آسان کام نہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49968983", "summary": "سی پیک اتھارٹی کا قیام اس بات کا عکاس ہے کہ پاکستان چین کو ایک مرتبہ پھر یقین دہانی کروا رہا ہے کہ اقتصادی راہدرای کے منصوبوں کو سست روی کا شکار نہیں ہونے دیا جائے گا۔", "title": "کیا سی پیک منصوبوں پر عملدرآمد سست روی کا شکار ہے؟", "firstPublished": "2019-10-08T10:17:44.000Z", "id": "3d4fe974-4278-b745-b6d1-5cfcf8b2228c", "article": "وزیرِاعظم عمران خان کے حالیہ دورہ چین سے عین قبل سی پیک اتھارٹی کا بذریعہ صدارتی آرڈیننس قیام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسلام آباد کی جانب سے چینی حکام کو ایک مرتبہ پھر یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ سی پیک کے منصوبوں پر عملدرآمد کو سست روی کا شکار نہیں ہونے دیا جائے گا۔ وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے سی پیک اتھارٹی کے قیام کا عندیہ رواں سال اگست میں دیا گیا تھا جسے اس ہفتے کے آغاز پر صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قائم کیا گیا ہے۔ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور آرڈیننس 2019 کے تحت قائم ہونے والا ادارہ وزارت منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرے گی جو اس سے پہلے سی پیک منصوبے پر عملدرآمد کے ادارے کے طور پر کام کر رہی تھی۔ یہ اتھارٹی پاکستان اور چین کے درمیان قائم ورکنگ گروپس اور دیگر اداروں کے اجلاس بلانے کے لیے رابطہ کار کا کام کرے گا۔ پاکستان کے نامور معاشی تجزیہ کار سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق چین پاکستان اقتصادی راہداری کے بعض اہم منصوبوں پر کام سست روی کا شکار ہے اور مدت پوری ہونے کے باوجود بعض منصوبے مکمل نہیں ہو سکے۔ وزارت منصوبہ بندی کے سربراہ وفاقی وزیر خسرور بختیار کا کہنا ہے کہ حکومت سی پیک کے تمام منصوبوں کو برقت مکمل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان کے منصوبہ بندی کمیشن کے حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ دورہ چین کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان پاکستان سٹیل مل چین کے حوالے کرنے کے آپشن پر بات چیت کریں گے۔ اس کے علاوہ ایم ایل ون منصوبہ جو کافی عرصے سے سردخانے کی نذر ہے، اس پر بھی بات چیت اور فنانسنگ کے امور طے کیے جانے کے امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان چینی حکام کو بونجی ہائیڈروپاور پراجیکٹ پر چینی حکام کو کام کرنے کی پیشکش کرے گا۔ اس کے علاہ ریفائنری کے قیام کی پیشکش بھی کی جائے گی۔ اپوزیشن ارکان کے اعتراضات کے باوجود حکومت صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس اتھارٹی کا قیام عمل میں لے آئی ہے اور ارکانِ پارلیمنٹ کو آرڈیننس کے ذریعے اس کے قیام پر اعتراضات ہیں۔ جب سی پیک کے منصوبوں پر عملدرآمد شروع ہوا، تو اس وقت بھی سی پیک اتھارٹی کے قیام کی تجویز سامنے آئی تھی لیکن سابقہ حکومت نے اس پر عمل درآمد نہیں کیا۔ سی پیک کے منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد اس حکومت کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کے تین سالہ پروگرام کے اندر میکرواکنامک اہداف سہ ماہی بنیادوں پر حاصل کرنے کا پابند ہے جس کے تحت ریوینیو اہداف کو صرف آسان طریقے یعنی ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کے ذریعے ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49958708", "summary": "پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی ہدایات پر عمل درآمد کے لیے بےپناہ کوششیں کی ہیں اور انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ آئندہ اجلاس میں پاکستان اپنا موقف پیش کر کے ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہوگا۔", "title": "’انڈیا پاکستان کو بلیک لسٹ کی جانب دھکیلنا چاہتا ہے‘", "firstPublished": "2019-10-07T13:55:27.000Z", "id": "6e9edd86-b6dd-a74b-bb82-4e49c86a6925", "article": "پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی ہدایات اور تجاویز پر عمل درآمد کے لیے بےپناہ کوششیں کی ہیں اور امید ظاہر کی کہ آئندہ اجلاس میں پاکستان اپنا موقف پیش کر کے ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہوگا۔ وزیر خارجہ نے بی بی سی اردو کے ریڈیو پروگرام سیربین میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’انڈیا ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی مخالفت کر رہا ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں کہ وہ پاکستان کو بلیک لسٹ کی جانب دھکیلنا چاہتا ہے۔ لیکن دنیا جانتی ہے اور بینکاک میں ایشیا پیسیفک گروپ کے اجلاس میں بھی اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے۔۔۔ انھیں پاکستان کی جانب سے کی گئی پیش رفت پر اطمینان ہے۔‘ اس سوال پر کہ کیا وزیر اعظم عمران خان اور امریکی صدر ٹرمپ کی ملاقات کے دوران پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر امریکہ سے تعاون مانگا، وزیر خارجہ نے کہا ’ہمارا نکتہ نظر ان کے سامنے ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے نکتہ نظر کو سمجھتے ہوئے ہمارے ساتھ تعاون کریں گے۔ جو ہم نے پیش رفت کی ہے اور اس ضمن میں پاکستان نے جو اقدامات اٹھائے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ انھیں پاکستان کی معاونت کرنی چاہیے۔‘ پاکستان میں ماہرین کی جانب سے اس معاملے پر مختلف قسم کی آرا کا اظہار تو کیا گیا ہے تاہم وہ اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ پاکستان نے گزشتہ ایک سال کے دوران بہت کام کیا ہے جو آئندہ ہونے والی ایف اے ٹی ایف اجلاس میں زیر بحث آئے گا اور امکان ہے کہ پاکستان کے لیے 'بُری خبر نہیں آئے گی'۔ وِلسن سینٹر واشنگٹن کے ڈائریکٹر اور جنوبی ایشیا کے تجزیہ کار مائیکل کگلمین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ مہینوں میں پاکستان نے کئی ’عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا ہے اور ان کے ادارے اور تنظیمیں بند کی ہیں، ناقدین انھیں عارضی اور کاسمیٹک اقدامات کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ اور اس جیسے دیگر اقدامات ایف اے ٹی ایف کو قائل کرنے کے لیے کافی ثابت ہو سکتے ہیں کہ وہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں نہ ڈالیں۔ جب تک اسلام آباد کچھ نہ کچھ ایکشن دکھاتا رہے گا بلیک لسٹ ہونے کے امکانات کم ہیں‘۔ پیر کو اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ انڈین وزیر دفاع کا بیان پاکستان کے ان خدشات کی تصدیق کرتا ہے، جن کا اظہار وہ کئی بار ایف اے ٹی ایف میں کر چکا ہے کہ بھارت اپنے مذموم مقاصد کے لیے ایف اے ٹی ایف کے اجلاسوں کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہا ہے'۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-49928925", "summary": "عراق میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران پرتشدد جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 100 سے بڑھ گئی ہے جبکہ بغداد کے گرین زون کو ایک بار پھر عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔", "title": "عراق: ہلاکتیں 100 سے زیادہ، گرین زون بند کر دیا گیا", "firstPublished": "2019-10-04T00:23:16.000Z", "id": "ee780dbd-6984-2342-bebb-0c4aa30ccaa0", "article": "عراق کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران پرتشدد جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی ہے۔ عراقی حکام نے بغداد کے اس گرین زون کو ایک مرتبہ پھر عوام کے لیے بند کر دیا ہے جہاں سفارتخانے اور عالمی اداروں کے دفاتر واقع ہیں۔ یہ علاقہ رواں برس جون میں عوام کے لیے کھولا گیا تھا۔ اقوام متحدہ نے عراق میں جاری حکومت مخالف مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کو ’انسانی جانوں کا بے معنی ضیاع‘ قرار دیتے ہوئے ان کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی مشن برائے عراق کی سربراہ جینین ہینس پلایسچارٹ نے کہا ہے کہ ’ان پانچ دنوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔: اس کو رکنا چاہیے۔‘ تاہم سکیورٹی اور طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں شدت آنے کے سبب ہلاکتوں کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔ فوج کا کہنا ہے کہ بغداد میں 'نامعلوم سنائپرز' نے دو پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد کو ہلاک کر دیا۔ عادل عبدالمہدی کی کمزور حکومت کے اقتدار میں آنے کے تقریباً ایک سال کے اندر ان مظاہروں کو ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج کہا جا رہا ہے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ بغداد میں کرفیو نافذ ہے جس میں لوگوں کو شہر کے ہوائی اڈے پر جانے کی اجازت ہے، ایمبولینسیں سفر کر سکتی ہیں اور مذہبی زائرین کو سفر کی اجازت ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو بھی بلاک کر دیا گیا ہے۔ یہ احتجاج عبدالمہدی کی حکومت کے سال مکمل ہونے کے موقع پر آن لائن دی گئی کال کے جواب میں کیا گیا ہے اور بظاہر مظاہرین میں کوئی منظم قیادت نہیں ہے۔ عراق کے وزیراعظم عبدالمہدی کا کہنا ہے کہ غیر معینہ مدت کے لیے لگائے گئے کرفیو کا نفاذ امن برقرار رکھنے اور مظاہرین کی حفاظت کے لیے اہم ہے۔ نجی ویب سائٹ الغاد پریس نے عراق میں نظام مواصلات کے معیار کی پیمائش کرنے والے ادارے کی جانب سے جاری بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام احتجاج کی تصاویر اور ویڈیوز کی گردش کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق عراق کے دارالحکومت بغداد میں پولیس نے اس وقت ہوائی فائرنگ شروع کر دی جب مظاہرین نے گرین زون کی جانب مارچ کرنے کی کوشش کی۔ حکومت کی جانب سے جاری بیان میں شہریوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ احتجاج کی آڑ میں قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ وزارت صحت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مظاہروں نے نتیجے میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں تاہم 40 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 200 افراد زخمی ہیں۔ ہر چھ میں سے کم از کم ایک گھر کو کسی نہ کسی نوعیت کی خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49951378", "summary": "یقیناً ایک دن کشمیریوں کو آزادی ملے گی یا ممکن ہے کہ ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ بھی ہو جائے لیکن جب تک ایسا نہیں ہو پا رہا تب تک کچھ اور ضروری کام کیوں نہ نمٹا لیے جائیں۔ پڑھیے وسعت کا کالم", "title": "’کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے‘", "firstPublished": "2019-10-06T10:17:53.000Z", "id": "177a4148-7de7-534c-94fb-db420605a21a", "article": "بہت بعد میں معلوم ہوا کہ اسلم مجبور بھی ہزاروں دیگر مہاجروں کی طرح تقسیم کے بعد جموں سے پاکستان دھکیلے گئے تھے۔ جب نئے ملک میں کچھ نہ بن پڑا تو ایک استاد سے کام سیکھ کر حجام کی دکان کھول لی۔ وقت گذرتا گیا۔ ایک دن اسلم مجبور بھی گذر گئے۔ دکان وہیں رہی مکین اور بورڈ بدل گیا اور پھر دکان بھی ڈھ گئی۔ اننت ناگ میں ایک پولنگ سٹیشن کے باہر ووٹروں کی قطار میں میری نگاہ 70، 75برس کے ایک بزرگ پر پڑی۔ میں نے پوچھا آپ بھی۔ بائیکاٹ نہیں کیا ؟ فرمایا ’بیٹے آزادی تو جب ملے گی تب ملے گی۔ ابھی تو سڑک، پانی، بجلی اور بچوں کے لیے روزگار چاہیے۔‘ یقیناً ایک دن کشمیریوں کو آزادی ملے گی یا ممکن ہے کہ 'کشمیر بنے گا پاکستان' بھی ہو جائے لیکن جب تک ایسا نہیں ہو پا رہا تب تک کچھ اور ضروری کام کیوں نہ نمٹا لیے جائیں یقیناً ایک دن کشمیریوں کو آزادی ملے گی یا ممکن ہے کہ ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ بھی ہو جائے لیکن جب تک ایسا نہیں ہو پا رہا تب تک کچھ اور ضروری کام کیوں نہ نمٹا لیے جائیں۔ مثلاً کیا یہ ممکن ہے کہ ’کشمیر کی آزادی‘ سے پہلے پہلے پاکستان میں پولیو کا 100 فیصد خاتمہ ہو جائے تاکہ 100 فیصد پولیو فری موجودہ کشمیر جب پاکسان میں شامل ہو تو یہ وائرس کسی نوآزاد نومولود کشمیری بچے کو نہ منتقل ہو۔ کیا یہ امید رکھی جائے کہ ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ سے پہلے پہلے کم ازکم اتنی پولیس اصلاحات ہو جائیں کہ نئے کشمیریوں کو بھی عام پاکستانی شہری کو درپیش چھترولی ذلت نہ سہنی پڑے کہ جس سے بچنے کے لیے ہی وہ اتنی جدوجہد کر رہے ہیں۔ کیوں نہ تب تک پاکستانی معیشت اس قابل کر لی جائے کہ ممکنہ طور پر نئے نئے شامل ہونے والے 80 لاکھ کشمیری اگر خوشحال نہ ہو سکیں تو کم ازکم خطِ غربت سے اور نیچے نہ کھسک جائیں؟ اور کیا دل کی بات بلا خوف و خطر زبان پر لانے کا کلچر تب تک نافذ ہو جائے گا تاکہ نئے کشمیریوں کو واقعی یقین ہو جائے کہ وہ نسل در نسل کیسی گھٹن گذار کر واقعی ایک ایسی کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں جہاں عزتِ نفس کا احترام ہے؟ اگر یہ بنیادی کام بھی کشمیریوں کی آزادی سے پہلے پہلے ممکن نہیں تو پھر’ کشمیر بنے گا پاکستان‘ کی بجائے ’کشمیر بنے گا خود مختار‘ تک ہی رہیں تاکہ آزادی کے بعد کشمیری ہمیں کوئی الزام دینے کے بجائے اپنے مسائل خود ہی سلٹا سکیں اور ان کے ذہن میں یہ نہ آئے کہ ایک کالے کے چنگل سے نکل کر دوسرے کالے سے آن ملنے کا بھلا کیا فائدہ ہوا؟"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-49885321", "summary": "عوامی جمہوریہ چین میں تاریخی اصلاحات نے ملک کو غربت اور تنہائی سے نکال کر دنیا کی مضبوط معیشتوں کی صف میں کس طرح لا کھڑا کیا۔ چین کے قیام کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر پڑھیئے یہ دلچسپ تحریر۔", "title": "چین: ’عالمی معیشت کا معجزہ‘ کیسے سرزد ہوا", "firstPublished": "2019-10-01T13:42:49.000Z", "id": "e4319777-3b08-704c-b654-390cfd088af5", "article": "چین کو تنہائی سے نکل کر دنیا کی بڑی اقتصادی طاقتوں کی صف میں کھڑا ہونے میں 70 برس سے کم کا عرصہ لگا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کی 70ویں سالگرہ کے موقع پر ہم جائزہ لیں گے کہ معاشی اصلاحات کے عمل سے دولت غیرمعمولی صورت میں کیسے پھیلی اور عدم مساوات کی جڑیں کیسے گہری ہوئیں۔ گزشتہ چالیس برس کے دوران چین نے منڈی میں انتہائی اہم اصلاحات کو سلسلہ وار متعارف کروایا ہے جس سے تجارتی راستے ہموار ہوئے ہیں اور سرمایہ کاری آئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کروڑوں لوگ غربت کی دلدل سے نکل آئے۔ سنہ 1950 کی دہائی نے 20ویں صدی کی سب سے بڑی انسانی تباہی دیکھی۔ چین کی زرعی معیشت کو صنعتی معیشت میں تیزی سے بدلنے کی ماؤ زے تُنگ کی پالیسی ناکام ہو گئی جس کے نتیجے میں سنہ 1959-1961 کے عشرے میں 10 سے 40 ملین افراد ہلاک ہوئے۔ یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا قحط تھا۔ اس کے بعد ساٹھ کی دہائی میں ثقافتی انقلاب نے معاشی خلل پیدا کیا۔ اس مہم کے ذریعے ماؤ کمیونسٹ پارٹی کی صفوں سے مخالفین کا صفایا کرنا چاہتے تھے، مگر اس سے قوم کا سماجی شیزاہ بکھر کر رہ گیا۔ تاہم 1976 میں ماؤ کے انتقال کے بعد ڈینگ ژیاؤ پنگ کی طرف سے شروع کی گئی اصلاحات نے معیشت کی شکل بدلنا شروع کر دی۔ کسانوں کو خود اپنی زمین پر کھیتی باڑی کی اجازت ملی جس سے معیار زندگی بلند ہوا اور خوراک کی کمی بھی دور ہوئی۔ 2001 میں چین نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کر لی جس سے اسے مزید فائدہ ہوا۔ دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات میں آسانیاں پیدا ہوئیں، بہت سی رکاوٹیں دور ہو گئیں اور جلد ہی چینی مصنوعات دنیا بھر میں پھیل گئیں۔ 1985 تک یہ بڑھ کر 25 ارب ڈالر کی ہو چکی تھیں، اس کے بعد تقریباً دو دہائیوں میں ان کی مالیت 4.3 ٹرلین ڈالر تک پہنچ چکی تھی اور اس طرح چین دنیا کا اشیاء میں تجارت کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا تھا۔ اقتصادی اصلاحات نے کروڑوں چینی شہریوں کی زندگی بدل دی۔ عالمی بنک کے اعداد و شمار کے مطابق 85 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا گیا اور 2020 تک ملک میں غربت مکمل طور پر ختم ہو نے جا رہی ہے۔ چین میں اب ترقی کی رفتار سست ہو رہی ہے۔ برسوں سے وہ کوشش کر رہا ہے کہ وہ اپنی ترقی کا انحصار برآمدات سے ہٹا کر ملک کے اندر کھپت پر کر دے۔ اسے نئے چیلنجوں کا سامنا ہے کیونکہ عالمی سطح پر اس کی مصنوعات کی مانگ کم ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49889019", "summary": "وزیراعظم کے پاس سب کچھ ہے۔ اختیار، اقتدار، اسباب۔۔۔ نہیں تو کوئی ایسی طاقت نہیں جو چھومنتر کے ساتھ ہی پنجاب میں ناقص حکمرانی ٹھیک کر سکے، کوئی ایسی جادوئی چھڑی نہیں کہ گھمائیں تو صنعتیں چل پڑیں: پڑھیے عاصمہ شیرازی کا کالم۔", "title": "وقت کم، مقابلہ سخت", "firstPublished": "2019-10-01T04:10:59.000Z", "id": "7a73cc00-a7cc-7342-a2bb-c1bffc02bb69", "article": "اس میں شبہ نہیں کہ کپتان کا جادو اقوام متحدہ کے اجلاس میں تقریر کے بعد سر چڑھ کر بول رہا ہے اضطرابی کیفیت میں امید کی کوئی اُمید نظر نہ آئے تو ہیجان جنم لیتا ہے اور ہیجان انتشار کا سبب بنتا ہے۔ گذشتہ ایک برس میں خود کو یقین دلاتے عوام امید اور نا امیدی کی کیفیت میں الجھتے چلے آ رہے ہیں۔ اعشاریے جیسے بھی ہیں دعوے جو بھی ہوں مگر سچ تو یہ ہے کہ عوام کی حالت دگرگوں ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ کپتان کا جادو اقوام متحدہ کے اجلاس میں تقریر کے بعد سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ تقریر کشمیر پر حاوی ہو گئی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ سوال پھر جنم لے رہا ہے کہ ’اب آگے کیا۔۔۔؟‘ یہی وہ سوال ہے جس کا کوئی جواب کم از کم حکومت میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔ وزیراعظم کے پاس سب کچھ ہے، اختیار، اقتدار، اسباب۔۔۔ نہیں ہے تو کوئی ایسی طاقت نہیں جو چھومنتر کے ساتھ ہی پنجاب میں ناقص حکمرانی ٹھیک کر سکے۔ کوئی ایسی جادوئی چھڑی نہیں کہ گھمائیں تو صنعتیں چل پڑیں۔ کوئی ایسا چراغ نہیں کہ گھسائیں تو دن بہ دن چڑھتے قرضے اتارنے کی سبیل ہو۔ کوئی ایسی پھونک نہیں جو بجھتے چراغوں کو روشنی دے، کوئی ایسا استخارہ نہیں جو بے روزگاروں کو روزگار دے، کوئی ایسا دم نہیں جو غریبوں کے بے جان جسموں میں دم ڈال دے۔ مشکل ہے تو اُن کے لیے جن کی آرزوؤں کا واحد مرکز اور امیدوں کا محور یہی چنیدہ حکومت ہے۔ نیب کی ستائی حزب اختلاف میں کہیں اُمید نے انگڑائی لی ہے لیکن نہ تو نواز شریف فی الحال باہر آنے کو تیار ہیں نہ ہی زرداری صاحب کوئی دلچسپی رکھتے ہیں ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا نیب کی ستائی حزب اختلاف میں کہیں اُمید نے انگڑائی لی ہے لیکن نہ تو نواز شریف فی الحال باہر آنے کو تیار ہیں نہ ہی زرداری صاحب کوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسی لیے تاحال اُن کی جانب سے ضمانت کی کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی۔ اخیر نومبر تک چھڑی نہیں ہلے گی لیکن دسمبر کے بعد چھڑی کو ہلنا تو ہے ہی۔ مولانا کے دھرنے نے جو سراسیمگی پھیلائی ہے اُس کا توڑ بھی ڈھونڈا جا رہا ہے۔ منتشر حزب اختلاف اور عدم کارکردگی دکھانے والی حکومت دونوں ہی درد سر بن رہے ہیں۔ اپوزیشن کے مطالبات بھی ناممکن اور حکومت کی خواہشات بھی لا محدود۔۔۔ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر تناؤ، امریکہ، سعودی، ایرانی اور چینی دائرہ تنگ تو اندرونی محاذ پر صف آراء سیاسی طاقتیں، کہیں جیلوں کا دباؤ، کہیں باہر والوں کی طنابوں کو کھینچنے کی تگ و دو۔ اصل امتحان حکومت یا اپوزیشن کا نہیں فیصلہ سازوں کا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49791546", "summary": "شاہد حسین جوئیہ خانیوال کی کوئی بااثر شخصیت نہیں، نہ بڑے زمیندار ہیں اور نہ ہی کوئی سیاست دان تاہم ایک صلاحیت ایسی ضرور ہے جس کی وجہ سے انھیں علاقے کا بچہ بچہ پہچانتا ہے۔", "title": "شاہد جوئیہ: ’ایک ہزار میں کاروبار کروانے والے یوٹیوبر‘", "firstPublished": "2019-09-23T04:21:20.000Z", "id": "a55d1361-0093-6641-9eae-b67136937fe5", "article": "اگر آپ کا پاکستان کے ضلع خانیوال کے گاؤں چک 79 جانا ہو اور شاہد حسین جوئیہ نام کے کسی شخص سے ملنا ہو تو آپ کو پتا ساتھ رکھنے کی ضرورت نہیں۔ 34 سالہ شاہد حسین جوئیہ نہ تو علاقے کی کوئی بااثر شخصیت ہیں، نہ بڑے زمیندار ہیں اور نہ ہی کوئی سیاست دان ہیں۔ ہاں ایک صلاحیت ایسی ضرور ہے جس کی وجہ سے گاؤں کا بچہ بچہ انھیں پہچانتا ہے۔ ایک اتوار شاہد حسین جوئیہ کے گھر سے متصل ڈیرے پر پہنچا تو وہ مہمانوں سے مل رہے تھے۔ لوگوں کا تانتا بندھا تھا جن میں سے اکثر ایک رات پہلے ہی یہاں پہنچ گئے تھے۔ ملاقاتیوں سے چند لمحے فراغت کے ملے تو شاہد حسین نے بتایا کہ ان کا ملتان میں فرٹیلائزر کا کاروبار ہے۔ وہ مائع فرٹیلائزر بڑے پیمانے پر تیار کر کے فیکٹریوں کو فروخت کرتے ہیں۔ ہفتے میں ایک دن پاکستان بھر سے آئے لوگ چک 79 میں شاہد حسین جوئیہ کے گھر سے متصل ورک شاپ میں جمع ہوتے ہیں۔ یہاں مختلف چھوٹے بڑے کاروباری منصوبوں پر گفتگو کی جاتی ہے اور معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'شاہد جوئیہ کا کام اس لیے قابلِ ستائش ہے کیونکہ یہ چھوٹے کاروبار کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ٹیک انکوبیٹرز اکثر نوجوان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو ٹیکنالوجی سے متعلق کاروبار شروع کرنے میں معاونت فراہم کرتے ہیں۔ شاہد حسین کے پاس جو لوگ آتے ہیں ان کی اکثریت ناخواندہ ہوتی ہے۔' 'سمندر پار خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں بسے پاکستانی جب چھٹیوں پر یہاں آتے ہیں تو مجھ سے ضرور ملتے ہیں۔ ان میں سے اکثر وطن واپس آ کر کوئی نہ کوئی کاروبار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور مجھ سے رہنمائی چاہتے ہیں۔' شاہد حسین کے مطابق بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور کم وولٹیج کی وجہ سے چھوٹے شہروں اور قصبات کے کارخانوں میں بھاری مشینری کا استعمال ممکن نہیں۔ شاہد حسین جوئیہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عام استعمال کی بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو دیسی ساختہ مشینوں پر مقامی طور پر تیار کی جا سکتی ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ لوکل مینو فیکچررز کو اس طرف راغب کیا جائے۔ شاہد حسین جویا کا ماننا ہے کہ نوکری ایک گھر کو چلاتی ہے جبکہ کاروبار پورے خاندان کو چلاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ آج کل کی نئی نسل ملازمت میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتی۔ 'ہاتھ سے کام کرنے یا دفتری ملازمتوں کے علاوہ دیگر پیشوں کے بارے میں پایا جانے والا منفی معاشرتی رویہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اب ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان جوتے بنا کر اپنی کمپنی چلا سکتا ہے اور کوئی بھی اُسے تضحیک کا نشانہ نہیں بناتا۔' "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-49596953", "summary": "کسی زمانے میں لاطینی امریکہ کے سب سے جگ مگ کرتے شہر کراکس کی نائٹ لائف معاشی بحران اور جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح سے متاثر ہوئی ہے۔", "title": "وینیزویلا میں معاشی بحران، مگر نائٹ لائف رواں دواں", "firstPublished": "2019-09-15T02:08:43.000Z", "id": "4087e5bf-0bf0-754a-bb03-8051b68e7f3d", "article": "کراکس میں قتل کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے رات ہوتے ہی کراکس ویران ہو جاتا ہے۔ سورج ڈھلنے کے بعد کم لوگ نیم تاریک گلیوں سے گزرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ بس کچھ کاریں اور پیدل مسافر اندھیرے میں تیز گام بھرتے گھروں کی طرف لوٹتے نظر آتے ہیں۔ کسی زمانے میں لاطینی امریکہ کے سب سے جگ مگ کرتے شہر کراکس کی نائٹ لائف معاشی بحران سے متاثر ہوئی ہے اور اب وہاں قتل کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ کراکس کا متمول علاقہ لاس مرسیڈیز روایتی طور پر شہر کا سب سے مصروف حصہ ہے۔ کاروِن سلوا مقامی ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں اوراپنے رفقائے کار کے ساتھ ایک تقریب میں شریک ہیں جو ان کے سند یافتہ ماہر زچہ و بچہ یعنی آبسٹیٹریشین بننے سے پہلے کے 100 دن منانے کی غرض سے ایک مقامی رستوران بشمول میخانے میں، جس کا نام بیریوٹ ہے، منعقد کی جا رہی ہے۔ وینزویلا میں ایسی تقریبات کا انعقاد عام ہے۔ ان کی ایک سہیلی شریک نہیں ہو سکی۔ ناک کے آپریشن کے بعد ابھی ان کے زخم مندمل نہیں ہوئے ہیں۔ معاشی بحران کے باوجود کچھ لوگ اب بھی اپنے خد و خال بہتر بنانے کے لیے پلاسٹک سرجری کرواتے ہیں۔ کلب میں داخلے سے پہلے سب کو سکیورٹی سے گزرنا پڑتا ہے۔ مرد اہلکار مردوں اور خاتون اہلکار خواتین کی تلاشی لیتی ہیں۔ سکیورٹی کے معاملے میں ایک جنون سا پایا جاتا ہے۔ کراکس کے مصروف ترین نائٹ کلب یان سبیسشئن بار میں سنیچر کی رات جا کر اس خیال کو تقویت ملی۔ ادھر بیریوٹ میں کاروِن اور ان کے دوستوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ مزے سے رم کی ایک بوتل شیئر کر رہے ہیں جو انھوں نے تین 300,000 بولیوار (مقامی کرنسی) یعنی 15 ڈالر میں خریدی ہے۔ یہ ان کی مہینے بھر کی کمائی سے کہیں زیادہ قیمت ہے، لیکن وینزویلا میں دیگر سرکاری ملازمین کی طرح یہ لوگ بھی اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے دوسرے کام کرتے ہیں۔ ’انھیں تعجب ہوتا ہے کہ وینزویلا میں اتنے شدید معاشی بحران کے دوران یہ سب کیسے ممکن ہے۔ مگر یہاں اب بھی خصوصاً کراکس میں لوگ کے پاس پیسہ ہے۔‘ کراکس میں امیر اور غریب نائٹ لائف سے لطف اندوز ہونے کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکال لیتے ہیں ملک میں بہت سی جگہوں کی طرح یہاں بھی داخلے کے لیے امریکی ڈالر دینے پڑتے ہیں۔ یہاں مردوں کے لیے دس اور خواتین کے لیے پانچ ڈالر داخلہ فیس مقرر کی گئی ہے۔ وِلسن، جو یہاں کے مالک ہے، ساقی کے فرائض انجام دینے کے ساتھ گانوں کا انتخاب بھی کرتے ہیں۔ زیادہ تر موسیقی جزائرِ غرب الہند کی دھنوں پر مبنی ہوتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49685388", "summary": "انڈیا نے ماضی میں بھی پاکستان اور چین راہداری منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور یہ موقف اختیار کیا کہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے متنازع ہیں اور یہاں یہ منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکتا ہے۔", "title": "سی پیک کی تعمیر پر انڈیا کے کیا تحفظات ہیں؟", "firstPublished": "2019-09-13T14:12:01.000Z", "id": "c1fdd4e5-bf70-7344-83ed-0a0186782c19", "article": "انڈیا ماضی میں بھی متعدد باردونوں ممالک کے درمیان 60 بلین ڈالر کے سی پیک منصوبے پر اعتراضات اٹھا چکا ہے اور اس نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے متنازعہ علاقوں میں یہ منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداوں میں صرف ریاست جموں و کشمیر کا ہی ذکر موجود ہے۔ پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ جب اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے جموں و کشمیر میں رائے شماری سے متعلق 1948 میں قرارداد نمبر 47 منظور کی تو پھر پاکستان نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ جب کبھی رائے شماری ہوگی تو پھر گلگت بلتستان کا علاقہ بھی اس میں حصہ لے گا۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے سپیکر فدا محمد نشاد کا موقف ہے کہ گلگت کبھی بھی کشمیر کا حصہ نہیں رہا ہے۔ اس علاقے کی علیحدہ حیثیت رہی ہے۔ تاہم وہ یہ مانتے ہیں کہ کشمیر کے مہاراجہ نے برطانوی دور حکومت میں اس علاقے پر حکومت کی تھی۔ ڈاکٹر فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ انڈیا کو کشمیر سے متعلق تحفظات ہیں لیکن سی پیک منصوبے کا بڑا حصہ گلگت بلتستان کے علاقے سے ہی ہو کر گزرے گا جسے کشمیر سے مختلف طور پر دیکھا جاتا ہے، یہ ایک علیحدہ علاقہ ہے۔ ’اس منصوبے میں صرف ایک اکنامک زون پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر میرپور میں بنانے کی تجویز ہے۔‘ گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے سپیکر فدا محمد نشاد بھی ڈاکٹر فضل الرحمان کے موقف سے متفق نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان ہمیشہ سے ہی ایک آزاد اور مختلف علاقہ رہا ہے۔ ’کشمیر کے مہاراجہ نے اس علاقے کو 100 سال تک غلامی میں رکھا جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ وہ کشمیر سے متعلق وہی موقف رکھتے ہیں جو پاکستان کی حکومت کا ہے اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے بھی خلاف ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ گلگت بلتستان کا علاقہ کسی صورت کشمیر کا حصہ نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اگرچہ ہمیشہ ریاست جموں اور کشمیر کا ہی ذکر آتا رہا لیکن جو علاقے تقسیم کے وقت کشمیر کے مہاراجہ کے قبضے یا کنٹرول میں تھے انھیں بعد میں انڈیا اور پاکستان دونوں نے جموں اور کشمیر کے تنازع کا حصہ تسلیم کیا۔ اس طرح باقاعدہ معاہدہِ کراچی کہلانے والی دستاویز میں گلگت اور بلتستان کو بھی اس متنازعہ خطے کا حصہ تسلیم کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے اس کمیشن کے زیرِ استعمال یہ نقشے اس بات کا قانونی اور دستاویزی ثبوت ہیں کہ گلگت اور بلتستان اُسی طرح پاکستان اور انڈیا کے درمیان متنازعہ علاقے ہیں جس طرح کہ جموں اور کشمیر ہیں۔ پاکستان گلگت اور بلتستان کو ناردرن ایجینسی بھی کہتا رہا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49581595", "summary": "پاکستان کی وفاقی حکومت نے شدید تنقید کے بعد گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) سے متعلق صدارتی آرڈیننس واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔", "title": "جی آئی ڈی سی سے متعلق آرڈیننس واپس لینے کا اعلان", "firstPublished": "2019-09-04T14:57:22.000Z", "id": "fdf9629d-bde0-8244-a385-f9c89b729075", "article": "وفاقی حکومت نے شدید تنقید کے بعد گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) کے بارے میں صدارتی آرڈیننس واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ اس آرڈیننس کو واپس لینے سے متعلق وزیر اعظم سیکریٹریٹ کی طرف سے ایک بیان بھی جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے یہ فیصلہ اس ضمن میں جاری تنازعے کو شفافیت سے حل کرنے کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ چند روز قبل وفاقی حکومت نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کھاد بنانے والی، ٹیکسٹائل، سی این جی اور توانائی کے شعبوں میں کام کرنے والی کمپنیوں کے ذمے جی آئی ڈی سی کی مد میں 200 ارب روپے سے زیادہ کی رقم معاف کرنے کے بارے میں کہا گیا تھا۔ واضح رہے کہ سنہ 2014 میں جی آئی ڈی سی سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی طرف سے نظر ثانی کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے پشاور ہائی کورٹ کو حکم دیا تھا کہ وہ جی آئی ڈی سی سے متعلق ہر مقدمے کو دیکھ کر فیصلہ کرے۔ خیال رہے کہ مختلف پاور کمپنیوں نے سرکاری خزانے میں جمع کروائی گئی رقم واپس لینے کے لیے درخواستیں دائر کر رکھی تھیں جس میں متعدد درخواستوں پر حکومت سے جی آئی ڈی سی کی مد میں جمع کروائی گئی رقم واپس کرنے کا کہا گیا تھا۔ صحافی مشتاق گھمن کا کہنا ہے کہ ’فرق صرف یہ ہے کہ ماضی کی حکومت یہ معاملہ پارلیمان میں لے کر آئی جبکہ موجودہ حکومت نے رات کے اندھیرے میں چھپ کر ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ان کمپنیوں کے ذمے واجب الاادا رقم کا آدھا حصہ معاف کر دیا۔‘ انھوں نے کہا کہ حکومت میں شامل چند افراد نے صرف ان کمپنیوں کے نمائندوں سے مذاکرات کر کے سب اچھا کی رپورٹ وزیر اعظم کو دی کہ اس معاملے میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ان کمپنیوں کے ذمے واجب الادا رقم کا آدھا حصہ معاف کر دیا جائے۔ صحافی خلیق کیانی کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے مختلف کمپنیوں کے ذمے اربوں روپے میں سے آدھی رقم معاف کرنے کی بجائے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا اور عدالت سے یہ درخواست کی جائے کہ ان کمپنیوں نے جو مقدمات دائر کر رکھے ہیں ان کا جلد از جلد فیصلہ کیا جائے۔ خلیق کیانی نے کہا کہ ’وفاقی حکومت نے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ایمنسٹی سکیم کا اعلان کیا اور اس مد میں 70 ارب روپے اکٹھے ہوئے جبکہ دوسری طرف چند لمحوں میں 200 ارب روپے سے زیادہ کی رقم مخصوص کمپنیوں کو معاف کرنے کی کوشش کی گئی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49562800", "summary": "پاکستان میں انکم ٹیکس فائلر افراد میں سے اگر کسی کے پاس ’ری فنڈ ایٹ دے ریٹ آف ایف بی آر ڈاٹ کو ڈاٹ پی کے‘ سے یہ ای میل آئی ہے کہ آپ انکم ٹیکس ری فنڈ کے اہل ہیں تو وہ ای میل ایک دھوکہ ہے۔", "title": "انکم ٹیکس ری فنڈ کی ای میل محض دھوکہ ہے‘", "firstPublished": "2019-09-03T14:02:05.000Z", "id": "55eb3c0d-4e15-a043-a6a8-1debab083012", "article": "پاکستان میں انکم ٹیکس فائلر افراد میں سے اگر کسی کے پاس اِن باکس میں ’ری فنڈ ایٹ دے ریٹ آف ایف بی آر ڈاٹ کو ڈاٹ پی کے‘ سے یہ ای میل آئی ہے کہ آپ انکم ٹیکس ری فنڈ کے اہل ہیں اور اس کے ساتھ میں ایک لنک بھی موجود ہے جس میں اس کو کلک کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے تو یقین جانیں اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا کہنا ہے کہ یہ صرف دھوکہ ہے۔ ایف بی آر کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے سسٹم سے یہ ای میل جاری نہیں ہوئی، انھوں نے ایف آئی اے سائبر کرائم کو اس کی شکایت کر دی ہے۔ آپ پر جتنا ٹیکس واجب الادا ہے اور اگر آپ نے اس سے زیادہ ادا کر دیا ہے تو آپ ٹیکس ری فنڈ کا دعویٰ کرنے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ ایف بی آر کے مطابق ری فنڈ اس صورت میں ہی مل سکتا ہے اگر آپ نے انکم ٹیکس ریٹرن آن لائن جمع کرایا ہو تاہم ہاتھ سے ٹیکس ریٹرن جمع کروانے والے افراد ری فنڈ سے مستفید نہیں ہو سکتے ہیں۔ انکم ٹیکس ری فنڈ کے لیے ایک علیحدہ سے درخوست ایف بی آر کے سافٹ ویئر نظام پر کی جاتی ہے اور اس درخواست کا سٹیٹس دیکھنے کے لیے ریجنل انکم ٹیکس دفتر جانا ہوتا ہے۔ ایف بی آر کے قاعدے کے مطابق اگر انکم ٹیکس ری فنڈ کا دعویٰ مقررہ تاریخ کے بعد کیا گیا ہے تو اس شخص کو ادائیگی نہیں کی جائے گی۔ ایف بی آر کے سافٹ ویئر میں جب آپ تمام انکم ٹیکس ریٹرن کی معلومات جمع کرا دیں گے اور ’ٹیکس پیڈ اینڈ ویری فیکیشن‘ بٹن کو دبائیں گے تو سسٹم خود کار نظام کے ذریعے ری فنڈ کا تخمینہ لگائے گا اور ری فنڈ کی لائن میں یہ رقم دیکھی جا سکتی ہے۔ ایف بی آر کے ترجمان کے مطابق انکم ٹیم ری فنڈ کی بھی ایک مرکزی ڈپازیٹری بنا رہی ہے جس طرح سیلز ٹیکس کی واپسی کے لیے بنائی گئی ہے اس سے ڈُپلیکیشن اور اختیارات کے غلط استعمال کی شکایت بھی دور ہو جائیں گی۔ انکم ٹیکس قوانین کے ماہر ایڈووکیٹ میر ارشد کا کہنا ہے کہ موجودہ پالیسی میں بھی اولیت ایکسپورٹروں کو حاصل ہے، دوسرے نمبر پر سیلز ٹیکس کے صارفین ہیں اور تنخواہ دار طبقہ تیسرے درجے پر آتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی حالیہ مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی 20 کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔ ایف بی آر کے مطابق رواں سال مئی تک ٹیکس فائلروں کی تعداد 19 لاکھ سے کچھ زیادہ تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-49548150", "summary": "15 ماہ قبل انڈیا کی معیشت آٹھ فیصد کی رفتار سے ترقی کر رہی تھی جو کہ گرتے گرتے اب پانچ فیصد تک جا پہنچی ہے اور یہ معاشی گراوٹ اچانک نہیں آئی ہے۔", "title": "’انڈیا کی معیشت صفر کی رفتار سے ترقی کر رہی ہے‘", "firstPublished": "2019-09-02T10:12:49.000Z", "id": "30ecd361-1318-ac46-b027-7bb1ffff132c", "article": "پانچ سہ ماہی (15 ماہ) قبل انڈیا کی معیشت آٹھ فیصد کی رفتار سے ترقی کر رہی تھی جو کہ گرتے گرتے اب پانچ فیصد کی سطح تک جا پہنچی ہے اور ایسا اچانک نہیں ہوا ہے۔ اس میں ملکی معیشت کے غیر منظم شعبے کو مکمل طور پر شامل نہیں کیا جاتا ہے اور یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ غیر منظم شعبہ بھی اسی رفتار سے ترقی کر رہا ہے جس رفتار سے منظم شعبہ ترقی کر رہا ہے۔ اگر غیر منظم شعبے کی ترقی کی شرح کم ہو رہی ہے تو پھر یہ سمجھنا غلط ہو گا کہ غیر منظم شعبہ منظم شعبے کی رفتار سے ترقی کر رہا ہے۔ اگر ہماری معیشت چھ یا پانچ فیصد کی شرح سے بھی ترقی کر رہی ہے تو یہ بہت اچھی رفتار ہے۔ اس کے بعد بھی کھپت کیوں کم ہو رہی ہے اس میں اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ پانچ فیصد کی رفتار سے سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ جب کھپت (کنزمپشن) میں کمی آئی ہے تو سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معاشی ترقی کی شرح پانچ، چھ یا سات فیصد نہیں ہے بلکہ یہ صفر فیصد سے بڑھ رہی ہے کیونکہ اس میں غیر منظم شعبے کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔ جس دن آپ غیر منظم شعبے کے اعدادوشمار شامل کریں گے اس سے معلوم ہوگا کہ ترقی کی شرح صفر یا ایک فیصد ہے۔ غیر منظم شعبے کے اعدادوشمار پانچ سال میں ایک بار جمع کیے جاتے ہیں۔ اس درمیان یہ سمجھا جاتا ہے کہ غیر منظم شعبہ بھی اسی رفتار سے ترقی کر رہا ہے جس طرح منظم شعبہ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انڈین معیشت کساد بازاری سے گزر رہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق معیشت کساد بازاری نہیں بلکہ سست روی کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ جب ترقی کی شرح منفی ہو جاتی ہے اس وقت اس صورتحال کو کساد بازاری سمجھا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ غیر منظم شعبے سے شروع ہوتا ہے اور منظم شعبہ بھی اس سے مستثنی نہیں رہتا۔ معیشت میں سست روی یا سست روی کی وجہ سے حکومت کے ٹیکس کی وصولی میں کمی آئی ہے۔ گذشتہ سال جی ایس ٹی میں 80 ہزار کروڑ کی کمی واقع ہوئی تھی اور براہ راست ٹیکس میں بھی کمی واقع ہوئی تھی۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ بینکوں کے انضمام سے معیشت کو تقویت ملے گی۔ لیکن یہ غلط ہے۔ بینکوں کے انضمام کا اثر پانچ سے دس سال بعد دیکھا جائے گا۔ اس کا فوری اثر نہیں ہو گا۔ حکومت کے بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس نے تسلیم کر لیا ہے کہ معیشت کمزور ہو گئی ہے اور ایک کے بعد ایک پیکیج کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) بھی اعلان کر رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-48331799", "summary": "اس وقت کینیڈا میں پانچ لاکھ بین الاقوامی طلبا و طالبات حصولِ تعلیم کے لیے مقیم ہیں۔ حال ہی میں کینیڈا نے بیرونی ممالک سے آنے والے طالب علموں کی ٹیوشن فیس میں 32 فیصد اضافہ کیا ہے۔", "title": "مغربی یونیورسٹیوں کی مہنگی تعلیم، کیا یہ سود مند بھی ہے؟", "firstPublished": "2019-09-01T05:25:31.000Z", "id": "8d102353-cb4d-964f-823e-3b38a10fc838", "article": "کینیڈا بین الاقوامی طالبہ و طالبات کو اپنے ملک میں حصولِ تعلیم کے لیے راغب کرنے میں برطانیہ اور امریکہ کے مدِمقابل ہے۔ لیکن آخر کیا ہوتا ہے جب یہ طالب علم وہاں پہنچ جاتے ہیں؟ اس وقت پانچ لاکھ طلبا و طالبات جن کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہے کینیڈا میں حصول تعلیم کے لیے مقیم ہیں۔ حال ہی میں وہاں بیرونی ممالک سے آنے والوں کے لیے ٹیوشن فیس میں 32 فیصد جبکہ مقامی طالب علموں کے لیے 14 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ تبدیلی کے لیے مطالبات ایک ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں جب کینیڈا بین الاقوامی طور پر دیگر ممالک کے ساتھ ہونے والے مقابلے میں جارحانہ انداز اختیار کیے ہوئے ہے صرف اس لیے کہ زیادہ سے زیادہ طلبا و طالبات وہاں کا رخ کریں۔ کینیڈا نے ان طالبعلموں کے لیے پالیسی نرم کی ہے جو گریجویشن کر چکے ہوں یا انھوں نے مستقل رہائش کے لیے درخواست دے رکھی ہو۔ بیرون ملک سے آنے والے طالبعلموں کے لیے اگلے پانچ سال کے لیے بجٹ میں 148 ملین ڈالر کی رقم حال ہی میں مختص کی گئی ہے۔ بیرون ملک سے آنے والے طلبا و طالبات کو بھرتی کرنے والے ڈینی زیرٹسکائے کے مطابق یہ ساری بات ہی نفع یا نقصان کی ہے۔ عالمی طور پر ایسا صرف کینیڈا میں ہی نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ سب پیسے کے بارے میں ہے۔ اوسطً کینیڈا میں باہر سے آنے والے طالبعلموں کو وہاں کے مکینوں کی نسبت چار گنا زیادہ فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ دیگر ممالک میں بھی لگ بھگ یہی فارمولا لاگو ہوتا ہے۔ سان ڈیاگو میں موجود یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں بیرون ملک سے آنے والے 20 فیصد طالبعلم سالانہ 40327 امریکی ڈالر ادا کرتے ہیں جو کہ ریاست کے مکینوں کے لیے مختص فیس سے تین گنا زیادہ ہے۔ اتنی ہی تعداد میں برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی میں موجود بین الاقوامی طلبا ساڑھے اٹھارہ ہزار پاؤنڈ ادا کرتے ہیں جو کہ ملکی طالبعلموں کی فیس سے دو گنا زیادہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ بہت سی حکومتیں تعلیمی اخراجات پر کٹوتی کر رہی ہیں ایسے میں بیرون ملک سے آنے والے طالبعلم بہت سے اداروں کی آمدن کے لیے بہت اہم ہیں۔ منسٹری آف گلوبل افیئرز کے اندازوں کے مطابق سنہ 2014 میں بیرون ملک سے آنے والے طالبعلموں نے کینیڈا کی معیشت میں 11.4 بلین ڈالر کا اضافہ کیا۔ تب سے وہاں بین الاقوامی طالبعلموں کی تعداد تین لاکھ تیس ہزار 170 سے بڑھ کر پانچ لاکھ 72 ہزار 415 تک پہنچ گئی ہے جو کہ 75 فیصد اضافہ ہے۔ دوسری جانب ٹیوشن فیس میں اوسطً 32 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ کیا بین الاقوامی طالبعلموں کو پہلے کی نسبت اب ادا کی جانے والی زیادہ فیس کا زیادہ فائدہ ہو گا یا نہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49501962", "summary": "ملک کی موجودہ معاشی حالت اور معیشت پر قرضوں کے بوجھ کا موازنہ اگر نوے کی دہائی کے اواخر میں پاکستان کو درپیش معاشی حالات سے کیا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔", "title": "نئے پاکستان پر قرض، واجبات کے بوجھ کا نیا ریکارڈ", "firstPublished": "2019-08-29T02:18:24.000Z", "id": "b8d709ef-cfd7-8342-95cb-d5beae743902", "article": "ملک کی موجودہ معاشی حالت اور معیشت پر قرضوں کے بوجھ کا موازنہ اگر نوے کی دہائی کے آواخر میں پاکستان کو درپیش معاشی حالات سے کیا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ نوے کی دہائی کے آخری برسوں میں ملک کے سیاسی اور معاشی حالات کافی مخدوش تھے جبکہ پاکستان پر جوہری ہتھیاروں کے تجربات کے باعث عالمی سطح پر شدید معاشی پابندیاں بھی عائد کی گئی تھیں۔ اگرچہ اب پابندیاں تو نہیں ہیں مگر سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ملکی معیشت پر پڑے قرضوں کے بوجھ کے حوالے سے حال ہی میں جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات (لائبیلیٹیز) ملک کی معیشت کے مجموعی حجم سے بھی بڑھ چکے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2018-19 (پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا پہلا مالی سال) میں پاکستان پر قرضوں اور واجبات کا بوجھ 29.9 ٹریلین روپے سے بڑھ کر 40.2 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا ہے یعنی صرف گذشتہ مالی سال میں قرضوں اور واجبات میں 10.3 ٹریلین روپے کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ اگر ملک کی مجموعی پیداوار یا جی ڈی پی کے تناسب سے دیکھا جائے تو قرضوں اور واجبات کی یہ رقم پاکستان کے جی ڈی پی کے 104.3 فیصد کے برابر جا کھڑی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر اشفاق حسن کے مطابق 'چاہے پرائیوٹ سیکٹر کی جانب سے حاصل کیا گیا قرضہ ہو (یعنی واجبات) اس کو واپس ہونا ہوتا ہے اور اس کے لیے بھی ڈالر کی ضرورت ہو گی جو ملکی معیشت سے ہی نکلے گا اور اس کا اثر معیشت پر اتنا ہی پڑتا ہے جتنا پبلک ڈیٹ یا حکومتی قرضے کا۔' ملک کے موجودہ معاشی حالات نوے کی دہائی جیسے ہیں جب پاکستان پر عالمی معاشی پابندیاں عائد تھیں ملک پر قرضوں کے موجودہ بوجھ پر بات کرتے ہوئے اشفاق حسن کا کہنا تھا کہ 'یہ نوے کی دہائی کی واپسی ہوئی ہے۔' 'آئی ایم ایف کے کہنے پر روپے کی قدر کو بہت زیادہ گرایا، ڈسکاؤنٹ ریٹ اور شرحِ سود میں اضافہ کیا گیا۔ صرف روپے کی قدر کو گرانے اور ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافے سے ملک کے مجموعی قرض میں 4400 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔' ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا تھا کہ اب اتنے بےتحاشہ قرضے اتارنے کے لیے پاکستان کو مزید قرضے لینے پڑیں گے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا جسے معاشی اصطلاح میں 'ڈیٹ ٹریپ' یا قرضوں کی دلدل میں دھنس جانا کہتے ہیں اور ایسی صورتحال میں پرانا قرض اتارنے کے لیے نئے قرض لیے جاتے ہیں۔ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ اب پاکستان کی آمدن کا ایک بڑا حصہ قرض کی رقم پر ادا کیے جانے والے سود کی مد میں جائے گا۔ اور ایسا ہونے کی صورت میں معاشی اور معاشرتی ترقی کے لیے درکار رقم سے کٹوتیاں کی جاتی ہیں اور یہ صورتحال نہ صرف بیروزگاری کو جنم دے گی بلکہ غربت میں اضافے کا باعث بنے گی۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-49484480", "summary": "انڈیا کے ریزرو بینک نے مودی حکومت کو 24.8 ارب ڈالر دیے ہیں جس پر ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ملک کی معاشی حالت ٹھیک نہیں ہے۔", "title": "مودی حکومت آر بی آئی سے اربوں ڈالر لینے پر مجبور کیوں؟", "firstPublished": "2019-08-27T12:51:40.000Z", "id": "2b2be4d5-dc98-1541-a1c1-9f8dc8606354", "article": "انڈیا کے ریزرو بینک نے مودی حکومت کو 24.8 ارب ڈالر یعنی تقریباً 1.76 لاکھ کروڑ روپے دیے ہیں۔ ریزرو بینک نے یہ رقم اپنے ’سرپلس اور ریزرو سرمائے‘ سے دی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس رقم سے حکومت کو نئی توانائی ملے گی اور یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب انڈیا کی معیشت گزشتہ پانچ برسوں میں سب سے زیادہ سست روی کا شکار ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ گزشتہ پانچ برسوں میں پبلک سیکٹر میں نوکریوں کی کٹوتی سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رقم سے حکومت کو ٹیکس کی آمدنی میں کمی سے نمٹنے اور بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری میں مدد ملے گی۔ حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے آر بی آئی سے یہ رقم لینے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سابق وفاقی وزیر اور کانگریس کے رہنما آنند شرما نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’آر بی آئی‘ نے جیلان کمیٹی کی سفارش پر ایک ساتھ اتنی بڑی رقم انڈیا کی حکومت کو ٹرانسفر کر دی۔ یہ ساری رقم سرپلس تھی۔ اس کے ساتھ ہی آر بی آئی کی 2018 اور 2019 کی ساری کمائی سرکار کو دے دی گئی۔ ‘ آنند شرما کا مزید کہنا تھا کہ ’کچھ روز پہلے کمیٹی کے سربراہ ومل جیلان نے کہا تھا کہ یہ پیسہ چار پانچ سال میں دیا جائے گا لیکن یہ ایک ہی بار میں دے دیا گیا۔ یہ فنڈ ایمرجنسی کے لیے تھا۔ یہ رقم اس صورت میں دی جاتی ہے جب ملک میں اقصادی بحران پیدا ہوتا ہے۔ اب اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ملک کی معاشی حالت ٹھیک نہیں ہے۔‘ کینیڈیا کی کارلٹن یونیورسٹی میں اکنامکس کے پروفیسر وویک دہجیا نے آر بی آئی کے اس فیصلے پر فنانشل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا اپنی خود مختاری کو کھو رہا ہے اور ’سرکار کے لالچ کو پورا کرنے کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے ریزرو بینک کا اعتبار کم ہو رہا ہے اور سرماریہ کاروں کو اس سے یہ پیغام جا رہا ہے کہ یہ بینک تو پوری طرح سرکار کے کنٹرول میں ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس آر بی آئی کے ڈپٹی گورنر ورل آچاریا نے حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ اس نے آر بی آئی کی پالیسی سازی میں اپنی مداخلت کو بڑھایا ہے جس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ آر بی آئی نے اپنے موقف میں کہا ہے کہ اس کے پاس ضرورت سے زیادہ پیسہ ہے اس لیے اس نے حکومت کو اتنی بڑی رقم دی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-49463607", "summary": "سفارتی ماہرین کے مطابق عالمی سیاست عملی معاملات کی خاطر تعلق کے دور میں داخل ہو چکی ہے اور یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ عرب ممالک کے لیے کشمیر سے کہیں زیادہ اہمیت انڈیا کی ہے۔", "title": "عرب ممالک کشمیر کے بجائے انڈیا کے ساتھ کیوں؟", "firstPublished": "2019-08-26T02:29:52.000Z", "id": "ae1a3c8c-b2c0-a346-85c3-2c49237c4fff", "article": "انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ متحدہ عرب امارات میں ایک بات کھل کر سامنے آئی ہے اور وہ یہ کہ عرب ممالک کے لیے کشمیر سے کہیں زیادہ اہمیت انڈیا کی ہے کشمیر کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان کا دو طرفہ مسئلہ تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جب اس مسئلے پر بات ہوئی تو دنیا میں آباد کشمیریوں میں بالخصوص یہ امید جاگی کہ اب ان کی بات کو بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اٹھایا جائے گا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مشرق وسطی یا عرب دنیا کے لیے کشمیر سے کہیں زیادہ اہمیت انڈیا کی ہے۔ یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید النہیان نے ابو ظہبی کو نریندر مودی کا ’دوسرا گھر‘ بھی قرار دے دیا۔ اس بابت جب بی بی سی نے سعودی عرب میں انڈیا کے سابق سفارتکار تلمیذ احمد سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’کشمیر کے مسئلے کے بارے میں مغربی ایشیا کے ممالک کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ یہ انڈیا اور پاکستان کا باہمی معاملہ اور اسے انھیں آپس میں سلجھانا چاہیے۔ یہ بین الاقوامی مسئلہ نہیں ہے اور جو ابھی آرٹیکل 370 ہٹایا گیا ہے وہ پوری طرح سے انڈیا کا اندرونی اور آئینی مسئلہ ہے نہ کہ دوطرفہ مسئلہ۔ مغربی ایشیا میں ہر لیڈر اس بات کو گہرائی سے سمجھتا ہے۔‘ اسی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انڈین تھنک ٹینک انٹرنیشنل کونسل فار ورلڈ افیئرز کے فیلو فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ’بین الاقوامی سیاست پریگمیٹزم (یعنی عملی معاملات کی خاطر تعلق) کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ اب اصول پسندی اور اخلاقیات کا دور جا چکا ہے۔ آپ چاہے امریکہ کو دیکھیں یا یورپ کو ہر جگہ آپ کو علاقائی سیاست اور عملی معاملات کا دور نظر آئے گا۔‘ ان کے مطابق یہ کشمیر پر سعودی عرب کا خطِ فیصل تھا۔ تلمیذ احمد نے مزید بتایا کہ اس وقت سے انڈیا اور سعودی عرب کے دو طرفہ باہمی تعلقات کی ابتدا ہوئی جس میں کسی دوسرے ملک کے ساتھ رشتے کا ان کے مابین رشتے پر کوئی اثرات نہیں پڑیں گے۔ دوسری بات انھوں نے یہ کہی کہ پاکستان کا اقتصادی گراف اتنا گرا ہے کہ اب عرب ممالک خاص کر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو پاکستان بوجھ لگنے لگا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ساتھ ان کے اختلافات کھل کر سامنے آنے لگے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ عالمی سطح پر جو نئی سیاست تشکیل پا رہی اس میں دہشت گردی کے خلاف محاذ میں امریکہ کے ساتھ انڈیا، اسرائیل اور یورپی ممالک شامل ہیں جبکہ پاکستان جانے انجانے کہیں نہ کہیں تنہا ہوتا جا رہا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49403699", "summary": "ماہر معاشیات عاصم اعجاز خواجہ کہتے ہیں کہ احتساب کے پلیٹ فارم کا بغیر سوچے سمجھے استعمال اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال معیشت کے لیے مضر ثابت ہو سکتی ہے۔", "title": "’پیسہ ہے مگر حکومت تک نہیں پہنچ رہا‘", "firstPublished": "2019-08-20T08:17:09.000Z", "id": "0faa60e8-f190-c348-a3a5-057681e2ed5c", "article": "پاکستان میں معیشت کی حالیہ ابتری اور حکومتِ پاکستان کی جانب سے نئے قرضوں اور غیر ملکی امداد کے حصول کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں ’کیسے‘ اور ’کیوں‘ جیسے سوالات سے بات ’کیا واقعی بہتری ہو گی؟‘ اور ’ہو گی تو کب تک؟‘ پر پہنچ چکی ہے۔ عاصم خواجہ کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی طرف سے مبینہ 'کرپشن کرنے والوں کے احتساب کے پلیٹ فارم کا بغیر سوچے سمجھے استعمال اور اس سے پیدا ہونے والی غیر یقینی کی صورتحال پاکستانی معیشت کے لیے مضر ثابت ہو سکتی ہے۔' ان کا کہنا ہے کہ اس وقت کئی ایسی چیزیں ہو رہی ہیں کہ 'آپ سمجھتے ہیں کہ کل کو پتا نہیں کون پکڑا جائے گا۔ اگر آپ نے یہ خدشہ پیدا کر دیا تو یہ معیشت کے لیے بہت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔' 'تاہم اگر ہم اس کو بغیر دیکھے اور بغیر سوچے سمجھے یا بلا تفریق استعمال کریں گے، اس سے ہم غیر یقینی کی صورتحال پیدا کریں گے اور اس غیر یقینی کی صورتحال کا زیادہ مضر اثر ہو سکتا ہے۔' عاصم کا کہنا تھا کہ پیسہ ہے مگر حکومت تک نہیں پہنچ رہا۔ وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ 'بہت سے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں ریاست اور شہری کے درمیان بنیادی معاشی معاہدہ ٹوٹ چکا ہے یا کمزور پڑ چکا ہے۔' عاصم خواجہ کا کہنا تھا کہ یہ ایک مشکل صورتحال ہے۔ ان کے خیال میں ایسے میں بیرونی کردار بہت اہم ہو سکتا ہے۔ اس کی وضاحت میں عاصم کا کہنا تھا کہ فرض کریں آپ کے سر پر بندوق رکھ کر آپ سے ٹیکس نکلوا لیا جاتا ہے۔ اس میں دو مسائل ہیں۔ ایک تو یہ کہ بندوق چلی جاتی ہے اور پھر آپ یعنی شہری کہے گا کہ اب موقع ہے اور وہ بھاگ جائے گا۔ عاصم خواجہ کا کہنا ہے کہ کسی بھی معیشت کی بہتری کا دارومدار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ حکومت تجربہ کر کے اور اس سے سیکھ کر ترقی کرنے کے کتنے مواقع فراہم کر رہی ہے۔ عاصم اعجاز کا کہنا ہے کہ کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے کہ 'عاطف میاں کی ای اے سی میں موجودگی اس کے لیے کاؤنٹر پروڈکٹیو ہو گئی تو انھوں نے استعفٰی دے دیا۔ اس موقعے پر مجھے بھی یہ لگا کہ میری موجودگی بھی (ایسی ہی ہو گئی ہے)۔' تاہم ان کا کہنا ہے کہ عاطف میاں کی طرح وہ بھی ہمیشہ سے اور آج تک ملک کے لیے حاضر ہیں۔ عاصم کے خیال میں 'یہ کہہ دینا کہ میں تو حکومت سے ناراض ہو گیا ہوں، یہ بچگانہ سی بات ہے۔۔۔نہ عاطف کی مدد کرنے کی خواہش کوئی مدھم ہوئی نہ میری ہوئی۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49403650", "summary": "امریکہ انڈیا کا ساتھی ہے یا نہیں تاہم اس کی خاموشی معنی خیز ضرور ہے۔ یوں سمجھیے کہ ہماری شہ رگ پر ہاتھ رکھ کر ہم پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر پڑھیے عاصمہ شیرازی کا کالم۔", "title": "جنرل باجوہ کے چیلینجز", "firstPublished": "2019-08-20T05:11:09.000Z", "id": "72aa5693-a7f9-bd46-8c38-354d85137183", "article": "علاقائی سلامتی اور خطے میں امن کی ذمہ داری پاکستان کے ناتواں کاندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا امریکی صدارتی انتخابات سے جوڑا جا رہا ہے۔ حالیہ امریکی دورے کے دوران صدر ٹرمپ نے غیر روایتی طور پر پاکستان کو ’ڈو مور‘ کا کہہ کر روایتی توقعات میں باندھ دیا ہے۔ افغانستان کے امن کے لیے پاکستان کے کردار کو کُلی حیثیت دی گئی ہے۔ پاکستان اپنے اور خطے کے امن کے لیے اپنا کردار ماضی کی نسبت مخلصانہ طور پر ادا کر رہا ہے جب کہ اس ضمن میں افغانستان کے ساتھ اعتماد کی فضا بہتر بنانے میں جنرل باجوہ کو کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہو گی۔ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کا آئندہ چند ماہ میں آغاز ہو جائے گا اور اس بار امریکہ طویل ترین جنگ سے نکلنے کا اعلان کر کے امریکی عوام کا دل جیتنا چاہتا ہے اسی لیے اُسے گھی سیدھی انگلیوں سے نکالنا پڑے یا ٹیڑھی۔۔۔ انہیں فقط مثبت نتیجے سے مطلب ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔ افغانستان کے مسئلے پر پاکستان کے پاس ڈلیور کرنے کے سوا کوئی چارا بھی نہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان مکمل طور پر ڈیلیور کر بھی سکتا ہے یا نہیں؟ دوسری جانب پاکستان گھمبیر علاقائی مسائل میں الجھ چکا ہے۔ افغانستان میں مثبت کردار کے باوجود امریکہ بہادر کشمیر میں دم سادھے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ امریکہ انڈیا کا ساتھی ہے یا نہیں تاہم اس کی خاموشی معنی خیز ضرور ہے۔ یوں سمجھیے کہ ہماری شہ رگ پر ہاتھ رکھ کر ہم پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔۔۔ ایک عالمی تانا بانا ہے اور اُس تانے بانے میں ہم بُنے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے ادارے اس صورت حال سے نکلنا چاہتے ہیں مگر اس کے لیے کس قدر ماحول تناؤ کا شکار ہوتا ہے یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ گذشتہ ایک سال میں سات ہزار ارب روپے کے ریکارڈ قرضے، ڈالر کی اونچی اڑان اور ریکارڈ مہنگائی کا سامنا ہے۔ عوام کی کمر ٹوٹ چکی ہے جبکہ مزید اعشاریے گرنے کی شنید ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی دن بدن بڑھتی شرائط اپنی جگہ ڈو مور کا راگ الاپ رہی ہیں، ملک ایسے بیرونی شکنجے میں ہے جو اب سے پہلے کبھی نہ تھا۔ سیاسی راہنما بدعنوانی کے الزام میں اندر ہیں اور جو بظاہر آزاد ہیں اُن کے ہاتھ مصلحتوں نے باندھ رکھے ہیں۔ بے دلی سے مولانا کی کل جماعتی کانفرنسوں میں شریک راہنما عوام کے مسائل کے لئے حتمی جنگ کا اعلان کب کریں گے اس کی امید نہیں تاہم عوام اور سیاسی جماعتوں کی بڑھتی بے چینی اہم چیلنج ضرور بن سکتی ہے۔ البتہ احتساب کی اس کشمکش میں کپتان کی خواہشیں آڑے آئیں گی یا سیاسی راہنماؤں سے مفاہمت کا آغاز ہو گا۔۔۔ دیکھیے اور انتظار کیجیے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49352110", "summary": "پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو برسر اقتدار آنے کے 12 ماہ گزر جانے پر بی بی سی نے حکمران جماعت کے رہنماؤں اور چند تجزیہ کاروں سے پوچھا کہ گذشتہ ایک سال میں پی ٹی آئی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی کیا رہی اور سب سے بڑی ناکامی کیا تھی؟", "title": "تحریکِ انصاف: پہلے سال کی بڑی کامیابیاں اور ناکامیاں", "firstPublished": "2019-08-16T04:09:09.000Z", "id": "3a8c9a1d-4749-ef41-a3fa-50981ca3b19d", "article": "اس پس منظر میں بی بی سی نے حکومت کے بارہ ماہ مکمل ہونے پر حکمراں جماعت کے رہنماؤں اور چند تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور ان سے ایک سادہ سا سوال پوچھا: ’گذشتہ ایک سال میں پی ٹی آئی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی کیا رہی اور سب سے بڑی ناکامی کیا تھی؟‘ پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں جب ماہرین اور تجزیہ کاروں سے کیا گیا تو بیشتر کی رائے متفق تھی کہ حکومت کی نیت پر کوئی شک نہیں مگر ان کی اب تک کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ شاید منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ 'پی ٹی آئی حکومت آنے کے بعد سے ڈالر کی قیمت میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور روپے کے قدر تاریخ کی سب سے کم سطح پر پہنچ گئی ہے۔ کئی لوگ اسے ناکامی گردانیں گے لیکن میرے خیال میں یہ ان کی کامیابی ہے کیونکہ انھوں نے ایک مشکل، مگر حقیقت پسندانہ فیصلہ لیا۔اس سے عوام کو تکلیف ضرور پہنچے گی مگر یہ کرنا ضروری تھا۔' تجزیہ نگار اور وکیل ریما عمر نے بی بی سی کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آ کر پاکستان میں ٹیکس چوری کے کلچر کو ختم کرنے کے حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر کام کیا ہے جو کہ قابل تعریف ہے کیونکہ یہ مسئلہ پاکستانی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کی سب سے زیادہ مقبولیت پاکستان کے مڈل کلاس یعنی متوسط طبقے میں ہے اور انھی کی حمایت کی مدد سے پی ٹی آئی اقتدار میں آئی مگر وہ معاشی صورتحال کے پیش نظر ان کے لیے کوئی سہولت نہ دے سکی۔ 'ایک ایسی پارٹی جو اقتدار میں آنے کے لیے پانچ سال سے تیاری کر رہی تھی، ان کو نہ صرف اقتدار کی خواہش تھی بلکہ انھیں انتخابات میں اپنی کامیابی پر یقین تھا، انھوں نے کوئی تیاری ہی نہیں کی تھی۔ اسد عمر کو دیکھ لیں، سب کو علم تھا کہ وہ وزیر خزانہ بنیں گے لیکن ان کا منصوبہ کیا تھا؟' 'حکومت کی یہ ایک بڑی خامی رہی ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر بھی گذشتہ سال کے انتخاب سے پہلے کا بیانیہ چلا رہی ہے اور پی ٹی آئی والے حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن جیسی باتیں کرتے ہیں۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ حکومتی امور پر سنجیدہ نہیں ہیں۔' ریما عمر کے نزدیک اس حکومت کی سب سے بڑی ناکامی عوام کے حقوق، بالخصوص آزادی اظہار رائے کو سلب کرنا ہے۔ ان کے مطابق گھٹن کا یہ ماحول اتنا زیادہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سخت ترین ناقدین نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ حالات ہوں گے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48967582", "summary": "عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ماہر معاشیات ڈاکٹر عاطِف میاں کے مطابق پاکستان کے موجودہ مالیاتی بحران کی بنیادی وجہ کرپشن سے زیادہ وہ بیرونی قرضے ہیں جنھیں غیرمنافع بخش منصوبوں پر خرچ کیا گیا۔", "title": "بحران کی وجہ ’بدعنوانی سے زیادہ غیرپیداواری منصوبے‘", "firstPublished": "2019-07-24T12:58:46.000Z", "id": "a3d9e46f-3c77-cd49-ac46-3fc3cf9d0497", "article": "عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ماہر معاشیات ڈاکٹر عاطِف میاں نے کہا ہے کہ پاکستان کے موجودہ مالیاتی بحران کی بنیادی وجہ کرپشن سے زیادہ وہ بیرونی قرضے ہیں جنھیں غیر پیداواری اور غیر منافع بخش منصوبوں پر خرچ کیا گیا۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے ڈاکٹر عاطف میاں کو پچیس 'روشن ترین' نوجوان ماہرینِ اقتصادیات میں شامل کیا تھا۔ انھیں تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں انھیں اکنامک ایڈوائزری کونسل میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن مذہبی حلقوں کے دباؤ کی وجہ سے ان کی شمولیت ممکن نہ ہوسکی۔ ڈاکٹر میاں نے سنہ 2007 کے عالمی مالیاتی بحران کی وجہ بننے والے گھروں کے قرضوں سے شروع ہونے والے دیوالیے کا تجزیہ کیا تھا۔ یہ تجزیہ ایک کتاب 'ہاؤس آف ڈیٹ' (قرضوں کے مکان) کے نام سے شائع ہوا تھا۔ بار بار آئی ایم ایف کی طرف رجوع کرنے کے بارے میں ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جو اقتصادی ماڈل اپنایا ہوا ہے اس میں ایسی خرابیاں ہیں کہ ہر چار یا پانچ سال کے بعد ملک کی معاشی صورتِ حال بہت بگڑ جاتی ہے۔ ڈاکٹر عاطف میاں کے مطابق، بیل آؤٹ کی وجہ سے معیشت سست روی کا شکار ہوجاتی ہے، معیشت میں کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے، اور آپ کے پاس زرِ مبادلہ بھی نہیں ہوتا ہے تاکہ آپ بیرونی قرضے کی ادائیگی کرسکیں۔ موجودہ حکومت کی پچاس لاکھ مکانات تعمیر کرنے کی پالیسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا کہ پاکستان کا اس وقت بنیادی مسئلہ بیرونی ادائیگیاں ہیں جس کے لیے برآمدات میں تیزی سے اضافے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے موجودہ مالیاتی بحران کی بنیادی وجہ کرپشن سے زیادہ غیر ملکی قرضوں سے ملک کے اندر غیر پیداواری منصوبوں میں سرمایہ کاری ہے۔ اس سوال پر کہ کیا پاکستان کی موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کی جانب رجوع کرنے میں دیر کی جس کی وجہ سے تکالیف بڑھ گئی، ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا 'جس حالت میں پاکستان تھا اس میں نہ صرف موجودہ حکومت نے دیر کی بلکہ یہ حالت نواز شریف کی حکومت کے آخری سال میں بھی بہت واضح تھی۔' حکومت نے مکانات کی کمی کے لیے پچاس لاکھ مکانات تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن ڈاکٹر عاطف میاں کہتے ہیں اس سے بیرونی ادائیگیوں کا مسئلہ پیچیدہ تر ہو جایے گا۔ ڈاکٹر میاں نے کہا کہ پاکستان کے حکمرانوں کو قرضوں کی لت لگی رہی ہے۔ 'یہ ایک بری عادت ہے جو ہمیں نشے کی طرح لگ چکی ہے۔ ماضی میں جو دو حکومتیں آئیں، بلکہ جب بھی حکومتیں انتخابات لڑ کر آتی ہیں تو ان پر دباؤ ہوتا ہے کہ انھوں نے لوگوں کو کچھ دکھانا ہے۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49041795", "summary": "عمران خان 21 جولائی کو تین روزہ سرکاری دورے پر امریکہ روانہ ہو رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس دورے میں مرکزی حیثیت افغانستان میں جاری امن مذاکرات کو ہی رہے گی۔", "title": "دورۂ امریکہ: ’افغانستان کو مرکزی حیثیت حاصل رہے گی‘", "firstPublished": "2019-07-19T11:56:09.000Z", "id": "913e4338-8ddd-7949-ad2f-53b0c7a6b711", "article": "وزیر اعظم عمران خان 21 جولائی کو تین روزہ سرکاری دورے پر امریکہ روانہ ہو رہے ہیں جہاں 22 جولائی کو ان کی ملاقات صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ہو گی۔ وائٹ ہاؤس سے جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اس ملاقات کے دوران امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعاون کو مزید مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی تاکہ خطے میں امن، استحکام اور معاشی آسودگی کی راہ ہموار ہو سکے۔ ان کے مطابق اس دورے کے دوران افغانستان میں جاری امن مذاکرات کو مرکزی حیثیت حاصل رہے گی۔ 'اس دورے کے دوران سب سے اہم ملاقات عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہو گی اور اس کو دورے میں مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔' کیٹو انسٹیٹیوٹ سے وابستہ تجزیہ کار سحر خان کا کہنا تھا کہ عام طور پر پاکستان اور امریکہ کے خارجہ تعلقات مستحکم انداز میں چلتے ہیں اور آئندہ ملاقات میں کوئی بڑی پیش رفت متوقع نہیں ہو گی۔ 'عمران خان کے پاس ایک موقع ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ اس موقع کو وہ کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ امریکہ میں مقتدر حلقوں پر وہ اپنا کیا نقش چھوڑتے ہیں، پاکستان کا مقدمہ کس طرح لڑتے ہیں اور امریکہ کو یہ باور کروانے میں کس حد تک کامیاب ہوں گے کہ پاکستان کو صرف ایک مخصوص (افغانستان کے) زوایے سے نہ دیکھا جائے۔' شیری رحمان کے مطابق اگر پاکستان افغانستان میں جاری امن عمل کو اپنی بہتری کے لیے استعمال نہ کر سکا تو یہ بڑی زیادتی ہو گی۔ 'یہ بہت پیچیدہ مسائل ہیں جن کو حل کرنے کے لیے پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا ایک اثر ہے اور طالبان اور دوسرے لوگ پاکستان کی بات سنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو اس وقت تک پاکستان کی ضرورت ہو گی جب تک یہ مسئلہ مکمل طور پر حل نہ ہو اور امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا مکمل نہ ہو۔' اس سوال کے جواب میں کہ آیا افغانستان کے امن عمل میں مثبت پیش رفت سے پاکستان کی علاقائی اہمیت کم ہو جائے گی، سحر خان کا کہنا تھا افغان مذاکرات میں پاکستان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ سحر خان کے مطابق پاکستان میں حال ہی میں سول ملٹری تعلقات میں دیکھی جانے والی یگانگت بہت ضروری تھی اور اس دورے میں پاکستان کی سول، ملٹری لیڈرشپ مل کر امریکہ کی انتظامیہ سے ملیں گے۔ منیر اکرم کا کہنا تھا کہ یہ موضوع بھی زیرِ بحث آئے گا۔ اور ابھی تک اگر یہ ایجنڈے میں نہیں ہے تو اس کو ہونا چاہیے کیونکہ ایران کا افغانستان اور خطے میں جو کردار ہے وہ کافی اہم ہے۔ اگر امریکہ ایران کشیدگی بڑھتی رہی تو یہ خطے کے لیے بھی ٹھیک نہیں ہو گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/india-49017631", "summary": "انڈیا مجموعی قومی پیداوار کے لحاظ سے سب سے کم قرضے لینے والے ممالک میں سے ایک ہے اور اس کا قومی قرضہ اس کی اپنی مجموعی قومی پیداوار سے 5 فیصد سے بھی کم ہے۔", "title": "انڈیا کیوں عالمی منڈی سے قرضے لینا چاہتا ہے؟", "firstPublished": "2019-07-18T11:14:59.000Z", "id": "b9dac35a-3017-8c46-be85-42074ab226ac", "article": "قرضے لینے کی حمایت میں انھوں نے یہ دلیل دی تھی کہ انڈیا مجموعی قومی پیداوار کے لحاظ سے سب سے کم قرضے لینے والے ممالک میں ہے۔ انڈیا کا قومی قرضہ اس کی اپنی مجموعی قومی پیداوار سے 5 فیصد سے بھی کم ہے۔ کئی دوسرے ملکوں کی طرح انڈیا کے بجٹ میں خسارہ ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی آمدن سے زیادہ خرچ کرتا ہے اور اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے انڈیا کو قرضہ لینا پڑتا ہے۔ سنہ 2019 کے وسط سے شروع ہونے والے اور سنہ 2020 کے وسط تک ختم ہونے والے مالیاتی سال میں انڈیا کا خسارہ 103 ارب ڈالرز ہوگا جو کہ اس کی مجموعی قومی پیداوار کا تین اعشاریہ تین فیصد بنتا ہے۔ اس سے ایک ایسی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے جس میں افراطِ زر کی شرح اور انڈیا کے مرکزی بینک کی کمرشال بینکوں کو قرضے دینے کی شرح سود میں کمی آنے کے باوجود عام صارفین کے لیے قرضوں کی شرح سود زیادہ رہی ہے۔ نرملا سیتھا رامن کہتی ہیں کہ انڈیا کے بیرونی قرضے اس کی مجموعی قومی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے کم ترین قرضے ہیں۔ حکومت اور نیم سرکاری کمپنیوں کے بھاری قرضوں کی وجہ سے جو کہ مجموعی قومی پیداوار کا 8.5 فیصد بنتا ہے، عام نجی صارفین کے لیے بہت ہی کم رقم باقی رہ جاتی ہے۔ فرض کریں کہ حکومت امریکی ڈالروں میں قرضے لیتی ہے، روپے کی قدر میں کمی آنا نظر آتا ہے کیونکہ انڈیا کا افراطِ زر امریکی افراطِ زر سے کافی زیادہ ہے۔ پھر ڈالروں کی صورت میں لیے گئے کم شرحِ سود پر بیرونی قرضوں کی واپسی مہنگی پڑے گی کیونکہ بعد میں حکومت کو مہنگے داموں پر امریکی ڈالر خرید کر قرضہ اور اس پر بننے والا سود واپس کرنا ہو گگ۔ سب سے پہلے تو اس سے روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہونا شروع ہو جائے گی، کم از کم ایسا شروع شروع میں تو ضرور ہو گا۔ جب پاؤنڈز فروخت کیے جاتے ہیں اور ڈالرز (یا کوئی بھی دوسری غیر ملکی کرنسی) کو واپس انڈیا لایا جاتا ہے تو ان کو روپوں میں بدلا جاتا ہے۔ اس سے روپے کی طلب میں اضافہ ہوگا اور بالآخر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔ اس طرح اس کچھ عرصے کے لیے انڈیا کی برآمدات متاثر ہوں گیں جو کہ پہلے ہی کم ہیں۔ اس سے درآمدات سستی ہو جائیں گی اور مقامی پراڈکٹس کو نقصان پہنچے گا۔ جب کوئی حکومت اپنی کرنسی میں قرضے لیتی ہے تو اس کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ یہ انھیں واپس کرنے کے لیے نوٹ چھاپ سکتی ہے۔ ماہرین اسے قرضوں کو افراط زر کی شکل دینا کہتے ہیں۔ لیکن یہ اختیار اس وقت نہیں ہوتا ہے جب بیرونی زرِ مبادلہ میں قرضہ لیا جاتا ہے۔ انڈیا کا مرکزی بینک ہوا میں سے ڈالرز نہیں پیدا کرستا ہے۔ یہ صرف روپے چھاپ سکتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48984269", "summary": "بچپن میں محاورہ سنا تھا ’کی پرواہ ملنگا نوں، بھاویں کتے پے جاون جنگاں نوں‘ یعنی ملنگ کی ٹانگ سے کتے بھی لپٹ جائیں تو اسے کیا پرواہ۔ جدید اردو میں اس کا مطلب ہے ’گھبرانا نہیں‘۔", "title": "مردے کے بال مونڈنے سے وزن ہلکا نہیں ہوتا", "firstPublished": "2019-07-14T18:43:51.000Z", "id": "ef430195-3fdc-b14a-9d6d-d9e126ba1dda", "article": "خدا خدا کر کے آئی ایم ایف نے سوا تین سال کے لئے کڑی شرائط کی پوٹلی میں باندھ کر چھ ارب ڈالر قرضہ تین جولائی کو منظور کیا ہی تھا کہ ٹھیک گیارہ روز بعد سرمایہ کاری سے متعلق عالمی بینک کے ایک ثالثی ٹریبونل نے ریکوڈک تانبے کے ذخیرے کی لیز کے تنازعے کا فیصلہ پاکستان کے خلاف دے دیا۔ موجودہ حکومت تین ماہ پہلے تک کراچی کے قریب سمندر میں تیل اور گیس کے ایک بہت بڑے گیم چینجر ذخیرے کی دریافت کی آس لگائے بیٹھی تھی۔ مگر آج ریکوڈک کا ثابت شدہ معدنی ذخیرہ بھی اس کے ہاتھ سے پھسل رہا ہے۔ اور جب کمہار پے بس نہ چلے تو گدھے کے کان ہی اینٹھے جا سکتے ہیں۔ یعنی یہ کہ کوئی اسمبلی میں سلیکٹڈ نہ کہہ دے، نواز شریف کو جیل کا کھانا دیا جائے کہ گھر کا، جن پر کرپشن کے مقدمے ہیں انھیں ٹی وی کوریج ملنا چاہئے کہ نہیں، تین ٹی وی چینلز کی نشریات پیمرا نے معطل کروائیں یا پیمرا کو عضوِ معطل بنانے والے فرشتوں نے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی پر بے نامی جائیداد کا ریفرنس ٹھیک ہے یا غلط، احتسابی جج ارشد ملک کی وڈیو پر یقین کیا جائے کہ بیانِ حلفی پر، خواجہ آصف نے بطور وزیرِ دفاع اور وزیرِ خارجہ کتنے قیمتی راز کسی بیرونی ایجنٹ کے حوالے کئے اس کی چھان بین بھی ضرور ہو گی۔ 20 جولائی کو سابق فاٹا میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔ دفعہ 144 کے باوجود کوئی بھی ’ملک دشمن امیدوار‘ جیتنے نہ پائے۔(سلیس اردو میں ملک دشمن امیدوار اسے کہتے ہیں جس کا تعلق یا ہمدردی پختون تحفظ موومنٹ سے ہو)۔ ’کلبھوشن کا فیصلہ حق میں آیا تو موجودہ حکومت کی واہ واہ، خلاف آیا تو سابق حکومتوں کے نام پے دھاڑ دھاڑ‘ بھلے چھ ارب ڈالر آئی ایم ایف سے آ جائیں اور دوسرے ہاتھ سے ریکوڈک کے ہرجانے میں لٹ جائیں مگر گیس، بجلی، تیل، چینی، آٹے پر سبسڈی ایک بھاری بوجھ ہے اور اس بوجھ کا یہ ملک اب متحمل نہیں ہو سکتا۔ ریکوڈک کا فیصلہ تو آ گیا۔ تین دن بعد کلبھوشن یادو کے بارے میں عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ بھی آنے والا ہے۔ حق میں آیا تو موجودہ حکومت کی واہ واہ، خلاف آیا تو سابق حکومتوں کے نام پے دھاڑ دھاڑ۔ بچپن میں محاورہ سنا تھا ’کی پرواہ ملنگا نوں، بھاویں کتے پے جاون جنگاں نوں‘ (ملنگ کی ٹانگ سے کتے بھی لپٹ جائیں تو اسے کیا پرواہ)۔ جدید اردو میں اس کا مطلب ہے ’گھبرانا نہیں ہے‘۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48978949", "summary": "جب نظام کو ہانکنے والے وہ لوگ ہوں جنھیں کبھی گدھے ہانکنے کا بھی اتفاق نہ ہوا ہو تو جو صورت حال آج سامنے ہے ایسے ہی حالات پیدا ہوتے ہیں۔ پڑھیے آمنہ مفتی کا کالم۔", "title": "گیس اور بجلی خون کی قیمت پر ملنے کی خوشخبری!", "firstPublished": "2019-07-14T04:19:45.000Z", "id": "d780fb7a-6573-8c4c-8dfb-0b71efd7a040", "article": "ملکِ عزیز میں زبان بندی، ٹیکس گردی اور ہڑتالوں کا موسم جاری ہے۔ سنیچر کو ہونے والی ہڑتال کامیاب تھی۔ یہ ہڑتال اپوزیشن کی کال پر نہیں ہوئی۔ اپوزیشن کو اس بات کی ذرا بھی فکر نہیں کہ عوام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ شبر زیدی نظام کے پرزے ہیں، جب نظام کو ہانکنے والے وہ لوگ ہوں جنھیں کبھی گدھے ہانکنے کا بھی اتفاق نہ ہوا ہو تو جو صورت حال آج سامنے ہے ایسے ہی حالات پیدا ہوتے ہیں۔ دوسری کارروائی یہ کی گئی کہ صنعتوں، تاجروں، زراعت وغیرہ پر نہ صرف ٹیکس بڑھائے گئے بلکہ کچھ ایسے قدامات بھی کیے گئے جو ناقابلِ قبول ہیں۔ تاجروں اور حکومت کے مذاکرات ناکام ہو گئے۔ ہونے ہی تھے۔ بابو نگری میں جو دو جمع دو چار ہوتے ہیں وہ عام دنیا میں چار نہیں ہوتے۔ منشی گیری کے علاوہ اگر یہ لوگ طبیعات بھی پڑھ لیتے تو انھیں علم ہو جاتا کہ دنیا میں ایک ان پٹ کا آؤٹ پٹ کبھی ایک نہیں ہوتا۔ ایک سے کم ہی ہوتا ہے۔ سال بھر پہلے جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تھی تو اندازہ نہ تھا کہ سال کے اندر اندر حالات اس نہج پر پہنچ جائیں گے۔ کئی صنعتوں کو تالا لگ چکا ہے، سرمایہ دار اپنا سرمایہ سمیٹ رہا ہے ڈالر کی عمودی پرواز سے یہ بات صاف ظاہر ہے۔ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کا انجام یہ ہوا کہ آج کسی بھی سیاسی لیڈر کی غیر موجودگی کے باوجود نہایت منظم ہڑتال ہوئی۔ جو اکا دکا دکانیں کھلی بھی تھیں ان کے شٹر بھی علامتی طور پر نصف بند تھے۔ خدا کے فضل و کرم سے ہمارے وزیراعظم کو نہ کبھی کوئی کاروبار کرنے کا اتفاق ہوا اور نہ ہی نوکری جیسی خفت اٹھانا پڑی۔ اس بات کا اظہار وہ اکثر اپنے محبوب ترین انداز میں کرتے ہیں جسے حاسد تکبر کہتے ہیں کہ مجھے کیا ضرورت پڑی ہے یہ سب کرنے کی، میرے پاس تو سب کچھ ہے۔ بالکل بجا فرماتے ہیں، ایچی سن کالج کے کالونیل ماحول میں انھوں نے کہاں ان بچوں کو دیکھا ہو گا جو سکول میں خر دماغ ماسٹر سے پٹ کر گھر آنے کے بعد، تندور سے گرم گرم روٹی لے کے کھاتے ہیں۔ تو بڑی عیاشی یہ ہی ہوتی ہے کہ دائی دوسرے پیڑے سے ذرا سا آٹا توڑ کے روٹی بھاری کر دے ایسی روٹی کو ’بوٹی والی روٹی‘ کہا جاتا ہے۔ شاید تاجر رام ہو جائیں گے، شاید صنعت کار مان جائیں گے، ممکن ہے ہائی کورٹ زرعی ٹیکس پر سٹے واپس لے لے لیکن جب لوگوں کو کھانے کو روٹی نہیں ملے گی، جب آٹھ بچوں کا باپ جو 500 روپے یومیہ کماتا ہے، 20 روٹیاں 300 کی خرید کر گھر لائے گا تو اس کی آہ یقیناً آپ کو لے ڈوبے گی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48978606", "summary": "امن کا قیام وقت طلب ہے اور آسان بهی نہیں، یہی وجہ کہ سیاستدان عام طور پر اس سے دُور رہتے ہیں کیونکہ یہ ان کے مفاد میں نہیں۔", "title": "’پاکستان کے بارے میں تمام خدشات غلط ثابت ہوئے‘", "firstPublished": "2019-07-14T01:24:24.000Z", "id": "f2460d69-c611-c04f-b9b3-18fc35d10893", "article": "ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت، قیدیوں کا تبادلہ، پانی، ویزوں کا آسان حصول، فضائی حدود کے استعمال جیسے مسائل ہیں لیکن ان پر دونوں ممالک بات کرنے کو تیار نہیں۔ کیونکہ ہماری سیاست ایسی رہی ہے کہ ہم تعاون یا بات چیت کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ ہمیں سمجهنا ہو گا اس رویے سے کسی کا بهلا نہیں ہو سکتا۔‘ ان کا کہنا تها کہ میڈیا کے کردار کا تعلق بهی کسی حد تک دونوں ملکوں میں عوامی سطح پر رابطوں کے فقدان سے جڑتا ہے۔ ’میڈیا بهی انہی سٹیریو ٹائپس کے لیے کام کر رہا ہے، میڈیا پر پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی نہ ہی لگانی چاہییے تو ہم صرف یہ امید ہی کر سکتے ہیں کہ جب دونوں ملکوں میں رابطے اور سفارتکاری بڑهے گی، لوگوں کو امن کی قدر ہو گی تو میڈیا میں رپورٹنگ بهی شاید زیادہ متوازن اور بہتر ہو جائے۔ ہم امید ہی کر سکتے ہیں۔‘ 'امن کا قیام وقت طلب ہے اور آسان بهی نہیں۔ یہی وجہ کہ سیاستدان عام طور پر اس سے دُور رہتے ہیں، کیونکہ یہ ان کے مفاد میں نہیں۔ لیکن ہم دوسرے آپشنز بهی دیکھ رہے ہیں جیسا کہ ٹریک ٹو سفارتکاری ہے، یا بین الاقوامی ڈپلومیسی ہے۔ تاکہ یہ سب كو واضح ہو جائے کہ امن ہی واحد راستہ ہے۔‘ اس سوال پر کہ آج ہونے والے مذاکرات میں پہلےایسی خبریں آئیں کہ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اور انڈین ہائی کمیشن سے نمائندے کی شرکت کا امکان ہے، لیکن پهر دفتر خارجہ نے لاتعلقی کا اظہار کیا اور دونوں جانب سے معذرت کرلی گئی تو کیا اس تاثرکو تقویت ملتی ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں ٹریک ٹو ڈپلومیسی کی سفارشات کو سنجیدہ نہیں لیتی ہیں؟ عندلیب عباس نے کہا کہ وزیر خارجہ ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے شرکت نہیں کر پائے جبکہ وہ خود اس وقت دفتر خارجہ اور حکومت پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں۔‘ ان میں سب سے پہلی قسم ٹریک ون یا آفیشل ڈپلومیسی ہے جس میں سربراہان مملکت، وزرائے اعظم، وزرائے خارجہ وغیرہ سرکاری سطح پر بات چیت کرتے ہیں۔ یعنی یہ آفیشل سفارتکاری، پالیسی سازی اور قیام امن کے لیے حکومتی سطح پر کوششوں کا نام ہے۔ روایتی اور سوشل میڈیا پر تو یہ جنگ پوری شدت کے ساته شروع ہو چکی تهی، ایسے میں سرکاری اور نجی دونوں سطحوں پر پی ان ممالک میں بات چیت کا خاتمہ ہو گیا۔ یہاں تک کہ پاکستان کی فضائی حدود آج بهی انڈیا سے آنے والی پروازوں کے لیے بند ہے جبکہ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تقریب حلف برداری میں وزیر اعظم عمران خان کو دعوت دی نہ ان کی جانب سے بات چیت کی پیشکش کو قبول کیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48962255", "summary": "بی بی سی کو ملنے والی معلومات کے مطابق ملک بھر کے مختلف شہروں بشمول صوبائی اور وفاقی دار الحکومتوں میں کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں۔", "title": "بجٹ کے خلاف تاجروں کی ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال", "firstPublished": "2019-07-13T00:40:49.000Z", "id": "b459a1ed-93c2-7a42-8330-fa45b77b35fc", "article": "مالی سال 20-2019 کے بجٹ میں نئے ٹیکس اقدامات اور دستاویزات کی شرائط کے خلاف سنیچر کو پاکستان کی تاجر تنظیموں کی کال پر ملک بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے بی بی سی کو ملنے والی معلومات کے مطابق ملک بھر کے مختلف شہروں بشمول صوبائی اور وفاقی دار الحکومتوں میں کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں۔ ’ان تین ریٹرن کے لیے اکاؤنٹنٹس رکھنے پڑیں گے۔ عملہ رکھنے پڑے گا پھر یہ ٹیکس آپ کو وکلا کے ذریعے بھاری فیسیں ادا کرکے جمع کروانے ہوں گے اور پھر اس میں کوئی غلطی کوتاہی ہوئی تو سخت جرمانے اور ایک سال تک کی قید بھی ہوسکتی ہے۔ سپیشل جج مقرر کیے جائیں گے جو جلدی جلدی مقدمات نمٹا کر جلدی جلدی تاجروں کو جیل بھیج سکیں۔’ بدھ کے روز وزیرِ اعظم عمران خان نے کراچی کے ایک روزہ دورے میں کاروباری شخصیات سے ملاقات کی جس کا مقصد صنعت و تجارت کے شعبے کو تازہ ترین بجٹ میں اٹھائے جانے والے اقدامات کے بارے میں قائل کرنا تھا۔ ان اقدامات میں سرِ فہرست پانچ صنعتی شعبوں یعنی ٹیکسٹائل، چمڑے، کارپٹ، سپورٹس اور سرجیکل آلات کے لیے زیرو ریٹنگ سہولت ختم کر کے واپس 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنا اور 50 ہزار سے زائد کسی بھی قسم کی خرید و فروخت کو شناختی کارڈ کا ریکارڈ رکھنے سے مشروط کرنا ہے۔ بی بی سی نے اس حوالے سے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور ٹیکس ماہرین سے بات کر کے ان کا مؤقف جاننے کی کوشش کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے آخری دورِ حکومت میں زیرو ریٹنگ کی سہولت متعارف کروائی گئی تھی جس کے تحت ٹیکسٹائل، چمڑے، کارپٹ، سپورٹس اور سرجیکل آلات کو خام مال اور ان کی مصنوعات پر سیلز ٹیکس میں چھوٹ دی گئی تھی تاکہ ان کی برآمدات میں اضافہ ہو سکے۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے صدر سید علی احسان نے بی بی سی کو بتایا کہ جولائی کے آغاز سے اب تک ملک بھر کی ٹیکسٹائل پراسیسنگ اور سائزنگ فیکٹریاں حکومتی اقدامات کی وجہ سے ہڑتال پر گئی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل ملز کے پاس سے مال آگے نہیں جا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا کاروباری نظام دنیا کے دیگر ممالک سے کافی مختلف ہے اور پاکستان جیسے ممالک میں جہاں متوازی معیشت کا پھیلاؤ بے انتہا ہو وہاں معیشت کو بتدریج دستاویزی تو بنایا جا سکتا ہے مگر ایسا راتوں رات کرنے کا کوئی فارمولہ موجود نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایسا کوئی فیصلہ نہیں لے گی جو صنعت یا تجارت کے لیے نقصان دہ ہو۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ کاروباری اور تجارتی شخصیات سے مذاکرات میں کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہے جبکہ ٹیکسٹائل کی صنعت ترقی کی راہ پر ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48935161", "summary": "عمران خان کے دورۂ امریکہ کے بارے میں عمومی رائے یہی ہے کہ یہ ایک ’ورکنگ وزٹ‘ ہے جس میں قیام و طعام کی ذمہ داری مہمان کی ہوتی ہے نہ کہ میزبان کی۔", "title": "عمران خان کا دورۂ امریکہ کس نوعیت کا ہو گا؟", "firstPublished": "2019-07-11T03:14:26.000Z", "id": "9a7c1f6d-f16c-a440-9f11-4f6680a8a2a7", "article": "عمران خان کا دورہ امریکہ سفارتی آداب کے تحت ’ورکنگ وزٹ‘ کی کیٹگری میں آئے گا۔ اس کیٹگری کے تحت عموماً مہمان سربراہ مملکت کو امریکی صدر کے ساتھ دوپہر کے کھانے کی دعوت نہیں دی جاتی منگل کی شام عمران خان کے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ اس دورے کے دوران سرکاری وسائل کا بےجا استعمال نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ وہ فائیو سٹار ہوٹل کے بجائے واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر کی سرکاری رہائش گاہ میں قیام کریں گے۔ منگل کے روز امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے عمران خان کے دورہ امریکہ پر لاعلمی کے اظہار پر بات کرتے ہوئے سابق سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ عموماً ایسا نہیں ہوتا اور اس کو غیر معمولی کہا جا سکتا ہے مگر اس میں پاکستان کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ان کے مطابق اس کا حالیہ ثبوت صدر ٹرمپ کا وہ بیان بھی ہے جس میں انھوں نے برطانیہ کے سفیر سے بات نہ کرنے کا کہا جبکہ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ ان کے پاس اس طرح کی کوئی ہدایات نہیں آئی اور یہ کہ امریکہ کے برطانیہ سے گہرے تعلقات ہیں جب تک ہمارے پاس باضابطہ حکم نہیں آتا تب تک ہم بات چیت جاری رکھیں گے۔ نجم الدین شیخ کا کہنا تھا کہ اگر ہم امریکہ کی بات کریں تو یہاں سفارتی دوروں کی درجہ بندی میں پروٹوکول کے حساب سے سب سے بڑا دورہ ’سٹیٹ وزٹ‘ ہوتا ہے جس میں کسی بھی ملک کے سربراہ کو امریکی صدر کی جانب سے باقاعدہ دعوت دی جاتی ہے۔ تیسرے نمبر پر ’آفیشل ورکنگ وزٹ‘ ہوتا ہے جس میں امریکی صدر سے ملاقات کے ساتھ ساتھ دوپہر کے کھانے کی دعوت شامل ہوتی ہے۔ جبکہ اس میں مہمان کو سرکاری گیسٹ ہاوس ’بلیئر ہاوس‘ میں قیام کی سہولت اس کی دستیابی کی صورت میں فراہم کی جاتی ہے۔ چوتھے نمبر پر ’ورکنگ وزٹ‘ ہوتا ہے جس میں امریکی صدر سے ملاقات ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کی ہوتی ہے۔ اس میں کھانے کی دعوت شامل نہیں ہوتی اور دورہ کرنے والے مہمان کو اپنے قیام اور دیگر امور کا انتظام خود کرنا ہوتا ہے۔ اور آخری نمبر پر ’پرائیویٹ وزٹ‘ ہوتا ہے جس میں کسی بھی ملک کے سربراہ مملکت، حکومتی سربراہ یا وزیر خارجہ امریکی صدر کی دعوت کے بغیر امریکہ کا دورہ کرتے ہیں، وہ وہاں امریکی صدر سے ملاقات کی درخواست کر سکتے ہیں اور انھیں امریکی صدر کی مصروفیات کے مطابق ملاقات کا وقت دیا بھی جا سکتا ہے اور مصروفیت کی صورت میں انکار بھی ہو سکتا ہے۔ ورکنگ وزٹ کی طرح پرائیوٹ وزٹ پر اٹھنے والے اخراجات بھی مہمان ہی کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48866701", "summary": "ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی سکیم ختم ہونے کے بعد سب سے پہلے عوامی عہدیداروں کے خلاف کریک ڈاؤن اس لیے شروع کیا گیا ہے کیونکہ قانون کے تحت وہ اس سکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے۔", "title": "ایمنسٹی سکیم کے بعد بے نامی اثاثے کیسے ضبط ہوں گے؟", "firstPublished": "2019-07-06T02:27:24.000Z", "id": "51791579-4f58-e04e-b3c5-07de67020d24", "article": "ترجمان ایف بی آر حامد عتیق سرور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ پہلے مرحلے میں عوامی عہدیداروں کے خلاف ’کریک ڈاؤن‘ کا آغاز کیا گیا ہے کیونکہ ان کا ایمنسٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے دنیا نیوز کے پروگرام میں اعلان کیا کہ ایمنسٹی ختم ہونے کے بعد بھی بے نامی جائیدادیں رکھنے والے معمول کا ٹیکس دے کر دو اگست تک اپنے اثاثے ظاہر کر سکتے ہیں اور یہ کہ ان پر کسی قسم کا جرمانہ عائد ہو گا اور نہ ہی کوئی تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ’میری ذاتی رائے میں ایمنسٹی سکیم ختم ہونے کے بعد اب پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے پاس ہونے والے بے نامی ایکٹ کے تحت کوئی شخص بھی رعایت کا مستحق نہیں ہے۔ ترجمان کے مطابق عوامی عہدیداروں کے خلاف کام پہلے سے جاری تھا کیونکہ وہ اس سکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ ترجمان کے مطابق فوج کے افسران بھی اس سکیم سے مستفید نہیں ہو سکتے تھے۔ وزیر مملکت برائے محصولات حماد اظہر کا کہنا ہے کہ ’سکیم ختم ہونے کے بعد اب قانون کا اطلاق سب پر ہو گا چند مخصوص شخصیات یا سیاستدانوں کے خلاف نہیں۔ جہاں جہاں شک ہو کہ یہ پراپرٹی بے نامی ہے ایکشن لیا جائے گا اور اس کی قانون اجازت دیتا ہے چاہے وہ پی ٹی آئی کا ہو یا کوئی اور۔‘ جمعرات کو چیئرمین ایف بی آر اور وزیر مملکت برائے محصولات حماد اظہر کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے اعلان کیا کہ ایمنسٹی سکیم سے ایک لاکھ 37 ہزار لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے اور اپنے آپ کو رجسٹر کروایا۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ’پاکستان کی تاریخ میں یہ سب سے زیادہ کامیاب سکیم ثابت ہوئی۔‘ پاکستان مسلم لیگ نواز کے گذشتہ دور حکومت میں جب ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اعلان کیا گیا تھا تو عمران خان سمیت پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے نہ صرف اس سکیم کی مخالفت کی تھی بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ جو لوگ اس سے مستفید ہوں گے تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے پر ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے مطابق پچھلی سکیم میں زیادہ افراد فائلر تھے یعنی وہ پہلے سے ہی ٹیکس دے رہے تھے۔ ان کے اثاثے باہر تھے، وہ بڑے لوگ تھے انھوں نے پیسے دیے لیکن اب حکومت نے اس سکیم میں کیش وائٹ کرنے کی اجازت ہی نہیں دی ہے۔ شبر زیدی کا کہنا تھا کہ اس سکیم میں 80 ہزار تک ایسے افراد سامنے آئے ہیں جو نان فائلر تھے یعنی وہ پہلے ٹیکس ہی نہیں دیتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ’اب پاکستان میں ٹیکس کا نظام آرہا ہے، عمران خان کی حکومت ٹیکس کے معاملے میں سنجیدہ ہے۔ یہ ٹرینڈ خوشگوار ہے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-48878310", "summary": "انڈین وزیرِ خزانہ نرملا سیتارمن نے بجٹ کے دستاویزات ’نوآبادیاتی‘ دور کے بریف کیس کی جگہ سرخ بہی کھاتہ میں اٹھا رکھے تھے۔", "title": "انڈیا: بجٹ نوآبادیاتی بریف کیس کی جگہ سرخ تھیلی میں", "firstPublished": "2019-07-05T15:41:12.000Z", "id": "cb693042-0ca3-5247-b01c-95a8be3d4fe5", "article": "انڈین وزیرِ خزانہ نرملا سیتارمن نے جمعے کو اپنا پہلا بجٹ پیش کیا، جس میں دلچسپ بات یہ تھی کہ انھوں نے بجٹ کے دستاویزات ’نوآبادیاتی‘ دور کے بریف کیس کی جگہ سرخ تھیلی میں اٹھائے ہوئے تھے۔ نرملا سیتارمن نے، جو انڈیا کی تاریخ کی دوسری خاتون وزیرِ خزانہ ہیں، جس سرخ تھیلی میں بجٹ دستاویزات اٹھائے رکھے تھے اسے ہندی زبان میں بہی کھاتہ کہتے ہیں۔ ان کے اقتصادی مشیر کرشنا مورتی سبریمنین کے مطابق یہ ’مغربی سوچ کی غلامی‘ کے خاتمے کی علامت ہے۔ یاد رہے کہ یہ انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دوسرے دورِ حکومت کا پہلا بجٹ ہے۔ ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا قسطیں مواد پر جائیں نرملا سیتارمن اس سے پہلے انڈیا کی وزیرِ دفاع رہ چکی ہیں۔ رواں مالی سال کے بجٹ میں انھوں نے معاشرے کے درمیانے طبقے کے لیے گھروں کی سہولت، نئے کاروبار کے لیے مراعات، اور انفراسٹرکچر کی بہتری جیسے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ ان سے پہلے سنہ 1970-71 کے دوران انڈیا کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے وزیرِ خزانہ کے اضافی فرائض سرانجام دیے تھے۔ پالیمانی سپیکر اوم برلا نے بجٹ تقریر کے بعد انھیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے ’انڈیا کی پہلی کل وقتی خاتون وزیرِ خزانہ‘ کہہ کر پکارا ہے۔ تاہم ان کی بجٹ کے موقع پر استعمال کردہ سرخ تھیلی انڈیا اور دنیا بھر کے سوشل میڈیا پر زیرِ بحث رہی ہے۔ جہاں کچھ لوگوں نے انڈین روایتوں کی پاسداری کرنے پر نرملا سیتارمن کی تعریف کی تو دوسری طرف کچھ ناقدین نے انھیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دریافت کیا کہ وہ بجٹ پیش کرنے کے لیے پالیمان میں کار کی جگہ بیل گاڑی پر کیوں نہیں آئیں۔ کچھ لوگوں نے یہ کہہ کر بھی مذاق اڑانے کی کوشش کی ہے کہ کیا ان کی بجٹ تقریر کاغذ کی جگہ کھجور کے پتوں پر لکھی ہوئی تھی۔ بجٹ بریف کیس انڈیا کی نوآبادیاتی تاریخ کا اہم حصہ رہا ہے۔ معروف مصنف سمانتھ سبریمنیم کے مطابق ’یہ ایک اہم نوآبادیاتی اثاثہ ہے جو ہمیں برطانیہ کے چانسلر برائے خزانہ کی کئی دہائیوں تک دی جانے والی بجٹ تقاریر کی یاد دلاتا ہے۔‘ لیکن یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ انڈیا کے کسی وزیرِ خارجہ نے بجٹ بریف کیس کو استعمال نہیں کیا۔ انڈیا کے پہلے وزیرِ خزانہ آر کے شان مکھم چیٹی نے اپنی بجٹ تقریر میں چمڑے کا بستہ استعمال کیا تھا، جو بریف کیس جیسا ہی تھا۔ اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ انگریزی زبان کا لفظ ’بجٹ‘ ایک پرانے فرانسیسی لفظ سے بنا ہے جس کا مطلب چھوٹا بیگ ہے۔ روایت کے مطابق برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں اقتصادی پالیسی کا اعلان کرتے وقت چمڑے کا ایک بستہ لایا جاتا تھا۔ اب وہاں اس کا جدید متبادل سرخ بجٹ بوکس ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-48882237", "summary": "وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا ہے ملک گذشتہ پانچ برسوں کے دوران مایوسی کی فضا سے باہر نکل چکا ہے۔ یہ ملک کے نوجوانوں، کسانوں اور متوسط طبقے کی تمناؤں کو پورا کرنے والا بجٹ ہے۔", "title": "انڈیا: 422 ارب ڈالر کا بجٹ، دفاعی بجٹ میں اضافہ", "firstPublished": "2019-07-05T13:27:43.000Z", "id": "576b0e02-aa68-0343-b9c0-c6e1db0a360f", "article": "وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ یہ ملک کے نوجوانوں، کسانوں اور متوسط طبقے کی تمناؤں کو پورا کرنے والا بجٹ ہے انڈیا کی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے بدھ کے روز 422 ارب امریکی ڈالر مالیت کا سالانہ بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا آئندہ پانچ برسوں میں امریکہ اور چین کے بعد دنیا کی تیسری سب سے بڑی معشیت بننے کی جانب گامزن ہے۔ اندرا گاندھی کے بعد ملک کی پہلی باضابطہ خاتون وزیرِ خزانہ سیتا رمن نے پارلیمان میں سنہ 2019-20 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے گذشتہ پانچ برسوں میں ملک کی معیشت میں ایک لاکھ کروڑ ڈالر کا اضافہ کیا ہے۔ 'اس وقت ملک کی معیشت تین لاکھ کروڑ ڈالر کے قریب پہنچ چکی ہے اور آئندہ پانچ برسوں میں ہم اسے پانچ لاکھ کروڑ ڈالر تک پہنچائیں گے۔ یہ منزل اب ہمیں نظر آ رہی ہے ۔‘ پانچ لاکھ روپے تک کی آمدنی والوں کو ٹیکس ادا نہیں کرنا ہو گا۔ مودی حکومت کے حامی متوسط طبقے کے لوگ اس بجٹ سے یہ توقع کر رہے تھے کہ انکم ٹیکس میں انہیں کچھ چھوٹ ملے گی لیکن اس مین کوئی تبدیلی نہ ہونے سے انھیں مایوسی ہوئی ہے۔ یہ رقم گذشتہ بجٹ کے مقابلے تقریبآ آٹھ فیصد زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ دفاعی سروسز سے منسلک افراد کی پنشن کے لیے 112079 کروڑ روپے علیحدہ رکھے گئے ہیں۔ کانگریس کے رہنما اور سابق وزیرِ خزانہ پی چدامبرم نے بجٹ کے بارے میں اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا ایسا بجٹ ہے جس کے بارے میں ہمیں تفصیلات کا نہیں پتا ہے۔ 'مجھے نہیں پتا ہے کہ دفاع کا بجٹ کیا ہے۔ وہ کم ہے یا گذشتہ سال سے زیادہ ہے۔ زرعی سیکٹر کے لیے کیا کیا گیا ہے۔ تعلیم کے لیے کتنی رقم مختص کی گئی ہے۔ پانچ لاکھ کروڑ ڈالر کی معیشت بننے کے لیے کیا اقتصادی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے؟ اس کے بارے میں کچھ نیں بتایا گیا ہے۔' انتخاب جیتنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کا یہ پہلا بجٹ ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ملک کی معیشت اس وقت سست روی کا شکار ہے۔ لیکن سیتا رمن کا کہنا ہے کہ معیشت پوری طرح صحت مند ہے اور آگے بڑھ رہی ہے۔ سالانہ بجٹ میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر خاصی توجہ دی گئی ہے۔ انڈیا کی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کا کہنا ہے کہ انڈیا آئندہ پانچ برسوں میں امریکہ اور چین کے بعد دنیا کی تیسری سب سے بڑی معشیت بننے کی جانب گامزن ہے وزیر اعظم نریندر مودی نے بجٹ پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ 'ملک گذشتہ پانچ برسوں میں مایوسی کی فضا سے باہر نکل چکا ہے۔ یہ نئے انڈیا کا عکاس ہے۔ یہ ملک کے نوجوانوں، کسانوں اور متوسط طبقے کی تمناؤں کو پورا کرنے والا بجٹ ہے۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48853178", "summary": "آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے قرض کی منظوری کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے لیے آئندہ تین برسوں میں مختلف بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے 38 ارب ڈالر قرض ملنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔", "title": "پاکستان کو تین برس میں 38 ارب ڈالر قرض ملنے کی امید", "firstPublished": "2019-07-04T02:43:51.000Z", "id": "8e62f9c4-15f7-6d4a-a398-59718d995317", "article": "آئی ایم ایف کی منظوری کے بعد پاکستان کے لیے دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے آئندہ تین سال کے دوران مجموعی طور پر 38 ارب ڈالر قرض ملنے کی راہ بھی ہموار ہوئی ہے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان کو تین برس کے دوران چھ ارب ڈالر کا قرض دینے کی منظوری دے دی ہے۔ آئی ایم ایف نے قرض کی منظوری دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پاکستان کے لیے دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے آئندہ تین سال کے دوران مجموعی طور پر 38 ارب ڈالر قرض ملنے کی راہ بھی ہموار ہوئی ہو جائے گی۔ پاکستان کو اگلے تین برسوں میں ملنے والے 38 ارب ڈالر کے قرض کے بارے میں بتاتے ہوئے مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ لگ بھگ 8.7 ارب ڈالر ’پراجیکٹ لون‘ ہو گا، 4.2 ارب ڈالر ’بجٹ سپورٹ لون‘، 14 ارب ڈالر جاری قرضہ جات جبکہ تقریباً آٹھ ارب ڈالر ’کمرشل لون‘ کی مد میں ملیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک پاکستان کو 3.4 بلین ڈالر اضافی قرض دے گا جس میں سے 2.1 بلین ڈالر اس سال ملیں گے جبکہ ورلڈ بینک کے ساتھ بھی اضافی رقم دینے کی بات ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض پر شرح سود تین فیصد سے بھی کم ہو گی۔ مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ قرض کے حصول سے قبل آئی ایم ایف اور پاکستان کے جو بھی مذاکرات ہوئے اس میں چار بڑے شعبوں کے حوالے سے گفت و شنید ہوئی۔ اس سے قبل آئی ایم ایف کے ترجمان گیری رائس نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ 'آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ نے پاکستان کے لیے تین برس میں چھ ارب ڈالر قرض کی فراہمی کی منظوری دے دی ہے'۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی معیشت ایک نازک موڑ پر ہے جہاں ماضی کی معاشی پالیسی کے فیصلوں جیسے کمزور مالیاتی پالیسی، روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر روکنا اور حالیہ برسوں میں پاکستان کے مالیاتی خسارے کی وجہ سے ملک کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ خیال رہے کہ سنہ 1947 میں وجود میں آنے کے صرف تین سال بعد پاکستان 11 جولائی 1950 میں آئی ایم ایف کا رکن بنا تھا اور گذشتہ 69 برسوں میں قرضے کے حصول کے لیے 21 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے۔ سنہ 1988 سے پہلے پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین ہونے والے معاہدے قلیل مدتی بنیادوں پر ہوتے تھے جن میں عمومی طور پر قرض معاشی اصلاحات سے مشروط نہیں ہوتے تھے تاہم سنہ 1988 کے بعد 'سٹرکچرل ایڈجسمنٹ پروگرامز' شروع ہو گئے۔ آئی ایم ایف کے مطابق ملک کی معیشت کی خراب صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ٹھیک راہ پر لانے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے اصلاحات ضروری ہیں جس کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اسی وجہ سے ای ایف ایف کا دورانیہ زیادہ ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48836118", "summary": "سمجھنے والوں کے لیے اشارہ کافی ہے۔ یہ بات بجا ہے کہ اس اپوزیشن کی جیب میں نہ دانے ہیں نہ کارڈ مگر معاشی بحران کے شکار خستہ حال عوام کب تک پیٹ پر پتھر باندھ سکتے ہیں:عاصمہ شیرازی کا کالم۔", "title": "پاس کر یا برداشت کر!", "firstPublished": "2019-07-02T05:49:05.000Z", "id": "ac155f09-46ee-0d4f-a4f6-babdc4f68e3a", "article": "سنجیدہ اور نرم طبیعت کے حامل نوید قمر صاحب نے نشاندہی کی کہ جس طرح گرفتاریاں ہو رہی ہیں لگتا ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس اڈیالہ جیل میں منتقل نہ ہو جائے۔ گذشتہ روز جب رانا ثنا اللہ کی گرفتاری 'معلوم' وجوہات کی بنیاد پر عمل میں آئی ہے تو نوید قمر کا کہا سچ معلوم ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف نے اس علامتی استعارے کو احتساب کے عمل سے تشبیہ دے کر عوامی رائے عامہ کو نہ صرف ہموار کیا بلکہ بے رحمانہ احتساب کے لیے ذہنی طور پر آمادہ بھی کیا اور اقتدار میں آتے ہی نتائج سے بے پروا عملدرآمد شروع کر دیا۔ لہٰذا اخلاقی پچ پر کمزور اپوزیشن کے لیے 'پاس کر یا برداشت کر' کی صورت حال ہے اور سرکار اپوزیشن کو ترغیب دیتی دکھائی دیتی ہے کہ 'محنت کر حسد نہ کر۔' تحریک انصاف کیوں نہ اپنے منشور پر عمل کرے؟ آخر بجٹ کی منظوری میں ٹف ٹائم دینے کا دعویٰ کرنے والی اپوزیشن کے دیکھتے ہی دیکھتے حکومت نے نہ صرف بجٹ منظور کیا بلکہ اُلٹا تاریخ میں پہلی بار حکومتی بنچوں سے ہلڑ بازی کی گئی اور اپوزیشن کے خلاف احتجاج بھی کیا۔اپوزیشن تا حال 'ہارن نہیں دے سکی کہ راستہ لے سکے۔' اب اپوزیشن چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد لانا چاہتی ہے اور اُدھر تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کے مبینہ ناراض اراکین کو حصار میں لے لیا ہے۔ بجٹ کی منظوری میں ٹف ٹائم دینے کا دعویٰ کرنے والی اپوزیشن کے دیکھتے ہی دیکھتے حکومت نے نہ صرف بجٹ منظور کیا بلکہ اُلٹا تاریخ میں پہلی بار حکومتی بنچوں سے ہلڑ بازی کی گئی گھیراؤ کرنے کی دھمکی دینے والے رانا ثنا اللہ کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ اپوزیشن کی راہبر کمیٹی چئیرمین سینٹ کے کسی ایک نام پر متفق ہو پاتی ہے یا پھر 'ساڈا کی اے اللہ ہی اللہ' کا راگ الا پتی ہے۔ پنجابی میں ایک محاورہ ہے 'جدھی بوجھی وچ دانے، اودے کملے وی سیانے' یعنی جس کے پاس اختیار اور دولت ہو اس کے نالائق اور نااہل بھی سیانے ہو جاتے ہیں۔ سمجھنے والوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔ یہ بات بجا ہے کہ اس اپوزیشن کی جیب میں نہ دانے ہیں نہ کارڈ مگر معاشی بحران کے شکار خستہ حال عوام کب تک پیٹ پر پتھر باندھ سکتے ہیں؟ معاشی بحران کے شکار خستہ حال عوام کب تک پیٹ پر پتھر باندھ سکتے ہیں ہارن آہستہ دو کہ قوم سو رہی ہے کا آسرا دینے والے فاصلہ رکھیں کہ کہیں حادثہ نہ ہو جائے۔۔۔ جناب نظر رکھیے کہ عوام کی جیب میں دانے نہ ہوئے تو سیانے ہوا ہوتے دکھائی دے سکتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-48799180", "summary": "عالمی جوہری ادارے آئی اے ای اے نے کہا ہے کہ ایران نے 2015 کے عالمی جوہری معاہدے میں مقرر کی گئی کم افزودہ یورینیم کی مقررہ حد سے زیادہ یورینیم ذخیرہ کر لی ہے۔", "title": "’ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی حکمتِ عملی جاری رہے گی‘", "firstPublished": "2019-07-02T03:29:00.000Z", "id": "0cf1084d-cabb-a54a-ae82-e9a90a9794c5", "article": "عالمی جوہری ادارے آئی اے ای اے نے کہا ہے کہ ایران نے 2015 کے عالمی جوہری معاہدے میں مقرر کی گئی کم افزودہ یورینیم کی مقررہ حد سے زیادہ یورینیم ذخیرہ کر لی ہے۔ ایران نے اس وقت کہا تھا کہ وہ یہ قدم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے کے بعد پابندیوں کی بحالی کے اعلان کے جواب میں اٹھا رہا ہے۔ ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے پیر کو وزیرِ خارجہ جواد ظریف کے حوالے سے بتایا تھا کہ کم افزودہ یورینیم کے ذخیرے کے حد عبور کر لی گئی ہے۔ جواد ظریف نے کہا تھا کہ ’یورپی ممالک جوہری معاہدے کے تحت ایران کے مفادات کے تحفظ میں ناکام رہے ہیں اور ہمارا اگلا قدم یورینیم کو معاہدے کے تحت لاگو کی گئی حد سے زیادہ افزودہ کرنا ہو گا۔‘ افزودہ یورینئیم بنانے کے لیے یورنیئیم ہیگزافلورائیڈ گیس کو سینٹری فیوج میں ڈالا جاتا ہے تاکہ اس میں سے جوہری انتشقاق کے عمل کے لیے جوہری آئسوٹوپس پیدا ہوں، جسے یو235 کہا جاتا ہے۔ جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے یورینئیم کم از کم 90 فیصد سے زیادہ افزودہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن 2015 میں ہونے والے معاہدے کے تحت ایران کو صرف کم افزودہ یورینئیم تیار کرنے کی اجازت ہے جس میں یو 235 کی مقدار صرف تین سے چار فیصد ہوتی ہے اور وہ محض جوہری پلانٹ کے لیے ایندھن پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ البتہ تحقیقی ادارے 'آرمز کنٹرل ایسوسی ایشن' کے مطابق 1050 کلو گرام کا ذخیرہ بعد میں افزودہ کیا جا سکتا ہے جس کی مدد سے ایک جوہری بم بنایا جا سکتا ہے۔ اس سال مئی میں امریکہ نے ایران سے تیل برآمد کرنے والے ممالک پر پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کا اعلان کیا تو اس کے بعد ایران کے صدر حسن روہانی نے کہا کہ ان کا ملک معاہدے کی رو سے 300 کلوگرام افزودہ یورینئیم کی حد کی پابندی نہیں کرے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر ان ممالک نے اقدامات نہیں لیے تو ایران نہ صرف افزودہ یوریئنیم کے لیے معاہدے کی طے شدہ حد کو عبور کر لے گا اور ساتھ ساتھ آراک میں موجود جوہری ری ایکٹر کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنے کے عمل کو بھی روک دے گا۔ اگر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ ایران نے ذخیرہ کرنے کی حد عبور کی یا یورینئیم کی افزودگی کے حوالے سے خلاف ورزی کی تو جوہری معاہدہ ختم ہو جائے گا۔ ایران کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی میں ایک بڑا خدشہ اس بات کا ہے کہ زیادہ درجے کا افزودہ یورینئیم تیار کرنے کی صورت میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا خطرہ ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48825740", "summary": "چیئرمین ایف بی آر کے مطابق ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں تین دن کا اضافہ تکنیکی طور پر توسیع نہیں بلکہ ایسے افراد جو اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے قطار میں ہیں، انھیں سہولت دی گئی ہے۔", "title": "ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں صرف تین دن کی توسیع ہی کیوں؟", "firstPublished": "2019-07-02T02:50:56.000Z", "id": "717e2ebd-cf59-4c48-bb60-be20f7046832", "article": "پاکستان میں تحریکِ انصاف کی حکومت کی جانب سے عوام کو اثاثے ظاہر کرنے اور ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے کے لیے دی جانے والی تازہ ترین ایمنسٹی سکیم میں مدت کے آخری دن مزید تین دن کی توسیع کر دی گئی اور اب یہ سکیم بدھ تین جولائی کو رات 12 بجے تک جاری رہے گی۔ اس سکیم میں صرف تین دن کے اضافے سے حکومت کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے اور یہ کس مقصد کے تحت کیا گیا ہے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی نے کہا ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں تین دن کا اضافہ تکنیکی طور پر توسیع نہیں بلکہ ایسے افراد جو اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے قطار میں لگے ہوئے ہیں، ان کی سہولت کے لیے مدت میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یکم جولائی کو بینک کی تعطیل کے باعث یہ تمام کام مکمل ہونا مشکل تھا اس لیے ایسے افراد کو سہولت دی گئی ہے۔‘ تازہ ترین ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھانے والے افراد کے اعدادو شمار کے بارے میں بات کرتے ہوئے شبر زیدی کا کہنا تھا کہ یہ سلسلہ ابھی چل رہا ہے اور ان کی معلومات کے مطابق اب تک ’92 سے 95 ہزار افراد نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا ہے جن میں زیادہ تر نان فائلز ہیں۔‘ معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی خرم حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ سکیم میں صرف تین دن کا اضافہ ’لائن میں لگے‘ افراد کی سہولت کے لیے کیا گیا بلکہ یہ توسیع مجبوراً کی گئی ہے۔ خرم حسین کا کہنا ہے کہ ’چونکہ آئی ایم ایف نے ایمنسٹی سکیم پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور پاکستان پر پروگرام کے دوران کسی بھی قسم کی ایمنسٹی سکیم متعارف کروانے پر پابندی بھی عائد کی ہے اس لیے تین تاریخ کا مقصد ہی بڑا واضح ہے کہ آئی ایم ایف کے بورڈ اجلاس سے پہلے پہلے اس سکیم کو نمٹا دیا جائے۔‘ تاہم شبر زیدی کے مطابق اس توسیع کا تعلق تین جولائی کو آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے حتمی مذاکرات سے نہیں جیسا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا میں کہا جا رہا ہے۔ جبکہ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ مالیاتی پالیسی سٹیٹمنٹ سال 2018-19 میں دئیے گیے اعداد وشمار کے مطابق سنہ گذشتہ برس مسلم لیگ ن کی جانب سے متعارف کروائی جانے والی ایمنسٹی سکیم میں 75 ہزار افراد ٹیکس نیٹ میں شامل ہوئے تھے اور 30 جون تک اس سے قومی خزانے میں 90 ارب روپے ٹیکس کی مد میں اکٹھے کیے گئے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-48062231", "summary": "برطانیہ میں آمدن کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوسٹ گریجویٹس بالعموم 30 سال کی عمر تک گریجویٹس کے مقابلے میں 9000 پاؤنڈ سالانہ زیادہ کماتے ہیں۔", "title": "اچھی تنخواہ حاصل کرنے کے لیے اب دو ڈگریاں ضروری", "firstPublished": "2019-07-01T02:55:48.000Z", "id": "b5e4158f-c572-3b40-844a-885ca6aef699", "article": "آمدن کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ کے نوجوان گریجویٹس کو آمدن میں نمایاں اضافے کے لیے ایک پوسٹ گریجویٹ ڈگری کی ضرورت ہے۔ گریجویٹ آمدن کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 30 سال تک کی عمر کے پوسٹ گریجویٹس عام طور پر نو ہزار پاؤنڈ زیادہ کماتے ہیں اور یہ اس رقم سے 40 فیصد زیادہ ہے جو انڈر گریجویٹس کماتے ہیں۔ انڈرگریجویٹس اور نان گریجویٹس کی آمدن کے درمیان 4500 پاؤنڈ سے دگنا فرق ہے، جو تقریباً 21 فیصد بنتی ہے۔ برطانیہ کے محکمۂ تعلیم کی طرف سے شائع کیے گئے سنہ 2018 کے گریجویٹ آمدن کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 21 اور 30 برس کی عمر کے درمیان والے گریجویٹس کو عام طور پر ملنے والی تنخواہ 25500 پاؤنڈ ہے، جو نان گریجویٹس کے لیے 21000 پاؤنڈ ہے۔ پہلے سے زیادہ انڈر گریجویٹ ڈگریاں حاصل کرنے والے طالبعلموں کی وجہ سے آمدن میں سب سے زیادہ اضافہ اب ان لوگوں کے لیے ہے جو مزید آگے پڑھائی جاری رکھتے ہیں۔ پوسٹ گریجویٹ عام طور پر 30000 پاؤنڈ تک کما رہے ہیں۔ یہ فرق 16 اور 64 برس کے درمیان کام کرنے والی تمام آبادی پر لاگو ہوتا ہے، جس میں پوسٹ گریجویٹس 40000 پاؤنڈ، گریجویٹس 34000 پاؤنڈ اور انڈر گریجویٹس 24000 پاؤنڈ تک کما رہے ہیں۔ حکومت نے اس بات کا جائزہ لینے کا حکم دیا ہے کہ آیا برطانیہ میں فی سال 9250 پاؤنڈ کی انڈر گریجویٹ فیس، پیسے کی قدر کی نمائندگی کرتی ہے یا نہیں۔ سنہ 2008 میں گریجویٹس اور نان گریجویٹس کے درمیان تنخواہوں میں سالانہ 6000 پاؤنڈ سے 4500 پاؤنڈ کا فرق اور 2018 میں ’اعلیٰ مہارت‘ کے حامل افراد کو ملنے والی ملازمتوں میں نوجوان گریجویٹس کا تناسب کم ہے۔ یہ تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار نوجوان گریجویٹس کے لیے ایک محدود فائدہ ظاہر کرتے ہیں۔ آمدن کے اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ تمام سطحوں پر تعلیم کو ایک دہائی سے جمود اور حقیقی معنوں میں کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سنہ 2008 میں ایک عام گریجویٹ 24000 پاؤنڈ کما رہا تھا اوراگر یہ رقم صرف افراطِ زر کے ساتھ مطابقت رکھتی تو سنہ 2018 تک یہ بڑھ کر 31500 پاؤنڈ ہو جاتی۔ لیکن سنہ 2018 میں ایک عام گریجویٹ کو ملنے والی تنخواہ صرف 25500 پاؤنڈ تھی جو آمدن میں ایک نمایاں کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ صنف، قومیت اور علاقائی ملازمت کی مارکیٹس کی بنا پر، نوجوان گریجویٹس کے لیے نیچے دیے گئے برطانیہ کے قومی اعداد و شمار میں بہت واضح فرق ہے۔ ’ہم نے اعلیٰ تعلیم میں اصلاحات متعارف کرائی ہیں جن میں ہماری توجہ چیزوں کو ایک سطح تک لانے پر مرکوز ہے تاکہ نا صرف قابلیت اور صلاحیت والا ہر شخص یونیورسٹی جا سکے بلکہ وہاں ترقی بھی کر سکے اور اس کے پاس ایک کامیاب کیریئر بنانے کا بہترین موقع ہو۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48814516", "summary": "آپ کو شاید خزانوں کی کہانیاں سنانے والے موکلوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ کالا دھن کسی کے نصیب کا نہیں ہوتا۔ جب اس کی تلاش کی جائے تو ان پر بیٹھے ناگ انھیں اندر ہی اندر لڑھکا کے کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں۔ آمنہ مفتی کا کالم", "title": "خزانے کی دیگ پر ایمنسٹی!", "firstPublished": "2019-06-30T00:48:26.000Z", "id": "91fdaef9-94c4-3641-92fd-b1dbded6aa0d", "article": "1857 کے غدر کے بعد جب ہندوستان میں مسلم تہذیب، ثقافت اور صنعت و حرفت سب رو بہ زوال تھیں تو لوگ باگ ایسی کہانیاں سنتے اور ان خزانوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے۔ دکھ اس بات کا نہیں کہ خزانے مل نہ پائے، دکھ اس بات کا ہے اس ڈوبی ہوئی دولت پر اگلی نسلوں کے مستقبل تک سوچ لیے جاتے تھے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہی وقت کسی کاروبار میں لگاتے اور چار پیسے بناتے۔ حکومت ایف بی آر کی مدد سے لوٹی ہوئی دولت اور کالے دھن کے پیچھے دوڑ رہی ہے۔ نئے بجٹ میں ذرائع آمدن کے طور پر عوام کو رکھا گیا ہے۔ جو ٹیکس دیتے ہیں ان سے مزید ٹیکس لیا جائے گا جو نہیں دیتے انھیں ایمنیسٹی کی کدال سے اپنی سونے کی دیگیں کھود کے لانے پر بہلایا جا رہا ہے۔ مراد سعید کی تقریر کس کو نہیں یاد جس میں وہ کف اڑاتے ہوئے پاکستان کے مبینہ دو سو ارب ڈالر کا ذکر کررہے ہیں۔ یہ دو سو ارب ڈالر ان کے بیان کے مطابق پچھلے سال ہی خان صاحب کے قدموں میں ڈھیر ہو جانے چاہیے تھے۔ پھر وہ جس کے منہ پہ چاہتے مارتے مگر یہ ہو نہ سکا۔ یہ کالا دھن بنانے والے بھی کشکول لیے ہمارے ساتھ بھیک مانگیں گے۔ روز کا ایک نیا اشقلہ چھوڑا جاتا ہے کبھی بھینسیں بیچی جاتی ہیں، کبھی تیل کے کنووں کے پیچھے دوڑتے ہیں اور کبھی نمک کی کان میں جا کر واویلا کرتے ہیں کہ ارے ہم تو اس سے ہی امیر ہو سکتے ہیں۔ عرض صرف اتنی ہے کہ ملک کی معیشت، دفینوں، خزینوں، سبز باغوں، متوسط طبقے کے خون پسینے اور غیر ملکی بھیک پر نہیں چلتی۔ مبینہ کرپٹ گرفتار ہیں۔ آپ کا معاشی بحالی کا پروگرام کیا تھا اور وہ کہاں گیا؟ آپ کو شاید خزانوں کی کہانیاں سنانے والے موکلوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ کالا دھن کسی کے نصیب کا نہیں ہوتا۔ جب اس کی تلاش کی جائے تو ان پر بیٹھے ناگ انھیں اندر ہی اندر لڑھکا کے کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں۔ چلتے چلتے ایک لطیفہ سن لیجے۔ ایک کنجوس چودھری نے اپنے کسی کامے کو خوش ہو کر انعام دیا اور کہا، ’جا اوئے کرمیا! تجھے وہ بھینس دی جو پچھلے سال سیلاب میں بہہ گئی تھی۔ ان کے مصاحب نے فٹ کان میں کہا کہ چودھری صاحب، وہ بھینس تو مل بھی سکتی ہے آپ وہ کٹی دیں جو کل مر گئی ہے۔‘ تو صاحبو! یہ لوٹا ہوا مال، وہی مردہ کٹی ہے جو زندہ نہیں ہو سکتی۔ معیشت کی بنیاد سچ پر رکھیے، ہم آپ کے جذباتی اور ڈنگ ٹپاو فیصلوں کے نہیں درست اور اچھے فیصلوں کے منتظر ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48800825", "summary": "پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کے تناظر میں ملک کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے ایک خطاب میں کہا ہے کہ حکومت نے مشکل فیصلے کیے ہیں لیکن ان کی کامیابی کے لیے سب کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی۔", "title": "’مشکل فیصلوں میں کامیابی کے لیے سب ذمہ داری نبھائیں‘", "firstPublished": "2019-06-28T11:02:24.000Z", "id": "2da53377-a58d-7b4b-baa9-5de003762bd1", "article": "پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ملک کی سکیورٹی اور معیشت کے درمیان ناقابل تردید ربط ہے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں خطاب کے دوران جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ معاشی خود مختاری کے بغیر کسی قسم کی خودمختاری ممکن نہیں ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کے حوالے سے جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ’ہم مالیاتی بد انتظامیوں کی وجہ سے مشکل معاشی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ ہم مشکل فیصلے لینے سے گھبراتے رہے ہیں۔ افواج نے رضاکارانہ طور پر سالانہ دفاعی بجٹ میں اضافے سے دستبردار ہو کر کردار ادا کیا۔ اور یہ واحد قدم نہیں جو ہم نے معیشت کی بہتری کے لیے اٹھایا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں حکومت نے طویل المدتی فائدے کے لیے مشکل فیصلے کیے ہیں اور ہم اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ مشکل اقدامات کامیاب ہوں۔‘ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دفاعی بجٹ میں رضاکارانہ طور پر کمی کے فیصلے کے بارے میں کہا ہے کہ 'یہ اقدام قوم پر احسان نہیں کیوں کہ ہم ہر قسم کے حالات میں اکٹھے ہیں۔' عائشہ صدیقہ نے، اس نکتے پر کہ فوج نے رضا کارانہ طور پر بجٹ میں اضافہ نہیں لیا، بات کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ کی نظر سے ڈان کی وہ رپورٹ گزری ہو گی جس میں اعداد بتائے گئے ہیں کہ 23 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دفاعی بجٹ میں تو مجھے اور آپ کو تو یہ معلوم ہی نہیں کہ کیا ہے۔ تین سے چار ارب روپے دفاعی بجٹ میں شامل نہیں پینشن اور دیگر چیزیں ہیں۔ تو میرا سوال تو یہ ہے کہ کم کیا کیا ہے۔ ریاست کے بہت سے ادارے ہیں۔ اگر کوئی ادارے کی کٹوتی ہو تو کیا ان پر واجب ہے کہ وہ برابری کی سطح پر ممبر کی حیثیت سے اس پر بات کریں۔ یہ ریاست کا ایک ادارہ ہے ویسے ہی ریاست سے پیسے لیتی ہے جیسے سب ادارے لیتے ہیں۔ لیکن یہ ان کو حق نہیں کہ یہ بیٹھ کر ایک مساوی ممبر کی حیثیت سے اس پر فیصلے لیں۔' "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48752857", "summary": "بین الاقوامی اداروں کی جانب سے پاکستانی معیشت کی منفی ریٹنگ کا تسلسل ہو یا دن بدن گرتا ہوا روپیہ۔۔۔ حکومت گذشتہ حکومتوں کی ناقص کارکردگی کے پیچھے کتنے دن چھپ سکتی ہے: عاصمہ شیرازی کا کالم۔", "title": "حکومت کو اصل خطرہ کس سے؟", "firstPublished": "2019-06-25T07:44:53.000Z", "id": "a3bcf0ca-3f36-e744-9a0c-6cfa4a9987f5", "article": "چینی کی قیمتوں سے لے کر خوردنی تیل اور بجلی کے نرخوں میں اضافے سے لے کر گیس تک کے بارے میں آئی ایم ایف کیا کہتی تھی اور کیا ہوا، وہ پارلیمنٹ کی کارروائی کا حصہ بن چکا ہے۔ اسد عمر نے اپنے ووٹر سے کیا وعدہ پورا کیا مگر تحریک انصاف ایوان کو نہ سہی اپنے اوپننگ بیٹسمین کو کیا جواب دے گی۔ یہ ایک اہم سوال ضرور ہے جس کے جواب کی توقع نہ رکھی جائے تو بہتر ہو گا۔ یعنی تحریک انصاف کے نعرے کہ حکومت کے وجود میں آتے ہی بیرون ملک سرمایہ کاری سے لے کر ٹیکسوں کی فراوانی تک کا ادھورا خواب ہو یا پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر اور کروڑوں کو روزگار کا وعدہ۔۔۔ جو ہنوز وعدہ ہی ہے۔ وزیراعظم کی بار بار اپیلوں کے باوجود اخباری اطلاعات کے مطابق صرف چند سو افراد اب تک چھپائے ہوئے اثاثے سامنے لا پائے ہیں جن سے لگ بھگ 450 ملین روپے اکٹھے ہو پائے۔ بین الاقوامی اداروں کی جانب سے پاکستانی معیشت کی منفی ریٹنگ کا تسلسل ہو یا دن بدن گرتا ہوا روپیہ، سٹاک مارکیٹ کی مسلسل گراوٹ ہو یا افراط زر میں مسلسل اضافہ، حکومت گذشتہ حکومتوں کی ناقص کارکردگی کے پیچھے کتنے دن چھپ سکتی ہے؟ ایک طرف معیشت کے محاذ پر آئی ایم ایف کی شرائط سے لڑتی حکومت اور دوسری جانب فنانشل ٹاسک فورس کی کٹھن شرائط پر پورا اترنے کی جدوجہد میں مصروف ریاست اندرونی کشمکش، عوام کی توقعات کا بوجھ اور بین الاقوامی برادری کی خواہشوں کا انبار، ایسے میں معاشی کونسل کی تشکیل کس طور معاشی بحران سے نمٹ پائے گی اور کیا ریاست کے تمام ادارے اس بحران کی ذمہ داری لینے کو تیار ہوں گے؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت کی توجہ معیشت کی بہتری کی نسبت احتساب کی جانب زیادہ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت کی توجہ معیشت کی بہتری کی نسبت احتساب کی جانب زیادہ ہے شہباز شریف کی دوبارہ میثاق معیشت کی آفر اور مریم نواز کی مخالفت یہ سمجھنے کے لیے کافی نہیں کہ آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے؟ کیا اپوزیشن گرتی معیشت میں حصہ ڈالنے کو تیار ہو جائے گی؟ کیا شہباز شریف ایک بار پھر مفاہمت کے نام پر مصالحت سے کام لیں گے اور کیا اُن کی جماعت تقسیم نہیں ہو گی؟ حکومت کو بلاشبہ نہ تو اپوزیشن کی تحریک سے خطرہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی احتجاج سے۔۔۔ ہاں البتہ معیشت کے الٹے چلتے پہیے سے خطرہ ضرور رہے گا۔ یاد رہے کہ ماضی میں خراب معیشت کی ذمہ دار ہمیشہ حکومتیں ہی قرار پائیں۔۔۔ کیا تحریک انصاف حکومت اس کے لیے تیار ہے؟"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-48734647", "summary": "امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران پر فضائی حملہ روکے جانے کے بعد امریکہ نے ایران کو سائبر حملے کا نشانہ بنایا تھا۔", "title": "ایرانی ہتھیاروں کے نظام پر امریکہ کا ’سائبر حملہ‘", "firstPublished": "2019-06-22T23:59:32.000Z", "id": "9320b597-ae0c-8146-b615-9b228f9a755a", "article": "امریکہ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق امریکہ نے جمعرات کو صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران پر فضائی حملے کرنے کا حکم واپس لینے کے بعد ایرانی ہتھیاروں کے نظام کو سائبر حملے کا نشانہ بنایا تھا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا کہ ہے کہ اس سائبر حملے کی مدد سے اُن کمپیوٹر سسٹمز کو متاثر کیا گیا جن سے راکٹ اور میزائل لانچر کنٹرول کیے جاتے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ سائبر حملہ ایران کی جانب سے امریکی ڈرون گرائے جانے اور خلیجِ عمان میں تیل کے ٹینکرز پر حملے کے ردِعمل میں کیا گیا۔ امریکہ کے مطابق آئل ٹینکرز پر حملوں کے پیچھے ایران ہے، مگر ایران نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ دوسری جانب امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے یروشلم میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران پر عائد کی جانے والی نئی پابندیوں کی تفصیلات ممکنہ طور پر پیر تک سامنے آ جائیں گی۔ امریکی میڈیا نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کے مبینہ سائبر حملے کی منصوبہ بندی کئی ہفتوں سے کی جارہی تھی۔ ذرائع کے مطابق حکام کی جانب سے یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ خلیجِ عمان میں تیل کے ٹینکرز پر ہونے والے بارودی سرنگوں کے حملے کا جواب اِس طریقے سے دیا جاسکتا ہے۔ اس کا مقصد ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے ہتھیاروں کو کمزور کرنا تھا۔ ایران نے ان ہی ہتھیاروں کی مدد سے امریکی ڈرون گرایا تھا اور امریکہ کے مطابق تیل کے ٹیکرز پر حملہ بھی ان سے کیا گیا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ اور خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق سائبر حملے سے یہ سسٹمز بند ہو گئے تھے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق حملے کا مقصد سسٹمز کو کچھ دیر کے لیے آف لائن کرنا تھا۔  امریکہ کے ادارہ برائے داخلی سلامتی نے ہفتے کو کہا تھا کہ ایران خود امریکہ پر سائبر حملے کر رہا ہے۔ ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ ایران کو جوہری بم بنانے سے روکنے کے لیے اس پر مزید پابندیاں عائد کرے گا۔ امریکہ کی جانب سے یہ فیصلہ ایران کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ وہ جلد ہی جوہری پروگرام پر عائد حد عبور کر لے گا۔ اس کے بعد ایک ٹویٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران کے خلاف مزید بڑی پابندیاں پیر سے قابلِ عمل ہوں گی۔ امریکی کی جانب سے گذشتہ برس پابندیاں بحال کی گئی ان میں توانائی، شپنگ اور اقتصادی سیکٹر، غیر ملکی سرمایہ کاری اور تیل کی برآمد کو نشانہ بنایا گیا۔ ایران نے بھی اقتصادی دباؤ کا جواب جوہری معاہدے کے تحت کیے جانے والے وعدوں سے منحرف ہو کر دیا۔ اس نے یورپی ممالک پر الزام عائد کیا کہ وہ ایران کی معشیت کو امریکی پابندیوں سے بچانے کے اپنے وعدوں پر قائم رہنے میں نکام ہے ۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48721810", "summary": "پاکستان کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ’ٹیکس پروفائلنگ سسٹم‘ کا آغاز کیا ہے جس میں پانچ کروڑ سے زائد شہریوں کی آمدنی، اخراجات، ٹیکس سمیت دیگر معلومات موجود ہیں۔ اس نئی سہولت کے بارے میں کچھ لوگوں کو تحفظات ہیں۔", "title": "اپنی ٹیکس تفصیلات تک رسائی آسان پر غیر محفوظ؟", "firstPublished": "2019-06-21T16:20:25.000Z", "id": "c10e39d1-51ba-e54c-8954-a639e8e3cd24", "article": "پاکستان کے وزیر برائے محصولات حماد اظہر اور فیڈرل بیورو آف ریونیو کے چیئرمین شبر زیدی نے ایک پریس کانفرنس میں باضابطہ طور پر نئے ’ٹیکس پروفائلنگ سسٹم‘ کے آغاز کا اعلان کیا جس تک انٹرنیٹ کے ذریعے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس سسٹم میں پانچ کروڑ 30 لاکھ افراد کی ذاتی، مالیاتی اور دیگر ضروری معلومات موجود ہیں، جیسے کہ آپ کی کل آمدنی کتنی ہے، آپ کے اثاثے کیا ہیں، آپ نے گذشتہ سال کتنا ٹیکس دیا، رواں سال ابھی تک کتنا ٹیکس دے چکے ہیں، آپ کے بیرون ملک سفر کی تفصیلات، گاڑیاں، موبائل کنکشن وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سسٹم ایف بی آر اور نادرا کے پاس موجود معلومات کی مدد سے بنایا گیا ہے اور اعداد و شمار تازہ ترین ہیں۔ اگر اس میں کسی شخص کو کسی قسم کی بے ضابطگی نظر آتی ہے تو وہ ایف بی آر کو مطلع کر سکتا ہے اور ساتھ ہی ان معلومات سے حکام کو بھی اثاثے چھپانے والے افراد کو پکڑنے میں مدد ملے گی۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر نئے نظام کے ردعمل میں عوام نے ذاتی معلومات تک غیروں کی رسائی سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔ زلفی راؤ اپنی ٹویٹ میں لکھتے ہیں کہ ’یہ بہت ہی بیوقوفانہ سوچ ہے۔ یہ پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہے اور پبلک سیکٹر اداروں میں نااہلی اور بدعنوانی لوگوں کے ذاتی تحفظ کے نقصان کا باعث بنے گا۔‘ ایک اور صارف شوزب نقوی لکھتے ہیں کہ ’پورٹل کے اندر حساس معلومات ہیں۔ اس میں اس سے زیادہ مضبوط سکیورٹی ہونی چاہیے۔ امید کرتا ہوں کہ آپ کی ٹیم اس پر کام کرے گی۔‘ اسد مسعود کہتے ہیں کہ ’حکومت کیا سوچ رہی ہے کہ کوئی بھی کسی سے بھی آسانی سے اس کا قومی شناختی کارڈ نمبر اور بہن بھائیوں کی پیدائش کے بارے میں معلومات حاصل کر کے ان کی آمدنی اور اخراجات کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتا ہے۔‘ سسٹم پر معلومات تک رسائی کا طریقہ کافی آسان ہے جس میں تقریباً پانچ منٹ لگ جاتے ہیں اور آپ کی جیب سے پانچ سو روپے لگتے ہیں لیکن چار مہینوں کے بعد آپ کو دوبارہ سے رسائی کے لیے پیسے جمع کروانے ہوں گے۔ یہ معلومات درج کرنے کے بعد ایک خفیہ کوڈ آپ کے موبائل اور ای میل پر آتا ہے جسے آپ نے جا کر ویب سائٹ پر لکھنا ہوتا ہے۔ یہ آپ کی تصدیق کا پہلا قدم ہے کہ آیا یہ آپ ہی ہیں جو اس معلومات تک کی رسائی حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔ تصدیق کے دوسرے مرحلے میں آپ سے دو سوال کیے جاتے ہیں جو آپ کے خاندان کے متعلق ہوتے ہیں جیسے آپ کے بھائی کس شہر میں پیدا ہوئے یا آپ کے دادا کی پیدائش کا شہر کیا ہے وغیرہ۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-48677833", "summary": "صارفین کے لیے آئندہ ممکن ہو گا کہ وہ ادائیگیاں نئی ڈیجیٹل کرنسی ’لِبرا‘ کے ذریعے کر سکیں گے۔ فیس بک کے مطابق ’اُوبر‘ اور کریڈٹ کارڈ کمپنی ’ویزا‘ اس نظام کو قبول کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔", "title": "فیس بک کا نئی ڈیجیٹل کرنسی متعارف کرنے کا اعلان", "firstPublished": "2019-06-18T23:40:32.000Z", "id": "d96ad726-5de4-3748-8ed2-1fda52ef0ef4", "article": "اس منصوبے میں بتایا گیا ہے کہ فیس بک کے صارفین فیس بک کی ایپ یا پیغام دینے والے پلیٹ فارم ’وٹس ایپ‘ کے ذریعے اپنی ادائیگیاں کر سکیں گے۔ فیس بک کا کہنا ہے ’اُوبر‘ اور کریڈٹ کارڈ کمپنی ’ویزا‘ اس نظام کو قبول کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ فیس بک کا دعویٰ ہے کہ ’لِبرا‘ کو آزادانہ طریقے سے چلایا جائے گا اور اس کی پشت پر حقیقی اور ٹھوس اثاثے موجود ہوں گے۔ اس کے علاوہ اس کرنسی میں ادائیگیاں اتنی ہی آسان ہوں گی جتنی کہ ٹیکسٹ بھیجنے میں آسانی ہوتی ہے۔ یہ فیس بک کا اور کرنسی کا مستقبل ہے، اس کوشش میں ’پے پال‘ اور ’ویزا‘ جیسی ادائیگیاں کرنے والی کئی بڑی بڑی کمپنیاں، کاروبار کرنے والی ’اوبر‘ اور ’لِفٹ‘ جیسی کمپنیاں اور سرمایہ کاری کرنے والے فنڈز کے ساتھ اتحاد بن رہا ہے۔ فیس بک کا اصرار ہے کہ اس کرنسی کو چند کمپنیوں اور خیراتی اداروں کا ایک گروپ آزادانہ طریقے سے چلائے گا جس میں فیس بک بھی شامل ہو گا۔ یہ گروپ ’لِبرا ایسوسی ایشن‘ کہلائے گا۔ اگرچہ فیس بک کا کہنا ہے کہ لبرا کرنسی عالمی سطح پر استعمال ہو گی لیکن ایپس اور وہ کمپنیاں جو اس کرنسی کو استعمال کریں گیں انھیں مقامی منڈیوں کے اصول و ضوابط کے مطابق کام کرنا ہو گا۔ فیس بک کو امریکی سیاستدانوں کے سوالات کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں خاص طور پر یہ کہ یہ کرنسی کس طرح استعمال ہو گی؟ صارفیں کا تحفظ کس طرح کیا جائے گا؟ اور صارفین کا ڈیٹا کس طرح محفوظ رکھا جا سکے گا؟ فیس بک کا خیال ہے کہ وہ لبرا کی قدر کو اچانک اتار چڑھاؤ سے محفوظ رکھنے کے لیے اس کو برطانوی پاؤنڈ، امریکی ڈالر، جاپانی ین اور یورو جیسی مستحکم کرنسیوں کی ایک مجموعی قدر کے ساتھ جوڑ کے رکھے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ کیلیبرا وہ حفاظتی نظام استعمال کرے گا جو کہ اس وقت بینک استعمال کر رہے ہیں، فراڈ کو روکنے کا بھی وہی نظام استعمال کرے گا جو کہ بینک استعمال کر رہے ہیں اور کسی کے ساتھ دھوکہ دہی کی صورت میں اس کی چوری شدہ رقم اسے واپس کر دی جائے گا۔ تاہم فیس بک نے دو برس بعد ہی اس کام کو اس لیے بند کردیا تھا کیونکہ وہ صارفین کو راغب کرنے میں ناکام رہا تھا۔ فیس بک کا اصل امتحان اس وقت آئے گا جب صارفین اس پر اتنا اعتماد کریں کہ اپنا کیش دے کر اس کی کرنسی کو خریدیں۔ اس نظام میں صارفین کا اعتماد پیدا کرنے کے لیے فیس بک حکومتوں سے، مختلف ممالک کے مرکزی بینکوں سے، ریگیولیٹرز سے اور امریکہ کے محکمۂ خزانہ اور بینک آف انگلینڈ کے اعلیٰ اہلکاروں سے رابطے کرتا رہا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-48659273", "summary": "بڑھتی بےروزگاری کے پیشِ نظر ماہرین کو خدشہ ہے کہ معاشی ترقی کی رفتار اس قدر تیز نہیں ہے جتنی کہ مودی حکومت کی جانب سے بتائی جا رہی ہے۔", "title": "انڈیا کی معاشی ترقی کے دعوؤں میں کتنی حقیقت ہے؟", "firstPublished": "2019-06-18T03:18:43.000Z", "id": "27cd6774-8872-7d4b-9876-5687f6b044cd", "article": "2018 میں انڈیا کی معاشی ترقی کی رفتار دنیا بھر میں سب سے زیادہ بتائی جاتی ہے مگر کئی چوٹی کے ماہرینِ اقتصادیات کا ماننا ہے کہ نیا طریقہ کار درست نہیں ہے جس کے باعث یہ معیشت کی حقیقی تصویر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اور سبرامنیئن کے اس دعوے کہ 12-2011 سے 17-2016 کے درمیان معاشی ترقی بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی نے ان تمام شکوک و شبہات کو تقویت دی ہے۔ جہاں سرکاری اعداد و شمار اسے 7 فیصد قرار دیتے ہیں، وہیں سبرامنیئن کے نزدیک حقیقی ترقی تقریباً 4.5 فیصد رہی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ڈیٹا جمع کرنے کے حوالے سے حکومت سوالات کی زد میں آئی ہو۔ وزارتِ شماریات کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جون 2016 کو ختم ہونے والے مالی سال میں ہندوستان کی جی ڈی پی کا تخمینہ لگانے کے لیے استعمال کیے گئے ڈیٹابیس میں موجود 36 فیصد کمپنیوں کا پتہ نہیں لگایا جا سکا یا پھر انہیں غلط زمروں میں شامل کیا گیا تھا۔ حکومت نے خود بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس کی جانب سے ڈیٹا اکھٹا کرنے کے طریقہ کار میں مسائل موجود ہیں۔ سبرامنیئن لکھتے ہیں کہ \"میری نئی تحقیق کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی بحران کے بعد ماہرینِ شماریات جو عوام کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہندوستانی معیشت گولی کی رفتار سے ترقی کرے گی، اس بیانیے کو ایک مزید حقیقت پسندانہ بیانیے میں تبدیل ہونا ہوگا جس میں معیشت ٹھوس ترقی تو کرے گی مگر یہ انتہائی تیز رفتار نہیں ہوگی۔\" حکومت کی اپنی شخصیات تسلیم کرتی ہیں کہ ہندوستان اب تیز ترین رفتار سے ترقی کرنے والی معیشت نہیں ہے، گزشتہ پانچ سالوں میں معاشی ترقی کی سست ترین شرح کی وجہ سے اس نے یہ اعزاز چین کے ہاتھوں کھو دیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس سے ہندوستان کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے مگر اس سے یہ بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ کس طرح گزشتہ چند سالوں میں نافذ کی گئی معاشی پالیسیوں نے معیشت کی ایک غلط تصویر پیش کر کے اقتصادی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہوگی۔ ماہرین کے مطابق معیشت پر اعتماد کی بحالی کے ساتھ ساتھ فوری طور پر شماریاتی نظام کو از سرِ نو استوار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پالیسی جائزوں کے لیے تیزی سے ڈیٹا اکھٹا کیا جا سکے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ڈیٹا اکھٹا کرنے کے نظام میں جدت لانے کے لیے ورلڈ بینک کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ وزیرِ اعظم مودی نے حال ہی میں کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جو سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے پالیسیاں بنائیں گی۔ ہندوستانی معیشت کی مایوس کن صورتحال دیکھتے ہوئے سبرامنیئن کا بھی خیال ہے کہ حکومت کو معاشی سست رفتاری کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تیزی سے کام کرنا ہوگا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48631070", "summary": "خان صاحب تو بس چوروں لٹیروں والے مشن پر لگے ہوئے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ ان چوروں لٹیروں کو غریب کے بچے کے منھ سے چینی کا آدھا چمچہ نہ چھیننے دیں: پڑھیے محمد حنیف کا کالم۔", "title": "عمران خان کے ’سنہرے دن‘", "firstPublished": "2019-06-14T05:01:42.000Z", "id": "d2c8ec1d-283d-734c-b1b1-f744ca73c98c", "article": "خان صاحب تو بس چوروں لٹیروں والے مشن پر لگے ہوئے ہیں۔ جو بھی ہو آخر ہمارے وزیراعظم تو وہی ہیں لوگ پتہ نہیں کیوں تکنیکی خرابی کے پیچھے پڑے ہیں، آواز غائب ہو جانے پر سازشی کہانیاں بُن رہے ہیں۔ مجھے تو لگا کہ آواز شاید اس لیے غائب کرنا پڑی کہ خان صاحب جوشِ خطابت میں آ کر کہہ گئے ہوں گے کہ پتا ہے سب چوروں لٹیروں کو اندر کرنے کے بعد میں کیا کروں گا؟ اپنے آپ کو بھی اندر کروں گا! دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کون ہے جس کے منھ سے نصف شب کو کبھی ایسی بات نہیں نکلی۔ بیرا صاحب نے فرمایا کہ جب انسان جونیر افسر ہوتا ہے مثلاً کپتان تو دو چمچ چینی چائے میں ڈالو، مجیر آ جائے تو ڈیڑھ چمچ، کرنل آ جائے تو ایک چمچ، برگیڈئیر صاحب تو آدھا چمچ اور جنرل صاحب کو کوئی چینی نہیں۔ فوج سے باہر بھی ہمارا نظام کچھ ایسا ہی ہے۔ اوپر والے طبقوں کے لوگ شوگر فری کیک اور ڈارک چاکلیٹ کھاتے ہیں۔ درمیانے طبقے والے مٹھاس کے لیے چینی کے صحت مند متبادل ڈھونڈ لیتے ہیں، غریب مزدور طبقہ ایک کپ میں چار چمچے چینی بھی ڈال لیتا ہے۔ کہیں پر زردے کی دیگ پڑی ہو وہاں بھی پہنچ جاتا ہے، گرمیوں میں میٹھا شربت مانگتا ہے۔ کبھی نصیب کھل جائے تو گڑ کے ساتھ روٹی بھی کھا لیتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی سائنسی توجیہ نہ ہو لیکن بندہ مزدور کے اوقات اتنے تلخ ہیں اور تلخ تر ہوتے جا رہے ہیں کہ وہ اس تلخی کا توڑ اس چیز میں ڈھونڈتا ہے جو بازار میں دستیاب ہے اور اس کی پہنچ میں ہے۔ درمیانے طبقے والے مٹھاس کے لیے چینی کے صحت مند متبادل ڈھونڈ لیتے ہیں جبکہ غریب مزدور طبقہ ایک کپ میں چار چمچے چینی بھی ڈال لیتا ہے مڈل کلاس بچے جب روتے ہیں تو والدین انھیں ٹی وی یا کمپیوٹر پر کارٹون لگا دیتے ہیں، ہاتھ میں لولی پاپ پکڑا دیتے ہیں۔ ان نعمتوں سے محروم غریب بچوں کی مائیں ان کو چپ کرانے کے لیے ان کے منھ میں چینی کا آدھا چمچ ڈال دیتی ہیں۔ جس طرح عید قربان کے موقع پر کافی بھائی تین دن کے لیے قصائی بن جاتے ہیں اسی طرح بجٹ کے وقت کئی موسمی ماہر معاشیات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ عمران خان کا اس بجٹ سے کوئی لینا دینا نہیں، بجٹ تو کسی اور نے بنایا ہے۔ خان صاحب تو بس چوروں لٹیروں والے مشن پر لگے ہوئے ہیں۔ جو بھی ہو آخر ہمارے وزیراعظم تو وہی ہیں۔ قوم کے درد میں نصف شب کو زخمی شیر کی طرح دھاڑ پڑتے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ ان چوروں لٹیروں کو غریب کے بچے کے منھ سے چینی کا آدھا چمچہ نہ چھیننے دیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48608303", "summary": "پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ماضی میں لیے گئے ہزاروں ارب کے قرضوں کی تحقیقات کے لیے بنایا جانے والا کمیشن کن قرضوں کی پوچھ گچھ کرے گا، یہ معاملہ قدرے دلچسپ ہے۔", "title": "پیپلز پارٹی، مسلم لیگ کی حکومتوں نے کتنا قرضہ لیا؟", "firstPublished": "2019-06-14T03:00:19.000Z", "id": "bf8f4186-fe87-214d-a125-acf8bf1e4d21", "article": "حکومتی کمیشن بننے سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ پاکستان کی ماضی کی حکومتوں نے بدنیتی کے ساتھ پاکستان کے لیے بہت مہنگے قرضے لیے وزیراعظم عمران خان نے بجٹ پیش کیے جانے کے بعد قوم سے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے گذشتہ ادوارِ حکومت میں ملکی قرضوں میں 24 ہزار ارب روپے کے اضافے کی وجوہات جاننے کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنائیں گے۔ ظاہر ہے کہ عمران خان کی نگرانی میں کام کرنے والا یہ کمیشن اُس وقت کی سیاسی قیادت، مثلاً کابینہ کے اراکین سے پوچھ سکتا ہے کہ ایسے کیا حالات تھے اتنے زیادہ قرضے لینے کی منظوری دی گئی۔ اب حفیظ شیخ (وزیرِ خزانہ 2010 تا 2013) سے عمران خان یہ سوال کابینہ کے اجلاس میں پوچھیں گے یا علیحدہ میں، یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر یہ کمیشن کن قرضوں کے بارے میں پوچھ گچھ کرے گا، یہ معاملہ قدرے دلچسپ ہے۔ ایک اور بات اہم ہے اور وہ یہ کہ پیپلز پارٹی کے دور میں پرائیویٹ سیکٹر نے بیرونِ ملک سے 1.26 ارب ڈالر قرضے لیے مگر نواز شریف کے دور میں پرائیویٹ سیکٹر نے بیرونِ ملک سے 6.05 ارب ڈالر کے قرضے لیے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے قرضے لینے کو عموماً ایک مثبت اشارہ سمجھا جاتا ہے کہ معیشت میں تیزی آ رہی ہے اور نواز دور میں اس کی ایک وجہ شاید سی پیک سے منسلک سرمایہ کاری ہو سکتی ہے۔ حکومتی کمیشن بننے سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ پاکستان کی ماضی کی حکومتوں نے بدنیتی کے ساتھ پاکستان کے لیے بہت مہنگے قرضے لیے۔ اس حوالے سے وزیرِاعظم عمران خان کی یہ بات بالکل بجا ہے کہ حکومت جتنا ٹیکس اکھٹا کرتی ہے، اس کا ایک بڑا حصہ سود کی ادائیگیوں میں لگ جاتا ہے۔ اب بات یہ ہے کہ جو واجب الادا ہے وہ تو دینا پڑے گا یعنی اس مسئلے سے نکلنے کا پاکستان کے پاس ایک ہی حل ہے کہ اپنی آمدنی اور ٹیکس کلیکشن بڑھائی جائے۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے لائحہِ عمل پر تو سوال اٹھائے جا سکتے ہیں مگر سمت پر نہیں۔ یہ ان کی حکومت کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور انھوں نے اس بارے میں متعدد بیان بھی دیے ہیں۔ اصل بات ہوتی ہے کہ ملک کی معیشت کا انجن چلتا رہے اور اتنا کام کرتا رہے کہ قرضوں کی ادائیگی ہوتی رہے۔ لوگ کمائیں گے تو ٹیکس دیں گے نا۔ اب عمران خان کی حکومت ٹیکس جمع کرنے کے عمل میں تو بہتری لانے کی کوشش کر رہی ہے مگر معیشت کا انجن کس حد تک زور پکڑتا ہے، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-47989277", "summary": "عبدالحفیظ شیخ پیپلز پارٹی کے بانیوں میں شامل غلام نبی شیخ ایڈووکیٹ کے صاحبزادے ہیں اور اپنے مختصر سیاسی کیریئر میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے ہیں۔", "title": "مشرف، پیپلز پارٹی اور اب تحریک انصاف: عبدالحفیظ شیخ کون ہیں؟", "firstPublished": "2019-04-19T13:16:11.000Z", "id": "b378e04e-a833-b245-9352-50fafbb3d29a", "article": "حفیظ شیخ جنرل پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے علاوہ اب تحریک انصاف کے ساتھ بھی تعلق جوڑنے میں کامیاب رہے ہیں عبدالحفیظ شیخ کی پیدائش پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیوں میں شامل غلام نبی شیخ ایڈووکیٹ کے ہاں ہوئی، جن کا تعلق جیکب آباد سے تھا، لیکن اس کے برعکس حفیظ شیخ جنرل پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے علاوہ اب تحریک انصاف کے ساتھ بھی تعلق جوڑنے میں کامیاب رہے ہیں۔ انگریز فوجی جنرل جان جیکب کے بسائے ہوئے شہر جیکب آباد میں حفیظ شیخ کے والد نبی شیخ پاکستان پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر اور سرگرم سماجی رہنما رہے جبکہ ان کے والد عبدالحکیم شیخ کی شناخت ایک استاد کی تھی، شہر میں ان کے نام سے آج بھی ایک ہائی سکول موجود ہے۔ 2006 میں حفیظ شیخ نے حکومت کو خیرباد کہہ دیا اور اگلے چار سال تک سیاسی میدان سے غائب رہے اور 2010 میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے استعفیٰ دے دیا تو حفیظ شیخ کی دوبارہ سیاست میں واپسی ہوئی اور انہیں مشیر خزانہ کا قلمدان دینے کے ساتھ سینیٹر بھی منتخب کرایا گیا۔ حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد وہ دوبارہ بیرون ملک منتقل ہوگئے اور تقریباً 5 سال کے بعد ان کا سیاست میں دوبارہ ظہور ہوا ہے۔ پاکستان کے معاشی تجزیہ نگار اشفاق تولہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ گزشتہ سات آٹھ سال سے پاکستان میں نہیں ہیں اور 2012 کے معاشی معاملات اور آج کے معاملات میں بڑا فرق ہے۔ 2012 میں پیرس کلب کے معاملات ری شیڈول ہوچکے تھے، فائنینشل ٹاسک فورس کا ہم اتنا دباؤ نہیں لیتے تھے ان دنوں میں بھی معشیت کوئی اتنی اچھی نہیں تھی اب تو اس سے بھی مشکل مراحل ہیں۔ ’اب تو ڈالر کہیں جارہا ہے، ائی ایم ایف کے مذاکرات رکے ہوئے ہیں، مہنگائی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے، افراط زر اور شرح سود بڑہ چکے ہیں شرح ترقی جی ڈی پی کم سے کم ہوگئی ہے، ترقیاتی اخراجات بلکل کم کر دیےے گئے ہیں۔ ایف بی آر کی وصولیوں میں شاٹ فال ہے، ایمنٹسی سکیم پر تکرار ہے۔ یہ تمام مقامی مسائل ہیں اگر کوئی مقامی ہوتا تو بہتر ہوتا۔‘ ایک دوسرے ماہر معاشیات جو حکومت کے ساتھ منسلک ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’حفیظ شیخ بھی حکومت کو کوئی بڑا بیل آؤٹ نہیں دے سکیں گے۔ بقول ان کے آئی ایم ایف سے معاہدہ مکمل ہوگیا ہے، اب بجٹ میں اس پر عملدرآمد ہوگا۔ ایک بات ضرور ہے کہ حفیظ شیخ کے کوئی سیاسی عزائم نہیں اس لیے وہ نیک نیتی سے اس پر عملدرآمد کرسکتے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-46313433", "summary": "کون نہیں چاہے گا کہ چیز کم بھاؤ میں ملے؟ لیکن حب بڑی سیل لگی ہوتی ہے تو آخر تک ہم اپنی بہت سی رقم ان چیزوں پر لگا چکے ہوتے ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ لیکن آپ اس سے بچ سکتے ہیں۔", "title": "بلیک فرائیڈے: بہترین شاپنگ کے آٹھ گُر", "firstPublished": "2018-11-23T14:11:15.000Z", "id": "f5f4b583-a430-e74c-80d6-11d0128d5288", "article": "لیکن پھر بھی یہ بہت برا اور ڈرانے والا ہو سکتا ہے اور آپ کا مشکل سے کمایا گیا پیسہ ان چیزوں پر خرچ ہو سکتا ہے جن کی آپ کو ضرورت ہی نہ ہو۔ جب لاکھوں لوگوں کی آمد متوقع ہے تو پھر ایسے میں آپ کیسے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ آپ کو وہ سب مل جائے گا جس کی آپ کو ضرورت ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ سیل سے پہلے کسی چیز کی قیمت کیا تھی۔ کیا یہ سٹاک میں تو نہیں تھی؟ کیا اس کے لیے کوئی خاص اوقات ہیں۔ جانے سے پہلے یہ چیک کر لیں اکثر اوقات دکانیں سیل میں خریدی گئی اشیا کی واپسی پر پابندی عائد کرتی ہیں اس لیے کوئی بھی چیز خریدنے سے پہلے اس کی واپسی کی پالیسی کو چیک کر لیں۔ اگر آپ نے خریدی گئی چیز کے بارے میں اپنی سوچ کو بدل لیا یا آپ کو ملنے والا تحفہ پسند نہ آیا تو آپ اسے بدل سکتے ہیں۔ کئی سٹور خریدی ہوئی چیز واپس کرنے کی پالیسی نہیں رکھتے لیکن اگر ہو تو پھر اس پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ جو بھی نظر آئے اسے خرید لینے کا رحجان اس لیے دکھائی دیتا ہے کیونکہ یہ چیزیں سیل پر ہوتی ہیں۔ لیکن اس وقت یہ سوچنا ضروری ہوتا ہے کہ کیا میں بچت کر رہا ہوں یا پھر مجھے واقعی یہ چیز پسند آ گئی ہے۔ دیانت داری کے ساتھ اپنے آپ سے پوچھیں کیا یہ کام میں آئے گی۔ یا پھر اسے آپ اپنی الماری کی زینت بنا دیں گے اور پھر اسے دن کی روشنی بھی نصیب نہیں ہو گی۔ اگر تو وہ پسند آنے والی چیز کپڑے ہیں تو پھر ایک کپ چائے پینے کے لیے جائیں اور اگر اب بھی وہ آپ کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ہے تو پھر جائیں اور اسے خرید لیں۔ اس سے برا کچھ نہیں کہ آپ شاپنگ کے دوران چینج روم میں جائیں اور بار بار آپ کو اپنے جوتوں کے تسمے باندھنے پڑیں۔ اگر آپ ایک اچھا ہینڈ بیگ اور ڈیزائئنر شوز لینا چاہتے ہیں تو شاید یہی وہ وقت ہے کہ آپ انھیں اچھی قیمت پر خرید سکتے ہیں۔ اگر باہر سردی ہے تو اندر سٹورز میں موجود لائٹس آپ کے لیے پر حدت ہو سکتی ہیں آپ کو پانی کی کمی کو پورا کرنا چاہیے اور پھر کچھ سنیکس لے لینا بھی اچھا خیال ہو سکتا ہے۔ خریداری تب آسان ہوتی ہے جب آپ کو چیز دیکھنے میں آسانی ہو نہ کہ اردگرد کے لوگوں کو ہٹانے میں وقت صرف کرنا پڑے خریداری تب آسان ہوتی ہے جب آپ کو چیز دیکھنے میں آسانی ہو نہ کہ اردگرد کے لوگوں کو ہٹانے میں وقت صرف کرنا پڑے اگر آپ گھر سے سوچ سمجھ کر نکلے ہیں اور اپنے بجٹ کا اندازہ بھی پہلے لگا چکے ہیں اور اس سے زیادہ خرچ نہیں کرنا چاہتے تو پھر شاپنگ آپ کے لیے ایک ڈراؤنا خواب نہیں بنے گی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cz5e805vymjo", "summary": "جب یہ نوبت آ جائے کہ سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹر کے افعال میں فرق مٹتا چلا جائے تو پھر ریاست اور گینگسٹر میں \n تمیز بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ پڑھیے وسعت اللہ خان کا کالم۔", "title": "یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے: وسعت اللہ خان کا کالم", "firstPublished": "2023-10-08T04:04:04.129Z", "id": "cz5e805vymjo", "article": "نو مئی سے پہلے تک کسی لاہوری یا اسلام آبادی یا لائل پوری سے کہا جاتا کہ دیکھو بلوچستان اور خیبر پختونخوا اور سندھ میں کیا ہو رہا ہے تو یا تو وہ یہ جملہ ہی نہ سنتا، سنتا تو بھی تو اکتائے ہوئے تاثرات کے ساتھ اور پھر اکثر یہ کہہ کے بات بدل دیتا کہ ’یار انھوں نے ایسا کچھ کیا ہوگا تبھی تو ایجنسیاں ان کے ساتھ ایسا کر رہی ہیں، ورنہ ایسے کون کسی کو غائب کرتا ہے۔‘ جب قومی اداروں کے خلاف پی ٹی آئی کے ’بے بنیاد پروپیگنڈے‘ کا جواب دینے کے لیے گذشتہ برس ہمارے حساس ترین ادارے کے سربراہ نے پہلی اور غالباً آخری پریس کانفرنس کی تو ان کے نرم لب ولہجے اور شعری ذوق سے دل کو بہت تسلی ہوئی۔ اب سے چند برس پہلے تک ہمیں سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹر کا بنیادی فرق سمجھاتے ہوئے یہ پٹی پڑھائی جاتی تھی کہ نان سٹیٹ ایکٹر کے برعکس ریاست اگر تشدد کا استعمال بھی کرتی ہے تو آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کرتی ہے۔ نان سٹیٹ ایکٹر کی کاروائیاں آئین و قانون کے تابع نہیں ہوتیں۔ نان سٹیٹ ایکٹر کا آئین و قانون سے ماورا کوئی بھی ایکشن ریاست کے خلاف بغاوت ہے اور اس کی درستی و سرکوبی کے لیے عدالت کا ادارہ ایجاد کیا گیا ہے۔ عدالت کے ہر فیصلے اور حکم کا احترام اور عمل درآمد ریاست کے ہر ادارے پر لازم ہے جبکہ نان سٹیٹ ایکٹر ایسی کسی بھی پابندی سے آزاد ہے۔ نان سٹیٹ ایکٹر کا ہتھیار اٹھانا ریاست کے خلاف اعلانِ جنگ ہے جبکہ ریاستی ادارے کا ہتھیار اٹھانا قانونی اور جائز ہے۔ نان سٹیٹ ایکٹر قتل کر سکتا ہے، ریاست قتل نہیں کر سکتی سزائے موت دے سکتی ہے۔ نان سٹیٹ ایکٹر اغوا کر سکتا ہے، ریاست اغوا نہیں کر سکتی گرفتار کر سکتی ہے۔ نان سٹیٹ ایکٹر کسی بھی طرح کا تشدد کر سکتا ہے، ریاست بے لگام تشدد نہیں کر سکتی۔ اور جب یہ نوبت آ جائے کہ سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹر کے افعال میں فرق مٹتا چلا جائے تو پھر ریاست اور گینگسٹر میں تمیز بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ یہ مرض نائن الیون کے بعد سے پوری شدت کے ساتھ نمودار ہوا اور آج اس کی لپیٹ میں ہر ادارہ اور ہر بااختیار ہے۔ طاقت قانون کے تابع نہیں رہی اور آئین طاقت کے تلوے تلے سسکیاں لے رہا ہے۔ ایسے ماحول میں ریاست سے وفاداری اور حب الوطنی کے کیا معنی رہ جاتے ہیں؟ ریاست کے دشمن اور دوست میں تمیز کیسے ممکن ہے؟ انصاف اور ناانصافی کی تعریف کیا ہو گی؟ احتساب اور انتقام کو الگ الگ کر کے کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ قانون اور لاقانونیت کی سرحد کہاں ملتی اور کہاں الگ ہوتی ہے؟ ایسی کیفیت کو آسان انگریزی میں ٹنل ویژن کہتے ہیں اور ٹنل بھی اگر لامتناہی ہو تو پھر کیا کہنے۔۔۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cqq72d1wv63o", "summary": "پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان میں جمعے کو ایک زور دار دھماکے جیسی آواز سنی گئی جس نے ریسکیو سروسز کے ساتھ ساتھ شہریوں کو بھی الرٹ کر دیا۔ یہ آواز تھی کیا؟ ", "title": "ڈیرہ غازی خان میں ’دھماکے‘ کی گرج دار آواز: سونک بوم کیا ہے اور کیا یہ خطرناک ہے؟", "firstPublished": "2023-10-07T12:15:20.641Z", "id": "cqq72d1wv63o", "article": "پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان میں گذشتہ روز ایک زور دار دھماکے جیسی آواز سنی گئی جس نے ریسکیو سروسز کے ساتھ ساتھ شہریوں کو بھی الرٹ کر دیا۔ ابتدائی تحقیقات کے بعد ڈیرہ غازی خان کے کمیشنر ڈاکٹر ناصر محمود بشیر نے وضاحت کی کہ ’یہ دھماکہ نہیں بلکہ پاکستان ایئر فورس کے فائٹر جیٹ سے پیدا ہونے والا سونک بُوم تھا۔‘ لینکیسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر جِم وائلڈ نے بتایا کہ ’جب کوئی جنگی جہاز آواز کی رفتار سے تیز اڑتا ہے اور ہوا میں اپنی جگہ بناتا ہوا جاتا ہے اور کیونکہ ہوا اس کے راستے سے جلدی نہیں ہٹ پاتی لیکن جہاز کے اسے تیز رفتاری چیرنے کے نتیجے میں ایک آواز پیدا ہوتی ہے جو زمین پر گرجنے یا پھر دھماکے کی مانند لگتی ہے۔ ‘ ڈاکٹر جِم وائلڈ کو بی بی سی پر اس وقت یہ وضاحت دینے کے لیے بلایا گیا تھا جب 2012 میں ایک پورے برطانیہ میں گرجنے یا دھماکے جیسی آوازیں سنائی دی تھیں۔ برطانیہ کی وزارتِ دفاع نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’ٹائفون فائٹر‘ جہازوں کو تب روانہ کرنا پڑا جب ایک سویلین جہاز کی طرف سے ایمرجنسی سگنل بھیجا گیا تھا۔‘ کچھ اسی قسم کی آواز ڈیرہ غازی خان میں بھی سنائی دی تھی۔ اس کے بارے میں وزارت دفاع کے سابق سیکرٹری آصف یاسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان کے پاس جتنے بھی جہاز ہیں جیسے کہ جے ایف 17 ایف 16 ہے اور ابھی چین سے جے ٹین لیا ہے، یہ سب سپر سونک ایئر کرافٹ ہیں۔‘ اس کے بارے میں ماہرِ فزکس بتاتے ہیں کہ اس جہاز سے پیدا ہونے والی آواز خاصی کمزور ہوتی ہے جو کسی بھی انسان کو جسمانی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ سونک بوُم کی پیمائش پاؤنڈ میں کی جاتی ہے۔ ناسا کے مطابق ایک پاؤنڈ کے اوور پریشر پر کسی بھی عمارت کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ جبکہ اسی پریشر کو اگر ایک عشاریہ پانچ پاؤنڈ اور 2 پاؤنڈ کے درمیان بڑھا دیا جائے تو لوگوں کی طرف سے ردعمل آنا شروع ہوجائے گا۔ امریکی خلائی ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ دنیا کا پہلا سونک بُوم طیارہ بیل ایکس ون روکٹ جہاز تھا جس نے 1947 میں پہلی مرتبہ آواز سے تیز پرواز کرتے ہوئے ساؤنڈ بیرئیر توڑا تھا۔ یہ لمحہ اس قدر یادگار تھا کہ اسے نہ صرف ٹوم وولف کی کتاب دی رائٹ سٹف بلکہ اسی نام کی ایک فلم میں بھی عکس بند کیا گیا تھا۔ 1947 سے 1970 کے درمیان اینگلو فرانسیسی ایوی ایشن نے سپر سونک طیاروں پر کام کرتے ہوئے ایسی پروازیں متعارف کروائیں جو امریکہ سے یورپ ساڑھے تین گھنٹے میں پہنچا دیتی تھی جس میں اس سے پہلے آٹھ گھنٹہ کا وقت لگتا تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp3dyngmnmjo", "summary": "حال ہی میں سکھر کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) نے اپنے طلبہ کو بذریعہ ای میل وارننگ دی کہ ’اگر کوئی فری لانس کام کرتا پکڑا گیا تو اسے جرمانہ دینا پڑے گا۔‘ مگر طلبہ نے فوری طور پر اس کی شدید مخالفت کر دی۔", "title": "فری لانسنگ کے ذریعے تعلیمی اخراجات اٹھانے والے پاکستانی طلبہ کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟", "firstPublished": "2023-10-07T08:07:59.239Z", "id": "cp3dyngmnmjo", "article": "حال ہی میں سکھر کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) نے اپنے طلبہ کو بذریعہ ای میل وارننگ دی کہ ’اگر کوئی فری لانس کام کرتا پکڑا گیا تو اسے جرمانہ دینا پڑے گا۔‘ طلبہ نے فوراً اس تنبیہ کی شدید مخالفت کی، جیسے کرن خان نامی ایک صارف نے ایکس پر لکھا کہ یونیورسٹی میں ’فوٹو کاپی ہی اتنی مہنگی ہے۔ فیس کے علاوہ اتنی اسائنمنٹس اور نوٹس کے پیسے انھی کاموں سے پورے ہوتے ہیں۔ کوئی کسی بالغ کو روزمرہ کے خرچوں کے لیے پیسے کمانے سے نہیں روک سکتا۔‘ ادارے کی وارننگ کے بعد کرن کی طرح کئی لوگوں نے ناراضی ظاہر کی۔ ایک شخص نے تو یہاں تک کہا کہ ’اگر ان کو طلبہ کی اتنی فکر ہے تو انھیں اپنی فیس کم کر دینی چاہیے۔‘ ہم نے سکھر میں آئی بی اے کی انتظامیہ سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ’یہ ای میل طلبہ کو ایک وارننگ کے طور پر بھیجی گئی تھی کیونکہ پوری کلاس لیب میں فری لانسنگ کرنے میں مصروف تھی جبکہ ٹیچر کلاس میں انتظار کر رہے تھے۔‘ ادارے نے اس ای میل کو جلد ہی واپس لے لیا اور اب سٹوڈنٹس کو بتایا گیا ہے کہ وہ ’ایک مخصوص وقت میں فری لانسنگ کر سکتے ہیں۔‘ پشاور میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہنے والی ایک طالبہ نے بتایا کہ لڑکیوں کو ایک مخصوص وقت کے بعد ہاسٹل سے باہر رہنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ان کے بقول ’ہاسٹل میں رہتے ہوئے ہم فری لانس کام کرتی ہیں لیکن ہاسٹل سے باہر ہم جاب نہیں کرسکتیں۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ’سٹوڈنٹس کو ہر وقت پیسوں کی ضرورت رہتی ہے۔ اس کام نے میرا بہت زیادہ ساتھ دیا۔ شروعات میں نے ویڈنگ فوٹوگرافی سے کی۔ اپنے حلقہ احباب میں کام کرنا شروع کیا تو کبھی کسی دوست کے گھر تو کبھی کسی رشتہ دار کےلیے۔ بہت سا کام مفت بھی کرنا پڑا۔ لیکن اب یہ کام مکمل طور پر میرا ذریعہ معاش بن چکا ہے۔‘ کام کوئی بھی ہو، چند پیسوں کے علاوہ اگر فوری طور پر آپ کو اُس کا کوئی بڑا فائدہ نہیں ہو رہا تو تجربہ ضرور ملتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر متعلقہ فیلڈ میں ہی سٹوڈنٹ کو تجربہ مل جائے تو بعض اوقات مستقبل میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ سٹوڈنٹ فری لانسنگ طلبہ کو یہ سمجھنے میں بھی مدد کرتی ہے کہ مستقبل میں آپ کو کیا کام کرنا چاہیے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ یونیورسٹیز بھی اپنے نظام میں لچک پیدا کریں کہ سٹوڈنٹس کے لیے پڑھائی کے ساتھ کام کرنے کی گنجائش اور آسانی پیدا ہوسکے۔ البتہ اپنے گریڈز کی ذمہ داری خود سٹوڈنٹس پر ہوگی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0dj92lmr7xo", "summary": "حکمنامہ جاری ہو چکا کہ 28 دن میں پاکستان چھوڑ دو ورنہ۔۔۔ ایسے حکمناموں کا جواب ہم نے پہلے بھی سُن رکھا ہے: ’اگر نہ چھوڑیں تو۔۔۔ محمد حنیف کا کالم۔‘", "title": "28 دن میں سب نکل جائیں گے؟ محمد حنیف کا کالم", "firstPublished": "2023-10-07T03:01:10.745Z", "id": "c0dj92lmr7xo", "article": "حکم نامہ جاری ہوا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطنوں 28 دن کے اندر اندر پاکستان چھوڑ دو، ورنہ۔۔۔ کبھی یہ نہ کہنا کہ میں تو پیدا ہی اِسی دھرتی پر ہوا تھا، جس ملک میں تم مجھے واپس بھیج رہے ہو اسے تو میں نے کبھی دیکھا ہی نہیں، صرف ماں باپ سے اس ملک کی کہانیاں سنی ہیں اور ان میں سے بھی زیادہ تر ڈراؤنی ہیں۔ سُنا تھا اس ملک میں ایک قانون بھی موجود ہے کہ اگر آپ یہاں پیدا ہوئے ہیں تو آپ کے پاس یہاں رہنے کا قانونی حق موجود ہے۔ یہ بھی مت کہنا کہ اس ملک میں لاکھوں بنگلہ دیشی بھی ہیں، جو بنگلہ دیش بننے سے بہت پہلے سے پاکستان میں موجود ہیں، انھوں نے نہ کبھی ملک سے غداری کی، نہ دہشت گردی کی، نہ کوئی مذہبی جتھہ بنایا لیکن پھر بھی ان کی تیسری نسل کچی بستیوں میں بغیر شناختی کارڈوں کے ریاست کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہو رہی ہے۔ ہاتھ باندھ کر یاد دلانا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہو گا کہ کب سے پاکستان میں رہنے والے سارے افغان دہشت گرد، منشیات فروش اور جرائم پیشہ ہو گئے۔ دہشت گرد اپنی کارروائی سے پہلے شناختی کارڈ نہیں لیتے، نہ ہی انھیں پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ یاد مت کرانا کہ جو طالبان رہنما پاکستان کی سرحدوں کے اندر مقیم تھے انھیں پاسپورٹ کہاں سے جاری ہوئے تھے۔ کیا سویت یونین کے بعد ہم نے افغانستان میں ایک دوسری سپر پاور امریکہ کو آپ کی مدد سے شکست نہیں دی۔ کیا ہم نے غلامی کی زنجیریں نہیں توڑیں، کیا آپ نے ہمارے لیے ’نصر من اللہ و فتح قریب‘ کی دعائیں نہیں دیں۔ کیا پاکستان کے طاقتور ترین جنرل اس فتح کا جشن منانے کابل کے انٹرکانٹینینٹل ہوٹل نہیں پہنچے اور کیمروں کے سامنے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ نہیں کہا کہ اب سب ٹھیک ہو جائے گا؟ ہمیں یہ مت یاد دلانا کہ ہم افغانستان سے اپنے گھروں، کھیتوں، شہروں، دیہاتوں کو چھوڑ کر اس لیے بھاگے تھے کہ آپ کے چہیتے طالبان ہمیں مارتے تھے، دھندہ نہیں کرنے دیتے تھے، بچیوں کو سکول نہیں جانے دیتے تھے۔ ہم نے بھاگ کر اپنے آباؤ و اجداد کی طرح یہاں پناہ ڈھونڈی اب طالبان آپ کی بات نہیں سنتے (کیونکہ وہ غلامی کی زنجیریں توڑ چکے) تو آپ پاکستان میں ہمارے ساتھ وہی کریں گے جو طالبان نے ہمارے ساتھ افغانستان میں کیا تھا۔ حکمنامہ جاری ہو چکا کہ 28 دن میں پاکستان چھوڑ دو ورنہ۔۔۔ ایسے حکمناموں کا جواب ہم نے پہلے بھی سُن رکھا ہے: ’اگر نہ چھوڑیں تو۔۔۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cx9475q92ygo", "summary": "تحریک انصاف اور اس کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ عثمان ڈار پر کئی ہفتوں تک دباؤ ڈالا گیا اور اور تشدد کے بعد ایک ’سکرپٹڈ‘ انٹرویو کیا گیا تاہم پروگرام اینکر کامران شاہد نے اس کی تردید کی ہے۔ \n", "title": "’لاپتہ‘ عثمان ڈار ٹی وی شو میں نمودار: ’وہ گھر کے ماحول میں بات کرنا چاہتے تھے‘", "firstPublished": "2023-10-05T11:39:37.935Z", "id": "cx9475q92ygo", "article": "تاہم پروگرام کے اینکر کامران شاہد نے اس کی تردید کی اور کہا کہ ’ون گو‘ میں ہونے والے اس انٹرویو میں کوئی سوال کسی سکرپٹ کا حصہ نہیں تھا جبکہ انھیں امید ہے کہ عثمان ڈار کی باتیں بھی سکرپٹڈ نہیں تھیں۔ تاہم اب ’لاپتہ‘ ہونے کے کئی روز بعد عثمان ڈار اچانک منظرعام پر آ گئے اور انھوں نے دنیا ٹی وی کے پروگرام ’آن دی فرنٹ‘ پر انٹرویو دیا جس میں وہ اینکر کی رہائش گاہ میں موجود تھے۔ تحریک انصاف اور اس کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ عثمان ڈار پر کئی ہفتوں تک دباؤ ڈالا گیا اور اور تشدد کے بعد ایک ’سکرپٹڈ‘ انٹرویو کیا گیا۔ کامران شاہد کہتے ہیں کہ عثمان ڈار نے انھیں ہی یہ انٹرویو کیوں دیا اور آیا اس میں کی گئی باتیں درست ہیں ’اس کا فیصلہ میں کیسے کر سکتا ہوں؟ اس کا فیصلہ ڈار صاحب ہی کر سکتے ہیں۔ وہ عمران خان کے اِنر سرکل کا حصہ تھے اور جو تفصیلات انھوں نے مجھے بتائیں وہ مجھے نہ پہلے سے پتا تھیں، نہ خود میں نے انھیں بتائیں۔‘ کامران شاہد نے بتایا کہ عثمان ڈار نے اس گفتگو میں انھیں بتایا کہ وہ نو مئی کو فوجی املاک اور تنصیبات پر حملوں کے بعد سے ’ڈبل مائینڈ‘ تھے اور شاید اسی لیے منظر عام پر نہیں آ رہے تھے۔ ’انھوں نے وہی کیا جو اپنے لیے بہتر سمجھا۔ آپ یا میں یہ نہیں جانتے کہ انھوں نے کن حالات میں یہ فیصلہ کیا۔‘ اس انٹرویو کے بعد سوشل میڈیا پر تنقید سے متعلق اینکر نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے وہ لوگ بات کر رہے ہیں جنھوں نے عمران خان کو پھنسوایا۔۔۔ ان کا ماننا تھا کہ سوشل میڈیا پر لاکھوں کا مجمع عمران خان کی گرفتاری کے بعد سڑکوں پر ہو گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ یہ آج بھی پُرامن احتجاج کے لیے باہر نہیں نکلے۔‘ تحریک انصاف کے رہنما جمشید احمد نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ’جسٹس کامران شاہد نے 45 منٹ کی طویل سماعت کے بعد عثمان ڈار کو دہشتگردی اور غداری کے تمام مقدمات سے بری کردیا۔‘ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ تحریک انصاف کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مزید رہنما جماعت چھوڑنے کا اعلان کر سکتے ہیں تو کیا ان کے انٹرویو بھی وہی کریں گے تو ان کا جواب تھا کہ ’اگر کوئی آپ سے انٹرویو دینے کے لیے خود رابطہ کرتا ہے تو آپ کو نہیں پتا ہوتا کہ ان کا مقصد کیا ہے۔ میرا مقصد واضح ہے کہ میں نے ہر طرح کا سوال پوچھنا ہے اور میں یہاں بھی ہر طرح کا سوال پوچھا ہے۔‘ عثمان ڈار کی والدہ کے اس انٹرویو پر ردعمل پر کامران شاہد نے کہا کہ ’میں (عثمان ڈار کی) والدہ کا انٹرویو کرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cnk38g7y9djo", "summary": "کیا پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو ڈی پورٹ کرنے کے حکومتی اعلان کے پیچھے کوئی مربوط حکمت عملی بھی ہے یا پھر یہ ماضی کی طرح محض ایک اعلان تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گا؟", "title": "پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو ڈی پورٹ کرنے کا حکومتی منصوبہ قابل عمل بھی ہے؟", "firstPublished": "2023-10-05T03:58:37.174Z", "id": "cnk38g7y9djo", "article": "پاکستان کی حکومت کی جانب سے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو ملک چھوڑنے کے لیے 31 اکتوبر کی ڈیڈ لائن دیے جانے کے بعد جہاں ایک جانب یہ سوال ہو رہا ہے کہ کیا یہ اعلان افغان شہریوں کے لیے مخصوص ہے تو دوسری جانب یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ آیا یہ ممکن بھی ہے کہ پاکستان میں اتنی بڑی تعداد میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو ڈی پورٹ کر دیا جائے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے بی بی سی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا حکومتی اعلان کے پیچھے کوئی مربوط حکمت عملی بھی ہے یا پھر یہ ماضی کی طرح محض ایک اعلان تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گا۔ واضح رہے کہ منگل کے روز ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہنے والے غیر ملکی 31 اکتوبر تک رضاکارانہ طور پر اپنے اپنے ملکوں کو واپس چلے جائیں ورنہ انھیں ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔ اس حوالے سے افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آ چکا ہے کہ پاکستان حکومت کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاہم بی بی سی کی معلومات کے مطابق پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نہ صرف ایک حکمت عملی مرتب کر لی ہے بلکہ اس پر فوری طور پر عمل درآمد بھی شروع کر دیا گیا ہے تاہم اس حکمت عملی کا مرکز افغان شہری نظر آتے ہیں۔ بی بی سی کو حاصل شدہ معلومات کے مطابق پاکستان کے خفیہ اداروں کی طرف سے ملک میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکیوں سے متعلق ایک رپورٹ، جو وزارت داخلہ کو بھجوائی گئی، میں دعوی کیا گیا ہے کہ ملک میں موجود ایسے غیر ملکیوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے جن کے پاس پاکستان میں داخلے سے متعلق کوئی دستاویزات نہیں اور ان میں زیادہ تر تعداد افغان باشندوں کی ہے۔ وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں ان افغان باشندوں کی جائیدادوں کے بارے میں بھی تفصیلات جمع کرنے کا ٹاسک دے دیا گیا ہے جنھوں نے غیر قانونی طور پر پاکستان میں یہ جائیدادیں بنائی ہیں اور اس ضمن میں صوبائی محکمہ مال کو ضلعی انتظامیہ کی مدد سے تفصیلات جمع کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں افغانیوں اور دیگر غیر ملکیوں کو جو کہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہ رہے ہیں، کو ان کے وطن واپس بھیجنا اتنا آسان کام نہیں ہے اور اس کے لیے بنائی گئی حکمت عملی پر تسلسل کے ساتھ عمل درآمد ناگزیر ہو گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c8vl18d71pyo", "summary": "اگرچہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے واضح انداز میں اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تاہم سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ انڈیا کے اس نئے رخ سے متفق نہیں ہیں۔ وہ انڈیا میں حکمراں جماعت بی جے پی کے پہلے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’اسرائیل نے فلسطین کی جس زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اسے خالی کرنا پڑے گی۔‘", "title": "مودی کی اسرائیل سے اظہار یکجہتی پر بحث: ’منی پور کے ساتھ بھی کھڑے ہونے کی ضرورت ہے‘", "firstPublished": "2023-10-08T11:23:19.541Z", "id": "c8vl18d71pyo", "article": "اگرچہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے واضح انداز میں اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تاہم سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ انڈیا کے اس نئے رخ سے متفق نہیں ہیں۔ وہ انڈیا میں حکمراں جماعت بی جے پی کے پہلے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’اسرائیل نے فلسطین کی جس زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اسے خالی کرنا پڑے گی۔‘ وزیر اعظم مودی کے ٹویٹ کے جواب میں جہاں بہت سے لوگوں نے انھیں واضح مؤقف اختیار کرنے کے لیے سراہا ہے تو وہیں کچھ لوگوں نے انھیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے اور منی پور پر ان کی ’خاموشی‘ کو یاد دلایا۔ اس کے ساتھ ایسے بھی ٹویٹس نظر آئے جس میں یہ کہا جا رہا ہے کہ انڈیا میں بھی ’ایسے لوگ ہیں جو کہ اسرائیل پر اس طرح کے نامردانہ دشت گردانہ حملے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آج وہ ایسی ذہنیت رکھتے ہیں، کل کچھ اور ہوگا۔۔۔ قانون نافذ کرنے والوں کو انھیں یہیں روکنا ہوگا۔۔۔‘ اس ویڈیو میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے: ’جنتا پارٹی کی حکومت بن گئی ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ وہ عربوں کا ساتھ نہیں دے گی وہ اسرائیل کا ساتھ دے گی۔ تو میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم ہر مسئلے کو ان کی بنیاد پر دیکھیں گے۔ ’لیکن مشرق وسطی کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ عربوں کی جس زمین پر اسرائیل قبضہ کر کے بیٹھا ہے وہ زمین اس کو خالی کرنا ہوگی۔۔۔‘ 'یہاں یہ یاد رکھنا بھی اہم ہے کہ اسرائیل اور فلسطین پر جب ہم بات کرتے ہیں تو بدقسمتی سے انڈیا میں اب ہم اس کے بنیادی تنازع کو بھول کر بات کرنے لگے ہیں۔ ہم جب بھی فلسطینی شورش کی بات کرتے ہیں تو اس شورش کی وجہ میں نہیں جاتے ہیں اور ہم اسرائیل کی قبضہ کرنے کی پالیسی کو دانستہ طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔' اس کے ساتھ ہی بہت سے صارف نے بی جے پی کے دور کے چند واقعات کا ذکر بھی کیا ہے جس میں پلوامہ حملہ، چین کے ساتھ تنازع اور منی پور کے پرتشدد واقعات شامل ہیں۔ خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق انڈیا کے موقف پر اسرائیل کے قونصل جنرل کوبی شوشانی نے کہا کہ 'میں ان ہزاروں پیغامات کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جو مجھے صبح سے انڈین عوام کی طرف سے موصول ہو رہے ہیں، جس میں اسرائیل کی ریاست کی اس طرح حمایت کی جا رہی ہے کہ میرے دل کو اور اسرائیل کے عوام کے دل کو آج ایک بہت ہی افسوسناک دن گرمی محسوس ہو رہی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pl618pxxxo", "summary": "انڈیا روس کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور روس چین کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ روس انڈیا کی دفاعی اور توانائی کی بہت سی ضروریات پوری کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین کی اپیل کے باوجود انڈیا نے یوکرین جنگ پر روس کی مذمت نہیں کی۔ چین نے بھی کھلے عام روس کی مذمت نہیں کی۔ ", "title": "کیا انڈیا اور چین سرحدی کشیدگی کم کر کے اپنے تعلقات کو معمول پر لا سکتے ہیں؟", "firstPublished": "2023-10-08T09:09:43.746Z", "id": "c6pl618pxxxo", "article": "اس سوال پر ایون لیداریف کہتے ہیں کہ چین ہمیشہ سے نام نہاد ملاکا کے مخمصے کے بارے میں فکر مند رہا ہے۔ ملاکا کے مخمصے کا مطلب ہے کہ چین کو خدشہ ہے کہ تنازع یا جنگ کی صورت میں امریکہ آبنائے ملاکا کے ذریعے چینی کشتیوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا کر اس کی معیشت پر شکنجہ کس سکتا ہے۔ سری لنکا نے چین سے کئی ارب ڈالر کا قرضہ بھی لیا ہے۔ انڈیا مشرقی ایشیا میں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایون لیداروف کا کہنا ہے کہ چین جو جنوبی ایشیا میں انڈیا کے ساتھ کر رہا ہے، انڈیا چین کو گھیرنے کے لیے جاپان اور ویتنام کے ساتھ قریبی تعلقات بنا کر وہی کچھ کر رہا ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار چائنیز اینڈ ساؤتھ ایسٹ ایشین سٹڈیز کی پروفیسر ڈاکٹر گیتا کوچر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت انڈیا سرحد پر امن قائم کرکے تنازع کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ انڈیا کا ماننا ہے کہ سرحد پر امن کی بحالی کے بغیر تجارتی معاملات پر بات چیت نہیں ہو سکتی۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ چین اور انڈیا کے درمیان تجارت میں توازن کا فقدان ہے۔ ڈاکٹر گیتا مزید کہتی ہیں کہ ’چین سے انڈیا کو بہت ساری چیزیں برآمد کی جاتی ہیں لیکن انڈیا سے چین کو برآمدات بہت کم ہیں۔ انڈیا نے پیداواری شعبے پر زیادہ زور نہیں دیا ہے، جس کی وجہ سے انڈیا سے دیگر ممالک کو برآمدات کم ہوئی ہیں۔ لیکن سنہ 2020 کے بعد انڈیا نے سامان کے لیے چین پر انحصار کم کرنے اور اپنی پیداوری صنعت کے مفادات کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔‘ سٹیو کہتے ہیں کہ ’اگر چین اور انڈیا اپنے سرحدی تنازع کو پر امن طریقے سے حل نہیں کر پاتے اور جنگ کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے تو پھر دنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان تصادم ہو سکتا ہے۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے، میں نہیں سمجھتا کہ وہ انڈیا کو اپنی سلامتی کے لیے سنگین خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس وقت انڈیا اس کے لیے سرحد پر ایک مسئلہ ہے۔‘ انڈیا روس کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور روس چین کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ روس انڈیا کی دفاعی اور توانائی کی بہت سی ضروریات پوری کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین کی اپیل کے باوجود انڈیا نے یوکرین جنگ پر روس کی مذمت نہیں کی۔ چین نے بھی کھلے عام روس کی مذمت نہیں کی۔ دہلی میں منعقدہ جی-20 سربراہی اجلاس کے مشترکہ بیان میں یوکرین میں ہونے والی کارروائیوں کے لیے روس کو براہ راست ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ اس معاملے پر چین اور انڈیا بھی ساتھ تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pj85623l6o", "summary": "پہلا میچ گذشتہ ورلڈ کپ کی فاتح انگلینڈ اور رنر اپ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان انڈیا کے سب سے بڑے سٹیڈیم میں جمعرات کو کھیلا گیا لیکن اکثریت میں لوگوں کے بجائے خالی سیٹیں ہی نظر آئیں۔", "title": "’سٹیڈیم میں شائقین کم کیوں؟‘ انڈیا میں ورلڈ کپ کے مدھم آغاز اور خالی نشستوں پر بحث", "firstPublished": "2023-10-07T05:12:04.076Z", "id": "c6pj85623l6o", "article": "پہلا میچ گذشتہ ورلڈ کپ کی فاتح انگلینڈ اور رنر اپ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان انڈیا کے سب سے بڑے سٹیڈیم میں جمعرات کو کھیلا گیا لیکن اکثریت میں لوگوں کے بجائے خالی سیٹیں ہی نظر آئیں۔ گجرات کے ایم ایل اے جگنیش میوانی نے ٹوئٹر پر احمد آباد میں جمعرات کو ہونے والے ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں خالی سٹیڈیم کو 'فیاسکو' یا رسوائی قرار دیا اور بی سی سی آئی کی ٹکٹنگ کے عمل میں مبینہ شفافیت کی کمی پر تنقید کی ہے۔ جبکہ سابق انڈین اوپنر ویریندر سہواگ نے کہا ہے کہ جن میچز میں انڈیا نہ کھیل رہا ہو سکول کے طلبہ کو مفت ٹکٹ فراہم کیا جائے۔ انھوں نے لکھا کہ '50 اوورز کے گیم میں لوگوں کی کم ہوتی دلچسپی کے مد نظر نوجوانوں کو ورلڈ کپ دیکھنے کا تجربہ فراہم کیا جانا چاہیے تاکہ کھلاڑی بھی بھرے ہوئے سٹیڈیم میں کھیلنے کا احساس کر سکیں۔' پہلا میچ احمدآباد کے نریندر مودی سٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ اس سٹیڈیم میں ایک لاکھ 32 ہزار تماشائیوں کی گنجائش ہے لیکن سوشل میڈیا پر جو حتمی تعداد پیش کی گئی ہے اس اعتبار سے بھی سٹیڈیم خالی ہی تھا۔ ریڈف کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال آئی پی ایل کے فائنل میں وہاں ایک لاکھ سے زیادہ تماشائی موجود تھے جبکہ ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں 50 ہزار سے بھی کم تماشائی وہاں پہنچے اور اس طرح سٹیڈیم ہر وقت خالی خالی سا نظر آیا۔ پاکستانی سپورٹس چینل رفتار سپورٹس نے ایک مزاحیہ ویڈیو بنائی۔ کہا گیا کہ یہ ورلڈ کپ ہے اور اس کا انعقاد انڈیا میں ہو رہا ہے جہاں شائقین کرکٹ کی سب سے زیادہ تعداد موجود ہے۔ پہلا میچ بھی دنیا کے سب سے بڑے سٹیڈیم میں ہوا۔ لیکن سٹیڈیم میں تماشائیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ ’یہ بات کہیں بھی برداشت کی جا سکتی تھی۔ پاکستان، انگلینڈ اور آسٹریلیا میں بھی لیکن انڈیا میں یہ گناہ ہے۔' ایک صارف نے لکھا: 'بی سی سی آئی اور جے شاہ برصغیر کی سیاست کو اس میں لا کر کرکٹ کو برباد کر رہے ہیں۔ کوئی افتتاحی تقریب نہیں، آج کے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے میچ میں کوئی بھیڑ نہیں، ٹورنامنٹ کی کوئی ہلچل نہیں، ورلڈ کپ کا تھیم گانا بیکار ہے۔ ٹکٹنگ کا کوئی مناسب نظام نہیں ہے۔' افتتاحی تقریب کا اہتمام ورلڈ کپ سے پہلے نہیں کیا گیا تھا لیکن بی سی سی آئی نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے درمیان میچ سے ایک دن پہلے شام کو کیپٹن ڈے کا اہتمام کیا۔ اس ایونٹ میں ٹیم کے دس کپتانوں میں سے انڈیا کے سابق کوچ روی شاستری اور انگلینڈ کے سابق کپتان ایون مورگن نے سوال کیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51857ezl5zo", "summary": " بحیثیتِ مجموعی پورے میچ پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اگر ایڈورڈز کو بھی کوئی سعود شکیل میسر ہوتا تو سکور لائن بھلے مختلف نہ ہوتی مگر مارجن میں تفاوت اتنا وسیع نہ ہو پاتا۔ سمیع چوہدری کا کالم۔", "title": "’اگر ایڈورڈز کو بھی کوئی سعود شکیل میسر ہوتا‘ سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-10-07T02:11:12.084Z", "id": "c51857ezl5zo", "article": "حیدرآباد کی اس پچ میں احمد آباد کی سی وہ خوبی نہ تھی کہ جہاں رچن روندرا اور ڈیون کانوے جیسی بے نیاز جارحیت کارگر ہو پاتی۔ یہاں رکنے سے پہلے روکنا ضروری تھا اور قدم جم جانے کے بعد ہی بازو کھولنے کو کوئی مہلت میسر ہو سکتی تھی۔ ایسوسی ایٹ ٹیموں کو یہ سہولت ہوتی ہے کہ ان کے پاس گنوانے کو کچھ نہیں ہوتا اور اس امر کو مہمیز تب ملتی ہے جب کپتان بھی ایڈورڈز جیسا شاطر ہو جو بولنگ میں پے در پے یوں تبدیلیاں لاتے رہے کہ حریف بلے بازوں کو کہیں بھی شناسائی کا احساس نہ ہونے دے۔ پہلے پاور پلے میں ڈچ بولنگ یوں حاوی ہوئی کہ گویا پاکستان کا مقابلہ کسی ایسوسی ایٹ سائیڈ سے نہیں بلکہ توانا اور تجربہ کار ٹیم سے ہو۔ ایڈورڈز نے اپنے بولرز سے طویل سپیل نہیں کروائے بلکہ گاہے بگاہے اٹیک میں بدلاؤ لاتے رہے کہ کہیں بلے باز ہم آہنگ نہ ہو جائیں۔ محمد رضوان مگر کبھی گھبراتے نہیں۔ صورت حال کیسی بھی ہو، وہ چست چالاک کھیل پر مہارت دکھاتے ہیں اور حریف کپتان کو سوچ میں ڈال دیتے ہیں اور جب سعود شکیل کا اتم کھیل ان کے ہمرکاب ہوا تو پاکستان کی ڈولتی ناؤ پھر سے تیرنے لگی اور مرجھاتے ڈریسنگ روم میں زندگی لوٹ آئی۔ میچ سے قبل پاکستان کے لیے یہ طے کرنا دشوار تھا کہ سعود شکیل اور سلمان آغا میں سے کس کو فوقیت دی جائے اور سعود شکیل یہاں بالکل بجا انتخاب ثابت ہوئے کہ بہرحال نہ صرف وہ ایک مکمل بلے باز ہیں بلکہ پہلے بھی سپن دوست کنڈیشنز میں سلمان آغا سے بہتر ثابت ہو چکے ہیں۔ اس پچ پر بلے بازی ہرگز آسان نہ تھی۔ جس برق رفتاری سے سعود شکیل نے رنز بٹورے، دونوں ٹیموں میں سے کوئی بھی بلے باز ان کی رفتار سے قدم نہ ملا پایا۔ نہ صرف رضوان کے ہمراہ انھوں نے پاکستانی بیٹنگ کو بھنور سے نکالا بلکہ ان کے سٹرائیک ریٹ نے ہی سکاٹ ایڈورڈز کو بھی مخمصے میں ڈالے رکھا۔ مگر یہاں ابتدا میں جب شاہین آفریدی کو نہ تو نئی گیند سے کوئی سوئنگ مل پائی اور نہ ہی پچ نے ان کی تائید کی، تب حسن علی کا میڈیم پیس ڈسپلن ڈچ اوپنرز کے ارادوں میں حائل ہو گیا اور پاکستانی بولنگ اپنی بیٹنگ ہی کی طرح کے غیر متوقع ابتدائی دباؤ سے بچ نکلی۔ شومئی قسمت کہ دوسرے کنارے سے انھیں کوئی بھی ہمت ور میسر نہ ہو پایا وگرنہ کیا خبر کہ تاریخ کوئی نیا ورق پلٹ دیتی اور ڈچ کرکٹ ایک اور سنگِ میل عبور کر جاتی مگر بحیثیتِ مجموعی پورے میچ پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اگر ایڈورڈز کو بھی کوئی سعود شکیل میسر ہوتا تو سکور لائن بھلے مختلف نہ ہوتی مگر مارجن میں تفاوت اتنا وسیع نہ ہو پاتا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cm5kepy8e1ko", "summary": "حیدرآباد میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ کے دوسرے میچ میں ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کرنے والی ڈچ ٹیم نے جہاں بہترین بولنگ کا مظاہرہ کیا وہیں اس کے بلے باز پاکستان کے 287 رنز کے ہدف کے تعاقب میں چوک گئے۔ ", "title": "پاکستان کا ورلڈ کپ میں فاتحانہ آغاز: ’جس نے بھی ہمارے بولرز کو غصہ دلوایا، منھ کی کھائی‘", "firstPublished": "2023-10-06T12:41:46.653Z", "id": "cm5kepy8e1ko", "article": "حیدرآباد میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ کے دوسرے میچ میں ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کرنے والی ڈچ ٹیم نے جہاں بہترین بولنگ کا مظاہرہ کیا وہیں اس کے بلے باز پاکستان کے 287 رنز کے ہدف کے تعاقب میں چوک گئے۔ پاکستان کی جانب سے چھ بولرز نے بولنگ کی اور سب ہی کم از کم ایک، ایک وکٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ تاہم حارث رؤف نے میچ کے 27ویں اوور میں دو اہم وکٹیں حاصل کر کے نیدرلینڈز کی اس ٹوٹل کا تعاقب کرنے کی امید توڑ دی۔ نیدرلینڈز کی جانب سے باس ڈی لیڈ نے اچھی بولنگ کے ساتھ ساتھ بہترین بیٹنگ کا بھی مظاہرہ کیا اور ایک موقع پر ڈچ ٹیم کو مضبوط پوزیشن پر پہنچایا تاہم کوئی وکرم جیت سنگھ کے علاوہ کوئی بھی بلے باز ان کے ساتھ نہ کھڑا ہو سکا۔ باس ڈی لیڈ نے 67 جبکہ وکرم جیت سنگھ نے 52 رنز بنائے اور نیدرلینڈز کی پوری ٹیم 205 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔ اس بھاری فتح کے باعث پاکستان کو نیٹ رن ریٹ (1.620) بھی خاصا بہتر ہو گیا ہے جو اس ورلڈ کپ کے اختتامی مرحلے میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ نیدرلینڈز کی جانب سے آج پاکستان بیٹنگ اننگز کے ہر فیز میں عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا گیا اور رضوان اور سعود شکیل کی 120 رنز کی شراکت کے علاوہ پورے اننگز میں ڈچ ٹیم کا پلڑہ ہی بھاری رہا۔ ایشیا کپ سے پہلے تک پاکستان کا ٹاپ آرڈر بہترین فارم میں تھا جبکہ مڈل آرڈر پر سوالیہ نشان تھے تاہم اب پاکستان کے دونوں اوپنر گذشتہ کئی میچوں سے بھاری رنز بنانے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم آج بابر اعظم بھی صرف پانچ ہی رنز بنا سکے اور ڈچ سپنر ایکرمین کا شکار بنے۔ نیدرلینڈز کے سپنرز نے جہاں آج بہترین بولنگ کا مظاہرہ کیا وہیں فاسٹ بولر باس ڈی لیڈ نے اہم موقع پر چار وکٹیں حاصل کر کے میچ کا پانسہ پلٹ دیا۔ تاہم جہاں نیدرلینڈز کی بولنگ کی تعریف بنتی ہے وہیں پاکستان بلے بازوں کی جانب سے کھیلی گئی غیر ذمہ دارانہ شاٹ سیلیکشن کا ذکر بھی ضروری ہے جس کے باعث نیدرلینڈز کو میچ کے ہر مرحلے میں وکٹیں ملتی رہیں۔ پاکستان کی بولنگ کی جانب سے آج آلراؤنڈ پرفارمنس دکھائی گئی جس کے بارے میں کرکٹ کے اعداد و شمار کے ماہر مظہر ارشد نے لکھا کہ پاکستان کبھی بھی ورلڈ کپ میچوں میں پہلے 275 سے زیادہ ٹوٹل کر کے نہیں ہارا اور آج بھی ایسا ہ ہوا۔ حارث رؤف کی جانب سے آج جارحانہ بولنگ کا مظاہرہ کیا گیا، اور میچ کے اختتام پر انھوں نے ڈچ فاسٹ بولر وان میکیرن کو بولڈ کیا اور اس سے پہلے ان سے تلخ جملوں کو تبادلہ بھی کیا۔ اس پر ایک صارف نے لکھا کہ ’جس نے بھی ہمارے کھلاڑیوں کو غصہ دلایا اس نے منھ کی کھائی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1edvvpqp48o", "summary": "پاکستان ٹیم آج جب اپنا میچ نیدر لینڈز کے خلاف کھیلنے کے لیے میدان میں اُترے گی تو شاید پاکستانی شائقین وہاں موجود نہ ہوں کیونکہ انڈین حکومت نے اب تک ویزوں کا اجرا نہیں کیا ہے۔ بی بی سی نے اس میچ سے قبل حیدر آباد کا دورہ کیا ہے اور یہاں موجود کرکٹ شائقین سے اس میچ کے متعلق بات کی ہے۔", "title": "پاکستان بمقابلہ نیدر لینڈز: ’پاکستانی ٹیم کی انڈیا آمد پر جس طرح استقبال ہوا، سٹیڈیم میں اُسی طرح سپورٹ ملے گی‘", "firstPublished": "2023-10-06T03:34:51.498Z", "id": "c1edvvpqp48o", "article": "آج (6 اکتوبر) دن ڈیڑھ بجے جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم بابر اعظم کی کپتانی میں انڈیا کے شہر حیدر آباد کے راجیو گاندھی سٹیڈیم میں کرکٹ ورلڈ کا پہلا میچ کھیلنے کے لیے اُترے گی تو شاید وہاں زیادہ تعداد میں پاکستانی شائقین موجود نہ ہوں کیونکہ انڈین حکومت نے اب تک پاکستانی شائقین کرکٹ کو ویزوں کا اجرا نہیں کیا ہے۔ شاید خود بابر اعظم کو بھی اس کا احساس ہے اور انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی ڈیجیٹل سائٹ پر بات کرتے ہوئے پاکستانی شائقین کو انڈیا کا ویزا نہ ملنے کے بارے میں بھی بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بہتر ہوتا کہ پاکستانی شائقین کو بھی انڈیا کا ویزا ملتا۔ شائقین نے ورلڈ کپ کے لیے بہت سی تیاریاں کر رکھی ہیں۔‘ ویزا نہ ملنے کے سبب یہاں پاکستانی فین کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ کل ورلڈ کپ کے افتتاہی میچ میں احمدآباد سٹیڈیم بیشتر خالی تھا۔ پاکستان کے میچ سے قبل حیدرآباد میں ویسے تو کافی جوش و خروش ہے مگر سٹیڈیم میں کتنے شائقین میچ دیکھنے آئیں گے یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم حیدرآباد کے راجیو گاندھی انٹرنیشنل سٹیدیم میں نیدر لینڈز کے خلاف آئی سی سی کے عالمی کپ کا پہلا میچ آج کھیلے گی جس کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ ایسے میں جہاں پاکستانی شائقین پر انڈیا کا ویزا نہ ملنے کی وجہ سے کسی حد تک مایوسی کا غلبہ ہے، وہیں دوسری جانب اس وقت حیدرآباد میں کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں پاکستانی ٹیم کی آمد پر جس طرح ان کا استقبال کیا گیا، سٹیڈیم میں اسی طرح کی سپورٹ انھیں ملے گی۔‘ ایک اور نوجوان وجاہت علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں پاکستانی ٹیم بہت مضبوط بن کر آئی ہے۔ شاہین آفریدی، حارث رؤف بہترین بولرز ہیں۔ بابر اعظم، رضوان، افتخار یہ سبھی ورلڈ کلاس کے بلے باز ہیں۔ نیدر لینڈز بھی اچھی ٹیم ہے۔ یہ میچ دلچسپ ہو گا۔‘ پاکستان کی ٹیم اس میچ سے قبل دو وارم اپ میچ کھیل چکی ہے اور اب تک متعدد ٹریننگ سیشن بھی کر چکی ہے۔ دوسری جانب نیدر لینڈز کی ٹیم نے بھی خود کو انڈیا کے موسم اور حالات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے خوب ٹریننگ کی ہے۔ آئی سی سی کے مطابق جب یہ دونوں ٹیمں جمعہ کو مد مقابل ہوں گی تو یہ تقریباً گذشتہ 11 برس میں پہلا موقع ہو گا جب یہ انڈیا کی سرزمین پر 50 اوورز کا ون ڈے میچ کھیل رہی ہوں گی۔ دونوں ہی ٹیموں نے 1987 سے حیدرآباد میں 50 اوورز کا ون ڈے انٹرنیشنل گیم نہیں کھیلا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cldx5z63dq5o", "summary": "لیفٹ آرم آف سپن آلراؤنڈر راچن رویندرا کے والد کا تعلق انڈیا سے ہے لیکن رویندرا خود 18 نومبر 1999 کو ویلنگٹن میں پیدا ہوئے تھے۔", "title": "راچن رویندرا: دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کی بولنگ کو پچھاڑنے والے انڈین نژاد کیوی آلراؤنڈر کون ہیں؟", "firstPublished": "2023-10-06T04:36:48.664Z", "id": "cldx5z63dq5o", "article": "تاہم ایک بہترین بولنگ اور فیلڈنگ پرفارمنس کے ذریعے انگلینڈ کی مضبوط بیٹنگ کو سنبھلنے کا موقع نہ دینے کے باوجود جس کھلاڑی نے تمام نظریں اپنی جانب متوجہ کروا لیں وہ 23 سالہ آل راؤنڈر راچن رویندرا تھے۔ اس ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل رویندر کی بولنگ کے بارے میں بات ضرور ہو رہی تھی لیکن یہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ نمبر تین پر آ کر انتہائی جارحانہ بلے بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگلینڈ کی بولنگ مکمل طور پر پچھاڑ دیں گے۔ لیفٹ آرم آف سپن آلراؤنڈر راچن رویندرا کے والد کا تعلق انڈیا سے ہے لیکن رویندرا خود 18 نومبر 1999 کو ویلنگٹن میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام روی کرشنامورتی ہے جو بنگلور میں سافٹ ویئر پروفیشنل تھے اور سنہ 1990 کی دہائی میں نیوزی لینڈ منتقل ہو گئے تھے۔ وہ خود کرکٹ کے اتنے شوقین تھے کہ جب رویندرا کی پیدائش ہوئی تو انھوں نے انھیں ’راچن‘ کا نام بھی دیا۔ یہ راہول ڈریوڈ کے نام کے حروف ’را‘ اور سچن ٹنڈولکر کے ’چن‘ کو ملا کر بنایا گیا یہ نام ان کی کرکٹ سے محبت کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک انٹرویو میں راچن رویندرا نے بتایا تھا کہ ’میرے والدین کو راہل اور سچن بہت پسند تھے۔۔۔ یہ دو عمدہ کھلاڑی تھے اور میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ان کے نام ملے۔‘ رویندرا کے والد کرشنامورتی، جو کہ آئی سی سی امپائر بھی ہیں، سابق فاسٹ بولر جواہر لال سری ناتھ کے ساتھ کرکٹ کھیلتے تھے اور انھیں پیار سے ’سری ماما‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ نیوزی لینڈ کے کپتان ٹام لیتھم نے بھی اچھی کپتانی کا مظاہر کرتے ہوئے گلین فلپس کو خوب استعمال کیا اور انھوں نے نیوزی لینڈ کو دو وکٹیں بھی دلوائیں۔ جواب میں نیوزی لینڈ نے مقررہ ہدف صرف 37ویں اوور میں صرف ایک وکٹ کے نقصان پر عبور کر لیا اور یوں ورلڈ کپ کا فاتحانہ آغاز کر دیا۔ میٹ رولر نے لکھا کہ راچن رویندرا نے 2019 کا ورلڈ کپ فائنل بنگلور کے ایک بار میں 19 سال کی عمر میں دیکھا اور اب چار سال بعد انھوں نے 2023 کے ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں 82 گیندوں پر سنچری بنا ڈالی۔ مگر بعض صارفین نے یہ اظہار کیا کہ راچن رویندرا کو یہ اعتماد پاکستان کے خلاف وارم اپ میچ سے ملا۔ اسامہ نامی پاکستانی صارف نے کہا کہ ’ہم نے اس کھیل کو ایک اور سپر سٹار دیا ہے۔‘ خیال رہے کہ ورلڈ کپ کے اس وارم اپ میچ میں راچن رویندرا نے پاکستانی بولرز بشمول حارث رؤف کے خلاف 72 گیندوں پر 92 رنز کی اننگز کھیلی تھی جس میں 16 چوکے اور ایک چھکا شامل تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ راچن رویندرا نے نیوزی لینڈ کی اے ٹیم میں کھیلتے ہوئے اپنے لسٹ اے اور فرسٹ کلاس ڈیبیو پاکستان کے خلاف کیے تھے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pjzp3qw2no", "summary": "انڈیا میں پانچ اکتوبر(آج ) سے کرکٹ ورلڈ کپ میچز کا باقاعدہ آغاز ہو نے جا رہا ہے لیکن کیا پاکستانیوں کو کرکٹ ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے انڈیا کا ویزہ ملے گا یا نہیں؟\nاس سوال کا جواب ہر وہ پاکستانی جاننا چاہتا ہے جو کرکٹ میچ انڈیا جا کر دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے لیکن ابھی تک اس سوال کا جواب نہ تو انڈیا سرکارنے دیا نہ ہی آئی سی سی نےگ ", "title": "پاکستانی شائقین کو ویزوں کے اجرا پر انڈین حکام کی ’خاموشی‘ جو پاکستانیوں کو مایوس کر رہی ہے", "firstPublished": "2023-10-05T06:05:50.860Z", "id": "c6pjzp3qw2no", "article": "’ویسے تو معلوم نہیں کب ہی انڈیا دیکھنے کا موقع ملے گا اور اگر انڈیا میں کرکٹ دیکھنے کو ملے تو کیا ہی بات ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک پاکستانیوں کے لیے انڈیا کا ویزہ ہی نہیں کھولا گیا ہے۔‘ کیا پاکستانیوں کو کرکٹ ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے انڈیا کا ویزہ ملے گا یا نہیں؟ اس سوال کا جواب ہر وہ پاکستانی جاننا چاہتا ہے جو کرکٹ میچ انڈیا جا کر دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے۔ لیکن ابھی تک اس سوال کا جواب نہ تو انڈیا کی سرکار کی جانب سے آیا ہے اور نہ ہی آئی سی سی اس پر کوئی تسلی بخش جواب دے سکی ہے۔ تاہم چند روز قبل انڈین کرکٹ بورڈ ’بی سی سی آئ‘ی کی جانب سے سامنے آنے والے ایک بیان میں یہ ضرور کہا گیا تھا کہ ’پاکستانی صحافیوں اور شائقین کو کتنے ویزے جاری کیے جائیں گے، اس ضمن میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے تاہم وزارتِ خارجہ اور آئی سی سی کے ساتھ مل کر ویزوں کی تعداد پر کام کیا جا رہا ہے۔‘‘ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے اس معاملے پر آئی سی سی کو ای میل بھی کی گئی ہے کہ جس میں انھوں نے ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والے ملک کے حوالے سے ضابطہ اخلاق (کوڈ آف کنڈکٹ) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی صحافیوں اور شائقین کو ابھی تک ویزہ نہ دینا ’اصولوں کی خلاف ورزی‘ ہے۔ دوسری جانب پاکستانی میڈیا کے ایک نجی چینل سے تعلق رکھنے والی ماریہ راجپوت نے اسی مسئلے کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’ماضی قریب میں مجھے یاد ہے کہ آسٹریلیا کا ہمارا ویزہ تین دن میں آ گیا تھا جبکہ انڈیا کے ویزے کے لیے آئی سی سی کی جانب سے تصدیق شدہ صحافیوں کو بھی انڈیا نے ابھی تک ویزے جاری نہیں کیے ہیں۔‘ پاکستان کرکٹ بورڈ اور دفتر خارجہ کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے دعویٰ کیا کہ متعلقہ حکام کی جانب سے اس معاملے پر زور نہیں لگایا جا رہا ہے۔ ’ہم صحافیوں نے دفتر خارجہ کو بھی آئی سی سی سے منظور شدہ صحافیوں کی لسٹ دی تھی تاکہ اس معاملے کو حکومتی سطح پر اٹھایا جا سکے لیکن اس بات کو چار سے پانچ دن گزر چکے ہیں اور وہاں سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔‘ اس معاملے پر پی سی بی کے ترجمان نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پی سی بی جانب سے یہ معاملہ ایک سے زائد مرتبہ آئی سی سی کے ساتھ اٹھایا گیا ہے اور ہم نے انھیں دو سے تین مرتبہ ای میلز بھی کی ہیں۔ تاہم ہمیں اب یہ بتایا گیا ہے کہ ایک سے دو روز میں یہ مسئلہ حل ہو جائے گا جس کے بعد صحافیوں کے لیے انڈیا کے ویزے کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cg3051y25vjo", "summary": "’ہماری کرسیاں صاف ہو جائیں گی۔ کم از کم ہم کرکٹ گراؤنڈز میں تماشائیوں کے بیٹھنے کے لیے شادی والی کرسیاں استعمال نہیں کرتے جنھیں پاکستان کے تین، چار بڑے سٹیڈیمز میں استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔‘", "title": "انڈین کرکٹ سٹیڈیم میں پرندوں کے فضلے سے بھری سیٹیں: ’کم از کم ہم گراؤنڈز میں شادی والی کرسیاں استعمال نہیں کرتے‘", "firstPublished": "2023-10-04T10:03:01.297Z", "id": "cg3051y25vjo", "article": "’ہماری کرسیاں صاف ہو جائیں گی۔ کم از کم ہم کرکٹ گراؤنڈز میں تماشائیوں کے بیٹھنے کے لیے شادی والی کرسیاں استعمال نہیں کرتے جنھیں پاکستان کے تین، چار بڑے سٹیڈیمز میں استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔‘ یہ طنزیہ ٹویٹ ایک انڈین صارف نے پاکستان میں کرکٹ شائقین کی جانب سے کی جانے والی اس مسلسل تنقید کے جواب میں کی جو انڈین شہر حیدر آباد کے راجیو گاندھی انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم میں گندی سیٹوں کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں۔ دورانِ میچ کرکٹ تجزیہ کار اور کمنٹیٹر ونکاتیش کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ’ایکس‘ پر سٹیڈیم میں تماشائیوں کے لیے نصب سیٹوں کی چند تصاویر پوسٹ کی گئیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ سیٹیں کافی خستہ حال ہیں اور میچ سے قبل ان کی صفائی ستھرائی نہیں کی گئی جبکہ ان پر جا بجا پرندوں کا فضلہ بھی پڑا ہے۔ یہ تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے ونکاتیش نے لکھا کہ ’اُپل سٹیڈیم میں زیادہ کچھ نہیں بدلا۔ کچھ ظاہری چمک دمک کے علاوہ تماشائیوں کے آرام کا مکمل خیال نہیں رکھا گیا۔‘ ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا انڈین کرکٹ بورڈ نے ورلڈ کپ سے قبل کرکٹ سٹیڈیمز کی کروڑوں روپے کی لاگت سے تزین و آرائش کا اعلان کیا تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ چند صارفین اس بات پر یقین نہیں کر پا رہے تھے کہ سیٹیں اتنی گندی ہو سکتی ہیں۔ ایسے ہی صارفین کو جواب دینے کے لیے ونکاتیش نے ایک اور تصویر پوسٹ کی جس میں ان سیٹوں کے سامنے وہ پاکستان اور آسٹریلیا کے تین اکتوبر کو ہونے والے وارم اپ میچ کا ٹکٹ تھامے کھڑے ہیں۔ انڈین خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان دہلی سٹیڈیم میں رواں برس ہونے والی ٹیسٹ سیریز کے دوران بھی شائقین نے سٹیڈیم میں دستیاب سہولیات اور سیٹوں کے حوالے سے تنقید کرتے ہوئے بی سی سی آئی سے صورتحال کو بہتر بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ورلڈ کپ 2023 کے آغاز سے چند ماہ قبل بی سی سی آئی نے ملک میں واقع چند بڑے سٹیڈیمز، جن میں ایونٹ کے بڑے مقابلے ہونا ہیں، کی تزین و آرائش اور وہاں شائقین کے لیے دستیاب سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے 500 کروڑ روپے مختص کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بی سی سی آئی نے دلی سٹیڈیم کی تزین و آرائش پر 100 کروڑ، حیدرآباد سٹیڈیم پر 117 کروڑ، کولکتہ کرکٹ سٹیڈیم پر 127 کروڑ، موہالی سٹیڈیم پر 79 کروڑ اور اسی طرح دیگر سٹیڈیمز پر رقم مختص کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51vrxx7my6o", "summary": "جیت بھی ایک عادت سی ہوتی ہے۔ جب کسی ٹیم کو یہ عادت پڑ جائے تو پھر وہ ہار گوارا ہی نہیں کرتی بھلے کچھ بھی داؤ پہ نہ لگا ہو۔ کیونکہ بہرحال عادتیں بنانے اور بگاڑنے میں بہت وقت لگتا ہے۔", "title": "سمیع چوہدری کا کالم: ’روٹھی عادت کو منانا ناممکن بھی نہیں‘", "firstPublished": "2023-10-04T01:16:17.255Z", "id": "c51vrxx7my6o", "article": "جیت بھی ایک عادت سی ہوتی ہے۔ جب کسی ٹیم کو یہ عادت پڑ جائے تو پھر وہ ہار گوارا ہی نہیں کرتی بھلے کچھ بھی داؤ پہ نہ لگا ہو۔ کیونکہ بہرحال عادتیں بنانے اور بگاڑنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ مگر یہ سب سہل پسندی اپنا کر بھی پیٹ کمنز فتح یاب ٹھہرے اور پہلے وارم اپ میچ کی طرح یہاں بھی پاکستان فتح سے روشناس نہ ہو پایا۔ سو، ایشیا کپ کے سپر فور مرحلے سے جو جیت کی عادت پاکستان سے چھوٹی تھی، وہ قریب چار ہفتے بعد بھی پلٹ کے نہیں دی۔ پاکستان کی کرکٹ تاریخ میں یہ غالباً پہلی نادر نظیر ہے کہ بلے بازی ایک تگڑا پہلو بن چکا ہے اور بولنگ کمزوری کو مائل ہے وگرنہ ہمیشہ یہ معاملہ الٹ رہا ہے کہ پاکستانی بولنگ ہی اس کرکٹ کلچر کی قوت رہی ہے جبکہ بیٹنگ عموماً ڈگمگاتی پگڈنڈیوں پہ چلتی نظر آئی ہے۔ اس ورلڈ کپ کا فارمیٹ ایسا ہے کہ ہر ٹیم کو ہر ٹیم سے کھیلنا ہے اور اس منظر نامے میں پاکستان کا سپن اٹیک بیشتر ٹیموں سے بہتر دکھائی نہیں دیتا۔ تھنک ٹینک کے لیے دو ریگولر سپنرز کا انتخاب بہرحال ایک معمہ ہو گا کہ محمد نواز کی لیفٹ آرم سپن اور تجربے پہ اسامہ میر کو کیسے فوقیت دی جائے، کیونکہ شاداب خان تو فارم سے قطع نظر الیون کا حصہ ہوں گے ہی۔ ماڈرن ون ڈے گیم میں لیفٹ آرم سپن کسی بھی الیون کے لیے ایک اہم مہرہ ہوا کرتی ہے۔ محمد نواز کا اضافی فائدہ یہ بھی ہے کہ وہ بولنگ میں تجربہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ بلے بازی میں بھی کئی بار ترپ کا پتہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ سو، تھنک ٹینک کے لیے بڑا عقدہ یہی ہو گا کہ وہ تین آپشنز میں سے دو ریگولر سپنرز کا انتخاب کس بنیاد پہ کریں۔ اگرچہ افتخار احمد اور سلمان آغا کی شکل میں پاکستان کو سپن کے جزو وقتی وسائل بھی دستیاب ہیں مگر ورلڈ کپ جیسے اہم ایونٹ میں جب جیت ہاتھوں سے سرکنے لگے گی تو وہاں ضرورت کل وقتی ماہر کی ہی ہو گی نہ کہ پارٹ ٹائم آپشن قابلِ ترجیح ٹھہرے گا۔ بہت دن نہیں گزرے کہ پاکستان فارمیٹ کی نمبر ون ٹیم ہوا کرتا تھا مگر ورلڈ کپ سے عین پہلے نہ صرف وہ رینکنگ چھن گئی بلکہ پاکستانی اوپنرز کی تکنیکی کجیاں بھی عیاں ہونے لگی ہیں۔ ایسے میں حل یہی بچتا ہے کہ توقعات کا بوجھ کاندھے سے اتار پھینکا جائے اور بھلے ناقابلِ اعتبار کہلائیں، نیچرل گیم کے ہمراہ آگے بڑھا جائے۔ بالآخر پاکستان کرکٹ کی رِیت یہی رہی ہے کہ جب کسی گنتی میں نہ رہیں، تبھی یہ ابھر کر سامنے آیا کرتے ہیں اور دنیا کے لیے حیرت کا سامان بن جاتے ہیں۔ اگر توقعات کا بوجھ ہمراہ نہ ہوا اور الیون کا چناؤ دانشمندانہ ہوا تو جیت کی روٹھی عادت کو منانا ناممکن بھی نہیں ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c88myre9055o", "summary": "ورلڈ کپ کے دوسرے وارم اپ میچ میں آسٹریلیا نے پاکستان کو 14 رنز سے شکست دے دی ہے۔ آسٹریلیا نے پہلے کھیلتے ہوئے 351 رنز بنائے اور جواب میں پاکستان کی پوری ٹیم 337 رنز بنا کر اڑتالیسویں اوور آؤٹ ہو گئی۔", "title": "ورلڈ کپ وارم اپ میچ میں آسٹریلیا کی پاکستان کو شکست: ’بابر اعظم اب ’ریڈ ہاٹ فارم‘ میں لگتے ہیں‘", "firstPublished": "2023-10-03T18:28:44.902Z", "id": "c88myre9055o", "article": "ورلڈ کپ کے دوسرے وارم اپ میچ میں آسٹریلیا نے پاکستان کو 14 رنز سے شکست دے دی ہے۔ آسٹریلیا نے پہلے کھیلتے ہوئے 351 رنز بنائے اور جواب میں پاکستان کی پوری ٹیم 337 رنز بنا کر اڑتالیسویں اوور آؤٹ ہو گئی۔ انڈین شہر حیدرآباد میں کھیلے جانے والے اس وارم اپ میچ میں آسٹریلیا نے پاکستان کے خلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور مقررہ 50 اوورز میں سات وکٹوں کے نقصان پر 351 رنز بنائے۔ گلین میکسویل 77 رنز بنا کر نمایاں سکورر رہے جبکہ کیمرون گرین 50 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔ ڈیوڈ وارنر اور جوش انگلس نے 48 ،48 رنزکی اننگز کھیلی جبکہ مارنس لبوشان نے 40، مچل مارش نے 31 اور سٹیو سمتھ نے 27 رنز بنائے۔ آسٹریلیا کے مارنس لبوشان نے تین پاکستانی کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ پیٹ کمنز نے چھ اوور میں 34 رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کیں۔ گلین میکسویل اور شان ایبٹ نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔ مچل مارش کو بھی دو کامیابیاں ملیں۔ سٹیو سمتھ اور ڈیوڈ وارنر کوئی وکٹ حاصل نہیں کر سکے۔ آج پاکستانی ٹیم کی قیادت بابر اعظم کے بجائے شاداب خان کر رہے تھے۔ پاکستان کا آسٹریلیا کے 352 رنز کے تعاقب میں آغاز اتنا اچھا نہیں رہا۔ فخر زمان 22 جبکہ امام الحق صرف 16 رنز ہی بنا سکے۔ عبداللہ شفیق نے 12 رنز بنائے۔ پاکستان کی طرف سے بابر اعظم نے سب سے زیادہ 90 رنز بنائے۔ افتخار احمد 83 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ اسامہ میر نے آج کے میچ پانچ اوورز میں 31 رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کیں۔ محمد نواز، شاداب خان، حارث رؤف اور محمد وسیم کے حصے میں ایک ایک وکٹ آئی۔ شاہین شاہ آفریدی نے چھ اوورز میں 25 رنز دیے مگر انھیں آج کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ سوشل میڈیا پر صارف اسامہ نے بابر اعظم کی اننگز کی تعریف کرتے ہوئے ان کی تصویر کے نیچے لکھا کہ ایلن مسک کو اب لائیک کا بٹن تبدیل کر دینا چاہیے۔ حمزہ نامی صارف نے تو کمنٹری سے بابر اعظم کے لیے وہ لائن ہی ٹویٹ کر دی جس کے مطابق ’ہمیں بابراعظم کو دنیا بھر میں حاصل ہونے والی پذیرائی پر داد دینی ہو گی۔ پاکستان کے باہر بہت سے لوگ صرف بابر اعظم کو دیکھنے کے لیے اپنے ٹی وی سیٹ آن کرتے ہیں۔‘ سوشل میڈیا پر سابق آسٹریلین کھلاڑی اور کمنٹیٹر میتھیو ہیڈن کی کمنٹری کا چرچا ہے۔ انھوں نے رمیز راجہ کے ساتھ کمنٹری کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں کے نظم و ضبط کی تعریف کی اور یہ بھی رائے دی کہ پاکستان کی ٹیم کا جذبہ اسلام ہے اور یہی وہ چیز ہے جو انھیں ڈسپلن اور باہمی عزت و احترام سکھاتی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c518v99474go", "summary": "انڈیا کے ٹیکس محکمے نے انڈین کرکٹ ٹیم کی سپانسر کمپنی ڈریم 11 کو تقریباً 17 ہزار کروڑ روپے کے ٹیکس کا نوٹس دیا ہے۔ٹیکس حکام کے مطابق ڈریم الیون کی کپمنیاں گیمبلنگ سروسز چلا رہی تھیں اس لیے ان کمپنیوں کو مجموعی آمدنی پر 28 فی صد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ ", "title": "’ڈریم 11‘ کو 17 ہزار کروڑ روپے ٹیکس کا نوٹس: انڈین کرکٹ ٹیم کی سپانسر کمپنیاں ڈوب کیوں جاتی ہیں؟", "firstPublished": "2023-10-03T06:03:57.704Z", "id": "c518v99474go", "article": "انڈیا کے ٹیکس محکمے نے انڈین کرکٹ ٹیم کی سپانسر کمپنی ’ڈریم 11‘ کو تقریباً 17 ہزار کروڑ روپے ٹیکس ادائیگی کا نوٹس دیا ہے۔ ٹیکس کا نوٹس موصول ہونے کی خبر سامنے آنے کے بعد ’ڈریم 11‘ کے حصص کی قیمتوں میں گراوٹ آئی تھی۔ یاد رہے کہ انڈین حکومت نے آن لائن گیمبلنگ اور کسینو وغیرہ پر 28 فیصد ٹیکس نافذ کر رکھا ہے۔ ٹیکس حکام کا کہنا ہے کہ ’ڈریم 11‘ کی ذیلی کپمنیاں گیمبلنگ (جُوا) سروسز چلا رہی تھیں اس لیے ان کمپنیوں کو اپنی مجموعی آمدن پر 28 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ ’ڈریم 11‘ کو ٹیکس کے نوٹس کے بعد سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے تبصرے کرتے ہوئے لکھا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب انڈین کرکٹ ٹیم کو سپانسر کرنے والی کمپنی مشکل میں پڑی ہے۔ گذشتہ 15 برس میں کئی بڑی کمپنیاں انڈین کرکٹ ٹیم کو سپانسر کرنے کے بعد بُرے دور سے گزری ہيں۔ ایک طویل عرصے تک کرکٹ ٹیم کو سپانسر کرنے والی ’سہارا انڈیا‘ کمپنی اب دیوالیہ ہو چکی ہے اور اس کے مالک کو کمپنی کے صحیح اعداد وشمار چھپانے اور صارفین کو دھوکہ دینے کے الزام میں جیل بھی ہوئی تھی۔ اسی طرح ’سٹار سپورٹس‘ چینل نے بھی بہت لمبے عرصے تک انڈین کرکٹ ٹیم کو سپانسر کیا تھا۔ اس نے اس وقت کرکٹ کی تاریخ میں سب سے زیادہ بولی لگا کر کرکٹ میچوں کی نشریات کے سب سے بڑے حقوق حاصل کیے تھے۔ چین کی موبائل کمپنی ’اوپو‘ نے بھی کچھ عرصے تک انڈین کرکٹ ٹیم کو سپانسر کیا لیکن چین سے انڈیا کے تعلقات خراب ہونے کے بعد انڈیا میں چین کی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع ہوا جس کے نتیجے میں یہ کمپنی بھی اب زبوں حالی کا شکار ہے۔ اور اب کرکٹ ٹیم کی نئی سپانسر کمپنی ڈریم الیون کو ہزاروں کروڑ روپے کے ٹیکس کا نوٹس آ گیا ہے جس کے بعد اس کے حصص بھی زوال پذیر ہیں۔ ’تصور یہ ہے کہ کسی بھی کرکٹر سے وابستہ ہونے کے بعد اس کمپنی کو فوراً لائم لائٹ مل جاتی ہے اور اس سے بازار سے پیسہ جمع کرنا بھی آسان ہو جاتا ہے لیکن ایک مرحلے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ جو پیسہ کرکٹر اور کرکٹ پر خرچ کیا گیا ہے وہ زیادہ تھا اور مارکیٹ ویلیو کے برعکس تھا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر کمپنی مالی طور پر مضبوط نہیں ہے تو ان کے ڈوبنے کا خطرہ رہتا ہے۔ سیم سنگ، ایل جی اور پی ٹی ایم جیسی بڑی کمپنیاں اس معاملے میں کامیاب رہیں۔ آدھی کمپنیاں اس لیے نہیں ڈوبتیں کہ کرکٹ کو برانڈ ایمبسڈر بنانے میں کوئی نقصان ہے بلکہ وہ اس لیے ڈوب جاتی ہیں کہ ان کے پاس اتنے پیسے ہوتے نہیں ہیں اور وہ رسک لے لیتی ہیں۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c99ql9w4j4xo", "summary": " رمیش کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو ’سکندری ران‘ سب سے زیادہ پسند آئی ہے۔ ’یہ ایک خاص ڈش ہے جس میں چھوٹے دنبے کی پوری ٹانگ کھانے کے لیے پیش کی جاتی ہے۔‘", "title": "سکندری ران، پتھر گوشت اور حلیم کے ساتھ پاکستانی ٹیم کی حیدرآباد کے نظام خاندان میں بھی دلچسپی", "firstPublished": "2023-10-02T03:02:17.588Z", "id": "c99ql9w4j4xo", "article": "ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے انڈیا آنے والی پاکستانی ٹیم نے سنیچر کو حیدر آباد میں سیر و تفریح کی اور ایک ریسٹورنٹ میں کھانے کا لطف اٹھایا۔ ٹیم نے اتوار کو تین گھنٹے تک پریکٹس بھی کی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں ٹیم ایک ریسٹورنٹ میں کھانے سے لطف اندوز ہوتی نظر آ رہی ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم سنیچر کو رات کے کھانے کے لیے اپنے ہوٹل سے چالیس کلومیٹر دور گولکنڈہ ریزورٹ میں واقع ’جیول آف نظام‘ ریستوران پہنچی۔ ٹیم کے ڈنر کے دوران موجود ریزورٹ کے منیجر رمیش کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو ’سکندری ران‘ سب سے زیادہ پسند آئی ہے۔ ’یہ ایک خاص ڈش ہے جس میں چھوٹے دنبے کی پوری ٹانگ کھانے کے لیے پیش کی جاتی ہے۔‘ رمیش کے مطابق پاکستانی کرکٹرز نے ’پتھر گوشت‘ کی بہت تعریف کی۔ یہ ایک خاص ڈش ہے جسے پتھر پر پکایا جاتا ہے۔ رمیش کمار نے بتایا کہ پاکستانی کھلاڑی حلیم کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں اور بابر اعظم، رضوان اور شاہین سمیت بیشتر کھلاڑیوں نے حلیم دو بار منگوایا۔ پاکستانی ٹیم کو سفید پیاز سے تیار کی جانے والی سویٹ ڈش ’انوکھی کھیر‘ پیش کی گئی۔ رمیش کے مطابق کھلاڑیوں نے بھی اسے بہت پسند کیا۔ رمیش کے مطابق ڈنر کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں نے عملے سے بات چیت بھی کی جبکہ کئی کھلاڑیوں نے حیدرآباد کے نظام خاندان کے بارے میں جاننے میں دلچسپی ظاہر کی۔ جب ٹیم کھانے کے بعد واپس آ رہی تھی تو ریزورٹ میں ٹھہرے کچھ مہمانوں نے کھلاڑیوں سے آٹو گراف بھی لیے۔ پاکستان ٹیم کی میزبانی کرنے والے رمیش کمار اور ان کے ساتھی بھی اس سے مختلف نہیں ہیں۔ پاکستانی کھلاڑیوں کی مہمان نوازی کرنے والے رمیش کمار اور ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ ٹیم انڈیا کو میدان میں مہمانوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرنی چاہیے۔ پاکستانی ٹیم جب بھی انڈیا آتی ہے تو ٹیم سے جڑی ہر چیز بحث میں رہتی ہے اور اس کے میچز کے بارے میں تجسّس بھی بڑھ جاتا ہے۔ کیا پاکستانی کرکٹرز نے ڈنر کے دوران انڈیا کے ساتھ میچ کے بارے میں کچھ بات کی؟ رمیش کہتے ہیں کہ کرکٹ کی بات کم اور کھانے کی بات زیادہ ہوئی۔ رمیش شاہین آفریدی اور بابر اعظم کے مداح ہیں اور دونوں کھلاڑیوں نے ایک ساتھ تصویر کلک کرنے پر انھیں مایوس نہیں کیا۔ خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے انڈیا آنے والی کسی بھی ٹیم کے مینو میں گائے کا گوشت نہیں ہو گا۔ ریسٹورنٹ میں ڈنر سے قبل پاکستان ٹیم کی جانب سے کسی خاص کھانے کی فرمائش نہیں کی گئی تھی۔ یاد رہے کہ حیدرآباد کا کھانا بہت مسالہ دار ہوتا ہے لیکن پاکستان ٹیم کے لیے مسالے کو تھوڑا ہلکا رکھا گیا تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c109nz9qln5o", "summary": "ایک طویل عرصے سے اہم ٹورنامنٹ جیتنے میں ناکامی انڈین شائقین کے لیے مایوسی کہ وجہ ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ 2013 سے انڈیا ہر ٹورنامنٹ کے آغاز میں فیورٹ ہوتی لیکن فائنل یا اس سے قبل ہی ناکام ہو جاتی ہے۔ ", "title": "ورلڈکپ 2023: ٹیلنٹ سے بھرپور انڈین کرکٹ ٹیم کے ساتھ ’چوکر‘ کا لفظ کیوں جڑ گیا؟", "firstPublished": "2023-10-01T04:56:38.458Z", "id": "c109nz9qln5o", "article": "یہ طنزیہ نام کرکٹ کی دنیا میں عام طور پر جنوبی افریقہ کی ٹیم کے لیے استعمال ہوتا رہا جو 1995 سے 2015 تک ہر اہم ٹرافی کے آخری لمحات میں ناکام ہو جاتے تھے۔ تاہم 2013 میں چیمپیئنز ٹرافی جیتنے کے بعد سے یہ نام انڈیا کے ساتھ جڑ گیا جس کی وجہ اہم آئی سی سی ٹورنامنٹس میں برے طریقے سے ناکامی تھی۔ 2013 سے دو ہی سال قبل انڈیا نے کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا اور اس سے چار سال قبل ایم ایس دھونی کی بطور کپتان پہلی مہم میں انڈیا نے بنا کسی بڑے سٹار کے پہلا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بھی جیتا تھا۔ فتوحات کی ہیٹ ٹرک نے ایک جانب ایم ایس دھونی کو ایک عظیم رتبہ دیا تو وہیں انڈیا میں کرکٹ کے ٹیلنٹ اور وسعت کو بھی پہچان ملی۔ انڈیا کرکٹ کی دنیا کی سب سے بڑی طاقت صرف اس لیے نہیں کہ یہ عالمی طور پر اس کھیل سے جڑے 70 فیصد منافع کی وجہ ہے بلکہ طویل عرصے تک یہ دنیا میں کرکٹ کی بہترین ٹیم بھی رہی جو رینکنگ کے ہر درجے میں اول رہی۔ انڈیا میں کرکٹ تو مضبوط ہوئی ہے لیکن ایک طویل عرصے تک اہم ٹورنامنٹ جیتنے میں ناکامی شائقین کے لیے مایوسی کہ وجہ ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ 2013 سے انڈیا ہر ٹورنامنٹ کے آغاز میں فیورٹ ہوتی ہے لیکن فائنل یا اس سے قبل ہی ناکام ہو جاتی ہے۔ کسی نہ کسی طریقے سے یہ تمام عوامل ہی انڈیا کی ٹیم کی کارکردگی پر اثرانداز ہوئے ہیں۔ لیکن انڈیا تمام ٹورنامنٹ کے ناک آؤٹ مرحلے تک پہنچا ہے تو شاید یہ کہنا درست ہو گا کہ مسئلے کی جڑ کہیں اور چھپی ہوئی ہے۔ بڑے ٹورنامنٹ جیتنے کے لیے صرف ٹیلنٹ کافی نہیں ہوتا۔ اس کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ کھلاڑی مختلف عوامل، جیسا کہ پچ، سے کتنی جلدی واقف ہوتے ہیں اور ٹیم انتظامیہ مختلف حریفوں کے لیے کس طرح ٹیم کو تیار کرتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ کھلاڑی، انفرادی اور مجموعی اعتبار سے، میدان اور میدان سے باہر مشکل حالات سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ انڈیا کے سابق کپتان اور چیف کوچ روی شاستری کہتے ہیں کہ انفرادی کھیلوں میں کھلاڑی کو اکیلے ہی دباؤ برداشت کرنا ہوتا ہے لیکن ایسے کھیل جن میں ٹیم شرکت کرتی ہے یہ معاملہ پیچیدہ اس لیے ہو جاتا ہے کیوں کہ ہر کھلاڑی کو اجتماعی جیت کے لیے اپنی بہترین کارکردگی دکھانا ہوتی ہے یا پھر چند کھلاڑیوں کو ایسے کھلاڑیوں کی جگہ لینا پڑتی ہے جن کے لیے وہ دن اچھا ثابت نہیں ہوتا۔ اگلے سات سے آٹھ ہفتوں کے دوران انڈیا کی ٹیم ان متعدد چینلجز کا سامنا کیسے کرتی ہے، یہ دیکھنا باقی ہے اور اسی سے طے ہو گا کہ انڈیا اس بار چیمپیئن بنے گا یا ’چوکر۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg549x52n7o", "summary": "جانیے کہ پاکستان انڈیا میں منعقدہ کرکٹ ورلڈ کپ میں اپنے میچ کب اور کہاں کھیلے گا اور دیکھیے ان گراؤنڈز کی فہرست پر جہاں پاکستان ورلڈ کپ 2023 میں اپنے میچ کھیلنے جا رہا ہے اور یہ بھی جانیے کہ پاکستان کی وہاں کارکردگی کیسی رہی ہے۔", "title": "ورلڈ کپ 2023: پاکستان کرکٹ کے عالمی مقابلوں میں اپنے میچ کب اور کہاں کھیلے گا؟ ", "firstPublished": "2023-09-25T03:37:56.234Z", "id": "crg549x52n7o", "article": "پاکستان کی کرکٹ ٹیم ویزوں کے اجرا میں تاخیر کا سامنا کرنے کے باوجود ورلڈ کپ 2023 میں شرکت کے لیے انڈیا پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس سے پہلے سنہ 13-2012 میں ون ڈے سیریز کھیلنے کے لیے انڈیا گئی تھی اور ان مقابلوں میں پاکستان نے انڈیا کو تین صفر سے شکست دی تھی۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان سیاسی تناؤ کے باعث پاکستان اور انڈیا ایک دوسرے کے ملک میں جا کر سیریز کھیلنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ دیگر ممالک کے کھلاڑیوں کو جہاں آئی پی ایل میں کرکٹ کھیل کر انڈیا کے تمام گراؤنڈز کی کنڈیشنز میں کھیلنے کا موقع ملتا ہے وہیں پاکستانی کھلاڑی ایسا اس لیے نہیں کر سکتے کیونکہ ان پر آئی پی ایل کے پہلے ایڈیشن کے بعد سے ٹورنامنٹ کھیلنے پر پابندی عائد ہے۔ آئیے نظر دوڑاتے ہیں ان گراؤنڈز کی فہرست پر جہاں پاکستان ورلڈ کپ 2023 میں اپنے میچ کھیلنے جا رہا ہے۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کی یہاں کارکردگی کیسی رہی ہے، یہاں کی کنڈیشنز کیسی ہیں اور ان میں کتنے تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ پاکستان ورلڈ کپ میں اپنا پہلا میچ نیدرلینڈز کے خلاف چھ اکتوبر کو اسی میدان پر کھیلنے جا رہا ہے۔ پاکستان ورلڈ کپ میں اپنے پہلے دو میچ یعنی نیدرلینڈز اور سری لنکا کے خلاف چھ اور 10 اکتوبر کو اسی گراؤنڈ پر کھیلے گا۔ اس گراؤنڈ کی تاریخ بہت دلچسپ ہے اور یہاں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کئی تاریخی میچ ہو چکے ہیں۔ سنہ 1987 کی ٹیسٹ سیریز میں سنیل گواسکر نے اپنا آخری ٹیسٹ اسی گراؤنڈ پر پاکستان کے خلاف کھیلا تھا اور ایک مشکل پچ پر 96 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی تھی۔ پاکستان نے یہ میچ 16 رنز سے جیت لیا تھا۔ اسی طرح انضمام الحق نے اسی گراؤنڈ پر اپنے کریئر کا 100واں ٹیسٹ کھیلا تھا اور پہلی اننگز میں 184 رنز بنائے تھے۔ یونس خان نے اس میچ میں 284 رنز کی شاندار اننگز کھیلی تھی اور پاکستان یہ میچ 168 رنز سے جیتنے میں کامیاب ہوا تھا اور یوں یہ سیریز بھی اپنے نام کر لی تھی۔ یہ وہی گراؤنڈ ہے جہاں پاکستان کے مایہ ناز اوپنر سعید انور نے سنہ 1997 میں انڈیپینڈینس کپ کے میچ میں 194 رنز کی ریکارڈ اننگز کھیلی تھی جو ایک عرصے تک عالمی ریکارڈ بھی رہا تھا۔ اس تاریخی میدان پر پاکستان ورلڈ کپ میں دو میچ کھیلے گا۔ 31 اکتوبر کو پاکستان کا بنگلہ دیش سے اس میدان پر مقابلہ ہو گا جبکہ 11 نومبر کو پاکستان اور نیوزی لینڈ یہاں آمنے سامنے ہوں گے۔ پاکستان کرکٹ کی کولکتہ کے ایڈن گارڈنز سے متعدد یادیں جڑی ہیں۔ یہاں پاکستان کا ون ڈے ریکارڈ بہت اچھا رہا ہے اور اسے کبھی بھی انڈیا سے شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckrevg5rgyno", "summary": "ورلڈ کپ کے لیے انڈیا آنے والی کسی بھی ٹیم کو بیف یعنی بڑے جانور یا گائے کا گوشت پیش نہیں کیا جا رہا۔", "title": "بریانی، بٹر چکن، مچھلی یا پھر بیف۔۔۔ حیدرآباد میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے مینیو میں کیا شامل ہے؟", "firstPublished": "2023-09-30T05:01:42.876Z", "id": "ckrevg5rgyno", "article": "یہاں تک کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ٹوئٹر ہینڈل سے بھی اس بابت ایک ٹویٹ کی گئی اور بتایا گیا کہ پاکستانی ٹیم کو انڈیا میں کھانے میں کیا ملے گا۔ ورلڈ کپ کے لیے انڈیا آنے والی کسی بھی ٹیم کو بیف یعنی بڑے جانور یا گائے کا گوشت پیش نہیں کیا جا رہا۔ خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق تمام ٹیموں کے لیے بیف کی عدم موجودگی میں مختلف النوع مینیو تیار کیا گیا ہے۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی ٹیم کے لیے ابلے باسمتی چاولوں کو بھی مینیو میں شامل کیا گیا ہے۔ اگر کھلاڑی ہلکا پھلکا کھانا چاہتے ہیں ان کے لیے سپیگیٹی اور سبزی پلاؤ بھی دستیاب ہوں گے۔ واضح رہے کہ انڈیا میں گائے کو مقدس مانا جاتا ہے اس لیے ملک کے بہت سے حصوں میں اس کو ذبح کرنے پر پابندی ہے جبکہ چند حصوں میں بڑے پیمانے پر اس کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ حیدرآباد میں پاکستانی ٹیم کے مینیو پر تنقید کرتے ہوئے ماسٹر وی جے این نامی صارف نے لکھا کہ ’اس ملک کی ثقافت میں شامل ایک بڑا حصہ بیف کھاتا ہے۔ یہ آج بھی انڈیا سے سب سے زیادہ برآمد کیا جاتا ہے اور انڈیا میں اسے کھایا بھی جاتا ہے۔ اسے دوسری ٹیم کے کھلاڑیوں کے مینیو سے ہٹانا عدم تحفظ کی انتہا ہے۔‘ لیکن صحافی فرید خان نے لکھا کہ ’اگر انڈیا میں ورلڈ کپ کے دوران بیف پیش نہیں کیا جا رہا تو اس میں کوئی مذائقہ نہیں۔ یہ تمام ٹیموں کے لیے ہے، صرف پاکستانی ٹیم کے لیے نہیں۔ انشمن سنگھ نامی ایک انڈین صارف نے لکھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ پاکستانی ٹیم کے پاس اپنا ماہر غذائیت ہو گا جو کھانے کا مینیو تیار کرنے میں بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مہمانوں کی درخواست کو ہوٹل والے پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔‘ یا د رہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم سنہ 2016 کے ٹی 20 ورلڈ کپ کے بعد پہلی بار انڈیا آئی ہے اور سوائے دو کھلاڑیوں کے باقی تمام کھلاڑی پہلی بار ہی انڈیا آئے ہیں۔ پاکستان کی ٹیم اب اپنا اگلا وارم اپ میچ آسٹریلیا کے خلاف تین اکتوبر کو کھیلے گی جبکہ چھ اکتوبر کو وہ نیدرلینڈز کے خلاف ورلڈ کپ کا اپنا پہلا میچ کھیل رہی ہے۔ اس کا دوسرا میچ بھی حیدرآباد میں ہے جو 10 اکتوبر کو سری لنکا کے خلاف ہے۔ پاکستان کی ٹیم انڈیا کے خلاف 14 اکتوبر کے میچ کے لیے حیدرآباد سے احمد آباد روانہ ہوگی۔ اس طرح وہ دو ہفتوں تک حیدرآباد میں ہی ہو گی جو کہ اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ اپنے کھانوں کے لیے بھی مشہور ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy91g1qx41go", "summary": "سعود شکیل نے سپنرز اور فاسٹ بولرز دونوں کو ہی عمدہ انداز میں کھیلا اور ان کی شاندار انگز کے باعث پاکستان ایک نیوزی لینڈ کو ایک اچھا ہدف دینے میں کامیاب ہوا۔", "title": "سعود شکیل پاکستان کی وائلڈ کارڈ انٹری: ’سعود بائیں ہاتھ سے بلے بازی کرنے والے بابر ہیں‘", "firstPublished": "2023-09-29T16:34:51.405Z", "id": "cy91g1qx41go", "article": "کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے باقاعدہ آغاز سے قبل انڈیا کے شہر حیدر آباد میں نیوزی لینڈ کے خلاف وارم اپ میچ میں اگرچہ پاکستان کو ایک بڑا ہدف دینے کے باوجود پانچ وکٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پانچ وکٹوں کے نقصان پر 345 رنز بنائے لیکن نیوزی لینڈ نے مطلوبہ ہدف اپنے بلے بازوں کی جارحانہ بیٹنگ کی بدولت 44ویں اوور میں ہی حاصل کر لیا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے سعود شکیل نے اپنے ون ڈے کریئر کا آغاز اگرچہ 2021 میں انگلینڈ کے خلاف کارڈف میں کھیلے گئے میچ سے کیا تھا لیکن وہ دو برس سے زیادہ عرصے میں صرف چھ میچوں میں ہی پاکستان کی نمائندگی کر سکے ہیں۔ عاطف نواز نامی صارف نے 53 گیندوں پر 75 رنز کی ان کی شاندار اننگز کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’سعود شکیل کی ایک متاثر کن اور دلکش اننگز۔ سعود کے جانب سے اننگز کے اختتام پر کھیلے جانے والے کچھ سٹروکس بہت عمدہ تھے۔ ان کی اونچی ڈرائیوز، اور جارحانہ بلے بازی کو دیکھنا انتہائی خوشگوار تھا، اب مجھے یقین ہے کہ وہ پاکستان کے لیے پلیئنگ الیون میں شامل ہوں گے۔‘ پاکستان کی جانب سے نیوزی لینڈ کے خلاف ہونے والے اس وارم آپ میچ میں پاکستانی وکٹ کیپر محمد رضوان نے بھی 94 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے 103 رنز کی شاندار انگز کھیلی، مگر اُنھوں نے اننگز مکمل ہونے کے بعد انٹرویو میں اپنی اننگز کو تو رکھا ایک جانب مگر بات کی سعود شکیل کی بیٹنگ کی۔ رضوان نے کہا کہ ’سعود شکیل نے شاندار فارم کا مظاہرہ کیا اور شاندار پرفارمنس دی۔ ون ڈے فارمیٹ میں ’سٹینڈ آؤٹ کھلاڑی‘ کے طور پر ان کی صلاحیت کا اندازہ لگانا دلچسپ ہے۔‘ ’ینگ یو‘ نامی صارف نے بھی سعود شکیل کی دو انتہائی شاندار سٹروک کھیلتے ہوئے تصاویر شیئر کیں اور لکھا ’سعود شکیل بائیں ہاتھ سے بلے بازی کرنے والے بابر ہیں، ان کے چھکے انتہائی خوبصورت تھے اور کور کی جانب جو انھوں نے سٹروکس کھیلے اُن کا تو کیا ہی کہنا۔ کیا سکون تھا، کیا میں خواب تو نہیں دیکھ رہا؟‘ سعود شکیل نے سپنرز اور فاسٹ بولرز دونوں کو ہی عمدہ انداز میں کھیلا اور ان کی شاندار اننگز کے باعث پاکستان نیوزی لینڈ کو ایک اچھا ہدف دینے میں کامیاب ہوا، مگر کیا کریے پاکستانی بولرز کا! سعود شکیل نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی رنز کے انبار لگائے ہیں۔ 65 فرسٹ کلاس میچوں میں انھوں نے 16 سنچریوں اور 23 نصف سنچریوں کی مدد سے 4844 رنز بنائے ہیں۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں ان کا ٹاپ سکور 187 تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjr0vx8kxr0o", "summary": "سنجے منجریکر لکھتے ہیں کہ ’ونود کامبلے کمرے میں داخل ہوئے تو اجے جدیجا نے انھیں ٹیم کی شکست پر کھلے عام رونے پر آڑے ہاتھوں لیا۔ انھیں کامبلے کا اپنے جذبات پر قابو نہ رکھنا پسند نہیں آیا تھا لیکن شاید کامبلے کو مایوسی ہوئی کہ انھوں نے انڈیا کے لیے میچ بچانے والی اننگز کھیلنے کا موقع گنوا دیا۔", "title": "جب انڈین کرکٹر ونود کامبلے ورلڈ کپ کا سیمی فائنل ہارنے پر 60 ہزار تماشائیوں کے سامنے رو پڑے", "firstPublished": "2023-09-29T06:06:11.615Z", "id": "cjr0vx8kxr0o", "article": "سنجے منجریکر لکھتے ہیں کہ ’میں نے سری ناتھ کی گیند پر کالوویترنا کا تھرڈ مین پر گولڈن ڈک پر کیچ لیا اور وینکٹیش پرساد نے جے سوریا کا کیچ لیا۔ اس کے بعد ہمیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ مہابھارت میں ابھیمنیو کی طرح، ہم نے اپنے آپ کو اہداف کی بھول بھلیوں میں داخل ہونے کی تربیت دی تھی لیکن ہم نے خود کو ان بھول بھلیوں سے باہر آنے کے لیے تیاری نہیں کی تھی۔‘ ٹنڈولکر لکھتے ہیں کہ ’جے سوریا اپنے بائیں ہاتھ سے سپن بولنگ کر رہے تھے۔ ان کی ایک گیند میرے پیڈ سے ٹکرا کر آن سائیڈ کی جانب مڑ گئی، میں نے سوچا کہ تیز رن کی گنجائش ہے اس لیے میں کریز سے باہر نکل آیا لیکن پھر میں نے دیکھا کہ گیند وکٹ کیپر کالوویترنا کے بہت قریب آ کر رک گئی تھی۔ میرے پاس نہ تو رنز بنانے کا وقت تھا اور نہ ہی کریز پر واپس آنے کا۔ وکٹ کیپر کالوویترنا نے لمحہ بھر بھی ضائع نہیں کیا اور وکٹیں بکھیر دیں۔ میں تھرڈ امپائر کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر پویلین کی جانب چل پڑا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ میں آؤٹ ہو چکا ہوں۔ جب میں پویلین کی طرف بڑھ رہا تھا تو مجھے اندازہ تھا کہ میرے بعد بلے بازوں کے لیے راستہ آسان نہیں ہوگا۔‘ سنجے منجریکر لکھتے ہیں کہ ’جب کمار دھرما سینا نے ایک آف بریک گیند اظہرالدین کو پھینکی تو یہ آف سٹمپ کے باہر لگی جسے وکٹ کیپر کالوویترنا نے سینے کے اونچائی اور لیگ سائیڈ پر پکڑا۔ اس گیند کو وائیڈ قرار دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد دھرماسینا کے چہرے پر نظر آنے والی مسکراہٹ کو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔‘ ’شاید انھیں اسی لمحے یہ احساس ہو گیا تھا کہ میچ ان کا ہے اور ان کی ٹیم فائنل میچ کھیلنے انڈیا نہیں بلکہ لاہور جائے گی۔ دھرماسینا کے علاوہ اس سری لنکن ٹیم میں دو اور سپنر تھے، متھیا مرلی دھرن اور جے سوریا۔ اروندا ڈی سلوا ضرورت پڑنے پر سپن بولنگ بھی کر سکتے تھے۔ تندولکر کے آؤٹ ہونے کے بعد جب مزید دو ٹاپ بلے باز پویلین لوٹے تو ہم اپنے دل میں جان گئے کہ سب کچھ ختم ہونے والا ہے۔‘ سنجے منجریکر لکھتے ہیں کہ ’تبھی ونود کامبلے کمرے میں داخل ہوئے۔ اجے جدیجا نے انھیں ٹیم کی شکست پر کھلے عام رونے پر آڑے ہاتھوں لیا۔ انھیں کامبلے کا اپنے جذبات پر قابو نہ رکھنا پسند نہیں آیا تھا لیکن شاید کامبلے کو مایوسی ہوئی کہ انھوں نے انڈیا کے لیے میچ بچانے والی اننگز کھیلنے کا موقع گنوا دیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgely8kzv5zo", "summary": "ابتدائی طور پر ان پر جنسی زیادتی کے متعدد الزامات عائد کیے گئے تھے لیکن عدالت تک مقدمہ صرف ’سٹیلتھنگ‘ یا سیکس کے دوران دوسرے فریق کی رضامندی کے بغیر کونڈوم اترانے کے معاملے پر پہنچا تھا۔\n", "title": "دنشکا گوناتھیلاکا جنسی حملے کے الزام سے بری: ’سری لنکن کرکٹر کے پاس سیکس کے دوران کونڈم اتارنے کا کوئی موقع نہیں تھا‘", "firstPublished": "2023-09-28T07:27:03.977Z", "id": "cgely8kzv5zo", "article": "32 سالہ دنشکا گوناتھیلاکا پر سڈنی میں ٹنڈر پر ملنے والی ایک خاتون پر اس کے گھر میں جنسی حملہ کرنے کا الزام تھا۔ ابتدائی طور پر ان پر جنسی زیادتی کے متعدد الزامات عائد کیے گئے تھے لیکن عدالت تک مقدمہ صرف ’سٹیلتھنگ‘ یا سیکس کے دوران دوسرے فریق کی رضامندی کے بغیر کونڈوم اترانے کے معاملے پر پہنچا تھا۔ اس مقدمے میں نیو ساؤتھ ویلز میں سٹیلتھنگ کو مجرمانہ عمل قرار دینے والے نئے قوانین کا استعمال کیا گیا تھا جنھیں گوناتھیلاکا پر الزام عائد کیے جانے سے صرف پانچ ماہ قبل ہی نافذ کیا گیا تھا۔ نیو ساؤتھ ویلز کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں مقدمے کی چار دن تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران، شکایت کنندہ، جن کا قانونی طور پر نام نہیں بتایا جا سکتا، نے کہا کہ انھوں نے صرف محفوظ جنسی تعلق کے لیے رضامندی دی تھی۔ مذکورہ خاتون کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھوں نے دنشکا کو کونڈوم ہٹاتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن جنسی عمل ختم ہونے کے فوراً بعد اسے فرش پر گرا دیکھا۔ خاتون نے مزید الزام لگایا کہ سری لنکن کرکٹر نے انھیں ’زبردستی‘ بوسہ دیا اور سیکس کے دوران بعض اوقات ان کا گلا اس قدر زور سے دبایا تھا کہ انھیں اپنی جان جانے کا خوف لاحق ہوا۔ دنشکا گوناتھیلاکا نے ان الزامات کی تردید کی اور ان کے وکیل نے دلیل دی کہ الزام لگانے والی خاتون جھوٹ بول رہی ہیں اور انھوں نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی کہانی بدلی ہے۔ اپنے فیصلے میں جج سارہ ہیگٹ کا کہنا تھا کہ جب اپنے بیان میں دنشکا گوناتھیلاکا نے پولیس کو بتایا کہ انھوں نے سیکس کے دوران کونڈوم نہیں ہٹایا تھا تو وہ سچ بول رہے تھے۔ جج نے کہا کہ ان کے پاس ایسا کرنے کا ’کوئی موقع نہیں‘ تھا۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کرکٹر نے پولیس کے ذریعے ’ان سے پوچھے گئے ہر سوال کا جواب‘ دیا تھا، اور ان کے بیان سے ’واضح تاثر ملا تھا کہ وہ سچ بولنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔‘ آٹھ ٹیسٹ میچوں سمیت 100 سے زیادہ مقابلوں میں سری لنکا کی نمائندگی کرنے والے دنشکا گوناتھیلاکا کو ان کی گرفتاری کے بعد سری لنکن کرکٹ بورڈ نے معطل کر دیا تھا۔ فیصلے کے بعد عدالت کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ فیصلہ ’سب کچھ کہہ رہا ہے‘ اور یہ کہ ان کی ساکھ بحال ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں خوش ہوں کہ میری زندگی دوبارہ معمول پر آ گئی ہے اور میں واپس جا کر کرکٹ کھیلنے کے لیے بے چین ہوں‘۔ خیال رہے کہ دنشکا 2022 میں ہونے والے ٹی 20 ورلڈ کپ سے قبل زخمی ہونے کی وجہ سے مقابلوں میں شرکت نہیں کر سکے تھے تاہم انھیں وطن واپس بھیجنے کے بجائے سکواڈ کے ہمراہ آسٹریلیا میں ہی رکھا گیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg1dqelewzo", "summary": "پی سی بی کے ترجمان نے اس پاکستانی ٹیم کو ویزا ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہمیں بالآخر انڈین ہائی کمیشن کی جانب سے کال کر کے اس بارے میں تصدیق کی گئی ہے۔ ", "title": "ورلڈ کپ 2023: پاکستان کرکٹ ٹیم کو انڈیا روانگی سے 48 گھنٹے پہلے ویزے مل گئے", "firstPublished": "2023-09-25T14:05:10.488Z", "id": "crg1dqelewzo", "article": "پی سی بی کے ترجمان نے پاکستانی ٹیم کو ویزا ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہمیں بالآخر انڈین ہائی کمیشن کی جانب سے کال کر کے اس بارے میں تصدیق کی گئی ہے۔ یہ فون کال پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے آئی سی سی کو لکھے گئے ایک خط میں کے چند گھنٹے بعد سامنے آئی ہے جس میں پی سی بی نے پاکستانی سکواڈ کو ورلڈ کپ کے لیے ویزا ملنے میں ’غیرمعمولی تاخیر‘ اور انڈیا کی جانب سے ’امتیازی سلوک‘ روا رکھنے کو ’ناقابلِ قبول‘ قرار دیا تھا۔ ویزا فراہمی کا یہ عمل آئی سی سی کی جانب سے پی سی بی کو ملنے والے ایک دعوتی خط کے بعد اگست میں ہی شروع ہو گیا تھا اور پی سی بی نے ایشیا کپ میں ٹیم کی سفری ضروریات کے باعث بغیر پاسپورٹ کے ویزا دینے کی درخواست کی تھی جسے رد کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد پی سی بی کی جانب سے 19 ستمبر کو ایشیا کپ سے واپسی پر تمام کھلاڑیوں کے ویزا انڈین ہائی کمیشن کو فراہم کیے گئے تھے تاہم ویزا دینے میں تاخیر ہو رہی تھی۔ اس سے قبل پی سی بی کے ترجمان عمر فاروق کالسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’انڈین ہائی کمیشن کی جانب سے ہر روز 24 گھنٹے کا وقت دے دیا جاتا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہوا ہے اور اب بات کل پر چلی گئی ہے۔‘ تاہم اس خبر کی اشاعت کے چند گھنٹے بعد ہی انڈین ہائی کمیشن کی جانب سے پاکستان کرکٹ سکواڈ کو ویزا کی فراہمی کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ پی سی بی کی جانب سے آئی سی سی کو لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ اگر اس طرح کی تاخیر پاکستانی ٹیم اور پی سی بی کے اہلکاروں کو دیکھنے کو مل رہی ہے تو پھر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی مداحوں اور صحافیوں کی ویزا درخواستوں میں کتنی تاخیر ہو گی۔ پی سی بی کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ میزبان کے طور پر بی سی سی آئی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والے ممالک کو ویزا کی وقت پر فراہمی کو یقینی بنائے۔ پی سی بی نے آئی سی سی سے اس ضمن میں چار سوال بھی پوچھے تھے کہ آیا بی سی سی آئی نے بطور میزبان آئی سی سی کو کوئی گارنٹی دی تھی کہ ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی ٹیموں کو ویزا فراہم کیے جائیں گے۔ اگر بی سی سی آئی پاکستان ٹیم کو بروقت ویزے فراہم نہیں کرتا تو کیا یہ اس معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی؟ اگر ایسا ہے تو بی سی سی آئی کو کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور انڈین حکومت کی جانب سے ویزا نہ دیے جانے کی صورت میں آئی سی سی کیا کارروائی کرے گا؟ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n4ngzldq5o", "summary": "انڈین کرکٹ ٹیم گذشتہ شب موہالی کے میدان میں آسٹریلیا کی ٹیم کو شکست دے کر ون ڈے کی عالمی رینکنگ میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ کر پہلے نمبر پر آ گئی ہے۔", "title": "انڈین کرکٹ ٹیم نے ون ڈے رینکنگ میں پاکستان کی جگہ لے لی، ورلڈ کپ سے پہلے کیا یہ برا شگون ہے؟", "firstPublished": "2023-09-23T07:39:56.637Z", "id": "c4n4ngzldq5o", "article": "انڈین کرکٹ ٹیم گذشتہ شب موہالی کے میدان میں آسٹریلیا کی ٹیم کو شکست دے کر ون ڈے کی عالمی رینکنگ میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ کر پہلے نمبر پر آ گئی ہے۔ اس طرح وہ پہلی بار بیک وقت ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی 20 یعنی تینوں فارمیٹ میں پہلے نمبر پر آ گئی ہے۔ جنوبی افریقہ کے بعد پہلی بار کسی ٹیم نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں انڈیا میں شروع ہونے والے ورلڈ کپ سے پہلے اس کامیابی کو کسی نیک شگون کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب انجری کا شکار پاکستان کی ٹیم کا دوسرے نمبر پر چلا جانا اس ٹیم کے لیے حوصلہ شکن ہو سکتا ہے۔ انڈیا نے گذشتہ رات آسٹریلیا کی ٹیم کو بہ آسانی پانچ وکٹوں سے شکست دے دی۔ ٹاس جیت کر انڈیا نے آسٹریلیا کو بیٹنگ کی دعوت اور انھیں 50 اوورز میں277 رنز کا ہدف ملا جسے انڈین ٹیم نے چار کھلاڑیوں کی نصف سنچری کے بدولت ایک اوور قبل ہی پانچ وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا۔ انڈیا نے ورلڈ کپ کے لیے اپنی 15 رکنی ٹیم کا اعلان رواں ماہ کے اوائل میں ہی کر دیا تھا۔ گذشتہ رات ہونے والے میچ سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ انڈیا کو اپنے آخری 11 کھلاڑی کو چننے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ گذشتہ رات جہاں محمد شامی نے پانچ وکٹیں لے کر اپنی دعویداری کو مضبوط بنایا ہے وہیں سوریہ کمار یادو نے ایک اچھی نصف سنچری بنا کر اپنی دعویداری بھی پیش کی ہے۔ صحافی ضیاء السلام نے لکھا: ’اب شامی کو ان کا حق دینے کا وقت آ گيا ہے۔ انھوں نے ون ڈے میں صرف 80 میچز میں ہی 150 وکٹیں حاصل کر لی تھیں۔ یہ ڈیل سٹین، وقار یونس، گلین مک گرا، شعیب اختر اور بریٹ لی جیسے لیجنڈ سے زیادہ تیزی سے کیا جانے والا کارنامہ ہے۔ یہ بات حیرت انگیز ہے! لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے ٹیم میں ان سے پہلے شاردل ٹھاکر کو ترجیح دی جاتی ہے۔‘ انڈیا کو ورلڈ کپ سے پہلے اپنی ٹیم کو آزمانے کا دو مواقع اور ہیں اگر ان میں بھی انڈین ٹیم کو کامیابی ملتی ہے تو ان کی ون ڈے کی نمبر ایک پوزیشن مستحکم ہو جائے گی اور اگر انھیں شکست ہاتھ لگتی ہے تو پھر پاکستانی ٹیم واپس نمبر ایک کی پوزیشن پر آ جائے گی۔ بہر حال انڈین ٹیم کو ورلڈ کپ سے قبل دنیا سرکردہ ٹیم آسٹریلیا کے ساتھ میچز کے فوائد ہوں گے جبکہ نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کے درمیان ہونے والے میچز سے دونوں ٹمیوں کو فائدہ ہوگا۔ ادھر انگلینڈ کی ٹیم ورلڈ کپ سے قبل آئرلینڈ کے ساتھ دو میچز کھیل رہی ہے اور گذشتہ دنوں بہت فارم میں نظر آئی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp616wlxdl5o", "summary": "سکواڈ کے اعلان کے لیے کی گئی پریس کانفرنس کے دوران انضمام الحق بار بار یہ حقیقت دہراتے رہے کہ ان کی پاکستانی ٹیم آئی سی سی رینکنگ کی نمبر ون ٹیم ہے جس نے حالیہ دنوں میں فقط دو برے میچ کھیلے ہیں لیکن کیا یہ حقیقت واقعی اس قدر سادہ ہے؟", "title": "کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے لیے پاکستانی سکواڈ: ’اگر‘ پھر کارکردگی پر بھاری پڑ گیا", "firstPublished": "2023-09-22T09:04:44.993Z", "id": "cp616wlxdl5o", "article": "تاہم، چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ورلڈ کپ کے لئے پاکستان کے 15 رکنی سکواڈ کا اعلان کر ہی دیا۔ ان کے مطابق یہ 15 کھلاڑی پاکستان کا بہترین انتخاب ہیں اور بظاہر اس کی بنیاد حالیہ کارکردگی کو ہی ٹھہرایا گیا ہے مگر بعض تازہ ترین حقائق اس بیان سے میل نہیں کھاتے۔ اوپننگ کے لیے پاکستان کے تین انتخاب امام الحق، فخر زمان اور عبداللہ شفیق ہیں۔ امام الحق کی حالیہ کارکردگی بجا طور پہ ان کے انتخاب کی ضامن رہی جبکہ عبداللہ شفیق نے بھی اکلوتے ایشیا کپ میچ میں اپنی جرات آزمائی سے جگہ بنائی جبکہ فخر زمان محض اس امید پہ منتخب کیے گئے ہیں کہ 'اگر' وہ فارم میں آ گئے تو تن تنہا ہی میچ کا پانسہ پلٹ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس سے قبل جو 25 رکنی عبوری سکواڈ طے کیا گیا تھا، اس میں شان مسعود بطور اوپننگ چوائس شامل تھے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ شان مسعود کی حالیہ فارم انھیں کسی بھی حتمی الیون کا حصہ بنانے کو کافی تھی مگر پاکستانی تھنک ٹینک نے رجعت پسندی کا سہارا لیتے ہوئے فخر کو ان پہ ترجیح دی ہے۔ اب امید رکھنا ہو گی کہ یہ انتخاب کہیں ورلڈ کپ کے بعد کسی ریویو کمیٹی کے لیے حرزِ جاں ثابت نہ ہو۔ سپن کے شعبے میں پاکستان کا تیسرا انتخاب اسامہ میر ہیں جو کہ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں کار آمد رہے تھے مگر یہاں غور طلب پہلو یہ ہے کہ جس کیوی الیون کو انہوں نے اپنی ورائٹی سے پریشان کیا تھا، وہ بہرحال وہ کیوی الیون نہیں تھی جو ورلڈ کپ میں اپنے اولین انتخاب کے ہمراہ سامنے ہو گی۔ پریس کانفرنس کے دوران انضمام الحق بار بار یہ حقیقت دہراتے رہے کہ ان کی یہ ٹیم آئی سی سی رینکنگ کی نمبر ون ٹیم ہے جس نے حالیہ دنوں میں فقط دو برے میچز کھیلے ہیں۔ لیکن کیا یہ حقیقت واقعی اس قدر سادہ ہے؟ پچھلے دو برس میں پاکستان نے بیشتر کرکٹ اپنے ہوم گراؤنڈز پہ کھیلی اور شیڈولنگ کچھ ایسی تھی کہ مختصر فارمیٹ کی کرکٹ میں پاکستان کا کیلنڈر ہر بار آئی پی ایل سے متصادم رہا، جس کے سبب بھلے پاکستان آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ پہ واضح برتری پاتا رہا مگر درحقیقت ان تمام ٹاپ لیول ٹیموں کی جو الیون پاکستان کے مقابلے کو دستیاب تھی، وہ کسی بھی لحاظ سے ان ٹیموں کا اولین انتخاب نہیں تھی بلکہ ان کے بہترین کھلاڑی تب آئی پی ایل میں مصروف ہوا کرتے تھے۔ شاید یہی وہ خلا تھا کہ معیاری اپوزیشن کے خلاف مسابقتی کرکٹ کی کمی ایشیا کپ کے دوران کھل کر آشکار ہوئی اور نمبر ون ٹیم ٹورنامنٹ کے سپر فور مرحلے میں چوتھے نمبر پہ رہ گئی۔ انضمام اب صرف دعا کر سکتے ہیں کہ ورلڈ کپ کے چار سیمی فائنلسٹس کی دوڑ میں بھی ان کی ٹیم کہیں یوں ہی شکستہ پا نہ رہ جائے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxrlr97dd6xo", "summary": "18 سالہ مہوش آفتاب نہ صرف خود تلواز بازی کی ماہر ہیں بلکہ دیگر لڑکیوں کو بھی سکولوں اور کالجوں میں اس کی تربیت دیتی ہیں۔ ", "title": "رکشہ ڈرائیور کی بیٹی جو پاکستان کو تلوار بازی میں گولڈ میڈل دلوانا چاہتی ہیں", "firstPublished": "2023-09-22T08:58:33.545Z", "id": "cxrlr97dd6xo", "article": "یہ خیال لیے انٹرمیڈیٹ کی طالبہ 18 سالہ مہوش آفتاب نے تلوار بازی کے کھیل کو اپنا کریئر بنانے کا سوچا جس سے اب ان کی ’اچھی خاصی کمائی‘ بھی ہو جاتی ہے مگر وہ ایک دن پاکستان کو اپنی محنت کے ذریعے اس کھیل میں گولڈ میڈل دلانا چاہتی ہیں۔ مہوش کراچی میں بدر الحسن سپورٹس کمپلیکس ناظم آباد میں لڑکیوں کو شمشیر زنی کی ٹریننگ دیتی ہیں اور خود بھی اس کھیل کی مشق کرتی ہیں۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ ’میں نے سر سے گزارش کی کہ مجھے اس کھیل میں آگے جانا ہے۔ پھر میرا ایک ٹرائل ہوا اور اس کے بعد مجھے داخلہ مل گیا۔‘ مگر ان کے لیے شروعات خاصی مشکل رہی اور یہ کھیل اور اس کی تکنیک ان کی سمجھ میں نہیں رہی تھی۔ ’مگر میں نے ہمت نہیں ہاری۔ تین سال رات اور دن محنت کی، ٹریننگ کی اور گھر جا کر بھی پریکٹس کرتی رہی۔ پھر میں یوٹیوب پر بھی ویڈیوز دیکھ کر اس کھیل کو سیکھنے کی کوشش کی۔‘ اب مہوش اس کھیل کو اس قدر سمجھ چکی ہیں کہ اب وہ اس کی تربیت مختلف سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دیتی ہیں۔ محمد تقیٰ کی رائے میں اس کھیل کو فروغ دینے میں بڑی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فینسنگ کو سرکاری سطح پر ملنے والی مدد اونٹ کے منھ میں زیرے کے برابر ہے۔ مہوش بتاتی ہیں کہ سامان اس قدر کم ہے کہ ’پہلے مجھے آدھی لڑکیوں کو ٹریننگ کروانی پڑتی ہے پھر ڈریس چینج کروا کر دوسری لڑکیوں کو ڈریس اپ کرنا پڑتا ہے۔۔۔ جس سے بہت وقت ضائع ہوتا ہے۔‘ دن بھر دوسروں کو شمشیر زنی کی تربیت دینے کے بعد مہوش گھر جا کر گھر کے کام کاج میں اپنی امی کی مدد کرتی ہیں۔ ان کے چار بہن بھائی اور ہیں۔ ’میرے بابا رکشہ چلاتے ہیں۔ ٹریننگ کی جگہ میرے گھر سے کافی دور ہے لیکن میرے بابا مجھے صبح چھوڑنے بھی آتے ہیں اور پھر مجھے لینے بھی آتے ہیں۔‘ عروبہ ظفر نے حال ہی میں شمشیر زنی سیکھنا شروع کی ہے اور انھیں اس کھیل میں ایک کشش محسوس ہوئی ہے۔ جبکہ مہوش جیسی خاتون ٹرینر کے ہونے سے ان کے لیے آسانی پیدا ہوئی اور انھیں ہمت بھی ملی۔ مہوش دیگر لڑکیوں کو بھی یہ مشورہ دینا چاہتی ہیں کہ ’جو گھر میں ہے، وہ گھر سے نکلیں اور کسی کھیل میں حصہ لیں۔ کھیل لڑکیوں کو ہمت دیتا ہے، ہر کسی کا سامنا کرنے کی طاقت دیتا ہے۔‘ محمد تقیٰ نے حکومت سے فینسنگ کے لیے مدد کی اپیل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تکنیکی سامان بیرون ملک سے آتا ہے اور ڈالر کی قدر بڑھنے سے اس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pdyyp59v2o", "summary": "پاکستان کرکٹ بورڈ نے انڈیا میں پانچ اکتوبر سے 19 نومبر تک کھیلے جانے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے بابر اعظم کی کپتانی میں پاکستان کے 15 رکنی سکواڈ کا اعلان کر دیا ہے جبکہ تین ریزرو کھلاڑی بھی سکواڈ کے ساتھ جائیں گے۔", "title": "ورلڈ کپ 2023: پاکستانی سکواڈ کا اعلان، نسیم شاہ زخمی ہونے کی وجہ سے باہر، حسن علی کی واپسی", "firstPublished": "2023-09-22T07:15:28.283Z", "id": "c6pdyyp59v2o", "article": "پاکستان کرکٹ بورڈ نے ورلڈ کپ کے لیے بابر اعظم کی کپتانی میں پاکستان کے 15 رکنی سکواڈ کا اعلان کر دیا ہے جبکہ تین ریزرو کھلاڑی بھی سکواڈ کے ساتھ جائیں گے۔ ایک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ کے مقابلے پانچ اکتوبر سے 19 نومبر تک انڈیا کے مختلف شہروں میں منعقد ہوں گے۔ جمعہ کے روز چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ایک پریس کانفرنس میں آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کے لیے پاکستانی سکواڈ کا اعلان کیا۔ ’ہمیں ایشیا کپ کے دوران بھی کچھ کھلاڑیوں کی انجریز کے معاملات کا سامنا رہا لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ تمام کھلاڑی مکمل فٹ ہیں اور ورلڈ کپ جیسے اہم ترین ایونٹ میں بہترین پرفارمنس کے لیے پرعزم ہیں۔‘ انضمام الحق کا کہنا تھا کہ بولر حارث رؤف کی فٹنس کے بارے میں میڈیکل پینل کی طرف سے حوصلہ افزا رپورٹس ملی ہیں جس کے بعد حارث نے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں بولنگ شروع کردی ہے اور وہ سلیکشن کے لیے دستیاب ہوں گے۔ انضمام الحق نے اس یقین کا اظہار کیا کہ یہ ٹیم ورلڈ کپ کی ٹرافی پاکستان لا سکتی ہے۔ پاکستان نے ماضی میں ایک مرتبہ 1992میں ورلڈ کپ جیتا ہے جبکہ 1999 میں اس نے فائنل کھیلا تھا۔ پانچ اکتوبر سے شروع ہونے والے ورلڈ کپ مقابلوں سے قبل پاکستانی ٹیم 29 ستمبر کو نیوزی لینڈ اور تین اکتوبر کو آسٹریلیا کے خلاف دو وارم اپ میچ کھیلے گی جبکہ ورلڈ کپ میں پاکستان کا پہلا میچ چھ اکتوبر کو نیدرلینڈز کے خلاف ہو گا۔ بابر نے اب تک کُل 108 ایک روزہ میچ کھیلے ہیں جن میں انھوں نے 58.16 کی بیٹنگ اوسط سے 5409 رنز بنائے ہیں، ان میں 28 نصف جبکہ 19 سینچریاں شامل ہیں۔ سلمان علی آغا بھی ان کھلاڑیوں میں شامل ہیں جنھیں پہلی مرتبہ کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملے گا۔ حارث نے اب تک 28 میچز کھیلے ہیں جن میں انھوں نے 1289 رنز دے کر 53 وکٹیں حاصل کی ہیں، جبکہ ان 28 میچوں میں انھوں نے 18 رنز بھی بنائے ہیں۔ وسیم نے اب تک 16 میچز کھیلے ہیں جن میں اُنھوں نے 641 رنز دے کر 24 وکٹیں حاصل کی ہیں، جبکہ ان 16 میچوں میں انھوں نے 57 رنز بھی بنائے ہیں۔ شاہین نے اب تک 44 میچز کھیلے ہیں جن میں انھوں نے 2009 رنز دے کر 86 وکٹیں حاصل کی ہیں جبکہ ان 44 انگز میں انھوں نے 141 رنز بھی بنائے ہیں۔ خیال رہے کہ سرفراز احمد کی کپتانی میں جب پاکستان نے 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی جیتی تھی تو اس وقت اپنی عمدہ کارکردگی کے باعث حسن علی کو ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c25zrlqw40eo", "summary": "ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے ایک انگلش ناقد نے لکھا تھا کہ انڈین ٹیم اتنی کمزور ہے کہ اسے ٹورنامنٹ سے اپنا نام واپس لے لینا چاہیے۔", "title": "ورلڈ کپ کی یادیں: جب انڈیا نے صرف 183 رنز بنا کر کرکٹ کی تاریخ بدل ڈالی", "firstPublished": "2023-09-21T15:35:56.623Z", "id": "c25zrlqw40eo", "article": "میچ شروع ہونے سے پہلے کپل نے ٹیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’صرف ایک بات یاد رکھیں، اگلے چھ گھنٹے کے بعد ہماری زندگی مکمل طور پر بدلنے والی ہے۔ کچھ بھی ہو، ہمیں اپنا بہترین دینا ہوگا۔ کرو یا مرو۔ بعد میں کوئی افسوس نہیں ہونا چاہیے کہ ہم یہ یا وہ کر سکتے تھے۔‘ ٹاس کے بعد جب ویسٹ انڈیز کے کپتان کلائیڈ لائیڈ نے انڈین ٹیم کو پہلے بیٹنگ کرنے کو کہا تو کپل نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ انھوں نے فیصلہ کیا ہوا تھا کہ اگر وہ ٹاس جیتیں گے تو پہلے بیٹنگ کریں گے کیونکہ وہ ٹاس جیت کر ہی ویسٹ انڈیز کو شکست دینے کی امید کر سکتے ہیں۔ ویسٹ انڈیز نے ابھی 5 رنز بنائے تھے کہ بلوندر سندھو کی ایک گیند گورڈن گرینیج کا آف سٹمپ لے گئی۔ اسے بال آف دی ٹورنامنٹ کہا گیا۔ مہر بوس اپنی کتاب ’دی نائن ویوز‘ میں لکھتے ہیں، ’انڈیا میں لاکھوں لوگوں نے اپنے ٹیلی ویژن سیٹس پر یہ منظر دیکھا۔ ان میں سے چار کرکٹ کے دیوانے بچے تھے۔ راہول ڈریوڈ، سچن ٹنڈولکر، سورو گنگولی اور وی وی ایس لکشمن جو بعد میں انڈین کرکٹ ٹیم کی ریڑھ کی ہڈی بنے۔ ڈریوڈ نے بعد میں مجھے بتایا کہ اس وقت ان کی عمر 10 سال تھی۔ یہ پہلا میچ تھا جو انھوں نے ٹی وی پر دیکھا تھا۔‘ جوئل گارنر نے بعد میں یاد کرتے ہوئے کہا، ’جب ہم انڈین اننگز کے بعد واپس آرہے تھے تو میں نے میلکم مارشل سے پوچھا، کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو آج بیٹنگ کرنی پڑ سکتی ہے؟ میلکم کے جواب نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کردیا، اس نے کہا، ’مجھے بھی اور آپ کو بھی۔ مارشل آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کرتے تھے اور میں 10 نمبر پر بیٹنگ کرتا تھا۔‘ سب سے زیادہ سبکی انگریز نقاد ڈیوڈ فریتھ کی ہوئی۔ انھوں نے ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے لکھا تھا کہ انڈین ٹیم اتنی کمزور ہے کہ اسے ٹورنامنٹ سے اپنا نام واپس لے لینا چاہیے۔ ایک ہفتے بعد انڈین ٹیم لندن سے بمبئی کے لیے روانہ ہوئی تو ایئر انڈیا نے پرواز کے دوران کیک کاٹنے کے انتظامات کیے۔ جب انڈین ٹیم بمبئی کے ہوائی اڈے پر اتری تو وہاں لوگوں کا ایک بڑا ہجوم موجود تھا۔ سابق انڈین کپتان اجیت واڈیکر ٹیم کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ ہوائی اڈے سے وانکھیڈے سٹیڈیم تک سڑک کے دونوں طرف ہزاروں لوگ کھڑے تھے۔ ورلڈ کپ کو کھلاڑیوں کے کوچ کے سامنے ایک گاڑی پر رکھا گیا تھا تاکہ لوگ اسے دیکھ سکیں۔ اسے خصوصی اجازت سے انڈیا لایا گیا تھا اور چونکہ یہ رننگ ٹرافی تھی اس لیے اسے برطانوی سرزمین سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ٹیم کو اسے انڈیا لانے کے لیے بانڈ ادا کرنا پڑا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c727p1vq890o", "summary": "پانچ اکتوبر سے 19 نومبر تک انڈیا میں ہونے والے اس ورلڈ کپ کا کرکٹ فینز کو بے چینی سے انتظار ہے اور یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی آئی سی سی نے آفیشل ترانہ ریلیز کیا تو شایقین کرکٹ کی جانب سے سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی۔ ", "title": "کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کا آفیشل ترانہ: ’میوٹ کر کے سنیں تو بہت مزا آئے گا‘", "firstPublished": "2023-09-20T16:13:59.349Z", "id": "c727p1vq890o", "article": "یہ بول ہیں آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے آفیشل ترانے کے، جس کی ویڈیو کا دورانیہ تین منٹ 22 سیکنڈ ہے۔ آئی سی سی نے کرکٹ کے عالمی کپ 2023 کے آفیشل ترانے کو جیسے ہی ریلیز کیا، شائقین کے پاس ورلڈ کپ پر کھل کے بات کرنے کا ایک اور بہانہ ہاتھ آ گیا۔ آئی سی سی کے ریلیز کیے گئے اس ترانے کی دلچسپ چیز یہ ہے کہ اس میں فینز اور اینیمیٹڈ کریکٹرز کو ’ون ڈے ایکسپریس‘ (ٹرین) میں دکھایا گیا ہے، جو ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے بے قرار دکھائی دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کئی صارفین نے آئی سی سی ورلڈ کپ کے ترانے کو کسی بالی ووڈ فلم کے گانے سے تشبیہ دی۔ شاہد عباسی نامی صارف نے لکھا ’آفیشل اینتھم آف آئی سی سی ورلڈ کپ کرکٹ کی جگہ اگر بالی ووڈ مووی سانگ کر دیں تو پھر چلے گا۔‘ مسکان نامی کرکٹ فین نے اس ترانے کے بول پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’ورلڈ کپ کے میزبان ملک نے بہترین ورلڈ کپ گانا بنایا۔ اس کو میوٹ کر کے سنیں تو بہت مزا آئے گا۔‘ کندولا دنیش نامی صارف نے لکھا کہ ’اوسط سے بھی کم درجے کا ترانہ ہے۔ یہ سب کچھ ایک مصنوعی ریل گاڑی میں فلمایا گیا جس میں اصل کرکٹ کا وجود ہی نہیں تھا۔ بے کار گرافکس، کوئی جوش نہیں، نہ ہی کوئی سابقہ لیجنڈ جیسا کہ 2011، 2015 کے ترانوں میں دکھایا گیا۔‘ اس ترانے میں تمام ٹیموں کے فینز کو ان کے ملک کے پرچم لہراتے بھی دکھایا گیا تاہم سوشل میڈیا پر صارفین نے پاکستانی پرچم کو چھوٹے سائز میں دکھائے جانے پر بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ فاطمہ نامی کرکٹ فین نے انڈین کرکٹ بورڈ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’بی سی سی آئی نے ایک بار پھر گھٹیا سیاست کی۔ انڈیا، انگلینڈ، سری لنکا اور افریقہ کے پرچموں کے مقابلے میں پاکستان کے قومی پرچم کا سائز دیکھیں۔‘ ہریش جوشی نامی صارف نے اپنے پیغام میں آئی سی سی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’ورلڈ کپ ہر چار سال بعد ہوتا ہے۔‘ ٹونی کورین نامی ایک صارف نے لکھا کہ وہ کرکٹ کے بہت بڑے فین ہیں اور انھیں آئی سی سی ورلڈ کپ کا بے چینی سے انتظار ہے لیکن ’یہ ترانہ ہرگز متاثر کن نہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ یہ بالی ووڈ کی کسی بری فلم کا میوزک ہے۔ ‘ کرکٹ ورلڈ کپ کے منتظر فینز کی ترانے پر تنقید کے دوران کئی صارفین ایسے بھی تھے جنھوں نے آج بھی پاکستانی سنگر علی ظفر کے پی ایس ایل کے لیے گائے گئے ترانے ’سیٹی بجے گی‘ کو بے مثال قرار دیا اور اسے شیئر کیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgez7dl9nlko", "summary": "ایک بار پھر ہم اس موڑ پر آ گئے ہیں کہ ورلڈ کپ سر پر ہے اور پاکستان ٹیم غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔\nتو آئیے نظر ڈالتے ہیں ان آپشنز پر جو اس وقت پاکستان کے پاس ہیں۔", "title": "ریزرو ڈے کے ڈراؤنے خواب کے بعد انجریز کا شکار پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ میں کسے سکواڈ میں شامل کر سکتی ہے؟", "firstPublished": "2023-09-19T11:57:36.553Z", "id": "cgez7dl9nlko", "article": "تو ایک بار پھر ہم اس موڑ پر آ گئے ہیں کہ ورلڈ کپ سر پر ہے اور پاکستان ٹیم غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے، جو گذشتہ ورلڈ کپس کی طرح کچھ سنا سنا لگتا ہے۔ تو آئیے نظر ڈالتے ہیں ان آپشنز پر جو اس وقت پاکستان کے پاس ہیں۔ پاکستانی سیلیکٹرز کو دو اہم سوالات کے جواب تلاش کرنے ہیں۔ پہلا یہ کہ نسیم شاہ کا متبادل کون ہو سکتا ہے، جس کے لیے یوں تو فاسٹ بولرز کی ایک طویل فہرست موجود ہے لیکن ان میں سے اکثر اس فارمیٹ میں ناتجربہ کار ہیں۔ نسیم شاہ کا اس موقع پر زخمی ہونا پاکستان کے لیے انتہائی بڑا دھچکہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نسیم شاہ اب تک اپنے ون ڈے کیریئر میں انتہائی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔ حال ہی میں حسن علی نے وارکشائر کے لیے کاؤنٹی چیمپیئن شپ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اور اگر کوئی چیز انھیں ٹیم میں واپس لا سکتی ہے تو وہ ان کا تجربہ ہے۔ سنہ 2016 میں ڈیبیو کرنے والے 29 سالہ حسن علی نے 60 ون ڈے میچوں 30 کی اوسط سے 91 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔ تاحال یہ معلوم نہیں کہ ان کی انجری کس نوعیت کی ہے اور وہ کب تک اس سے صحتیاب ہو سکتے ہیں لیکن اپنی پیس کے باعث وہ بھی نسیم کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔ محمد عامر بھی ایک آپشن ضرور ہیں اور حالیہ کریبیئن پریمیر لیگ میں ان کی اچھی کارکردگی کے باعث ان کی واپسی کے بارے میں بھی سوشل میڈیا پر مطالبے کیے جا رہے ہیں لیکن انھوں نے پاکستان کے لیے اپنا آخری ون ڈے سنہ 2019 کے ورلڈکپ میں کھیلا تھا اور ان کی سرِ عام بابر اعظم کی بیٹنگ پر تنقید کے باعث اس وقت ان کی ٹیم میں واپسی بہت مشکل دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کے ڈومیسٹک سیٹ اپ میں سپنرز کا فقدان کئی وجوہات کی بنا پر ہے اور اب جب پاکستان کو ون ڈے کرکٹ میں مڈل اوورز کے لیے ایک اچھے سپنر کی ضرورت ہے تو پاکستانی سیلیکٹرز کے آپشن بہت کم ہوں گے۔ پاکستان ٹیم کے لیے شاداب اور محمد نواز یہ کردار بہتر انداز میں ادا کرنے میں ایشیا کپ میں تو ناکام دکھائی دیے۔ مڈل اوورز میں وکٹیں لینا ون ڈے کرکٹ میں انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے اور اس دوران عموماً سپنرز ہی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ مسٹری سپنر ہیں جو گیند دونوں جانب سپن کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ٹیسٹ میچوں میں ان کا ریکارڈ اچھا ہے اور لسٹ اے میچوں میں بھی انھوں نے 25 کی اوسط سے 12 میچوں میں 17 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ ان کے علاوہ موجود آپشنز میں عماد وسیم بھی ہیں تاہم وہ عموماً نئی گیند سے بولنگ کرتے ہیں جو پاکستان کے لیے ایک اچھا آپشن ضرور ثابت ہو سکتا ہے لیکن مڈل اوورز کا مسئلہ تب بھی برقرار رہے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2x4vzrxx48o", "summary": "تہران آمد پر فٹبال سٹار رونالڈو کو نہ ایرانی حکام بلکہ فینز کی ایک بڑی تعداد کی جانب سے پُرتپاک استقبال دیا گیا۔ مگر بعض مبصرین نے اسے ایران کی صورتحال کو ’وائٹ واش‘ کرنے کے مترادف قرار دیا۔ ", "title": "خصوصی سِم کارڈ، ریشمی قالین اور پرتپاک استقبال: رونالڈو کی ایران آمد پر جشن بھی، تنازع بھی", "firstPublished": "2023-09-18T16:45:01.879Z", "id": "c2x4vzrxx48o", "article": "سعودی کلب النصر کے پرتگالی سٹار کرسٹیانو رونالڈو ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ ریاض سے بذریعہ پرواز تہران پہنچے تو ایرانی فینز اور حکام نے ان کا پُرتپاک استقبال کیا۔ ٹیم کی آمد پر کرسٹیانو رونالڈو کے متعدد ایرانی فینز ان سے ملنے کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ جبکہ النصر کے استقبال کے لیے پرسپولیس کلب کے عہدیدار اور ایران میں سعودی عرب کے کچھ سفارت کار بھی ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ اخبار خبر ورزشی کے مطابق رونالڈو اور دیگر کھلاڑیوں کو بذریعہ بس ایئرپورٹ سے ہوٹل لے جایا گیا۔ بیچ میں وہ کہیں نہ رُکے اور ان کے ساتھ پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کا قافلہ تھا۔ سڑکوں پر روڈ بلاک بھی لگائے گئے تھے۔ مگر تہران میں دنیا کے سب سے بڑے فٹبال سٹار کی موجودگی کے علاوہ ایرانی حکام کی جانب سے کیے گئے خصوصی اقدامات بھی زیر بحث ہیں۔ فٹبال فیڈریشن کے سربراہ مہدی تاج نے ایران میں سعودی کلبوں کی موجودگی کو اپنی ’انتظامیہ کی کامیابی‘ قرار دیا ہے۔ انھوں نے 13 ستمبر کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’یقینی طور پر اگر میری کوششیں اور مشاورت نہ ہوتی تو ایسا نہ ہوتا۔ ورنہ ہم ایران میں رونالڈو جیسے ستاروں کو نہ دیکھ پاتے۔‘ مبصرین کے مطابق بظاہر یہ لگتا ہے کہ ایرانی حکام فٹبال سٹار کی آمد کے ذریعے ملک کی صورتحال کو مثبت انداز میں دکھانا اور ’وائٹ واش‘ کرنا چاہتے ہیں۔ رواں ماہ پرسپولیس کلب کے صدر رضا درویش نے مقامی ٹی وی کو بتایا تھا کہ النصر کے کھلاڑیوں کو انٹرنیٹ تک مکمل رسائی دی جائے گی۔ ’میں نے ایران سیل کے سی ای او سے بات کی ہے اور انھیں کہا ہے کہ ہم کھلاڑیوں اور حکام کو ایران سیل کو ایسے سم کارڈز دینا چاہتے ہیں جن میں بغیر پابندیوں کے انٹرنیٹ تک رسائی ہو، تاکہ وہ ایران پہنچنے سے لے کر روانگی تک یہ سہولت استعمال کر سکیں۔‘ سینماٹوگرافر پرویز پرستووی نے ایک تنقیدی پوسٹ میں کہا کہ: ’رونالڈو اور النصر کے قافلے کی تہران میں موجودگی 48 گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوگی۔۔۔ باقی ملک کو بھی اپنی ساکھ بچانے کا حق ہے۔‘ انھوں نے اس کا موازنہ ڈاکٹر مہر جوئی کی فلم ’مومز گیسٹ‘ سے کیا اور ایرانی حکام سے پوچھا کہ ’ایک مشہور مہمان کے عارضی قیام نے آپ کو اتنا پریشان کیوں کر دیا؟‘ بعض مبصرین کے مطابق یہ ایران کی صورتحال کو مثبت انداز میں دکھانے کی کوشش ہے۔ تاہم بہت سے لوگوں نے فٹبال سٹار کے لیے تحفوں پر خوشی بھی ظاہر کی ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ رونالڈو کے لیے ہینڈ میڈ ایرانی قالین، ایران کو معلوم ہے کہ بہترین کھلاڑی کا استقبال کیسے کیا جانا چاہیے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp98wvnwrwwo", "summary": "اتوار کو کولمبو میں ہونے والے ایشیا کپ کے فائنل میں سری لنکا کو شکست دے کر انڈیا آٹھویں بار چیمپیئن بنی جس میں انڈین بولر محمد سراج کی ایسی نمایا کار کردگی رہی کہ لوگ اس میچ کو سری لنکا بمقابلہ انڈیا کے بجائے سری لنکا بمقابلہ محمد سراج کہہ رہے ہیں۔", "title": "آٹو رکشہ ڈرائیور کے بیٹے محمد سراج کی عام سے خاص بننے کی کہانی: ’میاں آج کون سی بریانی کھائی تھی‘", "firstPublished": "2023-09-18T04:12:57.255Z", "id": "cp98wvnwrwwo", "article": "اتوار کو کولمبو میں ہونے والے ایشیا کپ کے فائنل میں سری لنکا کو شکست دے کر انڈیا آٹھویں بار چیمپیئن بنا ہے جس میں انڈین بولر محمد سراج کی ایسی نمایاں کارکردگی رہی کہ لوگ اس میچ کو سری لنکا بمقابلہ انڈیا کے بجائے ’سری لنکا بمقابلہ محمد سراج‘ کہہ رہے ہیں۔ سری لنکا کے ہاتھوں سنسنی خیز مقابلے میں پاکستان کی شکست کے بعد پاکستانی شائقین کی ایشیا کپ میں دلچسپی تقریبا معدوم ہو چکی تھی لیکن سراج کی بولنگ نے ان کے لیے ایک مرتبہ پھر ایشیا کپ میں دلچسپی کا سامان پیدا کر دیا۔ بہرحال پاکستان کی پے در پے انڈیا اور سری لنکا کے ہاتھوں شکست کے باوجود وہ اب بھی ون ڈے انٹرنیشنل میں پہلے نمبر پر جبکہ ایشیا کپ جیت کر انڈیا دوسرے نمبر پر آ گئی ہے۔ اگرچہ ایشیا کپ کا فائنل مقابلہ یکطرفہ رہا اور کرکٹ شائقین میں سری لنکا کی کارکردگی پر مایوسی نظر آئی کیونکہ ایشیا کپ کی تاریخ میں سب سے کم سکور بنانے کا اس نے نیا ریکارڈ قائم کیا اور پوری ٹیم 50 رنز پر سمٹ گئی جس میں محمد سراج نے 16 رنز کے عوض چھ وکٹیں لیں۔ فائنل میں ٹاس جیت کر سری لنکا نے پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ اس سے قبل اس نے انڈیا کے خلاف بہت ہی سخت مقابلہ کیا تھا لیکن وہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اس میچ کے مرد میداں 20 سالہ نوجوان ویلالاگے تھے جنھوں نے پانچ وکٹیں لیں اور ناقابل شکست 42 رنز بنائے۔ فائنل میں پہلے ہی اوور میں سری لنکا کو اس وقت نقصان اٹھانا پڑا جب بمراہ نے اوپنر کو پویلین کی راہ دکھائی۔ سراج دوسرا اوور لے کر آئے جو میڈن رہا۔ اس کے بعد سراج اپنا دوسرا اور میچ کا چوتھا اوور لے کر کیا آئے گویا دامن میں طوفان سمیٹے ہوئے تھے۔ سنہ 1994 میں انڈیا کے معروف شہر حیدرآباد میں پیدا ہونے والے محمد سراج کو سنہ 2017 میں آئی پی ایل کی نیلامی سے قبل بہت کم لوگ جانتے تھے لیکن حیدرآباد کی ٹیم ’سن رائزرز‘ نے ان کے لیے ڈھائی کروڑ کی بولی لگا کر انھیں راتوں رات کرکٹ کی دنیا میں متعارف کروا دیا۔ ایک شخص نے کہا کہ ’ہم نے ایک پرستار کے طور پر انڈین بولروں کی ایسی کارکردگی کی توقع نہیں کی تھی۔‘ جبکہ بہت سے شائقین کا کہنا تھا کہ آج کا میچ انڈیا بمقابلہ سری لنکا نہیں بلکہ سری لنکا بمقابلہ سراج تھا۔ کولمبو میں میچ دیکھنے پہنچے ایک ناظر نے کہا کہ یوں تو کانٹے کا مقابلہ نہیں ہوا لیکن بنگلہ دیش کے خلاف شکست کے بعد انڈیا کے لیے یہ جیت ورلڈ کپ سے قبل ان کے حوصلے کو کافی بلند کر دے گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cpdmem41791o", "summary": "محمد سراج مگر وہ چکا چوند نہیں دیکھ پاتے جو بمراہ کو نصیب ہوتی ہے۔ بطور میڈیم پیس سیمر، ان کا کردار عموماً اپنی نپی تلی لینتھ سے، دوسرے کنارے سے حملہ آور بمراہ کی تائید کرنا ہوتا ہے۔ مگر یہاں سراج بمراہ سے سبقت لے گئے اور سری لنکن بلے باز سر پیٹتے رہ گئے۔", "title": "گو کہنے کو یہ ایک روزہ میچ تھا: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-09-17T14:02:28.956Z", "id": "cpdmem41791o", "article": "اگرچہ جنگ اور جارحیت کا کوئی قاعدہ نہیں ہوتا مگر جب تک پاسبانی کو کچھ عقل میسر نہ ہو، ہر دلیری کا بے سود رہنا مقدر بن جاتا ہے۔ سری لنکن جارحیت کو بھی یہاں عقل سے کوئی سروکار نہ تھا۔ ماضی قریب میں سری لنکن بیٹنگ اپنی کم مائیگی کو جارحیت کے لبادے میں چھپانے کی کوشش کرتی آئی ہے اور کئی ایک بار یہ حکمت عملی نفع بخش بھی ثابت ہوئی کہ حریف پیسرز دباؤ کا شکار ہو کر اپنی مبادیات ہی بھول بیٹھے اور بازی سر کر لی گئی۔ پاکستان کے خلاف بھی سری لنکن ٹاپ آرڈر یہی سٹریٹیجی لے کر چلا تھا اور شاہین آفریدی اپنے پہلے سپیل میں بھٹکتے پائے گئے۔ یہاں انڈیا کے خلاف بھی یہی محفوظ سبیل تصور کی گئی کہ انڈین بولنگ بھی دباؤ میں آ جائے گی اور منزل سہل ہو پائے گی۔ بظاہر بمرا کی لینتھ ہمیشہ بلے باز کو ڈرائیو پہ مدعو کرتی ہے مگر تیر کمان سے نکلنے کے بعد ہی اپنی کم مائیگی بلے باز پہ آشکار ہو پاتی ہے، جب گیند اڑ کر کورز میں جانے کی بجائے وکٹوں کے پیچھے کسی ہاتھ میں محفوظ ہو چکی ہوتی ہے۔ محمد سراج مگر وہ چکا چوند نہیں دیکھ پاتے جو بمرا کو نصیب ہوتی ہے۔ بطور میڈیم پیس سیمر، ان کا کردار عموماً اپنی نپی تلی لینتھ سے، دوسرے کنارے سے حملہ آور بمرا کی تائید کرنا ہوتا ہے۔ مگر یہاں سراج نے بمرا پر سبقت حاصل کی اور سری لنکن بلے باز سر پیٹتے رہ گئے۔ مطلع ابر آلود ہو تو حالات ہمیشہ ہی سیم بولنگ کے لیے سازگار رہا کرتے ہیں۔ یہاں کھیل کے آغاز سے چند لمحے پہلے سری لنکن مون سون نے ایشیا کپ کو جو حتمی جھلک دکھلائی، اس کے بعد سیمرز کی موافقت مزید بڑھ چکی تھی۔ سری لنکن بلے بازوں کے پاس کوئی پلان بی نہیں تھا۔ نہ ہی کہیں انہیں یہ متوقع تھا کہ سراج کی میڈیم پیس سیم بھی اس قدر مہلک گزرے گی کہ پانی کے وقفے سے پہلے ہی ساری بساط سمٹ جائے گی۔ جو لینتھ ٹی ٹونٹی کرکٹ میں بولرز کے لئے موت کا ساماں تصور کی جاتی ہے، اسی لینتھ نے سری لنکن بلے بازوں کے لئے وہ دامِ تزویر بچھایا کہ صورتحال سے ہم آہنگ ہونے کی مہلت ہی میسر نہ ہو پائی۔ یہ ناممکن نہیں تھا کہ جب پچ میں اس قدر وافر حرکت موجود تھی اور بادل بھی اپنا کردار نبھا رہے تھے تو سری لنکن بلے باز ابتدائی نقصان سے سمجھوتہ کر کے خود کے لئے کوئی نیا کردار وضع کرتے اور دھیرے دھیرے اننگز بُننے کی کوشش کرتے۔ بھلے اپنی چال میں یہ اننگز ازمنۂ قدیم کی یادگار ہوتی مگر بہرطور پچاس اوورز کے اختتام تک سری لنکن بولنگ کو کوئی ایسا مجموعہ تو فراہم کر جاتی جہاں لڑائی لڑنے کو بھی کوئی وجہ مل پاتی مگر یہ ہدف تو چار اوورز کی ہی مار تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxrlwy7116wo", "summary": "جس شام کا آغاز خوف اور احتیاط کے تال میل سے ہوا، وہ پہلے عبداللہ شفیق کے تحمل میں بدلی اور پھر رضوان کی استقامت سے افتخار کی جارحیت تک بہت کچھ ایسا ہوا کہ گماں کا ممکن بعید از قیاس نہ رہا مگر بابر اعظم یہاں خود اپنی ہی مدد نہ کر پائے۔ سمیع چوہدری کا کالم۔", "title": "سمیع چوہدری کا کالم: ’یہ بِیچ سفر کم ہمتی کی قیمت تھی‘ ", "firstPublished": "2023-09-15T01:56:33.969Z", "id": "cxrlwy7116wo", "article": "جس شام کا آغاز خوف اور احتیاط کے تال میل سے ہوا، وہ پہلے عبداللہ شفیق کے تحمل میں بدلی اور پھر رضوان کی استقامت سے افتخار کی جارحیت تک بہت کچھ ایسا ہوا کہ گماں کا ممکن بعید از قیاس نہ رہا مگر بابر اعظم یہاں خود اپنی ہی مدد نہ کر پائے۔ یہ پچ وہ تھی کہ ابتداً یہاں قدم جمانا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ عبداللہ شفیق نے احتیاط کا انتخاب کیا اور یہ انتخاب بالکل بجا تھا کہ سری لنکن بولنگ کوئی تر نوالہ نہیں تھی۔ عبداللہ کا صبر بار آور رہا۔ رضوان آئے تو احوال پر گرفت نہیں پا رہے تھے مگر وہ جمے رہے۔ جوں جوں گیند کی کاٹ ماند پڑی، وہ اپنے اصل پر پلٹنے لگے اور پھر بارش کے بعد جب کنڈیشنز بلے بازی کو سازگار ہوئیں تو وہ افتخار کے ہمراہ اپنی ٹیم کو وہاں تک لے گئے جہاں سے شکست کے لیے پاکستان کو ایک بدترین بولنگ پرفارمنس اور اوسط کپتانی درکار تھی۔ اس پچ کے مزاج سے یہاں پیسرز کا مہنگا ہونا طے ہی تھا۔ بات اٹکی تھی تو فقط سپنرز کے کردار پر، کہ وہی اس میچ کی سمت متعین کرنے کے حقدار تھے اور یہاں سب سے بڑا بار شاداب خان پر تھا اور ان سے بھی بڑا بوجھ بابر اعظم پر تھا کہ وہ اپنے بولرز کو کیسے صرف کریں گے۔ وہ شاداب خان جو کبھی اپنی گگلیوں سے بلے بازوں کو نچا دیا کرتے تھے، اب شاید خود بھی اپنے آپ کو پہچان نہیں پاتے۔ نہ ہی ان کی انگلیوں میں وہ جادو نظر آتا ہے کہ جسے پڑھنے کو کئی سبق یاد کرنا پڑ جائیں۔ وہ ساری شہرت اب گئے دنوں کی یاد سی بنتی جا رہی ہے۔ اور شاہین آفریدی جو کہ اس نوآموز پیس اٹیک کے سرکردہ تھے، وہ شروع میں ہی سری لنکن ٹاپ آرڈر کے بھاؤ میں آ بیٹھے۔ نئے گیند سے وکٹیں بٹورنا ان کی فطرت رہا ہے مگر یہاں جب وہ ہی درست لینتھ کھوجنے میں پھیکے پڑ گئے تو محمد وسیم کو دوش کیونکر دیا جائے۔ مگر افتخار احمد نے سپن ڈیپارٹمنٹ کی بھرپور لاج رکھی۔ شاداب کے برعکس وہ گیند کی رفتار گھٹاتے چلے گئے اور سری لنکن بیٹنگ الجھتی چلی گئی اور پھر یہ ہوا کہ دو تہائی اننگز تک سبقت رکھنے والی سری لنکن اننگز یکایک کسی بوجھ تلے دبنے لگی۔ زمان خان کے لیے یہ کوئی نیا امتحاں نہیں تھا۔ پی ایس ایل میں وہ بارہا ایسے ہی تُند مراحل سے گزر چکے ہیں اور لگ بھگ ہر بار سرخرو بھی رہے ہیں مگر یہاں قسمت کا الٹ پھیر کچھ ایسا ہوا کہ عین آخری گیند سے پہلے، فائن لیگ کو باؤنڈری سے بلا کر دائرے میں لے آیا گیا۔ میچ میں پاکستان کا آغاز بھی برا نہ تھا اور انجام بھی کسی یادگار خوبی سے بعید نہ تھا مگر بِیچ سفر بابر اعظم نے جو کوتاہ بینی دکھائی، اس کی قیمت چکانا بھی شاید ناگزیر تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72j9v2dg7no", "summary": "لاہور قلندرز کو کئی مرتبہ آخری اوور میں ہاری ہوئی بازی جتانے والے زمان خان ایشیا کپ کے سنسنی خیز مقابلے میں پاکستان کے لیے ویسے ہی نتائج حاصل نہ کر سکے اور سری لنکا نے دو وکٹوں سے پاکستان کو شکست دے کر ایشیا کپ سے آؤٹ کر دیا۔", "title": "ناقص فیلڈنگ، مڈل اوورز میں وکٹیں حاصل کرنے میں ناکامی: سری لنکا نے ’ورلڈ نمبر ون‘ پاکستان کو ایشیا کپ سے آؤٹ کر دیا", "firstPublished": "2023-09-14T20:10:51.405Z", "id": "c72j9v2dg7no", "article": "لاہور قلندرز کو کئی مرتبہ آخری اوور میں ہاری ہوئی بازی جتانے والے زمان خان ایشیا کپ کے سنسنی خیز مقابلے میں پاکستان کے لیے ویسے ہی نتائج حاصل نہ کر سکے اور سری لنکا نے دو وکٹوں سے پاکستان کو شکست دے کر ایشیا کپ سے آؤٹ کر دیا۔ کوشال مینڈس اور اسالنکا کی عمدہ بیٹنگ کی بدولت گیم میں سری لنکا کا پلڑا بھاری نظر آیا مگر کھیل کے آخری اوورز میں افتخار احمد کی محنت اور پھر سیکنڈ لاسٹ اوور میں شاہین شاہ آفریدی کی جانب سے پے در پے دو وکٹیں حاصل کرنے نے میچ میں وہ سنسنی پیدا کی جو شاید پاکستانی فینز کو اس شکست کو ہضم کرنے میں کچھ مددگار ثابت ہو! تاہم وکٹ کی دوسری جانب کوشال مینڈس بدستور ڈٹے رہے اور ان کا بلا لگاتار رنز اُگلتا رہا۔ سماراوکرما کے آؤٹ ہونے کی صورت میں پاکستانی ٹیم کو ملنے والی چھوٹی سی خوشی اس وقت غارت ہوئی جب نئے آنے والے بلے باز چریتھ اسالنکا نے کریز پر آتے ہی افتخار احمد کو ایک زوردار چھکا جڑا اور گیم میں ایک مرتبہ پھر سری لنکا کا پلڑا بھاری ہو گیا۔ کھیل کے آخری دو اوورز میں سری لنکا کو جیتنے کے لیے محض 12 رنز درکار تھے اور اب شاہین شاہ آفریدی کے ہاتھ میں گیند موجود تھی۔ یہی وہ موقع تھا جب میچ میں ایک مرتبہ پھر سنسنی عود آئی۔ ان کی جانب سے کروائی گئی ایک فُل ٹاس گیند کے نتیجے میں پہلے دھننجایا ڈی سلوا باؤنڈری کے نزدیک کیچ ہوئے اور اس سے اگلی ہی گیند پر نئے آنے والے بلے باز دونتھ وکٹ کے پیچھے محمد رضوان کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ یہ وہ موقع تھا جب شاہین ہیٹ ٹرک پر تھے تاہم نئے آنے والے بلے باز مدھوشان نے ایک رنز لے لیا۔ اب کھیل کا آخری اوور تھا اور سری لنکا کو جیتنے کے لیے 8 رنز درکار تھے جبکہ اس کی تین وکٹیں باقی تھیں، اس موقع پر گیند زمان خان کے ہاتھ میں دی گئی۔ زمان کا آخری اوور وہ تھا جو سنسنی سے بھرپور تھا، ان کے اوور کی چوتھی گیند پر رنز لینے کی کوشش کے دوران مادھوشان زمان کے ہاتھوں رن آؤٹ ہوئے۔ اب دو گیندوں پر چھ رنز کی ضرورت تھی جب اسالنکا نے وکٹ کے پیچھے چوکا لگا کر سری لنکا کو فتح کے انتہائی قریب کر دیا کیونکہ اب آخری گیند پر جیت کے لیے محض دو رن درکار تھے جو باآسانی بن گئے۔ پاکستان کی جانب سے محمد رضوان 73 گیندوں پر 86 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے جبکہ عبداللہ شفیق 52 اور افتخار احمد 47 رنز بنا کر نمایاں رہے۔ دوسری جانب سری لنکا کی جانب سے متھیشا پتھیرانا آٹھ اوورز میں 65 رنز اور تین وکٹیں لے کر نمایاں رہے جبکہ پرامود مدھوشان نے دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ انڈیا کے خلاف آخری میچ میں عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرنے والے دونتھ ویلالاگے صرف ایک وکٹ حاصل کر سکے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2vj213l3edo", "summary": "دمتھ ویلالگے ایک ہی روز پہلے سپن کے خلاف موثر ترین بیٹنگ لائن کے طوطے اڑا چکے ہیں، سو کچھ ہول سے ضرور اٹھتے ہیں کہ وہ اور مہیش تیکشنا پاکستانی مڈل آرڈر سے کیا سلوک کریں گے مگر تشفی بخش پہلو یہ کہ خوش نصیبی سے پاکستان کو بھی یہاں سعود شکیل جیسا دماغ میسر ہو گا۔", "title": "زخم خوردہ ٹائیگرز بھی حیران کر سکتے ہیں: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-09-14T02:11:20.332Z", "id": "c2vj213l3edo", "article": "کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جس ٹیم نے ایک ہی دن پہلے مضبوط پاکستانی الیون کو ریکارڈ شکست سے دوچار کیا تھا، وہ نوآموز سری لنکن سپنر دموتھ ویلالگے کے سامنے ڈھیر ہو جائے گی۔ وہ تو بھلا ہو انڈین بولنگ کا کہ قلیل ہدف کا دفاع کر کے ٹورنامنٹ کو کھلا رکھا، وگرنہ ایشیا کپ کے فائنلسٹس پہلے ہی طے ہو چکے ہوتے اور پاکستان بمقابلہ سری لنکا محض ایک کاغذی کارروائی رہ جاتی۔ نسیم شاہ اور حارث رؤف دونوں ہی ایشیا کپ سے باہر ہو چکے ہیں اور پاکستان کا مسلّمہ پیس اٹیک اب اہم ترین میچز میں جادو جگانے سے محروم رہے گا۔ مگر پیس کے معاملے میں پاکستان کے ذخائر یوں زرخیز ہیں کہ متبادل ڈھونڈنے میں سر نہیں کھجانا پڑا۔ اس نئی الیون میں بھی پیس اس قدر موجود ہے کہ اگر تجربے کی کمی آڑے نہ آئے تو زمان خان اور محمد وسیم بھی تگڑے سے تگڑے بلے بازوں کو مبہوت کر سکتے ہیں۔ انڈیا کے خلاف میچ میں پاکستانی بلے باز کلدیپ یادو کی سبک خرامی کے خمار سے باہر نہ نکل پائے تھے۔ گو کلدیپ یادو اس شام واقعی ناقابلِ تسخیر تھے مگر سپن کے سامنے اس مڈل آرڈر کی کم مائیگی بھی پوری طرح آشکار ہوئی۔ دمتھ ویلالگے ایک ہی روز پہلے سپن کے خلاف موثر ترین بیٹنگ لائن کے طوطے اڑا چکے ہیں، سو کچھ ہول سے ضرور اٹھتے ہیں کہ وہ اور مہیش تیکشنا پاکستانی مڈل آرڈر سے کیا سلوک کریں گے مگر تشفی بخش پہلو یہ کہ خوش نصیبی سے پاکستان کو بھی یہاں سعود شکیل جیسا دماغ میسر ہو گا۔ اپنے مختصر سے کریئر میں سعود شکیل کئی ایک اننگز میں یہ ثابت کر چکے ہیں کہ موجودہ پاکستانی بیٹنگ ذخائر میں سے سپن کے خلاف سب سے موثر بلے باز وہی ہیں۔ سری لنکا ہی کے خلاف حالیہ ٹیسٹ میں ڈبل سینچری کے بعد ان کا اعتماد مختصر فارمیٹ میں بھی بار آور ہو سکتا ہے۔ اس پر طُرہ یہ کہ دباؤ کے ہنگام میں وہ اپنے اعصاب بھی منتشر نہیں ہونے دیتے۔ کافی عرصے سے پاکستان نے شکست کا ذائقہ چکھا نہیں تھا اور انڈیا سے شرمناک شکست بھی ورلڈ کپ سے پہلے ایک عمدہ سبق ہے کہ رنز کے لیے ہمیشہ ٹاپ آرڈر اور وکٹوں کے لیے ہمیشہ پیس کی راہ تکنے والی ٹیم کو اب اپنے مڈل آرڈر اور سپن بولنگ کا قبلہ درست کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ثانیاً اب تک یہ بھی واضح ہو چکا کہ سری لنکن پچز دوسری اننگز تک پہنچتے پہنچتے سست تر ہو جاتی ہیں، سو ہدف کے تعاقب سے گریز ہی بھلا۔ یہاں سعود شکیل کی موجودگی سے پاکستان کے امکانات کچھ روشن نظر آتے ہیں کہ اگر وہ سری لنکن سپن کا بار جھیل گئے تو شاید نسیم شاہ اور حارث رؤف کی عدم دستیابی بھی سری لنکن بیٹنگ کو کچھ خاص فائدہ نہ دے پائے گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cglep82mvrlo", "summary": "دونتھ ویلالاگے کا نام اس سے پہلے زیادہ لوگوں نے نہیں سنا تھا لیکن اب یہ نام ہر طرف گونج رہا ہے کیونکہ منگل کی شب انڈیا اور سری لنکا کے درمیان ایشیا کپ کا اہم میچ حقیقت میں انڈیا اور ویلالاگے کے درمیان مقابلہ بن کر رہ گیا تھا۔", "title": "’پاکستان کو اس بچے سے بچ کر رہنا ہو گا‘: انڈیا کے ٹاپ آرڈر کو بے بس کرنے والے ویلالاگے کون ہیں؟", "firstPublished": "2023-09-13T05:19:14.471Z", "id": "cglep82mvrlo", "article": "سری لنکا کے خلاف انڈیا نے ٹاس جیت کر کچھ اسی طرح کا آغاز کیا جیسا اس نے پاکستان کے خلاف کیا تھا۔ ایک وقت میں انڈیا کا سکور 11 اوور میں بغیر کسی نقصان کے 80 رنز تھا جب سری لنکا کے ایک جواں سال کرکٹر کو گیند تھمائی گئی۔ دونتھ ویلالاگے کا نام اس سے پہلے زیادہ لوگوں نے نہیں سنا تھا لیکن اب یہ نام ہر طرف گونج رہا ہے کیونکہ منگل کی شب انڈیا اور سری لنکا کے درمیان ایشیا کپ کا اہم میچ حقیقت میں انڈیا اور ویلالاگے کے درمیان مقابلہ بن کر رہ گیا تھا۔ ویلالاگے کے دس اوور مکمل ہوئے تو انڈیا کی سانس میں سانس آئی۔ انھوں نے ایک میڈن اور 40 رنز کے عوض انڈیا کے پانچ اہم بلے بازوں کو آوٹ کیا اور اس طرح وہ سب سے کم عمری میں ون ڈے میں پانچ وکٹ لینے والے سری لنکن کھلاڑی بھی بن گئے۔ لیکن جب وہ اور ڈی سلوا بیٹنگ کر رہے تھے تو ایک موقع پر جیت سری لنکا کی جھولی میں گرتی نظر آ رہی تھی اور میچ کی کمنٹری کرنے والے یہی کہہ رہے تھے کہ ’یہ میچ انڈیا بمقابلہ سری لنکا نہیں بلکہ انڈیا بمقابلہ ویلالاگے ہے۔‘ انھوں نے گذشتہ سال پالیکیلے میں آسٹریلیا کے خلاف اپنا پہلا ون ڈے میچ کھیلا تھا جس میں انھوں نے دو وکٹیں لی تھیں اور اب تک وہ 13 ون ڈے میں 18 وکٹیں لے چکیں ہیں جن میں سے نو وکٹیں انھوں نے اسی ایشیا کپ میں لی ہیں۔ انڈیا اور سری لنکا سمیت پاکستا میں بھی سوشل میڈیا پر ویلالاگے ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہیں۔ ایک جانب سری لنکا میں ایک نئے کھلاڑی کی دھوم مچی ہے تو وہیں انڈیا میں بھی ویلالاگے کا چرچہ ہو رہا ہے۔ انڈیا کے سابق کرکٹر وسیم جعفر نے لکھا کہ ’کیا گیم تھا! اتنے اتار چڑھاؤ! اکشر پٹیل کے 26 اور آخری وکٹ کی شراکت کے 27 رنز کتنے اہم تھے! کلدیپ کی چار وکٹیں اور جدو (جدیجہ) کی اہم وکٹیں۔ ویلالاگے کے لیے پانچ وکٹیں اور 42 رنز۔ بدقسمتی سے وہ ہارنے والی ٹیم میں تھے لیکن وہ مستقبل کے کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔‘ ایسے میں پاکستانی شائقین کو یہ فکر لاحق ہے کہ انڈیا کے ٹاپ بلے بازوں کو تگنی کا ناچ نچانے والے اس جادوگر کے سامنے پاکستان کے بلے باز کیسے جم کر کھیل پائیں گے جو دو ہی دن پہلے انڈیا کے سپنر کلدیپ یادو کا نشانہ بن گئے تھے۔ خیال رہے کہ کلدیپ یادو نے پاکستان کے خلاف پانچ وکٹیں لی تھیں اور وہ کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آرہے تھے لیکن ویلالاگے نے جس طرح کلدیپ کو گذشتہ رات کھیلا اس کے بعد روہت شرما نے انھیں بولنگ سے ہٹا دیا۔ ایشیا کپ کے فائنل میں انڈیا تو پہلے ہی پہنچ چکا ہے جس کے بعد اب پاکستان کے لیے سری لنکا کے خلاف میچ سیمی فائنل کی حیثیت رکھتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cqlgw0k4ynpo", "summary": "پاکستان کے خلاف اپنا شاندار ریکارڈ برقرار رکھتے ہوئے کوہلی نے یقینی بنایا کہ ڈیتھ اوورز سے بھی بھرپور نفع کشید کیا جائے۔ راہول اور کوہلی کی ساجھے داری کے بعد بارش ہی پاکستان کا بہترین ہدف ہو سکتی تھی، مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد۔", "title": "سمیع چوہدری کا کالم: ’مگر ہر بہترین کا ایک بدترین بھی ہوتا ہے‘", "firstPublished": "2023-09-12T02:09:59.437Z", "id": "cqlgw0k4ynpo", "article": "ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کوئی کپتان تبھی کر سکتا ہے جب اسے اپنے فاسٹ بولرز پر فقط اعتماد ہی نہیں، مکمل یقین ہو۔ بابر کو بھی شاہین پر بھرپور یقین تھا اور پھر پچھلے چند پاکستان انڈیا مقابلوں کی رِیت بھی تو یہی رہی ہے کہ شاہین کی لیفٹ آرم پیس انڈین ٹاپ آرڈر کے گلے کا طوق بن جایا کرتی ہے۔ مگر ہر بہترین کا ایک بدترین بھی ہوتا ہے۔ شاہین اپنے کرئیر کے اوائل میں کئی ایک برے دن دیکھ چکے ہیں لیکن نمبرون کی شہرت کمانے کے بعد سے یہ شاید ان کا بدترین دن تھا۔ وہ ہمیشہ روہت شرما پر بھاری پڑتے آئے ہیں مگر یہاں شرما اور شبھمان گِل ان پر بھاری پڑ گئے۔ شروعات سے ہی انڈین ٹاپ آرڈر نے اپنے عزائم کی جارحیت عیاں کر دی۔ لیفٹ آرم پیس کے خلاف پے در پے ناکامیوں سے سیکھے سبق کا اثر یہ تھا کہ شرما سے پہلے ہی شبھمان گِل کے قدم حرکت میں آ گئے اور شاہین کے منصوبے یکسر ڈگمگا گئے۔ اس میں شبہ نہیں کہ انڈین بیٹنگ سپنرز کے خلاف قوی ترین ریکارڈ رکھتی ہے مگر شاداب کا یہ سپیل کسی بھی لیگ سپنر کے زاویۂ نگاہ سے مثالی نہیں تھا اور اگرچہ فہیم اشرف دوسرے کنارے سے کچھ دباؤ بنا رہے تھے مگر شاداب کے کنارے سے رنز کی ایسی گنگا بہی کہ پاکستان کی امیدیں بہا لے گئی۔ بابر عظم کے لیے یہ طے کرنا نہایت مشکل تھا کہ بارش کے منڈلاتے خطرے اور حارث رؤف کی انجری کے بعد کس کے اوور کب اور کہاں کروائیں۔ ویسے بھی جب مقابل ورات کوہلی جیسا مشاق کھلاڑی ہو تو اس سے بہتیرا فرق بھی نہیں پڑتا کہ بولنگ کون کروا رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف اپنا شاندار ریکارڈ برقرار رکھتے ہوئے کوہلی نے یقینی بنایا کہ ڈیتھ اوورز سے بھی بھرپور نفع کشید کیا جائے۔ راہول اور کوہلی کی ساجھے داری کے بعد بارش ہی پاکستان کا بہترین ہدف ہو سکتی تھی مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد۔ جسپریت بمراہ کی ون ڈے فارمیٹ میں واپسی جتنے بھی سوالات کو جنم دے رہی تھی، وہ سبھی دم توڑ گئے جب انھوں نے امام الحق کے اوسان خطا کیے۔ اسی پر موقوف نہیں، دنیا کے نمبرون بلے باز بابر اعظم بھی جھوجھتے ہی رہ گئے کہ آؤٹ سوئنگ کہاں سے آ رہی ہے اور ان سوئنگ کدھر کو جا رہی ہے۔ طویل عرصے بعد مسابقتی ون ڈے کرکٹ کھیلنے والے بمراہ کی مہارت اور درستی یہاں انتہا پر تھی کہ انھوں نے اس میچ میں دیگر سبھی فاسٹ بولرز سے دوگنا سوئنگ حاصل کی۔ جو وکٹ کچھ ہی دیر پہلے بلے بازی کی جنت نظر آ رہی تھی، یکایک اس کا نقشہ پلٹ گیا اور بیٹنگ ایک ڈراؤنا خواب بن گئی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckdz9xq5gr9o", "summary": "نیدرلینڈز کی ایک عدالت نے پاکستان کے سابق کرکٹر خالد لطیف کو انتہائی دائیں بازو کے سیاسی رہنما گیرٹ وائلڈرز کے قتل کرنے پر اُکسانے کے جرم میں 12 برس قید کی سزا سُنا دی ہے۔", "title": "خالد لطیف: نیدر لینڈ کی عدالت نے قتل پر اُکسانے کے کیس میں سابق پاکستانی کرکٹر کو 12 برس قید کی سزا سنا دی", "firstPublished": "2023-09-11T16:07:34.684Z", "id": "ckdz9xq5gr9o", "article": "نیدرلینڈز کی ایک عدالت نے پاکستان کے سابق کرکٹر خالد لطیف کو انتہائی دائیں بازو کے سیاسی رہنما گیرٹ وائلڈرز کے قتل کرنے پر اُکسانے کے جرم میں 12 برس قید کی سزا سُنا دی ہے۔ یاد رہے کہ خالد لطیف پاکستان میں رہائش پزیر ہیں اور سماعت کے دوران کسی موقع پر بھی وہ اس کیس کا حصہ نہیں بنے۔ سزا کی خبر سامنے آنے کے بعد بھی انھوں نے اس معاملے پر اپنا کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ استغاثہ نے ثابت کیا ہے کہ خالد لطیف نے سنہ 2018 میں ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں انھوں نے گیرٹ وائلڈرز کے قتل پر 30 لاکھ روپے انعام کی پیشکش کی تھی۔ ہیگ کی ضلعی عدالت نے کہا کہ ’مشتبہ شحض (خالد لطیف) کے استعمال کیے گئے الفاظ واضح ہیں: اُنھوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہر اس شخص کو کافی رقم ادا کریں گے جو ایک مخصوص عمل میں ملوث ہوں گے، یعنی گیرٹ وئلڈرز کے قتل میں۔‘ خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ’یہ بہت ممکن ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی اس کال پر عمل کرنے کے لیے مجبور ہو گا۔‘ عدالت نے اپنے فیصلے میں پاکستان میں اس ضمن میں ہونے والے احتجاج کا حوالہ دیا جن کے دوران نیدرلینڈز کے پرچم جلائے گئے تھے اور لوگوں نے گیرٹ وئلڈرز کے قتل کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ خالد لطیف نے پاکستان کے لیے پانچ ون ڈے اور 13 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز کھیلے ہیں۔ انھوں نے سنہ 2010 کی ایشیئن گیمز میں پاکستانی ٹیم کی کپتانی بھی کی تھی لیکن سنہ 2017 میں اُن پر سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے پانچ سال کی پابندی لگا دی گئی تھی۔ 60 سالہ گیرٹ وائلڈرز یورپ کے انتہائی دائیں بازو کے رہنماؤں میں سے ایک ہیں اور گذشتہ دو دہائیوں کے دوران نیدرلینڈز میں امیگریشن کی بحث کو تشکیل دینے والے اہم کردار رہے ہیں، حالانکہ وہ کبھی حکومت میں نہیں رہے۔ یاد رہے کہ گیرٹ وائلڈر نے قتل کی دھمکیوں اور ان کے عمل سے دوسروں کی زندگیوں کو لاحق خطرات کے سبب پیغمبر اسلام کے خاکوں کا مقابلہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اپنے بیان میں انھوں نے کہا تھا کہ ’اسلامی تشدد کے خطرات کے سبب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب خاکے بنانے کا مقابلہ نہیں ہو گا۔‘ تاہم مقابلے کے انعقاد کے اعلان کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں شدید احتجاج کیا گیا تھا اور پاکستان میں ایک مذہبی سیاسی جماعت نے اس سلسلے میں لاہور سے اسلام آباد کی جانب احتجاجی لانگ مارچ شروع کیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw9gvxqqqdzo", "summary": "پاکستان نے پہلے 10 اوورز میں 43 رنز بنائے لیکن پھر 11ویں اوور میں ہارڈک پانڈیا جب بولنگ کے لیے آئے تو انھوں نے بابر اعظم کو بولڈ کر دیا۔ اس اوور کے اختتام پر اچانک بارش نے ایک بار پھر میچ میں خلل ڈالا ہے اور تاحال میچ شروع نہیں ہو پایا۔", "title": "ایشیا کپ 2023: انڈیا نے پاکستان کو 228 رنز سے تاریخی شکست دے دی", "firstPublished": "2023-09-11T12:25:49.439Z", "id": "cw9gvxqqqdzo", "article": "پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایشیا کپ کے سپر فور مرحلے کا میچ جو گذشتہ روز بارش کے باعث ریزرو ڈے پر منتقل ہو گیا تھا آج بالآخر دوبارہ شروع ہوا تو انڈین بلے بازوں وراٹ کوہلی اور لوکیش راہل نے سنچریاں بنا کر پاکستان کو 357 رنز کا ہدف دیا۔ ایسے میں جسپریت بمرا کی ایک گیند نے امام الحق کے بلے کا باہری کنارہ لیا اور وہ سلپ میں کھڑے شبھمن گل کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گئے۔ کپتان بابر اعظم جب کریز پر آئے تو انھوں نے کچھ اچھی شاٹس بھی کھیلیں اور کئی مرتبہ گیند ان کے بیٹ کے بہت قریب سے گزر کر کیپر کے پاس گئی۔ پاکستان نے پہلے 10 اوورز میں 43 رنز بنائے لیکن پھر 11ویں اوور میں ہارڈک پانڈیا جب بولنگ کے لیے آئے تو انھوں نے بابر اعظم کو بولڈ کر دیا۔ اس اوور کے اختتام پر اچانک بارش نے ایک بار پھر میچ میں خلل ڈالا ہے جس کے باعث میچ میں کچھ وقت کے لیے تعطل آیا۔ تاہم دوبارہ میچ شروع ہوا تو کریز پر آنے والے محمد رضوان بھی فقط دو رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ اگرچہ آج کا میچ بھی بارش کے باعث تعطل کا شکار رہا تاہم پاکستان کو میچ سے پہلے ہی ایک اور دھچکا اس وقت پہنچا جب پاکستانی ٹیم مینجمنٹ نے اعلان کیا کہ فاسٹ بولر حارث رؤف ممکنہ انجری کے باعث میچ میں مزید حصہ نہیں لیں گے۔ آج میچ شروعات میں تعطل کے بعد جب پاکستانی وقت کے مطابق شام چار بج کر 10 منٹ پر شروع ہوا تو اوورز میں کمی نہیں آئی تھی اور اگر مزید بارش نہیں ہوتی تو یہ میچ پورے 50 اوورز کے لیے کھیلا جائے گا۔ شاداب نے اپنے پہلے اوور میں 19 رنز دیے اور ابتدائی خراب بولنگ کے بعد روہت شرما کی وکٹ لے کر پاکستان کو پہلی کامیابی دلائی۔ لانگ آف پر روہت شرما کا ایک مشکل کیچ فہیم اشرف نے پکڑا۔ روہت ایک جارحانہ نصف سنچری کے بعد پویلین لوٹ گئے، ان کی اننگز میں چار چھکے شامل تھے۔ اگلے ہی اوور میں شاہین آفریدی نے اٹیک میں واپس آ کر شبھمن گل کو آف کٹر سے چکما دیا اور ان کا کیچ کوور پر آغا سلمان نے پکڑا۔ شبھمن گل کی 58 رنز کی اننگز میں 10 چوکے شامل تھے اور وہ گذشتہ پاکستان-انڈیا میچ کے مقابلے کافی بہتر انداز میں کھیلے۔ ابھی وراٹ کوہلی اور کے ایل راہل کے درمیان 24 رنز کی شراکت ہی قائم ہوئی تھی کہ بارش کے باعث میچ روک دیا گیا۔ اس وقت تک انڈیا نے 24.1 اوورز میں دو وکٹوں کے نقصان پر 147 رنز بنائے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1001d34e7o", "summary": "شاہین شاہ آفریدی روایتی انداز میں انڈین اوپنرز کی وکٹ آغاز میں ہی لینے میں تو ناکام رہے لیکن ان کی جانب سے انڈین بولر جسپریت بمراہ کو بیٹے کی پیدائش پر تحفہ دینے کی ویڈیو نے کئی لوگوں کے دل جیت لیے۔", "title": "شاہین آفریدی کا جسپریت بمراہ کو بیٹے کی پیدائش پر تحفہ: ’میدان میں لڑتے ہیں، باہر عام انسان ہوتے ہیں‘ ", "firstPublished": "2023-09-11T05:09:43.922Z", "id": "cd1001d34e7o", "article": "اتوار کو سری لنکا میں ایشیا کپ کے دوران پاکستان اور انڈیا کا مقابلہ بارش کی نظر ہونے سے شاہین شاہ آفریدی روایتی انداز میں انڈین اوپنرز کی وکٹ آغاز میں ہی لینے میں تو ناکام رہے لیکن ان کی جانب سے انڈین بولر جسپریت بمراہ کو بیٹے کی پیدائش پر تحفہ دینے کی ویڈیو نے کئی لوگوں کے دل جیت لیے۔ یہ ویڈیو پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے سوشل میڈیا سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر سامنے آئی جس میں شاہین شاہ آفریدی انڈین فاسٹ بولر جسپریت بمراہ کو تحفہ دیتے دکھائی دیے۔ واضح رہے کہ انڈین بولر جسپریت بمراہ حال ہی میں باپ بنے ہیں اور اسی وجہ سے وہ ٹیم کو ٹورنامنٹ کے بیچ چھوڑ کر واپس چلے گئے تھے لیکن پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والے میچ سے قبل انھوں نے ٹیم میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔ لیکن انڈیا کی بیٹنگ کے درمیان ہی ایک بار پھر بارش کی وجہ سے وفقہ ہوا تو اسی وقفے کے درمیان شاہین شاہ آفریدی ہاتھ میں ایک تحفہ لیے جسپریت بمراہ کی جانب بڑھے۔ دوسری جانب جسپریت بمراہ شاہین شاہ آفریدی کا شکریہ ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی نے اس ویڈیو کو ایکس پر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’پیار اور امن۔ بہت بہت مبارک ہو جسپریت بمراہ۔ پورے خاندان کے لیے مبارک۔۔۔‘ ایشیا کپ میں انڈیا اور پاکستان کے پہلے میچ سے پہلے بھی پی سی بی کی جانب سے ریلیز کی گئی ایک ویڈیو میں کوہلی اور حارث رؤف کی ملاقات دکھائی گئی تھی۔ اس ویڈیو میں پاکستانی اور انڈین کھلاڑیوں کی دوستانہ ماحول میں گپ شپ بھی دکھائی گئی، جو عام طور پر دونوں ملکوں کے درمیان میچ کے گرد بننے والی فضا کے بالکل برعکس ہے۔ تاہم شاہین شاہ آفریدی کی جانب سے اس تحفے کو سوشل میڈیا پر کافی سراہا گیا اور انڈیا سے بھی صارفین شاہین شاہ آفریدی کے گن گاتے نظر آئے۔ انیل تیواتی نامی انڈین صارف نے ایکس پر لکھا کہ ماضی میں سچن ٹنڈولکر، شعیب اختر، ہربھجن کے زمانے میں ایسے رویے بہت عام تھے لیکن وہ کیمرے کے سامنے ایسا کرنے سے گریز کرتے تھے۔ ’فیلڈ سے باہر ان کے درمیان ایک اچھا تعلق ہوا کرتا تھا اور میدان میں کیمروں کی موجودگی میں ان کا جذبہ واقعی یادگار ہوتا تھا۔ میں ان وقتوں کو یاد کرتا ہوں۔‘ ایک اور انڈین صارف راہول شرما نے لکھا کہ آپ میدان میں پوری جان لڑاتے ہیں لیکن میدان سے باہر ہمیشہ اچھے رویے کا اظہار ہی کسی اچھے کھلاڑی کی نشانی ہوتی ہے۔ راہول نے یہ بھی کہا کہ شاہین شاہ آفریدی کے لیے تمنائیں کہ وہ آنے والے ورلڈ کپ میں بہت سی وکٹیں لیں لیکن انڈیا کے خلاف زیادہ نہیں۔ اویشیک گویال نامی انڈین صارف نے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ انھوں نے لکھا کہ خاردار تاروں سے باہر دوستی۔ شاہین شاہ آفریدی کا دل موہ لینے والا عمل۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2rjyywwd3o", "summary": "بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مکسڈ مارشل آرٹ (ایم ایم اے) فائٹر شاہ زیب رند نے امریکہ میں گیمبریڈ ایم ایم اے لیگ کے بیئر نکل میچ میں اپنے میکسیکن حریف کارلوس گویرہ کو پہلے ہی راؤنڈ میں شکست دے دی۔", "title": "کوئٹہ کے ایم ایم اے فائٹر شاہ زیب رند جنھوں نے ’بیئر نکل‘ مقابلے میں حریف کو پہلے ہی راؤنڈ میں شکست دی", "firstPublished": "2023-04-03T08:13:37.960Z", "id": "cv2rjyywwd3o", "article": "بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مکسڈ مارشل آرٹ (ایم ایم اے) فائٹر شاہ زیب رند نے امریکہ میں گیمبریڈ ایم ایم اے لیگ کے بیئر نکل میچ میں اپنے میکسیکن حریف کارلوس گویرہ کو پہلے ہی راؤنڈ میں شکست دے دی۔ یہ میچ امریکہ کی ریاست فلوریڈا میں جمعے کی رات کو ہوا اور یہ شاہ زیب رند کا پہلا ایم ایم اے بیئر نکل مقابلہ تھا۔ بییر نکل میں فائٹرز اپنے ہاتھوں پر کوئی حفاظتی گلو نہیں پہنتے۔ اس جیت کے ساتھ شاہ زیب کا ریکارڈ ایک فتح اور صفر شکست ہو گیا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شاہ زیب رند نے بتایا ’میرا حریف بہت ہی مشکل تھا بہت تجربہ کار فائٹر تھا اور اس کا فائٹنگ سٹائل موئی تھائی ہے۔‘ شاہ زیب کے مکوں کی وجہ سے کارلوس کی آنکھ کے قریب سے خون بہنے شروع ہو گیا اور 2 منٹ 18 سیکنڈ پر ریفری نے میچ روک دیا جس سے شاہ زیب یہ فائٹ جیت گئے۔ شاہ زیب کہتے ہیں کہ میکسیکو کے کھلاڑی کے تجربے کے پیش نظران کا خیال تھا کہ مقابلے کے تینوں مراحل ہوں گے لیکن انھوں نے پہلے ہی مرحلے میں کارلوس گویرا کو شکست سے دوچارکیا۔ میچ سے پہلے دونوں حریفوں کے درمیان فائنل فیس آف بھی ہوا یعنی ان کا آمنا سامنا ہوا جس کی خاص بات یہ تھی کہ شاہ زیب نے شلوار قمیض کے ساتھ ساتھ روایتی بلوچ پگڑی بھی پہنی ہوئی تھی۔ خیال رہے کہ شاہزیب رند نے رواں برس اپریل میں امریکہ میں کراٹے کامبیٹ لیگ میں لائٹ ویٹ کیٹیگری میں وینزویلا سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی گابوڈیازکو شکست سے دوچار کیا تھا فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شاہ زیب رند نے بتایا تھا کہ ان کے حریف کھلاڑی تینوں راؤنڈز میں اُن کی تکنیک کے سامنے نہیں ٹھہر سکے جس کے باعث وہ ہر راؤنڈ میں ان پر حاوی رہے۔ شاہ زیب بتاتے ہیں کہ انھوں نے یہ مقام حاصل کرنے کے لیےجو کچھ کیا وہ اپنی مدد آپ کے تحت کیا اور اس حوالے سے ان کی حکومت پاکستان اور نہ ہی حکومت بلوچستان نے کوئی مدد کی۔ تاہم بلوچستان کے وزیر اعلیٰ عبدل القدوس بزنجو نے ان کی فتح پر انھیں مبارکباد دی ہے۔ شاہ زیب رند کا تعلق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے ہے اور انھوں نے انٹرنیشنل ریلشنز (بین الاقوامی تعلقات) میں بی ایس کی تعیلم حاصل کر رکھی ہے۔ شاہ زیب رند نے کہا کہ اس مقابلے میں کامیابی پر وہ بہت خوش ہیں کیونکہ ’میں پاکستان کی نمائندگی کر رہا تھا اور اس حوالے سے مجھ پر ایک بہت بڑا بوجھ تھا۔‘ ’اس کھیل میں ویسے پاکستان کو امریکہ یا دیگر ممالک میں لوگ نہیں جانتے یہی وجہ ہے کہ میں نے ہمت اور حوصلے سے کھیل کر پاکستان اور بلوچستان کا نام روشن کیا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c5144vy2858o", "summary": "ایشیا کپ 2023 کے سپر فور راؤنڈ میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ کچھ کھیل کے بعد بارش کے باعث روک دیا گیا اور اتوار کو مزید کھیل ممکن نہ ہونے کے باعث بقیہ میچ ریزو ڈے پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ ", "title": "ایشیا کپ اور بارش: ریزرو ڈے اور ڈک ورتھ لوئس فارمولا انڈیا پاکستان میچ کو کیسے متاثر کر سکتا ہے؟", "firstPublished": "2023-09-10T16:03:28.921Z", "id": "c5144vy2858o", "article": "ایشیا کپ 2023 کے سپر فور راؤنڈ میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ کچھ کھیل کے بعد بارش کے باعث روک دیا گیا اور اتوار کو مزید کھیل ممکن نہ ہونے کے باعث بقیہ میچ ریزرو ڈے پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ اتوار کو انڈیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 24.1 اوورز میں دو وکٹوں کے نقصان پر 147 رنز بنائے۔ کپتان روہت شرما اور ان کے ساتھی اوپنر شبھمن گل نصف سنچریاں بنا کر آؤٹ ہوئے۔ ریزرو ڈے لاگو کیے جانے کے بعد اب یہ میچ یہیں سے پیر کو پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر ڈھائی بجے شروع ہوگا۔ تاہم پیر کو بھی گرج چمک کے ساتھ بارش کی پیشگوئی کی گئی ہے، اگر کل بارش ہوتی ہے تو ڈک ورتھ لوئس سسٹم کے لاگو ہونے کا قوی امکان موجود ہے۔ شاداب نے اپنے پہلے اوور میں 19 رنز دیے اور ابتدائی خراب بولنگ کے بعد روہت شرما کی وکٹ لے کر پاکستان کو پہلی کامیابی دلائی۔ لانگ آف پر روہت شرما کا ایک مشکل کیچ فہیم اشرف نے پکڑا۔ روہت ایک جارحانہ نصف سنچری کے بعد پویلین لوٹ گئے، ان کی اننگز میں چار چھکے شامل تھے۔ اگلے ہی اوور میں شاہین آفریدی نے اٹیک میں واپس آ کر شبھمن گل کو آف کٹر سے چکما دیا اور ان کا کیچ کوور پر آغا سلمان نے پکڑا۔ شبھمن گل کی 58 رنز کی اننگز میں 10 چوکے شامل تھے اور وہ گذشتہ پاکستان-انڈیا میچ کے مقابلے کافی بہتر انداز میں کھیلے۔ ابھی وراٹ کوہلی اور کے ایل راہل کے درمیان 24 رنز کی شراکت ہی قائم ہوئی تھی کہ بارش کے باعث میچ روک دیا گیا۔ اس وقت تک انڈیا نے 24.1 اوورز میں دو وکٹوں کے نقصان پر 147 رنز بنائے تھے۔ آئی سی سی کے مطابق بدلتی پلیئنگ کنڈیشنز کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر سال اس فارمولے پر نظرثانی کی جاتی ہے اور ہر دو سے تین سال میں اعداد و شمار بدلتے رہتے ہیں۔ 2018 میں یہ کہا گیا تھا کہ دوسرے نمبر پر بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے جیتنے کا امکان ماضی کے برعکس قدرے بڑھ چکا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1992 کے ورلڈ کپ میچ میں جنوبی افریقہ کو اسی متنازع فارمولے کی وجہ سے انگلینڈ کے خلاف آخری گیند پر جیتنے کے لیے 21 رنز درکار تھے اور جنوبی افریقہ یہ میچ ہار گیا تھا۔ مگر آج استعمال ہونے والا ڈک ورتھ لوئس فارمولا اس قدر تبدیل ہوچکا ہے کہ آئی سی سی کا کہنا ہے کہ 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق جنوبی افریقہ کو اس آخری گیند پر تین رنز درکار ہونا تھے۔ سنہ 2019 کے ورلڈ کپ سیمی فائنل بھی ریزرو ڈے پر منتقل کیا گیا تھا اور اس کے باعث انڈیا کو مشکل کنڈیشنز میں کیوی بولرز کا مقابلہ کرنا پڑا تھا اور یہ میچ انڈیا ہار گیا تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn0ee1evxq7o", "summary": "اس ایشیا کپ کے سبھی فیصلوں میں جے شاہ ہی جیتتے آئے ہیں اور اگر پاکستان انڈیا میچ ریزرو ڈے کے باوجود مکمل ہونے سے محروم رہ جاتا ہے تو بھی جیت بھلے جے شاہ کی ہی ہو مگر یہ ہار کرکٹ کی ہو گی۔", "title": "سمیع چوہدری کا کالم: ’کیا کرکٹ جے شاہ سے جیت پائے گی؟‘", "firstPublished": "2023-09-10T02:38:43.457Z", "id": "cn0ee1evxq7o", "article": "حالانکہ بی سی سی آئی سربراہ راجر بنی اور ان کے نائب راجیو شکلا چار ہی دن پہلے ذکا اشرف کی دعوت پر لاہور آئے مگر ان دونوں سے کہیں پہلے جے شاہ کو ملتان کے افتتاحی ایشیا کپ میچ کے لیے مدعو کیا گیا تھا لیکن حسبِ توقع انھوں نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا۔ گزشتہ سنیچر کا پاکستان انڈیا مقابلہ بارش کی نذر ہونے کے بعد ایک بار پھر پی سی بی کی جانب سے یہ تجویز دہرائی گئی کہ ایونٹ کے باقی ماندہ میچز لاہور کے بہتر موسم میں منتقل کر دیے جائیں مگر جے شاہ نے اپنے ہی تصورات کی دنیا میں محو رہتے ہوئے، پاکستان کی معاشی صورت حال کا کچھ ایسا نقشہ کھینچا کہ یہاں تو ٹورنامنٹ کا انعقاد ہی ناممکن تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ سپر فور مرحلے کا پاکستان انڈیا میچ بھی نامہرباں موسم کی زد پر ہے اور اپنی پٹاری کھنگالتے ہوئے جے شاہ اس مسئلے کا حل ریزرو ڈے کی صورت میں نکال کر لائے ہیں۔ اگرچہ سنیچر کے پاکستان انڈیا مقابلے میں پاکستان نے شروعات بہت عمدہ کی اور شاہین آفریدی نے انڈین ٹاپ آرڈر کو تگنی کا ناچ نچا چھوڑا مگر اسی میچ میں یہ بیچ کے اوورز تھے جہاں بابر اعظم نے دونوں کناروں سے سپنرز آزمانا شروع کیے اور محبوس انڈین بیٹنگ کو وقار کی بحالی کا آسان رستہ فراہم کر دیا۔ شومئی قسمت کہ وہ میچ مکمل ہی نہ ہو پایا وگرنہ وہ ہدف پاکستانی بیٹنگ کے لیے ایک کڑا امتحان ثابت ہو سکتا تھا۔ دوسری جانب روہت شرما کی ٹیم یہ سوچ رہی ہے کہ کل کے مقابلے میں ان کی حتمی الیون کس شکل میں نمودار ہو گی۔ کے ایل راہول انجری سے صحت یاب ہو چکے ہیں مگر سلیکشن کمیٹی کے لیے دردِ سر ہے کہ پچھلے میچ میں عمدہ اننگز کھیلنے والے ایشان کشن سے صرفِ نظر کیونکر کیا جائے۔ پچھلے میچ کے تلخ تجربات کے بعد یہاں انڈین ٹاپ آرڈر زیادہ محتاط رہے گا اور اگر پہلے پاور پلے میں انڈین وکٹیں کچھ محفوظ رہ گئیں تو انڈیا کے امکانات بڑھ جائیں گے، کیونکہ جسپریت بمراہ اگر صحیح ردھم میں واپس آ جاتے ہیں تو پاکستانی ٹاپ آرڈر اپنے انڈین حریف سے کہیں زیادہ متزلزل ثابت ہو سکتا ہے۔ جب پاکستان انڈیا میچ موسم کی نذر ہو جائے تو نقصان صرف شائقین ہی نہیں اٹھاتے، متعلقہ کرکٹ بورڈز، ایونٹ میزبان اور براڈکاسٹرز کی جیبوں پر بھی خوب بوجھ پڑتا ہے۔ یہاں اس نقصان سے بچنے کو جے شاہ نے ایک ریزرو ڈے رکھ کر یہ یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ ان کے طے کردہ شیڈول کے رنگ میں مزید بھنگ نہ پڑے۔ تاحال اس ایشیا کپ کے سبھی فیصلوں میں جے شاہ ہی جیتتے آئے ہیں اور اگر پاکستان انڈیا میچ ریزرو ڈے کے باوجود مکمل ہونے سے محروم رہ جاتا ہے تو بھی جیت بھلے جے شاہ کی ہی ہو مگر یہ ہار کرکٹ کی ہو گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cq592zjez8qo", "summary": "دو ستمبر کو ہونے والے میچ میں انڈیا کے بلے بازوں نے پاکستان کے مایہ ناز بولرز کا سامنا کیا۔ یہ میچ پاکستان کی بولنگ اور وینیو میں بارش کے علاوہ یہ میچ ایک اور وجہ سے بھی خبروں کی زینت بنا۔ اس کی وجہ سابق انڈین کرکٹر گوتم گمبھیر بنے۔ ان کے ایک بیان کے پر اب پاکستان کے سابق کرکٹر شاہد آفریدی نے بھی رد عمل دے دیا۔", "title": "انڈیا پاکستان کرکٹ میں ’دوستی‘: گوتم گمبھیر کے اعتراض پر شاہد آفریدی کا محبت کا پیغام", "firstPublished": "2023-09-08T05:23:23.146Z", "id": "cq592zjez8qo", "article": "دو ستمبر کو ہونے والے میچ میں انڈیا کے بلے بازوں نے پاکستان کے مایہ ناز بولرز کا سامنا کیا۔ یہ میچ پاکستان کی بولنگ اور وینیو میں بارش کے علاوہ یہ میچ ایک اور وجہ سے بھی خبروں کی زینت بنا۔ چاہے سٹیڈیم میں موجود شائقین کو ’مڈل فنگر‘ یعنی درمیانی انگلی کا اشارہ کرنا ہو یا کمنٹری کے دوران دونوں ملکوں کے کھلاڑیوں پر کی گئی باتیں ہوں گوتم گمبھیر میچ کی خبروں کی زینت بنے۔ ایک ایسے ہی بیان پر اب پاکستان کے سابق کرکٹر شاہد آفریدی نے بھی اپنا رد عمل دے دیا ہے۔ انڈیا پاکستان میچ میں شاداب خان نے ہاردک پانڈیا کے تسمے باندھے اور ان کی تصویر بھی شوشل میڈیا پر کافی شیئر ہوئیں تھیں۔ گمبھیر نے بغیر کسی کا نام لیے اس واقعے کے بارے میں کہا کہ ’آج کل آپ دیکھتے ہیں کہ دو مخالف ٹیموں کے کھلاڑی ایک دوسرے کو تھپتھپاتے اور ہاتھ ملاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ سب کچھ چند سال پہلے تک نہیں ہوا کرتا تھا۔‘ گوتم گمبھیر کے بیان پر شاہد آفریدی نے کہا کہ ’دونوں ممالک کے کھلاڑی دوستانہ رویہ رکھتے ہیں، یہ سب سے اچھی بات ہے۔ میں اسے بہت مثبت انداز میں دیکھتا ہوں۔ جب ہم کسی بھی ملک میں جاتے ہیں تو وہاں اپنے ملک کے سفیر بھی ہوتے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات کرکٹ کے ذریعے ہی بہتر ہو سکتے ہیں۔ سیاست کو بالکل ایک طرف رکھیں۔‘ گوتم گمبھیر کے بیان پر شاہد آفریدی نے کہا کہ ’یہ ان کی اپنی سوچ ہے، میری سوچ مختلف ہے۔ ہم کرکٹر بھی ہیں اور سفیر بھی۔ دنیا میں ہمارے بھی مداح ہیں۔ دونوں طرف پرستار ہیں۔ میرے خیال میں آپ صرف محبت کا پیغام دیں تو بہتر ہوگا۔‘ سنہ 2007 میں کانپور میں ہونے والے ون ڈے میچ میں شاہد آفریدی بولنگ کر رہے تھے اور ان کے سامنے گوتم گمبھیر وکٹ کے سامنے کڑے بلے بازی کر رہے تھے۔ گوتم گمبھیر نے آفریدی کی ایک گیند پر چوکا لگایا اور پھر اگلی ہی گیند پر رن لینے کے لیے بھاگے اور اس دوران دنوں کھلاڑیوں کی آپس می ٹکر ہو گئی اور پھر تلخ کلامی بھی ہوئی تھی اور بعد میں آئی سی سی نے گمبھیر پر جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ گوتم گمبھیر کا دعویٰ ہے وائرل ویڈیو کی ’سچائی یہ ہے کہ اگر کوئی انڈین مخالف نعرے لگاتا ہے اور کشمیر کے بارے میں بولتا ہے، تو آپ کے سامنے والا شخص ظاہر ہے ردعمل دے گا۔ وہ مسکرا کر بس چلا نہیں جائے گا۔ دو تین پاکستانی تھے جو انڈیا مخالف اور کشمیر پر باتیں کر رہے تھے۔ ایسے میں یہ میرا فطری ردعمل تھا۔ میں اپنے ملک کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتا۔ میں اس قسم کا انسان بھی نہیں ہوں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg5d2wwvnno", "summary": "انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے ایک نوجوان نے پڑھائی چھوڑ کر باپ کی ساری جمع پونجی ریسلر بننے کے لئے لگا دی", "title": "بادشاہ خان: ’خواب میں ورلڈ چیمپیئن کو ہرایا تو ٹھان لی کہ ریسلر بن کر ہی رہوں گا‘", "firstPublished": "2023-09-07T04:12:59.908Z", "id": "crg5d2wwvnno", "article": "یہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع رام بن سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ عارف سلیم کا خواب ہے۔ وہ ’بادشاہ خان‘ کے نام سے عالمی ریسلر بننے کے لیے گذشتہ تین سال سے انڈین پنجاب کے جالندھر شہر میں ایک عالمی ریسلر کی نجی اکیڈمی میں ڈبلیو ڈبلیو ای کے لیے تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ یہ اکیڈمی انڈیا کے ’گریٹ کھلی‘ چلاتے ہیں جنھوں نے ڈبلیو ڈبلیو ای یا ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ کے ایک مقابلے میں ’دی انڈر ٹیکر‘ کے نام سے مشہور ریسلر کو ہرایا تھا۔ انڈیا کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ڈبلیو ڈبلیو ای طرز کی ریسلنگ کا نہ تو کوئی رجحان رہا ہے اور نہ ہی کوئی تربیت گاہ تو پھر عارف سلیم کو یہ شوق کیسے ہوا؟ بادشاہ خان کے والد محمد سلیم انڈیا کی نیم فوجی فورس سی آر پی ایف میں انسپکٹر ہیں۔ ’پھر ایک چھُٹی کے دن میں عارف کو اپنے کیمپ لے گیا جہاں ہال میں ایک بڑا ٹی وی تھا۔ اس پر یہی ریسلنگ میچ ہو رہا تھا۔ عارف دن بھر دیکھتا رہا اور پھر گھر پر اس نے ٹی وی پر صرف یہی دیکھنا شروع کر دیا۔‘ ان کا کہنا ہے کہ بادشاہ خان نے آٹھویں جماعت سے ہی ریسلر بننے کی ضد شروع کر دی تھی لیکن کسی طرح سے ان کو دسویں جماعت پاس کرائی گئی۔ ’میں نے کہا بیٹا یہ انڈیا کا کھیل بھی نہیں، یہ تو کروڑ پتیوں کا کھیل ہے، لیکن اس نے طے کر لیا تھا کہ ریسلر ہی بنے گا۔‘ بادشاہ خان بتاتے ہیں کہ ’بابا ٹالتے رہے یہاں تک کہ میں نے 12ویں بھی پاس کر لی۔ پھر میری ضد کے آگے وہ بے بس ہو گئے اور ہم نے جالندھر میں ریسلنگ اکیڈمی کا پتہ لگایا۔‘ بادشاہ خان کے والد کہتے ہیں ’مجھ جیسے ملازم کے پاس تنخواہ کے علاوہ کیا ہوتا ہے۔ میں نے عارف کو سمجھانے کی کوشش کی کہ کسی اچھے کالج میں داخلہ لو، پڑھو لکھو اور افسر بنو یا ڈاکٹر بنو۔‘ بادشاہ خان کے والد نے داخلے کے وقت اکیڈمی کے ڈائریکٹر ’گریٹ کھلی‘ سے فیس میں رعایت کی گزارش کی تو انھوں نے کہا کہ رعایت نہیں ہو گی تاہم بادشاہ خان کا جنون دیکھ کر وہ یہ فیس چار قسطوں میں لیں گے۔ بادشاہ خان کہتے ہیں کہ ’میں جانتا ہوں میرے والدین کس طرح دوسرے خرچے کم کر کے ایک ایک پیسہ جوڑ کر مجھے پیسے بھیجتے ہیں۔‘ جب وہ گھر پہنچے تو ان کی والدہ اور بہن جذباتی ہو کر رونے لگیں اور ان کے والد انھیں دیکھنے کے لیے بہت دور سے صرف ایک رات کے لیے گھر آئے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv25j72wd49o", "summary": "عموماً شاہین آفریدی اور نسیم شاہ پاکستان کے لیے قناعت پسند واقع ہوا کرتے ہیں مگر یہ دن یکسر الگ تھا کہ جہاں شاہین شاہ اور نسیم شاہ قدرے مہنگے ہو رہے جبکہ حارث رؤف بالکل ناقابلِ تسخیر ٹھہرے۔ ", "title": "بنگلہ دیش کا حساب کتاب اور حارث رؤف کا جواب: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-09-07T02:48:26.805Z", "id": "cv25j72wd49o", "article": "ایک حبس وہ تھا جو قذافی سٹیڈیم کے ماحول پہ طاری تھا اور ایک حبس وہ تھا جو بنگلہ دیشی بیٹنگ کو بے سُدھ کیے دیتا تھا۔ یوں تو پاکستانی پیس اٹیک کسی بھی بیٹنگ لائن کے لیے امتحاں سے کم نہیں مگر بنگلہ دیشی بلے بازوں کے لیے یہ اک معمہ تھا سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ پاکستانی پیس اٹیک میں مہرے اگرچہ تین ہیں مگر زیادہ تر مرکزِ نگاہ شاہین شاہ آفریدی رہا کرتے ہیں اور جب ان سے توجہ ہٹتی ہے تو نسیم شاہ محور ہو رہتے ہیں۔ حارث رؤف تک پہنچتے پہنچتے ارتکاز خاصا گھٹ چکا ہوتا ہے۔ مگر اس سارے میلے میں حارث رؤف کی بھی اپنی ایک خاموش سی دنیا ہے جو لائم لائٹ میں تو شاید یوں اُبھر کر سامنے نہیں آتی مگر بوقتِ ضرورت اپنے حصے کا بوجھ اٹھانے میں کبھی کوتاہ ہمت نہیں ہوتی، بلکہ کبھی کبھی دوسروں کے حصے کا بوجھ بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ یہ دن بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ جب جب حارث کو گیند تھمایا جاتا ہے، وہ اپنی تمام تر توانائیاں حریف بلے باز کے دفاع کو منتشر کرنے میں صرف کر چھوڑتے ہیں۔ نتائج کبھی کبھی یکسر متضاد بھی برآمد ہو جاتے ہیں اور حارث مہنگے بھی پڑ جاتے ہیں مگر جب جب حارث اپنے ردھم میں آتے ہیں، مخالف بیٹنگ کے پاس دعاؤں کے سوا کچھ بچ نہیں رہتا۔ عموماً شاہین آفریدی اور نسیم شاہ پاکستان کے لیے قناعت پسند واقع ہوا کرتے ہیں مگر یہ دن یکسر الگ تھا کہ جہاں شاہین شاہ اور نسیم شاہ قدرے مہنگے ہو رہے جبکہ حارث رؤف بالکل ناقابلِ تسخیر ٹھہرے۔ نئی گیند میسر ہو تو شاہین آفریدی کو وکٹ لینے سے زیادہ دیر روکا نہیں جا سکتا۔ یہاں بھی شاہین نے شروع میں ہی فرق ڈالا اور بنگلہ دیشی ٹاپ آرڈر اپنی تمام تر جارحانہ نیت کے باوجود پہلے پاورپلے میں ہی دباؤ کا شکار ہو گیا۔ بلکہ یہ جارحیت ہی تھی جو بنگلہ دیشی ارمانوں کے لئے حرزِ جاں ثابت ہوئی۔ بلاشبہ پاکستانی پیس کا مقابلہ بہت ہمت کا کام ہے مگر خالی خولی جارحیت کبھی بھی اس کا تشفی بخش جواب نہیں ہو سکتی۔ بنگلہ دیشی ٹاپ آرڈر نے آگ کا جواب آگ سے دینے کی کوشش کی مگر یہ حسابی کتابی حکمت عملی لاجواب ٹھہری اور پہلے پاور پلے میں ہی چار وکٹیں کھونے کے بعد سارا دباؤ اپنے سر لاد بیٹھی۔ مگر حارث رؤف کا خیال کچھ اور ہی تھا۔ اپنے ہوم گراؤنڈ پہ یہ حارث کے لیے پہلا موقع تھا کہ وہ کسی انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں اپنی ٹیم کی نمائندگی کر رہے تھے، سو انھوں نے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ بنگلہ دیش اس میچ کے لیے فیورٹ تو نہیں تھا مگر اپنے پچھلے میچ کے بعد پرامید ضرور تھا کہ بھرپور لڑائی لڑے گا اور خدشات کو مات دینے کی کوشش کرے گا۔ مگر حارث رؤف کے دوسرے سپیل نے بنگلہ دیش کی آخری امید بھی بجھا دی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg03q0wn8ro", "summary": "دونوں ٹیموں کے درمیان لاہور میں کھیلے جانے والا میچ شدید گرمی، حبس اور فلڈ لائٹس کی خرابی کے باعث متعدد مرتبہ تعطل کا شکار رہا تاہم پاکستان کی بولنگ ایک بار پھر مخالف ٹیم پر حاوی رہی۔", "title": "پاکستان کی بنگلہ دیش کو سات وکٹوں سے شکست: ’حارث رؤف لاہور کی گرمی میں تیز رفتاری سے بولنگ کرتے رہے‘", "firstPublished": "2023-09-06T16:56:54.031Z", "id": "crg03q0wn8ro", "article": "دونوں ٹیموں کے درمیان لاہور میں کھیلے جانے والا میچ شدید گرمی، حبس اور فلڈ لائٹس کی خرابی کے باعث متعدد مرتبہ تعطل کا شکار رہا تاہم پاکستان کی بولنگ ایک بار پھر مخالف ٹیم پر حاوی رہی۔ پاکستان کے اوپننگ بولرز نسیم شاہ اور شاہین آفریدی نے ایک بار پھر پاکستان کو اچھا آغاز دیا اور مہدی حسن اور لٹن داس کو پہلے پانچ اوورز میں پویلین کی راہ دکھائی۔ 30ویں اوور تک بنگلہ دیش کی ٹیم بہترین پوزیشن میں تھی تاہم پھر اس میچ کے لیے محمد نواز کی جگہ ٹیم میں شامل کیے جانے والے فہیم اشرف کو بولنگ کے لیے لایا گیا اور انھوں نے شکیب کی وکٹ حاصل کر کے پاکستان کو ایک اہم بریک تھرو دیا۔ پاکستان کی جانب سے بیٹنگ کا آغاز ہوا تو دونوں اوپنرز نے محتاط انداز اپنائے رکھا جس کی وجہ سلو پچ بھی تھی۔ فخر زمان جو گذشتہ چند سے نصف سنچری بنانے میں ناکام رہے ہیں ایک بار پھر صرف 20 رنز ہی بنا سکے اور شریف الاسلام کی گیند پر آؤٹ ہوئے۔ شریف الاسلام نے آنے والے بلے باز بابر اعظم اور امام الحق دونوں کو ہی مشکل میں ڈالے رکھا اور اپنے آٹھ اوورز میں صرف 24 رنز کے عوض ایک وکٹ حاصل کی۔ امام الحق نے اس دوران ایک مشکل پچ پر 78 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی جس میں چار چھکے اور پانچ چوکے شامل تھے۔ وہ ایک اور جارحانہ سٹروک کھیلنے کی کوشش میں مہدی حسن کی گیند پر بولڈ ہوئے۔ دوسری جانب رضوان نے بھی نصف سنچری بنا کر پاکستان کی فتح یقینی بنائی۔ انھوں نے اپنی اننگز میں سات چوکے اور ایک چھکا لگایا۔ پاکستان اپنا اگلا میچ 10 ستمبر یعنی اتوار کو انڈیا کے خلاف کولمبو میں کھیلے گا جبکہ بنگلہ دیش اور سری لنکا سنیچر نو ستمبر کو کولمبو میں آمنے سامنے ہوں گی۔ سوشل میڈیا پر پاکستان کی بولنگ کی ایک بار پھر مخالف ٹیم پر حاوی رہنے پر تعریف کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے حارث رؤف کو لاہور کی گرمی میں بھی تیز رفتاری سے بولنگ کرنے پر سراہا جا رہا ہے۔ آج لاہور میں حبس کے باعث کھلاڑیوں کو بار بار پانی کا وقفہ لینا پڑ رہا تھا۔ سپورٹس پریزینٹر زینب عباس نے بھی حارث رؤف کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں لاہور قلندرز کا مشکور ہونا چاہیے جنھوں نے اپنے پلیئر ڈویلپمینٹ پروگرام سے کھلاڑی اٹھا کر اسے موقع دیا اور آج وہ دنیا کے بہترین بولرز میں شامل ہے۔‘ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گذشتہ برس شاہین آفریدی بھی فیلڈنگ کے دوران دو مرتبہ گھٹنے کی انجری کا شکار ہوئے تھے جس کے بعد انھیں کچھ ماہ ٹیم سے باہر رہنا پڑا تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cnkg078v294o", "summary": "انڈیا کے سابق کرکٹر اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دہلی سے رکن پارلیمان گوتم گمبھیر اپنے بیانات سے اکثر سرخیوں میں رہتے ہیں۔", "title": "گوتم گھمبیر کے نازیبا اشارے کی وائرل ویڈیو: ’وہ پاکستانی شائقین کی جانب سے انڈیا مخالف نعروں کا جواب تھا‘", "firstPublished": "2023-09-05T07:18:35.750Z", "id": "cnkg078v294o", "article": "انڈیا کے سابق کرکٹر اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دہلی سے رکن پارلیمان گوتم گمبھیر اپنے متنازع بیانات کے باعث اکثر خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ ٹوئٹر پر 12 لاکھ فالوور رکھنے والی صحافی ساکشی جوشی نے گوتم گمبھیر کے اشارے پر اپنا ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایک بی جے پی ایم پی، ایک سابق کرکٹر، ایک کمنٹیٹر گوتم گمبھیر جب وراٹ کوہلی کے مداحوں کو درمیانی انگلی دکھاتے ہوئے کیمرے پر پکڑے گئے اور ان سے سوال کیا گیا تو انھوں نے بہانے کے طور پر وطن پرستی کو پیش کیا۔ یہ ان کا روز کا حال ہے۔ اپنے ہی ملک کو بس اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا جانتے ہیں۔‘ لیکن پھر اویشیک گوئل نامی صارف نے لکھا: ’اُن کے ردعمل کے بارے میں پوچھے جانے پر، انھوں نے کہا کہ کچھ پاکستانی شائقین انڈیا مخالف نعرے لگا رہے تھے جس سے وہ مشتعل ہوئے۔ اس بچگانہ بہانے کے ساتھ آنے پر آپ کو شرم آنی چاہیے۔ کرکٹ شائقین نے صاف سنا کہ ان کے سامنے صرف دھونی دھونی، کوہلی کوہلی کے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ دھونی اور کوہلی نے آپ سے زیادہ ملک کے لیے کیا ہے، مسٹر ایم پی۔ گمبھیر کو اپنی ذاتی دشمنی/انا کو اپنے گھر میں رکھنا چاہیے اور ہمارے درمیان نفرت کے بیج نہیں بونا چاہیے۔‘ بہت سے لوگ سپورٹس مین شپ کی دہائی دے رہے ہیں تو کچھ لوگ راہل گاندھی کے پارلیمان میں فلائنگ کس دینے پر رکن پارلیمان سمرتی ایرانی کے اعتراض کو یاد کر رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں کہ انھیں گوتم گمبھیر کے اشارے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بہت سے صارفین نے لکھا ہے کہ انھیں گوتم گمبھیر کے الفاظ پر یقین ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی نے اس ویڈیو کو ایڈٹ کر کے پیش کیا ہے جس میں آواز کچھ اور ڈال دی گئی ہے۔ کچھ لوگوں نے مزاحیہ انداز میں پوچھا ہے کہ کوہلی کا یا دھونی کا نعرہ لگانا کب سے انڈیا مخالف ہو گيا۔ بہر حال یہ پہلا موقع نہیں ہے جب گوتم گمبھیر اپنے بیان کے لیے مباحثے کے مرکز میں ہیں۔ وہ پہلے بھی اپنے پاکستان مخالف رویے کے لیے جانے جاتے ہیں جبکہ شاہد آفریدی کے ساتھ ان کی نوک جھونک سے بھی کرکٹ شائقین بہت حد تک واقف ہیں۔ اس معاملے میں بھی بہت سے شائقین شاہد آفریدی کی پرانی ویڈیوز پوسٹ کر رہے ہیں جس میں وہ گوتم گمبھیر کے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’وہ ایک ایسے کھلاڑی ہیں جسے ان کی ٹیم میں کوئی بھی پسند نہیں کرتا‘ اور اس پر انڈین کرکٹر ہربجن سنگھ مسکرتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n5zwv8v8do", "summary": " عبدالحفیظ کاردار، امیر الٰہی اور گل محمد ہیں۔ یہ تین ایسے کھلاڑی تھے جو انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیل چکے ہیں۔ اس رپورٹ میں ہم ان تینوں کھلاڑیوں کے بارے میں بات کریں گے۔", "title": "وہ تین کرکٹرز جو انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے کھیلے", "firstPublished": "2023-09-04T04:28:04.053Z", "id": "c4n5zwv8v8do", "article": "یہ حقیقت ہے تین کھلاڑیوں کے بارے میں جن کے نام عبدالحفیظ کاردار، امیر الٰہی اور گل محمد ہیں۔ یہ تین ایسے کھلاڑی تھے جو انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیل چکے ہیں۔ یہ تینوں کھلاڑی انڈیا اور پاکستان کے اس پہلے میچ میں بھی میدان میں تھے۔ گل محمد انڈیا کی طرف سے کھیل رہے تھے جبکہ عبدالحفیظ کاردار اور امیر الٰہی پاکستان کی طرف سے کھیل رہے تھے۔ اس رپورٹ میں ہم ان تینوں کھلاڑیوں کے بارے میں بات کریں گے۔ عبدالحفیظ کاردار نے سنہ 1952 سے سنہ 1958 تک پاکستان کے لیے کل 23 ٹیسٹ میچ کھیلے۔ انھوں نے ان تمام میچوں میں پاکستان کی کپتانی کی۔ عبدالحفیظ نے ہندوستان کے لیے تین ٹیسٹ میچ کھیلے اور مجموعی طور پر انھوں نے ان میچوں میں 80 رنز بنائے۔ عبدالحفیظ بائیں ہاتھ کے بلے باز تھے اور اپنی دھماکہ خیز بلے بازی کے لیے جانے جاتے تھے۔ انھیں کریز سے باہر نکلنے اور کسی بھی باؤلر کی خوب پٹائی کرنے اور کسی بھی میچ کی صورتحال میں بہتر کھیل پیش کرنے کے لیے مشہور تھے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی ویب سائٹ کے مطابق عبدالحفیظ کاردار کی کپتانی میں پاکستان نے جنوبی افریقہ کے علاوہ اس وقت پانچ ٹیسٹ ٹیموں کے خلاف فتوحات حاصل کیں۔ 15 اکتوبر 1921 کو لاہور میں پیدا ہونے والا یہ پنجابی کرکٹر بھی ان خاص بین الاقوامی کرکٹرز میں سے ایک ہے جنھوں نے انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے بین الاقوامی کرکٹ کھیلی ہے۔ گل محمد نے انڈیا کے لیے آٹھ جبکہ پاکستان کے لیے ایک ٹیسٹ میچ کھیلا ہے۔ گل محمد نے فرسٹ کلاس کرکٹ (ڈومیسٹک سیزن) میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ کئی سالوں کی مسلسل اچھی کارکردگی کے بعد، انھیں سنہ 1946 میں انڈیا کی ٹیم میں دورہ انگلینڈ کے لیے منتخب کیا گیا۔ پہلے ٹیسٹ میچ میں وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔ سنہ 1956-57 میں انھیں پاکستان ٹیم کے لیے منتخب کیا گیا۔ کراچی میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گئے اس میچ میں انھوں نے دونوں اننگز میں 39 رنز بنائے۔ اس کے بعد انھیں کاؤنٹی کرکٹ میں کافی کامیابی ملی۔ لاہور میں پیدا ہونے والے امیر الٰہی سے دو خاص باتیں وابستہ ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ وہ ان چند کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے ہندوستان اور پاکستان دونوں کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی۔ امیر الٰہی ایک بار انڈیا کے لیے کھیل چکے ہیں اور وہ پانچ بار پاکستان ٹیم کی طرف سے کھیلے۔ انھوں نے سنہ 1952-53 میں انڈیا میں پاکستان کے لیے پانچ ٹیسٹ میچ بھی کھیلے۔ امیر الٰہی نے سنہ 1946-47 میں پاکستان کے لیے کھیلتے ہوئے مدراس (چنئی) میں انڈیا کے خلاف 10ویں وکٹ کے لیے ذوالفقار احمد کے ساتھ 104 رنز کی شراکت کی۔ اس میچ میں انھوں نے اپنی 47 رنز کی اننگز سے سب کو حیران کر دیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg45x0dgp3o", "summary": "ریکارڈ کی بات کریں تو 2021 سے اب تک روہت شرما چھٹی بار اور ویرات کوہلی چوتھی بار بائیں ہاتھ کے بولر کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے ہیں۔", "title": "انڈیا کے بہترین بلے باز تیز لیفٹ آرم سوئنگ بولنگ کے سامنے ڈھیر کیوں ہوگئے", "firstPublished": "2023-09-03T07:16:44.385Z", "id": "crg45x0dgp3o", "article": "23 سالہ آفریدی نے اپنے 10 اوورز میں 44 ڈاٹ بالز کروائیں اور اس دوران وہ ایک ہی اننگز میں ویرات کوہلی اور روہت شرما کی وکٹیں لینے والے پہلے بولر بھی بن گئے۔ میچ کے بعد شاہین شاہ آفریدی نے کہا کہ ’میں نے نئی گیند سے کوشش کی اور شروع میں دو اہم وکٹیں حاصل کیں اور پھر ہاردک پانڈیا کو اس وقت آؤٹ کیا جب وہ بھرپور فارم میں تھے۔ میچ مکمل نہیں ہوا، اگر یہ مکمل ہو جاتا تو میچ ہمارے ہاتھ میں ہوتا۔‘ شاہین آفریدی سے جب پوچھا گیا کہ روہت اور ویرات میں سے کس کی وکٹ لینے میں زیادہ مزہ آتا ہے تو انھوں نے روہت شرما اور ویرات کوہلی دونوں کا نام لیا۔ بارش کی وجہ سے وقفے کے بعد واپسی پر آفریدی نے پہلی تین گیندوں کو آؤٹ سونگ کیا جس پر روہت کوئی رن نہیں بنا سکے اور پھر اس اوور کی آخری گیند ان سوئنگ ہوئی جو آف اسٹمپ پر گرنے کے بعد اندر کی طرف آئی اور بیٹ اور پیڈ کے درمیان خلا سے نکل کر سیدھا وکٹ پر لگی۔ آفریدی نے اپنے اگلے ہی اوور میں ویرات کوہلی کو بھی آؤٹ کر دیا۔ ویرات نے بیک فٹ پر جا کر آف سائیڈ پر گیند کو کھیلنے کی کوشش کی لیکن گیند بلے کے اندرونی کنارے کو لے کر لیگ اسٹمپ سے ٹکرا گئی۔ انڈین ٹاپ آرڈر کی ایک بڑی کمزوری بائیں ہاتھ کے تیز رفتار اور سوئنگ بولرز کو کھیلنا رہا ہے اور یہی کمزوری ایک بار پھر شاہین شاہ آفریدی کی شکل میں سامنے آئی۔ اگر ہم ریکارڈ کی بات کریں تو 2021 سے اب تک روہت شرما چھٹی بار اور ویرات کوہلی چوتھی بار بائیں ہاتھ کے گیند باز کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے ہیں۔ شریاس آئر نے طویل عرصے بعد ٹیم میں واپسی کرتے ہوئے اچھا آغاز کیا اور آٹھ گیندوں پر 14 رنز بنائے تاہم 10ویں اوور میں وہ حارث رؤف کی شارٹ گیند کو مڈ وکٹ پر چھکا لگانے کی کوشش میں فخر زمان کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گئے۔ اس کے بعد بارش نے ایک بار پھر میچ میں خلل پیدا کر دیا۔ 12ویں اوور کے دوران بارش کی وجہ سے کھیل تقریباً 20 منٹ کے لیے روک دیا گیا اور جب پھر سے میچ شروع ہوا تو ایک سرے پر جمے ہوئے شبھمن گل کو بھی رؤف نے پویلین واپس بھیج دیا۔ اس سیریز کے تین میں سے دو میچوں میں، گل مچل سٹارک کی گیند پر آؤٹ ہوئے۔ سٹارک بھی بائیں ہاتھ کے تیز گیند باز ہیں۔ میچ سے قبل روہت شرما نے کہا تھا کہ ’ہمیں کنڈیشنز کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا، یہ ٹی ٹوئنٹی میچ نہیں ہے لیکن پچ پر ہوتے ہوئے بلے باز کو حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑتا ہے اور طویل عرصے تک وہاں رہنا پڑتا ہے۔ کیونکہ یہ 50 اوورز کا میچ ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gz4358pjzo", "summary": "سری لنکا کے شہر کینڈی میں ایشیا کپ کے تیسرے میچ میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ٹاکرے میں بارش جیت گئی ہے اور میچ کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ انڈیا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا اور پاکستان کو جیت کے لیے 267 رنز کا ہدف دیا تھا۔ ", "title": "ایشیا کپ 2023: بارش کے باعث انڈیا اور پاکستان کا میچ بے نتیجہ ختم، ’شاہین نے روہت اور کوہلی کو آؤٹ کر کے تاریخ رقم کر دی‘", "firstPublished": "2023-09-02T05:46:00.810Z", "id": "c3gz4358pjzo", "article": "سری لنکا کے شہر کینڈی میں ایشیا کپ کے تیسرے میچ میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ٹاکرے میں بارش جیت گئی ہے اور میچ کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ انڈیا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا اور پاکستان کو جیت کے لیے 267 رنز کا ہدف دیا تھا۔ تاہم میچ کے آغاز سے قبل ہی موسم ابر آلود تھا اور بارش کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ اس سے قبل یکم ستمبر کی پیشگوئی میں ویدر ڈاٹ کام نے سنیچر کو پالیکیلے میں 84 فیصد اور ایکو ویدر نے 85 فیصد بارش کا امکان ظاہر کیا تھا۔ انڈین اننگز کے اختتام کے ساتھ ہی بارش دوبارہ شروع ہونے اور گراؤنڈ گیلا ہونے کی وجہ سے میچ تاخیر کا شکار ہوا تاہم کھیل میں ایک گھنٹے سے زائد وقت کا ضائع ہونے کی وجہ سے پاکستانی اننگز کے لیے میچ کے کم از کم مطلوبہ اوورز کا دورانیہ نہ ہونے کے باعث میچ کو منسوخ کر دیا گیا۔ اس سے قبل انڈین ٹیم 48 اعشاریہ پانچ اوورز میں 266 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ میچ کے آخری آٹھ اوورز میں پاکستان کے پیسرز نے شاندار کم بیک کیا اور انڈین بیٹنگ لائن کو بڑا سکور بنانے سے روکنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد پاکستان کے کپتان بابر اعظم حارث رؤف کو بولنگ کے لیے لے کر آئے تو انڈین بلے باز شریاس آئیر نے ان کا استقبال دو چوکے لگا کر کیا لیکن اگلے اوور میں حارث نے ان کا حساب چکتا کتے ہوئے انھیں پویلین کی راہ دکھا دی۔ اس موقع پر انڈین ٹیم 10 اوورز میں 48 رنز پر 3 وکٹیں گنوا چکی تھی۔ ٹاس کے بعد روہت شرما نے کہا تھا کہ ٹیم میں جسپریت بمرا، شریاس ایئر، ہاردک پانڈیا، شاردل ٹھاکر، کلدیپ یادیو اور رویندر جڈیجا کو شامل کیا گیا ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچ منسوخ ہونے کے فوراً بعد پاکستان کے سوشل میڈیا پر صارفین مختلف تبصرے اور رائے دیتے نظر آئے۔ جہاں چند صارفین نے بارش کو میچ کا مزہ کرکرا کرنے کا ذمہ دار قرار دیا وہیں چند اس کو بھی روائتی حریف انڈیا پر طنز کرنے کے لیے استعمال کرتے دکھائے دیے۔ اس سے قبل ایشیا کپ کا دوسرا میچ بھی پالیکیلے میں، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے درمیان، کھیلا گیا تھا جس میں سری لنکا نے پانچ وکٹوں سے فتح حاصل کی تھی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے گذشتہ روز یہ اعلان کیا تھا کہ ایشیا کپ میں پاکستان اپنے دوسرے میچ کے لیے ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کر رہا۔ خیال رہے کہ ایشیا کپ میں نیپال کے خلاف اپنے پہلے میچ میں پاکستانی کپتان بابر اعظم نے 151 رنز جبکہ آل راؤنڈر افتخار احمد نے کیریئر کی پہلی سنچری بنائی تھی۔ ماضی میں ایشیا کپ میں اب تک کے مقابلوں میں انڈیا نے سات جبکہ پاکستان نے تین میچ جیتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2v094n04do", "summary": "ویڈیو میں ورات کوہلی اور حارث رؤف کی ملاقات دکھائی گئی ہے جس میں حارث بات کا آغاز کچھ یوں کرتے ہیں کہ ’جدھر سے گزرتا ہوں کوہلی، کوہلی ہوتا ہے۔‘", "title": "’جدھر سے گزرتا ہوں کوہلی، کوہلی ہوتا ہے‘: میلبورن کے چھکوں کے بعد کوہلی اور حارث کی ملاقات", "firstPublished": "2023-09-02T02:58:05.684Z", "id": "cv2v094n04do", "article": "میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں چھکا لگانا ویسے بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ میدان میں پچ اور باؤنڈری کے درمیان فاصلہ لگ بھگ 90 میٹر تک ہے۔ حارث رؤف نے اپنی معمول کی رفتار سے کم ایک ہارڈ لینتھ پر گیند پھینکی لیکن اس پر کوہلی کا جواب ایسا تھا جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اگلی گیند فائن لیگ باؤنڈری کے پار ہوئی اور یوں انڈیا کی میچ میں واپسی ہو گئی۔ اکثر افراد محمد نواز کے آخری اوور کو اس میچ کا ٹرننگ پوائنٹ قرار دیتے ہیں لیکن حارث رؤف کو لگائے گئے وہ دو چھکوں کے ساتھ کوہلی نے پاکستانی بولرز پر اپنی دھاک بٹھا دی تھی۔ پی سی بی کی جانب سے گذشتہ رات ریلیز کی گئی ویڈیو میں کوہلی اور حارث رؤف کی ملاقات دکھائی گئی ہے جس میں حارث آغاز میں ہی کہتے ہیں کہ ’جدھر سے گزرتا ہوں کوہلی، کوہلی ہوتا ہے۔‘ تاہم آج جب دونوں آمنے سامنے ہوں گے تو مقابلہ ایک بار پھر خوب جمے گا۔ حارث اس ویڈیو میں جہاں ایک مشکل شیڈول کا ذکر کرتے ہیں وہیں سنہ 2019 کے آغاز میں وراٹ کو بطور نیٹ بولر بولنگ کروانا بھی یاد کرواتے ہیں۔ اس کے علاوہ ویڈیو میں پاکستانی اور انڈین کھلاڑیوں کی دوستانہ ماحول میں گپ شپ بھی دکھائی گئی ہے جو عام طور پر اس میچ کے گرد بننے والی فضا کے بالکل برعکس ہے۔ تاہم کچھ عرصہ قبل حارث رؤف نے جیو نیوز کے مزاحیہ پروگرام ’ہنسنا منع ہے‘ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ انھیں اس نیٹ سیشن کے بعد وراٹ کوہلی نے کہا تھا کہ ’تم اگلے چھ ماہ میں پاکستان کے لیے کھیل جاؤ گے۔۔۔ اور میں آٹھ نو ماہ بعد پاکستان کرکٹ ٹیم میں شامل ہو گیا تھا۔‘ حارث رؤف اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کی بولنگ کا انتہائی اہم حصہ ہیں۔ انھوں نے ون ڈے کرکٹ میں اب تک صرف 25 میچ کھیلیں اور 25 کی اوسط سے 46 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ کل اور آنے والے دنوں میں انڈیا پاکستان میچوں کے دوران حارث اور کوہلی کا مقابلہ ایک مختلف فارمیٹ میں ہو گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا حارث ان چھکوں کو بھلا کر کوہلی کا مقابلہ کر پاتے ہیں یا نہیں۔ عبداللہ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’دونوں ممالک کے کھلاڑی ایک دوسرے کی دل سے عزت کرتے ہیں آپ کو اس کے لیے ان کی ویڈیوز بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ویڈیو شرمندگی کا باعث ہے کیونکہ یہ جبری طور پر بنائی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ اس احساسِ کمتری سے اب نکل آئیں۔‘ ایک صارف نے لکھا کہ ’انڈیا کی وجہ سے ہم پورا ایشیا کپ اپنے ملک میں منعقد کرنے سے محروم رہے اور اب ہمارے کھلاڑی انتہائی مشکل شیڈول کا سامنا کر رہے ہیں اور یہاں ہم ان کے کھلاڑیوں کے ساتھ گھل مل رہے یہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0x594pg1eqo", "summary": "کچھ ایسی چاشنی ہے اس مقابلے میں کہ خبر کھلتے ہی میلہ لُٹ جاتا ہے، گھنٹے بھر میں ہی پورے کے پورے وینیوز بِک جاتے ہیں اور ذرا سی کوتاہی برتنے والے ہاتھ مَلتے رہ جاتے ہیں۔ ", "title": "سمیع چوہدری کا کالم: ’کہیں کرکٹ تشنہ لب نہ رہ جائے!‘", "firstPublished": "2023-09-02T01:40:01.496Z", "id": "c0x594pg1eqo", "article": "کچھ ایسی چاشنی ہے اس مقابلے میں کہ خبر کھلتے ہی میلہ لُٹ جاتا ہے، گھنٹے بھر میں ہی پورے کے پورے وینیوز بِک جاتے ہیں اور ذرا سی کوتاہی برتنے والے ہاتھ مَلتے رہ جاتے ہیں۔ یہ کرکٹ مقابلہ کھیل کی عظیم ترین تشہیر کا سامان مہیا کرتا ہے۔ کووڈ اور سری لنکن اکانومی کے ڈیفالٹ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ٹورازم انڈسٹری کے اشاریے مثبت سمت بڑھ رہے ہیں۔ مگر موسم کے کواکب کچھ یوں ڈراتے ہیں کہ پالیکیلے میں سنیچر کا مقابلہ کہیں کسی تشنہ لب کی حسرت ہی نہ بن جائے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان مقابلے، خواہ کسی بھی فارمیٹ میں ہوں، ہمیشہ تکنیک سے زیادہ تحمل پہ منحصر ہوتے ہیں۔ دقیق لمحوں میں اعصاب جوڑے رکھنے کی صلاحیت ہی کامیابی کی کلید ہوا کرتی ہے۔ ماضی کے کئی یادگار میچز اس امر کے شاہد ہیں۔ اور بنگلہ دیشی سرزمین پہ ہی ہوا وہ میچ بھی بھلا کون بھول سکتا ہے جب آخری لمحات میں انڈین ٹیم جیت کے عین پاس ہی تھی کہ آفریدی آئے اور ایشون اس لمحے کی حِدت نہ جھیل پائے۔ اگر سنیچر کے میچ میں بھی بارش حائل نہ ہوئی تو مقابلہ ایک بار پھر دباؤ جھیلنے کا ہی ہو گا کہ جب یہ اعصاب پہ سوار ہوتا ہے تو قوتِ فیصلہ مفقود ہو رہتی ہے اور تمام تر تجربہ و تکنیک کسی شمار قطار میں نہیں رہتے۔ پاکستانی پیس اٹیک بلا مبالغہ دنیا بھر کے بہترین میں سے ہے اور اس کے مقابل اترنے والی انڈین بیٹنگ لائن بھی بلاشبہ دنیا کے بہترین میں سے ہے۔ اگرچہ گزشتہ چند مہینوں میں انڈین مڈل آرڈر مختلف النوع تجربات کی زد میں بھی رہا مگر کوچ راہول ڈریوڈ ان تجربات کو انجریز کے پیشِ نظر ایک امرِ مجبوری ٹھہراتے ہیں وگرنہ وہ بہت صراحت سے آگہی رکھتے ہیں کہ ان کا نمبر چار اور پانچ کون ہو گا۔ انڈین بولنگ کے لیے بھی یہ نوید ہے کہ جسپریت بمراہ طویل انجری کے بعد اب واپس میدان میں اتر چکے ہیں اور اگرچہ آئرلینڈ کے خلاف ٹی ٹونٹی میچز کھیل چکے ہیں مگر یہاں ان کا امتحان شدید موسم میں دس اوورز کا سپیل مکمل کرنا اور پچاس اوورز تک فیلڈ میں آگہی برتنا بھی ہو گا۔ مگر، بہرحال اپنی تمام تر رعنائیوں کے باوجود یہ انڈین اٹیک پاکستانی پیسرز کے مقابل پھیکا پڑ جاتا ہے اور انڈین امیدیں بالآخر مڈل آرڈر سے ہی جا جڑتی ہیں۔ اگرچہ امام الحق ون ڈے کرکٹ میں اپنا بہترین دور گزار رہے ہیں مگر فخر زمان کی حالیہ فارم متاثر کن نہیں رہی اور انڈین پیسرز آف سٹمپ کے باہر ان کی کمزوری کا استحصال کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ حقیقت بہرطور اپنی جگہ ہے کہ اہم ترین لمحات میں اٹھ کھڑے ہونا اور سب کو حیران کر چھوڑنا بھی فخر کا ہی خاصہ ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4njz0m9j88o", "summary": "کھیل میں جیت یا ہار کو کسی ملک کے سیاسی نظام، ادبی ورثے یا ان کے ڈیموں کی مضبوطی پر تبصرے کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا لیکن انڈیا اور پاکستان کے معاملے میں ایسا ہی ہے۔ \n", "title": "ایشیا کپ 2023: پاکستان اور انڈیا کے کرکٹ میچ کا نہ ختم ہونے والا سحر", "firstPublished": "2023-09-01T12:21:03.429Z", "id": "c4njz0m9j88o", "article": "ایسا لگتا ہے جیسے کرکٹ کا ورلڈ کپ اور ایشیا کپ جیسے بڑے مقابلے صرف پاکستان اور انڈیا کو ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اُترنے کے لیے منعقد ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان کرکٹ کھیلنے والے ملک کے طور پر قائم رہنے کے لیے انڈیا کی ضرورت ہے اور یہ بات اس کا ہمسایہ اسے یاد دلانے سے نہیں ہچکچاتا جبکہ انڈیا کو پاکستان کی ضرورت ہے تاکہ وہ خود کو ایک کامیاب ٹیم کے طور پر پیش کرے۔ ایشیا کپ میں انڈیا اور پاکستان کو ایک گروپ میں رکھ کر ٹیلی ویژن ناظرین کے لیے دونوں ٹیموں کے درمیان کم از کم ایک میچ دیکھنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ تاریخ، جغرافیہ، معاشیات، نفسیات سب نے مختلف اوقات میں پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کو مختلف شکلوں میں ڈھالنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کھیل بعض اوقات کھیل کے علاوہ کچھ اور ہی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ کی حیثیت کھیلوں کے مقابلے سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ کھیل میں جیت یا ہار کو کسی ملک کے سیاسی نظام، ادبی ورثے یا ان کے ڈیموں کی مضبوطی پر تبصرے کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا، لیکن پاکستان اور انڈیا کے معاملے میں ایسا ہی ہے۔ پاکستان اور انڈیا سنیچر کو سری لنکا میں نیوٹرل مقام پر آمنے سامنے ہوں گے۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے انڈیا پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں کھیلنے پر رضامند ہوا ہے۔ دونوں ممالک کو ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ کمزور مڈل آرڈر کی وجہ سے ٹاپ بیٹنگ پر حد سے زیادہ انحصار ہے اور دونوں کے پاس عمدہ فاسٹ بولرز کا ایک گروپ ہے۔ اگرانڈیا ایشان کشن کو ان کے بائیں ہاتھ سے کھیلنے اور جارحانہ انداز دونوں کی وجہ سے نمبر 3 پر کھلاتا ہے اور وراٹ کوہلی کو چوتھے نمبر پررکھتا ہے جہاں سے وہ مڈل آرڈر کو کنٹرول کر سکتے ہیں تو ان کی بیٹنگ کی کچھ یکطرفہ کمزوریوں کو دور کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ کے ایل راہول انجری سے صحت یاب ہو رہے ہیں اور شاید کھیل نہ سکیں۔ اپنے پہلے میچ میں اپنی بہترین ٹیم کے ساتھ کھیلنے پر مجبور ہونے والا انڈیا کوئی بھی تجربہ کرنے سے گریزاں ہو سکتا ہے، بھلے ہی اگلے مرحلے میں جانے کی گارنٹی ہو۔ انھیں صرف نیپال جو پاکستان سے ہار گیا ہے کے خلاف جیتنے کی ضرورت ہے لہٰذا سنیچر کا میچ ان کے لیے کچھ نیا کرنے کی کوشش کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اس میچ کے نتائج شاید کسی بھی ٹیم کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں سوائے اس کے کہ ان ٹیموں کے لیے کوئی بھی نتیجہ ایک بڑے پیمانے پر معنی رکھتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cldglrp97pro", "summary": "ارشد نے میڈل راؤنڈ میں اپنی چھ تھروز کے بارے میں انتہائی سادگی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے تو پوری کوشش کی لیکن تھرو نکلی ہی نہیں اور اس بات کی مجھے سمجھ نہیں آئی۔ شاید ہماری قسمت میں نہیں تھا گولڈ۔‘", "title": "ارشد ندیم کا انٹرویو: ’نیرج چوپڑا سے اچھی دوستی ہے۔۔۔مقابلہ صرف ارشد ندیم سے ہے‘", "firstPublished": "2023-09-01T03:02:35.087Z", "id": "cldglrp97pro", "article": "ارشد نے میڈل راؤنڈ میں اپنی چھ تھروز کے بارے میں انتہائی سادگی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے تو پوری کوشش کی لیکن تھرو نکلی ہی نہیں اور اس بات کی مجھے سمجھ نہیں آئی۔ شاید ہماری قسمت میں نہیں تھا گولڈ۔‘ ارشد اس خاص دوستی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں نے جب اپنے پہلے بین الاقوامی مقابلے میں حصہ لیا تھا تو وہ انڈیا کے شہر گوہاٹی میں ہوا تھا تو اس وقت میں نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا اور نیرج نے سونے کا تمغہ جیتا تھا۔‘ نیرج کی فتح کے بعد جب صحافیوں نے ان کی والدہ سے سوال پوچھا کہ انھیں کیسا محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے بیٹے نے پاکستان کے کھلاڑی ارشد ندیم کو شکست دی ہے تو انھوں نے کہا وہ اس بات پر خوش ہیں کہ ارشد بھی میڈل جیتنے میں کامیاب رہے، کیونکہ میدان میں تو سب کھلاڑی کی حیثیت سے ہی موجود ہوتے ہیں جن میں سے کسی نہ کسی کو جیتنا ہوتا ہے۔ ارشد اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’ان کی والدہ نے مجھے مبارکباد دی ہے اور کہا کہ میرے بیٹے نے اگر میڈل جیتا ہے تو دوسرا بھی میرا بیٹا ہے۔ یہی چیزیں انسان کو آگے لے کر آتی ہیں۔‘ ارشد اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ظاہر ہے دباؤ تو بہت ہے، بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کرنا اور جا کر ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ کھیلنا، دباؤ تو بہت ہوتا ہے۔‘ اس مرتبہ جب ارشد نے ورلڈ ایتھلیکس چیمپیئن شپ میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا تو اس کے بعد ان کی ایک تصویر زیرِ بحث رہی جس میں وہ طلائی اور کانسی کا تمغہ جیتنے والے ایتھلیٹس کے ساتھ تصویر بنوا رہے ہیں لیکن ان دونوں کے برعکس ارشد کے پاس جھنڈا نہیں ہے۔ اس پر ارشد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’جیسے ہی مقابلہ ختم ہوا تو میں ادھر ہی بیٹھا ہوا تھا، اپنے جوتے اور سامان بیگ میں رکھ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ ساری چیزیں رکھ کر میں جھنڈا پکڑتا ہوں۔ جھنڈا بھی موجود تھا، بس میں تھوڑا سا لیٹ ہوا ہوں۔‘ انھوں نے اس بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں ایتھلیٹکس کا گراؤنڈ نہیں ہے، وہ ہونا چاہیے تاکہ ہمارے ایتھلیٹ یہاں آ کر ٹریننگ کریں۔ ’دوسری بات یہ کہ ہمارے پاس عالمی سطح کے جیولن نہیں ہیں۔ میرے پاس ایک جیولن ہے لیکن اس سے کام نہیں چلتا۔ تقریباً 8 سے 10 جیولن ہونے چاہییں تاکہ آپ کی ٹریننگ بہتر ہو سکے اور بھی چیزیں ہیں جن کے ذریعے میں پاکستان میں رہ کر بھی پریکٹس کر سکوں، لیکن مجھے بین الاقوامی معیار کی کوچنگ کی ضرورت ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg86xm3p6go", "summary": "قدیم ادب میں جہاں جہاں بھی ملتان کے کچھ خواص بیان کئے گئے ہیں، سبھی میں ’گرمی‘ قدرِ مشترک ہے۔ ایشیا کپ کے افتتاحی میچ میں بھی اگرچہ میدان کے اندر کا کھیل گرم جذبات سے تشنہ ہی رہا مگر ملتان کی گرمی نے بہرحال اپنا رنگ ضرور جمایا۔ پڑھیے سمیع چوہدری کا تجزیہ۔", "title": "سمیع چوہدری کا کالم: ’اب اس میں نیپالی بیٹنگ کا کیا قصور؟‘", "firstPublished": "2023-08-31T02:03:33.605Z", "id": "crg86xm3p6go", "article": "قدیم ادب میں جہاں جہاں بھی ملتان کے کچھ خواص بیان کئے گئے ہیں، سبھی میں ’گرمی‘ قدرِ مشترک ہے۔ ایشیا کپ کے افتتاحی میچ میں بھی اگرچہ میدان کے اندر کا کھیل گرم جذبات سے تشنہ ہی رہا مگر ملتان کی گرمی نے بہرحال اپنا رنگ ضرور جمایا۔ قسمت کی خوبی تھی یا پاکستانی پیسرز کی دعائیں کہ ٹاس ان کے حصے آیا اور وہ حبس آلود تمازت میں لمبے سپیل پھینکنے کی مشقت سے آزاد رہے۔ اور پھر بعد ازاں نیپالی بیٹنگ جیسے پاکستانی اٹیک کے لیے تر نوالہ ثابت ہوئی، بھلا ہی ہوا کہ ٹاس نیپال نہیں جیتا ورنہ ایشیا کپ کا افتتاحی میچ تین گھنٹے میں ہی نمٹ جاتا۔ نیپال کو ون ڈے انٹرنیشنل سٹیٹس ملے فقط پانچ ہی برس ہوئے ہیں اور اس قدر کم وقت میں ایشیا کپ جیسے ایونٹ تک رسائی حاصل کر پانا بھی نیپالی کرکٹ کے لیے کسی کامیابی سے کم نہیں مگر اس پہ مستزاد کہ میچ کے پہلے 20 اوورز میں نیپالی ٹیم کا ارتکاز جیسے کھیل پہ طاری ہوا، اس نے پاکستان کے اوسان خطا کر چھوڑے۔ مگر پھر ملتان کی گرمی تھی جو اچھے بھلے حواس کو بھی مخبوط کر ڈالے اور اس سے بھی سوا تھا۔ بابر اعظم کا ارتکاز، جسے بالآخر نیپالی بولنگ اٹیک کی مجموعی دانش پہ بھاری پڑنا ہی تھا۔ آمدہ کرکٹ کیلنڈر کے اہم ترین مرحلے کا آغاز بابر نے جس دھیان اور عزم سے کیا ہے، وہ پاکستان کے لیے نیک شگون ہے۔ لیکن نیپالی بولنگ نے پہلے 20 اوورز میں ہی یہ ضرور دکھلا دیا کہ یہاں تک پہنچنے کو وہ کیسی تگ و دو سے گزرے ہیں۔ اور اگر نیپالی کرکٹ اسی ڈگر پہ گامزن رہی تو اگلے ون ڈے ورلڈ کپ میں نمائندگی کا خواب بھی غیر حقیقت پسندانہ ہرگز نہ ہو گا۔ اب اس میں نیپالی بیٹنگ کا بھی بھلا کیا قصور کہ اس کے مقابل جو پیس اٹیک تھا، یہ تو کسی تگڑی سے تگڑی ٹیم کے بھی طوطے اڑا سکتا ہے تو وہ نوآموز بھلے وہاں کر ہی کیا پاتے۔ پہلے ہی اوورز میں وکٹ اڑانا شاہین آفریدی کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ نسیم شاہ کے سپیل کی اٹھان دن بدن تیز تر ہوئی جاتی ہے اور حارث رؤف کی پیس تو کسی جغادری کے بھی قدم متزلزل کر سکتی ہے۔ بہرحال نیپالی بیٹنگ کے انہدام میں پاکستانی پیس نے جو کردار نبھایا، اس کا اجر یہ بھی ہوا کہ ملتان کی حبس آلود تمازت میں پیسرز کو اپنا کوٹہ پورا کرنے کی اذیت سے رہائی مل گئی کیونکہ اگلے دو ماہ کے شیڈول میں پاکستانی کیمپ اپنے پیسرز کی فٹنس میں کسی کسر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/clez8n41zgxo", "summary": "ایشیا کپ کا آغاز بالکل ویسا ہی ہوا جیسے اکثر افراد نے سوچا تھا اور پاکستان نے افتتاحی میچ میں نیپال کو 238 رنز سے شکست دے دی۔", "title": "ایشیا کپ میں پاکستان کا بہترین آغاز: ’نیپال نے مقابلہ تو اچھا کیا لیکن پاکستان کسی وجہ سے نمبر ون ہے‘", "firstPublished": "2023-08-30T17:15:20.916Z", "id": "clez8n41zgxo", "article": "ایشیا کپ کا آغاز بالکل ویسا ہی ہوا جیسے اکثر افراد نے سوچا تھا اور پاکستان نے افتتاحی میچ میں نیپال کو 238 رنز سے شکست دے دی۔ اس میچ میں پاکستان نے بیٹنگ کی شروعات میں مشکلات کے باوجود اختتام دھواں دار انداز میں کیا جس میں بابر اعظم اور افتخار احمد کی جارحانہ بیٹنگ نیپالی بولرز پر حاوی رہی، اسی طرح پاکستانی بولنگ نے آغاز سے ہی غلبہ برقرار رکھا۔ ایشیا کپ کے افتتاحی میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت پر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور کپتان بابر اعظم اور افتخار احمد کی شاندار سنچریوں کی بدولت پاکستان نیپال کو فتح کے لیے 343 رنز کا بڑا ہدف دینے میں کامیاب رہی۔ پاکستان کی اننگز کا آغاز کچھ اتنا خاص نہیں تھا اور پہلی مرتبہ ایشیا کپ کا حصہ بننے والی نیپالی ٹیم کے بولرز نے ابتدائی 28 اوورز تک پاکستانی بلے بازوں کو کھل کر کھیلنے سے روکے رکھا۔ 28 اوورز کے کھیل کے اختتام تک پاکستان کا مجموعی سکور چار کھلاڑیوں کے نقصان پر 124 تھا۔ تاہم میچ کے دوسرے ہاف میں نیپال کے بولرز بابر اعظم اور محمد افتخار کی جارحانہ بلے بازی کے سامنے بے بس نظر آئے جو رنز کا انبار لگانے میں مصروف رہے۔ پاکستان نے 50 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 342 رنز بنائے۔ نیپال کی جانب سے سومپل کامی نے 85 رنز دے کر 2 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ کرن اور سندیپ لمیچا نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔ 343 رنز کے ہدف کے جواب میں نیپال کی اننگز ابتدا ہی سے مشکلات کا شکار نظر آئی اور 82 کے مجموعی سکور پر نیپال کی نصف ٹیم پویلین لوٹ چکی تھی۔ نیپال کی جانب سے اننگز کا آغاز اوپنرز کوشال بھرٹیل اور آصف شیخ نے کیا۔ تاہم شاہین شاہ کے پہلے ہی اوور کی آخری دو گیندوں پر دس کے مجموعی سکور کوشال اور ان کی جگہ آنے والے روہت پوڈیل آؤٹ ہو چکے تھے۔ اننگز کے دوسرے اوور میں اوپنر آصف شیخ پانچ رنز بنا کر نسیم شاہ کا شکار بنے۔ نیپال کے نمایاں بلے باز عارف شیخ اور سومپل کامی رہے، عارف نے 26 جبکہ سومپل نے 28 رنز سکور کیے۔ ایشیا کپ کا دوسرا میچ پاکستان اور انڈیا کے درمیان دو ستمبر کو کھیلا جائے گا۔ پاکستان کے سابق سپنر سعید اجمل کا کہنا تھا کہ ’بابر افتخار کی شراکت نے پاکستان کو بہترین سکور تک پہنچایا اور شاداب اور نواز بہترین بولنگ کا مظاہرہ کیا، خاص طور پر شاداب نے چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51qgnz5d2po", "summary": "اس بحران نے خواتین کی فٹ بال ورلڈ کپ کی فتح کی خوشی اور کامیابی کو ماند کر دیا ہے اور فی الحال اس بحران کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔", "title": "وہ ’بوسہ‘ جس نے خوشی کے لمحے کو فٹبال کی دنیا کے بڑے بحران میں بدل دیا", "firstPublished": "2023-08-30T07:23:10.503Z", "id": "c51qgnz5d2po", "article": "یہ ہسپانوی فٹبال کے لیے ایک تاریخی اور خوشی کا لمحہ ہونا چاہیے تھا، کہ خواتین کی فٹبال ٹیم نے پہلی مرتبہ ورلڈ کپ جیتا لیکن آسٹریلیا میں ہونے والے ایونٹ کے فائنل میں انگلینڈ کے خلاف سپین کی تاریخی کامیابی کے بعد جشن کے دوران جو کچھ ہوا، اس نے اس خوشی کے لمحے کو ایک بحران میں تبدیل کر دیا۔ بالکونی میں متنازع اشارے اور پھر بوسے لینے کے اس واقعے نے ہسپانوی فٹبال میں ایک ایسا بحران پیدا کر دیا ہے جس کے نتائج بہت دور رس اور غیر متوقع ہیں۔ فیڈریشن کی جانب سے جاری اعلامیہ کے متن میں کہا گیا ہے کہ ’آر ایف ای ایف اور اس کے صدر، فٹ پرو یونین کی جانب سے پریس ریلیز کے مواد کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے، متعلقہ قانونی کارروائی شروع کریں گے۔‘ فٹبال اور قانون کی دنیا کے جھگڑوں سے ہٹ کر، اس تنازعہ نے بڑے پیمانے پر بحث کو جنم دیا ہے۔ ڈیاز، جو نائب وزیر اعظم بھی ہیں، نے ملک میں معاشرتی رویوں کی تبدیلی کی بات کی ہے اور جنسی ہراسانی اور تشدد کے متاثرین کو بہتر تحفظ دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’لوئس روبیلز نے کہا ہے کہ وہ اپنا قانونی دفاع کریں گے اور انھیں فیفا پر مکمل اعتماد ہے۔ روبیلز کے مطابق انھیں اپنا دفاع کرنے کا موقع دیا گیا ہے تاکہ سچ کی فتح ہو۔‘ دوسری جانب فیفا کے اس اعلان کا کھیلوں کی دنیا میں خیر مقدم کیا گیا ہے جس کے تحت روبیلز کو معطل کیا جا چکا ہے تاہم چند لوگ یورپی فٹ بال تنظیم، یویفا، کی انتظامیہ کی مبینہ خاموشی پر سوال اٹھا رہے ہیں جس میں روبیلز نائب صدر ہیں۔ بی بی سی سپورٹس تجزیہ کار سائمن سٹون کا کہنا ہے کہ ’اگر روبیلز کو سپینش فٹ بال فیڈریشن سے ہٹا بھی دیا جاتا ہے تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ 2027 تک یویفا کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن رہیں گے۔‘ یویفا کا مؤقف ہے کہ اس کی جانب سے اب تک اس لیے بیان نہیں دیا گیا کیونکہ یہ واقعہ فیفا کی تقریب میں پیش آیا اور اسی لیے ان کے مطابق بہتر ہو گا کہ فیفا ہی اس تفتیش کو آگے لے کر بڑھے۔ روبیلز کی کزن اور ان کے اہلخانہ کی ترجمان ونیسا روئیز نے کہا ہے کہ ’میڈیا ہمیں پریشان کر رہا ہے۔ ہمیں اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارا پیچھا چھوڑ دیں اور جینی سچ بتائے۔ یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔‘ اس بحران نے خواتین کی فٹبال ورلڈ کپ کی فتح کی خوشی اور کامیابی کو ماند کر دیا ہے اور فی الحال اس بحران کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv257p5516zo", "summary": "اگر یہ پیس اٹیک اس ٹرافی تک پہنچنا چاہتا ہے تو اس کا حتمی امتحان انڈین بیٹنگ لائن ہو گی جو بلاشبہ اس ایونٹ کا بہترین بیٹنگ یونٹ ہے اور چھ بار کا چیمپیئن ہونے کے ساتھ ساتھ ون ڈے فارمیٹ میں ابھی بھی ایشیا کا چیمپیئن ہی ہے۔\n", "title": "یہ ورلڈ کپ کی ڈریس ریہرسل ہو سکتی ہے: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-08-30T02:19:18.539Z", "id": "cv257p5516zo", "article": "پاکستان تو اپنے میزبانی حقوق مکمل طور پہ نہ بچا پایا مگر ایشیا کپ کو بالآخر اپنا کھویا ہوا فارمیٹ واپس مل ہی گیا اور دو متواتر ٹی ٹونٹی ایڈیشنز کے بعد حالیہ ایونٹ ون ڈے فارمیٹ میں کھیلا جائے گا۔ بہرحال ہمہ قسمی دو طرفہ کرکٹ اور کثیرالقومی ٹورنامنٹس کا مقصود آئی سی سی ایونٹس کی تیاری ہی ہوتا ہے اور رواں سائیکل کا ایونٹ ون ڈے فارمیٹ میں کھیلے جانے کی وجہ بھی اکتوبر میں طے شدہ آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ کی تیاری ہی ہے۔ اب کی بار ایشین بلاک کی یہ بھی خوش بختی رہے گی کہ مہینہ بھر بعد منعقد ہونے والا آئی سی سی ورلڈ کپ بھی لگ بھگ انہی کنڈیشنز میں کھیلا جائے گا جو ایشیا کپ میں ان ٹیموں کو میسر ہوں گی۔ یوں یہ ایونٹ ورلڈ کپ کے لیے گویا ڈریس ریہرسل کا کام دے گا۔ یہاں ذمہ داری پی سی بی کے شریک میزبان سری لنکا کرکٹ کی ہو گی کہ وہ ایشیا کپ کو اس پچ کی ڈگر پر نہ جانے دیں کیونکہ بہرحال پاکستان ہی کی طرح ورلڈ کپ میزبان انڈین وینیوز میں بھی سپن کی ویسی بہتات نہ ہو گی جو سری لنکن پچز کا خاصہ رہی ہے۔ سو، اگر یہاں ورلڈ کپ کی تیاری ہی مقصود ہے تو پچز کا بھی عین وہی رجحان درکار ہو گا جو انڈین وکٹوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ چالیس برس کے اس سفر میں ایشیا کپ نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں اور سہ فریقی ٹورنامنٹ کے طور پر جنم لینے والا یہ ایونٹ اب فراخ دامن ہو کر چھ ٹیموں تک پہنچ چکا ہے۔ ایشین کرکٹ کونسل کو مالی منفعت پہنچانے کے علاوہ یہ امر خطے میں کرکٹ کے فروغ کے حوالے سے بھی مثبت قدم رہا ہے اور نیپال بھی پہلی بار کسی ایلیٹ لیول کے کثیرالقومی ٹورنامنٹ کا حصہ بن پایا ہے۔ یہ بھی عجب حقیقت ہے کہ اتنی طویل تاریخ رکھنے والے اس ٹورنامنٹ میں آج تک کبھی کوئی پاکستان، انڈیا فائنل نہیں ہوا۔ سو مارکیٹنگ کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس بار بھی فارمیٹ یوں رکھا گیا ہے کہ پاکستان، انڈیا دوطرفہ کرکٹ کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہو سکیں۔ اگرچہ ایشین کنڈیشنز میں سپنرز کا کردار اہم تر ہو رہتا ہے مگر حالیہ سیریز میں پاکستانی پیسرز نے کنڈیشنز سے بالاتر ہو کر اپنی مسابقت کا ثبوت دیا۔ طویل ون ڈے ایونٹس میں بہرحال بولنگ لائن پر ذمہ داری کا بوجھ زیادہ ہوا کرتا ہے اور بلاشبہ پاکستانی پیس اٹیک اس ایونٹ کا بہترین پیس اٹیک ہے۔ اگر یہ پیس اٹیک اس ٹرافی تک پہنچنا چاہتا ہے تو اس کا حتمی امتحان انڈین بیٹنگ لائن ہو گی جو بلاشبہ اس ایونٹ کا بہترین بیٹنگ یونٹ ہے اور چھ بار کا چیمپیئن ہونے کے ساتھ ساتھ ون ڈے فارمیٹ میں ابھی بھی ایشیا کا چیمپیئن ہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1zkgwwyyqo", "summary": "دنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک کھیلوں کی دنیا میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس میں سعودی پرو لیگ کا چہرہ بدلنے کے علاوہ فارمولا ون اور ایل آئی وی گولف شامل ہیں۔ چند ناقدین سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے اس عمل کو ’سپورٹس واشنگ‘ کا نام دے رہے ہیں تاکہ دنیا کی توجہ اصل معاملات سے ہٹائی جا سکے۔", "title": "سعودی عرب اربوں ڈالر خرچ کر کے فٹبال کی بڑی طاقت کیوں بننا چاہتا ہے؟", "firstPublished": "2023-08-29T04:02:46.386Z", "id": "cd1zkgwwyyqo", "article": "الہلال کلب سعودی عرب کی اول درجے کی فٹبال ٹیم ہے جس نے 66 ٹرافیاں جیت رکھی ہیں۔ اس کلب نے چار بار اے ایف سی چیمپیئنز لیگ بھی جیتی ہے اور یہ ایشیا میں فٹبال کی سب سے کامیاب ٹیم سمجھی جاتی ہے۔ رونالڈو کی آمد نے سعودی عرب میں فٹ بال لیگ کو نہایت تیزی سے بدلا اور کھیل کی دنیا کے بڑے نام مختلف کلبز میں شامل ہونے لگے۔ جون میں کریم بنزیما ریال میڈرڈ سے جدہ کے ال اتحاد کلب آ گئے۔ رواں سال سعودی پرو لیگ نے بین الاقوامی کھلاڑیوں کی ٹرانسفر فیسوں کی مد میں 850 ملین ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کی ہے جس میں وہ ماہانہ معاوضہ شامل نہیں جو ان کھلاڑیوں کو دیا جائے گا۔ لیگ کے چیف فنانشل افسر کارلو نوہرا کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں پیسہ صرف ایک بار کے لیے ہی نہیں لٹایا گیا۔ سعودی حکومت نے فٹ بال لیگ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ اس وقت تک مالی معاونت جاری رکھے گی جب تک منافع اور معیار کے اعتبار سے یہ دنیا کی سب سے اعلیٰ پائے کی لیگ نہیں بن جاتی۔ دنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک کھیلوں کی دنیا میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس میں سعودی پرو لیگ کا چہرہ بدلنے کے علاوہ فارمولا ون اور ایل آئی وی گولف شامل ہیں۔ چند ناقدین سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے اس عمل کو ’سپورٹس واشنگ‘ کا نام دے رہے ہیں تاکہ دنیا کی توجہ ہٹائی جا سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’دنیا بھر میں ملک کھیلوں اور تفریح کو ایک ایسی حکمت عملی کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس سے وہ اپنی سافٹ پاور کا اظہار کر سکیں۔‘ ’یہ اسی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے جسے سعودی عرب استعمال کر رہا ہے۔ یہ قوموں کے درمیان عالمی سطح پر لوگوں کے دل اور دماغ جیتنے کا مقابلہ ہے۔ برطانیہ، امریکہ، فرانس، انڈیا اور بہت سے ممالک اس حکمت عملی کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ اور اب سعودی بھی یہی کر رہے ہیں۔‘ سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان جس ’وژن 2030‘ کو پروان دے رہے ہیں اس میں کھیل ایک اہم ستون ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ معاشی طور پر تنوع کو فروغ دیا جائے اور تیل پر انحصار کو کم کرتے ہوئے نئے شعبہ جات کو ترقی دی جائے اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ تاہم کیا ملک کی حالیہ کثیر سرمایہ کاری فائدہ مند ثابت ہو گی یا نہیں، یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ حکمت عملی سعودی عرب کی اس خواہش کا اظہار کر رہی ہے کہ یہ فٹ بال کی دنیا کی ایک بڑی طاقت بننا چاہتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0j3nxw1g0ko", "summary": "نیرج چوپڑا اور ارشد ندیم کے درمیان گرمجوشی کا ذکر کئی برسوں سے ہو رہا ہے لیکن اس وقت ان کا ذکر بہت زیادہ ہوا جب سنہ 2021 میں ٹوکیو اولمپکس میں جیولین تھرو کے فائنل میں پہنچے اور دونوں کھلاڑیوں کا میڈیا پر ایک ساتھ نام لیا جانے لگا۔", "title": "انڈیا کے نیرج چوپڑا اور پاکستان کے ارشد ندیم جو اچھے دوست بھی اور سخت حریف بھی", "firstPublished": "2023-08-28T12:57:36.821Z", "id": "c0j3nxw1g0ko", "article": "ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ میں منعقدہ عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں روایتی حریف انڈیا اور پاکستان غالب رہے جہاں 88.17 میٹر تک جیولن پھینکنے والے نیرج چوپڑا نے گولڈ میڈل جیت کر انڈیا کے لیے تاریخ رقم کی وہیں پاکستان کے ارشد ندیم نے جیولن تھرو کے فائنل مقابلے میں چاندی کا تمغہ حاصل کر لیا ہے۔ اگرچہ عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2023 انڈیا کے لیے بہت اہم سمجھی جا رہی ہے کیونکہ اس میں تین انڈین کھلاڑی نیرج چوپڑا، کرشنا جینا اور ڈی پی منو مردوں کے جیولن تھرو ایونٹ کے فائنل میں پہنچے۔ ایسا پہلی بار ہوا جب تین انڈین کھلاڑی فائنل میں پہنچے۔ لیکن اس مقابلے کے فاتح نیرج اور ارشد اب بھی موضوع بحث ہیں۔ ان کے مداح ان کی دوستی، ایک دوسرے کے لیے احترام، زندگی کے حالات میں مماثلت اور میدان میں ایک دوسرے کے سخت حریف ہونے سے متعلق بات کر رہے ہیں۔ نیرج چوپڑا اور ارشد ندیم کے درمیان گرمجوشی کا ذکر کئی برسوں سے ہو رہا ہے لیکن اس وقت ان کا ذکر بہت زیادہ ہوا جب سنہ 2021 میں ٹوکیو اولمپکس میں جیولین تھرو کے فائنل میں پہنچے اور دونوں کھلاڑیوں کا میڈیا پر ایک ساتھ نام لیا جانے لگا۔ کوالیفائنگ راؤنڈ میں نیرج چوپڑا اپنے گروپ میں سرفہرست تھے جبکہ ارشد ندیم بھی اپنے گروپ میں سب سے آگے تھے۔ لیکن ارشد فائنل میں بہتر کارکردگی نہ دکھا سکے اور 84.62 میٹر کے تھرو کے ساتھ پانچویں نمبر پر آئے۔ بے شمار ایوراڈز اور کامیابی کے بعد انڈیا واپس آنے پر بھی نیرج اپنے دل کی کسک کو نہیں بھلا پائے۔ انھوں نے اس وقت انڈین ٹی وی کو انٹرویو میں کہا تھا کہ ’اچھا ہوتا اگر پوڈیم پر میرے ساتھ پاکستان کے ارشد ندیم بھی ہوتے۔‘ تاہم، انڈیا کو ایتھلیٹکس میں اپنے نئے ہیرو کے لیے 18 سال انتظار کرنا پڑا۔ یہ انتظار اس وقت ختم ہوا جب نیرج چوپڑا نے سنہ 2021 میں منعقدہ ٹوکیو اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا اور ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ نیرج کی کامیابی کتنی بڑی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انڈیا میں سات اگست کو نیشنل جیولین ڈے یا نیشنل جیولین تھرونگ ڈے منایا جاتا ہے۔ یہ وہی تاریخ ہے جب نیرج نے ٹوکیو اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔ ’اس زمانے میں ان کی توجہ کرکٹ پر زیادہ ہوا کرتی تھی اور وہ کرکٹر بننے کے لیے بہت سنجیدہ بھی تھے لیکن ساتھ ہی وہ ایتھلیٹکس میں بھی دلچسپی سے حصہ لیا کرتے تھے۔ وہ اپنے سکول کے بہترین ایتھلیٹ تھے۔‘ نیرج چوپڑا انڈر 20 چیمپئن ہونے کے ساتھ ساتھ ایشین گیمز، کامن ویلتھ گیمز، اولمپکس اور ڈائمنڈ لیگ جیت چکے ہیں۔ اب ان کی نظریں 2024 کے اولمپکس میں دوسری بار میڈل جیتنے پر مرکوز ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gz8x1dp4vo", "summary": "ہنگری کے دارالحکومت بداپیشت میں جاری ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئین شپ میں جمعہ کو ہونے والے جیولن تھرو کے مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے ارشد ندیم نے 86.79 میٹر کی تھرو کر کے اس ایونٹ کے فائنل میں جگہ بنا لی ہے۔", "title": "ارشد ندیم نے ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ کی تاریخ میں پاکستان کو پہلا تمغہ دلوا دیا ", "firstPublished": "2023-08-25T10:57:48.518Z", "id": "c3gz8x1dp4vo", "article": "پاکستان کے ارشد ندیم نے ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپسٹ میں منعقد ہونے والی ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئین شپ میں جیولن تھرو کے فائنل مقابلے میں چاندی کا تمغہ حاصل کر لیا ہے۔ اتوار کی شب ہونے والے فائنل میں ارشد نے اپنی بہترین تھرو 87.82 میٹر دور پھینکی اور یہ رواں سیزن میں ان کی بہترین تھرو بھی تھی۔ اس سے پہلے جمعے کو ہونے والے جیولن تھرو کے ابتدائی مقابلوں میں ارشد ندیم نے 86.79 میٹر کی تھرو کی بدولت نہ صرف فائنل میں جگہ بنائی تھی بلکہ سنہ 2024 میں فرانس میں ہونے والے اولمپکس کے لیے بھی کوالیفائی کر لیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل رشید احمد ساقی نے بی بی سی کے نامہ نگار عبدالرشید شکور سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ارشد ندیم جب چھٹی ساتویں جماعت کے طالبعلم تھے، اُنھیں وہ اس وقت سے جانتے ہیں۔ ’اس بچے کو شروع سے ہی کھیلوں کا شوق تھا۔ اس زمانے میں ان کی توجہ کرکٹ پر زیادہ ہوا کرتی تھی اور وہ کرکٹر بننے کے لیے بہت سنجیدہ بھی تھے لیکن ساتھ ہی وہ ایتھلیٹکس میں بھی دلچسپی سے حصہ لیا کرتے تھے۔ وہ اپنے سکول کے بہترین ایتھلیٹ تھے۔‘ رشید احمد ساقی کہتے ہیں 'میرے ارشد ندیم کی فیملی سے بھی اچھے مراسم ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن ان کے والد میرے پاس آئے اور کہا کہ ارشد ندیم اب آپ کے حوالے ہے، یہ آپ کا بیٹا ہے۔ میں نے ان کی ٹریننگ کی ذمہ داری سنبھالی اور پنجاب کے مختلف ایتھلیٹکس مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے بھیجتا رہا۔ ارشد نے پنجاب یوتھ فیسٹیول اور دیگر صوبائی مقابلوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔' وہ کہتے ہیں ʹیوں تو ارشد ندیم شاٹ پٹ، ڈسکس تھرو اور دوسرے ایونٹس میں بھی حصہ لیتے تھے لیکن میں نے ان کے دراز قد کو دیکھ کر اُنھیں جیولن تھرو کے لیے تیار کیا۔' رشید احمد ساقی بتاتے ہیں ʹمیں نے ارشد ندیم کو ٹریننگ کے لیے پاکستان ایئر فورس بھیجا لیکن ایک ہفتے بعد ہی واپس بلا لیا۔ اس دوران پاکستان آرمی نے بھی ارشد ندیم میں دلچسپی لی بلکہ ایک دن آرمی کی گاڑی آئی اور اس میں موجود ایک کرنل صاحب میرا پوچھ رہے تھے۔ 'میں گھبرا گیا کہ کیا ماجرا ہے؟ لیکن جب اُنھوں نے ارشد ندیم کی بات کی تو میری جان میں جان آئی۔ کرنل صاحب بولے ارشد ندیم کو آرمی میں دے دیں، لیکن میں نے انکار کر دیا۔ کرنل صاحب نے وجہ پوچھی تو میں نے بتایا کہ آپ لوگ اس کی ٹریننگ ملٹری انداز میں کریں گے۔ بہرحال اس کے بعد میں نے ارشد ندیم کو واپڈا کے ٹرائلز میں بھیجا جہاں وہ سلیکٹ ہو گئے۔‘ ارشد ندیم کے کوچ فیاض حسین بخاری ہیں جن کا تعلق پاکستان واپڈا سے ہے۔ وہ خود بین الاقوامی ایتھلیٹکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72zm0enyy1o", "summary": "ایسے میں مداحوں کی جانب سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم سے ورلڈ کپ سے امیدیں لگانا تو ٹھیک ہے لیکن کیا ابھی ٹیم میں مزید بہتری کی گنجائش ہے؟ اس بارے میں پاڈکاسٹ ڈبل وکٹ میڈن کی میزبان ایمان طفیل ارباب اور صحافی عمر فاروق کیلسون کیا رائے رکھتے ہیں۔", "title": "ون ڈے میں ’نمبر ون‘ پاکستانی کرکٹرز کی ’گولڈن جنریشن‘ ورلڈ کپ کے لیے ’فیورٹ‘ ہے؟ ", "firstPublished": "2023-05-06T12:50:19.029Z", "id": "c72zm0enyy1o", "article": "ناقدین کا خیال ہے کہ شاید اس حوالے سے تجزیے قبل از وقت اس لیے بھی ہیں کیونکہ پاکستان نے سنہ 2019 کے ورلڈ کپ سے اب تک دوسری ٹیموں کے مقابلے میں بہت کم ون ڈے کھیلیں ہیں اور پاکستان کی موجودہ کارکردگی افغانستان کی قدرے کمزور ٹیم کے خلاف ہے۔ ایسے میں مداحوں کی جانب سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم سے ورلڈ کپ سے امیدیں لگانا تو ٹھیک ہے لیکن کیا ابھی ٹیم میں مزید بہتری کی گنجائش ہے؟ اس بارے میں ہم نے پاڈکاسٹ ڈبل وکٹ میڈن کی میزبان ایمان طفیل ارباب اور صحافی عمر فاروق کالسن (اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ میں میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں) سے تفصیل سے رواں برس کے آغاز میں بات کی تھی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاڈکاسٹ ڈبل وکٹ میڈن کی میزبان ایمان ارباب نے کہا کہ ’اس وقت یہ رینکنگ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ پاکستان کی ٹیم گذشتہ ایک سال سے بہت اچھی پوزیشن میں ہے اور جو سوالات اس ٹیم کے بارے میں کچھ عرصے پہلے تک لوگوں کے ذہنوں میں تھے، جیسے مڈل آرڈر سے متعلق، وہ اب اچانک سے حل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور ہم ایک ایسی صورتحال میں ہیں جب ہر رول کے لیے ہمارے پاس کھلاڑی موجود ہے۔‘ عمر فاروق اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے ورلڈ کپ سے قبل اس طرح کا ماحول بنانے سے ٹیم کی تیاری پر برے اثرات پڑتے ہیں۔ ’ہم پریس کانفرنسز کی حد تک تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم ورلڈکپ کو نظر میں رکھ کر فیصلے کر رہے ہیں، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔‘ ایمان طفیل اس حوالے سے کہتی ہیں کہ ’ایسا نہیں ہے کہ پی سی بی نے اس مرتبہ بھی ورلڈکپ سے پہلے کوشش نہیں کی پاکستان ٹیم میں تبدیلیاں کرنے کی۔ شاہد آفریدی کے سلیکشن کمیٹی کے سربراہ بننے پر ہم سب یہی سوچ رہے تھے کہ اب کیا ہو گا۔ صحافی عمر فاروق اس بارے میں تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاکستان نے تاحال مڈل آرڈر میں رول کے حساب سے کھلاڑی نہیں کھلائے جس کی وجہ سے ابھی تک ہمارا مڈل آرڈر کا مسئلہ برقرار ہے۔ ایمان کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں آغا سلمان نے بہت اچھی کاکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور لوگ انھیں ہلکا لے رہے ہیں، وہ پاکستان کے لیے مڈل آرڈر میں مسائل کا حل بن کر سامنے آئے ہیں۔ وہ بھی شان مسعود اور عبداللہ شفیق کو نمبر چار پر آزمانے کے خلاف ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اس کی منطق سمجھ نہیں آتی، شاید یہ اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ اگر کسی میچ میں ہمارے ٹاپ تھری جلدی آؤٹ ہو جائیں تو ایک ایسا کھلاڑی موجود ہو جو اننگز کو ازسرِ نو تعمیر کر سکے، لیکن اس رول میں سلمان آغا اور رضوان کو بھی آزمایا جا سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cg3l10k4mj4o", "summary": "پاکستان نے ایشیا کپ اور ورلڈکپ سے قبل افغانستان کے خلاف تین میچوں کی انتہائی اہم سمجھی جانے والی ون ڈے سیریز کلین سویپ کر لی ہے اور یوں پاکستان اس وقت ون ڈے رینکنگ میں سرِ فہرست آ گیا ہے۔", "title": "افغانستان کے خلاف فتح، پاکستان ون ڈے رینکنگ میں سرِفہرست:’ایشیاکپ اور ورلڈکپ جیت جائیں تو کیا بات ہے‘", "firstPublished": "2023-08-26T18:35:41.671Z", "id": "cg3l10k4mj4o", "article": "پاکستان نے ایشیا کپ اور ورلڈکپ سے قبل افغانستان کے خلاف تین میچوں کی انتہائی اہم سمجھی جانے والی ون ڈے سیریز کلین سویپ کر لی ہے اور یوں پاکستان اس وقت ون ڈے رینکنگ میں سرِ فہرست آ گیا ہے۔ اب تک اس سیریز میں بعد میں بیٹنگ کرنے والی ٹیم زیادہ مشکلات کا شکار دی ہے اور 269 رنز کے ہدف کا تعاقب کرنے والی افغان بیٹنگ بھی پاکستانی بولرز کے سامنے زیادہ دیر ٹک نہیں سکی اور یوں پاکستان نے یہ میچ 59 رنز سے جیت لیا۔ ٹیم مینجمنٹ کی جانب سے ورلڈکپ سے قبل زیادہ سے زیادہ کھلاڑیوں کو موقع دیا جا رہا ہے تاکہ حتمی ٹیم کمبینیشن اور ورلڈ کپ کے لیے 15 کھلاڑیوں کے سکواڈ کا فیصلہ کیا جا سکے۔ یہ دو دہائیوں کے بعد پہلا موقع ہے کہ پاکستان کسی ون ڈے ورلڈکپ میں بطور فیورٹ داخل ہونے جا رہا ہے۔ پاکستان کی اننگز میں جہاں بابر اور رضوان کے 60 اور 67 نمایاں رہے وہیں سلمان علی آغا اور محمد نواز نے آخری اوورز میں جارحانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو ایک مستحکم ٹوٹل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری جانب جب افغانستان نے بیٹنگ کا آغاز کیا تو پاکستان کی جانب سے فہیم اشرف نے آغاز میں عمدہ بولنگ کی اور گذشتہ میچ میں سنچری سکور کرنے والے رحمان اللہ گرباز کو آؤٹ کرنے کے بعد ابراہیم زدران کو بھی آؤٹ کر دیا۔ ایسے میں افغانستان کے سپن بولر مجیب الرحمان نے جارحانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور پانچ چھکوں اور پانچ چوکوں کی مدد سے صرف 37 گیندوں پر 64 رنز بنائے۔ یہ نمبر آٹھ پر بیٹنگ کرنے والے کسی بھی کھلاڑی کا پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ سکور ہے۔ ان کے علاوہ شاہد اللہ نے 37 رنز سکور کیے۔ پاکستان کے ون ڈے رینکنگ میں سرِ فہرست آنے پر اکثر صارفین خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے ایشیا کپ اور ورلڈکپ سے قبل ایک خوش آئند پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ معاذ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’پاکستان ایک نمبر ون ون ڈے ٹیم ہے جس میں نمبر ون بیٹر موجود ہے۔ ایشیا کپ اور ورلڈ کپ سے پہلے یہ پاکستان کی بہترین تیاری ہے۔‘ پاکستان کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے لکھا کہ ’یہ وائٹ واش مکمل برتری کے ساتھ کیا گیا ہے۔ شاباش لڑکو! جو اتحاد کپتان اور کھلاڑی دکھا رہے ہیں وہ بہترین ہے۔ ہر کوئی ہر صورتحال میں بہتری لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ پاکستان کرکٹ کا بہترین دور ہے۔‘ عادل چیمہ نامی صارف نے لکھا کہ ہم چیمیئنز ٹرافی ٹورنامنٹ کے دفاعی چیمپیئن ہیں اور اب اگر ہم ون ڈے ورلڈ کپ اور ایشیا کپ بھی جیت جائیں تو کیا بات ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1g2z3k8v1o", "summary": "پاکستان بلائینڈ کرکٹ ٹیم آج برطانیہ میں جاری انٹرنیشنل بلائینڈ سپورٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام ابسا ورلڈ گیمز 2023 کے فائنل میں انڈیا سے مدمقابل ہے۔ دنیا کے بہترین بولرز میں سے ایک سمجھے جانے والے شاہزیب حیدر کہتے ہیں کہ ’صرف 20 ہزار ماہانہ سے تو گھر نہیں چلتا۔‘", "title": "پاکستانی بلائنڈ کرکٹ سٹارز: ’جب میچ نہیں ہوتا تو والد کے ساتھ مزدوری کرتا ہوں‘", "firstPublished": "2023-08-26T08:12:11.298Z", "id": "cd1g2z3k8v1o", "article": "یہ کہنا ہے پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے سٹار بالر 25 سالہ شاہزیب حیدر کا جن کا تعلق ضلع راولپنڈی کے علاقے گوجر خان سے ہے۔ پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم اس وقت برطانیہ میں جاری انٹرنیشنل بلائنڈ سپورٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام ابسا ورلڈ گیمز 2023 کے فائنل میں روایتی حریف انڈیا کو ہرا کر گولڈ میڈل جیت چکی ہے۔ ایک شاہزیب حیدر ہی نہیں بلکہ ان سمیت پاکستان بلائینڈ کرکٹ ٹیم میں موجود دیگر کھلاڑی بھی زندگی میں مختلف چیلینجز کا سامنا کرنے کے باوجود پاکستان کی جیت کے لیے بلند حوصلوں کے ساتھ برمنگھم کے میدان میں موجود ہیں۔ شاہزیب حیدر پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز بالر ہیں۔ برطانیہ میں منعقدہ گروپ کے آخری اور کانٹے کے مقابلے میں پاکستانی ٹیم کی کامیابی کا سہرا شاہزیب حیدر کو جاتا ہے جس میں چار وکٹیں حاصل کر کے وہ گروپ میں ناقابل شکست رہے ہیں۔ ’میں دنیا کے سات ممالک میں کھیل چکا ہوں۔ سینٹرل کنڈیکٹ بھی موجود ہے جن کے پہلے 15 ہزار اور اب 20 ہزار روپے ماہوار ملتے ہیں۔ مگر ابھی تک گھر کے حالات نہیں بدلے۔ کوئی رشتہ بھی ساتھ نہیں دیتا بلکہ الٹا وہ کہتے ہیں بلائنڈ کرکٹ کا عالمی سٹار ہونے کا کیا فائدہ؟‘ ان کا کہنا ہے کہ سکول ہی میں وہ مقامی زون ٹیم کی نظروں میں آ گئے جس وجہ سے ڈومیسٹک کھیلی اور وہاں کارگردگی کی بنیاد پر پاکستان کی قومی ٹیم میں منتخب ہوئے۔ مگر اب 20 ہزار ماہانہ سے تو گھر نہیں چلتا۔ پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم میں کھیلنے والے 35 سالہ ریاست خان بھی سٹار آل راونڈر ہیں۔ ان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد سے ہے۔ ان کو 2017 کے ورلڈ کپ کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا تھا۔ بلائینڈ کرکٹ ٹیم کے کپتان نثار علی کہتے ہیں کہ انھیں عام کرکٹ کے کھلاڑیوں سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے دوسری جانب پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے کپتان نثار علی کہتے ہیں کہ انھیں عام کرکٹ کے کھلاڑیوں سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ ان کی 2006 میں پرویز مشرف سے ملاقات ہوئی جس کے بعد ان کی مداخلت پر کرکٹ بورڈ کا آئین تبدیل ہوا اور پاکستان بلائنڈ کرکٹ کونسل کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا ممبر بنایا گیا۔ اس سے انھیں گرانٹ ملنا شروع ہوئی۔ سید سلطان شاہ کے مطابق اب تک پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم نے دیگر ممالک کے ساتھ 17 دو طرفہ سیزیز کھیلی ہیں جن میں سے 15 میں پاکستان فاتح رہا ہے۔ ’یہاں پر ہر ایک کھلاڑی کی محنت اور جدوجہد کی کہانی ہے۔ ہر کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ کا ہیرو ہوتا ہے۔ قومی ٹیم میں شامل ہونے والا کھلاڑی جب ٹیم میں شامل ہوتا ہے تو اس وقت وہ جسمانی، ذہنی اور صلاحیتوں کے حوالے سے اتنا مضبوط ہوجاتا ہے کہ وہ بڑی بڑی ٹیموں کا مقابلہ آسانی سے کرتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c061vgk0j44o", "summary": "فیفا ویمنز ورلڈ کپ کی ٹرافی جیتنے کے بعد ہسپانوی فٹبال ٹیم کی کھلاڑی جینی ہرموسو کے ہونٹوں پر بغیر باہمی رضامندی کے بوسہ دینے پر سپین کی 80 سے زائد خواتین کھلاڑیوں نے فٹبال فیڈریشن کے صدر لوئس روبیلز کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے تک بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ ", "title": "’بغیر اجازت‘ بوسہ لینے کے تنازع پر ہسپانوی خواتین کھلاڑیوں کا بائیکاٹ", "firstPublished": "2023-08-22T06:26:58.567Z", "id": "c061vgk0j44o", "article": "فیفا ویمنز ورلڈ کپ کی ٹرافی جیتنے کے بعد ہسپانوی فٹبال ٹیم کی کھلاڑی جینی ہرموسو کے ہونٹوں پر بغیر باہمی رضامندی کے بوسہ دینے پر سپین کی 80 سے زائد خواتین کھلاڑیوں نے فٹبال فیڈریشن کے صدر لوئس روبیلز کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے تک بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ گذشتہ اتوار کو کھیلے گئے ویمنز ورلڈ کپ فائنل میں سپین کی ویمنز ٹیم نے تاریخ میں پہلی بار ورلڈکپ جیتا جس کے بعد ہونے والی تقریب تقسیم انعامات کے دوران لوئس روبیلز کو ٹیم کی کھلاڑیوں سے بغل گیر ہوتے دیکھا گیا۔ اس موقع پر فیڈریشن کے صدر روبیلز سے جب ٹیم کی کھلاڑی جینی ہرموسو ملنے آئیں تو انھوں نے پہلے انھیں گلے لگایا اور پھر ان کے ہونٹوں پر بوسہ لے لیا۔ جینی ہرموسو نے کہا ہے کہ صدر نے بوسہ لینے سے قبل ان کی مرضی نہیں معلوم کی، جس کے بعد اب 81 ایسی کھلاڑی سامنے آئی ہیں، جنھوں نے کہا ہے کہ جب تک فیڈریشن کے صدر کو ان کے عہدے سے نہیں ہٹایا جاتا وہ ملک کی فٹ بال ٹیم کے لیے نہیں کھیلیں گی۔ سپین کی حکومت نے فٹبال فیڈریشن کے 46 برس کے صدر کو معطل کرنے کے لیے قانونی عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ فیفا نے بھی انضباطی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جینی ہرموسو نے سوشل میڈیا پر ایک تفصیلی بیان شیئر کیا ہے۔ انھوں نے فیڈریشن کے صدر کے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی گفتگو سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی۔ ہسپانوی فٹبال فیڈریشن کے صدر روبیلز کی اس حرکت پر سوشل میڈیا پر ان پر کافی تنقید کی گئی۔ سپین کے وزیر کھیل میکیل اسیٹا نے سرکاری ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ روبیلز کی جانب سے ہرموسو کا بوسہ لینا ’ناقابل قبول‘ تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’سب سے پہلے روبیلز کو وضاحت اور معافی مانگنی ہے اور یہ ہی معقول اور منطقی عمل ہے۔‘ خاتون کھلاڑی جینی ہرموسو کی جانب سے بوسے کو ناپسند کرنے کے ابتدائی بیان کے بعد ہسپانوی فٹ بال فیڈریشن کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ یہ لمحہ ’محبت و شفقت کا فطری ردعمل‘ تھا۔ 31 سالہ خاتون کھلاڑی کا کہنا تھا کہ ’ یہ ورلڈ کپ جیتنے کی خوشی کی وجہ سے یہ مکمل طور پر ایک بے ساختہ باہمی ردعمل تھا۔‘ میچ کے بعد آن لائن گردش کرنے والی فوٹیج میں روبیلز جو سٹیڈیم کے وی آئی پی ایریا میں فیفا کے صدر گیانی انفینٹینو اور سپین کی ملکہ لیٹزیا کے قریب بیٹھے تھے، کو میچ کی اختتامی سیٹی بجنے کے بعد جشن مناتے ہوئے اپنے عضو تناسل کے قریبی حصے کو بھی چھوتے دیکھا جا سکتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c25z32vp9z5o", "summary": "پاکستان نے سیریز کے دوسرے میچ میں افغانستان کو ایک کانٹے کے میچ کے بعد ایک وکٹ سے شکست دے دی ہے۔ اس میچ میں کہانی میں سب کچھ تھا، ایک بہترین سنچری، نصف سنچریاں، یکِ بعد دیگرے وکٹیں گرنے کے ساتھ ساتھ متنازع رن آؤٹ اور آخری اوور کا ڈرامہ۔ ", "title": "پاکستان کی آخری اوور میں افغانستان پر فتح: ’شاداب کو رن آؤٹ کر کے نسیم کو دوبارہ غصہ دلا دیا‘", "firstPublished": "2023-08-24T19:21:38.200Z", "id": "c25z32vp9z5o", "article": "نسیم شاہ اپنا ہیلمٹ، گلوز اور بیٹ پھینکتے ہیں اور پاکستان کو آخری اوور میں ایک سنسنی خیز میچ جتوانے کے بعد گراؤنڈ میں خوشی اور غصے کے ملے جلے جذبات کے ساتھ دوڑنے لگتے ہیں۔ یہ ایک برس قبل ایشیا کپ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کھیلے جانے والے ٹی ٹوئنٹی میچ کی کہانی نہیں بلکہ دونوں ٹیموں کے درمیان سری لنکا میں ہونے والی سیریز کے دوسرے میچ کی روداد ہے۔ پاکستان نے جمعرات کو افغانستان کو ایک کانٹے کے مقابلے کے بعد ایک وکٹ سے شکست دے دی ہے۔ اس ون ڈے میچ کی کہانی میں سب کچھ تھا، ایک بہترین سنچری، نصف سنچریاں، یکے بعد دیگرے وکٹیں گرنے کے ساتھ ساتھ ’متنازع‘ رن آؤٹ اور آخری اوور کا ڈرامہ۔ تاہم اس میچ کی کہانی میں نسیم شاہ اپنی بیٹنگ کے باعث ایک بار پھر سب کو حیران کر گئے اور آخری اوور میں جب پاکستان کو جیتنے کے لیے 11 رنز درکار تھے اور شاداب خان نان سٹرائیکر اینڈ پر رن آؤٹ ہو چکے تھے تو نسیم نے دو چوکوں کی مدد سے یہ ہدف میچ کی سیکنڈ لاسٹ گیند پر پورا کر لیا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے یہ ہدف اپنی اننگز کے آخری اوور میں حاصل کر لیا۔ ایک موقع پر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پاکستان یہ ہدف باآسانی حاصل کر لے گا لیکن بابر اعظم کی جانب سے نصف سنچری بنا کر آؤٹ ہوتے ہی پاکستان کا مڈل آرڈر لڑکھڑا گیا اور بات آخری اوور میں گیارہ رنز حاصل کرنے تک پہنچ گئی۔ تاہم جس بارے میں اس وقت سب سے زیادہ بات کی جا رہی ہے وہ شاداب خان کا رن آؤٹ اور نسیم شاہ کی ایک مرتبہ پھر آخری اوور میں عمدہ بیٹنگ ہیں۔ پہلے شاداب خان کے رن آؤٹ کے بارے میں بات کرتے ہیں جو میچ کے انتہائی نازک موقع پر کیا گیا۔ ایک مرتبہ ایسا ایک سائیڈ میچ کے دوران جبکہ دوسری مرتبہ دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلے گئے ایک ٹیسٹ میچ میں کیا گیا تھا۔ اس وقت آسٹریلین میڈیا نے اس طریقے سے رن آؤٹ کرنے کے انداز کو ’منکڈنگ‘ کا نام دیا تھا اور اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تاہم میچ کے 40ویں اوور میں پاکستان کو پہلی کامیابی سپن بولر اسامہ میر نے دلوائی، افتخار احمد نے اسامہ میر کی گیند پر اوپنر ابراھیم زردان کو کیچ آؤٹ کیا، انھوں نے دو چھکوں اور چھ چوکوں کی مدد سے 101 گیندوں کا سامنا کیا اور 80 رنز بنائے۔ اب تو شائقین کی دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کے روایتی حریف ایک انڈین صارف نے لکھا کہ ’میں چنئی میں پاکستان اور افغانستان کا میچ دیکھنے ضرور جاؤں گی، کیونکہ یہ کانٹے کا مقابلہ ہو گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg439202z6o", "summary": "پوری افغانستان ٹیم میں سے صرف دو بلے باز 10 رنز کے ہندے کو عبور کر سکے۔ رحمان اللہ گرباز 18 رنز بنا کر سرفہرست رہے جبکہ عظمت اللہ عمرزئی 16 رنز بنا کر ریٹائرڈ ہرٹ ہوئے۔ افغانستان کے چار بلے باز بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوئے۔", "title": "امام الحق 61, افغانستان 59: ’انڈیا والو! کیا آپ نے ہمارے فاسٹ بولرز کو دیکھا آج؟‘", "firstPublished": "2023-08-22T17:20:38.692Z", "id": "crg439202z6o", "article": "سری لنکا کے شہر ہمبنٹوٹا میں کھیلے گئے پہلے میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تاہم اننگز کے ابتدا ہی سے پاکستانی بلے باز افغانستان کے بولرز کے ہاتھوں مشکلات کا شکار رہے اور پاکستان کی پوری ٹیم 48ویں اوور میں 201 رنز بنا کر آؤٹ ہوئی۔ تاہم افغانستان یہ آسان ہدف بھی حاصل نہیں کر سکا اور پاکستانی بولرز کی انتہائی نپی تلی اور عمدہ بولنگ کی بدولت افغانستان کی پوری ٹیم 20ویں اوور میں فقط 59 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔ میچ کی خاص بات حارث رؤف کی تباہ کن بولنگ تھی، انھوں نے 6.2 اوورز میں صرف 18 رنز دے کر پانچ کھلاڑوں کو آؤٹ کیا۔ شاہین شاہ آفریدی نے دو جبکہ شاداب خان اور نسیم شاہ نے ایک، ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ پوری افغانستان ٹیم میں سے صرف دو بلے باز 10 رنز کے ہندے کو عبور کر سکے۔ رحمان اللہ گرباز 18 رنز بنا کر سرفہرست رہے جبکہ عظمت اللہ عمرزئی 16 رنز بنا کر ریٹائرڈ ہرٹ ہوئے۔ افغانستان کے چار بلے باز بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوئے۔ پاکستان کی جانب سے دیے گئے 202 رنز کے ہدف کے تعاقب میں افغانستان کی پہلی وکٹ تیسری اوور میں تین کے مجموعی سکور پر گری جب ابراہیم زردان بغیر کوئی رن بنائے شاہین شاہ آفریدی کا شکار بنے۔ اسی اوور کی اگلی ہی گیند پر شاہین شاہ آفریدی نے رحمت شاہ کو بھی پویلین کی راہ دکھا دی۔ رحمت بھی بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوئے۔ اس کے بعد افغانستان کی وکٹیں گرنے کا سلسلہ تسلسل سے جاری رہا اور کوئی افغان بلے باز کریز پر جم کر کھڑا نہ ہو سکا۔ اننگز کے چوتھے اوور میں حشمت اللہ شہیدی بھی نسیم شاہ کی گیند کا شکار بنے۔ شہیدی بھی بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوئے۔ حارث رؤف کی جانب سے کروائے گئے آٹھویں اوور میں اکرام علیخیل فقط چار رنز بنا کر وکٹ کے پیچھے محمد رضوان کو کیچ دے بیٹھے۔ رحمان اللہ گرباز 18 رنز، محمد بنی سات، راشد خان صفر، عبدل الرحمان دو جبکہ مجیب الرحمان چار رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ پاکستان کی تیسری وکٹ 40 رنز پر اس وقت گری جب محمد رضوان 21 رنز بنا کر مجیب الرحمان کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے۔ ان کے بعد آنے والے آغا سلمان صرف 7 رنز بنا پائے۔ تاہم اس کے بعد صورتحال میں تھوڑی بہتری آئی اور امام الحق اور افتخار احمد نے 50 رنز کی شراکت داری کی جس کے بعد 112 رنز کے مجموعی سکور پر افتخار 30 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ اس کے بعد امام الحق اور شاداب خان کے درمیان 40 رنز کی پارٹنرشپ بنی۔ پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ 61 رنز امام الحق نے بنائے جبکہ شاداب خان 39 اور افتخار احمد 30 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgleg30924do", "summary": "کارمونا کو ان کے والد کی موت کی خبر ملنے کے بعد انھوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’میں جانتی ہوں کہ آج رات آپ مجھے دیکھ رہے تھے اور آپ کو مجھ پر فخر ہے۔ آپ کی روح پرسکون رہے ڈیڈ۔‘\n", "title": "سپین کی خواتین فٹبال ٹیم کی کپتان جنھیں ورلڈکپ فائنل میں فتح کے بعد والد کی موت کی خبر دی گئی", "firstPublished": "2023-08-21T06:04:22.561Z", "id": "cgleg30924do", "article": "جب وہ خواتین ورلڈکپ جیتنے پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی تبھی انھیں یہ خبر دی گئی کہ ان کے والد کی وفات ہو گئی ہے۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اولگا کے والد ایک عرصے سے بیمار تھے اور جمعے کو ان کی موت ہوئی تھی۔ کارمونا کو ان کے والد کی موت کی خبر ملنے کے بعد انھوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’میں جانتی ہوں کہ آج رات آپ (والد) مجھے دیکھ رہے تھے اور آپ کو مجھ پر فخر ہے۔ آپ کی روح پُرسکون رہے ڈیڈ۔‘ انھوں نے اپنے والد سے متعلق تعزیتی پیغام کے ساتھ جیت کے میڈل کو چومتے ہوئے اپنی تصویر بھی شیئر کی۔ انھوں نے اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے مزید لکھا کہ ’مجھے علم نہیں تھا کہ کھیل شروع ہونے سے قبل ہی میرا ستارہ چمک رہا تھا۔ میں جانتی ہوں کہ کچھ منفرد حاصل کرنے کا حوصلہ اور ہمت مجھے آپ نے ہی دی ہے۔‘ ہسپانوی فٹ بال ایسوسی ایشن (آر ایف ای ایف) نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’آر ایف ای ایف کو اولگا کارمونا کے والد کی موت کا اعلان کرنے پر شدید افسوس ہے۔‘ ہسپانوی میڈیا آؤٹ لیٹ ’ریلیوو‘ نے کہا کہ ان کے اہلخانہ اور دوستوں نے انھیں والد کی وفات سے متعلق نہ بتانے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ وہ فائنل پر توجہ مرکوز رکھ سکیں، ان کی والدہ اور بھائی سنیچر کے روز میچ میں ان کی حمایت کے لیے آسٹریلیا پہنچے تھے۔‘ ان کے فٹبال کلب ریئل میڈرڈ نے بھی ان کے والد کی وفات پر ’اولگا، ان کے اہلخانہ اور ان کے تمام چاہنے والوں سے تعزیت اور پیار کا اظہار کیا ہے۔‘ قسمت کی ستم ظریقی دیکھیے کہ اولگا جنھوں نے ورلڈکپ فائنل میں میچ کا واحد گول کر کے سپین کو فتح دلوائی، انھوں نے اس گول کو اپنی ایک دوست کی والدہ کے نام کیا تھا جن کا حال ہی میں انتقال ہوا تھا۔ اور وہ اس وقت خود اپنے والد کی موت سے بے خبر تھیں۔ ان کے مداح بھی سوشل میڈیا پر اس بارے میں بات کرتے ہوئے اس ستم ظریفی کا ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ایک مداح نے لکھا کہ ’اولگا کارمونا کے آج کے میچ کے بعد کے انٹرویو کا ترجمہ کیا جہاں انھوں نے اپنا گول اپنی بہترین دوست کی والدہ کے نام کیا جو حال ہی میں انتقال کر گئی تھی اور اب ان کے والد بھی اسی دن نہیں رہے جس دن انھوں نے سپین کے لیے ورلڈ کپ جیتا۔ زندگی کتنی ظالم ہے۔‘ ان کے ایک اور مداح نے لکھا ’ اولگا کارمونا کے والد سنیچر کی رات انتقال کر گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ خاندان نے فائنل تک انھیں نہ بتانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے والد اپنی بیٹی کو ورلڈ کپ جیتنے والا گول کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72e6p71zlgo", "summary": "ان انڈین اور پاکستانی مالکان کی دوستی اور کاروباری شراکت کی کہانی دو، چار سال نہیں بلکہ اس صدی کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔", "title": "نیو یارک واریئرز: انڈیا اور پاکستان کے پنجابی جو امریکہ میں ٹی 10 لیگ کی ٹیم کے مالک ہیں", "firstPublished": "2023-08-20T04:54:51.305Z", "id": "c72e6p71zlgo", "article": "ماسٹر لیگ میں چھ ٹیموں کے مالکان کا تعلق امریکہ، بنگلہ دیش اور انڈیا سے ہے۔ نیو یارک واریئر واحد فرینچائز ہے جس کے مالکان میں دو انڈین اور دو پاکستانی ہیں۔ ان انڈین اور پاکستانی مالکان کی دوستی اور کاروباری شراکت کی کہانی دو، چار سال نہیں بلکہ اس صدی کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اس دور کی بات ہے جب انڈیا میں ایک سرکاری ملازمت کی جمع پونجھی ہی 1800 ڈالر ہوتی تھی۔ امریکہ میں آیا تو اپنے اخراجات خود برداشت کرنے تھے۔ اس لیے یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ دو دو شفٹوں میں کام بھی کرتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس دور میں، میں 24 گھنٹوں میں سے تین، چار گھنٹے نیند کرتا تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے وقت کے ساتھ پراپرٹی، ریسٹورنٹ، سٹورز، ہوٹل اوردیگر کاروبار کرنا شروع کردیے۔ جب ہم نے اکاؤنٹس کی کمپنی شروع کی تھی تو اس میں ہمارے پاس صرف دو کا سٹاف تھا۔ مگر آج ہمارے پاس چار سو لوگوں کا سٹاف ہے جو مختلف امور دیکھ رہا ہے۔ ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہوا کہ ہم نے کچھ اصول طے کرلیے تھے۔‘ ’میرا رابطہ کامران بھائی سے ہوا۔ جب میں ان سے ملا تو دیکھا کہ یہ ایک پاکستانی اور دو انڈین مل کر شاندار کاروبارکر رہے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان تینوں نے مجھے میرے کام کے حوالے سے بہت اچھی رہنمائی دی۔‘ ’ہماری عادتیں، رہن سہن کا طریقہ ملتا جلتا ہے۔ اس کے ساتھ جب فیصلہ کر لیا جائے کہ مذہب اور ملک کوئی بھی ہو انسانیت کو مقدم رکھنا ہے۔ ایک دوسرے کا خیال رکھنا، ایک دوسرے کے لیے قربانی دینی ہے تو پھر چیزیں اسی طرح آگے بڑھتی ہیں جس طرح ہم چاروں کی دوستی اور کاروبار آگے بڑھا ہے۔ لوگ ہم چاروں کی دوستی اور کاروبار پر رشک کرتے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ریسٹورنٹس میں دہلی کے بٹر چکن کی کڑائی اور گوجرانوالہ کے کھانے دونوں ملتے ہیں۔ اسی طرح ہماری بھی زندگی چل رہی ہے۔ جو اب ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہے۔‘ ’دیکھیں انڈین پریمیئر لیگ میں پاکستانی کھلاڑیوں کو موقع نہیں دیا جاتا اور پاکستان سپر لیگ میں انڈین کھلاڑیوں کو۔ یہ دونوں کرکٹ کی دنیا کے بڑے ٹورنامنٹ ہیں۔ اگر دونوں ایونٹس میں دونوں ممالک کے کھلاڑیوں کو موقع ملے تو یہ دونوں اس سے بھی بڑے ہو سکتے ہیں اور دونوں ممالک میں کرکٹ کا مزید ٹیلنٹ بھی ابھر سکتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cj5d4rrdme9o", "summary": "اطلاعات کے مطابق انھیں الہلال فٹبال کلب میں کھیلنے کے لیے سالانہ 150 ملین یوروز ملیں گے۔ انھوں نے دو سال کا معاہدہ کیا ہے لہٰذا یہ پی ایس جی کے مقابلے چھ گنا بڑی رقم ہے۔ تو اب نیمار کا مستقبل کیا ہو گا؟", "title": "کیا سعودی کلب جانے سے نیمار کا فٹبال کریئر داؤ پر لگ گیا ہے؟", "firstPublished": "2023-08-19T11:54:37.678Z", "id": "cj5d4rrdme9o", "article": "چھ سال قبل برازیل کے لیجنڈ فٹبالر نیمار نے بارسیلونا چھوڑ کر فرانسیسی کلب پیرس سینٹ جرمین (پی ایس جی) میں شمولیت کے لیے ریکارڈ 200 ملین پاؤنڈز کا معاہدہ کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق انھیں الہلال فٹبال کلب میں کھیلنے کے لیے سالانہ 150 ملین یوروز ملیں گے۔ انھوں نے دو سال کا معاہدہ کیا ہے لہٰذا یہ پی ایس جی کے مقابلے چھ گنا بڑی رقم ہے۔ نیمار نے پی ایس جی کے لیے 173 میچز کھیلے اور انھوں نے 13 ٹرافیاں جیتنے میں نمایاں کردار ادا کیا جس میں پانچ لیگ ون ٹائٹل شامل ہیں۔ مگر یہ کلب نیمار کو یورپ کا سب سے بڑا ٹائٹل ’چیمپئنز لیگ‘ جیتنے کے لیے لایا تھا۔ مگر وہ اس میں کامیابی نہ دلا سکے۔ پی ایس جی 2020 میں ان کی موجودگی میں فائنل تک پہنچ سکا تھا۔ ’نیمار شاید اسے عارضی الوداع کہیں اور ضروری نہیں کہ وہ دوبارہ پی ایس جی میں شمولیت اختیار کریں۔ وہ شاید دو سال بعد دوبارہ یورپ آئیں کیونکہ اس وقت یہ جاننا مشکل ہے کہ ان کے پاس کیا آپشنز تھے۔‘ نیمار نے اپنے کریئر کا آغاز اپنے آبائی ملک برازیل میں کیا۔ انھوں نے 17 سال کی عمر میں سینٹوس کے ساتھ اپنا پہلا پیشہ ورانہ معاہدہ کیا۔ بارسیلونا کے لیے 186 میچوں میں 105 گولز کرنے کے بعد نیمار نے اس ٹیم کو چھوڑ کر پی ایس جی میں شمولیت کا اعلان کیا تو عالمی فٹبال میں ہلچل مچ گئی۔ انھیں 2017 میں اس کے بدلے 200 ملین پاونڈز کی بڑی ڈیل آفر کی گئی تھی۔ 2017 میں اپنے ڈیبیو پر انھوں نے ایک گول کیا اور دوسرے گول میں اسسٹ کیا۔ وہ کلیان ماپے اور ایڈنسن کوانی کے ساتھ جارحانہ کھیل پیش کرتے تھے۔ نیمار نے لیگ ون، فرنچ کپ اور لیگ کپ میں پی ایس جی کی فتوحات کے دوران 30 میچوں میں 28 گول کیے۔ پی ایس جی کے ساتھ دو سال گزارنے کے بعد نیمار کو بارے میں یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں کہ وہ دوبارہ بارسیلونا میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔ اگست 2021 کے دوران بارسیلونا میں نیمار کے سابق ساتھی میسی نے بھی پی ایس جی میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم نیمار کے لیے یہ مایوس کن سال رہا، وہ تمام مقابلوں میں صرف 13 گول کر سکے۔ یہ یورپ آنے کے بعد سے ان کا سب سے بُرا سیزن رہا۔ فروری کے میچ میں انھوں نے پی ایس جی کے لیے اپنا آخری میچ کھیلا۔ آج بھی برازیل میں شائقین نیمار کے ساتھ امیدیں جوڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اب تک ورلڈ کپ میں برازیل کو کامیابی نہیں دلائی ہے۔ وکری نے کہا کہ اگر وہ دوبارہ فٹبال نہ بھی کھیلیں تو ان کی موجودہ کامیابیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ’چاہے وہ سعودی عرب میں رہیں، کسی بڑے یورپی کلب میں یا اگلے ورلڈ کپ میں، ان کے لیے کئی عظیم لمحات باقی ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c88yl173q2no", "summary": "کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر کی جانے والی کے بعد گذشتہ رات گئے پاکستان کرکٹ بورڈ نے ملک میں کرکٹ کی تاریخ کے حوالے سے بنائی گئی نئی ویڈیو ریلیز کی ہے جس میں بالآخر سابق کپتان عمران خان کو شامل کیا گیا ہے۔ \n", "title": "پی سی بی کی ویڈیو میں عمران خان شامل، وسیم اکرم غائب: ’خان صاحب نے اٹک جیل سے سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کر دیا‘", "firstPublished": "2023-08-17T05:17:29.723Z", "id": "c88yl173q2no", "article": "کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر کی جانے والی تنقید کے بعد گذشتہ رات پاکستان کرکٹ بورڈ نے ملک میں کرکٹ کی تاریخ کے حوالے سے بنائی گئی نئی ویڈیو ریلیز کی ہے جس میں بالآخر سابق کپتان عمران خان کو شامل کیا گیا ہے۔ پی سی بی کو رواں ہفتے 14 اگست کے روز جاری کی گئی ویڈیو میں عمران خان کی عدم موجودگی پر دنیا بھر سے کرکٹرز، صحافیوں اور مداحوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد اب ایک نیا ویڈیو پرومو جاری کیا گیا ہے جسے انڈیا میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ 2023 سے قبل ایک تشہیری مہم کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ پی سی بی نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’اس سے قبل پوسٹ کی گئی ویڈیو کے دورانیے کے باعث اسے چھوٹا کیا گیا تھا جس کے باعث اس میں کچھ اہم کلپس نکل گئے تھے، تاہم اب اس میں تصحیح کر دی گئی ہے اور یہ ویڈیو کا مکمل ورژن ہے۔‘ پی سی بی کی جانب سے 14 اگست کو سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی میں پاکستان کرکٹ کے یادگار مواقعوں کی جھلک دکھائی گئی تھی۔ عمران خان کی عدم موجودگی کے علاوہ ویڈیو میں خواتین کرکٹ ٹیم کی فتوحات کا بھی ذکر نہیں تھا اور نہ ہی اس میں پاکستان کی ٹیسٹ رینکنگ میں نمبر ون آنے کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔ اس پر سابق کپتان وسیم اکرم کی جانب سے بھی شدید تنقید کی گئی تھی تاہم ان کے علاوہ بھی اکثر کرکٹرز نے اس بارے میں تنقید کی تھی۔ گذشتہ پرومو ویڈیو میں وسیم اکرم کی جھلک دیکھی جا سکتی تھی تاہم اس ویڈیو میں انھیں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ اسی طرح اب کی بار پاکستان ویمنز ٹیم کی ایشین گیمز میں فتح اور آلراؤنڈر ندا ڈار کا ٹی ٹوئنٹی میچوں میں 100 وکٹیں حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی کھلاڑی بننے کا ریکارڈ بھی شامل کیا گیا ہے۔ اب کی بار ویڈیو میں مصباح الحق کو ٹیسٹ میس حاصل کرتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر شدید تنقید کے بعد پی سی بی کی جانب سے عمران خان، خواتین کرکٹ ٹیم اور دیگر اہم لمحات کو شامل کیے جانے پر سوشل میڈیا صارفین خاصے خوش دکھائی دیے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ لوگوں نے پی سی بی کی ویڈیو میں غلطیاں نکالی ہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ اس ویڈیو میں وسیم اکرم کو بالکل نظر انداز کیا گیا اور حنیف محمد کی جو تصویر استعمال کی گئی ہے وہ اس میچ کی نہیں جس میں انھوں نے 337 بنائے تھے۔ ایک صارف نے پی سی بی کی جانب سے ویڈیو کے چھوٹے ورژن کے باعث اس میں اہم کلپس کی غیر موجودگی کو ایک بہانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مضحکہ خیز بات ہے اور پی سی بی ایک ویریفائڈ اکاؤنٹ ہے جس پر طویل ویڈیوز اپ لوڈ کی جا سکتی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c512yv3pnqyo", "summary": "14 اگست کے موقع پر جب یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے شئیر کی گئی تو اس میں سنہ 1992 میں پاکستان کے لیے واحد کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان عمران خان کی غیر موجودگی کی وجہ سے شدید ردعمل سامنے آیا۔", "title": "کرکٹ کی تاریخ پر پی سی بی کی ویڈیو سے عمران خان غائب: ’کیا آپ کھیل کو بھی منقسم کرنا چاہتے ہیں؟‘", "firstPublished": "2023-08-15T08:09:40.404Z", "id": "c512yv3pnqyo", "article": "پاکستان کے 76ویں یوم آزادی کے موقع پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر ایک ویڈیو شیئر کی گئی ہے جس میں سنہ 1952 سے لے کر موجودہ وقت تک کے کرکٹ سے متعلق تاریخی اور اہم واقعات کے مناظر ویڈیو اور تصاویر کی صورت میں دکھائے گئے ہیں۔ 14 اگست کے موقع پر جب یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے شئیر کی گئی تو اس میں سنہ 1992 میں پاکستان کے لیے واحد کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان عمران خان کی غیر موجودگی کی وجہ سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ پی سی بی کی جانب سے شئیر کی جانے والی اس ویڈیو کا آغاز بانی پاکستان محمد علی جناح کے ایک قول سے ہوتا ہے۔ آگے چل کر اس ویڈیو میں سنہ 1952 اور سنہ 1958 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کچھ یادگار لمحات دکھائے گئے ہیں۔ پی سی بی کی اس ویڈیو میں سنہ 1986 کے جاوید میانداد کے شارجہ کے تاریخی چھکے سے لے کر سنہ 1992 کے ورلڈ کپ اور پھر سنہ 2000 اور 2012 کے ایشیا کپ جیتنے، سنہ 2009 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے اور پاکستان کے موجودہ کپتان بابر اعظم کی کامیابیوں کا ذکر اور مناظر تو موجود ہیں مگر سنہ 1992 میں پاکستان کے لیے تاریخ کا پہلا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان عمران خان کا ذکر نہیں ملتا۔ بانوے کے ورلڈ کپ کے حوالے سے ویڈیو میں نو تصاویر کا استعمال کیا گیا ہے جن میں پاکستانی ٹیم کے ارکان کو خوشیاں مناتے اور ٹرافی پکڑے دکھایا گیا ہے۔ ان تصاویر میں لگ بھگ وہ تمام پلیئرز موجود ہیں جو 1992 میں پاکستانی ٹیم کا حصہ تھے ماسوائے عمران خان کے جن کی تصویری جھلک کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ تاہم اس ویڈیو کے تھمب نیل (ویڈیو کی تعارفی تصویر) میں دیگر چھ کھلاڑیوں کے ساتھ عمران خان کی تصویر بھی موجود ہے جس میں وہ 1992 کا ورلڈ کپ تھامے ہوئے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی اس ویڈیو میں عمران خان کی غیر موجودگی نے چند پاکستانی کرکٹ فینز کو ’مایوس‘ کیا، جس کا اظہار انھوں نے سوشل میڈیا پر بھی کیا۔ بی بی سی نے پاکستان کرکٹ بورڈ کا اس معاملے پر مؤقف جاننے کے لیے چیئرمین پی سی بی مینیجمنٹ کمیٹی زکا اشرف اور پی سی بی میڈیا ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کیا، تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اسی معاملے پر بات کرتے ہوئے جواد احمد نامی ایک اور صارف نے لکھا کہ ’پی سی بی کو اس پر ندامت ہونی چاہیے، ورلڈ کپ چیمپئن بننے کا خواب عمران خان نے دیکھا اور یہ ان کا دیرینہ وژن تھا۔ سنہ 1992 کی کرکٹ ٹیم کے سکواڈ کے ہر ایک کھلاڑی نے گواہی دی اور اعتراف کیا کہ عمران خان نے انھیں اپنی صلاحیتوں پر یقین دلانے میں مدد کی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw484ve324wo", "summary": "سوشل میڈیا پر انڈین ٹیم اور خاص کر کے کپتان ہاردک پانڈیا اور کوچ راہل ڈریوڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شائقین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ٹیم میں روہت شرما اور وراٹ کوہلی نہیں تھے تاہم انڈیا کی نوجوان ٹیم سے اس سے کہیں زیادہ بہتر کی امید تھی۔", "title": "انڈیا کو سات سال میں پہلی بار ٹی 20 سیریز میں ویسٹ انڈیز سے شکست: ’ہاردک پانڈیا انڈین ٹیم کے لیے کپتان میٹیريل نہیں‘", "firstPublished": "2023-08-14T04:03:58.995Z", "id": "cw484ve324wo", "article": "پہلے دونوں مقابلے ویسٹ انڈیز نے جیتے تھے اس کے بعد تیسرے اور چوتھے میچ میں انڈیا کو کامیابی حاصل ہوئی جبکہ اتوار کی شب کھیلا جانے والا فیصلہ کن میچ ویسٹ انڈیز نے آٹھ وکٹوں سے جیت لیا۔ سوشل میڈیا پر انڈین ٹیم اور خاص کر کے کپتان ہاردک پانڈیا اور کوچ راہل ڈریوڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شائقین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ٹیم میں روہت شرما اور وراٹ کوہلی نہیں تھے تاہم انڈیا کی نوجوان ٹیم سے اس سے کہیں زیادہ بہتر کی امید تھی۔ خیال رہے کہ ویسٹ انڈیز ٹیم ان دنوں کرکٹ میں انتہائی پستی کے دور سے گزر رہی ہے اور اس بار وہ ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی بھی نہیں کر سکی۔ میچ کے بعد انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان ہاردک پانڈیا نے کہا کہ ’یہ تمام ایسی گیمز ہیں جن سے ہمیں سیکھنا ہوتا ہے۔ ایک سیریز ادھر یا ادھر ہو جائے تو بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ ابھی ورلڈ کپ آنے والا ہے اور بعض اوقات ہارنا اچھا ہوتا ہے۔ آپ کو سیکھنے کے لیے بہت کچھ ملتا ہے۔‘ ایک وقت میں ایسا بھی لگ رہا تھا کہ انڈیا 200 تک کا ہدف دے گا لیکن بعد میں آنے والے کھلاڑی کچھ زیادہ نہ کر پائے اور وکٹیں مسلسل گرتی رہیں۔ انڈین مداحوں نے ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے ہاتھوں انڈیا کی شکست کا ذمہ دار کپتان ہاردک پانڈیا کو قرار دیا۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’بچے راہل ڈریوڈ پر ویسٹ انڈیز میں ٹیم انڈیا کے ساتھ حد سے زیادہ تجربہ کرنے پر تنقید کریں گے لیکن صرف سچے کرکٹ شائقین ہی اس حقیقت کو سمجھیں گے کہ انھوں نے یہ ثابت کرنے میں بڑا کردار ادا کیا کہ ہاردک پانڈیا ٹیم انڈیا کے لیے کپتان کا میٹیريل نہیں اور اس طرح انھوں نے ہمیں مستقبل میں کئی بڑے ٹورنامنٹ ہارنے سے بچایا۔‘ بہت سے صارفین ہاردک پانڈیا کو ان کے بیان کے لیے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ پریانشو نامی ایک صارف نے راہل ڈریوڈ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ’ان کے کوچ رہتے ہوئے انڈیا ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا فائنل ہاری۔ ٹی 20 ورلڈ کپ کا سیمی فائنل ہاری۔ ایشیا کپ میں ہاری۔ بنگلہ دیش کے خلاف ون ڈے سیریز ہاری۔ آسٹریلیا کے خلاف اپنے ملک میں ون ڈے سیریز گنوائی۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی 20 سیریز میں ہاری اور پہلی بار سری لنکا کے خلاف ٹی 20 سیریز ہاری۔‘ سپر کنگ نامی صارف نے لکھا کہ ’لوگوں کا خيال تھا کہ انڈیا ہاردک پانڈیا کی قیادت میں ورلڈ کپ جیتے گا اور یہ شخص ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز ہار رہا ہے۔‘ ہاردک پانڈیا کو جہاں سیریز میں بولنگ اور بیٹنگ کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو وہیں ان کے بولنگ میں تبدیلی کے فیصلہ کو بھی پسند نہیں کیا گیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckkxeg9r5leo", "summary": "دنیا کے معروف ترین فٹبالروں میں سے ایک کرسٹیانو رونالڈو کا سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنا کوئی نئی بات نہیں اور ان کے مداح انھیں ہمیشہ 'گوٹ' یعنی گریٹسٹ آف آل ٹائم کھلاڑی سمجھتے ہیں۔", "title": "شاہ سلمان کلب کپ: ’النصر نے کبھی یہ کپ نہیں جیتا تھا اور پھر رونالڈو ٹیم میں آئے‘", "firstPublished": "2023-08-13T04:56:25.206Z", "id": "ckkxeg9r5leo", "article": "دنیا کے معروف ترین فٹبالروں میں سے ایک کرسٹیانو رونالڈو کا سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنا کوئی نئی بات نہیں اور ان کے مداح انھیں ہمیشہ ’گوٹ‘ یعنی گریٹسٹ آف آل ٹائم کھلاڑی سمجھتے ہیں۔ کھیل ایکسٹرا ٹائم میں چلا گیا اور پھر 98 ویں منٹ میں رونالڈو کے ہیڈر نے الہلال کے گول کیپر الاویس کو چکمہ دے دیا اور اس طرح رونالڈو نے نہ صرف النصر کو پہلی بار اس ٹورنا منٹ کا فاتح بننے میں مدد دی بلکہ وہ اس ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ گول سکور کرنے والے کھلاڑی بھی رہے اور انھیں گولڈن بوٹ کے ایوارڈ سے نوازا گيا۔ رونالڈو نے چار مختلف تصاویر کے ساتھ اس جیت پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’پہلی بار یہ اہم ٹرافی جیتنے پر ٹیم کی مدد کرنے پر مجھے بے حد فخر ہے! کلب میں ان تمام لوگوں کا شکریہ جو اس عظیم کامیابی میں شامل تھے اور میرے خاندان اور دوستوں کا ہمیشہ میرے ساتھ رہنے کے لیے شکریہ! ہمارے پرستاروں کی طرف سے لاجواب حمایت! یہ اتنا ہی آپ کا بھی ہے!‘ جزیرہ نما عرب میں دنیا کے عظیم کھلاڑیوں کی آمد اور فٹبال کا ورلڈ کپ منعقد کرانے سے جو نیا جوش پیدا ہوا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ گذشتہ روز النصر کی جیت کے بعد سوشل میڈیا ایک بار پھر سے رونالڈو کی تعریف میں رطب السان ہے۔ آئی ایم عبدل نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’آج کرسٹیانو رونالڈو کا کھیل دیکھ کر میں واضح طور پر کہہ سکتا ہوں کہ جب فٹبال کی بات آتی ہے تو وہ جی او اے ٹی (گوٹ) ہیں۔‘ رونالڈو کو فٹبال ورلڈ کپ کے بعد سعودی عرب کے کلب النصر نے تاریخ کی سب سے بڑی ڈیل کے ساتھ اپنے کلب میں شامل کیا تو ناقدین کا کہنا تھا کہ اب جبکہ یورپ میں ان کے لیے جگہ نہیں ہے تو وہ سعودی عرب کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ رونالڈو کو 37 سال کی عمر میں بہت سے لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ اب ان میں فٹبال نہیں ہے اور سعودی عرب کے کلب کی جانب سے انھیں لیے جانے کو پیسہ لٹانا کہا تھا لیکن گذشتہ روز رونالڈو نے سب کا جواب دے دیا۔ مانچسٹر یونائیٹڈ سے علیحدگی کی بعد یہ کہا جا رہا تھا کہ اب انھیں کوئی بھی ٹیم اس قدر زیادہ رقم کے ساتھ نہیں لے گی۔ لیکن انھیں تاریخ کی سب سے بڑی بولی ملی اور انھوں نے دو سال یعنی سنہ 2025 تک لیے معاہدہ کیا جس کی رو سے انھیں روزانہ کے تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ یورو ملیں گے۔ جبکہ بہت سے صارفین سنہ 2023 کے سرفہرست گول کرنے والوں کی فہرست بھی پیش کر رہے ہیں جس میں کرسٹیانو رونالڈو رواں سال 25 گول کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyjg3rxr0lzo", "summary": "ناروے کی کوہ پیما کرسٹین ہریلا نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ ان کی ٹیم نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرنے کی مہم کے دوران ایک زخمی پورٹر کو نظر انداز کیا جن کی بعد میں موت ہوئی۔ ", "title": "’ہم نے زخمی پورٹر کی مدد کرنے کی کوشش کی تھی‘ کے ٹو سر کرنے والی نارویجن کوہ پیما کی وضاحت", "firstPublished": "2023-08-12T07:06:28.555Z", "id": "cyjg3rxr0lzo", "article": "ناروے کی کوہ پیما کرسٹین ہریلا نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ ان کی ٹیم نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرنے کی مہم کے دوران ایک زخمی پورٹر کو نظر انداز کیا جن کی بعد میں موت ہوئی۔ تاہم کرسٹین ہریلا نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اور ان کی ٹیم نے مشکل حالات میں جہاں تک ممکن ہوسکتا ان کی مدد کی تھی۔ نارویجن کوہ پیما کرسٹین کا گروہ اس وقت دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو سب سے تیز رفتار میں سر کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کے لیے کے ٹو کی مہم پر موجود تھا۔ دو کوہ پیماؤں فلپ فلیمگ اور آسٹریا کے ولہم سٹینڈل نے ان مناظر کی تصاویر شائع کی ہیں کہ کیسے لوگ ان کے پاس سے گزر کر کے ٹو سر کرنے کی کوششوں کے لیے جا رہے ہیں۔ یہ غیر واضح ہے کہ یہ تصاویر کس مقام سے اور کس وقت بنائی گئیں۔ یہ کوہ پیما بھی اس دن کے ٹو سر کرنے کے مشن پر موجود تھے مگر انھوں نے خطرناک موسمی حالات اور طوفان کے باعث اپنا مشن منسوخ کر دیا تھا۔ وہ سٹینڈل کی جانب سے کے ٹو سر کرنے کی مہم پر ایک دستاویزی فلم بھی بنا رہے ہیں۔ چونکہ ان کے پاس چھوٹا کیمرا تھا اس لیے انھوں نے اگلے روز ڈرون کی مدد سے وہاں کے مناظر فلمند کیے۔ سٹینڈل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے ایک شخص کو زندہ حالت میں پایا۔ وہ بوٹل نیک پر لیٹا ہوا تھا۔ لوگ ان کے اوپر سے قدم رکھ کر آگے اپنی مہم کی طرف روانہ ہو رہے تھے۔ اور ان کے لیے کوئی ریسکیو مشن نہ تھا۔‘ فلیمگ کے مطابق صرف ایک شخص نے حسن کی مدد کی اور باقی تیزی سے کے ٹو سر کرنے کی مہم میں مصروف رہے۔ تاہم کرسٹین ہریلا ان الزامات کی تردید کرتی ہیں کہ ان کی ٹیم نے حسن کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کرسٹین ہریلا نے کہا کہ ان کی ٹیم کے لوگوں نے حسن کی مدد کرنے کی کوشش کی مگر یہ ناممکن تھا کہ انھیں نیچے تنگ راستے سے گزرتے ہوئے لے جایا جاتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’حسن ہماری ٹیم کا حصہ نہیں تھے‘ اور یہ کہ انھوں نے حسن کو گرتے وقت بھی نہیں دیکھا تھا۔ ان کے مطابق ان کے گروہ نے حسن کو زخمی حالت میں دیکھ کر ان کی مدد کرنا چاہی تھی۔ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا کیمرا مین کے جانے کے بعد بھی ان کی ٹیم میں سے کسی نے زخمی پورٹر کی مدد کی تھی۔ دنیا کی دوسری سب سے بلند چوٹی کے ٹو پاکستان اور چین کی سرحد کے پاس واقع ہے۔ اسے کوہ پیمائی کے لیے سب سے مشکل چوٹیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51xnjp83q9o", "summary": "ارجنٹائن نے کہا ہے کہ فٹبال میچوں کے دوران غیر ملکی شائقین کو مقامی کرنسی نذر آتش کرنے یا پھاڑنے پر سزائیں دی جائیں گی۔ ", "title": "ارجنٹائن: مقامی لوگوں کو چڑانے کے لیے کرنسی نوٹ پھاڑنے والےغیر ملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن", "firstPublished": "2023-08-11T15:08:16.927Z", "id": "c51xnjp83q9o", "article": "ارجنٹائن میں ایک برازیلی کلب کے شائقین مقامی کرنسی پیسو کا نوٹ پھاڑ رہے ہیں تاکہ اس کی قدر میں گراوٹ پر طنز کر سکیں کھیلوں کے مقابلوں میں بعض شائقین حریف ٹیموں اور ان کے مداحوں کو چڑانے یا مشتعل کرنے کے لیے نئے نئے طریقے ڈھونڈ لاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال ہی میں ارجنٹائن میں ہوا جہاں فٹبال گراونڈز میں غیر ملکی شائقین کی جانب سے مقامی کرنسی کو پھاڑنے کی تصویر اور ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں۔ مگر اب ارجنٹائن نے کہا ہے کہ فٹبال میچوں کے دوران غیر ملکی شائقین کو مقامی کرنسی نذر آتش کرنے یا پھاڑنے پر سزائیں دی جائیں گی۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا کہ جب ارجنٹائن میں فٹبال میچوں کے دوران حریف ٹیموں اور کلبوں کے فینز میزبان ملک کو چڑانے کے لیے ایسا کرتے پائے گئے ہیں۔ ارجنٹائن کو کئی برسوں سے معاشی بحران کا سامنا ہے جہاں مہنگائی کی شرح کافی بڑھ چکی ہے۔ مگر اب ارجنٹائن کی کرنسی نوٹوں کو پھاڑنے پر غیر ملکی شائقین کو 30 روز کی قید کا سامنا کرنا پڑا سکتا ہے۔ عموماً برازیل اور چیلی سے تعلق رکھنے والے فینز نے ارجنٹائن کو چڑانے کے لیے دوران میچ اس کے نوٹ پھاڑے ہیں جس کی مقامی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق ارجنٹائن میں کھیلوں میں پُرتشدد واقعات روکنے والے ادارے کا کہنا ہے کہ یہ عمل کھیلوں کی تقاریب کے دوران لڑائی جھگڑے روکنے کے موجودہ قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اس سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ اس نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے شائقین کو حراست میں لے سکتے ہیں اور اگر مسئلہ سنگین ہوا تو کلبز کو بھی سزا مل سکتی ہے۔ ارجنٹائن کے قوانین میں بھی مقامی کرنسی کو پھاڑنا یا نذر آتش کرنا ممنوع ہے۔ اگر کوئی مقامی شخص بھی ایسا کرے تو اسے قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران ارجنٹائن میں سالانہ افراطِ زر کی شرح بڑھی ہے۔ رواں سال کے اوائل میں ارجنٹائن میں مہنگائی کی شرح 100 فیصد سے زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ 90 کی دہائی کے اوائل میں ہائپر انفلیشن کے بعد ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ ارجنٹائن میں جون کے دوران مہنگائی کی شرح 115.6 فیصد رہی تھی۔ جبکہ ایکسچینج ریٹ میں بھی ملک کی کرنسی ڈرامائی گراوٹ کا شکار ہے۔ سنہ 1992 میں ملک نے اپنی کرنسی نوٹوں کو ایک ڈالر کے برابر قرار دیا تھا جسے 2001 اور 2002 میں مالی بحران کے باعث ختم کرنا پڑا۔ معاشی بحران نے ملک میں سیاسی افراتفری بھی پیدا کی ہے۔ گذشتہ موسم گرما کے دوران ارجنٹائن نے چار ہفتوں میں تین وزیر خزانہ تبدیل کیے۔ مارچ 2022 میں عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے ارجنٹائن کے لیے 30 مہینوں پر محیط 44 ارب ڈالر کا قرض پروگرام منظور کیا تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1jwl1gpqgo", "summary": "ٹیم میں جگہ نہ بنا پانا کسی بھی کھلاڑی کے لیے مایوس کن ہوسکتا ہے اور یہی چیز نہ صرف کرکٹر شاہنواز دھانی بلکہ ان کے فینز کے رویے نے بھی ظاہر کی ہے۔ ", "title": "’دھانی کو صبر کرنا چاہیے ورنہ عامر بننے میں دیر نہیں لگتی‘", "firstPublished": "2023-08-11T13:39:42.675Z", "id": "cd1jwl1gpqgo", "article": "ٹیم میں جگہ نہ بنا پانا کسی بھی کھلاڑی کے لیے مایوس کن ہوسکتا ہے اور یہی چیز نہ صرف کرکٹر شاہنواز دھانی بلکہ ان کے فینز کے رویے نے بھی ظاہر کی ہے۔ دھانی پاکستان کے ان خوش قسمت کرکٹرز میں سے ہیں جن کے ٹیم میں ہونے یا نہ ہونے سے ان کی فالوونگ پر کم ہی اثر پڑتا ہے۔ مگر گذشتہ دنوں ایشیا کپ اور افغانستان سیریز کے لیے سکواڈ میں شامل نہ کیے جانے پر دھانی نے ایکس (ٹوئٹر) پر یہ تبصرہ شائع کیا کہ ’ایک بھی صحافی یا کرکٹ تجزیہ کار نے سوال پوچھنے کی جرات نہیں کی، نہ ہی یہ اعداد و شمار سلیکٹرز کو دکھائے۔‘ جب سابق پاکستانی کپتان راشد لطیف نے سکواڈ میں شامل پاکستانی فاسٹ بولرز کی لسٹ اے کارکردگی کے اعداد و شمار شیئر کیے تو اس فہرست میں بھی دھانی کا ذکر نہیں ہوا جس پر ردعمل دیتے ہوئے دھانی نے لکھا کہ ’لگتا ہے دھانی پاکستانی پیسرنہیں ہیں۔‘ دھانی نے اب تک پاکستان کے لیے دو ون ڈے میچوں میں ایک وکٹ حاصل کی ہے جبکہ وہ 11 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں آٹھ وکٹیں لینے میں کامیاب رہے ہیں۔ تاہم پی ایس ایل اور لسٹ اے میں ان کی نمایاں کارکردگی رہی ہے۔ انھوں نے قریب 24 کی اوسط کے ساتھ 31 لسٹ اے میچوں میں 56 وکٹیں بٹوری ہیں اور ایک قلیل فرسٹ کلاس کیریئر میں ان کی 35 وکٹیں ہیں۔ اس فہرست میں سکواڈ میں شامل نسیم شاہ، شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، محمد وسیم جونیئر اور زمان خان کے علاوہ دو سال کے وقفے کے بعد دوبارہ جگہ بنانے والے آل راؤنڈر فہیم اشرف کی لسٹ اے کارکردگی کے بھی اعداد و شمار تھے۔ صرف دھانی ہی وہ فاسٹ بولر تھے جنھیں سلیکٹرز کے ساتھ ساتھ راشد لطیف نے بھی نظر انداز کیا تھا۔ بعض صارفین اس سوچ میں مبتلا ہوئے ہیں کہ شاید دھانی بے خبر تھے کہ ان کے اکاؤنٹ سے ایسے ٹویٹ کیے گئے۔ جیسے سکینہ ناز پوچھتی ہیں کہ ’کیا دھانی کو معلوم ہے کہ وہ یہ سب ٹویٹ کر رہے ہیں؟‘ تو شاہزیب نے اس امکان کا اظہار کیا کہ شاید دھانی کا سوشل میڈیا ’غلط ہاتھوں میں پڑ گیا ہے۔‘ دریں اثنا راشد لطیف نے دھانی کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے معذرت کی اور کہا کہ ’دھانی یہ میری غلطی ہے۔ میں نئی پوسٹ بناتا ہوں۔‘ ’امید کرتا ہوں وہ اپنی پرفارمنس سے جلد ٹیم میں جگہ بنائے گا لیکن اس طرح سوشل میڈیا پر کھلم کھلا بولنا شاہنواز دھانی کے حق میں نہیں جائے گا۔‘ پی سی بی نے رواں سال ان کی واپسی کی چہ مگوئیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سلیکشن کے لیے ڈومیسٹک کی کارکردگی ضروری ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjezvnn33zjo", "summary": "انڈیا کے ہاتھوں گروپ میچ میں چار صفر سے شکست کے بعد ایشین چیمپیئنز ٹرافی میں کپ جیتنے کا خواب لے کر چنئی آنے والی پاکستان کی ہاکی ٹیم کا یہ خواب تو پورا نہیں ہو پائے گا لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک تمل شہری اگر صحیح وقت پر مدد کا ہاتھ نہ بڑھاتے تو شاید پاکستانی ٹیم پانچویں پوزیشن کا میچ کھیلنے کے بھی قابل نہ ہوتی۔", "title": "ایشین چیمپیئنز ٹرافی: مشکل وقت میں پاکستان ہاکی ٹیم کی مدد کرنے والے انڈین فزیو کون ہیں؟", "firstPublished": "2023-08-09T08:30:10.707Z", "id": "cjezvnn33zjo", "article": "انڈیا کے ہاتھوں گروپ میچ میں چار صفر سے شکست کے بعد ایشین چیمپیئنز ٹرافی میں کپ جیتنے کا خواب لے کر چنئی آنے والی پاکستان کی ہاکی ٹیم کا یہ خواب تو پورا نہیں ہو پائے گا لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک تمل شہری اگر صحیح وقت پر مدد کا ہاتھ نہ بڑھاتے تو شاید پاکستانی ٹیم پانچویں پوزیشن کا میچ کھیلنے کے بھی قابل نہ ہوتی۔ پاکستانی ہاکی ٹیم ویزے کے مسائل کے باعث فزیو تھراپسٹ کے بغیر انڈیا پہنچی تھی۔ فزیو کے بغیر مقابلے میں حصہ نہیں لیا جا سکتا تاہم پاکستان کی کئی ماہ کی محنت کو ضائع ہونے سے بچا کر اس انڈین فزیو نے پاکستانی کھلاڑیوں کی پریشانیوں کو دور کر دیا۔ پاکستان ہاکی ٹیم کے فزیو تھراپسٹ آخری لمحات میں ویزہ جاری نہ ہونے کی وجہ سے انڈیا میں داخل نہیں ہو سکے۔ پاکستان کی جانب سے آخری لمحات میں اپنے فزیو تھراپسٹ کو لانے میں ناکامی ٹیم کے لیے بحران کا باعث بنی۔ یہ بات تمل ناڈو ہاکی فیڈریشن کی توجہ میں آئی، جس نے راج کمل کو پاکستانی ٹیم کے لیے پیش کیا۔ پاکستان کی جانب سے آخری لمحات میں اپنے فزیو تھراپسٹ کو لانے میں ناکامی ٹیم کے لیے بحران کا باعث بنی۔ یہ بات تمل ناڈو ہاکی فیڈریشن کی توجہ میں آئی، جس نے راج کمل کو پاکستانی ٹیم کے لیے پیش کیا ’ہمیں صرف کھیل دیکھنا ہے۔ ہر طرف مسائل ہیں لیکن کھیلوں میں ایسا نہیں۔ اگر ہم کھیلوں کی طرف آتے ہیں، تو ہم سب کچھ بھول کر ایک دوسرے کی مدد بھی کر سکتے ہیں۔‘ ہم نے پوچھا کہ اگر پاکستانی ٹیم آپ سے مستقبل میں ان کے ساتھ کام کرنے کا کہے تو کیا آپ اسے قبول کریں گے؟ ان کا جواب تھا کہ ’دیکھتے ہیں۔۔۔ پھر میں سوچ سکتا ہوں کہ کیا میرے پاس کوئی اور اسائنمنٹ تو نہیں۔‘ ہم نے انڈیا کی ہاکی فیڈریشن کے خزانچی اور تمل ناڈو ہاکی فیڈریشن کے صدر شیکھر منوکرن سے پاکستان ٹیم میں ایک تامل کی شرکت کے بارے میں بات کی۔ پاکستان ہاکی ٹیم کے موجودہ کوچ محمد ثقلین نے چنئی میں راج کمل کے بارے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’راج کمل اپنے کام کو بہت اچھی طرح سے نبھا رہے ہیں، ہمیں ایک عالمی معیار کا فزیو ملا ہے، یہ حیرت انگیز بات ہے کہ ہم نے انھیں صیحیح وقت پر ہاکی ٹیم کے لیے حاصل کیا۔‘ انڈیا اور ملائیشیا پہلے ہی سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر چکے ہیں جبکہ جاپان اور چین پوائنٹس ٹیبل پر سب سے نیچے ہیں، اس لیے پاکستان باآسانی سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر سکتا ہے تاہم فائنل تک رسائی اور پھر ٹرافی اٹھانے کے لیے پاکستان کو سخت محنت درکار ہو گی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c98pdl9e1gwo", "summary": " ابتدائی طور پر ورلڈ کپ میں پاکستان اور انڈیا کا میچ 15 اکتوبر کو احمد آباد میں شیڈول تھا تاہم اسی روز ہندوؤں کے تہوار نوراتری کا پہلا روز ہونے کی وجہ سے اب یہ میچ ایک دن قبل یعنی 14 اکتوبر کو کھیلا جائے گا۔", "title": "ورلڈ کپ میں انڈیا بمقابلہ پاکستان اب 14 اکتوبر کو: شیڈول میں تبدیلی کے باوجود احمد آباد میں ہوٹلوں، پروازوں کے کرایوں میں ہوشربا اضافہ", "firstPublished": "2023-08-03T04:53:20.982Z", "id": "c98pdl9e1gwo", "article": "انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے رواں برس کھیلے جانے والے ورلڈ کپ کے اہم ترین میچوں میں شمار کیے جانے والے پاکستان اور انڈیا کے میچ کے شیڈول میں تبدیلی کا اعلان کر دیا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ میچ 15 اکتوبر کو احمد آباد میں شیڈول تھا تاہم اسی روز ہندوؤں کے تہوار نوراتری کا پہلا روز ہونے کی وجہ سے اب یہ میچ ایک دن قبل یعنی 14 اکتوبر کو کھیلا جائے گا۔ انڈیا کے مقامی میڈیا کے مطابق احمد آباد پولیس کو خدشہ تھا کہ انڈیا اور پاکستان کے میچ کے ساتھ نوراتری کے پہلے روز سکیورٹی انتظامات مشکل ہو سکتے ہیں اور اسی سلسلے میں آئی سی سی نے ان خدشات کے حوالے سے پاکستانی بورڈ کو لکھا تھا جن کی رضامندی سے یہ تاریخ تبدیل کی گئی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے میچ کے دن میں تبدیلی کی وجہ سے اب دہلی میں انگلینڈ اور افغانستان کا میچ 14 کی بجائے 15 اکتوبر کو ہو گا جبکہ پاکستان کا ہی ایک اور میچ جو 12 اکتوبر کو سری لنکا کے خلاف تھا اب 10 اکتوبر کو منعقد ہو گا۔ آئی سی سی ورلڈ کپ پانچ اکتوبر سے 19 نومبر تک انڈیا میں کھیلا جائے گا۔ روایتی حریف انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچ احمد آباد کے نریندر مودی سٹیڈیم میں ہو گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ عالمی کپ کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا میچ ہو گا۔ عالمی کپ کا افتتاحی اور فائنل میچ بھی احمد آباد کے اسی سٹیڈیم میں کھیلے جائے گے جہاں ایک لاکھ سے زیادہ شائقین کی گنجائش موجود ہے۔ ماہرین کے مطابق انڈیا، پاکستان کے درمیان ہونے والے بڑے میچ کو دیکھنے کی مانگ ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ اور فائنل سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ 14 اکتوبر کو ممبئی اور دلی سے احمد آباد جانے والی پروازوں کا کرایہ 15 ہزار سے 22 ہزار روپے کے درمیان تک جا پہنچا ہے، جوعام طور پر تین سے چار ہزار روپے ہوتا ہے۔ ایک اور ٹریول کمپنی کے سربراہ اے کشن موہن کہتے ہیں ستمبر کے اختتام تک دلی سے احمد آباد کی پروازوں کے کرائے میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کی ایک بہت بڑی وجہ انڈیا پاکستان کا میچ ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچ میں شائقین کی غیر معمولی دلچسپی سے احمد آباد میں ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کے کرایوں میں بھی اکتوبر کے مہینے میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ نشانت کے مطابق ’جب سے میچ کی تاریخوں اور مقام کا باضابطہ طور پر اعلان ہوا ہے تب سے ہوٹلوں کے ایک رات کے کرائے میں پانچ گنا تک اضافہ ہو چکا ہے۔ بعض لگژری ہوٹل ایک رات کے لیے 50 ہزار روپے تک چارج کر رہے ہیں۔‘ میچ کے اگلے ہی دن ہندوؤں کا ایک بڑا تہوار ’نوراتری‘ بھی ہے جس کے سبب پروازوں کی مانگ میں مزید شدت آ گئی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72kk453mkpo", "summary": "کرکٹ کی دنیا میں ان دنوں جہاں ایشز سیریز چھائی ہوئی ہے وہیں انڈین کرکٹ ٹیم کے ویسٹ انڈیز دورے کے بھی چرچے ہو رہے ہیں جبکہ انڈیا میں اس سال ورلڈ کپ کی تیاریاں جاری ہیں مگر اس سب کے بیچ آمدن کی تقسیم کے لیے آئی سی سی کا ماڈل زیرِ بحث ہے۔ ", "title": "آئی سی سی کی آمدن میں انڈیا کا حصہ سب سے زیادہ کیوں اور پاکستان کو اس پر کیا اعتراض ہے؟ ", "firstPublished": "2023-08-01T11:29:54.953Z", "id": "c72kk453mkpo", "article": "کرکٹ کی دنیا میں ان دنوں جہاں ایشز سیریز چھائی ہوئی ہے وہیں انڈین کرکٹ ٹیم کے ویسٹ انڈیز دورے کے بھی چرچے ہو رہے ہیں اور انڈیا میں اس سال ورلڈ کپ کی تیاریاں جاری ہیں تاہم اس سب کے بیچ آمدن کی تقسیم کے لیے آئی سی سی کا ماڈل زیرِ بحث ہے۔ رواں ماہ ڈربن میں ہونے والے اجلاس کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ سال 2024 سے 2027 تک انڈین کرکٹ بورڈ کو آئی سی سی کی سالانہ آمدن کا 38.5 فیصد حصہ ملے گا۔ یہ رقم تقریباً 231 ملین ڈالر ہے۔ اگرچہ اس ماڈل کو نافذ نہیں کیا گیا تاہم ان کے مطالبے کا اثر یہ ہوا تھا کہ بی سی سی آئی کو 2015 سے 2023 تک آئی سی سی کی آمدن میں سے 22 فیصد حصہ ملا۔ سورو گنگولی کی صدارت کے دور میں بی سی سی آئی کے ایک اندازے کے مطابق اگر انڈین حکومت نے 2023 ورلڈ کپ کے انعقاد کے لیے بی سی سی آئی کو ٹیکس میں رعایت نہ دی ہوتی تو بورڈ کو کم از کم 955 کروڑ روپے کا نقصان ہوتا۔ انڈیا کے ٹیکس قوانین میں عالمی سطح کے کرکٹ ٹورنامنٹ پر کسی قسم کی چھوٹ نہیں۔ اس کی وجہ سے بی سی سی آئی کو 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران بھی 193 کروڑ روپے کا ٹیکس ادا کرنا پڑا تھا۔ خیال رہے کہ مئی میں نجم سیٹھی نے بطور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ اس مجوزہ ماڈل ناراضی ظاہر کی تھی۔ ان کا سوال تھا کہ آئی سی سی کو ان اعداد و شمار کی تفصیلات دینا ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس صورتحال سے خوش نہیں۔‘ انھوں نے کہا تھا کہ ’ویسٹ انڈیز اور ایسے دوسرے ملک بھی ہیں جہاں مقامی مارکیٹ سے زیادہ انحصار آئی سی سی سے ملنے والی آمدن پر ہوتا ہے۔ آمدن کی تقسیم کے ماڈل سے برابری پیدا کرنے میں مدد ملنی چاہیے۔‘ بی سی سی آئی کے سکریٹری جے شاہ نے گذشتہ سال بین الاقوامی میچوں کے لیے یکساں میچ فیس کے نفاذ کا اعلان کیا تھا تاہم اس طرح کے اعلانات میں بھی کچھ مسائل باقی ہیں۔ اس کے علاوہ آئی سی سی کے اجلاس میں دنیا بھر میں ہونے والی ٹی ٹوئنٹی لیگ کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی ہے۔ آئی سی سی کے اجلاس میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ لیگز پر کوئی پابندی نہ لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی تجویز منظور کر لی گئی ہے۔ تاہم ٹی ٹوئنٹی لیگز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ایسی شرائط رکھی گئی ہیں تاکہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے ماہر کرکٹرز کی ایک بڑی تعداد ان ٹورنامنٹس میں شرکت کے لیے اپنی اپنی ٹیموں سے ریٹائرمنٹ کا اعلان نہ کرے۔ یاد رہے کہ ان دنوں میجر کرکٹ لیگز کے میچز امریکہ میں کھیلے جا رہے ہیں جبکہ سعودی عرب بھی آنے والے دنوں میں ایسی لیگ شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxrxgkyexdzo", "summary": "ویسٹ انڈیز کی بظاہر کمزور نظر آنے والی ٹیم نے انڈیا کے خلاف ون ڈے سیریز کے دوسرے میچ میں چھ وکٹوں سے کامیابی حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا ہے۔", "title": "’بچوں پر نہیں چھوڑ سکتے‘: ویسٹ انڈیز سے شکست پر انڈین شائقین کو کوہلی اور روہت کیوں یاد آ رہے ہیں؟", "firstPublished": "2023-07-30T05:28:35.068Z", "id": "cxrxgkyexdzo", "article": "ویسٹ انڈیز کی بظاہر کمزور نظر آنے والی ٹیم نے انڈیا کے خلاف ون ڈے سیریز کے دوسرے میچ میں چھ وکٹوں سے کامیابی حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا ہے۔ اس جیت کے ساتھ ہی ویسٹ انڈیز نے تین میچوں کی سیریز 1-1 سے برابر کر لی ہے۔ ون ڈے سیریز کے دوسرے میچ میں ویسٹ انڈیز نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا تھا اور انڈیا کی ٹیم کا اغاز بہتر تھا لیکن پھر وکٹوں کی جھڑی لگ گئی۔ انڈیا کی جانب سے اوپنر ایشان کشن نے سب سے زیادہ 55 رنز بنائے جبکہ دوسرے اوپنر شبمن گل نے 34 رنز بنائے۔ پانچویں نمبر پر آنے والے سوریہ کمار یادیو نے 24 رنز بنائے۔ ویسٹ انڈیز کی جانب سے روماریو شیفرڈ اور گوڈاکیش موتی نے تین تین وکٹیں لے کر میچ کا رخ موڑ دیا۔ انڈیا کی جانب سے شاردل ٹھاکر نے تین وکٹیں لیں جبکہ پہلے میچ میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے کلدیپ یادو کو ایک ہی وکٹ مل سکی۔ ارنو سنگھ نامی صارف نے لکھا کہ ’ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں آج انڈیا کی شکست تاریخی ہے کیونکہ یہ پہلی بار ہو گا کہ انڈین کرکٹ ٹیم (مردوں کی) ایک ایسی ٹیم سے میچ ہاری ہے جو ٹیم آنے والے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی بھی نہیں کر سکی۔‘ شیلیندر مشرا نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ہم چاہے روہت اور کوہلی کو جتنا ٹرول کر لیں لیکن نوجوان کھلاڑیوں میں ہمیں ایسا کوئی نظر نہیں آتا جو ان گیرٹسٹ آف آل ٹائم کے ریٹائرمنٹ کے بعد انڈین ٹیم کو 10-12 سال تک لے کر چل سکے۔‘ ایک صارف نے پاکستان کے ایک مداح کی آئیکونک مایوسی والی تصویر ڈال کر لکھا کہ ’جب ویسٹ انڈیز کے خلاف یہ حال ہے تو ایشیا کپ اور ورلڈ کپ میں کیا ہو گا۔‘ بہت سے لوگ شبھمن گل کی جگہ رتوراج گائکواڈ کو ٹیم میں لیے جانے کی دلیل دے رہے ہیں تو بہت سے لوگ سنجو سیمسن کی ناکامی پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کے ایل راہل اور سریش ایير کو یاد کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ وراٹ کوہلی کو آرام دیے جانے پر ٹیم مینجمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں تو کچھ لوگ وراٹ کوہلی کے میدان میں پانی لے جانے پر تبصرے کر رہے ہیں کہ دنیا کا سب سے مہنگا کھلاڑی ڈرنکس لے جا رہا ہے۔ فرید خان نامی صارف نے لکھا کہ ’25 ہزار انٹرنیشنل رنز اور 76 انٹرنیشنل سنچریز لگانے والے وراٹ کوہلی دوسرے ون ڈے میں اپنی ٹیم کے لیے ڈرنکس لے جا رہے ہیں۔ کوئی کتنا بے غرض ہو سکتا ہے؟ اگر یہ کوئی سابق پاکستانی کپتان ہوتا تو ہمارے صحافیوں نے اس کا مسئلہ بنا دیا ہوتا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cedek4j72kvo", "summary": "پاکستان نے سری لنکا کو دوسرے ٹیسٹ میچ میں ایک اننگز اور 222 رنز سے شکست دے دی ہے۔ لیفٹ آرم سپنر نعمان علی کی جادوئی باؤلنگ کی وجہ سے پاکستان نے سری لنکا کو شکست کا ہار پہنایا۔ جانیے نعمان علی کون ہیں؟", "title": "سری لنکا کو دوسرے ٹیسٹ میں ایک اننگز، 222 رنز سے شکست: ’نعمان علی کی پرفارمنس نے لنکا ڈھا دی‘", "firstPublished": "2023-07-27T12:06:57.117Z", "id": "cedek4j72kvo", "article": "پاکستان نے سری لنکا کو دوسرے ٹیسٹ میچ میں ایک اننگز اور 222 رنز سے شکست دے دی ہے۔ دوسرے ٹیسٹ میچ کی خاص بات لیفٹ آرم سپنر نعمان علی کی بولنگ تھی جس کی بدولت پاکستان نے سری لنکا کو دوسرے ٹیسٹ میچ میں شکست دے کر سیریز دو صفر سے اپنے نام کر دی۔ یوں پاکستان نے کولمبو میں کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میں سری لنکا کو ہرا کر وائٹ واش کر دیا۔ اس سے قبل پاکستان نے گال میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میچ میں سری لنکا کو شکست دی تھی۔ جہاں ایک طرف دوسرے ٹیسٹ میچ میں پاکستانی باؤلرز نے لنکا ڈھانے میں اہم کردار کیا، وہیں رہی سہی کسر ہدف کا پہاڑ کھڑا کر کے پاکستانی بلے بازوں نے نکال دی، جس کی بدولت سری لنکا کو ایک اننگز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری اننگز میں سری لنکا کے اینجلو میتھیوز نے پاکستان باؤلرز کا خوب مقابلہ کیا اور وہ نصف سنچری کرنے میں کامیاب رہے۔ وہ 63 رنز بنا کر ناقابل شکست رہے۔ نعمان علی نے عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئے 70 رنز دے کر سات وکٹیں حاصل کیں جبکہ نسیم شاہ نے 44 رنز کے عوض تین کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی اور پاکستان چوتھے دن کا وقت ختم ہونے سے کافی دیر قبل ہی 222 رنز اور ایک اننگز سے شکست دینے میں کامیاب رہا۔ یاد رہے کہ پہلی اننگز میں بھی کوئی سری لنکن خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکا تھا اور صرف دھننجایا ڈی سلوا نصف سنچری بنانے میں کامیاب ہوئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ دوسرے ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں سری لنکا کی پوری ٹیم 166 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی تھی۔ نعمان علی کو کرکٹ کا شوق اپنے ماموں رضوان احمد کو دیکھ کر ہوا جنھوں نے ایک ون ڈے انٹرنیشنل میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔ نعمان علی سنہ 2021 ناردن کی طرف سے کھیلتے ہوئے قائداعظم ٹرافی میں 61 وکٹیں حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے ہیں۔ انھوں نے چھ مرتبہ اننگز میں پانچ یا زیادہ وکٹیں حاصل کیں جبکہ وہ تین بار میچ میں دس یا زیادہ وکٹیں لینے میں کامیاب رہے۔ سعد عرفان نامی صارف نے لکھا ہے کہ نعمان علی کی سیلیکشن پر کپتان بابر اعظم کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا مگر نعمان علی نے ان سارے ناقدین کو ایک بار پھر غلط ثابت کیا ہے۔ ان کے مطابق بگ ون بابر اعظم پر کبھی شک نہ کریں۔ پاکستان کے سابق سپنر سعید اجمل نے پاکستان کو اس فتح پر مبارکباد دی ہے۔ انھوں نے خاص طور پر نعمان علی، ابرار اور نسیم شاہ کی باؤلنگ اور سعود شکیل، عبداللہ شفیق اور سلمان آغا کی بیٹنگ کی تعریف کی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czrgvw1rwwgo", "summary": "پاکستان نے سری لنکا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں اپنی پوزیشن بہتر کر لی ہے۔ تیسرے روز کے کھیل کی خاص بات عبداللہ شفیق کی ڈبل سنچری تھی۔ سعود شکیل کے بعد عبداللہ شفیق دوسرے پاکستانی بیٹسمین ہیں جو سری لنکا میں ڈبل سنچری کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ", "title": "کولمبو ٹیسٹ میں عبداللہ شفیق کی ڈبل سنچری کے بعد پاکستان کی پوزیشن مستحکم: ’عبداللہ نے ہمیں کرکٹ کی خوبصورتی یاد کرا دی‘", "firstPublished": "2023-07-26T13:10:09.364Z", "id": "czrgvw1rwwgo", "article": "پاکستان نے سری لنکا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ کے تیسرے روز کھیل کے اختتام تک اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے۔ عبدااللہ شفیق کی ڈبل سنچری اور آغا مسعود کی سنچری کی بدولت پاکستان نے پانچ وکٹوں کے نقصان پر 563 بنا لیے ہیں اور اس کی سری لنکا کے خلاف مجموعی برتری 397 رنز کی ہو چکی ہے۔ تیسرے روز کے کھیل کی خاص بات اوپنر عبداللہ شفیق کی ڈبل سنچری تھی۔ آغاز سلمان نے بھی تیسرے روز پاکستان کے لیے ایک اور سنچری بنائی اور یوں پاکستان کی سبقت کو مزید بڑھا دیا۔ عبداللہ شفیق کے آؤٹ ہونے کے بعد محمد رضوان سعود شکیل کا ساتھ دینے کے لیے آئے۔ اس وقت آغا مسعود 132 جبکہ محمد رضوان 37 رنز بنا کر وکٹ پر موجود ہیں۔ سعود شکیل کی مسلسل ساتویں نصف سنچری بھی اس ٹیسٹ میچ کی خاص بات ہے۔ سعود شکیل اس سے قبل پہلے میچ میں ڈبل سنچری بھی کر چکے ہیں، جس کی بدولت پاکستان دو ٹیسٹ میچز کی سریز میں سے پہلا میچ اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس میچ کے مین آف دی میچ سعود شکیل قرار پائے تھے۔ دن کے آغاز پر عبداللہ شفیق نے 87 رنز کے ساتھ اپنی اننگز کا دوبارہ آغاز کیا اور فائنل سیشن میں وہ 200 رنز کا ہندسہ عبور کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کامیابی کے بعد انھوں نے اپنا ہیلمٹ اُتارا اور اپنی جرسی کے پچھلے حصے پر لکھے اپنے نام کی جانب اشارہ کیا۔ انھوں نے 326 گیندوں کا سامنا کیا اور ان کی اننگز میں 19 چوکے اور چار چھکے بھی شامل تھے۔ اب سوشل میڈیا پر عبداللہ شفیق کو خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ان کی اس اننگز کی خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ سری لنکا میں سری لنکا کے خلاف ڈبل سنچری بنانے والے دوسری پاکستانی بلے باز بن گئے ہیں۔ تیسرے دن کے کھیل میں سلمان نے بھی اٹیکنگ کرکٹ کھیلی، جو کہ پاکستانی ٹیم کے نئِ سٹائل کا حصہ ہے، اور ایک چوکے کے ساتھ اپنی دوسری سنچری مکمل کی۔ سعد نامی صارف نے لکھا کہ کچھ لوگ عبداللہ شفیق کی کچھ ناکام اننگز کے بعد ان کے خلاف ایک مہم چلا رہے تھے مگر اب انھوں نے ایک بار پھر اپنی ’کلاس‘ ظاہر کی ہے۔ اس سے قبل سری لنکا کے شہر کولمبو میں کھیلے جا رہے دوسرے اور آخری ٹیسٹ میچ کے آغاز پر پاکستانی بولرز نے شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے سری لنکا کو اس کی پہلی اننگز میں 166 رنز پر آل آؤٹ کر دیا ہے۔ پاکستان نے سری لنکا کے خلاف دو میچوں کی سیریز کے دوسرے اور آخری ٹیسٹ کے پہلے روز سری لنکا کی پہلی اننگز میں 166 رنز کے جواب میں بیٹنگ کرتے ہوئے دو وکٹوں پر 145 رنز بنائے تھے تاہم دوسرے دن کا کھیل بارش سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gmp0j0413o", "summary": "پاکستان نے سری لنکا کے خلاف دو میچوں کی سیریز کے دوسرے اور آخری ٹیسٹ کے پہلے روز سری لنکا کی پہلی اننگز میں 166 رنز کے جواب میں بیٹنگ کرتے ہوئے دو وکٹوں پر 145 رنز بنا لیے ہیں۔ ", "title": "کولمبو ٹیسٹ: پاکستان کی عمدہ بولنگ، ’پہلا دن پاکستان کے نام رہا، لڑکو اس فارم کو قائم رکھنا‘", "firstPublished": "2023-07-24T14:54:40.399Z", "id": "c3gmp0j0413o", "article": "پاکستان کے بولروں نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سری لنکا کو صرف 166 پر آؤٹ کر دیا سری لنکا کے شہر کولمبو میں کھیلے جا رہے دوسرے اور آخری ٹیسٹ میچ میں پاکستانی بولرز نے شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے سری لنکا کو پہلی اننگز میں 166 رنز پر آل آؤٹ کر دیا ہے۔ پاکستان نے سری لنکا کے خلاف دو میچوں کی سیریز کے دوسرے اور آخری ٹیسٹ کے پہلے روز سری لنکا کی پہلی اننگز میں 166 رنز کے جواب میں بیٹنگ کرتے ہوئے دو وکٹوں پر 145 رنز بنا لیے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کو اننگز کے آغاز میں ہی امام الحق کا نقصان اٹھانا پڑا۔ تاہم عبداللہ شفیق اور شان مسعود نے پراعتماد انداز میں کھیلتے ہوئے نصف سنچریاں سکور کی ہیں۔ کولمبو میں کھیلے جا رہے سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میں سری لنکا کے کپتان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا جو ان کے لیے درست ثابت نہیں ہوا۔ پاکستانی بولرز نے سری لنکن بلے بازوں کو اننگز کے آغاز سے ہی دباؤ میں رکھا اور بہترین لائن و لینتھ کا استعمال کرتے ہوئے پوری ٹیم کو 166 رنز پر ڈھیر کر دیا۔ اس کے بعد چندیمل اور ڈی سلوا نے پانچویں وکٹ کے لیے 85 رنز کی شراکت قائم کر کے سری لنکا کا مجموعی سکور 121 رنز پر پہنچا دیا، تاہم نسیم شاہ نے دنیش چندیمل کو آؤٹ کیا اور اس شراکت داری کو توڑا۔ یاد رہے کہ یہ ٹیسٹ سیریز آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ 2023-25 کا حصہ ہے اور پاکستان نے پہلے ٹیسٹ میچ میں فتح حاصل کی تھی۔ سیریز کے دوسرے اور فائنل ٹیسٹ میچ کے لیے پاکستان کی ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے جبکہ سری لنکا نے اپنی ٹیم میں دو تبدیلیاں کرتے ہوئے فاسٹ بولرز وشوا فرنینڈو اور کاسن راجیتھا کی جگہ آسیتھا فرنینڈو اور دلشان مدوشنکا کو شامل کیا گیا ہے۔ جبکہ سری لنکا کے لیے چھ ون ڈے اور 11 ٹی 20 کھیلنے والے بائیں ہاتھ کے فاسٹ باؤلر مدوشنکا نے اپنا ٹیسٹ ڈیبیو کیا ہے۔ دوسرے ٹیسٹ میں پاکستانی بولرز کے شاندار بولنگ سپیل کے باعث سری لنکا کے صرف 166 رنز پر آؤٹ ہو جانے پر سوشل میڈیا صارفین بولرز کو داد دینے کے ساتھ ساتھ بابر اعظم کی کپتانی کی بھی تعریف کر رہے ہیں۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے پاکستانی بولرز کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان اور بابر اعظم کی جانب سے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ، ان کی ذہانت کی وجہ سے سری لنکا صرف 166 رنز ہی بنا سکا جو کولمبو میں سری لنکا کا سب سے کم ٹوٹل ہے۔‘ جبکہ ایک صارف نے پاکستانی بولر نسیم شاہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’سیریز سے قبل میں نے کہا تھا کہ گذشتہ ایک سال میں شاہین آفریدی کی غیرحاضری میں نسیم شاہ تیز بولنگ کا لیڈر بن گیا ہے اور اس نے ہمیں اس سیریز میں مایوس نہیں کیا۔ یہ پاکستان کا بہت خاص ٹیلنٹ ہے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2jnvm57l0o", "summary": "انڈیا کی خواتین کرکٹ ٹیم کی کپتان ہرمن پریت کور بنگلہ دیش کے خلاف آخری ون ڈے میں اپنے رویے کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں۔", "title": "ہرمن پریت کور کے رویے پر تنقید: ’انڈین ٹیم کی اچھی کارکردگی میں ناکامی ناراض ہونے کی وجہ ہو سکتی ہے‘", "firstPublished": "2023-07-24T10:22:38.497Z", "id": "cv2jnvm57l0o", "article": "انڈیا کی خواتین کرکٹ ٹیم کی کپتان ہرمن پریت کور بنگلہ دیش کے خلاف آخری ون ڈے میں اپنے رویے کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ میزبان بنگلہ دیش کی کپتان نگار سلطانہ نے کہا ہے کہ ہرمن پریت کو بطور کھلاڑی بہتر برتاؤ کرنا چاہیے تھا۔ ساتھ ہی سابق انڈین کرکٹر انجم چوپڑا نے بھی ہرمن پریت کور کو اپنے رویے پر توجہ دینے کا مشورہ دیا ہے۔ لیکن سابق انڈین کرکٹر انجم چوپڑا نے ہرمن پریت کور سے کہا ہے کہ وہ اپنے رویے اور الفاظ کے بارے میں مستقبل میں محتاط رہیں۔ انڈیا اور بنگلہ دیش کی خواتین کرکٹ ٹیموں کے درمیان ہفتہ کو شیر بنگال نیشنل کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ تیسرا اور آخری ون ڈے میچ برابری پر ختم ہوا اور تین میچوں کی ون ڈے سیریز 1-1 سے برابری پر ختم ہوئی۔ گذشتہ روز جب انڈین خواتین کرکٹ ٹیم کی کپتان ہرمن پریت کور تیسرے ون ڈے میں کیچ آؤٹ ہوئیں تو انھوں نے امپائر کے فیصلے پر اعتراض کیا اور وکٹ پر زور سے بیٹ دے مارا۔ ہرمن پریت کور صرف اسی وجہ سے سرخیوں میں نہیں آئیں۔ انھوں نے میچ کے بعد کی تقریب کے دوران کچھ ایسا ہی کہا جس پر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس کھیل سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔ یہاں تک کہ کرکٹ کے علاوہ بھی ہم اس قسم کی امپائرنگ سے حیران ہیں۔ اگلی بار جب ہم بنگلہ دیش آئیں گے تو ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہمیں اس قسم کی امپائرنگ سے نمٹنا پڑے گا اور ہم اس کے مطابق خود کو تیار کریں گے۔‘ بنگلہ دیش خواتین کرکٹ ٹیم کی کپتان نگار سلطانہ انڈین خواتین کرکٹ ٹیم کو پہلے میچ میں بنگلہ دیش کے ہاتھوں 40 رنز سے شکست ہوئی تھی جبکہ دوسرے میچ میں انڈین ٹیم نے 108 رنز سے کامیابی حاصل کی تھی۔ تیسرے ون ڈے میں بنگلہ دیش نے انڈین ٹیم کے سامنے 225 رنز کا ہدف رکھا تھا لیکن انڈین خواتین کرکٹ ٹیم 49.3 اوورز میں 225 رنز پر آل آؤٹ ہو گئی۔ بنگلہ دیش کی کپتان نگار سلطانہ سے بھی میچ کے بعد ہرمن پریت کور کے رویے پر سوال کیے گئے۔ اس کے علاوہ پچھلے سال انگلینڈ کے خلاف تین میچوں کی ون ڈے سیریز کا آخری میچ میں دیپتی شرما نے مانکڈنگ (نان سٹرائیکر اینڈ) کو آؤٹ کر کے میچ اور سیریز دونوں جیت لی تھی۔ وہ اب تک ون ڈے میں 37.70 کی اوسط سے کل 3393 رنز بنا چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کور نے ٹی 20 میچوں میں بھی 3152 رنز بنائے ہیں۔ ہرمن پریت کور اب تک 150 سے زیادہ ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی میچوں میں بطور کپتان کھیل چکی ہیں۔ اس معاملے میں انھوں نے ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان روہت شرما کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg7rng4l97o", "summary": "پاکستان کی اے کرکٹ ٹیم نے عمدہ کارکردگی کی بدولت ایمرجنگ ایشیا کپ کے فائنل میں انڈیا کو 128 رنز سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کر لیا ہے۔ ", "title": "پاکستان ایمرجنگ ایشیا کپ کا فاتح: ’اب بس بابر اعظم کا انڈیا کے سامنے ورلڈ کپ ٹرافی اٹھانے کا انتظار ہے‘", "firstPublished": "2023-07-23T17:11:35.934Z", "id": "crg7rng4l97o", "article": "پاکستان کی اے کرکٹ ٹیم نے عمدہ کارکردگی کی بدولت ایمرجنگ ایشیا کپ کے فائنل میں انڈیا کو 128 رنز سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کر لیا ہے۔ سری لنکا کے شہر کولمبو میں کھیلے گئے فائنل میچ میں انڈیا کی اے ٹیم کے کپتان یش دھول نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا جو ان کے لیے غلط ثابت ہوا۔ انڈیا نے ٹاس جیت کر پاکستان کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی اور پاکستان نے مقررہ اوورز میں آٹھ وکٹوں پر 352 رنز بناتے ہوئے انڈیا کی اے ٹیم کو جیت کے لیے 353 رنز کا ہدف دیا۔ انڈین ٹیم کا مجموعی سکور 157 تک پہنچا ہی تھا کہ نیشانت سندھو بھی 10 رنز بنا کر آوٹ ہو گئے۔ اس کے فوراً بعد انڈین اے ٹیم کے کپتان یش دھول بھی صرف 39 رنز بنانے کے بعد سفیان کو وکٹ دے بیٹھے۔ پاکستان کی ٹیم کو اس وقت مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب 183 کے مجموعے پر عمیر بن یوسف کے آؤٹ ہونے کے بعد قاسم اکرم اور کپتان محمد حارث بھی یکے بعد دیگرے پویلین لوٹ گئے اور پاکستان کی اے ٹیم 187 رنز پر پانچ وکٹیں گنوا بیٹھی۔ میچ کے اختتامی اوورز میں محمد وسیم جونیئر نے کچھ جارحانہ انداز اپنایا اور پاکستان اے ٹیم مقررہ اوورز میں آٹھ وکٹوں کے نقصان پر 352 رنز کا مجموعی سکور بورڈ پر سجانے میں کامیاب رہی۔ پاکستان اے نے میچ میں 128 رنز سے فتح حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایمرجنگ ایشیا کے ٹائٹل کا کامیابی سے دفاع بھی کر لیا۔ یاد رہے کہ 2019 میں ڈھاکہ میں کھیلے گئے ایمرجنگ ایشیا کپ فائنل میں پاکستان کی اے ٹیم نے بنگلہ دیش کو 77 رنز سے ہرایا تھا۔ اس ٹیم کے کپتان سعود شکیل تھے۔ پاکستان اے ٹیم کی جانب سے ایمرجنگ ایشیا کپ کے فائنل میں انڈیا کو شکست دینے کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا صارفین خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔۔۔کوئی آج دن اچھا ہونے کی بات کر رہا ہے تو کوئی ایک ہی دن میں کھیلوں کی دنیا سے پاکستان کے لیے دو بڑی خوشخبریوں کا ذکر کر رہا ہے۔ ایسے میں ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ’اب تو میں بس بے صبری سے 15 اکتوبر کو انڈیا اور پاکستان کے میچ کا انتظار کر رہا ہوں۔ بابر اعظم پورے انڈیا کے سامنے ورلڈ کپ ٹرافی اٹھائیں۔ ہمیں اپنے کھلاڑیوں اور ان کی صلاحیت پر یقین ہے کہ وہ اللہ نے چاہا تو جیت کر آئے گے۔‘ ایک جذباتی کرکٹ فین نے ورلڈ کپ 2023 کے پرومو کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’آپ نے ہمیں پرومو سے ہٹایا ہم نے آپ کو فائنل سے نکال باہر کیا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy7yx1yj45eo", "summary": "آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں کھیلے جانے والے ورلڈ جونیئر سکواش چیمپیئن شپ کے فائنل میں حمزہ خان نے مصر کے محمد زکریا کو شکست دے کر 37 برس بعد یہ ٹرافی پاکستان کو جتوا دی ہے۔ ", "title": "ورلڈ جونیئر سکواش چیمپیئن حمزہ خان: ’برتری ملی تو خیال آیا کہ اب جیت گیا ہوں، لیکن اسے سر پر سوار نہیں کیا‘", "firstPublished": "2023-07-23T02:33:26.960Z", "id": "cy7yx1yj45eo", "article": "آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں کھیلے جانے والے ورلڈ جونیئر سکواش چیمپیئن شپ کے فائنل میں حمزہ خان نے مصر کے محمد زکریا کو شکست دے کر 37 برس بعد یہ ٹرافی پاکستان کو جتوا دی ہے۔ حمزہ خان نے پہلے سیٹ میں شکست کے بعد میچ میں بہترین واپسی کرتے ہوئے محمد زکریا کو تین ایک سے شکست دی۔ اس دوران کمنٹیٹر حمزہ خان کے ٹیلنٹ کو سراہتے رہے اور ان کی جیت پر ایک کمنٹیٹر نے کہا کہ ’حمزہ خان شو میں خوش آمدید۔۔۔ آج پاکستانی سکواش کی واپسی ہوئی ہے۔‘ اس سے قبل، سنہ 1986 میں آخری بار جان شیر خان پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے جونیئر سکواش چیمپیئن بنے تھے۔ اسی سال انھوں نے آسٹریلیا کے کریس ڈٹمر اور پاکستان کے جہانگیر خان کو شکست دے کر سینیئر ورلڈ اوپن بھی جیتا تھا۔ خیال رہے کہ پاکستان 15 سال بعد سکواش کے کھیل میں کسی عالمی ٹرافی کے فائنل میں پہنچا تھا، اس سے قبل سنہ 2008 میں عامر اطلس خان نے ورلڈ جونیئر چیمپیئن شپ کا فائنل کھیلا تھا جس میں انھیں شکست ہوئی تھی۔ خیال رہے کہ اس میچ سے قبل حمزہ خان نے 81 منٹ تک جاری رہنے والے سیمی فائنل میں فرانسیسی کھلاڑی میلول سیانیمینیکو کو شکست دے کر فائنل میں جگہ بنائی تھی۔ ’جہاں انڈیا اپنے آٹھ کھلاڑیوں اور مصر اپنے 14 کھلاڑیوں کے ساتھ شرکت کر رہا تھا ہم نے اپنا ایک کھلاڑی بھیجا۔ اس کا سارا کریڈٹ پاکستان سکواش فیڈریشن کے صدر کو جاتا ہے کہ انھی کی یہ پلاننگ تھی کہ ہم نے اس چیمپیئن شپ میں کس حکمت عملی سے شریک ہونا ہے۔‘ ظفریاب اقبال کے مطابق ’سنہ 1986 میں جان شیر خان نے چیمپیئن شپ جیتی تھی جس کے بعد آج ہم جیتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پی آئی اے سمیت مختلف ڈپارٹمنٹ سپورٹ کرتے تھے۔ آج کے میچ میں پوری دنیا سے 128 کھلاڑیوں نے حصہ لیا تھا جن سب کو ہرا کر اس نے پاکستان کا پرچم بلند کیا۔‘ انھوں نے امریکی شہر فلاڈیلفیا میں 2021 کے دوران یو ایس جونیئر اوپن جیتا تھا۔ حمزہ خان کے مطابق یہ مقابلہ کھیلنے کے لیے انھیں ان کے والد نے ٹکٹ خرید کر دیا تھا جو کہ سول ایوی ایشن میں ملازمت کرتے ہیں۔ فروری 2023 کے دوران نور زمان اور حمزہ خان نے چنائی میں پاکستان کو انڈیا کے خلاف ایشین جونیئر سکواش چیمپیئن شپ 2023 میں فتح دلائی تھی۔ انھوں نے بوسٹن میں اپنے ماموں شاہد زمان خان کے ساتھ ٹریننگ کی ہے جو پاکستان کے بہترین سکواش کھلاڑیوں میں سے ایک اور سابق ورلڈ نمبر 14 رہ چکے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے ہیوسٹن میں جہانزیب خان اور مصری کوچ عمر عبدالعزیز کے ساتھ ٹریننگ کی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp4nqy97v14o", "summary": "اس سے قبل 134 گھنٹے تک ڈرم بجا کر ایلسٹر نے ہی ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا تاہم اس بار انھوں نے 150 گھنٹے تک ڈرم بجا کر اپنا ہی ریکارڈ بہتر کیا۔", "title": "چھ دن ڈرم بجا کر عالمی ریکارڈ بنانے والا شخص: ’اگر کوئی یہ ریکارڈ توڑنا چاہتا ہے تو میں مدد کرنے کو تیار ہوں‘", "firstPublished": "2023-07-22T16:02:17.342Z", "id": "cp4nqy97v14o", "article": "شمالی آئر لینڈ کے 45 سالہ ایلسٹر براؤن نے ڈرم بجانے کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ اس سے قبل 134 گھنٹے تک ڈرم بجا کر ایلسٹر نے ہی ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا تاہم اس بار انھوں نے 150 گھنٹے تک ڈرم بجا کر اپنا ہی ریکارڈ بہتر کیا۔ یہ ریکارڈ بنانے میں ان کو چھ دن لگے۔ انھوں نے گزشتہ اتوار کو ڈرم بجانا شروع کیا تھا اور ہفتے کے دن ریکارڈ قائم کرنے کے بعد یہ سلسلہ روک دیا گیا۔ ایلسٹر نے اپنی پارٹنر شیرون ڈیگن کی یاد میں یہ کام کیا جو سرطان کی وجہ سے جنوری 2021 میں وفات پا گئی تھیں۔ اپنے نیا عالمی ریکارڈ حاصل کرنے کے بعد انھوں نے کہا کہ ان کے دوستوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ ان کی پارٹنر کی یاد نے ان کو کامیابی حاصل کرنے میں مدد دی۔ اس سے پہلے بھی ایلسٹر ڈرم بجانے کا ریکارڈ قائم کر چکے ہیں۔ 2003 میں انھوں نے 58 گھنٹے تک ڈرم بجایا تھا اور پھر 2008 میں 103 گھنٹے تک ڈرم بجا کر انھوں نے ایک بار پھر ریکارڈ قائم کیا۔ انھوں نے کہا کہ ماضی کی کوششوں نے ہی ان کو اس بار ریکارڈ توڑنے میں مدد دی۔ واضح رہے کہ گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے قوانین کے تحت ایلسٹر اس ریکارڈ کو بنانے کی کوشش کے دوران ہر ایک گھنٹے کے بعد پانچ منٹ کا وقفہ لے سکتے تھے۔ انھوں نے ہر بار وقفہ نہیں لیا تاکہ وہ یہ وقت اکھٹا کر سکیں اور زیادہ دیر کے لیے آرام کر سکیں۔ تاہم جمعے کی صبج تک، جب ان کو ڈرم بجاتے ہوئے پانچ دن ہو چکے تھے، ایلسٹر صرف دو گھنٹے کے لیے ہی سو سکے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میرا جسم صبح سویرے مجھے سونے پر مجبور کر سکتا ہے تو میری ٹیم کا کام تھا کہ مجھے جگا کر رکھے تاکہ میں درست وقت پر وقفہ لوں اور ضرورت کے حساب سے آرام کروں۔‘ ایلسٹر نے بتایا کہ ’شیرون کی وفات کے بعد میں نے پینکرئیٹک کینسر چیریٹی کے لیے پیسہ اکھٹا کیا اور اب میں مائنڈ نامی تنظیم کے لیے بھی پیسے اکھٹے کر رہا ہوں کیوں کہ شیرون کی وفات کے بعد مجھے بھی ذہنی صحت کے مسائل سے گزرنا پڑا تھا۔‘ واضح رہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یہ ریکارڈ کئی بار ٹوٹ چکا ہے۔ اگرچہ اس بار ان کا دورانیہ کافی متاثر کن ہے، ایلسٹر کا ماننا ہے کہ ان کا نیا ریکارڈ بھی توڑا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر کوئی یہ ریکارڈ توڑنا چاہتا ہے تو میں ان کی مدد کرنے کو تیار ہوں۔‘ انھوں نے ریکارڈ توڑنے کے بعد کے ارادے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سب سے پہلے تو میں بیٹھنے کے لیے کوئی آرامدہ جگہ تلاش کروں گا اور پھر شاید میں سو جاؤں گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cllgr8mg1z3o", "summary": "بالی وڈ کے سپر سٹار شاہ رُخ خان کا ورلڈ کپ کی ٹرافی کے ساتھ رومانس جبکہ وکٹ لینے کے بعد شاہین آفریدی کا اپنے مخصوص انداز میں جشن۔۔۔ یہ دونوں چیزیں آئندہ ورلڈ کپ کے لیے بنائی گئی تشہیری ویڈیو میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ", "title": "کرکٹ ورلڈ کپ کے اشتہار میں شاہ رخ کا ٹرافی کے ساتھ ’رومانس‘ مگر آئی سی سی ’بابر کو بھول گیا‘", "firstPublished": "2023-07-21T07:30:13.880Z", "id": "cllgr8mg1z3o", "article": "بالی وڈ کے سپر سٹار شاہ رُخ خان کا ورلڈ کپ کی ٹرافی کے ساتھ رومانس جبکہ وکٹ لینے کے بعد شاہین آفریدی کا اپنے مخصوص انداز میں جشن۔۔۔ یہ دونوں چیزیں رواں برس ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے بنائی گئی تشہیری ویڈیو میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں بعض فینز کو ’اِٹ ٹیکس ون ڈے‘ نامی یہ تشہیری فلم بہت پسند آئی ہے وہیں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس میں اپنی ٹیموں کی نمائندگی سے خوش نہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس میں زیادہ توجہ انڈیا اور انگلینڈ کے کھلاڑیوں کو دی گئی ہے۔ روہت شرما شاداب کو چھکا لگاتے ہیں اور شاہین وکٹ لینے کے بعد اپنے مخصوص انداز میں جشن مناتے ہیں۔ اس اشتہار کا اختتام دھونی کے چھکے اور پھر شبھمن گل پر ہوتا ہے۔ اس اشتہار میں بالی وڈ کے سپر سٹار شاہ رخ خان کے علاوہ معروف کھلاڑی جے پی ڈومینی، شبھمن گل، دنیش کارتک، موجودہ ورلڈ کپ فاتح اوین مورگن، متایا مُرلیدھرن، جونٹی روڈز اور دیگر شامل ہیں۔ آئی سی سی کے سربراہ جیوف الاردیس نے اس کی رونمائی کے موقع پر کہا ہے کہ ’کرکٹ اور سنیما انڈیا کے دل میں بستے ہیں اور اس لیے ہم نے دونوں کا امتزاج پیش کیا ہے۔ بالی وڈ سپر سٹار شاہ رخ خان اور کرکٹرز کی اس لائن اپ کے ساتھ ہمارا اس ملک سے تعلق مزید گہرا ہو گا جس سے ہم دنیا بھر کی توجہ بھی حاصل کر سکیں گے۔‘ اگر بات اس تشہیری فلم پر آنے والے ردعمل پر کی جائے تو فینز کی ایک بڑی تعداد اس میں شاہ رُخ خان کو ٹرافی کے ساتھ ’رومانس‘ کرتا دیکھ کافی خوش ہے۔ شاہ رخ کی ورلڈ کپ ٹرافی کے ساتھ تصویر پر سندھیہ نامی صارف نے کہا کہ اداکارہ انوشکا شرما نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’شاہ رخ ایک مائیک کے ساتھ بھی رومانس کر سکتے ہیں۔ وہ اس مائیک کو اسی محبت کی نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں جیسے وہ دنیا کی سب سے خوبصورت خاتون ہو۔‘ اس ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے کرکٹ تجزیہ کار جارج ڈوبیل نے کہا کہ اس میں انڈیا اور انگلینڈ کا کافی زیادہ ذکر ہے جبکہ پاکستان کو کم دکھایا گیا ہے۔ ویسٹ انڈیز اس بار ورلڈ کپ کا حصہ نہیں مگر اس کے باوجود اس کے کھلاڑیوں کو دکھایا گیا ہے۔ ’کرکٹ کی دنیا بہتر کی مستحق ہے۔‘ پاکستان کے علاوہ بعض دیگر ٹیموں کے فینز نے بھی اس ویڈیو پر اعتراض کیا۔ بشیر غروال پوچھتے ہیں کہ ’کیا یہ ورلڈ کپ کا پرومو ہے؟ افغانستان وہ ٹیم ہے جس نے براہ راست کوالیفائی کیا مگر اسے دو منٹ کی ویڈیو میں ایک سیکنڈ کے لیے بھی نہ دکھایا گیا۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjmre8dr082o", "summary": "گال ٹیسٹ میں کھیل کے آخری روز پاکستان کو جیت کے لیے 83 رنز درکار تھے اور اس کی چھ وکٹیں گِر چکی تھیں مگر اوپنر امام الحق کی نصف سنچری کی بدولت پاکستان نے 131 رنز کا ہدف حاصل کر لیا۔", "title": "گال ٹیسٹ: امام کی نصف سنچری نے پاکستان کو سیریز میں ایک صفر کی برتری دلا دی", "firstPublished": "2023-07-19T15:18:58.798Z", "id": "cjmre8dr082o", "article": "گال میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں پاکستان نے سری لنکا کو چار وکٹوں سے شکست دی ہے اور دو میچوں کی سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کر لی ہے۔ کھیل کے آخری روز پاکستان کو جیت کے لیے 83 رنز درکار تھے اور اس کی چھ وکٹیں گِر چکی تھیں مگر اوپنر امام الحق کی نصف سنچری کی بدولت پاکستان نے 131 رنز کا ہدف حاصل کر لیا۔ سعود شکیل نے 30 جبکہ بابر اعظم نے 24 رنز بنا کر ان کا ساتھ دیا۔ سری لنکن سپنر پرابتھ جیسوریا نے پانچویں روز بھی پاکستانی بلے بازوں پر دباؤ برقرار رکھا اور 56 رنز دے کر کل چار وکٹیں حاصل کیں۔ انھوں نے عبدااللہ شفیق، شان مسعود، بابر اعظم اور سرفراز احمد کو آؤٹ کر کے پاکستان کو مشکل میں ڈالے رکھا۔ پاکستان کی پہلی اننگز میں ڈبل سنچری بنانے والے بلے باز سعود شکیل کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا ہے۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ’میں صرف پارٹنرشپ بنانے کی کوشش کر رہا تھا اور مثبت انداز میں رنز کی تلاش میں تھا۔ چوتھے روز کے اختتام پر پاکستان نے تین وکٹوں کے نقصان پر 48 رنز بنا رکھے تھے جبکہ کریز پر کپتان بابر اعظم اور اوپنر امام الحق موجود تھے۔ چوتھے روز سری لنکا کے اوپنر نیشان مادھشکا آٹھ اور دیمتھ کرونارتنے نے چھ رنز کے ساتھ اپنی اننگز کا آغاز کیا لیکن جلد ہی پاکستان کو پہلی کامیابی ملی اور دیمتھ کرونارتنے 20 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے، وہ سپنر ابرار احمد کا نشانہ بنے۔ سری لنکا کے آخری کھلاڑی کاسن راجیتھا کو ابرار احمد نے پانچ رنز پر چلتا کیا اور اس طرح سری لنکا کی پوری ٹیم دوسری اننگز میں 279 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی اور پاکستان کو جیت کے لیے 131 رنز کا ہدف دیا۔ پاکستان کی ٹیم نے آسان ہدف کی جانب متاثر کن آغاز نہیں کیا اور اننگز کی ابتدا ہی میں 16 کے مجموعے پر عبداللہ شفیق جے سوریا کی گیند پر صرف آٹھ رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے۔ گال ٹیسٹ کے چوتھے روز کھیل کے اختتام پر پاکستان نے 131 کے ہدف کے تعاقب میں تین وکٹوں پر 48 رنز بنائے ہیں اور اسے جیت کے لیے مزید 83 رنز درکار ہیں۔ یاد رہے کہ گال میں کھیلے جارہے سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ میں سری لنکا نے پاکستان کے خلاف ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا اور پہلی اننگز میں دھننجیا ڈی سلوا کی سنچری کی بدولت 312 رنز بنائے تھے جبکہ پاکستان نے اپنی پہلی اننگز میں سعود شکیل کی شاندار ڈبل سنچری کی مدد سے 461 رنز بنا کر اننگز میں 149 رنز کی برتری حاصل کر لی تھی۔ جبکہ سعد نامی صارف نے بھی اس ٹیسٹ میں پاکستان کی مستحکم پوزیشن کا سہرا بہتر فیلڈنگ اور بابر اعظم کی کپتانی کے سر سجایا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cq5y4987r90o", "summary": "کوہ پیمائی کی دوران فراسٹ بائٹ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کی وجہ سے انسانی جلد اور اس کے نیچے موجود خون کی نالیاں منفی درجہ حرارت کی وجہ سے جمنا شروع ہو جاتی ہیں اور یہ عمل انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر آصف کے دونوں ہاتھوں کی اُنگلیاں، اُن کی ناک اور دونوں پاؤں فراسٹ بائٹ کی وجہ سے متاثر ہوئے۔", "title": "’اگر اسرافیل نا پہنچتا تو میں عزرائیل کے ساتھ کہیں جا چُکا ہوتا‘", "firstPublished": "2023-07-19T03:59:23.464Z", "id": "cq5y4987r90o", "article": "ڈاکٹر آصف نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب میں نے کیمپ تھری سے فور کی جانب اپنا سفر شروع کیا تو موسم اچھا تھا مگر رات کا وقت تھا اور چاند 16ویں کا تھا، چاند کی چمک کی وجہ سے پہلے مجھے تکلیف شروع ہوئی اور جب ایک دم سے تیز ہوائیں چلنے لگیں تو میری آنکھیں دھندلا گئیں۔‘ کوہ پیما محبوب علی کے مطابق سنو بلائنڈنیس کوہ پیمائی کے دوران کوہ پیماؤں کو متاثر کرنے والی ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے ان کی آنکھیں بُری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نانگا پربت جیسے بلند پہاڑوں پر سنو بلائنڈنیس کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے اور اس خطرے سے بچاؤ کے لیے خصوصی قسم کی عینک استعمال کی جاتی ہے۔ محبوب علی کا کہنا تھا کہ ’برف پر جو دھوپ پڑتی ہے اس میں چمک بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے بہت تیز ریفلیکشن یا عکس پیدا ہوتا ہے جو آنکھوں کو خراب کرتا ہے۔ اس کی دوسری وجہ تیز ہوا کا چلنا ہوتا ہے جو آنکھوں کے اوپری حصے کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے آنکھوں میں جلن پیدا ہوتی ہے اور آنکھیں کھولنا ممکن نہیں رہتا۔‘ ڈاکٹر آصف نے بتایا کہ ’اب آہستہ آہستہ مجھے فراسٹ بائٹ کا سامنا تھا جس کی وجہ سے میری ناک اور میرے ہاتھوں کی اُنگلیاں اور پاؤں متاثر ہونا شروع ہوئے، میں اپنے جسم کو گرم رکھنے کی کوشش میں تھا اور میرا مقابلہ نانگا پربت کی جما دینے والی تیز ٹھنڈی ہواؤں سے تھا۔‘ کوہ پیمائی کی دوران فراسٹ بائٹ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کی وجہ سے انسانی جلد اور اس کے نیچے موجود خون کی نالیاں منفی درجہ حرارت کی وجہ سے جمنا شروع ہو جاتی ہیں اور یہ عمل انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر آصف کے دونوں ہاتھوں کی اُنگلیاں، اُن کی ناک اور دونوں پاؤں فراسٹ بائٹ کی وجہ سے متاثر ہوئے۔ ڈاکٹر آصف کے مطابق جب اسرافیل اُن کے پاس کیمپ فور پر پہنچے تو وہ نانگا پربت سمٹ کرنے کے لیے پُر اُمید تھے اور مکمل فٹ تھے، مگر جس جگہ وہ لیٹے ہوئے تھے اُن سے کُچھ فاصلے پر ایک پولینڈ کے کوہ پیما کی خیمے میں وفات ہو چُکی تھی۔ مگر اسرافیل نے اُن کو یہ بات نہیں بتائی۔ ڈاکٹر آصف نے بی بی سی کو بتایا کہ ’گھر والوں کا خیال تو دل و دماغ میں تھا اور ہے بھی مگر کوہ پیمائی اُن کا صرف شوق نہیں بلکہ ایک جنون ہے اور یہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw0w69jdy39o", "summary": "سعود وہ پہلے پاکستانی بلے باز ہیں جنھوں نے سری لنکا میں ڈبل سنچری بنائی ہے۔ ان کے ٹیسٹ کریئر کا بہترین آغاز ہوا ہے اور وہ اب تک ہر ٹیسٹ میچ میں کم از کم ایک اننگز میں تو نصف سنچری یا اس سے زیادہ رنز سکور کر چکے ہیں۔ فی الحال ان کی بیٹنگ اوسط 98.5 کی ہے۔", "title": "سعود شکیل کی ڈبل سنچری: ’11 سالہ بلے باز کی دلیری دیکھ کر کہہ دیا تھا کہ یہ پاکستان کے لیے کھیلے گا‘", "firstPublished": "2023-07-18T14:50:23.926Z", "id": "cw0w69jdy39o", "article": "اس دوران کلب مینیجر اعظم خان نے ایک 11 سالہ بلے باز کو بیٹنگ کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ وہاں کھڑے اکثر کھلاڑیوں نے انھیں کہا کہ ایسا نہ کریں اسے گیند لگ سکتی ہے تاہم اس 11 سالہ لڑکے نے خاصی دلیری سے بیٹنگ کی، جس کے بعد اعظم خان نے وہاں کھڑے سرفراز احمد اور اسد شفیق سے کہا کہ دیکھنا یہ لڑکا ایک دن پاکستان کرکٹ ٹیم میں کھیلے گا۔ یہ 11 سالہ بلے باز سعود شکیل تھے جنھوں نے آج سری لنکا میں ریکارڈ توڑ ڈبل سنچری بنا کر پاکستان کو گال ٹیسٹ کے تیسرے روز ایک مستحکم پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔ گال ٹیسٹ میں سعود شکیل ایک ایسے موقع پر بیٹنگ کے لیے کریز پر آئے جب پاکستان کے صرف 76 رنز پر تین کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے اور جلد یہ سکور 101 پر پانچ کھلاڑیوں کے نقصان تک جا پہنچا تھا۔ سری لنکا کو پاکستان پر اب بھی 112 رنز کی برتری حاصل تھی اور آغا سلمان اس لائن اپ میں آخری مستند بلے باز تھے۔ سعود وہ پہلے پاکستانی بلے باز ہیں جنھوں نے سری لنکا میں ڈبل سنچری بنائی ہے۔ ان کے ٹیسٹ کریئر کا بہترین آغاز ہوا ہے اور وہ اب تک ہر ٹیسٹ میچ میں کم از کم ایک اننگز میں تو نصف سنچری یا اس سے زیادہ رنز سکور کر چکے ہیں۔ فی الحال ان کی بیٹنگ اوسط 98.5 کی ہے۔ ان کی اس اننگز کی بدولت پاکستان سری لنکا پر 149 رنز کی برتری لینے میں کامیاب ہوا اور تیسرے دن کے اختتام پر جب پاکستان کی ٹیم آل آؤٹ ہوئی تو پاکستان کا سکور 416 رنز تھا۔ سری لنکا میں بیٹنگ عموماً پاکستانی بلے بازوں کے لیے خاصی مشکل رہی ہے اور ماضی میں سری لنکن سپنرز متایا مرلی دھرن، رنگنا ہیرتھ اور اب جے سوریا پاکستانی بلے بازوں کی مشکلات میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔ سعود شکلیل نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی رنز کے انبار لگائے ہیں۔ 65 فرسٹ کلاس میچوں میں انھوں نے 16 سنچریوں اور 23 نصف سنچریوں کی مدد سے 4844 رنز بنائے ہیں۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں ان کا ٹاپ سکور 187 تھا۔ آج ان کی اننگز کی خاص بات یہ بھی تھی کہ انھوں نے دن کا زیادہ حصہ پاکستانی بولرز کے ساتھ بیٹنگ کرتے ہوئے گزارا اور پہلے نعمان علی اور پھر نسیم شاہ کے ساتھ بالترتیب 52 اور 94 رنز کی شراکت بنا کر اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان کو سری لنکا پر 149 رنز کی بھاری برتری حاصل ہو جائے۔ پاکستان کے لیے ٹیسٹ میچوں میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے سابق کپتان یونس خان نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ میں سعود شکیل کی اننگز سے خوب محظوظ ہوا۔ انھوں نے سویپ بھی مارے اور بہترین انداز میں بولرز کے ساتھ بیٹنگ کا فائدہ اٹھایا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cx7ypley9exo", "summary": "شاہین شاہ آفریدی گال ٹیسٹ کے پہلے روز اپنے دوسرے ہی اوور میں سری لنکن اوپنرکو آؤٹ کر کے ٹیسٹ میچوں میں 100ویں وکٹ حاصل کرنے والے 19ویں پاکستانی بالر بن گئے۔ انھوں نے میچ کے پہلے سیشن میں تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ ", "title": "گال ٹیسٹ: دھننجایا اور میتھیوز کی عمدہ شراکت، ’شاہین نے ممکن بنایا کہ پاکستان میچ میں ٹاپ پر رہے‘", "firstPublished": "2023-07-16T14:23:19.343Z", "id": "cx7ypley9exo", "article": "شاہین آفریدی نے 100ویں وکٹ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ میچ کے پہلے سیشن میں تین وکٹیں حاصل کیں ایک برس قبل جس میدان پر پاکستانی فاسٹ بولر شاہین آفریدی کو گھٹنے کی انجری کا سامنا کرنا پڑا تھا، آج وہیں انھوں نے اپنی 100ویں وکٹ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ میچ کے پہلے سیشن میں تین وکٹیں حاصل کر کے پاکستان کو گال ٹیسٹ کے پہلے دن بہترین آغاز فراہم کیا ہے۔ اپنے دوسرے ہی اوور میں انھوں نے اوپنر مدشکا کو آؤٹ کر کے اپنی 100ویں وکٹ حاصل کی۔ اور یوں وہ پاکستان کے لیے 100 وکٹیں حاصل کرنے والے 19ویں بولر بن گئے ہیں۔ سری لنکا کے شہر گال میں ہونے والے دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو پاکستانی فاسٹ بولر جوڑی شاہین آفریدی اور نسیم شاہ نے عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھانے کے وقفے سے پہلے کا سیشن پاکستان کے نام کیا۔ کھانے کے وقفے سے پہلے ہی سری لنکا کی چار وکٹیں گر چکی تھیں اور میزبان ٹیم دباؤ کا شکار ہو چکی تھی۔ آؤٹ ہونے والوں میں کپتان ڈیمتھ کرونارانتے بھی شامل تھے جنھوں نے 29 رنز بنائے۔ سری لنکن بلے بازوں نشان مادشکہ، دیمتھ کرونارتنے اور کوشل مینڈس تینوں شاہین شاہ آفریدی کا شکار بنے، جبکہ نسیم شاہ نے دنیش چندیمل کو آؤٹ کر کے اپنی اکلوتی وکٹ حاصل کی۔ پہلے سیشن کے آغاز پر ہی بارش کے باعث کھیل کچھ دیر کے لیے تعطل کا شکار ہوا تھا۔ تاہم دوسرے سیشن میں دھننجایا ڈی سلوا اور سینیئر بلے باز اینجلو میتھیوز کی جوڑی نے 131 رنز کی شراکت بنا کر مشکلات کا شکار سری لنکن ٹیم کو سنبھالا۔ گذشتہ سال اتفاق سے سری لنکا کے خلاف جولائی میں ہی ہونے والے ٹیسٹ میچ کے دوران شاہین شاہ آفریدی کو گال کرکٹ گراؤنڈ میں گھٹنے کی انجری ہوئی تھی۔ اس کے بعد انھوں نے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ تو کھیلی ہے لیکن اب جا کر انھیں ٹیسٹ میچوں میں دوبارہ کھیلنے کا موقع ملا ہے اور آج واپس آتے ہی انھوں نے تین وکٹیں حاصل کی ہیں۔ صحافی ارفع فیروز ذکی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’فاسٹ بولرز کے لیے گال کی تازہ پچ پر پہلے دو سیشنز بہت اہم ہیں۔ نسیم شاہ اور شاہین آفریدی نے ان تازہ کنڈیشنز کا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ سری لنکن بلے باز گال گراؤنڈ کی لینتھ اور باؤنس کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے۔‘ بہرام قاضی لکھتے ہیں کہ سیریز کے ابتدائی سیشن میں شاہین اور نسیم نے چار وکٹیں لیں، شاہین کے پاس 102 ٹیسٹ وکٹس ہیں۔ پاکستان کی پسندیدہ تیز رفتار بولنگ جوڑی نے سری لنکا کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c98pj328xlxo", "summary": "آج کل نائجیریا میں عوام پر نت نئے اور انوکھے گنیز ورلڈ ریکارڈ بنانے کا جنون سوار ہے۔ اور وہاں اتنے جلدی اور تیزی نے نت نئے اور انوکھے ورلڈ ریکارڈز بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ ان کا حساب رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ اور اسی مشکل کا سامنا گینیز ورلڈ ریکارڈ کے ادارے کو بھی ہے۔\n", "title": "عالمی ریکارڈ بنانے کے بخار میں مبتلا ملک جس کے سامنے گنیز ورلڈ ریکارڈ نے بھی ہاتھ جوڑ لیے", "firstPublished": "2023-07-16T08:49:40.117Z", "id": "c98pj328xlxo", "article": "آج کل نائجیریا میں عوام پر نت نئے اور انوکھے گنیز ورلڈ ریکارڈ بنانے کا جنون سوار ہے اور وہاں اتنے جلدی اور تیزی سے نت نئے اور انوکھے ورلڈ ریکارڈز بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ ان کا حساب رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ اسی مشکل کا سامنا گینیز ورلڈ ریکارڈ کے ادارے کو بھی ہے۔ نائجیریا میں حال ہی میں ورلڈ ریکارڈ بنانے کی کوششوں کا جائزہ لیں تو آپ وہاں ورلڈ ریکارڈ بنانے کی کوششوں کے بارے میں جان کر حیران رہ جائیں گے، جیسا کہ مثال کے طور پر ایک شخص نے لگاتار دو سو گھنٹوں تک گانا گایا۔ انھوں نے سو گھنٹوں تک مسلسل کھانا پکایا تھا لیکن گنیز ورلڈ ریکارڈ نے باضابطہ طور پر ان کے کھانا پکانے کے کل وقت کو 93 گھنٹے اور 11 منٹ تسلیم کیا اور یہ وقت بھی عالمی ریکارڈ بنانے کے لیے بہت تھا۔ حتیٰ کہ عالمی ریکارڈ کو درج کرنے والے ادارے گینیز ورلڈ ریکارڈ کو بھی ان تمام کوششوں کا حساب رکھنے اور انھیں پرکھنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ تاہم اب ریکارڈ بنانے کی اس کوشش کو ملتوی کر دیا گیا ہے لیکن اس خاتون کا کہنا ہے کہ ان کی 50 گھنٹے تک مالش کرنے کا وقت بھی عالمی ریکارڈ کے لیے بہت ہے۔ اگرچہ انھوں نے اس کے لیے گینیز ورلڈ ریکارڈ کو کوئی باضابطہ درخواست نہیں دی تھی۔ یہ وہ ہی رحجان ہے جہاں نائجیریا میں لوگ ورلڈ ریکارڈ بنانے کی اپنی نت نئی کوششوں کا اعلان خود سے ہی کر رہے ہیں اور وہ اس کے لیے نہ تو عالمی ریکارڈ کا اندراج کرنے والی تنظیم کو درخواست دے رہے ہیں اور نہ ہی ان کے ضوابط پر عمل کر رہے ہیں۔ گینیز ورلڈ ریکارڈ تنظیم کے نمائندے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کسی بھی قسم کی مایوسی یا ناکامی سے بچنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ جس چیز پر ورلڈ ریکارڈ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ ادارے کی فہرست میں موجود بھی ہے اور آپ اس کے قوانین اور ضوابط کر عمل کرتے ہوئے یہ کام کر رہے ہیں۔‘ اسی طرح گذشتہ سات روز سے مسلسل رونے والے شخص کو بھی صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اس دوران سر میں شدید دردہے، ان کا منھ سوج گیا ہے، ان کی آنکھیں سوجی ہوئی ہیں اور وہ اس دورن 45 منٹ کے لیے اندھے ہو گئے تھے۔ جیسا کہ شیف باکی کو نائجیریا کی ایک ایئر لائن کی طرف سے ایک سال کا مفت سفر کرنے کا انعام دیا گیا ہے، اس کے علاوہ شیف ڈیمی کو نقد تحائف بھی ملے ہیں جبکہ دوسروں نے اپنی کوششوں کے دوران سرِعام عطیات کی درخواست کی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51dxgkl0x6o", "summary": "اپنی تاریخ میں پہلی بار ومبلڈن میں ٹینِس کے مقابلوں کے دوران انتظامیہ نے اپنے ڈریس کوڈ میں نرمی کی ہے۔ یہ قواعد اتنے سخت کیوں ہیں؟ ایلی وائلٹ براملی اس موضوع پر ایک نظر ڈالتی ہیں۔", "title": "ومبلڈن: ٹینِس میں لباس کے سخت قواعد کا 146 برس پرانا تنازع", "firstPublished": "2023-07-14T12:54:32.908Z", "id": "c51dxgkl0x6o", "article": "اپنی تاریخ میں پہلی بار ومبلڈن میں ٹینِس کے مقابلوں کے دوران انتظامیہ نے اپنے ڈریس کوڈ میں نرمی کی ہے۔ یہ قواعد اتنے سخت کیوں ہیں؟ ایلی وائلٹ براملی اس موضوع پر ایک نظر ڈالتی ہیں۔ 146 سال میں پہلی بار ومبلڈن نے خواتین کے لباس میں تبدیلی کی ہے لیکن اس تبدیلی کے ومبلڈن میں ہونے کی وجہ سے، اسے انقلابی تبدیلی کے بجائے ایک ارتقائی تبدیلی سمجھا جائے گا۔ کھلاڑیوں کو اب گہرے رنگ کے انڈر شارٹس پہننے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کا بہت سے کھلاڑیوں نے خیر مقدم کیا ہے۔ جیسا کہ امریکہ کی کوری گاف نے گذشتہ ہفتے سکائی نیوز کو بتایا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے یہ یقینی طور پر میرے اور لاکر روم میں موجود دیگر لڑکیوں کے لیے بہت زیادہ تناؤ کو دور کرے گا۔‘ برطانیہ میں ٹینس کی سماجی تاریخ کے مصنف رابرٹ لیک نے بی بی سی کلچر کو بتایا کہ سب سے سفید لباس کا کوڈ ہمیشہ سے ہے۔ ’سفید رنگ پسینہ سب سے بہتر انداز میں چھپاتا ہے، صاف، تیز اور صاف نظر آتا ہے، اچھائی کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کی کرکٹ سے جڑی تاریخ کو دیکھتے ہوئے، تاریخی طور پر اعلیٰ متوسط طبقے کے مسرت کے لمحوں کی بھی عکاسی کرتا ہے۔‘ یہ ان کی زندگی کا پہلا گرینڈ سلیم میچ تھا۔ اس لباس کی وجہ سے اُس پر مستقبل کے ٹورنامنٹس میں اِسے پہننے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ جیسا کہ ایک مبصر نے اس وقت لکھا تھا: ’یہ حقیقت میں خواتین کے جسموں پر پابندی ہے اور خاص طور پر، یہ اسی طرح ہے جس طرح سے سیاہ فام خواتین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔‘ ’کیونکہ ومبلڈن اپنے امریکی یا فرانسیسی ہم منصبوں کے مقابلے میں ہمیشہ سے زیادہ روایتی اور قدامت پسند ٹورنامنٹ رہا ہے، یہ ایک ایسا میدان بن گیا ہے جس میں انفرادیت کے چھوٹے سے چھوٹے اظہار پر بہت زور دیا جاتا ہے۔‘ تاہم بوورز کے مطابق جس چیز کی تعریف نہیں کی جاتی وہ یہ ہے کہ ’80 کی دہائی سے ومبلڈن میں مردوں اور خواتین دونوں پر عائد پابندیاں بہت زیادہ سخت ہو گئیں۔‘ بوورز کا خیال ہے کہ یہ ’ومبلڈن اپنے برانڈ کے بارے میں بہت فکر مند ہے۔۔۔ ومبلڈن کے لیے اس بات پر اصرار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ آپ کو رائل باکس میں جیکٹ اور ٹائی پہننی ہوگی، لیکن وہ ایسا کرتے ہیں۔‘ ایلین بینیٹ 1934 میں وہ پہلی خاتون کھلاڑی تھیں جنھوں نے شارٹس پہن کر ٹینس کھیلا اور اس سے ابتدائی طور پر ومبلڈن میں ٹینس کے شائقین کو ’صدمہ‘ پہنچا۔ وہ لوگ جو ماضی میں ومبلڈن کے سخت ڈریس کوڈ کی وجہ سے مشکل میں آئے، وہ اس نئی پیشرفت کو کیسے دیکھتے ہیں؟"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy7yjw8x815o", "summary": "’میجر لیگ کرکٹ‘ نامی اس امریکی ٹی ٹوئنٹی لیگ کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں کئی سابق پاکستانی کرکٹرز بطور امریکی ڈومیسٹک کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں۔", "title": "میجر لیگ کرکٹ کیا ہے جس کے لیے پاکستان کے بہترین کرکٹرز ’امریکہ آنا چاہتے ہیں‘", "firstPublished": "2023-07-13T00:46:00.347Z", "id": "cy7yjw8x815o", "article": "امریکہ میں پہلی بار ایک بڑی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ لیگ 13 جولائی سے شروع ہونے جا رہی ہے جس کی چھ فرنچائزز میں کئی ملکوں کے کھلاڑی شامل ہیں۔ میجر لیگ کرکٹ (ایم ایل سی) نامی اس امریکی لیگ کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں وہ کرکٹرز بھی شامل ہیں جو ماضی میں اپنے ملکوں کی نمائندگی کرنے کے بعد اب بطور امریکی ڈومیسٹک کھلاڑی کھیلیں گے۔ ان ٹیموں کے سکواڈز میں آپ کو ایسے کئی نام نظر آئیں گے جو پہلے پاکستان کے لیے کھیل چکے ہیں مگر اب امریکہ میں مقیم ہیں اور بطور امریکی ڈومیسٹک کھلاڑی اپنے کیریئرز کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔ جیسے احسان عادل، حماد اظہر، سمیع اسلم، مختار احمد وغیرہ۔ انھوں نے کرکٹ پاکستان کو دیے ایک انٹرویو میں بتایا کہ امریکہ آنے کے لیے ان سے کئی پاکستانی کرکٹرز نے رابطہ کیا ہے جو کہ ’پاکستانی کرکٹ کی ناکامی‘ ہے۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ حال ہی میں ’20 سے 30 پاکستانی ڈومیسٹک کرکٹر نے واشنگٹن میں ایک ٹورنامنٹ میں حصہ لیا۔ ایک ہفتے کے ٹورنامنٹ میں بندہ اتنے پسے کما لیتا ہے جتنے فور ڈے کے تین سے چار ماہ کے سیزن میں کماتا ہے۔‘ مگر اب امریکہ ویسٹ انڈیز کے ساتھ 2024 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی میزبانی کر رہا ہے اور اس میں امریکی ٹیم بھی حصہ لے گی۔ اسی تناظر میں سمیر مہتا اور وجے سرینواسن نے جنوری 2019 میں میجر لیگ کرکٹ کی بنیاد رکھی جو کہ شمالی امریکہ کے سب سے بڑے کرکٹ براڈکاسٹر ویلو ٹی وی کے بھی بانی ہیں۔ میجر لیگ کرکٹ کی چھ میں سے چار ٹیموں کی مالک آئی پی ایل کی فرنچائزز ہیں۔ اس میں شاداب خان، حارث رؤف اور عماد وسیم جیسے پاکستانی کرکٹرز بھی حصہ لے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب 2024 کے دوران امریکہ میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہو رہا ہوگا تو یہ یقینی بنایا جائے گا کہ امریکہ باقی دنیا کو کڑا مقابلہ دے۔ میجر لیگ کرکٹ نے کہا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے ایڈیشنز کے لیے انگلینڈ کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ معاہدے کرنا چاہتے ہیں۔ مگر اس لیگ کے بانیوں کا کہنا ہے کہ اسے انگلش کرکٹ کے لیے کوئی خطرہ سمجھنا ’تنگ نظری‘ ہوگی۔ اس لیگ میں لیئم پلنکٹ اور جیسن رائے جیسے انگلش کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں۔ 32 سال کے رائے نے اس سے قبل انگلینڈ کے لیے کھیلنے کو اپنی ترجیح کہا تھا۔ مگر مختلف کرکٹ لیگز کی جانب سے انھیں پیشکش کی گئی جس نے انھیں اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کیا۔ یہ لیگ انگلش کرکٹ سیزن کے وقت پر منعقد ہو رہی ہے اور اسے اب انگلش ٹیم اور کاؤنٹی کرکٹ کے لیے خطرہ بھی سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم سرینواسن نے اس کی تردید کی ہے کہ میجر لیگ کرکٹ کسی ملک میں اس کھیل کے لیے کوئی خطرہ ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gexknlylyo", "summary": "'گنگولی جانتے ہیں کہ کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ کو کیسے پہچانا جائے، کس طرح ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، کس طرح ان کی حمایت کی جائے اور انھیں آزادی دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ گنگولی ایک کامیاب کپتان ثابت ہوئے۔'", "title": "میچ فکسنگ کے الزامات سے انڈین کرکٹ کو بام عروج پر پہنچانے والے ’گاڈ آف دی آف سائیڈ‘ سورو گنگولی ", "firstPublished": "2023-07-08T10:18:10.022Z", "id": "c3gexknlylyo", "article": "’گنگولی جانتے ہیں کہ کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ کو کیسے پہچانا جائے، کس طرح ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، کس طرح ان کی حمایت کی جائے اور انھیں آزادی دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ گنگولی ایک کامیاب کپتان ثابت ہوئے۔‘ اگر گنگولی نامی شخص انڈین ٹیم کی کپتانی نہ کرتا تو انڈین ٹیم 2000 کے کرکٹ بیٹنگ سکینڈل کے بعد اپنی چمک کھو بیٹھتی۔ یہ کہنا کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ کپتان گنگولی وہ شخص ہیں جنھوں نے انڈین کرکٹ کو از سر نو تعمیر کیا، اسے عروج پر پہنچایا، نوجوانوں کو پروان چڑھایا اور ٹیم میں نیا خون بھرا۔ گنگولی نے سہواگ کے لیے اپنی جگہ چھوڑ دی تھی۔ سہواگ کے لیے ان کا فیصلہ ایک بڑا اور فیصلہ تھا کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب سچن-گنگولی کی اوپننگ شراکت بین الاقوامی سطح پر شاندار کارنامے انجام دے رہی تھی، گنگولی نے ٹیم کے مفاد میں اپنی پوزیشن چھوڑ دی اور تین نمبر پر بیٹنگ کے لیے آئے۔ ایک انٹرویو میں سہواگ نے فخریہ انداز میں گنگولی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ گنگولی ہی تھے جنھوں نے بیرونی دنیا کو ثابت کیا کہ دھونی میں بلے بازی کی صلاحیت ناقابل تردید ہے۔ لیکن آسٹریلیا کے خلاف فائنل میں ان کی ٹیم بری طرح سے ہار گئی۔ سنہ 1983 کے تقریباً 20 سال بعد انڈین ٹیم گنگولی کی قیادت میں ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچی تھی۔ اس سیریز میں کپتان اور بلے باز کے طور پر چمکنے والے گنگولی نے تین سنچریوں کے ساتھ 465 رنز بنائے۔ کئی سابق کھلاڑیوں نے انڈین ٹیم کے کوچ کے طور پر گریگ چیپل کے دور کو ایک سیاہ دور قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کی ہے۔ خاص طور پر چیپل اور گنگولی کے درمیان تنازع کا گنگولی کی بیٹنگ پر برا اثر پڑا۔ گنگولی کے بارے میں بی سی سی آئی کو چیپل کی ای میل اور اس میں لگائے گئے الزامات نے گنگولی کے لیے بڑی پریشانی کا باعث بنی۔ جنوبی افریقہ کی ٹیسٹ سیریز میں ان کی فطری شکل سامنے آنے کے بعد انھیں ون ڈے سیریز اور پھر 2007 کی ورلڈ کپ سیریز میں شامل کیا گیا۔ 2007 میں پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں گنگولی کی ڈبل سنچری نے کولکتہ ٹائیگرز کو فارم میں واپس لا دیا تھا اور شائقین پرجوش تھے۔ سورو گنگولی نے انڈین ٹیم کے لیے 311 ون ڈے کھیلے اور 11,363 رنز بنائے جن میں 32 سنچریاں اور 72 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ گنگولی نے 113 ٹیسٹ میچوں میں 7,212 رنز بنائے ہیں جن میں 16 سنچریاں اور 32 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گنگولی جو کہ ایک میڈیم تیز گیند باز بھی رہے ہیں، انھوں نے بھی بین الاقوامی میچوں میں 100 وکٹیں حاصل کی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51jyp21457o", "summary": "آج دھونی 42 برس کے تو ہو چکے ہیں لیکن ان کے مداح آج بھی انھیں آئی پی ایل کھیلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ انڈین ٹیم کے سب سے کامیاب ترین کپتان رہ چکے ہیں جن کی قیادت میں انڈیا نے چیمیئنز ٹرافی، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور ون ڈے ورلڈ کپ جیت رکھا ہے۔ ", "title": "دھونی: وہ ’جادوگر‘ جو نظرانداز کھلاڑیوں کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے", "firstPublished": "2023-07-07T10:09:49.729Z", "id": "c51jyp21457o", "article": "شاہد آفریدی کی جانب سے اس دوران یہ بیان سامنے آیا تھا کہ ٹیم کے کپتان وی وی ایس لکشمن کی کپتانی اچھی نہیں تھی۔ دکن چارجرز نے ٹورنامنٹ کے درمیان ہی کپتان کو تبدیل کیا اور پھر اگلے برس اینڈریو گلکرسٹ کی قیادت میں ٹرافی جیتی۔ دھونی نے پچھلے ٹورنامنٹ کے آخری حصے میں دوبارہ کپتانی سنبھالی، لیکن اس وقت تک وقت گزر چکا تھا۔ لیگ راؤنڈ میں چنئی کی ٹیم 9ویں نمبر پر رہی۔ یہ آئی پی ایل تاریخ کا دوسرا ٹورنامنٹ تھا جس میں چنئی کی ٹیم پلے آف تک نہیں پہنچ پائی تھی۔ لگ بھگ ان ہی کھلاڑیوں پر مشتمل چنئی سپر کنگز کی ٹیم موجودہ ٹورنامنٹ میں بھی میدان میں اتری۔ ٹیم میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی گئی اور پھر دھونی نے اس ٹیم کو برقرار رکھتے ہوئے ٹرافی جیت لی۔ دھونی جنھوں نے رویندرا جڈیجا کی جگہ کپتانی سنبھالی اسی ٹیم اور کھلاڑیوں کو برقرار رکھتے ہوئے، اپنے معمول کے منفرد انداز کے ساتھ ٹیم کو فتح سے ہمکنار کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس می کوئی شک نہیں ہے کہ آئی پی ایل میں گدھونی کی کپتانی ہی چنئی سپر کنگز کو ٹورنامنٹ میں دیگر ٹیموں سے الگ کرتی ہے۔ دھونی کی کپتانی عام کھلاڑیوں کو بھی میچ ونر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر ہم ممبئی انڈینز کو دیکھیں تو یہ بھی ایک ایسی آئی پی ایل ٹیم ہے جو اس ٹورنامنٹ میں خاصی کامیاب نظر آتی ہے۔ دھونی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کھلاڑیوں کی خوبیوں اور کمزوریوں کو جانتے ہیں اور اسی کے مطابق ان کا استعمال کرتے ہیں۔ دھونی نے اپنی شاندار فیلڈنگ حکمت عملی سے چنئی کی بولنگ کی کمزوریوں کو دور کیا ہے۔ یہی چیز چنئی سپر کنگز کے بولنگ یونٹ کو خطرناک بناتی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں کپتان دھونی باقیوں سے الگ ہیں۔ گذشتہ آئی پی ایل ٹورنامنٹ میں کچھ کھلاڑیوں کی عدم موجودگی کے باعث چنئی کی ٹیم کے پاس ڈیتھ اوورز کرنے کے لیے تیز گیند بازموجود نہیں تھے۔ یہاں دھونی نے اپنے تجربے اور ذہانت کا مظاہرہ کیا اور ایک نوجوان بولر پتھیرانا کو موقع دیا اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے یہ بولر جنھیں ’چھوٹا ملنگا‘ بھی کہا جاتا ہے ٹورنامنٹ میں چھا گئے۔ آج دھونی 42 برس کے تو ہو چکے ہیں لیکن ان کے مداح آج بھی انھیں آئی پی ایل کھیلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ انڈین ٹیم کے سب سے کامیاب ترین کپتان رہ چکے ہیں جن کی قیادت میں انڈیا نے چیمیئنز ٹرافی، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور ون ڈے ورلڈ کپ جیت رکھا ہے۔ حالیہ آئی پی ایل میں دھونی دنیا کی سب سے بڑی ٹی 20 لیگ آئی پی ایل میں اپنی ٹیم چنئی سپر کنگز کی کپتانی کرتے ہوئے پانچویں مرتبہ ٹائٹل جیت چکے ہیں اور اب ایک انجری کے باعث آپریشن بھی کروا چکے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cll040jn55ro", "summary": "نانگا پربت پر پھنسے پاکستانی کوہ پیما ڈاکٹر آصف بھٹی کو نیچے لانے کے لیے فضائی ریسکیو آپریشن موسم کی خرابی کی وجہ سے شروع نہیں ہو سکا ہے تاہم ڈاکٹر بھٹی نے ساتھی کوہ پیماؤں کی مدد سے نے کیمپ ٹو سے نیچے کا سفر شروع کر دیا ہے۔", "title": "نانگا پربت پر پھنسے پاکستانی کوہ پیما آصف بھٹی تینوں کوہ پیماوں کی مدد سے بیس کیمپ پہنچ گئے", "firstPublished": "2023-07-04T01:11:29.044Z", "id": "cll040jn55ro", "article": "خونی پہاڑ کے نام سے معروف نانگا پربت پر پھنسے پاکستانی کوہ پیما ڈاکٹر آصف بھٹی اوران کے مددگار تینوں کوہ پیما بیس کیمپ پہنچ گئے ہیں۔ اس سے قبل جب پاکستانی کوہ پیما ڈاکٹر آصف بھٹی کو نیچے لانے کے لیے فضائی ریسکیو آپریشن موسم کی خرابی کی وجہ سے شروع نہیں ہو سکا تھا تو ڈاکٹر بھٹی نے ساتھی کوہ پیماؤں کی مدد سے نے کیمپ ٹو سے نیچے کا سفر شروع کر دیا تھا۔ ڈاکٹر آصف کے دوست اور امدادی کارروائی کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر سعید بادشاہ نے بتایا تھا کہ پاکستانی کوہ پیما اور ان کے ساتھی انتہائی سست روی سے نیچے اتر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر آصف بھٹی نانگا پربت کے کیمپ فور میں سات ہزار میٹر سے زیادہ بلندی سنو بلائنڈنیس کا شکار ہو کر پھنس گئے تھے اور منگل کی صبح انھوں نے آذربائیجان کے کوہ پیما اسرافیل عشورلی کی مدد سے نیچے کا سفر شروع کیا تھا۔ ڈاکٹر سعید نے جمعرات کو اس سے قبل بی بی سی کو بتایا تھا کہ عسکری ایوی ایشن کا ہیلی کاپٹر صبح سے الرٹ ہے مگر ابھی تک موسم نے اجازت نہیں دی کہ وہ پرواز کر سکے۔ ان کے مطابق اس بات کا انتظار کیا جارہا ہے کہ موسم کچھ بہتر ہو تو فضائی آپریشن شروع کیا جا سکے۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ نانگا پربت پر خراب موسم کی وجہ سے آصف بھٹی اور ان کی مدد کرنے والے تین کوہ پیما وہاں رکنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے اسی لیے انھوں نے کیمپ ٹو سے نیچے کا سفر شروع کر دیا ہے جو انتہائی سست رفتار سے جاری ہے۔ آصف بھٹی نے بدھ کو آذربائیجان کے کوہ پیما اسرافیل عشورلی کی مدد سے کیمپ تھری سے نیچے اترنا شروع کیا تھا جبکہ ان کی مدد کے لیے بیس کیمپ سے دو پاکستانی کوہ پیما یونس اور فضل کیمپ ٹو کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ یہ چاروں افراد بدھ کو شام گئے کیمپ ٹو پہنچے تھے۔ سعید بادشاہ کے مطابق 'دونوں پاکستانی کوہ پیما بدھ کی شام پانچ بجے کیمپ ٹو میں پہنچ گئے تھے۔ جن میں سے ایک ڈاکٹر آصف بھٹی اور اسرافیل کو ملنے کے لیے کیمپ ٹو سے اوپر روانہ ہوئے جبکہ دوسرے وہاں پر کھانے پینے اور رہائش کا انتظام کرتے رہے۔' الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری کرار حیدری کے مطابق ’آصف بھٹی کو نیچے اترنے میں قدم قدم پر مدد اور سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ مدد اور سہارا اسرافیل فراہم کر رہے ہیں، جس کی بدولت ڈاکٹر آصف بھٹی کسی حد تک خطرے سے باہر نکلے ہیں۔‘ ڈاکٹر آصف بھٹی کو مدد فراہم کرنے والے آذربائیجان کے 45 سالہ کوہ پیما اسرافیل نے آٹھ ہزار میٹر سے بلند چھ چوٹیاں سر کی ہوئی ہیں۔ وہ نانگا پربت سر کرنے کے بعد واپسی کے سفر پر تھے کہ کیمپ فور میں انھوں نے ڈاکٹر آصف بھٹی کی مدد کا فیصلہ کیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cj7rdkpndvxo", "summary": "پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے حوالے سے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ سرفراز احمد ان کی پہلی چوائس ہیں لیکن ’اس حوالے سے پہلے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘", "title": "سرفراز یا محمد رضوان: بابر اعظم کی پہلی چوائس کون؟", "firstPublished": "2023-07-06T15:09:23.377Z", "id": "cj7rdkpndvxo", "article": "پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں جب سے محمد رضوان نے بطور وکٹ کیپر بیٹسمین اچھی کارکردگی دکھا کر اپنی جگہ بنائی، تب سے ہی سرفراز احمد کی ٹیم میں واپسی کا سوال ہر اس موقع پر اٹھتا ہے جب کوئی ٹیسٹ سیریز آتی ہے۔ نیشنل سٹیڈیم کراچی میں ہونے والی پریس کانفرنس میں مختلف سوالات کے جواب کے دوران بابر اعظم سے پوچھا گیا کہ رضوان اور سرفراز کے درمیان ان کی پہلی چوائس کیا ہو گی اور کیا وہ سرفراز کو ایک بیٹسمین کے طور پر لیں گے؟ سنہ 2019 میں سرفراز احمد کی جگہ پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی پہلے اظہرعلی اور پھر بابر اعظم کو سونپی گئی تھی جس کے بعد سے وہ بطور ریزرو یا متبادل کیپر ٹیم کے ساتھ موجود رہے۔ گذشتہ سال بھی انھوں نے آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں ایک سنچری بنائی لیکن پھر سری لنکا اور انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں وہ کم سکور پر آؤٹ ہوتے رہے جس کے باعث ان کی جگہ سرفراز کو ٹیم میں جگہ دینے کے بارے میں بحث شروع ہو گئی تھی۔ اس موقع پر سرفراز نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے اللہ سے موقع مانگا تھا اور وہ مجھے مل گیا۔ میں پہلے ٹیسٹ میں بہت دباؤ میں تھا لیکن لڑکوں اور کپتان نے مجھے اعتماد دیا۔‘ یہ سوال جب پریس کانفرنس میں بابر اعظم سے کیا گیا تو بابر اعظم نے جواب میں کہا کہ ’ضروری نہیں ہوتا کہ نائب کپتان اگر موجود ہو اور وہ نہ کھیلے تو کوئی فرق نہیں ہوتا۔‘ پاکستانی ٹیم کے کپتان کی جانب سے تو واضح کر دیا گیا کہ ان کی پہلی چوائس سرفراز ہیں تاہم کرکٹ فینز سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ سپورٹس جرنلسٹ شاہزیب علی نے لکھا کہ ’کرکٹر سرفراز احمد اور محمد رضوان دونوں پاکستان کے لیے بہت اہم ہیں لیکن یہاں فی الحال اس سچ کو قبول کرنے کی کچھ ہمت پیدا کر لینی چاہیے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے لیے پہلی ترجیح سرفراز ہیں۔‘ تاہم شان مسعود کو جنوری میں تین میچوں کی ون ڈے سیریز کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا اور بابر اعظم کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ ’ہم کسی انفرادی کھلاڑی کے بارے میں بات نہیں کر سکتے چاہے وہ نائب کپتان ہو یا کوئی اور ۔۔۔ ہم نے اپنی بہترین پلیئنگ الیون کھلانی ہے اور سیریز جیتنے کی کوشش کرنی ہے۔‘ تاہم شان مسعود کو جنوری میں تین میچوں کی ون ڈے سیریز کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا اور بابر اعظم کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ ہم کسی انفرادی کھلاڑی کے بارے میں بات نہیں کر سکتے چاہے وہ نائب کپتان ہو یا کوئی اور ۔۔۔ ہم نے اپنی بہترین پلیئنگ الیون کھلانی ہے اور سیریز جیتنے کی کوشش کرنی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2r21jd8z1o", "summary": " انتیس سالہ انڈین ایتھلیٹ انکیتا شریواستو نے اٹھارہ برس کی عمر میں اپنی ماں کی جان بچانے کے لیے اپنے جِگر کا 74 فیصد حصہ انھیں دینے کے بعد سپورٹس جیسے مشکل راستے کا انتخاب کیا اور غیر معمولی مقام بھی حاصل کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کئی سٹارٹ اپ کمپنیوں کی مالک بھی ہیں", "title": "ماں کی جان بچانے کے لیے جگر عطیہ کرنے سے ایتھلیٹ بننے تک کا سفر: ’زیادہ ہلنے سے میرا جِگر اوپر نیچے ہوتا تھا‘", "firstPublished": "2023-07-06T03:56:14.079Z", "id": "cv2r21jd8z1o", "article": "یہ الفاظ 29 سالہ انڈین ایتھلیٹ انکیتا شریواستو کے ہیں، جنھوں نے اٹھارہ برس کی عمر میں اپنی ماں کی جان بچانے کے لیے اپنے جِگر کا 74 فیصد حصہ انھیں دینے کے بعد سپورٹس جیسے مشکل راستے کا انتخاب کیا اور غیر معمولی مقام بھی حاصل کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کئی سٹارٹ اپ کمپنیوں کی مالک بھی ہیں لیکن یہ سب کچھ کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ انکیتا کے بقول انھیں جب بتایا گیا کہ ان کا جگر ان کی والدہ سے میچ ہو گیا ہے تو انھوں نے یہ فیصلہ کرنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگایا کہ وہ اپنی والدہ کو اپنا جگر دیں گی لیکن اس وقت ان کی عمر کم ہونے کی وجہ سے ان کے اٹھارہ برس کے ہونے تک انتظار کیا گیا۔ ٹرانسپلانٹ کے بعد جب انکیتا کو ہوش آیا تو ان کے پورے جسم سے مختلف آلات کے تار لپٹے ہوئے تھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے ہاتھ سے مورفین کے انجکشن کی ایک نلی جڑی ہوئی تھی۔ جیسے ہی انھیں تھوڑا ہوش آتا، تو درد سے تڑپ جاتیں۔ ایسے میں نرس اس دوا کی ایک ڈوز ریلیز کر دیتی۔ کئی روز ایسے ہی چلتا رہا۔ انکیتا ٹرانسپلانٹ سے قبل انڈیا میں سوئمنگ اور فٹبال کی نیشنل لیول کھلاڑی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ دوبارہ کبھی سپورٹس میں حصہ لے سکیں گی لیکن تمام ذہنی اور جسمانی مشکلات کے باوجود ایک کھلاڑی ہونے کے جذبے نے انھیں ہارنے نہیں دیا۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ میری ماں کے پاس ایک سیاہ رنگ کی ڈائری ہوا کرتی تھی جس میں انھوں نے بہت سی باتوں کا ذکر کیا تھا۔ جیسے ’میری بہن کی شادی کرنی ہے، کون کون لوگ مہمان ہوں گے، آفس میں کیا کیا کرنا ہے، کس کس سے میٹنگ کرنی ہے، وغیرہ‘ لیکن وہ سب کچھ ایک جھٹکے میں ختم ہو گیا اور وہ ڈائری رہ گئی۔ انکیتا کہتی ہیں کہ اگر اپنی ماں کی جان بچانے کے لیے انھیں دوبارہ جگر عطیہ کرنا پڑتا تو وہ دوبارہ بھی ضرور کرتیں حالانکہ ٹرانسپلانٹ کے باوجود وہ اپنی والدہ کی جان نہیں بچا سکیں لیکن انھیں اس فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں۔ وہ ابھی زندگی میں بہت کچھ اور بھی کرنا چاہتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’اگر میں کاروبار کر رہی ہوں تو کیا کھیل نہیں سکتی؟ یا کھیل کے ساتھ کیا اپنی ماں کی جان نہیں بچا سکتی؟ میں کرنا چاہوں تو سب کچھ کر سکتی ہوں۔ میری زندگی کا یہی فلسفہ ہے اور میں امید کرتی ہوں کچھ لوگ میرے اس خیال سے متاثر ضرور ہوں گے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cml1lnykw9ko", "summary": "سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ انڈین ٹیم کوہلی کو اس قابل کر سکتی ہے جس طرح سچن تندولکر نے اپنے چھٹے اور آخری ورلڈ کپ میں ٹرافی اٹھائی تھی؟", "title": "کیا روہت شرما وراٹ کوہلی کو ورلڈ کپ تحفے میں دے پائیں گے؟", "firstPublished": "2023-07-05T07:56:08.638Z", "id": "cml1lnykw9ko", "article": "جو نوجوان کھلاڑی اس یادگار فتح کے بعد اپنے ہاتھوں میں انڈین جھنڈا اور کندھوں پر تندولکر کو لے کر میدان کے چکر لگا رہے تھے وہ کوئی اور نہیں بلکہ وراٹ کوہلی تھے۔ اس سب کے بعد جب کمنٹیٹر ناصر حسین نے اُن سے اِس بارے میں پوچھا تو وراٹ نے جواب دیا کہ ’کئی دہائیوں سے سچن کروڑوں انڈین شائقین کی امیدوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے، آج انھیں انڈین کرکٹ میں ان کی خدمات پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔‘ اب وقت بدل گیا ہے اور ٹھیک 12 برس بعد وراٹ کوہلی خود اپنے کریئر کے اس مرحلے پر کھڑے ہیں جہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سال انڈین میں کھیلا جانے والا ون ڈے ورلڈ کپ ان کا آخری ورلڈ کپ ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ انڈین ٹیم کوہلی کو وہ تحفہ دے سکتی ہے جو سچن تندولکر کو ان کے چھٹے اور آخری ورلڈ کپ میں ٹرافی کی صورت میں ملا تھا۔ سابق انڈین اوپنر وریندر سہواگ نے ایک حالیہ تقریب میں کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ موجودہ ٹیم بھی وہی جذبہ دکھائے جس طرح 2011 کی ٹیم نے سچن کے لیے ورلڈ کپ کھیلا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم نے وہ ورلڈ کپ تندولکر کے لیے کھیلا تھا۔ اگر ہم ورلڈ کپ جیت جاتے تو یہ سچن کے لیے کریئر کا شاندار اختتام ہوتا۔ وراٹ کوہلی اب اس مقام پر ہیں، انڈین ٹیم کا ہر کھلاڑی ان کے لیے ورلڈ کپ جیتنا چاہے گا۔‘ سہواگ نے کہا کہ ’کوہلی خود ہمیشہ سو فیصد سے زیادہ دیتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وراٹ کوہلی کی بھی اس ورلڈ کپ پر نظر ہے۔ احمد آباد کے نریندر مودی سٹیڈیم میں تقریباً ایک لاکھ افراد آپ کو کھیلتے ہوئے دیکھنے آئیں گے، وراٹ جانتے ہیں کہ پچز کیسی ہوں گی۔‘ سنہ 2011 ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس ٹیم میں گوتم گمبھیر، یوراج سنگھ اور سریش رائنا جیسے بائیں ہاتھ کے تجربہ کار بلے باز تھے۔ یہ تینوں بہت باصلاحیت کھلاڑی ہیں اور انھیں ٹیم میں نوجوانوں کو شامل کرنے کے لیے ورلڈ کپ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ انگلینڈ میں کھیلے گئے آخری ورلڈ کپ میں انھوں نے تین شاندار سنچریاں بنا کر انڈیا کا سر فخر سے بلند کیا تھا۔ انڈین کرکٹ میں کوہلی اور روہت کی جوڑی فلم ’شعلے ‘ کی جے اور ویرو کی جوڑی سے ملتی جلتی ہے جو ٹیم ورک میں پہلے نمبر پر ہے اور کسی بھی طاقتور اپوزیشن کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوہلی کو ورلڈ کپ جیت کا تحفہ دینے میں مرکزی کردار روہت شرما کا ہو گا۔ اس ٹیم کے کئی سینیئر کھلاڑیوں کا یہ آخری ورلڈ کپ ہو سکتا ہے اور یہ سب یقیناً جیت کے ساتھ اپنے کریئر کا اختتام کرنا چاہیں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw4vrl27dmko", "summary": "لارڈز میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان دوسرا ایشز ٹیسٹ اس وقت ڈرامائی موڑ کو پہنچا جب آسٹریلوی وکٹ کیپر الیکس کیری نے انگلش بلے باز جونی بیئرسٹو کو کریز سے نکلنے پر آؤٹ کر دیا۔ ", "title": "آسٹریلیا کے خلاف ’چِیٹس‘ کے نعرے: ’لارڈ میرا پسندیدہ گراؤنڈ ہے، مگر آج وہاں کوئی عزت نہ تھی‘", "firstPublished": "2023-07-03T05:44:38.205Z", "id": "cw4vrl27dmko", "article": "لارڈز میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان دوسرا ایشز ٹیسٹ اس وقت ڈرامائی موڑ اختیار کر گیا جب آسٹریلوی وکٹ کیپر الیکس کیری نے انگلش بلے باز جونی بیئرسٹو کو کریز سے نکلنے پر آؤٹ کر دیا۔ بیئرسٹو نے بال کے ڈیڈ ہونے کا انتظار کیوں نہ کیا؟ مگر کیری نے انھیں کریز سے نکلنے پر وارننگ کیوں نہ دی؟ اس واقعے نے کرکٹ کے اصولوں اور ’سپرٹ آف کرکٹ‘ کے درمیان بحث دوبارہ چھیڑ دی ہے۔ بیئرسٹو کی وکٹ کے بعد نئے انگلش بلے باز سٹورٹ براڈ نے آسٹریلوی وکٹ کیپر کیری سے کہا کہ ’آپ کو ہمیشہ اس چیز کے لیے یاد رکھا جائے گا۔‘ کرکٹ پر بی بی سی کے نامہ نگار جوناتھن ایگنیو بتاتے ہیں کہ وہ کئی برسوں سے لارڈز کے گراؤنڈ میں آ رہے ہیں لیکن انھوں نے آج تک ایسے مناظر نہیں دیکھے جو اتوار کو دوسرے ایشز ٹیسٹ کے دوران دیکھنے کو ملے۔ وہ بال کے ڈیڈ ہونے سے پہلے ہی کریز سے باہر نکل آئے اور وکٹ کیپر الیکس کیری نے بڑی چالاکی سے گیند سٹمپس کی جانب پھینک کر انھیں چلتا کیا۔ اوور کی گذشتہ تین گیندوں کے دوران بھی بیئرسٹو نے ایسا ہی کیا تھا کہ وہ گیند وکٹ کیپر کے پاس جانے پر کریز سے نکل جاتے تھے۔ لیکن وہ اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر رہے تھے۔ وہ نہ تو رن لینے کے لیے آگے جا رہے تھے اور نہ ہی سوئنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے کریز سے باہر نکل کر کھیل رہے تھے۔ سنہ 2009 میں بھی ایسی ہی صورتحال سامنے آئی تھی جب انگلینڈ نے نیوزی لینڈ کے بلے باز گرانٹ ایلیئٹ کو آؤٹ کیا تھا۔ اس ون ڈے میں بولر رائن سائڈ بوٹم کی ٹکر سے ایلیئٹ گِر گئے تھے۔ کپتان پال کالنگ وڈ کو چاہیے تھا کہ وہ اپیل واپس لیتے جب ٹی وی امپائر فیصلے پر سوچ بچار کر رہا تھا۔ ایک چیز واضح ہے کہ اس واقعے نے انگلش کپتان بین سٹوکس کو غصہ دلایا۔ انھوں نے 155 رنز کی باری کھیلی اور ایک موقع پر یہ میچ آسٹریلیا کی پہنچ سے دور کر دیا۔ مگر گھٹنے پر چوٹ نے سٹوکس کو روک دیا اور وہ آؤٹ ہو گئے۔ سٹوکس انگلینڈ کے بہترین کھلاڑیوں میں سے ہیں اور ایسا واضح ہے کہ آسٹریلیا کی ٹیم ان سے خوفزدہ ہے۔ کمنز نے ان کی باری کے دوران کئی فیلڈر باؤنڈری پر رکھے ہوئے تھے۔ اب سیریز میں آسٹریلیا کو اب دو صفر کی برتری حاصل ہے۔ تاہم بیئرسٹو کی وکٹ پر انگلش فینز کافی جوش آ گئے ہیں۔ اس سے دونوں ٹیموں کے درمیان تعلقات کچھ بگڑ سکتے ہیں۔ واپسی کے لیے انگلینڈ اس چیز کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1z44kq0gjo", "summary": "کھیل کے تقریباً ہر فارمیٹ میں اس ٹیم کو 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ خاص طور پر ایک روزہ میچوں میں ان کے جارحانہ کھیل کی ایک الگ پہچان تھی۔", "title": "ویسٹ انڈیز: کرکٹ کی دنیا پر راج کرنے والی ’ناقابل تسخیر‘ ٹیم ورلڈ کپ سے باہر کیسے ہوئی؟", "firstPublished": "2023-07-03T04:10:06.264Z", "id": "cd1z44kq0gjo", "article": "ورلڈ کپ کوالیفائرز میں سکاٹ لینڈ کی ٹیم نے حیران کن طور پر ویسٹ انڈیز کو سات وکٹوں سے شکست دی تو اس کے ساتھ ہی ویسٹ انڈیز کی ٹیم ورلڈ کپ 2023 کی دوڑ سے باہر ہو گئی۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم وہی ہے جس نے سنہ 1975 اور سنہ 1979 میں لگاتار دو بار ورلڈ کپ جیتا تھا۔ تیسری بار 1983 کے فائنل میں ایک بار پھر فاتح بننے سے انھیں انڈین کرکٹ ٹیم نے روکا۔ کھیل کے تقریباً ہر فارمیٹ میں اس ٹیم کو 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ خاص طور پر ایک روزہ میچوں میں ان کے جارحانہ کھیل کی ایک الگ پہچان تھی۔ ہر حال میں ان کا بیٹنگ آرڈر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا تھا۔ ویوین رچرڈز، ڈیسمنڈ ہینز، گورڈن گرینیج، لوگی، رچرڈسن اور برائن لارا جیسے بلے بازوں نے دنیا بھر کے کئی ماہر گیند بازوں کو پچھاڑا۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس ٹیم کے لیے کوئی بھی ہدف حاصل کرنا مشکل نہیں ہے۔ اگر ہم ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی موجودہ کارکردگی کا جائزہ لیں تو وہ موجودہ آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں آٹھویں، ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ میں 10ویں اور بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ساتویں نمبر پر ہیں۔ حالیہ برسوں میں کئی بار یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا ویسٹ انڈیز واقعی ایک ٹیم کے طور پر بھی کھیل رہی ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ’ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی کارکردگی میں کمی ایک سال یا ایک دورے میں نہیں آئی، ویسٹ انڈیز کی ٹیم 1990 کی دہائی سے اپنی فارم کے ساتھ جدوجہد کر رہی تھی۔ ویو رچرڈز، ڈیسمنڈ ہینز، گرینیج، مارشل اور ڈوجون کی جگہ لینا آسان نہیں تھا، وہ ایک ایک کر کے ریٹائر ہوئے۔‘ ان کے مطابق ’یہ تمام کھلاڑی اکیلے ہی ایک میچ کو ٹیم کے حق میں بدل سکتے تھے۔ یقینی طور پر لارا اور ایمبروز انفرادی ٹیلنٹ کے ایک ہی زمرے کے کھلاڑی تھے۔‘ وہ کہتے ہیں ’گیل بہت طاقتور بلے باز تھے۔ سروان اور چندر پال نے بھی کچھ حصہ ڈالا۔ لیکن ایک ٹیم کے طور پر یہ کافی نہیں تھا۔ سب سے زیادہ نقصان بولنگ کے شعبے میں ہوا کیونکہ انھیں اچھے کھلاڑیوں کا متبادل نہیں مل سکا۔‘ ’اس کے علاوہ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ دوسرے ممالک کے بورڈز کی طرح کرکٹ پر خرچ کر سکیں۔‘ وینکٹارامن کا کہنا ہے کہ ’ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کو دوسرے ممالک کی طرح اپنے نوجوان کھلاڑیوں کو ترقی دینے اور فروغ دینے کی ضرورت ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2qg714ddp3o", "summary": "دو بار کرکٹ کی عالمی چیمپیئن ویسٹ انڈیز کی ٹیم پہلی بار ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔", "title": "’اس شرمناک شکست میں سب کے لیے سبق ہے‘ ویسٹ انڈیز کی ٹیم پہلی بار ورلڈ کپ تک پہنچ نہ سکی", "firstPublished": "2023-07-02T06:20:02.995Z", "id": "c2qg714ddp3o", "article": "دو بار کرکٹ کی عالمی چیمپیئن ویسٹ انڈیز کی ٹیم پہلی بار ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ سنیچر کو ہرارے میں ورلڈ کپ کوالیفائر 2023 کے دوران سکاٹ لینڈ نے ویسٹ انڈیز کو سات وکٹوں سے شکست دی ہے۔ خراب کارکردگی پر ویسٹ انڈیز کے ورلڈ کپ سے باہر ہونے پر جہاں ایک جانب گہرے دکھ کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں اس کے سابق کرکٹرز کی جانب سے ایسی تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ ٹیم کا معیار اس قدر زوال پذیر ہوچکا ہے کہ یہ مزید گِر نہیں سکتا اور اس میں سب کے لیے نصیحت بھی ہے۔ سکاٹ لینڈ نے ٹاس جیت کر ویسٹ انڈیز کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ اوپنر جانسن چارلس صفر پر آؤٹ ہوئے جس کے بعد ویسٹ انڈیز کے کپتان شائے ہوپ، ٹورٹامنٹ کے ٹاپ سکورر نکولس پوران، آل راؤنڈر جیسن ہولڈر سبھی کو اچھا آغاز ملا مگر وہ کوئی ٹیم کو آخر تک سہارا دینے میں ناکام رہے۔ برینڈن میکمولن نے پہلی اننگز میں اپنے تین اوورز میں تین وکٹیں حاصل کیں۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم خراب بیٹنگ کے باعث 181 پر آل آؤٹ ہوئی۔ مگر ورلڈ کپ کوالیفائر میں مزید آگے جانے کے لیے سکاٹ لینڈ کو اب زمبابوے اور نیدرلینڈز کو ہرانا ہوگا۔ یاد رہے کہ پانچ سال قبل ویسٹ انڈیز نے سکاٹ لینڈ کو پانچ رنز سے ہرایا تھا۔ ہوبارٹ میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم 198 پر آل آؤٹ ہوگئی تھی جس کے جواب میں سکاٹ لینڈ نے پانچ وکٹوں کے نقصان پر 125 رنز بنا لیے تھی مگر بارش نے کھیل روک دیا۔ ڈک ورتھ لیوس نے ویسٹ انڈیز کو محض پانچ رنز سے فاتح قرار دیا۔ ویسٹ انڈین کپتان نے تسلیم کیا کہ ’ہم ایک صبح اٹھ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم ایک عظیم ٹیم ہیں۔ توجہ دینے کے لیے کچھ ہے، ہم صرف اس چیز کو کنٹرول کر سکتے ہیں جو ہمارے بس میں ہے۔‘ سابق فاسٹ بولر اور کمنٹیٹر این بشپ نے ویسٹ انڈیز کی شکست کو ’دو بار ورلڈ کپ جیتنے والی عظیم ٹیم کا زوال‘ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’گروپ سٹیج کے میچوں میں ویسٹ انڈیز نے فیلڈنگ اور بلے بازی میں بہت خراب کرکٹ کھیلی۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ کھیل کسی صورت قابل قبول ہے؟‘ این بشپ نے کہا کہ پوری دنیا میں ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے فینز کے لیے یہ ایک مشکل سفر رہا ہے۔ ’یہ دو بار عالمی چیمپیئن، دو بار ٹی ٹوئنٹی چیمپیئن ٹیم کا عروج سے زوال تک کا ڈرامائی سفر رہا ہے۔‘ گوتم گمبھیر کے مطابق ویسٹ انڈیز اب بھی نمبر ون ٹیم بن سکتی ہے جبکہ سابق کپتانی کپتان محمد حفیظ کی رائے میں ویسٹ انڈیز کی ناکامی میں سب کے لیے نصیحت ہے۔ ادھر شعیب اختر کہتے ہیں کہ ویسٹ انڈیز کو ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہ کرتا دیکھنا بہت افسوس ناک ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2qge4le5e5o", "summary": "برطانوی فٹبال کلب مانچسٹر سٹی کے کھلاڑی بینجامن مینڈی کے خلاف برطانوی عدالت میں مبینہ ریپ کے الزام سے متعلق سماعت کے دوران جیوری کو بتایا گیا ہے کہ انھوں نے ایک نوجوان خاتون کا ریپ کیا اور پھر اس سے کہا کہ ’کوئی بات نہیں، میں 10 ہزار خواتین کے ساتھ سیکس کر چکا ہوں۔‘ \n", "title": "فٹبالر پر ریپ کے الزامات: ’کوئی بات نہیں، میں 10 ہزار خواتین کے ساتھ سیکس کر چکا ہوں‘", "firstPublished": "2023-06-30T04:25:57.195Z", "id": "c2qge4le5e5o", "article": "برطانوی فٹبال کلب مانچسٹر سٹی کے کھلاڑی بینجامن مینڈی کے خلاف برطانوی عدالت میں مبینہ ریپ کے الزام سے متعلق سماعت کے دوران جیوری کو بتایا گیا ہے کہ انھوں نے ایک نوجوان خاتون کا ریپ کیا اور پھر اس سے کہا کہ ’کوئی بات نہیں، میں 10 ہزار خواتین کے ساتھ سیکس کر چکا ہوں۔‘ ان پر ایک اور خاتون کو ریپ کرنے کی کوشش کرنے کا بھی الزام ہے، جن کی عمر اس وقت 29 برس تھی اور اس خاتون نے عدالت کو یہ بھی بتایا ہے کہ مینڈی نے ان پر دو برس پہلے اپنے گھر میں حملہ آور ہونے کی کوشش کی تھی۔ جیوری میں چھ خواتین اور چھ مرد موجود ہیں اور انھیں ٹرائل جج سٹیفن ایوریٹ نے بتایا ہے کہ فرانس کے شہری مینڈی کو رواں برس جنوری میں دیگر خواتین کی جانب سے جنسی تشدد کے الزامات سے بری کیا گیا تھا۔ جج کی جانب سے انھیں خبردار کیا گیا کہ وہ پچھلے ٹرائل کی تفصیلات نہیں پڑھیں گے اور نہ ہی میڈیا میں اس کی کوریج دیکھنے کی کوشش کریں گے اور اس مقدمے کا فیصلہ صرف ان شواہد کی بنیاد پر کریں گے جو اس عدالت میں موجودہ مقدمے کے دوران سامنے لائے جائیں گے۔ وکیل بینجامن آینا کے سی نے مقدمے کی سماعت کے آغاز میں کہا کہ ’بینجامن مینڈی ایک فٹبالر ہیں جو اس وقت مانچسٹر سٹی کے کانٹریکٹ میں تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’ایک موقع پر انھوں نے ایک خاتون سے زبردستی سیکس کرنے کی کوشش کی۔ دوسری مرتبہ انھوں نے ایک اور خاتون مہمان کا ایک کمرے میں ریپ کیا۔‘ عدالت کو بتایا گیا کہ اگلی صبح جب وہ نہانے کے لیے باتھ روم میں موجود تھیں تو مینڈی یہاں بن بلائے پہنچے اور انھوں نے صرف باکسر شارٹس پہنے ہوئے تھے اور وہ بظاہر ’ہیجان‘ کا شکار تھے۔ اس کے بعد بتایا گیا کہ فٹبالر نے خاتون کو مبینہ طور پر پکڑا اور انھیں بستر میں ریپ کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران خاتون نے ان کی گرفت سے خود کو چھڑوانے کی کوشش بھی کی اور بارہا انھیں روکا بھی۔ خاتون کا الزام ہے کہ ملزم نے ان سے ان کا فون لے لیا جس میں ان کی ’ذاتی‘ تصاویر موجود تھیں اور پھر انھیں اپنے لاکڈ بیڈروم میں لے گئے، اس اثنا میں وہ بار بار ان سے اپنا فون مانگتی رہیں۔ جب وہ اسے اٹھانے کے لیے آگے بڑھیں تو فٹبالر نے مبینہ طور انھیں پھیچے سے پکڑ کر ان کا ریپ کیا حالانکہ وہ انھیں بار بار یہ کہتی رہیں کہ میں سیکس نہیں کرنا چاہتی۔ ’مینڈی نے کہا کہ ’کوئی بات نہیں۔ میں 10 ہزار خواتین کے ساتھ سیکس کر چکا ہوں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1n4jmg0dyo", "summary": "اب جب بالآخر آئی سی سی نے انڈیا میں منعقدہ ایک تقریب کے بعد ٹورنامنٹ کے شیڈول کا اعلان کیا گیا ہے جس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی ٹیم کو افغانستان اور آسٹریلیا کے خلاف میچ انھی گراؤنڈز پر کھیلنا ہوں گے جہاں ڈرافٹ شیڈول میں درج تھے۔", "title": "کرکٹ ورلڈ کپ: وہ وجوہات جن کے باعث پاکستان چنئی میں افغانستان، ممبئی میں کسی بھی ٹیم سے نہیں کھیلنا چاہتا تھا", "firstPublished": "2023-06-28T05:09:18.022Z", "id": "cd1n4jmg0dyo", "article": "اب جب بالآخر آئی سی سی نے انڈیا میں منعقدہ ایک تقریب کے بعد ٹورنامنٹ کے شیڈول کا اعلان کیا، جس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی ٹیم کو افغانستان اور آسٹریلیا کے خلاف میچ انھی گراؤنڈز پر کھیلنا ہوں گے جہاں ڈرافٹ شیڈول میں درج تھے۔ یہ خبر اکثر افراد کے لیے خاصی اچھنبے کی تھی پاکستان کی جانب سے افغانستان اور آسٹریلیا کے خلاف میچ میں شروعات سے ہی ’فیورٹ‘ ہونے کے لیے وینیو میں تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا ہو۔ پی سی بی اور آئی سی سی کی اس لیکڈ بات چیت سے عام تاثر یہ ملا کہ پاکستان چنئی میں افغانستان سے اس لیے کھیلنے سے خائف ہے کیونکہ چنئی کی پچ سپنرز کے لیے سازگار سمجھی جاتی ہے اور افغان سپنرز جو کہ آئی پی ایل کے دوران بہترین بولنگ کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں اس کا بھرپور فائدہ اٹھا کر پاکستانی بلے بازوں کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ اس سے قبل بھی پاکستان کی ٹیم کا جب بھی افغانستان سے سامنا ہوا ہے، چاہے وہ ایشیا کپ ہو یا ورلڈ کپ، مقابلہ کانٹے کا ہوتا ہے اور اب دونوں ممالک کا یہ مقابلہ گذشتہ چند سال میں افغانستان کی سیاسی صورتحال میں تبدیلی کے بعد سے میدان کے باہر بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ پی سی بی میں موجود ایک اعلٰی اہلکارنے بی بی سی کو بتایا ہے کہ پاکستان نے ممبئی میں کوئی میچ کھیلنے کے حوالے سے ’سکیورٹی وجوہات‘ کی بنا پر تحفظات کا اظہار کیا تھا جس کے بعد اس میں تبدیلی کر دی گئی اور اب پاکستان اگر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرتا ہے تو وہ ہر صورت کلکتہ میں کھیلا جائے گا، چاہے یہ انڈیا کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بات قابلِ ذکر اس لیے بھی ہے کیونکہ سنہ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد سے پاکستان کی ٹیم جب بھی انڈیا میں کھیلی ہے، اس کا میچ کبھی بھی ممبئی میں منعقد نہیں ہوا۔ اس کے بعد میچ کے پانچویں روز تماشائیوں کی جانب سے سٹینڈ میں اخبارات نذرِ آتش کیے گئے جس کے بعد سٹیڈیم خالی کروا دیا گیا تھا اور آخری دن کا بقیہ کھیل خالی سٹیڈیم میں کھیلا گیا تھا۔ پاکستان نے یہ میچ 46 رنز سے جیتا تھا۔ اس سے قبل سنہ 1996 کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں اس وقت سری لنکا کو ڈیفالٹ فاتح قرار دیا گیا تھا جب میچ کے دوران صرف 22 رنز پر انڈیا کے سات کھلاڑی آؤٹ ہو گئے تھے اور شائقین نے غصے میں آ کر سٹینڈز کو نذر آتش کرنا شروع کر دیا تھا جس کے بعد میچ منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ میچ ہے جس کے لیے پاکستان نے خصوصی طور پر شیڈول میں تبدیلی کی درخواست کی تھی، یہ افغانستان کے خلاف 23 اکتوبر کو چنئی میں کھیلا جائے گا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2qkvy250lo", "summary": "25 جون 1983 وہ سنگ میل ہے جس نے کرکٹ کی دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ اس دن کپل دیو کی قیادت میں انڈین کرکٹ ٹیم نے ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر ورلڈ کپ جیت کر دنیا بھر کے تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا تھا۔", "title": "وہ دن جس نے انڈین کرکٹ کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا", "firstPublished": "2023-06-25T11:25:09.907Z", "id": "cv2qkvy250lo", "article": "25 جون 1983 وہ سنگ میل ہے جس نے کرکٹ کی دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ اس دن کپل دیو کی قیادت میں انڈین کرکٹ ٹیم نے ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر ورلڈ کپ جیت کر دنیا بھر کے تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا تھا۔ لیکن جب کپل دیو کی قیادت میں ٹیم نے گیانا میں کھیلی گئی تین ون ڈے سیریز کے دوسرے میچ میں ویسٹ انڈیز کو شکست دی تو ٹیم کا اعتماد بڑھ گیا۔ اس کے بعد انڈیا نے ورلڈ کپ کے لیگ میچ میں لگاتار دو بار کی عالمی چیمپئن ٹیم کو 34 رنز سے شکست دی۔ لیکن جب بھارت نے لیگ میچوں میں ویسٹ انڈیز کو شکست دی تو کرکٹ کے کچھ تجزیہ کاروں اور صحافیوں نے ٹیم پر توجہ دینا شروع کر دیا۔ انگلینڈ کی میڈیا میں انڈین ٹیم کو کپلز ڈیولز کے نام سے پکارا جانے لگا۔ یہ ٹورنامنٹ آج بھی کپل دیو کی زمبابوے کے خلاف 175 ناٹ آؤٹ رنز کی اننگز کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ 17 رنز پر پانچ وکٹیں گنوانے کے بعد انتہائی مشکل وقت میں کپل نے یہ دلیرانہ اننگز کھیل کر ٹیم کو ورلڈ کپ میں قائم رکھا۔ لیکن ان کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے، کیونکہ ان کی ٹیم نہ صرف فائنل میں پہنچی بلکہ ورلڈ کپ بھی جیت گئی۔ اس جیت کا جشن منانے کے لیے ٹیم کو انڈیا آنا پڑا۔ اس کا مطلب ہے کہ سری کانت کو اپنا ٹکٹ منسوخ کرنا پڑا اور وہ کئی مہینوں کی جیت کے جشن کے بعد ہی امریکہ جا سکے۔ کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ انڈیا عالمی چیمپیئن بنے گا۔ ورلڈ کپ کے فائنل میں مقابلہ ویسٹ انڈیز سے تھا جو اس وقت دنیائے کرکٹ پر چھایا ہوا تھا۔ لیکن 25 جون کو کرکٹ کی دنیا کا سب سے بڑا اپ سیٹ دیکھا گیا۔ فائنل سے پہلے سٹے بازی کے بازار میں انڈیا کی جیت پر ایک پر 200 کا ریٹ تھا۔ لیکن انڈیا کی کامیابی نے ایک بار پھر ظاہر کر دیا کہ کرکٹ کو غیر یقینی صورتحال کا کھیل کیوں کہا جاتا ہے۔ انڈیا کی اس ناقابل یقین فتح کے بعد سینکڑوں نوجوانوں نے کپل دیو سے متاثر ہو کر کرکٹ کھیلنا شروع کر دیا۔ بلاشبہ 1983 کے ورلڈ کپ کی فتح کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اس کامیابی کے بعد انڈیا میں کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں رہا بلکہ ایک ثقافت کے طور پر ابھرا۔ اس ایک فتح نے کرکٹرز کی کئی نسلیں پیدا کیں، نئے ہیروز پیدا کیے اور کرکٹ کو ہر گھر تک پہنچا دیا۔ 1983 کے ورلڈ کپ میں کامیابی سے قبل انڈین ٹیم بین الاقوامی سطح پر کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر پائی تھی۔ کپل دیو کی ٹیم نے انڈین کرکٹ بورڈ کو کرکٹ کی دنیا میں ایک پاور ہاؤس کے طور پر قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g0mpjnl87o", "summary": "پاکستانی کھلاڑی سیف اللہ سولنگی نے جرمنی کے دارالحکومت برلن میں منعقد ہونے والے سپیشل اولمپک گیمز کے \n پاور لفٹنگ مقابلوں میں دو گولڈ، ایک چاندی اور ایک کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔", "title": "سپیشل اولمپک گیمز میں چار میڈل جیتنے والے سیف اللہ سولنگی: ’امی نے کہا تھا میں سب کچھ کر سکتا ہوں‘", "firstPublished": "2023-06-21T23:51:09.614Z", "id": "c3g0mpjnl87o", "article": "یہ کہنا ہے جرمنی کے دارالحکومت برلن میں منعقد ہونے والے سپیشل اولمپک گیمز کے پاور لفٹنگ مقابلوں میں دو گولڈ، ایک چاندی اور ایک کانسی کا تمغہ حاصل کرنے والے پاکستانی کھلاڑی سیف اللہ سولنگی کا۔ سیف اللہ سولنگی نے بیک سکواٹ میں 90 کلو وزن اٹھا کر گولڈ میڈل حاصل کیا، ڈیڈ لفٹ میں 115 کلوگرام وزن اٹھا کر طلائی تمغہ جیتا اور پھر کمبائنڈ کیٹگری میں 245 کلوگرام وزن اٹھا کر چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔ کراچی کے رہائشی سیف اللہ سولنگی کا تعلق پاکستان کے صوبہ سندھ میں ضلع دادو سے ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے ان جذباتی لمحات کا تذکرہ کیا جب ان کو میڈل پہنائے گئے۔ سیف اللہ سولنگی مجموعی طور پر چار میڈل حاصل کرکے بہت خوش ہیں۔ انھوں نے بعد میں اپنے ساتھوں کے ساتھ مل کر فتح کا جشن بھی منایا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے مزہ پاور لفٹنگ ہی میں آیا کیونکہ یہ طاقت اور تکینک کا کھیل ہے۔ اس میں ہر کھلاڑی اپنی طاقت اور ہنر دکھاتا ہے۔‘ لیکن صرف چند سال قبل ہی پاور لفٹنگ شروع کرنے والے سیف اللہ سولنگی نے اتنی جلدی یہ سب کیسے سیکھا؟ وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے جب پاور لفٹنگ شروع کی اور پاکستان میں مقابلے جیتنا شروع کیے تو ان کے ہنر کو سراہا گیا۔ سیف اللہ سولنگی کہتے ہیں کہ ’جب مقابلے کے دوران لفٹنگ کے لیے میرا نام پکارا گیا تو اس وقت مجھے لگا کہ میرے کوچ اور میرے ساتھیوں کو مجھ سے بہت امیدیں ہیں۔‘ سیف اللہ سولنگی کے والد سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان کی تربیت اور دیکھ بھال مکمل طور پر ان کی والدہ زاہدہ سفیر نے کی۔ زاہدہ سفیر تین بچوں کی ماں ہیں۔ سیف اللہ کے علاوہ ان کی دو بیٹیاں ہیں اور سیف اللہ سولنگی کا نمبر دوسرا تھا۔ ’اس کے سکول کے اساتذہ اور پرنسپل نے ہمیں کہا کہ سیف اللہ سولنگی عام بچوں کے سکول میں تعلیم حاصل نہیں کر سکے گا، اس کو سپیشل بچوں کے سکول میں داخل کروایا جائے۔ وہ اس کی تعلیم و تربیت کریں گے تو یہ بہتر ہو جائے گا اور بولنا شروع کر دے گا۔‘ پھر زاہدہ سفیر نے سیف اللہ کو نمائش چورنگی کے سکول ایس ار سی ایس میں داخل کروایا۔ یہ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ زاہدہ بتاتی ہیں کہ ’شروع میں پابندی تھی کہ مجھے سکول ہی میں موجود رہنا ہوگا۔‘ پھر وہ دن آیا جب سیف اللہ کو سپیشل اولپمک مقابلوں کے لیے چنا گیا۔ زادہ بتاتی ہیں کہ سپیشل اولمپک کے لیے اس کا انتخاب ہوا تو ’اس کے والد اس کو روز فون کرکے کہتے کہ تم نے یہ مقابلہ جیتنا ہوگا۔ میں بھی کہتی کہ جب تم جیتو گے تو ہم بہت جشن منائیں گے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51q2d7zy2zo", "summary": "ایجبسٹن ٹیسٹ کے پانچویں روز آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان ایک کلاسک مقابلہ دیکھنے کو ملا اور آسٹریلیا نے دو وکٹوں سے فتح حاصل کر کے سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کر لی تھی۔ \n", "title": "بیز بال بمقابلہ روایتی کرکٹ: ایجبسٹن ٹیسٹ میں ہار جو انگلینڈ کے نئے طرزِ کھیل پر ’سوالیہ نشان چھوڑ گئی‘", "firstPublished": "2023-06-21T11:29:28.007Z", "id": "c51q2d7zy2zo", "article": "ایجبسٹن ٹیسٹ کے پانچویں روز آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان ایک کلاسک مقابلہ دیکھنے کو ملا اور آسٹریلیا نے دو وکٹوں سے فتح حاصل کر کے سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کر لی تھی۔ ٹیسٹ کے پانچویں روز جب کچھ اوورز بعد میچ پر کبھی ایک تو کبھی دوسری ٹیم کی گرفت مضبوط ہو رہی تھی تو پیٹ کمنز اور نیتھن لائن کی نویں وکٹ کی شراکت نے آسٹریلیا کو فتح سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کی ایک وجہ تو سٹوکس کی جانب سے پہلے روز کھیل کے اختتام سے کچھ دیر قبل ڈکلیئر کرنے کا فیصلہ تھا لیکن دوسری جانب معین علی کو ریٹائرمنٹ سے واپس بلا کر ٹیم میں شامل کرنے پر سوالات اٹھتے رہیں گے۔ بین سٹوکس نے اپنی پہلی اننگز کی ڈکلیئریشن پر میچ کے بعد بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا خیال تھا کہ وہ ایک ایسا موقع تھا جس دوران میں حملہ کر سکتا تھا۔ میں صرف اس لیے اپنے طرزِ کھیل کو تبدیل نہیں کروں گا کیونکہ یہ ایشز سیریز ہے۔ انگلینڈ کو اس ٹیسٹ سے قبل گذشتہ 12 ٹیسٹ میچوں کے دوران صرف دو میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان میں سے ایک نیوزی لینڈ کے خلاف صرف ایک رن کی شکست تھی جب انگلینڈ نے ویلنگٹن میں بلیک کیپس کو فالو آن کرنے پر مجبور کیا تھا۔ یہ بات بھی اہم تھی کہ سٹوکس جو اس وقت گھٹنے کی انجری کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور انھوں نے دوسری اننگز کے 70ویں اوور تک بولنگ نہیں کی۔ دوسری جانب جیمز اینڈرسن جو انگلینڈ کے لیے سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے کھلاڑی ہیں کو دوسری نئی گیند نہیں دی گئی۔ انگلینڈ نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ آسٹریلیا کا مقابلہ کر سکتی ہے لیکن انھیں اپنی غلطیوں پر قابو پاتے ہوئے ایک بہترین پرفارمنس دینی ہو گی اگر وہ سنہ 2015 کے بعد پہلی مرتبہ ایشز جیتنا چاہتے ہیں۔ یہ میچ صرف 18 برس قبل اسی گراؤنڈ پر کھیلے گئے کانٹے کے ایشز ٹیسٹ کو خراجِ تحسین پیش کرنے جیسا نہیں تھا بلکہ ایک عرصے میں سب سے زیادہ انتظار کی جانے والی ایشز کا بہترین آغاز بھی تھا۔ زیک کرالی کی جانب سے سیریز کی پہلی گیند کو چوکے کے لیے باؤنڈری تک پہنچانے سے لے کر اس ٹیسٹ میں بہت کچھ تھا۔ انگلینڈ کی جانب سے پہلے ہی روز ڈکلیئریشن کا فیصلہ، چوتھے روز کی پہلی گیند پر روٹ کی جانب سے کمنز کو ریورس ریمپ کرنے کی کوشش اور دونوں ٹیموں کے درمیان طرزِ کھیل کا منفرد انداز۔ آسٹریلیا کے لیے ان روایتی طرزِ کھیل ان کی معمولی مارجن سے فتح کے بعد اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ان کے فیصلے انگلینڈ کی بیز بال طرز کھیل سے زیادہ بہتر تھے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czq8n6jyxejo", "summary": "تھپڑ کبڈی میں ریفری کی سٹی بجنے کے بعد دونوں کھلاڑی ایک دوسرے پر تھپڑوں کی بارش کر دیتے ہیں۔ اس کھیل میں مکا مارنے کی اجازت نہیں اور اس کا کوئی وقت بھی مقرر نہیں کہ اتنے وقت تک ایک دوسرے کو تھپڑ مارنے ہیں۔ ", "title": "تھپڑ کبڈی: کھلاڑیوں کی خوراک میں ’12 پھول‘ اور جیتنے پر نقد رقم کے علاوہ ڈرائی فروٹ کی بوریاں الگ", "firstPublished": "2023-06-21T03:58:46.992Z", "id": "czq8n6jyxejo", "article": "تھپڑ کبڈی میں ریفری کی سٹی بجنے کے بعد دونوں کھلاڑی ایک دوسرے پر تھپڑوں کی بارش کر دیتے ہیں شکر گڑھ کی تحصیل کوٹ نیناں کے رہائشی تصور حسین کو بھی تھپڑ کبڈی کھیلنے کا شوق ان ہی میلوں میں ٹورنامنٹس دیکھنے کے بعد ہوا اور پھر دیکھتے دیکھتے وہ خود اس کھیل کا حصہ بن گئے۔ 12 سال پہلے اس کھیل کا حصہ بننے والے تصور حسین کو اب اس کھیل کا ماہر کھلاڑی مانا جاتا ہے اور جب بھی کوئی ٹورنامنٹ ہوتا ہے تو ان کی جیت کا امکان دوسرے کھلاڑیوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے میچ کی فیس بھی دوسرے کھلاڑیوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ تصور حسین تھپڑ کبڈی شوق کی خاطر کھیلتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ شوق ان کی آمدن کا ذریعہ بھی ہے تاہم اس کو مستقل آمدنی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ جب میچز ہوں گے اور لوگ ان میچز کو دیکھنے کے لیے آئیں گے تو پھر ہی ٹورنامنٹ کی انتظامیہ اور شائقین سے پیسے ملتے ہیں اور یہ پیسے ہزاروں سے لے کر لاکھوں میں بھی ہوتے ہیں۔ تھپڑ کبڈی کے ایک اور کھلاڑی محمد اویس جٹ کے مطابق اس کھیل کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ملک کے دوسرے علاقوں کے بااثر اور صاحب حیثیت لوگ بھی اپنے اپنے علاقے میں تھپڑ کبڈی کے میچوں کو انعقاد کرواتے ہیں۔ یہ کھیل سرکل کبڈی سے تھوڑا سا مختلف ہے۔ اس میں ایک ٹیم دس کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہےاور میچ کے دوران مخالف ٹیموں کا ایک ایک کھلاڑی ایک دوسرے کے سامنے آتا ہے جبکہ سرکل کبڈی میں ایک کھلاڑی، جس کو ’ریڈر‘ کہتے ہیں مخالف ٹیم کے پول میں جاتا ہے اور اس کو پکڑنے والے چار کھلاڑی ہوتے ہیں، جن کو ’ڈیفینڈر‘ کہا جاتا ہے۔ تھپڑ کبڈی میں ریفری کی سٹی بجنے کے بعد دونوں کھلاڑی ایک دوسرے پر تھپڑوں کی بارش کر دیتے ہیں۔ اس کھیل میں مکا مارنے کی اجازت نہیں اور کوئی وقت بھی مقرر نہیں کہ اتنے وقت میں ایک دوسرے کو تھپڑ مارنے ہیں۔ جب تک کوئی کھلاڑی تھپڑ کھا کر گر نہیں جاتا یا تھپڑ مارنے والا اپنے مخالف کو تھپڑ مارتے مارتے وہ لائن کراس نہیں کر جاتا، جو کہ دونوں ٹیموں کو تقسیم کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تقسیم کے بعد بھی جب ورکنگ باؤنڈری پر باڑ نہیں لگائی گئی تھی اس وقت بھی انڈیا کے علاقے گرداس پور سے پہلوان اور کھلاڑی پاکستان میں آ جاتے تھے اور میچ کھیلتے تھے تاہم باڑ لگنے کے بعد ان کا آنا جانا بند ہو گیا تھا جس کی وجہ سے کچھ عرصے کے لیے تھپڑ کبڈی کے ٹورنامنٹ نہیں ہو سکے تھے کیونکہ میچز کا زیادہ مزا پاکستانی اور انڈین پنجاب کے سکھ پہلوانوں کے درمیان ہونے والے میچ میں آتا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2119npql8o", "summary": " ٹوئٹر پر اپنے بیان میں نجم سیٹھی نے لکھا کہ ’میں آصف زرداری اور شہباز شریف کے درمیان تنازعے کا سبب نہیں بننا چاہتا۔ ایسا عدم استحکام پی سی بی کے لیے ٹھیک نہیں۔ میں موجودہ صورتحال میں چیئرمین شپ کا امیدوار نہیں ہوں۔ تمام سٹیک ہولڈرز کے لیے نیک تمنائیں۔۔۔‘", "title": "نجم سیٹھی چیئرمین پی سی بی کی دوڑ سے باہر: رمیز راجہ کی ’بددعا‘ اور کھیل میں سیاست کا شور", "firstPublished": "2023-06-20T06:29:29.676Z", "id": "cv2119npql8o", "article": "گذشتہ رات ٹوئٹر پر اپنے بیان میں نجم سیٹھی نے لکھا کہ ’میں آصف زرداری اور شہباز شریف کے درمیان تنازعے کا سبب نہیں بننا چاہتا۔ ایسا عدم استحکام پی سی بی کے لیے ٹھیک نہیں۔ میں موجودہ صورتحال میں چیئرمین شپ کا امیدوار نہیں ہوں۔ تمام سٹیک ہولڈرز کے لیے نیک تمنائیں۔۔۔‘ واضح رہے کہ گذشتہ چند روز سے یہ قیاس آرائیاں عام ہیں کہ چیئرمین پی سی بی کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان تنازع چل رہا ہے اور اس دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے یہ دعوے کیے گئے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ذکا اشرف کو چیئرمین بنانا چاہتی ہے جبکہ مسلم لیگ نون نجم سیٹھی کو چیئرمین پی سی بی رکھنا چاہتی ہے۔ عدالتی جنگ کے اس طویل سلسلے کا ڈراپ سین اس طرح ہوا کہ نجم سیٹھی نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنے بیان میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے اگلے انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا اور اگست 2014 میں شہریار خان پاکستان کرکٹ بورڈ کے بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہو گئے جبکہ نجم سیٹھی نے ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین کی ذمہ داری سنبھال لی۔ سپورٹس جرنلسٹ فیضان لکھانی نے لکھا کہ ’دسمبر 2022 میں رمیز راجہ، جنوری 2023 میں نجم سیٹھی، جولائی 2023 میں ایک نیا چیئرمین (ممکنہ طور پر ذکا اشرف)۔۔۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’اور مجھے یقین ہے کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی آئندہ عام انتخابات نہیں جیتتی تو ہم ایک اور چیئرمین پی سی بی دیکھیں گے۔‘ کچھ ایسے ہی خیال کا اظہار سپورٹس جرنلسٹ شاہزیب علی نے بھی کیا۔ انھوں نے لکھا کہ دسمبر رمیز راجہ، جنوری نجم سیٹھی اور جون ذکا اشرف۔۔۔ تین ماہ میں عام انتخابات ہیں تو 12 ماہ میں ہم چار چیئرمین دیکھیں گے۔‘ صارف اسرار احمد ہاشمی نے لکھا کہ ’رمیز راجہ، نجم سیٹھی اور ممکنہ طور پر اب ذکا اشرف۔۔۔ آٹھ ماہ میں پی سی بی کا تیسرا چیئرمین۔۔۔ اور پانچ چھہ ماہ میں الیکشن نہیں ہوتے تو چوتھا چیئرمین بھی آ سکتا ہے۔ یہ مسئلہ تب تک ختم نہیں ہو گا جب تک کرکٹ بورڈ کو سیاست سے آزاد نہیں کیا جاتا۔‘ صحافی نسیم زہرہ نے لکھا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ نجم سیٹھی نے پی سی بی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت کو ثابت کر دیا۔ پیپلز پارٹی اب اپنا چیئرپرسن لائے گی۔‘ صحافی ارفع فیروز نے لکھا کہ ’عمران خان نے چیئرمین پی سی بی کے لیے رمیز راجہ کو نامزد کیا۔ شہباز شریف نے نجم سیٹھی کو جبکہ ذکا اشرف آصف زرداری کی تجویز پر چیئرمین پی سی بی بنیں گے۔ ہم کھیلوں میں سیاست نہیں چاہتے لیکن واضح طور پر چیئرمین پی سی بی کو سیاست کی بنا پر مقرر کیا جاتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cll01leqqvjo", "summary": "انڈینز اب آسٹریلیا میں دوسرے سب سے بڑے مہاجر گروپ ہیں اور انھوں نے چینی تارکین وطن کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ انڈیا کے تارکین وطن کی نئی لہر بہت حد تک ٹیک سیکٹر کی وجہ سے سامنے آئی ہے کیونکہ ملک میں ہنر مند کارکنوں کی بہت زیادہ مانگ ہے۔", "title": "آسٹریلیا میں ایسا خاص کیا ہے جو انڈیا کے تارکین وطن کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے؟", "firstPublished": "2023-06-19T12:17:21.819Z", "id": "cll01leqqvjo", "article": "ان تجربات کے پیچھے جو شیف اور ریستوراں چلانے والے ہیں وہ ان سات لاکھ سے زیادہ انڈینز میں سے ہیں جو آسٹریلیا میں رہتے ہیں اور وہ دنیا کی سب سے بڑی 'تارکین وطن' آبادی میں سے ایک ہیں۔ ملک کی تازہ مردم شماری کے مطابق پچھلے کچھ سالوں میں ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ انڈینز اب آسٹریلیا میں دوسرے سب سے بڑے مہاجر گروپ ہیں اور انھوں نے چینی تارکین وطن کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اب وہ انگریزوں کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ انڈیا کے تارکین وطن کی نئی لہر بہت حد تک ٹیک سیکٹر کی وجہ سے سامنے آئی ہے کیونکہ ملک میں ہنر مند کارکنوں کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ حال ہی میں منتخب ہونے والی نیو ساؤتھ ویلز حکومت میں چار انڈین نژاد سیاستدان ہیں جن میں ڈینیئل موکھی بھی شامل ہیں۔ مسٹر موکھی مارچ میں آسٹریلوی ریاست کے خزانچی بنے اور اس طرح وہ کسی آسٹریلوی ریاست پہلے ہند نژاد سیاست دان ہیں جو اس حیثیت تک پہنچے ہیں۔ ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے کیونکہ انڈین-آسٹریلین باشندوں کے ساتھ غیر یورپی نسب والوں کی اب بھی سیاست میں، خاص طور پر وفاقی سطح پر بہت کم نمائندگی ہے۔ مز بیٹیگیری کہتی ہیں کہ سافٹ پاور کی برآمدات نے دونوں ممالک کو متحد کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ سڈنی میں ہونے والی ایک حالیہ ریلی میں انڈین تارکین وطن نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی۔ وہاں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے انڈیا آسٹریلیا کے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح ٹی وی شو ماسٹر شیف آسٹریلیا، کرکٹ اور فلمیں دونوں ممالک کے لوگوں کو اکٹھا کر رہی ہیں۔ ہندوستان اور آسٹریلیا کے درمیان تعلق لاکھوں سال پرانا ہے کیونکہ گونڈوانا نامی براعظم کبھی جسمانی طور پر ایک ہوا کرتا تھا موجودہ دور کی قوموں کو جوڑتا تھا۔ بہر حال انڈینز کی آسٹریلیا ہجرت کرنے کی تاریخ بہت متنوع اور منقسم ہے۔ ابتدائی تارکین وطن سنہ 1800 کی دہائی میں ہندوستان سے آنے والی برطانوی رعایا تھے جو کہ مزدور یا نوکر کے طور پر آسٹریلیا پہنچے تھے۔ آسٹریلیا میں انڈین باشندوں پر ایک کتاب کے شریک مصنف اور محقق جینت باپت کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد بھی، آسٹریلیا تارکین وطن کا خیرمقدم کرنے میں بہت محتاط رہا اور اس نے صرف ہنر مند تارکین وطن، جیسے کہ ٹیک ورکرز، ڈاکٹروں، نرسوں اور ماہرین تعلیم کا خیرمقدم کیا اور وہ بھی بہت چھوٹے پیمانے پر۔‘ ہجرت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ایشیائی اور جنوبی ایشیائی ممالک سے آنے والے تارکین وطن آسٹریلوی معاشرے میں ضروری کثیر الثقافت جہت لاتے ہیں اور ان کی وجہ سے معیشت کی ترقی میں مدد ملی ہے۔ لیکن بعض اپوزیشن سیاست دانوں نے آسٹریلیا کی ہجرت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کم اجرت والے تارکین وطن ملازمتیں چھین لیتے ہیں اور وسائل پر بوجھ بنتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2je7nl890po", "summary": "گذشتہ روز بالآخر اس حوالے سے ایشین کرکٹ کونسل کے حتمی اعلان سے یہ معلوم ہوا کہ ایشیا کپ اب ہائبرڈ ماڈل کے تحت پاکستان اور سری لنکا میں 31 اگست سے 17 ستمبر کے درمیان کھیلا جائے گا۔ ", "title": "ایشیا کپ کے پاکستان میں صرف چار میچ: ’یہ کیسا ہائبرڈ ماڈل ہے جس کا میزبان ملک کو ہی فائدہ نہیں‘", "firstPublished": "2023-06-16T06:25:23.217Z", "id": "c2je7nl890po", "article": "ایشیا کپ پاکستان میں ہو گا یا ہائبرڈ ماڈل کے تحت کچھ میچ پاکستان اور کچھ اس سے باہر، پاکستان ٹورنامنٹ کا بائیکاٹ کرے گا یا انڈیا اور ایسی بہت سی افواہیں پاکستانی اور انڈین میڈیا پر گردش کرتی رہیں اور پاکستان اور انڈیا کے سیاسی تناؤ کے درمیان ’کرکٹ کی ہار‘ کا امکان نظر آیا۔ تاہم گذشتہ روز بالآخر اس حوالے سے ایشین کرکٹ کونسل کے حتمی اعلان سے یہ معلوم ہوا کہ ایشیا کپ اب ہائبرڈ ماڈل کے تحت پاکستان اور سری لنکا میں 31 اگست سے 17 ستمبر کے درمیان کھیلا جائے گا۔ خیال رہے کہ انڈیا نے سنہ 2008 کے بعد سے پاکستان میں کوئی سیریز نہیں کھیلی اور انڈیا کا اس حوالے سے مؤقف واضح رہا ہے کہ وہ پاکستان کا دورہ نہیں کرے گا۔ ’پی سی بی کا مؤقف یہ تھا کہ اس ماڈل کو ورلڈ کپ کے لیے اپنایا جائے گا لیکن پاکستان ورلڈکپ کے لیے انڈیا بھی جا رہا ہے۔‘ ایک صارف ابو تمیم نے لکھا کہ میں اسے وسیع تر تناظر میں پی سی بی کی جیت اس لیے مانتا ہوں کیونکہ اس سے ہائبرڈ ٹورنامنٹس کی روایات بن جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ پی سی بی کو انڈیا کی جانب سے چیمپیئنز ٹرافی 2025 کے حوالے سے کوئی یقین دہانی ملی ہو۔‘ خیال رہے کہ اس طرح کے ٹورنامنٹس میں جس چیز کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے وہ لاجسٹکس کے مسائل کے ساتھ ساتھ براڈ کاسٹنگ اور گیٹ منی بھی ہے۔ تاحال یہ واضح نہیں کہ سری لنکا میں ہونے والے میچوں کے حوالے سے پی سی بی کی سری لنکن کرکٹ بورڈ سے کیا بات ہوئی ہے۔ تاہم پاکستان اور انڈیا کے میچوں کی اہمیت اتنی بڑھ چکی ہے اور گذشتہ کئی سال سے یہ آئی سی سی ٹورنامنٹس میں بھی سب سے زیادہ دیکھا جانے والا میچ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا عموماً ایسے ٹورنامنٹس میں ایک ہی گروپ میں ہوتے ہیں اور گذشتہ مرتبہ کی طرح اس بار بھی دونوں ٹیمیں ممکنہ طور پر آپس میں تین مرتبہ مدِمقابل آ سکتی ہیں۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے پاڈکاسٹ ڈبل وکٹ میڈن کی میزبان ایمان ارباب نے ٹویٹ کی کہ ’ذرا سوچیں کہ آپ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے درمیان میچ پاکستان میں دیکھنے جائیں اور پھر اگلے دن آپ کی اپنی ٹیم کا میچ ہو اور وہ آپ کو گھر پر بیٹھ کر دیکھنا پڑے۔‘ ایک صارف نے لکھا کہ اگر ہائبرڈ ماڈل ایشیا کپ پر اپلائی ہوا ہے تو اسے ورلڈ کپ میں بھی رائج ہونا چاہیے۔ تاہم اس صورت میں فرق یہ ضرور ہو گا کہ چیمپیئنز ٹرافی ایک آئی سی سی ٹورنامنٹ ہے اور ایسے ٹورنامنٹس میں شرکت نہ کرنا یا ہائبرڈ ماڈل کو رائج کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ کیا یہ ہائبرڈ ماڈل پاکستان کے لیے ایک جیت ہے یا شکست اس بارے میں حتمی طور پر شاید آنے والے برسوں میں ہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0vdp8jp5rno", "summary": "ماضی میں ریس والے اونٹوں پر کم وزن بچوں کو بٹھایا جاتا تھا مگر اب یہ کام ربورٹ کرتے ہیں۔۔۔ اونٹوں کے شجرہ نسب کو ترتیب دینے اور یکم اگست سے طائف شہر میں شروع ہونے والے اونٹوں کی ریس کے سب سے بڑے میلے سمیت وہ تمام اقدامات جو سعودی عرب کر رہا ہے۔", "title": "اونٹوں کی دوڑ: سعودی ثقافت کا حصہ وہ کھیل جس میں انعامی رقم لاکھوں ریال تک ہوتی ہے", "firstPublished": "2023-06-13T06:20:32.012Z", "id": "c0vdp8jp5rno", "article": "سعودی عرب کی کیمل سپورٹس فیڈریشن نے کہا کہ رواں برس سعودی عرب میں ہونے والا اونٹوں کی دوڑ کا میلہ اب تک کا دنیا کا سب سے بڑا میلہ ہو گا جس کا آغاز یکم اگست سے ہو گا۔ طائف شہر میں منعقد ہونے والا یہ میلہ 38 روز تک جاری رہے گا۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سرپرستی میں منعقد ہونے والے اس ایونٹ کا مقصد اونٹوں کی دوڑ کو سعودی ثقافت کے ایک لازمی پہلو کے طور پر دنیا میں فروغ دینا ہے۔ اونٹوں کی دوڑ کروانے کا کھیل صدیوں پرانا ہے اور یہ خلیجی ممالک بشمول سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور عمان میں اب بھی جوش و خروش کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ جزیرہ نما عرب کا خطہ قدیم زمانے سے ہی اونٹوں کی افزائش کے لیے مشہور ہے اور یہ ایک ایسا پیشہ ہے جو جدیدیت اور وقت گزرنے کے ساتھ مختلف ممالک خاص کر سعودی عرب میں ختم نہیں ہو سکا۔ سعودی عرب نے حال ہی میں ایک الیکٹرانک پلیٹ فارم لانچ کیا ہے، جس کا مقصد اونٹوں کی نسلوں کے ریکارڈ کو ڈی این اے کی تفصیلات کی مدد سے محفوظ کرنا اور ہر اونٹ کو شناختی کارڈ جاری کرنا ہے۔ یہ پلیٹ فارم اونٹوں کی نسلوں کے ریکارڈ کو محفوظ کرنے اور ان کے فیملی ٹری (شجرہ) کو ترتیب دینے کے لیے قائم کیا گیا ہے اور کسی بھی اونٹ کی فروخت کے وقت نسل سے متعلق یہ ریکارڈ اونٹ خریدنے والے کو دیا جاتا ہے۔ حکام کے مطابق اس کا مقصد اونٹوں کی قدیم اور نایاب نسلوں کو محفوظ رکھنا ہے۔ اس پلیٹ فارم کے انچارج سعودی عرب میں اونٹوں کی دوڑ کے میلوں میں داخلے اور شرکت کی شرط کے طور پر کسی بھی اونٹ کی نسل کے دستاویزی نظام کو متعارف کروانا چاہتے ہیں، جہاں ہر مالک کو اس کے اونٹ کے ساتھ ایک دستاویزی کارڈ دیا جائے گا جس میں اونٹ کی نسل سے متعلق ضروری معلومات ہوں گی اور اس نسل کی خصوصیات کی تفصیلات بھی درج ہوں گی۔ تاہم بچوں کے حقوق کی تنظیموں نے متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں بچوں کو اونٹوں کی دوڑ میں استعمال کرنے کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا جس کے بعد اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ عالمی تنظیموں نے بتایا کہ کیسے ان بچوں کی نشوونما پر کنٹرول رکھا جاتا ہے، یہ بچے اپنے خاندانوں سے دور رہتے ہیں اور اونٹوں کے مالکان کی طرف سے ان پر خوراک کے استعمال کے حوالے سے عائد پابندیوں کی وجہ سے یہ بچے عمر میں تو بڑے ہو رہے ہوتے تھے لیکن جسمانی نشوونما اور وزن میں نمایاں اضافہ کے بغیر۔ خلیجی خطے میں بالخصوص سعودی عرب، عمان، قطر اور متحدہ عرب امارات میں اونٹوں کے بہت سے میلے اور اونٹوں کی دوڑ کا انعقاد کیا جاتا ہے، جن کے انعامات لاکھوں ریال تک ہوتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckdkrnnjz1go", "summary": "انڈیا کی ٹیم میچ کو دوسرے سیشن تک لے جانے میں بھی ناکام رہی اور وراٹ کوہلی جیسے تجربہ کار بلے باز دنیا کے سب سے بڑے پلیٹ فارم پر ایک بار پھر ناکام نظر آئے۔ وہ کیا وجوہات ہیں کہ انڈیا گذشتہ ایک دہائی میں کوئی بڑا ٹورنامنٹ جیتنے میں ناکام رہا ہے؟", "title": "10 سال سے آئی سی سی ٹرافی کا انتظار، انڈیا ہر موقع گنوا کیوں دیتا ہے؟", "firstPublished": "2023-06-12T03:57:42.552Z", "id": "ckdkrnnjz1go", "article": "انڈیا کی ٹیم میچ کو دوسرے سیشن تک لے جانے میں بھی ناکام رہی اور وراٹ کوہلی جیسے تجربہ کار بلے باز دنیا کے سب سے بڑے پلیٹ فارم پر ایک بار پھر ناکام نظر آئے۔ اگر انڈیا کی ٹیم نے گذشتہ دہائی میں کوئی آئی سی سی ٹرافی نہیں جیتی تو اس کی ایک بڑی وجہ اہم ناک آؤٹ میچوں میں کوہلی جیسے بلے باز کی ناکامی ہے لیکن جب ہم ٹیم انڈیا کے سابق وکٹ کیپر اور بی بی سی کے کمنٹیٹر دیپ داس گپتا سے اوول کے باہر ملے اور ان سے کوہلی اور روہت کی ناکامی کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے ان تجربہ کار بلے بازوں کا دفاع کیا۔ داس گپتا سے بات کرنے کے بعد میں بحیثیت صحافی ٹیم انڈیا کے کپتان کی پریس کانفرنس میں پہنچ جاتا ہوں اور سیدھا ایک تیکھا سوال کرتا ہوں۔ کیا ٹیم انڈیا بڑے میچوں میں کھل کر کھیلنے سے قاصر ہے؟ کیا توقعات کا دباؤ ان پر ضرورت سے زیادہ ہوتا ہے؟ روہت شرما اپنے جانے پہچانے انداز میں ہلکا سا مسکرائے اور کہا کہ وہ بھی شکست سے مایوس ہیں لیکن انھوں نے 444 رنز کے ہدف کے تعاقب میں جارحانہ انداز کا دفاع کیا۔ ٹیم انڈیا نے پہلے دن انتہائی خراب کھیل کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے شاید اسے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ سے ہاتھ دھونا پڑے۔ میچ کے پانچویں دن بھی ایک بار پھر ٹیم انڈیا کی طرف کسی مضبوط واپسی کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی۔ آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز سے پریس کانفرنس میں جب میں نے پوچھا کہ کیا انھیں کبھی لگا کہ ٹیم انڈیا اس ہدف کا تعاقب کر سکتی ہے؟ جب وراٹ کوہلی اپنے خاص انداز میں بیٹنگ کر رہے تھے تو وہ پریشان تھے؟ تاہم اس شکست نے ایک بار پھر ٹیم انڈیا کی ٹیسٹ کرکٹ میں ٹاپ آرڈر کی ناکامی کو بُری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ چاہے کوہلی ہوں، پجارا یا کوئی اور بلے باز، ہر کوئی لگاتار ناکام ہوتا نظر آیا۔ روہت نے کہا کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں بہت سے کھلاڑی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ فیصلہ کیا جائے کہ ٹیم انڈیا کس قسم کی کرکٹ کھیلنا چاہتی ہے اور اگلے ورلڈ کپ فائنل میں کہاں کھیلنا چاہتی ہے۔ ٹیم انڈیا کی اس ناکامی میں مستقبل کے سپر سٹار شبمن گل کا بیٹ خاموش رہا، پھر روہت پر بطور کپتان اور اوپنر بھی سوال اٹھنے لگے۔ پجارا بھی اپریل سے انگلینڈ میں موجود تھے لیکن نتیجہ ڈھاکہ سے مختلف نہیں نکلا۔ کوہلی کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن ٹیسٹ کرکٹ کی چوتھی اننگز میں ان کی جانب سے قیمتی رنز نہ بنا پانا ان کی عظمت پر ایک بڑا سوال کھڑا کر دیتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn0lyq40w6lo", "summary": "کرکٹ کے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ فائنل میں آسٹریلیا نے انڈیا کو 209 رنز کے بڑے مارجن سے شکست دے کر ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ جیت لی ہے۔ ", "title": "انڈیا کی شکست پر پاکستانی مداحوں کو کراچی ٹیسٹ اور بابر اعظم کیوں یاد آ رہا ہے؟", "firstPublished": "2023-06-11T14:33:51.776Z", "id": "cn0lyq40w6lo", "article": "کرکٹ کے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ فائنل میں آسٹریلیا نے انڈیا کو 209 رنز کے بڑے مارجن سے شکست دے کر ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ جیت لی ہے۔ تاہم انڈین ٹیم کو آغاز سے ہی آسٹریلیا کے فاسٹ بولرز کی بہترین بولنگ کا سامنا تھا اور سکاٹ بولینڈ کی عمدہ بولنگ کے نتیجے میں پہلے وراٹ کوہلی اور پھر رویندرا جڈیجا ایک ہی اوور میں آؤٹ ہوئے اور یوں انڈیا کا اس ہدف کے تعاقب اور ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ جیتنے کا خواب ٹوٹ گیا۔ انڈیا کی ٹیم اس سے قبل بھی سنہ 2021 میں ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ فائنل میں کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوئی تھی تاہم تب اسے نیوزی لینڈ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ آسٹریلیا نے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ جیتی ہے۔ یوں آسٹریلیا اب تک تمام آئی سی سی ٹورنامنٹس میں کامیابی حاصل کرنے والی ٹیم بن چکی ہے۔ تاہم اس سب کے دوران پاکستان مداح سوشل میڈیا پر خاصے پرجوش دکھائی دے رہے ہیں اور انڈیا کی آسٹریلیا سے شکست کے آسٹریلیا کے دورہ پاکستان اور خصوصاً کراچی ٹیسٹ کے درمیان موازنے کیے جا رہے ہیں۔ تاہم اس وقت انڈیا میں سوشل میڈیا پر انڈین ٹیم پر خاصی تنقید ہو رہی ہے۔ اسی کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ 10 برسوں کے دوران انڈیا نے کوئی آئی سی سی ٹرافی اپنے نام نہیں کی ہے۔ اس میں چار ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ، دو ون ڈے ورلڈ کپ، ایک چمیپئنز ٹرافی اور دو آئی سی سی ٹیسٹ چیمپیئن شپس شامل ہیں۔ لندن کے اوول گراؤنڈ میں کھیلے گئے ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل کے آخری روز انڈین ٹیم 444 رنز کے ہدف کے تعاقب میں 234 رنز بناکر آؤٹ ہو گئی، ٹیسٹ کے آخری روز انڈیا کی سات وکٹیں صرف 70 رنز پر گر گئیں۔ آسٹریلیا نے دوسری اننگز میں 270 رنز بنا کر ڈکلیئر کر دی تھی اور انڈیا کو جیت کے لیے 444 رنز کا ہدف دیا، جس کے تعاقب میں پوری انڈین ٹیم 234 رنز بنا کر ڈھیر ہو گئی۔ اسی ٹیسٹ چیمپیئن شپ سائیکل میں جب آسٹریلیا کی ٹیم تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے سنہ 2022 کے اوائل میں پاکستان آئی تھی تو اس نے یہ سیریز ایک صفر سے جیتی تھی۔ ادھر وراٹ کوہلی کی گذشتہ چند برسوں سے انڈیا کے باہر فارم کے بارے میں بھی صارفین تنقید کر رہے ہیں۔ انھوں نے سنہ 2019 کے بعد سے انڈیا کے باہر ٹیسٹ میچوں میں 27 کی اوسط سے رنز سکور کیے ہیں۔ جہاں ایک جانب پاکستانی مداح خوش ہو رہے ہیں وہیں کچھ صارفین یہ بات بھی کر رہے ہیں کہ پاکستان اس ٹیسٹ چیمپیئن شپ سائیکل کے فائنل میں آنے کے لیے فیورٹ سمجھا جا رہا تھا تاہم اس نے اپنی ہوم سیریز میں ہی اتنی بری کارکردگی دکھائی کہ وہ فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv21e75r5l5o", "summary": "ارجنٹائن کے فٹبال لیجنڈ لیونل میسی نے جب فرانسیسی کلب پی ایس جی چھوڑا تو ان کے پاس دو راستہ تھے۔ انھیں پیشکش تو کئی کلبز نے کی مگر انھوں نے ان دو بڑی آپشنز پر غور کیا جن سے وہ پہلی بار یورپ سے باہر جا کر کلب فٹبال کھیل سکتے تھے۔", "title": "پہلی محبت بھلا کر اور سعودی دولت ٹھکرا کر میسی امریکہ کیوں جا رہے ہیں؟", "firstPublished": "2023-06-08T06:08:43.976Z", "id": "cv21e75r5l5o", "article": "ارجنٹائن کے فٹبال لیجنڈ لیونل میسی نے جب فرانس کا کلب پیرس سینٹ جرمین (پی ایس جی) چھوڑا تو ان کے پاس دو رستے تھے۔ آفر تو کئی کلبز سے آئی مگر انھوں نے ان دو بڑی آپشنز پر غور کیا، جن سے وہ پہلی بار یورپ سے باہر جا کر کلب فٹبال کھیل سکتے تھے۔ مگر اصل میں میسی اور ان کے فینز یہ چاہتے تھے کہ وہ اپنے سابقہ کلب بارسلونا چلے جائیں جہاں انھوں نے 21 سال گزارے تھے۔ تاہم فنانشل فیئر پلے کی حدود نے اسے ناممکن بنا دیا تھا۔ یہ سبھی کو معلوم ہے کہ جب بات فٹبال کلبز کی آتی ہے تو بارسلونا ہی میسی کی پہلی اور آخری محبت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’میں یہ چاہتا تھا کہ (بارسلونا) واپس جاسکوں لیکن میں نے جو تجربہ حاصل کیا اور جس طرح میں باہر ہوا، میں اسے دہرانا نہیں چاہتا تھا۔‘ یہ پہلا موقع ہے کہ میسی یورپ سے باہر کلب فٹبال کھیلیں گے۔ وہ میامی کے ساتھ معاہدے کی بدولت ایڈیڈاس اور ایپل جیسے بڑے برانڈز کے ساتھ کام کر سکیں گے۔ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ سعودی عرب جانے کی پیشکش اتنی بڑی ہے کہ وہ آسانی سے اسے تسلیم کر لیں گے۔ ایسا کرنے پر وہ اس لیگ میں کرسٹیانو رونالڈو اور کریم بینزیما جیسے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل رہے ہوتے۔ ان کی موجودگی میں پی ایس جی نے لیگ ون کے دونوں سیزن جیتے مگر چیمپیئنز لیگ سے باہر ہوگئی۔ لہٰذا فرانس میں ان کا وقت کامیابیوں سے بھرپور نہیں تھا۔ خیال رہے کہ مئی میں بلا اجازت سعودی عرب کا دورہ کرنے پر انھیں کلب نے کچھ میچوں کے لیے معطل بھی کیا تھا۔ میسی نے اپنی زندگی کے 21 سال بارسلونا کو دیے تھے اور پھر سنہ 2021 میں وہاں مالی مشکلات کی وجہ سے انھیں کلب سے راہیں جدا کرنا پڑی تھیں۔ انھوں نے بارسلونا کے لیے 672 گول کیے، دس لا لیگا ٹائٹل، چار چیمپیئنز لیگ اور سات ہسپانوی کپ جیتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ڈیوڈ بیکہم نے بھی امریکی لیگ میں سیزن کھیل کر اس کا نام بنایا تھا۔ ’یہ کہا جا رہا ہے کہ ایم ایل ایس نے میسی کے ساتھ ریونیو شیئرنگ ڈیل کی ہے جس میں ایپل ٹی وی کے ساتھ براڈکاسٹنگ اور ایڈیڈاس سے حاصل ہونے والی آمدن میں سے میسی کو حصہ دیا جائے گا۔‘ انھوں نے کہا بظاہر ایسا لگتا ہے کہ میسی انٹر میامی میں ایک دو سیزن کھیل کر ریٹائر ہوجائیں گے مگر اس فیصلے سے دونوں یعنی میسی اور کلب کی شہرت بڑھے گی، میسی کو ایسی بہت سی چیزیں امریکہ جانے پر مل رہی ہوں گی جو سعودی عرب میں نہ مل پاتیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c723e5dqzg6o", "summary": "دنیا کے معروف ترین فٹبالروں کرسٹیانو رونالڈو اور لیونل میسی کے سعودی عرب کی ٹیم میں شامل ہونے کی خبریں ابھی ماند نہیں پڑی تھیں کہ فرانس کے سٹرائيکر اور ریئل میڈرڈ کی شان کریم بینزیما کے الاتحاد فٹبال کلب میں حال ہی میں شامل ہونے کی خبر کی تصدیق ہوئی ہے۔", "title": "فٹبال کے بعد گالف میں سرمایہ کاری: محمد بن سلمان سعودی عرب کو سپورٹس کا نیا مرکز کیسے بنا رہے ہیں؟", "firstPublished": "2023-06-07T12:53:01.528Z", "id": "c723e5dqzg6o", "article": "اس سے قبل دنیا کے معروف ترین فٹبالروں کرسٹیانو رونالڈو اور لیونل میسی کے سعودی عرب کی ٹیم میں شامل ہونے کی خبریں ابھی ماند نہیں پڑی تھیں کہ فرانس کے سٹرائيکر اور ریئل میڈرڈ کی شان کریم بینزیما کے الاتحاد فٹبال کلب میں حال ہی میں شامل ہونے کی خبر کی تصدیق ہوئی ہے۔ بی بی سی سپورٹس کی رپورٹ کے مطابق ایمنسٹی نے کہا ہے کہ گولف کے ٹورنامنٹ کرانے والوں کا انضمام اس کے مزید شواہد ہیں سعودی عرب اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ سعودی عرب کی حمایت یافتہ ایل آئی وی گولف کے ساتھ حیرت انگیز معاہدے کے بارے میں کھلاڑیوں سے مشورہ نہیں کیا گیا اور انھیں منگل کو ہی میڈیا کے ذریعے اس انضمام کا پتہ چلا۔ منصوبے کے موجودہ مرحلے میں سکیموں کی منظوری اور کلب کی ملکیت کی منتقلی کے ساتھ ساتھ کئی سپورٹس کلبوں کی نجکاری شامل ہے۔ سعودی عرب کا خودمختار دولت فنڈ مملکت کے چار اعلیٰ فٹ بال کلبوں بشمول النصر کا کنٹرول سنبھال لے گا، جس کے لیے کرسٹیانو رونالڈو کھیلتے ہیں، کیونکہ حکومت نے کئی سرکاری سپورٹس کلبوں کی نجکاری کے منصوبے کو بحال کیا ہے۔ دریں ثنا خبر رساں ادارے نے دو دن قبل یہ خبر دی کہ سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) کے پاس ملک کے معروف فٹبال کلب الاتحاد، الاہلی، النصر اور الہلال کا 75 فیصد حصہ ہوگا۔ وزارت کھیل نے سنیچر کو ٹوئٹر پر سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کی ایک رپورٹ کے بعد کہا کہ سعودی عرب چوتھی سہ ماہی سے کئی سپورٹس کلبوں کی نجکاری کرنے جا رہا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے کہ کھیل سعودی حکومت کے وژن 2030 کے معاشی تنوع کے منصوبے کے ستونوں میں سے ایک ہے جس کا مقصد نئی صنعتوں کی تعمیر اور ملازمتیں پیدا کرنا ہے اور اس سب کا مرکز پی آئی ایف ہے۔ اس خبر کے مطابق اگرچہ نیوم شہر کی آبادکاری پر ہونے والی فنڈنگ کے پیمانے نے دنیا بھر کی توجہ مبذول کرائی ہے لیکن اس کے مرکز میں صحت اور کھیل ہے اور اس کے لیے انھوں نے نے بریٹن جیسن ہاربرو کو کھیل اور عبوری سیکٹر کے سربراہ انٹرٹینمنٹ، کلچر اور فیشن کا منیجنگ ڈائریکٹر بنایا ہے۔ اس خبر میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کا مقصد اولمپک گیمز اور ورلڈ چیمپئن شپ کے لیے ایک قابل عمل عالمی معیار میں اپنا ایک مقام بنانا ہے۔ اس سے قبل سنہ 2019 میں فارمولہ ای سیزن کا آغاز ریاض میں ہونے والی ریس سے ہوا۔ دسمبر میں ہیوی ویٹ باکسر اینتھونی جوشوا اور اینڈی روئز کے مابین مقابلہ سعودی عرب میں ہوا۔ فارمولہ ون (ایف ون) کا مقابلہ سعودی عرب میں ہو چکا ہے جو کہ تنازع کا شکار رہا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2rm19egwxo", "summary": "روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے فرینچ اوپن 2023 میں یوکرینی کھلاڑیوں اور روس کے کھلاڑیوں کے درمیان کشیدگی دیکھنے میں آئی ہے۔", "title": "یوکرین اور روس کا تنازع ٹینس کورٹ تک کیسے پہنچا؟ ", "firstPublished": "2023-06-07T07:09:43.770Z", "id": "cv2rm19egwxo", "article": "یوکرین کی کھلاڑی الینا سوِتولینا جس نے روس کی اپنے مد مقابل کھلاڑی سے مصافحہ نہیں کیا تھا، اسے شائقین کی ہوٹنگ کا اس وقت سامنا کرنا پڑا جب بیلاروس کی کھلاڑی اریانا سبالینکا سے وہ ملے بغیر آگے بڑھ گئی۔ یوکرین کی ٹینس کھلاڑی ایلینا سویتولینا نے بیلا روس کی کھلاڑی پر الزام عائد کیا ہے کہ کوارٹر فائنل کے سخت میچ کے بعد شائقین کی جانب سے ہوٹنگ کی ذمہ دار بیلاروس کی کھلاڑی اریانا سبا لینکا ہیں کیونکہ وہ مصافحے کے لیے نیٹ پر دیر تک ٹھہری رہیں۔ بیلاروس کی جانب سے یوکرین پر روسی حملے کی حمایت کے بعد سے سویتولینا نے ٹورنامنٹ میں میچز کے دوران روسی حریفوں سے مصافحہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ 28 سالہ یوکرینی کھلاڑی سویتولینا کے خوابوں کا یہ خاتمہ تھا کیونکہ دوسری سیڈ والی سبالینکا نے سیمی فائنل تک پہنچنے پر توجہ مرکوز رکھی اور وہ کامیاب ہو گئیں۔ اپنے گھر روانہ ہونے سے پہلے انھوں نے ہوائی جہاز پر کہا کہ ’یہ کافی توقع کی جا رہی تھی۔ جو بھی اس صورتحال میں ہارتا ہے، میرا اندازہ ہے کہ وہ غضبناک ہو جائے گا۔ یہ میرے لیے کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔‘ کوارٹر فائنل میں دو خواتین کے درمیان تناؤ کے ماحول کی اہم وجہ یوکرین اور روس کے درمیان حالیہ جنگ ہے۔ سویتولینا کا کوارٹر فائنل تک جانا اس سال کے ٹورنامنٹ کی دلچسپ کہانیوں میں سے ایک ہے۔ سابق عالمی نمبر تین، سویتولینا اب 192 ویں نمبر پر ہیں کیونکہ انھوں نے بیٹی سکائی کی پیدائش کے بعد سے بحال ہونے کی کوشش کرتی رہیں اور اس کے بعد سے اپنے پہلے گرینڈ سلیم ایونٹ میں کوارٹر فائنل میں پہنچ گئیں۔ تاہم اریانا سے شکست کے بعد ان کے سارے خواب بکھر گئے ہیں۔ روس کی جنگ کے دو حریف کھلاڑیوں سویتولینا اور سبالینکا کو اہم میچوں میں کھیلنے کا موقع ملا۔ بیلاروس کی اریانا سبالینکا نے اس سال ڈبلیو ٹی اے ٹور پر کسی بھی دوسرے کھلاڑی کے مقابلے زیادہ میچ جیتے ہیں، جس نے اپنے میچوں میں بہتر فٹنس اور مضبوط عزم کے ساتھ کامیابیاں حاصل کیں۔ بیلاروسی کھلاڑی کو پیرس میں ذاتی چیلنجوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، انھوں نے میچ کے بعد کی گئی اپنی پچھلی دو نیوز کانفرنسوں کو یہ کہنے کے بعد چھوڑ دیا کہ جب انھیں جنگ کے بارے میں اپنے مؤقف کے بارے میں سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا تو وہ اپنے آپ کو ’محفوظ محسوس نہیں کر رہی تھیں‘۔ دونوں کھلاڑیوں کی قوموں کے درمیان سیاسی صورتحال کا پس منظر کی وجہ سے ایک خوف کا ماحول تھا۔ انھوں نے میچ سے پہلے کی معمول کی تصویر لینے سے بھی گریز کیا تھا۔ ابتدائی سیٹ کے لیے شروعات میں سخت تناؤ جاری رہا، سویتولینا نے اپنے حریف کی شاٹس کھیلنے میں دقت پیش آرہی تھی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp9dmk3w9l2o", "summary": "آسٹریلیا اور انڈیا کی ٹیم کے درمیان بدھ سے لندن کے اوول میدان پر ٹیسٹ چیمپئن شپ (ڈبلیو ٹی سی) کا فائنل شروع ہو رہا ہے۔", "title": "ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل: آسٹریلین بولرز حاوی ہوں گے یا انڈین بلے باز چھا جائیں گے؟", "firstPublished": "2023-06-06T12:20:01.746Z", "id": "cp9dmk3w9l2o", "article": "آسٹریلیا اور انڈیا کی ٹیم کے درمیان بدھ سے لندن کے اوول کرکٹ گراؤنڈ پر ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل شروع ہو رہا ہے۔ بہرحال انڈین ٹیم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سنہ 2019 کے بعد جب سے ٹیسٹ چیمپئن شپ شروع ہوئی ہے وہ دونوں بار فائنل میں پہنچی ہے۔ اس کے بعد رواں سیزن کا آغاز سنہ 2021 میں انڈیا اور انگلینڈ کے درمیان پٹودی ٹرافی سے ہوا اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے نئے پوائنٹ سسٹم کے تحت باضابطہ طور پر پورے پروگرام کا اعلان کیا۔ انڈیا نے رواں ٹیسٹ چیمپئن شپ کا آغاز وراٹ کوہلی کی کپتانی میں کیا تھا لیکن جب کوہلی کو شارٹ فارم کی کپتانی سے ہٹایا گیا تو انھوں نے ٹیسٹ کپتانی کو بھی خیرباد کہا جس کے بعد انڈیا کو جنوبی افریقہ میں شکست کا سامنا رہا اور وہ چوتھے نمبر پر پہنچ گئی۔ انڈین اور آسٹریلین دونوں ہی ٹیمیں انگلینڈ پہنچ چکی ہیں لیکن انگلینڈ کی میڈیا کا زیادہ تر زور ایف اے کپ پر ہے جبکہ اگر کرکٹ کی بات ہو رہی ہے تو وہ آنے والی ایشز سیریز پر مرکوز ہے جس سے ٹیسٹ چیمپئن شپ کے نئے اور تیسرے سیزن کا آغاز ہونا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’پہلے دن کا پہلا گھونسہ اہمیت کا حامل ہے۔ میرے خیال میں پیٹ کمنس آسٹریلیا کے لیے اور محمد شامی انڈیا کی جانب سے اہم ہوں گے۔‘ سابق فاسٹ بولر وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ جوش ہیزل وڈ کے ٹیم میں نہ ہونے کے باوجود آسٹریلین ٹیم فیورٹ ہے کیونکہ یہ میچ جون کے مہینے میں تازہ دم وکٹ پر ہو رہا ہے۔ اور یہ میچ ڈیوکس بال سے ہو گا اس لیے بھی آسٹریلیا کو سبقت حاصل ہے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کا گذشتہ برسوں میں آسٹریلیا کے خلاف اچھا ریکارڈ رہا ہے اس نے گھریلو سیریز ایک کے مقابلے دو سے جیتی ہے۔ اس لیے یہ مقابلہ بہت کانٹے کا ہو گا۔‘ انھیں آئی پی ایل میں ان کی اچھی فارم کے لیے پھر سے ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔ انڈیا کے لیے خوش آئند بات وراٹ کوہلی اور شبھمن گل کا اچھے فارم میں ہونا ہے جبکہ رویندر جڈیجہ اور آر ایشون سپن کے معاملے میں اہمیت کے حامل ہیں۔ ایشون نے رواں ٹیسٹ چیمپئن شپ میں انڈیا کی جانب سے سب سے زیادہ 61 وکٹیں لے رکھی ہیں۔ بہر حال آسٹریلین کپتان پیٹ کمنس خوش ہیں کہ ان کی ٹیم تازہ دم ہے اور ٹیسٹ چیمپئن شپ کے بعد ایشز کے پانچ میچز کھیلنے کے لیے تیار ہے۔ فاتح کو آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے ’میس‘ کے ساتھ ساتھ ڈبلیو ٹی سی کی انعامی رقم کا ایک اہم حصہ بھی دیا جائے گا۔ اگر ڈبلیو ٹی سی فائنل میچ ڈرا، ٹائی یا نامکمل رہ جاتا ہے، تو آسٹریلیا اور انڈیا کو مشترکہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فاتح قرار دیا جائے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c88x5r2vzdzo", "summary": "اس بحث کے بارے میں تفصیلات جاننے کے لیے ہم نے پاکستان فٹبال فیڈریشن کی نارملائزیشن کمیٹی کے چیئرمین سمیت اوورسیز کھلاڑیوں اور ایک تجزیہ کار سے اس بارے میں تفصیل بات کی ہے۔ ", "title": "کیا اوورسیز کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرنے سے پاکستان کی فٹبال ٹیم بہتر نتائج دے پائے گی؟", "firstPublished": "2023-06-06T07:06:11.254Z", "id": "c88x5r2vzdzo", "article": "گذشتہ ہفتے پاکستان کی جانب سے موریشس میں کھیلے جانے والے چار ملکی فٹبال ٹورنامنٹ سے قبل ٹرینگ کیمپ کے لیے 28 رکنی سکواڈ کا اعلان کیا گیا۔ اس سکواڈ کی دلچسپ بات یہ تھی کہ اس میں نو اوورسیز کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا تھا۔ اس بحث کے بارے میں تفصیلات جاننے کے لیے ہم نے پاکستان فٹبال فیڈریشن کی نارملائزیشن کمیٹی کے چیئرمین سمیت اوورسیز کھلاڑیوں اور ایک تجزیہ کار سے اس بارے میں تفصیلی بات کی ہے۔ اس بحث کا پسِ منظر جاننے کے لیے ہم نے پاکستانی فٹبال ٹیم کے 17 میچ کھیلنے والے گول کیپر یوسف اعجاز بٹ سے بات کی جو گذشتہ 12 سال سے پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ یوسف بٹ سے جب مقامی کھلاڑیوں کو ملنے والے مواقعوں کی کمی کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’مقامی کھلاڑیوں کے لیے حالات بہت خراب ہیں۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ ٹیلنٹ نہیں ہے، پاکستان میں پچھلے 12 سالوں میں مجھے کلیم اللہ، عیسیٰ، عادل، صدام، فیصل جیسے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملا۔ لیکن وہ اس سے بہت آگے جا سکتے تھے۔ پاکستان میں انفراسٹرکچر کا مسئلہ الگ ہے اور سیاست کے مسائل بھی ہیں۔‘ ’اس کے علاوہ مجھے فٹنس کوچ اور نیوٹرشنسٹ کی سہولت بھی میسر ہے۔ پروفیشنل لیول کی فٹبال میں یہ سب تو اہم ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی حکمتِ عملی بہت اہم ہوتی ہے۔ ٹیم کا ردھم بہت ضروری ہوتا ہے، اس لیے اوورسیز کھلاڑیوں کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ انھیں یہ تمام سہولیات میسر ہوتی ہیں، اور بڑے کلبز سے کھیل کر آئے ہوتے ہیں تو انھیں دباؤ میں کھیلنے کی عادت ہوتی ہے۔‘ اس مسئلے کا پسِ منظر جاننے کے لیے ہم نے پاکستان کی فٹبال پر گہری نظر رکھنے والے شاہ رخ سہیل سے بات کی جو آج کل یونیورسٹی آف ایسٹ لندن میں سپورٹس مینجمنٹ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان فٹبال فیڈریشن کی نارملائزیشن کمیٹی کے چیئرمین ہارون ملک نے اس بارے میں بی بی سی سے تفصیل سے بات کی۔ مقامی کھلاڑی کے لیے میسر مواقعوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اس وقت آل پاکستان فٹبال ٹورنامنٹ کروا رہے ہیں، اس کے علاوہ 160 ضلعوں میں فٹبال ٹورنامنٹس ہوں گے۔ اسے سے پہلے نیشنل گیمز میں فٹ بال اور چیلنج کپ بھی ہو چکا ہے تو آہستہ آہستہ ہم مقامی کھلاڑیوں کو مواقع دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘ اس بارے میں ہارون ملک کا کہنا تھا کہ ’پوری دنیا میں فٹبال ٹیمیں ایسے ہی سیلیکٹ ہوتی ہیں۔ ہم نے اس مرتبہ نیشنل گیمز میں اور موجودہ ٹورنامنٹس میں بھی اپنے سکاؤٹ بھیجے ہیں تاکہ اچھے کھلاڑیوں کی نشاندہی کی جا سکے۔ ان کے مشوروں کی بنیاد پر ٹریننگ کے لیے سکواڈ کا اعلان کیا گیا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cll023vm668o", "summary": "آپ سے غلطی ہوتی ہیں، آپ کیچ ڈراپ کر جاتے ہیں، آپ کا ساتھی آپ کی غلطی کی وجہ سے رن آؤٹ ہو جاتا ہے، ایسی چیزیں ہوتی رہتی ہیں۔ کھیل کے دوران جب دھونی ایسی صورتحال میں آگے بڑھتے ہیں تو ان کی ٹیم بھی ایسا ہی کرتی ہے۔ پوسٹ مارٹم بعد کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ", "title": "41 سالہ دھونی کی کپتانی کا سحر ٹوٹ کیوں نہیں پا رہا؟", "firstPublished": "2023-06-01T08:05:42.533Z", "id": "cll023vm668o", "article": "مہندر سنگھ دھونی نے کپتانی کا یہ کردار اتنی ہی سنجیدگی سے ادا کیا۔ اپنے 250ویں آئی پی ایل میچ میں، جس کا گذشتہ ہفتے فائنل بھی ہوا، دھونی چنئی سپر کنگز کے آن فیلڈ سٹریٹجسٹ ہیں۔ کرکٹ پر ان کی جتنی گرفت ہے، وہ اپنے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو اتنا ہی سمجھتے ہیں۔ جب دیپک چاہر نے فائنل میچ کے اوائل میں شبمن گل کا کیچ ڈراپ کیا تو دھونی صرف سٹمپ کے پیچھے اپنی جگہ پر واپس چلے گئے اور وہاں سے تالیاں بجا کر بولر (اور ممکنہ طور پر رن روکنے کے لیے فیلڈر) کی تعریف کی۔ 41 سال کی عمر اور 538 بین الاقوامی میچ کھیلنے کے بعد دھونی کی عمر اور تجربے کا احترام کرنا فطری تھا۔ لیکن ان کے رویے کا احترام اس ذہنیت کی وجہ سے کیا گیا کہ کھیل اہم ہے لیکن زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں۔ آپ سے غلطی ہوتی ہیں، آپ کیچ ڈراپ کر جاتے ہیں، آپ کا ساتھی آپ کی غلطی کی وجہ سے رن آؤٹ ہو جاتا ہے، ایسی چیزیں ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن اگر یہ سب کچھ سوچے سمجھے بغیر کیا جائے تو کپتان آپ سے کچھ کہہ سکتا ہے، ورنہ وہ اس پر زیادہ توجہ نہیں دیتا، آگے بڑھ جاتا ہے۔ کھیل کے دوران جب دھونی ایسی صورتحال میں آگے بڑھتے ہیں تو ان کی ٹیم بھی ایسا ہی کرتی ہے۔ پوسٹ مارٹم بعد کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، میچ کے دوران نہیں۔ دھونی نے جب پہلی بار چنئی سپر کنگز کے لیے آئی پی ایل ٹرافی حاصل کی تو ان کی عمر 28 سال تھی اور یہ آئی پی ایل کا تیسرا ایڈیشن تھا۔ اس سے ایک سال قبل 38 سالہ ایڈم گلکرسٹ نے حیدرآباد کی ٹیم دکن چارجرز کے لیے یہ ٹرافی جیتی تھی۔ تو کیا آئی پی ایل کی کپتانی تجربہ کار کرکٹرز پر چھوڑ دی جائے جو اس تیزی سے بدلتے کھیل کو ہر زاویے سے دیکھ سکیں؟ کیا یہ بہتر ہے کہ آپ کے پاس ایک عوامی شخص بطور کپتان ہو کیونکہ ڈگ آؤٹ میں بیٹھے بڑی تنخواہیں حاصل کرنے والے سابقہ کھلاڑی حکمت عملی کو تیزی سے تبدیل کر رہے ہوتے ہیں۔ دھونی نے 35 سال کی عمر کے بعد اب اپنی ٹیم کو تین ٹرافیاں دلوائیں۔ ٹی ٹوئنٹی نوجوانوں کا کھیل ہو سکتا ہے لیکن ایک بڑی عمر کے کرکٹر کا بطور کپتان ہونا فائدہ مند رہا ہے، جس کی پوری ٹیم تقلید کرتے ہوئے کھیلے۔ وارن اور دھونی دونوں باہر سے نرم نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت مضبوط اور پرعزم شخصیت ہیں، وہ کھلاڑیوں کے ٹوٹے ہوئے حوصلے کو بلند کرتے ہیں اور انھیں خود ہی کامیابی دلانے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ وارن نے چار سیزن کے بعد آئی پی ایل چھوڑ دیا تھا، تب ان کی ٹیم کو ایسا جادوئی کپتان نہیں ملا اور راجستھان رائلز پہلی بار اس کے بعد یہ ٹرافی نہیں جیت سکی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cg3ngg43l04o", "summary": " برج بھوشن شرن سنگھ نے لکھنؤ کے نزدیک ایک عوامی جلسے میں الزام لگانے والی ریسلر خواتین کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھ پر الزام لگانے والو۔۔۔ گنگا میں تمغے بہانے سے مجھے پھانسی نہیں ہو گی۔ اگر تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے تو جا کر پولیس کو دو۔‘", "title": "انڈیا میں جنسی ہراسانی کے خلاف پہلوانوں کا احتجاج: ’اگر کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو یہ لڑکیاں پھر واپس آئیں گی‘ ", "firstPublished": "2023-06-01T04:49:23.444Z", "id": "cg3ngg43l04o", "article": "بدھ کو برج بھوشن شرن سنگھ نے لکھنؤ کے نزدیک ایک عوامی جلسے میں الزام لگانے والی ریسلر خواتین کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھ پر الزام لگانے والو۔۔۔ گنگا میں تمغے بہانے سے مجھے پھانسی نہیں ہو گی۔ اگر تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے تو جا کر پولیس کو دو۔‘ حکومت نواز سمجھی جانے والی ایک خبر رساں ایجنسی نے دلی پولیس کے ذرائع سے یہ خبر دی ہے کہ پولیس کو اپنی تفتیش میں برج بھوشن کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا اور وہ اس کیس کو بند کر سکتی ہے‘ تاہم پولیس نے بعد میں ایک بیان جاری کر کے اس خبر کی پوری طرح تردید کی اور کہا کہ تفتیش ابھی بھی جاری ہے۔ برج بھوشن شرن سنگھ نے کہا ہے کہ ’مجھ پر الزام لگانے والو۔۔۔ گنگا میں تمغے بہانے سے مجھے پھانسی نہیں ہو گی۔ اگر تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے تو جا کر پولیس کو دو‘ کئی کھلاڑیوں نےاںڈین ریسلنگ فیڈریشن کے صدر برج بھوشن پر جنسی ہراسانی کے جو الزامات لگائے ہیں وہ سنگین نوعیت کے ہیں۔ ان میں میبینہ طور پر ایک کھلاڑی نابالغ بتائی جاتی ہے لیکن یہ امر بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ محض الزامات لگانے سے اور تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ملزم کو مجرم نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ خواتین پہلوانوں کے دھرنے کے بعد حکومت اور سرکاری سرپرستی کے خواتین کے کمیشن تک نے کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ دوسری جانب ممتا بینرجی، اروند کیجریوال، پریانکا گاندھی اور اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں نے نہ صرف ان لڑکیوں کی حمایت کی بلکہ ان میں سے کئی رہنماؤں نے جنتر منتر پر جا کر دھرنے کے دوران ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا اور اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ مارکسی کمیونسٹ پارٹی کی رہنما برندا کرات نے کہا کہ ’ایف آئی آر درج ہونے کے بعد تفتیش کی کوئی مدت طے نہیں ہے تو پھر یہ لڑکیاں کہاں جائیں گی۔ یہ لڑکیوں کے تحفظ کے ضمن میں بہت غلط پیغام دیا جا رہا ہے۔ یہ بہت نقصان دہ ثابت ہو گا۔‘ بہت سے کھلاڑیوں نے بھی اولمپک میڈل جیتنے والی پہلوان لڑکیوں کے ساتھ پولیس کے برتاؤ پر تکلیف کا اظہار کیا۔ انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق سٹار گیند باز انل کمبلے نے کہا ہے کہ ’28 مئی کو ہمارے پہلوانوں کے ساتھ پولیس کا جبر دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ کسی بھی مسئلے کا حل بات چیت سے نکالا جا سکتا ہے۔ ہم جلد سے جلد اس مسئلے کے حل کی امید کرتے ہیں۔‘ نیرو کہتی ہیں کہ ’اس واقعے سے حکومت کی ساکھ انڈیا کے لوگوں میں ہی نہیں پوری دنیا میں خراب ہو رہی ہے۔ کسی اور ملک میں اگر کوئی ایتھلیٹ جنسی ہراسانی کا الزام لگاتی ہے تو حکومت اسے سنجیدگی سے لیتی ہے اور بروقت کارروائی کرتی ہے لیکن یہاں تو کوئی ردعمل ہی نہیں ہوا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjk85drnlzko", "summary": "بابر اعظم کی جانب سے سوشل میڈیا پر شائع کی گئی ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں کھلاڑیوں کے اردگرد بظاہر نوٹس بکھرے ہوئے ہیں اور بابر اعظم صوفے پر لیٹے ہوئے مطالعہ کر رہے ہیں جبکہ رضوان زمین پر بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں۔", "title": "بابر اور رضوان ہارورڈ بزنس سکول میں: ’ہمیں کرکٹ پر لگا کر خود پڑھنے بیٹھ گئے ہو‘", "firstPublished": "2023-05-31T07:19:56.785Z", "id": "cjk85drnlzko", "article": "اردگرد بکھری ہوئے نوٹس، کتابیں اور سٹیشنری، صوفے پر لیٹ کر نوٹس کا مطالعہ کرنا اور زمین پر بیٹھ کر کمر دہری کر کے پڑھائی۔۔۔ بابر اعظم کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں کھلاڑیوں کے اردگرد بظاہر نوٹس بکھرے ہوئے ہیں اور بابر اعظم صوفے پر لیٹے ہوئے مطالعہ کر رہے ہیں جبکہ رضوان زمین پر بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں عام فہم زبان میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے، یعنی سکولوں، کالجوں میں طلبا کے لیے ہارورڈ تک پہنچنا ایک اعزاز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ویب سائٹ کے مطابق اس پروگرام کی فیس 10500 ڈالر ہے جو پاکستانی 29 لاکھ 92 ہزار روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔ سایا کارپوریشن کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ بابر اور رضوان کی فیس کون ادا کر رہا ہے اور آیا ان سے فیس لی بھی جا رہی ہے یا نہیں۔ خیال رہے کہ بابر اور رضوان گذشتہ چند روز سے امریکہ میں مختلف پاکستانی کمیونٹیز کے ساتھ ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے تصاویر اور ویڈیوز شیئر کی جا رہی ہیں۔ وہاں ان کی معروف عالم دین ڈاکٹر عمر سلیمان کے ساتھ بھی تصویر خاصی شیئر کی جا رہی ہے۔ پریس ریلیز کے مطابق رضوان کا اس پروگرام کا حصہ بننے پر کہنا تھا کہ ’ہمارے لیے پاکستان کی عالمی سطح پر نمائندگی کرنا فخر کی بات ہے۔ ہم بی ای ایم پروگرام میں بیسٹ آف دی بیسٹ سے سیکھنے کے لیے جا رہے ہیں۔ نہ صرف اساتذہ بلکہ ساتھی پروگرام فیلوز سے بھی سیکھیں گے اور اپنے سفر کی کہانی بھی لوگوں کے ساتھ شیئر کریں گے۔ خیال رہے کہ امریکہ میں وقت کے ساتھ کرکٹ کی مارکیٹ بن رہی ہے اور اب یہاں پر خصوصاً پاکستانی اور انڈین کھلاڑیوں کو بہترین مواقع دیے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں یہاں ایم سی ایل کے نام ایک ٹی 20 لیگ کے آغاز کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جس میں شرکت کے لیے پاکستانی کھلاڑی این او سی کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک اور صارف نے بابر اور رضوان کی تصویر کا بغور جائزہ لیا جس پر پتا چلا کہ رضوان کے ہاتھ میں تسبیح ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’بابر بظاہر اس بے فقرے طالبعلم کی طرح ہیں جو صرف ایک مرتبہ پڑھ کے پرچہ دے دیتے ہیں لیکن رضوان وہ ہیں جو پڑھتے بھی ہیں اور ساتھ ساتھ دعا بھی کرتے ہیں کہ دونوں پاس بھی ہو جائیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ce5n0xxggzvo", "summary": "اس میچ میں دھونی کی جانب سے گجرات کے سب سے انفارم بلے باز اور ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے شبمن گل کی انتہائی برق رفتاری سے کی گئی سٹمپنگ کے چرچے سوشل میڈیا پر ہوتے رہے۔ ", "title": "دھونی: پانچواں آئی پی ایل جیتنے والے ’پل دو پل کے شاعر‘ جو اپنے آپ میں ایک ’گورکھ دھندا‘ ہیں", "firstPublished": "2023-05-30T03:45:17.485Z", "id": "ce5n0xxggzvo", "article": "دھونی کی سوانح عمری ’دی دھونی ٹچ‘ لکھنے والے بھرت سندریسن نے ٹویٹ کی کہ ’اس سیزن میں یہ محسوس ہو رہا تھا کہ یہ یقینی طور پر دھونی کا آخری سیزن ہو گا لیکن اس انٹرویو کے بعد کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ انھوں نے ہارشا بھوگلے کو یہ تو کہا کہ وہ (پلے آف) ان کا چنئی میں آخری میچ تھا لیکن اب ہمیں آکشن تک ان کے فیصلے کا انتظار کرنا ہو گا۔‘ کووڈ کی پابندیاں ختم ہونے کے بعد اس سیزن میں چنئی میں لگ بھگ تین برس بعد آئی پی ایل کے میچ کھیلے جا رہے تھے۔ دھونی کا چنئی سپر کنگز کے ہوم گراؤنڈ پر تو والہانہ استقبال ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے لیکن اس سیزن میں دھونی جس بھی گراؤنڈ میں میچ کھیلنے گئے انھیں پرتپاک انداز میں ویلکم کیا گیا۔ احمدآباد میں نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ سے قبل دھونی نے کہا کہ میں اپنی کرکٹ یہیں سے شروع کی تھی اور یہاں جب آج ہم آئے اور تماشائیوں کی جانب سے جتنا پیار ملا تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، پھر میں کچھ دیر ڈگ آؤٹ میں کھڑا ہوا اور خود کو بتایا کہ مجھے اسے انجوائے کرنا ہے۔‘ دھونی کی اس ٹورنامنٹ میں کپتانی ہمیشہ کی طرح اپنے جوبن پر تھی۔ حالانکہ ان کی ٹیم ٹورنامنٹ کے آغاز میں آن پیپر آئی پی ایل کی دیگر ٹیموں کی نسبت کمزور دکھائی دیتی تھی لیکن دھونی نے جس طرح چنئی کی قدرے کمزور بولنگ کے ساتھ یہ ٹورنامنٹ جیتا وہ یقیناً قابلِ تعریف ہے۔ دھونی تاریخ کے وہ پہلے کپتان ہیں جنھوں نے تینوں آئی سی سی وائٹ بال ٹورنامنٹس جیتے ہیں یعنی 2007 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ، 2011 کا ون ڈے ورلڈ کپ اور 2013 کی چیمپیئنز ٹرافی۔ اس کے علاوہ انڈین پریمیئر لیگ میں ان کی کپتانی میں چنئی سوپر کنگز دس مرتبہ فائنل کے لیے کوالیفائی کر چکی ہے اور پانچ مرتبہ ٹورنامنٹ جیت چکی ہے۔ اس سب کے بیچ میں وہ ہمیشہ ’کامن سینس‘ یعنی عام سمجھ بوجھ کے حساب سے فیصلے کرتے رہے اور اپنے اردگرد چیزوں کو انتہائی آسان بنائے رکھا۔ فیصلے کے مراحل کے بارے میں سوچنے اور نتیجے کی فکر نہ کرنے کے باعث دھونی اپنے جذبات پر قابو تو رکھتے ہیں ہی لیکن ساتھ ہی اس سے ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی بہتر ہو جاتی ہے۔ سنہ 2007 کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی فائنل کا آخری اوور جوگیندر شرما کو دینے کی وجہ ان کے نیٹس میں اچھے یارکر تھے، ورلڈ کپ 2011 کے فائنل میں ان فارم بلے باز یوراج سے پہلے آنے کا مقصد یہ تھا کہ انھوں نے مرلی دھرن کو آئی پی ایل میں اپنی ٹیم میں کھیل رکھا تھا اور سنہ 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بنگلہ دیش کے خلاف ایک گلو اتار کر آخری گیند کے لیے تیار کھڑے ہونے کے باعث وہ باآسانی رن آؤٹ کرنے میں کامیاب رہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c037l08n643o", "summary": "دہلی پولیس نے جنتر منتر پر ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر اور بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف احتجاج کرنے والے اولمپک میڈلسٹ پہلوانوں سمیت کئی مظاہرین کو حراست میں لے کر مختلف مقامات پر منتقل کر دیا ہے۔ ", "title": "دہلی میں پہلوانوں کی گرفتاریاں: ’آج حکومت نے بیٹیوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ یاد رکھا جائے گا‘", "firstPublished": "2023-05-28T14:30:21.698Z", "id": "c037l08n643o", "article": "دہلی پولیس نے جنتر منتر کے مقام پر ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر اور بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف احتجاج کرنے والے اولمپک میڈلسٹ پہلوانوں سمیت کئی مظاہرین کو حراست میں لے کر مختلف مقامات پر منتقل کر دیا ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار ابھینو گوئل کے مطابق جنتر منتر پر دہلی پولیس کی بھاری نفری موجود ہے اور میڈیا کو بھی احتجاج کے مقام پر پہنچنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ دہلی پولیس نے وہاں سے دھرنا دے کر احتجاج کرنے والے ریسلرز کے خیموں اور بستروں کو بھی ہٹا دیا ہے اور یہاں بھاری رکاوٹیں لگا دی ہیں۔ کئی مظاہرین کو دہلی کے وسنت کنج پولیس سٹیشن میں بھی لایا گیا ہے۔ میرٹھ سے آنے والی ایک خاتون گیتا چودھری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرٹھ سے ہم پانچ چھ خواتین سنیچر کی رات آٹھ بجے جنتر منتر پر پہلوانوں کی حمایت کے لیے آئی تھیں۔ پولیس میرے باقی ساتھیوں کو مختلف تھانوں میں لے گئی ہے۔‘ دہلی کے وسنت کنج تھانے کے اندر موجود ہریانہ کے رہنے والے ڈاکٹر سکم نین نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ پولیس نے اس تھانے میں تقریباً 20 خواتین اور تقریباً 50 مردوں کو حراست میں رکھا ہوا ہے۔ ’جب تک ہمارے کھلاڑیوں کو انصاف نہیں ملتا ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ جنتر منتر پر آج حکومت نے بیٹیوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ یاد رکھا جائے گا۔‘ اس سے پہلے ایک ٹویٹ میں ریسلر ساکشی ملک نے کہا تھا کہ ’تمام پہلوانوں اور بوڑھی ماؤں کو حراست میں لینے کے بعد، اب پولیس نے جنتر منتر پر ہمارے مورچے کو اکھاڑنا شروع کر دیا ہے۔ ہمارا سامان اٹھایا جا رہا ہے۔ یہ کیسی غنڈہ گردی ہے؟‘ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ اور ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ پر خواتین ریسلرز نے جنسی ہراسانی سمیت کئی سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ دہلی پولیس ان الزامات کی جانچ کر رہی ہے۔ برج بھوشن اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ جنتر منتر پر احتجاج کرنے والی خواتین پہلوانوں نے اتوار کو دہلی میں ’مہیلا مہاپنچایت‘ یعنی خواتین کی پنچایت منعقد کرنے کی کال دی تھی۔ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اتوار کو ہی نو تعمیر شدہ پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح کیا ہے۔ اسی دوران خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق دہلی پولس نے ونیش پھوگاٹ، ساکشی ملک اور بجرنگ پونیا کو امن و امان کی خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لے لیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckk4k45ddx7o", "summary": "انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) منافع بخش ہونے کے علاوہ نئے کھلاڑیوں کے لیے اپنے کریئر کو بین الاقوامی میدان میں تیزی سے آگے بڑھانے کا ایک بڑا پلیٹ فارم ہے۔ ", "title": "آئی پی ایل 2023: انڈیا کے مستقبل کے سٹار کون کون کھلاڑی ہو سکتے ہیں؟", "firstPublished": "2023-05-27T12:15:23.189Z", "id": "ckk4k45ddx7o", "article": "انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) منافع بخش ہونے کے علاوہ نئے کھلاڑیوں کے لیے اپنے کریئر کو بین الاقوامی میدان میں تیزی سے آگے بڑھانے کا ایک بڑا پلیٹ فارم ہے۔ ماضی کے ایڈیشنوں کی طرح رواں سال بھی ان کیپڈ (یعنی وہ کھلاڑی جو کسی قومی ٹیم کا حصہ نہیں ہیں) کھلاڑیوں نے آئی پی ایل میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیم انڈیا میں انتخاب کے لیے اپنے آپ کو مضبوطی سے پیش کیا ہے۔ سپورٹس پر لکھنے والے مصنف سیتوک بسوال نے ایسے ہی پانچ ہونہار کھلاڑیوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی ہے۔ رنکو سنگھ آئی پی ایل کی ٹیم کولکتہ نائٹ رائیڈرز ( کے کے آر) کا حصہ ہیں۔ ان کی رواں سیزن 2023 میں ساتویں نمبر پر رہی لیکن وہ اپنی ٹیم کے لیے کسی نئی دریافت کی طرح رہے۔ ہر بار جب وہ کریز پر آئے تو ان کی ٹیم اور شائقین ان سے ٹیم کو فتحیاب کرانے کی توقع کرتے تھے۔ انھوں بعض مرتبہ انھیں سنسنی خیز مقابلے میں جیت بھی دلائی اور کئی بار بہت قریب پہنچا کر چوک گئے۔ جب کولکتہ کو یش دیال کے آخری اوور سے 29 رنز درکار تھے تو پہلی گیند پر سنگل لے کر ساتھی کھلاڑی نے اسٹرائیک رنکو سنگھ کو دے دی۔ بائیں ہاتھ کے بلے باز نے پھر لگاتار پانچ چھکے لگا کر کولکتہ کے لیے شاندار جیت حاصل کی جو کہ آئی پی ایل کا ایک ریکارڈ ہے۔ رنکو سنگھ نے ڈومیسٹک کرکٹ میں اتر پردیش کے لیے تقریباً 100 میچ کھیل کر اپنے کھیل میں نکھار پیدا کیا۔ رواں سیزن میں اپنے شاندار کھیل کے مظاہرے کے ساتھ رنکو سنگھ نے یقینی طور پر ایک بیان دیا ہے اور قومی ٹیم میں جگہ کے لیے ان کا دعویٰ پیش کیا ہے جو کہ امید افزا لگتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جیسوال کے پاس اب آئی پی ایل کے کسی ایک سیزن میں کسی بھی ان کیپڈ کھلاڑی کے ذریعہ سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ ہے۔ انھوں نے 13 گیندوں پر آئی پی ایل کی تاریخ کی تیز ترین نصف سنچری بھی بنائی۔ آئی پی ایل کے رواں سیزن سے پہلے جیتیش شرما انڈین ٹی 20 ٹیم کا حصہ تھے لیکن انھیں پلیئنگ الیون میں ڈیبیو کرنے کا موقع نہیں ملا۔ تشار 10 بار فائنل میں پہنچنے والی ٹیم چینئی سپر کنگز (سی ایس کے) کی جانب سے کھیلتے ہیں۔ دائیں ہاتھ کے تیز بولر نے پچھلے سال کے آئی پی ایل کے بعد ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ گزشتہ ایڈیشن میں انھیں چینئی سپر کنگز کے لیے صرف دو میچ کھیلنے کا موقع ملا تھا۔ 28 سالہ کھلاڑی آئی پی ایل کے رواں سیزن 2023 میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے پانچ کھلاڑیوں میں شامل ہیں۔ ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے اور آئی پی ایل کے تجربے کی بدولت وہ چند ماہ بعد ہونے والے ورلڈ کپ میں انڈین ٹیم کے لیے ایک مثالی آپشن ہو سکتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cpedgn3qq9lo", "summary": "کرکٹ کے بوکیز بیٹنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ شرط لگانے کے لیے خفیہ زبان استعمال کرتے ہیں، جیسے انگلی سے مراد ایک ہزار روپے، ہڈی کا مطلب دس ہزار جبکہ ٹانگ سے مراد ایک لاکھ روپے ہے۔", "title": "چوکے پر پچاس ہزار، چھکے پر ایک لاکھ روپے۔۔۔ آئی پی ایل میں ’ایزی منی‘ کے خواہشمند نوجوان", "firstPublished": "2023-05-25T04:47:17.196Z", "id": "cpedgn3qq9lo", "article": "گیمنگ ایپس کے ساتھ بیٹنگ ایپس کی ایک بڑی تعداد ابھری ہے جو شرط لگانے والوں کے لیے آسانی سے دستیاب ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سائبر کرائم پولیس خصوصی توجہ کے ساتھ ان پر قابو پا سکتی ہے۔ ’بیٹنگ (سٹے بازی) صرف میچ میں بنائے گئے رنز پر نہیں بلکہ ٹاس جیسی چیزوں پر بھی کی جاتی ہے۔‘ ان چھاپوں میں 50 لاکھ روپے ضبط اور 12 افراد گرفتار کیے گئے۔ معاملے پر ڈی سی پی سندیپ راؤ نے میڈیا کو بتایا کہ ’میچ ہوتے ہی پیسے آن لائن بھیج دیے جاتے ہیں۔ بعد میں ہمیں کہیں پیسہ نظر نہیں آئے گا۔ ایک بار میچ ختم ہونے کے بعد پیسہ پکڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم میچ کے دوران چھاپہ مارنے میں کامیاب رہے۔‘ کرکٹ کے یہ بوکیز بیٹنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ شرط لگانے کے لیے خفیہ زبان استعمال کرتے ہیں، جیسے ’انگلی‘ سے مراد ایک ہزار روپے، ’ہڈی‘ کا مطلب دس ہزار جبکہ ’ٹانگ‘ سے مراد ایک لاکھ روپے ہے۔ جیتنے والی ٹیم یا جیتنے کے سب سے زیادہ امکانات والی ٹیم کو ’فلائنگ‘ کہا جاتا ہے۔ ہارنے والی ٹیم کو ’کھانا‘ کہتے ہیں۔ مزید یہ کہ بیٹنگ کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے کچھ یوٹیوب چینلز اور ٹیلی گرام گروپس موجود ہیں۔ یہ میچ جیتنے والوں کی پہلے سے پیشگوئی کرنے کے ساتھ ساتھ شرط لگانے والوں کو نکات اور مشورے بھی فراہم کرتے ہیں۔ انڈیا کے علاوہ ملائیشیا اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک سے بھی آئی پی ایل پر سٹے بازی چلائی جاتی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ سب کچھ آن لائن ہو رہا ہے، اس لیے اس پر قابو پانا مشکل ہو گیا ہے۔ ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ بوکیز دہلی، ممبئی اور حیدرآباد میں کام کر رہے ہیں جبکہ نیچے ان کے ’پنٹر‘ ساتھ دیتے ہیں۔ ’شرط لگانے سے لے کر جیتنے کے بعد پیسے بھیجنے تک، سب کچھ آن لائن گوگل پے اور فون پے پر کیا جاتا ہے۔ اس لیے انھیں پکڑنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘ ان کے اہلخانہ نے پولیس کو بتایا کہ سٹے بازی میں پانچ لاکھ روپے ہارنے کے بعد اس کی موت ہو گئی۔ اگرچہ اس طرح کے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں لیکن سٹے بازی کی سرگرمیوں پر کنٹرول کا فقدان ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g4l2jz27ko", "summary": "اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دھونی پانچویں بار اپنی ٹیم کو کامیابی دلا کر یہ ریکارڈ برابر کریں گے اور کیا وہ اس خطاب کے ساتھ آئی پی ایل سے رخصت ہوں گے؟", "title": "چینئی سپر کنگز 10ویں بار آئی پی ایل کے فائنل میں: ’فینز دھونی کو 75 سال کی عمر تک بھی ریٹائر نہیں ہونے دیں گے‘", "firstPublished": "2023-05-24T05:52:09.433Z", "id": "c3g4l2jz27ko", "article": "اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دھونی پانچویں بار اپنی ٹیم کو کامیابی دلا کر یہ ریکارڈ برابر کریں گے اور کیا وہ اس خطاب کے ساتھ آئی پی ایل سے رخصت ہوں گے؟ ہر بار کرکٹ مبصرین نے ان سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ ان کا آخری آئی پی ایل ہے کہ لوگ انھیں اس قدر تعداد میں دیکھنے آتے ہیں اور گذشتہ رات ہرشا بھوگلے نے بھی دھونی سے یہی سوال کیا تو انھوں نے اپنے انداز میں جواب دیا۔ پھر دھونی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم، میرے پاس فیصلہ کرنے کے لیے آٹھ نو مہینے ہیں تو ابھی سے اس سر درد کو کیوں پالوں۔ میرے پاس فیصلہ لینے کے لیے کافی وقت ہے۔ میں یہ نہیں جانتا کہ میں اس (ٹیم) کے ساتھ ایک کھلاڑی کے طور پر رہوں گا یا کسی اور حیثیت سے لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ میں سی ایس کے ساتھ رہوں گا۔‘ اس سے پہلے موریسن نے یہ بھی کہا تھا کہ ’دھونی کو اس آخری سیزن میں ہر گراؤنڈ پر سپورٹ مل رہی ہے‘ اور پھر ماہی یعنی دھونی سے پوچھا کہ آپ اس کا مزہ کیسے لے رہے ہیں تو ’کیپٹن کول‘ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’اس کا مطلب ہے کہ آپ نے فیصلہ کر لیا کہ یہ میرا آخری سیزن ہے۔‘ ’اپنے وسائل سے بہترین فائدہ اٹھانا ہی بہتر قیادت ہے اور چینئی کے پاس جو بولنگ لائن اپ ہے اس کے ساتھ صرف دھونی ہی انھیں فائنل میں لے جا سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ، وہ ہیں اور وہ جو کرتے ہیں اس کے لیے انھیں ہر جانب سے محبت ملتی ہے۔‘ مبصرین کا کہنا ہے کہ دھونی کو جو محبت اور حمایت حاصل ہے اس کے تحت یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان کا آخری آئی پی ایل نہیں ہو گا لیکن ان کے گھٹنے میں چوٹ ہے، جس کا ذکر بار بار کیا جاتا رہا ہے اور گذشتہ رات دھونی نے بھی اس کا ذکر کیا۔ آئی پی ایل میں ٹیم کو 10ویں بار فائنل میں پہنچانے کے بعد دھونی سے پوچھا گیا کہ کیا یہ ایک اور فائنل کی طرح ہے تو انھوں نے کہا کہ ’یہ صرف ایک اور فائنل کی طرح نہیں۔ پہلے یہاں دنیا بھر کے بہترین کرکٹرز کے ساتھ آٹھ ٹیمیں ہوتی تھیں اور اب 10 ہیں، لہذا اب یہ پہلے سے زیادہ مشکل ہے۔‘ ان سے ایک انٹرویو میں جب اس بارے میں پوچھا گیا تو وہ جذباتی ہو گئے اور انھوں نے کہا کہ ’اس کھلاڑی (دھونی) نے انڈیا کو کیا نہیں دیا۔ انھوں نے کہا کہ کرکٹ کے دو لمحات ہمیشہ یاد رہیں گے۔ ایک وہ جب کپل نے سنہ 1983 میں ورلڈ کپ اٹھایا اور ایک جب دھونی ورلڈ کپ جتانے کے لیے چھکا مار کر اپنا بلا گھماتے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy7pzqxw5lvo", "summary": "انڈیا کے دارالحکومت نیو دہلی کے جنتر منتر کے مقام پر گذشتہ ایک ماہ سے خواتین ریسلرز سمیت انڈین پہلوان ملک کی ریسلر فیڈریشن کے سربراہ کے خلاف احتجاجی دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ایسے میں عالمی مقابلوں میں انڈیا کا تمغہ جیتنے کے امکانات کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔", "title": "انڈیا میں ریسلرز کا احتجاج: ’ہم سب اپنی بہترین فارم میں ہیں اور اپنے عروج پر نہ کھیلنا ہمیں اندر سے مار دے گا‘", "firstPublished": "2023-05-23T11:03:35.385Z", "id": "cy7pzqxw5lvo", "article": "لیکن وہ کسی تربیتی کیمپ میں خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کرنے کے بجائے، انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں ایک سڑک پر چھوٹے سے خیمے میں رہ رہی ہیں، جہاں آج کل درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا ہے۔ وہ گذشتہ ایک ماہ سے ’بہت کم نیند‘ اور ’مسلسل شور‘ کا شکار ہیں۔ پھوگاٹ کا شمار ملک کے سب سے کامیاب پہلوانوں کے گروہ میں ہوتا ہے اور یہ لوگ آج کل اپنی ریسلنگ فیڈریشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار پر خواتین پہلوانوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور بدسلوکی کا الزام لگانے کے بعد احتجاج کر رہے ہیں۔ اولمپک میں میڈلز جیتنے والوں سمیت یہ پہلوان ریسلنگ فیڈریشن کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے استعفیٰ اور گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بھوشن سنگھ نے دہلی پولیس کی جانب سے پوچھ گچھ میں اپنے پر لگے الزامات کی تردید کرتے ہوئے احتجاج کو سیاسی قرار دیا ہے۔ منگل کو ان مظاہروں کو شروع ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے۔ اور اس احتجاج نے ہونے والی چیمپئن شپ میں انڈیا کے لیے ریسلنگ کا تمغہ جیتنے کے امکانات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس سے کھلاڑی نہ صرف پریشان ہیں بلکہ دل برداشتہ بھی ہیں۔ سنہ 2020 کے اولمپکس مقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیتنے والے پہلوان بجرنگ پونیا کہتے ہیں کہ ’پورے ملک نے ایک اور تمغہ حاصل کرنے کے لیے ہم سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور ہم واقعی ایسا چاہتے ہیں، لیکن یہاں ہم 30 دن سے بغیر کسی حل کے بیٹھے ہیں۔‘ سینگپتا کا کہنا ہے کہ اگلے چند مہینوں میں ایک پہلوان کا جسم طاقت اور قوت کی مکمل حد پر کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جسے ’دھماکہ خیز قوت‘ کہا جاتا ہے اور اس کا مطلب ہے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ قوت کو ظاہر کرنا۔ یہ صرف بہت مختصر وقت میں حاصل کیا جا سکتا ہے. اور پھر مقابلہ سے پہلے آخری مہینہ ہے، جہاں جسم کو آرام اور صحت یاب ہونے کا وقت دیا جاتا ہے۔ سنہ 2016 میں اولمپکس مقابلوں میں ریسلنگ کا تمغہ جیتنے والی پہلی انڈین خاتون پہلوان ساکشی ملک کہتی ہیں کہ ’اگرچہ تربیتی کیمپ کی زندگی بھی مشکل ہوتی ہے۔ لیکن یہ وہ زندگی ہے جسے ہم جانتے ہیں۔ لیکن یہاں مناسب خوراک، نیند اور آرام کے بغیر رہنا اس کا ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمیں ایسا کرنا پڑے گا۔‘ کھیل کے نقطہ نظر سے بات کرتے ہوئے سنگیپتا کہتے ہیں کہ پہلوانوں کی مقابلوں میں حصہ نہ لینے یا مقابلہ نہ کرنے میں ناکامی انڈیا کے جیت کے امکانات کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتی ہے کیونکہ ملک میں اب بھی باصلاحیت پہلوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cx9n41xjvlgo", "summary": "ایک مطالعے میں 170 افراد کے بارے میں تحقیق کے بعد پایا گیا کہ لمبی اور پتلی ٹانگوں والے افراد گرم موسم میں اور چھوٹے قد کے چوڑے سینوں والے لوگ سر موسم میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں۔ \n", "title": "پتلی لمبی ٹانگوں والے لوگ گرمی میں تیز کیسے بھاگ لیتے ہیں؟", "firstPublished": "2023-05-22T01:06:44.252Z", "id": "cx9n41xjvlgo", "article": "اگر آپ ایک میراتھون دوڑنے والے ہیں اور عمدہ کارکردگی دکھانا چاہتے ہیں تو آپ کی تربیت کے ساتھ ساتھ آپ کی جسمانی ساخت بھی اتنی ہی اہم ہے۔ ایک مطالعے میں 170 افراد کے بارے میں تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ لمبی اور پتلی ٹانگوں والے افراد گرم موسم میں اور چھوٹے قد کے چوڑے سینوں والے لوگ سرد موسم میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں۔ امریکہ کے ڈارٹ ماؤتھ کالج میں حیاتیاتی علوم کے پروفیسر اور تحقیق کے مصنف پروفیسر ریان کیلس بیک کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق ان اولین تحقیقوں میں سے ایک ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسان کی جسمانی خصوصیات یعنی فزیاوجی کو آب و ہوا کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے تا کہ جسمانی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’عالمی درجہ حرارت اور آب و ہوا نے انسانی جسم کو اس طرح سے دکھائی دینے اور کام کرنے کے لیے ڈھالا ہے جس طرح وہ آج ہیں۔ لہذا آئرن مین ٹرائیتھلونز، میراتھن اور دیگر سخت مقابلوں میں کچھ مرد اپنے جسم کی ساخت اور درجہ حرارت کی بنیاد پر دوڑ کے لیے مقابلے کے دوسرے شرکا سے زیادہ موزوں ہو سکتے ہیں۔‘ انسان جانوروں کی طرح ہو سکتے ہیں جن میں سردی سے ڈھلنے والی انواع شامل ہیں جن کے اعضا گرمی کے نقصان کو محدود کرنے کے لیے تنو مند، چھوٹے یا موٹے ہو جاتے ہیں۔ اور گرم آب و ہوا میں ٹھنڈا رہنے کے لیے انسانوں اور جانورں کے پتلے بنائے جاتے ہیں۔ پی ایل او ایس ون نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں کم از کم دو آئرن مین مقابلوں میں حصہ لینے والے 171 ٹرائی ایتھلیٹس کا تجزیہ کیا گیا جن میں سے ایک گرم مقام پر اور دوسرا سرد مقام پر تھا اور مقابلوں کی تصاویر کی بنیاد پر کھلاڑیوں کے جسم کی پیمائش کے لیے سافٹ ویئر کا استعمال کیا گیا۔ ٹرائی ایتھلیٹس کو اس مطالعے کے لیے اس لیے چنا گیا کیونکہ ان کے ایونٹ انسانی جسم کی ساخت اور کارکردگی پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے بہترین تھے۔ ’پروفیسر ریان کیلس بیک کا کہنا ہے کہ ’ایک ایونٹ، خاص طور پر دوڑ ہمیں انسانی ارتقا کے بارے میں بتاتا ہے اور باقی یعنی دو تیراکی اور سائیکلنگ اتنے اہم نہیں۔ اس نے تقابل زیادہ آسان کر دیا۔ ‘ ایتھلیٹس پر زور دیا جاتا ہے کہ تربیت کے ساتھ ساتھ وہ اس بارے میں سوچیں کہ ان کے جسم کی ساخت اور قسم کس آب و ہوا کے لیے قدرتی طور پر موزوں ہوسکتی ہے۔ پروفیسر کیلس بیک کا کہنا تھا کہ ’جو لوگ بہترین کارکردگی دکھانا چاہتے ہیں انھیں ریس کے مقامات اور اوسط درجہ حرارت کے بارے میں سوچنا چاہیے اور وہ اس بات کی بنیاد پر جگہ کا انتخاب کر سکتے ہیں کہ ان کے جسم کی قسم کو کس طرح پرفارم کرنے کے لیے ڈھالا گیا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6p01jzmpygo", "summary": "ایک ایسے وقت میں جب رواں سال ہونے والے ایشیا کپ سے متعلق پہلے ہی ایک غیر یقینی صورتحال تھی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی کے انڈین میڈیا کو دیے حالیہ بیان نے سرحد پار ایک طوفان برپا کردیا ہے۔ ", "title": "نجم سیٹھی کا انٹرویو: ’ورلڈ کپ کے لیے انڈیا جانے کا فیصلہ شاہد آفریدی نہیں حکومت کرے گی‘", "firstPublished": "2023-05-21T05:11:25.805Z", "id": "c6p01jzmpygo", "article": "ایک ایسے وقت میں جب رواں سال ہونے والے ایشیا کپ سے متعلق پہلے ہی ایک غیر یقینی صورتحال تھی پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین نجم سیٹھی کے انڈین میڈیا کو دیے اس حالیہ بیان نے سرحد پار سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کردیا ہے۔ انڈیا میں جہاں اُن کے ورلڈکپ میں شرکت سے متعلق بیان پر تنقید ہو رہی ہے وہیں پاکستان میں بھی ان کے اس بیان پر ملا جُلا ردعمل سامنے آیا۔ ایک طرف کرکٹ شائقین نجم سیٹھی کو سراہتے نظر آئے کہ ان کا انڈیا نہ جانے کا فیصلہ انصاف پر مبنی ہے جبکہ دوسری جانب سابق پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی نے کہا کہ ’ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا بلکہ بچوں کو کہنا چاہیے تھا کہ وہ جا کر کھیلیں اور ورلڈ کپ جیت کر آئیں۔‘ پی سی بی کے سربراہ نجم سیٹھی نے ایسا سخت موقف کیوں اپنایا، ایشیا کپ اور ورلڈکپ سے متعلق ان کی ٹیم کو لے کر کیا توقعات ہیں۔ ان سب سوالوں کے لیے بی بی سی نے ان سے خصوصی گفتگو کی ہے۔ بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’ورلڈ کپ کے لیے انڈیا جانے کا فیصلہ شاہد آفریدی کا نہیں اور نہ ہی یہ جے شاہ یا میرا ہے۔ یہ فیصلہ اُس جانب انڈین حکومت کا ہے اور اِدھر پاکستانی حکومت کا ہے۔‘ اس بیان کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ انڈیا نے گذشتہ سال اکتوبر میں ہی پاکستان کو دو ٹوک جواب دے دیا تھا کہ وہ سکیورٹی خدشات کے باعث ایشیا کپ کھیلنے پاکستان نہیں آئیں گے۔ پی سی بی چیئرمین نے گذشتہ کئی دنوں میں درجنوں انٹرویوز دیے ہیں جن میں سے زیادہ تر انڈین میڈیا کو دیے گئے۔ اس حوالے سے میں نے نجم سیٹھی سے پوچھا کہ اتنے سارے انٹرویوز کا مطلب کہیں یہ تو نہیں کہ جن سے آپ براہ راست بات کرنا چاہتے ہیں وہاں سے آپ کو کوئی خاطر خواہ جواب نہیں مل رہا؟ پی سی بی نے یہ واضح کردیا ہے کہ رواں سال انڈیا میں ہونے والے ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی شرکت حکومتی اجازت سے مشروط ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے باضابطہ طور پر نئی سیلیکشن کمیٹی کا اعلان تو نہیں کیا مگر بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں چیئرمین پی سی بی نے کمیٹی کے ارکان کے نام بتا دیے۔ نجم سیٹھی کے مطابق نئی سیلیکشن کمیٹی کی سربراہی ہارون رشید کریں گے جبکہ دیگر ارکان میں مکی آرتھر، گرانٹ بریڈبرن اور حسن چیمہ شامل ہوں گے۔ کم میچ پریکٹیس کے معاملے پر بات کرتے ہوئے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’پہلے تو میں بہت پُر امید ہوں کہ ایشیا کپ ضرور ہوگا لیکن اگر وہ کسی بھی وجہ سے نہیں ہوتا تو بورڈ نے اس کی جگہ ایک سہ فریقی سیریزکرانے کا پلان بنایا ہے جو ایشیا کپ کی مقرر کردہ تاریخوں پر منعقد ہوگی۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pe1vw2y8no", "summary": "افغانستان میں اپنی دونوں ٹانگیں گنوانے والے فوجی نے کوہ پیمائی کی تاریخ میں اپنا نام روشن کرنے کی خواہش دل میں لیے، دنیا کی سب سے بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر لیا ہے۔", "title": "’ناممکن کچھ نہیں‘ دونوں ٹانگوں سے معذور سابق گورکھا فوجی نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کر لی", "firstPublished": "2023-05-21T01:16:35.115Z", "id": "c6pe1vw2y8no", "article": "افغانستان میں اپنی دونوں ٹانگیں گنوانے والے فوجی نے کوہ پیمائی کی تاریخ میں اپنا نام روشن کرنے کی خواہش دل میں لیے، دنیا کی سب سے بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر لیا ہے۔ گورکھا رجمنٹ میں ایک سابق سپاہی ہری بدھا ماگر دونوں ٹانگوں سے معذور ہیں مگر انھوں نے اس پہاڑ کا سمٹ کر لیا ہے۔ کینٹربری میں رہنے والے 43 سالہ ہری نے ’دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنے‘ اور معذوری کے بارے میں تصورات تبدیل کرنے کا چیلنج قبول کیا۔ ان کی ٹیم کے مطابق وہ جمعے کے دن دوپہر تین بجے سمٹ کر چکے تھے۔ سیٹلائٹ فون کال کے ذریعے انھوں نے ٹیم کو بتایا کہ یہ میری توقعات سے زیادہ مشکل تھا۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ وہ تکلیف میں تھے اور انھیں زیادہ وقت بھی لگ رہا تھا مگر وہ رکے نہیں اور چوٹی کی جانب بڑھتے گئے۔ سنہ 2010 میں افغانستان میں ایک دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) پر قدم رکھنے کے بعد ہری اپنی ٹانگوں سے محروم ہو گئے تھے۔ ہری تین بچوں کے والد ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اُس دھماکے کے بعد جب وہ ہوش میں آئے تو انھیں لگا کہ ان کی ’زندگی ختم ہو گئی ہے‘ لیکن سکیئنگ، گولف، سائیکلنگ اور پہاڑ چڑھے سے ان کا اعتماد بحال ہوا۔ وہ 11 دن پہلے نیپالی کوہ پیماؤں کی ایک ٹیم کے ساتھ روانہ ہوئے تھے۔ اس ٹیم کی قیادت کرش تھاپا کر رہے تھے جو خود گورکھا رجمنٹ ک حصہ رہ چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب چڑھائی مشکل ہوئی تو اس وقت ان کے خاندان کا خیال اور ٹیم کے ہر شخص کی مدد نے انھیں آگے بڑھتے رہنے کا حوصلہ دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرا مقصد معذوری کے بارے میں تاثرات کو تبدیل کرنا اور پہاڑوں پر چڑھنے کے لیے دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔‘ ’چاہے آپ کے خواب کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، چاہے آپ کی معذوری آپ کے لیے کتنی مشکلات کا سبب کیوں نہ ہو۔۔۔ دنیا میں ناممکن کچھ بھی نہیں ہے۔‘ کوہ پیماؤں کی یہ ٹیم اب آرام کر رہی ہے اور ہری اگلے ہفتے برطانیہ واپس آئیں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cglz0y2m56eo", "summary": "انڈیا کے مایہ ناز وکٹ کیپر بلے باز اور سابق کپتان مہندر سنگھ دھونی نے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے چار سال بعد کامیابی کے ساتھ خود کو اپنی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) ٹیم چینئی سپر کنگز کے لیے ایک مضبوط لوئر آرڈر بیٹسمین میں تبدیل کر لیا ہے۔ سپورٹس جرنلسٹ سریش مینن کرکٹ کے 41 سالہ سپر سٹار کے نئے اوتار پر یہ تحریر لکھتے ہیں۔", "title": "41 سال کے دھونی جو آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کر کے بھی آئی پی ایل کے پسندیدہ کرکٹر ہیں", "firstPublished": "2023-05-17T07:22:46.864Z", "id": "cglz0y2m56eo", "article": "انڈیا کے مایہ ناز وکٹ کیپر بلے باز اور سابق کپتان مہندر سنگھ دھونی نے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے چار سال بعد کامیابی کے ساتھ خود کو اپنی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) ٹیم چینئی سپر کنگز کے لیے ایک مضبوط لوئر آرڈر بیٹسمین میں تبدیل کر لیا ہے۔ سپورٹس جرنلسٹ سریش مینن کرکٹ کے 41 سالہ سپر سٹار کے نئے اوتار پر یہ تحریر لکھتے ہیں۔ دھونی سنہ 2008 کے آئی پی ایل کے افتتاحی ایڈیشن میں سب سے مہنگے کھلاڑی تھے۔ پندرہ سال بعد بھی وہ چینئی سپر کنگز (سی ایس کے) کے سب سے قیمتی کھلاڑی بنے ہوئے ہیں اور اپنے آپ میں ان تمام چیزوں کا مجموعہ ہیں جو اس ٹی 20 ٹورنامنٹ کا سب سے زیادہ دلچسپ اور بہترین تصور ہے۔ چار سال قبل دھونی نے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہر سال ان کے تمام طرز کی کرکٹ چھوڑنے کے سوال نے ناقدین اور شائقین کے ذہنوں کو یکساں طور پر پریشان کیا ہے۔ لیکن دھونی کے ذہن میں دوسری چیزوں نے قبضہ کر رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنی ٹیم کو ایک اور کپ دینا چاہتے ہیں۔ وہ پہلے ہی چار بار اس کپ کو جیت چکے ہیں لیکن اس بار جیت کر وہ اسے پانچ کرنا چاہتے ہیں اور ممبئی انڈینز کی برابری کرنا چاہتے ہیں۔ دھونی آئی پی ایل میں سب سے اصلی کپتان بنے ہوئے ہیں، یہ وہ بندرگاہ ہے جہاں نوجوان اور اکثر اعتماد سے محروم کھلاڑی پناہ حاصل کرتے ہیں۔ بس یہی توقع کی جاتی ہے۔ وہ جولائی میں 42 سال کے ہو جائیں گے، اور ممکنہ طور پر صرف کپتانی کے لیے ہی ٹیم میں جگہ کے قابل ہیں، نہ صرف اپنی زیرک حکمت عملی کی وجہ سے بلکہ ان نوجوان کھلاڑیوں کو سہارا دینے کے لیے جو ان کی طرف امید کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ جب وہ انڈین ٹیم کے کپتان تھے تو دھونی نے ایک بار کہا تھا کہ وہ صرف ایک ایسی ٹیم چاہتے ہیں جو وقت پڑنے پر خود کو ٹرک کے سامنے پھینک دے۔ اور انھیں سی ایس کے میں ایسی ہی ٹیم ملی ہے۔ 41 سال کی عمر میں ٹی 20 کھیلنے کے قابل ہونے کے لیے اس قسم کی خود آگاہی اور فٹنس کی ضرورت ہوتی ہے جس کا دھونی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس کے بعد اس کے لیے جذبہ بھی درکار ہے خاص طور پر ایسی صورت میں جب آپ کو خود کو ثابت کرنے کی بھی ضرورت نہ ہو۔ ان تمام سالوں میں کوئی بھی دھونی کے دماغ میں نہیں جھانک سکا ہے۔ ہر بار جب انھوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا، پہلے سرخ بال سے، اور پھر سفید بال کی کرکٹ سے، انھوں نے سب کو حیران کردیا۔ کیا یہ آئی پی ایل میں ان کا آخری سال ہوگا؟ شاید ہاں، یا شاید نہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cx9n4gwkdgeo", "summary": "ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 میں انڈین ٹیم کو روایتی حریف پاکستان کے خلاف میچ جیتنے کے لیے تین گیندوں پر پانچ رنز درکار تھے جب سٹرائیک پر موجود بلے باز وراٹ کوہلی کو محمد نواز نے فری ہٹ گیند پر بولڈ کر دیا تھا۔ ", "title": "فری ہٹ پر بولڈ کے بعد رن: ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان اور انڈیا کے تنازعے کی یاد ایک بار پھر تازہ", "firstPublished": "2023-05-16T13:52:45.228Z", "id": "cx9n4gwkdgeo", "article": "ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 میں انڈین ٹیم کو روایتی حریف پاکستان کے خلاف میچ جیتنے کے لیے تین گیندوں پر پانچ رنز درکار تھے جب سٹرائیک پر موجود بلے باز وراٹ کوہلی کو محمد نواز نے فری ہٹ گیند پر بولڈ کر دیا تھا۔ لیکن بولڈ ہونے کے بعد کوہلی نے تین رن بھاگ لیے اور امپائر نے ان رنز کو ’بائیز‘ قرار دیا۔ اس کے بعد امپائر اور پاکستانی کپتان بابر اعظم کے درمیان ایک بحث ہوئی۔ بابر چاہتے تھے کہ گیند کو فری ہٹ ہونے کی وجہ سے سٹمپ پر لگتے ہی ’ڈیڈ بال‘ قرار دینا ہوگا۔ صرف تین رنز اس اہم میچ میں متنازع بن گئے، جسے انڈیا آخری بال پر جیت گیا۔ کرکٹ کی گورننگ باڈی کے ذریعے کھیل کے قوانین میں اعلان شدہ حالیہ ترمیم اور پھر اسے واپس لینے کے اعلان نے پھر سے اس تنازعے کی یاد کو تازہ کر دیا۔ پیر کو کرکٹ کے قوانین میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے آئی سی سی نے اعلان کیا تھا کہ اس نے ’فری ہٹ‘ سے متعلق قانون میں معمولی تبدیلی کی ہے جس کے تحت ’فری ہٹ‘ پر اگر بلے باز بولڈ ہوتا ہے تو اس صورت میں اگر وہ بھاگ کر رن بنائے تو انھیں ’بائی‘ کے برعکس بلے باز کے انفرادی سکور کے طور پر شمار کیا جائے گا۔ ویب سائٹ کرک انفو کے مطابق اس تبدیلی کے اعلان کے کچھ دیر بعد آئی سی سی نے واضح کیا کہ قانون اپنی پرانی شکل میں ہی برقرار ہے یعنی اگر کوئی بلے باز ’فری ہٹ‘ پر بولڈ ہوتا ہے تو اس کے بعد بنائے گئے رنز اضافی رنز ہی شمار ہوں گے۔ آئی سی سی نے فری ہٹ پر سکور کے علاوہ بھی کرکٹ سے متعلق چند دیگر قوانین میں تبدیلی کی ہے جن میں سے ایک کے مطابقً کیچ لینے پر فیلڈ پر موجود امپائر اب آوٹ کے اعلان کے لیے ’سافٹ سگنل‘ نہیں دیں گے۔ نئے قوانین کے مطابق فیلڈ پر موجود امپائرز اب ٹی وی امپائر سےمشورہ کر حتمی فیصلہ دیں گے۔ ایک اور قانون میں تبدیل کے تحت آئی سی سی نے ’ہائی رسک‘ پوزیشنوں پر کھلاڑیوں کے لیے ہیلمٹ پہننا لازمی قرار دیا ہے۔ اس میں تیز گیند بازوں کا سامنا کرنے والے بلے باز، سٹمپ کے قریب کھڑے وکٹ کیپر اور وکٹ کے سامنے بلے بازوں کے قریب کھڑے فیلڈرز شامل ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ اگر ٹیسٹ میچ کے دوران قدرتی روشنی کی کمی ہوتی ہے تو ’فلڈ لائٹ‘ کا استعمال کیا جا سکتا ہے اور ٹیسٹ میچ میں اگر ضرورت ہو چھٹے روز کو ’ریزرو ڈے‘ کرطور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nkjnwk8m8o", "summary": "’کارنرڈ ٹائیگرز‘ کی اصطلاح پاکستانی کرکٹ میں سنہ 1992 کے ورلڈ کپ میں سامنے آئی جب کپتان عمران خان ٹاس کے موقع پر ایک سفید شرٹ پہننے لگے جس پر ٹائیگر بنا ہوتا تھا۔ پاکستانی ٹیم کے موجودہ مینیجر ریحان الحق کہتے ہیں کہ ’دی پاکستان وے اسی شناخت میں ارتقا کا عمل ہے۔‘", "title": "’دی پاکستان وے‘: وہ جارحانہ حکمتِ عملی جو پاکستانی کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ کے لیے اپنائی ہے", "firstPublished": "2023-05-16T05:54:18.155Z", "id": "c4nkjnwk8m8o", "article": "اس کی تازہ ترین مثال گذشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی ہے جب ایک موقع پر پاکستان کے سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات صرف چار فیصد تھے، تاہم پھر پاکستان نے کم بیک کرتے ہوئے ورلڈ کپ کا فائنل بھی کھیلا۔ اس کی سب سے مقبول مثال 1992 کے ورلڈ کپ کی دی جاتی ہے جب پاکستان نے ایک ناقابلِ یقین صورتحال سے کم بیک کرتے ہوئے ورلڈ کپ جیتا تھا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے مینیجر ریحان الحق پاکستان کرکٹ ٹیم اور ریال میڈرڈ کے درمیان مماثلت دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’چیمپیئنز لیگ فٹبال میں جیسے ریال میڈر ایک نئے لیول پر آ جاتی ہے کیونکہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ ہم نے یہ پہلے بھی کیا ہے اور اب ہم یہ دوبارہ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ریحان کے مطابق ’دی پاکستان وے کا مطلب یہ ہے کہ کیونکہ پاکستانی قوم مشکل وقت کے باوجود ابھر کر سامنے آنے والی قوم ہے اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم سب میں مشکل وقت میں کم بیک کرنے کی صلاحیت پہلے سے موجود ہے۔ خیال رہے کہ ’کارنرڈ ٹائیگرز‘ کی اصطلاح پاکستانی کرکٹ میں سنہ 1992 کے ورلڈ کپ میں سامنے آئی تھی جو پاکستان کے اس وقت کے کپتان عمران خان نے متعارف کی تھی۔ وہ ٹاس کے موقع پر ایک سفید شرٹ پہننے لگے تھے جس پر ٹائیگر بنا ہوا تھا۔ ’بابر اعظم جانتے ہیں کہ ٹیم سے کہاں اور کس موقع پر غلطیاں ہوئیں اور ان سب کو اس بات کا بھی علم ہے کہ یہ ٹیم پاکستان کی وائٹ بال کی سب سے عظیم ٹیم کے طور پر جانی جا سکتی ہے۔‘ ریحان الحق کا کہنا تھا کہ گذشتہ چند برسوں میں اس ٹیم کی بڑے ٹورنامنٹس میں ناک آؤٹ سٹیجز میں ہارنے کے زخم نے بھی اس شناخت کو جنم دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’بابر اعظم جانتے ہیں کہ ٹیم سے کہاں اور کس موقع پر غلطیاں ہوئیں اور ان سب کو اس بات کا بھی علم ہے کہ یہ ٹیم پاکستان کی وائٹ بال کی سب سے عظیم ٹیم کے طور پر جانی جا سکتی ہے۔ یوں اوبنٹو اس ٹیم کی سنہ 2008 کی مہم کا حصہ بنا اور کھلاڑی ایک دوسرے پر انحصار کرنے لگے اور یوں فائنل میں ایک موقع پر جب مخالف ٹیم لیکرز کو کم بیک کے نتیجے میں ہرانے میں کامیاب ہوئے اور 20 سالوں میں پہلی مرتبہ ٹائٹل جیت سکے۔ کرکٹ کی بات کی جائے تو آسٹریلوی ٹیم کی جانب سے سنہ 2018 میں بال ٹیمپرنگ سکینڈل جسے بعد میں ’سینڈ پیپر گیٹ‘ کا نام دیا گیا تھا کے بعد ’ایلیٹ آنیسٹی‘(دیانت داری) کی شناخت یا اقدار سامنے آیا تھا جو اس وقت کے کوچ جسٹن لینگر کی جانب سے سامنے آیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2wpz2rdnwo", "summary": "ماضی میں سرکس میں کام کرنے والی معمر خاتون جن کی عمر تین ماہ بعد 100 برس ہو جائے گی ’زپو سرکس شو‘ کے ’گرینڈ فائنل‘ کا حصہ تھیں۔ اس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس تجربے سے ’واقعی لطف اٹھایا‘۔\n", "title": "100ویں سالگرہ سے قبل سرکس شو میں شرکت: ’ہمیشہ سے چاہتی تھی مجھ پر چاقو پھینکے جائیں‘", "firstPublished": "2023-05-14T15:19:22.364Z", "id": "cv2wpz2rdnwo", "article": "99 سالہ خاتون نے سرکس شو کے اس اعصاب شکن کھیل میں حصہ لینے کی دیرینہ خواہش پوری کی جس میں ایک شخص پر چاقو پھینکے جاتے ہیں۔ شارنفورڈ کے علاقے لیسٹر شائر سے تعلق رکھنے والی اینی ڈوپلاک نے جمعے کو ’کوونٹری‘ میں ایک پُرجوش ہجوم کے سامنے تیز دھار والے چاقو کا سامنا کرنے کے لیے رِنگ میں قدم رکھا۔ ماضی میں سرکس میں کام کرنے والی معمر خاتون، جن کی عمر تین ماہ بعد 100 برس ہو جائے گی، ’زپو سرکس شو‘ کے ’گرینڈ فائنل‘ کا حصہ تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس تجربے سے ’واقعی لطف اٹھایا۔‘ پیدل چلنے کے لیے لاٹھی کا سہارا حاصل کرتے ہوئے اینی ڈوپلاک ایک بورڈ کے سامنے کھڑی ہو گئیں۔ ان پر ایک پیشہ ور چاقو پھینکنے والے نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو قائل کیا تھا کہ وہ اپنے سابق مینیجر اور سرکس کے بانی مارٹن برٹن سے کہیں کہ وہ انھیں حصہ لینے دیں۔ مارٹن برٹن نے کہا کہ ’اینی نے 30 برس قبل میرے لیے پوسٹر لگانے کا کام کیا تھا۔‘ ’وہ اس وقت 70 سال کی تھیں اور اگست میں وہ 100 سال کی ہو جائیں گی۔‘ انھوں نے سامعین کو بتایا کہ ان کی سابقہ ملازمہ نے ایک رات پہلے شو دیکھا تھا اور انھوں نے اپنی 100ویں سالگرہ کی تقریب کے انعام کے طور پر اس اعصاب شکن شو کا حصہ بننے کی فرمائش کر ڈالی۔ پرفارمنس کے بعد انھوں نے کہا کہ ’میں ہمیشہ سے یہ چاہتی تھی کہ مجھ پر چاقو پھینکے جائیں۔‘ ان کے مطابق ’میں اگلے مقابلے کے لیے تیار ہوں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cqezvn4q1v2o", "summary": "انڈیا کے معروف شہر حیدرآباد میں نہ بارش ہوئی نہ موسم خراب تھا اور نہ ہی لائٹس کا مسئلہ پیدا ہوا لیکن اچانک آئی پی ایل کا 58 واں میچ عارضی طور پر روکنا پڑ گیا۔", "title": "’فیلڈر پر نٹ بولٹ پھینکے گئے‘ نو بال تنازع کے بعد آئی پی ایل میچ روکنا کیوں پڑا", "firstPublished": "2023-05-14T06:36:35.454Z", "id": "cqezvn4q1v2o", "article": "انڈیا کے معروف شہر حیدرآباد میں نہ بارش ہوئی نہ موسم خراب تھا اور نہ ہی لائٹس کا مسئلہ پیدا ہوا لیکن اچانک آئی پی ایل کا 58 واں میچ عارضی طور پر روکنا پڑ گیا۔ یہ میچ سن رائزرس حیدرآباد (ایس آر ایچ) اور سپر جائنٹس لکھنؤ (ایل ایس جی) کے درمیان کھیلا جا رہا تھا اور دونوں ٹیموں کو ٹورنامنٹ میں اپنی امید قائم رکھنے کے لیے میچ جیتنا ضروری تھا، ایسے میں مقابلہ سخت ہونا حیرت کی بات نہیں تھی۔ ایک گیند بعد ہی اچانک کھیل کو عارضی طور پر روک دینا پڑا اور کھیل تقریبا دس منٹ تک رکا رہا۔ امپائر کے فیصلے پر ایسا رد عمل نادر تھا۔ حیدرآباد کے ناظرین نے اتنے پر ہی بس نہیں کیا۔ لکھنؤ کی ٹیم کے مینٹور اور انڈیا کے سابق کپتان گوتم گمبھیر کے منظر نامے پر آتے ہی 'کوہلی کوہلی' کا شور مچانا شروع کر دیا۔ خیال رہے کہ گذشتہ حال ہی میں کوہلی اور گوتم گمبھیر کے درمیان تلخ کلامی کے منظر دیکھے گئے۔ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ دونوں کھلاڑیوں میں بہت زیادہ ہم آہنگی نہیں ہے اور ایک قسم کا مسابقہ رہتا ہے جس کا اظہار وقتا فوقتا ہو جاتا ہے۔ جب بنگلور میں ایل ایس جی کی ٹیم نے آخری گیند پر ہاری بازی جیت لی تھی تو گوتم گمبھیر نے وہاں کی بھیڑ کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا تھا جسے بنگلور کے حامیوں نے بہت پسند نہیں کیا۔ پھر جب کوہلی کی ٹیم رائل چیلنجرز بنگلور اپنا دوسرا میچ کھیلنے لکھنؤ پہنچی تو کوہلی نے بھیڑ کو خوب شور مچانے پر ابھارا اور ميچ انتہائی جوش و جنون کے ساتھ کھیلا گیا اور پھر آر سی بی کی جیت کے بعد کھلاڑیوں میں تلخ کلامی اور مصالحت کا ایک سلسلہ نظر آیا جسے انڈین میڈیا میں خوب جگہ ملی۔ دریں اثنا حیدرآباد کے میچ کے بارے میں باضابطہ طور پر کوئی بیان نہیں دیا گیا ہے لیکن کرکٹ کے مداح اسے اچھا شگون نہیں مانتے۔ بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ باقی آئی پی ایل کے میچز حیدرآباد میں نہیں ہونے چاہییں جبکہ ایک دو صارف نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ورلڈ کپ کا میچ بھی حیدرآباد میں نہیں ہونا چاہیے۔ بہر حال کلاسن اور عبدالصمد کی اچھی اننگز کی بدولت حیدرآباد کی ٹیم نے چھ وکٹوں کے نقصان پر 182 رنز بنائے جسے نکولس پورن کی آتشی بلے بازی کی وجہ سے لکھنؤ نے چار گیند پہلے ہی حاصل کر لیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ سن رائزرس حیدرآباد کے تین میچز بچے ہیں لیکن اس کی ٹاپ چار ٹیموں میں پہنچنے کی امید تقریبا معدوم ہو چلی ہے جبکہ لکھنؤ کی ٹیم فی الحال چوتھے نمبر پر ہے اور اس کے حالات امید افزا ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyremm23p16o", "summary": " انڈیا کی پہلی خاتون پیشہ ور پہلوان کے طور پر شہرت پانے والی حمیدہ بانو کا تعلق مرزا پور سے تھا۔ اپنی دلیری سے انھوں نے کُشتی کو خصوصی طور پر مردوں کا کھیل سمجھے جانے والے تصور کو ختم کیا جس کی بنا پر انھیں انھیں ’علی گڑھ کی ایمازون‘ بھی کہا جانے لگا۔", "title": "جب انڈیا کی پہلی خاتون پہلوان حمیدہ بانو نے کہا ’مجھے دنگل میں ہرانے والا مجھ سے شادی کر سکتا ہے‘", "firstPublished": "2023-05-14T04:53:52.984Z", "id": "cyremm23p16o", "article": "بعد میں انڈیا کی پہلی خاتون پیشہ ور پہلوان کے طور پر شہرت پانے والی حمیدہ بانو اپنی دلیری سے ملک کے روایتی افسانوں کو الٹ رہی تھیں جن میں کشتی کو خصوصی طور پر مردوں کا کھیل سمجھا جاتا تھا۔ انھیں ’علی گڑھ کی ایمازون‘ کہا جانے لگا جہاں پر وہ اپنے آبائی شہر مرزا پور سے سلام نامی ایک پہلوان کی استادی میں کشتی کی تربیت کے لیے منتقل ہو گئی تھیں۔ انھوں نے لکھا، ’ان سے کسی بھی عورت کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ہے، بلکہ حریفوں کی کمی نے انھیں مخالف جنس کے لوگوں کو چیلنج کرنے پر مجبور کیا ہوگا۔‘ حمیدہ بانو کے رشتے داروں سے بات چیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حریفوں کی کمی کے علاوہ معاشرے کی قدامت پسندی نے انھیں گھر کو ترک کر کے علی گڑھ منتقل ہونے پر مجبور کیا تھا۔ فیمنسٹ مصنفہ قرۃ العین حیدر اپنی آٹوبایوگرافیکل کہانی ’ڈالن والہ‘ میں حمیدہ بانو کا ذکر کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ممبئی میں 1954 ایک ’عظیم الشان آل انڈیا دنگل‘ کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں انھوں نے کمال دکھایا تھا۔ اس وقت کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ حمیدہ بانو نے 1954 میں ممبئی میں روس کی ’مادہ ریچھ‘ کہلانے والی ویرا چستیلین کو بھی ایک منٹ سے کم وقت میں شکست دی تھی اور اسی سال انھوں نے یورپی پہلوانوں سے کشتی کرنے کے لیے یورپ جانے کے اپنے ارادوں کا اعلان کیا تھا۔ حمیدہ بانو کے بارے میں مزید جاننے کے لیے میں نے ان کے قریبی رشتہ داروں اور جاننے والوں کو تلاش کیا جو کہ اب ملک اور دنیا کے مختلف کونوں میں رہتے ہیں۔ ان سے گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حمیدہ بانو کا یورپ جانے کا اعلان ان کی کشتی کے کیریئر کے زوال کی وجہ ثابت ہوا۔ حالانکہ انھوں نے اپنے بچوں کو علی گڑہ یا مرزا پور جانے سے سختی سے منع کیا تھا، سلام پہلوان کی بیٹی سہارا، جو کہ علی گڑھ میں مقیم ہیں، نے مجھے بتایا کہ جب وہ بستر مرگ پر تھے تو حمیدہ ان سے ملنے ایک بار علی گڑھ واپس آئی تھیں۔ حالانکہ مرزا پور میں حمیدہ کے رشتے دار اس معاملے پر بات کرنے سے کتراتے ہیں لیکن علی گڑھ میں سلام پہلوان کے رشتے داروں سے گفتگو کے دوران ایک اہم خلاصہ ہوا اور وہ یہ کہ ان کے مطابق حمیدہ بانو نے اصل میں سلام پہلوان سے شادی کی تھی اور وہ بھی آزادی سے پہلے۔ سہارا نے بتایا کہ حمیدہ بانو کے والدین ان کے مردوں کا کھیل کھیلنے یعنی کشتی لڑنے کے خلاف تھے۔ اسی دوران سلام پہلوان ان کے شہر کے دورے پر گئے جس نے انھیں باہر نکلنے کا موقع فراہم کیا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c168eyw38k5o", "summary": "کلیئر لومس کا اگرچہ چھاتی سے نچلہ حصہ شل ہے مگرپھر بھی انھوں نے اپنی اس معذوری کو مجبوری یا محرومی نہیں بننے دیا۔ کلیئر کی نظر نئے نئے ریکارڈ بنانے پر ہے۔ انھوں سپر بائیک 80 میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے چلا کر نیا ریکارڈ اپنے نام کیا ہے۔ ", "title": "’گھوڑے سے گری تو موٹرسائیکل سوار بنی، خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی دوڑ میں حصہ لے سکوں گی‘", "firstPublished": "2023-05-14T01:13:48.906Z", "id": "c168eyw38k5o", "article": "کلیئر لومس کا اگرچہ چھاتی سے نچلہ حصہ شل ہے مگرپھر بھی انھوں نے اپنی اس معذوری کو مجبوری یا محرومی نہیں بننے دیا۔ کلیئر کی نظر نئے نئے ریکارڈ بنانے پر ہے۔ انھوں نے سپر بائیک 80 میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے چلا کر نیا ریکارڈ اپنے نام کیا ہے۔ کلیئر کا کہنا ہے کہ سپر بائیک کی دوڑ میں حصہ لینے سے وہ ’آزاد‘ محسوس کرتی ہیں۔ کلیئر لومس سنہ 2007 میں گھڑ سواری کے ایک حادثے میں زخمی ہونے کے بعد سے چل پھر نہیں سکتی ہیں۔ تاہم وہ ہفتے کے روز شمالی آئرلینڈ میں نارتھ ویسٹ این ڈبلیو 200 کورس میں 128 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ رفتار سے بائیک دوڑا کر اس ریس میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ لیسٹر شائر کے میلٹن موبرے سے تعلق رکھنے والی کلیئر لومس نے کہا کہ انھوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ایسا کر پائیں گی۔ 43 برس کی کلئیر نے اس مقابلے میں حصہ لینے کے لیے ایک خاص طرح سے ڈیزائن کردہ سپر بائیک کا استعمال کیا، جو ان کے جسم کے لیے موزوں تھا۔ کلیئر نے کہا کہ ’یہ ایک حیرت انگیز احساس تھا۔ جب میں اپنے حادثے کے بعد ہسپتال میں پڑی تھی تو میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میں ایسا کچھ بھی کر سکوں گی۔‘ ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا قسطیں مواد پر جائیں ان کے مطابق ’میں بہت گھبرائی ہوئی تھی اور ہدف کی طرف بڑھنے میں ابھی خاصا وقت درکار تھا۔ ’جب میں ریس میں آگے بڑھ رہی تھی تو ایک سرخ مگر بے سود جھنڈا ہی ہر طرف لہرا رہا تھا۔ ان کے مطابق ’میں اپنے سینے کے نیچے کچھ محسوس نہیں کر سکتی تھی لیکن اپنے پیٹ میں ایک خوف کی کیفیت محسوس کر سکتی تھی۔ کلیئر کے مطابق ’جب میں 84 میل فی گھنٹہ کی رفتار پر آگے بڑھ رہی تھی تو اس سے مجھے آزادی کا احساس ہوا۔‘ ان کے مطابق ’مجھے ایک لمحے میں ہی لگا کہ یہ اب میرا مشغلہ بن چکا ہے۔‘ کلئیر لومس، جن کی گھڑ سواری کے حادثے میں پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں، پھیپھڑے ناکارہ ہو گئے، گردن اور کمر کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی نے ریڑھ کی ہڈی کے آپریشن کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’نکولس سپنائنل انجری فاؤنڈیشن‘ کے لیے 4400 پاؤنڈ سے زائد کے عطیات جمع کیے۔ یہ تنظیم ریڑھ کی ہڈی کے زخم سے ہونے والی معذوری کے علاج پر تحقیق کر رہی ہے۔ این ڈبلیو 200 کے منتظم مروین وائٹ نے پہلے اس موقعے پر یہ کہا تھا کہ ’کلیئر نے جو کچھ حاصل کیا ہے وہ قابل ذکر ہے۔‘ ’ان کا عزم اور ہمت ہر ایک میں جذبہ پیدا کرتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cj5enm9j320o", "summary": "ان کے ساتھ کچھ وقت بتا کر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ بیماری نے ان کی بینائی تو چھین لی لیکن ان کی شخصیت کی توانائی کو متاثر کرنے میں ناکام رہی۔", "title": "نابینا ریس ڈرائیور جو 180 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی بھگا سکتے ہیں", "firstPublished": "2023-05-13T08:41:23.337Z", "id": "cj5enm9j320o", "article": "ان کے کانوں سے منسلک سماعتی آلے کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ حقیقت میں وہ بہرے بھی ہیں۔ 48 سالہ پاچو کانٹ کچھ دیکھ نہیں سکتے۔ وہ صرف روشنی کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’ریٹینائٹس پگمینٹوسا‘ نامی بیماری نے ان کی بینائی کو متاثر کیا۔ 2005 میں وہ نابینا ہو گئے تھے۔ لیکن ان کے ساتھ کچھ وقت بتا کر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس بیماری نے ان کی بینائی تو چھین لی لیکن ان کی شخصیت کی توانائی کو متاثر کرنے میں ناکام رہی۔ جب ان کو گاڑی چلانا ترک کرنا پڑا تو وہ بتاتے ہیں کہ یہ ان کے لیے مشکل مرحلہ تھا لیکن انھوں نے زندگی کو اپنے شوق کے گرد ازسرنو ڈھالنے کا ارادہ کیا۔ اپنے دفتر میں وہ فون کے وائس اسسٹنٹ کی مدد سے اتنے متحرک انداز میں سودے طے کرتے ہیں کہ کبھی کبھی تو یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ کیا وہ واقعی نابینا ہیں بھی یا نہیں۔ لیکن یہ شک اس وقت غائب ہو جاتا ہے جب وہ ورکشاپ میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ اپنے دوست پیرو پولار کے کندھے کو پکڑ کر چلتے ہیں۔ دراصل یہ کہانی پیرو کے بغیر ادھوری ہے۔ جب انھوں نے ایک ساتھ مقامی ریسوں میں حصہ لینا شروع کیا تو پیرو گاڑی چلاتے تھے جبکہ پاچو گاڑی کے کام کاج، مرمت اور حکمت عملی کو دیکھتے تھے۔ یہ ایک عجیب خیال تھا لیکن کچھ تیاری کے بعد یہ حقیقت بن گیا۔ پیرو ہمیشہ ساتھ بیٹھ کر پاچو کو بتاتے ہیں کہ کس وقت کیا کرنا ہے۔ ریس کے سرکٹ پر تیاری کی مدد سے انھوں نے اشاروں کی ایک ایسی زبان تخلیق کر لی ہے کہ انجن کے شور میں بھی جب پاچو کو آواز سنائی نہیں دے سکتی، وہ ان کی بات پر عمل کر سکیں۔ مثال کے طور پر جب پیرو ان کی کلائی کو چھوتے ہیں تو پاچو کو علم ہو جاتا ہے کہ اب بریک لگانی ہے۔ اگر وہ دو بار چھوتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ زور سے بریک لگانی ہے۔ پریکٹس کے بعد پاچو نے ریس میں حصہ لینا شروع کیا تو ان کے مطابق وہ لوگوں کو دکھانا چاہتے تھے کہ ’کوئی مشکل بڑی نہیں ہوتی۔‘ پاچو ایک کاروباری آدمی ہیں، گاڑیوں کے شوقین اور ایک باپ بھی ہیں۔ ان کی 15 سالہ بیٹی اس وقت سے ان کے ساتھ رہتی ہے جب ان کی اپنی بیوی سے علیحدگی ہو گئی تھی۔ جب ان کی بیٹی پیدا ہوئی تو ان کی بینائی جا چکی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر میری بینائی بحال ہوئی تو میں سب سے پہلے اپنی بیٹی کو دیکھوں گا۔‘ ان کو امید ہے کہ ایک دن سائنس کی مدد سے ان کی بینائی بحال ہو جائے گی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0dx48x28elo", "summary": "یہ چند سال پرانی بات ہے۔ راشد خان کو کابل کی ایک کرکٹ اکیڈمی کے ایک پروگرام میں بطور مہمان خصوصی بلایا گیا تھا۔", "title": "کم خرچ میں بہتر نتائج دینے والے ’مِسٹری سپنرز‘: کابل کی وہ خاص بات جو معیاری سپنرز پیدا کر رہی ہے", "firstPublished": "2023-05-08T06:31:11.558Z", "id": "c0dx48x28elo", "article": "یہ چند سال پرانی بات ہے۔ راشد خان کو کابل کی ایک کرکٹ اکیڈمی کے ایک پروگرام میں بطور مہمان خصوصی بلایا گیا تھا۔ نوجوانوں میں بہت مقبول کرکٹر راشد خان کو دیکھ کر افغانستان کے کئی نوجوانوں نے کرکٹ کو اپنایا اور ان میں سے زیادہ تر نے ان ہی کی طرح سپن بولنگ میں اپنا ہاتھ آزمانے کا فیصلہ کیا۔ راشد خان، محمد نبی، مجیب الرحمان، نور احمد، رحمن اللہ گرباز اور نوین الحق ایسے چند نام ہیں جنھوں نے افغان کرکٹ کو دنیا بھر میں پہچان دی ہے۔ ان میں سے راشد، نور، گرباز اور نوین رواں سال آئی پی ایل میں مختلف ٹیموں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان میں سے چار افغان کھلاڑی اپنی بہترین سپن باؤلنگ کے لیے جانے جاتے ہیں۔ راشد خان گذشتہ دس سالوں سے ٹی ٹوئنٹی کے نمبر ون سپنر ہیں۔ 18 سالہ نور احمد نے بھی رواں سیزن میں گجرات ٹائٹن کی ٹیم میں اپنی جگہ مستحکم کر لی ہے۔ آئی پی ایل اور دیگر بڑی ٹی 20 لیگز میں جس ملک کے کھلاڑیوں کی سب سے زیادہ مانگ ہے وہ ویسٹ انڈیز ہے۔ ایک تو وہاں کے کرکٹرز انتہائی فطری انداز میں تیز اور کم دورانیے کے کرکٹ کھیلتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ وہاں کے کھلاڑی قومی ٹیم چھوڑ کر ٹی ٹوئنٹی لیگز کھیلنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ اگر ہم رواں سال آئی پی ایل میں ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں کی کارکردگی کی بات کریں تو کائلی میئرز اور نکولس پورن کے علاوہ کسی نے زیادہ متاثرکن مظاہرہ نہیں کیا۔ کرس گیل، پولارڈ اور براوو جیسے آئی پی ایل کے لیجنڈ کھلاڑی ریٹائر ہو چکے ہیں جبکہ آندرے رسل کا بیٹ اس سیزن میں زیادہ تر خاموش ہی رہا ہے۔ افغانستان کے کھلاڑیوں کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ انھیں بہت کم پیسوں میں خریدا گیا ہے۔ جب راشد خان کرکٹ نہیں کھیلتے تھے تو ان کا پسندیدہ کھیل غلیل چلانا تھا۔ جب وہ کرکٹ میں آئے تو بغیر کسی کوچ کی مدد کے انھوں نے اپنا باؤلنگ ایکشن بنایا جو غلیل کی ہی طرح ہدف پر تیز اور درست ثابت ہوا۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں راشد خان نے 500 سے زیادہ وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں جبکہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں ان کی 129 وکٹیں ہیں اور اوسط بھی بہتر ہے۔ یہ تمام کھلاڑی ابھی نوجوان ہیں اور ان سے کئی سالوں تک اچھے کھیل کی توقع کی جا سکتی ہے اور اگر راشد خان کا ’ایک ہزار‘ سپنر ہونے کی بات دور دور تک بھی درست ہوتی ہے تو آنے والے دنوں میں دنیا بھر کی لیگز میں افغان کھلاڑیوں کا سیلاب آ جائے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c721qw51n79o", "summary": "پاکستان نے نیوزی لینڈ کے خلاف ایک روزہ میچوں کی سیریز چار ایک سے جیت لی لیکن اتوار کی رات ہونے والے اس سیریز کے آخری میچ میں شکست کے باعث ون ڈے رینکنگ میں صرف 48 گھنٹے بعد پہلے نمبر سے پاکستان تیسری پوزیشن پر پہنچ گیا۔", "title": "’صرف 48 گھنٹوں میں ون ڈے کی نمبر ون ٹیم سے تیسری پوزیشن پر آ گئے‘", "firstPublished": "2023-05-07T20:09:07.774Z", "id": "c721qw51n79o", "article": "پاکستان نے نیوزی لینڈ کے خلاف ایک روزہ میچوں کی سیریز چار ایک سے جیت لی لیکن اتوار کی رات ہونے والے اس سیریز کے آخری میچ میں شکست کے باعث ون ڈے رینکنگ میں صرف 48 گھنٹے بعد پہلے نمبر سے پاکستان تیسری پوزیشن پر پہنچ گیا۔ پاکستان نے 300 رن کے ہدف کے تعاقب میں اننگز کا سست رفتاری سے آغاز کیا۔ فخر زمان بھی اپنی روایتی فارم میں نظر نہیں آئے اور امام الحق کی جگہ کھیلنے والے اوپنر شان مسعود بھی کچھ زیادہ متاثر نہیں کر سکے۔ پاکستان کا مجوعی سکور بھی اس وقت 66 ہی تھا اور چار وکٹیں گرنے کے بعد بظاہر میچ میں واپسی کے امکانات ختم ہو چکے تھے۔ اب تمام امیدیں افتخار احمد سے ہی جڑی تھیں۔ ایسے میں شاداب خان (14) اور اسامہ میر (20) نے کسی حد تک افتخار کا ساتھ دیا لیکن ان دونوں کے آؤٹ ہو جانے کے بعد میچ کا نتیجہ واضح ہو چکا تھا۔ پچھلے میچ کے آخری اوور میں اپنی بلے بازی کا رنگ دکھانے والے شاہین شاہ آفریدی اس بار صفر پر ہی آؤٹ ہو گئے۔ تاہم افتخار احمد نے ہمت نہیں ہاری۔ یکے بعد دیگرے دوسری جانب سے وکٹیں گرنے کا سلسلہ جاری رہنے کے باوجود ان کی بیٹنگ نے ہی میچ میں دلچسپی کا عنصر برقرار رکھا۔ 230 کے مجموعی سکور پر نو وکٹیں گر جانے کے بعد واحد دلچسپی صرف اس بات میں باقی تھی کہ کیا افتخار احمد اپنی سنچری کر سکیں گے یا نہیں۔ پاکستان کی اس پرفارمنس پر ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ ’افتخار احمد بد قسمت رہے کہ پاکستان میچ نہیں جیت سکا لیکن شاداب خان شاہین آفریدی اسامہ میر نے بہت ہی خراب ناقابل یقین شاٹس کھیلیں۔‘ انھوں نے شان مسعود کو کھلانے کے فیصلے پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’شان مسعود کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی اگر آج امام الحق کھیلتا تو پاکستان یقینی طور پر جیت جاتا۔‘ سلیم خالق نے لکھا کہ ’افتخار احمد نیوزی لینڈ سے ون ڈے سیریزکے ابتدائی اسکواڈ میں شامل نہ تھے، انھیں بعدمیں منتخب کیا گیا لیکن پانچویں ون ڈے میں عمدہ اننگز کھیل کر انھوں نے ثابت کر دیا کہ وہ ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم کے اہم کھلاڑی ثابت ہو سکتے ہیں۔ افتخار نے کوشش تو بہت کی لیکن بدقسمتی سے ٹیم کو فتح نہ دلا سکے۔‘ نیوزی لینڈ کی جانب سے ہینری شپلے نے صرف 34 رن دے کر تین وکٹیں حاصل کیں اور میچ آف دی میچ قرار پائے۔ اس سے قبل نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 299 رن بنائے جس میں اوپنر ول ینگ کی 87 رن کی اننگز بھی شامل تھی۔ پاکستان کے بالر میچ کے اختتام سے قبل نیوزی لینڈ پر کسی حد تک دباؤ ڈالنے میں کامییاب رہے۔ نیوزی لینڈ کی آخری پانچ وکٹیں 32 رن بنا پائیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51d9yjd4deo", "summary": "پانچ میچز کی سیریز میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو مسلسل چوتھے ون ڈے میچ میں شکست دے کر بین الاقوامی ون ڈے کرکٹ رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ ", "title": "نیوزی لینڈ کو مسلسل چوتھی شکست: ’بابر اپنے ساتھ پاکستان کو بھی پہلے نمبر پر لے آئے ہیں‘ ", "firstPublished": "2023-05-05T19:18:01.092Z", "id": "c51d9yjd4deo", "article": "پانچ میچز کی سیریز میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو مسلسل چوتھے ون ڈے میچ میں شکست دے کر بین الاقوامی ون ڈے کرکٹ رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ اس سیریز کا پانچواں میچ جیتنے کی صورت میں پاکستان پوائنٹ ٹیبل پر آسٹریلیا اور انڈیا سے آگے نکل جائے گا۔ اس وقت پاکستان، آسٹریلیا اور انڈیا 113 پوائنٹ کے ساتھ ایک قطار میں ہیں مگر پاکستان کو بہتر اوسط حاصل ہونے کی وجہ سے پہلی بار آئی سی سی کی رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل ہو گئی ہے۔ اب پاکستان کو مزید ایک میچ میں فتح کی صورت میں 115 پوائنٹس کے ساتھ انڈیا اور آسٹریلیا پر مزید سبقت حاصل ہو جائے گی۔ اگر پاکستان نیوزی لینڈ سے آخری ون ڈے میچ ہار جاتا ہے تو پھر اس صورت میں پاکستان 112 پوائنٹ کے ساتھ رینکنگ میں تیسرے نمبر پر چلا جائے گا۔ آج کے میچ میں پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 334 رنز بنائے جبکہ جواب میں نیوزی لینڈ کی ٹیم 43.4 اوورز میں صرف 232 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ یوں پاکستان نے یہ میچ 102 رنز سے اپنے نام کیا۔ آج کے میچ کی خاص بات پاکستان کے کپتان بابراعظم کی 18 ویں سنچری تھی، جنھوں نے 117 گیندوں پر 107 رنز بنائے۔ بابراعظم نے تیز ترین 5000 رنز کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے آج کے میچ میں آغا سلمان 58 اور شان مسعود نے 44 رنز بنا سکے جبکہ افتخار احمد نے 28 رنز بنائے۔ نیوزی لینڈ کے میٹ ہنری نے پاکستان کے تین کھلاڑیوں کو پویلین کا رستہ دکھایا جبکہ بین لسٹر اور اش سودھی نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔ پاکستان کی طرف سے اسامہ میر نے چار، محمد وسیم نے تین، حارث رؤف نے دو جبکہ شاہین شاہ آفریدی نے ایک وکٹ حاصل کی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے اوپنر امام الحق نے اپنے ایک ٹویٹ میں پاکستان کی پہلی پوزیشن پر خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ پہلا نمبر ہمیشہ ہی ان کا خواب رہا ہے۔ سپورٹس جرنلسٹ عبدالغفار نے ٹویٹ کی کہ پاکستان نے ون ڈے میچز کی رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی ہے جبکہ بابر اعظم ایک روزہ میچز کے بہترین بیٹسمین بن گئے ہیں۔ میچ کے بعد جب بابراعظم سے یہ سوال کیا گیا کہ وہ ٹیم کو پہلے نمبر پر لے آئے ہیں تو انھوں نے اس پر کہا کہ یہ خدا کی مہربانی اور ٹیم کی محنت سے ممکن ہو سکا ہے۔ گراس روٹ کرکٹ نامی ٹوئٹر ہینڈل سے یہ ٹویٹ کی گئی کہ جب 5 مئی 2015 کو بابراعظم نے قومی ٹیم میں جگہ بنائی تو پاکستان نویں نمبر کی ٹیم تھی جبکہ آج ان کی کپتانی میں یہ ٹیم پہلے نمبر کی ٹیم بن چکی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے بابراعظم کی سنچری کی ویڈیو شئیر کی، جس کی بدولت پاکستان پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ce9xv6717w6o", "summary": "انڈیا کے دارالحکومت نیو دہلی کے جنتر منتر کے مقام پر پہلوان دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ ان کھلاڑیوں کا الزام ہے کہ ریسلر فیڈریشن آف انڈیا کے سربراہ برج بھوشن شرن سنگھ نے ایک نابالغ سمیت کم از کم 7 پہلوانوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا۔ ", "title": "انڈین ریسلرز کا جنسی ہراسانی کا الزام: ’کوئی بڑا کرکٹر جنتر منتر پر احتجاج کے لیے بیٹھا ہوتا تو اس کا اثر کہیں زیادہ ہوتا‘", "firstPublished": "2023-05-04T05:31:29.312Z", "id": "ce9xv6717w6o", "article": "انڈیا کے دارالحکومت نیو دہلی کے جنتر منتر کے مقام پر خواتین ریسلرز دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔ انھوں نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ ریسلر فیڈریشن آف انڈیا کے سربراہ برج بھوشن شرن سنگھ نے ایک نابالغ لڑکی سمیت کم از کم 7 ریسلرز کو جنسی طور پر ہراساں کیا۔ یہ ریسلر لڑکیاں انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ لیکن عام دنوں کے برعکس آج ان لڑکیوں میں سے کئی انصاف کی تلاش میں نیو دہلی کے مشہور احتجاجی مقام جنتر منتر پر دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ معاملہ پہلی بار اس سال جنوری میں منظر عام پر آیا تھا جب 30 ریسلرز نے دلی کے جنتر منتر کے مقام پر احتجاج کیا اور برج بھوشن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ برج بھوشن تاحال ریسلنگ فیڈریشن کے صدر ہیں۔ جب ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی تب ان ریسلرز میں سے کئی 23 اپریل کو دوبارہ جنتر منتر واپس آ گئیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ انکوائری رپورٹ ان کے ساتھ شیئر نہیں کی گئی اور مطالبہ کیا کہ اس رپورٹ کو عام کیا جائے۔ انھوں نے یہ کہتے ہوئے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا کہ دلی پولیس نے ان کے جنسی الزامات کی شکایت پر ایف آئی آر درج نہیں کی۔ آخر کار سپریم کورٹ کی مداخلت پر پولیس نے 29 اپریل کو ایف آئی آر درج کی لیکن ان ریسلر کا مطالبہ ہے کہ برج بھوشن کو گرفتار کیا جائے۔ جنسی ہراسانی کے یہ واقعات سنہ 2012 سے سنہ 2022 کے درمیان پیش آئے۔ ان میں سے کچھ واقعات بیرون ملک میں ہوئے اور چند برج بھوشن کے گھر پر پیش آئے جو کہ ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کا ہیڈ آفس بھی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی نیوز ایجنسی کے سپورٹس صحافی امن پریت سنگھ اس سے متفق نہیں۔ انھوں نے بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں ان دونوں تحریکوں کا موازنہ کرنا غلط ہے۔۔۔ اپیل کے باوجود صرف چند ایک فعال کھلاڑیوں نے ان کی حمایت کی۔ باقی سب ریٹائرڈ کھلاڑی ہیں۔ پہلوان، جو ہڑتال پر وہاں موجود ہیں، ان کی تعداد بہت کم ہے‘۔ جمعرات کو یہ احتجاج بارھویں دن میں داخل ہو گیا ہے۔ احتجاجی کیمپ میں کئی پلے کارڈز اور بینر لگے ہوئے ہیں جن پر یہ نعرے درج ہیں کہ ’پہلوانی کوئی سیاست نہیں جانتی، ’ہم جھکیں گے نہیں، اپنے حقوق کے لیے لڑیں گے۔‘ ان میں سے ایک پوسٹر برج بھوشن کے مبینہ جرائم کی فہرست کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ خاتون پہلوان ونیش پھوگاٹ نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی ہے کہ وہ برج بھوشن کو اخلاقیات کی بنیاد پر ان کے عہدے سے ہٹا دیں ’کیونکہ وو جب تک اس عہدے پر رہیں گے، اس عہدے کا غلط استعمال کریں گے، تحقیقات پر اثر انداز ہوں گے، ہم غیر جانبدارانہ تفتیش چاہتے ہیں‘۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cl74q0v40jko", "summary": "فرانسیسی کلب پی ایس جی نے رواں ہفتے بغیر اجازت سعودی عرب جانے پر فٹبار سٹار لیونل میسی کو دو ہفتے کے لیے معطل کیا ہے۔ اس دوران میسی پی ایس جی کے ساتھ کھیل سکیں گے نہ پریکٹس، انھیں دو ہفتوں کا معاوضہ بھی نہیں ملے گا۔ ", "title": "سعودی عرب جانے پر کلب سے معطل ہونے والے میسی کو ’دو ہفتے کی چھٹی مل گئی‘", "firstPublished": "2023-05-03T03:53:01.875Z", "id": "cl74q0v40jko", "article": "فرانسیسی کلب پی ایس جی نے رواں ہفتے بغیر اجازت سعودی عرب جانے پر فٹبار سٹار لیونل میسی کو دو ہفتے کے لیے معطل کیا ہے۔ اتوار کو ارجنٹائن کے کپتان لیونل میسی نے کلب کے ایک میچ میں پورے نوے منٹ کھیلا جس کے بعد وہ سعودی عرب کے دورے پر چلے گئے۔ معطلی کے دوران میسی پی ایس جی کے ساتھ کھیل سکیں گے نہ پریکٹس کر سکیں گے۔ بعض اطلاعات کے مطابق انھیں ان دو ہفتوں کا معاوضہ بھی نہیں ملے گا۔ خیال ہے کہ 35 سالہ میسی نے کلب سے سعودی عرب جانے کی اجازت مانگی تھی تاکہ وہ کچھ کمرشل کام کر سکیں۔ ملک میں سیاحت کے لیے انھیں ’سفیر‘ کا درجہ ملا ہوا ہے تاہم کلب نے انکار کر دیا تھا۔ سعودی عرب میں سیاحت کا سفیر بننے پر پی ایس جی میسی پر جرمانہ بھی عائد کر چکا ہے۔ پی ایس جی کے لیے کھیلے گئے میچوں میں میسی نے 71 میچوں میں 31 گول سکور کیے اور 34 گول میں معاونت کی۔ گذشتہ سیزن انھوں نے کلب کو لیگ ون کا ٹائٹل جتوایا تھا۔ مگر اب معطلی کے بعد میسی پی ایس جی کے بعض اہم میچز میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔ اس کے باوجود کلب کے ٹائٹل جیتنے کے اچھے امکان ہیں۔ بی بی سی سپورٹ کے سائمن سٹون کے مطابق لیونل میسی نے ایسا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد پی ایس جی میں ان کا وقت ختم ہونا نظر آ رہا ہے۔ میسی کی معطلی کے بعد ان کے اس کلب کے لیے تین میچز باقی ہوں گے اور رواں سیزن میں ٹائٹل ابھی اس کلب کے نام ہونے میں کچھ کام باقی ہے، تاہم پی ایس جی نے اب اپنے ارادے بدل لیے ہیں۔ اس کی نئی حکمت عملی میں میسی نظر نہیں آ رہے۔ پی ایس جی کو شاید یہ لگتا ہوگا کہ ان کا یہ اقدام غیر معمولی نہیں۔ اپنی نظر میں انھوں نے ایک ملازم کو اس بات پر سزا دی کہ وہ کام کی جگہ سے میلوں دور کہیں اور چلا گیا اور وہ بھی بغیر اجازت لیے۔ پی ایس جی کے شائقین بھی جانتے ہیں کہ اب انھیں میسی کی مزید ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ ان کے معاہدے میں توسیع نہیں ہو گی۔ ایک صارف نے میسی کی معطلی کو مثبت انداز میں دیکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میسی کو دو ہفتے کی چھٹی مل گئی جس میں انھیں پی ایس جی کا خراب کھیل نہیں دیکھنا پڑے گا۔ ثابت ہوا وہ سب سے عظیم کھلاڑی ہیں۔‘ ایک دوسرے صارف نے نشاندہی کی کہ میسی کی سعودی عرب آمد کے ساتھ یہ خبریں بھی گردش میں ہیں کہ رونالڈو النصر کلب چھوڑنا چاہتے ہیں۔ سعودی میڈیا کے مطابق سعودی ٹورازم اتھارٹی نے مئی 2022 کے دوران میسی کو اپنا سفیر بنایا تھا۔ سعودی عرب میں وہ جدہ اور بحیرۂ احمر کا دورہ کر چکے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1zg702llro", "summary": "گذشتہ رات ہونے والے واقعے نے اس مرتبہ آئی پی ایل کے انتہائی دلچسپ ٹورنامنٹ کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔ آئیے تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں کہ معاملات اس نہج تک کیسے پہنچے۔", "title": "آئی پی ایل میں کوہلی، گمبھیر اور نوین کی ’لڑائی‘ میں پاکستانی شائقین کو شاہد آفریدی کیوں یاد آ رہے ہیں؟", "firstPublished": "2023-05-02T05:20:47.242Z", "id": "cd1zg702llro", "article": "گذشتہ روز لکھنؤ میں کھیلے جانے والے آئی پی ایل میچ کے اختتامی مناظر کسی بھی گلی محلے کے گراؤنڈ میں ہونے والے میچ کے بعد ہونے والی لڑائی کے جیسے تھے۔ دہلی سے تعلق رکھنے والے کرکٹرز وراٹ کوہلی اور گوتھم گمبھیر کی گذشتہ رات رائل چیلنجرز بینگلور اور لکھنؤ سپر جائنٹس کے درمیان میچ کے بعد ہونے والی لفظی بحث کے کلپ اس وقت انڈیا اور پاکستان دونوں میں سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہیں۔ بظاہر یہ گرما گرمی میچ کے دوران وراٹ کوہلی اور افغان فاسٹ بولر نوین الحق کے درمیان بحث سے شروع ہوئی تاہم وراٹ کوہلی کی جانب سے شائقین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کی حرکت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ’لڑائی‘ کا آغاز دونوں ٹیموں کے درمیان کے درمیان 10 اپریل کو بنگلور میں ہونے والے میچ سے ہو گیا تھا۔ جب بھی کوئی آؤٹ ہوتا ہے تو جذبات سے بھرپور وراٹ کوہلی کی حرکات ہائی لائٹس پیکج کی زینت بنتی ہیں اور اگر کبھی ان کی کسی مخالف ٹیم کے کھلاڑی کے ساتھ لفظی جنگ ہو جائے تو پھر ٹی وی دیکھنے والے شائقین کے لیے میچ مزید دلچسپ ہو جاتا ہے۔ ان کی آج سے دس برس قبل سنہ 2013 میں وراٹ کوہلی سے ہی آئی پی ایل کے ایک میچ میں بحث ہو چکی ہے اور وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے انٹرویوز میں ایم ایس دھونی کو بھی تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ ایسے میں گذشتہ رات ہونے والے واقعے نے اس مرتبہ آئی پی ایل کے انتہائی دلچسپ ٹورنامنٹ کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔ آئیے تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں کہ معاملات اس نہج تک کیسے پہنچے۔ خیال رہے کہ ایسا ہی اشارہ گوتھم گمبھیر کی جانب سے گذشتہ ماہ دونوں ٹیموں کے درمیان بنگلور کے چنسوامی کرکٹ سٹیڈیم میں ہونے والے میچ کے بعد دیکھنے کو ملا تھا۔ لکھنؤ نے وہ میچ سنسنی خیز مقابلے کے بعد ایک وکٹ سے جیت لیا تھا۔ تاہم گذشتہ رات معاملات اس وقت زیادہ خراب ہونا شروع ہوئے جب امت مشرا اور نوین الحق کی جوڑی کریز پر آئی۔ وراٹ کوہلی اور نوین الحق کے درمیان اس دوران تلخ کلامی دیکھنے کو ملی۔ اس دوران کیا بات ہوئی یہ بتانا تو مشکل ہے لیکن بیچ بچاؤ کے لیے امپائر کو مداخلت کرنی پڑی۔ اس کے بعد سامنے آنے والی ویڈیو میں گوتھم گبمھیر کی اینٹری ہوتی ہے۔ لکھنؤ کے کائل میئرز وراٹ کوہلی سے کسی بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں اور بظاہر یہ عام سی بحث دکھائی دیتی ہے جب گمبھیر میئرز کو بازو سے پکڑ کر ایک طرف لے جاتے ہیں اور پھر غصے میں کچھ کہتے نظر آتے ہیں۔ سمرن رندھاوا کہتی ہیں کہ ’وراٹ کا جارحانہ انداز 15ویں اوور تک تو ٹھیک تھا لیکن اس کے بعد یہ مناسب نہیں تھا۔ انھوں نے نوین کو بغیر کسی وجہ کے نشانہ بنایا۔ یہ سپورٹس مین سپرٹ نہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckrkzmzmp0zo", "summary": "اوپنر فخر زمان کے 180 رنز کی بدولت پاکستان نے دوسرے ون ڈے میچ میں نیوزی لینڈ کو سات وکٹوں سے شکست دے دی ہے۔ \n", "title": "پاکستان کی جیت اور فخر زمان کے 180 رنز: ’فخر بڑے میچ کا کھلاڑی ہے، آج فخر کا دن تھا‘", "firstPublished": "2023-04-29T21:26:40.850Z", "id": "ckrkzmzmp0zo", "article": "اوپنر فخر زمان کے 180 رنز کی بدولت پاکستان نے دوسرے ون ڈے میچ میں نیوزی لینڈ کو سات وکٹوں سے شکست دے دی ہے۔ نیوزی لینڈ کے 337 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پاکستان کی جانب سے فخر زمان اور امام الحق نے اننگز کا مستحکم آغاز کیا اور پہلی وکٹ 66 رنز پر گری جب امام 24 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ چوتھی وکٹ پر محمد رضوان اور فخر نے 100 سے زائد رنز کی پارٹنر شپ بنائی جس کی بدولت پاکستان نے 337 رنز کا بڑا ہدف تین وکٹوں کے نقصان پر 49 ویں اوور میں حاصل کر لیا۔ فخر زمان نے پہلے میچ میں بھی نیوزی لینڈ کے خلاف سنچری سکور کی تھی۔ انھوں نے اپنے تین ہزار رنز بھی مکمل کیے۔ پاکستان کی نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرے ون ڈے میں جیت اور فخر زمان کی 180 رنز کی شاندار اننگز پر سوشل میڈیا صارفین فخر کرتے نہیں تھک رہے۔ پاکستانی اوپنر کی جارحانہ اور شاندار اننگز پر پاکستان کے سابق فاسٹ بولر عمر گل نے ٹویٹ کیا کہ ’اس شاندار سنچری کے ساتھ فخر زمان کے لیے ایک بار پھر آج کا میچ پارک میں چہل قدمی کرنے جیسا تھا۔ پاکستانی ٹیم کو ایک اور کامیابی پر مبارکباد۔ اب اگلی جیت پر نظریں ہیں تاکہ سیریز میں فتح ملے۔‘ ماضی میں 250 سے زائد رنز کا تعاقب ہمارے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہوا کرتا تھا۔ یہ خوشگوار تبدیلی بابر اعظم کا اپنے کھلاڑیوں فخر زمان، امام الحق اور محمد رضوان پر اعتماد کی وجہ سے ہے۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ون ڈے میں ہمارے پاس یہ مضبوط بیٹنگ لائن اپ ہوگی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کا مداح ہونے پر خدا کا شکر اور بطور مداح ہم اس کے مستحق ہیں۔‘ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’سنہ 2015 میں ایک وقت تھا جب ہماری ٹیم کو 200 رنز بنانے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور آج ہماری خواہش ہے کہ ہمارے باؤلرز زیادہ رنز دے دیتے تاکہ ہمارے اوپنر 200 رنز بنا سکیں، فخر زمان نے واقعی ون ڈے اوپننگ کی قسمت بدل دی ہے۔ فخر زمان کی شاندار 180 رنز کی اننگز پر حکومتی رکن پارلیمان اور وزیر اعظم کی معاون خصوصی شزا فاطمہ خواجہ نے لکھا کہ ’فخر زمان نے کیا شاندار اننگز کھیلی ہے، ڈیڑھ سو سے زیادہ رنز اور بیٹ کیری کرنا، ہر لحاظ سے یہ پاکستان کی شاندار فتح ہے۔ جبکہ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’ فخر زمان پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں سب سے بڑے میچ پلیئرز میں سے ایک کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ اگلے چند سالوں میں آئی سی سی کے بہت سے ٹورنامنٹ ہونے والے ہیں۔ وہ آپ کو اہم اور ناک آؤٹ میچز میں اکیلے ہی جتوائیں گے‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crgx7k4r2v4o", "summary": "پاکستان کرکٹ ٹیم نے نیوزی لینڈ کو پانچ میچوں کی سیریز کے پہلے ون ڈے میں پانچ وکٹوں سے شکست دے کر سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کی اور کسی حد تک ٹی ٹوئنٹی سیریز کے مایوس کن اختتام کا ازالہ بھی کیا۔", "title": "’ون ڈے کرکٹ کی ٹیکسٹ بک ہوتی تو فخر کی سنچری پرفیکٹ قرار پاتی‘", "firstPublished": "2023-04-27T19:34:25.078Z", "id": "crgx7k4r2v4o", "article": "پاکستان کرکٹ ٹیم نے نیوزی لینڈ کو پانچ میچوں کی سیریز کے پہلے ون ڈے میں پانچ وکٹوں سے شکست دے کر سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کی اور کسی حد تک ٹی ٹوئنٹی سیریز کے مایوس کن اختتام کا ازالہ بھی کیا۔ راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلے گئے سیریز کے پہلا ون ڈے میں کپتان بابر اعظم نے ٹاس جیت کر نیوزی لینڈ کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی تھی۔ ایک قدرے آسان پچ پر نیوزی لینڈ نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں سات وکٹوں کے نقصان پر 288 رنز سکور کیے جس کے بعد پاکستان نے یہ ہدف پانچ وکٹوں کے نقصان پر باآسانی حاصل کر لیا۔ پاکستان کی جانب سے فخر زمان نے 13 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے اپنی نویں سنچری مکمل کی اور ان کا ساتھ پہلے امام الحق اور پھر بابر اعظم نے دیا جنھوں نے بالترتیب 60 اور 49 رنز سکور کیے۔ فخر زمان کی پرفارمنس پر ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ’اگر ون ڈے کرکٹ کی کوئی ٹیکسٹ بک ہوتی تو یہ سنچری ہدف کے تعاقب میں بہترین قرار دی جاتی جس میں کسی قسم کا خطرہ مول نہیں لیا گیا۔‘ فخر زمان کو ان کی اس اننگز پر مین آف دی میچ کا ایوارڈ ملا جبکہ بابر اعظم نے اس اننگز میں انٹرنیشنل کرکٹ میں 12 ہزار رنز بھی مکمل کیے۔ یوں ایک روزہ میچز میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی 500 فتوحات مکمل ہوئیں۔ پاکستان کی ٹیم نے مجموعی طور پر نو سو پچاس ون ڈے میچز کے بعد یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔ تاہم پاکستان کی جانب سے محمد رضوان نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ فخر زمان کے آوٹ ہو جانے کے بعد شان مسعود صرف ایک رن پر اور آغا سلمان سات رن بنا کر آوٹ ہوئے تو رن ریٹ سست رفتاری کا شکار ہوا۔ ایسے میں محمد رضوان ہی تھے جنھوں نے پاکستان کو کسی مذید مشکل کا شکار ہونے سے بچایا اور 34 گیندوں پر 42 رن کی اننگ کھیلی۔ تاہم ٹی ٹوئنٹی سیریز کے آخری میچ میں سنچری سکور کرنے والے مارک چیپمین اس بار اپنا جادو نہیں دکھا پائے اور صرف 15 رن بنا کر حارث روف کی گیند پر بولڈ ہو گئے۔ اس بولنگ پرفارمنس میں نسیم شاہ کا اہم کردار تھا جنھوں نے آج کے ون ڈے میں مجموعی طور پر عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا اور اپنے 10 اوورز میں صرف 29 رنز دیے۔ اس دوران پاکستانی فاسٹ بولر نسیم شاہ نے ابتدائی چھ ون ڈے میچز میں سب سے زیادہ وکٹوں کا اعزاز اپنے نام کر لیا۔ انھوں نے میچ آخری اوور کی آخری دو گیندوں پر 2 وکٹیں حاصل کر کے یہ اعزاز حاصل کیا۔ واضح رہے کہ نسیم شاہ نے کریئر کے چھ ابتدائی میچز میں 20 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ ۔ اس سے قبل یہ اعزاز نیوزی لینڈ کے میٹ ہینری کے پاس تھا جنھوں نے ابتدائی چھ میچز میں 19 وکٹیں حاصل کی تھیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6p0lnnv27yo", "summary": "کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ دو روز قبل سات خواتین ریسلرز نے برج بھوشن سنگھ کے خلاف پارلیمنٹ سٹریٹ تھانے میں شکایت درج کروائی تھی لیکن ان کی ایف آئی آر تک درج نہیں کی جا رہی۔", "title": "انڈین ریسلرز کا بی جے پی رہنما پر جنسی ہراسانی کا الزام: ’ہم محفوظ نہیں تو دوسری لڑکیوں کا کیا ہو گا؟‘", "firstPublished": "2023-04-25T00:36:56.314Z", "id": "c6p0lnnv27yo", "article": "اتوار کو تینوں کھلاڑیوں نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ وہ گزشتہ ڈھائی ماہ سے انصاف کے منتظر ہیں لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور اب انھیں جھوٹا سمجھا جا رہا ہے۔ ان کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ دو روز قبل سات خواتین ریسلرز نے برج بھوشن سنگھ کے خلاف پارلیمنٹ سٹریٹ تھانے میں شکایت درج کروائی تھی لیکن ان کی ایف آئی آر تک درج نہیں کی جا رہی۔ ان پہلوانوں میں ایک نابالغ بھی شامل ہے۔ ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے برج بھوشن سنگھ نے تب کہا تھا کہ کسی کھلاڑی کے ساتھ جنسی زیادتی نہیں کی گئی ہے اور اگر یہ سچ ثابت ہوا تو وہ پھانسی پر لٹکنے کو تیار ہیں۔ کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ کمیٹی کوتشکیل ہوئے تین ماہ ہو چکے ہیں لیکن کمیٹی نے کیا تحقیقات کی اور اس تحقیقات میں کیا نتیجہ نکلا، یہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ الزام ہے کہ اس کے برعکس تحقیقاتی رپورٹ کی معلومات میڈیا کو لیک کی جارہی ہیں۔ کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ سات خواتین کھلاڑیوں نے برج بھوشن سنگھ کے خلاف 21 اپریل کو کناٹ پلیس تھانے میں شکایت کی، لیکن ایف آئی آر درج نہیں کی جا رہی ہے۔ ساکشی ملک نے کہا، ’دو دن پہلے، سات لڑکیوں نے پولیس سٹیشن میں شکایت دی تھی۔ ان میں سے ایک (لڑکی) نابالغ ہے۔ لیکن ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ شکایت برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف ہے۔ دہلی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن سواتی مالیوال نے خواتین کھلاڑیوں کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے معاملے میں ایف آئی آر درج نہ کرنے پر دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے۔ سواتی مالیوال کہتی ہیں ،’لڑکیوں نے ہمیں بتایا کہ پولیس نے ایف آئی آر تک درج نہیں کی تھی اور ان کے نام وزارت کھیل تک پہنچ گئے ہیں۔‘ انھوں نے کہا، ’یہ کیسا غنڈا راج چل رہا ہے، کیا انڈین ریسلنگ فیڈریشن کے صدر قانون سے بالاتر ہیں؟ دہلی پولیس نے اب تک ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی اور اس شخص (برج بھوشن سنگھ) کو ابھی تک گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟یہ لڑکیاں اس ملک کا فخر ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے اور کارروائی کی جانی چاہیے۔ اس کے ساتھ ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر کرنے والے دہلی پولس کے افسران کے خلاف بھی کارروائی کی جائے، ایف آئی ار درج نہ کرنا غیر قانونی ہے۔‘ برج بھوشن سنگھ کا شمار بی جے پی کے لیڈروں میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق گونڈا، اتر پردیش سے ہے اور وہ قیصر گنج لوک سبھا حلقہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv27lv563dpo", "summary": "اگر شاداب وہ کیچ پکڑ لیتے تو شاید میچ اور سیریز کا نتیجہ مختلف ہوتا اور یہ رات مارک چیپمین کے بجائے محمد رضوان کے نام ہوتی۔", "title": "’جیتا ہوا میچ ہار گئے‘: نیوزی لینڈ کی پاکستان کو آخری میچ میں چھ وکٹوں سے شکست، ٹی ٹوئنٹی سیریز برابر", "firstPublished": "2023-04-24T21:12:01.552Z", "id": "cv27lv563dpo", "article": "اس مایوسی کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ سیریز کے آخری اور فیصلہ کن میچ میں پاکستان کی ٹیم کو ایک مضبوط پوزیشن میں ہونے کے باوجود ناقابل فہم شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ صرف ایک نام تھا: مارک چیپمین۔ سیریز میں ٹاپ سکور کرنے والے مارک چیپمین کا اس میچ پر کتنا بڑا اثر تھا، یہ جاننے کے لیے ہمیں نیوزی لینڈ کی اننگز کے پہلے اوور سے بات کا آغاز کرنا پڑے گا۔ نیوزی لینڈ کو تقریبا 12 رن فی اوور درکار تھے جب شاداب خان بولنگ کے لیے آئے۔ مارک چیمپین نے شاداب کی پہلی ہی گیند پر چھکا اور دوسری گیند پر چوکا لگا کر اپنا ارادہ واضح کیا لیکن جب 10ویں اوور میں عماد وسیم نے اپنے نپے تلے سپیل کا اختتام ڈیرل مچل کی وکٹ لے کر کیا تو نیوزی لینڈ کو ابھی 10 اوورز میں 121 رن درکار تھے۔ 11ویں اوور میں مارک چیپمین نے فہیم کو تین چوکے لگائے تو 12ویں اوور میں شاداب کو دو چوکے اور ایک چھکا لگا کر انھوں نے 30 گیندوں پر نصف سنچری مکمل کر لی۔ لیکن دراصل یہ میچ کا 13واں اوور تھا جس میں یہ محسوس ہوا کہ یہ رات مارک چیپمین کی ہے۔ یہ حارث روف کا اوور تھا جس میں مارک چیپمین نے دو چھکے لگائے اور بابر اعظم کو مجبور کیا کہ وہ ایک بار پھر شاہین شاہ آفریدی سے اپنا جادو دکھانے کی توقع کریں۔ وکٹ کی تلاش میں بابر اعظم نے شاہین کو گیند تھمائی تو وہ کپتان کی امید پر پورا اترے لیکن 14ویں اوور کی پانچویں گیند پر شاداب نے مارک چیپمین کا کیچ ڈراپ کر دیا۔ مارک چیپمین اور جمی نیشم 30 گیندوں پر 77 رن بنا چکے تھے اور اب میچ کا پانسہ پلٹ چکا تھا۔ شاہین کے آخری اور اننگز کے 18ویں اوور میں پہلے مارک چیپمین نے تین چوکے لگائے اور آخری گیند پر اپنی سنچری مکمل کی تو اب 12 گیندوں پر صرف 12 رن بنانا باقی تھے جو نہایت آسانی سے مکمل ہوئے۔ مارک چیپمین نے مجموعی طور پر اس سیریز میں 290 رن بنائے جن میں ایک سنچری اور دو نصف سنچریاں شامل تھیں اور ٹاپ سکورر رہے۔ پلیئر آف دی سیریز ایوارڈ کا ان سے بہتر مستحق کوئی نہیں تھا۔ اگر شاداب وہ کیچ پکڑ لیتے تو شاید میچ اور سیریز کا نتیجہ مختلف ہوتا اور یہ رات مارک چیپمین کے بجائے محمد رضوان کے نام ہوتی۔ ان کے بعد عماد وسیم نے محمد رضوان کا بھرپور ساتھ دیا اور 14 گیندوں پر 31 رن کی شاندار اننگ کھیلی۔ میچ کی آخری اوور شروع ہوا تو رضوان 97 رن پر موجود تھے لیکن پہلی ہی گیند پر انھوں نے سنگل لیا جس کے بعد ان کو صرف آخری گیند کھیلنے کو ملی جس پر وہ رن نہیں بنا پائے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72j4ed3xl0o", "summary": "نوعمروں کے لیے سچن تینڈولکر صرف ایک ایسے سابق کھلاڑی ہیں جن کے بارے میں سیانے کہتے ہیں کہ وہ بہت اچھے کھلاڑی تھے۔", "title": "پچاس سالہ کرکٹ کے ’بھگوان‘ سمجھے جانے والے ’لٹل ماسٹر‘ کا دل آج بھی 16 سال کا ہے", "firstPublished": "2023-04-24T11:43:25.909Z", "id": "c72j4ed3xl0o", "article": "نوعمروں کے لیے وہ صرف ایک ایسے سابق کھلاڑی ہیں جن کے بارے میں سیانے کہتے ہیں کہ وہ بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ ٹی ٹوئنٹی کے دور میں ان نوجوانوں نے ان کھلاڑیوں کو ہر گیند پر زبردست شاٹ مارتے دیکھا ہے جو کبھی کبھی گراؤنڈ کے ان کونوں تک پہنچ جاتی ہے جس کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ تندولکر نے ایسے شاٹ نہیں لگاتے تھے۔ کچھ سال پہلے، سچن کی 47 ویں سالگرہ کے موقع پر ای ایس پی این کرک انفو کے لیے ایک انٹرویو کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ اگر وہ آج سے 25 سال چھوٹے ہوتے تو وہ کیسے بلے باز ہوتے؟ انھوں نے بتایا کہ ایک نوجوان کھلاڑی کے طور پر بھی ان کی ذہنیت اور ان کے پاس ایسے شاٹس تھے جو ٹی 20 میں انھیں ایک کامیاب کرکٹر بنا سکتے تھے۔ میں نے سچن کے جتنے بھی انٹرویو کیے ہر بار مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ ایک ایسے شخص سے بات کر رہے ہیں جس کی رگوں میں کرکٹ دوڑ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہاں، کوئی بھی گیند کو مار سکتا ہے، اے بی ڈیویلیئرز، کیون پولارڈ۔۔۔یا کوئی اور۔ یہ سب بہت اچھے کھلاڑی ہیں۔ ’تاہم، سچن تندولکر کی بلے بازی کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی بھی دور میں ہوتے، وہ ایک کامیاب بلے باز ہوتے۔ چاہے وہ اپنے دور سے پہلے کے زمانے میں ہوتے یا بعد میں۔‘ زوبن بھروچا کہتے ہیں کہ ’جس طرح سے گیند بلے سے ٹکرا کر نکلتی۔۔۔ اس کی ٹائمنگ ہوتی تھی۔۔۔ بلے اور گیند کے ٹکرانے سے جو آواز آتی تھی۔۔۔ میں اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ نہیں معلوم وہ کیا ہوتاتھا۔ وہ یقیناً خدا کا عطیہ تھا۔‘ جیسا کہ کھلاڑیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک نسل آتی ہے، دوسری نسل جاتی ہے۔ لیکن، جو لوگ ایک خاص نسل کے ساتھ پلے بڑھے ہیں وہ ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے دور کے کھلاڑی پہلے دور کے کھلاڑیوں سے بہتر تھے۔ ہم نے روی شاستری کو کئی بار یہی کہتے سنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وراٹ کوہلی کے مداح ان کے لیے ون ڈے کرکٹ میں مزید چار سنچریاں بنانے کی دعائیں مانگ رہے ہیں جس کے بعد وہ سچن کے 49 ون ڈے سنچریوں کے عالمی ریکارڈ کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔ نہرا نے کہا تھا: 'سنہ2012 کے بعد بڑی تبدیلی یہ آئی کہ ایک میچ میں دو نئی گیندوں کا استعمال کیا جانے لگا جس کی وجہ سے گیند ریورس سوئنگ نہیں ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پاور پلے کے اصولوں کے تحت دائرے کے باہر صرف چار فیلڈرز کو تعینات کیا جاتا ہے۔ پہلے دس اوورز میں دائرے سے باہر صرف دو کھلاڑی تعینات کیے جاتے ہیں۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyxqle1rd9ro", "summary": "فارمولا ون کے سابق عالمی چیمپیئن کا انٹرویو پبلش کرنے والے جرمن میگزین کے ایڈیٹر کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔\nمیگزین ایڈیٹر نے ان کا یہ انٹرویو مصنوعی ذہانت کے ذ ریعے تیار کر کے شائع کیا تھا۔ ان کے اس عمل پر میگزین کے پبلشر نے فارمولا ون لیجنڈ کے خاندان سے اپنے اس عمل پر معافی مانگ لی ہے۔\nسات بار کے عالمی چیمپیئن رہنے والے مائیکل شوماکر دسمبر 2013 میں اسکیئنگ کے ایک حادثے کا شکار ہوئے تھے جس میں ان کے سر پر شدید چوٹ آئی تھی", "title": "مائیکل شوماکر کا مصنوعی انٹرویو شائع کرنے پر جرمن میگزین کی معذرت", "firstPublished": "2023-04-24T11:38:14.800Z", "id": "cyxqle1rd9ro", "article": "مائیکل شوماکر دسمبر 2013 میں سکیئنگ کے ایک حادثے کا شکارہونے کے بعد سے وہ منظرعام پر نہیں آئے فارمولا ون کے سابق عالمی چیمپیئن مائیکل شوماکر کا انٹرویو شائع کرنے والے جرمن میگزین ’ڈائی اکتولے‘ کے ایڈیٹر کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ میگزین ایڈیٹر نے مائیکل شوماکر یہ انٹرویو مصنوعی ذہانت کے ذ ریعے تیار کر کے شائع کیا تھا۔ ان کے اس عمل پر میگزین کے پبلشر نے فارمولا ون لیجنڈ کے خاندان سے معافی مانگ لی ہے۔ سات بار کے عالمی چیمپیئن رہنے والے مائیکل شوماکر دسمبر 2013 میں سکیئنگ کے ایک حادثے کا شکار ہوگئے تھے جس میں ان کے سر پر شدید چوٹ آئی تھی۔ اس حادثے کے بعد سے وہ منظرعام پر نہیں آئے۔ ڈائی اکتولے میگزین نے اس کو ’مائیکل شوماکر کا پہلا انٹرویو‘ کی ہیڈ لائن کے ساتھ اپنےسرورق پر شائع کیا۔ اس انٹرویو میں شوماکر کی مسکراتی ہوئی تصویر کے نیچے لکھا تھا ’یہ حیران کن حد تک حقیقت کے قریب ہے‘ جبکہ اندر مضمون میں لکھا گیا تھا کہ یہ تمام قیاس آرائیاں آرٹیفیشل انٹیلیجنس یعنی مصنوعی ذہانت سے تیار کی گئی ہیں۔ مضمون کو مصنوعی ذہانت کے ایک پروگرام کریکٹر اے آئی کی مدد سے تیار کیا گیا تھا جس میں مصنوعی طور پر شوماکر کی صحت اور خاندان کے بارے میں 'اقتباسات' شامل تھے۔ ہفتہ روزہ میگزین ڈائی اکتولے جس کے 15 اپریل کے سرورق پر مائیکل شوماکر کے انٹرویو کا حوالہ دیا گیا شوماکر کے خاندان نے جمعہ 22 اپریل کو کہا تھا کہ وہ میگزین کے خلاف قانونی کارروائی کرنا چاہتے ہیں لیکن پھر مضمون شائع کرنے والے میگزین کی جانب سے معافی مانگ لی گئی۔ سکیئنگ کے حادثے کے بعد سے شوماکر کو بے ہوشی میں رکھا یا تھا اور پھر انھیں سنہ ستمبر 2014 میں گھر بھیج دیا گیا تھا۔ تب سے ان کی طبی حالت کو خاندان والوں نے خفیہ رکھا ہوا ہے۔ 54 سالہ شوماکر نے دو ایف ون ورلڈ ڈرائیورز ٹائٹل بینیٹن کے ساتھ سنہ 94 اور 95 میں جیتے تھے جبکہ فراری کے ساتھ انھوں نے یہ اعزاز سنہ 2000 سے 2004 کے درمیان پانچ لگاتار مرتبہ جیتا۔ وہ سات مرتبہ ایف ون ٹائٹل جیتنے کا اعزاز لوئس ہیملٹن کے ساتھ شیئر کرتے ہیں جبکے شوماکر نے اپنے کریئر میں 91 ریسز جیتی ہیں جو سنہ 2020 تک ایک ریکارڈ تھا۔ سنہ 2021 میں شائع ہونے والی نیٹ فلکس کی ایک دستاویزی فلم میں شوماکر کی اہلیہ کورینا نے کہا تھا کہ ’ہم گھر میں ایک ساتھ رہتے ہیں، ان کی تھیراپی کرتے ہیں۔ ہم وہ سب کرتے ہیں جس سے مائیکل کو خوشی ملے اور وہ ان کے لیے آرام دہ ہو اور انھیں اپنی فیملی کے ساتھ رہنے کا احساس ہوتا رہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cpednjdpp9do", "summary": "کرکٹ مبصرین کا کہنا ہے کہ جب دھونی بغیر ہچکچائے ڈی آر ایس کے لیے اشارہ کرتے ہیں تو 95 فیصد درست ہوتے ہیں۔", "title": "’دھونی ریویو سسٹم‘: ’جب ریویو کی بات آئے تو دھونی سے الجھنے کی کوشش نہ کریں‘", "firstPublished": "2023-04-24T05:18:10.054Z", "id": "cpednjdpp9do", "article": "سوشل میڈیا پر اس جیت کے بعد جہاں چینئی سپر کنگز کے بلے باز اجنکیا رہانے کے بارے میں بات ہو رہی ہے تو وہیں دھونی کے ڈی آر ایس (Decision Review System) لینے پر بھی بات کی جا رہی ہے۔ اتوار کی شب دھونی نے دو بار ریویو لیا اور دونوں بار وہ درست ثابت ہوئے۔ جب وہ آخری دو گیندیں کھیلنے کے لیے میدان میں اترے تو پہلی بال انھیں فل ٹاس کروائی گئی۔ امپائر نے اسے نو بال یا وائڈ قرار نہیں دیا۔ دھونی امپائر کے فیصلے سے مطمئن نظر نہیں آئے اور انھوں نے فوراً ہی ریویو کے لیے اپیل کر دی۔ جب تھرڈ امپائر نے اس گیند پر نظر ثانی کی تو انھیں پتا چلا کہ گیند دھونی کی کمر کے اوپر سے گزر رہی تھی اور اس طرح وہ نو بال قرار پائی اور فیلڈ امپائر کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔ کرکٹ مبصرین کا کہنا ہے کہ جب دھونی بغیر ہچکچائے ڈی آر ایس کے لیے اشارہ کرتے ہیں تو 95 فیصد درست ہوتے ہیں۔ بہرحال دھونی کے اس طرح کے متاثر کن ریویوز کے بعد عام طور پر ڈی آر ایس (Decision Review System) کو ’دھونی ریویو سسٹم‘ کہا جانے لگتا ہے اور وہ کسی ٹرینڈ کی طرح سوشل میڈیا پر نظر آتا ہے۔ یش کے نامی ایک صارف نے لکھا کہ جب ریویو کی بات آتی ہے تو ان (دھونی) سے الجھنے کی کوشش نہ کریں، وہ سٹمپس کے پیچھے تیز ترین دماغ ہیں۔ سواتی نامی صارف نے لکھا کہ ’اگر ماہی کہے نو بال تو وہ نو بال ہوگی۔ ہر بار وہ امپائر کو اپنے دھونی ریویو سسٹم کے ذریعے غلط ثابت کرتے ہیں۔‘ شیلندر ترپاٹھی نے لکھا کہ ’یہ شخص لیجنڈ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ دھونی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ آخر ڈی آر ایس کو دھونی ریویو سسٹم کیوں کہا جاتا ہے۔‘ اس کے ساتھ انھوں نے دوتصاویر شیئر کی ہیں، ایک میں دھونی ریویو کے لیے اشارہ کر رہے ہیں اور دوسری میں امپائر اپنا فیصلہ بدلنے کا اشارہ کر رہے ہیں۔ دھونی 42 سال کے ہونے والے ہیں۔ انڈین ٹیم نے ان کی کپتانی میں نئی بلندیوں کو سر کیا ہے۔ انھوں نے قومی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ پہلے ہی لے لی ہے لیکن آئی پی ایل کے اس سولہویں سیزن کو ان کا آخری سیزن سمجھا جا رہا ہے۔ گذشتہ شب انھوں نے کولکتہ کے ناظرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ شاید وہ انھیں الوداع کہنے کے لیے آئے تھے۔ دھونی کی کپتانی میں انڈیا نے سنہ 2007 کا آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اور سنہ 2011 میں ون ڈے کرکٹ کا کپ جیتا۔ اس کے علاوہ دھونی کی کپتانی میں انڈیا نے سنہ 2013 میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی بھی جیتی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cm5l97k7kjxo", "summary": "22 اپریل 1998 کو اپنی سالگرہ سے دو دن پہلے جب تندولکر نے شارجہ سٹیڈیم میں انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان ایک شاندار اننگز کھیلی، تب وہ 25 سال کے تھے۔", "title": "سچن تندولکر کی وہ کرشماتی اننگز جس کے بعد شائقین نے انھیں ’کرکٹ کا دیوتا‘ قرار دیا ", "firstPublished": "2023-04-23T09:06:52.793Z", "id": "cm5l97k7kjxo", "article": "22 اپریل 1998 کو اپنی سالگرہ سے دو دن پہلے جب تندولکر نے شارجہ سٹیڈیم میں انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان ایک شاندار اننگز کھیلی، تب وہ 25 سال کے تھے۔ 25 سال بعد سچن تندولکر کو اپنی اننگز یاد آ گئی اور انھوں نے سنیچر کو اس اننگز کے 25 سال مکمل ہونے پر کیک بھی کاٹا۔ کیک پر 22 اپریل 1998 کو شارجہ میں کھیلی گئی سچن کی اننگز کی تصویر لگائی گئی۔ اس اننگز کو ڈیزرٹ سٹارم کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اسٹیو وا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ مائیکل بیون کے ناقابل شکست 101 اور مارک وا کے شاندار 81 رنز کی بدولت آسٹریلیا نے 50 اوورز میں 284 رنز بنائے۔ انڈیا کو فائنل میں پہنچنے کے لیے 254 رنز بنانے تھے، تب ہی ٹیم نیٹ رن ریٹ کے لحاظ سے نیوزی لینڈ کو پیچھے چھوڑ سکتی تھی۔ سچن ٹیم کے اوپنر کے کردار میں تھے۔ انڈیا نے 29 اوورز کے کھیل میں چار وکٹیں گنوا دی تھیں اور ٹیم کا سکور 138 رنز تھا۔ پھر مٹی کا طوفان شروع ہوا۔ سچن وکٹ پر کھڑے تھے۔ سچن نے اپنی سوانح عمری Playing It My Way میں اس طوفان کے بارے میں لکھا ’میں نے اپنی زندگی میں کبھی مٹی کا طوفان نہیں دیکھا۔ ہوا زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چل رہی تھی۔ میں پانچ فٹ پانچ انچ کا تھا۔ میں خوفزدہ تھا۔ طوفان مجھے اڑا سکتا ہے۔ لہٰذا میں جا کر آسٹریلوی وکٹ کیپر ایڈم گلکرسٹ کے پیچھے کھڑا ہو گیا کہ اگر اڑنے لگا تو اسے پکڑ لوں گا۔‘ تاہم اس طوفان کا تندولکر کی روح پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ طوفان تھمنے کے بعد جب کھیل دوبارہ شروع ہوا تو انڈیا کو جیت کے لیے 46 اوورز میں 276 رنز درکار تھے اور فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے 237 رنز۔ یعنی 17 اوورز میں کم از کم 100 رنز بنانے تھے۔ انھوں نے 131 گیندوں پر 143 رنز بنائے۔ 9 چوکوں اور 5 چھکوں کے ساتھ۔ ٹنڈولکر کی یہ اننگز ٹیم انڈیا کو جتوا تو نہیں سکی لیکن ٹیم فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ سچن کی اننگز نے آسٹریلوی فاسٹ بولر مائیکل کاسپروچز کو چونکا دیا، ڈیمین فلیمنگ اس پر یقین نہیں کر سکے اور شین وارن نے بعد میں کہا کہ سچن کے چھکے انھیں خوابوں میں بھی ڈراتے رہے۔ تاہم سچن نے دو دن بعد 24 اپریل کو کھیلے گئے فائنل میں اس اننگز کی کمی کو پورا کر دیا۔ سچن نے اپنے پورے کیریئر میں 100 بین الاقوامی سنچریاں بنائیں لیکن جب ان کی خاص سنچریوں کی بات کی جائے تو شارجہ میں لگاتار دو میچوں میں بنائی گئی ان کی دو سنچریاں سب سے پہلے یاد آتی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cql327p0ypxo", "summary": "اناپورنا کے ڈیتھ زون میں 27 گھنٹے سے زائد گزارنے والی بلجیت کور کو کئی حلقوں کی جانب سے ’مردہ‘ قرار دیا جا چکا تھا کیونکہ اس خطرناک چوٹی پر کھو جانے والوں کے زندہ واپسی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ ایک باہمت کوہ پیما کی موت کو چکما دے کر بچ نکلنے کی کہانی۔", "title": "اناپورنا کے ڈیتھ زون میں 27 گھنٹے گزارنے والی بلجیت کور: ’کیمپ فور کی روشنی دیکھ کر میں رات بھر خود کو گھسیٹتی رہی‘", "firstPublished": "2023-04-21T05:19:48.577Z", "id": "cql327p0ypxo", "article": "پیر کو نیپال میں واقع دنیا کی خطرناک ترین چوٹیوں میں سے ایک اناپورنا سے جب انڈین کوہ پیما بلجیت کور اور آئرئش نوئل ہنا کی ہلاکت کی خبریں آئیں تو کوہ پیماؤں کے گروپوں اور سوشل میڈیا پر ان کی یاد میں پیغامات کی کا تانتا بندھ گیا۔ نویل کی لاش تو کیمپ فور سے نیچے لانے کے انتظامات کیے جا رہے تھے مگر بلجیت کے بارے میں کسی کو کچھ خبر نہیں تھی کہ وہ کہاں لاپتا ہوئی تھیں اور جس وقت دنیا انھیں مردہ سمجھ چکی تھی اس وقت ’ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈیما‘ کا شکار بلجیت اناپورنا کے ڈیتھ زون میں 27 گھنٹے سے زائد گزارنے کے بعد خود کو نیچے گھسیٹ کر لانے کی کوششوں میں مصروف تھیں۔ پیر کی شام تک وہ چوٹی سر کر چکی تھیں مگر تب تک انھیں پہاڑ پر آکسیجن کے بغیر 27 گھنٹے سے زیادہ کا وقت ہو چکا تھا اور ان میں ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈما (HACE) کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو چکی تھیں۔ اسی لیے کیمپ فور میں پہنچنے والے کوہ پیما سوتے نہیں۔ بس کچھ دیر سستا کر سمٹ کرنے یا چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور جتنا جلدی ہو سکے چوٹی سر کرکے ڈیتھ زون سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگلی صبح تک بلجیت کو اناپورنا کے پہاڑ پر 38 گھنٹے گزر چکے تھے اور آکسیجن کی کمی کے باعث ’میں ایک بچے جیسا برتاؤ کر رہی تھی ، جب دھوپ نکلی تو میں کہہ رہی تھی اب میں دھوپ کو اپنے گورے گورے ہاتھ دکھاؤں گی۔‘ بلجیت نے دعویٰ کیا کہ اس کے بعد انھوں نے اس کمپنی کو میسج کیا جس کی خدمات انھوں نے اس سمٹ کے لیے حاصل کیں تھیں، مگر وہاں سے بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ کچھ دیر بعد بلجیت نے اس کمپنی کے دوسرے نمبر اور میل پر بھی میسج کر دیا کہ ’میں ٹھیک ہوں اور زندہ ہوں مگر مجھے مدد چاہیے۔‘ 48 گھنٹے سے زیادہ کسی کوہ پیما کے اتنی اونچائی پر زندہ رہنے کے امکانات کم ہوتے جاتے ہیں لیکن ڈیتھ زون میں سب سے زیادہ وقت گزارنے کا ریکارڈ نیپال کے پیمبا گلجئین شرپا کے پاس ہے جو سنہ 2008 میں دو کوہ پیماؤں کو بچانے کے لیے 90 گھنٹے تک کے ٹو کے ڈیتھ زون میں رہے۔ اس پہاڑ کو پہلی مرتبہ 3 جون 1950 میں دو فرانسیسی کوہ پیماؤں نے سر کیا تھا اور دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے انا پورنا کو سب سے پہلے سر کیا گیا تھا۔ اس چوٹی کو نیپال کے موسمِ بہار میں ہی سر کیا جا سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c8v7dgeqj1qo", "summary": "آئی پی ایل کا 16واں سیزن اپنے عروج پر ہے اور پانچ بار چیمپیئن رہنے والی ٹیم ممبئی انڈینز نے ابتدائی دو میچوں میں شکست کے بعد گذشتہ شب جیت کی ہیٹرک بنائی ہے تاہم اس میچ کی سب سے یادگار بات اس کی آخری گیند بنی جس پر ارجن تندولکر نے آئی پی ایل میں اپنی پہلی وکٹ حاصل کی۔\n", "title": "ارجن تندولکر کی آئی پی ایل میں پہلی وکٹ: ’جو باپ نہ کر سکا وہ بیٹے نے کر دیا‘", "firstPublished": "2023-04-19T06:29:01.779Z", "id": "c8v7dgeqj1qo", "article": "آئی پی ایل کا 16واں سیزن اپنے عروج پر ہے اور پانچ بار چیمپیئن رہنے والی ٹیم ممبئی انڈینز نے ابتدائی دو میچوں میں شکست کے بعد گذشتہ شب جیت کی ہیٹرک بنائی ہے تاہم اس میچ کی سب سے یادگار بات اس کی آخری گیند بنی جس پر ارجن تندولکر نے آئی پی ایل میں اپنی پہلی وکٹ حاصل کی۔ یوں تو ارجن تندولکر نے ممبئی کے لیے گذشتہ میچ میں ڈیبیو کیا تھا تاہم سنرائزز حیدرآباد کے خلاف میچ میں انھوں نے نہ صرف آغاز کے دو اوورز میں متاثر کن بولنگ کا مظاہرہ کیا بلکہ میچ کے آخری اوور میں ایک وکٹ بھی حاصل کی۔ ممبئی نے پہلے کھیلتے ہوئے کیمرون گرین کی نصف سنچری کی بدولت 192 رنز بنائے تھے۔ جواب میں سنرائزرز حیدرآباد کی وکٹیں مسلسل گرتی رہیں اور یہ ٹیم آخری اوور میں آل آؤٹ ہونے کے بعد 14 رنز سے میچ ہار گئی۔ تجربہ کار آسٹریلوی فاسٹ بولر جیسن بہرنڈورف میچ کا 18واں اوور کرانے آئے۔ یہ بہرنڈورف کا چوتھا اوور تھا۔ انھوں نے اپنے پہلے تین اوورز میں دو وکٹیں حاصل کی تھیں۔ لیکن اس اہم اوور میں ان کی گیندوں پر 18 رنز بنے۔ جس کی وجہ سے سن رائزرس حیدرآباد کو آخری دو اوور میں جیت کے لیے صرف 24 رنز درکار تھے۔ اس کے بعد ارجن تینڈولکر کے لیے وہ لمحہ آیا جب انھیں آئی پی ایل کی پہلی وکٹ ملی۔ اس وقت کمینٹری پر سابق انڈین کرکٹر اور کوچ روی شاستری موجود تھے جنھوں نے اس وقت یہ کہا کہ ’بالآخر کسی تندولکر نے آئی پی ایل میں وکٹ حاصل کر لی، جو کام باپ نہ کر سکا وہ بیٹے نے کر دکھایا۔‘ اس کے ساتھ ہی ارجن تندولکر نے اپنے آئی پی ایل کریئر کی پہلی وکٹ حاصل کی اور ممبئی انڈینز نے اس سیزن میں مسلسل تیسری جیت بھی حاصل کی۔ کپتان روہت شرما نے ہی ارجن کو ان کے ڈبیو میچ پر ممبئی انڈینز کی کیپ پہنائی تھی۔ روہت نے منگل کو ان کی گیند پر کیچ بھی پکڑا۔ وکٹ لینے کے بعد انھوں نے ارجن کو گلے لگایا اور میچ کے بعد ان کی تعریف بھی کی۔ ارجن نے کہا کہ ’میرے لیے یہ بہترین موقع تھا جب میں نے پہلی وکٹ حاصل کی۔ میں نے صرف پلان پر کام کیا، آخری اوور میں پلان یہ تھا کہ باؤنڈری نہیں لگنی چاہیے۔ جہاں تک سوئنگ کا تعلق ہے تو میں صرف سیم پر توجہ دیتا ہوں۔‘ ان کے والد سچن نے بھی اپنے ٹویٹ میں ارجن تندولکر کا ذکر کیا۔ سچن نے ممبئی کو جیت پر مبارکباد دی اور لکھا کہ 'آخر کار ایک تندولکر کو آئی پی ایل کی وکٹ مل ہی گئی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c04v4mlxm04o", "summary": "پانچ ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز کے تیسرے میچ میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد نیوزی لینڈ نے پاکستان کو چار رنز سے ہرا دیا ہے۔ ", "title": "نیوزی لینڈ بمقابلہ پاکستان: ’ہم میچ ہار گئے لیکن افتخار نے ہمارے دل جیت لیے‘", "firstPublished": "2023-04-17T20:47:27.393Z", "id": "c04v4mlxm04o", "article": "پانچ ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز کے تیسرے میچ میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد نیوزی لینڈ نے پاکستان کو چار رنز سے ہرا دیا ہے۔ لاہور میں کھیلے گئے میچ میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کے خلاف پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں پانچ وکٹوں کے نقصان پر 163 رنز بنا کر گرین شرٹس کو جیت کے لیے 164 رنز کا ہدف دیا تھا۔ پاکستان کی پانچ وکٹیں صرف 55 رنز پر گر گئی تھیں۔ اس کے بعد بھی کیویز بولرز نے پاکستان کے بیٹسمین پر دباؤ بڑھائے رکھا۔ اس کے بعد افتخار احمد اور فہیم اشرف نے بیٹنگ لائن اپ کو سہارا دیا اور جارحانہ کھیلتے ہوئے میچ کو سنسنی خیز مرحلے تک لے آئے۔ پاکستان کی جانب سے سب سے نمایاں اننگز افتخار احمد نے کھیلی جنھوں نے میچ میں جان ڈالتے ہوئے صرف 20 گیندوں پر اپنی نصف سنچری مکمل کی۔ انھوں نے چھ چھکوں کی مدد سے 24 گیندوں پر 60 رنز بنائے۔ وہ میچ کے آخری اوور میں اس وقت آؤٹ ہوئے جب پاکستان کو جیت کے لیے دو گیندوں پر پانچ رنز درکار تھے۔ ان کے بعد پاکستان کے آخری آنے والے کھلاڑی حارث رؤف نے آخری گیند پر چھکا لگانے کی کوشش کی لیکن وہ گیند کو باؤنڈری کے پار پھینکنے میں ناکام رہے۔ اور آخری گیند پر وکٹ گنوا بیٹھے۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے کپتان ٹام لیتھم نے 64 رنز کی اننگز کھیلی جب کہ ان کے علاوہ ڈیری مچل 33 اور 17 رنز بنا کر نمایاں رہے۔ واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کی تیسرے ٹی20 میچ میں جیت کے بعد پاکستان کو سیریز میں 1-2 کی برتری حاصل ہے۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلے گئے میچ میں پاکستان کی بیٹنگ لائن مکمل طور پر ناکام ہونے کے بعد جب افتخار احمد نے میچ کے آخری پانچ اوورز میں جارحانہ کھیل پیش کیا تو پاکستانی کرکٹ شائقین کو جیت کی امید ہونے لگی۔ افتخار احمد نے تیز کھیلتے ہوئے کیویز بولرز کی لائن و لینتھ کو خراب کر کے رکھ دیا اور صرف 20 گیندوں پر اپنی نصف سینچری مکمل کی۔ اس وقت میچ کے دوران سٹیڈیم میں شائقین ان کے نام کے نعرے لگاتے سنائی دیے۔ بلاشبہ اگر آج کے میچ میں پاکستانی بیٹنگ کی بات کی جائے تو افتخار احمد کی اننگز بہترین تھی، وہ مشکلات حالات سے نکال کر ٹیم کو فتح کے بہت قریب لانے میں کامیاب رہے۔ کرکٹر اعظم خان نے افتخار احمد کی آج کی اننگز پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ’میں نے آج ٹی ٹوئنٹی کی شاندار اننگز میں سے ایک دیکھی ہے، ہم سب کو دکھ ہے کہ وہ کھیل ختم نہیں کر سکے لیکن میں افتخار بھائی کی کارکردگی پر ان کے لیے خوش ہوں۔‘ ایک اور صارف نے آج کے میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایک منٹ میں نیچے اور اگلے منٹ میں اوپر، پاکستان کی کرکٹ کا بہترین مظاہرہ ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crgegn4rkm9o", "summary": " برفانی تودے گرنے کی وجہ سے شہروز اور نائلہ کے علاوہ انڈیا سے تعلق رکھنے والے دو کوہ پیما بلجیت کور اور ارجن بھی مشکلات کا شکار ہوئے اور ان چاروں کو اب 6400 میٹر کی بلندی پر واقع کیمپ تھری سے ہیلی کاپٹر کی مدد سے نکال کر بیس کیمپ پہنچا دیا گیا ہے۔ ", "title": "اناپورنا سر کرنے کے بعد واپسی کے سفر پر پھنس جانے والے پاکستانی کوہ پیماؤں کو ریسکیو کر لیا گیا", "firstPublished": "2023-04-17T07:06:32.629Z", "id": "crgegn4rkm9o", "article": "دنیا کی دسویں بلند ترین چوٹی اناپورنا سر کرنے کے بعد واپسی کے سفر کے دوران خراب موسم کی وجہ سے پھنس جانے والے پاکستانی کوہ پیماؤں نائلہ کیانی اور شہروز کاشف کو ہیلی کاپٹر کی مدد سے بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔ شہروز کاشف کے والد کاشف سلمان نے بی بی سی اردو کی منزہ انوار کو بتایا کہ یہ دونوں کوہ پیما کیمپ فور سے نیچے آتے ہوئے قریباً ساڑھے چھ ہزار میٹر کی بلندی پر ایک ایوالانچ کی وجہ سے پھنسے تھے۔ ان کے مطابق برفانی تودے گرنے کی وجہ سے شہروز اور نائلہ کے علاوہ انڈیا سے تعلق رکھنے والے دو کوہ پیما بلجیت کور اور ارجن بھی مشکلات کا شکار ہوئے اور ان چاروں کو اب 6400 میٹر کی بلندی پر واقع کیمپ تھری سے ہیلی کاپٹر کی مدد سے نکال کر بیس کیمپ پہنچا دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل دو کوہ پیما نوئل اور انوراگ پہاڑی سے اترتے ہوئے حادثے کا شکار ہوئے تھے جس کے بعد نوئل ہلاک ہو گئے تھے جبکہ انوراگ کو ریسکیو کر لیا گیا تھا۔ شہروز کے والد کا کہنا تھا کہ ان کی اپنے بیٹے سے مختصر بات ہوئی ہے جس میں اس کا کہنا تھا کہ چاروں کوہ پیما خیریت سے ہیں اور وہ خود اب بیس کیمپ سے پوکرا کے راستے کھٹمنڈو جا رہے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کوہ پیمائی کے ایک ماہر نے بتایا کہ ’اناپورنا تمام آٹھ ہزار میٹر سے بلند پہاڑوں میں سب سے زیادہ کٹھن سمجھا جاتا ہے۔ یہ نانگا پربت سے بھی زیادہ کٹھن ہے۔ ہر سال یہاں نیچے اترنے کے لیے کوہ پیماؤں کو ہیلی کاپٹر سے ریسکیو کیا جاتا ہے۔ نائلہ کیانی کا تعلق صوبہ پنجاب میں راولپنڈی شہر کے علاقے گجر خان کے ایک قدامت پسند خاندان سے ہے۔ انھوں نے ایرو سپیس انجینیئرنگ کی تعلیم برطانیہ سے حاصل کر کے اپنے اس شعبے میں بھی کام کیا تاہم اب اس وقت وہ خاوند کے ہمراہ دبئی میں مقیم ہیں جہاں وہ بینکنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ شادی کی بڑی تقریبات کی مخالف نائلہ نے اپنی شادی کو یادگار بنانے کے لیے کے ٹو بیس کیمپ پر تقریب منعقد کی اور ان کی تصاویر وائرل بھی ہوئی تھیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے شہروز جنھیں زیادہ تر لوگ ’براڈ بوائے‘ کے نام سے جاتے ہیں، دنیا کی 11 بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے والے دنیا کے سب سے کم عمر کوہ پیما بن گئے ہیں۔ خیال رہے کہ گذشتہ برس جولائی میں شہروز کاشف اور اور ان کے گائیڈ فضل احمد نانگا پربت سر کرنے کے بعد موسم کی خرابی کے باعث رات کھلے آسمان تلے گزارنے پر مجبور ہوئے تھے اور بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہونے کے باوجود اپنی مدد آپ کے تحت نیچے اترنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c25x4w0vqe8o", "summary": "کینیا کے ایک 25 سالہ شطرنج کے کھلاڑی نے خاتون کا بھیس بدل کر اپنے ملک کی خواتین کی اوپن شطرنج ٹورنامنٹ میں حصہ لیا لیکن بعد میں پکڑے گئے۔", "title": "کینیا: برقعے میں ملبوس ایک مرد کی خواتین کے شطرنج مقابلے میں شرکت کی ’دلیرانہ چال‘", "firstPublished": "2023-04-16T11:58:13.637Z", "id": "c25x4w0vqe8o", "article": "کینیا کے ایک 25 سالہ شطرنج کھلاڑی نے خاتون کا بھیس بدل کر اپنے ملک کی خواتین کی اوپن شطرنج ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کے لیے ایک دلیرانہ چال چلی۔ بعد میں اپنے دفاع میں انھوں نے ایک معذرت خواہانہ خط لکھا جسے بی بی سی نے دیکھا ہے۔ اس میں انھوں نے لکھا کہ انھوں نے ’مالی مجبوریوں‘ کے تحت ایسا کیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ’ہر سزا قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘ لیکن اومونڈی نے تبصرہ کے لیے بی بی سی کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ کینیا میں چیس کینیا کے صدر برنارڈ ونجالا نے کہا کہ اگرچہ ان پر ’کئی سال کی پابندی‘ لگنے کا امکان ہے، لیکن انھیں شطرنج سے ہمیشہ کے لیے باہر نہیں کیا جا سکتا۔ ’ہم نے یہ بھی دیکھا کہ وہ بات نہیں کر رہا تھا، یہاں تک کہ جب وہ اپنا ٹیگ لینے آیا تو اس نے بات نہیں کی۔ عام طور پر جب آپ کھیل رہے ہوتے ہیں تو آپ اپنے مخالف سے بات کرتے ہیں۔۔۔ کیونکہ شطرنج کا کھیل دوستی ہے جنگ نہیں۔ تحفظات اور خدشات کے باوجود، عہدیداروں نے انھیں کھیلنا جاری رکھنے کی اجازت دی۔ انھیں یہ بھی خوف تھا کہ اگر وہ کچھ کرتے ہیں تو ان پر مذہبی لباس کی وجہ سے حرکت کرنے کا الزام لگایا جائے گا لیکن پھر چوتھے دور میں انھیں نکال دیا گیا۔‘ ’انھوں نے تسلیم کیا کہ واقعی وہ ایک مرد ہیں۔ جو کچھ ہوا انھیں اس پر افسوس ہے، انھوں نے معافی مانگی اور کہا کہ وہ انھوں نے ایسا صرف اس لیے کیا ہے کہ انھیں مالی مشکلات کا سامنا تھا اور سوچا کہ ٹائٹل جیتنے سے اس پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔‘ کینیا اوپن گذشتہ ہفتے منعقد ہوا اور یہ کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ہونے والا ایک سالانہ مقابلہ ہے۔ رواں سال کے ایڈیشن میں 22 ممالک کے 400 سے زیادہ کھلاڑی شامل ہوئے۔ خواتین کے زمرے میں ننانوے رجسٹرڈ تھے جہاں فاتح کو 3,000 امریکی ڈالر سے زیادہ کی رقم گھر لے جانا تھی۔ اومونڈی شطرنج کے ایک معروف کھلاڑی ہیں، لیکن ونجالا کا خیال ہے کہ ٹورنامنٹ کے مردوں کے حصے میں کھیل کے اعلیٰ معیار کے پیش نظر خواتین کے زمرے میں ان کی مشکلات کم ہوں گی۔ اب جبکہ کینیا کی شطرنج فیڈریشن اس سے پہلے بھی عمر کے معاملے میں دھوکہ دہی کے معاملات سے نمٹ چکی ہے یہ اس قسم کی دھوکہ دہی کا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ ونجالا نے وضاحت کی کہ ’یہ ایک انتہائی قسم کا معاملہ ہے، فیصلے میں پابندی بھی شامل ہو سکتی ہے۔ میں تاحیات پابندی کو مسترد کرتا ہوں، لیکن ان پر شطرنج کھیلنے پر کئی سال کی پابندی لگ سکتی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2v0d8prz2o", "summary": "پاکستان نے دوسرے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں نیوزی لینڈ کو 38 رنز سے شکست دے کر سیریز میں دو صفر کی برتری حاصل کر لی ہے۔ ", "title": "’سٹرائیک ریٹ بریگیڈ کو سنچری سے جواب؟ ہاں! کہہ سکتے ہیں‘", "firstPublished": "2023-04-15T20:04:38.946Z", "id": "cv2v0d8prz2o", "article": "پاکستان نے دوسرے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں نیوزی لینڈ کو 38 رنز سے شکست دے کر سیریز میں دو صفر کی برتری حاصل کر لی ہے۔ میچ کے بہترین کھلاڑی قرار دیے جانے پر بابر نے کہا کہ پہلے ان کا ساتھ رضوان نے دیا اور پھر افتخار نے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ وہ پہلے مڈل میں سیٹ ہوئے اور آخر میں جارحانہ کھیل کر اچھا ٹوٹل بنانے کی کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ وکٹیں گرنے سے دباؤ بڑھتا ہے اور رنز بنانا اتنا آسان نہیں رہتا۔ لاہور میں کھیلے گئے اس دوسرے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں کپتان بابر اعظم نے ایک بار پھر ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ تین اوورز کے دورانیے میں چار وکٹیں گرنے سے پاکستانی بلے بازوں پر دباؤ بڑھا لیکن افتخار احمد نے کریز پر بابر اعظم کا ساتھ دے کر بیٹنگ کو مستحکم کیا۔ دونوں کی جوڑی آخری گیند تک جم کر کھیلی اور 87 رنز کی شراکت قائم کی۔ بابر نے اننگز کی آخری گیند پر چوکا لگا کر اپنی تیسری ٹی ٹوئنٹی سنچری مکمل کی۔ 58 گیندوں پر بنائی گئی اس سنچری میں تین چھکے اور 11 چوکے شامل تھے۔ دوسری طرف کیوی بولرز میچ کے وسط میں واپسی کے باوجود رنز کا بہاؤ روک نہ سکے۔ ہنری نے دو جبکہ رویندرا اور نیشم نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔ یوں پاکستان کی ٹیم نے پہلی اننگز میں چار وکٹوں کے نقصان پر 192 رنز بنائے۔ کیوی بلے بازوں کو اس بار قدرے بہتر آغاز ملا جس میں اوپنرز ٹاپ لیتھم اور چاڈ بوز نے پاور پلے میں 43 رنز حاصل کیے۔ پاکستان کو پہلی کامیابی شاداب خان نے دلوائی جب ساتویں اوور میں لیتھم بیک فٹ پر جانے سے پھنسے اور سکڈ کرتی گیند سے ایل بی ڈبلیو ہوئے۔ دونوں کے بیچ 33 رنز کی شراکت قائم ہوئی۔ پہلے میچ میں چار وکٹیں حاصل کرنے والے حارث رؤف نے اپنے دوسرے اوور میں پاکستان کو اہم بریک تھرو دلوایا۔ لانگ آف پر ینگ کا کیچ شاداب نے پکڑا۔ نیوزی لینڈ نے دوسری اننگز میں سات وکٹوں کے نقصان پر 154 رنز بنائے۔ سابق کرکٹر بازید خان نے اس پر رائے دی کہ ’جب بابر رنز نہیں کرتے، تب خبر بنتی ہے۔ اس سے آپ ان کی مسلسل اچھی کارکردگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔‘ اس جیت کے ساتھ بابر اعظم ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ میں دوسرے نمبر پر سب سے کامیاب کپتان بن گئے ہیں۔ دریں اثنا ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں بابر نے دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ سنچریاں بنائی ہیں۔ کل نو سنچریوں کے ساتھ وہ دوسرے نمبر پر آگئے ہیں۔ جبکہ ویسٹ انڈیز کے کرس گیل 22 سنچریوں کے ساتھ سرِفہرست ہیں۔ بطور کپتان بابر نے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ میں سب سے زیادہ (تین) سنچریاں بنائی ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1z414m1vxo", "summary": "ایک ہسپانوی ایتھلیٹ 500 دن بغیر کسی انسانی رابطے کے ایک غار میں گزارنے کے بعد زندہ نکل نکل آئی ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ایک عالمی ریکارڈ ہو سکتا ہے۔\n", "title": "ایتھلیٹ جس نے سائنسی تجربے کی خاطر ایک غار کے اندر بغیر رابطے کے 500 دن گزارے", "firstPublished": "2023-04-15T14:43:52.620Z", "id": "cd1z414m1vxo", "article": "ایک ہسپانوی ایتھلیٹ 500 دن بغیر کسی انسانی رابطے کے ایک غار کے اندر گزارنے کے بعد زندہ نکل نکل آئی ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ایک عالمی ریکارڈ ہو سکتا ہے۔ جس وقت بیٹریز فلامینی غرناطہ کے غار میں داخل ہوئیں اس وقت روس نے یوکرین پر حملہ نہیں کیا تھا اور دنیا ابھی تک کووڈ کی گرفت میں تھی۔ یہاں یہ بتاتے چلیں کہ یہ ایک تجربے کا حصہ تھا جس کی سائنسدانوں نے کڑی نگرانی کی۔ انھوں نے غار سے نکلنے کے بعد کہا کہ ’میں اب بھی 21 نومبر 2021 کی تاریخ میں پھنسی ہوئی ہوں۔ مجھے دنیا کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔‘ ان کی نگرانی ماہرین نفسیات، محققین، سپیلیوجسٹ (غاروں پر تحقیق کرنے والا ایک گروپ) نے کی تھی لیکن کسی بھی ماہر نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔ ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا ہسپانوی ٹی وی ای سٹیشن پر فوٹیج میں انھیں مسکراتے ہوئے غار سے نکلتے اور اپنی ٹیم کو گلے لگاتے دکھایا گیا ہے۔ جب رپورٹروں نے ان پر مزید تفصیلات کے لیے دباؤ ڈالا تو انھوں نے کہا کہ ’میں ڈیڑھ سال سے خاموش ہوں، اپنے علاوہ کسی سے بات نہیں کر رہی ہوں۔ ’میں اپنا توازن کھو چکی ہوں اسی لیے مجھے سہارا دیا جا رہا ہے۔ اگر آپ مجھے نہانے کی اجازت دیں تو میں تھوڑی دیر بعد آپ سے ملوں گی۔۔۔ میں نے ڈیڑھ سال سے پانی کو ہاتھ نہیں لگایا ہے۔‘ بعد میں انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ایک لمحہ ایسا آیا جب مجھے دن گننا بند کرنا پڑا۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں نے سوچا کہ میں غار میں160-170 دن سے رہ رہی ہوں۔ انھوں نے کہا کہ سب سے مشکل لمحات میں سے ایک وہ وقت تھا جب غار کے اندر مکھیوں کا حملہ ہوا اور انھیں خود کو بہت سے کپڑوں سے ڈھکنا پڑا۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ آپ چپ رہتے ہیں تو دماغ عجیب و غریب خیالات بن لیتا ہے۔ ماہرین ان کے تنہائی میں گزارے وقت کا استعمال کرتے ہوئے سماجی تنہائی اور لوگوں کی وقت کے بارے میں انتہائی عارضی بے راہ روی کے اثرات پر تحقیق کر رہے ہیں۔ فلامینی کی معاون ٹیم کا کہنا ہے کہ انھوں نے غار میں طویل ترین وقت گزارنے کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا ہے، لیکن گنیز ورلڈ ریکارڈ نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے کہ آیا غار میں رضاکارانہ وقت گزارنے کا کوئی ریکارڈ موجود ہے۔ گنیز ورلڈ ریکارڈ نے چلی اور بولیویا کے زیرِ زمین پھنسے ان 33 کان کنوں کو سب سے طویل عرصے تک زندہ رہنے کا اعزاز دے رکھا ہے جنھوں نے 2010 میں چلی میں تانبے اور سونے کی کان گرنے کے بعد 69 دن 688 میٹر زیر زمین گزارے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjqd848k8pgo", "summary": "نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو 88 رنز سے ہرا کرمیچ جیت لیا۔ پاکستانی بولرز نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کی پوری ٹیم کو 94 کے مجموعی سکور پر ڈھیر کر دیا۔ ", "title": "پاکستان کی نیوزی لینڈ کو 88 رنز سے شکست: میٹ ہنری سے ہیٹ ٹرک کا بدلہ صفر پر آؤٹ کر کے لیا", "firstPublished": "2023-04-14T17:56:47.659Z", "id": "cjqd848k8pgo", "article": "نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو 88 رنز سے ہرا کرمیچ جیت لیا۔ پاکستانی بولرز نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کی پوری ٹیم کو 94 کے مجموعی سکور پر ڈھیر کر دیا۔ پاکستان ٹیم کے کپتان بابر اعظم کے لیے یہ جیت نہایت اہمیت حاص کر گئی کیونکہ یہ ان کا 100 واں انٹرنیشنل ٹی ٹوئٹنی میچ تھا۔ سوشل میڈیا صارفین میچ کے آغاز سے ہی ان کے میچ کے لیے نیک تمنائیں ظاہر کرتے نظر آئے۔ میچ کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ٹیم نے مل کر کوشش کی اور انھوں نے نوجوان کھلاڑی صائم ایوب کی تعریف کی۔ انھوں نے اپنے بولرز کی کارکردگی کو بھی سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ٹیم میں آل راؤنڈ ز سے آپشن زیادہ ہو جاتے ہیں اور آپ پھنستے نہیں۔‘ پاکستان نے پہلی تین وکٹیں پانچ اوور میں حاصل کر کے نیوزی لینڈ کی ٹیم کو دباؤ کا شکار کر لیا۔ اور پھر سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔ نیوزی لینڈ کے بلے باز وکٹ پر جم کر کھیلنے کی کوشش کرتے رہے لیکن وکٹیں ان کے ہاتوں نے نکلتی رہیں۔ حارث روؤف نے چودھیں اوور میں پے در پے دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ پہلے جیمز نیشم 15 رنز بنا کر شان مسعود کے ہاتھوں کیچ آوٹ ہوئے انھوں نے 15 رنز بنائے تھے۔ پھر اس کے بعد ریچن رویندرا کو دو کے انفراد سکور پر بولڈ کر دیا۔ پندرھویں اور میں میچ نیوزی لیتنڈ کے ہاتھ سے نکلتا ہوا صارف دکھائی لینے لگا جب اس کی آٹھویں وکٹ بھی 91 رنز پر گر گئی۔ آؤٹ ہونے والے کھلاڑی ایڈم تھے جنہیں عماد وسیم نے آؤٹ کیا۔ وہ صرف تین رنز بنا سکے۔ اگلے ہی گیند پر عماد وسیم نے پاکستان کے خلاف ہیٹ ٹرک کرنے والے میٹ ہنری کو صفر پر آؤٹ کرکے ٹیم کا بدلہ لے لیا۔ اس کے بعد سولہویں اوور میں حارث روؤف نے آخری کھلاڑی کو بھی آؤٹ کر کے نیوزی لینڈ کی پوری ٹیم کو 94 کے مجموعی سکور پر پولین کی راہ دکھا دی۔ لاہور میں ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کرتے ہوئے کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان نے سلامی جوڑی کی صورت میں ٹیم میں واپسی کی۔ مگر وہ اپنے چوتھے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ میں پہلی نصف سنچری مکمل نہ کر پائے۔ خیال رہے کہ گذشتہ ماہ افغانستان کے خلاف اپنے تیسرے میچ میں بھی وہ 49 رنز پر آؤٹ ہوئے تھے۔ سوشل میڈیا صارفین نے دو لگاتار وکٹوں کے ساتھ میچ میں عماد وسیم کی کارکردگی کو انٹرنیشنل کرکٹ میں شاندار واپسی قرار دیا۔ صارفین کا کہنا تھا کہ وہ ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کے حق دار ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy7nww7pq8jo", "summary": "سعودی فٹبال لیگ میں پرتگال کے مایہ ناز کھلاڑی کرسٹیانو رونالڈو کی شمولیت کو رواں برس کے آغاز میں کھیلوں کی دنیا کی سب سے بڑی خبر کے طور پر دیکھا جا رہا تھا تاہم تین ماہ گزرنے کے بعد رونالڈو بظاہر ناخوش دکھائی دے رہے ہیں۔", "title": "رونالڈو النصر کلب کے کوچ سے ’ناخوش‘: ’اب ٹیم کو رونالڈو کو ہی بطور کوچ رکھ لینا چاہیے‘", "firstPublished": "2023-04-13T07:15:52.095Z", "id": "cy7nww7pq8jo", "article": "سعودی پرو لیگ میں پرتگال کے مایہ ناز کھلاڑی کرسٹیانو رونالڈو کی شمولیت کو رواں برس کے آغاز میں کھیلوں کی دنیا کی سب سے بڑی خبر کے طور پر دیکھا جا رہا تھا تاہم تین ماہ گزرنے کے بعد النصر کلب ٹورنامنٹ کے پوائنٹس ٹیبل پر دوسرے نمبر پر ہے اور رونالڈو کلب کے ڈرا ہونے والے گذشتہ میچ میں فیلڈ پر خاصے ناخوش دکھائی دیے۔ تاہم اس وقت اطلاعات کے مطابق وہ سعودی ٹیم النصر کے کوچ روڈی گارشیا سے کچھ زیادہ خوش نہیں اور اس حوالے سے اگلے سیزن کے لیے دیگر کوچز کے ساتھ بھی اس بارے میں رابطے کیے جا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ کلب فٹبال کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ چیمپیئنز لیگ میں شمولیت صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب کلب سعودی پرو لیگ میں فتح حاصل کرے۔ اس کے بعد فٹبال ورلڈ کپ 2022 میں رونالڈو کو فرسٹ ٹیم سے فرنینڈو سینٹاس کی جانب سے ڈراپ کیا گیا تھا، جس کے بعد رونالڈو اس حوالے سے ناخوش دکھائی دیے تھے اور جب پرتگال کو مراکش سے شکست ہوئی تو رونالڈو کو کیمرے پر روتے ہوئے میدان چھوڑتے دیکھا گیا تھا۔ اس سے قبل، النصر کو اریبیئن سپر لیگ کے سیمی فائنل میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اب وہ فٹبال کلب الاتحاد سے پوائنٹس ٹیبل میں تین پوائنٹس پیچھے ہے اور اس وقت ٹورنامنٹ میں مزید صرف سات میچ باقی ہیں۔ گذشتہ میچ میں النصر نے الفیہا کے ساتھ میچ ڈرا کیا تھا جو پوائنٹس ٹیبل پر اس وقت 11ویں نمبر پر ہے اور اس میچ کے بعد رونالڈو کو غصے میں میدان چھوڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ خیال رہے کہ رونالڈو کی سعودی پرو لیگ میں شمولیت کو صرف کھیل کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ سیاسی اعتبار سے بھی دیکھا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق النصر کلب سے رونالڈو فٹبال کی تاریخ کی سب سے بڑی تنخواہ سالانہ 177 ملین پاؤنڈ سے زیادہ وصول کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ کرسٹیانو رونالڈو کو سائن کرنے کے بعد النصر نے ٹویٹ کیا تھا کہ ’تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف ہمارے کلب کو بڑی کامیابی کی طرف گامزن کرے گا بلکہ ہماری لیگ، ہمارے ملک اور آنے والی نسلوں، لڑکے اور لڑکیوں کی اپنی بہترین کارکردگی دکھانے کے لیے بھی حوصلہ افزائی کرے گا۔‘ یقیناً اس ڈیل نے رونالڈو کو تاریخ کا سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا فٹبالر بنا دیا ہے لیکن سعودی عرب بھی ان کی عالمی شہرت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ مڈل ایسٹ اکانومی نامی ویب سائٹ نے رونالڈو کی شمولیت کے موقع پر لکھا تھا کہ رونالڈو 2030 فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے سعودی عرب کی بولی کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ خاص طور پر جب رونالڈو کی آمد کے ساتھ ہی اب میڈیا کی پوری توجہ سعودی فٹبال کی طرف مبذول ہو گئی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g3x6xg2g9o", "summary": "کینیڈا میں انڈیا کی پنجاب ریاست سے تعلق رکھنے والے سکھ بڑی تعداد میں آباد ہیں اور اسی لیے اسے پنجابی موسیقی سے تعلق رکھنے والے گلوکاروں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جو نہ صرف اپنا وقت اور فن دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کرتے ہیں بلکہ گاہے بگاہے کینیڈا سے انڈیا کا سفر ان کی زندی کا اہم حصہ ہے جہاں ان فنکاروں کے مداحوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔", "title": "پنجابی ہپ ہاپ سنگرز جن کا کریئر انڈیا کینیڈا تنازعے میں پِس رہا ہے", "firstPublished": "2023-10-06T11:56:23.898Z", "id": "c3g3x6xg2g9o", "article": "کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل اور کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے ممکنہ طور پر انڈین اداروں کے ملوث ہونے کے الزام کے بعد گذشتہ ماہ جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی تو اس تناظرمیں انڈیا کے پنجابی ریپرشوبھنیت سنگھ کا انڈیا کا دورہ بھی منسوخ کر دیا گیا۔ کینیڈا میں انڈیا کی ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے سکھ بڑی تعداد میں آباد ہیں اور اسی لیے اسے پنجابی موسیقی سے تعلق رکھنے والے گلوکاروں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ یہ فنکار نہ صرف اپنا وقت اور فن دونوں ممالک میں بانٹتے کرتے ہیں بلکہ گاہے بگاہے کینیڈا سے انڈیا کا سفر ان کی زندگی کا اہم حصہ ہے جہاں ان فنکاروں کے مداحوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ چنانچہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے جب یہ کہا گیا کہ ان کا ملک ان ’قابل اعتماد الزامات‘ کی تحقیقات کررہا ہے جو سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل سے انڈیا کا تعلق جوڑ رہے ہیں تو اس سفارتی محاذ نے دونوں ممالک کو اپنا گھر کہنے والے موسیقاروں کو پریشان کردیا ہے۔ ان کے فنک، ہپ ہاپ اور ہارڈ راک میں پیش کیے گئے میوزک میں پنجابی دھنوں اور منظر کشی کے ساتھ ساتھ سکھوں کی ثقافت کا رنگ موجود ہے جو نہ صرف سننے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے بلکہ یہی افرادیت انھیں اکثر بین الاقوامی میوزک چارٹس میں شامل رکھتی ہے۔ کینیڈا میں انڈیا کی ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے سکھ بڑی تعداد میں آباد ہیں تاہم لوگوں کی بڑی تعداد کا خیال ہے کہ اس کے مقابلے میں انڈیا اور کینیڈا کے درمیان پنجابی میوزک انڈسٹری کئی ذیادہ گنا متاثر ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ پنجابی نغمہ نگار پالی گدرباہا اس معاملے کو خالص سیاسی قرار دیتے ہیں۔ ’میوزک کے شائقین کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ سفارتی سطح پر کیا ہوتا ہے۔ وہ صرف ایک اچھا راگ اور تفریح چاہتے ہیں جو پنجابی موسیقی کا خاصہ ہے۔‘ ان کے مطابق ’ہپ ہاپ مزاحمت کی موسیقی ہے جسے سیاہ فام امریکیوں کی سماجی، سیاسی اور معاشی حقیقتوں کے ساتھ ساتھ امریکہ میں اس حوالے سے موجود دوہرے معیار پر طنز کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ گریوال کہتے ہیں ’ایک فنکار نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے زندہ تجربات کا اظہار اپنی وراثت میں ملی ثقافت سے جڑ سکتا ہے بلکل ایسے ہی اسی موسیقی کو خوشی اور طنز کے اظہار کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’کینیڈا کے معاشرے کے ساتھ تعلق رکھنے کے بجائے ، بہت سے لوگوں کو چھوٹی عمر میں ہی ان روایات میں ڈال دیا جاتا ہے جس سے وہ سکھ ہونے کی پہچان پر قائم رہ سکیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg18we981wo", "summary": "اگر ہم موسیقی کے کچھ پرجوش شائقین اور ماہروں کو چھوڑ دیں تو ایک عام آدمی کو لتا منگیشکر کی کامیابیوں کو سمجھنے کے لیے ایک تھیسس کی ضرورت ہوگی۔", "title": "ہیروں اور کرکٹ کی دلدادہ لتا منگیشکر جن کے گلے میں سُروں کا جادو بستا تھا", "firstPublished": "2023-10-05T08:14:17.835Z", "id": "crg18we981wo", "article": "کوئی راگوں اور سُروں کی سمجھ رکھنے والا یا پھر موسیقی کا عام شیدائی بھی اگر تنہائی میں لتا منگیشکر کا فلم ’سیما‘ میں گایا بھجن ’منموہنا بڑے جھوٹے‘ سُنے تو اس کے دل میں یہ جاننے کی خواہش ضرور پیدا ہو گی کہ اتنے مشکل اور نشیب و فراز سے بھرپور گیت کو اتنی آسانی سے کیسے گایا جا سکتا ہے۔ لتا منگیشکر اب 93 برس کی ہو گئی ہیں۔ میں دانستہ طور پر ان کے لیے یہ جملہ استعمال کر رہی ہوں کیونکہ اگرچہ لتا منگیشکر اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں لیکن ہم اس عظیم گلوکارہ کو اپنی یادوں سے ایسے ہی جدا نہیں ہونے دے سکتے۔ اگر ہم موسیقی کے کچھ پرجوش شائقین اور ماہروں کو چھوڑ دیں تو ایک عام آدمی کو لتا منگیشکر کی کامیابیوں کو سمجھنے کے لیے ایک تھیسز کی ضرورت ہو گی۔ یہ درست ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ کلاسیکی موسیقی کی دُھن، لے، تال اور تان کے بارے میں آپ کی سمجھ میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اگر آپ لتا منگیشکر کے گانے دوبارہ سنیں گے تو آپ ان کی آواز کے جادو سے اور بھی زیادہ مسحور ہو جائیں گے۔ لیکن اگر لتا منگیشکر نے ان دھنوں کو اپنی آواز میں اسی اتار چڑھاؤ کے ساتھ پیش نہ کیا ہوتا اور سریلے پن کے ساتھ انصاف نہ کیا ہوتا، تو صورتحال مختلف ہوتی۔ کچھ سال پہلے لتا کی ہی طرح باصلاحیت ان کی بہن آشا بھوسلے سے بات کرتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ منگیشکر خاندان مکمل طور پر ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے لیے وقف ہے۔ لتا منگیشکر کے والد پنڈت دینا ناتھ منگیشکر گوا اور مراٹھی تھیئٹر کے معروف فنکار تھے۔ پنڈت دیناناتھ بنیادی طور پر تھیئٹر موسیقی کے موسیقار تھے۔ لتا منگیشکر ان کی سب سے بڑی اولاد تھیں۔ اس لیے انھیں کلاسیکل گلوکارہ بننے کی تربیت بھی دی گئی تاہم بعد میں حالات کچھ ایسے ہو گئے کہ انھیں فلموں میں پلے بیک سنگر بننا پڑا۔ لتا منگیشکر اور موسیقی ایک دوسرے کے مترادف تھے۔ چاہے وہ کسی بھی قسم کی موسیقی ہو۔ کلاسیکی موسیقی کے بہت سے گلوکاروں اور سازندوں نے ان سے تحریک لی ہے۔ ان میں جوان یا بوڑھے کی کوئی قید نہیں۔ دراصل لتا منگیشکر کی پہچان صرف موسیقی تھی۔ کیونکہ وہ خدا کی ایک خاص تخلیق تھیں جس کے گلے میں سُروں کا جادو بستا تھا۔ دنیا کے بڑے ادیبوں اور موسیقی کے نقادوں نے وہ سب کچھ لکھا ہے جو اس عظیم شخصیت کی صلاحیتوں اور کارناموں کے بارے میں لکھا جا سکتا تھا۔ اب ان میں اضافہ کرنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ اور اسی لیے ہمیں بار بار ان کو خراج عقیدت پیش کرتے رہنا چاہیے۔ تاکہ موسیقی کے شائقین اور آنے والی نسلوں میں ان کی یادیں ہمیشہ زندہ رہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nx0jy44ejo", "summary": "امریکی پولیس نے 1996 میں امریکی ریپر توپاک شکور کے قتل کے الزام میں ایک مافیا گینگ کے سابق سرغنہ کو گرفتار کیا ہے۔ امریکی ریپر توپاک شکور کے قتل کا معاملہ گذشتہ 27 سال سے چل رہا تھا اور آج بھی توپاک کے قتل میں ہونے والی پیش رفت نے امریکی عوام کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔", "title": "ٹوپاک شکور: امریکی ریپر جن کا قتل 27 سال بعد بھی سازشی نظریات اور افواہوں کا مرکز ہے", "firstPublished": "2023-10-05T06:59:38.718Z", "id": "c4nx0jy44ejo", "article": "امریکہ میں پولیس نے 1996 میں امریکی ریپر ٹوپاک شکور کے قتل کے الزام میں ایک مافیا گینگ کے سابق سرغنہ کو گرفتار کیا ہے۔ ٹوپاک شکور کے قتل کا معاملہ گذشتہ 27 سال سے چل رہا تھا اور آج بھی اُن کے قتل میں ہونے والی پیش رفت نے امریکی عوام کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ گذشتہ جمعہ کو نیواڈا کی گرینڈ جیوری نے مافیا گینگ کے سابق سرغنہ 60 سالہ ڈیوین ڈیوس (کیفے ڈی) پر قتل کے الزام میں فرد جرم عائد کی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ڈیوین ڈیوس نے ٹوپاک کو فائرنگ کر کے قتل کا منصوبہ اس وقت بنایا تھا جب اُن کے بھتیجے کی ایک کیسینو (جوا خانہ) میں ٹوپاک کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی۔ پولیس نے ڈیوین ڈیوس کو جمعہ کی علی الصبح لاس ویگاس میں ان کے گھر کے قریب سے گرفتار کیا ہے پولیس نے ان کی گرفتاری کے وقت کی تصویر بھی جاری کی ہے۔ عدالت میں سرکاری وکیل مارک ڈیا جیاکومو نے ملزم ڈیوین ڈیوس کو لاس ویگاس کے ایک مقامی جرائم پیشہ گینگ کا سابق رہنما قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ہی ٹوپاک شکور کی ’موت کا حکم دیا۔‘ آئندہ چند روز میں مزید کارروائی کے لیے ڈیوس کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ سات ستمبر 1996 کو ٹوپاک شکور کو گولیاں مارے جانے سے کچھ دیر قبل ملزم کے بھتیجے اور ٹوپاک کے درمیان ایک کسینو میں لڑائی ہوئی تھی۔ پولیس اہلکار نے نامہ نگاروں کو ہوٹل میں ہونے والی لڑائی کی سکیورٹی کیمرے کی فوٹیج بھی دکھائی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لڑائی ٹوپاک پر فائرنگ اور ان کی موت کی وجہ بنی۔ گذشہ 27 برسوں میں اس بارے میں لاتعداد افواہیں پھیلی ہیں کہ اصل میں لاوپاک کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ ان افواہوں میں کچھ ایسے دعوے بھی شامل ہیں کہ انھوں نے اپنی موت کا ڈرامہ رچایا اور وہ خفیہ طور پر کسی دوسرے ملک میں چھپے ہوئے ہیں۔ گذشتہ برسوں کے دوران بہت سے لوگوں نے انھیں مختلف مقامات پر دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہاں تک کہ 2012 میں کِم کارڈیشیئن نے بھی کہا تھا کہ شاید انھوں نے ٹوپاک کو دیکھا ہے۔ ٹوپاک کی موسیقی اور شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں آج تک کا سب سے بااثر اور کامیاب ریپر سمجھا جاتا ہے جنھوں نے مغرب میں ہیپ ہاپ کلچر اور ریپ موسیقی پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ مشہور امریکی ریپر ففٹی سینٹ نے کہا تھا کہ ’ہر وہ ریپر جو نوے کی دہائی میں پروان چڑھا ہے، اس کا کریئر کہیں نہ کہیں ٹوپاک کا مرہون منت ہے۔ اس نے یقیناً اپنا ایک انداز اپنایا تھا اور وہ اس سے پہلے آنے والے ریپرز سے بہت مختلف تھا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cpvlyqdgv47o", "summary": "انڈیا کی معروف اداکارہ سری دیوی کی موت بہت سے لوگوں کے لیے ابھی ایک معمہ اور ایک اسرار ہے لیکن ان کے شوہر اور فلم ساز بونی کپور نے اس اسرار سے ایک پردہ اور اٹھایا ہے۔", "title": "ڈائٹنگ اور نمک سے پرہیز سری دیوی کی موت کی وجہ بنے: بونی کپور", "firstPublished": "2023-10-04T08:47:53.534Z", "id": "cpvlyqdgv47o", "article": "انڈین اداکارہ سری دیوی کی موت بہت سے لوگوں کے لیے ابھی ایک معمہ ہے لیکن ان کے شوہر اور فلم ساز بونی کپور نے ایک حالیہ انٹرویو میں ایسے ہی ایک راز سے پردہ اٹھایا ہے۔ اگرچہ دبئی کے حکام نے کہا تھا کہ سری دیوی کی موت حادثاتی طور پر باتھ ٹب میں ڈوبنے سے ہوئی لیکن ان کے شوہر بونی کپور نے گذشتہ دنوں ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ ڈاکٹروں نے صرف ڈوبنے پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھی جبکہ سری دیوی کی موت کے پس پشت ڈائٹنگ کے حوالے سے ان کا رویہ اور نمک سے پرہیز تھا۔ ’دی نیو انڈین‘ کے صحافی روہن دوآ کے ساتھ بات چیت کے دوران فلم ساز بونی کپور نے کہا کہ ان کی موت ’قدرتی‘ نہیں تھی بلکہ ’حادثاتی‘ تھی اور یہ کہ انھیں ’سری دیوی کے قتل کے پریشان کن الزامات کو برداشت کرنا پڑا۔‘ انٹرویو کے دوران انھوں نے خوراک میں نمک نہ چھوڑنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے آپ ہوش کھو سکتے ہیں جیسا کہ سری دیوی کے ساتھ ہوا تھا اور وہ گر پڑی تھیں جس سے ان کا آگے کا ایک دانت ٹوٹ گیا تھا۔ ’مسٹر انڈیا‘ فلم کے پروڈیوسر بونی کپور نے کہا کہ سری دیوی ’آن سکرین‘ اپنی شبیہہ سے متعلق بہت حساس تھیں اور وہ اپنی موت سے قبل بھی ڈائٹنگ پر تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ سری دیوی کی موت کے بعد اداکار ناگارجن ان سے اظہار تعزیت کے لیے آئے تو انھوں نے بتایا کہ جب وہ ان کے ساتھ فلم کر رہی تھیں تو وہ کریش ڈائٹ پر تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’وہ باتھ روم میں گر پڑی تھیں اور ان کے دانت ٹوٹ گئے تھے اور پھر مصنوعی کیپ لگائے گئے تھے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ پنکج پراشر کی نامکمل فلم میں بھی ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا۔ ناگارجن نے جو کہا میں اس سے واقف نہیں تھا لیکن پراشر کے حالات سے واقف تھا۔ میں سری دیوی سے ایسا کرنے کو نہیں کہہ سکتا تھا لیکن میں جانتا تھا کہ وہ سخت ڈائٹ کی پابندی کرتی ہے اور نمک چھوڑ دیتی ہے۔ بہر حال سری دیوی کے شوہر بونی کپور نے کہا کہ وہ اس کے بعد سے بہت زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔ سری دیوی نے فلم پروڈیوسر بونی کپور سے سنہ 1996 میں شادی کی تھی اور ان کی دو بیٹیاں خوشی اور جھانوی کپور ہیں۔ جھانوی کپور اب خود اداکارہ ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cg30jy8n42yo", "summary": "بالی وڈ سپرسٹار شاہ رخ خان اپنی خاصر دماغی کے لیے مشہور ہیں۔ شاہ رخ کی طرف سے کہی گئی دلچسپ باتیں یا جواب اکثر سوشل میڈیا پر زیر بحث آتے ہیں۔", "title": "شاہ رخ نے ویراٹ کوہلی کو اپنا داماد کیوں کہا؟", "firstPublished": "2023-09-29T05:02:22.990Z", "id": "cg30jy8n42yo", "article": "بالی وڈ سپرسٹار شاہ رخ خان اپنی خاصر دماغی کے لیے مشہور ہیں۔ شاہ رخ کی طرف سے کہی گئی دلچسپ باتیں یا جواب اکثر سوشل میڈیا پر زیر بحث آتے ہیں۔ بدھ کی شام سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شاہ رخ خان کو ایک بار پھر اسی روپ میں دیکھا گیا۔ ان سوالات پر شاہ رخ کی جانب سے دلچسپ جواب دیکھنے کو ملے۔ شاہ رخ نے ویراٹ کوہلی سے لے کر اپنی نئی فلم جوان کی کمائی اور دیگر کئی سوالات پر لوگوں کو جواب دیا۔ ایک مداح نے شاہ رخ سے کہا کہ وہ فلم جوان میں اپنے کردار کے انداز میں ویراٹ کوہلی کے بارے میں کچھ کہیں تو بالی وڈ کنگ خان نے جواب میں کہا کہ ’میں ویراٹ سے محبت کرتا ہوں۔ وہ جیسے میرا اپنا ہے۔ میں ہمیشہ ویراٹ کے لیے دعا کرتا ہوں۔ ہمارا بھائی داماد جیسا ہے۔‘ کانہا نامی صارف نے پوچھا کہ کیا سلمان خان کی فلم ’ٹائیگر 3 میں آپ انٹرول سے پہلے آئیں گے یا بعد میں؟ جس پر شاہ رخ خان کا کہنا تھا کہ ’بھائی جب بھی بلائیں گے میں آؤں گا۔‘ شاہ رخ خان اور ویراٹ کوہلی کے درمیان دہلی کا تعلق ہے۔ شاہ رخ اور ویراٹ دونوں ہی دہلی سے ہیں۔ کوہلی کا تعلق آئی پی ایل کی رائل چیلنجرز بنگلور ٹیم سے ہے اور شاہ رخ کولکتہ نائٹ رائیڈرز ٹیم کے مالک ہیں۔ کچھ سال قبل ہدایت کار ساجد خان نے ایک شو کے دوران شاہ رخ کی موجودگی میں انوشکا سے پوچھا تھا کہ آپ شاہ رخ سے کون سی چیز چرانا پسند کریں گی؟ ایک انٹرویو میں انوشکا شرما نے شاہ رخ کے بارے میں کہا تھا کہ ’شاہ رخ ایک ایسے شخص ہیں جو میری زندگی میں بہت اہم ہے۔ وہ میری پہلی فلم سے ہی مجھ پر بہت مہربان ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ شاہ رخ بھی ایک شخص کے طور پر بہت بدل چکے ہیں۔ شاہ رخ کے ساتھ میرے تعلقات میں کافی تبدیلی آئی کیونکہ میں اب ان سے بات کرنے میں زیادہ آرام دہ ہوں۔‘ اس کے بعد شاہ رخ نے یہ بھی کہا کہ میں اور انوشکا نے کبھی بیٹھ کر دوستی نہیں کی۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم گیجٹس پر دوست بن گئے تھے یا کوئی چیز مشترک تھی۔ دراصل، مجھے یہ پسند ہے کہ ہم ایک دوسرے کا زیادہ احترام کرتے ہیں۔ انوشکا کبھی بھی رازداری میں مداخلت نہیں کرتی۔ میں خود ایسا نہیں ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ جب ہم بات شروع کرتے ہیں تو ہم بہت زیادہ باتیں کرتے ہیں۔ ’پٹھان‘ سے پہلے شاہ رخ کی گذشتہ چار سال میں کوئی فلم ریلیز نہیں ہوئی تھی۔ چار سال سے فلم ریلیز نہ ہونے پر شاہ رخ خود اپنا مذاق اڑاتے رہے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cg3049jlyyno", "summary": "’بوبی‘ شاید ہندی کی پہلی کم عمری کی محبت کی کہانی تھی، جس میں جوانی کا جوش، بغاوت، معصومیت اور بے فکر محبت کا امتزاج تھا۔", "title": "’ہم تم اک کمرے میں بند ہوں‘: وہ فلم جس نے ڈمپل اور رشی کپور کو راتوں رات سٹار بنا دیا", "firstPublished": "2023-09-28T14:32:28.975Z", "id": "cg3049jlyyno", "article": "یہ 1973 کا سال تھا، جب انڈیا میں ’بوبی‘ نامی ہندی فلم ریلیز ہوئی تھی جس میں ہیرو اور ہیروئن دونوں نئے تھے۔ ہیروئن ڈمپل کپاڈیہ کا نام بھی شاید کسی نے نہیں سنا تھا۔ اس وقت تک ہندی میں بالغوں کی محبت کی کہانیاں بن رہی تھیں، لیکن ’بوبی‘ شاید ہندی کی پہلی کم عمری کی محبت کی کہانی تھی، جس میں جوانی کا جوش، بغاوت، معصومیت اور بے فکر محبت کا امتزاج تھا۔ لیکن فلم کے لیے بڑی رقم کی ضرورت تھی، جس کے لیے ہندوجا خاندان آگے آیا۔ اس وقت ہندوجا خاندان ہندی فلموں کو بیرون ملک خصوصاً ایران میں تقسیم کرکے اپنا کاروبار بڑھا رہا تھا۔ رشی کپور کی سوانح عمری میں مزید لکھا ہے کہ ’راج کپور کے پاس اپنا گھر بھی نہیں تھا۔ بوبی کی کامیابی کے بعد انھوں نے اپنا گھر خرید لیا۔ بوبی کو آر کے بینر کو بلند کرنے کے لیے بنایا گیا تھا نہ کہ مجھے لانچ کرنے کے لیے۔ اس فلم کا مرکز فلم کی ہیروئن تھی۔ جب ڈمپل کی تلاش مکمل ہوئی تو مجھے بطور ڈیفالٹ ہیرو چنا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ مجھے سارا کریڈٹ ملا کیونکہ ڈمپل نے شادی کر لی اور جب فلم ہٹ ہوئی تو تالیاں میرے حصے میں آئیں۔‘ فلموں کی تاریخ کے ماہرامرت گنگر نے بی بی سی کی صحافی سپریا سوگلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’بوبی بریگنزا یعنی بوبی 50 سال بعد بھی ایک جنون اور شوق کا نام ہے۔ یہ نوجوان نسل کی محبت کی کہانی تھی جو سماج کے مختلف طبقات سے تعلق رکھتی تھے۔ راجہ (رشی کپور) کا تعلق ایک ہندو امیر گھرانے سے ہے اور بوبی کا تعلق مسیحی خاندان سے دکھایا گیا ہے جو ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہے۔ ‘ ’بوبی کے دوران میں یاسمین کے ساتھ ریلیشن شپ (تعلقات) میں تھا۔ اس نے مجھے ایک انگوٹھی دی لیکن شوٹنگ کے دوران کئی بار ڈمپل وہ انگوٹھی نکال کر پہن لیتی تھیں۔ جب راجیش کھنہ نے ڈمپل کو پرپوز کیا تو اس نے انگوٹھی نکال کر سمندر میں پھینک دی۔ میڈیا میں اس کا بہت چرچا تھا۔ پھر ہمارے بارے میں بہت سی باتیں شائع ہوئیں لیکن ہمارے درمیان ایسا کچھ نہیں تھا۔ ہاں بطور ہیروئن تب میں ان کی بہت عزت کرتا تھا اور ان کے بارے میں مثبت سوچ رکھتا تھا۔‘ فلم بوبی کی بات کریں تو اس میں دکھائی گئی نوجوان محبت کی کہانی اور راج کپور کے کہانی سنانے کے انداز دونوں نے فلم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ نوجوان محبت کی کہانی جو راستے کی رکاوٹوں کو توڑ ڈالتی ہے، غربت اور دولت کے درمیان گھومتی ہے، فیشن کی جانب لبھاتی ہے اور اسے آج بھی نوعمروں کی بہترین محبت کی کہانی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2lelr5g1do", "summary": "'بی واٹر مائی فرینڈ' یعنی آپ پانی کی طرح ہو جاؤ۔ خود کو اتنا لچکدار بناؤ اور سہل بناؤ کہ آپ ہر صورتحال اور ماحول کے مطابق ڈھل سکو۔", "title": "غربت سے نکل کر چین میں سٹار بننے والا انڈین شہری، جس کی کامیابی کی کہانی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے", "firstPublished": "2023-09-27T14:08:07.243Z", "id": "cv2lelr5g1do", "article": "یعنی آپ پانی کی طرح ہو جاؤ۔ خود کو اتنا لچکدار اور آسان بناؤ کہ آپ ہر صورتحال اور ماحول کے مطابق ڈھل سکو۔ دہلی میں تین مہینے تک کام کرنے کے بعد چینی ریسٹورنٹ کے مالک نے میرا ویزا منظور کرایا اور 2005 میں میں چین پہنچ گیا۔ چین آنے سے پہلے میرے کچھ دوستوں نے مجھے سمجھایا بھی تھا کہ تم یہاں سیٹ ہو گئے ہو وہاں جا کر کیا کرو گے، لیکن مجھ پر تو وہاں جا کر مارشل آرٹ سیکھنے کی دھن سوار تھی۔ 'اس دوران میں سب سے کہتا تھا کہ وہ مجھے مارشل آرٹ سکھائیں، تو وہ کہتے کہ ہمیں یوگا سکھاؤ۔ میں ان کو جواب دیتا، میں یوگا نہیں جانتا، تو وہ مجھ سے کہتے کہ جس طرح تم یوگا نہیں جانتے اسی طرح ہم مارشل آرٹ نہیں جانتے۔ ایک طویل عرصے کے بعد میری یہ غلط فہمی کہ چین میں ہر کوئی مارشل آرٹس نہیں جانتا ہے دور ہو گئی۔ اس میں مجھے فلم کے ہیرو کو گیٹ سے لانا ہے اور اسے ٹیبل پر بٹھانا ہے اور انڈین کھانے کے بارے میں بتانا ہے، تب مجھے 1998 کا وہ دن یاد آیا جب کیمرہ دیکھ کر میری ٹانگیں کانپنے لگی تھیں۔ آج ایک بار پھر میرے پاس ایک موقع تھا، میں نے سوچا کہ ’دیو! آج نہیں تو پھر کبھی نہیں۔‘ ان بچوں نے بتایا کہ دیو رتوڑی کی کہانی ان کی ساتویں جماعت کی انگریزی کی کتاب میں پڑھائی جاتی ہے۔ دوست کی بیٹی نے پھر اس سے کہا: ’انکل، یہ سب بچے یقین نہیں کرتے کہ میں آپ کو جانتی ہوں، اس لیے میں انھیں یہاں لائی ہوں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے 2018 میں نصابی کتاب میں شامل کیا گیا تھا۔ اس میں میرے چین آنے اور کامیاب ہونے کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ میرے لیے سب سے بڑی کامیابی ہے حالانکہ میں نے کبھی کالج کا منھ نہیں دیکھا لیکن آج چین میں بڑی بڑی یونیورسٹیاں بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے مجھے بلاتی ہیں۔ میں نے چین میں بہت سے ایوارڈز بھی جیتے ہیں۔‘ مجھے ہمیشہ ایک افسوس رہتا ہے کہ مجبوریوں کی وجہ سے میں اپنی تعلیم کو آگے نہیں بڑھا سکا۔ اسی لیے ایک رتوڑی فاؤنڈیشن بھی قائم کیا ہے جو اتراکھنڈ کے بچوں کی مدد کرتی ہے، خاص طور پر میرے علاقے کے بچوں کی۔ ’دیو نے اپنی زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ہے اور آج بھی انہیں کہیں نہ کہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر آج وہ کامیاب انسان ہے تو اسے کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ لیکن دیو کی ہمت اتنی بلند ہے کہ وہ تمام چیلنجز کا مقابلہ دلیری سے کرتا ہے۔ وہ واقعی سپر ہیومن ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ce4wnjdz11ro", "summary": "وحیدہ رحمان کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازے جانے پر کوئی انھیں فلم ’گائیڈ‘ کی روزی کے طور پر یاد کر رہا ہے تو کوئی ’چودھویں کا چاند‘ کہہ رہا ہے، کوئی ’راجکماری نیل کمل‘ تو کوئی تیسری قسم کی ’ہیرا بائی‘ کے طور پر یاد کر رہا ہے۔", "title": "وحیدہ رحمان کے لیے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ: ’چودھویں کے چاند کو یہ ایوارڈ دینا حق بجانب ہے‘", "firstPublished": "2023-09-27T09:09:26.524Z", "id": "ce4wnjdz11ro", "article": "گذشتہ سال جب ہندی سینما کی معروف اداکارہ آشا پاریکھ کو فلمی دنیا کے سب سے گراں قدر دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا تو سوشل میڈیا پر صرف ایک شور تھا کہ یہ ایوارڈ انھیں وحیدہ رحمان سے پہلے کیوں دیا گیا۔ انھیں کوئی فلم ’گائیڈ‘ کی روزی کے طور پر یاد کر رہا ہے تو کوئی ’چودھویں کا چاند‘ کہہ رہا ہے، کوئی ’راجکماری نیل کمل‘ تو کوئی تیسری قسم کی ’ہیرا بائی‘ کے طور پر یاد کر رہا ہے۔ انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’خوشی ہے کہ وحیدہ رحمان جی کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انڈین سینما میں ان کے سفر نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ وہ ٹیلنٹ، لگن اور پرکشش شخصیت کی مالک ہیں۔ وہ ہمارے سینما کا بہترین ورثہ ہیں۔ انھیں بہت مبارک ہو۔‘ معروف صحافی راجدیپ سردیسائی نے وحیدہ رحمان کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ ملنے کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں جب یہ پوچھا کہ کیا انھیں اس ایوارڈ سے نوازنے میں دیر تو نہیں ہو گئی اور کیا یہ انھیں بہت پہلے مل جانا چاہیے تھا تو اداکارہ وحیدہ رحمان نے اپنے مخصوص انداز میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ’یہ فیصلہ دیر آید درست آید‘ ہے۔ ابھینو سکسینہ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’آج کا دن انڈین سینما کے چاہنے والوں کے لیے کیا ہی خوب دن ہے۔ سدا بہار ہیرو دیوآنند کی 100ویں سالگرہ ہے اور پھر اسی دن لیجنڈری اداکارہ وحیدہ رحمان کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا جا رہا ہے۔ ان دونوں کی فلم ’گائیڈ‘ کو بڑے پردے پر دیکھنا بھی اتنا ہی مسرور کن ہے۔‘ وشو جیوتی گھوش نامی ایک صارف نے فلم ’صاحب بی بی اور غلام‘ کی ایک تصویر ڈال کر لکھا کہ ’وحیدہ رحمان کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا جانا اتنا ہی ذاتی محسوس ہوتا ہے جتنا کہ سکول ٹیچر پر آپ کا پہلا کرش۔ سینیئر سکول میں آپ کو لگتا تھا کہ وہ ایک دوست، ایک مینٹور ہوں گی لیکن جب آپ جاتے ہیں تو پرنسپل نکلتی ہیں۔ پھر کچھ ہمت کے ساتھ داخل ہوتے ہیں۔۔۔ آج شام ویسا ہی کچھ کرش والا احساس ہے۔‘ اسیم چھابڑا نامی صارف نے لکھا کہ ’میں نے وحیدہ رحمان کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازے جانے پر ایک بھی تنقیدی پوسٹ نہیں دیکھی۔ وہ سبھی کی پسندیدہ تجربہ کار فلمی اداکارہ ہیں۔ ہر کوئی اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ وہ ایوارڈ کی مستحق ہیں۔ یہ انڈین حکومت کی طرف سے فلم سے متعلق بہترین فیصلہ ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ce4w5p8pdexo", "summary": "دیو آنند کی جھکی ہوئی گردن، ان کی مخصوص ٹوپی، گلے میں رنگین سکارف اور جس طرح وہ بغیر کسی توقف کے مسلسل بولتے تھے، بہت سے لوگ اس انداز کے مداح تھے۔", "title": "دیو آنند 55 سال بعد اپنے شہر لاہور پہنچے تو کالج کے درودیوار سے لگ کر خوب روئے", "firstPublished": "2023-09-26T08:42:39.053Z", "id": "ce4w5p8pdexo", "article": "دیو آنند کی پیدائش اس غیر منقسم پنجاب میں ہوئی جو اب پاکستان میں ہے۔ لاہور سے گریجویشن کے بعد جولائی 1943 میں جیب میں 30 روپے لے کر وہ فرنٹیئر میل سے بمبئی پہنچے اور چند ہی برسوں میں بڑے سٹار بن گئے۔ انھوں نے کہا کہ ’جب ہم کالج میں داخل ہوئے تو میں نے چوکیدار سے کہا کہ دیو آنند آ گئے ہیں۔ چوکیدار نے حیران ہو کر کہا کہ ’او انڈیا توں آیا ہے؟‘ جیسے ہی دیو آنند نے اپنے کالج کو دیکھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ انھوں نے ایک دروازے کو گلے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ کالج کے دوران انھیں اوشا نامی لڑکی سے پیار تھا۔ اس کا نام پکارا۔‘ دیو آنند کی جھکی ہوئی گردن، ان کی مخصوص ٹوپی، گلے میں رنگین سکارف اور جس طرح وہ بغیر کسی توقف کے مسلسل بولتے تھے، بہت سے لوگ اس انداز کے مداح تھے۔ ’رومانسنگ ود لائف‘ میں دیو آنند نے لکھا کہ ’ہم بےخودی میں تم کو پکارے چلے گئے'‘ گیت کی شوٹنگ ہونی تھی اور سب صدر کا انتظار کر رہے تھے۔ جب دو گھنٹے بیت گئے اور وہ نہیں آئے تو ہم نے گانا شوٹ کرنا شروع کر دیا۔ جیسے ہی شوٹنگ ختم ہوئی ہمیں معلوم ہوا کہ وہ آ چکے ہیں۔ ہم نے وہ شوٹنگ دوبارہ انڈونیشیا کے صدر کے لیے کی۔ صدر نے زور سے تالیاں بجائیں۔ وہ ہندی فلم کی شوٹنگ دیکھ کر بہت خوش تھے۔ مجھے کالا پانی کے لیے فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا، جو میں نے مصری صدر جمال عبد الناصر سے حاصل کیا۔‘ دیو آنند لکھتے ہیں کہ ’شوٹنگ کے لیے ہم چمبل کے علاقے کے ڈاک بنگلے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ کسی نے ہمیں خبردار کیا کہ ڈاکو حملہ کرنے والے ہیں۔ میں نے کہا کہ ان سے کہو کہ آٹوگراف کے لیے کاپیاں لے کر آئیں اور اگر ان کے پاس کیمرے ہیں تو فوٹو کے لیے کیمرے لے کر آئیں، ان کے پاس اپنی زندگی کا آخری موقع ہے کہ وہ اپنے سکرین ہیرو کے ساتھ تصویر لے سکیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjeqxxv0n8vo", "summary": "نرس کارنیرو نے یہ جانا کہ موت کے ماحول میں اعضا کا عطیہ ایک منفرد چیز ہے جس سے ٹرانسپلانٹ کے لیے قطار میں کھڑے لوگوں کی زندگیوں میں زبردست فرق پڑتا ہے۔", "title": "انسانی اعضا کے عطیے جمع کرنے والے نرس: ’میں زندگی کو وہاں دیکھتا ہوں جہاں موت غالب ہوتی ہے‘", "firstPublished": "2023-09-23T11:52:23.317Z", "id": "cjeqxxv0n8vo", "article": "میرے بتانے پر وہ بولیں: ’کل میں نے اپنے والد کو دفن کیا ہے۔ آج میں اپنی ماں کی تدفین کی دیکھ بھال کر رہی ہوں اور اب آپ مجھے بتانے آئے ہیں کہ میرا بھائی مر گیا ہے۔ لیکن اب وہ اس پورے سانحے کا واحد شکار ہے جو اپنے اعضا عطیہ کر کے کسی کی مدد کر سکتا ہے۔‘ ایسے میں کارنیرو ان سے یہ معلوم کرنے کے لیے ملاقات کرتے ہیں کہ آیا وہ ایسے اعضا کے عطیہ کی اجازت دیتے ہیں جو ٹرانسپلانٹ میں استعمال ہو سکتے ہوں۔ ’عام طور پر ہم ہسپتالوں کو ایسی جگہ کے طور پر دیکھتے ہیں جہاں لوگوں کا علاج اور ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے اور بیمار افراد صحت یاب ہوتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسے تناظر میں جہاں موت کو ادارہ جاتی بنا دیا گیا ہو، ہسپتال وہ جگہ بن گئے جہاں کسی شخص کی موت ہوتی ہے۔‘ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے نرس کارنیرو نے یہ جانا کہ موت کے اس سارے ماحول میں اعضا کا عطیہ ایک منفرد چیز ہے جس سے ٹرانسپلانٹ کے لیے قطار میں کھڑے لوگوں کی زندگیوں میں زبردست فرق پڑتا ہے۔ ’اس موضوع کو سمجھنا خود شناسی کا عمل ہے، تاہم موت کے بعد زندگی کودوبارہ آگے بڑھانے کا یہ عمل یقیناً بہت سے لوگوں کے عقائد اور کسی کے لیے ان کی روحانیت کے خلاف ہے تاہم یہ بھی درست ہے کہ کچھ کے لیے زندگی کا واحد یقین کسی کی موت ہوتی ہے۔‘ ’میں نے ایک خیمے میں کام کیا جو متاثرہ مریضوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے لگائے گئے تھے اور وہاں ہم نے ہر رات چار، پانچ، چھ اموات دیکھیں۔ تاہم اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ ہم اعضا عطیہ کرنے کے حوالے سے کچھ نہیں کر سکے۔‘ کارنیرو کہتے ہیں کہ ہر شخص کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس معاملے پر بات کرے اور اپنے اہل خانہ اور قریبی رشتہ داروں پر یہ بات بالکل واضح کرے کہ آیا وہ قبول کرتے ہیں (یا نہیں) کہ موت کے بعد جسم کے کچھ اعضا ضرورت مند افراد کی پیوند کاری میں استعمال کیے جائیں۔ کارنیرو کا کہنا ہے کہ ’موت کے بعد انسانی جسم کے ہر عضو کا ایک ایسا دورانیہ ہوتا ہے جس میں وہ کام کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر دل کے معاملے میں اسے عطیہ کرنے والے کے جسم سے نکالے جانے کے وقت سے صرف چار گھنٹے ہوتے ہیں کہ اسے کسی دوسرے انسان کو ٹرانسپلانٹ کیا جا سکے۔‘ اس ڈیڑھ دہائی میں قومی ٹرانسپلانٹ سسٹم کے لیے انسانی بافتوں کے جمع کرنے والے کارکن کے طور پر کارنیرو نے سیکھا ہے کہ موت کا سامنا دشمن کے طور پر کرنا ضروری نہیں ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgxk0dq0yq1o", "summary": "امریکی فیشن برانڈ ابرکرومی اینڈ فچ کے سابق سی ای او مائیک جیفریز اور ان کے برطانوی پارٹنر میتھیو سمتھ کو جنسی تقریبات کے لیے بھرتی کیے گئے مردوں کے استحصال کے الزامات کا سامنا ہے۔ وہ اس قسم کی تقریبات کی دنیا بھر میں میزبانی کرتے تھے۔\n", "title": "فیشن برانڈ کے سابق سربراہ پر جنسی استحصال کا الزام: ’نوجوان ماڈل لڑکوں سے آڈیشن بھی اوورل سیکس کے مطالبے کے بعد لیا جاتا‘", "firstPublished": "2023-10-04T07:57:51.741Z", "id": "cgxk0dq0yq1o", "article": "امریکی فیشن برانڈ ابرکرومی اینڈ فچ کے سابق سی ای او مائیک جیفریز اور ان کے برطانوی پارٹنر میتھیو سمتھ کو جنسی تقریبات کے لیے بھرتی کیے گئے مردوں کے استحصال کے الزامات کا سامنا ہے۔ وہ اس قسم کی تقریبات کی دنیا بھر میں میزبانی کرتے تھے۔ کبھی امریکہ کے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے سی ای اوز میں سے ایک مائیک جیفریز وہ متنازع شخصیت تھے جنھیں عملے کے خلاف امتیازی سلوک، ان کے شاہانہ اخراجات کے بارے میں تحفظات اور اے اینڈ ایف کے اندر اپنے پارٹنر میتھیو سمتھ کے غیر سرکاری اثر و رسوخ کے بارے میں شکایات کا سامنا کرنا پڑا۔ بی بی سی نے اپنی دو سالہ تحقیق میں ایسے 12 مردوں سے بات کی ہے جنھوں نے 2009 سے 2015 کے درمیان 79 سالہ مائیک جیفریز اور ان کے 60 سالہ برطانوی پارٹنر میتھیو سمتھ کے لیے جنسی سرگرمیوں سے متعلق تقریبات میں شرکت یا اہتمام کرنے کے بارے میں بتایا۔ ان تقریبات میں شریک مردوں نے بی بی سی کو بتایا کہ مائیک جیفریز اور میتھیو سمتھ نے تقریباً چار مردوں کے ساتھ جنسی عمل کیا یا انھیں ایک دوسرے کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کی ’ہدایت‘ کی گئی تھی۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ بعدازاں تقریب میں موجود عملے نے انھیں ہزاروں ڈالر نقدی سے بھرے لفافے دیے تھے۔ جیمز جیکبسن کو یہ افراد ’مڈل مین‘ یا ’کاسٹنگ ایجنٹ‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ بی بی سی کو بتایا گیا کہ وہ ان سیکس تقریبات میں شرکت کے لیے تلاش کیے گئے مردوں کی تصاویر جیفریز اور سمتھ کو بھیجتے تھے۔ بیرٹ پال کا کہنا ہے کہ بھرتے کیے جانے والے ایک دوسرے شخص نے ان کے ساتھ اوورل سیکس کیا اور مائیک جیفریز اور میتھیو سمتھ نے انھیں یہ کرتے ہوئے دیکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد جوڑے نے انھیں بستر پر آنے کی ترغیب دی اور مائیک جیفریز کو چومنے کا کہا۔ بعدازاں اس تقریب کے لیے بلائے گئے دو اور مردوں نے اے اینڈ ایف کے باس اور ان کے ساتھ کے ساتھ سیکس کیا۔ اے اینڈ ایف کمپنی جس کا کہنا ہے کہ وہ مائیک جیفریز کو اپنے جدید دور کا بانی مانتی ہے، نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ان کے مبینہ رویے سے ’حیرت زدہ اور افسردہ‘ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ نئی قیادت نے کمپنی کو ’اقدار پر مبنی تنظیم میں تبدیل کر دیا ہے جو ہم آج ہیں‘ اور اس میں ’کسی بھی قسم کے بدسلوکی، ہراساں کرنے یا امتیازی سلوک کو برداشت نہیں کیا جاتا‘ ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cek45xxrnvro", "summary": "نیویارک میں سوتھبیز کی جانب سے ایک نیلامی میں شہزادی ڈیانا کا سویٹر، جس میں سفید بھیڑوں کی قطاروں کے درمیان ایک کالی بھیڑ موجود ہے، 1.14 ملین ڈالر میں فروخت ہوا ہے۔", "title": "شہزادی ڈیانا کا ’کالی بھیڑ‘ والا سویٹر 10 لاکھ ڈالر سے زیادہ رقم میں نیلام", "firstPublished": "2023-09-15T16:23:18.432Z", "id": "cek45xxrnvro", "article": "نیویارک میں سوتھبیز کی جانب سے ایک نیلامی میں شہزادی ڈیانا کا سویٹر، جس میں سفید بھیڑوں کی قطاروں کے درمیان ایک کالی بھیڑ موجود ہے، 1.14 ملین ڈالر میں فروخت ہوا ہے۔ بولی 31 اگست کو لگی اور نیلامی کے آخری منٹ تک سب سے اوپر کی بولی دو لاکھ ڈالرز سے کم رہی۔ سوتھبیز نے اس سویٹر کی قیمت کا تخمینہ 50 ہزار سے 80 ہزار ڈالرز لگایا تھا۔ یہ سویٹر مارچ میں ایک عمارت کے کمرے میں دریافت ہوا تھا۔ اس کی قیمت شہزادی ڈیانا سے منسلک بہت سی دوسری چیزوں سے زیادہ تھی جو حالیہ برسوں میں نیلامی میں فروخت ہوئیں۔ اس سے پہلے شہزادی ڈیانا کی چیز جو سب سے مہنگی بِکی وہ 2022 میں فروخت ہونے والی ان کی فورڈ ایسکارٹ تھی جس کی 806 ہزار ڈالرز کی بولی لگی تھی۔ جنوری میں شہزادی ڈیانا کے نیلم سے سجے سلیبی لاکٹ کو مشہور ریئلٹی سٹار کم کارڈیشیئن نے 203 ہزار ڈالر دے کر ایک آکشن میں خریدا۔ شہزادی ڈیانا: فیشن آئیکون سویٹر کے ڈیزائن کو اکثر شاہی خاندان میں ڈیانا کے مقام کی علامت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن فیشن کے مورخین کا کہنا ہے کہ 1981 میں جب شہزادی ڈیانا نے یہ سویٹر پہنا تھا تو وہ اس کے ذریعے کوئی پیغام نہیں دے رہی تھیں وہ بس ’سلوین رینجر‘ کے کپڑوں کے انداز کو سپورٹ کر رہی تھیں جسے انھوں نے مقبول کیا۔ سوتھبیز کے مطابق، سوشل میڈیا سے پہلے کے دور میں سویٹر میں ڈیانا کی اخباری تصاویر نے اسے بنانے والے وارم اینڈ ونڈرفل نٹ ویئر کو بہترین آغاز دلایا۔ اس سویٹر کی نقل بہت سے ڈیزائنزز نے بنائی۔ ان کی شادی کے فوراً بعد بکنگھم پیلس نے وارم اینڈ ونڈرفل کو لکھا کہ سویٹر خراب ہو گیا ہے لہذا اس کی سلائی کر دیں یا اسے تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد شہزادی ڈیانا نے سنہ 1983 میں اس کے متبادل کو ایک پولو میچ میں پہنا۔ سوتھبیز نے وارم اینڈ ونڈرفل کو بھیجے گئے خط کے ساتھ ساتھ نیلامی میں متبادل کے لیے شکریہ کا نوٹ بھی شامل کیا۔ سویٹر کے اصلی ہونے کی تصدیق کچھ اس طرح کی گئی کہ اس میں ایک چھوٹا سوراخ موجود تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cl4m0p1vdy2o", "summary": "ماضی میں کی جانے والی تحقیق میں یہ معلوم ہوا تھا کہ کچھ برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد اسے استعمال کرنے سے ہچکچکاتے ہیں۔ اس لیے بی بی سی نیوز بیٹ نے ان مفروضوں پر نظر ڈالی جو اس ہچکچاہٹ کی وجہ بنتے ہیں۔ ", "title": "سانولی اور گہری رنگت والے افراد سن سکرین لگانے سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟", "firstPublished": "2023-08-13T08:40:36.243Z", "id": "cl4m0p1vdy2o", "article": "تاہم ہر کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ اسے لگانا ضروری ہے اور یہ رجحان کچھ اقلیتی برادریوں میں سب سے زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ماضی میں کی جانے والی تحقیق میں یہ معلوم ہوا تھا کہ کچھ برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد اسے استعمال کرنے سے ہچکچکاتے ہیں۔ تاہم ہم میں سے اکثر افراد کیونکہ بالکل آخر میں بنائے گئے منصوبوں کے تحت تفریحی مقامات کی سیر کے لیے نکلتے ہیں، اس لیے بی بی سی نیوز بیٹ نے ان مفروضوں پر نظر ڈالی جو اس ہچکچاہٹ کی وجہ بنتے ہیں۔ جب وہ نوجوان ہوا کرتی تھیں تو وہ اس مفروضے پر یقین رکھتی تھیں کہ ’برطانیہ میں سورج کی شعائیں اتنی تیز نہیں ہیں کہ ان سے کوئی نقصان ہو سکے۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ ’جب آپ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتی ہوں، جیسے میں انڈین ہوں، تو یہاں ایک جھوٹا مفروضہ ہے کہ ہماری جلد سورج سے اتنی جلدی نہیں جلتی، اس لیے ہمیں ایس پی ایف چہرے پر لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ ایس پی ایف کی سیون ریٹنگ کے برابر ہے جو ’اتنا کم ہے کہ آپ اس مقدار کو بوتل میں بھی نہیں ڈال سکتے۔‘ ان کا ماننا ہے کہ اس حوالے سے معلومات کا فقدان اگلی نسلوں میں بھی منتقل کر دیا جاتا ہے کہ کون سی چیز سائنسی اعتبار سے صحیح ہے اور کون سی نہیں۔ ڈیمی نے یہ تجربہ سورج سے بچاؤ کے حوالے سے ملنے والی مصنوعات کے بارے میں بھی کیا اور گاجر کے تیل کے ذریعے اپنی جلد کو زیادہ سانولا کرنے کی کوشش کی۔ تاہم ایک ڈاکٹر سے تجویز لینے اور تحقیق کرنے کے بعد ڈیمی نے اپنی سوچ بدلی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے سوچا کہ میں ایس پی ایف سے متعلق جن مفروضوں پر یقین رکھتی ہوں وہ درست نہیں ہیں۔‘ ڈیمی یہ بھی مانتی ہیں کہ اس حوالے سے کی گئی تشہیری مہم نے بھی اثرات ڈالے ہیں کیونکہ یہ اکثر ’سفید فام افراد کو ٹارگٹ کرتی تھیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ان مصنوعات دوسری رنگتوں کی جلد پر کیا اثر ہو گا اس بارے میں زیادہ تحقیق نہیں کی گئی۔ ڈیمی کہتی ہیں کہ ’سن سکرین ہمیشہ سے ہی ایسی مصنوعات میں سے تھی جو سفید فام افراد استعمال کرتے ہیں۔ سیاہ فام اور گندمی جلد والے افراد کو اس بحث سے باہر رکھا جاتا رہا ہے۔ اس لیے اس بارے میں ابھی بہت کام ہونا باقی ہے۔‘ نیدرلینڈز میں حکومت سکن کینسر کی ریکارڈ شرح کے خلاف اقدامات اٹھانا چاہتی تھی، اس لیے انھوں نے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں اور فیسٹیولز، پارکس، سپورٹس وینیوز اور بڑی پبلک جگہوں پر مفت سن سکرین دینا شروع کر دی ہے۔ تانوی اور ڈیمی اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ برطانیہ میں زیادہ افراد کو اسے استعمال کرنے کی ترغیب تب ملے گی جب اس تک پہنچ آسان ہو گی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1wvx3d7ypxo", "summary": "آب و ہوا کیسی ہی ہے خشک ہے یا مرطوب؟ ایسے میں یہ طے کرنا انتہائی اہم ہو جاتا ہے کہ ہمار لباس کیسا ہو۔ ", "title": "گرمی سے بچنے کے لیے کیسے کپڑے پہنیں، کیا یہ ہم عرب بدوؤں سے سیکھ سکتے ہیں؟‎", "firstPublished": "2023-08-12T16:19:03.026Z", "id": "c1wvx3d7ypxo", "article": "آب و ہوا کیسی ہی ہے خشک ہے یا مرطوب؟ ایسے میں یہ طے کرنا انتہائی اہم ہو جاتا ہے کہ ہمار لباس کیسا ہو۔ مطالعہ کے نتیجے میں یہ کہا گيا ہے کہ صحرائی گرمی میں بدوؤں کو سیاہ اور سفید دونوں لباس میں یکساں گرمی محسوس ہوتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ 'کالے لباس سے جذب ہونے والی باہر کی اضافی حرارت جلد تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے۔' سٹائلسٹ اور فیشن کی مصنف ہیدر نیوبرگر کہتی ہیں: 'آپ کے فیبرک (کپڑے) کا انتخاب بہت اہم ہے۔ اگر آپ نے بڑے سائز کا ڈینم جمپ سوٹ پہنا ہوا ہے تو آپ گاز (جالی دار سوتی یا ریشمی کپڑے) یا شفان سے بنے زیادہ تنگ لباس میں ملبوس اپنے دوست سے کہیں زیادہ گرمی محسوس کریں گے۔' جب فٹ یا چست لباس پہننے کی بات آتی ہے تو سوتی اور ریشم کے ہلکے بُنے ہوئے کپڑے عام طور پر ڈھیلے طریقے سے بنے ہوئے کپڑے سے بہتر ہوتے ہیں۔ یہ خاص طور پر مرطوب موسم میں اچھا ہے، خشک گرمی میں فتیلے والا کپڑا ہی بہتر ہو گا جو آپ کے پسینے کو جذب کر لے گا اور پھر پسینہ گرمی میں بخارات بن کر اڑ جائے گا۔ لیکن جسم کو ٹھنڈا رکھنے کے دوسرے طریقے جیسے پسینہ بھی اپنا ایک کردار ادا کرتا ہے۔ کاٹن نمی جذب کرتا ہے لیکن یہ جلدی خشک نہیں ہوتا، اس لیے اگر آپ کو بہت زیادہ پسینہ آ رہا ہے تو آپ کے کپڑے گیلے رہیں گے، جس سے وہ کم آرام دہ ہوں گے۔ لینن بڑے پیمانے پر پہنا جاتا ہے کیونکہ اس کے بڑے ریشوں کی وجہ سے اس میں سانس لینے کی بہترین صلاحیت ہے، لیکن کاٹن کی طرح ہی یہ خشک ہونے میں سست ہے۔ میرینو اون بیرونی ملک کے شائقین کے لیے ایک مقبول انتخاب رہا ہے کیونکہ یہ سانس لینے کے قابل ہے اور بو کے بغیر نمی کو ختم کرتا ہے۔ نائیلون اور پالیسٹر زیادہ تر فعال لباس میں استعمال ہوتے ہیں کیونکہ وہ نمی کو ختم کرتے ہیں اور جلدی سوکھتے ہیں۔ لیکن اس میں بو برقرار رہتی ہے۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نائلن میں نمی جذب کرنے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے اور پالیسٹر کے مقابلے میں بہتر صلاحیت ہوتی ہے، لیکن اسے خشک ہونے میں دیر لگتی ہے۔ تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ٹھنڈا رہنے کے لیے لباس کا انتخاب صرف سفید ٹی شرٹ ٹانگ لینے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ لیکن صحیح تانے بانے یا بنائی والے لباس، مناسب فٹ اور جب ممکن ہو تو گیلے کپڑے پارے کے گرم ہونے پر درجہ حرارت کو نیچے رکھنے میں آپ کی مدد کرتے ہیں اور ایئر کنڈیشننگ میں بھی بچت کرتے ہی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c19l1rrxmg4o", "summary": "مس یونیورس انڈونیشیا کی کئی امیدواروں نے پولیس میں شکایات کی ہیں اور منتظمین پر جنسی استحصال کا الزام لگایا ہے۔", "title": "مس یونیورس انڈونیشیا میں جنسی ہراسانی کی شکایت: ’جسم کا معائنہ بند کمرے میں کیا گیا لیکن وہاں مرد بھی موجود تھے‘", "firstPublished": "2023-08-09T06:34:51.245Z", "id": "c19l1rrxmg4o", "article": "مس یونیورس انڈونیشیا کی کئی امیدواروں نے پولیس میں شکایات کی ہیں اور منتظمین پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا ہے۔ انڈونیشیا میں مقابلہ حسن میں شرکت کی اجازت ہے لیکن منتظمین محتاط رہتے ہیں کہ وہ قدامت پسند معاشرے کے پس منظر میں لوگوں کو ناراض نہ کریں۔ یاد رہے کہ سنہ 2013 میں مس ورلڈ کے مقابلے کے منتظمین نے جب مقابلے کا فائنل مرحلہ اس مسلم ملک میں منعقد کیا تھا تو انھوں نے اپنا بکنی راؤنڈ منسوخ کر دیا تھا۔ دارالحکومت جکارتہ میں پولیس نے کہا کہ شکایات کو ’مزید تفتیش‘ کے لیے بنیاد کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ تین امیدواروں کی نمائندگی کرنے والی وکیل میلیسا اینگرینی نے بی بی سی نیوز انڈونیشیا کو شکایت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہت سے دوسرے شکایت کنندگان بھی سامنے آئیں گے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے اطلاع دی ہے کہ چھ امیدواروں نے پولیس میں شکایت درج کرائی ہے۔ میلیسا اینگرینی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’منتظمین نے امیدواروں کو بتایا تھا کہ جسم کے معائنے کا مقصد ’ان کے جسم پر کسی بھی نشان یا ٹیٹو کا معائنہ کرنا تھا۔‘ انڈونیشیا کی سیلیبریٹی پوپی کیپیلا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مس یونیورس انڈونیشیا آرگنائزیشن ان الزامات کی تحقیقات کرے گی۔ گلوبل مس یونیورس آرگنائزیشن نے بھی کہا کہ وہ اس معاملے کو دیکھ رہی ہے اور وہ جنسی بدسلوکی کے الزامات کو ’بہت سنجیدگی سے‘ لیتی ہے۔ خواتین میں سے ایک نے کہا کہ ’ایک عورت کے طور پر میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی اور اس نے مجھے ذہنی طور پر متاثر کیا۔ مجھے زیادہ سوچنے کی وجہ سے سونے میں پریشانی ہوئی ہے۔‘ خاتون نے کہا کہ دروازہ بھی مکمل طور پر بند نہیں کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے باہر کے لوگ بھی یہ دیکھ سکتے تھے کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔ سابق مس انڈونیشیا ماریہ ہرفنتی نے سنہ 2015 میں مس ورلڈ کے مقابلوں میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں جسم کا معائنہ معمول کی بات ہے لیکن مقابلے میں شامل خواتین کو عام طور پر برہنہ ہونے کو نہیں کہا جاتا۔ ماریہ ہرفنتی نے کہا کہ منتظمین اکثر مقابلہ کرنے والوں سے ان کا بی ایم آئی یعنی باڈی ماس انڈیکس پوچھتے ہیں تاکہ جسمانی تناسب کو چیک کیا جا سکے۔ مس یونیورس کے مقابلے جو اب اپنے 73ویں ایڈیشن میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک خاص کر انڈونیشیا، فلپائن اور تھائی لینڈ میں بہت مقبول ہیں اور یہاں سے آنے والی فاتح، سیلیبریٹی اور سوشل میڈیا انفلوئنسر بن جاتی ہیں۔ اس کی موجودہ مالک این جکراجوتاتپ ہیں جو تھائی لینڈ کی ٹرانس جینڈر اور بڑی میڈیا مالک ہیں۔ انھوں نے شادی شدہ خواتین، ٹرانس جینڈر خواتین اور تنہا ماؤں کو مقابلہ میں شریک ہونے کی اجازت دے کر برانڈ کو مزید جامع بنانے کی کوشش کی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/pakistan-66991321", "summary": "الیکشن کمیشن نے پاکستان میں آئندہ عام انتخابات کے لیے غیرملکی مبصرین کے پاکستان آنے کے انتظامات سے متعلق دفتر خارجہ سے رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔", "title": "الیکشن کمیشن کا غیرملکی مبصرین کی پاکستان آمد سے متعلق دفتر خارجہ کو خط لکھنے کا فیصلہ", "firstPublished": "2023-10-03T02:20:01.000Z", "id": "fe984e1c-159a-42a4-a0f1-ac99b254d470", "article": "الیکشن کمیشن نے پاکستان میں آئندہ عام انتخابات کے لیے غیرملکی مبصرین کے پاکستان آنے کے انتظامات سے متعلق دفتر خارجہ سے رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں غیرقانونی طور پر رہائش پذیر غیرملکی افراد کو ہم نے یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ وہ اس تاریخ تک رضاکارانہ طور پر اپنے اپنے ممالک میں واپس چلے جائیں اور اگر وہ یکم نومبر تک واپس نہیں جاتے تو ریاست کے جتنے بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے وہ اس بات کا نفاذ یقینی بناتے ہوئے ایسے افراد کو ڈی پورٹ کریں گے۔ الیکشن کمیشن نے پاکستان میں آئندہ عام انتخابات کے لیے غیرملکی مبصرین کے پاکستان آنے کے انتظامات سے متعلق دفتر خارجہ سے رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں منگل کو ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ وزارت خارجہ کوفوری طور پر تحریر کیا جائے کہ وہ بین الاقومی مبصرین کو آئندہ عام انتخابات کی شفافیت کے مشاہدہ کے لئے مدعو کرنے کے سلسلے میں تمام ضروری اقدامات کرے۔ اجلا س میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ غیر ملکی مبصرین کی جن تنظیموں نے الیکشن کمیشن کو آئندہ عام انتخابات کے دوران انتخابی عمل کے مشاہدے کی درخواست کی ہے ان کے کیس کو فوری طور پر پراسس کیا جائے۔ عالمی مبصرین کے لیے ضابطہ اخلاق کی منظوری بھی دی ہے اور اسے فوری طور پر شائع کرنے کی اجازت دی ہے۔ الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کے انتظامات کا بھی جائزہ لیا اور اس پر اطمینان کا اظہار کیا اور حکم دیا کہ الیکشن سے متعلق تمام امور شیڈول کے مطابق مکمل کئے جائیں۔ اس اجلاس میں الیکشن کمیشن نے تمام سٹیک ہولڈرز بشمول وزارت خارجہ، وزرات داخلہ اور دیگر اداروں سے فوکل پرسنز کی تفصیل مانگ لی ہے۔ اس کے علاوہ کمیشن نے صوبائی سطح پر الیکشن کمیشن کی طرف سے جوائنٹ صوبائی الیکشن کمیشنر ایڈمن کو چاروں صوبوں میں فوکل پرسنز مقرر کیا ہے۔ واضح رہے اس قانون کے خلاف سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی بینچ نے حکم امتناع جاری کیا تھا۔ اس کے بارے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس وقت کے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا کہ جب تک بینچ کی تشکیل سے متعلق اس قانون کے بارے میں فیصلہ نہیں ہو جاتا، اس وقت تک وہ کسی بینچ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ تاہم پاکستان میں آئندہ عام انتخابات میں سیکورٹی خدشات سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’الیکشن میں پولنگ سٹیشنز کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/pakistan-66979970", "summary": "نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ ’آرمی چیف نے کہا ہے کہ جو اہلکار سمگلنگ اور دیگر غیر قانونی کاروائیوں میں ملوث ہوں گے اُن کا کورٹ مارشل ہوگا۔‘ ادھر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو چار اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔", "title": "آرمی چیف کی واضح ہدایات ہیں، سمگلنگ میں ملوث اہلکاروں کا کورٹ مارشل ہو گا، نگران وزیر داخلہ", "firstPublished": "2023-10-02T03:10:28.000Z", "id": "70bb73d4-64de-4818-affb-6995dd6a1851", "article": "نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ 'آرمی چیف نے کہا ہے کہ جو اہلکار سمگلنگ اور دیگر غیر قانونی کاروائیوں میں ملوث ہوں گے اُن کا کورٹ مارشل ہوگا۔' ادھر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو چار اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی\nکا کہنا تھا کہ ’آرمی چیف نے کہا ہے کہ جو اہلکار سمگلنگ اور دیگر غیر قانونی\nکاروائیوں میں ملوث ہوں گے اُن کا کورٹ مارشل ہوگا۔‘ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے\nکہا کہ ’جو لوگ اسمگلنگ اور حوالہ ہنڈی میں ملوث ہیں، اُن کے خلاف سخت کاروائی کی\nجائے گی۔‘ اُن کا کہنا تھا کہ ’فوج اپنے احتساب کے نظام کو 9 مئی کے واقعات کے خلاف\nکاروائی میں ثابت کر چُکی ہے۔‘ حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ کچھ\nدرخواست گزاروں کی عدم حاضری پر انھیں ایک اور موقع دیا جاتا ہے، عدالت نے مشاہدہ\nکیا کچھ لوگوں نے عوامی سطح پر کہا کہ انھیں معلوم ہے کہ کیا ہوا، ان لوگوں کا کہنا\nتھا کہ فیض آباد دھرناکیس میں عدالت نے ان کے نکتہ نظر کو مدنظر نہیں رکھا، \nفیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے پیراگراف\n17 کے تحت یہ مؤقف عدالت کے لیےحیران کن ہے۔ آفیشل\nسیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے سائفر کے مقدمے میں سابق وزیر اعظم عمران\nخان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو چار اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم دیا\nہے۔ ابوالحسنات\nذوالقرنین نے کہا کہ گواہان کے بیانات ملزمان کو نوٹس جاری کرنے کے لیے کافی ہیں،چیئرمین\nپی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، اس لیے عمران خان اور شاہ\nمحمود قریشی کی عدالت پیشی کے حوالے سے سپرٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو نوٹس جاری کیا جاتا\nہے۔ ابوالحسنات\nذوالقرنین کی جانب سے جاری نوٹس میں کہا\nگیا ہے کہ سپرٹنڈنٹ اڈیالہ جیل چار اکتوبر کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو عدالت میں پیش کرے۔ شاہ\nخاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کو پبلک نہیں کیا جاسکتا، آج\nہم ایک درخواست ٹرائل کورٹ میں دائر کر رہے ہیں، درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران\nکچھ اہم دستاویزات اور بیانات عدالت کے روبرو رکھنے ہیں، کچھ ملکوں کے بیانات بھی\nریکارڈ پر لانے ہیں، یہ کارروائی پبلک ہوگی تو کچھ ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے\nہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/pakistan-66975394", "summary": "پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے شاہدرہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 21 اکتوبر کو نواز شریف کی واپسی سے پہلے مختلف جگہوں پر جلسے کر کے لوگوں کو مینارِ پاکستان آنے کی دعوت دینا چاہتی ہیں۔ ایک عرصے کے بعد جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ جن افراد کا نواز شریف کو نکالنے میں کردار تھا وہ آج کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔", "title": "جب بھی نواز شریف کو نکالا گیا تو وہ پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہو کر واپس آئے: مریم نواز", "firstPublished": "2023-10-01T06:33:37.000Z", "id": "d9ee60ee-751b-479f-a871-32e4487ba9b6", "article": "پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے شاہدرہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 21 اکتوبر کو نواز شریف کی واپسی سے پہلے مختلف جگہوں پر جلسے کر کے لوگوں کو مینارِ پاکستان آنے کی دعوت دینا چاہتی ہیں۔ ایک عرصے کے بعد جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ جن افراد کا نواز شریف کو نکالنے میں کردار تھا وہ آج کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ پاکستان مسلم\nلیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے شاہدرہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب\nبھی نواز شریف کو نکالا گیا تو وہ واپس اس سے بھی زیادہ طاقتور ہو کر آئے۔ مریم نواز\nنے شاہدرہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ 21 اکتوبر کو نواز شریف کی واپسی سے پہلے\nمختلف جگہوں پر جلسے کر کے لوگوں کو مینارِ پاکستان آنے کی دعوت دینا چاہتی ہیں۔ خیال رہے\nکہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد نواز شریف سنہ 2019 میں علاج کی غرض سے پاکستان\nسے برطانیہ روانہ ہو گئے تھے اور اب وہ آئندہ برس کے اوائل میں ہونے والے انتخابات\nسے قبل ملک واپس آ رہے ہیں۔ مریم نواز\nنے خطاب کے دوران یہ بھی کہا کہ جن افراد کا نواز شریف کو نکالنے میں کردار تھا وہ\nآج کہیں دکھائی نہیں دے رہے اور تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے ہیں کیونکہ نواز شریف نے\nاپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا تھا۔ انھوں نے دعویٰ\nکیا کہ 21 اکتوبر کو دراصل پاکستان سستے بجلی، گیس اور پیٹرول کی بھی واپسی ہو گی۔\nنواز شریف دراصل ملک کی خاطر واپس آ رہا ہے۔‘ کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خود کش حملہ آور کی شناخت کے لیے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے اوراس مقصد کے لیے نمونے اوردیگر شواہد فرانزک کے لیے لیباریٹری بھیج دیے گئے ہیں۔ انھوں نے بلوچستان حکومت کی جانب سے مستونگ بم دھماکے میں ہلاک اورزخمی ہونے والے افراد کے لیے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔\nانھوں نے کہا کہ ہلاک ہونے والے ہرفرد کے لواحقین کو پندرہ پندرہ لاکھ روپے، شدید زخمی افراد کو پانچ پانچ لاکھ روپے جبکہ معمولی زخمی افراد کو دو دولاکھ روپے دیا جائے گا۔ مستونگ دھماکے میں اب تک مرنے والوں کی تعداد پچاس سے تجاوز کرچکی ہے۔ 29 ستمبر کو جس جگہ پر تمام تر گاڑیاں اور لوگوں کا جلوس موجود تھا وہاں دھماکے کے بعد اب صرف مٹی کا ڈھیر ہے۔ آئی\nجی پولیس کے مطابق چیک پوسٹ پر دو اطراف سے حملہ کیا گیا تھا، پنجاب پولیس\nنے بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے کنڈل پیٹرولنگ پوسٹ پر دہشتگردوں کا حملہ\nناکام بنا دیا ہے۔ پولیس کی جوابی کارروائی کے بعد دو دہشتگرد ہلاک جبکہ دیگر فرار\nہو گئے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/pakistan-66958127", "summary": "پی ٹی آئی اعلامیے کے مطابق دستور پر عملدرآمد یقینی بنانا سپریم کورٹ آف پاکستان کے کلیدی فرائض میں شامل ہے، دستور کو نیچا دکھانے کی روایت ریاست کے وجود و استحکام کے لیے نہایت تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے، عدالتِ عظمٰی اس کے تدارک کے فوری اقدام کرے۔", "title": "چیف جسٹس 90 روز میں عام انتخابات کے انعقاد کی درخواستیں جلد سماعت کے لیے مقرر کریں: پی ٹی آئی", "firstPublished": "2023-09-29T07:41:09.000Z", "id": "b219eafe-f3d9-423c-a646-23f92ff92a6b", "article": "پی ٹی آئی اعلامیے کے مطابق دستور پر عملدرآمد یقینی بنانا سپریم کورٹ آف پاکستان کے کلیدی فرائض میں شامل ہے، دستور کو نیچا دکھانے کی روایت ریاست کے وجود و استحکام کے لیے نہایت تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے، عدالتِ عظمٰی اس کے تدارک کے فوری اقدام کرے۔ پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں جمعے کے روز بھی کمی ریکارڈ کی گئی اور ایک ڈالر کی قیمت میں کاروبار کے آغاز پر 87 پیسے کی کمی ریکارڈ کی گئی جس کے بعد ایک ڈالر کی قیمت 282.75 روپے کی سطح تک گر گئی۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کے خلاف سائفر کیس سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم کو تاحال اڈیالہ جیل میں بی کلاس نہیں دی گئی۔ ہمارے نگران وزیر اعظم نے اپنے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران شاید اپنی اور اپنے ملک کی دہشت بٹھانے کے لیے یہ بھی کہہ دیا کہ پاکستان چین کا اسرائیل ہے۔ ان کے ناقدین کو بھی سمجھ نہیں آیا کہ اعتراض اس بات پر کریں کہ پاکستان کا اسرائیل سے موازنہ کیا گیا یا اس بات پر کہ پاکستان کو چین کا اسرائیل کہا گیا۔ پڑھیے محمد حنیف کا کالم۔ پاکستان فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق سمبازہ کے قریب افغانستان سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی جسے سکیورٹی فورسز نے ناکام بنایا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان کے سکیورٹی فورسز ملک میں امن اورخوشحالی کے دشمنوں کی کوششوں کو ناکام بنانے کی کوششوں کو جاری رکھیں گے ۔ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن 90 روز کی آئینی مدت میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرچکی ہیں۔ اعلامیے کے مطابق دستور پر عملدرآمد یقینی بنانا سپریم کورٹ آف پاکستان کے کلیدی فرائض میں شامل ہے، دستور کو نیچا دکھانے کی روایت ریاست کے وجود و استحکام کے لیے نہایت تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے، عدالتِ عظمٰی اس کے تدارک کے فوری اقدام کرے۔ تحریک انصاف نے نگران حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’نگران وزیراعظم کی جانب سے سرکاری وسائل پر دنیا کی سیر نہایت قابلِ مذمت ہے۔ نگران حکومت کے ذمّے محض روز مرّہ کے امور سرانجام دینا اور انتخابات کے آزادانہ، منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انعقاد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی معاونت ہے۔ پی ٹی آئی نے اعلامیے میں کہا کہ شفاف انتخابات کے ذریعے ملک کو درپیش سیاسی عدمِ استحکام سے نجات کی بجائے نگران وزیراعظم بیرونی یاترا اور بیان بازی سے صورتحال کی سنگینی بڑھا رہے ہیں۔ قوم کو بتایا جائے نگران وزیراعظم کے سیروتفریح کے شوق پر قومی خزانے سے کتنے اخراجات کیے گئے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/pakistan-66944463", "summary": "پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان کو درپیش معاشی نقصانات سے نجات دلانے کے لیے غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی متعلقہ سرکاری محکموں کے ساتھ مل کر کارروائیاں پوری قوت کے ساتھ جاری رہیں گی۔", "title": "معاشی نقصانات سے نجات کے لیے غیرقانونی سرگرمیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی، آرمی چیف", "firstPublished": "2023-09-28T04:10:10.000Z", "id": "b45ee1dc-0f6a-4d40-868a-c9ba0a629bd9", "article": "پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان کو درپیش معاشی نقصانات سے نجات دلانے کے لیے غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی متعلقہ سرکاری محکموں کے ساتھ مل کر کارروائیاں پوری قوت کے ساتھ جاری رہیں گی۔ پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر\nنے کہا ہے کہ پاکستان کو درپیش معاشی نقصانات سے نجات دلانے کے لیے غیر قانونی\nسرگرمیوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی متعلقہ سرکاری محکموں کے ساتھ مل\nکر کارروائیاں پوری قوت کے ساتھ جاری رہیں گی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اپیکس کمیٹی\nاجلاس میں صوبہ پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی بھی شریک ہوئے، آرمی چیف کو\nصوبے کی سکیورٹی صورتحال سمیت بجلی،گیس چوری، ذخیرہ اندوزی اور \nغیر ملکی کرنسی کی سمگلنگ کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اقدامات کے بارے میں بریفنگ\nدی گئی۔ آرمی\nچیف نے اجلاس میں زور دیا کہ غیر قانونی\nسرگرمیوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیاں متعلقہ سرکاری محکموں\nکے ساتھ مل کر پوری قوت کے ساتھ جاری رہیں گی تاکہ پاکستان کو مختلف طریقوں سے\nہونے والی چوریوں کی وجہ سے درپیش معاشی نقصانات سے نجات مل سکے۔ فورم\nکو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل(ایس آئی ایف سی) اور گرین پنجاب کے اقدامات پر\nجاری پیشرفت سے بھی آگاہ کیا گیا اور آرمی چیف نے تاریخی اقدامات کے اثرات سے\nفائدہ اٹھانے کے لیے تمام متعلقہ محکموں کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا۔ سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ 21 اکتوبر کو نواز شریف پاکستان تشریف لا رہے ہیں اور لاہور کے مینار پاکستان سے وہ پوری قوم سے خطاب کریں گے۔ عالمی میڈیا\nواچ ڈاگ ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ ( آر ایس ایف) نے پاکستان کے پریس کلبوں، صحافتی تنظیموں فریڈم نیٹ ورک\nاور دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر پاکستانی\nسیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات کے لیے اپنے منشور میں\nاظہار رائے کی آزادی اور صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کریں۔ واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے فیض آباد دھرنے سے متعلق اپنے فیصلے میں خفیہ اداروں جن میں فوج کے انٹر سروسز انٹیلیجنس، ملٹری انٹیلیجنس اور سویلین خفیہ ادارے انٹیلیجنس بیورو کے بارے میں لکھا ہے کہ انھیں اظہار رائے کی آزادی کو نہیں دبانا چاہیے۔ مالیاتی امور کے ماہر طاہر عباس نے سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف کریک ڈاون کو ڈالر کی قیمت میں کمی کی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ڈالر کی غیر قانونی ڈیمانڈ کا خاتمہ ہوا جو اس کی قیمت کو بڑھا رہی تھیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/pakistan-66932734", "summary": "الیکشن کمیشن نے ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کے تحت ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست جاری کر دی ہے جس کے مطابق قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں کی تعداد 266 ہو گئی ہے۔ دوسری جانب آشوب چشم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پنجاب بھر کے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں جمعرات (کل) سے اتوار تک تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے۔", "title": "قومی اسمبلی کے 266، صوبائی اسمبلیوں کے 593 حلقے: نئی حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست جاری", "firstPublished": "2023-09-27T03:22:53.000Z", "id": "3f2b7178-3b32-4768-81c5-a3a717dcd726", "article": "الیکشن کمیشن نے ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کے تحت ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست جاری کر دی ہے جس کے مطابق قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں کی تعداد 266 ہو گئی ہے۔ دوسری جانب آشوب چشم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پنجاب بھر کے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں جمعرات (کل) سے اتوار تک تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کے تحت ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست جاری کر دی ہے جس کے مطابق قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں کی تعداد 266 ہو گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود نئی حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست کے مطابق قومی اسمبلی کی وفاقی دارالحکومت سے تین، پنجاب سے 141، سندھ سے 61، خیبرپختونخوا 45 اور بلوچستان میں 16 نشستیں ہیں ۔ الیکشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ پر حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست میں صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی تفصیلات بھی جاری کی گئی ہیں جس کے مطابق پنجاب اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد 297 اور سندھ اسمبلی کی کل جنرل نشستوں کی تعداد 130 برقرار ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت ابتدائی حلقہ بندیوں کی رپورٹ شائع کر دی ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق ابتدائی حلقہ بندیوں کی اشاعت 30 دن یعنی 27 ستمبر سے 26 اکتوبر 2023 تک جاری رہے گی۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں آنکھوں کے انفیکشن ’پنک آئی‘ یعنی آشوب چشم کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکنے کے لیے صوبہ بھر کے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کو جمعرات (کل) سے اتوار تک بند رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ صوبہ پنجاب کے محکمہ تعلیم کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق سکولوں کو بند رکھنے کا فیصلہ پنجاب میں آشوب چشم کی وبا سے بچوں کا محفوظ رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق صوبہ بھر کے تعلیمی اداروں میں جمعرات کو عام تعطیل ہو گی۔ جس کے بعد عید میلاد النبی اور بعد ازاں ہفتہ اوراتوار کی چھٹیوں کے باعث بچوں کو وبا سے بچاؤ میں مدد ملے گی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا الیکشن پاک فوج کی زیر نگرانی ہوں گے تو انھوں نے واضح جواب دیا کہ انتخابات الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی ہوں گے، اس میں معاونت کے لیے نگران حکومت ہوگی جو ہدایات جاری کرے گی، عسکری، نیم عسکری اداروں سمیت جہاں جہاں جس حکومتی ادارے کی ضرورت ہو گی ہم ان کو ہدایات جاری کریں گے کہ انھیں کہاں معاونت کرنی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/66921002", "summary": "سابق وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات کے تحت اٹک جیل سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔", "title": "سابق وزیر اعظم عمران خان راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل", "firstPublished": "2023-09-26T03:37:30.000Z", "id": "c7800e8d-ec02-4313-b9b3-5d9c264a4546", "article": "سابق وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات کے تحت اٹک جیل سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات پر سابق وزیراعظم عمران خان کو اٹک جیل سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ فوجی ڈکٹیٹر جنرل محمد ضیا الحق کے دورِ حکومت میں تعمیر ہونے والی اڈیالہ جیل کی تاریخی اہمیت کیا ہے اور کون سے بڑے سیاستدان یہاں ماضی میں اسیر رہ چکے ہیں؟ سابق\nوزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات\nکے تحت اٹک جیل سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ اسلام\nآباد ہائیکورٹ نے پیر کے روز اس ضمن میں مختصر فیصلہ سنایا تھا جس کے بعد منگل کی\nصبح تحریری حکمنامہ جاری کیا گیا جس میں سابق وزیر اعظم کو اٹک جیل میں قید رکھنے کا نوٹیفکیشن\nکو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی\nآئی عمران خان کو اٹک جیل میں قید رکھنے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو اٹک\nسے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا ہے۔ سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان\nکے خلاف سائفر گمشدگی کیس میں خصوصی عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود کے جوڈیشل ریمانڈ\nمیں 14 روز کی توسیع کر دی۔ مقدمے کے سماعت کے بعد ایف آئی اے کی ٹیم جیل سے روانہ ہو\nگئی ہے۔ سماعت سے قبل سابق وزیر اعظم عمران خان کی حاضری لگوائی گئی۔ سماعت کے بعد کمرہ عدالت میں ہی بیرسٹر سلمان صفدر اور عمیر\nنیازی نے چئیرمین تحریک انصاف سے ملاقات کی۔ وفاقی\nوزارت قانون نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے خلاف\nسائفر گمشدگی کیس میں آج (منگل) ہونے والی سماعت اٹک جیل میں کرنے کی منظوری دے دی\nہے۔ یاد\nرہے کہ پیر کی صبح اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین تحریک\nانصاف عمران خان کو اٹک جیل سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا حکم دیا تھا\nجس کے بعد یہ اطلاعات زیر گردش تھیں کہ سابق وزیر اعظم کو اڈیالہ جیل منتقل کر دیا\nگیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اٹک جیل سے اڈیالہ\nجیل منتقل کرنے کی تردید کردی گئی۔ عمران خان کے وکیل نعیم پنجوتھا نے اپنے بیان میں کہا تھا\nکہ چیئرمین پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا ہے اور انھیں سابق وزیر اعظم\nکی سہولیات مہیا کر دی گئیں ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/pakistan-66909158", "summary": "وفاقی وزارت قانون نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے خلاف سائفر گمشدگی کیس میں کل (منگل) ہونے والی سماعت اٹک جیل میں کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف نے لندن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف طے شدہ پروگرام کے مطابق 21 اکتوبر کو وطن واپس آ رہے ہیں۔", "title": "پی ٹی آئی کی خواتین رہنما رہائی کے بعد ’دوبارہ گرفتار‘، عمران خان کے خلاف اٹک جیل میں سائفر گمشدگی کیس میں سماعت آج", "firstPublished": "2023-09-25T03:30:28.000Z", "id": "98d05a7a-763e-44d7-8eb6-14dc717c2e28", "article": "وفاقی وزارت قانون نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے خلاف سائفر گمشدگی کیس میں کل (منگل) ہونے والی سماعت اٹک جیل میں کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف نے لندن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف طے شدہ پروگرام کے مطابق 21 اکتوبر کو وطن واپس آ رہے ہیں۔ وفاقی وزارت قانون نے سابق\nوزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے خلاف سائفر گمشدگی کیس\nمیں کل (منگل) ہونے والی سماعت اٹک جیل میں کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ سائفر کیس کی خصوصی عدالت کے\nجج ابوالحسنات ذوالقرنین منگل کے روز سماعت اٹک جیل میں سماعت کریں گے۔ وزارت قانون\nکی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکشن میں کہا گیا ہے کہ وزارت کو سکیورٹی وجوہات کی بنا\nپر اس کیس کی سماعت اٹک جیل ہی میں کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یاد رہے کہ پیر کی صبح اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین تحریک\nانصاف عمران خان کو اٹک جیل سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا حکم دیا تھا\nجس کے بعد یہ اطلاعات زیر گردش تھیں کہ سابق وزیر اعظم کو اڈیالہ جیل منتقل کر دیا\nگیا ہے۔ تاہم اٹک جیل کی انتظامیہ نے ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ\nعمران خان بدستور اٹک جیل ہی میں مقید ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف نے لندن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف طے شدہ پروگرام کے مطابق 21 اکتوبر کو وطن واپس آ رہے ہیں۔ پاکستان\nتحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف نکاح کیس سے متعلق\nدرخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے انھیں اگلی سماعت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو اٹک جیل سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف نکاح کیس کے معاملے پر سپریٹینڈنٹ اڈیالہ جیل نے ان کی عدالت طلبی سے متعلق آگاہ\nکرتے ہوئے سپریٹینڈنٹ اٹک جیل کو خط لکھا ہے جس میں عمران خان کی متعلقہ مقدمے میں عدالت\nطلبی کے حوالے سے آگاہ کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وکیل شعیب شاہین سابق اٹارنی جنرل کی دلیل سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف نہ صرف العزیزیہ میں بلکہ ایون فیلڈ کیس میں بھی اشتہاری مجرم ہیں اور قانون کی نظر میں وہ جہاں کہیں بھی نظر آئیں تو انھیں انٹرپول کے ذریعے بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/pakistan-66905899", "summary": "امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ جیل کاٹنے والے پی ٹی آئی ارکان توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ ان کے مطابق تحریک انصاف کے ایسے ہزاروں کارکنان جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں وہ الیکشن میں حصہ لے سکیں گے۔", "title": "عمران خان اور جیل میں قید پی ٹی آئی کارکنان کے بغیر بھی شفاف انتخابات ہو سکتے ہیں: نگراں وزیر اعظم", "firstPublished": "2023-09-24T10:00:07.000Z", "id": "75e072c0-2389-479f-a68c-3870d824ad5e", "article": "امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ جیل کاٹنے والے پی ٹی آئی ارکان توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ ان کے مطابق تحریک انصاف کے ایسے ہزاروں کارکنان جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں وہ الیکشن میں حصہ لے سکیں گے۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وکیل شعیب شاہین سابق اٹارنی جنرل کی دلیل سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف نہ صرف العزیزیہ میں بلکہ ایون فیلڈ کیس میں بھی اشتہاری مجرم ہیں اور قانون کی نظر میں وہ جہاں کہیں بھی نظر آئیں تو انھیں انٹرپول کے ذریعے بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ ملک میں شفاف انتخابات کا انعقاد سابق وزیراعظم عمران خان یا جیل کاٹنے والے پارٹی کے سیکڑوں ارکان کے بغیر بھی ہوسکتا ہے۔ امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ جیل کاٹنے والے پی ٹی آئی ارکان توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ ان کے مطابق تحریک انصاف کے ایسے ہزاروں کارکنان جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں وہ الیکشن میں حصہ لے سکیں گے‘۔ انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ میں عمران خان سمیت کسی سیاست دان سے ذاتی انتقام پر عمل پیرا نہیں، اگر کوئی قانون شکنی پر گرفت میں آیا ہے تو قانون کی بالادستی یقینی بنائیں گے، انتخابات فوج یا نگران حکومت نے نہیں الیکشن کمیشن نے کرانے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امید ہے عام انتخابات نئے سال میں ہوں گے، پی ٹی آئی کو جیتنے سے روکنے کے لیے انتخابات میں فوج کی جانب سے دھاندلی کی بات غیرمعقول ہے۔ ان کے مطابق ’چیف الیکشن کمشنرکا تقرر چیئرمین پی ٹی آئی نے بطور وزیراعظم کیا تھا، چیف الیکشن کمشنر عمران خان کے خلاف کیوں ہوں گے‘۔ نیو یارک میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے الیکشن کمیشن نے کسی سیاسی جماعت پر پابندی کا نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا اور کسی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل میں حصہ لینے سے نہیں روکا جائے گا‘۔ ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں پر بلوائی اور توڑ پھوڑ کا الزام لگ رہا ہے وہ ہماری عدالتوں کا سامنا کریں گے۔ نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہوسکتا ہے اس نظام میں کچھ خامیاں ہیں جنہیں ہم بہتر کرنے کی کوشش کریں گے لیکن اس نظام کے اندر ہی اس کے جوابات ہیں، نظام سے باہر کچھ نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرے اور شہریوں کی جان و مال کو نقصان پہنچائے اور پھر کہے کہ اس کا سیاست سے تعلق ہے تو اس طرح کی سرگرمیوں پر بلاتخصیص قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/pakistan-66886418", "summary": "صحافی خالد جمیل کے خلاف درج مقدمے کی سماعت کے دوران ڈیوٹی مجسٹریٹ مرید عباس نے استفسار کیا کہ جب موبائل ایف آئی اے کے پاس ہے اور تفتیش مکمل کر لی گئی ہے تو مزید جسمانی ریمانڈ کس لیے چاہیے؟ ایف آئی اے نے کہا جس اکاؤنٹ سے ٹویٹ ہوئی اس تک رسائی نہیں ہوئی۔", "title": "کسی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل میں حصہ لینے سے نہیں روکا جائے گا: انوار الحق کاکڑ", "firstPublished": "2023-09-23T01:27:28.000Z", "id": "14570196-d537-41e4-b9b2-3ba37650779a", "article": "صحافی خالد جمیل کے خلاف درج مقدمے کی سماعت کے دوران ڈیوٹی مجسٹریٹ مرید عباس نے استفسار کیا کہ جب موبائل ایف آئی اے کے پاس ہے اور تفتیش مکمل کر لی گئی ہے تو مزید جسمانی ریمانڈ کس لیے چاہیے؟ ایف آئی اے نے کہا جس اکاؤنٹ سے ٹویٹ ہوئی اس تک رسائی نہیں ہوئی۔ اقوام متحدہ نے افغان پناہ گزینوں کے اندراج اور مزید قیام میں مدد کی پیشکش کی ہے۔ اقوام متحدہ نے پاکستان سے یہ اپیل بھی کی ہے کہ خطرے کا شکار آبادی کی حفاظت کے سلسلے کو جاری رکھا جائے۔ انڈیا میں تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ مالدیپ آہستہ آہستہ انڈین فوجیوں کو نکال سکتا ہے یا چین کے ساتھ ’ایف ٹی اے‘ کی توثیق کر کے سابق صدر ابراہیم صالح کے انڈیا نواز موقف کو پلٹ سکتا ہے۔ اس سے چین، مالدیپ اور بحر ہند میں مزید طاقتور ہو گا۔ پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں جمعے کے روز بھی کمی ریکارڈ کی گئی اور ایک ڈالر کی قیمت میں کاروبار کے آغاز پر 87 پیسے کی کمی ریکارڈ کی گئی جس کے بعد ایک ڈالر کی قیمت 282.75 روپے کی سطح تک گر گئی۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کے خلاف سائفر کیس سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم کو تاحال اڈیالہ جیل میں بی کلاس نہیں دی گئی۔ تحریک انصاف اور اس کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ عثمان ڈار پر کئی ہفتوں تک دباؤ ڈالا گیا اور اور تشدد کے بعد ایک ’سکرپٹڈ‘ انٹرویو کیا گیا تاہم پروگرام اینکر کامران شاہد نے اس کی تردید کی ہے۔ \n جمعرات کے دن تحریک انصاف کے صدر پرویز الہی کی حراست کو غیر قانونی قرار دینے کیلئے دائر درخواست کی سماعت کے دوران ان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے سامنے دلائل پیش کیے جس کی سربراہی جسٹس سردار طارق مسعود کر رہے تھے۔ فیریز ہوم شمالی سندھ میں یتیم اور بے سہارا لڑکیوں کے لیے ایک واحد غیر سرکاری نجی ادارہ ہے جس میں چار سال سے لیکر 18 سال کی بچیاں رہائش پذیر ہیں۔ اس ادارے کو پانچ سال قبل سماجی کارکن اور وکیل فرزانہ کھوسو نے قائم کیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار نے سیاست اور پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے ’چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے فوج سے ٹکراؤ کی پالیسی کی قیادت کی اور گرفتاری کی صورت میں حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے کی خود ہدایت دی تھی۔‘ مقامی افراد کے مطابق اس ضمن میں دھمکی آمیز سوشل میڈیا پوسٹس میں کہا گیا کہ خواتین مردوں کے بغیر گھر سے نہ نکلیں مگر کم سے کم تین واقعات ایسے پیش آئے ہیں جن میں خواتین اپنے والد، شوہر اور والدہ کے ساتھ جا رہی تھیں جب ان پر شاٹ گن یا چھرے والی بندوق سے حملہ کیا گیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0j41lp3lleo", "summary": "پاکستان میں عام انتخابات سے جڑا ابہام جمعرات کو اس وقت کم ہوا جب الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ آئندہ سال جنوری کے مہینے کے آخری ہفتے میں الیکشن کا انعقاد کیا جائے گا تاہم الیکشن کی تاریخ سے جڑے آئینی سوال اب تک باقی ہیں۔ ", "title": "پاکستان میں عام انتخابات کب ہوں گے اور آئین کیا کہتا ہے؟", "firstPublished": "2023-07-18T00:58:59.816Z", "id": "c0j41lp3lleo", "article": "پاکستان میں عام انتخابات سے جڑا ابہام جمعرات کو اس وقت کم ہوا جب الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ آئندہ سال جنوری کے مہینے کے آخری ہفتے میں الیکشن کا انعقاد کیا جائے گا تاہم الیکشن کی تاریخ سے جڑے آئینی سوال اب تک باقی ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں سنہ 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی قومی اسمبلی کی مدت 13 اگست 2018 سے شروع ہوئی تھی اور اس کی پانچ سال کی مقررہ مدت 12 اگست 2023 کی رات 12 بجے مکمل ہونا تھی تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے مقررہ مدت پہلے نو اگست کو ہی اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔ جمعرات کو ایک اعلامیے میں الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ اس نے ’حلقہ بندیوں کے کام کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست 27 ستمبر 2023 کو شائع کر دی جائے گی اور ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات و تجاویز کی سماعت کے بعد حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست 30 نومبر کو شائع کی جائے گی۔‘ اس خط میں کہا گیا کہ صدر مملکت نے 9 اگست کو وزیراعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی کو تحلیل کیا، صدر آئین کے آرٹیکل 48 (5) کے تحت اسمبلی کے عام انتخابات کے انعقاد کیلئے اسمبلی تحلیل کی تاریخ کے 90 دن میں تاریخ مقرر کرنے کے پابند ہیں۔ صدر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ملاقات کے لیے مدعو کیا تاہم ان کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جوابی خط میں مطلع کیا گیا کہ ترمیم شدہ قانون کے تحت انتخابات کی تاریخ دینا صرف الیکشن کمیشن کا استحقاق ہے۔ وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک بار سنہ 1988 میں جب ملک میں سیلاب آیا تھا جبکہ دوسری بار 2007 میں جب سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا۔ واضح رہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد الیکشن کمیشن نے خود انتخابات میں التوا کا اعلان کیا تھا کیونکہ ملک میں کمیشن کی عمارات جلا دی گئی تھیں اور حالات الیکشن کے لیے سازگار نہیں تھے۔‘ تاہم الیکشن کمیشن کی دستاویزات کے مطابق سنہ 1988 میں فوجی صدر ضیاالحق نے اپنے قوم سے خطاب میں ملک میں عام انتخابات کے لیے 16 نومبر 1988 کی تاریخ دی تھی۔ یہ تاریخ 90 دن کی مدت سے زائد ضرور تھی مگر سیلاب یا ضیاالحق کے طیارہ حادثے کی وجہ سے الیکشن ملتوی نہیں ہوئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے 16 نومبر کو قومی اسمبلی اور اس کے تین روز بعد صوبائی اسمبلی کے انتخابات کروائے تھے۔ تاہم یہ التوا کس صورت میں کیا جا سکتا ہے اس بارے میں قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس حوالے سے آئین میں واضح طور پر نہیں بتایا گیا ہے اور اس حوالے اوپر دی گئی ماضی کی مثالوں کے مطابق کسی غیر معمولی صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخابات ملتوی کر چکا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/pakistan-66838566", "summary": "سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کروانے کے بیان کو ’باعثِ حیرت‘ قرار دیا ہے۔", "title": "’جنوری میں عام انتخابات 90 روزہ دستوری مدت سے باہر‘ الیکشن کمیشن کے اعلان پر پی ٹی آئی کا ردعمل", "firstPublished": "2023-09-17T15:07:13.000Z", "id": "d11519fb-8584-4855-af5c-e1311a0bdfa9", "article": "سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کروانے کے بیان کو 'باعثِ حیرت' قرار دیا ہے۔ واضح رہےکہ 2019 میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے نومبر 2017 میں فیض آباد کے مقام پر انتہائی دائیں بازو کی مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے دیے گئے دھرنے کے خلاف سو موٹو کیس کا فیصلہ سنایا تھا اور حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ ایسے فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف وزری کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کروانے کے بیان کو ’باعثِ حیرت‘ قرار دیا ہے۔ ایک پیغام میں ترجمان پی ٹی آئی نے کہا کہ ’دستور الیکشن کمیشن کو اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کی مدتِ مقررہ میں انتخابات کے انعقاد کا پابند بناتا ہے۔\n\nالیکشن کمیشن جنوری کی کسی بھی تاریخ کا تعیّن کرے وہ 90 روزہ دستوری مدت سے باہر ہوگی۔‘ پاکستان میں عام انتخابات سے جڑا ابہام جمعرات کو اس وقت کم ہوا جب الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ آئندہ سال جنوری کے مہینے کے آخری ہفتے میں الیکشن کا انعقاد کیا جائے گا تاہم الیکشن کی تاریخ سے جڑے آئینی سوال اب تک باقی ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے رہنما نیاز اللّٰہ نیازی نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے مقامی میڈیا کو بتایا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار صدر مملکت کے پاس ہے۔ ادھر استحکام پاکستان پارٹی کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات کے اعلان سے غیر یقینی کے بادل چھٹ گئے ہیں۔ ’خوشی ہے کہ نگران سیٹ اپنے حقیقی فرائض کی جانب مستعدی سے بڑھ رہا ہے، یقینناََ نگران سیٹ اپ کا اصل مینڈیٹ انتخابات کا بر وقت انعقاد ہی ہے۔‘ غیر شرعی نکاح سے متعلق درخواست پر اسلام آباد کے مجسٹریٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو 25 ستمبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ملک میں عام انتخابات جنوری کے آخری ہفتے میں کروا دیے جائیں گے۔ یاد\nرہے کہ لال حویلی کا معاملہ سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے تیسرے دور\nحکومت سے چل رہا ہے جب اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے لال حویلی شیخ رشید\nسے خالی کروانے کا بیان دیا تھا، اس کے بعد متعدد بار لال حویلی کے کچھ حصوں\nکوسیل کیا گیا لیکن عدالتی حکم پر انھیں\nدوبارہ کھول دیا گیا، یہ پہلی مرتبہ ہے کہ لال حویلی سمیت وہ تمام حصے سیل کر دیے\nگئے ہیں جو متروکہ املاک کی ملکیت ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/pakistan-66712943", "summary": "نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ فروری 2023 میں سپریم کورٹ کے سامنے کئی آئینی مقدمات آئے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’عدالت کئی بار سخت امتحان اور ماحول کا شکار بنی اور اس سے عدالتی کارروائی بھی متاثر ہوئی۔‘", "title": "چیف جسٹس عمر بندیال: ’آئینی ایشوز میں الجھا کر عدالت کا امتحان لیا گیا‘", "firstPublished": "2023-09-04T18:07:06.000Z", "id": "80db6d1b-5e41-4972-8e6a-d17391626d5e", "article": "نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ فروری 2023 میں سپریم کورٹ کے سامنے کئی آئینی مقدمات آئے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ 'عدالت کئی بار سخت امتحان اور ماحول کا شکار بنی اور اس سے عدالتی کارروائی بھی متاثر ہوئی۔' اقوام متحدہ نے افغان پناہ گزینوں کے اندراج اور مزید قیام میں مدد کی پیشکش کی ہے۔ اقوام متحدہ نے پاکستان سے یہ اپیل بھی کی ہے کہ خطرے کا شکار آبادی کی حفاظت کے سلسلے کو جاری رکھا جائے۔ پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں جمعے کے روز بھی کمی ریکارڈ کی گئی اور ایک ڈالر کی قیمت میں کاروبار کے آغاز پر 87 پیسے کی کمی ریکارڈ کی گئی جس کے بعد ایک ڈالر کی قیمت 282.75 روپے کی سطح تک گر گئی۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کے خلاف سائفر کیس سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم کو تاحال اڈیالہ جیل میں بی کلاس نہیں دی گئی۔ تحریک انصاف اور اس کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ عثمان ڈار پر کئی ہفتوں تک دباؤ ڈالا گیا اور اور تشدد کے بعد ایک ’سکرپٹڈ‘ انٹرویو کیا گیا تاہم پروگرام اینکر کامران شاہد نے اس کی تردید کی ہے۔ \n پاکستان میں معیشت اور ٹیکس کے ماہرین کے مطابق ملک میں ٹیکس وصولی کے نظام میں غریبوں سے زیادہ ٹیکس وصولی کی وجہ ملک میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار ہے جو تمام صارفین سے وصول کیے جاتے ہیں تاہم غریبوں کی کم آمدن کی وجہ سے ان پر اس ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن کا بہت زیادہ اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ حال ہی میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی سربراہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان میں امیروں پر \n ٹیکس لگانا چاہییے اور غریبوں کا تحفظ کرنا چاہیئے۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ فیریز ہوم شمالی سندھ میں یتیم اور بے سہارا لڑکیوں کے لیے ایک واحد غیر سرکاری نجی ادارہ ہے جس میں چار سال سے لیکر 18 سال کی بچیاں رہائش پذیر ہیں۔ اس ادارے کو پانچ سال قبل سماجی کارکن اور وکیل فرزانہ کھوسو نے قائم کیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار نے سیاست اور پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے ’چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے فوج سے ٹکراؤ کی پالیسی کی قیادت کی اور گرفتاری کی صورت میں حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے کی خود ہدایت دی تھی۔‘ تاریخی طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور عدالتی گٹھ جوڑ نے ملک میں وہ فضا بنائی کہ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا نتیجتاً ایک صفحے کی حکومت نے ہائبرڈ دور کی بنیاد رکھی اور عسکری، عدالتی اور سیاسی کرداروں نے مملکت کو نئے تجربے سے دوچار کیا۔ بہرحال سیاسی جماعتیں یہ معاملہ اب فقط اللہ پر چھوڑ چکی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cm5x33knymeo", "summary": "ریاست اور عوام کے درمیان بظاہر تفریق اور تقسیم کو ہوا دینے والے ’سابقہ اثاثے‘ کس قدر بھاری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور یہ ہتھیار یوں استعمال ہوں گے یہ خبر نہ تھی۔ کیا کیجیے کہ استعمال کا ہُنر خود ریاست نے اپنے ہاتھوں سے دیا ہے۔ ", "title": "بجلی تو بس بہانہ ہے: عاصمہ شیرازی کا کالم", "firstPublished": "2023-08-29T05:08:49.070Z", "id": "cm5x33knymeo", "article": "زیر زمین کئی فالٹ لائنز متحرک ہیں اور اگر آپ دیکھیں تو گذشتہ چند دنوں سے یہ تمام فالٹ لائنز متحرک ہو چکی ہیں۔ خاکم بدہن کوئی شعلہ یا کوئی چنگاری آتش فشاں کو چھیڑ سکتی ہے۔ گذشتہ چند دنوں میں پے درپے ایسے واقعات ہوئے ہیں جنھوں نے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ یہ سلسلہ رُکے گا تو رُکے گا کہاں؟ جڑانوالہ میں جس انداز میں مسیحی بستی کو آگ لگائی گئی یوں تو تاحال اُس کی کڑیاں نہیں جوڑی گئیں اور نہ ہی تمام ملزموں کو گرفتار کیا گیا ہے تاہم یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ انتظامیہ کی عین ناک کے نیچے عیسی نگری کا واقعہ ہوا کیسے؟ کیا کس نے؟ اور آئندہ روک تھام کیسے ہو گی؟ ریاست اور عوام کے درمیان بظاہر تفریق اور تقسیم کو ہوا دینے والے ’سابقہ اثاثے‘ کس قدر بھاری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور یہ ہتھیار یوں استعمال ہوں گے یہ خبر نہ تھی۔ کیا کیجیے کہ استعمال کا ہُنر خود ریاست نے اپنے ہاتھوں سے دیا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں مذہبی منافرت کا عفریت کس قدر بے قابو ہو سکتا ہے اس کا اندازہ گذشتہ چند دنوں میں ہو چکا۔ توہین، توہین کی صداؤں میں اب کس کس پر فتوے لگیں گے یوں کہ اب خود مفتی بھی فتووں کی زد میں ہیں۔۔۔ حال ہی میں اس سلسلے کی ایک ایف آئی آر نے آنے والے دنوں کا اشارہ دیا ہے۔ بجائے اس کے کہ ریاست ماضی کی پالیسیوں کی تصیح کرتی ایک اور بارودی سُرنگ کا انتظام کر دیا گیا ہے۔ افسوس کہ ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا اور نہ ہی سیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ یہ دیکھنے کی مگر آج بھی ضرورت ہے کہ اب ان فالٹ لائنز کو دھیرے دھیرے دیا سلائی کون دکھا رہا ہے۔ احتساب کے اس دور میں ان سب کرداروں کا احتساب ضروری ہے جنھوں نے اپنے ذاتی مفاد پر ریاست میں عقب سے نقب لگائی ہے۔ عجب صورتحال ہے کہ انتخابات کی جانب بڑھتا پاکستان اس قدر مشکلات کا شکار ہے کہ انتخابات کے مراحل سے گزرنا دشوار ہو چکا ہے۔ آئین پر عملداری کے لیے انتخابات کا جلد از جلد انعقاد ایک ضرورت ہے تو دوسری جانب انتخابی تقاضے خود ایک آزمائش۔ انتخابات کرانا بھی مشکل اور نہ کرانے کی صورت مغربی ممالک کی جانب سے دباؤ، ایک الگ نہ سمجھ میں آنے والی کتھا۔ معاشی، معاشرتی، مذہبی، سیاسی تفریق اور ناہمواری وہ فالٹ لائنز ہیں جو ہمیشہ سے تھیں مگر کبھی اتنی متحرک نہ تھیں جتنی آج ہیں۔ تقسیم کے سب بیانیے مضبوط ہورہے ہیں، اتحاد کا کوئی علم بُلند نہیں ہو رہا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0j30wpx0l8o", "summary": "آفیشل سیکرٹ ایکٹ صدر صاحب کی نیم رضامندی، نکی جئی ہاں اور نکی جئی ناں کے درمیان، معافی اور تلافی کے سوشل میڈیائی بیان اور کمال صدارتی چال کے سامان لیے ’اللہ دلوں کے حال بہتر جانتا ہے‘ کے اسلامی ٹچ کے ساتھ قانون بنا۔ ", "title": "ریاست اور بجوکے: عاصمہ شیرازی کا کالم", "firstPublished": "2023-08-22T03:26:21.105Z", "id": "c0j30wpx0l8o", "article": "فصلوں کی رکھوالی کے لیے تخلیق کردہ بجوکے موسموں کی شدت میں بے رنگ اور بے جسم ہو چکے ہیں۔ بجوکے گھاس پھونس کے بنے وہ انسان نُما ہیں جو فصلوں کو نوچنے والے پرندوں سے بچاتے ہیں مگر جب بجوکے ہی مرداروں کے پروں کے نیچے بنائے جائیں، جب بجوکے نامکمل اور بے ترتیب ہوں، جب ادھورے ہاتھ، پاؤں اور آنکھیں، اُدھڑا ہوا جسم، سہاروں سے لٹکتا ہوا ڈھانچہ کھیت کے عین وسط میں بے چارگی کی تصویر ہو تو گدھ، کوّے، چیلیں کب کچھ چھوڑتے ہیں۔ یہی ہماری ریاست کے ساتھ ہوا ہے۔ تشدد کو روکنے کے لیے مزید تشدد، انتہا پسندی کو روکنے کے لیے مزید انتہا پسندی، غداری سے روکنے کے لیے مزید غدار بنانے کے قوانین تو حال ہی میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے جمہوری جماعتوں کے جلو میں منظور کیے ہیں جبکہ ریاست خاموش تماشائی بنی رہی۔ تشدد اور انتہا پسندی کا حالیہ قانون کمزور اور پسے ہوئے طبقات کے لیے ایک اور خوف بن گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے وزیر مملکت برائے قانون کے ہاتھوں پیش کردہ قانون سے خود وزیر مملکت انکاری، ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالتے ن لیگ کے وزیر قانون اور وزیر داخلہ۔۔۔ اس ہڑبونگ اور بھیڑ چال میں وہ متنازعہ قانون سازی ہوئی جس پر کالعدم تنظیمیں بھنگڑے ڈال رہی ہیں اور انتہاپسند جشن منا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کی راہداریوں میں اس قدر قانون سازی کی بے حرمتی نہ دیکھی جو اتحادی حکومت کے آخری دنوں میں ملاحظہ کی۔ البتہ شیری رحمن کے اعتراضات ریکارڈ پر رہے کہ انتہا پسندی سے متعلقہ قانون سازی میں جلد بازی نہ کی جائے کیونکہ یہ بل نہ صرف متنازعہ ہے بلکہ اس پر اتفاق موجود نہیں۔ شیری رحمٰن کی آواز نقار خانے میں طوطی سے بھی کم ثابت ہوئی اور تمام جماعتوں بشمول تحریک انصاف، ن لیگ اور یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کے چند سینٹرز کی خاموشی رضامندی بن گئی۔ ایک اور متنازعہ بل ایوان سے منظور ہوا۔اکا دُکا کے علاوہ سب نے ہاں میں ہاں ملائی اور پھر صدا آئی کہ وہ ایک صفحہ پھر میسر ہوا جس کے لیے اپوزیشن میں سیاسی جماعتیں انقلاب اور حکومت میں اتفاق جبکہ حزب اختلاف میں مخالفت اور اقتدار میں مصالحت سے تشبیہ دیتی ہیں۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ صدر صاحب کی نیم رضامندی، نکی جئی ہاں اور نکی جئی ناں کے درمیان، معافی اور تلافی کے سوشل میڈیائی بیان اور کمال صدارتی چال کے سامان لیے ’اللہ دلوں کے حال بہتر جانتا ہے‘ کے اسلامی ٹچ کے ساتھ قانون بنا۔ صدر علوی شاید اپنی ہی جماعت کے بے پناہ سوشل میڈیا دباؤ میں آتے ہوئے کہ اُن کے نوک قلم سے محفوظ مگر غیر محفوظ قانون سازی کا پہلا شکار اُن کا ہی چیئرمین ہو گا اُلٹے پیروں پھر گئے۔ کیا کمال چال ہے کہ اپنے تئیں خدا بھی راضی اور وصال صنم کا بندوبست بھی۔۔۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cmj18z6mm3go", "summary": "انڈیا کی تہاڑ جیل میں کئی برسوں سے قید کشمیری علیحدگی پسند رہنما محمد یاسین ملک کی اہلیہ کو پاکستان کی نگراں حکومت میں وزیر اعظم کی خصوصی معاون برائے انسانی حقوق مقرر کیا گیا تواس اقدام کو جہاں پاکستان میں ایک اہم تقرری قرار دیا گیا وہیں انڈیا میں اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔", "title": "تہاڑ جیل میں قید یاسین ملک کی اہلیہ کی نگراں حکومت میں شمولیت انڈیا کے لیے کوئی پیغام ہے؟", "firstPublished": "2023-08-19T06:31:55.763Z", "id": "cmj18z6mm3go", "article": "انڈیا کی تہاڑ جیل میں کئی برسوں سے قید کشمیری علیحدگی پسند رہنما محمد یاسین ملک کی اہلیہ کو پاکستان کی نگراں حکومت میں وزیر اعظم کی خصوصی معاون برائے انسانی حقوق مقرر کیا گیا تواس اقدام کو جہاں پاکستان میں ایک اہم تقرری قرار دیا گیا وہیں انڈیا میں اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انڈیا کی حکمراں جماعت بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری اور جموں و کشمیر کے انچارج ترون چگ نے جمعہ کو اس حوالے سے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک کی پڑوسی ملک میں وزیر کے طور پر تقرری اس حقیقت کی علامت ہے کہ ’پاکستان دہشت گردی اور دہشت گردوں کو پناہ دے رہا ہے۔‘ کشمیری نژاد مشعال پاکستانی شہری ہیں۔ انھوں نے سنہ 2009 میں یاسین ملک سے شادی کی تھی۔ اس شادی کا جشن پورے پاکستان میں دھوم دھام سے منایا گیا تھا جبکہ انڈیا میں اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ صحافی اور تجزیہ کار اعجاز سید نے کہا کہ اس وقت ان کی شادی پر خوب باتیں ہوئی تھیں۔ ’کچھ لوگوں نے تو اسے پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے ذریعے کرایا گیا ملن تک قرار دیا تھا۔ لوگ دونوں کے درمیان فاصلے، پاکستان اور انڈیا کی دشمنی اور یاسین ملک کی سیاست کو دیکھتے ہوئے یہاں تک کہہ رہے تھے کہ یہ رشتہ زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکے گا۔ بہر حال یہ شادی ابھی تک قائم و دائم ہے۔‘ بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں انھوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے یاسین ملک سے آخری بار بات سنہ 2019 میں کی تھی اور یہ گفتگو انڈین حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے ایک دن پہلے ہوئی تھی۔ مشعال حسین ملک کو اب پاکستان کی نگراں حکومت میں وزیراعظم کی خصوصی مشیربرائے انسانی حقوق اور ویمن امپاورمنٹ (خواتین کی بااختیاری) مقرر کیا گیا ہے۔ ان کی اس عہدے پر تقرری کے حوالے سے پاکستان میں مثبت ردعمل سامنے آیا ہے۔ سیاسی مبصر سہیل وڑائچ اس تقرری کو علامتی اور اہم قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مشعل اپنے شوہر کے لیے آواز اٹھانے میں حوصلہ مند رہی ہیں۔ ’انسانی حقوق کے معاملات سے ان کا تعلق ذاتی رہا ہے لہٰذا یہ ایک بہترین تقرری ہے جسے سراہا جا رہا ہے۔‘ مشعال نے یاسین ملک سے سنہ 2005 میں اسلام آباد میں ملاقات کی تھی۔ اس وقت یاسین ملک پاکستان کے دورے پر تھے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے پیار ہو گیا اور چند سال بعد دونوں نے شادی کر لی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g3np2z2r7o", "summary": "انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے ناندیڑ ضلعے کے سرکاری ہسپتال میں گذشتہ دو دنوں میں 32 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جن میں سے ایک درجن سے زیادہ نوزائیدہ بچے ہیں۔", "title": "مہاراشٹر کے ہسپتال میں دو دن میں 32 اموات: تحقیقات کے بجائے ہسپتال کے ڈین کو ’ٹوائلٹ صاف کرنے کی سزا‘", "firstPublished": "2023-10-04T05:35:52.725Z", "id": "c3g3np2z2r7o", "article": "انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے ناندیڑ ضلعے کے سرکاری ہسپتال میں گذشتہ دو دنوں میں 32 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جن میں سے ایک درجن سے زیادہ نوزائیدہ بچے ہیں۔ دریں اثنا مہاراشٹر کے شہر چھترپتی سانبھا جی نگر (یعنی اورنگ آباد) کے سرکاری ہسپتال سے بھی 10 اموات کی خبریں آ رہی ہیں جن میں دو نوزائیدہ بچے شامل ہیں۔ سوشل میڈیا پر اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر دھرو چوہان نامی صارف نے لکھا ہے کہ ’مہاراشٹر کے ناندیڑ کے سرکاری ہسپتال میں 31 نوزائیدہ بچوں کی ڈاکٹروں کے بجائے دواؤں اور انتظامی ناکامیوں کی وجہ سے موت ہو گئی ہے۔ اس ایم پی ہیمنت پاٹل کے لیے ان واقعات کے پس پشت کارفرما اصل وجوہات جاننے کے بجائے ڈین ڈاکٹر شیام راؤ واکوڑے سے ٹوائلٹ صاف کرانا زیادہ اہم ہے۔ اس ملک میں میڈیکل پیشہ وروں کی حالت دیکھ کر اور بھی تکلیف ہوتی ہے‘ ڈاکٹر ناظمہ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ناندیڑ کے سرکاری ہسپتال میں 31 نوزائیدہ بچے کی موت ہو جاتی ہے۔ موت کی وجہ دواؤں کی کمی ہے۔ اس کا حل ایم پی ہیمنت پاٹل نے ڈین ڈاکٹر شیام راؤ واکوڑے سے ٹوائلٹ صاف کرا کر نکالا ہے۔ اس کے باوجود وہ بہت ہلکے میں چھوٹ گئے (کیونکہ) اگر وہ کفیل خان ہوتے تو وہ جیل میں ہوتے۔‘ خیال رہے کہ اگست سنہ 2017 میں انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے ایک ہسپتال میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے تقریبا 63 بچوں کی موت ہو گئی تھی جس میں ڈاکٹر کفیل خان کو ملزم گردان کر معطل کر دیا گیا تھا اور انھیں قید کی سزا ہوئی تھی جبکہ وہ ابھی تک قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ حکومت نے آکسیجین فراہم کرنے والوں کی ادائیگی نہیں کی تھی اس لیے آکسیجن فراہم کرنے والی کمپنی نے فراہمی روک دی تھی جس کی وجہ سے اموات ہوئی تھیں۔ کانگریس کے سینیئر رہنما اور ترجمان ڈاکٹر جے رام رمیش نے لکھا: ’مہاراشٹر کے ناندیڑ کے ایک سرکاری ہسپتال میں 31 مریض جن میں سے 16 یا تو شیرخوار یا بچے تھے افسوسناک طور پر فوت ہو گئے۔ اس کے باوجود وزیراعظم مکمل خاموش ہیں۔‘ مہاراشٹر کے وزیر اعلی ایکناتھ شنڈے نے کہا ہے کہ ’حکومت نے ناندیڑ کے سرکاری ہسپتال میں پیش آنے والے واقعے کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق مرنے والوں میں بچے، بوڑھے، دل کے مسائل سے دوچار افراد اور حادثات میں زخمی ہونے والے افراد شامل ہیں۔ لیکن پورے معاملے کی جانچ کی جائے گی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw9vj9dxr07o", "summary": "طبیعت کی ناسازی کی بنا پر ہم ڈاکٹر کے کہنے پر ٹتعدد ٹیسٹ کرواتے ہیں تاہم اس بات کے کتنے امکانات ہیں کہ آپ کو عام سی تشخیص کے لیے واقعی ان ٹیسٹوں ی ضرورت بھی ہوتی ہےاور ان کا نتیجہ اتنا ہی درست بھی ہوتا ہے۔ اس کا جواب حیرت انگیز طور پر بہت ہی کم اثبات میں ملتا ہے۔ \n\nان میں سے محض چند طبی ٹیسٹ 100فیصد درست ہوتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ فطری طور پرمتغیر مزاج ہوتے ہیں ", "title": "بیماریوں کی تشخیص کے لیے مہنگے ٹیسٹ کیا اتنے قابل اعتبار بھی ہوتے ہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں؟", "firstPublished": "2023-09-26T15:45:39.343Z", "id": "cw9vj9dxr07o", "article": "لیکن اس بات کے کتنے امکانات ہیں کہ آپ کو عام سی تشخیص کے لیے واقعی ان ٹیسٹوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور ان کا نتیجہ اتنا ہی درست بھی ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب حیرت انگیز طور پر بہت ہی کم اثبات میں ملتا ہے۔ ان میں سے محض چند طبی ٹیسٹ 100 فیصد درست ہوتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ فطری طور پرمتغیر مزاج ہوتے ہیں تاہم بہت سے طبی ٹیسٹ بھی مریضوں کے محدود نمونوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ بعض محققین جان بوجھ کر نئے ٹیسٹوں کی تاثیر کو بڑھا چڑھا کر بیان کر سکتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم ان مثالوں کو آگے لے کر بڑھیں، آپ سب سے پہلے تو اس مضمون سے یہ نتیجہ ہرگز اخذ نہ کریں کہ ہمیں کسی مرض کی تشخیص کے لیے ٹیسٹوں پر انحصار کرنا چھوڑ دینا چاہیے۔ تو آخر اتنے مقبول اور مہنگے تشخیصی ٹیسٹ سب کے لیے یکساں درست (کامل) کیوں نہیں ہوتے؟ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے مختلف مزاج یا حالات میں رہ رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیسٹ کرواتے وقت آپ کے جسم کا درجہ حرارت زیادہ ہو سکتا ہے، جبکہ کسی دوسرے شخص کا نارمل ہو سکتا ہے جو اسی وقت ٹیسٹ کروا رہا تھا۔ یہ وہ عوامل ہیں جو نتائج کو متاثر کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہر جگہ بلڈ پریشر ٹیسٹ بھی غلط ہو سکتا ہے۔ نتائج اس بات پر منحصر ہو سکتے ہیں کہ بریسلیٹ ( بلڈ پریشر ناپنے کے لیے بازو پر باندھنے والا آلہ) آپ کے بازو پر کتنی اچھی طرح فٹ بیٹھتا ہے یا یہ کہ اس وقت آپ ٹانگیں کراس کر کے بیٹھے تھے یا پُرسکون انداز میں، یا کہیں ٹیسٹ ختم ہونے تک آپ باتوں میں تو مشغول نہیں تھے۔ حال ہی میں ایک اور بڑے مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے اور وہ یہ کہ ایسے محققین بھی ہیں جنھوں نے خصوصی جرائد میں اشاعت حاصل کرنے کے لیے کچھ ماڈلز کی درستگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ درست ادویات اور بڑے ڈیٹا کے اس دور میں مرض کی انتہائی درست پیشین گوئیوں کے لیے مریض کے بارے میں درجنوں یا سینکڑوں معلومات یکجا کرنا پرکشش لگتا ہے جس میں مشین لرننگ یا مصنوعی ذہانت تک کا استعمال بھی کیا جاتا ہے تاہم اب تک یہ وعدہ حقیقت سے بہت قریب نہیں۔ تشخیصی ٹیسٹ کبھی بھی مکمل درست نہیں ہو سکتے۔ اپنی خامیوں کو پہچاننا ڈاکٹروں اور ان کے مریضوں کو اس بارے میں باخبر بحث کرنے کی اجازت دے گا کہ نتیجہ کا کیا مطلب ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ آگے کیا کرنا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cl42ypn3k2ro", "summary": "آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر ناصر چوہدری کے مطابق یہ انجیکشن ایک سے زائد مرتبہ مریض کو لگایا جاتا ہے اور پاکستان میں اس کا استعمال تمام ڈاکٹر اور ہسپتال کرتے ہیں کیونکہ یہ مریضوں کے لیے کم قیمت میں دستیاب ہوتا ہے۔", "title": "انجیکشن آوسٹن: ’بھائی کو آنکھ میں ناقابلِ برداشت درد ہوا، صبح تک بینائی جا چکی تھی‘", "firstPublished": "2023-09-24T15:21:56.993Z", "id": "cl42ypn3k2ro", "article": "ان کے مطابق ’اس کے بعد وہ اپنے بھائی کو لاہور کے ہی ایک اور نجی ہسپتال میں ایک دوسرے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو انھوں نے ہمیں یہ بتایا کہ اس انجیکشن سے متاثر ہو کر اب تک ڈھائی تین سو مریض آ چکے ہیں۔ جبکہ ہماری موجودگی میں ہی دس بارہ مزید متاثرہ مریض وہاں آئے۔‘ انجیکشن آوسٹن ہے کیا اور کیا یہ صرف آنکھوں کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے؟ اس بارے میں بات کرتے ہوئے آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر ناصر چوہدری نے اس بارے میں بتایا کہ ’اس انجیکشن میں اینٹی کینسرس مواد شامل ہوتا ہے جو عام طور پر کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ناصر چوہدری کے مطابق ’ریٹینو پیھتی‘ نامی بیماری میں مریض کا شوگر لیول زیادہ ہونے کی وجہ سے آنکھوں میں موجود باریک شریانیں لیک ہونا شروع ہو جاتی ہیں، جو نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے بعد آنکھوں میں نئی شریانیں بننا شروع ہو جاتی ہیں جو بہت مضبوط نہیں ہوتی ہیں۔ اس تمام تر عمل کو روکنے کے لیے ایسے مریضوں میں اس انجیکشن کا استعمال کیا جاتا ہے۔ انھوں نے مزيد بتایا کہ ’یہ انجیکشن ایک سے زیادہ مرتبہ مریض کو لگایا جاتا ہے اور پاکستان میں اس کا استعمال تمام ڈاکٹر اور ہسپتال کرتے ہیں کیونکہ یہ مریضوں کے لیے کم قیمت میں دستیاب ہوتا ہے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اس انجیکشن کے استعمال سے پہلے ہر مریض کی بیماری کی پوری ہسٹری حاصل کی جاتی ہے جس کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس مریض کو یہ انجیکشن لگنا چاہیے یا نہیں۔ اس انجیکشن کے پاکستان میں استعمال کے بارے میں آنکھوں کے ڈاکٹر ناصر چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ انجیکشن کم قیمت کی وجہ سے دنیا کے ان ممالک میں بھی استعمال کیا جا رہا جہاں اس پر پابندی ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ اس انجیکشن میں استعمال ہونے والا سالٹ اگر ایک مریض کو بارہ سو میں پڑتا ہے تو اسی نسل کا دوسرا انجیکشن ہزاروں روپے میں ملتا ہے، اس لیے اس انجیکشن کے استعمال کو بند نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں یہ انجیکشن ڈریپ سے منظور شدہ ہونے کے بعد ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ جمال ناصر نے بتایا کہ ’یہ انجیکشن ملٹی نیشل کمپنی بناتی ہے اور یہ انجکشن سو ملی گرام کا ہوتا ہے۔ تاہم ایک مریض کو 1.2 ملی گرام کی ڈوز کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ بارہ سے تیرہ سو روپے تک فروخت ہو رہا ہے، جس میں بے حد منافع ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw9g4pvdnr1o", "summary": "خوبصورت لگنا کسے پسند نہیں۔۔۔ لیکن اگر خوبصورت لگنے کے لیے آپ کو مختلف قسم کے پروسیجرز یا پھر سرجری کروانا پڑیں تو کیا آپ کراوئیں گے؟", "title": "’خوبصورت‘ نظر آنے کے لیے کاسمیٹک سرجری: ’مجھے لگا تھا کہ شاید چہرے پر بال آنا کم ہو جائیں گے‘", "firstPublished": "2023-09-21T04:18:16.026Z", "id": "cw9g4pvdnr1o", "article": "خوبصورت لگنا کسے اچھا نہیں لگتا۔۔۔! لیکن اگر خوبصورت لگنے کے لیے مختلف قسم کے پروسیجرز یا پھر سرجری کروانا پڑے تو کیا آپ ایسا کرنے پر راضی ہو جائیں گے؟ پُرکشش لگنے کے لیے دینا بھر میں کاسمیٹک سرجری اور ایستھیٹک پروسیجرز کا سہارا کچھ عرصے پہلے تک تو صرف سلیبرٹیز (مشہور شخصیات) لیا کرتے تھے لیکن اب یہ شوق عام لوگوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے، جن میں پاکستانیوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ ڈرمٹالوجسٹ ڈاکٹر کامران قریشی کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں پچھلے تین چار سالوں میں یہ رجحان بڑھا ہے اور اب ہر عمر اور جنس کے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی جلد کے مسائل یا پھر بیماری کی وجہ سے ہمارے پاس علاج کے لیے آتے ہیں۔ لیکن ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی جو ایسے پروسیجر کروانا چاہتے ہیں جن کے بعد وہ مزید خوبصورت لگ سکیں۔‘ زیادہ تر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ خواتین ہی پُرکشش لگنے کے لیے ان چیزوں کا سہارا لیتی ہیں لیکن آج کل مرد بھی ایسے تمام پروسیجرز کرواتے ہیں۔ رضا منیر کا شمار بھی ایسے ہی مردوں میں ہے جو مختلف قسم کے استھٹیک اور کاسمیٹک پروسیجرز سے گزر چکے ہیں۔ یہ عموماً لوگ اس وقت کرواتے ہیں جب وہ اپنے جسم کے کسی حصّے کی ساخت سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں۔ یا پھر وہ اپنے نظریات کے مطابق خوبصورت نظر آنا چاہتے ہیں۔ کسی کو اپنے ہونٹ نہیں پسند ہوتے تو کوئی جبڑا نمایاں کرنا چاہتا ہے۔ کچھ لوگوں کو اپنی ناک پسند نہیں ہوتی اور وہ اسے من پسند بنانے کے لیے سرجری کروا لیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان ٹریٹمینٹس سے جہاں آپ ایک طرف خوبصورت دکھائی دے سکتے ہیں تو وہیں ان کے نقصانات بھی موجود ہیں۔ اس لیے ایسے پروسیجرز میں رسک موجود ہوتا ہے۔ رضا منير جو کئی قسم کے کاسمیٹک پروسیجرز سے گزر چکے ہیں، ان کے مطابق ان کے بیشتر پروسیجرز کے منفی نتائج آئے۔ جیسا کہ انھوں نے آنکھوں کے گرد حلقوں کو لیزر کے ذریعے کم کروانا چاہا تو ان کو آنکھوں میں جلن اور خارش کی شکایت ہونے لگی جس کی وجہ سے انھوں نے اس پروسیجر کو روک دیا۔ دوسری جانب ڈاکٹرز لوگوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ جب بھی آپ کوئی ایسا پروسیجر کروانا چاہیں تو پہلے اس بات کی مکمل تحقیق کریں کہ جس سے آپ یہ پروسیجر کروانا چاہتے ہیں کیا وہ سرٹیفائد ماہر ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ لوگ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کاسمیٹک پروسیجرز کہاں سے سستے ہو رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں انھیں یہ سوچنا چاہیے کہ جب ایک چیز سو روپے کی ہے تو وہ کوئی پچاس روپے میں کیسے دے رہا ہے؟ سستے اور غیر معیاری مواد استعمال کرنے سے آپ کی جلد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp054g5p03mo", "summary": "ہر قسم کے سانپ کے زہر کا تریاق یا توڑ موجود ہے ضرورت صرف اتنی ہے کہ جس شخص کو سانپ کاٹ لے اس کو وقت ضائع کیے بغیر ہسپتال پہنچایا جائے جہاں اسے یہ تریاق دیا جا سکے۔", "title": "سانپ کے کاٹنے سے کمسن بچی کی ہلاکت: کیا پاکستان کے ہسپتالوں میں ہر زہریلے سانپ کا تریاق دستیاب ہے؟", "firstPublished": "2023-09-20T05:34:26.631Z", "id": "cp054g5p03mo", "article": "بینگروس جنس کا زہریلا سانپ ’کریٹ‘ کسی کو کاٹ لے تو انسان کے پاس اس زہر کے خلاف تریاق حاصل کرنے اور اپنی زندگی بچانے کے لیے وقت بہت کم ہوتا ہے۔ اگر یہ سانپ کوبرا نسل کا ہو تو زندگی بچانے کا یہ وقت مزید کم ہو سکتا ہے۔ ان سانپوں کا زہر کئی طریقوں سے انسانی جسم پر حملہ کرتا ہے۔ زیادہ تر ان میں دو قسم کے وار انتہائی خطرناک تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ زہر انسان کے خون میں شامل ہو کر نظامِ تنفس کو متاثر کرتا ہے جس سے چند منٹوں سے لے کر چند گھنٹوں میں اس کی جان جا سکتی ہے۔ ہر قسم کے سانپ کے زہر کا تریاق یا توڑ موجود ہے۔ ضرورت صرف اتنی ہے کہ جس شخص کو سانپ کاٹ لے اس کو وقت ضائع کیے بغیر ہسپتال پہنچایا جائے جہاں اسے یہ تریاق دیا جا سکے۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ کیسے معلوم ہو کہ اسے کس قسم کے سانپ نے کاٹا ہے تا کہ درست قسم کا تریاق دیا جا سکے؟ کیا پاکستان میں ہر قسم کے سانپ کے زہر کا تریاق میسر بھی ہے یا نہیں؟ اور ضرورت پڑنے پر یہ ملتا کہاں سے ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ اینٹی وینم کی دستیابی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہاں موجود طبی عملہ اینٹی وینم دینے کے لیے تربیت یافتہ ہو اور اس کا انتظام بخوبی چلا سکے۔ ’یہ ذمہ داری صوبائی محکمہ صحت کی ہوتی ہے کہ وہ اس چیز کو یقینی بنائے تا کہ انسانی جان کو بچایا جا سکے۔‘ این آئی ایچ کے سابق عہدیدار کے مطابق ’اگر وہ سانپ کو دیکھ بھی لے تو عام طور پر ایک عام آدمی کے لیے یہ اندازہ لگانا کہ سانپ کی قسم کیا تھی اور اس کا زہر کس قسم کا ہوتا ہے، یہ بہت مشکل ہوتا ہے۔‘ این آئی ایچ اسلام آباد کے سابق عہدیدار کے مطابق زندگی بچانے کے لیے میسر وقت کا تعین اس بات پر ہوتا ہے کہ متاثرہ شخص کو کاٹنے والا سانپ کس نسل اور کس قسم کا ہے۔ ’کچھ سانپوں کا زہر محض چند گھنٹوں میں اثر کرتا ہے تو کچھ میں ایک دو روز بھی لگ سکتے ہیں۔ لیکن کیونکہ ہمیں نہیں پتا ہوتا کہ سانپ کون سا ہے تو ضروری ہے کہ متاثرہ شخص کو فوری طور پر ہسپتال تک پہنچایا جائے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ سانپ کے ڈسنے کے بعد اپنے طور جو تدابیر کی جا سکتی ہیں ان میں ضروری یہ ہے کہ جس جگہ سانپ نے کاٹا ہو اس سے اوپر کس کر باندھ دیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ عام طور پر گاوں وغیرہ میں لوگ ٹوٹکوں اور دیگر طریقوں میں وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw4x8peg75vo", "summary": "ڈاکٹروں کے مطابق اینٹی بائیوٹکس کے زیادہ استعمال کی صورت میں جسم میں اس کے خلاف مزاحمت کا خدشہ بڑھ جاتا ہے جسے ’اینٹی مائیکروبیل رزسٹنس‘ کہتے ہیں۔ ", "title": "کمبھ میلہ: دنیا میں انسانوں کے سب سے بڑے اجتماع میں اینٹی بائیوٹکس کا بے دریغ استعمال مسئلہ کیوں؟", "firstPublished": "2023-09-16T09:50:36.161Z", "id": "cw4x8peg75vo", "article": "امریکہ میں قائم تنظیموں کے محققین – جنھیں لکشمی متل، ہارورڈ یونیورسٹی میں فیملی ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ اور یونیسیف کی حمایت حاصل ہے – کو معلوم ہوا ہے کہ انڈیا میں کمبھ کے میلے میں کلینک وہاں آنے والے لاکھوں افراد کو اینٹی بائیوٹکس کی بھاری مقدار لینے کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر افراد سانس لینے کی نالی میں انفیکشن سے متاثرہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق اینٹی بائیوٹکس کے زیادہ استعمال کی صورت میں جسم میں اس کے خلاف مزاحمت کا خدشہ بڑھ جاتا ہے جسے ’اینٹی مائیکروبیل رزسٹنس‘ کہتے ہیں۔ یہ تب ہوتا ہے جب بیکٹیریا وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں اور انفیکیشن کے خلاف استعمال ہونے والی ادویات کے خلاف مزاحمت قائم کر لیتے ہیں۔ اس سے لوگوں میں اینٹی بائیوٹک رزسٹنس پر مبنی ’سپر بگ انفیکشنز‘ میں اضافہ ہوتا ہے۔ طبی جریدے دی لینسٹ کے مطابق دنیا بھر میں اس مزاحمت سے 2019 میں اس سے 1.27 ملین اموات ہوئیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق 2050 تک یہ تعداد سالانہ ایک کروڑ تک پہنچ سکتی ہیں۔ اینٹی بائیوٹکس کو خطرناک انفیکیشنز کے خلاف فرسٹ لائن آف ڈیفنس سمجھا جاتا ہے، مگر جسم میں اس کے خلاف مزاحمت پیدا ہونے کی صورت میں یہ ادویات ان مریضوں کے لیے مؤثر نہیں رہتیں۔ محققین کے مطابق کووڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران اینٹی بائیوٹکس کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔ محققین کے مطابق کمبھ میلے میں چاہے آپ کسی بھی وجہ سے کلینک میں داخل ہوں، تین میں سے ایک امکان یہی ہے کہ آپ اینٹی بائیوٹکس کے نسخے کے ساتھ باہر نکلیں گے۔ اگر آپ کو ناک بہنے کی شکایت ہوئی تو امکان بڑھ کر تین میں سے دو بار ہوجاتا ہے۔ سرکار کی جانب سے طے اصولوں میں فالو اپ وزٹ کی سفارش کے ساتھ اینٹی بائیوٹکس کی تین دن کی فراہمی کی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم محققین کے مطابق اکثر لوگ میلے میں ایک دن کے لیے آتے ہیں اور پھر واپس گھر چلے جاتے ہیں۔ محققین نے آنے والے تہواروں میں اینٹی بائیوٹکس کے نسخے کو کم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کی سفارش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگ جو کلینک میں آتے ہیں انھیں معالج کی توجہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کلینکس کو مناسب تشخیص جیسے لیبارٹری یا ریڈیولوجی کی خدمات کے ساتھ تیار کیا جانا چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ تشخیص کی کمی اینٹی بائیوٹکس کے زیادہ نسخے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹروں کو اینٹی بائیوٹک کے استعمال کے بارے میں مزید تعلیم دینے کی ضرورت ہے اور تین دن کی اینٹی بائیوٹک خوراک فراہم کرنے کی پالیسی کا دوبارہ جائزہ لیا جانا چاہیے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1gd4nlw7eo", "summary": "انڈیا کی مغربی ریاست راجستھان کا شہر ’کوٹہ‘ ملک کے ’کوچنگ کیپیٹل‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں ہزاروں نوجوان طلبا میڈیکل اور انجینیئرنگ کالجز کے داخلہ امتحانات کی تیاری کے لیے پورے ملک سے آتے ہیں۔ لیکن طلبا میں خودکشی کے بڑھتے واقعات نے اس شہر میں اب ایک عجیب صورتحال پیدا کر دی ہے۔", "title": "انڈیا کا ’کوچنگ کیپیٹل‘ اور طلبا کی خودکشیاں: ’اپنی موت کا میں خود ذمہ دار ہوں، کسی کو پریشان مت کرنا‘", "firstPublished": "2023-09-16T01:27:09.991Z", "id": "cd1gd4nlw7eo", "article": "انڈیا کی مغربی ریاست راجستھان کا شہر ’کوٹہ‘ ملک کے ’کوچنگ کیپیٹل‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں ہزاروں نوجوان طلبا میڈیکل اور انجینیئرنگ کالجز کے داخلہ امتحانات کی تیاری کے لیے پورے ملک سے آتے ہیں۔ لیکن طلبا میں خودکشی کے بڑھتے واقعات نے اس شہر میں اب ایک عجیب صورتحال پیدا کر دی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں رواں سال کے دوران اب تک کم از کم 24 طلبا نے مبینہ طور پر خود کشی کی ہے، اور خودکشی نے ان معاملات میں پولیس کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ ہے میڈیکل اور انجینیئرنگ کالجوں کے داخلی امتحانات کی تیاری کا دباؤ تھا۔ امتحانات کی تیاری کے لیے اس شہر میں آنے والے کم عمر طلبا نئے شہر میں والدین سے دور خود کو اکیلا محسوس کرتے ہیں لیکن واپس جانے سے بھی ڈرتے ہیں کیوںکہ ان کے خاندان اور علاقے میں اسے ’ناکامی کا علامت‘ سمجھا جا سکتا ہے۔ چھابڑا کی طرح اس شہر میں تقریباً 2.5 لاکھ طلبا کوچنگ حاصل کرتے ہیں لیکن اچھے کالجوں میں سیٹوں کی کافی کمی ہے۔ میڈیکل کورس کے لیے پورے ملک کے سرکاری کالجوں میں صرف ایک لاکھ کے لگ بھگ سیٹیں ہوتی ہیں اور 20 لاکھ سے زیادہ طلبا ان سیٹوں کو حاصل کرنے کے لیے امتحانات میں شرکت کرتے ہیں۔ اگر داخلے کے امتحانات میں نمبر اچھے نہیں آتے تو انھیں میڈیکل یا انجینیئرنگ کی تعلیم کے لیے پرائیویٹ کالجوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے جو کہ سرکاری کالجوں کے نسبت کئی گنا مہنگے ہیں۔ ان کی بیٹی نے کوٹا سے تیاری کرنے کے بعد ایک میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا ہے لیکن وہ اپنے گھر واپس لوٹنے سے پہلے اس انتظار میں ہیں کہ ان کے بیٹے کا آئی آئی ٹی میں داخلہ ہو جائے۔ ’میں پر امید ہوں کہ وہ اس سال کامیاب ہو جائے گا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اس سے ایک طرح کی درجہ بندی پیدا ہوتی ہے جو اکثر طلبا کے لیے وقار کا مسئلہ بن جاتا ہے، اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو کہ انھیں اپنے والدین کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔ اتر پردیش کے متھرا شہر کے یوگیش شرما اپنی بیٹی کی کاؤنسلنگ کے لیے اکثر کوٹا آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار سے وہی بچے کامیاب ہوتے ہیں جو پہلے سے پڑھائی میں تیز ہوتے ہیں اور جن کی کامیابی کوچنگ والوں کے لیے اشتہار کا کام کرتی ہے۔ ممبئی سے تعلق رکھنے والے شرے کوٹا میں انجینئرنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’تناؤ اس لیے ہوتا ہے کہ ٹیچر آپ سے 10 گھنٹے تک پڑھنے کی توقع رکھتے ہیں، اور وہ سوچتے ہیں کہ یہ تو نارمل بات ہے۔ ساتھ ہی والدین اور دوستوں کا دباؤ بھی ہوتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72em3xrmgxo", "summary": "انگلینڈ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے ایک سروے میں خواتین سرجنوں کا کہنا ہے کہ انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، ان پر حملہ کیا جاتا ہے اور کچھ معاملات میں ساتھیوں کی طرف سے ریپ بھی کیا گیا ہے۔", "title": "آپریشن تھیٹرز میں زیرتربیت ڈاکٹروں کی جنسی ہراسانی: ’میرا جسم منجمد ہو گیا میں اسے روک نہیں سکی‘", "firstPublished": "2023-09-12T15:28:54.367Z", "id": "c72em3xrmgxo", "article": "انگلینڈ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے ایک سروے میں خواتین سرجنز کا کہنا ہے کہ انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، ان پر حملہ کیا جاتا ہے اور کچھ معاملات میں ساتھیوں کی طرف سے ریپ بھی کیا گیا ہے۔ بی بی سی نیوز نے ان خواتین سے بات کی ہے جنھیں آپریشن کے دوران آپریشن تھیٹرز میں جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ سینیئر مرد سرجنوں کے ہاتھوں زیر تربیت خواتین سرجنز کے ساتھ بدسلوکی ایک ’پیٹرن‘ ہے اور یہ کہ اب یہ این ایچ ایس ہسپتالوں میں بھی ہو رہا ہے۔ یہ خواتین کو ان کے سکربس میں چھونے، مرد سرجنوں کی جانب سے اُن کے سینوں پر اپنی پیشانی صاف کرنے اور خواتین سٹاف کے ساتھ اپنے عضو تناسل کو رگڑنے کی ان کہی کہانیاں ہیں۔ کچھ خواتین کو جنسی تعلقات بنانے کے عوض کریئر میں ترقی کے مواقع پیش کیے گئے۔ سرجری کے شعبے میں جنسی بدسلوکی کے متعلق ورکنگ پارٹی کی طرف سے کیے جانے والے تجزیے کو خصوصی طور پر بی بی سی کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں خدشہ تھا کہ واقعات کی اطلاع دینے سے ان کے کریئر کو نقصان پہنچے گا اور انھیں یہ اعتماد نہیں ہے کہ برطانیہ میں طب کا ادارہ ’این ایچ ایس‘ ان کی شکایات کی بنیاد پر کوئی کارروائی کرے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے بھی بدتر صورتحال اس معاملے پر آپریشن تھیٹر میں موجود تمام افراد کی مکمل خاموشی تھی۔ اس واقعے نے ان پر دیرپا اثر ڈالا، پہلے جذباتی طور پر اور برسوں بعد کام کے دوران وہ ’یاد میرے ذہن میں خوفناک، ڈراؤنے خواب کی طرح موجود رہی‘ یہاں تک کہ جب وہ کسی مریض کا آپریشن کرنے کی تیاری کر رہی ہوتیں تو بھی ایسا ہوتا تھا۔ بڑے پیمانے پر اس بات کو قبول کیا جاتا ہے کہ اس طرح کے رویے پر خاموشی کا کلچر موجود ہے۔ جراحی کی تربیت آپریشن تھیٹرز میں سینیئر ساتھیوں سے سیکھنے پر منحصر ہے اور خواتین ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا کہ ان لوگوں کے بارے میں بات کرنا خطرناک ہے جو آپ کے مستقبل اور کریئر کے تعلق سے طاقتور اور بااثر ہیں۔ رجسٹرڈ سرجنز (مرد اور خواتین) کو مکمل طور پر شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر اس سروے میں حصہ لینے کے لیے مدعو کیا گیا تھا اور 1,434 افراد نے اس کا جواب دیا۔ ان میں نصف خواتین سرجن تھیں۔ سروے کے مطابق: جب کہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ مرد بھی اس رویے کا شکار ہیں (24 فیصد کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا تھا)۔ پروفیسر نیولینڈز کا کہنا ہے کہ ’ہمیں تفتیشی عمل میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ صحت کی دیکھ بھال کے شعبے کام کرنے کے لیے ایک محفوظ جگہ بنیں اور ان پر بھروسہ کیا جائے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cml8wwg44y4o", "summary": "بی بی سی نے کینسر کی 10عام علامات بتائی ہیں جنھیں امریکن کینسر سوسائٹی کے مطابق آپ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔", "title": "کینسر کی وہ ابتدائی علامات جن کو نظر انداز کرنا جان لیوا ہو سکتا ہے ", "firstPublished": "2023-09-10T07:59:07.725Z", "id": "cml8wwg44y4o", "article": "اور، حقیقت میں، زیادہ تر کینسر کے مریضوں کے لیے سازگار نتائج اس وقت ممکن ہوتے ہیں جب سرطان کی بہت زیادہ نشوونما ہونے سے پہلے اس کی تشخیص ہو جاتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کئی بار، کیونکہ ہم ڈاکٹر کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دیتے، اس لیے ہم کچھ علامات کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو جلد تشخیص کے لیے بہت ضروری ہو سکتی ہیں۔ ’کینسر ریسرچ یو کے‘ نامی تنظیم کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق آدھے سے زیادہ برطانوی افراد کو کسی نہ کسی وقت کینسر کی موجودگی کی نشاندہی کرنے والی علامات میں سے ایک کا سامنا کرنا پڑا لیکن صرف 2 فیصد افراد کا خیال تھا کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور ایک سے زیادہ افراد نے اسے مکمل طور پر نظر انداز کیا اور ڈاکٹر کے پاس نہیں گئے۔ یونیورسٹی کالج لندن کی ایک محقق اور اس تحقیق کی سرکردہ مصنفہ کیٹرینا وائٹیکر کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کا خیال ہے کہ ہمیں لوگوں کو ’ہائپوکونڈریا‘ ہونے کی ترغیب نہیں دینی چاہیے یعنی ایسا بننے کا نہیں کہنا چاہیے جو ہر وقت ہی بس اپنی صحت اور طبعیت سے متعلق سوچتے رہیں اور بس اسی کام میں اپنے آپ کو مصروف رکھیں، لیکن ہمیں ان لوگوں سے شکایت ضرور ہے جو ڈاکٹر کے پاس جانے سے کتراتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے، کہ وہ آپ کا وقت ضائع کریں گے اور صحت کے نظام اور اپنے وسائل کو بیکار ضائع کریں گے۔‘ کیٹرینا وائٹیکر نے کہا کہ ’ہمیں یہ پیغام دینا ہے کہ اگر آپ میں ایسی علامات موجود ہیں جو دور نہیں ہوتی ہیں، خاص طور پر وہ جو انتباہی علامات سمجھی جاتی ہیں، ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے اور مدد لینا چاہیے۔‘ بی بی سی نے کینسر کی 10ایسی عام علامات بتائی ہیں جنھیں امریکن کینسر سوسائٹی کے مطابق آپ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کینسر سے متاثرہ ہر شخص بخار کی کیفیت کا شکار ہوتا ہے خاص طور پر اس وقت جب کینسر یا اس کا علاج انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو متاثر کرے۔ یہ ایسی تھکاوٹ ہوتی ہے جو آرام کرنے سے بھی نہیں جاتی۔ کینسر کے پھیلنے کی یہ اہم علامت ہو سکتی ہے۔ بہت سے لوگ یہ جانتے ہیں کہ جب تل بڑھنا شروع ہو جائیں یا ان میں درد ہو یا پھر ان سے خون نکلے تو یہ جلد کے سرطان کی علامت ہو سکتی ہے لیکن ہمیں ایسے چھوٹے زخموں پر بھی توجہ دینی چاہیے جو چار ہفتے سے زیادہ وقت میں بھی نہیں بھرتے۔ ایسے سرطان کی علامات چھاتیوں، لمف نوڈز یا جسم کے سافٹ ٹیشو میں نظر آتی ہیں۔ اگر آپ کو تین ہفتے سے زیادہ تک کھانسی کی شکایت رہے تو مناسب ہے کہ ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp619031w56o", "summary": "سائنس دانوں نے نطفے (سپرم) ، بیضوں یا رحم کا استعمال کیے بغیر ایک ایسا وجود تیار کیا ہے جو ابتدائی انسانی جنین سے مماثلت رکھتا ہے۔", "title": "سائنسدانوں نے نطفے یا انڈے کے بغیر انسانی جنین کا پورا ماڈل تیار کرلیا", "firstPublished": "2023-09-09T03:45:15.555Z", "id": "cp619031w56o", "article": "سائنس دانوں نے نطفے (سپرم) ، بیضوں یا رحم کا استعمال کیے بغیر ایک ایسا وجود تیار کیا ہے جو ابتدائی انسانی جنین سے مماثلت رکھتا ہے۔ جنین کی تحقیق قانونی، اخلاقی اور تکنیکی مسائل سے بھری ہوئی ہے لیکن اب ایک تیزی سے ترقی پذیر میدان ہے جو قدرتی جنین کی نشوونما کی نقل کررہا ہے۔ پروفیسر ہانا کا کہنا ہے کہ ’یہ دراصل 14 ویں دن کے انسانی جنین کی ایک نصابی تصویر ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کی گئی تھی۔‘ اس کے بعد ان سٹیم سیلز کو انسانی جنین کے ابتدائی مراحل میں پائے جانے والے چار قسم کے خلیوں میں تبدیل کرنے کے لیے کیمیکلز کا استعمال کیا گیا: مرکب کے تقریباً ایک فیصد نے خود بخود اپنے آپ کو ایک ایسی ساخت میں اکٹھا کرنا شروع کیا جو انسانی جنین سے مماثلت رکھتا ہے، لیکن یہ اس سے ہوبہو مشابہت نہیں رکھتا ہے۔ پروفیسر ہانا بی بی سی کو ایمبریو ماڈل کے تھری ڈی ٹور دینے کے دوران بہت پر جوش تھے۔ میں ٹروفوبلسٹ کو دیکھ سکتا ہوں، جو عام طور پر پلیسینٹا بن جاتا ہے، جو جنین کو ڈھانپ لیتا ہے۔ اور اس میں کیویٹیز شامل ہیں، جسے لیکونا کہا جاتا ہے، جو بچے کو غذائی اجزاء منتقل کرنے کے لیے ماں کے خون سے بھرجاتے ہیں۔ ایک زردی کی تھیلی ہے، جس میں جگر اور گردے کے کچھ کردار ہیں، اور ایک بلمینر ایمبریونک ڈسک ، جنین کی نشوونما کے اس مرحلے کی اہم نشانیوں میں سے ایک ہے۔ امید ہے کہ ایمبریو ماڈل سائنس دانوں کو یہ وضاحت کرنے میں مدد دے سکتے ہیں کہ مختلف قسم کے خلیات کیسے ابھرتے ہیں، جسم کے اعضاء کی تعمیر میں ابتدائی اقدامات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں یا وراثتی یا جینیاتی بیماریوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ یہاں تک کہ ان وٹرو فرٹیلائزیشن (آئی وی ایف) کی کامیابی کی شرح کو بہتر بنانے کے بارے میں بھی غور کیا جا رہا ہے کیونکہ اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملے ای کہ کچھ ایمبریو ناکام کیوں ہوجاتے ہیں یا اس ماڈل کا استعمال کرتے ہوئے جانچ کی جائے کہ حمل کے دوران ادویات محفوظ ہیں یا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کام نے پہلی بار لیبارٹری میں سٹیم سیلز سے انسانی جنین کی مکمل ساخت کی قابلِ اعتبار تخلیق کی ہے، اس طرح ان واقعات کے مطالعے کے لیے دروازے کھل گئے ہیں جو انسانی جسم کی تشکیل کا باعث بنتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ ان جنین ماڈلز کا استعمال کرتے ہوئے حمل کا حصول غیر اخلاقی، غیر قانونی اور درحقیقت ناممکن ہوگا کیونکہ 120 خلیوں کو ایک ساتھ جمع ہونا اس حد سے کہیں زیادہ ہے کہ جب ایک جنین کامیابی کے ساتھ رحم میں داخل ہوسکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2x45pv656po", "summary": "ویسے تو اینٹی بائیوٹک لوگوں کو تجویز کی جانے والی سب سے عام دوا ہے لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اینٹی بائیوٹکس وائرل فلو یعنی نزلہ، زکام، عام کھانسی اور بخار میں بالکل کام نہیں کرتی۔", "title": "ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کیسے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے؟", "firstPublished": "2023-09-09T02:17:00.926Z", "id": "c2x45pv656po", "article": "عظمیٰ کی مشکل یہی ختم نہیں ہوئی بلکہ ہسپتال میں لگاتار چار دن رہنے کے بعد جب وہ گھر آئیں تو اُن کے جسم میں اینٹی بائیوٹک کے بے جا استعمال سے سائیڈ ایفیکٹس نمایاں ہونے لگے اور اُن کو متلی، قے کے ساتھ ساتھ بھوک کی کمی کا مسئلہ بھی ہو گیا۔ بی بی سی نے ایسے ہی چند افراد سے پوچھا کہ کیا وہ اینٹی بائیوٹک خود لیتے ہیں یا ڈاکڑ کے مشورے پر، تو اُن میں سے زیادہ تر لوگوں نے بتایا کہ وہ بخار، گلے میں درد یا دوسرے کسی وائرل انفیکشن کی صورت میں خود سے دوائی لے لیتے ہیں جبکہ ایسے افراد کی تعداد کم تھی جنھوں نے کہا کہ وہ خود سے کوئی دوا نہیں استعمال کرتے بلکہ ڈاکٹر جو بھی اُن کو بتاتے ہیں اُسی کی بنیاد پر دوائی لیتے ہیں۔ ویسے تو اینٹی بائیوٹک لوگوں کو تجویز کی جانے والی سب سے عام دوا ہے لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اینٹی بائیوٹکس وائرل فلو یعنی نزلہ، زکام، عام کھانسی اور بخار میں بالکل کام نہیں کرتی۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس کے (پمز) کے ڈاکٹر طارق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمارے جسم میں موجود بیکڑیا بدلتا رہتا ہے، اگر ہم کسی ایسی بیماری میں اینٹی بائیوٹک کھاتے ہیں جس میں اُس کو ضرورت ہی نہیں تو ایسے میں بیکڑیا خود میں تبدیلیاں لے کر آتا ہے، پھر جب کسی بیماری کے لیے اینٹی بائیوٹک ضرورت ہے تو ایسے میں وہ اُس پر اثر ہی نہیں کرتی۔‘ اس کی مثال دیتے ہوئے اُنھوں نے بتایا کہ اگر کسی کو انفیکشن ہوا ہے اور اُس وجہ سے اُن کو شدید بخار ہے تو ایسے میں مہنگے سے مہنگے انجیکشن بھی اثر نہیں کرتے۔ جیسے کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ اینٹی بائیوٹک ڈاکٹر کی جانب سے دی جانے والی وہ دوائی ہے جو سب سے زیادہ دی جاتی ہے، تو اس بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ ڈاکٹرز پر کام کا اس قدر بوجھ ہوتا ہے کہ وہ بھی ہر مریض کی مکمل جانچ کیے بغیر ہی اینٹی بائیوٹکس دے دیتے ہیں۔ ڈاکٹر طارق کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈاکٹرز کو اب بہت سوچنے کے بعد مریضوں کو دوائی دینی چاہیے۔ ’جب مریض کو ایسا انفیکشن ہو کہ بجار ایک سو تین یا چار تک پہنچ جائے اور یہ بات لیب ٹیسٹ سے تصدیق شدہ ہو تو ایسی صورت میں اینٹی بائیوٹک دینا چاہیے۔‘ یہ دریافت بیکٹریل انفیکشن، خاص طور سے جنگ کے دوران زخموں کو سڑنے سے روکنے میں ایک معجزاتی دوا ثابت ہوئی۔ اس کے بعد سے سینکڑوں قسم کی اینٹی بائیوٹکس تیار کی جا چکی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ceqzwg503l0o", "summary": "دنیا میں مردوں کی آبادی کا سات فیصد حصہ بانجھ پن سے متاثر ہوتا ہے۔ لیکن اب مصنوعی ذہانت شاید اس مسئلے کا حل نکال سکے گی۔", "title": "’سپرم سرچ‘: مصنوعی ذہانت مردانہ بانجھ پن کے عالمی مسئلے کو کیسے حل کر سکتی ہے؟", "firstPublished": "2023-09-08T12:50:16.652Z", "id": "ceqzwg503l0o", "article": "دنیا میں مردوں کی آبادی کا سات فیصد حصہ بانجھ پن سے متاثر ہوتا ہے۔ لیکن اب مصنوعی ذہانت شاید اس مسئلے کا حل نکال سکے گی۔ ڈاکٹر سٹیون وسیلیکو کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم نے مصنوعی ذہانت کا ایک ایسا سافٹ ویئر تیار کیا ہے جو تربیت یافتہ ماہرین کی نظر کے مقابلے میں ہزار گنا تیزی سے مردانہ بانجھ پن کے شدید متاثرہ مردوں سے حاصل شدہ نمونوں کے سپرم کاؤنٹ کا جائزہ لے سکے گا۔ انھوں نے جو سافٹ ویئر تیار کیا ہے اس کا نام ’سپرم سرچ‘ رکھا گیا ہے۔ یہ سافٹ ویئر ایسے مردوں کی مدد کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے جن کے انزال میں سپرم بلکل نہیں ہوتے۔ مردانہ بانجھ پن سے متاثر 10 فیصد افراد میں یہ کیفیت موجود ہوتی ہے جسے ’نان ابسٹرکٹیو ایزو سپرمیا‘ یا ’این او اے‘ کہا جاتا ہے۔ ایسے افراد میں عام طور پر خصیوں کا ایک چھوٹا سا حصہ آپریشن سے نکال کر لیبارٹری میں لے جایا جاتا ہے جہاں مائیکرو سکوپ کی مدد سے صحت مند سپرم تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کامیابی کی صورت میں ان سپرم کو طبی طریقوں کی مدد سے تولید کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم نے مصنبوعی طریقے سے تولید کرنی ہے اور کوئی خاتون انتظار کر رہی ہے تو ایسے میں ہمارے پاس انڈوں کے استعمال کے لیے بہت کم وقت ہوتا ہے اور اس عمل کو تیز رفتار بنانا بہت فائدہ مند ثابت ہو گا۔‘ ڈاکٹر میورگ گیلاغر بھی مردانہ بانجھ پن کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’سپرم کی دم پر نظر رکھنے سے نمونے کی صحت کے بارے میں علم ہوتا ہے کیوں کہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہمیں بتاتی ہیں کہ سپریم پر ماحولیاتی دباؤ کتنا ہے، کیا وہ مرنے والا ہے یا پھر کسی بیرونی حرکت کا جواب دے رہا ہے۔‘ بیلفاسٹ کی کمپنی ایگزامین بھی ایک تکنیک کا استعمال کر رہی ہے جسے ’سنگل سیل جیل الیکٹروفوریسس‘ کہتے ہیں جس کی مدد سے کسی سپرم میں ڈی این اے کو پہنچنے والے نقصان کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ کوینز یونیورسٹی کی ایمریٹس پروفیسر جو ایگزامین کی چیف ایگزیکٹیو بھی ہیں کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت بہت حوصلہ افزا ہے لیکن ’طب کا شعبہ سست رفتاری سے آگے بڑھتا ہے۔‘ ’اگر ہم ایمبریالوجسٹ کو زیادہ بہتر، زیادہ درست کام کرنے میں مدد کر سکتے ہیں تو وہ ایسے سپرم ڈھونڈ نکالیں گے جو وہ پہلے نہیں تلاش کر پاتے۔ اس کی مدد سے کسی مرد کو یہ موقع مل سکے گا کہ وہ اپنے بچوں کا باپ بن سکے۔‘ ان کی ٹیم اب اپنے سافٹ ویئر کو کلینیکل ٹرائل میں لے جا رہی ہے۔ ڈاکٹر سٹیون کا کہنا ہے کہ ’ایک اصلی اور حقیقی حمل اگلا قدم ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51vly8yknqo", "summary": "جدید انٹرا یوٹرائن ڈیوائسز یعنی ہارمونل مانع حمل طریقوں کی ایجاد سے پہلے استعمال ہونے والی زیادہ تر مصنوعات کی تاثیر بہت کم تھی اور وہ حمل کو روکنے کے بجائے اس میں وقفے کے لیے زیادہ موثر تھیں۔ ", "title": "صدیوں پہلے استعمال ہونے والے مانع حمل کے ’تکلیف دہ‘ طریقے آج سے کتنے مختلف تھے؟", "firstPublished": "2023-09-06T05:32:32.335Z", "id": "c51vly8yknqo", "article": "جدید انٹرا یوٹرائن ڈیوائسز یعنی ہارمونل مانع حمل طریقوں کی ایجاد سے پہلے استعمال ہونے والی زیادہ تر مصنوعات کی تاثیر بہت کم تھی اور وہ حمل کو روکنے کے بجائے اس میں وقفے کے لیے زیادہ مؤثر تھیں۔ اس دوا کو درست طریقے سے استعمال کیا گیا تو اس کی ناکامی کی شرح ایک فیصد سے بھی کم نکلی اور اس طرح خواتین کا اعتماد ان مانع حمل ادویات پر قائم ہوا۔ اس دہائی کے بعد امریکہ میں اس’غیر اخلاقی سامان‘ سمجھے جانے والی مصنوعات کی فروخت پر پابندی کو ختم کر دیا اور اس سے کنڈوم کے استعمال کو زیادہ وسیع ہونے میں مدد ملی۔ اس طریقہ کار میں عام طور پر ناکامی کی شرح خاص طور پر نوجوان خواتین کے لیے تقریباً 12 سے 24 فیصد سالانہ ہے۔ عام طور پر، کم موثر طریقے استعمال کرنے پر کم عمر خواتین کے حاملہ ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے کیونکہ وہ بڑی عمر کی خواتین سے زیادہ تولیدی صلاحیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ان مصنوعات کو جماع سے پہلے اندام نہانی میں داخل کیا جاتا اور اس کے بعد کم از کم چھ گھنٹے تک جگہ پر رکھا جاتا تاکہ نطفے کو مارا جا سکے۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے مانع حمل کے لیے کیپس اور ڈایافرام امریکہ اور یورپ میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے تھے۔ انٹرا یوٹرائن ڈیوائسز (IUDs) مانع حمل طریقے کار کے طور پر بہت مقبول رہیں لیکن ابتدا میں یہ ڈیوائسز جدید مصنوعات سے مختلف تھیں۔ 19 ویں صدی میں، حمل کو روکنے کے لیے بالوں کے لیے استعمال ہونے والی پن کی طرز کا آلہ استعمال کیا جاتا تھا۔ اس وقت، بہت سے ممالک میں مانع حمل کے خلاف قوانین کی وجہ سے ماہر نسواں خاموشی سے ان آلات کو استعمال کرتی تھیں۔ 1950، 1960 اور 1970 کی دہائیوں کے دوران، تمام قسم کے IUD مواد اور شکلیں استعمال کی گئیں جس میں شیٹ سے لے کر کوائل تک شامل تھیں یہاں تک کے محققین نے محسوس کیا کہ تانبے نے مانع حمل آلات کی تاثیر کو بہتر بنایا ہے۔ اس کی وجہ سے بڑی تعداد میں خواتین کو انفیکشن ہوا اور 1970 کی دہائی میں انٹرا یوٹرائن طریقوں کی مقبولیت میں کمی آئی۔ جدید انٹرا یوٹرائن ڈیوائسز (IUDs) مکمل طور پر بچہ دانی میں رکھے جاتے ہیں اور ان میں تانبے یا ہارمونز ہوتے ہیں جیسے کہ سست رفتار پروجیسٹرون، اور یہ پرانے آلات سے زیادہ محفوظ اور زیادہ موثر ہیں۔ ساتھ ہی، حکومتوں کو چاہیے کہ وہ جنسی صحت کی خدمات کو فروغ دینے کی حوصلے افزائی کریں تاکہ خواتین کو مانع حمل طریقوں تک بہتر اور تیز تر رسائی دی جا سکے، اور ساتھ ہی ان کے لیے موزوں ترین انتخاب کرنے کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51jgnnl75go", "summary": "پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر صادق آباد میں ایک نو ماہ کی بچی کے پیٹ سے دوران آپریشن بچہ نکالنے والے سرجن کا کہنا ہے کہ بچی کے والدین کئی ماہ سے مختلف ڈاکٹرز کے پاس جاتے رہے تاہم مرض نایاب ہونے اور طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے تشخیص نہیں ہو سکی۔", "title": "پاکستان میں نو ماہ کی بچی کے پیٹ سے بچہ نکلنے کے واقعے کی حقیقت کیا ہے؟", "firstPublished": "2023-09-04T08:14:58.167Z", "id": "c51jgnnl75go", "article": "’والدین بچی کو مختلف ڈاکٹرز کے پاس لے کر گئے کہ بچی روتی ہے لیکن کسی ڈاکٹر کا ذہن اس طرف نہیں گیا کیونکہ یہ کافی نایاب کیس ہے۔ کچھ عرصہ بعد والدین کو لگا کہ بچی کا پیٹ پھول رہا ہے لیکن پھر بھی کسی ڈاکٹر کا ذہن اس طرف نہیں گیا۔‘ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر صادق آباد میں ایک نو ماہ کی بچی کے پیٹ سے دوران آپریشن بچہ نکالنے والے سرجن کا مزید کہنا ہے کہ بچی کے والدین کئی ماہ سے مختلف ڈاکٹرز کے پاس جاتے رہے تاہم مرض نایاب ہونے اور طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے تشخیص نہیں ہو سکی۔ واضح رہے کہ صادق آباد پنجاب کے جنوب میں سندھ کی سرحد کے ساتھ واقع شہر ہے جہاں کے مضافاتی علاقے ریتی کے رہائشی آصف کی بیٹی ایک ماہ کی تھیں جب ان کا پیٹ پھولنا شروع ہوا۔ ڈاکٹر مشتاق احمد نے سرجری سے رسولی نکالنے کا مشورہ دیا۔ اس وقت ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس بچی کے پیٹ میں ایک بچہ موجود ہے۔ جب میں نے ان سے سوال کیا کہ یہ کیسے علم ہوا کہ بچی کے پیٹ میں بچہ تھا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’جس طرح چھ سات ماہ کے بچے کی خصوصیات تھیں، یہ بلکل ویسا ہی تھا اور چہرے کے علاوہ پورا جسم انسانی تھا کیوں کہ چہرہ بعد میں ڈیویلیپ ہوتا ہے۔‘ ڈاکٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ ’یہ بچہ نما بچی کی چھوٹی آنت سے جڑا ہوا بھی تھا اور آنتوں کے درمیان سے خون لے رہا تھا۔ ہمیں خطرہ تھا کہ بچی کو نقصان نہ ہو جائے۔ ہم نے تسلی کہ کہ بچی کو کسی طرح کا نقصان نہ ہو۔‘ اس طبی نظریے کے مطابق عام طور پر یہ ایسے کیسز میں ہوتا ہے جب کسی خاتون میں جڑواں بچے ہوں لیکن حمل کے آغاز میں ہی ایک بچہ کسی وجہ سے دوسرے جڑواں بچے سے جڑ کر کسی نہ کسی حالت میں باقی رہتا ہے لیکن زندہ نہیں رہتا۔ اس وقت آپریشن کرنے والے ڈاکٹر ظہیر عباسی نے اسے پاکستان کا ایسا پہلا کیس قرار دیا تھا اور بتایا تھا کہ بچی کے پیٹ سے دو جڑواں بچے نکالے گئے جو مر چکے تھے۔ پروفیسر ندیم اختر کے مطابق ’ایسے کیس لڑکوں میں بھی ہو سکتے ہیں جس کی ایک علامت یہ ہوتی ہے کہ ایسے بچوں میں ٹیسٹیکل (خصیے) اپنی جگہ پر نہیں بلکہ پیٹ میں چلے جاتے ہیں۔‘ ڈاکٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ یہ دو مختلف قسم کے کیسز ہوتے ہیں۔ ’ایک وہ جن میں بچہ نکلتا ہے جس کے انسانی خدوخال نمایاں ہوتے ہیں اور دوسرا وہ جس میں ٹیومر یا سرطان نکلتا ہے اور ایسے کیسز میں کسی مریض کے پیٹ سے دانت یا ہڈیاں ملتی ہیں لیکن انسانی خدوخال رکھنے والا بچہ نہیں ہوتا اور اسے ٹیراٹوما کہتے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cer74243jplo", "summary": "آسٹریلیا کے شہر کینبرا میں گزشتہ سال یہ کیس اس وقت سامنے آیا جب ایک خاتون کے دماغ کے متاثرہ حصے سے دھاگہ نما کیڑا آپریشن کے بعد نکالا گیا تھا۔ ", "title": "طب کی تاریخ کا انوکھا واقعہ: آپریشن کے ذریعے خاتون کے دماغ سے تین انچ کا زندہ کیڑا نکال دیا گیا", "firstPublished": "2023-08-29T09:30:49.139Z", "id": "cer74243jplo", "article": "سائنسدانوں کے مطابق طبی تاریخ میں پہلی بار آسٹریلیا کی ایک خاتون کے دماغ میں تین انچ کا زندہ کیڑا پایا گیا ہے۔ آسٹریلیا کے شہر کینبرا میں گذشتہ سال یہ کیس اس وقت سامنے آیا جب ایک خاتون کے دماغ کے متاثرہ حصے سے دھاگہ نما کیڑا آپریشن کے بعد نکالا گیا تھا۔ ڈاکٹروں کے مطابق متاثرہ خاتون میں غیر معمولی نوعیت کی متعدد علامات تھیں جن میں معدے کا درد، کھانسی، رات کو پسینہ آنے سمیت ڈپریشن شامل تھا۔ اس خاتون کی یادداشت بھی تیزی سے متاثر ہو رہی تھی اور وہ باتیں بھولنے لگی تھیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ لال رنگ کا یہ کیڑا دو ماہ سے زیادہ عرصہ سے اس خاتون کے دماغ میں موجود تھا۔ سنجنا سینانائکے کینبرا ہسپتال کے اس آپریشن میں شامل تھیں جس میں متاثرہ خاتون کے دماغ سے کیڑا نکالا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ ’اس آپریشن تھیٹر میں ہر کسی کو ہی اس وقت شدید حیرانی ہوئی جب سرجن نے آلے کی مدد سے ایک حرکت کرتی چیز نکالی جو دراصل آٹھ سینٹی میٹر کا جیتا جاگتا لال کیڑا تھا۔‘ ’اگر آپ کراہت کو ایک طرف رکھ دیں تب بھی یہ ایک ایسی بیماری ہے جو کسی انسان میں اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی۔‘ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ یہ کیڑا اس وقت خاتون کے دماغ میں اس وقت جا گھسا ہو گا جب وہ اپنے گھر کے قریب موجود جھیل کے پاس موجود گھاس کی ایک مخصوص قسم اکھٹا کر رہی تھیں جسے ’وریگال گرینز‘ کہا جاتا ہے۔ اس خاتون کو جنوری 2021 میں ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا جہاں اُن کے دماغ کے سامنے والے حصے میں ایک غیر معمولی تبدیلی نظر آئی۔ تاہم ڈاکٹروں کو اس کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی اور حقیقت تب ہی آشکار ہوئی جب سرجن نے جون 2022 میں دماغ سے کیڑا نکالا۔ ڈاکٹر مہراب حسین کے مطابق ’دماغ پر اس کیڑے کے حملے کا کوئی کیس اب تک سامنے نہیں آیا تھا اور تیسری سٹیج کے لاروا کی جانب سے انسانی میزبان میں پرورش ایک اہم دریافت ہے کیوںکہ ماضی میں ہونے والے تجربات، جن میں بھیڑوں، کتوں اور بلیوں کا جائزہ کیا گیا تھا، میں اس طرز کی لاروا کی پرورش نظر نہیں آئی تھی۔‘ ان کی ٹیم کے مطابق گذشتہ 30 سال میں 30 قسم کے نئے انفیکشن سامنے آ چکے ہیں جن میں سے ایک تہائی ایسے ہیں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئے۔ ’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی آبادی کے بڑھنے سے ہم جانوروں کے رہائش گاہوں کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو بار بار سامنے آ رہا ہے۔ چاہے یہ نپاہ وائرس ہو جو جنگلی چمگاڈروں سے سور میں اور پھر انسانوں میں منتقل ہوتا ہے یا پھر کورونا وائرس ہو جو چمگاڈروں سے کسی اور جانور کے ذریعے انسان میں آ جاتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn0e1wez4vlo", "summary": "آج کل یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کوئی خاتون حاملہ ہے یا نہیں، ایک سادہ سا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ یہ ہوم کٹس پہلی بار 1960 میں مارکیٹ میں آئی تھیں جو پیشاب میں موجود ایک ہارمون کو شناخت کر کے بتا دیتی ہیں کہ خاتون حاملہ ہیں یا نہیں۔ ", "title": "حمل کی تصدیق کے چار ہزار سال پرانے طریقے کون سے تھے؟", "firstPublished": "2023-08-28T13:43:32.024Z", "id": "cn0e1wez4vlo", "article": "آج کل یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کوئی خاتون حاملہ ہے یا نہیں، ایک سادہ سا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ یہ ہوم کٹس پہلی بار 1960 میں مارکیٹ میں آئی تھیں جو پیشاب میں موجود ایک ہارمون کو شناخت کر کے بتا دیتی ہیں کہ خاتون حاملہ ہیں یا نہیں۔ ماہواری نہ ہونا یا پھر زیادہ بھوک لگنا بھی اس بات کے شواہد سمجھے جاتے ہیں کہ خاتون حاملہ ہو چکی ہیں لیکن یہ امکان بھی موجود ہوتا ہے کہ یہ علامات کسی بیماری کی وجہ سے نہیں۔ قدیم یونان میں یہ مانا جاتا تھا کہ خواتین کو جسمانی تبدیلی سے علم ہو جاتا تھا کہ حمل ٹھہر چکا ہے۔ چوتھی صدی قبل از مسیح میں یہ تجویز دی جاتی تھی کہ سونے سے پہلے شراب اور شہد کی آمیزش والا پانی پیا جائے اور اگر خاتون حاملہ ہو گی تو اس کے پیٹ میں درد ہو گا۔ آج کی دنیا میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں پیشاب مددگار ہوتا ہے۔ یہ ایک جدید طریقہ معلوم ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں۔ حقیقت میں قدیم مصر کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ طریقہ ساڑھے چار ہزار سال قبل بھی استعمال کیا جا رہا تھا۔ قدیم مصری تحاریر سے علم ہوتا ہے کہ جب کوئی خاتون یہ جاننا چاہتی تھی کہ آیا وہ حاملہ ہے تو اسے کہا جاتا تھا کہ وہ گندم یا جو کے بیج پر پیشاب کرے اور ایسا کئی دن تک کرنا ہوتا تھا۔ اگر جو کے دانے سے پودا پھوٹ پڑتا تو اس کا مطلب تھا کہ لڑکا ہو گا لیکن اگر گندم پہلے پھوٹتی تو پھر لڑکی۔ اگر دونوں میں سے ایک بھی نہ ہوتا تو اس کا مطلب ہوتا کہ خاتون حاملہ نہیں ہے۔ قدیم طبی تحاریر سے پتہ چلتا ہے کہ ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ عورت کے پیشاب میں سوئی رکھی جاتی جو لال یا کالے رنگ کی ہیئت لیتی اگر حمل ٹھہر چکا ہوتا۔ اس غلط فہمی کی بنا پر یہ سمجھا گیا کہ عورت اگر رات بھر اس پتے کو اپنے پیشاب میں بھگو کے رکھے اور صبح کے وقت اس پر سرخ دھبے نمودار ہو جائیں تو یہ اس عورت کے حاملہ ہونے کا ایک اشارہ سمجھا جاتا تھا۔ اس نظریے کو جانچنے کے لیے کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا کہ 70 فیصد حاملہ خواتین کے پیشاب میں سیڈز (بیج) پائے جاتے ہیں تاہم اس کا بچے کی جنس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ سب سے پہلے چوہوں اور خرگوشوں کو حاملہ عورت کے پیشاب کا انجکشن لگایا گیا اور پھر انھیں یہ دیکھنے کے لیے مارا گیا کہ آیا ان کے اووریز(بیضہ دانی) میں تبدیلی آئی ہے یا نہیں۔ بعد میں یہ تجربہ کیا گیا جس میں یہ جانچا گیا کہ حاملہ خاتون کے پیشاب کا انجیکشن لگانے سے مادہ مینڈک بھی انڈے دینے پر آ گئی جبکہ غیر حاملہ خاتون کے پیشاب سے کچھ نہ ہوا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv28weweglno", "summary": "انسانی سر پر موجود اوسطاً ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ بالوں میں سے تقریبا 80 سے 100 بال روزانہ گرتے ہیں تاہم اگر بال اس سے ذیادہ گریں تو یہ تشویش کا باعث ہے۔", "title": "ہیئر فال: ذہنی تناؤ یا ہارمونز میں تبدیلی۔۔۔ آپ کے بال جھڑنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟", "firstPublished": "2023-08-28T05:35:36.274Z", "id": "cv28weweglno", "article": "آپ چاہے مرد ہوں یا خاتون، بالوں کا گرنا ایک بہت عام مسئلہ معلوم ہوتا ہے لیکن یہ ایک شخص کو جذباتی طور پر بہت زیادہ متاثر کرتا ہے اور پھر یہی جذباتی اثر زندگی کا بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ انڈیا میں کیے جانے والے ایک مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ پچاس سال کی عمر تک پہنچنے والے تقریبا 50 فیصد مردوں اور 40 فیصد خواتین کو بال گرنے کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بالوں کا گرنا خاص طور پر مون سون کے موسم کے آغاز میں زیادہ ہوتا ہے۔ انسانی سر پر موجود اوسطاً ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ بالوں میں سے تقریباً 80 سے 100 بال روزانہ گرتے ہیں تاہم اگر بال اس سے ذیادہ گریں تو یہ تشویش کا باعث ہے۔ سکارنگ ایلوپیشیا میں بالوں کی جڑیں مکمل طور پر تباہ ہوجاتی ہیں اور ان میں دوبارہ بالوں کی نشوونما رک جاتی ہے جبکہ نان سکارنگ ایلوپیشیا میں جڑیں صحت مند ہوتی ہیں اس لیے بال دوبارہ نکل آنے کا امکان ہوتا ہے۔ بالوں کے زیادہ گرنے کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں جن میں ہر فرد کی اس کے طرز زندگی کے حوالے سے ذاتی یا انفرادی وجوہات بھی ہوتی ہیں جبکہ موسمی وجوہات کے باعث بھی بال گرتے ہیں۔ بالوں کے گرنے کی کچھ وجوہات ہمارے قابو سے باہر ہیں اوران میں سرفہرست جینیاتی گنجا پن ہے۔ خواتین کی اکثریت میں بچے کی پیدائش کے بعد ہارمونل عدم توازن کی وجہ سے بال گرتے ہیں۔ خواتین میں بالوں کا گرنا تھائیرائیڈ کے باعث یا قدرتی ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ بالوں کا گرنا بعض ادویات یا کسی مرض کے علاج کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ کینسر کے علاج کے دوران کیموتھراپی اور ریڈیو تھراپی کا عمل ہے۔ قوت مدافعت میں کمی بھی بالوں کے گرنے کا سبب بن سکتی ہے اور انھیں صرف باقاعدہ علاج سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ کچھ فنگل انفیکشن، یا سر میں خارش والی خشکی جیسے مسائل بھی بالوں کے گرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اگر آپ صحت کے مسائل اور ذہنی تناؤ کا شکار رہے ہوں تو بھی بال جھڑنے کا سامنا آپ کو ہو سکتا ہے تاہم ان مسائل سے نکلنے کے چند دن بعد بالوں کا گرنا کم ہو جائے گا۔ بالوں کی پیوند کاری یا انجیکشن ایبل پلیٹلیٹ سے بھرپور پلازما (PRP) بعض اوقات ایک تکلیف دہ اور مہنگا طریقہ علاج ہے جو عام لوگوں کی دسترس میں نہیں۔ سیاہ، لمبے اور گھنے بال خوبصورتی کی علامت سمجھے جاتے ہیں تاہم اگر آپ کے بال اس معیار پر پورا نہیں اترتے تو فکر کرنے کی بجائے آپ کے پاس جو ہے اس پر خوش رہیں کیونکہ لمبے گھنے بالوں والے بھی نگہداشت کے لیے وقت نہ میسر ہونے پر بال کٹوا کے انھیں چھوٹا کر رہے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp613gnp3y6o", "summary": "انڈیا کی ریاست آندھرا پردیش کے رودھکوٹا گاؤں میں 20 بچوں کی موت ہو گئی ہے اور اب یہاں کے نوجوان جوڑوں کا کہنا ہے کہ وہ تب ہی بچوں کو جنم دیں گے جب میڈیکل آفیسرز مناسب طریقے سے ڈیلیوری کریں گے۔", "title": "پراسرار حالات میں گاؤں کے 20 بچوں کی موت: ’اب بچے نہیں چاہییں، ہم مرنے کے لیے بچوں کو کیوں جنم دیں؟‘", "firstPublished": "2023-08-23T16:10:26.529Z", "id": "cp613gnp3y6o", "article": "یہ واقعہ پیش آنے سے ایک دن پہلے ایک اور انڈین شہری ارون کی اہلیہ نے اپنی بچی کو دودھ پلایا۔ اور اسی طرح کے پراسرار حالات میں وہ بھی موت کا شکار ہو گئی۔ گذشتہ کچھ عرصے میں ان دونوں بچوں کی طرح انڈیا کی ریاست آندھرا پردیش کے رودھکوٹا گاؤں میں 20 بچوں کی اموات ہوئی ہیں۔ ’ہم مرنے کے لیے بچوں کو کیوں جنم دیں؟ ہمیں اب بچے نہیں چاہیں۔ ہم بچے کو تب ہی جنم دیں گے جب گاؤں کے حالات بہتر ہوں گے، ورنہ ہمیں بچہ نہیں چاہیے۔‘ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سندھیرانی کہتی ہیں کہ ’میں پہلے ہی دو بچے کھو چکی ہوں۔ اس کی وجوہات معلوم نہیں ہیں۔ بچے موت کے لمحے تک بالکل ٹھیک ٹھاک تھے۔ وہ ہم سے خوب باتیں کر رہے تھے۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ اچانک کیا ہوتا ہے۔ وہ اپنی مٹھیاں دباتے ہیں، اپنی گردنیں گرا دیتے ہیں اور ایک ہی لمحے میں مر جاتے ہیں۔ پرائمری ہیلتھ سینٹر قریب ہی ہے۔ لیکن وہاں تک جانے کا موقع بھی نہیں ملتا۔ ہم کیا کریں؟‘ گاؤں کے بنیادی مرکز صحت کے اہلکار ستیہ راؤ نے بی بی سی کو بتایا کہ اب تک اس گاؤں میں 20 بچے مر چکے ہیں، چاہے وہ اس گاؤں میں پیدا ہوئے ہوں، چاہے وہ گاؤں سے باہر پیدا ہوئے ہوں۔ رودھ کوٹ سے تعلق رکھنے والے سبھدرا راؤ نے بی بی سی کو بتایا ’ہم ایک کے بعد ایک بچے کی موت کی وجہ سے یہاں بچوں کو جنم دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مئی اور جون 2022 کے بعد اس گاؤں میں کوئی خاتون بھی حاملہ نہیں ہوئی۔ مجھے خوشی ہے کہ پچھلے چھ ماہ میں کوئی بچہ نہیں مرا۔ مگر جنوری 2023 میں یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔‘ خواتین اور بچوں کی ترقی کی مرکزی وزارت کی ایک رپورٹ کے مطابق ریاست میں بچوں کی اموات کی شرح میں زبردست کمی آئی ہے۔ دیگر ریاستوں کے مقابلے آندھرا پردیش میں اموات کی شرح بہت کم ہے۔ بی بی سی نے رودھ کوٹ میں حکام سے بات کی جن کا کہنا تھا کہ اس گاؤں میں اموات کی شرح کی جانچ کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس گاؤں کے میڈیکل آفیسر اس گاؤں کی صورتحال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اب جب حال ہی میں بی بی سی نے گاؤں کا دورہ کیا تو قصبے میں حاملہ خواتین نظر آئیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ دو خواتین ڈیلیوری کے لیے کسی اور گاؤں گئی تھیں۔ اب یہاں کے نوجوان جوڑوں کا کہنا ہے کہ وہ تب ہی بچوں کو جنم دیں گے جب میڈیکل آفیسرز مناسب طریقے سے ڈیلیوری کریں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c84xy4wkgeeo", "summary": "انڈیا کی حکومت کی وزارت صحت اور خاندانی بہبود کی رپورٹ میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ نس بندی سے جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کو دوسرے کے جسم میں داخل ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس کے لیے کنڈوم کا استعمال ایک مؤثر ترین طریقہ ہے۔", "title": "’اپنے شوہر سے نس بندی کا کہا تو جواب ملا کہ تم کروا لو لیکن مجھے مت کہو‘ مرد اپنی نس بندی سے کتراتے کیوں ہیں؟", "firstPublished": "2023-08-22T02:17:58.295Z", "id": "c84xy4wkgeeo", "article": "وہ مزید کوئی بچہ نہیں پیدا کرنا چاہتیں۔ جب انھوں نے اپنے شوہر سے نس بندی کروانے کے لیے کہا تو ان کا جواب تھا، ’اگر آپ یہ کروانا چاہتی ہیں تو کروا لیں۔ مجھے کیوں بلا رہی ہیں؟‘ اس کے بعد انھوں نے غصے میں کہا کہ ’اس پر مزید بحث نہیں ہوگی۔‘ ملک میں صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق، سنہ 2008 سے 2019 کے درمیان 5.16 کروڑ لوگوں کی نس بندی کی گئی۔ ان میں بھی مردانہ نس بندی کی شرح صرف تین فیصد تھی۔ امریکہ کی یوٹا یونیورسٹی میں یورولوجی سرجری کے اسسٹنٹ پروفیسر الیگزینڈر پاسٹزاک کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مرد جو نس بندی کے لیے آتے ہیں کہتے ہیں کہ وہ یہ اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ ’ان کی بیوی نے انھیں ایسا کرنے کو کہا تھا۔‘ انڈیا کی صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کی رپورٹ کے مطابق، نس بندی مانع حمل کے طور پر 99 فیصد موثر عمل ہے لیکن نس بندی کے اس عمل سے کئی گمراہ کُن خیالات وابستہ ہیں، مثلاً یہ کہ جنسی عمل میں یہ سرجری مسائل کا باعث بنتی ہے۔ مزید یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ نس بندی کی وجہ سے نہ تو موٹاپا کا مرض لاحق ہوتا ہے اور نہ ہی جسم کمزور ہوتا ہے اور مرد پہلے کی طرح محنت کر سکتے ہیں۔ برسوں سے یہ تشویش پائی جاتی رہی ہے کہ آیا نس بندی کے مستقبل میں مردوں کی صحت پر کوئی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ نیشنل رورل ہیلتھ مشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نس بندی کا تعلق دل کی بیماری، ورشن یا پروسٹیٹ کینسر، مدافعتی نظام کا بگڑ جانا یا کسی اور قسم کی بیماری سے ہے لیکن ایسی بیماریوں سے اس آپریشن کا کوئی تعلق یا کوئی منفی اثر نہیں۔ انڈیا کی حکومت کی وزارت صحت اور خاندانی بہبود کی رپورٹ میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ نس بندی سے جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں (STDs) کو دوسرے کے جسم میں داخل ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس کے لیے کنڈوم کا استعمال ایک مؤثر ترین طریقہ ہے۔ انڈیا کی حکومت کی وزارت صحت اور خاندانی بہبود کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ایسا بالکل کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ نس بندی کے عمل سے گزرنے والے مردوں کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ایک پیچیدہ سرجری ہے اور اس کی کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ملک کی آزادی کے بعد، انڈیا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے شرح پیدائش کو کم کرنے اور آبادی میں اضافے کی شرح کو کم کرنے کے مقصد کے ساتھ خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام شروع کیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cm5xzr1np7no", "summary": "محققین کا کہنا ہے کہ ایک نیا ٹیسٹ نہایت کم وقت میں بچوں میں بیماریوں کی درست تشخیص کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کو اس سے بچاؤ کے لیے صحیح علاج کا انتخاب کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔", "title": "وہ نیا ٹیسٹ جس سے بچوں میں بیماریوں کی تشخیص میں تیزی آ سکتی ہے", "firstPublished": "2023-08-21T13:25:54.340Z", "id": "cm5xzr1np7no", "article": "محققین کا کہنا ہے کہ ایک نیا ٹیسٹ نہایت کم وقت میں بچوں میں بیماریوں کی درست تشخیص کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کو اس سے بچاؤ کے لیے صحیح علاج کا انتخاب کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ فی الحال یہ معلوم کرنا مُشکل اور وقت طلب ہوتا ہے کہ بچوں میں بخار کی وجہ کیا ہے، یعنی آیا یہ کسی وائرس کی وجہ سے ہے، بیکٹیریل انفیکشن یا کچھ اور۔ حتیٰ کہ بیماری کے لیے کیے جانے والے ٹیسٹ کی رپورٹ آنے میں بھی اکثر کئی دن یا ہفتے لگ جاتے ہیں۔ لیکن اگر ٹیسٹ کی آزمائش کامیاب ہو جاتی ہے اور اسے قابل قبول قرار دے دیا جاتا ہے تو خون کا یہ ٹیسٹ اینٹی بائیوٹکس (جراثیم کُش ادویات) کا استعمال کم کرنے میں نہایات فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے، جو اکثر بیمار بچوں کو تجویز کی جاتی ہیں حالانکہ اینٹی بائیوٹکس صرف بیکٹیریل انفیکشن کا علاج کرتی ہیں، کسی وائرس کا نہیں۔ مطالعے کی شریک مصنف، امپیریل کالج لندن کی سینتئر لیکچرر ڈاکٹر میرسنی کافورو نے کہا ہے کہ بخار کی بنیادی وجہ کا پتا لگانا ’سب سے بڑا چیلنج‘ ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ اس کے لیے بہترین ٹیسٹ دستیاب ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ممکنہ طور پر جان لیوا بیماریوں جیسے کہ سیپسس، تپ دق اور نمونیا کی تشخیص میں تاخیر ہو سکتی ہے اور مریضوں کو فوری طور پر صحیح علاج فراہم کرنے میں مُشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 18 متعدی یا سوزش کی بیماریوں میں مبتلا ایک ہزار بچوں سمیت ہزاروں دیگر مریضوں کی طبی معلومات کا تجزیہ کیا گیا، جس کے بعد محققین اس بات کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہوئے کہ کن جینز نے مختلف بیماریوں کے خلاف لڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا، اور کون سے جینز اس معاملے میں خاموش رہیں۔ چونکہ انسانی جسم کو بیماریوں سے لڑنے کے لیے جینز کے ایک ہی سیٹ کی ضرورت ہوتی ہے، محققین اس کو ان کی جانچ کے لیے بنیاد کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ نیا نقطہ نظر 90 فیصد سے زیادہ درست ہے لیکن تحقیقی ٹیم اس بات پر زور دیتی ہے کہ ٹیسٹ کو عملی طور پر استعمال کرنے سے پہلے ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔ امپیریل کالج لندن کے سینیئر لیکچرر ڈاکٹر کافورو نے کہا کہ ’اس نقطہ نظر پر مبنی مستقبل میں تشخیصی ٹیسٹ، صحیح مریض کو، صحیح وقت پر، صحیح علاج فراہم کرنے میں مدد کر سکتا ہے، جبکہ اینٹی بائیوٹک کے استعمال کو بہتر بناتا ہے اور سوزش کی بیماریوں کی تشخیص کے لیے طویل وقت کو کم کرتا ہے۔‘ اب اسے یورپ، افریقہ اور ایشیا کے ہسپتالوں میں ہزاروں مریضوں پر آزمایا جا رہا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ ٹرائلز سے انہیں یہ دریافت کرنے میں مدد ملے گی کہ یہ کلینک میں کیے جانے والے فیصلوں کو کتنا بہتر بنا سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51k99q5y1xo", "summary": " ماہرین کا کہنا ہے کہ 30 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد آپ کو اپنے جسم کا خیال رکھنا شروع کر دینا چاہیے۔ وہ کون سے ٹیسٹ ہیں جو آپ کو کچھ عرصے بعد ضروری کروانے چاہییں؟", "title": "صحت کی حفاظت کے لیے 30 سال کی عمر کے بعد کون سے طبی ٹیسٹ کروانے ضروری ہیں؟", "firstPublished": "2023-08-18T14:24:58.983Z", "id": "c51k99q5y1xo", "article": "تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ 30 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد آپ کو اپنے جسم کا خیال رکھنا شروع کر دینا چاہیے۔ بلڈ پریشر چیک کریں: ڈاکٹر کے پاس جاتے وقت سب سے پہلے اپنا بلڈ پریشر چیک کرنا ضروری ہوتا ہے۔ 120-80 کا بی پی نارمل ہے۔ ہائی بلڈ پریشر دل کی بیماری کے خطرے کی علامت ہے۔ اس لیے 30 سال کی عمر کے بعد وقتاً فوقتاً اپنا بلڈ پریشر چیک کرواتے رہنا چاہیے۔ خون کا ٹیسٹ: آپ نے اس کے بارے میں کئی بار سنا ہو گا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سی بی سی کروائیں۔ سی بی سی کا مطلب ہے مکمل خون کے خلیوں کی گنتی۔ یہ ایک بہت عام ٹیسٹ ہے۔ یہ خون میں موجود خلیات کے بارے میں مکمل تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیسٹ دو سال میں کم از کم ایک بار کرانا چاہیے۔ موٹاپے اور ذیابیطس جیسی بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے سال میں ایک بار کرنا بہتر ہے۔ انسان کا وزن کتنا ہونا چاہیے اس کی پیمائش اس کے قد سے ہوتی ہے۔ باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) ٹیسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے جسم میں کتنی چربی ہے۔ ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ زیادہ بی ایم آئی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ گردے کے فنکشن ٹیسٹ: گردے ہمارے جسم سے فضلہ نکالنے کے لیے ذمہ دار ہیں۔ سیرم کریٹینائن ٹیسٹ یہ دیکھنے کے لیے کیا جاتا ہے کہ آیا گردے ٹھیک سے کام کر رہے ہیں۔ سیرم کریٹائن کی اعلیٰ سطح کا مطلب ہے کہ گردے ٹھیک سے کام نہیں کر رہے ہیں۔ تائرواڈ ٹیسٹ: زیادہ تر لوگوں کو 30 اور 40 سال کی عمر کے درمیان تھائرائیڈ کی بیماری ہوتی ہے۔ نتیجے کے طور پر جسم کا وزن یا تو بڑھتا ہے یا کم ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تھائرائیڈ کے معائنے کے ذریعے اس کا پتا چلایا جائے۔ آپ خون کے ٹیسٹ کے ذریعے تھائرائیڈ کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ وٹامن ڈی ٹیسٹ: عمر کے ساتھ ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کو 30 اور 40 کی دہائی میں وٹامن ڈی کی کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ کمزور ہڈیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں اور آسٹیوپوروسس جیسی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔ اس لیے وٹامن ڈی ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے۔ ماہر امراض نسواں پرتیما دھمگے کا کہنا ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی والی خواتین کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ یہ ٹیسٹ بچہ دانی میں کسی بھی مسئلے کا کینسر میں بدلنے سے پہلے پتہ لگا سکتا ہے۔ 21 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کو ان ٹیسٹوں سے گزرنا چاہیے۔ یہ ٹیسٹ پانچ سال میں ایک بار کروانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c297dj8e589o", "summary": "تاہم اگلی صبح تک ان کی دنیا بدل چکی تھی۔ وہ اپنی والدہ تک کو نہیں پہچان پا رہی تھیں، اُن کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا، ان کے دماغ میں سوجن ہو چکی تھی اور ان کے جسمانی اعضا میں مسلسل کپکپاہٹ تھی۔", "title": "کچے گوشت اور بغیر اُبلے دودھ سمیت وہ سات غذائیں جو آپ کو موت کے منہ میں لے جا سکتی ہیں", "firstPublished": "2023-08-17T07:46:07.849Z", "id": "c297dj8e589o", "article": "اپنی فلائیٹ سے قبل انھیں اپنا پیٹ خراب محسوس ہوا، لیکن اانھوں نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی اور جب وہ جزیرے پر پہنچیں تو وہ تھوڑا بہتر محسوس کر رہی تھیں۔ تاہم رات کے وقت ان کو پھر گڑبڑ کا احساس ہوا تاہم ہسپتال پہنچنے تک ان کو دوبارہ افاقہ محسوس ہونے لگا۔ تاہم اگلی صبح تک ان کی دنیا بدل چکی تھی۔ وہ اپنی والدہ تک کو نہیں پہچان پا رہی تھیں، اُن کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا، ان کے دماغ میں سوجن ہو چکی تھی اور ان کے جسمانی اعضا میں مسلسل کپکپاہٹ تھی۔ ان کے والدین انھیں ہنگامی طبی امداد کے لیے ہسپتال لے کر پہنچے جہاں ڈاکٹروں نے تصدیق کی کہ ان کی بیٹی ’ای کولی بیکٹیریل انفیکشن‘ کا شکار ہے۔ ان کی حالت سنبھلنے کے بجائے بدتر ہوتی چلی گئی، وہ کوما میں چلی گئیں یہاں تک کے ایک پادری کو اُن کے لیے دعا کرنے کی غرض سے بلایا گیا۔ انھوں نے بی بی سی سے ان کھانوں کے بارے میں بات کی ہے جن کے مضر اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے پرہیز کرنا چاہیے۔ اور اب واپس آتے ہیں سٹیفینی کی جانب جو نیٹ فلکس کی اس دستاویزی فلم کے ستاروں میں سے ایک ہیں جو اس بات کو سامنے لائی ہیں کہ ہماری فوڈ چین میں حفظان صحت کی خرابیاں صارفین کے لیے کتنے تباہ کن نتائج کا سبب بن جاتی ہیں۔ بل مارلر دستاویزی فلم میں کہتے ہیں کہ ’اس بات کا امکان ہے کہ ا نھیں گردے کی پیوند کاری کی ضرورت ہو گی اور انھیں ساری زندگی ڈائیلاسز پر رہنا پڑے گا۔ آپ کبھی بھی اپنی صحت کے بارے میں ایسا کچھ نہیں سننا چاہیں گے کہ آپ نے کوئی کھانا کھایا اور پھر اس کے اثرات پوری زندگی آپ کی صحت پر رہیں۔‘ مارلر نے قانونی چارہ جوئی کے دوران جو تجربہ حاصل کیا ہے اس کی وجہ سے انھوں نے کچے دودھ (بغیر اُبلا دودھ) یا کچے جوس والی مصنوعات کو ترک کر دیا کیونکہ ان اشیا میں ای کولی بیکٹیریا کا خطرہ پایا جاتا ہے جس نے اسٹیفینی کو اتنا بیمار کیا تھا۔ ان کھانوں کو دنیا میں فوڈ پوائزننگ کے کچھ بدترین واقعات سے جوڑا گیا ہے۔ 2011 میں میتھی کے بیجوں سے منسلک ایک وبا کی وجہ سے 900 افراد جگر کے عارضے میں مبتلا ہوئے اور اس میں 50 سے زیادہ کی اموات ہوئیں۔ بیکٹیریل آلودگی کا پتہ کیلیفورنیا میں پالک کے فارم سے لگایا گیا تھا جس میں جانوروں کی مداخلت کی کچھ شکل تھی یعنی جانوروں کے فضلے نے پالک کو بیکٹریا سے آلودہ کر دیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nvnv153q1o", "summary": "اس وقت چھاتی کے کینسر کا واحد علاج ماسٹیکٹومی تھا جس میں عورت کی چھاتی کے کینسر والے حصے کو سرجری کے ذریعے ہٹا کر کیموتھراپی یا ریڈی ایشن تھراپی کے عمل سے گزارا جاتا تھا تاہم پھر جلد ہی سب بدل گیا۔ ", "title": "وہ مانع حمل دوا جو پیدائش میں وقفہ تو نہ کروا سکی لیکن لاکھوں زندگیاں بچانے میں مددگار ثابت ہوئی", "firstPublished": "2023-08-14T06:48:25.111Z", "id": "c4nvnv153q1o", "article": "اس فیلڈ میں کمپاؤنڈ کی افادیت کے بڑھتے ہوئے طبی شواہد کے باوجود جزوی طور پر بیماری سے وابستہ خراب تشخیص کی وجہ سے کینسر کی دوائی کی مارکیٹ کو کم اہم سمجھا جاتا تھا۔ اس دوا کی تحقیق کو بعد میں آگے لے جانے والے پروفیسر وی کریگ جارڈن کا کہنا تھا کہ یہ تمام معلومات فارماسیوٹیکل تاریخ میں موجود ہیں تاہم جب تک کمپنی نے پروگرام کو بند کرنے کا فیصلہ کیا اس وقت تک چھاتی کے کینسر کے ٹرائلز کی متعدد اشاعتیں ہو چکی تھیں، جس کے باعث اس مرکب میں دنیا بھر میں دلچسپی پیدا ہونے لگی تھی۔ سنہ 1896 میں کینسر کے مرض کے ایک نامی گرامی سرجن جارج بیٹسن نے دریافت کیا تھا کہ وہ چھاتی کے کینسر میں مبتلا خواتین کی بیضہ دانی (اووریز) کو اگر جراحی کے عمل سے نکال دیں تو ان کی زندگی کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس وقت چھاتی کے کینسر کا واحد علاج ماسٹیکٹومی تھا جس میں عورت کی چھاتی کے کینسر والے حصے کو سرجری کے ذریعے ہٹا کر کیموتھراپی یا ریڈی ایشن تھراپی کے عمل سے گزارا جاتا تھا تاہم پھر جلد ہی سب بدل گیا۔ ’جب میں نے آئی سی آئی کو اس سے آگاہ کیا تو کمرے میں صرف ایک طویل حیران کن خاموشی تھی۔ مجھ سے کہا گیا کہ میں نے جو کچھ تحقیق میں پایا، اس کے بارے میں کسی کچھ نہ کہوں اور اس معاہدے کا احترام کروں۔ میں نے ان کی بات سے اتفاق کیا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ ٹیمازیفین امریکہ میں کامیاب ہو۔‘ ’جب آئی سی آئی کو میٹابولائٹ پیکج موصول ہوا تھا تب میرے ہونٹوں پر خاموشی کی مہر لگا دی گئی تھی۔ اس کے بعد میں دنیا کے سب سے طاقتور اینٹی ایسٹروجن کی دریافت کا اعلان کرنے والا ایک مضمون شائع کرنے کے قابل تھا، جو بعد میں آنے والے تمام اینٹی ایسٹروجن کی بنیاد بن گیا۔‘ چھاتی کے وہ کینسر جن میں ایسٹروجن ریسیپٹرز( خلیوں کے اندر پایا جانے والے پروٹینز) پائے جاتے ہیں انھیں ایسٹروجن ریسیپٹر پازیٹو یا ای آر پلس کینسر کہا جاتا ہے۔ ای آر پلس میں ٹیومر اس ہارمون کو کھاتے ہیں، جو عورت کے خون میں گردش کرتا ہے۔ یہ اس طرح کام کرتی ہے جیسے (کینسر کی افزائش کا) ایک دروازہ بند کر دیا ہو۔ یہ ایسٹروجن ریسیپٹر سے منسلک ہو کر ہارمون کو داخل ہونے سے روکتا ہے، اس طرح ٹیومر کو اس کی جگہ پر ہی روک دیتا ہے۔ اسی لیے اسے کینسر کے علاج میں اب تک کی سب سے بڑی پیشرفت کہا جاتا ہے۔ چھاتی کے کینسر میں مبتلا مرد و خواتین کی زندگیوں کو بڑھانے اور بچانے میں اس دوا کے اثرات کے باعث بہت سارے ماہر امراض اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cnk39d3y55wo", "summary": "کینیڈا میں انڈین نژاد 18.6 لاکھ کینیڈین شہری مقیم ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ انڈین حکومت کے ویزوں پر پابندی کے فیصلے کا ان لوگوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، حالانکہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو شروع سے ہی اس فیصلے سے پریشان تھے۔", "title": "انڈیا کینیڈا سفارتی تنازع: ’گھر کب آؤ گے۔۔۔‘ انڈین مائیں منتظر لیکن کینیڈین بیٹے گھر لوٹنے سے قاصر", "firstPublished": "2023-09-27T05:04:09.782Z", "id": "cnk39d3y55wo", "article": "انڈین حکومت نے کہا تھا کہ وہ اپنے عملے کی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہیں۔ جس کی وجہ سے کینیڈین شہریوں کے لیے انڈین ویزے اگلے احکامات تک معطل ہیں۔ بی بی سی پنجابی کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس سے نہ صرف وہ لوگ متاثر ہوئے ہیں جو انڈین نژاد ہیں اور کینیڈین شہریت کے حامل ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو دراصل کینیڈین شہری ہیں اور کام یا سیاحت کے لیے انڈیا آنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ اعلیٰ سطح پر کیے گئے فیصلے ہیں، جن پر نہ کوئی ادارہ کچھ کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اور، صرف حکومتیں اس کے بارے میں کچھ کر سکتی ہیں۔‘ اپنے والد کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی موت سے ایک روز قبل ان سے فون پر بات ہوئی تھی اور وہ اس وقت بالکل ٹھیک تھے لیکن اس دن اچانک 76 سال کی عمر میں انھیں دل کا دورہ پڑا جس سے ان کی موت ہو گئی۔ اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے تاجندر سنگھ نے کہا کہ میں 2018 میں کینیڈا آیا تھا۔ مجھے پرمانینٹ ریزڈینس یعنی مستقل رہائش ملی تھی اور میں یہاں ایک بینک میں کام کر رہا ہوں۔ اگر میرے پاس پی آر ہوتی تو میرے پاس انڈین پاسپورٹ بھی ہوتا اور مجھے کوئی مسئلہ نہ ہوتا کیونکہ انڈیا نے صرف کینیڈین شہریوں کے لیے ویزے بند کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ سیاسی فیصلے ہیں، اور اس میں کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔‘ ’لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب یہ فیصلے کیے جاتے ہیں، تو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ عام لوگوں کو اس سے کوئی پریشانی نہ ہو۔ چاہے آپ ممالک کے درمیان تجارت بند کرنے یا کوئی دوسری پالیسی تبدیل کرنے جیسا کوئی فیصلہ لیں جس سے ممالک متاثر ہوں لیکن عام لوگوں کی زندگی متاثر نہیں ہونی چاہیے۔‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ’ہم اصل میں انڈین ہیں، حالانکہ کاغذ پر آج ہم کینیڈا کے شہری بن چکے ہیں۔ ہماری اقدار، ہماری ثقافت، ہماری زبان سبھی انڈین ہے اور ہمیشہ رہے گی۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کینیڈا کا شہری بننے کی وجہ کیا ہے تو انھوں نے کہا کہ آپ کو دوبارہ پی آر کی تجدید کرنی ہو گی۔ ہم نے سوچا کہ اب یہیں رہ کر اس جگہ کی شہریت لے لینی ہے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہمیں اس کی وجہ سے ایسا وقت دیکھنا پڑے گا۔ کینیڈا میں انڈین نژاد 18.6 لاکھ کینیڈین شہری مقیم ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ انڈین حکومت کے اس فیصلے کا ان لوگوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، حالانکہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو شروع سے ہی اس فیصلے سے پریشان تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd131y09r9yo", "summary": "سیاحت کے شعبے کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا آنے والے غیر ملکی سیاحوں کے سرفہرست پانچ ممالک میں کینیڈا بھی شامل ہے، جہاں 2021 میں 80 ہزار سے زیادہ کینیڈین سیاحوں نے رخ کیا تھا۔ ", "title": "کینیڈین شہریوں کے لیے انڈیا کی ویزا سروس معطل: ’لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کیا انڈیا کا سفر محفوظ ہے‘", "firstPublished": "2023-09-25T08:35:41.010Z", "id": "cd131y09r9yo", "article": "جب سے انڈیا نے کینیڈا کے شہریوں کے لیے ویزا سروسز معطل کرنے کا اعلان کیا ہے اس وقت سے کینیڈا کے شہر وینکوور کی ایک سیاحتی کمپنی میں لگے فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی ہے۔ جمعرات کو انڈیا نے اپنے عملے کو ممکنہ خدشات سے آگاہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس نے کینیڈین شہریوں کے لیے ویزا پروسیسنگ کے عمل کو معطل کر دیا ہے۔ سیاحت کے شعبے کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا آنے والے غیر ملکی سیاحوں کے سرفہرست پانچ ممالک میں کینیڈا بھی شامل ہے، جہاں 2021 میں 80 ہزار سے زیادہ کینیڈین سیاحوں نے رخ کیا تھا۔ انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے اس حوالے سے بتایا کہ ’جن کے پاس انڈین شہریت موجود ہے، وہ اب بھی آزادانہ طور پر انڈیا کا دورہ کرنے کے قابل ہیں۔ اسی طرح اوورسیز سٹیزن شپ آف انڈیا (او سی آئی) کارڈ والے کینیڈین شہری بھی آذادانہ نقل و حمل کر سکتے ہیں۔ یہ کارڈ انڈیا سے باہر رہنے والے اپنے شہریوں کو بلا روک ٹوک تاحیات داخلے کی اجازت دیتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ انھیں اس بات کی فکر ہے کہ ’دونوں ملکوں کے درمیان اس دراڑ کا اثر کیا آنے والے برسوں میں ان کی کینیڈا میں رہنے کی اہلیت پر اثر انداز نہ ہو جائے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آیا کیا یہ کشیدگی انھیں مستقبل میں انڈیا میں موجود ان کے خاندان سے ملنے سے روکنے کا سبب نہ بن جائے۔ ہیمنت شاہ ایک انڈین نژاد کینیڈین ہیں جو 49 سال سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ہیمنت شاہ کے مطابق موجودہ حالت میں ان کی سب سے بڑی پریشانی تجارتی اور کاروباری تعلقات پر اس تنازعے کے اثرات ہیں۔ ایکسپلور انڈیا میں کام کرنے والی رادھیکا شرما کہتی ہیں کہ وہ ویزا رکھنے والے کینیڈین شہریوں سے فون پر رابطہ بھی کر رہی ہیں تاہم لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا اب بھی انڈیا کا سفر کرنا محفوظ ہے؟ ان کے مطابق وہ لوگوں کو یقین دلا رہی ہیں کہ کسی بھی سیاسی کشیدگی کے باوجود انڈین عوام کینیڈا سے آنے والے سیاحوں کا خوش دلی سے استقبال کرنے کو تیار ہیں۔ رادھیکا شرما کینیڈا میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتی ہیں حالانکہ انڈیا نے اپنے شہریوں کو شمالی امریکہ کے ملک کا دورہ کرتے وقت ’انتہائی محتاط‘ رہنے کی تاکید کی ہے۔ رادھیکا شرما نے کہا ’ہم نہیں چاہتے کہ انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات خراب ہوں۔ لوگ یہاں کریئر بنانے اور بہتر مستقبل کے مواقعوں کی تلاش میں آتے ہیں اور ہم دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cpe2g39vllno", "summary": "ملازمین کے لیے یہ گرانٹ یا کریڈٹ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ’کئی ممالک میں، یہ اخراجات بھی ٹیکس سے پاک ہیں اور آجر اور ملازم دونوں کے لیے خالص فائدہ تنخواہ پر انکریمینٹ سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔‘", "title": "وہ کمپنیاں جو اپنے ملازمین کو چھٹیاں گزارنے کے لیے ہزاروں ڈالر بھی دیتی ہیں", "firstPublished": "2023-09-21T14:22:55.600Z", "id": "cpe2g39vllno", "article": "کورونا کی وبا کے دور کے بعد بہت سی باتیں اور چیزیں تبدیل ہو چُکی ہیں مگر ایک سہولت جو آج موجود بھی ہے اور سب سے نمایاں بھی: وہ یہ کہ ’ملازمین کو دنیا کو دیکھنے کے لیے دیا جانے والا وافر بجٹ۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’پیغام یہ ہے کہ آجر واقعی سطحی اقدامات سے ہٹ کر اپنے ملازمین کی فلاح و بہبود کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ ایسی چیز ہے جس کے فائدے بلاشبہ طویل مدت کے لیے دکھائی دیتے چلے جاتے ہیں۔‘ برطانیہ کے الیانزا مانچسٹر بزنس سکول میں نفسیات اور صحت کے پروفیسر کیری کوپر کا کہنا ہے کہ ’اپنے ملازمین کی فلاح و بہبود میں دلچسپی رکھنے والے ادارے اور کمپنیوں کے لیے یہ سمجھنا خاص طور پر اہمیت کا حامل ہے کہ جو بھرتیاں انھوں نے کیں ہیں انھیں وہ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’برطانیہ میں مثال کے طور پر بریگزٹ (یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے بعد) کے نتیجے میں مشرقی یورپ میں بہت سے لوگوں کا تو نقصان ہوا ہی مگر اس کی ساتھ ساتھ بعض آجروں کو بھی بعض شعبوں میں ہنر مند ملازمین کو بھرتی کرنے میں دشواری کا سامنا اب بھی ہے اور وہ اس طرح کی متعدد مراعات پر غور کر رہے ہیں یا انھیں استعمال کر رہے ہیں۔‘ ملازمین کے لیے یہ گرانٹ یا کریڈٹ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ’کئی ممالک میں، یہ اخراجات بھی ٹیکس سے پاک ہیں اور آجر اور ملازم دونوں کے لیے خالص فائدہ تنخواہ پر انکریمینٹ سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔‘ ان مراعات کو ملازم اور آجر دونوں کے لیے ایک کامیابی کی حیثیت سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن ٹورنٹو میں قائم فلاحی خدمات فراہم کرنے والے تیلس ہیلتھ میں ریسرچ اینڈ ویلنس کی سینئر نائب صدر پاؤلا ایلن کے مطابق یہ فوائد دوسروں کے مقابلے میں کچھ ملازمین کے لیے زیادہ قیمتی ہو سکتے ہیں۔ ایلن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’مالی ترغیبات کو کسی بڑے مسئلے سے بچنے کے لیے واش کلاتھ کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر کام کی جگہ نفسیاتی طور پر صحت مند نہیں تو مالی مدد اس منفی اثر کو نہیں مٹا سکے گی۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’خانہ بدوش‘ یا دور سے بیٹھ کر کام کرنے والے کارکنوں کے عروج کے ساتھ اور بعض کمپنیوں کی لچکدار کام کرنے والی پالیسیوں کے ذریعے ملازمین کو دنیا کے مختلف حصوں سے کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے، ملازمین میں سفر کرنے کی خواہش واضح طور پر ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy6le5d3g98o", "summary": "ماریا کے پاس اس سفر کے لیے اور کوئی راستہ نہیں۔ وہ روزانہ لفٹ مانگنے پر مجبور ہیں جسے لاطینی امریکہ میں ’ہچ ہائیکنگ‘ کہا جاتا ہے۔", "title": "وہ استانی جنھیں دو بچوں کو پڑھانے کے لیے روزانہ 200 کلومیٹر لفٹ لے کر سفر کرنا پڑتا ہے", "firstPublished": "2023-09-17T08:12:25.444Z", "id": "cy6le5d3g98o", "article": "ماریا کے پاس اس سفر کے لیے اور کوئی راستہ نہیں۔ وہ روزانہ لفٹ مانگنے پر مجبور ہیں جسے لاطینی امریکہ میں ’ہچ ہائیکنگ‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے پاس اپنی گاڑی نہیں ہے۔ ہوتی بھی تو وہ روزانہ اتنے طویل سفر کے لیے پیٹرول ڈلوانے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ ان کے پاس ایک موٹر سائیکل ضرور ہے۔ لیکن اس پر اتنا طویل سفر کرنا ناممکن سا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’راستہ بھی اچھا نہیں ہے۔ پہلی بار میں نے موٹر سائیکل پر جانے کی کوشش کی اور میں نے اسے تباہ کر لیا تھا۔‘ اگر وہ پبلک ٹرانسپورٹ پر جانا چاہیں تو پہلی بس چھ بج کر 15 منٹ پر فلوریڈا سے نکلتی ہے اور دوسری بس کا وقت نو بجے ہے لیکن اکثر اسے ساڑھے نو بج جاتے ہیں۔ اس لیے وہ کہتی ہیں کہ ان کے ذریعے ’میں کبھی وقت پر نہ پہنچ سکوں۔‘ واپسی کے سفر کے لیے سکول کے قریب سے ایک بس سورج غروب ہونے کے بعد نکلتی ہے۔ اور آگے کے راستے کے لیے اگلے دن تک کوئی بس نہیں چلتی۔ پھر وہ دونوں لفٹ لیتی ہیں اور ان کا پہلا سفر 31 کلومیٹر کا ہوتا ہے۔ ماریا کے مطابق زیادہ تر ان کو ٹرک ڈرائیور لفٹ دے دیتے ہیں۔ 40 منٹ کے سفر کے بعد وہ ایک دیہی علاقے میں پہنچ جاتی ہیں۔ یہاں ’ایکو‘ ان کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا موٹر سائیکل ہے جو ان کی والدہ نے ان کو اس وقت تحفے میں دیا تھا جب وہ 15 سال کی ہوئی تھیں۔ ماریا موٹر سائیکل پر سوار ہو کر ایک کچے راستے پر سفر کرتے ہوئے 12 کلومیٹر دور اپنے سکول پہنچیں تو نو بج کر 50 منٹ ہو چکے تھے۔ سب کچھ تیار کرنے کے لیے کم ہی وقت تھا۔ جولیانا اور بنجیمن 10 بجے پہنچ جایا کرتے تھے۔ ماریا اس کا جواب یوں دیتی ہیں: ’کسی بچے کو اس سکول میں ہی کیوں جانا ہے اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ بہت دور رہتا ہو اور یہی قریبی سکول ہو۔ ہو سکتا ہے اس کے والدین ایسا کام کرتے ہوں یا اس کی رسائی ہی یہاں تک ہو۔‘ ہر 15 دن بعد ماریا خود مارکیٹ جاتی ہیں اور اس تعلیمی مرکز کے لیے ضروری سامان خرید کر لاتی ہیں۔ انتظامیہ نے خوراک کی فہرست ماہرین غذا سے تیار کروا کر انھیں دے رکھی ہے۔ جو سامان ماریا لاتی ہیں، کارلا اسی سے بچوں اور اپنے لیے بھی کھانا پکاتی ہیں۔ سکول بند کرنے کے بعد ماریا ایکو پر سوار ہو کر واپس جاتی ہیں اور پھر سے سڑک کنارے کھڑی ہو جاتی ہیں۔ ان کو ایک بار پھر سے واپسی کے سفر کے لیے لفٹ کا انتظار کرنا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy6l1njzq7do", "summary": "شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملنے کے لیے ایک بلٹ پروف ٹرین میں رواں ماہ کے دوران روس کے ساحلی شہر ولادیووستوک جائیں گے۔دیگر قسم کی سواریوں کا استعمال کرنے کے بارے میں بھی افواہیں ہیں، لیکن یہ ابھی تک ان کے بیرون ملک دوروں میں نظر نہیں آیا ہے۔", "title": "بلٹ پروف ٹرین، پراسرار کشتی اور لگژری گاڑیاں: شمالی کوریا کے رہنما دنیا کا سفر کیسے کرتے ہیں؟", "firstPublished": "2023-09-11T14:30:22.219Z", "id": "cy6l1njzq7do", "article": "شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملنے کے لیے ایک بلٹ پروف ٹرین میں رواں ماہ کے دوران روس کے ساحلی شہر ولادیووستوک جائیں گے۔ شمالی کوریا کے رہنماؤں کی ایک روایت یہ رہی ہے کہ وہ روس تک پہنچنے کا 1180 کلومیٹر طویل سفر ایک آہستہ چلنے والی ٹرین میں 20 گھنٹے میں طے کرتے ہیں۔ سنہ 1994 سے سنہ 2011 کے دوران اپنی موت تک شمالی کوریا پر حکمرانی کرنے والے کم جونگ اُن کے والد کم جونگ اِل مبینہ طور پر فضائی سفر سے ڈرتے تھے لہذا وہ ٹرین کا استعمال کرتے تھے۔ کم جونگ ال کا ایک مشہور سفر سنہ 2001 والا تھا جس میں انھوں نے روسی صدر پوتن سے ملنے ماسکو تک 10 دن کا سفر کیا تھا۔ شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا کے مطابق کم جونگ ان کی موت بھی اسی ٹرین پر سفر کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی تھی۔ ہو سکتا ہے کم جونگ ان اپنے والد کی طرح فضائی سفر سے نہیں ڈرتے کیونکہ انھوں نے متعدد دوروں کے لیے روسی ساختہ نجی جیٹ کا استعمال کیا ہے۔ لیکن جب وہ آخری بار صدر پوتن سے سنہ 2019 میں ملے تھے تو وہ بھی بذریعہ ٹرین روس کے مشرق میں واقع ولادیووستوک شہر پہنچے تھے۔ اس کے بعد عہدیداروں نے بریڈ اور نمک کی روایتی پیشکش کے ساتھ ان کا استقبال کیا تھا۔ یہ ممکنہ طور پر کم جونگ ان کا آخری بیرون ملک سفر تھا۔ مبینہ طور پر وہ وہی ٹرین استعمال کرتے ہیں جو ان کے والد بین الاقوامی سفر کے لیے کرتے تھے۔ ٹرینوں کے علاوہ سفر کے لیے کم جونگ ان کو دوسری قسم کی پرتعیش سواریاں استعمال کرتے بھی دیکھا گیا ہے۔ یہ سواریاں شمالی کوریا کے لوگوں کے غریب طرز زندگی کے بالکل برعکس ہیں۔ سنہ 2018 میں ’چمے-1‘ اس وقت سرخیوں میں آیا جب وہ شمالی کوریا کے اعلیٰ سطحی اولمپکس وفد کو جنوبی کوریا لے کر گیا تھا۔ اس وفد میں کم جونگ اُن کی بہن کم یو جونگ بھی شامل تھیں۔ سنہ 2015 میں شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا نے کم جونگ اُن کی ایک ایسی فوٹیج بھی چلائی جس میں وہ ایک ’مقامی‘ ہلکے طیارے کو چلاتے ہوئے اور اے این- 2 فوجی بائپلین کے کنٹرول میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مارچ 2018 میں کم جونگ اُن نے ٹرین کے ذریعے چین کے دارالحکومت بیجنگ کا سفر کیا لیکن شہر کے اندر سفر کرنے کے لیے اپنی ذاتی مرسڈیز بینز ایس کلاس کا استعمال کیا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سربراہی اجلاس میں ان کے قافلے میں ایک پرائیویٹ ٹوائلٹ کار بھی تھی جسے کم جونگ ان کے استعمال کے لیے رکھا گیا تھا۔ دیگر قسم کی سواریوں کا استعمال کرنے کے بارے میں بھی افواہیں ہیں، لیکن یہ ابھی تک ان کے بیرون ملک دوروں میں نظر نہیں آیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1djp47l4rpo", "summary": "برطانیہ نے اپنے شہریوں کے لیے جاری کردہ سفری انتباہ میں پاکستان کے زیرِ انتظام گلگت بلتستان کے سفر سے اجتناب کی ہدایت کی ہے جبکہ امریکہ نے شمالی علاقہ جات کے سفر کے لیے ’انتہائی احتیاط‘ برتنے کا مشورہ دیا ہے۔ تاہم محکمہ داخلہ گلگت بلتستان کا کہنا ہے کہ ’حالات مکمل طور پر پُرامن ہیں۔‘ ", "title": "برطانیہ، امریکہ کی گلگت بلتستان کے لیے سفری تنبیہ: سکردو اور دیگر علاقوں میں حالات کشیدہ کیوں ہوئے؟", "firstPublished": "2023-09-03T03:24:31.704Z", "id": "c1djp47l4rpo", "article": "برطانیہ نے اپنے شہریوں کے لیے جاری کردہ سفری انتباہ میں پاکستان کے زیرِ انتظام گلگت بلتستان کے سفر سے اجتناب کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ امریکہ نے شمالی علاقہ جات کے سفر کے لیے ’انتہائی احتیاط‘ برتنے کا مشورہ دیا ہے۔ اگرچہ برطانوی سفری تنبیہ میں گلگت بلتستان میں ’حالیہ احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے تمام غیر ضروری سفر سے اجتناب‘ کی ہدایت کی گئی ہے تاہم محکمہ داخلہ گلگت بلتستان کا کہنا ہے کہ ’حالات مکمل طور پر پُرامن ہیں۔‘ محکمہ داخلہ گلگت بلتستان کا کہنا ہے کہ ’امن و امان کی صور تحال کو بر قرار رکھنے، عوام کے جان و مال کے تحفظ اور کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے صوبے بھر میں دفعہ 144 نافذ کیا گیا ہے۔‘ گلگت بلتستان کے محکمہ اطلاعات کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان میں چہلم امام حسین کے پُرامن انعقاد کے لیے پاکستانی فوج اور سول آرمڈ فورسز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ انتظامیہ کے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ چلاس زیرو پوائنٹ شام ساڑھے چھ بجے سے صبح چھ بجے تک جبکہ بابو سر ٹاپ کا راستہ شام چھ بجے سے صبح چھ بجے تک ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند رہے گا۔ دوسری جانب ٹیلیکام اتھارٹی (پی ٹی اے) نے مقامی موبائل کمپنی کو ہدایت کی ہے کہ وہ گلگت بلتستان میں فور جی کو ٹو جی میں منتقل کر دے تاہم سکردو اور چلاس کے مقامی لوگوں کے مطابق موبائل انٹرنیٹ تک رسائی محدود ہوئی ہے۔ ’ابھی حالیہ دونوں چلاس میں منعقد ہونے والے مظاہروں کے بعد لوگ اسلام آباد کی طرف سفر کرنے سے خوفزدہ ہیں۔ جس پر مقامی لوگ یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر ہمارے لیے شاہراہ قراقرم محفوظ نہیں ہے تو کارگل روڈ کھول دیں۔ ہم لوگ ویسے بھی تقسیم ہیں، ہمارے خونی رشتہ دار اس طرف ہیں۔‘ گلگت بلتستان کے وزیر داخلہ شمس الحق لون کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں اس وقت حالات میں کشیدگی افسوس ناک ہے جس کا سب سے پہلا اور براہ راست اثر سیاحت پر پڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت میں، کابینہ کے ممبران، وزیر اعلیٰ، اپوزیشن سب مل کر کوشش کر رہے ہیں کہ جذبات کو ٹھنڈا کیا جائے۔ میں نے خود چلاس اور سکردو کا دورہ کیا ہے۔ وہاں پر علما سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان سے اپیل کی ہے وہ امن کی خاطر اپنا کردار ادا کریں۔ ‘ شمس الحق لون نے بتایا کہ اس وقت گذشتہ روز گلگت میں حالات میں کشیدگی پیدا ہونے پر پیرا ملٹری فورسز کو طلب کرلیا ہے۔ ’چلاس اور گلگت میں بڑی تعداد میں پیرا ملڑی فورسز کے جوان کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کے لیے تیار ہیں۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c25r0eqx91qo", "summary": "کسی ملک کے پاسپورٹ کی طاقت کا تعین زیادہ سے زیادہ مقامات کے لیے ویزا فری یا ویزا آن ارائیول سے کیا جاتا ہے۔ گذشتہ تین برس سے پاکستانی پاسپورٹ ایچ پی انڈیکس پر نیچے سے چوتھے نمبر پر ہے۔", "title": "دنیا کا چوتھا ’بدترین‘ پاسپورٹ ہونے کے باوجود آپ پاکستانی پاسپورٹ کا بہتر استعمال کیسے کر سکتے ہیں؟ ", "firstPublished": "2023-08-24T03:57:21.511Z", "id": "c25r0eqx91qo", "article": "کتابی تعریف کے مطابق پاسپورٹ یوں تو ایک دستاویز ہے جو بین الاقوامی سفر کے لیے کسی شخص کی شناخت اور قومیت کی تصدیق کرتی ہے لیکن پاکستانی پاسپورٹ پر 72 ممالک کا سفر کرنے والے وی لاگر عبد الولی کا ماننا ہے کہ یہ دستاویز دراصل دنیا بھر میں کسی بھی ملک کی ’حیثیت یا اوقات‘ کے بارے میں بتاتی ہے۔ کہاں وہ 70 کی دہائی جب پاکستانی دنیا کے بیشتر ممالک کا سفر ویزا فری یا ویزا آن ارائیول پر کر سکتے تھے لیکن اب دنیا بھر میں محض 33 ممالک ایسے ہیں جہاں پاکستانی پاسپورٹ کے حامل افراد ’ویزا آن آرائیول‘ یعنی اس ملک کے ائیرپورٹ پر پہنچ کر ویزا حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر لوگ امریکہ، کینیڈا اور دیگر مغربی ممالک جانے کی خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس چاہ کو جہاں کئی لوگ ’کولونیئل ہینگ اوور‘ یا نو آبادیاتی دور کی باقیات کہتے ہیں وہیں پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کرنے کا وسیع تجربہ رکھنے والے کئی وی لاگرز کا ماننا ہے کہ چوتھے بدترین پاسپورٹ سے بہتر ہے کہ کسی ایسے پاسپورٹ کو حاصل کیا جائے جو ’پاسپورٹس کا تندولکر‘ ہو۔ اس وقت طاقتور ترین پاسپورٹ سنگاپور کا ہے جسے 193 مقامات کے لیے پہلے سے ویزے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے نمبر پر جاپانی، ساؤتھ کورین اور پانچ یورپی پاسپورٹ آتے ہیں۔ کسی ملک کے پاسپورٹ کی طاقت کا تعین زیادہ سے زیادہ مقامات کے لیے ویزا فری یا ویزا آن ارائیول سے کیا جاتا ہے۔ گذشتہ تین برس سے پاکستانی پاسپورٹ ایچ پی انڈیکس پر نیچے سے چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ پر ویزا فری اینٹری یا ویزا آن ارائیول کی سہولت صرف 33 مقامات پر ہے۔ صرف شام، عراق اور افغانستان کے پاسپورٹ اس سے بھی زیادہ کمزور ہیں۔ اگر آپ نے اپنے پاکستانی پاسپورٹ پر کسی بھی ملک کا سفر نہیں کیا لیکن آپ کو بیرون ملک سفر پر جانے کا شوق ہے تو شروعات ہمیشہ ایسے ممالک سے کرنی چاہیے جہاں کا یا تو ویزا ملنا آسان ہو یا ویزا آن ارائیول کی سہولت ہو۔ یہ کوشش کریں کہ ویزے کی مقررہ مدت کے اندر اندر ہی آپ اپنے ملک واپس لوٹ آئیں۔ مقررہ مدت سے زیادہ قیام کرنے کی صورت میں آپ جرمانہ ادا کر کے آپ رک تو سکتے ہیں لیکن یہ آپ کی ٹریول ہسٹری کو کمزور بناتا ہے۔ یہ آپ کی ٹریول ہسٹری کا حصہ بن جاتا ہے اور مستقبل میں آپ کو ویزا حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر کسی بھی وجہ سے آپ کا ویزا مسترد ہو جاتا ہے تو کوشش کریں کہ جس ملک نے آپ کا ویزا مسترد کیا، ان کے اعتراضات دور کریں اور اُسی ملک سے دوبارہ ویزا حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ویزا ریجیکشن کسی بھی پاسپورٹ کو کمزور بناتی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c284xrw3kkpo", "summary": "مسلمانوں کے لیے چھٹیاں گزارنے کے لیے بہترین مقامات کون سے ہیں اور کن چیزوں سے ہوٹلز حلال چھٹیاں گزارنے کے معیار پر پورا اترتے ہیں؟ ", "title": "زہرہ 30 سے زیادہ ممالک میں ’حلال چھٹیاں‘ گزار چکی ہیں مگر یہ حلال چھٹیاں ہیں کیا؟", "firstPublished": "2023-08-22T10:25:39.696Z", "id": "c284xrw3kkpo", "article": " وہ 30 سے زیادہ ممالک میں ’حلال چھٹیاں‘ گزار چکی ہیں۔ مگر یہ حلال چھٹیاں ہیں کیا؟ جبکہ مغربی یورپ اور شمالی امریکہ میں، دوسری اور تیسری نسل کے مسلمانوں کے پاس چھٹیوں پر خرچ کرنے کے لیے، ان کے والدین کے مقابلے میں زیادہ آمدن ہوتی ہے۔ زہرہ روز نے بی بی سی ورلڈ سروس کے پروگرام بزنس ڈیلی کو بتایا کہ ’میرے لیے عام چھٹیوں اور حلال چھٹیوں میں بنیادی فرق پرائیویسی کا ہے۔‘ انھیں ترکی میں رہتے ہوئے حلال چھٹیاں گزارنے کے لیے مقامات کی کمی نہیں لیکن جب کبھی اس خاندان کو کسی غیر اسلامی ملک کا دورہ کرنا ہوتا ہے تو انھیں اس بارے میں جاننے اور اس متعلق بہت سی پلاننگ کرنی پڑتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’حال ہی میں ہم میساڈونیا گئے تھے۔ ہم نے ناشتہ اپنے ہوٹل میں ہی کیا اور دوپہر کے کھانے کے لیے ہم ان روایتی جگہوں پر گئے جہاں کھانے کے ساتھ شراب نہیں دی جاتی تھی۔‘ وہ کہتی ہیں ’میں ہوٹلوں میں کم لباس والے لوگوں کو نہیں دیکھنا چاہتی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ایسے لوگوں کے ساتھ رہیں جو ہمارے عقیدے اور ثقافت کی پیروی کرتے ہیں۔ ہم انھیں ان ساحلوں پر نہیں لے جانا چاہتے جہاں لوگ برہنہ ہو کر دھوپ میں بیٹھتے ہیں۔‘ ہیسر خواتین کو آن لائن کاروبار کرنے اور سوشل میڈیا کی تربیت دیتی ہے۔ وہ محسوس کرتی ہیں کہ سیاحت کی صنعت نے ابھی تک حلال چھٹیوں کے نظریے سے مکمل طور پر فائدہ نہیں اٹھایا ہے۔ گلوبل مسلم ٹریول انڈیکس کے مطابق سنہ 2022 میں حلال چھٹیاں گزارنے کے کاروبار کا حجم 220 ارب ڈالر تھی۔ کچھ سیاحتی کمپنیاں حلال سیاحت میں مہارت حاصل کر رہی ہیں جبکہ دیگر اسے ایک آپشن کے طور پر شامل کر رہی ہیں۔ مالدیپ کے جزائر کو مغربی ممالک کے سیاحوں کے اعتبار سے ایک مقبول سیاحتی مقام کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن اب یہاں دنیا بھر سے حلال چھٹیاں گزارنے والے مسلمان سیاحوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ مالدیپ کے وزیر سیاحت ڈاکٹر عبداللہ معصوم کا کہنا ہے کہ ’مالدیپ ایک مسلم ملک ہے اور روایتی طور پر ہمارے ہاں ایک مسلم دوست سیاحت موجود ہے۔ اور اب یہ شعبہ بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’بہت سے ریزورٹس میں بھی اب کمرے دینے، ان کے ڈیزائن اور کھانے کے اعتبار سے مسلم دوستانہ ماحول ہے۔‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’کسی ایسے ریزرو میں بکنگ کروانا بہت آسان ہے جہاں مرد اور خواتین کے لیے ایک ہی پول ہوں یا آپ کے اپنے پول یا نجی بالکونی کی پرائیویسی نہ ہو۔ جی ہاں، میں کہوں گی کہ اس میں قیمت میں فرق ضرور ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyrjdg5g1lxo", "summary": "کراچی سے اسلام آباد جانے والی بس کو فیصل آباد موٹروے پر پنڈی بھٹیاں کے قریب خوفناک حادثہ پیش آیا ہے جس میں کم از کم19 افراد ہلاک جبکہ 14 زخمی ہو گئے ہیں۔", "title": "پنڈی بھٹیاں بس حادثہ: ’بھتیجی کی کال آئی حادثہ ہو گیا، جب وہاں پہنچا تو آگ ہی آگ تھی، ایک قیامت تھی‘", "firstPublished": "2023-08-20T09:13:56.268Z", "id": "cyrjdg5g1lxo", "article": "امداد علی سکھر سے اسلام آباد آ رہے تھے اور وہ اس بس میں سوار تھے جو آج علی الصبح پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے پنڈی بھٹیاں میں خوفناک حادثے کا شکار ہوئی ہے اور جس میں اب تک 19 افراد ہلاک جبکہ 14 افراد زخمی ہیں۔ پولیس کے مطابق یہ بس حادثہ اس وقت پیش آیا جب بس فیصل آباد موٹروے پر پنڈی بھٹیاں انٹرچینج کے قریب ایک سوزوکی پک اپ وین سے ٹکرائی جس میں ڈیزل کے ڈرم رکھے ہوئے تھے۔ پولیس کے مطابق بس میں 35 سے زائد مسافر سوار تھے۔ حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال پنڈی بھٹیاں منتقل کیا گیا ہے جبکہ وہ مریض جن کی حالت تشویشناک ہے انھیں فیصل آباد لے جایا گیا ہے۔ پنڈی بھٹیاں کے ڈی پی او ڈاکٹر فہد نے بی بی سی کو بتایا کہ زخمیوں میں سے صرف دو افراد کی شناخت نہیں ہو سکی ہے جبکہ تمام میتیں ناقابل شناخت ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہلاک ہونے والوں کی ڈی این اے ٹیسٹ کے بغیر شناخت ممکن نہیں ہے کیونکہ ان کے جسم مکمل طور پر جل گئے ہیں۔ جو زخمی ہیں ان میں سے چار افراد کو تھرڈ ڈگری برنز ہیں اور پانچ کو سیکنڈ ڈگری برنز آئے ہیں۔ زیادہ تر کی حالت تشویشناک ہے۔‘ ڈی پی او ڈاکٹر فہد کہتے ہیں کہ ’قوی امکان ہے کہ ڈرائیور کی آنکھ لگ گئی تھی اور اس دوران بس دوسری گاڑی سے ٹکرا گئی۔ بس نے گاڑی کو کچھ میٹرز تک اپنے ساتھ گھیسٹا ۔ وہ کہتے ہیں کہ تصادم اتنا شدید تھا کہ ڈیزل کا ایک ڈرم روڈ سے کچھ دور جا گرا جبکہ باقی دو نے آگ پکڑ لی۔ انھوں نے بتایا کہ پک اپ وین مکمل طور پر جل گئی ہے اور اس میں سوار دو افراد میں سے ایک ڈرائیور ہلاک ہو گیا ہے۔ گزشتہ برس موٹروے پر گاڑیوں میں آگ لگنے کے مختلف واقعات میں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اگست میں بس اور آئل ٹینکر کے درمیان حادثے میں آگ لگنے سے بیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی طرح اکتوبر میں موٹروے پرہی ایک اور مسافر بس میں آگ لگنے سے کم از کم بیس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ آگ لگنے کی وجہ معلوم نہ ہو سکی۔ رواں برس فرووری میں ایک بس حادثے میں تیرہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ اس سے ایک ماہ پہلے لسبیلہ میں اس وقت چالیس افراد ہلاک ہوئے جب ایک بس اوور سپیڈنگ کے دوران پل سے نیچے گری اور اس میں آگ لگ گئی۔ جبکہ روان برس جون میں ایک اور بس میں بریک فیل ہونے کے باعث حادثے میں کم از کم تیرہ افراد ہلاک اور پندرہ زخمی ہوئے تھے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn0j01vek61o", "summary": "ہر صبح رائل انڈین ایئر فورس کے طیارے حکمتِ عملی کے تحت اپنے مشن کا آغاز کرتے اور پناہ گزینوں سے لدی ٹرینوں کو بلوائیوں کے ممکنہ حملوں سے بچانے کے لیے ریلوے پٹریوں پر اُوپر ریل کے ساتھ ساتھ پرواز کرتے۔ ", "title": "انڈیا، پاکستان کے بٹوارے میں ڈکوٹا طیاروں نے کیا کردار ادا کیا؟", "firstPublished": "2023-08-20T02:57:34.162Z", "id": "cn0j01vek61o", "article": "ہر صبح رائل انڈین ایئر فورس کے طیارے حکمتِ عملی کے تحت اپنے مشن کا آغاز کرتے اور پناہ گزینوں سے لدی ٹرینوں کو بلوائیوں کے ممکنہ حملوں سے بچانے کے لیے ریلوے پٹریوں پر اُوپر ریل کے ساتھ ساتھ پرواز کرتے۔ طیاروں میں موجود افسران وائرلیس ریڈیو کا استعمال کرتے ہوئے ٹرینوں کے ساتھ رابطے میں رہتے اور اس بات کی بھی کھوج اندازہ لگاتے کہ کہیں پٹریوں کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ تو نہیں کی گئی ہے۔ پرواز کے دوران یہ طیارے زمین پر مسلح ہجوم کی تلاش بھی کرتے اور اس بابت ٹرینوں کے ڈرائیوروں کو آگاہ کرتے۔ عاشق اقبال لکھتے ہیں کہ ستمبر 1947 میں پنجاب کی فضا میں پرواز کرتے ایک طیارے کو چونکا دینے والا منظر نظر آیا: زمین پر سفر کرتا لگ بھگ 30 ہزار پناہ گزین کا قافلہ جو 40 کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ اس طیارے نے بلوائیوں کے ایک چھپے ہوئے گروہ کا پتہ لگایا جو تھکے ہوئے پناہ گزینوں پر حملہ کرنے کے لیے تیار تھا اور پھر انھوں نے یہ خبر اس علاقے میں گشت کرنے والے افسران تک پہنچائی۔ طیارے میں ایسے ہی پناہ گزینوں کے ایک ہجوم پر قابو پانے کے لیے ایک نجی ایئر لائن کے پائلٹ نے عملے میں موجود ٹیکنیشن کو آہنی مکہ (نکل ڈسٹر) دیا۔ عاشق اقبال لکھتے ہیں کہ وہ ٹیکنیشن طیاروں کے ٹائروں تلے موجود انڈر کیریج پنوں کو جمع کرتے ہوئے طیارے کے دروازے کی طرف آہنی مکے مارتے ہوئے پہنچتے اور پھر مضبوطی سے دروازہ بند کر دیتے۔ اور طیارہ کا دروازہ بند ہونے کے بعد جب ایک بار انجن سٹار ہو جاتا تو پھر انجنوں سے نکلنے والی بھاپ کی وجہ سے رن وے پر موجود ہجوم خود بخود منتشر ہو جاتا۔ لیکن سویلین ایئر لائن آپریٹرز بڑے پیمانے پر لوگوں کے انخلا سے نمٹنے کے قابل نہیں تھے۔ انھوں نے اس ’ناممکن کام‘ کے لیے طیاروں اور اہلکاروں کو خطرے میں ڈالنے سے بھی انکار کر دیا۔ آخر کار غیر ملکی مدد طلب کی گئی: 21 برٹش اوورسیز ایئر ویز کارپوریشن (بی او اے سی) کے جیٹ طیاروں نے 6,300 افراد کو دہلی سے کراچی منتقل کرنے کے لیے 15 دن تک ’نان سٹاپ‘ پروازیں کیں۔ وہ دہلی کے ہوائی اڈوں پر پھنسے ہوئے مسلمان پناہ گزینوں کے لیے 45,000 کلوگرام خوراک، خیمے اور ویکسین بھی لے گئے۔ برطانوی شہریوں کو نکالنے کے لیے تعینات رائل ایئر فورس کے دو ٹرانسپورٹ طیاروں کو بھی انڈیا اور پاکستان کے درمیان تقریباً 12,000 افراد کو نکالنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ عاشق اقبال لکھتے ہیں کہ ان 12 ہزار افراد میں سے صرف 2,790 برطانوی اہلکار شامل تھے باقی ریلوے، ڈاک اور ٹیلی گراف کے ملازمین تھے جو زمین پر آبادی کے تبادلے میں کلیدی کردار ادا کر رہےتھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ceky51ldjmko", "summary": "چھپ شورو گلگت بلتستان کے علاقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ چاہے راکاپوشی کے پہاڑ کے قریب کوئی ڈھابہ ہو، کسی مارکیٹ میں ہو یا کسی کا گھر ہو آپ کو چھپ شورو ہر جگہ ملے گا۔", "title": "چھپ شورو: ہنزہ کا صحت بخش ’دیسی پیزا‘ جو ایک قدیم روایت کا امین ہے", "firstPublished": "2023-08-08T03:27:11.841Z", "id": "ceky51ldjmko", "article": "پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ کے علاقے کریم آباد میں لال شہزادی 700 سال پرانے بلتت قلعے کے قریب ’ہنزہ فوڈ پویلین‘ کے نام سے ایک کھانے کی دکان چلاتی ہیں۔ التر گلیشیئر کے پہاڑوں اور پرانے بلتت قلعے کے خوبصورت پس منظر میں لال شہزادی مقامی لوگوں اور سیاحوں کو ’گیالنگ‘ (گندم کے آٹے سے بنے کریپس)، خوبانی کا سوپ اور خشک خوبانی سے بنے جوس پیش کرتی ہیں۔ ان سب کھانوں میں سے شاید سب سے مشہور اور منفرد ’چھپ شورو‘ ہے۔ یہ ڈش گلگت بلتستان کے علاقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ چاہے راکاپوشی کے پہاڑ کے قریب کوئی ڈھابہ ہو، کوئی مارکیٹ میں ہو یا کسی کا گھر ہو۔۔۔ آپ کو چھپ شورو ہر جگہ ملے گا۔ بروشسکی زبان میں ’چھپ‘ کا مطلب ہے گوشت، ’گنشو‘ کا مطلب پیاز اور ’شورو` کا مطلب روٹی ہے۔ کچھ ’میٹ پائے‘ جیسی اور کچھ کچھ پراٹھے سے ملتی جلتی یہ ڈش ہنزہ کی عالمی شہرت یافتہ مہمان نوازی سے منسلک ہے۔ مقامی افراد سیاحوں کی یاک کے نمکین دودھ اور چھپ شورو جیسی ڈش کے ساتھ تواضع کرتے ہیں۔ لال شہزادی نفاست اور مہارت سے بنائے گئے چھپ شورو کو پیش کرتے ہوئے بہت فخر محسوس کرتی ہیں۔ لال شہزادی کو چھپ شورو بناتے ہوئے دیکھنا ایسا ہی ہے جیسے کسی فنکار کو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھنا اور لال شہزادی اس کو بنانے کے عمل کے ہر سیکنڈ سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ شہزادی بتاتی ہیں کہ روایتی طور پر گھروں میں چھپ شورو کو پتھر کے تندور میں پکاتے تھے۔ اس عمل میں تین گھنٹے تک لگ جاتے تھے۔ جیسے جیسے آبادی یا خاندانوں کا سائز بڑھتا گیا تو اس ڈش کی کی طلب میں اضافہ ہوا جس کے بعد تندور کے بجائے توے پر آگ کے اوپر چھوٹے چھپ شورو بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جسے لال شہزادی نے آج بھی برقرار رکھا ہوا ہے۔ لال شہزادی نے ایک بڑے مستطیل (ریکٹینگل) لکڑی کے چمچے کو چھاپ شورو کو فلیٹ رکھنے کے لیے اس کے اوپر رکھتی ہیں جب کے اس کا نچلا حصہ کم گہرائی والے پین میں فرائی ہوتا ہے۔ اس پین میں چھاپ شورو کو میٹھا اور گری دار ذائقہ دینے کے لیے خوبانی اور اخروٹ کا تیل ڈالا جاتا ہے۔ اس ڈش کی کئی مختلف اقسام ہیں۔ لال شہزادی جیسی کچھ شیف پہلے سے پکے ہوئے گوشت کا استعمال بھی کرتی ہیں جبکہ اسے بنانے والے چند شیف گوشت کو پہلے سے میرینیٹ کر کے رکھتے ہیں اور بعد میں اسے آٹے کے ساتھ ہی پکاتے ہیں۔ اگر چھاپ شورو پر کوئی تیل استعمال نہیں کیا جائے تو وہ نان کی طرح کا بن جاتا ہے جبکہ اگر تیل استعمال کیا جائے تو روٹی پک کر کرکرا اور سنہرا ہو جاتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw81x848dj0o", "summary": "پاکستان میں مقامی پروازوں کے کرایوں میں حالیہ عرصے کے دوران بڑا اضافہ ہوا ہے جس سے موسم گرما کی تعطیلات اور سیاحت کے سیزن کے اواخر میں مسافروں کے لیے مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ ", "title": "پاکستان میں مقامی پروازوں کے کرایوں میں اضافے کی وجہ طلب اور رسد میں فرق یا مہنگا پیٹرول؟", "firstPublished": "2023-08-04T13:29:06.973Z", "id": "cw81x848dj0o", "article": "پاکستان میں مقامی پروازوں کے کرایوں میں حالیہ عرصے کے دوران بڑا اضافہ ہوا ہے جس سے موسم گرما کی تعطیلات اور سیاحت کے سیزن کے اواخر میں مسافروں کے لیے مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر میں اضافہ شامل ہیں۔ اگرچہ مقامی پروازوں کے کرائے کئی گنا بڑھے ہیں مگر یہ اضافہ طلب اور رسد میں فرق سے بھی جڑا ہے۔ پی آئی اے کی ویب سائٹ کے مطابق 14 اگست کو دبئی سے سکردو پہلی براہ راست پرواز کی اکانومی ٹکٹ قریب 45 ہزار روپے میں دستیاب ہے اور یہ قیمت بعض مقامی پروازوں کے نرخ سے کم بنتی ہے۔ ارشاد غنی ماضی میں قومی ایئر لائن پی آئی اے کے شعبہ مارکیٹنگ کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی پروازوں کی ٹکٹیں مہنگی ہونے کا تعلق ڈالر اور پیٹرول کی قیمتوں سے ہے جو ایئر لائنز کے کنٹرول میں نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جولائی کے وسط میں اسلام آباد سے کراچی کا کرایہ ڈالر کی قدر میں کمی کے باعث 20 ہزار کے قریب آ گیا تھا۔ مگر اب اس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہر دن کے حساب سے مقامی پروازوں کے کرایوں میں چھ، آٹھ ہزار کا فرق تو آتا ہی ہے۔ مگر اس مرتبہ صورتحال مختلف ہے۔ تو اس کی وجہ کیا ہے؟ عامر کے مطابق اس بار پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ مقامی پروازوں کے کرائے بھی بڑھ گئے ہیں۔ مگر ان کی رائے میں مقامی پروازوں کے کرایوں کا انحصار طلب پر ہوتا ہے۔ یعنی عید، بچوں کی چھٹیوں یا سیاحوں کے سیزن میں کرائے عموماً زیادہ رہتے ہیں اور اس میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر بہت کم ہوگئی ہے جس سے طیاروں کے آپریشنل اخراجات بڑھے ہیں اور ملک میں سیاسی و معاشی عدم استحکام کے باعث رسک فیکٹر بڑھ گیا ہے۔ ان کے مطابق بظاہر یہ کاروباری سے زیادہ سیاسی فیصلہ معلوم ہوتا ہے جس سے ملک میں بین الاقوامی فضائی اڈوں کی تعداد تو بڑھ جائے گی مگر طویل مدت میں شاید اس پر زیادہ لوگ سفر نہ کر سکیں۔ ارشاد غنی کے مطابق یہ بات درست نہیں کہ مقامی پروازوں کے لیے صرف چھوٹے جہاز چلائے جانے سے کرائے بڑھ رہے ہیں کیونکہ عموماً دنیا بھر میں یہی جہاز ڈومیسٹک فلائٹس کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر بڑے جہازوں کو مقامی پروازوں کے لیے چلایا جائے تو اس سے مینٹیننس کے مسائل پیدا ہوتے ہیں کیونکہ یہ طویل سفر کے لیے بنے ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پی آئی اے کی مجبوری رہی ہے کہ اس کی جانب سے ڈومیسٹک روٹ کے لیے بڑے طیارے استعمال کیے جاتے تھے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c14zvjn4rq9o", "summary": "یزیدی مذہب کا سب سے مقدس مقام ’لالش‘ شمالی عراق میں خودمختار علاقے کردستان کے دارالحکومت اربیل سے 125 کلو میٹر شمال مشرق کی جانب واقع ہے۔ پوری دنیا میں اس مذہب کے قریب سات لاکھ ماننے والے ہیں۔ \n", "title": "7000 برس قدیم یزیدی مذہب کے مقدس ترین مقام کا سفر", "firstPublished": "2023-08-04T09:24:04.648Z", "id": "c14zvjn4rq9o", "article": "یزیدی مذہب کا سب سے مقدس مقام ’لالش‘ شمالی عراق میں خودمختار علاقے کردستان کے دارالحکومت اربیل سے 125 کلومیٹر شمال مشرق کی جانب واقع ہے۔ پوری دنیا میں اس مذہب کے قریب سات لاکھ ماننے والے ہیں۔ یزیدیت کی شروعات کہاں سے ہوئی، یہ معاملہ متنازع ہے۔ تاہم خیال ہے کہ یہ مذہب سات ہزار سے زیادہ برس پرانا ہے۔ وقت کے ساتھ اس میں زرتشتی، صوفی تصوف، عیسائیت اور یہودیت کے مختلف عناصر شامل کیے گئے ہیں۔ جیسے مسلمان مکہ کی زیارت کرتے ہیں ویسے ہی یزیدی زندگی میں کم از کم ایک بار لالش کا دورہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عراق یا کردستان میں رہنے والے سال میں کم از کم ایک بار یہاں کی زیارت کرتے ہیں۔ یزیدی روایت کے مطابق عمارت کے ستونوں اور درختوں پر ریشم کے کپڑے کی گرہ باندھی جاتی ہے۔ مختلف رنگ سات فرشتوں کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ ہر گرہ عبادات کو نمایاں کرتی ہے۔ یزیدیوں کا ماننا ہے کہ پچھلے عقیدت مندوں کی گرہ کھولنے کا مطلب ہو گا کہ اس کی تمام خواہشات پوری ہوئیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ہر یزیدی کے پاس لالش کی مٹی ہونی چاہیے جو وہ خوش قسمتی کی علامت کے طور پر اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ یہ مٹی یزیدیوں کی آخری رسومات کا بھی حصہ ہیں۔ مٹی اور مقدس پانی کا مرکب بنا کر اسے مرنے والے شخص کے منھ، کانوں اور آنکھیں کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ تابوت میں سکے بھی رکھے جاتے ہیں تاکہ مرنے کے بعد ایک شخص کے پاس جنت میں خرچ کرنے کے لیے پیسے ہوں، جو کہ بابل دور کی قدیم روایت بھی ہے۔ اس مذہب میں روشنی کا بھی اہم کردار ہے۔ مرنے پر بھی یزیدیوں کو سورج کی جانب رُخ کے ساتھ دفن کیا جاتا ہے۔ محمود بتاتے ہیں کہ یزیدی مرد جو ’جمادانی‘ نامی پگڑی پہنتے ہیں وہ سفید رنگ کی ہوا کرتی تھی مگر جب لالش میں یہ سرخ اور سفید رنگ کی ہے جو یزیدیوں کے قتل عام کی علامت ہے۔ ’روایتی لباس سے ہم ان کا احترام کرتے ہیں جنھیں ہم نے کھو دیا۔ یہ ہماری روایات کو قائم رکھنے کا بھی طریقہ ہے۔‘ یزیدیوں کے لیے جمعے کا دن مقدس ہے۔ اس روز لالش میں لوگ وسیع پیمانے پر جمع ہو کر عبادت کرتے ہیں اور سماجی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ لقمان کی بیوی عدی محمود نے کہا کہ وہ کھانا انھیں ایک ساتھ جمع کرتا ہے۔ انھوں نے مجھے ہی دوپہر کے کھانے کی دعوت پر مدعو کیا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pv3pxp586o", "summary": "صوبہ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کی سرحد پر 13,691 فٹ کی بلندی پر واقع بابو سر ٹاپ پر ایک حادثے میں پنجاب کے شہر ساہیوال سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے سات افراد کی ہلاکت ہوئی ہے۔ ", "title": "’حادثہ واپسی کے روز ہوا‘ بابو سر ٹاپ کے قریب وین کھائی میں گرنے سے ایک خاندان کے سات افراد ہلاک", "firstPublished": "2023-07-30T13:02:02.987Z", "id": "c6pv3pxp586o", "article": "’حادثے والے روز میری (اپنے بھانجے) سرفراز سے بات ہوئی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ لوگ بابو سر ٹاپ سے آج واپس آ رہے ہیں۔‘ صوبہ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کی سرحد پر 13,691 فٹ کی بلندی پر واقع بابو سر ٹاپ کے قریب جمعے کو ایک حادثے میں پنجاب کے شہر ساہیوال سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے سات افراد کی ہلاکت ہوئی ہے۔ ضلع مانسہرہ کے تھانہ کاغان کے ایک پولیس اہلکار کے مطابق ابتدائی تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ وین میں سوار ایک شخص نے نیچے اتر کر ٹائر کے نیچے پتھر رکھا تھا تاہم اسی دوران گاڑی ریورس ہوتے ہوئے سینکڑوں فٹ گہری کھائی میں جا گری۔ اس کے باعث وین میں سوار سات افراد ہلاک جبکہ آٹھ زخمی ہوگئے۔ اس حادثے میں محمد عمیر اپنے خاندان کے پیاروں سے محروم ہوگئے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ تینوں بھائی ساہیوال میں کیبل نیٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ ساہیوال کے مقامی صحافی حاجی وقار یعقوب کہتے ہیں کہ ہلاک ہونے والے سات لوگوں کی تدفین کردی گئی ہے جس میں علاقے کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان کے مطابق متاثرہ خاندان کے پاس تعزیت کے لیے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ ایک ہی خاندان کے سات افراد کی ہلاکت کے واقعے نے سب کو غمگین کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہاڑی علاقوں اور شمالی علاقہ جات میں حادثات کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ ’دوسرے علاقوں سے آنے والے ڈرائیورز کو پہاڑی علاقوں اور شمالی علاقہ جات کی سڑکوں کا شعور نہیں ہوتا۔ پنجاب چونکہ میدانی علاقہ ہے، اس لیے وہاں گاڑی چلانا بالکل مختلف ہے۔‘ ان کے مطابق دوسری وجہ گاڑی کا ٹھیک نہ ہونا ہے۔ ’گاڑی میں نظر انداز کی گئی خامی ہی مصیبت کا سبب بنتی ہے۔‘ قمر حیات کے مطابق تیسری بڑی وجہ لینڈ سلائیڈنگ ہے۔ ’بارشوں کے موسم میں سیاحوں اور مسافروں کو پہاڑی اور شمالی علاقہ جات کا رُخ نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ اگر لینڈ سلائیڈنگ سے حادثہ نہ بھی ہو تو سڑک کے متاثر ہونے سے ٹریفک جام کا خدشہ ہوتا ہے۔‘ قمر حیات مزید کہتے ہیں کہ پہاڑی علاقوں میں، خاص طور پر بارشوں کے موسم کے دوران، بڑی احتیاط سے گاڑی چلانی چاہیے اور اگر کوئی ان حالات میں گاڑی چلانے کے قابل نہ ہو تو کسی مقامی یا ماہر ڈرائیور کی مدد لینی چاہیے۔ گذشتہ 10 سال سے شمالی علاقہ جات میں کار چلانے والے ایک ڈرائیور رئیس احمد کہتے ہیں کہ لینڈ سلائیڈنگ کی صورت میں سفر نہ کرنا بہتر فیصلہ ہوتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72l91zw9ryo", "summary": "چین میں تائیوان کے تاجر کو پولیس افسران کی تصاویر لینے اور کیمرے لے جانے کی پاداش میں 14 سو دن چین میں گزارنے پڑے۔ اس مشکل وقت کے بارے میں تائیوان کے تاجر کیا کہتے ہیں؟", "title": "لی مینگ-چو: تائیوان کے ’جاسوس‘ تاجر جنھیں تصاویر لینے کے الزام میں 1400 دنوں تک زیر حراست رکھا گیا", "firstPublished": "2023-07-29T14:32:14.923Z", "id": "c72l91zw9ryo", "article": "پیر کو بیجنگ ایئرپورٹ سے واپس تائیوان لوٹنے کے لیے تیار تاجر لی مینگ-چو کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ چین کی فضائی حدود سے باہر جانے والی یہ پرواز تائیوان کے تاجر کے بُرے دنوں کے خاتمے کا سبب بنی جنھیں 14 سو دنوں سے چین میں حراست میں رکھا گیا۔ لی کو سنہ 2019 میں اس وقت گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا جب انھوں نے شینزن میں پولیس افسران کی تصاویر لی تھیں۔ ان پر جاسوسی اور ریاست کے راز چرانے جیسے الزامات عائد کیے گئے مگر انھوں نے اس فرد جرم کی صحت سے انکار کیا ہے۔ جب انھوں نے چین کا دورہ کیا تو اس وقت کشیدگی بہت زیادہ عروج پر تھی کیونکہ ہانگ کانگ سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر جمہوریت نواز مظاہروں کی لپیٹ میں تھا، جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھنے میں آئے۔ تقریباً ہر ہفتے کے آخر میں شہر میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان بڑھتی ہوئی پرتشدد جھڑپیں دیکھنے میں آئیں۔ اس وقت سینکڑوں مسلح پولیس افسران جمع تھے اور بکتر بند گاڑیاں شینزین کے ایک سٹیڈیم میں نمائش کے لیے موجود تھیں۔ بہت سے لوگوں کو خدشہ تھا کہ بیجنگ ہانگ کانگ میں مظاہروں کو روکنے کے لیے ان فورسز کو بھیجے گا۔ انھوں نے اپنے ہوٹل کے کمرے کی کھڑکی سے اس سارے منظر کو دیکھا تو وہ سٹیڈیم چلے گئے اور کچھ تصاویر کھینچیں۔ انھوں نے کہا کہ وہاں تصاویر لینے سے متعلق کوئی انتباہ نہیں تھا اور وہ پولیس قافلے کے درمیان سے نہیں گزرے۔ چین کے سرکاری میڈیا نے اس کیس کی بہت کوریج کی، جس میں الزام لگایا گیا کہ تائیوانی تاجر نے شینزین سٹیڈیم کی تصاویر تائیوان کے گروپوں کو بھیجنے کے لیے حاصل کی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ قومی سلامتی کے جرائم میں چین میں گرفتار تائیوان سے جڑے افراد کی تعداد کا پتہ لگانا مشکل ہے۔ تاہم یہ فرض کرنا ’معقول‘ ہے کہ بیجنگ اور تائیپی کے درمیان بگڑتے تعلقات کے درمیان یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔ لی مینگ چو کے معاملے میں انھوں نے کہا کہ رہائی کے بعد پہلے ہفتوں میں چینی پولیس نے ان سے کئی بار رابطہ کیا۔ جب وہ شنگھائی میں فلائٹ میں سوار ہو کر چین سے باہر جانے کی کوشش کی تو انھیں امیگریشن افسران نے روک دیا۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے محسوس کیا کہ وہ پولیس کی زیادہ سخت نگرانی میں ہیں۔ اب چونکہ وہ ملک چھوڑ کر بھی کہیں نہیں جا سکتے تھے تو اس لیے سفر کے شوقین تائیوان کے اس تاجر نے چین کے 100 شہروں کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں اپنی جمع پونجی اور اپنے خاندان کے فنڈز کو استعمال کیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crgjm3ernxvo", "summary": "اس انڈیکس کے تحت اعداد و شمار کے ذریعے دیکھا جاتا ہے کہ کوئی بھی شہر رہائش کے لیے کتنا موزوں ہے تاہم حقیقت میں اس شہر میں رہنے والے ہی یہ بتا سکتے ہیں کہ ان کے تجربات کیسے ہیں۔ ", "title": "رہائش کے لیے دنیا کے پانچ بہترین شہر کون سے ہیں؟", "firstPublished": "2023-07-28T05:00:54.579Z", "id": "crgjm3ernxvo", "article": "اس انڈیکس کے تحت اعداد و شمار کے ذریعے دیکھا جاتا ہے کہ کوئی بھی شہر رہائش کے لیے کتنا موزوں ہے تاہم حقیقت میں اس شہر میں رہنے والے ہی یہ بتا سکتے ہیں کہ ان کے تجربات کیسے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ویانا میں کافی متاثرکن تاریخی عمارات ہیں جیسا کہ شونبرن محل، ہوفبرگ اور ویانا سٹی ہال۔ یہ شہر اپنی موسیقی کی روایات کی وجہ سے بھی مشہور ہے کیونکہ موزارٹ، بیٹہوون اور سٹراس یہاں رہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ میلبورن کے لوگ سڈنی سے زیادہ اچھے ہیں۔ جین موریل بھی رہائشیوں کے مثبت رویے کو ایک نکتہ بتاتی ہیں جس کی وجہ سے شہر کا سکور اچھا رہتا ہے۔ تاہم ان میں وینکوور سب سے اوپر پانچویں نمبر پر ہے جس کی وجہ اس کا ثقافت اور ماحولیات میں سکور ہے۔ یہاں کے باسی بھی اسی وجہ سے وینکوور سے محبت کرتے ہیں۔ ٹونی ایک چھوٹے بچے کے باپ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی لیے وہ شہر کے لاتعداد پارک اور ساحلوں کے معترف ہیں جو شہر کے مرکز سے 20 منٹ سے کم فاصلے پر موجود ہیں۔ ’یہ ایسی چیز ہے جو میں اپنے بچے کی ساری زندگی تک رسائی میں رکھنا چاہوں گا۔‘ ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں مہنگائی کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں، یہ ایک ایسا شہر ہے جو کافی سستا ہے اور یہاں کے باسی بھی اس خوبی سے خوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اوساکا میں کرایہ جاپان یا دنیا کے دیگر بڑے شہروں کی طرح بہت زیادہ نہیں۔ میرا کرایہ تقریبا 410 یورو یا 700 کینیڈین ڈالر فی ماہ بنتا ہے جس میں پانی، انٹرنیٹ اور باقی سہولیات شامل ہیں۔ اگرچہ یہ ایک چھوٹا اپارٹمنٹ ہے لیکن یہ نیا اور صاف ستھرا ہے۔ اگر آپ وینکوور میں ایسی جگہ لیں تو اس کا کرایہ کینیڈین ڈالر میں 1200 سے کم نہیں ہو گا۔‘ یہ شہر باقی شہروں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ بھِی تصور کیا جاتا ہے۔ شرلی زینگ کا کہنا ہے کہ ’میں رات میں بھی پیدل چلتے ہوئے خود کو محفوظ تصور کرتی ہوں۔‘ ان کو کبھی اپنا پرس چوری ہونے کی فکر نہیں ہوئی۔ تاہم تعلیم کے ساتھ ساتھ اس شہر نے ثقافت اور ماحولیات میں بھی کافی اچھا سکور حاصل کیا ہے۔ ان اعداد و شمار پر یہاں کے رہائشی بھی اعتماد کرتے نظر آئے۔ نیوزی لینڈ کافہ متنوع ملک ہے اور اسی لیے یہاں دنیا بھر کے پکوان بھی دستیاب ہوتے ہیں۔ لارنس کا کہنا ہے کہ ان تمام چیزوں کے باوجود یہاں کی سب سے اچھی بات لوگوں کا دوستانہ رویہ ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cnk2wk4q2xno", "summary": "ہالینڈ کے جزیرے ایملینڈ کے ساحل کے قریب تین ہزار کاروں کو لے جانے والے مال بردار جہاز میں آگ لگنے سے ایک شخص ہلاک اور عملے کے 22 دیگر افراد زخمی ہو گئے ہیں۔\n", "title": "تین ہزار کاریں لے جانے والے بحری کارگو جہاز میں آتشزدگی، عملہ سمندرمیں کود گیا", "firstPublished": "2023-07-27T01:16:40.566Z", "id": "cnk2wk4q2xno", "article": "ہالینڈ کے جزیرے ایملینڈ کے ساحل کے قریب تین ہزار کاروں کو لے جانے والے مال بردار جہاز میں آگ لگنے سے ایک شخص ہلاک اور عملے کے 22 دیگر افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ عملے کے کچھ افراد نے آگ سے بچنے کے لیے سمندر میں 100 فٹ کی اونچائی سے چھلانگ لگائی۔ بحیرہ شمالی میں ایک بڑا ریسکیو آپریشن تیزی سے جاری ہے اور ریسکیو ٹیموں کو خدشہ ہے کہ آگ کئی دنوں تک جل سکتی ہے۔ عملے کے ارکان نے ابتدائی طور پر آگ کو خود بجھانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے اور بالآخر فرار ہونے پر مجبور ہوگئے۔ ایملینڈ لائف بوٹ کے کپتان ولارڈ مولنار نے بتایا کہ ان میں سے سات افراد نے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ انھوں نے سرکاری نشریاتی ادارے این او ایس کو بتایا کہ ’ایک ایک کر کے وہ چھلانگ لگاتے رہے اور ہمیں انھیں پانی سے نکالنا پڑا۔‘ کوسٹ گارڈ کی جانب سے شیئر کی جانے والی تصاویر میں پاناما کے جھنڈے والی فریمینٹل ہائی وے دھوئیں میں ڈوبی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اور شمالی بحیرہ شمالی کے ایک علاقے میں آگ کے شعلے ڈیکپر پھیل رہے ہیں۔ کوسٹ گارڈ نے ڈچ خبر رساں ادارے اے این پی کو بتایا کہ آگ کئی دنوں تک جاری رہ سکتی ہے۔ جہاز کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اس کے اطراف میں پانی ڈالا جا رہا تھا لیکن ریسکیو کشتیوں نے ڈوبنے کے خطرے کی وجہ سے جہاز پر بہت زیادہ پانی ڈالنے سے گریز کیا۔ یہ مال بردار جہاز منگل کے روز مقامی وقت کے مطابق 15 بجے شمالی جرمنی میں بریمرہیون کی بندرگاہ سے مصر کے شہر پورٹ سعید کے لیے روانہ ہوا تھا۔ کارگو جہاز کو جرمنی سے آنے اور جانے والے بڑے شپنگ راستوں سے نکالنے کے لیے ایک ٹگ بوٹ کا استعمال کیا گیا تھا۔ جائے وقوعہ پر موجود ہنگامی عملے کے لیے فوری چیلنج آگ بجھانا اور مال بردار جہاز کو زندہ رکھنا ہے۔ ریسکیو کشتیاں تمام ممکنہ حالات کی تیاری کے لیے جہاز کے گرد چکر لگا رہی ہیں اور لیک ہونے کی صورت میں ت=ایندھن کی ریکوری کے لیے ایک جہاز کو جائے وقوعہ پر بھیج دیا گیا ہے۔ چار سال قبل 270 شپنگ کنٹینرز جن میں سے کچھ کیمیکلز پر مشتمل تھے، ایک طوفان میں پاناما میں رجسٹرڈ ایک اور کارگو جہاز سے گر گئے تھے اور کچھ کنٹینرز ڈچ ساحلوں پر بہہ گئے تھے۔ گذشتہ برس 4 ہزار لگژری کاروں کو لے جانے والے ایک مال بردار جہاز میں آگ لگ گئی تھی اور وہ ازورس کے قریب ڈوب گیا تھا۔ فیلیسٹی ایس پر کاروں میں موجود لیتھیم آئن بیٹریوں میں آگ لگ گئی۔ اگرچہ آگ بجھانے میں پانی غیر موثر تھا، لیکن فائر فائٹرز نے آخر کار جہاز کے ڈوبنے سے پہلے ہی اس آگ پر قابو پا لیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxep0n54vd9o", "summary": "18ویں صدی تک انٹیگوا، جو اُس وقت ’سینٹیاگو‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، گوئٹے مالا کا دارالحکومت اور ہسپانوی سلطنت کے عظیم ترین شہروں میں سے ایک تھا۔ لیکن یہ شہر چار آتش فشاں کے آس پاس ایک فعال ’ٹیکٹونک زون‘ پلیٹوں پر واقع ہے، جنھیں بالترتیب اگوا، فیوگو، ایکاٹینانگو اور پیکایا کے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ ", "title": "انٹیگوا: آتش فشاں تلے آباد پررونق شہر جو تباہی کے بعد سیاحوں کا مرکز بنا", "firstPublished": "2023-07-22T07:31:43.425Z", "id": "cxep0n54vd9o", "article": "ویسٹ انڈیز کے جزیرے گوئٹے مالا کا انٹیگوا شہر تاریخی اہمیت کا حامل ہے، جو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست کا حصہ بھی ہے۔ اس شہر کو ملک میں ’کراؤن‘ جیسی حیثیت حاصل ہے۔ آج یہ فن تعمیر ملک میں سب سے زیادہ تصاویر لیے جانے والی یادگار اور گوئٹے مالا کی ایک علامت بن چکا ہے۔ انٹیگوا کا سینٹرل پارک، شہر کے دھڑکتے دل کی مانند ہے۔ چاروں اطراف سے خوبصورت تعمیرات اور 18ویں صدی کی عمارتوں سے گھرا ہوا ہے، یہ ایک زندہ دلان کا ’سکوائر‘ ہے جہاں مقامی لوگ دوستوں سے ملنے اور آرام کرنے آتے ہیں۔ یہاں آپ کو گوئٹے مالا کی ثقافتوں کے حسین امتزاج کا واضح احساس ملتا ہے۔ یہاں روایتی لباس میں دیسی مایا تہذیب کی روایتی خواتین، یورپی نسل کے لباس پہنے گوئٹے مالا اور دنیا بھر سے آنے والی خواتین کے ساتھ بیٹھی نظر آتی ہیں۔ 18ویں صدی تک انٹیگوا، جو اُس وقت ’سینٹیاگو‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، گوئٹے مالا کا دارالحکومت اور ہسپانوی سلطنت کے عظیم ترین شہروں میں سے ایک تھا۔ لیکن یہ شہر چار آتش فشاں کے آس پاس ایک فعال ’ٹیکٹونک زون‘ پلیٹوں پر واقع ہے، جنھیں بالترتیب اگوا، فیوگو، ایکاٹینانگو اور پیکایا کے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ سنہ 1773 میں یہ شہر زلزلوں کے ایک بڑے سلسلے سے تباہ ہو گیا تھا، جس کے بعد حکومت نے دارالحکومت کو اس کے موجودہ مقام پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا اور شہر لا اینٹیگوا گوئٹے مالا یعنی پرانا گوئٹے مالا کے نام سے مشہور ہو گیا۔ ستاروں کی توجہ کا مرکز 3,768 میٹر اونچا ’وولکن دی فیوگو‘ (آگ سے بھرا آتش فشاں) ہے، جو دنیا کے سب سے زیادہ فعال آتش فشاں میں سے ایک ہے۔ وہ سیاح جو زمین کی نہ روکی جا سکنے والی طاقت کا پہلے ہاتھ سے مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں وہ ’وولکن ایکٹینانگو‘ کا رخ کر سکتے ہیں اور اس پر ’ہائیکنگ‘ کر سکتے ہیں۔ یہ فیوگو کے بالکل قریب ہی واقع ہے۔ ایسی ہی تباہی کےمناظر کے لیے سیاحوں کی توجہ کا ایک مرکز ’پیکایا‘ آتش فشاں ہے، جو اینٹیگوا سے تقریباً 50 کلومیٹر دور واقع ہے۔ سنہ 2021 تک یہ بھی کثرت سے پھٹتا تھا اور اس لاوا ڈھلوانوں سے نیچے گرتا تھا۔ مگر اب یہ مزید پھٹنا بند ہو گیا ہے۔ اور روبی سانتاماریا جیسی گائیڈز آنے والوں کو تازہ سوکھے ہوئے لاوے کے میدان میں لے جاتی ہیں، جہاں وہ انھیں یہ دکھاتی ہیں کہ آتش فشاں کی گرمی کا استعمال کرتے ہوئے مارشمیلو کو کیسے ٹوسٹ کیا جا سکتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c721wxjlxp1o", "summary": "آذربائیجان کو تیل اور قدرتی گیس کے وسیع وسائل کے لیے ’سرزمین آتش‘ کہا جاتا ہے۔ جب معروف سیاح مارکو پولو نے 13ویں صدی میں مشرقی قفقاز کا دورہ کیا تو انھوں نے اپنی یادداشتوں میں اس خطے کے قدرتی ’تیل کے چشموں‘ کے نغمے گائے ہیں۔ ", "title": "آذربائیجان: ’آگ کی سرزمین‘ کہلایا جانے والا ملک جہاں آج بھی قدیم آتش گاہیں جل رہی ہیں", "firstPublished": "2023-07-21T15:07:32.018Z", "id": "c721wxjlxp1o", "article": "اس کی چوٹیاں بادلوں میں گھسی نظر آتی ہیں اور بظاہر ایک ناقابل تسخیر دیوار بناتی ہیں۔ خطے کی ناہموار زمین اور غیر متوقع آب و ہوا نے تاریخی طور پر انسانوں کو یہاں سے دور ہی رکھا ہے۔ اس کے باوجود مسلسل جلتے ہوئے شعلوں والا آتش کدہ ہمارے وہاں پہنچنے سے صدیوں پہلے سے پوجا جاتا رہا ہے۔ آذربائیجان کو تیل اور قدرتی گیس کے وسیع وسائل کے لیے ’سرزمین آتش‘ کہا جاتا ہے۔ جب معروف سیاح مارکو پولو نے 13ویں صدی میں مشرقی قفقاز کا دورہ کیا تو انھوں نے اپنی یادداشتوں میں اس خطے کے قدرتی ’تیل کے چشموں‘ کے نغمے گائے ہیں۔ زرتشتیوں کے لیے سردیوں کے بعد فطرت کا احیا خود کی تجدید کا موقع فراہم کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے آگ ایک مفید ذریعہ ہے۔ آذربائیجان کے چاروں طرف، شہروں اور دیہاتوں میں الاؤ جلائے جاتے ہیں اور جو لوگ اپنی بدقسمتی کو پیچھے چھوڑ کر نئے سال کا آغاز کرتے ہیں وہ اس کے اوپر سے چھلانگ لگاتے ہیں۔ جب فرانسیسی ناول نگار الیگزینڈر ڈیوما نے 1858 میں باکو کا دورہ کیا تو انھوں نے کہا تھا کہ ’پوری دنیا باکو کے آتش گاہ سے واقف ہے۔ میرے ہم وطن جو آتش پرستوں (زرتشتیوں کے درمیان ایک توہین آمیز اصطلاح) کو دیکھنا چاہتے ہیں، انھیں جلدی کرنا چاہیے کیونکہ وہاں پہلے ہی بہت کم بچے ہیں۔‘ اس عمارت کی چار محرابیں ایک قربان گاہ کے لیے کھلتی ہیں اور ان سب کے اوپر گنبد ہے جو کہ 17ویں صدی کا ہے۔ یہ اس وقت تعمیر کیا گیا برصغیر پاک و ہند کے تاجر شاہراہ ریشم کے راستے آذربائیجان پہنچے اور اپنے سفر کے دوران یہاں رکے۔ آذربائیجان نے سوویت روس کے زوال کے بعد 1991 میں آزادی حاصل کی اور اس کے بعد سے اس ملک نے اپنی شناخت دوبارہ حاصل کرنے اور اپنی پیچیدہ زرتشتی جڑوں کو تسلیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ عظیموف نے کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ اذری لوگ اب بھی سوویت روایات کے اثرات کا سامنا کر رہے ہیں اور زرتشت کے خلاف اسلام کی تاریخی دشمنی اب بھی مقامی آبادی کی یاد میں زندہ ہے۔ دوسری جگہوں پر قدیم زرتشتیوں کی مقدس آگ نے ایک نیا سیکولر معنی حاصل کیا ہے، جس سے غیر مذہبی طرز زندگی اور آذربائیجان کے رسم و رواج پر اثر پڑا ہے اور اس کا بڑا اظہار نوروز کے دوران دیکھا جاتا ہے۔‘ بیس کیمپ پر واپس آئے تو دیکھا کہ تیز بارش اور ہوا کے باوجود آتش گاہ کے اندر آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ جب ہم روانہ ہوئے تو میں نے وہاں کھڑے تنہا مندر اور اس کے ہمیشہ جلتے ہوئے شعلے کو پیچھے مڑ کر دیکھا اور سوچا کہ لوگوں، براعظموں اور عقائد کے سنگم پر موجود یہ سرزمین ہمیشہ کی طرح کثیر الثقافتی ماضی کی ایک کھڑکی کے طور پر کام کر سکتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cqlz3j78029o", "summary": "دنیا بھر میں محض 33 ممالک ایسے ہیں جہاں پاکستانی پاسپورٹ کے حامل افراد ’ویزا آن آرائیول‘ یعنی اس ملک کے ائیرپورٹ پر پہنچ کر ویزا حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ 33 ممالک کون سے ہیں اور وہاں پہنچ کر ویزا حاصل کرنے کے لیے آپ کو کن شرائط پر پورا اترنا لازم ہے۔", "title": "پاکستانی پاسپورٹ بدستور نچلے درجے پر مگر وہ 33 ممالک جہاں پاکستانی پہنچ کر ویزہ لے سکتے ہیں", "firstPublished": "2023-01-12T13:28:14.295Z", "id": "cqlz3j78029o", "article": "دنیا بھر کے ممالک میں رہائش اور شہریت کے حوالے سے سروسز فراہم کرنے والی لندن کی معروف فرم ہینلے گلوبل نے دنیا بھر کے پاسپورٹس پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستانی پاسپورٹ 101ویں نمبر پر ہے اور دنیا کا چوتھا ’بدترین‘ پاسپورٹ قرار دیا گیا ہے۔ بدترین پاسپورٹ کی رینکنگ میں پاکستان سے نیچے صرف تین ممالک ہیں جن میں شام، عراق اور افغانستان شامل ہیں۔ اور دنیا بھر میں محض 33 ممالک ایسے ہیں جہاں پاکستانی پاسپورٹ کے حامل افراد ’ویزا آن آرائیول‘ یعنی اس ملک کے ائیرپورٹ پر پہنچ کر ویزا حاصل کر سکتے ہیں (بشرطیکہ وہ تمام ضوابط پر پورے اترتے ہوں)۔ ہمسائیہ ملک انڈیا اس فہرست میں 81ویں نمبر پر ہے اور انڈین پاسپورٹ کے حامل افراد 57 ممالک میں بغیر پیشگی ویزا کے سفر کر سکتے ہیں۔ ہینلے پاسپورٹ انڈیکس 199 مختلف پاسپورٹس کی ویزا فری رسائی کا 227 سفری مقامات سے موازنہ کرتا ہے۔ اگر کسی ملک کے پاسپورٹ کے لیے کہیں بھی ویزا کی ضرورت نہیں، تو اس پاسپورٹ کو ’ایک‘ کا سکور دیا جاتا ہے۔ اور یہی فارمولا اس صورت میں بھی لاگو ہوتا ہے اگر آپ کسی پاسپورٹ پر ویزا آن آرائیول، وزیٹر پرمٹ، یا الیکٹرانک ٹریول اتھارٹی (ای ٹی اے) کے ذریعے ویزا حاصل کر سکتے ہوں۔\n ہینلے پاسپورٹ انڈیکس کے حساب سے دنیا کے سب سے بہترین پاسپورٹ ان ممالک کے ہیں: پاکستانی پاسپورٹ کے حامل افراد اوپر دی گئی فہرست میں شامل 33 ممالک میں پہنچ کر ویزا آن آرائیول حاصل کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے چند شرائط پر پورا اترنا ضروری ہے۔ مثلاً سیاحت کے لیے مالدیپ جانے کے خواہشمند پاکستانیوں کے لیے ضروری ہے کہ: اس کے علاوہ مشرقِ وسطی میں قطر بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں پاکستانی شہریت کے حامل افراد پہنچ کر ویزا حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ: اگر آپ اوپر دیے گئے 33 ممالک کی فہرست میں سے کسی بھی ملک میں جا کر ویزا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سفر کرنے سے قبل اس ملک کے سفارت خانے کی ویب سائٹ سے ضروری کاغذات اور شرائط کے متعلق معلومات ضرور حاصل کر لیجیے گا، بصورت دیگر ایسا نہ ہو کہ آپ کو ائیرپورٹ سے ہی واپس لوٹا دیا جائے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgelgzjx8jno", "summary": "کولمبیا کی لورینا بیلتران نے سنہ 2014 میں 20 برس کی عمر میں اپنی چھاتی کا سائز کم کرنے والی سرجری کرائی مگر یہ آپریشن کامیاب نہ ہو سکا۔", "title": "خاتون کی چھاتی کا خراب آپریشن کرنے والے ’جعلی‘ سرجن کو سات سال قید کی سزا", "firstPublished": "2023-10-08T06:48:55.776Z", "id": "cgelgzjx8jno", "article": "کولمبیا کی لورینا بیلتران نے سنہ 2014 میں 20 برس کی عمر میں اپنی چھاتی کا حجم کم کرنے والی سرجری کرائی مگر یہ آپریشن کامیاب نہ ہو سکا۔ لورینا کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت سمجھ گئیں تھیں کہ کچھ بہت عجیب ہو گیا ہے جب ڈاکٹر نے ان سے انتہائی بیگانے طریقے سے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ اگر چھاتی کے ’نِپل‘ گر گئے تو پھر وہ جسم کے نچلے حصے سے گوشت کاٹ کر یہاں پیوندکاری کر دیں گے۔ اس طریقے میں ایک ٹیٹو اس طرح بنایا جاتا ہے کہ یہ دوسرے نپل کی طرح دکھائی دے۔ اس وقت لورینا 28 برس کی ہیں اور اب ان کے انصاف کے حصول کی جدوجہد میں انھیں ایک خاص خبر ملی ہے: فرانسیسکو سلیز پکینی جنھوں نے ڈاکٹر بن کر ان کا آپریشن کیا تھا وہ دراصل جعلی سند کی بنیاد پر ڈاکٹر بنے تھے انھیں اب ان کے چھ ساتھیوں سمیت سات سال قید اور جرمانے کی سزا ہوئی ہے۔ ان کا کلینک بوگوٹا کے ایک خاص علاقے میں واقع تھا، جہاں لورینا اس بات کی تصدیق کرنے میں کامیاب رہیں کہ ڈاکٹر نے پلاسٹک سرجری کا ڈپلومہ کیا ہوا ہے۔ چونکہ سیلز پکینی قابل اعتماد لگ رہے تھے تو ایسے میں لورینا نے ان سے ’لپوسکشن‘ کروانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ آپریشن بظاہر ٹھیک ہو گیا جس نے انھیں اپنی چھاتیوں کے سائز کو درست کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔ سیلز پکینی نے اس وقت انھیں تجویز دی کہ وہ اپنی چھاتیوں کے حجم کو کم کرنے کے لیے مصنوعی تھیلیاں رکھ کر پیکسی کروا لیں۔ ان کی ایک دلیل یہ تھی کہ مصنوعی اعضاء کو کبھی تبدیل نہیں کرنا پڑے گا، اس لیے یہ ایک مستقل حل ہو گا۔ ان کی آزمائش دوسری سرجری کے ساتھ شروع ہوئی، لورینا کی چھاتی خراب ہو چکی تھی اور ان کے زخم بھی خراب ہو رہے تھے اور ان کا ایک نپل بھی جسم کے دوسرے حصہ سے بنایا جانا تھا۔ تقریباً اس آپریشن کے ایک سال بعد لورینا صحت یاب ہوئیں لیکن انھیں ایک بڑا جمالیاتی نقصان اٹھانا پڑا۔ سیلز پکینی نے بظاہر پلاسٹک سرجری کی ڈگری برازیل کے ریو ڈی جنیرو میں واقع ویگا دی المیدا یونیورسٹی سے لی ہے اور کولمبیا کی وزارت تعلیم نے سنہ 2014 میں اس کی توثیق کر رکھی ہے۔ وزارت نے جواب دیا اور سنہ 2016 میں نوٹیسیا یونو میڈیا نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ کم از کم ’34 ڈاکٹروں نے اس ادارے سے ڈپلومہ حاصل کرنے کا کہا تھا‘ اور جب برازیل کی یونیورسٹی سے رابطہ کیا گیا تو ڈائریکٹروں کو ’پتہ چلا کہ وہاں تو میڈیسن کا شعبہ ہی نہیں ہے اور جس کورس‘ کے کرنے کا ان ڈاکٹروں نے دعویٰ کیا ہے وہ تو ان کے نصاب میں ہی نہیں ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/clw7j1v88j2o", "summary": "منہ کی صفائی (اورل ہائیجین) میں اگر حفظان صحت کے اصولوں کو مد نظر نہ رکھا جائے تو اس سے غیر معمولی بیکٹیریل کمیونٹیز پنپنے لگتی ہیں جس سے جگر کی بیماری، گردے کی خرابی، کینسر، دل کی بیماری اور ہائی بلڈ پریشر تک ہو سکتا ہے۔ ", "title": "اگر منہ کی صفائی ٹھیک سے نہ کی جائے تو کیا کینسر اور دل کے دورے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں؟", "firstPublished": "2023-10-04T12:58:34.698Z", "id": "clw7j1v88j2o", "article": "ہمارے منھ کے اندر بیکٹیریا کی موجودگی فطری نظام کا ایسا حصہ ہے جو غذا کو ہضم کرنے میں مددگار رہتے ہیں تاہم ان صحت مند بیکٹیریا کے ساتھ اگر کچھ نقصان دہ بیکٹیریا بھی ہمارے منہ کو اپنے رہنے کا ٹھکانہ بنا لیں تو پھر صحت کے کئی مسائل کا آغاز یہیں سے شروع ہو سکتا ہے۔ منہ کی صفائی (اورل ہائیجین) میں اگر حفظان صحت کے اصولوں کو مد نظر نہ رکھا جائے تو اس سے غیر معمولی بیکٹیریل کمیونٹیز پنپنے لگتی ہیں جس سے جگر کی بیماری، گردے کی خرابی، کینسر، دل کی بیماری اور ہائی بلڈ پریشر تک ہو سکتا ہے۔ منہ کے اندر پائے جانے والے یہ جرثومے ہمارے دانتوں، مسوڑھوں، زبان، تالو اور تھوک سمیت پورے منہ میں پائے جاتے ہیں اور عام طور پر ان کا ہمارا ساتھ زندگی بھر کا ہوتا ہے تاہم اگر ان میں توازن بگڑ جائے تو صحت کے لیے نقصان دہ بیکٹیریا غالب ہو سکتے ہیں جو مسوڑھوں سے خون بہنے اور مسوڑھوں کی سوزش، دانتوں پر پلاک جمنے سمیت منہ کی بہت سی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ منہ کے اندر پی ایچ (تیزابیت یا الکلائنٹی) کا تناسب، درجہ حرارت اور آکسیجن میں تبدیلیاں بیکٹیریا کے گروپوں کی غیر معمولی نشوونما کا سبب بنتی ہیں تاہم عام طور پر وہ بے ضرر ہوتے ہیں لیکن جب کسی وجہ سے جب وہ صحت مند جرثوموں پر غالب آ جائیں تو بیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔ چونکہ مسوڑھوں کی بیماری انھیں تباہ کر کے ہڈی کو ختم کرنا شروع کر دیتی ہے تو اس سے سائٹوکائنز نامی سوزش کے مالیکیول خون میں داخل ہو کر قوت مدافعت کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ٹائپ ٹو ذیابیطس، خون کی شریانوں کا سخت ہو جانا اور موٹاپے سمیت بہت سی دیگر بیماریوں کی نشوونما کے ساتھ دائمی مگر کم درجے کی سوزش تک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انسان آنتوں میں پائے جانے والے صحت مند اور متنوع بیکٹیریا کے بنا رہ نہیں سکتا۔ اگر جرثوموں کا متوازن عمل بحال نہ ہو تو معدے کی خرابی کا سامنا ہوتا ہے۔ جرثوموں کی ان آماجگاہوں میں سے ہر ایک کا اپنا ماحول ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ اور آس پاس کے بافتوں کے ساتھ ہم آہنگی میں رہتے ہیں۔ اگر دوستی کا یہ رشتہ خراب ہو جائے تو نتیجہ کسی نہ کسی بیماری کی صورت میں نکلتا ہے۔ ورزش کی کمی اور بڑھتے تناؤ (سٹریس) کی کیفیت بھی منہ میں موجود بیکٹیریا کے توازن میں رکاوٹ کا سبب بن جاتے ہیں لہذا مناسب آرام کے ساتھ ایک متوازن غذا اور حفظان صحت کے اصولوں کے ساتھ منہ کی اچھی صفائی کی سفارش کی جاتی ہے."} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c28vw12d2v7o", "summary": "دو مختلف محاذوں پر مصری اور شامی افواج کے مشترکہ حملے نے اسرائیل کو خطرے میں مبتلا کیا۔ یوم کپور کے دن بغیر کسی تیاری کے اسے ایک بڑی جنگ کا سامنا تھا۔ یہ عبرانی کیلنڈر میں سب سے مقدس تاریخ ہے اور اس دن ملک مفلوج ہو گیا تھا۔", "title": "یوم کپور: عرب ممالک کا وہ حملہ جس نے ’ناقابلِ تسخیر‘ اسرائیل کی سالمیت کو خطرے میں ڈالا", "firstPublished": "2023-10-06T08:52:27.682Z", "id": "c28vw12d2v7o", "article": "دو مختلف محاذوں پر مصری اور شامی افواج کے مشترکہ حملے نے اسرائیل کو خطرے میں مبتلا کر دیا تھا۔ ’یوم کپور‘ جیسے مقدس روز اسرائیل کو ایک بڑی جنگ کا سامنا تھا۔ یہ عبرانی کیلنڈر میں سب سے مقدس تاریخ ہے مگر اس دن اسرائیل مفلوج ہو گیا تھا۔ سڑکوں پر کوئی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں تھی اور نہ ہی میڈیا میں نشریات چل رہی تھی۔ اکثر شہریوں نے ’یوم کپور‘ کی مناسبت سے روزہ رکھا ہوا تھا اور بعض عبادت گاہوں میں عبادت کرنے میں مصروف تھے۔ اس وقت بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ سنہ 1967 کی طرح ایک مختصر اور آسان جنگ ہو گی، جب صرف چھ دنوں میں اسرائیل نے مصر، اردن اور شام کی فوجوں کو شکست دی تھی۔ سنہ 1967 کا تنازع اسرائیل کی فوجی حکمت عملی اور یوم کپور جنگ (جسے رمضان جنگ بھی کہا جاتا ہے) پر اثر انداز ہوا تھا۔ 1967 میں فضا اور بکتر بند گاڑیوں کی وجہ سے سبقت ملنے کے بعد اسرائیل نے اپنی توجہ اسی طرف رکھی ہوئی تھی۔ سنہ 1967 کے آغاز میں اسرائیلی فوج نے یہ ’تصور‘ قائم کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ مصر کے پاس فضائی طاقت ہونے سے پہلے جنگ شروع نہیں ہو گی۔ یہ اپنی فضائی قوت قائم کرنے کے بعد ہی اسرائیل کی سرزمین کے اندر بڑا حملہ کر سکے گا جس میں ہوائی اڈے اور فضائیہ کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ کئی تجزیہ کاروں کے مطابق 1967 کی کامیابی کے بعد اسرائیل یوم کپور جنگ کی تیاری روک چکا تھا۔ اسرائیلی فوجی قیادت ’مغرور‘ ہو گئی تھی اور اس نے عرب فورسز کے خطرے کو نظر انداز کیا۔ اگرچہ اسرائیل نے جنگ شروع نہیں کی تھی لیکن زیادہ تر یورپی ممالک نے عرب ممالک کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے اسے امداد دینے سے انکار کر دیا تھا۔ جبکہ سوویت یونین کی جانب سے مصر اور شام کو ہتھیار سپلائی کرنے کے بعد امریکہ کو اس جنگ کا حصہ بننے پر مائل کیا جا سکتا تھا۔ جنگ کے ابتدائی ایام اسرائیل کے لیے خوفناک تھے۔ اس کے دفاع کو اس کی اپنی طاقت سے بہت بڑی طاقتوں نے تباہ کر دیا تھا، اس کی فضائی برتری کا مفروضہ ناکام ہوا تھا، اس کے کوئی اتحادی نہیں تھے اور اسے فوری طور پر ان کی ضرورت تھی کیونکہ اسے دو محاذوں پر جنگ کا سامنا تھا جو اس کے ہتھیاروں اور گولہ بارود کو ختم کر رہی تھی۔ نو اکتوبر تک اسرائیل دونوں محاذوں پر حملے پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا۔ مصر نے پیش قدمی کے بجائے پوزیشن کو مستحکم کرنے کا فیصلہ کیا۔ گولان میں اسرائیلی دفاعی فورسز نے شامی افواج کے خلاف مزاحمت دکھائی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp06y23nppno", "summary": "واضح رہے کہ 23 سالہ نوجوان بھگت سنگھ کو 1923 میں لاہور کی سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی تاہم ان کی شخصیت متعدد وجوہات کی بنا پر تاریخ میں زندہ رہی ہے۔", "title": "انقلابی ہیرو بھگت سنگھ کیا واقعی کسی عورت کے عشق میں گرفتار تھے؟", "firstPublished": "2023-10-04T14:27:06.018Z", "id": "cp06y23nppno", "article": "واضح رہے کہ 23 سالہ نوجوان بھگت سنگھ کو 1923 میں لاہور کی سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی تاہم ان کی شخصیت متعدد وجوہات کی بنا پر تاریخ میں زندہ رہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’سکھدیو درگا دیوی کا ذکر کر رہے تھے جس نے برطانوی پولیس افسر سانڈرز کے قتل کے بعد بھگت سنگھ کو گرفتاری سے بچانے کے لیے لاہور سے کلکتہ تک ٹرین میں ان کی بیوی بن کر سفر کیا تھا۔‘ سکھدیو کو بھی بھگت سنگھ اور راجگرو کے ساتھ 23 مارچ 1923 کو لاہور کی سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی وہ لکھتے ہیں کہ ’بھگت سنگھ پہلے درگا دیوی کو اپنے ساتھی انقلابی کی بیوی کے طور پر جانتے تھے تاہم بعد میں وہ ایک مختلف روپ میں نظر آئیں جب انھوں نے بطور محافظ بھگت سنگھ کو برطانوی پولیس کے چنگل سے بچایا اور یہ انوکھا رشتہ قربت میں بدل گیا۔‘ سکھدیو کے چھوٹے بھائی متھراداس تھاپر اپنی کتاب ’میرے بھائی شہید سکھدیو‘ میں لکھتے ہیں کہ ’انھوں نے بھگت سنگھ کے خلاف سخت زبان استعمال کی اور کہا کہ تم بزدل ہو، موت سے ڈرتے ہو۔ جس کی وجہ سے بھگت سنگھ کو برا لگا اور اس نے اپنی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کو ذاتی طور پر جا کر پارلیمنٹ میں بم پھینکنے پر راضی کیا۔‘ بھگت سنگھ کے ایک ساتھی انقلابی سکھدیو راج کی لکھی ہوئی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے (سکھدیو اور سکھدیو راج دونوں مختلف انقلابی تھے) کہتے ہیں کہ ’بھگت سنگھ نے پھانسی سے پہلے درگا بھابھی کو لکھا تھا کہ میرے مرنے کے بعد تم رونا نہیں، یہ لکھتے لکھتے میرا قلم رک جاتا ہے۔ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہ میرے اور آپ کے رشتے کو نہیں سمجھ سکتا کیونکہ آپ میرے دوست کی بیوی بھی ہیں۔‘ یشپال اپنی کتاب سنگھاولوکن کے صفحہ نمبر 180 پر لکھتے ہیں کہ ’سکھدیو نے بھگت سنگھ سے کہا تھا کہ وہ عورت سے پیار میں پارٹی کی ذمہ داری کو بھول گئے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’درگا بھگت سنگھ کو اپنا چھوٹا بھائی سمجھتی تھیں اور اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ کہانی پر توجہ دینے کے بجائے، ملک کی آزادی کے لیے ان کی قربانیوں کو سراہیں۔‘ ان کے شوہر بھگوتی چرن وہرا بم ٹیسٹ کے دوران مارے گئے تھے۔ درگا دیوی بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دت کو جیل سے رہا کرنا چاہتی تھیں۔ بھگت سنگھ کی پھانسی رکوانے کے لیے وہ گاندھی جی سے بھی ملیں۔ آزاد کی موت کے بعد انھوں نے پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ تفتیش کے بہانے انھیں تقریباً 6 ماہ تک قاتلوں کے ساتھ جیل میں رکھا گیا۔ پولیس کے پاس ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا اس لیے بعد میں انھیں رہا کر دیا گیا تاہم 3 سال تک لاہور سے باہر جانے پر پابندی عائد کر دی گئی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cj78nm2k7ndo", "summary": "وہ تمام منگولوں کی طرح ایک ماہر تیر انداز اور بہترین گھڑ سوار ہونے کے علاوہ منگولیا کی فری سٹائل کشتی، بوک کی ایک عظیم فائٹر تھیں جس میں زمین کو چھونے والا پہلا شخص ہار جاتا ہے۔ ", "title": "ختلون: منگول شہزادی جس نے رشتے کے طلبگاروں کو کشتی میں ہرانے کا چیلنج دیکر ہزاروں گھوڑے جیتے", "firstPublished": "2023-10-02T13:12:41.358Z", "id": "cj78nm2k7ndo", "article": "’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ بادشاہ کیدو کی ایک بیٹی تھی جس کا نام ’ایگیارنے‘ تھا، جس کا تاتاری زبان میں مطلب ’روشن چاند‘ ہے۔ یہ لڑکی بہت خوبصورت تھی، اور سونے پر سہاگا یہ کہ اتنی مضبوط اور بہادر بھی تھی کہ اس کے والد کی پوری سلطنت میں کوئی ایسا آدمی نہیں تھا جو طاقت کے کارناموں میں اس سے آگے نکل سکے۔‘ یہ وہ الفاظ ہیں جن میں اطالوی تاجر، مہم جو اور مصنف مارکو پولو نے اپنی کتاب ’بک آف ونڈرز‘ میں ایک ایسی شہزادی کی کہانی سنانی شروع کی جو دنیا کے سب سے طاقتور خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن ان کے نسب سے بڑھ کر، یہ ان کی غیر معمولی شخصیت تھی جس نے مارکو پولو کو موہ لیا، نہ صرف اس وجہ سے کہ وہ چند بہترین جنگجوؤں میں سے ایک تھیں بلکہ اس لیے کہ انھوں نے اس وقت تک شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا ’جب تک کہ انھیں کوئی ایسا مہربان آدمی نہ ملے جو انھیں شکست دے دے۔‘ یہ کوئی آسان بات نہیں تھی کیونکہ، تمام منگول مردوں اور عورتوں کی طرح، وہ ایک ماہر تیر انداز اور بہترین گھڑسوار ہونے کے علاوہ منگولیا کی فری سٹائل کشتی، بوک کی ایک عظیم جنگجو تھیں جس میں زمین کو چھونے والا پہلا شخص ہار جاتا ہے۔ ان کی مقبول کتاب بہت سے لوگوں کے لیے، شروع میں، ایک افسانہ تھی، جزوی طور پر اس لیے کہ اس میں منگولوں کو اس طرح بیان نہیں کیا گیا جیسا کہ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے یعنی بے رحم، خونخوار عفریت جو پوری دنیا کو کھا جانا چاہتے تھے بلکہ اس کتاب میں یہ قابل تعریف اور مہذب انسان تھے۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ کیدو کی اکلوتی بیٹی تھیں اور ایک سیاسی مشیر، عدالت میں، اور حکمت عملی کے طور پر، جنگ میں وہ ان کی پسندیدہ تھیں حالانکہ ان کے 14 بڑے بھائی تھے۔ مارکو پولو کہتے ہیں ’کبھی کبھی وہ دشمن کی فوج کی طرف بڑھتیں، وہاں ایک آدمی کو پکڑتیں، اور اسے اپنے باپ کے پاس لے جاتیں، جیسے عقاب کسی پرندے پر جھپٹتا ہے۔ ‘ زیادہ تر مؤرخین جس بات پر متفق ہیں وہ یہ ہے کہ کیدو اپنی بیٹی ختلون کو وارث بنانا چاہتے تھے لیکن نہ صرف ان کے بھائی اس بات کے مخالف تھے بلکہ وہ خود بھی اس قسم کی طاقت میں دلچسپی نہیں رکھتی تھیں، ان کی تو بادشاہی میدان جنگ میں تھی۔ 21ویں صدی میں وہ کامکس، ویڈیو گیمز اور ادب میں ایک ہیروئین کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب ’شہزادی ختلون (2017)‘ ہے جو ملٹی ایوارڈ یافتہ منگول صحافی، مصنف، فلم ساز اور کارکن شودرٹسیگ باتارسون کی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2096y3pveo", "summary": "مہاتما گاندھی کے پڑپوتے اور ان پر کئی کتابیں لکھنے والے تشار گاندھی کا ماننا ہے کہ گاندھی نے اپنی چھوٹی دھوتی کو انگریزوں کے خلاف حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا تھا۔", "title": "گاندھی نے انگریزی لباس ترک کر کے ’نیم برہنہ فقیر‘ جیسا حلیہ کیوں اپنایا؟", "firstPublished": "2023-10-02T08:12:57.581Z", "id": "cv2096y3pveo", "article": "مہاتما گاندھی کے پڑپوتے اور ان پر کئی کتابیں لکھنے والے تشار گاندھی کا ماننا ہے کہ گاندھی نے اس موقع پر اپنی چھوٹی سی دھوتی کو انگریزوں کے خلاف حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا تھا۔ گاندھی اپنے ٹرین کے سفر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’میں نے ٹرین کے ہجوم میں لوگوں کو دیکھا۔ میں اس وقت مکمل لباس میں ملبوس تھا۔ بہت سے لوگوں نے بتایا کہ ان کے لیے مکمل لباس خریدنا ناممکن ہے۔ میں نے ٹوپی، پوری دھوتی اور قمیض پہن رکھی تھی۔ پھر میں نے سوچا کہ میں لوگوں کو اس کا کیا جواب دوں، سوائے اس کے کہ میں شرافت کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے بدن کے کپڑے چھوڑ دوں اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے برابر لاؤں۔ مدورائی میں منعقدہ اجلاس کے اگلے ہی دن میں نے یہ ضابطہ اپنے اوپر لاگو کر دیا۔‘ تشار گاندھی بتاتے ہیں کہ ’آپ جنوبی افریقہ میں ستیہ گرہ ایک قسم کا دھرنا،احتجاج یا ہڑتال کے اختتام پر گاندھی میں پہلی بڑی تبدیلی دیکھ سکتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ گاندھی نے لمبا کُرتہ اور لنگی پہن رکھی ہے۔ یہ گاندھی کا ان ہندوستانی تامل شہریوں کو، جو ہڑتال کے دوران مر گئے تھے، خراج عقیدت پیش کرنے کا طریقہ تھا۔ تشار گاندھی کا کہنا ہے کہ ’جب گاندھی جی نے اپنے جسم پر مختلف قسم کے کپڑے دیکھے تو انھوں نے اپنے کپڑے بھی کم کر دیے اور وہ صرف ایک کرتہ اور دھوتی پر اُتر آئے۔‘ ارویش کوٹھاری کہتے ہیں کہ ’یہ فیصلہ عملی تھا۔ گاندھی جی نے محسوس کیا کہ سودیشی تحریک میں، وہ لوگوں کو غیر ملکی کپڑے جلانے اور کھدر کے کپڑے خریدنے کے لیے کہہ رہے تھے، لیکن انھوں نے محسوس کیا کہ بہت سے لوگوں کے پاس نئے کپڑے خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، اس لیے گاندھی جی نے کہا کہ آدھی دھوتی بھی کافی ہے۔‘ تشار گاندھی کے مطابق ’اگر آپ دیکھیں تو گاندھی جی کی تقریر یا بولنے کا انداز کچھ خاص نہیں تھا۔ لیکن گاندھی جی کی کوشش یہ تھی کہ عام لوگ ان سے بصری طور پر جڑے ہوئے محسوس کریں۔ ایسا کرنے سے لیڈروں اور عوام کے درمیان وہ فاصلہ کم ہو گیا جو کوئی اور نہیں کر سکا، کیونکہ اس سے پہلے بہت سے لیڈر کانگریسی اجلاسوں میں شاندار لباس میں آتے تھے، ان کے کپڑے ان کی ذات، رنگ اور دولت کی عکاسی کرتے تھے۔ گاندھی نے ان تمام لباسوں کو چھوڑ کر ایک نیا ماحول بنایا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g308r0v8no", "summary": "یہ ایک ایسے قدیم شہر کی کہانی ہے جہاں تاریخ عظیم میناروں اور آسمان میں بلند ہوتے صوفیا کے مزاروں میں نظر آتی ہے۔ خواجہ احمد یساوی کا نامکمل مزار اور اس میں ہاتھ سے کھودی گئی مسجد جو ’صوفی سلک روڈ‘ کے مسافروں کے لیے مقدس جگہ کے طور پر کام کرتی ہے۔", "title": "ترک دنیا کے روحانی دارالحکومت کا ’مقدس‘ مزار اور وہ مسجد جسے ’دوسرا مکہ‘ قرار دیا گیا", "firstPublished": "2023-10-02T04:24:33.466Z", "id": "c3g308r0v8no", "article": "یہ ایک ایسے قدیم شہر کی کہانی ہے جہاں تاریخ عظیم میناروں اور ریت تلے دبے کھنڈرات میں بکھری ہوئی ہے۔ یہاں آسمان میں بلند ہوتے صوفیا کے مزار ہیں اور وسیع قطع اراضی پر پھیلے رنگ برنگے بازار بھی۔ جنوبی قزاقستان کا شہر ترکستان قازق آرٹ اور انواع و اقسام کے پکوانوں کا مرکز ہے۔ خواجہ احمد یسوی مشہور شاعر، فلسفی اور صوفی تھے جنھوں نے ترک دنیا میں صوفی ازم کے فروغ اور اسے پھیلانے میں مدد کی۔ سنہ1166 میں یاسوی کی موت کے بعد ان کی آخری آرام گاہ ’صوفی سلک روڈ‘ کے مسافروں کے لیے مقدس جگہ کے طور پر کام کرتی ہے۔ یہ مقبرہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے، یہ مقبرہ 38.7 میٹر بلند ہے اور اس پر فیروزی گنبد ہے جو وسطی ایشیا کا سب سے بڑا گنبد ہے۔ اس مقبرے کو 14ویں صدی میں اس علاقے پر حکمرانی کرنے والی تیموری سلطنت کے بہترین فنِ تعمیرات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اگر خواجہ احمد یساوی کے مقبرے کی صورت میں نظر آنے والی تاریخ آپ کو مزید کچھ کھوجنے پر آمادہ کرے تو ازرت سلطان میوزیم آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔ 1,235 ایکڑ پر پھیلے ہوئے اور تحریری، تعمیراتی اور ثقافتی نوادرات کی ایک شاندار صف کو پیش کرتے اِس میوزیم کو قزاقستان کی قومی تاریخ کو مقبول بنانے میں مدد کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ خواجہ احمد یساوی کے مزار کے نیچے ’ہلویٹ‘ ہے۔ یہ درحقیقت خواجہ یساوی کے ہاتھ سے کھودی گئی نیم زیرِ زمین مسجد ہے جو تصوف کا گہوارہ کہلائی جاتی ہے۔ یہ مسجد خواجہ یساوی کا پرائیویٹ کمرہ ہے جسے سورج کی روشنی کی رُخ اور چار میٹر گہرائی میں کھودا گیا ہے اور اسے نماز کے معمولات کو برقرار رکھنے کے لیے احتیاط سے تیار کیا گیا تھا۔ کاروان سرائے ایک فائیو اسٹار ہوٹل ہے، جو ثقافتی فخر اور مہمان نوازی کا مرکز ہے اور ترکستان میں تفریح کی ایک دنیا ہے۔ یہاں آنے والوں کو چاہیے کہ وہ رات کے وقت کشتی پر سفر کے لیے یہاں ضرور رکیں جس کے ذریعے آپ قازق رومیو اور جولیٹ کی کہانی سن پائیں گے۔ خواجہ احمد یساوی کے مزار سے صرف 10 منٹ کی دوری پر یہ بازار قازق فن اور کھانوں کو روایتی انداز میں پیش کرتا ہے۔ مقامی دکاندار مہارت کے ساتھ کڑھائی والے کپڑے اور مٹی کے منقش برتن فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ منہ میں پانی بھرنے والی کھانوں کی خوشبوئیں گوشت کے لیے قزاقستان کی وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔ ترکستان ریلوے سٹیشن بذات خود ایک دلکش جگہ ہے، جو اپنی منفرد گول محرابی اور دلکش ٹکسال رنگ کی دیواروں کے لیے مشہور ہے۔ یہ 20 ویں صدی کے سوویت فن تعمیر سے متاثر ہے جسے قازق ٹائل کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ سنہ 1864 میں یہ شہر روس کے زیر قبضہ آیا تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyx1l1q2l4wo", "summary": "سائنسی تحقیقی ادارے جی این ایس سائنس کے سائنسدانوں نے زیلینڈیا کی حدود کا ایک نیا تفصیلی نقشہ بنایا ہے جسے ’ٹکٹونکس‘ میگزین میں شائع کیا گیا ہے۔ \nتحقیق کار سمندر کی تہہ سے کھودی گئی چٹانوں کے نمونوں کی بدولت اس نقشے کو کھینچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس براعظم کا مکمل سطحی رقبہ تقریبا پانچ ملین مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔", "title": "زیلینڈیا: بحر الکاہل کے پانیوں میں ڈوبا ’آٹھواں براعظم‘ جسے ڈھونڈنے میں 375 سال لگے ", "firstPublished": "2023-09-30T06:01:11.020Z", "id": "cyx1l1q2l4wo", "article": " ہالینڈ کے مہم جو ایبل تسمان نے 1642 میں ایک نئی سرزمین کو ڈھونڈا لیکن یہ سرزمین جزائر کا مجموعہ تھی جسے اب ہم نیوزی لینڈ کے نام سے جانتے ہیں تاہم جس کی تلاش میں ایبل تسمان تھے اس سے انھیں یہ بہت ہی چھوٹا لگ رہا تھا۔ اب ایک نیا مطالعے میں زیلینڈیا کا حتمی نقشہ مکمل کرنے میں کامیابی کا دعویٰ کیا گیا ہے جسے ماویوی (قدیم مقامی باشندے) شمالی علاقے کے طور پر جانتے تھے۔ سائنسی تحقیقی ادارے جی این ایس سائنس کے سائنسدانوں نے زیلینڈیا کی حدود کا ایک نیا تفصیلی نقشہ بنایا ہے جسے ’ٹکٹونکس‘ میگزین میں شائع کیا گیا ہے۔ تحقیق کار سمندر کی تہہ سے کھودی گئی چٹانوں کے نمونوں کی بدولت اس نقشے کو کھینچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ براعظم کا مکمل سطحی رقبہ بھی سامنے لے کر آئے ہیں جو تقریباً پانچ ملین مربع کلومیٹر پر محیط ہے لیکن تقریباً مکمل طور پر سمندر کی لہروں کے نیچے موجود زیلینڈیا کو ایک براعظم کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ اس کا تعلق علم ارضیات سے ہے۔ تحقیق کاروں کے ممطابق اس کی تاریخ قدیم جنوبی براعظم گونڈوانا سے جڑی ہوئی ہے جس نے لاکھوں سال پہلے تقسیم ہونے پر ان براعظموں کو تخلیق کیا جنھیں ہم آج جانتے ہیں۔ زیر آب ہونے کی وجہ سے زیلینڈیا کا بہت کم مطالعہ کیا گیا، جس نے اس کی شکل اور حدود کے بارے میں مختلف تضادات کو جنم دیا ہے۔ اب تک اس براعظم کے جنوب کا نقشہ بنایا گیا تھا۔ ماہر ارضیات نک مورٹیمر کی سربراہی میں ہونے والی اس نئی تحقیق نے براعظم کے بقیہ دو تہائی حصے کے نقشے مرتب کرنے کی اجازت دی ہے۔ چٹانوں کی بناوٹ اور مقناطیسی بے ضابطگیوں کی تشریح نے سائنسدانوں کو شمالی زیلینڈیا میں بڑے ارضیاتی اکائیوں کا نقشہ بنانے میں مدد دی تب سے ہی پہلی بار 1642 میں ایبل تسمان کے ذریعہ ان یورپی نظاروں کو ریکارڈ کیا گیا تھا۔ 1995 میں ارضیات کے ماہر امریکی بروس لوئینڈیک نے ایک بار پھر اس خطے کو مکمل براعظم قرار دیا اور اسے زیلینڈیا کہنے کا مشورہ دیا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کی موٹائی اور چٹانوں کی قسم زیلینڈیا کو ایک براعظم بناتی ہے۔ اس کے مضمرات محض سائنسی دلچسپی سے خالی نہیں۔ سمندر کے قانون سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن میں کہا گیا ہے کہ تمام ممالک اپنے قانونی علاقوں کو اپنے خصوصی اقتصادی زون سے آگے بڑھا سکتے ہیں جو ان کے ساحلی خطوں سے 200 ناٹیکل میل (370 کلومیٹر) تک پہنچتے ہیں تاکہ وہ اپنے توسیع شدہ براعظمی شیلف کا دعوی تمام معدنیات کے ساتھ کر سکیں اور دولت اور تیل اس میں شامل ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp9x4yjdd8do", "summary": "فیریز ہوم شمالی سندھ میں یتیم اور بے سہارا لڑکیوں کے لیے ایک واحد غیر سرکاری نجی ادارہ ہے جس میں چار سال سے لیکر 18 سال کی بچیاں رہائش پذیر ہیں۔ اس ادارے کو پانچ سال قبل سماجی کارکن اور وکیل فرزانہ کھوسو نے قائم کیا تھا۔", "title": "سندھ کی بے سہارا لڑکیوں کے لیے ’فیریز ہوم‘: ’لوگوں نے کہا سوال اٹھیں گےاس کام میں ہاتھ نہ ڈالو‘", "firstPublished": "2023-10-04T04:19:21.425Z", "id": "cp9x4yjdd8do", "article": "صبح ہوتی ہے تو اس گھر کی لڑکیاں تیار ہو کر ناشتہ کرتی ہیں اور پھر کلاس روم کا رخ کرتی ہیں۔ دوپہر دو بجے پڑھائی ختم ہونے کے بعد کھانا اور پھر کچھ دیر آرام کرنے کے بعد کوچنگ کلاسز۔ سورج غروب ہونے سے پہلے جوڈو کراٹے کی تربیت۔ شمالی سندھ کے مرکزی شہر سکھر کا یہ ایک منفرد گھرانہ ہے جس کا نام ’فیریز ہوم‘ یعنی پریوں کا گھر رکھا گیا ہے۔ فیریز ہوم شمالی سندھ میں یتیم اور بے سہارا لڑکیوں کے لیے ایک واحد غیر سرکاری نجی ادارہ ہے جس میں چار سال سے لیکر 18 سال کی لڑکیاں رہائش پذیر ہیں۔ اس ادارے کو پانچ سال قبل سماجی کارکن اور وکیل فرزانہ کھوسو نے قائم کیا تھا۔ فرزانہ کھوسو نے تعلیم کے ساتھ تربیت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ شمالی سندھ میں لڑکوں کے ادارے ہیں جہاں انھیں تعلیم فراہم کی جا رہی ہے لیکن لڑکیاں بھی بے سہارا ہو سکتی ہیں اور انھیں بھی بااختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی بھی یتیمی والی زندگی گزر سکتی ہے، وہ بھی غریب ہو سکتی ہیں تو ان کے لیے بھی کوئی پناہ گاہ ہونی چاہیے جو انھیں تربیت دے۔‘ فرزانہ کھوسو کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے وکلا دوستوں کو تجویز دی کہ وہ مل کر لڑکیوں کا کوئی ایسا ادارہ بنائیں لیکن جواب میں انھیں سننے کو ملا کہ ’میڈم کیا پاگل ہو جو ایسا ادارہ کھولو گی، خرچہ کون دے گا؟ ذمہ داری کون اٹھائے گا؟ لڑکیوں کے ادارے پر تو سوال اٹھیں گے۔‘ اس ادارے میں رہنے والی لڑکیاں انھیں امی کہہ کر پکارتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس پناہ گاہ کا نام انھوں نے اس لیے فیریز ہوم رکھا تاکہ بچیاں اس کو اپنا گھر سمجھیں۔ ’میرے والد نے خیراتی ہسپتال کے افتتاح کی تقریب رکھی تو خواتین کے لیے الگ بیٹھنے کا انتظام کیا گیا۔ میں نے والد کو کہہ دیا کہ اگر آؤں گی تو مردوں میں بیٹھوں گی، پردے کے پیچھے جا کر نہیں بیٹھوں گی۔ میں وہاں گئی اور مردوں میں بیٹھ کر ڈائس پر جا کر تقریر بھی کی تو اس کا مثبت نتیجہ آیا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ کھوسو صاحب کی بیٹی اچھا کام کر رہی ہے، اتنی ہمت ہے کہ مردوں میں آکر بات کر رہی ہے۔‘ فرزانہ کھوسو سماجی کارکن بھی ہیں۔ سکھر کے ملٹری روڈ پر شہر کے معزز افراد کے بنائے گئے ایک پوٹریریٹ میں وہ واحد خاتون ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ کچھ عرصہ قبل وہ قتل کیس کے ایک کلائنٹ سے بات کر رہی تھیں تو ’ایک وکیل صاحب آئے اور کلائنٹ کو ساتھ لے گئے۔ کلائنٹ نے واپس آ کر کہا کہ وکیل صاحب کہہ رہے ہیں کہ یہ لڑکیاں ہیں، یہ کیا قتل کے کیس کی پیروی کریں گی؟‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c517gw411k5o", "summary": "گذشتہ ماہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے سکرنڈ میں چار افراد کے قتل کے بعد پولیس نے اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہوئے سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چاروں افراد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ میں ہلاک ہوئے تھے۔ ", "title": "سکرنڈ میں ہلاکتوں پر سرکاری مؤقف تبدیل: ’چاروں شہری اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے‘", "firstPublished": "2023-09-28T16:55:38.943Z", "id": "c517gw411k5o", "article": "گذشتہ ماہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے سکرنڈ میں چار افراد کے قتل کے بعد پولیس نے اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہوئے سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چاروں افراد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے۔ خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے ایس ایس پی نواب شاہ کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک ملزم کی گرفتاری کے لیے کارروائی کی تھی جس کے دوران دیہاتیوں نے پولیس اور رینجرز پر حملہ کر دیا جس میں تین رینجرز اہلکار زخمی ہوئے اور پھر پولیس اور رینجرز کی جوابی فائرنگ میں تین افراد ہلاک اور پانچ شدید زخمی ہوئے۔‘ رینجرز کے ترجمان کی جانب سے بھی اس واقعے پر اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ سندھ رینجرز اور پولیس نے خفیہ ادارے کی اطلاع پر شرپسند اور جرائم پیشہ افراد کے موجودگی پر آپریشن کیا تھا۔ ترجمان نے دعویٰ کیا تھا کہ ’رینجرز اور پولیس کو دیکھتے ہی شرپسند عناصر نے حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں رینجرز کے چار جوان زخمی ہو گئے جبکہ پولیس اور رینجرز کی جوابی کارروائی میں تین حملہ آور ہلاک ہو گئے تھے۔‘ ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’ایس ایچ او مقصود رضا کو ایس ایس پی شہید بینظیر آباد نے انھیں آگاہ کیا کہ ایلفا ون رابطہ کرے گا اور جس کے بعد ایلفا ون نے انھیں کہا کہ انھیں کل پانچ پولیس موبائلیں اور پولیس نفری مدد کے لیے درکار ہے لہٰذا 28 ستمبر کو سی آئی اے سینٹر پر ایلفا ون اور ایلفا ٹو سمیت رینجرز کی تین گاڑیاں سٹاف سمیت موجود تھیں جس کی قیادت ڈی ایس آر ضیا اور انسپیکٹر آصف کر رہے تھے۔ ایف آر کے مطابق ’جب وہ اپنے ساتھیوں کی مدد سے لاٹھی چارج کر کے باہر نکلے تو ایلفا ون اور ایلفا ٹو کی گاڑیوں سے رینجرز کے ایک ایک اہلکار کو اتار لیا گیا اور جب رینجرز کے دیگر اہلکاروں نے ساتھیوں کو چھڑوانے کی کوشش کی تو اسی دوران چھت پر موجود ملزمان دو دیگر نامعلوم افراد نے فائرنگ کر دی جو ان کی اپنے ہی گلی میں موجود لوگوں کو لگی۔ خیال رہے کہ ماڑی جلبانی میں فائرنگ اور چار افراد کی ہلاکت کا مقامی لوگوں کی مدعیت میں بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ جس میں فریادی راہب علی جلبانی نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ’28 ستمبر کو وہ اور ان کا بھائی اور ان کے رشتے دار علی نواز جلبانی کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے تو تقریباً پونے تین بجے گھر کے دروازے کے باہر پانچ پولیس موبائلیں ایک سفید رنگ کی کار ایک سیاہ رنگ کی ویگو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی گاڑیاں پہنچیں جن میں 40 سے 45 اہلکار مختلف وردیوں میں ملبوس تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ck7wm81wxmno", "summary": "نگران حکومت نے بجلی چوری کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا ہے۔ وفاقی وزیر توانائی محمد علی کا کہنا ہے کہ ہر علاقے میں چوری کی مختلف سطحیں ہیں لیکن چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے سالانہ 589 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے لیکن کیا یہ آپریشن مؤثر بھی ثابت ہو رہا ہے؟", "title": "بجلی چوری کے خلاف حکومتی مہم: ’بل ادا ہے لیکن پولیس نے اس لیے پکڑ لیا کہ میٹر آہستہ چل رہا ہے‘", "firstPublished": "2023-09-28T03:31:37.458Z", "id": "ck7wm81wxmno", "article": "وزیراں مہر کا کہنا ہے کہ سیپکو نے ان کے گھر کی بجلی منقطع کر دی تھی، انھوں نے قسط کرائی اور آٹھ ہزار ادا کر کے بجلی بحال کرائی لیکن اب بھی 10 ہزار روپے بقایا ہے۔ وزیراں کے گھر میں دیوار کے ساتھ سیمنٹ کی بنی ہوئی الماری میں برتنوں کے ساتھ ادویات بھی پڑی ہوئی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا جو بیٹا رکشہ چلاتا ہے اس کو ٹی بی ہو گئی ہے اور دیگر چھوٹے بچے بھی بیمار رہتے ہیں رستم میں ہی مائی خیراں سے ملاقات ہوئی جو اپنے بل ہمارے پاس لیکر آئیں کہ اس کو کم کر دیں۔ ہم نے انھیں سمجھایا کہ ہم سیپکو کی ٹیم نہیں تو انھوں نے شکوہ کیا کہ ان کا 10 ہزار روپے کا بل آیا ہے جبکہ ان کے گھر میں ’نہ فریج ہے نہ موٹر اور دن کو بھی سولر چلاتے ہیں۔‘ پولیس نے ہمارے سامنے تین افراد کو بجلی چوری کے الزام میں پکڑ کر گاڑی میں ڈال دیا۔ ان افراد میں شامل شہباز نے ہمیں بتایا کہ ان کی ویلڈنگ کی دکان ہے اور انھوں نے ’بل ادا کیا ہوا ہے لیکن کہا گیا کہ میٹر آہستہ چل رہا ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ توانائی کی بچت کرنے کے لیے حکومت نے پیکج دیا ہے جیسے 200 یونٹ مسلسل 6 ماہ آئیں تو بل 50 فیصد کم ہوجاتا ہے۔ نگران حکومت نے بجلی چوری اور باقیداروں سے وصولی کے لیے آپریشن کا آغاز کیا ہے۔ وفاقی وزیر توانائی محمد علی کا کہنا ہے کہ ہر علاقے میں چوری کی مختلف سطحیں ہیں لیکن چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے سالانہ 589 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ وفاقی وزیر نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، ملتان اور اسلام آباد میں ڈسپیچ کمپنیوں میں ریکوری نسبتاً بہتر ہے جبکہ پشاور، حیدر آباد، سکھر، کوئٹہ اور آزاد جموں و کشمیر میں ڈسکوز کو 60 فیصد تک نقصان ہو رہا ہے۔ پاکستان میں بجلی کی چوری ہی بڑا مسئلہ ہے یا لائن لاسز بھی اس خسارے کی وجہ ہے؟ صحافی اور تجزیہ نگار تنویر ملک کہتے ہیں کہ نیپرا کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں 343 ارب روپے کے لائن لاسز ہوئے اور ظاہر ہے کہ یہ صارفین کو ہی ادا کرنے پڑے ہیں۔ پاور ڈویژن کے مطابق بجلی چوری میں ملی بھگت کے الزام میں ایس ڈی او سے لیکر سپرٹینڈینٹ انجینیئر تک کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ سیکریٹری پاور ڈویزن کے مطابق بعض کے خلاف ایف آئی اے کو کیسز دیے گئے ہیں۔ سیپکو کے سی ای او کا کہنا ہے کہ ’گھر سے احتساب کرنا ہو گا اور کالی بھیڑوں کو نکالنا ہو گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c9ej3l7dy0zo", "summary": "سندھ کے مختلف شہروں میں ضلع کشمور سے ہندو برادری کے پانچ افراد کے اغوا کے خلاف دیے جانے والے دھرنوں کے نتیجے میں تین افراد بحفاظت گھروں کو لوٹ آئے ہیں۔ تاہم ہندو کمیونٹی کے تین مغویوں کی بازیابی کسی پولیس آپریشن کے نتیجے میں نہیں بلکہ مقامی سرداروں کی یقین دہانیوں کے نتیجے میں ممکن ہوئی ہے۔", "title": "کشمور: احتجاج میں یقین دہانی کے بعد ڈاکوؤں سے ہندو برادری کے یرغمالیوں کی رہائی کیسے ممکن ہوئی؟", "firstPublished": "2023-09-06T04:25:12.717Z", "id": "c9ej3l7dy0zo", "article": "رشی بائی سندھ کے سرحدی شہر کشمور میں احتجاجی دھرنے میں شریک ہیں جو کشمور سے اغوا کیے گئے پانچ افراد کی بازیابی کے لیے کیا گیا ہے۔ ان میں سے تین افراد گذشتہ شب رہا ہو گئے ہیں تاہم رشی بائی کے بیٹے ساگر کمار اور سات سالہ پریانکا ابھی رہا نہیں ہو سکے اور یہ احتجاج فی الحال ان کے لیے جاری ہے۔ شمالی سندھ کے اضلاع کشمور، کندھ کوٹ، گھوٹکی اور شکارپور ایک طویل عرصے سے ڈاکوؤں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں جس میں اغوا کے علاوہ لوگوں کو ’ہنی ٹریپ‘ کر کے بھی اغوا کیا جاتا ہے۔ کراچی میں اتوار کے روز کشمور کے یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے تین تلوار کلفٹن پر دھرنا دیا گیا جس کا انتظام ’مائینارٹی رائٹس مارچ‘ نے کیا تھا۔ اس دھرنے کے شرکا نے کچے میں فوجی آپریشن کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ کشمور اور کندھ کوٹ میں ہندو کمیونٹی نے احتجاجی دھرنے دیے اور دونوں شہروں میں ہڑتال بھی کی گئی۔ کشمور میں اس دھرنے سے سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنما زین شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کچے میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’پولیس کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اغوا کا کاروبار عروج پر پہنچ گیا ہے۔۔۔ کچے اور پکے کے تمام مجرموں کے خلاف آپریشن کر کے شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔‘ کراچی میں اتوار کی شام دیے گئے دھرنے سے کشمور کندھ کوٹ ضلع سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر میر شبیر بجارانی نے خطاب کیا اور مظاہرین کو یقین دہانی کروائی کہ 12 گھنٹوں میں یرغمالی ڈاکٹر منیر نائچ، مکھی جگدیش، جئے دیپ اور ساگر کمار کو رہا کروا دیا جائے گا۔ سابق صوبائی وزیر سے جب سوال کیا گیا کہ اس سے قبل آپ کی جماعت پی پی پی کی حکومت تھی تو تب پولیس کیوں اس قدر کارگر ثابت نہیں ہو رہی تھی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’انھوں نے آئی جی سندھ اور وزیراعلیٰ سے ملاقات کر کے انھیں ان لوگوں کے نام بھی دیے تھے جو ان وارداتوں میں ملوث رہے ہیں۔‘ کشمور سے اغوا کیے گئے ڈاکٹر منیر نائچ، مکھی جگدیش اور ان کے بیٹے جئے دیپ بازیاب تو رہا ہو گئے لیکن ان کی بازیابی کے لیے پولیس کے جانب سے کسی آپریشن یا مقابلے کی کوئی خبر نہیں آئی۔ شہنیلا زرداری لکھتی ہیں کہ ’جب ایک احتجاج سے اتنی جلدی بازیاب ہو سکتے تھے تو پہلے کیوں نہ ہوئے؟ کیا پولیس کو حرکت میں لانے کے لیے احتجاج ضروری ہے؟ پولیس نے آخر کیوں کشمور کے رہنے والوں کو ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔‘ بازیاب ہونے والے مکھی جگدیش نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی بازیابی پولیس مقابلے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjm87yvjm88o", "summary": "غربت میں جکڑے ان خاندانوں کو کیا مجبوری تھی اور وہاں کام کرنے والی لڑکیوں پر کیا بیتی۔۔۔؟", "title": "رانی پور: ’میں فاطمہ کے خون کا سودا نہیں کروں گی‘", "firstPublished": "2023-09-05T09:29:03.372Z", "id": "cjm87yvjm88o", "article": "‘رانی پور: ’میں فاطمہ کے خون کا سودا نہیں کروں گی سندھ کے شہر رانی پور کی حویلی میں دس سالہ فاطمہ کی ہلاکت سے تقریبا ڈیڑھ سال قبل ملازمہ لڑکیوں پر تشدد کی اطلاعات آ چکی تھیں لیکن کسی نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔ غربت میں جکڑے ان خاندانوں کو کیا مجبوری تھی اور وہاں کام کرنے والی لڑکیوں پر کیا بیتی۔۔۔؟ دیکھتے ہیں ریاض سہیل اور محمد نبیل کی اس خصوصی رپورٹ میں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjldn5lweyeo", "summary": "اس عبادت کے باہر پولیس اہلکار بھی تعینات تھے۔ واقعے کی سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ پولیس اہلکار گارڈ کو بچانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں اور ہجوم سے لوگ نکل کر ان پر تشدد کر رہے ہیں۔", "title": "کراچی میں احمدی عبادت گاہ پر حملہ: ’حملے کے وقت ہم اندر موجود تھے اور خوفزدہ تھے‘", "firstPublished": "2023-09-05T02:43:07.756Z", "id": "cjldn5lweyeo", "article": "واصف شیخ نے بی بی سی کو واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ لگ بھگ دوپہر ڈیڑھ بجے کا وقت تھا جب وہ عبادت کی ادائیگی میں مصروف تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جیسے ہی انھوں نے عبادت ختم کی تو دیکھا کہ چار پانچ لوگ جن کے چہروں پر نقاب تھا دیوار پھلانگ کر عبادت گاہ کے اندر داخل ہو گئے۔ ’چوکیدار نے ابتدا میں انھیں روکنے کی کوشش کی کیونکہ اوپر اس کی فیملی رہتی تھی۔ اس نے ہوائی فائرنگ بھی کی لیکن حملہ آور اس کو گھسیٹ کر باہر لے گئے اور تشدد کا نشانہ بنایا۔‘ واصف شیخ نے بتایا کہ اس سے قبل جب حملہ ہوا تھا تو اندر کوئی عبادت گزار موجود نہیں تھے۔ ’(مگر) اس حملے کے وقت وہ ہال میں موجود تھے اور اندر سے دروازہ بند کر دیا گیا تھا۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں، ہم خوفزدہ تھے۔‘ فروری میں پیش آنے والے واقعے کے بعد اس عبادت گاہ کے باہر پولیس اہلکار بھی تعینات کیے گئے تھے۔ گذشتہ روز پیش آنے والے واقعے کی سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ پولیس اہلکار سکیورٹی پر تعینات چوکیدار کو حملہ آوروں سے بچانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں اور ہجوم سے لوگ نکل کر ان پر تشدد کر رہے ہیں۔ اس مقدمے میں پولیس اے ایس آئی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ تین پولیس کانسٹیبلز کے ساتھ احمدی ہال پر تعینات تھے، تقریبا پونے دو بجے 15 سے 20 حملہ آوروں نے حملہ کر دیا اور انھیں گھیر لیا۔ دوسری جانب احمدیہ جماعت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس بار بھی حملہ آوروں نے میناروں کو ضرب لگائی ہے۔ واصف شیخ کے مطابق حملہ آور چالیس منٹ تک عبادت گاہ پر توڑ پھوڑ کرتے رہے اور اطمینان کرنے کے بعد وہ یہاں سے چلے گئے تھے۔ کراچی میں آٹھ ماہ کے دوران یہ چوتھا حملہ تھا۔ اس سے قبل مارٹن روڈ اور ڈرگ روڈ پر واقع عبادت گاہوں پر بھی اسی نوعیت کے حملے ہو چکے ہیں۔ احمدیہ جماعت کے ترجمان کے مطابق انھوں نے پہلے بھی مقدمہ درج کرایا تھا۔ اس کے علاوہ ڈرگ روڈ اور مارٹن روڈ عبادت گاہوں پر حملے کے بھی مقدمات درج ہوئے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہ ہو سکا۔ یاد رہے کہ فروری میں حملے کے بعد ایس ایچ او پریڈی انسپیکٹر سجاد آفریدی نے بتایا تھا کہ انھیں ایک درخواست موصول ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا اس عبادت گاہ پر مینار موجود ہیں جو اسلام کے خلاف ہے کیونکہ امتناع احمدی آرڈیننس کے تحت احمدی برادری اسلامی شعائر استعمال نہیں کر سکتے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72jld4yql6o", "summary": "تشدد اور ظلم کا شکار صرف ننھی فاطمہ ہی نہیں بنی بلکہ بی بی سی نے رانی پور میں ایسے کئی خاندانوں سے ملاقات کی ہے، جن کی لڑکیاں حویلی میں کام کر چکی ہیں۔ ان لڑکیوں نے حویلی کی زندگی کے بارے دل دہلا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔", "title": "رانی پور میں گدی نشین کی حویلی پر کام کرنے والی نوعمر بچیاں: ’بی بی کہتیں کہ مجھے ہنساؤ، ڈانس کرو، آپس میں لڑو‘", "firstPublished": "2023-09-04T03:34:30.166Z", "id": "c72jld4yql6o", "article": "گذشتہ ماہ 13 اگست کو 10 سالہ فاطمہ صوبہ سندھ کے علاقے رانی پور کے ایک پیر کی حویلی میں ہلاک ہو گئی تھیں۔ پولیس نے مقدمہ درج کر کے ملزم پیر اسد شاہ کو گرفتار کیا جبکہ اُن کی اہلیہ حنا شاہ اپنے والد پیر فیاض شاہ کے ساتھ بدستور مفرور ہیں اور پولیس انھیں گرفتار کرنے میں ناکام ہے۔ فاطمہ پھرڑو کی والدہ شبانہ نے ابتدائی طور پر مقدمہ درج کرانے سے انکار کیا تھا لیکن اسی عرصے میں سوشل میڈیا پر دو ویڈیوز وائرل ہوئیں۔ ان ویڈیوزمیں سے ایک میں لاش پر تشدد کے مبینہ نشانات تھے جبکہ دوسری ایک سی سی ٹی وی فوٹیج تھی جو حویلی سے فاطمہ کی لاش گاؤں لانے والے نوجوانوں کے اصرار پر انھیں حویلی سے دی گئی تھی۔ فاطمہ کی لاش گاؤں لانے والے نوجوانوں میں سے ایک محمد حسن پھرڑو بتاتے ہیں کہ دوپہر دو ڈھائی بجے کا وقت تھا جب رانی پور سے ان کے رشتہ دار نے فون کر کے گاؤں میں بتایا کہ فاطمہ فوت ہو گئی ہے۔ بی بی سی نے رانی پور میں ایسے کئی خاندانوں سے ملاقات کی ہے، جن کی لڑکیاں ماضی قریب میں حویلی میں کام کر چکی ہیں۔ ان لڑکیوں نے حویلی کی زندگی کے بارے دل دہلا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔ گاؤں علی احمد پھرڑو کی رہائشی نسرین بھی اسی حویلی میں کام کرتی تھیں جہاں فاطمہ پر مبینہ طور پر تشدد ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ فاطمہ پر تشدد کی چشم دید گواہ ہیں اور ان کے دعوے کے مطابق انھیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سابق رکن قومی اسمبلی پیر فضل شاہ رانی پور کے پیر خاندان کے سیاسی بڑے ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں ان سے ان کے ڈیرے پر ملاقات ہوئی تھی لیکن اس بار بی بی سی کی ٹیم وہاں پہنچی تو ان کا ڈیرہ ویران تھا اور کسی نے ہم سے بات نہیں کی۔ یاد رہے کہ ملزم پیر اسد شاہ تشدد کے الزامات کو مسترد کر چکے ہیں۔ بقول ان کے فاطمہ کو گیسٹرو کی بیماری تھی، جس کا مقامی ڈاکٹر سے علاج کرایا گیا۔ اس کے علاوہ پیر اسد کی والدہ نے بھی ایک پریس کانفرنس میں بیٹے کو بے گناہ قرار دیا اور کسی بھی طرح کے تشدد سے لاعلمی ظاہر کی۔ مزار پر ایک خلیفہ فیاض حسین واٹھیو سے ملاقات ہوئی جن کو پولیس نے گرفتار کیا تھا لیکن بعد میں چھوڑ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں کچھ لوگ ہیں جو اس گھرانے کو بدنام کر کے اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر یہ پیر ایسے ہی ہوتے تو ہم سات پشتوں سے کیوں یہاں آتے اور کیوں اپنے بال بچے چھوڑ کر جاتے ہیں۔ باقی جو فاطمہ کا معاملہ ہے اس میں پیر اسد گرفتار ہیں۔ سائیں بڑے نے کہا کہ اگر پورا الزام اس پر آ جائے تو اس کو پھانسی پر لٹکاؤ رانی پور کا کوئی پیر درمیان میں نہیں آئے گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1gy7knqrvo", "summary": "صوبہ سندھ کے علاقے رانی پور میں کمسن گھریلو ملازمہ فاطمہ کی ہلاکت کے کیس میں ایک مقامی عدالت نے پیر اسد شاہ کو مزید پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا ہے۔ جبکہ پولیس کے مطابق پیروں کی حویلی سے مزید تین خواتین اور چار نو عمر بچیوں کو بازیاب کیا گیا ہے۔ ", "title": "رانی پور کی حویلی سے نوعمر بچیوں سمیت سات ’کنیزیں‘ بازیاب، ملزم پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر", "firstPublished": "2023-08-21T16:32:45.342Z", "id": "cd1gy7knqrvo", "article": "صوبہ سندھ کے علاقے رانی پور میں کمسن گھریلو ملازمہ فاطمہ کی ہلاکت کے کیس میں ایک مقامی عدالت نے پیر اسد شاہ کو مزید پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا ہے۔ جبکہ پولیس کے مطابق پیروں کی حویلی سے مزید تین خواتین اور چار نو عمر بچیوں کو بازیاب کیا گیا ہے۔ ایس ایس پی خیرپور روحل کھوسہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’(ملزم) اسد شاہ کی والدہ کا بیان آیا تھا کہ ہمارے پاس اور بھی باندیاں (کنیزیں) ہیں جس کی بنیاد پر ان کا بیان لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور ساتھ میں حویلی میں سرچ آپریشن کیا کہ کہیں جبری مشقت کے لیے لوگوں کو یرغمال تو نہیں بنایا گیا، یا ایسی خواتین تو نہیں جو اپنی مرضی کے بغیر یہاں ٹھہرائی گئی ہوں۔‘ خیال رہے کہ کمسن گھریلو ملازمہ فاطمہ کی قبر کشائی کر کے پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا۔ میڈیکل بورڈ نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں فاطمہ پر قبل از مرگ تشدد اور ریپ کی تصدیق کی تھی۔ وائرل ہونے والی ویڈیو میں ایک ہی کمرے میں اسد شاہ اور فاطمہ کی موجودگی کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ چھوٹے بچوں کی وجہ سے ان ملازمہ کو کمرے میں رکھا جاتا تھا۔ دوسری جانب رانی پور کی عدالت نے پیر اسد شاہ کو مزید پانچ روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔ ملزم اسد شاہ کے وکیل نے مزید پولیس ریمانڈ کی مخالفت کی اور اپنے مؤکل کو جیل بھیجنے کی درخواست کی لیکن عدالت نے ان کی یہ استدعا مسترد کر دی۔ وکلا نے استدعا کی کہ پولیس کو ہدایت کی جائے کہ وہ ہائی کورٹ میں اس سے متعلق درخواست دائر کرے۔ وکلا کے مطابق حفاظتی ضمانت کے بعد ملزمہ حنا شاہ نہ تو تحقیقاتی کمیٹی سے رابطے میں آئی ہیں اور نہ ہی انھوں نے ماتحت عدالت سے رابطہ کیا ہے۔ لہٰذا انھیں شبہ ہے کہ وہ بیرون ملک فرار ہوسکتی ہیں۔ ایس ایس پی روحل کھوسو کا کہنا ہے کہ فاطمہ کے والدین کی طرف سے دائر ایف آئی آر میں دو ملزمان ہیں: پیر اسد شاہ اور حنا شاہ۔ جن میں سے پیر اسد گرفتار اور حنا شاہ حفاظتی ضمانت پر ہیں۔ تاہم مدعی نے پولیس یا ڈاکٹر کی شکایت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ دوسری جانب درگاہ رانی پور کے پیر اور سابق رکن قومی اسمبلی فضل شاہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ مظلوم کے ساتھ ہیں اور متاثرہ خاندان کو انصاف ملنا چاہیے تاہم کچھ لوگ اس کو بنیاد بنا کر ’پوری پیر برادری کو بدنام کر رہے ہیں‘ جس سے ان کے مریدین اور عقیدت مندوں کی دل آزاری ہو رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckv1590nw4vo", "summary": "صوبہ سندھ کے علاقے رانی پور میں پیری مریدی کے کام سے وابستہ ایک خاندان میں کام کرنے والی کمسن گھریلو ملازمہ کی ہلاکت کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں قابل از مرگ تشدد اور ریپ کی علامات ظاہر ہوئی ہیں۔ ", "title": "رانی پور: کمسن گھریلو ملازمہ فاطمہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ریپ، تشدد کی علامات ظاہر", "firstPublished": "2023-08-17T06:48:13.458Z", "id": "ckv1590nw4vo", "article": "صوبہ سندھ کے علاقے رانی پور میں پیری مریدی کے کام سے وابستہ ایک خاندان میں کام کرنے والی کمسن گھریلو ملازمہ کی ہلاکت کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں قابل از مرگ تشدد اور ریپ کی علامات ظاہر ہوئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ تمام چوٹیں قبل از مرگ کی ہیں۔ رپورٹ میں اینل اور وجائنل پینیٹریشن کی علامات ظاہر ہوئی ہیں تاہم لیبارٹری میں جائزے کے لیے نمونے اکٹھے کیے گئے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی بچی کی موت پُراسرار حالات میں ہوئی اور انھیں بغیر میڈیکو لیگل جائزے کے بغیر انھیں دفن کیا گیا۔ 10 سالہ بچی سندھ کے علاقے رانی پور میں ایک پیر گھرانے کی حویلی میں بطور ملازمہ کام کرتی تھیں تاہم دو روز قبل اس کے والدین کو بذریعہ فون آگاہ کیا گیا تھا کہ پیٹ میں درد کے باعث ان کی بچی کی ہلاکت ہوئی۔ اس سے قبل پولیس نے اس واقعے میں نامزد مرکزی ملزم، علاقہ ایس ایچ او اور بچی کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کو گرفتار کیا تھا۔ ایس ایچ او رانی پور کو فرائض سے غفلت برتنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا جبکہ مرکزی ملزم کی گرفتاری بچی کی والدہ کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کی بنیاد پر کی گئی۔ تاہم تدفین سے قبل ہی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں 10 سالہ بچی کے جسم اور سر پر تشدد اور زخموں کے نشانات نظر آ رہے ہیں۔ بی بی سی آزادانہ ذرائع سے اس ویڈیو کی تصدیق نہیں کر سکا ہے تاہم پولیس حکام نے کہا کہ انھوں نے ملزم پیر کی حویلی میں نصب کیمروں کا مکمل ریکارڈ حاصل کر لیا جس کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔ ایف آئی آر میں کہا ہے کہ ہلاک ہونے والی بچی گذشتہ نو ماہ سے ملزم کی حویلی پر کام کرتی تھی۔ والدہ کے مطابق کچھ عرصہ قبل جب وہ اپنی بچی سے ملنے حویلی گئے تھے تو بچی نے بتایا تھا کہ پیر (ملزم) اور ان کی اہلیہ اس سے بہت زیادہ کام کاج کرواتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی بات پر مار پیٹ بھی کرتے ہیں۔ مدعی مقدمہ کے مطابق 14 اگست کی دوپہر انھیں حویلی سے ایک شخص کی کال موصول ہوئی کہ اُن کی بیٹی طبعیت میں خرابی کے باعث فوت ہو گئی ہے اور اس کی لاش لے جائیں۔ ایف آئی آر کے مطابق والدہ نے ملزم پیر سے بچی کی ہلاکت سے متعلق استفسار کیا تو وہ کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم نے سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی ہے جس میں میری بیٹی تڑپ تڑپ کی ہلاک ہوئی ہے۔ جو ویڈیو وائرل ہوئی ہے وہ بلکل سچی ہے۔ ہمیں ویڈیوز کے ٹکڑے دیے گئے ہیں۔ اُن کے پاس 24 گھنٹوں کی ویڈیو موجود ہو گی، اس کو دیکھا جائے اور ہم سے انصاف کیا جائے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxeprmdz2z7o", "summary": "سندھ کے ضلع سانگھڑ میں اتوار کے روز ہزارہ ایکسپریس کو پیش آنے والے حادثے میں 30 افراد ہلاک جبکہ 60 زخمی ہوئے ہیں۔ بی بی سی نے جائے حادثہ اور ان افراد کے گھروں کا دورہ کیا ہے جو اس حادثے سے متاثر ہوئے ہیں۔", "title": "ہزارہ ایکسپریس ٹرین حادثہ: ’جب میتوں کو ایمبولینس میں ڈالا تو اُن کے اعضا گِر رہے تھے‘", "firstPublished": "2023-08-08T05:38:01.435Z", "id": "cxeprmdz2z7o", "article": "عبدالغفار ٹنڈو آدم کے رہائشی ہیں اور ہزارہ ایکسپریس ٹرین حادثے میں ان کے گھر کے پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ سندھ کے ضلع سانگھڑ کے علاقے سرہاڑی کے قریب اتوار کی دوپہر کو ہزارہ ایکسپریس کی دس بوگیاں پٹڑی سے اتر گئی تھیں جس کے نتیجے میں 30 سے زائد افراد ہلاک جبکہ 60 زخمی ہو گئے تھے۔ اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق سندھ کے ضلع سانگھڑ سے تھا صرف ٹنڈو آدم شہر اور آس پاس کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے 11 افراد اس حادثے میں ہلاک ہوئے جن میں سے بیشتر کی تدفین کر دی گئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’لاشیں شاخت کے قابل نہیں تھیں، بچے رحیم کو چوٹیں نہیں لگیں تھیں اس لیے اسے پہچان لیا جبکہ خواتین کو کپڑوں اور ہاتھوں میں پہنے گئے زیوارت کی مدد سے شناخت کیا گیا۔‘ ہلاک ہونے والوں میں سعیدہ خلجی اور ان کی سمدھن بھی شامل تھیں جو نوابشاہ جا رہی تھیں۔ سعیدہ کے بیٹے عمران کے دوست محمد کاشف نے بتایا کہ انھوں نے اپنی مدد آپ کے تحت جائے حادثہ پر عمران کی والدہ اور ساس کو تلاش کیا اور ہسپتال منتقل کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ جائے حادثہ پہنچے تو کچھ لاشیں ٹرین کی بوگیوں کی کھڑکیوں میں پھنسی ہوئی تھیں، کچھ ایسی بھی تھیں جنھیں کرین کی مدد سے بوگیوں کو سیدھا کر کے نکالا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ زخمیوں میں بھی کسی کی ٹانگیں تو کسی کے بازو ٹوٹے ہوئے تھے۔ سرہاڑی ہسپتال میں سہولیات کے فقدان کی وجہ سے زخمی مسافروں کو نوابشاہ پی ایم سی ہسپتال لایا گیا تھا۔ 60 سے زائد زخمیوں میں سے اس وقت 20 کے قریب زخمی وہاں موجود ہیں۔ محمد کاشف کی اہلیہ نائلہ اپنے چھوٹی بہن سے ملنے ٹنڈو آدم گئیں تھیں وہ دادو واپس جانے کے لیے نوابشاہ آ رہی تھیں۔ وہ خود اس حادثے میں ہلاک ہو گئی ہیں جبکہ ان کے بچے زخمی ہیں۔ سرہاڑی کے قریب درجنوں مزدور ٹریک کی بحالی میں مصروف نظر آئے، وہ ایک پٹڑی کو لوہے کی سلاخوں سے پھنساتے اور نعرے لگا کر اس کو آگے سرکاتے ہیں، یہ پورا عمل ہاتھوں اور اوزاروں کی مدد سے کیا جا رہا تھا جس میں مشنری کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ دوسری جانب ہزارہ ایکسپریس ٹرین حادثے کی جوائنٹ سرٹیفیکیٹ رپورٹ میں حادثہ کا ذمہ دار شعبہ سول اور شعبہ مکینیکل کو قرار دیا گیا ہے اور تخریب کاری کے امکان کو مسترد کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ کوئی پہلا حادثہ نہیں تھا اس سے قبل بھی ریتی سے لے کر کراچی تک اس ٹریک پر ٹرینوں کے ٹکرانے اور پٹڑیوں سے اترنے کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں تاہم ماضی قریب میں ان حادثوں کے ذمہ داروں کے خلاف کسی سزا کی مثال نہیں ملتی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cl5e0d5q2x5o", "summary": "حکام کے مطابق صوبہ سندھ میں نواب شاہ سے 20 کلومیٹر دور ایک ہزار مسافروں کو لے جانی والی ٹرین کے حادثے میں کم از کم 30 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ عینی شاہدین میں سے ایک کا کہنا ہے کہ وہ ٹرین کی کھڑکی سے باہر گِر کر جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔ ", "title": "نواب شاہ کے قریب ٹرین حادثہ: ’میں ٹرین کی کھڑکی سے باہر گِر کر زندہ بچ گیا‘", "firstPublished": "2023-08-06T14:43:33.508Z", "id": "cl5e0d5q2x5o", "article": "جب ایدھی فاونڈیشن کے سرکل انچارج رفیق لاشاری صوبہ سندھ میں نواب شاہ سے تقریباً 20 کلو میٹر دور ہزارہ ایکسپریس کے حادثے کے مقام پر پہنچے تو ان سمیت امدادی کارکنان کے لیے یہ خدشہ لاحق ہوگیا کہ الٹی ہوئی بوگیوں کے نیچے کئی لوگ پھنسے ہوئے ہوسکتے ہیں۔ یہ حادثہ سانگھڑ میں سرہاڑی ریلوے سٹیشن سے کچھ آگے ایک چھوٹے پُل کے پاس ہوا جہاں ’بہت بُرے حالات تھے۔ ہر کوئی پریشان حال تھا۔ کوئی زخمی حالت میں اپنے گھر کی خواتین اور بچوں کو تلاش کر رہا تھا تو کوئی زخمی اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔‘ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے مطابق اس حادثے میں 30 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ نواب شاہ کے ہسپتال میں مریضوں کی عیادت کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ضرورت پڑی تو آرمی ہیلی کاپٹر کے ذریعے مریضوں کو کراچی یا حیدرآباد منتقل کیا جائے گا۔‘ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ اس ٹرین پر قریب ایک ہزار مسافر سوار تھے اور ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ حادثہ مکینیل فالٹ یا تخریب کاری کی وجہ سے ہوا ہے جس کے بارے میں مزید تحقیقات کی جائیں گی۔ حادثے کا شکار ٹرین کی درمیاں والی بوگی میں سوار راشد علی کا تعلق ٹنڈو آدم سے ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ حادثے سے قبل ان کے بچے اور بیوی آرام کر رہے تھے کہ ’اچانک بوگی پٹڑی سے نیچے اتر گئی اور الٹ گئی۔‘ ٹرین میں سوار نصیر احمد کی منزل راولپنڈی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ٹرین کی بوگی پٹڑی سے اترنے پر میں کھڑکی سے باہر گِر گیا۔‘ یہی وجہ تھی کہ وہ اس حادثے میں زندہ بچ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کئی خواتین اور بچے بھی زمین پر گرے ہوئے تھے۔ ’وہ چیخ رہے تھے، چلا رہے تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ اس موقع پر قریب ہی نہر تھی مگر نہر کا پانی گندا تھا۔ میں نے اس نہر میں سے اپنے ہاتھوں میں پانی بھرا اور جو لوگ بے ہوش تھے، ان کے منھ پر ڈالا تاکہ یہ ہوش میں آجائیں۔‘ جیکب آباد کے رہائشی عمیر احمد اس حادثے میں زخمی ہونے کے بعد نواب شاہ کے ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ حادثے کے بعد ’میں اٹھنے کے قابل نہیں تھا۔ میری ٹانگ زخمی تھی جبکہ سر پر بھی چوٹیں آئی تھیں (مگر) میرے ساتھ میری اہلیہ انتہائی زخمی پڑی تھی۔ وہ مجھے مدد کے لیے پکار رہی تھی۔ میں زور لگا کر اٹھا مگر اس کو باہر نہیں نکال سکا۔‘ وہاں موجود تین نوجوانوں نے ان کی اہلیہ کو باہر نکالا اور دونوں کو پانی دیا۔ وہ انھیں گاڑی میں بٹھا کر ہسپتال بھی لے گئے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nrxqr8eqro", "summary": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع شکار پور کی ایک ٹاؤن انتظامیہ کو سکول کے اوقات میں بچوں کے گیمز کی دکانوں پر گیمز کھیلنے اور ہوٹلوں پر بیٹھنے پر پابندی کیوں عائد کرنا پڑی؟", "title": "شکارپور میں ’سکول اوقات میں بچوں کے گیمز کھیلنے اور ہوٹلوں میں بیٹھنے‘ پر پابندی کیوں لگانی پڑی؟", "firstPublished": "2023-08-03T15:35:20.684Z", "id": "c4nrxqr8eqro", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع شکارپور کی ایک ٹاؤن انتظامیہ نے سکول کے اوقات میں بچوں کے گیمز کی دکانوں پر کھیلنے اور ہوٹلوں میں بیٹھنے پر پابندی عائد کی ہے اور متنبہ کیا ہے کہ اگر کسی ہوٹل یا گیم زون مالک نے خلاف ورزی کی تو اس کے خلاف پولیس کارروائی کی جائے گی۔ ’بلدیاتی نظام کے تحت ہم پولیس اور محکمہ تعلیم کے ساتھ بھی رابطہ کاری کر سکتے ہیں لہذا میں نے دونوں محکموں کو اعتماد میں لے کر اس پابندی کا حکم جاری کیا کہ اگر سکول کے اوقات کے دوران کوئی بچہ ان گیم زونز اور ہوٹلوں پر دیکھا گیا تو پولیس کارروائی ہوگی اور اس کو سیل بھی کیا جا سکتا ہے۔‘ چک ٹاؤن کمیٹی 25 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ چک ٹاؤن کی حدود میں تین بوائز پرائمری سکول، دو گرلز پرائمری سکول، ایک بوائز ہائی سکول جس کو ہائر سکینڈری کا درجہ حاصل ہے جبکہ ایک گرلز مڈل اور ایک گرلز ہائی سکول ہے۔ ڈاکٹر نوید کے مطابق پرائمری سکولز انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سکول جانے والی عمر کے 25 سے 30 فیصد ایسے بچے ہیں جو سکولوں میں داخل نہیں، ان کی کوشش ہے کہ اس کو بڑھائیں اور ان کے ٹاؤن کی شرح خواندگی 95 فیصد تک پہنچ جائے۔ ایک پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر اسرار بھیو نے بتایا کہ سکول کے وقت میں بچوں کے گیمز کی دکانوں اور ہوٹلوں پر جانے کی پابندی کے فیصلے کے چند روز میں مثبت نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق بلوچستان کو بدترین کارکردگی کا حامل صوبہ قرار دیا گیا جہاں تقریباً 60 فیصد بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں جبکہ بلوچستان کے بعد سندھ میں 42 فیصد سکول نہ جانے والے بچے ہیں اور گذشتہ سال کے سیلاب نے معاملات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ بچوں کے سکول نہ جانے کی ایک بنیادی وجہ صوبے میں غربت اور مہنگائی ہے۔ اسی طرح شکار پور کے سرکاری سکول کے ہیڈ ماسٹر اسرار بھیو کا بھی کہنا ہے کہ ’اس عمر کے بچے والد کے ساتھ مچھلی کا شکار کرنے جاتے ہیں یا کھیت پر کام کرتے ہیں جہاں سے روزانہ سو، پچاس روپے مل جاتے ہیں اور اس لالچ کی وجہ سے وہ تعلیم پر کم توجہ دیتے ہیں۔‘ ’ہم نے 60 ہزار اساتذہ کو بھرتی کیا، اس کے علاوہ تقریباً 1500 ایسے سکول ہیں، جو صرف کاغذوں میں تھے۔ انھیں ختم کیا اور 5000 کے قریب ایسے سکول جو موزوں نہیں تھے، انھیں بند کیا ہے۔ اس وقت صوبے میں 40 ہزار فعال سکول ہیں اور اساتذہ کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے مانیٹرنگ نظام موجود ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ce5r6e6mkevo", "summary": "بیلے ڈانس کے دلدادہ ایلی کاٹ اپنے ڈرائیور کی زبانی واقعہ کربلا سُن کر ایسے مسلمان ہوئے کہ انھوں نے گھر بار اور بیوی بچے سب کچھ چھوڑ دیا اور مرتے دم تک ’غم حسین‘ کو سینے سے لگائے رکھا۔", "title": "ایلی کاٹ: ’غمِ حسین میں اسلام قبول‘ کرنے والے انگریز انسپکٹر جن کے نام سے آج بھی حیدرآباد میں ماتمی جلوس نکلتا ہے", "firstPublished": "2023-07-27T05:24:01.559Z", "id": "ce5r6e6mkevo", "article": "صوبہ سندھ کے ضلع حیدر آباد میں گذشتہ 52 سال سے محرم کی آٹھ تاریخ کو ایلی کاٹ کے نام سے بھی ایک ماتمی جلوس نکالا جاتا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایلی کاٹ کون تھے اور اُن کی کہانی کیا ہے۔ بیلے ڈانس کے دلدادہ ایلی کاٹ اپنے ڈرائیور کی زبانی واقعہ کربلا سُن کر ایسے مسلمان ہوئے کہ انھوں نے گھر بار اور بیوی بچے سب کچھ چھوڑ دیا اور مرتے دم تک ’غم حسین‘ کو سینے سے لگائے رکھا۔ چارلی ایلی کاٹ کی والدہ حیدرآباد کے ہر ماتمی جلوس میں نذر و نیاز کرتی تھیں۔ ایلی کاٹ کی والدہ کے منشی محمد علی کی بیگم سے اچھے مراسم تھے۔ ان کی اولاد نہیں تھی تو ایک بار جب اشرف شاہ کے پڑ سے جلوس آرہا تھا تو سب کو دعا مانگتا ہوا دیکھ کر انھوں نے بھی دعا مانگی اور اسی سال ان کو اولاد نرینہ ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے واپس جانے سے انکار کیا اور یوں ماں بیٹا یہاں مقیم ہو گئے۔ ایلی کاٹ کی وفات 1971 میں ہوئی اور اشرف شاہ کے پڑ کا نام ایلی کاٹ کے نام سے مشہور ہوا۔ ایلی کاٹ کے ڈرائیور کا نام عبدالغفور چانڈیو تھا اور ان سے ہی واقعہ کربلا اور حضرت علی کے حالات زندگی کے بارے میں سُن کر ایلی کاٹ کو بھی حسینی قافلے میں شامل ہونے کا شوق ہوا۔ عبدالغفور چانڈیو کے بیٹے غلام قادرچانڈیو نے سنہ 2004 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ایلی کاٹ نے اُن کے والد عبدالغفور سے کہا تھا کہ وہ بھی ماتمی جلوس نکالنا چاہتے ہیں لیکن عبدالغفور چانڈیو گریز کرتے رہے اور کہتے رہے کہ اس کے لیے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے۔ غلام قادر بتاتے ہیں کہ بابا عبدالغفور نے ایلی کاٹ کو یاد دلایا کہ انھیں پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ اس کام میں بڑی قربانی دینی پڑتی ہے جس سے ایلی کاٹ کا ایمان اور پختہ ہو گیا۔ ایلی کاٹ نے صبح کو والدہ کی حیدرآباد کے شمال میں واقع گورا قبرستان میں تدفین کی اور شام کو اپنے غم کو بھول کر اور سیاہ کپڑے پہن کر ننگے پاؤں ماتم میں شامل ہو گئے۔ غلام قادر جو ایلی کاٹ کے ساتھی رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ ایلی کاٹ نے اپنی انگریز بیوی کو بتایا کہ وہ ’مومن‘ ہونا چاہتے ہیں۔ اس لیے اُن کے سامنے دو راستے ہیں، پہلا یہ کہ وہ بھی مسلمان ہو جائیں اور دوسرا یہ کہ واپس انگلینڈ چلی جائیں اور اپنی زندگی گزاریں۔ چارلی اب علی گوہر بن چکے تھے۔ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وہ اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر چلے گئے جہاں انھوں نے چھ ماہ تک ملنگوں والی زندگی گزاری۔ چھ ماہ بعد حیدرآباد لوٹ آئے اور بقیہ تمام زندگی اپنے ڈرائیور عبدالغفور کے پاس رہ کر گزار دی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp60zyr2341o", "summary": "ایک مقامی کہاوت ہے کہ ’کارونجھر روزانہ سوا سیر سونا پیدا کرتا ہے۔‘ دسمبر 2021 میں عدالت نے ایک نجی کمپنی اور فوج کے ذیلی ادارے ’ایف ڈبلیو او‘ کے اِس علاقے سے گرینائیٹ نکالنے پر پابندی عائد کی تھی تاہم حکومت کی دوبارہ نیلامی کا اشتہار شائع کیا گیا۔ اس معاملے پر تنازع آخر ہے کیا؟", "title": "کارونجھر: سندھ کے ’مقدس‘ پہاڑی سلسلے سے قیمتی پتھر نکالنے کے معاملے پر کیا تنازع ہے؟", "firstPublished": "2023-07-25T03:57:52.129Z", "id": "cp60zyr2341o", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکومت نے صحرائی ضلع تھر میں کارونجھر کے پہاڑی سلسلے سے سرخ گرینائیٹ پتھر نکالنے کی نیلامی کا عمل منسوخ کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ اتوار کو متعدد اخبارات میں ضلع تھرپارکر کے علاقے ننگرپارکر میں 2700 ایکڑ پر محیط پہاڑی علاقے سے سرخ گرینائیٹ پتھر نکالنے کی نیلامی کے اشتہارات شائع ہوئے تھے، جس کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ کارونجھر کے پہاڑی سلسلے سے گرینائیٹ کا حصول کئی سال سے جاری ہے، جس کے خلاف دسمبر 2021 میں عدالت فیصلہ دے چکی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے نیلامی کا اعلان کیا گیا۔ عدالت نے اپنے گذشتہ فیصلے میں ایک نجی کمپنی اور فوج کے ذیلی ادارے ’ایف ڈبلیو او‘ کے اس علاقے سے گرینائیٹ نکالنے پر پابندی عائد کی تھی۔ ڈپٹی کمشنر تھرپارکر نے بھی گرینائیٹ کی نیلامی کی مخالفت کی اور ڈی جی معدنیات کو خط لکھ کر بتایا تھا کہ ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں محکمہ جنگلی حیات نے درخواست دائر کی تھی کہ گرینائیٹ، چائنا کلے، ریتی بجری کی لیز وائلڈ لائف سے بھرپور علاقے میں غیر قانونی طور پر جاری ہیں یہ اقدام سندھ وائلڈ لائف ایکٹ کی سیکشن 9-13 کی خلاف ورزی ہے۔ ڈی سی نے اپنے خط میں کارونجھر کی اہمیت بتاتے ہوئے تحریر کیا کہ جین مت کے بھگوان مہاویر کے مندر کی باقیات بھی صرف یہاں ہی پائی جاتی ہیں، اگر محکمہ معدنیات یہاں سے گرنائیٹ نکالنے کی اجازت دیتا ہے تو اس کو مقامی ثقافت پر کاری ضرب سمجھا جائے گا۔ گرینائیٹ کی نیلامی میں صوبائی حکومت کے اندر بھی اختلاف رائے نظر آیا۔ وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی سریندر ولاسائی نے وزیر معدنیات کو خط لکھ کر اس اشتہار پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ تھر سے ہی وزیر اعلیٰ کے ایک اور معاون خصوصی ارباب لطف اللہ نے بھی صوبائی وزیر کو خط لکھ کر یاد دہانی کروائی کہ کارونجھر صرف پتھروں کا ڈھیر نہیں بلکہ تاریخ ہے، جس کی جغرافیائی حیثیت اور اہمیت ہے۔ یہ نہ سیاحوں کے لیے قابل کشش ہے بلکہ یہاں کئی عقیدے کے لوگوں کے مقدس مقامات بھی موجود ہیں لہذا اس کی روحانی اہمیت بھی ہے۔ ننگرپارکر پہاڑ سے شہد اور جڑی بوٹیوں سمیت لکڑیاں بھی حاصل کی جاتیں ہیں۔ ایک کہاوت ہے کہ ’کارونجھر روزانہ سوا سیر سونا پیدا کرتا ہے۔‘ گرینائیٹ نکالنے کی نیلامی کے اشتہار کے ساتھ ہی اتوار سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر اور فیس بک پر کارونجھر زیر بحث رہا اور ایک بار پھر ’سیو کارونجھر‘ (کارونجھر کو بچاؤ) کے نام سے ٹرینڈ چلا، جس میں سندھ کے نوجوانوں کے علاوہ موسیقار، ادیبوں، شاعروں اور سیاسی کارکنوں نے بھی شرکت کی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw48nq090p8o", "summary": "ماری ماتا مندر وسطی کراچی میں واقع ہے۔ سولجر بازار کہلانے والے اس گنجان آباد علاقے میں جائیداد کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ اس مندر کے آس پاس مدراسی اور گجراتی برادریاں رہتی ہیں۔ان برادریوں کا کہنا ہے کہ مندر ان کی ملکیت ہے۔ جبکہ ہندو برادی کی ریکھا کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اس جگہ کی مالک ہیں۔", "title": "’میرا مندر میری مرضی‘: کراچی کے قدیم ہندو مندر پر تنازع کی مکمل کہانی", "firstPublished": "2023-07-20T00:57:40.730Z", "id": "cw48nq090p8o", "article": "رات کا وقت ہے اور زمین پر بھاری مشینوں سے ڈرلنگ کی جارہی ہے جبکہ دونوں طرف اونچی عمارتیں ہیں۔ اس ویڈیو کے ساتھ سوشل میڈیا پر ایک تحریر شیئر کی جا رہی ہے کہ ’150 سال پرانا ہندو مندر گرا دیا گیا ہے‘۔ خود کو سوریاونشی راجپوت متعارف کراتے ہوئے 45 سالہ ریکھا نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ماری ماتا مندر کی چوتھی نسل کی متولی ہیں۔ ان کے مطابق ان کے آباؤ اجداد گزشتہ 150 سالوں سے اس مندر کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ تنازع اس وقت شروع ہوا جب ریکھا نے مندر کے احاطے میں تعمیراتی کام شروع کیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ مندر ان کی ملکیت ہے اور اس کا کسی پنچایت یا ٹرسٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کے مطابق یہ ان کا مندر ہے اور یہاں ان کی اپنی مرضی چلے گی۔ ریکھا کے رویے میں ان لوگوں کے خلاف غصہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے جنھوں نے اس کی تعمیر پر اعتراض اٹھایا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ان لوگوں کو ہندو نہیں مانتی ہیں۔ ماری ماتا کا مندر کراچی کے علاقے سولجر بازار کے 500 مربع فٹ رقبے پر واقع ہے۔ ریکھا نے مجھے بتایا کہ ’یہاں چھ سے سات کمرے اور واش روم تھے، یہاں آٹھ خاندان رہتے تھے، جن کے 42 ارکان تھے۔ یہ مندر ہمارے آباؤ اجداد کا ہے۔ ہم نے یہاں کبھی کوئی مدراسی برادری کا فرد نہیں دیکھا۔ اس کے یہاں آنے کی وجہ اب یہ ہے کہ اس جگہ سونے کا ایک ٹکڑا ہے۔ ماری ماتا مندر وسطی کراچی میں واقع ہے۔ سولجر بازار کہلانے والے اس گنجان آباد علاقے میں جائیداد کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ اس مندر کے آس پاس مدراسی اور گجراتی برادریاں رہتی ہیں۔ ان برادریوں کا کہنا ہے کہ مندر ان کی ملکیت ہے۔ اس نے یہ جائیداد ریکھا کے آباؤ اجداد کو بطور سرپرست دی تھی۔ شاردا دیوی کا کہنا ہے کہ یہ مندر مدراسی برادری کا ہے، یہ انھیں دیا گیا تھا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ان کا ہے، یہ انھیں اس کی دیکھ بھال کے لیے دیا گیا تھا۔ اس پر کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب نے بھی اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ ہونا چاہیے۔ سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے مندر کے احاطے میں تعمیراتی کام روک دیا ہے۔ کمیشن نے محکمہ اقلیتی امور اور کمشنر کراچی کو ہدایت کی ہے کہ معلوم کریں کہ مندر کس کی جائیداد ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ کراچی کے 150 سے زائد مندروں کا کیس اس وقت ملک کی سپریم کورٹ کے سامنے زیر التوا ہے۔ یہ وہ مندر ہیں جن پر تقسیم کے بعد عمارتیں بنی تھیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n5jlvj4mjo", "summary": "سندھ کی قدیم بندرگاہ کیٹی بندر نے عروج بھی دیکھا اور زوال اور یہ کئی سمندری طوفان کا بھی چشم دید گواہ ہے، اس کی خوشحالی اس قدر تھی کہ اس نے کراچی میونسپل کو دس لاکھ روپے گرانٹ دی تھی۔\n", "title": "کیٹی بندر جو کراچی میونسپل کو لاکھوں روپے گرانٹ دیتا تھا", "firstPublished": "2023-06-16T01:05:07.222Z", "id": "c4n5jlvj4mjo", "article": "سندھ کی قدیم بندرگاہ کیٹی بندر نے عروج بھی دیکھا اور زوال اور یہ کئی سمندری طوفان کا بھی چشم دید گواہ ہے، اس کی خوشحالی اس قدر تھی کہ اس نے کراچی میونسپل کو دس لاکھ روپے گرانٹ دی تھی۔ کیٹی بندر شاہ بندر کے زمین میں دھنس جانے اور دریائے سندھ کا رخ تبدیل ہونے کی وجہ سے تعمیر کیا گیا تھا، ’سندھ کے بندر اور بازار‘ کے مصنف دادا سندھی لکھتے ہیں کہ شاہ بندر کی تعمیر حیدرآباد شہر کے بانی میاں غلام شاہ کلہوڑو نے 1659 میں کی تھی اس سے قبل ارونگ بندر کے ذریعے تجارت ہوتی تھی جس کی تعمیر اورنگزیب عالمگیر نے کرائی تھی، شاہ بندر کی تعمیر کے بعد ارونگ بندرگاہ کی اہمیت ختم ہوگئی اور لوگ نقل مکانی کرکے شاہ بندر آگئے جہاں قلعہ بھی تعمیر کرایا جس کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔ صوبہ سندھ کے اس وقت کے کمشنر مسٹر ہڈسن نے اپنی 1905 کی رپورٹ میں کیٹی بندر کا مرکزی اور تجارتی شہر کے طور پر ذکر کیا ہے، 1845 میں اس کی آبادی 2542 درج کی گئی تھی اور 1932 میں اس کو میونسپل کمیٹی کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس بندرگاہ کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اس وقت کی برطانوی حکومت نے کیٹی بندر میں کسٹمز آفس، نیویگیشن، مانیٹرنگ اور پورٹ ٹیکسیشن کا بنیادی نظام نافذ کیا ہوا تھا۔ ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کہتے ہیں کہ انیسویں صدی سے اس بندرگاہ نے عروج گنوانا شروع کیا کراچی پورٹ ٹرسٹ بنا گیا اس کے بعد ریلوے سروس کا قیام ہوگیا جس سے پنجاب میں ہونے والی کپاس اور گندم پورٹ تک جانے لگی جبکہ کیٹی بندر تک کوئی براہ راست رسائی نہیں تھی اس وجہ سے اپنی اہمیت کھونے لگا۔ کیٹی بندر شہر سیلابوں اور طوفانوں کا مقابلہ بھی کرتا رہا ہے، سنہ 1857، 1877 اور 1910 میں سمندری طوفان اور سمندری پیش قدمی کی وجہ سے یہ شہر تین مرتبہ ڈوب چکا ہے۔ آرکیالوجسٹ اور محقق ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری بتاتے ہیں کہ انگریزوں کے زمانے میں زلزلے کی وجہ سے یہ بندرگاہ ریت میں دھنس گئی جس کے بعد دو کلومیٹر دور واقع حالیہ کیٹی بندر کا شہر بنایا گیا تھا۔ 1941 میں آنے والے طوفان سے بھی یہ محفوظ رہا لیکن 1999 کے طوفان نے اس علاقے اور آس پاس میں بڑی جانی اور مالی تباہی مچائی، محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ سمندری طوفان بپر جوائے بھی اس طرز کا ہے اس کے کیٹی بندر سے ٹکرانے کے امکانات تھے لیکن یہ طوفان انڈین گجرات کی طرف بڑھ گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے لے کر پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت تک کیٹی بندر کی بندرگاہ سمیت کئی منصوبے بنائے گئے ہیں، بینظیر بھٹو نے 1994 میں تھر سے نکلنے والے کوئلے پر یہاں بجلی گھر بنانے کا منصوبہ بنایا لیکن میاں نواز شریف کی حکومت نے اس منصوبے کو مسترد کردیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2rn3xxed0o", "summary": "مرتضیٰ وہاب نے 2018 کے انتخابات سے قبل صرف سکول میں ڈپٹی پریفیکٹس اور کیپٹن آف ہاؤس کے انتخابات میں ہی حصہ لیا تھا۔ ان کی کسی طلبہ تنظیم یا وکلا ایسوسی ایشن سے وابستگی نہیں رہی۔", "title": "’زرداری صاحب نے بلایا تو انکار نہیں کر سکا اور سیاست میں آ گیا‘: پیپلز پارٹی کے پہلے میئر کراچی کون ہیں؟", "firstPublished": "2023-06-15T13:15:14.737Z", "id": "cv2rn3xxed0o", "article": "میئر کراچی کے الیکشن کے لیے ریٹرنگ افسر ظفر عباس نے اب سے کچھ دیر قبل اس منصب کے لیے ہونے والے الیکشن میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مرتضی وہاب نے 173 جبکہ حافظ نعیم الرحمن نے 160ووٹ حاصل کیے ہیں جبکہ اس موقع پر تحریک انصاف کے 31 ممبران نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا کیونکہ وہ غیرحاضر تھے۔ یاد رہے کہ مرتضیٰ وہاب کے لیے قانون میں ایک اہم تبدیلی کی گئی۔ وہ یونین کونسل چیئرمین بنے بغیر ہی کراچی کے میئر بنے ہیں۔ اب وہ آئندہ چھ ماہ میں کسی یو سی سے چیئرمین کا انتخاب لڑیں گے۔ ان کا انتخاب ایک متنازع عمل رہا اور حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی پر مخالف جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کے اراکین کو ہراساں کرنے اور اغوا کرنے جیسے الزامات عائد کیے گئے۔ مرتضیٰ وہاب اور پیپلز پارٹی الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ان انتخابات میں ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال کامیاب ہوئے تھے۔ اس سے قبل ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور جماعت اسلامی نے اکثریتی نشستیں حاصل کی تھیں جس کے نتیجے میں نعمت اللہ خان ناظم بنے تھے تاہم اگلی بار وہ شکست کھا گئے۔ مرتضیٰ وہاب نے سنہ 2018 کے انتخابات سے قبل صرف سکول میں ڈپٹی پریفیکٹس اور کیپٹن آف ہاؤس کے انتخابات میں ہی حصہ لیا تھا۔ ان کی کسی طلبا تنظیم یا وکلا ایسوسی ایشن سے وابستگی نہیں رہی۔ دسمبر 1983 میں کراچی میں پیدا ہونے والے مرتضی وہاب نے ابتدائی تعلیم بی وی ایس پارسی سکول سے حاصل کی جس کے بعد گورنمنٹ کامرس کالیج سے انٹر اور بعد میں لا کالج سے ایل ایل بی کیا۔ ان کو کراچی لا کالجز کے بورڈ آف گورنرز کی چیئرمین شپ سے بھی ہٹا دیا گیا۔ بعد میں پارٹی نے انھیں سینیٹر منتخب کروایا۔ سنہ 2018 کے عام انتخابات میں انھوں نے کراچی میں ڈیفنس سے الیکشن لڑا لیکن انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ بقول ان کے اس سے اچھا تجربہ ہوا اور پہلی بار وہ الیکشن میں لوگوں سے رابطے میں آئے۔ جسٹس گلزار احمد نے بطور ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب کی کئی بار سرزنش کی اور ایک بار ان کے ایک جواب پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے عہدے سے ہٹانے کے احکامات جاری کیے لیکن بعد میں غیر مشروط معافی پر انھیں بحال کر دیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد کراچی میں مرتضیٰ وہاب پارٹی کے پہلے منتخب میئر ہیں۔ اس سے قبل جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے تین تین بار میئر اور ناظم رہے ہیں۔ مرتضیٰ وہاب کہتے ہیں کہ ’اگر نادان دوست روڑے نہ اٹکائیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔‘ ان کی اولیت ترجیحات میں پانی، سیوریج، روڈ انفرا سٹرکچر، ٹرانسپورٹ، تفریحی مقامات اور پارکس شامل ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw0xjj4p1n2o", "summary": "پاکستان کے میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ شمال کی جانب بڑھتا ہوا یہ طوفان اب کراچی سے تقریبا 600 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے جو 15 جون کی سہ پہر تک سندھ میں کیٹی بندر اور انڈیا میں گجرات کے علاقوں سے گزرے گا۔", "title": "بپر جوائے: اس سمندری طوفان سے پاکستان کے کون سے علاقے متاثر ہو سکتے ہیں؟", "firstPublished": "2023-06-11T08:51:36.579Z", "id": "cw0xjj4p1n2o", "article": "بحیرہ عرب میں موجود ’بپر جوائے‘ نامی سمندری طوفان اب انتہائی شدید سائیکلون میں تبدیل ہو گیا ہے اور اس کا رُخ بدستور پاکستان اور انڈیا کے ساحلی علاقوں کی جانب ہے۔ پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق یہ سائیکلون پیر کی دوپہر کراچی سے تقریباً 600 کلومیٹر، ٹھٹہ سے 580 کلومیٹر اورماڑہ سے 710 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود تھا اور لگ بھگ سات کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس طوفان کے مرکز میں اس وقت ہوا کی رفتار 200 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جبکہ اس کے نتیجے میں 35 سے 40 فٹ بلند سمندری لہریں اٹھ رہی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ طوفان 15 جون کی سہ پہر تک سندھ میں کیٹی بندر اور انڈیا میں گجرات کے علاقوں سے ٹکرا سکتا ہے۔ امکان ہے کہ بحیرۂ عرب میں یہ سمندری طوفان 14 جون کی صبح تک شمال کی سمت میں چلتا رہے گا جس کے بعد یہ شمال مشرق کی جانب مڑے گا اور 15 جون کو پاکستان میں کیٹی بندر اور انڈیا میں گجرات کے ساحل سے گزرے گا۔ حکام کے مطابق اس طوفان کی ممکنہ آمد کے ساتھ ہی سندھ کے جنوب مشرقی علاقوں میں تیز ہواؤں اور طوفانی بارش کا امکان ہے جبکہ 13 سے 17 جون تک ٹھٹہ، سجاول، بدین، تھرپارکر، میر پور خاص اور عمر کوٹ کے اضلاع میں 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک کی تیز ہوائیں چل سکتی ہیں۔ طوفان کی آمد کی وجہ سے کیٹی بندر کے اردگرد آٹھ سے 12 فٹ بلند سمندری لہریں متوقع ہیں جو نزدیکی علاقوں کو زیر آب لا سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ این ڈی ایم اے نے خبردار کیا ہے کہ بدین اور ٹھٹہ کے ساحلی علاقوں میں بھی سیلابی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ اس وقت سب سے اہم اقدام لوگوں کو پاکستان کے ساحلی علاقوں سے نکال کر محفوظ مقامات کی جانب منتقل کرنا ہے اور پر کام جاری ہے جبکہ کراچی اور دیگر شہری علاقے جو طوفان کے دوران آنے والی ممکنہ بارشوں سے متاثر ہو سکتے ہیں وہاں پمپنگ مشینیں لگائی جا رہی ہیں تاکہ نکاسی آب کا کام بروقت ہو سکے۔ ’اس کی اس وقت رفتار بھی وہ ہی ہے جو کہ 1999 میں تھی اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ طوفان کیٹی بندر سے ٹکرائے گا۔ 1999 والا طوفان بھی کیٹی بندر سے ٹکرایا تھا۔‘ پاکستان کی طرح انڈیا کے محکمہ موسمیات کی جانب سے بھی پیشگوئی کی جا چکی ہے کہ یہ سمندری طوفان اگلے کچھ گھنٹوں میں ’انتہائی شدید سائیکلونک طوفان‘ میں بدل سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cydgedl3r0lo", "summary": "سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کے پاس لوگوں کو دھوکے سے اپنے پاس بلا کر اغوا کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ زیادہ تر وہ لوگ ان حربوں میں پھنستے ہیں جو سندھ کے باہر سے آتے ہیں۔", "title": "’میڈم آپ کا انتظار کر رہی ہیں۔۔۔‘ کچے کے ڈاکو کاروبار یا محبت کا جھانسہ دے کر کیسے لوگوں کو اغوا کرتے ہیں", "firstPublished": "2023-06-09T04:10:37.053Z", "id": "cydgedl3r0lo", "article": "ٹیلی کام اور انٹرنیٹ کے فروغ کے بعد ڈاکو بھی اس کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں۔ ڈی آئی جی عرفان بلوچ، جو شمالی سندھ میں بطور ایس ایس پی فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ سندھ میں گھوٹکی ضلع سے خواتین کی آواز میں بات کر کے لوگوں کو جھانسہ دے کر اغوا کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو بعد میں شکارپور اور کشمور اضلاع تک پہنچ گیا۔ وہ انھیں سی پیک روڈ سے کچے میں لے آئے اور ایک جگہ پر انھوں نے محمد علی اور ان کے کزن کو اغوا کر لیا اور انھیں درخت کے ساتھ باندھ دیا۔ پولیس ایس ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو کہتے ہیں کہ ڈاکوؤں کو جب پکے کے علاقے تک آنے میں دشواری ہوئی تو انھوں نے فیس بک کے ذریعے مختلف لوگوں کو مختلف طریقوں سے اپنے پاس بلانا شروع کر دیا سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کے پاس لوگوں کو دھوکے سے اپنے پاس بلا کر اغوا کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ زیادہ تر وہ لوگ ان حربوں میں پھنستے ہیں جو سندھ کے باہر سے آتے ہیں۔ پولیس ایس ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو کہتے ہیں کہ ڈاکوؤں کو جب پکے کے علاقے آنے میں دشواری ہوئی تو انھوں نے فیس بک کے ذریعے مختلف لوگوں کو مختلف طریقوں سے اپنے پاس بلانا شروع کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آپ ڈاکوؤں کو کچے سے باہر آنے سے تو روک سکتے ہیں لیکن مغوی جب رضاکارانہ طور پر خود کچے کے علاقے میں جائیں تو یہ بہت بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ 90 فیصد اغوا کی وارداتیں سوشل میڈیا کے ذریعے ہوئی ہیں۔‘ ایس ایچ او عبدالشکور لاکھو کے مطابق کچے کا ڈاکو اپنے علاقے سے باہر نہیں نکلتا اس کے جو سہولت کار ہیں وہ بندہ لے کر آتے ہیں اور کچے میں پہنچاتے ہیں۔ ’خاص طور پر جو کرائے والی موٹر سائیکل چلاتے ہیں وہ تاوان کی رقم لیتے ہیں، یہ ایک کاروبار ہے جس کی پوری چین ہے۔ یعنی اٹھانے والے کا حصہ، رکھنے والے کا حصہ، راستے میں جو لے کر آئے گا اس کا حصہ۔‘ سندھ پولیس کے پاس ڈاکوؤں سے لڑائی کے لیے جی تھری اور کلاشنکوف جیسے ہتھیار موجود ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں ڈاکوؤں کے پاس 12.7 ایم ایم طیارہ شکن بندوقیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ آر پی جی ہیں جس سے وہ پولیس آپریشن میں مزاحمت کرتے ہیں۔ انسپکٹر عبدالشکور لاکھو، جو ڈاکوؤں سے کئی بار مقابلہ کر چکے ہیں، بتاتے ہیں کہ ڈاکوؤں کے پاس بھاری اسلحہ ہے جس کو بکتربند برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ ڈاکوؤں کی جانب سے پولیس آپریشن کے دوران بنائی گئی ویڈیوز میں وہ پولیس کی بکتر بند گاڑیوں کے قریب نظر آتے ہیں، بعض میں تو شکارپور اور گھوٹکی میں اے پی سیز پر حملے کر کے ان کے پرزے بھی دکھائے گئے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1r7z4z2x3o", "summary": "متاثرہ بچوں کے خاندان کی جانب سے استاد کو ’قرآن پر معافی‘ دی گئی تھی جبکہ سیشن عدالت نے اس واقعے کی ویڈیوز اور تصاویر کی موجودگی کے باوجود ’کمزور تحقیقات‘ کو بنیاد بنا کر شک کا فائدہ دیتے ہوئے انھیں بری کر دیا تھا۔", "title": "خیرپور: جب تین بچوں کے مبینہ ریپ کے ملزم استاد کو ’قرآن پر معافی ملی‘ ", "firstPublished": "2023-05-29T04:05:53.176Z", "id": "cd1r7z4z2x3o", "article": "متاثرہ بچوں کے خاندان کی جانب سے استاد کو ’قرآن پر معافی‘ دی گئی تھی جبکہ سیشن عدالت نے اس واقعے کی ویڈیوز اور تصاویر کی موجودگی کے باوجود ’کمزور تحقیقات‘ کو بنیاد بنا کر شک کا فائدہ دیتے ہوئے انھیں بری کر دیا تھا۔ سوشل میڈیا پر شدید تنقید اور عوامی ردعمل کے بعد عدالتی فیصلے کے خلاف حکومتِ سندھ کی جانب سے درخواست دائر کر دی گئی ہے جبکہ سندھ ہائیکورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس بھی لے لیا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی درخواست مدعی نے اپنے 11 سالہ بچے کے مبینہ ریپ کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد درج کروائی تھی اور اس میں جنسی زیادتی کے الزامات کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ ملزم بچوں سے جنسی فعل کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی دھمکیاں بھی دیتا تھا۔ جج نے فیصلے میں لکھا کہ ’میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ پراسیکیوشن ملزم کے خلاف الزامات کو ثابت کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ اس لیے انھیں شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرتی ہوں۔‘ خیال رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے سنہ 2021 میں اس مقدمے میں اے ٹی سی کی دفعہ ہٹانے کی درخواست مسترد کی جا چکی تھی تاہم ایک برس بعد 14 دسمبر 2022 کو سندھ ہائی کورٹ کی کراچی رجسٹری نے کیس کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ہٹا کر سیشن عدالت میں سننے کا حکم دیا تھا۔ ’وہ دن ہمارے لیے زلزلے کا دن تھا۔ ایک بچہ میرے دروازے پر آیا اور اس نے کہا کہ آپ کے بیٹے کی مووی چل رہی ہے۔ میں نے پوچھا کہاں؟ لا کر دکھاؤ لیکن پھر میں نے اپنے بیٹے کو ہی بلایا اور اسے کہا بتاؤ کیا ہوا؟ جلدی سے بتاؤ ورنہ تمھارے ابو آ کر مارے گے۔ میرے بیٹے نے کہا کہ استاد نے مجھے ایک ہزار روپے دیے تھے اور کہا تھا کہ مجھے ایسے کرنے دو۔‘ ’میں یہ سب سن کر کانپ گئی اور میری کوشش تھی کہ یہ بات باہر نہ نکلے۔ میں فوراً استاد کے گھر گئی لیکن اس کی بیوی نے مجھ سے جھگڑا شروع کر دیا اور کہا تم لوگ ہو ہی ایسے۔ اگر سچ ہے تو ثبوت لے کر آؤ۔ اتنے میں استاد کمرے سے نکلا اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ بیٹا ایسا کچھ نہیں، یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ میں تو بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا ہوں۔‘ سندھ حکومت کی جانب سے 18 مارچ 2023 کو جمع کروائی گئی درخواست میں مفاہمت کی درخواست کا حوالہ بھی دیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مجرم کو مدعی نے قرآن پر معافی دی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ متاثرہ بچے کے والد نے عدالت میں بیان دیا کہ وہ مفاہمت کی وجہ سے اپنا بیان بدلنا چاہتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ceq6wnjjwe3o", "summary": "گذشتہ برس پاکستان میں آنے والے سیلابوں سے 33 لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے۔ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ تھا، جہاں 23 لاکھ افراد بے گھر ہوئے جن کی ایک بڑی تعداد آج بھی خیموں میں رہنے پر مجبور ہے۔ ان کی بحالی کا کام سست روی کا شکار ہے۔", "title": "’ہوا بھی چلے تو لگتا ہے ہم ڈوب جائیں گے‘ سیلاب متاثرین کو گھروں کی تعمیر کے لیے رقم کیوں نہ مل سکی؟", "firstPublished": "2023-05-13T03:48:40.152Z", "id": "ceq6wnjjwe3o", "article": "گذشتہ برس پاکستان میں آنے والے سیلابوں سے 33 لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے۔ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ تھا، جہاں 23 لاکھ افراد بے گھر ہوئے جن کی ایک بڑی تعداد آج بھی خیموں میں رہنے پر مجبور ہے۔ ان کی بحالی کا کام سست روی کا شکار ہے۔ گزشتہ برس کے سیلابوں سے تینتیس لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے۔ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ حکومت سندھ کے مطابق سیلابی بارشوں سے 21 لاکھ سے زائد گھر متاثر ہوئے ہیں جن میں 79 فیصد کچا سٹرکچر تھا، حکومت سندھ نے محکمہ ریونیو اور پاکستان فوج کی معاونت سے یہ سروے کیا تھا۔ حکومت نے مکمل مسمار گھر کا معاوضہ تین لاکھ روپے جبکہ جزوی گھر کے لیے ایک لاکھ روپے تعین کیا ہے۔ متاثرہ گھروں کے سروے کی توثیق اور تصدیق کا کام این جی اوز کو دیا گیا ہے جن کے اہلکار فہرست میں موجود گھروں میں جاکر ان کا معائنہ کرتے ہیں۔ سروے کے مطابق یہاں پر پینتالیس گھر بارشوں کی وجہ سے مسمار ہوئے تاہم یہاں کے رہائشی ان کی تعداد پچپن بتاتے ہیں یہاں پر اس وقت تک چھ ایسے گھر ہیں جن کے مالکان کو حکومت کی جانب سے مقررہ پیسے کی پہلی قسط چکی ہے جو پچہتر ہزار ہے۔ انھوں نے اپنے پڑوس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا نام بھی فہرست میں نہیں ہے۔ دلمراد منگنہار گاؤں میں ایک ایک خیمے میں کئی کئی لوگ نظر آتے تھے، ایک رہائشی وزیر علی منگنہار نے بتایا کہ 2010 کے سیلاب کے بعد ایک این جی او نے انھیں سیمنٹ کے بلاکس کے ساتھ گھر بناکر دیے تھے حالیہ سیلاب سے وہ پہلے سے زیادہ متاثر ہیں لیکن ابھی تک حکومت کے سروے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ علی بخش ببر گاؤں میں ہم گذشتہ سال اکتوبر میں دین محمد ببر کے ساتھ گئے تھے جب وہ کشتی میں اپنے خاندان کے ساتھ واپس جارہے تھے۔ جب مئی کے دوسرے ہفتے میں ان کے گاؤں پہنچے تو اس وقت بھی ان کے گھر کے پیچھے پانی موجود تھا جو کئی سو ایکڑوں پر مشتمل تھا۔ حکومت نے جو سروے کیا ہے اس کے مطابق دادو ضلعے میں ایک لاکھ پینتس ہزار گھر مسمار ہوئے تھے تاہم اس میں صرف اس وقت تک 30 ہزار گھروں کی توثیق و تصدیق ہوچکی ہے۔ دادو میں موجود تنظیم کے ذمہ دار سکندر علی راہموں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں جو فہرست ملی ہے وہ اس کی تصدیق کرتے ہیں، مستفید ہونے والے کا شناختی کارڈ دیکھا جاتا ہے ڈیٹا انٹری کے بعد اس کا بینک اکاؤنٹ کھلتا ہے جس میں رقم ادا کی جاتی ہے، تنظیم کے انجنیئر موجود ہیں جو ڈیزائن پر عمل درآمد کراتے ہیں یہ تین سال کا منصوبہ ہے جس میں ایک لاکھ 164 ہزار مکمل کرکے دینے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/clm98m0z0rjo", "summary": "ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے قائم اس بیکری کی انتظامیہ نے کیک اور دیگر اشیا کا معیار اور ذائقہ کیسے برقرار رکھا ہوا ہے؟\n", "title": "سوا صدی پرانی بمبئی بیکری کا ’ذائقہ اب بھی وہی‘", "firstPublished": "2023-05-02T07:10:55.105Z", "id": "clm98m0z0rjo", "article": "سوا صدی پرانی بمبئی بیکری کا ’ذائقہ اب بھی وہی‘ حیدر آباد شہر میں سوا ایکڑ رقبے پر ایک بنگلے میں قائم بمبئی بیکری کے باہر آج بھی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں۔ لوگ خاص طور پر بیکری کا مشہور کیک خریدنے کے لیے طویل انتظار کرتے ہیں لیکن ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے قائم اس بیکری کی انتظامیہ نے کیک اور دیگر اشیا کا معیار اور ذائقہ کیسے برقرار رکھا ہوا ہے؟ جاننے کے لیے دیکھیے ریاض سہیل اور محمد نبیل کی یہ رپورٹ۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gpvw9y14no", "summary": "جب گزشتہ دنوں فاطمہ بھٹو کی شادی کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر ہوئیں تو جہاں ان کی سادگی سے کی جانے والی شادی زیر بحث رہی وہیں ان کی وہ تصویر بھی دلچسپی کا مرکز رہی جس میں ایک رسم ’لانوا‘ کے دوران فاطمہ اور ان کے شوہر عروسی جوڑے میں ملبوس ہیں اور ان کے سر ٹکرائے جا رہے ہیں۔", "title": "فاطمہ بھٹو کی شادی: سر سے سر ٹکرانا، کھیر چٹائی اور دلہن کے پاؤں دھونا، پاکستانی شادیوں کی انوکھی رسمیں", "firstPublished": "2023-05-02T03:39:33.738Z", "id": "c3gpvw9y14no", "article": "پاکستان میں جہاں شادی کا دن لڑکا لڑکی کی زندگی کا اہم ترین دن تصور کیا جاتا ہے وہیں شادی کی تقریبات کے دوران مختلف روایتی رسمیں اس موقع کو اور بھی یادگار اور حسین بنانے میں اپنا کردار بخوبی ادا کر رہی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب گزشتہ دنوں فاطمہ بھٹو (جو پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو کی پوتی ہیں) کی شادی کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر ہوئیں تو جہاں ان کی سادگی سے کی جانے والی شادی زیر بحث رہی وہیں ان کی وہ تصویر بھی دلچسپی کا مرکز رہی جس میں ایک رسم ’لانوا‘ کے دوران فاطمہ اور ان کے شوہر عروسی جوڑے میں ملبوس ہیں اور ان کے سر کو باہم ٹکرایا جا رہا ہے۔ اس یادگار تصویر پر جہاں اس خاص رسم ’لانوا‘ سے متعلق لوگوں نے سوالات کیے وہیں اپنے علاقے اور روایات سے متعلق شادی کی کئی دیگر رسموں سے متعلق بھی بات کی گئی۔ واضح رہے کہ صوبہ سندھ کے خاص رواج کے مطابق شادیوں میں نکاح کے بعد ادا کی جانے والی رسم لانوا میں میاں بیوی کو آمنے سامنے بٹھا کر ان کا سر ایک دوسرے سے دھیرے دھیرے ٹکرایا جاتا ہے۔ پاکستان میں آباد مختلف پس منطر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ہاں کئی نسلوں سے رائج بے شمار رسمیں ایسی ہیں جو انڈیا پاکستان کی تقسیم کے وقت سے بھی پہلے کی چلی آ رہی ہیں۔ شادی بیاہ کے مواقع پر بھی کئی ایسی رسومات ہیں جن پر تقسیم سے قبل کی چھاپ نمایاں ہے جب ہندو اور مسلمان ایک ساتھ رہا کرتے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ’خاندان میں ہونے والی تمام شادیوں میں جو رسم مجھے سب سے اچھی لگتی تھی وہ مہندی اور مایوں کے روز دولہا سے چھوٹی سالیوں کا نیگ (پیسے) لینا بہت پسند تھا۔ تو جب میری شادی ہوئی تو کزنز نے اس موقع کے لیے مل کر تیاری کی۔ میری کزنز نے میرے شوہر کی چھوٹی انگلی کو مہندی لگانے کے بہانے پکڑ کر اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک من پسند نیگ نہیں وصول کر لیا۔ وہ رونق یاد کر کے آج بھی ہنسی آتی ہے۔‘ شادی کے موقع پر ادا کی جانے والی خوبصورت رسومات پر پشاور سے تعلق رکھنے والی صحافی فرزانہ علی نے خیبرپختونـوا کی چند منفرد رسومات شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ یوں تو وقت کے ساتھ رسومات کی ادائیگی میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں آ گئی ہیں لیکن ان کے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان میں آج بھی ’موہاڑی‘ اور ’مٹھ‘ کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ ’اس رسم میں جب کپاس دلہن کے ہاتھ پر رکھی جاتی ہے تو اس کی سہیلیاں دلہن کی مٹھی بند کرواتی ہیں تاکہ دولہا آسانی سے نہ کھلوا سکے۔ اس دوران خاندان کے نوجوان شغل لگاتے ہیں اور ہنسی خوشی اس رسم کو ادا کیا جاتا ہے تاکہ دلہن گھر میں اجنبیت نہ محسوس کرے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd175e1pn5qo", "summary": "بمبئی بیکری کے کیک بنتے تو حیدرآباد میں ہیں لیکن اس کی دھوم پورے پاکستان میں ہے۔ پھلاج رائے گنگا رام تھدانی نے1911 میں حیدرآباد کے علاقے صدر میں بمبئی بیکری قائم کی تھی۔ ", "title": "بنگلے میں قائم بمبئی بیکری، جہاں بننے والے کیک کی ترکیب ایک صدی بعد بھی راز ہے", "firstPublished": "2023-05-01T05:23:28.445Z", "id": "cd175e1pn5qo", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد کے علاقے صدر میں سرخ رنگ کی عمارت کے باہر اور اندر لوگوں کی قطار لگی ہوئی ہے۔ لکڑی کے فریم سے بنا دروازہ کھلتا ہے تو قطار میں کھڑے افراد میں سے ایک اندر کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ پہلاج رائے گنگا رام تھدانی نے سنہ 1911 میں حیدر آباد کے علاقے صدر میں بمبئی بیکری قائم کی تھی۔ ایک بنگلے میں قائم اس بیکری میں رہائشگاہ بھی بنائی گئی۔ پہلاج رائے اپنے تینوں بیٹوں شیام داس، کشن چند اور گوپی چند کے ہمراہ یہاں رہتے تھے۔ بمبئی بیکری کا کیک ویسے تو پورے ملک میں مشہور ہے لیکن حیدر آباد کی تو یہ سوغات ہے۔ اس بیکری کے قیام کے ابتدائی دنوں میں 20 کیک بنتے تھے لیکن اس تعداد میں اب 100 گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ یہاں کیک خریدنے کے لیے وقت مقرر ہے کیونکہ ہر وقت کیک دستیاب نہیں۔ بیکری صبح آٹھ بجے کھلتی ہے لیکن گاہکوں کی قطار اس سے پہلے لگ جاتی ہے پھر بھی ہر کسی کے حصے میں یہ کیک نہیں آتا۔ ان کے بقول ایسا بھی نہیں کہ یہ صرف بچوں کی ضد ہے بلکہ بمبئ بیکری کا ذائقہ بڑا منفرد ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کراچی میں بہت سی بیکریاں ہیں جہاں اس سے کہیں زیادہ قیمتیں ہیں لیکن ہم ان کے معیار سے مطمئن نہیں ہوتے۔‘ بمبئی بیکری میں چاکلیٹ، کافی، لیمن کیک کے علاوہ میکرون، فروٹ کیک اور بسکٹ تیار کیے جاتے ہیں۔ ان پر نہ تو ڈیزائن بنے ہوتے ہیں اور نہ ہی کسٹمرز کی فرمائش پر کیک پر بنائے جاتے ہیں۔ کیک کی طرح پیکنگ کا ڈبہ بھی سادہ ہے سفید رنگ کے ڈبے پر سرخ اور سبز چھپائی ہے جس پر ’شاپ ان دے بینگلو‘ (بنگلے میں قائم دکان) تحریر ہے۔ پہلاج رائے کے پوتے اور بمبئی بیکری کے مالک کمار تھدانی نے براڈ کاسٹر نصیر مرزا کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ انھیں نقل مکانی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کیونکہ جب سندھ میں خون اور فساد ہوا تھا اس وقت حیدرآباد میں فسادات کم رہے۔ انھوں نے حیدر آباد کے اس علاقے میں ایک لاش بھی گرتے نہیں دیکھی تھی اس لیے انھوں نے اپنی دھرتی نہیں چھوڑی تھی۔ پاکستان میں بمبئی بیکری کی شناخت اس کا کیک ہے لیکن حیدر آباد کے شہریوں کے لیے اس کی ایک شناخت اس کے مالکان کی درویشی اور سخاوت بھی ہے۔ بمبئی بیکری کی عمارت کا رنگ پہلے سفید تھا جس کو اب سرخ پینٹ کیا گیا ہے۔ اس کی چار دیواری چھوٹی تھی جس کو 1980 کی دہائی میں حیدرآباد میں ہونے والی لسانی ہنگامہ آرائی کے بعد اونچا کیا گیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxep8x83nkdo", "summary": "سندھ کی معروف کاروباری شخصیت ایاز مہر کو لاپتہ ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا ہے مگر پولیس کے مطابق مبینہ جبری گمشدگی کے اس مقدمے میں تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے۔ ", "title": "معروف کاروباری شخصیت ایاز مہر کی مبینہ جبری گمشدگی کی تحقیقات میں ’کوئی پیشرفت نہیں‘", "firstPublished": "2023-04-16T00:07:39.244Z", "id": "cxep8x83nkdo", "article": "سندھ کی معروف کاروباری شخصیت ایاز مہر کو لاپتہ ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا ہے مگر پولیس کے مطابق مبینہ جبری گمشدگی کے اس مقدمے میں تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے۔ ڈیفینس تھانے میں 48 سالہ ایاز مہر کے بھائی جاوید مہر کی مدعیت میں اغوا کا مقدمہ درج کیا گیا جس میں بتایا گیا ہے کہ ایاز آئل اینڈ گیس کے شعبے میں بزنس مین ہیں۔ اس کے مطابق ایاز کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں اور ان کو ’نامعلوم افراد دس اپریل کی صبح گیارہ بجے گزری سے اغوا کر کے لے گئے۔‘ وقت کے ساتھ ایاز مہر کی کمپنی کا دائرہ کار سندھ کے اضلاع قمبر شہداکوٹ، خیرپور سے نکل کر ڈیرہ مراد جمالی، جھل مگسی اور کرم ایجنسی تک پھیل گیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے گھوٹکی کے بارڈر پر گابر کے مقام پر کینٹونمنٹ کی بھی تعمیر کی جس کے بعد وہ فوج کے سول ورکس میں بھی شامل ہوگئے۔ اس انتخابات سے قبل سیاسی میدان میں ان کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ ان کی سیاسی انٹری پر کئی چہ مگوئیاں ہوئیں حالانکہ اس سے قبل ان کا بھائی نوید مہر نے 2015 کی بلدیاتی انتخابات میں آزاد حیثیت سے ٹاؤن کمیٹی چک کے چیئرمین کا انتخاب لڑا اور حالیہ بلدیاتی انتخاب میں انھوں نے چک ٹاؤن کے چیئرمین اور دو یوسیز پر کامیابی حاصل کی۔ نوید مہر کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کے خاندان کا تعلق نیا نہیں ہے۔ جنرل ضیاالحق کے مارشل لا میں ان کے والد دو مرتبہ سکھر سینٹرل جیل میں قید رہے، 1987 میں والد کی وفات ہوئی۔ اس وقت وہ چھوٹے تھے، اب جب بڑے اور سیٹلڈ ہوئے تو دوبارہ سیاست میں سرگرم ہوگئے۔ نوید مہر کہتے ہیں ان کی کمپنی کو گابر چھاؤنی کی تعمیر کا کنٹریکٹ مروجہ قوانین کے مطابق ملا، اس مشکل ریگستانی علاقے میں عرصہ دراز سے مشکل ترین حالات کی وجہ سے یہ تعمیر نہیں ہو پارہی تھی۔ ایاز مہر کی بازیابی کے لیے شکارپور میں احتجاجی دھرنے بھی دیے گئے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس کی مذمت کی جا رہی ہے۔ ایاز مہر کے بھائی اور اغوا کے مقدمے کے مدعی جاوید مہر نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ انجینیئر ایاز مہر اس ملک کا شہری ہے جس کے آئین میں دیےگئے فرسٹ کلاس حقوق ہیں۔ ’وہ کسی سوال یا الزام کا جواب اسی ملک میں رہ کر دے گا نہ کہ وی لاگرز کی طرح ملک سے باہر رہ کر۔ ہمارے ادارے اور ہم سب اس مٹی کے وارث ہیں۔‘ ادھر سینیٹر مشتاق احمد نے کہا ہے کہ ایک ارب سے زائد ٹیکس دینے والے 10 بڑے ٹیکس دہندگان میں سے 1، ایاز مہر، کا دن دہاڑے اغوا بدترین انتظامی نااہلی۔سندھ میں اغوا برائےتاوان 1 نفع بخش کاروبار۔ یہ سندھ حکومت کی سہولتکاری سےہو رہا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0d42g18e4no", "summary": "سفید ہاتھی پالنے کی ماہر ریاست اگر ایک اصلی ہاتھی تک نہ سنبھال پائے تو آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ کو سنبھال لے گی؟ ", "title": "وسعت اللہ خان کا کالم: کیا پاکستان کو واقعی چڑیا گھر کی ضرورت ہے؟", "firstPublished": "2023-04-09T11:25:32.668Z", "id": "c0d42g18e4no", "article": "اس تاریخی نام کا قرض مشعلِ جہالت کے علمبرداروں نے یوں اتارا کہ پہلے تو تنزانیہ سے دو دو برس کے چار ہاتھیوں کو ان کی ماؤں سے جدا کر کے یا قتل کر کے پابہ زنجیر خرید کے کراچی پہنچایا گیا۔ پھر ان کے نام رکھے گئے سونو، ملکہ، مدھوبالا اور نور جہاں۔ اصلی نور جہاں کے ہوتے اگر کسی ہتھنی کا نام ملکہ کے نام پر رکھنے کے بارے میں کوئی سوچتا بھی تو ایسے شخص کو اسی ہتھنی کے پاؤں تلے رکھ دیا جاتا۔ شوق کے مارے یہ ہاتھی لے تو آئے مگر ان کی معیاری خوراک، کھلی فضا اور بیماری کی صورت میں مقامی سطح پر خوراک و علاج معالجے کا کوئی نظام نہ بنا پائے۔ چنانچہ جانوروں کی فلاح و بہبود سے متعلق عالمی تنظیم ’فور پا‘ کی ایک طبی ٹیم نے ہفتہ بھر نور جہاں کا تفصیلی معائنہ کیا، جتنا آپریشن ممکن تھا کیا گیا۔ نورجہاں کے لیے ضروری دواؤں کا کچھ زخیرہ تو طبی ٹیم اپنے ساتھ لائی مگر ٹیم کے جانے کے بعد زو انتظامیہ کے بقول ان دواؤں کو خریدنے کا بجٹ نہیں۔ ٹیم نے جاتے جاتے نصیحت کی کہ اگلے تین ہفتے تک نور جہاں کو مسلسل دیکھ بھال کی ضرورت ہے ورنہ یہ مر سکتی ہے۔ سرکاری رویہ یہ ہے کہ مر بھی گئی تو کیا ہوا اور کوئی ہتھنی پکڑ لائیں گے۔ مگر نور جہاں تو اس قابل بھی نہیں کہ اسے بین الاقوامی طبی ٹیم کے مشورے کی روشنی میں زو کی گھٹن سے نکال کے چند کلومیٹر پرے سفاری پارک کی نسبتاً کھلی فضا میں منتقل کیا جا سکے۔ نور جہاں کا حال دیکھ دیکھ کے اس کی ساتھی ہتھنی مدھوبالا ویسی ہی اعصابی کیفیت سے گذر رہی ہے جس کیفیت سے اصلی مدھو بالا آخری دنوں میں گذر رہی تھی۔ چڑیا گھر کے انتظامی ذمہ دار بلدیہ کراچی کے ناظم سے جب نور جہاں کی کیفیت کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ گھبرانا نہیں ہے۔ ہم طبی ٹیم کے مشوروں کی روشنی میں اس کی پوری دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ آخر جب ٹیم نور جہاں کی سرجری کر رہی تھی تو اسے کھڑا رکھنے کے لیے جو کرین استعمال کی گئی وہ بھی تو بلدیہ کراچی نے ہی فراہم کی تھی۔ اور انھی ارسطووں اور افلاطونوں کے دفتر سے چند ہفتے بعد یہ بیان بھی متوقع ہے کہ ’ہم نے تو نور جہاں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مگر پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اس کی دیکھ بھال کے دوران ہونے والی غفلتوں کی چھان بین کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔کمیٹی کی سفارشات پر پورا پورا عمل کیا جائے گا۔‘ سفید ہاتھی پالنے کی ماہر ریاست اگر ایک اصلی ہاتھی تک نہ سنبھال پائے تو آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ کو سنبھال لے گی؟ ویسے یونہی ایک بات ذہن میں آئی کیا پاکستان کو واقعی الگ سے کسی چڑیا گھر کی ضرورت ہے؟"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckd29ey9lq9o", "summary": "فرانس سے کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر اجمل ساوند کو جمعرات کی صبح کندھ کوٹ کے گھٹ تھانے کی حدود میں فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔\n", "title": "سندھ میں ’قبائلی تنازعے‘ میں ہلاک ہونے والے ڈاکٹر اجمل ساوند کون ہیں؟", "firstPublished": "2023-04-07T11:18:09.909Z", "id": "ckd29ey9lq9o", "article": "فرانس سے کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر اجمل ساوند کو جمعرات کی صبح فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا ڈاکٹر اجمل ساوند کی یہ ویڈیو گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں وہ طالب علموں کو لیکچر دے رہے ہیں۔ فرانس سے کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر اجمل ساوند کو جمعرات کی صبح کندھ کوٹ کے گھٹ تھانے کی حدود میں فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔ کندھ کوٹ کشمور پولیس، ڈاکٹر اجمل کے قتل کو قبائلی تنازعے کا شاخسانہ قرار دیتی ہے۔ ایس ایس پی کشمور عرفان سموں نے بی بی سی کو بتایا کہ قتل سندرانی اور ساوند قبائل میں تصادم کا نتیجہ ہے، جس میں اس وقت تک سات افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ’ساوند قبیلے نے سندرانی قبیلے کے شخص پر کاروکاری کا الزام عائد کیا تھا۔ اس کے بعد اس نے قبائلی تنازعے کی شکل اختیار کی جس میں ایک عورت اور اجمل ساوند سمیت سات افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔‘ اجمل ساوند کے بڑے بھائی ڈاکٹر طارق ساوند بتاتے ہیں کہ ان کے بھائی اپنی آبائی زمینیں دیکھنے گئے اور صبح جب واپس آ رہے تھے تو انھیں روک کر حملہ کیا گیا۔ سکھر کے صحافی ممتاز بخاری بتاتے ہیں کہ اجمل ساوند رات کو 12 بجے کچے میں اپنی زمینیں دیکھنے گئے تھے دوسرے روز صبح ان کی آئی بی اے سکھر میں کلاس تھی۔ ڈاکٹر اجمل یونیورسٹی آف ڈیکارٹس، پیرس میں ریاضی اور کمپیوٹر سائنس کی فیکلٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کام کر رہے تھے لیکن پھر اپنے وطن لوٹ آئے ساوند قبیلے کے مسلح لوگ ڈاکٹر اجمل کی لاش لے کر ہسپتال پہنچے جہاں ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ ڈاکٹر اجمل کی ہلاکت کے بعد ایک اور ویڈیو بھی وائرل ہوئی، جس میں ڈاکٹر اجمل کی ہلاکت کے بعد موٹر سائیکل سوار خوشی میں ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں۔ کندھ کوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اجمل ساوند کی بنیادی تعلیم کیڈٹ کالج لاڑکانہ میں ہوئی۔ ادب سے لگاؤ کی وجہ سے وہ وہاں ادبی رسالے اور سووینئر میگزین کے سب ایڈیٹر رہے۔ 2011 میں یونیورسٹی جین مونیٹ سینٹ ایٹین، فرانس سے کمپیوٹر سائنس (ویب انٹیلیجنس) میں ماسٹرز کیا، اس کے بعد پیرس کی ڈیکارٹس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ یونیورسٹی آف ڈیکارٹس، پیرس میں ریاضی اور کمپیوٹر سائنس کی فیکلٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کام کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ پیرس کی سرکاری لیبارٹری میں وائرلیس ہیلتھ کیئر سسٹمز اور ایپلی کیشنز پر تحقیق سے بھی وابستہ رہے اور ایک روز یہ سب کچھ چھوڑ کر وطن لوٹ آئے۔ شہنیلا زرداری کے مطابق جب وہ پی ایچ ڈی کے بعد وطن واپس آئیں تو یہاں ریسرچ کا اتنا ماحول نہیں تھا تو انھوں نے اجمل سے رابطہ کیا جس کے بعد ان کے کچھ مشترکہ تحقیقی پیپر شائع ہوئے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nje39v30eo", "summary": "ماہ بیگم کے دانش مندانہ فیصلوں نے اسے قندھار سے ہزاروں میل دور سندھ کی سرزمین پر تخت و تاج کی ملکہ بنا دیا۔ یکے بعد دیگرے اس کے دو شوہروں شاہ حسن اور عیسی خان ترخان نے حکمرانی کا تاج پہنا اور سندھ پر حکومت کی۔", "title": "ماہ بیگم: 50 برس تک سندھ کی تقدیر کے فیصلے کرنے والی ملکہ، جن کا آخری فیصلہ ان کی جان لے گیا", "firstPublished": "2023-03-29T03:44:00.133Z", "id": "c4nje39v30eo", "article": "پھر ایک وقت آیا کہ ان کے دانشمندانہ فیصلوں نے انھیں قندھار سے ہزاروں میل دور سندھ کی سرزمین پر تخت و تاج کی ملکہ بنا دیا۔ یکے بعد دیگرے ان کے دو شوہروں شاہ حسن اور عیسیٰ خان ترخان نے حکمرانی کا تاج پہنا اور سندھ پر حکومت کی مگر اس سب کے لیے ماہ بیگم تاحیات جدوجہد کرتی رہیں۔ میر قاسم نے جام فیروز کو یہ راہ سجھائی کہ چچا صلاح الدین سے جنگ کے لیے ارغونوں کی مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس موقع پر دانا و بینا دریا خان نے روکنے کی کوشش کی کہ ارغون تو خود سندھ پر قبضے کا خواب دیکھ رہے ہیں کہ اگر ان کی فوج یہاں آگئی تو ہمارے لیے بُرا ہوگا۔ انھوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ صرف چند ماہ قبل ماہ بیگم سندھ کے مزارات کی زیارت کے بہانے آئی تھیں جبکہ ان کی آمد کا اصل مقصد حالات سے واقفیت اور خصوصی ہدایات دینا تھا۔ شاہ بیگ کی وفات ہو چکی تھی اور شاہ حسن کے تمام امور کی نگرانی عیسی خان ترخان کر رہے تھے، جنھیں شاہ حسن نے منھ بولا بیٹا بنا رکھا تھا لیکن انھیں بھی ہر حکم کے لیے ماہ بیگم کی اجازت کی ضرورت تھی۔ ماہ بیگم اب سندھ کے ہر سیاہ و سفید کی مالک تھیں۔ ماہ بیگم نے سندھ کا اقتدار تو حاصل کرلیا تھا مگر انھیں بابر کاخوف لاحق تھا کہ وہ انھیں چین سے بیٹھنے نہ دے گا کیونکہ سندھ پر قبضہ بابر کی بھی خواہش تھی۔ اس خطرے کو ماہ بیگم کے ذہن رسا نے ایسے ٹالا کہ انھوں نے اپنی خوبصورت بیٹی ناہید بیگم کو بابر کے حرم میں دے دیا۔ یوں اب بابر سے قریبی رشتے داری ہوچکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بابر نے ٹھٹھہ کا رُخ نہیں کیا اور دلی کی طرف روانہ ہو گئے۔ آنے والے دنوں میں ماہ بیگم نے عیسیٰ خان ترخان سے شادی کرلی جو شاہ حسن کے بعد ٹھٹھہ کے حکمران بنے۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس سیاسی جوڑ توڑ میں بھی ماہ بیگم کا ہاتھ تھا۔ ماہ بیگم ایک بار پھر ملکہ بن چکی تھیں۔ 1559 میں عیسی خان ترخان بہت کمزور ہو چکے تھے۔ ماہ بیگم کی بدقسمتی تھی کہ شاہ حسن سے ان کی کوئی اولاد نہ تھی جسے وہ باپ کے مرنے کی بعد تخت پر بٹھاتیں جبکہ عیسیٰ خان کی دوسری بیویوں سے بہت سی اولادیں تھیں جو تخت پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ یہ سب ماہ بیگم کو ناپسند کرتے تھے کہ وہ ارغونوں کو سندھ پر حکمران بنا چکی تھیں اور اب بھی ارغونوں کا اثر رسوخ بہت تھا۔ ماہ بیگم بھی حالات کو بھانپ رہی تھی۔ بظاہر مرزا عیسیٰ خان ترخان چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا صالح خان تخت و تاج کا مالک بنے لیکن ماہ بیگم اس بات کی مخالف تھیں۔ ماہ بیگم کا ووٹ مرزا محمد باقی کی جانب تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n94jy593wo", "summary": "پاکستان کی ہندو برادری کے لوگوں نے اس سوشل میڈیا پوسٹ کی مخالفت کی تھی جبکہ سندھ میں مسلمانوں نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔", "title": "ہندو دیوتا کی توہین کے الزام میں میرپور خاص سے صحافی گرفتار", "firstPublished": "2023-03-23T05:12:51.746Z", "id": "c4n94jy593wo", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ میں پولیس نے ہندو دیوتا شری ہنومان کی توہین کے الزام میں توہین مذہب کے قانون کے تحت ایک صحافی کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں میر پور خاص کے تھانہ سیٹلائیٹ میں مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔ شکایت کنندہ رمیش کمار کا کہنا ہے کہ وہ لوہانہ پنچایت میر پور خاص کے نائب صدر ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ 19 مارچ کو وہ اپنے دوستوں کے ساتھ تھے جب انھوں نے دیکھا کہ ایک مقامی صحافی نے اپنے فیس بک پیج اور واٹس ایپ گروپ پر بھگوان شری ہنومان کی تصویر شیئر کی۔ رمیش کمار نے اپنی شکایت میں کہا کہ بھگوان ہنومان کی یہ تصویر شیئر کرکے صحافی نے ان کے اور ان جیسے دیگر ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس تصویر کو شیئر کر کے مذاہب کے درمیان تفرقہ پھیلانے اور امن و امان کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ سیٹلائیٹ پولیس سٹیشن نے رمیش کمار کی شکایت پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295A اور 153A کے تحت مقدمہ درج کیا۔ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295A کے تحت ان لوگوں کو سزا دی جا سکتی ہے جو جان بوجھ کر دو مذاہب کے درمیان تفرقہ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مذہبی جذبات مجروح کرنے پر اس دفعہ کے تحت دس سال تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں توہین مذہب کے مقدمات عموماً اقلیتی مذاہب کے لوگوں کے خلاف درج کیے جاتے ہیں لیکن کچھ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب اکثریتی مسلم کمیونٹی کے لوگوں کے خلاف بھی توہین مذہب کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ پاکستان کی ہندو برادری کے لوگوں نے اس سوشل میڈیا پوسٹ کی مخالفت کی تھی جبکہ سندھ میں مسلمانوں نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ صوبائی وزیر برائے اقلیتی امور گیان چند اسرانی نے اس واقعے کے بعد انسپیکٹر جنرل سندھ پولیس سے رابطہ کیا اور ایس ایس پی میر پور خاص سے بھی بات کی۔ انھوں نے صحافی کو فوری گرفتار کرنے کے احکامات بھی جاری کیے۔ انھوں نے کہا کہ ہندوؤں کے بھگوان کی توہین کی گئی، جس سے ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ یہ کام ریاست میں امن کو خراب کرنے کے لیے کسی سازش کے تحت کیا گیا ہو گا۔ ادھر پولیس کی حراست میں صحافی کا ایک ویڈیو بیان بھی سامنے آیا جس میں انھوں نے ہندو برادری سے معافی مانگتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ پوسٹ انھوں نے خود نہیں کی تھی بلکہ یہ ان کے ساتھ کسی نے شیئر کی تھی، جسے انھوں نے مزید شیئر کیا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ہندوؤں کی سب سے زیادہ آبادی صوبہ سندھ میں رہتی ہے جبکہ سندھ کی 70 فیصد ہندو آبادی میرپورخاص میں رہتی ہے۔ تھرپارکر، عمرکوٹ اور سانگھڑ کے سرحدی اضلاع، میرپور خاص ڈویژن میں آتے ہیں اور ان اضلاع کی سرحدیں انڈیا سے ملتی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nznx1lx21o", "summary": "’وڈیروں نے اپنی زمینیں بچانے کے لیے کچھ فاصلے پر موجود ایک نہر کو کٹ لگوا دیا، جب ہمیں پتا چلا تو ہم ان کے پاس گئے اور کہا کہ سائیں ہم ڈوب جائیں گے مگر انھوں نے ہماری بات نہیں مانی۔‘ صوبہ سندھ کا وہ علاقہ جہاں آج بھی سیلابی پانی موجود ہے اور بچے کشتیوں پر سکول جانے پر مجبور ہیں۔", "title": "سندھ: وڈیروں کی زمینیں تو بچ گئیں مگر عوام کے بچے آج بھی کشتیوں پر سکول جانے پر مجبور کیوں؟", "firstPublished": "2023-03-10T03:46:31.022Z", "id": "c4nznx1lx21o", "article": "مقامی افراد اس لیے یہ سڑک بنوا رہے ہیں کہ چھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس سڑک اور آس پاس کے علاقے سے سیلابی پانی نہیں نکالا جا سکا ہے۔ سڑک کے ڈوب جانے کی وجہ سے سکول آنے جانے والے بچے اب کشتی استعمال کرتے ہیں۔ یہی حال صوبہ سندھ میں بہت سے ان علاقوں کا ہے جو سیلاب اور بارشوں کے پانی میں ڈوب گئے تھے۔ یہاں پانی جوں کو توں کھڑا ہے۔ اگرچہ دریائے سندھ ان علاقوں کے بہت قریب سے گزرتا ہے اور اس سیلابی پانی کا نکاس اس دریا میں ہو سکتا تھا مگر ایک عرصہ گزرنے کے باوجود یہ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ مہران ہائی وے انتہائی اچھی حالت میں ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اونچی ہے اور اس کے نیچے نکاسی آب کے لیے پُل بنائے گئے ہیں۔ سیلابی اور برساتی پانی ان پلوں کے نیچے سے گزر کر ہائی وے کے دوسری طرف بھی کئی کلومیٹر دور تک چلا گیا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ لیکن زیادہ پانی یہاں اس وقت آیا جب یہاں سے کچھ فاصلے پر چند وڈیروں نے وہ ڈیم توڑے جو انھوں نے اپنی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے خود سے بنا رکھے تھے۔ ’وڈیروں نے اپنی زمینیں بچانے کے لیے کچھ فاصلے پر موجود ایک نہر کو کٹ لگوا دیا۔ ہمیں جب پتا چلا تو ہم گئے تھے اُن کے پاس۔ ان سے کہا کہ سائیں ہم ڈوب جائیں گے۔ انھوں نے ہماری بات نہیں مانی۔ پولیس آ گئی، پولیس نے ہمیں وہاں سے نکال دیا۔‘ تاہم مقامی افراد نے مجھے بتایا کہ یہ منصوبہ ایک مرتبہ بھی فعال نہیں ہوا۔ جب سے بنا ہے اس وقت سے بند پڑا ہے۔ نشیبی علاقوں سے پانی نکالنے کے لیے مشینری وغیرہ کا استعمال کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے یہاں زیادہ تر لوگ حکومت کی امداد کے منتظر تھے، اور کچھ ابھی تک ہیں۔ ’دو فصلیں ضائع ہو چکی ہیں، اب ہمیں خدشہ ہے کہ تیسری بھی ضائع ہو جائے گی اگر یہ پانی نہیں نکلتا۔‘ فدا حیسن اب گزر بسر کے لیے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے گھر کا زیادہ تر حصہ بارشوں کے باعث گِر گیا تھا۔ وہ ’منچھر بچاؤ‘ تحریک بھی چلا رہے ہیں اور یہاں کا گاؤں ان ہی کے نام سے وابستہ ہے۔ منچھر کے کنارے نکاسی کی نہر کے سرے پر کھڑے ہو کر انھوں نے مجھے بتایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ منچھر سے پانی کی نکاسی کا انتظام نہیں ہے۔ اڑل واہ نامی ایک نہر بنائی گئی تھی جس کی مدد سے جب منچھر میں پانی اضافی ہوتا ہے تو اس کو دریائے سندھ میں ڈالا جا سکتا ہے۔ اڑل ہیڈ کے مقام پر اس کے تین دروازے ہیں جبکہ اڑل ٹیل جہاں سے پانی دریا میں گرتا ہے وہاں پانچ دروازے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2x68emey8do", "summary": "بلوچستان کے علاقے بارکھان میں مبینہ طور پر نجی جیل کی موجودگی اور ایک خاندان کی بازیابی نے اس ملک میں زمینداروں، جاگیرداروں اور سرداروں کی نجی جیلوں کی موجودگی کی بحث کو زندہ کر دیا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا نجی جیلوں کا یہ پہلا انکشاف ہے؟ \n", "title": "سندھ کی نجی جیلیں: ’لڑکی خوبصورت ہوتی تو منشی اس پر ہاتھ رکھ کر کہتا یہ زمین کا کام نہیں اور کام کرے گی‘", "firstPublished": "2023-02-27T03:39:19.852Z", "id": "c2x68emey8do", "article": "بلوچستان کے علاقے بارکھان میں مبینہ طور پر نجی جیل کی موجودگی اور ایک خاندان کی بازیابی نے پاکستان میں زمینداروں، جاگیرداروں اور سرداروں کی نجی جیلوں کی موجودگی کی بحث کو زندہ کر دیا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ نجی جیلوں کا کیا یہ پہلا انکشاف ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ لالی کولھی اور ان کا خاندان عمرکوٹ کے ایک زمیندار کے پاس بائیس سال جبری مشقت کرتا رہا۔ بقول ان کے زمیندار کے بیٹے نے ان کی بہن سے ناجائز تعلق قائم کر لیا اور بھائیوں اور والد پر سختیاں بڑھا دیں اور کہا کہ یہ لڑکی اس کے حوالے کرو۔ ’پیروں میں آدھے من کی زنجیر باندھی جاتی تھی، بالآخر ایک کسان بھاگ نکلا اور اس نے عدالتوں سے رجوع کیا اور لالی کولھی کے خاندان سمیت 60 کسان رہا ہوئے۔‘ ایچ آر سی پی کی حیدرآباد میں ان دنوں میں خصوصی ٹاسک فورس موجود تھی۔ اس کے ایک سابق رکن اور سینئر صحافی ناز سہتو بتاتے ہیں کہ ’منو بھیل کے ساتھ وہ روانہ ہوئے لیکن اس سے پہلے مقامی سطح پر معلومات لی گئیں۔ یہ اس طرح سے کیا گیا تاکہ پولیس کو معلوم نہ ہو سکے۔‘ منو بھیل کا خاندان ابھی آزادی کی سانس بھی نہیں لے سکا تھا کہ اس کو دوبارہ اغوا کر لیا گیا۔ منو بھیل کے مطابق آزادی کے دو سال کے بعد ان کے خاندان کو کوٹ غلام محمد سے ایک زمیندار کے پاس سے اغوا کیا گیا تھا جہاں وہ گندم کی کٹائی کر رہے تھے۔ ’میرے والد کی عمر اس وقت ستر سال تھی میری والدہ ساٹھ سال کی تھی، کوئی حادثہ ہوتا ہے تو اس میں لاش مل جاتی ہے لیکن یہ تو حادثہ بھی نہیں اگر ایک آدمی بھی مجھے مل گیا تو میری کہانی سچی ہوجائے گی اور جب تک میں زندہ ہوں یہ شور کرتا رہوں گا کہ میرے ساتھ ناانصافی کی گئی۔‘ حقیقی کہانی پر مشتمل اس فلم میں ایک خاتون فرار ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ اپنے رشتے داروں اور دیگر سیاہ فام افراد کو رہا کرواتی ہے۔ لالی کولھی بھی ایک ایسا ہی کردار ہیں۔ لالی کولھی بتاتی ہیں کہ ’ہم جبری مشقت کی شکایت عدالت میں کرتے ہیں پھر عدالت رہائی کی اجازت دیتی ہے اور ہم مدد کے لیے تھانے جاتے ہیں لیکن پولیس زمینداروں کے ساتھ مل جاتی ہے اس لیے انھیں پہلے سے آگاہ کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں متعدد بار اغوا کیا گیا اور مارا پیٹا گیا۔‘ ان میں سے کئی زمینداروں کو سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی بھی حاصل رہی ہے۔ بارکھان جیسے واقعات پر ایوانوں اور سڑکوں پر خوب شور مچتا ہے، کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں اور پھر یہ معاملہ سرد خانے کا شکار ہو جاتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2egx3923zo", "summary": " سٹیزن پولیس لیزان کمیٹی کے مطابق گذشتہ سال سٹریٹ کرائم کے 85948 واقعات ہوئے جو اس سے پہلے والے سال سے 10 فیصد زیادہ ہیں۔", "title": "کراچی کے سکول میں ڈکیتی کی واردات: ’وہ بار بار کہتا تھا گولی مار دوں گا‘ ", "firstPublished": "2023-02-01T03:50:12.918Z", "id": "cv2egx3923zo", "article": "سٹیزن پولیس لیزان کمیٹی کے مطابق گذشتہ سال کراچی میں سٹریٹ کرائم کے 85948 واقعات ہوئے۔ ’انھوں نے کہا کہ وہ داخلے کے لیے آئے ہیں جس پر انھیں بتایا گیا کہ آپ زیادہ آگے آ گئے ہیں، دفتر باہر ہے، جس پر انھوں نے جواب دیا کہ آپ بیٹھ جائیں اور اس کے بعد انھوں نے اپنی گن بھی نکال لی۔‘ ’دیکھا تو جو بائیک چلا رہا تھا اس کے پاس گن تھی اور سامنے تانی ہوئی تھی۔۔۔ میں نے کہا چلو ضرورت مند ہیں کیا کرسکتے ہیں، لے جاؤ، جان سے بڑھ کر تو نہیں ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ چوتھی بار میرے ساتھ یہ واقعہ ہوا تھا۔‘ گلبرگ کے رہائشیوں نے 10 نومبر کی صبح اس وقت بالی وڈ کی کرائم سیریز کا منظر دیکھا جب پولیس نے تین ڈاکوں کو مار گرایا۔ زاہد اصغر بتاتے ہیں کہ صبح 11 بجے وہ سوئے ہوئے تھے۔ ان کے بھائی آفس جا چکے تھے کہ فائرنگ کی آواز پر وہ ہڑا بڑا کر اٹھے اور لاونج میں گئے تو پی کیپ پہنے ہوئے نوجوان ان کے گھر کے اندر سے فائرنگ کر رہے تھے جبکہ باہر پولیس کی نفری تھی۔ ’وہ ہمیں باہر گلی کے کونے تک لے کر گئے اور پولیس سے گاڑی طلب کی۔ اسی دوران جس ڈاکو نے میری بیوی پر پستول تان کر رکھی تھی اس پر ایک کانسٹیبل نے نشانہ داغہ اور وہ گر گیا جس کے بعد دو مجھے چھوڑ کر بھاگے جنھیں پولیس نے گھیر کر مار ڈالا۔‘ گذشتہ سال 110 شہری ڈاکوں سے مزاحمت  کرتے ہوئے مارے گئے اسی لیے زیادہ تر شہری مزاحمت سے احتیاط برتتے ہیں۔ کراچی میں سٹریٹ کرائم کی روک تھام کے لیے شاہین سکواڈ تشکیل دیا گیا اور ان جرائم کی تحقیقات سی ٹی ڈی اور سی آئی اے پولیس کو دی گئی ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ سال 3600 ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس ان جرائم کو مانیٹر کر رہا ہے لیکن ان کوششوں کے باوجود سٹریٹ کرائم اس شہر کی رونقوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ ’داخلے متاثر ہوئے ہیں کیونکہ داخلے کے لیے اکثر مرد آتے تھے لیکن اب انھیں گیٹ سے ہی واپس بھیج دیا جاتا ہے۔‘ گلبرگ میں لٹنے سے بچنے والے زاہد اصغر کہتے ہیں کہ ’پہلے عام زندگی تھی لیکن اب خوف کی صورتحال ہے، بچے ہلکے سے کھٹکے سے پریشان ہوجاتے ہیں اور بیوی شدید صدمے سے دوچار رہی ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’میں اب بھی حتیاط نہیں کرتا کیونکہ چہل قدمی کے دوران آپ کو ضروری کالز بھی آتی ہیں جیسا کہ گھر سے کال آ سکتی ہے کوئی ایمرجنسی ہو سکتی ہے اور اگر ٹیکسی بھی منگوانی ہے تو فون کے ذریعے ہی منگوائیں گے ناں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51gnpe0gyzo", "summary": "مقامی افراد نے علاقے میں موجود فیکٹریوں سے نکلنے والے دھویں اور گیسوں کو ان ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے تاہم محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی وجہ کچھ ایسے کیمیکلز ہیں جو پھیپھڑوں کی بیماری کی وجہ بنتے ہیں۔", "title": "کیماڑی میں ’کیمیکلز‘ سے 16 افراد کی ہلاکت: ’فیکٹریاں پلاسٹک جلاتی ہیں، لوگوں کا سینہ جکڑا جاتا ہے‘", "firstPublished": "2023-01-27T00:03:54.849Z", "id": "c51gnpe0gyzo", "article": "ڈپٹی کمشنر کیماڑی مختیار ابڑو نے انتظامی کمیٹی تشکیل دی ہے، جس میں ڈی ایچ او بھی شامل ہیں۔ یہ کمیٹی مثاثرہ افراد سے ملاقات کرے گی اور ہلاکتوں کے حقائق معلوم کرے گی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈی سی ابڑو نے بتایا کہ یہ کوئی بڑی فیکٹریاں یا کارخانے نہیں جس طرح چھوٹے پیمانے پر گھروں میں فیکٹریاں ہوتی ہیں اس سطح کی فیکٹریاں ہیں۔ محکمہ صحت کی جانب سے جمعے کو کیمپ لگایا گیا ہے جس میں متاثرہ افراد کے خون اور بلغم کے نمونے اور ایکسرے لیے جا رہے ہیں۔ ڈی جی صحت عبدالحمید جمانی کا کہنا تھا کہ کسی بھی موت کی وجہ ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔ بظاہر کیمیائی مادوں کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ صوبائی وزیر ماحولیات اسماعیل راہو نے بی بی سی کو بتایا کہ متاثرہ علاقے میں انوائرمینٹل نمونے لیے جارہے ہیں جس کے لیے موبائیل لیبارٹری پہنچا دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی چیک کیا جارہا ہے کہ کیا ان فیکٹریوں کے پاس قانونی اجازت نامہ تھا یا نہیں اس کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔\n مقامی افراد نے علاقے میں موجود فیکٹریوں سے نکلنے والے دھویں اور گیسوں کو ان ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے تاہم محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی وجہ کچھ ایسے کیمیکلز ہیں جو پھیپھڑوں کی بیماری کی وجہ بنتے ہیں۔\r\n وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کی جانب سے انکوائری کے حکم کے بعد چار فیکٹریوں کو سیل کیا گیا جبکہ محکمہ صحت نے متاثرہ افراد کے خون کے نمونے و دیگر ٹیسٹ لیے گئے ہیں تاکہ ہلاکتوں کی وجوہات کا جائزہ لیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ان کا کہنا ہے کہ چند چینی کمپنیاں ہیں جو پتھر کو جلاکر لوہا حاصل کر رہی ہیں اور اس کی وجہ سے یہ آلودگی ہوتی ہے۔\r\n سندھ کے محکمہ صحت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ علی محمد گوٹھ میں پراسرار ہلاکتوں کی خبر سامنے آنے کے بعد تحقیقات میں معلوم ہوا کہ مرنے والوں میں ہر عمر کے افراد شامل ہیں جن کو بخار، گلے کی خرابی اور سانس میں تکلیف کی شکایت ہوتی اور پھر پانچ سے سات دن میں متاثرہ شخص کی ہلاکت ہو جاتی۔\r\n بیان کے مطابق تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہلاکتوں کی وجہ کچھ ایسے کیمیکلز ہیں جو پھیپھڑوں کی بیماری کی وجہ بنتے ہیں۔ اسماعیل کے مطابق محکمہ صحت کے ضلعی افسران سے موقف لینے کی ان کی کوش تو ناکام ہوئی تاہم اسی محکمے سے وابستہ افراد نے ان کو بتایا کہ اس گاوں میں خسرے کے خلاف مہم کے دوران ویکسین کروانے سے انکار کیا گیا تھا۔\r\n ’اگر یہ خسرہ ہوتا تو صرف بچے ہی اس میں مبتلا ہوتے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’یہ سب کیمیکلز کے اخراج کی وجہ سے ہو رہا ہے جو فیکٹریوں سے ہو رہا ہے۔‘\r\n"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp0m7yl83dmo", "summary": "کراچی میں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے پانچ برس قبل فرضی پولیس مقابلے میں قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے مقدمے میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو بری کر دیا ہے اور کہا ہے کہ استغاثہ الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا۔", "title": "نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار سمیت 18 ملزمان بری، لواحقین کا فیصلہ ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان ", "firstPublished": "2023-01-23T10:32:44.628Z", "id": "cp0m7yl83dmo", "article": "عدالت نے فیصلے میں کہا کہ نقیب اللہ کو اغوا کر کے جعلی پولیس مقابلہ کیا گیا تاہم ملزمان کی جائے وقوعہ پر موجودگی ثابت نہیں کی جاسکی صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں انسداد دہشتگردی عدالت نے پانچ برس قبل مشکوک پولیس مقابلے میں قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے مقدمے میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 15 ملزمان کو بری کر دیا ہے۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ اغوا اور جعلی پولیس مقابلہ تھا لیکن استغاثہ ملزمان کی جائے وقوعہ پر موجودگی اور اس عمل میں ملوث ہونے کو ثابت نہیں کر سکا۔ نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق قتل کے اس مقدمے میں راؤ انوار سمیت 25 پولیس اہلکاروں کو نامزد کیا گیا تھا جن میں سے 18 کو بری کر دیا گیا جبکہ عدالت کا کہنا ہے کہ سات مفرور ملزمان کے بارے میں فیصلہ ان کی گرفتاری کے بعد سنایا جائے گا۔ جج نے فیصلہ سنانے سے پہلے کہا کہ نقیب اللہ کا اغوا اور جائے وقوع پر ان کا قتل ثابت ہوا ہے جبکہ نقیب اللہ پر دہشت گردی کی ایف آئی آر سی کلاس ہونے کے بعد اسے چیلینج نہ کیے جانے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ بےگناہ تھے تاہم عدالت نے قانونی اور تیکنیکی بنیادوں پر اس معاملے کا جائزہ لیا ہے جس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نامزد ملزمان اس قتل میں ملوث تھے۔ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ اور ان کے تین ساتھیوں کو 13 جنوری 2018 کی صبح کراچی میں پولیس اہلکاروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا اور اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار دعویٰ کیا تھا کہ ان کا تعلق شدت پسند تنظیم داعش اور لشکر جھنگوی سے تھا۔ بعدازاں جنوری 2019 میں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ہی نقیب اللہ محسود کے خلاف دہشت گردی، اسلحہ و بارود رکھنے کے الزام میں دائر پانچوں مقدمات خارج کردیے تھے اور قرار دیا تھا کہ نقیب اللہ کے سوشل میڈیا پروفائل سے معلوم ہوتا ہے کہ 'وہ ایک لبرل، فن سے محبت کرنے والا نوجوان تھا جو ماڈل بننے کا خواہشمند تھا۔' راؤ انوار کی بریت پر سیاسی و سماجی حلقوں سے لے کر عام صارفین سبھی نے سوشل میڈیا پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور وہ یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ پانچ سال کی تاخیر کے باوجود تاحال نقیب اللہ محسود کے اہلخانہ کو انصاف نہیں مل سکا ہے۔ \r صحافی اجمل جامی نے حیرت ظاہر کی کہ 'مقدمے میں 51 گواہوں کے بیانات قلمبند ہوئے۔ پانچ سال نقیب اللہ محسود قتل کیس عدالتوں میں زیر سماعت رہا۔ اور اب کہا جا رہا ہے شواہد ناکافی ہیں۔'\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72xdl0l7z0o", "summary": "حر جماعت کی تاریخ کے مصنف اور شاعر استاد نظامانی کہتے ہیں کہ پیر صبغت اللہ شاہ عرف سورہیہ باشادہ کے زمانے سے فیصلوں اور سوشل بائیکاٹ کی روایات ملتی ہیں اور پیر پگارا کا اپنی جماعت کو حکم تھا کہ تنازعات کے فیصلے آپس میں ہی کریں۔", "title": "’آٹھ بیٹیاں جوان ہیں لیکن اُن کا نکاح نہیں کر سکتے کیونکہ ہاتھ بند ہے‘\r", "firstPublished": "2023-01-20T04:14:14.056Z", "id": "c72xdl0l7z0o", "article": "’حُر جماعت کی تاریخ‘ کے مصنف اور شاعر استاد نظامانی کہتے ہیں کہ پیر صبغت اللہ شاہ عرف سورہیہ بادشاہ کے زمانے سے فیصلوں اور سوشل بائیکاٹ کی روایات ملتی ہیں اور پیر پگارا کا اپنی جماعت کو حکم تھا کہ تنازعات کے فیصلے آپس میں ہی کریں۔ 85 سالہ اللہ بخش بھن بھی حُر جماعت سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے برطانوی دور حکومت میں جب حروں کے خلاف آپریشن ہوا تھا تو کچھ عرصہ حراستی مرکز میں گزارا تھا۔ ان دنوں پیر صبغت اللہ شاہ عرف سورہیہ بادشاہ گدی نشین تھے۔ اللہ بخش بھن کہتے ہیں کہ رشتے کے لین دین، جائیداد کی تقسیم اور زمین کے بٹوارے کے جو تنازعات ہیں وہ جماعت کے خلفا کے پاس آتے تھے، مولوی اس میں شرعی اصولوں کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ اگر کوئی فریق فیصلہ تسلیم نہ کرے تو کہا جاتا کہ اس کا ہاتھ بند ہے یعنی اس کو غمی خوشی میں نہیں بلایا جائے گا۔ \r پیر صبغت اللہ شاہ عرف سورہیہ باشادہ کے زمانے سے فیصلوں اور سوشل بائیکاٹ کی روایات ملتی ہیں خلیفے اور ان کے ساتھی انھیں کہتے ہیں کہ آپ جماعت سے خارج ہو آپ مسلمان ہی نہیں، وہ نماز جمعہ پڑھنے نہیں دیتے اگر کوئی عزیز انتقال کر جائے تو اس کے جنازے میں نہیں جا سکتے، اپنے پیاروں کا آخری دیدار تک کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوئی۔ اس فیصلے میں پیر صبغت اللہ کی گدی برقرار رکھی گئی جس کے باعث وہ پگارا یعنی ’دستار والا‘ کہلائے جبکہ دوسرے بھائی محمد یاسین شاہ کو والد کی وراثت میں سے جھنڈا دیا گیا جو ’پیر جھنڈا والا‘ کہلائے جانے لگے۔ علامہ غلام مصطفیٰ قاسمی لکھتے ہیں کہ پنجاب میں مسلمانوں پر مظالم ہو رہے تھے اور پیر صبغت اللہ شاہ ان سے غافل نہیں تھے۔ انھیں یہ بھی خطرہ تھا کہ سکھ آگے بڑھ کر سندھ میں داخل نہ ہوں اس لیے انھوں نے ’جہاد کا عزم‘ کر لیا تھا۔ پروفیسر لائق زرداری لکھتے ہیں کہ حزب اللہ شاہ پیر پگاران میں زبردست پیر گزرے ہیں۔ ان کی جماعت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی: ایک شریعت محمدی کے مطابق چلنے والے جو خود کو ’سالم‘ کہتے تھے جبکہ دوسرے مرشد پر سر قربان کرنے والے (فدائی) جن کو ’فرق کرنے والے‘ کہا جاتا تھا۔ \r ’سنہ 1929 میں ایک عورت نے پولیس کو درخواست دی کہ اس کے بیٹے کو پیر گوٹھ میں قید رکھا گیا، جس پر پولیس نے چھاپہ مارکر ابراہیم نامی لڑکے کو بازیاب کرنے کے علاوہ اسلحہ و بارود برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس کیس میں پیر پگارا پیر صبغت اللہ شاہ کو 8 سال سزا سنائی گئی اور سندھ کے بعد رتنا گری جیل بھیجا گیا۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjkrv8jp4l7o", "summary": "جس پارٹی کا دل الطاف حسین کے قبضے میں اور دماغ اسٹیبلشمنٹ کے قبضے میں ہو، اس کا مقام سیاست میں وہی رہ جاتا ہے جو کار کی ڈگی میں پڑی سٹپنی کا۔ وسعت اللہ خان کا کالم۔۔۔", "title": "وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: نئی ایم کیو ایم ڈگی میں پڑی سٹپنی\r", "firstPublished": "2023-01-15T09:34:48.626Z", "id": "cjkrv8jp4l7o", "article": "اگر یہ مطالبہ منطقی اعتبار سے درست ہے تو پھر اسی اصول کے تحت پہلے مرحلے کا بائیکاٹ کیوں نہیں کیا گیا۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ آدھا سندھ پرانی حلقہ بندیوں کے تحت ہونے والے انتخابی عمل پر گزارہ کرے اور بقیہ سندھ نئی حلقہ بندیوں کی فرمائش ڈال دے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایم کیو ایم کے علاوہ جماعتِ اسلامی اور پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتیں بھی اس مطالبے کی وکالت کرتیں اور تحفظات رکھتے ہوئے انتخابی عمل میں حصہ نہ لیتیں۔\r کبھی بنا مانگے نولکھا بخش دیتا ہے تو کبھی چمچ کی چوری پر نالش جاری کر دیتا ہے۔ کبھی بامروت ڈاک خانے میں بدل جاتا ہے تو کبھی ہڑبڑا کے کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنی آئینی و قانونی طاقت کا بھرپور احساس دلا دیتا ہے۔ کبھی گلی کے لونڈوں کے ساتھ تھڑے پر بیٹھ کے تاش کھیلنے لگتا ہے اور پھر اچانک ان لمڈوں کو بزرگوں کے احترام کا بھاشن دینے لگتا ہے۔\r اسی گرم و سرد و بلغمی مزاج کے سبب الیکشن کمیشن کے بارے میں نونیوں کا رویہ رسمی علیک سلیک اور کام نکالنے والا ہے۔ پیپلز پارٹی کا رویہ اس بوڑھے جوڑے جیسا ہے جو نہانے کی نیت سے پانی چولہے پر چڑھاتا ہے مگر پھر ناسازگار امکانات سے مایوس ہونے کے بجائے اسی پانی کی چائے بنا لیتا ہے \rجبکہ پی ٹی آئی کا رویہ بدتمیزانہ حد تک بے تکلفانہ ہے۔ یہ درست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے پنجاب میں مسلم لیگ ق اور سندھ میں ایم کیو ایم کی وہی اہمیت ہے جو امریکہ کے لیے اسرائیل کی ہے۔ امریکہ مشرقِ وسطی کی اتھل پتھل میں اسرائیل کی مدد سے طاقت کا توازن برقرار رکھتا ہے جبکہ یہاں اینٹی اسٹیبلشمنٹ جذبات کے ترازو کو متوازن رکھنے کے لیے دونوں جماعتوں کو حسبِ ضرورت باٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔\r مگر میرے خیال میں اس انتظام میں ق کو ایم کیو ایم کے مقابلے میں کم ازکم دو نمبر کی سبقت حاصل ہے کیونکہ ق کو یہ آرٹ معلوم ہے کہ دس سیٹیں ہونے کے باوجود بھی سو سے زائد سیٹیں رکھنے والی پارٹیوں کو اپنے سیاسی تحمل کی تھاپ پر کیسے تاتا تھئیا کروایا جا سکتا ہے۔\r جبکہ ایم کیو ایم کی قیادت چالیس سالہ تجربے کے باوجود آج بھی طالبِ علمانہ دور کے جذباتی دماغ سے فیصلے کرتی ہے بلکہ درست جملہ شاید یہ ہے کہ آج کی ایم کیو ایم کو بتا دیا جاتا ہے کہ بھائی یہ ہے فیصلہ جسے آپ نے دنیا کے سامنے اپنا فیصلہ بتانا ہے۔\r چنانچہ اب نہ کوئی اس کی انتخابی بائیکاٹ کی دھمکی کو سنجیدگی سے لیتا ہے اور نہ ہی حکومت چھوڑنے کے انتباہ کو۔ ویسے بھی جس پارٹی کا دل الطاف حسین کے قبضے میں اور دماغ اسٹیبلشمنٹ کے قبضے میں ہو، اس کا مقام سیاست میں وہی رہ جاتا ہے جو کار کی ڈگی میں پڑی سٹپنی کا۔\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1z5p47dmeo", "summary": "سندھ میں مقامی حکومتوں کی مدت اگست 2020 میں ختم ہو گئی تھی اور قانون کے مطابق بلدیاتی حکومت کی مدت ختم ہونے کے چار ماہ کے اندر انتخابات کا انعقاد ہونا چاہیے تاہم مردم شماری، حلقہ بندیوں اور قدرتی آفات کا جواز بنا کر ان بلدیاتی انتخابات کو متعدد مرتبہ ملتوی کیا جا چکا ہے۔", "title": "کراچی کے بلدیاتی انتخابات سے ایم کیو ایم کا بائیکاٹ: شہر کے میئر کے پاس کیا اختیارات ہوتے ہیں؟", "firstPublished": "2023-01-15T03:41:58.979Z", "id": "cd1z5p47dmeo", "article": "سندھ میں مقامی حکومتوں کی مدت اگست 2020 میں ختم ہو گئی تھی اور قانون کے مطابق بلدیاتی حکومت کی مدت ختم ہونے کے چار ماہ کے اندر انتخابات کا انعقاد ہونا چاہیے تاہم مردم شماری، حلقہ بندیوں اور قدرتی آفات کا جواز بنا کر ان بلدیاتی انتخابات کو متعدد مرتبہ ملتوی کیا جا چکا ہے۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ گذشتہ سال 24 جولائی کو ہونا تھا تاہم صوبے میں غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے اسے تین بار ملتوی کیا گیا اور بالآخر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 15 جنوری کو انتخابات کا اعلان کیا جس کے تحت سندھ کے دو بڑے شہروں کراچی اور حیدرآباد میں انتخابات ہوں گے۔ انتخابات سے صرف دو روز قبل حکومت سندھ نے کراچی اور دادو میں انتخابات ملتوی کر دیے جس کے ساتھ کراچی کی حلقہ بندیوں کا نوٹیفیکیشن بھی واپس لے لیا گیا۔ ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کے انضمام کے بعد پریس کانفرنس میں تنظیم کی قیادت نے جمعے کی شب پریس کانفرنس میں ان حلقہ بندیوں کو مسترد کیا تھا اور الیکشن سے ایک رات قبل بلدیاتی انتخابات سے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے 15 جنوری کو انتخابات کے انعقاد کے خلاف سندھ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس میں حالیہ مردم شماری اور اس کی بنیاد پر حلقہ بندیوں پر اعتراضات اٹھائے اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ حلقہ بندیاں دوبارہ کی جائیں۔ ایم کیو ایم کے مطابق حلقہ بندیوں سے متعلق الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن غیر قانونی ہے کیونکہ جب نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا اس وقت کمیشن میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے نمائندے نہیں تھے تاہم سندھ ہائی کورٹ نے اس درخواست پر فیصلہ دیا کہ حلقہ بندیوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ایم کیو ایم حلقہ بندیوں اور مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات منسوخ کروانا چاہتی ہے حالانکہ یہ وہی ایم کیو ایم تھی جس نے مشترکہ طور پر مردم شماری کے نتائج کا اعلان کیا تھا، جس میں  کراچی کی آبادی کو گھٹا کر نصف کر دیا گیا تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے رویے پر ان انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ہمارے الیکشن میں جانے کا مطلب یہ ہو گا کہ کہ ہم نے حلقہ بندیوں کو تسلیم کر لیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے قانون کے تحت بلدیاتی انتخابات منعقد کیے گئے تو ایم کیو ایم نے ان کا بائیکاٹ کیا اور جماعت اسلامی اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی جس میں نعمت اللہ خان میئر منتخب کیے گئے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pd6z552y7o", "summary": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں دیا بھیل نامی خاتون کے قتل کے الزام میں پولیس کے مطابق دو جادوگروں سمیت چار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔", "title": "سانگھڑ میں دیا بھیل کا سر دھڑ سے الگ کرنے کے الزام میں ’جادوگروں‘ سمیت چار گرفتار", "firstPublished": "2023-01-08T02:15:23.191Z", "id": "c6pd6z552y7o", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں دیا بھیل نامی خاتون کے قتل کے الزام میں پولیس کے مطابق دو جادوگروں سمیت چار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔\r گذشتہ سال دسمبر کے اواخر میں دائر کیے گئے اس مقدمے کے مطابق دیا بھیل کو قتل کر کے ان کا سر دھڑ سے الگ کیا گیا اور چہرے کی کھال سمیت چھاتی بھی کاٹی گئی۔\r ان کے مطابق ان اقدامات کی مدد سے بھوپو (جادوگر) روپو بھیل، بھوپو لونیو بھیل، ساجن بھیل اور مقتولہ دیا بھیل کے بھائی دیا رام کو گرفتار کیا گیا اور ملزمان کی جانب سے جُرم کا اعترافی بیان بھی دیا گیا ہے۔ \r دیا بھیل کے قتل کا واقعہ 27 دسمبر کو صوبائی دارالحکومت کراچی سے تقریباً 250 کلومیٹر دور واقعہ وسطی سندھ کے ضلع سانگھڑ کے علاقے سنجھورو میں ہوا۔ \r دیا بھیل کا پوسٹ مارٹم سنجھورو ہسپتال میں کیا گیا۔ محکمہ صحت کے ایک اہلکار کے مطابق سر اور دھڑ بالکل الگ الگ لائے گئے تھے، کھوپڑی پر ماس نہیں تھا، ناک کان وغیرہ بھی کٹے ہوئے تھے جبکہ چھاتی سے پستان بھی کاٹ دیے گئے تھے۔ یہ اعضا ابھی تک پولیس کو نہیں ملے ہیں۔\r لہذا انھوں نے ابتدائی تفتیش کے بعد اس کو رہا کر دیا تھا۔ ’لوگوں کے بیانات میں اس کی جائے وقوعہ کے پاس موجودگی کا علم ہوا جس کے بعد دوبارہ اس کو گرفتار کیا گیا اور اس نے تسلیم کیا کہ اس نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ یہ قتل کیا ہے۔‘\r سانگھڑ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم روپو بھیل کی مقتولہ سے دوستی تھی۔ جب ان کے شوہر کی وفات ہوئی تو مقامی لوگوں نے شبہ ظاہر کیا کہ انھوں نے ’جادو ٹونا کر کے انھیں قتل کیا ہے اور دباؤ میں گاؤں چھوڑ کر وہاں سے جا چکے ہیں۔‘ تاہم پولیس کے مطابق روپو بھیل کا مقتولہ کے بھائی دیا رام سے رابطہ برقرار رہا۔ \r پولیس کے مطابق ملزم نے اعترافی بیان میں کہا کہ انھیں دیا کی دوسروں کے ساتھ بھی دوستی کا پتہ چلا اور انھوں نے انھیں روکا لیکن وہ نہ مانیں جس کے بعد انھیں قتل کرنے کا فیصلہ کیا جس میں دیا کے بھائی نے ان کا ساتھ دیا۔ \r وہ کہتے ہیں کہ ’ان جادوگروں کی سوچ کے مطابق جو منفی جادو ہے جس میں کسی کی زندگی کو نقصان پہنچانا ہے اس میں انسانی کھال استعمال ہوتی ہے۔ اسی لیے انھوں نے اسے الگ کیا اور سوچا بعد میں آکر لے جائیں گے۔ دوسرے روز وہ آئے لیکن کھال نہیں تھی تاہم بھوپو کی نشاندہی پر سر کے بال ملے ہیں۔ خدشہ ہے کہ کھال جانور کھا گئے ہوں گے۔‘ دیا بھیل کے قتل پر انڈین حکام کی جانب سے پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgexx2qnqggo", "summary": "سندھ ہائیکورٹ نے دعا زہرہ کو عارضی طور پر ان کے والدین کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ فیصلہ دیا ہے کہ مستقل حوالگی کا فیصلہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے کیا جائے گا۔ ", "title": "سندھ ہائیکورٹ کا دعا زہرہ کو عارضی طور پر والدین کے حوالے کرنے کا حکم", "firstPublished": "2023-01-06T07:32:46.783Z", "id": "cgexx2qnqggo", "article": "سندھ ہائیکورٹ نے عدالتی حکم پر شیلٹر ہوم بھیجے جانے والی لڑکی دعا زہرہ کو عارضی طور پر ان کے والدین کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ فیصلہ دیا ہے کہ مستقل حوالگی کا فیصلہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے کیا جائے گا۔ دعا زہرہ کے والدین کے وکیل جبران ناصر نے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ’سات ماہ کی طویل جنگ کے بعد متاثرہ بچی آخر کار گھر لوٹ رہی ہے۔۔۔ (ہمیں) اس کیس سے کئی سبق سیکھنے ہوں گے اور چائلڈ میرجز (کم عمری کی شادیاں) روکنے کے لیے اصلاحات درکار ہوں گی۔‘ اپنے فیصلے میں سندھ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ دعا زہرا اس کیس کا مرکزی کردار ہیں اور ٹرائل کورٹ میں ان کا کیس زیر التوا ہے اس لیے کراچی میں ان کی موجودگی ضروری ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ بظاہر دعا زہرا اپنے شوہر سے ناخوش ہیں اور ان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتیں تاہم دوسری جانب وہ بظاہر اپنے والدین سے بھی خوفزدہ ہیں اس لیے شیلٹر ہوم میں رہنا ان کے لیے مناسب ہو گا۔ سماعت کے دوران دعا زہرہ کے شوہر ہونے کا دعویٰ کرنے والے ظہیر احمد کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ لڑکی کو والدین کے حوالے کرنے کی درخواست ناقابل سماعت ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کیس میں دعا زہرہ مرکزی گواہ ہیں اور شیلٹر ہوم میں ان کی والدین سے متعدد ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ان کی جانب سے استدعا کی گئی کہ ظہیر احمد کو بھی ملاقات کی اجازت ملنی چاہیے۔ \r سماعت کے دوران سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس اقبال کلہوڑو نے دعا زہرہ کو روسٹرم پر بلایا اور پوچھا کہ ان کا نام کیا ہے۔ اس پر انھوں نے بتایا کہ ان کا نام دعا زہرہ ہے اور وہ ساتویں کلاس کی طالبہ تھیں۔ اس کے بعد عدالت نے شیلٹر ہوم کو حکم دیا کہ وہ بچی کو عارضی طور پر والدین کے حوالے کریں مگر ساتھ یہ حکم جاری کیا کہ مستقل حوالگی کا فیصلہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے کیا جائے گا۔ \r عدالت نے حکم جاری کیا ہے کہ ’بچی نے عدالت میں بیان دیا کہ وہ والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔ والدین 10 لاکھ روپے کے ذاتی مچلکے جمع کرائیں۔ بچی کی مستقل حوالگی سے متعلق فیصلہ ٹرائل کورٹ کرے گی۔ چائلڈ پروٹیکشن آفیسر لیڈی پولیس کے ہمراہ ہر ہفتے والے دن بچی سے جا کر ملاقات کریں گی۔‘\r ادھر دعا زہرہ کے والدین کے وکیل جبران ناصر نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’سات ماہ کی طویل جنگ کے بعد متاثرہ بچی آخر کار گھر لوٹ رہی ہے۔ \r ’انھوں نے کسی شبہے کے بغیر معزز ہائیکورٹ کو بتایا کہ وہ والدین کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔ اس کیس سے کئی سبق سیکھنے ہوں گے اور چائلڈ میرجز (کم عمری کی شادیاں) روکنے کے لیے اصلاحات درکار ہوں گی۔‘\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cx0l74edeyno", "summary": "متحدہ قومی موومنٹ کے دھڑوں کے انضمام کا باضابطہ اعلان تو تاحال سامنے نہیں آیا تاہم ملاقاتوں اور رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے دھڑوں کو متحد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے اور اس کے پس پردہ کیا عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں؟", "title": "اسٹیبلیشمنٹ کی ’خواہش‘ یا متحدہ کی سیاسی ضرورت: دھڑوں میں بٹی ایم کیو ایم کو متحد کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟", "firstPublished": "2023-01-05T09:06:52.491Z", "id": "cx0l74edeyno", "article": "متحدہ قومی موومنٹ کے دھڑوں کے انضمام کا تاحال باضابطہ اعلان تو سامنے نہیں آیا تاہم فریقین میں ملاقاتوں اور رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان ملاقاتوں کے بعد سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے انضمام کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟ کیا یہ انضمام پارٹی کی سیاسی ضرورت ہے اور یہ اتحاد کتنا پائیدار اور کارگر ثابت ہو گا؟ یا اس کے پیچھے کوئی اور عوامل کارفرما ہیں؟ قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر فرحان صدیقی کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے اہداف تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ’کراچی کا تقسیم شدہ سیاسی مینڈیٹ اسٹیبلیشمنٹ کے لیے فائدہ مند ہے۔ انھیں خوف و خطرہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے بیانیے سے ہے اس لیے اس جماعت کو محدود کرنا ہے اور توقع یہ ہے کہ ایم کیو ایم اُن کی کچھ نشستیں کم کر سکتی ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ اس سے ایم کیو ایم دوبارہ ایک سیاسی قوت بن کر سامنے آئے گی۔‘ کراچی میں ایم کیو ایم کے انضمام کی سرگرمیوں پر سوشل میڈیا پر بھی بہت تبصرے سامنے آ رہے ہیں، ڈاکٹر فرحان صدیقی کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی بالادستی اور تسلط ختم ہو چکا، جنریشن تبدیل ہو چکی ہے جو 20- 25 سال کا نوجوان ووٹر ہے اس نے الطاف حسین کی سیاست کو نہیں دیکھا، جو ایم کیو ایم کا نظریہ تھا جس کی بنیاد پر اسی اور نوے کی دہائی سے لے کر اس نے راج کیا۔ ’ایم کیو ایم کے پاس وقت بہت کم ہے کیونکہ چھ ماہ بعد الیکشن ہے تو ایسے میں وہ سیاسی نعرہ کیا ہو گا جس کی بنیاد پر وہ لوگوں کو متحرک کریں گے۔ جو شکوہ شکایت والی سیاست ہے کہ ہمیں یہ نہیں ملا، ہمیں وہ نہیں ملا اس پر لوگ سوال اٹھائیں گے کہ آپ کے پاس بلدیاتی ادارے تھے، آپ کا گورنر تھا آپ کے پاس ایم این ایز، ایم پی ایز تھے، وفاق میں اتحاد تھا تو آپ نے کراچی میں کیا انھیں کیا دیا۔‘ ’ان کے حمایت کتنی ہے اس کی آزمائش نہیں ہوئی لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایک بڑا ووٹ خاموش ہو گیا ہے اور وہ لندن کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ حقیقت تبھی ممکن ہے جب لندن گروپ کو بھی اجازت دیں پھر دیکھیں کہ سیاسی طور پر وہ کہاں کھڑے ہوئے ہیں ورنہ ایم کیو ایم جب بھی ہارے گی لندن اس کو اپنی کامیابی قرار دے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg0d2gnrlyo", "summary": "سندھ کے ضلع عمر کوٹ میں ایک معمر خاتون لکھاں کچھی نے کئی روز سے نبی سر تھانے کے باہر دھرنا دیا ہوا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بیٹی کے مبینہ اغوا اور تبدیلی مذہب کے بعد ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بیٹے کو قتل کیا گیا تاہم پولیس اسے حادثہ قرار دے رہی ہے۔ ", "title": "بیٹی کے مبینہ اغوا، تبدیلی مذہب کے بعد بیٹے کی ہلاکت: ’پولیس چشم دید گواہ ماں کا بیان نہیں لے رہی‘", "firstPublished": "2023-01-03T09:36:44.448Z", "id": "crg0d2gnrlyo", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع عمر کوٹ میں ایک معمر خاتون لکھاں کچھی نے کئی روز سے نبی سر تھانے کے باہر دھرنا دیا ہوا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بیٹی کے مبینہ اغوا اور تبدیلی مذہب کے بعد ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بیٹے کو قتل کیا گیا تاہم پولیس اسے ٹریفک حادثہ قرار دے رہی ہے۔ لکھاں نے بتایا کہ گذشتہ ماہ ان کی شادی شادہ بیٹی شریمتی لالی کو مبینہ طور پر اغوا کیا گیا۔ انھوں نے میر پور خاص کے کوٹ غلام محمد پولیس تھانے جا کر مقدمہ درج کرانے کی کوشش کی لیکن ’پولیس نے انکار کیا کیونکہ ملزم پولیس اہلکار تھا۔‘\r مقامی عدالت کے حکم پر پولیس نے شریمتی لالی کو عدالت میں پیش کیا جس نے بتایا کہ انھوں نے مذہب تبدیل کر لیا ہے اور اب ان کا نام ’سمرین‘ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے عبید اللہ سے شادی کی ہے۔ \r لکھاں کچھی کا کہنا ہے کہ ماں بیٹا دونوں بیٹی کو موٹر سائیکل پر لے کر عمر کوٹ ضلعے کے علاقے نبی سر آ گئے جہاں ان کی بیٹی رہتی ہیں کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ ان پر حملہ ہو سکتا ہے۔\r ان کا دعویٰ ہے کہ لالو ’مدہوشی کی حالت میں تھا۔ وہ سڑک پر گرا۔ اس کو پہلے نبی سر ہسپتال، اس کے بعد کنری ہسپتال اور وہاں سے حیدرآباد منتقل کیا گیا جہاں اس کی موت ہوئی۔‘ بقول ان کے، پولیس کے پاس ’گواہوں کے بیانات موجود ہیں۔‘\r ان کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل پر سڑک حادثے میں ہاتھوں اور پیروں پر خراشیں آتی ہیں اور سر پر آگے کی طرف سے چوٹ لگتی ہے، نہ کے پیچھے سے۔’جن گواہوں کے بیانات کی بات کی جا رہی ہے، ان میں سے ایک تین کلومیٹر دور موجود تھا۔ دوسرا ایک کلومیٹر دور واقع لنک روڈ پر موجود تھا۔ شریمتی، لکھاں کچھی سمیت ایک درجن کے قریب اقلیتی حقوق کے کارکن پیر کی دوپہر سے نبی سر تھانے کے باہر دھرنا دیے ہوئے ہیں تاہم ان کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ \r سندھ کے محکمہ انسانی حقوق کے مشیر سریندر ولاسائی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے آئی جی سندھ سے رابطہ کیا ہے جنھوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ایک لیڈی اے ایس پی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے جو فریقین کے بیانات لے گی اور اس کے بعد میرٹ پر مقدمے کا فیصلہ ہوگا۔\r سندھ کے محکمہ انسانی حقوق کے مشیر سریندر ولاسائی کا کہنا ہے کہ پولیس کو لالی کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے اور کسی اتھارٹی کے سامنے پیش کر کے بیان لینا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ وہ کسی دباؤ یا خوف میں بیان دے رہی ہیں یا اپنی رضامندی سے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czdy9g5v7nzo", "summary": " سندھ کی پولیس ڈاکوؤں کی نگرانی اور ان سے مقابلے کے لیے ڈرونز کی خریداری کر رہی ہے، لیکن کیا کچے کے جنگلات میں یہ ڈرونز کارگر ثابت ہوسکتے ہیں؟", "title": "کچے کے ڈاکوؤں کا ڈرونز سے مقابلہ: سندھ پولیس کن مقاصد کے لیے لڑاکا ڈرون استعمال کرے گی؟ ", "firstPublished": "2022-12-22T04:34:56.943Z", "id": "czdy9g5v7nzo", "article": "پاکستان میں صوبہ سندھ کی پولیس ڈاکوؤں کی نگرانی اور اُن سے مقابلے کے لیے ڈرونز کی خریداری کر رہی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ پولیس زمین کے بجائے فضا سے ڈاکوؤں کا مقابلہ کرنے کا کیوں سوچ رہی ہے اور کیا کچے کے جنگلات میں یہ ڈرونز کارگر ثابت ہوسکتے ہیں؟ ایس ایس پی تنویر تنیو کے مطابق گھوٹکی میں حملے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ اور آئی جی پولیس کی سربراہی میں اعلیٰ سطح پر اجلاس اور مشاورت کے بعد ڈاکوؤں کے خلاف کارروائیوں اور ان کی نگرانی کے روایتی انداز میں جدت لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کچے میں جزیرے بنے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ پانی کے تالاب اور جھیلیں ہیں اور اس علاقے کی یہ جغرافیائی صورتحال ڈاکوؤں کے حق میں جاتی ہے۔ ’اسی وجہ سے ماضی قریب میں بیشتر کارروائیوں میں پولیس کی شہادتیں ہوئیں اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دریائے سندھ کے دونوں اطراف میں کچے کے علاقے میں محکمہ جنگلات کی لاکھوں ایکڑ زمین موجود ہے، جس میں سے محکمے کے مطابق وسیع رقبے پر ڈاکوؤں کا قبضہ ہے۔‘ ڈرونز کے استعمال پر محقق نیہا انصاری کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے دنیا بھر میں ان کا استعمال کرتے ہیں لیکن ان کا زیادہ تر استعمال نگرانی کے مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے،  جیسے کوئی بڑا عوامی مظاہرہ ہو رہا ہے یا جھڑپیں ہو رہی ہیں ان کی نگرانی کے لیے یہ استعمال ہوتے ہیں۔ پولیس بالخصوص امریکہ میں تعاقب کے لیے بھی ان کا استعمال کرتی ہے لیکن زیادہ تر استعمال نگرانی کی حد تک ہے۔ نیہا انصاری کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکی پولیس نے لڑاکا ڈرونز کے استعمال کے لیے پٹیشن دائر کی ہے، جیسے سان فرانسسکو یا ڈیلس کی ریاستیں اور شہر ہیں جہاں پولیس چاہ رہی ہے کہ وہاں لڑائی میں بھی ڈرونز اور روبوٹ کا استعمال کیا جائے۔ اس حوالے سے سندھ کے سابق ایڈووکیٹ جنرل ضمیرگھمرو کہتے ہیں کہ پولیس نگرانی کے لیے ڈرونز استعمال کر سکتی ہے لیکن ہدف بنانے کے لیے انھیں ریگیولیٹ کرنا پڑے گا اور اس کی حدود کا تعین کرنا ہو گا۔ ’پولیس کا کام ملزم کو گرفتار کر کے اس کو عدالت میں پیش کرنا ہے۔ اب ان ڈرونز کا کن مقاصد کے لیے اور کب کب استعمال کیا جائے گا، یہ واضح ہونا چاہیے کیونکہ جہاں نشانہ بنایا جائے گا وہاں خواتین اور بچے بھی ہوسکتے ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’ڈرونز نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے کم وقت اور صلاحیت میں اضافہ کیا ہے۔ جب پولیس پیچھا کر رہی ہوتی ہے یا ملزمان کی نگرانی کر رہی ہوتی ہے تو اس میں ڈرونز نے وقت کم کر دیا ہے اور انٹیلیجنس کا بڑا سہارا بنے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckknx7enzrxo", "summary": "’ماموں نے کہا سب کلمہ پڑھو، میری آنکھوں کے سامنے گاڑی میں موجود میری امی، بھائی، ماموں، اور ممانی دم توڑ گئے، اس دوران میں شور مچا رہی تھی کہ مجھے نکالو، میں زندہ ہوں، ہماری مدد کرو۔‘", "title": "بحریہ ٹاؤن: حادثے میں پانچ افراد کی ہلاکت، ’میری زندگی کے 45 منٹ جنھیں میں کبھی نہیں بھول پاؤں گی‘", "firstPublished": "2022-12-08T03:39:47.077Z", "id": "ckknx7enzrxo", "article": "’ماموں نے کہا سب کلمہ پڑھو، میری آنکھوں کے سامنے گاڑی میں موجود میری امی، بھائی، ماموں، اور ممانی دم توڑ گئے، اس دوران میں شور مچا رہی تھی کہ مجھے نکالو، میں زندہ ہوں، ہماری مدد کرو۔‘ 21 سالہ ابیہہ بتاتی ہیں کہ ’کافی دیر بعد ایک مزدور مدد کو آیا، وہ شور مچا رہا تھا کہ سیڑھی لاؤ، ایک لڑکی زندہ ہے اسے نکالنا ہے۔ کافی دیر کے بعد کوئی سیڑھی لایا اور مزدوروں نے بڑی مشکل سے مجھے اس گڑھے سے نکالا۔‘ ’پھر اُس مزدور نے میرے کزن عبداللہ کو بھی گڑھے سے نکال کر باہر فٹ پاتھ پر میرے قریب ہی لٹا دیا۔ میں نے عبداللہ کے سینے پر ہاتھ رکھا تو تب بھی اس کی سانسیں چل رہی تھیں۔ میں نے چلاتے ہوئے مزدور کو کہا پلیز ہماری مدد کرو، ہمیں ہسپتال لے جاؤ، عبداللہ ابھی زندہ ہے۔‘ ’جب دوبارہ میری آنکھ کُھلی تو میں لیاقت نیشنل ہسپتال میں تھی۔ میں نے اٹھ کر اپنی امی، بھائی، ماموں اور عبداللہ کے بارے میں پوچھا مگر کوئی بھی کچھ جواب نہیں دے رہا تھا۔ بعد میں مجھے پتا چلا کہ گاڑی میں موجود چھ افراد میں سے صرف میں ہی زندہ بچی ہوں۔ میں کسی کے جنازے میں بھی شرکت نہیں کر سکی، میں خود تو ہسپتال میں تھی مگر ویڈیو کال پر گھر میں سب جنازے پڑے دیکھ رہی تھی۔‘ بحریہ ٹاؤن کراچی کے سکیورٹی انچارج میجر ریٹائرڈ شاہ زیب کے مطابق یہ حادثہ گاڑی کی تیز رفتاری کے باعث پیش آیا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن میں تعمیرات کے حوالے سے واضح قوانین موجود ہیں جن کے تحت جب بھی کوئی تعمیرات کی جاتی ہے تو سائیٹ کے اطراف میں رکاوٹیں لگائی جاتی ہیں اور تنبیہی بورڈز نصب کیے جاتے۔ کرائم سین تبدیل کیے جانے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ایسا کچھ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ پولیس حادثے کے بعد اس مقام پر آئی تھی اور حادثے کے کچھ دن تک کرائم سین کو برقرار رکھا گیا اور اس میں کوئی تبدیلی بھی نہیں کی گئی۔ گڈاپ سٹی ٹریفک سیکشن کے انچارج شاہ نواز کے مطابق بحریہ ٹاؤن کا اپنا ٹریفک پولیس وارڈن کا نظام موجود ہے اس لیے وہاں پولیس کی نفری بھی کم ہی چکر لگاتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ حادثہ سڑک کے بیچ میں بنائے گئے گڑھے میں گاڑی گرنے کے باعث پیش آیا ہے۔ ٹریفک پولیس کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ گاڑی تیز رفتار تھی اور پہلے وہ سڑک پر الٹ گئی اور پھر ایک کھائی میں جا گری۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxerj2xkxpzo", "summary": "صوبہ سندھ کی حکومت نے سکولوں میں میوزک کی تعلیم دینے کا فیصلہ کیا ہے جس پر مذہبی حلقوں کا اعتراض سامنے آیا ہے۔ ", "title": "’کسی کو نعت خواں بننا ہے تو بنے، اگر عاطف اسلم بننا چاہتا ہے تو اسے بھی حق ہے‘ ", "firstPublished": "2022-11-29T11:19:43.708Z", "id": "cxerj2xkxpzo", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ میں جمعیت علما اسلام کے بعد تحریک لبیک پاکستان نے بھی سکولوں میں میوزک ٹیچرز بھرتی کرنے کی مخالفت کر دی ہے تاہم صوبائی وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ کا کہنا ہے کہ وہ کسی کو زبردستی موسیقی کی تعلیم نہیں دیں گے۔ سندھ اسمبلی میں پیر کو اجلاس میں تحریک لبیک پاکستان کے رکن اسمبلی مفتی قاسم نے توجہ دلاؤ نوٹس پر میوزک ٹیچرز کی بھرتی کی مذمت کی اور کہا کہ عربی ٹیچرز کا فقدان ہے، اس کے بجائے گوئیے بھرتی کیے جا رہے ہیں۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ ’سندھ کے ٹی وی چینلز میوزک کے چینلز اور ڈرامہ چلا رہے ہیں۔ ہم نے تو کسی پر حملہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی بند کیا ہے۔ شادی میں میوزک چلتا ہے لوگ اپنی خوشی مناتے ہیں، کسی مولوی یا عالم نے کسی شادی ہال کے باہر جا کر دھرنا تو نہیں دیا، میوزک کو لازمی چیز قرار دے رہے ہیں جس سے سندھ کی تعلیم کو تباہ کیا جا رہا ہے۔‘ سندھ کے صوبائی وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ کا کہنا ہے کہ موسیقی فقط ناچ گانے کا نام نہیں ہے۔ ’جتنی بھی مذہبی کتابیں ہیں اس میں لیرک (ترنم) ہے، پاکستان کا ترانہ موسیقی کے ساتھ بجتا ہے، یہ موسیقار نے بنایا ہے۔‘ ’اگر آپ کو اعتراض ہے تو پھر اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کی قوالی بند کر دیں، قونیہ میں رقص درویشاں بند کر دیں، شاہ عبداللطیف بھٹائی کی درگاہ پر صدیوں سے جاری راگ بند کر دیں، بلھے شاہ پر جو کافیاں گائی جاتی ہیں ان کو بھی بند کر دیں۔ دنیا کے دیگر اسلامی ممالک مصر، ترکی، انڈونیشیا اور ملائشیا میں بھی موسیقی کی تعلیم دی جاتی ہے۔‘ مجوزہ منصوبے کے تحت سندھ میں چھٹی کلاس سے موسیقی کی تعلیم دی جائے گی اور یہ ایک اختیاری مضمون ہو گا۔ اساتذہ کی بھرتی کے لیے اشتہار بھی شائع ہو چکا ہے جس کے بعد مذہبی حلقوں کی جانب سے اعتراضات سامنے آئے۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ سندھ میں حیدرآباد، تھر پارکر، عمرکوٹ سمیت کئی اضلاع میں روایتی منگنہار خاندان موجود ہیں جو صدیوں سے موسیقی سے وابستہ ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ جن کی عمر زیادہ سے زیادہ 43 برس ہے اور وہ عملی طور پر گلوکار ہیں تو اُنھیں بھی شامل کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ پاکستان کے سرکاری سکولوں میں موسیقی کے اساتذہ کبھی بھرتی نہیں کیے گئے ہیں اور صوبہ سندھ میں پہلی بار یہ اقدام کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل مشنری سکولز اور نجی اداروں کے طالب علموں کو دیگر فنون لطیفہ کے ساتھ موسیقی اور اس کے آلات اور سازوں کے بارے میں تعلیم دی جاتی رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cnlggggxpv4o", "summary": "جس سندھو دریا نے ہزار ہا سال سے انسانی تہذیب کی اپنے پانی سے آبیاری اور خدمت کی، وہ کیا اگلی صدی دیکھ پائے گا؟", "title": "’لیونگ انڈس‘ منصوبہ: کیا دریائے سندھ اگلی صدی دیکھ پائے گا؟\r", "firstPublished": "2022-11-27T08:28:17.933Z", "id": "cnlggggxpv4o", "article": "دنیا کے بڑے دریاﺅں میں نیل اوردریائے سندھ وہ دریا ہیں جو اپنے پانی کے ساتھ بڑی مقدار میں ریت اورزرخیز مٹی لاتے ہیں لیکن دریائے سندھ کے پانی میں ریت اورمٹی کی مقدار دریائے نیل سے تین گنا زیادہ ہوتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تہذیبیں دریا ہی کے کنارے پھلتی پھولتی اور ارتقا کے مراحل طے کرتی ہیں۔ دریائے سندھ کے کناروں پر بھی دنیا کی قدیم ترین تہذیب ’وادی مہران کی تہذیب‘ یا انڈس سولائزیشن نے جنم لیا اور یہیں ارتقا کے مراحل طے کیے۔ (یہاں وادی سندھ سے مراد صرف صوبہ سندھ نہیں کیونکہ ہزاروں برس پر محیط اس تہذیب کے نشانات سندھ کے علاوہ پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور انڈیا میں بھی پائے گئے ہیں)۔ گوکہ یہاں سے ملنے والی اشیا پر موجود عبارت ابھی مکمل طور پر پڑھی نہیں جا سکی مگر دیگر شواہد کی بنیاد پر ماہرین اس تہذیب کو پانچ ہزار جبکہ حالیہ ریسرچ کے مطابق سات ہزار سال قدیم تہذیب مانتے ہیں اور اسے مصری اور عراقی تہذیب سے قدیم اور حجم میں ان دونوں سے کہیں بڑی قرار دیتے ہیں۔ \r آج دریائی وسائل ہماری بے پروائی، غیر دانش مندانہ اقدامات، ماحولیاتی شکستگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ہاتھوں انتہائی خطرات سے دوچار ہیں لہذا آج جب اس عظیم تہذیب کی دریافت کو سو سال ہو چلے ہیں تو یہ سوال ضرور ذہن میں اٹھتا ہے کہ جس سندھو دریا نے ہزار ہا سال سے انسانی تہذیب کی اپنے پانی سے آبیاری اور خدمت کی، وہ کیا اگلی صدی دیکھ پائے گا؟ \r ’اس سال کے سیلاب نے آنے والے منظرنامے کو اور بھی واضح کر دیا ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے تیار رہنے کی جتنی ضرورت اب ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ لہذا پاکستان کو اگر محفوظ کرنا ہے تو دریا ئے سندھ اور اس کے وسائل کو محفوظ رکھنا ہوگا کیونکہ دریائے سندھ اور پاکستان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔‘ آبی وسائل کے ماہرڈاکٹر حسن عباس نے اس منصوبے کو مستقبل کے لیے خوش آئند قرار دیا ہے لیکن ان کا اعتراض ہے کہ دریائے سندھ کی تنزلی کی اصل وجوہات دریا پر تعمیر کیے گئے میگا سٹرکچر ہیں، جس سے پانی کو ذخیرہ اور اس کا بہاؤ موڑا جاتا ہے لیکن لیونگ انڈس منصوبے میں اس کا کوئی واضح ذکر نہیں۔ ملک کی 80 فیصد سے زیادہ قابل کاشت زمین دریائے سندھ کے پانی سے سیراب ہوتی ہے اور ملک کے 10 میں سے 9 بڑے شہر دریا کے 50 کلومیٹر کے اندر واقع ہیں۔ \r موئنجو دڑو کی تہذیب کے خاتمے کی وجوہات میں ماہرین کا خیال ہے کہ شاید انڈس اور ہاکڑو دریا نے اپنا پاٹ بدل لیا تھا لہذا پانی کی کمی نے ان شہروں کی معیشت تباہ کر دی اور زندگی یہاں سے روٹھ گئی۔\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw93lv270v3o", "summary": "موئن جو دڑو دنیا کی عظیم قدیم تہذیب ہے لیکن اس دنیا میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔", "title": "’مُردوں کا ٹیلہ‘: پاکستان میں واقع 40 ہزار کی آبادی والا ’جدید شہر‘ جس میں رہنے والے کہاں گئے، کچھ معلوم نہیں", "firstPublished": "2022-11-17T04:01:35.231Z", "id": "cw93lv270v3o", "article": "میں لاڑکانہ شہر کے اُن کھنڈرات میں تھی جو مرکزی شہر سے ایک گھنٹے کی مسافت پر تھے، اس قدیم شہر کا نام موئن جو دڑو تھا۔ آج اس شہر کے محض کھنڈرات باقی رہ گئے ہیں، 4,500 سال پہلے یہ نہ صرف دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک تھا بلکہ ایک ترقی پذیر خطہ تھا جس میں اپنے دور کے لحاظ سے انتہائی جدید انفراسٹرکچر موجود تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ موئن جو دڑو میں کم از کم 40,000 لوگ آباد تھے، اس شہر نے 2500 قبل مسیح سے 1700 قبل مسیح تک ترقی کی۔ لیکن قدیم مصر اور میسوپوٹیمیا کے شہروں کے مقابلے میں، جنھوں نے ایک ہی وقت میں ترقی کی تھی، موئن جو دڑو کا نام پاکستان سے باہر بہت کم لوگوں نے سُنا ہے۔ یہ 1700 قبل مسیح میں ختم ہو گیا تھا، اور آج تک کسی کو قطعی طور پر یقین نہیں ہے کہ اس شہر کے باشندے یہاں سے کیوں نقل مکانی کر گئے یا وہ کہاں گئے۔ مجموعی طور پر محققین کو یقین نہیں ہے کہ یہ شہر 1700 قبل مسیح کے آس پاس کیوں ختم ہو گیا یا اسے خالی کر دیا گیا، حالانکہ بڑے پیمانے پر خیال کیا جاتا ہے کہ آب و ہوا کے عوامل نے اس کی بربادی میں ایک کردار ادا کیا ہو گا۔ اس کے باوجود، رضوی نے وضاحت کی کہ موئن جو دڑو کا غائب ہونا کوئی فوری واقعہ نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’شہر خود اچانک خالی نہیں ہوا تھا۔ 1900 قبل مسیح کے آس پاس آپ دیکھتے ہیں کہ ایک تبدیلی ہوتی ہے، شہر میں رہنے والے لوگوں کے نشانات مادی صورت میں کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سب چلے گئے ہیں، لیکن کچھ محلے ایسے ہیں جو آپ شروع کرتے ہیں۔ اس کے بعد کے ادوار میں آبادی کی تعداد پہلے کے ادوار کی طرح نہیں رہتی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگوں کی شہر چھوڑنے کی رفتار سست ہے۔‘ کئی ہزار سال بعد اب اگست 2022 میں پاکستان میں آنے والے تباہ کن سپر سیلاب کے بعد یہ شہر ایک بار پھر خطرے سے دوچار ہے۔ ڈاکٹر اسما ابراہیم، ماہر آثار قدیمہ اور میوزیالوجسٹ جو ملک بھر میں تحفظ کے کام میں مصروف ہیں، نے تصدیق کی کہ موئن جو دڑو کو نقصان پہنچا ہے، اس کی سائٹ پر سیلاب اس سے کم تھا جو آثار قدیمہ کے ماہرین کو اصل میں خدشہ تھا۔ علاقے کے لیے ایک دیرپا منصوبہ نہ صرف آثار قدیمہ کو فائدہ دے گا بلکہ اس کے آس پاس رہنے والے سولنگی جیسے بہت سے مقامی لوگوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ ڈنڈ گاؤں میں سولنگی کے گھر سے بودھ مت کا گول گنبد صاف نظر آتا ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ ’میرے لیے موئن جو دڑو قدیم تہذیب کا خزانہ ہے۔ ہمیں اس کی آئندہ نسلوں کے لیے حفاظت کرنی چاہیے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2pggr76k4o", "summary": "سندھ کے ضلع گھوٹکی کے علاقے رونتی میں پانچ نومبر کو ہونے والے اس آپریشن کی کہانی جب کچے کے علاقے میں ڈاکووں نے اچانک حملہ کر کے ایک ڈی ایس پی اور دو ایس ایچ اوز سمیت پانچ پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔", "title": "گھوٹکی میں پولیس پر کچے کے ڈاکوؤں کی جانب سے حملے کی حقیقت کیا؟", "firstPublished": "2022-11-15T03:03:16.726Z", "id": "cv2pggr76k4o", "article": "یہ الفاظ سندھ کے ضلع گھوٹکی کے اوباڑو تھانے کے ایک اہلکار کے ہیں جو پانچ نومبر کو رونتی میں کچے کے علاقے میں اس پولیس آپریشن میں شریک تھے جس کے دوران ڈاکووں نے اچانک حملہ کر کے ایک ڈی ایس پی اور دو ایس ایچ اوز سمیت پانچ اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔\r واضح رہے کہ آئی جی سندھ پولیس کے مطابق یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب پولیس کی ٹیم نے کچے کے ڈاکووں کے ایک اہم کمانڈر کے گھر پر چند مغویوں کی بازیابی کے لیے چھاپہ مارنے کے بعد اس کو اپنا کیمپ بنایا اور رات میں راکٹ لانچر سے لیس ڈاکووں نے ان پر حملہ کر دیا۔\r بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پولیس اہلکار نے کہا کہ ’پولیس کے ایک بیس کیمپ پر چند منٹ کے لیے بکتر بند گاڑیاں رکیں جہاں ڈی ایس پی صاحب نے نفری دیکھی اور اس کے بعد پھر ہماری بکتر بند گاڑیاں کچے کے علاقے کی جانب چلنا شروع ہو گئیں۔‘\r پولیس اہلکار کے مطابق اسی دوران ڈاکووں کی جانب سے ایک اور راکٹ داغا گیا جس سے کمرے میں موجود ڈی ایس پی سمیت تمام افراد زخمی ہو گئے۔\r ایک مقامی صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملے کے 24 گھنٹے کے بعد تک ڈاکو ہلاک ہونے والے ڈی ایس پی عبدالمالک بھٹو کا موبائل فون استعمال کرتے رہے اور ان کے واٹس ایپ سے مختلف ویڈیوز مقامی صحافیوں کو بھیجتے رہے۔\r یہ مقابلہ گھوٹکی کے اسی علاقے رونتی میں ہوا تھا جہاں بعد میں پولیس پر بڑا حملہ کرکے ڈی ایس پی سمیت پانچ افسران و اہلکار کو ہلاک کیا گیا۔\r پولیس کے مطابق سلطان عرف سلطو شر تین ایس ایچ اوز سمیت 12 پولیس افسران و اہلکار کے قتل میں ملوث تھا اور اس پر سندھ میں قتل، ڈکیتی، رہزنی سمیت 98 مقدمات درج تھے۔ پولیس کے مطابق سندھ حکومت نے اس کی گرفتاری یا مقابلے میں مارے جانے پر ایک کروڑ روپے انعام کی سفارش کر رکھی تھی۔\r 2020 میں اس وقت کے ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان کی جانب سے سات صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کی گئی تھی جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سندھ میں کچے کے ڈاکووں کو سیاسی شخصیات اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔\r آئی جی سندھ نے کہا کہ جغرافیائی لحاظ سے کچے کے علاقے میں پولیس کا آپریشن مشکل ہوتا ہے اور اس کے لیے ڈرون کیمروں کی ٹیکنالوجی بھی درکار ہے تاکہ آپریشن سے پہلے ڈاکووں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے۔ \r آئی جی سندھ نے کہا کہ انھوں نے ضلعی ایس ایس پی کو اس بات کی تحقیقات کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں کہ ڈاکووں کے پاس اسلحہ کہاں سے آتا ہے جبکہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کو کراچی میں سٹریٹ کرمنلز کو ملنے والے اسلحہ سے متعلق اس کا نیٹ ورک پتا کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔\r\n"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gz2n5e6pno", "summary": "خیرپور ناتھن شاہ کراچی سے تقریبا 260 کلومیٹر دور واقع شہر ہے جس کا نصف حصہ ابھی تک زیر آب ہے لیکن وہاں کے سیلاب متاثرین خیمے نہ ملنے کی شکایت کے سبب مایوس ہو کر اپنے علاقوں میں واپس لوٹ رہے ہیں۔", "title": "سیلاب متاثرین کی مجبوراً گھر واپسی: ’بچوں کو سانپوں کے پاس لے جا رہے ہیں‘", "firstPublished": "2022-11-02T03:49:17.633Z", "id": "c3gz2n5e6pno", "article": "\rدین محمد ببر سے خیرپور ناتھن شاھ شہر کے باہر ملاقات ہوئی جو اپنے بھائیوں اور ان کی فیملیز کے ساتھ کشتی میں سامان لاد کر اپنے گھر، اپنے گاؤں علی بخش ببر لوٹ رہے تھے۔ خیرپور ناتھن شاہ کراچی سے تقریبا 260 کلومیٹر دور واقع شہر ہے جس کا نصف حصہ ابھی تک زیر آب ہے۔\r سیلاب متاثرین کو خیمہ نہ ملنے کی شکایت عام ہے۔ حکومت سندھ کی اپنی رپورٹ کے مطابق این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے اور افواج پاکستان کے علاوہ غیر ملکی امداد سمیت صرف سات لاکھ کے قریب خیمے فراہم کیے گئے ہیں۔\r راشن اور خیمے نہ ملنے پر سیلاب متاثرین کو واپس اپنے زیرِ آب علاقوں میں لوٹنا پڑ رہا ہے \rمرد تو پہلے بھی یہاں چکر لگاتے رہے ہیں لیکن خواتین پہلی بار یہاں پہنچی ہیں۔ ہدایت خاتون ببر نے بتایا کہ پانی کی سطح اچانک بلند ہوگئی تھی۔ انھوں نے سرخ اینٹوں والے پکے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’دیکھو۔۔۔ وہاں تک پانی آیا تھا۔ چار سے پانچ فٹ پانی تھا۔‘\r دہ ماہ بعد یہ خاندان جب واپس لوٹا ہے تو صرف تین کمرے بچے ہیں۔ باقی مٹی اور اینٹوں کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں۔ \r\nہدایت خاتون نے اس ڈھیر پر کھڑے ہو کر بتایا کہ ’بیٹا، یہاں ایک کمرہ بنا ہوا تھا۔ دو کمرے یہاں پر تھے اور کچن اس طرف تھا۔‘ \r خیرپور ناتھن شاھ میں واقع ان کے گاؤں علی بخش ببر کا زمینی راستہ اس وقت بھی منقطع ہے۔ آس پاس کے علاقے میں بھی یہی صورتحال ہے۔ تا حدِ نگاہ پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔ ان کے گھروں کے ساتھ والی سڑک بہہ چکی ہے اور ساتھ میں موجود شگاف سے پانی کا بہاؤ جاری ہے۔\r \r’گھر ویران ہوگئے، گاؤں ویران ہے۔ اب ہم کیا کریں؟ کہاں جائیں؟ اگر کوئی بڑی ایمرجنسی ہوگئی تو ہم یہاں سے کیسے نکلیں گے؟ یہاں کتنا پانی ہے۔ ہم مجبوری میں واپس آئے ہیں۔ سڑکوں پر نہ راشن ملتا تھا، نہ ٹینٹ۔ آخر تو اپنے گاؤں لوٹنا ہی تھا۔‘\r \rحکومت سندھ کاد عویٰ ہے کہ ستر فیصد علاقے سے پانی کی نکاسی ہوچکی ہے۔ تاہم قمبر شھداکوٹ، میھڑ، خیرپور ناتھن شاھ، بھان سعید آباد سمیت دیگر علاقوں میں میلوں میں پانی موجود ہے جہاں گندم کی کاشت مشکل ہوگی۔\r \rدین محمد سے میں نے پوچھا یہاں کیسے گزارا ہوگا؟ انھوں نے کہا کہ وہ اپنے ساتھ جال لے کر آئے ہیں۔ ’اس پانی میں مچھلی پکڑیں گے، کچھ کھائیں گے اور کچھ فروخت کریں گے۔ ماہی گیر ناراض ضرور ہوں گے لیکن کیا کریں یہ مجبوری ہے۔‘ \r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-63254008", "summary": "اس سے قبل عدالت نے حکم دیا تھا کہ لڑکی کا میڈیکل کروا کر اس کی عمر کا تعین کیا جائے۔", "title": "سندھ سے اغوا ہونے والی ہندو لڑکی کم عمر ہے: طبی رپورٹ", "firstPublished": "2022-10-15T01:00:48.000Z", "id": "ab60fb6a-faa4-4c57-a883-a0ce2143294f", "article": "اس رپورٹ کے بعد عدالت نے لڑکی کو سیف ہاؤس منتقل کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ مقدمے کی آئندہ سماعت چار نومبر کو ہو گی۔ ویمن ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ سندھ کی ایک اہلکار کے مطابق ہندو لڑکی نے طبی معائنہ سے قبل بھی عدالت میں ہونے والے بیان میں واضح طور پر کہا تھا کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ جانا چاہتی ہیں۔ عدالت کے حکم پر والدین کے ساتھ ملاقاتیں بھی کروائی گئی ہے مگر لڑکی نے اپنے والدین کے ساتھ جانے سے انکار کیا ہے۔ اس سے قبل سندھ پولیس کے مطابق انھوں نے 12 ستمبر کو اغوا ہونے والی ہندو لڑکی کو کراچی سے بر آمد کر کے عدالت میں پیش کیا تو لڑکی نے عدالت میں بیان دیا کہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرکے نکاح کیا ہے۔ اس پر عدالت نے لڑکی کو سیف ہاؤس میں ہی رکھنے اور طبی معائنے کے ذریعے اس کی عمر کے تعین کا حکم دیا تھا۔ بر آمد ہونے والی لڑکی کی بہن کا کہنا تھا کہ ’ہماری بہن نے ہمیں کچھ نہیں بتایا سب دیکھ سکتے ہیں کہ وہ ڈری ہوئی ہے۔ خوفزدہ ہے۔ وہ بات نہیں کرتی صرف روتی ہے۔ میں نے اس کے آنسو پونچھے تو اس نے میرے ہاتھ پر پیار کیا اور مجھ سے لپٹ گئی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں مقدمہ درج کرنے کے لیے ٹھوس شواہد کی ضرورت تھی۔ ابھی ہم لوگ تفتیش ہی کر رہے تھے کہ عدالت کی جانب سے مقدمہ درج کرنے کا حکم آ گیا، جس پر ہم نے فی الفور مقدمہ درج کیا۔‘ اغوا کا مقدمہ لڑکی کی والدہ کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ان کی بیٹی جس کی عمر 15 سال ہے اور ان کی بڑی بیٹی جس کی عمر 20 برس ہے، دونوں ایک مل میں کام کرتی ہیں اور 12 ستمبر کو دونوں کام کے بعد واپس گھر آ رہی تھیں کہ ایک سفید رنگ کی گاڑی آئی، جس میں ایک شخص جو بلوچستان کا رہائشی ہے، نے میری چھوٹی بیٹی کو زبردستی گاڑی میں بٹھا کر اغوا کر لیا۔ مغویہ کی بڑی بہن کے مطابق واقعہ اتنا اچانک تھا کہ انھیں سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ ’سفید رنگ کی کار میں وہ چار لوگ تھے۔ پہلے ایک اترا، اس نے میری بہن کو دبوچا اور پھر دوسرا اس کی مدد کو آیا اور ان دونوں نے میری بہن کو اٹھا کر کار میں پھینکا اور تیزی سے نکل گئے۔‘ شیوا کچھی جو پاکستان دراوڑ اتحاد کے چیئرمین اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں، بتاتے ہیں کہ اگر پولیس بروقت کارروائی کرتی تو لڑکی کو فی الفور بر آمد کیا جا سکتا تھا مگر پولیس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا جس وجہ سے ملزماں کو لڑکی کو کسی نامعلوم مقام پر پہنچانے کا موقع مل گیا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd12k0kznm0o", "summary": "پولیس سے مقابلے میں دو مبینہ ڈکیت ہلاک ہو چکے تھے مگر رشتہ داروں کا الزام تھا کہ وہ معصوم شہری ہیں۔۔۔ تلاش ڈیوائس کی مدد سامنے آنے والے مبینہ ڈکیتوں کی تفصیلات ناصرف حیران کن تھیں بلکہ اس سے پولیس کی مشکل بھی آسان ہوئی۔", "title": "’تلاش ڈیوائس‘جس سے دو مبینہ ڈکیتوں کو مقابلے میں ہلاک کرنے والے پولیس اہلکاروں کی بےگناہی ثابت ہوئی", "firstPublished": "2022-10-28T04:08:54.642Z", "id": "cd12k0kznm0o", "article": "ابھی ایمبولنس ہسپتال کے قریب ہی پہنچی تھی کہ زخمی شخص بھی ’زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے‘ ہلاک ہو گیا۔ دونوں مبینہ ڈکیتوں کی لاشوں کو عباسی شہید ہسپتال کے مردہ خانے میں رکھ دیا گیا اور اسی اثنا میں مرنے والے مبینہ ڈکیت کے کچھ رشتہ دار بھی ہسپتال پہنچ گئے۔ مشکل یہ بھی تھی کہ ابتدا میں ہونے والی تفتیش کے نتیجے میں پولیس کو عبدالرحمان اور وکلاج کے نام سے ملزمان کا کوئی کرائم ریکارڈ نہیں مل رہا تھا۔ دوسری جانب پولیس افسران کا بھی ایس ایچ او پر دباؤ تھا کہ معلوم کیا جائے کہ کیا مرنے والے واقعی معصوم شہری تھے؟ تلاش ایپ نے ڈکیت کے اصل نام سے پردہ ہٹا دیا تھا اور معلوم ہوا کہ ان کا اصل نام وکلاج نہیں بلکہ محمد بنی عرف قاری تھا۔\rبا ایس ایچ او نے مزید جاننے کی کوشش میں ملزم کا کرمینل ریکارڈ دیکھا تو معلوم ہوا کہ ملزم رواں سال یکم جنوری کو اقدام قتل کے مقدمے میں گرفتار بھی ہوا تھا۔ اس کیس میں ضمانت پر رہا ہوا تو پیرآباد پولیس نے 6 جولائی کو چوری کے مقدمے میں گرفتار کیا، لیکن چند ماہ میں ہی یہ ضمانت پر دوبارہ باہر آ گیا۔ غیبان خان جون 2020 میں غیرقانونی اسلحہ برآمدگی کیس میں تھانہ سرسید کی حدود سے گرفتار کیا گیا تھا۔\r\nایس ایچ او تھانہ سرسید شاہد تاج کے مطابق اگر اس روز یہ تلاش ڈیوائس ان کے پاس نہ ہوتی تو وہ اور ان کے اہلکار بڑی مشکل میں پھنس سکتے تھے کیونکہ مارے جانے والے ڈکیت نے زخمی حالت میں جو نام ہمیں بتائے وہ بھی غلط تھے اور ان کے اہلخانہ کی جانب سے بھی انھیں ’معصوم‘ قرار دیا جا رہا تھا۔\r ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جب بھی ایسی صورتحال درپیش ہوتی تھی جس میں ملزم کا کرمینل ریکارڈ معلوم کرنا پڑتا تو اس میں کئی روز درکار ہوتے تھے۔ ملزم کا اصل نام اور شناختی کارڈ نمبر پولیس کی کرائم ریکارڈ برانچ یعنی سی آر او بھیجے جاتے جہاں سے ایک سے دو روز میں تمام معلومات بتائی جاتی تھیں اور اس میں زیادہ وقت ضائع ہو جاتا تھا۔ \rناصر آفتاب کے مطابق پہلے تو ملزمان صرف اس سوچ کے ساتھ وارداتیں کرتے تھے کہ اس کی تلاش صرف مقدمے کا تفتیشی افسر کر رہا ہے لیکن اب اس ایپ کے استعمال کے بعد وہ خوف زدہ ہوں گے کہ کہیں اُن کا سامنا تلاش ڈیوائس کے ہمراہ کھڑے اہلکاروں سے ہوگیا تو ان کے تمام مقدمات کھل کر سامنے آ جائیں گے۔ 17 اکتوبر کے بعد سے شہر میں تلاش ڈیوائس کے ہمراہ سنیپ چیکنگ کا آغاز کیا گیا ہے۔ ایس پی لیاقت آباد ایاز حسین کے مطابق ماضی میں شہریوں کی جانب سے پولیس کے ناکے کے خلاف بہت باتیں کی جاتی تھیں اور اہلکاروں پر رشوت لینے کے الزام بھی لگتے تھے لیکن اس ایپ کے ذریعے پولیس اہلکاروں کی مانیٹرنگ بھی ممکن ہو پا رہی ہے۔\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-63327177", "summary": "اس درگاہ میں مندر اور مسجد ساتھ ساتھ ہیں۔ مندر میں ہندو پوجا کرتے ہیں اور مسجد میں مسلمان نماز پڑھتے ہیں جبکہ ان دونوں عبادت گھروں کے بیچ اڈیرو لال کا مزار ہے۔", "title": "اڈیرو لال: سندھ کے وہ بزرگ جنھیں مسلمان اور ہندو دونوں اپنا ’مرشد‘ مانتے ہیں", "firstPublished": "2022-10-21T04:52:05.000Z", "id": "8a6b53f3-f8c9-4f28-a233-1d437766e664", "article": "یہ ایسی درگاہ ہے جہاں مندر اور مسجد ساتھ ساتھ ہیں۔ مندر میں ہندو پوجا کرتے ہیں اور مسجد میں مسلمان نماز پڑھتے ہیں جبکہ ان دونوں عبادت گھروں کے بیچ اڈیرو لال کا مزار ہے۔ اڈیرو لال کے حوالے سے ہندو اور مسلمان اپنی اپنی روایات بیان کرتے ہیں لیکن آج تک کبھی اس بات پر کوئی فساد نہیں ہوا۔ ’چیٹی چنڈ‘ سندھی کیلینڈر کا مہینہ ہے، جسے سندھی کا نیا سال بھی کہا جاتا ہے۔ چیٹی چنڈ کی ابتدا مارچ اور اپریل کے درمیان ہوتی ہے اور اس ماہ میں سندھ کے لوگ اڈیرو لال کا میلہ اور ان کی سالگرہ بھی مناتے ہیں۔ آج بھی اڈیرو لال کو ہندو اور مسلمان بنا کسی تفریق کے اپنا ’مرشد‘ مانتے ہیں۔ ہر سال اپریل کے مہینے میں انڈیا اور دیگر ممالک میں بسنے والے ان کے عقیدت مند میلے میں آتے ہیں، جس کا تمام تر انتظام درگاہ کے منتظم ہندو اور مسلمان مل کر کرتے ہیں۔ یہاں ہندو مسلم ہر قسم کی رسومات میں شریک ہوتے ہیں اور اڈیرو لال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ وہ درگاہ پر ’بھجن‘ اور ’پنجڑا‘ گاتے ہیں۔ ان تمام تر رسومات کی شروعات دیا جلا کر کی جاتی ہے، اس کے بعد عقیدت مند ایک بڑا سا تھال سجاتے ہیں، جس میں مٹھایاں، پھل اور گلاب رکھے جاتے ہیں، اس کے بعد دریائے سندھ کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔ اڈیرو لال کے مزار والا کمرہ شیشے سے بنا ہوا ہے اور چھت میں بادگیر لگے ہوئے ہیں، جن میں سے ٹھنڈی ہوا کا آسانی سے گزر ہوتا ہے اور دیواروں میں دیا جلانے کی کافی جگہیں ہیں جہاں دیے جلتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اڈیرو لال کے استعمال کی اشیا بھی موجود ہیں جن میں ایک لکڑی کا جوتا بھی ہے، جسے ’چاکھڑی‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں چندے کے لیے ایک ڈبہ ہے، جس میں مندر اور مسجد دونوں کے لیے چندہ جمع کیا جاتا ہے۔ ’جب بھی یہاں میلہ لگتا ہے تو ہندو برادری مسجد اور درگاہ کے لیے بھی چندہ دیتی ہے۔ اسی طرح یہ ہمارے فرائض میں شامل ہے کہ ہم مندر کی دیکھ بھال کریں۔ یہاں کسی قسم کی تفریق نہیں کیونکہ یہ نہ صرف اڈیرو لال درگاہ کی تعیلمات ہیں بلکہ سندھ میں بسنے والے سبھی لوگ مذہبی روادرای کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔‘ ننکانہ صاحب میں جس طرح سکھوں کے لیے سہولیات پیدا کی گئی ہیں اسی طرح اڈیرو لال کی زیارت کرنے والے اپنے لیے بھی ایسا ہی مطالبہ کرتے ہیں تاکہ اڈیرو لال کی درگاہ جو کہ سندھ میں مذہبی ہم آہنگی کا سب سے بڑا مظہر بنا ہوا ہے، اسے دیکھنے کے لیے دنیا کے تمام لوگوں کے لیے کوئی روکاٹ باقی نہ رہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/entertainment-63308729", "summary": "سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ فیس بک ویسے تو پسند ناپسند، ذاتی تبصروں اور خیالات کے اظہار کا پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے ذریعے کوئی اداکار بن جائے اور شہرت کی بلندیوں کو بھی چھو لے تو یقینا ایک قابل حیرت بات لگتی ہے جس کی ایک مثال انمول بلوچ ہیں۔", "title": "تم اتنی غلط لڑکی کیوں بنی ہو؟ اب تم سے کوئی شادی نہیں کرے گا‘", "firstPublished": "2022-10-19T03:38:36.000Z", "id": "5db42130-d9f1-4a3a-a574-eaad34f9397c", "article": "سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ فیس بک ویسے تو پسند ناپسند، ذاتی تبصروں اور خیالات کے اظہار کا پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے ذریعے کوئی اداکار بن جائے اور شہرت کی بلندیوں کو بھی چُھو لے تو یقیناً یہ ایک قابل حیرت بات لگتی ہے جس کی ایک مثال انمول بلوچ ہیں۔ بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے انمول بلوچ نے بتایا کہ انھوں نے فیس بک پر آئی ڈی بنائی اور ’اس پر لکھ دیا ایکٹر اور اس پر کچھ سیلفیز لگا دیں لیکن اس وقت تک میرے پاس کوئی کام نہیں تھا۔‘ ’نیگیٹو کردار کرنے میں ایکٹنگ کی زیادہ گنجائش ہوتی ہے مثلا ایک عام سے گھر کی لڑکی دکھائی گئی ہو ، جس پر ظلم ستم ہو رہا ہے تو اس کو بس رونا ہے یا باتیں سُننا ہیں لیکن نیگیٹو کردار میں ایسا نہیں ہے۔ نیگیٹو کردار میں زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں جہاں میں چیخی یا اپنی آواز بنائی ہے وہاں کافی محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرا ایک بھی سین ایسا نہیں ہوتا تھا جس کی لائنز مجھے یاد نہ ہوں۔‘ انمول کہتی ہیں کہ ڈرامے کو ڈرامے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ ’سیانی میں بھی ایک سبق ہے، اس میں جو زبان استعمال کی گئی ہے اور والدہ کے ساتھ جو رویہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی زبان سے ہی اس کے کردار کو مزید نیگیٹو بنایا گیا ہے۔‘ ’میں نے ڈائریکٹر سے بھی بات کی تھی لیکن وہ زبان اس کردار کی ڈیمانڈ تھی۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کرن کے ساتھ کچھ غلط ہو گا وہ سیکھ جائے گی۔ اس کے بچے بھی ہو جاتے ہیں لیکن وہ سدھری نہیں ہے، چیلنج یہ ہے کہ میں حقیقی زندگی میں ایسی نہیں ہوں مطلب کہ مجھے بہت غصہ بھی آئے گا تو میں چپ کر جاتی ہوں۔ الگ سے جا کر رو لیتی ہوں مطلب اتنا نہیں بول سکتی۔‘ ’اگر ہم سوشل میڈیا پر کچھ لگا رہے ہیں تو یہ پبلک کے لیے بھی ہے ورنہ ٹی وی پر تو لوگ مجھے ہی دیکھ رہے ہیں۔ پھر مجھے انسٹا گرام اور فیس بک استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ تبصرے نہ کریں تو اپنی پروفائل پرائیویٹ کر دیں کیونکہ آپ کسی کو رائے دینے سے روک نہیں سکتے۔‘ انمول بلوچ نے اپنے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’وہ گاؤں میں شادی اس لیے نہیں کرنا چاہتیں کیونکہ وہاں پابندیاں بہت ہیں، اس قدر کے خواتین کو اپنے کپڑوں کی خریداری کی بھی اجازت نہیں ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-63251005", "summary": "ادبی بورڈ نے حال میں اپنے مونو گرام سے بیل کو ہٹاکر سندھ کا نقشہ کردیا ہے۔ اس فیصلے پر سندھ میں ادیبوں، شاعروں اور سیاسی کارکنوں کا احتجاج جاری ہے اور اس کو رجعت پسندانہ فیصلہ قرار دیا جارہا ہے۔", "title": "سندھی ادبی بورڈ کا مونو گرام کلچر کی عکاسی کرتا ہے یا کسی مذہب کی؟", "firstPublished": "2022-10-14T01:04:31.000Z", "id": "c657a9c2-00dc-47b8-b694-dfbd1039556c", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ میں حکومت کے زیر انتظام سندھی ادبی بورڈ کا مونو گرام کلچر کی عکاسی کرتا ہے یا کسی مذہب کی؟ ادبی بورڈ نے حال میں اپنے مونو گرام سے بیل کو ہٹاکر سندھ کا نقشہ کردیا ہے۔ اس فیصلے پر سندھ میں ادیبوں، شاعروں اور سیاسی کارکنوں کا احتجاج جاری ہے اور اس کو رجعت پسندانہ فیصلہ قرار دیا جارہا ہے۔ ادبی بورڈ کے چیئرمین مخدوم سعید الزمان سروری سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں جس کی بنیاد مخدوم نوح سرور نے رکھی تھی ہالا میں ان کی درگاہ واقع ہے، سوشل میڈیا پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ بیل کے لوگو کو ہٹانے کے پیچھے مذہبی بنیاد ہے۔ ادبی بورڈ کے سیکریٹری سکندر شاہ کا کہنا ہے کہ موھن جو دڑو کی مہر والے لوگو کو ہٹانے کے پیچھے مذہبی سوچ نہیں ہے۔ ’ویسے بھی جو مذہبی کتابیں شایع کی جاتی ہیں اس پر یہ لوگو نہیں لگایا جاتا ہے۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ کب سے عمل کیا گیا ہے تو انھوں نے بتایا کہ کئی سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب ماضی میں شائع ہونے والی کچھ مذہبی کتابوں پر بیل والا یہ مونو گرام موجود ہے۔ سندھ کے ادیب اور دانشور تاج جویو نے مخدوم سعید الزمان کو ایک خط تحریر کرکے اس فیصلے پر احتجاج کیا اور سوال اٹھایا ہے کہ کہیں اس فیصلے میں ادبی بورڈ کے قدامت پسند اراکین کا ہاتھ تو نہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’بیل کے لوگو کا مونو گرام 1958 سے زیر استعمال ہے جو سندھ کے نامور مصور ع ق شیخ نے بنایا تھا، 2022 کے ابتدائی مہینوں میں جو جرائد شایع ہوئے ان پر یہ مونو گرام شامل تھا بعد میں اپریل میں اس کو ہٹاکر سندھ کا نقشہ دے دیا گیا ہے وہ اس کو لالی پاپ سمجھتے ہیں تاکہ بیل کا لوگو ہٹانے کی مخالفت نہ ہوسکے۔‘ ’بیل جنگلی، زرعی سماج اور آج کے صنعتی دور میں بہ انسانوں کے ساتھ گھر کے افراد کی طرح رہتا ہے جن لوگوں نے ادبی بورڈ کے لوگو میں موئن جو دڑو کے بیل کو شامل کیا تھا ان کے پاس ایک سوچ تھی، اس لوگو میں سے بیل کی بیدخلی سندھ کے قدیم تہذیبی سفر، فطرت سے محبت اور ترقی سے انحراف ہے اس سے بڑی بدقسمتی ہوئی نہیں سکتی۔‘ مکیش راجہ لکھتے ہیں کہ ’دنیا موہن جو دڑو کا رسم الخط پڑھنا چاہتی ہے اور سندھی ادبی بورڈ کے متعصب چیئرمین نے اس رسم الخط کی مہر کا لوگو ہٹا دیا کیونکہ اس میں بیل ہے اور وہ اس بیل والے لوگو سے مذہبی کتابیں نہیں چھاپ سکتے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-63205173", "summary": "کراچی میں سونے کے کاروبار سے وابستہ کامران ٹیسوری سندھ کے 34 وین گورنر بن گئے ہیں۔ اب یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا کامران ٹیسوری ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو قریب لا سکیں گے یا پھر وہ مزید تقسیم کا باعث بنیں گے؟", "title": "سندھ کے نئے گورنر: ’آج کامران ٹیسوری جیت گیا اور ایم کیو ایم ہار گئی‘", "firstPublished": "2022-10-10T14:33:48.000Z", "id": "81ffb467-3686-4f14-a405-afd2480d293a", "article": "کراچی میں سونے کے کاروبار سے وابستہ کامران ٹیسوری سندھ کے 34 ویں گورنر بن گئے ہیں۔ تقریباً آٹھ برس کے وقفے کے بعد ایم کیو ایم کا گورنر اس منصب پر فائز ہوا ہے۔ ایم کیو ایم میں ان کی شمولیت متنازع رہی اور اس کی وجہ سے تنظیم کو دھڑا بندی کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی تقرری دھڑوں کے انضمام کی وجہ بنے گی یا مزید تقسیم ہوگی۔ پاکستان کے صدر عارف علوی نے اتوار کو کامران ٹیسوری کی بطور گورنر تعیناتی کی منظوری دے دی۔ ایم کیو ایم کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے پہلے مرحلے میں جو پانچ نام دیے گئے تھے ان میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی تھی، مشاورت سے دوسرے مرحلے میں سابق ایم این اے عبدالوسیم اور کامران ٹیسوری کے نام تجویز کرکے وفاق کو بھیجے گئے تھے۔ سینیٹ کے ان انتخابات میں ایم کیو ایم فروغ نسیم کی صورت صرف ایک ہی نشست حاصل کرسکی تھی۔ یوں فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں منقسم دھڑوں میں اختلافات نے شدت اختیار کر لی۔ ایم کیو ایم کے رہنما امین الحق کا یہ بیان سامنے آیا کہ آج کامران ٹیسوری جیت گیا اور ایم کیو ایم ہار گئی۔ ایم کیو ایم سے عیلحدگی کے بعد پاک سرزمین پارٹی کے نام سے جماعت بنانے والے سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ’ہم ایم کیو ایم کے نامزد کامران ٹیسوری کو گورنر بننے پر ایم کیو ایم اور کامران ٹیسوری کو مبارک باد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کے سندھ بالخصوص کراچی اور حیدرآباد کے مسائل میں کمی ہوگی۔ صحافی اور تجزیہ نگار مبشر زیدی کہتے ہیں کہ مائنس لندن گروپ کے باقی دھڑوں بشمول مصطفیٰ کمال نے ٹیسوری کی تعیناتی کا ایک جیسا ہی خیرمقدم کیا ہے۔ لگتا ہے کہ یہ کوئی منصوبہ ہے جس کے تحت ایک ایسی ایم کیو ایم بنائی جائے جو کم از کم کراچی میں تحریک انصاف کے ووٹ توڑ سکے کیونکہ اگلے الیکشن میں بھی پی پی کا اتنا زور نہیں ہوگا۔ سینیئر تجزیہ نگار مظہر عباس کہتے ہیں کہ لگتا یہ ہے کہ کامران ٹیسوری کو ڈاکٹر فاروق ستار کی واپسی کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ اگر وہ (ٹیسوری) اور ان کے پیچھے جو لوگ ہیں وہ کسی طرح سے فاروق ستار کو واپس لے بھی آئے تو خالد مقبول صدیقی یا عامر خان کسی ایک کی قربانی دینی ہوگی، جس سے لگتا ہے کہ ایم کیو ایم مزید تقسیم در تقسیم ہوتی جائے گی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-63102566", "summary": "پاکستان کے صوبے سندھ کے ضلع گھوٹکی میں پولیس کے مطابق ایک معذور نوجوان کو توہین مذہب کا الزام لگا کر تالاب کے پانی میں غوطے دے دے کر ہلاک کردیا گیا ہے۔", "title": "گھوٹکی سندھ: توہین مذہب کے الزام میں معذور نوجوان قتل", "firstPublished": "2022-10-01T12:29:01.000Z", "id": "4b046bcb-e557-48ed-a727-7563091abb02", "article": "پاکستان کے صوبے سندھ کے شمالی ضلع گھوٹکی میں پولیس کے مطابق ایک معذور نوجوان کو توہین مذہب کا الزام لگا کر تالاب کے پانی میں غوطے دے دے کر ہلاک کردیا گیا ہے۔ پولیس نے ایک مشتبہ ملزم کو گرفتار کر لیا ہے جس کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اقدام مقتول کی جانب سے مذہب کی توہین کے الزام میں کیا ہے۔ یہ واقعہ میرپور ماتھیلو کے گاؤں محمدصدیق کلوڑ میں سنیچر کی صبح پیش آیا ہے، میرپور ماتھیلو تھانے میں دائر مقدمے میں مدعی سرفراز علی نے بتایا ہے کہ ایک ہفتہ قبل ان کے بڑے بھائی عباس کلوڑ نے بتایا تھا کہ ’محمد حسن کلوڑ درگاہ لال شاہ پر اس کے پاس آیا تھا اور کہا تھا کہ تم یہ جو قبروں پر سجدے کرتے ہو برائے مہربانی درگاہ کو چھوڑو ورنہ میں تمہیں مار دوں گا۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’سنیچر کی صبح نو بجے ہم درگاہ کے پاس کھڑے تھے کہ ملزم محمد حسن اور ایک نامعلوم شخص آیا ان میں سےحسن کلوڑ کے ہاتھ میں بوتل تھی جس میں پیٹرول تھا اس نے عباس کو مخاطب ہوکر کہا کہ تمہیں کہا تھا نا درگاہ کی مجاوری کرنا چھوڑ دو مگر تم نہ مانے اب تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔‘ 'ملزم نے میرے بھائی پر پیٹرول چھڑکا اور جو ساتھ میں نامعلوم شخص تھا اس سے آگ لگانے کے لیے ماچس نکالی میرا بھائی خوف سے بھاگا، انھوں نے اس کا پیچھا کیا وہ پانی کے تالاب میں گرگیا، اس کو انھوں نے ہمارے سامنےغوطے دے کر ہلاک کیا، ہم لاش لے کر ہسپتال گئے جہاں پوسٹ مارٹم کرایا گیا۔‘ مقتول عباس کے بھائی ظہیر نے ٹیلیفون پر بی بی سی کو بتایا کہ ملزم ان کا دور کا رشتے دار ہے اور سکھر میں مدرسے میں پڑھتا ہے۔ پولیس نے مشبہ ملزم حسن کلوڑ کو گرفتار کرلیا ہے۔ ایس ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم کو گرفتار کرکے قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے، اپنے بیان میں ملزم اس کو توہین مذہب قرار دے رہا ہے تاہم پولیس تمام عوامل سے تحقیقات کر رہے ہیں۔ اس کی ایک ویڈیو بھی پولیس کو ملی ہے جس میں نظر آرہا ہے کہ ملزم نے پانی کے جوہڑ میں مقتول کو بالوں سے پکڑا ہوا ہےاس کا پورا جسم ڈوبا ہوا ہے اور اس سے لوگ پوچھ رہے ہیں تم نے ایسا کیوں کیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ اس نے مذہب کی توہین کی ہے اس کے پاس گواہ بھی ہیں وہ بھاگے گا نہیں بھلے پولیس آکر اس کو گرفتار کرلے۔ مقتول عباس کلوڑ پیدائشی طور پر دونوں بازوں سے محروم تھا، وہ گذشتہ ایک دہائی سے درگاہ لال پر مجاوری کر رہے تھے۔ ہینڈ پمپ چلا کر پانی نکالنے سے لے کر ووٹ ڈالنے تک وہ تمام کام اپنے پیروں کی مدد سے سرانجام دیتے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62995419", "summary": "سندھ میں کئی علاقے اس وقت بھی زیر آب ہیں۔ ان علاقوں کے آس پاس کی آبادی میں جلدی امراض پھیلی ہوئی ہیں۔ یہاں موجود ہر کیمپ میں ایسے بچے نظر آتے ہیں، جن کے جسم اور چہرے پر دانے ہیں۔", "title": "’یہ ٹھیک ہی نہیں ہوتے، ہم کھانے کا بندوبست کریں یا ڈاکٹر کا انتظار‘", "firstPublished": "2022-09-23T04:14:08.000Z", "id": "e2f8856a-6cba-48b0-aa84-edd7c8f7e143", "article": "راشد علی ایک بالٹی میں سیلابی پانی لاتے اور اپنی آٹھ برس کی بھانجی کے سر اور پاؤں پر ڈال رہے تھے۔ بچی کپکپا رہی تھی۔ راشد اور ان کی بھانجی کے ارد گرد ہی زمین اور بینچوں پر متعدد مریض اور بھی موجود تھے جن میں سے اکثر کو ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ یہ منظر ہے دو کمروں پر مشتمل ایک نجی کلینک کا جو سندھ کے ضلع دادو کے قریب واقع چھنڈن موری گاؤں کا ہے۔ اس کلینک کے آس پاس سیلاب متاثرین خیموں یا سائبان کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے جبکہ سامنے کشتیاں کھڑی تھیں جو لوگوں کو جوھی اور دیگر علاقوں میں لے کر جا رہی تھیں جو حالیہ سیلاب کی وجہ سے زیر آب آچکے تھے۔ ’سرکاری ہسپتالوں میں علاج کراتے ہیں، کل بھی ایک ٹیم آئی تھی لیکن قابل اطمینان علاج نہیں ہوتا۔ حکومت کی طرف سے صرف ایک دو گھنٹے کے لیے کیمپ لگتا ہے اور وہ پھر چلے جاتے ہیں۔ یہ مقامی ڈاکٹر تو فیملی ڈاکٹر ہوتے ہیں، یہاں رہتے ہیں، انھیں بچے کو دکھاتے ہیں تو یہ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔‘ سرکاری تعلیمی ادارے میں قائم کیمپ ہو، خیمہ یا سڑک پر موجود متاثرین، ہر کسی کے پاس کھانے کی شکایت موجود تھی کہ وہ ہر وقت چاول نہیں کھا سکتے اور اپنے بچوں کو کیا دیں۔ دادو جوھی روڈ پر کالج میں واقع کیمپ کے باہر چارپائی پر سمی اپنے چار بچوں کے ساتھ موجود تھیں۔ ان کا دس برس کا بھائی دوپہر ایک بجے کی گرمی میں بھی کمبل اوڑھے لیٹا تھا اور سکڑنے کے باوجود اس کے کپکپاتے ہوئے پاؤں نظر آ رہے تھے۔ اس کیمپ میں ایک ڈاکٹر موجود تھے جن کے پاس متعدد غیر معروف سیرپ اور دیگر ادویات موجود تھیں۔ یہاں نہ سٹیتھ سکوپ ہے نہ بلڈ پریشر چیک کرنے کا آلہ اور نہ بچوں کا وزن کرنے کی کوئی مشین موجود تھی۔ دادو، جامشورو سمیت سندھ کے تمام متاثرہ علاقوں میں اس وقت محکمہ صحت کے علاوہ غیر سرکاری تنظیموں نے بھی میڈیکل کیمپ لگائے ہیں۔ یہاں ڈیسک پر نامور کمپنیوں کی ادویات کے ساتھ ملیریا کے ریپڈ ٹیسٹ کی سہولت بھی دستیاب تھی۔ یہ تمام سہولیات محکمہ صحت کے صرف اسی کیمپ میں نظر آئیں۔ اس علاقے کے آس پاس بھی متاثرین کی کیمپ واقع تھے۔ سندھ میں کئی علاقے اس وقت بھی زیر آب ہیں۔ ان علاقوں کے آس پاس کی آبادی میں جلد کے امراض بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر کیمپ میں ایسے بچے نظر آتے ہیں، جن کے جسم اور چہرے پر دانے ہیں۔ سکھر نیو پنڈ سے لے کر شھدادکوٹ، خیرپور، لاکھا روڈ اور جامشورو سمیت کئی علاقوں سے سوشل میڈیا پر بچوں کی تصاویر شیئر کی گئی ہیں جن میں بچے جلدی امراض کا شکار نظر آتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62982592", "summary": "عابد حسین ببر کی بوٹ گذشتہ 20 روز سے ضلع دادو کی تحصیل خیرپور ناتھن شاہ اور آس پاس کے علاقے کے لوگوں کو ریسکیو کرنے میں مصروف رہی ہے۔", "title": "دادو کا باہمت شخص جس نے کشتی خرید کر دو ہزار افراد کو خود ریسکیو کیا", "firstPublished": "2022-09-22T11:35:22.000Z", "id": "16cf4206-f393-4a8c-bce7-6eca712225aa", "article": "یہ ہیں صوبہ سندھ کے ضلع دادو کی تحصیل خیرپور ناتھن شاہ کے رہائشی عابد حسین ببر، جنھوں نے خیرپور ناتھن شاہ اور آس پاس کے علاقے کے لوگوں کو خود ریسکیو کیا۔ ’بڑے بھائی نے فیصلہ کیا کہ صبح چلیں گے، گھر میں خواتین اور بچوں سمیت میری بزرگ والدہ بھی موجود تھیں جو ہیپاٹائٹس میں مبتلا تھیں۔ پانی کی رفتار زیادہ تھی صبح تک ہمارے گھروں میں چار سے پانچ فٹ آ گیا اور ہم پانی کے گھیرے میں تھے۔ ہمیں ریسکیو کرنے کے لیے کوئی کشتی موجود نہیں تھی۔ دو روز بعد رشتے دار ایک کشتی لے کر آئے اور ہمیں ریسکیو کیا۔‘ یہاں سے نکل جانے والوں میں عابد حسین کا خاندان بھی شامل تھا۔ عابد حسین کے مطابق اُنھیں اندازہ تھا کہ انتظامیہ لوگوں کو ریسکیو نہیں کر پائے گی اور کشتی ایک بنیادی ضرورت ہے کیونکہ جب تک انسانوں کو بچایا نہیں جاتا باقی ضروریات ثانوی حیثیت رکھتی ہیں، لہٰذا اُنھوں نے اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ رقم جمع کی۔ ’ہم نے ٹھٹہ کے کینجھر جھیل سے ایک کشتی خرید لی۔ یہ استعمال شدہ تھی جو ہمیں سات لاکھ روپے کی ملی۔ اس کو چلانے کے لیے ہم وہاں سے ہی ایک ماہی گیر کو بھی لائے جس کے پاس جھیل کے علاوہ سمندر میں بھی کشتی چلانے کا تجربہ تھا اور اس کشتی کو ہم نے خیرپور ناتھن شاہ سے لوگوں کو ریسکیو کرنے کے لیے اتارا۔‘ عابد حسین کے مطابق خیرپور ناتھن شاہ اور آس پاس کے علاقوں سے 15 روز میں اُنھوں نے 2000 کے قریب لوگوں کو ریسکیو کیا۔ خیرپور ناتھن شاہ جاتے ہوئے راستے میں عابد حسین نے کشتی سے لول جا نامی گاؤں میں اپنا گھر دکھایا اور بتایا کہ دیکھیں وہ ڈوبا ہوا ہے۔ عابد حسین خیرپور ناتھن شاہ میں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے منسلک تھے۔ ان کے ساتھی آصف شیخ، احمد سندھی اور حفیظ قمبرانی بھی چھوٹے موٹے کاروبار اور ملازمت کرتے ہیں لیکن سماجی خدمت سے بھی وابستہ ہیں۔ خیرپور ناتھن شاہ اور آس پاس میں کشتیاں دستیاب نہیں صرف منچھر جھیل میں کشتیاں چلائی جاتی ہیں۔ موجودہ وقت انڈس ہائی وے پر نائچ گوٹھ کے مقام پر جیٹی جیسی صورتحال ہے جہاں سے پی ڈی ایم اے، پاکستان آرمی اور نیوی اپنا ریسکیو آپریشن ختم کر چکی ہیں تاہم نجی طور پر کشتیاں چلائی جا رہی ہیں جو لوگوں کو خیرپور ناتھن شاہ اور آس پاس میں لے کر جاتی ہیں۔ یہ 300 سے 500 روپے کرایہ لے رہی ہیں۔ عابد حسین نے اس وقت اپنی کشتی میڈیکل کیمپ لگانے والوں اور متاثرین میں راشن لے جانے والوں کے لیے مفت میں مختص کی ہوئی ہے۔ خیرپور ناتھن شاہ میں دو سے تین فٹ پانی کی سطح کم ہونے کے بعد لوگوں نے فیملی کے ساتھ واپسی اختیار کی لیکن وہاں بجلی، مواصلات، پینے کے صاف پانی کی کوئی سہولت دستیاب نہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62982589", "summary": "انجلینا جولی گذشتہ روز پاکستان پہنچی تھیں۔ اس سے قبل وہ سنہ 2005 کے زلزلے اور سنہ 2010 کے سیلاب میں بھی پاکستان کا دورہ کر چکی ہیں۔", "title": "’گرمی شدید تھی اور وقت کم مگر انجلینا بار بار خواتین سے بات کرنے رک جاتی تھیں‘", "firstPublished": "2022-09-21T12:09:44.000Z", "id": "4d9c578e-d0e1-4503-9567-875cfa23ad13", "article": "دادو کی کھیر موری میں چار کشتیاں تیار تھیں۔ اُنھیں انتظار تھا ایک مہمان کا جس کے ساتھ اُنھیں اس گاؤں میں جانا تھا جس کے لوگ سیلاب کے پانی میں گھرے ہیں اور وہاں سے نہیں نکلے۔ پیر بخش عرف پیرل چانڈیو مقامی رہائشی اور گلوکار ہیں۔ ان کے مطابق اُنھوں نے انجلینا جولی کی کوئی فلم نہیں دیکھی اور نہ ہی وہ ان سے واقف تھے۔ اُنھیں تو بس بتایا گیا تھا کہ یہ بہت بڑی اداکارہ ہیں۔ سندھ میں سیلاب سے متاثرہ ضلع دادو میں اپنے مختصر دورے کے دوران اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کی نمائندہ خصوصی اور امریکی اداکارہ انجلینا جولی تین دیہات کے دورے پر گئیں۔ پیرل چانڈیو اور انجلینا جولی کے ساتھ کشتی میں پاکستان میں آئی آر سی کی سربراہ شبنم بلوچ بھی موجود تھیں جن کا تعلق سندھ سے ہے۔ وہ انجلینا جولی کی مترجم تھیں۔ پیرل چانڈیو کے مطابق اُنھوں نے ابراہیم چانڈیو، خیر محمد مغیری اور علی محمد مغیری گاؤں کا دورہ کیا۔ وہاں وہ کشتی سے نیچے اتریں اور جا کر خواتین سے بات چیت کی۔ انجلینا نے خواتین سے پوچھا کہ آپ لوگوں کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ تو ان خواتین نے اُنھیں بتایا کہ اُنھیں کھانے پینے کی تکلیف ہے، چاروں اطراف میں پانی ہے اور مریضوں کو بھی اس سے گزر کر لے جانا پڑتا ہے۔ پیرل چانڈیو کے مطابق گرمی شدید تھی اور وقت بھی کم تھا جس کی سکیورٹی والے انجلینا کو بار بار یاد دہانی کرواتے تھے لیکن وہ خواتین سے بات کرنے رک جاتی تھیں۔ ان خواتین نے انجلینا کو بتایا کہ ان کی تین تحصیلیں خیرپور ناتھن شاہ، میہڑ اور جوہی زیر آب ہیں اور اس وقت دادو میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جبکہ جو گھر ہیں ان کا کرایہ بہت ہے جو وہ برداشت نہیں کر سکتیں اس لیے وہ یہاں ہی بیٹھی ہوئی ہیں۔ دوپہر ایک بجے سے لے کر دو بجے تک اُنھوں نے ان علاقوں کا کشتی پر دورہ کیا جو پانی کے گھیرے میں ہیں۔ اس کے بعد کھیر والی موری واپس آ کر وہاں خیموں میں موجود خاندانوں سے ملاقات کی اور وہاں موجود ایک میڈیکل کمیپ کا بھی دورہ کیا جس کے بعد وہ واپس روانہ ہو گئیں۔ یاد رہے کہ انجلینا جولی اس سے قبل سنہ 2005 کے زلزلے اور سنہ 2010 کے سیلاب کے دنوں میں بھی پاکستان کا دورہ کر چکی ہیں۔ سوشل میڈیا صارف آمنہ بدر نے لکھا کہ انجلینا جولی سنہ 2010 میں اپنے آخری دورہ پاکستان کے بعد ایک بار پھر پاکستان میں سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے آ پہنچی ہیں۔ تزئین نامی صارف نے لکھا کہ انجلینا جولی دادو میں ہیں۔ شاید ان کی موجودگی سے پاکستان میں سیلاب کو وہ عالمی توجہ ملے گی جس کی فی الوقت ضرورت ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62969375", "summary": "ملزم نذیر احمد کا کہنا ہے کہ وہ پڑھا رہے تھے لیکن بیٹا کام مکمل نہیں کر رہا تھا۔", "title": "’بیٹے کو ڈرانے کے لیے اس پر تیل چھڑکا تھا، آگ کیسے لگی معلوم نہیں‘", "firstPublished": "2022-09-20T11:52:14.000Z", "id": "21b73331-6d07-4df3-81ae-6ed9d735a7a8", "article": "شازیہ پروین کے گھر میں بدھ کی شام معمول کا دن تھا۔ ان کے بچے ہوم ورک کر رہے تھے اور وہ اپنی نند کے ساتھ صحن میں موجود تھیں۔ ان کے شوہر نذیر احمد گھر میں آئے تو شازیہ نے اُنھیں بتایا کہ گھر کا چولھا خراب ہے۔ وہ اس کی مرمت کروانے لے گئے۔ شازیہ پروین کے مطابق بدھ کی شام وہ اپنی نند کے شور مچانے کی آواز پر اٹھی تھیں۔ ’میری نند شور مچا رہی تھی کہ بھائی آپ یہ کیا کر رہے ہیں۔ میں اٹھی اور کمرے میں جا کر دیکھا کہ میرا بیٹا 12 سالہ شہمیر آگ میں جھلس رہا تھا۔ اس پر تیل ڈال کر آگ لگائی تھی۔ میرا شوہر نذیر اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ شہمیر کو موٹر سائیکل پر لے کر قطر ہسپتال گیا جہاں سے اس کو برنس وراڈ منتقل کیا گیا، جہاں دو دن زیر علاج رہنے کے بعد وہ فوت ہو گیا۔‘ ملزم نذیر احمد کا کہنا ہے کہ وہ پڑھا رہے تھے لیکن بیٹا کام مکمل نہیں کر رہا تھا۔ ’میں نے جب اس سے پوچھا تو اس نے مکمل خاموشی اختیار کر لی جس پر مجھے غصہ آ گیا اور بس سمجھ میں یہ آیا کہ سامنے تیل پڑا ہوا تھا پینٹ کا، وہ میں نے اس پر پھینکا اور ماچس کی تیلی جلائی۔ یہ تیلی میں نے اس کو ڈرانے کے لیے جلائی تھی اور کہا کہ پھینک دوں گا، پھینک دوں گا۔‘ نذیر احمد کہتے ہیں کہ اُنھیں نہیں معلوم کہ شہمیر پر جلتی تیلی کیسے گری۔ ’جیسے ہی اس نے چیخ لگائی مجھے ہوش آیا، میں نے اس پر کمبل ڈالا اور بائیک پر لے کر قطر ہسپتال گیا، اس کے بعد برنس وارڈ لے گیا جہاں وہ فوت ہو گیا۔‘ پاکستانی معاشرے میں بچوں سے مار پیٹ ایک معمول کی بات ہے اور معاشرے میں سماجی سطح پر کافی حد تک قابل قبول نظر آتی ہے۔ کراچی کے جناح ہسپتال کے شعبہ ایموشنل اینڈ بیہیویئرل ہیلتھ کے سربراہ ڈاکٹر چنی لال کہتے ہیں کہ والدین کے منفی رویے بچے کی شخصیت کو مسخ کر دیتے ہیں اور ان کی ذہنی نشوونما متاثر کرتے ہیں۔ ’یہ رجحان ان والدین میں زیادہ ہوتا ہے جن کے اپنی شخصیت کے مسائل ہوتے ہیں اور اپنی محرومیاں ہوتی ہیں کیونکہ جو چیزیں وہ زندگی میں نہیں کر سکے وہ بچوں سے کروانا چاہتے ہیں۔‘ ڈاکٹر چنی لال کہتے ہیں کہ ’بچوں کو وقت اور توجہ کی ضرورت ہے والدین سکول یا ٹیوشن کے حوالے کر کے کام کاج میں لگے رہتے ہیں۔ والدین کو کم از کم ایک وقت کا کھانا اپنا بچوں کے ساتھ کھانا چاہیے تاکہ بچوں کو احساس ہو کہ ان کا وقت گھر میں گزرتا ہے کیونکہ ملازمت پیشہ والدین صبح جاتے ہیں اور شام کو یا رات کو واپس آتے ہیں جب بچے سو رہے ہوتے ہیں، اس لیے ان سے ان کا رابطہ نہیں رہتا۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62947073", "summary": "سندھ میں حالیہ سیلابوں سے زراعت کو بہت نقصان پہنچا ہے مگر بینکوں سے قرضے حاصل کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بینک انھیں رعایت نہیں دے رہے۔", "title": "سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں قرضوں کی واپسی کیسے ہو گی؟", "firstPublished": "2022-09-19T13:46:31.000Z", "id": "2c200e8a-f8a2-43f9-a217-a7face3fb80d", "article": "سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گھروں، فصلوں اور مویشیوں کے نقصان کے بعد زرعی اور ذاتی قرضوں کی واپسی یا واپسی میں رعایت یا معاف کرنے کے بارے میں جب معلومات اکٹھی کی گئیں تو پایا گیا کہ اس سلسلے میں زرعی ترقیاتی بینک کو چھوڑ کر سٹیٹ بینک، کمرشل بینکوں اور سندھ کی صوبائی حکومت کی ایسی کوئی پالیسی نہیں جس کے تحت متاثرہ علاقوں میں بینکوں اور مائیکرو فنانس اداروں سے لیے جانے والے قرضوں کی واپسی پر کوئی ریلیف فراہم کیا گیا ہو۔ اے ایس اے کے مائیکرو فنانس بینک کے سربراہ تصدق حسین نے بی بی سی اردو کی جانب سے بھیجی گئی ای میل کے جواب میں کہا ہے کہ وہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے ریگیولیٹ ہوتے ہیں اور ان کے واضح کردہ خطوط پر عمل پیرا ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اس بارے میں ابھی تک کوئی واضح ہدایت یا پالیسی نہیں ملی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہمارا دل سیلاب متاثرہ لوگوں کے ساتھ ہے۔ اس حوالے سے ٹیلی نار مائیکرو فنانس بینک کو ای میل کی گئی اور ٹوئٹر کے ذریعے بھی رابطہ کیا گیا تاہم کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔ متعدد بار رابطے کی کوشش کے بعد یو اے این نمبر پر موجود آپریٹر نے بتایا کہ ان کی قرضے ری شیڈیول کرنے کے بارے میں کوئی پالیسی نہیں۔ اُنھوں نے زرعی ترقیاتی بینک کی جانب سے 20 ارب کے قرضے سیلاب زدہ علاقوں میں مؤخر کرنے کے فیصلے کے بارے میں نے کہا یہ ایک اچھا اقدام ہے تاہم اس سے سندھ میں سیلاب میں تباہ ہونے والی معیشت کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اُنھوں نے کہا کہ زرعی ترقیاتی بینک کے قرضوں میں سے 70 سے 75 فیصد پنجاب اور صرف 10 فیصد سندھ اور باقی دیگر صوبوں کو ملتا ہے اور اس وقت سندھ میں سب سے زیادہ تباہی آئی ہے اور یہاں زرعی شعبے کو سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ اُن کے مطابق 90 فیصد زرعی قرضے نجی بینک زراعت کے شعبے میں دیتے ہیں اور ان کی جانب سے ابھی تک کوئی ایسی پالیسی نہیں آئی کہ جن میں سیلاب زدہ علاقے میں کسانوں کو کوئی ریلیف دیا گیا ہو۔ محمود نواز شاہ نے سیلاب سے متاثرہ سندھ کے علاقوں میں قرضے کی واپسی میں نرمی یا رعایت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب کورونا وائرس کی وبا پاکستان میں پھوٹی تو حکومت کی ہدایات پر سٹیٹ بینک نے ایک پالیسی کا اجرا کیا تھا جس کے تحت 1200 ارب روپے سے زائد کے رعایتی قرضے دیے گئے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ ان ہی خطوط پر سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں قرضوں پر رعایت کی پالیسی سامنے آنی چاہیے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62940088", "summary": "موئن جو دڑو 4500 سال پرانی تہذیب ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے پائیدار نکاسی آب کے نظام کے لیے بھی مشہور ہے۔ جبکہ یہاں کے شہری آبادکاری کے نظام کی مثال آج بھی دی جاتی ہیں۔", "title": "موئن جو دڑو: ’4500 سال پرانا نکاسی آب کا نظام سیلاب میں کام آ گیا`", "firstPublished": "2022-09-18T03:21:14.000Z", "id": "77445aba-0eea-4fb1-85ff-5450b3cad2ed", "article": "’موئن جو دڑو میں پانی کی نکاسی کا 4500 سال پرانا نظام آج بھی کام کر رہا ہے۔‘ یہ کہنا ہے ڈائریکٹر جنرل اینٹی کوئیٹیز اینڈ آرکیالوجی منظور احمد کا۔ موئن جو دڑو میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہاں پانی ٹھہرا ہی نہیں۔ ہم بھاگتے ہوئے یہاں پہنچے تو پتا چلا کہ 4500 سال پرانے اس ڈرین (نالے) سے پانی بہہ کر باہر نکل چکا ہے۔ اس مقام سے پانی نکالنے میں میری ٹیم کا کوئی عمل دخل نہیں، یہ خود ہوا ہے۔ ہاں، یہ ضرور ہوا کہ جب پانی یہاں سے نکل گیا تو باہر جا کر چند سال پرانے بنے کمپاؤنڈ میں جمع ہو گیا جسے نکالنے میں ہمیں تین ہفتے لگے۔` موئن جو دڑو 4500 سال پرانی تہذیب ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے پائیدار نکاسی آب کے نظام کے لیے بھی مشہور ہے۔ جبکہ یہاں کے شہری آبادکاری کے نظام کی مثال آج بھی دی جاتی ہیں۔ اس وقت یہ جگہ یونیسکو کے زیرِ انتظام ہے جس کی ٹیم ہر ماہ یہاں کا معائنہ کرنے آتی ہے۔ ’اس جگہ کی دیکھ بھال اور سنبھالنے کے لیے چند اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے جو یونیسکو کی تجاویز کے عین مطابق ہوتی ہیں۔ ماہرین نے صرف یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس جگہ کی دیکھ بھال یونیسکو کی تجاویز کے مطابق نہ ہوئی تب موئن جو دڑو کے لیے اس فہرست سے نکلنے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ موئن جو دڑو کو فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔` یہاں پہنچتے ہی سب سے پہلے میری نظر چند مزدوروں پر پڑی جو خاموشی سے موئن جو دڑو کے سٹوپا کے گِرد بنی حفاظتی دیوار دوبارہ سے بنا رہے تھے۔ یہاں آس پاس دیکھنے کے لیے اتنا ہی پرانا حمام جبکہ چھوٹی چھوٹی تنگ گلیاں ہیں جن سے گزر کر آپ اس تہذیب کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ منظور احمد کے مطابق موئن جو دڑو میں 1922 سے لے کر اب تک بہت کم کھدائی ہوئی ہے اور اب بھی 90 فیصد کھدائی ہونا باقی ہے۔ اب بھی اس زمین کے نیچے قدیم تہذیب سے منسلک کئی راز دفن ہیں۔ یونیسکو کی ٹیم ہر چند ماہ بعد یہاں دورے کے لیے ضرور آتی ہے۔ اس دورے کا مقصد یہ جانچنا ہوتا ہے کہ موئن جو دڑو کے مقام کی بہتر حفاظت کے لیے کس قسم کی تیاریاں کی گئی ہیں، دیواروں کی حفاظتی تہہ کی دیکھ بال کیسے کی جا رہی ہے اور اس بار یہ بھی جائزہ لیا جائے گا کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں یہاں کیا نقصانات ہوئے ہیں۔ اس دوران آثارِ قدیمہ کے مقامات کو بچانے کی مہم بھی تیز ہو گئی ہے۔ ماہرین نے موئن جو دڑو جیسی قدیم تہذیب کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کی اپیل بھی کی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62796287", "summary": "’ہم برسات میں لٹ کر آئے ہیں، ہمارے پاس پورے کپڑے بھی نہیں۔ جیسے تیسے گزارا کر رہے ہیں۔ اُس کا کیا کام کہ ایسے راتوں میں یہاں چلا آئے۔ جب یہ سلسلہ دو تین دن جاری رہا تو ہم نے اس کی شکایت کر دی۔‘", "title": "’رات کو بہانے سے وہ ہمارے خیمے کے پاس آتا اور اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیتا‘", "firstPublished": "2022-09-06T05:27:16.000Z", "id": "2578ac2c-ffd9-44d9-8bc9-86bef7c8ff24", "article": "’رات تین بجے وہ بہانے بہانے سے ہمارے خیمے کے پاس آتا اور ہم سے اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیتا۔ ہمارے گھر کی عورتیں بھی وہیں سو رہی ہوتی ہیں۔ ہم برسات میں لٹ کر آئے ہیں، ہمارے پاس پورے کپڑے بھی نہیں۔ جیسے تیسے گزارا کر رہے ہیں۔۔۔ اُس کا کیا کام کہ ایسے راتوں میں یہاں چلا آئے۔ جب یہ سلسلہ دو تین دن جاری رہا تو ہم نے اس کی شکایت کر دی۔‘ یہ لاکھوں لوگ اب امداد کے منتظر ہیں۔ متاثرین میں بیشتر کا الزام ہے کہ حکومت کی جانب سے انھیں کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کی عارضی رہائش کا بندوبست کیا گیا ہے اور یہ کہ صرف نجی امدادی ادارے اُن کی تھوڑی بہت مدد کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جوہی کے قریب ایم این ای وی ڈرین پر بہت سے سیلاب متاثرین عارضی پناہ گاہ بنائے بیٹھے ہیں۔ ایک گھر کے مرد امداد کی تلاش میں کہیں دور نکلے ہوئے تھے، صرف ماں اور دو بیٹیاں اپنے عارضی خیمے میں تھیں جب ایک اجنبی مرد وہاں چلا آیا اور لڑکیوں سے الٹی سیدھی باتیں کرنے لگا۔ لڑکیوں کے شور مچانے پر وہ شخص وہاں سے بھاگ گیا۔ وہ کون تھا یہ شناخت نہیں ہو سکی۔ ’اگرچہ ہم نے اپنے ڈی ایس پیز کی ڈیوٹی لگا رکھی ہے لیکن پھر بھی ایسے واقعات پیش آ سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اب تک باقاعدہ کوئی شکایت درج نہیں کروائی گئی‘ تاہم انھوں نے معشوق برہمانی کی بات کی تائید کی کہ لوگ خواتین سے متعلق معاملات پر تھانہ کچہری جانا اپنی رسوائی اور بدنامی تصور کرتے ہیں اس لیے آپس میں بیٹھ کر معاملات طے کر لیتے ہیں۔ اس حوالے سے جب دادو پریس کلب سے رابطہ کیا گیا تو کلب کے ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس واقعے کی تصدیق کی اور کہا کہ اس حوالے سے کوئی تفتیش یا کارروائی نہیں ہوئی اور نہ ہی اسے سنجیدگی سے لیا گیا جبکہ دادو پریس کلب کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری عبد الحی ادل مھیسر نے اس واقعے کو دو افراد کا ’آپسی معاملہ‘ قرار دیا۔ ڈپٹی کمشنر ضلع دادو سید مرتضیٰ شاہ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’میرا پورا ضلع اس وقت پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ صرف ضلع دادو میں متاثرین کی تعداد 8 لاکھ 18 ہزار ہے۔ جہاں بھی کوئی خشک علاقہ یا سرکاری سکول وغیرہ ہیں اُن میں ہم نے کیمپ قائم کر دیے ہیں۔ ہمارے قائم کردہ کیمپوں کی تعداد 400 سے زائد ہے۔‘ رشیدہ بی بی نے بتایا کہ ’ہم خواتین اور بچیوں کے پردے کا پورا خیال رکھ رہے ہیں۔ کوئی مرد خواتین کے حصے میں نہیں آ سکتا۔ باہر پولیس بھی موجود ہے اور رضاکار بھی حفاظت کے لیے موجود ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62774809", "summary": "بی بی سی اردو کے نمائندے ملک کے مختلف علاقوں میں جا کر سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور امدادی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹ کر رہے ہیں جنھیں ایک ڈائری کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔", "title": "سیلاب ڈائری: سندھ میں کشتی چلانے والوں کا چمکتا ہوا کاروبار اور خیر پور ناتھن شاہ کے لاوارث کتے", "firstPublished": "2022-09-03T00:10:24.000Z", "id": "dd371c53-6d0f-4de9-8020-48b927464350", "article": "پاکستان میں غیرمعمولی طویل مون سون کے دوران شدید بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ حکام کے مطابق اس سیلاب سے سوا تین کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔ بی بی سی اردو کے نمائندے ملک کے مختلف علاقوں میں جا کر سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور امدادی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹ کر رہے ہیں جنھیں ایک ڈائری کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔اس سلسلے کی اگلی قسط میں خیر پور ناتھن شاہ سے ریاض سہیل اور لسبیلہ سے سحر بلوچ کی رپورٹ پیش کی جا رہی ہے۔ خیر پور ناتھن شاہ میں ایک ریسکیو آپریشن کے دوران ہم جب لونڈ محلہ میں گئے تو وہاں ایک معذور ٹیچر رفیق احمد نے مجھے بتایا کہ ان کے پڑوسی نے کتوں کی حالت زار دیکھ کر ’اپنے بیٹے کو کہا کہ چاول کا دیگچہ بناؤ اور ان کتوں کو دیکر آؤ یہ بھی خدا کی مخلوق ہیں۔‘ فتح پور میں مظہر علی نے بتایا کہ وہ گھر کے اندر اور ان کا کتا باہر چوکیداری کر رہا ہے۔ وہ جو کھاتے ہیں اس میں سے بچا ہوا کھانا کتے کو دیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی جانب سے اس اعلان کے باوجود کہ میھڑ اور جوہی شہر کو کوئی خطرہ نہیں، لوگ بائی پاس کے علاقے سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔ خیرپور ناتھن شاھ اور سیتا ولیج کے قریبی علاقے بھوڑی کے رہائشی افراد سے بھرا ہوا ایک ٹرک نظر آیا جن کا کہنا تھا کہ اس وقت باہر نکلنے کا راستہ موجود ہے لیکن پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے، اسی لیے خواتین اور بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے جا رہے ہیں۔ ایک سوزوکی پر موجود کشتی دیکھ کر میں نے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہیں تو ڈرائیور نے بتایا کہ ٹھٹہ سے آرہے ہے، قمبر جائیں گے اور یہ کشتی کرائے پر چلائیں گے۔ یہاں پر سعد ایدھی بھی موجود ہیں جنھوں نے بتایا کہ حالیہ بارشوں میں ایدھی فاونڈیشن کی تین بوٹس بلوچستان اور ایک ملیر ندی میں پھٹ چکی ہے۔ ہمت علی سے بھی ہماری بات ہوئی جنھوں نے شکوہ کیا کہ ان کو راشن نہیں دیا گیا اور ان کو بتایا گیا کہ ان کے حصے کا راشن زمیندار کو دیا جاچکا ہے جو ان کو 12 کلومیٹر دور جا کر زمیندار کے گھر سے لینا ہو گا۔ مجھے بتایا گیا کہ کچھ دیر پہلے ہی لوگوں میں فوج کے ایک بڑے ٹرک سے چپس اور چاکلیٹ بانٹی گئی ہیں۔ ایک مقامی صحافی نے کہا کہ ’پہلی بار آنے والے صحافی ہمارے دیہات میں پانی کی ویڈیو بنانے آرہے ہیں۔ انھیں لوگوں سے بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘ ’بات کرنے کے نام پر ایک صحافی ایک خاندان کو پورا ڈائیلاگ بتا کر، زبردستی کشتی میں بٹھا کر ان کی ریکارڈنگ کر گئے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-62754697", "summary": "پاکستان کا جغرافیہ اور عظیم گلیشیئر اسے ماحولیاتی تبدیلی کے سامنے زیادہ غیر محفوظ بنا دیتے ہیں۔ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں موجود گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں جن کی وجہ سے 3000 جھیلیں بن چکی ہیں اور ان میں سے 33 کے اچانک پھٹ جانے کا خطرہ ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں مکعب میٹر پانی اور ملبہ بہہ کر 70 لاکھ لوگوں کے لیے خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔", "title": "پاکستان میں آنے والے سیلابوں کا ماحولیاتی تبدیلی سے کیا تعلق ہے", "firstPublished": "2022-09-02T17:55:26.000Z", "id": "daf69097-52bd-48e1-829a-a808312e7a17", "article": "دنیا کے نقشے پر پاکستان اس جگہ پر واقع ہے جہاں اسے دو موسمی نظاموں کا اثر سہنا پڑتا ہے۔ ایک کی وجہ سے سخت گرمی اور خشک سالی آتی ہے، جیسا کہ مارچ میں ہوا، اور دوسرا نظام مون سون کی بارشیں لاتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اور شدید مون سون کے باہمی تعلق کو بیان کرنے والی سائنس نہایت سادہ ہے۔ عالمی حدت یا گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہوا اور سمندر کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں اور زیادہ بخارات بننے لگتے ہیں۔ گرم ہوا زیادہ نمی جذب کرتی ہے جس سے مون سون کی بارشوں میں زیادہ شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ پوٹسڈیم انسٹی ٹیوٹ فار کلائمیٹ اِمپیکٹ ریسرچ سے وابستہ انجا کیٹزنبرگر کا کہنا ہے کہ سائنسدان ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے انڈیا میں گرمیوں کے دوران مون سون کی بارشوں کی اوسط میں اضافے کی پیشن گوئی کر رہے ہیں۔ مگر پاکستان میں ایک چیز ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے مقابلے میں اسے کمزور بناتی ہے، اور وہ ہیں اس کے عظیم گلیشیئر۔ اقوام متحدہ کے پروگرام برائے ترقی کے مطابق دنیا میں گرمی بڑھنے کے ساتھ گلیشیئر میں موجود برف بھی پگھل رہی ہے۔ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں موجود گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں جن کی وجہ سے 3000 جھیلیں بن چکی ہیں۔ ان میں سے 33 کے اچانک پھٹ جانے کا خطرہ ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں مکعب میٹر پانی اور ملبہ بہہ کر 70 لاکھ لوگوں کے لیے خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔ حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ مل کر اچانک سیلاب آنے کے خطرات کو کم کرنے کے لیے پہلے سے خبردار کرنے والا نظام یا وارننگ سسٹم نصب کر رہے ہیں اور ساتھ ہی حفاظتی بند اور دوسرا انفراسٹرکچر بھی تعمیر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے محکمۂ موسمیات نے لوگوں کو سیلاب کے بارے میں پہلے سے خبردار کر کے اپنی ذمہ داری ’معقول‘ طور پر نبھائی ہے۔ اور ملک کے اندر سیلاب سے بچاؤ کا نظام موجود ہے مگر اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ یوسف بلوچ کی عمر 17 برس ہے اور وہ بلوچستان میں رضاکارانہ کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کے اندر موجود عدم مساوات کی وجہ سے صورتحال اور بگڑ گئی ہے۔ وہ جب 6 سال کے تھے تو انھوں نے خود اپنا گھر پانی میں بہتے دیکھا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’لوگوں کو ناراض ہونے کا حق ہے۔ کمپنیاں اب بھی بلوچستان سے تیل اور گیس نکال رہی ہیں، مگر وہاں رہنے والے بے گھر ہو چکے ہیں جن کے پاس نہ خوراک ہے اور نہ کوئی پناہ۔‘ ان کے خیال میں حکومت عوام کی مدد کرنے میں ناکام رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62760566", "summary": "بی بی سی اردو کے نمائندے ملک کے مختلف علاقوں میں جا کر سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور امدادی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹ کر رہے ہیں جنھیں ایک ڈائری کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔", "title": "سیلاب ڈائری: ’جمع پونجی سیلاب لے گیا، جو بچ گیا وہ لٹیرے لے گئے‘", "firstPublished": "2022-09-01T22:56:38.000Z", "id": "714163cf-02df-4bd4-a47f-7d213c70af6d", "article": "بی بی سی اردو کے نمائندے ملک کے مختلف علاقوں میں جا کر سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور امدادی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹ کر رہے ہیں جنھیں ایک ڈائری کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔اس سلسلے کی اگلی قسط میں جانیے کہ فرحت جاوید نے کوئٹہ اور ریاض سہیل نے پانی میں ڈوبے خیر پور ناتھن شاہ میں کیا دیکھا۔ نواں کلی حالیہ سیلاب سے کوئٹہ کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہاں آبادی کے قریب ہی پانی کی گزرگاہ ہے جو طویل عرصے سے خشک تھی۔ گزشتہ ہفتے آنے والے سیلاب کے پانی نے اسی راستے پر موجود بیشتر گھروں کو مکمل طور پر زمیں بوس کر دیا۔ جو بچ گئے وہ رہائش کے قابل نہیں رہے۔ ایک شخص نے بتایا کہ ان کے اہلخانہ ژوب میں ہیں اور وہ خود نوکری کی غرض سے کوئٹہ میں موجود ہیں۔ 'جب سیلاب آیا تو میں پانچ دن تک اپنے اہلخانہ سے رابطہ نہیں کر پایا۔ فون چل نہیں رہا تھا اور سڑکیں اور پل ٹوٹ چکے تھے۔ پانچ دن تک مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ میرے گھر والے زندہ ہیں یا بہہ گئے۔ اور انہیں یہ علم نہیں تھا کہ میں کہاں ہوں۔ کل میرے بھائی کا فون آیا تو پتا چلا کہ گھر ڈوب گیا ہے مگر جان بچ گئی ہے۔' بلوچستان کے بیشتر علاقوں کا زمینی رابطہ اب بھی ملک کے دیگر حصوں سے منقطع ہے۔ یہاں جھل مگسی، نصیر آباد، جعفر آباد، لسبیلہ، ہرنائی سمیت 32 اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ ان علاقوں تک زمینی رسائی تقریبا ناممکن ہے جبکہ امدادی سامان کی ترسیل اور ریلیف ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہو رہی ہیں۔ ایک مقامی شخص نے بتایا کہ یہ سڑکیں اس طرح ختم ہوئی ہیں جیسے کبھی موجود ہی نہ تھیں'۔ 'لوگ آتے ہیں فوٹو بناتے اور پھر چلے جاتے ہیں۔ میں ویڈیوز بنا بنا کر تھک گئی ہوں۔ ہم وہ عورتیں ہیں جو کبھی گھر سے نہیں نکلیں اور اب کیمروں کے سامنے منہ دکھا رہے ہیں کہ ہماری مدد کی جائے۔ مگر کسی نے ایک گلاس پانی تک نہیں پوچھا۔' سندھ میں انڈس ہائی وے پر خیرپور ناتھن شاہ سے 6 کلومیٹر دور واقع نائچ گاؤں کسی جیٹی کا منظر پیش کر رہا تھا جہاں نجی کشتیوں، پاکستان نیوی اور آرمی کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن کی کشتیوں کی مدد سے خیرپور ناتھن شاہ اور آس پاس کے علاقوں سے لوگوں کو ریسکیو کیا جا رہا تھا۔ خیرپور ناتھن شاہ 2010 کے سیلاب میں بھی متاثر ہوا لیکن حالیہ نقصان کی شدت اور وسعت اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ شہر کی بحالی میں ایک بڑا عرصہ درکار ہو گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62745839", "summary": "بی بی سی اردو کے نمائندے ملک کے مختلف علاقوں میں جا کر سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور امدادی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹ کر رہے ہیں جنھیں ایک ڈائری کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔", "title": "سیلاب ڈائری: ’میری بیٹیوں کا جہیز بھی بہہ گیا‘", "firstPublished": "2022-08-31T23:39:50.000Z", "id": "28406979-fd92-432f-abf9-56296e0c8322", "article": "بی بی سی اردو کے نمائندے ملک کے مختلف علاقوں میں جا کر سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور امدادی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹ کر رہے ہیں جنھیں ایک ڈائری کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔اس سلسلے کی اگلی قسط میں جانیے کہ سحر بلوچ اور ریاض سہیل نے سندھ میں کیا دیکھا جبکہ عزیز اللہ خان کو سوات کے بحرین بازار میں کیا نظر آیا۔ سیما بات کرتے کرتے رونا شروع ہوئیں۔ ’میں ناشکری نہیں کر رہی۔ ہمیں کھانا مل رہا ہے۔ لیکن چاول کی ایک تھیلی گھر کے 10 افراد کیسے کھائیں گے۔ میں اپنا زیادہ تر کھانا بچوں کو دے دیتی ہوں اور چائے پی لیتی ہوں۔‘ بدین، سانگھڑ اور میر پور خاص میں بارشوں کے بعد پانی کی نکاسی کا مسئلہ موجود ہے۔ فصلوں سے بہتا پانی لوگوں کے گھروں کی طرف لوٹ رہا ہے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ جب تک لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (ایل بی او ڈی) سے پانی زیرو پوائنٹ میں نہیں جائے گا تب تک ٹاؤن اور گاؤں میں پانی کھڑا رہے گا۔ 2010 کے سیلاب میں متاثرین کی ایک بہت بڑی تعداد نے اسی شہر میں ڈیرے ڈالے تھے۔ سکھر بائی پاس پر حالیہ بارشوں سے متاثرہ افراد موجود ہیں لیکن ان کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کے فوکل پرسن منظور وسان کا تعلق بھی اسی ضلع سے ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی وائرل ہونے والی ویڈیوز میں سے ایک میں وہ کشتی پر سوار کہہ رہے ہیں کہ دیکھیں یہ وینس کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ایک دوسری ویڈیو میں وہ کشتی میں سوار مد مانگنے والے لوگوں کو جھڑکتے دکھائی دیے۔ خیرپور میں ٹھری میر واہ اور کوٹ ڈیجی کے کئی علاقے اب بھی مکمل طور پر زیر آب ہیں۔ کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں اگر کوئی فوت ہو جائے تو میت پانی سے گزار کر ابھن شاہ کے مزار کے قریب دفنائی جاتی ہے جو ایک پہاڑی پر واقعہ ہے۔ خیرپور ہر سال ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے علاقوں سے لوگ یہاں کھجور کے سیزن میں آتے ہیں اور مقامی لوگوں کے ساتھ کھجور اتارنے، لکڑیوں کی پیٹیاں بنانے، چھوہارے بنانے کے علاوہ صفائی سے پیسے کماتے ہیں۔ حالیہ بارشوں سے کھجور کی فصل تو متاثر ہوئی ساتھ میں کئی لوگوں کا روزگار بھی چھن گیا۔ ہم لکڑی کے تختوں سے بنے پل سے بمشکل گزر کر جب بازار میں داخل ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بازار کی اکثر دکانوں اور ہوٹلز کے دیواریں گر چکی تھیں۔ ان کے شٹر دریا نے اکھاڑ پھینکے تھے اور اب ان کے آر پار بہہ رہا تھا۔ یہاں پشمینہ شال کی بھی کافی دکانیں ہیں۔ اس کاروبار سے وابستہ مالکان کے مطابق ان کی دکانوں میں لاکھوں روپے کا سامان تباہ ہو چکا ہے۔ جو سامان بچ گیا ہے، اسے صاف کیا جا رہا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62726029", "summary": "ملک میں پھلوں اور سبزیوں کے تاجروں کی نمائندہ تنظیم نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ دو مہینے کے لیے انڈیا سے ٹماٹر اور پیاز کی درآمد کی اجازت دی جائے تاکہ سیلاب کے بعد بڑھنے والی قیمتوں میں استحکام لایا جا سکے تاہم حکومت نے اس کی اجازت نہیں دی ہے۔", "title": "کیا انڈین پیاز اور ٹماٹر ہی پاکستان میں سیلاب کے بعد قیمتیں کم کرنے کا واحد حل ہے؟", "firstPublished": "2022-08-31T04:35:06.000Z", "id": "8788383b-c6e3-4fa5-8e38-220328eb8e1b", "article": "تمام سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے تاہم سب سے زیادہ اضافہ پیاز اور ٹماٹر کی قیمت میں دیکھا گیا جن کہ قیمتیں دو سو سے چار سو فیصد تک بڑھی ہیں۔ پیاز اور ٹماٹر کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ملک میں پھلوں اور سبزیوں کے درآمد کنندگان اور تاجروں کی جانب سے انڈیا سے ان کی درآمد کی تجویز سامنے آئی ہے۔ اس سلسلے میں تاجروں کی نمائندہ تنظیم نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ دو مہینے کے لیے انڈیا سے ٹماٹر اور پیاز کی درآمد کی اجازت دی جائے تاکہ اس کی رسد کو بڑھا کر قیمتوں میں استحکام لایا جا سکے۔ انھوں نے کہا آلو کی فصل تیار ہو کر پہلے ہی گوداموں میں پہنچ چکی ہے اس لیے اس کی درآمد کی ضرورت نہیں جبکہ دوسری سبزیاں جیسے کہ بینگن، توری ، بھنڈی وغیرہ کی درآمد کی ضرورت اس لیے نہیں کیونکہ ایک تو ان کے خراب ہونے کا خطرہ ہے دوسری جانب پاکستان میں ان کی پیداوار متاثر ہوئی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی جبکہ اس کے برعکس پیاز اور ٹماٹر کی پوری فصل ہی متاثر ہوئی ہے۔ وحید احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ دیگر ملکوں سے پیاز اور ٹماٹر کی درآمد کے لیے منگل سے سودے طے کرنا شروع کر دیے جائیں گے تاہم انڈیا سے درآمد کی اجازت ابھی نہیں ملی۔ وحید احمد کا کہنا ہے کہ اگر درآمدی پیاز اور ٹماٹر نہیں آیا تو ان قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ انھوں نے کہا پنجاب اور سندھ میں ٹماٹر اور پیاز کی فصل نقصان ہوا اور اگر محدود مدت کے لیے انڈیا سے درآمد کھول دی جائے تو اس کا فائدہ قیمت میں کمی کی صورت میں ہو گا۔ انھوں نے بتایا کہ انڈیا سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق اس وقت وہاں ٹماٹر و پیاز کی پیداوار اضافہ ہے اور ایک کلو ٹماٹر 15 روپے میں دستیاب پے جو درآمد اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کے بعد بھی پاکستان میں بہت سستا ملے گا۔ پھلوں و سبزیوں کے تاجر سلیمان خواجہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا سے درآمد کے بعد ٹماٹر اور پیاز کی قیمت میں زیادہ بڑی کمی واقع ہو سکتی ہے کیونکہ ایران سے پیاز آنے کے بعد قیمت میں کچھ کمی آئی ہے اور اگر انڈیا سے بھی پیاز اور ٹماٹر آتے ہیں تو قیمت مزید کم ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں سیلاب کا پانی اترنے کے 50 سے 90 دن کے بعد زمین خشک ہوتی ہے اور پھر قابل کاشت بن سکتی ہے۔ اس وقت تک ٹماٹر و پیاز کی فصل کی بوائی نہیں ہو سکتی اور اس دوران صارفین کو قیمت میں کمی کا فائدہ صرف سبزیوں کی درآمد سے ہی مل سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62732189", "summary": "بی بی سی اردو کے نمائندے ملک کے مختلف علاقوں میں جا کر سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور امدادی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹ کر رہے ہیں جنھیں ایک ڈائری کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔", "title": "سیلاب ڈائری: ’چاول کی ایک تھیلی کے لیے لڑنا پڑتا ہے‘", "firstPublished": "2022-08-31T00:03:30.000Z", "id": "45f3ef8f-628c-47e0-8b5c-6339c59fdf92", "article": "پاکستان میں غیرمعمولی طویل مون سون کے دوران شدید بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ حکام کے مطابق اس سیلاب سے سوا تین کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔ بی بی سی اردو کے نمائندے ملک کے مختلف علاقوں میں جا کر سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور امدادی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹ کر رہے ہیں جنھیں ایک ڈائری کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔اس سلسلے کی دوسری قسط میں جانیے کہ ریاض سہیل نے سندھ میں شہداد پور اور عزیز اللہ خان نے سوات کی علاقے بحرین میں کیا دیکھا۔ گاجی بخش کھوسہ کو کوئی بازو سے پکڑ کر ایک طرف لے جاتا تو کوئی دوسری جانب کونے میں لے جا کر کان میں سرگوشی کرتا لیکن گاجی خان انکار کر دیتا ہے۔ گاجی خان نے سیاہ رنگ کا ایک بکری کا بچہ گود میں اٹھا رکھا تھا جبکہ ایک سفید رنگ کا بکرا بھی اس کے پاس تھا۔ شہداد کوٹ کے سرکاری تعلیمی اداروں میں تو پہلے ہی متاثرین موجود تھے۔ اب بائی پاس ہو، قمبر شہداد کوٹ روڈ ہو یا قمبر میرو خان روڈ، میلوں تک سڑکوں پر ہزاروں لوگ بیٹھے ہیں جن میں بلوچستان کے علاقوں جھل مگسی، صحبت پور، گنداخہ سے آنے والے بھی شامل ہیں اور خیموں کے منتظر ہیں۔ ہم نے یہاں صبح سے سورج غروب ہونے تک وقت گذارا۔ شام کو ہر عارضی کیمپ کے باہر چولہا جلا۔ ہر کسی نے اپنی حیثیت کے مطابق کھانا بنانا شروع کیا۔ حکومت کی موجودگی کا احساس نہیں ہوا۔ حالانکہ وزیر اعلی سندھ کے مطابق متاثرین کو پکا ہوا کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔ حالیہ سیلاب نے سوات کے بالائی علاقے کالام اور اس کے قریبی علاقوں میں تباہی مچا دی ہے۔ کالام سے بحرین تک 36 کلومیٹر راستہ مختلف مقامات پر ایسے تباہ ہوا ہے کہ لوگ کالام سے بحرین تک پیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں دو رشتہ دار عبد الہادی اور محمد علی بھی ہیں جو گزشتہ روز ہی کالام سے بحرین پہنچے تھے۔ کالام کے رہائشی عبد الہادی کراچی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان کے کزن محمد علی اٹک میں رہتے ہیں۔ وہ کالام اپنے رشتہ داروں سے ملنے آئے تھے کہ اتنے میں سیلاب نے تباہی برپا کر دی۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے کوشش کی کہ وہ ہیلی کاپٹر میں کالام سے سوات چلے جائیں لیکن حکام نے بتایا کہ کالام سے فی الحال صرف پھنسے ہوئے سیاحوں کو ترجیحی بنیادوں پر لے جایا جا رہا ہے۔ اس علاقے میں دکانیں بند ہیں اور تجارت نہ ہونے کے برابر ہے۔ کالام سے آنے والے افراد نے بتایا کہ سیلاب سے ہوٹلوں سمیت عمارتوں کی تباہی، جن میں ہوٹل نیو ہنی مون جس کی ویڈیو وائرل ہوئی بھی شامل ہے، اب خوراک کی قلت ہے، بجلی نہیں ہے، انٹرنیٹ بھی کام نہیں کر رہا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62718806", "summary": "بی بی سی اردو کے نمائندے ملک کے مختلف علاقوں میں جا کر سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور امدادی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹ کر رہے ہیں جنھیں ایک ڈائری کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔", "title": "سیلاب ڈائری: ’یہاں ہمارا ہوٹل تھا، اب کچھ بھی نہیں‘", "firstPublished": "2022-08-30T00:10:45.000Z", "id": "32667137-b054-4426-bf94-c0d922ad0a50", "article": "پاکستان میں غیرمعمولی طویل مون سون کے دوران شدید بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ حکام کے مطابق اس سیلاب سے سوا تین کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔ بی بی سی اردو کے نمائندے ملک کے مختلف علاقوں میں جا کر سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور امدادی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹ کر رہے ہیں جنھیں ایک ڈائری کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔اس سلسلے کی دوسری قسط میں جانیے کہ عزیز اللہ خان نے سوات میں اور ریاض سہیل نے سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں کیا دیکھا۔ ہم بحرین پہنچے تو سوگ کی سی کیفیت تھی۔ وہ مقام جہاں دو دریاوں کا ملاپ ہوتا ہے، یہاں سے گزرنے والے چند لمحوں کے لیے بحرین میں ضرور رکتے اور طعام کے ساتھ دریا کی شور مچاتی لہروں کا مزہ لیتے آگے بڑھ جاتے۔ آج یہاں دکانیں اور ریسٹورنٹس نہیں، بلکہ ان کی تباہی کی ختم نہ ہونے والی بے شمار کہانیاں تھیں۔ لاڑکانہ کی سٹیشن روڈ کو یہاں طارق روڈ کا درجہ حاصل ہے جہاں برینڈز اور فاسٹ فوڈ کی فرنچائز موجود ہیں۔ صبح جب میں نے اس سڑک پر واقع مندر کے محافظ پولیس گارڈ سے معلوم کیا کہ کیا اندر سیلاب متاثرین ہیں تو اس نے ریلوے اسٹیشن کی طرف اشارہ کیا۔ جیسے ہی اندر داخل ہوا تو پلیٹ فارم سے لیکر شیڈ تک ہر جگہ متاثرین ہی متاثرین نظر آئے۔ ان میں لاڑکانہ شہر کے رہائشی بھی تھے تو شہداکوٹ، وارھ اور باڈھ کے علاوہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں کے لوگ بھی۔ یہاں آنے والے ہر شخص سے ان کا ایک ہی مطالبہ ہے، خدارا خیمے دو۔ لاڑکانہ بھٹو خاندان کا ضلع ہے۔ یہاں بلاول بھٹو خود انتظامی اجلاس کی صدارت کر چکے ہیں لیکن تاحال کوئی ٹینٹ سٹی نہیں بنا۔ ریلوے سٹیشن پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہونے کے باوجود کسی بھی سرکاری محکمے کا کوئی وجود نہیں تھا۔ پینے کا پانی بھی اسٹیشن سے یا پھر باہر سے لایا جارہا تھا۔ یہاں کے متاثرین نے مراد واہن کا بار بار ذکر کیا تو سوچا ایک چکر لگا لیتے ہیں۔ جب اس علاقے میں پہنچے تو ابھی تک مکانات ڈوبے ہوئے تھے اور مشین کے ذریعے پانی کی نکاسی کی جا رہی تھی۔ خوبچند اوڈ نامی شخص نے بتایا کہ چندے سے یہ مشین اپنی مدد آپ کے تحت چلائی جا رہی ہے، مقامی انتظامیہ نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ کئی مقامات پر تو جال لگا کر مچھلی پکڑی جارہی تھی جو دو سو سے ڈھائی سو روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ ایک نوجوان نے بتایا کہ سیلابی پانی کی وجہ سے مچھلی کے تالاب ٹوٹے جس کی وجہ سے مچھلیاں اب فصلوں میں بہہ کر آ گئی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62682834", "summary": "بی بی سی اردو کے نمائندے ملک کے مختلف علاقوں میں جا کر سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور امدادی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹ کر رہے ہیں جنھیں ایک ڈائری کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔", "title": "سیلاب ڈائری: پانی سے کسے بچائیں اور کون ڈوبے، سندھ میں بڑا سوال", "firstPublished": "2022-08-29T00:15:02.000Z", "id": "a5249906-9efd-4c62-a8b8-0d605c010721", "article": "بی بی سی اردو کے نمائندے ملک کے مختلف علاقوں میں جا کر سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور امدادی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹ کر رہے ہیں جنھیں ایک ڈائری کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔اس سلسلے کی پہلی قسط میں جانیے کہ ریاض سہیل نے سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں کیا دیکھا۔ نصیرآباد، لاڑکانہ سے کچھ دور انڈس ہائی وے پر واقع تقریباً 25 ہزار آبادی والا شہر ہے۔ جب ہم رات کو یہاں سے لاڑکانہ جا رہے تھے تو لوگوں نے ٹائر جلا کر سڑک بلاک کی ہوئی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ ان کے شہر سے پانی کی نکاسی نہیں کی جا رہی اور گذشتہ ایک ہفتے سے بجلی کی فراہمی بھی معطل ہے۔ سیہون میں ہی معلوم ہوا کہ جوہی شہر میں لوگ شہر کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی رنگ بند بنا رہے ہیں جیسا کہ وہ 2010 میں بھی کر چکے تھے۔ جوہی دادو سے تقریباً 20 کلومیٹر دور واقع ہے جس کی آبادی 30 ہزار بتائی جاتی ہے۔ اس کے ایک طرف ایم این وی بند اور دوسری طرف ایف پی بند ہے جس میں گاج ندی اور بلوچستان سے آنے والا پانی آتا ہے۔ قربان علی کے مطابق اس مرتبہ حکام نے انھیں مشینری دی ہے، باقی مزدوری مقامی لوگ خود کر رہے ہیں اور ان میں تمام سیاسی جماعتیں و مذہبی جماعتوں کے لوگ شامل ہیں۔ ان کے مطابق وہ لوگ جو بلدیاتی انتخابات ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں وہ بھی اس وقت ساتھ کھڑے ہیں۔ جوہی کے آس پاس تین بین الاقومی آئل اینڈ گیس کمپنیاں موجود ہیں۔ مقامی سماجی کارکن معشوق برہمانی نے الزام لگایا کہ یہ کمپنیاں گیس و تیل تو یہاں سے حاصل کرتی ہیں لیکن یہاں کے لوگوں سے لاتعلق ہیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ 2010 کے سیلاب میں بھی ریسکیو، ریلیف اور بحالی میں ان کمپنیوں کا کوئی کردار نہیں تھا اور اب بھی ان کی تمام توانائیاں آئل اور گیس فیلڈز کو بچانے کے لیے ہیں۔ شام پانچ بجے کے قریب جب ہم جوہی سے باہر نکل رہے تھے تو پانی کی سطح بلند ہو رہی تھی۔ مقامی لوگوں کو خدشہ تھا کہ دادو جوہی کا راستہ کسی بھی وقت زیر آب آ سکتا ہے کیونکہ پانی کو راستہ فراہم نہیں کیا جا رہا ہے اور آگے منچھر جھیل کے دروازے بھی بند ہیں اس وجہ سے پانی آگے کی طرف نہیں بڑھ رہا۔ خیرپور ناتھن شاہ سے آگے میہڑ شہر آتا ہے جس کی مہندی اور ماوے کے چرچے ہیں۔ شہر سے باہر نکلے تو انڈس ہائی وے کے دونوں اطراف پانی ہی پانی نظر آیا اور نصیر آباد کے قریب ہی پانی تیز رفتاری کے ساتھ انڈس ہائی وے پر چل رہا تھا، سڑک کو ایک طرف سے بند کر دیا گیا تھا جبکہ دوسری طرف کے کنارے بھی ٹوٹے ہوئے تھے جس میں ایک کوچ پھنسی ہوئی تھی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62703648", "summary": "کراچی کی سڑکوں پر گاڑی کتنی بھی بڑی یا چھوٹی ہو اس کو ہچکولے کھاتے ہوئے گزرنا پڑتا ہے۔ قیوم آباد انٹر چینج ہو، کورنگی کاز وے ہو یا ناظم آباد ہو، ہر جگہ ان دنوں یہ مناظر عام ہیں۔", "title": "آٹھ گھنٹے میں جو 1500 کماتے تھے، خراب سڑک کی وجہ سے وہ بھی نہیں کما پا رہے‘", "firstPublished": "2022-08-28T04:17:45.000Z", "id": "5985b803-fd1f-4b0b-8c00-5987759ebdbe", "article": "ساجد اقبال کراچی سے تعلق رکھنے والے بائیکیا رائیڈر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ روڈ سے ہی کماتے ہیں لیکن حالیہ دنوں وہ جو کماتے ہیں وہ بائیک پر ہی لگ جاتا ہے، اب بیوی بچوں کو کیا کھلائیں۔ اس کی وجہ وہ سڑکوں کی تباہ حالی کو قرار دیتے ہیں۔ اپنی بائیک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یہ نئے ماڈل کی ہے لیکن اس کی حالت دیکھ لیں یہ ان گڑھوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ’ہم سات آٹھ گھنٹے میں جو 1500 سے 2000 روپے کماتے ہیں، ان سڑکوں کے خراب ہونے کی وجہ سے وہ کام آدھا بھی نہیں ہو پا رہا۔ اس وقت میں نے ایک رائیڈ چھوڑ دی دوسری سے دو سو روپے ملے اس میں سے ایک سو روپے پنکچر میں چلے گئے اور باقی رقم کا نصف کمیشن میں گیا جیب میں سے پیٹرول کی پیسے ڈال کر الٹا کسٹمر کا سامان چھوڑ کر آیا ہوں۔‘ کراچی میں حالیہ بارشوں نے سڑکوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ صوبائی محکمہ آفات کی رپورٹ کے مطابق شہر میں 50 کلومیٹر سڑکیں متاثر ہوئی ہیں، جبکہ ٹریفک پولیس نے 97 سڑکوں کی نشاندہی کی ہے جو 145 مقامات سے ٹوٹی ہوئی ہیں جن کی وجہ سے حادثات ہو رہے ہیں۔ کراچی کی سڑکوں پر گاڑی کتنی بھی بڑی یا چھوٹی ہو اس کو ہچکولے کھاتے ہوئے گزرنا پڑتا ہے۔ قیوم آباد انٹر چینج ہو، کورنگی کاز وے ہو یا ناظم آباد ہو، ہر جگہ ان دنوں یہ مناظر عام ہیں۔ کراچی میں موٹر سائیکل عام سواری ہے، پبلک ٹرانسپورٹ کے وسائل پہلے ہی محدود ہیں جبکہ کئی ایسے علاقے ہیں جہاں پبلک ٹرانسپورٹ نہیں چلتی۔ ایسے میں دو کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر میں ملازمت یا تعلیمی اداروں تک جانا ہو یا تفریح کے لیے باہر نکلنا ہو، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام کا زیادہ تر انحصار موٹر سائیکل جیسی سواری پر ہی ہے۔ کراچی میں سڑکوں کی بدحالی کی وجہ حکام مسلسل کئی روز کی بارش اور پانی کھڑے ہونے کے علاوہ نکاسی کے راستے بند ہونے کو قرار دیتے ہیں لیکن ماہرین اس کی ایک بڑی وجہ ناقص انجینیئرنگ کو بھی سمجھتے ہیں۔ ’بیس پچیس سال قبل جو سڑک بنائی جاتی تھی وہ طویل عرصے تک چلتی تھی کیونکہ اس پر پتھر ڈال کر اس پر دو تین تہیں لگائی جاتی تھی، اب وہ طریقہ کار نہیں رہا۔ تھرڈ پارٹی کانٹریکٹر کام کرتا ہے جس کی کوئی دلچپسی نہیں ہوتی، اس کو بس پیسے بنانے ہوتے ہیں، اور یہاں احتساب اور نگرانی کا بھی نظام نہیں کہ سڑک کی زندگی کتنی ہے اور جلد کیوں خراب ہوئی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62703647", "summary": "فہیم بلوچ کو جمعے کی شب نامعلوم افراد ان کے دفتر میں داخل ہونے کے بعد اپنے ساتھ لے گئے۔", "title": "فہیم بلوچ: بلوچی کتابوں کے پبلشر کی مبینہ جبری گمشدگی، بازیابی کے مطالبات", "firstPublished": "2022-08-27T23:30:44.000Z", "id": "214af52e-d67b-450e-9207-c0a0924e39d9", "article": "بلوچستان کی تاریخ اور شخصیات پر لکھتے وقت جب بھی کتابوں کی ضرورت ہوتی ہے تو فہیم بلوچ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کون سی کتابیں کام آئیں گی اور ان کے مصنف کون ہیں۔ اُنھوں نے کراچی کے اردو بازار میں علم و ادب کے نام سے پبلشنگ ہاؤس قائم کر رکھا ہے جو بلوچستان کی تاریخ، ادب، شاعری و کہانیوں پر کتاب شائع کر رہا ہے۔ اردو بازار میں واقع ایک عمارت کی تیسری منزل پر واقع ان کے دفتر ’ادارہ علم و ادب‘ میں ان سے متعدد بار ملاقات ہوئی، جمعے کی رات کو نو بجے کے قریب ایک دوست جو چشم دید گواہ ہیں نے ٹیلیفون کر کے بتایا کہ کچھ لوگ پولیس وردی اور کچھ سادہ لباس میں آئے اور دریافت کیا کہ کیا اُنھوں نے کتابیں جرمنی بھیجی تھیں، اُنھوں نے اثبات میں جواب دیا تو وہ اُنھیں اپنے ساتھ لے گئے۔ فہیم بلوچ کے والد اور والدہ انتقال کر چکے ہیں جبکہ بھائی بیرون ملک ہیں۔ اُن کی کزن ام حبیب نے سنیچر کو کراچی کے پولیس سٹیشن پریڈی کے ایس ایچ او کو ایک درخواست دی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اُنھیں گذشتہ شب فہیم کے دوستوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ دو پولیس موبائلوں میں سوار باوردی اور سادہ لباس اہلکار فہیم ولد حبیب اللہ کی دکان میں آئے اور فہیم کے بارے میں پوچھنے کے بعد اپنے ساتھ لے گئے۔ درخواست گزار کے مطابق گھر والوں کو جیسے اطلاع ملی وہ کراچی آئے اور متعلقہ تھانے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ معلوم ہوسکے کہ ان کا بھائی کہاں ہے لیکن کسی پولیس اہلکار نے مثبت جواب نہیں دیا لہٰذا اب وہ تھانے آئی ہیں تاکہ اپنے بھائی کے اغوا کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کروا سکیں۔ دوسری جانب اس واقعے کی ویڈیو فوٹیج بھی سامنے آئی ہے جس میں نظر آتا ہے کہ سیاہ کپڑوں میں ملبوس مسلح افراد اور تین سادہ قمیض شلوار میں ملبوس لوگ جنھوں نے چہرے پر سرجیکل ماسک لگائے ہوئے ہیں عمارت میں داخل ہوتے ہیں، اس کے بعد فہیم کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ فہیم بلوچ کی مبینہ جبری گمشدگی کی سوشل میڈیا پر ادیبوں، سیاست دانوں اور طلبہ تنظیموں نے مذمت کی ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ فہیم بلوچ ایک ادب دوست شخص ہے اور بلوچی ادب کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہے، اس کی جبری گمشدگی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے، اُنھیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔ بی این پی کے رکن اسمبلی ثناللہ بلوچ لکھتے ہیں کہ اس آزمائش الٰہی سیلاب کی صورتحال میں تو کچھ رحم کریں۔ نامور ناول نگار اور صحافی محمد حنیف لکھتے ہیں ملک کا تین تہائی حصہ ڈوبا ہوا ہے جبکہ سندھ حکومت اور اس کے گاڈ فادرز آزاد پبلشر فہیم بلوچ کے اغوا میں مصرف ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62572599", "summary": "این ڈی ایم اے کی جانب سے دیے گئے 14 جون سے اب تک کے مجموعی اعداد و شمار کے مطابق تقریباً ڈھائی ماہ میں ملک بھر میں سیلاب اور بارشوں کے باعث کم از کم 830 اموات ہو چکی ہیں اور ملک کے 116 اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد شاہ کہتے ہیں کہ صوبہ میں صورتحال 2010 کے سیلاب سے بھی زیادہ خراب ہے۔", "title": "’سندھ کی 90 فیصد سے زائد فصل مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے‘", "firstPublished": "2022-08-18T04:04:34.000Z", "id": "2b179853-e319-4002-bd6a-eaac46a29957", "article": "صوبہ سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ حالیہ بارشوں اور سیلابی صورتحال کی وجہ سے سندھ کی 90 فیصد سے زائد فصل مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے جبکہ حکومت کے پاس اب متاثرین کے لیے خیمے نہیں ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ حالیہ ہنگامی صورتحال صوبہ سندھ میں 2010 کے سیلاب اور 2011 کی طوفانی بارشوں سے بھی زیادہ خراب ہے، اور اتنی بڑی ایمرجنسی پہلے اس صوبے میں نہیں ہوئی۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے ذمہ دار وفاقی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے 14 جون سے اب تک کے مجموعی اعداد و شمار کے مطابق قریب ڈھائی ماہ کے دوران ملک بھر میں سیلاب اور بارشوں کے باعث کم از کم 830 اموات ہو چکی ہیں اور ملک کے 116 اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق دریائے راوی اور چناب میں پانی کی سطح اور بہاؤ معمول کے مطابق ہے جبکہ موسلادھار بارشوں کے باعث 26 اگست تک ڈی جی خان کے پہاڑی علاقوں سے مزید پانی آنے کا خطرہ ہے جس سے دریائے سندھ میں تونسہ کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب آ سکتا ہے۔ ان اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو صوبہ بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں کے 34 اضلاع اور تین لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق بلوچستان میں اب تک 225 اموات ہو چکی ہیں۔ سندھ حکومت 23 اضلاع کو آفت زدہ قرار دے چکی ہے مگر این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ صوبے میں 17 اضلاع سب سے زیادہ متاثرہ ہیں جن میں 19 لاکھ سے زیادہ کی آبادی سیلاب سے متاثر ہوئی ہے۔ این ڈی ایم اے کے مطابق 14 جون سے اب تک قریب ڈیڑھ لاکھ افراد کو ریلیف کیمپ میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ صوبے میں 120 بچوں اور 35 خواتین سمیت کم از کم 239 اموات ہوئی ہیں جبکہ 700 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق 26 اگست تک صوبے کے بعض اضلاع میں اربن فلڈنگ کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ موسلا دھار بارشوں سے کراچی، حیدرآباد، ٹنڈو جام اور ٹھٹھہ میں شہری سیلاب کا خدشہ ہے۔ صوبے میں تقریباً 38 ہزار سے زیادہ مکانات، 33 کلومیٹر طویل سڑکیں بھی متاثر ہوئیں جبکہ این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق سات پلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اگر گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بارش اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے متعلق بات کریں تو قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کے مطابق خطے میں مجموعی طور پر 46 اموات ہوئیں جہاں بالترتیب چھ اور دس اضلاع کے تقریباً دس ہزار افراد متاثر ہوئے اور نو سو کے قریب مکانات متاثر ہوئے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62589770", "summary": "صوبہ سندھ میں کاچھو کا علاقہ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ پانی میں گھرے ان لوگوں کی خوراک، پینے کے لیے صاف پانی اور طبی سہولیات کے حوالے سے دور دور تک کوئی انتظام نظر نہیں آتا، سوائے چند رضاکاروں کے جو کھانا اور پانی پہنچا رہے تھے۔", "title": "سندھ کا علاقہ ’کاچھو‘ جہاں ہر دوسرا گاؤں پانی میں گھرا ہے", "firstPublished": "2022-08-21T04:01:17.000Z", "id": "7136627f-3660-4cff-a150-41ec65471979", "article": "کچھ گاﺅں اس طرح سے پانی میں گھرے ہوئے تھے کہ وہاں تک پہنچنے کے لیے کشتی کے سوا کوئی طریقہ نہ تھا۔ علاقے کی تمام کچی پکی رابطہ سڑکیں اور چھوٹے پل بہہ چکے تھے۔ مقامی رضاکار کشتیوں میں گاﺅں والوں تک کھانا اور پینے کا صاف پانی پہنچا رہے تھے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ کھانا اور پانی ہر گاﺅں تک نہیں پہنچ سکتا تھا اور جہاں پہنچ رہا تھا ان کے لیے بھی ناکافی تھا۔ اس بار پاکستان میں مون سون کا موسم شدید اور طویل رہا۔ کم وقت میں زیادہ بارشوں نے پورے ملک میں تباہی پھیلا دی جس میں بلوچستان اور اس کے بعد صوبہ سندھ بری طرح سے متاثر ہو ئے۔ صوبہ سندھ میں کاچھو کا علاقہ بری طرح سے متاثر ہوا ہے اور بلوچستان سے آنے والے پہاڑی ندی نالوں نے یہاں طغیانی کی کیفیت پیدا کردی۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق کاچھو کا علاقہ دو اضلاع دادو اور شہدادپور قمبر پر مشتمل ہے، جو انتظامی طور پر 9 یونین کونسل میں منقسم ہے۔ ان میں تقریباً 280 چھوٹے بڑے گاﺅں اور آبادی تقریباً دو لاکھ 40 ہزار افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے 75 فیصد سیلاب سے متاثر ہیں۔ پانی میں گھرے ان لوگوں کی خوراک، پینے کے لیے صاف پانی اور طبی سہولیات کے حوالے سے دور دور تک کوئی انتظام نظر نہیں آ رہا تھا سوائے چند رضاکاروں کے جو کھانا اور پانی پہنچا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میت لے جانے کے لیے چارپائی الٹی کر کے اس کے نیچے 30 لٹر والے چار خالی ڈرم باندھ دیے جاتے ہیں۔ پھر اس پر میت رکھ کر اس چارپائی کو پانی سے گزار کر لے جایا جاتا ہے۔خشک زمین کی تلاش میں 10 کلو میٹر تک پیدل چلنا پڑتا ہے اور اس دوران میت کندھوں پر اٹھائی جاتی ہے۔ ’وقتی طور پر کچے راستے منقطع ہو جاتے ہیں مگر یہ معمول ہے، لہذا لوگ بھی عادی ہیں لیکن اس بار بارشوں نے شدید سیلاب کی شکل اختیار کر لی ہے۔ راستے پل منقطع ہو چکے ہیں مگر ہم کام کر رہے ہیں اور صورتحال قابو میں ہے۔ نقل مکانی کا کلچر کاچھو کے علاقے میں نہیں۔ لوگ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھروں کو بھی چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے۔ ہم نے 16کشتیاں مہیا کر دی ہیں تاکہ آمدورفت میں آسانی ہو۔‘ صوبہ سندھ میں کاچھو کا علاقہ نیم صحرائی ہے اور اس کی جغرافیائی، ماحولیاتی اور تاریخی حیثیت سندھ کے دیگر حصوں سے الگ ہے۔ یہ علاقہ صرف سیلابی پانی سے ہی سیراب ہوتا ہے کیونکہ انگریزوں نے بھی اس علاقے میں نہری نظام نہیں بنایا تھا۔ تاریخی طور پر اسے بارانی علاقہ مانا جاتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62538029", "summary": "قومی ترانہ دوبارہ ریکارڈ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، یہ پرانے ترانے سے کس طرح مختلف ہے اور اس پراجیکٹ میں شریک گلوکاروں کے تجربات کیسے رہے؟ اس بارے میں بی بی سی نے پراجیکٹ سے جڑے افراد، موسیقاروں اور گلوکاروں سے بات کی ہے۔", "title": "’ترانہ ریکارڈ کرتے وقت کچھ کی آنکھوں میں آنسو، کچھ کے چہروں پر مسکراہٹ تھی‘", "firstPublished": "2022-08-14T08:21:11.000Z", "id": "fd7e2db4-9b61-41d2-af46-215e04cf43ed", "article": "بی بی سی نے قومی ترانے کی دھن اور بول دوبارہ ریکارڈ کروانے والے اس پراجیکٹ سے جڑے افراد، موسیقاروں و گلوکاروں سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ قومی ترانہ دوبارہ ریکارڈ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، یہ پرانے ترانے سے کس طرح مختلف ہے اور ان کے اس پراجیکٹ پر کام کرنے کے تجربات کیسے رہے۔ اس کے علاوہ ہم نے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے پرانے قومی ترانے کی دھن اور اس کے بول تیار کرنے کے مرحلے پر بھی ایک نظر ڈالی ہے۔ جاوید جبار نے اس ترانے کو دوبارہ ریکارڈ کرنے کے مراحل کے بارے میں تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ ریکارڈنگ سے قبل تمام 155 گلوکاروں کی ریہرسلز کروائی گئیں اور تیاری میں مدد فراہم کی گئی۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معروف گلوگار عمیر جسوال بھی ان گلوکاروں میں شامل ہیں جنھوں نے مل کر نیا قومی ترانہ گایا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عمیر کا کہنا تھا کہ ملک بھر سے اتنے قابل موسیقاروں اور گلوکاروں کے متنوع گروپ کے ساتھ کام کرنے اور ترانہ ریکارڈ کروانے کا تجربہ بہت ہی شاندار رہا۔ ’میرا ماننا ہے کہ اسے دوبارہ سے ری ریکارڈ کرنے سے اس کا اعلیٰ کوالٹی کا ورژن مل گیا ہے اور سب سے اہم اور خوبصورت چیز یہ ہے کہ ملک بھر سے موسیقاروں اور گلوکاروں کے انتہائی متنوع گروپ نے مل کر اس پر کام کیا ہے۔۔۔‘ عمیر کا یہ بھی ماننا ہے 150 سے زائد موسیقاروں کے مل کر قومی ترانہ گانے سے اسے ایک نئی طرح کی ’فیل‘ ملی ہے۔۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ترانے کا مقصد بہت بڑے پیمانے پر ملک کے تمام طبقوں اور علاقوں کی نمائندگی کو یقینی بنانا تھا۔۔۔ اور یہ ایک اتنا خوبصورت تصور ہے کہ اس سے ایک بہت مثبت پیغام ملتا ہے۔ اپنے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے معروف ریپر اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع سبی سے تعلق رکھنے والے آبد بروہی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'میرے لیے یہ ایک اعزاز کی بات تھی کہ میں اس تاریخی ریکارڈنگ کا حصہ تھا۔ قومی ترانے سے متعلق ایک عرصے سے ماہرین اس بات کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک قومی ترانے کی جو خصوصیات ہوتی ہیں وہ سب پاکستانی ترانے میں بھی موجود ہوں، ان خصوصیات میں اس بات کے علاوہ کہ ترانہ اور دھن عام پسند اور قومی معیار پر پوری اترے، یہ بھی ضروری ہے کہ معیار، نغمہ، زبان، بحر، دھن اور موسیقیت میں مسلم قوم کی روایات کا بھی خیال رکھا جائے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62508510", "summary": "ماہی گیروں کی بستی ابراہیم حیدری کے رہائشی ماہی گیر حاجی عبداللہ نے بتایا کہ انھوں نے پھوٹی کریک کے قریب ایک شخص کو ڈوبتے دیکھا تھا جس کے بعد وہ فوراً وہاں پہنچے اور دیگر ماہی گیروں کی مدد سے اس شخص کو باہر نکالا۔", "title": "بحری جہاز سے سمندر میں گرنے والے چینی شہری کو پاکستانی ماہی گیروں نے بچا لیا", "firstPublished": "2022-08-11T12:59:11.000Z", "id": "988689a8-ca76-428b-9f26-6c5704d9a1eb", "article": "چینی شہری کو بچانے کے بعد طبی امداد فراہم کی گئی پاکستان کی سمندری حدود میں چینی تجارتی بحری جہاز سے حادثاتی طور پر گِر کر غوطے کھانے والے ایک چینی شہری کو پاکستان کے مقامی ماہی گیروں نے بچا لیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ چینی شہری بحری جہاز سے سمندر میں گر گیا تھا۔ حکام کے مطابق کراچی کے قریب واقعے بنڈال جزیرے کے پاس سے بدھ کے روز اس چینی شہری کو بچایا گیا ہے۔ ماہی گیروں کی قریبی بستی ابراہیم حیدری کے رہائشی ماہی گیر حاجی عبداللہ نے بتایا کہ انھوں نے پھوٹی کریک کے قریب ایک شخص کو ڈوبتے دیکھا تھا جس کے بعد وہ فوراً وہاں پہنچے اور دیگر ماہی گیروں کی مدد سے اس شخص کو باہر نکالا۔ بعدازاں پتا چلا کہ وہ غیرملکی چینی شہری تھا جس کا نام زوو ژیانگ ہے۔ چینی شہری طبی معائنے کے بعد کھانا کھاتے ہوئے دوسری جانب میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ’پی ایم ایس اے بیس صداقت‘ کو مقامی ماہی گیروں کے ذریعے ہنگامی کال موصول ہوئی کہ انھوں نے ایک ڈوبتے ہوئے چینی شخص کو بچا لیا ہے۔ اس چینی شہری کو مقامی ماہی گیروں کی کشتی ’المدیہ‘ پر سوار ماہی گیروں نے بچایا جس کے بعد اسے بحفاظت محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا۔ یہ شخص 10 اگست کو کوسکو شپنگ کے 'زنگ شنگہائی' نامی تجارتی جہاز سے کراچی بندرگاہ کے قریب گرا تھا چینی شہری کو ابراہیم حیدری میں میری ٹائم کے مرکز میں ابتدائی طبی امداد فراہم کی گئی اور تفصیلی چیک اپ کے لیے ہیڈ کوارٹر میری ٹائم منتقل کیا گیا۔ بعد میں حکام کو اس بات کی تصدیق موصول ہوئی کہ یہ شخص 10 اگست کو کوسکو شپنگ کے ’زنگ شنگہائی‘ نامی تجارتی جہاز سے کراچی بندرگاہ کے قریب گرا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62471093", "summary": "پولیس کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب بڑی تعداد میں شیعہ زائرین نے ضریح اقدس کو بوسہ دینے کی کوشش کی اور تنگ راستے کی وجہ سے گھٹن کا ماحول پیدا ہوا اور بھگڈر مچی۔", "title": "روہڑی کے تاریخی ماتمی جلوس میں گھٹن اور بھگدڑ سے چھ عزادار ہلاک، کم از کم 40 زخمی", "firstPublished": "2022-08-08T17:01:00.000Z", "id": "9df17f3d-bfbc-41f4-a0fb-76925acec1b8", "article": "پاکستان میں شمالی سندھ کے قدیم شہر روہڑی میں ماتمی جلوس کے دوران گرمی، گھٹن اور بھگدڑ مچنے کے نتیجے میں کم از کم چھ عزادار ہلاک جبکہ 40 کے قریب زخمی ہوگئے ہیں۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب بڑی تعداد میں شیعہ زائرین نے ضریح اقدس کو بوسہ دینے کی کوشش کی اور تنگ راستے کی وجہ سے گھٹن کا ماحول پیدا ہوا اور بھگڈر مچی۔ مقامی پولیس اور ایدھی رضاکاروں نے اب تک چھ ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جبکہ شیعہ علما کاؤنسل کے مطابق ہلاک ہونے والے عزاداروں میں تین کا تعلق گھوٹکی، دو کا نوشہرو فیروز جبکہ ایک عزادار کا تعلق سکھر سے ہے۔ روہڑی شہر دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہے اور سکھر کا معروف ریلوے سٹیشن بھی شہر کے اسی حصے میں موجود ہے۔ آٹھ محرم کو یہاں شمع گل کا ماتم ہوتا ہے۔ روہڑی پولیس کے مطابق ضریح اقدس کے جلوس کے دوران سانس رکنےسے کئی عزادار بےہوش ہو گئے، جن میں سے چھ کے قریب افراد بعدازاں ہلاک ہوئے۔ تمام متاثرین کو روہڑی اور سکھر کے ہسپتال پہنچایا گیا تھا۔ صحافی اور مصنف ممتاز بخاری، جو روہڑی کے رہائشی ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ روہڑی سے بڑا ماتمی جلوس آٹھ محرم کو امام بارگاہ کربلا معلی سے برآمد ہوتا ہے اور شب عاشور کربلا میں جس طرح امام حسین نے شمع گل کی تھی، اس طرح شمع گل کرکے ماتم کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ لگ بھگ 345 سال سے جاری ہے۔ ممتاز بخاری کے بقول روہڑی شہر پہاڑی پر بنا ہوا ہے اس لیے اس کی گلیاں چھوٹی اور تنگ ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ شدید گرمی اور حبس کی وجہ سے آٹھ محرم سے ہی چند عزاداروں کے بے ہوش ہونے کی اطلاعات آ رہی تھیں تاہم نو محرم کو عزاداروں کی تعداد بڑھنے کے باعث اس میں شدت آ گئی۔ پولیس اور ایدھی رضاکاروں کے مطابق تنگ گلیوں میں عزاداروں کی بڑی تعداد اس حادثے کی وجہ بنی مقامی صحافی جان محمد مہر نے بتایا کہ اندھیرے اور حبس میں جب لوگ بڑی تعداد میں بے ہوش ہوئے تو ایک خوف کی فضا پھیلی جس کی وجہ سے جلسوس میں کچھ دیر کے لیے بھگدڑ مچ گئی لیکن انتظامیہ نے اس کو جلد ہی کنٹرول کر لیا۔ جان محمد مہر کے مطابق جلوس میں بڑی تعداد میں عزاداروں کی موجودگی کی وجہ سے ایمبولینس پہنچنے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ شمالی سندھ میں سب سے بڑا ماتمی اجتماع روہڑی میں ہوتا ہے جس میں نہ صرف سندھ بلکہ پنجاب سے بھی لوگ شریک ہوتے ہیں۔ اس جلوس میں شرکت کے لیے لوگ ٹرینوں کی چھتوں پر سوار ہو کر بھی پہنچتے ہیں۔ مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ فی الحال صورتحال کنٹرول میں ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-62446663", "summary": "سندھ کے محکمہ وائلڈ لائف کے اہلکاروں نے کراچی میں ایک دواخانے پر چھاپہ مار کر پانچ سانپ اور 75 سانڈھے برآمد کیے۔ دواخانا چلانے والے ملزمان سانڈھے کا تیل جنسی مسائل کے علاج کے لیے اور سانپ کے زہر سے بنی ادوایات کینسر کے علاج کے لیئے فروخت کر رہے تھے۔", "title": "سانڈھے کا تیل فروخت کرنے والے دواخانے پر چھاپہ: ’مول تول کرتا تو قیمت کم بھی کر دیتے‘", "firstPublished": "2022-08-07T00:30:32.000Z", "id": "c762bea8-c049-49ff-ae1e-16914d09c807", "article": "سندھ کے محکمہ وائلڈ لائف کے اہلکاروں نے کراچی میں ایک دواخانے پر چھاپہ مار کر پانچ سانپ اور 75 سانڈھے بر آمد کیے۔ انھیں کاروبار کے لیے استعمال کرنے والے دو ملزمان کو گرفتار کرنے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ برآمد کیے گئے سانپوں میں تین دو منہ والے سانپ اور دو کوبرا بھی شامل ہیں۔ کراچی وائلڈ لائف کے انسپیکٹر اعجاز کے مطابق انھیں اطلاع ملی کہ کراچی کے علاقے قائد آباد میں ایک دیسی دواخانے پر سانڈھے اور سانپ سے تیار کردہ ادوایات فروخت ہو رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اطلاعات کے بعد کچھ روز تک اس دواخانے پر نظر رکھی گئی اور معلوم ہوا کہ یہ دواخانہ لوگوں کو سانڈھے کا تیل جنسی مسائل کے علاج کے لیے اور سانپ کے زہر سے بنی ہوئی ادویات کینسر کے علاج کے لیے فروخت کر رہا تھا۔‘ انسپکٹر اعجاز کے مطابق ’کارروائی سے پہلے ہر طرح کی تسلی کرنے کے لیے میں خود وہاں پر گاہگ بن کر گیا اور اس کے بعد کارروائی کے دوران سانڈھے اور سانپ بر آمد کیے گئے جن کو نیشنل پارک میں چھوڑ دیا گیا ہے۔‘ ’انھوں نے مجھے بتایا کہ ایک سانڈھے کی قیمت ڈھائی ہزار روپیہ ہے اور اس سے تیار کردہ تیل کی قیمت تین سو روپیہ ہوگی۔ اس موقع پر اگر ان سے مول تول کرتا تو شاید وہ اس میں کمی بھی کر دیتے۔‘ ملزمان سانڈھے کا تیل جنسی مسائل کے علاج کے لیے اور سانپ کے زہر سے بنی ادوایا ت کینسر کے علاج کے لیئے فروخت کر رہے تھے سندھ کے محکمہ وائلڈ لائف کے اہلکار جاوید احمد مہر کہتے ہیں کہ ’بر آمد ہونے والے سانپوں میں دو کوبرا اور تین دو منھ والے سانپ تھے۔ دو منہ والے سانپ تقریباً سارے ملک میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ اور بالخصوص کراچی میں وہ سانڈھے اور سانپوں کا کسی قسم کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف بھرپور کارروائی کر رہے ہیں۔ ان کے بقول کوشش یہ ہے کہ اس کاروبار کو سندھ اور کراچی میں نہ ہونے دیا جائے۔ انسپیکٹر اعجاز کہتے ہیں کہ ’دواخانے میں مجھے وہ لوگ مختلف کہانیاں سناتے رہے کہ کینسر بھی ایک زہر ہے اور اس کا علاج زہر ہی سے ممکن ہے اس لیے وہ ان سانپوں کے زہر سے تیار کردہ ادوایات سے کینسر کا علاج کرتے ہیں۔ اس دوران وہ مختلف لوگوں کے حوالے بھی دیتے رہے۔‘ تاہم اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ فارسٹری وائلڈ لائف مینجمنٹ نے چولستان میں سانڈھوں کی تعداد پر ایک تحقیقاتی رپورٹ تیار کی ہے۔ غیر قانونی شکار کرنے والے ان کو چربی اور تیل حاصل کرنے کے لیے پکڑ کر ان کی کمر کی ہڈی توڑ کر انھیں اپنی ظالمانہ قید میں رکھتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62400902", "summary": "سندھ کے بہت سے شہروں جن میں بدین، میرپور خاص، ٹھٹھہ خصوصاً ٹنڈو الہیار اور عمرکوٹ وغیرہ سے لوگوں کی بڑی تعداد کھیت مزدور کے طور پر بلوچستان کے لسبیلہ، اوتھل اور لاکھڑا وغیرہ کا رخ کرتی ہے۔ تاہم اب یہ سیلاب میں پھنس چکے ہیں۔", "title": "’سال بھر کے لیے پیسے کمانے آئے تھے، اب جان بچ جائے تو بڑی بات ہے‘", "firstPublished": "2022-08-03T01:06:27.000Z", "id": "afb139f5-51c8-4e58-93d5-21edf504c69b", "article": "حوراں سندھ کے شہر ٹنڈو الہیار کے قریب ایک گاﺅں کی رہنے والی ہیں۔ ان کا تعلق بھیل قبیلے سے ہے اور ان کے خاندان کے بہت سے افراد ہر سال لسبیلہ کے علاقے میں کھیتوں میں مزدوری کرنے یا کپاس چُننے آتے ہیں۔ سندھ کے بہت سے شہروں جن میں بدین، میرپور خاص، ٹھٹھہ خصوصاً ٹنڈو الہیار اور عمرکوٹ وغیرہ سے لوگوں کی بڑی تعداد کھیت مزدور کے طور پر بلوچستان کے لسبیلہ، اوتھل اور لاکھڑا وغیرہ کا رخ کرتی ہے۔ سندھ کے ہاری جن کی ایک بڑی تعداد اس سیزن میں بلوچستان کا رخ کرتی ہے ان کے لیے خطرے کی بات یہ بھی ہے کہ کسی حکومتی ادارے کو یہ نہیں معلوم کہ ان کی کتنی تعداد اس سیزن میں بلوچستان کے کس علاقے میں موجود ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 'انھیں زرعی خانہ بدوش بھی کہا جا سکتا ہے، یہ لوگ زیادہ تر سانگھڑ، میرپور خاص، عمرکوٹ اور ٹنڈو الہیار وغیرہ سے بلوچستان میں لسبیلہ، اوتھل اور لاکھڑا کے علاقے میں کھیتوں میں کام کرنے جاتے ہیں۔ خلیل رونجھو نے مزید بتایا کہ 'پرسوں رات تک ریسکیو کے عمل کے دوران ایک بڑی تعداد میں ہاریوں کو ان کے بچوں و خواتین کے ساتھ سیلابی متاثرہ زمینوں سے نکال کر روڈ کے کنارے لایا گیا ہے لیکن ابھی بھی ذرائع کا کہنا ہے کہ دور دراز کے علاقوں میں یہ ہاری سیلابی ریلوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور کچھ افراد کے پانی میں بہہ جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔' انھوں نے مزید کہا کہ 'اس وقت تو تمام رابطہ سڑکیں اور پل ٹوٹ چکے ہیں، کسی کو کسی کی خبر نہیں ہے۔ ڈام بی اور لاکھڑا کے جنگلات میں بہت سے لوگ پھنسے ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اس وقت تو جو ادارہ یا فرد جو کرسکتا ہے وہ کر گزرے۔' وہ بتاتے ہیں کہ 'آفات کے دوران یعنی اس وقت لوگوں کو ریسکیو یا مدد فراہم کرنا، انھیں محفوظ مقامات پر پہنچانا، خوراک، اور طبی سہولیات کی فراہمی ضروری ہوتی ہے جبکہ بعد از آفات میں ان لوگوں کی آباد کاری،گھروں کی دوبارہ تعمیر اور معاشی ذرائع کی بحالی شامل ہے۔ ان تمام مراحل میں ماہرین خصوصاً ٹیکنیکل ایکسپرٹ کی شمولیت بہت ضروری ہے۔' مون سون کا سیزن ابھی جاری ہے، حکومت کے مختلف محکمے بھی کام کر رہے ہیں مگر اطلاع ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی سیلابی ریلوں میں پھنسی ہوئی ہے اور بے شمار لوگ روڈ کے کنارے امداد کے منتظر ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62369227", "summary": "صوبہ خیبرپختونخواہ سے لے کر پنجاب، سندھ اور بلوچستان تک کے علاقے جو کوہِ سلیمان اور دریائے سندھ کے درمیان واقع ہیں خشک علاقے کہلاتے ہیں تاہم اب جبکہ ملک بھر کی طرح یہاں بھی معمول سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں تو یہ علاقے بھی سیلابی صورتحال کا شکار ہیں۔", "title": "پاکستان کے وہ علاقے جو کئی مہینے خشک سالی اور مون سون آنے پر سیلاب سے لڑتے ہیں", "firstPublished": "2022-07-31T14:05:44.000Z", "id": "15e03491-076f-466b-9e1c-2435e634f620", "article": "ان کا کہنا تھا کہ ’علاقہ بھی نہیں چھوڑ سکتے کہ کھیتی باڑی سے تو کسی سال ہمیں کچھ ملتا ہے اور کچھ نہیں۔ اس سال میری گیارہ ایکڑ پر لگی کپاس کی فصل تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ باقی لوگوں کی فصلیں بھی ختم ہو چکی ہیں۔ ہماری کل دولت مال مویشی ہیں۔ اگر ہم علاقہ چھوڑیں تو مال مویشی کہاں لے کر جائیں؟‘ صوبہ خیبرپختونخوا سے لے کر پنجاب، سندھ اور بلوچستان تک کے علاقے جو کوہِ سلیمان اور دریائے سندھ کے درمیان واقع ہیں خشک علاقے کہلاتے ہیں اور راجن پور اور اس سے ملحقہ اضلاع بھی ان میں شامل ہیں۔ عموماً ان علاقوں میں پانی کا زیادہ تر انحصار کوہ سلیمان کے پہاڑوں پر ہونے والی بارشوں سے ہوتا ہے ورنہ یہ اکثر خشک سالی کا شکار رہتے ہیں۔ تاہم اب جبکہ ملک بھر کی طرح یہاں بھی معمول سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں، تو تب بھی یہاں کے باسی چین سے نہیں بیٹھ سکے اور اب یہ علاقے بھی سیلابی صورتحال کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے، اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں اور پہلے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ ملک بھر میں اس وقت اوسط سے تقریباً 192 فیصد زیادہ بارشوں سے نقصانات کی کیا صورتحال ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق ملک بھر میں سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ بلوچستان ہے جہاں پر 14 جون سے اب تک 120 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ان لوگوں کے لیے سیلابی پانی ہی اصل میں پانی کا بڑا زریعہ ہے۔ موجودہ بارشیں تو ہیں ہی اوسط سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ ’مگر دیکھا جا رہا ہے کہ اب اگر کوہ سیلمان کے پہاڑوں اور اردگرد کے علاقوں پر اوسط بارشیں بھی ہو جائیں یا اوسط سے تھوڑا بھی زیادہ ہو جائیں تو ان علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔‘ ڈاکٹر نعمان لطیف کہتے ہیں کہ 'محتاط ترین اندازے کے مطابق ہر سال اگر اوسط یا اس سے کم یا زیادہ بارشیں ہوں تو کوہ سلیمان کا پاکستان کے سب سے بڑے ڈیم تربیلہ سے گنجائش سے زیادہ پانی دریائے سندھ میں جا کر گرتا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ 'کوہ سلیمان کے دامن میں واقع ان علاقوں کے سیلابی پانی کا رخ دریائے سندھ کی طرف ہے۔ اکثر علاقوں میں کوئی نکاسی آب کے نالے بھی نہیں ہیں اور کچھ ختم ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر نعمان لطیف کے مطابق ’اگر تجاوزات کا خاتمہ ہو اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے دوران قدرتی سیلابی نالوں کا خیال رکھا جائے تو یہ پانی جو ہر تھوڑے عرصے بعد تباہی لاتا ہے۔ یہی پانی رحمت بن کر پورے علاقے میں خوشحالی لا سکتا ہے۔‘ بلوچستان میں مال مویشی ایک بڑا ذریعہ روزگار سمجھا جاتا ہے اور یہاں اب تک 23 ہزار سے زیادہ مال مویشی متاثر ہوئے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62366734", "summary": "اس وقت راجن پور ڈیرہ غازی خان کی سلیمانی پٹی ہمیشہ کی طرح پہاڑی نالوں کی زد میں ہے۔ مگر لاہور میں گلشن کا سیاسی کاروبار تھمے تو کوئی پنجاب کی اس انتہائی نکڑ کو بھی دیکھے۔ وسعت اللہ خان کا کالم", "title": "بارشوں میں گورننس بھی بہہ جاتی ہے: وسعت اللہ خان کا کالم", "firstPublished": "2022-07-31T11:09:03.000Z", "id": "be6f4430-9171-487b-bf35-188f6eb062cc", "article": "وزیرِاعظم نے شمبانی گاؤں کا دورہ کیا اور وہاں متاثرین کے لیے طبی امدادی کیمپ کے قیام اور علاقے میں ایک ویٹرنری ڈاکٹر کی تقرری کا بھی حکم دیا۔ یعنی وہ کام جو کبھی اسسٹنٹ کمشنر کی سطح پر ایک معمول کی ذمہ داری سمجھے جاتے تھے اب ان کے احکامات بھی وزیرِ اعظم کو جاری کرنے پڑتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ گورنننس کا معیار کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ وزیرِ اعظم کی جانب سے پانچ پانچ ہزار روپے دل جوئی کے لیے ان مریضوں میں تقسیم کیے گئے۔ وزیرِ اعظم نے کیمپ کے انتظام کی بھی تعریف کی۔ جیسے ہی وزیرِ اعظم ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے جلو میں میڈیکل کیمپ سے رخصت ہوئے مریض بھی بھلے چنگے ہو گئے۔ اپنی اپنی چارپائیاں بغل میں دابیں اور گھروں کو روانہ ہو گئے۔ خادمِ اعظم شہباز شریف نے سندھ سے متصل بلوچستانی ضلع جھل مگسی میں چیف سیکرٹری عبدالعزیز عقیلی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے این ڈی ایم اے کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز سے بریفنگ بھی لی اور امدادی کاموں کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا۔ ٹھیکیدار کو بھی معلوم ہے کہ ریکارڈ میں صرف مرمت اور تعمیر ہی دکھانی ہے چنانچہ وہ اس بات کا بطورِ خاص خیال رکھتا ہے کہ سڑک ایسی بنے جو پہلی بارش میں ہی دھل جائے یا چاند کی سطح میں تبدیل ہو جائے۔ پھر نیا سال، نیا بجٹ اور آنکھوں کا تارہ پرانا ٹھیکیدار۔ نیب یا ایف آئی اے کو کرپشن کے ثبوت تلاش کرنے کے لیے کسی اضافی کھوج کی ضرورت ہی نہیں۔کوئی بھی سڑک تعمیر کے چند ماہ بعد سلطانی گواہ بننے پر تیار ہے۔ انگریز کے دور سے بچہ بچہ جانتا ہے کہ جنوبی پنجاب میں مون سون ہر سال انسانی جانوں اور املاک کی شکل میں سود مرکب وصول کرنے آتا ہے اور اپنے گزرگاہ میں بنی تجاوزات بھی لے جاتا ہے۔ مگر ہر سال سرکار ایسے اداکاری کرتی ہے گویا پہلی بار یہ مصیبت دیکھی ہو۔ اس وقت راجن پور ڈیرہ غازی خان کی سلیمانی پٹی ہمیشہ کی طرح پہاڑی نالوں کی زد میں ہے۔ مگر لاہور میں گلشن کا سیاسی کاروبار تھمے تو کوئی پنجاب کی اس انتہائی نکڑ کو بھی دیکھے۔ خوش انتظامی کا یہ عالم ہے کہ خشک راشن بھی لاہور کی زخیرہ گاہ سے جاری ہو کے آخری مصیبت زدہ تک پہنچانے کی روایت برقرار ہے۔ خیبر پختونخواہ پچھلے نو برس سے ریاستِ مدینہ کا منی ماڈل بتایا جا رہا ہے۔ وہاں مالاکنڈ سے ڈیرہ اسماعیل خان تک سیلابی زبوں حالی کی کیا شکل ہے۔ اس پر کوئی بھی تبصرہ سوشل میڈیا پر من من بھر کے گالیانہ پتھراؤ کو دعوت دینے جیسا ہے۔ پھر بھی یہ کہنے کی جرات کر رہا ہوں کہ صرف حکومت ہی امپورٹڈ نہیں ہوتی مون سون بھی امپورٹڈ ہے۔ دونوں سے پھر ایک ہی طرح نمٹئے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62273543", "summary": "ماہرین کے مطابق ’اس کشیدگی کے زیر زمین محرکات گذشتہ 40 برس سے موجود ہیں یہ رجحان نہ صرف سندھی قوم پرستی بلکہ مہاجر قوم پرستی میں بھی نظر آتا ہے۔‘", "title": "سندھ میں لسانی بنیادوں پر سندھی اور پشتون برادری میں کشیدگی کی اصل حقیقت کیا ہے؟", "firstPublished": "2022-07-23T06:37:01.000Z", "id": "ec64c098-6971-4b90-835c-ff130f9ea19e", "article": "کیا سندھ میں بسنے والی سندھی اور پشتون برادری میں واقعی کوئی کشیدگی ہے؟ اس پر ڈاکٹر فرحان حنیف صدیقی کہتے ہیں کہ ’اس کشیدگی کے زیر زمین محرکات گذشتہ 40 برس سے موجود ہیں یہ رجحان نہ صرف سندھی قوم پرستی بلکہ مہاجر قوم پرستی میں بھی نظر آتا ہے۔ جی ایم سید کا یہ کہنا کہ ہم اپنے ہی صوبے میں ریڈ انڈین بن جائیں گے کیونکہ غیر مقامی آبادی بہت بڑھ رہی ہے۔‘ ڈاکٹر عاصمہ فیض کہتی ہیں کہ چاہے میگا ڈویلپمنٹ منصوبے ہوں یا چین پاکستان اقتصادی راہدری کے منصوبے اس میں جب کوئی باہر سے آئے گا تو وہ یہاں کی مقامی ملازمت تو لے گا اگر پشتون کا جائزہ لیں تو وہ وائیٹ کالر ملازمت کرنے والے نہیں بلکہ مزدور طبقہ ہے یا ٹرانسپورٹر ہیں اس کے برعکس ماضی میں سندھی مہاجر کشیدگی میں ہم نے دیکھا کہ مہاجر وائٹ کالر ملازمت میں بھی ہوتے تھے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما یونس بونیری کہتے ہیں کہ سہراب گوٹھ میں جو کچھ ہوا اس کو کسی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل نہیں تھی، یہ جرائم پیشہ افراد تھے جن کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں تھا جنھوں نے لوٹ مار کی، انھیں نہ سندھی نظر آرہا تھا نہ اردو سپیکنگ بس ان کا مقصد لوٹ مار کرنا تھا۔ پاکستان میں 40 سال سے زائد عرصے سے افغان پناہ گزین موجود ہیں، ان کی حتمی تعداد کتنی ہے اس کے کسی کے پاس اعداد و شمار دستیاب نہیں۔ تاہم اقوام متحدہ کے پناہ گزین کے بارے میں ادارے یو این ایچ سی آر کے مطابق رجسٹرڈ پناہ گزین کی تعداد 13 لاکھ کے قریب ہے جبکہ بعض اداروں کا کہنا ہے کہ صرف ڈھائی لاکھ کے قریب کراچی میں ہیں۔ سندھ کی قوم پرست جماعتیں گذشتہ 40 برسوں سے ان پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ کرتی رہی ہیں، صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے افغان جنگ کے بعد غیر قانونی تارکین وطن پورے پاکستان میں آئے کراچی چونکہ روزگار کا مرکز ہے اس لیے ملک بھر سے افغان پناہ گزین یہاں پہنچ گئے، وفاقی حکومت اور نادرا کا کام ہے کہ ان کا ڈیٹا اکٹھا کر کے ان کی واپسی یقینی بنائے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پہلے پشتونوں کا سندھیوں اور بلوچوں کے ساتھ ایک مشترکہ موقف تھا کہ افغانستان میں بیرونی مداخلت ختم ہو اور افغانی عوام اپنے ملک میں جائیں لیکن چند سالوں سے نیا رجحان آیا ہے کہ جو یہاں کا پشتون ہے وہ کہتا ہے کہ ہم افغان ہیں تو وہ جو افغان کا نعرہ لگا کر افغانیوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے تو یہاں ایک کشیدگی اور تناؤ نظر آتا ہے۔ پشتونوں کو یہ بات دیکھنی چاہیے کہ ہم اتحادی رہیں سندھ کے احساسات کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے اب جب افغانستان سے امریکہ بھی چلا گیا ہے تو پناہ گزین کی بھی واپسی ہو۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62168499", "summary": "حیدرآباد میں قوم پرست جماعت کے کارکن بلال کاکا کی ہلاکت کے بعد جمعے کو بھی کراچی میں سہراب گوٹھ میں حالات کشیدہ ہیں اور پولیس نے اب تک 90 افراد کو ہنگامہ آرائی کے الزام میں حراست میں لیا ہے جبکہ حکام کے مطابق دو افراد جمعرات کو ہونے والی ہنگامہ آرائی میں ہلاک بھی ہوئے ہیں۔", "title": "بلال کاکا کے قتل کے بعد ہنگامے: ’لسانی رنگ دینے والوں کے لیے مکمل عدم برداشت ہے‘ شرجیل میمن", "firstPublished": "2022-07-14T16:02:53.000Z", "id": "644030c6-6a1e-424c-8199-60d66a888691", "article": "صوبۂ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے ایک ہوٹل میں جھگڑے کے دوران قوم پرست جماعت کے کارکن بلال کاکا کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کا اثر جمعے کو بھی کراچی میں محسوس کیا جا رہا ہے اور سہراب گوٹھ کے علاقے میں پولیس اور رینجرز کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق جمعرات کے روز سہراب گوٹھ میں ہونے والی ہنگامہ آرائی میں مشتعل افراد کی فائرنگ سے دو افراد ہلاک ہوئے جبکہ اب تک 90 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے سہراب گوٹھ میں بلال کاکا کی ہلاکت کے بات بڑھنے والی کشیدگی کے بارے میں کہا ہے کہ دو افراد کے جھگڑے کو لسانی کشیدگی کا نام نہ دیا جائے۔ جمعرات کو کراچی پولیس نے 50 کے قریب مشتبہ افراد کو حراست میں لیا تھا جن میں سے 40 پر باقاعدہ مقدمات درج کیے گئے ہیں اور ان میں انسداد دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئیں، یہ مقدمات سہراب گوٹھ اور مبینہ ٹاؤن پولیس تھانوں میں درج ہیں۔ جمعے کوسہراب گوٹھ اور موٹر وے پر ٹریفک کی روانی بحال رکھنے اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری موجود ہے جبکہ حیدرآباد میں بھی رینجرز کا گشت جاری ہے۔ قاسم آباد کا علاقہ جہاں بلال کاکا کا قتل ہوا تھا رینجرز کے جوان مسلسل گشت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب قاسم آباد کی بھٹائی نگر پولیس کا کہنا ہے کہ بلال کاکا مختلف مقدمات میں مطلوب تھا اور اس پر 12 مقدمات درج ہیں جن میں انسداد دہشت گردی کا الزام بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ غیر قانونی اسلحہ رکھنے اور ارادہ قتل کے الزامات بھی شامل ہیں۔ یہ مقدمات حیدرآباد اور اس کے مضافاتی علاقوں ٹنڈو جام اور مٹیاری میں دائر ہیں۔ سوشل میڈیا پر بعض ایسی ویڈیوز بھی سامنے آئیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سہون، نوابشاہ، قاسم آباد، حیدرآباد اور ٹنڈو محمد خان میں نوجوان پشتون دکانداروں کی دکانیں بند کرا رہے ہیں۔ جام شورو اور کوٹڑی میں صورتحال اس وقت کشیدہ ہو گئی جب ہوٹلوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور فائرنگ میں قوم پرست جماعتوں کے پانچ کارکن زخمی ہوئے۔ خالد کوری نے پولیس کی جانب سے بلال کاکا پر لگائے گئے الزامات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر جرم، گرفتاری اور رہائی کے برسوں کو مائنس پلس اور ضرب کی جائے تو پتہ چلے گا کہ بلال کی عمر کتنی تھی، جرم کب اور کہاں کیے، وہ مزید لکھتے ہیں یہ افسوسناک واقعہ تھا سوگ میں کاروبار بند کرایا گیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-62041056", "summary": "زبیدہ کے دونوں حمل مردہ پیدا ہوئے تھے۔ وہ دنیا کے گرم ترین علاقوں میں سے ایک میں رہتی ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جو حاملہ خواتین طویل عرصے تک گرم علاقوں میں رہتی ہیں انھیں حمل کھونے سمیت دیگر پیچیدگیوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔", "title": "جیکب آباد میں مردہ بچوں کی پیدائش: ’اس طرح اپنے بچے کو کھونا بہت تکلیف دہ تھا‘", "firstPublished": "2022-07-12T09:12:11.000Z", "id": "ba3de6f5-f966-4137-9dec-f9e9dc425853", "article": "زبیدہ کا کہنا ہے کہ 'اس طرح اپنے بچوں کو کھونا بہت تکلیف دہ اور خوفناک تھا۔‘ تیس سالہ زبیدہ دنیا کے گرم ترین علاقوں میں سے ایک پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع جیکب آباد سے 80 کلومیٹر دور ایک دیہات میں رہتی ہیں۔ جیکب آباد کا شمار دنیا کے گرم ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں موسم گرما میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ اب وہ ڈاکٹر خورشید سے اپنا معائنہ کروا رہی ہیں تاکہ وہ ایک صحتمند بچے کو جنم دے سکیں۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ وہ ہر ہفتے کم از کم تین ایسی خواتین مریضوں کا معائنہ کرتی ہیں جن کے ہاں مردہ بچوں کی پیدائش ہوئی۔ وہ بتاتی ہیں کہ 'کچھ خواتین کا وزن کم ہوتا ہے، بہت سی خواتین میں شدید خون کی کمی اور دیگر کمزوریاں ہوتی ہیں۔بچے کی پیدائش سے قبل ماں کی صحت کے متعلق کوئی خیال نہیں کیا جاتا اور تقریباً یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس تحقیق کی مرکزی مصنفہ سارہ میک الرائے نے بی بی سی کو بتایا کہ 'ہمیں معلوم ہوا کہ ان خواتین میں جو گرم علاقوں میں رہتی ہیں انھیں حمل کے آخری ہفتوں میں مردہ بچوں کی پیدائش کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔' اس تحقیق میں یہ بھی کہا کہ خواتین جو دیہی علاقوں میں رہتی ہیں اور ان کا تعلق مالی طور پر خوشحال گھرانوں سے نہیں ہے اور وہ زیادہ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہے ان میں بچوں کی قبل از وقت پیدائش اور مردہ بچوں کی پیدائش کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان علاقوں میں جہاں دن اور رات کے درجہ حرارت میں 16 ڈگری سینٹی گریڈ سے سے کم کا فرق ہے وہاں بھی مردہ بچوں کی پیدائش کی زیادہ تعداد ہوتی ہے۔ مردہ بچوں کی پیدائش سے متعلق اقوام متحدہ کی پہلی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سنہ 2019 میں دنیا بھر میں 19 لاکھ مردہ بچے پیدا ہوئے تھے۔ یعنی پر 16 سکینڈ بعد ایک مردہ بچہ پیدا ہوتا ہے۔ زبیدہ اب اچھی خوراک اور زیادہ پھل کھا رہی ہیں اور جہاں تک ممکن ہو سکے کمرے میں رہتی ہیں۔ جبکہ ان کے شوہر عزیز کا کہنا ہے کہ 'میں امید کرتا ہوں کہ خدا اسے بچے دے گا اور وہ دوبارہ خوش ہو جائے گی۔' ڈاکٹر خورشید کو زبیدہ کے معائنے کے دوران ایسی کوئی طبی وجہ نہیں ملی جو ایک صحت مند بچے کی نشو ونما میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ 'بس وہ تھوڑی کمزور تھی میں نے کچھ دوائیں اور فوڈ سپلمنٹ تجویز کیے ہیں، میں نے اسے باقاعدگی سے معائنے کے لیے بھی آنے کو کہا ہے اور اگر خدا نے چاہا تو جلد میں اس کا حمل ٹھہر جائے گا اور وہ ماں بن جائے گی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62089026", "summary": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلغ ٹھٹہ میں کوئلے کی ایک کان میں پانی بھر جانے کے نتیجے میں 8 مزدور ہلاک ہوگئے جبکہ ایک 12 سال بچہ بھی کان میں موجود تھا جو لاپتہ ہے۔", "title": "کوئلے کی کان میں مزدوروں کی ہلاکت: ’کئی گھنٹوں بعد مشینیں منگوائی گئیں۔۔۔ نکاسی کے بعد لاشیں نکلیں‘", "firstPublished": "2022-07-08T01:02:38.000Z", "id": "15944669-bb71-4ab6-955a-75d9c937ace8", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹہ کے علاقے جھمپیر میں کوئلے کی ایک کان میں پانی بھر جانے کے نتیجے میں 8 مزدور ہلاک ہوگئے جبکہ ایک 12 سال بچہ بھی کان میں موجود تھا جو لاپتہ ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کان میں بچے کی موجودگی کے حوالے سے تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے۔ یہ واقعہ منگل کی دوپہر دو بجے کے قریب جھمپیر میں پیش آیا ہے جہاں حکومت سندھ سے لیز شدہ کمپنی پہاڑی علاقے میں کان سے کوئلہ نکالتی ہے۔ ایک کان کن فیض عالم نے بتایا کہ 'بارش جاری تھی لیکن مزدور کان کے اندر چلے گئے اس دوران بارش تیز ہو گئی اور ندی میں بھی بہاؤ آ گیا جس کی وجہ سے کان میں پانی بھر گیا اور مزدور اندر پھنس گئے۔' فیض عالم کے بقول 'جھمپیر میں کسی قسم کی سہولت موجود نہیں تھی اور کئی گھنٹوں کے بعد مشینیں منگوائی گئیں اور کان سے پانی کی نکاسی کی گئی جس کے بعد لاشیں نکالی گئیں۔' انھوں نے بتایا کہ 'ہلاک ہونے والے مزدوروں کا تعلق سوات، شانگلہ اور دیر سے تھا جن میں سے چار مزدور ایک ہی گاؤں کے ہیں۔' انھوں نے لاپتہ ہونے والے بچے کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے بتایا کہ ’12 سالہ بچہ اپنے والد کے ساتھ کام کرتا تھا اس کو ماہانہ دس، بارہ ہزار روپے ملتے تھے، وہ کان میں ہوا کے گیٹ پر مامور تھا۔‘ کوئلے کی کان میں بچے کا لاپتہ ہونے کا معاملہ جمعرات کو سندھ کابینہ میں بھی زیر بحث آیا۔ وزیراعلیٰ ہاؤس کے ترجمان کے مطابق 'وزیراعلیٰ نے تحقیقات کا حکم جاری کیا اور کہا کہ اگر بچہ کان میں کام کر رہا تھا تو یہ چائلڈ لیبر کا معاملہ ہے اس پر سخت کارروائی کی جائے گی۔' صوبائی محکمہ توانائی امتیاز شیخ نے کابینہ کو بتایا کہ 'یہ ایک نجی کان تھی جس میں پانی بھر گیا اور پھنسے ہوئے مزدوروں میں سے آٹھ کی لاشیں نکالی گئی ہیں۔' گلباز خان کے مطابق 'یہاں مزدوروں کے ساتھ بہت ظلم ہوتا ہے اور فی مزدور پندرہ سو سے دو ہزار روپے دہاڑی دی جاتی ہے اور لوگ مجبوری میں یہاں کام کرتے ہیں۔ بچے کے والد نے بھی مجبوری میں اس کو کام پر لگایا تھا۔' ڈپٹی کمشنر ٹھٹہ غضنفر قادری کا کہنا ہے کہ ’ساڑھے تین سو فٹ گہری کان میں برساتی نالے کا پانی داخل ہو گیا تھا اور پانی کی نکاسی کے لیے ہیوی مشینیں لگائی گئیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ 'محکمہ مائینز اینڈ منرل کی جانب سے کانوں کے لیے ایک ایس او پی موجود ہے جس کی روشنی میں کام کیا جاتا ہے اس ایڈوائیزری پر عمل درآمد نہ ہونے کی تحقیقات کی جائیں گی۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62072776", "summary": "جنگل میں سات قبریں کھودی گئیں، جس کے بعد باری باری سے مردہ ہرن لا کر ان میں اتارے گئے اس کے بعد ہر قبر پر سفید کپڑا ڈالا گیا اور لوگوں نے ان پر مٹی ڈالی اور آخر میں دعا مانگی گئی۔", "title": "سندھ کا گاؤں جہاں ہرنوں کی باقاعدہ تدفین ہی نہیں بلکہ دعا کے لیے تعزیتی کیمپ بھی لگا", "firstPublished": "2022-07-07T03:18:41.000Z", "id": "58d56d10-6d76-4a63-b7d7-6a852d234891", "article": "جنگل میں سات قبریں کھودی گئیں، جس کے بعد باری باری مردہ ہرن لا کر ان میں اتارے گئے، اس کے بعد ہر قبر میں سفید کپڑا ڈالا گیا اور لوگوں نے ان پر مٹی ڈالی اور آخر میں دعا مانگی گئی۔ اس کے بعد مقامی افراد نے ان کا تعاقب کیا اور تین شکاریوں کو پکڑ لیا جبکہ ان میں سے دو فرار ہو گئے۔ گاؤں لوبھار کے رہائشی سروپ سنگھ بتاتے ہیں کہ ’پیر کو رات کا کھانا کھا کر وہ سو گئے، تقریباً رات دو بجے کے قریب جنگل سے فائرنگ کی آواز سنی تو وہ اپنی گاڑی میں سوار ہو کر گاؤں رنگیلو پہنچے۔ اس دوران دوسرے گاؤں کے لوگ بھی آ گئے اور انھوں نے شکاریوں کا پیچھا کیا۔‘ 21 سالہ اتم سنگھ بھی گھر میں سو رہے تھے جب ان کے کزن سروپ سنگھ نے انھیں اٹھایا اور بتایا کہ جنگل سے فائرنگ کی آواز آئی ہے، یقیناً شکاری ہوں گے اور انھیں گاڑی لے کر رنگیلو گاؤں پہنچنے کی ہدایت کی۔ 'ہم سڑک پر جا کر رک گئے، گاؤں والوں نے تعاقب کیا تو یہ شکاری پکی سڑک پر آ گئے جہاں وہ کھڑے تھے۔ ایک گاڑی نے بریک نہیں لگائی آگے چلی گئی، میں نے دوسری گاڑی کو سامنے سے ٹکر ماری تو انھوں نے فائرنگ کی، اسی دوران دیگر لوگ بھی پہنچ گئے اور انھیں رسے سے باندھ دیا۔‘ رنگیلو، لوبھار اور دیگر گاؤں کے لوگ حراست میں لیے گئے ان تینوں شکاریوں اور شکار کیے گئے سات ہرنوں سمیت جلوس کی صورت میں تھر کے ضلعی ہیڈ کوراٹر مٹھی پہنچے جہاں انھوں نے دھرنا دیا اور مطالبہ کیا کہ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ 'جب تھر میں بارش ہوتی ہے تو یہ ہرن، مور، تیتر و دیگر چرند پرند خوش ہوتے ہیں۔ ہم کتنے بدنصیب ہیں کہ ان کو ہم دفن کر رہے ہیں یہاں ان کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جو وائلڈ لائف کا قانون ہے اس میں ترمیم کی جائے اور ان شکاریوں پر بھاری جرمانہ عائد کرکے سخت سزا دی جائے۔' خیال رہے کہ جس جنگل میں ہرنوں کا شکار کیا گیا اس کو تحفظ حاصل ہے۔ تھر پولیس نے تین ملزمان کو غیر قانونی شکار اور بغیر لائسنس بندوق رکھنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے، جن کا بدھ کو ریمانڈ لیا گیا۔ پاکستان کے جنگلات میں اس وقت کل 585 چنکارا ہرن موجود ہیں، اس کا انکشاف پاکستان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے کرائے گئے سروے میں کیا گیا تھا۔ اس سروے میں بتایا گیا تھا کہ منگلوٹ (خیبر پختونخوا)، کالاباغ، صحرائے چولستان (پنجاب) سے لے کر کھیرتھر کی پہاڑیوں (سندھ) کے علاقوں میں چنکارا ہرن دیکھے گئے ہیں۔ سروے کے مطابق سبی کے میدانی علاقوں مکران، تربت اور لسبیلہ (بلوچستان) میں بھی چنکارا ہرن پائے گئے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61961081", "summary": "خیرپور سے یو سی کی جنرل نشست پر کامیاب ہونے والی پروین شیخ نے سندھ کی حکمران جماعت کے امیدوار کو ہرا کر بھرپور توجہ حاصل کر لی ہے۔", "title": "مزدور کی بیٹی جنھوں نے سندھ کے بلدیاتی الیکشن میں حکمران جماعت کے امیدوار کو ہرا دیا", "firstPublished": "2022-06-28T03:53:42.000Z", "id": "4fca9450-fb24-4309-96cb-1ce216811218", "article": "سندھ کے ضلع خیرپور کی یونین کونسل جیلانی سے کونسلر کی جنرل نشست پر کامیاب ہونے والی آزاد امیدوار پروین شیخ نے سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کو شکست دے کر بھرپور توجہ حاصل کی ہے۔ بلدیاتی انتخاب کے اس پہلے مرحلے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ عام نشستوں پر خواتین امیدوار نہ ہونے کے برابر تھیں تاہم بعض خواتین آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑیں۔ پروین شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ غریبوں کی حالت دیکھتی تھی تو اُنھیں دکھ ہوتا تھا اور وہ سوچتی تھیں کہ ان کی کیسے مدد کریں، پھر اُنھوں نے سوچا کہ سیاست کے ذریعے ہی ان کی مدد کی جا سکتی ہے۔ پروین شیخ ضلع خیرپور کے علاقے سلیم آباد سے وارڈ کے الیکشن میں 430 ووٹ لے کر کامیاب ہوئی ہیں جبکہ ان کے مخالف امیدوار صرف 190 ووٹ لے سکے۔ خیرپور میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ فنکشنل بڑی جماعتوں کے طور پر موجود ہیں۔ سابق وزرائے اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور سید غوث علی شاہ کا تعلق بھی اسی ضلع سے ہے جبکہ جنرل پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام میں سید قائم علی شاہ کی بیٹی اور موجودہ رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ یہاں سے ضلعی ناظم رہ چکی ہیں۔ ’غلط غلط باتیں کرتے، گندی گالیاں دیتے تھے۔ رات کو ہم سوتے تھے تو دروازے پر آ کر اونچی آواز میں گالیاں دے کر جاتے تھے، اس قدر کہ لاؤڈ سپیکر پر بھی برا بھلا کہا جاتا تھا۔ میں نے ووٹوں کی اپیل کے لیے پینا فیلکس لگانے کی کوشش کی تو وہ لگانے نہیں دیتے تھے یا اتار دیتے تھے تاکہ میں اپنی مہم نہ چلا سکوں۔ مجھے کہتے تھے تم عورت ہو سیاست کر کے کیا کرو گی، گھر میں بیٹھو۔‘ پروین شیخ کے خاندان میں کبھی کسی نے سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ بقول ان کے ان کی جیت پر اُنھیں رونا آ رہا تھا اور اُنھوں نے تو کنٹرول کر لیا لیکن والد آنسو بہاتے رہے۔ سندھ کے ضلع قمبر شہداد کوٹ کے علاقے نصیر آباد سے وارڈ پر جنرل نشست پر انتخاب لڑنے والی فوزیہ نوناری ایک سال قبل اپنے لاپتہ شوہر سینگھار نوناری کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج تھیں۔ ایک سال قبل یعنی 26 جولائی کو سینگھار 36 روز کی جبری گمشدگی کے بعد رہا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے۔ ’الیکشن سے قبل ہی مشکلات کا آغاز ہوا اور پولنگ سٹیشن دور کے گاؤں میں منتقل کر دیے گئے جبکہ مخالف امیدوار کی جانب سے دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہ رکن اسمبلی جو کبھی کبھار نظر آتا وہ ذاتی طور پر چار مرتبہ مخالف امیدوار کی مہم چلانے کے لیے آیا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61729429", "summary": "دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر اپیل کے معاملے میں مدعی کے وکیل کی جانب سے درخواست کی واپسی کی استدعا پر کیس نمٹا دیا گیا ہے سپریم کورٹ کا مہدی کاظمی کو متعلقہ فورمز سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔", "title": "دعا زہرہ کے والد کی بیٹی کو شیلٹر ہوم بھجوانے کی درخواست واپس، نیا میڈیکل بورڈ بنانے کی اپیل", "firstPublished": "2022-06-08T08:09:57.000Z", "id": "813296aa-afc7-416f-a17a-f5e9679365a0", "article": "دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی نے سپریم کورٹ میں بیٹی کو شیلٹر ہوم بھجوانے کی دائر درخواست واپس لے لی ہے، جس پر عدالت نے یہ کیس نمٹا دیا ہے۔ عدالت نے دعا کے والد مہدی کاظمی کو میڈیکل بورڈ کی تشکیل کے لیے متعلقہ فورمز سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی تھی، جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی بیٹی کی عمر 14 سال ہے اور یہ کم عمری کی شادی ہے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں دائر اس درخواست میں کہا گیا تھا کہ ’سندھ ہائیکورٹ نے 8 جون 2022 کو دعا زہرہ کو اس کی مرضی سے فیصلہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ دعا زہرہ کے بیان اور میڈیکل ٹیسٹ کی بنیاد پر فیصلہ سنا دیا۔‘ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے سپریم کورٹ میں ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے جس میں فوری رلیف کے لیے استدعا کی گئی ہے۔ 'فیصلہ معطل کر کے دعا کو والدین کی تحویل میں دیا جائے یا پھر ریاست کی تحویل میں دیں۔ جب تک فیصلہ ہو، اگر میڈیکل سرٹیفیکٹ پر انحصار کرنا ہے تو میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے۔ پولیس نے چالان میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی حالانکہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں دیا۔' جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں پیش کیے گئے چالان میں کہا گیا ہے کہ میڈیکولیگل رپورٹ کے مطابق دعا زہرہ کی عمر 16 سے 17 سال کے درمیان ہے اور اُن کی شادی لاہور میں ہوئی ہے چنانچہ اُن پر سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کا اطلاق نہیں ہوتا۔ دعا کے والد مہدی کاظمی کی جانب سے ان نتائج پر تحفظات ظاہر کیے گئے ہیں اور سندھ ہائی کورٹ میں آٹھ جون کو پیشی کے دوران انھوں نے روسٹرم پر آ کر کہا تھا کہ ’میری شادی کو 16 سال ہوئے ہیں، میری بچی 17 برس کی کیسے ہو گئی۔‘ دعا زہرہ کی عمر کے تعین کے معاملے پر ان کے والدین کے اعتراضات کے بعد بی بی سی کی ترہب اصغر نے ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ طارق سے گفتگو کی۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ کسی کی عمر کا میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے تعین کرنے کے طریقہ کار میں کافی ساری چیزوں کو دیکھا جاتا ہے۔’عمر کی تشخیص کے لیے سب سے پہلے پیدائشی دستاویزات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اگر یہ تصور بھی کر لیں کہ دعا کے والدین نے ان کی عمر نادرا میں کم لکھوائی تب بھی وہ 17 سال کی کیسے ہو سکتی ہیں کیونکہ ان کے والدین کا نکاح نامہ 2005 کا ہے تو بچی اتنے سال پہلے کیسے پیدا ہوئی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61869145", "summary": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں ایک خاتون کو مردہ بچے کا سر پیٹ میں لے کر 319 کلومیٹر کا طویل سفر کرنا پڑا، اور تقریباً 18 گھنٹے کے بعد آپریشن کے ذریعے خاتون کے پیٹ سے بچے کا سر نکالا گیا۔", "title": "’پیٹ میں مردہ بچہ‘: تھر میں آپریشن کے لیے خاتون کا 319 کلو میٹر کا سفر", "firstPublished": "2022-06-21T02:34:25.000Z", "id": "3f065fef-4eca-4580-b29c-0efd8cbfa6c4", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں ایک خاتون کو مردہ بچے کا سر پیٹ میں لے کر 319 کلومیٹر کا طویل سفر کرنا پڑا، اور تقریباً 18 گھنٹے کے بعد آپریشن کے ذریعے خاتون کے پیٹ سے بچے کا سر نکالا گیا۔ ملوکاں بھیل کا تعلق تھر کے اکلیوں نامی گاؤں سے ہے، 16 جون کی شب انھیں زچگی کی تکلیف ہوئی اور اہل خانہ صبح آٹھ بجے انھیں ایک ٹیکسی میں لے کر سندھ کے شہر چھاچھرو میں ایک مشنری ہسپتال پہنچے۔ ملوکاں کے شوہر دھرموں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مشنری ہسپتال پہنچنے پر ہسپتال کا عملہ ان کی بیوی کو آپریشن تھیٹر میں لے گیا اور پھر تقریباً ایک گھنٹے کے بعد عملے کی جانب سے کہا گیا کہ بڑی ڈاکٹر نہیں موجود لہذا وہ اپنی بیوی کو مٹھی ہسپتال لے جائیں کیونکہ انھیں ایک نہیں دو بچے ہیں۔‘ ’جب نرسز مریضہ کو صاف کر رہی تھیں تو مردہ بچے کا دھڑ گردن سے الگ ہوگیا کیونکہ گردن پہلے ٹوٹ چکی تھی یہ زور لگانے یا دائی کی جانب سے کھینچنے کی وجہ سے ہوا تھا۔ جلد کی ایک چھوٹی جھلی موجود تھی جو صفائی کے دوران الگ ہو گئی اور جب ڈاکٹر پہنچی تو ان کے پیٹ میں موجود مردہ بچے کا سر الگ ہو چکا تھا۔‘ دھرموں کا کہنا ہے کہ ان کے پہلے بچے چوتھے پانچویں مہینے فوت ہو گئے تھے۔ اس بار انھوں نے چیلھار ہسپتال سے ایکسرے کرایا تھا جس پر ڈاکٹر نے انھیں بتایا تھا کہ ان کی بیوی کا آپریشن ہو گا کیونکہ ماں کے پیٹ میں بچہ الٹا ہے۔ ان کے مطابق ڈاکٹر نے ڈیلیوری کی تاریخ بھی بتائی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی ان کی اہلیہ کی طبیعت خراب ہوئی وہ اسے لے کر پہلے علاقے کی ایک دائی کے پاس لے گئے جس نے کہا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں جس کے بعد وہ اپنی بیوی کو لے کر ہسپتال آ گئے تھے۔ محکمہ صحت سندھ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر جمن کا دعویٰ ہے کہ ’مٹھی کا ضلعی ہسپتال پاکستان کے بہترین ہسپتالوں میں سے ایک ہے، اس معاملے پر انکوائری کا کہا گیا ہے اور اب یہ انکوائری میں پتا چلے گا کہ مریضہ کو حیدرآباد کیوں ریفر کیا گیا ہے۔‘ ملوکاں بھیل کا تقریباً 18 سے 20 گھنٹے کے بعد آپریشن کیا گیا، جس دوران تین ہسپتال تبدیل ہوچکے تھے اور کلینڈر میں تاریخ بھی بدل چکی تھی، ڈاکٹر سکندر راحیل کے مطابق مزید کچھ کرنے کے بجائے انھوں نے آپریشن کا فیصلہ کیا، بچہ دانی (یوٹرس) متاثرہ تھی اگر اس کو چھوڑ دیا جاتا تو زیادہ متاثر ہو سکتی تھی۔ سندھ کے صحرائی ضلعے تھر میں گذشتہ ایک دہائی سے نومولود بچوں کی ہلاکتوں، ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کی خبریں میڈیا میں زیر گردش ہیں جبکہ متعدد بار معاملہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے لے کر اسمبلی کے ایوانوں میں بھی زیر بحث آچکا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61792088", "summary": "پاکستان کے صوبہ سندھ کی کراچی یونیورسٹی کے ’جبری لاپتہ‘ ہونے والے طالب علم دودا بلوچ اور غمشاد بلوچ اپنے گھر واپس پہنچ گئے ہیں۔ ان کی واپسی کے لیے احتجاج میں موجود مظاہرین پر کراچی پولیس نے تشدد بھی کیا، جس کی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مذمت کی ہے۔", "title": "کراچی یونیورسٹی کے ’جبری لاپتہ‘ بلوچ طلبہ واپس گھر پہنچ گئے", "firstPublished": "2022-06-13T19:05:55.000Z", "id": "b57a59bc-675e-49e0-985c-8c24e5216ff4", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ کی کراچی یونیورسٹی کے مبینہ طور پر جبری لاپتہ ہونے والے طالب علم دودا بلوچ اور غمشاد بلوچ اپنے گھر واپس پہنچ گئے ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ نے تصدیق کی ہے کہ ان کے احتجاج اور گرفتاریوں کے بعد گذشتہ شب چار بجے کے قریب دونوں کو چھوڑ دیا گیا اور ان کے اہلخانہ نے رابطہ کر کے بتایا کہ وہ گھر پہنچ چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی بلوچ تنظیموں کا الزام ہے کہ اُن دونوں کو ریاستی اداروں نے تحویل میں لیا تھا جس کے خلاف اتوار کے روز سندھ اسمبلی کے باہر احتجاج کیا گیا تھا تاہم گذشتہ روز(سوموار) پولیس نے احتجاج میں شامل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر تشدد کیا اور تقریباً 28 افراد کو حراست میں بھی لیا، جنھیں اب رہا کر دیا گیا ہے۔ پیر کے روز صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پولیس نے مبینہ طور پر لاپتہ بلوچ طلبہ کی بازیابی کے لیے جاری احتجاج میں شریک افراد کو منتشر کرنے کے لیے ان پر تشدد کیا تھا۔ یہ مظاہرہ سندھ اسمبلی کے باہر کیا جا رہا تھا۔ سندھ کے صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ کچھ بلوچ مظاہرین کی جانب سے ریڈ زون میں احتجاج کیا گیا اور پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے والے چند مظاہرین کو گرفتار کیا۔ کراچی یونیورسٹی کے قریب واقع مسکن چورنگی میں سات جون کو ایک گھر پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے چھاپہ مارا تھا جس کے نتیجے میں دودا بلوچ ولد الٰہی بخش اور غمشاد بلوچ ولد غنی بلوچ کی مبینہ جبری گمشدگی کا واقعہ پیش آیا تھا۔ دودا بلوچ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں تیسرے سیمسٹر جبکہ غمشاد بلوچ پانچویں سیمسٹر کے طالب علم ہیں۔ دودا بلوچ کا تعلق تربت اور غمشاد بلوچ کا ضلع کیچ کے علاقے مند سے ہے۔ بلوچ انسانی حقوق کی تنظیموں کا الزام ہے کہ اُنھیں ریاستی اداروں نے تحویل میں لیا ہے جس کے خلاف گذشتہ روز یعنی اتوار کو بھی سندھ اسمبلی کے باہر احتجاج کیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے پولیس تشدد کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے بلوچ طلباء کو غیر قانونی اور غیر آئینی طریقے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اٹھا کر کسی مجاز عدالت میں پیش کرنے کے غائب کر دیا ہے، اور ان کی بازیابی کے لیے طلباء پرامن طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے تھے تو ان کو بغیر جواز مارا پیٹا گیا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ سات جون 2022 سے دونوں بلوچ طلبا تاحال سیکیورٹی ادارے کے پاس ہیں۔ اُنھوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ کراچی میں بلوچوں کو ماورائے قانون اٹھا رہے ہیں، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں، اور کراچی میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو نشانہ بنا رہے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61482783", "summary": "سندھ میں پانی کی قلت پر صوبے کی حکومت کے وزراء کی جانب سے پنجاب میں پانی کے غلط استعمال کے الزامات لگائے گئے ہیں اور گزشتہ دنوں اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں سندھ اور پنجاب کے نمائندوں کے درمیان پانی کے مسئلے پر کافی بحث ہوئی۔", "title": "پاکستان میں پانی کی کمی: صوبوں کو ایک دوسرے سے شکایت کیا ہے؟", "firstPublished": "2022-05-18T14:47:47.000Z", "id": "c1c357a6-a3bd-4112-af50-b8749b7513c2", "article": "سندھ میں زراعت کے شعبے میں کام کرنے والے سندھ آباد گار بورڈ کے وائس چیئرمین محمود نواز شاہ صوبے میں پانی کی قلت کی شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس مسئلے کی وجہ سے سندھ کے زرعی شعبے کو سخت نقصان کا اندیشہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پانی کی قلت کی وجہ سے اب صوبے میں پینے کے پانی کی بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ سندھ میں پانی کی قلت پر صوبے کی حکومت کے وزرا کی جانب سے پنجاب میں پانی غلط استعمال ہونے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں پانی کے شعبے کے ماہرین کے مطابق دونوں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے مسئلے پر تنازع نیا نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپریل، مئی اور جون میں یہ تنازع کھڑا ہوتا ہے کیونکہ اس وقت ڈیموں سے پانی کا اخراج کم ہوتا ہے اور جولائی میں جب مون سون کی بارشیں شروع ہوتی ہیں تو یہ تنازع ختم ہو جاتا ہے جب وافر مقدار میں پانی واٹر سسٹم میں آجاتا ہے۔ ڈیم سے پانی کا اخراج کم ہوتا ہے اور سندھ اور پنجاب کے درمیان تنازع کھڑا ہو جاتا ہے۔ جب مون سون کی بارشیں ہوتی ہیں تو سسٹم میں پانی کی وافر مقدار آجاتی ہے تو پھر یہ تنازع دم توڑ جاتا ہے۔ سابق ممبر ارسا ادریس راجپوت نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ اس وقت تربیلا ڈیم کی سرنگوں پر کام ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اخراج رکا ہوا ہے اور منگلا ڈیم میں پانی ڈیڈ لیول پر ہے، جس کی وجہ سے پانی سسٹم میں کم ہے اور سندھ کی جانب سے پنجاب میں زیادہ پانی استعمال کرنے پر اعتراض سامنے آیا ہے۔ ان کے مطابق ہر دس دن کے لیے پانی مختص کیا جاتا ہے اور 11 مئی سے 20 مئی کے دس دنوں میں سندھ کے لیے 50000 کیوسک پانی کا کوٹہ دیا گیا تھا۔ تاہم پانی کی کمی کی وجہ سے ارسا نے سندھ اور پنجاب دونوں کے پانی کے کوٹے میں 15 فیصد کمی کر دی۔ ان کے مطابق اس حساب سے سندھ کا حصہ 42500 کیوسک بنتا ہے تاہم سندھ کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق صوبے میں واقع پہلے بیراج یعنی گدو بیراج پر پانی کا بہاؤ 46000 کیوسک ہے۔ سندھ کی جانب سے پنجاب میں پانی کے غلط استعمال کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ اس بارے میں ادریس راجپوت نے کہا کہ اگر سندھ کی جانب سے یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ پنجاب میں سندھ کے حصے کا پانی استعمال ہو رہا ہے تو یہ بلاوجہ نہیں۔ سندھ کی جانب سے پنجاب میں پانی چوری کے الزامات پر بات کرتے ہوئے محمود نواز شاہ نے کہا کہ وہ چوری جیسا سخت لفظ استعمال نہیں کریں گے تاہم یہ بات صحیح ہے کہ پنجاب میں زیادہ پانی استعمال ہو رہا ہے جو وہاں زیر کاشت رقبے میں اضافے سے واضح ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61469035", "summary": "پاکستان کے شہر کراچی کے علاقے کھارادر میں سوموار کی رات ایک بم دھماکے میں ایک خاتون ہلاک جب کہ نو افراد زخمی ہوئے ہیں۔ گزشتہ چار دنوں میں کراچی میں یہ دوسرا بم دھماکہ ہے۔", "title": "کراچی: کھارادر میں بم دھماکے سے خاتون ہلاک، نو زخمی", "firstPublished": "2022-05-16T17:55:49.000Z", "id": "548d7ee3-eb59-4bef-8d9a-171363147ac3", "article": " پاکستان کے شہر کراچی کے علاقے کھارادر میں سوموار کی رات ایک بم دھماکے میں ایک خاتون ہلاک جب کہ تین پولیس اہلکاروں سمیت نو افراد زخمی ہوئے ہیں۔ گزشتہ چار دنوں میں کراچی میں یہ دوسرا بم دھماکہ ہے۔ کراچی پولیس کے مطابق یہ بم دھماکہ تھا جو کراچی کے کھارادر تھانے کی حدود میں کپڑا مارکیٹ میں ہوا۔ پولیس بیان میں کہا گیا ہے کہ اس دھماکے میں پولیس کی ایک پک اپ سمیت چند گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ بی ڈی کی رپورٹ کے مطابق ’صدر اور اس دھماکے میں مماثلت ہے، دھماکے میں بال بئیرنگ کا استعمال کیا گیا ہے۔‘ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایدھی سنٹر کے سعد ایدھی نے بتایا کہ اس بم دھماکے میں پولیس موبائل کو ٹارگٹ کیا گیا تھا جو بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ڈی آئی جی ساؤتھ شرجیل کھرل نے تصدیق کی کہ اس دھماکے میں پولیس کی موبائل کو ہی نشانہ بنایا گیا تھا جس میں تین اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تینوں زخمی اہلکاروں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کی کراچی ایم اے جناح روڈ، بولٹن مارکیٹ کے قریب دھماکے کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس سندھ سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ وزیرداخلہ نے مرنے والی خاتون کے لواحقین اور دیگر زخمی افراد سے اظہارہمدردی کیا اور کہا کہ صوبے میں امن وامان کو بہتر بنانے کے حوالے سے وفاق مکمل سپورٹ فراہم کرے گا۔ بی بی سی کو موصول ہونے والی دھماکے کے مقام کی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک بچہ ہلاک ہونے والی خاتون کو کہہ رہا ہے کہ ماں اٹھو۔ واضح رہے کہ چار دن قبل جمعرات کی رات کو تقریباً 11 بجے کراچی کے ایک مصروف علاقے، یونائیٹڈ بیکری اور مرشد بازار کے قریب، بم دھماکہ ہوا تھا جس میں ایک شخص ہلاک اور 13 زخمی ہوئے تھے۔ کراچی پولیس کے مطابق کھارادر دھماکے کی جگہ پر کرائم یونٹ نے تفتیش شروع کر دی ہے اور بم ڈسپوزل سکواڈ دھماکے کی نوعیت کے بارے میں معلومات اکھٹی کر رہا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کراچی دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے ملوث عناصر کی جلد گرفتاری کی ہدایت کی ہے اور وفاق کی جانب سے سندھ حکومت کو مکمل معاونت کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ وزیر اعظم آفس کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق انھوں نے کہا ہے کہ تمام صوبے امن وامان کی صورتحال اور عوام کے جان و مال کو یقینی بنانے کے لئے سکیورٹی انتظامات میں بہتری لائیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ امن وامان کی صورتحال میں بہتری کے لئے وفاق اور صوبوں میں اشتراک عمل موثر بنایا جائے۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کھارادر میں دھماکے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس کو فون کر کے فوری تفیصلی رپورٹ مانگ لی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61431447", "summary": "کراچی میں جمعرات کو رات 11 بجے کے قریب یونائیٹیڈ بیکری اور مرشد بازار کے قریب ہوا ہے۔ یہ ایک مصروف علاقہ ہے۔ یہاں آس پاس کھانے پینے کے ہوٹل اور ڈیری کی دکانیں ہیں جہاں شام کے وقت آ کر لوگ بیٹھتے ہیں۔", "title": "کراچی کے علاقے صدر میں دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم سندھ ریولوشنری آرمی کون ہے؟", "firstPublished": "2022-05-12T19:14:45.000Z", "id": "d1e01e6d-2deb-4961-9efa-a249f8ef51dd", "article": "پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جمعرات کی رات بم دھماکے کے ذمہ داری کالعدم سندھ ریولوشنری آرمی نامی عسکریت پسند تنظیم نے قبول کی ہے۔ اس دھماکے میں ایک شخص ہلاک اور 13 زخمی ہوئے تھے۔ یہ بم دھماکہ جمعرات کی رات کو تقریباً 11 بجے کراچی کے ایک مصروف علاقے میں یونائیٹیڈ بیکری اور مرشد بازار کے قریب ہوا۔ یہاں آس پاس کھانے پینے کے ریستوران اور دودھ دہی کی دکانیں ہیں جہاں شام کے وقت آ کر لوگ بیٹھتے ہیں۔ اسی روز شمالی سندھ کے شہر گھوٹکی میں صبح ساڑہ نو بجے کے قریب گھوٹا مارکیٹ کے علاقے میں رینجرز کی ایک گاڑی کے نزدیک دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے میں ایک راہ گیر مصطفی سمیت رینجرز کے دو اہلکار ظہور احمد اور فیاض شاہ ہلاک ہو گئے جبکہ سپاہی امتیاز حسین سمیت دو افراد زخمی ہوئے تھے۔ کالعدم تنظیم سندھو دیش ریولیشنری آرمی نے کراچی اور گھوٹکی میں رینجرز پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ یہ حملے نیاز لاشاری کو قومی سلام پیش کرتے ہوئے کیے گئے ہیں۔ کراچی میں رینجرز کی گاڑی کے قریب دھماکے کے بعد سی ٹی ڈی کے مطابق، رینجرز اور محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں کی ایک ٹیم نے گلستان جوہر میں رابعہ سٹی کے قریب پہلوان گوٹھ کے علاقے میں کارروائی کی اور چار مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔ سندھو دیش ریولوشنری آرمی گلشن حدید میں چینی انجنیئروں کی گاڑی، سکھر میں سی پیک اہلکاروں سمیت کراچی میں ایک ایچ او اور رینجرز پر حملے کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے، یہ عسکریت پسند گروپ چین پاکستان اقتصادی راہدری کا مخالف ہے اور سندھ کے معدنی وسائل پر مقامی حقوق کا حامی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس سے قبل سندھ کے سابق ایڈشنل آئی جی محکمہ انسداد دہشت گردی ڈاکٹر جمیل احمد نے دعویٰ کیا کہ کراچی اور گھوٹکی حملوں میں مقامی گروپ ملوث ہے، جس کو بلوچستان کے عسکریت پسندوں، پڑوسی ملک اور لندن گروپ کی حمایت حاصل ہے۔ یاد رہے کہ سنہ 2013 میں کراچی میں چین کے سفارتخانے کے باہر ایک ہلکی نوعیت کے دھماکے، 2016 میں کراچی کے علاقے گلشن حدید میں چینی انجینیئر کی گاڑی کو نشانہ بنانے کے علاوہ سکھر کے قریب سی پیک منصوبے کے اہلکاروں پر حملے کی بھی ذمہ داری یہ گروپ قبول کرتے رہے ہیں۔ بعد میں عدالت نے قادر مگسی کو بری کر دیا اور شفیع بُرفت مفرور رہے۔ قادر مگسی اِس وقت سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ہیں اور شفیع برفت کالعدم جیے سندھ متحدہ محاذ کی سربراہی کر رہے ہیں اور اس وقت جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کر رکھی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61416677", "summary": "تمام لوگ عید الفطر کی تعطیلات پر اپنے اپنے گاﺅں عید منانے آئے تھے اور اب مزدوری کے لیے واپس کراچی جا رہے تھے۔", "title": "انڈس ہائی وے: ٹریفک حادثے میں کراچی جا رہے 17 محنت کش ہلاک", "firstPublished": "2022-05-11T21:24:33.000Z", "id": "bc2f6374-6c0f-4f6d-a2b3-e3db9e5d2922", "article": "​صوبہ سندھ کے انڈس ہائی وے پر بدھ کی دوپہر ٹریفک کے ایک حادثہ میں 17 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے۔ حکام کی جانب سے ابتدائی طور پر 15 افراد کی ہلاکت کا بتایا گیا تھا تاہم حیدرآباد کے ایک سرکاری ہسپتال میں داخل سات زخمیوں میں سے دو زخمی بھی بعد میں ہلاک ہو گئے۔ براہ راست تصادم میں گاڑی میں سوار ایک خاتون سمیت 15 مسافر ہلاک اور سات مسافر شدید زخمی ہوئے۔ زخمیوں کو حیدرآباد کے لیاقت میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال میں علاج کے لیے داخل کر دیا گیا ہے جبکہ ہلاک ہونے والے افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے تھے۔ ضلع جامشورو کے علاقے خانوٹ میں واقع کوئلے کی کانوں سے کوئلہ بھر کر 10 وہیل ٹرک پنجاب کی طرف جا رہا تھا۔ اس ٹرک سے موٹر وے پولس کو جو ڈرائیونگ لائسنس اور قومی شناختی کارڈ ملا ہے اس کے مطابق ڈرائیور وحید احمد خان تھا جو حادثے کے فوری بعد ٹرک چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ مسافروں سے بھری ہوئی گاڑی ضلع نوشہرو فیروز کے علاقے کنڈیارو سے کراچی جانے کے لیے نکلی تھی۔ گاڑی میں سوار تمام افراد محنت کش تھے جو کراچی میں کورنگی کے علاقے میں بلال کالونی میں نمک کی پیکنگ کرنے والے کارخانوں میں مزدوری کرتے تھے۔ یہ تمام لوگ عید الفطر کی تعطیلات پر اپنے اپنے گاﺅں عید منانے آئے تھے اور اب واپس جا رہے تھے۔ علاقے میں رہائش رکھنے والے مظفر عباسی کہتے ہیں کہ محنت کشوں کو بہتر معاوضہ ملتا تھا اسی لیے ان کے گاﺅں کے لوگ نمک کے کارخانوں میں کام کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے چچا زاد بھائی آصف اور معشوق بھی آپس میں چچا زاد بھائی تھے۔ ان میں سے آصف کی شادی ہونے والی تھی جبکہ معشوق کی دو سال کی بیٹی ہے۔ حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں اکثر افراد آپس میں قریبی یا دور کے رشتے دار تھے۔ ہلاک شدگان سعید اور الطاف سگے بھائی تھے اور دونوں ہی اپنے گھر کے کفیل تھے۔ ان کے والد فالج زدہ ہونے کی وجہ سے جسمانی طور پر معذور ہیں۔ ​انڈس ہائی وے پر جس مقام پر حادثہ ہوا ہے وہ گذشتہ چار سال سے زیر تعمیر ہے۔ اس مقام پر سڑک میں کئی موڑ آتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں حادثات عام ہیں۔ موٹر وے پولس کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے تعمیراتی کام معطل ہو گیا تھا۔ موٹر وے پولس کے ڈی ایس پی صدر الدین کا کہنا ہے کہ یہ سنگل روڈ ہے اور زیر تعمیر ہے۔ ان کے مطابق اُن کے لیے حیران کن امر یہ ہے کہ وین کے ڈرائیور بشیر سولنگی نے نامعلوم وجوہات کی بناء پر بریک ہی نہیں لگایا تھا اور سڑک پر اس گاڑی کے بریک لگانے کا کوئی نشان موجود نہیں ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61157091", "summary": "اس منصوبے کا ایک بڑا حصہ ’کراچی کا آکسیجن حب‘ کہلائے جانے والے ملیر کے علاقے سے گزرے گا۔ بعض حلقوں کا الزام ہے کہ اس کا مقصد عام لوگوں کی فلاح نہیں بلکہ ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن جیسے پوش علاقوں کو سہولت فراہم کرنا ہے۔", "title": "کراچی: ’ہمارے گھروں پر لگے سُرخ نشان ہمارے لیے موت کا پیغام ہیں‘", "firstPublished": "2022-04-21T06:18:34.000Z", "id": "217ef752-9cc8-40b6-96b7-981c5db8500c", "article": "ہمارے اردگرد مقامی لوگوں کا ہجوم تھا جو اپنے گھر کی دیواروں پر لگائے گئے سُرخ نشانات دکھا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سڑک نہیں بلکہ ایک طوفان ہے جو ان کے گھروں کو ڈھاتا ہوا گزرے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سڑک کراچی کے پوش علاقوں یعنی ڈیفنس ہاﺅسنگ سوسائٹی (ڈی ایچ اے)، ڈیفنس ہاﺅسنگ سٹی اور بحریہ ٹاﺅن کو آپس میں جوڑے گی۔ اس منصوبے پر پہلا الزام بھی یہی ہے کہ اس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ یہ اشرافیہ کی آبادیوں کو آپس میں ملانے کے لیے تعمیر کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں بلوچ کلچر کے حوالے سے جو بھی لٹریچر پایا جاتا ہے اسے یہاں جمع کر دیا گیا ہے۔ ہزاروں طالبعلم اور محقق اپنے کام کے لیے اس لائبریری کو بطور ریفرنس استعمال کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک درجن سے زیادہ لوگ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔ اس منصوبے کا ایک بڑا حصہ ملیر ضلع سے گزرے گا اور شہریوں کے ساتھ ساتھ ماہرین کے احتجاج کی بھی یہی بڑی وجہ ہے۔ کراچی کے ملیر ضلع کو ’کراچی کا آکسیجن حب‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سرسبز ضلع میں کراچی کے قدیم ترین سندھی اور بلوچ باشندے آباد ہیں اور ان کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے کوئی تفصیل نہیں دی گئی کہ گھر اور زمینوں کے عوض کیا معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ اسلم صاحب کا کہنا تھا کہ ایک ایکڑ زمین کی قیمت کروڑوں میں ہے جبکہ 122 گز کا رہائشی پلاٹ 60 سے70 لاکھ کا ہے۔ بہت سے ماہرین نے اس منصوبے پر تبصرے سے گریز کیا جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ سڑک پوش علاقوں یعنی ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاﺅن اور ڈی ایچ اے سٹی کو ملائے گی۔ ماحولیاتی ماہرین سوال کرتے ہیں کہ اس سڑک سے عوام کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس پر پبلک ٹرانسپورٹ تو چلے گی نہیں اور جو اس سڑک پر سفر کریں گے وہ گاڑیوں میں سفر کریں گے۔ شہر کے وہ علاقے جہاں ٹریفک گنجان ہوتی ہے ان کا اس سڑک سے کوئی تعلق نہیں۔ ای ایم سی کے سیّد عمر عارف، جن کی کمپنی نے ملیر ایکسپریس وے کا ای آئی اے (ماحولیاتی جائزہ) انجام دیا، کا کہنا ہے کہ گھروں پر جو نشانات لگائے گئے ہیں وہ سروے کی ایک تکنیک ہے اور اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ گھر گرائے جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اب ہم نے منصوبے کو بہتر کیا اور اب سڑک کے راستے میں صرف آٹھ سے 10 گھر آ رہے ہیں۔ ای آئی اے چونکہ ابھی تک منظور نہیں ہوائ اس لیے ہم نے ابھی سائٹ پر کوئی کام شروع نہیں کیا بلکہ صرف کچرا اٹھایا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61108694", "summary": "سوشل میڈیا میں دو نایاب ہرنوں کے شکار کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پاکستان کے صوبہ سندھ کے محکمہ جنگلی حیات نے نایاب ہرنوں کا غیر قانونی شکار کرنے کی تحقیقات کا حکم جاری کر دیا ہے۔", "title": "نایاب چنکارا ہرنوں کے شکار کی ویڈیو وائرل، لوگوں کے غم و غصے کے بعد تحقیقات کا حکم", "firstPublished": "2022-04-14T12:05:32.000Z", "id": "d8e095f2-fc46-4b15-9376-b3bb2a2f5da8", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے محکمہ جنگلی حیات نے دو نایاب چنکارا ہرنوں کا غیر قانونی شکار کرنے کی تحقیقات کا حکم جاری کر دیا ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی اس بات کا بھی تعین کرے گی کہ یہ واقعہ صوبہ سندھ میں پیش آیا بھی ہے یا نہیں۔ سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایسی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن میں بعض افراد ان ہرنوں کا شکار کر رہے ہیں۔ ٹوئٹر پر شیئر ہونے والی ویڈیو میں نظر آتا ہے کہ ایک لانگ رینج رائفل سے ایک شخص گاڑی میں بیٹھ کر ویرانے میں موجود ایک ہرن کا نشانہ لگاتا ہے اور فائر ہوتے ہی ہرن زخمی ہو کر زمین پر گر پڑتا ہے، اس کے بعد ایک دوسرے ہرن کا نشانہ لیا جاتا ہے اور وہ بھی گولی لگنے کے فوراً بعد گر کر کراہنے لگتا ہے۔ سوشل میڈیا پر صارفین نے اس ویڈیو پر شدید ناراضی کا اظہار کیا اور بعض نے ناظم جوکھیو کے قتل کا بھی حوالہ دیا جنھوں نے عرب شکاریوں کو شکار سے روکا تھا اور بعد میں اس کی تشدد کے باعث موت واقع ہوگئی تھی۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے اور عوامی دباؤ کے بعد سندھ کے محکمہ جنگلی حیات نے تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر آنے والی ویڈیو میں کراچی کے رہائشی نے دو ہرنوں کا شکار کیا ہے۔ سندھ میں جنگلی حیات کے قانون کے تحت جنگلی جانوروں اور پرندوں کو تحفظ حاصل ہے، ان میں سے بعض کے شکار کے اجازت نامے جاری کیے جاتے ہیں، جبکہ چنکارا ہرن ان جنگلی حیات میں شامل ہے جن کی نسل خطرے سے دوچار ہے اور اس کے شکار پر مکمل پابندی ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی کے ٹرمز آف ریفرنسز کے مطابق ویڈیو کا فورنزک تجزیہ کرایا جائے گا، ویڈیو میں نظر آنے والے شخص کی مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی اور ان کا بیان ریکارڈ ہو گا، اس بات کا تعین کیا جائے گا اور شواہد اکٹھا کیے جائیں گے کہ کیا یہ شکار سندھ کی حدود میں کیا گیا ہے۔ تحقیقاتی حکم نامے کے مطابق اگر شکاری پر الزام ثابت ہوتا ہے تو سندھ میں جنگلی حیات کے تحفظ کے قانون کے مطابق کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔ پاکستان کے جنگلات میں اس وقت کل 585 چنکارا ہرن موجود ہیں، اس کا انکشاف پاکستان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے کرائے گئے سروے میں کیا گیا تھا۔ ماحول کے بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے معاون محمد معظم خان کے مطابق چنکارا ہرن ریتیلے اور پہاڑی و میدانی علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کی تعداد میں واضح کمی ہو رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61095341", "summary": "سندھ پولیس نے کراچی میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت کو بتایا ہے کہ ناظم جوکھیو کے قتل کیس میں رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم، رکن صوبائی اسمبلی جام اویس گہرام سمیت 13 ملزمان کے نام شہادت کی عدم دستیابی کی بنیاد پر خارج کر دیے جائیں۔", "title": "ناظم جوکھیو قتل کیس: پولیس کی جانب سے رکن قومی اور صوبائی اسمبلی کے نام خارج کرنے کی سفارش", "firstPublished": "2022-04-13T12:03:51.000Z", "id": "155d5c01-85d1-45be-9816-9f6a4c92935c", "article": "سندھ پولیس نے کراچی میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت کو بتایا ہے کہ ناظم جوکھیو کے قتل کیس میں رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم، رکن صوبائی اسمبلی جام اویس گہرام سمیت 13 ملزمان کے نام شہادت کی عدم دستیابی کی بنیاد پر خارج کر دیے جائیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تفتیشی افسر سراج لاشاری نے کہا کہ شہادت کی عدم دستیابی پر کالم ٹو میں یہ نام شامل کیے گئے ہیں اور اب یہ عدالت کی صوابدید پر ہے کہ انھیں شامل رکھتی ہے یا خارج کردیتی ہے۔ پولیس کے حتمی چالان میں عدالت کو بتایا گیا ہے کہ مقدمے میں ایک ملزم نیاز سالار کو مفرور قرار دیا گیا ہے جبکہ دو ملزمان حیدر علی اور میر علی پولیس کی حراست میں ہیں۔ رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم، رکن صوبائی اسمبلی جام اویس گہرام سمیت جن 13 ملزمان کے نام خارج کیے گئے ہیں ان میں محمد سلیم، محمد دودا خان، محمد سومار، عبد الرزاق، جمال ، محمد معراج ، محمد خان، محمد اسحاق، احمد خان، عطا محمد اور محمد زاہد شامل ہیں۔ نوجوان ناظم جوکھیو کے لواحقین نے الزام عائد کیا تھا کہ ناظم نے چند غیر ملکی شکاریوں کو اپنے علاقے میں تلور کے شکار سے روکا تھا اور ان کی ویڈیو بنائی تھی جس کے بعد انھیں مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والے نوجوان ناظم الدین کے بھائی افضل احمد جوکھیو نے گذشتہ برس ایف آئی آر میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ سالار گوٹھ ضلع ملیر کے رہائشی ہیں اور کچھ غیر ملکی شہری تلور کے شکار کے سلسلے میں ان کے گاؤں آئے تھے جس پر انھوں نے اور ان کے بھائی ناظم نے ان غیر ملکی شہریوں کو گاؤں میں شکار کرنے سے روکا اور ان کی ویڈیو بنائی جس کے بعد وہ غیر ملکی وہاں سے چلے گئے۔ درخواست گزار نے پولیس ایف آئی آر میں الزام عائد کیا تھا کہ رات کو گیارہ بجے انھیں اور ان کے بھائی ناظم کو پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی جام اویس عرف گہرام نے طلب کیا اور جب وہ وہاں پہنچے تو جام اویس نے اپنے لوگوں کے ساتھ مل کر ان کے بھائی پر ڈنڈوں سے تشدد کر کے اسے ہلاک کر دیا۔ ایف آئی آر میں ڈیوٹی پر موجود پولیس افسر یونس بٹ نے کہا تھا کہ انھیں معراج نامی شخص نے ٹیلیفون پر اطلاع دی تھی کہ جام گوٹھ میں جام ہاؤس کے باہر ایک تشدد زدہ لاش موجود ہے جسے چھیپا ایمبولینس کے ذریعے جناح ہسپتال منتقل کیا گیا۔ ناظم جوکھیو قتل کیس کے تفتیشی افسر نے چالان میں بتایا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد ہر سال اپنے ساتھیوں کے ساتھ سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں شکار کے لیے آتے ہیں۔ انھیں حکومت پاکستان کی اجازت حاصل ہوتی ہے اور وہ سالانہ فیس بھی ادا کرتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60992404", "summary": "آئینی و قانونی ماہرین کے مطابق اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی اسمبلی تحلیل کرنا وزیر اعلیٰ کا اختیار ہے اور جو صوبوں اپنی اسمبلیوں کی آئینی مدت مکمل کرنا چاہیں تو انھیں کوئی نہیں روک سکتا۔", "title": "قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد صوبائی اسمبلیوں کا مستقبل کیا ہو گا؟", "firstPublished": "2022-04-05T09:47:40.000Z", "id": "3a970cfb-fa4d-4ef9-af36-86d9c514a89b", "article": "واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم عمران خان کے تحریک عدم اعتماد جمع کروا رکھی تھی اور آئینی ماہرین کے مطابق جب کسی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آ جائے تو وہ اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار کھو دیتا ہے۔ وفاق میں ہونے والی سیاسی ہلچل کے اثرات ملک بھر دیکھے جا سکتے ہیں۔ قومی اسمبلی تحلیل ہونے اور اگلے نوے روز میں انتخابات ہونے کے اعلان کے بعد ایک اہم سوال سامنے آیا ہے کہ اس صورتحال میں ملک کی صوبائی اسمبلیوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل کر کے وہاں نئے انتخابات ہوں گے یا کوئی بھی صوبہ اپنے طور اپنی اسمبلی کی آئینی مدت پوری کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے؟ ایسے میں کیا تحریک انصاف کی حکومت چھ اپریل کو ہونے والی ووٹنگ سے قبل صوبائی اسمبلی کو تحلیل کر سکتی ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہو گا یا کیا حزب اختلاف کے امیدوار حمزہ شہباز ووٹنگ میں منتخب ہو جانے کے بعد صوبائی اسمبلی کی آئینی مدت پوری کر سکتے ہیں؟ عام حالات میں کسی بھی صوبے کا وزیر اعلیٰ صوبائی گورنر کو یہ سفارش بھیج سکتا ہیں کہ اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں۔ لیکن کیونکہ عثمان بزدار کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کروائی جا چکی ہے لہذا آئین انھیں یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دے سکیں۔ اس سوال کے جواب احمد بلال کا کہنا تھا کہ آئینی طور ابھی تک تمام صوبوں کے پاس ڈیڑھ سال کی مدت باقی ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اور وہاں صوبائی وزیر اعلیٰ اراکین اسمبلی سے مشاورت کے بعد اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز گورنر کو دے سکتے ہیں۔ ان کے مطابق ’لیکن دیگر صوبے جیسا کہ سندھ اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی حکومت نہیں ہے۔ اس لیے اگر یہ صوبے فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے اور اپنی آئینی مدت پوری کریں گے تو آئین میں کوئی ایسا طریقہ موجود نہیں کہ انھیں اس عمل روکا جا سکے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر حکومت گورنر کے ذریعے کچھ کرنے کا سوچے گی تو یہ بات یاد رکھنی بھی ضروری ہے کہ گورنر بھی یہ عمل اپنے طور پر نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لیے وزیر اعلیٰ کا اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دینا لازمی ہے۔‘ بلوچستان کی مخلوط حکومت میں سب سے بڑی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان اور وزیر برائے مواصلات و تعمیرات سردار عبدالرحمان کھیتران سے جب یہ سوال پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے کے اختیارات صرف اور صرف وزیر اعلیٰ کے پاس ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت قومی اسمبلی کو صدر وزیر اعظم کی تجویز پر توڑ سکتا ہے لیکن اس کا اثر کسی صوبے پر نہیں پڑتا ہے بلکہ صوبائی اسمبلیوں کو وزرائے اعلیٰ کی تجاویز پر گورنر ہی تحلیل کر سکتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60929197", "summary": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے ملیر میمن گوٹھ میں مبینہ طور پر اراکین اسمبلی کے ہاتھوں تشدد کی وجہ سے ہلاک ہونے والے ناظم جوکھیو کی بیوہ نے ملزمان کو معاف کر دیا ہے۔", "title": "ناظم جوکھیو قتل کیس میں معافی نامہ: ’مقدمہ لڑنا چاہتی تھی لیکن اپنوں نے ہی ساتھ چھوڑ دیا‘", "firstPublished": "2022-03-30T14:31:52.000Z", "id": "9222ff3c-7995-44b8-9a75-4551ec181bf4", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے ایک علاقے میں تشدد کی وجہ سے ہلاک ہونے والے ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیو نے کہا ہے کہ انھوں نے ملزمان کو معاف کر دیا ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں سندھ کے رہائشی ناظم جوکھیو نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں وہ ملیر میمن گوٹھ میں کچھ غیر ملکیوں کو شکار کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد ناظم جوکھیو کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی تھی۔ ناظم جوکھیو کے لواحقین نے اس مبینہ قتل کے الزام میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی جام اویس گہرام اور رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم سمیت 22 ملزمان کو نامزد کیا تھا، جن میں سے بیشتر افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ کچھ ملزمان اب ضمانت پر ہیں۔ نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیمیں ناظم جوکھیو کیس کی پیروی کر رہی ہیں، جن میں شیریں کوکھر بھی شامل ہیں۔ انھوں نے تصدیق کی ہے کہ شیریں جوکھیو نے ملزمان کو معاف کر دیا ہے۔ شیریں جوکھیو نے دعویٰ کیا ہے کہ ’شیریں پر دباؤ تھا، سسرال والے اسے پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ ناظم نے اپنی پسند سے خاندان سے باہر شادی کی تھی۔ افضل نے جب ملزمان سے ڈیل کی تو وہ ڈر گئی تھیں۔ ناظم کا خاندان ان سے الگ ہو گیا تھا اور وہ اپنے کمرے تک محدود رہ گئی تھیں۔ پھر چندہ کر کے گھر میں دیوار تعمیر کی گئی اور دو پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تاکہ ان کو تحفظ ملے۔‘ چالان میں بتایا گیا ہے کہ اس واقعے کی اطلاع جب ملزم جام عبدالکریم اور ان کے بھائی جام اویس عرف گہرام کو ہوئی تو انھوں نے مقتول ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو سے احمد جمال نامی شخص کے موبائل نمبر سے رابطہ کیا اور مذکورہ ویڈیو ڈیلیٹ کرنے، شیخ سے معافی مانگنے کے لیے دباؤ ڈالا اور مبینہ طور پر جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔ پولیس چالان کے مطابق جام ہاؤس پہنچنے پر جام عبدالکریم نے متوفی ناظم جوکھیو کو تھپڑ مارے اور موبائل فون سے واقعے کی ویڈیوز ڈیلیٹ کر دیں۔ اس کے بعد ناظم جوکھیو کو میر علی اور حیدر علی کے حوالے کر دیا گیا جنھوں نے مبینہ طور پر ناظم جوکھیو کو گارڈ روم میں قید کر دیا اور ناظم کے بڑے بھائی افضل جوکھیو کو ان کے گھر واپس بھیج دیا۔ پولیس کے مطابق جام عبدالکریم بھی جام ہاؤس سے روانہ ہوئے تو ان کے چھوٹے بھائی اور رکن صوبائی اسمبلی سندھ ملزم جام اویس عرف گہرام مبینہ طور پر گارڈ روم میں گھسے جہاں انھوں نے ناظم جوکھیو پر خود اور گارڈز کے ذریعے ڈنڈوں، لاتوں اور مکوں سے تشدد کیا اور پھر انھیں زخمی حالت میں وہیں چھوڑ دیا گیا۔ پولیس کے مطابق اس تشدد کی نتیجے میں ناظم جوکھیو کی موت واقع ہوئی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60927855", "summary": "متحدہ قومی موومنٹ گذشتہ 34 سالوں میں تقریباً ہر بار وفاقی حکومت کا حصہ رہی ہے اور آئندہ حکومت کا بھی حصہ بننے کا ارادہ رکھتی ہے اس جماعت کی ماضی کی حکومتوں سے کیا ڈیلز ہوئیں اور اب کی بار کیا طے پا رہا ہے؟", "title": "ایم کیو ایم نے کب کب اور کس سے ڈیل کی؟", "firstPublished": "2022-03-30T10:41:04.000Z", "id": "3c87f98d-3215-4e2a-b67e-62a908288372", "article": "متحدہ قومی موومنٹ گذشتہ 34 سالوں میں تقریباً ہر بار وفاقی حکومت کا حصہ رہی ہے اور آئندہ حکومت کا بھی حصہ بننے کا ارادہ رکھتی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزرا فروغ نسیم اور امین الحق نے تصدیق کی ہے کہ انھوں نے وفاقی کابیہ میں اپنے عہدوں سے استعفی دے دیا ہے ایم کیو ایم 1987 کے بلدیاتی انتخابات سے لے کر 2015 کے انتخابات تک کراچی میں خاص طور پر مستفید ہوتی رہی ہے جس سے اس کا سیاسی اور انتظامی گرفت مضبوط ہوئی اور جنرل پرویز مشرف نے جب اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کی تو 2002 کے الیکشن کا ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا اور اس کے بعد اس کے دور میئر کامیاب ہوئے، موجودہ صورتحال میں عام انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات مجوزہ ہیں۔ ’اس وقت تحریک انصاف کی کراچی میں کافی صورتحال خراب ہے اس کے باوجود ان کے سامنے تحریک انصاف، تحریک لبیک، جماعت اسلامی ہوگی لہٰذا ایم کیو ایم نے سندھ کی شہری سیاست کو سامنے رکھتے ہوئے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے ساتھ میں وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ وسیع تر سیاسی اتحاد بنا رہے ہیں جو آگے انتخابات کے حوالے سے تشکیل پا رہا ہے۔‘ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت میں پچھلے دنوں کافی کشیدگی رہی جس کے بعد دوبارہ علیحدہ صوبے کے مطالبات اور مہاجر سیاست بحال ہوئی اس صورتحال میں ایم کیو ایم نے اپنے ووٹ اور سپورٹ بینک کو متحدہ اور منظم کرنے کی کوشش کی پیپلز پارٹی سے اتحاد سے کیا ان کے ووٹر پر اعتماد بحال ہوگا؟ ایم کیو ایم ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے تحریری معاہدے کرچکی ہی حکومت سے علیحدگی کے وقت ہر بار وعدے شکنی کے شکوے کیے گئے ہیں اس بار بھی اس معاہدے کی شکل تحریری ہے۔ کراچی میں تقریباً 30 سالوں کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کا ایڈمنسٹریٹر آیا، شہری اداروں میں اس کا اثرو رسوخ بڑھا اور بلدیاتی انتخابات کے لیے صف بندیوں کے علاوہ مزید اضلاع بنا کر نئی حلقہ بندیاں بھی کیں تو کیا وہ کراچی سے اپنی گرفت ڈھیلی کر لے گی؟ ’مسلم لیگ ن کے جو دونوں آپریشن ہیں اس میں صنعت کاروں، تاجروں اور عام شہریوں کی شکایت تھی کہ شہر میں اب حکمرانی نام کے چیز نہیں رہی یہ رہنے کے قابل نہیں رہا پھر ریاست نے اس کا اسی طرح جواب دیا تھا کراچی کو ایم کیو ایم کی نگاہ سے ہٹ کر بھی دیکھنا پڑے گا، وہاں جو کاروبار کرتے ہیں اور رہتے ہیں ان کے لیے زندگی عذاب بن گئی تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60864153", "summary": "کھیرتھر کو سنہ 1974 میں سندھ محکمہ جنگلی حیات سندھ نے قومی پارک کا درجہ دیا تھا، جو پاکستان کے پہلے پارکوں میں سے ہے۔ سنہ 1975 میں اس کو اقوام متحدہ کی نیشنل پارکس کی فہرست میں شامل کیا گیا اور سنہ 1997 میں اقوام متحدہ کی چرند پرند کے محفوظ علاقوں کی فہرست میں بطور قومی پارک اس کی حیثیت کی توثیق کی گئی۔", "title": "کھیرتھر نیشنل پارک میں تیل و گیس کی تلاش کی اجازت، نایاب جانوروں کی بقا خطرے میں", "firstPublished": "2022-03-25T04:28:32.000Z", "id": "b362f24f-4fd2-4176-8b82-04fbb644f5be", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکومت نے جنگلی حیات کے لیے محفوظ پناہ گاہ قرار دیے گئے کھیرتھر نیشنل پارک میں تیل کی تلاش اور ڈرلنگ کی اجازت دے دی ہے۔ محکمہ جنگلی حیات کے خط کے مطابق مجاز اتھارٹی وزیرِ اعلیٰ سندھ کی اجازت سے پاکستان آئل فیلڈ لمیٹڈ کو ڈرلنگ اور تحقیقی سرگرمیوں کی اجازت دی گئی ہے۔ اس خط میں سندھ وائلڈ لائف پریزرویشن اور مینجمنٹ ایکٹ کی دفعہ 9 (3) کا حوالہ دیا گیا ہے۔ محکمہ جنگلی حیات کے ایک سینیئر افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ اس اجازت نامے میں وائلڈ لائف ایکٹ کی دفعہ 86 کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ ایکٹ کے مطابق ایسے کسی بھی اقدام کی اجازت سے قبل ماہرین کی ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو جنگلی حیات کے تحفظ اور پناہ گاہوں میں سرگرمی سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لے گی اور اپنی سفارشات پیش کرے گی جس کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا، لیکن یہ معاملہ کمیٹی کے روبرو لایا ہی نہیں گیا۔ تاہم ایک اہلکار نے بتایا کہ ’کام چل رہا ہے اور اس کو میچور ہونے میں پانچ سے سات ماہ لگ سکتے ہیں۔‘ جب ان سے کہا گیا کہ یہ تو محفوظ قرار دیا گیا پارک ہے تو اُنھوں نے مشورہ دیا کہ وزارت پیٹرولیم سے رابطہ کیا جائے۔ فطرت کے تحفظ کی عالمی تنظیم (آئی یو سی این) کے نوید سومرو کہتے ہیں نیشنل پارک کی ماحولیاتی اہمیت ہوتی ہے اسی لیے ہی اس کو قومی پارک اور تحفظ دیا جاتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ کھیرتھر میں کئی نایاب چرند و پرند ہیں جن میں سے بعض ایسی اقسام بھی ہیں جو معدومیت کے خطرے کی شکار ہیں۔‘ کھیرتھر نیشنل پارک تین لاکھ آٹھ ہزار 733 ہیکٹرز پر مشتمل پاکستان کا دوسرا بڑا قومی پارک ہے جہاں چرند اور پرند کو تحفظ حاصل ہے۔ یہ پارک کراچی سے 80 میل شمال میں کراچی اور جامشورو اضلاع کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔ کھیرتھر کو سنہ 1974 میں سندھ محکمہ جنگلی حیات سندھ نے قومی پارک کا درجہ دیا تھا، جو پاکستان کے پہلے پارکوں میں سے ہے۔ سنہ 1975 میں اس کو اقوام متحدہ کی نیشنل پارکس کی فہرست میں شامل کیا گیا اور سنہ 1997 میں اقوام متحدہ کی چرند پرند کے محفوظ علاقوں کی فہرست میں بطور قومی پارک اس کی حیثیت کی توثیق کی گئی۔ کھیرتھر نیشنل پارک سنہ 1991 میں ایک مجوزہ شاہراہ کی تعمیر کی وجہ سے زیر بحث آیا تھا۔ جس پر ’شہری‘ نامی شہری حقوق کی تنظیم سمیت دیگر تنظیموں نے آواز بلند کی جس کے بعد اس سڑک کا رخ تبدیل کیا گیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60830312", "summary": "صوبہ سندھ کے ضلع سکھر کے نواحی علاقے میں ایک 18 سالہ ہندو لڑکی پوجا کے قتل کے بعد سکھر میں احتجاجی مظاہرے کیے تاہم پولیس کی جانب سے ایک ملزم کی گرفتاری کے بعد ان مظاہروں کو ختم کر دیا گیا۔", "title": "’پوجا کی محنت نے مجھے جوان کردیا تھا، لیکن اب لگتا ہے کہ دوبارہ بوڑھا ہو گیا ہوں‘", "firstPublished": "2022-03-22T01:34:08.000Z", "id": "5a6c8b20-bdd2-43d8-81c7-e945dc52679c", "article": "صوبہ سندھ کے ضلع سکھر کے نواحی علاقے میں ایک 18 سالہ ہندو لڑکی پوجا کے قتل کے بعد سکھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے تاہم پولیس کی جانب سے ایک ملزم کی گرفتاری کے بعد ان مظاہروں کو ختم کر دیا گیا۔ پوجا کماری کے قریبی عزیز اجے کمار نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس واقعے کے بعد 'پوجا اب مزاحمت کی علامت بن چکی ہے اور اب اس کی عزت ہمارے دلوں میں بہت بڑھ گئی ہے۔' سکھر پولیس کی جانب سے درج مقدمہ میں مدعی مقدمہ مقتولہ پوجا کماری کے والد صاحب ادی کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ تین ملزمان ان کی بیٹی پوجا کماری کو اغوا کرنے کے لیے ان کے گھر میں داخل ہوئے تاہم مزاحمت کا سامنا کرنے پر انھوں نے پوجا کو قتل کردیا۔ اجے کمار کہتے ہیں کہ قاتلوں نے 'ایک ہیرا قتل کیا ہے۔' ان کا کہنا ہے کہ پوجا ایک ایسی لڑکی تھی جس کی سارے علاقے اور برادری میں مثالیں دی جاتی تھیں۔ اجے کمار کا کہنا تھا کہ نامزد ملزم کافی عرصے سے پوجا کماری کے پیچھے پڑا ہوا تھا اور انھیں آتے جاتے تنگ کرتا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ماضی میں مبینہ قاتل نے پوجا کے ساتھ بھرے بازار میں بھی بدتمیزی کی تھی جس کے بعد پولیس میں رپورٹ کی گئی تھی تاہم پولیس کارروائی کے باوجود اس شخص کو ضمانت مل گئی تھی۔ اجے کمار کہتے ہیں کہ واقعہ والے روز جب پوجا کے والد صاحب ادی گھر سے باہر گئے تو تو ملزم اپنے دیگر دو ساتھیوں کے ہمراہ گھر پر پہنچا جہاں انھوں نے پوجا کو اغوا کرنے کی کوشش کی۔ 'مگر پوجا بہت بہادر تھی۔ اس نے مزاحمت کی۔وہ تین لوگ تھے اور پوجا تنہا۔ اس موقع پر پوجا سلائی کررہی تھی۔ اس کے پاس قینچی موجود تھی۔ پوجا نے اسی قینچی کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور جب وہ کسی بھی طور پر قابو نہیں آئی تو ملزم نے پستول سے پوجا پر فائرنگ کر کے انھیں قتل کر دیا۔' پوجا کماری کے قتل کے بعد سکھر میں احتجاج کیا گیا ان کا کہنا تھا کہ پوجا ان کی سب سے بڑی بیٹی تھی جو خود کم عمر ہونے کے باوجود ان کی مدد کرنے کی خواہشمند تھیں۔ صاحب ادی بتاتے ہیں کہ ان کی سلائی کڑھائی کا کورس مکمل کرنے کے بعد پوجا نے محلے کے لوگوں کے لیے یہ کام کرنا شروع کر دیا۔ 'اس کے ہاتھوں میں اتنی صفائی تھی کہ جو بھی اس سے ایک دفعہ کام کرواتا، وہ دوبارہ پوجا ہی سے کرواتا تھا۔ اس طرح اس کو کام چل نکلا تھا۔ وہ خود تو پڑھ نہیں سکی تھی، مگر اپنے چھوٹی بہنوں کو سکول میں داخل کروا دیا تھا۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60767075", "summary": "تحریک انصاف اور جی ڈی اے میں شکوے شکایات سامنے آتے رہے ہیں، تاہم اکثر لوگوں کی رائے یہی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک میں یہ اتحاد عمران خان کی حمایت کرے گا۔", "title": "وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے معاملے پر جی ڈی اے کہاں کھڑی ہے؟", "firstPublished": "2022-03-17T07:16:36.000Z", "id": "ee2a2be8-f126-4dd2-a71b-2cfb2d73502e", "article": "تحریک انصاف اور جی ڈی اے میں شکوے شکایات سامنے آتے رہے ہیں، تاہم اکثر لوگوں کی رائے یہی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک میں یہ اتحاد عمران خان کی حمایت کرے گا مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما سردار رحیم کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان سے جی ڈی اے کا کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پیر پگارا پیر صبغت اللہ شاہ کی طبعیت ناساز تھی اس لیے وزیر اعظم سے ملاقات میں احتیاط برتی گئی ورنہ کوئی اختلافات نہیں تھے۔ سنہ 2018 کے عام انتخابات میں جی ڈی اے نے قومی اسمبلی کی دو نشستوں اور صوبائی اسمبلی کی 13 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ تحریک انصاف کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کے بعد اتحاد کے حصے میں خواتین کی ایک مخصوص نشست بھی آئی جس کے بعد اس کی نشستیں تین ہو گئیں۔ وفاق میں یہ تحریک انصاف کی اتحادی جماعت بنی اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو وزارت دی گئی جبکہ سندھ میں اس نے اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ تحریک انصاف اور جی ڈی اے میں شکوے شکایات سامنے آتے رہے ہیں جس کا اظہار قومی عوامی تحریک کے رہنما ایاز لطیف پلیجو بھی متعدد بار کر چکے ہیں۔ شہاب اوستو کہتے ہیں کہ عمران خان جب کراچی آئے تو وہ ایم کیو ایم سے ملنے اُن کے دفتر گئے لیکن پیر پگارا کو انھوں نے گورنر ہاؤس طلب کیا تھا۔ ’یہ ایک بیوروکریٹک سوچ تھی، انھیں وہاں جانا چاہیے تھا کیونکہ ماضی میں بھی سیاسی قیادتیں وہاں جاتی رہی ہیں۔‘ سیاسی تجزیہ کار فیاض نائچ کہتے ہیں کہ جی ڈی اے کی قیادت کو امید تھی کہ جب وہ سندھ میں اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں تو وفاقی حکومت اُن کے علاقوں میں ترقیاتی کام کرے گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ عمران خان مہر برادری کے پاس خان گڑھ یا سندھ میں جن علاقوں میں گئے وہاں جو ایک دو اعلانات ہوئے ان پر بھی عملدرآمد نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے جی ڈی اے مایوس تھی۔ فیاض نائچ کہتے ہیں ایسے دعوے سامنے آ رہے ہیں کہ اپوزیشن میں یہ طے ہو چکا ہے کہ وزیر اعظم کے امیدوار میاں شہباز شریف ہوں گے، اس لیے جی ڈی اے اُن کی حمایت کرے گی، اور مہر برادران اور فہمیدہ مرزا کے لیے شریف خاندان کے ساتھ کام کرنا آسان ہو گا۔ یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں اسلام آباد میں جی ڈی اے کی قیادت سے ملاقات کی تھی جس کے بعد ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے ایک ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ کابینہ کا حصہ ہیں اور انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ اُن کا ساتھ نہ دوں۔ تاہم، انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو سندھ میں ان کے تحفظات سے آگاہ کیا گیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60710806", "summary": "سندھ کے ضلع قمبر شہداد کوٹ کے ہندو خاندان کا الزام ہے کہ ان کی زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا تھا جبکہ اس پر قابض خاندان کا کہنا ہے کہ یہ زمینیں انھوں نے خریدی تھیں۔", "title": "سندھ کا ہندو خاندان جسے سپریم کورٹ سے انصاف ملنے کے باوجود زمینیں واپس نہیں ملیں", "firstPublished": "2022-03-12T06:13:45.000Z", "id": "439b514a-a94b-4c2f-a5b8-ff6fd372d3cf", "article": "’سارا سندھ جانتا ہے کہ ہم جدی پشتی زمیندار ہیں۔ قمبر شہداد کوٹ میں ہماری زمینیں ہیں۔ جن پر سنہ 1963 میں قبضہ کر لیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ تک سے کیس جیت چکے ہیں۔ مگر ہمیں ہماری زمینیں واپس نہیں مل رہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ تم ہندو ہو۔ خاموشی اختیار کر لو ورنہ حالات کے ذمہ دار خود ہو گے۔‘ یہ کہنا تھا کہ صوبہ سندھ کے ضلع قمبر شہزاد سے تعلق رکھنے والی خاتون سوری بی کا جو پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کے موقع پر اپنے خاندان کے ہمراہ اسلام آباد پہنچ کر احتجاج کر رہی تھیں۔ اس احتجاج میں ان کا بیٹا کیلاش کمار بھی ان کے ساتھ شامل تھا۔ وہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ انھیں ہندو ہونے کی بنا پر نفرت اور تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ’قمبر کوٹ شہداد میں ہندو بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ہمارے ان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، ہم ان کی عزت کرتے ہیں۔ کیلاش وغیرہ صرف الزام تراشی کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ہندؤوں سمیت سب کے حقوق محفوظ ہیں۔‘ سوری بی کے بڑے بیٹے کیلاش کمار کہتے ہیں کہ’ یہ سب کچھ ہماری پیدائش سے بھی پہلے کا قصہ ہے۔ ضلع قمبر کے علاقے میں ہماری کوئی 238 ایکٹر زرعی زمینیں ہیں۔ اس زمین پر اس وقت ہمارے دادا کے مزارعوں نے دھوکہ دہی سے قبضہ کر لیا تھا۔ ہم اقلیت اور کمزور تھے۔ ہمارے دادا کو نہ صرف ڈرایا دھمکایا گیا بلکہ کوئی جعلی کاغذات وغیرہ بنا کر سول عدالت میں مقدمہ بھی کر دیا گیا۔‘ کیلاش کمار کا دعویٰ ہے کہ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ انھیں اپنا آبائی ضلع بھی چھوڑنا پڑا جبکہ ’میرے چچا جواہر لعل کو پاکستان چھوڑ کر جانا پڑا۔ سال 2018 میں اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ہندؤوں کی زمینوں پر قبضے پر سو موٹو ایکش لیا تھا۔ سال 2019 میں سپریم کورٹ نے ہمیں زمینوں کا قبضہ دلانے کا حکم دیا تھا۔ ڈپٹی کمشنر قمبر شہزاد جاوید نبی کھوسہ کے مطابق انتظامیہ سارے معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔ ’انتظامیہ نے سپریم کورٹ کے حکم پر کیلاش کمار کے خاندان کو زمینوں کا قبضہ دلا دیا تھا۔ اس کے بعد دوسری پارٹی نے سیشن جج کی عدالت میں قبضے کا کوئی مقدمہ کر دیا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ عدالت سے فیصلے تک ان زمینوں کا قبضہ حکومت اپنے کنٹرول میں لینے جارہی ہے۔ ان پر جو بھی فصل وغیرہ ہے وہ حکومت کے کنٹرول میں ہوگی۔ اس وقت تک جب تک سیشن جج کی عدالت سے اس کا فیصلہ نہیں آ جاتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60686106", "summary": "سندھ کے محکمہ لائیو سٹاک کے مطابق ملک میں جانوروں میں لمپی سکن وائرس کا پہلا کیس گذشتہ سال نومبر میں سامنے آیا تھا جس کی رپورٹ وفاقی حکومت کو بھیجی گئی جہاں سے وائرس کی تصدیق ہوئی تاہم ملک میں اس وائرس کی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔", "title": "سندھ میں ’لمپی سکن‘ وائرس: کیا متاثرہ جانوروں کا دودھ، گوشت انسانی صحت متاثر کر سکتا ہے؟", "firstPublished": "2022-03-10T11:42:01.000Z", "id": "e9861bb0-0274-4d5c-87ed-46dd255405c6", "article": "لمپی سکن وائرس نامی بیماری گذشتہ ایک صدی سے جانوروں میں تشخیص ہو رہی ہے۔ سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے شعبے وٹرنری کے پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ آریجو نے بی بی سی کو بتایا کہ جس طرح انسانوں کو چیچک یا چکن پاکس کی بیماری ہوتی ہے یا جانوروں میں ’شیپ پاکس‘ اور ’گوٹ پاکس‘ بیماری ملتی ہے، یہ بھی اسی طرح کی ایک بیماری ہے جس میں جانور کے جسم پر دانے نمودار ہوتے ہیں جو جسم کے اندر پھیلتے ہیں اور زبان پر بھی آ جاتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل ایک ریسرچ جرنل میں ایک آرٹیکل شائع ہوا تھا جس میں متنبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کو جانوروں کی اس بیماری کے متعلق محتاط ہونا چاہیے کیونکہ خطے میں موجود یہ بیماری پاکستان میں بھی جانوروں اور مویشیوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر آریجو کا کہنا تھا کہ ‘دنیا بھر سے بذریعہ ٹرانسپورٹ جب پھل اور دیگر اجناس کی تجارت ہوتی ہے تو اس کے ساتھ مکھیاں مچھر بھی آ جاتے ہیں جو خطے میں موجود بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں۔ ان میں خون چوسنے والی مکھیوں، ایڈیز نامی مچھر جو زرد بخار اور ڈینگی وائرس جیسے امراض کے پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے وہ لمپی سکن ڈیزیز کے وائرس کے پھیلاؤ کا بھی سبب بنتا ہے۔‘ سندھ کے محکمہ لائیو سٹاک کا کہنا ہے کہ لمپی سکن ڈیزیز وائرس اس وقت سندھ کے مختلف اضلاع میں پھیلا ہوا ہے لیکن اس کی شدت کراچی اور ٹھٹہ کے اضلاع میں زیادہ ہے۔ سندھ لائیو سٹاک محکمے کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر نذیر حسین کلہوڑو کا کہنا ہے کہ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ دیسی گائے کی نسل اس بیماری سی جلد صحتیاب ہو رہی ہے جبکہ جو غیر ملکی اور کراس نسلیں ہے، ان میں یہ وائرس زیادہ ہے چونکہ ان جانوروں کی تعداد ٹھٹہ اور کراچی میں زیادہ ہے اس لیے وہاں شدت زیادہ دیکھی جا رہی ہے۔ سندھ کے محکمہ لائیو سٹاک کے صوبائی وزیر باری پتافی کہتے ہیں کہ جانوروں میں لمپی سکن وائرس کا پہلا کیس گذشتہ سال نومبر میں سامنے آیا تھا جس کی رپورٹ وفاقی حکومت کو بھیجی گئی جہاں سے وائرس کی تصدیق ہوئی تاہم ملک میں اس وائرس کی ویکسین دستیاب نہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ آریجو کا کہنا ہے جانوروں اور اس کا علاج کرنے والوں کو آئسولیشن کرنے کی ضرورت ہے۔ ‘نہ صرف جو جانور اس بیماری میں مبتلا ہیں، کو الگ کرنا ہے بلکہ اس جانور کا علاج کرنے والا ڈاکٹر بھی کسی دیگر جانور کا علاج نہ کرے کیونکہ اس سے وائرس پھیلنے کے امکانات ہیں۔ اسی طرح جو عملہ گوبر یا دیگر صفائی کرتا ہے اس کو بھی صحتمند جانوروں سے الگ رہنا چاہیے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60495265", "summary": "ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاڑکانہ نے 30 نومبر 2019 کو ہی رپورٹ مکمل کر کے محکمہ داخلہ کو بھیج دی لیکن اس رپورٹ کو منظر عام پر نہیں لایا گیا تاہم اب اس کی ایک نقل بی بی سی نے حاصل کر لی ہے۔", "title": "نمرتا چندانی کی ہلاکت: قتل یا خودکشی، عدالتی تحقیقات میں کیا انکشافات سامنے آئے", "firstPublished": "2022-02-23T13:56:59.000Z", "id": "5687d8a4-390e-4eb1-92aa-09fd7cc8772c", "article": "اس واقعے پر کئی سوالات اٹھائے گئے تھے جس کے بعد حکومت سندھ نے عدالتی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاڑکانہ نے 30 نومبر 2019 کو رپورٹ مکمل کر کے محکمہ داخلہ کو بھیج دی تھی لیکن اس رپورٹ کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ تاہم اب اس رپورٹ کی ایک نقل بی بی سی نے حاصل کر لی ہے۔ رپورٹ میں چانڈکا میڈیکل کالج کے ایسوسی ایٹ پروفیسر برائے فورنزک میڈیسن ڈاکٹر رشید احمد خان کی رپورٹ اور بیان کو شامل کیا گیا ہے، ڈاکٹر رشید احمد خان نے بتایا ہے کہ نمرتا کے چہرے، ہاتھوں، پیروں پر کسی قسم کے تشدد کا نشان نہیں تھا، گردن کے اگلے حصے میں لیگیچر (پھندے) کا نشان تھا جو 22 سینٹی میٹر لمبا اور 1.5 سیٹی میٹر چوڑا تھا جبکہ پچھلے حصے پر کوئی نشان نہیں تھا۔ تحقیقاتی افسر نے منطقی انجام پر پہنچتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ڈاکٹر رشید کی شہادت سے معلوم ہوتا ہے کہ گلے پر موجود نشان زیادہ تر خودکشی کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘ اس کے برعکس (میڈیکولیگل افسر) ڈاکٹر امرتا مخمصے کی شکار ہیں کہ یا تو اُن کا گلا گھونٹ کر مارا گیا ہے یا اُنھوں نے لٹک کر خودکشی کی ہے، جبکہ نشان سے واضح ہے کہ ان کا گلا نہیں گھونٹا گیا اور گلے کے گرد نشان نہیں تھا۔ مہران کے مطابق وہ خود کو ’ونڈر گرل‘ تصور کرتی تھیں، ان کو یہ بھی شکایت تھی کہ اُن کا خاندان زندگی کے ہر شعبے میں ان کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، بی ڈی ایس میں داخلے سے قبل اُنھوں نے بحریہ یونیورسٹی کراچی میں سیلف فنانسنگ پر داخلہ لیا تھا۔ اُن کا خاندان اُن کا مذاق اڑاتا تھا کہ نمرتا نے ہمارے پیسوں پر داخلہ لیا جس سے وہ ڈپریشن میں آ گئیں، پھر اُنھوں نے تیاری کی اور بی ڈی ایس میں میرٹ پر داخلہ حاصل کیا۔ ’وہ اکثر ہمارے گھر میں میرے گھر والوں کے ساتھی رہتی تھیں، ہم شادی کے لیے رضامند تھے لیکن وہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں تھی جس کی وجہ سے اپنے والدین کو اس سے آگاہ نہیں کیا۔‘ یاد رہے کہ ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس رپورٹ کو منظر عام پر نہیں لایا گیا اور نہ ہی کسی کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے، اس عرصے میں ایک اور طالبہ نوشین کی کمرے سے پنکھے سے لٹکی ہوئی لاش مل چکی ہے اور اس واقعے کی بھی عدالتی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60336690", "summary": "پاکستان کے صوبہ سندھ میں پیپلز میڈیکل یونیورسٹی نوابشاہ میں ایک زیر تربیت نرس کی جانب سے ایک انتظامی عہدیدار پر جنسی ہراس کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔", "title": "زیرِ تربیت نرس پر تشدد اور ہراساں کیے جانے کی تحقیقات 15 روز میں مکمل کرنے کا حکم", "firstPublished": "2022-02-11T06:07:35.000Z", "id": "48fde63a-592f-478a-b787-d28beef6dc95", "article": "سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ نے نوابشاہ پیپلز میڈیکل یونیورسٹی میں ایک زیر تربیت نرس پر مبینہ تشدد اور ہراساں کیے جانے کی تحقیقات 15 روز میں مکمل کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ نے نوابشاہ میڈیکل یونیورسٹی میں مبینہ ہراسانی کی خبروں کا ازخود نوٹس لیا تھا۔ منگل کو اس کیس میں ہونے والی سماعت کے موقع پر متاثرہ نرس ننگے پاؤں چیف جسٹس کے چیمبر میں پیش ہوئیں، جبکہ اس موقع پر اعلیٰ پولیس حکام اور رجسٹرار پیپلز میڈیکل یونیورسٹی بھی موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں پولیس کی تحقیقات پر اعتماد نہیں ہے اور دوران سماعت چیف جسٹس نے بھی پولیس کے حوالے سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے شفاف اور غیر جانبدرانہ تحقیقات کی ہدایت کی ہے۔ یاد رہے کہ نرس کی جانب سے ایک انتظامی عہدیدار پر جنسی ہراس کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی۔ ایس ایس پی نوابشاہ سعود مگسی نے بتایا تھا کہ نامزد ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں جبکہ ہاسٹل وارڈن کو یونیورسٹی انتظامیہ نے پہلے ہی معطل کر دیا ہے۔ زیر تربیت نرس اپنا نرسنگ کورس پاس کرنے کے بعد پیپلز میڈیکل یونیورسٹی نوابشاہ میں ہاؤس جاب کر رہی ہیں اور جمعرات کے روز انھوں نے اپنے اہلخانہ سمیت نوابشاہ میں احتجاجی دھرنا دیا تھا اور مطالبہ کیا کہ متعلقہ حکام کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ انھوں نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ ایک انتظامی عہدیدار وقتاً فوقتاً جنسی تعلقات رکھنے کے لیے ہراساں اور پریشان کرتا رہتا تھا، جس کی شکایت انھوں نے اپنے سینیئرز کو بھی کی تھی۔ نرس کے مطابق نو فروری کی صبح نو بجے کے قریب وہ اپنے کمرے میں موجود تھیں کہ تین خواتین، جنھوں نے چہرے پر ماسک لگائے ہوئے تھے، نے کمرے میں داخل ہو کر ان کا گلا دبایا اور مار پیٹ کی اور وہ جان بچانے کے لیے دروازے کی جانب بھاگیں۔ مدعی کے مطابق خواتین نے ان پر تشدد کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم نے فلاں انتظامی عہدیدار کے ساتھ جنسی تعلقات نہیں رکھے تو تمھیں مار کر لاش پنکھے سے لٹکا دی جائے گی۔ اسی دوران اس نرس نے موقع ملتے ہی اپنے چچا کو ٹیلی فون کیا اور صورتحال سے آگاہ کیا۔ پولیس نے نرس کی درخواست پر اقدام قتل اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کرلیا ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر گلشن علی میمن سے اس بارے میں جاننے کے لیے بار بار رابطے کے باوجود ان کا مؤقف سامنے نہیں آ سکا تھا تاہم مقامی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ متعلقہ نرس کو ہراساں نہیں کیا گیا اور لڑکی پر کسی قسم کا کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60378139", "summary": "نواب شاہ کے مرزا پور تھانے کی حدود میں 12 فروری کو پیش آنے والے واقعے میں زرداری برادری اور بھنڈ برادری کے درمیان تنازعے میں ایک ایس ایچ او سمیت چھ افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے تھے۔", "title": "نواب شاہ: زرداری اور بھنڈ برادری کے درمیان زمین کا جان لیوا تنازعہ کیسے اور کب شروع ہوا؟", "firstPublished": "2022-02-14T14:19:26.000Z", "id": "cc3c3672-c7cd-40f9-a854-da6aecf0d165", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع نواب شاہ میں زمین کے تنازعے پر چھ افراد کی ہلاکت کے بعد نیشنل ہائی وے پر ورثا مقتولین کی لاشوں سمیت دھرنا دیے ہوئے ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ واقعے کا مقدمہ زرداری برادری کے مقامی بااثر افراد کے خلاف دائر کیا جائے۔ یہ واقعہ نواب شاہ کے مرزا پور تھانے کی حدود میں دیھ بنبھائی میں 12 فروری کو پیش آیا تھا جس میں زرداری برادری اور بھنڈ برادری کے درمیان تنازعے میں ایک ایس ایچ او سمیت 6 افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے ہیں۔ اس واقعے کے عینی شاہد محمد امین بھنڈ خود بھی واقعے میں زخمی ہو گئے تھے۔ ان کا تعلق بھنڈ برادری سے ہے جو متنازع زمین پر ملکیت کی دعوے دار ہے۔ دوسری جانب زرداری برادری ایک فریق ہے جو خود بھی اس زمین کی ملکیت کا دعویٰ کرتی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے امین بھنڈ نے بتایا کہ سنیچر کو وہ معمول کے مطابق اپنے گھر میں موجود تھے کہ ان کو برادری کے کسانوں نے فون کیا۔ ان کو بتایا گیا کہ زرداری برادری کے لوگ متنازع زمین پر سرسوں کی فصل کی کٹائی کر رہے ہیں۔ ’ہم سب نہتے تھے۔ کوئی اسلحہ یا کلہاڑی وغیرہ ساتھ نہیں تھی۔ جب وہاں پہنچے تو پولیس کی نفری آئی جس میں ایک ایس ایچ او شامل تھا۔ اس کو ہم نے کہا کہ معاملہ عدالت میں ہے، 24 فروری کو سماعت ہے، لہذا زمین پر ہم بیٹھیں گے نہ اور کوئی بیٹھے، صرف پولیس موجود رہے۔‘ عابد زرداری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس دن وزیر اعلیٰ سندھ نے نواب شاہ آنا تھا جس کے لیے شہر کی پولیس کی اضافی ڈیوٹی لگائی گئی تھی اور متنازع زمین پر صرف چار پولیس کانسٹیبل ہی تعینات تھے۔ عابد زرداری کا دعویٰ ہے کہ واقعے کے دن بھنڈ برادری کے دو سو سے زائد لوگوں نے متنازع زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جس کے دوران انھوں نے ایک حکمت علمی کے طور پر اپنی خواتین کو آگے کیا جن کے پیچھے مسلح افراد بھی تھے۔ نواب شاہ کے مرزا پور تھانے کی حدود میں دیھ بنبھائی میں کچے کی اس 800 ایکڑ زمین پر فریقین میں 2009 سے تنازعہ جاری ہے۔ دونوں فریقین دعوی کرتے ہیں کہ یہ زمین ان کی ہے۔ زرداری برادری کی جانب سے پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر اکبر جمالی جبکہ بھنڈ برادری کی جانب سے سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنما زین شاہ کو اس فیصلے کے لیے امین مقرر کیا گیا۔ ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں سمیت ورثا قاضی احمد کے مقام پر قومی شاہراہ پر دھرنا جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی قیادت سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنما زین شاہ کر رہے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60360759", "summary": "مورخین کے درمیان یہ تنازعہ ہے کہ آیا روہڑی کے قریب قبرستان سات بی بیوں کا آستانہ حقیقت ہے یا افسانہ لیکن یہاں کی مقامی خواتین اپنی منتیں اور مرادیں لے کر آتی ہیں۔", "title": "سات بہنوں کی درگاہ جہاں آج بھی خواتین منتیں لے کر آتی ہیں", "firstPublished": "2022-02-13T04:30:02.000Z", "id": "ab9d1307-ee0a-4f3f-873b-f3b9b22988d8", "article": "یہاں آنے والوں میں زیادہ تر تعداد سندھ اور بلوچستان سے آنے والی خواتین کی ہوتی ہے جو جوق در جوق یہاں آتی ہیں۔ اس جگہ کو 'ستین جو آستھاں' یا سات بہنوں کا آستانہ کہا جاتا ہے۔ اس قبرستان کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ لوک داستان کے مطابق یہاں پر سات بہنیں رہا کرتی تھیں۔ ایک دن ان پر راجہ داہر کی نظر پڑگئی اور اس نے فوراً انھیں اُس کے سامنے پاس پیش کرنے کا حکم جاری کیا۔ بہنوں نے اپنی حفاظت کے لیے دعا مانگی۔ کہا جاتا ہے کہ دعا مانگتے وقت بہنوں نے جہاں سر رکھا وہیں زمین پھٹ گئی اور ساتوں بہنیں غار میں دھنس گئیں۔ یہاں پر بچوں کو سلانے والے جھولے ہیں اور دیوار پر لوگوں نے منتیں مانگنے کے لیے چوڑیاں اور دھاگوں کا استعمال کیا ہوا ہے۔ اس غار میں عورتوں کے علاوہ کسی اور کو جانے کی اجازت نہیں۔ یہاں پر موجود ایک خاتون نے بتایا کہ وہ بچپن سے ادھر آ رہی ہیں۔ یہاں پر لوگ اپنے بیوی بچوں کو لے کر آتے ہیں اور جب غار میں عورتیں جاتی ہیں تب ان کا باہر انتظار کرتے ہیں۔ یہاں آنے والی خواتین بتاتی ہیں کہ یہ وہ واحد دن ہے جب انھیں گھمانے پھرانے کی غرض سے گھر سے نکالا جاتا ہے۔ ’ان قبروں کا طرزِ تعمیر بتاتا ہے کہ یہ مغلیہ دور کی بنی ہوئی ہیں۔ سولھویں اور ستھرویں صدی میں مغل حکمرانوں کی یہاں موجودگی تاریخ دانوں نے قلمبند کی ہے۔ یہ ایک ہوا دار جگہ ہوا کرتی تھی اور روہڑی اور سکھّر کے بیچ میں یہ شہر آباد رہا ہے جہاں حکمران آ کر بیٹھا کرتے تھے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’عبدالقاسم نمکین یہاں آ کر محفلیں آراستہ کیا کرتے تھے۔ یہ نہیں پتا کہ یہاں قبریں ہونے سے پہلے موسیقی یا مشاعرے ہوا کرتے تھے یا نہیں یا پھر مذہبی مجالس منعقد کی جاتی تھیں لیکن بہرحال ان محفلوں کا تذکرہ کئی مصنفوں نے تاریخ کی کتابوں میں کیا۔‘ لیکن ’ستھین جو آستان‘ کو تاریخ دان نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ یہ ایک افسانہ ہے کیونکہ یہ بات سامنے نہیں آ سکی کہ جو سات بہنیں تھیں وہ کون تھیں اور کہاں سے آئیں تھیں اور کیوں یہاں آ کر انھوں نے دعا مانگی جس کے نتیجے میں یہ جگہ غار کی شکل اختیار کر گئی؟ لوک کہانیاں ہوں یا لوگوں کی خود ساختہ باتیں، ’ستھین جو آستان‘ میں آج بھی خواتین امیدیں لے کر آتی ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ یہاں آنے سے ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60343920", "summary": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مردہ پائی جانے والی دو طالبات کے ڈی این اے تجزیے میں ایک ہی شخص کا ڈی این اے پائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔", "title": "نمرتا اور نوشین کے جسموں سے ملنے والے ڈی این اے میں ’مماثلت‘", "firstPublished": "2022-02-11T12:59:53.000Z", "id": "6c4667ed-9db2-4d74-bd6d-c768310317a7", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مردہ پائی جانے والی دو طالبات کے ڈی این اے تجزیے میں ایک ہی شخص کا ڈی این اے پائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ نمرتا چندانی کی موت سنہ 2019 میں اور نوشین کاظمی کی گذشتہ برس 2021 میں ہوئی تھی۔ ان دونوں طالبات کی لاشیں یونیورسٹی کے ہاسٹل کے کمروں سے رسی سے لٹکی ہوئی ملیں۔ دونوں طالبات کے موت میں دو برس کا وقفہ ہے مگر پولیس کے مطابق ان میں مماثلت پائی گئی ہے۔ رواں برس 28 جنوری کو لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کی فارنزک لیباٹری نے ایک رپورٹ جاری کی تھی۔ پولیس کی طرف سے فارنزک لیباٹری کو طالبات کے دو وجائنا سواب، پہنے ہوئے کپڑے، ہاسٹل کے کمروں سے جو کپڑے ملے اور وہ رسی جس پر لاش ٹنگی ہوئی تھی، بطور نمونہ فراہم کیے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق سلیٹی رنگ کی شلوار اور کالے رنگ کی قمیض پر خون کے دھبے پائے گئے اور وجائنا کے سواب اور کپڑوں سے تولیدی مادہ یا سپرم ملا ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ نوشین اور نمرتا کے جسموں سے ملنے والے ڈی این اے میں پچاس فیصد مماثلت پائی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تولیدی مادے یا سپرم کا ڈی این اے محفوظ کر دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرلز کالج میں داخل ہونے والے یا آنے جانے والوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے خون کے نمونے فراہم کیے جائیں تاکہ اس کا موازنہ کیا جا سکے۔ یونیورسٹی کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ماہر قانون نے شرکا کو بتایا کہ کوئی بھی لیبارٹری کسی عدالت کے حکم کے بغیر کسی ایک کیس کے لیے حاصل کیے گئے نمونے کی کسی اور کیس کے نمونوں سے موازنہ نہیں کر سکتی نہ ہی کوئی لیبارٹری سفارش کر سکتی ہے۔ لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل نمبر دو کے کمرے سے 24 نومبر 2021 کو نوشین کی پنکھے سے لٹکی ہوئی لاش برآمد ہوئی۔ اسسٹنٹ کمشنر لاڑکانہ احمد علی سومرو کا کہنا تھا کہ نوشین کاظمی کی روم میٹ باہر گئی ہوئی تھیں، وہ کمرے میں اکیلی تھی۔ پولیس کو کمرے سے دو تحریری نوٹ بھی ملے تھے۔ پولیس کے ترجمان کے مطابق ایک نوٹ پیڈ کے قریب اور ایک الماری سے ملا تھا اور دونوں میں تقریباً ایک ہی طرح کا پیغام درج تھا۔ بیڈ سے ملنے والا نوٹ رومن میں تحریر تھا کہ 'میں خود اپنی مرضی سے ’ہینگنگ‘ یعنی لٹکنے جا رہی ہوں، نہ کہ کسی کے پریشر میں کر رہی ہوں۔' میرپور ماتھیلو سے تعلق رکھنے والی نمرتا چندانی کی ہلاکت پر سندھ بھر میں ہندو کمیونٹی اور سول سوسائٹی کی جانب سے سوشل میڈیا اور سڑکوں پر احتجاج کیا گیا تھا، جس کے بعد عدالتی تحقیقات کا حکم جاری کیا گیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60312514", "summary": "سندھ میں ماضی قریب میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے جس میں کسی ہندو شہری کو توہین مذہب کے الزام میں سزا سنائی گئی ہے۔ ملزم کے رشتے داروں نے اس فیصلے پر عدم اعتماد ظاہر کرتے ہوئے سزا کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔", "title": "گھوٹکی: توہین مذہب کے الزام میں ہندو پروفیسر کو عمر قید، جرمانے کی سزا", "firstPublished": "2022-02-09T04:17:19.000Z", "id": "74db1d21-aa67-47fd-bb7e-7fdd20963720", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ میں ایک عدالت نے پیغمبر اسلام کی توہین کے الزام میں ایک ہندو پروفیسر کو عمر قید اور جرمانے کی سزا سُنائی ہے تاہم ملزم کے رشتے داروں نے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سندھ میں ماضی قریب میں یہ اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے جس میں کسی ہندو شہری کو توہین مذہب کے الزام میں سزا سُنائی گئی ہے۔ عدالت کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ کے مطابق 14 ستمبر 2019 کو مدعی مقدمہ عبدالعزیز خان نے گھوٹکی تھانے میں مقدمہ درج کروایا تھا کہ اُن کا بیٹا ایک پبلک سکول میں پڑھتا ہے اور اُس نے انھیں (اپنے والد) کو بتایا کہ سکول کے مالک نوتن لال مبینہ طور پر کلاس میں آئے ’پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی‘ اور چلے گئے۔ ایڈیشنل سیشن جج ممتاز سولنگی نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ استغاثہ نے جو گواہ پیش کیے ہیں وہ ’آزاد اور قابل بھروسہ‘ ہیں اور ان کے بیانات ’بدنیتی پر مبنی نہیں‘ کیونکہ ان میں سے کسی کی ملزم سے ذاتی دشمنی یا عناد نہیں ہے، لہٰذا ان کی گواہیوں پر یقین نہ کرنے کا جواز نہیں ہے۔ عدالت کے مطابق استغاثہ ملزم نوتن پر الزام ثابت کرنے میں کامیاب ہوا ہے چنانچہ اُنھیں عمر قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے جبکہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں ملزم کو مزید چار ماہ قید میں گزارنے ہوں گے۔ فیصلے کے مطابق سزا پر عملدرآمد گرفتاری کے روز سے ہو گا۔ نوتن کے کزن مہیش کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ مبینہ طور پر اس مقدمے میں ’انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے اور دباؤ میں یہ فیصلہ سُنایا گیا ہے۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس واقعے کا کوئی بھی چشم دید گواہ نہیں بلکہ صرف سُنی سُنائی باتوں پر بیانات دیے گئے۔ اُنھوں نے کہا کہ مدعی نے جن افراد کو گواہ کے طور پر شامل کیا ہے وہ بھی اس کے پڑوسی ہیں۔ مہیش کمار کا کہنا ہے کہ گھوٹکی میں ہندو کمیونٹی خوف اور دباؤ کی شکار ہے، خاص کر ان کے خاندان کو مقدمے کی پیروی میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ مقدمے کی تفتیش کسی سینیئر پولیس افسر کے بجائے جونیئر اہلکار سے کروائی گئی جو قانون کی خلاف ورزی ہے، لہٰذا وہ اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں جائیں گے۔ اساتذہ نے معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی اور نوتن لال نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی نیت کسی کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی نہیں تھی۔ لیکن مذکورہ طالبعلم نے اس واقعے کا ذکر اپنے والد سے کیا اور فیس بک پر بھی پوسٹ کر دیا جس کے بعد لوگوں میں اشتعال پھیل گیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60308170", "summary": "صوبہ سندھ میں دو خواتین کے ریپ کا واقعہ سامنے آیا ہے جنھیں مبینہ طور پر اس لیے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ اُن کے کزن نے ایک لڑکی سے پسند کی شادی کی تھی۔", "title": "سندھ میں پسند کی شادی کرنے والے نوجوان کی رشتہ دار خواتین کا ریپ", "firstPublished": "2022-02-09T01:44:40.000Z", "id": "a896f207-1cfa-4541-9625-013754623ea5", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ میں دو خواتین کے ریپ کا واقعہ سامنے آیا ہے جنھیں مبینہ طور پر اس لیے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ اُن کے کزن نے ایک لڑکی سے پسند کی شادی کی تھی۔ میرپور خاص کے علاقے نوکوٹ تھانے کی حدود میں پیش آنے والے اس واقعے کی ایف آئی آر میں مدعی علی رضا راجپوت نے بتایا کہ چھ فروری کو صبح 11 بجے وہ اپنے گھر میں موجود تھے کہ 20 سے 25 مسلح افراد ان کے گھر میں داخل ہو گئے اور ان کی 18 سالہ اہلیہ اور 14 سالہ بہن کو زبردستی اٹھا کر نامعلوم مقام پر لے گئے۔ اُنھوں نے بتایا کہ گھر میں داخل ہونے والوں میں سے ایک ملزم علی نواز نے الزام عائد کیا کہ اُن کی بہن کو ایک شخص ’ورغلا‘ کر لے گیا ہے۔ ایس ایس پی میرپور خاص چوہدری محمد اسد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لڑکیوں کا ریپ کیا گیا ہے تاہم ان کے مطابق یہ ’گینگ ریپ نہیں تھا‘ جبکہ انھوں نے پولیس اہلکار کے ملوث ہونے کے الزام کی بھی تردید کی۔ پولیس کے مطابق علاقے میں راجپوت اور ٹنگڑی برادری کے درمیان پسند کی شادی کے معاملے پر تنازع شروع ہوا تھا۔ یہ واقعہ تھانے میں رپورٹ نہیں ہوا تھا اور دونوں برادریاں آپس میں اس معاملے کو حل کر رہی تھیں۔ لڑکے کا تعلق راجپوت اور لڑکی کا تعلق ٹنگڑی برادری سے بتایا جا رہا ہے اور ٹنگڑی برادری کے مطابق تقاضا کرنے کے باوجود لڑکے کے ماں باپ و دیگر بڑوں نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ پولیس کے مطابق آپس کی بات چیت کے دوران تنازع بڑھا جس پر ٹنگڑی برادی کے افراد نے رات کو علی رضا کے گھر آ کر مار پیٹ کی اور دو خواتین کو اغوا کر لیا جس کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 12 ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔ ٹوئٹر صارف جنت ہالیپوٹہ لکھتی ہیں کہ یہاں پسند کی شادی جرم ہے ریپ کرنا نہیں۔ ’ذہنی طور پر بیمار معاشری کے گھٹیا تصور کو تبدیل نہ کیا گیا تو ہر روز انسانیت کو مجروح کرنے جیسے واقعات رونما ہوں گے۔‘ پی پی کی رکن اسمبلی ماروی راشدی نے اس کو درد انگیز اور قابل مذمت واقعہ قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ 20 میں سے دو افراد گرفتار ہیں اور باقی بھی جلد ہی گرفتار ہوں گے۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی لال مالھی لکھتے ہیں کہ انسانیت کی ایسی تذلیل، ایسے گھناؤنے جرم کو روکنے میں ناکام رہنے پر وزیراعلیٰ سندھ کو اہل خانہ سے معافی مانگنی چاہیے۔ ’ملزمان کو قانون کی طاقت کا بخوبی اندازہ ہے اس لیے وہ جرم کی آخری حدود کو بھی عبور کر جاتے ہیں۔ ملزمان کو چاہے پھانسی نہ دی جائے لیکن کم از کم متاثرین کو انصاف کا حصول یقینی بنایا جائے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60231188", "summary": "دریائے سندھ میں ایک جزیرے میں بنا ہوا سادھو بیلہ کا مندر جس کے کے ارد گرد گرجا گھر، پارسی برادری کی عبادت گاہیں اور مسجد قائم ہے۔", "title": "’زندہ پیر‘ کا تنازع اور دریائے سندھ کے بیچ مذہبی رواداری کا جزیرہ", "firstPublished": "2022-02-03T04:17:08.000Z", "id": "9fef8f81-abb2-495e-a348-2295fbdbb16e", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ کا نام آتے ہی ذہن میں جو چیز سب سے پہلے آتی ہے وہ اس خطے کی مہمان نوازی، اپنائیت اور خوش اخلاقی ہے۔ سادھو بیلہ کا مندر اور اس کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب کبھی مختلف مذاہب کے لوگوں کو ایک دوسرے کی ضرورت محسوس ہوئی تو سب نے اپنا اپنا فرض نبھایا ہے۔ ایک زمانے میں سادھو بیلہ کے مندر کے اطراف میں گرجا گھر اور پارسی برادری کی عبادت گاہیں موجود ہوتی تھیں جبکہ اس مندر کے بالکل سامنے ایک مسجد آج بھی قائم ہے۔ دریائے سندھ یا سندھو دریا کے پاس مختلف شہر آباد ہیں اور ان شہروں کو قائم کرنے والوں کی منفرد کہانیاں بھی گاہے بگاہے منظرِ عام پر آتی رہتی ہیں۔ اسی دریا کے بیچوں بیچ سادھو بیلہ کا مندر واقع ہے جو روہڑی اور سکھر کے درمیان میں ہے۔ اس تنازع کا تذکرہ برطانوی ریکارڈز میں صرف دو جگہ پر کیا گیا ہے۔ سنہ 1894 میں پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کی قرار داد میں بتایا گیا تھا کہ ’ہندو جس مقام پر برسوں سے عبادت کرتے آئے ہیں، حکومت کے فائدے میں نہیں ہے اس لیے اسے ’جِند پیر فقیروں‘ کو ایک ہزار نقد میں بیچ دیا جائے۔‘ اور دوسری بار سنہ 1919 کے گزیٹئیر آف سندھ میں جہاں کہا گیا ہے کہ بیس سال پہلے ہندو برادری نے اپنا دعوی رد کرتے ہوئے سکھر دریا کے کنارے ایک علیحدہ درگاہ (یا عبادت گاہ) قائم کرلی ہے۔‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بانکھنڈی مہاراج کے سادھو بیلہ مندر قائم کرنے کے 60 سال بعد ہندو برادری نے مکمل طور پر زندہ پیر کی درگاہ سے تعلق کم کر دیا۔ اور نتیجتاً سادھو بیلہ کے مندر کو انڈیا اور دیگر ممالک میں رہائش پذیر ہندو اور سکھوں سے عطیات ملنے لگے۔ سادھو بیلہ مندر ایک عرصے تک شدید بدانتظامی کا شکار رہا۔ سنہ 2018 تک یہ مندر شدید مخدوش حالت میں تھا جسے کئی مقتدر حلقوں میں برپا ہونے والے شور شرابے کے بعد صحیح کرایا گیا۔ رنگ و روغن ہوا اور صاف صفائی کی گئی۔ اسی مندر سے نکل کر اگر شہر کا رُخ کریں تو کہا جاتا ہے کہ سادھو بیلہ کی عمارت سے ہی مختلف مذاہب کی عبادت گاہیں نظر آیا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک پارسی برادری کا فائر ٹیمپل ہوا کرتا تھا جو اب بند ہے۔ ایک زمانہ تھا جب اس شہر کی مختلف عمارتوں سے ہر دوسرے مذہب کی عبادت گاہیں نظر آتی تھیں۔ لیکن اب حال یہ ہے کہ اگر دیکھنا بھی چاہیں تو انھیں عبادت گاہوں کے گِرد بنی اونچی دیواروں پر نگاہ ٹھہر جاتی ہے۔ آج کے دور میں مذہبی ہم آہنگی پر بات کرنا ایک منفرد امر لگتا ہے، لیکن سندھ میں حالات جیسے بھی رہے ہوں سادھو بیلہ کا مندر اور اسے بنانے والوں کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60182840", "summary": "ایف آئی آر میں مدعی نے بیان کیا ہے کہ اس اطلاع پر وہ جائے وقوعہ پر پہنچے، جہاں معلوم ہوا کہ بیس پچیس لوگوں نے سور کو پکڑ کر اس پر پالتو شکاری کتے چھوڑے جنھوں نے اسے مار کر دیا۔", "title": "سندھ میں سور پر کتے چھوڑنے پر بے رحمی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج", "firstPublished": "2022-01-29T15:55:01.000Z", "id": "9b74e11f-85a3-4774-aeb5-8aef64d435d7", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ میں ایک جنگلی سور کو باندھ کر اس پر کتے چھوڑنے اور اس کے نتیجے میں اس کی ہلاکت کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ اس واقعے کی ویڈیو گذشتہ دو روز سے سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ زیریں سندھ کے ضلع بدین میں نندو پولیس نے ایک مقدمہ درج کیا ہے، جس میں اے ایس آئی فتح محمد نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ تھانے پر موجود تھا جب اس نے یہ وائرل ویڈیو دیکھی۔ ان کے مطابق 27 جنوری کو بوقت نو بجے حسین بجیر گاؤں کے قریب جھاڑیوں سے علی بھرگڑی، قاسم ملاح، سجاد علی بھرگڑی، حنیف بجیر، پرویز شاہ اور رجب کھوسو سمیت دیگر نے جنگل میں سے ایک جنگلی سور کو پکڑا۔ اس سور کے پیروں کو رسی سے باندھا اور اس پر شکار کرنے والے کتے چھوڑ دیے گئے جنھوں نے اسے شدید زخمی کر کے مار دیا۔ ایف آئی آر میں مدعی نے بیان کیا ہے کہ اس اطلاع پر وہ جائے وقوعہ پر پہنچے، جہاں معلوم ہوا کہ بیس پچیس لوگوں نے سور کو پکڑ کر اس پر پالتو شکاری کتے چھوڑے تھے۔ اس ویڈیو میں نظر آتا ہے کہ کتے کے قد جتنے سور کی پچھلی دائیں ٹانگ میں ایک رسہ ڈال کر باندھ دیا گیا ہے جبکہ چاروں اطراف میں لوگ کھڑے ہیں، جن میں بڑے اور بچے دونوں شامل ہیں۔ ویڈیو میں ایک شخص کہہ رہا ہے کہ یار مارو نہیں، ایک اور آواز آتی ہے کہ بندوق مت مارو۔ چند لمحوں کے بعد ایک بندوق بردار بھی نظر آتا ہے جبکہ اس دوران ایک کتے کو چھوڑ دیا جاتا ہے پھر وہی آواز آتی ہے کہ نہ لڑاؤ۔ مگر پھر دو کتوں کو حملے کے لیے سور پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ محکمہ جنگلی حیات کے ایک سینیئر افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ بے رحمی ایکٹ کے تحت پولیس اور محکمہ جنگلی حیات دونوں ہی مقدمہ درج کرنے کا اختیار رکھتے ہیں تاہم پولیس اگر کارروائی کرتی ہے تو وہ مؤثر ہے کیونکہ اس کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ اس واقعے سے قبل بھی کتے اور سور کی لڑائی کا ایک واقعہ سوشل میڈیا پر آیا تھا۔ یہ پوسٹ ذوالفقار قادری نامی ایک ایکٹوسٹ نے فیس بک پر شیئر کی تھی، جس میں درجنوں موٹر سائیکلیں ایک میدان میں موجود تھیں۔ انھوں نے لکھا تھا کہ یہ کوئی سیاسی جلسہ، کانفرنس نہیں بلکہ شکارپور ضلع کی تحصیل لکھی کا علاقہ وزیر آباد ہے جہاں کتے اور سور کی لڑائی کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ محکمہ جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ شعور اور آگاہی آئی ہے۔ پہلے لوگ اس کو تفریح سمجھتے تھے لیکن اب سوشل میڈیا پر شیئر کر کے اس کی مذمت کرتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60143898", "summary": "پولیس کے مطابق ناظم جوکھیو کو عرب شکاری کی ویڈیو فیس بک پر اپ لوڈ کرنے کی وجہ سے قتل کیا گیا اور موت کی وجہ ملزم جام اویس عرف گہرام اور دیگر ساتھیوں کا بہیمانہ تشدد تھا۔", "title": "ناظم جوکھیو قتل کیس میں پولیس چالان کے مطابق ان کی موت ’تشدد سے ہوئی‘", "firstPublished": "2022-01-26T15:40:37.000Z", "id": "df78f1f1-469d-4f66-b5b9-f5a04917d752", "article": "پولیس کے مطابق ناظم جوکھیو کو عرب شکاری کی ویڈیو فیس بک پر اپ لوڈ کرنے کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ چالان میں بتایا گیا ہے کہ اس واقعے کی اطلاع جب ملزم جام عبدالکریم اور ان کے بھائی جام اویس عرف گہرام کو ہوئی تو انھوں نے مقتول ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو سے احمد جمال نامی شخص کے موبائل نمبر سے رابطہ کیا اور مذکورہ ویڈیو ڈیلیٹ کرنے، شیخ سے معافی مانگنے کے لیے دباؤ ڈالا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔ چالان کے مطابق ملزم نیاز سالار، جو رکن قومی اسمبلی اور کیس میں نامزد ملزم جام عبدالکریم کا پی آر او ہے، نے بھی ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کے لیے رابطہ کیا لیکن متوفی ناظم جوکھیو نے ایک اور ویڈیو فیس بک پر شیئر کی جس میں ملزمان کی جانب سے دباو ڈالے جانے کا تذکرہ کیا۔ پولیس چالان کے مطابق جام ہاؤس پہنچنے پر جام عبدالکریم نے متوفی ناظم جوکھیو کو تھپڑ مارے اور موبائل فون سے واقعہ کی ویڈیوز ڈیلیٹ کر دیں۔ اس کے بعد ناظم جوکھیو کو میر علی اور حیدر علی کے حوالے کر دیا گیا جنھوں نے ناظم جوکھیو کو گارڈ روم میں قید کر دیا۔ پولیس کے مطابق جام عبدالکریم بھی جام ہاؤس سے روانہ ہوئے تو ان کے چھوٹے بھائی اور رکن صوبائی اسمبلی سندھ ملزم جام اویس عرف گہرام گارڈ روم میں گھسے جہاں انھوں نے ناظم جوکھیو پر خود اور گارڈز کے ذریعے ڈنڈوں، لاتوں اور مکوں سے تشدد کیا اور پھر انھیں زخمی حالت میں وہیں چھوڑ دیا گیا۔ اگلی صبح جب جام عبدالکریم کو ناظم جوکھیو کی موت کا علم ہوا تو سب سے پہلے نیاز سالار اور بعد میں سلیم سالار کو بتایا گیا۔ سلیم سالار کے ذریعے ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو اور ان کے ماموں در محمد کو جام ہاؤس گاڑی پر بلوایا گیا جہاں انہیں بھی ناظم کی موت کی اطلاع دی گئی۔ اس دوران جام عبدالکریم نے اپنے ملازم ملزم معراج کے ذریعے پولیس کو وقوعہ کی اطلاع کروائی اور یہ ظاہر کیا گیا کہ ایک جھگڑے کے دوران متوفی ناظم جوکھیو کی موت ہو گئی ہے۔ پولیس کے مطابق اب تک کی تفتیش میں ناظم الدین جوکھیو کو اس کے گھر گاؤں آچار سالار سے اغوا کرنے اور اعانت جرم کی کوئی شہادت نہیں پائی گئی لہذا دفعہ 365,109 پی پی سی کو غیر متعلقہ ہونے کے سبب خارج کیا جاتا ہے۔ پولیس چالان کے مطابق متوفی ناظم الدین جوکھیو کو عربی شیخ کے ساتھ تلخ کلامی کرنے اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی وجہ سے قتل کیا گیا جس میں ملزمان جام عبدالکریم، جام اویس عرف گہرام، میر علی جوکھیو، حیدر علی خاصخیلی اور نیاز سالار ملوث پائے گئے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60050025", "summary": "کراچی میں گھر کے باہر ماں اور بہن کو ڈکیتی سے بچانے کی کوشش میں قتل ہونے والے شاہ رخ نے قتل سے صرف چند دن قبل ہی پسند کی شادی کی تھی۔ قاتل پولیس اہلکار تھا جو اس سے قبل بھی ڈکیتی کے الزامات کے باوجود سپیشل انوسٹی گیشن یونٹ میں تعنیات تھا۔", "title": "’ایک دن پہلے ولیمہ ہوا، ہنی مون پر جانا تھا مگر قاتل نے اس کی مہلت ہی نہ دی‘", "firstPublished": "2022-01-19T09:37:18.000Z", "id": "65dfc3fe-027b-4df8-ba21-fab3b7537abf", "article": "’قتل سے فقط چند روز قبل ہی پسند کی شادی کی تھی۔ ایک دن پہلے ولیمہ ہوا تھا۔ دلہا دلہن کو گھومنے جانا تھا لیکن اس کی نہ مہلت ملی اور نہ ہی نوبت آئی۔۔۔ کاش میں گھر کی گھنٹی ہی نہ بجاتی۔۔۔ کاش وہ چند لمحوں بعد گیٹ کھولتا۔۔۔ طلائی چوڑیوں کی تو اتنی قیمت بھی نہیں تھی جن کے لیے وہ اپنی جان پر کھیل گیا۔۔۔’ یہ کہنا ہے کراچی میں واقع اپنے گھر کے باہر اپنی والدہ اور بہن کو ڈکیتی سے بچانے کی کوشش میں قتل ہونے والے شاہ رُخ کے گھر والوں کا۔ شاہ رخ کی بہن نازیہ طارق کہتی ہیں کہ جب لٹیرا اُن سے چوڑیاں مانگ رہا تھا تو ’میں نہیں ڈری، سوچا کہ سب کچھ حوالے کر کے جان چھڑاتی ہوں۔ مگر جب شاہ رخ گیٹ سے باہر نکلا تو میں اس وقت ہی ڈر گئی۔ میں لیڑے سے کہنے لگی کہ جلدی جلدی چوڑیاں لو اور دفع ہو جاؤ، مگر اسی دوران شاہ رخ نے اس پر چھلانگ لگائی جس پر اُس نے فائر کر دیا۔’ جہانزیب خان کہتے ہیں کہ ’ہمیں شادی سے پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ ہماری ہونے والی بھابھی بھی شاہ رخ سے بہت محبت کرتی تھیں۔ شادی کے بعد وہ دونوں بہت خوش تھے۔ انھیں بس ایک دوسرے کے لیے وقت چاہیے تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ ولیمہ، جو کہ واردات سے ایک روز پہلے ہوا تھا، کے بعد ان کو کہیں گھومنے پھرنے جانا چاہیے مگر اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔‘ ’ہم نے ملزم کے ساتھی جو کہ واردات میں شریک نہیں تھا کو اپنی حراست میں لے کر پوچھ گچھ شروع کی تو اس نے ملزم کی شناخت کے بارے میں بتایا اور یہ بھی بتایا کہ ملزم ایک پولیس والا ہے۔ اس نے ہمیں بتایا کہ ملزم کا ایک اور دوست ہسپتال میں ملازمت کرتا ہے اور وہ اس سے ملنے اکثر جاتا ہے۔’ عارف عزیز کے مطابق ملزم کے ہسپتال میں کام کرنے والے دوست کو اعتماد میں لیا گیا اور اس ہسپتال میں پولیس کی نفری تعنیات کی گئی تھی۔ ’اسی طرح ملزم کے دوست کو بھی اعتماد میں لیا گیا کہ جب ملزم اس سے ملنے آئے تو وہ ہمیں اطلاع کریں۔’ موقع پر تعنیات پولیس نفری نے جب ملزم کو دیکھا تو اس کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش کے دوران ملزم نے اپنا پستول پولیس والوں پر تان لیا تھا۔ اس دوران وہ ہسپتال سے نکل کر فرار ہونے کی کوشش کرنے میں اپنی کار تک پہنچا جسے پہلے ہی سادہ کپڑوں میں موجود پولیس نے اپنے گھیرے میں لیا رکھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48033946", "summary": "سندھ کے قوم پرست رہنما جی ایم سید سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سندھ کا اثاثہ مگر ایک تنگ دل شخصیت جبکہ سابق صدر اور فوجی آمر جنرل ضیاالحق کو اپنا محسن سمجھتے تھے۔", "title": "جی ایم سید کے بھٹو اور ضیا کے بارے میں کیا خیالات تھے؟", "firstPublished": "2019-04-25T03:49:25.000Z", "id": "d49ab682-2505-8e4e-9f8e-8c353f90210a", "article": "سندھ کے قوم پرست رہنما جی ایم سید کا شمار پاکستان کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے ہی سندھ اسمبلی میں قیام پاکستان کی قرارداد پیش کی تھی جس نے آگے چل کے اس مطالبے کو قانونی اور آئینی جواز فراہم کیا تھا۔ جی ایم سید آج ٹھیک 118 برس قبل یعنی 17 جنوری 1904 کو پیدا ہوئے تھے۔ جب وہ حیات تھے تو صوبہ سندھ کے محکمۂ سندھیالوجی نے ان کی ذاتی زندگی اور تجربات کے بارے میں ان کا ایک انٹرویو کیا تھا۔ اسی انٹرویو میں جی ایم سید نے جنرل ضیاالحق اور ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیات کا موازنہ بھی کیا۔ وہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تنگ دل جبکہ سابق صدر اور فوجی آمر جنرل ضیاالحق کو اپنا محسن سمجھتے تھے۔ انھوں نے جنرل ضیاالحق کا شمار گذشتہ 250 برس میں گزرنے والے پنجاب کے اہم رہنماؤں میں کیا تھا۔ جی ایم سید کا کہنا تھا کہ جنرل ضیاالحق ان کے مخالف تھے لیکن اس کے باوجود جب انھوں نے ٹیلی گرام بھیجا کہ انھیں پشتون رہنما خان غفار خان کی عیادت کی اجازت دی جائے تو 20 دن کے بعد اجازت مل گئی۔ جی ایم سید کا کہنا تھا کہ پنجاب قیادت کے معاملے میں پسماندہ رہا ہے۔ ’دو، ڈھائی سو سالوں میں اس نے چار سمجھدار لوگ پیدا کیے ایک رنجیت سنگھ جس نے پورے پنجاب اور فرنٹیئر تک حکومت کی، وہ سکھ پنجابی تھا۔ دوسرا سر فضل حسین وہ وائسرائے کونسل کا رکن تھا۔ اس نے پنجابیوں کو فوج اور سیاست میں شمولیت دی اور سمجھدار پالیسی اختیار کی اور بعد میں یونینسٹ پارٹی بنائی۔‘ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت پر بات کرتے ہوئے جی ایم سید انھیں سندھ کا اثاثہ مانتے تھے۔ بقول ان کے ’محمد علی جناح نے 23 برسوں میں جو رتبہ حاصل کیا وہ اس نے سات سالوں میں حاصل کر لیا۔ وہ بڑے دماغ والا شخص تھا لیکن سیاسی لالچ اور اقتدار کی بھوک نے اسے مفاد پرست کر دیا۔ وہ کسی کو درست پہچان نہیں سکا ورنہ ہمارا بڑا اثاثہ تھا۔‘ وہ 1973 کے آئین کو سندھ کے خلاف سمجھتے تھے جبکہ ایم آر ڈی اس کی بحالی کی بات کر رہی تھی۔ اپنے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’ایم آر ڈی پنجاب کی جماعت ہے جس کا سربراہ نوابزادہ نصراللہ خان ہے اور اس میں ٹکا خان بھی شامل ہے۔‘ سندھ میں قیام پاکستان سے قبل صرف سکھر میں مسلم ہندو فسادات ہوئے تھے۔ جی ایم سید نے مسجد منزل گاہ کے تنازع پر ہندو مسلم فسادات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہندو مسلم کشمکش کا نتیجہ تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/entertainment-59930592", "summary": "جلال چانڈیو کے عروج کے دور میں اُن کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ سندھ کے دیہی گھرانوں میں اُن کی دستیابی دیکھ کر بچوں کی شادی کی تاریخ طے کی جاتی تاکہ جلال ان کی شادی کی تقریب میں اپنی پرفارمنس دے سکیں۔", "title": "جلال چانڈیو، چرواہے سے گلوکار تک کا سفر: ’اُن کی دستیابی دیکھ کر شادی کی تاریخ طے کی جاتی‘", "firstPublished": "2022-01-10T03:59:04.000Z", "id": "eebb263d-2485-4e6e-8962-63bba5315e55", "article": "جلال چانڈیو کی وفات پر سینیئر صحافی اسحاق منگریو نے روزنامہ ’کاوش‘ میں اپنی یادداشتوں میں لکھا تھا کہ ایک شادی کی تقریب میں جلال کی محفل تھی ڈاکو آ گئے اور کہا کہ آپ لوگوں نے سُن لیا اب اُن کی باری ہے۔ جس کے بعد ڈاکو جلال چانڈیو اور اُن کے سازندوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ سندھ میں جلال چانڈیو جب مقبولیت کے عروج پر تھے اُس وقت جنرل ضیا الحق کی آمریت کا دور تھا اور سندھ میں احساس محرومی بڑھ چکا تھا۔ سیاسی جدوجہد، گرفتاریاں اور کوڑوں کی سزائیں عام تھیں۔ اینتھرپولوجسٹ رفیق وسان کا کہنا ہے کہ جلال چانڈیو نے خود کو سندھ کی مزاحمتی کلچر سے الگ نہیں کیا تھا، اُن کے کیسٹس میں سندھ سے محبت کے گیت شامل ہوتے جیسے استاد بخاری کا گیت تھا ’ہم سپاہی سندھ کے‘ یا ذوالفقار علی بھٹو پر ’بھلائے سے بھی بھلائی نہیں جائے گی تیری وفاداری‘ جلال کی مقبولیت میں کوئی ایک عنصر نہیں بلکہ متعدد عناصر تھے۔ ناز سہتو کے مطابق یہ اپنے دور کی ایک سپر ہٹ فلم تھی۔ بعض دیہی شہروں میں لوگ بستر لے کر سنیما آ جاتے کہ معلوم نہیں کب ٹکٹ ملے گا، کیونکہ ان کی فلم پر کھڑکی توڑ رش ہوتا تھا اور ٹکٹ حاصل کرنا بہت ہی مشکل۔ جلال چانڈیو کی وفات 10 جنوری 2001 کو ہوئی۔ اُن کے سفر آخر پر بھی ’کھڑکی توڑ‘ رش تھا کیونکہ ہزاروں ان کے آخری دیدار کے لیے امنڈ آئے۔ اس موقع پر پولیس کو لاٹھی چارج کا سہارا لینا پڑا تھا جس میں کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے۔ صادق آباد کے نوجوان فقیر رجب علی داؤد پوٹہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے بچپن میں ٹریکٹر پر یہ گیت سُنا تھا جو ان کے علاقے میں کافی مقبول تھا، وہ اس کو گنگناتے تھے، اُن کا ایک دوست ایک مرتبہ ساؤنڈ سسٹم سیٹ کر رہا تھا اس نے کہا کہ کچھ بھی گاؤ۔ انھوں نے یہ کلام گایا جس کے 30 سیکنڈ ریکارڈ کیے اور یہ ٹک ٹاک پر وائرل ہو گیا، جس کے بعد انھوں نے یہ پورا گیت گایا اور یوں جلال کے اس گیت نے ایک شناخت دی۔ اُن کا کہنا ہے کہ جلال چانڈیو ایک عوامی گلوکار تھا جس کو ہر طبقے کے لوگ سُنتے تھے اور یونیورسٹیوں سے لے کر مزدور طبقے تک سب پسند کرتے تھے، اس کی تعلیم نہیں تھی لیکن اس کو شاعری زبانی یاد رہتی یہ اس کی کمنٹمنٹ تھی۔ ’اپنی دھرتی سے دور بیھٹے ہیں، اس لیے میلے اور ملاکھڑوں میں شرکت نہیں کر سکتے۔ یوں خیال آیا کہ جلال کا ورچوئل میلہ لگائیں جس میں دوست احباب جلال کے قصے کہانیاں شیئر کریں اور اس کے گیت سنائیں۔ اس طرح یکم جنوری سے یہ سلسلہ شروع کیا جو دس جنوری کو جلال کی برسی کے روز تک جاری رہے گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59813486", "summary": "پاکستان کے ضلع تھرپارکر کی ایک مقامی عدالت نے پاکستان فوج کے ذیلی ادارے ایف ڈبلیو او اور ایک نجی کمپنی کو ننگرپارکر میں کارونجھر پہاڑ کی کٹائی سے روک دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ کارونجھر کو کاٹنے کا مطلب ایک ایسی مرغی کو مارنا ہے جو سونے کا نہیں بلکہ ہیرے کا انڈا دیتی ہے", "title": "تھر کا خوبصورت، تاریخی نشانیوں والا پہاڑ: ایف ڈبلیو او کو کارونجھر کی کٹائی سے روک دیا گیا", "firstPublished": "2021-12-28T18:19:32.000Z", "id": "5b8451d6-9114-4189-aea0-00cba53987b4", "article": "پاکستان کے ضلع تھرپارکر کی ایک مقامی عدالت نے پاکستان فوج کے ذیلی ادارے ایف ڈبلیو او اور ایک نجی کمپنی کو ننگرپارکر میں کارونجھر پہاڑ کی کٹائی سے روک دیا ہے۔ سول جج اینڈ جوڈیشل مجسٹریٹ ننگرپارکر کرم علی شاھ نے مقامی اور بین الاقوامی قوانین، آئین پاکستان سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دے کر اپنا فیصلہ جاری سنایا۔ انھوں نے کہا کہ کارونجھر کو کاٹنے کا مطلب ایک ایسی مرغی کو مارنا ہے جو سونے کا نہیں بلکہ ہیرے کا انڈا دیتی ہے۔ انھوں نے فیصلے میں فیض احمد فیض کی نظم کے ایک شعر کا حوالہ بھی دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں ایف ڈبلیو او اور کوہ نور کمپنی کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ دعوی کرتے ہیں کہ قانونی طور پر یہ عمل جاری ہے جبکہ آپ نے لیز کے معاہدے، سروے رپورٹس، حدود یا اس کی شرائط سمیت کوئی اور دستاویز ظاہر نہیں کیں اور اس کے علاوہ محکمہ ماحولیات، محمکمہ جنگلی حیات، محکمہ ثقافت اور نوادرات اور پاکستان کی وزارت دفاع کا این او سی جو کام شروع کرنے سے پہلے لازمی شرط ہے، پیش نہیں کیا۔ عدالتی فیصلے میں پہاڑ کی اہمیت کے بارے میں کہا گیا کہ کارونجھر کی کٹائی ایسے ہے جیسے سونے نہیں بلکہ ہیرے کے انڈے دینے والی مرغی کو مار دیا جائے۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ 'یہ صرف پہاڑ نہیں بلکہ اجتماعی ذریعہ ہے۔۔۔ یہ پہاڑی سلسلہ ایک ہی وقت میں سیاحت، ثقافت، ورثے، مذہبی لگاؤ، آبپاشی، زراعت، دفاع، معاش، تحفظِ جنگلی زندگی، ہریالی سے بھرا جنگل اور بہت کچھ ہے۔ پہاڑ کو کاٹنے کا مطلب ننگرپارکر کے لوگوں کی زندگی کے تمام ذرائع کو کاٹنا ہے۔۔۔' سندھ حکومت ہی کے ادارے سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ سے وابستہ میر اعجاز تالپور نے واضح کیا کہ کارونجھر کا پہاڑی سلسلہ بلکہ پورا ننگر پارکر کا علاقہ وائلڈ لائف سینکچری ’رن آف کچھ‘ کا حصہ ہے جو عالمی تحفظ یافتہ آب گاہ رامسر سائٹ بھی ہے جس کے معاہدے ’رامسر کنونشن‘ کا پاکستان بھی توثیق کنندہ ہے۔ میر اعجاز تالپور کا یہ بھی کہنا ہے کہ کارونجھر سے پتھر کاٹنے کی لیز مائنز اینڈ منرل ڈپارٹمنٹ آف سندھ نے دی ہے جو غیر قانونی ہے۔ ’ہم نے اس ادارے کو خط لکھا ہے کہ وہ اسے کینسل کرے کیونکہ اگر یہ عمل جاری رہا تو پہاڑی جنگلی حیات اس علاقے سے نقل مکانی کر جائے گی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59294585", "summary": "وفاقی حکومت نے نومبر میں کراچی کے میمن گوٹھ میں تشدد کے بعد قتل ہونے والے ناظم جوکھیو کے کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی میں ایف آئی اے، سول اور عسکری فورسز کے نمائندے شامل ہوں گے۔", "title": "وفاقی حکومت کا ناظم جوکھیو قتل کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم قائم کرنے کا اعلان", "firstPublished": "2021-11-15T15:54:07.000Z", "id": "e450034b-06cd-44a5-ab79-b85aa6622b70", "article": " وفاقی حکومت نے نومبر میں کراچی کے میمن گوٹھ میں تشدد کے بعد قتل ہونے والے ناظم جوکھیو کے کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں پر بریفنگ دیتے ہوئے اس جے آئی ٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی میں ایف آئی اے، سول اور عسکری فورسز کے نمائندے شامل ہوں گے۔ انھوں نے سندھ حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’ناظم جوکھیو کے قاتلوں کو بچانے کے لیے کیا کیا نہیں کیا گیا، کرمنل تحقیقات کو مکمل طور پر کمپرو مائز کیا گیا اور یہ صورتحال ناقابل قبول ہے اور وفاقی حکومت کو اس کیس سے متعلق تحقیقات پر تحفظات ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے اس کیس کے حوالے سے ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنانے کی منظوری دی ہے۔ اس سے قبل ناظم جوکھیو کے ورثا اور وکلا نے ملیر پولیس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مقدمے کی آزادانہ تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کی درخواست کی تھی۔ افضل جوکھیو کے وکیل مظفر جونیجو نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ناظم کے قتل کی جو ایف آئی آر درج کی گئی وہ مدعی کے پہنچنے سے قبل اس کے بیان کو بنیاد بنا کر دائر کی گئی تھی۔ وکیل نے دعویٰ کیا ہے کہ مدعی نے جب کہا کہ انھیں پڑھنے تو دیں تو اس کو کہا گیا کہ آپ کو کاربن کاپی دیتے ہیں گھبرائیں نہ آپ کے ساتھ انصاف ہو گا۔ گذشتہ ماہ مدعی کے وکیل نے بتایا تھا کہ ’پولیس نے پانچ ملزمان کے نام شامل کیے ہیں۔ جو حقائق تھے یا پوری کہانی تھی، وہ بھی ایف آئی آر میں ادھوری ہی لکھی گئی ہے، جو مرکزی ملزم ہے جام کریم بجار اس کا نام بھی شامل نہیں کیا گیا تھا، ایف آئی آر میں اور جو جائے وقوعہ بتائی گئی تھی وہ جام ہاؤس کے باہر کی بتائی گئی تھی جبکہ ہلاکت تو جام ہاؤس کے اندر ہوئی تھی۔‘ ’ایف آئی آر کے فوری بعد یا واقعہ کے چند گھنٹوں کے بعد موقعہ واردات کا معائنہ ہوتا ہے لیکن چار روز کے بعد معائنہ کرایا گیا۔ اس موقع پر صرف دو افسران موجود تھے جبکہ ڈنڈوں کی ریکوری پہلے ہی دکھا دی گئی، ہمیں اعتماد نہیں ہے کہ یہ واقعی وہی ڈنڈے ہیں جن سے تشدد کیا گیا یا کہیں اور سے لائے گئے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59803400", "summary": "بے نظیر بھٹو کی 14 ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ’آج پاکستان میں جمہوریت بس نام کی رہ گئی ہے، نہ اس میں بولنے کی آزادی ہے، نہ جینے کی آزادی ہے، نہ سانس لینے کی آزادی ہے‘۔", "title": "5 جنوری سے لاہور سے حکومت کے خاتمے کی کہانی شروع ہوگی: بلاول بھٹو", "firstPublished": "2021-12-27T15:29:51.000Z", "id": "8f5dbf01-34a5-4ba4-88bc-cb9c88b0578c", "article": "اپنی والدہ اور پاکستان کی دو بار سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی 14 ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ہم کٹھ پتلی کے خلاف شانہ بشانہ جدوجہد کریں گے، اس کٹھ پتلی کے خلاف وار کرنے کا وقت آ چکا ہے اور پانچ جنوری کو لاہور میں اس حکومت کے خاتمے کی کہانی شروع ہو گی جہاں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی‘۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ ’آج آپ نے تبصرہ نگاروں اور کالم نگاروں سے ڈیل ڈیل کی باتیں سنی ہوں گی لیکن یہ وہی شکلیں اور قلم ہیں جو 27 دسمبر 2007 کی صبح بے نظیر بھٹو پر الزام لگا رہے تھے کہ شہید بے نظیر ڈیل کر رہی تھی، پاکستان پیپلز پارٹی ڈیل کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی بلکہ صرف عوام پر بھروسہ کرتی ہے، جو چھپ چھپ کر ڈیل کی سیاست کرتے ہیں ان کے پاس گڑھی خدا بخش جیسا شہیدوں کا قبرستان نہیں ہوتا‘۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ اس ملک میں کبھی آر او الیکشن تو کبھی آر ٹی ایس کا الیکشن کرایا گیا، کبھی کسی چوہدری تو کبھی کسی نثار کو استعمال کیا گیا اور جمہوریت پر حملے ہوتے رہے، جمہوریت کو نقصان پہنچایا جاتا رہا اور عوام کے ووٹ پر ڈاکا مارا گیا اور پاکستان کے عوام سے جمہوریت چھینی گئی۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ ’آج پاکستان میں جمہوریت بس نام کی رہ گئی ہے، نہ اس میں بولنے کی آزادی ہے، نہ جینے کی آزادی ہے، نہ سانس لینے کی آزادی ہے، شہید بی بی آپ کا پاکستان تو معاشی طور پر بھی نقصان میں ہے اور غریب عوام لاوارث ہیں‘۔ بلاول کے مطابق ’ملک بھر کے عوام کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ خان صاحب کی حکومت نہ جمہوریت پر یقین رکھتی ہے، نہ صوبائی خودمختاری پر یقین رکھتی ہے نہ عوام کی آزادی اور خوشحالی پر یقین رکھتی ہے‘۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ آج ہمارے شہدا اور اے پی ایس کے بچوں کے خون پر سودا کیا جا رہا ہے، ہمارے افسران اور پولیس اہلکاروں کے خون سے سودا کیا جا رہا ہے، انہی دہشت گردوں کے سامنے صدر پاکستان اور وزیراعظم جھک چکے ہیں، وہ ڈیل کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ آصف زرداری نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جو وعدہ میں نے بی بی صاحبہ سے کیا تھا وہ میں آہستہ آہستہ پورا کر رہا ہوں‘۔ آصف زرداری کے مطابق ’وہ وقت دور نہیں جب آپ کی حکومت دوبارہ آئے گی، آپ کی تقدیر بلاول بدلے گا، بلاول غریبوں کی تقدیر بدلے گا‘۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59770766", "summary": "پاکستان میں حالیہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق عمرکوٹ ضلع میں ہندو آبادی اکثریت میں ہے۔ 10 لاکھ 73 ہزار آبادی والے ضلع عمر کوٹ میں ہندوؤں کی آبادی لگ بھگ 52 فیصد ہے، اس کے باوجود منتخب ایوانوں میں اس ضلع سے کوئی بھی ہندو رکن اسمبلی منتخب نہیں ہوا ہے۔", "title": "عمرکوٹ: پاکستان کا واحد ہندو اکثریتی ضلع جہاں محرومیوں کے ڈیرے ہیں", "firstPublished": "2021-12-27T06:15:59.000Z", "id": "0d037a32-2505-4862-bfb5-f393c2cc6db1", "article": "پاکستان میں حالیہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق عمرکوٹ ضلع میں ہندو آبادی اکثریت میں ہے۔ 10 لاکھ 73 ہزار آبادی والے ضلع عمر کوٹ میں ہندوؤں کی آبادی لگ بھگ 52 فیصد ہے، اس کے باوجود منتخب ایوانوں میں اس ضلع سے کوئی بھی ہندو رکن اسمبلی منتخب نہیں ہوا ہے۔ کراچی سے مٹھی تک سڑک کی تعمیر سے قبل یہ شہر اہم تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہوتا تھا اور اس کو ’تھر کا گیٹ وے‘ کہا جاتا تھا، موجودہ وقت بھی خوراک سمیت عام ضرورت کی اشیا تھر میں عمرکوٹ سے ہی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ عمرکوٹ کے بعد تھر دوسرا بڑا ضلع ہے جہاں ہندو آبادی کُل آبادی کا لگ بھگ 40 فیصد ہے۔ عمرکوٹ کی معشیت کا تمام تر دارد مدار زراعت پر ہے۔ زمینداروں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے جبکہ کسان 80 فیصد ہندو دلت کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ شہروں میں دکانداروں کی اکثریت اپر کاسٹ ہندوؤں کی ہے، صرافہ، کھاد و بیج کی دکانوں پر اُن کی ہی گرفت ہے۔ ’یہاں کی جو نمائندگی ہے، وہ حقیقی نہیں ہے۔ یہاں 98 فیصد ہندو برادری ووٹ ڈالتی ہیں جبکہ مسلمانوں کی شرح کم ہوتی ہے، خاص طور پر خواتین گھروں سے نہیں نکلتیں یا کوئی اپر کلاس ہیں تو وہ خواتین ووٹ نہیں دینے آتیں، اقلیتی خواتین کی اکثریت ووٹ دیتی ہیں۔‘ لال چند مالھی کا تعلق عمرکوٹ سے ہے اور وہ مخصوص نشست پر تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔ اُن کے مطابق ہندو آبادی اکثریت میں ہونے کے باوجود سیاسی جماعتیں زیادہ تر اقلیتوں کو عام نشستوں پر نامزد نہیں کرتی ہیں۔ رکن قومی اسمبلی لال مالھی کہتے ہیں کہ سرکاری ملازمتوں کا ہمارے معاشرے میں سیاست سے ایک گہرا تعلق ہے۔ ’اگر کہیں آپ کی نمائندگی نہیں تو کوٹہ اور طرفداری تو چھوڑیں میرٹ پر بھی ملازمت نہیں ملتی۔ اس وجہ سے اقلیتی برادری اکثر اچھی ملازمت حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں۔‘ میوا رام پرمار سماجی کارکن ہیں اور ہندو کمیونٹی میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ملازمت کا تعلق تعلیم سے ہی ہے اگر تعلیم نہیں ہو گی تو سرکاری یا نجی شعبے میں ملازمت نہیں ملے گی۔ اقلیتوں کی اکثریت شیڈول کاسٹ ہے وہ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کا تو وہ خواب بھی نہیں دیکھ سکتے لہذا معاشی صورتحال اس میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ ’یہاں ہندو آبادی اکثریت میں ہے لیکن ان کا منتخب نمائندہ کوئی نہیں ہے جبکہ اقلیتی مسلم آبادی کے نمائندے ہیں، چونکہ ملازمتوں میں سیاسی عمل دخل ہوتا ہے تو اس صورتحال میں اقلیتیں محروم رہ جاتی ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59736155", "summary": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے علاقے نارائن پورہ میں واقع مندر میں توڑ پھوڑ کے مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں اور ملزم کو عدالت نے 28 دسمبر تک ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔", "title": "کراچی: مندر میں توڑ پھوڑ پر توہین مذہب کے مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل", "firstPublished": "2021-12-21T00:14:40.000Z", "id": "2bc82c21-9352-416e-aee1-bc1154919cb1", "article": "کراچی میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ہندو مندر کی بےحرمتی کے الزام میں گرفتار ملزم کو 28 دسمبر تک ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ منگل کو عیدگاہ پولیس نے ملزم کو پہلے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرکے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی جہاں پر سرکاری وکیل نے موقف اختیار کیا کہ اقلیتی برادری کی عبادت گاہ پر حملہ دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے، جس پر عدالت نے ملزم کا ریمانڈ انسداد دہشت گردی کی عدالت سے لینے کی ہدایت کی تھی۔ مندر کی بےحرمتی کا واقعہ کراچی کے علاقے نارائن پورہ میں پیر کی شام پیش آیا تھا جہاں ایک شخص نے مندر میں توڑ پھوڑ کی تھی۔ علاقے کے مکینوں نے اس شخص کو پکڑ کے پولیس کے حوالے کیا تھا۔ کراچی میں بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق نارائن پورہ میں ہندو کمیونٹی کی جانب سے اس واقعے پر دھرنا بھی دیا گیا اور منگل کو صوبائی وزیر اقلیتی امور گیان چند ایسرانی نے موقع پر پہنچ کر مظاہرین کو انصاف کی یقین دہانی کرائی اور بتایا کہ واقعے میں ملوث ملزم گرفتار ہو چکا ہے اور مقدمے میں دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اس مقدمے کی کارروائی پر نظر رکھے گی اور ملزم کو سخت سے سخت سزا دلوائی جائے گی۔ ایف آئی آر میں مکیش کمار کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ان کی اہلیہ جوگ مایا نامی مندر میں پوجا کرنے گئی تھیں کہ اچانک سوا آٹھ بجے کے قریب ایک ہتھوڑا بردار شخص مندر میں داخل ہوا اور وہاں رکھی ہوئی جوگ مایا مورتی کے سر پر ہتھوڑا مارا جس پر ان کی بیوی نے شور مچایا اور اسے سن کر وہ خود اور محلے کے لوگ مندر میں آئے اور اس شخص کو مورتی پر ہتھوڑا مارتے ہوئے پکڑ لیا۔ مدعی کے مطابق علاقے کی پولیس بھی اس دوران موقع پر آ گئی اور اس شخص کو اپنے تحویل میں لے لیا۔ پولیس نے اس شخص کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ کراچی میں بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق مقامی لوگ عمارتیں توڑنے میں استعمال ہونے والا ایک بڑا ہتھوڑا لے کر تھانے پہنچے جہاں انھوں نے احتجاج بھی کیا اور پولیس کو بتایا کہ وہ یہ ہتھوڑا دینے آئے ہیں، پولیس حکام نے انھیں انصاف کی یقین دہانی کرائی جس کے بعد وہ منتشر ہو گئے۔ پاکستان کے قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین چیلا رام کیولانی کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعہ تمام اقلیتی برادری میں خوف اور دکھ کا سبب بنا ہے، اس طرح کے واقعات پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایک بیان میں چیلا رام نے کہا کہ ’جب تک ملوث افراد کو سزا نہیں ہو گی ایسے واقعات کو روکا نہیں جا سکتا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59708446", "summary": "پولیس حکام کے مطابق دھماکہ بظاہر بینک کے نیچے سے گزرنے والے نالے میں گیس بھر جانے کے باعث ہوا ہے تاہم اُن کے مطابق بم ڈسپوزل سکواڈ ہی اس کی حقیقی وجہ کا تعین کر سکے گا۔", "title": "کراچی: شیر شاہ کے علاقے میں دھماکے سے کم از کم 14 افراد ہلاک", "firstPublished": "2021-12-18T10:58:50.000Z", "id": "19054299-8b74-4320-ad7e-9cbbedbee56e", "article": "کراچی میں شیر شاہ کے علاقے میں ایک نجی بینک کی برانچ میں دھماکے کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ کراچی پولیس کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن کے مطابق دھماکہ بظاہر بینک کے نیچے سے گزرنے والے نالے میں گیس بھر جانے کے باعث ہوا ہے تاہم اُنھوں نے کہا کہ بم ڈسپوزل سکواڈ ہی اس کی حقیقی وجہ کا تعین کر سکے گا۔ صوبائی وزیر صحت عذرا پیچوہو کے مطابق اس واقعے میں اب تک 14 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک بڑا سانحہ ہوا ہے۔ ہلاک شدگان اور زخمیوں کو کراچی کے سول ہسپتال میں ٹراما سینٹر اور جناح ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کمشنر کراچی کو اس معاملے کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ وزیرِ صحت سندھ ڈاکٹر عذرا پیچوہو کی ہدایت پر ٹراما سینٹر اور جناح ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ وزیر صحت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق 12 افراد کی لاشیں ٹراما سینٹر میں آئی ہیں، 2 لاشیں راستے میں ہیں اور 11 لاشوں کی شناخت ہوچکی ہے۔ دو زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے جن میں سے ایک وینٹیلیٹر پر ہے اورایک آئی سی یو میں ہے۔ شیر شاہ دھماکے میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی عالمگیر خان کے والد بھی ہلاک ہو گئے ہیں۔ وزیرِ بلدیات سندھ ناصر حسین شاہ نے جائے وقوعہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکام اس وقت ریسکیو پر توجہ دے رہے ہیں تاہم ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59604941", "summary": "پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی ہب میں عوام کے لیے ٹرانسپورٹ کا نظام گذشتہ کئی دہائیوں سے دگرگوں حالت میں ہے۔ کراچی کے ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت نے بس ریپڈ ٹرانسپورٹ منصوبے کا آغاز کیا جس کو کراچی بریز کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن کیا گرین لائن بس سروس کراچی کے شہریوں کی زندگی میں آسانی لائے گی؟", "title": "گرین لائن کراچی کے شہریوں کی زندگی میں کتنی آسانی پیدا کرے گی؟", "firstPublished": "2021-12-11T04:56:17.000Z", "id": "e4c1cd67-74dc-4180-8444-0ee357858e2b", "article": "لیکن پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب میں عوام کے لیے ٹرانسپورٹ کا نظام گزشتہ کئی دہائیوں سے دگرگوں حالت میں ہے۔ ملازمت کےلیے جانا ہو یا تفریح کے لیے، مارکیٹ تک پہنچنا ہو یا سکول، کراچی میں عام آدمی کا سفر انگریزی زبان کا لفظ بن جاتا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے فقدان کی وجہ سے یہاں آمدورفت کے لیے موٹر سائیکل، رکشہ، چنگچی، کار اور ٹیکسی کا استعمال عام ہے۔ پھر بھی عوام کی ایک بڑی تعداد ہے جو بس میں سفر کرتی ہے، جن کی تعداد محدود اور حالت خستہ ہو چکی ہے۔ بس کا سفر خاص طور پر خواتین اور طالبات کے لیے سہولت سے زیادہ پریشانی کا سبب بنتا ہے۔ گذشتہ دنوں کراچی میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک کوچ ڈرائیور کو ایک طالبہ سے بد اخلاقی کرتے دیکھا گیا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے معاملے میں کراچی شاید پاکستان کا سب سے بدقسمت شہر ہے۔ اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، پشاور حتی کہ ملتان تک میں میٹرو بس سروس رواں نظر آتی ہے لیکن کراچی میں پانچ بار ماس ٹرانزٹ منصوبوں کا اعلان صرف اعلان کی حد تک ہی رہا۔ کراچی کی ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت نے بس ریپڈ ٹرانسپورٹ منصوبے کا آغاز کیا جس کو کراچی بریز کا نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کا افتتاح سابق وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے کیا تھا جس کا ٹریک تو بن چکا لیکن منصوبہ اب تک غیر فعال ہے البتہ سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ اویس شاہ کہتے ہیں کہ بسوں کی خریداری کے لیے وفاقی حکومت کو پیسے دے دیے گئے ہیں۔ یلو لائن روٹ کا آغاز لانڈھی سے ہوگا اور یہ ایف ٹی سی اور ریگل چوک سے ہوتی ہوئی پارکنگ پلازہ تک پہنچے گی۔ ان تمام منصوبوں میں سب سے پہلے گرین لائن کی آزمائشی سروس کا آغاز کیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد راولپنڈی میٹرو میں بس کے اندر خواتین کی نشستوں پر مردوں کو بیٹھنے کی اجازت نہیں لیکن گرین بس منصوبے کے چیئرمین جاوید قریشی کا کہنا ہے کہ گرین لائن میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے مرد حضرات کو خود ہی اخلاقیات کی پیروی کرتے ہوئے ان نشستوں پر بیٹھنا نہیں چاہیئے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے بھی گرین لائن منصوبہ شروع کرنے کی تاریخیں سامنے آتی رہی ہیں۔ اس منصوبے کا افتتاح سابق وزیراعظم نواز شریف نے فروری 2016 میں کیا تھا اور اگلے دو سال میں اس کو فعال ہونا تھا۔ دوسری جانب کراچی میں گذشتہ بارشوں کے دوران سیلابی صورتحال کا سامنا رہا جس کی ایک وجہ گرین لائن کا انفراسٹرکچر بتایا گیا۔ تاہم اسد عمر کہہ چکے ہیں کہ جب یہ ڈھانچہ بن رہا تھا تو حکومت سندھ کی جانب سے کبھی کوئی شکایت نہیں کی گئی تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59597933", "summary": "مسلم لیگ کے رہنماؤں کا کہنا ہے وہ صرف ایک علامتی ربن کاٹنا چاہتے تھے تاہم پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ منصوبہ فعال تو اُن کے دور میں ہوا ہے۔", "title": "کراچی گرین لائن پراجیکٹ کے افتتاح پر تنازع: ’کراچی کی ترقی میں ہمارا لہو بھی شامل ہو گیا ہے‘", "firstPublished": "2021-12-09T14:20:43.000Z", "id": "9b950cd7-3e8a-4be5-914d-cf341cdf8c2f", "article": "تاہم اب کراچی میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ پیش آیا ہے جہاں مسلم لیگ (ن) کے رہنما گرین لائن بی آر ٹی منصوبے کا افتتاح کرنے پہنچ گئے جس کا وزیرِ اعظم عمران خان نے جمعے کو باقاعدہ افتتاح کرنا ہے۔ تب سے اب تک پاکستان میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے اور یہ منصوبہ اب پاکستان تحریکِ انصاف کے دور میں فعال ہونے جا رہا ہے۔ اس واقعے کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی کوشش تھی کہ وہ اس منصوبے کا علامتی طور پر افتتاح کر لیں۔ نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز کے نامہ نگار انجم وہاب نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مسلم لیگ ن والے ایک روز قبل ہی اپنے اس منصوبے کا اعلان کر چکے تھے اور جمعے کو وزیرِ اعظم نے بھی یہاں پر آنا ہے۔ اب مسلم لیگ کے رہنماؤں کا کہنا ہے وہ صرف ایک علامتی رِبن کاٹنا چاہتے تھے اور اُن کا سٹیشن میں داخلے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ انگلیوں پر آئے زخم بعد ازاں ایک پریس کانفرنس میں دکھاتے ہوئے احسن اقبال نے فخر سے کہا کہ کراچی کی ترقی اور گرین لائن کے افتتاح میں اُن کا ’خون بھی شامل ہو گیا ہے‘۔ احسن اقبال خود پر ہونے والے 'ریاستی تشدد' کے خلاف بول چکے تو محمد زبیر نے وزیرِ اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جس پراجیکٹ کا وہ افتتاح کرنا چاہتے تھے، وہ تو ہو چکا، اب اُن کو آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی جانب سے فوراً ہی سوشل میڈیا پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ’تھینک یو نواز شریف‘ ٹرینڈ کرتا رہا جس میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنان جمعرات کو ہونے والے واقعے پر پی ٹی آئی کو موردِ الزام ٹھہراتے رہے۔ مگر پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے وزیرِ منصوبہ بندی اسد عمر نے بھی گورنر سندھ عمران اسماعیل کے ساتھ ایک علیحدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ دور میں صرف ٹریک کی تیاری سے آگے کچھ نہیں ہوا جبکہ بسوں کی خریداری سے لے کر پراجیکٹ کے فعال ہونے تک تمام آپریشنز پی ٹی آئی دور میں مکمل ہوئے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار بھی اگست 2016 میں رینجرز کے ساتھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا کر چکے ہیں۔ غالباً اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسد نامی صارف نے لکھا کہ ’فاروق بھائی آج احسن اقبال کے ساتھ ہونے والے واقعے کو دیکھ کر سوچ رہے ہوں گے جب میں ان کو بتاتا رہا کہ یہ حل نہیں تو انھوں نے مانا نہیں۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59519908", "summary": "سپریم کورٹ کے حکم پر سپیکرسندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے سرینڈر کردیا جس کے بعد نیب نے انھیں احاطہ عدالت سے گرفتار کر لیا۔", "title": "نیب اثاثہ جات کیس: روپوش سپیکر سندھ اسمبلی نے سپریم کورٹ پہنچ کر گرفتاری دے دی", "firstPublished": "2021-12-03T12:07:29.000Z", "id": "134bad98-a72c-4a77-8ed9-413791b9ebae", "article": "جمعے کو سپریم کورٹ کے حکم پر سپیکرسندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے سرینڈر کردیا، جس کے بعد نیب نے انھیں اسلام آباد میں واقع سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر سے گرفتار کر لیا۔ نیب حکام کے مطابق سنیچر کے روز مقامی عدالت سے آغا سراج درانی کا راہداری ریمانڈ لے کر انھیں کراچی منتقل کر دیا جائے گا۔ تقربیاً ڈیڈھ ماہ روپوش رہنے کے بعد سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی ضمانت قبل ازگرفتاری کے لیے جمعے کو سپریم کورٹ پہنچے تو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ان کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر ہی عدالت نے آغا سراج درانی کو پہلے گرفتاری دینے کی ہدایت کی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت خارج ہونے پر ضمانت بعد از گرفتاری کیسے دی جا سکتی ہے، ابھی تک ملزم نے نیب کے سامنے سرینڈر نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ ملزم نے نیب کے سامنے سرینڈر نہیں کیا، آغا سراج درانی پہلے نیب اتھارٹی کو سرینڈر کریں، تو درخواستِ ضمانت ’ٹیک اپ‘ کر لیں گے۔ اس پر وکیل نے کہا کہ ان کے مؤکل نے عدالت کے سامنے سرینڈر کر دیا ہے، ٹرائل کورٹ کے سامنے سرینڈر کرنے کی اجازت دے دیں۔ آغا سراج کے وکیل کا کہنا تھا کہ بیان حلفی دے دیتے ہیں سپریم کورٹ سے گرفتارنہ کیا جائے، خود سندھ میں گرفتاری دیں گے، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نیب کے امور میں مداخلت نہیں کریں گے، یہ نیب کا اپنا معاملہ ہے، گرفتاری کے معاملے میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے۔ ضمانت کی درخواست سندھ ہائی کورٹ سے مسترد ہونے کے بعد آغا سراج درانی نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس ندیم اختر اور جسٹس اقبال کلہوڑو کے ضمانت منسوخی کے فیصلے کے بعد نیب نے آغا سراج درانی کے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے تھے۔ عدالت آمد پر آغا سراج درانی نے میڈیا کے سوالوں کا جواب دینے سے گریز کیا اور کہا کہ انصاف کی امید لے کر عدالت آیا ہوں،واپسی پر میڈیا سے بات کروں گا۔ آغا سراج درانی نے عدالت سے واپسی پر صحافی مطیع اللہ جان کے گرفتاری سے متعلق سوال پر کہ کہا کہ وہ عدالت کے فیصلے پر عمل کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ نیب نے آغا سراج درانی، ان کی اہلیہ، بچوں، بھائی اور دیگر ملزمان پر مبینہ طور پر غیر قانونی طریقوں سے بنائے گئے ایک ارب 61 کروڑ روپے کے اثاثے رکھنے کا الزام عائد کیا تھا۔ احتساب عدالت میں آغا سراج درانی اور ان کے اہل خانہ سمیت دیگر 18 افراد کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق ریفرنس بھی دائر ہے، جس میں گذشتہ برس 30 نومبر کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59413625", "summary": "تلور کے شکار کو مشرق وسطیٰ کے شاہی خاندان ایک کھیل اور شوق کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پاکستان ان شاہی خاندانوں کے اس شوق کو جاری رکھنے کے لیے ہر سال پرمِٹ جاری کرتا ہے جس میں قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین سے عرب شیخ پاکستان پہنچتے ہیں لیکن پاکستان ان دوروں سے کیا حاصل کرتا ہے؟", "title": "پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تلور کے شکار کی اتنی اہمیت کیوں", "firstPublished": "2021-11-26T06:10:07.000Z", "id": "e2455d86-7e99-456b-81f9-482aa61c5961", "article": "اسی اور نوے کی دہائی میں بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں تلور کے شکار کے لیے آئے شاہی خاندان کے قافلوں پر بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کی جانب سے حملے کیے گئے لیکن یہ پہلی بار ہے کہ صوبہ سندھ کے مختلف علاقوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے احتجاج ریکارڈ کرانے کے ساتھ ساتھ تلور کے شکار پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے اور اس دوران زیادہ تر سوالوں کا رُخ اسی طرف ہے کہ آخر پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں تلور کے شکار کو اتنی اہمیت کیوں دیتا ہے؟ اس کے بارے میں متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سابق سفیر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بات ایک کھیل یا شوق کو بطور خیر سگالی پاکستان پروموٹ کرتا ہے کیونکہ انڈیا کی طرح ہمارے پاس نائٹ کلب نہیں جہاں ہم ان خلیجی ممالک سے آئے شاہی خاندان کے ارکان کو لے جائیں۔‘ بظاہر معصوم سا لگنے والا یہ تلور خلیجی ممالک سے آنے والے عرب شیخوں کے لیے خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے شکار کو جہاں مشرق وسطیٰ کے شاہی خاندان ایک کھیل اور شوق کے طور پر دیکھتے ہیں، وہیں یہ تاثر بھی عام ہے کہ اس کا گوشت شہوت انگیز ہوتا ہے حالانکہ اس تاثر کا کسی سائنسی تحقیق سے تعلق نہیں۔ پاکستان عرب شیخوں کے اس شوق کو جاری رکھنے کے لیے ہر سال پرمِٹ جاری کرتا ہے جس میں قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین سے عرب شیخ پاکستان پہنچتے ہیں۔ رواں سال اکتوبر میں بھی وزارتِ خارجہ کی طرف سے صرف ابوظہبی سے شاہی خاندان کے 11 ارکان کو پاکستان کے سندھ، پنجاب اور بلوچستان صوبوں میں شکار کے لیے پرمٹ جاری کیے گئے۔ شاہی خاندان کے یہ رکن نومبر سے فروری کے دوران پاکستان میں تلور کے شکار کے لیے آئیں گے جیسا وہ ہر سال کرتے ہیں۔ ’اس میں ایک فرق واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت دو طریقوں سے پاکستان میں تلور کے شکار پر شاہی خاندان کے رکن آتے ہیں۔ ایک حکومت کے ذریعے دیے جانے والے دعوت ناموں پر اور دوسرا ذاتی طریقے سے وڈیروں اور دوستوں کے ساتھ روابط ہونے کی بنیاد پر۔‘ 1970 کی دہائی سے باقاعدہ طور پر تلور کے شکار کے لیے خلیجی ممالک سے عرب شیخ اور حکمران خاندانوں کو بلانا شروع کر دیا تھا۔ ان دوروں کو نجی دورے کا نام دیا گیا، جسے پاکستان نے ان ممالک سے اپنے سفارتی تعلقات استوار کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اسی سلسلے میں رواں سال فروری میں جب متحدہ عرب امارات اور ابوظہبی سے شاہی خاندان کے فرد شکار کے لیے پاکستان پہنچے تو پاکستان میں یہی چرچا رہا کہ شکار پر آئے شاہی خاندان کہ رکن پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کروانے کے بارے میں ضرور بات کریں گے لیکن ایسی کوئی بات منظرِ عام پر نہیں آئی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59408005", "summary": "سندھ میں ایک میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ نوشین کاظمی کی ہلاکت کے بعد ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ رسے سے لٹکنے کے باعث سانس کا گھٹنا قرار دی گئی ہے تاہم یہ واقعہ خودکشی ہے یا قتل، اس کا تعین تفصیلی رپورٹ کے بعد ہی ممکن ہو سکے گا۔", "title": "نوشین کاظمی کی ہلاکت: ’میری بیٹی تہجد گزار تھی، وہ کیسے خودکشی کرسکتی ہے؟‘", "firstPublished": "2021-11-24T17:07:38.000Z", "id": "935fd6c2-c1f6-417d-aaf7-1471a7a7370d", "article": "سندھ میں ایک میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ نوشین کاظمی کی ہلاکت کے بعد ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ رسے سے لٹکنے کے باعث سانس کا گھٹنا قرار دی گئی ہے تاہم یہ واقعہ خودکشی ہے یا قتل، اس کا تعین تفصیلی رپورٹ کے بعد ہی ممکن ہو سکے گا۔ پوسٹ مارٹم ٹیم میں شامل ایک ڈاکٹر کے مطابق لاش کے چار پانچ گھنٹے لٹکے رہنے کی وجہ سے گردن کا سائز دو تین انچ بڑھ گیا ہے۔ پولیس نے اس معاملے پر ابھی کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے تاہم طالبہ کے والد ہدایت اللہ کاظمی کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی خودکشی نہیں کر سکتی۔ ہدایت اللہ کاظمی نے دادو میں نوشین کی تدفین کے بعد بی بی سی سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میری بیٹی سولہ سولہ گھنٹے پڑھتی تھی، وہ تہجد گزار تھی، وہ کیسے خودکشی کرسکتی ہے؟ ہمیں اس پر یقین نہیں۔‘ نوشین کے والد ہدایت کاظمی کے چار بچے ہیں اور نوشین ان میں دوسرے نمبر پر تھیں۔ ایک ہفتہ قبل ان کی بڑی بیٹی کی منگنی تھی جس میں شرکت کے بعد نوشین واپس ہاسٹل گئی تھیں۔ ہدایت کاظمی کے مطابق رات کو ان کی بیٹی سے ٹیلیفون پر بات ہوئی تھی جس میں انھوں نے کسی خدشے، پریشانی وغیرہ کا اظہار نہیں کیا تھا۔ یہ واقعہ بدھ کی دوپہر کو گرلز ہاسٹل نمبر 2 میں پیش آیا۔ اسسٹنٹ کمشنر لاڑکانہ احمد علی سومرو کا کہنا ہے کہ نوشین کاظمی کی روم میٹ باہر گئی ہوئی تھی، وہ کمرے میں اکیلی تھی۔ اس کمرے کے کونے میں موجود رائیٹنگ ٹیبل کے اوپر نوشین کے دونوں پاؤں تھے، جو ہوا میں نہیں بلکہ ٹیبل کی سطح پر تھے جبکہ رسا اوپر چھت کے پنکھے میں بندھا ہوا تھا جو تھوڑا سے جھکا ہوا تھا اور رسے کا آخری سرا پھندے کی صورت میں نوشین کے گلے میں موجود تھا۔ سندھیانی تحریک کی رہنما مرک منان چانڈیو کا کہنا تھا کہ جو ویڈیوز سامنے آئی ہیں اس سے نہیں لگتا کہ یہ خودکشی کا واقعہ ہے دو سال قبل نمرتا کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا اگر اس کے ساتھ انصاف ہوتا یہ لاش نہیں ملتی۔ نمرتا کی موت کی وجہ گلے کا گھٹنا قرار دی گئی تھی تاہم ان کے خاندان نے اس توجیہ کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے معاملے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا تھا اس کی تحقیقات بھی ہوئی لیکن رپورٹ سامنے نہیں آسکی۔ سورٹھ سندھو لکھتی ہیں کہ ’چوتھے سال کی طالبہ روم میں مردہ حالت میں پائی گئی، تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس کے پیر ٹیبل پر ہیں اور رسا چھت کے پنکھے میں بندھا ہوا ہے اس کو خودکشی کا رنگ دیا جارہا ہے۔ یہ پہلا کیس نہیں اس کی شفاف تحقیقات کی ضرورت ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59389409", "summary": "سوناری کا خواب تھا کہ وہ بچوں کو پڑھائیں مگر اس کے لیے اُن کے پاس جگہ نہیں تھی، چنانچہ اُنھوں نے علاقے کے مندر کو ہی سکول کی شکل دے دی۔", "title": "’سکول کی عمارت نہیں تھی سو مندر کو ہی سکول بنا دیا‘", "firstPublished": "2021-11-25T04:24:12.000Z", "id": "0e93318b-6a3e-49fe-a615-9ade2e3963cf", "article": "حیدرآباد کے علاقے پھلیلی کی غفور شاہ کالونی میں صبح ہوتے ہی بچے اور بچیاں اپنے کندھوں پر بستے لادے ایک مندر کی جانب نکل پڑتے ہیں۔ ویسے تو مندر عبادت کی جگہ ہے لیکن اس مندر کو سوناری باگڑی نے ایک سکول میں تبدیل کر دیا ہے۔ شادی کے بعد انھوں نے گھر کا خرچہ پورا کرنے کے لیے شوہر کے ساتھ مل کر مزدوری کی۔ انھوں نے کپاس چُنی، گیہوں کی کٹائی کی اور مرچیں بھی چنیں۔ مگر بچپن میں دیکھا ہوا خواب اب بھی سوناری کے دل میں زندہ تھا، لہٰذا انھوں نے بچوں کو پڑھانے کا فیصلہ کیا۔ مگر نہ ان کے پاس کوئی ایسی جگہ تھی جہاں بچوں کے لیے سکول کھولا جاتا اور نہ ہی وسائل تھے۔ سوناری پہلے ٹیوشن پڑھانے لگیں۔ مگر پھر انھیں خیال آیا کہ ان کی بستی میں قائم مندر کو ہی سکول میں کیوں نہ تبدیل کیا جائے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’میری برادری میں لوگ بچیوں کو پڑھانا تو درکنار لڑکوں کو بھی نہیں پڑھاتے۔ میں اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھی جس نے سکول جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان دنوں پڑھائی کے دوران مجھے خیال آیا کہ اگر میں اپنے قبیلے کو سدھارنا چاہتی ہوں تو مجھے یہاں تعلیم عام کرنی پڑے گی۔ اس طرح لڑکے لڑکیوں کی تعلیم میرا مقصد بن گیا۔‘ ’لیکن میں یہ سوچ کر پریشان ہوتی تھی کہ اس خواب کو پایہ تکمیل تک کیسے پہنچاؤں گی۔ مگر بچپن سے میرا یہ ارادہ تھا کہ میں اپنے قبیلے کے ان بچوں کو سکول کا راستہ دکھاؤں جو ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں۔‘ آج بھی اسی بستی میں تعلیم کا حصول اس لیے مشکل ہے کہ لوگ مزدوری کرنے اور کاروبار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ لڑکیاں کمسنی میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں، لیکن سوناری نے اس کے برعکس سوچا۔ انھوں نے وہ راستہ چنا جو مشکل تو ضرور تھا مگر ناممکن نہیں تھا۔ سوناری کہتی ہیں کہ ’ہماری بستی میں یہ مندر کی سب سے بہترین جگہ ہے۔ اگر کوئی مہمان آتا ہے تو بھی اس کے ٹھہرنے کا بندوبست یہاں ہوتا ہے۔ کئی یاتری جو راما پیر کے میلے کے لیے جاتے ہیں تو وہ بھی چند روز یہاں گزار کر جاتے ہیں کیونکہ یہ مندر ہمارے لیے سب کچھ ہے۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ یہ ہمارے لیے ایک ایسا سایہ ہے جس کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔ یہاں سے سکول کوسوں دور ہے، اور بچوں کو نہر پار کر کے جانا پڑتا تھا۔ کئی بار بچوں کو کتوں کے کاٹنے کے واقعات بھی پیش آ چکے تھے۔ اس کے علاوہ بچوں کے آنے جانے پر بہت کرایہ لگ جاتا تھا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59308343", "summary": "کچے کے علاقوں کی مشکل ڈاکوؤں کے لیے آسانی ہے جو یہاں پناہ گاہیں بنا کر آس پاس کے علاقوں میں دہشت پھیلاتے ہیں اور پولیس کی دسترس سے دور رہتے ہیں۔ وقت پڑنے پر یہیں سے قانون نافذ کرنے والوں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں۔", "title": "کچے کے سفاک ڈاکو گینگ: ’انھوں نے قرآن چوما اور بچوں کو بغیر تاوان لیے واپس کر دیا‘", "firstPublished": "2021-11-17T03:51:28.000Z", "id": "a39d986e-ad26-49c6-8e95-e9df2a9fc64a", "article": "رات کے پچھلے پہر کپکپاتے ہاتھوں میں قرآن اٹھائے سہمی ہوئی دو ادھیڑ عمر خواتین کچے کے پُرپیچ راستوں پر ڈگمگاتے قدموں ڈاکوؤں کی کمین گاہوں کی جانب گامزن تھیں۔ ایک ایسے علاقے میں جہاں دن کی روشنی میں بھی عام آدمی جاتے ہوئے کتراتے ہیں یہ خواتین قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مایوس ہو کر خود ہی اپنے اغوا شدہ بچوں کی زندگیاں بچانے نکلی تھیں۔ اسی مشکل کو ڈاکو اپنی آسانی میں بدل کر یہاں پناہ گاہیں بنا کر آس پاس کے علاقوں میں دہشت پھیلاتے ہیں اور پولیس کی دسترس سے دور یہاں پناہ بھی لیتے ہیں اور وقت پڑنے پر قانون نافذ کرنے والوں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں۔ یہ ساحلی پٹی جنوبی پنجاب، بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے سنگم پر واقع ہے اور نوآبادیاتی دور سے ڈاکوؤں اور آزادی کے لیے لڑنے والے جنگجوؤں کے لیے چھپنے کا ٹھکانہ رہا ہے۔ یہ علاقہ مختلف عملداریوں کے درمیان واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں تک قانون کی رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔ اس سوال کا جواب کچے کے ایک ڈاکو گینگ کے سہولت کار نے مجھے یوں دیا کہ جن علاقوں میں پولیس عام آدمی کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے تو پھر ایسے لوگ ڈاکوؤں کی سہولت کاری کرتے ہیں اور اس طرح خود کو اُن سے محفوظ بناتے ہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انھوں نے بتایا کہ ایسے علاقوں میں اکثر لوگ اپنی جان اور مال بچانے کے لیے سہولت کاری کا کام سرانجام دیتے ہیں اور ڈاکوؤں کو یہ بتاتے ہیں کہ فلاں آدمی کے پاس کتنی زمین، دولت اور کتنے جانور ہیں۔ اس سہولت کار نے دعویٰ کیا کہ یہی مقامی سہولت کار ڈاکوؤں کو نام، فون نمبر اور پتہ تک فراہم کر دیتے ہیں۔ اس سہولت کار کے مطابق موبائل فون کا بیلنس ڈلوانے سے لے کر پولیس اور مقامی سرداروں کے بارے میں اطلاعات پہنچانا بھی سہولت کاری کے دائرے میں آتا ہے جس کے عوض اپنی جان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار مالی فائدہ بھی ہوتا ہے جب معلومات کے عوض انھیں ڈاکو کچھ رقم دے دیتے ہیں۔ سردار ریاض محمود مزاری کے مطابق 'دریائی علاقے میں جانے کے لیے جدید کشتیوں کی مدد لی جا سکتی ہے۔ ڈرون ٹیکنالوجی بھی پاکستان میں آ چکی ہے۔اب ڈاکوں کوپکڑنا آسان ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ڈاکوؤں کے موبائل نمبرز، ان کی لوکیشن اور گھر کا نقشہ تک موجود ہے پھر بھی ڈاکو گرفتار نہیں ہوتے۔' وہ کہتے ہیں کہ اندھڑ گینگ نے بھی پولیس والوں کو یہی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اب اپنے علاقے میں رہیں گے اور کوئی مجرمانہ کارروائی نہیں کریں گے۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ اندھڑ گینگ کے جانو اندھڑ کی پناہ گاہ کا پولیس کو علم تھا لیکن پھر بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی جب کہ اس گینگ نے دن دیہاڑے نو آدمیوں کو بیدردی سے قتل کر دیا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59157919", "summary": "مقتول ناظم جوکھیو نے ملیر میمن گوٹھ میں غیر ملکیوں کو شکار سے روکنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی تھی جس کے بعد اُن کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی تھی۔", "title": "ناظم جوکھیو کیس: ملزم رکنِ سندھ اسمبلی عدالت میں پیش، ریمانڈ میں توسیع", "firstPublished": "2021-11-03T23:10:43.000Z", "id": "24ca21c0-a78a-4481-9464-c7bb2683ba2c", "article": "مقتول ناظم جوکھیو نے ملیر میمن گوٹھ میں غیر ملکیوں کو شکار سے روکنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی تھی جس کے بعد اُن کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی تھی۔ نوجوان ناظم جوکھیو کے لواحقین نے الزام عائد کیا تھا کہ ناظم نے چند غیر ملکی شکاریوں کو اپنے علاقے میں تلور کے شکار سے روکا تھا اور ان کی ویڈیو بنائی تھی جس کے بعد انھیں مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔ مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والے نوجوان ناظم الدین کے بھائی افضل احمد جوکھیو نے ایف آئی آر میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ سالار گوٹھ ضلع ملیر کے رہائشی ہیں اور گذشتہ روز کچھ غیر ملکی شہری تلور کے شکار کے سلسلے میں ان کے گاؤں آئے جس پر انھوں نے اور ان کے بھائی ناظم نے ان غیر ملکی شہریوں کو گاؤں میں شکار کرنے سے روکا اور ان کی ویڈیو بنائی جس کے بعد وہ غیر ملکی وہاں سے چلے گئے۔ ناظم جوکھیو کے بھائی افضل نے صحافیوں کو بتایا کہ ’کارو جبل کے علاقے میں غیر ملکی شہری شکار کے لیے آتے ہیں۔ ناظم جوکھیو نے گذشتہ روز غیر ملکی شہری کی گاڑی کو روک کر ویڈیو بنائی تھی جس میں وہ غیر ملکی شہریوں کو مبینہ طور پر تلور کا غیر قانونی شکار کرنے سے منع کر رہے تھے اور سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو وائرل ہونے بعد جام گہرام نے ان سے بات کی اور کہا کہ تمہارے بھائی کو کیا مرچ لگی ہے میں نے کہا کہ غلطی ہوگئی ہے اس نے کہا کہ اس کو میرے پاس پیش کرو۔‘ ناظم جوکھیو کی جانب سے بنائی جانے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ایک گاڑی کے پاس موجود ہیں جس کی نمبر پلیٹ پر دبئی تحریر ہے اور ناظم کہہ رہے ہیں کہ ’یہ عرب لوگ ہیں یہ ہمارا راستہ بلاک کیے ہوئے ہیں اور دھمکیاں دے رہے ہیں جب میں نے ان سے پوچھا کہ یہاں کیا کر رہے ہو؟ تو اس نے ہمارے ساتھ بد معاشی کی اور پولیس کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔‘ اس ویڈیو کے بعد ناظم جوکھیو نے اپنے گھر میں ایک اور ویڈیو بیان ریکارڈ کیا جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’شام چار بجے میں نے ایک لائیو ویڈیو چلائی جس میں عرب تھا یا ان کا کوئی آدمی تھا جو دھمکیاں دے رہا تھا اور مجھے سے موبائل بھی چھین لیا اور تشدد کے بعد اس نے موبائل واپس کر دیا۔‘ ناظم بتا رہے ہیں کہ انھوں نے پولیس مددگار کے نمبر 15 پر کال بھی کی لیکن پولیس نہیں آئی اور یہ لوگ فرار ہوگئے، اس کے بعد وہ تھانے پر درخواست دینے بھی گئے جس کے بعد سے انھیں فون پر دھمکی آمیز کالیں آ رہی ہیں اور کچھ لوگ بھی آئے ہیں کہ اس ویڈیو کو ڈیلیٹ کرو ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59173129", "summary": "ناظم کے بھائی افضل جوکھیو کے مطابق عرب شکاری ان کے علاقے میں آتے رہے ہیں مگر اس بار انھوں نے ان کے گاؤں کا رخ کیا جس پر معاملہ ہاتھا پائی تک پہنچا۔", "title": "’جام پر اعتبار کر کے بھائی کو وہاں لے گیا مگر بھائی کفن میں واپس آیا‘", "firstPublished": "2021-11-05T09:10:13.000Z", "id": "54b1e488-64cd-4669-94cd-efe03aaf3c5b", "article": "کراچی کے علاقے ملیر میں مبینہ طور پر رکنِ سندھ اسمبلی جام اویس کے تشدد سے قتل ہونے والے ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو کا الزام ہے کہ ناظم نے چند غیر ملکی شکاریوں کو اپنے علاقے میں تلور کے شکار سے روکا تھا اور ان کی ویڈیو بنائی تھی جس کے بعد انھیں مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔ مقتول 27 سالہ ناظم جوکھیو کا تعلق ملیر کے گاؤں آچر سالار جوکھیو سے تھا۔ وہ ضلع کونسل کراچی میں ملازم تھے، ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جن کی عمریں ایک سال سے پانچ سال تک ہیں۔ ناظم کے بھائی افضل جوکھیو نے بی بی سی کو بتایا کہ عرب شکاری ان کے علاقے بالخصوص کارو جبل میں تلور کی تلاش میں آتے رہے ہیں مگر اس بار انھوں نے ان کے گاؤں کا رخ کیا۔ ناظم نے نصف کلومیٹر دور جا کر انھیں روکا جس پر ان کی ہاتھا پائی ہوئی اور بعد میں ناظم نے ان کی ویڈیو بنا کر وائرل کی۔ افضل جوکھیو کا کہنا ہے کہ ’ناظم نے جانے سے انکار کردیا تھا لیکن میں نے اس پر زور ڈالا کہ چلو جام صاحبان میری عزت کرتے ہیں، میں ضلع کونسل کا رکن بھی منتخب ہو چکا ہوں، مجھے ان پر اعتماد ہے۔‘ افضل جوکھیو کے تین بھائی تھے اور ناظم ان سے چھوٹا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ ان کی اوطاق پر پہنچے تو جام کے لوگوں نے ناظم پر لاٹھیوں اور بندوقوں کے بٹ سے تشدد کیا۔ ‘میں نے جام سے ہاتھ جوڑ کر معافی طلب کی۔ جام صاحب نے کہا کہ کوئی معافی نہیں، تم لوگوں نے میرے مہمان کی بے عزتی کی ہے، جس کے بعد وہ اس کو مارتے رہے اور بعد میں ایک کمرے میں بند کر دیا اور مجھے کہا کہ جاؤ صبح آنا۔ ہمیں لوگوں نے بتایا ہے کہ صبح پانچ بجے دوبارہ اُنھوں نے بھائی پر بے پناہ تشدد کیا جس میں وہ ہلاک ہو گیا۔‘ ناظم کے بھائی افضل جوکھیو نے بی بی سی کو بتایا کہ عرب شکاری ان کے علاقے بالخصوص کارو جبل میں تلور کی تلاش میں آتے رہے ہیں مگر اس بار انھوں نے ان کے گاؤں کا رخ کیا۔ افضل جوکھیو کی قیادت میں گذشتہ روز قومی شاہراہ پر دھرنا بھی دیا گیا تھا۔ رات کو صوبائی وزیر سعید غنی، امتیاز شیخ اور دیگر نے ان سے مذاکرات کیے جس کے بعد سڑک کھولی گئی۔ افضل جوکھیو نے بتایا کہ امتیاز شیخ نے ٹیلیفون پر ان کی وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ سے بات کروائی تھی جنھوں نے بتایا کہ بلاول بھٹو نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیا ہے، ان کے ساتھ انصاف ہوگا اور ملزمان کو گرفتار کیا جائے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59157923", "summary": "سامارو کے قریب واقع گاوں لالو کولھی کی آبادی ڈھائی سو گھروں پر مشتمل ہے اس گاؤں کے لوگ آج کستوری کی مثال دیتے ہیں لیکن اس سے قبل ایسا نہیں تھا۔", "title": "’پہلے کہتے تھے پتہ نہیں لپ سٹک لگا کر کہاں جاتی ہے، اب کہتے ہیں یہ تو ہماری بہو ہے‘", "firstPublished": "2021-11-04T04:24:44.000Z", "id": "cc834c0a-c52b-4cc0-9094-19cf780cebf5", "article": "کستوری کا تعلق ضلع عمرکوٹ تحصیل سامارو کے گاؤں لالو کولھی سے ہے۔ چند سال قبل تک وہ گاؤں کی بہت سی دیگر اُن عام خواتین کی طرح تھیں جن کے صبح و شام کھیتوں میں کام کرتے اور بچے سنبھالنے میں گزرتے۔ کستوری بتاتی ہیں کہ ’غربت تو پہلے ہی گھر میں تھی لیکن اب کبھی کھانا ملتا تو کبھی فاقہ۔ میں نے سوچا کے میرے بھوکے بچوں کو کون کھلائے گا؟ کیوں نہ اپنے گھر والے کی تھوڑی مدد کر لوں، پڑھی لکھی نہیں تھی، مگر سوچا ماتا رانی نے جو ہمیں دو ہاتھ پاؤں دیے ہیں اس ہی سے کچھ کر کے دکھائیں۔‘ کستوری پریم چند نے اپنے گھر کے ایک کمرے میں ایک دکان بھی قائم کر رکھی ہے جہاں بغیر سلائی والے کپڑوں کے ساتھ مختلف اقسام کی لیس، گوٹے اور بٹن وغیرہ موجود ہیں جبکہ چار سے پانچ خواتین صبح سے شام تک اس دکان میں سلائی کرتی ہیں۔ کستوری کا کہنا ہے کہ وہ ہندو رواج کے کپڑے گھاگھرا اور چولی بناتی ہیں۔ ان کے پاس ساون کے دنوں کے کپڑے بنتے ہیں جو لڑکیاں پہنتی ہیں، اس کے علاوہ دلہنوں کو جہیز میں جو کپڑے دیئے جاتے ہیں وہ انھیں بھی تیار کرتی ہیں جبکہ ان دنوں دیوالی کے تہوار کے دن ہیں اس کی مناسبت سے فیشن والے کپڑے بناتے ہیں۔ ان کے تیار کیے ہوئے کپڑے ان کے شوہر موٹر سائیکل پر تھر، میرپور خاص اور عمرکوٹ تک فروخت کرنے جاتا ہے، جو گھروں کے علاوہ دکانوں پر بھی فروخت ہوتے ہیں، کستوری کے مطابق پندرہ سو روپے سے لے کر پانچ ہزار روپے تک کی قیمت میں وہ یہ لباس بناتی ہیں جس سے وہ مہینے میں چالیس سے پچاس ہزار روپے آسانی سے کما لیتی ہیں۔ جبکہ ان کے پاس جو خواتین کام کر رہی ہیں ان کی بھی تین سے چار سو روپے روز کی آمدن ہو جاتی ہے جس سے وہ بھی بچے پال رہی ہیں۔ سامارو کے قریب واقع گاوں لالو کولھی کی آبادی ڈھائی سو گھروں پر مشتمل ہے اس گاؤں کے لوگ آج کستوری کی مثال دیتے ہیں لیکن اس سے قبل ایسا نہیں تھا۔ عمرکوٹ ضلع گذشتہ بارشوں سے شدید متاثر ہوا جس میں سامارو تحصیل بھی شامل ہیں جہاں زرعی زمین کا ایک بڑا رقبہ زیر آب آ گیا جس کی وجہ سے کاشت کاروں کے ساتھ کسانوں کو بھی نقصان پہنچا، اس سال بھی بارشوں کے باعث یہاں سبزیاں متاثر ہوئی ہیں لیکن اس صورتحال سے کستوری کا خاندان بے پرواہ ہے۔ لالو کولھی گاؤں کے دیگر گھروں میں خواتین لکڑیاں جلا کر کھانا بناتی ہیں لیکن کستوری کے گھر میں گیس سلینڈر ہے۔ ان کا گھر صاف ستھرا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58941077", "summary": "کراچی کے شہریوں کے لیے فریئر ہال سیر و تفریح کا وسیلہ آج سے نہیں بلکہ گذشتہ ڈیڑھ صدی سے ہے جب شہر میں یہ پہلا ٹاؤن ہال بنایا گیا تھا۔ یہ سر ہینری بارٹل فریئر کی یاد اور خدمات کے اعتراف میں بنایا گیا تھا۔", "title": "کراچی کا فریئر ہال جس میں سندھ کا پتھر اور لندن کا لوہا استعمال ہوا", "firstPublished": "2021-10-17T04:02:03.000Z", "id": "5828160e-951d-48b5-9f2c-7d0b3079ab91", "article": "کراچی کے شہریوں کے لیے فریئر ہال سیر و تفریح کا وسیلہ آج سے نہیں بلکہ گذشتہ ڈیڑھ صدی سے ہے جب شہر کا یہ پہلا ’ٹاؤن ہال‘ بنایا گیا تھا۔ یہ ہال سر ہینری بارٹل فریئر کی یاد اور خدمات کے اعتراف میں بنایا گیا تھا، انھیں سندھ کے چیف کمشنر اور بعد میں بمبئی کا گورنر بنایا گیا تھا۔ یہ ہال سر ہینری بارٹل فریئر کی یاد اور خدمات کے اعتراف میں بنایا گیا تھا، انھیں سندھ کے چیف کمشنر اور بعد میں بمبئی کا گورنر بنایا گیا تھا فریئر کو یہ بھی اعزاز دیا جاتا ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی میں سندھ میں صورتحال مجموعی طور پر کنٹرول میں رہی تھی، سندھ سے انھیں بمبئی کا کمشنر بنایا گیا اور وہاں سے جنوبی افریقہ تبادلہ کیا گیا جہاں ان کے کردار اور لڑائیوں کے وجہ سے وہ یہاں کے برعکس متنازع رہے۔ بارٹل فریئر کی زندگی اور خط و کتاب کے مصنف جان مارنینو کو فریئر نے بتایا تھا کہ سندھ میں 1851 میں ایک بھی بیراج یا پکی سڑک نہیں تھی، کوئی دھرم شالا، ڈاک بنگلا، سرائے، عدالت، تھانہ، ہسپتال اور سکول کی عمارت تک نہیں تھی۔ اور ڈاک یارڈ نہ ہونے کی وجہ سے بحری جہازوں کو مرمت کے لیے بمبئی بھیجا جاتا تھا۔ تاجر جو خط و کتاب کرتے ہیں وہ ایک شارٹ ہینڈ جیسی زبان استعمال کرتے ہیں، یہ زبان ہر بڑے شہر اور طبقے میں مختلف ہو جاتی ہے جس سے کسی کے لیے بھی یہ زبان سیکھنا بہت دشوار ہو جاتا ہے۔ آبادی کی اکثریت مسلمان تھی جو فارسی کا استعمال کرتی جبکہ پنجاب سے آنے والے ہندو بھی یہ ہی زبان استعمال کیا کرتے حالانکہ یہاں سندھی سرکاری زبان ہونی چاہیے جو نہ صرف مقامی بلکہ انگریز افسران کو بھی آنی چاہیے۔' ’انگریز دور کی عمارتیں‘ کے مصنف گل حسن کلمتی لکھتے ہیں کہ کراچی سمیت پورے سندھ میں ترقی کی ابتدا بارٹل فریئر کے زمانے سے ہوئی تھی اس لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں یہاں عمارت بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ گل حسن کلمتی کے مطابق ’اس ڈیزائن میں بیک وقت وینس، گوتھک اور انڈین طرز تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے، یہ کراچی کی پہلی عمارت ہے جو گوتھک طرز تعمیر پر بنائی گئی۔ یہ عمارت چونکہ شہریوں کے لیے بنائی گئی تھی لہٰذا اس کو ٹاؤن ہال کہا جاتا ہے۔‘ فریئر ہال کی تعمیر میں گذری کا پیلا، بولھاڑی جامشورو اور جنگشاہی ٹھٹہ کا سفید اور بھورے رنگ کا پتھر استعمال کیا گیا جبکہ چھت کے لیے لندن سے لوہا منگوایا گیا تھا۔ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی جنگ کے بعد امریکی سفارتخانے کی طرف جانے والی سڑک حفاظتی اقدامات کے لیے بند کر دی گئی اور اس دوران یہاں دھماکے بھی ہوئے نتیجے میں فریئر ہال اور اس کا باغ نوگو ایریا بن گیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58928517", "summary": "نوجوان کے والد گلاب بھنگوار نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ گذشتہ شب وہ سوئے ہوئے تھے کہ ڈھائی بجے کے قریب دستی بم پھینکا گیا۔ اُنھیں تین افراد کے پیروں کے نشان ملے ہیں۔", "title": "پسند کی شادی کرنے والے جوڑے پر دستی بم کا حملہ", "firstPublished": "2021-10-15T13:58:51.000Z", "id": "5813042a-fa83-4941-afbc-2cdf487fe987", "article": "سندھ کے ضلع کشمور میں پسند کی شادی کرنے والے جوڑے پر دستی بم کا حملہ کیا گیا ہے جس میں لڑکی ہلاک جبکہ نوجوان شدید زخمی ہو گیا۔ کشمور کی تحصیل کندھ کوٹ کے علاقے بخشاپور کے علاقے گاؤں بڈھو بھنگوار میں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب یہ واقعہ پیش آیا۔ بخشاپور پولیس کے ایس ایچ او حسین علی شاہانی کے مطابق گھر میں سوئے ہوئے میاں بیوی کی چارپائی پر دستی بم پھینکا گیا جس کے نتیجے میں زاہد علی بھنگوار شدید زخمی جبکہ ان کی بیوی زبیداں بروہی ہلاک ہو گئیں۔ بخشاپور پولیس کے ایس ایچ او حسین علی شاہانی کے مطابق چھ ماہ قبل زاہد علی بھنگوار اور مسمات زبیداں بروہی نے کورٹ میرج کی تھی جس کے بعد لڑکی کے ورثاء جوڑے کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے تھے اور گذشتہ شب انھوں نے گھر پر دستی بم سے حملہ کیا ہے۔ نوجوان کے والد گلاب بھنگوار نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ شب وہ سوئے ہوئے تھے کہ ڈھائی بجے کے قریب دستی بم پھینکا گیا۔ اُنھیں تین افراد کے پیروں کے نشان ملے ہیں۔ بقول اُن کے اس سے قبل بھی ان کے گھر پر فائرنگ کی گئی تھی۔ گلاب بھنگوار پرائمری استاد ہیں جبکہ ان کا بیٹا کالج میں زیر تعلیم ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ لڑکے نے معلوم نہیں کیسے لڑکی کو پسند کیا۔ وہ رشتہ لے کر زبیدہ کے گھر گئے، معززین کو بھی ساتھ لے گئے لیکن وہ قبیلے سے باہر رشتے کے لیے راضی نہیں ہو رہے تھے۔ بعد میں اُنھوں نے مطالبہ کیا کہ بدلے میں رشتے دیں جو اُنھوں نے نہیں دیا۔ ’لڑکا لڑکی کو لے کر عدالت میں چلا گیا اور شادی کر لی۔ چند ماہ وہ روپوش رہے اس کے بعد گھر واپس آ گئے۔ وہ دوبارہ لڑکی والوں کے پاس گئے کہ اب درگزر کریں لیکن لڑکی کے والد نے کہا کہ اُنھیں اپنی لڑکی واپس چاہیے۔ وہ کسی صورت میں ماننے کو تیار نہیں تھے اور بدلہ لینے کا کہہ رہے تھے۔‘ یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے بخشاپور میں ہی 25 سالہ میمونہ سومرو کو بھی مبینہ طور پر غیرت کے نام گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ میمونہ کے والد اعجاز سومرو نے سسر اور دیوروں کے خلاف مقدمہ درج کروایا تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ فریادی کے مطابق وہ رات اُنھوں نے وہاں ہی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ شام ڈھلے وہ اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ سسر اور دیور اسلحہ لے کر آئے اور کہا کہ تم لوگوں نے ہمیں تنگ کیا آج اس کو مار دیں گے۔ ’اُنھوں نے ہمیں دھمکی دی اور لڑکی کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے اور اس پر فائر کیا جو اس کی آنکھ کے قریب لگا۔‘ اُن کے مطابق اُنھیں کمرے میں بند کر دیا گیا اور ملزمان لاش ساتھ لے گئے بعد میں اُنھیں گھر سے نکال دیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58814529", "summary": "پاکستان کے صوبہ سندھ میں دریائے سندھ سے بھٹک کر مخلتف نہروں میں جانے والی 13 انڈس بلائنڈ ڈولفنز میں سے تین کو محکمہ وائلڈ لائف سندھ نے مدد فراہم کر کے واپس دریائے سندھ میں پہنچا دیا ہے جبکہ 10 ڈولفنز ابھی بھی مختلف نہروں میں موجود ہیں۔", "title": "طوفان گلاب سندھ کی بھٹکی ہوئی بلائنڈ انڈس ڈولفنز کو بچانے میں کیسے مددگار ثابت ہوا؟", "firstPublished": "2021-10-06T13:27:38.000Z", "id": "1a4b13e0-e323-4eac-9eac-70ea49b8f2b6", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ میں دریائے سندھ سے بھٹک کر مخلتف نہروں میں جانے والی 13 انڈس بلائنڈ ڈولفنز میں سے تین کو محکمہ وائلڈ لائف سندھ نے مدد فراہم کر کے واپس دریائے سندھ پہنچا دیا ہے جبکہ 10 ڈولفنز ابھی بھی مختلف نہروں میں موجود ہیں۔ نہروں میں موجود ڈولفنز کے بارے میں محکمہ وائلڈ لائف کا خیال ہے کہ ان کو آنے والے سال جنوری میں ہی مدد فراہم کرنا ممکن ہوسکے گا۔ سکھر ڈویثرن میں تعنیات ڈپٹی کنزرویٹر محکمہ وائلڈ لائف سندھ عدنان حمید خان کے مطابق اس وقت دریائے سندھ سے ملحق نہروں میں پانی زیادہ سے زیادہ مقدار میں دریا کے بہاؤ کے برابر بہہ رہا ہے اس لیے بلائنڈ ڈولفنز کا راستہ بھٹک کر نہروں میں چلے جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلائنڈ ڈولفنز کے راستہ بھٹک کر نہروں میں جانے کی اطلاعات محکمے کو ان ڈولفنز کی نگرانی کے وضع کردہ نظام کی بدولت ملی تھیں جس کے بعد ہی بلائنڈ ڈولفنز کی تلاش اور مدد کے آپریشن کا آغاز کر دیا تھا۔ عدنان حمید خان کا کہنا تھا کہ صوبہ سندھ میں دریائے سندھ کے ساتھ ملحق ایک لاکھ آٹھ ہزار کلومیٹر پر محیط نہری نظام ہے۔ ’ہمیں ہماری نگرانی کے نظام کے تحت پتا چلا کہ 11 بلائنڈ ڈولفنز کون کون سی نہروں میں کہاں کہاں موجود ہیں۔‘ عدنان حمید خان کا کہنا تھا کہ اس دوران انھوں نے فیصلہ کیا کہ ان کی ٹیم 11 ڈولفنز کی کڑی نگرانی کرے گی اور جب بھی موقع ملا ان کو مدد فراہم کی جائے گئی۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ باقی دو لاپتہ ڈولفنز کی تلاش کا کام بھی جاری رکھا کہ اس دوران طوفان گلاب کے اثرات پاکستان اور سندھ تک پہنچ گئے۔ انھوں نے بتایا کہ دیگر نہروں میں موجود ڈولفنز خطرے کا شکار نہیں ہیں۔ اگر کسی موقع پر نہروں میں پانی کچھ دیر کے لیے بند ہوتا ہے تو وہ فی الفور آپریشن کر کے انھیں دریائے سندھ میں چھوڑ دیں گے ورنہ پانچ جنوری کو جب نہروں کا پانی بند ہوگا تو ان کو مدد فراہم کردی جائے گئی۔ سندھ وائلڈ لائف کے کنزرویٹر جاوید احمد مہر کے مطابق سندھ میں 2019 کے ایک سروے کے مطابق انڈس ڈولفنز کی تعداد 1419 تھی جبکہ سنہ 2009 میں کیے جانے والے سروے میں یہ تعداد 900 کے لگ بھگ تھی۔ مگر اب نئے اندازوں کے مطابق اس کی تعداد 1900 کے لگ بھگ ہو سکتی ہیں۔ جاوید احمد مہر کے مطابق گڈو اور سکھر بیراج تک دریائے سندھ کا علاقہ انڈس ڈولفن کے لیے محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ جہاں پر ڈولفن کا شکار مکمل طور پر ممنوع ہے اور محکمہ اس حوالے سے انتہائی سخت کارروائی کرتا ہے۔ اس علاقے میں انڈس ڈولفنز مکمل طور پر محفوظ ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-58676604", "summary": "سندھ کے شہر خیرپور سے 29 کلومیٹر کے فاصلے پرایک مربع میل رقبے پر واقع مہرانو ریاست خیرپور کے حکمراں میر مراد علی دوم کا وہ خواب ہے جہاں لاکھوں جانور اور پرندے قدرتی ماحول میں پرورش پا رہے ہیں۔", "title": "مہرانو: خیرپور کے تالپور خاندان کی شکار گاہ جو جنگلی حیات کی پناہ گاہ بن گئی", "firstPublished": "2021-09-26T07:30:54.000Z", "id": "32d87f73-2d84-4d79-b8ba-2a967deb9350", "article": "'مہرانو'سندھ کے شہر خیرپور سے 29 کلومیٹر کے فاصلے پرایک مربع میل یا تقریباً 700 ایکڑ رقبے پر مشتمل مہرانو کو خیرپور کے حکمراں میر مراد علی دوم کا وہ خواب ہے جہاں لاکھوں جانور اور پرندے قدرتی ماحول میں پرورش پا رہے ہیں۔ یہاں باقاعدہ ایک گھنا جنگل بھی ہے جہاں گھنے درخت، قد آدم گھاس جسے کبھی نہیں کاٹا جاتا اور اس کے اندر پھلتے پھولتے نایاب جانور موجود ہیں۔ دور دور تک جنگل اور جانوروں کا نظارہ کرنے کے لیے جیپ کے کئی راستے اس جنگل کے مرکز میں جاتے ہیں جہاں ایک چھوٹا کثیر المنزلہ شکار لاج ہے جس کی چھت سے جنگل کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں جنگل میں جانور اور خصوصا پرندوں کو دیکھنے کے لیے کئی خفیہ کمرے موجود ہیں جہاں کھڑکیوں پر موٹے موٹے پردے لگے ہیں جن میں موجود سوراخوں سے باہر کا نظارہ کیا جاتا ہے۔ آنے والوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ خاموشی سے دبے قدموں چلیں تاکہ جانور اور پرندوں کی زندگی میں خلل نہ پڑے۔ یہ علاقہ میر مراد اول( 1790)کے دور سے شکارگاہ چلا آرہا تھا اور دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ اس کی تقدیر بدلنے کا سہرا بھی ایک مراد ہی کے سر بندھا جس نے مہرانو کو جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دے کر ہر قسم کے شکار پر پابندی عائد کر دی اور یہاں درخت اور گھاس تک کی کٹائی پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ اس جنگل کے اردگرد سے بہت سے دیہات بھی منتقل کیے گئے تاکہ انسانی شوروغل اور مداخلت جانوروں پر اثرانداز نہ ہو۔ میر مراد علی سندھ وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ کے چیئرمین بھی رہے اور علاقے میں کم ہوتی جنگلی حیات کو دیکھتے ہوئے انھوں نے صرف مہرانو کو ہی نہیں بلکہ 1974 میں قریبی نارا ریگستان اور کوٹ ڈیجی کے علاقے ٹکر کو بھی وائلڈ لائف پناہ گاہ قرار دیا تھا۔ غالبا 1935 میں امریکہ کی ریاست ٹیکساس کو خیرسگالی کے طور پر کچھ کالے ہرن بطور تحفہ بھیجے گئے تھے جہاں یہ قدرتی ماحول میں پھلتے پھولتے رہے اور ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی جبکہ پاکستان میں اس خوبصورت جانور کے اندھا دھند شکار سے اس کی نسل کو بقا کا خطرہ لاحق ہو گیا اور یہ کہیں اکا دکا اور خال خال ہی نظر آتے تھے۔ کالے ہرن کا قدرتی مسکن پاکستان، انڈیا اور نیپال ہے۔ یہ وہی جانور ہے جس کے شکار پر 2018 میں انڈیا کی ریاست راجستھان کے شہر جودھ پور کی مقامی عدالت نے اداکار سلمان خان کو پانچ سال قید اور دس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں جانور اور پرندے بقا کے خطرے سے دوچار ہیں، مہرانو جیسے کامیاب تجربے کو دہراتے ہوئے ایسی بہت سی نجی پناہ گاہیں قائم کی جاسکتی ہیں جہاں جانور قدرتی ماحول میں اپنی نسل بڑھا کر خطرے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58541572", "summary": "انگریزوں کے لیے سندھ کا زرخیز علاقہ اور اس کے وسائل سونے کا انڈا دینے والی مرغی سے کم نہ تھے جسے وہ ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ سندھ کا جغرافیہ انھیں قندھار کا زمینی راستہ بھی فراہم کر سکتا تھا۔", "title": "میانی: وہ میدان جہاں انگریزوں نے تالپور خاندان کو شکست دے کر سندھ فتح کیا", "firstPublished": "2021-09-14T05:23:42.000Z", "id": "db051e31-7ff7-4e55-895d-2a8f52f8c5d0", "article": "انگریزوں کے لیے سندھ کا زرخیز علاقہ اور اس کے وسائل سونے کا انڈا دینے والی مرغی سے کم نہ تھے جسے وہ ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ سندھ کا جغرافیہ انھیں قندھار کا زمینی راستہ بھی فراہم کر سکتا تھا اور وہ دریائے سندھ کے ذریعے بھاری ساز و سامان اور اسلحے کی ترسیل کا کام انتہائی آسانی سے کر سکتے تھے۔ یہی وجوہات تھیں کہ سندھ پر قبضہ ان کی مجبوری اور ضرورت تھا۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی سندھ کے حکمرانوں اور انگریزوں کے درمیان دو، ایک معاہدے ہوئے تھے مثلا اگست 1809 میں لارڈ نٹو نے تالپوروں سے پہلا معاہدہ کیا تھا اور اس کے بعد دو اور معاہدے بھی ہوئے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ہر معاہدے میں اگرچہ تالپوروں سے دوستانہ تعلقات پر زور دیا گیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد کبھی نہیں ہوا۔ اس لیے سندھ کے لوگ خوش نہیں تھے۔ خصوصاً بلوچ قبائل میں انگریزوں کے خلاف غم و غصہ بڑھ رہا تھا۔ یہ غصہ یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ دوسرے دن انگریزوں کی ریزیڈینسی لطیف آباد پر بھی حملہ کیا کر دیا گیا۔ جہاں میجر آﺅٹ ٹرام اور ملٹری عملہ موجود تھا۔ حملہ آور خاصی بڑی تعداد میں تھے۔ آﺅٹ ٹرام نے اپنی اور ساتھیوں کی جان بچانے اور حملہ آوروں کو منتشر کرنے کی غرض سے گولہ داغنے کا حکم دیا تاکہ انھیں فرار ہونے کا موقع مل سکے۔ آﺅٹ رام اور ساتھی سٹیمر میں فرار ہو گئے۔ اس اثنا میں چارلس نیپئر ہالا تک پہنچ چکے تھے۔ اگرچہ اس حملے میں تالپوروں کی رضامندی شامل نہیں تھی مگر وہ جانتے تھے کہ اب ان کی بات پر انگریز ہرگز یقین نہیں کریں گے اور وہ ہر صورت جوابی کارروائی کریں گے۔ اس لیے وہ شہر کے بجائے انھیں شہر سے باہر میانی فاریسٹ میں روکنا چاہتے تھے۔ شاید یہ خیال بھی ذہن میں ہو گا کہ یہ گھنا جنگل دشمن کے لیے مشکل اور مقامی افراد کے لیے آسان مقام ثابت ہو گا کیونکہ وہ اس کے چپے چپے سے واقف تھے۔ چارلس کو بھی جب خبر ملی کہ ریذیڈینسی پر حملہ ہو گیا ہے تو اس نے فوج کو تیار کر دیا۔ میانی کی جنگ کے اختتام پر تالپور سردار میر نصیر محمد خان واپس پکا قلعہ حیدرآباد پہنچ گئے۔ لیکن انھیں اب یقین ہو چلا تھا کہ اب انگریزوں کو قلعے تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا لہذا انھوں نے آخری کوشش کے طور پر اپنے منشی کو مٹھائی اور صلح کا پیغام دے کر بھیجا اور ملاقات کی خواہش بھی ظاہر کی۔ اس جنگ میں بھی میر شیر محمد کو شکست ہوئی اور وہ پنجاب کی جانب چلے گئے۔ لیکن Conquest of Sindh کے مصنف ولیم نیپئر لکھتے ہیں کہ ہوش محمد شیدی جس بہادری سے لڑ رہے تھے وہ قابل تعریف تھا، وہ نہ صرف نعرہ لگا کر لڑنے والوں کو جوش دلارہے تھے بلکہ وہ لوگوں کو اکٹھا کر کے بھی لا رہے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58437632", "summary": "حیدرآباد کی نشانی پکا قلعہ کا مرکزی گیٹ منہدم ہوگیا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ 18ویں صدی میں بنائے گئے اس قلعے کی مرمت کے دوران پیش آیا اور تحقیقات میں معلوم کیا جائے گا کہ آیا یہ کسی کی غفلت کا نتیجہ تھا یا حادثہ۔", "title": "حیدرآباد کا پکا قلعہ: صدیوں پرانی اس نشانی کا دروازہ مرمت کے دوران منہدم", "firstPublished": "2021-09-03T17:01:46.000Z", "id": "a23166b7-17fb-4c91-b22f-ac0c52fa0aa6", "article": "سندھ کے سابق دارالحکومت حیدرآباد کی نشانی پکا قلعہ کا مرکزی گیٹ منہدم ہوگیا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ دوران مرمت پیش آیا ہے اور تحقیقات میں معلوم کیا جائے گا کہ آیا یہ کسی کی غفلت کا نتیجہ تھا یا حادثہ۔ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کا پکا قلعہ (جسے سندھی میں پکو قلعو کہتے ہیں) وسطی شہر میں موجود ہے جس کے سامنے یہاں کا قدیم بازار کئی کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ اسے 18ویں صدی میں اس وقت تعمیر کیا گیا جب یہ شہر اس نام سے وجود میں آیا تھا۔ سردار علی شاہ کے مطابق ان کے محکمے نے دیواروں کے ساتھ اس دروازے اور میروں کے ’حرم‘ کی بحالی کا کام شروع کیا تھا۔ ’گذشتہ روز مرکزی گیٹ گرنے کا واقعہ حادثاتی طور پر ہوا ہے یا اس میں غفلت ہے، اس کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنائی گئی ہے۔‘ حیدرآباد کے اس قلعے کی صورتحال تالپور دور حکومت میں خستہ ہونا شروع ہوگئی تھی جس کا پتا خود انگریز فوجی افسران اور سیاحوں کی تحریروں سے ملتا ہے۔ الیگزینڈر برنس لکھتے ہیں کہ حیدرآباد کی آبادی 20 ہزار تھی۔ ’لوگوں کی اکثریت جھونپڑیوں میں رہتی ہے جبکہ امیر کا اپنا گھر بھی عام سا ہے۔ قلعہ ایک پہاڑی پر بنا ہوا ہے جس کے چاروں اطراف 10 فٹ اور 8 فٹ گہری کھائی ہے۔ قلعے کے اندر داخل ہونے کے لیے لکڑی کا پل بنا ہوا ہے۔ ایڈورڈ لکھتے ہیں کہ قلعے کے وسط میں ایک بڑا ٹاور ہے جس سے چاروں اطراف پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔ یہاں خزانہ رکھا جاتا تھا جس کی مالیت ’20 ملین سٹرلنگ سے کم نہیں تھی۔‘ وہ کہتے ہیں کہ شہر میں چھوٹے پیمانے پر تجارت ہوتی ہے جو صرف اس شہر کی کھپت کے مطابق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں یہاں کے رہائشیوں کو لطیف آباد میں متبادل جگہ فراہم کی گئی تھی جن میں سے کچھ لوگ وہاں گئے اور اکثریت واپس آگئی۔ ’موجودہ وقت بھی حکومت سندھ انھیں دوبارہ متبادل جگہ فراہم کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ سندھ کے تہذیبی اور تاریخی ورثے کو بچایا جائے لیکن مقامی آبادی اس کے لیے راضی نہیں۔‘ کراچی کے بعد حیدرآباد متحدہ قومی موومنٹ کا سیاسی گڑھ رہا ہے۔ حیدرآباد میں لسانی بل کے معاملے پر متعدد بار لسانی فسادات ہوچکے ہیں۔ ان ہی فسادات کے دوران قلعے کے اندر میوزیم میں توڑ پھوڑ ہوئی اور اس کو آگ لگائی گئی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58364142", "summary": "فیصل راجڑ کی والدہ ایک سرکاری ٹیچر تھیں جنھوں نے انھیں تعلیم کی اہمیت اور اس سے زندگی اور معاشرے میں تبدیلی لانے کا درس دیا۔ یہی تربیت اور سبق آگے چل کر انھیں اس مقام تک لے آیا کہ اس خاندان نے اپنی 19 ایکڑ زمین تعلیم کے لیے وقف کر دی۔", "title": "وہ خاندان جس نے اپنی 19 ایکڑ زمین تعلیم کے لیے وقف کردی", "firstPublished": "2021-08-28T04:53:12.000Z", "id": "4e8fab90-cafb-4e25-abc4-cec46a131dd1", "article": "فیصل راجڑ کی والدہ ایک سرکاری ٹیچر تھیں جنھوں نے انھیں تعلیم کی اہمیت اور اس سے زندگی اور معاشرے میں تبدیلی لانے کا درس دیا۔ یہی تربیت اور سبق آگے چل کر انھیں اس مقام تک لے آیا کہ میرپور خاص کے راجڑ خاندان نے اپنی 19 ایکڑ زمین تعلیم کے لیے وقف کر دی۔ سندھ کے ضلع میرپور خاص کے زمیندار فیصل راجڑ کی تصویروں کو ان دنوں سوشل میڈیا پر شیئر کر کے انھیں خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے کیونکہ انھوں نے اپنی سترہ ایکڑ زمین انسٹیٹوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سکھر کو عطیہ کی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ آئی بی اے کو میرپور خاص میں کیمپس کے لیے زمین درکار تھی۔ فیصل اس ادارے کے بانی مرحوم نثار صدیقی کی خدمات اور ادارے کی کارکردگی سے متاثر تھے اور خود بھی سکھر میں اس کیمپس کا دورہ کر چکے تھے لہٰذا انھوں نے پیشکش کی کہ وہ 17 ایکڑ زمین عطیہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ فیصل راجڑ کے خاندان کی جانب سے فراہم کی گئی زمین شہر کے قریب واقع ہے۔ فیصل راجڑ بتاتے ہیں کہ زمین عطیہ کرنے کا فیصلہ ان کے خاندان کا مشترکہ ہے، وہ تجویز لے کر گئے، جسے سب نے قبول کیا۔ وہ بتاتے ہیں ’میری والدہ کا خاندان خوشحال نہیں تھا لیکن انھوں نے پڑھائی کی طرف توجہ دی۔ شادی سے قبل میری والدہ سرکاری ٹیچر تھیں۔ انھوں نے اور ان کے بھائی بہنوں نے بڑی محنت اور جدوجہد کی۔‘ فیصل راجڑ کہتے ہیں کہ ’میرپور خاص میں جو کیمپس کھلے گا وہ صرف اس شہر کے لیے نہیں ہو گا بلکہ تھر، عمرکوٹ، سانگھڑ جیسے پسماندہ علاقوں سمیت سندھ کے دیگر اضلاع کے نوجوان بھی اس میں تعلیم حاصل کر سکیں گے۔‘ ’کسی نجی ادارے کو کاروبار کے لیے نہیں بلکہ نیک مقصد کے لیے زمین دے رہا ہوں اس لیے اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ اس کا استعمال بھی اسی طرح سے ہو۔‘ سندھ میں تعلیم اور اساتذہ کی کارکردگی سے فیصل راجڑ مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’سرکاری سکول اور ٹی سی ایف میں زیر تعلیم بچوں میں نصف لڑکیاں ہیں۔ اس سے کافی تبدیلی آئی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیم ہی ایک راستہ ہے جس سے لوگ آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘ میرپور خاص کا شمار سندھ کے ان اضلاع میں ہوتا ہے جہاں کی زمینیں اچھی پیداوار دیتی ہیں۔ یہاں پر زیادہ تر آموں کے باغات ہیں اور فی ایکڑ زمین لاکھوں روپے مالیت کی ہے۔ فیصل کے مطابق اس کے علاوہ دو ملازمین کی ذمہ داری ہے کہ پھلوں کی دو بڑی بڑی ٹوکریاں بھر کر سکول کے اندر رکھ دیں اور بچوں کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ اس کا آزادانہ استعمال کریں تاکہ ان کے صحت کے مسائل حل ہوں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58243026", "summary": "تھر کے ایک گاؤں میں شہاب سرحد پار اپنے رشتہ داروں کی فصلوں کا موازنہ کرتے سوچتے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سرحد پار پانی میٹھا اور اس طرف کھارا ہے۔ جب انھوں نے اپنے علاقے میں ’نخلستان‘ بنانے کا تجربہ کیا تو لوگوں نے اسے ’دیوانے کا خواب‘ کہا۔ مگر انھوں نے کوشش جاری رکھی۔", "title": "تھر کے صحرا میں نخلستان۔۔۔ ’لوگ کہتے تھے یہ دیوانے کا خواب ہے‘", "firstPublished": "2021-08-18T06:35:58.000Z", "id": "f4da8305-6647-4303-b0b9-1315b9154138", "article": "’اُن کی کیا بات ہے، ان کی زمینوں پر تو زیرہ اُگتا ہے۔ جب بھی سرحد پار انڈیا میں بسنے والے رشتے داروں کا ذکر ہوتا تو ابا اُن لوگوں کی امارت کا اظہار اِسی ایک جملے سے کرتے۔‘ ان کا گاؤں تحصیل ڈاہلی کے علاقے سخی سیار میں ہے جو آبادی کے لحاظ سے تھرپارکر کی دوسری بڑی تحصیل ہے اور انڈیا کی سرحد سے متصل ہے۔ سرحد پار انڈیا کا ضلع بارمیر ہے جو رقبے کے اعتبار سے انڈیا کا پانچواں بڑا ضلع ہے۔ شہاب بتاتے ہیں کہ اکثر خاندان کے سب بڑے پھوپھی کی زمینوں اور فصلوں پر رشک کرتے۔ خصوصاً ان کی زیرے کی فصل کا ذکر ضرور ہوتا جو وہاں وافر مقدار میں اُگتا تھا۔ یقیناً یہ ایک نقد آور فصل ہے جس نے لوگوں کو لکھ پتی بھی بنایا۔ شہاب نے بتایا کہ بچپن میں ایک روز انھوں نے بابا کو مشورہ دیا کہ ’ہم بھی تو زیرہ اُگا سکتے ہیں۔‘ یہ بات سن کر شہاب کے والد ہنس پڑے اور کہا ’ہمارے پاس پانی کہاں۔۔۔ برسات ہوتی ہے تو تھوڑی بہت فصل ہو جاتی ہے۔‘ پانچویں جماعت کے بعد جب انھوں نے والد سے مزید تعلیم کے لیے شہر جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو والد نے کہا کہ ’وہاں رہنے اور پڑھنے پر ہزاروں روپے خرچ ہوں گے۔ وہ ہم کہاں سے لائیں گے؟ تم کراچی یا حیدرآباد کے کسی دینی مدرسے میں چلے جاﺅ۔ وہاں تعلیم کے ساتھ مفت رہائش اور کھانا پینا ملے گا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اب سوچنے کے لیے ان کے ذہن کو ایک نیا زاویہ مل گیا۔ وہ بچپن سے اپنے علاقے میں مون سون سیزن میں گوار، باجرہ اور مونگ کی محدود فصلیں دیکھتے آئے تھے اور یہی سمجھتے تھے کہ کھیتی باڑی صرف برسات میں ہی ممکن ہے، جب کئی کئی سال بارش نہیں ہوتی تو فاقوں کی نوبت آجاتی۔ ہر طرف ریت اڑتی رہتی۔ اب وہ اکثر اپنے علاقے اور سرحد پار کی فصلوں کا موازنہ کرتے تو اُن کے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھتا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سرحد پار پانی میٹھا ہے اور اس طرف کھارا۔۔۔ شہاب بتاتے ہیں کہ وہ ان فصلوں کی کامیابی سے بہت خوش تھے مگر یہ تو ابھی پہلا مرحلہ تھا۔ اکتوبر 2018 میں ڈاکٹر فیاض عالم نے اہل علاقہ کو مزید حیران کرنے کی ٹھانی اور صحرائی زمین کو ’نخلستان‘ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر فیاض عالم کہتے ہیں کہ ’صحرا میں پھلدار درخت لگانا بلاشبہ ایک رسک تھا مگر شہاب نے ہمیں جب بتایا کہ سرحد کی دوسری جانب نہ صرف فصلیں ہو رہی ہیں بلکہ کھجور کے باغات بھی لگ رہے ہیں، تب ہم نے اپنے طور پر بھی معلومات کیں۔ ہمیں اندازہ ہو گیا کہ تھر پار کر کے زیر زمین پانی سے کاشت ہو سکتی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58051405", "summary": "محمد اسلم کے چار بچوں میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی اور صرف ایک چھوٹا بیٹا اس سے محفوظ رہا۔ اب محمد اسلم کو لگتا ہے کہ ان کی بڑی بیٹی کی موت بھی ایچ آئی وی سے ہوئی تھی کیونکہ ان میں وہی علامات تھیں جو باقی بچوں میں موجود تھیں۔", "title": "رتوڈیرو کے ایچ آئی وی پازیٹیو بچے: ’خدا کسی دشمن کو بھی یہ بیماری نہ دے‘", "firstPublished": "2021-08-02T06:59:20.000Z", "id": "a5480e5f-156d-4e79-8be0-fdda84d8e11b", "article": "مقامی ذرائع ابلاغ میں رتو ڈیرہ کے انھی نجی ڈاکٹر کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا تھا کہ جن کے پاس سے محمد اسلم اپنے بچوں کے لیے دوا لیتے تھے۔ انھیں تشویس لاحق ہوئی کہ کہیں ان کی بیٹی بھی ایچ آئی وی سے تو نہیں مری تھی؟ محض چند دنوں کے اندر ایک ہزار سے زائد افراد میں ایچ آئی وی تشخیص ہو چکی تھی۔ ان میں 800 سے زائد بچے شامل تھے اور ان بچوں میں زیادہ تر کی عمریں پانچ برس سے کم تھیں۔ حیران کن بات یہ تھی کہ ان بچوں کے والدین میں ایچ آئی وی وائرس موجود نہیں تھا۔ محمد اسلم کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوا تھا۔ ان کے چار بچوں میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی۔ صرف ایک چھوٹا بیٹا اس سے محفوظ رہا تھا۔ اب محمد اسلم کو لگتا ہے کہ ان کی بڑی بیٹی کی موت بھی ایچ آئی وی سے ہوئی تھی کیونکہ ان میں وہی علامات تھیں جو باقی بچوں میں موجود تھیں۔ ان کے ایک دوست جو شہر میں کال سنٹر چلاتے تھے، ایچ آئی وی سے متاثرہ ان کی ایک بیٹی کی حال ہی میں موت ہوئی۔ اس کی موت کے بعد جب والدین کے ٹیسٹ کیے گئے تو دونوں میاں بیوی میں بھی وائرس پایا گیا تھا۔ کچھ ہی دنوں بعد ان کی اہلیہ کی بھی موت ہو گئی تھی۔ اب وہ خود ایچ آئی وی کے ساتھ زندہ رہ رہے تھے۔ ایسی صورت میں محمد اسلم نے اپنے ایک رشتہ دار سے ادوایات کی کچھ خوراکیں مانگ لی تھیں تاکہ ان کے بچوں کی خوراکوں میں ناغہ نہ ہو۔ ان کے رشتہ دار کے بچے بھی ایچ آئی وی سے متاثر تھے اور وہی ادویات استعمال کرتے تھے۔ محمد احمد رتوڈیرو کے قریبی گاؤں میں رہتے ہیں۔ ایچ آئی وی سے متاثرہ ان کے چار سال کے بیٹے کو حال ہی میں اچانک رات میں سخت بخار ہو گیا اور وہ تڑپنا شروع ہو گیا۔ وہ اس کو تلوکہ ہسپتال لے کر گئے۔تاہم انھیں بتایا گیا کہ ان کے بچے کو داخل کرنے کی ضرورت تھی اور اس کے لیے ان کو لاڑکانہ کے ہسپتال جانا ہو گا۔ ان کو لگتا ہے کہ حکومت کا رتو ڈیرو ایچ آئی وی سینٹر کے مسائل پر فوری توجہ دینا ضروری ہے کیونکہ یہ ان کے بچوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے تاہم انھیں بھی معلوم ہے کہ ’یہ ایک طویل جدوجہد ہے اور ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم احتجاج کے لیے سڑکوں پر بھی نکلیں گے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57881671", "summary": "پاکستان کے معروف سیاستدان اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے کزن ممتاز علی بھٹو 88 برس کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔", "title": "ممتاز بھٹو: ذوالفقار علی بھٹو کے ’ٹیلنٹڈ کزن‘ جن سے ایک زمانہ خوف کھاتا تھا", "firstPublished": "2021-07-18T23:10:38.000Z", "id": "e37050a3-c5af-42ab-b04e-5dce66a80248", "article": "گذشتہ روز پاکستان کے معروف سیاستدان اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے کزن ممتاز علی بھٹو 88 برس کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔ خیر ان دنوں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، وفاق میں بھی اور مرکز میں بھی۔ وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے، سائیں قائم علی شاہ۔ سردار ممتاز علی بھٹو ان دنوں سندھ اسمبلی کے رکن تھے، ان دنوں وہ بادامی رنگ کا بوسکی کا کرتا زیب تن کرتے، ہر اجلاس میں پہنچتے اور عام طور پر خاموش رہتے۔ شاید وہ کوئی بجٹ سیشن تھا یا کوئی اور موقع، مالیاتی ایوارڈ اور سندھ کے لیے پانی کے حصے پر بحث شروع ہوئی جو گرما گرمی کا شکار ہو گئی۔ دوران بحث ایک وقت ایسا آیا جب ممتاز بھٹو پوائنٹ آف آرڈر پر اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ جیسے ہی کھڑے ہوئے جو کھڑے تھے بیٹھ گئے اور سب سے زیادہ شور مچانے والے یعنی پیپلز پارٹی کے ارکان خاموش ہو گئے اور ممتاز بھٹو صاحب نے شدھ سندھی میں تقریر شروع کر دی۔ ممتاز علی بھٹو اس زمانے میں اگرچہ پیپلز پارٹی جیسی ملک گیر اور قومی جماعت کا حصہ تھے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی لسانی یا نسلی امتیاز پر مبنی سوچ کے اظہار سے کبھی نہ چوکے۔ وہ خود 1965ء میں قومی اسمبلی کے پہلی بار رکن منتخب ہوئے۔ ان کے کزن ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی بنائی تو وہ اس میں شامل ہو گئے اور اپنے کزن کے زوال تک اسی پارٹی کا حصہ رہے۔ سنہ 1977 کے مارشل لا کے نفاذ کے وقت ذوالفقار علی بھٹو کی طرح انھیں بھی حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی صاحب زادی اور ان کی سیاسی جانشین بے نظیر بھٹو کے لیے کہا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کی وہ پہلی شخصیت تھیں جنھوں نے سیاست میں عملیت پسندی کے رجحان کی پیروی کی لیکن جہاں تک ممتاز بھٹو کا معاملہ ہے، اس معاملے میں ان کا نام بے نظیر بھٹو سے بھی پہلے لیا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں ٹیلنٹڈ کزن کی عرفیت ممتاز بھٹو کے نام مستقل حصہ تھی، دوست ان کی اہمیت واضح کرنے کے لیے اور مخالفین بطور طنز انھیں ٹیلنٹڈ کزن کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ یہ ٹیلنٹڈ کزن تب بھی اور اب بھی اپنے مزاج کا واحد اور روایت میں پختہ تھا، مثلاً سیلولر انقلاب کے بعد سیل فون سیاست کا حصہ بن گئے لیکن ممتاز بھٹو نے اس ایجاد سے کبھی استفادہ نہیں کیا، پرانے وقتوں کی طرح لوگ انھیں فون کرتے، آپریٹر سن کر پیغام نوٹ کرتا اور پھر فون کرنے والے کو جوابی فون آتا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57791350", "summary": "آج سے 49 برس قبل نو جولائی 1972 کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ’قومی زبان‘ کے معاملے پر ہونے والے فساد اور مشتعل احتجاجی مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ان ہلاکتوں کی یاد میں کراچی کے علاقے لیاقت آباد (لالو کھیت) میں قائم ’مسجدِ شہداء‘ کے احاطے میں کئی قبریں آج بھی اس واقعے کی یاد دلانے کے لیے آج بھی موجود ہیں۔", "title": "کراچی میں جولائی 1972 کے لسانی فسادات: اردو، سندھی اور سندھ، زبان کے تنازع کی تاریخ", "firstPublished": "2021-07-11T06:27:29.000Z", "id": "6803f34c-dc7a-476b-a2fb-1bdfc5962f1b", "article": "آج سے 49 برس قبل نو جولائی 1972 کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ’قومی زبان‘ کے معاملے پر ہونے والے فساد اور مشتعل مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ان ہلاکتوں کی یاد میں کراچی کے علاقے لیاقت آباد (لالو کھیت) میں قائم ’مسجدِ شہداء‘ کے احاطے میں کئی قبریں بطور ثبوت آج بھی موجود ہیں۔ 1947 میں تقسیم ہند (یا قیام پاکستان) کے وقت ہندوستان کی (زیادہ تر) شمالی ریاستوں (خاص کر اُتّر پردیش یا یوپی) میں آباد اردو اور کئی دیگر زبانیں بولنے والے مہاجروں کی اکثریت کو ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آکر کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہر ی علاقوں میں آباد ہوئے لگ بھگ پچیس سال ہوئے تھے۔ اچانک ہی پیپلز پارٹی حکومت کی جانب سے ایک ایسا لسّانی (زبان سے متعلق) مسوّدۂ قانون یا لسّانی بل ’سندھ ٹیچنگ، پروموشن اینڈ یوز آف سندھی لینگویج بل‘ صوبائی اسمبلی میں پیش کردیا گیا جس کے نتیجے میں صوبے میں پہلے اردو سندھی تنازع پیدا ہوا ، پھر اُس کے ردّعمل میں کراچی میں ہونے والے فساد میں کئی افراد ہلاک ہوئے۔ مظاہرین نے دکانوں اور تجارتی مراکز (مارکیٹ) کو آگ لگادی۔ ایک زوردار دھماکے سے لیاقت آباد میں قائم کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) کی مارکیٹ زمین بوس ہوگئی۔ سڑکوں پر جلاؤ گھیراؤ اور پتھراؤ کے نتیجے میں شہر بھر میں ٹریفک معطل ہوگیا ، بازار بند ہوگئے۔ مشتعل ہجوم نے شہر بھر میں قائم پیپلز پارٹی کے کئی دفاتر پر ہلّہ بول دیا کئی مقامات پر ان دفاتر کو بھی آگ لگا دی گئی، جگہ جگہ پیپلز پارٹی کے پرچم نذرِ آتش کردیئے گئے، سرکاری دفاتر اور عمارتوں پر حملہ آور ہجوم نے سرکاری ریکارڈ اور دفتری ساز و سامان کو جلا ڈالا۔ لسّانی بل پر شروع ہونے والے اس احتجاج کے نتیجے میں کراچی سمیت سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں صورتحال اس قدر مخدوش اور خطرناک ہوگئی کہ بالآخر پیپلز پارٹی کے سربراہ اور ملک کے صدر ذوالفقار علی بھٹّو کو مداخلت کرنی پڑی۔ 17 جولائی 1972 کے روزنامہ جنگ کے مطابق اس ’نشری تقریر‘ میں ذوالفقار بھٹّو نے اس سمجھوتے کی تفصیلات بتاتے ہوئے وعدہ کیا کہ ’سندھ اسمبلی کے منظور کیے ہوئے بل پر عملدرآمد اس طرح ہوگا کہ اردو کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ 12سال تک اردو یا سندھی نہ جاننے کی بنیاد پر ملازمتوں میں کسی قسم کا امتیاز نہیں برتا جائے گا ، اس سلسلے میں گورنر آرڈینینس جاری کریں گے جس کی توثیق سندھ اسمبلی سے کروائی جائے گی ، احتجاج کے دوران گرفتار ہونے والوں سے نرم رویّہ اختیار کیا جائے گا ، عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے انتظامیہ میں تبدیلی کی جائے گی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57661780", "summary": "پاکستان میں صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں بعض مقامی لوگوں کی جانب سے کیے گئے اعتراض کے بعد ننگرپارکر کی ندی پر بنائے گئے ’کالی داس‘ نامی ڈیم کا نام تبدیل کر کے ’بھٹیانی ڈیم‘ رکھ دیا گیا ہے۔", "title": "سندھ کے کالی داس ڈیم کا نام بدل کر ستی ہونے والی رانی بھٹیانی کے نام پر کیوں رکھا گیا؟", "firstPublished": "2021-06-30T10:32:18.000Z", "id": "07b2c0cf-589b-418d-ae59-7f4879d5b60f", "article": "پاکستان میں صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں بعض مقامی لوگوں کی جانب سے کیے گئے اعتراض کے بعد ننگرپارکر کی ندی پر بنائے گئے ’کالی داس‘ نامی ڈیم کا نام تبدیل کر کے ’بھٹیانی ڈیم‘ رکھ دیا گیا ہے۔ سندھ میں اس ڈیم کے نام پر تنازع اُس وقت شروع ہوا جب وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے گذشتہ سال اکتوبر میں ننگرپارکر میں اس ڈیم کا افتتاح کیا تھا جس کا نام ’کالی داس‘ رکھا گیا۔ یہ ڈیم کارونجھر پہاڑ سے نکلنے والی بھٹیانی ندی پر تعمیر کیا گیا ہے۔ 333 ملین روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے اس ڈیم میں ایک ہزار ایکڑ فٹ سے زائد پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ کارونجھر کا پہاڑی سلسلہ 400 سکوائر کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، جہاں مون سون کے سیزن میں 13 انچ تک بارش ہوتی ہے۔ صوبائی حکومت کے مطابق اس ڈیم کا مقصد علاقے میں بارانی زمین کی آبادکاری اور لوگوں کو پینے کے پانی کی فراہمی کرنا ہے۔ رانا ہمیر سنگھ سندھ اسمبلی کے رُکن ہیں اور اُن کا تعلق تھر اور ننگرپارکر کے ٹھاکر خاندان سے ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’کاری تاس‘ نے بھٹیانی ڈیم پر ایک چیک ڈیم بنایا تھا، بعد میں جب حکومت سندھ نے ڈیم بنایا تو اس کا نام ’کالی داس‘ رکھا گیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’رانی بھٹیانی رانا چندن کی اہلیہ تھیں جنھوں نے ندی کے کنارے پر ستی کی رسم ادا کی تھی اور اسی مناسبت سے اس ندی کا نام بھٹیانی پڑ گیا تھا۔ مگر جب اس ندی پر ڈیم بنایا گیا تو اس کا نام ’کالی داس‘ رکھ دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے ہمارے اعتراضات سے اتفاق کیا کہ مقامی تاریخ کے ساتھ گڑ بڑ نہیں ہونی چاہیے اور اب اس ڈیم کا نام بھٹیانی ڈیم رکھ دیا گیا ہے۔‘ ندی کے قریب ستی ہونے والی رانی کی یاد میں اِس ندی کو ’بھٹیانی‘ کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ بھٹیانی ندی اس علاقے کی سب سے بڑی ندی ہے۔ سندھ میں انگریزوں سے آخری لڑائی بھی اسی مقام پر لڑی گئی جس میں راجپوتوں کو شکست ہوئی۔ انگریز فوج کے سربراہ کرنل تڑوت کے حکم پر چندن گڈ نامی اس قلعے کو توپوں سے اڑایا گیا تھا۔ ’تاریخ ریگستان‘ میں رائے چند راٹھور لکھتے ہیں کہ یہ رتو کوٹ سندھ کے شہر کھپرو کے قریب واقع تھا۔ بعض حوالوں کے مطابق سوڈھو ٹھاکر نے بزوور طاقت یہ شہر حکمران سومرا خاندان سے حاصل کیا تھا جبکہ کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ سومرا خاندان نے تحفے کے طور پر یہ کوٹ سوڈھو ٹھاکر کو دیا تھا جہاں انھوں نے اپنی حکمرانی قائم کی اور رانا کہلانے لگے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57589977", "summary": "کائنات گھوٹکی ٹرین حادثے میں اپنے والد، والدہ، بڑے بھائی اور دیگر کئی رشتے داروں کو گنوا چکی ہیں اور خود اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ اور زخموں کے علاج کے لیے حکومت کی طرف دیکھ رہی ہیں۔", "title": "’پیروں پر چل کر جلد گھر جاؤں‘، گھوٹکی ٹرین حادثے کی شکار ہونے والی کائنات کی خواہش", "firstPublished": "2021-06-24T04:54:15.000Z", "id": "311f4cee-9fe0-4927-a39f-011774706f16", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ میں گھوٹکی کے مقام پر دو ہفتے قبل ٹرین حادثے میں کائنات کے والد، والدہ اور بڑے بھائی سمیت پانچ رشتے دار ہلاک اور ان سمیت چار زخمی ہو گئے تھے۔ کائنات نے بتایا کہ وہ سب ان کے بھائی نعمان کی شادی کے لیے ٹوبہ ٹیک سنگھ جا رہے تھے، وہ اوپر برتھ پر لیٹی ہوئی تھیں۔ جیسے ہی ٹرینیں آپس میں ٹکرائیں تو وہ نیچے گر گئیں، اس کے بعد اُنھیں ہوش نہیں رہا کہ کیا ہوا اور جب ہوش آیا تو منہ میں مٹی تھی اور ٹانگیں بھی مٹی میں پھنسی ہوئی تھیں۔ ’میرے بھائی نے آواز لگائی کہ میری بہن کو بچاؤ اس کے بعد مجھے باہر نکال کر لٹا دیا گیا لیکن میری امی کو کسی نے نہیں نکالا۔‘ کائنات کو پہلے مقامی ہسپتال اور اس کے بعد رحیم یار خان میں واقع شیخ زید ہسپتال پہنچایا گیا، جہاں اُنھیں معلوم ہوا کہ ان کی والدہ، والد، بڑے بھائی سمیت پانچ رشتے دار ہلاک اور ان سمیت چار زخمی ہو گئے ہیں۔ رشتے داروں اور پڑوس والوں نے اُنھیں بتایا کہ گھوٹکی ٹرین حادثے میں زخمی ہونے والی بچی ہے اور ساتھ میں والدین کے بچھڑنے کی کہانی بھی بیان کی جس کے بعد ایک لیڈی ڈاکٹر نے ان کے ایکسرے اور رپورٹس دیکھیں اور کچھ دیر کے بعد اس کی ڈریسنگ کرنے کے لیے کہا گیا۔ اعجاز علی زخمی کائنات کے والد کے دوست اور کلاس فیلو ہیں۔ وہ ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کائنات کے زخم گہرے ہیں اور وہ حکومت سے التجا کرتے ہیں کہ آغا خان، لیاقت نیشنل یا الشفا ہسپتال میں اس کو منتقل کیا جائے۔ ’ریلوے ہسپتال انتظامیہ نے واضح کر دیا ہے کہ ہمارے پاس ماہر ڈاکٹر نہیں ہیں۔ ہم رہائش، ٹرانسپورٹ اور ادویات دے سکتے ہیں باقی اگر کسی نجی ہسپتال میں دکھائیں گے تو اس کی فیس آپ کو ادا کرنی ہوگی۔ بار بار شدید زخمی کو لانے لے جانے میں بڑی تکلیف ہوتی ہے کیونکہ کراچی کی بہت سی سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ پہلے ہی اس کی ٹانگوں میں فریکچر ہے اسی لیے ہم چاہ رہے ہیں کہ اس کا مستقل علاج کسی اچھے ہسپتال میں ہو۔‘ مقامی ملازمین نے بتایا کہ یہاں صرف آنکھوں کا ماہر ڈاکٹر اور گائنی ڈاکٹر موجود ہے، باقی آرتھوپیڈک اور سرجن کی پوسٹس عرصہ دراز سے خالی ہیں۔ کائنات کے کمرے کی جالی ٹوٹی ہوئی تھی جس کو بڑھئی ٹھیک کر رہا تھا۔ چھت پر ایک پنکھا تھا جو دھیرے دھیرے چل رہا تھا۔ کائنات کراچی میں نویں جماعت کی طالبہ ہیں وہ بار بار حکومت سے یہ التجا کرتی رہیں کہ ’میرا علاج کروا دیں، میں ٹھیک ہو جاؤں اور اپنے پیروں پر جلد از جلد اپنے گھر چلی جاؤں۔ اب تو میرے امی ابو بھی نہیں رہے جو میرے لیے کچھ کرتے، اب میں ہوں اور بس اللہ پر بھروسہ ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-57548111", "summary": "سنہ 1947 میں تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال نے انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے آزادی کی خوشی کو گہنا دیا تھا۔ کھینچی گئی سرحدوں کے دونوں جانب نئی نئی وجود میں آنے والی ریاستیں مذہبی فسادات سے شدید متاثر تھیں۔", "title": "’انڈیا کا سندھ‘ جہاں رہنے والوں کی کاروباری ذہانت پر باقاعدہ تحقیق کی گئی", "firstPublished": "2021-06-21T05:16:29.000Z", "id": "ff42a2c7-e902-48c5-83cd-69e4aa3f4cc5", "article": "سنہ 1947 میں تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال نے انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے آزادی کی خوشی کو گہنا دیا تھا۔ کھینچی گئی سرحدوں کے دونوں جانب نئی نئی وجود میں آنے والی ریاستیں مذہبی فسادات سے شدید متاثر تھیں۔ نانک بتاتے ہیں کہ ’میرے والد ایک کسان تھے جو راتو ڈیرو نامی علاقے کے قریب رہتے تھے۔ یہ ایک چھوٹا سا خوبصورت گاؤں تھا جس میں کھیت اور پہاڑیاں تھیں۔ وہ خوشی کے دن تھے۔ لیکن تقسیم کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ تقسیم کے اعلان کے کچھ ہفتوں کے بعد ہی صورتحال اتنی خراب ہوگئی کہ ہمارے کنبے کو اپنے علاقے سے نکلنا پڑا۔ وہ ایک خطرناک اور ڈراؤنا سفر تھا۔‘ ہرداس صرف چار ماہ کے تھے جب اُن کے والد سنمُکھ مکھیجا نے سنہ 1948 میں صوبہ سندھ چھوڑنے اور انڈیا آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ہرداس کے والد ایک فریڈم فائٹر تھے لیکن سندھ کے بہت سے دوسرے نوجوانوں کی طرح تقسیم کے اعلان کے ساتھ ہی اُن کے خواب بھی چکنا چور ہو گئے تھے۔ ان انتہائی مشکل حالات میں سندھ سے آنے والے یہ لوگ نئی زندگی کی ابتدا کرنا سیکھ رہے تھے۔ یہاں آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد 90 ہزار کو عبور کر چکی تھی۔ حکومت نے ان کے لیے نیا شہر بنانے کا فیصلہ کیا اور پاکستان سے آنے والے پناہ گزینوں کو اس میں آباد کیا گیا۔ تقسیم ہند کے بعد سندھیوں کے علاوہ کراچی سے آ کر الہاس نگر میں آباد ہونے والے مراٹھی عوام نے اپنی الگ شناخت برقرار رکھی۔ اُن کی تنظیمیں جیسا کہ سندھ مہاراشٹریا سماج اور شری کالیکا کلا منڈل آج بھی چل رہی ہیں۔ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے نانک منگلانی کہتے ہیں ’لوگ یہاں سے گزرنے والی لوکل ٹرینوں میں اشیائے ضروریہ اور کھانے پینے کا سامان فروخت کرتے تھے۔ انھیں جو بھی کام ملتا تھا وہ کرتے تھے۔ میں نے بھی سٹیشن میں پورٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ دکانوں اور فیکٹریوں میں کام کرتے تھے۔ وہ وقت ایسا تھا کہ پیٹ بھرنے کے لیے ایک جدوجہد جاری تھی۔‘ یہاں کے ایک سینیئر پولیس افسر بتاتے ہیں کہ ’الہاس نگر کے جرائم پیشہ گروہ ممبئی انڈر ورلڈ سے وابستہ تھے۔ جب تاوان کی رقم کو لے کر بدنام زمانہ راجوانی اور کالانی گروہوں کے مابین گینگ وار ہوا تو پانچ، چھ ماہ کی قلیل مدت میں دس سے پندرہ افراد کو قتل کیا گیا۔ ہر منگل کو کسی نہ کسی طرح قتل ہوتا تھا۔ پپو کالانی نے دہشت کی اپنی سلطنت بنائی تھی اور انھیں مقامی لوگوں کی بھی حمایت حاصل تھی۔‘ وہ کہتے ہیں 'میرے خیال میں نوجوانوں کو اپنے کنبے کے بزرگوں سے بات کرنی چاہیے اور ان کی تاریخ اور ورثہ کو سمجھنا چاہیے تاکہ وہ آنے والی نسل کو اس کے بارے میں بتا سکیں۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57500717", "summary": "سنہ 1957 میں اس شہر کے آثار کی کھدائی کے کام کی نگرانی پاکستان کے مشہور ماہر آثار قدیمہ ایف اے خان نے کی اور سنہ 1965 تک اس شہر کی کھدائی کا کام سرانجام دیا۔ ان کھدائیوں کے بعد ماہرین آثار قدیمہ نے بتایا کہ یہ شہر تقریباً دو ہزار سال قدیم ہے اور پہلی صدی عیسوی سے 13ویں صدی عیسوی تک اپنے عروج پر تھا۔", "title": "بنبھور: قدیم شہر ’دیبل‘ اور سرزمین پاکستان کی پہلی مسجد کے آثار", "firstPublished": "2021-06-17T09:59:14.000Z", "id": "7d17716d-d836-44ce-bd28-70b5226f523c", "article": "یہ 1928 کی بات ہے جب گھارو کے شمالی کنارے، شاہراہ حیدر آباد پر کراچی سے 40 میل دور ایک وسیع اور بلند ٹیلے کو دیکھ کر ہندوستان کے مشہور ماہر آثار قدیمہ رمیش چندر مجمدار نے کھدائی کا آغاز کیا۔ سنہ 1957 میں اس کام کی نگرانی پاکستان کے مشہور ماہر آثار قدیمہ ایف اے خان کے سپرد کر دی گئی جنھوں نے سنہ 1965 تک اس شہر کی کھدائی کا کام سرانجام دیا۔ ان کھدائیوں کے بعد ماہرین آثار قدیمہ نے بتایا کہ یہ شہر تقریباً دو ہزار سال قدیم ہے اور پہلی صدی عیسوی سے 13ویں صدی عیسوی تک اپنے عروج پر تھا۔ تازہ کھدائیوں کے بعد محققین نے دعویٰ کیا کہ لیزلی الکوک کا خیال غلط ہے اور یہ وہی شہر ہے جو عرب میں بنو امیہ کے دور حکومت کے وقت ہندوستان میں دیبل کے نام سے آباد تھا اور اس وقت سندھ کا تجارتی مرکز تھا۔ یہاں سے تاجروں کے قافلے سمندر اور خشکی کے راستے دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کرتے تھے۔ یہی وہ شہر تھا جسے محمد بن قاسم نے 712 میں فتح کیا تھا۔ دو مارچ 1958 کو بنبھور میں آثار قدیمہ کی کھدائی کا آغاز ہوا۔ ایف اے خان کو ان کھنڈرات میں دو اہم تعمیرات کا سراغ ملا، ایک تو مضبوط قلعہ بند شہر پناہ جو مشرق سے مغرب کی طرف 200 فٹ چوڑی اور شمال سے مغرب کی طرف 1200 فٹ طویل تھی۔ اس تحریر کی برآمدگی کے بعد ماہرین آثار قدیمہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مسجد برصغیر میں تعمیر ہونے والی اولین مسجد تھی جو محمد بن قاسم کے ساتھیوں نے تعمیر کروائی تھی۔ تاہم چیرامن کے مقام پر سنہ 628 میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد کے دعوے کے بعد بنبھور کی یہ مسجد برصغیر کی پہلی مسجد تو نہیں کہلائی جا سکتی البتہ اسے موجودہ پاکستان کی سرزمین پر تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔ بنبھور کے آثار قدیمہ سے برآمد ہونے والی اس پہلی مسجد کے آثار کی برآمدگی 23 ستمبر 1962 کو مکمل ہوئی۔ بتایا گیا کہ یہ مسجد کم و بیش مربع تھی۔ اس مسجد کا طول 122 فٹ اور عرض 120 فٹ تھا۔ اس کے چاروں طرف چونے کے پتھر کی اینٹوں کی ایک ٹھوس دیوار تھی جس کی موٹائی تین سے چار فٹ تھی۔ مسجد کے صحن کا طول 75 فٹ اور عرض 58 فٹ تھا، یہ صحن اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔ ان چوکھٹوں پر لگی ہوئی لکڑی گل چکی تھی۔ اس مسجد میں کوئی محراب نہیں تھی اوراس کا نقشہ کوفہ اور واسط کی مساجد سے مشابہہ تھا اور انھی کا تسلسل لگتا تھا۔ کوفہ اور واسط کی مساجد بالترتیب 670 اور 702 میں تعمیر ہوئی تھیں اور ان میں بھی کوئی محراب نہیں تھی۔ بنبھور میں برآمد ہونے والی یہ مسجد تیرہویں صدی عیسوی تک قائم رہی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57450013", "summary": "احسان شیخ کے کزن مجاہد علی شیخ کے مطابق تمام زائرین دادو سے تھے اس لیے المناک حادثے نے نہ صرف ان کے خاندان کو سوگوار کیا بلکہ بڑی تعداد میں لوگوں کی ہلاکت کے باعث پورا علاقہ سوگوار ہے۔", "title": "’لوگ واپس آتے ہیں تو گھر میں خوشی کا سماں ہوتا ہے لیکن ہم سوگوار ہیں‘", "firstPublished": "2021-06-12T02:36:56.000Z", "id": "8a4b0f49-d750-4ba0-9ca0-3f0f0142c588", "article": "سندھ کے ضلع دادو سے تعلق رکھنے والے 13 سالہ احسان شیخ ان 19 زائرین میں شامل تھے جو کہ جمعے کو بلوچستان کے ضلع خضدار میں ایک المناک روڈ حادثے میں ہلاک ہوئے۔ احسان شیخ کے کزن مجاہد علی شیخ نے فون پر بی بی سی کو بتایا احسان نہ صرف اپنے گھر بلکہ پورے خاندان کا لاڈلا تھا۔ اُنھوں نے بتایا کہ احسان اور اُن کے دو ماموں ایک روحانی اجتماع میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ ’لوگ واپس آتے ہیں تو عموماً گھر پر خوشی کا سماں ہوتا ہے لیکن کزن کی ناگہانی موت نے ہمارے پورے خاندان کو سوگوار کر دیا۔‘ مجاہد علی شیخ نے بتایا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والے تمام افراد زائرین تھے اور ان کا تعلق سندھ کے ضلع دادو سے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حادثے میں اُن کے دونوں ماموں زخمی ہوئے جبکہ کزن احسان شیخ ہلاک ہوا۔ اُنھوں نے بتایا کہ احسان شیخ آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اور پانچ بھائیوں میں ان کا نمبر چوتھا تھا۔ ’چھوٹا ہونے کی وجہ سے حسان شیخ خاندان کے ہر فرد کا لاڈلا تھا لیکن وہ کمسنی میں ہمیں چھوڑ کر چلا گیا۔‘ اُنھوں نے کہا کہ اس المناک حادثے نے نہ صرف ان کے خاندان کو سوگوار کیا بلکہ بڑی تعداد میں لوگوں کی ہلاکت کے باعث پورا علاقہ سوگوار ہے۔ یہاں کے درگاہ کے سجادہ نشین محمد طارق جان نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ خواجگان کے عرس میں بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد شرکت کے لیے آتی ہے۔ ان کا کہنا تھا رات کو جب عرس ختم ہوا تو ڈیڑھ بجے اُنھوں نے دیگر لوگوں کی طرح حادثے کا شکار ہونے والی بس کے زائرین کو خوشی خوشی رخصت کیا۔ جب اس واقعے کی وجوہات کے بارے میں اسسٹنٹ کمشنر خضدار جمیل احمد سے رابطہ کیا گیا تو اُنھوں نے اس کی وجہ تیز رفتاری کو قرار دیا۔ محمد طارق جان نے کہا کہ اس بس میں جانے والے لوگوں کی تعداد زیادہ تھی جس کی وجہ سے ان میں بعض لوگ چھت پر بیٹھ گئے اور یہ بتایا جا رہا ہے کہ اُن ہی لوگوں میں سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ اس علاقے سے لوگوں کو طبی امداد کی فراہمی کے لیے واپس خضدار منتقل کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویشناک تھی جن کو کمبائنڈ ملٹری ہسپتال خضدار منتقل کیا گیا۔ زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہونے کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اسسٹنٹ کمشنر خضدار جمیل احمد نے بتایا کہ گذشتہ سال سیلابوں سے پہاڑی علاقے میں روڈ نہ صرف خراب ہوا تھا بلکہ اس کے بعض حصے بہہ گئے تھے۔ جمیل احمد کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال بارشوں کے بعد اس کے جو حصے خراب ہوئے تھے ان کی مرمت کا کام تاحال شروع نہیں کیا گیا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57373944", "summary": "کراچی میں پولیس نے بحریہ ٹاؤن میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے الزام میں سندھ ایکشن کمیٹی کے مرکزی رہنماؤں سمیت بحریہ ٹاؤن کے خلاف سرگرم مقامی لوگوں اور ادیبوں پر دہشت گردی اور پاکستان کے جھنڈے کی توہین کی دفعات کے تحت مقدمات درج کر لیے ہیں۔", "title": "بحریہ ٹاؤن کراچی: ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج", "firstPublished": "2021-06-06T11:02:27.000Z", "id": "5ace5331-fc93-471c-b0f3-007e1190759d", "article": "کراچی میں پولیس نے بحریہ ٹاؤن میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے الزام میں سندھ ایکشن کمیٹی کے مرکزی رہنماؤں سمیت بحریہ ٹاؤن کے خلاف سرگرم مقامی لوگوں اور ادیبوں پر دہشت گردی اور پاکستان کے جھنڈے کی توہین کی دفعات کے تحت مقدمات درج کر لیے ہیں۔ یاد رہے کہ گذشتہ روز کراچی میں تعمیراتی کمپنی بحریہ ٹاؤن کی جانب سے مبینہ طور پر مقامی گوٹھوں کو مسمار کرنے کے خلاف سندھ کی قوم پرست جماعتوں، مزدور و کسان تنظیموں اور متاثرین کی جانب سے ’غیر قانونی قبضے چھڑوانے کے لیے‘ ہونے والے احتجاج کے دوران متعدد عمارتیں اور گاڑیاں نذرِ آتش کر دی گئی تھیں۔ سرکار کی مدعیت میں دائر ایف آئی آر میں ایس ایچ او گڈاپ پولیس سٹیشن انسپکٹر اشرف جان نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ سندھ کی قوم پرست جماعتوں سندھ یونائیٹڈ پارٹی، سندھ ترقی پسند پارٹی، جئے سندھ محاذ، جئے سندھ قوم پرست پارٹی، قومی عوامی تحریک و دیگر قوم پرست تنظیموں نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا تھا اور چھ جون کو پارٹی رہنما اور کارکن گاڑیوں میں ٹولیوں کی صورت میں بحریہ ٹاؤن کے سامنے ایم نائن پر دن ساڑھے بارہ بجے کے قریب پہنچا شروع ہوئے۔ پولیس نے ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کی سیکشن سات، تعزیرات پاکستان کی دفعہ 123 بی (پاکستان کے قومی جھنڈے کو نذر آتش کرنا) اور کارِ سرکار میں مداخلت ڈالنے کے الزامات کے تحت یہ مقدمہ دائر کیا ہے۔ گذشتہ روز ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد کراچی پولیس نے 80 سے زائد افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں قوم پرست جماعتوں کے کارکن بھی تھے۔ پولیس نے آج انھیں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا اور عدالت نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر ان کارکنوں کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ اتوار کو بحریہ ٹاؤن کے سامنے ہونے والے مظاہرے میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے دوران نامعلوم افراد نے مرکزی دروازے کے باہر اور اندر واقع تعمیرات کے علاوہ چند موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی تھی جبکہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے شدید شیلنگ کی تھی۔ خیال رہے کہ سندھ ایکشن کمیٹی نے ہی سپر ہائی وے پر واقع بحریہ ٹاؤن کے مرکزی دروازے کے سامنے اتوار کو آٹھ گھنٹے کے لیے دھرنے کا اعلان کیا تھا جس میں دیگر سیاسی جماعتوں اور علاقائی تنظیموں نے شرکت کی حامی بھری تھی۔ خیال رہے کہ گذشتہ ماہ بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں جس کے بعد کراچی پولیس نے بحریہ ٹاؤن کے سکیورٹی انچارج سمیت دیگر اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جبکہ ایک ایس ایچ او کو معطل کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ مئی 2021 میں بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے ہیوی مشینری کے ہمراہ گبول گوٹھ سمیت دیگر آبادیوں کو مسمار کرنے کی کوشش کی تھی جس پر مقامی لوگوں نے مزاحمت کی اور اس دوران فائرنگ کی ویڈیوز سوشل میڈیل پر وائرل ہوئیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57367809", "summary": "سندھ میں ڈاکٹر سعدیہ جلال پہلی خاتون ہیں جن کا نام ریڈ بک میں شامل کیا گیا ہے، یعنی وہ صوبے کی انسداد دہشتگردی پولیس کو انتہائی مطلوب ملزمان میں سے ایک ہیں۔", "title": "کراچی کی ڈاکٹر سعدیہ کو انتہائی مطلوب ملزمان کی فہرست میں کیوں شامل کیا گیا؟", "firstPublished": "2021-06-05T10:00:31.000Z", "id": "aaf0656d-5841-4c4d-90a9-f044fa5a13fe", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ میں انسداد دہشتگردی پولیس (سی ٹی ڈی) کو ڈاکٹر سعدیہ نامی ایک خاتون مطلوب ہیں، جن کا تعلق مبینہ طور پر کالعدم عسکریت پسند تنظیم القاعدہ جنوبی ایشیا سے ہے اور ان پر دہشتگردی میں معاونت کا الزام ہے۔ ڈاکٹر سعدیہ کا نام انسداد دہشتگردی پولیس کو انتہائی مطلوب ملزمان کی فہرست ’ریڈ بک‘ میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ ریڈ بک کا نواں ایڈیشن ہے۔ سی ٹی ڈی کے سربراہ عمر شاہد حامد نے تصدیق کی ہے کہ ڈاکٹر سعدیہ جلیل پہلی خاتون ہیں جن کا نام اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے سربراہ اور تجزیہ نگار عامر رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ پنجاب اور سندھ پولیس کے علاوہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے بھی انتہائی مطلوب ملزمان کی فہرست جاری کرتا ہے۔ ان میں بھی تخریب کاری کے الزام میں کوئی عورت مطلوب نہیں ہے۔ ریڈ بک کی فہرست میں ڈاکٹر سعدیہ سمیت القاعدہ جنوبی ایشیا کے 18 شدت پسندوں، نام نہاد دولت اسلامیہ کے 12، تحریک طالبان پاکستان کے 23، انصار الشریعہ کے چار، لشکر جھنگوی کے 13، جنداللہ کے دو اور شیعہ شدت پسند تنظیم سپاہ محمد پاکستان کے 24 شدت پسندوں کے نام شامل ہیں۔ عمر شاہد کے مطابق جو لوگ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں یا جن پر ملوث ہونے کا شبہ ہے انٹلیجنس رپورٹس کی روشنی میں ان کے نام اس ریڈ بک میں شامل کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سعدیہ جلیل کا نام بھی اس کی کڑی ہے۔ ڈاکٹر سعدیہ کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ ایم بی بی ایس گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر ہیں۔ وہ شہر کی ایک نجی میڈیکل یونیورسٹی سے وابستہ رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’2001 میں عبدالرحمان کراچی منتقل ہوگیا تھا جہاں اس کو سی آئی ڈی نے پاسپورٹ آفس سے گرفتار کرلیا جس کے بعد اس کے سالے عمر کاٹھیو عرف جلال چانڈیو کو القاعدہ کا امیر مقرر کیا گیا اور وہ ان کے ساتھ کام کرتے رہے۔ بعد میں عمر کاٹھیو کی ہدایت پر طاہر منہاس کراچی منتقل ہو گئے، جہاں جلال انھیں 30 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیتا تھا۔‘ ایس پی سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ چونکہ ڈاکٹر سعدیہ کا شوہر القاعدہ میں رہا ہے لہذا سکیورٹی اداروں کو ابتدا سے خدشہ رہا ہے کہ وہ بھی ان کی معاونت کرتی رہی ہیں۔ اس پر ’عبداللہ یوسف اور عمر میں اختلافات ہوگئے لہذا عمر کاٹھیو نے القاعدہ کا اپنا گروپ بنالیا جو القاعدہ جنوبی ایشیا میں بھی شامل نہیں ہوا۔ کیونکہ وہ کہتا ہے کہ اس نے اسامہ بن لادن سے بیعت کی ہے، لہذا وہ القاعدہ میں ہی رہے گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57266227", "summary": "’سانحۂ ٹنڈو بہاول‘ حکومت اور فوج دونوں کے لیے ایسی قومی شرمندگی کا باعث بنا جس کا اعتراف اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز کو اعلانیہ طور پر کرنا پڑا۔", "title": "سانحۂ ٹنڈو بہاول: مائی جندو کے خاندان کے نو افراد کا قتل جس نے سندھ میں آپریشن کا رخ موڑ دیا", "firstPublished": "2021-06-05T06:14:03.000Z", "id": "dc5016a4-a8df-4185-afb5-e2099ffb319e", "article": "وہ ’سانحۂ ٹنڈو بہاول‘ کے دردناک اور دل سوز حقائق بیان کر رہے تھے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اسی سانحے نے مُلک کے جنوبی صوبے سندھ میں جاری اُس فوجی کارروائی کا رُخ بھی موڑ کر رکھ دیا تھا جسے ’سندھ آپریشن کلین اپ‘ کہا جاتا ہے۔ فوجی افسر کے دعوے پر مبنی خبر شہری علاقوں سے شائع ہونے والے اخبارات میں چھپنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل آصف نواز دونوں ہی دریائے سندھ کے کنارے اس مقام پر پہنچے جہاں فوج نے مقابلے کا دعویٰ کیا تھا۔ آئی ایس پی آر کے اس وقت سندھ میں نگران بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) صولت رضا بھی وزیراعظم اور آرمی چیف کے ہمراہ ٹنڈو بہاول گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں ’میں نے ہی کور کیا تھا۔ وہاں ڈاکوؤں سے برآمد ہونے والا اسلحہ بھی دکھایا گیا جس کی ہم نے تصاویر بھی پریس کو جاری کیں اور وزیراعظم نے کارروائی میں شریک افسر اور ان کے دستے کے لیے انعامی رقم کا اعلان بھی کیا۔‘ اُس زمانے کے انگریزی اور اردو اخبارات اور اب انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق میجر ارشد جمیل اعوان کے بعض قرابت دار دراصل مائی جندو کے خاندان کی ملکیتی زمین پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور انھوں نے اس سلسلے میں میجر ارشد جمیل سے ’مدد‘ مانگی۔ یہ حقائق پہلے مقامی پھر اردو اور انگریزی کے قومی اور بالآخر عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئے تو ’سانحۂ ٹنڈو بہاول‘ ایسی قومی شرمندگی کا باعث بنا جس کا اعتراف اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز کو اعلانیہ طور پر کرنا پڑا۔ اسی شرمندگی میں فوج کی صوبائی قیادت تک اعلیٰ افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔ بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) صولت رضا کے مطابق ’جی او سی حیدرآباد میجر جنرل سلیم الحق اور اُن کے نائب بریگیڈیئر کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔‘ اخبارات کے مطابق میجر ارشد جمیل اعوان کو فوج سے برطرف کر کے اور اُن کے دستے کے ارکان سمیت گرفتار کر لیا گیا اور ان کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل شروع ہوا۔ ماورائے عدالت و قانون نو افراد کو قتل کرنے کا جرم ثابت ہونے پر میجر ارشد جمیل کو پھانسی کی سزا تو سنا دی گئی مگر مائی جندو اور اُن کے خاندان کے لیے اس کے باوجود بھی انصاف کا حصول ہرگز آسان نہیں تھا۔ اب اسے عدل کی فراہمی کی سست رفتار کہہ لیں یا نظام انصاف کی طویل محکمہ جاتی خامیاں مگر مائی جندو کے خاندان کو اپنے بے گناہ بیٹوں اور داماد سمیت نو افراد کے قاتلوں کو سزا دلوانے اور صرف ایک کو تختۂ دار تک پہنچانے کے لیے دو اور جانوں کا نذرانہ دینا پڑا۔ اسے بھی بدقسمتی کہا جائے یا نظام انصاف کی کمزوری کے مائی جندو کی بیٹیوں کو آخرِ کار 11 ستمبر 1996 کو اپنی دھمکی پر عملدرآمد کرنا ہی پڑا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57310003", "summary": "’کس بدبخت کا دل چاہتا ہے کہ وہ جنگلوں میں خواری کرتا پھرے اور بال بچوں کے لیے ترسے، لیکن آپ نہیں جانتا سائیں کہ اس جنگل میں آنے کے راستے بھی بہت ہیں اور یہاں لانے والے بھی کم نہیں لیکن واپسی کا راستہ کوئی ایک بھی نہیں۔ نہ کسی نے بنانے کی ضرورت آج تک محسوس کی ہے۔‘", "title": "کچے کے ڈاکو سے 30 برس قبل ہونے والی انکشافات سے بھری ملاقات", "firstPublished": "2021-06-01T04:47:56.000Z", "id": "3064034b-264a-45bd-991f-0763232c2810", "article": "اُس نے میرا سوال سُنا اور میرا جملہ دہراتے ہوئے کہا ’میں اس لائن میں کیوں آیا؟ میں اس لائن میں انتقام کے لیے آیا سائیں۔ انتقام نے کلیجے کا آگ ٹھنڈا تو کیا لیکن خبر تک نہ ہوئی کہ کب میں آوارہ وطن (دربدر) ہو گیا اور کب ڈاکو بنا۔ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں، سوائے موت کے، میری موت اور وہ جو میری موت چاہتا ہے، اُس کی بھی موت۔‘ کسی ہفت روزے کا شمارہ شائع ہو کر جب تک بازار میں آتا ہے اخبارات بہت کچھ شائع کر چکے ہوتے ہیں۔ یہی سبب تھا کہ صحافیوں کی واپسی کے باوجود میں نے لاڑکانہ میں مزید قیام کا فیصلہ کیا اور سوچا کہ کیوں نہ اس ڈاکو تک پہنچا جائے جس نے یہ سارا ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ کیا ظلم ڈھاتی ہے؟ میں نے کسی انجان کی طرح سوال کیا تو اس نے زہر خند ہو کر کہا کہ ’اتنے انجان نہ بنو سائیں، آپ بھی جانتے ہو، ظالم اور پولیس کے درمیان اتحاد اور مفاد کا رشتہ ہے جس میں کمزور بے آسرا یوں پس جاتا جیسے چکی کے دو پاٹوں کے درمیان گندم کے دانے۔‘ یہی لوگ ہیں جن کی یہاں سُنی جاتی ہے، اس نے کہا ’اسمبلیاں، حکومتیں جن کے بغیر نہیں چلتیں، خود ہمارا کام بھی ان کے بغیر نہیں چلتا۔ ان کے زیر سایہ ہم محفوظ ہیں، اسلحہ ہے، طاقت ہے، تحفظ اور روزگار بھی۔ بس یوں سمجھو سائیں کہ پولیس ان کی غلام ہے اور ہم ان کے کارندے ہیں۔‘ مجھے لگا کہ لوٹ مار، قتل و غارت گری اور اغوا برائے تاوان جیسی وارداتوں کے ذریعے معاشرے کو لہولہان کر دینے والا یہ شخص محض ایک چہرہ ہے، اس چہرے کے پیچھے کیا ہے، یہ دیکھنے ضرورت غالباً کسی نے محسوس نہیں کی یا کسی میں اس کی ہمت ہی نہیں۔ کچھ دیر کے بعد جب میں لاڑکانہ واپسی کے لیے جیپ کی طرف بڑھا تو اُس نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا جیسے کوئی راز داری میں بات کرتا ہے ’کس بدبخت کا دل چاہتا ہے کہ وہ جنگلوں میں خواری کرتا پھرے اور بال بچوں کے لیے ترسے لیکن آپ نہیں جانتا سائیں کہ اس جنگل میں آنے کے راستے بھی بہت ہیں اور یہاں لانے والے بھی کم نہیں لیکن واپسی کا راستہ کوئی ایک بھی نہیں۔ نہ کسی نے بنانے کی ضرورت آج تک محسوس کی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57305751", "summary": "شمالی سندھ میں دریا سے منسلک اضلاع میں کچے کا علاقہ ایک بار پھر ڈاکوؤں کی وجہ سے خبروں کی زینت ہے مگر اس علاقے کی کیا خاص بات اسے ڈاکوؤں کے لیے محفوظ اور پولیس کے لیے مشکل بناتی ہے؟", "title": "کچے کا علاقہ کیا ہے، ڈاکو یہاں کیوں چھپتے اور کارروائی کرتے ہیں؟", "firstPublished": "2021-05-31T10:06:02.000Z", "id": "7b31f1cd-0f35-4a84-88a7-bff718903713", "article": "سندھ کے ضلع شکارپور کے کچے کے علاقے میں پولیس نے مساجد سے اعلان کر کے لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ عارضی طور پر نقل مکانی کر جائیں تاکہ ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ دریا کی ایک طرف ضلع کشمور ہے تو دوسری جانب ضلع گھوٹکی واقع ہے۔ دریائے سندھ کا کچے کا علاقہ وسطی اور جنوبی سندھ کے بھی کئی ضلعوں میں ہے لیکن کشمور، گھوٹکی، شکاپور اور جیکب آباد وہ اضلاع ہیں جہاں ڈاکو سرگرم ہیں اور قبائلی تنازعات بھی ان اضلاع میں شدید ہیں۔ جان محمد مہر کے مطابق جب ڈاکوؤں نے سوشل میڈیا ویڈیوز بنا کر شیئر کیں، پولیس کو للکارا اور شکارپور میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکت ہوئی تو پھر شدید تنقید سامنے آئی جس پر وزیر اعظم نے بھی اس کا نوٹس لیا اور وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کراچی پہنچے، جہاں اُنھوں نے ڈی جی رینجرز کے ساتھ ملاقات کی۔ اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ شکارپور آئے اور یوں آپریشن میں شدت لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 'ہم نے جو گڑھی تیغو اور آس پاس کے علاقے میں لوگوں کو نکل جانے کے لیے کہا ہے، اس کے بعد اگر وہاں کوئی شخص رہ جاتا ہے اور اس کے پاس اسلحہ ہے اور وہ پولیس پر فائرنگ کرتا ہے تو اس کو بھی مجرم یا مجرم کا ساتھی تصویر کیا جائے گا۔' 'پولیس اس وقت ڈرون کیمرے بھی استعمال کر رہی ہے جس سے ڈاکوؤں کی نقل و حرکت کی نگرانی کی جا رہی ہے اور ان کے پاس اس وقت سنائپر بھی موجود ہیں، لیکن پہلے مرحلے میں کچے میں رسائی حاصل کر کے بیس کیمپ بنائے جائیں گے جس کے بعد پیش قدمی ہوگی۔' شکارپور کے ساتھ سکھر کا کچا ایریا بھی لگتا ہے۔ ایس ایس پی سکھر عرفان سموں نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس نے کچے میں 25 سے زائد چوکیاں لگا لی ہیں جبکہ دریاِئے سندھ کے قریب رسائی حاصل کر لی ہے تاکہ شکارپور سے ملزمان کو اس طرف فرار ہونے کا موقع نہ مل سکے اور دوسرا رسد کو روکا جائے۔ ایس ایس پی کشمور امجد شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ کشمور میں شکارپور سے پہلے ہی آپریشن جاری تھا جس میں ڈاکوؤں کی پناہ گاہوں کو آگ لگا کر ختم کیا گیا ہے اور پولیس آگے کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے، جبکہ روزانہ کی بنیاد پر فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ راستے میں جنگلوں اور جھاڑیوں کی صورت میں رکاوٹیں بھی ہیں جنھیں ختم کیا جا رہا ہے جبکہ شکارپور کے کچے کے ساتھ جو کچے کا علاقے ہے اس کی بھی نگرانی کی جا رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57182917", "summary": "28 مئی 1992 کو سندھ کے دیہی علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف شروع کیا جانے والا آپریشن آغاز میں ہی متنازع بن گیا تھا اور یہ سوال بھی اٹھنے لگا تھا کہ کیا اس کارروائی کا اصل ہدف ڈاکو تھے یا کراچی۔", "title": "آپریشن ’کلین اپ‘: سندھ میں ڈاکو راج، تیس سال پہلے اور آج", "firstPublished": "2021-05-28T07:10:06.000Z", "id": "09e40e7f-f44e-4465-8043-8f1cf1c5fa18", "article": "یہ افسر 28 مئی 1992 کو سندھ میں ڈاکوؤں اور اُن کے مبینہ سرپرستوں کے خلاف شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے آغاز پر نئے نئے اکیڈمی سے آئے تھے اور کئی برس قبل اپنے اوپر ہونے والے ایک حملے کا قصہ سُنا رہے تھے اور وہ پولیس کو فراہم کی جانے والی سرکاری گاڑیوں کے معیار پر سوال اٹھا رہے تھے۔ کئی سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں کا مؤقف ہے کہ دراصل 28 مئی 1992 کا سندھ آپریشن سیاسی مقاصد کی غرض سے شروع کیا گیا تھا ورنہ وہ اپنے اہداف ضرور حاصل کر لیتا، جبکہ دیگر کا خیال ہے کہ آپریشن سے قبل کی مخدوش اور دگرگوں صورتحال متقاضی تھی کہ آپریشن شروع کیا جاتا۔ جب 28 مئی 1992 کو سندھ آپریشن شروع ہوا تو یہ بطور وزیرِ اعظم نواز شریف کا پہلا دورِ حکومت تھا اور جنرل آصف نواز جنجوعہ چیف آف آرمی سٹاف تھے۔ نواب جام صادق علی خان سندھ کے وزیرِ اعلیٰ تھے اور انھیں الطاف حسین کی (اُس وقت کی) انتہائی مقبول سیاسی جماعت مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی حمایت حاصل تھی جس نے شہری سندھ میں اچانک بے مثال سیاسی طاقت حاصل کر لی تھی۔ جب 28 مئی کو آپریشن کا آغاز ہوا تو تمام جانب سے اس کی منظوری دی جا چکی تھی۔ مگر بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) صولت رضا کے مطابق اس کے باوجود ’آپریشن کے آغاز کے 24 گھنٹے کے اندر ہی ایک ’اگلی ٹرن‘ (بھونڈا موڑ) آ گیا اور آپریشن متنازع بنا دیا گیا۔‘ ’ڈاکو پروُ چانڈیو کے بارے میں تو حُکّام نے سات بار اعلان کیا کہ وہ مقابلے میں مارا گیا اور ساتوں مرتبہ انعام کی رقم بھی وصول کی۔ یہی نہیں بلکہ ایسے مقابلوں میں یہ بھی دعویٰ کیا جاتا تھا کہ کارروائی کے دوران ہزاروں گولیاں چلائی گئیں لیکن دراصل یہی گولیاں اُنھی ڈاکوؤں کو فروخت کر کے اُن سے ملنے والے پیسے بھی حُکّام کی جیب میں چلے جاتے تھے۔‘ صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’خود مجھے دیے گئے ایک انٹرویو میں جنرل حمید گُل نے باقاعدہ تسلیم کیا کہ جس وقت سندھ میں آپریشن شروع ہوا تو وہ وقت اُس صوبے کے مخصوص حالات میں کسی بھی فوجی کارروائی کے لیے مناسب تھے ہی نہیں۔ حمید گُل نے کہا تھا کہ فوجی نکتۂ نظر سے ایسی کارروائیاں ایسے موسم میں شروع ہی نہیں کی جاتیں اور ہدف کراچی ہی تھا۔‘ صحافی ناز سہتو بھی کہتے ہیں کہ ’آپریشن شروع کرتے وقت کہا تو یہ کہا گیا تھا کہ آپریشن زدہ علاقوں میں طویل المدت نتائج کے لیے بحالی کا عمل کیا جائے گا، تعلیم دی جائے گی، متاثرہ دیہات کی تعمیرنو کی جائے گی مگر کوئی وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ کچھ نہیں ہوا۔ اگر ہوتا تو آج بھی کیوں جرم موجود ہے؟‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57264990", "summary": "اپنے ویڈیو پیغام میں سید عبدالرشید نے اس بل کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کی مدد سے معاشرتی خرابیاں، بچوں کے ساتھ ریپ اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کو روکا جا سکتا ہے۔", "title": "مجوزہ لازمی شادی ایکٹ: ’شادی میں لوگوں کو فوری طور پر سیکس ہی نظر آتا ہے‘", "firstPublished": "2021-05-27T09:34:54.000Z", "id": "3a87f307-26f3-8942-ad7b-8d8b2e7d00a9", "article": "’18 برس کی عمر میں شادی سے معاشرتی خرابیوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔۔۔ جلدی شادی سے معاشرے میں غیر اخلاقی سرگرمیوں اور بچوں کے ساتھ ریپ کے واقعات کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔۔۔‘ اس مجوزہ بل کے ڈرافٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ والدین 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے اپنے بچوں کی لازمی شادی کروائیں اور اگر والدین ایسا کرنے میں تاخیر کرتے ہیں تو وہ ضلعی انتظامیہ کو ٹھوس وجوہات کے ساتھ تحریری طور پر آگاہ کریں۔ اس مجوزہ بل کے ڈرافٹ کو صوبائی اسمبلی میں جمع کروائے جانے کے بعد اپنے ایک ویڈیو پیغام میں سید عبدالرشید کا کہنا تھا کہ اس بل کا مقصد معاشرتی خرابیاں، بچوں کے ساتھ ریپ اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کا سدباب کرنا ہے۔ ’یہ بالکل ایک چیز نہیں بلکہ ریپ تشدد ہے۔ جو پُرتشدد ذہن ہو گا، وہ کسی پر بھی کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ایسا کرے گا۔ شادی اور ریپ کو ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا اور اس غلط فہمی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’میرے سے ہزاروں ایسے خاندان رابطہ کرتے ہیں جن میں شوہروں کو پورنوگرافی دیکھنے کی شدید عادت ہوتی ہے۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات کسی طور پر بھی بجا نہیں کہ جلدی شادیاں بے راہ روی کو روکیں گی۔ شادی اگلی نسل کی پرورش کے لیے کی جاتی ہے نہ کہ سیکس کا تعلق قائم کرنے کے لیے۔‘ غیر سرکاری تنظیم ’سرچ فار جسٹس‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر افتحار مبارک نے اس بارے میں بی بی بسی اردو کو اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اُن کے خیال میں جنسی زیادتی اور ریپ جیسے واقعات کو روکنے کی یہ کوئی سود مند تکنیک نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس بل کو تجویز کرنے والے رکن اسمبلی سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ انھوں نے دنیا کے کس حصے میں یہ دلیل، منطق یا کوئی تحقیق دیکھی ہے کہ نوجوانوں کی جلد شادی سے ریپ کو کم کیا جا سکتا ہے۔ افتحار مبارک نے کہا کہ بچوں کو ریپ جیسے تلخ تجربے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اس بارے میں حکومتی سطح پر کوئی واضع حمکت عملی ترتیب دی جائے۔ انھوں نے سید عبدالرشید کے بیان کو جلد بازی میں دیا گیا بیان قرار دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کے ریپ کو روکنے کے لیے جلدی شادی کی تجویز کوئی دانشمندانہ اقدام نہیں۔ اس بل پر تنقید کرتے ہوئے منصف نامی صارف نے لکھا کہ پتا چلا ہے کہ 18 برس کی عمر میں شادی کا بل آیا ہے جس سے یہ لگتا ہے کہ شاید ہم ملک سے دوسرے تمام مسائل کا خاتمہ کر چکے ہیں جو اب یہ بحث شروع ہو گئی ہے۔ ’یہ راز ہے کہ ان کا دماغ ایسے کیسے کام کرتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-57248332", "summary": "’میری نظروں کے سامنے ان ساتھیوں کے جسم کے ٹکڑے اڑ کر گرے جن کے ساتھ میں آٹھ سے نو سال سے کام کر رہا تھا، آپریشن کے دوران ساتھ میں نہ کوئی باپ ہوتا، ماں اور نہ بھائی۔ یہ ہی پولیس کے ساتھی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔‘", "title": "کچے کے ڈاکوؤں کا ’دھ چھکو‘ جس کے سامنے پولیس بکتر بند میں بھی محفوظ نہیں", "firstPublished": "2021-05-25T18:50:53.000Z", "id": "3efa8fd1-486d-49a5-bb4a-78490d118ed2", "article": "’میری نظروں کے سامنے ان ساتھیوں کے گوشت کے ٹکڑے اڑ کر گرے جن کے ساتھ میں 8 سے9 سال سے کام کر رہا تھا، آپریشن کے دوران ساتھ میں نہ کوئی باپ ہوتا، ماں اور نہ بھائی۔ یہ ہی پولیس کے ساتھی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔‘ اتوار کے روز سجاد چانڈیو کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جو انھوں نے بکتربند گاڑی کے اندر سے ریکارڈ کی تھی جس میں وہ اعلیٰ افسران کو بچانے کی اپیل کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ ان کے تین ساتھی ہلاک ہوچکے ہیں، باقی دو بچے ہیں۔ انھوں نے بتایا اس حملے کے دوران بکتر بند کے اوپر جو مورچا تھا، اس کا شیشہ بھی ٹوٹ گیا اور ایک راکٹ اندر آگیا جس سے ان کے مزید دو ساتھی ہلاک ہوگئے۔ ڈاکوؤں نے زمین میں خندقین بنا کر مورچہ بنایا ہوا تھا جہاں سے وہ فائرنگ کر رہے تھے۔ سندھ پولیس کی جانب سے ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا سے ان بکتر بند گاڑیوں کی خریداری کی جاتی ہے۔ 2012 میں لیاری کے واقعے کے بعد ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا نے ان الزامات کو مسترد کیا تھا اور بتایا تھا کہ سندھ پولیس نے ان سے مزید 32 بکتربند گاڑیوں کا آرڈر دیا ہے جبکہ بی 7 بکتر بند گاڑیوں کو اس آپریشن کے دوران نقصان پہنچا ہے۔ ڈی آئی جی اور ایس ایس پی سطح کے متعدد افسران جو شمالی سندھ میں تعینات رہے اور کچے میں آپریشن میں بھی شریک رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بی 7 بکتربند میں موڈیفیکیشن کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں صرف ایک وسطی مورچہ ہے جہاں سے فائرنگ کی جاسکتی ہے جبکہ اس سے قبل بی 6 بکتر بند میں دو دائیں اور دو بائیں اور ایک وسط میں مورچہ تھا جہاں سے دشمن سے مقابلہ کیا جاسکتا تھا۔ ڈی آئی جی سپیشل برانچ کوئٹہ کیپٹن پرویز چانڈیو بتاتے ہیں کہ اسلحہ افغانستان کے سرحدی علاقے سے ژوب، لورالائی، دکی، کوہلو، ڈیرہ بگٹی پہنچتا ہے جہاں سے عسکریت پسند اور سندھ کے ڈاکو اسے خریدتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ ایسے قبائل ہیں جب موسم بہتر ہوتا ہے تو سردیوں کے بعد اپنے جانوروں کے ساتھ نقل مکانی کرتے ہیں اور ڈیرہ بگٹی کے چراگاہوں تک آتے ہیں، یہ غیر روایتی راستہ اپناتے ہیں جو ساتھ میں اسلحے لے کر آتے ہیں جو یہاں فروخت کیا جاتا ہے۔ سندھ پولیس کے ایک ڈی آئی جی جو شمالی سندھ میں رہ چکے ہیں کا کہنا ہے کہ شمالی سندھ کے تین اضلاع میں نصف درجن سے زائد اینٹی ایئر کرفٹ گنز یا ’دھ چھکو‘ موجود ہیں، ان کے مطابق دو کے قریب پنوعاقل دو شکارپور اور دو کے قریب کشمور میں موجود ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57042867", "summary": "کراچی میں بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کے خلاف گڈاپ تھانے میں دائر مقدمے میں ان پر ایک شخص کو یرغمال بنانے، ہنگامہ آرائی اور تشدد کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ دوسری طرف حکومتِ سندھ کے احکامات پر ایس ایچ او گڈاپ پولیس سٹیشن کو معطل کر دیا گیا ہے۔", "title": "بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کے خلاف کراچی میں مقدمہ درج، ایس ایچ او معطل", "firstPublished": "2021-05-08T19:35:25.000Z", "id": "f96354ce-7620-4fe2-9467-5f651fbc5eae", "article": "یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بحریہ ٹاون کراچی کے خلاف کرمنل مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ گڈاپ تھانے میں دائر مقدمے میں ان پر ایک شخص کو یرغمال بنانے، ہنگامہ آرائی اور تشدد کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ دوسری طرف حکومت سندھ کے احکامات پر تحصیل دار عبدالحق چاوڑ، پٹواری انور حسین، پٹواری حبیب اللہ ہوت اور ایس ایچ او گڈاپ شعور احمد بنگش کو معطل کر دیا گیا ہے، جس کے نوٹیفیکیشن جاری ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب سندھ اسمبلی میں جی ڈی اے کے اراکین شہریار مہر، عارف مصطفی جتوئی، ڈاکٹر رفیق بھانبھن، معظم عباسی اور حسنین مرزا نے وفاقی وزیر اسد عمر کو ایک خط بھیجا ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے مقامی لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، اس معاملے کو وفاقی سطح پر اٹھایا جائے اور قومی احتساب بیورو (نیب) سے تحقیقات کرائی جائے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’اس پورے عمل میں پولیس نے بھی ان کا ہی ساتھ دیا‘ اور اسی دوران نور محمد گبول کے بیٹے مراد گبول کو بھی حراست میں لے لیا گیا جنھوں نے تین سال قبل بحریہ ٹاؤن کے خلاف اپنی چار ایکڑ زمین کی ملکیت کے حوالے سے چلنے والے مقدمے میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف کامیابی حاصل کی تھی۔ درخواست میں ہوم سیکریٹری، ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی ملیر، ایس ایچ او گڈاپ اور بحریہ ٹاؤن کو فریق بنایا گیا ہے اور استدعا کی گئی ہے کہ گاؤں کو مسمار کرنے، جبری سڑک بنانے اور ڈرینج لائن گزارنے کو غیر قانونی عمل قرار دے کر روکا جائے اور گاؤں کے راستے کھولے جائیں جو ’بحریہ فاؤنڈیشن نے بلاک کر رکھے ہیں۔‘ اسی طرح سندھ ہائی کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف ایک مدعی فیض محد گبول کے حق میں فیصلہ دیا گیا تھا۔ سماجی کارکن گل حسن کلمتی کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے بعد بحریہ ٹاؤن نے مبینہ طور پر اس جگہ تعمیرات شروع کر دیں جس کے بعد انھوں نے توہین عدالت کی درخواست دائر کی اور ’انصاف کے لیے چکر لگاتے لگاتے وہ انتقال کر گئے۔‘ گل حسن کلمتی کہتے ہیں: 'عدالتی فیصلے پر عمل درآمد تو پولیس کرواتی ہے جو بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے ساتھ ہے۔ اس وقت 50 کے قریب درخواستیں دائر ہیں جن میں سے 35 پر عدالت کی طرف سے سٹے آرڈر ہے لیکن بحریہ کا کام نہیں رکا ہے اور ان درخواستوں کی سماعت بھی نہیں ہو رہی ہے۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56964650", "summary": "پولیس کا کہنا ہے کہ یہ افراد یوم علی پر تخریب کاری کا ارادہ رکھتے تھے اور ان کے قبضے سے دو عدد پریشر کُکر آئی ای ڈیز، دو دستی بم اور تین پستول برآمد کیے گئے ہیں۔", "title": "شکارپور سے دولتِ اسلامیہ کے تین مبینہ دہشتگرد گرفتار", "firstPublished": "2021-05-02T19:45:13.000Z", "id": "14ae896f-de69-44cf-ba82-6358edbfa6e7", "article": "سندھ کے ضلع شکارپور میں پولیس نے تین مبینہ دہشت گروں کو گرفتار کیا ہے جن کے بارے میں حکام کا دعویٰ ہے کہ ان کا تعلق شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ سے ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ افراد یوم علی پر تخریب کاری کا ارادہ رکھتے تھے۔ شکارپور کے سینیئر سپرینٹنڈنٹ پولیس کامران نواز کا کہنا ہے کہ سلطان کوٹ پولیس چوکی کے قریب واقع چوہی شاخ سے تینوں ملزمان کو گرفتار کیا گیا جن میں کی شناخت خالد محمود پندرانی عرف امیر حمزہ، صدیق بروہی اور عثمان بروہی کے نام سے کی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق ان کے قبضے سے دو عدد پریشر کُکر آئی ای ڈیز (یعنی دیسی ساختہ بم)، دو دستی بم اور تین پستول برآمد کیے گئے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار شخص خالد محمود عرف امیر حمزہ قتل، ارادہ قتل، پولیس مقابلے اور بارودی مواد کی ترسیل میں ملوث رہا ہے اور خانپور امام بارگاہ میں پولیس کی جانب سے ناکام بنائے گئے منصوبے میں سہولت کار تھا۔ کراچی کے بعد شکارپور سندھ کا دوسرا بڑا شہر تھا جہاں فرقہ وارانہ بنیادوں پر حملے کیے گئے۔ ان میں سابق رکن اسمبلی ابراہیم جتوئی کے قافلے پر حملہ، ان کے گاؤں میں مجلس پر حملے کی کوشش، درگاہ حاجن شاہ ماڑی والا میں دھماکہ اور شکارپور شہر کی امام بارگاہ میں خودکش حملہ شامل ہے۔ کاؤنٹر ٹیررازم پولیس کے ایس پی راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ شکارپور ضلعے یا آس پاس کے اضلاع کی دہشت گرد تنظیموں کا تعلق یا رابطہ کراچی سے نہیں بلکہ بلوچستان اور افغانستان سے ہے اور ان کی وہاں پر رشتے داریاں بھی ہیں۔ ایس ایس پی شکارپور کا کہنا ہے کہ خالد محمود پندرانی عرف امیر حمزہ داعش کے نائب کمانڈر حفیظ پندرانی عرف حفیظ بروہی عرف علی شیر بروہی کے چھوٹے بھائی ہیں اور امام بارگاہ بم دھماکے میں ملوث رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق حفیظ پندرانی شکارپور، خانپور اور جیکب آباد، میں خودکش بم حملوں میں ملوث رہے۔ سیہون میں لال شہباز قلندر کے مزار پر حملے کا ماسٹر مائنڈ بھی اسی کو قرار دیا گیا تھا۔ مذہبی شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے صحافی ضیاالرحمان کا کہنا ہے کہ حفیظ پندرانی گروپ نے خود کو داعش کے ساتھ منسلک قرار دیا تھا لیکن ان کی کوئی منظم تنظیم نہیں تھی اور نہ ہی مرکزی تنظیم نے اُنھیں قبول کیا تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ جو داعش کا فرقہ وارانہ نظریہ تھا اس نے اس جیسے گروہوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس سے قبل یہ لوگ کسی نہ کسی طرح ان فرقہ وارانہ شدت پسند تنظیموں کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ اُن کے مطابق اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ریاست نے لشکر جھنگوی جیسی تنظیموں کے خلاف سخت ایکشن لیا جس کی وجہ سے وہ پس منظر میں چلی گئی، جس کے باعث داعش کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56940724", "summary": "کراچی میں بحریہ ٹاؤن ہاؤسنگ سکیم کے نزدیک موجود تین گوٹھوں کے رہائشیوں کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس رہائشی منصوبے کے حکام کی جانب سے ان کے علاقے میں جبراً داخل ہونے کی کوشش کی کی گئی جس کے بعد تصادم میں متعدد لوگ زخمی ہوئے ہیں۔", "title": "سوشل میڈیا پر بحث: ’ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ سندھ پولیس بحریہ ٹاؤن کے لیے کام کر رہی ہے‘", "firstPublished": "2021-04-30T12:27:37.000Z", "id": "479fa70c-6631-314f-a078-a89c042e380b", "article": "بی بی سی نے بحریہ ٹاؤن سے متاثرہ افراد اور سول سوسائٹی کی جانب سے ’انڈیجینیئس رائٹس الائنس‘ کے نام سے بنائی گئی تنظیم سے رابطہ کیا۔ تنظیم کے سرکردہ رکن حفیظ بلوچ نے دعویٰ کیا کہ تین روز قبل ایک ریٹائرڈ کپیٹن کی سربراہی میں بحریہ ٹاؤن کے حکام بلڈوزر سمیت نور محمد گبول گاؤں پر حملہ آور ہو گئے اور اس کے علاوہ عبداللہ گبول گاؤں میں بھی داخل ہونے کی کوشش کی جس کے خلاف مقامی افراد نے سخت مزاحمت کی تھی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حفیظ بلوچ کا کہنا تھا کہ کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے حکام کی جانب سے ان تینوں گاؤں میں داخل ہونے کی کوشش کی کی گئی اور نتیجے میں ہونے والے تصادم کے باعث نصف درجن کے قریب مقامی لوگ زخمی ہو گئے۔ مقامی افراد کے دعوے کے مطابق بحریہ ٹاؤن حکام کی جانب سے ہادی بخش گبول گاؤں پر بھی دھاوا بولا گیا جس میں ’ریٹائرڈ کیپٹن‘ نے ان گاؤں کے رہائشیوں کو متنبہ کیا کہ وہ (یعنی بحریہ ٹاؤن) ہر صورت میں یہ زمین لے کر رہیں گے کیونکہ انھیں راستہ بنانا ہے، بصورت دیگر انھیں متبادل زمین فراہم کی جائے، جس کے بعد انھیں ایک متبادل راستہ فراہم کیا گیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس پورے عمل میں پولیس نے بھی ان کا ہی ساتھ دیا اور اسی دوران نور محمد گبول کے بیٹے مراد گبول کو بھی حراست میں لے لیا گیا جنھوں نے تین سال قبل بحریہ ٹاؤن کے خلاف اپنی چار ایکڑ زمین کی ملکیت کے حوالے سے چلنے والے مقدمے میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف کامیابی حاصل کی تھی۔ سوشل میڈیا پر شائع ویڈیوز میں واضح نظر آتا ہے کہ پولیس کی بھی چند گاڑیاں موجود ہیں جو مبینہ طور پر بحریہ ٹاؤن کے حکام کی مدد کر رہی ہیں، جس پر سماجی کارکن اسامہ خلجی نے پی پی پی کے چئیرپرسن بلاول بھٹو اور سندھ حکومت کے ترجمان مرتضی وہاب کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ 'ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ سندھ پولیس بحریہ ٹاؤن کے لیے کام کر رہی ہے اور زمین پر قبضہ کرنے کے لیے ان کی مدد کر رہی ہے۔' ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے وہ احتجاج کرتے چلے آ رہے ہیں تاہم ابھی تک وہ حکمران و اپوزیشن جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں کرسکے ہیں اور نہ ہی ان کے احتجاج اور مبینہ طور پر بحریہ ٹاؤن حکام کی جانب سے کی گئی کارروائیوں کو الیکٹرانک میڈیا میں جگہ ملتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56751509", "summary": "پاکستان کے صوبہ سندھ میں ایک پنچائتی جرگے نے لڑکی کے قتل کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے والے نوجوان پر 5 لاکھ روپے جرمانہ اور گھر کی خواتین سمیت وڈیرے سے معافی مانگنے کا فیصلہ سنایا ہے۔", "title": "‘لڑکی کے قتل کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم کیوں چلائی‘، جرگے کا نوجوان کے خلاف فیصلہ", "firstPublished": "2021-04-14T16:58:18.000Z", "id": "07d84793-7310-48e8-953e-c5f290e5ea8c", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ میں ایک پنچائتی جرگے نے لڑکی کے قتل کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے والے نوجوان پر 5 لاکھ روپے جرمانہ اور گھر کی خواتین سمیت وڈیرے سے معافی مانگنے کا فیصلہ سنایا ہے۔ مانجھند کے گاؤں وڈا چھچھر میں 28 جون 2020 کو ایک نوجوان لڑکی وزیراں چھچھر کو قتل کیا گیا تھا، جس کے بارے میں ابتدائی طور پر یہ کہا گیا تھا کہ لڑکی کو سر پر پتھر مار کر ہلاک کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس قتل کے خلاف مہم چلائی گئی تھی اور خواتین حقوق کی تنظیموں نے بھی احتجاج کیا تھا۔ ایک اعلی پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ابتدائی طور پر وزیراں کی موت کو حادثہ قرار دیا گیا تھا اور میڈیکل رپورٹ بھی غیر واضح تھی۔ انہوں نے قبر کشائی کر کے پوسٹ مارٹم کرایا۔ حالانکہ لاش کی حالت خراب ہو چکی تھی تاہم اس رپورٹ میں جسم میں سپرم کے شواہد ملے ہیں۔ رپورٹ سے تصدیق ہوئی کہ لڑکی کا ریپ کر کے سر میں کوئی نوکدار چیز کا وار کر کے ہلاک کیا گیا۔ ضلع جامشورو کی تحصیل مانجھند میں منگل کو یہ فیصلہ کیا گیا، جس میں سوشل میڈیا پر سرگرم جاوید چھچھر پر پانچ لاکھ جرمانے اور خواتین سمیت مقامی وڈیرے سے معافی کا فیصلہ سنایا گیا۔ اس فیصلے کے سرپنچ وارث ماچھی نے بی بی سی اردو سے رابطے پر تصدیق کی کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہ وزیراں کے قتل کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ برادری کی سطح پر ناراض فریقین کو منایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فریقین آپس میں رشتے دار ہیں۔ الیاس چھچھر والوں کو شکوہ تھا کہ دوسری فریق نے ان کی مدد نہیں کی اور تنہا چھوڑ دیا تھا اور جاوید چھچھر نے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی۔ وارث ماچھی نے واضح کیا کہ برداریوں کے فیصلے نوجوان نہیں بڑے کرتے ہیں۔ جاوید اور دیگر لڑکوں نے سوشل میڈیا پر غلط بیانی کی، جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے ایسا کیا لکھا تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ یاد نہیں۔ ایس ایس پی جام شورو جاوید بلوچ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈی ایس پی کو تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے۔ بقول ان کے اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ جرگہ ہوا ہے تو اس کے مطابق قانونی کارروائی کی جائے گی۔ بقول ان کے وہ نوجوان جاوید سے ٹیلیفون پر رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ ان جرگوں کے خلاف وومین ایکشن فورم بھی عدالت میں مدعی رہی ہے۔ تنظیم کی رہنما عرفانہ ملاح وزیراں چھچھر قتل کیس میں تحقیقات کے لیے بھی سرگرم ہیں۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ عدالتوں کا جو فیصلہ ہے اس کا احترام کیا جائے اور جنہوں نے یہ جرگہ منعقد کیا ہے ان کے خلاف مقدمہ دائر کرکے کارروائی کی جائے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56734577", "summary": "دلہن صفیہ لاکھو نے بتایا کہ وکالت کی پریکٹس کے دوران انہوں نے دیکھا ہے کہ کئی ایسے غریب قیدی ہوتے ہیں جن کی ضمانت نہیں ہو پاتی۔ اسی لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ حق مہر میں 32 غریب قیدیوں کی ضمانت کی شرط رکھی جائے۔", "title": "دلہن کی جانب سے حق مہر کی انوکھی شرط، 32 قیدیوں کی ضمانت اور 32 نفلوں کی ادائیگی", "firstPublished": "2021-04-13T13:40:49.000Z", "id": "557d384c-d2f6-4832-bc81-108bb362f351", "article": "صفیہ سنہ 2012 سے وکالت کے شعبے سے منسلک ہیں اور وہ کراچی بار اور نواب شاہ میں پریکٹس کرتی ہیں۔ ان کے شوہر بھی وکیل ہیں ’حق مہر میں نہ جائیداد، سونا اور چاندی، نہ لاکھوں روپے، صرف 32 قیدیوں کی ضمانت اور 32 نفل کی ادائیگی۔‘ دلہن کی یہ شرائط لے کر وکیل اور گواہ دلہا کے پاس پہنچے تو دولہے نے فوراً یہ شرط قبول کرلی۔ نواب شاہ کی تاج کالونی میں گزشتہ روز یعنی پیر کو 32 سالہ صفیہ لاکھو اور 45 سالہ حبیب جسکانی کا نکاح ہوا۔ صفیہ کا تعلق نواب شاہ اور حبیب جسکانی کا تعلق خیرپور ضلع سے ہے اور دونوں ہی وکیل ہیں۔ صفیہ لاکھو نے بی بی سی کو بتایا کہ جب گواہ اور وکیل آئے اور رضامندی کا پوچھا تو انہوں نے حق مہر میں اپنی عمر کے مطابق 32 غریب قیدیوں کی ضمانت اور اتنے ہی نفل کی ادائیگی کی شرائط بتائیں۔ یہ لوگ ان شرائط کے ساتھ دولہے کے پاس پہنچے اور انھوں نے حامی بھر لی۔ صفیہ لاکھو اور حبیب جسکانی کی یہ ارینج میریج ہے۔ صفیہ سنہ 2012 سے وکالت کے شعبے سے منسلک ہیں اور وہ کراچی بار اور نواب شاہ میں پریکٹس کرتی ہیں جبکہ حبیب جسکانی سنہ 2007 سے سندھ ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کر رہے ہیں۔ دونوں کی اگست میں منگنی ہوئی تھی۔ صفیہ لاکھو کے مطابق انہوں نے صرف حق مہر میں نفل اور ضمانتیں لکھوائیں تاہم نکاح خواں نے کہا کہ کچھ رقم لکھوانا بھی ضروری ہے۔ جس کے بعد باہمی مشاورت سے 11 سو روپے حق مہر لکھوایا گیا۔ ’میری شرائط کے جواب میں دولہے نے کوئی شرط نہیں رکھی، صرف ان کو قبول کیا۔‘ صفیہ لاکھو نے بتایا کہ وکالت کی پریکٹس کے دوران انہوں نے دیکھا ہے کہ کئی ایسے غریب قیدی ہوتے ہیں جن کی ضمانت نہیں ہوتی اسی لیے انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ ’حق مہر ایسا کچھ رکھنا چاہتی تھی جس سے دوسروں کو فائدہ پہنچے اور ہمارے لیے باعث دعا ہو۔ 32 قیدی آزاد ہوں گے تو ان گھرانوں کی دعائیں ملیں گی اور ہر ضمانت کے ساتھ ایک نفل شکرانے کی ادئیگی بھی۔‘ ایڈووکیٹ حبیب جسکانی کا کہنا ہے کہ وہ پہلے سے ایک لیگل ایڈ تنظیم سے وابستہ ہیں اور جیلوں میں جاکر محتاج اور مستحق قیدیوں کو قانونی مشاورت فراہم کرتے ہیں اور ان کے مقدمات کی پیروی بھی کرتے ہیں۔ ’اس شرط پر عملدرآمد کی کوئی ٹائم لائن نہیں ہے جیسے جیسے قیدی ملیں گے ضمانت کرائیں گے۔‘ صفیہ لاکھو کا کہنا ہے کہ ان کے حق مہر کی یہ شرط معلوم نہیں کیسے وائرل ہو گئی، رشتے داروں اور دوستوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔ حبیب جسکانی کہتے ہیں کہ انہیں ہرگز توقع نہیں تھی کہ عام لوگوں کی طرف سے اس اقدام کو اس قدر سراہا جائے گا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56430773", "summary": "لڑکی کے والد تخت مل نے ایف آئی آر درج کرائی تھی کہ 9 مارچ کو ایک سفید رنگ کی کار ان کے گھر کے باہر آکر رکی جس میں سے مسلح افراد اترے جنھوں نے انھیں ڈرایا کہ کوئی مزاحمت نہ کرے وہ لڑکی کو لیکر جائیں گے اور اس کا ’نکاح کرائیں گے‘۔اس مقدمے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں درگاہ بھرچونڈی کے پیر ایک چارپائی پر بیٹھے ہیں جبکہ لڑکی زمین پر موجود ہے اور آس پاس لوگ کھڑے ہیں جو تمام مرد ہیں۔", "title": "مذہب کی ’تبدیلی‘ کا کیس، ہندو لڑکی کو چائلڈ پروٹیکشن سینٹر بھیجنے کا حکم", "firstPublished": "2021-03-17T13:19:27.000Z", "id": "48526d82-8cb0-4cad-81eb-7df369d44558", "article": "لڑکی نے عدالت کے سامنے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے بغیر کسی دباؤ کے مذہب تبدیل کیا ہے۔ دوسری جانب لڑکی کے والد کا الزام ہے کہ اسے چند افراد اٹھا کر لے گئے تھے جس کے بعد اس کا مذہب زبردستی تبدیل کروایا گیا ہے۔ لڑکی کا کہنا تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے درگاہ بھرچونڈی پہنچ کر اپنا مذہب تبدیل کیا اور اب اس کا نام اُم حنا ہے اور یہ کہ تبدیلی مذہب کے لیے اس پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ پیر آف بھرچونڈی کی طرف سے ایڈووکیٹ سعید احمد بجارانی پیش ہوئے جنھوں نے بعد میں صحافیوں کو بتایا کہ عدالت نے لڑکی کی اکیلے میں والدین سے ملاقات کرائی جس کے بعد بیان قلمبند کیا گیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ لڑکی نے کہا کہ وہ پیر آف بھرچونڈی جانا چاہتی ہے تاکہ وہ اپنی اسلامی تعلیم جاری رکھ سکے۔ تنگوانی تھانے میں لڑکی کے والد تخت مل نے ایف آئی آر درج کرائی تھی کہ 9 مارچ کو شام چار بجے ایک سفید رنگ کی کار ان کے گھر کے باہر آکر رکی جس میں سے پانچ افراد اترے جن میں مشتاق، بھورل اور دیگر شامل تھے۔ ان کے پاس ٹی ٹی پستول تھے، انھوں نے انھیں ڈرایا کہ کوئی مزاحمت نہ کرے وہ لڑکی کو لیکر جائیں گے اور اس کا ’مشتاق سے نکاح کرائیں گے‘۔ ایف آئی آر کے مطابق مشتاق نے 13 سالہ لڑکی کو ’بازو سے پکڑا اور ساتھ لیکر کار میں سوار ہوئے اور نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگئے‘۔ اس مقدمے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں نظر آتا ہے کہ درگاہ بھرچونڈی کے پیر ایک چارپائی پر بیٹھے ہیں جبکہ لڑکی زمین پر موجود ہے اور آس پاس لوگ کھڑے ہیں جو تمام مرد ہیں۔ لڑکی کو ایک خستہ حال سیف ہاؤس میں رکھا گیا تھا جہاں درگاہ بھرچونڈی کے مریدوں کی موجودگی اور کھانا لانے کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ اطلاعات کے مطابق جب لڑکی کے والد اور والدہ ملاقات کے لیے وہاں گئے تو انہیں مبینہ طور ہر ملاقات کرنے نہیں دی گئی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما سکھدیو کا کہنا تھا کہ لڑکی کا جبری مذہب تبدیل کیا گیا ہے، وہ ذاتی طور پر اس کیس کو دیکھ رہے ہیں اور خواتین کی ترقی کی وزرات کی صوبائی وزیر شہلا رضا سے رابطے میں ہیں۔ ایس ایس پی امجد شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ آگ لگائے جانے کا دعویٰ درست نہیں اور ان کے مطابق آگ پر دیگچی رکھی ہوئی تھی جس میں سے آگ بھڑکنے سے باعث کچھ اشیا جل گئیں اور یہ کہ اب وہاں پولیس چوکی بھی قائم ہے۔ شہزاد کا کہنا تھا کہ پولیس چوکی اس واقعے کے بعد قائم کی گئی تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/56417204", "summary": "سندھ کے شہر لاڑکانہ میں آپریشن تھیٹر میں مریضہ کے مبینہ ریپ کے خلاف اہل خانہ اور علاقے کے لوگوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ پولیس نے متعلقہ نجی ہسپتال کو بند کر دیا ہے۔", "title": "’ہسپتال میں جسم کے نچلے حصے کو سن کر کے مجھے ریپ کیا گیا‘", "firstPublished": "2021-03-16T13:16:53.000Z", "id": "3797e3b9-c7fe-428d-aed2-7d4251161e65", "article": "سندھ کے شہر لاڑکانہ میں آپریشن تھیٹر میں ایک مریضہ کے مبینہ ریپ کے خلاف اہل خانہ اور علاقے کے لوگوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے، پولیس نے متعلقہ نجی ہسپتال کو ان کے مطالبہ پر بند کر دیا ہے۔ لاڑکانہ کے قریب انڈس ہائی وے پر واقع پکھو شہر کے رہائشیوں نے دھرنا دے کر انڈس ہائی وے کو بلاک کر دیا، جس کے بعد متاثرہ خاتون کے رشتے دار اور علاقے کے لوگ ٹریکٹر ٹرالیوں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں میں سوار ہو کر جلوس کی صورت میں لاڑکانہ پہنچے جہاں نجی میڈیکل سینٹر کے باہر دھرنا دیا گیا۔ لاڑکانہ پولیس نے 12 مارچ کو نجی ہسپتال کے اسٹاف کے خلاف آپریشن تھیٹر میں مبینہ ریپ کا مقدمہ درج کیا تھا۔ متاثرہ خاتون کے شوہر نے بی بی سی کو بتایا کہ واقعے کے بعد پولیس کی تفتیش سے وہ مطمئن نہیں تھے کیونکہ ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا تھا۔ جبکہ مرکزی ملزم ڈاکٹر کو بھی حراست میں نہیں لیا گیا جس نے ضمانت کرا لی، ان کا کہنا تھا کہ ان کا مطالبہ تھا کہ اس متنازع نجی ہسپتال کو بند کیا جائے، ان کے احتجاج کے بعد ایس ایچ او کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ متاثرہ خاتون کے شوہر نے مقدمے میں موقف اختیار کیا ہے کہ ان کی بیوی (ف) کو، جس کی عمر 25 سے 26 سال ہو گی کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی، لے کر وہ اپنے کزن کے ساتھ لاڑکانہ میں نجی ہسپتال آ گئے جہاں ڈاکٹر سے ملاقات کی، جس نے کہا کہ آپریشن ہو گا، مریضہ کو داخل کروائیں۔ ان کے مطابق دوپہر کو ڈھائی بجے ہسپتال کا عملہ ان کی بیوی کو آپریشن تھیٹر میں لے گیا۔ کچھ دیر کے بعد ڈاکٹر گیا، شام کو پانچ بجے ہسپتال سے بیوی کو باہر نکالا گیا جس نے بتایا آپریشن تھیٹر میں ہسپتال کے عملے نے انجیکشن لگا کر جسم کے نچلے حصے کو سن کر دیا، تاہم وہ ہوش میں رہیں۔ اس دوران ایک ملزم نے ان کو برہنہ کر کے ریپ کیا جبکہ دوسرے ملزمان خاموش رہنے کے لیے دھمکاتے رہے، جب بڑا ڈاکٹر آیا تو اس نے انھیں بھی یہ بات بتائی اس نے بھی خاموش رہنے کو کہا۔ ڈاکٹر شعیب کے مطابق جمع کے روز گیارہ بجے مریضہ آئی تھیں۔ جمعہ کی نماز کے بعد ان کو آپریشن تھیٹر منتقل کیا گیا جہاں جو ایس او پیز ہوتی ہیں ان کے تحت مریضہ کو تیار کر کے انہیں بلایا گیا۔ یہ آپریشن ایک گھنٹہ جاری رہا جس کے بعد وہ باہر آ گئے اور او پی ڈی میں مصروف ہو گئے۔ ڈاکٹر شعیب کے مطابق آپریشن کے دوران ہسپتال کی ایک خاتون اہلکار بھی موجود تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ایسا کچھ آپریشن تھیٹر میں ہونا ممکن نہیں اور انہوں نے اپنے اسٹاف سے بھی دریافت کیا انہوں نے بھی انکار کیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56395448", "summary": "کراچی میں جاری سندھ ادبی میلے کے تیسرے روز بلوچستان کی صورتحال پر مجوزہ سیشن کو منسوخ کر کے آڈیٹوریم کو بند کر دیا گیا جبکہ اس پروگرام سے چند گھنٹے قبل مقررین کو آگاہ اس کی منسوخی کے متعلق آگاہ کیا گیا۔", "title": "سندھ ادبی میلے میں بلوچستان پر سیشن منسوخ: ’ثابت کرتا ہے ہمیں اظہار رائے کی آزادی نہیں‘", "firstPublished": "2021-03-14T19:24:47.000Z", "id": "10332f16-c540-4106-91e1-37efed290036", "article": "کراچی میں جاری سندھ ادبی میلے کے تیسرے روز بلوچستان کی صورتحال پر گفتگو کے لیے مجوزہ پروگرام کو منسوخ کر کے آڈیٹوریم کو بند کر دیا گیا۔ اس پروگرام سے چند گھنٹے قبل مقررین کو آگاہ کیا گیا کہ یہ پروگرام منسوخ کر دیا گیا ہے جبکہ اس پروگرام کو سننے کے لیے بڑی تعداد میں بلوچ طلبہ و طالبات، سیاسی و سماجی کارکن موجود تھے۔ سندھ لٹریچر فیسٹیول کے ایک آرگنائزر نے بی بی سی کو بتایا کہ مقررین میں سے صوبائی وزیر ظہور بلیدی، ثنا بلوچ اور یوسف مستی خان کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ پروگرام منسوخ کیا گیا ہے۔ مجوزہ پروگرام کے میزبان عابد میر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ظہور بلیدی دو روز قبل اپنی مصروفیت کے بارے میں آگاہ کر چکے تھے جبکہ ثنا بلوچ اسلام آباد میں تھے اور انھوں نے بتایا تھا کہ وہ زوم یا سکائپ پر دستیاب ہوں گے۔‘ عابد میر نے یہ واضح کیا کہ ’شاہ محمد مری نے ہرگز شرکت سے انکار نہیں کیا تھا۔ انھیں پروگرام سے صرف ایک گھنٹہ قبل آگاہ کیا گیا اور اس کی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ صرف اتنا معلوم ہوا کہ میلے کے منتظمین کو اس کے پارٹنر ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ سیشن منسوخ کیا جائے۔‘ اس فیصلے سے ادبی میلے کے شرکا لاعلم تھے اور جب بچوں کے جنسی استحصال پر ایک سیشن جاری تھا تو انسانی حقوق کمیشن کے رہنما اسد اقبال بٹ نے الزام عائد کیا کہ بلوچستان پر ہونے والا پروگرام دباؤ ڈال کر منسوخ کرایا گیا جبکہ اس کے مقررین یہاں موجود تھے جن میں یوسف مستی خان علالت کے باوجود آئے تھے۔ پولو گراونڈ کے سبزے پر فرشی نشست لگا کر اس سیشن کا آغاز کیا گیا، جس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہ محمد مری کا کہنا تھا کہ ’دوستوں کو کہا گیا کہ اس پروگرام کو منسوخ کریں لیکن ہم زمین کے لوگ ہیں اور زمین پر ہی بیٹھے ہیں۔ ہم نے کب فرمائش کی تھی کہ ہمیں مائیک دیں یہ سیشن دیں اور ٹکٹ دیے کر بلائیں۔‘ ماہ رنگ بلوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’بہت سے لوگ حب چوکی سے لے کر گوادار تک سے خاص طور پر یہ سیشن سسننے کے لیے آئے تھے ۔یہ کتنی بدنظمی اور بداخلاقی ہے کہ کسی قومی رہنما اور دانشوروں کو بلائیں اس کے بعد دو گھنٹے قبل سیشن منسوخ کر دیں اور اس کی کوئی وجہ بھی نہ بتائیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56180154", "summary": "سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹنگ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران بدھ کے روز سندھ بار کونسل کے وکیل صلاح الدین احمد نے کہا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات ایک سیاسی معاملہ ہے اور سپریم کورٹ سیاسی معاملات سے خود کو الگ رکھے۔", "title": "سینیٹ انتخابات: ’اوپن بیلیٹنگ کروانے سے رشوت ختم ہو جانے کا تاثر غلط ہے‘", "firstPublished": "2021-02-24T14:12:42.000Z", "id": "f550206b-83e1-408a-84d2-02d125062ff4", "article": "سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹنگ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران سندھ بار کونسل کے وکیل صلاح الدین احمد نے کہا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات ایک سیاسی معاملہ ہے اور سپریم کورٹ کو خود کو سیاسی معاملات سے الگ رکھنا چاہیے۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلیٹنگ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت گذشتہ چند ہفتوں سے جاری ہے۔ بدھ کو ہونے والی سماعت کے دوران سندھ بار کونسل کے وکیل نے کہا کہ صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 226 کے بارے میں جو خفیہ رائے شماری سے متعلق ہے، سپریم کورٹ سے رائے مانگی ہے تو عدالت کو اس کا جواب آئین کی روشنی میں ہی دینا ہو گا اور اگر اس سے ہٹ کر کوئی رائے دی گئی تو عدالت کے متنازعہ ہونے کے بارے میں تاثر قائم ہوگا۔ اس صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ کے سربراہ گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت اس پہلو کو نہیں دیکھ رہی کہ اس ریفرنس سے کسی کو فائدہ ہوگا یا نہیں۔ سندھ بار کونسل کے وکیل کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کے معاملے پر جب انڈین صدر نے سپریم کورٹ سے رائے مانگی تھی تو سپریم کورٹ نے یہ معاملہ صدر کو واپس بھجوا دیا تھا اور اس پر کوئی رائے نہیں دی تھی۔ انھوں نے کہا کہ دو سال پہلے سینیٹ کے انتخابات میں مبینہ طور پر رشوت لینے کی ویڈیو سامنے آئی ہے تو اس کا جائزہ لینا پارلیمان کا اختیار ہے سپریم کورٹ کا نہیں۔ سندھ بار کونسل کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت اس معاملے کو بھی نظر میں رکھے کہ اس صدارتی ریفرنس کے حق میں اٹارنی جنرل اور تین صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل نے جو دلائل دیے ہیں ان سب کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ان عہدوں پر تعینات کیا ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید نے اس صدارتی ریفرنس میں پاکستان بار کونسل اور سندھ بار کونسل کے فریق بننے پر اعتراض کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ صدر نے تو صرف آئین کے آرٹیکل 226 پر رائے مانگی ہے اس لیے عدالت کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے فریق کو بھی سنے تاہم عدالت نے اس سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ صلاح الدین احمد کا کہنا تھا کہ اگر عدالت عظمی الیکشن ایکٹ سنہ 2017 کو ختم کر دے اور حکومت یہ تصور کر لے کہ سینیٹ کے انتخابات نہیں ہوں گے تو ایسا نہیں ہو گا اور الیکشن کمیشن کے پاس اس کا نعم البدل ضرور ہو گا کیونکہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس صدارتی ریفرنس میں حکومت نے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 226 کے بارے میں رائے طلب کی ہے اور سپریم کورٹ صرف آئین میں ہی اس کا جواب تلاش کر کے رائے دے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56149592", "summary": "ٹھٹھہ کے قریب مکلی کے قبرستان میں موجود قبروں کی تعداد 10 لاکھ بتائی جاتی ہے جبکہ یہاں 20 کے قریب بڑے مقبرے موجود ہیں جو مغل حکمرانوں کے ادوار اور تعمیراتی حسن کو بیان کرتے ہیں۔ اس قبرستان میں موجود قبروں کی قدامت 500 سال تک بتائی جاتی ہے۔", "title": "جام نظام کا ’سانس لیتا‘ مقبرہ: ’جہاں کیل لگانا ممنوع ہے وہاں پہاڑ توڑنے کا آلہ استعمال ہوا‘", "firstPublished": "2021-02-22T06:02:59.000Z", "id": "cf132eec-659e-43a2-ad57-9feda38bc310", "article": "کراچی سے سو کلومیٹر کی مسافت پر ٹھٹھہ شہر کے قریب مکلی کا قبرستان 10 کلومیٹر کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس قبرستان میں موجود چھوٹی بڑی قبروں کی تعداد دس لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے جبکہ یہاں 20 کے قریب بڑے مقبرے موجود ہیں۔ اس قبرستان میں موجود قبروں کی قدامت 500 سال تک بتائی جاتی ہے اور اس قبرستان کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 1981 میں مکلی کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ مکلی کا شہر خموشاں مختلف حکمرانوں کے ادوار کا چشم دید گواہ ہے۔ یہاں کے مشہور مقابر جیسے جام یعنی سمہ، ترخان، ارغون وغیرہ مغل حکمرانوں کے ادوار کی تہذیب و تمدن اور تعمیراتی حسن کو بیان کرتے ہیں۔ یہ دلکش نقش و نگاران مقابر میں خوابیدہ افراد کے جاہ و جلال اور شان و شوکت کی کہانیاں بھی بیان کرتے ہیں۔ان ہی بڑے مقبروں میں ایک مرزا عیسی خان ترخان ثانی کا مقبرہ بھی ہے۔ نئی ٹائلوں کے استعمال کے پیش نظر شاید مقبرے کے فرش کی خوبصورتی ضرور رہی ہو گی مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کم از کم چار سو سال پرانے پتھروں کو اکھاڑ کر تاریخی آثار ضائع کر دیے گئے ہیں۔ اکھاڑے گئے پتھر مقبرے کے قریب ہی موجود ہیں اور مقبرے کے احاطے میں بہت سی نئی غیر استعمال شدہ ٹائلیں بھی موجود تھیں ۔ ’ڈھائی کروڑ کے سرمائے سے تین سال کے عرصے میں سلطان ابراہیم کے مقبرے کا کام مکمل ہو سکا۔ سندھ میں کاشی کے ماہر کاری گر موجود نہیں اور جو تھوڑا بہت کام جانتے تھے وہ محنت کرنے تیار نہیں تھے۔ جو ٹائلز تیار کی جا رہی تھیں اس سے ہم مطمئن نہیں تھے۔ لہذا ہم نے خود بھٹیاں لگالیں جن پر میں نے خود کام کیا، مٹی تک ہم نے خود گوندھی اور خواتین کو بھی اس کام کی ٹریننگ دی۔ بہت وقت لگا لیکن محنت وصول ہوئی۔‘ مغل حکمرانوں کی طرح سندھ کے اس راجا کو بھی تعمیرات کا بہت شوق تھا، خاص کر سنگِ زرد کی تعمیرات کا۔ آج اسی کے باعث تعمیرات کی دنیا میں یہ دور ’سمّہ آرکیٹکٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جام نے اپنی زندگی میں ہی اپنے مقبرے کی تعمیر شروع کروا دی تھی جو ان کی موت کے ایک سال بعد مکمل ہوا۔ ماہرین کے نزدیک جام نظام الدین مقبرے کا کام اب صوبائی حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس ہے اور اگر وہ اس میں ناکام ہو جاتی ہے تو ایک جانب اہم ترین ثقافتی ورثے کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ دوسری جانب مکلی قبرستان کو عالمی فہرست سے باہر ہونے سے بھی کوئی نہیں روک سکے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55974944", "summary": "وزرات صحت سندھ نے کراچی کے ضلع شرقی میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس کی ایک اہلکار کو کورونا ویکسین سے متعلق ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سابق گورنر سندھ کی بیٹی اور داماد کو ویکسین لگانے کے الزام میں معطل کردیا ہے۔", "title": "سابق گورنر سندھ کی بیٹی اور داماد کو ویکسین لگانے پر طبی اہلکار معطل", "firstPublished": "2021-02-08T01:50:57.000Z", "id": "c16c5deb-6b49-4e2d-9c9d-de3e31c3c0ca", "article": "وزرات صحت سندھ نے کراچی کے ضلع شرقی میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس کی ایک اہلکار کو کوورونا ویکسین سے متعلق ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں معطل کردیا ہے۔ ان کی معطلی کا فیصلہ سوشل میڈیا پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی بیٹی اور داماد کو کووڈ-19 ویکسین لگائے جانے کی تصاویر وائرل ہونے کے بعد کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر یہ تصویر سامنے آنے کے بعد اس پر کڑی تنقید کی گئی کہ سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی بیٹی اور داماد نے تو طبی اہلکار تھے اور نہ ہی عمر رسیدہ افراد تو انہیں یہ ویکسین کیسے لگائی گئی۔ صوبائی وزیر صحت کی میڈیا کوآرڈینیٹر میران یوسف نے ٹوئٹس کے ردعمل میں کہا کہ 'جس شخص نے ویکسین کی سہولت دی اس کو معطل کردیا گیا اور اس کی تحقیقات کی جائیں گی'۔ اس حوالے سے میران یوسف نے تصدیق کی کہ محکمہ صحت کے ڈیٹا بیس کے مطابق جن دو افراد کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں وہ سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی بیٹی اور داماد ہیں۔ گذشتہ روز ایک ٹویٹ میں شیئر ہونے والی تصاویر میں بظاہر ایک طبی اہلکار نوجوان خاتون اور مرد کو کورونا کی ویکسین لگا رہی ہیں۔ ٹویٹ میں کہا گیا تھا کہ ’محمد زبیر کی بیٹی اور داماد کو کراچی میں ویکسین لگائی گئی، سندھ حکومت کیسے اپنے من پسند اشرافیہ کو ویکسین دے سکتی ہے ایسے میں جب فرنٹ لائن ورکرز کو ابھی ویکسین نہیں ملی۔‘ اسی تناظر میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’شکایت موصول ہوئی تھیں کے کورونا ویکسین کراچی میں ہیلتھ کیئر ورکرز کے علاوہ جان پہچان والوں کو لگائی جا رہی ہیں. فوری نوٹس لیتے ہوئے آج NCOC کی ٹیم کی فیصل سلطان کی سربراہی میں سندھ حکومت کے نمائندوں سے میٹنگ میں سختی سے صرف ہیلتھ ورکرز کی ویکسینیشن کی تاکید کی گئ.‘ اسی بار پر ایک سوشل میڈیا صارف اعجاز احمد نے اسد عمر کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا ’چینلز پر خبر چل رہی ہے کہ وہ جان پہچان والے آپ کے بھائی کی بیٹی اور داماد ہیں مگر آپ نے اپنے رشتوں کا بوجھ بھی سندھ حکومت پر ڈال دیا, انہیں کچھ نہیں کہا, ذرا سی ان کی مذمت کردیں جو آپ کی حکومت کی طرح خاموشی سے واردات ڈال گئے۔, آپ کے رشتہ دار۔‘ اسد عمر کی اس ٹویٹ کے جواب میں ایک سارف نے وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان جاری رنجش کی یاد دہانی کرواتے ہوئے استہزایہ انداز میں کہا ’آپ کی سختی کو سندھ گورنمنٹ خاطر میں نہیں لاتی۔ آپ نے دو تین ٹویٹ کر کہ چپ ہوجانا ہے اور انھوں نے کہنا ہے کچھ کر سکتے ہو تو کرلو بس۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55930543", "summary": "پاکستان کے شہر لاہور کے ایک پارک میں علامہ اقبال کے مجسمے پر تنازعے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سندھ کے آرٹسٹ فقیرو سولنکی کے فن پاروں کی تصاویر شئیر ہونا شروع ہو گئیں جن کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ یہ سوال بھی کیا گیا کہ ان گمنام آرٹسٹوں کی پذیرائی کیوں نہیں کی جاتی۔", "title": "’راستے سے اٹھائے ہوئے کاغذ میرے استاد بنے‘", "firstPublished": "2021-02-04T13:34:06.000Z", "id": "46f6031d-b1fc-428b-ba35-d0ac18c5d321", "article": "پاکستان کے شہر لاہور کے ایک پارک میں علامہ اقبال کے مجسمے پر تنازعے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سندھ کے آرٹسٹ فقیرو سولنکی کے فن پاروں کی تصاویر شئیر ہونا شروع ہو گئیں جن کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ یہ سوال بھی کیا گیا کہ ان گمنام آرٹسٹوں کی پذیرائی کیوں نہیں کی جاتی۔ 'جس طرح ہم انٹرنیٹ پر دوسرے ممالک کو دیکھتے ہیں، اس حوالے سے حوصلہ افزائی کم ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں آرٹ کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو بیرون ملک ملتی ہے۔ وہاں بڑے میوزیم ہیں، گیلریز ہیں، وہاں نہ صرف کام کرنے والے ہیں بلکہ کام کرانے والے، اور آرٹ سے محبت کرنے والے اور سمجھنے والے بھی ہیں یہاں وہ رجحان بہت کم ہے۔' ’میرے دادا اور والد مستری تھے۔ وہ گھروں اور چھوٹے مندروں کی تعمیر کرتے تھے اور ان مندروں کے لیے مورتیاں بھی بناتے تھے۔ دادا نے اپنا فن اپنے بیٹے کیچمند کو منتقل کیا اور یوں یہ کام مجھے ورثے میں ملا۔ ہم آٹھ بھائیوں میں صرف تین نے یہ کام جاری رکھا اور میں نے اپنے کام کی ابتدا اپنے بڑے بھائی مان سنگھ سے متاثر ہوکر کی۔' 'میں راستے سے کاغذ جمع کرتا تھا۔ ان میں اگر یورپ کے کسی آرٹسٹ کا کام نظر آتا تو اس کو رکھ لیتا۔ یہ راستے کے کاغذ میرے استاد بنے۔ میرے پاس کوئی ایک من کے قریب کاغذ جمع ہوگئے ہیں۔ آج بھی راستے میں کاغذ اٹھانے کو غلط نہیں سمجھتا، وہ میرے استاد ہیں۔' فقیرو نے بتایا کہ وہ پاکستان کے مشہور تعلیمی ادارے این سی اے لاہور میں آرٹ پڑھانے کے خواہشمند تھے لیکن ایک حادثے کی وجہ سے ایسا نہ کر پائے۔ ’ظاہر ہے بھگوان یا دیوی، دیوتا نے فوٹوگرافی تو نہیں کرائی ہوگی۔ یہ تو آپ کا ایک تصور ہے۔ بھگوان کے جو ہاتھ ہیں وہ دعا والے ہوتے ہیں۔ وہ اوپر اٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کی لیکریں بنانے کے لیے مجھے پامسٹری پڑھنی پڑی جس کے بعد میں نے سمجھا کہ ایک نیک اور اچھے انسان کے ہاتھوں کی لیکریں کیسی ہونی چاہییں۔' 'فائبر گلاس میں کام کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایک تو کم وزن ہے، دوسرا اس میں مِکسنگ اور میچنگ ٹھیک ہوتی ہے۔ اسی لیے 90 فیصد کام فائبر گلاس میں ہو رہا ہے۔ پھر میں نے مٹی، لکڑی اور پتھر میں بھی کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ پینٹنگز میں پینسل ورک، آئل کلر اور واٹر کلر میں بھی کام کرتا ہوں۔' انھوں نے بتایا کہ وہ بیرون ملک صرف ایک بار ترکی گئے ہیں لیکن نیپال کی آرٹ گیلری میں ان کے فن پاروں کی نمائش ہو چکی ہے اور پاکستان کی گیلریوں میں بھی ان کا کام موجود ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55837801", "summary": "سندھ حکومت کے وزیر برائے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی تیمور تالپور کی جانب سے ایک ویڈیو بنائی گئی ہے، جس میں انھیں پی ٹی کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ 'یہ گورنر ہاؤس کی گاڑی کتے کو گھما رہی ہے اور کتے کا پروٹوکول بھی دیکھیں۔'", "title": "سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو، گورنر سندھ کے کتے کے لیے سرکاری پروٹوکول کیوں؟", "firstPublished": "2021-01-28T10:21:51.000Z", "id": "8c674b86-a9d1-46fd-a2e6-53f2af5b9930", "article": "گورنر سندھ کے کتے کے لیے سرکاری پروٹوکول کیوں؟ یہ سوال سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اس وقت اٹھایا گیا، جب سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا گیا کہ گورنر سندھ کی سرکاری گاڑی میں ایک کتا گاڑی کے شیشے سے منہ باہر نکال کر پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہے جبکہ پولیس پروٹوکول کی گاڑی، گورنر ہاؤس کی گاڑی کو سکیورٹی فراہم کر رہی ہے۔ تاہم یہ ویڈیو سندھ حکومت کے وزیر برائے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی تیمور تالپور کی جانب سے بنائی گئی ہے۔ اس ویڈیو میں انھیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ 'یہ گورنر ہاؤس کی گاڑی کتے کو گھما رہی ہے اور کتے کا پروٹوکول بھی دیکھیں۔' ’کیونکہ گاڑی کی ویڈیو بنائی گئی اس میں میری فیملی موجود تھی۔ میرے خیال میں یہ ایک انتہائی غیر سنجیدہ حرکت کی گئی ہے کہ کسی کی فیلمی کی ویڈیو بنائی جائے۔ جب میری بیٹی اور بیوی نے دیکھا کہ اس طرف ویڈیو بنائی جا رہی ہے تو وہ بیچھے ہو کر بیٹھ گئیں تا کہ وہ اس ویڈیو میں نہ آئیں۔ صوبائی وزیر جس کو پروٹوکول کہہ رہے ہیں وہ گورنر کی فیملی کو بطور سکیورٹی دیا جاتا ہے۔' جہاں ایک طرف یہ بحث کی جا رہی ہے کہ سرکاری املاک اور پروٹوکول کا استعمال درست نہیں تو وہیں بہت سے صارفین کی جانب سے کتے کے گورنر ہاوس کی گاڑی میں سفر کرنے پر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر پالتو جانور آپ کے ساتھ سفر کر رہا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ صوبائی وزیر سندھ برائے انفارمیشن سائنس اینڈ ٹیکنالوجی تیمور تالپر پر تنقید کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ 'اس طرح سے ویڈیوز بنانا فیملیز کی پرائیویسی میں مداخلت اور گھٹیا بات ہے، کراچی میں گورنر کی فیملی کو سیکورٹی دینا اہم ہے وہاں کے حالات کا سب کو پتہ ہے۔۔تمام ’ڈاگ لورز‘ اپنے کتے کو ساتھ لے کر سفر کرتے ہیں اس میں کیا ہے؟ البتہ صوبائی وزير سندھ برائے انفارمیشن ائیڈ ٹیکنالوجی تیمور تالپور نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں گورنر صاحب کی فیملی کی بہت عزت کرتا ہوں اور اگر اس گاڑی میں ان کی فیملی کا کوئی بھی بندہ موجود ہوتا تو میں کبھی یہ جرات نہ کرتا کہ ایسی ویڈیو بناؤں۔ اس واقعے کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ بحث بھی دوبارہ شروع ہو گئی ہے کہ موجودہ حکومت اقتدار میں آنے سے پہلے ہمیشہ وی آئی پی کلچر اور غیر ضروری پروٹوکول پر تنقید کیا کرتی تھی جبکہ اب یہ دیکھا گیا ہے کہ ان کے کچھ عمل ان دعوؤں کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-55641198", "summary": "شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے شعبے آرکیالوجی نے حالیہ سائنسی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ یہاں قبل اسلام تین عیسوی صدی کی آبادی کے آثار بھی موجود ہیں۔", "title": "وہ شہر جہاں محمد بن قاسم نے سندھیوں سے ’آخری‘ لڑائی لڑی", "firstPublished": "2021-01-13T03:55:48.000Z", "id": "129069c0-d175-401d-be33-9ea8d7d17b66", "article": "سندھ کے وسط میں موجود برہمن آباد کے کھنڈرات سے عرب سپہ سالار محمد بن قاسم کی آمد سے قبل کے آثار برآمد ہوئے ہیں۔ تاریخی حوالوں میں تو اس کا ذکر ملتا تھا لیکن شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی نے حالیہ سائنسی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ یہاں تیسری صدی عیسوی کی آبادی کے آثار موجود ہیں۔ شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی سے منسلک ڈاکٹر غلام محی الدین ویسر کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں عمارتوں کی سطح، یا ادوار پر کوئی بات نہیں کی گئی۔ شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے شعبے آرکیالوجی کے سربراہ ڈاکٹر غلام محی الدین ویسر کی سربراہی میں اساتذہ اور طالب علموں پر مشتمل 20 افراد کا گروپ حالیہ دنوں برہمن آباد کے آثار کی تحقیق کر رہا ہے، ابتدائی طور پر چھ مقامات پر یہ تحقیق جاری ہے جسے اگلے مرحلے میں وسیع کیا جائے گا۔ ڈاکٹر غلام محی الدین ویسر کا کہنا ہے کہ پہلے کی تحقیق میں ایک جامع مسجد کا ذکر ملتا ہے اس لیے انھوں نے چار گڑھے، مسجد ایریا میں لگائے ہیں جو 15 فٹ نیچے تک گئے ہیں جس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جو موجودہ شہر ہے اس سے پہلے بھی ایک آبادی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ ’یہاں سے ملنے والے مٹی کے برتن تیسری صدی عیسوی سے مشہابت رکھتے ہیں جو ساسانی دور (اسلام سے قبل ایران کا آخری بادشاہی دور) سے تعلق رکھتے ہیں اسی نوعیت کے برتن بھنبور کے آثار قدیمہ سے بھی مل چکے ہیں۔ ڈاکٹر ویسر کا کہنا ہے کہ حالیہ تحقیق میں مٹی کے برتنوں کے علاوہ قیمتی پتھر، نیلم، روبی، زمرد بھی پائے گئے ہیں اس کے علاوہ ان کی پالش کرنے کے آلات اور سانچے بھی برآمد ہوئے ہیں۔ ’جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی یہاں صنعت موجود تھی۔ اس کے علاوہ ہاتھی دانت کے زیورات، شیل اور سکے بھی ملے ہیں اور سکوں کی صفائی کے بعد یہ معلوم ہو گا کہ یہ کس دور کے ہیں۔‘ برہمن آباد پر محمود غزنوی نے بھی حملہ کیا تھا۔ ایم ایچ پنہور لکھتے ہیں کہ سومنات مندر پر حملے کے بعد محمود غزنوی نے منصورہ پر حملہ کیا، یہاں خفیف سومرو کی حکومت تھی جو حملے سے پہلے فرار ہو گیا، یہاں بڑے پیمانے پر قتل و غارت ہوئی اور شہر کے کچھ حصے کو نذر آتش کیا گیا۔ شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے شعبے آرکیالوجی کے سربراہ غلام محی الدین زلزلے کی تھیوری تو مسترد کرتے ہیں کیونکہ ’دیواریں سلامت ہیں اور کہیں بھی جھکی ہوئی نہیں ہیں۔‘ وہ اس مؤقف سے بھی اتفاق نہیں کرتے کہ شہر پر حملہ کر کے نذر آتش کیا گیا ہو، بقول ان کے ’آگ کے نشانات یا جلی ہوئی لکڑیاں وغیرہ برآمد نہیں ہوئی ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55614432", "summary": "آج سے لگ بھگ سات برس قبل یعنی نو جنوری 2014 کو ایک مبینہ خودکُش حملے میں ڈرائیور اور محافظ کے ساتھ ہلاک ہو جانے والے چوہدری اسلم نہ تو خاندان یا ذات کے لحاظ سے چوہدری تھے، نہ چوہدری کا خطاب اُن کے نام کا حصہ تھا۔ سندھ ریزرو پولیس کی ایگل سکواڈ میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر بھرتی ہونے والے چوہدری اسلم جلد ہی محکمہ پولیس میں انکاؤنٹر سپیشلسٹ مشہور ہو گئے تھے۔", "title": "چوہدری اسلم: ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ کہلائے جانے والے پولیس افسر ہیرو تھے یا ولن؟", "firstPublished": "2021-01-12T03:53:10.000Z", "id": "bb32cb2f-7ed2-4d1a-b3aa-f968d809ade2", "article": "آج سے لگ بھگ سات برس قبل، یعنی نو جنوری 2014 کو ایک مبینہ خودکُش حملے میں ڈرائیور اور محافظ کے ساتھ ہلاک ہو جانے والے چوہدری اسلم نہ تو خاندان یا ذات کے لحاظ سے چوہدری تھے، نہ چوہدری کا خطاب اُن کے نام کا حصّہ تھا آج سے لگ بھگ سات برس قبل، یعنی نو جنوری 2014 کو ایک مبینہ خودکُش حملے میں ڈرائیور اور محافظ کے ساتھ ہلاک ہو جانے والے چوہدری اسلم نہ تو خاندان یا ذات کے لحاظ سے چوہدری تھے، نہ چوہدری کا خطاب اُن کے نام کا حصّہ تھا۔ فیاض خان کے مطابق چوہدری اسلم کی شمولیت تو ’سندھ ریزرو پولیس‘ کی مشہور زمانہ ’ایگل سکواڈ‘ میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) ہوئی مگر وہ جلد ہی کراچی کی ریگولر (باقاعدہ) پولیس فورس کا حصّہ بن گئے۔ چوہدری اسلم کے ساتھ کام کرنے والے ایک پولیس افسر کے مطابق 'پھر اسلم نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ آئے دن کسی ’پولیس مقابلے‘ یا متنازع اور ’ماورائے عدالت ہلاکت‘ سے اُن کا نام جڑنے لگا اور وہ پولیس کے ایسے افسر بن کر ابھرے جن کا نام ہی ’دہشت‘ کی علامت بن گیا۔‘ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انھوں نے مجھ سے گفتگو میں کہا ’میں نے چوہدری اسلم کو بطور ایس ایچ او دیکھا اور ڈی ایس پی دیکھا۔ مگر مجھے نہ تو وہ کبھی بہت ہی شاطر و شاندار، عقلمند و دانشور پولیس افسر لگے اور نا ہی کبھی ماہر و مشّاق تفتیش کار یا انتظامی اُمور پر گرفت رکھنے والے قابل افسر۔‘ مگر جلد ہی مرنے والے کے اہلخانہ اس دعوے کی ساتھ سامنے آئے کہ ہلاک ہونے والا نہ تو معشوق بروہی تھا اور نہ ہی ملزم یا جرائم پیشہ، بلکہ دراصل رسول بخش تھا جس کا تعلق سندھ کے نواب شاہ کے قریب واقع شہر سکرنڈ سے تھا اور مرنے والا پئشے سے ہاری (کسان) تھا جسے سکرنڈ سے گرفتار کر کے کراچی لایا گیا اور کئی روز کی حراست کے بعد مشکوک و متنازع اور جعلی 'پولیس مقابلے' میں ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا، تاکہ اس کے سر کی قیمت کے طور پر خطیر رقم اور ترقیاں حاصل کر سکیں۔ خودکش حملہ سمجھے جانے والے اس حملے میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے جن میں سے چھ چوہدری اسلم کے گھر پر تعینات پولیس اہلکار ایک راہگیر خاتون اور اُن کا بیٹا شامل تھے۔ بالآخر جمعرات 9 جنوری 2014 کو چوہدری اسلم خود دہشت گردی کا نشانہ بن گئے اور بم سے ہونے والے حملے میں اپنے قریبی ساتھی کامران اور محافظ سمیت ہلاک ہو گئے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55543447", "summary": "مقتول کے چچا زاد بھائی سلیم اللہ کے مطابق سلطان نذیر بائیکیا کے ذریعے اپنے گھر جا رہے تھے جب پولیس کی فائرنگ سے ان کی ہلاکت ہوئی۔", "title": "’ایس ایچ او نے کھڑے کھڑے میرے مرنے والے بھائی کو ڈکیت قرار دے دیا‘", "firstPublished": "2021-01-05T11:27:39.000Z", "id": "fd3a4a68-2632-436c-a5ba-c8510874e5fb", "article": "پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس کی فائرنگ سے ایک نوجوان اسامہ ندیم ستی کی ہلاکت کے دو دن بعد کراچی سے بھی ایسا ہی ایک واقعہ سامنے آیا ہے جس میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں نوجوان کی ہلاکت ہوئی ہے۔ ان افراد میں گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ سلطان نذیر بھی شامل تھے جن کے ورثا کا دعویٰ ہے کہ وہ ڈاکو نہیں تھے بلکہ تعلیم کے سلسلے میں کراچی میں مقیم تھے۔ ان کے چچا زاد بھائی سلیم اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ پورے خاندان سمیت میٹروول کے علاقے میں اپنے کزن کے سوئم میں دعا کے لیے گئے ہوئے تھے، واپسی پر انھوں نے اپنے موبائل سے نذیر کے لیے ’بائیکیا‘ رائیڈ بک کروائی، کیونکہ اُنھیں گارڈن میں واقع اپنی رہائش گاہ جانا تھا۔ ’اگلے ہی روز میں ڈیوٹی پر تھا تو گھر والوں نے بتایا کہ نذیر گھر نہیں آیا، میں نے بائیکیا سے کنفرم کیا کہ نذیر آپ کے ساتھ تھا وہ کہاں ہے۔ بائیکیا رائیڈر نے بتایا کہ حبیب بینک چورنگی پر بائیک کا پیٹرول ختم ہو گیا تھا، وہ دھکا دے کر آگے جا رہے تھے تو پولیس کی فائرنگ ہوئی وہ ایک طرف اور نذیر دوسری طرف چلا گیا، اس کے بعد کا اسے معلوم نہیں۔‘ ’سائٹ تھانے پر گئے تو وہاں پولیس اہلکاروں نے کوئی بات نہیں سنی، بالآخر ایس ایچ او آئے تو ان سے بات کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے ڈکیت مارا ہے اور لاش چھیپا کے سرد خانے بھیج دی ہے۔ ایس ایچ او نے وہاں کھڑے کھڑے بھائی کو ڈکیت ڈکلیئر کر دیا۔ لگتا تھا کہ وہ وہاں ہی فائل بند کرنا چاہتے تھے۔‘ سلیم اللہ کی مدعیت میں دو پولیس اہلکاروں شبیر احمد اور جہانگیر کے خلاف قتل کا مقدمہ گذشتہ روز درج کر لیا گیا ہے۔ ان میں سے شبیر احمد کے بارے میں پولیس کا دعویٰ تھا کہ وہ اس مقابلے میں زخمی ہوئے ہیں۔ سلطان نذیر کے مبینہ قتل کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر کا عکس سلیم اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ان کا پوسٹ مارٹم کروانے جا رہے ہیں، اس کے بعد لاش گلگت روانہ کی جائے گی۔ انھوں نے بتایا کہ سلطان نذیر کو ہنزہ سے آئے ہوئے دو ماہ ہوئے تھے، وہ یہاں کراچی میں صدر کے علاقے میں ایک کپڑوں کی دکان پر سیلز مین کا کام کرتے تھے اور بی کام کے پرائیوٹ پیپرز کی تیاری کر رہے تھے۔ اس واقعے کے منظرِ عام پر آنے کے بعد سے لوگ سوشل میڈیا پر اس واقعے کی مذمت کر رہے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کریں۔ صارف صدام حسین نے لکھا کہ سندھ کی حکومت اور اداروں کو سلطان نذیر کے قتل میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف ایکشن لینا چاہیے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55488875", "summary": "پاکستان کے صوبہ سندھ سے لاپتہ افراد کے لواحقین کے پیدل مارچ کو پنجاب اور سندھ کی سرحد پر روک دیا گیا ہے اور خواتین سمیت دو درجن افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ یہ مظاہرین پاکستانی فوج کے ہیڈ کوارٹر جی ایچ کیو جا کر اپنا احتجاج رجسٹر کرانا چاہتے ہیں۔", "title": "صوبہ سندھ سے لاپتہ افراد کے لواحقین کے مارچ کو پنجاب میں داخلے سے روک دیا گیا", "firstPublished": "2020-12-30T18:07:34.000Z", "id": "3930f3f9-c994-42e7-92d1-eda8a9c47532", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ سے لاپتہ افراد کے لواحقین کے پیدل مارچ کو پنجاب اور سندھ کی سرحد پر روک دیا گیا ہے اور خواتین سمیت دو درجن افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ یہ مظاہرین پاکستانی فوج کے ہیڈ کوارٹر جی ایچ کیو جا کر اپنا احتجاج رجسٹر کرانا چاہتے ہیں۔ سندھ سبھا نامی تنظیم نے اس مارچ کا آغاز 10 نومبر کو کراچی سے کیا تھا، جن میں سندھ سے لاپتہ افراد کے رشتے دار شامل ہیں۔ یہ مارچ کراچی، حیدرآباد سمیت سندھ کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا، ضلع گھوٹکی پہنچا جہاں سے اس کو پنجاب کی حدود میں داخل ہونا تھا۔ اس مارچ میں شریک ہانی بلوچ نے جن کے منگیتر نسیم کراچی سے لاپتہ ہیں، بی بی سی کو بتایا کہ انھیں پولیس نے یہ کہہ کر پنجاب کی حدود میں داخل ہونے سے روک دیا کہ مارچ کے سربراہ انعام عباسی پر بھٹ شاہ تھانے پر مقدمہ درج ہے لہذا انھیں گرفتار کیا جاتا ہے۔ مارچ کے شرکا نے قومی شاہراہ پر دھرنا دیا، جس کے بعد پولیس نے انھیں وہاں سے ہٹایا اور انھوں نے ٹینٹ لگا کر اپنا احتجاجی کیمپ بنا لیا۔ پانی بلوچ کا کہنا ہے کہ انھیں کہا گیا تھا کہ کورونا ٹیسٹ کروائیں پھر جانے دیں گے لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ ٹیسٹ کلیئر ہونے کے باوجود جانے نہیں دیا گیا۔ یاد رہے کہ اس پیدل مارچ کی قیادت کرنے والے انعام عباسی خود بھی لاپتہ رہے ہیں۔ رہائی کے بعد وہ کراچی پریس کلب کے باہر مسلسل کئی روز احتجاج کرتے رہے ہیں۔ اس مارچ کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ کئی روز احتجاج کرتے رہے لیکن ان کی بات سننے کوئی نہیں آیا تو انھوں نے جی ایچ کیو کی طرف جا کر احتجاج ریکارڈ کرانے کا فیصلہ کیا۔ سندھی نیوز چینل ’کے ٹی این‘ کے صحافی گل محمد پنہور نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس نے لیڈیز پولیس کے ساتھ پہنچ کر خواتین اور مردوں کو حراست میں لے لیا اور سب کو تھانے میں بند کر دیا ہے جبکہ شہر کی سیاسی سماجی تنظیموں کے کارکنوں نے تھانے پہنچ کر مطالبہ کیا ہے کہ کم از کم خواتین کو رہا کیا جائے۔ گل محمد کے مطابق ان کی ڈی ایس پی محمد پناہ سے بات ہوئی ہے جن کا کہنا ہے کہ انھیں حکم ہے کہ اس قافلے کو پنجاب میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔ بی بی سی کی جانب سے ایس ایس پی گھوٹکی عمر طفیل، ڈی ایس پی محمد پناہ اور ایس ایچ او اوباوڑو سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان کے موبائل نمبر بند ملے۔ اس حوالے سے حکومت سندھ کا مؤقف لینے کے لیے صوبائی وزیر اطلاعات ناصر شاہ اور مشیر قانون اور سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب سے بھی رابطے کی کوشش کی گئی ہے اور فی الحال ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55460264", "summary": "شیخ ایاز نے تمام منفی قوتوں کو للکارنے کی تحریک کی صورت اختیار کر لی اور نتیجے میں سنہ 1962 سے لے کر سنہ 1964 تک ان کی شاعری کے تین مجموعوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔", "title": "سندھ کے انقلابی شاعر جنھیں انڈین وزیراعظم نے ’چندر شیکھر‘ کا لقب دیا", "firstPublished": "2020-12-28T07:59:52.000Z", "id": "388fcba0-1ded-4eb9-99ee-2e575dfdea39", "article": "سندھ کے نامور سیاست دان اور ادیب رسول بخش پلیجو نے شیخ ایاز کی وفات پر اپنے ایک مضمون میں لکھا ’شیخ ایاز خوش نصیب تھا جس کو ایسا دور ملا جس وقت انجمن ترقی پسند مصنفین تھی، گاندھی کا مارچ تھا، سنہ 1930 کی ’انگریز انڈیا چھوڑ جاؤ تحریک‘ تھی۔ یہ تمام چیزیں ان کو ورثے میں ملیں۔ ٹیگور کی شاعری، کرشن چندر، فیض کی شاعری ایک ہمہ گیریت تھی، تاریخ بے چین تھی تبدیلی کے لیے اور تاریخ کا فرمان تھا کہ اس تبدلی کے ہم قدم چلو۔‘ سندھ کے ترقی پسند مفکر ابراہیم جویو لکھتے ہیں کہ ’سنہ 1947 کی تقسیم کے بعد سندھ میں چاروں طرف خاموشی چھا گئی تھی اور ایسے میں شیخ ایاز کی شاعری اور نثر کی وجہ سے دوبارہ ہلچل پیدا ہو گئی۔ سندھی ادب نے بے مثل کلاسیکل شاعروں اور نثر نویسوں کی گود میں آنکھ کھولی تھی اِدھر اُدھر دیکھ کر دوبارہ آنکھیں بند کر لی تھیں اور ایسے میں اس نے ایاز کی آواز پر دوبارہ کروٹ لی، ایاز اس صبح صادق کا پہلا ندیم ہے۔‘ سندھ یونیورسٹی میں سندھی شعبے کے استاد اسحاق سمیجو کہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ایاز نے تمام منفی قوتوں کو للکارنے کی تحریک کی صورت اختیار کر لی اور نتیجے میں سنہ 1962 سے لے کر سنہ 1964 تک ان کی شاعری کے تین مجموعوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ جی ایم سید نے شیخ مجیب کو کہا کہ وہ آغا غلام نبی، ایوب کھوڑو اور علی محمد راشدی کو عوامی لیگ کی مرکزی کمیٹی میں شامل کریں جس کے جواب میں شیخ مجیب نے کہا کہ میں تمہارے ان ’فیوڈل دوستوں‘ پر بعد میں غور کروں گا پہلے مجھے اپنا شاعر شیخ ایاز مرکزی کمیٹی کے لیے دو کیونکہ میرے دوست اس کی بنگالی میں شاعری کے ترجمے کی وجہ سے انھیں پہچانتے ہیں اور ان سے متاثر ہیں۔ اشتراکیت کے حامی سیاسی مزاحمت کی علامت سمجھے جانے والے شیخ ایاز زندگی کے آخری ایام میں مذہب کی طرف راغب ہوئے۔ فیض احمد فیض اور جالب کی طرح انھوں نے بھی دعائیں لکھیں۔ اپنے مجموعے ’سانجھی سمنڈ سپوں‘ جو ان کی وفات سے ایک سال قبل شائع ہوا میں وہ لکھتے ہیں کہ میں نے ہسپتال کے کمرے میں انسان، کائنات، انسانی اقدار اور تقدیر پر کافی سوچا اور اشتراکیت سے مایوس ہو کر میرا رجحان مذہب کی طرف لازمی تھا لیکن خدا کے تصور اور مستفرق رہنے کے باوجود مجھ میں کسی کے لیے نفرت نہیں ہے۔ اعجاز منگی لکھتے ہیں سندھ کے نئے لکھنے والوں پر شاہ لطیف سے زیادہ شیخ ایاز کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔ اس بات کا اندازہ ایاز کو بھی تھا، اس لیے انھوں نے لکھا تھا کہ ’سندھ میں میرے بعد جو شاعری لکھی جائے گی وہ ایسی ہو گی جس طرح گنے کے فصل کو کاٹا جائے تو اس کی جڑوں سے ایک اور فصل ابھر آتی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55082457", "summary": "حکومتی وزرا اس سے پہلے الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کے جلسے ملک میں کورونا پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔", "title": "’سٹیج پر بیٹھے شخص کو کورونا ہو سکتا ہے تو عوام کا کیا ہو گا‘", "firstPublished": "2020-11-26T14:43:22.000Z", "id": "0ee9928a-b82b-4f12-8906-fd5488d17ac2", "article": "بلاول کی جماعت حزبِ اختلاف کے حکومت مخالف اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، کا اہم حصہ ہے۔ بلاول نے اعلان کیا ہے کہ وہ کورونا کی تشخیص کے باوجود 30 نومبر کو ملتان میں ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے میں ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کریں گے۔ پی ڈی ایم اب تک ملک کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف جلسوں کا انعقاد کر چکی ہے جن میں سے متعدد جلسوں میں بلاول خود بھی شریک رہے۔ اس تحریک کا گذشتہ جلسہ صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں 22 نومبر کو ہوا تھا جس میں بلاول اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز سمیت کئی اپوزیشن رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔ بلاول کی ہمشیرہ بختاور بھٹو زرداری کی منگنی 27 نومبر کو ہونے جا رہی ہے۔ اس تقریب کی ہدایت کے مطابق شرکت کے لیے آنے والے مہمانوں کو پہلے اپنا کورونا ٹیسٹ کروانا پڑے گا اور اپنے منفی کورونا ٹیسٹ کی نقل بلاول ہاؤس انتظامیہ کو ای میل کرنی ہو گی جس کے بعد ہی ان مہمانوں کو تقریب میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ ’میں اپنی رہائش گاہ سے کام جاری رکھوں گا جبکہ یوم تاسیس کے جلسے سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کروں گا، تمام لوگ ماسک کا اہتمام کریں، میں آپ کا منتظر ہوں گا۔‘ پی ڈی ایم کے 30 نومبر کو ملتان میں ہونے والے جلسے سے قبل پی پی پی رہنما علی موسیٰ گیلانی کی گرفتاری پر بلاول کہہ چکے ہیں کہ ’حکومت بوکھلا گئی، یہ جان چکے ہیں کہ عوام سلیکٹڈ نہیں بلکہ جمہوریت کے ساتھ ہیں۔‘ اس دوران حکومتی وزرا کا یہ الزام ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کی وبا روکنے کے لیے سیاسی و سماجی اجتماعات پر پابندی ہے لیکن اس کے باوجود پی ڈی ایم کے جلسوں سے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالی جا رہی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے وزیر صحت تیمور سلیم خان جھگڑا نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں اس کے ردعمل میں کہا ہے کہ ’جو کوئی بھی پی ڈی ایم کے جلسے میں سٹیج پر بیٹھا تھا وہ فوراً ہیلپ لائن 1700 پر کال ملائے اور ہماری ٹیم سے ٹیسٹ کروائے۔ حکومت خیبر پختونخوا سب کی صحت کا خیال رکھتی ہے۔ تمام ٹیسٹ مفت ہیں۔‘ شبلی فراز کا مزید کہنا تھا کہ ’وبا سے محفوظ رہنے کے لیے احتیاط لازم ہے۔ کورونا لیڈرز اور عوام میں کوئی تفریق نہیں کرتا۔ اپوزیشن رہنما خدارا ایک دوسرے کی صحت اور عوام کی زندگیوں کا خیال کریں۔‘ ایک صارف نے بلاول کی صحت کے لیے دعا کی مگر ساتھ ہی ان سے شکوہ کیا کہ وہ سندھ میں کاروبار بند کر رہے ہیں، خود کو قرنطینہ کر رہے ہیں، اپنی بہن کی منگنی پر کورونا ٹیسٹ لازم کر دیا ہے، مگر جلسوں میں ’غریب لوگوں‘ کو اب بھی بلا رہے ہیں جن کے پاس ’نہ آپ جیسی سہولت ہے نہ آپ جیسی دولت۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp06q7587zvo", "summary": "مقامی افراد کے مطابق اس ضمن میں دھمکی آمیز سوشل میڈیا پوسٹس میں کہا گیا کہ خواتین مردوں کے بغیر گھر سے نہ نکلیں مگر کم سے کم تین واقعات ایسے پیش آئے ہیں جن میں خواتین اپنے والد، شوہر اور والدہ کے ساتھ جا رہی تھیں جب ان پر شاٹ گن یا چھرے والی بندوق سے حملہ کیا گیا۔", "title": "کرم میں خواتین پر ’پراسرار‘ حملے: پولیس کا ایئر گن سے حملہ کرنے والے ایک ملزم کی شناخت کا دعویٰ", "firstPublished": "2023-10-03T12:38:50.283Z", "id": "cp06q7587zvo", "article": "’میں اپنی حاملہ اہلیہ کو لے کر ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیے گیا۔ چیک اپ کے بعد واپسی پر میں اپنے چچا زاد بھائی سے رقم لینے کے لیے ان کی دکان میں گیا جبکہ میری حاملہ اہلیہ باہر ہی کھڑی تھیں۔ جب میں دکان سے باہر نکلا تو معلوم ہوا کہ کسی نامعلوم شخص نے میری اہلیہ پر فائر کیا جو اس کی پسلی کے نیچے لگا۔ میں زخمی اہلیہ کو لے کر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال گیا، جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد ہمیں پشاور ریفر کر دیا گیا کیونکہ میری اہلیہ حاملہ تھیں۔ ہماری کسی کے ساتھ کوئی دشمنی یا عداوت نہیں۔‘ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسے کم از کم 9 واقعات درج ہو چکے ہیں جبکہ ان واقعات میں مبینہ طور پر ملوث گروہ کے ایک شخص کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ پارہ چنار سول ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ امیر رحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس گذشتہ چند ہفتوں کے دوران کُل چھ ایسی زخمی خواتین کو لایا گیا تھا جنھیں چھرے والی بندوق یا ایئر گن سے فائر کر کے زخمی کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق گذشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع پر یہ مواد بھی پھیلایا گیا کہ خواتین بازاروں میں نہ جائیں اور خلاف ورزی کی صورت میں انھیں شاٹ گن سے نشانہ بنایا جائے گا۔ مقامی افراد کے مطابق اس ضمن میں دھمکی آمیز سوشل میڈیا پوسٹس میں کہا گیا کہ خواتین مردوں کے بغیر گھر سے نہ نکلیں مگر کم سے کم تین واقعات ایسے پیش آئے ہیں جن میں خواتین اپنے والد، شوہر اور والدہ کے ساتھ جا رہی تھیں جب ان پر شاٹ گن یا چھرے والی بندوق سے حملہ کیا گیا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک مقامی سکول ٹیچر نے بتایا کہ وہ عام طور پر سکول پیدل آتی جاتی تھیں اور چند ہفتے قبل ایک روز جب وہ واپس آ رہی تھیں تو راستے میں کھڑے چند لڑکوں نے آواز کسی کہ ’شاباش ایئر گن والوں کو اطلاع کرو، یہ پیدل جا رہی ہیں۔‘ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ رواں سال محرم کے بعد پارہ چنار میں خواتین پر اس طرح کے حملے شروع ہوئے ہیں اور اب تک پولیس کے پاس ایسے کم سے کم 9 واقعات درج ہو چکے ہیں۔ ڈی پی او محمد عمران کا کہنا تھا کہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اور آئندہ ایسے واقعات پیش نہ آئیں اس کے لیے بازار اور دیگر اہم مقامات پر پولیس کی نفری بڑھا دی گئی ہے جبکہ جگہ جگہ پولیس اہلکار مشتبہ افراد پر کڑی نگرانی رکھے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ 12 ستمبر کے بعد اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ پولیس حکام کے مطابق پارہ چنار میں لوگ تعلیم حاصل کرنے میں بہت دلچسپی لیتے ہیں اور امکان ہے کہ یہ کام بظاہر ان لوگوں کو تعلیم سے روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw03pl3e61lo", "summary": "تاریخی طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور عدالتی گٹھ جوڑ نے ملک میں وہ فضا بنائی کہ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا نتیجتاً ایک صفحے کی حکومت نے ہائبرڈ دور کی بنیاد رکھی اور عسکری، عدالتی اور سیاسی کرداروں نے مملکت کو نئے تجربے سے دوچار کیا۔ بہرحال سیاسی جماعتیں یہ معاملہ اب فقط اللہ پر چھوڑ چکی ہیں۔", "title": "کوئی منزل تو ملے! عاصمہ شیرازی کا کالم", "firstPublished": "2023-10-03T07:00:54.810Z", "id": "cw03pl3e61lo", "article": "پاکستان کی دو سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے قائدین نے 2006 میں میثاقِ جمہوریت میں سچائی اور مفاہمت کمیشن کے قیام کو بھی معاہدے کا حصہ بنایا اور طے پایا کہ مسند اقتدار میں آنے کے بعد ماضی میں پاکستان کی جمہوریت کو لاحق خطرات، ایجنسیوں اور فوج کی بار بار مداخلت کے اسباب اور کردار ڈھونڈے جائیں گے مگر دونوں جماعتیں اقتدار میں آتے ہی نہ صرف سچ ڈھونڈنا بھول گئیں بلکہ سچ بتانا بھی فراموش کر بیٹھیں۔ دو جماعتوں کے معاہدے نے اسٹیبلشمنٹ کو تیسری راہ دکھائی اور تحریک انصاف بظاہر کنگز پارٹی مگر مقبول رہنما کے ساتھ قبولیت کی سند پا گئی۔ اس تفصیل میں جائے بغیر کہ 2014 کے دھرنے میں تحریک انصاف کس کا اور کیوں کندھا بنی، یہ جاننا ضروری ہے کہ اُس کے بعد اسٹیبلشمنٹ سیاسی ادوار میں مسلسل متحرک رہی یہاں تک کہ فیض آباد دھرنے تک کی نوبت آ پہنچی۔ تاریخی طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور عدالتی گٹھ جوڑ نے ملک میں وہ فضا بنائی کہ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا نتیجتاً ایک صفحے کی حکومت نے ہائبرڈ دور کی بنیاد رکھی اور عسکری، عدالتی اور سیاسی کرداروں نے مملکت کو نئے تجربے سے دوچار کیا۔ بہرحال سیاسی جماعتیں یہ معاملہ اب فقط اللہ پر چھوڑ چکی ہیں۔ اچھا ہوتا اگر اس سلسلے میں سیاسی جماعتیں ایک جگہ اکٹھی ہوتیں مگر سچ تو یہ بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے کندھے تلاشنے والی سیاسی جماعتیں یہ سچ کیسے تسلیم کریں گی کہ آمریتوں کا ساتھ کس کس نے کب کب دیا اور کہاں کہاں جمہوری نظام میں نقب لگائی۔ یہ کام اب البتہ سپریم کورٹ کر سکتی ہے۔ جنوبی افریقہ کا سچائی کمیشن اس کی ایک مثال بھی ہے اور راستہ بھی۔ نسل پرستی اور فرقہ واریت کے جرائم پر قائم کردہ کمیشن نے 1960 سے لے کر 1994 تک کے دورانیے میں جنوبی افریقہ میں ہونے والے نسلی جرائم، سزاؤں اور معافی کا جائزہ لیا۔ احتساب کے اس عمل میں 17 کمیشن بنائے گئے مگر اس سے قبل عوامی سطح پر انسانی حقوق کی پچاس تنظیموں کے تعاون نے عوامی مکالمے کا آغاز کیا۔ ایک سال تک یہ مشاورتی عمل جاری رہا جس کے نتیجے میں 1995 کا ایکٹ 34 عمل میں لایا گیا اور سچائی کمیشن کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس دوران 22 ہزار شکایات موصول ہوئیں جس پر سزا اور جزا کا تعین کیا گیا۔ فیض آباد دھرنا کیس ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر کیوں نہیں لیا جا سکتا؟ کیوں نہ پتہ لگایا جائے کہ سیاست میں مداخلت اور تشدد کا راستہ کس طرح اختیار کیا گیا اور کیوں نہ یہ سچ سامنے لایا جائے کہ چند افراد کے ذاتی مفادات نے مملکت کو کس حد تک نقصان پہنچایا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0v5vrz59z9o", "summary": "کینیڈا میں سکھوں کی آزاد ریاست خالصتان کے حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل اور کینیڈا کے وزیراعظم کی جانب سے ممکنہ طور پر انڈین اداروں کے ملوث ہونے کے الزام کے بعد، دونوں ملکوں میں سفارتی کشیدگی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ ", "title": "سکھ رہنما کا قتل، انڈیا کینیڈا میں کشیدگی عروج پر ", "firstPublished": "2023-09-22T15:14:52.264Z", "id": "c0v5vrz59z9o", "article": "سکھ رہنما کا قتل، انڈیا کینیڈا میں تنازع کیوں؟ کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل اور کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے ممکنہ طور پر انڈین اداروں کے ملوث ہونے کے الزام کے بعد، دونوں ملکوں میں سفارتی کشیدگی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ نجر سنگھ کے قتل کے بعد سکھوں نے دنیا بھر میں احتجاج کیا ہے۔ مظاہرے صرف کینیڈا میں ہی نہیں ہوئے بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں جہاں سکھ برادری کی تھوڑی بہت تعداد موجود ہے، وہاں خالصتان تحریک کے رہنما ہردیپ سنگھ نجرکے قتل پر غم و غصہ کا اظہار کیا گیا۔ ایڈیٹر: عارف شمیم میزبان: جاوید سومرو فلمنگ: بلال احمد پروڈکشن ٹیم : حسین عسکری، ثقلین امام، خدیجہ عارف، رفاقت علی"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyjwn8knrgyo", "summary": "عیسیٰ کالونی کے رہائشی پرویز اپنے گھر کی حالت دکھاتے ہوئے بولے کہ ’جن کے گھر جل گئے ہیں ان کی تو سب بات کر رہے ہیں لیکن جن کے گھروں میں لوٹ مار ہوئی، ان کے نقصان کے بارے میں کوئی بات ہی نہیں کر رہا۔‘", "title": "جڑانوالہ: ’باجی ہر کوئی فوٹو بنوانے آتا ہے اور چلا جاتا ہے، ہمارے گھروں کا کیا ہو گا‘", "firstPublished": "2023-08-20T14:56:43.309Z", "id": "cyjwn8knrgyo", "article": "اتوار کی صبح جب میں جڑانوالہ پہنچی تو سب سے پہلی ایک امدادی ٹرک کھڑا نظر آیا جس کے پاس لوگوں لائن میں کھڑے ہو کر عبادت کر رہے تھے۔ میں نے کرسچن ٹاون کا رُخ کیا جہاں سب سے زیادہ نقصان ہوا تھا۔ اس ٹاؤن کی گلیوں میں پریشان اور افسردہ رہائشی اپنے جلے ہوئے گھروں اور سامان کی راکھ کے پاس ہی بیٹھے نظر آئے۔ ہر چہرہ ہی جیسے یہ سوال کر رہا تھا کہ ہمارا کیا قصور تھا۔ چرچ کے بالکل سامنے والے گھر کے ایک کمرے میں دو خواتین ایک چارپائی پر بیٹھی تھیں۔ میں اندر داخل ہی ہوئی تو ان میں سے ایک بولی کہ ’دیکھی ہے آپ نے ہمارے گھر کی حالت؟ چرچ کے سامنے تھا اس لیے بالکل ہی کچھ نہیں بچا۔ مسیحی برادری کا کہنا ہے کہ ان کے گھروں میں توڑ پھوڑ کے ساتھ لوٹ مار بھی کی گئی۔ عیسیٰ کالونی کے رہائشی پرویز اپنے گھر کی حالت دکھاتے ہوئے بولے کہ ’جن کے گھر جل گئے ہیں ان کی تو سب بات کر رہے ہیں لیکن جن کے گھروں میں لوٹ مار ہوئی ہے، ان کے نقصان کے بارے میں کوئی بات ہی نہیں کر رہا۔‘ پرویز بتاتے ہیں کہ ’میرے گھر میں بھی انھوں نے آگ لگانے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ساتھ میرے گھر کا سامان لوٹا، جو بچا وہ گھر سے باہر گلی میں پھینک کر آگ لگا دی۔ یہاں ہر گھر کی ایسی ہی کہانی ہے۔ ایک شخص نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا تو سب کچھ ہی لٹ گیا ہے، چاہے گھر ہو یا عبادت گاہیں۔ اس وقت بھی سڑک پر بیٹھے ہیں تو عبادت بھی سٹرک پر ہی کر لیں گے۔‘ مجھ سے بات کرتے ہوئے متاثرہ علاقوں میں ایک طرف کچھ لوگوں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ چرچوں کی مرمت تو کی جا رہی ہے لیکن ساتھ ہی انھوں نے اس ڈر کا بھی اظہار کیا کہ حکومت ان کے جلے ہوئے گھروں اور سامان کے نقصان کی طرف کب توجہ دے گی۔ پنجاب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے 94 خاندانوں کو ان کے گھروں کے نقصان کے عوض 20 لاکھ روپے فی کس معاوضہ اگلے 48 گھنٹوں میں ادا کر دیا جائے گا۔ ’میں نے ان سے کہا کہ آپ ایک مرتبہ سب سے مشورہ کر لیں، یہ نا ہو کہ پہلے چرچ پر حملہ ہوا اور اب مسجد پر ہو جائے تو اس پر وہ دوبارہ بولے کہ ہم ہر قسم کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہیں کیونکہ ہمارے نبی نے مسیحیوں کو عبادت کے لیے جگہ دی تھی، اس لیے آپ لوگ آئیں ہم مسجد کھولیں گے۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’ہمارے پاس انتظامیہ کے لوگ بھی آئے تھے کہ ہم چرچ کی مرمت کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم نے انکار کر دیا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51l1lvd6w2o", "summary": " پنجاب میں 2022 کے سیلاب سے جو نقصان ہوا اس میں دریائے سندھ کا ہاتھ بہت کم ہے۔ یہاں کوہ سلیمان کے برساتی نالوں نے تباہی مچائی مگر کیا اس سے بچا جا سکتا تھا۔ ", "title": "پاکستان میں 2022 کے سیلاب کا ذمہ دار کون: پنجاب میں کوہ سلیمان کے نالوں نے کیوں تباہی مچائی؟", "firstPublished": "2023-03-09T07:14:49.970Z", "id": "c51l1lvd6w2o", "article": "سیلاب نے پاکستان میں سنہ 2022 میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور حکام اس کا الزام زیادہ تر موسمیاتی تبدیلی کو دے رہے ہیں لیکن کیا حکومت خود بھی اس کی ذمہ دار ہے اور کتنی؟ اس سوال کا جواب ہم نے سیلاب کے ختم ہونے کے ساتھ ہی تلاش کرنا شروع کیا۔ اس کے لیے ہم نے پاکستان کے شمالی علاقوں میں تیزی سے پگھلتے ہوئے گلیشیئرز سے لے کر دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتے خیبرپختونخواہ اور پنجاب سے ہوتے ہوئے دریائے سندھ کے ڈیلٹا تک کا سفر کیا ہے۔ ڈاکومینٹری سیریز کی اس تیسری قسط میں ہم دریائے سندھ کے ساتھ چلتے صوبہ پنجاب کا سفر کر رہے ہیں۔ دریائے سندھ اوپر سے سیلاب کا سارا پانی لے کر یہاں پہنچا تھا۔ لیکن پنجاب میں سیلاب سے جو نقصان ہوا اس میں دریائے سندھ کا ہاتھ بہت کم ہے۔ یہاں کوہ سلیمان کے برساتی نالوں نے تباہی کی اور ہم کوہ سلیمان ہی میں چل کر دیکھیں گے کہ کیا اس سے بچا جا سکتا تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn34dmkmprpo", "summary": "چار قسطوں کی سیریز کی اس دوسری کہانی میں ہم آپ کو سوات لے کر جا رہے ہیں۔ یہاں سے آپ نے عمارتوں کی پانی میں بہہ جانے کی ویڈیوز دیکھی ہوں گی لیکن کیا یہ عمارتیں دریاؤں اور نالوں کے راستوں میں تو نہیں بنی تھیں؟ ", "title": "پاکستان میں 2022 کا سیلاب: کیا سوات میں دریا پر بنی تجاوزات تباہی کا سبب بنیں؟", "firstPublished": "2023-03-08T07:55:28.106Z", "id": "cn34dmkmprpo", "article": "سوات کی خوبصورتی سیاحوں کو یہاں کھینچ کر لاتی ہے۔ اس علاقے کی معیشت اسی سیاحت پر چلتی ہے۔ ہوٹل اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاحوں کو ’بہترین ویو‘ دینے کے لیے ہوٹل دریا کے قریب ترین بنایا جاتا ہے۔ وہ کمرہ جس کی کھڑکی کے بالکل نیچے دریا بہہ رہا ہو اس کا کرایہ سب سے زیادہ ہو گا۔ اس طرح ہوٹلوں سے جڑی دیگر صنعت بھی ان کے قریب ہی قیام کرتی ہے۔ نتیجتاً سڑکیں اور پلیں بھی نیچے بنتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بناتے وقت سیلاب کے امکانات کو سامنے نہیں رکھا جاتا اور یہی یہاں سیلاب سے تباہی کی بڑی وجہ نظر آتی ہے۔ چار قسطوں کی سیریز کی اس دوسری کہانی میں ہم آپ کو سوات لے کر جا رہے ہیں۔ یہاں سے آپ نے عمارتوں کی پانی میں بہہ جانے کی ویڈیوز دیکھی ہوں گی لیکن کیا یہ عمارتیں دریاؤں اور نالوں کے راستوں میں تو نہیں بنی تھیں؟ کیا 2010 کے سیلاب میں بھی ایسا ہوا تھا؟ ہم دیکھیں گے کہ اس تجربے سے پاکستان نے کتنا سبق سیکھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nm1e94vr8o", "summary": "سیلاب نے پاکستان میں سنہ 2022 میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور حکام اس کا الزام زیادہ تر موسمیاتی تبدیلی کو دے رہے ہیں لیکن کیا حکومت خود بھی اس کی ذمہ دار ہے، اور کتنی؟ اس سوال کا جواب ہم نے سیلاب کے ختم ہونے کے ساتھ ہی تلاش کرنا شروع کیا۔ ", "title": "پاکستان میں 2022 کے سیلاب کا ذمہ دار کون: گلیشیئرز کے پگھلاؤ کا کیا کردار ہے؟", "firstPublished": "2023-03-07T06:02:20.422Z", "id": "c4nm1e94vr8o", "article": "سیلاب نے پاکستان میں سنہ 2022 میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور حکام اس کا الزام زیادہ تر موسمیاتی تبدیلی کو دے رہے ہیں لیکن کیا حکومت خود بھی اس کی ذمہ دار ہے، اور کتنی؟ اس سوال کا جواب ہم نے سیلاب کے ختم ہونے کے ساتھ ہی تلاش کرنا شروع کیا۔ اس کے لیے ہم نے پاکستان کے شمالی علاقوں میں تیزی سے پگھلتے ہوئے گلیشیئرز سے لے کر دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتے خیبرپختونخوا اور پنجاب سے ہوتے ہوئے دریائے سندھ کے ڈیلتا تک کا سفر کیا ہے۔ چار قسطوں کی سیریز کی اس پہلی کہانی میں ہم آپ کو پاکستان کے شمالی علاقوں میں گلیشیئرز پر لے کر جا رہے ہیں جہاں ہم نے جاننے کی کوشش کی کہ گلیشیئرز کے سیلاب زیادہ کیوں آ رہے ہیں۔ اس میں گلوبل وارمنگ کا کتنا ہاتھ ہے اور پاکستان نے گزشتہ برسوں کے تجربات سے کتنا سبق سیکھا ہے، اس نے آفات سے بچنے کے لیے کتنی تیار کی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c9xg9rgn28jo", "summary": "مطیع الرحمن نے سنہ 1971 کی جنگ کے دوران کراچی سے پاکستانی فضائیہ کا لڑاکا طیارہ اغوا کر کے انڈیا لے جانے کی کوشش کی مگر وہ اس کوشش میں ناکام رہے اور طیارہ انڈیا کی سرحد کے قریب گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں وہ اپنے زیرِ تربیت پائلٹ راشد منہاس کے ساتھ ہلاک ہو گئے۔", "title": "1971 کی جنگ: وہ پائلٹ جس نے راشد منہاس کا طیارہ ہائی جیک کیا", "firstPublished": "2023-09-07T13:52:54.157Z", "id": "c9xg9rgn28jo", "article": "مطیع الرحمن نے سنہ 1971 کی جنگ کے دوران کراچی سے پاکستانی فضائیہ کا لڑاکا طیارہ اغوا کر کے انڈیا لے جانے کی کوشش کی مگر وہ اس کوشش میں ناکام رہے اور طیارہ انڈیا کی سرحد کے قریب گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں وہ اپنے زیرِ تربیت پائلٹ راشد منہاس کے ساتھ ہلاک ہو گئے۔ 12ویں جماعت کے بعد انھوں نے اگست 1961 میں پاکستانی ایئر فورس میں شمولیت اختیار کی۔ انھیں جون 1963 کو جنرل ڈیوٹی پائلٹ برانچ کمیشن کیا گیا اور وہ 1971 کی جنگ سے قبل پائلٹوں کو تربیت دینے کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ ان بنگالی افسران نے طے کیا کہ وہ ایئر بیس پر موجود افسران کے ساتھ دوستانہ تعلقات جاری رکھیں گے اور کھلے بندوں آپس میں کبھی ایک ساتھ نہیں ملیں گے لیکن اندر ہی اندر یہ منصوبہ بنا کہ وہ پاکستانی جنگی طیارے کو ہائی جیک کر کے انڈیا لے جائیں گے۔ شروع میں ایک یا دو ایف 86 ہائی جیک کرنے کا منصوبہ بنا مگر انھوں نے اسے ترک کر دیا کیونکہ زیادہ لوگوں کی موجودگی سے شک پیدا ہو سکتا تھا۔ اس تحریر میں قیصر طفیل لکھتے ہیں کہ یہ طے ہوا کہ سولو مشن پر جانے والے ٹی 33 کو ہائی جیک کرنا آسان ہو گا۔ 20 اگست کو راشد منہاس نے سکواڈرن کریو روم میں ناشتہ گرم کروایا، انھیں اس روز اڑان پر نہیں جانا تھا کیونکہ تنہا جانے کے لیے کراچی کے آس پاس موسم خراب تھا لیکن اچانک موسم بہتر ہوا اور راشد منہاس سے کہا گیا کہ وہ اُڑنے کی تیاری کریں۔ مطیع الرحمٰن کے متعلق پاکستانی حکام کا دعویٰ رہا ہے کہ 20 اگست کو جب راشد منہاس مطیع الرحمن کے ساتھ تربیتی پرواز پر تھے، تو مطیع الرحمن نے انھیں طیارے میں خرابی کا اشارہ کیا اور انھیں ’کلوروفام‘ سنگھا کر نیم بے ہوش کر دیا۔ اسی دوران مطیع الرحمٰن نے زمین پر موجود اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ ان کے اہلخانہ کو کراچی میں انڈین ہائی کمیشن پہنچائیں کیونکہ وہ پاکستانی ایئرفورس کا طیارہ انڈیا لے کر جا رہے ہیں۔ مطیع الرحمن نے سنہ 1971 کی جنگ کے دوران کراچی سے پاکستانی فضائیہ کا لڑاکا طیارہ اغوا کر کے انڈیا لے جانے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے پاکستانی حکام کا دعویٰ رہا ہے کہ راشد منہاس نے مطیع الرحمن سے طیارے کا کنٹرول واپس لینے کی کوشش کی اور اس لڑائی کے دوران طیارہ انڈین سرحد کے قریب گِر کر تباہ ہو گیا۔ ’راشد منہاس نے جان بوجھ کر طیارے کو نیچے گرایا اور ٹھٹھہ کے قریب حادثہ ہوا۔‘ پاکستانی تفتیش کاروں نے بعد ازاں اپنی تحقیقات کے بعد بتایا کہ مطیع الرحمن طیارے کے ساتھ انڈیا جانا چاہتے تھے تاکہ وہ بنگلہ دیش میں اپنے ساتھیوں کی حمایت کر سکیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgl0mpz0ek8o", "summary": "سنہ 2022 میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے ڈی آر کانگو میں بچوں کے خلاف ’سنگین خلاف ورزیوں‘ کے 3,400 واقعات ریکارڈ کیے تھے جن میں 1,600 بچوں کو مسلح گروپوں میں بھرتی کیا جانا، 700 بچوں کا تنازعات میں ہلاک ہونا اور بچوں پر جنسی تشدد کے کم از کم 290 واقعات شامل ہیں۔\n", "title": "بچوں کے لیے دنیا کا ’بدترین‘ ملک: ’مجھے ریپ کرنے والا اب بھی آزاد گھوم رہا ہے‘", "firstPublished": "2023-10-05T11:11:09.684Z", "id": "cgl0mpz0ek8o", "article": "شیما سین گپتا اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف میں چائلڈ پروٹیکشن کی ڈائریکٹر ہیں اور ستمبر کے آخر میں ملک کے مشرقی علاقوں میں نقل مکانی کرنے والوں کے کیمپوں کا دورہ کرنے کے بعد انھوں نے بی بی سی سے بات کی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ ملک کے مشرقی حصے کو دیکھیں، صرف شمالی کیو اور جنوبی کیو کے علاقوں میں پانچ میں سے چار لڑکیوں کو صنفی بنیاد پر تشدد کا سامنا ہے۔‘ سنہ 2022 میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے ڈی آر کانگو میں بچوں کے خلاف ’سنگین خلاف ورزیوں‘ کے 3,400 واقعات ریکارڈ کیے تھے جن میں 1,600 بچوں کو مسلح گروپوں میں بھرتی کیا جانا، 700 بچوں کا تنازعات میں ہلاک ہونا اور بچوں پر جنسی تشدد کے کم از کم 290 واقعات شامل ہیں۔ شیما سین گپتا کا کہنا ہے کہ ’بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے کی وجہ سے میں جانتی ہوں کہ کیا ہو رہا ہے لیکن جب آپ وہاں جاتے ہیں اور بچوں اور نوجوانوں سے ملتے ہیں تو یہ واقعی آپ کو متاثر کرتا ہے۔ مجھے ان بچوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک اور سنگین خلاف ورزیوں سے دکھ ہوا۔‘ ڈی آر کانگو میں مسلح تنازع تین دہائیاں قبل شروع ہوا تھا اور اس میں 60 لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں اقوام متحدہ کے ایک بڑے امن مشن کی موجودگی کے باوجود ملک کے مشرقی حصے میں 100 سے زائد مسلح گروپوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی لڑائی کے دوران تشدد میں اضافہ ہوا۔ رواں برس فروری سے مسلح باغی گروہ علاقے پر قابض ہو رہا ہے۔ اس مسلح باغی گروہ کی تقریباً ایک دہائی قبل تشکیل ہوئی تھی اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ہوتو ملیشیا کے خلاف ڈی آر کانگو میں رہنے والے توتسیوں کے مفادات کا دفاع کرتا ہے۔ ڈی آر کانگو کے حکام روانڈا پر اس کی پشت پناہی کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ صوبائی دارالحکومت بونیا سے 45 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے اور اس کی حفاظت اقوام متحدہ کے امن دستے کرتے ہیں۔ پھر بھی بہت سی نوجوان لڑکیوں کے لیے یہ بہت کم تحفظ فراہم کرتا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ ’جب میں پانی بھر کر واپس آ رہی تھی تو کیمپ کے اندر مجھ پر حملہ کیا گیا۔ یہ غروب آفتاب کے فوراً بعد ہوا تھا اور میں حملہ آور کو نہیں جانتی۔ اس وقت کیمپ میں بہت اندھیرا تھا۔‘ اور ڈی آر کانگو حکومت نے کیمپ کی حفاظت کرنے والے اقوام متحدہ کے امن دستوں سے کہا ہے کہ وہ سال کے آخر تک وہاں سے نکل جائیں۔ اقوام متحدہ کے مشن کو لوگوں کو تشدد سے بچانے میں ناکامی پر بڑھتے ہوئے غصے کا سامنا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp64j74ezwgo", "summary": "سنگاپور میں ایک گاڑی کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے موجود سرٹیفیکیٹ کی قیمت ایک لاکھ 46 ہزار ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔", "title": "گاڑی خریدنے کے لیے دنیا کا سب سے مہنگا ملک سنگاپور جہاں صرف دس لاکھ افراد کے پاس ذاتی گاڑیاں ہیں", "firstPublished": "2023-10-05T13:36:20.681Z", "id": "cp64j74ezwgo", "article": "سنگاپور میں ایک گاڑی کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے موجود سرٹیفیکیٹ کی قیمت ایک لاکھ 46 ہزار ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ دس سالہ سرٹیفیکیٹ آف اینٹائٹلمنٹ ( سی او ای) نظام سنہ 1990 میں متعارف کروایا گیا تھا تاکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد کو کم کیا جائے۔ سنگاپور میں گاڑیوں کی ملکیت رکھنے والے افراد کے لیے سی او ای سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔ ان سرٹیفیکیٹس کی بولی ہر دو ہفتے بعد لگتی ہے اور حکومت ان سرٹیفیکیٹس کی تعداد پر کنٹرول رکھتی ہے۔ ٹیکس اور برآمدات پر بھاری ڈیوٹی کے باعث سنگاپور اب گاڑی خریدنے کے لیے دنیا کا سب سے مہنگا ملک بن گیا ہے۔ مثال کے طور پر ٹویوٹا کیمری ہائبرڈ کی سنگاپور میں قیمت ڈھائی لاکھ سنگاپوری ڈالرز ہیں جس میں سرٹیفیکیٹ اور ٹیکسز کی قیمت بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ امریکہ میں اس گاڑی کی قیمت سے چھ گنا زیادہ ہے۔ چھوٹی گاڑیوں، موٹرسائیکلز اور کمرشل گاڑیوں کے لیے مختلف سرٹیفکیٹ ہوتے ہیں۔ سرٹیفیکیٹ کی قیمت عالمی وبا کے باعث لگنے والے لاک ڈاؤنز کے خاتمے کے بعد سے ہر ماہ بڑھ رہی ہیں۔ اس سرٹیفیکیٹ کی کسی گاڑی کے لیے سب سے کم قیمت ایک لاکھ چار ہزار ہے جو سنہ 2020 کے بعد سے تین گنا ہو چکی ہے۔ تب عالمی وبا کے باعث نئی گاڑیاں خریدنے کا رجحان بہت کم تھا۔ ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا قسطیں مواد پر جائیں سرٹیفیکیٹس کی ’اوپن‘ کیٹیگری جس پر کوئی پابندیاں نہیں اور اسے کسی بھی گاڑی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، کی قیمت بھی ریکارڈ ایک لاکھ 52 ہزار ڈالر پر پہنچ چکی ہے۔ ٹویوٹا بورنیو موٹرز کی ایلائس چینگ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں گاڑیوں کی طلب میں اضافے کے باعث سرٹیفیکیٹ کی قیمت میں اضافے کے بارے میں علم تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب بھی ہمارے پاس لگژری گاڑیاں آتی ہیں تو خریداروں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔‘ سنگاپور ایک چھوٹا ملک ہے لیکن یہ اکثر درجہ بندیوں میں دنیا کے سب سے زیادہ کروڑ پتی اشخاص والا ملک ہوتا ہے تاہم سنگاپور کے عام شہری کی اوسط سالانہ تنخواہ 70 ہزار ڈالر ہے اس لیے سرٹیفیکیٹ کی خریداری کی استطاعت رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ شہر پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں جو دنیا میں سب سے بہترین ٹرانسپورٹ کا نظام تصور کیا جاتا ہے۔ گذشتہ برس 60 ارب سنگاپوری ڈالرز ملک کے ریل نیٹ ورک کے نظام کو اگلے دس برس تک جدید کرنے کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ سنگاپور کی آبادی پچپن لاکھ ہے اور یہاں صرف دس لاکھ افراد کے پاس ذاتی گاڑیاں ہیں۔ نئے سرٹیفیکیٹس کی دستیابی کا مطلب یہ ہے کہ کتنی پرانی گاڑیوں کو سڑک سے اتارا جا سکتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cm5keykd49jo", "summary": "18 سال پہلے 2005 میں انڈیا کے شہر پٹیالہ میں ایک قتل سے پورا علاقہ چونک گیا تھا جب ایک جج کو ایک خاتون ڈاکٹر نے اس لیے قتل کر دیا کیونکہ اس نے خاتون ڈاکٹر سے شادی کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔", "title": "جب شادی سے انکار پر خاتون ڈاکٹر نے اُجرتی قاتل کی مدد سے ایک جج کو قتل کروایا", "firstPublished": "2023-10-06T02:36:31.335Z", "id": "cm5keykd49jo", "article": "لگ بھگ 18 سال پہلے اکتوبر 2005 میں انڈیا کے شہر پٹیالہ میں ایک قتل سے پورا علاقہ چونک گیا تھا جب ایک جج کو ایک خاتون ڈاکٹر نے اس لیے قتل کر دیا کیونکہ اس نے خاتون ڈاکٹر سے شادی کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کیس نے پٹیالہ کے وکلا میں بھی اتنا غصہ پیدا کیا کہ اس وقت کوئی وکیل اس لیڈی ڈاکٹر کا کیس لڑنے کو تیار نہیں تھا۔ بعد میں تحقیقات سے پتہ چلا کہ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار تھے۔ قتل کے چند دن بعد لیڈی ڈاکٹر کو ایک اور ساتھی ملزم منجیت سنگھ کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اس واقعے کے 18 سال بعد اس خاتون ڈاکٹر نے عدالت سے سزا میں کمی اور رہائی کی درخواست کی ہے۔ پنجاب اور ہریانہ ہائیکورٹ نے اس سلسلے میں ریاستی حکومت کو ہدایات جاری کی ہیں۔ لیکن اس سارے معاملے میں جانے سے پہلے اس سنسنی خیز واقعے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ سنہ 2005 میں اکتوبر کا مہینہ تھا۔ ڈاکٹر رودیپ کور کی عمر اُس وقت 41 سال تھی اور وہ پٹیالہ میں ایک ہسپتال چلاتی تھیں۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کی رہائش گاہ کے قریب ایک ہائی سکیورٹی پولو گراؤنڈ زون واقع ہے۔ اس پولو گراؤنڈ میں 13 اکتوبر 2005 کو وجے سنگھ رات کے کھانے کے بعد چہل قدمی کر رہے تھے۔ بعد میں یہیں سے ان کی لاش ملی۔ اس کی سکی تحقیقات میں پتہ چلا کہ ڈاکٹر رودیپ کور نے منجیت سنگھ نامی شخص کو جج کا قتل کرنے کے لیے 5 لاکھ روپے کی پیشکش کی تھی اور بطور ایڈوانس اسے 50 ہزار روپے دیے گئے تھے جبکہ باقی پیسے ’کام‘ کے بعد دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ منجیت نے جج کے جسم پر مجموعی طور پر تلوار سے 25 وار کیے اور پھر فرار ہو گیا۔ وجے سنگھ کی موقع پر ہی موت ہو گئی۔ قتل کے بعد منجیت نے تلوار کو ایک نہر میں پھینک دیا اور پھر رودیپ کور کے گھر جا کر باقی ساڑھے چار لاکھ روپے وصول کیے۔ اس قتل کے بعد پٹیالہ کے وکلا نے اس بہیمانہ قتل نامزد ملزمہ کے کیس کی پیروی کرنے سے انکار کر دیا۔ وکلا کی جانب سے ملزمہ کی نمائندگی کرنے سے انکار کرنے کے بعد پنجاب اور ہریانہ ہائیکورٹ کے حکم پر کیس کو ضلعی عدالتوں میں منتقل کر دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اس پالیسی کے مطابق ایک خاتون ہونے کے ناطے ان کو جلد رہائی کے لیے 8 سال اصل قید اور 12 سال قید کی سزا بھگتنی تھی جبکہ رودیپ کور 17 سال سے زیادہ کی سزا کاٹ چکی ہیں۔ اس سے اتفاق کرتے ہوئے، عدالت نے ڈاکٹر رودیپ کو عبوری ضمانت دینے کا حکم دیا جبکہ ریاستی حکومت کو حکم دیا کہ وہ جلد رہائی کی درخواست پر غور کرے۔ اب پنجاب حکومت کو رودیپ کور کے مطالبے پر فیصلہ کرنا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c8745nyl45eo", "summary": "دھوکہ دہی کے اس مقدمے کی سماعت کا احوال جو ثابت ہو گیا تو سابق صدر ’ٹرمپ ٹاور‘ سمیت کئی قیمتی جائیدادوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔", "title": "اس مقدمے کی سماعت کا احوال جو ثابت ہوا تو صدر ٹرمپ قیمتی جائیدادوں سے محروم ہو سکتے ہیں", "firstPublished": "2023-10-03T07:49:17.461Z", "id": "c8745nyl45eo", "article": "امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھوکہ دہی کے مقدمے کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں اس کیس کی سماعت کرنے والے جج اور پراسیکیوٹر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یاد رہے کہ اگر دھوکہ دہی کا یہ مقدمہ ثابت ہو گیا تو سابق صدر کی بڑی کاروباری سلطنت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ امریکہ میں سوموار کو ہونے والی اس سماعت میں صدر ٹرمپ رضاکارانہ طور پر شامل ہوئے تھے۔ وہ نیلے رنگ کے سوٹ میں ملبوس تھے اور کمرہ عدالت میں داخل ہوتے ہی انھوں نے اپنے خلاف مقدمہ دائر کرنے والے پراسیکیوٹر کو مکمل طور پر نظر انداز کیا اور اس کے سامنے سے گزر گئے۔ اس دیوانی مقدمے میں سابق صدر، ٹرمپ آرگنائزیشن، ٹرمپ کی کمپنیوں کے متعدد ایگزیکٹیوز اور صدر ٹرمپ کے کے دو بچے، ڈونلڈ جونیئر اور ایرک، ملزمان ہیں۔ ان افراد اور اداروں پر دھوکہ دہی، کاروباری ریکارڈ میں جعل سازی، جھوٹے مالیاتی گوشوارے جاری کرنے اور سازش کا الزام ہے۔ سماعت کے دوران جب جج آرتھر اینگورون ریمارکس دیتے تو سابق صدر کبھی کبھار ان کی طرف دیکھ لیتے تھے۔ اس سے چند لمحے پہلے کمرۂ عدالت کے باہر ڈونلڈ ٹرمپ بلند آواز میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کر رہے تھے تو ان کی آواز کمرہ عدالت میں گونچ رہی تھی اور اسی دوران انھوں نے اس کیس کی سماعت کرنے والے جج کو ’بدمعاش جج‘ کہہ کر بھی پکارا۔ میڈیا نمائندوں کے سامنے ٹرمپ کی جانب سے کیے گئے ذاتی حملوں کے بعد مبصرین کو کمرۂ عدالت میں کشیدگی کی توقع تھی لیکن اس کیس سے منسلک تینوں بڑی شخصیات، صدر ٹرمپ، کیس کی سماعت کرنے والے جج اور پراسیکیوٹر، کا ایک دوسرے سے براہ راست کم ہی سامنا ہوا۔ جب استغاثہ نے اپنا مقدمہ پیش کیا تو صدر ٹرمپ زیادہ تر خاموش رہے، البتہ سماعت کے دوران وہ کبھی کبھار اپنی قانونی ٹیم سے سرگوشی کرتے رہے۔ ان کی ٹیم نے صدر ٹرمپ اور دیگر ملزمان پر جان بوجھ کر اور مسلسل دھوکہ دہی کا الزام لگاتے ہوئے کارروائی شروع کی اور کہا کہ یہ سب کرنے سے صدر ٹرمپ کو 100 ملین ڈالر کا فائدہ ہوا۔ گذشتہ ہفتے جج اینگورون نے مقدمے کے مرکزی دعوے میں مسٹر ٹرمپ کے خلاف فیصلہ سنایا تھا، جس میں کہا گیا کہ انھوں نے بینکوں سے قرضے حاصل کرنے کے لیے اپنی جائیدادوں کی مالیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ ریل سٹیٹ ایک فلیکسیبل شعبہ ہے اور اُن کی جائیدادیں ’مونا لیزا‘ کی طرح نادر تھیں (یعنی بہت قیمتی تھیں) اور انھیں ریزورٹ کی فروخت سے کم از کم ایک ارب ڈالر مل سکتے ہیں۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ مسٹر ٹرمپ کچھ ایسی جائیدادیں کھو سکتے ہیں جو ان کے برانڈ کا چہرہ ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cnd8yz5pep3o", "summary": "یہ معاملہ جنوبی انڈیا کی ریاست کیرالہ کا ہے جہاں ہائیکورٹ کے جج نے ناچاقی کی وجہ سے الگ رہنے والے والدین کے بچے کا نام طے کیا کیوں کہ ماں اور باپ میں کسی ایک نام پر اتفاق نہیں ہو رہا تھا۔", "title": "نام رکھنے کا مقدمہ: بچے کو ماں کی پسند کا نام دیا جائے، انڈین عدالت کا فیصلہ", "firstPublished": "2023-10-02T12:17:42.057Z", "id": "cnd8yz5pep3o", "article": "یہ معاملہ جنوبی انڈیا کی ریاست کیرالہ کا ہے جہاں ہائیکورٹ کے جج نے ناچاقی کی وجہ سے الگ رہنے والے والدین کے بچے کا نام طے کیا کیوں کہ ماں اور باپ میں کسی ایک نام پر اتفاق نہیں ہو رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بچے کے لیے نام کی عدم موجودگی بچے کی فلاح یا بہترین مفادات کے لیے موزوں نہیں ہے۔ بچے کی فلاح کا تقاضا ہے کہ اسے ایک نام دیا جائے۔ والدین کے درمیان مسلسل جھگڑے بھی بچے کے مفاد میں اچھے نہیں ہوتے۔‘ عدالت نے اپنے فیصلے میں بچے کی والدہ کے تجویز کردہ نام کو ترجیح دیتے ہوئے ولدیت پر کوئی تنازع نہ ہونے کے باعث یہ حکم بھی دیا کہ والد کا نام بھی بچے کے نام میں شامل کیا جائے۔ واضح رہے کہ بچے کے والد اسکا کا نام ’پدما‘ رکھنا چاہتے تھے۔ تاہم جج نے فیصلہ دیا کہ بچے کا نام ’پُنیہ‘ رکھا جائے، جو کہ اس کی والدہ کی جانب سے تجویز کیا گیا تھا، اور ساتھ میں کہا کہ باپ کے نام کی کنیت دی جائے۔ یہ معاملہ عدالت کے سامنے اس وقت آیا جب ناچاقی کے سبب الگ رہنے والی خاتون نے ایک درخواست دائر کی کہ وہ اپنے بچے کا نام درج نہ ہونے کے باعث پریشانی کا شکار ہیں۔ واضح رہے کہ انڈین قوانین کے تحت بچے کی پیدائش کے بعد ایک خاص مدت تک نام کے بغیر سرٹیفیکیٹ جاری ہو سکتا ہے لیکن جب بچے کی والدہ نے نام رجسٹر کروانے کی کوشش کی تو پیدائش اور اموات کا ریکارڈ رکھنے والے رجسٹرار نے اصرار کیا کہ نام کے اندراج کے لیے دونوں والدین کو درخواست دینا ہوگی۔ طالب علم نے اپنے امتحانات سے قبل حکام کو نام کی تبدیلی کے لیے درخواست دی تھی لیکن یہ تبدیلی امتحان سے متعلق حکام کے ریکارڈ میں ظاہر نہیں ہوئی اور انھیں نئے نام کے ساتھ مارک شیٹ نہیں دی گئی۔ 2022 میں کیرالہ ہائیکورٹ میں زیر سماعت ایک اور مقدمے میں جج نے پیدائش کے سرٹیفکیٹ اور دیگر دستاویزات میں ماں کا نام شامل کرنے کے حق کو تسلیم کیا تھا۔ اس مقدمے میں درخواست گزار، جن کی پیدائش کے وقت انکی والدہ غیر شادی شدہ تھیں، اور ان کی والدہ نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ نیوز پورٹل ’بار اینڈ بنچ‘ کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ’اس ملک میں عصمت دری کا شکار ہونے والے بچے اور غیر شادی شدہ ماؤں کے بچے ہیں۔ ان کی پرائیویسی، وقار اور آزادی کے حق کو کسی بھی اتھارٹی کے ذریعہ کم نہیں کیا جا سکتا۔‘ واضح کر دیں کہ 2015 میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے میونسپل اداروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ شادی سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں کے لیے پیدائش کا سرٹیفکیٹ جاری کرتے وقت باپ کے نام پر اصرار نہ کریں بلکہ صرف ماں کا نام درج کریں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw4jpq24884o", "summary": "سپریم کورٹ کے وکیل نتن میش رام کہتے ہیں کہ ’اس کا سب سے زیادہ اثر قبائلی معاشرے پر پڑے گا، کیوں کہ زیادہ معاملات انھیں علاقوں سے رپورٹ ہو رہے ہیں جہاں 16 سے 18 سال کے بچے رضامندی سے جنسی تعلق قائم کر رہے ہیں، لیکن ان پر پوکسو کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ قبائلی معاشرے میں جنسی تعلقات کے بارے میں زیادہ ممانعت نہیں ہے۔‘", "title": "انڈیا میں سیکس کے لیے ’رضامندی کی عمر‘ پر بحث دوبارہ کیوں شروع ہوئی؟", "firstPublished": "2023-10-01T14:54:23.720Z", "id": "cw4jpq24884o", "article": "سپریم کورٹ کے وکیل نتن میش رام کا کہنا ہے کہ ’آئی پی سی میں مردوں کو کچھ تحفظ دیا گیا ہے۔ اگر لڑکی کی عمر 16 سال سے زیادہ ہے تو رضامندی ثابت کی جا سکتی ہے جبکہ پوکسو میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘ ان کے مطابق ’ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ ملک میں ایک بار پھر یہ بحث چل رہی ہے کہ ’کیا جنسی تعلق کے لیے رضامندی کی عمر 18 سال سے کم کر کے 16 سال کر دینی چاہیے؟‘ عدالت نے لا کمیشن سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ ان معاملات میں پوکسو ایکٹ میں ترمیم تجویز کرے جہاں لڑکی کی عمر 16 سال سے زیادہ ہے اور اس نے رضامندی سے جنسی تعلق قائم کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالتوں کو صوابدیدی اختیارات کے حصول کی بھی اہم تجویز دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے معاملات میں جہاں لڑکی کی عمر 16 سال سے زیادہ ہے اور اس نے رضامندی سے جنسی تعلق قائم کیا ہے، عدالت پی او سی ایس او کے تحت کم سے کم سزا کی شق کو ختم کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کی وکیل کامنی جیسوال کہتی ہیں کہ ’لا کمیشن نے پوکسو ایکٹ میں استثنیٰ شامل کرنے کی بات کی ہے۔ اگر کسی معاملے میں لڑکی کی عمر 16 سے 18 سال کے درمیان ہو اور یہ ثابت ہو جائے کہ جنسی تعلقات رضامندی سے ہوئے تھے تو عدالت اسے ریپ کے زمرے سے خارج کر سکتی ہے۔‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’استثنیٰ صرف ان معاملات میں استعمال کیا جانا چاہیے جہاں بچے اور ملزم کے درمیان عمر کا فرق تین سال سے زیادہ نہ ہو اور یہ بھی دیکھا جائے کہ ملزم کی پہلے سے کوئی مجرمانہ تاریخ نہ ہو۔‘ کمیشن نے کہا کہ ’اگر 16 سال سے زیادہ عمر کے معاملات میں رضامندی سے جنسی تعلق قائم کیا گیا ہے اور واقعے کے بعد متاثرہ بچے کے سماجی یا ثقافتی پس منظر میں تبدیلی آئی ہے، یا اگر بچے کو غیر قانونی یا فحش کاموں کے لیے استعمال کیا گیا ہے تو سزا معاف نہیں کی جانی چاہیے۔‘ سپریم کورٹ کے وکیل نتن میش رام کہتے ہیں کہ ’اس کا سب سے زیادہ اثر قبائلی معاشرے پر پڑے گا، کیونکہ زیادہ تر کیسز انھیں علاقوں سے رپورٹ ہو رہے ہیں جہاں 16 سے 18 سال کے بچے رضامندی سے جنسی تعلق قائم کر رہے ہیں، لیکن ان پر پوکسو کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ قبائلی معاشرے میں جنسی تعلقات کے بارے میں زیادہ ممانعت نہیں ہے۔‘ نتن میش رام کہتے ہیں کہ ’یہ انڈیا کی محدود سوچ اور صنفی امتیازی سوچ کا نتیجہ ہے کیونکہ اس میں جنسی پاکیزگی بہت اہم ہے۔ یہ شادی سے پہلے اس پاکیزگی کو برقرار رکھنے کا ایک طریقہ ہے، تاکہ کوئی بھی لڑکی 18 سال سے پہلے جنسی تعلق قائم نہ کرسکے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2q35gyrnw2o", "summary": "یوری گاروسکی نے بیلاروس میں ایک ہٹ سکواڈ کا حصہ ہونے کا اعتراف کیا تھا، جس نے ملک کی اپوزیشن کے اہم ارکان کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا تھا۔ لیکن اس اعتراف کے باوجود انھیں سزا نہیں ہوئی۔ ", "title": "سیاستدانوں کو اغوا کرنے والے ’ہِٹ سکواڈ‘ کا رُکن جسے اعترافِ جرم کے باوجود بری کر دیا گیا", "firstPublished": "2023-10-01T13:38:32.483Z", "id": "c2q35gyrnw2o", "article": "یوری گاروسکی نے بیلاروس میں ایک ’ہٹ سکواڈ‘ کا حصہ ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ یہ وہ سکواڈ تھا جس نے ملک کی اپوزیشن کے اہم رہنماؤں کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا تھا لیکن اس اعتراف کے باوجود انھیں سزا نہیں ہوئی اور عدالت نے انھیں بری کر دیا۔ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ان جبری گمشدگیوں اور قتل کے پیچھے بیلا روسی حکام کی ملی بھگت بھی شامل ہے۔ تاہم جج کے مطابق عدالت کو شک سے بالاتر ثبوتوں کے ساتھ اس بات پر مطمئن نہیں کیا جا سکا کہ یوری گاروسکی اس مقدمے میں مجرم ہیں۔ انھیں شاید یہ امید تھی کہ تشہیر سے انھیں کچھ تحفظ بھی مل سکے گا کیونکہ ایک برس قبل وہ بیلاروس میں ایک کار حادثے کے بعد ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اس حادثے کے بعد وہ دو ہفتے تک کوما میں رہے تھے۔ ابھی بھی وہ ایک چھڑی کے سہارے چلتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ حادثہ انھیں جان سے مارنے کی کوشش تھی۔ اس مقدمے سے جڑے ہوئے کرداروں کے لیے یوری گاروسکی کی کہانی سچ کے قریب تھی۔ دو جبری طور پر لاپتہ کیے گئے بیلا روسی اشخاص کی بیٹیوں نے سوئس وکلا کے کے ذریعے اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت ٹرائل شروع کرنے کی درخواست کی ہے۔ لیکن انھوں نے اغوا اور تشدد میں براہ راست ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔ ان کے مطابق انھوں نے وکٹر گونچار کا منھ زمین پر پٹخ دیا تھا۔ عدالت میں یوری گاروسکی نے وہی بات دہرائی جو انھوں نے 2020 میں انھیں بتائی تھی کہ ان کے والد کو ہتھکڑیاں لگا کر اغوا کیا گیا تھا اور پھر پیٹھ میں دو گولیاں ماری گئی تھیں، جن سے ان کی موت واقع ہو گئی۔ جب جج نے بیلاروس کے اس سابق فوجی سے پوچھا کہ انھوں نے حکم پر عمل کرنے سے انکار کیوں نہیں کیا تو یوری گاروسکی نے کہا کہ وہ بھی دیگر حکم نہ ماننے والوں کی طرح جان سے ہی مار دیے جاتے۔ انھوں نے اصرار کیا کہ اصل بندوق بردار بیلاروس میں بدنام زمانہ ایس او بی آر سپیشل فورسز یونٹ کا سربراہ دیمتری پاؤلیچینکو تھا۔ انھوں نے مختصر طور پر حراست میں لیے گئے کمانڈر کو صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کے ذاتی احکامات پر حراست سے رہا کر دیا تھا۔ یوری گاروسکی نے انکشاف کیا کہ وکٹر گونچار کا ایک پیر غائب تھا۔ زیادہ تفصیلات میں جائے بغیر انھوں نے بتایا کہ انھوں نے انھیں دفناتے ہوئے دیکھا کہ ان کا ایک پاؤں نہیں ہے۔ لیکن جج نے ان کے سابقہ ​​دعوے پر کان دھرا جس میں انھوں یہ یہ کہا تھا کہ یہ قتل چودھویں کی رات کو کیا گیا تھا۔ یہ دعویٰ درست نہیں تھا۔ یوری گاروسکی اب یہ کہتے ہیں کہ گاڑی کی ہیڈلائٹس کے ذریعے کرائم سین کو روشن کیا گیا تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czv9r900ez1o", "summary": "صوبہ بلوچستان کے شہر مستونگ میں عید میلاد النبی کے جلوس میں ہونے والے ایک دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 52 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ بی بی سی نے ایسے متعدد افراد سے بات کی ہے جو اس جلوس میں موجود تھے۔", "title": "مستونگ حملے میں 52 ہلاک، درجنوں زخمی: ’قیامت کا منظر تھا، لاشیں اور زخمی ایک دوسرے کے اُوپر پڑے تھے‘", "firstPublished": "2023-09-29T15:37:33.270Z", "id": "czv9r900ez1o", "article": "یہ کہنا ہے بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ہونے والے دھماکے کے ایک عینی شاہد برکت علی کا۔ مستونگ شہرمیں کوڑا خان روڈ پر واقع مدینہ مسجد کے سامنے لوگ عید میلاد النبی کے سلسلے میں نکلنے والے ایک جلوس میں شرکت کے لیے اکھٹے ہو رہے تھے جب زوردار دھماکہ ہوا۔ مستونگ کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر رشید محمدشہی نے بتایا کہ دھماکے میں 52 افراد ہلاک جبکہ 70 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ مستونگ سے تعلق رکھنے والے برکت علی اُن لوگوں میں شامل تھے جو کہ عیدمیلاد النبی کی جلوس میں شرکت کے لیے مدینہ مسجد پہنچے تھے۔ وہ خود تو اس دھماکے کے نتیجے میں محفوظ رہے تاہم جائے وقوعہ سے زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو ایمبولینسوں میں منتقل کرنے کے دوران اُن کے کپڑے خون آلود ہو گئے جبکہ وہ غم کی شدت سے نڈھال تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ دھماکے کی جگہ سے کچھ فاصلے پر تھے اسی لیے وہ بچ گئے لیکن وہاں جو حالات تھے وہ بالکل ناقابل بیان تھے۔ اس واقعے کے حوالے سے سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ درجنوں افراد عید میلاد النبی کے جلوس کا حصہ ہیں۔ جلوس میں موجود گاڑی پر نعتیہ کلام بلند آواز سے چل رہا تھا جبکہ بہت سے شرکا کے ہاتھوں میں جھنڈے تھے۔ اسی دوران ایک زوردار دھماکہ ہوتا ہے اور انسانی اعضا فضا میں بلند ہوتے ہیں۔ بی بی سی اس ویڈیو کی آذادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جو لوگ اس واقعہ میں ہلاک ہوئے ہیں ان میں سے 10 کے قریب ان کے رشتہ دار ہیں۔ جن زخمیوں کو ٹراما سینٹر لایا گیا تھا ان میں جامعہ مدینہ کے مدرس مولانا شیر احمد حبیبی بھی شامل تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ عید میلاد النبی کا جلوس بڑی دھوم دھام کے ساتھ اپنی منزل کی جانب روانہ ہونے والا تھا جب دھماکہ ہوا۔ ہمارے ساتھی درود کا ورد کرتے ہوئے اس دنیا سے چلے گئے۔‘ انھوں نے کہا کہ بہت زیادہ دور ہونے کی وجہ سے وہ تو محفوظ رہے لیکن جلوس میں ہونے کی وجہ سے ان کے دو بھائی اس میں زخمی ہوئے۔ بلوچستان کے نگراں وزیر داخلہ میر زبیر جمالی نے سول ہسپتال کے ٹراما سینٹر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ دھماکے بارے میں تحقیقات جاری ہیں لیکن غالب امکان یہی ہے کہ یہ ایک خود کش دھماکہ تھا۔ ضلٰع مستونگ میں رواں مہینے جمیعت العلمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمداللہ پربم حملہ ہوا تھا جس میں حافظ حمداللہ سمیت 13افراد زخمی ہوئے تھے۔ جبکہ مستونگ کے علاقے کانک میں 2018 کے عام انتخابات سے قبل بھی ایک بڑا دھماکہ ہوا تھا جس میں نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت 125سے زائد افراد ہلاک اور بہت بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72kll526eno", "summary": "بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکٹر نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے پاکستان واپس آنے کی صورت میں ممکنہ گرفتاری اور جیل بھیجنے جیسے معاملات پر حکومت نے وزارت قانون سے رائے طلب کر لی ہے اور اگر چیئرمین تحریک انصاف کو عدالتوں سے کوئی ریلیف نہ ملا تو پھر ’بدقسمتی سے عمران خان کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘ ", "title": "نواز شریف کے معاملے پر وزارت قانون سے رائے مانگی ہے، عمران خان کا مقابلہ فوج سے نہیں ریاست سے ہے: انوار الحق کاکڑ", "firstPublished": "2023-09-29T04:01:32.277Z", "id": "c72kll526eno", "article": "پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی کے معاملے میں حکومت چاہتی ہے کہ قانون اپنا راستہ اختیار کرے اور سابق وزیر اعظم کی ممکنہ گرفتاری اور جیل بھیجنے کے بارے میں حکومت نے وزارت قانون سے رائے بھی طلب کی ہے۔ بی بی سی اُردو کو دیے گئے انٹرویو میں انوار الحق کاکڑ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا مقابلہ فوج سے نہیں بلکہ ریاست سے ہے۔ اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد پاکستان واپسی سے قبل لندن میں قیام کے دوران بی بی سی اردو سے گفتگو میں نگران وزیراعظم نے جہاں پاکستان کے آئندہ عام انتخابات کو غیر جانبدارانہ اور منصفانہ بنانے جیسے موضوعات پر سوالات کے جواب دیے وہیں نواز شریف کی پاکستان واپسی اور عمران خان کو درپیش قانونی مشکلات پر بھی بات کی۔ نگران وزیر اعظم نے کہا کہ انھوں نے وزارت قانون سے اس بارے میں رائے لی ہے کہ جب نواز شریف واپس آئیں گے تو قانون کے مطابق (ان کے تئیں) نگراں حکومت کا انتظامی رویہ کیا ہونا چاہیے۔ نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر عدالتوں سے کوئی ریلیف نہ ملا تو پھر ’بدقسمتی سے عمران خان کو ان نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘ یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نومبر 2019 میں اپنی سزا کے دوران قید میں خون میں پلیٹلیٹس کی مقدار کم ہو جانے کی وجہ سے جیل سے ہسپتال منتقل کر دیے گئے تھے۔ میڈیا میں اُن کی صحت کے بارے میں شدید تحفظات کا خدشہ ظاہر کیا تھا جبکہ طبی ماہرین نے ان کی خرابیِ صحت کی تصدیق کی تھی جس پر حکومت نے انھیں علاج کرانے کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی تھی۔ انتخابات میں حکومت کی غیرجانبداری کو یقینی بنانے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں نگران وزیر اعظم نے کہا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ قطعاً کوئی سختی نہیں برتی جائے گی۔ ہاں اُن لوگوں کے ساتھ قانون کے مطابق ضرور نمٹا جائے گا جو منفی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں اور وہ مخصوص افراد ہیں جو پچیس کروڑ کی آبادی میں پندرہ سو، دو ہزار بنتے ہوں گے، اُن کو پاکستان تحریک انصاف سے جوڑنا کوئی منصفانہ تجزیہ نہیں ہو گا۔‘ انوار الحق کاکڑ نے واضح کیا کہ اگر کوئی ایک سیاسی رہنما انتخابات میں حصہ نہیں لے پاتا تو اس سے بحران پیدا ہو یا نہ ہو، یہ نگراں حکومت کا مسئلہ نہیں کیونکہ ’ہمارا مقصد بحران روکنا یا پیدا کرنا نہیں، قانون کے تحت ہمارا کردار الیکشن کروانا ہے۔۔۔ اگر الیکشن کے نتیجے میں بحران پیدا ہوتا ہے تو یہ پورے معاشرے اور ریاست کا معاملہ ہے، نگراں حکومت کا نہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51r5nnylnzo", "summary": "انڈیا کی جنوبی ریاست میں چھوٹی انگلی کے سائز کے کیلے اپنے منفرد ذائقے اور خوشبو کے لیے بہت مقبول ہیں۔ ان کیلوں کو مقامی تمل زبان میں مدٹی کیلے کہا جاتا ہے۔", "title": "’مدٹی‘: انگلی کے برابر مگر شہد جیسے میٹھے کیلے جن کی خوشبو سے ’سارا شہر مہکتا‘ ہے", "firstPublished": "2023-09-06T06:11:49.407Z", "id": "c51r5nnylnzo", "article": "انڈیا کی جنوبی ریاست میں چھوٹی انگلی کے سائز کے کیلے اپنے منفرد ذائقے اور خوشبو کے لیے بہت مقبول ہیں۔ ان کیلوں کو مقامی تمل زبان میں ’مدٹی‘ یا ’مٹی‘ کیلے کہا جاتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ 'میں نے اپنے بچپن میں پہاڑی علاقوں سے مدٹی نسل کے کیلے فروخت کے لیے لاتے ہوئے دیکھے ہیں، جوں جوں دکانوں میں لٹکے ہوئے مدٹی کیلے کے گچھے پکتے جاتے پورا قصبہ اس کی خوشبو سے مہکنے لگتا تھا۔‘ پہاڑی علاقوں میں کیمیائی کھادوں کے استعمال کے بغیر اُگائے جانے والے مدٹی کیلے کا ذائقہ اور اس کی خوشبو منفرد ہے۔ مدٹی کیلے کی ایک ڈال میں کیلوں کے چار یا پانچ گچھے ہوتے ہیں اور ہر گچھے میں درجن کے لگ بھگ کیلے ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں بتایا گیا کہ نایاب قسم کے مدٹی کیلے صرف ناگرکوئل کے قریب ’جنوبی تراونکور‘ کی پہاڑیوں میں اُگتے ہیں۔ (کیرالہ کے ساتھ کنیا کماری ضلع کے حصوں کو لسانی خطوط پر ریاستوں کی تقسیم سے پہلے جنوبی تراونکور کہا جاتا تھا۔) انھوں نے مدٹی کیلے کے بارے میں مزید کہا کہ ’مغربی گھاٹ کے پہاڑی علاقوں میں زیادہ بارشوں اور زرخیز مٹی کی وجہ سے کنیا کماری ضلع میں اُگائے جانے والے مدٹی پھل کا ذائقہ اور خوشبو منفرد ہے، لیکن اگر اسی مدٹی کیلے کو دوسرے علاقوں میں اگایا جائے تو ذائقہ اور خوشبو نہیں ویسی نہیں ہوتی۔‘ اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ مدٹی کیلے کی بھی چھ اقسام ہوتی ہیں۔ ان کے مقامی نام اس طرح ہیں: نال مدٹی (بڑے سائز کا)، کل مدٹی، نے مدٹی (مکھن یا گھی جیسے)، تین مدٹی (شہد جیسے)، سندری مٹی (خوبصورت) اور سمیدٹی یعنی سرخ کیلے۔ انھوں نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کنیا کماری ضلع میں، کسان بنیادی طور پر نیندرن اور شیو کیلوں کی اقسام کاشت کر رہے ہیں۔ مدٹی کیلے کو علیحدہ فصل کے طور پر نہیں اگایا جاتا ہے، یعنی مدٹی کیلے کو پورے باغ میں نہیں اگایا جاتا ہے۔‘ مدٹی کیلے کی کاشت کے حوالے سے انھوں نے مزید کہا کہ مدٹی کیلے کے گھور کا اوسط وزن 12 کلو اور زیادہ سے زیادہ وزن 16 سے 17 کلو ہے۔ ایک کیلے کے ٹار یا گھور میں 8 سے 16 گچھے ہوتے ہیں۔ مدٹی کیلے کی قلم لگانے اور فصل تیار ہونے میں 11 سے 12 مہینے لگ سکتے ہیں۔ ’میرے باغ میں تقریباً 240 عام مدٹی اور کچھ سیمدٹی کیلے کی قلمیں ہیں۔ کسان بڑی تعداد میں چھلکے والے کیلے کی اقسام کاشت نہیں کرتے ہیں جن میں سیمدٹی بھی شامل ہے۔ گھریلو استعمال کے لیے صرف ایک یا دو جگہ ہی اسے لگاتے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjrld92d9yno", "summary": "انڈیا میں میکڈونلڈز کے بعد ایک اور فاسٹ فوڈ چین برگر کنگ نے ملک میں بڑھتی قیمتوں کے باعث اپنے کھانوں میں ٹماٹر شامل کرنا چھوڑ دیے ہیں۔ ", "title": "’غیر متوقع حالات‘ انڈیا میں میکڈونلڈز کے بعد برگر کنگ نے بھی اپنے برگروں سے ٹماٹر نکال دیے", "firstPublished": "2023-07-10T08:10:35.784Z", "id": "cjrld92d9yno", "article": "انڈیا میں میکڈونلڈز کے بعد ایک اور فاسٹ فوڈ چین برگر کنگ نے ملک میں بڑھتی قیمتوں کے باعث اپنے کھانوں میں ٹماٹر شامل کرنا چھوڑ دیے ہیں۔ رواں ہفتے کے اوائل میں امریکی چین سبوے نے بھی مینیو سے ٹماٹر نکال دیے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جنوری 2020 کے بعد ملک میں فوڈ انفلیکشن کی بلند ترین سطح ہے۔ ’انڈیا میں کسی کے اچھے دن آئے ہوں یا نہ آئے ہوں، ٹماٹر کے اچھے دن ضرور آ گئے ہیں۔۔۔‘ ایسا بہت سے سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کیونکہ ملک میں اس وقت ٹماٹر کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ انڈیا میں ٹماٹر 150 روپے سے 200 سو روپے فی کلو فروخت ہو رہے ہیں۔ جس کے بعد انڈیا میں ٹماٹر کی مانگ اور اس کی بڑھتی قیمتوں کو لے کر کافی بحث ہو رہی ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ دنوں ایک خبر کے مطابق انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے معروف شہر وارانسی (بنارس) میں ایک دکاندار نے اپنے ٹماٹر کی حفاظت کے لیے باؤنسر رکھ لیے ہیں۔ پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق ملک کے بہت سے حصے میں کسان اور دکاندار اپنے ٹماٹر کی حفاظت کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق امریکی فاسٹ فوڈ چین میکڈونلڈز نے شمالی انڈیا کے اپنے چند ریستوراں میں ٹماٹروں کے مہنگے ہونے اور کمی کے سبب اس کی فراہمی روک دی ہے اور ان کے برگرز میں اب ٹماٹر نہیں۔ خبر رساں ادارے اے این آئی نے دلی میں ایک میکڈونلڈ آؤٹ لیٹ سے نکلنے والی ایک خاتون پوجا گپتا سے جب اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ’میکڈونلڈز والوں نے معیار کی بات کی ہے لیکن اچھے ٹماٹر مل رہے ہیں۔ میرے خیال سے وہ اس لیے ٹماٹر کا استعمال نہیں کر رہے ہیں کیونکہ ٹماٹر کی قیمت آسمان چھو رہی ہے اور اس کی وجہ سے ان کی لاگت زیادہ ہو جائے گی۔‘ انڈیا میں ٹماٹر کی قیمت بڑھنے کے بعد سوشل میڈیا پر لوگ طرح طرح کی میمز شیئر کر رہے ہیں۔ کوئی لکھ رہا ہے کہ ٹماٹر سے سستا پٹرول ہوا۔ تو کوئی لکھ رہا ہے کہ اب صرف تصویر میں ٹماٹر دیکھ سکتے ہیں۔ جبکہ ایک میم شئير کی جا رہی ہے جس میں کہا جا رہا ہے ’ہمارے ہاں ٹماٹر کے لیے قرض ملتا ہے۔‘ ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر کے علاقے ناسک میں کسانوں نے مئی کے مہینے میں ڈیڑھ روپے کلو ٹماٹر کی قیمت دیے جانے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے ٹماٹر سڑک پر پھینک دیے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c16e3g52lj2o", "summary": "زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں زرعی اجناس جیسا کہ گندم، دالوں اور آئل سیڈیز کی قلت ہے۔ ایسے میں کارپوریٹ فارمنگ کے شعبے میں سرمایہ کاری کی کوششیں ہو رہی ہیں مگر گرین پاکستان منصوبے میں فوج کو اہم ذمہ داریاں کیوں سونپی گئیں؟", "title": "’گرین پاکستان‘ منصوبہ کیا ہے اور اس میں فوج کو اہم ذمہ داریاں کیوں سونپی گئیں؟", "firstPublished": "2023-08-14T04:56:10.215Z", "id": "c16e3g52lj2o", "article": "اس کونسل میں ایک شعبہ کارپوریٹ فارمنگ کا بھی شامل ہے۔ اس شعبے میں کب سے سرمایہ کاری کی کوششیں ہو رہی ہیں، فوج کو اس میں اہم ذمہ داریاں کیوں سونپی گئی ہیں، اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے مطلوبہ زمین اور پانی دستیاب ہے اور کیا اس منصوبے سے مقامی کسانوں کی زندگی پر اثرات مرتب ہوں گے؟ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں زرعی اجناس جیسا کہ گندم، دالوں اور آئل سیڈیز کی قلت ہے۔ ’ماضی میں جو پاکستان میں سبز انقلاب آیا وہ ان ہی اداروں کی مدد سے آیا۔ فوج کا کمپیریٹیو ایڈوانٹج (کسی معاشی سرگرمی کو دوسرے افراد یا گروہوں سے زیادہ مؤثر طریقے سے سرانجام دینے کی صلاحیت) ایسے شعبوں میں نہیں بلکہ سیکیورٹی میں ہے۔ حکومت ایک طرح سے فوج کو ان معاملات میں الجھا رہی ہے، جس میں اُن کی مہارت نہیں۔ یہ پرائیوٹ سیکٹر کا کام ہے، اُن کو پُرکشش پیشکش دیں تاکہ وہ بہتر طریقے سے زرعی مصنوعات میں ویلیو ایڈ کریں اور پھر اسے درآمد کریں۔ اس سے اُن کا بھی فائدہ ہو گا اور ملک کا بھی۔ زرعی شعبے میں جو سبسڈیز دے رہے ہیں، وہ ختم کریں۔‘ عمار جان کے مطابق ’اب ہم معیشت اور زراعت کو بھی میلیٹرائز کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جاگیرداروں پر تو سوال اٹھا سکتے ہیں کیونکہ وہ سیاستدان ہوتے ہیں مگر جب زراعت میں بھی فوج آ جائے گی تو پھر کس میں اتنی جرات ہو گی کہ کسی وردی والے پر سوال اٹھائے۔ بڑے عرصے سے جو چھوٹے کسان یا مزارعے ہیں ان میں زمین تقسیم کی نہیں جا رہی لیکن جو سبز انقلاب ہے اس کا حل انھوں نے کارپوریٹ فارمنگ نکالا ہے جس کا فائدہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ہوتا ہے، عام کسان کو نہیں۔‘ ایس ڈی پی آئی کی جانب سے ’ایگریکلچر لینڈ اکوزیشن بائی فارن انویسٹرز‘ کے عنوان کے تحت ہونے والی تحقیق سے منسلک محقق انتونیا سی سیٹل لکھتی ہیں کہ پاکستان میں پانی کی قلت پہلے ہی مختلف کمیونٹیز اور صوبوں میں کشیدگی کا باعث بنتی ہے، سمندر میں دریا کا پانی نہ جانے کی وجہ سے سمندری کٹاؤ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، چولستان، تھر اور بلوچستان (جو غیر ملکی سرمایہ کاری کا ٹارگٹ ہیں) وہاں زراعت کا دارومدار زیر زمین پانی پر ہے اور ان علاقوں میں قحط سالی بھی دیکھنے میں آتی رہتی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gzveg5yj3o", "summary": "پاک فوج کو کھیتوں میں دیکھنا ایک پرانا خواب بھی ہے۔ جب سپہ سالار جنرل راحیل شریف کو لاہور میں انڈین بارڈر کے ساتھ 80 ایکٹر سے زیادہ زرعی زمین الاٹ ہوئی تھی تو قوم نے خواب دیکھا تھا کہ جب وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کُرتا لاچا پہن کر اپنی زمین پر چارپائی ڈال کر مونچھوں کو تاؤ دیں گے تو پھر ہندوستان کو پتہ چلے گا کہ ہم کس مٹی سے بنے ہیں۔", "title": "کسان بھائی، فوجی بھائی: محمد حنیف کا کالم", "firstPublished": "2023-08-12T04:06:26.824Z", "id": "c3gzveg5yj3o", "article": "یہ ہمارے جدید کارپوریٹ کسانوں کا ہی کمال ہے کہ انھوں نے عین وسطی پنجاب کے بیچ بنجر زمین ڈھونڈ لی۔ اگر کبھی اس علاقے کے آس پاس کا سفر کیا ہو تو علم ہو گا کہ یہ پاکستان کی زرخیز ترین زمین سمجھی جاتی ہے، اور یہاں کے کسان بغیر کسی کارپوریٹ فارمنگ کے بھی نسبتاً خوشحال ہیں۔ میں نے خود دو ایکٹر کاشت کرنے والوں کو اپنے بچے بچیاں یونیورسٹی میں پڑھاتے دیکھا ہے۔ یہ خیال بھی آیا کہ اگر پاک فوج کاشتکاری کرے گی تو پھر کاشتکار کیا کریں گے؟ لیکن پھر اس فارم کی ویڈیو دیکھی تو تسلی ہوئی، حالانکہ اس فارم میں زیادہ تر کام خود کار مشینیں کر رہی ہیں لیکن کسان موجود ہیں بس انھوں نے گرین پاکستان والے لوگو کے ساتھ کوٹ اور ہیلمٹ پہن رکھے ہیں۔ ایک منشی نما شخص نے گوروں والا ہیٹ بھی پہن رکھا ہے۔ پاک فوج کو کھیتوں میں دیکھنا ایک پرانا خواب بھی ہے۔ جب سپہ سالار جنرل راحیل شریف کو لاہور میں انڈین بارڈر کے ساتھ 80 ایکٹر سے زیادہ زرعی زمین الاٹ ہوئی تھی تو قوم نے خواب دیکھا تھا کہ جب وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کُرتا لاچا پہن کر اپنی زمین پر چارپائی ڈال کر مونچھوں کو تاؤ دیں گے تو پھر ہندوستان کو پتہ چلے گا کہ ہم کس مٹی سے بنے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کو سعودی عرب میں بہتر نوکری مل گئی، اب پتہ نہیں ان کی زمین پر کارپوریٹ فارمنگ ہوتی ہے یا بس ٹھیکے پر دے دی۔ پاکستانی فوج کے غیرفوجی دھندوں پر کبھی کبھار تنقید ہوتی رہتی ہے لیکن اب چونکہ فوج نے زرعی انقلاب اور سنگلاخ پہاڑوں کا سینہ چیر کر قیمتی معدنیات نکالنے کی ٹھان رکھی ہے تو مان جانا چاہیے کہ فوج کے پاس یہ سب کچھ کرنے کے لیے ’ایف ڈبلیو او‘ جیسے ادارے موجود ہیں جو ملک کے طول و عرض میں سڑکوں اور پُلوں کا جال بچھا چکے ہیں، ان کے پاس بنجر زمینوں کو آباد کرنے اور پہاڑوں کا سینہ چیرنے کے لیے ہیبت ناک مشینری بھی موجود ہے۔ پاکستان کی جید دفاعی تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ کو ایک انٹرویو میں فوج کے زرعی انقلاب کے رستے میں حائل مشکلات کا ذکر کرتے سُنا۔ انھوں نے ہاریوں اور چھوٹے کسانوں کا ذکر کیا، پھر فرمایا کہ اس زرعی انقلاب کے لیے پانی کہاں سے آئے گا۔ پھر انھوں نے سپہ سالار جنرل عاصم منیر کو مخاطب کر کے کہا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ یہ زرعی انقلاب شروع کرنے کے بعد منیر نیازی کا یہ شعر پڑھتے پائے جائیں: لیکن عائشہ صدیقہ سے نہایت ادب سے اختلاف کرنا چاہوں گا کیونکہ اگر واقعی جنرل عاصم منیر کو ایک اور دریا کا سامنا ہوا تو انھیں منیر نیازی یاد نہیں آئے گا، وہ ایف ڈبلیو او والوں کو بُلا کر کہیں گے بناؤ ایک اور پُل اس دریا پر، دوسری طرف والی بنجر زمین پر بھی ایک کارپوریٹ فارم بناتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g697ze5p3o", "summary": "روسی صدر ولادیمیر پوتن نے جوہری طاقت سے چلنے والے کروز میزائل کے ’حتمی کامیاب تجربے‘ کا دعویٰ کیا ہے۔ ", "title": "روس نے لامحدود رینج والے جوہری میزائل کا ’حتمی کامیاب تجربہ‘ کر لیا: ولادیمیر پوتن کا دعویٰ", "firstPublished": "2023-10-06T10:04:05.810Z", "id": "c3g697ze5p3o", "article": "روسی صدر ولادیمیر پوتن نے جوہری طاقت سے چلنے والے کروز میزائل کے ’حتمی کامیاب تجربے‘ کا دعویٰ کیا ہے۔ صدر کے ترجمان نے اخبار نیو یارک ٹائمز کی اس رپورٹ کو مسترد کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بیوروزنک نامی ہتھیار کی آزمائش ہونے جا رہی ہے۔ اس کے بعد صدر نے یہ بیان دیا۔ اس تجرباتی ہتھیار کا سب سے پہلے 2018 میں اعلان کیا گیا تھا۔ اسے یہ کہہ کر سراہا گیا تھا کہ اس کی ممکنہ طور پر لامحدود رینج ہے۔ صدر پوتن کے بیان کی آزادانہ تصدیق نہیں ہوسکی جبکہ روسی وزارت دفاع کی جانب سے ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ پوتن نے جمعرات کو سوچی کے بحیرہ اسود کے ریزورٹ میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے جدید قسم کے سٹریٹجک ہتھیاروں پر کام مکمل کر لیا ہے جس کے بارے میں، میں نے بات کی تھی اور جس کا چند سال پہلے اعلان کیا تھا۔‘ ’بیوروزنک کا حتمی کامیاب تجربہ ہوا ہے۔ یہ عالمی رینج کا جوہری طاقت سے چلنے والا کروز میزائل ہے۔‘ نیٹو اتحاد نے اس میزائل کو سکائی فال کا نام دیا ہے جو جوہری ری ایکٹر سے چلایا جاتا ہے۔ ٹھوس ایندھن کے راکٹ بوسٹر اسے ہوا میں چھوڑ کر فعال کرتے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز نے اسلحہ کنٹرول مہم کے گروپ نیوکلیئر تھریٹ انیشی ایٹو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2017 اور 2019 کے درمیان سسٹم کے پچھلے 13 ٹیسٹ ناکام رہے تھے۔ پوتن نے اپنے سامعین کو یہ بھی بتایا کہ سرمت نامی بین البراعظمی بیلسٹک میزائل پر کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ اس واضح انکشاف کے باوجود پوتن نے کہا ہے کہ روس کا اپنے جوہری نظریے کو تبدیل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ یہ وہ پالیسی ہے جو ان حالات کا تعین کرتی ہے جن میں اس کی افواج جوہری ہتھیار استعمال کر سکتی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ روسی ریاست کا وجود خطرے میں نہیں ہے اور ’صحیح دماغ اور واضح حافظے والا کوئی بھی شخص‘ اس کے خلاف جوہری حملے پر غور نہیں کرے گا۔ لیکن انھوں نے عندیہ دیا کہ روس نظریاتی طور پر 1996 کے نیوکلیئر ٹیسٹ پر پابندی کے معاہدے پر عملدرآمد روک سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح امریکہ نے دستخط کیے تھے لیکن کبھی اس کی توثیق نہیں کی، روس کا بھی ایسا کرنا ممکن ہے۔ سوچی میں اسی ملاقات کے دوران پوتن نے کہا کہ اگست میں ویگنر گروپ کے رہنما یوگینی پریگوزین کی ہلاکت کا طیارہ حادثہ ’بیرونی مداخلت‘ جیسے میزائل حملے کی وجہ سے نہیں ہوا تھا۔ صدر نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ جہاز پر دستی بم کیسے پھٹ سکتا تھا لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں تفتیش کاروں کو لاشوں پر الکوہل اور منشیات کے ٹیسٹ کروانے چاہیے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxegd4ppejno", "summary": "ان پانچ قیدیوں کی ایرانی جیلوں سے رہائی اس وقت ممکن ہو پائی جب ایران کے جنوبی کوریا کے بینکوں میں منجمد 6 ارب ڈالر ایران کو ادائیگی کی غرض سے دوحہ کے بینکوں میں پہنچائے گئے۔", "title": "’یرغمالی معاہدہ‘: 6 ارب ڈالر کی ادائیگی کے عوض ایران سے رہائی پانے والے امریکی شہری کون ہیں؟", "firstPublished": "2023-09-13T13:08:36.510Z", "id": "cxegd4ppejno", "article": "ان پانچ قیدیوں کی ایرانی جیلوں سے رہائی اس وقت ممکن ہو پائی جب ایران کے جنوبی کوریا کے بینکوں میں منجمد 6 ارب ڈالر ایران کو ادائیگی کی غرض سے دوحہ کے بینکوں میں پہنچائے گئے۔ 6 ارب ڈالر کی ایران منتقلی کے بعد ایک خاتون سمیت ان پانچ قیدیوں کو تہران سے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے قطر کے دارالحکومت کی جانب روانہ کر دیا گیا جہاں دوحہ پہنچنے پر سینیئر امریکی حکام نے اُن سے ملاقات کی جس کے بعد وہ واشنگٹن روانہ ہو گئے۔ ایران کی قید سے رہا ہونے والے ان پانچ امریکی باشندوں میں 51 سالہ تاجر سیامک نمازی بھی شامل ہیں جنھوں نے تہران کی بدنام زمانہ ’ایون جیل‘ میں تقریباً آٹھ سال گزارے ہیں۔ اسی طرح 59 برس کے تاجر عماد شرگی اور 67 سالہ ماہر ماحولیات مراد طہباز بھی رہائی پانے والوں میں شامل ہیں۔ ان قیدیوں کے دوحہ پہنچنے پر امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’آج ایران میں قید پانچ بے گناہ امریکی بالآخر وطن واپس آ رہے ہیں۔‘ یاد رہے کہ ایران کو ان افراد کی رہائی کے بدلے ناصرف 6 ارب ڈالر ملے ہیں بلکہ امریکہ میں قید پانچ ایرانی قیدیوں کو بھی رہا کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے تناظر میں عالمی پابندیوں کی زد میں ہے اور امریکہ اور دیگر ممالک میں موجود اس کے اثاثے اور بینکوں میں پڑی رقوم منجمد ہیں، یعنی سادہ الفاظ میں ایران کو غیرممالک میں موجود اپنی رقوم اور اثاثوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کانگریس کو بتایا تھا کہ 6 ارب ڈالر کی یہ رقم ایران کو ’محدود فائدہ‘ فراہم کرے گی کیونکہ اسے صرف عوامی فلاح کی غرض سے استعمال کیا جا سکے گا۔ یاد رہے کہ سنہ 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ بین الاقوامی جوہری معاہدہ معطل کرتے ہوئے معاشی پابندیاں بحال کر دی تھیں۔ اُس وقت سے دنیا بھر کے بینکوں میں موجود وہ اربوں ڈالر منجمد کر دیے گئے تھے جو تیل اور دیگر برآمدات کے بدلے میں مختلف ممالک کی جانب سے ایران کو ادا کیے جانے تھے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ایران کو 6 ارب ڈالر کے فنڈز تک براہ راست رسائی حاصل نہیں ہو گی اور امریکہ کی طرف سے اس سارے معاملے کی ’کڑی نگرانی‘ ہو گی کہ یہ رقم کہاں خرچ ہو گی۔ ان سب یقین دہانیوں کے باوجود، خارجہ امور کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کے ریپبلکن چیئرمین نے بائیڈن انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اس ڈیل کو ’6 ارب ڈالر کا یرغمالی معاہدہ‘ قرار دیا ہے۔ انھیں اکتوبر 2015 میں پاسداران انقلاب نے گرفتار کیا تھا، جب کہ اُن کے والد 86 سالہ باقر نمازی کو فروری 2016 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب جب وہ اپنے بیٹے سے ملاقات کے لیے جیل گئے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp056rzl8lgo", "summary": "روس اور شمالی کوریا کے رہنما اپنی عوامی محبت کے اظہار میں زیادہ بات نہیں کرتے تاہم ولادیمیر پوتن اور کم جونگ دونوں کو ہی قریبی تعلقات سے ممکنہ فوائد واضح نظر آ رہے ہیں۔ ", "title": "روس اور شمالی کوریا کی بڑھتی قربت پوتن اور کم جونگ میں گہری دوستی کی علامت یا صرف ضرورت؟ ", "firstPublished": "2023-09-14T08:14:48.303Z", "id": "cp056rzl8lgo", "article": "شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن نے روس میں ولادیمیر پوتن سے ملاقات کی ہے جس میں اسلحے کے معاہدے کی توقع کی جا رہی ہے۔ روس کے سرکاری میڈیا کے مطابق ووسٹوچنی خلائی مرکز میں بات چیت ختم ہونے کے بعد شمالی کوریا کے رہنما کم جانگ اُن نے اپنی نجی بکتر بند ٹرین میں سفر کیا۔ کم جونگ اُن نے صدر پوتن کو بتایا کہ ’روس مغرب کی بالادستی کی طاقتوں کے خلاف اپنی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لیے ایک مقدس جنگ میں کھڑا ہوا ہے۔‘ ولادیمیر پوتن اور کم جونگ ان میں بہت کچھ مشترک ہے۔ یہ دونوں کم ہی ملک سے باہر نکلتے ہیں۔ صدر پوتن بھی رواں برس روس سے باہر نہیں گئے ہیں۔ کم جونگ تو چار برس سے اپنے ملک سے باہر نکلے ہی نہیں۔ روس اور شمالی کوریا دونوں پر ’غاصب ریاستیں‘ بننے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ دونوں ہی سخت بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں ہیں۔ دونوں حکومتیں امریکہ کی ’تسلط پسندی‘ کے خلاف ہیں۔ اکثر ایک مشترکہ دشمن، رہنماؤں کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتا ہے اور یہی معاملہ صدر پوتن اور کم جونگ کا ہے۔ روس اور شمالی کوریا کے رہنما اپنی عوامی محبت کے اظہار میں زیادہ بات نہیں کرتے تاہم ولادیمیر پوتن اور کم جونگ دونوں کو ہی قریبی تعلقات سے ممکنہ فوائد واضح نظر آ رہے ہیں۔ لیکن ایک طاقت عالمی نظام کو الٹ دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یوکرین پر اپنے بھر پور حملے سے ولادیمیر پوتن نے عالمی نظام کو روس کی پسند کے مطابق بنانے کے اپنے عزم کا اشارہ دیا۔ شمالی کوریا کے ساتھ فوجی تعاون اس کی ایک اور علامت ہو سکتی ہے۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ روس اور شمالی کوریا کے درمیان ہتھیاروں کی بات چیت ’فعال طور پر آگے بڑھ رہی ہے‘ جس میں روس مبینہ طور پر گولہ بارود اور توپ خانے کے گولوں کی فراہمی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ روسی حکام کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی لیکن بہت سارے غیر واضح اشارے ہیں کہ روس اور شمالی کوریا فوجی تعاون کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ شمالی کوریا روس سے اور کیا حاصل کرنے کی امید کر سکتا ہے؟ یقینی طور پر شمالی کوریا کی خوراک کی کمی کو دور کرنے میں انسانی امداد۔ اس کو حاصل کرنے میں مدد کے ایک طریقہ کے طور پر پیانگ یانگ کے ساتھ معاہدے کو اچھی طرح دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ شمالی کوریا کی مدد کے بغیر روس کی جنگی سازوسامان رک جائے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg88y3p056o", "summary": "جوہری تحقیق کے ابتدائی سالوں میں بعض سائنسدانوں کو یہ خدشہ تھا کہ کھلے ایٹموں کے ٹوٹنے سے رد عمل کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے جو زمین کو تباہ کر دے گا۔", "title": "کرہ ارض کو ’بھسم کر دینے والی جوہری آگ‘ کا خدشہ کیسے پیدا ہوا؟", "firstPublished": "2023-09-11T07:23:14.328Z", "id": "crg88y3p056o", "article": "جوہری تحقیق کے ابتدائی سالوں میں بعض سائنسدانوں کو یہ خدشہ تھا کہ کھلے ایٹموں کے ٹوٹنے سے رد عمل کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے جو زمین کو تباہ کر دے گا۔ کرسٹوفر نولان کی فلم ’اوپنہائمر‘ میں ایک منظر ہے جس میں مین ہٹن پراجیکٹ کے کچھ سائنسدانوں کو یہ لگ رہا ہے کہ ایٹم بم کا پہلا تجربہ زمین کو بھسم کر دے گا۔ اگرچہ آج کی مصنوعی ذہانت اور اس وقت کے جوہری ہتھیاروں کے خدشات کے درمیان مقابلہ کرنا ذرا زیادہ دور کی کوڑی لانا ہو سکتا ہے لیکن جس طرح سے یہ تشویش فرسودہ قیاس آرائیوں سے لے کر سنگین تشویش کی طرف بڑھی ہے وہ ہمیں آج کی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کے متعلق خوف کے بارے میں سبق دے سکتی ہے۔ ردرفورڈ نے ’مذاق‘ میں کہا کوئی ’احمق‘ ہی ہوگا جو لیب میں انجانے میں کائنات کو اڑا دے۔‘ سوڈی نے اس کے بعد کہا کہ کو کوئی اس ’لیور‘ یا بٹن پر ہاتھ رکھ سکتا ہے جس سے ’کرۂ ارض تباہ ہو جائے۔‘ وہاں سے سائنس نے اپنی شکل اختیار کرنی شروع کی۔ سنہ 1903 کے آخر میں ایسے مضامین شائع ہوئے جو یہ کہہ رہے تھے کہ ’ایک چابی کو چھوتے ہی‘ سلسلہ وار رد عمل کے نتیجے میں ’پوری زمین اڑ سکتی ہے‘۔ سنہ 1909 میں آئرلینڈ کے ماہر ارضیات جان جولی نے اس افسانہ سازی میں ایک نیا جزو شامل کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس سے ان نئے ستاروں کی وضاحت ہو سکتی ہے جو رات کو آسمان میں وقتاً فوقتاً چمکتے ہیں۔ کئی دوسرے سائنسدانوں نے یہ قیاس لگایا کہ شاید وہ دور دراز کے سیارے ہیں جو جوہری رد عمل کے نتیجے میں حادثات سے گزر رہے ہیں۔ یہ مفروضہ قائم کیا گیا کہ ’ستاروں میں نظر آنے والے دھماکے کاسموکلاسٹک دھماکوں‘ کے نتائج ہو سکتے ہیں جو اجنبی تہذیبوں کی سائنسی چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں ہوئے ہوں۔ اس مذاق کے باوجود کہ کس طرح زمین کے بھسم ہو جانے سے ’مریخ کے ساحلوں پر سن باتھ لیا جا سکتا ہے‘ کارل ینگ سمیت بہت سے دانشور اس نظریہ کا حوالہ دیتے رہے کہ نووا (ستارہ جو جل کر بچھ جاتا ہے) دور دراز کے اٹامک ٹیسٹ میں خرابی کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔ آج جب اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت سے متعلق بربادی کے عجیب وغریب مفروضوں کی بات ہو رہی ہے تو یہ سوچ سمجھ کر جانچ پڑتال کا سبب ہونا چاہیے نہ کہ جلد بازی میں برطرف کر دیے جانے کا۔ بہر حال جوہری خوف کے معاملے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کس طرح ایک قیاس آرائی پر مبنی بھوت بہت سے لوگوں کی توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے سائنس فکشن سے نکل کر ٹھوس حقیقت تک جا سکتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cevz8pwq1kpo", "summary": "شمالی کوریا کے رہنما کم جانگ ان نے ایک عالی شان تقریب میں اپنے ملک کی ایک نئی ’جوہری‘ آبدوز کی رونمائی کی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ دراصل سرد جنگ کے عرصے میں بننے والی آبدوز ہے جس میں کچھ حد تک جدت لائی گئی ہے۔", "title": "شمالی کوریا کی نئی ’جوہری آبدوز‘ عالمی سلامتی کے لیے ’سنگین خطرہ‘ ہے یا پرانی آبدوز کا ’جدید روپ‘؟", "firstPublished": "2023-09-09T13:51:11.064Z", "id": "cevz8pwq1kpo", "article": "شمالی کوریا کے رہنما کم جانگ ان نے ایک عالی شان تقریب میں اپنے ملک کی ایک نئی ’جوہری‘ آبدوز کی رونمائی کی ہے۔ سرکاری میڈیا نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس آبدوز کے بدولت ملک کے جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔ اس آبدوز کا نام ’ہیرو کم کن اوک‘ رکھا گیا ہے۔ یہ شمالی کوریا کی بحریہ کے ایک تاریخی افسر کے نام سے منسوب کی گئی ہے۔ سرکاری میڈیا کی طرف سے جاری کی گئی تصویروں میں شمالی کوریا کے رہنما کو بحریہ کے افسروں کے درمیان دیکھا جا سکتا ہے جبکہ ان کے ساتھ ایک کالے رنگ کی بڑی آبدوز دیکھی جا سکتی ہے۔ تاہم اس بارے میں شکوک و شبہات موجود ہیں کہ آیا یہ واقعی ایک حملہ کرنے والی آبدوز ہے جس کا شمالی کوریا دعویٰ کر رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ دراصل سرد جنگ کے عرصے میں بننے والی آبدوز ہے جس میں کچھ حد تک جدت لائی گئی ہے۔ ایشیائی اور مغربی عسکری تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ شمالی کوریا نے دنیا کو جو کچھ دکھایا وہ سوویت دور کی رومیو کلاس آبدوز ہے، جسے سنہ 2019 میں کم جونگ ان کی جانب سے پہلے ہی ’پروپیگنڈا‘ کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی صلاحیت کو شامل کرنے کے لیے جدت لائی گئی ہے؟ اب تک جو کچھ دکھایا گیا ہے اس سے یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی آپریشنل صلاحیت ہے کیونکہ اسے صرف ایک شپ یارڈ میں دیکھا گیا تھا اور ایسی کوئی فوٹیج نہیں ہے جس سے اس کو جوہری صلاحیت والے میزائلوں کو نیویگیٹ کرتے یا کامیابی سے لانچ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہو۔ ریاستی میڈیا کی طرف سے نشر کی جانے والی تصاویر میں آبدوز کے سٹرن اور پروپیلرز کو دھندلا کر دیا گیا شاید یہ اس بات کو چھپانے کے لیے کیا گیا ہو سکتا ہے کہ یہ ایک پرانی آبدوز ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس طرح کی صلاحیت کی موجودگی کو شمالی کوریا کے لیے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی مہم جوئی میں ایک اور اہم قدم کے طور پر دیکھا جائے گا۔ ان کے حملے جنوبی کوریا، امریکہ اور جاپان کے آبدوز شکن اثاثوں کو بھی غیر متحرک کر سکتے ہیں۔‘ جاپان نے اس پیش رفت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ چیف کیبنٹ سیکریٹری ہیروکازو ماتسونو نے کہا کہ شمالی کوریا کی فوجی سرگرمیاں ’ہمارے ملک کی سلامتی کے لیے ماضی کے مقابلے میں زیادہ سنگین اور قریب ترین خطرے کی نمائندگی کرتی ہیں۔‘ آبدوز کی رونمائی شمالی کوریا کے قیام کی 75 ویں سالگرہ سے کچھ دن پہلے سامنے آئی ہے۔ چین کے سرکاری میڈیا نے کہا ہے کہ تقریبات میں شرکت کے لیے بیجنگ سے ایک وفد شمالی کوریا پہنچے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw4xv3pwkvdo", "summary": "شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کے رواں ماہ متوقع دورہ روس بارے میں جیسے ہی خبر سامنے آئی تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں میں تشویش اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔", "title": "صدر پوتن اور کم جونگ کے درمیان ممکنہ ملاقات امریکہ اور اتحادیوں کے لیے کتنی پریشان کُن ہو سکتی ہے؟", "firstPublished": "2023-09-06T08:52:09.883Z", "id": "cw4xv3pwkvdo", "article": "شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کے رواں ماہ متوقع دورہ روس بارے میں جیسے ہی خبر سامنے آئی تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں میں تشویش اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ کم جونگ اُن اور روسی صدر ولادیمیر پوتن شمالی یوکرین کے خلاف جاری جنگ میں شمالی کوریا کی جانب سے روس کی حمایت اور اسے ہتھیاروں کی فراہمی میں معاونت فراہم کرنے کے امکان پر بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اور ان تمام عوامل نے شمالی کوریا اور روس کو ایک دوسرے کے زیادہ قریب آنے اور معاملات کو آگے بڑھانے کے امکانات کو مزید روشن اور واضح کر دیا ہے۔ امریکہ کچھ عرصے سے دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ ہتھیاروں کے معاہدے کے بارے میں خبردار کرتا رہا ہے، لیکن اب کم جونگ اُن اور ولادیمیر پوتن کے درمیان ممکنہ ملاقات اس معاملے کو ایک نئی نہج پر پہنچا سکتی ہے۔ فی الوقت امریکہ کی واحد ترجیح شمالی کوریا کے ہتھیاروں کو یوکرین میں فرنٹ لائن تک پہنچنے سے روکنا ہو گی، لیکن یہاں سیئول میں تشویش اس بات پر ہے کہ روس کو اپنے ہتھیار فروخت کرنے کے بدلے میں شمالی کوریا کو کیا ملے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر روس تیل اور خوراک کی مد میں ادائیگی کرتا ہے، تو وہ شمالی کوریا کی معیشت کو بحال کر سکتا ہے، جس کے نتیجے میں شمالی کوریا کے ہتھیاروں کے نظام کو بھی مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ یہ ان کے لیے آمدنی کا ایک اضافی ذریعہ ہے جو ان کے پاس فی الحال نہیں ہے۔‘ لیکن پیانگ یانگ ہمیشہ سے صرف چین پر انحصار کرنے کے بارے میں پریشان اور بے چین رہا ہے کیونکہ عالمی پابندیوں کی وجہ سے اسے مُشکلات کا سامنا ہے۔ اتحادیوں کی تلاش میں روس کے ساتھ، یہ کِم جونگ اُن کو اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافے کو ایک اچھا موقع فراہم کرتا ہے۔ کم جان اُن شمالی کوریا کو کبھی بھی آسانی سے معالات کے حل کی جانب جانے نہیں دیتے۔ وہ اپنی سکیورٹی کے بارے خاصے پریشان رہتے ہیں اور ہمیشہ سے ہی بیرون ملک دوروں کو خطرے سے بھرا خیال کرتے ہیں۔ ا یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے امریکی حکمت عملی کا ایک حصہ انٹیلیجنس جاری کرنا رہا ہے تاکہ ڈیل ہونے سے روکنے کی کوشش کی جا سکے۔ شمالی کوریا اور روس نے اب تک ہر اس تجویز کی تردید کی ہے کہ وہ ہتھیاروں کی تجارت کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ck783nl1xljo", "summary": "کامیکازی ڈرون درستگی کے ساتھ اہداف سے ٹکرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اپنے ہدف پر جا کر پھٹتے ہیں۔ سپیکر نے مزید کہا کہ ’انھوں نے ہمیں اوپر سے دیکھا اور پھر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے ہمیں دیکھ لیا ہے اور اب وہ ہمیں ڈھونڈ رہے ہیں اور ہمیں نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں تیزی سے واپس جانا چاہیے۔‘", "title": "یوکرین میں اندھا دھند برسنے والے کامیکازی ڈرون: ’وہ ہمیں ڈھونڈ رہے ہیں اور نشانہ بنا رہے ہیں‘", "firstPublished": "2023-08-31T12:24:57.850Z", "id": "ck783nl1xljo", "article": "روس نے جنگ کا مقصد ڈونباس کی ’آزادی‘ کو قرار دیا ہے جو لوہانسک اور ڈونیٹسک کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ لیکن اپنی زیادہ سے زیادہ افرادی قوت کے ساتھ یہ یوکرین کے وسائل کو بھی ہتھیانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیئو کو ملک کے جنوب میں ایک علیحدہ قسم کے حملے کا سامنا ہے۔ انھوں نے وضاحت کی کہ کامیکازی ڈرون درستگی کے ساتھ اہداف سے ٹکرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اپنے ہدف پر جا کر پھٹتے ہیں۔ سپیکر نے مزید کہا کہ ’انھوں نے ہمیں اوپر سے دیکھا اور پھر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے ہمیں دیکھ لیا ہے اور اب وہ ہمیں ڈھونڈ رہے ہیں اور ہمیں نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں تیزی سے واپس جانا چاہیے۔‘ ڈرون ہموی اور آگے جانے والے پک اپ ٹرک کے درمیان سڑک سے ٹکرا گیا جس سے ہم ایک میٹر تک دھول کے بادل میں غائب ہو گئے۔ اس دھول مٹی نے روسیوں کو نہ ہماری پوزیشن سے آگاہ کر دیا بلکہ ممکنہ طور پر ان کے نشانے بھی دھوئیں کے بادل کی نذر ہو گئے۔ سپیکر نے بتایا کہ دو ڈرونز اوپر آسمان پر تھے۔ ایک نگرانی کے لیے، دوسرا حملے کے لیے۔ جیسے ہی ہم ایک اور کچی سڑک پر واپس جاتے ہیں ہمیں ایک تباہ شدہ ہموی ( بکتر بند گاڑی) کی سیاہ باقیات دکھائی دیتی ہیں جس کا بکتر کھلا ہوا اور اس کا چھت ختم ہو گئی تھی۔ سڑک کے کنارے پڑی یہ گاڑی پہلے ہونے والے حملے کا شکار تھی۔ روس کے پاس اب ایسے ڈرونز ہیں جو اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے لیزر کا استعمال کرتے ہوئے پیئرز(جوڑوں) میں شکار کرتے ہیں۔ روس کی اس پیش قدمی پر یوکراینی کمانڈروں کا کہنا ہے کہ اس میں انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ واپس اپنے اڈے پہنچنے پر سپیکر نے مزید وضاحت دی اور بتایا کہ ’پچھلے دو ہفتوں میں، ڈرونز بہت زیادہ حملے کر رہے ہیں۔ کیونکہ روسی ان ڈرونز کو پڑھ اور سیکھ کر کمانڈ حاصل کر چکے ہیں۔ وہ اپنے ڈرون آپریٹرز کو تعلیم دے رہے ہیں اور ایسے میں ان پر غلبہ پانا یا ان سے لڑنا مشکل ہو رہا ہے۔‘ فوجیوں کو بلاشبہ اس باعث بہت فائدہ ہے جبکہ عام شہری اس سے نقصان میں ہیں۔ کوپیانسک کے ارد گرد یوکرین نے گذشتہ ستمبر میں دوبارہ قبضہ کر لیا تھا اور اب روسی ایک بار پھرعام لوگوں کے گھروں پر گولہ باری کر رہی ہیں۔ یہ گروہ ایسے صحت یاب ہونے والے افراد پر مشتمل ہے جو پہلے نشے کے عادی رہے تھے۔ یہ رضاکار اپنی تین ٹوٹی ہوئی وینیں خطرے میں پڑنے والے دیہاتوں تک ان کی مدد کے لیے لے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے انھوں نے تقریباً 17 ہزار افراد کو بچایا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cll864vqgvmo", "summary": "2007 میں امریکی نیشنل سکیورٹی آرکائیو کے ڈائریکٹر ٹام بلینٹن نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس شخص نے حقیقت میں دنیا کو بچایا۔‘", "title": "وسیلی الیگزینڈرووچ: دنیا کو یقینی جوہری تباہی سے بچانے والا شخص جو گمنامی کی موت مرا", "firstPublished": "2023-08-27T03:23:38.820Z", "id": "cll864vqgvmo", "article": "27 اکتوبر 1962، دنیا جوہری جنگ کے دہانے پر تھی۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان کیوبا میں میزائل تنازع کسی بھی وقت جوہری جنگ میں بدل سکتا تھا۔ اس تنازع کے دوران واشنگٹن نے ماسکو سے مطالبہ کر رکھا تھا کہ وہ امریکی سرحد سے صرف 200 کلومیٹر دور کیوبا سے اپنے جوہری میزائل ہٹا لے۔ ان میں سے ہی ایک آبدوز میں ایک ایسا لمحہ آیا جب جوہری جنگ حقیقت کا روپ دھارنے کے قریب پہنچ گئی۔ ان دنوں میں کسی بھی سوویت آبدوز میں موجود تین کمانڈرز کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا تھا کہ اگر ان پر امریکی حملہ ہوا تو کیا وہ جواب میں جوہری تارپیڈو کا استعمال کریں یا نہیں۔ ایڈورڈ ولسن، جو ’دی مڈ نائٹ‘ کتاب کے مصنف ہیں، نے بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس شخص نے دنیا کو جوہری تباہی سے بچایا اور انھوں نے ماسکو کے پروٹوکول کے مطابق خود کو اس لمحے میں غلطی کرنے سے بچا لیا۔‘ ایڈورڈ کا کہنا ہے کہ ’اس کے علاوہ بھی چند عوامل تھے جن کی وجہ سے یہ جوہری حملہ نہیں ہوا اور اسی لیے مجھے اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ وسیلی کے اس کارنامے کو زیادہ شہرت کیوں نہیں ملی۔‘ اس دن دنیا امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان تنازعے کی خبر سے بیدار ہوئی۔ امریکی صدر جان کنیڈی نے اعلان کیا کہ ان کو علم ہوا ہے کہ سوویت یونین نے کیوبا کے جزیرے پر جوہری ہتھیار نصب کیے ہیں۔ ایڈورڈ کہتے ہیں کہ پنٹاگون کی رپورٹ کے مطابق امریکی جہاز نے آبدوز کو سمندر کی سطح پر آنے کے لیے کوششیں شروع کر دیں اور ایمونیشن فائر کرنا شروع کر دیا۔ آبدوز تنازعے کی وجہ سے مکمل خاموشی رکھے ہوئے تھی اور اس کا سوویت ہائی کمان سے رابطہ منقطع تھا۔ اس حملے کے باعث کپتان سویٹسکی نے تین سینئر افسران کا اجلاس بلا لیا جن میں سے ایک وسیلی تھے جو ڈپٹی کمانڈر تھے۔ سمندر کی سطح سے آگ کی طرح برسنے والے گولوں سے پریشان کپتان نے کہا کہ اس صورت حال میں سب سے بہتر جواب جوہری تارپیڈو سے دیا جا سکتا ہے۔ ایڈورڈ ولسن کہتے ہیں کہ ’وسیلی واحد فرد تھا جس نے انکار کیا۔ یہ بات درست ہے کہ اس میں ان کی شہرت کا بھی عمل دخل تھا۔ ایک سال قبل انھوں نے ایک آبدوز کو اس وقت بچایا تھا جب اس کا ری ایکٹر گرم ہو گیا تھا۔‘ امریکی نشریاتی ادارے پی بی ایس کی ڈاکومینٹری کے مطابق وسیلی کی اہلیہ اولگا نے بتایا کہ ان کے شوہر اس بات پر کافی مایوس تھے کہ ان کے فیصلے پر افسران نے منفی ردعمل دیا۔ 2007 میں امریکی نیشنل سکیورٹی آرکائیو کے ڈائریکٹر ٹام بلینٹن نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس شخص نے حقیقت میں دنیا کو بچایا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy6yw58yeexo", "summary": "روتھ اور ان کے والد اس بات سے ناواقف تھے کہ وہ اوک رج نیشنل لیبارٹری کے لیے کام کر رہے تھے، جو مشہور مین ہٹن پروجیکٹ میں ایٹم بم بنانے کے خفیہ امریکی منصوبے کا ایک اہم حصہ تھا۔ ", "title": "’لٹل بوائے‘: وہ لڑکیاں جنھوں نے انجانے میں ہیروشیما پر گرائے جانے والے تباہ کُن ایٹم بم کی تیاری میں مدد کی", "firstPublished": "2023-08-07T09:42:48.250Z", "id": "cy6yw58yeexo", "article": "ان لڑکیوں کو بعد میں پتا چلا کہ وہ اس ایندھن کو بنانے کا کام کر رہی تھیں جس سے ایٹم بم تیار ہوا روتھ نے فیصلہ کیا کہ وہ اچھی تنخوا پر ایک بڑی فیکٹری میں کام کرنے کا موقع نہیں گنوائیں گی۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ امریکہ کے شعبۂ توانائی کے اس بڑے پراجیکٹ میں اگر انھیں نوکری کرنے کا موقع مل گیا تو ان کے لیے اس سے بہتر اور کیا ہو گا۔ روتھ اور ان کے والد اس بات سے ناواقف تھے کہ وہ اوک رج نیشنل لیبارٹری کے لیے کام کر رہے تھے، جو مشہور مین ہٹن پروجیکٹ میں ایٹم بم بنانے کے خفیہ امریکی منصوبے کا ایک اہم حصہ تھا۔ اس پر حال ہی میں ریلیز ہونے والی مشہور فلم اوپن ہائیمر ہے۔ اوپن ہائیمر وہ ماہر طبیعیات ہیں جو پہلا جوہری ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ روتھ ان تقریباً 10,000 نوجوانوں کے گروپ کا حصہ تھیں جو نادانستہ طور پر ایک ایسے کام میں مصروف تھے جو ’لٹل بوائے‘ کو بنانے میں کلیدی حیثیت کا حامل تھا اور یہ لٹل بوائے نامی ایٹم بم دو سال بعد جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرایا جانے والا تھا۔ وہان 1,500 سے زیادہ کیلوٹرنز تھے اور اس ماس سپیکٹومیٹر کو امریکی جوہری کیمیا دان ارنسٹ لارنس نے یورینیم کی افزودگی کے لیے مین ہٹن پروجیکٹ کے حصے کے طور پر بنایا تھا اور یہ ایک انتہائی باریک اور حساس کام انجام دیتا تھا لیکن اس مشین کو چلانا اتنا پیچیدہ نہیں تھا۔ آپ کو بس میٹروں کی نگرانی کرنی ہوتی تھی اور یہ خیال رکھنا تھا کہ کب نوبز (گھنڈی) کو ایڈجسٹ کرنا ہے۔ روتھ نے وائی-12 میں کام پر اپنے پہلے دن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب انھوں نے ہمیں کام شروع کرنے کی اجازت دی، تو وہ ہمیں ایک ایسے کمرے میں لے گئے جو بھرا ہوا تھا، جسے ہم کیوبیکل کہتے تھے، جہاں دھات کے بڑے آلات نصب تھے جن میں ہر قسم کے گیجز تھے اون انھوں نے ہمیں ان کو چلانے کا طریقہ سکھایا تھا۔‘ یہ 6 اگست سنہ 1945 کی بات ہے جب امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرایا تھا اور اس کے بعد ہی انھیں بتایا گیا تھا کہ وہ دو سال سے کیا کام کر رہے تھے۔ روتھ یاد کرتی ہیں کہ اس دن انھوں نے کیسا محسوس کیا تھا۔ 'جب اس کا اعلان ہوا تو میں کام پر تھی۔ پہلے تو آپ یہ سوچ کر خوش ہوئے کہ جنگ ختم ہو گئی ہے۔ پہلی چیز جو میں نے سوچی وہ یہ تھی: ’اب میرا بوائے فرینڈ واپس آ سکے گا۔‘ انھوں نے اپنے ساتھی کے بارے میں کہا جسے بہت سے دوسرے نوجوان امریکیوں کی طرح اتحادیوں کی طرف سے لڑنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c9xje2927r8o", "summary": "نیو میکسیکو کو اس تجربے کے مقام کے لیے چنے جانے کی وجہ یہ تھی کہ یہاں میلوں تک کوئی انسانی آبادی نہیں تھی۔ لیکن یہ مکمل طور پر درست نہیں تھا۔", "title": "’ہمیں لگا دنیا ختم ہونے والی ہے‘: امریکہ کے پہلے جوہری تجربے کے متاثرین جنھیں دنیا سے چھپایا گیا", "firstPublished": "2023-07-27T12:26:35.184Z", "id": "c9xje2927r8o", "article": "نیو میکسیکو کو ایٹم بم کے تجربے کے مقام کے لیے چنے جانے کی وجہ یہ تھی کہ یہاں میلوں تک کوئی انسانی آبادی نہیں تھی۔ لیکن یہ مکمل طور پر درست نہیں تھا۔ تجربے کے مقام سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر کچھ مویشی پالنے والے لوگ (مویشی پال افراد) آباد تھے۔ تقریبا 80 کلومیٹر کے دائرے میں دیگر چھوٹے قصبے بھی موجود تھے جن میں مجموعی طور پر ہزاروں افراد بستے تھے۔ تاہم 16 جولائی 1945 کی صبح پانچ بج کر 30 منٹ پر ہونے والے دھماکے سے قبل ان لوگوں کو خبردار نہیں کیا گیا کہ ایسا کچھ ہونے جا رہا ہے۔ یہ دھماکہ اتنا طاقتور تھا کہ میلوں دور ایل پاسو جیسے شہروں تک میں اس کی روشنی دیکھی گئی۔ مین ہیٹن پراجیکٹ کے منصوبہ سازوں نے ’ٹرینیٹی ٹیسٹ‘ کے لیے نیو میکسیکو صحرا کا مقام اس لیے چنا تھا کیوں کہ 1940 میں یہاں آبادی نہیں تھی اور موسم بھی کافی حد تک ایک جیسا ہوتا تھا۔ لیکن اس وقت اس بات کا علم نہیں ہوا اور یہ اثرات بعد میں جا کر واضح ہوئے کیوںکہ امریکی حکومت کے مطابق تو یہ دھماکہ اسلحہ ڈپو کی وجہ سے ہوا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ نیو میکسیکو کے اس علاقے میں رہنے والوں کے پاس اس زمانے میں ٹی وی یا ریڈیو نہیں ہوا کرتا تھا اس لیے ان کو حقیقت کے بارے میں علم نہیں ہوا۔ جوہری تجربے کے بعد مقامی لوگ بیمار پڑنا شروع ہو گئے۔ لیکن کافی عرصے تک کسی کو شک نہیں ہوا کہ ان بیماریوں کا تعلق اس تجربے سے ہے۔ ٹینا کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے لوگوں کے لیے دھماکے کے مقام کو بند تک نہیں کیا۔ 1950 تک اس مقام پر جانے کے لیے کوئی قدغن نہیں تھی۔ آج اگر آپ اس جگہ جائیں تو وہاں خبردار کرنے والے پیغامات نظر آتے ہیں۔ سوچیں کہ ٹیسٹ کے مہینوں اور چند برسوں بعد تک وہ جگہ کیسی ہو گی۔‘ ٹیسٹ کے مقام پر قرب و جوار میں رہنے والے لوگ جاتے رہے۔ لوگ وہاں پکنک تک مناتے تھے کیوںکہ ان کو کوئی خوف نہیں تھا۔ چند لوگوں نے ٹرینائٹ نامی عجیب و غریب لیکن خطرناک پتھر بھی دریافت کیا جس کا جنم دھماکے سے ہوا تھا۔ ڈاکٹر کنسیلا کا کہنا ہے کہ دھماکے کے بعد چین ری ایکشن میں بم میں موجود پلوٹونیئم کی زیادہ مقدار استعمال نہیں ہوئی جو ہوا میں خارج ہو گئی۔ ’یہ کافی تشویش ناک چیز تھی کیوںکہ اس کے اثرات دیر تک رہتے ہیں اور یہ کافی خطرناک ہوتی ہے۔‘ یہ تجربے جن مقامات پر ہوئے ان کے قریب بسنے والی آبادی پر اثرات دہائیوں میں نظر آئے لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کی وجہ جوہری تجربہ ہی تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cx8y90znvejo", "summary": "رابرٹ اوپنہائمر کے مینہیٹن پراجیکٹ کے دوران لاپرواہی کے ایک معمولی لمحے نے ایک سائنسدان کی جان لی اور ایک دوسرے سائنسدان کو بُری طرح زخمی کر دیا۔ اس تحریر میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایٹم بم کی تیاری کے دوران اس حادثے نے ہمیں کیا سبق سکھایا۔", "title": "جب ایٹم بم کی تیاری کے دوران معمولی لاپرواہی ایک امریکی سائنسدان کی المناک موت کا سبب بنی", "firstPublished": "2023-07-24T04:19:59.762Z", "id": "cx8y90znvejo", "article": "وہ بم کی تیاری کے ماہر تھے اور انھوں نے اس میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ جولائی 1945 میں ان کی تیار کردہ ’ٹرینیٹی‘ ڈیوائس کی پہلی آزمائش ہوئی۔ اس کے ایک ماہ بعد جاپان پر ’فیٹ مین‘ اور ’لٹل بوائے‘ نامی ایٹم بم گرائے گئے۔ یہ جنگ میں استعمال ہونے والے دو واحد ایٹمی ہتھیار تھے۔ مگر لوئس سلوتن کو احساس ہوا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے منصوبے میں مزید کام نہیں کر سکتے اور یہ کہ وہ دوبارہ سویلین زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ اوپنہائمر کو یہ احساس اس منصوبے پر کام کرنے کے کئی ماہ بعد جا کر ہوا تھا۔ سلوتن اپنے متبادل سائنسدان ایلون گریوز کو ریسرچ سینٹر کا دورہ کروا رہے تھے۔ دوپہر تین بجے سے کچھ قبل لیبارٹری کی عمارتوں کے بیچ و بیچ گریوز نے بم کی تیاری کے مرکز ’کریٹیکل اسمبلی‘ کی جانب رُخ کیا۔ سلوتن یہاں کے ماہر تھے۔ یہ جوہری ہتھیاروں کی آزمائش کا طریقہ ہے جس میں پلوٹونیئم کور کی محفوظ انداز میں جانچ کی جاتی ہے۔ بظاہر پیچکس پھسل گیا اور رفلیکٹر کے گرنے سے پلوٹونیئم کور بے قابو ہو گیا۔ شرائبر نے لکھا ہے کہ ایسا ’ایک سیکنڈ کے دسیوں حصے میں ہوا۔‘ سلوتن نے اوپر موجود رفلیکٹر کو الٹا کر زمین پر رکھ دیا مگر اس ردعمل میں بہت دیر ہو چکی تھی۔ حادثے کے چند لمحات بعد کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ حادثے پر ایک اندرونی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تابکاری سے متاثر ہونے کے بعد انسان ’دانش مندانہ رویے کے قابل نہیں رہتے۔‘ اس کے مطابق انھیں چکر آ سکتے ہیں اور وہ اپنا توازن کھو سکتے ہیں۔ اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ آیا ایسا بے انتہا توانائی کے حامل پارٹیکلز کی وجہ سے ہوتا ہے یا جسم ایسا ردعمل موت کے قریب دیتا ہے۔‘ 1940 کی دہائی کے دوران ایٹم بم کی تیاری کے برعکس ڈنمارک کے فزیسسٹ نیلز بوہر سائنس کے نئے شعبے کوانٹم مکینکس پر کام کر رہے تھے۔ یہ وہ شعبہ ہے جو سائنس میں معروضیت کے اصولوں کو عیاں کرتا ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ سلوتن کی موت ایسی پہلی موت نہیں تھی۔ انھیں اس سال اسی طرح کے ایک حادثے میں اپنے ساتھی کی موت کا علم تھا۔ ہزاروں لوگ ان کی آخری رسومات میں شریک ہوئے۔ ان کے آبائی علاقے نے ایک پارک کو ان کا نام دیا۔ لیکن عوامی سطح پر اس بات پر بہت کم بحث ہوئی کہ ان کی موت کا مطلب کیا ہے۔ ایک محقق کے مطابق امریکی حکومت نے سلوتن کی موت پر ’رازداری برتی جو آج بھی قائم ہے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2dp6g326mo", "summary": "جنوبی کوریا کی سرحد پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کے باوجود امریکی فوج کا ایک سپاہی شمالی کوریا داخل ہوگیا ہے جسے اطلاعات کے مطابق کم جونگ ان کی زیرِ انتظام ریاست نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔", "title": "امریکی فوجی شمالی کوریا کی تحویل میں: ’وہ زور سے ہنسا اور شمالی کوریا کی طرف بھاگنے لگا‘", "firstPublished": "2023-07-19T13:09:38.169Z", "id": "cv2dp6g326mo", "article": "جنوبی کوریا کی سرحد پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کے باوجود امریکی فوج کا ایک سپاہی شمالی کوریا داخل ہو گیا ہے، جسے اطلاعات کے مطابق کم جونگ ان کی زیرِ انتظام ریاست نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ جنوبی کوریا نے اس میزائل لانچ کی تصدیق کی ہے اور اس حوالے سے خطے میں تناؤ بڑھ رہا ہے۔ اس کے کوئی شواہد نہیں کہ فوجی کی تحویل اور میزائل لانچ کا آپس میں کوئی تعلق ہے۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق کنگ کو جنوبی کوریا میں تشدد کرنے کے الزام پر تادیبی کارروائی کا سامنا تھا۔ سی بی ایس نیوز کے مطابق کنگ سیول میں ایئر پورٹ کی سکیورٹی عبور کرنے کے بعد کسی طرح ٹرمینل سے نکلنے میں کامیاب ہوئے اور سرحد کے دورے پر چلے گئے جہاں سے وہ سرحد عبور کر کے شمالی کوریا پہنچ گئے۔ اسی دورے پر ایک دوسرے شخص نے سی بی ایس کو بتایا کہ انھوں نے سرحد کے مقام پر ایک عمارت کا دورہ کیا تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق یہ صلح کی علامت گاؤں پانمنجوم میں واقع ہے۔ ان کے مطابق ’یہ شخص زور سے ہنسا اور کچھ عمارتوں کے بیچ و بیچ بھاگنے لگا۔‘ اب شمالی کوریا کی جانب سے ایک امریکی فوجی کو اپنی تحویل میں لینا امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے خارجہ پالیسی کا بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ خیال ہے کہ کنگ واحد امریکی شہری ہیں جو شمالی کوریا کی تحویل میں ہیں۔ وہاں ان کے علاوہ جنوبی کوریا کے چھ افراد بھی تحویل میں ہیں۔ 2017 میں امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب ایک سال قبل پروپیگنڈا کی علامت چُرانے کے الزام میں گرفتار امریکی طالبعلم کو امریکہ کے حوالے کیا گیا مگر وہ کوما میں تھے اور فوراً ان کی موت ہوگئی۔ ان کا خاندان اس موت کے لیے شمالی کوریا کے حکام کو قصوروار ٹھہراتا ہے۔ حال ہی میں امریکہ کی جوہری صلاحیت رکھنے والی ایک آبدوز 1981 کے بعد پہلی بار جنوبی کوریا کے ساحل پر تعینات کی گئی ہے۔ اس کا مقصد شمالی کوریا کی جانب سے جوہری خطرے کا مقابلہ کرنا ہے۔ ان میں سے ایک تازہ مثال آٹو وارمبیئر کی ہے۔ یونیورسٹی آف ورجینیا کے طلبعلم جنوری 2016 میں شمالی کوریا کے سیاحتی دورے پر گئے جہاں انھیں گرفتار کیا گیا۔ نئے سال کے موقع پر اس پانچ روزہ دورے کا منتظم چینی ٹوور آپریٹر تھا۔ وارمیئر کے والد نے اخبار واشنگٹن پوسٹ کو بتایا تھا کہ ان کا بیٹا شمالی کوریا کی ثقافت کے بارے میں جاننا چاہتا تھا اور عام لوگوں سے ملنا چاہتا تھا۔ وارمیئر کو تحویل میں لیے جانے کے دو ماہ بعد شمالی کوریا کی ایک عدالت نے انھیں پروپیگنڈا کے ایک پوسٹر کی چوری کے الزام میں 15 سال قید کی سزا سنائی۔ سزا کے بعد وہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر نیورولاجیکل زخم سے متاثر ہوئے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg27yzlpg9o", "summary": "یہ 16 جولائی 1945 کو صبح سویرے کا وقت تھا۔ رابرٹ اوپنہائمر کنٹرول بنکر میں اس لمحے کے منتظر تھے جو دنیا بدلنے والا تھا۔ نیو میکسیکو کے صحرا میں قریب 10 کلو میٹر دور دنیا کے پہلے ایٹم بم کی آزمائش چل رہی تھی جسے ’ٹرینیٹی‘ کا نام دیا گیا۔ ", "title": "ایٹم بم بنا کر ’جہانوں کے غارت گر‘ کہلانے والے اوپنہائمر کا فخر پچھتاوے میں کیسے بدلا؟", "firstPublished": "2023-07-15T05:12:15.024Z", "id": "crg27yzlpg9o", "article": "یہ 16 جولائی 1945 کو صبح سویرے کا وقت تھا۔ رابرٹ اوپنہائمر کنٹرول بنکر میں اس لمحے کے منتظر تھے جو دنیا بدلنے والا تھا۔ نیو میکسیکو کے صحرا میں قریب 10 کلو میٹر دور دنیا کے پہلے ایٹم بم کی آزمائش چل رہی تھی جسے ’ٹرینیٹی‘ کا نام دیا گیا۔ اوپنہائمر مینہیٹن پراجیکٹ کے جذبانی اور دماغی جزو تھے: کسی بھی دوسرے شخص کے مقابلے انھوں نے ہی ایٹم بم کو حقیقت میں بدلا۔ جنگ کے بعد ان کے ساتھ کام کرنے والے جیرمی برنسٹین کہتے ہیں کہ یہ کوئی اور نہیں کر سکتا تھا۔ خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیمبرج میں پوسٹ گریجویٹ تعلیم کے دوران بھی یہ مسائل جاری رہے۔ ان کے استاد انھیں لیبارٹری میں کام کرنے کا کہتے جو کہ اوپنہائمر کی کمزوری تھی۔ انھوں نے 1925 میں لکھا کہ ’میرا وقت بہت بُرا گزر رہا ہے۔ لیب میں کام کرنا بوریت کا باعث بنتا ہے۔ میں اس میں اتنا بُرا ہوں کہ مجھے نہیں لگتا کچھ سیکھ سکتا ہوں۔‘ ان کے مطابق ان کا محکمہ اسی وقت وقت وجود میں آگیا جب وہ اپنی پسندیدہ تھیوری دوسروں کو سمجھاتے تھے۔ وہ خود کو ’مشکل‘ استاد سمجھتے تھے مگر اسی کردار کی بدولت اوپنہائمر میں وہ حوصلہ آیا جس کی انھیں پروجیکٹ وائے کے دوران ضرورت تھی۔ ایک ساتھی نے ان کے طلبہ کے بارے میں لکھا کہ ’وہ انھیں بہترین سمجھتے، ان کی حرکات کی نقل اتارتے۔ اوپنہائمر نے ان کی زندگیوں کو متاثر کیا۔‘ اوپنہائمر کو اس منصوبے کے لیے بھرتی کرنے میں ان کی محبت الوطنی اور خواہش نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مینہیٹن انجینیئر ڈسٹرکٹ کے فوجی رہنما جنرل لیزلی گرووز ایٹم بم منصوبے کے لیے سربراہ سائنسدان کو ڈھونڈنے کے ذمہ دار تھے۔ اوپنہائمر کا ’انتہائی آزاد خیال پس منظر‘ ایک تشویش تھی۔ گرووز نے سائنس کی دنیا میں ان کے علم کی قدر جانی مگر وہ ان کی ایٹم بم کے حوالے سے اس پُرزور خواہش سے پریشان تھے۔ تاہم بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جب یہ کام ہوگیا تو اوپنہائمر کا اپنے مؤقف پر اعتماد لڑکھڑا گیا۔ برڈ اور شروین کے مطابق جنگ کے بعد اٹامک انرجی کمیشن میں تعیناتی کے دوران وہ مزید ہتھیار بنانے کی مخالفت کرتے تھے، خاص کر ہائیڈروجن بم جسے انھیں کی خدمات کی بدولت اب بنانا ممکن تھا۔ اوپنہائمر کو اپنی زندگی کی آخری دہائیوں کے دوران ایٹم بم بنانے کی تکنیکی کامیابی پر فخر تھا مگر اس کے اثرات پر دکھ بھی۔ انھیں بارہا کہا کہ بم کا بننا ناگزیر تھا۔ جب ہم اوپنہائمر کی شخصیت میں تضادات کی بات کرتے ہیں تو شاید یہی چیز تھی جس نے انھیں بم بنانے کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد کی۔ تحقیق میں مہارت کے علاوہ اوپنہائمر میں بم بنانے کی پُرزور خواہش تھی اور صرف وہی یہ تصور کرسکتے تھے کہ وہ اسے ممکن بنانے والے سائنسدان ہوں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/clj15g55pnyo", "summary": " رواں ہفتے امریکی صدر نے کہا کہ ’مجھے پوتن کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کرنے کی فکر رہتی ہے۔‘ ان کا ماننا ہے کہ یہ ’خطرہ‘ حقیقی ہے۔", "title": "کیا روس واقعی یوکرین میں جوہری جنگ کا ’جوا‘ کھیل سکتا ہے؟", "firstPublished": "2023-06-23T09:49:28.442Z", "id": "clj15g55pnyo", "article": "کیا روس واقعی یوکرین میں جوہری جنگ کا کھیل سکتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہم اس وقت سے پوچھ رہے ہیں جب روسی صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین پر حملے کا حکم دیا تھا۔ کیا اس جنگ میں کریملن جوہری راستہ اپنا سکتا ہے؟ رواں ہفتے امریکی صدر نے کہا کہ ’مجھے پوتن کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کرنے کی فکر رہتی ہے۔‘ ان کا ماننا ہے کہ یہ ’خطرہ‘ حقیقی ہے۔ اور صدر پوتن اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ روس کی جانب سے بیلاروس میں چھوٹے جوہری ہتھیار نصب کیے جا چکے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ اس کا مقصد ایسے عناصر کو یاد دہانی کروانا ہے جو ’ہمیں سٹریٹیجک شکست سے دوچار کرنے کا سوچ رہے ہیں۔‘ شاید یہ نئی بات نہیں ہے۔ لیکن اس مضمون کی حیران کن بات یہ ہے کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ یوکرین میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی بحث اب عوامی سطح پر ہو رہی ہے۔ اور اس بحث میں روس کے اندر جارحانہ عزائم رکھنے والے ہی حصہ نہیں لے رہے۔ ان کے مطابق ’جدید تاریخ میں ایسے متعدد عسکری آپریشنز کی مثالیں موجود ہیں جن کے ان دیکھے نتائج نکلے۔ لیکن ان میں جوہری ہتھیار استعمال نہیں کیے گئے۔ جوہری ہتھیار کے استعمال سے غیر متوقع صورت حال پیدا ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے اور تنازع کئی گنا بڑھ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’جوہری کھنڈرات جو ایسی جوہری چال کا نتیجہ ہوں گے ایک روشن مستقبل کی بدترین بنیاد ہوں گے۔ سنسنی خیز خیالات اور خطرناک جوا کھیلنے کے مداحوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے۔‘ یہ ممکن ہے کہ سرگئی کاراگانوو کی یہ تجویز اتنی حیران کن تھی کہ روس کے دیگر ماہرین کو محسوس ہوا کہ اب ان کے لیے خاموش رہنا ممکن نہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ روسی میڈیا ریاست کنٹرول کر رہی ہے، تاہم موجودہ حدود کے اندر رہتے ہوئے مخصوص موضوعات پر محدود بحث کی گنجائش موجود ہے۔ خصوصاً جوہری جنگ جیسے اہم موضوع پر۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ایک طے شدہ بحث تھی جس کا مقصد مغرب کی توجہ حاصل کرنا ہے تاکہ صدر پوتن سرگئی کاراگانوو جیسے لوگوں کے مقابلے میں بہتر انسان لگیں۔ آخر روسی صدر نے خود تو مغرب پر جوہری حملے میں پہل کی بات نہیں کی۔ اور اسی لیے بہتر ہو گا کہ ان کے ساتھ امن کی بات کی جائے اس سے پہلے کہ سرگئی کاراگانوو اور ان کے ہم خیال بازی لے جائیں اور جوہری بٹن دبا بیٹھیں۔ ایک بات واضح ہے کہ روس میں مغرب مخالف بیانیہ زور پکڑ رہا ہے اور یوکرین کی جانب سے جوابی عسکری حملے کے بعد جوہری سوال جلد دبنے والا نہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c809x2n7znzo", "summary": "روسی صدر کے مطابق ان جوہری ہتھیاروں کو صرف اس صورت میں استعمال کیا جائے گا جب روس کو اپنی سرزمین یا ریاست کو خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ ہو گا۔ دوسری جانب امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ انھیں کریملن کی جانب سے یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے جوہری ہتھیار استعمال کے کوئی اشارے نہیں ملے۔ ", "title": "روس نے کم رینج پر مار کرنے والے جوہری ہتھیار بیلاروس بھیجنے کا اعلان کیوں کیا؟ ", "firstPublished": "2023-06-17T09:58:35.490Z", "id": "c809x2n7znzo", "article": "روسی صدر نے ایک فورم پر اس حوالے سے مزید کہا کہ ان جوہری ہتھیاروں کو صرف اس صورت میں استعمال کیا جائے گا جب روس کو اپنی سرزمین یا ریاست کو خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ ہو گا۔ دوسری جانب امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ انھیں کریملن کی جانب سے یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے جوہری ہتھیار استعمال کرنے کے کوئی اشارے نہیں ملے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے صدر پوتن کے بیانات پر ردِعمل میں کہا ہے کہ ’ہمیں ایسے کوئی اشارے نہیں ملے جو روس کی جانب سے جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی تیاری کو ظاہر کریں۔‘ جب فورم کے منتظمین سے ان ہتھیاروں کے استعمال کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پوری دنیا کو کیوں دھمکائیں گے؟ ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ روسی ریاست کو خطرہ ہونے کی صورت میں انتہائی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔‘ جب فورم کے منتظمین سے ان ہتھیاروں کے استعمال کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پوری دنیا کو کیوں دھمکائیں گے؟ ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ روسی ریاست کو خطرہ ہونے کی صورت میں انتہائی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہم یہاں اس بات کو سننے اور جاننے کے لیے آئے ہیں کہ یوکرین کے عوام کس کرب سے گزرے ہیں۔‘تاہم یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ روس کو سفارتی طور پر روکنے کے بجائے اسے عالمی برادری کی جانب سے اس حملے کی مذمت پہنچانے کی ضرورت ہے اور اس پیغام کے لیے ضروری ہے کہ روس کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کئے جائیں۔ صدر زیلینسکی نے واصخ کیا ہے کہ کیئو ماسکو کے ساتھ جب تک مذاکرات کے عمل میں شامل نہیں ہو گا تب تک روس یوکرین کے علاقوں پر قابض رہے گا۔ دوسری جانب صدر پوتن نے اپنے اس دعوے کو بھی دہرایا ہے کہ یوکرین کو اپنے جوابی حملوں میں کامیابی ملنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ یوکرینی فوج کے پاس اب اپنے فوجی سازوسامان بھی ختم ہو رہا ہے اور وہ جلد ہی صرف مغربی ممالک کی جانب سے عطیہ کیے گئے ہتھیار کا ہی استعمال کرسکیں گے۔ روسی رہنما نے اقتصادی موضوعات پر بھی بات کی اور یہ دعویٰ کیا کہ روس پر لگائی جانے والی مغربی پابندیاں نہ صرف اسے تنہا کرنے کی کوشش میں ناکام رہیں بلکہ اس کے برعکس تمام ہتھکنڈے روس کو ’مستقبل کی منڈیوں‘ کے ساتھ تجارت میں توسیع کا باعث بنے۔ انھوں نے ایشیا، مشرق وسطیٰ اور لاطینی امریکہ کے ممالک کے ساتھ نئے معاہدوں کی تعریف کی اور انھیں قابل اعتماد اور ذمہ دار شراکت دار قرار دیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c9xn02wj6rko", "summary": "یوکرین جنگ: ویگنر کے سربراہ کا جون تک باخموت کو روسی فوج کے حوالے کرنے کا عہد کیا", "title": "یوکرین جنگ: ویگنر گروپ کا باخموت روس کے حوالے کرنے کا عہد", "firstPublished": "2023-05-22T13:42:13.937Z", "id": "c9xn02wj6rko", "article": "روس کے کرائے کے گروپ ویگنر کے سربراہ یفگینی پریگوژن نے یکم جون تک یوکرین کے شہر باخموت کا کنٹرول روسی فوج کے حوالے کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ یوگینی پریگوژن نے سنیچر کے روز باخموت پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن کیئو کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی شہر کے کچھ حصوں پر اس کا کنٹرول ہے۔ یوکرین کا کہنا ہے کہ اس کے فوجی اب بھی باخموت کے مضافات میں پیش قدمی کر رہے ہیں۔ لیکن یوگینی پریگوژن نے کہا کہ ان کے فوجی جمعرات سے شہر کو روسی فوج کے حوالے کرنا شروع کر دیں گے۔ پریگوژن نے ٹیلی گرام پر ایک آڈیو ریکارڈنگ میں کہا، ’ویگنر 25 مئی سے 1 جون تک آرٹیموسک چھوڑ دیں گے‘ باخموت کو سوویت انقلاب کے اعزاز میں آرٹیموسک کے نام سے جانا جاتا تھا بعد میں یوکرین نے اس کا نام تبدیل کر دیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ویگنر نے منتقلی سے قبل شہر کے مغرب میں ’دفاعی لائنیں‘ قائم کی تھیں۔ لیکن یوکرین کی نائب وزیر دفاع، ہانا ملیار نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ان کی افواج اب بھی شہر کے اندر قدم جما رہی ہیں اور مضافات میں پیش قدمی کر رہی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ان کی نقل و حرکت کی ’شدت‘ کم ہو گئی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماسکو کے لیے باخموت بہت کم تزویراتی اہمیت کا حامل ہے، لیکن یوکرین میں اب تک کی طویل ترین جنگ کے بعد اس پر قبضہ روس کے لیے ایک علامتی فتح ہوگی۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اتوار کو جاپان میں جی 7 سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اصرار کیا کہ باخموت پر روس کے ’قبضہ نہیں‘ ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ویگنر کو مبارکباد دی ہے۔ انہوں نے کئی بار اعلیٰ روسی فوجی حکام کو نشانہ بنایا ہے اور ان پر اپنے فوجیوں کی حمایت نہ کرنے پر عوامی سطح پر تنقید کی ہے۔ گزشتہ ماہ انہوں نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر انہیں انتہائی ضروری گولہ بارود فراہم نہ کیا گیا تو وہ اپنے فوجیوں کو شہر سے باہر نکال لیں گے۔ باخموت پر قبضہ روس کو ڈونیٹسک کے پورے علاقے کو کنٹرول کرنے کے اس کے ہدف کے قدرے قریب لے آئے گا، مشرقی اور جنوبی یوکرین کے چار خطوں میں سے یہ ایک ایسا خطہ ہے جس کا روس نے گزشتہ ستمبر میں ریفرنڈم کے بعد روس کے ساتھ الحاق کیا تھا، باہر بڑے پیمانے پر اس کی مذمت کی گئی تھی۔ اس ماہ کے شروع میں، امریکہ نے کہا تھا کہ اس کا خیال ہے کہ باخموت کی لڑائی میں 20,000 سے زیادہ روسی فوجی ہلاک اور 80,000 زخمی ہوئے ہیں۔ بی بی سی ان اعداد و شمار کی آزادانہ تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1rl9ql032xo", "summary": "مشن کو خفیہ رکھنے کے لیے ہر سائنسدان مختلف نام سے سفر کر رہا تھا اور سیدھا پوکھران جانے کے بجائے بہت گھوم کر وہاں پہنچ رہا تھا۔ ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن ڈی آر ڈی او کی ٹیم میں کل 100 سائنسدان تھے۔", "title": "جب انڈین فوج کی وردی پہنے سائنسدانوں نے امریکہ کو چکمہ دے کر انڈیا کا دوسرا ایٹمی تجربہ کیا", "firstPublished": "2023-05-11T07:36:04.789Z", "id": "c1rl9ql032xo", "article": "20 اپریل 1998 تک ’بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر‘ (بی اے آر سی) کے اعلیٰ سائنسدانوں کو انڈیا کے ایٹمی دھماکے کرنے کے فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ تمام افراد چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں پوکھران کی طرف جانا شروع ہو گئے تھے۔ مشن کو خفیہ رکھنے کے لیے ہر سائنسدان مختلف ناموں سے سفر کر رہے تھے اور سیدھا پوکھران جانے کے بجائے بہت گھوم کر اور متبادل راستوں سے وہاں پہنچ رہے تھے۔ ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن ڈی آر ڈی او کی ٹیم میں کل 100 سائنسدان تھے۔ ایٹم بم کا کوڈ نام ’کینٹین سٹورز‘ رکھا گیا تھا۔ بم دھماکوں کے لیے گرین سگنل ملنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ممبئی کے زیر زمین والٹ میں رکھے ان بموں کو پوکھران تک کیسے پہنچایا جائے۔ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اس جہاز میں جو کچھ رکھا گیا تھا وہ منٹوں میں پورے ممبئی شہر کو تباہ کر سکتا ہے۔ اے این 32 طیارے نے صبح سویرے ممبئی ایئرپورٹ سے اڑان بھری۔ دو گھنٹے بعد وہ جیسلمیر ہوائی اڈے پر اترا۔ وہاں ٹرکوں کا ایک اور قافلہ ان کا انتظار کر رہا تھا۔ پوکھران کا موسم بھی سائنس دانوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہا تھا۔ ایک رات بادل گرجنے کے ساتھ ایک خوفناک طوفان آیا۔ تمام سائنسدان ابھی ’پریئر ہال‘ سے واپس آئے تھے جہاں وہ نیوکلیئر ڈیوائس کو مجتمع کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ سائنسدان ایس کے سکّا اور ان کی ٹیم کو خدشہ تھا کہ اگر پریئر ہال پر آسمانی بجلی گرتی ہے تو اس سے نہ صرف آلات کو نقصان پہنچ سکتا ہے بلکہ انھیں وقت سے پہلے دھماکے کا خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ ایک رات اتنا زوردار طوفان آیا کہ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ حادثاتی طور پر آگ لگنے کے امکان سے بچنے کے لیے ایئر کنڈیشن چلانے کی بھی اجازت نہیں تھی اور سائنسدانوں کو انتہائی مشکل حالات میں کام کرنا پڑ رہا تھا۔ گرمی ایسی تھی کہ سائنسدان ہر وقت پسینے میں شرابور رہتے تھے۔ راج چینگپا لکھتے ہیں کہ ’ایک رات سائنسدان کوشک نے رات میں ایک سیٹلائٹ دیکھی، تین گھنٹے کے اندر اندر اس نے چار سیٹلائٹ گنے جو وہاں سے گزر رہے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ کوئی مسئلہ ہے، ورنہ ایک رات میں اتنی ساری سیٹلائٹس کی موجودگی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ہم نے اس لیے زیادہ محتاط رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران شرما نے کہا کہ ’ہم کسی قسم کا خطرہ مول لینے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘ سال 1998 میں بھی سی آئی اے نے پوکھران کے اوپر چار سیٹلائٹ رکھے تھے لیکن ٹیسٹ سے کچھ دیر پہلے صرف ایک سیٹلائٹ پوکھران کی نگرانی کر رہا تھا اور وہ بھی صبح 8 بجے سے 11 بجے کے درمیان اس علاقے کے اوپر سے گزرا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c80y149z27lo", "summary": "انڈیا کے نیوکلیئر پروگرام کو شروع کرنے والے ہومی بھابھا کی موت محض 56 سال کی عمر میں ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں ہوئی جس میں ان سمیت 117 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ بھابھا کی اچانک موت نے پورے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس حادثے سے متعلق کچھ قیاس آرائیاں یہ بھی ہیں کہ اس سازش میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔", "title": "ہومی بھابھا: انڈیا کے ایٹمی پروگرام کے بانی کی موت ایٹمی پروگرام کو روکنے کی سازش تھی یا محض حادثہ؟", "firstPublished": "2023-05-06T16:05:12.788Z", "id": "c80y149z27lo", "article": "یہ طیارہ دہلی، بیروت اور جنیوا کے راستے لندن جا رہا تھا۔ اس حادثے میں تمام 106 مسافر اور 11 فضائی عملے کے افراد ہلاک ہو گئے۔ کنچن جنگا تقریباً اسی جگہ گر کر تباہ ہوا جہاں اس سے قبل نومبر 1950 میں ایئر انڈیا کا ایک اور طیارہ 'مالابار شہزادی' گر کر تباہ ہوا تھا۔ انڈیا کے مالابار پرائز اور کنجن جنگا دونوں طیاروں کا ملبہ اور اس میں سوار لوگوں کی لاشیں کبھی نہیں مل سکیں اور نہ ہی اس طیارے کا بلیک باکس ملا۔ خراب موسم کے باعث طیارے کے ملبے کو تلاش کرنے کا کام روکنا پڑا۔ ہومی بھابھا کی عمر محض 56 سال تھی جب وہ اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ کاسمک ایز (کائناتی شعاعوں) پر کام کے حوالے سے بھابھا کو سب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے جس پر انھیں نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تاہم بھابھا کا اصل کارنامہ انڈیا کے جوہری توانائی پروگرام اور ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ کا قیام تھا۔ بھابھا کی اچانک موت نے پورے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ اس وقت کے سب سے بڑے صنعت کار جے آر ڈی ٹاٹا کے لیے دوہرا نقصان تھا۔ ان کے بہنوئی گنیش برٹولی جو ایئر انڈیا کے یورپ کے لیے علاقائی ڈائریکٹر تھے، اسی طیارے میں سفر کر رہے تھے۔ اس حادثے سے متعلق کچھ قیاس آرائیاں یہ بھی ہیں کہ اس سازش میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔ سال 2008 میں ایک کتاب ’کنورسیشن ودھ دا کرو‘ (Conversations with the Crow) میں سی آئی اے کے سابق افسر رابرٹ کراؤلی اور صحافی گریگوری ڈگلس کے درمیان ہونے والی ایسی مبینہ گفتگو شائع ہوئی ہے جس سے لوگوں کو یہ تاثر ملا کہ اس حادثے میں سی آئی اے ملوث ہو سکتی ہے۔ بھابھا کے سوانح نگار بختیار کے دادا بھائی لکھتے ہیں۔ ’بھابھا کی موت اٹلی کے تیل کے ایک تاجر اینریکو میٹی کی طرح تھی۔ انھوں نے اٹلی کا پہلا جوہری ری ایکٹر بنایا تھا اور مبینہ طور پر سی آئی اے نے ان کے نجی جہاز کو تخریب کاری سے تباہ کر کے ان کو ہلاک کر دیا تھا۔‘ 25 اگست کو ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامینٹل ریسرچ میں بھابھا کے اعزاز میں ایک تعزیتی اجلاس منعقد ہوا۔ بھابھا نے کسی بڑے شخص کے زندہ ہوتے ہی اس کی موت پر چھٹی دینے کے رواج پر پابندی لگا دی تھی کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ کسی شخص کی موت پر سب سے بڑا خراج تحسین کام کو روک کر نہیں بلکہ زیادہ کام کرنے سے ہوتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cl52889p71qo", "summary": " شمالی کوریا کے رہنما کم جان انگ کی بہن کم یو جانگ نے خبردارکیا ہے کہ جنوبی کوریا کی امریکہ کے ساتھ حال ہی میں ہونے والی ڈیل ایک نئے خطرے کی جانب لے کر جا سکتی ہے۔ یہ معاہدہ رواں ہفتے اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ہم منصب جنوبی کوریا کے صدر یون سک ییول کے ساتھ امریکہ میں ملاقات کی۔", "title": "امریکہ اور جنوبی کوریا کی جوہری ہتھیاروں سے لیس آبدوزوں کی ڈیل سنگین خطرہ ہے: کم یو جانگ", "firstPublished": "2023-04-29T11:15:32.011Z", "id": "cl52889p71qo", "article": "شمالی کوریا کے رہنما کم جان ان کی بہن کم یو جانگ نے خبردار کیا ہے کہ جنوبی کوریا کی امریکہ کے ساتھ حال ہی میں ہونے والی ڈیل ایک نئے خطرے کی جانب لے کر جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ نے جوہری ہتھیاروں سے لیس اپنی آبدوزوں کو جنوبی کوریا میں تعینات کرنے پر نہ صرف اتفاق کیا ہے بلکہ شمال کی جانب سے جوہری خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی سے میں سیول کو شامل کرنے پر اتفاق بھی کیا ہے جس کے جواب میں جنوبی کوریا نے جوہری ہتھیاروں کو تیار نہ کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ واشنگٹن ڈکلیریشن کے نام سے موسوم یہ معاہدہ رواں ہفتے اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ہم منصب جنوبی کوریا کے صدر یون سک ییول کے ساتھ امریکہ میں ملاقات کی۔ کم یو جانگ نے معاہدے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مزید کہا ’ہمارے مخالف جوہری جنگی مشقوں میں جتنا اضافہ کریں گے اور مشقوں کے دوران جتنے جوہری اثاثے جزیرہ نما کوریا کے اطراف تعینات کریں گے، ہمارے پاس اسی تناسب سے اپنے دفاع کے حق کا استعمال مضبوط ہوتا جائے گا۔‘ کم جانگ ان کی بہن کم یو جانگ کوریا کی ورکرز پارٹی کی سنٹرل کمیٹی میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں جنھیں اپنے بھائی کی طرح طاقتور اورانتہائی بااثر شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے اس معاہدے کو سراہتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’اس ڈیل سے شمالی کوریا کے حملے کو روکنے کے لیے اتحادیوں کا تعاون مزید مضبوط ہو گا۔‘ جنوبی کوریا کے صدر یون سک ییول نے معاہدے کو اتحادیوں کی حفاظت کے لیے بہتر قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ معاہدہ امریکہ کی جانب سے حملوں کو روکنے اور جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے اتحادیوں کی حفاظت کے لیے بے مثال ہے۔‘ دوسری جانب (جنوبی کوریا کے دارالحکومت) سیؤل میں سیاست دان طویل عرصے سے امریکہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ شمالی کوریا کے خلاف جوہری ہتھیاروں کی منصوبہ بندی میں ان کی شمولیت کو بڑھائیں۔ شمالی کوریا کی طرف سے لاحق جوہری خطرے کے بارے میں دونوں جانب سے تشویش پائی جاتی رہی ہے۔ پیانگ یانگ میں نہ صرف جنوبی کوریا کو نشانے بنانے والے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار تیارکیے جا رہے ہیں بلکہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایسے ہتھیاروں کو بہتربنانے کا کام جاری ہے جو امریکی سرزمین تک پہنچ سکتے ہیں۔ دوسری جانب امریکہ پہلے ہی جنوبی کوریا کے دفاع کے لیے ایک معاہدے پر عمل کا پابند ہے اور اس کے لیے امریکہ نے ضرورت پڑنے پرجوہری ہتھیار استعمال کیے جانے کے عزم کا اظہار کر رکھا ہے۔ تاہم جنوبی کوریا میں بعض افراد امریکہ کے اس عزم پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے ملک سے اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckd9rpjx22po", "summary": "مشرق وسطی کے اس طویل اور خونی تنازعے کو دہایاں گزر چکی ہیں جس کا مستقبل قریب میں بھی کوئی مستقل حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس تنازعے کا تناظر سمجھنے کے لیے بی بی سی کی جانب سے چند اہم سوالات کے جواب دیے جا رہے ہیں۔", "title": "فلسطین اور اسرائیل کا تنازع کیا ہے اور کیا اس کا کوئی حل ممکن ہے؟", "firstPublished": "2023-10-08T08:13:02.200Z", "id": "ckd9rpjx22po", "article": "مشرق وسطی کے اس طویل اور خونی تنازعے کو دہایاں گزر چکی ہیں جس کا مستقبل قریب میں بھی کوئی مستقل حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس تنازعے کا تناظر سمجھنے کے لیے بی بی سی کی جانب سے چند اہم سوالات کے جواب دیے جا رہے ہیں۔ یورپ میں یہودیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی وجہ سے صیہونی تحریک زور پکڑنے لگی جس کا مقصد یہودیوں کے لیے الگ ریاست کا قیام تھا۔ اس وقت فلسطین کا علاقہ سلطنت عثمانیہ کے کنٹرول میں تھا۔ تاہم پہلی جنگ عظیم کے بعد یہ خطہ برطانیہ کے زیرتسلط آیا جہاں یہودی بڑی تعداد میں منتقل ہونے لگے اور یوں مقامی عرب آبادی کے ساتھ تناؤ کا آغاز ہوا۔ دوسری جانب غرب اردن میں بین الاقوامی طور پر مانی جانے والی فلسطینی حکومت ہے جس میں فتح تنظیم کا اہم کردار ہے۔ تاہم غرب اردن غربِ اردن کہلانے والے اس چھوٹے سے علاقے میں 86 فیصد فلسطینی ہیں جبکہ 14 فیصد لوگ اسرائیلی آباد کار ہیں جو ایسی بستیوں میں رہتے ہیں جو ایک دوسرے سے عموماً فاصلے پر موجود ہوتی ہیں۔ ان جنگوں کے علاوہ حماس نے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغے ہیں اور کئی حملے کیے ہیں۔ اسرائیل نے بھی حماس کو کئی بار فضائی حملوں سے نشانہ بنایا ہے۔ 2007 سے اسرائیل نے مصر کی مدد سے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان مستقل تناؤ موجود رہتا پے۔ تاہم سنیچر کو حماس کی جانب سے ہونے والے حملے بلکل اچانک ہوئے جس میں حماس نے پہلے درجنوں راکٹ داغے جس کے بعد اس کے جنگجو سرحد پار کرنے کے بعد اسرائیلی آبادیوں پر حملہ آور ہوئے۔ حماس کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس 53 ’جنگی قیدی‘ ہیں جن میں اسرائیلی فوج کے سینیئر افسر بھی شامل ہیں اور ان میں سے بہت سوں کو ان سرنگوں میں رکھا گیا ہے جنھیں ماضی میں اسرائیل نشانہ بناتا رہا ہے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں تاخیر کے علاوہ اسرائیل کی جانب سے غرب اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور ان کے گرد سکیورٹی رکاوٹوں کی تعمیر نے امن کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے۔ تاہم ان کے علاوہ بھی کئی اختلافات موجود ہیں۔ ایک اور معاملہ فلسطینی تارکین وطن کا بھی ہے۔ پی ایل او کا دعوی ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زیادہ فلسطینی موجود ہیں جن میں سے نصف اقوام متحدہ کے ساتھ رجسٹر ہیں۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ان افراد کو اسرائیل واپس آنے کا حق حاصل ہے جبکہ اسرائیل کا ماننا ہے کہ ایسا کرنے سے اس کی یہودی شناخت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ایسے میں امن کیسے قائم ہو گا؟ اس کے لیے دونوں جانب سے چند اقدامات ضروری ہوں گے۔ اسرائہل کو فلسطیونیوں کی آزاد ریاست کا حق تسلیم کرنا ہو گا، غزہ کی پٹی کے محاصرہ ختم کرنا ہو گا اور مشرقی یروشلم اور غرب اردن میں رکاوٹیں ختم کرنی ہوں گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c97m9611nl9o", "summary": " گذشتہ کئی ماہ سے یہ بات تو واضح تھی کہ فلسطینی مسلح گروہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ تاہم یہ کب اور کہاں ہو گی یہ بات حماس کے مسلح گروہ کے علاوہ سب کے لیے ہی ایک سرپرائز ثابت ہوا۔ ", "title": "حماس کا چونکا دینے والا انتہائی پیچیدہ آپریشن، اسرائیل کی جوابی کارروائی اور امن کی کوششیں جو ناکام ہوتی رہیں", "firstPublished": "2023-10-08T05:15:16.308Z", "id": "c97m9611nl9o", "article": "سنیچر کی صبح حماس کی جانب سے غزہ سے اب تک کا سب سے بڑا آپریشن کیا گیا ہے اور اسرائیل اس کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھا۔ اس وقت جو ہو رہا ہے اس کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔ حماس کے عسکریت پسندوں نے حفاظتی باڑ کو مختلف جگہوں سے کاٹا اور غزہ سے اسرائیل کی حدود میں داخل ہوئے۔ اس کارروائی کے چند ہی گھنٹوں بعد اسرائیل نے غزہ میں فضائی حملوں کے ذریعے جوابی کارروائی کی جس کے باعث سینکڑوں فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی جرنیل اب ایک زمینی آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور اسرائیلی یرغمالیوں کی غزہ میں موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ یہ صورتحال ماضی میں کی جانے والی کسی بھی کارروائی سے زیادہ پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے یہ بات تو واضح تھی کہ فلسطینی مسلح گروہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ تاہم یہ کب اور کہاں ہو گی یہ بات حماس کے مسلح گروہ کے علاوہ سب کے لیے ہی ایک سرپرائز ثابت ہوا۔ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کا خیال تھا کہ اس قسم کا حملہ مقبوضہ غربِ اردن سے ہو سکتا ہے اور ان دونوں کی توجہ وہاں مرکوز تھی۔ مقبوضہ بیت المقدس اور اردن کی سرحد کے درمیان موجود یہ علاقہ سنہ 1967 کے بعد سے اسرائیل کے قبضے میں ہے اور یہاں گذشتہ ایک سال میں مسلسل پرتشدد واقعات ہوتے رہے ہیں۔ اسرائیلیوں کا ماننا ہے کہ ان کے خفیہ ایجنٹس اور مخبروں کے ایک وسیع نیٹ ورک اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کی گئی نگرانی انھیں محفوظ رکھے گی لیکن اس صورت میں ایسا نہیں ہوا۔ حماس کا کہنا ہے کہ اس نے یہ کارروائی مقبوضہ بیت المقدس میں موجود مساجد کو لاحق خطرے کے باعث کی۔ گذشتہ ہفتے کے دوران کچھ یہودیوں نے مسجد الاقصیٰ کمپاؤنڈ میں جا کرعبادت کی تھی جو مسلمانوں کے لیے سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ کے بعد تیسری سب سے زیادہ مقدس جگہ سمجھی جاتی ہے۔ یہی جگہ یہودیوں کے لیے بھی مقدس ہے کیونکہ یہاں قدیم زمانے میں ایک یہودی عبات گاہ ہوا کرتی تھی۔ یہاں عبادت کرنا شاید اتنی بڑی بات محسوس نہ ہو لیکن اسرائیل کی جانب سے ایسا کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے کیونکہ فلسطینیوں کے لیے یہ بہت زیادہ اشتعال انگیز عمل ہے۔ حماس کے آپریشن کی پیچیدگی یہ بتاتی ہے کہ اس کی منصوبہ بندی کئی ماہ تک کی جاتی رہی۔ یہ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران مقبوضہ بیت المقدس میں ہونے والے واقعات کا فوری ردِ عمل نہیں تھا۔ ان حالیوں کارروائیوں سے ایک بات تو واضح ہے کہ اس تنازع کو کسی عام طریقے سے حل نہیں جا سکتا ہے۔ جب اسے مزید بھڑکنے دیا جاتا ہے تو نتیجے تشدد اور خون ریزی کی شکل میں ہی سامنے آتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72k3ry0g61o", "summary": "اسرائیل میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن اور اس کے جواب میں غزہ پر اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 380 سے بڑھ گئی ہے تاہم اسرائیلی میڈیا کی جانب سے حماس کے حملوں کے بعد اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی کے حوالے سے سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔", "title": "اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسیاں موساد اور شاباک حماس کے آپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ کو روکنے میں کیسے ناکام رہیں؟", "firstPublished": "2023-10-07T19:59:24.933Z", "id": "c72k3ry0g61o", "article": "سنیچر کی صبح فلسطین کے عسکریت پسند گروہ حماس کی جانب سے جب اسرائیل پر ’زمینی، فضائی اور بحری‘ ذرائع سے حملے کیے گئے تو چند ہی گھنٹوں میں ان حملوں کو اسرائیلی میڈیا کی جانب سے ’انٹیلیجنس کی ناکامی‘ قرار دیا جانے لگا تھا۔ حماس کی جانب سے کیے جانے والے ان حملوں میں اب تک 250 سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس کے ردِ عمل میں اسرائیل کے غزہ شہر پر کیے جانے والے فضائی حملوں میں اب تک 230 سے زیادہ فلسطینی مارے گئے ہیں۔ دونوں اطراف ہزاروں افراد اب بھی زخمی ہیں اور ہلاکتوں کی تعداد میں ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ حماس کی جانب سے اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو بھی یرغمال بنایا گیا ہے جس نے اسرائیل کے ایک انتہائی مشکل صورتحال پیدا کر دی ہے۔ ان کے مخبر اور ایجنٹ فلسطینی عسکریت پسند گروہوں کےعلاوہ لبنان، شام اور دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں۔ ماضی میں ان کی جانب سے عسکریت پسند کمانڈرز کو انتہائی مہارت سے قتل کیا ہے، اس دوران انھیں ان کی نقل و حرکت کے بارے میں سب کچھ معلوم ہوتا تھا۔ کبھی ایسی کارروائیوں کے لیے اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹس نے مطلوبہ شخص کی گاڑی پر جی پی ایس ٹریکرز لگائے اور پھر ڈرون حملے کی مدد سے ہدف کو نشانہ بنایا گیا۔ ماضی میں اس خفیہ ایجنسی کی جانب سے موبائل فونز میں دھماکوں کا بھی سہارا لیا جا چکا ہے۔ غزہ اور اسرائیل کے درمیان سرحدی باڑ کے ساتھ ساتھ یہاں کیمرے اور گراؤنڈ موشن سینسر (یعنی کسی بھی قسم کی حرکت کی صورت میں الارم بجانے والے سینسرز) موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں اسرائیلی فوج باقاعدگی سے گشت بھی کرتی ہے۔ تاہم اس وقت اسرائیل کے سامنے اس سے بھی زیادہ مشکل فیصلے کرنے کا وقت ہے۔ سب سے پہلے تو اسے اپنی جنوبی سرحدوں میں دراندازی کو روکنے کے بارے میں سوچنا ہے اور حماس کے عسکریت پسندوں سے اسرائیلی علاقوں پر حاصل کیا گیا کنٹرول واپس لینا ہے۔ سپیشل فورسز کی جانب سے ریسکیو آپریشن کرنا ایک آپشن ضرور ہے اور اسرائیلی ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ان کے فوجی ایک سے زیادہ علاقوں میں تعینات بھی کیے جا چکے ہیں۔ اور شاید اسرائیل کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو کیسے روکے جو حماس کی جانب سے ہتھیار اٹھانے اور عسکریت پسند تنظیم کا حصہ بننے کی پیشکش کو قبول کر رہے ہیں۔ یہ بھی کہ وہ مغربی کنارے میں پھیلنے والی شورش پر کیسے قابو پائے اور لبنان کے ساتھ شمالی سرحد پر حذب اللہ جنگجوؤں کے خلاف کیسے کارروائی کرے؟"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cekmvxnke7mo", "summary": "کئی گھنٹے تک اسرائیل میں اپنے گھروں میں محصور افراد ٹی وی سٹیشنز کو فون کرتے رہے کیونکہ فلسطینی عسکریت پسند ان کے قصبوں اور گاؤں میں گھس کر ایک شدید اور اچانک حملہ کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ ", "title": " حملوں کے بعد محصور اسرائیلی شہری: ’وہ میرے گھر میں گُھسنے کی کوشش کر رہے ہیں، میں ان کی آوازیں سن سکتی ہوں‘", "firstPublished": "2023-10-07T16:07:10.042Z", "id": "cekmvxnke7mo", "article": "سنیچر کے روز اسرائیلی علاقوں میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے حملوں کے بعد کئی گھنٹے تک اسرائیل میں اپنے گھروں میں محصور افراد ٹی وی سٹیشنز کو فون کر کے یہ اطلاع دیتے رہے کہ فلسطینی عسکریت پسند ان کے قصبوں اور گاؤں میں گھس کر ایک شدید اور اچانک حملہ کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے سرحد کے قریب رہنے والے عام شہریوں سے کہا ہے کہ وہ گھروں میں رہیں۔ تاہم كيبوتز بئیری میں رہائشیوں کا کہنا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند گھروں اور پناہ گاہوں میں گُھسنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک رہائشی نے چینل 12 کو بتایا کہ ’قصبے کی دوسری جانب سے فائرنگ ہو رہی ہے، میں گھر پر ہوں اور میں ان کی آوازیں اپنے گھر کے باہر سن سکتا ہوں۔ ہم یہاں خاموشی سے بیٹھے ہیں، پورا قصبہ خاموش ہے تاکہ وہ ہمارے گھروں میں نہ آئیں۔‘ یہ گذشتہ کئی برسوں میں اسرائیل فلسطین تنازع میں ہونے والی شدید ترین کشیدگی میں سے ایک ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق عسکریت پسند گروپ حماس کے جنگجو صبح سحر کے وقت غزہ سے اسرائیل میں داخل ہوئے۔ وہ موٹر سائیکلوں، پیراگلائیڈرز اور کشتیوں پر بھی داخل ہوئے۔ ایسے کسی حملے کی اس سے پہلے نظیر نہیں ملتی۔ غزہ کی پٹی کے قریب كيبوتز نیریم نامی قصبے کے شہری نے چینل 13 کو بتایا کہ ’میں اپنے ایک ہفتے کے بچے کے ساتھ گذشتہ دو گھنٹوں سے شیلٹر میں موجود ہوں اور میرے گھر کو نذرِ آتش کر دیا گیا ہے۔‘ دیگر رہائشی سوشل میڈیا پر مدد مانگ رہے ہیں۔ ایلا مور نے فیسبک پر لکھا کہ ’فوری اعلان، فوری اعلان، خدارا یہ میڈیا تک پہنچانے میں میر مدد کریں۔ مجھے اپنے بھانجوں کو بچانا ہے جو اس وقت چھپے ہوئے ہیں۔ انھوں نے مجھے کال کر کے بتایا کہ انھوں (فلسطینی عسکریت پسندوں) نے کفار ازا میں میری والدہ اور والد کو ہلاک کر دیا ہے۔ اور انھیں اپنی نومولود بہن نہیں مل رہی۔ جنوبی اسرائیل کے قصبے كيبوتز نیر عوز میں ایک رہائشی یونی نے فیس بک پر لکھا کہ ’انھوں نے میری ساس کو گرفتار کیا اور انھیں اغوا کر کے چلے گئے، میں فوج اور میڈیا سے فوری طور پر رابطہ کرنا چاہتی ہوں۔‘ صفا کے رہائشی اوفیر کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنی پناہ گاہ میں محصور ہو چکے ہیں اور فوج اب تک یہاں نہیں پہنچی۔ میرے شوہر سکواڈ کے ساتھ مل کر ان سے لڑ رہے ہیں۔ وہ ہمارے گھروں پر ہم پر فائرنگ کر رہے ہیں اور ہمارے گھروں میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cmlre48mwdxo", "summary": "مستونگ دھماکے میں اب تک مرنے والوں کی تعداد پچاس سے تجاوز کرچکی ہے۔ 29 ستمبر کو جس جگہ پر تمام تر گاڑیاں اور لوگوں کا جلوس موجود تھا وہاں دھماکے کے بعد اب صرف مٹی کا ڈھیر ہے۔", "title": "مستونگ دھماکہ: ’کوئی کسی تنظیم کا نام نہیں لینا چاہتا، آخر میں کہا جائے گا حملے عوام خود کروا رہے ہیں‘", "firstPublished": "2023-10-01T07:11:16.936Z", "id": "cmlre48mwdxo", "article": "میں جیسے ہی مستونگ کی مدینہ مسجد کے پاس اس مقام پر پہنچی جہاں 29 ستمبر2023 کو خودکش دھماکہ ہوا تھا، تو وہاں ایک لڑکا اپنے کزن کی چپلیں، ٹوپی یا کوئی بھی ایسی نشانی ڈھونڈ رہا تھا جس سے وہ اس کی شناخت کر سکے۔ جو منظر اس وقت میری نگاہوں کے سامنے ہے یہاں پر دور دور تک سفید مٹی ہے اور اس کے اردگرد گاڑیوں اور زیادہ تر موٹر سائیکل کے آنے جانے سے اڑتی گرد ہے۔ جمعے کے روز یعنی 29 ستمبر کو جس جگہ پر تمام تر گاڑیاں اور لوگوں کا جلوس موجود تھا وہاں دھماکے کے بعد اب صرف مٹی کا ڈھیر ہے جس پر ہلاک ہونے والوں کے لواحقین ان کی شناخت کرنے کے لیے ایک تھیلے میں ان کے جسم کے اعضا یا پھر بکھری ہوئی چیزیں جمع کرتے ہوئے نظر آئے۔ ’یہاں تو ایک کے اوپر ایک لاش پڑی تھی۔ ہر کوئی حواس باختہ ادھر سے ادھر دیکھ رہا تھا کیونکہ ایمبولینس نہیں تھی۔ لوگ اپنی گاڑیوں پر جس جس کو لے جاسکتے تھے لے گئے اور باقی ورثہ ایمبولینس کا انتظار کرتے رہ گئے۔‘ تب سے حاجی حیدر اپنے فون پر دھماکے کے بعد سے لاپتا ہونے والے افراد کی تصاویر جمع کررہے ہیں تاکہ ان کے والدین کو ڈھونڈنے میں آسانی ہو۔ حاجی حیدر اپنے فون پر دھماکے کے بعد سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تصاویر جمع کررہے ہیں تاکہ ان کے لواحقین کو ڈھونڈنے میں آسانی ہو اسی دوران ایک موٹر سائیکل آ کر رکی اور اس پر بیٹھے ایک ضعیف شخص نے بتایا کہ ’میں ابھی ہسپتال سے آرہا ہوں وہاں اب صرف کسی کا ہاتھ یا پاؤں رکھا ہوا ہے۔ انتظامیہ اب مسخ شدہ لاشوں کو دفنانے کا سوچ رہی ہے۔‘ مستونگ دھماکے میں اب تک مرنے والوں کی تعداد 50 سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ پولیس زخمیوں کی تعداد 139 بتارہی ہے۔ ضلع مستونگ میں سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں اپنی اپنی جگہ خاصی اہمیت رکھتی ہیں اور اسی لیے مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے کے باوجود کئی افراد 12 ربیع الاول کا جشن کافی عرصے سے روایت کے طور پر مناتے ہیں۔ یہاں پہنچنے پر لوگ بے حد غمزدہ لیکن شدید غصے میں ملے۔ غلام فاروق نے کہا کہ ’ان اہلکاروں سے کون تفتیش کرے گا جنھیں ہماری حفاظت کے لیے رکھا ہے؟ کیوں مستونگ میں ایک کے بعد ایک حملے ہورہے ہیں اور کون ذمہ دار ہے؟‘ پولیس نے ان حملوں کے بارے میں اپنے بیان میں تحریکِ طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا لیکن ٹی ٹی پی کی جانب سے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کے بعد پولیس بھی کوئی واضح بیان یا ثبوت پیش نہیں کر پا رہی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg1r0zx505o", "summary": "اس حملے میں ڈی ایس پی مستونگ سٹی محمد نواز گشکوری خودکش بمبار کو روکنے کی کوشش میں ہلاک ہوئے۔ ", "title": "مستونگ دھماکے میں ہلاک ہونے والے ڈی ایس پی محمد نواز: ’پاکستان میں پولیس اہلکار ہونے کی قیمت چکانی پڑتی ہے‘", "firstPublished": "2023-09-30T07:21:58.619Z", "id": "crg1r0zx505o", "article": " ڈی ایس پی مستونگ سٹی محمد نواز گشکوری خودکش بمبار کو روکنے کے کوشش میں ہلاک ہوئے یہ بات مستونگ واقعے میں ہلاک ہونے والے ڈی ایس پی سٹی محمد نواز گشکوری کے برادر نسبتی محمد قاسم نے بی بی سی سے کو بتائی۔ محمد قاسم ان لاتعداد افراد میں شامل ہیں جو ڈی ایس پی محمد نواز کی تدفین کے موقع پر موجود تھے۔ ڈی ایس پی محمد نواز کو جمعے کی شب ان کے آبائی علاقے سبی میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اس حملے میں اب تک 52 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 139 افراد زخمی ہیں۔ اسی حملے میں ڈی ایس پی مستونگ سٹی محمد نواز گشکوری خودکش بمبار کو روکنے کی کوشش میں ہلاک ہوئے۔ اس حملے میں اب تک 52 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 139 افراد زخمی ہیں محمد نواز کے قریبی دوست سلیم گشکوری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب میں نے سنا کہ ایک پولیس افسر نے خودکش بمبار کو روکنے کی کوشش کی تو مجھے عجیب سی بے چینی ہوئی اور لگا کہ یہ کام محمد نواز ہی کر سکتا ہے۔‘ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں پولیس اہلکار ہونے کی قیمت چکانی پڑتی ہے، جو محمد نواز نے اپنی جان دے کر چکائی۔‘ محمد نواز کے ایک پولیس افسر دوست محمد سرفرازنے بتایا کہ ’صبح ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا۔ مدینہ مسجد کے پاس ایک جلوس کی شکل میں بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے۔ اچانک سے (ڈی ایس پی) نواز ایک شخص کی جانب بڑھے۔ اس سے پہلے کہ میں انھیں آواز دے پاتا یا ان کی طرف دوڑ سکتا، تب تک دھماکہ ہوچکا تھا۔ بعد میں سمجھ آیا کہ نواز جسے روکنے کی کوشش کررہا تھا، وہ خودکش بمبار تھا۔‘ محمد نواز گشکوری سنہ 1966 میں سبی میں پیدا ہوئے۔ وہ سنہ 1988 میں بی اے کرنے کے بعد مقامی تھانے میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئے جبکہ سنہ 2015 میں ڈی ایس پی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ محمد قاسم نے بتایا کہ ’پہلے کئی دھماکوں اور تشدد کے واقعات میں ان کی جان بچ گئی لیکن اس بار وہ بمبار کو روکنے کے لیے اس کے سامنے کھڑے ہو گئے۔‘ محمد نواز کے چار بچوں میں سب سے بڑا بیٹا 27 برس کا ہے اور سب سے چھوٹی بیٹی کی عمر 17 سال ہے۔ قاسم نے بتایا کہ محمد نواز مستونگ میں اپنے قیام کے دوران لوگوں کی مدد بھی کرتے رہے۔ ’اب لوگ ان کے علاقے سبی میں پہنچ رہے ہیں۔ اسی سے پتا چلتا ہے کہ ان کی کتنی عزت تھی‘۔ ایس ایس پی سٹی مستونگ شعیب مسعود نے بی بی سی کو بتایا کہ بظاہر پاکستان میں ہونے والے دونوں حملے پولیس کے خلاف لگ رہے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4neyx5glqzo", "summary": "الفدیل نہ کہا کہ ’جب ہمارا سکول دوبارہ تعمیر ہو جائے گا اور اس میں تعلیمی سرگرمیاں بھی شروع ہو جائیں گی تو ہم ان 32 بچوں کو یاد کریں گہ اور اُن کی کہانیاں سب کو سُنائیں گے۔‘", "title": "مراکش کا زلزلہ: ’کوئی بھی میری کلاس میں نہیں رہا وہ سب کے سب مر چکے ہیں‘", "firstPublished": "2023-09-16T04:39:03.989Z", "id": "c4neyx5glqzo", "article": "مگر وہ جان کر غم سے نڈھال ہو گئیں کہ اُن کے وہ تمام 32 طلبہ جن کی عُمریں چھ سے 12 سال کے درمیان تھیں سب کے سب اس قدرتی آفت میں مر چکے تھے۔ الفدیل نے کہا ’میں نے اپنے ذہن میں اپنے طلبہ کی حاضری لگانے کا سوچا ایک کے بعد ایک نام لیا اور ان کے نام پر ایک ایک کر کے لکیر کھینچتی چلی گئی حتیٰ کہ 32 ناموں کی یہ فہرست ختم ہو گئی، اب اُن میں سے کوئی بھی میری کلاس میں نہیں رہا وہ سب کے سب مر چکے ہیں۔‘ مراکش کے جنوبی علاقے اس زلزلے میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے، پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں موجود متعدد دیہات مکمل طور پر تباہ ہو چُکے ہیں، اور اداسیل بھی انھیں میں سے ایک تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’امدادی کارکنوں کو خدیجہ کی لاش ان کے بھائی محمد اور ان کی دو بہنوں مینا اور حنان کے پاس سے ہی ملی۔ جب زلزلہ آیا تو وہ سب کے سب شاید اپنے بستر پر سوئے ہوئے تھے۔ اور یہ سب بچے نسرین کے سکول میں ہی پڑھتے تھے۔ الفدیل نے اپنے طلبہ کو ’فرشتہ صفت‘ اور قابل احترام بچوں کے طور پر بیان کیا جو سیکھنے کے شوقین تھے۔ غربت اور دیگر معاشی مسائل سے لڑنے کے باوجود ان بچوں اور اُن کے والدین نے سکول جانے کو ہمیشہ ترجیح دی اور اسے ’دُنیا کا سب سے اہم اور قیمتی عمل قرار دیا۔‘ پرسکون آواز کے باوجود، الفدیل شدید صدمے کی حالت میں تھیں۔ وہ اب بھی اس صدمے سے نمٹنے کی کوشش میں تھیں کہ اُن کے طلبا اور اُن کے سکول کے ساتھ کیا ہوا۔ الفدیل کو ’امازی‘ کی آبادی والے گاؤں میں بچوں کو عربی اور فرانسیسی پڑھانا پسند تھا، جو بنیادی طور پر اپنی زبان تمازائٹ بولتے ہیں۔ (’امازی‘ شمالی افریقہ کہ وہ مقامی قبائل یا لوگ جو اپنے علاقوں میں اپنی مادری زبان تمازائٹ بولتے ہیں، اس قبلیے کے لوگ دُنیا کے سات سے زائد بڑے اور ترقی یافتہ مُمالک میں موجود ہیں) وہ اب بھی درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہنا چاہتی ہیں، اور امید کرتی ہیں کہ حکام اداسیل کے سکول کو دوبارہ تعمیر کریں گے، جو اس قیامت خیز زلزلے کی نظر ہوگیا۔ الفدیل نہ کہا کہ ’جب ہمارا سکول دوبارہ تعمیر ہو جائے گا اور اس میں تعلیمی سرگرمیاں بھی شروع ہو جائیں گی تو ہم ان 32 بچوں کو یاد کریں گہ اور اُن کی کہانیاں سب کو سُنائیں گے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c84kkj91k80o", "summary": "مراکش کی یہ آبادیاں روایتی طور پر شاید آج کل کی اس جدید دنیا سے کچھ الگ رہنے میں خوش تھیں مگر اب یہی لوگ بیرونی دُنیا کی جانب سے امداد کی مُنتظر ہیں، اُن کی مدد جتنی جلدی کی جا سکے اُتنا ہی اچھا ہوگا۔", "title": "’اس گاؤں کے سب لوگ یا تو مر چکے ہیں یا لاپتہ ہیں‘", "firstPublished": "2023-09-11T03:40:59.751Z", "id": "c84kkj91k80o", "article": "مراکش کے جنوب مغربی قصبے ’تافغاغت‘ میں حالیہ زلزلے سے ہونے والی تباہی سے متعلق ہمیں وہاں سب سے پہلے ملنے والے ایک رہائشی نے بڑے واضح انداز میں بتایا۔ جب ہم اُس قصبے میں ملبے کے ڈھیر کی چوٹی پر پہنچے اور ارد گرد کا جائزہ لیا تو یہ اندازہ ہوا کہ یہاں بھلا کیسے کوئی صحیح سلامت بچا ہوگا۔ اینٹوں اور پتھروں سے بنے اُن کے روایتی گھروں کا اس شدت کے زلزلے کے ساتھ کوئی مقابلہ ممکن ہی نہیں تھا۔ یہاں کے 200 رہائشیوں میں سے 90 کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے اور بہت سے لوگ تاحال لاپتہ ہیں۔ حسن کہتے ہیں کہ ’یہ سب اللہ کی طرف سے ہے، اس لیے ہم اُس کی رضا میں راضی ہیں۔ لیکن اب ہمیں اپنی حکومت کی مدد کی ضرورت ہے۔ وہ لوگوں کی مدد کرنے میں دیر کر رہی ہے۔‘ حسن نے مزید کہا کہ مراکش کے حکام کو بین الاقوامی امداد کی ہر پیشکش کو قبول کرنا چاہیے، لیکن خدشہ ہے کہ حکومت کو اُن کا غرور ایسا کرنے سے روک سکتا ہے۔ ایک دوسری جانب ہم نے یہ دیکھا کہ بہت سے لوگ ایک فرد کو تسلی دے رہے ہیں۔ انھوں نے ایک ملبے کے ڈھیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا گھر وہاں تھا،‘ مگر اب ہر جانب صرف ملبہ ہی دکھائی دے رہا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ انھوں نے بے اختیار ہو کر اپنے بچوں کو پکارنا شروع کر دیا، اُن کی یہ چیخ و پکار ایسا ہی کرنے والے دوسرے لوگوں کی آوازوں میں شامل تو ہوئی مگر اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔ ’جب ہم انھیں ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے تو دیکھا کہ وہ سب کے سب ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے، تینوں لڑکے سوئے ہوئے تھے۔ انھیں زلزلے نے کُچھ بھی کرنے کا موقع نہیں دیا۔‘ پہاڑ پر اس گاؤں کو دیگر شہروں سے جوڑنے والی سڑک سے کُچھ فاصلے پر ایک بڑے خیمے میں درجنوں خاندان بے یار و مدد گار اکٹھے بیٹھے ہیں۔ ہر طرف سے ناقابل برداشت رونے اور سسکیوں کی آوازیں سُنائی دے رہی ہیں۔ مقامی لوگوں کی تکلیف میں یہ اضافہ اُس وقت ہوا جب ایک 10 سالہ بچی خلیفہ کی لاش کو ملبے سے نکالا گیا۔ اس غم کی شددت کا اندازہ لگانا نا مُمکن ہے۔ ایک جانب ایک خاتون غم سے نڈھال ہو کر حواس کھو بیٹھتی ہیں اور دوسری جانب ایک خاتون بے ساختہ کُرسی پر گر کر رونے لگتی ہیں۔ مراکش کا المیہ یہ ہے کہ یہ منظر اٹلس پہاڑوں کے اس پار ہر گاؤں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ مراکش کی یہ آبادیاں روایتی طور پر شاید آج کل کی اس جدید دنیا سے کچھ الگ رہنے میں خوش تھیں مگر اب یہی لوگ بیرونی دُنیا کی جانب سے امداد کی مُنتظر ہیں، اُن کی مدد جتنی جلدی کی جا سکے اُتنا ہی اچھا ہوگا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cz4y4zln07vo", "summary": "افغانستان میں طالبان کی حکومت کو قائم ہوئے دو سال ہو گئے ہیں لیکن تاحال کسی بیرونی حکومت نے انھیں تسلیم نہیں کیا ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ طالبان اپنی حکومت کو تسلیم کرانے کے لیے خواتین پر سختیاں بڑھا رہے ہیں تاکہ مغربی ممالک کو مجبور کیا جا سکے کہ اُن کی حکومت کو تسلیم کیا جائے۔", "title": "کیا عالمی رہنماؤں کو طالبان سے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے؟", "firstPublished": "2023-08-14T15:58:47.173Z", "id": "cz4y4zln07vo", "article": "دو سال پہلے طالبان نے افغانستان پر تیزی سے قبضہ کیا تھا، تب سے لے کر اب تک کسی بھی ملک نے ان کی حکومت تسلیم نہیں کیا ہے۔ حتیٰ کہ طالبان کی حکومت کے ساتھ رابطہ کرنا بھی ایک متنازع بات سمجھی جاتی ہے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اُن کے ساتھ بات کرنے سے تبدیلی لانے میں مدد ملے گی، جبکہ دوسروں کا اصرار ہے کہ طالبان کبھی نہیں بدلیں گے اس لیے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ کابل میں اپنے نئے خفیہ سیلون میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’طالبان خواتین پر سختیاں بڑھا رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں پر دباؤ ڈال کر وہ اپنی حکومت کو تسلیم کرانے کے لیے عالمی رہنماؤں پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔‘ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے افغان تارکین وطن (دیاسپورا) مطالبہ کر رہے ہیں کہ طالبان پر دباؤ بڑھانے کے لیے ان پر مزید سخت پاندیاں عائد کرنے کی ضرورت ہے۔ افغان طالبان سے رابطے قائم کرنے کے حامی سفارت کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بات چیت کا کوئی در کھولنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اُن کی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں اور یہ کہ ہم اس کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں۔ طالبان کی درمیانے درجے کی قیادت سے حالیہ ملاقاتوں میں شامل ایک مغربی سفارت کار کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم ان افغانوں سے رابطہ کاری نہیں کرتے ہیں جو ممکنہ طور پر ہوشیار طریقے سے رابطے قائم کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ان لوگوں کو افغانستان پر اپنے عوام کو قیدی بنانے کی کھلی آزادی دے رہے ہیں۔‘ کیٹ کلارک نے فریقین کے درمیان رابطوں میں کمی کے ایک نکتے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’مغرب طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے جیسے معاملے کو رعائت کے طور پر دیکھ سکتا ہے، لیکن طالبان اسے اپنے حق کے طور پر دیکھتے ہیں، اُن کے خیال میں امریکی سپر پاور کو شکست دینے اور دوسری بار اقتدار میں آنے کے بعد حکومت کرنے کا اُن کا حق انھیں خدا نے دیا ہے۔‘ بیرونی طاقتیں جب افغانستان میں کوئی مثبت پیش رفت دیکھتی ہیں تو وہ اپنی تنقید کو متوازن کرنے کے لیے ان کی تعریف بھی کرتی ہیں، جیسے بدعنوانی کے خلاف کریک ڈاؤن جس سے محصولات کی وصولی میں اضافہ ہوا، اور دولتِ اسلامیہ گروپ کی طرف سے درپیش سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے لیے کچھ کوششیں وغیرہ۔ اور مغربی طاقتیں اسلامی ممالک اور دیگر معتدل پسند علماء سے تعاون کرتی ہیں تاکہ طالبان کی اسلام کی انتہائی سخت گیر تشریحات پر مشترکہ خدشات پر متفقہ موقف اپنائیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pd46zl3g2o", "summary": "پاکستان آئی ایم ایف کے پاس آٹھ دسمبر انیس سو اٹھاون سے آج تک تئیس بار گیا ہے۔ ایوب خان کے نام نہاد صنعتی اور سبز انقلاب کے فوائد، براہ راست امریکی اقتصادی امداد اور عالمی بینک کی مالی و ٹکنیکل مدد بھی پاکستان کو دورِ ایوبی میں آئی ایم ایف سے تین بار رجوع کرنے سے نہ روک سکی۔", "title": "وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: اے خیرات دتی اے بے غیرتا؟", "firstPublished": "2023-07-02T15:23:02.853Z", "id": "c6pd46zl3g2o", "article": "پاکستان آئی ایم ایف کے پاس آٹھ دسمبر 1958 سے آج تک 23 بار گیا ہے۔ ایوب خان کے نام نہاد صنعتی اور سبز انقلاب کے فوائد، براہ راست امریکی اقتصادی امداد اور عالمی بینک کی مالی و ٹکنیکل مدد بھی پاکستان کو دورِ ایوبی میں آئی ایم ایف سے تین بار رجوع کرنے سے نہ روک سکی۔ ضیا الحق کے لئے افغان خانہ جنگی کے طفیل اربوں ڈالروں کی بہار اور اسلامی نظامِ معیشت اختیار کرنے کی کچی پکی کوششوں کے فیوض و برکات بھی آئی ایم ایف کی زنجیر دو بار ہلانے سے باز نہ رکھ سکیں۔ عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر پھانسی پر لٹکنا سمجھ رہے تھے۔ انھوں نے حلف اٹھانے کے ایک ماہ بعد ہی اسد عمر کو واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے ہیڈکوارٹر سے رابطہ کرنے کی یہ کہتے ہوئے ہدایت کی کہ ’مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ اندر کا حال اتنا برا ہے۔‘ اور اب شہباز حکومت نے آئی ایم ایف کی نویں قسط حاصل کرنے کے لئے پچھلے آٹھ ماہ میں اپنے تمام عقبی گھوڑے کھول لیے، تین دوست ممالک کے ہاتھ پاؤں جوڑ کر قرضوں کا رول اوور کروا کے تحریری سرٹیفکیٹ حاصل کیے۔ اپنی مرضی کا بجٹ پیش کرکے آئی ایم ایف کی مرضی کی ترامیم کیں۔ جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی ذمہ دار فوجی قیادت کو ملک کی معاشی سرحدوں کے تحفظ کے لیے بھی بیچ میں ڈالا ۔ آئی ایم ایف، عالمی بینک، پیرس کنسورشئیم، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، انٹرنیشنل اسلامک بینک، سی پیک اور انویسمنٹ بانڈز وغیرہ کے کل ملا کے اب تک 126 ارب ڈالر کے قرضے، امریکہ سے 70 ارب ڈالر کی مجموعی امداد اور جاپان و یورپی یونین سے قدرتی آفات کے لئے مدد سمیت کیا کچھ نہیں آیا۔ پھر بھی معیار زندگی کے عالمی جدول میں پاکستان کا ایک سو بتیسواں درجہ ہو، دنیا میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان دوسرے نمبر پر ہو، مگر فوجی قوت کے اعتبار سے ٹاپ ٹین میں شامل ہو، صرف ایک برس میں (دو ہزار بائیس) آٹھ لاکھ ہنرمند نوجوان روزگار کی تلاش میں قانونی طریقے سے ملک چھوڑ جائیں، آبادی میں اضافے کی شرح دنیا میں آج بھی سب سے زیادہ ہو۔ ریاستی ڈھانچہ جمہوریت و آمریت کا ملغوبہ ہو، انگلیوں پر گنی جانے والی نجی و سرکاری مافیائیں معیشت پر کنڈلی مارے بیٹھی ہوں اور ان کی مراعات کا تخمینہ 17 ارب ڈالر سالانہ سے متجاوز ہو، تب بھی آئی ایم ایف سے سوا ارب ڈالر حاصل کرنے کے لیے پوری ریاست جھول جائے تو 75 برس میں سڑک چھاپ عوام نے آخر پایا کیا؟ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckkqke6r0y0o", "summary": "’لندن میں قانون کے طلبا کو ٹیوشن پڑھاتی تھی، زندگی میں میں نے بہت محنت کی ہے اور 18 سال کی عمر کے بعد کبھی والدین سے پیسے نہیں لیے۔‘", "title": "ورلڈ بینک ٹربیونل کی پاکستانی نژاد جج جنھیں بینظیر نے کہا تھا ’مہناز پاکستان کے لیے بہت کچھ کریں گی‘", "firstPublished": "2023-04-19T03:30:58.757Z", "id": "ckkqke6r0y0o", "article": "پاکستان کے شہر لاہور میں پیدا ہونے والی مہناز نے ابتدائی تعلیم پاکستان میں ہی حاصل کی تھی جس کے بعد وہ سکالرشپ پر قانون کی تعلیم حاصل کرنے کیمبرج یونیورسٹی گئیں اور صرف 24 سال کی عمر میں برطانیہ میں ’لا سوسائٹی نیشنل ٹرینگ لائیرز آف دی ایئر‘ کا ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اپنے کریئر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ مہناز ملک یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی ایشیائی خاتون تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایک بہت ہی سینیئر قانون دان کے ساتھ پریکٹس کا آغاز کیا تھا۔ ’ایک انتہائی اہم کیس سے پہلے وہ بیمار ہو گئے، جب کیس کی تاریخ پڑی تو وہ اس میں پیش ہونے کے قابل نہیں تھے۔ اب مجھے ہی اس میں پیش ہونا تھا۔ یہ انتہائی اہم لمحہ تھا۔ کیس اہم تو تھا ہی مگر یہ میری کریئر کی شروعات بھی تھیں۔‘ ان کا کہنا تھا ’اس طرح انھوں نے کچھ اور بھی کہا تھا۔ مجھے لگا کہ انھیں ایک جونیئر وکیل کا اس کیس میں اُن کے سامنے پیش ہونا اچھا نہیں لگا۔ ان کے جملوں کے بعد لمحوں میں خود پر قابو پایا اور شاید کچھ اس طرح کہا کہ شاید یہ کیس میری پیدائش کے وقت سے پہلے کا ہے، مگر میں آپ کو اس پر پوری طرح مطمئن کروں گی۔‘ ’مجھے اس پر بہت خوشی ہوئی اور مجھے لگا کہ ایک لڑکی بھی دنیا میں بہت کچھ کر سکتی ہے اور یہ سوچ ہمیشہ میرے ساتھ رہی۔ اصل میں، میں کبھی بھی بے نظیر اور پیپلز پارٹی کی سیاست سے وابستہ نہیں تھی مگر مجھے کچھ کرنے والی طاقتور خواتین نے ہمیشہ متاثر کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’زندگی میں میں نے بہت محنت کی ہے اور 18 سال کی عمر کے بعد کبھی والدین سے پیسے نہیں لیے۔‘ ’کیمرج کی تعلیم محنت طلب ہوتی ہے۔ چونکہ میرے پاس مکمل سکالرشپ تھا، اس لیے میری ساری توجہ تعلیم ہی کی طرف تھی مگر جب تعلیم سے فارغ ہوئی اور زیر تربیت بیرسٹر بنی تو اس وقت اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے قانون کے طالبعلموں کو ٹیوشن پڑھایا کرتی تھی جس سے میرے اخراجات پورے ہو جاتے تھے۔‘ ’میں سمجھتی ہوں کہ جب دل میں لگن ہو اور آپ محنت کر رہے ہوں تو پھر کچھ بھی ناممکن اور مشکل نہیں رہتا ہے۔ میری زندگی میں ایسا ہو چکا ہے۔ میں صرف 24 سال کی عمر ہی میں بین الاقوامی ٹریبونل میں پیش ہونا شروع ہو گئی تھی اور پھر آئی سی ایس آئی ڈی کی تاریخ میں دنیا کی کم عمر ترین خاتون جج بن گئی ہوں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c06r4rrvyvxo", "summary": "سوشل میڈیا پر مواد تیار کرنے والی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ ملازمین کو کم کام کرنا چاہیے اور وہ بھی گھر پر رہ کر جس کی انھیں اچھی تنخواہ ملے۔ ان کی اس رائے سے یقیناً لاکھوں کروڑوں لوگ متفق ہوں گے۔", "title": "’لیزی گرل جاب‘: دفتر اور باس سے دور اچھی تنخواہ اور کم کام والی نوکری کا تصور کیا ہے؟", "firstPublished": "2023-09-26T06:08:29.375Z", "id": "c06r4rrvyvxo", "article": "سوشل میڈیا پر مواد تیار کرنے والی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ ملازمین کو کم کام کرنا چاہیے اور وہ بھی گھر پر رہ کر جس کی انھیں اچھی تنخواہ ملے۔ ان کی اس رائے سے یقیناً لاکھوں کروڑوں لوگ متفق ہوں گے۔ مئی میں 26 سالہ گیبریئل جج نے ٹک ٹاک فلم بنائی جس کا عنوان تھا ’لیزی گرل جاب‘ (یعنی سست لڑکی کی نوکری) جو ان کے مطابق کم تناؤ والی مکمل طور پر دفتر اور باس سے دور اچھی تنخواہ والی نوکری ہے۔ مثال کے طور پر وہ غیر تکنیکی کاموں کی بات کرتی ہیں جن میں ان کے نزدیک صبح نو سے پانچ بجے کے درمیان ہی کام کرنا ہوتا ہے اور اتنی تنخواہ مل جاتی ہے کہ باآسانی گزر بسر ہو سکے۔ یہ نام دراصل ایک نئی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جو استعفوں کی عالمی لہر کے دوران پنپی اور جس میں ملازمین بہتر تنخواہوں اور کام کے اوقات میں لچک کے خواہشمند ہیں۔ وہ اس تصور کو چیلنج کرتے ہیں کہ ملازمت کے اوقات کا کام سے تعلق ہے۔ امریکہ کی ریاست کولوراڈو کی رہائشی گبریئل کو یہ تصور زیادہ کام کرنے کے بعد آیا۔ وہ کہتی ہیں کہ بطور کنسلٹنٹ ہفتے میں 50 سے 60 گھنٹے کام کرنا نارمل نہیں تھا جس نے ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کو متاثر کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’تھکاوٹ اور بیماری کو نوکری کی دنیا کا حصہ نہیں ہونا چاہیے خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب کام کے اوقات میں لچک اور خود مختاری دفتر سے دور رہ کر کام کرنے کی وجہ سے ممکن ہو گیا ہے اور ذہنی صحت ایک ترجیح بن چکی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ نوکری کا مثبت تجربہ کرنا ممکن ہے اور اب اس معاملے پر نئی نسل کھل کر بات بھی کر رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ملازمین اب پہلے کی نسبت نوکری اور گھریلو زندگی میں اعتدال چاہتے ہیں اور کسی بھی کام میں خود کو اتنا نہیں پھنسانا چاہتے جس سے ان کی نجی زندگی اور صحت متاثر ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ گبریئل کی جانب سے ایک عام فہم اصطلاح کا سامنے آنا اس معاملے پر بحث چھیڑنے کے لیے ضروری ہے۔ ’اس رواج کو نام دینے سے لوگ متوجہ ہوتے ہیں اور بات چیت شروع ہوتی ہے اور ایسا ہی ہو رہا ہے کیونکہ لیزی گرل جاب کا اصلی مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی بھرپور صلاحیت کے مطابق کام کریں کیونکہ آپ کو اسی کا معاوضہ مل رہا ہے اور پھر ایسے کام بھی کر سکیں جن سے آپ کو خوشی ملتی ہے۔‘ جولائی میں ایک اور ٹک ٹاکر نے اپنی لیزی گرل جاب کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے یہ لیزی گرل جاب کا ٹرینڈ پسند ہے لیکن ایسی نوکری کی توقع کرنا سستی نہیں۔ ایک ایسی نوکری کی توقع بلکل غلط نہیں جس میں اچھی تنخواہ ہو، کام اور نجی زندگی میں اعتدال ہو اور آپ تھکاوٹ سے بچ سکیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cx94l8y114ro", "summary": "بی بی سی کی جانب سے پولیس کو اطلاع دیے جانے کے بعد فرنس میں ایک ٹرک سے چھ خواتین کو بازیاب کروایا گیا ہے جن میں سے چار ویتنامی اور دو عراقی شہری ہیں۔ یہ خواتین، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تارکین وطن ہیں، اس ٹرک میں بند تھیں اور انھیں سانس لینے میں مشکل ہو رہی تھی۔", "title": "’ہمارا دم گھٹ رہا ہے‘: پراسرار فون کال، نامعلوم ٹرک اور چھ خواتین جنھیں بی بی سی نے بچانے میں مدد کی ", "firstPublished": "2023-09-28T11:26:05.289Z", "id": "cx94l8y114ro", "article": "فرانسیسی پراسیکیوٹر نے تصدیق کی ہے کہ ڈرائیور نے کچھ آوازیں آنے کے بعد ٹرک کو روک لیا اور پولیس کو اطلاع دی۔ پراسیکیوٹر نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ڈرائیور پر کسی جرم کا شبہ نہیں تھا۔ ڈرائیور کی کمپنی نے ہمیں بتایا کہ ڈرائیور نے تمام سوالات میں پولیس کی مدد کی اور رضاکارانہ طور پر بیان دیا۔ ٹرک ڈرائیور کو بغیر کسی الزام کے رہا کر دیا گیا ہے۔ بی بی سی کی جانب سے پولیس کو اطلاع دیے جانے کے بعد فرانس میں ایک ٹرک سے چھ خواتین کو بازیاب کروایا گیا ہے جن میں سے چار ویتنامی اور دو عراقی شہری ہیں۔ یہ خواتین، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تارکین وطن ہیں، اس ٹرک میں بند تھیں اور انھیں سانس لینے میں مشکل ہو رہی تھی۔ ان میں سے ایک نے اندر موجود رہتے ہوئے بی بی سی سے بات کی جس کے بعد بی بی سی نے ان کا پولیس سے رابطہ کروایا، اور پھر پولیس نے اس ٹرک کا پتا لگایا۔ مجھے بتایا گیا کہ ٹرک کے پیچھے چھ خواتین موجود ہیں جو ایئر کنڈیشنر کی وجہ سے بہت سردی محسوس کر رہی ہیں اور پریشان ہیں۔ تاہم یہ خواتین باہر کی دنیا سے رابطہ کر سکتی تھی اور مجھے فون کرنے والے نے میرا ان سے رابطہ کروا دیا۔ ٹرک میں موجود ایک نوجوان خاتون نے مجھے پیغام بھیجا ’یہاں بہت سردی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ٹرک کے اس حصے کو لوہے کی سلاخ سے بند کیا گیا تھا جس میں کیلے بھی لے جائے جا رہے تھے۔ انھوں نے مجھے دو ویڈیوز بھی بھجوائیں۔ خاتون نے مجھے بتایا کہ وہ ایک رات قبل ساڑے 12 بجے ٹرک میں داخل ہوئے تھے اور اب 10 گھنٹے گزارنے کے بعد ان کو پریشانی شروع ہو رہی تھی کیوں کہ ان کے فون سے علم ہوا کہ ٹرک نے اپنا رخ تبدیل کر لیا ہے۔ میں نے فرانس میں ایک جاننے والے سے کہا کہ وہ قریبی پولیس سے رابطہ کرنے میں مدد کریں جن کو یہ معلومات فراہم کر دی گئیں۔ ٹرک میں موجود خاتون فون نہیں کر سکتی تھیں۔ یہ واضح نہیں کہ ایسا کیوں تھا لیکن شاید اس کی وجہ ان کے فون میں مخصوص سم کارڈ ہو۔ اچانک ٹرک سے لائیو لوکیشن فراہم ہونا بند ہو گئی۔ لیکن خاتون نے مجھے ٹیکسٹ پیغام بھیجا اور بتایا کہ ایئر کنڈیشنر بند کر دیا گیا ہے اور اب ان کے لیے اندر سانس لینا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے علم ہوا کہ ٹرک میں داخل ہوتے وقت اس خاتون کے تین ساتھیوں نے ان کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ انھوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا، یہ تو معلوم نہیں لیکن ان خواتین نے ٹرک کے نمبر کی تصویر بنا لی تھی۔ اس فوٹو سے پتہ چلا کہ ٹرک کی نمبر پلیٹ آئرش تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckv1ywklpv1o", "summary": "ایک نوجوان لڑکی سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران اپنے مذہبی عقائد کا اظہار کیوں نہیں کر سکتی؟ یہ ایک مشکل سوال ہے مگر بظاہر فرانسیسی حکام کو لگتا ہے کہ ان کے پاس اس کا اچھا جواز ہے۔ ", "title": "فرانس کے سکولوں میں عبایہ پہننے پر پابندی: ’لڑکیاں شارٹس پہن سکتی ہیں تو عبایہ کیوں نہیں؟‘", "firstPublished": "2023-09-09T10:35:38.760Z", "id": "ckv1ywklpv1o", "article": "ایک نوجوان لڑکی سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران اپنے مذہبی عقائد کا اظہار کیوں نہیں کر سکتی؟ یہ ایک مشکل سوال ہے مگر بظاہر فرانسیسی حکام کو لگتا ہے کہ ان کے پاس اس کا اچھا جواز ہے۔ جو کہ وسیح طور پر یہ ہے کہ وہ بطور فرانسیسی ایک قوم ہیں اور نوجوان اس کا حصہ ہے۔ سیکولرزم کا معاملہ واضح طور پر فرانس کی پہچان ہے جو اسے اپنے پڑوسیوں سے منفرد کرتا ہے۔ فرانسیسی مسلم خواتین سمیت باقی دنیا کے نزدیک یہ انسانی آزادی کی صریح خلاف ورزی سمجھی گئی جبکہ فرنس میں اس اقدام کو ریاست کے مساوات کے اقدار کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ عبایہ 30 سال سے زیادہ پرانی بحث کا محض ایک نیا تکرار ہے۔ مسلم لڑکیوں کو ان کے لباس - سر ڈھانپنے - کی وجہ سے سکولوں میں داخلے سے انکار کرنے کا پہلا شائع شدہ کیس 1989 میں پیرس کے قریب کریل قصبے میں ہوا۔ سکول کے سربراہ حکومت سے رہنمائی مانگ رہے تھے کیونکہ وہ دیکھ سکتے تھے کہ یہ روش ایک رجحان بنتا جا رہا ہے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر انفوئنسر اس کی ترغیب دے رہے ہیں اور بعض مذہبی گروہوں کا تعلق اخوان المسلمین سے ہے۔ بہت سے فرانسیسی مسلمانوں کے لیے یہ قاعدہ توہین آمیز ہے کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ان کا مذہب ہے جسے ہمیشہ مخصوص نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سینیگالی نژاد مسلمان خاتون سوکھنا میمونہ سو، جو 11 سال قبل فرانس میں تعلیم حاصل کرنے آئی تھیں، کہتی ہیں کہ یہ پابندی بکواس ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ آزاد ملک ہے لیکن آپ کو ایسے کام کرنے کی اجازت نہیں ہے جو آپ کی ثقافت اور مذہب کا حصہ ہیں۔‘ پیرس سے تعلق رکھنے والی 21 سالہ لینا عبایے کو ثقافتی لباس طور پر دیکھتی ہیں۔ ان کے نزدیک اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’ہر سال جب مسلمانوں کی بات ہوتی ہے تو فرانس ان کے لیے کچھ نیا قانون لاتا ہے۔‘ جب صدر میکخواں کہتے ہیں کہ طلبہ کو دیکھ کر ان کے مذہب کا پتا نہیں چلنا چاہیے تو اکثریت اس بات سے اتفاق کرتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس کا سختی سے نفاذ طویل مدت میں انفرادی آزادی کی یقین دہانی کرے گا اور فرانس اس کی بدولت مختلف ’برادریوں‘ میں بٹ نہیں سکے گا۔ وہ اس بات پر بھی حامی بھرتے ہیں۔ فرانس میں اکثر لوگ اس بات سے متفق ہیں کہ فیمنسٹ (خواتین کے حقوق کی کارکنان) کے مطابق عبایہ کوئی مذہبی لباس نہیں بلکہ جسم کو ڈھانپنے والا روایتی لباس ہے۔ فرانس کی اعلی ترین انتظامی عدالت سٹیٹ کونسل نے پابندی ختم کرنے کے کسی اقدام کو مسترد کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ یہ فرانسیسی قانون پر مبنی ہے اور اس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyd80mj3dv8o", "summary": "ماہرین کے مطابق سورت کی ہیروں کی صنعت میں سست روی کی وجہ سے پچھلے کچھ مہینوں میں 20 ہزار سے زیادہ لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔", "title": "انڈیا: سورت کی اربوں ڈالر کی ہیروں کی صنعت جسے غیر یقینی نے گرہن لگا دیا", "firstPublished": "2023-05-20T10:25:18.913Z", "id": "cyd80mj3dv8o", "article": "ماہرین کے مطابق سورت کی ہیروں کی صنعت میں سست روی کی وجہ سے پچھلے کچھ مہینوں میں 20 ہزار سے زیادہ لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سورت کی ہیروں کی صنعت کی مالیت تین لاکھ کروڑ روپے (سالانہ) ہے اور یہ ملک کی جی ڈی پی میں نمایاں حصہ ڈالتی ہے۔ نئے بحران کے دوران ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھنے والی ایک خاتون ملازم نے کہا کہ ’اب تک ہزاروں لوگوں کو نوکریوں سے فارغ کیا جا چکا ہے۔ کساد بازاری جاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ کی وجہ سے سیٹھ کا سامان نہیں بک رہا ہے، اس لیے عملے نے خام مال کی قیمت بھی بڑھا دی ہے۔ ایسے لوگوں کو رکھا جا رہا ہے جو دو یا تین طرح کے کام کر سکیں۔‘ اس صورتحال کی وجہ سے زندگی میں جو مشکل صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’مشکلیں تو آرہی ہیں لیکن کوئی چارہ نہیں فیکٹری والوں کا کہنا تھا کہ جب ہیرا آئے گا، مزید کام ہو گا تو بلا لیں گے لیکن مہینوں بعد بھی کوئی فون نہیں آیا۔‘ سورت کی ہیروں کی صنعت میں مندی کا سامنا کرنے والی ایک اور خاتون کارکن نے اپنی حالت زار بیان کی، لیکن نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔ سورت میں ’لکشمی ڈائمنڈ‘ کمپنی کے چونی بھائی گجیرا نے کہا کہ ’ہم روس سے کھردرے ہیرے منگواتے تھے، وہاں الروسا سے خام مال ملتا تھا۔ لیکن جنگ کے بعد یہ کافی حد تک رک گیا ہے۔ پابندیاں لگائیں تاکہ امریکی شہری روس سے ہیرے نہ خرید سکیں، اسی لیے اگر کھردرے ہیرے روس سے انڈیا اور خاص طور پر سورت آتے ہیں تو پھر اسے تیار کرکے کس کو بیچا جائے یہ بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ امریکہ تیار ہیروں کی فروخت کی سب سے بڑی منڈی ہے۔‘ صنعت سے وابستہ لوگوں کا خیال ہے کہ مغربی ممالک پر جنگ کے اثرات کے باعث تیار مال کی فروخت میں مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ہیروں کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے بحران بڑھ گیا ہے۔ سورت میں رتنا کلاکار وکاس سنگھ کے صدر بلو بھائی ویکریا بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے اس کے اثرات جاری ہیں۔ جیمز اینڈ جیولری ایکسپورٹ پروموشن کونسل (جی جے ای پی سی) کے اعداد و شمار کے مطابق کٹے ہوئے اور پالش شدہ ہیروں کی برآمدات میں مارچ میں مسلسل کمی ریکارڈ کی گئی۔ فروری کے مہینے میں بھی یہی صورتحال تھی۔ مارچ میں کل برآمدات 1.6 ارب ڈالر رہیں۔ اس عرصے کے دوران، ہیرے کی کارکردگی دیگر جواہرات اور زیورات کے مقابلے سب سے زیادہ خراب رہی جس کی برآمدات میں زبردست کمی واقع ہوئی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nrjqg7jz7o", "summary": "جو بات بلاشبہ شی جن پنگ کی تیسری مدت کے آغاز پر صحیح ہے وہ یہ ہے کہ دنیا شدید تبدیلی کے دور میں ہے اور روس کی طرح چین میں بھی امریکہ کو خود اپنے ہی بنائے ہوئے ایک مخالف کا سامنا ہے۔\n", "title": "کیا امریکہ شی جن پنگ کی دنیا میں رہ سکتا ہے؟", "firstPublished": "2022-10-31T08:10:39.296Z", "id": "c4nrjqg7jz7o", "article": "صدر جو بائیڈن کی نئی جاری کردہ قومی سلامتی کی حکمت عملی میں بیجنگ کو موجودہ عالمی نظام کے لیے ماسکو سے بھی بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے اور واشنگٹن نے تائیوان پر چینی حملے کے بارے میں بات کرنا شروع کر دی ہے جو کہ دور دراز کے امکان کے بجائے ایک حقیقت پسندانہ امکان ہے۔\r سنہ 2012 میں جب مسٹر شی نے پارٹی کے جنرل سکریٹری کے طور پر اپنی پہلی مدت کا آغاز کیا تو بھی بین الاقوامی میڈیا کوریج اکثر فلک بوس عمارتوں، ثقافتی تبادلوں اور نئے متوسط طبقے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا اور یہ کہہ رہا تھا کہ یہ اس بات کے شواہد ہیں کہ چین بنیادی طور پر بہتری کی جانب تبدیل ہو رہا ہے۔\r مسٹر شی کے اقتدار سنبھالنے کے پہلے سے ہی مذہبی عقیدے کو نشانہ بنانا، اختلاف کرنے والوں کو جیلوں میں ڈالنا اور ایک بچہ کی پالیسی کے وحشیانہ نفاذ سیاسی نظام کا لازمی حصہ تھے نہ کہ یہ محض ضمنی اثرات تھے۔\r\n\nلیکن ایک خطے کے تمام لوگوں کی بڑے پیمانے پر صرف ان کی ثقافت اور شناخت کی بنیاد پر قید نے خطرے کی گھنٹی بجا دی اور اس نے عالمی رائے عامہ پر بڑا اثر ڈالا کیونکہ یورپ اور اس سے باہر کی دنیا میں اس طرح کے معملات پر تاریخی گونج تھی۔\r لیکن سنکیانگ سوچوں کو بالکل واضح کر رہا تھا اور چین بھی اس بدلتی ہوئی لہر کو محسوس کر سکتا تھا۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ سنکیانگ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا پردہ فاش کرنے کی کوشش کرنے والے بہت سے بین الاقوامی صحافیوں کو ملک سے زبردستی نکال دیا گیا، جن میں سے ایک میں بھی ہوں۔\r تائیوان کی حیثیت پر صدر بائیڈن کے حالیہ تبصروں سے زیادہ اس بات کا کوئی واضح اشارہ نہیں کہ امریکہ اور چین کے تعلقات میں کتنی زیادہ تبدیلی آئی ہے۔\r یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ اگر امریکہ مداخلت نہ کرنے کی بات کرتا ہے تو اس سے حملے کو گرین سگنل مل سکتا ہے۔ اور اگر وہ یہ کہتا ہے کہ وہ دفاع کرے گا تو یہ تائیوان کی خود مختار حکومت کو آزادی کے باضابطہ اعلان کے لیے حوصلہ افزائی کر سکتا ہے۔\r مشترکہ اصولوں اور اقدار کے بجائے چین اب متبادل کے طور پر اپنے خوشحال آمریت کا ماڈل پیش کرتا ہے۔\r\nیہ اپنی انٹیلی جنس خدمات کے ذریعے، اور اپنے نظام کو فروغ دینے کے لیے اپنے وسیع پروپیگنڈے کے ذریعے بین الاقوامی اداروں میں سخت محنت کر رہا ہے اور یہ دلیل دے رہا ہے کہ جمہوریتیں زوال کا شکار ہیں۔\r لیکن جو بات بلاشبہ شی جن پنگ کی تیسری مدت کے آغاز پر صحیح ہے وہ یہ ہے کہ دنیا شدید تبدیلی کے دور میں ہے اور روس کی طرح چین میں بھی امریکہ کو خود اپنے ہی بنائے ہوئے ایک مخالف کا سامنا ہے۔\r\n"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-59619290", "summary": "11 دسمبر 2001 کو پیش آنے والا یہ واقعہ اور اس کی تاریخ بھلائے جا چکے ہیں جس کے تحت چین کو عالمی تجارتی تنظیم (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) میں شامل کیا گیا تھا۔ لیکن اس معاہدے نے امریکہ، یورپ اور ایشیا سمیت تیل اوردھاتوں جیسے قیمتی وسائل سے مالا مال کسی بھی ملک کی معاشی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔", "title": "ڈبلیو ٹی او معاہدہ: مغرب نے کھیر پکا کے چین کے سامنے رکھ دی", "firstPublished": "2021-12-11T13:05:26.000Z", "id": "4fe9d000-7acc-4359-80b7-9a3b23ca61d6", "article": "2001 میں امریکہ میں ہونے والے 9/11 کے حملے اور اس کے نتائج ہی دنیا کی توجہ کا مرکز تھے۔ لیکن اس حملے کے ٹھیک تین ماہ بعد ہی ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے دنیا پر 9/11 کے اثرات سے بھی زیادہ بڑی تبدیلی کی بنیاد رکھی۔ 11 دسمبر 2001 کو پیش آنے والا یہ واقعہ اور اس کی تاریخ بھلائے جا چکے ہیں جس کے تحت چین کو عالمی تجارتی تنظیم (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) میں شامل کیا گیا تھا۔ لیکن اس معاہدے نے امریکہ، یورپ اور ایشیا سمیت تیل اوردھاتوں جیسے قیمتی وسائل سے مالا مال کسی بھی ملک کی معاشی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس پر اس وقت زیادہ دھیان نہیں دیا گیا لیکن اس کے معاشی اور جغرافیائی اثرات آج بھی سب کو یاد ہیں۔ یہی معاہدہ عالمی مالیاتی بحران کی جڑ بنا۔ اسی کی بنا پر صنعتی پیداوار سے جڑی نوکریاں چین کے حوالے کر دی گئیں جس نے مغربی دنیا خصوصاً جی سیون ممالک میں سیاسی بحران پیدا کر دیا۔ لیکن یہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہوئی۔ بلکہ چین نے دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت بننے کا سفر شروع کر دیا۔ اس سفر کا انجام عنقریب چین کو دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن جانے کی شکل میں ہو گا۔ وہاں انٹرنیشنل ٹریڈ ایسوسی ایشن کے پینل سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چین کے اقتصادی ماڈل نے اس مغربی نقطہ نظر کو 'کسی حد تک غلط' ثابت کیا ہے کہ کسی ملک میں اختراعی معاشرے کے ہوتے ہوئے سیاسی کنٹرول نہیں رکھا جا سکتا۔ تجارتی دنیا میں چین کی ترقی نے ایک عالمی تبدیلی کی بنیاد رکھی جس کی وجہ چین کی افرادی قوت اور اعلی معیار کی فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ چینی حکومت کے خصوصی تعلقات بھی تھے۔ اس طاقت ور امتزاج نے رفتہ رفتہ کرہ ارض کا نقشہ بدل دیا۔ چین اور عالمی تجارتی منڈی کے ملاپ نے انتہائی اہم معاشی کامیابیوں کو جنم دیا۔ ان میں سے سب سے اہم انتہائی غربت کا خاتمہ ہے جو چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شمولیت سے قبل پچاس کروڑ افراد سے کم ہو کر اب تقریبا صفر ہو چکی ہے۔ اس کا اندازہ صرف کنٹینرز کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے جنہیں عالمی تجارت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شمولیت کے پانچ سال کے اندر اندر چین جانے اور آنے والے کنٹینرز کی تعداد چار کروڑ سے آٹھ کروڑ پر پہنچ گئی جس میں 2011تک مزید تین گنا اضافہ ہو چکا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا چین کی اقتصادی ترقی کے سفر کا دائرہ مکمل ہو چکا ہے؟ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں رہتے ہوئے چین نے انتہائی معاشی کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن سابق امریکی صدر ٹرمپ کے بعد موجودہ صدر جو بائیڈن بھی چین کے خلاف رکاوٹیں کھڑی کرنے میں دلچسپی لیتے دکھائی دیتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp06nqz34ngo", "summary": "'میں کئی سالوں سے متبادل صحت (طریقہ علاج) میں دلچسپی لے رہی تھی اور پھر کورونا وائرس کے ساتھ جو کچھ ہوا اس نے میری دلچسپی میں مزید اضافہ کر دیا۔'", "title": "سائنسی شواہد کے باوجود کیا جراثیم کا واقعی کوئی وجود نہیں ہے؟", "firstPublished": "2023-10-01T04:35:53.187Z", "id": "cp06nqz34ngo", "article": "’میں کئی سالوں سے متبادل صحت (طریقہ علاج) میں دلچسپی لے رہی تھی اور پھر کورونا وائرس کے ساتھ جو کچھ ہوا اس نے میری دلچسپی میں مزید اضافہ کر دیا۔‘ اور ان کا راستہ جانا پہچانا ہے۔ پہلے وہ ’ویلنس‘ یعنی تندرستی میں دلچسپی رکھتی تھیں اور صحت کے غیر روایتی علاج کے بارے میں پڑھ کر لطف اندوز ہوتی تھیں۔ پھر وہ کووڈ ویکسین کے اجزاء کے بارے میں شک و شبہات میں مبتلا ہو گئیں اور اس بات پر سوچنے لگیں کہ آخر ویکسین لگوانا کچھ دفاتر میں لازمی کیوں کیا جا رہا ہے۔ جراثیم سے انکار کرنے والوں کے ذریعہ استعمال ہونے والے الفاظ یا ’کی ورڈز‘ پر مشتمل سوشل میڈیا ڈیٹا کا تجزیہ بتاتا ہے کہ سنہ 2020 سے پہلے شاید ہی اس قسم کی بات چیت موجود بھی تھی اور کووڈ کی وبا کے ساتھ ہی اس میں اضافہ ہوا۔ بہت سے لوگ 1800 کی دہائی کے ایک باطل نظریہ کا حوالہ دیتے ہیں۔ جس طرح اس وقت یہ نظریہ ثابت ہو رہا تھا کہ جراثیم بیماری کا باعث بنتے ہیں، اسی طرح ایک فرانسیسی سائنس دان اینٹوائن بیچیمپ نے ایک نظریہ پیش کیا جسے ٹیرین تھیوری یا نظریہ قطعہ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے دعوی کیا کہ جراثیم بے ضرر ہیں جو صرف ایک غیر صحت مند جسم کے اندر بیماری پیدا کرنے والی چیز میں تبدیل ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کا تعلق 19 ویں صدی کے فرانسیسی سائنسدان کے نظریہ کے ساتھ اچانک وابستگی سے کم ہے جبکہ مرکزی دھارے کی کسی بھی چیز کو مکمل طور پر مسترد کرنے کے ساتھ زیادہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی حکومت یا صحت کا ادارہ کچھ کہتا ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ غلطی ہونی چاہیے۔ انھوں نے دیکھا ہے کہ جو چیز کبھی کبھار دیکھی جاتی تھی وہ تیزی سے ویکسین مخالف دلائل کی خصوصیت بنتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر ولسن کا کہنا ہے کہ ’میں انھیں زمین کے چپٹے ہونے کے نظریے کے ماننے والے کے طور پر دیکھتا ہوں فلیٹ ارتھرز کی طرح، ہم زمین کے گول ہونے کی تصاویر دکھا سکتے ہیں اور لوگ پھر بھی اس سے انکار کریں گے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ آج ’ہم کسی وائرس کو لے کر کسی جانور میں ڈال کر اسے بیمار کر سکتے ہیں۔ ہم انسانوں میں بھی وہی جینیاتی ترتیب تلاش کر سکتے ہیں اور آبادی میں اس کے پھیلاؤ کا پتہ لگا سکتے ہیں کیونکہ یہ ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے۔‘ سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں ویرونیکا کے آبائی ملک جنوبی افریقہ میں اس وقت کے صدر تھابو مبیکی نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ ایڈز کی بیماری ایچ آئی وی وائرس کی وجہ سے ہوئی تھی۔ وہ زندگی بچانے والی اینٹی ریٹرو وائرل ادویات فراہم کرنے سے بھی گریزاں تھے جو وائرس کو جسم میں نقل تیار کرنے سے روکتی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c063jr6knrjo", "summary": "تحقیق میں دیکھا گیا ہے کہ نارمل ڈیلیوری یا قدرتی طریقے سے پیدا ہونے والے بچوں میں ویکسین لگانے کے بعد پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کی مقدار آپریشن (سی سیکشن) کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں کے مقابلے میں دگنا ہوتی ہے۔", "title": "نارمل ڈیلیوری کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں میں قوت مدافعت زیادہ کیوں ہوتی ہے؟", "firstPublished": "2022-11-21T01:19:44.951Z", "id": "c063jr6knrjo", "article": "سکاٹ لینڈ اور ہالینڈ میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق کسی ویکسین کے جواب میں ہمارے مدافعتی نظام کے ردعمل کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ ہماری پیدائش کیسے ہوئی تھی، یعنی نارمل ڈیلیوری یا آپریشن (سی سیکشن) کے ذریعے۔ اس تحقیق میں دیکھا گیا ہے کہ نارمل ڈیلیوری یا قدرتی طریقے سے پیدا ہونے والے بچوں میں ویکسین لگانے کے بعد پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کی مقدار آپریشن (سی سیکشن) کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں کے مقابلے میں دگنا ہوتی ہے۔ اگرچہ آپریشن سے پیدا ہونے بچوں میں بھی مدافعت یا قدرتی تحفظ موجود ہوتا ہے، تاہم ہو سکتا ہے انھیں نارمل ڈیلیوری سے پیدا ہونے والے بچوں کی نسبت زیادہ پروبائیوٹِک یا ویکسین کی اضافی خوراک دینا پڑے۔ اگر ہم قدرتی طریقے یعنی آپریشن کے بغیر اس دنیا میں آتے ہیں تو جن مائیکروبز سے ہمارا پالا سب سے پہلے پڑتا ہے وہ ہماری ماں کی اندام نہانی میں موجود ہوتے ہیں۔ لیکن اگر آپ آپریشن یا سی سیکشن کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں تو آپ کا اس دنیا میں آنے کا راستہ دوسرا ہو جاتا ہے اور آپ کا پالا جن جرثوموں سے پڑتا ہے وہ انسانی جلد پر پائے جاتے ہیں یا ہسپتال اور گھر کی ہوا میں موجود ہوتے ہیں۔ جرنل آف نیچر کمیونیکیشن نامی جریدے میں اس تحقیق کے شائع ہونے والے نتائج میں دیکھا گیا ہے کہ جو بچے اندام نہانی کے راستے پیدا ہوتے ہیں ان میں بائفائیڈو بیکٹیریئم اور ایسکیرکیا کولائی نسل کےمائیکروبز کی مقدار زیادہ تھی۔ ان تنائج کی روشنی میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مفید بیکٹیریا کی مقدار زیادہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب ایسے بچوں کو نیوموکوکل اور مینیگوکوکل قسم کی ویکسین لگائی جائے گی تو ان میں بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کرنے والی اینٹی باڈیز  کی مقدارتقریباً  دوگنا ہو گی۔ حالیہ عرصے میں ’وجائنل سیڈِنگ‘ کا رجحان بھی دیکھا گیا ہے جس میں آپریشن سے پیدا ہونے والے بچے کے جسم پر ماں سے خارج ہونے والا قدرتی مائع لگایا جاتا ہے۔ دوسری جانب، مدافعتی نظام کے ماہر اور یونیورسٹی آف ایڈمبرا سے ہی منسلک، پروفیسر نیل مابوٹ کے مطابق یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ کسی بچے میں زیادہ اینٹی باڈیز پیدا ہونے کا براہ راست تعلق مائیکروبز سے ہوتا ہے۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ ’حالیہ تحقیق نے بہرحال یہ امکان پیدا کر دیا ہے کہ ہم نوزائیدہ بچوں، خاص طور پر آپریشن سے پیدا ہونے والے بچوں، کے مدافعتی نظام کو بہتر بنانے، ویکسین کے بہتر اثرات اور ان بچوں کو دیگر انفیکشنز سے بچانے کے لیے مفید بیکٹیریا پلا سکتے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/vert-fut-62374020", "summary": "منکی پوکس کی روک تھام میں استعمال ہونے والی ویکسین جس وائرس سے تیار کی گئی تھی اس کی پہچان کبھی نہیں ہو سکی ہے۔ یہ کیسے ہوا؟ اور کیا وہ جنگلی حیات کے اندر اب بھی کہیں موجود ہے؟", "title": "پُراسرار وائرس جس نے منکی پوکس کی ویکسین بنانے میں مدد کی", "firstPublished": "2022-08-02T14:14:49.000Z", "id": "d132b6e2-91d3-405b-bfe8-eedfe126389e", "article": "درحقیقت، آج تک کوئی نہیں جانتا کہ چیچک کو ختم کرنے والا وائرس آخر کہاں سے آیا اور اس کے باوجود، یہ پراسرار جرثومہ اب بھی استعمال کیا جا رہا ہے، بشمول منکی پاکس کے خلاف اس وقت لگائی جانے والی ویکسین میں، جسے اب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے عالمی صحت کی ایمرجنسی قرار دیا ہے۔ ابھی حال ہی میں جینیاتی ترتیب نے ان نتائج کی تصدیق کی ہے۔ اس کے بجائے وہ ویکسین جو چیچک کو ختم کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھی اور جو آج کل منکی پاکس کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں، ایک نامعلوم وائرس پر مبنی ہیں جس کی کوئی شناخت نہیں کر سکا ہے، ایک ’گھوسٹ‘ جرثومہ جو ویکسین کی شکل میں ہی پایا گیا۔ دہائیاں گزر جانے کے باوجود کوئی نہیں جانتا کہ کیسے اور کیوں یہ چیچک کی ویکسین میں آیا یا پھر یہ کہ یہ اب بھی کھلی فضا میں کہیں موجود ہے یا نہیں۔ اس کے بغیر حالیہ منکی پاکس کا مرض شاید بہت زیادہ تیزی سے پھیلتا۔ جیسا کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک نامعلوم جانور سے حاصل کردہ وائرس کو چیچک یا سمال پاکس ویکسین کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ یہ معلوم نہیں کہ ایسا کس نے اور کیسے کیا، مگر ممکن ہے کہ ایسا محض حادثاتی طور پر ہو گیا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ کسی نے یہ ویکسین ایسے مواد سے تیار کی ہے جس کے بارے میں اس کا خیال ہو کہ یہ گائے یا گھوڑے سے حاصل کیا گیا ہے، مگر درحقیقت وہ کسی نامعلوم جانور سے لیا گیا تھا۔ چونکہ اس کی کارکردگی بہت اچھی تھی اس لیے کسی نے اس پر زیادہ غور نہیں کیا۔ دوسری ویکسین ACAM2000 ہے جو منکی پاکس کی روک تھام میں زیادہ استعمال نہیں کی جاتی۔ یہ پہلی مرتبہ سنہ 2000 میں تیار کی گئی تھی۔ اور ویکسینیا کی اسی قسم سے بنائی گئی تھی جو سمال پاکس کے خاتمے کے لیے استعمال کی گئی تھی۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں اسے ذخیرہ کیا گیا تاکہ اگر دہشت گردوں نے چیچک کا حملہ کیا تو اسے ہنگامی طور پر روکا جا سکے۔ دیگر وائرس بھی شاید موقع کا فائدہ اٹھا رہے ہوں۔ اگرچہ کاؤپاکس اب گائیوں میں کم پائی جاتی ہے لیکن روڈینٹس میں ابھی موجود ہے۔ اور چونکہ 1970 کی دہائی میں سمال پاکس کی ویکسین بند کر دی گئی تھی اس لیے اب بچوں میں زیادہ سے زیادہ کیس ظاہر ہو رہے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61962529", "summary": "پولیو سے پاک قرار دیے جانے کے لیے ضروری ہے کہ مسلسل کم از کم تین سال تک ملک میں پولیو کا ایک بھی کیس سامنے نہ آئے اور ماحولیاتی نمونے بھی پولیو وائرس سے پاک رہیں۔ اس ہدف کے حصول کے لیے شمالی وزیرستان میں حکام کے لیے تشویش کی بات کیا ہے؟", "title": "’بچوں کو کہتے ہیں پولیو کے قطرے تُھوک دو، ان میں خنزیر کا گوشت ہے‘", "firstPublished": "2022-06-29T02:29:29.000Z", "id": "7af8ded6-1f5c-45cf-a1bf-4763279cf7fc", "article": "پولیو سے پاک قرار دیے جانے کے لیے ضروری ہے کہ مسلسل کم از کم تین سال تک ملک میں پولیو کا ایک بھی کیس سامنے نہ آئے اور ماحولیاتی نمونے بھی پولیو وائرس سے پاک رہیں۔ اس ہدف کے حصول کے لیے پولیو ویکسین کی مہمات مسلسل جاری تھیں۔ حکام کے لیے یہی زیادہ تشویش کی بات تھی۔ ’پولیو ویکسین مکمل طور پر مؤثر اور محفوظ ہے اور پوری دنیا میں یہی ویکسین استعمال ہو رہی ہے۔ پاکستان میں بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کہیں سے بھی بچوں میں پولیو سے معذوری کے واقعات سامنے نہیں آ رہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ویکسین مؤثر ہے۔‘ شمالی وزیرستان میں والدین کی طرف سے بچوں کو ویکسین نہ پلانے کی ایک دوسری صورت بھی حکام کے مشاہدے میں آئی ہے۔ ’جعلی فنگر مارکنگ‘ یعنی پولیو مہم کے دوران بچے کو ویکسین پلائے بغیر ہی پولیو ورکر اس کی انگلی پر سیاہی کا نشان لگا دیتا ہے۔ تو کیا لوگ پولیو کے قطروں کو لے کر حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں؟ اور کیا حکومت بلیک میل ہو جاتی ہے؟ آصف رحیم کہتے ہیں کہ وہ اسے بلیک میل تو نہیں کہیں گے۔ ان کے خیال میں بعض مقامات پر لوگوں کے مطالبات یا ان کی شکایات جائز بھی ہوتی ہیں۔ یہ مقامی حکام کے لیے ایک موقع بھی ہوتا ہے کہ انھیں لوگوں کے مسائل کا پتہ چلتا ہے اور وہ ان کے حل کے لیے کام کر سکتے ہیں۔ تاہم ڈپٹی کورڈینیٹر پی ای او سی پشاور محمد ذیشان خان نے اس بات کا اعتراف کیا کہ حکام کے علم میں جعلی فنگر مارکنگ کے واقعات آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی سیمپل میں پولیو وائرس شمالی وزیرستان اور ارد گرد کے علاقوں میں گزشتہ برس دسمبر کے مہینے ہی سے سامنے آنا شروع ہو گیا تھا۔ ’تو یہ ظاہر کرتا تھا کہ کہیں نہ کہیں پر جعلی فنگر مارکنگ ہو رہی ہے اور کہیں نہ کہیں بچے قطرے نہیں پی رہے۔ اور پھر یہ صرف وقت کی بات تھی کہ پولیو کا کیس سامنے آیا۔ اس کے بعد ہم نے اس بات کی نشاندہی کی کہ کون سے علاقے میں یہ (فیک فنگر مارکنگ) سب سے زیادہ ہے۔‘ جب پولیو ویکسین نہ لی جائے تو وائرس مرتا نہیں اور فضلے کے ذریعے ماحول میں پہنچ سکتا ہے جہاں سے اس کے پھیلنے اور افزائش کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی علاقے میں ماحولیاتی سیمپلز میں وائرس کی موجودگی کا پتہ چلے تو اس علاقے میں اضافی پولیو مہمات چلائی جاتی ہیں۔ محکمہ صحت کے حکام کے مطابق شمالی وزیرستان سمیت کئی علاقوں میں بعض افراد اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ پولیو کے قطرے ہر مہینے یا بار بار کیوں پلائے جاتے ہیں۔ یہ بھی ویکسین رفیوزل کی ایک وجہ بنتی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-61962291", "summary": "دو سال کے دوران کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کورونا وائرس کی بخار جیسی سنگین علامات ویکسین کی بدولت ختم ہو رہی ہیں۔", "title": "کورونا: ویکسین لگوانے اور نہ لگوانے والے افراد میں اس بیماری کی علامات کس قدر مختلف ہیں؟", "firstPublished": "2022-06-28T09:39:27.000Z", "id": "1b8e2a7d-6656-4d53-a0cb-aca6a9675e11", "article": "اس سال جنوری میں کراچی میں کورونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 40 فیصد تک پہنچ گئی تھی جس کے بعد اب جون کے مہینے میں یہ شرح دوبارہ بڑھتی جا رہی ہے اور حکومتی اعداد و شمار کے مطابق یہ شرح دس فیصد تک پہنچ گئی ہے تاہم ہسپتالوں میں مریضوں کے داخل ہونے کی شرح نہایت ہی کم ہے۔ حکومت نے ملک میں کورونا وبا کی ممکنہ نئی لہر کے پیش نظر ملک میں ویکسینیشن کے مہم کو ایک بار پھر تیز کر دیا ہے جبکہ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا ویکسین لگوانے کے چھ مہینے کے بعد کورونا وائرس کے خلاف قوت مدافعت کافی کم ہو جاتی ہے، اس لیے ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ پہلی اور دوسری بوسٹر ڈوز ضرور لگوائیں۔ بنیادی فرق یہ ہے کہ ویکسین نہ لگوانے والوں کو بخار تھا، جو کچھ زیادہ سنگین مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے۔ انھوں نے ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ سر درد اور گلے کی سوزش کی بھی اطلاع دی، جنھوں نے کووڈ ویکسین کی دو یا زیادہ خوراکیں حاصل کیں۔ مصنفین نے متنبہ کیا ہے کہ علامات کی درجہ بندی صرف ان معلومات پر مبنی ہے جو ایپلیکیشن میں شیئر کی گئی ہیں۔ اس میں کورونا وائرس کی مخصوص اقسام کے پھیلاؤ پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی۔ برطانیہ اور بین الاقوامی حکام کا کہنا ہے کہ اگر آپ میں کورونا وائرس کے انفیکشن کی عام علامات میں سے ایک یا ایک سے زیادہ علامات ہیں تو آپ کا پہلا کام گھر میں رہنا اور دوسروں کے ساتھ بات چیت کو محدود کرنا ہے۔ یہ مدافعتی عمل انتہائی پیچیدہ ہے اور اس میں خلیات اور اینٹی باڈیز کی ایک بڑی قوت شامل ہوتی ہے۔ لہذا یہ مدافعتی ردعمل وائرس کی قسم، اس کے بدلنے کی صلاحیت، ویکسین تیار کرنے کا طریقہ، کسی شخص میں پہلے سے موجود مسائل اور دیگر متغیرات کے لحاظ سے کافی حد تک مختلف ہوتا ہے۔ لیکن یہاں ایک بہت اہم نکتہ ہے کہ اگرچہ ایسے کیسز میں جہاں ویکسین انفیکشن کو نہیں روک سکتی وہاں ویکسین سے تیار ہونے والا مدافعتی ردعمل اکثر علامات کو کم شدید بنا سکتا ہے اور اس طرح یہ زیادہ شدید بیماری اور موت کے واقعات کو کم کرتی ہے۔ مثال کے طور پر روٹا وائرس اور انفلوئنزا کی ویکسین کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے اور یہ بالکل وہی رجحان ہے جو ہم کووڈ 19 کے ساتھ دیکھ رہے ہیں: اگرچہ دستیاب ویکسینیں وبا کی نئی لہروں کو نہیں روکتی لیکن وہ زیادہ تر انفیکشن کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے اچھی طرح سے کام کر رہی ہیں۔ معلومات سے پتا چلتا ہے کہ جن بالغ افراد کو کووڈ ویکسین کی تین خوراکیں ملی ہیں ان میں ان لوگوں کے مقابلے میں جن کو ویکسین نہیں لگی، ہسپتال میں داخل ہونے، سانس لینے یا مکینیکل مدد کی ضرورت کا خطرہ 94 فیصد کم تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-60137094", "summary": "ہسپتال کی جانب سے محتاط انداز میں لکھے گئے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مریض کی ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے لیے نااہلی کی وجوہات میں کووڈ ویکسین کے علاوہ دیگر عوامل بھی شامل ہیں تاہم مریض کی پرائیوسی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مزید تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔", "title": "ہسپتال کا ویکسین نہ لگوانے والے شخص کے دل کی پیوندکاری سے انکار", "firstPublished": "2022-01-27T01:56:42.000Z", "id": "ecf7bf52-1f0c-414a-bc75-45af1d6041e2", "article": "امریکی شہر بوسٹن کے ایک ہسپتال نے ایک مریض کا ہارٹ ٹرانسپلانٹ کرنے سے صرف اس وجہ سے انکار کر دیا کیونکہ اس نے کووڈ کے خلاف تحفظ کی ویکیسن نہیں لگوائی ہوئی تھی۔ مریض کے والد ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ 31 برس کے ڈی جے فرگوسن کو دل کے ٹرانسپلانٹ کی اشد ضرورت ہے مگر بوسٹن کے بیگھم اینڈ وویمن ہسپتال نے انھیں اپنی ہارٹ ٹرانسپلانٹ یعنی دل کی پیوند کاری کے فہرست سے نکال دیا ہے۔ مریض کے والد ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ کووڈ ویکسین ان کے بیٹے کے بنیادی اصولوں کے خلاف تھی اور وہ اس پر یقین نہیں رکھتے تھے اس لیے انھوں نے یہ ویکسین نہیں لگوائی تھی جبکہ ہسپتال کا کہنا ہے کہ وہ صرف اپنی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔ بریگھم اینڈ وویمن ہسپتال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انسانی اعضا کی قلت کے باعث ہم یہ یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ جس مریض کی بھی اعضا کی پیوند کاری کی جائے اس کے زندہ رہنے یا بچنے کے زیادہ سے زیادہ امکانات ہوں۔‘ ہسپتال کی جانب سے محتاط انداز میں لکھے گئے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مریض کے دل کی پیوندکاری کے لیے نااہلی کی وجوہات میں کووڈ ویکسین کے علاوہ دیگر عوامل بھی شامل ہیں تاہم اس نے مریض کی پرائیوسی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مزید تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ ہسپتال کا مزید کہنا تھا کہ تقریباً ایک لاکھ ایسے مریض ہیں جو انسانی اعضا کی پیوند کاری کے لیے اعضا کی فراہمی کے منتظر ہیں تاہم ان اعضا کی قلت کے باعث ممکنہ طور پر اگلے پانچ سال تک انھیں انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ فرگوسن کے لیے عطیات جمع کرنے والے آرگنائزر کا کہنا ہے کہ فرگوسن نے کووڈ ویکسین سے متعلق خدشات کا اظہار اس لیے کیا تھا کیونکہ انھیں دل میں سوزش کا خطرہ ہے اور یہ اس ویکسین کا ایک ممکنہ ردعمل یا نقصان ہو سکتا تھا، جس کے متعلق امریکی سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کا کہنا ہے کہ اس کے امکانات بہت ہی کم اور عارضی ہیں تاہم یہ دل کی صحت اور حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے کمزور دل کے مریضوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ نیویارک یونیورسٹی کے گراسمین سکول آف میڈیسن کے شعبہ میڈیکل ایتھکس کے سربراہ ڈاکٹر آرتھر کپلان نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ اعضا کی پیوند کاری یا ٹرانسپلانٹ کے بعد مریض کا مدافعاتی نظام مکمل طور بند ہوتا یا بہت زیادہ کمزور ہوتا ہے اور ایسے میں عام نزلہ زکام ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’انسانی اعضا کی پہلے ہی بہت قلت ہے اور یہ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں لگا سکتے جس کے زندہ رہنے کے امکانات بہت کم ہوں جبکہ اس کے برعکس دوسرے لوگ ویکسین شدہ ہیں اور ان کے زندہ رہنے کے امکانات زیادہ ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-59933281", "summary": "کووڈ 19 کی ویکسین لینے کے باوجود دنیا بھر میں کووڈ کے کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے تاہم ماہرین کووڈ ویکسین کی افادیت کے معترف ہیں اور اسے لینے پر زور دے رہے ہیں۔", "title": "ویکسین لگوانے کے باوجود کئی افراد کورونا وائرس کا دوبارہ شکار کیوں ہو جاتے ہیں؟", "firstPublished": "2022-01-10T08:28:25.000Z", "id": "be4b14bb-5982-40da-9a1c-193dff342b68", "article": "دنیا بھر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی کووڈ 19 کے وبائی مرض میں ایک بار پھر اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان میں کورونا کی روک تھام کے ادارے این سی او سی کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں 1649 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ ملک بھر میں مثبت کیسز کی شرح 3.66 فیصد رہی ہے۔ پاکستان میں صحت حکام کے مطابق دنیا بھر کی طرح کووڈ 19 کا اومیکرون ویریئنٹ پاکستان میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے جس کے باعث مثبت کیسز کی شرح میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ امریکہ، فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک میں کووڈ 19 کے نئے کیسز کے روزانہ ریکارڈ اضافے کو دیکھتے ہوئے ویکسین کی افادیت پر ایک بار پھر سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی ہے۔ اب تک مشاہدے میں ویکسینز کے جو ضمنی اثرات سامنے آتے ہیں ان کی نوعیت بہت ہلکی ہے اور ویکسین لگنے کے چند ہی روز میں یہ اثرات بھی دور ہو جاتے ہیں۔ ویکسین لینے کے بعد اہم شکایات میں انجکشن کی جگہ پر درد اور سرخی کا آنا، بخار، سر درد، تھکاوٹ، پٹھوں میں درد، سردی لگنا اور متلی وغیرہ جیسی علامات شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کووڈ 19 کی پہلی لہر کے خلاف جو ویکسین تیار کی گئی ان میں فائزر، ایسٹرا زینیکا اور ساتھ ساتھ دوسری ویکسینز بھی شامل ہیں۔ ان کا مقصد بیماری کو سنگین ہونے سے پیدا ہونے کے خطرے کو کم کرنا ہے، وہ خطرہ جس میں متاثرہ فرد کو ہسپتال داخل ہونا پڑ سکتا ہے یا انتہائی حالات میں موت واقع ہو سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’خوش قسمتی سے، کووڈ کے تازہ کیسز میں اضافے کے باوجود ہسپتال میں داخل ہونے اور اموات کی شرح کم ہوئی ہے، خاص طور پر ان لوگوں میں جو پہلے ہی ویکسین لے چکے ہیں۔‘ نیو یارک سٹی ہیلتھ کیئر سسٹم کے چارٹس واضح طور پر ویکسین کی عملی طور پر تاثیر کو ظاہر کرتے ہیں، وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ویکسین لگوانے والے اور ویکسین نہ لینے والے لوگوں میں کووڈ انفیکشن، ہسپتال میں داخل ہونے اور موت کی شرح کتنی مختلف ہے۔ دسمبر کے آغاز میں شہر میں ہونے والے کیسز میں دیکھا گیا کہ ویکسین نہ لینے والے لوگوں کی ہسپتال میں داخلے اور اموات کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا (جامنی خط) اور خوراک لینے والوں میں یہ نسبتاً مستحکم نظر آیا (نارنجی خط)۔ یہ مندرجہ ذیل تین تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلی تصویر سے پتہ چلتا ہے کہ دسمبر کے آخر تک نیویارک شہر میں کیسز کی تعداد میں کتنی تیزی سے اضافہ ہوا، اور ویکسین شدہ اور غیر ویکسین والے افراد کے درمیان رپورٹ شدہ کیسز میں بہت بڑا فرق دیکھا گیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-59850497", "summary": "کورونا وائرس جس تیزی سے اس سرد، خشک اور کم آبادی والے خطے میں پھیل رہا ہے وہ یہاں کے محققین کے لیے کسی اچھنبے سے کم نہیں۔", "title": "انٹارکٹیکا کے تحقیقاتی سٹیشن میں 16 افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص", "firstPublished": "2022-01-02T08:21:51.000Z", "id": "05ee204e-b666-4dde-94c1-bdfeaa40a2e2", "article": "دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائی جائے تو دوردراز واقع ایک ایسے براعظم پر جا کر نظر ٹھہرتی ہے جو سائز میں کئی گنا بڑا ہے مگر یہاں شدید موسم کی وجہ سے آبادی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ خطہ انٹارکٹیکا کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہاں بیلجیئم نے کورونا وائرس پر تحقیق کے لیے ایک سائنسی مرکز بھی قائم کر رکھا ہے۔ یہاں آنے والے افراد کو ویکسین اور ٹیسٹ کے مراحل سے گزر کر یہاں تک رسائی ملی مگر پھر بھی اس تحقیقاتی مرکز میں اس وقت تشویش پھیلی جب مرکز کے عملے میں وائرس کی تشخیص ہوئی۔ ’سرد، خشک اور کم آبادی والے خطے میں وائرس کا پھیلاو اچھنبے سے کم نہیں‘ یہ وائرس جس تیزی سے اس سرد، خشک اور کم آبادی والے خطے میں پھیل رہا ہے وہ یہاں کے محققین کے لیے کسی اچھنبے سے کم نہیں۔ واضح رہے کہ 14 دسمبر کے بعد سے، ’پرنسز الزبتھ پولر سٹیشن‘ کے 25 میں سے کم از کم 16 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ابھی تک وائرس کے اثرات زیادہ خطرناک نہیں۔ انٹرنیشنل پولر فاؤنڈیشن کے پروجیکٹ مینیجر جوزف چیک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ابھی صورتحال ڈرامائی نہیں۔‘ جوزف کے مطابق ’اگرچہ یہ ایک تکلیف دہ عمل تھا کہ عملے کے کچھ ارکان کو وائرس کی تشخیص کے بعد قرنطینہ میں رکھنا پڑا لیکن مجموعی طور پر اس وائرس نے سٹیشن پر ہمارے کام کو متاثر نہیں کیا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’سٹیشن کے تمام رہائشیوں کو 12 جنوری کو ایک پرواز پر روانہ کرنے کی پیشکش کی گئی تھی تاہم ان سب نے اپنا کام جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا‘۔ اس وبا کی خبر سب سے پہلے بیلجیئم کے اخبار ’لی سوئر‘ میں شائع ہوئی۔ پہلی بار 14 دسمبر کو ایک ٹیم میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی جو یہاں سات دن پہلے پہنچی تھی۔ وہ افراد جن میں وائرس کی تشخیص ہوئی انھیں قرنطینہ میں رکھا گیا مگر اس کے باوجود وائرس کا پھیلاؤ جاری رہا۔ سٹیشن پر پہنچنے والے عملے کے لیے ویکسین اور ٹیسٹ کی شرائط لازمی ہیں۔ سٹیشن پر ایمرجنسی جیسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے دو ڈاکٹر موجود ہیں اور اس جگہ پر نئے آنے والوں کو وائرس کے خاتمے تک روک دیا گیا ہے۔ ’پرنسز الزبتھ سٹیشن‘ کو انٹرنیشنل پولر فاؤنڈیشن چلاتی ہے جو سنہ 2009 سے کام کر رہی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ انٹارکٹیکا میں تحقیقی سٹیشن کورونا وائرس کے پھیلنے سے متاثر ہوئے ہوں۔ گذشتہ برس برنارڈو او ہیگنز ریسرچ سٹیشن پر مقیم چلی کے متعدد فوجی اہلکار اس وقت کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے جب مال بردار بحری جہاز کے ملاحوں میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-59843470", "summary": "برطانیہ کی ہیلتھ سکیورٹی ایجنسی کی نئی معلومات کے مطابق ویکسین کی اضافی خوراک کووڈ 19 کی وجہ سے لوگوں کے ہسپتال داخلے کو 88 فیصد تک روکنے میں مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ دوسری جانب ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ادہانوم نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ کورونا کی وبا کو 2022 میں شکست دی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے تمام ممالک کو مل کر کام کرنا ہو گا۔", "title": "ویکسین کی تیسری خوراک اومیکرون کو روکنے میں ’88 فیصد مؤثر‘", "firstPublished": "2022-01-01T03:44:26.000Z", "id": "4010fb6d-09ec-4e6e-bb22-85e28ce42fbe", "article": "برطانیہ کی ہیلتھ سکیورٹی ایجنسی کی نئی معلومات کے مطابق ویکسین کی اضافی خوراک (یعنی بوسٹر شاٹ) کووڈ 19 کی وجہ سے لوگوں کے ہسپتال داخلے کو 88 فیصد تک روکنے میں مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ یو کے ایچ ایس اے کے نئی ڈیٹا نے تصدیق کی ہے کہ ایسٹرا زینیکا، فائزر اور ماڈرنا ویکسینز کی دو خوراکیں کووڈ 19 کی نئی قسم اومیکرون کے خلاف بہت کم تحفظ فراہم کرتی ہیں مگر ان کی مدد سے وائرس کی نئی قسم سے شدید بیماری کو ٹالا جا سکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا ہے کہ ویکسین کی ایک خوراک کی صورت میں ہسپتال میں علاج کا خطرہ 52 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔ دوسری خوراک سے یہ شرح 72 فیصد تاہم 25 ہفتوں کے بعد یہ حفاظت گِر کر 52 فیصد پر آ جاتی ہے۔ برطانوی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس بارے میں ناکافی ڈیٹا ہے کہ یہ پتا لگایا جا سکے کہ تحفظ کب تک رہتا ہے لیکن توقع ہے کہ اس سے وائرس کی علامات کے خلاف تحفظ کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی ایک دوسری تحقیق میں پتا چلا ہے کہ وائرس کی قسم ڈیلٹا کے مقابلے اومیکرون کی صورت میں ایمرجنسی یا ہسپتال کے وارڈ میں داخلے کا امکان نصف ہوتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ ویکسین کے لیے آنا، خاص کر تیسری خوراک کے لیے، اس انفیکشن اور شدید بیماری سے خود کو اور دوسروں کو بچانے کا بہترین طریقہ ہے۔‘ ساجد جاوید نے کہا ہے کہ نئی اینٹی وائرل ادویات سے سنہ 2022 میں اومیکرون کے خطرے سے نمٹنے کے لیے برطانیہ اچھی حالت میں ہو گا۔ اسے برطانیہ میں 18 سال سے زیادہ عمر کے مریضوں کے لیے منظور کیا گیا ہے جنھیں کم شدت کا کووڈ انفیکشن ہوا ہو لیکن ان کی بیماری کے شدت اختیار کرنے کے خطرات موجود ہوں۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ادہانوم نے نئے سال کے آغاز پر اس امید کا اظہار کیا ہے کہ کورونا کی وبا کو 2022 میں شکست دی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے دنیا کے تمام ممالک کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ اس کے ساتھ انھوں نے ویکیسن کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف خبردار بھی کیا ہے۔ واضح رہے کہ یورپ اور امریکہ جیسے متمول عالمی دنیا کے حصوں میں اوسطاً ہر شخص کو ایک بار ویکیسن لگ چکی ہے لیکن افریقہ میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے 2021 کے خاتمے تک چالیس فیصد آبادی کا ہدف بھی پورا نہیں کیا جا سکا۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے 2022 کے لیے ایک نیا ہدف طے کیا گیا ہے جس کے تحت جولائی تک دنیا کے ہر ملک کی ستر فیصد آبادی کو ویکسین لگ جانی چاہیے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59489530", "summary": "پاکستان میں آج سے کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ویکسین کی تیسری خوراک فراہم کی جانے لگی ہے۔ ابتدائی مرحلے میں تیسری خوراک طبّی عملے، ساٹھ برس سے زائد عمر کے شہریوں اور ان افراد جو کسی بیماری کا شکار ہیں، کو دی جائے گی۔", "title": "پاکستان میں کورونا وائرس ویکسین کی تیسری خوراک اب میسر", "firstPublished": "2021-12-01T12:39:34.000Z", "id": "36abb064-053f-4fb9-a2ad-cd0dd3982af7", "article": "پاکستان میں آج سے کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ویکسین کی تیسری خوراک فراہم کی جانے لگی ہے۔ ابتدائی مرحلے میں تیسری خوراک طبّی عملے، ساٹھ برس سے زائد عمر کے شہریوں اور ان افراد کو دی جائے گی جو کسی بیماری کا شکار ہیں۔ تاہم وفاقی حکومت نے تیسری خوراک لگوانے کو لازمی قرار نہیں دیا ہے۔ این سی او سی کے حالیہ اجلاس میں کووڈ 19 کی نئی قسم اومیکرون کا پھیلاو روکنے کے لیے اقدامات ترتیب دیے گئے تھے۔ این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی ‘نئی قسم اومیکرون کچھ ہفتوں میں پاکستان میں بھی پہنچ جائے گی، اور اس کے پھیلاؤ کو تیزی سے روکنے کا واحد طریقہ ویکسینیشن ہی ہے۔‘ اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر زعیم ضیا نے بتایا کہ تیسری خوراک لینے والے افراد کو حکومت کی جانب سے پہلے سے طے شدہ قواعد و ضوابط کے مطابق ویکسین دی جائے گی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر زعیم ضیا کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 ویکسین کی تیسری خوراک سے جسم میں مدافعت بڑھے گی اور وائرس کے خلاف لڑنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ ایسا خصوصاً ان افراد میں ہوتا ہے جن کی عمر پینسٹھ برس سے زائد ہو یا وہ لوگ جو کسی بیماری کا شکار ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ کووڈ 19 کی تیسری خوراک دنیا کے بیشتر ممالک میں شروع کر دی گئی ہے۔ برطانیہ کی ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کی تحقیق کے مطابق کووڈ ویکسین کی تیسری خوراک سے یہ بیماری لاحق ہونے کا امکان 93 فیصد کم ہو جاتا ہے۔ خیال رہے کہ برطانیہ میں کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر ہر عمر کے افراد کے لیے ویکسین کے بوسٹر شاٹ کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ بارہ سے پندرہ سال کے بچوں کو ویکسین کی دوسری خوراک لینے کا کہا گیا ہے۔ طبّی ماہرین اس ردعمل کو کسی بھی ویکسین کے بعد معمول کا ردعمل قرار دیتے ہیں جو چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں میں ٹھیک ہو جاتا ہے۔ طبّی ماہرین یہ مشورہ دیتے ہیں کہ جن افراد کو کسی قسم کی الرجی یا پہلے سے کوئی بیماری ہو، وہ اپنے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں۔ پاکستان میں فی الحال طبی عملے اور پچاس برس سے زائد عمر کے افراد کے لیے تیسری خوراک کا اعلان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق تیسری خوراک یا بوسٹر لازمی نہیں ہے، مگر ضروری ہے کہ ساٹھ سال سے زائد عمر کے افراد، طبعی عملہ اور وہ لوگ جو کسی بیماری کا شکار ہیں، اپنے بچاؤ اور بیماری کے پھیلاو کو روکنے کے لیے ویکسین کی ایک اور خوراک لیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-58962138", "summary": "یک خاتون جن کا ایمرجنسی میں سی سیکشن کیا گیا اور انھیں کووڈ 19 ہو جانے کے باعث کوما میں رکھا گیا ان کا کہنا ہے کہ اب انھیں ویکسین کی پیشکش ٹھکرا دینے پر افسوس ہے۔", "title": "دوران حمل کورونا ویکسین سے انکار کرنے والی خاتون: ’جو مجھ پر بیتی وہ خوفناک تھی‘", "firstPublished": "2021-10-19T08:11:13.000Z", "id": "992f80be-5d5e-4dd7-a189-f6324d02b231", "article": "جیڈ شیپارڈ پالومارس کا 21 جولائی کو ایمرجنسی میں سی سیکشن کیا گیا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب ماں اور بچے کی زندگی بچانے کی خاطر جیڈ کو کوما میں رکھا گیا تھا۔ کوما سے نکل آنے کے بعد اب جیڈ کو صرف ایک افسوس ہے کہ انھوں نے اس وقت ویکسین لگوانے کی پیشکش کیوں ٹھکرا دی تھی جب وہ حاملہ تھیں۔ جیڈ شیپارڈ-پالومارس 29 ہفتوں کی حاملہ تھیں جب جولائی کے آغاز میں وہ وائرس کا شکار ہونے کے بعد تیزی سے بیمار ہو گئیں۔ اپنی اذیت بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’میں نہیں چاہوں گی کہ میں جس کیفیت سے گزری ہوں اس سے کوئی دوسرا گزرے کیونکہ جو مجھ پر بیتی وہ خوفناک ہے۔‘ عارضی کوما میں سی سیکشن کے ذریعے پیدا ہونے والے ان کے نومولود بچے کا وزن فقط 1.2 کلوگرام تھا، اور اس نومولود کو سات ہفتوں تک ہسپتال میں رکھا گیا اور اس کی دیکھ بھال کی گئی۔ جیڈ اب چار بچوں کی ماں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کی دائی نے انھیں ویکسین لگوانے کی پیشکش کی تھی جسے انھوں نے مسترد کر دیا تھا کیونکہ انھیں یہ خوف تھا کہ دوران حمل ویکسین لگوانے سے اُن کے نوزائیدہ بچے کی نشو ونما متاثر ہو سکتی ہے اور اس کے دماغ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ’وہ (مائیک) کمرے میں آئے، انھوں نے کہا کہ میرا چہرہ سفیدی مائل ہو چکا ہے اور میرے ہونٹ نیلے پڑ چکے تھے، اور وہ گھبرا گئے۔‘ جیڈ کو ہسپتال لے جایا گیا اور 21 جولائی کو ساؤتھ میڈ ہسپتال میں ایمرجنسی میں ان کا سی سیکشن کر دیا گیا۔ سی سیکشن سے قبل انھیں یقین دلایا گیا کہ ان کا بچہ زندہ رہے گا۔ وہ 10 دن کے بعد کوما سے بیدار ہوئیں اور انھوں نے اس کے چھ دن بعد پہلی بار اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں میں پکڑا۔ اس بچی کا وزن اب چھ پونڈ ہو چکا ہے۔ جیڈ کا کہنا تھا ’میں کبھی نہیں کہوں گی، جاؤ اور ویکسین لگواؤ‘ کیونکہ یہ ایک انفرادی معاملہ ہے، لیکن مجھے ایسا نہ کرنے (وقت پر ویکسین نہ لگوانے) پر افسوس ہے۔‘ ان کے پارٹنر مائیک کہتے ہیں کہ ’ہمیں تو (زندہ رہنے کا) دوسرا موقع مل گیا۔ مگر یہ لوگوں پر منحصر ہے (کہ وہ ویکسین لگواتے ہیں یا نہیں)لیکن اس (واقعے) نے جیڈ کا ذہن بدل دیا ہے۔‘ برطانیہ کا صحت کا ادارہ این ایچ ایس تمام حاملہ خواتین کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے نوزائیدہ بچے کی حفاظت کے لیے کورونا ویکسین لگوائیں۔ بچی اب چھ پاونڈز کی ہو چکی ہے"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58689843", "summary": "اسلام آباد میں موجود ایک ٹریول ایجنٹ سے جب اس بارے میں بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’آپ ایسے ہی ٹینشن لے رہی ہیں۔ میں آپ کو پانچ سو روپے میں کووڈ کی کسی بھی ویکسین کا جعلی سرٹیفیکیٹ جبکہ مزید بارہ سو دینے پر کووڈ کے ٹیسٹ کا منفی نتیجہ نکلوا کر دے دوں گا۔ آپ صرف یہ بتائیں کہ اس وقت کیا چاہیے؟‘", "title": "’پانچ سو روپے میں کورونا ویکسین کا جعلی سرٹیفیکیٹ، 1200 میں ٹیسٹ کا منفی نتیجہ‘", "firstPublished": "2021-09-25T12:05:35.000Z", "id": "52fb13ff-7086-43e0-9d6a-945b9dcccfae", "article": "مجھے یہ پریشانی تھی کہ میں نے جو ویکسین لگوائی ہے وہ قابلِ قبول ہو گی یا نہیں؟ اسلام آباد میں موجود ایک ٹریول ایجنٹ سے جب اس بارے میں بات کی تو انھوں نے مجھے کہا کہ ’آپ ایسے ہی ٹینشن لے رہی ہیں۔ میں آپ کو پانچ سو روپے میں کووڈ کی کسی بھی ویکسین کا جعلی سرٹیفیکیٹ جبکہ مزید بارہ سو دینے پر کووڈ کے ٹیسٹ کا منفی نتیجہ نکلوا کر دے دوں گا۔ آپ صرف یہ بتائیں کہ اس وقت کیا چاہیے؟‘ اب یہ سب سن کر حیرانی ہوئی کہ یہ اتنی آسانی سے بغیر کسی جھجھک کے منفی ٹیسٹ نکلوانے کی آفر کر رہے ہیں اور کووڈ ویکسین کا سرٹیفیکیٹ بھی ساتھ دے رہے ہیں۔ اس کے بارے میں مزید تحقیقات کیں تو اُسی ٹریول ایجنٹ سے پتا چلا کہ سفر بک کروانے سے پہلے وہ ہر شخص کو یہ آفر ضرور کرتے ہیں۔ اگر انھوں نے یہ آفر قبول کر لی تو پانچ سو روپے میں کووڈ ویکسین کا سرٹیفیکیٹ آ جاتا ہے جس کو آپ دیگر دستاویزات کے ساتھ ویزا لگوانے کے لیے بھیج دیتے ہیں اور آپ کو ہر ملک کی ہدایات کے مطابق ویکسین سرٹیفیکیٹ مل جاتا ہے۔ پولی کلینک ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کے پاس جب میں پولیو ڈراپ کے لیے گئی تو انھوں نے بتایا کہ پہلے باآسانی پولیو کا جعلی سرٹیفیکیٹ بن جاتا تھا لیکن اب سفر سے پہلے مسافروں کو 3800 روپے کا پولیو کا انجیکشن خریدنا پڑتا ہے۔ انجیکشن لگنے کے بعد اس کے ڈبے پر لگی سِیل سرٹیفیکیٹ پر لگتی ہے اور اس سیِل کی وجہ سے یہ کارڈ دورانِ سفر قابلِ قبول ہوتا ہے۔ اسی کے بارے میں ایف آئی اے کے اسلام آباد میں ایک ترجمان نے بتایا کہ ’ابھی تک تقریباً سات مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ بلیو ایریا میں بھی ایک لیب کے عملے کے ایک رکن کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اب تک یہ پتا چلا ہے کہ اس لیب سے 6500 روپے کے ٹیسٹ کا سرٹیفیکیٹ 1200 روپے میں بیچا جاتا تھا اور اس میں تمام تر معلومات بھی جعلی تھیں۔‘ اس کے بارے میں ڈاکٹر فیصل سلطان نے بتایا کہ یہ محض ایک تکنیکی بات ہے کہ برطانیہ یہ چاہتا ہے کہ پاکستان اور دیگر ممالک یہ واضح کر دیں کہ ان ممالک سے جو بھی ویکسین لگا کر برطانیہ آ رہا ہے وہ ان کی حکومت کی منظور شدہ ویکسین کا حصہ ہے یا نہیں تاکہ کسی بھی طرح سے کوئی مختلف ویکسین لگا کر نہ پہنچ جائے۔ اس کے علاوہ حکومتِ پاکستان کے ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ ’اس وقت برطانیہ اور دیگر ممالک بھی جعلی سرٹیفیکیٹ کے بارے میں پریشان ہیں اور یہ صرف پاکستان سے آنے والوں کے ساتھ نہیں کیا جا رہا بلکہ کئی اور ممالک کے ساتھ بھی یہی سلوک رواں ہے تاکہ اس مافیا کو پکڑا جاسکے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58662109", "summary": "لندن میں موجود پاکستان کے سابق وزیر اعظم نوازشریف کو لاہور میں ویکسینیشن لگنے کا معاملے پر تحقیقاتی کمیٹی نے ہسپتال کے عملے کے نو ارکان کی معطلی کی سفارش کی ہے۔", "title": "نواز شریف کی ویکسینیشن کا معاملہ: ’کئی ماہ سے ڈیٹا چوکیدار اور وارڈ بوائے رجسٹر کر رہے تھے‘", "firstPublished": "2021-09-23T12:04:59.000Z", "id": "bfd1bce5-6cea-4a8c-a2ad-f4f5d255b176", "article": "لندن میں موجود پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو صوبائی دارالحکومت لاہور میں ویکسین لگنے کا معاملے پر پنجاب حکومت کی جانب سے بنائی گئی چار رکنی تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب کو پیش کر دی ہے جس میں افسران سمیت نو اہلکاروں کو فوری معطل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کوٹ خواجہ سعید ہسپتال میں کوررونا ویکسینشن کا ڈیٹا چوکیدار اور وارڈ بوائے گذشتہ کئی ماہ سے کر رہے تھے۔ میڈیا کے ساتھ شیئر کی گئی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ویکسینیشن سینٹر کے چار ملازمین نے تسلیم کیا ہے کہ انھوں نے نوازشریف کا ڈیٹا رجسٹر کیا۔ رپورٹ کے مطابق ہسپتال میں عملے کی نگرانی کا فقدان تھا جس کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا۔ یاد رہے کہ بدھ کے روز پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ نواز کے سربراہ، نواز شریف جو لندن میں مقیم ہیں، کو کورونا ویکیسن لگائے جانے کے تصدیق شدہ میسجز کے سکرین شارٹس سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے تھے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق یہ ویکسین 22 ستمبر 2021 کو لاہور کے ایک ہسپتال میں لگائی گئی تھی۔ نواز شریف کے شناختی کارڈ کی تفصیل بھیجنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ’کورونا ویکسین کوٹ خواجہ سعید ہسپتال میں لگائی گئی۔‘ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے سینٹر میں سینیئر سٹاف تعینات نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ڈیٹا رجسٹر کرنے کا ٹاسک ہسپتال انتظامیہ نے وارڈ سرونٹ اور چوکیدار کو دے رکھا تھا، جس کے بعد کئی ماہ سے چوکیدار اور وارڈ بوائے ہی کوررونا ویکسینیشن کا ریکارڈ نادرا کے پورٹل پر اپڈیٹ کرتے رہے۔ کمیٹی نے کوٹ خواجہ سعید ہسپتال کے ایم ایس سمیت نو افسران اور ملازمین کو فوری معطل کرنے کی سفارش کی ہے۔ نواز شریف کو لاہور میں ویکسین لگنے کی خبر کے بعد حکام نے سسٹم میں ڈیٹا اپڈیٹ کر دیا گیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی پاکستان میں کورونا ویکسینیشن کے اندراج کی خبر کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ بڑی تشویشناک بات ہے کہ جعلی طریقے سے ویکسینیشن کے لیے اندراج کیا جا رہا ہے۔‘ سوشل میڈیا پر جہاں اس خبر پر کہ نواز شریف کو غیر موجودگی میں ویکسین کیسے لگ گئی، لوگوں نے طنز و مزاح شروع کر دیا تھا وہیں اسے ملک میں ویکسینیشن کے عمل کی ساکھ کو بھی متاثر کن قرار دیا تھا۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار ایاز خان نیازی نے کیا۔ انھوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا ’پاکستان میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی ویکسین کی رجسٹریشن مضحکہ خیز ہے۔ نادرا کا سسٹم مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58451171", "summary": "کورونا اپنی تمام تکلیفوں اور سختیوں کے ساتھ گزر گیا۔ آہستہ آہستہ قوت شامہ واپس آرہی ہے۔ روز ایک نئی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ جیسے دنیا میں آہستہ آہستہ پھر سے رنگ بھرے جا رہے ہیں۔ کوشش کریں یہ خوشبوئیں آپ سے نہ روٹھیں۔ ویکسین لگوائیں اور احتیاط کریں۔ آمنہ مفتی کا کالم۔", "title": "آمنہ مفتی کا کالم: خوشبو کی زبان", "firstPublished": "2021-09-05T04:02:24.000Z", "id": "ba1f728d-9d0e-4cbc-a5ca-cd843be1dbdb", "article": "اس سب احتیاط کا فائدہ یہ ہوا کہ پونے دو برس تک کورونا سے بچ کر بیٹھی رہی۔ گھر گھر لوگ بیمار ہوئے اور مجھے خود پر اپنی قوت مدافعت پر ایک عجیب طرح کا اعتماد پیدا ہو گیا۔ میں اس بخار کو بھی خاطر میں نہ لاتی لیکن ایک صبح جب میں اٹھی تو یوں لگا کچھ بدلا ہوا ہے۔ ایک عجیب سا سناٹا تھا۔ وہی کمرہ تھا، وہی درودیوار، سائیڈ ٹیبل پر رکھا چائے کا کپ، رجنی گندھا کے پھول، تشتری میں رکھی موتیے اور چنبیلی کی کلیاں۔ باہر باغ میں پرندے شور مچا رہے تھے لیکن پھر بھی ایک سناٹا تھا۔ بھادوں کا مہینہ ہے، بادل کا ایک ٹکڑا اچانک برس پڑا۔ بوندیں زمین پر گریں لیکن مٹی سے مہک نہ اٹھی۔ ہوا کا جھونکا آیا مگر اس میں الفا الفا گھاس کے پھولوں اور بڑے تالاب کے کھڑے پانی کی بساندھ تھی اور نہ ہی تل اور ماش کی سوکھتی فصل کی مانوس خوشبو۔ یہ کون سی دنیا تھی؟ میری دنیا تو کئی مانوس خوشبوؤں سے عبارت تھی، جن کا ہاتھ پکڑ کر میں چلتی تھی۔ گھر کے ہر کمرے کی خوشبو، فارم کے چپے چپے کی اپنی الگ خوشبو تھی جس کے ساتھ میں نے جینا، چلنا پھرنا سیکھا تھا۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ خوشبو کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ قوت شامہ کا غائب ہو جانا اتنا ہی بھیانک ہے جتنا، بصارت یا سماعت کا کھو جانا۔ اس اندھی، گونگی، بہری دنیا میں جانے کتنے روز گزر گئے۔ نہ کتاب پڑھی جا رہی تھی نہ فلم پر دل ٹھک رہا تھا۔ بار بار پرفیوم سونگھتی تھی مگر وہی سناٹا۔ موتیے کے پھولوں نے بھی زبان بند کر لی تھی۔ ادا جعفری کا ایک شعر بار بار یاد آرہا تھا: شائد پندرہواں روز تھا کہ کسی نے بھٹی میں بھنے تازہ چنے بھجوائے۔ اتنے روز کے بعد یہ پہلی مانوس خوشبو تھی جو مجھے محسوس ہوئی۔ کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بھنے ہوئے چنے سے زیادہ مسحور کن خوشبو کسی شے کی نہیں ہو سکتی۔ خاص کر جب آپ کو ایک پندرھواڑے تک کوئی بھی خوشبو نہ سنگھائی دے؟ کورونا اپنی تمام تکلیفوں اور سختیوں کے ساتھ گزر گیا۔ آہستہ آہستہ قوت شامہ واپس آرہی ہے۔ روز ایک نئی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ جیسے دنیا میں آہستہ آہستہ پھر سے رنگ بھرے جا رہے ہیں۔ قوس قزح مجھ سے روٹھ گئی تھی پھر سے واپس آرہی ہے۔ زندگی کے رنگ جو خوشبو سے عبارت ہیں، پھر سے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ کوشش کریں یہ خوشبوئیں آپ سے نہ روٹھیں۔ ویکسین لگوائیں اور احتیاط کریں۔ خوشبو کی زبانی شاید یہ ہی پیغام آیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-57959419", "summary": "سٹیفن ہارمون ویکسین کی برملا مخالفت کرتے رہے اور انھوں نے ویکسین نہ لگوانے کے سلسلے میں کئی لطیفے بھی بنائے تھے۔", "title": "کووڈ ویکسین کا مذاق اڑانے والے شخص کی وائرس سے ہی موت", "firstPublished": "2021-07-25T07:10:27.000Z", "id": "c8d5362b-e932-2d4f-9b08-4066e255a732", "article": "امریکی ریاست کیلیفورنیا کا ایک شخص جس نے سوشل میڈیا پر کووڈ 19 ویکسین کا مذاق اڑایا تھا، اسی وائرس سے ایک ماہ تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد زندگی کی بازی ہار گیا۔ ہلسونگ میگا چرچ کے رکن سٹیفن ہارمون ویکسین کی برملا مخالفت کرتے رہے اور انھوں نے یہ ویکسین نہ لگوانے کے سلسلے میں کئی لطیفے بھی بنائے تھے۔ جون میں اپنے سات ہزار فالوورز کو ٹویٹ کرتے ہوئے 34 سال کے سسٹیفن نے لکھا: ’مجھے 99 پریشانیاں ہیں لیکن ان میں ایک ویکس(ویکسین) نہیں۔‘ ان کا لاس اینجلس سے باہر واقع ایک ہسپتال میں نمونیا اور کووڈ 19 کا علاج کرایا گیا جہاں وہ بدھ کے روز فوت ہو گئے۔ اپنی موت سے قبل کے دنوں میں سٹیفن ہارمون نے ہسپتال کے بستر سے اپنی تصاویر شائع کی جس میں انھوں نے زندہ رہنے کے لیے اپنی لڑائی کا احوال دکھایا۔ انھوں نے کہا ’براہ کرم آپ سب دعا کریں، وہ مجھے وینٹیلیٹر اور سانس کی نالی پر رکھنا چاہتے ہیں۔‘ بدھ کے روز اپنے آخری ٹویٹ میں سٹیفن ہارمون نے کہا کہ انھوں نے سانس کی نالی لگوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا قسطیں مواد پر جائیں انھوں نے لکھا کہ ’پتہ نہیں میں کب اٹھوں گا، میرے لیے دعا کریں۔‘ تاہم وائرس کے خلاف اپنی جدوجہد کے باوجود ہارمون نے پھر بھی کہا کہ وہ ویکسین سے انکار کر دیں گے اور ان کا مذہبی عقیدہ ان کی حفاظت کرے گا۔ اپنی موت سے پہلے انھوں نے وبائی بیماری اور ویکسینز کے بارے میں مذاق کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ امریکہ میں متعدی امراض کے ادارے کے سربراہ ڈاکٹر اینتھونی فاؤچی کی بجائے بائبل پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ ہلسونگ میگا چرچ کے بانی برائن ہیوسٹن نے جمعرات کو اپنی ایک ٹویٹ میں سٹیفن ہارمون کی موت کی خبر کی تصدیق کی۔ ایک انسٹاگرام پوسٹ میں انھوں نے ہارمون کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔ انھوں نے لکھا: ’وہ انتہائی فراخ دل لوگوں میں سے ایک تھے اور انھیں بہت سے لوگ یاد کریں گے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ چرچ اپنے ارکان کو ’اپنے ڈاکٹروں کی ہدایت پر عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔‘ واضح رہے کہ کیلیفورنیا میں حالیہ ہفتوں میں کووڈ 19 کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ہسپتال میں داخل بیشتر افراد ایسے ہیں جن کو ابھی تک ویکسین نہیں لگی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-57760823", "summary": "انڈونیشیا میں صحتِ عامہ کے کارکنان کی تنظیم کا کہنا ہے کہ اس سال فروری سے جون کے درمیان کم از کم 20 ڈاکٹر اور 10 نرسیں ویکیسین لگائے جانے کے باوجود وفات پا گئے ہیں۔", "title": "سائنو ویک: ’اگر یہ نئی اقسام سے بچا نہیں سکتی تو پھر تیسری خوراک کا کیا فائدہ؟‘", "firstPublished": "2021-07-08T12:52:40.000Z", "id": "fe8c66d7-ac65-8b4d-ad99-049134fc6067", "article": "انڈونیشیا میں صحتِ عامہ کے کارکنان کی تنظیم کا کہنا ہے کہ اس سال فروری سے جون کے درمیان کم از کم 20 ڈاکٹر اور 10 نرسیں ویکیسین لگائے جانے کے باوجود وفات پا گئے ہیں۔ انڈونیشیا میں اس وقت روزانہ کے 20000 نئے کیس سامنے آ رہے ہیں۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی کیونکہ دارالحکومت جکارتہ کے باہر بہت کم ٹیسٹنگ کی جا رہی ہے۔ اس سال فروری سے جون کے دوران 949 ہیلتھ کیئر ورکروں کی اموات ہوئی ہیں جن میں سے 20 ڈاکٹروں اور 10 نرسوں کو سائنو ویک کی دونوں خوراکیں لگ چکی تھیں۔ سائنو ویک ہنگامی بنیادوں پر استعمال کے لیے عالمی ادارہِ صحت کی جانب سے منظور شدہ ہے اور اس ویکسین کے استعمال کرنے والوں میں سے کم از کم 51 فیصد میں کورونا وائرس کے علامات والے کیس نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ یہ کورونا وائرس کے انتہائی شدید کیسوں کو روکنے میں 100 فیصد کامیاب رہی تھی۔ انڈونیشیا میں میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ویکسین جو کہ عالمی ادارہِ صحت اور انڈونیشیائی حکام کی جانب سے منظور شدہ ہے وہ اس وبا کی روک تھام میں مدد ضرور کر رہی ہیں۔ تاہم اب وہ اس حوالے سے دوبارہ جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا انھیں سائنو ویک کی تیسری خوراک لگانی چاہیے یا نہیں۔ آسٹریلیا میں ماہرِ وبائی امراض ڈکی بڈمین ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو تیسری خوراک دینے کے حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت وبا کی ایک نئی لہر سامنے آئی ہوئی ہے اور اس لیے لوگوں کو بوسٹر دینے کی ضرورت ہے۔ تاکہ سائنو ویک کے اثر کو بہتر کیا جا سکے۔ ادھر یونیورسٹی آف انڈونیشیا کے ٹری یونس میکو کہتے ہیں کہ اس ویکسین کی افادیت وقت کے ساتھ کم ہو جاتی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ صحت کے شعبے کے کارکنوں کو ویکسین لگے ہوئے چھ ماہ سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ ادھر انڈونیشیائی حکومت کے ترجمان ستی نازی ترمزی کا کہنا ہے کہ وہ مزید معلومات کا انتظار کر رہے ہیں۔ ’اس حوالے سے کوئی سائنسی تحقیق شائع نہیں ہوئی اور نہ ہی عالمی ادارہِ صحت نے کوئی ہدایات دی ہیں۔ اسی لیے ہمیں انتظار کرنا چاہیے۔ ہماری اپنی ٹیم سائنو ویک کی افادیت پر تحقیق کر رہی ہے اور وہ تیسری خوراک کے حوالے سے کلینکل ٹرائز کے تیسرے فیز میں ہیں۔ یہ ہمیں بتائے گا کہ ہمیں بوسٹر چاہیے یا نہیں۔ گذشتہ ماہ انڈونیشیائی ریڈ کراس کا کہنا تھا کہ ملک کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر ہے اور ہسپتال مکمل بھرے ہوئے ہیں اور آکسیجن کی رسد کم ہے۔ گذشتہ مئی کے مقابلے میں کورونا سے متاثرہ بچوں کی تعداد تین گنا بڑھ چکی ہے اور ان کی اموات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-57059369", "summary": "ویکسین حاصل کرنے میں مبینہ 'عدم توازن' کے بارے میں دنیا بھر کے لوگوں سے شکایات ہیں۔ جن کے پاس پیسہ ہے ان کے پاس یہ اختیار بھی موجود ہے کہ وہ کہیں بھی جاکر ویکسین لیں۔ ایسے ممالک کی فہرست میں سربیا، امریکہ، متحدہ عرب امارات اور یہاں تک کہ مالدیپ جیسے ممالک کے نام بھی شامل ہیں۔", "title": "ویکسین سیاحت: ’آئیں، ویکسین لگوائیں اور چھٹیاں منائیں‘", "firstPublished": "2021-05-14T09:02:33.000Z", "id": "caad096f-3a0a-4bf8-8c4e-21a06278e387", "article": "یہ کمپنی ویکسین کی ہر خوراک کے لیے سیاحوں کے قیام و طعام کا پیکیج دیتی ہے اور اگر کوئی سیاح دوسری خوراک کے لیے روس میں رہنا چاہتا ہے تو اس کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اینو لینزے 'برلن سٹوری' میوزیم کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ عراق کے علاقے کردستان کا اکثر سفر کرے ہیں جہاں کورونا انفیکشن کے کیسز بہت زیادہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کی امداد کام بھی ان کے ذمے ہوتا ہے۔ اگرچہ جرمنی میں امدادی کاموں سے وابستہ لوگوں کو ویکسین لگانے کے عمل میں ترجیح دینے کا انتظام ہے، اینو لینزے کا کہنا ہے کہ انھیں یہ ویکسین نہیں ملی کیونکہ وہ یہ کام ایک رضاکار کی حیثیت سے کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جرمنی میں ویکسین دینے کی ترجیحی فہرست میں کوئی خرابی نہیں لیکن اس سے حفاظتی ٹیکوں کا عمل غیرمعمولی طور پر سست پڑجاتا ہے۔ تاہم ویکسین حاصل کرنے میں مبینہ 'عدم توازن' کے بارے میں دنیا بھر کے لوگوں سے شکایات ہیں۔ جن کے پاس پیسہ ہے ان کے پاس یہ اختیار بھی موجود ہے کہ وہ کہیں بھی جاکر ویکسین لیں۔ ایسے ممالک کی فہرست میں سربیا، امریکہ، متحدہ عرب امارات اور یہاں تک کہ مالدیپ جیسے ممالک کے نام بھی شامل ہیں۔ مالدیپ سیاحوں کے لیے ٹریول پیکیج سکیم پر بھی کام کر رہا ہے جس میں 'تھری وی' یعنی 'وزٹ، تعطیل اور تعطیل' مسافروں کو پیش کی جارہی ہے۔ یعنی مالدیپ آئیں، ویکسین لگائیں اور چھٹیاں منائیں۔ مالدیپ کی وزارت سیاحت نے بی بی سی کو ایک ای میل میں بتایا کہ ’تھری وی مہم مالدیپ آنے کا فیصلہ کرنے والے سیاحوں کو شکریہ ادا کرنے کا طریقہ ہے تاکہ جب وہ یہاں سے وطن واپس آئیں تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ انھیں ٹیکے لگ گئے ہیں اور سرٹیفکیٹ بھی موجود ہے۔‘ ان میں کینیڈا اور لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں جو یہاں ویکسین لگانے کے آسان اصولوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس بارے میں بھی ایک تنازع کھڑا ہو چکا ہے۔ فلوریڈا میں بہت سے دولت مند امریکی اور غیر ملکی مقیم ہیں۔ یہاں 65 سال سے اوپر کے لوگوں کو ویکسین میں ترجیح دی جارہی ہے اور یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ وہ کہاں سے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں وبا کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے صحت کے کارکنوں کو کووڈ ویکسین فراہم کرنے میں ترجیح دی جانی چاہیے۔ ضروری خدمات سے وابستہ افراد جن کو سفر کرنا پڑتا ہے ان کو بھی اس ترجیحی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈبلیو ایچ او کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقامی سطح پر انفیکشن کے بڑھتے ہوئے واقعات کی صورت میں ویکسین کی مناسب فراہمی برقرار رکھنی چاہیے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-57563434", "summary": "عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ عالمی شیئرنگ سکیم کے ذریعے کووڈ 19 کی ویکسین لینے والے غریب ممالک کی ایک بڑی تعداد کو اپنے اپنے ممالک میں ویکسین پروگرام جاری رکھنے کے لیے کافی مقدار میں ویکسین کی خوراکیں دستیاب نہیں ہیں۔", "title": "غریب ممالک میں کورونا ویکسین کی قلت ہو رہی ہے: عالمی ادارہ صحت", "firstPublished": "2021-06-22T06:33:48.000Z", "id": "fce3112e-e29a-4b2d-a03f-d3f38a1fb8e7", "article": "عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ عالمی شیئرنگ سکیم کے ذریعے کووڈ 19 کی ویکسین لینے والے غریب ممالک کی ایک بڑی تعداد کو اپنے اپنے ممالک میں ویکسین پروگرام جاری رکھنے کے لیے کافی مقدار میں ویکسین کی خوراکیں دستیاب نہیں ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے سینیئر مشیر ڈاکٹر بروس آئلورڈ نے کہا ہے کہ کوویکس پروگرام کے تحت 131 ممالک کو ویکسین کی 90 ملین خوراکیں فراہم کی گئی ہیں۔ پیر کے روز جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے دولت مند ممالک کی جانب سے ویکسین کی ذخیرہ اندوزی کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ اُن کے ملک میں حالیہ دنوں میں وائرس کے پھیلاؤ میں بہت تیزی دیکھی گئی مگر دوسری جانب ویکسین بڑی مقدار میں دستیاب نہیں ہے۔ مسٹر رامافوسا نے کہا کہ براعظم افریقہ کے ممالک کے لیے اب تک ویکسین کی صرف 40 ملین خوراکیں فراہم کی گئی ہیں اور یہ شرح آبادی کے تناسب سے دو فیصد سے بھی کم ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے اُن کی حکومت کویکس کے ساتھ مل کر جنوبی افریقہ میں مزید ویکسین تیار کرنے کے لیے ایک علاقائی پروگرام پر کام کر رہی ہے۔ کوویکس کو گذشتہ سال اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا کہ دنیا بھر میں کووڈ 19 کی خوراکیں دستیاب ہوں اور اس کے لیے امیر ممالک غریب ممالک کی مدد کی غرض سے ویکسین کی تیاری پر اٹھنے والے اخراجات پر سبسڈی دیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر خوراکین غریب ممالک کو عطیہ کی جا رہی ہیں، کوویکس کو امید ہے کہ وہ ہر غریب ملک میں کم سے کم 20 فیصد آبادی کو ویکسین کرنے کے لیے خوراکیں فراہم کر سکے گی۔ ڈاکٹر آئلورڈ نے کہا کوویکس پروگرام میں شامل 80 کم آمدنی والے ممالک میں سے نصف کے پاس ویکسین پروگرامز کو جاری رکھنے کے لیے کافی مقدار میں ویکسین دستیاب نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر ان ممالک سے جو خبریں موصول ہو رہی ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ 80 ممالک میں سے نصف ممالک کے پاس ویکسین کا سٹاک ختم ہو گیا ہے اور یہ ممالک مزید ویکسین کی فراہمی کی درخواست کر رہے ہیں۔ 'حقیقت یہ ہے کہ شاید حالات کچھ اس سے زیادہ ہی خراب ہوں۔' انھوں نے کہا کہ کچھ ممالک نے قلت کے خاتمے کے لیے اپنے اپنے ملک میں متبادل انتظامات کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے سخت نتائج ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ ممالک ٹیکوں کے لیے مارکیٹ کی قیمت سے زیادہ قیمت ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ چونکہ غریب ممالک میں ویکسین کی رسد میں دشواری کا سامنا ہے اسی لیے کچھ دولت مند ممالک، جن کے پاس ویکسین کی اضافی خوراکیں موجود ہیں، کوویکس اور دیگر ذرائع سے ویکسین کے عطیات جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57535393", "summary": "پاکستان میں گذشتہ چند روز میں کورونا وائرس ویکسین کی کمی سامنے آئی ہے۔ اس کمی کی ابتدا 16 جون کو کراچی اور ملک کے دوسرے شہروں میں دیکھنے میں آئی اور کئی افراد یا تو ویکسین کے انتظار میں لائن میں لگے رہے یا پھر مایوس ہو کر گھروں کو نکل گئے۔", "title": "پاکستان میں کورونا وائرس ویکسین میں اچانک کمی کی وجوہات کیا ہیں؟", "firstPublished": "2021-06-19T06:21:45.000Z", "id": "082661c9-daed-4528-bf4f-1d8d29f8f676", "article": "پاکستان کے مختلف شہروں میں گذشتہ چند روز میں کورونا وائرس ویکسین کی کمی سامنے آئی ہے۔ اس کمی کی ابتدا 16 جون کو کراچی اور ملک کے دوسرے شہروں میں بھی دیکھنے میں آئی جہاں مختلف سینٹرز میں کورونا وائرس سے بچنے کے لیے لگائی جانے والی ویکسین ختم ہو گئی اور کئی افراد یا تو لائن میں لگے رہے یا پھر مایوس ہو کر گھروں کو نکل گئے۔ اس بارے میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے بتایا ہے کہ ’16 اور 17 جون کو پاکستان میں چار لاکھ ویکسین لگیں اور چین سے ویکسین کی کھیپ آنے میں دیر ہو گئی جس کا سب سے زیادہ اثر پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ پر پڑا اور چند شہروں اور سینٹرز میں ویکسین کی کمی دیکھنے میں آئی۔‘ انھوں نے کہا کہ ’16 جون کو جب شور برپا ہوا کہ ویکسین کی کمی ہو گئی ہے تو اس دن ملک بھر میں سوا چار لاکھ ویکسین لگ چکی تھیں۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ پھر 17 جون کو بھی سوا سے ڈھائی لاکھ کے قریب ویکسین لگی ہیں۔‘ ’ہم نے پہلے پچاس کروڑ روپے ویکسین خریدنے کے لیے رکھے اور سائنو فارم ویکسین خریدنے کے لیے چینی قونصل خانے سے بات کی۔ چینی قونصل خانے نے کہا کہ ایسے ویکسین کا معاہدہ نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم براہِ راست حکومتِ پاکستان کے ذریعے ویکسین دیں گے۔ کمپنی نے کہا کہ سندھ حکومت لکھ کر دے کہ وہ ویکسین خریدنے کی مجاز ہے۔ اس کے نتیجے میں وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے خط لکھا جس کا انھیں جواب موصول نہیں ہوا۔‘ قاسم سومرو نے کہا کہ اس وقت سندھ حکومت کے پاس دو راستے ہیں کہ یا تو ’وفاقی حکومت کی معاونت سے بین الاقومی کمپنی سے ویکسین خرید کر وفاقی حکومت کو اس کا معاوضہ ادا کر دیا جائے یا دوسرا راستہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر سے ویکسین کی طلب بڑھتی جارہی ہے تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم پیسے رکھیں گے اور ہمیں ویکسین مل جائے گی۔ واضح رہے کہ پاکستان کو اس وقت تین طریقوں سے ویکسین موصول ہو رہی ہے: ایک ہمسایہ ملک(چین) سے، دوسرا ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک کی امداد کے ذریعے خریدی گئی ویکسین جبکہ عالمی ادارہ صحت کے کوویکس پروگرام کے تحت بھی ویکسین موصول ہو رہی ہیں۔ اس بارے میں ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ ’کوویکس کے ویکسین بھیجنے سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں لیکن جو پہلے ہوا ایسے واقعات کو نہ دہراتے ہوئے پاکستان کی کوشش ہے کہ نوے سے پچانوے فیصد ویکسین ہمارے دیگر ممالک اور کمپنیوں کے ساتھ طے شدہ معاہدوں کے ذریعے آئے۔اور ہر روز تقریباً پانچ لاکھ خوراکیں دی جائیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-57475585", "summary": "انڈیا میں ویکسین کی فراہمی کی قلت ہی ایک چیلنج نہیں بلکہ ملک میں ویکسین لگانے میں بہت سے مسائل ہیں جو مختلف علاقوں میں مختلف ہیں اور اس میں منصوبہ بندی سے لے کر انفراسٹرکچر اور غلط اطلاعات جیسی وجوہات شامل ہیں۔", "title": "انڈیا میں ویکسینیشن سے متعلق ہچکچاہٹ اور ہیلتھ ورکرز کو درپیش مسائل کیا ہیں؟", "firstPublished": "2021-06-15T14:04:26.000Z", "id": "d45b4b58-7f68-4c72-975b-de9e4362eacb", "article": "صرف فراہمی کی قلت ہی انڈیا کے لیے چیلنج نہیں ہے بلکہ ملک میں ویکسین لگانے میں بہت سے مسائل ہیں جو مختلف علاقوں میں مختلف ہیں اور اس میں منصوبہ بندی سے لے کر انفراسٹرکچر اور غلط اطلاعات جیسی چیزیں شامل ہیں۔ بی بی سی نے 729 اضلاع کے دستیاب ڈیٹا کا تجزیہ کیا ہے جس میں ٹیکے لگانے کی شرح میں بہت زیادہ فرق نظر آیا ہے۔ اگر بعض اضلاع میں تقریباً نصف آبادی کو ویکسین لگا دی گئی ہے تو بعض میں ابھی تک صرف تین فیصد افراد کو ہی ٹیکے دیے گئے ہیں۔ کچھ شہری اور کم آبادی والے اضلاع میں دوسرے بڑے یا دیہی علاقوں کی نسبت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ دیکھا گیا ہے۔ اس ضلع کی آبادی تقریباً 31 ہزار افراد پر مشتمل ہے جنھیں فوری ویکسینیشن کی ضرورت تھی کیونکہ کووڈ کی دوسری لہر سامنے کھڑی نظر آرہی تھی۔ لیکن مسٹر مینا نے محسوس کیا کہ لوگوں کو ویکسین کے صلاحیت کے بارے میں شبہ ہے اور وہ بھیڑ لگانے کے خطرے سے بچنے کے لیے ویکسینیشن سینٹر آنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے 30 ٹیمیں تشکیل دیں جس میں ہیلتھ ورکرز کے ساتھ نرسیں اور ٹیچرز شامل تھے۔ انھوں نے گھر گھر جا کر لوگوں کی کونسلنگ کی اور انھیں ویکسینیشن کا ٹوکن دیا کہ وہ کس دن اور کہاں ویکسین لگوا سکتے ہیں۔ دوسرے لوگ ویکسین سے موت کے خوف کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک مشہور اداکار کی ویکسین لینے کے چند ہی دنوں میں موت ہو گئی۔ ایک کسان نے کہا: 'گاؤں میں ایک ویکسینیشن کیمپ لگا ہے۔ لیکن لوگ خوفزدہ ہیں کیوں کہ اداکار وویک کی ویکسین لینے کے فوراً بعد موت ہو گئی تھی۔ میں تو ویکسین لوں گا۔ لیکن چونکہ میں کہیں بھی نہیں جاتا اور گھر پر ہی رہتا ہوں اس لیے میں نے سوچا کہ میں بعد میں لے سکتا ہوں۔‘ لیکن ملک کے دارالحکومت کا منظر اس کے برعکس ہے، خاص طور پر جنوبی دہلی میں، جو شہر کے 11 اضلاع میں امیر ترین علاقوں میں سے ایک اور سب سے کم آبادی والا علاقہ ہے۔ اور اس نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نے اپنے 11 لاکھ رہائشیوں میں سے 43 فیصد کو پہلی ویکسین لگا دی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جنوبی دہلی میں دوسرے زیادہ آبادی والے اضلاع کے مقابلے میں زیادہ ویکسینیشن مراکز ہیں۔ اور جتنی ویکسین آپ دیتے ہیں اتنا ہی آپ کو وفاقی حکومت سے ملتا ہے۔ کم از کم یکم مئی سے پہلے تک تو یہی معاملہ تھا جب ریاستیں آزادانہ طور پر ٹیکے کی خوراک نہیں خرید رہی تھیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-57451304", "summary": "انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے ضلعے ناسک سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے ویکسین لینے کے بعد ان میں ہونے والے چونکا دینے والے تغیرات کا دعویٰ کیا ہے۔", "title": "کووڈ ویکسین کے بعد 'جسم کا مقناطیس کی طرح کام کرنا' کیا سچ ہو سکتا ہے؟", "firstPublished": "2021-06-12T06:14:19.000Z", "id": "72f326ec-d5d6-4c7e-91a6-25b6878952b6", "article": "لیکن انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے ضلعے ناسک سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے ویکسین لینے کے بعد ان میں ہونے والے چونکا دینے والے تغیرات کا دعویٰ کیا ہے۔ ناسک کے اروند سونار کا کہنا ہے کہ ویکسین کی دو خوراکوں کے بعد ان کا جسم مقناطیس کی طرح کام کر رہا ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسینیشن کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکتا۔ اپنے دعوے کی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے اروند سونار نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو ڈالی ہے جس میں سکے اور لوہے کی چیزیں ان کے جسم سے چپکی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے۔ انھوں نے بتایا: 'میں اپنے بیٹے کے ساتھ یونہی طرح طرح کی باتیں کر رہا تھا کہ اس نے مجھے ایک خبر کے بارے میں بتایا کہ ویکسین لینے کے بعد لوہےکی اشیاء لوگوں سے چپکنے لگتی ہیں۔ میں نے بھی جانچنے کے لیے تجربہ کیا تو مجھے پتا چلا کہ ایسا ہو رہا ہے۔' سونار کے مطابق انھوں نے چار پانچ دن قبل ایک نجی ہسپتال میں کووڈ ویکسین کی دوسری خوراک لی تھی اور انھیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں رہا۔ ڈاکٹر دابھولکر نے کہا: 'جسم سے سکوں اور برتنوں کا چپکنا طبیعیات کے قانون کے مطابق ممکن ہے۔ اگر جلد میں نمی ہو اور چپکنے والی جگہ پر کوئی خلا ہو تو یہ ممکن ہے۔ لیکن اسے ویکسینیشن سے منسلک کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ ہمارے ساتھ کام کرنے والے کئی بار اس طرح کے دعووں کی حقیقت سامنے لا چکے ہیں۔' انھوں نے کہا: 'یہ ویکسین دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ افراد کو دی جاچکی ہے۔ کووڈ ویکسین اور اسٹیل اور لوہے کی چیزوں کا جسم سے چپکنے کے درمیان کوئی ربط نہیں ہے۔ اسے ویکسین کے اثرات کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ ویکسین میں ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔' انھوں نے کہا: 'میرے طبی کیریئر میں آج تک ایسا معاملہ کبھی سامنے نہیں آیا۔ سونار کے جسم میں اس تبدیلی کی وجوہات جاننا ضروری ہے۔ یہ تحقیق کا موضوع ہے۔' ویسے سونار کے دعوے کے منظرعام پر آنے کے بعد انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے ایک رکن سمیر چندراتے نے کہا ہے کہ کسی شخص کے جسم سے دھات چپکنے کا مطالعہ دھات کے ماہرین کو بھی کرنا چاہیے۔ سمیر چندراتے نے کہا 'اس کا کووڈ ویکسین سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ویکسین لینے سے درد اور بخار ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر ایسی کوئی بات ہوتی ہے تو اسے ویکسین کا نتیجہ نہیں کہا جاسکتا۔ ایسی افواہوں سے ویکسینیشن مہم متاثر ہوگی۔ علم طبیعیات کے ماہرین اور دھاتوں کے ماہروں کو یہ مطالعہ کرنا چاہیے کہ ایسے لوگوں کے جسم میں دھات کے مادے کس طرح چپک سکتے ہیں۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57436453", "summary": "حکومت کی جانب سے کورونا ویکسین پروگرام کو تسلی بخش قرار دیا جا رہا ہے لیکن اگر ایسا ہے تو حکومت کو موبائل فون بند کرنے جیسا اقدام کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟", "title": "کورونا ویکسین نہ لگوانے والوں کے سم کارڈ بند کرنے کی نوبت کیوں آئی", "firstPublished": "2021-06-11T00:57:54.000Z", "id": "c4063657-a5ed-450b-9a16-80db32938164", "article": "پاکستان کے صوبہ پنجاب میں حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ایسے افراد جو کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین نہیں لگوائیں گے ان کے موبائل فون کی سم بند کر دی جائے گی۔ صوبے میں زیادہ سے زیادہ افراد کو ویکسین لگانے کا ہدف حاصل کرنے کے لیے جن دیگر تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے ان میں ویکسین نہ لگوانے والے افراد کے سرکاری دفاتر، شاپنگ مالز، پارکوں اور ریستورانوں میں داخلے پر پابندی شامل ہے۔ ’ایسے اقدامات کا مقصد حکومت کی طرف سے طے کیے گئے اس ہدف کو پورا کرنا ہے جس کے مطابق 70 فیصد کے لگ بھگ آبادی کو رواں سال کے آخر تک کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگا دی جائے گی۔‘ تاہم حکومت کا دعوٰی ہے کہ ملکی ضرورت کے مطابق وافر تعداد میں ویکسین حاصل کرنے کا بندوبست کر لیا گیا ہے۔ این سی او سی کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 95 لاکھ سے زائد ویکسین کی خوراکیں لگائی جا چکی ہیں تاہم مکمل طور پر ویکسین لگوانے والے افراد کی تعداد 25 لاکھ 40 ہزار سے زیادہ ہے۔ ایسے میں اگر لوگوں کو ویکسین لگانے کی رفتار تسلی بخش ہے تو پابندیاں عائد کرنے اور موبائل فون کی سم بند کرنے جیسے اقدامات کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور سب سے بڑی بات یہ کہ کیا ایسے اقدامات کامیاب ہو سکتے ہیں؟ محمکہ صحت کے حکام کا دعوٰی ہے کہ صوبے میں ویکسین لگانے کی رفتار تسلی بخش ہے۔ تو ایسے میں باپندیوں اور سم بند کرنے جیسے طریقہ کار کو اپنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ’ایسے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد جن کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ ان کا عوام سے رابطہ رہتا ہے جیسا کہ ڈاکٹر، پولیس، سرکاری دفاتر اور دیگر ایسے ادارے، ان کے لیے تو ویکسین لگوانا لازم ہونا چاہیے اور اس پر عملدرآمد ہر حال میں ہونا چاہیے۔‘ عام طور پر لوگوں میں ویکسین لگوانے سے ہچکچاہٹ کی وجوہات ایسے مفروضے اور شکوک و شبہات پر مبنی پروپیگنڈا کو سمجھا جاتا ہے جو حال ہی میں سوشل میڈیا پر سامنے آتا رہا ہے۔ تاہم چند نجی اداروں کی جانب سے گذشتہ چند ماہ کے دوران کیے گئے سروے کے تنائج بتاتے ہیں پاکستانیوں میں ویکسین لگوانے کے حوالے سے آمادگی کا رجحان بڑھا ہے تاہم ویکسین سے ہچکچاہٹ ظاہر کرنے والوں کی تعداد بھی بہت کم نہیں ہے۔ سروے کے مطابق ویکسین نہ لگوانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زیادہ تر لوگ کورونا کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے اور سمجھتے ہیں کہ انھیں وائرس نہیں لگ سکتا۔ ڈاکٹر اشرف نظامی کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان وجوہات کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرے جن کی وجہ سے لوگ ویکسین لگوانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں ’یعنی ان کے شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-57354831", "summary": "پاکستان میں ویکسین کے حوالے سے لوگوں میں اب بھی بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور ایسا صرف پاکستان میں نہیں بلکہ ہمسایہ ملک انڈیا اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی صورتحال اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔", "title": "کووڈ 19 کی ویکسین سے متعلق خدشات میں کتنا سچ کتنا جھوٹ؟", "firstPublished": "2021-06-04T14:06:26.000Z", "id": "2cd1f652-0c9c-ad4e-832a-038518c6e412", "article": "پاکستان میں ویکسین کے حوالے سے لوگوں میں اب بھی بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور ایسا صرف پاکستان میں نہیں بلکہ ہمسایہ ملک انڈیا اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی صورتحال اس سے کچھ مختلف نہیں۔ ایشور گیلڈا: اس طرح کی افواہیں ہر قسم کی ویکسین کے بارے میں پھیلائی جاتی ہیں اور ہم نے ماضی میں دیکھا کہ وہ افواہیں غلط ثابت ہوئیں۔ اسی طرح اب بھی لوگ کورونا ویکسین کے بارے میں اس طرح کی افواہیں اڑا رہے ہیں، ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ یتین مہتا: ویکسینیشن کے بعد کلاٹنگ (خون کا جمنا) ہو سکتی ہے لیکن انڈیا میں ایسے کیس بہت کم دیکھے گئے ہیں بلکہ انتہائی کم۔ یہ مسئلہ یورپ کے چند ممالک میں بزرگ افراد میں زیادہ دیکھا گیا لیکن ہم یہاں بہت ہی غیر معمولی معاملات میں اس کا سامنا کرتے ہیں۔ انڈیا کی وزارت صحت کی ایک کمیٹی کو حال ہی میں ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ انڈیا میں فی ملین 0.61 فیصد افراد کو کلاٹنگ کا مسئلہ درپیش آیا۔ ایشور گیلڈا: ویکسین لینے کے بعد کچھ لوگوں نے شکایت کی کہ اینٹی باڈیز نہیں بنی ہیں۔ لکھنؤ میں ایک شخص نے عدالت میں مقدمہ بھی دائر کر دیا لیکن یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بہت سی قسم کے اینٹی باڈیز ہیں۔۔۔ آئی ایم جی، آئی ایم ایم۔ عام طور پر جو ٹیسٹ کیا جاتا ہے وہ آئی ایم جی کا ہوتا ہے۔ اینٹی باڈیز جو ضروری طور پر ویکسین سے نہیں بنتی ہیں۔ آئی ایم ایم ٹیسٹ مہنگے ہیں۔ ایشور گیلڈا: کوڈ سے صحت یاب ہونے کے فوری بعد ویکسین لینے کی ضرورت نہیں۔ جولائی 2020 سے ہم نے ممبئی میں ہر ماہ 150 مریضوں پر تحقیق کی ہے اور دس ماہ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ دوبارہ آٹھ سے دس ماہ بعد ہی کووڈ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ جو لوگ دوبارہ 15-20 دن میں کووڈ میں مبتلا ہوئے ہیں وہ بھی غلط نہیں کیوںکہ ایسے کیسز میں یہ ہو رہا ہے کہ وہ کووڈ سے مکمل طور پر صحت یاب ہی نہیں ہوئے لیکن ان کی رپورٹ منفی آئی۔ ایشور گیلڈا: ویکسین لینے کے بعد بھی آپ کو معاشرتی دوری اور کورونا سے بچاؤ کے قواعد پر عمل کرنا چاہیے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ آپ کورونا وائرس کا کیریئر بن سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کسی متاثرہ شخص سے انفیکشن لے کر کسی تیسرے شخص کو دے سکتے ہیں۔ آپ کو کورونا نہیں ہو گا لیکن آپ اس کے کیریئر بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف اقسام کے وائرس سامنے آرہے ہیں لہذا ایسی صورتحال میں احتیاط برتنی چاہیے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57354830", "summary": "پاکستان میں خواجہ سرا کمیونٹی کے علاوہ ایسے بنگالی اور افغان پناہ گزین جن کے پاس شناختی کارڈ یا پی او آر کارڈ نہیں، کے لیے کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کا کوئی انتطام موجود نہیں۔", "title": "’کہاں کا کورونا اور کہاں کی ویکسین، بس امید پر جیے جا رہے ہیں کہ اللہ تحفظ کرے گا‘", "firstPublished": "2021-06-04T08:00:20.000Z", "id": "f4c7297d-07b0-624c-86b3-e9b25cfd78e9", "article": "میرے لیے کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کا کوئی انتظام نہیں کیونکہ میں خواجہ سرا ہوں اور میرا شناختی کارڈ نہیں بنا ہوا۔۔۔ میں پاکستانی بنگالی ہوں مجھے اب تک ویکسین نہیں دی جا سکی کیونکہ میرے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ نہیں ہے۔۔۔ میں پاکستان میں موجود افغان پناہ گزین ہوں چونکہ میرے پاس شہریت کی مصدقہ دستاویزات نہیں ہیں اس لیے ویکسین نہیں لگ سکتی۔۔۔ پاکستان میں یہ اور اس طرح کے دیگر افراد جن کے شناختی کارڈ یا پی او آر کارڈ نہیں ہیں یا کسی وجہ سے بلاک کیے جا چکے ہیں اُن کے لیے کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کا انتطام موجود نہیں۔ ’میرے پاس پالتو جانور ہیں، میں باقاعدگی سے اُن کی ویکسینیشن کرواتی ہوں تاکہ وہ بیماریوں سے محفوظ رہیں مگر خواجہ سرا ہوتے ہوئے پاکستان میں میرے لیے کورونا سے بچاؤ کی ویکسین نہیں ہے۔‘ اگرچہ پاکستان میں اس حوالے سے کوئی مصدقہ ڈیٹا موجود نہیں ہے کہ کتنے خواجہ سرا شناختی کارڈ سے محروم ہیں تاہم خواجہ سراؤں کی تنظیموں کے مطابق ایسے افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ خواجہ سرا ماہی بتاتی ہیں کہ وہ بظاہر لڑکیوں کی طرح ہی ہیں لیکن شہریوں کی رجسٹریشن کا سرکاری محکمہ انھیں جنس کے خانے میں خواجہ سرا لکھوانے کی اجازت نہیں دیتا اور خیبر پختونخوا میں کوئی گھرانہ بھی کسی کو اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ان کے گھر میں کوئی خواجہ سرا لکھوائے، اسی لیے شناختی کارڈ نہیں بنائے جاتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’شناختی کارڈز نہ ہونے کی وجہ سے ویکسین نہ لگنے کا معاملہ تو ایک طرف شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث ہماری کمیونٹی کے سینکڑوں نوجوان گھروں میں بیٹھے ہیں، تعلیم حاصل نہیں کر سکتے، روزگار وغیرہ نہیں ہے اور ان کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔‘ پاکستانی حکام کے مطابق ملک میں لگ بھگ 25 لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں جن میں سے 14 لاکھ ایسے ہیں جن کے پاس پی او آر کارڈز ہیں جبکہ باقی کے پاس کوئی قانونی دستاویز نہیں ہے جس کے باعث انھیں غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ صرف ان افغان پناہ گزینوں کو ویکسین دی جا رہی ہے جن کے پاس افغان پاسپورٹ ہیں اس کے علاوہ باقی افغان پناہ گزینوں کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ ایسے ہی ایک افغان پناہ گزین شہرزاد نے بتایا کہ ان کی ملاقات جمعے کے روز اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے پاکستان میں نمائندے سے متوقع ہے جس میں ویکسین کے بارے میں بات چیت ہو گی اور امید ہے اس پر عمل درآمد جلد شروع کر دیا جائے گگ۔ نادرا اور ویکسینیشن سینٹرز میں موجود عملے نے بی بی سی کو بتایا کہ جن افراد کے پاس شناختی کارڈ نہیں انھیں ویکسین نہیں دی جا سکتی اور ایسے افراد کے حوالے سے حکومتی پالیسی کی بابت ابھی تک انھیں مطلع نہیں کیا گیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-57277797", "summary": "برطانیہ میں ایک سرکاری طبی افسر بی بی سی کی 44 سالہ پریزینٹر لیزا شا کی حالیہ موت کے بعد اس بات کی تفتیش کرے گا کہ ان کی موت میں کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے دینے والی آکسفورڈ ایسٹرازینیکا ویکسین کا کوئی کردار تو نہیں تھا۔", "title": "لیزا شا: بی بی سی کی میزبان کی موت میں کورونا ویکسین کے کردار کی تفتیش", "firstPublished": "2021-05-28T00:02:07.000Z", "id": "e7c88f09-7275-4dc2-82e6-3a6d638b00d7", "article": "برطانیہ میں ایک سرکاری طبی افسر بی بی سی کی 44 سالہ پریزینٹر لیزا شا کی حالیہ موت کے بعد اس بات کی تفتیش کرے گا کہ ان کی موت میں کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے دینے والی آکسفورڈ ایسٹرازینیکا ویکسین کا کوئی کردار تو نہیں تھا۔ بی بی سی کی پریزینٹر کے خاندان کی جانب سے کہا گیا ہے ویکسین کی پہلی خوراک کے بعد انھیں خون گاڑھا ہونے کی شکایت تھی جس کے حوالے سے ان کا علاج جاری تھا۔ برطانیہ میں صحت سے متعلق مصنوعات کے نگراں ادارے میڈیسن اینڈ ہیلتھ کیئر پراڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی (ایم ایچ آر اے) کا کہنا ہے کہ ایسٹرازینیکا ویکسین کے فوائد اس کے نقصانات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ لیزا شا کی 21 مئی کو موت واقع ہوئی تھی۔ ان کی موت کے بعد جاری کیے گئے عبوری ڈیتھ سرٹیفیکٹ میں ویکسین کے استعمال کو موت کی ممکنہ وجوہات میں شامل کیا گیا ہے۔ اس سرٹیفیکٹ کے مطابق لیزا شا کی موت کی تفتیش کی جائے گی اور اس میں 'ایسٹرازینیکا ویکسین سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں' کا باعث خدشات کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ ان کے خاندان کے جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا: 'ویکسین کی پہلی خوراک لینے کے ایک ہفتے بعد لیزا نے شدید سر درد کی شکایت کی اور چند دن بعد سخت بیمار ہو گئیں۔ اس کے بعد ان کا رائل وکٹوریا انفرمری ہسپتال میں انتہائی نگہداشت وارڈ میں خون گاڑھا ہونے اور سر میں خون بہنے کا علاج کیا جا رہا تھا۔' خاندان کے بیان میں مزید کہا گیا: 'لیکن بدقسمتی سے جمعے کی دوپہر وہ فوت ہو گئیں اور اس وقت ان کے گھر والے ان کے ساتھ موجود تھے۔ ہم سب بہت صدمے کا شکار ہیں اور ہماری زندگی میں ان کے جانے سے بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے جو کہ کبھی بھی پُر نہیں ہو سکتا۔ ہمیں ہمیشہ ان سے پیار کرتے رہیں گے اور انھیں یاد کرتے رہیں گے۔' برطانوی نگراں ادارے ایم ایچ آر اے کے ترجمان نے لیزا شا کی موت پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ ان کی موت کی خبر سننے کے بعد وہ بہت افسردہ ہیں اور ان کے گھر والوں کے ساتھ نیک خواہشات ہیں۔ 'کسی بھی شدید رد عمل کی شکایت آنے اور موت ہو جانے کی خبر پر ہمارا ادارہ مکمل طور پر تفتیش کرتا ہے اور جہاں ممکن ہو، پوسٹ مارٹم رپورٹ کا تفصیلی جائزہ لیتا ہے۔ ہم ان کے خون گاڑھا ہونے کی خبر کا تفصیل سے اور گہرائی میں جائزہ لیں گے۔' لیزا شا نے 2016 میں بی بی سی ریڈیو نیو کاسل میں بحیثیت پریزینٹر نوکری شروع کی تھی۔ انگلینڈ کے شمال مشرقی علاقوں میں ان کی آواز بہت مشہور تھی اور اس سے قبل کمرشل ریڈیو میں بھی انھوں نے کامیاب کرئیر گزارا تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57165089", "summary": "پاکستان میں محکمہ صحت کے حکام نے بتایا ہے کہ اب تک ایسا فیصلہ نہیں ہوا کہ تمام افغان پناہ گزین کو ویکسین دی جائے گی۔ ’صرف انھیں ویکسین دی جائے گی جن کے پاس افغان پاسپورٹ ہیں، کارڈ پر ویکسین دینے کا فیصلہ اب تک نہیں ہوا۔‘", "title": "افغان پناہ گزین نہیں جانتے کہ انھیں ویکسین ملے گی یا نہیں", "firstPublished": "2021-05-19T04:22:28.000Z", "id": "3bc2276a-59ed-4b52-8980-99ebbb1bd977", "article": "پاکستان میں محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ صرف ان افغان شہریوں کو ویکسین دی جا رہی ہے جن کے پاس افغان پاسپورٹ ہیں اور انھیں ان کے پاسپورٹ نمبر سے رجسٹر کیا جاتا ہے جس کے بعد انھیں ویکیسن دی جا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا کے سیکرٹری صحت سید امتیاز حسین شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ افغان پناہ گزینوں کو ویکسین لگانے یا نہ لگانے کی پالیسی مرکز سے آئے گی اور جیسی پالیسی بھی مرتب کی جائے گی وہ اس پر عملد در آمد کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت صرف ان افغان پناہ گزینوں کو ویکیسن لگائی جا رہی ہے جن کے پاس افغان پاسپورٹ ہیں۔ لیکن ایسے بھی کئی افغان پناہ گزین ہیں جن کے پاس پاکستان میں اپنے دستاویزات نہیں۔ افغان طالبہ صالحہ کی والدہ کا نام زینب ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس مہاجر کارڈ ہے مگر کوئی پاسپورٹ نہیں اور وہ نہیں جانتیں کہ ان کے کارڈ پر کیا انھیں ویکسین دی جا سکے گی یا نہیں۔ امین اللہ بھی افغان پناہ گزین ہیں اور پشاور کے ایک پناہ گزینوں کی بستی میں رہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کے کیمپ میں کچھ لوگ کورونا سے متاثر ہوئے ہیں اور پھر وہ علاج کے لیے ہسپتال گئے تھے لیکن اب تک کسی کو ویکسین نہیں دی گئی۔ . امین اللہ کا کہنا تھا کہ ویکسین تو وقت کی ضرورت ہے لیکن انھیں ایسا کوئی پیغام نہیں ملا کہ وہ اپنے مہاجر کارڈ پر رجسٹر ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے خاندان میں لگ بھگ دس ایسے بزرگ ہیں جنھیں اس ویکسین کی اشد ضررت ہے۔ اس بارے میں یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر آفریدی سے رابطہ قائم کیا تو ان کا کہنا تھا کہ مرکزی سطح پر حکومت پاکستان نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ افغان پناہ گزینوں کو بھی ویکسین دی جائے گی۔ انھوں نے بتایا کہ این سی او سی کے اپریل میں منعقد ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ تمام غیر ملکیوں، بشمول ان افغان پناہ گزینوں کو جن کے پاس پی او آر کارڈز ہیں، کو کووڈ ویکسین دی جائے گی۔ اس بارے میں محکمہ صحت کے حکام نے بتایا ہے کہ اب تک ایسا فیصلہ نہیں ہوا کہ تمام افغان پناہ گزینوں کو ویکسین دی جائے گی۔ ’صرف انھیں ویکسین دی جائے گی جن کے پاس افغان پاسپورٹ ہیں، کارڈ پر ویکسین دینے کا فیصلہ اب تک نہیں ہوا۔‘ زینب، صالحہ اور امین اللہ کی طرح افغان بستیوں اور پاکستان کے شہروں میں رہنے والے افغان پناہ گزین بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں اور اس کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسے میں ماہرین کا خیال ہے کہ کووڈ 19 کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے افغان پناہ گزین کو بھی ویکسین دینا اتنا ہی ضروری ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-57124216", "summary": "انڈین حکومت نے فقط دو ہی کمپنیوں پر انحصار کے لیے انھیں کیوں منتخب کیا جو اب ویکسین کی سپلائی کو کنٹرول کر رہی ہیں اور اس کی قیمت کو بھی۔ یہ ایک سوال ہے جس کا کچھ لوگوں کو جواب دینا ہوگا۔", "title": "دنیا کی فارمیسی کہلانے والا انڈیا کیسے ویکسین کی کمی کا شکار ہوگیا؟", "firstPublished": "2021-05-15T09:47:00.000Z", "id": "a774aa68-4658-452a-b603-5cd4b5998446", "article": "وزیراعظم مودی کی وفاقی حکومت نے بغیر مطلوبہ سپلائی کے جو کہ ایک اعشاریہ آٹھ بلین خوراکیں ہیں ویکسین کے لیے 960 ملین شہریوں کو اہل قرار دیا تھا۔ ایکسیس آئی بی ایس اے میں کوآرڈینیٹر اچل پرابھالا کا کہنا ہے کہ انڈیا نے ویکسین کا آرڈر دینے کے لیے جنوری تک انتظار کیا جبکہ وہ اس کے لیے بہت پہلے ہی اس کا آرڈر کر سکتا تھا۔ یہ ادارہ انڈیا برازیل اور جنوبی افریقہ میں ویکسین کی رسائی کے لیے مہم چلاتا ہے۔ ایک خوراک کی قیمت دو امریکی ڈالر تھی جو کہ دنیا میں سستی ترین ویکسین ہے لیکن یہ ویکسین کی خوراکیں ملک کی 20 فیصد آبادی کو لگانے کے لیے ہی کافی ہیں۔ اس کے برعکس امریکہ اور یورپی یونین نے ایک سال پہلے ویکسین کو لگائے جانے کے لیے اس کی دستیابی سے قبل ہی ضرورت سے زیادہ مزید خوراکوں کا آرڈر دے دیا تھا۔ آل انڈیا ڈرگ ایکشن نیٹ ورک میںشریک کنوینر ملینا آئسولہ کا کہنا ہے کہ مثال کے طور پر ایک اور ناکامی یہ تھی کہ یہ فیصلہ نہیں لیا گیا کہ انڈیا کی مینوفیکچرنگ صلاحیتوں، حیاتیات کی فیکٹریوں کا اندراج کیا جائے۔ انھیں ویکسین کی تیاری کی لائنز میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ نتیجتاً ویکسین کے لیے ایک فری مارکیٹ ہے جو سرکاری اور نجی دونوں طرح کی مالی مدد سے تیار کی گئی ہے۔ نجی اسپتالوں میں اب ایک ہی خوراک کی قیمت 1500 روپے ہو سکتی ہے۔ لیکن کسی بھی ویکسین بنانے والی کمپنی نے ابھی تک یہ گارنٹی نہیں دی کہ وہ اگلے کچھ مہینوں میں اس کی سپلائی شروع کر دے گی کیونکہ امیر ممالک نے پہلے ہی ویکسین کی کھیپ وصول کرنے کے لیے آرڈر دے رکھا ہے۔ مِس آئسولہ کا کہنا ہے کہ ایس آئی آئی کو اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ یہ ظاہر کرے کہ وہ تین سو ملین امریکی ڈالر کیسے خرچ کیے جو اسے انٹرنیشنل کوویکس سکیم اور گیٹ فاؤنڈیشن سے موصول ہوئے تھے۔ اس فنڈنگ کا مقصد یہ تھا کہ کم آمدن والے ممالک کی ویکسین کے لیے مالی مدد کی جائے۔ عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کے برعکس اس نے ان تجاویز کی مخالفت کی جو اپوزیشن کی جانب سے دی گئیں تھی۔ ان میں کہا گیا تھا کہ منظور شدہ ویکسین کو بنانے کے لیے ادویات کی دیگر کمپنیوں کو بھی اجازت دی جائے یہ اقدامات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے۔ ڈاکٹر بھن کہتے ہی کہ انڈیا کی ایک اعشاریہ چار بلین آبادی میں سے ستر فیصد آبادی کو بھی ویکسین لگانا ایک طویل اور صبر آّزما کام ہے۔ لیکن ویکسین کی مہم کے حوالے سے اس کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے یہ ناممکن کام نہیں تھا۔ لیکن حکومت نے فقط دو ہی کمپنیوں پر انحصار کے لیے انھیں کیوں منتخب کیا جو اب ویکسین کی سپلائی کو کنٹرول کر رہی ہیں اور اس کی قیمت کو بھی۔ یہ ایک سوال ہے جس کا کچھ لوگوں کو جواب دینا ہوگا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-57086540", "summary": "پاکستان کی وفاقی حکومت اس وقت پوری کوشش کر رہی ہے کہ لوگ کورونا وائرس کی ویکسین لگوانے کو ترجیح دیں لیکن ویکسین کے بارے میں دو رائے اور ہچکچاہٹ کے نتیجے میں یہ عمل خاصا سست روی کا شکار ہے اور حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بائیس کروڑ کی آبادی میں سے اب تک صرف دو فیصد کو ہی ویکسین لگ سکی ہیں۔", "title": "کووڈ ویکسین پر خدشات: ’لوگوں نے جتنا ڈرایا، ایسا تو کچھ بھی نہیں‘", "firstPublished": "2021-05-13T04:43:37.000Z", "id": "e8b26a45-c44a-4af5-8957-2b7d8b37cbfa", "article": "اس دوران بی بی سی اردو نے بھی ان کے ساتھ ان گھروں کا دورہ کیا اور دیکھا کہ اب تک ویکسین لگانے کے بارے میں کیا لوگ آمادگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان میں لوگوں کی ویکسین کے بارے میں دو رائے اور ہچکچاہٹ کے نتیجے میں ویکسینیشن کا عمل خاصا سست روی کا شکار ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 22 کروڑ کی آبادی میں سے اب تک صرف دو فیصد لوگوں کو ہی ویکسین لگ سکی ہیں۔ اگر رواں سال کے اوائل کی بات کریں تو پاکستان کی حکومت نے ویکسینیشن کا عمل دیر سے شروع کیا تھا اور اس دوران ملک بھر میں مرحلہ وار ہیلتھ ورکرز سے شروع کرتے ہوئے دیگر افراد کو ویکسین لگانے کا عمل اب بھی جاری ہے۔ حالانکہ ڈاکٹروں، ماہرین اور وزرا کی جانب سے متعدد وضاحتیں دی گئیں کہ وزیرِاعظم کو ویکسین لگانے سے پہلے کووڈ ہو چکا تھا لیکن اس کے باوجود چند لوگوں نے ویکسین کی افادیت کو ماننے سے انکار کر دیا اور سوشل میڈیا پر اس بارے میں بات چیت کا زیادہ تر دارومدار غیر تصدیق شدہ خبروں اور افواہوں سے منسلک رہا۔ پاکستان کو اس وقت چین اور روس سے ویکسین ملی ہے لیکن حکام کا کہنا ہے کہ اب بھی مزید ویکسین کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں نجی طور پر سپوتنک وی ویکسین محدود مقدار میں صرف کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دی گئی ہے جبکہ فروری سے شروع ہونے والے سرکاری ویکسینیشن پروگرام میں 70 برس سے بڑی عمر کے افراد کو کانسینو ویکسین لگائی جا رہی ہے جبکہ 60 برس سے بڑی عمر کے افراد کو چینی ساختہ سائنو فارم لگائی جا رہی ہے۔ اس بارے میں ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لوگوں کے ذہنوں میں ویکسین سے متعلق خدشات ہیں کہ شاید ہم لوگ یعنی حکومت ان سے جھوٹ بول رہی ہے یا پھر یہ تمام کاوش کسی پروپیگنڈا کا حصہ ہے لیکن ظاہر ہے ایسا کچھ بھی نہیں۔‘ اسلام آباد کے سیکٹر جی سِکس ٹو میں مسجد کے امام محمد اسماعیل سے جب کووڈ ویکسین کے بارے میں اعلانات کرنے کی بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ ’اب ہمیں دھمکایا جا رہا ہے کہ ویکسین کے بارے میں اعلانات کرو۔ ہم کر رہے ہیں لیکن لوگوں کا اس پر عمل کرنا نہ کرنا ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ ہماری شکایت صرف یہ ہے کہ کیا کووڈ صرف مساجد سے پھیل رہا ہے؟‘ انڈیا میں کووڈ کے نتیجے میں ہونے والی اموات اور دل دہلا دینے والی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے لیے اس وقت کورونا وائرس کو محدود اور پھر ختم کرنا بہت اہم ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم عوام کو ویکسین لگانا ہے لیکن جس طرح سے لوگ اس بارے میں خدشات کا اظہار کر رہے ہیں، اس سے ایسا لگتا ہے کہ ابھی ایسا ہونے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56856515", "summary": "پاکستان میں 15 اپریل تک تقریباً 15 لاکھ افراد کو کورونا وائرس کی ویکسین لگائی جا چکی ہے تاہم اعدادوشمار کے مطابق پاکستان اب تک ویکسین کی صرف دو کروڑ بیس لاکھ کے قریب خوراکیں حاصل کرسکا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ آنے والے مہینوں میں پانچ کروڑ سے زیادہ آبادی کو ویکسین دیں گے لیکن یہ ویکسین آئے گی کہاں سے؟ ‎", "title": "کورونا وائرس: کیا پاکستان ملکی ضرورت کے لیے درکار ویکسین کا انتظام کر رہا ہے؟", "firstPublished": "2021-04-24T01:06:25.000Z", "id": "7ea70c83-9653-43ff-94c8-3db6ea6d2bb6", "article": "اگر پاکستان کی آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو 21 کروڑ کی آبادی والے ملک میں اپریل 15 تک وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق تقریباً 15 لاکھ افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے جس میں سے ساڑھے آٹھ لاکھ سے زیادہ عام شہری جبکہ باقی ہیلتھ ورکرز ہیں۔ جب یہی سوال ڈاکٹر فیصل سلطان سے کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ 15 اپریل تک پاکستان کے پاس سائنو فارم کی 22 لاکھ خوراکیں پہنچ چکی ہیں جبکہ آنے والے کچھ دنوں میں لاکھوں مزید خوراکوں کے پہنچنے کا امکان ہے۔ انھوں نے مزید تصدیق کی کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کے لیے ویکسین فراہمی کے کوویکس پروگرام کے تحت پاکستان کو پہلے مرحلے میں 30 جون تک ایک کروڑ چالیس لاکھ کے قریب ویکسین کی خوراکیں مل جائیں گی اور یہ ویکسین آکسفورڈ ایسٹرازینیکا ہو گی۔ ان تمام جوابات کی روشنی میں دیکھا جائے تو اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان اب تک ویکسین کی صرف دو کروڑ بیس لاکھ کے قریب خوراکیں حاصل کرنے کے قابل ہوا ہے جبکہ اگر آبادی کے تناسب سے سوچا جائے تو پاکستان کی 11 کروڑ سے زیادہ بالغ آبادی کا 70 فیصد حصہ ساڑھے آٹھ کروڑ بنتا ہے۔ تو پاکستان میں حکام نے اپنی آبادی میں کتنے لوگوں کو ویکسین لگانے کا اہتمام کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر فیصل سلطان نے بتایا کہ آنے والے مہینوں میں کوشش کی جائے گی کہ پانچ کروڑ سے زیادہ آبادی کو ویکسین کی خوراکیں دی جائیں۔ ’یہ بات یاد رکھنا ضروری ہو گی کہ پاکستان کی آبادی میں اب کئی لوگوں میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد مدافعتی صلاحیت آ گئی ہے۔ ہمارا پانچ کروڑ آبادی کا ہدف آنے والے مہینوں کا ہے جبکہ ہماری کوشش ہے کہ اگلے سال ہم تمام بالغوں کو ویکسین لگا دیں۔‘ پنجاب کی صوبائی حکومت کے مطابق 15 اپریل تک صوبے میں سات لاکھ سے زیادہ افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے جس میں تقریباً پانچ لاکھ عام شہری جبکہ باقی ہیلتھ ورکرز ہیں۔ جب ان سے سندھ میں لگائی جانے والی ویکسین کے بارے میں پوچھا گیا تو مہر خورشید نے بتایا کہ 15 اپریل تک صوبے میں اب تک ساڑھے تین لاکھ خوراکیں دی جا چکی ہیں جن میں سے دو لاکھ خوراک ہیلتھ ورکرز اور باقی عام شہریوں کو دی گئی۔ خیبر پختونخوا کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں اب تک صحت کے شعبہ سے منسلک 76 ہزار افراد کو ویکسین دی جا چکی ہیں جبکہ ویکسین لگوانے والے عام شہریوں کی تعداد ایک لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ صوبائی ویکسینیشن کے اعداد و شمار کے حوالے سے اہلکار کا کہنا تھا کہ 15 اپریل تک مجموعی طور پر 29 ہزار سے زیادہ افراد کو ویکسین دی جا چکی ہے جس میں سے 26 ہزار سے کچھ زیادہ صحت کے شعبے سے منسلک افراد ہیں جبکہ بقیہ عام شہری ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-56851421", "summary": "آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اپنے ابتدائی مراحل میں 70 فیصد مؤثر ثابت ہونے والی میلیریا کی ایک ویکسین اس بیماری کے خلاف جنگ میں بہت بڑی کامیابی دے سکتی ہے۔", "title": "ملیریا کی پہلی انتہائی مؤثر ویکسین بنا لی گئی", "firstPublished": "2021-04-23T16:05:14.000Z", "id": "20b3d69a-e761-4cfd-a3cf-9088799fcfe8", "article": "آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اپنے ابتدائی مراحل میں 77 فیصد مؤثر ثابت ہونے والی میلیریا کی ایک ویکسین اس بیماری کے خلاف جنگ میں بہت بڑی کامیابی دے سکتی ہے۔ ملیریا ایک مہلک بیماری ہے جو انسانوں میں مچھروں کے کاٹنے کی وجہ سے پھیلتی ہے۔ اگرچہ اس کا تدارک کیا جا سکتا ہے تاہم صحت کا عالمی ادارہ کہتا ہے کہ سنہ 2019 میں اِس سے تقریباً 23 کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے اور چار لاکھ نو ہزار اموات ریکارڈ کی گئی تھیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہِ ویکسیونولوجی کے پروفیسر اور جینر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر، ایڈرین ہِل جو اس ویکسین کی ریسرچ کے شریک مصنف بھی ہیں، کہتے ہیں کہ یہ پہلی ویکسین ہے جو صحت کے عالمی ادارے کی کم از کم موثر ہونے کی 75 فیصد شرح تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس نئی ویکسین کی آزمائش سنہ 2019 سے شروع ہوئی تھی، کورونا وائرس کی وبا کے پھوٹنے سے کافی پہلے اور پروفیسر ہِل کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی کی ٹیم نے کووڈ-19 کی ویکسین بنانے کے لیے ملیریا کی ویکسین کے لیے کی گئی ریسرچ سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی میلیریا ویکسین کو کامیاب ہونے میں اتنا وقت اس لیے لگا ہے کیونکہ کورونا وائرس کے مقابلے میں ملیریا میں ہزاروں جینز ہوتے ہیں جبکہ کورونا وائرس میں چند درجن جینز ہوتے ہیں۔ پروفیسر ہِل کہتے ہیں کہ 'یہ حقیقت میں ایک بہت ہی تکنیکی چیلنج ہوتا ہے۔ ویکسینز کی بہت بڑی اکثریت اس بیماری کے خلاف زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو سکی ہے کیونکہ یہ بہت مشکل بیماری ہے۔' آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر کہتے ہیں کہ اس کے آزمائشی نتائج کا مطلب ہے کہ اس ویکسین میں 'صحت عامہ کو بہت زبردست فائدہ پہنچانے کی صلاحیت ہے۔' میڈیکل ریسرچ کے معروف عالمی جریدے 'دی لانسیٹ' میں شائع ہونے سے قبل کے ایک مسودے کے مطابق، آکسفورڈ یونیورسٹی، نانورو برکینا فاسو اور امریکی ماہرین پر مشتمل ایک ریسرچ ٹیم نے R21/Matrix-M کے آزمائشی نتائج کی معلومات دی ہیں جو کہ اِس نے مئی اور اگست کے مہینوں میں کم مقدار اور زیادہ مقدار کی ویکسین کے کیے، یہ وہ وقت ہے جو ملیریا کے مرض کے پھیلنے سے پہلے اور بعد کے سیزن کے مہینے بنتے ہیں۔ 'ہم اس آزمائش کی اب تیسری سطح کی جانب پیش رفت کر رہے ہیں تاکہ ہم اس ویکسین کے محفوظ ہونے اور موثر ہونے کے بڑی سطح کے اعداد و شمار پیش کرسکیں جس کی اس خطے کے لوگوں کو بہت شدید ضرورت ہے۔' براغطم افریقہ میں ملیریا بچوں کی اموات کا ایک بہت بڑا سبب ہے، اور برکینا فاسو کے وزیرِ صحت، پروفیسر شارلیمین اوادراؤگو کہتے ہیں کہ نئی ویکسین کے بارے میں جو اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ 'اسے آئندہ چند برسوں میں' لائسنس دیا جاسکتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-56828283", "summary": "انڈیا کی وسطی ریاست چھتیس گڑھ میں ویکسینیشن کے مراکز پر عجیب و غریب منظر نظر آ رہا ہے، وہاں سے جو باہر نکل رہا ہے اس کے ہاتھ میں سرخ ٹماٹر سے بھری تھیلیاں ہیں، آخر ماجرا کیا ہے؟", "title": "ویکسین لگواؤ، ٹماٹر لے جاؤ: ’جس نے اس سکیم کی ابتدا کی اسے شاباش ہے‘", "firstPublished": "2021-04-22T03:27:25.000Z", "id": "8ef65122-55b7-4766-a250-9770fb44f4ce", "article": "انڈیا کی وسطی ریاست چھتیس گڑھ کے بیجاپور ضلع میں ویکسینیشن کے مراکز پر عجیب و غریب منظر دکھائی دے رہا ہے، وہاں سے جو شخص بھی ویکسین لگوا کر باہر نکل رہا ہے اس کے ہاتھ میں سرخ ٹماٹروں سے بھری تھیلی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ انڈین خبر رساں ادارے اے این آئی نے جب سے اس واقعے کے متعلق ٹویٹ کیا ہے لوگ اس اقدام کی تحسین کر رہے ہیں مگر چند ایسے بھی ہیں جو ریاستی حکومت کی اس پالیسی پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ انڈیا میں کورونا سے بچاؤ کے لیے فی الحال دنیا کا وسیع ترین ویکسینیشن پروگرام جاری ہے لیکن اس میں بہت سی رکاوٹیں بھی حائل ہیں۔ جہاں ویکسین کی دستیابی میں کمی کی بات کہی جا رہی ہے وہیں لوگوں میں ویکسین کے متعلق خدشات بھی موجود ہیں۔ ریاست چھتیس گڑھ، جہاں ویکسین لگوانے کے عوض ٹماٹر دیے جا رہے ہیں، کے وزیر صحت پہلے ہی ویکسین کی صلاحیت پر سوالات اٹھا چکے ہیں۔ بہرحال اب چھتیس گڑھ کے بیجاپور ضلع میں مقامی طور پر ایک سکیم چلائی جا رہی ہے اور ویکسین لگوانے کے لیے لوگوں کی حوصلہ افزائی کے طور پر انھیں ٹماٹر دیے جا رہے ہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ اس منصوبے کے لیے سرکاری فنڈ کا استعمال نہیں کیا گیا۔ ان کے بقول ’پہلے بھی ہم نے مقامی طور پر لوگوں سے تعاون حاصل کیا تھا اور لوگوں میں سبزیاں تقسیم کی تھیں۔‘ ایک اور صارف نے رائے دی کہ ’یہ دور رس نتائج کے لیے بہت بہتر قدم ہے اور اتنی کم لاگت میں آپ اسے حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک کلو ٹماٹر کی قیمت ہی کیا ہے۔‘ ابھیشیک گپتا نامی ایک صارف نے لکھا: ’جس نے اس سکیم کی ابتدا کی اس کے لیے سر تسلیم خم ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ مفت ٹماٹر کے لیے لوگ شہد کی مکھیوں کی طرح آئيں گے (یہاں تک کہ میری فیملی بھی وہاں خریداری کے لیے جاتی ہے جہاں کچھ مفت پیش کیا جاتا ہے) اس لیے میں اس اقدام کو سراہتا ہوں۔' سی ایم او بیجاپور نے بتایا کہ اب تک اس سکیم کے تحت 500 کلو سے زیادہ ٹماٹر تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ دو دن کے عرصے میں 250 سے زیادہ افراد نے ٹیکے لگوائے ہیں۔ اس سے قبل، ان کے مطابق، خال خال لوگ ہی ویکسین کے لیے آئے تھے۔ واضح رہے کہ انڈیا میں سلسلہ وار طریقے سے ویکسینیشن کا عمل جاری ہے اور یکم مئی سے 18 سال سے زیادہ عمر کے تمام افراد ٹیکے لگوانے کے اہل ہوں گے۔ اے این آئی نے آئی اے ایس افسر ڈاکٹر پرینکا شکلا کے حوالے سے لکھا ہے کہ ریاست میں 50 لاکھ سے زیادہ افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے جبکہ انڈیا نے چند دن قبل دس کروڑ خوراکیں دیے جانے کی بات کہی تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/regional-56812261", "summary": "مارچ میں انڈیا کے وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے اعلان کیا کہ ملک میں کووڈ 19 کا 'کھیل ختم' ہوا۔ لیکن اب ان دنوں ملک میں وائرس کے نئے متاثرین اور اموات میں دوبارہ تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔", "title": "انڈیا کورونا کی خطرناک دوسری لہر کو روکنے میں ناکام کیوں رہا؟", "firstPublished": "2021-04-20T08:20:36.000Z", "id": "78674381-2604-4819-aa16-583fb2bfcbd7", "article": "مارچ کے اوائل میں انڈیا کے وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے اعلان کیا کہ ملک میں عالمی وبا کووڈ 19 کا 'کھیل ختم' ہوا۔ ہرش وردھن نے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت کو یہ کہتے ہوئے سراہا کہ ان کی قیادت 'بین الاقوامی تعاون کے معاملے میں دنیا کے لیے ایک مثال' ہے۔ جنوری کے بعد سے انڈیا نے 'ویکسین ڈپلومیسی' کے طور پر بیرونی ممالک میں ویکسین کی خوراکیں فراہم کرنا بھی شروع کردیں۔ انڈیا نے آکسفورڈ ایسٹرا زینیکا کورونا وائرس ویکسین کی تمام برآمدات پر عارضی طور پر روک لگا دی ہے کیونکہ فوری طور پر ملک میں ان خوراکوں کی ضرورت تھی اور اس نے غیر ملکی ویکسینز کی درآمد کی اجازت دے دی۔ طلب میں اضافے کو پورا کرنے کے لیے اب آکسیجن کی درآمد کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ فروری کے وسط میں انڈین ایکسپریس اخبار کی ایک صحافی تبسم برناگر والا نے مہاراشٹرا کے کچھ حصوں میں نئے کیسز میں سات گنا اضافے پر خطرے کی گھنٹی بجائی اور بتایا کہ متاثرہ افراد کے نمونے جینوم سیکوئنسنگ کے لیے بھیجے گئے ہیں تاکہ باہر سے آنے والے وائرس کی مختلف اقسام کا پتا لگایا جا سکے۔ مہینے کے آخر تک بی بی سی نے کیسز میں اضافے کی اطلاع دی اور پوچھا کہ آیا انڈیا کو کووڈ کی نئی لہر کا سامنا ہے۔ ماہرین اب کہتے ہیں کہ نوجوانوں کی آبادی، وبا سے دیسی مدافعت، اور بڑی حد تک دیہی آبادی کا 'ڈھنڈورا' پیٹنے والے انڈیا نے ’وائرس پر فتح‘ کا اعلان کر دیا تھا جو کہ قبل از وقت ثابت ہوا۔ بلومبرگ کے ایک کالم نویس مہر شرما نے کہا: 'جیسا کہ انڈیا میں عام ہے، سرکار کا کبر، جنون زدہ قوم پرستی، پاپولزم اور بیوروکریٹک نااہلی ان سب نے ملکر یہ بحران پیدا کیا ہے۔' پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن آف انڈیا کے صدر پی سری ناتھ ریڈی نے کہا: 'یہاں فاتح کا ایک احساس تھا۔' انھوں نے کہا: 'کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ ہم نے بیماری سے مدافعت حاصل کر لی ہے۔ ہر کوئی کام پر واپس جانا چاہتا تھا۔ یہ بیانیہ بہت حد تک قابل قبول ٹھہرا اور احتیاط برتنے کی چند آوازوں پر توجہ نہیں دی گئی۔' مسٹر مینن نے کہا کہ بہت سارے دوسرے ممالک کی طرح انڈیا کو بھی جنوری میں مختلف قسم کے جینومک نگرانی کا آغاز کرنا چاہیے تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ اقسام کے وائرس ہی اس بڑے اضافے کا سبب بنے ہوں۔ صحت عامہ کے اس بحران سے کیا سبق حاصل کیے جا سکتے ہیں؟ ایک تو یہ کہ انڈیا کو وقت سے پہلے ہی وائرس پر فتح کا اعلان نہ کرنا چاہیے اور اسے ’فاتح کے جذبے‘ پر لگام لگانا چاہیے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-56620315", "summary": "ماہرین کا خیال ہے کہ اس وبائی بیماری کا خاتمہ اس وقت ممکن ہے جب زیادہ تر لوکوں کو ویکسین لگے گی لیکن اس میں کتنا وقت لگے گا یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ اس کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔", "title": "دنیا بھر کے لوگوں کو کورونا وائرس کی ویکسین کب تک لگ جائے گی؟", "firstPublished": "2021-04-03T08:26:18.000Z", "id": "0b8a20bb-0b1d-4bfb-b7c6-cc893cdcb082", "article": "ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا بھر کی آبادی کو ویکسین دینے کی راہ میں بہت سے عوامل سرگرم عمل ہیں عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ تیدروس ادھانوم غبرائسس کا کہنا ہے کہ ’ویکسین وبائی بیماری کا رخ موڑنے کے لیے بہت امید افزا ہے لیکن دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ تمام لوگوں کو ٹیکے لگائے جائیں نہ کہ صرف ان ممالک میں جو کورونا ویکسین کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں کیونکہ ہر جگہ انھیں خطرہ لاحق ہے۔' ویکسین وبائی مرض کے بعد کی دنیا کو معمول پر لانے میں کلیدی کردار ادا کرے گی لیکن اس کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں اور کئی ممالک کے مقابلے میں دوسرے ممالک کو لمبا سفر طے کرنا پڑ سکتا ہے۔ بی بی سی افریقہ کی ہیلتھ ایڈیٹر این مواتھی کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ بہت سے افریقی ممالک کو مغربی ممالک کے مقابلے میں زیادہ قیمت پر ویکسین خریدنا پڑیں گی جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ انھوں نے سپلائی کا پہلے سے آرڈر نہیں دیا تھا۔ ابھی تک اس بات کے شواہد نہیں ہیں کہ یہ مختلف اقسام زیادہ شدید بیماری کا باعث بنی ہیں اور زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے باوجود ویکسین مؤثر ثابت ہوں گی، کم از کم قلیل مدتی طور پر ہی سہی۔ لیکن یہ خدشہ ہے کہ اگر کووڈ 19 کو پوری دنیا میں بغیر روک ٹوک بڑھنے دیا گیا تو یہ وائرس اس حد تک تبدیل ہو سکتا ہے کہ موجودہ ویکسین اور علاج اس کے خلاف مزید کام نہ کر سکے، یہاں تک کہ ان کو بھی انفیکشن کا خطرہ لاحق ہو جائے گا جنھیں ویکسین دی جا چکی ہے۔ کچھ ممالک خاص طور پر زیادہ نوجوان آبادی والے ممالک، ویکسین لینے میں دلچسپی کھو سکتے ہیں، خاص طور پر اگر اس مرض کا وسیع پیمانے پر پھیلاؤ ہے (اور آبادی کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کر چکا ہے) یا اگر اس سے وابستہ اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ چونکہ کووڈ 19 ایک ایسا نیا خطرہ ہے جس سے ریوڑ کے ریوڑ میں مدافعت کا پتہ نہیں چل سکا لیکن وبائی امراض کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تقریبا 70 فیصد لوگوں کو ٹیکے لگا کر اسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ امپیریل کالج لندن میں متعدی امراض کی چيئر پرسن پروفیسر عذرا غنی کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کے لیے بنائی جانے والی ویکسینوں کا بنیادی مقصد جان بچانا ہے اور اس کا حصول ویکسینیشن کے ذریعے بیماری سے مدافعت پیدا کرنے اور وائرس کی منتقلی کو روکنے سے ہوتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/science-56499687", "summary": "محققین کے مطابق جرائم پیشہ افراد ان لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا رہے ہیں جو کووڈ 19 کے لاک ڈاؤن سے نجات ڈھونڈ رہے ہیں۔ ایسے میں ویکسین اور ویکسین پاسپورٹ مختلف داموں میں بیچے جا رہے ہیں۔.", "title": "ڈارک ویب پر کورونا کی ویکسین اور ویکسین پاسپورٹ کی فروخت کا انکشاف", "firstPublished": "2021-03-24T02:27:27.000Z", "id": "266894c9-56e6-410b-bfd5-b0c6cf7bf5a1", "article": "بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ کووڈ 19 کی ویکسینز، ویکسین پاسپورٹ اور کورونا ٹیسٹ کے جعلی منفی نتائج ڈارک ویب پر فروخت کیے جا رہے ہیں۔ ایسٹرا زینیکا، سپوٹنک، سائنو فارم اور جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین کی خوراکیں ڈارک ویب پر 500 سے 750 ڈالر میں فروخت ہو رہی ہیں۔ نامعلوم تاجر ویکسین کے جعلی سرٹیفکیٹ بھی بیچ رہے ہیں اور ان کی قیمتیں صرف 150 ڈالر سے شروع ہوتی ہیں۔ مارکیٹ پلیس پر موجود اس اشتہار میں کووڈ 19 کی ویکسین بیچنے کا دعوی کیا گیا ہے سائبر سکیورٹی کی کمپنی چیک پوائنٹ کے محققین نے جنوری سے ان آن لائن مارکیٹوں اور ہیکنگ فورمز کی نگرانی کی ہے۔ یہاں سب سے پہلے جنوری میں ویکسین کے اشتہارات لگنا شروع ہوئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ان اشتہارات میں تین گنا اضافہ ہوا ہے اور ان کی تعداد 1200 سے زیادہ ہو گئی ہے۔ بعض اشتہارات کے مطابق ویکسینز میں آکسفورڈ زینیکا کی قیمت 500 ڈالر، جانسن اینڈ جانسن اور روسی ویکسین سپوٹنک دونوں 600 ڈالر اور چین کی تیار کردہ سائنو فارم 750 ڈالر میں فروخت ہو رہی ہیں۔ ہیکنگ فورم پر ایک دوسرے اشتہار میں کورونا ٹیسٹ کے جعلی منفی نتائج کی پیشکش کی گئی تھی اور اس میں کہا گیا تھا کہ ’بیرون ملک سفر یا نوکری کے لیے ہم منفی کووڈ ٹیسٹ کرتے ہیں۔ دو منفی ٹیسٹ خریدیں اور تیسرا مفت حاصل کریں!‘ ویکسین پاسپورٹ کی پیشکش ایسے افراد کو کی جا رہی ہے جنھیں ابھی تک ویکسین نہیں لگی ہے اور وہ آزادی سے سفر نہیں کر سکتے۔ برطانیہ میں ویکسین پاسپورٹ کے ایک نظام پر بھی غور ہو رہا ہے جس سے سیاحوں کو بارز یا کھیلوں کے میدان تک رسائی کی اجازت مل جائے گی۔ یورپی حکام نے بھی ’گرین ڈیجیٹل سرٹیفکیٹ‘ کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے کووڈ 19 کی ویکسین حاصل کرنے والے افراد، منفی ٹیسٹ نتائج اور کورونا سے صحتیاب افراد کو یورپی یونین کے اندر سفر کرنے کی اجازت ہو گی۔ چیک پوائنٹ کے محققین کے مطابق کئی تاجر جعلی دستاویزات بیچ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک تاجر کا تعلق برطانیہ سے ہے جو 150 ڈالر میں ویکسین کارڈ فروخت کر رہا ہے اور وہ اس کے عوض کرپٹو کرنسی میں بٹ کوائن کے ذریعے پیسے وصول کر رہا ہے۔ جب انھوں نے اس تاجر سے رابطہ کیا تو انھیں بتایا گیا کہ وہ اپنے نام فراہم کریں اور یہ بتائیں کہ وہ تاریخ میں کیا لکھنا چاہتے ہیں، یعنی وہ تاریخ جب انھیں فرضی طور پر کورونا کی ویکسین دی گئی۔ اس کا کہنا تھا کہ 'آپ بے فکر رہیں۔۔۔ یہ ہمارا کام ہے۔۔۔ ہم نے ایسا کئی لوگوں کے ساتھ کیا ہے اور یہ بالکل محفوظ ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56486283", "summary": "پاکستان میں ادویات کی قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کی جانب سے روسی ویکسین سپٹنک کی قیمت 8449 روپے تجویز کرنے کے بعد بہت سے لوگ یہ سوال پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں سپٹنِک کی قیمت 10 ڈالر یعنی تقریباً 1500 روپے ہے تو پاکستان میں اس کی تجویز شدہ قیمت آخر اتنی زیادہ کیوں ہے۔", "title": "دس ڈالر والی روسی ویکسین ’سپٹنِک‘ کی قیمت پاکستان میں اتنی زیادہ کیوں؟", "firstPublished": "2021-03-22T14:08:27.000Z", "id": "adcedb35-25a8-4d0b-965b-2a3e7a89787a", "article": "پاکستان میں ادویات کی قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی جانب سے روسی ویکسین سپٹنک کی دو خوراکوں کی قیمت 8449 روپے جبکہ ایک خوراک پر مشتمل چین کی کونویڈیشیا ویکسین کی قیمت 4225 روپے منظوری کے لیے کابینہ کے پاس بھیجی گئی ہے۔ تاہم ان ویکسینز کو درآمد کرنے والی نجی کمپنیوں نے اعتراض کیا ہے کہ انھوں نے یہ ویکسین زیادہ قیمت میں درآمد کی ہے، جس کے بعد کابینہ نے ڈریپ کو ان قیمتوں پر نظرثانی کی ہدایت کی ہے، اور اب امکان ہے کہ ان ویکسینز کی قیمت تجویز شدہ قیمت سے بھی زیادہ ہوگی۔ ڈریپ کے ایک افسر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عموماً درآمد کی جانے والی ادویات کی قیمتوں کا تعین ہمسایہ مملک جیسے کہ انڈیا اور بنگلہ دیش میں اس دوا کی قیمت کو دیکھتے ہوئے کیا جاتا ہے، تاہم کورونا ویکسین کی قیمتوں سے متلعق ابھی اتنی معلومات دستیاب نہیں ہیں، اس لیے ان کی قیمت کا تعین ڈریپ کے 2018 کے قوانین میں درج شدہ فارمولے کے تحت کیا جائے گا۔ ڈریپ کی جانب سے روسی ویکسین سپٹنک کی قیمت 8449 روپے تجویز کرنے کے بعد بہت سے لوگ یہ سوال پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں سپٹنک کی قیمت 10 ڈالر یعنی 1559 روپے ہے تو پاکستان میں اس کی تجویز شدہ قیمت آخر اتنی زیادہ کیوں ہے۔ پاکستان میں سپٹنک درآمد کرنے والی دوا ساز کمپنی اے جی پی کے مطابق جب ڈریپ کی جانب سے ان سے قیمت کی تجویز مانگی گئی تھی تو انھوں نے اس کی قیمت 30 ڈالر دی تھی تاہم وقت کے ساتھ مارکیٹ میں سپٹنک کی مانگ میں اضافہ ہوا اور جب انھوں نے اسے درآمد کیا تو سپٹنک کی دو خوراکوں پر لاگت 45 ڈالر روپے آئی اور کمپنی اس قیمت پر یہ ویکسین درآمد کر چکی ہے جو کراچی کے سرد خانے میں محفوظ ہے۔ جب اے جی پی کے ایک اہلکار سے یہ سوال کیا گیا کہ 20 ڈالر میں دستیاب سپٹنک کو 45 ڈالر میں کیوں خریدا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ سپٹنک بنانے والی کمپنی کی جانب سے منفی تین سے منفی آٹھ ڈگری سینٹی گریڈ پر محفوظ کی جانے والی ویکسین کی قیمت 20 ڈالر ہے جو کہ اس وقت دستیاب نہیں۔ اے جی پی کا کہنا ہے کہ ڈریپ کی جانب سے تجویز شدہ قیمت کمپنی کو آنے والی لاگت سے کم ہے لہٰذا کمپنی نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے جس کے بعد حکومت نے ڈریپ کو اس پر نظرثانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ روسی ویکسین سپٹنک کو فروخت کے لیے درآمد کر لیا گیا ہے جبکہ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دوا ساز کمپنی اے جے پی چینی ویکسین کی 10 ہزار خوراکیں 25 مارچ تک درآمد کر لے گی، تاہم یہ ویکسینز حکومت پاکستان کی جانب سے قیمتوں کے تعین کے بعد ہی استعمال کے لیے دستیاب ہوں گی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-56475746", "summary": "عالمی ادارۂ صحت چاہتا ہے کہ کسی طریقے سے ملکوں کو ساتھ ملایا جاسکے تاکہ ویکسین کی زیادہ سے زیادہ سپلائز تیار ہوں۔ لیکن ادویات کی صنعت کا کہنا ہے کہ پیٹنٹ ختم ہونے سے مستقبل کی بیماریوں کے علاج کے لیے سرمایہ کاری متاثر ہوگی۔", "title": "ترقی پذیر ممالک کو ویکسین بنانے کی صلاحیت کیوں نہیں دی جا سکی؟", "firstPublished": "2021-03-21T18:20:13.000Z", "id": "8ebe984f-d075-4893-93e5-80fff8469f16", "article": "بی بی سی کے شو نیوز نائٹ کو موصول ہونے والے دستاویزات میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ویکسین تیار کرنے کی صلاحیت بڑھانے کے منصوبے برطانیہ سمیت کچھ امیر ممالک کی وجہ سے رکاوٹ کا شکار ہوئے ہیں۔ ادویات کی دستیابی کے لیے قائم تنظیم جسٹ ٹریٹمنٹ کے ڈیئرمیڈ میکڈونلڈ کہتے ہیں کہ ’(قراردار میں) ایسی زبان استعمال کی جانی چاہیے تھی تاکہ ان ملکوں کی مدد کی جاسکے کہ وہ ویکسین یا ادویات اپنے ملکوں میں بنا سکیں۔ اس طرح ان کی مالی مدد ہوسکتی ہے یا انھیں سہولیات مل سکتی ہیں۔ ادویات کی پالیسی کی ماہر ایلن ٹی ہوئن کا کہنا ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر ویکسینز کی تیاری کے لیے موجودہ ضرورت کے تحت تین گنا زیادہ صلاحیت درکار ہے۔ ویکسین بنانے کے لیے آپ کو ویکسین اس کا اصل مادہ تیار کرنا ہوتا ہے لیکن اس کی تیاری کا حق صرف اس کمپنی کے پاس ہوتا ہے جس کے پاس اس کا پیٹنٹ ہو۔ اس کے ساتھ آپ کو ویکسین تیار کرنے کا علم بھی درکار ہوتا ہے اور اس کے لیے موزوں ٹیکنالوجی ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ سب کافی پیچیدہ ہوسکتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے پاس یہ حق نہیں کہ وہ پیٹنٹ کو ختم کردے لیکن یہ کوشاں ہے کہ کسی طریقے سے ملکوں کو ساتھ ملایا جاسکے تاکہ ویکسین کی زیادہ سے زیادہ سپلائز تیار ہوں۔ اس بحث کا حصہ وہ بین الاقوامی قانون بھی ہے جس کی مدد سے پیٹنٹ کو نظر انداز کر کے بعض ملکوں کو اس کی تیاری کے لیے تکنیکی صلاحیت دی جاسکے۔ لیکن ادویات کی صنعت کا کہنا ہے کہ پیٹنٹ ختم ہونے سے کووڈ 19 یا مستقبل کی بیماریوں کے علاج کے سلسلے میں سرمایہ کاری متاثر ہوگی۔ اس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’ان اصولوں کو ختم کرنے سے عالمی وبا کے خاتمے کے لیے عالمی کوششیں مانند پڑ جائیں گی۔‘ یہاں اسی وائرس کی نئی اقسام کی بھی بات کی گئی تھی۔ کئی لوگ اس بات سے متفق بھی ہیں۔ ویکسین کی تیاری کی ماہر این مور کہتی ہیں کہ پیٹنٹ ختم ہونے سے مستقبل کی تحقیق متاثر ہوگی۔ دوا ساز کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے بھی ملکوں کی مالی معاونت کی ہے اور عالمی وبا کے دوران ادویات مفت فراہم کی ہیں۔ لیکن ان کمپنیوں کی مخالفت کرنے والے کہتے ہیں کہ کووڈ 19 کے علاج اور ویکسین بنانے میں قومی خزانوں میں سے 90 ارب پاؤنڈز خرچ ہوئے ہیں، اس لیے اس سے عوام کی ہی بھلائی ہونی چاہیے۔ عالمی وبا ختم ہونے کے بعد اس سے کافی منافع بھی ہوسکتا ہے۔ ایلن ٹی ہوئن کہتی ہیں کہ ’طویل مدتی منصوبے میں عالمی وبا کا مشکل دور ختم ہونے کے بعد ویکسین کی قیمت کافی زیادہ بڑھے گی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56467036", "summary": "بی بی سی اردو نے طبی ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا ویکسین لگوانے کے بعد بھی کورونا وائرس کا خطرہ موجود رہتا ہے اور یہ کہ ویکسین کتنے عرصے بعد موثر ثابت ہوتی ہے۔", "title": "کیا کورونا سے بچاؤ کے لیے ویکسین کی دونوں خوراکیں لازمی ہیں؟", "firstPublished": "2021-03-20T12:05:37.000Z", "id": "7335de0d-def7-4413-a885-d79738d652bc", "article": "اس خبر کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پر لوگ اکثر یہ سوال کرتے نظر آ رہے ہیں کہ کیا ویکسین لگوانے کے بعد بھی کورونا وائرس کا خطرہ موجود رہتا ہے اور یہ کہ ویکسین کتنے عرصے بعد مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ بی بی سی اردو نے طبی ماہرین سے انھی سوالوں کے جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔ حکومتِ پاکستان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں وضاحت دی گئی کہ وزیر اعظم عمران خان کا کورونا ٹیسٹ جب مثبت آیا تو اس وقت ان کی ویکسینیشن مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اُنھیں ویکسین کا پہلا ٹیکا لگے صرف 2 دن ہوئے ہیں، جو کسی بھی ویکسین کے کارآمد ہونے کے لیے بہت کم وقت ہے۔ اینٹی باڈیز ویکسین کا دوسرا ٹیکا لگنے کے دو سے تین ہفتوں کے بعد بننا شروع ہوتی ہیں۔' پاکستان میں اس وقت چین کی طرف سے عطیے میں ملنے والی سائنو فارم ویکسین 60 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کو لگائی جا رہی ہے۔ ایک خوراک کے بعد 21 دن بعد دوبارہ بھی یہ ویکسین لگوانی ہوتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے سابق معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے دو روز قبل ویکسین لگوائی ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ اس وقت کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے تھے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کی ماہرِ وبائی امراض ڈاکٹر نسیم اختر نے بی بی سی کو بتایا کہ ویکسین لگانے کے کم از کم دو ہفتے بعد انسانی جسم میں اینٹی باڈیز پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ وہ اس خیال سے متفق نظر آتی ہیں کہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ وزیرِ اعظم ویکسین لگوانے سے پہلے ہی کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر نسیم اختر کہتی ہیں کہ ویکسین کے بعد بھی انفیکشن تو ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق یہ الگ بات ہے کہ ویکسین کے بعد انفیکشن معمولی نوعیت کا ہوتا ہے مگر احتیاط سے معمولی نوعیت کے خطرے سے بھی بچاؤ ممکن ہے۔ انھوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ اینٹی باڈیز کا اثر دو سے تین ہفتے بعد ہوتا ہے اس لیے چینی ویکسین سائنوفارم ڈبل ڈوز ویکسین ہے اور اس ویکسین کی افادیت 80 سے 90 فیصد ہے۔ بعد ازاں ڈاکٹر عبدالباری نے بی بی سی کو بتایا کہ ویکسین لگوانے کے باوجود بھی احتیاط لازمی ہوتی ہے اور ویکسین کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بیماری زیادہ خطرناک ثابت نہیں ہوتی۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس وائرس سے کیسے متاثر ہوئے ہیں تاہم وزیر اعظم حالیہ چند دنوں میں عوامی اجتماعات اور اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے رہے ہیں۔ اس دوران وزیر اعظم بیرونِ ملک سے آئے مہمانوں سے بھی ملاقات کرتے رہے اور اُنھوں نے چند دن قبل خیبر پختونخوا میں ترقیاتی منصوبوں کا دورہ بھی کیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56453187", "summary": "ثمر احمد وہ خاتون ہیں جو نہ ہیلتھ کیئر ورکر ہیں نہ ان کی عمر 60 سال سے زیادہ ہے، لیکن اس کے باوجود انھیں ویکسین لگا دی گئی ہے۔", "title": "قسمت یا تکنیکی غلطی؟ اسلام آباد کی 30 سالہ خاتون کو ویکسین کیسے لگا دی گئی", "firstPublished": "2021-03-19T14:02:06.000Z", "id": "fa65a323-cb33-4c96-a59b-8649e4257e73", "article": "جمعرات کو پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں 70 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کے بیچ ایک 30 سالہ خاتون ثمر احمد کو کووڈ ویکسین لگا دی گئی ہے۔ یہ سوچا جا سکتا ہے کہ شاید ثمر ہیلتھ ورکر ہوں گی جنھیں عمر رسیدہ شہریوں کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر ویکسین لگائی جا رہی ہے، تاہم ایسا نہیں ہے۔ ثمر احمد پیشے کے لحاظ سے پیسٹری شیف ہیں اور ان کی والدہ ڈاکٹر ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ جب حکومت کی جانب سے فروری میں کورونا ویکسین کے لیے رجسٹر کروانے کو کہا گیا تو اُن کی والدہ نے خود کو رجسٹر کیا۔ ’میں نے سوچا میں بھی اپنی تفصیلات بھیج کر دیکھتی ہوں۔‘ دو ہفتے گزرنے کے بعد ثمر کو ان کی والدہ نے یاد دلایا کہ وہ ایک دفعہ ہسپتال جا کر دیکھ لیں کہ کیا صورتحال ہے۔ اگر کوڈ مل گیا ہے تو اس کے پیچھے کوئی بات ضرور ہوگی۔ پھر 18 مارچ کو ثمر اپنی والدہ کے ہمراہ صبح سوا آٹھ بجے پمز ہسپتال پہنچیں۔ پمز ہسپتال میں داخل ہوتے ہی اُنھیں موبائل فون پر موصول ہونے والا کوڈ دکھانے کو کہا گیا۔ ثمر نے کہا کہ اس دوران انھیں لگا کہ انھیں واپس جانے کا کہا جائے گا۔ ’لیکن اس کے برعکس نا صرف مجھے ٹوکن دے کر بیٹھنے کو کہا گیا بلکہ تھوڑی دیر بعد مجھے ویکسین بھی لگا دی گئی۔‘ اب یہی سوال جب پمز ہسپتال کے جوائنٹ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر منہاج السراج سے کیا گیا تو انھوں نے اس بات کی وضاحت کچھ یوں کی کہ وہ ہیلتھ کیئر ورکر ہوسکتی ہیں۔ لیکن جب انھیں بتایا گیا کہ وہ 30 سالہ پیسٹری شیف ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’دیکھیں یہ جو کوڈ جنریٹ ہو رہے ہیں، یہ نادرا سے شناختی کارڈ کی تصدیق ہونے کے بعد ہو رہے ہیں۔ اس میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ جس کسی کے پاس بھی کوڈ ہے اور نادرا سے تصدیق ہوچکی ہے تو ہمیں ویکسین لگانی ہے۔ تو ایسے میں ہم کسی کی عمر کو لے کر مزید پوچھ گچھ نہیں کرسکتے۔‘ اسی سلسلے میں نادرا کے ترجمان فائق علی چاچڑ سے جب بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ این آئی ٹی بی کے پورٹل پر ہیلتھ کیئر ورکرز کی رجسٹریشن شروع کی گئی تھی، وہاں جس جس نے خود کو رجسٹر کیا اس کا ایک کوڈ جاری کیا گیا تھا جس کے تحت لوگوں کو ویکسینز لگا دی گئیں ہیں۔ دوسری جانب جن عمر رسیدہ افراد کو ویکسین لگائی گئی ہے ان کو ابھی اس کی تصدیق کے لیے ویکسینیشن کارڈ نہیں دیے گئے ہیں۔ اسی طرح ثمر کو بھی ابھی تک ویکسینیشن کارڈ نہیں موصول ہوا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56388258", "summary": "آنے والے چند ہفتوں میں انڈیا پاکستان کو کورونا ویکسین کی 14 ملین خوراکیں فراہم کرے گا لیکن کیا انڈیا یہ خوراکیں اپنے بل بوتے پر خود سے اپنے ہمسایہ ملک اور دیرینہ حریف کی مدد کرتے ہوئے دے گا؟", "title": "کورونا وائرس: کیا انڈیا پاکستان کو اپنے خرچے پر مفت ویکسین فراہم کرے گا؟", "firstPublished": "2021-03-14T05:39:53.000Z", "id": "f9774d9a-0a4c-43e9-ae8d-cb4f558aea16", "article": "چند روز قبل 10 مارچ کو انڈین اخبار انڈین ایکسپریس کی ایک شہ سرخی کچھ یوں تھی کہ ’انڈیا پاکستان کو کورونا ویکسین فراہم کرے گا جبکہ ایک اور انڈین اخبار ’ٹائمز ناؤ‘ میں شائع ہونے والی خبر کی سرخی ’#بریکنگ: پاکستان کو جی اے وی آئی (گاوی) میثاق کے تحت انڈین ساختہ کورونا ویکسین کی 45 ملین خوراکیں فراہم کی جائیں گی۔‘ لیکن کیا اس خبر کا حقیقت سے کوئی تعلق بھی ہے؟ کیا انڈیا اپنے بل بوتے پر خود سے اپنے ہمسایہ ملک اور دیرینہ حریف پاکستان کی مدد کرتے ہوئے کورونا ویکسین کی کروڑوں خوراکیں دے گا؟ آنے والے چند ہفتوں میں انڈیا پاکستان کو کورونا ویکسین کی 14 ملین خوراکیں مفت فراہم کرے گا لیکن یہ ترسیل بذریعہ عالمی ادارہ صحت اور گاوی کوویکس ویکسین الائنس پروگرام کے تحت کی جائے گی جبکہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کا کوئی معاہدہ موجود نہیں۔ پاکستان کو ملنے والا لائسنسڈ بیچ دنیا کے سب سے بڑے ویکسین ساز ادارے سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کا تیار کردہ ہو گا اور عالمی طور پر پاکستان کو ملنے والی ویکسین کی تعداد کسی بھی ایک ملک کو دی گئی سب سے بڑی تعداد ہو گی۔ کوویکس کورونا وائرس ویکسین کی دو ارب خوراکوں کی پوری دنیا کے درمیانے اور کم آمدنی والے ممالک میں منصفانہ اور مساوی طور پر تقسیم یقینی بنانے کے لیے شروع کیا گیا ایک پروگرام ہے جس کی سربراہی گاوی اور عالمی ادارہ صحت سمیت دیگر ادارے کر رہے ہیں۔ ایسٹرازینیکا مہلک کورونا وائرس کے خلاف 63 فیصد فعالیت رکھنے والی ویکسین ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ ویکسین لگوانے والوں کو اس کی دو خوراکیں آٹھ سے 12 ہفتے کے فرق سے لینا ہوں گی۔ وفاقی وزیر برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے جمعے کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں کورونا وائرس کی تیسری لہر آ چکی ہے اور عوام کو اس سے بچاؤ کے لیے سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل وفاقی وزیر اسد عمر نے بھی ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں اب کورونا وائرس کی تیسری لہر ہے اور اس کا مرکزی سبب برطانیہ سے کورونا وائرس کی دریافت ہونے والی نئی قسم ہے۔ مارچ کے مہینے میں پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ 10 مارچ سے 60 برس سے زیادہ عمر والے افراد کے لیے بھی ویکسینیشن کا سلسلہ شروع کر رہا ہے جس کے لیے ایسٹرازینیکا اور سائنوفارم استعمال کی جا رہی ہے۔ وفاقی وزیر ڈاکٹر فیصل سلطان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ اب تک پاکستان میں مجموعی طور پر تین لاکھ سے زیادہ افراد کو ویکسین کی خوراک دی جا چکی ہے۔ دوسری جانب صوبہ سندھ کے محکمہ صحت کی جانب سے اس رپورٹ کے لیے فراہم کردہ معلومات کے مطابق 12 مارچ تک صوبے میں 98 ہزار سے زیادہ افراد کو ویکسین کی ایک خوراک مل چکی ہے جبکہ 23 ہزار سے زیادہ افراد وہ ہیں جنھیں دونوں خوراکیں مل چکی ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/world-56267394", "summary": "روس کے سپٹنِک نامی گاؤں میں جب حکام نے یہ اعلان کیا کہ کورونا وائرس کے خلاف تیار کی گئی روسی ویکسین سپٹنِک سب کے لیے مقامی دوا خانے پر دستیاب ہے تو محض 28 عمر رسیدہ افراد ہی سامنے آئے۔", "title": "روس میں کئی افراد کورونا کے خلاف ’سپٹنِک ویکسین‘ لگوانے سے گریزاں کیوں ہیں؟", "firstPublished": "2021-03-07T10:19:11.000Z", "id": "889c7067-3995-4ae0-a910-28da9113d363", "article": "روس کے سپٹنِک نامی گاؤں میں جب حکام نے یہ اعلان کیا کہ کورونا وائرس کے خلاف تیار کی گئی روسی ویکسین سپٹنِک سب کے لیے مقامی دوا خانے پر دستیاب ہے تو محض 28 عمر رسیدہ افراد ہی سامنے آئے۔ روسی ویکسین کے بارے میں طبی جریدے لینسیٹ میں شائع ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق یہ ویکسین کورونا وائرس کے خلاف 91.6 فیصد کارآمد ہے، یعنی یہ دنیا کی بہترین ویکسینز میں سے ایک ہے۔ لینسیٹ کی اس رپورٹ کے بعد سپٹنِک میں بین الاقوامی دلچسپی بڑھی ہے۔ انھوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ 1,000 سے زیادہ آبادی والے اس گاؤں میں لوگ ویکسین لگوانے سامنے نہیں آ رہے۔ انھوں نے کہا، ’ہمیں لگا تھا کہ 25 لوگ آئیں گے، لیکن 28 آئے، ہم تو خوش ہیں۔‘ ان کے عملے نے عمر رسیدہ افراد سے رابطہ کرکے انھیں ویکسین کے لیے بلایا تھا۔ گالینا بورڈاڈیمووا نے کہا کہ ’ویکسین سب کے لیے دستیاب تھی، جو بھی چاہتا لگوا سکتا تھا۔‘ لیکن اب تیسرے مرحلے کے تجربات سے سامنے آنے والے اعداد وشمار سے اس ویکسین کی افادیت واضح ہو گئی ہے۔ یہ اتنی ہی کارآمد ہے، جتنا کہ یورپ اور امریکہ میں بننے والی ویکسینز اور اس سے ہونے والے سائیڈ افیکٹس بھی ملتے جلتے ہی ہیں۔ ہنگری، روسی ویکسین کو ہنگامی حالات میں استعمال کے لیے منظوری دینے والا پہلا یورپی ملک تھا، جبکہ سلوواکیا نے سپٹنِک کو ’روسی اثر و رسوخ کا آلہ کار‘ ہونے والی باتوں پر کان نہ دھرتے ہوئے دو ملین خوراکیں حاصل کی ہیں۔ آر پولیٹیک نامی فرم سے منسلک ٹاٹیانا سٹانووایا کہتی ہیں ’پیوٹن کے لیے ویکسین بنانا دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنے کا ذریعہ تھا کہ روس ایک ترقی یافتہ، طاقتور ملک ہے، جو مشکل شعبوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔‘ سپٹنِک گاؤں میں اس طرح کی سیاست کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ کچھ رہائشی پریشان ہیں کہ کہیں انھیں کورونا وائرس نہ ہو جائے۔ وبا کی پہلی لہر میں عمر کی پچاسوین دہائی میں دو مقامی لوگ اس کا شکار ہوئے تھے۔ لیکن اس کے باوجود گاؤں والے ویکسین لگوانے سے ہچکچا رہے ہیں۔ وہ خود حال ہی میں کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد صحت یاب ہوئی ہیں اس لیے ان کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ انھیں فی الحال ویکسین لگوانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سب کا مطلب یہ ہے کہ اب تک صرف چار ملین روسی شہریوں کو ہی ویکسین لگائی گئی ہے، جو کہ وزارت صحت کے حدف سے کہیں کم ہے۔ سپٹنِک گاؤں کے دوا خانے سے گھر جاتے ہوئے اناتولی کہتے ہیں کہ انجیکشن لگوانا کوئی مسئلہ نہیں تھا ’بس ایک لمحے میں سب ہو گیا!‘ لیکن ساتھ ہی انہیں اس بات کا بھی یقین نہیں ہے کہ انھیں اس کی ضرورت تھی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/india-56224204", "summary": "بعض انڈین ریاستوں میں کیسز میں اضافے نے سائنسدانوں کو وبا کی دوسری لہر کے بارے میں تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا اس وقت ایک ’نازک مرحلے‘ میں ہے۔", "title": "کیا انڈیا میں کورونا وائرس کی ایک اور لہر آ رہی ہے؟", "firstPublished": "2021-02-27T15:45:47.000Z", "id": "c8e7a1d7-e351-40b2-9157-9f93992cb674", "article": "فروری کے آغاز سے امراوتی میں کووڈ کی وجہ سے 10 ہزار سے زیادہ نئے کیسز اور 66 سے اموات زیادہ رپورٹ ہوئی ہیں۔ اس ہفتے ایک ہزار سے زیادہ افراد کا علاج کیا جا رہا تھا اور ٹیسٹوں کے مثبت ہونے کی شرح دس سے زیادہ ہے۔ امراوتی اور ریاست کے بعض دوسرے اضلاع میں پھر سے لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ہے۔ اس صورتحال نے سائنسدانوں اور دوسرے ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔ اس کی وجوہ وہ ہی بیان کی جا رہی ہیں جو ماہراشٹر میں اضافے کا سبب سمجھی جاتی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ تیزی صرف چند ریاستوں تک کیوں محدود ہے۔ ماہرین اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ بعض ریاستوں میں نگرانی زیادہ مؤثر ہے، جیسا کہ ماہراشٹر میں۔ ممکن ہے دوسری جگہوں پر بھی تیزی آئی ہو مگر اس کا پتا نہ چل سکا ہو۔ ماہرین کے مطابق ایک دوسری وجہ میوٹیشن یا وائرس کا اپنی ہییت میں تبدیلی لانا ہو سکتی ہے۔ وائرس اکثر اپنے جینیاتی کوڈ بدلتے رہتے ہیں۔ میوٹیشن کی وجہ سے وائرس تیزی سے پھیلتا ہے اور بعض اوقات تو جسم کے مدافعتی نظام کو غیر مؤثر کر دیتا ہے۔ ایسا برطانیہ، جنوبی افریقہ اور برازیل میں دیکھنے میں آیا ہے جہاں ویریینٹس یا متغیرات ( وائرس کی ترمیم شدہ شکلیں) بڑی آبادیوں میں تیزی سے پھیلے۔ یہ متغیرات انڈیا میں بھی پائے گئے ہیں، مگر ایسی کوئی شہادت نہیں کہ یہ آبادی میں پھیل گئے ہوں۔ ماہرین اسے اچھی اور بری خبر قرار دیتے ہیں۔ اچھی اس لیے کہ یہ بہت زیادہ سرعت سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور پہلے انفیکشن سے پیدا ہونے والی دفاعی صلاحیت یا امینونیٹی کو چیر کر نکل جاتے ہیں۔ بری خبر اس لیے کہ ہمیں یہ اندازہ نہیں ہو سکے گا کہ انڈین متغیرات کا طرزِ عمل کیسا ہوگا۔ کیرالا میں کووڈ ٹاسک فورس کے رکن، ڈاکٹر فتح اللہ، کا کہنا ہے کہ وہاں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کوروناوائرس کے متاثرین میں اضافے کا سبب ٹسٹنگ کی سہولیت میں آنے والی بہتری ہے۔ ان کے بقول آر ٹی - پی سی آر ٹسٹنگ کو دنیا بھر میں معیاری مانا جاتا ہے اور ریاست میں تقریباً 75 فیصد ٹسٹنگ کے لیے یہ ہی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ دوسری ریاستوں کو بھی یہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ ’نئے کیسز سامنے نہ آنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ کووڈ کی وبا ختم ہوگئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس ایسے لوگوں کو ڈھونڈ رہا ہے جو ضعیف ہوں یا ان میں پہلے سے کوئی مرض موجود ہو۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/magazine-56018198", "summary": "برازیل میں اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے شرح اموات امریکہ کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ تاہم سائنسدانوں کو خدشہ ہے کہ جنوبی امریکہ کے اس ملک میں اس سے بھی زیادہ خطرناک اور مہلک بیماری کے پھوٹ پڑنے کا خطرہ ہے۔", "title": "’انسانوں کے بجائے بندروں کو ویکسین لگانے سے وبا پر قابو پایا جا سکتا ہے‘", "firstPublished": "2021-02-15T14:52:51.000Z", "id": "5dfe84ec-ebb2-4b88-83cc-e9578c849344", "article": "برازیل میں اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے شرح اموات امریکہ کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ تاہم سائنسدانوں کو خدشہ ہے کہ جنوبی امریکہ کے اس ملک میں کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک اور مہلک بیماری کے پھوٹ پڑنے کا خطرہ ہے۔ یہ بیماری ایک وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے جو انسانوں اور بندروں میں مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے۔ اس کی علامات میں تیز بخار اور سر درد شامل ہیں اور کچھ مریضوں کو یرقان بھی ہو جاتا ہے، جس سے مریض کی جلد زرد پڑ جاتی ہے۔ شدید بیماری کی صورت میں جسم کے اندر خون بہنے لگتا ہے اور جگر کام کرنا بند کر دیتا ہے۔ جنگل کے اس حصے سے، جہاں سائنسدان بندروں کی تاک میں بیٹھے ہیں، صرف 50 میل کی دوری پر ریو ڈی جنیرو کا شہر واقع ہے جو کہ جنوبی امریکہ کے تمام ممالک میں چھٹا سب سے بڑا شہر ہے۔ اور گاڑی سے چھ گھنٹے کا سفر آپ کو ساؤ پاؤلو پہنچا دیتا ہے جو کہ مغربی نصف کرہ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اور تو اور ایک مسئلہ ویکسین کی قلت کا بھی ہو سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے دوا بنانے والی کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ پیداوار میں اضافہ کریں، تاہم یونیسیف کے مطابق ویکسین کی دستیابی ’محدود پیداوار کی وجہ سے متاثر ہے۔‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریو کی آبادی کے صرف نصف حصے کو ہی زرد بخار کے خلاف ویکسینیشن لگی ہے۔ دنیا بھر میں بندروں کی سب سے زیادہ نسلیں برازیل میں پائی جاتی ہیں۔ انسانوں کو بچانے کے لیے اب ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ٹامارن بندروں کو بچانا ہو گا۔ پنجرے اور کیلے لیے اکتوبر کی ایک ابر آلود صبح ڈی آرک بالکل اسی مقصد سے نکلی تھیں۔ ایسے میں ہوتا یہ ہے کہ بندر اس بیماری کو پھیلانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ آج کل کی دنیا میں جنگلات کو بیدردی سے کاٹے جانے کی وجہ سے یہ خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔ وبا پھوٹنے کے لیے ایسی صورتحال بالکل موافق ہے۔ اس سے بھی زیادہ پریشانی کا باعث یہ بات ہے کہ اٹلانٹک جنگل کا ایک کنارہ ریو ڈی جنیرو کے نواح سے متصل ہے۔ اس شہر کی آبادی 12 ملین ہے جن میں سے تقریباً چھ ملین کو ویکسین لگ چکی ہے۔ مجموعی طور پر 148 ملین سے زیادہ لوگ برازیل کے اٹلانٹک جنگل سے متصل علاقوں میں رہتے ہیں۔ تاہم سبھی لوگ ٹامارن بندروں کی عزت نہیں کرتے۔ سنہ 2017 کی وبا کے دوران برازیل میں درجنوں بندروں کو پتھروں اور گولیوں سے مارا گیا، انھیں آگ لگائی گئی۔ ایسا کرنے والے وہ لوگ تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ اس مہلک بیماری کی وجہ یہی بندر ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56062896", "summary": "پاکستان میں ویکسین لگوانے کے اہل ترین افراد میں شامل ہونے پر ایک 27 سالہ ڈاکٹر کو اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرنا چاہیے تھا کیونکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک ملک میں مہلک کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 12 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔", "title": "کورونا ویکسین پر طبی عملے کے خدشات: ’ڈر ہے کہ حکومت ہم پر تجربہ نہ کر رہی ہو‘", "firstPublished": "2021-02-15T04:07:08.000Z", "id": "eac7b7b6-6f34-4a94-937e-4ee1e1ad4079", "article": "پاکستان میں ویکسین لگوانے کے اہل ترین افراد میں شامل ہونے پر ایک 27 سالہ ڈاکٹر کو اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرنا چاہیے تھا کیونکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک ملک میں مہلک کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 12 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ چین کی جانب سے عطیہ کی جانے والی ویکسین سرکاری دوا ساز کمپنی سائنوفارم نے تیار کی ہے جس کا صدر دفتر بیجنگ میں واقع ہے۔ اگرچہ سائنوفارم کی ویکسین کے استعمال کی ہنگامی منظوری متحدہ عرب امارات، بحرین اور ہنگری سمیت متعدد ممالک میں دی جا چکی ہے لیکن 27 سالہ ڈاکٹر چاہتے ہیں کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے انھیں اس ویکسین کے متعلق مزید معلومات حاصل ہو جائیں۔ گذشتہ برس سائنوفارم کے تیار کنندگان نے اعلان کیا تھا کہ ان کی تیار کردہ ویکسین کے فیز تین کے نتائج کے مطابق ان کی ویکسین کورونا وائرس کے خلاف 79 فیصد مؤثر ثابت ہوئی ہے جو کہ امریکی کمپنیوں فائزر اور موڈرنا کی 95 فیصد اثرانگیزی سے مقابلہ میں کم ہے۔ کورونا ویکسین لگوانے کی مہم میں طبی ماہرین کو اپنے نام کا اندراج کروانے میں مدد کرنے والے کووڈ 19 کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر محمد ارسلان انور کا کہنا ہے کہ وہ سرکاری میو ہسپتال کے دس ہزار طبی عملے میں سے محض 5900 نام ہی درج کروا سکے ہیں۔ ان کے مطابق 12 فروری تک پاکستان میں طبی عملے کے لگ بھگ 33 ہزار افراد کو کورونا ویکسین دی جاچکی ہے۔ پاکستان میں پیر سے 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کی رجسٹریشن کا عمل شروع ہوگا۔ لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے موبائل فون سے اپنا سی این آئی سی (قومی شناختی کارڈ نمبر) 1166 پر ایس ایم ایس کریں تاکہ کورونا ویکسین کے لیے انھیں رجسٹر کیا جاسکے۔ ڈاکٹر فیصل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں طبی عملے کی مجموعی تعداد دس لاکھ ہے جس میں ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف شامل ہے، ان دس لاکھ میں سے چار لاکھ فرنٹ لائن ورکرز ہیں جنھیں مہم کے پہلے مرحلے میں ویکسین لگائی جانی ہے۔ اس وبا میں پاکستان کے مرکزی فیصلہ ساز ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق ویکسین لگانے کی مہم کے دو فروری سے آغاز سے لے کر اب تک ملک بھر کے 27 ہزار طبی عملے کے اراکین کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ طبی عملے کو یہ ویکسین لگوانے پر قائل کرنے کے لیے حکومت متنوع قسم کی عوامی آگاہی مہم شروع کر رہی ہے جس میں سائنوفارم ویکسین لگوانے والے بااثر ڈاکٹر حضرات اس ویکسین کی سند دیں گے۔ اس کے علاوہ فیس بک سمیت سوشل میڈیا پر ڈاکٹر فیصل سلطان اس چینی ساختہ ویکسین کی بابت پوچھے جانے والے عام سوالوں کے جواب بذات خود دیں گے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2x8zg7yzj0o", "summary": "جب آپ کو اچانک علم ہوتا ہے کہ آپ کا تعلق تو اس قوم سے تھا ہی نہیں جس پر آپ یقین کرتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں تو آپ کیا کریں گے؟ ", "title": "وہ افراد جن کے ڈی این اے ٹیسٹ نے ان کی زندگیاں بدل دیں", "firstPublished": "2023-10-08T12:40:57.618Z", "id": "c2x8zg7yzj0o", "article": "وہ کہتی ہیں کہ ’امریکہ میں یہ رواج ہے کہ اگر آپ میں افریقی رنگ و نسل کا ایک قطرہ بھی موجود ہے تو آپ کو سیاہ فام مانا جائے گا۔‘ اپنی والدہ کے اس فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’شاید انھوں نے سوچا ہو گا کہ مجھے مدد ملے گی۔‘ کارا کے اپنے ڈی این اے ٹیسٹ کا نتیجہ ان کی 44ویں سالگرہ سے کچھ ہی مدت پہلے آیا۔ ان کے سامنے ایک چارٹ موجود تھا جس میں فنش، جرمن اور برطانوی نسب تقریبا نصف حصے پر موجود تھا جبکہ دیگر نصف حصے کے مطابق وہ ایشکینزائی یہودی قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یعنی اس چارٹ کے مطابق جس شخص نے ان کو پالا پوسا تھا، وہ ان کا والد تھا ہی نہیں اور ناہی وہ افریقی امریکی قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ ’دی گفٹ‘ نامی سیریز کی تیاری کے دوران میں نے دریافت کیا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کروانے والے کئی لوگوں کی زندگیاں نتائج کے بعد تبدیل ہو جاتی ہیں۔ جب آپ کو اچانک علم ہوتا ہے کہ آپ کا تعلق تو اس قوم سے تھا ہی نہیں جس پر آپ یقین کرتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں تو آپ کیا کریں گے؟ ہماری کتنی اساس ہماری جینیات سے آتی ہے؟ اور ہمیں اس قسم کے ٹیسٹ پر کتنا اعتماد کرنا چاہیے؟ ٹوئنٹی تھری اینڈ می نامی سائٹ نے ایسے بہت سے عوامل کی نشاندہی کی ہے جو اس تخمینے اور ٹیسٹ کے نتائج کو ناقص بنا سکتے ہیں مثال کے طور پر لوگوں کا تعلق عام طور پر ایک سے زیادہ قوموں سے ہوتا ہے اور بائیو میڈیکل تحقیق یورپی قومیت کے ڈی این اے پر فوکس کرتی ہے جس کا مطلب ہے کہ متنوع آبادیوں کا بہت زیادہ ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب وہ 16 سال کی تھیں تو ان کی والدہ کے بوائے فرینڈ نے کہا کہ جیکبسن کا اصلی والد تو سیاہ فام ہے۔ اس سے پہلے ان کو کبھی یہ شک بھی نہیں گزرا کہ وہ ڈینمارک کے علاوہ کہیں سے نسلی طور پر تعلق رکھتی ہیں۔ الیک نے اپنی والدہ سے کہا کہ ان کا ڈی این اے جو بھی دکھائے لیکن اگر ایک شخص سفید فام نظر آتا ہے تو وہ ایک سیاہ فام کے طور پر دنیا کو نہیں دیکھ سکتا۔ ’نسل کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ آپ کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ اس سلوک کے بارے میں ہے جو معاشرہ آپ سے روا رکھتا ہے۔‘ ’سٹورم فرنٹ‘ نیو نازیوں اور سفید فام برتری میں یقین رکھنے والوں کا ایک آن لائن فورم ہے جہاں ایسی کئی پوسٹس موجود ہیں جن میں لوگوں نے بتایا ہے کہ جب انھوں نے اپنی نسل کی شناخت کے لیے ٹیسٹ کروایا تو ان کو علم ہوا وہ اتنے سفید فام نہیں جتنا وہ سمجھتے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyr1xmp7j2zo", "summary": "انڈین حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی شمال مشرقی ریاست سکم میں کلاؤڈ برسٹ (بادل پھٹنے) سے بڑے پیمانے پر سیلابی ریلہ آنے کے بعد 22 فوجیوں سمیت 102 افراد لاپتہ ہیں جبکہ 14 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔", "title": "انڈین ریاست سکم میں کلاؤڈ برسٹ: سیلابی ریلے کے باعث 22 انڈین فوجیوں سمیت 102 افراد اب تک لاپتہ", "firstPublished": "2023-10-04T15:37:06.337Z", "id": "cyr1xmp7j2zo", "article": "انڈین حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی شمال مشرقی ریاست سکم میں کلاؤڈ برسٹ (بادل پھٹنے) سے بڑے پیمانے پر سیلابی ریلہ آنے کے بعد 22 فوجیوں سمیت 102 افراد لاپتہ ہیں جبکہ 14 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بادل پھٹنے کا یہ واقعہ ریاست سکم کے شمال میں ایک جھیل کے بالائی حصے میں ہوا جس کے نتیجے میں وادی لاچن میں دریائے تیستا میں پانی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا اور قریبی ڈیم سے مزید پانی دریا میں چھوڑے جانے کے بعد صورتحال مزید خراب ہو گئی۔ ایک ریاستی اہلکار نے بتایا کہ ڈیم کی ٹنلز میں 14 افراد پھنسے ہوئے ہیں۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انڈین فوج کے ترجمان کی طرف سے جاری کی گئی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا کہ پانی کا ایک بڑا ریلہ گھنے جنگل سے ہوتا ہوا وادی سے بہہ رہا ہے جس کے باعث علاقے میں متعدد سڑکیں بہہ گئی ہیں اور بجلی کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ ریاست کے مختلف مقامات پر تین ہزار سیاح بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ ریاست کے ڈیزاسٹر مینجمینٹ کے سربراہ پربھاکر رائے نے کہا کہ ’خطے میں چھ رابطہ پل بہہ گئے اور سکم کو ملک کے باقی حصوں سے جوڑنے والی قومی شاہراہ کو بری طرح نقصان پہنچا۔‘ ادھر انڈین فون نے علاقے میں لاپتہ ہونے والے فوجیوں کو تلاش کرنے کے لیے کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ حکام کے مطابق بدھ کی رات کو ایک فوجی تلاش کر لیا گیا تھا۔ ریاست کے دیگر علاقوں میں بھی ریسکیو آپریشن جاری ہیں کیونکہ پورا علاقہ سیلاب میں ڈوب گیا ہے اور اس سیلابی ریلے کے باعث گھروں کو نقصان پہنچا ہے اور لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ حکام نے نشیبی علاقوں سے لوگوں کو نکالنا شروع کر دیا۔ سکم نیپال، تبت اور چین کی سرحد کے ساتھ ملحقہ ریاست ہے اور یہاں بڑی تعداد میں انڈین فوج کی موجودگی ہے۔ مون سون کے موسم میں اچانک سیلاب آنا عام ہیں، یہ جون میں شروع ہوتے ہیں اور عام طور پر ستمبر کے آخر تک جاری رہتے ہیں۔ اکتوبر تک مون سون کی بارشیں عام طور پر ختم ہو جاتی ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ان کی تعداد اور شدت میں اضافہ کر رہی ہے۔ اس وجہ سے عام طریقے سے بارش نہیں ہوتی اور نتیجے میں بادلوں میں بخارات کے پانی بننے کا عمل بہت تیز ہو جاتا ہے کیونکہ بارش کے نئے قطرے بنتے ہیں اور پرانے قطرے اپ ڈرافٹ کی وجہ سے واپس بادلوں میں دھکیل دیے جاتے ہیں۔ کلاؤڈ برسٹ کے واقعات ماضی میں پاکستان اور انڈیا اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں پیش آتے رہے ہیں جہاں کم اونچائی والے مون سون بادل اونچے پہاڑوں سے ٹکرا کر رک جاتے ہیں اور برس پڑتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv237n0234wo", "summary": "فوجی اہلکار گاڑیوں میں بیٹھے ڈرائیوروں اور مسافروں کو ماسک دے رہے تھے۔ دوسری سمت میں چلنے والی گاڑیوں میں لوگوں نے انھیں پہلے سے پہن رکھا تھا۔ اس کی وجہ جلد ہی واضح ہو گئی۔", "title": "لیبیا میں سیلاب: ایک شہر جسے موت کی بو نے اپنی لپیٹ میں لے لیا", "firstPublished": "2023-09-17T10:54:38.975Z", "id": "cv237n0234wo", "article": "بن غازی سے سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے آپ کو سرخ جھیلیں نظر آتی ہیں جو کبھی کھیت ہوا کرتے تھے۔ جب آپ شہری کے قریب آتے ہیں تو ٹریفک سست ہو جاتی ہے۔ درنہ کا قریب ترین پل پانی میں بہہ گیا ہے۔ مقامی افراد اس جگہ کے کونے پر کھڑے ہو کر جھانک رہے ہیں اور تصاویر کھینچ رہے ہیں۔ اس سے کچھ دوری پر فوجی اہلکار گاڑیوں میں بیٹھے ڈرائیوروں اور مسافروں کو ماسک دے رہے تھے۔ دوسری سمت میں چلنے والی گاڑیوں میں لوگوں نے انھیں پہلے سے پہن رکھا تھا۔ اس کی وجہ جلد ہی واضح ہو گئی۔ کبھی کبھار تو یہ اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ طبیعت خراب ہو جاتی ہے، خاص طور پر جب آپ بندرگاہ کے قریب اس کا معائنہ کر رہے ہوتے ہیں جہاں امدادی ٹیمیں مجھے بتاتی ہیں کہ ابھی بھی لاشیں وہاں بہتی ہوئی پہنچ رہی ہیں۔ اس صبح انھیں تین لاشیں ملیں جو لہروں کے ساتھ وہاں پہنچیں اور ملبے کے ڈھیر میں پھنس گئیں۔ ٹوٹی ہوئی لکڑیاں، ٹائر، فرج اور گاڑیوں کے پرزے سب کچھ ٹھہرے پانی میں تیرتا ہے۔ درنہ سے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز بہت حیران کر دینے والی ہیں۔ لیکن یہ دیکھ کر آپ خود کو تیار کر لیتے ہیں اور آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے اس قدر نقصان ہوا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اب تک ایک ہزار سے زائد افراد کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا جا چکا ہے کنکریٹ کی دیواریں گر گئی ہیں۔ مضبوط درخت زمین سے اکھڑ گئے، ان کی جڑیں ہوا میں ہیں۔ باقی سب ختم ہو گیا ہے۔ کئی جانیں، لوگوں کے گھر، مال بہہ گیا۔ درنہ شہر کے اس حصے میں انسان کا صفایہ ہو گیا ہے، جو لوگ بچ گئے ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو گئی ہے۔ فضا میں غم اور واضح غصہ ہے۔ فارس غسر نے اپنے خاندان کے پانچ افراد کو بپھرے ہوئے پانی میں کھو دیا۔ انھوں نے روتے ہوئے کہا ’ہمیں بتایا گیا تھا کہ گھر میں رہیں، کیوں؟ انھیں ہمیں بتانا چاہیے تھا کہ طوفان آیا ہوا ہے۔ ہمیں بتایا کہ ڈیم پرانا ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا ’ان تباہ شدہ عمارتوں میں سے کچھ سو سال پرانی تھیں۔ یہ سب سیاست ہے۔ مغرب میں حکومت ہے، مشرق میں حکومت ہے۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘ مرنے والوں میں سے ایک فارس کی دس ماہ کی بیٹی بھی تھی۔ وہ مجھے ان کی تصویریں دکھانے کے لیے اپنا فون نکالتے ہیں۔ پہلے وہ ان کی زندہ تصویر دکھاتے ہیں، پر کمبل میں لپٹی لاشں دکھاتے ہیں۔ ان کے چہرہ ان کی اس آزمائش کو ظاہر کرتا ہے۔ فارس غسر نے اپنے خاندان کے پانچ افراد کو بپھرے ہوئے پانی میں کھو دیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cz98eyy5pzqo", "summary": "لیبیا کے شہر درنہ میں سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں کے مختلف اندازے ہیں۔ اقوام متحدہ میں لیبیا کے سفارت کار کا کہنا ہے کہ چھ ہزار ہلاکتوں کی تصدیق کی جا چکی ہے جبکہ ہزاروں لاپتہ ہیں۔ لیبیا میں ہلال احمر کے اہلکار کے مطابق تقریباً دس ہزار افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ درنہ کے میئر نے خبردار کیا ہے سیلاب سے 20 ہزار ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ ", "title": "لیبیا کا تباہ کن سیلاب: ’خوفناک‘ منظر دیکھا جو موت سے بھی بدتر تھا، لاشیں ہمارے سامنے تیر رہی تھیں‘", "firstPublished": "2023-09-15T08:50:58.857Z", "id": "cz98eyy5pzqo", "article": "حسام کا کہنا ہے کہ ’ہم شہر کے اونچے علاقے میں تھے، میرا نہیں خیال کہ شہر کے نشیبی علاقوں میں کوئی پانچویں یا چھٹی منزل پر بھی سیلاب سے بچا ہو گا، میرے خیال میں وہ سب مارے گئے، خدا ان کی مغفرت کرے۔‘ لیبیا کے شہر درنہ میں سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں کے مختلف اندازے ہیں۔ اقوام متحدہ میں لیبیا کے سفارت کار کا کہنا ہے کہ چھ ہزار ہلاکتوں کی تصدیق کی جا چکی ہے جبکہ ہزاروں لاپتہ ہیں۔ لیبیا میں ہلال احمر کے اہلکار کے مطابق تقریباً دس ہزار افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ درنہ کے میئر نے خبردار کیا ہے سیلاب سے 20 ہزار افراد کی ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ آمنہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یہ زلزلے کی طرح محسوس ہوا۔ ان کے جاننے والے خاندان کے افراد کا اب تک کچھ نہیں پتا۔ ان کا بیٹا ان کی تلاش کر رہا ہے اور ہم نے اسے بتایا کہ ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے عمارت کو منہدم ہوتے دیکھا ہے۔‘ آمنہ کے خاندان کے کچھ افراد بھی لاپتا ہیں۔ ان کے چچا، چچی اور ان کے تین بیٹے ایک قریبی عمارت میں رہتے تھے جو سیلاب سے منہدم ہو گئی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہماری ان سے آخری بات رات نو بجے ہوئی تھی اور انھوں نے ہمیں یہ جاننے کے لیے کال کی تھی کہ ہم سب خیریت سے ہیں۔ ہمیں اس کے بعد سے ان کا کچھ علم نہیں۔‘ بلآخر آمنہ اپنے تینوں دیگر بہن بھائیوں کے ساتھ سیلاب کا پانی کم ہونے کے بعد عمارت سے بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہو گئیں۔ ان کی گلی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ لگا جیسے زمین دو حصوں میں پھٹ گئی۔ جہاں کبھی گلی تھی اب وہاں صرف گڑھا بچا ہے۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی ایک ہمسائی پھسل کر سیلابی ریلے میں گری اور پانی میں غرق ہو گئی۔ ان کا شوہر اور بیٹا بھی انھیں بچا نہیں سکا۔ انھیں پتا چلا کہ ان کی بہترین دوست عائشہ بھی اس سیلاب سے زندہ بچ نہیں سکیں۔ مغربی شہر طرابلس میں لیبیا کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت سے تعلق رکھنے والے محمد المنفی نے کہا کہ انھوں نے ملک کے اٹارنی جنرل سے تحقیقات ڈیموں کے ٹوٹنے کی تحقیقات کرنے کا کہا ہے اور جو بھی ذمہ دار ہے اسے جوابدہ ہونا چاہیے۔ اس ہولناک سیلاب میں زندہ بچ جانے والے اپنے پیاروں کے بچ جانے کی خبر کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں جبکہ کچھ اپنے پیاروں کی موت اور درنہ کی تباہی کا غم منا رہے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c871826434mo", "summary": "مشرقی لیبیا میں تباہ کن سیلاب سے مرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ساحلی شہر درنہ کے میئر کا کہنا ہے کہ ہلاک شدگان کی تعداد 20 ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔", "title": "لیبیا میں 20 ہزار ہلاکتوں کا خدشہ: درنہ میں آنے والا سیلاب اتنا تباہ کن کیوں تھا؟ ", "firstPublished": "2023-09-14T09:35:24.736Z", "id": "c871826434mo", "article": "مشرقی لیبیا میں تباہ کن سیلاب سے مرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ساحلی شہر درنہ کے میئر کا کہنا ہے کہ ہلاک شدگان کی تعداد 20 ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ طوفان ڈینیئل کے نتیجے میں ہونے والی شدید بارشوں کے بعد دو بند ٹوٹنے کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے اب تک پانچ ہزار سے زیادہ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی جا چکی ہے جبکہ دس ہزار سے زیادہ لاپتہ ہیں۔ اس سیلاب سے محفوظ رہنے والے ایک رہائشی طہٰ مفتاح کا کہنا تھا کہ ڈیم ٹوٹنے کی آواز کسی فضائی حملے یا شدید فائرنگ جیسی تھی۔ ان کے مطابق وہ شہر کے مشرقی حصے میں واقع پہاڑی پر رہتے ہیں اور بلندی کی وجہ سے محفوظ رہے۔ شہر کے رہائشیوں کا مزید کہنا ہے کہ سیلاب نے درنہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے جس میں تقریباً ایک لاکھ افراد آباد ہیں۔ حادثے سے پہلے اور بعد میں شہر کی سیٹلائٹ تصاویر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شہر کے مرکز سے گزرنے والا ایک تنگ آبی راستہ اب ایک وسیع نشان بن گیا ہے اور اس کے ساتھ واقع تمام عمارتیں ختم ہو چکی ہیں۔ پروفیسر سٹیفنز کا کہنا ہے کہ 'سیلاب کے پانی کے ساتھ آنے والے ملبے نے تباہ کن طاقت میں اضافہ کیا ہوگا۔ بالائی ڈیم میں 15 لاکھ مکعب میٹر پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش تھی جبکہ نچلے ڈیم میں دو کروڑ 25 لاکھ مکعب میٹر پانی ذخیرہ کیا جاسکتا تھا۔ ہر مکعب میٹر پانی کا وزن تقریبا ایک ٹن یا 1000 کلوگرام ہوتا ہے ، لہٰذا 15 لاکھ مکعب میٹر پانی کا وزن 15 لاکھ ٹن ہوگا۔ اس وزن کو ڈھلوان سے پھسلنے کے ساتھ جوڑیں تو یہ بہت زیادہ طاقت پیدا کر سکتا ہے۔ برطانیہ میں ہائیڈرولک انجینئرنگ کے ماہر ایگزیٹر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈریگن ساوک کا کہنا ہے کہ 'یہ ڈیم ممکنہ طور پر اوور ٹاپنگ (پانی ڈیم کی گنجائش سے زیادہ ہو جانا) کا شکار ہوئے ہیں اور اگرچہ کنکریٹ ڈیم اوور ٹاپنگ سے بچ سکتے ہیں، لیکن راک فل ڈیم عام طور پر ایسا نہیں کر سکتے۔' ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد پانی ممکنہ طور پر پتھریلی ندی سے ہوتا ہوا نچلے ڈیم کی طرف بہہ گیا، جس کے نتیجے میں پہاڑوں اور سمندر کے درمیان موجود شہر میں اچانک اور تباہ کن سیلاب آگیا۔ گذشتہ سال شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے میں لیبیا کی عمر المختار یونیورسٹی کے پانی کے ماہر اور ہائیڈرولوجسٹ عبدالوانیس اے آر عاشور نے لکھا تھا کہ ممکنہ تاریخی سیلاب کے حجم کی بنیاد پر اس علاقے میں 'سیلاب کے خطرے کا زیادہ امکان ہے' اور یہ کہ ڈیموں کو 'وقتا فوقتا دیکھ بھال کی ضرورت ہے'۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gz321lv80o", "summary": "لیبیا کے ایک وزیرِ نے بتایا ہے کہ دیرنہ شہر میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث ممکنہ طور پر 5300 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیبیا کی مشرقی حکومت کے وزیر ہشام شکیوٹ کا کہنا ہے کہ ’سمندر مسلسل درجنوں لاشیں اُگل رہا ہے۔‘ ", "title": "لیبیا میں سیلاب سے 5300 افراد ہلاک، ہزاروں لاپتہ: ’سمندر مسلسل درجنوں لاشیں اُگل رہا ہے‘ ", "firstPublished": "2023-09-12T13:55:33.121Z", "id": "c3gz321lv80o", "article": "لیبیا کے ایک وزیرِ نے بتایا ہے کہ دیرنہ شہر میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث ممکنہ طور پر 5300 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیبیا کی مشرقی حکومت کے وزیر ہشام شکیوٹ کا کہنا ہے کہ ’سمندر مسلسل درجنوں لاشیں اُگل رہا ہے۔‘ ریسکیو ٹیمیں متاثرین کو ڈھونڈنے کے لیے منہدم عمارتوں کا ملبہ ہٹا رہے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ کم از کم 10 ہزار افراد افراد کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ ہلاک یا لاپتہ ہیں۔ لیبیا سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر نجیب تارہونی جو دیرنہ کے قریب کے ہسپتال میں کام کر رہے ہیں نے بی بی سی ریڈیو فو کے ورلڈ ایٹ ون پروگرام سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہسپتال میں میرے متعدد ایسے دوست ہیں جن کے خاندان کے اکثر افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔۔۔ انھوں نے سب کچھ کھو دیا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو صورتحال کو سمجھ سکیں، نقل و حمل میں مدد، ایسے کتے جو سونگھ کر ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے میں مدد کر سکیں۔ ہمیں امداد چاہیے، ایسے افراد جنھیں واقعاتاً معلوم ہو کہ کیا کرنا ہے۔‘ اس سے قبل ریڈ کراس نے بتایا تھا کہ سیلاب کے باعث 10 ہزار افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ یہ سیلابی صورتحال جس طوفان کے باعث پیدا ہوئی ہے اس کا نام ’طوفان ڈینیئل‘ رکھا گیا ہے۔ لیبیا کے وزیرِ ہوابازی اور مشرقی حکومت کی ایمرجنسی رسپانس کمیٹی کے رکن ہشیم شکیوٹ نے روئٹرز کو بتایا تھا کہ ’میں مبالغہ آرائی کا سہارا نہیں لے رہا جب میں یہ کہتا ہوں کہ 25 فیصد شہر غائب ہو گیا ہے۔ متعدد عمارتیں بھی گر چکی ہیں۔‘ ’رہائشی علاقے کا ایک بہت بڑا حصہ تباہ ہو چکا ہے، بہت بڑے پیمانے پر متاثرین ہیں جن کی تعداد ہر گزرتے منٹ کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔‘ انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز (آئی اایف آر سی) کے لیبیا کے سربراہ تعمیر رمضان نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد ’بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔‘ لیبیا سنہ 2011 میں کرنل معمر قذافی کی حکومت کا تختہ الٹنے اور ان کی ہلاکت کے بعد سے سیاسی افراتفری کا شکار ہے۔ اس کے بعد سے ملک کے درالحکومت طرابلس میں ایک حکومت ہے جسے بین الاقوامی حمایت حاصل ہے جبکہ ملک کے مشرق میں ایک اور حکومت قائم ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’لیبیا میں دو حکومتیں ہیں۔۔۔ اور اس کے باعث لیبیا کو ملنے والی امداد کا مرحلہ بھی سست روی کا شکار ہے کیونکہ اس سے ابہام پیدا ہو رہا ہے۔ لوگ مدد کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن مدد نہیں آ رہی ہے۔‘ بنغازی میں موجود لیبیا کی مشرقی حکومت کے حکام اس وقت سیلاب اور طوفان کے باعث ہونے والی تباہ کاریوں کے نقصان کا اندازہ لگا رہے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n55x390xdo", "summary": "یورپ گرمی کی لہر میں پک چکا ہے۔ اٹلی میں اس لہر کو ’دوزخ کا ہفتہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔\nچین اور امریکہ میں درجہ حرارت 50 سینٹی گریڈ سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ان ملکوں کے ہسپتالوں میں مریضوں کو گرمی سے بچانے کے لیے برف سے بھرے باڈی بیگز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ برطانیہ میں جون اب تک کا سب سے گرم مہینہ رہا۔", "title": "’دوزخ کا ہفتہ‘: انسانی جسم کتنی گرمی برداشت کر سکتا ہے؟", "firstPublished": "2023-08-19T10:40:59.953Z", "id": "c4n55x390xdo", "article": "یورپ شدید گرمی کی لہر کی زد میں ہے۔ اٹلی میں اس لہر کو ’دوزخ کا ہفتہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ چین اور امریکہ میں درجہ حرارت 50 سینٹی گریڈ سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ان ملکوں کے ہسپتالوں میں مریضوں کو گرمی سے بچانے کے لیے برف سے بھرے باڈی بیگز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ برطانیہ میں جون اب تک کا سب سے گرم مہینہ رہا۔ گزشتہ سال 2022 میں برطانیہ میں پہلی بار درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ اُس گرمی کی لہر کو پورے یورپ میں 60 ہزار اموات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز کے پروفیسر ڈیمین بیلی اب ایسے میں مجھے ایک عام ہیٹ ویو کا سامنا کروانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ہم یہ تجربہ 21 سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت سے شروع کرنے جا رہے ہیں۔ تھرموسٹیٹ کو 35 ڈگری تک بڑھایا جائے گا اور پھر آخر میں 40.3 سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت لے کر جایا جائے گا جو کہ برطانیہ کے گرم ترین دن کے برابر ہے۔ ہم نے ایک چھوٹا اور فوری دماغ کا ٹیسٹ کیا جس میں 30 الفاظ کی فہرست کو یاد رکھنا تھا اس کے بعد درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو گیا۔ اس تجربے میں صرف درجہ حرارت کو تبدیل کیا گیا تھا۔ ہوا اور پانی کے بخارات کی مقدار یعنی نمی دوسرا قابل غور اہم عنصر ہوتا ہے۔ پروفیسر ڈیمین بیلی نے نمی کو 50 فیصد پر رکھا یہ برطانیہ میں معمول کی نمی ہوتی ہے۔ لیکن امریکہ کی پنسلوانیا سٹیٹ یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے صحت مند نوجوانوں کے ایک گروہ پر مختلف درجہ حرارت اور نمی میں تجربہ کیا۔ وہ اس لمحے کی تلاش میں تھے جب جسم کا بنیادی درجہ حرارت تیزی سے بڑھنا شروع ہوتا ہے۔ زیادہ جسمانی درجہ حرارت ہمارے جسم کے ٹشو کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس میں دل کے پٹھوں اور دماغ شامل ہیں۔ آگے جا کر یہ جان لیوا ہو جاتا ہے۔ لوگوں کی گرمی سے نمٹنے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے۔ لیکن عمر اور خراب صحت ہمیں بہت زیادہ کمزور بنا سکتی ہے۔ جس درجہ حرارت میں آپ ایک دور میں لطف اندوز ہوتے تھے وہ زندگی کے مختلف مرحلوں میں خطرناک ہو سکتے ہیں۔ لیکن بڑھاپا، دل کی بیماری، پھیپھڑوں کی بیماری، ڈیمنشیا اور کچھ ادویات لینے کا مطلب ہے کہ جسم پہلے ہی اپنا کام جاری رکھنے کے لیے زیادہ مشقت کر رہا ہے اور گرمی کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ پروفیسر بیلی کہتے ہیں ’ہر روز یہ ان (جیسے لوگوں) کے لیے ایک جسمانی چیلنج ہے۔ اب جب ان پر اضافی گرمی اور نمی پھینک دی جائے تو بعض اوقات وہ اس چیلنج کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cz70525dp2go", "summary": "ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ دنیا کے بلند پہاڑی سلسلوں پر کم برفباری اور زیادہ بارش ان علاقوں میں مزید قدرت آفات کو جنم دے رہی ہے۔ ", "title": "کم برف باری اور زیادہ بارش ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کو کیسے خطرناک بنا رہی ہے؟", "firstPublished": "2023-08-18T03:23:46.881Z", "id": "cz70525dp2go", "article": "ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ہمالیہ سمیت دنیا بھر کے بلند پہاڑی سلسلوں کی ان بلندیوں پر معمول سے زیادہ بارشیں ہو رہی ہیں جہاں ماضی میں کبھی زیادہ تر برف باری ہوا کرتی تھی۔ نیچر نامی جریدے میں جون میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ’ہماری تحقیق اور اس سے اخذ نتائج کئی طرح کے شواہد فراہم کرتے ہیں کہ بلندیوں پر گرم درجہ حرارت شدید بارش کو بڑھاوا دیتا ہے، خاص طور پر شمالی نصف کرہ کے برفانی علاقوں میں۔‘ یہ نتائج 2019 میں انٹر گورنمینٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی) کی ایک خصوصی رپورٹ سے مطابقت رکھتے ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے کم از کم دنیا کے کچھ بلند علاقوں میں برف باری میں کمی آئی ہے، خاص طور پر پہاڑی علاقوں کی نچلی سطح پر۔‘ اس تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس کے نتیجے میں، ان (پہاڑی) علاقوں کو ہاٹ سپاٹ (خطرناک علاقوں) کے طور پر شمار کیا جاتا ہے جہاں شدید بارش کے واقعات اور اس سے جڑے خطرات جیسے سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور مٹی کے کٹاؤ کا خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔‘ نیشنل جیوگرافک کے ایکسپلورر بیکر پیری اور ٹام میتھیوز جو کہ نیشنل جیوگرافک اور رولیکس پرپیچوئل پلانیٹ ایکسپیڈیشنز کا حصہ تھے جس میں یہاں ویدر سٹیشن نصب کیا گیا تھا کا کہنا ہے کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں برف باری کے بجائے زیادہ بارش کا ہونا ایک نسبتاً حالیہ واقعہ یا رجحان ہے لیکن اس کو ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس طویل مدتی ڈیٹا نہیں ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم یقینی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ برف باری کی تعداد میں کمی آئی ہے اور یہ عام طور پر 6,000 میٹر سے نیچے کی بلندی پر ہوتا ہے۔ مون سون کے دوران، نچلی بلندیوں پر شدید بارش ہوتی ہے۔‘ ان علاقوں میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے اس مسئلے میں اضافہ کر دیا ہے کیونکہ اس نے ہمالیہ کے گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل تیز کر دیا ہے۔ یہ تیزی سے برفانی جھیلوں میں تبدیل ہونے کا باعث بنتی ہے جو پھر بہہ جانے اور سیلاب کا باعث بنتی ہیں۔ گلیشیرز کا کمزور ہونا اور پگھلنا پہاڑی ڈھلوانوں کو بھی غیر مستحکم کرتا ہے۔ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر عالمی اوسط سے تین گنا زیادہ گرمی ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور متعدد تحقیقوں میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ اس سے وہاں بارش میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی اعتبار سے حساس خطوں میں سڑکوں، سرنگوں اور ہائیڈرو پاور پراجیکٹس جیسے بنیادی ڈھانچوں کی تیزی سے تعمیر بھی ان آفات کا باعث بنتی ہے۔ ہمالیہ کی طرح کے زلزلے کے خطرات والے علاقوں میں زلزلے صورتحال کو مزید خراب کرتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw9vn2ln14xo", "summary": "کھٹمل کیا ہیں اور یہ پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب کیوں بنے ہوئے ہیں؟", "title": "بستر میں کھٹمل پڑ جائیں تو ان سے چھٹکارا کیسے حاصل کریں؟", "firstPublished": "2023-10-07T10:41:54.462Z", "id": "cw9vn2ln14xo", "article": "اگرچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی نیا رجحان نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب ہیں۔ کھٹمل چھوٹے ہوتے ہیں، بالغ کھٹملوں کی لمبائی تقریباً 5 ملی میٹر تک ہوتی ہے (چاول کے دانے سے بھی کم) اور یہ بیضوی شکل کے ہوتے ہیں۔ ان کی چھ ٹانگیں ہیں اور یہ گہرے پیلے، سرخ یا بھورے رنگ کے ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کھٹملوں کی دنیا بھر میں تقریباً 90 انواع ہیں، حالانکہ عام بیڈ بگ (cimex lectularius) نے اپنے آپ کو انسانی ماحول کے لیے بہترین طریقے سے ڈھال لیا ہے۔ سب سے پہلے تو ان کے کاٹنے سے ہی پتہ چل جائے گا اور یہ سب سے اہم بھی ہے اور جس کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس جگہ پر عموماً خارش ہوتی ہے۔ ان کے کاٹنے کے نشان اکثر ایک لائن میں ہوتے ہیں یا پھر ایک جگہ گروپ کی شکل میں۔ دوسری چیزیں جن کا خیال رکھنا ہے وہ ہیں بستر پر خون کے دھبے، یعنی کہ کھٹمل کچلا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ بستر یا فرنیچر پر چھوٹے بھورے دھبے، جو ان کا پاخانہ ہو سکتا ہے۔ برٹش پیسٹ کنٹرول ایسوسی ایشن سے تعلق رکھنے والی نٹالی بنگے کہتی ہیں کہ سفر کے دوران کیڑوں کی جانچ کرنا بہت ضروری ہے اور یہ کہ ’پرہیز ہمیشہ علاج سے بہتر ہوتا ہے۔‘ اگرچہ یہ اکثر تکلیف دہ ہوتا ہے، لیکن پھر بھی کھٹمل کا کاٹنا عام طور پر خطرناک نہیں ہوتا۔ اس جگہ پر بہت خارش ہو سکتی ہے، یا پھر کچھ پُر درد سوجن، لیکن وہ عام طور پر تقریباً ایک ہفتے میں خود ہی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ یا پھر ان کا علاج کے لیے کچھ بنیادی اقدامات کیے جا سکتا ہیں۔ گھر کو باقاعدگی سے صاف کرنا۔ کھٹمل صاف اور گندی دونوں جگہوں پر پائے جاتے ہیں، لیکن باقاعدگی سے صفائی ان کی نشاندہی کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ بی سی پی اے سے تعلق رکھنے والی محترمہ بنگے کہتی ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ آپ گھر میں کھٹملوں کی موجودگی پر شرمندہ نہ ہوں اور کسی ماہر پیسٹ کنٹرولر کو بلائیں کریں، اور انھیں ’عوامی صحت کے خلاف کیڑوں‘ کے طور پر بیان کریں، اگرچہ ایسا بنیادی طور پر زیادہ نفسیاتی وجوہات کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ بیماری کو منتقل کرتے ہیں لیکن جب وہ آپ کے گھر میں پائے جاتے ہیں تو اس کا ایک نفسیاتی اثر ہوتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv20pvvz1l0o", "summary": "سائنسدانوں نے سپیکرز کے ذریعے انسانوں کی بات چیت کی ریکارڈنگ کو چلایا۔ جس کے بعد تقریباً 95 فیصد جانور انتہائی خوفزدہ محسوس ہوئے اور جلدی سے بھاگ گئے۔", "title": "’جنگلی جانور شیر کی آواز سے زیادہ انسانی آوازوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں‘", "firstPublished": "2023-10-07T08:47:54.157Z", "id": "cv20pvvz1l0o", "article": "جنوبی افریقہ میں ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ جنگلی جانور شیر کی آواز سے زیادہ انسانی آوازوں سے خوف محسوس کرتے ہیں۔ کروگر نیشنل پارک میں سائنسدانوں نے سپیکرز کے ذریعے انسانوں کی بات چیت کی ریکارڈنگ کو چلایا جس کے بعد تقریباً 95 فیصد جانور انتہائی خوفزدہ محسوس ہوئے اور جلدی سے بھاگ گئے۔ اس کے مقابلے میں شیر کے دھاڑنے اور غرانے کی ریکارڈنگ چلانے پر جانور کم خوفزدہ دکھائی دیے۔ سائنسدانوں نے اس تجربے کے لیے جو انسانی بات چیت استعمال کی، اس میں وہ اس زبان میں بات کر رہے تھے، جو ملک میں عام بولی جاتی ہے۔ تجربے کے دوران یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ شیر کی آواز کے ردعمل میں کچھ ہاتھیوں نے یہ سراغ لگانے کی کوشش کی یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ اس مطالعے کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ جانوروں - جن میں ہرن، ہاتھی، زرافے اور چیتے شامل تھے - کو یہ معلوم ہے کہ انسانوں سے رابطہ انتہائی خطرناک ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جانوروں کے شکار کے لیے بندوق کا استعمال اور انھیں پکڑنے کے لیے کتوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اس تحقیق سے یہ بھی پتا چلا کہ یہ خوف صرف کروگر نیشنل پارک کے جانوروں تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں جنگلی حیات انسانوں سے سب سے زیادہ خوف محسوس کرتی ہے۔ اس مطالعے کی ایک مصنفہ ڈاکٹر لیانا زانتے نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی تحقیق کا مرکز جنگلی حیات میں اپنے ماحول کے لیے موجود خوف ہے۔ اس مطالعے کے نتائج ان ماحولیاتی نظاموں میں موجود کمزور جنگلی حیات کی حفاظت کے امکانات بھی پیدا کرتے ہیں۔ اگر انسانی انسانی آوازوں کا مناسب طریقے سے استعمال کیا جائے تو اس سے غیر قانونی شکار کو روکنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ ڈاکٹر لیانا نے مزید کہا کہ ’ہم ان تجربات کی جانچ میں بھی تعاون کر رہے ہیں کہ آیا گینڈوں کے غیر قانونی شکار کو روکا جا سکتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1djdpy75vpo", "summary": "1990 کی دہائی کے بعد سے سینسرز کا ایک عالمی نیٹ ورک بغیر اجازت کیے جانے والے جوہری دھماکوں کا سراغ لگانے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ لیکن ان سینسرز نے کچھ ایسے غیرمتوقع کام کیے ہیں جس کی امید انھیں بنانے والوں کو بھی نہیں تھی جیسا کہ بلیو وہیل کی ایسی نسل کی دریافت جس کے بارے میں پہلے علم نہیں تھا۔", "title": "جوہری دھماکوں کا پتا چلانے والے سینسرز کا نیٹ ورک جو غیر متوقع سائنسی دریافت کا باعث بنا", "firstPublished": "2023-09-27T11:54:25.855Z", "id": "c1djdpy75vpo", "article": "1990 کی دہائی سے آسٹریا کے شہر ویانا میں واقع ایک کنٹرول روم میں سینسرز کے عالمی نیٹ ورک کے آپریٹرز ممکنہ جوہری تجربات کا پتا لگانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یعنی اگر کوئی ملک دنیا کو بغیر بتائے اور خفیہ انداز میں کوئی جوہری تجربہ کرتا ہے تو اس کا پتا لگایا جا سکے۔ لیکن جیسے جیسے سال گزرے ہیں جوہری دھماکوں کا پتا چلانے والے سینسرز کے اس نیٹ ورک نے سمندر، زمین اور فضا میں بہت سی دیگر ایسی آوازیں بھی سُنی ہیں جو آج سے پہلے کبھی ریکارڈ نہیں کی گئی تھیں۔ اور آج کے دور میں سینسرز کا یہ عالمی نیٹ ورک سائنس کے لیے ایک حیرت انگیز نعمت ثابت ہو رہا ہے۔ بڑی طاقتوں کی مخِالفت کے باعث اگرچہ یہ معاہدہ نافذ العمل ہونے میں ناکام رہا لیکن اس عمل نے جوہری ہتھیاروں کے تجربوں کے خلاف ایک عالمی معیار پیدا کیا اور اہم بات یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ایک ایسا نیٹ ورک بھی قائم ہوا جو زمین پر کہیں بھی جوہری دھماکے کو سننے، سونگھنے یا محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم حال ہی میں آئی ایم ایس نیوکلیئر نیٹ ورک نے بڑے دھماکوں سے کہیں زیادہ اور بڑے انکشافات کیے ہیں۔ گذشتہ ایک دہائی کے دوران جیسے جیسے اعداد و شمار تک سائنسی رسائی کا آغاز ہوا ہے محققین نے ایسے واقعات کو محسوس کرنے کے لیے آئی ایم ایس کا رخ کیا ہے جن پر عام حالات میں توجہ نہیں دی جا سکتی۔ جون میں ویانا میں ایک کانفرنس کے دوران سینکڑوں سائنسدانوں نے اپنے نتائج شیئر کیے۔ جرمنی کے محققین نے دکھایا کہ نیٹ ورک کے ہائیڈرو ایکوسٹک سینسر شپنگ کی وجہ سے ہونے والے شور کی نگرانی کیسے کر سکتے ہیں، جاپان کی ایک ٹیم نے اس بارے میں نتائج پیش کیے کہ انھوں نے زیرِ آب آتش فشاں کی سرگرمی کا مطالعہ کرنے کے لیے آئی ایم ایس کو کس طرح استعمال کیا تھا اور برازیل کے ایک محقق نے ارورا بوریلس اور ارورا آسٹرالیس (ناردرن لائٹس) سے پیدا ہونے والے انفراساؤنڈ کے بارے میں بات کی۔ کچھ سائنسدانوں نے انٹارکٹیکا میں برفانی تودوں پر نظر رکھنے کے لیے نیٹ ورک کو استعمال کرنے والی سابقہ تحقیق کی بنیاد پر دور سے گلیشیئرز کے گرنے کا سراغ لگانے کی کوششوں کے بارے میں بتایا۔ پیریز کیمپوس کہتے ہیں کہ ’میرے لیے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان ذہین لوگوں نے فیصلہ کیا کہ جوہری تجربات انسانیت کے لیے خطرہ ہیں اور انھوں نے نہ صرف ایک معاہدہ لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ اسے روکا جائے بلکہ وہ اس کی نگرانی کے لیے ٹیکنالوجی بھی لے کر آئے۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو انسانیت کے لیے اچھے استعمال میں لا رہا ہے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nxlr748xko", "summary": "امریکی صدر جو بائیڈن کے جرمن شیفرڈ نسل کے کمانڈر نامی دو سالہ کتے کی جانب سے ایسا پہلی مرتبہ نہیں کیا گیا بلکہ یہ 11ویں مرتبہ ہے کہ اس نے وائٹ ہاؤس یا جو بائیڈن کے آبائی گھر میں تعینات کسی اہلکار کو کاٹا ہو۔ ", "title": "امریکی صدر بائیڈن اپنے کمانڈر نامی کتے کے ہاتھوں کیوں ’پریشان‘ ہیں؟", "firstPublished": "2023-09-27T06:25:24.410Z", "id": "c4nxlr748xko", "article": "مگر اگر امریکی صدر کا پالتو کتا اپنے مالک کی حفاظت پر مامور اہلکار کو ہی کاٹ لے تو یہ خبروں میں تو آئے گا۔ تو جناب کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن کے کمانڈر نامی کتے نے وائٹ ہاؤس میں تعینات ایک اور خفیہ ایجنسی کے اہلکار کو کاٹ لیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے جرمن شیفرڈ نسل کے کمانڈر نامی دو سالہ کتے کی جانب سے ایسا پہلی مرتبہ نہیں کیا گیا بلکہ یہ 11ویں مرتبہ ہے کہ اس نے وائٹ ہاؤس یا جو بائیڈن کے آبائی گھر میں تعینات کسی اہلکار کو کاٹا ہو۔ منگل کو خفیہ ایجنسی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کتے نے اہلکار کو پیر کی شب کاٹا جس کے بعد متاثرہ اہلکار کا علاج ایجنسی کمپلیکس میں کیا گیا۔ امریکی صدارتی دفتر وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری نے اس سے قبل ان حملوں کا ذمہ دار وائٹ ہاؤس میں رہنے کے تناؤ کو قرار دیا تھا۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے دو جرمن شیفرڈ کتوں میں سے کمانڈر نامی کتا چھوٹا ہے۔ سیکرٹ سروس کے ترجمان انتھونی گگلیلمی کا کہنا ہے کہ ’کل شام آٹھ بجے کے قریب، یونیفارم میں ملبوس سیکرٹ سروس ڈویژن کے ایک پولیس افسر کا امریکی صدر کے پالتو کتے سے آمنا سامنا ہوا اور اس نے اس اہلکار کو کاٹ لیا۔‘ جولائی میں وائٹ ہاؤس کے حکام نے کہا تھا کہ وہ اہلکاروں پر حملوں کے بعد کمانڈر کو نئی تکنیکوں سے پٹا ڈالنے اور تربیت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جولائی میں ایک قدامت پسند گروہ کی جانب سے معلومات کے حصول کی آزادی کے قانون کے تحت دائر ایک درخواست سے خفیہ سروس کے ریکارڈ سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق امریکی صدر کے کتے کمانڈر کے کاٹنے کے 10 دیگر واقعات کا پتا چلتا ہے۔ ’میرے خیال میں یہ صرف وقت کی بات ہے کہ ایک ایجنٹ یا افسر پر کتے کی جانب سے حملہ کیا گیا۔‘ تقریباً ایک ہفتے بعد ایک اور افسر نے لکھا کہ اسے دو بار کاٹا گیا۔ حملے کے عینی شاہد ایک اور افسر نے بتایا کہ انھیں حملہ آور کتے سے بچنے کے لیے ’سٹیل کی ٹوکری‘ استعمال کرنے پر مجبور کیا گیا۔ 11 دسمبر 2022 کو کمانڈر نامی کتے نے صدر بائیڈن کے سامنے ایک اور ایجنٹ پر حملہ کیا اور اسے بازو اور انگوٹھے پر کاٹا گیا۔ ایک سپروائزنگ ایجنٹ نے لکھا کہ ’ اس وقت صدر بائیڈن وہاں موجود تھے اور کمانڈر کی حرکت پر پریشان اور زخمی افسر کے بارے میں فکر مند دکھائی دے رہے تھے۔‘ اس کے بعد سے اسے وائٹ ہاؤس سے باہر بھجوا دیا گیا ہے اور اب وہ صدر بائیڈن کے خاندانی دوستوں کے ساتھ رہتا ہے۔ جبکہ کمانڈر نامی کتا 2021 میں وائٹ ہاؤس میں آیا تھا۔ اسے صدر بائیڈن کے بھائی جیمز نے بطور تحفہ دیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c845w3ejg25o", "summary": "آسٹریلیا کی ایک عدالت میں مگرمچھوں کے مشہور برطانوی ماہر نے جانوروں سے سیکس کرنے سمیت 60 الزامات میں اعتراف جرم کیا ہے۔", "title": "ایڈم برٹن: برطانوی ماہر حیوانیات کا کتوں سے سیکس جیسے بھیانک جرائم کا اعتراف", "firstPublished": "2023-09-26T07:17:03.696Z", "id": "c845w3ejg25o", "article": "آسٹریلیا کی ایک عدالت میں مگرمچھوں کے مشہور برطانوی ماہر نے جانوروں سے سیکس کرنے سمیت 60 الزامات میں اعتراف جرم کیا ہے۔ عدالت میں بتایا گیا کہ ایڈم برٹن نے درجنوں کتوں سے تشدد کرتے ہوئے ویڈیوز بھی بنائیں۔ ان کتوں میں سے اکثریت اس تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے۔ ایڈم برٹن ایک مشہور ماہر حیوانیات ہیں جنھوں نے بی بی سی اور نیشنل جیوگرافک کے ساتھ کام کیا ہے۔ ان کے اعتراف جرم کے بعد سزا سنائی جائے گی۔ ایڈم برٹن کے جرائم کی زیادہ تر تفصیلات اتنی پریشان کن ہیں کہ ان کو شائع نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جرائم اتنے بھیانک ہیں کہ عدالت میں سماعت کرنے والے جج نے لوگوں کو خبردار کیا کہ وہ کمرہ عدالت سے باہر چلے جائیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق چیف جسٹس مائیکل گرانٹ نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ مقدمے کے حقائق ’نفسیاتی جھٹکا‘ لگا سکتے ہیں جس کے بعد انھوں نے غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے سکیورٹی افسران اور جونیئر عدالتی حکام کو باہر جانے کی اجازت دی۔ استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ ایڈم برٹن سنہ 2014 سے جانوروں میں اذیت پسندانہ جنسی دلچسپی رکھتے تھے اور اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ ساتھ انھوں نے کتوں کے مالکان کو بھی چالاکی سے اپنے پالتو جانور ان کے حوالے کرنے پر قائل کیا۔ عدالت میں بتایا گیا کہ ایڈم برٹن ایک آن لائن پلیٹ فارم کے ذریعے لوگوں کو تلاش کرتے جو سفری یا کام کی وجوہات کی بنا پر اپنے پالتو جانور کسی کے حوالے کرنے کے خواہشمند ہوتے اور پھر ان سے تعلق قائم کرنے کے بعد ان کے جانور لے لیتے۔ حقیقت میں ایڈم برٹن ان جانوروں کو جنسی اذیت کا نشانہ بناتے جس کے لیے انھوں نے ریکارڈنگ آلات سے بھرپور ایک کنٹینر رکھا ہوا تھا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ایڈم نے اس کنٹینر کو ’ٹارچر روم‘ کا نام دیا ہوا تھا جہاں سے ریکارڈ ہونے والی جرائم کی ویڈیوز وہ فرضی ناموں سے آن لائن شائع کر دیا کرتے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو پولیس تک پہنچائی گئی جس نے اپریل 2022 میں ان کو گرفتار کر لیا۔ عدالت میں بتایا گیا کہ ایڈم نے گرفتاری سے قبل 18 ماہ میں 42 کتوں کو جنسی اذیت کا نشانہ بنایا جن میں سے 39 ہلاک ہو گئے۔ ایڈم برٹن کو گرفتاری کے بعد سے ریمانڈ کے تحت حراست میں رکھا گیا اور اب دسمبر میں انھیں سزا سنائے جانے کے موقع پر ہی عدالت لایا جائے گا۔ یارک شائر میں پیدا ہونے والے ایڈم برٹن 20 سال قبل برطانیہ سے آسٹریلیا منتقل ہوئے جہاں انھوں نے مگرمچھوں پر کام شروع کیا۔ حیوانیات میں پی ایچ ڈی کی مدد سے ایڈم نے اپنی مہارت سے ایک عالمی شہرت قائم کی۔ وہ چارلس ڈارون یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے اور ایک بار اپنی پراپرٹی پر مشہور برطانوی ماہر حیوانیات اور براڈ کاسٹر ڈیوڈ ایٹن بورو کی سیریز کی شوٹنگ کے موقع پر ان کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw03599d5g9o", "summary": "نہر کے آس پاس کے رہائشیوں نے بتایا کہ انھوں نے اس علاقے میں پہلے بھی چھوٹے چھوٹے مگرمچھ دیکھے تھے لیکن اس معاملے میں پائے جانے والے جانور کے سائز کے نہیں۔", "title": "13 فٹ لمبے مگرمچھ کے منھ میں خاتون کی لاش: ’ایسے تو کسی کو بھی نہیں مرنا چاہیے‘", "firstPublished": "2023-09-25T06:53:55.295Z", "id": "cw03599d5g9o", "article": "ایک عینی شاہد نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ اس نے لارگو نہر میں مگرمچھ کو اپنے منہ میں ایک انسان کا نچلا دھڑ پکڑے ہوئے دیکھا تھا۔ پائنیلاس کاؤنٹی شیرف کے دفتر نے کہا کہ مگرمچھ کو مار دیا گیا اور اس آبی گزرگاہ سے جو باقیات ملیں وہ 41 سالہ سبرینا پیکہم کی تھیں۔ اس معاملے میں تحقیقات کے بعد ہی یہ پتا چل پائے گا کہ خاتون کی موت کن حالات میں ہوئی۔ پولیس نے بتایا کہ لارگو نہر میں ایک لاش کی خبر کے بعد جمعے کو مقامی وقت کے مطابق 13:50 پر پولیس کو اطلاع دی گئی۔ جیمارکس بولارڈ نے کہا کہ وہ نوکری کے انٹرویو کے لیے جا رہے تھے کہ انھوں نے ایک مگرمچھ کو دیکھا جس کے منھ میں انسانی پتلے جیسا کچھ تھا۔ بولارڈ نے مقامی براڈکاسٹر فاکس 13 کو بتایا کہ ’میں نے دیکھا کہ اس کے منہ میں کسی کا جسم ہے، یوں سمجھیے کہ نچلا دھڑ۔ اس لیے جیسے مجھے یہ احساس ہوا میں سیدھا فائر سٹیشن کی طرف بھاگا۔‘ ’میں نے حقیقی زندگی میں پہلی بار کسی مگرمچھ کو دیکھا تھا اس لیے مجھے لگا کہ یہ بہت اچھا ہے لیکن ایک بار جب میں نے دیکھا کہ اس کے منھ میں کیا ہے تو مجھے لگا کہ یہ کسی انسانی پتلے جیسا ہے۔‘ انھوں نے ایک دوسرے انٹرویو میں کہا کہ ’مگر مچھ نے دھڑ کو جبڑے میں دبا رکھا تھا اور پیچھے کی جانب تیر کر نہر کی تہہ میں چلا گيا۔۔۔ مجھے یقین نہیں ہوا کہ کیا واقعی یہ سب حقیقی ہے۔‘ پیکہم کے لیے ان کے اہلخانہ کی جانب سے چندہ جمع کرنے کا صفحہ بنایا گیا ہے۔ اس میں ان کے بارے میں بتایا گيا ہے کہ وہ اپنی موت کے وقت جنگل والے علاقے کے قریب ایک کیمپ میں رہ رہی تھیں۔ بریونا ڈورس، جو خود کو مرنے والی خاتون کی بیٹی بتاتی ہیں، نے فیس بک پر لکھا کہ ’یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اندھیرے میں نالے کے قریب اپنے کیمپ کی جگہ پر یا یہاں سے وہاں چل قدمی کر رہی ہوں گی مگرمچھ نے پانی سے نکل کر انھیں آ دبوچا ہو گا۔ ایسے تو کسی کو بھی نہیں مرنا چاہیے۔‘ حکام نے بتایا کہ مرنے والے مگرمچھ کو نہر سے ہٹا لیا گیا ہے۔ اس کے بعد پولیس کی غوطہ خور ٹیم نے خاتون کی باقیات برآمد کیں۔ نہر کے آس پاس کے رہائشیوں نے بتایا کہ انھوں نے اس علاقے میں پہلے بھی چھوٹے چھوٹے مگرمچھ دیکھے تھے لیکن اس معاملے میں پائے جانے والے جانور کے سائز کے نہیں۔ ایک مقامی رہائشی نے بتایا کہ ’یہ عجیب و غریب ہے۔ میرے بچے ہر وقت وہاں سے گزرتے رہتے ہیں۔ اس لیے یہ واقعی ڈراؤنی بات ہے۔ میں نے چار پانچ فٹ کے مگرمچھ تو دیکھے تھے لیکن اتنا بڑا نہیں دیکھا تھا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72j665dv0zo", "summary": "امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا ایکس (ٹوئٹر) پر پاکستان سے متعلق ایک پیغام اس پر قارئین کی جانب سے دیے گئے ’سیاق و سباق‘ کے بعد مزید توجہ حاصل کر رہا ہے۔ ", "title": "امریکی وزیر خارجہ کے نگراں پاکستانی وزیراعظم کو دیے گئے تہنیتی پیغام پر عمران خان اور سائفر کا حوالہ کیسے آیا؟", "firstPublished": "2023-08-18T11:55:51.330Z", "id": "c72j665dv0zo", "article": "امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا ایکس (ٹوئٹر) پر پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکٹر کے لیے 16 اگست کو پوسٹ کیے گئے ایک تہنیتی پیغام قارئین کی جانب سے پیش کیے گئے ’سیاق و سباق‘ کے بعد سوشل میڈیا پر کافی توجہ حاصل کر رہا ہے۔ دراصل انٹونی بلنکن نے انوار الحق کاکڑ کو پاکستان کا نگران وزیر اعظم بننے پر مبادکبار پیش کی تھی اور پاکستان میں عام انتخابات سے قبل باہمی سطح پر معاشی تعاون کا تذکرہ کیا تھا۔ مگر بعض قارئین نے اس پیغام پر ’سیاق و سباق‘ کے لیے شامل کیے گئے ایک کمیونٹی نوٹ سے اتفاق کیا ہے اور اسے ’مددگار‘ قرار دیا گیا ہے جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کا ذکر ہے۔ 16 اگست کو ایکس (ٹوئٹر) پر انھوں نے لکھا کہ ’پاکستان اپنے آئین اور اظہار رائے کے حقوق کے تحت صاف و شفاف انتخابات کی تیاری کر رہا ہے۔ ہم معاشی خوشحالی کے لیے باہمی تعاون جاری رکھیں گے۔‘ کمیونٹی نوٹس کے فیچر کے تحت بعض قارئین نے نیوز ویب سائٹ ’الجزیرہ‘ کی ایک تحریر کا لنک شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’انٹونی بلنکن کی سربراہی میں 7 مارچ 2022 کو امریکی دفتر خارجہ نے پاکستان کے جمہوری طریقے سے منتخب سابق وزیر اعظم عمران خان کو ہٹانے کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اپریل 2022 کے دوران عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا اور(بعد میں) گرفتار کیا گیا۔‘ ایکس کے مطابق کمیونٹی نوٹس کا مقصد پلیٹ فارم پر لوگوں کو خودمختار بنانا ہے تاکہ قارئین خود سے ممکنہ طور پر گمراہ کن پیغامات میں سیاق و سباق کا اضافہ کر سکیں۔ ’ایکس‘ کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ کمیونٹی نوٹس ٹوئٹر کا نظریہ پیش کریں۔ ایکس کا دعویٰ ہے کہ وہ نہ ہی کمیونٹی نوٹس لکھتا ہے، نہ انھیں ریٹنگ دیتا ہے اور نہ ہی ان میں رد و بدل کر سکتا ہے۔ ان نوٹس کو صرف اس صورت میں حذف کیا جاتا ہے کہ اگر یہ پلیٹ فارم کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کریں۔ کمیونٹی نوٹس کے ذریعے قارئین غلط معلومات کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ جیسے جب جیکسن ہنکل نامی ایک صارف نے دعویٰ کیا کہ امریکہ شام سے اپنی فوجیں نکال رہا ہے اور ’اسد کی فتح‘ ہوئی ہے تو اس کے نیچے ایک کمیونٹی نوٹ کا اضافہ کیا گیا جس میں لکھا تھا کہ پینٹاگون نے اس حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا۔ اسی طرح بعض ویڈیوز پر تبصروں کی بھی نگرانی کی جاتی ہے۔ جیسے سابق امریکی صدر براک اوباما کی ایک ویڈیو شیئر کر کے ان سے ایک بیان منسوب کیا گیا کہ ’عام مرد و خواتین اتنی چھوٹی ذہنیت کے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے امور نہیں چلا سکتے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60929198", "summary": "عمران خان نے جب 1996 میں اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف بنائی تھی تو اس وقت انھیں شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ گیارہ کھلاڑیوں کی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کرنے اور ملکی سطح پر ایک سیاسی جماعت چلانے میں کیا فرق ہے۔", "title": "تحریکِ انصاف کے کپتان کا سیاسی کریئر ’تضادات کا مجموعہ‘ رہا", "firstPublished": "2022-04-03T10:11:07.000Z", "id": "72752564-3012-4dce-9a04-6041a43bb3df", "article": "عمران خان کا مرکزی دھارے کی سیاست میں آنا کوئی اچانک حادثہ نہیں تھا اور بقول اُن کے اس کے لیے انھوں نے کئی سال انتظار کیا اور محنت کی۔ سنہ 1987 کے ورلڈ کپ کے بعد جب عمران خان نے کرکٹ سے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کیا تو اس وقت پاکستان کے صدر جنرل ضیا الحق نے انھیں دوبارہ کرکٹ میں واپس آنے کا کہا اور چند ماہ بعد عمران نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ عمران خان بلاشبہ عبدالستار ایدھی کے بعد پاکستان میں فلاحی کام کرنے والی سب سے اہم شخصیت سمجھے جاتے ہیں جنھوں نے اپنی والدہ کے نام پر بنائے گئے شوکت خانم کینسر ہسپتال کے ذریعے پاکستان کے ایک بہت بڑے طبقے کی خدمت کی ہے۔ لیکن یہاں بھی 'پاسبان' کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ یہ محمد علی درانی ہی تھے جنھوں نے اپنی جماعت کے کارکنوں اور بزنس کمیونٹی میں اپنے روابط کو استعمال کر کے عمران خان کے لیے بہت بڑے پیمانے پر فنڈز جمع کیے۔ اس طرح کے فنڈ ریزنگ کے ایک ایونٹ میں عمران خان کی ملاقات ارب پتی تاجر عبدالعلیم خان سے بھی ہوئی تھی جنھوں نے وہیں کھڑے کھڑے شوکت خانم کے لیے چھ کروڑ کے عطیے کا اعلان کیا۔ 29 دسمبر 1994 کو شوکت خانم میموریل کینسر ریسرچ ہسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر کا افتتاح ہوا اور دو سال بعد 25 اپریل 1996 کو عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی جس کا منشور بھی 'پاسبان' کی بنیادوں پر ہی رکھا گیا تھا جن میں اسلامی فلاحی ریاست کا قیام، احتساب کا نعرہ اور ایک انصاف پسند معاشرے کی تشکیل اولین ترجیحات میں شامل تھیں۔ اگرچہ شروع میں اسے صرف 'ون مین شو' کہا جاتا تھا لیکن بعد میں اس قافلے کے ساتھ اور لوگ جڑتے گئے۔ عمران خان نے جب 1996 میں اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف بنائی تھی تو اس وقت انھیں شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ گیارہ کھلاڑیوں کی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کرنے اور ملکی سطح پر ایک سیاسی جماعت چلانے میں کیا فرق ہے۔ جب عمران خان کو نو مئی کے واقعات کے بعد مختصر عرصے کے لیے گرفتار کیا گیا تو ان کے حمایتیوں نے ایک دم ملک کے کئی حصوں میں پرتشدد مظاہرے کیے اور سوشل میڈیا پر ایسی مہم شروع کی جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ دوسری طرف حکومت نے بھی عمران خان کے خلاف مقدمات کی ایسی مہم شروع کی کہ اس کا بھی کوئی ثانی نہیں ہے۔ عمران خان جب سنہ 2014 میں اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے اور کہا تھا کہ ان کے نوجوانوں کی سونامی 'کرپٹ' سیاستدانوں کو خاک کر دے گی تو شاید بہت سوں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ سونامی کے بعد تباہی کا بہت زیادہ گند بھی باہر آ جاتا ہے جسے سمیٹنا بہت مشکل ہے۔ اور عمران کی سونامی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy71vex7q0wo", "summary": "ہلاک ہونے والے لوگ ایک یوکرینی فوجی کی آخری رسومات میں شریک تھے جب روسی میزائل نے انھیں نشانہ بنایا۔ یوکرین کے صدر ولادیمر زیلینسکی نے کہا ہے کہ ’اس حملے کو درندگی بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ درندے کی توہین کے مترادف ہو گا۔‘", "title": "یوکرینی فوجی کی آخری رسومات ادا کرنے والوں پر روسی میزائل حملہ: ’گاؤں کے 20 فیصد لوگ ایک ہی حملے میں مارے گئے‘", "firstPublished": "2023-10-06T05:56:12.068Z", "id": "cy71vex7q0wo", "article": "یوکرین کا کہنا ہے کہ خارکیو کے جنوب مشرقی گاؤں ’ہروزا‘ میں روسی افواج کے حملے کے نتیجے میں ایک آٹھ برس کے بچے سمیت کم از کم 51 لوگ ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ سب لوگ گاؤں کے ایک شخص کی آخری رسومات کے لیے جمع تھے جب مقامی وقت کے مطابق سوا تین بجے انھیں ایک روسی میزائل نے نشانہ بنایا۔ ان کے مطابق ہلاک والے تمام افراد اس گاؤں کے رہائشی تھے۔ انھوں نے بتایا کہ اِس حملے میں گاؤں کے 20 فیصد لوگ ہلاک ہو گئے ہیں۔ اولح کا قومی ٹی وی چینل پر ایک بیان میں کہنا تھا کہ اس ’گاؤں کی مجموعی آبادی کا پانچواں حصہ صرف ایک دہشتگرد حملے میں مارا گیا ہے۔‘ انٹرفیکس یوکرین کا کہنا ہے کہ یہ جنازہ یوکرین کے ایک فوجی کا تھا۔ اس اخبار میں مقامی وکیل دمیترو چوبینکو کے بیان کے مطابق اُس فوجی کی بیوہ، بیٹا اور بہو بھی مارے گئے۔ یوکرین کے صدر ولادیمر زیلینسکی کا کہنا ہے کہ ’اس حملے کو درندگی بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ درندے کی بھی توہین کے مترادف ہو گا۔‘ انھوں نے روس پر جان بوجھ کر اس گاؤں کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا جب لوگ آخری رسومات ادا کر رہے تھے۔ ان کے مطابق ’یہ انجانے میں کیا گیا حملہ نہیں تھا۔‘ یوکرین کے صدر کے مطابق ’نہتے لوگوں پر کون میزائل حملہ کرے گا؟ کون؟ وہی جو سر تا پا شیطان ہو گا۔‘ کُپی اینسک ضلع، جہاں یہ گاؤں واقع ہے، گذشتہ برس فروری میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد لڑائی میں فرنٹ لائن پر رہا ہے۔ روس نے ایک ایسے وقت پر اس گاؤں پر حملہ کیا ہے جب یوکرینی صدر زیلنسکی سپین میں یورپی رہنماؤں کی ایک کانفرنس میں شریک ہیں۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے اس کانفرنس میں خبردار کیا ہے کہ اندرونی سیاسی رسہ کشی امریکہ کی یوکرین کے لیے فوجی مدد کی صلاحیت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ جمعرات کو صدر زیلنسکی نے یورپین رہنماؤں سے مزید ایئر ڈیفنس میزائل فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ دوسرے ممالک کو یوکرین کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے انھیں روسی جارحیت سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ امریکی حکومت نے جولائی میں اس گولہ بارود کی ملکیت سول ضبطی کے نام سے جانے جانے والے ایک عمل کے ذریعے حاصل کی تھی، جس کے ذریعے کسی اثاثے کو ضبط کیا جا سکتا ہے اگر اس کا مالک مجرمانہ سرگرمی میں ملوث سمجھا جاتا ہے۔ ایک بیان میں سینٹرل کمانڈ نے کہا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے تاکہ خطے میں ہر طرح سے ایران کی مہلک امداد کے بہاؤ کا مقابلہ کیا جا سکے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn4eq8q0j54o", "summary": "پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بار پھر یوکرین کو پاکستانی اسلحہ برآمد کرنے کے الزامات کی تردید کی ہے۔", "title": "پاکستان کی ایک بار پھر یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کی تردید، پاکستان اور یوکرین کے تعلقات کی تاریخ کیا ہے؟", "firstPublished": "2023-04-28T10:45:27.218Z", "id": "cn4eq8q0j54o", "article": "پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بار پھر یوکرین کو پاکستانی اسلحہ برآمد کرنے کے الزامات کی تردید کی ہے۔ یہ تردید حال ہی میں امریکی جریدے ’انٹرسیپٹ‘ پر شائع ہونے والی خبر کے بعد سامنے آئی ہے جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے کے لیے پاکستان نے یوکرین کو اسلحہ برآمد کیا۔ یاد رہے کہ رواں برس اپریل میں یوکرینی فوج کے ایک کمانڈر کی جانب سے انھیں ملنے والے پاکستانی اسلحے کے ’غیرمعیاری‘ ہونے کے دعوے کے بعد یہ بحث چھڑ گئی تھی کہ آیا پاکستان یوکرین میں روسی فوج سے برسرپیکار فوجیوں کو اسلحہ دے رہا ہے یا نہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس وقت بھی روس، یوکرین جنگ میں یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کے دعوؤں کو مسترد کیا تھا۔ تب پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس دعوے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان یوکرین روس جنگ میں غیر جانبدار ہے اور اس نے یوکرین کو کسی قسم کا اسلحہ یا گولہ بارود سپلائی نہیں کیا ہے۔ رواں برس جنوری 2023 میں یوکرین کی وزارت خارجہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ اس قسم کی کسی خبر (پاکستان سے اسلحہ ملنے کی) پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔ یوکرین نے پاکستان کو نوے کی دہائی میں ٹینک فراہم کرنے کے علاوہ یوکرینی عسکری اداروں نے پاکستان کو چین کی مدد سے تیار کردہ الخالد ٹینک کے پرزے فروخت کیے۔ تاہم دفتر خارجہ کے ترجمان کے بیان کی توثیق کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس بات کو کوئی امکان نہیں ہے کہ یوکرین، روس جنگ کے دوران پاکستان نے یوکرین کو کسی قسم کے ہتھیار یا گولہ بارود فراہم کیا۔ نعیم خالد لودھی نے کہا کہ پاکستان عرصہ دراز سے چند یورپی، افریقی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کو ہتھیار اور گولہ بارود برآمد کر رہا ہے لیکن ان کی اطلاعات کے مطابق یوکرین کو کبھی بھی کسی قسم کا گولہ بارود یا ہتھیار برآمد نہیں کیے گئے ہیں۔ جب ان سے یوکرین فوج کے 17 ٹینک بٹالین کے کمانڈر کے دعوے سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان نے یوکرین کو کبھی کوئی ہتھیار یا گولہ بارود برآمد نہیں کیا ہے۔‘ جنرل نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ ’مگر اس بات کا امکان ہو سکتا ہے کہ پاکستان نے جو اسلحہ بارود دیگر ممالک کو برآمد کیا وہ شاید ان ممالک سے یوکرین تک پہنچ گیا ہو۔‘ یوکرینی فوج کے کمانڈر کی جانب سے پاکستانی ساختہ راکٹ اور گولہ بارود کے ’غیر معیاری‘ ہونے کے بارے میں بات کرتے ہوئے جنرل نعیم خالد کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی معیار کا گولہ بارود اور اسلحہ تیار کر رہا ہے۔ پاکستان کی فوج میں بھی اس اسلحہ اور گولہ بارود کو تب شامل کیا جاتا ہے جب اسے عالمی معیار کے مطابق جانچا جاتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72rnnjd9nwo", "summary": "پھر اس پتلے میں ڈالی جانے والی روح اپنے آزادانہ اظہار کے لیے انگڑائیاں لینا شروع کر دیتی ہے۔ چنانچہ خالق و مخلوق میں ایک بار پھر کش مکش شروع ہو جاتی ہے۔", "title": "صنعتِ پتلا سازی کے پیداواری کمالات: وسعت اللہ خان کا کالم", "firstPublished": "2023-06-11T08:05:34.898Z", "id": "c72rnnjd9nwo", "article": "پھر اس پتلے میں ڈالی جانے والی روح اپنے آزادانہ اظہار کے لیے انگڑائیاں لینا شروع کر دیتی ہے۔ چنانچہ خالق و مخلوق میں ایک بار پھر کش مکش شروع ہو جاتی ہے۔ بالآخر اس پتلے میں سے کسی نہ کسی طرح روح قبض کر کے اسے ایک نئے قالب میں ڈالا جاتا ہے۔ اس نئے قالب میں بھی کچھ عرصے بعد اتھل پتھل شروع ہو جاتی ہے اور پھر خالق کو یہ روح شانت کرنے کے لیے ایک نیا جسد ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ مگر جسے میں اپنی آسانی کے لیے کارخانہ کہہ رہا ہوں، وہ دیکھنے میں ایک بڑا سا ورکنگ سٹوڈیو ہے۔ اس میں طرح طرح کے چاک دھرے رہتے ہیں۔ اس سٹوڈیو میں چھنی ہوئی مہین خاک سے پتلے بنائے جاتے ہیں۔ ان پر حسبِ منشا یا مارکیٹ کی مانگ کے مطابق مہنگے نیچرل ماحول دوست رنگ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان پتلوں کو حسبِ خواہش و ضرورت پرانی خامیوں سے پاک کر کے نئی خوبیاں ڈال کے ری سائیکل بھی کیا جا سکتا ہے۔ کچھ اپنی پائیداری اور آسان دستیابی کے سبب ہر خاص و عام کے لیے ہاؤس ہولڈ نام بن جاتے ہیں۔ ان میں اوریجنل کے علاوہ ری سائیکلڈ پتلے بھی ہوتے ہیں۔ اور بعضے بعضے تو اپنے خالق کے اندازوں، توقعات اور کاپی رائٹس قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے خود اپنی برانڈنگ شروع کر دیتے ہیں اور کبھی کبھی تو اصلی تلوار مارکہ پروڈکٹ کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اچانک یا ہنگامی مارکیٹ ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے سٹاک میں پڑِے کسی ڈیزائن کو موڈیفائی کر کے نیا جازبِ نظر پتلا فوراً بازار میں لانا پڑ جاتا ہے۔ جب ان ماڈلز میں بھی ماضی کے کچھ پتلوں کی طرح جان پڑ گئی تو انھیں بھی مارکیٹ شیلفس سے ہٹا کے ری سائیکلنگ کے شعبے کے حوالے کرنا ایک بار پھر نگار خانے کے پروپرائٹر کی کاروباری مجبوری بن گیا۔ اس گرینڈ سٹوڈیو میں محض سیاسی مارکیٹ کی ڈیمانڈ ہی پوری نہیں ہوتی۔ بیوروکریسی، معیشت، فنونِ لطیفہ اور میڈیا کی صنعت کے آرڈرز بھی بخوشی وصول کیے جاتے ہیں اور گاہکوں کو حسبِ ضرورت پرانے پتلوں کی مرمت و اوور ہالنگ، ری ڈیزائننگ اور ری ٹچنگ کی آفٹر سیلز سہولتیں بھی مہیا کی جاتی ہیں۔ ان دنوں مارکیٹ کی نبض غیرمعمولی تیز ہے۔ چنانچہ بدلتی ہوئی ڈیمانڈ کی تسکین کے لیے کارخانے کا ہر شعبہ نت نئے آئیڈیاز پر تین شفٹوں میں کام کر رہا ہے۔ امید ہے اگلے چند ماہ میں مزید جازبِ نظر پتلے لانچ ہوں گے۔ اچھی بات یہ ہے کہ یہ ایک ماحولیات دوست صنعت ہے۔ یہاں کسی بھی طرح کا خام مال ضائع نہیں ہوتا۔ جو مال بار بار کی ری سائیکلنگ کے بعد پتلہ سازی کے قابل بھی نہیں رہتا وہ گھگو گھوڑے اور دیگر کھلونوں کی تیاری میں کھپ جاتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckk90lkz3qzo", "summary": "بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بانی ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ فوج ایک حقیقت ہے مگر فوج بھی اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیو ایم بھی ایک حقیقت ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اگر انھیں ’فری ہینڈ‘ دیا جائے تو وہ کراچی میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کریں گے۔", "title": "’فوج واپسی کی اجازت دے اور تسلیم کرے کہ الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیو ایم ایک حقیقت ہے‘", "firstPublished": "2023-06-01T07:15:00.884Z", "id": "ckk90lkz3qzo", "article": "متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین سے ایک خصوصی انٹرویو میں جب میں نے یہ سوال ان کے سامنے رکھا کہ کیا وہ آج بھی کراچی میں سنہ 1990 جیسا بڑا جلسہ کر سکتے ہیں تو الطاف حسین نے دعویٰ کیا کہ وہ آج بھی کراچی اور حیدرآباد میں سب سے مقبول رہنما ہیں اور اگر ’فوج‘ کی جانب سے انھیں ’فری ہینڈ‘ دیا جائے تو وہ کراچی میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کریں گے۔ بی بی سی نے فوج کی جانب سے کسی سیاسی جماعت یا رہنما کو سیاست کرنے کی اجازت سے متعلق الطاف حسین کے دعوے پر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے رابطہ کیا تاہم اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ تاہم 23 نومبر 2022 کو اپنے الوداعی خطاب میں سابق آرمی چیف نے کہا تھا کہ فوج پر تنقید اس لیے ہوتی ہے کیونکہ فوج گذشتہ 70 سال کے دوران سیاست میں مداخلت کرتی آئی ہے جو ’غیرآئینی‘ تھا تاہم فروری 2021 میں یہ متفقہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ فوج آئندہ سیاست میں کسی صورت مداخلت نہیں کرے گی۔ ’لوگوں نے میری اپیل پر انتخابات کا بائیکاٹ کر کے ثابت کر دیا کہ الطاف حسین آج بھی لوگوں کے دلوں میں بستا ہے۔ عوام کی حمایت پہلے بھی الطاف حسین کو حاصل تھی اور آج بھی ہے۔ اگر ہمیں موقع دیا جائے تو ایم کیو ایم آج بھی انتخابات میں سوئپ کرے گی۔‘ انھوں نے کہا کہ ’فوج ایک حقیقت ہے لیکن جس طرح وہ فوج کو تسلیم کر رہے ہیں فوج بھی اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیو ایم بھی ایک حقیقت ہے اور فوج مجھے واپسی کی دعوت دے۔‘ الطاف حسین نے الزام عائد کیا کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کی ذمہ دار فوج ہے کیونکہ ملک میں موجود جاگیردارانہ نظام کو فوج ہی نے برقرار رکھا ہوا ہے اور بہت سے سیاستدان بھی اس کام میں فوج کے ساتھ ہیں۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے الطاف حسین کے اس الزام کی بابت بھی بی بی سی کی جانب سے سوال کیا گیا تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ تاہم ماضی میں فوج ہمیشہ سے مختلف حلقوں اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اپنے اوپر سیاست اور سیاسی معاملات میں مداخلت جیسے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ الطاف حسین نے مزید الزام عائد کیا کہ ایم کیو ایم پاکستان ’اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار‘ ہے اور اس کی عوام میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی رابطہ کمیٹی کے ارکان کرپشن میں ملوث ہو گئے تھے۔ تاہم ایم کیو ایم پاکستان کی موجودہ قیادت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv272ql16zvo", "summary": "یہ فلم ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں اور یہ فلم اتنی پرانی اور اس کا پلاٹ اتنا جانا پہچانا ہے کہ بنانے والے بھی سوچتے ہیں کہ لوگوں کو پتا چل ہی جائے گا کہ ہم کتنی قدیم چیز ہیں۔", "title": "محمد حنیف کا کالم: ’ہم سب ڈرٹی ہیری ہیں‘", "firstPublished": "2023-05-27T07:02:26.708Z", "id": "cv272ql16zvo", "article": "یہ فلم ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں اور یہ فلم اتنی پرانی اور اس کا پلاٹ اتنا جانا پہچانا ہے کہ بنانے والے بھی سوچتے ہیں کہ لوگوں کو پتا چل ہی جائے گا کہ ہم کتنی قدیم چیز ہیں۔ ایم کیو ایم جو اس وقت تک ہلکی پھلکی بدمعاش پارٹی سمجھی جاتی تھی، راتوں رات غداروں کی جماعت قرار پائی۔ آئی ایس پی آر والے جو ابھی تک میوزک ویڈیو اور فلمیں بنانے کا فن نہیں سیکھے تھے صحافیوں کو جناح پور کے نقشے بانٹتے کہ دیکھو یہ آپ کی ایم کیو ایم تو ملک توڑنا چاہتی تھی، آؤ تمھیں ان کے ٹارچر سیل دکھاتے ہیں۔ مجھے اشتیاق تھا یہ جاننے کا کہ الطاف حسین کے ہاتھ پر بیت کیے ہوئے اور انھیں پیر و مرشد ماننے والے دو چار دن ہی قید میں گزار کر بھائی کے مشن سے کیسے منکر ہوجاتے ہیں۔ پھر کہنے لگے ’راتوں کو نیند نہیں آتی کیونکہ آپ کے بوٹ بیسن پر لڑکیاں بغیر آستین کی ٹی شرٹ اور جینز پہن کر گھومتی ہیں۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ میرے جوان چھوٹے دیہاتوں سے آئے ہیں، وہاں مشین گن کے ساتھ ڈیوٹی پر کھڑے ہوتے ہیں، کسی دن کوئی غیرت میں آ کر فائر ہی نہ کھول دے۔ ‘ میں نے کہا ’سر میں بھی چھوٹے گاؤں سے آیا تھا، آہستہ آہستہ عادت ہوجاتی ہے اور بعض کو تو اتنی ہوجاتی ہے کہ وہ واپس گاؤں ہی نہیں جاتے۔ ‘ انھوں نے کہا ’آپ بھی یہی کہنا چاہ رہے ہیں کہ میں کوئی ان کی ٹھکائی کرتا ہوں، یا دھمکیاں دیتا ہوں یا رات کو الٹا لٹکا دیتا ہوں۔ مجھے قرآن کی قسم اگر کسی کو ہاتھ بھی لگایا ہو۔ میں رات کو ان کے ساتھ عشا کی نماز پڑھتا ہوں اور پھر ساری رات بیٹھ کر ان کے ساتھ بحث کرتا ہوں۔ وہ صبح تک خود ہی کہہ دیتے ہیں کہ بتائیں پریس کانفرنس کب کرنی ہے۔ ‘ مجھے امید ہے کہ پی ٹی آئی کے پریس کانفرنس کر کے چھوڑنے والے رہنماؤں کے ساتھ بھی کوئی ذہنی یا جسمانی تشدد نہیں ہوا۔ میرے کرنل جیسا کوئی نرم دل شخص ساری رات ان کے ساتھ علمی اور سیاسی بحث ہی کرتا ہوگا۔ عمران خان اور ان کے حامی اکثر کسی ڈرٹی ہیری کا ذکر کرتے تھے۔ میں بھی سوچتا تھا بڑے جرات والے ہیں کسی خفیہ ادارے کے بڑے افسر کا نام دھڑلے سے لے رہے ہیں۔ میں جانتا نہیں تھا کہ یہ افسر کون اور اس نے کیا کِیا ہے۔ اب پاکستان کے بڑے شہروں کی شاہراہوں پر اس کی تصویریں بھی سجی ہیں۔ ادارے نے کہا ہے کہ تم ایک ڈرٹی ہیری پر الزام لگاتے تھے ہم سب ڈرٹی ہیری ہیں۔ تم جنرل باجوہ کو میر جعفر کہتے تھے، یہ دیکھو یوم شہدا کے دن ہمارے سپہ سالار کے دائیں ہاتھ پر بیٹھا ہے اور آپ کا خیال ہے صرف آپ کے پاس ہی کالا چشمہ ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gr3ppddv1o", "summary": "متحدہ قومی موومنٹ لندن کے قائد الطاف حسین نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ آج بھی عوام کے دلوں میں رہتے ہیں اور ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی میں حالیہ کئی ضمنی انتخابات میں جب انھوں نے بائیکاٹ کی اپیل کی تو ووٹوں کی شرح بہت کم رہی۔", "title": "’48 گھنٹے کے نوٹس پر سب سے بڑا جلسہ کر سکتا ہوں‘", "firstPublished": "2023-04-07T15:31:35.459Z", "id": "c3gr3ppddv1o", "article": "متحدہ قومی موومنٹ لندن کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ وہ آج بھی 48 گھنٹے کے نوٹس پر سب سے بڑا جلسہ کر سکتے ہیں۔ الطاف حسین نے کہا کہ وہ آج بھی عوام کے دلوں میں رہتے ہیں اور ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی میں حالیہ کئی ضمنی انتخابات میں جب انھوں نے بائیکاٹ کی اپیل کی تو ووٹوں کی شرح بہت کم رہی۔ الطاف حسین نے یہ باتیں لندن کے علاقے ایجویئر میں جمعرات کو ایم کیو ایم کے دفتر میں ایک پریس کانفرنس میں کہیں۔ الطاف حسین نے کہا کہ اگر انھیں فری ہینڈ ملے تو وہ آج بھی 48 گھنٹوں میں سب سے بڑا جلسہ کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی کوئی حیثیت نہیں اور عوام صرف الطاف حسین کو جانتے ہیں۔ انھوں نے پریس کانفرنس میں موجود صحافیوں اور کارکنوں سے سوال کیا کہ ’کیا آپ الطاف حسین کہ سوا کسی کو ایم کیو ایم سمجھتے ہیں؟‘ سنہ 1980 اور 90 کی دہائی میں ایم کیو ایم کراچی پر بلا شرکتِ غیرے راج کرتی تھی جبکہ حیدر آباد سمیت سندھ کے کئی شہری علاقوں میں بھی پارٹی کا بہت اثر تھا۔ ان علاقوں میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی زیادہ تر نشستیں ایم کیو ایم ہی جیت لیتی تھی۔ الطاف حسین نے کہا ہے کہ پراپرٹیز کیس میں لندن کی عدالت نے ایم کیو ایم پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا۔ اگر برطانوی حکومت اور برطانوی کورٹس کی بار ایسوسی ایشن نے اس ’یک طرفہ‘ فیصلے کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا تو یہ فیصلہ برطانیہ کے منصفانہ نظام میں ایک بدنما لکیر کا حصہ ضرور بنے گا۔ انھوں نے برطانیہ کی وزیر داخلہ، وزیر خارجہ اور ہاؤس آف لارڈز سے اپیل کی کہ وہ قانونی ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کریں جو عدالتی فیصلے کا باریک بینی سے جائزہ لے۔ الطاف حسین نے کہا کہ وہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ جو سارے دلائل وہ اس پریس کانفرنس میں دے رہے ہیں وہ تو پہلے عدالت میں بحث ہو چکی ہے تو انھوں نے کہا کہ ان کے پاس اپیل کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ’اپیل میں نیا جج ہو گا، ہو سکتا ہے وہ شواہد کو نئے انداز اور زاویے سے دیکھے۔‘ الطاف حسین نے ایم کیو ایم پاکستان کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ قرار دیا اور الزام لگایا کہ ایم کیو ایم کے خلاف پراپرٹیز کیس میں ساری فنڈنگ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے کی۔ گزشتہ مہینے لندن کی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) ہی اصل ایم کیو ایم ہے اور ایم کیو ایم ٹرسٹ کی تمام جائیدادوں اور پراپرٹیوں کی مالک اور جائز حق دار (بینیفشری) ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nzdl01zp8o", "summary": "لندن کی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ(پاکستان) ہی اصل ایم کیو ایم ہے اور ایم کیو ایم ٹرسٹ کی تمام جائیدادوں اور پراپرٹیوں کی مالک اور جائز حق دار (بینیفشری) ہے۔۔ عدالت نے کہا ہے کہ الطاف حسین 23 اگست 2016 کو پارٹی چھوڑ گئے تھے اور کبھی واپس نہیں آئے۔", "title": "الطاف حسین کیس ہار گئے، لندن میں لاکھوں پاؤنڈ کی جائیدادیں ایم کیو ایم پاکستان کی ملکیت قرار", "firstPublished": "2023-03-13T17:54:42.344Z", "id": "c4nzdl01zp8o", "article": "لندن کی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ(پاکستان) ہی اصل ایم کیو ایم ہے اور ایم کیو ایم ٹرسٹ کی تمام جائیدادوں اور پراپرٹیوں کی مالک اور جائز حق دار (بینیفشری) ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2015 کے آئین کو ایم کیو ایم نے پارٹی کے آئین کے طور پر نہیں اپنایا تھا۔ عدالت نے کہا ہے کہ الطاف حسین 23 اگست 2016 کو پارٹی چھوڑ گئے تھے اور کبھی واپس نہیں آئے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ڈفینڈنٹ نمبر 1(الطاف حسین) نے 21 ستمبر یا 14 اکتوبر کو جو جماعت بنائی تھی جس کا نام بھی متحدہ قومی موومنٹ تھا وہ ایک علیحدہ اور نئی جماعت ہے اور ٹرسٹ کی بینیفشری نہیں ہے۔ فیصلے کے مطابق کہ متحدہ قومی موومنٹ(پاکستان) ایم کیو ایم ٹرسٹ کی تمام جائیدادوں اور پراپرٹیوں کی جائز حق دار (بینیفشری) ہے اور ان پراپرٹیوں میں سے ایک پراپرٹی 53 بروکس فیلڈ ایونیو لندن کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کی بھی حق دار ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الطاف حسین نے اگست 2016 میں ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور وہ یہ بات عدالت کے سامنے بھی تسلیم کر چکے ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سنہ 2000 اور اس کے بعد ایم کیو ایم کے آئین کی شق 9 بی میں الطاف حسین کو قائد تحریک قرار دیا گیا تھا جو کہ ایک اعزازی ٹائیٹل تھا۔ اس شق کے مطابق رابطہ کمیٹی کے لیے لازمی تھا کہ وہ ان سے رہنمائی حاصل کرے لیکن ان کے فیصلوں پر عمل درآمد کی پابند نہیں تھی۔ الطاف حسین کی ہدایات اور فیصلوں پر عمل کرنا رابطہ کمیٹی کا صوابدیدی اختیار تھا۔ ہائی کورٹ آف جسٹس بزنس اینڈ پراپرٹی کورٹس آف انگلینڈ اینڈ ویلز کے آج کے فیصلے پر اپنا ردِعمل دیتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اس فیصلے سے ایم کیو ایم کے ان کارکنوں کو فائدہ ہو گا جنھوں نے قربانیاں دی ہیں اور جن کے اہل خانہ مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ ’ان پراپرٹیوں سے حاصل ہونی والی آمدنی ایم کیو ایم کے کارکنوں کے خاندانوں کی تعلیم اور صحت پر خرچ کی جائے گی۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ڈاکٹر عمران فاروق کی بیوہ لندن میں انتہائی مشکل حالات میں رہ رہی ہیں ان کی مدد کی جائے گی۔‘ دوسری جانب ایم کیو ایم لندن کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd13280xj22o", "summary": "سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے نتائج سامنے آنے کے بعد کراچی میں میئر کی سیٹ کے لیے سیاسی جوڑ توڑ اور مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی، دونوں ہی اس وقت تک میئر شپ سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نظر نہیں آ رہی ہیں۔", "title": "کراچی کی میئر شپ: جماعت اسلامی پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملائے گی یا تحریک انصاف سے؟", "firstPublished": "2023-01-18T03:33:31.704Z", "id": "cd13280xj22o", "article": "سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے نتائج سامنے آنے کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں میئر کی سیٹ کے لیے سیاسی جوڑ توڑ اور مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔\r پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی، دونوں ہی اس وقت تک میئر شپ سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نظر نہیں آ رہی ہیں۔ پیر کو جاری کیے گئے نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی 93 یونین کمیٹیوں سمیت پہلے، جماعت اسلامی 86 یوسیز کے ساتھ دوسرے جبکہ تحریک انصاف 40 یوسیز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔\r کراچی میں 1979 سے لیکر اب تک جماعت اسلامی کے تین منتخب میئر رہ چکے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ایم کیو ایم کے میئر رہے ہیں۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے کئی ماہ قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اعلان کر چکے تھے کہ کراچی کا میئر جیالا یعنی ان کی جماعت سے ہو گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا ہے کہ ’میئر شپ جماعت اسلامی کو دی جا رہی ہے یہ اطلاعات غلط ہیں، پی پی میئر شپ سے دستبردار نہیں ہو گی۔‘ حافظ نعیم کا کہنا ہے کہ ’ایک اچھا ماحول بنانے اور کراچی کی ترقی کے لیے سندھ حکومت سے بات ہو گی، ان کے ساتھ مل کر کام ہو گا، اس میں کوئی دو رائے نہیں لیکن جو مینڈیٹ ملا ہے وہ فراہم کریں۔‘\r \rپی ٹی آئی رہنما خرم شیر زمان کا کہنا ہے کہ پارٹی نے ابھی فیصلہ نہیں کیا کہ کس جماعت کی حمایت کرنی ہے تاہم جماعت اسلامی کے میئر شپ کے امیدوار حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے غیر مشروط پیشکش کی ہے۔\r ’وہ دوست ہیں اور ان کے ساتھ رابطہ ہے۔ مستقبل میں بھی کراچی کی ترقی کے لیے ان کا تعاون چاہیے ہو گا کیونکہ وہ ایک بڑی جماعت ہے۔‘ صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا ہے کہ ’پہلے وہ خود کو ایک سیاسی جماعت اور اپنا ڈسپلین ثابت کریں، اس کے بعد وہ اپنی قیادت کو سفارش کریں گے، ان سے بھی بات چیت کی جائے۔‘ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اگر جماعت اسلامی کو اپنے ساتھ نہیں ملاتی تو اس کے لیے مشکلات ہو سکتی ہیں۔\r مظہر عباس کا کہنا ہے کہ اگر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں اتحاد ہو جاتا ہے تو پیپلز پارٹی کے لیے میئر منتخب کروانا مشکل ہو جائے گا۔\r ’اگر پیپلز پارٹی مینیج کر کے منتخب کروا بھی لیتی ہے تو اس کو تگڑی اپوزیشن ملے گی اور وہ نہیں چاہیں گے کہ ایسی تناؤ والی صورتحال پیدا ہو لہذا انھیں جماعت اسلامی سے بات کرنا ہو گی۔‘\r"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czr102jrzw9o", "summary": "کراچی کی رہائشی سعدیہ غوری نے ملیر کی عدالت میں اپنے پالتو بلے کی اے سی ایف سینٹر میں ہلاکت کا مقدمہ درج کرنے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔", "title": "’لکی پالتو تھا یا آوارہ؟‘ کراچی کی مقامی عدالت کا پولیس کو تحقیقات کا حکم", "firstPublished": "2023-09-07T12:52:50.235Z", "id": "czr102jrzw9o", "article": "کراچی میں جانوروں کو ریسکیو کرنے والی تنظیم اے سی ایف (عائشہ چندریگر فاونڈیشن) کے شیلٹر میں ہلاک ہونے والا بلا پالتو تھا یا آوارہ؟ یہی جاننے کے لیے کراچی کی ایک مقامی عدالت نے پولیس کو تحقیقات کا حکم دیا ہے جس کے بعد نتائج کی روشنی میں ہی قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ واضح رہے کہ کراچی کی رہائشی سعدیہ غوری نے ملیر کی عدالت میں اپنے پالتو بلے کی اے سی ایف سینٹر میں ہلاکت کا مقدمہ درج کرنے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ سعدیہ غوری کا کہنا ہے کہ ان کے بلے کی ایک ٹانگ میں چوٹ لگی تھی۔ انھوں نے 19 اگست کو اپنے بلے کو علاج کے لیے عائشہ چندریگر فاونڈیشن کے حوالے کیا تاہم جب وہ اپنے بلے کو وصول کرنے کے لیے اے سی ایف کے ملیر میں واقع شیلٹر ہوم گئیں تو سٹاف نے انھیں سینٹر میں داخل ہونے اور بلا دکھانے سے انکار کر دیا جس پر انھیں شبہ ہوا اور انھوں نے اپنے بلے کی صحت کے بارے میں دریافت کیا۔ عدالت نے اپنے تحریری حکم نامے میں سعدیہ غوری کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگلے ہی روز انھوں نے بلے کی واپسی کے لیے اے سی ایف کو درخواست دی لیکن انھوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور 21 اگست کو انھیں پیغام بھجوایا گیا کہ ’آپ کا بلا مر گیا ہے۔‘ سعدیہ غوری کے مطابق اطلاع ملتے ہی وہ سینٹر پہنچیں اور اپنے پالتو بلے کی لاش کا مطالبہ کیا تاہم اے سی ایف کی جانب سے ان کو کہا گیا کہ یہ ان کی پالیسی نہیں۔ اے سی ایف کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ درخواست گزار کی گذارش پر زخمی بلے کو ریسکیو کیا گیا جس کو گلی کے کتوں نے حملے میں زخمی کیا تھا۔ ان پر عائد الزام بے بنیاد اور من گھڑت ہیں لہذا اس درخواست کو مسترد کیا جائے۔ واضح رہے کہ اے سی ایف سنہ 2013 میں جانوروں کے حقوق کی سرگرم کارکن عائشہ چندریگر نے قائم کی تھی۔ بی بی سی کی جانب سے عائشہ چندریگر سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ جب یہ معاملہ اپنے منطقی انجام پر پہنچے گا تو پھر وہ اپنا موقف دے سکیں گی تاہم اے سی ایف نے اپنے فیس بک پر پوسٹ کیا ہے کہ ایک بار فارم پر دستخط کرنے کے بعد آپ جانور کے مالکانہ حقوق اے سی ایف کو دے دیتے ہیں۔ ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ درخواست گزار نے کہا ہے کہ اس نے اپنا بلا علاج کے لیے دیا تھا لیکن انھوں نے درست انداز میں علاج نہیں کیا اور ان کی غفلت کی وجہ سے وہ مر گیا۔ اس معاملے پر ایس ایس پی ملیر کا موقف جاننے کے لیے بی بی سی نے ان سے رابطے کی بارہا کوشش کی تاہم ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czv7kp1jv82o", "summary": "کراچی کی ایک مقامی عدالت نے ریپ اور جنسی ہراسانی کے مقدمے میں ایک ملزم کو سات روز کے جمسانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ ملزم کراچی کے ایک نجی سکول کا پرنسپل ہے اور پولیس نے اسے پیر کے روز گرفتار کیا تھا۔", "title": "کراچی: نجی سکول کے پرنسپل پر متعدد خواتین کے ریپ کا الزام، سات روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے ", "firstPublished": "2023-09-05T12:43:06.659Z", "id": "czv7kp1jv82o", "article": "کراچی کی ایک مقامی عدالت نے ریپ اور جنسی ہراسانی کے مقدمے کے ایک ملزم کو سات روز کے جمسانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ ملزم کراچی کے ایک نجی سکول کا پرنسپل ہے اور پولیس نے اسے پیر کے روز گرفتار کیا تھا۔ عدالت میں تفتیشی افسر نے دعویٰ کیا کہ ملزم خواتین کو بلیک میل کرتا تھا اور اب تک 45 سے زائد متاثرہ خواتین کا پتا چلا ہے۔ سرکاری وکیل کا موقف تھا کہ ملزم اکیلا نہیں بلکہ یہ پورا گروہ ہے جبکہ ملزم سے تفتیش کے بعد مزید افراد کو بھی گرفتار کیا جائے گا۔ سرکارکی مدعیت میں درج مقدمے میں اے ایس آئی نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ معمول کی گشت پر تھے کہ ایک پولیس کانسٹیبل کے موبائل پر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو منظر عام پر آئی۔ مدعی کے مطابق ’جب مخبراں سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وائرل ہونے والی ویڈیو کراچی کے ایک نجی سکول کے مالک کی ہے اور ویڈیو میں وہ مختلف خواتین سے زنا کرتے دکھائی دے رہا ہے۔‘ مدعی کے مطابق اس اطلاع پر وہ مذکورہ سکول پہنچے اور پرنسپل کے دفتر گئے۔ ایف آئی آر کے مطابق وہاں موجود شخص سے نام دریافت کیا گیا تو اس نے اپنا نام بتا کر اپنی شناخت سکول کے پرنسپل کے طور پر کروائی۔ ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ مدعی نے وائرل ہونے والی ویڈیو کی تصدیق کی۔ پولیس کے مطابق تلاشی کے دوران ملزم سے ایک موبائل برآمد کیا گیا۔ متعلقہ تھانے کے ایس ایس پی کا کہنا ہے کہ متاثرہ خواتین میں سے ابھی تک کوئی سامنے نہیں آیا اس لیے سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا۔ ایس ایس پی پولیس کے مطابق ’اس معاملے کی چھان بین کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی، جو متاثرہ خواتین سے رابطہ کرے گی۔ اس کمیٹی میں ایک خاتون انسپیکٹر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔‘ متعلقہ تھانے کی پولیس نے ملزم کو صحافیوں کے سامنے بھی پیش کیا، جس میں اس نے بتایا کہ ویڈیوز میں نظر آنے والی خواتین سے اس کا تعلق رہا ہے تاہم سکول کے سٹاف کے ساتھ وہ کبھی ایسی حرکت میں ملوث نہیں رہا۔ ملزم نے دعویٰ کیا کہ اس کا سی سی ٹی وی سسٹم ہیک کیا گیا تھا اور ایک شخص نے ان سے رابطہ کیا جو کبھی خود کو رینجرز تو کبھی نیول انٹیلیجنس کا اہلکار بتاتا تھا۔ ملزم کے مطابق اس شخص نے بلوچ کالونی کے قریب ہوٹل پر بلایا، ویڈیوز دکھائیں اور ساتھ میں 10 لاکھ روپے کا بھی مطالبہ کیا جو انھوں نے تسلیم نہیں کیا۔ ملزم کے مطابق ان کا نکاح ہو چکا ہے تاہم رخصتی نہیں ہوئی اور جن خواتین سے ان کا تعلق رہا، ان کی تعداد چار تھی۔ ملزم کے مطابق ’میں نے کبھی کسی سے کوئی زبردستی نہیں کی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cqv700q6e9qo", "summary": "اس جہاز کی حتمی منزل امریکہ میں نیو یارک کا شہر تھا لیکن پانچ ستمبر 1986 کو فلسطینی عسکریت پسندوں نے کراچی کے ایئر پورٹ پر اس جہاز کو 16 گھنٹے کے لیے ہائی جیک کیا جس کا خونی اختتام 22 افراد کی ہلاکت کے ساتھ ہوا۔ اس واقعے میں ڈیڑھ سو افراد زخمی ہوئے تھے۔", "title": "کراچی ایئرپورٹ پر امریکی مسافر طیارے کی 16 گھنٹے طویل ہائی جیکنگ جس کا اختتام 22 ہلاکتوں پر ہوا", "firstPublished": "2023-09-05T08:43:10.598Z", "id": "cqv700q6e9qo", "article": "اس جہاز کی حتمی منزل امریکہ میں نیو یارک کا شہر تھا لیکن پانچ ستمبر 1986 کو فلسطینی شدت پسندوں نے کراچی کے ایئر پورٹ پر اس جہاز کو 16 گھنٹے کے لیے ہائی جیک کیا جس کا خونی اختتام 22 افراد کی ہلاکت کے ساتھ ہوا جبکہ اس واقعے میں 150 افراد زخمی ہوئے تھے۔ پین ایم فلائٹ 73 کو کراچی ایئر پورٹ پر ہائی جیک کیے جانے کے واقعے کے لگ بھگ 30 سال بعد یعنی سنہ 2016 میں جہاز کے عملے کے چھ اراکین نے پہلی بار میڈیا سے بات کی تو فلائٹ اٹینڈنٹ نوپر ابرول نے بی بی سی نیوز کو بتایا تھا کہ ’میرا پہلا ردعمل ہنگامی دروازہ کھول کر اتنے مسافروں کے ساتھ فرار ہو جانے کا تھا جتنا ممکن ہو سکتا لیکن پھر میں نے سوچا کہ باقی مسافروں کا کیا ہو گا۔‘ پانچ ستمبر کو پین اے ایم 73 فلائٹ ممبئی سے نیو یارک کے لیے جا رہی تھی جو کراچی میں تھوڑے وقفے کے لیے رُکی تھی جہاں سے اسے فرینکفرٹ کے لیے روانہ ہونا تھا۔ اس طیارے میں 300 سے زائد مسافروں کے علاوہ 14 عملے کے افراد سوار تھے جس میں سے 12 فلائٹ کے پرواز بھرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ سن شائن کہتی ہیں کہ انھیں پتہ چل گيا تھا کہ کاک پٹ کو خالی کرنے کا اشارہ کیا جا چکا ہے لیکن ’میں نے دانستہ طور پر اس بات کو نظر انداز کیا اور تھوڑی تاخیر بھی کی تاکہ اگر پائلٹ نہ نکلے ہوں تو اب بھی انھیں باہر جانے کا وقت مل جائے۔ ہائی جیکر کو جہاز کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں تھیں تو اس نے اس بات کا نوٹس بھی نہیں لیا۔‘ اس افراتفری اور اندھیرے میں کم از کم تین دروازے کھل چکے تھے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ یہ کیسے ہوا۔ جہاز کے پر کے قریب موجود دروازہ فرار کا سب سے بہتر راستہ فراہم کرتا تھا اور بہت سے لوگوں نے اسی کا رخ کیا۔ نپور اور مادھوی بھی جہاز کے پر سے پھسلتے ہوئے بیس فٹ نیچے جا گرے جس سے ان کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ فلسطینی عسکریت پسندوں نے کراچی کے ایئر پورٹ پر اس جہاز کو 16 گھنٹے کے لیے ہائی جیک کیا جس کا خونی اختتام 22 افراد کی ہلاکت کے ساتھ ہوا ایک وقفے کے بعد جہاز کا تمام عملہ کام پر پین ایم واپس آ گیا۔ کبھی وہ ایک ہی فلائٹ میں ہوتے اور کبھی ان کی ملاقات ایئر پورٹ پر ہوتی لیکن انھوں نے کبھی اس واقعے کے بارے میں بات نہیں کی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c807pwjqnlyo", "summary": "برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد لوگ ملک کی دوسری بڑی اقلیت ہیں۔ ان کی پہلی آمد دوسری عالمی جنگ کے بعد ہوئی جب تباہ شدہ برطانیہ کی دوبارہ تعمیر کا آغاز کیا گیا اور لیبر کی بے پناہ ضرورت تھی۔ اس کے بعد مسلسل پاکستانیوں کی بڑی تعداد برطانیہ کو اپنا گھر بناتی رہی ہے۔ ", "title": "نسلی امتیاز یا قابلیت میں کمی۔۔۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد شہریوں میں بڑھتی بے روزگاری کی وجہ کیا؟", "firstPublished": "2023-09-30T04:12:24.592Z", "id": "c807pwjqnlyo", "article": "برطانیہ کی ہاؤس آف کومنز ریسرچ لائبریری کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ملک میں رہنے والی تمام نسلی اکائیوں میں پاکستانی نژاد افراد کی بے روزگاری کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ برطانوی ادارے کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سب سے زیادہ بے روزگاروں کی تعداد نو جوانوں اور خواتین کی تھی۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد لوگ ملک کی دوسری بڑی اقلیت ہیں۔ ان کی پہلی آمد دوسری عالمی جنگ کے بعد ہوئی جب تباہ شدہ برطانیہ کی دوبارہ تعمیر کا آغاز کیا گیا اور لیبر کی بے پناہ ضرورت تھی۔ اس کے بعد مسلسل پاکستانیوں کی بڑی تعداد برطانیہ کو اپنا گھر بناتی رہی ہے۔ برطانیہ کی حکومت ملک کی ترقی اور تعمیر میں پاکستانی کمیونٹی کی خدمات کا اعتراف بھی کرتی ہے لیکن بیشتر پاکستانی ثقافتی اور روایتی وجوہات کی بنا پر اپنے مخصوص علاقوں میں، اپنے ہی لوگوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ رپورٹ میں چھپنے والے اعدادوشمار کے مطابق برطانیہ میں سولہ سے چوبیس برس کے تقریباً چودہ لاکھ نوجوان بیروزگار ہیں، یعنی بیس فیصد پاکستانی نژاد نوجوان بے روزگار ہیں جو سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس کے مقابلے میں انڈین اور چینی نژاد نوجوان، ملازمتوں میں دوسری اقلیتوں سے بہت آگے ہیں۔ خواتین میں بے روزگاری کا تناسب پاکستانی اور بنگلہ دیشی نژاد خواتین میں سب سے زیادہ ہے اور ان میں یہ شرح تقریباً گیارہ فیصد ہے۔ بی بی سی اردو نے مشرقی لندن کے مصروف علاقے الفورڈ میں پاکلستانی نژاد شہریوں سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ کیوں پاکستانی نژاد برطانوی شہری بے روزگاری کی شرح میں دوسری برادریوں سے اتنے پیچھے ہیں۔ ایک شہری نے کہا کہ شاید اس کی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ ’جب وہ اس ملک میں آتے ہیں تو شاید اتنے پڑھے لکھے نہیں ہوتے اور یہاں رہنے اور آگے بڑھنے کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔‘ ایک اور شہری نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ پاکستانی اپنی خواتین کو نوکری کرنے کے لیے اتنا سپورٹ نہیں کرتے جتنی دوسری برادریاں کرتی ہیں۔ دردانہ انصاری نے بھی اس بات پھر زور دیا کہ جہاں حکومت اس پر بات کر رہی ہے کہ بے روزگاری ہے تو اسے یہ بھی چاہیے کہ وہ مسئلے کو صحیح طرح سمجھے اور اسے حل کرے لیکن اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔‘ برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی کے لیے کام کرنے والی کارکن اور برطانوی رائل نیوی میں پہلی مسلمان اور پاکستانی اعزازی کیپٹن دردانہ انصاری نے اپنے تجربے کی روشنی میں پاکستانی برطانویوں کی بے روزگاری کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم مین سٹریم میں شامل ہونے سے جھجکتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1mp9zxj29o", "summary": "برطانیہ میں اپنے گھر میں مردہ پائی جانے والی دس سالہ بچی سارہ شریف کے خاندان کے افراد پر قتل کے جرم میں کارروائی کا آغاز ہو گیا ہے اور انھیں آج عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ ", "title": "سارہ شریف کی ہلاکت: والد، سوتیلی ماں اور چچا کے خلاف کارروائی کا آغاز، آج عدالت میں پیش کیا جائے گا", "firstPublished": "2023-09-13T14:49:22.382Z", "id": "cd1mp9zxj29o", "article": "برطانیہ میں اپنے گھر میں مردہ پائی جانے والی دس سالہ بچی سارہ شریف کے خاندان کے افراد پر قتل کے جرم میں کارروائی کا آغاز ہو گیا ہے اور انھیں آج عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ سرے پولیس کا کہنا ہے کہ بچی کے والد 41 سالہ عرفان شریف، ان کی اہلیہ 29 سالہ بینش بتول اور عرفان کے بھائی 28 سالہ فیصل ملک کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ سارہ کی لاش 10 اگست کو ووکنگ میں اُن کے گھر سے ملی تھی اور ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ان کے جسم پر ’متعدد زخموں کے نشانات‘ پائے گئے تھے۔ تینوں گرفتار افراد 9 اگست کو برطانیہ سے پاکستان کے لیے روانہ ہو گئے تھے۔ اس سے پہلے سارہ شریف کی ہلاکت کی تحقیقات میں پولیس کو پوچھ گچھ کے لیے مطلوب ان کے والد، سوتیلی والدہ اور چچا کو پاکستان سے برطانیہ پہنچنے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ سرے پولیس نے اس بات کی تصدیق کی کہ تینوں ملزمان کو جمعے کے روز گلڈفورڈ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ سرے پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ تین افراد حراست میں ہیں اور ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ سارہ کی والدہ کو اس تازہ ترین پیشرفت کے بارے میں تفصیلات بتا دی گئی ہیں۔ دوسری جانب ان تین افراد کے ہمراہ پاکستان پہنچنے والے سارہ شریف کے پانچ بہن بھائیوں کو عارضی طور پر حکومت کے زیر انتظام بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے میں بھیج دیا گیا ہے۔ منگل کی صبح عرفان شریف کے اہلخانہ ان بچوں کو اپنے ساتھ عدالت میں لے کر آئے تھے اور اس دوران اُنھیں پولیس اہلکاروں اور مقامی میڈیا کے نمائندوں نے گھیرے رکھا اور یہ سلسلہ قریب 40 منٹ تک جاری رہا تھا۔ پاکستان پہنچنے کے بعد سے سارہ کے والد، سوتیلی والدہ اور چچا روپوش ہو گئے تھے اور حکام ان کی تلاش میں سرکرداں تھے۔ اسی دوران پانچ ستمبر کو سارہ شریف کے والد اور ان کی سوتیلی والدہ نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ وہ برطانیہ میں حکام کے ساتھ تحقیقات میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سارہ شریف کی موت کے بعد ان کی سوتیلی والدہ بینش اور ان کے والد عرفان کا یہ پہلا عوامی رابطہ تھا۔ سارہ کی سوتیلی والدہ نے دو منٹ 36 سیکنڈ کی اس ویڈیو میں پاکستانی پولیس پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ پولیس ان کے خاندان کے دیگر افراد کو خوفزدہ کر رہی ہے اور انھیں غیر قانونی طور پر حراست میں لے رہی ہے جبکہ ان کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ جہلم پولیس کے سربراہ محمود باجوہ نے بی بی سی سے بات چیت میں ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ خاندان کے افراد کو ہراساں کرنے اور تشدد کرنے کے تمام الزامات غلط ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g75qww4vno", "summary": "یہ جگہ کوئی بہت غیر معمولی نہیں ہے۔ اگر آپ کو اس کی تلاش نہیں تو عین ممکن ہے آپ کو یہ نظر ہی نہ آئے۔ اس کے باوجود 70 سال سے زیادہ عرصے سے لندن میں رہنے والے بہت سے انڈینز کو اس کی تلاش رہی ہے اور وہ یہاں شناسا چہروں اور مرغوب ذائقے کے لیے یہاں آتے ہیں۔", "title": "لندن میں 70 برسوں سےانڈینز کا پسندیدہ ’انڈیا کلب‘ جو بالآخر بند ہو رہا ہے", "firstPublished": "2023-09-01T08:17:07.426Z", "id": "c3g75qww4vno", "article": "یہ جگہ کوئی بہت غیر معمولی نہیں ہے۔ اگر آپ کو اس کی تلاش نہیں تو عین ممکن ہے آپ کو یہ نظر ہی نہ آئے۔ اس کے باوجود 70 سال سے زیادہ عرصے سے لندن میں رہنے والے بہت سے انڈینز کو اس کی تلاش رہی ہے اور وہ یہاں شناسا چہروں اور مرغوب ذائقے کے لیے یہاں آتے ہیں۔ یہ ان کے لیے ایسی جگہ رہی ہے جہاں انھیں ان کے دیس کے ذائقے ملتے رہے ہیں۔ اسے سنہ 1950 کی دہائی میں انڈین تارکین وطن کے ملنے اور آپس میں جڑنے کے لیے ایک جگہ کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ لیکن اب انڈیا کلب بند ہونے والا ہے کیونکہ اس عمارت کے مالکان اس عمارت کے ایک حصے کو گرا کر وہاں ایک زیادہ جدید ہوٹل چاہتے ہیں۔ کلب برسوں سے اسے بند کیے جانے کے خلاف جدوجہد کر رہا ہے۔ کچھ سال پہلے اس کے مالکان یادگار مارکر اور ان کی بیٹی فیروزہ نے اس جگہ کو بچانے کی مہم کے لیے ہزاروں دستخط کے باوجود اپنی جنگ جیت لی۔ یہ خبر بہت سے لوگوں کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں کیونکہ یہ جگہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ ہوٹل سٹرینڈ کانٹیننٹل کی پہلی منزل پر واقع انڈیا کلب کو سنہ 1900 کی دہائی میں انڈیا کی آزادی کی حمایت کرنے والی برطانیہ کی تنظیم انڈیا لیگ کے اراکین نے شروع کیا تھا۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے آزادی پسند کارکنان شروع میں اس کلب کو اپنی میٹنگ کی جگہ کے طور پر استعمال کرتے تھے لیکن بعد میں یہ جنوبی ایشیائی برادریوں کے لوگوں کے لیے مشترکہ کھانوں، تقریبات اور دوستیاں قائم کرنے کی جگہ بن گئی۔ سنہ 1953 میں برطانیہ منتقل ہونے کے بعد باقاعدگی سے کلب جانے والی تاریخ دان کلثوم وڈگاما کہتی ہیں کہ ’پھر سنہ 1950 اور 60 کی دہائیوں میں یہ لندن میں وہ واحد جگہ تھی جہاں انڈینز ان لوگوں سے ملنے جلنے کے لیے پہنچتے تھے جو ان کی زبان بولتے تھے اور ان کا کھانا کھاتے تھے۔‘ کلثوم وڈگاما مشرقی افریقہ میں نوآبادیاتی دور میں پلی بڑھیں اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ برطانیہ منتقل ہو گئیں۔ انھوں نے بتایا کہ انڈیا کی آزادی کے بعد کے سالوں میں بہت سے انڈینز بھی ہجرت کر کے برطانیہ پہنچے۔ لیکن اس وقت لندن میں انڈین باشندوں کے لیے شاید ہی کوئی ثقافتی ادارے موجود تھے۔ کلب کے فانوس، فارمیکا کی میزوں اور سیدھی پشت والی کرسیوں میں 70 برس کے عرصے میں کوئی زیادہ تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔ جب وہ برسوں بعد لندن میں ان سے ملنے آئے تو وہ اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ کلب لے گئے۔ اس کے بعد سے ہی مسز تھرور بھی وہاں باقاعدگی سے جانے لگیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرے والد کے انتقال کے بعد، میں نے ان کے اعزاز میں انڈیا کلب میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ میں نے وہاں اپنے شوہر کی 50ویں سالگرہ بھی منائی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1y7eg0g4po", "summary": "سنہ 1973 میں مشہور بینڈ ’بیٹلز‘ کے رکن جارج ہیریسن نے برطانیہ میں ’ہرے کرشنا ابھیان‘ کو ایک بنگلہ تحفے میں دیا تاکہ وہ یہاں بھی اپنا ایک مرکز بنا سکیں۔ یہ مرکز آج بھی مندر، اور کمیونٹی سینٹر کے طور پر کام کر رہا ہے۔", "title": "وہ انگریز جس نے برطانیہ میں کرشنا مندر بنانے کے لیے اپنا بنگلہ اور زمین عطیہ کیے ", "firstPublished": "2023-08-04T11:50:31.094Z", "id": "cd1y7eg0g4po", "article": "سنہ 1973 میں مشہور بینڈ ’بیٹلز‘ کے رکن جارج ہیریسن نے برطانیہ میں ’ہرے کرشنا ابھیان‘ کو ایک بنگلہ تحفے میں دیا تاکہ وہ یہاں بھی اپنا ایک مرکز بنا سکیں۔ ہرٹ فورڈ شائر میں یہ بنگلہ اب برطانیہ کے مشہور ہندو مندروں میں سے ایک ہے۔ شیام سندرداس ایک خاص مقصد کے لیے بیٹلز کے ریکارڈ لیبل پر ایک پارٹی میں گئے۔ ان کے مطابق ’ہم ستمبر 1968 میں آئے اور کرسمس کے وقت جارج ہیریسن سے ملے۔ ہم نے بیٹلز کے ساتھ ہرے کرشنا کا نعرہ لگانا شروع کیا۔‘ وہ دنیا کے سب سے مشہور شخص کے ساتھ کرشن کے فلسفے پر گفتگو کے اس وقت کو یاد کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’1969 کے اوائل میں ہم جان لینن کی ٹٹن ہارسٹ سٹیٹ (بنگلے) میں چلے گئے۔ لندن میں ہم نے اس دوران اپنا مندر تیار کیا۔ نتیجتاً ہم ریکارڈنگ کے فنکار بن گئے۔ ایک چیز دوسری کا باعث بنی اور پھر بیٹلز کے تعاون سے ہم مشہور ہوئے اور ملک میں ہرے کرشنا مہم تیزی سے پھیل گئی۔‘ شیام سندر داس کہتے ہیں کہ سنہ 1972 میں وہ اور بھگت ویدانت سوامی ہیریسن کے آکسفورڈ شائر بنگلے پر گئے تھے۔ یہ سن کر کہ لندن کا مندر عقیدت مندوں سے بھر گیا ہے، ہیریسن نے جواب دیا کہ ’میں آپ لوگوں کے لیے ایک خانقاہ خریدنا چاہتا ہوں۔ ایسا گھر جیسا کہ اب میرے پاس ہے۔‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ہم نے یہاں ایک چھوٹا سا بیج لگایا تھا اور اب 50 سال بعد یہ ایک بڑا درخت بن گیا ہے۔ بھکت ویدانت بنگلہ اب ایک بڑا ’بلوط کا درخت‘ بن گیا ہے۔‘ آکھندھی داس، جو سنہ 1975 میں مندر کا حصہ بنے اور بعد میں اس کے صدر بھی بن گئے نے بتایا کہ ’تقریباً جب سے اسے خریدا گیا تھا یعنی سنہ 1973 میں ہرے کرشنا کے عقیدت مندوں کی منتقلی ہوئی تھی، وہاں آنے والے کچھ لوگوں کے بارے میں یقینی شکایات تھیں۔‘ ہندو سنت کرپا مویاداس یہاں آنے والے پہلے لوگوں میں سے ایک تھے اور ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں نے اس ہرے کرشنا دھام میں آ کر بہت سکون محسوس کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان تمام لوگوں کو اب احساس ہو گیا ہے کہ ان کے پاس عبادت کرنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے ملک میں چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ لیکن سنہ 1990 کی دہائی میں صورتحال سنگین ہو گئی۔ صورت حال اس کے برعکس تھی۔ شور کی شکایت کے بعد مندر کو سنہ 1994 میں عوامی عبادت کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ سال بھر ہندو تہوار منانے کے ساتھ ساتھ، بھکت ویدانت دھام ایک وسائل کے مرکز کے ساتھ ساتھ ’آرگینک‘ کاشتکاری کے فارم اور گوسیوکندر کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cq5gy7rwnpxo", "summary": "گذشتہ ایک روز سے جاری افواہوں اور دعوؤں کے بعد بلآخر یوٹیوبر اور وی لاگر میجر ریٹائرڈ عادل فاروق راجہ منظر عام پر آ گئے ہیں، دوسری جانب لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے اُن کی گرفتاری کی خبروں کے بارے میں تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کیا ہے۔", "title": "’الحمدللہ، میں ٹھیک ہوں‘: لندن پولیس کا یوٹیوبر عادل راجہ کی گرفتاری کی تصدیق یا تردید سے انکار", "firstPublished": "2023-06-14T18:19:11.100Z", "id": "cq5gy7rwnpxo", "article": "گذشتہ ایک روز سے جاری افواہوں اور دعوؤں کے بعد بلآخر یوٹیوبر اور وی لاگر میجر ریٹائرڈ عادل فاروق راجہ منظر عام پر آ گئے ہیں، دوسری جانب لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے اُن کی گرفتاری کی خبروں کے بارے میں تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کیا ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ 24 گھنٹے سے تحریک انصاف کے حامی سمجھے جانے والے یوٹیوبر عادل راجہ کی گرفتاری اور ضمانت پر رہائی سے متعلق متعدد دعوے سوشل میڈیا پر کیے جا رہے تھے جبکہ لندن میں موجود عادل راجہ کے وکیل نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اُن کے مؤکل کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تاہم اب سے تین گھنٹے قبل عادل راجہ نے ٹوئٹر پر دو ٹویٹس کے ذریعے اپنی خیریت سے مطلع کیا ہے تاہم انھوں نے اپنی گرفتاری اور رہائی سے متعلق دعوؤں پر کوئی بات نہیں کی ہے۔ عادل راجہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے سے دس روز بعد پاکستان سے برطانیہ پہنچ گئے تھے۔ ان کے لندن پہنچنے کی خبر آنے سے ایک روز قبل یعنی 20 اپریل 2022 کو اُن کی اہلیہ سبین کیانی نے ٹوئٹر پر ان کے لاپتہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے درخواست کی تھی کہ اگر کسی کو بھی ان کے شوہر سے متعلق معلومات ہوں تو شیئر کی جائیں۔ لندن پہنچنے کے بعد اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے پاکستانی فوج پر شدید تنقید کرتے ہوئے انھوں نے متعدد مواقع پر فوج اور اس کی قیادت کے خلاف متعدد الزامات عائد کیے تھے اور اس نوعیت کے الزامات میں تیزی آنے کے بعد برطانیہ میں ان کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ بھی دائر کیا تھا۔ بدھ کے روز اُن کے وکیل مہتاب عزیز نے لندن میں مقامی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کے خیال میں میجر راجہ کو مبینہ طور پر تشدد پر اکسانے کے الزامات کے بارے میں انکوائری کرنے کے لیے حکام نے ان کی موومنٹ کو محدود کر دیا ہے۔ تاہم لندن میٹروپولیٹن پولیس ایک ترجمان جیک گرِفِتھ نے کہا ہے کہ ’یہ ہمارا عمومی طریقہِ کار ہے کہ ہم کسی بھی ایسی گرفتاری کی نہ تصدیق کرتے ہیں اور نہ ہی تردید جس میں ابھی کوئی فرد جرم عائد نہ ہوئی ہو۔‘ میجر عادل فاروق راجہ برطانیہ میں رہتے ہوئے پاکستان کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت پر بھر پور تنقید کرتے رہے ہیں۔ ان کے خاندان نے ان کی گرفتاری کے معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی اور اُن کی اہلیہ سبین کیانی جو خود بھی ٹوئٹر پر کافی فعال رہی ہیں، ان کی گرفتاری کی تصدیق یا تردید کے حوالے سے بالکل خاموش رہیں۔ بی بی سی اردو کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں لندن پولیس کے ترجمان مسٹر گرِفِتھ نے کہا کہ ’جب کسی شخص کی گرفتاری کے بارے میں پوچھا جائے تو ہم اُس کی گرفتاری یا اُسے گرفتار نہ کیے جانے کے بارے میں کسی قسم کی کوئی بات نہیں کرتے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pk8j82j73o", "summary": "انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں رواں برس مئی کے اوائل سے شروع ہونے نسلی فسادات کے بعد ریاست کے تین بڑے ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں تقر یباً 96 ایسی میتیں پڑی ہیں جن کی شناخت کے لیے ابھی تک حکام سے کسی نے رابطہ نہیں کیا۔", "title": "منی پور کے مردہ خانوں کی ’لاوارث‘ میتیں: وہ خوف جو لواحقین کو اپنے پیاروں کی شناخت سے روک رہا ہے", "firstPublished": "2023-09-26T11:10:27.885Z", "id": "c6pk8j82j73o", "article": "انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں رواں برس مئی کے اوائل سے شروع ہونے نسلی فسادات کے بعد ریاست کے تین بڑے ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں تقر یباً 96 ایسی میتیں پڑی ہیں جن کی شناخت کے لیے ابھی تک حکام سے کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ مقامی افراد کے مطابق لوگ خوف کے باعث اپنے رشتے داروں کی لاشیں ہسپتالوں سے نہیں لے جا رہے ہیں جبکہ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق یہ لاشیں کئی مہینوں سے مردہ خانوں میں موجود ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق منی پور کے نسلی فسادات میں اب تک 175 افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ کم از کم 32 افراد لاپتہ ہیں۔ منی پور کی ریاست میں نسلی فسادات اکثریتی میتئی اور کوکی قبائل کے درمیان ہوا تھا۔ یہ نسلی گروہ ریاست کے الگ الگ جغرافیائی خطوں میں آباد ہیں۔ فسادات کے بعد اب صورتحال یہ ہے کہ ایک نسلی گروہ کے لوگ دوسرے گروپ کے خطے میں نہیں جا سکتے۔ واہینگبم نے بتایا کہ مسئلہ یہ ہے کہ فسادات کے بعد کوکی میتیئی کے علاقوں میں نہیں جا سکتے اور میتیئی کوکی علاقے میں داخل نہیں ہو سکتے اور قانون کے مطابق چونکہ لاشوں کی شناخت کے لیے ذاتی طور لواحقین کا ہسپتال کے مردہ خانے جانا ضروری ہے اور چونکہ لوگ جا نہیں سکتے اسی وجہ سے یہ لاشیں مہینوں سے بغیر شناخت کے ّپڑی ہوئی ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ حالات کی حساس نوعیت کے سبب ہسپتالوں نے ان لاشوں کی تصویریں اور تفصیلات وغیرہ بھی ابھی تک جاری نہیں کی ہیں۔ حکام اور سکیورٹی فورسز کوشش کر رہی ہیں کہ حالات کم از کم اس حد تک ہی نارمل ہو جائیں کہ لواحقین یہاں آ کر اپنے پیاروں کی لاشوں کی شناخت کر سکیں تاکہ ان کی آخری رسوم ادا کی جا سکیں، لیکن بظاہر یہ بھی ممکن نہیں ہو پا رہاہے۔ انڈیا کی سپریم کورٹ نے گذشتہ مہینے جموں و کشیمر کی سابق چیف جسٹس گیتا متل کی سربراہی میں ہائی کورٹ کے تین سبکدوش ججوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی کا کام منی پور کے نسلی تشدد کے انسانی پہلوؤں میں مدد کرنی ہے۔ اس کمیٹی نے ایک رپورٹ میں سفارش کی ہےکہ ریاستی حکومت ان افراد کی ایک فہرست شائع اور مشتہر کرے جو پانچ مہینے سے جاری تشدد میں مارے گئے ہیں اور ان کے لواحقین کی شناخت کرے تاکہ انھیں مقررہ معاوضہ ادا کیا کیا جا سکے۔ اگر اس میں کامیابی نہیں ملتی تو اس کمیٹی نے مشورہ دیا ہے کہ ضلع کلکٹر مناسب جگہ کا تعین کر کے پورے احترام کے ساتھ ان لاشوں کی آحری رسوم ادا کر دیں ۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cl7z7npl4p4o", "summary": "انڈیا کے ساتھ حالیہ تناؤ کینیڈا کے مغربی اتحادی ممالک کے لیے بھی، خاص طور پر امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا جہاں بڑی تعداد میں سکھ رہتے ہیں، پریشانی کا باعث بنتا ہوا نظر آرہا ہے کیونکہ وہ انڈیا کو چین کے خلاف ایک جمہوری مقابلے کے طور پر مثبت نظریے سے دیکھتے ہیں۔", "title": "ہردیپ سنگھ نجر: انڈیا اور کینیڈا کے درمیان جاری سفارتی تنازع کیا رخ اختیار کرے گا؟", "firstPublished": "2023-09-23T02:00:26.386Z", "id": "cl7z7npl4p4o", "article": "سفارت کاری کی دنیا میں یہ غیر معمولی بات ہے کہ دو ایسے ممالک جو ایک دوسرے کو ’تزویراتی شراکت دار‘ کے طور پر دیکھتے ہوں، ایک دوسرے پر عوامی طور پر ناقابل معافی گناہوں کا الزام لگاتے ہوئے نظر آئیں اور محض چند گھنٹوں میں ہی ایک دوسرے کے حریف بن جائیں۔ کینیڈا بھی دو طرفہ تعلقات کو مثبت انداز میں دیکھتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک ’جمہوریت کی مشترکہ روایت‘ اور ’قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام کے لیے مشترکہ عزم‘ پر مبنی ہیں لیکن اگر اتنا کچھ داؤ پر لگا ہو، تب رشتوں میں اچانک سے ایسی تبدیلیوں سے دور رس اثرات ہوتے ہیں۔ حالیہ تناؤ کینیڈا کے مغربی اتحادی ممالک کے لیے بھی، خاص طور پر امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا جہاں بڑی تعداد میں سکھ رہتے ہیں، پریشانی کا باعث بنتا ہوا نظر آرہا ہے کیونکہ وہ انڈیا کو چین کے خلاف ایک جمہوری مقابلے کے طور پر مثبت نظریے سے دیکھتے ہیں۔ کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک، جہاں پر سکھوں کی بڑی تعداد ہے، ان میں سکھ علیحدگی پسندی سے متعلق سرگرمیاں نظر آتی رہتی ہیں۔ مثلاً حالیہ برسوں میں کینیڈا میں چند سکھ جماعتوں نے خالصتان کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد کیا۔ کینیڈا میں انڈین سفارت کاروں کو قاتل قرار دینے والے پوسٹرز کی عوامی سطح پر نمائش کی گئی اور مبینہ طور پر ہندو مندروں کی دیواروں پر اشتعال انگیز پوسٹرز لگائے ہیں۔ اس کے بعد انڈیا نے کینیڈا کے ہائی کمشنر کو طلب کر کے کینیڈا میں خالصتان کے حامی مظاہرین پر تشویش کا اظہار کیا اور جون 2023 میں برامپٹن میں ایک پریڈ کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں انڈیا کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کی تصویر کشی کی گئی تھی، جنھیں امرتسر میں سکھوس کے مقدس گردوارے گولڈن ٹیمپل پر دھاوا بولنے پر ناراض ان کے سکھ محافظوں نے سنہ 1984 میں گولی مار دی تھی۔ (انڈین حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اندرا گاندھی کے قتل کے جواب میں ملک بھر میں سکھ مخالف فسادات میں 2000 سے زیادہ سکھ مارے گئے)۔ اب یہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ سنہ 2018 میں اور حالیہ جی 20 اجلاس کے دوران ٹروڈو کے لیے سرد مہری کینیڈا میں خالصتان سے متعلق سرگرمیوں سے جڑی تھی۔ وہاں کے 17 لاکھ ہندوستانیوں میں آٹھ لاکھ سے زیادہ سکھ ہیں حالانکہ ان میں سے زیادہ تر کا خالصتان مہم سے کوئی تعلق نہیں لیکن سکھوں کی آبادی کینیڈا کی آبادی کا دو فیصد سے زائد ہے اور بعض علاقوں میں وہ انتخابی نتائج کو متاثر کرتے ہیں۔ لیکن واشنگٹن میں قائم ولسن سینٹر نامی تھنک ٹینک سے وابستہ محقق مائیکل کگلمین کا کہنا ہے کہ یہ انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات کے لیے خاص سفارتی چیلنج بن گیا ہے، جس میں نئی دہلی نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ کینیڈا کو سکھ رہنماؤں سے متعلق انڈیا کے خدشات دور کرنے کی ضرورت ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1g7k413yvo", "summary": "پاکستان میں رہنے والی احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کا دعویٰ ہے کہ مخصوص قبرستانوں میں ان کی قبریں غیر محفوظ ہیں اور مشترکہ قبرستانوں میں بھی تدفین کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے پیاروں کو دور دراز علاقوں میں دفنانے پر مجبور ہیں۔", "title": "پاکستان کی احمدیہ برادری: ’فتوی آ گیا ہے، اس لڑکی کو قبر سے نکالو کیونکہ ہمارے مُردوں کو عذاب ہوتا ہے‘", "firstPublished": "2023-09-18T05:29:11.688Z", "id": "cd1g7k413yvo", "article": "فوزیہ کا دعویٰ ہے کہ ’میری بہن کی وفات ہوئی تو ہم نے اسے اپنے علاقے کے قبرستان میں دفنایا جہاں ہمارے خاندان کے دیگر لوگ بھی دفن ہیں۔ اس کی موت کے دس دن کے بعد علاقے کے لوگ ایک فتوی لے کر آ گئے کہ اس لڑکی کو قبرستان سے نکالا جائے کیونکہ ہمارے (مسلمانوں کے) مردوں کو عذاب ہوتا ہے۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ ’اس وقت ہمارے گھر کے گرد اتنے لوگ جمع تھے کہ لگ رہا تھا کہ آس پاس کے دیہات کے لوگ بھی اکٹھے ہو گئے ہیں۔ پولیس والے اپنی نگرانی میں میرے بھائیوں اور ابو کو قبرستان لے گئے۔ میری بہن کی قبر کے گرد جمع لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ پیچھے ہٹ جائیں کیونکہ اس لڑکی کا باپ اور بھائی آ گئے ہیں۔‘ فوزیہ کے مطابق اس واقعے کو گزرے کئی سال ہو گئے ہیں لیکن آج بھی اس واقعے سے ملنے والی تکلیف ان کے لیے کم نہیں ہوئی ہے۔ تاہم وہ آج بھی صرف ایک ہی شکوہ کرتی ہیں کہ ’ہمارے زندہ لوگ تو مشکل وقت گزار ہی رہے ہیں لیکن ہمارے مُردوں کو ان کی قبروں میں سکون سے کیوں نہیں رہنے دیا جاتا؟‘ پاکستان میں احمدی کمیونٹی کو اپنے بنیادی حقوق کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے، جن میں بچوں کے سکولوں میں داخلے ہوں یا پھر ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کا مسئلہ ہو۔ نہ صرف یہ بلکہ احمدیوں لیے بھی پاکستان میں اپنے مر جانے والے پیاروں کو دفنانا بھی ایک آزمائش بن گیا ہے۔ احمدی کمیونٹی کی جانب سے موصول ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 1984 سے لے کر اب تک تقریباً سو سے زائد میتوں کو قبرستانوں میں دفنانے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ 40 کے قریب ایسے واقعات پیش آئے جن میں میتوں کو دفنانے کے بعد قبر سے نکالا گیا۔ رفیق کہتے ہیں کہ ان کی تکلیف دہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی کیونک ساس کی وفات کے ڈیڑھ ماہ بعد ان کا ایک اور رشتہ دار فوت ہو گیا اور ان کی تدفین کے موقع پر ایک بار پھر وہی ہوا کہ علاقے کے قبرستان میں دفنانے نہیں دیا گیا۔ رفیق کہتے ہیں کہ ’میت وہاں لے کر جانا بھی انتہائی مشکل کام ہے۔ آنے جانے کا کرایہ اور تمام تر اخراجات اتنے زیادہ ہو جاتے ہیں کہ تقریبا ڈیڑھ سے دو لاکھ کا خرچہ آتا ہے۔ ہم تو پھر بھی یہ خرچہ برداشت کر لیتے ہیں لیکن ہمارے وہ بہن بھائی جو استطاعت نہیں رکھتے ان کے لیے تو اپنے پیاروں کو دفنانا بھی مشکل ہے۔‘ یاد رہے کہ حال ہی میں ضلع قصور کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ایک نوٹیفیکیشن جاری ہوا جس کے تحت ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو احمدیوں کی قبروں پر لگے ہوئے کتبوں کا جائزہ لے گی کہ کہیں ان پر کوئی ایسی چیز نہ لکھی گئی ہو جس کا تعلق اسلام سے ہو۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1dk5mre4kxo", "summary": "انڈیا کی پولیس نے منگل کی صبح مبینہ طور پر چین سے فنڈ حاصل کرنے کے الزام میں ’نیوز کلک‘ نامی خبر رساں پورٹل سے منسلک مختلف افراد کے گھروں میں چھاپے مارے ہیں۔", "title": "نیوز کلک: چین سے فنڈز لینے کے الزام میں انڈین صحافیوں کے گھروں پر چھاپے", "firstPublished": "2023-10-03T13:57:46.097Z", "id": "c1dk5mre4kxo", "article": "انڈیا کی پولیس نے منگل کی صبح مبینہ طور پر چین سے فنڈ حاصل کرنے کے الزام میں ’نیوز کلک‘ نامی خبر رساں پورٹل سے منسلک مختلف افراد کے گھروں میں چھاپے مارے ہیں۔ دلی اور ممبئی میں پولیس نے صبح چھ بجے کے قریب 35 مقامات پر چھاپے مارے جس کی اطلاعات اس پورٹل سے منسلک صحافیوں نے سوشل میڈیا پر دی۔ چند ہی منٹوں میں سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس میں مزید نام نظر آئے، جن میں ایک مورخ اور ایک ’سٹینڈ اپ کامیڈین‘ بھی شامل تھے۔ جن افراد کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، ان کے فون اور لیپ ٹاپ ضبط کیے گئے اور چند کو پولیس تھانے میں طلب کیا گیا۔ واضح رہے کہ رواں سال اگست میں امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے ایک امریکی کروڑ پتی نویل رائے سنگھم کے چین سے تعلقات پر تحقیقات شائع کیں جن میں یہ الزام لگایا تھا کہ وہ ’چینی پروپیگنڈا پھیلانے میں مدد کرتے ہیں۔‘ ان پر یہ بھی الزام تھا کہ انھوں نے نیوز کلک پورٹل کو بھی فنڈز بھی فراہم کیے تھے۔ تفتیشی ایجنسیوں کا مبینہ طور پر الزام تھا کہ نیوز پورٹل کو چین سے منسلک اداروں سے تقریباً 38 کروڑ روپے کی رقم ملی تاہم دلی ہائی کورٹ نے نیوز کلک کے پروموٹرز کو گرفتاری سے تحفظ دیا تھا اور یہ معاملہ فی الحال عدالت میں زیر سماعت ہے۔ نیوز کلک کے ایڈیٹر کو بھی دہلی پولیس کے سپیشل سیل کے دفتر لے جایا گیا ہے جبکہ جن دیگر افراد کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ان میں مورخ، سماجی کارکن اور فلم ساز سہیل ہاشمی بھی شامل ہیں جو دلی کی تاریخ پر ایک دہائی سے کام کر رہے ہیں۔ سہیل ہاشمی کی بہن اور سماجی کارکن شبنم ہاشمی نے اعلان کیا کہ پولیس صبح چھ بجے کے قریب ان کے بھائی کے گھر پہنچی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کے بھائی ان افراد میں سے ایک ہیں جن پر ’دلی پولیس کے سپیشل سیل نے آج صبح چھاپہ مارا۔‘ پریس کلب آف انڈیا نے پولیس کے ان چھاپوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم پیشرفت کی نگرانی کر رہے ہیں اور ایک تفصیلی بیان جاری کریں گے۔‘ ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی سالانہ درجہ بندی کے مطابق انڈیا عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں اب تک کی سب سے کم 150 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ گزشتہ سال یہ 140 ویں نمبر پر تھا تاہم انڈین حکومت نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اس کے طریقہ کار پر سوال کیا ہے۔ تاہم انڈیا میں چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کے مطالبے ہوئے تو چند ماہ بعد انڈیا نے قومی سلامتی کی بنا پر 200 سے زائد چینی ایپس پر پابندی لگا دی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51xrjzel50o", "summary": "’ہر وہ شخص جس کی بچہ دانی ہے عورت نہیں ہے، اور ہر عورت کی بچہ دانی نہیں ہوتی۔ عورتوں کو بچہ دانی تک محدود کر دینا صنفی امتیاز کے زمرے میں آتا ہے۔‘ ", "title": "’ہر وہ شخص جس کی بچہ دانی ہے عورت نہیں‘: عورت مارچ کا نیا موضوع متنازع کیوں بنا؟", "firstPublished": "2023-09-29T13:42:02.386Z", "id": "c51xrjzel50o", "article": "’ہر وہ شخص جس کی بچہ دانی ہے عورت نہیں ہے، اور ہر عورت کی بچہ دانی نہیں ہوتی۔ عورتوں کو بچہ دانی تک محدود کر دینا صنفی امتیاز کے زمرے میں آتا ہے۔‘ ایک اور صارف ثمینہ نے ایکس پر لکھا کہ ’یہ اتنی دل سوز بات ہے کہ وہ لوگ جو معاشرے کے پِسے ہوئے طبقے، جن میں خواتین بھی شامل ہیں، کے لیے کچھ کر سکتے ہیں، وہ کسی اور بات پر دھیان دیے بیٹھے ہیں۔ جس خاص آئیڈیا کی بات عورت مارچ کر رہا ہے اس کو مغربی ممالک میں بھی حمایت حاصل نہیں ہے۔‘ عورت مارچ نے اس پوری بحث پر ایکس پر ہی ایک اور پوسٹ لکھی اور اس میں بتایا کہ ’بچہ دانی رکھنے والے افراد لکھ کر ہم اس بنیادی پدرشاہی سوچ کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں جس کے تحت عورت کو صرف بچہ پیدا کرنے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’لوگ اس بات پر غصہ ہو رہے ہیں کہ عورت مارچ نے لکھا ہے کہ جینڈر معاشرے کی جانب سے بنایا گیا ہوا نظام ہے۔ جس کے تحت مخصوص حرکات اور سکنات عورت اور مرد سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ اس بات میں کچھ غلط نہیں ہے۔ ہمارے ایسا کہنے میں ہم ان تمام افراد کو اس بحث میں شامل کرنا چاہتے ہیں جو خود کو عورت، مرد، ٹرانسجینڈر سمجھتے ہیں۔ اس میں کنفیوژن کیا ہے؟‘ انھوں نے مہم کا پیغام سمجھاتے ہوئے کہا کہ ’پیپل وِد یوٹرس (یا وہ لوگ جن کی بچہ دانی ہے) ان تمام لوگوں کو اس کیمپین میں شامل کرتا ہے جو اپنے تولیدی حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اس میں ہم کسی طرح کا امتیاز نہیں کر سکتے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’آپ کو پہلے سمجھنا ہو گا کہ کیا پاکستان میں عورت اور مرد کے علاوہ دیگر صنف کو قبول بھی کیا جاتا ہے یا نہیں؟ اور اگر نہیں کیا جاتا تو اس صنف کو ماہواری کی بحث میں شامل کرنا کیا صحیح ہے؟ آپ کہیں گے کہ مغرب میں یہ بحث ہوتی ہے۔ وہ ایک آزاد اور خود مختار معاشرہ ہے لیکن وہاں ہر طرح کی جنس کو قبول کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں ہے۔‘ سمیعہ نے کہا کہ ’ایسے الفاظ کا چناؤ کہ ’بچہ دانی رکھنے والے افراد‘ ایسے الفاظ ہیں جو یہاں پر ابھی نہیں سمجھے جائیں گے کیونکہ بائیولوجی کے تحت بچہ دانی عورتوں کی ہوتی ہے۔ایک ایسے معاشرے میں ابہام پیدا کرنا جہاں بنیادی تعلیم بھی بمشکل ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، غلط ہے اور اس پر تنقید ہونی چاہیے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg1r55mvxeo", "summary": "عمران ریاض کے وکیل میاں اشفاق نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے مؤکل صدمے کا شکار ہیں، ان کی جسمانی اور ذہنی حالت اچھی نہیں ہے اور وہ صحیح طریقے سے بات بھی نہیں کر پا رہے ہیں۔", "title": "عمران ریاض کی واپسی: ’صحتیابی میں 3، 4 ماہ لگ سکتے ہیں، قانونی کارروائی کا فیصلہ اس کے بعد ہو گا‘", "firstPublished": "2023-09-25T02:58:38.959Z", "id": "crg1r55mvxeo", "article": "عمران ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق نے ان کی بازیابی کی تصدیق کی ہے تاہم یہ معمہ اب تک حل نہیں ہو سکا کہ اتنا عرصہ عمران ریاض نے کہاں اور کن حالات میں گزارا۔ پولیس کی جانب سے بھی ابھی تک زیادہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ دوسری جانب عمران ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی عمران ریاض کی بازیابی کے بعد اُن سے ان کی رہائش گاہ پر تین گھنٹے طویل ملاقات ہوئی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ عمران ریاض کی جسمانی اور ذہنی حالت بہت زیادہ اچھی نہیں ہے۔ ’وہ صدمے کا شکار ہیں اور گذشتہ چار ماہ میں ان کا وزن بھی کافی کم ہوا ہے۔ وہ اس وقت صحیح طرح سے بول بھی نہیں پا رہے ہیں، یہاں تک کہ انھیں بات سمجھانے اور جملہ مکمل کرنے میں بھی دقت کا سامنا ہے۔‘ ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ عمران ریاض کے علاج اور ان کی ذہنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے وہ ضروری میڈیکل ٹیسٹ کروائیں گے اور ڈاکٹرز سے رجوع کریں گے۔ وہ کیا حالات تھے جن کے تحت عمران ریاض خان گرفتار ہوئے اور پولیس کے بیان کے مطابق ان کی رہائی بھی عمل میں آئی مگر جیل سے قدم نکالتے ہی وہ لاپتہ کیسے ہوئے۔ بی بی سی نے عمران ریاض کے اہلخانہ اور ساتھیوں سے بات کر کے یہ سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ جہاں پولیس کے اعلیٰ افسران عمران ریاض کا کوئی بھی سراغ نہ ملنے کا دعویٰ کرتے رہے وہیں ان کے وکیل میاں علی اشفاق ایڈوکیٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے چھ جون کو یہ دعویٰ کیا تھا کہ عمران ریاض پولیس کے ذیلی ادارے کی تحویل میں ہیں اور انھیں امید ہے کہ جلد ہی عمران ریاض کو رہا کر دیا جائے گا۔ میاں علی اشفاق کے مطابق ’ہم سے ٹھوس اور دو ٹوک بات تو نہیں کی جاتی مگر آف دی ریکارڈ یہ بات ہمارے سامنے آ رہی ہے کہ عمران ریاض جلد بازیاب ہوجائیں گے۔‘ صحافی مظہر عباس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’عمران ریاض خان تقریباً 140 دن بعد گھر واپس پہنچ گئے ہیں۔ میں ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں اور پوری طرح سمجھتا ہوں کہ وہ اور ان کے اہلخانہ کس قسم کے صدمے سے گزرے ہوں گے۔ ایک صحافی کا لاپتہ یا قتل ہونا دوسرے صحافیوں کے لیے پیغام ہے۔‘ صحافی مہر تارڑ نے لکھا کہ ’گذشتہ چار ماہ کے دوران وہ کس اذیت سے گزرے ہیں یہ وہ، ان کے اغوا کار اور تشدد کرنے والے ہی جانتے ہیں۔ صرف وقت، ان کے اہلخانہ کی محبت اور ان کے چاہنے والوں کی دعائیں ہی ان کا زخم بھریں گی۔ اللہ عمران ریاض خان کو حفاظت میں رکھے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv21xzerz45o", "summary": "گذشتہ ہفتے انڈیا میں ہونے والی جی 20 کانفرنس کے دوران پر نریندر مودی اور جسٹن ٹروڈو کے درمیان مبینہ طور پر گرما گرم بات چیت ہوئی جس کے بعد کینیڈا نے انڈیا کے ساتھ باہمی تجارتی معاہدے پر پہلے سے جاری بات چیت کا عمل معطل کر دیا ہے۔ کیا سکھ علیحدگی پسند تحریک ’خالصتان‘ کی وجہ سے انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں؟", "title": "خالصتانی رہنماؤں کے پراسرار قتل، تجارتی معاہدے پر ’جھٹکا‘: کینیڈا اور انڈیا کے تعلقات میں کشیدگی عروج پر کیوں پہنچ رہی ہے؟", "firstPublished": "2023-09-18T02:34:44.582Z", "id": "cv21xzerz45o", "article": "گذشتہ ہفتے جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے انڈیا آنے والے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اپنے نجی طیارے کی خرابی کے باعث اس اجلاس کے ختم ہونے کے بعد دو دن تک انڈیا میں ہی پھنسے رہے تھے۔ تاہم اُن کے کینیڈا پہنچنے کے فوراً بعد یہ خبر آئی کہ کینیڈا نے انڈیا کے ساتھ تجارتی معاہدے پر پہلے سے جاری بات چیت کا عمل معطل کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ جی 20 کانفرنس کے دوران انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے درمیان مبینہ طور پر گرما گرم بات چیت ہوئی۔ نریندر مودی کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کی بڑھتی مقبولیت اور انڈین سفارتکاروں کے خلاف ’تشدد کو ہوا دینے‘ جیسے واقعات پر ناراض تھے۔ جبکہ جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ ان معاملات کو ہوا دے کر انڈیا ’کینیڈا کی ملکی سیاست میں مداخلت‘ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ درحقیقت سکھ علیحدگی پسند تحریک کی وجہ سے ہی انڈیا اور کینیڈا کے مابین تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے کینیڈا میں خالصتان کی حامی تنظیموں کی سرگرمیوں کی وجہ سے کینیڈا اور انڈیا کے تعلقات میں تناؤ ہے۔ اس بار بھی جس دن جی 20 کانفرنس کے دوران نئی دہلی میں ٹروڈو اور مودی کی مختصر ملاقات ہوئی، سکھ علیحدگی پسندوں نے کینیڈا کے شہر وینکوور میں انڈین پنجاب کو انڈیا سے الگ کروانے کے لیے ریفرنڈم کروایا۔ انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں تلخی اس وقت مزید بڑھ گئی جب جی 20 کانفرنس کے دوران انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے سکھ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں پر کُھل کر ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد ٹروڈو سے بات چیت کے دوران نریندر مودی کی جانب سے کینیڈا میں خالصتان کے حامی عناصر اور تنظیموں کی سرگرمیوں کا معاملہ اٹھایا گیا۔ بی بی سی نے انڈین تھنک ٹینک ’آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن‘ کے نائب صدر اور بین الاقوامی امور کے ماہر ہرش وی پنت سے پوچھا کہ کیا کینیڈا کی طرف سے دو طرفہ آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت کو روکنا انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں ایک نیا بگاڑ ہے یا صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے؟ انھوں نے کہا کہ ’انڈیا خالصتان کے معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہا تھا اور کاروبار پر بھی بات چیت ہوئی تھی۔ لیکن ٹروڈو کے نئے موقف سے ایسا لگتا ہے کہ وہ خود کو بیک فٹ پر پا رہے ہیں۔ اس لیے وہ انڈیا کے ساتھ کشیدگی پر بھی آواز اٹھا چکے ہیں۔‘ کینیڈا اور انڈیا کے تعلقات میں تلخی کے درمیان، کینیڈا کی حکومت کی طرف سے تجارتی معاہدے پر بات چیت بھی کھٹائی میں پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ تقریباً ایک دہائی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت میں پیش رفت ہوئی تھی ۔ اس معاہدے کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے چھ دور ہو چکے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c907qplzkw9o", "summary": "تک آرنی اور ان کی تنظیم، ’دی فریڈم فنڈ‘، تقریبا آٹھ لاکھ یورو ادا کر چکے ہیں اور 850 افراد کو رہائی دلوا چکے ہیں۔", "title": "آٹھ لاکھ یورو میں 850 قیدی: وہ صحافی جو پیسے دیکر جیلوں سے قیدی چھڑواتے ہیں", "firstPublished": "2023-09-28T13:17:43.612Z", "id": "c907qplzkw9o", "article": "2021 کا دن تھا۔ آرنی سیمسروٹ اپنی جیب میں 20 ہزار یورو، 60 لاکھ پاکستانی روپے سے زیادہ، کی رقم بھر کر گھر سے نکلے۔ اس میں سے کچھ پیسہ ان کا اپنا تھا اور کچھ انھوں نے ادھار لیا تھا۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ اس لمحے میں وہ ’گھبراہٹ کا شکار تھے۔‘ اگر کسی پر بھی سزا کے طور پر جرمانہ عائد کیا جاتا تو یہ ضروری نہیں تھا کہ یہ جرمانہ وہ شخص خود ادا کرے۔ اس کمزوری کی مدد سے انھوں نے ایک ایسے قانون کی جانب توجہ مبذول کروانے کی ٹھانی جو ان کے نزدیک سراسر ناانصافی کے مترادف تھا اور جس کی مدد سے جج کسی بھی ایسے شخص کو جیل بھجوا سکتے تھے جو پبلک ٹرانسپورٹ پر بنا ٹکٹ خریدے سوار ہوا ہو۔ اس کے بعد سے اب تک آرنی اور ان کی تنظیم، ’دی فریڈم فنڈ‘، تقریبا آٹھ لاکھ یورو کے جرمانے ادا کر چکے ہیں اور 850 افراد کو رہائی دلوا چکے ہیں۔ اندازوں کے مطابق جرمنی کی جیلوں میں سات ہزار کے قریب ایسے افراد قید ہیں جنھوں نے ٹرین، بس یا ٹریم کے ٹکٹ کے پیسے ادا نہیں کیے۔ ان میں سے زیادہ تر کو جرمانہ ادا کرنے کی سزا ہوئی لیکن ان کے پاس یہ جرمانہ دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ وہ 50 سالہ کمزور سی خاتون ہیں جو کئی برسوں تک گلیوں میں ففٹی ففٹی نامی ایک میگزین بیچ کر گزارا کرتی رہیں۔ گزشتہ نومبر میں انھیں جیل بھیج دیا گیا جہاں انھوں نے چار ماہ بتائے۔ ان کو دو بار ڈزلڈروف میں بنا ٹکٹ پکڑا گیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’میں میتھاڈون لے رہی تھی۔ یہ دوائی اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب آپ ہیروئن چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور آپ کو روزانہ کلینک جانا پڑتا ہے۔‘ گیسا کی سزا تین سال تک معطل رہی لیکن وہ عدالتی شرائط پوری نہیں کر سکیں اور آخرکار ان کو جیل بھجوا دیا گیا۔ واضح رہے کہ ہر وہ شخص جو بنا ٹکٹ لیے سفر کرتا ہے جیل نہیں جاتا۔ ان کو 60 یورو کا جرمانہ ہوتا ہے اور معاملہ ختم کر دیا جاتا ہے۔ آرنی گیسا کی مدد نہیں کر پائے کیوں کہ ان کو جرمانے کی سزا نہیں ہوئی تھی۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ گیسا جیسے لوگوں کو جیل نہیں بھیجنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ جیلوں کے بہت سے گورنر بھی یہ سوچ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت سی جیلوں میں اب خود جیل والے سزایافتہ افراد کو ان کے فنڈ کا فارم تھما دیتے ہیں۔ آرنی کا ماننا ہے کہ 850 افراد کو رہا کروانے سے ان کی تنظیم نے ریاست کے 12 ملین یورو بچائے ہیں جو ان فرد کو جیل میں رکھنے کی قیمت ہوتی۔ ان کے ترجمان کے مطابق ٹکٹ نہ لینے والوں کی وجہ سے انڈسٹری کو سالانہ 300 ملین یورو کا خسارہ ہوتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw4d0epx0nvo", "summary": "اس انعام کا اعلان کرتے ہوئے ناروے کی نویبل کمیٹی کا کہنا تھا کہ 51 سالہ نرگس محمدی کو ان کی جانب سے ایران میں خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف جدوجہد کرنے پر یہ اعزاز دیا گیا ہے۔\n", "title": "ایران میں 31 سال قید اور 154 کوڑوں کی سزا پانے والی نرگس محمدی کے لیے امن کا نوبیل انعام ", "firstPublished": "2023-10-06T15:11:34.960Z", "id": "cw4d0epx0nvo", "article": "ایران میں قید انسانی حقوق کی کارکن نرگس محمدی نے سنہ 2023 کا امن کا نوبیل انعام جیت لیا ہے۔ اس انعام کا اعلان کرتے ہوئے ناروے کی نویبل کمیٹی کا کہنا تھا کہ 51 سالہ نرگس محمدی کو ان کی جانب سے ایران میں خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف جدوجہد کرنے پر یہ اعزاز دیا گیا ہے۔ کمیٹی کی چیئرپرسن بیرٹ ریس اینڈرسن کا کہنا تھا کہ انھیں اس جدوجہد کے باعث ’بھاری قیمت‘ چکانی پڑی۔ انھوں نے کہا کہ نرگس محمدی اس وقت ایران میں 31 برس قید کی سزا کاٹ رہی ہیں اور انھیں 154 کوڑوں کی سزا بھی دی گئی ہے۔ اوسلو میں جمعے کو ہونے والی تقریب میں ریس اینڈرسن کا کہنا تھا کہ یہ ایوارڈ نرگس محمدی کو ’ان کی جانب سے ایران کی خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف جدوجہد کرنے اور انسانی حقوق اور آزادی کو ترویج کرنے پر‘ انھیں یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ انعام ہزاروں ایرانیوں کی جدوجہد کے اعتراف میں دیا گیا ہے جو گذشتہ ایک سال سے ’ایرانی حکومت کی خواتین کو نشانہ بنانے اور ان کے خلاف امتیاز برتنے والی پالیسوں‘ کے خلاف کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ اس تحریک کی سربراہی بھی نرگس محمدی کر رہی تھیں۔ تقریب میں ریس اینڈرسن کا یہ بھی کہنا تھا ایران کو نرگس محمدی کو فوری طور پر جیل سے رہا کرنا چاہیے تاکہ وہ دسمبر میں ہونے والی تقریب میں آ کر اپنا ایوارڈ حاصل کر سکیں۔ ایرانی نژاد برطانوی سماجی کارکن نازنین زاغری ریٹکلف نے تہران کی ایون جیل نرگس محمدی کے ساتھ گزاری تھی، تاہم وہ مارچ 2022 میں رہا کر دی گئی تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی دوست کو انعام ملنے پر خوش ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’مجھے رونا بھی آ رہا ہے۔ انھوں نے ہم سب کے لیے ایون جیل میں بہت کچھ کیا۔ نرگس ایون جیل کے خواتین وارڈ کی خواتین کے لیے ایک ستون اور مثال ہیں کیونکہ انھوں نے خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بلا خوف و خطر جدوجہد کی ہے۔ گذشتہ دسمبر انھوں نے جیل سے بی بی سی کو ایون جیل کے حوالے سے انتہائی خوفناک تفصیلات بتائی تھیں جن سے ایرانی خواتین کو گزرنا پڑتا ہے۔ ان میں جنسی اور جسمانی طور پر ہراساں کیا جانا بھی شامل ہے۔ اس دوران ایرانی خواتین کی جانب سے احتجاجاً اپنے ہیڈ سکارف جلائے گئے تھے اور یہ تصاویر دنیا بھر میں مقبول ہوئی تھیں۔ ایرانی حکام کی جانب سے ان مظاہروں پر بھرپور کریک ڈاؤن کیا گیا تھا اور اب یہ تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ نرگس محمدی ڈیفینڈرز آف ہیومن رائٹس سینٹر نامی تنظیم کی نائب سربراہ بھی ہیں۔ گذشتہ برس انھیں بی بی سی کی 100 سب سے زیادہ بااثر خواتین کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cz7xnrplngko", "summary": "پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کو رضا کارانہ طور پر یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کی مہلت کے سرکاری اعلان کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حکومت پاکستان سے اس پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی درخواست کی ہے۔", "title": "افغان مہاجرین سے سلوک ناقابل قبول، پاکستان پالیسی پر نظر ثانی کرے: ذبیح اللہ مجاہد", "firstPublished": "2023-10-01T03:43:31.169Z", "id": "cz7xnrplngko", "article": "پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کو رضا کارانہ طور پر یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کی مہلت کے سرکاری اعلان کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حکومت پاکستان سے اس پالیسی پر نظرثانی کی درخواست کی ہے۔ یاد رہے کہ منگل کو نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کو رضا کارانہ طور پر یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کی مہلت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر دیے گئے وقت میں ایسے افراد واپس نہیں جاتے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے انھیں ڈی پورٹ کریں گے۔ بدھ کو افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان کی جانب سے اس اعلان پر ردعمل میں پاکستان میں افغان مہاجرین کے ساتھ سلوک کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’پاکستان کے سکیورٹی مسائل میں افغان مہاجرین کا کوئی ہاتھ نہیں۔‘ ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے یہ بیان سامنے آنے سے ایک روز قبل، منگل کے دن، اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور اس سے متصل شہر راولپنڈی میں مبینہ طور پر چار افغان شہریوں کی پراسرار حالات میں ہلاکت ہوئی ہے جنھیں پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ منگل کو وزارت داخلہ میں وزیراعظم کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی اجلاس کے بعد ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا تھا کہ پاکستان میں ’غیرقانونی طور پر رہائش پذیر غیرملکی افراد کو ہم نے یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی ہے۔‘ پولیس کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ افراد تو وہ ہیں جن کی پاکستان میں قیام کے لیے درکار قانونی دستاویزات نامکمل تھیں اور وہ بہت عرصے سے ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم تھے تاہم بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد ویزا حاصل کر کے پاکستان پہنچے تھے مگر بعدازاں وہ ویزا کی تجدید نہیں کروا سکے تھے۔ وفاقی دارالحکومت کی پولیس نے جب غیرقانونی طور پر رہنے والے غیر ملکیوں کے خلاف مہم شروع کی تو اس حوالے سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے احکامات کی روشنی میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو ان کے سفارتخانوں کے تعاون سے ان کے ملک واپس بھیجا جائے گا۔ افغانستان میں پاکستان کے سابق قونصل جنرل ایاز وزیر کا کہنا تھا کہ جس طرح پاکستان میں بسنے والے افغان باشندوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار کارروائیاں کرر ہے ہیں اس سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب حکومت نے ان کو اپنے ملک واپس بھیجنے کا پلان بنا لیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd14281503ro", "summary": "کچھ برس پہلے تک بنگلہ دیش کو ایک ’معاشی معجزہ‘ قرار دیا جاتا تھا، تاہم آج ہونے والے انتخابات میں ماہرین کے مطابق شیخ حسینہ کی سربراہی میں حکومت کرنے والی جماعت عوامی لیگ اپنی آمرانہ گرفت مضبوط کرنے کے لیے تیار ہے۔", "title": "بنگلہ دیش میں الیکشن: ’معاشی معجزہ‘ قرار دیے جانے والا ملک رفتہ رفتہ ’آمریت‘ کی جانب کیسے بڑھ رہا ہے؟", "firstPublished": "2024-01-07T09:52:48.466Z", "id": "cd14281503ro", "article": "لیکن اتوار کو ہونے والے انتخابات سے یہاں کے پہلے سے ہی ناامید ووٹرز کو زیادہ امیدیں نہیں ہیں۔ ماہرین کے مطابق شیخ حسینہ کی سربراہی میں حکومت کرنے والی جماعت عوامی لیگ آج ہونے والے انتخابات کے ساتھ اپنی آمرانہ گرفت مضبوط کرنے کے لیے تیار ہے۔ جبکہ مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ اس سے پہلے شیخ حسینہ کی حکومت نے اپنے کئی ہزار سیاسی حریفوں اور حامیوں کو گرفتار کیا تھا۔ اس عمل کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اسے انتخابات سے پہلے اپوزیشن کو مفلوج کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔ کئی ووٹروں کے نظر میں عوامی لیگ نے الیکشن جیت لیا ہے اور اس وقت کوئی قابل اعتماد اپوزیشن امیدوار نہیں ہے۔ بہت سارے لوگوں کو خطرہ ہے کہ شیخ حسینہ کی تسلسل سے چوتھی حکومت معاشی حالات کو مزید خراب کر سکتی ہے۔ 57 سال کے غیاس کہتے ہیں کہ ان کی معاشی صورتحال اتنی مشکل ہے کہ ان کے گھر میں صرف دو وقت کھانا کھایا جاتا ہے۔ وہ اب مچھلی اور گوشت نہیں خریدتے کیونکہ وہ اب بہت مہنگی ہو گئی ہیں اور ’مسلسل دوسروں کا بچا ہوا کھانا جمع کرتے ہیں اور اس کو ملا کر کچھ پکا کر اپنے نو بچوں کا پیٹ بھرتے ہیں۔‘ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ بنگہ دیش کا آمریت کی طرف جانا اس کے لیے سب سے بڑے خطروں میں سے ایک ہے جبکہ کچھ سالوں پہلے تک خبروں میں بنگلہ دیش کو ایک ’معاشی معجزہ‘ قرار دیا جاتا تھا۔ ڈھاکہ میں سینٹر فار پالیسی ڈائیلاگ تھنک ٹینک کے ماہر اقتصادیات دیباپریہ بھٹاچاریہ کا کہنا ہے کہ معیشت میں اعتماد کی بحالی اگلی حکومت کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔ کام کرنے کے خراب ماحول کے باوجود اس کی ملبوسات کی صنعت نے لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکالنے میں مدد کی ہے اور اب یہ ملک کی برآمدات کا تقریباً 80 فیصد حصہ ہے۔ بنگلہ دیش، چین کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا گارمنٹ پروڈیوسر بن گیا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ایک بار پیش گوئی کی تھی کہ بنگلہ دیش کی مجموعی گھریلو پیداوار سنگاپور اور ہانگ کانگ جیسی ترقی یافتہ معیشتوں سے آگے نکل سکتی ہے تاہم اسی آئی ایم ایف نے 2023 میں بنگلہ دیش کی اب ایک متزلزل معیشت کو سہارا دینے کے لیے 4.7 ارب ڈالر کے قرض کی منظوری دی ہے۔ لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بنگلہ دیش کے مسائل اتنی آسانی سے حل نہیں ہو سکتے۔ جبکہ بیرونی عوامل نے مسائل میں کردار ادا کیا لیکن بہت سے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ پالیسی ساز ان پر توجہ دینے یا ضروری اصلاحات کو نافذ کرنے میں ناکام رہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بنگلہ دیش کو دنیا کے 180 ممالک میں سے کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں 12 ویں نمبر پر رکھا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c972vgv4x02o", "summary": "سردیوں کے دوران بجلی کی کھپت میں کمی کے باوجود لوڈ شیڈنگ کے بارے میں شعبۂ توانائی کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ دھند ہے مگر دھند کیسے بجلی کی ترسیل کے نظام کو متاثر کرتی ہے۔ \n", "title": "پاکستان میں سردیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ دھند یا کچھ اور؟", "firstPublished": "2024-01-05T02:29:34.969Z", "id": "c972vgv4x02o", "article": "سردیوں کے دوران بجلی کی کھپت میں کمی کے باوجود لوڈ شیڈنگ کے بارے میں شعبۂ توانائی کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ دھند ہے۔ وزارت توانائی سے ملک میں بجلی کے حالیہ بحران کے بارے میں پوچھا گیا تو ترجمان نے بتایا کہ ملک میں حالیہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ ملتان ریجن اور دیگر ڈسکوز کے گرڈ سٹیشن ٹرپ ہونا ہے۔ اسی دوران ہائیڈل جنریشن میں کمی آئی جس سے نظام میں عدم توازن پیدا ہوا۔ توانائی امور کے ماہر راؤ عامر نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس وقت ملک میں بجلی بحران کی ایک وجہ دھند ہے اور اس کے ساتھ ہائیڈل پاور کی پیداوار بھی کم ہے۔ پاکستان میں اس وقت سردی کے موسم میں ملک کے بیشتر حصوں میں دھند چھائی ہوئی ہے۔ پنجاب اور بالائی سندھ کے میدانی علاقے اس وقت شدید دھند کی لپیٹ میں ہیں جو نہ صرف ملک میں ٹریفک کے نظام میں خلل ڈال رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے بجلی کا نظام بھی متاثر ہوا ہے۔ مگر دھند کیسے بجلی کی ترسیل کے نظام کو متاثر کرتی ہے، اس کے بارے میں شعبہ توانائی کے ماہر اور پلاننگ کمیشن کے سابق رکن توانائی سید اختر علی نے بتایا کہ دھند میں نمی ہوتی ہے اور جب دھند بہت زیادہ شدید ہو جاتی ہے تو اس نمی کا تناسب بھی بڑھ جاتا ہے۔ نیشنل گرڈ کے کسی ایک حصے میں بجلی کے نظام میں خرابی سے اس کا اثر پورے سسٹم میں جاتا ہے جو لوڈ شیڈنگ کا باعث بنتا ہے۔ انھوں نے کہا پاکستان میں ایک تو ویسے بھی بجلی کی تقسیم کا نظام بوسیدہ ہے اور پھر دھند اس کی فعالیت کو مزید متاثر کرتی ہے۔ وزارت توانائی کے مطابق پاور ڈویژن بجلی کے شارٹ فال کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے لیے 800 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے اور ایل این جی کی کمی سے نمٹنے کے لیے فرنس آئل کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ’لوڈشیڈنگ سسٹم کی رکاوٹوں کی وجہ سے ہوئی اور سسٹم کو سنبھالنے کی کوششیں جاری ہیں۔‘ کراچی میں بجلی فراہمی کے ادارے کے الیکٹرک کے ترجمان نے ملک کے سب سے بڑے شہر میں بجلی کی فراہمی کے بارے میں کہا شہر میں اس وقت بجلی کی فراہمی مستحکم ہے۔ 71 فیصد فیڈرز پر زیرو لوڈ شیڈنگ ہے اور 29 فیصد پر لوڈ شیدنگ کی وجہ بجلی کی چوری ہے۔ تاہم وزارت توانائی کے مطابق ملک میں نہروں کی بندش کی وجہ سے اس پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں درآمدی گیس سے بھی بجلی پیدا کی جاتی ہے جس کی کم دستیابی سے شارٹ فال پیدا ہوا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cq51g548jl2o", "summary": " کئی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا میں اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ امیری اور غریبی کی خلیچ وسیع ہوتی جا رہی ہے اور دولت کی تقسیم ایک مراعات یافتہ طبقے تک محدود ہو رہی ہے۔ اس سال اپریل میں بین الاقوامی ادارے آکسفیم نے انڈیا میں نابراری پر ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ملک کے پانچ فیصد لوگوں کا پورے ملک کی 60 فیصد دولت پر قبضہ ہے۔", "title": "انڈیا کی تیز رفتار ترقی میں ’بھیانک غربت‘: ’گٹر کی صفائی کرتے وقت مرنے والا ہمیشہ دلت ہی کیوں ہوتا ہے؟‘", "firstPublished": "2023-12-30T03:01:06.155Z", "id": "cq51g548jl2o", "article": "اس کا آئندہ ہدف دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننا ہے۔ گذشتہ جولائی میں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا نے 2006 سے 2021 تک 15 برس کی مدت میں 41 کروڑ افراد کو غربت کی لکیر سے اوپر لانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن ان اعداد و شمار کے درمیان تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ کئی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا میں اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ امیری اور غریبی کی خلیچ وسیع ہوتی جا رہی ہے اور دولت کی تقسیم ایک مراعات یافتہ طبقے تک محدود ہو رہی ہے۔ اس سال اپریل میں بین الاقوامی ادارے آکسفیم نے انڈیا میں نابراری پر ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ملک کے پانچ فیصد لوگوں کا پورے ملک کی 60 فیصد دولت پر قبضہ ہے۔ اس میں مزید کہا گیا تھا کہ 2012 سے 2021 تک دس برس کی مدت میں جو دولت بنائی گئی اس کا 40 فیصد حصہ آبادی کے صرف ایک فیصد افراد کے حصے میں گیا۔ انڈیا میں دلتوں اور پسماندہ طبقوں کو اقتصادی طور پر اوپر لانے کے لیے تعلیم اور ملازمتوں میں کوٹہ دیا گیا ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بہار میں گذشتہ تیس برس سے ایسی سیاسی جماعتوں کی حکومت رہی ہے جو پسماندہ اور نچلی ذاتون کو تعلیم، ملازمت اور معاشی طور پر اوپر لانے کے لیے کام کر رہی تھیں لیکن سروے سے پتہ چلتا ہے کہ تمام کوششوں کے باوجود پسماندہ اور نچلی ذاتوں کے لوگ غربت سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی صورتحال ملک کی کئی دوسری ریاستوں میں بھی ہے۔ رزرویشن (کوٹہ نظام) کے باوجود پسماندہ طبقوں کی وہ ترقی نہیں ہو سکی جس کی توقع کی گئی تھی۔ معروف دانشور اور سیاسی کارکن یوگیندر یادو کہتے ہیں کہ ’تعلیم میں اصلاح کی ضرورت ہے، زمین کی ملکیت مین اصلاح کی ضرورت ہے۔ اگر رزرویشن نہ ہوتا تو دلت اور پسمندہ طبقوں کا جو تھوڑا بہت ٹکڑا دکھائی دیتا ہے وہ بھی نہیں ہوتا۔ رزرویشن ایک دوا کی شکل میں ضروری ہے لیکن یہ اپنے آپ میں ناکافی ہے۔‘ اس کے تحت ملک کے 80 کروڑ لوگوں کومفت اناج دیا جا رہا ہے۔ یوگیندر یادو کہتے ہیں کہ یہ اس لیے ہے کیونکہ ملک میں غربت اور بے روزگاری بڑھی ہے۔ ’حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں گاؤں کی تین چوتھائی اور شہروں کی آدھی آبادی کے لیے پانچ کلو مفت اناج ملنا بھی بہت بڑی بات ہے۔ ’اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔ اگر فرق نہ پڑتا تو یہ پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت اور دنیا کی تیسری معیشت بنانے کا دعویٰ کرنے والے لوگ اس سکیم کو پانچ سال کے لیے بڑھانے پر مجبور نہیں ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں غریبی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd14kz1g8v1o", "summary": "دنیا کے سب سے امیر خاندانوں میں اس سال سرفہرست آنے والے ابوظہبی کے شاہی خاندان آل نیہان کی مجموعی دولت کی مالیت 305 ارب ڈالرز ہے اور اس نے امریکی سٹور چین وال مارٹ کے مالک والٹن خاندان کو 45 ارب ڈالرز کے فرق سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ", "title": "آل نہیان: دنیا کے سب سے امیر اور ابوظہبی کے حکمران خاندان نے اپنی اور خطے کی قسمت کیسے بدلی؟", "firstPublished": "2023-12-29T06:31:52.101Z", "id": "cd14kz1g8v1o", "article": "دنیا کے 25 سب سے امیر خاندانوں میں ابوظہبی کا النہیان خاندان امریکہ کے والٹن خاندان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے امیر خاندان بن گیا ہے بلومبرگ کے مطابق سنہ 2023 کے دوران دنیا کے چند امیر خاندانوں کی دولت میں مجموعی طور پر مزید 1.5 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ دنیا کے سب سے امیر خاندانوں کی لسٹ میں اس سال سرفہرست آنے والے ابوظہبی کے شاہی خاندان آل نیہان کی مجموعی دولت کی مالیت 305 ارب ڈالرز ہے اور اس نے امریکی سٹور چین وال مارٹ کے مالک والٹن خاندان کو 45 ارب ڈالرز کے فرق سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ گذشتہ پانچ برس میں پہلی بار کوئی وال مارٹ کے مالک والٹن خاندان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کے امیر ترین خاندانوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر آیا ہے۔ آل نیہان نہ صرف متحدہ عرب امارات کی تیل کی دولت سے مالا مال ریاست ابوظہبی کا انتظام سنبھالتا ہے بلکہ یہ دنیا کے مقبول ترین فٹبال کلب مانچسٹر سٹی کا مالک بھی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بلومبرگ کی اس فہرست میں شامل خلیجی خاندانوں کے پاس اصل دولت تخمینوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سے پہلے ملک کی بیشتر آبادی کے پاس بنیادی سہولیات کی کمی تھی مگر تیل کی دریافت کے فوراً بعد ابوظہبی کے اس وقت کے شاہ شیخ زید بن سلطان النہیان نے ملک کی تقدیر بدلی اور خطے کی تمام امارات کو یکجا کر کے متحدہ عرب امارات کے نام سے ایک ملک بنایا۔ آج ابو ظہبی کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ امیر شہروں اور دارالحکومتوں میں ہوتا ہے کچھ عرصہ قبل بی بی سی ساؤنڈ سے بات کرتے ہوئے ابوظہبی سے تعلق رکھنے والے ایک مصنف محمد الفہیم نے بتایا تھا کہ یہ ابوظہبی کے حکمران زید بن سلطان ہی تھے جنھوں نے نہ صرف اپنے خاندان بلکہ اس خطے کی قسمت کو بدل کر رکھ دیا۔ سنہ 1960 کی دہائی کے آخر تک برطانیہ نے جزیرہ نما عرب ممالک میں اپنی کالونیوں سے نکلنا شروع کر دیا تھا۔ ایک صدی قبل انگریز وہاں اس وقت آئے جب کچھ جنگجو قبائلی وہاں سے گزرنے والے مال بردار جہازوں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔ ابوظہبی کے اس وقت کے امیر زید بن سلطان النہیان ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ تیل کی دریافت ہو چکی تھی، اور بڑے پیمانے پر معیشت میں سرمایہ کاری کی گئی اور عوامی پیسے کو بڑھانے کا عمل شروع ہوا۔ واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات سات آزاد ریاستوں پر مشتمل ہے جن میں ابوظہبی، دوبئی، شارجہ، ام القوین، فجیرہ، عجمان اور راس الخیمہ شامل ہیں۔ ابوظہبی متحدہ عرب امارات ک سب سے بڑی امارت (ریاست) ہے جو کہ قومی سرزمین کے 84 فیصد علاقے پر مشتمل ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/pakistan-67838706", "summary": "پاکستان کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے مبینہ جبری گمشدگیوں کے خلاف اسلام آباد میں آئے احتجاجیوں کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرا ان لواحقین سے جھگڑا نہیں ہے میرا پورا پاکستان سے گلہ ہے جنھیں بات ہی ابھی تک سمجھ نہیں آئی ہے۔", "title": "ہماری لڑائی بلوچ لواحقین سے نہیں بلکہ ہمیں مسئلہ ان سے ہے جو خواہ مخواہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں: انوار الحق کاکڑ", "firstPublished": "2023-12-29T04:19:34.000Z", "id": "61433ed5-54f0-4224-bedc-c89d93db9eff", "article": "پاکستان کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے مبینہ جبری گمشدگیوں کے خلاف اسلام آباد میں آئے احتجاجیوں کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرا ان لواحقین سے جھگڑا نہیں ہے میرا پورا پاکستان سے گلہ ہے جنھیں بات ہی ابھی تک سمجھ نہیں آئی ہے۔ پاکستان کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے مبینہ جبری گمشدگیوں کے خلاف اسلام آباد میں آئے احتجاجیوں کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرا ان لواحقین سے جھگڑا نہیں ہے میرا پورا پاکستان سے گلہ ہے جنھیں بات ہی ابھی تک سمجھ نہیں آئی ہے۔ انوار الحق کاکڑ نے ایک پریس کانفرنس میں پولیس کی جانب سے بلوچ مظاہرین کو پسپا کرنے کی کوشش کے حوالے سے پوچھا گئے سوال پر انتہائی غیر معمولی انداز میں ردِ عمل دیتے ہوئے بلوچوں کی حمایت کرنے والوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ ’میرا ان لواحقین سے جھگڑا نہیں ہے میرا پورا پاکستان سے گلہ ہے جنھیں بات ہی ابھی تک سمجھ نہیں آئی ہے، میرا جعلی ہمدردوں سے مسئلہ ہے۔‘ پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کی جانب سے شائع کی گئی ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں میں سے تقریباً 90 فیصد کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے اتنی بڑی تعداد میں اپنے امیدواران کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جانے کو انتخابی عمل میں بدترین دھاندلی قرار دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کی جانب سے شائع کی گئی ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں میں سے تقریباً 90 فیصد کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔ اس دعوے کی حوالے سے الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا گیا ہے تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی اور یاسمین راشد کے کاغذاتِ نامزدگی بھی مسترد کر دیے گئے۔ اس کے علاوہ سابق وزیر اور رہنما پی ٹی آئی علی محمد خان کے کاغذاتِ نامزدگی این اے 23 سے مسترد کیے گئے جبکہ سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے کاغذاتِ نامزدگی بھی مسترد کر دیے گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’عوام سے کہتا ہوں ہم ڈرے نہیں ہیں آپ لوگوں نے ظلم کا بدلہ ووٹ سے لینا ہے۔‘ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سردار اخترمینگل نے کہا کہ نہ صرف ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے بلکہ ان کی پارٹی کے بھی متعدد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے ہیں۔ ترجمان پی ٹی آئی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ کہ ’آج عام انتخابات کی جانب پہلا قدم جنرل نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ ملک بھر میں پی ٹی آئی امیدواروں کے خلاف ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال زوروں پر ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckr83vyrl0jo", "summary": "متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان ہمیشہ سے اقتصادی، سیاسی اور تزویراتی شراکت داری رہی ہے، جو کہ دو خلیجی ہمسایہ ممالک کے محل وقوع اور ان کے ایک جیسے مفادات کا نتیجہ ہے۔ مزید یہ کے دونوں کو خطے میں مشترکہ چیلنجوں کا بھی سامنا ہے جس نے انھیں بہت سے علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر ہم آہنگی رکھنے والے اتحادی بنا رکھا ہے۔", "title": "علاقائی اثرو رسوخ سے تیل کی پیدوار تک۔۔۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تنازعات میں جیت کس کی ہو گی؟", "firstPublished": "2023-12-27T04:06:22.932Z", "id": "ckr83vyrl0jo", "article": "حال ہی میں سامنے آنے والی خبروں میں کہا گیا ہے کہ یمن میں حوثی باغیوں کی جانب سے بحیرۂ احمر سے گزرنے والے بحری جہازوں پر کیے جانے والے حملوں کا مقابلہ کرنے کی امریکی کوششوں کو اس کے خلیجی اتحادیوں، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان اختلافات کی وجہ سے ایک بڑی رکاوٹ کا سامنا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان ہمیشہ سے اقتصادی، سیاسی اور تزویراتی شراکت داری رہی ہے، جو کہ دو خلیجی ہمسایہ ممالک کے محل وقوع اور ان کے ایک جیسے مفادات کا نتیجہ ہے۔ مزید یہ کے دونوں کو خطے میں مشترکہ چیلنجوں کا بھی سامنا ہے جس نے انھیں بہت سے علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر ہم آہنگی رکھنے والے اتحادی بنا رکھا ہے۔ ماہرین کے خیال میں سعودی عرب نے خلیجی پڑوسی کو ایک اور اقتصادی چیلنج دیا ہے۔ ریاض نے 2021 میں آزاد اقتصادی زونز سے درآمد کی جانے والی اشیا کو دی جانے والی کسٹم مراعات کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا جسے ماہرین نے متحدہ عرب امارات کی معیشت کے لیے ایک دھچکا سمجھا جو ان علاقوں پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ جیسا کہ یو اے ای سعودی عرب کو سب سے زیادہ اشیا سپلائی کرنے والے ممالک میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ سوڈان اپنے اہم تزویراتی محل وقوع کی وجہ سے امارات اور سعودی عرب دونوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بحیرہ احمر کے قریب ہے اور اسے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور قرونِ افریقہ کے خطے کے درمیان ایک کڑی سمجھا جاتا ہے، اس کے علاوہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ جیسے سونا، چاندی، زنک، لوہا، تانبا، تیل اور قدرتی گیس، اس کے علاوہ زرعی اور مویشی بھی اہم ہیں۔ دونوں خلیجی ممالک نے 2019 میں سابق صدر عمر البشیر کی معزولی کے بعد سے سوڈان میں اہم کردار ادا کیا ہے، کیونکہ ریاض اور ابوظہبی دونوں نے عبوری فوجی کونسل کو امداد کا ایک بڑا پیکج فراہم کیا تھا، اور دونوں ممالک نے انفراسٹرکچر، زراعت اور کان کنی جیسے سوڈانی شعبوں میں برسوں تک سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ جبکہ متحدہ عرب امارات نے سوڈانی حکومت کے ساتھ بحیرۂ احمر کے ساحل پر ابو امامہ بندرگاہ کی تعمیر و ترقی اور اس کے انتظام سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط بھی کیے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنگ سوڈان بحیرۂ احمر کے طاس پر کنٹرول کے لیے دونوں ممالک کے درمیان مقابلے کا عکاس تھی، جس کا مطلب ہے کہ سوڈان کے بحران کا حل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان دشمنی کی شدت کو کم کرنے میں مضمر ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c892jel88wlo", "summary": "مقامی لوگ کسی نہ کسی طریقے سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں تاہم اس حوالے سے جب بحیثیت صحافی آپ کسی سے بات کرتے ہیں تووہ آپ کو کسی سرکاری ادارے کا اہلکار سمجھ کر خاموشی اختیار کر لیتا ہے اور یہی مشورہ دیتا ہے کہ یہ کام غیر قانونی طور پر ہو رہا ہے اور ’بڑے لوگ‘ اس میں ملوث ہیں۔", "title": "خیبرپختونخوا کا وہ علاقہ جہاں غیر قانونی طور پر پانی سے سونا نکالنے کا کام کیا جاتا ہے", "firstPublished": "2023-12-26T05:05:58.357Z", "id": "c892jel88wlo", "article": "نوشہرہ کے ڈپٹی کمشنر خالد خٹک نے بی بی سی کو بتایا کہ نظام پور میں پچھلے دو سال سے بڑے پیمانے پر دریائے سندھ یا اباسین سے بڑی مشینری کی مدد سے سونا نکالنے کا کام ہو رہا ہے تاہم کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں۔ مقامی لوگ کسی نہ کسی طریقے سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں تاہم اس حوالے سے جب بحیثیت صحافی آپ کسی سے بات کرتے ہیں تووہ آپ کو کسی سرکاری ادارے کا اہلکار سمجھ کر خاموشی اختیار کر لیتا ہے اور یہی مشورہ دیتا ہے کہ یہ کام غیر قانونی طور پر ہو رہا ہے اور ’بڑے لوگ‘ اس میں ملوث ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ نظام پور کے دوست نے مشورہ دیا کہ آپ کچھ پیسے لا کر دن کے حساب سے لاکھوں روپے کما سکتے ہیں اور اس وجہ سے یہی کام شروع کر دیا لیکن بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ خالد خٹک نے بی بی سی کو بتایا کہ نوشہرہ سے گزرنے والے دریائے سندھ اور دریائے کابل سے غیر قانونی طور پر سونا نکالنے کا کام کافی پرانا ہے لیکن سنہ 2022 میں بھاری اور جدید مشینری کا استعمال شروع ہوا اور رواں سال اس میں کافی اضافہ ہوا۔ اُن کے بقول غیر قانونی کام میں ملوث افراد کے خلاف 858 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ اُنھوں کہا کہ اب تک 825 افراد گرفتار کیے گئے ہیں جن سے ستر لاکھ روپے جرمانہ وصول کیا گیا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ 12 ایکسیویٹر، سات گاڑیا ں اور 20 موٹر سائیکلوں سمیت مختلف قسم کے آلات بھی قبضے میں لیے گئے ہیں۔ خالد خٹک کا کہنا ہے کہ اس غیر قانونی دھندے کی روک تھام کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کارروائیاں کی جاتی ہیں تاہم اس میں بنیادی ذمہ داری محکمہ معدنیات کی ہے کہ وہ اسے لیز یا آکشن کرانے کے لیے اقدامات کریں تاکہ قومی خزانے کو ہونے والے نقصان کی روک تھام ہو سکے۔ لیکن مذکورہ ادارے کے ایک اعلی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ادارہ ضلع نوشہرہ اور ضلع صوابی میں دریا کے پانی سے غیر قانونی سونا نکالنے کے جاری عمل سے واقف ہے تاہم سونے کے موجودہ ذخائر کے حجم اور اس میں ملوث افراد کے بارے میں کوئی اعداد و شمار موجود نہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ لیز مالک قانون کے مطابق حکومت کو ٹیکس اور مقامی لوگوں کو مالکانہ حقوق کی مد میں رقم ادا کرے گا تاہم اُنھوں نے یہ الزام مسترد کیا کہ جرگے نے غیر قانونی طور پر دریا سے فائدہ اُٹھانے والوں سے خفیہ معاہدہ کر لیا ہے۔ ڈاکٹر اصغر علی کا کہنا ہے کہ دریائے کابل اور دریائے سندھ سے جو تعمیراتی کام کے لیے ریت و بجری نکالی جاتی ہے تو اُس میں سونے سمیت مختلف قیمتی دھاتوں کے ذرات موجود ہوتے ہیں تاہم اُن کو پانی سے چھان کر الگ کرنے کے لیے کوئی طریقہ کار موجود نہ ہونے کی وجہ سے وہ ضائع ہو جاتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gy85rlpl2o", "summary": "کسی بھی چھوٹے کاروبار یا سٹارٹ اپ کے لیے سرمایہ حاصل کرنے کے بعد دوسرا اہم کام ایسی جگہ کا انتخاب ہوتا ہے جہاں بیٹھ کر بزنس چلایا جا سکے۔ روایتی دفاتر تو دنیا بھر میں برسوں سے قائم ہیں مگر اب پاکستان میں ’کو ورکنگ سپیس‘ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ مگر کو ورکنگ سپیس کیا ہے اور یہ روایتی دفاتر کی نسبت چھوٹے بزنسز کے لیے فائدہ مند کیوں ہے؟", "title": "’کو ورکنگ سپیس‘ کیا ہے اور پاکستان میں چھوٹے کاروبار ایسی جگہوں کا انتخاب کیوں کر رہے ہیں؟", "firstPublished": "2023-12-25T03:44:32.614Z", "id": "c3gy85rlpl2o", "article": "اگر آپ نے پاکستان کو درپیش معاشی مسائل کے باوجود یہاں کاروبار شروع کرنے کا دلیرانہ فیصلہ کر ہی لیا ہے تو جلد آپ کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ قانونی پیچیدگیوں کے علاوہ کاروبار کے لیے سرمایہ اکٹھا کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ کسی بھی چھوٹے کاروبار یا سٹارٹ اپ کے لیے سرمایہ حاصل کرنے کے بعد دوسرا اہم کام ہوتا ہے ایسی جگہ کا انتخاب کرنا جہاں اُن کی ٹیم بیٹھ سکے اور آپریشن چلا سکے۔ روایتی دفاتر تو دنیا بھر میں برسوں سے قائم ہیں مگر گذشتہ ایک دہائی سے ’کو ورکنگ سپیس‘ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ آسان الفاظ میں کو ورکنگ سپیس ایک ایسی جگہ ہے جہاں مختلف بزنس ایک ہی عمارت میں کام کرتے ہیں اور بجلی، انٹرنیٹ اور فرنیچر وغیرہ کو مینیج کرنے کی ذمہ داری کو ورکنگ سپیس چلانے والا اٹھاتا ہے۔ کو ورکنگ سپیس میں کام کرنے والے کاروبار ایک ماہانہ یا سالانہ رقم دے کر آفس کی بہت سی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کراچی میں ’ورک ہال‘ کے نام سے ایک کو ورکنگ سپیس سے انھوں نے اپنا کاروبار شروع کیا اور آہستہ آہستہ اپنی ٹیم کو بڑھاتے گئے۔ اب ان کی ٹیم 15 لوگوں پر مشتمل ہے۔ حسیب اور فہیم کے مطابق اگر آپ کی کوئی ٹیم نہیں اور اکیلے ہی آپ کاروبار چلا رہے ہیں تو کراچی میں تقریباً 15 ہزار سے 25 ہزار تک آپ کو ایک سیٹ کو ورکنگ سپیس میں مل سکتی ہے۔ کو ورکنگ سپیس کس جگہ واقع ہے؟ کیونکہ پوش علاقوں میں یہی ایک سیٹ خریدنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سہولیات پر بھی منحصر ہے کہ کو ورکنگ سپیس فراہم کرنے والے آپ سے ماہانہ کتنے پیسے لیں گے۔ کو ورکنگ سپیس کا استعمال کرنے والے فہیم صادق نے بھی اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اکٹھے کھانا کھاتے ہیں، اٹھتے بیٹھتے ہیں تو جو چیلنجز چل رہے ہوتے ہیں کاروبار میں اس پر بات چیت ہو جاتی ہے اور کمیونٹی ایک دوسرے کو مدد کرتی ہے تو یہ بہت بڑا فائدہ ہے۔‘ کورونا کی عالمی وبا نے جہاں بہت سے بزنسز کو بُری طرح متاثر کیا وہیں گھر سے کام کرنے کے رجحان میں بھی بہت اضافہ دیکھنے کو ملا۔ دا ہائیو، کو لیبز اور کک سٹارٹ جیسے معروف پاکستانی کو ورکنگ سپیسز میں نہ صرف چھوٹے کاروبار ہیں بلکہ کئی بڑی کمپنیوں نے بھی ایسی جگہوں کا انتخاب کر رکھا ہے۔ اگر آپ اپنے کاروبار کے لیے کو ورکنگ سپیس کا انتخاب کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو حسیب امین کے مطابق آپ اس بات کا تعین کریں کہ آپ کے کاروبار کی ضروریات کیا کو ورکنگ سپیں میں سرمایہ لگانے سے پوری ہو سکتی ہیں۔ کو ورکنگ سپیس کا انتخاب کرنے سے پہلے اس جگہ سے متعلق بھی تحقیق کریں اور کوشش کریں کہ وہاں پہلے سے کام کرنے والے لوگوں سے سہولیات کے معیار سے متعلق مشورہ لیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp93m1vlw4mo", "summary": "پاکستان میں جعلی کرنسی کے زیر گردش ہونے کا معاملہ ایک مرتبہ پھر اس وقت سرگرم ہوا جب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے ایک اجلاس کے دوران کمیٹی چیئرمین نے پانج ہزار کا ایک جعلی نوٹ اجلاس میں موجود سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر کے سامنے رکھا گیا۔ مگر کرنسی کے اصلی یا جعلی ہونے کا کیسے پتا لگایا جا سکتا ہے اور اگر کوئی جعلی نوٹ آپ کو تھما دے کو آپ کیا کارروائی کر سکتے ہیں؟", "title": "بانی پاکستان کی پوشیدہ تصویر میں چھپے ہندسے۔۔۔ آپ کے بٹوے میں موجود پانچ ہزار کا نوٹ اصلی ہے یا جعلی؟", "firstPublished": "2023-12-21T06:14:17.735Z", "id": "cp93m1vlw4mo", "article": "پاکستان میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ملک میں زیر گردش پانچ ہزار مالیت کے نوٹوں کا معاملہ اس وقت زیر بحث آیا، جب کمیٹی کے چیئرمین کی جانب سے پانج ہزار کا ایک جعلی نوٹ اجلاس میں موجود سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر کے سامنے رکھا گیا۔ تفصیلات کے مطابق چیئرمین کمیٹی نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو صارفین سے پانچ ہزار کا جعلی نوٹ لے کر اصلی نوٹ دینے کی تجویز دی گئی تاہم ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک کا اس موقع پر کہنا تھا کہ جعلی کرنسی پاکستان نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے اور ’ڈالر کی جعلی کرنسی بھی چھپ رہی ہے، ایسا کوئی نظام موجود نہیں جس کے باعث جعلی کرنسی کو چھاپنے سے روکا جا سکے۔‘ ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک عنایت حسین کا کہنا تھا کہ خزانہ کمیٹی کو آئندہ اجلاس میں جعلی کرنسی کی سرکولیشن اور جعلی نوٹ چھاپنے پر بریفنگ دیں گے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی کرنسی میں پانچ ہزار کا نوٹ سب سے بڑی مالیت کا نوٹ ہے۔ پاکستان میں جعلی کرنسی کے نوٹوں کی شکایات وقتاً فوقتاً ابھرتی رہتی ہیں تاہم پانچ ہزار کے نوٹ کے جعلی ہونے اور اس سے ایک عام فرد کو پہنچنے والا نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں کرنسی نوٹ کے اصلی یا جعلی ہونے کی پہچان کیسے کی جا سکتی ہے، اس کے لیے سٹیٹ بینک نے مختلف گائیڈ لائنز جاری کر رکھی ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پانچ ہزار کے نوٹ کے اصلی ہونے کی گائیڈ لائنز تو جاری کی گئی ہیں تاہم کیا ایک عام آدمی اس سے نوٹ کے اصلی یا جعلی ہونے کے بارے میں پتا چلا سکتا ہے؟ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر سلیم رضا نے بی بی سی کو بتایا کہ جعلی نوٹ کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے اور ریاست یا اس کا ادارہ جیسے سٹیٹ بینک کسی ایسے شخص کو ازالے کے لیے پیسے نہیں دے سکتا، جسے جعلی نوٹ ملا ہو۔ یاد رہے کہ ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک عنایت حسین نے قائمہ خزانہ کمیٹی کو آئندہ اجلاس میں جعلی کرنسی کی سرکولیشن اور جعلی نوٹ چھاپنے پر بریفنگ کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں راشد مسعود عالم نے بتایا کہ یہ کوئی سیکنڈل نہیں اور پاکستان میں دنیا بھر کی طرح جعلی نوٹ چھپتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ دوسری سماجی برائیوں اور جرائم کی طرح ایک جرم ہے۔ ’کمیٹی اجلاس میں پانچ ہزار کے جعلی نوٹ پر جو کچھ ہوا، اس سے میڈیا میں سنسنی تو پیدا ہوئی تاہم حقیقت یہ ہے سٹیٹ بینک اس سلسلے میں کچھ زیادہ نہیں کر سکتا۔‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ نقلی نوٹ کا تبادلہ جعل سازی کے زمرے میں آتا ہے اور یہ ایک ایسا جرم ہے جس پر ایف آئی اے کارروائی بھی کر سکتا ہے تاہم یہ واضح رہے کہ اس پر کارروائی مشکل سے ہی ہوتی ہے کیونکہ نوٹ لینے والے کو پتا نہیں ہوتا کہ وہ جعلی نوٹ لے رہا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gyp3vg153o", "summary": "بنگلہ دیش نے گزشتہ 52 برس میں معاشی شعبے میں پاکستان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر کے اپنی بیرونی تجارت کو جہاں ایک جانب بڑھایا تو دوسری جانب وہاں غربت کی شرح میں بھی کمی دیکھی گئی جبکہ خواتین کی معاشی شعبے میں ترقی پاکستان سے زیادہ ہے۔", "title": "52 برس بعد پاکستان اور بنگلہ دیش معیشت کے شعبے میں کس مقام پر کھڑے ہیں؟", "firstPublished": "2023-12-16T10:31:44.081Z", "id": "c3gyp3vg153o", "article": "بنگلہ دیش نے گذشتہ 52 برس میں معاشی شعبے میں پاکستان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر کے اپنی بیرونی تجارت کو جہاں ایک جانب بڑھایا تو دوسری جانب وہاں غربت کی شرح میں بھی کمی دیکھی گئی جبکہ خواتین کی معاشی شعبے میں ترقی پاکستان سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں گذشتہ کئی سال سے سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی اور امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے ایک جانب صنعتی ترقی کا پہیہ تھم گیا تو دوسری جانب ملک نے بیرونی تجارت، جی ڈی پی گروتھ، فی کس آمدن اور غربت کے شعبے میں کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کی معاشی صورتحال کا 52 برس بعد موازنہ کیا جائے تو بنگلہ دیش کچھ شعبوں میں پاکستان سے کافی آگے نکل چکا ہے جس میں خاص کر گارمنٹس برآمدات کا شعبہ ہے جس میں اس وقت بنگلہ دیش دنیا میں چین کے بعد سب سے برآمدات والا ملک بن چکا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کا شمار گارمنٹس ایکسپورٹ کے پہلے پانچ بڑے ممالک میں بھی نہیں ہوتا۔ 52 برس بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کے لیے جی ڈی پی، فی کس آمدنی، بیرونی تجارت اور غربت کے شعبوں میں دونوں ملکوں کا موازنہ دونوں ملکوں کے سرکاری اداروں اور عالمی بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار پر کیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کا مالی سال ہر سال پہلی جولائی کو شروع ہوتا ہے اور اگلے سال 30 جون کو ختم ہوتا ہے۔ 52 برس کے بعد 30 جون 2023 میں ختم ہونے والے مالی سال میں اکنامک سروے کے مطابق پاکستان کی معیشت کی شرح نمو ایک فیصد سے بھی کم یعنی 0.29 فیصد رہی۔ دوسری جانب اس مالی سال میں بنگلہ دیش اکنامک ریویو کے مطابق بنگلہ دیش کی معیشت کی ترقی کی شرح چھ فیصد رہی۔ تاہم یہ واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کی رفتار مسسلسل 12-13 سال سے چھ فیصد سے زائد پر ترقی کر رہی ہے جب کہ دوسری جانب پاکستان کی معاشی ترقی گزشتہ 10-12 سال میں تین سے چار فیصد کے درمیان رہی جس میں دو سال تو یہ ایک فیصد سے بھی کم رہی۔ عدیل نے کہا ’سب سے بڑھ کر بنگلہ دیش میں سیاسی استحکام اور امن و امان کی بہتر صورتحال ہے جس کی وجہ سے وہاں معیشت کی گروتھ ممکن ہوئی جبکہ دوسری طرف پاکستان مسلسل تین چار دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی اور امن و امان کے مسائل کا شکار ہے جس نے معیشت کو بری طرح بٹھا دیا اور پاکستان میں پالیسیوں میں تسلسل کا فقدان رہا۔‘ دنیا کے دوسرے ملکوں کے علاوہ پاکستان سے بھی بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کی گئی۔ پاکستان میں صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک گارمنٹس شعبے کے صنعت فرخ اقبال کا بھی بنگلہ دیش میں کام ہے اور ان کا ایک آفس وہاں کام کر رہا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2q20v2yl25o", "summary": "پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے حکومتی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب اعلان کردہ نئی پالیسی کے مطابق ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والے شہریوں کے بجلی و گیس کے کنکشن کاٹے جائیں گے۔ ایسا کس قانون کے تحت ہو گا اور کیا یہ پالیسی ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دے پائے گی؟", "title": "ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والے پاکستانیوں کے بجلی، گیس اور موبائل کنکشن کاٹنے کی پالیسی سودمند ثابت ہو گی؟", "firstPublished": "2023-12-13T07:03:53.529Z", "id": "c2q20v2yl25o", "article": "پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے حکومتی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے حال ہی میں جاری کی گئی نئی پالیسی کے تحت ملک میں ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والوں کے بجلی و گیس کے کنکشن کاٹنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پاکستان میں حکومت کی جانب سے جہاں ٹیکس وصولی کے لیے ہر سال اقدامات اٹھائے جاتے ہیں تو دوسری طرف پاکستان کو مالی امداد اور قرض فراہم کرنے والے عالمی اداروں خاص کر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے شہریوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کرانے کی شرائط بھی عائد کی جاتی ہیں تاکہ ملک میں بڑھتے ہوئے مالی خسارے پر قابو پایا جا سکے۔ پاکستان میں ٹیکس امور کے شعبے سے وابستہ ماہرین کے مطابق ٹیکس ریٹرن کی لیے ایف بی آر کی جانب سے اختیار کردہ نئی پالیسی بھی آئی ایم ایف کی ہدایات پر ہے تاکہ ملک میں ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح کو بڑھایا جا سکے تاہم ایف بی آر کی جانب سے اس کی تردید کی گئی ہے اور ادارے کے مطابق یہ ایف بی آر کا اپنا اقدام ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس ریٹرنز فائل نہ کرنے والوں کے بجلی اور گیس کے کنکشن منقطع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے اس سلسلے میں بتایا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس میں اس سیکشن کے تحت ریٹرنز نہ جمع کرانے پر پہلے نان فائلرز کو نوٹس دیا جائے گا اور ایک مہینے کے بعد جواب نہ جمع کرانے پر اس نان فائلر کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی کہ جس میں اس کے گیس و بجلی کے کنکشن اور موبائل سم بلاک کرنے جسے اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا ’یہ کام پاکستان میں منفرد ہوا ہے اور یہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے بھی متصادم ہے کیونکہ بنیادی انسانی حقوق میں اب صرف سانس لینا ہی نہیں ہے بلکہ ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے بجلی و گیس اور دوسری چیزیں ضروری ہیں اور پاکستان میں یہ اس سیکشن کے تحت لوگوں کو ان کے اس بنیادی حق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔‘ ایف بی آر کی جانب سے نان فائلرز کے بجلی و گیس کے کنکشن اور موبائل سم بند کرنے کی پالیسی کے نفاذ کے طریقہ کار کے بارے میں ایف بی آر کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ قانون کے تحت نان فائلرز کے یوٹیلٹی کنکشن یعنی گیس و بجلی کے کنکشن اور موبائل سم بلاک ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا میں فائلر ہوتا ہے یا پھر ڈیفالٹر ہوتا ہے تاہم پاکستان میں ایف بی آر نے نان فائلر کی نئی کیٹگری نکال کر ان سے زیادہ ٹیکس تو اکٹھا کر لیا تاہم ملک میں ریٹرن فائل کرنے کے کلچر کو فروغ نہ دے سکا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cevpe8nkwzlo", "summary": "سٹاک مارکیٹ میں تاریخی تیزی کی وجوہات تو پیش کی جا رہیں تاہم یہ تیزی اس وقت جاری ہے جب پاکستانی معیشت مشکلات اور بحرانوں کا شکار ہے۔ ملک کا صنعتی شعبہ جہاں ایک طرف مصائب میں گھرا ہوا ہے تو دوسری جانب ایک عام پاکستانی مہنگائی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے جس میں تازہ ترین ہفتوں میں گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ہے۔", "title": "معاشی بحران کے باوجود پاکستان سٹاک ایکسچینج میں تیزی کیسے؟ اتنی سرمایہ کاری کون کر رہا ہے؟", "firstPublished": "2023-12-09T02:10:38.510Z", "id": "cevpe8nkwzlo", "article": "پاکستان سٹاک مارکیٹ میں اس وقت تاریخی تیزی کا رجحان جاری ہے اور مسلسل کئی ہفتوں سے سٹاک مارکیٹ میں تیزی کی وجہ سے انڈیکس تقریباً ہر روز ہی ایک نئی حد عبور کر رہا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں تاریخی تیزی کی وجوہات تو پیش کی جا رہیں تاہم یہ تیزی اس وقت جاری ہے جب پاکستانی معیشت مشکلات اور بحرانوں کا شکار ہے۔ ملک کا صنعتی شعبہ جہاں ایک طرف مصائب میں گھرا ہوا ہے تو دوسری جانب ایک عام پاکستانی مہنگائی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے جس میں تازہ ترین ہفتوں میں گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ہے۔ سٹاک مارکیٹ انڈیکس میں موجودہ ہفتے میں 4532 پوائنٹس کا اضافہ ہوا جو ریکارڈ ہے لیکن مارکیٹ میں یہ ریکارڈ اضافہ کیا معاشی محرکات کے تحت ہے یا قیاس آرائی پر مبنی ٹریڈنگ کے ذریعے حاصل کیا گیا، اس کے بارے میں مالیاتی امور کی ماہر ثنا توفیق نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر مارکیٹ میں موجودہ تیزی کی وجوہات کو دیکھا جائے تو اس سے پتا چلے گا کہ یہ تیزی کسی بلبلے کی طرح نہیں کہ وہ جلدی پھٹ جائے اور یہ مستقبل میں بھی جاری رہ سکتی ہے۔ پاکستان کے کچھ معاشی اشاریوں میں حالیہ ہفتوں میں تھوڑی بہتری آئی ہے، جس میں کرنٹ اکاونٹ خسارے میں کمی اور ایکسچینج ریٹ میں تھوڑا استحکام ہوا تاہم پاکستان میں صنعتی ترقی کا پہیہ ابھی بھی سست روی کا شکار ہے اور عام آدمی مہنگائی کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہے۔ پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی شرح 30 فیصد ہے اور ایک عام پاکستانی بجلی و گیس کے بلوں، پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں اور کھانے پینے کی چیزوں کے بہت زیادہ نرخوں کی وجہ سے پریشان ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں تیزی سے ایک عام آدمی کی معاشی صحت پر کوئی براہ راست اثر نہیں پڑا تاہم یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ اگر سٹاک مارکیٹ پرفارم کر کے اکنامک ریکوری کی جانب نشاندہی کر رہی ہے تو مستقبل میں ایک عام آدمی کے لیے یہ شاید مہنگائی کی صورت میں کمی کی صورت میں کوئی امکان پیدا ہو سکے۔ ثنا نے اس سلسلے میں بتایا کہ اس وقت بینکوں کے حصص میں سب سے زیادہ تیزی دیکھی گئی جس کی وجہ بینکوں کو ہونے والی زیادہ آمدنی ہے جو ملک میں بلند شرح سود کی وجہ سے ہے۔ اسی طرح تیل و گیس کے دریافت کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنیو ں کے حصص کی قیمت بھی بہت زیادہ بڑھی جس میں بیرونی سرمایہ کاری کی اطلاعات ہیں۔ تیل کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے تیل شعبے کی کمپنیوں اور ریفائنریوں کے حصص بھی اس وقت بلند سطح پر موجود ہیں "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgxp5jvv50go", "summary": "برطانوی حکومت غیر ملکی تارکین وطن کے لیے برطانیہ میں آ کر کام کرنے اور رہائش اختیار کرنے کے قوانین کو تبدیل اور مزید سخت کر رہی ہیں۔ برطانیہ میں امیگریشن سے متعلق موجودہ پوائنٹس پر مبنی نظام جس میں یورپی ممالک اور غیر یورپی ممالک کے تارکین وطن شامل ہے سنہ 2020 کے اواخر میں نافذ کیا گیا تھا۔ ", "title": "برطانیہ کے ویزا قواعد میں سختی: ملازمت پیشہ افراد کے لیے نئے قوانین کیا ہیں؟", "firstPublished": "2023-12-05T14:31:30.803Z", "id": "cgxp5jvv50go", "article": "برطانوی حکومت غیر ملکی تارکین وطن کے لیے برطانیہ میں آ کر کام کرنے اور رہائش اختیار کرنے کے قوانین کو تبدیل اور مزید سخت کر رہی ہیں۔ برطانیہ میں سال 2022 کے دوران 745000 ریکارڈ تارکین وطن افراد کی آمد کے بعد وزرا پر قانونی طور پر امیگریشن پالیسی کو سخت کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے برطانیہ نقل مکانی کر کے آنے والے غیر ملکی تارکین وطن کے سرکاری اعداد و شمار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’تعداد بہت زیادہ ہے۔‘ برطانیہ میں کام کرنے کے خواہشمند زیادہ تر لوگوں کو اب بھی پوائنٹس پر مبنی نظام یعنی پوائنٹس بیس سسٹم (پی بی ایس) کے ذریعے ویزا کے لیے درخواست دینا ہو گی۔ تاہم اس کا اطلاق صحت کے شعبے اور سماجی خدمت کے شعبے کی نوکریوں پر نہیں ہو گا۔ لیکن اس شعبے میں کام کرنے والے غیر ملکی تارکین وطن افراد کو اب اپنے خاندان کے افراد کو برطانیہ لانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ پوائنٹس سسٹم پہلی بار لیبر حکومت نے 2008 میں اپنایا تھا، جب اس کا اطلاق غیر یورپی یونین ممالک سے آنے والے تارکین وطن پر ہوتا تھا۔ اس کے بعد بریگزٹ ووٹ کے بعد کنزرویٹو نے اس میں تبدیلیاں کی تھی۔ برطانیہ میں امیگریشن سے متعلق موجودہ پوائنٹس پر مبنی نظام جس میں یورپی ممالک اور غیر یورپی ممالک کے تارکین وطن شامل ہے سنہ 2020 کے اواخر میں نافذ کیا گیا تھا۔ برطانیہ کی امیگریشن کے خواہشمند غیر ملکی درخواست دہندگان کو ہنر مند ورکر ویزا حاصل کرنے کے لیے کافی پوائنٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔ موسم بہار 2024 سے نگہداشت کے شعبے میں کام کرنے والے غیر ملکی افراد کو اپنے ساتھ خاندان کے زیر کفالت افراد کو لانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ پوسٹ گریجویٹ کورسز کے طالب علم کوالیفائنگ ڈیپنڈنٹ کے لیے ویزا کے لیے بھی درخواست دے سکتے ہیں: شوہر، بیوی، سول یا غیر شادی شدہ پارٹنر اور 18 سال سے کم عمر کے کسی بھی بچے اس میں شامل ہیں۔ لیکن جنوری 2024 سے حکومت بین الاقوامی طالب علموں کے لیے زیر کفالت افراد کو بلانے کے حق کو ختم کر دے گی جب تک کہ وہ تحقیقی پروگراموں کے طور پر نامزد پوسٹ گریجویٹ کورسز میں نہ ہوں۔ وہ طلباء جنھوں نے پہلے ہی اپنی ڈگری مکمل کرلی ہے وہ گریجویٹ ویزا کے تحت کام کرنے کے لیے دو سال (ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والوں کے لیے تین سال) تک برطانیہ میں رہ سکتے ہیں۔ ستمبر 2023 کے آخر تک 104,501 ایسے ویزے جاری کیے گئے، جن میں زیر کفالت افراد شامل نہیں تھے۔ بریگزٹ سے قبل یورپی یونین اور برطانیہ کے شہریوں کو ورک ویزا کی ضرورت کے بغیر یورپی یونین کے کسی بھی ملک میں رہنے، کام کرنے یا تعلیم حاصل کرنے کی آزادی تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pde35gmg8o", "summary": "سٹریٹ فوڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شہروں اور ممالک کی پہچان ہوتے ہیں۔ انڈین سٹریٹ فوڈ ہمیشہ اپنے منفرد ذائقوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں کھانے پینے والوں نے اجزاء کے زیادہ سے زیادہ غیر معمولی امتزاج کے ساتھ تجربات کیے ہیں۔", "title": "فائر پان، اوریو پکوڑے اور شرابی گول گپے: سوشل میڈیا نے روایتی انڈین سٹریٹ فوڈ کو کیسے تبدیل کر دیا ", "firstPublished": "2023-12-05T12:03:46.656Z", "id": "c6pde35gmg8o", "article": "سٹریٹ فوڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شہروں اور ممالک کی پہچان ہوتے ہیں۔ انڈین سٹریٹ فوڈ ہمیشہ اپنے منفرد ذائقوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں کھانے پینے والوں نے اجزاء کے زیادہ سے زیادہ غیر معمولی امتزاج کے ساتھ تجربات کیے ہیں کیونکہ وی لاگرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز ایسے کھانوں اور جگہوں کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ جو وائرل ہوں اور اُن کے فینز میں اضافہ ہو جائے۔ اس کے بعد سے انڈین لوگوں نے اور اُن کے ساتھ دُنیا کے اکثر مُمالک میں لوگوں نے انڈیا سے متعدد ایسے ہی حادثاتی اور تجرباتی سٹریٹ فوڈز کی ویڈیوز کی بھرمار ہوتے دیکھی، فنٹا میگی (نارنجی سوڈا سے تیار کردہ نوڈلز) اور اوریو پکوڑے (بیٹر فرائیڈ اوریو کوکیز) سے لے کر کلہڈ پیزا (مٹی کے کپ میں تیار کیے جانے والا پیزا)۔ سٹریٹ فوڈ ہمیشہ سے انڈین کھانوں کا ایک لازمی حصہ رہا ہے۔ صبح کے ناشتے سے بات شروع ہوتی ہے اور ایک سے بڑھ کے ایک ناشتے کی چیزیں سامنے آتی ہیں۔ دفاتر اور فیکٹریوں کے باہر دوپہر کے کھانے کے سٹال سستے کھانے پیش کرتے ہیں جس کا مقصد متنوع افرادی قوت کو مطمئن کرنا ہے۔ شام کے وقت ریڑھی بان خاندانوں اور دوستوں کو مختلف قسم کے لذیذ پکوان فراہم کرتے ہیں۔ یہ تجربات کے لیے بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انڈین ریاست احمد آباد سے تعلق رکھنے والے ایک مصنف اور فوڈ نقاد، انل مولچندانی کہتے ہیں کہ 1975 میں، جسوبین پیزا، جو اب گجرات میں ایک کامیاب چیز ہے، نے اپنے پیزا میں ایک مصالحہ دار چٹنی اور پسی ہوئی کچی پنیر شامل کی تھی۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’بہت سے دوسرے کھانے کے سٹال اسی طرح کے سینڈوچ پیش کرتے ہیں لیکن مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔ ہر کوئی کاروبار میں اپنی قسمت اور ٹیلنٹ لاتا ہے اور گھر وہی لے کر جاتا ہے جو اُپر والا اُسے دیتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اس طرح کی شراکتیں شاذ و نادر نہیں ہیں۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ جب وی لاگرز دکانداروں کو اپنے کیمروں کے لیے کچھ غیر معمولی بنانے پر مجبور کرتے ہیں۔ دکاندار ہمیں ایسے تصورات کے ساتھ آنے کے لیے بھی کہتے ہیں جو وائرل ہو سکتے ہیں۔‘ پبلک ریلیشنز اور کسٹمر آؤٹ ریچ کے درمیان اس قسم کی شراکت داری رسمی کھانے کی جگہ میں اچھی طرح سے قائم ہے، لیکن سٹریٹ فوڈ کے لیے ابھی تک کوئی واضح اصول نہیں ہیں۔ اگرچہ نیوز سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ان کی رسائی کو بڑھاتے ہیں، لیکن سٹریٹ فوڈ بیچنے والوں کے لیے نتیجہ ہمیشہ مثبت نہیں رہا ہے۔ جیسا کہ کھانے کے ارد گرد ڈرامہ اور ان کی وائرل ویڈیوز فوڈ کلچر کو تبدیل کرتی ہیں، ماہرین یہ بھی حیران ہیں کہ کیا اس سے مستند سٹریٹ فوڈ کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1p0nnpz3do", "summary": "ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، جنوری میں توانائی کی قیمتوں میں مزید اضافے کے امکان اور فروری میں عام انتخابات کے پیش نظر پاکستان کے معاشی افق پر مزید غیر یقینی کی صورتحال ہے۔", "title": "پاکستان کی غیر یقینی معاشی اور سیاسی صورتحال اور عوام: ’دعا کرتے ہیں کل کے کھانے کا کوئی راستہ مل جائے‘", "firstPublished": "2023-12-05T10:42:17.621Z", "id": "cd1p0nnpz3do", "article": "ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، جنوری میں توانائی کی قیمتوں میں مزید اضافے کے امکان اور فروری میں عام انتخابات کے پیش نظر پاکستان کے معاشی افق پر مزید غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ توانائی اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد بہت سے پاکستانی پہلے ہی اضافی آمدنی حاصل کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہ جزوی طور پر آئی ایم ایف کی قرض دینے کی شرائط کا نتیجہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے حکومت کو توانائی کی سبسڈی ختم کرنا پڑی۔ اگرچہ یوکرین کی جنگ، کووڈ وبا کے بعد معیشت کی سست بحالی اور توانائی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ نے عالمی سطح پر زندگی گزارنے کی لاگت کو متاثر کیا ہے اور پاکستان میں کپڑے کی 1,600 فیکٹریوں کو بند کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اپنے بھی مسائل ہیں۔ اپنے متنوع، وسیع جغرافیائی خطے اور نوجوان آبادی کی وجہ سے پاکستان سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش ملک ہونا چاہیے، خاص طور پر لباس یا آٹوموبائل مینوفیکچرنگ پر مبنی صنعتوں کے لیے لیکن موجودہ سیاسی عدم استحکام کے علاوہ پڑوسی ملک افغانستان میں کئی دہائیوں سے جاری تنازعات نے بھی ملک کو متاثر کیا ہے اور لاکھوں افغان مہاجرین نے سرحد عبور کر کے پاکستان میں پناہ لی ہے۔ مہینوں تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد اسلام آباد بالآخر جولائی میں آئی ایم ایف سے تین ارب امریکی ڈالر کی ہنگامی فنڈنگ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے اتحادیوں نے بھی پاکستان کی غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو بڑھانے میں مدد کی ہے۔ آئی ایم ایف کے قرض دینے کے پروگرام کے جائزے سے پہلے نگراں حکومت نے اکتوبر میں زیادہ تر گھرانوں اور صنعتوں کے لیے قدرتی گیس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ کیا، تاکہ سرکاری گیس کے نقصانات کو کم کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر نصف سے زیادہ گھریلو صارفین کے لیے ایک مقررہ محصول جو 10 روپے ماہانہ ہوا کرتا تھا اسے بڑھا کر 400 روپے کر دیا گیا ہے۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن نارتھ زون کے چیئرمین کامران ارشد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہماری بجلی کی قیمتیں بھی دوگنی ہو گئی ہیں۔ وہ فیکٹریاں جو پیداوار کی بڑھتی ہوئی لاگت کو برداشت نہیں کر پا رہی ہیں، بند ہو رہی ہیں اور جس کے نتیجے میں ہزاروں ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں۔‘ جاری معاشی بدحالی اور روزگار کے مواقع کی کمی نے ہزاروں لوگوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا اور بہت سے لوگوں نے کچھا کھچ بھری کشتیوں میں ناہموار سمندروں میں خطرناک اور غیر قانونی طور پر سفر کیا۔ ایسے ہی ایک سفر کے دوران جون میں جنوبی یونان کے قریب تارکین وطن سے بھرا ایک ٹرالر الٹنے سے سینکڑوں پاکستانی ہلاک ہو گئے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy022208n71o", "summary": "اگر آپ سیاح ہیں تو آپ کے لیے یہ جاننا دلچسپی کا باعث ہوگا کہ کون سا شہر گزارے کے لیے سستا ہے اور کون سا شہر انتہائی مہنگا ہے۔", "title": "دنیا کا سب سے مہنگا اور سب سے سستا شہر دونوں ایشیا میں، اس فہرست میں کون کون سے شہر شامل؟", "firstPublished": "2023-12-02T05:42:19.328Z", "id": "cy022208n71o", "article": "اگر آپ سیاح ہیں تو آپ کے لیے یہ جاننا دلچسپی کا باعث ہوگا کہ کون سا شہر قیام کے لیے سستا ہے اور کون سا شہر انتہائی مہنگا ہے۔ اگر آپ کے پاس پیسے کم ہوں تو آپ سوچتے ہیں کہ ٹھہرنے کی جگہ پر کتنے پیسے خرچ ہوں گے، سواری اور کھانے پینے پر کتنے خرچ ہوں گے اور اگر شاپنگ کی جائے تو کتنے خرچ ہوں گے۔ دی اکانومسٹ کے مطابق ایشیا کا شہر سنگاپور رہائش کے اعتبار سے دنیا کا مہنگا ترین شہر ہے۔ اور وہ شہروں کی درجہ بندی اس بنیاد پر کرتا ہے کہ آپ ایک ڈالر میں کیا خرید سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ کرنسی جتنی مضبوط ہوگی، شہر اتنا ہی مہنگا ہوگا۔ اور کرنسی جتنی کمزور ہوگی، ملک اتنا ہی سستا ہوگا۔ اس کے تحت کار خریدنے سے قبل مالکان کے پاس سی او ای ہونا ضروری ہے اور یہ سرٹیفکیٹ بھی صرف دس سال کے لیے دی جاتی ہے یعنی آپ کو ہر دس سال پر کار خریدنے کے لیے نئی سند حاصل کرنی ہوگی۔ نسبتاً چھوٹا ہونے کے باوجود سنگاپور کو اکثر دنیا میں کروڑ پتیوں کی سب سے بڑی تعداد والے ممالک میں سے ایک کے طور پر شمار کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے یہ اپنی مہنگائی کے اعتبار سے شاذ و نادر ہی اپنے پہلے مقام سے گرتا ہے۔ اس لیے گذشتہ 11 سال سے یہ مستقل دنیا کا سب سے مہنگا شہر ہے۔ بہر حال دنیا بھر میں افراط زر یعنی مہنگائی اپنی بلند سطح پر ہے۔ دی اکانومسٹ نے جن 200 مصنوعات اور خدمات کی قیمتوں کا تخمینہ پیش کیا ہے اس میں پچھلے سال کے مقابلے اوسطاً 7.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ 2022 میں 8.1 فیصد سے تھوڑا کم ہے، لیکن پھر بھی پچھلے پانچ سالوں کے 2.9 فیصد اوسط سے کافی زیادہ ہے۔ اب جبکہ یہ پتا ہے کہ سستے شہر ان ممالک کے ہیں جہاں کی کرنسی کمزور ہے تو شاید اس میں برصغیر ہندوپاک کے شہر کا ہونا لازمی ہے۔ بہر حال دی اکانومسٹ کی حالیہ درجہ بندی میں سب سے سستا شہر شام کا دارالحکومت دمشق ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مقامی کرنسی کے لحاظ سے اس کی قیمتوں میں سالانہ 321 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ درجہ بندی میں سستے ترین شہروں میں ایران کا شہر تہران اور لیبیا کا شہر طرابلس دوسرے نمبر پر ہے۔ تہران میں افراط زر کی شرح تقریباً 49 فیصد بلند ہے جبکہ طرابلس میں قیمتیں پچھلے سال کے مقابلے میں صرف پانچ فیصد زیادہ بڑھی ہیں۔ پاکستان کا شہر کراچی اس معاملے میں چوتھے نمبر پر ہے جبکہ پانچویں نمبر پر ازبیکستان کا شہر تاشقند ہے اور چھٹے نمبر پر تیونس کا شہر ٹیونیشیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2zn95xk08o", "summary": "ہاویئر میلی نے تجویز دی ہے کہ افراط زر یعنی مہنگائی کو ختم کرنے کے معیشت کو ’ڈالرائز‘ کر دیا جائے اور ارجنٹینا کے مرکزی بینک کو ہی ختم کر دیا جائے۔", "title": "قرض میں جکڑے ارجنٹینا کے متنازع سیاست دان جو امریکی ڈالر کو ملکی کرنسی بنا کر مہنگائی ختم کرنا چاہتے ہیں", "firstPublished": "2023-11-26T07:48:13.960Z", "id": "cv2zn95xk08o", "article": "ہاویئر میلی ایک اسٹیمشمنٹ مخالف سیاست دان ہیں جو گزشتہ ہفتے ارجنٹینا کے صدارتی انتخابات میں فتح سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ تاہم اہم معاشی مسائل کے حل پر ان کے غیر روایتی بیانات اور تجاویز نے انھیں متنازع بنا دیا ہے۔ ہاویئر میلی نے تجویز دی ہے کہ افراط زر یعنی مہنگائی کو ختم کرنے کے معیشت کو ڈالرائز کر دیا جائے اور ارجنٹینا کے مرکزی بینک کو ہی ختم کر دیا جائے۔ لیکن ایسا کرنے میں ایک رکاوٹ یہ ہے کہ مرکزی بینک کو ختم کرنے اور امریکی ڈالر کو ہی ملک کی کرنسی قرار دینے کے لیے ارجنٹینا کی کانگریس کی حمایت اور آئین میں ردوبدل درکار ہو گی۔ ہاویئر ملی نے خود بھی اعتراف کیا ہے کہ معیشت کو سنبھلانے میں اور افراط زر پر قابو پانے میں دو سال لگ سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’کچھ اور کہنا جھوٹ کے سوا کچھ نہ ہو گا۔‘ ایک اور موضوع جس کی وجہ سے وہ شہ سرخیوں کا حصہ رہے ہیں، وہ موسمیاتی تبدیلی کا ہے۔ ہاویئر نے کہا ہے کہ ان کو موسمیاتی تبدیلی کے نظریے پر مکمل یقین نہیں یعنی وہ عالمی طور پر بڑھتے درجہ حرارت میں انسانی سرگرمیوں کے کردار کی نفی کرتے ہیں۔ منتخب ہونے سے قبل ہاویئر نے ارجنٹینا سے تعلق رکھنے والے پوپ فرانسس کی ذات پر حملہ کیا اور کہا کہ وہ ’کمیونزم کو فروغ‘ دے رہے ہیں اور ’زمین پر شیطان کے نمائندے ہیں۔‘ تاہم ان کا یہ رویہ فتح کے چند دن بعد ہی غائب ہو گیا جب انھوں نے کہا کہ پوپ سے ان کی دوستانہ بات چیت ہوئی ہے اور ہاویئر نے پوپ کو ارجنٹینا کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی۔ انتخابات سے قبل ہاویئر نے عندیہ دیا تھا کہ وہ ارجنٹینا کے دو قریبی تجارتی شراکت داروں برازیل اور چین سے تعلقات کو کم کر سکتے ہیں کیوں کہ وہ کمیونسٹ سے معاہدہ نہیں کرتے۔ ہاویئر میلی سے قبل ارجنٹینا کے صدر البرٹو فرنینڈیز نے چین سے تعلقات بہتر کیے ہیں اور برکس میں شامل ہونے کی دعوت کو خوش آئند قرار دیا ہے جس میں برازیل، روس، انڈیا اور جنوبی افریقہ بھی شامل ہیں۔ ماہرین نے ایک ایسا تعلق ختم کرنے کی عقل مندی پر سوال اٹھایا ہے جس کا فائدہ صرف چین کو ہی نہیں بلکہ ارجنٹینا کو بھی ہوا ہے کیوں کہ چین سویا بین، گوشت اور دالوں کی ایک بڑی منڈی ہے جو ارجنٹینا برآمد کرتا ہے۔ یہ ایک اور طریقہ تھا جس سے ہاویئر نے ارجنٹینا میں سیاست کے جمود کو ہلا کر رکھ ڈالا لیکن اگلے چار برس میں ثابت ہو گا کہ کیا وہ ایسا کرنے کی صلاحیت واقعی رکھتے ہیں یا یہ سب بیانات کی حد تک محدود تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cqqp4vn9144o", "summary": "ترکی میں سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کی پالیسی بین الاقوامی طور پر خاصی مشہور ہو رہی ہے اور پاکستانی بھی اس طریقے سے گولڈن پاسپورٹ کی سہولت حاصل کر رہے ہیں۔ ", "title": "پاکستان سمیت دیگر ممالک کے افراد ترکی کا گولڈن پاسپورٹ کیسے حاصل کر رہے ہیں؟", "firstPublished": "2023-11-26T03:54:00.370Z", "id": "cqqp4vn9144o", "article": "ایک بین الاقوامی کنسلٹنسی کمپنی کی ویب سائٹ پر مختلف ممالک کے لیے مخصوص سیکشن موجود ہیں جو ان ممالک میں سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کے حوالے سے مشورے اور خدمات فراہم کرتی ہے۔ ان ممالک میں سے ایک ترکی بھی ہے اور اس ویب سائٹ پر ترکی میں سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کے حوالے سے معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ یہ پروموشن اس جملے کے ساتھ ختم ہوتی ہے کہ ’ریئل اسٹیٹ یعنی پراپرٹی کی خریداری کے ذریعے ترکی میں سرمایہ کاری کا ذریعہ لوگوں کے لیے سب سے زیادہ پرکشش ہوتا ہے۔ اس کے لیے صرف آپ کو ایسی پراپرٹی خریدنی ہوتی ہے جس کی مالیت چار لاکھ ڈالر سے زیادہ ہو، اس کے علاوہ کچھ اضافی اخراجات بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔ ’اس طرح ترکی باقی ممالک کی نسبت سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کے اعتبار سے سستا ہے۔‘ خیال رہے کہ سنہ 2022 تک یہ رقم ڈھائی لاکھ ڈالر تھی جسے بعد میں حکومت کی جانب سے بڑھایا گیا ہے۔ اسی قسم کی بحث دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہو رہی ہے، اس لیے ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے ترکی میں یہ پالیسی ہے کیا؟ دنیا بھر میں کس قسم کی پالیسیاں موجود ہیں اور اس کے مثبت اور منفی پہلو کیا ہیں۔ گولڈن پاسپورٹ کی اصطلاح سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ یہ ’گولڈن ویزا‘ سے مختلف درخواست ہے، جو سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ رہائشی اجازت نامہ بھی فراہم کرتی ہے۔ برطانیہ میں قائم لا ویڈا گولڈن ویزا کمپنی کی مارکیٹنگ مینیجر لیزی ایڈورڈز نے بی بی سی ترکی سے بات کرتے ہوئے ان وجوہات کے بارے میں بات کی جن کی وجہ سے سرمایہ کار غیر ملکی شہریت کی درخواست کرتے ہیں۔ ان کی کمپنی سرمایہ کاری کے بدلے رہائش اور شہریت حاصل کرنے کے حوالے سے مشاورتی خدمات فراہم کرتی ہے۔ ترکی میں سنہ 2016 اور 2017 میں ’غیر ملکیوں کو غیر معمولی طور پر ترک شہریت حاصل کرنے‘ کے حوالے سے بنائے گئے قوانین کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ترک شہریت حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ اس بات کا تجسس یقیناً میری طرح آپ کو بھی ہو گا کہ ترکی میں سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے والے غیر ملکیوں کتنے ہیں؟ ایسے لوگ بھی ہیں جو سرمایہ کاری کے پروگرام کے ذریعے شہریت کا دفاع کرتے ہیں اور ساتھ ہی ترکی اور دنیا بھر میں اس پر تنقید کرنے والے بھی ہیں۔ دنیا میں سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت پر ہونے والی تنقید میں ناقدین یہ دعوے کرتے ہیں کہ اس سے مجرموں کے لیے جگہ بننے کا خدشہ ہوتا ہے، منی لانڈرنگ میں سہولت ہوتی ہے اور مکانات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2z4yrnp11o", "summary": "انڈین ریاست گجرات نے گھول مچھلی کو ’ریاستی مچھلی‘ قرار دیا ہے۔ یہ انڈیا کی سب سے مہنگی مچھلیوں میں سے ایک ہے۔", "title": "’سونے کے دل والی‘ گھول مچھلی جسے ماہی گیر لاکھوں روپے میں فروخت کرتے ہیں", "firstPublished": "2023-11-25T11:47:55.305Z", "id": "cv2z4yrnp11o", "article": "1600 کلومیٹر سے زیادہ کی ساحلی پٹی والی انڈین ریاست گجرات نے گلوبل فشریز کانفرنس 2023 کے دوران ایک مچھلی کو ’ریاستی مچھلی‘ قرار دیا ہے۔ ’گھول‘ نامی یہ مچھلی انڈیا کی سب سے مہنگی مچھلیوں میں سے ایک ہے۔ گجرات حکومت کے گاندھی نگر کے محکمہ ماہی پروری کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیتا شکلا نے بی بی سی کو بتایا کہ گھول مچھلی انڈیا میں سب سے مہنگی مچھلیوں میں سے ایک ہے۔ گھول مچھلی میں آیوڈین، آئرن، ٹورین، میگنیشیم، فلورائیڈ، سیلینیم بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ اسے ’سنہری یا سونے کے دل والی مچھلی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ برآمد کنندگان مچھلی کو خشک کر کے اس کے ائیر بلیڈر کو نکال دیتے ہیں۔ گھول مچھلیوں میں سے کچھ کے ایئر بلیڈر کی قیمت ایک لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔ ان کی جلد کو پکایا بھی جاتا ہے یا انھیں کاسمیٹک پراڈکٹس یا میک اپ کی مصنوعات اور دوائیں بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ گجرات سے ماہی گیری کی صنعت کو اس مچھلی کے اعضا کی فروحت سے خاصہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ یہ بحر ہند اور بحرالکاہل میں پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور برما تک کے ساحلوں میں پائی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ انڈیا کے سمندر میں دستیاب ہے تاہم اس کی مقدار اتنی وسیع نہیں۔ گذشتہ چند سالوں میں جب بھی اسے انڈیا میں ماہی گیروں نے پکڑا ہے، اسے مبینہ طور پر ایک سے چھ لاکھ روپے کے درمیان فروخت کیا گیا۔ ’ڈاؤن ٹو ارتھ میگزین‘ کے مطابق اس مچھلی کو بہترین اور مہنگی ترین اقسام میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور اسے سنگاپور، ملائیشیا، انڈونیشیا، ہانگ کانگ اور جاپان کو برآمد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے گجرات کے وزیر اعلی بھوپندر پٹیل نے کہا کہ ’گجرات کے پاس ملک میں 1600 کلومیٹر طویل ترین ساحلی پٹی ہے۔ گجرات ملک میں سمندری مچھلیوں کی پیداوار میں سب سے آگے ہے۔ گجرات سے 5000 کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کی مچھلی برآمد کی جاتی ہے۔ ’مچھلی کی برآمدات میں گجرات کا حصہ 17 فیصد ہے۔ ان کامیابیوں سے پتہ چلتا ہے کہ گجرات پہلی عالمی ماہی گیری کانفرنس کی میزبانی کے لیے سب سے موزوں ریاست ہے۔ بلیو اکانومی داخلی اور بین الاقوامی تجارت کی تخلیق میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔‘ گجرات حکومت کے مطابق، مالی سال 22-23 میں 174 لاکھ ٹن مچھلی کی کل پیداوار کے ساتھ، انڈیا ماہی گیری کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے، جو عالمی سطح پر مچھلی کی پیداوار کا تقریبا آٹھ فیصد ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgrpvpy8n3no", "summary": "ارجنٹینا جو کسی زمانے میں ایک سپر پاور بننے کے راستے پر گامزن تھا متعدد دہائیوں سے مسلسل معاشی بحران کا شکار ہے۔ لیکن کیا واقعی ایک وقت میں ارجنٹینا دنیا کا سب سے دولتمند ملک تھا؟ اور آخر ایسا کیا ہوا کہ یہ ملک اب کرہ زمین پر سب سے زیادہ مہنگائی والا ملک بن گیا ہے؟", "title": "فوجی آمریت، مقبول فیصلے کرنے والے سیاستدان اور پالیسی کا بحران: وہ ملک جو دنیا کی سپر پاور بنتے بنتے زوال کا شکار ہوا", "firstPublished": "2023-11-17T11:48:55.985Z", "id": "cgrpvpy8n3no", "article": "یہ جملہ ارجنٹینا کے صدارتی امیدوار ہاویئر میلی نے اپنی الیکشن مہم کے دوران بار بار دہرایا ہے جو ملک کے شہریوں کے ذہنوں میں موجود اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس کے مطابق ارجنٹینا جو کسی زمانے میں ایک سپر پاور بننے کے راستے پر گامزن تھا متعدد دہائیوں سے مسلسل معاشی بحران کا شکار ہے۔ ملک کے شاندار ماضی کو کئی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان میں سے مشہور ’بریڈ باسکٹ آف دی ورلڈ‘ یعنی دنیا کو خوراک فراہم کرنے والی ٹوکری ہے جو ایک صدی قبل کے اس ماڈل کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کے تحت کاشکاری اور برآمدات کے امتزاج نے ارجنٹینا کو ایک امیر ملک بنا دیا تھا اور آج بھی ملک کی معیشت کا سب سے اہم سہارا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ارجنٹینا دنیا کا سب سے دولتمند ملک تھا؟ اور اگر ایسا تھا تو پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ یہ ملک اب کرہ زمین پر سب سے زیادہ مہنگائی والا ملک بن گیا ہے؟ یہ پراجیکٹ 2018 میں برطانوی ماہر معیشت اینگس میڈیسن نے تخلیق کیا تھا اور اب سے نیدرلینڈز کی گروننگن یونیورسٹی میں چلایا جا رہا ہے۔ اس پراجیکٹ کے مطابق سنہ 1896 میں ارجنٹینا دنیا کا سب سے دولت مند ملک تھا اور یہ مقام اسے 20ویں صدی کی پہلی دہائی تک حاصل رہا۔ تاہم اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ ارجنٹینا کا شمار دنیا کے سب سے دولتمند ممالک میں ہوتا تھا اور اسی کی وجہ سے پہلی جنگ عظیم سے پہلے اسے دنیا کے سب سے امیر 10 ممالک میں شامل کیا گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ارجنٹینا کا معاشی زوال شروع ہوا اور اب یہ ملک دنیا میں 66ویں نمبر پر موجود ہے۔ لیکن ارجنٹینا کا جی ڈی پی سابق نو آبادیاتی طاقت سپین سے دو گنا تھا جو اس زمانے میں 3067 ڈالر تھا۔ اس وقت جرمنی کا جی ڈی پی 5815، فرانس کا 5555 اور اٹلی کا جی ڈی پی 4057 ڈالر تھا۔ دوسری جانب ایشیا کے وہ ملک جو آج معاشی دنیا پر راج کر رہے ہیں جیسا کہ چین اور جاپان کا جی ڈی پی اس وقت بالترتیب 985 اور 2431 ڈالر تھا۔ انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ارجنٹینا کی معیشت 1930 کے بعد سست روی کا شکار ہوئی۔‘ یہ وہ وقت تھا جب لاطینی امریکہ کے اس ملک کی معیشت کو دہری چوٹ لگی۔ پہلا وہ بین الاقوامی مالیاتی بحران جو وال سٹریٹ سٹاک مارکیٹ کی ریکارڈ مندی سے پیدا ہوا اور دوسرا ملک کا پہلا فوجی مارشل لا۔ ’ہر کسی نے ایک جیسے حل کا استعمال کیا یعنی زیادہ نوٹ چھاپے یا قرضہ لیا۔‘ اور یوں ارجنٹینا دنیا میں سب سے زیادہ مہنگائی اور سب سے زیادہ ڈیفالٹ کرنے والا ملک بن گیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2v2qjdlwyvo", "summary": "چین کے سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ غیر ملکی کمپنیاں چین میں جتنا پیسہ لگا رہی ہیں اس سے کہیں زیادہ پیسہ وہ چین سے واپس نکال رہی ہیں۔ سست روی کا شکار چینی معیشت، کم شرح سود اور امریکہ کے ساتھ جغرافیائی و سیاسی کشمکش سمیت وہ کون سے عوامل ہیں جو اس صورتحال کا باعث بن رہے ہیں؟", "title": "غیر ملکی کمپنیاں اربوں ڈالر کا سرمایہ چین سے کیوں نکال رہی ہیں؟", "firstPublished": "2023-11-16T13:00:32.772Z", "id": "c2v2qjdlwyvo", "article": "سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ غیر ملکی کمپنیاں چین میں جتنا پیسہ لگا رہی ہیں اس سے کہیں زیادہ پیسہ وہ چین سے واپس نکال رہی ہیں۔ چین کی سست ہوتی معیشت، کم شرح سود اور امریکہ کے ساتھ جغرافیائی و سیاسی کشمکش نے چین کی اقتصادی صلاحیت کے بارے میں شکوک کو جنم دیا ہے جس کے بیچ اب سب کی نظریں جمعرات (آج) کو چین کے صدر شی جن پنگ اور امریکی صدر جو بائیڈن کے درمیان ہونے والی اہم ملاقات کے نتائج پر ہیں۔ اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ سے منسلک تجزیہ کار نک مرو کہتے ہیں کہ ’چین کو درپیش جیو پولیٹیکل خطرات، داخلہ پالیسی کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال اور بڑے کاروباروں کی سست شرح نمو جیسے عوامل بین الاقوامی کمپنیوں کو متبادل منڈیوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر رہی ہے۔‘ ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ غیر ملکی کمپنیاں چین سے کمائے گئے منافع کی دوبارہ چین میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال نہیں کر رہی ہیں بلکہ اس رقم کو چین سے باہر منتقل کیا جا رہا ہے۔ نک مرو کے مطابق ’موجودہ صورتحال میں ہم بڑی تعداد میں بین الاقوامی کمپنیوں کو چین سے اپنا کاروبار سمیٹتے ہوئے نہیں دیکھ رہے ہیں۔ بہت سی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں کئی دہائیوں سے چینی مارکیٹ میں ہیں، اور وہ اس مارکیٹ شیئر چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن نئی سرمایہ کاری کے معاملے میں، خاص طور پر، ہم کچھ ہچکچاہٹ دیکھ رہے ہیں۔‘ امریکی فیڈرل ریزرو اور یورپ کے بڑے مرکزی بینک افراط زر جیسے مسئلے سے نمٹنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کر رہے ہیں: قرض لینے کی زیادہ قیمت، جو زیادہ منافع کا وعدہ کرتی ہے اور غیر ملکی سرمائے کو بھی اپنی طرف راغب کرتی ہے۔ چین میں یورپی یونین کے چیمبر آف کامرس کا کہنا ہے کہ چین سے کمائے جانے والے منافع کو چین ہی میں دوبارہ لگانے کے بجائے، بڑے کاروبار اور کمپنیاں یہ پیسہ کہیں اور خرچ کر رہے ہیں۔ مائیکل ہارٹ چین میں امریکی چیمبر آف کامرس کے صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’چند کمپنیوں نے طویل المدتی سوچ کے تحت اپنا منافع چین سے نکالا ہے کیوں کہ ان کا منصوبہ ہی یہ تھا کہ جب ان کے منصوبے ایک خاص حد تک منافع کمانے لگیں گے تو وہ سرمایہ نکال لیں گے۔‘ مائیکل ہارٹ کہتے ہیں کہ ’یہ حوصلہ افزا ہے کیوں کہ اس کا مطلب ہے کہ یہ کمپنیاں چین کے آپریشن کو عالمی آپریشن کے ساتھ ضم کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔‘ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آنے والا وقت غیر یقینی کا ہے۔ امریکہ اور چین کے تعلقات کے ساتھ ساتھ شرح سود کے حوالے سے بھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjep21ddrpxo", "summary": "مدارس کے چیک پرنٹ کو 1950 کی دہائی میں امریکہ کی امیر اشرافیہ نے اپنایا تھا ، اور تب سے یہ خاندانی رئیسوں کے ملبوسات کا اہم حصہ رہا ہے۔ لیکن اس تانے بانے کی شروعات جنوبی ہند کے ماہی گیروں کے ایک گاؤں سے ہوتی ہے۔ ", "title": "امریکی اشرافیہ اور خاندانی رئیسوں کا لباس بن جانے والا ’مدراس چیک‘ ایک سٹائل کیسے بنا", "firstPublished": "2023-11-11T13:40:53.111Z", "id": "cjep21ddrpxo", "article": "1897 میں میل آرڈر کیٹلاگ کمپنی سیئرز نے اپنے خریداروں کے لیے مدراس شرٹس والی ایک کیٹلاگ شائع کی۔ اس سے یہ کپڑا امریکہ میں بٹن ڈاؤن شرٹس، پتلون اور سپورٹس کوٹ کی شکل میں مقبول ہو گیا۔ آہستہ آہستہ، یہ آئیوی لیگ کے طلبہ کے لیے الماری کا اہم حصہ بن گیا اور 1950 کی دہائی تک یہ امریکہ میں خوشحالی اور تفریح کا مترادف بن گیا تھا اور اسے معزر افراد کی پہچان بن گیا۔ سنہ 1958 میں ایک معروف ٹیکسٹائل برآمد کنندہ ولیم جیکبسن نے لیلا لیس کے کیپٹن سی پی کرشنن سے یہ کپڑا خریدا اور اسے بروکس بردرز کو فروخت کر دیا، جنھوں نے مردوں اور عورتوں کے لیے مدراس چیک لائن شروع کی، لیکن یہ بتانا بھول گئے کہ کپڑے کو دھونے پر اس کا رنگ اترتا ہے اور اسے ٹھنڈے پانی میں نرمی سے دھونا پڑتا تھا۔ رجحانات میں تبدیلی آئی تو 1980 کی دہائی میں ہاتھ سے بُنائی کی جگہ پاور لومز نے لے لی اور پکے رنگوں کی ٹیکنالوجی نے بلیڈنگ مدراس کپڑے کے آہستہ آہستہ غائب ہونے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن بڑے پیمانے پر پیداوار کے نتیجے میں ہر جگہ چیک کپڑے کے ورژن نمودار ہوئے، جزوی طور پر کیونکہ مدراس چیک میں اصل یا جغرافیائی اشارے کی کمی تھی جس کی وجہ سے اس خطے سے باہر تیار ہونے والے کپڑے کو مدراس چیک کہنا غیر قانونی ہوجاتا۔ مشین سے بنائے گئے بہت سے نقلی سکارف پوری دنیا میں فروخت کیے گئے۔ دریں اثنا، انڈیا میں مدراس ایک نئی فیشن ایبل حیثیت سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ پیرو کی ڈیزائنر اینیتھ اروڑہ، جو انڈین کاریگروں اور مغربی ڈیزائنوں کا استعمال کرتے ہوئے پائیدار کپڑے تیار کرتی ہیں، انھوں نے اپنے کام میں مدراس کو شامل کیا ہے۔ ’مجھے اس خوبصورت، سادہ، مشہور کپڑے کے بارے میں جو چیز پسند ہے وہ یہ ہے کہ یہ خوبصورتی سے پرانا ہوتا ہے۔ ایک بنیادی سوتی دھاگے سے تیار کردہ یہ معمولی سا کپڑا دنیا بھر کا سفر کر چکا ہے اور بہت سی ثقافتوں افریقہ، امریکہ اور جاپان نے اسے اپنایا ہے اور اب بھی یہ ماڈرن اور متعلقہ ہے۔ میں مدراس کے بارے میں پاگل ہوں۔ ہم اپنے ورثے کے ذمہ دار ہیں کہ ہم دنیا کو یاد دلائیں کہ مستند مدراس کہاں سے آیا ہے اور اپنے باصلاحیت ہینڈ لوم جولاہوں کو تخلیقی شناخت واپس دیں۔ رادھا کرشن کہتے ہیں’مدراس چیک نے بہت سی چیزوں کو متاثر کیا ہے۔ 'کانچی پورم کی ریشم کی ساڑھیوں میں دھنک رنگ چیک کپڑے اور اس کے بارڈر ہر طرح کے ڈیزائن میں آتے ہیں۔ روایتی طور پر انڈین مرد ہمیشہ چیک شرٹ تلاش کرتے ہیں، اور حالیہ دنوں میں یہ ہاتھ سہ بنے کپڑے کے بجائے مِل کے کپڑے پر منتقل ہو گیا ہے۔ انڈیا میں بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایک عام سی بات ہے۔ ایک ایسی چیز جو ہمیشہ سے ہے۔ ‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxe10njzkn8o", "summary": "ایک ہفتے میں ایک انسان کو کتنے گھنٹے کام کرنا چاہیے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کے بارے میں گذشتہ چند دنوں سے انڈیا میں سوچا جا رہا ہے اور اس کی وجہ بنے برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک کے ارب پتی بزنس مین سسر این آر ناراین مورتی۔ جنھوں نے کہا کہ ملک کی ترقی کے لیے نوجوانوں کو ایک ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ", "title": "ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنے پر بحث: ’پھر آپ سوچتے ہیں کہ نوجوانوں کو دل کے دورے کیوں پڑ رہے ہیں‘", "firstPublished": "2023-11-05T13:02:43.097Z", "id": "cxe10njzkn8o", "article": "یہ ایسا سوال ہے جس کے بارے میں گذشتہ چند دنوں سے انڈیا میں بحث جای ہے اور اس کی وجہ بنے برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک کے ارب پتی بزنس مین سسر این آر نارائن مورتی۔ جنھوں نے کہا کہ ملک کی ترقی کے لیے نوجوانوں کو ایک ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا ’لہذا میری گزارش ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو یہ کہنا پڑے گا کہ ’یہ میرا ملک ہے، میں ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنا چاہوں گا۔‘ اس سال مزدوروں اور حزب اخلاف کی جماعتوں کی طرف سے ہونے والے مظاہروں نے تمل ناڈو کی حکومت کو ایک بل واپس لینے پر مجبور کیا جو فیکٹریوں میں کام کے اوقات کو بڑھا کر 12 گھنٹے کرنے کی اجازت دے رہا تھا۔ نارائن مورتی پر 2020 میں بھی کافی تنقید ہوئی تھی جب انھوں نے کورونا کی وجہ سے معاشی سست روی کا ازالہ کرنے کے لیے انڈینز کو دو سے تین سال تک ہر ہفتے کم از کم 64 گھنٹے کام کرنے کی تجویز دی تھی۔ گذشتہ سال ایک اور سی ای او پر تنقید ہوئی تھی جب انھوں نے یہ تجویز دی تھی کہ کیریئر کے ابتدا میں نوجوان لوگوں کو ایک دن میں 18 گھنٹے کام کرنا چاہیے۔ انھوں نے ایکس پر پوسٹ کیا ’میرا یقین ہے کہ وہ کام کی بات کر رہے ہیں، یہ کمپنی تک محدود نہیں ہے۔ یہ آپ کے اور آپ کے ملک تک پھیلا ہوا ہے۔ انھوں نے یہ نہیں کہا کہ کمپنی کے لیے 70 گھنٹے کام کریں۔ کمپنی کے لیے40 گھنٹے کام کریں لیکن اپنے لیے 30 گھنٹے کام کریں۔ 10 ہزار گھنٹوں کی سرمایہ کاری کریں جس سے آپ اپنے مضمون کے ماہر بن جائیں۔ رات گئے محنت کریں اور اپنی فیلڈ کے ماہر بنیں۔‘ 2022 میں بیلجیئم نے ملازمین کی تنخواہ میں کمی کے بغیر انھیں ہفتے میں چار دن کام کرنے کا حق دینے کے لیے قوانین میں تبدیلی کی۔ ملک کے وزیر اعظم نے کہا کہ ایسا کرنے کے پیچھے وجہ ملک کو ’زیادہ متحرک اور پیداواری معیشت بنانا‘ ہے۔ پچھلے سال، برطانیہ میں کئی کمپنیوں نے چھ ماہ کی آزمائشی سکیم میں حصہ لیا۔ اس کا اہتمام ’4 ڈے گلوبل‘ کے ذریعے کیا گیا تھا، یہ ایک تنظیم ہے جو کہ ایک چھوٹے ہفتے کے لیے مہم چلاتی ہے۔ آزمائشی وقت کے اختتام پر اس میں حصہ لینے والی 61 کمپنیوں میں سے 56 نے کہا کہ وہ کم از کم ابھی کے لیے چار دن کے ہفتے کے ساتھ کام جاری رکھیں گے جبکہ 18 کا کہنا ہے کہ وہ یہ مستقل تبدیلی کر رہے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0x2pp86dl4o", "summary": "صدر شی جن پنگ کی دستخطی پالیسی بی آر آئی کا مقصد سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے ذریعے چین کو دنیا کے قریب لانا ہے۔ تقریبا 150 ممالک میں سرمایہ کاری کی بے مثال بھرمار کے ساتھ، چین کا دعویٰ ہے کہ اس نے دنیا کو تبدیل کر دیا ہے۔", "title": "بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹیو: کیا چین کا کھربوں ڈالر کا جوا اسے عالمی قیادت دلا پائے گا؟", "firstPublished": "2023-11-05T03:18:25.994Z", "id": "c0x2pp86dl4o", "article": "صدر شی جن پنگ کی پالیسی بی آر آئی کا مقصد سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے ذریعے چین کو دنیا کے قریب لانا ہے۔ تقریباً 150 ممالک میں سرمایہ کاری کی بے مثال بھرمار کے ساتھ، چین کا دعویٰ ہے کہ اس نے دنیا کو تبدیل کر دیا ہے اور یہ غلط بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر سویابین کو لیجیئے۔ چین، جو دنیا کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے، رسد کے لیے امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرتا تھا۔ لیکن واشنگٹن کے ساتھ محصولات کی جنگ نے بیجنگ کو جنوبی امریکی ذرائع، خاص طور پر برازیل کا رخ کرنے پر مجبور کیا، جس کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے کہ وہ خطے میں بی آر آئی فنڈنگ کا سب سے بڑا وصول کنندہ ہے۔ چین نے بی آر آئی قرضوں کی تنظیم نو کی ہے، ڈیڈ لائن میں توسیع کی ہے اور قرض لینے والوں کو وقت پر ادائیگی کرنے میں مدد کے لیے ایک اندازے کے مطابق 240 بلین ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔ لیکن اس نے قرض کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے بہت کم ثبوت موجود ہیں، لیکن اس سے ان خدشات میں اضافہ ہوا ہے کہ بیجنگ بی آر آئی کو دوسروں کی خودمختاری کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ چین کو اس کے نام نہاد ’پوشیدہ قرضوں‘ پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے حکومتوں کو نہیں معلوم کہ ان کے قرض لینے والے ادارے کتنے بے نقاب ہیں، جس کی وجہ سے ممالک کے لیے بی آر آئی کی لاگت اور فوائد کا وزن کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ریسرچ لیب ایڈ ڈیٹا کی ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ منصوبوں کو اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بڑھتے ہوئے رد عمل نے ملائیشیا اور تنزانیہ جیسے کچھ ممالک کو بی آر آئی معاہدوں کو منسوخ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ گنٹر کا کہنا ہے کہ گلوبل ساؤتھ کے ممالک امریکہ اور چین کی دشمنی میں کسی فریق کا انتخاب نہیں کرنا چاہتے۔ انھوں نے کہا کہ ’چین نے بہت سے ممالک کو مغرب سے دور نہیں کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے انھیں ایک درمیانی راستہ فراہم کیا ہے۔ یہ بیجنگ کے لیے پہلے ہی ایک بہت بڑی سفارتی فتح ہے۔‘ آئی آئی ایس ایس نے نشاندہی کی کہ اقوام متحدہ میں چین نے بیجنگ پر تنقید کرنے والے اقدامات کی مخالفت کرنے کے لیے ’دیگر ریاستوں کو عارضی اتحاد میں شامل کر دیا ہے‘، جبکہ بی آر آئی میں شرکت نے یورپی یونین کے متعدد ارکان کو چین پر تنقید کرنے والی پالیسیوں کو روکنے یا بند کرنے پر مجبور کیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1v9d091k7qo", "summary": "ایسے میں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی نہ کرنے کے بعد پاکستان میں ایسی غیر ملکی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے جن کے مالکان یہودی ہیں اور یہ مہم زور پکڑتی جا رہی ہے۔", "title": "کیا غیر ملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کا نقصان واقعی اسرائیل کو ہو گا؟", "firstPublished": "2023-11-02T15:25:59.999Z", "id": "c1v9d091k7qo", "article": "اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلسل بمباری اور جنگ بندی نہ کرنے کے فیصلے اور ایسے میں دنیا کے طاقتور ممالک کی جانب سے اسرائیل کی حمایت نے اس غم و غصے کو مزید ہوا دی ہے۔ ایسے میں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی نہ کرنے کے بعد پاکستان میں ایسی غیر ملکی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے جن کے مالکان یہودی ہیں اور یہ مہم زور پکڑتی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر شروع ہونے والی اس بائیکاٹ مہم سے متعلق مختلف مواد شئیر کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ درجنوں مصنوعات جن سے متعلق صارفین یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیلی کمپنیاں بناتی ہیں یا پھر ان کی پیرنٹ کمپنی کے مالکان یہودی ہیں۔ ’یہ مہم 2005 میں بائیکاٹ ڈی انویسٹمینٹ اینڈ سینکشنز (بی ڈی ایس) کے نام سے شروع ہوئی تھی جو ایک غیر متشدد مہم ہے۔ میں بطور پاکستانی اس مہم کا حصہ اس لیے ہوں کیونکہ اسرائیل فلسطینیوں پر مظالم کر رہا ہے اور دنیا میں پاکستان سمیت کوئی بھی حکومت اسرائیلی جارحیت کو روک نہیں رہے۔ اس لیے ہم بطور عام انسان معاشی طور پر اس کی مزاحمت کر رہے ہیں۔‘ کئی صارفین نے ایسی غیر ملکی مصنوعات کی تصاویر بھی لگائیں جس میں خریدار کو ایک چیز کے ساتھ دوسری چیز مفت دی جا رہی ہے لیکن وہ ان اشیا کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلسل بمباری اور جنگ بندی نہ کرنے کے فیصلے اور ایسے میں دنیا کے طاقتور ممالک کی جانب سے اسرائیل کی حمایت نے غم و غصے کو مزید ہوا دی ہے۔ ’کیونکہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ نہ ہی کوئی تجارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی پاکستان وہاں کسی قسم کی برآمدات کر رہا۔ بائیکاٹ مہم ایک سوشل اور جذباتی مہم ہے۔ اس سے لوگ اپنے احساسات کا اظہار کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے مزيد کہا کہ اس مہم میں کئی ایسی کمپنیوں کے نام بھی سامنے آرہے ہیں جن کا تعلق اسرائیل سے نہیں لیکن انھیں اس لیے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے کیونکہ انھوں نے اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ کیا اس مہم سے پاکستان میں ان لوگوں کی نوکریوں کو خطرہ ہو سکتا ہے جو ایسے اداروں میں کام کر رہے ہیں جن کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے؟ محمد علی خان کا کہنا ہے کہ ’بے شک اس مہم میں کچھ ایسے برانڈز بھی شامل ہیں جن کا تعلق اسرائیل سے نہیں لیکن وہ اسرائیلی جارحیت کی حمایت کر رہے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس وقت اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم بطور مسلمان اور انسان اس وقت اسرائیل کے خلاف کھڑے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/pakistan-67225238", "summary": "اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کے خلاف اپیلیں بحال کر دی ہیں۔ دوسری طرف ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کو شفاف ٹرائل کا حق دینے کی ہدایت کے ساتھ سائفر کیس سے متعلق درخواست نمٹا دی ہے۔", "title": "نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلیں بحال، عمران خان کی سائفر ٹرائل روکنے کی استدعا مسترد", "firstPublished": "2023-10-26T05:40:12.000Z", "id": "5549fb15-9db5-4687-b97c-f3d49c0f39e3", "article": "اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کے خلاف اپیلیں بحال کر دی ہیں۔ دوسری طرف ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کو شفاف ٹرائل کا حق دینے کی ہدایت کے ساتھ سائفر کیس سے متعلق درخواست نمٹا دی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی سائفر کیس کا ٹرائل روکنے کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کو شفاف ٹرائل کا حق دینے کی ہدایت کے ساتھ درخواست نمٹا دی \n\nہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس کا ٹرائل روکنے اور ضمانت سے متعلق سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کے خلاف اپیل بحال کر دی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ سٹیل ملز اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں اپیلیں بحال کرنے کی نواز شریف کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم نے دونوں اپیلوں کے حقائق اور قانون کا مطالعہ کیا ہے۔ پہلے ایون فیلڈ کیس سے متعلق بتانا چاہتا ہوں، احتساب عدالت نے کیسز پر فیصلہ سنایا تو اس کے خلاف اپیلیں دائر کی گئیں۔ ریفرنسز واپس لینے کی گنجائش ٹرائل کے دوران موجود تھی، پاکستان کے قانون کے مطابق اگر فیصلے کے خلاف اپیل ایڈمٹ ہو جائے تو کیس واپس نہیں ہو سکتا۔‘ انھوں نے کہا کہ عمران خان کی مرضی سے ملاقات کے لیے کچھ لوگوں کے نام شامل اور نکالے گئے ہیں۔ ’دس وکلا کی عمران خان سے ملاقات کی اجازت دی گئی ہے۔ ہم نے ہفتے میں چھ دن ملاقات کا کہا تھا لیکن دو دن وکلا اور ایک فیملی کو دیا گیا ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ عمران خان کی اہلیہ کو دو دن ملاقات کی اجازت دی جائے۔‘ اسلام آباد ہایی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سی ڈی اے میں تعینات ڈیپوٹیشن\nافسر ممبر پلاننگ وسیم حیات باجوہ کی تبادلے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ عدالت\nنے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ ٹرانسفر سے متعلق اپنے نوٹیفکیشن پر بلا امتیاز\nعمل کرائیں،اگر آئندہ منگل تک الیکشن کمیشن کے حکم پر بلا امتیاز عمل نہ ہوا تو اس\nکیس میں آرڈر معطل کر دیں گے، عدالت نے استفسار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنے\nنوٹیفکیشن میں پولیس کا خاص طور پر لکھا ہے بتائیں اب تک کتنے ٹرانسفر ہوئے؟ نواز شریف کی نیب ریفرنسز میں سزا کے خلاف اپیلیں بحال کرنے کی درخواستوں پر بھی آج سماعت ہو گی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب درخواستوں پر سماعت کریں گے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy715x89499o", "summary": "اب تک تقریبا 145 ممالک، جن میں دنیا کی 75 فیصد آبادی بستی ہے، چین کے منصوبے میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس منصوبے کا سب سے بڑا پراجیکٹ ’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘ ہے جس کے تحت 60 ارب ڈالر کے ابتدائی تخمینے سے سڑکوں، ریلوے اور پائپ لائن کا ایک جال بننا تھا۔", "title": "معاشی ’گیم چینجر‘ یا قرض کا جال: پاکستان میں سی پیک سمیت جنوبی ایشیا میں چینی سرمایہ کاری کا مستقبل کیا ہے؟", "firstPublished": "2023-10-16T07:11:58.863Z", "id": "cy715x89499o", "article": "چینی صدر شی جن پنگ کے منصوبے کے تحت اس قدیم راستے کی تعمیر نو جنوبی ایشیا کے غریب ممالک میں متعدد ٹرانسپورٹ منصوبوں سے جڑی تھی جس کے تحت چین نئے اتحادی بنا سکتا تھا۔ مغربی دنیا چین کی جانب سے اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کو شک کی نگاہ سے دیکھتی رہی ہے جسے خدشہ تھا کہ چین بندرگاہوں کا ایک ایسا سلسلہ قائم کر لے گا جو جنوبی چین سمندر، بحیرۂ عرب کے ذریعے اس کی بحریہ کو افریقہ تک رسائی حاصل کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔ تاہم چین ان خدشات کو بے بنیاد قرار دیتا رہا ہے۔ اب تک تقریباً 145 ممالک، جن میں دنیا کی 75 فیصد آبادی بستی ہے، چین کے منصوبے میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس منصوبے کا سب سے بڑا پراجیکٹ ’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘ ہے جس کے تحت 60 ارب ڈالر کے ابتدائی تخمینے سے سڑکوں، ریلوے اور پائپ لائن کا ایک جال بننا تھا۔ آخرکار آئی ایم ایف نے جولائی میں تین ارب ڈالر کے ایک امدادی پیکج کی منظوری دی۔ لیکن پاکستان کا بیرونی قرضہ اب 300 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے جس کا ایک تہائی حصہ چین کو واجب الادا ہے۔ اس مشکل کا سامنا کرنے والا پاکستان واحد ملک نہیں۔ کامیابیوں اور ناکامیوں کے باوجود تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی آر آئی کے تحت جو منصوبے بنے، وہ شاید بصورت دیگر نہیں بن سکتے تھے اور ان کی مدد سے بہت سے ممالک میں معاشی ترقی ممکن ہو سکے گی۔ کونسٹینٹائنو زیویئر کا کہنا ہے کہ چین کے بی آر آئی منصوبے نے جنوبی ایشیا میں ترقی کی بنیاد رکھی ہے جس کی وجہ سے انڈیا اور دیگر ممالک متبادل دھونڈنے پر مجبور ہوئے۔ ’یہ خطہ اب معاشی مقابلے کے لیے کھلا میدان ہے جہاں چین اور انڈیا کے علاوہ جاپان اور یورپی یونین جیسے کھلاڑی بھی موجود ہیں۔‘ گذشتہ سال جی سیون نے کم اور متوسط آمدن والے ممالک میں سرمایہ کاری بڑھانے کے ایک منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ رواں ماہ جی ٹؤنٹی اجلاس میں انڈیا-مشرق وسطی-یورپ اقتصادی راہداری منصوبے کا اعلان کیا گیا جس کے ذریعے ایک تجارتی راہداری انڈیا کو متعدد مشرق وسطی ممالک اور یورپ سے جوڑے گی۔ امریکی صدر جو بائیڈن بھی اس منصوبے میں شامل ہیں جن کے مطابق ایسی اور تجارتی راہداریاں بھی مستقبل میں سامنے آئیں گی۔ کونسٹینٹائنو زیویئر کا کہنا ہے کہ چین اندرونی کھپت کے معاشی ماڈل پر منتقل ہو رہا ہے اور جنوبی ایشیا میں سرمایہ کاری کے لیے اس کے پاس زیادہ پیسہ نہیں ہے، اسی لیے خطے کے ممالک انڈیا، جاپان، امریکہ، یورپی یونین اور دیگر روایتی شراکت داروں کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw8xd6e9dpxo", "summary": "انڈیا سمیت ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے بہت سے ممالک میں ڈیجیٹل لون ایپس کے ذریعے لوگوں کو پھانسنے، مالی طور پر قرض کے عوض بھاری سود پر وصولیاں کرنے، ان کی تذلیل کرنے اور بلیک میل کرنے کا ایک گھناونا کاروبار جاری ہے۔ انڈیا میں کم از کم 60 انڈین شہریوں نے ان کمپنیوں کی طرف سے بدسلوکی اور دھمکیوں کے بعد خود کشی کر لی ہے۔ بی بی سی کی خفیہ تحقیقات نے انڈیا اور چین میں اس گھناؤنے سکینڈل سے فائدہ اٹھانے والوں کو بے نقاب کیا ہے۔", "title": "لون ایپس، بلیک میلنگ اور خودکشیاں: ’اس پیغام نے مجھے پوری دنیا کے سامنے برہنہ کر دیا‘", "firstPublished": "2023-10-13T02:47:14.856Z", "id": "cw8xd6e9dpxo", "article": "ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے بہت سے ممالک میں ڈیجیٹل لون ایپس کے ذریعے لوگوں کو پھانسنے، مالی طور پر قرض کے عوض بھاری سود پر وصولیاں کرنے، ان کی تذلیل کرنے اور بلیک میل کرنے کا ایک گھناؤنا کاروبار جاری ہے۔ انڈیا میں کم از کم 60 انڈین شہریوں نےان کمپنیوں کی طرف سے بدسلوکی اور دھمکیوں کے بعد خود کشی کر لی ہے۔ بی بی سی کی خفیہ تحقیقات نے انڈیا اور چین میں اس گھناؤنے سکینڈل سے فائدہ اٹھانے والوں کو بے نقاب کیا ہے۔ وہ ایک عالمی سکینڈل کا شکار ہو چکی تھیں جس کی جڑیں کم از کم 14 ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ ایک گھناؤنا کاروبار ہے جس میں لوگوں کی تذلیل کر کے اور بلیک میلنگ کے ذریعے منافع کمایا جا رہا ہے اور لوگوں کی زندگیاں برباد کی جا رہی ہیں۔ آن لائن بہت سی ایسی ایپس ہیں جو بغیر کسی تصدیق کے چند منٹوں میں قرض دینے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ تمام ایپس بلیک میلنگ نہیں کرتیں لیکن کچھ ایسی بھی ہیں جو ڈاؤن لوڈ ہونے پر آپ کے فون میں موجود تمام کانٹیکٹس، تصاویر اور یہاں تک کہ شناختی کارڈ تک کی معلومات حاصل کر لیتی ہیں۔ یہ ایپس ان معلومات کو بعد ازاں آپ سے بھتہ یا وصولی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ہمیں دنیا بھر سے اس قسم کی دھوکہ دہی اور بلیک میلنگ کے ثبوت ملے ہیں، لیکن بی بی سی کو علم ہوا کہ صرف انڈیا میں ہی کم از کم 60 افراد نے ان لون ایپس کمپنیوں کی جانب سے ہراساں کیے جانے کے بعد خودکشی کی ہے۔ ان خودکشیوں میں 50 فیصد سے زیادہ تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں ہوئی ہیں۔ بی بی سی نے کئی مہینے ایسے شخص کی تلاش میں گزارے جو اس کاروبار کے بارے میں جانتا ہو۔ آخر کار ہم ایک نوجوان سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئے جس نے مختلف لون ایپس کے کال سینٹرز میں کلیکشن ایجنٹ کے طور پر کام کیا تھا۔ ہم نے اس رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کو ’آسان لون‘ ایپ کمپنی، لیانگ تیان تیان اور پرشورام تاکوے کے سامنے رکھا جو اس وقت روپوش ہیں۔ لیکن نہ تو کمپنی نے جواب دیا اور نہ ہی ان دونوں افراد نے کوئی تبصرہ کیا۔ جب لی ژیانگ سے تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اور ان کی کمپنی مقامی ضوابط کی پاسداری کرتے ہیں، انھوں نے کبھی بھی ایسی لون ایپس نہیں چلائی اور انھوں نے جیالیانگ کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور وہ صارفین کی ذاتی معلومات اور ڈیٹا نہ اکٹھا کرتے ہیں اور نہ ہی یا استعمال کرتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjjg83z97wyo", "summary": "تریسٹھ برس پہلے اگر سب کو برابری سے حصہ مل جاتا تو شاید دارالحکومت جنوب سے اٹھا کے شمال میں لے جانے کی ضرورت بھی نہ ہوتی۔ آج زیادہ گھمبیر حالات ہیں۔ چہار جانب رعایا ہاتھ پھیلائے کھڑی ہے۔ آپ کے پاس گھڑی ہے مگر وقت رعیت کے پاس ہے۔", "title": "اب اسلام آباد کہاں اٹھا کے لے جانا ہے؟ وسعت اللہ خان کا کالم", "firstPublished": "2024-01-07T14:37:47.081Z", "id": "cjjg83z97wyo", "article": "یہ تو سب جانتے ہیں کہ انڈیا کا دارالحکومت تاریخی دلی سے جڑا ایک سو گیارہ برس پرانا نئی دلی ہے، افغانستان کا دارالحکومت صدیوں سے آباد کابل ہے، تہران کی اپنی ایک طویل تاریخ ہے اور پاکستان کا چوتھا ہمسایہ چین جب کمیونسٹ نہیں تھا تب بھی بیجنگ مرکز تھا، آج بھی وہی دارلخلافہ ہے۔ مگر پاکستان کو آخر اپنی پیدائش کے گیارہویں برس میں ہی ایک نئے دارالحکومت کی کیوں ضرورت پڑ گئی جبکہ اس کے پاس پہلے سے بنا بنایا کراچی موجود تھا اور نئے دارالحکومت کے مستقبل کی ضروریات پوری کرنے کے لیے نارتھ ناظم آباد اور گڈاپ کی ٹاؤن پلاننگ بھی ہو چکی تھی۔ فیلڈ مارشل نے کیوں نہ سوچا کہ اس فیصلے سے ان کے آبائی صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) اور شمالی و وسطی پنجاب کی رسائی تو بڑھ جائے گی مگر سندھ، بلوچستان اور مشرقی پاکستان کے لوگوں کا کیا ہو گا۔ بلکہ ڈھاکہ سے کراچی کا دو ہزار ستر کلومیٹر کا فاصلہ شمال میں دارالحکومت منتقل ہونے کے بعد بڑھ کے تین ہزار سات سو کلومیٹر ہو جائے گا اور بنگالیوں کی نفسیاتی اجنبیت بھی سہہ چند ہو جائے گی۔ چنانچہ اس آدم بیزاری کا حل یہ نکالا گیا کہ دارالحکومت ہی اٹھا لو تاکہ عام آدمی وہاں تک رسائی سے پہلے اپنی جیب اور ارادہ دس بار ٹٹولے اور اگر پھٹے جوتوں سمیت گھس بھی آئے تو اس کی آواز شکر پڑیاں اور مارگلہ کے درمیان گونجتی رہ جائے اور اگر کوئی بددماغ سویلین کبھی پاور میں آ جائے تو اس کی سرکوبی کا مسلح تسلی بخش انتظام بھی شہرِ نو کے نکڑ پر ہی موجود ہو۔ جس کے پاس بھی پانچ سو بندے ہوتے اسلام آباد کا رخ کرتا۔ جو زیادہ دھمکاتا یا تشدد پر اتر آتا اس کی سن لی جاتی۔ جو شرافت سے پیش آتا اس کی سنی ان سنی ہو جاتی۔ جو نواح سے آن دھمکتا اس سے آدمیوں کی طرح بات چیت ہوتی۔ جو دور سے پاپیادہ آتا اس کو دھمکا کے یا قانون کے شکنجے میں کس کے طبیعت صاف کر دی جاتی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ دباؤ بڑھتا چلا گیا۔ باقی پاکستان کی آبادی بھی جب اسلام آباد بنا تھا تو لگ بھگ پانچ کروڑ تھی، آج پچیس کروڑ ہے۔ چنانچہ اسلام آباد دی بیوٹی فل اب اسلام آباد دھرنا فل بن چکا ہے۔ اوپر سے شرپسند سوشل میڈیا بھی ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ تریسٹھ برس پہلے اگر سب کو برابری سے حصہ مل جاتا تو شاید دارالحکومت جنوب سے اٹھا کے شمال میں لے جانے کی ضرورت بھی نہ ہوتی۔ آج زیادہ گھمبیر حالات ہیں۔ چہار جانب رعایا ہاتھ پھیلائے کھڑی ہے۔ آپ کے پاس گھڑی ہے مگر وقت رعیت کے پاس ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2l8rj7rkjo", "summary": "زاہد نہاری کی بنیاد 1980 میں صدر کی ایک دکان میں حاجی بخش الٰہی نے رکھی تھی جو تقسیم کے بعد انڈیا کے شہر دلی سے کراچی منتقل ہوگئے تھے۔ انھوں نے اس دکان کا نام اپنے بیٹے حاجی زاہد میاں کے نام پر رکھا۔ ", "title": "دنیا کے 100 مقبول ریستورانوں میں شمار کراچی کی زاہد نہاری: ’ہم نے کبھی بھی معیار اور ذائقے پر سمجھوتہ نہیں کیا‘", "firstPublished": "2024-01-07T03:36:27.633Z", "id": "cv2l8rj7rkjo", "article": "کراچی کے ریستوراں زاہد نہاری کو اس کے پکوان کی مہارت کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ہے اور اس کا شمار دنیا کے سو مشہور ریستورانوں میں کیا گیا ہے۔ یورپی ملک کروشیا کی کمپنی ٹیسٹ ایٹلس نے سال 2024 کی فہرست برائے دنیا کے سو مشہور ریستوران جاری کی ہے جس میں پاکستان کے شہر کراچی کے ایک ریستوران ’زاہد نہاری‘ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ فہرست میں زاہد نہاری کا نمبر 89 واں ہے۔ بی بی سی اردو کو اپنے بیان میں ٹیسٹ ایٹلس نے بتایا کہ وہ یہ فہرست ریستوران کے قیام کی مدت، اعلیٰ عوامی درجہ بندی اور پکوان کی مقبولیت دیکھ کر بناتی ہے اور کراچی کا ریستوران زاہد نہاری اِن تمام معیارات پر پورا اترتا ہے۔ زاہد نہاری کی بنیاد 1980 میں صدر کی ایک دکان میں حاجی بخش الٰہی نے رکھی تھی جو تقسیم کے بعد انڈیا کے شہر دلی سے کراچی منتقل ہوگئے تھے۔ انھوں نے اس دکان کا نام اپنے بیٹے حاجی زاہد میاں کے نام پر رکھا۔ زاہد نہاری کی اب دو شاخیں ہیں۔ ایک ریستوران صدر میں ہی ہے جبکہ دوسری شاخ شہر کے مشہور بازار طارق روڈ پہ 2006 میں کھولی گئی۔ 43 سالوں سے جاری یہ کام اب حاجی بخش الہی کے پوتے ابوبکر اور عمار سنبھالتے ہیں۔ زاہد نہاری کے مالک ابوبکر نے بتایا کہ ’ہمارے دادا حاجی بخش الٰہی انڈیا میں دلی سے پاکستان آئے تھے۔ وہ اور ہمارے والد زاہد میاں اس کام کو جانتے بھی تھے اور انھوں نے اسی پر توجہ دے کر کام شروع کیا۔‘ عبیر حیدر نے اپنے دفتر کے ساتھیوں کے ساتھ زاہد نہاری سے کھانا کھانے کے بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں پہ سروس بہت تیز ہوتی ہے۔ مہینے دو مہینے میں ایک آدھ چکر لگ جاتا ہے۔ میرے خیال میں ان کی کوالٹی برقرار رہتی ہے، کھانا بھی اچھا ہے، سروس بھی اچھی ہے، پیسے بھی مناسب ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ سو بہترین ریستورانوں میں آنے کے مستحق ہیں۔‘ شہریار خان اکثر اپنے دفتر کے ساتھیوں یا خاندان کے ساتھ زاہد نہاری آتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’یہاں نہاری اور روٹی گرم گرم پیش کی جاتی ہے، یہ لذید بھی بہت ہے۔ زاہد نہاری کا ذائقہ سب سے منفرد ہے۔ آپ جب بھی یہاں آئیں گے آپ کو الگ ہی مزہ آئےگا۔ گھر کی نہاری میں وہ ذائقہ ہی نہیں آتا جو یہاں کی نہاری میں ہوتا ہے۔‘ کراچی جیسے شہر میں جہاں نہاری کی سینکڑوں دکانوں سمیت دیسی اور بدیسی پکوانوں کی بھرمار ہے وہاں نہاری جیسے روایتی ڈش کے ساتھ اپنی الگ پہچان بنانا کافی مشکل عمل ہے لیکن زاہد نہاری اپنے ذائقہ اور سروس کے معیار کی وجہ سے اپنی منفرد جگہ بنانے میں کامیاب رہا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyr3jg2g5nvo", "summary": "اگر یونیورسٹی کا قانون بھی لاگو ہو تو انھیں ایک طالب علم کی جان خطرے میں ڈالنے کے الزام میں دوبارہ لیکچر دینے کی اجازت نہ دی جاتی۔ پڑھیے محمد حنیف کا کالم", "title": "’خرگوش، کتا، پنجابی۔۔۔ اینمیل فارم؟‘: محمد حنیف کا کالم", "firstPublished": "2024-01-06T10:41:32.930Z", "id": "cyr3jg2g5nvo", "article": "کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ تین الفاظ ایک جملے میں استعمال کروں گا لیکن نگران وزیر اعظم نے کسی سوال کے جواب میں اپنے دبنگ لہجے میں فرمایا کہ کیا ہم قانون بنا دیں کہ بلوچستان میں خرگوش، کتا اور پنجابی کا قتل جائز ہے؟ وزیر اعظم نے فرمایا کہ انھیں اس جعلی ہمدردوں کے قبیلے سے شکایت ہے۔ اس جعلی قبیلے کے ایک ادنیٰ رکن کے طور پر میں وزیر اعظم کا دکھ سمجھتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ عالی جاہ خرگوش اور کتے کا قتل صرف اس صورت میں جائز ہے جب خرگوش انتہائی بھوک کی حالت میں شکار کیا جائے اور کتا صرف اسی صورت میں جب وہ پاگل ہو جائے اور انسانوں کے لیے خطرہ بن جائے۔ اب پاکستان تو ظاہر ہے کہ ایک جعلی قبیلہ نہیں ہے، اور پاکستانی کم از کم اتنے سیانے تو ہیں کہ انھیں نگران وزیر اعظم سے کوئی گلہ نہیں ہے، ان کو نگران بنانے والوں سے ہو تو ہو لیکن اس بے شعور قوم کو بھی اتنا شعور ہے کہ وہ نگرانوں کو گلے کے قابل نہیں سمجھتے۔ پاکستان کو بھی نگران وزیراعظم سے کوئی گلہ نہیں ہے صرف یہ کہ وہ اپنے گیان لاہور کی یونیورسٹیوں میں پھیلانے پہنچ جاتے ہیں۔ ان کا خیال ہو گا کہ نوجوانوں کی قوم ہے اگر عمران خان کی دیوانی ہے تو میں نے تو عمران خان سے کہیں زیادہ کتابیں پڑھی ہیں۔ طلبا کے ساتھ ان کے پہلے ٹاکرے میں وہ اپنے آپ کو یورپی دانشور سمجھتے ہوئے ریڈ وائن اور سٹیک کو ریستوران میں پیش کرنے کی مثالیں دے رہے تھے۔ اس ہفتے میں وہ لاہور کی ایک بڑی یونیورسٹی میں ایک طالب علم کا نام چبا چبا کر (کیونکہ نام شیعہ تھا) اسے یاد کرا رہے تھے کہ اگر بلوچستان جاؤ گے تو مارے جاؤ گے۔ اگر یونیورسٹی کا قانون بھی لاگو ہو تو انھیں ایک طالب علم کی جان خطرے میں ڈالنے کے الزام میں دوبارہ لیکچر دینے کی اجازت نہ دی جاتی اور اگر شہر لاہور کا کوئی قانون بنے تو ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا جو ہمارے کیلنڈر کے حساس مہینوں میں فسادی مولویوں کا شہر میں داخلہ بند کر کے کیا جاتا ہے۔ ہمدردوں کے جعلی قبیلے کو مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے جارج آرویل کا طعنہ دیا کہ وہ تو لڑائی میں شامل ہو گیا تھا تم لوگ صرف کالم ہی لکھ رہے ہو۔ ساتھ اپنی قابلیت کا ثبوت دینے کے لیے اس کی دو کتابوں کا بھی نام لیا: 1984 اور اینیمل فارم۔ اگر یونیورسٹی والوں کی مجبوری ہے کہ نگران کا بھاشن ضرور سننا ہے تو شاید اس دفعہ کوئی طالبعلم بلوچستان میں مسنگ پرسنز کی بابت پوچھنے کی بجائے یہ سوال اٹھا دے کہ آپ جارج آرویل کی کتاب اینیمل فارم میں اپنے آپ کو کس کردار کے قریب پاتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn096vwqe31o", "summary": "پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے سینیٹ کی اس قرارداد کی مخالفت کی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے اسے ’شرمناک‘ جبکہ ن لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعتِ اسلامی اور دیگر جماعتوں نے اسے ’سازش‘ قرار دیا ہے۔ ", "title": "الیکشن التوا پر سینیٹ کی قرارداد: ’کچھ قوتیں پاکستان میں انتخابی عمل پر اثر انداز ہونا چاہتی ہیں‘", "firstPublished": "2024-01-05T15:13:45.783Z", "id": "cn096vwqe31o", "article": "سینیٹر دلاور خان کی اس قرارداد پر چیئرمین سینیٹ نے ووٹنگ کروائی جس کے بعد اسے منظور کیا گیا۔ دو سینیٹرز نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ان کا تعلق پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ایک ممبر سینیٹر افنان اللہ نے اس قرارداد کی مخالف کی۔ قرارداد کی حمایت کرنے والے سینیٹرز میں زیادہ تر کا تعلق یا تو کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے یا بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی سمیت بڑی سیاسی جماعتوں نے اس قرارداد سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ سینیٹ کی اس قرارداد کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کیا ہو گی۔ کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان اس قرارداد کے متن پر جزوی یا مکمل طور پر کسی بھی طرح عمل کرنے کا پابند ہے؟ وکیل اور قانونی ماہر اسد رحیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سینیٹ کی طرف سے منظور کردہ قرارداد کی کوئی قانونی یا اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے سینیٹ کی اس قرارداد کی مخالفت کی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے اسے ’شرمناک‘ جبکہ ن لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعتِ اسلامی اور دیگر جماعتوں نے اسے ’سازش‘ قرار دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما شیری رحمٰن نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی نے سینیٹ میں قرارداد کی حمایت نہیں کی اور ہمارا واضح موقف رہا ہے کہ ملک میں بر وقت الیکشن ہونے چاہئیں، ملک میں ہیجانی کی کیفیت نہیں پھیلانی چاہیے اور بے یقینی کی کیفیت نہیں ہونی چاہیے اور ہماری طرف سے ایسی کسی قراردار میں ہماری آواز شامل نہیں ہو گی۔ اگر تمام جماعتیں انتخابات کے التوا کے خلاف ہیں تو سوال یہ ہے کہ پھر کون ملک میں انتخابات ملتوی کروانا چاہتا ہے۔ صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی کہتے ہیں کہ اس کے لیے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ سینیٹرز جو یہ قرارداد لائے ہیں یا اس کی حمایت کر رہے ہیں وہ کون ہیں۔ تاہم صحافی سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ ’شر میں سے خیر کا پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی قوتوں نے یکسوئی کا اظہار کرتے ہوئے وقت پر انتخابات کے انعقاد کی حمایت کی ہے۔‘ انھوں نے سوال اٹھایا کہ چند دن یا ماہ الیکشن ملتوی کرنے سے کیا پاکستان سے دہشت گردی ختم ہو جائے گی؟ تاہم سلمان غنی کہتے ہیں کہ سینیٹ کی قرارداد کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ انتخابات ملتوی کرانے کی کوشش کا مائینڈ سیٹ ایک ماہ پہلے ہی سامنے آ گیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cx9k0qgg1dqo", "summary": "اب پاکستان میں انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں لیکن بعض علاقوں میں امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے سیاستدان اور امیدوار کھل کر اپنی انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے پا رہے۔ پاکستان میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اس وقت حالات زیادہ کشیدہ ہیں جس کی وجہ سے تھریٹ الرٹس جاری کیے گئے ہیں۔ ", "title": "خیبر پختونخوا میں انتخابی مہم پر حملے: بعض امیدواروں کو محتاط رہنے کی ہدایت کے ساتھ تھریٹ الرٹ کیوں جاری ہوئے؟", "firstPublished": "2024-01-05T04:21:15.354Z", "id": "cx9k0qgg1dqo", "article": "پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات سے قبل اب تک خیبر پختونخوا میں سیاسی رہنماؤں پر تین حملے ہو چکے ہیں جبکہ متعدد تھریٹ الرٹس میں سیاستدانوں کو انتخابی مہم کے دوران محتاط رہنے کا کہا گیا ہے۔ پاکستان کی سابقہ حکومت کے دور میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات بھی ہوئے تاہم اس دوران پُرتشدد واقعات ہونے پر شدت پسندوں کے خلاف محدود پیمانے پر آپریشنز شروع کیے گئے جس سے کشیدگی میں اضافہ ہوا اور مذاکرات بے نتیجہ رہے۔ اب پاکستان میں انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں لیکن بعض علاقوں میں امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے سیاستدان اور امیدوار کھل کر اپنی انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے پا رہے۔ پاکستان میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اس وقت حالات زیادہ کشیدہ ہیں جس کی وجہ سے تھریٹ الرٹس جاری کیے گئے ہیں۔ یہ تھریٹ الرٹس جمعیت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، عوامی نینشل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی خان اور مولانا فضل الرحمان کے بیٹے اسعد محمود کے بارے میں جاری کیے گئے ہیں۔ گذشتہ سال ستمبر میں چترال میں شدت پسندوں کے حملے کا تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا تھا اور اس میں مکمل تفصیل بیان کی گئی تھی کہ شدت پسندوں کا ایک گروہ افغانستان کی جانب سے چترال کے چند مقامات پر حملہ کرسکتا ہے۔ اس الرٹ میں اس گروپ کے کمانڈروں کے نام تک درج کیے گئے تھے۔ حالیہ دنوں میں جب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تو تین تھریٹ الرٹ سامنے آئے ہیں جن میں سے ایک میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ مولانا فضل الرحمان اور ایمل ولی خان پر حملہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے وزارت داخلہ کی جانب سے مرکز اور تمام صوبوں میں حکام سے کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں کو مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے۔ اسی طرح وسط دسمبر میں بھی ایک تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پندرہ سے بیس دہشت گرد ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کھوئی بہارہ میں کہیں موجود ہیں اور یہ پولیس تھانوں پر حملے کر سکتے ہیں۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مشتاق یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی اس طرح کے الرٹس جاری کیے گئے تھے لیکن اس مرتبہ صورتحال قدرے مختلف نظر آتی ہے۔ اگرچہ اس وقت علاقے میں حالات کشیدہ ہیں اور تھریٹ الرٹس بھی انھی کشیدہ حالات کی بنیاد پر جاری کیے جاتے ہیں تاہم سیاسی مبصرین یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ شدت پسندوں کی کارروائیوں اور الرٹس کی بنیاد پر کہیں انتخابات کی تاریخ تو آگے نہیں بڑھا دی جائے گی۔ مستعفیٰ ہونے سے قبل نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا تھا کہ الیکشن مہم کے دوران سیاستدانوں کے لیے سکیورٹی کے خطرات موجود ہیں۔ انھوں نے شوکت عزیز، بینظیر بھٹو اور ثنا اللہ زہری کی مثالیں دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں انتخابی مہم کے دوران سیاسی رہنماؤں پر حملوں کی ایک تاریخ ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72yx2peewjo", "summary": "ٹویوٹا کمپنی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ جلد ہی الیکٹرک کاروں کے لیے ایسی بیٹری بنانے کے قابل ہو جائے گی جس کی مدد سے الیکٹرک کار 1200 کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ طے کر سکے گی۔", "title": "’ایک چارج میں 1200 کلومیٹر‘: ٹویوٹا کا حیرت انگیز دعویٰ کیا الیکٹرک کار کی بیٹری کا مسئلہ حل کر دے گا؟", "firstPublished": "2024-01-07T11:21:53.160Z", "id": "c72yx2peewjo", "article": "ٹویوٹا کمپنی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ جلد ہی الیکٹرک کاروں کے لیے ایسی بیٹری بنانے کے قابل ہو جائے گی جس کی مدد سے الیکٹرک کار 1200 کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ طے کر سکے گی۔ یہی نہیں بلکہ یہ بیٹری صرف دس منٹ میں ری چارج ہو جائے گی۔ ٹوکیو میں یہ اعلان کرتے ہوئے ٹویوٹا کمپنی کے سربراہ کوجی ساتو نے کہا تھا کہ یہ نہ صرف الیکٹرک کاروں کی صنعت بلکہ آٹوموبائل انڈسٹری کے لیے بھی ایک انقلابی ایجاد ہے۔ کوجی ساتو نے کہا تھا کہ یہ نئی بیٹری کار مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو ایک نئے مستقبل کی طرف لے جائے گی۔ تو اس ہفتے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا ٹویوٹا نے الیکٹرک کار کی بیٹری کا مسئلہ واقعتاً حل کر دیا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ’توانائی کی زیادہ مقدار کو سالڈ سٹیٹ بیٹریوں میں ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے گاڑی کی ڈرائیونگ رینج ایک ہی چارج پر دو سے تین گنا بڑھ جائے گی۔ اس کے استعمال سے یہ کار ایک ہی چارج پر ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کر سکے گی۔ یہ کوئی خواب نہیں ہے۔ یہ بہت سے سائنسدانوں اور ٹویوٹا جیسی کمپنیوں کا اندازہ ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت وہ پریئس کو ایک ایسی کار کے طور پر دیکھ رہے تھے جو صفر کاربن کے اخراج والی کار مارکیٹ کے لیے راہ ہموار کرے گی۔ اس کار میں انھوں نے الیکٹرک کار کے لیے جو بھی جدید ٹیکنالوجی دستیاب تھی استعمال کی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں پیٹرول پر چلنے والی موٹر بھی تھی۔ بعد میں ٹویوٹا نے پلگ ان ہائبرڈ اور الیکٹرک کاروں میں سرمایہ کاری شروع کی۔‘ جیف لیکر نے کہا کہ میرے خیال میں اوسطاً امریکی ڈرائیور روزانہ چالیس سے پچاس میل ڈرائیو کرتا ہے۔ جس کے لیے موجودہ الیکٹرک گاڑیوں کی رینج کافی زیادہ ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ اگر انھیں زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑے تو چارجنگ کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ ان بیٹریوں پر چلنے والی گاڑی ایک بار چارج ہونے کے بعد زیادہ فاصلہ طے کر سکے گی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انھیں ٹویوٹا کی کچھ الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال ہونے میں کم از کم چار سال مزید لگیں گے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں لیتھیم بھی استعمال ہوتا ہے جس کی پیداوار ماحول کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں موجودہ کشیدگی کی وجہ سے اس کی سپلائی میں بھی رکاوٹیں ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c8029w857j5o", "summary": "کرکٹ کی تاریخ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں کرکٹ کے ایسے مقابلے ہوتے تھے، جن میں ٹیمیں ریاستوں یا علاقوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ مذاہب کی بنیاد پر بنتی تھیں۔\n", "title": "’دی بامبے پینٹنگولر‘ ٹورنامنٹ: جب کرکٹ ٹیمیں ہندو، مسلمان اور پارسی ہوا کرتی تھیں", "firstPublished": "2024-01-07T04:33:06.020Z", "id": "c8029w857j5o", "article": "کرکٹ برصغیر کا نہ صرف مقبول ترین کھیل ہے بلکہ شائقین اس کے لیے بہت جوش و خروش اور جنون رکھتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ انڈیا میں کرکٹ کی تاریخ بھی بہت دلچسپ ہے۔ اگر ایک طرف انڈیا اور پاکستان دونوں کا قومی کھیل ہاکی ہے وہیں کرکٹ کی جڑیں بھی یہاں بہت گہری ہیں۔ اس کھیل کے پس منظر میں کئی کہانیاں ہیں، جن سے تاریخ کی کئی تہوں کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ کرکٹ کی تاریخ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں کرکٹ کے ایسے مقابلے ہوتے تھے، جن میں ٹیمیں ریاستوں یا علاقوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ مذاہب کی بنیاد پر بنتی تھیں۔ ہندو ٹیم کا مقابلہ مسلمانوں سے، مسلم ٹیم کا پارسیوں سے اور ہندو ٹیم کا پارسیوں سے مقابلہ۔ یہ مقابلے کئی سال تک جاری رہے۔ تماشائیوں کا ایک بڑا ہجوم اسے دیکھنے آیا کرتا تھا۔ اس وقت کے میڈیا نے بھی اپنے اخبارات میں ان مقابلوں کو اچھی جگہ دی۔ اس وقت، یہ ہندوستان میں پارسی برادری تھی جس نے سب سے پہلے کرکٹ کو اپنایا۔ 1848 میں پارسی برادری نے اورینٹل کرکٹ کلب کا آغاز کیا۔ اس کے بعد پارسی برادری نے کئی دوسرے کرکٹ کلب بھی کھولے۔ سنہ 1889-90 میں انگلینڈ کے جی ایف ورنن کی کپتانی میں ہندوستان آنے والی ٹیم کو پارسی برادری کی ٹیم نے 4 وکٹوں سے شکست دی۔ یہ کسی بھی ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے لیے بہت بڑی جیت تھی۔ کوشک لکھتے ہیں کہ اس وقت ہندوستان میں مختلف کمیونٹیز کے درمیان مقابلے کے جذبے کی وجہ سے کرکٹ ترقی کر رہی تھی۔ کوشک نے مشہور مؤرخ گیانیندر پانڈے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ 1920 کی دہائی سے پہلے، ہندوستان کو مختلف برادریوں کے ایک گروپ کے طور پر دیکھا جاتا تھا، جس کے فریم ورک میں ’دی بامبے پینٹنگولر‘ جیسے ٹورنامنٹ فٹ ہوتے ہیں۔ ہندوستان کا یہ نظریہ 1920 کی دہائی میں بدلنا شروع ہوا۔ اب ہندوستان کو لوگوں کے ایک گروپ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ کوشک لکھتے ہیں، ’ٹورنامنٹ نے ایک قوم کے طور پر ابھرتے ہوئے ہندوستان میں مذہب کی بنیاد پر ٹیم مقابلوں کی ضرورت کے بارے میں ایک بحث کو جنم دیا۔‘ ’بحث میں دو دھڑے تھے، جن میں سے ایک کا کہنا تھا کہ یہ مقابلہ کرکٹ کے ذریعے کمیونٹیز کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش ہے۔‘ اس قدم کا پٹیالہ کی شاہی ریاست نے بھی خیر مقدم کیا۔ پٹیالہ ریاست نے یہ بھی اعلان کیا کہ ان کا کوئی بھی کھلاڑی فرقہ وارانہ بنیادوں پر کھیلے جانے والے میچوں میں حصہ نہیں لے گا۔ ’لیکن اس کوشش کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1946 میں پینٹنگولر ٹورنامنٹ کے اختتام کے بعد بھی لوگوں میں رنجی ٹرافی کے لیے کوئی خاص جوش و خروش نہیں دیکھا گیا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c882yje0qxjo", "summary": "امریکہ میں ایک 13 برس کے نوعمر نے 40 سال پرانی گیم ٹیٹرس کو ہرا کر ایک ایسا کارنامہ سر انجام دیا ہے جو اس سے قبل صرف مصنوعی ذہانت سے تو ممکن تھا مگر انسانوں کے لیے اسے ناممکن ہی سمجھا جاتا رہا۔", "title": "نوعمر گبسن کی ٹیٹریس گیم کو شکست: اس کارنامے سے ہمیں انسانی صلاحیتوں کے بارے میں کیا پتا چلتا ہے؟", "firstPublished": "2024-01-06T15:57:46.147Z", "id": "c882yje0qxjo", "article": "یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جس کا حصول کئی دہائیوں تک ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ 2023 کے آخر میں ایک 13 سالہ امریکی ولیس گبسن جنھیں انٹرنیٹ پر ’بلیو سکوٹی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے نے ٹیٹریس کے نینٹینڈو ورژن کی گیم جیت لی ہے، جو پہلی بار سنہ 1989 میں ریلیز ہوئی تھی۔ علمی سائنس کے ایک پروفیسر کے طور پر میں اس بات میں دلچسپی رکھتا ہوں کہ لوگ کس طرح مہارت حاصل کرتے ہیں، خاص طور پر ویڈیو گیمز میں، اس لیے جب ولیس گبسن نے یہ شاندار کارنامہ انجام دیا، تو انھوں نے فوری طور پر میری توجہ اس جانب مبذول کروا لی۔ اس سے پہلے صرف مصنوعی ذہانت ہی نینٹینڈو کے لیے اپنے ورژن میں ٹیٹریس کو شکست دینے میں کامیاب رہی تھی۔ اس وقت سنہ 2021 میں مصنوعی ذہانت گیم کی وہ سٹیجز کھیلنے میں کامیاب ہوا جو اس سے پہلے انسانوں نے دریافت نہیں کی تھیں۔ ٹیٹریس کا کھیل اگلے مراحل میں تیز سے تیز تر ہو جاتا ہے اور رفتار سٹیج 29 پر اچانک دوگنی ہو جاتی ہے، اس سطح پر چند ہی گیمرز پہنچتے ہیں۔ آخر میں انھیں یہ بڑی خبر ملی کہ انھوں نے ناممکن کو ممکن بنا لیا ہے اور وہ اس کھیل کے فاتح بن چکے ہیں۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ کیوں آپ کو ذہن میں رکھنا ہو گا کہ ٹیٹرس ایک کمیونٹی کے ساتھ ساتھ ایک گیم بھی ہے۔ ٹیٹریس اس لیے مشہور ہے کہ یہ کھیلنے والوں کو اپنے اندر محو کر لیتی ہے تاہم یہ کمیونٹی ہے جو اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ نئے کھلاڑی بہت سے متبادل موجود ہونے کے باوجود اس گیم میں کھو جاتے ہیں۔ فوسبری سٹائل کو ہی لیں، ایک ’ہائی جمپ تکنیک‘ جسے ڈک فوسبری نے سنہ 1968 کے اولمپکس میں امریکہ کے لیے طلائی تمغہ جیتا تھا۔ چاہے کوڈ کرنا سیکھنا ہو یا اپنے ڈش واشر کو ٹھیک کرنے کے بارے میں صرف ایک ویڈیو دیکھنا ہو، کامیاب مثالوں کو کاپی کرنا اور نئے طریقے سیکھنا پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ یہاں تک کہ مجرم بھی سماجی تعلیم کا استعمال کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک خبر نے ٹک ٹاک کو کاروں کو چوری کرنے کے لیے ایک خاص انداز مییں استعمال کرتے ہوئے چوری کے واقعات میں اضافے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ٹیٹرس میں ایک اہم اختراع کنٹرولر کو پکڑنے کا ایک نیا طریقہ ہے، جسے ’رولنگ‘ کہا جاتا ہے، جس میں کھلاڑی کی بورڈ کے بالکل اوپر رکھی ہوئی انگلی یا انگوٹھے سے پیڈ کے نیچے مارتے ہیں۔ ہم مسلسل بیرونی حدود کو دیکھتے ہیں اور ان تک پہنچ کر ہم اپنی صلاحیت کو بڑھاتے ہیں لیکن اب مصنوعی ذہانت ہمیں نئی بلندی پر لے جانے کے لیے موجود ہے جیسا کہ گبسن کی ریکارڈ ساز کامیابی نے ظاہر کیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c8v254072mjo", "summary": "اس ایک اوور میں اوپر تلے تین وکٹیں اڑا کر ہیزل ووڈ نے پاکستانی بیٹنگ کو اس قدر عریاں کر چھوڑا کہ پھر اس کا بھرم ڈھانپنے کی سکت نہ تو محمد رضوان میں رہی اور نہ ہی عامر جمال اس کا بار اٹھا پائے۔ ", "title": "’وہ پانچ منٹ جب اُمید کا سفر تمام ہوا‘: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2024-01-06T06:11:57.728Z", "id": "c8v254072mjo", "article": "یہ کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ ایک اوور اس قدر فیصلہ کن ثابت ہو گا کہ باقی ساری کارگزاری اپنی معنویت کھو بیٹھے گی۔ پیٹ کمنز نے جب گیند ہیزل ووڈ کو تھمائی، خود انھیں بھی امید نہ تھی کہ یہ پانچ منٹ اس قدر قہر ڈھائیں گے۔ لیکن وہ پانچ منٹ اس قدر گراں ثابت ہوئے کہ پانچ روزہ کھیل پہ بھاری پڑ گئے۔ پاکستان کی امیدوں کا سارا سفر ان پانچ منٹ میں سمٹ گیا اور تاریخ رقم کرنے کی جانب بڑھتے قدم خود تاریخ کے بوجھ تلے دب گئے۔ سست پچز پہ، سپن دوست کنڈیشنز میں سعود شکیل اپنی ٹیم کے لیے کس قدر مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں، یہ سب جانتے ہیں۔ پیٹ کمنز بھی اس امر سے آگاہ تو تھے مگر پھر بھی انھوں نے لیون کے ہمراہ ہی اٹیک جاری رکھا۔ لیکن جب نیتھن لیون کے داؤ پیچ سعود شکیل کی ہنرمندی کے سامنے ہیچ ہوتے نظر آئے، تب کمنز نے ہیزل ووڈ کو گیند تھمائی اور پھر ہیزل ووڈ کے ہاتھ میں گیند کو وہ پانچ منٹ ملے جنھوں نے اس ساری امید کو حسرت و یاس میں بدل دیا۔ اس ایک اوور میں اوپر تلے تین وکٹیں اڑا کر ہیزل ووڈ نے پاکستانی بیٹنگ کو اس قدر عریاں کر چھوڑا کہ پھر اس کا بھرم ڈھانپنے کی سکت نہ تو محمد رضوان میں رہی اور نہ ہی عامر جمال اس کا بار اٹھا پائے۔ اگرچہ پہلی اننگز میں انہی دونوں بلے بازوں نے یکے بعد دیگرے پاکستانی بیٹنگ کی ڈوبتی ناؤ کو بحال کیا تھا۔ مگر سڈنی کی پچ پہ چوتھا دن ہو اور نیتھن لیون کے ہاتھوں میں گیند ہو تو بیٹنگ کے کرشمے ناپید ہو رہنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ پاکستان آسٹریلیا دو طرفہ ٹیسٹ کرکٹ کو بینو قادر ٹرافی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جو دو عظیم سپنرز رچی بینو اور عبدالقادر کی یاد مناتی ہے۔ مگر اس ٹرافی کے نتائج اس قدر یکطرفہ رہے ہیں کہ اب اس میں ’قادر‘ بے معنی سا دکھائی دیتا ہے۔ سنہ 2016 میں جب مصباح الحق کی ورلڈ چیمپئن ٹیم آسٹریلیا کے دورے سے ہزیمت سمیٹ کر نکلی تھی، تب ان سے سوال ہوا تھا کہ آسٹریلیا میں جیت کے لیے پاکستان کو کیا کرنا چاہیے، جس پہ ان کا جواب تھا کہ انڈر 19 اور اے ٹیم کے زیادہ دورے طے کیے جائیں تا کہ ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کو آسٹریلین کنڈیشنز کا تجربہ مل سکے۔ ان کی اس تجویز کی تائید یہاں عامر جمال کی کارکردگی سے ہوتی ہے کہ جن کی ٹیسٹ کرکٹ میں یہ ڈیبیو سیریز تھی مگر آسٹریلیا میں سابقہ کلب کرکٹ کے تجربے کی بنیاد پہ وہ یہاں ہارے ہوئے لشکر سے بھی پلئیر آف میچ ٹھہرائے گئے۔ اگر پی سی بی افراد کی کشمکش سے ابھر کر ایک ادارہ بن پائے اور اپنے وقار کی شناخت کر پائے تو آسٹریلوی دوروں کی خفت آمیز تاریخ کو پلٹنا اتنا بھی بڑا پہاڑ نہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c9x2jr76n52o", "summary": "اس دورے کے دوران بارہا یہ احساس ابھرتا رہا ہے کہ قسمت اور حالات پاکستان کو ایک نادر فتح کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ مگر پاکستان خود ان مواقع کو ضائع کرنا اس قدر ضروری سمجھ بیٹھا ہے، گویا جیت سے گریز ناگزیر ہو چکا ہو۔ ", "title": "’ایسی فیلڈنگ سے تو نہ ہو پائے گا‘: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2024-01-05T08:31:08.736Z", "id": "c9x2jr76n52o", "article": "سڈنی میں رنز کا کال پڑ چکا ہے۔ پچ شکست و ریخت کا شکار ہے اور پاکستانی بیٹنگ اپنے خلجان کے ہاتھوں ایک ایسا گڑھا کھود بیٹھی ہے جہاں سے نکلنا جُوئے شیر لانے سے کم نہ ہو گا۔ اس دورے کے دوران بارہا یہ احساس ابھرتا رہا ہے کہ قسمت اور حالات پاکستان کو ایک نادر فتح کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ مگر پاکستان خود ان مواقع کو ضائع کرنا اس قدر ضروری سمجھ بیٹھا ہے، گویا جیت سے گریز ناگزیر ہو چکا ہو۔ میلبرن ٹیسٹ کے بعد جب محمد حفیظ نے کہا کہ ان کی ٹیم آسٹریلیا سے بہتر کھیلی، تو شاید بولنگ کے اعتبار سے ان کی بات کچھ وزن رکھتی تھی مگر باقی شعبوں میں یہ ایک بودی بیان بازی کے سوا کچھ نہ تھی۔ شان مسعود دو بار اس خطا کے مرتکب ٹھہرے اور صائم ایوب اپنے انٹرنیشنل کرئیر کی پہلی ہی اننگز میں دو کیچز ڈراپ کر چکے ہیں۔ بولنگ اور بیٹنگ کے برعکس فیلڈنگ زیادہ چستی اور حاضر دماغی کا تقاضا کرتی ہے اور پاکستانی فیلڈرز فی الوقت ان صلاحیتوں سے یکسر محروم نظر آتے ہیں۔ مگر ان کے اس تحفے کی بدولت وہیں 100 رنز کی پارٹنرشپ جم گئی اور پھر وہی رنز آسٹریلیا کی فتح کے فرق میں بھی نمایاں ہوئے۔ سڈنی میں تو ڈیوڈ وارنر کو گارڈ آف آنر دے کر بھی شاید پاکستان کے ارمان ادھورے رہ گئے اور الوداعی میچ میں ایک اور ڈراپ کیچ کا نذرانہ پیش کرنا ضروری سمجھا گیا۔ گو، یہ ڈراپ وارنر کو پیش کئے گئے سابقہ تحائف جتنا مہنگا ثابت نہ ہوا مگر آسٹریلوی اننگز پہ ابتدائی دباؤ پیدا کرنے کا ایک موقع بہرحال ضائع ہو گیا۔ مگر شان مسعود کی قائدانہ صلاحیتوں اور اپنی ہمت کے بل پہ بارہا یہی پیس اور تجربے سے محروم بولنگ اٹیک بھی پاکستان کا پلڑا حاوی کرتا آیا ہے۔ لیکن بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ جب جب پاکستان میچ میں برتری کی جانب گامزن ہونے لگتا ہے، فیلڈنگ اپنے بولرز کی تائید سے کنارہ کش ہو جاتی ہے۔ آج بھی آسٹریلوی اننگز خاصے خسارے میں تھی اور رن ریٹ ہی یہ عیاں کرنے کو کافی تھا کہ یہاں پاکستانی بولنگ کس قدر منظم اور موثر رہی۔ مچل مارش صرف 7 رنز پہ تھے کہ جب مڈ آف پہ صائم ایوب نے ایک بار پھر انہیں نئی زندگی ہدیہ کر دی۔ اس کے بعد وہی مچل مارش ففٹی بنا گئے اور ایک بار پھر پاکستان واضح برتری کا موقع گنوا بیٹھا۔ اگرچہ عامر جمال کے آخری سپیل نے آسٹریلوی اننگز پہ جو انہدام ڈھایا، وہ فقید المثال تھا مگر بعد ازاں وہ ساری خوبی بھی پاکستانی بیٹنگ کی بے یقینی کی نذر ہو گئی۔ اب ساری امیدیں ایک بار پھر محمد رضوان اور عامر جمال کی بلے بازی پہ ٹکی ہیں اور اگر یہ پارٹنرشپ کوئی معجزہ دکھا گئی تو شاید پاکستان تین دہائیوں کا شرمناک ریکارڈ مٹانے کے قابل ہو پائے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72y991gp35o", "summary": "صائم ایوب اور بابر اعظم کی تو بدقسمتی رہی کہ بہترین گیندیں ان کا نصیب ٹھہریں مگر ان کے سوا دیگر سبھی پاکستانی بلے باز محض اپنی نیم دلی کے ہاتھوں زیر ہوئے۔ ", "title": "’مگر عامر جمال جی دار نکلے‘: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2024-01-03T08:42:46.015Z", "id": "c72y991gp35o", "article": "پیٹ کمنز اٹیک میں آئے تو انھوں نے فیلڈرز کو باؤنڈری کی طرف دھکیلنا شروع کیا۔ یہ واضح اشارہ تھا کہ وہ شارٹ پچ بولنگ سے رضوان پر یلغار کرنے کو ہیں اور خود رضوان بھی اس امر سے واقف تھے کہ اب کیسی بولنگ ان کے رستے آنے کو ہے۔ مگر نہ چاہتے ہوئے بھی رضوان اسی دام میں آ گئے اور تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ اس انہدام میں، ان کی کوئی تکنیکی صلاحیت آڑے نہیں آئی بلکہ وہی نیم دلی ان کا بھی زوال ثابت ہوئی جو صبح سے پاکستانی بیٹنگ کا خاصہ رہی تھی۔ صائم ایوب اور بابر اعظم کی تو بدقسمتی رہی کہ بہترین گیندیں ان کا نصیب ٹھہریں مگر ان کے سوا دیگر سبھی پاکستانی بلے باز محض اپنی نیم دلی کے ہاتھوں زیر ہوئے۔ عبداللہ شفیق میلبرن میں ایک قیمتی کیچ ڈراپ کرنے کے بعد سے خود اعتمادی کے ایسے بحران کا شکار ہیں کہ اپنی مبادیات سے ہی بے بہرہ دکھائی دیے۔ جس گیند کو چھوڑ دینا بہتر تھا، وہ اسی پر نیم دلی سے بلا چلا بیٹھے۔ اور شان مسعود کی قسمت بارے کیا ہی کہا جائے کہ مچل مارش کی جس گیند پر وہ آؤٹ قرار پائے، وہ نو بال ٹھہری اور انھیں ایک نئی زندگی مل گئی مگر بدقسمتی کی انتہا ملاحظہ ہو کہ ایک ہی اوور بعد وہ عین اسی لائن و لینتھ کی گیند پر ہو بہو اسی بے دلی سے بلا گھما گئے۔ یہ پاکستان کی خوش بختی کی انتہا تھی کہ یہاں ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا موقع میسر آیا اور وہ سکور بورڈ پر ایک مسابقتی مجموعہ جما کر آسٹریلیا پر کچھ دباؤ پیدا کر سکتے تھے جسے چوتھی اننگز میں بیٹنگ کرنا ہو گی۔ اکیلے عامر جمال نے اپنے تئیں اس ساری بے دلی کا ازالہ کرنے کی کوشش جمائی اور پھر وہ کریز پر ایسے جمے کہ پیٹ کمنز کے بولرز سر کھجاتے رہ گئے۔ یہ ہرگز متوقع نہ تھا کہ جہاں ٹاپ آرڈر اور مڈل آرڈر اس قدر تر نوالہ ثابت ہوئے، وہاں عامر جمال اس بہترین بولنگ اٹیک کے گلے میں ہڈی کی مانند اٹک جائیں گے۔ انھوں نے ثابت کیا کہ اس طرح کے باؤنس پر یہ خطرناک اٹیک پاکستانی بلے بازوں کا کچھ نہ بگاڑ پاتا اگر نیم دلی آڑے نہ آتی۔ گو ان کی اننگز کا آغاز مضبوط نہ تھا مگر جیسے جیسے عامر پچ کی رفتار سے ہم آہنگ ہوتے گئے، آسٹریلوی ٹیم پچھلے قدموں پہ بھٹکنے لگی۔ بدقسمتی سے وہ خود تو سنچری تک نہ پہنچ پائے مگر اپنی ٹیم کو ضرور ایک قابلِ قدر مجموعے تک پہنچا گئے۔ جو سکور پہلی اننگز میں اس پچ پر یقینی تھا، پاکستان کا مجموعہ بہرحال اس ہندسے سے خاصا پیچھے بھٹک رہا ہے لیکن عامر جمال کی جی داری کے طفیل ٹیم اب وہاں کھڑی ہے کہ جہاں سے کم از کم مسابقت کا کچھ امکان موجود ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c9e239gk14xo", "summary": "یہ تو سب پر عیاں ہے کہ کل انٹرنیشنل کرکٹ میں ڈیوڈ وارنر اپنی الوداعی جھلک دکھائیں گے مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ سڈنی ٹیسٹ شان مسعود کے لیے کسی نئے عہد کا آغاز ہو گا یا پھر یہ ان کا بھی الوداعی میچ ثابت ہو گا۔", "title": "ڈیوڈ وارنر کا فیئر ویل خراب ہو سکتا ہے؟ سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2024-01-02T09:52:58.860Z", "id": "c9e239gk14xo", "article": "یہ تو سب پر عیاں ہے کہ کل انٹرنیشنل کرکٹ میں ڈیوڈ وارنر اپنی الوداعی جھلک دکھائیں گے مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ سڈنی ٹیسٹ شان مسعود کے لیے کسی نئے عہد کا آغاز ہو گا یا پھر یہ ان کا بھی الوداعی میچ ثابت ہو گا۔ اور جب ملک میں الیکشن کی آمد آمد ہے تو پی سی بی کی راہداریوں میں بھی یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ الیکشن کے بعد ممکنہ طور پہ ذکا اشرف پی سی بی کی صدارت پہ براجمان نہ ہوں گے۔ ایسے میں یہ سوال ناگزیر ہے کہ ذکا اشرف کی طے کردہ تعیناتیوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ شان مسعود جب کپتان مقرر ہوئے تو یہ پی سی بی کے اپنے سابقہ معیارات کے حوالے سے بھی عجیب ترین خبر تھی کہ جنھوں نے اپنے کیریئر میں اتنا وقت ٹیم کے اندر نہیں گزارا جتنا باہر گزارا ہے، وہ راتوں رات کپتان کیسے بن گئے۔ اب کل سے شروع ہونے والا سڈنی ٹیسٹ شان مسعود کے لیے ایک امید کی کرن ہے کہ نہ صرف سڈنی کی کنڈیشنز پاکستانی ٹیم کے لیے سہل ترین آسٹریلوی کنڈیشنز ہوں گی بلکہ تین دہائیاں پہلے پاکستان نے آسٹریلیا میں آخری ٹیسٹ بھی اسی گراؤنڈ پہ جیتا تھا۔ جس طرح سے اس سیریز میں شان مسعود اپنی قائدانہ صلاحیتیں ظاہر کرتے آئے ہیں، آسٹریلوی ٹیم یقیناً دباؤ کا شکار ہو گی اور ٹیم سلیکشن میں بھی پاکستان نے جو جرات مندانہ فیصلے کیے ہیں، اگر بار آور ہو گئے تو بعید نہیں کہ تاریخ کا ورق پلٹ جائے اور یہ معرکہ شان مسعود کا ممکنہ الوداعی میچ بننے کی بجائے ایک نئے باب کا افتتاحی میچ بن جائے۔ کیونکہ اس ٹور کے بعد پاکستان کو اگلے چھ ماہ میں کوئی ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیلنا ہے اور چھ ماہ میں پاکستان کے سیاسی منظرنامے کی تبدیلیاں پی سی بی کے ایوانوں تک منتقل ہو چکی ہوں گی، سو اگر شان مسعود یہاں کوئی تاریخ رقم کر پائے تو چھ ماہ بعد حالات مختلف ہو سکتے ہیں۔ ڈیوڈ وارنر کا یہ الوداعی میچ ہے اور پاکستان کے خلاف ان کا ریکارڈ یونھی تابناک نہیں رہا بلکہ پاکستانی فیلڈرز بھی ہمیشہ دامے، درمے، سخنے، ان کی حتی الامکان مدد کرتے آئے ہیں۔ لیکن اگر پاکستان سلپ کارڈن کے بہتر انتخاب میں کامیاب رہا تو شاید وارنر کی قسمت یوں نہ کھل پائے۔ اور امام الحق کو ڈراپ کیا جانا بہرحال ایک جرات آموز فیصلہ ہے اور شان مسعود ہی یہ اقدام اٹھا سکتے تھے۔ طویل فارمیٹ میں اگرچہ صائم ایوب کا تجربہ بہت محدود ہے لیکن اگر وہ اپنے مختصر فارمیٹ کے جارحانہ انداز کو یہاں بھی نبھا پائے تو آسٹریلوی بولرز کے لیے ایک سرپرائز ثابت ہو سکتے ہیں۔ ماضی کے آسٹریلوی دوروں کے برعکس پچھلے دو میچز میں شان مسعود نے ایک نو آموز بولنگ اٹیک کے ہمراہ بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر پاکستان اسی مومینٹم کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہ گیا تو وارنر کا فیئر ویل خراب بھی کر سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ck74kwzrxvjo", "summary": "آپ شاید فاطمہ وٹ برڈ کو جیولن پھینکنے والی، اولمپک میڈلسٹ، چیمپئن اور سابق عالمی ریکارڈ ہولڈر کے طور پر جانتے ہوں گے لیکن ان کی زندگی مصائب اور تنہائی سے لے کر مسلسل کوشش اور اعلیٰ مقام پانے تک کی ایک طویل داستان ہے۔\n", "title": "فاطمہ وٹ بریڈ: وہ بچی جسے پیدا ہونے کے بعد ’مرنے کے لیے‘ چھوڑ دیا گیا، عالمی جیولن چیمپیئن کیسے بنیں؟", "firstPublished": "2024-01-02T08:28:14.304Z", "id": "ck74kwzrxvjo", "article": "اس دوران ایک پڑوسی نے کسی کو اپارٹمنٹ میں داخل یا باہر نکلتے نہیں دیکھا یا بچے کو پرسکون کرنے کی کوشش کرتے نہیں سنا۔ انھوں نے پولیس کو فون کر دیا، جب پولیس وہاں پہنچی تو انھوں نے تین ماہ کی اس بچی کو مکمل طور پر اکیلا، بھوک سے بلکتا ہوا، گندگی میں اٹا ہوا اور شدید بیمار پایا۔ آپ شاید فاطمہ وٹ بریڈ کو جیولن پھینکنے والی، اولمپک میڈلسٹ، چیمپیئن اور سابق عالمی ریکارڈ ہولڈر کے طور پر جانتے ہوں گے لیکن ان کی زندگی مصائب اور تنہائی سے لے کر مسلسل کوشش اور اعلیٰ مقام پانے تک کی ایک طویل داستان ہے۔ ٹورنامنٹ کی فوٹیج میں وہ سفید برطانوی شرٹ اور 310 نمبر والی شارٹس میں تھوڑا سا آگے پیچھے چلیں، دائیں ہاتھ میں جیولن پکڑی اور پھر اپنی بائیں ٹانگ پر کھڑے ہو کر انھوں نے گیارہ قدم لے کر جیولن پھینک دیا۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری میں لکھا کہ اس وقت ان کے ہاتھ سے جیولن راکٹ کی طرح چھوٹا۔ اس وقت وٹ بریڈ کو معلوم تھا کہ انھوں نے ایک اچھا تھرو پھینکا ہے۔ جیولن آگے سے آگے جا رہا تھا اور جیسے ہی یہ لینڈ ہوا تو وٹ بریڈ نے فتح میں اپنے بندھے ہاتھ اٹھا دیے۔ اگلے دن، فائنل راؤنڈ میں وٹ بریڈ نے کندھے کی چوٹ کے باوجود اپنا پہلا طلائی تمغہ جیتا اور تاریخ کی دوسری سب سے طویل ترین تھرو پھینک کر کامیابی حاصل کی۔ وقتاً فوقتاً ان کی والدہ وٹ بریڈ کے سوتیلے بہن بھائیوں کو گھوماتی تھیں لیکن وہ فاطمہ کو کبھی اپنے ساتھ نہیں لے کر جاتیں۔ وٹ بریڈ کا کہنا ہے کہ ’اپنے آپ کو بچانے کے لیے میں نے اپنے ارد گرد ایک دیوار سی بنا لی تاکہ کوئی مجھ سے محبت نہ کر سکے اور نہ ہی کسی طرح سے مجھ میں دلچسپی ظاہر کر سکے۔‘ اس کے کچھ روز بعد وٹ بریڈ ایک جیولن زمین پر پڑا دکھائی دیا۔ انھیں کہا گیا تھا کہ وہ جیولن ٹرینر کے آنے کا انتظار کریں۔ جب وہ ٹرینر پہنچیں تو انھیں معلوم ہوا کہ یہ وہی نیٹ بال ریفری ہیں جنھوں نے وٹ برڈ کو وارننگ دی تھی۔ ان کا نام مارگریٹ وٹ بریڈ تھا۔ تب سے سابق برطانوی کامن ویلتھ گیمز کھلاڑی مارگریٹ بریڈ نے 13 سالہ فاطمہ کو وہ سب کچھ سکھایا، جو انھیں جیولن کے بارے میں جاننے کی ضرورت تھی۔ جب مارگریٹ کو پتا چلا کہ وہ چائلڈ پروٹیکشن ہوم میں رہتیں ہیں تو انھوں نے وٹ برڈ کو مناسب جوتے اور ایک جیولن خرید کر دیے تاکہ وہ اکیلے تربیت کر سکیں۔ ایک دفعہ انھوں نے جیولن گھر کے کمرے کی کھڑکی پر دے مارا جس پر انھیں ایک ماہ تک کھیل سے روکنے کی سزا دی گئی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cljxg726j5wo", "summary": "پاکستانی کرکٹ ٹیم جو کہ اس وقت آسٹریلیا کے دورے پر ہے اگلے میچ کے لیے میلبورن سے سڈنی جارہی تھی۔ محمد حفیظ بروقت ایئر پورٹ نہ پہنچ سکے اور انھیں فلائٹ پر بورڈ نہیں کیا جا سکا اور یہ خبر سوشل میڈیا صارفین اور کرکٹ کے مداحوں کو پسند نہیں آئی۔ ", "title": "محمد حفیظ آسٹریلیا میں فلائٹ مِس کرنے پر تنقید کی زد میں: ’وہ ذمہ دار انسان ہیں، بس ان سے بھول ہو گئی‘", "firstPublished": "2024-01-01T13:33:28.110Z", "id": "cljxg726j5wo", "article": "اب کی بار ایسا ہی کچھ محمد حفیظ کے ساتھ ہوا ہے جو کہ پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے ڈائریکٹر ہیں۔ دراصل آسٹریلیا کے دورے پر موجود ٹیم تیسرے اور آخری ٹیسٹ میچ کے لیے میلبرن سے سڈنی جا رہی تھی۔ جس فلائٹ سے قومی ٹیم روانہ ہو رہی تھی اس پر بورڈ کرنے میں حفیظ اور ان کی اہلیہ کو دیر ہو گئی۔ وہ دوسری فلائٹ پکڑ کر سڈنی پہنچ تو گئے لیکن یہ بات جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو اکثر صارفین اور کرکٹ کے مداحوں کو پسند نہیں آئی۔ سوشل میڈیا پر پاکستانی اور انڈین صارفین نے محمد حفیظ پر طنز و مزاح کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ کوئی مزاح کرتا نظر آیا تو کوئی انھیں ان کے عہدے کی ذمہ داریاں یاد دلاتا رہا۔ اسامہ خلیل نامی صارف نے لکھا کہ ’محمد حفظ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ڈائریکٹر ہیں۔ انھوں نے میلبورن سے سڈنی کی فلائٹ مس کر دی۔ کیا پی سی بی انھیں بھی 500 ڈالر جرمانہ کری گی؟‘ وہیں کچھ صارفین ایسے بھی تھے جو اس بحث کو بے معنی قرار دے رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں کھلاڑیوں کو ڈسپلن کا پابند کرنا ایک الگ اہمیت کا حامل ہے اور کسی آفیشل سے کوتاہی ہو جانا کرکٹ میچ پر زیادہ اثرانداز نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’فلائٹ مس ہو جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ یہ کسی بھی وجہ سے ہو سکتی ہے۔ کوئی فرد باتھ روم میں ہو سکتا ہے یا کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے۔ کافی پینے کی وجہ سے فلائٹ مس نہیں ہوتی۔ لیکن یہ ایسی چیز نہیں جس پر جرمانہ ہو۔ کیونکہ وہ عادتاً ایسا نہیں کر رہے کہ ہر بار ہی ایسا کر کے قانون توڑ رہے ہوں۔ اور حفیظ ایک انتہائی ذمہ دار انسان ہیں۔‘ عالیہ نے وضاحت کی کہ ’کیونکہ لڑکے رات کو جاگتے ہیں یا سوشل میڈیا پر رہتے ہیں یا پھر فیملیز کے ساتھ گھوم رہے ہوتے ہیں تو اس لیے انھیں پابند کرنا پڑتا ہے۔ یہ یقیناً ایک ڈسپلنری معاملہ ہے اور یہ ایک بالکل مختلف بات ہے۔‘ سوشل میڈیا پر بحث چھیڑنے کے عمل کو بے معنی قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ یقیناً ایسے کھلاڑیوں اور لوگوں کی جانب سے کیا جاتا ہے جو محمد حفیظ کی جانب سے ضوابط کی سختی سے نالاں ہیں۔ خیال رہے کہ ڈریسنگ میں اس جرمانے کے حوالے سے میلبرن ٹیسٹ کے بعد بھی حفیظ سے سوال پوچھا گیا تھا جس پر انھوں نے کہا تھا کہ ’کسی کو بھی اپنی سرکاری نوکری کے دوران سونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، جس دوران آپ ٹیسٹ یا ون ڈے کرکٹ کھیل رہے ہوتے ہیں تو یہ آپ کی سرکاری ڈیوٹی کا حصہ ہوتے ہیں اس لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ اس دوران سوئیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg8ezpp0w0o", "summary": "وارنر کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے اعلانات تو ایک جانب مگر انھوں نے 2025 کی چیمپیئنز ٹرافی میں کھیلنے سے انکار نہیں کیا۔", "title": "آسٹریلیا کے اوپنر ڈیوڈ وارنر جنھوں نے ناقدین کو جواب دینے کے لیے الفاظ نہیں بلکہ اپنے بلے کا سہارا لیا", "firstPublished": "2024-01-01T05:52:26.108Z", "id": "crg8ezpp0w0o", "article": "آسٹریلیا کے اوپنر ڈیوڈ وارنر نے ٹیسٹ کرکٹ کے بعد اب ون ڈے کرکٹ سے بھی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا ہے۔ کرکٹ فینز کے لیے یہ کوئی اچھی خبر تو نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ وارنر نے اپنے کیرئیر کے اختتام کے لیے ایک اچھے وقت کا انتخاب کیا۔ 37 سالہ وارنر نے پیر کے روز کہا کہ ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا ان کا فیصلہ ’بروقت اور اچھا‘ فیصلہ ہے۔ یہ وہی وارنر ہیں کہ جنھوں نے گزشتہ سال کرکٹ کی دُنیا کے ایک بڑے اور اہم ایونٹ کرکٹ ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کو انڈیا کے خلاف عالمی چیمپئین بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’ریٹائرمنٹ سے نئے کھلاڑیوں کے لیے مواقع پیدا ہوں گے اور انھیں بیرون ملک فرنچائز کرکٹ کھیلنے کی زیادہ آزادی ملے گی۔‘ وارنر نے اپنے ٹیسٹ کیرئر میں 44.58 کی اوسط سے 8695 رنز بنائے ہیں۔ آسٹریلیا کی جانب سے وارنر سے زیادہ رنز کسی اوپنر نے نہیں بنائے۔ وارنر نے اپنے پورے کیریئر کے دوران اپنے ناقدین کو جواب دینے کی عادت اپنائی مگر اس کے لیے انھوں نے کبھی اپنے الفاظ کا استعمال نہیں کیا، اگر کسی چیز کا استعمال کیا تو اپنے کرکٹ بیٹ کا جس کی مدد سے انھوں نے ہمیشہ ہی بہترین کار کردگی کا مظاہرہ کیا اور سب کو خاموش کروا دیا۔ 2018 میں وارنر جو اس وقت آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے نائب کپتان تھے، کو بال ٹیمپرنگ سکینڈل میں ملوث ہونے پر ایک سال کے لیے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے پر پابندی کا سامنا کرنا پڑا اور نہ صرف یہ بلکہ ان پر آسٹریلوی کرکٹ میں کسی بھی لیڈنگ رول میں سامنے آنے پر بھی مستقل پابندی عائد کر دی گئی۔ ناقدین نے انھیں کرکٹ چھوڑنے تک کا مشورہ دے ڈالا مگر جیسا کہ پہلے ذکر ہو چُکا ہے کہ وارنر ناقدین کو جواب دینے کے لیے الفاظ کا استعمال نہیں کرتے تو اس ایشز کے بعد بھی یہی ہوا، وارنر نے اپنی اگلی سیریز میں پاکستان کے خلاف صرف دو اننگز میں 489 رنز بنائے۔ پاکستان کے خلاف وارنر نے اپنی ان دو اننگز میں سے ایک میں آسٹریلیا کا دوسرا سب سے بڑا ٹیسٹ سکور 335 بنایا اور وہ اس اننگز میں ناٹ آؤٹ رہے۔ وارنر کے کیرئیر کی اگر بات کریں تو ان کی کامیابیاں بہت زیادہ ہیں، بہت کم ایسے اوپنرز ہیں کہ جنھوں نے ایسی شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔ وارنر نے 161 ون ڈے میچز میں 45.30 کی اوسط سے 6,932 رنز بنائے جس میں انھوں نے 22 سینچریاں اور 33 نصف سینچریاں سکور کیں۔ اس کے علاوہ وارنر نے ٹی 20 کرکٹ میں 99 اننگز میں 2,894 رنز بنائے اور اس فارمٹ میں انھوں نے ایک سینچری اور 24 نصف سینچریاں سکور کیں۔ وارنر کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے اعلانات تو ایک جانب مگر انھوں نے 2025 کی چیمپیئنز ٹرافی میں کھیلنے سے انکار نہیں کیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cg6w20v145ro", "summary": "انڈیا اور پاکستان کے درمیان طویل عرصے سے جاری کشیدہ تعلقات اکثر دونوں پڑوسی ممالک کو متاثر کرتے رہے ہیں اور بطور خاص ثقافتی تبادلوں کے معاملات میں ایسا زیادہ دیکھا گیا ہے۔ لیکن سابق پاکستانی کھلاڑیوں کے ایک شو نے انڈین مداحوں کے دل جیت لیے۔ ", "title": "’دی پویلین‘: وہ پاکستانی کرکٹ شو جس نے انڈیا کے لوگوں کے دل جیت لیے", "firstPublished": "2023-12-31T04:15:50.659Z", "id": "cg6w20v145ro", "article": "انڈیا اور پاکستان کے درمیان طویل عرصے سے جاری کشیدہ تعلقات اکثر دونوں پڑوسی ممالک کو متاثر کرتے رہے ہیں اور بطور خاص ثقافتی تبادلوں کے معاملات میں ایسا زیادہ دیکھا گیا ہے۔ انڈیا کے سابق کپتان کپل دیو اور سورو گنگولی سمیت کئی انڈین کرکٹرز نے اس شو کے فارمیٹ کو سراہا ہے۔ انڈین صحافی اور اس کھیل کے ایک پرستار راجدیپ سردیسائی نے اسے ’ورلڈ کپ کا بہترین کرکٹ شو‘ قرار دیا کیونکہ اس میں ان کے مطابق ’کوئی جہالت، کوئی شور نہیں تھا بلکہ صرف ٹھوس تجزیہ اور سابق کھلاڑیوں کا سچ‘ تھا۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کے تعلق سے شدید مسابقت نظر آتی ہے۔ اور دونوں ممالک اس وقت رک سے جاتے ہیں جب ان کی ٹیمیں ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اترتی ہیں۔ لیکن دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تناؤ کے سبب کرکٹ اکثر پیچھے چھوٹ جاتی ہے۔ دونوں ٹیموں نے کئی سالوں سے ایک دوسرے ملک کا دورہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی کوئی دو طرفہ سیریز کھیلی ہے۔ معروف کرکٹ میڈیا ہاؤس وزڈن کے انڈین مواد کے سربراہ ابھیشیک مکھرجی کا کہنا ہے کہ باہر کے لوگوں کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان کی کشیدگی کو سمجھانا مشکل ہے۔ تاہم انھوں نے اتنا ضرور کہا کہ دی پویلین کے لیے دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان محبت ایک ثبوت ہے جو ایک دوسرے کی ثقافت میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا: ’جب وہ انڈین کرکٹ کے بارے میں بات کرتے تھے تو وہ انڈیا کو نیچا دکھانے کی کوئی کوشش نہیں کرتے تھے۔ وہ صرف ایک اور ٹیم کے بارے میں بات کر رہے تھے جو اچھا کھیل رہی تھی۔‘ شو کے دوران پینلسٹس نے انگریزی، اردو اور پنجابی میں بات کی اور یہ ایسی زبانیں تھیں جنھیں بہت سے انڈینز بخوبی سمجھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پویلین پر نظر آنے والے سابق کرکٹرز انڈیا میں مقبول رہے ہیں اور ان کی موجودگی نے پرانی یادوں کو تازہ بھی کیا۔ پاکستان کے لوگ بالی وڈ کی فلمیں دیکھتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں، جبکہ پاکستان کے ٹی وی سیریئلز انڈیا میں بڑے پیمانے پر دیکھے اور سراہے جاتے رہے ہیں۔ اگرچہ دونوں حکومتوں نے حالیہ برسوں میں ثقافتی لین دین کو محدود کر دیا ہے، لیکن دونوں ممالک کے فنکاروں نے اکثر مختلف پروجیکٹس میں شرکت کی ہے۔ اور اس کے دائرہ مین کرکٹ بھی آتا ہے۔ وسیم اکرم اور ان کے ساتھی شعیب اختر بھارتی ٹاک شوز میں نظر آتے ہیں، جبکہ ایک دوسرے پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی نے ایک بار کہا تھا کہ انھیں پاکستان سے زیادہ پیار انڈیا میں ملا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0jyl31xdn2o", "summary": " جس بنیاد پر انھوں نے محمد رضوان کو آؤٹ قرار دیا، وہ کئی شائقین کرکٹ سمیت کمنٹری باکس میں بیٹھے ایڈم گلکرسٹ کے لیے بھی اچنبھے کا باعث تھا کہ اس کیمرہ اینگل کی حدود و قیود کے پیشِ نظر اسے کوئی ٹھوس ثبوت ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ سمیع چوہدری کا کالم۔ ", "title": "لیکن تھرڈ امپائر بیچ میں آ گئے۔۔۔ سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-12-29T08:56:46.399Z", "id": "c0jyl31xdn2o", "article": "شان نے کریز پر آتے ہی سکور بورڈ میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ یہ آسٹریلوی اٹیک پاکستانی بیٹنگ پر یکطرفہ برتری کا اس قدر خوگر ہو چکا ہے کہ شان مسعود کی جارحیت اس کے لیے واقعی اچنبھے کی بات تھی۔ شان مسعود کی اننگز میں وہ روانی تھی کہ پہلی بار آسٹریلوی بولنگ دباؤ میں نظر آئی۔ پیٹ کمنز کے پلان گڑبڑانے لگے اور فیلڈرز بھی پریشان دکھائی دیے کہ رنز کے اس بہاؤ کو مسدود کیونکر کیا جائے۔ بابر اعظم بدقسمت رہے کہ ایک بار پھر بہت اچھی گیند ان کے حصے میں آ گئی وگرنہ وہ بھی اپنے تئیں اس میچ میں پاکستان کی امیدیں روشن کیے رہے لیکن پاکستان کا اصل جوابی وار تب شروع ہوا جب محمد رضوان کریز پر آئے۔ محمد رضوان کی اننگز کبھی بھی دھیمی نہیں چلتی، وہ ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں اور اپنے حریف بولرز کو قدم جمانے نہیں دیتے۔ نیتھن لیون کی گیند پر جیسے ایک چھکے سے انھوں نے اپنی اننگز کا آغاز کیا، وہ اس عزم کا عکاس تھا کہ پاکستان اس ہدف کے تعاقب میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑے گا۔ اور یہ ساجھے داری میچ کو اس نہج تک لے آئی کہ دن اپنے اختتامی مراحل میں آن پہنچا، آسٹریلوی بولرز کے قدم تھکاوٹ سے چور ہو رہے تھے اور میلبرن کے بڑھتے سائے کینگروز کی امیدوں پر بھی چھانے لگے۔ پیٹ کمنز کی وہ گیند ہارڈ لینتھ سے اچانک ایسا غیر متوقع باؤنس لے کر اٹھی کہ رضوان کو اسے چھوڑنے کے لیے پیچھے ہٹنا پڑا، گیند پوری شدت سے رضوان کے بازو پر ٹکرائی اور ایسا نشان چھوڑ گئی جسے جانچنے کے لیے کسی ہاٹ سپاٹ ٹیکنالوجی یا سنیکو میٹر کی قطعی ضرورت نہ تھی۔ آن فیلڈ امپائر مائیکل گف نے پورے یقین سے وہ اپیل مسترد کی۔ لگ بھگ پوری آسٹریلوی الیون کو بھی یقین تھا کہ گیند بلے سے کوسوں دور رہی اور پیٹ کمنز نے جو ریویو لیا، وہ فقط فرسٹریشن کے سبب لیا ورنہ ان کے چہرے پر بھی مکمل ناامیدی نقش تھی۔ آئی سی سی کی پلئینگ کنڈیشنز کہتی ہیں کہ ریویو سسٹم میں تھرڈ امپائر تب تک آن فیلڈ امپائر کا فیصلہ رد نہیں کر سکتا جب تک اس کے پاس کوئی ٹھوس، حتمی ثبوت نہ ہو۔ رچرڈ النگ ورتھ نے اپنے تئیں کئی کیمرہ اینگل گھما کر کوئی ثبوت ڈھونڈنے کی کوشش جاری رکھی۔ اور بالآخر جس بنیاد پر انھوں نے محمد رضوان کو آؤٹ قرار دیا، وہ کئی شائقین کرکٹ سمیت کمنٹری باکس میں بیٹھے ایڈم گلکرسٹ کے لیے بھی اچنبھے کا باعث تھا کہ اس کیمرہ اینگل کی حدود و قیود کے پیشِ نظر اسے کوئی ٹھوس ثبوت ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ کی بدقسمتی ہے کہ گاہے بگاہے کبھی علیم ڈار تو کبھی رچرڈ النگ ورتھ کی شکل میں کوئی نہ کوئی امپائر اس کھیل کی مسابقت پر حاوی ہوتا رہتا ہے اور پھر اپنے اعمال کے نتائج سے بھی بری الذمہ رہ جاتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c03y6w1dz1go", "summary": "لنچ کے فوری بعد میر حمزہ نے جس ڈسپلن کا مظاہرہ کیا، وہ ڈیوڈ وارنر اور ٹریوس ہیڈ پر بہت گراں گزرا۔ میر حمزہ جب ہیٹ ٹرک چانس پر تھے، تب آسٹریلوی سکور کارڈ کی زبوں حالی شائقین کے لیے ایک نادر نظارہ تھا۔ تب یہ میچ یکسر پاکستان کی مٹھی میں آ چکا تھا۔ سمیع چوہدری کا کالم۔ ", "title": "عبداللہ شفیق کے ہاتھوں سے پھسلتی تاریخ، سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-12-28T09:15:26.000Z", "id": "c03y6w1dz1go", "article": "میلبرن کی شام ڈھل رہی تھی اور پاکستان کے ارمان سرد پڑنے کو تھے مگر شاہین آفریدی جب آخری اوور کے لیے آئے تو شان مسعود نے غیر معمولی فیلڈ ترتیب دی اور شاہین کا شارٹ لینتھ پلان سٹیو سمتھ کی قیمتی ترین وکٹ لے اڑا۔ گو، اس آخری اوور کی وکٹ سے پاکستان کے ڈریسنگ روم پر یہ رات کچھ سہل ہو جائے گی لیکن یہ رات اس امکان سے کہیں بڑھ کر ہو سکتی تھی اگر لنچ کے بعد بھی پاکستانی فیلڈنگ کے حواس ویسے ہی مجتمع رہتے تھے جیسے پہلے سیشن میں رہے تھے۔ اور جب آسٹریلیا دوبارہ بیٹنگ کے لیے اترا تو پاکستانی اٹیک کو نئی گیند کے ساتھ ساتھ ابر آلود آسمان بھی میسر تھا، جس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے شاہین آفریدی اپنے اس اصل پر لوٹے جو نئی گیند کے ساتھ ان کی پہچان بن چکا تھا۔ لنچ کے فوری بعد میر حمزہ نے جس ڈسپلن کا مظاہرہ کیا، وہ ڈیوڈ وارنر اور ٹریوس ہیڈ پر بہت گراں گزرا۔ میر حمزہ جب ہیٹ ٹرک چانس پر تھے، تب آسٹریلوی سکور کارڈ کی زبوں حالی شائقین کے لیے ایک نادر نظارہ تھا۔ تب یہ میچ یکسر پاکستان کی مٹھی میں آ چکا تھا۔ سٹیو سمتھ اپنے خول میں سرکتے جا رہے تھے اور مچل مارش محض بقا کی جنگ میں جتے تھے۔ میچ کی چال یہ بتا رہی تھی کہ پاکستان کسی تاریخی لمحے کی سمت بڑھ رہا ہے مگر تب یکے بعد دیگرے دو ایسے لمحے آئے کہ جہاں پاکستان اپنی گرفت کھو بیٹھا۔ جدید کرکٹ کے عظیم ترین فیلڈر جونٹی رہوڈز نے کہا تھا کہ سلپ فیلڈنگ صرف تبھی کی جا سکتی ہے جب آپ اس سے لطف اندوز ہو رہے ہوں اور ہاتھوں میں وہی ملائمت ہو جو بلے بازی کے وقت ہوا کرتی ہے مگر عبداللہ شفیق نہ تو فیلڈنگ سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور نہ ہی ان کے ہاتھوں میں وہ ملائمت تھی جو ان کی بلے بازی کا خاصہ ہے۔ جہاں پاکستان نے اپنی بیٹنگ کے بعد بولنگ کے ڈسپلن میں قابلِ قدر بہتری دکھائی ہے، وہاں اب پاکستان کو اس پہلو پہ بھی محنت کرنا ہو گی کیونکہ سلپ فیلڈنگ ٹیسٹ کرکٹ میں کلیدی اہمیت رکھتی ہے اور ایسے ضائع شدہ مواقع بسا اوقات میچ گنوانے کے مترادف ٹھہرتے ہیں۔ یکے بعد دیگرے یہاں بھی دو ایسے لمحات آئے جہاں پہلے حسن علی کی ایک خوبصورت گیند سٹیو سمتھ کے بلے کا باہری کنارہ چھو کر عبداللہ شفیق کے ہاتھوں کے عین سامنے گر گئی اور پھر ذرا سی دیر بعد عامر جمال کی ایک بہترین گیند مچل مارش کے بلے کو چھو کر عین عبداللہ شفیق کے ہاتھوں میں جا گری۔ لیکن اب سٹیو سمتھ کی مدافعت اور مارش کی جارحیت کے طفیل آسٹریلوی اننگز وہاں پہنچ چکی ہے کہ ایک خاطر خواہ ہدف چوتھی اننگز میں پاکستانی بیٹنگ کا امتحاں ہونے کو ہے۔ جو تاریخی کامیابی عین مٹھی میں تھی، اب پاکستان کے لیے دشوار تر ہوئی جاتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c902kdq7y1zo", "summary": "ایک بھرپور دن جو پاکستان کے لیے خوابناک خوبیوں سے مزین تھا، یکسر پاکستان کے نام ہو سکتا تھا لیکن کمنز کے دوسرے سپیل میں پاکستانی مڈل آرڈر کی کم مائیگی سامنے آئی اور پورے دن کا حلیہ ہی بدل گیا۔ سمیع چوہدری کا کالم۔", "title": "مگر کمنز نے دن کا حلیہ بدل دیا: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-12-27T10:16:10.990Z", "id": "c902kdq7y1zo", "article": "کمنز کے دوسرے سپیل میں پاکستانی مڈل آرڈر کی کم مائیگی سامنے آئی اور پورے دن کا حلیہ ہی بدل گیا مگر پہلے روز کی بہترین بولنگ کاوش بھی خاطر خواہ نتائج یوں حاصل نہ کر پائی کہ مارنس لبوشین کی مزاحمت نے وہ ساری کاٹ کند کر ڈالی لیکن دوسری صبح پاکستانی بولنگ ڈسپلن اور جرات میں اپنے بہترین پر ابھر آئی اور آسٹریلوی بیٹنگ کو کاؤنٹر اٹیک کا سامنا کرنا پڑا۔ پرتھ میں پچ کا باؤنس اس قدر غیر متوازن اور بے یقینی سے لبریز تھا کہ امام الحق کی وہ احتیاط قابلِ فہم تھی لیکن میلبرن کی اس پچ کو دوسرے دن کی دھوپ لگ چکی تھی، گھاس بھی ماند پڑ چکی تھی اور حالات بیٹنگ کے لیے بالکل سازگار تھے۔ مگر امام الحق اپنے خول سے باہر نہ آ سکے اور ابتدائی اوورز میں پاکستان کا رن ریٹ سستی سے بھی پست تر رہا لیکن شان مسعود کے کریز پر آتے ہی گویا کوئی نئی روح بیدار ہو گئی اور یکایک سکور بورڈ یوں تیزی سے چلنے لگا کہ آسٹریلوی بولنگ دباؤ میں آ گئی۔ شان مسعود کی جارحیت کی بدولت پاکستان نے دوسری وکٹ کے لیے ایک ضخیم ساجھے داری کمائی اور پیٹ کمنز کی اس گیند پر اگر عبداللہ شفیق کی قسمت دغا نہ کرتی تو یہ پورا دن بھی پاکستان کے نام ہو سکتا تھا مگر کمنز کی سمجھداری اور ایک بہترین کیچ کی بدولت وہ ساجھے داری ٹوٹ گئی۔ اگر عبداللہ شفیق کی قسمت دغا نہ دیتی تو یہ پورا دن بھی پاکستان کے نام ہو سکتا تھا بابر اعظم بدقسمت رہے کہ دن کی بہترین گیند پر ان کا نام لکھا تھا مگر ان کے بعد باقی ماندہ مڈل آرڈر اپنے حصے کا بوجھ اٹھانے سے معذور دکھائی دیا۔ سعود شکیل بھی سلمان آغا کی طرح اسی مخمصے کا شکار رہے کہ گیند کا تعاقب کیا جائے یا احتراز سے کام لیا جائے۔ یہ درست ہے کہ اگر جدید ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کو باقی دنیا کے ہم پلّہ رہنا ہے تو اپنی چال بدلنا بھی لازم ہے۔ اس دور میں تین دہائی پرانے رن ریٹ پر چل کے میچ جیتے نہیں جا سکتے لیکن یہ ذمہ داری نبھانے کو صرف ایک عبداللہ شفیق کی اننگز یا محض شان مسعود کی مثبت اپروچ ہی کافی نہیں ہو سکتی۔ یہاں مڈل آرڈر کو اپنی ذمہ داری کا ادراک کرنا ہو گا کہ ٹاپ آرڈر نے تو پرتھ کی پہلی اننگز میں بھی اپنے حصے کا بوجھ اٹھایا تھا مگر جب تک مڈل آرڈر واقعی اس بیٹنگ لائن کی ریڑھ کی ہڈی ثابت نہیں ہو گا، تب تک اس آسٹریلوی ٹیم پر برتری کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔ ایک بھرپور دن جو پاکستان کے لیے خوابناک خوبیوں سے مزین تھا، یکسر پاکستان کے نام ہو سکتا تھا لیکن کمنز کے دوسرے سپیل میں پاکستانی مڈل آرڈر کی کم مائیگی سامنے آئی اور پورے دن کا حلیہ ہی بدل گیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cye6kjep0pwo", "summary": "صبح سویرے میچ کے لیے اٹھنے والے پاکستانی شائقین کو پہلا جھٹکا تو اسی وقت لگا جب اطلاعات کے مطابق کرکٹ بیٹنگ کمپنیوں کے ورچوئل سروگیٹ اشتہارات کے تنازع پر سرکاری چینل پی ٹی وی نے میلبرن ٹیسٹ براہِ راست نہیں دکھایا۔ ", "title": "’اب کیا وارنر ہاتھوں میں گیند تھمائے؟‘ آسٹریلوی اوپنر کی قسمت جو اکثر پاکستان کے خلاف ان کا ساتھ دیتی ہے", "firstPublished": "2023-12-26T07:23:58.261Z", "id": "cye6kjep0pwo", "article": "صبح سویرے میچ کے لیے اٹھنے والے پاکستانی شائقین کو پہلا جھٹکا تو اسی وقت لگا جب اطلاعات کے مطابق کرکٹ بیٹنگ کمپنیوں کے ورچوئل سروگیٹ اشتہارات کے تنازع پر سرکاری چینل پی ٹی وی نے میلبرن ٹیسٹ براہِ راست نہیں دکھایا۔ صحافی سلیم حالق نے شاہین کے دفاع میں کہا کہ ’پھر بولتے ہو شاہین وکٹیں نہیں لے رہا۔ جب بیچارے کی بولنگ پر ایسے کیچ ڈراپ کرو گے تو وہ کیا کرے۔ دریں اثنا سوشل میڈیا پر اس بارے میں بھی کافی بحث ہو رہی ہے کہ پاکستان کے سرکاری چینل پی ٹی وی سپورٹس کی جانب سے میلبرن ٹیسٹ براہ راست نہیں دکھایا جا رہا جبکہ اطلاعات کے مطابق دن کے آغاز سے قبل اور بعد کے شوز بھی منسوخ ہوئے۔ خیال ہے کہ اس کی وجہ ورچوئل سروگیٹ ایڈورٹائزنگ ہے جس میں کرکٹ بیٹنگ کمپنیوں کے اشتہارات دوران میچ دکھائے جاتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے وزارت اطلاعات و نشریات نے ’بیٹنگ ہاؤس‘ کی سروگیٹ کمپنوں کے خلاف زیرو ٹالرینس پالیسی پر زور دیتے ہوئے سٹیک ہولڈرز سے کہا تھا کہ وہ کھیلوں کی سرگرمیوں کی براہ راست کوریج کے دوران کسی بھی قسم کے اشتہارات کے ذریعے سروگیٹ کمپنیوں کی تشہیر کی روک تھام کو یقینی بنائیں۔ ایک بیان کے مطابق وزارت اطلاعات نے پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) سمیت متعدد میڈیا اداروں اور چینلز پر ’پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورہ آسٹریلیا کی براہ راست نشریات کے دوران مذکورہ ایڈوائزری کی ’غیر مبہم خلاف ورزی‘ کو نوٹ کیا۔ قبل ازیں جاری کردہ ایڈوائزری میں وزارت اطلاعات نے تمام وزارتوں، محکموں اور اداروں پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستان میں بالخصوص پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر غیر قانونی طور پر کام کرنے والی سروگیٹ کمپنیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے معاہدے میں شامل نہ ہوں۔‘ ’یہ بات نوٹ کی گئی کہ قومی براڈ کاسٹر پی ٹی وی نے بنیادی حق داروں کے ساتھ اس مسئلہ کو پہلے ہی اٹھایا تاکہ تمام سروگیٹ بیٹنگ کمپنیوں کی ڈیجیٹل پلیسمنٹ کو ہٹایا جا سکے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو لائسنس دہندگان اور لائسنس یافتگان کے درمیان سمجھوتہ یا معاہدہ ختم کر دیا جائے گا۔‘ تجزیہ کار مظہر ارشد کے مطابق گذشتہ 15 سال میں یہ دوسرا موقع ہے کہ پی ٹی وی پاکستان کا ٹیسٹ میچ نشر نہیں کر رہا۔ اس سے قبل پی ٹی وی نے 2018 میں پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ کا میچ براہ راست نہیں دکھایا جاسکا تھا۔ صحافی سلیم خالق کہتے ہیں کہ ورچوئل سروگیٹ ایڈورٹائزنگ نے پاکستانی کرکٹ میں ایک اور تنازع کو جنم دیا ہے اور صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ میچ نہیں دکھایا جاسکا۔ فیضان لکھانی کا خیال ہے کہ شاید پی ٹی وی کو آسٹریلیا سے ملنے والی میچ کی کلین فیڈ تک رسائی حاصل نہیں جو سروگیٹ اشتہارات سے پاک ہو، اس لیے وہ یہ میچ دکھا ہی نہیں پا رہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxe4jxz8p49o", "summary": "19 دسمبر کو دبئی میں انڈین پریمیئر ليگ (آئی پی ایل) کے 17 ویں سیزن کے لیے چھوٹی نیلامی میں مشرقی انڈین ریاست جھارکھنڈ کے تین کھلاڑیوں کو مختلف ٹیموں نے خریدا ہے۔", "title": "آئی پی ایل کے پہلے قبائلی کھلاڑی رابن منز: ’سلیکشن کے بعد ماں کو فون کیا تو وہ رونے لگیں، پاپا بھی رونے لگے‘", "firstPublished": "2023-12-25T13:30:50.947Z", "id": "cxe4jxz8p49o", "article": "19 دسمبر کو دبئی میں انڈین پریمیئر ليگ (آئی پی ایل) کے 17 ویں سیزن کے لیے چھوٹی نیلامی میں مشرقی انڈین ریاست جھارکھنڈ کے تین کھلاڑیوں کو مختلف ٹیموں نے خریدا ہے۔ جمشید پور کے کمار کشاگر کو دہلی کیپٹلس نے 7.20 کروڑ انڈین روپے میں خریدا ہے جبکہ رانچی کے سوشانت مشرا کو گجرات ٹائٹنز نے 2.20 کروڑ روپے میں خریدا۔ لیکن جھارکھنڈ کے تیسرے کھلاڑی نے سب سے زیادہ سرخیاں حاصل کی ہیں۔ اور وہ 21 سالہ وکٹ کیپر اور بائیں ہاتھ سے کھیلنےوالے بیٹسمین رابن منز ہیں۔ منز کو گجرات ٹائٹنز نے 3.60 کروڑ روپے میں خریدا ہے۔ زیویئر منز نے کہا: ’جب وہ دو سال کا تھا تو اس نے گیند کو چھڑی سے مارنا شروع کر دیا۔ میں خود فٹ بال اور ہاکی کا کھلاڑی رہا ہوں۔ جب میں نے اسے ٹینس بال دی تو اس نے اسے اپنے دائیں ہاتھ کے بجائے بائيں ہاتھ سے مارنا شروع کر دیا۔ یہ بات مجھے مختلف لگی کیونکہ میرے خاندان میں کوئی لیفٹی نہیں ہے۔ کرکٹ کے علاوہ وہ ہر کام دائیں ہاتھ سے کرتا ہے۔ پانچ سال کی عمر میں میں نے اسے کھیلنے کے لیے کرکٹ کوچنگ میں ڈال دیا۔‘ جھارکھنڈ انڈر 19 ایسٹ زون ٹورنامنٹ میں رابن نے صرف 5 میچوں میں تین سنچریاں سکور کی ہیں۔ اپنی بہترین اننگز کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سنہ 2019 میں ودربھ کے خلاف 133 رنز ان کی بہترین اننگز ہے۔ رابن نے تو ابھی فرسٹ کلاس کرکٹ بھی نہیں کھیلی، پھر انھیں اتنی قیمت کیسے ملی؟ اس سوال پر کوچ آصف کا کہنا ہے کہ ’آئی پی ایل میں منتخب ہونے کا واحد پیرامیٹر اب فرسٹ کلاس کرکٹ نہیں رہا، رابن مسلسل ممبئی انڈینز کے کیمپ میں شرکت کر رہے ہیں۔ بہت سی ٹیموں کو ٹرائلز دیے ہیں۔‘ رابن کے ساتھی کمار کشاگر کو دہلی ڈیئر ڈیولز نے 7.2 کروڑ روپے میں خریدا ہے۔ کشاگر کا کہنا ہے کہ ’نیلامی ختم ہونے کے بعد میں نے سب سے پہلے اپنی ماں کو فون کیا۔ میری دونوں چھوٹی بہنیں بھی فون پر تھیں۔ ہم چاروں بس رو رہے تھے۔ ماں تو کچھ نہ کہہ سکی لیکن بہنوں نے کہا کہ بھائی تمہارے کمرے کی دیوار پر ٹیم انڈیا لکھا ہے۔ یہ آپ کی جرسی پر ہونا چاہیے۔ تو یہ صرف شروعات ہے۔‘ وہ کہتے ہیں: ’میں پچھلے سال زخمی ہو گیا تھا، پچھلے سال کسی نے مجھے نہیں لیا۔ میں نے کئی ٹیموں کے لیے ٹرائلز دیے۔ مانو سدھر، کارتک تیاگی، رابن یہ تینوں ساتھی ہیں گجرات کی ٹیم میں۔ میں ان کے ساتھ کھیلتا ہوں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c03yn4r1xwro", "summary": "جس بورڈ میں آنے والے چیئرمین کو نہ تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیوں لایا گیا اور نہ ہی یہ خبر کہ وہ کیونکر نکالا جائے گا، وہ بورڈ اپنے ہڑبونگ میں ہی اس قدر سرشار رہتا ہے کہ وسائل کی نگہداشت جیسی لایعنی باتوں کو درخورِ اعتنا سمجھنا گوارا ہی نہیں کر پاتا۔\n", "title": "لیکن مچل سٹارک کو کون بتلائے؟: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-12-25T12:17:38.200Z", "id": "c03yn4r1xwro", "article": "جس بورڈ میں آنے والے چیئرمین کو نہ تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیوں لایا گیا اور نہ ہی یہ خبر کہ وہ کیونکر نکالا جائے گا، وہ بورڈ اپنے ہڑبونگ میں ہی اس قدر سرشار رہتا ہے کہ وسائل کی نگہداشت جیسی لایعنی باتوں کو درخورِ اعتنا سمجھنا گوارا ہی نہیں کر پاتا۔ جہاں ورک لوڈ مینیجمنٹ کا یہ عالم ہو کہ افغانستان کے خلاف بھی تین فرنٹ لائن پیسرز میدان میں اتارنا لازم سمجھا جائے اور فرنچائز کرکٹ میں بھی حسبِ توفیق شمولیت کی کھلی چھٹی ہو، وہاں پھر ایسے ہی مظاہر برپا ہو سکتے ہیں کہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ فائنل میں اختتامی مراحل کے دو اہم ترین اوورز پھینکنے کو شاہین آفریدی میسر ہی نہ ہو پائیں۔ وقار یونس کی حیرانی بجا ہے کہ شاہین آفریدی کی پیس کہاں کھو گئی مگر جب ایک پریمئیر پیسر کی انجری سے بحالی صرف اس لیے فاسٹ ٹریک کی جائے گی کہ ایک چیئرمین پی سی بی کو اپنے تاج میں ایک ورلڈ کپ ٹرافی کا پر ٹانکنا ضروری تھا، تو پھر یہی کچھ ہو سکتا ہے۔ جس بورڈ کی انتہائی عظمت یہ ہو کہ وہ ہر سال باقاعدگی سے پی ایس ایل میں تمام پیسرز کی فٹنس یقینی بنانا ہی نقطۂ کمال سمجھتا ہو، وہاں مچل سٹارک کو کوئی کیسے سمجھائے کہ جس پیس کی عدم موجودگی پہ وہ حیران ہو رہے ہیں، اس کی نگہداشت کو بیچارے پی سی بی کے پاس اتنے ’وسائل‘ ہی نہیں ہیں کہ وہ فٹنس اور ڈائٹ ڈسپلن کی کوئی رجیم ترتیب دے سکے۔ اور اس سکواڈ میں 140 کلومیٹر فی گھنٹہ والے اکلوتے آپشن محمد وسیم کی تعمیر میں ہی شاید کوئی ایسی خرابی ہے کہ وہ ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ کی نظرِ التفات حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ جہاں اندرونی محاذ پہ یہ خلفشار درپیش ہے تو وہیں پاکستان کرکٹ کے خودساختہ میڈیائی پاسبانوں کے نزدیک کائنات کا سب سے بڑا مسئلہ سرفراز احمد کی الیون میں شمولیت ہے۔ حالانکہ سوال یہ نہیں کہ میلبرن ٹیسٹ کے لیے سرفراز احمد کو ڈراپ کیوں کیا گیا بلکہ سوال تو یہ ہے کہ پرتھ ٹیسٹ میں بھی محمد رضوان کو نظر انداز کیوں کیا گیا تھا؟ لیکن پاکستان کی کم مائیگی پہ حیراں مائیکل کلارک اور مچل سٹارک کو کون بتلائے کہ قصور ان کرکٹرز کا نہیں بلکہ اس بورڈ کا ہے جس کی سربراہی پہ آنے والے جیسے بے وجہ لائے جاتے ہیں، ویسے ہی بلاوجہ چلتے بھی کر دیے جاتے ہیں تو ایسے میں کون کہاں بیٹھ کر ایسے دقیق انتظامی مسئلے سوچے کہ آسٹریلیا میں پاکستان کا ریکارڈ اس قدر شرمناک کیونکر ہے؟"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c972e91v7ezo", "summary": "پاکستانی نژاد آسٹریلوی بلے باز عثمان خواجہ نے آئی سی سی کے الزامات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’میرا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔ جوتوں کے اوپر میں نے غزہ کے بارے میں جو کچھ لکھا وہ میرے احساسات کی ترجمانی تھی۔‘", "title": "غزہ کی حمایت پر آئی سی سی کی سرزنش: ’میرا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں ہے لیکن یہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے‘،عثمان خواجہ", "firstPublished": "2023-12-22T08:21:51.584Z", "id": "c972e91v7ezo", "article": "پاکستانی نژاد آسٹریلوی بلے باز عثمان خواجہ نے پاکستان کے خلاف پرتھ ٹیسٹ کے دوران فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی پر آئی سی سی کی جانب سے چارج اور سرزنش کیے جانے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’میرا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔ جوتوں پر میں نے غزہ کے بارے میں جو کچھ لکھا وہ میرے احساسات کی ترجمانی تھی۔‘ عثمان خواجہ کا کہنا ہے کہ ’میرا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں ہے لیکن یہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ میں مذہب کو کھیل سے الگ رکھتا ہوں اور میں نے ہر ممکن حد تک محتاط انداز میں اظہار یکجہتی کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ میرے دل کے قریب ہے۔ ‘ انسٹا گرام پر ایک ویڈیو میں 36 سالہ پاکستانی نژاد آسٹریلوی کرکٹر نے کہا ہے کہ آئی سی سی ان پیغامات کو ’سیاسی‘ سمجھتی ہے جبکہ ان کے جوتوں پر تحریر پیغام صرف ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اپیل ہے۔‘ اپنے بیان میں عمثان خواجہ نے کہا کہ ’میں ہر ممکن حد تک سب سے زیادہ قابل احترام طریقے سے یہ سب کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں نے اپنے جوتوں میں جو کچھ لکھا میں نے تھوڑی دیر کے لیے اس کے بارے میں سوچا کہ میں کیا لکھنے جا رہا ہوں۔ میں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ میں آبادی کے مختلف حصوں، مذہبی عقائد، برادریوں کو الگ نہیں کرنا چاہتا ہوں لہذا میں نے مذہب کو اس سے باہر رکھا ہے۔‘ انھوں نے غزہ کی حمایت میں جوتوں پر پیغام لکھنے اور پھر سیاہ پٹی پاندھنے کے بارے میں کہا ’ایسا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے مجھے سخت متاثر کیا۔ آپ جانتے ہیں، جب میں اپنے انسٹاگرام کو دیکھتا ہوں اور میں معصوم بچوں کی ہلاکت کی ویڈیوز دیکھتا ہوں تو یہ چیز مجھے سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔ ‘ یہ سب کہتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی اور انھوں نے کہا ’میں اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے جذباتی ہو جاتا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ میں یہ کر رہا ہوں۔ میرا کوئی پوشیدہ ایجنڈا نہیں ہے۔‘ حسن نامی صارف نے کہا کہ ’آئی سی سی کی جانب سے عثمان خواجہ پر غزہ کے بچوں کی حمایت میں بازو پر سیاہ پٹی باندھنے کا الزام عائد کیا گیا ہے لیکن فوج کی ٹوپیاں پہننے والی پوری انڈین ٹیم کا بظاہر سیاسی یا ذاتی پیغامات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آئی سی سی دنیا کا سب سے زیادہ بزدل اور نااہل سپورٹس ادارہ ہے۔‘ ارباز نامی صارف نے کہا کہ ’میں عثمان خواجہ کی انسانیت اور ہمدردی کی اپیل میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔ معصوم بچوں کے مصائب کے بارے میں ان کے الفاظ طاقتور اور متاثر کن ہیں۔ وہ اپنی جگہ بالکل صحیح ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4ny0qj14yro", "summary": "سنجے سنگھ کے ریسلنگ فیڈریشن کے صدر منتخب ہونے کے بعد انڈین خواتین ریسلر نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سنجے سنگھ سابق صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے قریبی ساتھی اور بزنس پارٹنر ہیں اور ان کا صدر بننے کا مطلب ہے کہ ریسلنگ فیڈریشن کے حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ ", "title": "جنسی ہراسانی کے ملزم برج بھوشن کے قریبی ساتھی انڈین ریسلنگ فیڈریشن کے نئے صدر: ساکشی ملک نے ریسلنگ کو ہی خیرباد کہہ دیا", "firstPublished": "2023-12-22T07:06:55.521Z", "id": "c4ny0qj14yro", "article": "بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے سابق صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے قریبی ساتھی سنجے سنگھ ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ سنجے سنگھ کے ریسلنگ فیڈریشن کے صدر منتخب ہونے کے بعد انڈین خواتین ریسلر نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سنجے سنگھ سابق صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے قریبی ساتھی اور بزنس پارٹنر ہیں اور ان کا صدر بننے کا مطلب ہے کہ ریسلنگ فیڈریشن کے حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ جبکہ ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر منتخب ہونے پر سنجے سنگھ نے کہا کہ ’اب (ریسلنگ کے لیے) کیمپ لگائے جائیں گے۔ جو لوگ ریسلنگ کرنا چاہتے ہیں وہ ریسلنگ کر رہے ہیں، جو سیاست کرنا چاہتے ہیں انھیں سیاست ہی کرنی چاہیے۔‘ اس کے بعد ونیش پھوگاٹ نے روتے ہوئے کہا تھا کہ برج بھوشن سنگھ اور کوچ، نیشنل کیمپ میں خواتین ریسلرز کو جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں۔ ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے برج بھوشن سنگھ نے تب کہا تھا کہ کسی کھلاڑی کے ساتھ جنسی زیادتی نہیں کی گئی ہے اور اگر یہ سچ ثابت ہوا تو وہ پھانسی پر لٹکنے کو تیار ہیں۔ اس کے بعد مرکزی وزیر کھیل انوراگ ٹھاکر نے ان کھلاڑیوں سے ملاقات کی اور 23 جنوری کو الزامات کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ’برج بھوشن سنگھ کے معاملے میں، یہ سب جانتے ہیں کہ ان کے پاس تحقیقات پر اثر انداز ہونے کی طاقت ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ ثبوتوں سے چھیڑ چھاڑ کر سکتے ہیں اور گواہوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ پولیس کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان حالات کے پیش نظر ضمانت کی سختی سے مخالفت کرے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ سنجے سنگھ کا صدر منتخب ہونے کا مطلب ہے کہ وفاق نے تبدیلی کو منظور نہیں کیا لیکن وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی۔ ناانصافی کے خلاف لڑائی جاری رہے گی۔ ہم ناانصافی کے خلاف خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ لیکن اب بہتری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘ ساکشی ملک نے کہا کہ ’میں ایک بات کہنا چاہوں گی کہ اگر نئے صدر بھی سابق صدر برج بھوشن جیسے ہی ثابت ہوتے ہیں، جو ویسے بھی بھوشن سنگھ کے قریبی ساتھی اور اُن کے بزنس پارٹنر بھی ہے۔ اگر وہ اس فیڈریشن میں رہتے ہیں تو میں اپنی ریسلنگ چھوڑ دوں گی۔ میں آج کے بعد آپ کو دوبارہ کبھی کھیل کے میدان میں نظر نہیں آؤں گی۔‘ برج بھوشن شرن سنگھ نے کہا ’میں اس جیت کا سہرا ملک کے ریسلرز اور ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے سکریٹری کو دینا چاہتا ہوں۔ مجھے اُمید ہے کہ نئی فیڈریشن کی تشکیل کے بعد ریسلنگ کے مقابلے دوبارہ بہتر انداز میں شروع ہوں گے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cevq5dz545ro", "summary": "انڈین پریمیئر لیگ یعنی آئی پی ایل 2024 کے لیے کھلاڑیوں کی نیلامی کا پہلا دن کئی کھلاڑیوں پر دولت کی بارش کا دن تھا۔", "title": "’اس عمر میں اتنے پیسے۔۔۔‘ وہ نوجوان انڈین کھلاڑی جنھیں آئی پی ایل کی نیلامی نے کروڑ پتی بنا دیا", "firstPublished": "2023-12-20T13:19:42.547Z", "id": "cevq5dz545ro", "article": "انڈین پریمیئر لیگ یعنی آئی پی ایل 2024 کے لیے کھلاڑیوں کی نیلامی کا پہلا دن کئی کھلاڑیوں پر دولت کی بارش کا دن تھا۔ آسٹریلیا کے فاسٹ بولر مچل سٹارک آئی پی ایل کی تاریخ کے مہنگے ترین کھلاڑی بن گئے۔ مچل کو کولکتہ نائٹ رائیڈرز نے 24.75 کروڑ روپے میں خریدا۔ اس کے بعد اسٹریلیا کے کپتان پیٹ کمنز کو سن رائزرس حیدرآباد نے 20.50 کروڑ میں خریدا۔ منگل کو دبئی میں ہونے والی نیلامی میں انڈیا کے کچھ ان کیپڈ کرکٹرز کی قسمت کا ستارہ بلندیوں پر نظر آیا۔ ان کیپڈ کرکٹرز سے مراد وہ کھلاڑی ہیں جنھوں نے اب تک ٹیم انڈیا کے لیے کوئی میچ نہیں کھیلا ہے۔ ان میں کئی کھلاڑی ایسے ہیں جن کے بارے میں نیلامی سے پہلے نسبتاً کم لوگ جانتے تھے۔ جب ان نوجوان کھلاڑیوں کی نیلامی شروع ہوئی تو کسی نے اندازہ نہیں لگایا ہوگا کہ ان کی نیلامی کروڑوں روپے تک پہنچ جائے گی۔ آئی پی ایل نیلامی سے پہلے سمیر یو پی ٹی 20 لیگ میں اپنی شاندار کارکردگی کی وجہ سے سرخیوں میں آئے تھے۔ انھوں نے لیگ میں 10 میچوں میں 50 سے زیادہ کی اوسط سے 455 رنز بنائے تھے۔ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ بھی سمیر کے نام درج تھا۔ شاہ رخ اس سے پہلے بھی آئی پی ایل کھیل چکے ہیں اور اپنی زیادہ نیلامی کی وجہ سے خبروں میں رہے تھے۔ شاہ رخ نے 18 سال کی عمر میں سید مشتاق علی ٹرافی میں تمل ناڈو کے لیے اپنا پہلا میچ کھیلا۔ 2014 میں منعقدہ اس مقابلے کے اپنے پہلے ہی میچ میں شاہ رخ نے گوا کے خلاف صرف آٹھ گیندوں پر 21 رنز بنائے تھے۔ قبائلی کھلاڑی رابن منز کو گجرات ٹائٹنز نے آئی پی ایل 2024 کی نیلامی میں 3.6 کروڑ روپے میں خریدا۔ رابن کا تعلق مشرقی ریاست جھارکھنڈ سے ہے۔ وہ بائیں ہاتھ کے بلے باز ہیں اور اپنی ریاست سے آنے والے سابق انڈین کپتان دھونی کے مداح ہیں۔ دھونی کی طرح رابن نے بھی تجربہ کار کوچ چنچل بھٹاچاریہ سے تربیت حاصل کی ہے۔ فی الحال وہ رانچی میں رہتے ہیں۔ لیکن اب تک وہ رنجی ٹرافی میں اپنی ٹیم کے لیے نہیں کھیل پائے ہیں۔ تاہم رابن جھارکھنڈ کی انڈر 19 اور انڈر 25 ٹیموں کا حصہ رہے ہیں۔ شبھم دوبے کی آئی پی ایل نیلامی 5.8 کروڑ روپے میں ہوئی۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق شبھم کے والد برسوں سے بے روزگار ہیں۔ شبھم کا بھائی ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتا ہے۔ شبھم کو امید ہے کہ آئی پی ایل سے ملنے والی رقم ان کی زندگی بدل دے گی۔ انڈر 19 ورلڈ کپ ٹیم کے کھلاڑی سوشانت مشرا کے لیے آئی پی ایل 2024 بہت خاص رہا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw8038e404lo", "summary": "آسٹریلیا کے بولر مچل سٹارک انڈین پریمیئر لیگ کی تاریخ کے سب سے مہنگے کھلاڑی بن گئے ہیں۔ کولکتہ نائٹ رائیڈرز نے 2024 کے سیزن کے لیے مچل سٹارک کی خدمات 24.75 کروڑ انڈین روپوں میں حاصل کی ہیں۔ ", "title": "مچل سٹارک آئی پی ایل کے سب سے مہنگے کھلاڑی قرار، فہرست میں اور کون شامل", "firstPublished": "2023-12-19T15:37:42.612Z", "id": "cw8038e404lo", "article": "آسٹریلیا کے بولر مچل سٹارک انڈین پریمیئر لیگ کی تاریخ کے سب سے مہنگے کھلاڑی بن گئے ہیں۔ کولکتہ نائٹ رائیڈرز نے 2024 کے سیزن کے لیے مچل سٹارک کی خدمات 24.75 کروڑ انڈین روپوں میں حاصل کی ہیں۔ منگل کے روز دی جانے والی سٹارک کی اس بولی نے اس سے قبل سب سے مہنگے کھلاڑی اور آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز کا ریکارڈ توڑا ہے جنھیں 20.5 کروڑ میں خریدا گیا۔ دریں اثنا انگلینڈ کے بولر کرس ووکس کو بولی دے کر پنجاب کنگز نے خریدا ہے جبکہ ان کی ٹیم کے ساتھی ہیری بروک دہلی کیپٹلز میں چلے گئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے آل راؤنڈر ڈیرل مچل کو چنئی سپر کنگز نے 14 کروڑ میں سائن کیا ہے جبکہ کیوی ٹیم میں ان کے ساتھی راچن رویندرا بھی چنئی سپر کنگز کا حصہ بن گئے ہیں۔ انڈیا میں آسٹریلیا کی ورلڈ کپ فتح کے بعد ان کے کھلاڑیوں کی مانگ میں اضافے کی توقع تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب آئی پی ایل کی نیلامی میں پہلی بار کپتان اور بولر کمنز کی بولی 20 کروڑ سے زیادہ ہوئی تو ہال میں موجود کئی افراد کی سانسیں شدید حیرانی سے تیز ہو گئیں۔ 33 سالہ سٹارک نے آٹھ سال سے ٹی 20 مقابلوں میں حصہ نہیں لیا تاہم ان کی بولی کے لیے ممبی انڈینز اور دہلی سے شروع ہونے والا ٹاکرا گجرات ٹائٹنز اور کلکتہ رائیڈرز کے درمیان کانٹے کی بولی پر ختم ہوا۔ آسٹریلیا کے بلے باز ٹریوس ہیڈ بھی چھ کروڑ انڈین روپے سے زیادہ کی بولی کے بعد سن رائزرز کے حصے میں آ گئے۔ یاد رہے ٹریوس ہیڈ ورلڈ کپ فائنل میں انڈیا کے خلاف کھیلنے والے بہترین کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔ انگلینڈ کے بولر کرس ووکس کے لیے 4.2 کروڑ انڈین روپے کی بولی دے کر پنجاب کنگز نے خریدا ممبئی نے جنوبی افریقہ کے بولر جیرالڈ کوٹزی اور سری لنکا کے بائیں بازو سے کھیلنے والے دلشان مدوشنکا کو بالترتیب پانچ کروڑ اور 4.6 کروڑ میں سائن کیا ہے۔ 2024 کی آئی پی ایل نیلامی میں سب سے مہنگے انڈین کھلاڑی فاسٹ بولر ہرشل پٹیل ہیں۔ ہرشل پٹیل کے لیے بولی ٹائٹنز اور پنجاب کے درمیان شروع ہوئی اور پھر اس میں لکھنو سپرجائنٹ (LSJ) بھی شامل ہو گیا تاہم پنجاب نے ہرشل کے لیے 11 کروڑ 75 لاکھ روپے کی بولی دے کر انھیں اپنے سکاڈ میں شامل کر لیا۔ آئی پی ایل کے سیزن 2024 کے لیے کروڑوں کی بولی اپنے نام کروانے والے کچھ ایسے نام بھی ہیں جو انڈین ٹیم کا حصہ نہ ہونے کے باوجود کرکٹ فرنچائزز کے منظور نظر رہے۔ شبھم دوبے کے لیے پہلے تو کیپٹلز نے بولی لگائی لیکن پھررائلز نے ان کو پانچ کروڑ 80 لاکھ میں خرید لیا۔ جبکہ سمیر رضوی نے آٹھ کروڑ 40 لاکھ کی بولی پر سائن کیے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy9eg181zlvo", "summary": "شان مسعود نے اس ناگزیر شکست کے خود تک پہنچنے کا انتظار نہ کیا بلکہ آسٹریلوی بولنگ کی توقعات سے بھی کہیں پہلے اس انہونی کو خود گھسیٹ کر اپنے پاس لے آئے جس کے بعد مورال وہاں پہنچ سکتا ہے کہ باقی ماندہ سیریز معنویت سے بالکل عاری ہو جائے۔", "title": "شان مسعود کی ’مثبت پسندی‘: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-12-17T10:59:31.853Z", "id": "cy9eg181zlvo", "article": "جس ڈرائیونگ لینتھ پہ شان مسعود وہ سٹروک کھیلنا چاہ رہے تھے، وہ کراچی یا لاہور کی پچز پہ تو نتیجہ خیز ہو سکتا تھا مگر پرتھ کی اس پیس اور باؤنس پہ وکٹ کے سامنے کو کھیلنا نری حماقت تھی مگر شان مسعود اس ادراک سے معذور ٹھہرے۔ وہ حقائق سے گریزاں، مثبت پسندی کے تعاقب میں تھے۔ جو غلطی پہلی اننگز میں ان کے انہدام کا باعث بنی، وہی غلطی انھوں نے دوسری اننگز میں بھی دہرا ڈالی۔ جس ڈرائیونگ لینتھ پہ شان مسعود وہ سٹروک کھیلنا چاہ رہے تھے، وہ کراچی یا لاہور کی پچز پہ تو نتیجہ خیز ہو سکتا تھا مگر پرتھ کی اس پیس اور باؤنس پہ وکٹ کے سامنے کو کھیلنا نری حماقت تھی۔ یہاں واحد حل پچھلے قدم پہ ڈٹ کے گیند کو بلے تک پہنچنے دینا اور گراؤنڈ کے اطراف میں کھیلنے کی کوشش کرنا تھا۔ ٹیم سلیکشن، فیلڈنگ اور بولنگ ڈسپلن کے طفیل پاکستان پہلے دن سے ہی اس میچ میں دیوار سے لگ چکا تھا۔ ان حالات میں واحد رستہ اس ناگزیر نتیجے کو حتی الامکان موخر کرنا تھا کہ کچھ وقار باقی رہ جائے اور مزاحمت ایسی ہو کہ باقی ماندہ سیریز کے لیے مورال یکسر پست نہ ہو جائے۔ بلاشبہ بلے بازوں کے لیے مدافعانہ خول میں جا بیٹھنا بولرز کے لیے تقویت کا سامان ہوا کرتا ہے مگر دانشمندی اسی میں ہے کہ بازو کھولنے کو مناسب وقت اور حالات کا انتظار کیا جائے جیسے عثمان خواجہ نے کیا۔ عثمان خواجہ کی اننگز پاکستانی ٹیم کے لیے ایک عملی مثال تھی کہ جب گیند نئی ہو اور وکٹ کا باؤنس غیر یقینی ہو تو مخمصے کا جواب مخمصے سے نہیں بلکہ حواس سے دیا جانا چاہئے۔ دوسری اننگز کے پہلے ایک گھنٹے میں جب پاکستانی بولنگ ایسا قہر ڈھا رہی تھی جو آسٹریلوی بیٹنگ نے پچھلی تین دہائیوں میں نہ دیکھا تھا، تب دباؤ سارا عثمان خواجہ پہ تھا۔ اور خواجہ نے یہ سارا دباؤ بخوبی جذب کیا۔ پرتھ کی پچز اپنے باؤنس میں اس قدر متغیر ہیں کہ تاریخی طور پہ کئی بلے بازوں کے اعصاب کا امتحان لیتی آئی ہیں۔ بھلے یہاں انڈیا کا سابقہ دورہ ہو یا پاکستان کا حالیہ میچ، کئی ایک گھاگ بلے باز بھی اس پچ کی چوٹوں کو سہلاتے پائے گئے ہیں۔ یہاں پاکستانی بلے باز صرف یہی کر سکتے تھے کہ اپنے قدموں پہ ڈٹے رہیں اور پچ کی رفتار سے آگے بڑھنے کی بجائے اپنے ردِعمل کو حتی الامکان موخر رکھیں تا آنکہ گیند کی کاٹ کچھ کم پڑ جاتی اور آسٹریلوی اٹیک کے قدم بھی قدرے سست ہو جاتے۔ لیکن شان مسعود نے اس ناگزیر شکست کے خود تک پہنچنے کا انتظار نہ کیا بلکہ آسٹریلوی بولنگ کی توقعات سے بھی کہیں پہلے اس انہونی کو خود گھسیٹ کر اپنے پاس لے آئے جس کے بعد مورال وہاں پہنچ سکتا ہے کہ باقی ماندہ سیریز معنویت سے بالکل عاری ہو جائے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cmljm104mz7o", "summary": "مدراس ہائی کورٹ نے آئی پی ایس افسر جی سمپت کمار کو مسٹر دھونی کے خلاف میچ فکسنگ کا الزام لگانے کے لیے 15 دن جیل کی سزا سنائی ہے۔", "title": "دھونی کے خلاف میچ فکسنگ کا الزام لگانے والے پولیس افسر کو جیل کیوں ہوئی؟", "firstPublished": "2023-12-17T08:10:52.346Z", "id": "cmljm104mz7o", "article": "انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مہندر سنگھ دھونی پر میچ فکسنگ کا الزام لگانا انڈین پولیس سروس کے افسر کو مہنگا پڑا ہے اور مدراس ہائی کورٹ نے جی سمپت کمار کو 15 دن قید کی سزا سنائی ہے۔ دھونی سے متعلق کیس میں جی سمپت کمار نے سپریم کورٹ اور مدراس ہائی کورٹ کے خلاف توہین آمیز ریمارکس دیے تھے۔ مدراس ہائی کورٹ کے جج ایس ایس سندر اور سندر موہن نے انڈین پولیس سروس کے افسر جی سمپت کمار کو فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لیے 30 دن کی مہلت دی ہے۔ آر رمن کی طرف سے دائر درخواست میں سینیئر ایڈووکیٹ نے عدالت سے سمپت کمار کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی درخواست کی ہے۔ کیس کی تفتیش کرنے والے تمل ناڈو کے چیف ایڈووکیٹ آر چنموگا سندرم نے دھونی کو توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے کی اجازت دی۔ مدراس ہائی کورٹ نے جمعے کو اس معاملے میں حکم جاری کیا ہے۔ اس کیس کی جانچ آئی پی ایس افسر سمپت کمار نے کی تھی۔ اس معاملے پر انھوں نے دھونی کے خلاف بیان دیا تھا۔ انھوں نے الزام لگایا تھا کہ دھونی سپاٹ فکسنگ میں ملوث تھے۔ سمپت کمار کے بیان کے بعد دھونی نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور ان پر 100 کروڑ روپے کا ہتکِ عزت کا دعویٰ دائر کیا۔ ایک نجی نیوز چینل کے خلاف بھی درخواست دائر کی گئی تھی۔ آئی پی ایس افسر سمپت کمار نے دھونی کی جانب سے دائر ہتک عزت کے مقدمے کو خارج کرنے کے لیے عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔ سمپت کمار اس وقت پولیس سپرنٹنڈنٹ تھے۔ انھوں نے مدراس ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی جس میں آئی پی ایس سمپت کمار کے خلاف کیس کی تفتیش کے لیے مقرر کردہ افسر کے طور پر کیس کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس لیے سمپت کمار نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی۔ سنہ 2022 میں دھونی نے اس درخواست میں سمپت کمار کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ اپنی عرضی میں دھونی نے کہا تھا کہ آئی پی ایس افسر کو سنہ 2014 میں دائر کیس کا جواب 2021 میں ہی دینا تھا لیکن اب ان کے بیان سے توہین عدالت ہوئی ہے۔ درخواست پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ آئی پی ایس افسر کے دعوے کو غیر ضروری طور پر گھسیٹا گیا ہے۔ لہٰذا دھونی کی جانب سے دائر توہین عدالت کیس کی سماعت کا فیصلہ کیا گیا۔ مدراس ہائی کورٹ نے جمعے کو اس معاملے میں اپنا فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے آئی پی ایس آفیسر جی سمپت کمار کو توہین عدالت کے الزام میں 15 دن کی جیل کی سزا سنائی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy0d77ve24eo", "summary": "اب پاکستان اس میچ میں وہاں پہنچ چکا ہے جہاں سے باہر کا رستہ فقط معجزات کی صورت میں نکل سکتا ہے وگرنہ جو برتری آسٹریلیا کو میسر ہے اور جتنا وقت اس میچ میں باقی ہے، اب ندامت ہی نوشتۂ دیوار نظر آتی ہے۔", "title": "’جب امام الحق کے قدم متحرک ہوئے‘: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-12-16T11:50:36.084Z", "id": "cy0d77ve24eo", "article": "نیتھن لیون کی اس گیند میں کچھ ایسا نہیں تھا کہ مسلسل تین سیشنز تک آہنی اعصاب کا مظاہرہ کرتے امام الحق کی قیمتی وکٹ بٹور پاتی۔ مگر امام خود اپنی مدد سے قاصر ٹھہرے اور گھنٹوں پہ محیط ضبط کا بندھن یکایک ٹوٹ گیا۔ ٹیسٹ کرکٹ وہ واحد فارمیٹ ہے جو امام الحق کے ٹیمپرامنٹ اور سٹائل کا متحمل ہو سکتا ہے۔ پرتھ میں ان کی ذمہ داری رنز بٹورنے سے زیادہ اپنے کنارے کو باندھے رکھنا تھا تا کہ دوسرے کنارے سے معمول کی کارگزاری ہو سکے۔ مسلسل تین سیشنز تک انھوں نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔ بیٹنگ کے لیے جو دشواری آسٹریلین کنڈیشنز میں ہے، وہاں سینچری کر جانا کسی بھی ایشیائی بلے باز کے لیے ایک عظیم کامیابی تصور ہوتی ہے۔ امام الحق کے پاس بھرپور موقع تھا کہ وہ نہ صرف انفرادی سنگِ میل عبور کر جاتے بلکہ پاکستانی اننگز کا بھی بھرم بڑھا جاتے۔ اور سکور بورڈ کا دباؤ حاوی کرنے میں بنیادی کردار پہلے روز پاکستان کی بے جان بولنگ، ناقص فیلڈنگ اور اوسط وکٹ کیپنگ رہے۔ بولنگ میں بھی پاکستان کا انتخاب بے مغز سا تھا کہ اس ٹورنگ پارٹی میں صرف محمد وسیم ایسے بولر ہیں جو 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بولنگ کر سکتے ہیں، مگر پرتھ جیسی وکٹ پہ انھیں موقع دینے کی بجائے بینچ کی زینت بنا دیا گیا۔ پرتھ میں جاری میچ میں اس وقت آسٹریلیا کو پاکستان پر برتری میسر ہے بہرحال پاکستان کی یہ بیٹنگ اننگز ان خدشات سے بہتر ہی ثابت ہوئی جو میچ سے پہلے منڈلا رہے تھے۔ مگر یہ کاوش پاکستان کو کسی نادر موقع کے قریب بھی پہنچا سکتی تھی اگر ٹیم سلیکشن میں عقل کا دامن چھوٹنے نہ پاتا اور توجہ بیٹنگ سے زیادہ بولنگ وسائل پہ مرکوز رکھی جاتی ہے۔ امید افزا پہلو بہرطور یہ رہا کہ پہلی اننگز کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے، دوسری اننگز میں پاکستانی بولنگ نے بہتر ڈسپلن اور بہتر لینتھ کا انتخاب کیا، جس کی بدولت اپنی اننگز کے پہلے گھنٹے میں آسٹریلوی بیٹنگ بالکل دیوار سے لگی نظر آئی۔ مگر فہیم اشرف، کہ جن کا انتخاب پہلے ہی توجیہات اور تشریحات کا متقاضی تھا، نے اپنے پہلے ہی اوور میں اتنے رنز ہدیہ کر دیے جو ایک گھنٹے میں بھی بن نہ پائے تھے اور اس قدر محنت سے جو دباؤ آسٹریلوی بیٹنگ پہ بنا تھا، یکبارگی پاکستانی بولنگ پہ پلٹ آیا۔ اب پاکستان اس میچ میں وہاں پہنچ چکا ہے جہاں سے باہر کا رستہ فقط معجزات کی صورت میں نکل سکتا ہے وگرنہ جو برتری آسٹریلیا کو میسر ہے اور جتنا وقت اس میچ میں باقی ہے، اب ندامت ہی نوشتۂ دیوار نظر آتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c882rxe08gyo", "summary": "آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں ہرانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں اور پاکستان بھی فی الوقت ایسے کسی سنگِ میل سے کوسوں دور ہے مگر سیشن در سیشن جو چھوٹی چھوٹی فتوحات مل سکتی تھیں، وہ بہرحال پاکستان نے سمیٹی ہیں کہ جہاں پہلا دن یکسر آسٹریلوی بیٹنگ کے نام رہا، وہاں عامر جمال کی بدولت دوسرے دن میچ میں کچھ توازن لوٹ آیا۔", "title": "’مگر عامر جمال نے توازن لوٹا دیا‘: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-12-15T11:15:36.021Z", "id": "c882rxe08gyo", "article": "اپنی تمام تر کم مائیگی کے باوجود گذشتہ دورے پہ پاکستانی اٹیک کو تین ایسے پیسرز مہیا تھے جو 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند پھینک سکتے تھے جبکہ موجودہ اٹیک میں یہ اوسط 130 کلومیٹر فی گھنٹہ کے لگ بھگ ہو چکی ہے جو کسی لحاظ سے آسٹریلوی بلے بازوں کے لیے فکر کا سامان نہیں ہو سکتی۔ لیکن دوسری صبح جب پاکستان میدان میں اترا تو ڈسپلن میں بہتری نظر آئی اور پہلے دن کی کوتاہیوں کے ازالے کا عزم بھی کچھ نمایاں ہوا۔ جس قدر وسائل آسٹریلوی بیٹنگ میں باقی تھے، بعید نہ تھا کہ یہ میچ بھی اسی ڈگر پہ چل پڑتا جس پہ پچھلے کئی میچز نکلے تھے۔ مگر پھر عامر جمال اٹھ کھڑے ہوئے۔ پہلے دن عامر جمال نے جس لائن کا انتخاب کیا، وہ آسٹریلوی مڈل آرڈر کے لیے تر نوالہ ثابت ہوئی۔ مگر اپنے اکانومی ریٹ کی مہنگائی کے باوجود پہلے روز بھی عامر جمال ہی پاکستان کے چنیدہ بولر ٹھہرے۔ وہ جانتے تھے کہ جس لینتھ کو وہ ہدف بنا رہے تھے، وہاں پہ جوابی وار میں نشانہ وہ خود بھی بنیں گے مگر بطور نوآموز بولر، ان کا صبر اور تسلسل حیران کن تھا۔ وارنر کی ضخیم اننگز کے طفیل آسٹریلوی مڈل آرڈر کو جارحیت کی جو آزادی میسر تھی، وہاں تگڑے سکور بورڈ کا ہدف عامر جمال کو بھی بننا ہی تھا لیکن نتائج سے قطع نظر، انہوں نے اپنے پلان بار بار بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ جس لینتھ کو عامر جمال نے ہدف بنایا، وہ بلے بازوں کے لیے تو ہارڈ لینتھ کہلاتی ہی ہے مگر بولرز کے لیے بھی مسلسل وہاں گیند پھینکنا بہت ہمت طلب اور جرات آزما کام ہے کہ لائن کی ذرا سی غلطی بھی بلے باز کو ہاتھ کھولنے کی آزادی مہیا کر دیتی ہے۔ ایسے میں عامر جمال کا یہ تسلسل پاکستان کے لیے کسی نوید سے کم نہیں کہ آئندہ برسوں میں وہ اس ٹیسٹ اٹیک کا ایک اہم ہتھیار ثابت ہو سکتے ہیں۔ عامر جمال کے اس شاندار سپیل کی بدولت آسٹریلوی اننگز تمام ہونے کے لیے پاکستان کو پیٹ کمنز کی ڈکلئیریشن کا منتظر نہ رہنا پڑا اور دیر سے ہی سہی، مگر پاکستان نے دس وکٹیں حاصل کر لیں۔ اور پھر پاکستانی اوپننگ کے آسٹریلیا میں حالیہ ریکارڈ کے تناظر میں، عبداللہ شفیق کی مکمل تکنیک اور امام الحق کا صبر بھی اس ڈریسنگ روم کے لیے حوصلہ افزا ٹھہرے کہ اگر مبادیات پہ دھیان رکھتے ہوئے تحمل سے چلا جائے تو ان کنڈیشنز میں بیٹنگ اتنی دشوار بھی نہیں۔ آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں ہرانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں اور پاکستان بھی فی الوقت ایسے کسی سنگِ میل سے کوسوں دور ہے مگر سیشن در سیشن جو چھوٹی چھوٹی فتوحات مل سکتی تھیں، وہ بہرحال پاکستان نے سمیٹی ہیں کہ جہاں پہلا دن یکسر آسٹریلوی بیٹنگ کے نام رہا، وہاں عامر جمال کی بدولت دوسرے دن میچ میں کچھ توازن لوٹ آیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cnep41p1ldmo", "summary": "جہاں ایک جانب مداحوں کو ڈر ہے کہ کہیں پاکستان بلے باز اس پچ کا باؤنس اور پیس سہہ نہ پائیں وہیں یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ اگر یہ پچ بھی ویسٹ انڈیز والے میچ کی طرح آغاز میں باؤنس اور پیس کے بعد وقت کے ساتھ فلیٹ ہی رہی اور اس میں تبدیلی نہ آئی تو یہ دو دھاری تلوار بھی ثابت ہو سکتی ہے۔", "title": "سٹیل کے ٹرے میں تیار کی گئی پرتھ کی پِچ جس کا ’پیس اور باؤنس‘ پاکستانی بلے بازوں کو بےبس کر سکتا ہے", "firstPublished": "2023-12-13T10:54:27.871Z", "id": "cnep41p1ldmo", "article": "پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان تین میچوں کی ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ پرتھ کے آپٹس سٹیڈیم میں کھیلا جا رہا ہے اور کھیل کا آغاز ہونے سے پہلے ہی پچ موضوعِ بحث ہے۔ تاہم اب پاکستان کا پہلا ٹیسٹ میچ پرتھ میں ہے جہاں آپٹس سٹیڈیم کی تازہ پچ پاکستان بلے بازوں کا انتظار کر رہی ہے اور اس کے بارے میں پچ کیوریٹر ایزاک مکڈونلڈ نے کہا ہے کہ ’یہاں کی کنڈیشنز ایک ہارڈ، فاسٹ اور باؤنسی پچ بنانے کے لیے انتہائی سازگار تھیں۔‘ انھوں نے پچ پر گھاس چھوڑنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس پر ابھی 10 ملی میٹر گھاس ہے لیکن ابھی ایک دن اور ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ میچ شروع ہونے تک بھی اتنی ہی گھاس ہو گی، میرا ہدف کم گھاس رکھنا ہے۔‘ تاہم یہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ یہ پچ جس کی تصویر سوشل میڈیا پر آتے ہی پاکستانی مداحوں کو اپنے بلے بازوں کی فکر لاحق ہو گئی تھی صرف تین ہفتے پہلے ہی اس گراؤنڈ میں لائی گئی ہے۔ اس پچ کو قریب ہی موجود پرتھ کے تاریخی واکا کرکٹ گراؤنڈ کی مٹی اور گھاس سے بنایا گیا اور اس بارے میں پچ کیوریٹر کو یہی امید ہے کہ یہ وکٹ واکا گراؤنڈ کی تاریخی پچ کی طرح اچھا پیس اور باؤنس فراہم کرے گی۔ اس لیے جہاں ایک جانب مداحوں کو ڈر ہے کہ کہیں پاکستان بلے باز اس پچ کا باؤنس اور پیس سہہ نہ پائیں وہیں یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ اگر یہ پچ بھی ویسٹ انڈیز والے میچ کی طرح آغاز میں باؤنس اور پیس کے بعد وقت کے ساتھ فلیٹ ہی رہی اور اس میں تبدیلی نہ آئی تو یہ دو دھاری تلوار بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ ان پچز کو جہاں تیار کیا جاتا ہے وہاں ان کی دیکھ بھال بالکل ویسے ہی کی جاتی ہے جیسے کسی عام پچ کی اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ میچ سے پہلے یہ مکمل طور پر تیار ہوں۔ عموماً جس جگہ پر پچ کو اتارا جاتا ہے وہاں پہلے سے سیمنٹ سے لیپائی کی جاتی ہے۔ یوں پچ دراصل مٹی میں نہیں بلکہ سیمنٹ کے فرش پر اترتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ پچ مٹی میں اپنی جگہ نہ پکڑ پائے اور اسے باآسانی واپس نکالا بھی جا سکے۔ ڈراپ ان پچز کو 90 کی دہائی میں آسٹریلیا میں آزمانا شروع کیا گیا تھا جس کے بعد سے اب یہ وہاں ایک معمول کی بات ہے۔ میلبرن کرکٹ گراؤنڈ، ایڈیلیڈ اوول اور آپٹس سٹیڈیم پرتھ میں ڈراپ ان پچز استعمال کی جاتی ہیں کیونکہ ان تینوں ہی میدانوں میں دیگر کھیل بھی سال بھر کھیلے جاتے ہیں۔ پرتھ کے آپٹس سٹیڈیم میں مثال کے طور پر اسی مٹی کو استعمال کرتے ہوئے پچ بنائی گئی ہے جس سے واکا کی مشہور پچ بنائی گئی تھی اور اس میں پیس اور باؤنس تو موجود ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0kywzr7jzzo", "summary": "آسٹریلوی کرکٹرعثمان خواجہ نے کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حمایتی پیغام والے جوتے پہننے کی اجازت نہ دیے جانے کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں لیکن وہ اس عمل کی اجازت لینے کے لیے کوشش کریں گے۔", "title": "’ایک یہودی اور ایک مسلمان برابر ہیں‘: عثمان خواجہ فلسطینیوں کے لیے پیغام پر آئی سی سی کی پابندی کا فیصلہ بدلوانے کے لیے کوشاں", "firstPublished": "2023-12-13T08:58:25.671Z", "id": "c0kywzr7jzzo", "article": "آسٹریلوی کرکٹرعثمان خواجہ نے کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حمایتی پیغام والے جوتے پہننے کی اجازت نہ دیے جانے کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں لیکن وہ کوشش کرتے رہیں گے کہ انھیں اس اقدام کی اجازت مل جائے۔ آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے انھیں متنبہ کیا کہ وہ اس حرکت سے باز رہیں۔ آسٹریلین کرکٹ اتھارٹی نے کہا ہے کہ خواجہ کو 'ذاتی پیغامات' پر پابندی کے کرکٹ کے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں (آئی سی سی کے) اس نقطۂ نظر اور فیصلے کا احترام کرتا ہوں لیکن میں اس کی اجازت لینے کے لیے لڑوں گا۔‘ خواجہ کو رواں ہفتے کے اوائل میں پرتھ میں آنے والے ٹیسٹ کی تربیت کے دوران ایسے جوتے کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا گیا تھا اور اس سے قبل انھوں نے غزہ میں لوگوں کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر پوسٹس شیئر کی تھیں۔ انھوں نے یونیسیف انسٹاگرام ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’کیا لوگوں کو معصوم انسانوں کے مارے جانے کی پرواہ نہیں ہے؟ یا کیا ان کی جلد کا رنگ ان کی اہمیت کم کر دیتا ہے؟ یا وہ جس مذہب پر عمل پیرا ہیں؟ یہ چیزیں بے معنی ہونی چاہیے اگر آپ واقعی یہ مانتے ہیں کہ ’ہم سب برابر ہیں‘۔‘ لیکن بدھ کے روز خواجہ کے منصوبوں کا پتہ چلنے کے بعد کرکٹ آسٹریلیا نے ایک بیان جاری کیا جس میں یہ کہا گيا کہ ’ہم اپنے کھلاڑیوں کے ذاتی رائے کے اظہار کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن آئی سی سی (انٹرنیشنل کرکٹ کونسل) کے قوانین موجود ہیں جو کھلاڑیوں پر ذاتی پیغامات کی نمائش پر پابندی لگاتے ہیں۔ اور ہم کھلاڑیوں سے اس کی پابندی کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔‘ کمنز نے یہ بھی کہا کہ خواجہ کا کوئی ’خاص ہنگامہ آرائی‘ کا ارادہ نہیں تھا اور آئی سی سی کے قوانین سے آگاہ ہونے کے بعد انھوں نے میدان میں جوتے نہ پہننے کا فیصلہ کیا ہے۔ آسٹریلوی کرکٹر نے کہا کہ دنیا نے اس مسئلے سے اپنا منھ موڑ لیا ہے اور یہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔‘ ’سیاسی، مذہبی یا نسلی مقصد‘ کے لیے کسی بھی قسم کے پیغام کے حوالے سے آئی سی سی کے ضوابط کے ساتھ منسلک ایک نوٹ میں کہا گیا کہ آئی سی سی اور اس کے ممبران تسلیم کرتے ہیں اور اتفاق کرتے ہیں کہ کرکٹ کو دنیا بھر کے لوگوں اور برادریوں کو ایک ساتھ لانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے نہ کہ تقسیم کرنے والے سیاسی مسائل کی طرف توجہ مبذول کرنے کے پلیٹ فارم کے طور پر یا بیان بازی کے لیے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nyqxxvv7wo", "summary": "آخری بار جب پاکستان آسٹریلوی سر زمین پر کوئی ٹیسٹ میچ جیتا، تب بابر اعظم فقط ایک برس کے تھے، شاہین شاہ آفریدی پیدا نہیں ہوئے تھے، پاکستان ایٹمی قوت نہیں بنا تھا اور ایک ڈالر صرف 31 روپے کا تھا۔", "title": "اب پاکستان کا مقابلہ آسٹریلیا سے نہیں: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-12-13T04:00:04.097Z", "id": "c4nyqxxvv7wo", "article": "آخری بار جب پاکستان آسٹریلوی سر زمین پر کوئی ٹیسٹ میچ جیتا، تب بابر اعظم فقط ایک برس کے تھے، شاہین شاہ آفریدی پیدا نہیں ہوئے تھے، پاکستان ایٹمی قوت نہیں بنا تھا اور ایک ڈالر صرف 31 روپے کا تھا۔ سنہ 2016 کے دورے پر جو پاکستانی الیون سٹیو سمتھ کی ٹیم کے ہاتھوں کلین سویپ ہوئی، وہ آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئین شپ کی فاتح اور رینکنگ میں نمبر ون ٹیم تھی۔ اس ٹیم کے کپتان مصباح الحق سے جب پوچھا گیا کہ آیا ان کی ٹیم پچھلی دو دہائیوں میں آسٹریلیا کا دورہ کرنے والی بہترین ٹیم تھی تو انھوں نے اپنے پیشرو وسیم اکرم کی ٹیم کو بہترین قرار دیا تھا جو بذاتِ خود 1999 کے دورے پر کلین سویپ ہوئی تھی۔ اور جس آسٹریلوی اٹیک نے مصباح الحق کی نمبر ون ٹیم کو کلین سویپ کیا تھا، اس کے تو سبھی مہرے جوں کے توں ہیں مگر پاکستان اپنے پچھلے دورے کی ہی طرح اس بار بھی ایک نئے بولنگ اٹیک کے ہمراہ میدان میں اترے گا۔ ایشین ٹیموں میں صرف انڈیا ہی وہ ٹیم ہے جو آسٹریلیا کو ہوم گراؤنڈز پر کوئی ٹیسٹ سیریز ہرانے میں کامیاب رہی ہے اور اس کی کلید بھی نہ صرف سیریز کے آغاز سے خاصا پہلے آسٹریلیا روانگی بلکہ سازگار حالات میں وافر پریکٹس میچز کی فراہمی بھی تھی۔ مگر پی سی بی چونکہ بی سی سی آئی جیسے مالی رسوخ سے محروم ہے تو پریکٹس میچ کے لیے کرکٹ آسٹریلیا کا فراہم کردہ وینیو اور وسائل بھی مثالی نہیں تھے اور پرتھ میں اترنے سے پہلے اگر پاکستان محض کینبرا کے اس میچ پر اکتفا کر کے آیا تو یہ تیاری نامکمل سے بھی کہیں پیچھے ہو گی۔ محمد حفیظ کی مثبت پسندی فی الوقت حدوں سے تجاوز کرتی نظر آتی ہے مگر ایک مثبت پہلو پاکستان کے لیے یہ ہے کہ نئے کپتان شان مسعود نے پریکٹس میچ میں بھرپور رنز بٹورے اور آسٹریلین کنڈیشنز میں ان کے سابقہ ریکارڈ کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ وہ یہاں پاکستانی بیٹنگ کی قوت ثابت ہو سکتے ہیں۔ عثمان خواجہ نے بھی کہا ہے کہ پاکستانی بولنگ اگر اپنے بہترین پر امڈ آئے تو کسی بھی حریف کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ خواجہ کا یہ اعتراف اگرچہ حقیقت سے ماورا نہیں ہے مگر دقت یہ ہے کہ ان آسٹریلوی کنڈیشنز میں پاکستانی بولنگ کو اپنا بہترین دکھائے لگ بھگ تین دہائیاں گزر چکی ہیں۔ اور ہزیمت آمیز پہلو یہ ہے کہ اس کے بعد کے سبھی دوروں پر پاکستان کو ہر بار نہ صرف کلین سویپ کی خفت اٹھانا پڑی بلکہ آسٹریلوی فتوحات کا مارجن بھی ہتک آمیز رہا ہے۔ گو، ہار جیت کھیل کا حصہ ہے مگر شکست میں بھی جو ذرا سا بھرم بچ رہنا ضروری ہوتا ہے، پچھلے دوروں پر پاکستان اس سے بھی قاصر رہا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjrp4jly15yo", "summary": "کھلاڑی کو میچ سے باہر نکالا گیا تو مخالف ٹیم نے اس کا فائدہ اٹھا کر میچ ایک ایک گول سے برابر کر دیا۔ مگر میچ کی آخری سیٹی کے بعد ایسا واقع رونما ہوا کہ گراؤنڈ میں افراتفری کے مناظر دیکھنے کو ملے۔", "title": "’کھلاڑی کو میچ سے باہر کیوں نکالا؟‘ کلب کے صدر نے ریفری کو مُکا دے مارا", "firstPublished": "2023-12-12T15:44:29.772Z", "id": "cjrp4jly15yo", "article": "ترکی میں جاری سُپر لیگ میں ایک میچ کے دوران میزبان ٹیم انقرہ گکو نے پیر کی رات ابتدائی میچ میں برتری حاصل کر لی تھی لیکن 50 منٹ بعد ہی ایک کھلاڑی کو میچ سے باہر کر دیا گیا۔ مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اور گول کر کے میچ برابر کر دیا۔ اب میچ تو یہاں ایک ایک گول سے برابر ہو کر ختم ہو گیا مگر میچ کی آخری سیٹی کے بعد ایک اور واقع رونما ہوا جس کے بعد گراؤنڈ میں افراتفری کے مناظر دیکھنے کو ملے۔ ہوا یہ کہ میچ سے کھلاڑی کو ریڈ کارڈ دیکھا کر باہر نکالنے پر غصے سے بھرے انقرہ گکو فٹ بال کلب کے صدر گرواؤنڈ میں بھاگتے ہوئے داخل ہوئے اور نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اور میچ ریفری حلیل اموت میلر کو ایک زوردار مُکا دے مارا۔ اسیباڈیم ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر محمد یوروبلوت نے کہا کہ میلر کے دماغ پر کوئی گہری چوٹ نہیں آئی ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ اُنھیں بدھ کے روز ہسپتال سے فارغ کر دیا جائے گا۔ اس سے پہلے انھوں نے کہا تھا کہ ’کھیل کا مطلب امن اور بھائی چارہ ہے۔ کھیل تشدد سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ہم ترک کھیلوں میں کبھی بھی تشدد کی اجازت نہیں دیں گے۔‘ انقرہ گوکو کلب نے اپنے صدر کے اس اقدام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ ’ہمیں اس واقعے پر انتہائی افسوس ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہم ترک فٹ بال کے فینز حتیٰ کے پوری سپورٹس کمیونٹی سے اس افسوسناک واقعے پر معافی مانگتے ہیں جو ایریمان سٹیڈیم میں کیکور ریزپور میچ کے بعد پیش آیا۔‘ کیکور ریزپور نے میلر کو ایک پیغام میں کہا کہ ’ہم انقرہ گکو میچ کے بعد ہونے والے ناپسندیدہ واقع کی سخت مذمت کرتے ہیں۔‘ پیر کی شب ایک نیوز کانفرنس میں ترک فٹ بال فیڈریشن (ٹی ایف ایف) کے چیئرمین محمد بویوکیسی نے کہا کہ ’تمام لیگز کے میچز غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیے گئے ہیں۔‘ ٹی ایف ایف کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کلب کے صدور، منیجرز، کوچز اور ٹی وی کمنٹیٹرز کی جانب سے ریفریز کو نشانہ بنانے کے غیر ذمہ دارانہ بیانات نے آج اس گھناؤنے حملے کی راہ ہموار کی ہے۔ اس سے قبل ملک کی سب سے بڑی ٹیموں میں سے ایک گلاتاسرے نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا تاکہ کلبوں کو ترکی کے کھیل میں بڑھتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی اجازت دی جا سکے۔ گالتاسرے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم سب کو آج ایک ساتھ اس طرح کے واقعات کے خلاف کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgrpr53gzzeo", "summary": "آذان اویس نے 10 چوکوں کی مدد سے 105 رنز بنائے جبکہ سعد بیگ نے جارحانہ انداز میں 51 گیندوں میں 68 رنز بنائے جس میں آٹھ چوکے اور ایک چھکا شامل تھا۔", "title": "انڈر 19 ایشیا کپ میں انڈیا کے خلاف پاکستان کی فتح: ’زندگی بھر یاد رکھی جانے والی اننگز، آذان اویس ہیرو ہیں‘", "firstPublished": "2023-12-11T04:10:29.593Z", "id": "cgrpr53gzzeo", "article": "اگر آپ سپورٹس میں دلچسپی رکھتے ہیں تو سوشل میڈیا فیڈ میں آپ کے لیے کھیلوں سے متعلق خبریں عام طور پر شامل رہتی ہیں اور آج صبح ہمارے لیے تیار ٹوئٹر ٹرینڈز میں سب سے پہلے انڈیا بمقابلہ پاکستان ٹرینڈ تھا جسے دیکھ کر چونکنا لازمی تھا کیونکہ انڈین کرکٹ ٹیم تو جنوبی افریقہ کا دورہ کر رہی ہے جبکہ پاکستان کی ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر ہے۔ دبئی میں کھیلے جانے والے انڈر 19 ایشیا کپ کے اس پانچویں میچ میں پاکستان انڈر 19 کے کپتان سعد بیگ نے ٹاس جیت کر انڈین ٹیم کو بیٹنگ کی دعوت دی اور انڈیا کی نوجوان ٹیم نے مقررہ 50 اوورز میں اوپنر آدرش سنگھ، کپتان ادے شنکر اور ساتویں نمبر کے بلے باز سچن داس کی نصف سنچریوں کی بدولت نو وکٹوں کے نقصان پر 259 رنز بنائے۔ اس کے بعد آذان اویس کھیلنے آئے جنھوں نے شاہ زیب خان کے ساتھ 110 رنز کی شراکت کی۔ شاہ زیب نے چار چوکے اور تین چھکوں کی مدد سے 63 رنز بنائے۔ انھیں بھی ابھیشیک نے آوٹ کیا۔ ان کے بعد کپتان سعد بیگ آئے اور انھوں نے آذان اویس کے ساتھ مل کر ناقابل شکست سنچری کی شراکت کی اور 47 اوورز میں مطلوبہ ہدف پورا کر لیا اور پاکستان کو آٹھ وکٹوں سے واضح جیت سے ہمکنار کیا۔ آذان اویس نے 10 چوکوں کی مدد سے 105 رنز بنائے جبکہ سعد بیگ نے جارحانہ انداز میں 51 گیندوں میں 68 رنز بنائے جس میں آٹھ چوکے اور ایک چھکا شامل تھا۔ آذان اویس کی عمدہ بیٹنگ کی تعریف ہو رہی ہے جبکہ کچھ لوگ انھیں پاکستان کا مستقبل قرار دے رہے ہیں۔ ایک صارف نے آذان اویس کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’پاکستان کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔‘ تحسین قاسم نامی صارف نے آذان اویس کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’انھوں نے انڈین بولرز پر مکمل برتری دکھائی۔وہ کیا شاندار کھلاڑی ہیں۔‘ ایک صارف نے میچ کا ایک کلپ پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستانی نوجوانوں نے انڈیا انڈر 19 کو ایشیا کپ میں آٹھ وکٹوں سے شکست دے دی۔ میدان کے سنسنی خیز مناظر، یہ پاکستان کی بڑی جیت تھی۔‘ انڈر 19 کا ایشیا کپ 8 دسمبر سے انڈیا اور افغانستان کے درمیان میچ سے شروع ہوا جس میں انڈیا نے سات وکٹوں سے کامیابی حاصل کی جبکہ اسی دن پاکستان کی نوجوان ٹیم نے نیپال کو سات وکٹوں سے شکست دی۔ سنہ 2023 کے انڈر 19 ایشیا کپ میں آٹھ ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں اور یہ دو گروپس میں تقسیم ہیں۔ گروپ اے میں پاکستان کی ٹیم دو میچ جیت کر پہلے نمبر پر جبکہ انڈیا دوسرے، افغانستان تیسرے اور نیپال چوتھے نمبر پر ہے۔ گروپ بی میں سری لنکا کی نوجوان ٹیم پہلے، بنگلہ دیش دوسرے، متحدہ عرب امارات تیسرے اور جاپان چوتھے نمبر پر ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crgpg7gdzj0o", "summary": "تلسی میگھواڑ بتاتی ہیں کہ سنہ 2016 میں جب وہ چھٹی کلاس میں پڑھتی تھیں تو سکول میں ایک سپورٹس کیمپ لگا، جس میں کافی لڑکیوں نے حصہ لیا۔ اُن کو بھی اس کیمپ میں حصہ لینے کا شوق ہوا اور خوش قسمتی سے اس کی سیلیکشن ہو گئی۔", "title": "تلسی میگھواڑ: پاکستان کی ’پہلی ہندو لڑکی‘ جو کھیلوں کی دنیا میں اپنا نام بنا رہی ہے", "firstPublished": "2023-12-10T04:00:14.687Z", "id": "crgpg7gdzj0o", "article": "’آج تک کسی بھی ہندو لڑکی نے قدم آگے نہیں بڑھایا اور نہ ہی کوئی ہندو لڑکی سپورٹس میں آئی ہے، ہماری ہندو کمیونٹی میں تو والدین بچیوں کو پڑھائی تک کی بھی اجازت نہیں دیتے لیکن میں بہت خوش اور خوش نصیب ہوں کہ مجھے اچھے والدین ملے۔‘ تلسی میگھواڑ بتاتی ہیں کہ سنہ 2016 میں جب وہ چھٹی کلاس میں پڑھتی تھیں تو سکول میں ایک سپورٹس کیمپ لگا، جس میں کافی لڑکیوں نے حصہ لیا۔ اُن کو بھی اس کیمپ میں حصہ لینے کا شوق ہوا اور خوش قسمتی سے اس کی سیلیکشن ہوگئی۔ ’مجھے پتا نہیں تھا کہ بیس بال اور سافٹ بال بھی کوئی گیم ہے اور یہ کیسے کھیلی جاتی ہے کیونکہ پاکستان میں تو زیادہ کرکٹ ہی کھیلی جاتی ہے۔ میں نے جب کیمپ میں حصہ لیا تب مجھے پتا چلا کہ یہ امریکہ کا قومی کھیل ہے اور عالمی سطح پر کھیلا جاتا ہے۔‘ تلسی میگھواڑ بتاتی ہیں کہ ’یہاں لڑکیوں کے لیے الگ سے کوئی گراونڈ نہیں ہے۔ وہ اسی مقامی گراؤنڈ میں پریکٹس کرتی ہیں جہاں لڑکے بھی کھیل رہے ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان ہی لڑکیاں بھی کھیل رہی ہوتی ہیں تو بہت مشکلات ہوتی ہیں۔ جب نیشنل گیمز کے لیے جانا ہوتا ہے تو پریکٹس لازمی ہے تو اس صورتحال میں جیسے تیسے ہی پریکٹس کرتے ہیں۔‘ ’میں ٹی وی پہ دیکھتی ہوں، انٹرنیٹ پر بیس بال کے میچز کی ویڈیوز سرچ کرتی ہوں۔ جب لڑکیوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتی ہوں تو بہت خوش ہوتی ہوں۔ اِن ویڈیوز کو دیکھ کر اُن کے رولز سمجھتی ہوں کہ وہ کیسے کھیل رہی ہیں۔ اُن کو دیکھ دیکھ کر میں بھی کھیلتی ہوں اور ایسی پرفارمنس دینے کی کوشش کرتی ہوں۔‘ ہرجی بتاتے ہیں کہ جب انھوں نے اپنی بیٹیوں کو پڑھانا شروع کیا تو ان کی برادری کے لوگوں نے کہا کہ اُن میں غیرت نہیں ہے، لڑکیاں قابو میں نہیں رہیں گی، لیکن انھوں نے کسی کی پرواہ نہیں کی۔‘ تلسی میگھواڑ اور اُن کی دو بڑی بہنیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ گھر میں سلائی کڑھائی کا کام کرتی ہیں جن کو آن لائن فروخت کیا جاتا ہے۔ تلسی بائیک چلاتی ہیں اور پریکٹس کے لیے خود اپنی بائیک پر جاتی ہیں۔ تلسی کے مطابق جب وہ سپورٹس میں آئیں تو ہندو کمیونٹی میں سے کچھ لوگوں نے ان کی تعریف کی اور کچھ نے تنقید۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’میں اُن کی باتیں ایک کان سے سنتی ہوں اور دوسرے سے نکال دیتی ہوں، مجھے مسلسل اپنا ایک مقام بنانا ہے، مجھے پتا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے، مجھے آگے بڑھنا ہے، میں تو ابھی سندھ لیول پر ہوں اور میری اور میرے والدین کی یہی کوشش ہے کہ میں انٹرنیشنل لیول تک پہنچوں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckvp7k1kveeo", "summary": "لیجنڈز لیگ 2023 میں ایک میچ کے دوران سابق بلے باز گوتم گمبھیر اور سابق فاسٹ بولر سری سانتھ کے درمیان گرما گرم بحث سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔", "title": "میچ کے دوران گوتم گمبھیر اور سری سانتھ کے درمیان جھگڑا: ’وہ ہمیشہ ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ بلاوجہ لڑتے ہیں‘", "firstPublished": "2023-12-08T14:27:58.582Z", "id": "ckvp7k1kveeo", "article": "لیجنڈز لیگ 2023 میں ایک میچ کے دوران سابق بلے باز گوتم گمبھیر اور سابق فاسٹ بولر سری سانتھ کے درمیان گرما گرم بحث سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ گوتم گمبھیر کے پاس پیبلک ریلیشنز کی ایک بڑی ٹیم اور بہت زیادہ پیسہ ہے اور وہ اس کے ذریعے سوشل میڈیا پر یہ غلط پیغام پھیلا رہے ہیں جبکہ وہ (سری سانتھ) ایک عام سے آدمی ہیں اور ان کے پاس اتنا پیسا نہیں ہے۔ اس کے بعد گوتم گمبھیر نے انسٹاگرام پر اپنی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے طنزاً لکھا کہ جب پوری دنیا توجہ حاصل کرنے کے پیچھے بھاگ رہی ہے تو ایسی صورتحال میں مسکرانا ہی بہتر ہے۔ سری سانتھ نے لکھا کہ ’آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ میں صرف مسکرایا اور آپ نے مجھے پر فکسر کا لیبل لگا دیا۔ کیا آپ سپریم کورٹ سے بھی بالاتر ہیں؟ آپ کو اس طرح بولنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ امپائرز سے بھی بدسلوکی کرنے کے بعد آپ مسکراتے رہے۔‘ وپن تیواری نامی صارف نے تبصرہ کیا کہ ’گوتم گمبھیر نے اپنے شاٹس کھیلے اور جواب میں سری سانتھ نے گالی گلوچ کی۔ سری سانتھ کو کرکٹ پر توجہ دینی چاہیے لڑائی پر نہیں۔ اصول یہ ہے کہ جب کوئی لڑنے آئے تو مقابلہ کرو۔ سری سانتھ کرکٹ سے زیادہ لائم لائٹ میں رہنا چاہتے ہیں۔‘ موفا نامی صارف نے لکھا کہ میچ میں گوتم گمبھیر سری سانتھ کی گیندوں کو باؤنڈری سے باہر دھکیل رہے تھے اور سری سانتھ انہیں اکسا رہے تھے۔ بعد میں انھوں نے گمبھیر کے رویے پر سوالات اٹھائے۔ سری سانتھ لائم لائٹ میں آنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔ سری سانتھ اپنی بولنگ کی وجہ سے خبروں میں رہنے سے زیادہ دوسری وجوہات کی وجہ سے خبروں میں رہے۔ تنازعات کے ساتھ ان کی طویل رفاقت ہے۔ سال 2008 میں سری سانتھ اور ہربھجن سنگھ کے درمیان ’تھپڑ مارنے کا واقعہ‘ ہوا تھا۔ اس وقت سری سانتھ آئی پی ایل میں کنگز الیون اور ہربھجن ممبئی انڈینز کے لیے کھیلا کرتے تھے۔ میچ کے دوران ہربھجن سنگھ کے مبینہ تھپڑ کے بعد سری سانتھ کو کیمرے پر پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے دیکھا گیا اور بعد ازاں ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ یہ سب منصوبہ بند تھا اور انھیں بالکل بھی تھپڑ نہیں مارا گیا۔ سری سانتھ پر آئی سی سی کی ’لوگو‘ پالیسی کی خلاف ورزی کا الزام تھا۔ آئی سی سی کی پالیسی یہ تھی کہ پلین شرٹ کے نیچے ایک سادہ سفید ٹی شرٹ پہنی جا سکتی تھی اور سری سانتھ نے کالی ٹی شرٹ پہنی تھی جس کے نیچے ’لوگو‘ تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cx91d0ly548o", "summary": "پاکستان کی نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کی اس تاریخی فتح میں فاسٹ بولر فاطمہ ثنا نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں فاطمہ نے 22 رنز دے کر تین کیوی کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ ", "title": "پاکستان ویمن ٹیم نے نیوزی لینڈ کے خلاف پہلی مرتبہ ٹی 20 سیریز جیت لی، ’فاطمہ ثنا سپر سٹار ہیں، انھوں نے کوئی غلطی نہیں کی‘", "firstPublished": "2023-12-05T07:07:12.336Z", "id": "cx91d0ly548o", "article": "پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم نے نیوزی لینڈ کے خلاف پہلی مرتبہ ٹی ٹوئنٹی سیریز جیت لی ہے۔ دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو 10 رنز سے شکست دی اور تین میچز کی سیریز میں دو صفر کی فیصلہ کن برتری حاصل کر لی ہے۔ پاکستان کی نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کی اس تاریخی فتح میں فاسٹ بولر فاطمہ ثنا نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں فاطمہ نے 22 رنز دے کر تین کیوی کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلے جانے والے پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں بھی پاکستانی بولر فاطمہ ثنا نے تین وکٹیں حاصل کی تھیں اور میچ کی بہترین کھلاڑی قرار پائی تھیں۔ اس سے قبل انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی جانب سے پاکستان کرکٹ ٹیم کی فاسٹ بولر فاطمہ ثنا سنہ 2022 میں سال کی بہترین ابھرتی ہوئی کھلاڑی کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں اور یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ پاکستان کی کسی خاتون کھلاڑی کو آئی سی سی کا سالانہ ایوارڈ دیا گیا ہو۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر فاطمہ ثنا نے لکھا ’الحمدللہ! نیوزی لینڈ کی خواتین کرکٹ ٹیم کے خلاف ہم نے پہلی ٹی ٹوئنٹی سیریز جیتی۔ پوری ٹیم کو مبارکباد اور شاباش، خاص طور پر ان شائقین کو جو ہمیں سپورٹ کرتے ہیں۔پاکستان زندہ باد آج، کل اور ہمیشہ کے لیے۔‘ انھوں نے لکھا کہ ’نیوزی لینڈ کی خواتین کے خلاف پاکستانی خواتین کی پہلی ٹی ٹوئنٹی سیریز جیتنے کے ساتھ ہی انھوں نے دوسرا ٹی ٹوئنٹی 10 رنز سے جیت کر سیریز میں 2-0 کی برتری حاصل کر لی۔ منیبہ، عالیہ، فاطمہ، سعدیہ نے شاندار پرفارمنس دی۔‘ صحافی اور کرکٹ فین ناصر بیگ چغتائی نے لکھا کہ ’پاکستانی ویمن کرکٹ ٹیم نے پہلی بار نیوزی لینڈ سے ٹی 20 سیریز جیت لی ہے۔ پہلے میچ میں کامیابی کے بعد دوسرے میچ میں میزبان ٹیم کو دس رنز سے شکست دی اور آخری اوور میں نیوزی لینڈ کو 17 رنز درکار تھے۔ ثنا فاطمہ نے زبردست بولنگ کرتے ہوئے صرف سات رنز تک انھیں محدود کیا۔ فاطمہ ثنا نے سنہ 2019 میں جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں ڈیبیو کیا تھا جہاں انھیں ڈیانا بیگ کی جگہ ٹیم میں کھلایا گیا تھا۔ فاطمہ نے آغاز میں ہی اپنی بولنگ سے سب کو متاثر کیا تھا۔ تاہم سنہ 2021 فاطمہ کے لیے بہترین سال ثابت ہوا اور انھوں نے اس سال ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک میچ میں پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، یہ آٹھ برس کے بعد پہلی مرتبہ تھا کہ پاکستان کی طرف سے کسی بولر نے پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا ہو۔ اس سے قبل سعدیہ یوسف نے سنہ 2013 میں آئرلینڈ کے خلاف فائیو فار لیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1e22l41dqjo", "summary": "پاکستان کرکٹ بورڈ نے سابق ٹیسٹ کرکٹر، کپتان اور سنہ 2010 کے سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں ملوث سلمان بٹ کو گذشتہ روز چیف سیلیکٹر کے کنسلٹنٹ کے طور پر تعینات کرنے کے بعد آج عہدے سے ہٹا دیا ہے۔", "title": "وہاب ریاض نے ’بغیر دباؤ‘ سلمان بٹ کو کنسلٹنٹ کے عہدے سے ہٹا دیا، نگران وزیر اعظم کی ’متنازع تعیناتی‘ منسوخ کرنے کی ہدایت", "firstPublished": "2023-12-02T02:27:48.285Z", "id": "c1e22l41dqjo", "article": "پاکستان کرکٹ بورڈ نے سابق ٹیسٹ کرکٹر، کپتان اور سنہ 2010 کے سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے مرکزی کردار سلمان بٹ کو گذشتہ روز چیف سیلیکٹر کے کنسلٹنٹ کے طور پر تعینات کرنے کے بعد آج عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ ان کی برطرفی کا اعلان چیف سیلیکٹر وہاب ریاض کی جانب سے لاہور میں سنیچر کی شام ایک پریس کارنفرنس میں کیا گیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ان پر ’کسی کا دباؤ نہیں، سلمان بٹ کو کنسلٹنٹ بنانے کا فیصلہ میں نے ہی کیا تھا، اب انھیں ہٹانے کا فیصلہ بھی میں ہی کر رہا ہوں۔‘ خیال رہے کہ پی سی بی نے جمعے کو سابق کرکٹرز سلمان بٹ، کامران اکمل اور راؤ افتخار انجم کو پاکستان کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر وہاب ریاض کے کنسلٹنٹس کے طور پر مقرر کیا تھا۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ تنقید سلمان بٹ پر کی جا رہی تھی جو سنہ 2010 میں سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے مرکزی کردار تھے اور اس دوران ٹیم کے کپتان بھی تھے۔ پریس کانفرنس کے دوران وہاب ریاض کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی، سلمان بٹ کا نام واپس لینے کا فیصلہ صرف میرا ہے، میں نے اپنی ذمہ داری سمجھ کر چیف سلیکٹر کا عہدہ لیا۔‘ ’میرے نزدیک اسے کرکٹ کے بارے میں معلومات ہیں اور اس لیے میں چاہتا تھا کہ وہ میرے ساتھ بطور کنسلٹنٹ رہے۔۔۔ لیکن لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے زندگی میں آگے بڑھنا بھی ضروری ہے لیکن میرے خیال میں لوگوں نے ایک ایجینڈا پر کام کرنا شروع کر دیا کیونکہ وہ کرکٹ بورڈ پر کیچڑ اچھالنا چاہتے تھے اور پی سی بی کی تضحیک کر کے اپنے ذاتی فائدے اٹھانا چاہتے تھے۔‘ ایک صارف نے لکھا تھا کہ ’انتہائی مضحکہ خیز۔۔۔ ہم کیا پیغام دے رہے ہیں۔ میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ ہماری جنریشن میں سے بہت لوگوں نے سلمان بٹ، محمد آصف اور عامر کے بعد کرکٹ دیکھنا اور گرین شرٹس میں لڑکوں کی حمایت کرنا چھوڑ دیا۔‘ لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جن کے خیال میں پاکستانی کرکٹ بورڈ کا یہ فیصلہ غلط نہیں۔ صحافی عمران صدیق نے لکھا کہ ’سلمان بٹ سے غلطی ہوئی، انھوں نے سزا کاٹی اور اپنی غلطی تسلیم کی۔‘ ایک اور صارف نے لکھا ’وہ تمام لوگ جو کہہ رہے ہیں کہ سلمان بٹ نے جو کیا اس کی سزا بھگت لی، میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آسٹریلیا میں سپاٹ فکسنگ کرنے والے کو ایسا عہدہ دیا جاتا۔ سنہ 2010 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورۂ انگلینڈ کے دوران سپاٹ فکسنگ سکینڈل سامنے آیا جس میں تین کرکٹرز سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر ملوث تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cglpp2j3v2lo", "summary": "تاریخ میں پہلی مرتبہ یوگینڈا نے آئندہ برس منعقد ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے اور اس میں ایک پاکستانی نژاد کھلاڑی کا انتہائی اہم کردار ہے جنھیں پاکستان سے مایوس ہو کر یوگینڈا کا رخ کرنا پڑا تھا۔", "title": "یوگینڈا کرکٹ ٹیم کے پاکستانی نژاد آل راؤنڈر ریاضت علی: ’پاکستان سے مایوس ہو کر یوگینڈا کا رخ کیا، خواہش ہے کہ بابر اعظم کی وکٹ لوں‘", "firstPublished": "2023-12-01T13:34:41.224Z", "id": "cglpp2j3v2lo", "article": "افریقی ملک یوگینڈا نے تاریخ میں پہلی بار کسی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے اور اس عمل میں ایک پاکستانی نژاد کھلاڑی کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔ یوگینڈا کی کرکٹ ٹیم کے آل راؤنڈر ریاضت علی شاہ نے ٹیم کو اگلے راؤنڈ تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور ان کی یوگینڈا تک پہنچنے کی کہانی انتہائی دلچسپ ہے۔ یوگینڈا کو کوالیفائی کرنے کے لیے زمبابوے کو شکست دینا ضروری تھا اور اس میچ میں ریاضت نے نہ صرف سکندر رضا کی اہم وکٹ حاصل کی بلکہ 26 گیندوں پر 42 رنز بنا کر اپنی ٹیم کو مستحکم پوزیشن پر پہنچانے میں کامیاب بھی ہوئے۔ یہ ٹورنامنٹ افریقی ملک نمیبیا میں کھیلا جا رہا تھا اور وہیں سے بی بی سی کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ریاضت کا کہنا تھا کہ ’ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے لازم تھا کہ ہم زمبابوے سے جیتیں، ہم بیٹھے اور ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم کسی بھی ٹیم کو ہرا سکتے ہیں۔ زمبابوے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والا ملک ہے اور اس نے سنہ 2022 میں آسٹریلیا میں منعقدہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کو بھی شکست دی تھی۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ عموماً ایسی غیر معروف ٹیموں کے لیے منظرِ عام پرآنے کا ایک سنہری موقع ہوتا ہے اور اس کے لیے یوگینڈا کرکٹ ٹیم کافی عرصے سے تیاری کر رہی تھی۔ پاکستانی نژاد ریاضت علی شاہ چاہتے ہیں کہ ورلڈ کپ میں ان کا مقابلہ پاکستان سے ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا ایک ہی پول میں ہوں گے۔ اگر ہم بھی اس پول میں ہوئے تو پاکستان کے ساتھ میچ کو انجوائے کروں گا۔ اس آفر پر پہلے تو ریاضت کو ان کے والدین نے اجازت نہیں دی لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ مجھے پاکستان میں مواقع نہیں مل رہے اور یوگینڈا میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا اچھا موقع ہے تو انھوں نے اجازت دے دی۔‘ ریاضت علی شاہ کہتے ہیں کہ ’میں جب یوگنڈا گیا تو انھوں نے مجھے کہا کہ کلب کرکٹ میں اگر میری کارگردگی اچھی ہو گئی تو پہلے مجھے یوگینڈا کی قومی ٹیم کے ساتھ پریکٹس اور تربیت کا موقع ملے گا اور اس میں بھی کارگردگی اچھی ہوئی تو مجھے قومی ٹیم میں شامل کر لیا جائے گا۔‘ ریاضت علی شاہ کہتے ہیں کہ اب ان کا مستقبل یوگینڈا کی کرکٹ ٹیم ہی کے ساتھ منسلک ہے۔ یوگینڈا میں کرکٹ مقبول ہو رہی ہے اور اب اس کامیابی کے بعد تو مزید مقبولیت ملے گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ورلڈ کپ کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ محنت کا آغاز کر رہے ہیں۔ ہم کسی بھی ٹیم کے لیے آسان ہدف نہیں ہوں گے۔ ہماری ٹیم میں بہت ٹیلنٹ ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2l29ev1ly8o", "summary": "پی سی بی کے مطابق نوجوان کھلاڑی سے متعلق جرمانے کا یہ فیصلہ انتہائی سخت تھا اس لیے اسے واپس لے لیا گیا۔", "title": "پاکستان کرکٹ بورڈ نے بلے پر فلسطینی جھنڈے کا سٹیکر لگانے پر اعظم خان پر عائد جرمانہ ختم کر دیا", "firstPublished": "2023-11-27T07:27:50.937Z", "id": "c2l29ev1ly8o", "article": "اس فہرست میں حالیہ اٰضافہ پاکستانی کرکٹر اعظم خان ہیں جنھیں پاکستان میں ایک ہونے والی کرکٹ کی ایک قومی لیگ کے دوران بلے پر فلسیطینی جھنڈے کا سٹیکر آویزاں کرنے پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے جرمانے کا سامنا کرنا پڑا تاہم بعد میں پی سی بی نے اپنا یہ فیصلہ واپس لے لیا۔ پیر 27 نومبر کو یہ خبر سامنے آئی کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے اعظم خان پر قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کے دوران اپنے بلے پر فلسطین کے جھنڈا کا سٹیکر لگانے پر میچ فیس کا 50 فیصد جرمانہ عائد کیا گیا اور یہ جرمانہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے قوائد کے مطابق تھا مگر اب پی سی بی کی جانب سے سامنے آنے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پی سی بی نے بلے باز اعظم خان پر جرمانے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ پی سی بی کے مطابق نوجوان کھلاڑی سے متعلق جرمانے کا یہ فیصلہ انتہائی سخت تھا اس لیے اسے واپس لے لیا گیا۔ پی سی بی کے مطابق نوجوان کھلاڑیوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنی پرفارمنس اور کھیل کی جانب توجہ دیں۔ پی سی بی میں میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کی ڈائریکٹر عالیہ رشید نے بی بی سی کو تصدیق کی تھی کہ اعظم خان کو نہ صرف میچ فیس کا 50 فیصد جرمانہ عائد کیا گیا بلکہ سابقہ میچز میں اس خلاف ورزی کے بعد انھیں تنبیہ بھی کی گئی تھی۔ کھلاڑیوں کے بیٹس کے حوالے سے آئی سی سی کے ضوابط کے مطابق اس پر کسی کھلاڑی کے سپانسر کا صرف منظور شدہ لوگو ہو سکتا ہے۔ آئی سی سی کے ضوابط کے مطابق کوئی بھی لباس یا سازوسامان جو ان ضوابط کی تعمیل نہیں کرتا ہے، سختی سے ممنوع ہے۔ خاص طور پر کرکٹ کے کپڑوں یا کرکٹ کے سازوسامان پر قومی لوگو، تجارتی لوگو، ایونٹ لوگو، مینوفیکچررز کا لوگو، کھلاڑی کا بیٹ لوگو، چیریٹی لوگو یا نان کمرشل لوگو کے علاوہ کسی بھی لوگو کو ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ایک صارف سردار ریاض الحق کا کہنا تھا ’کوئی فرق؟ انڈیا والوں نے تماشائی کو پکڑا اور پاکستانی پی سی بی نے اپنے کھلاڑی کو ہی جرمانہ کر دیا۔ انڈیا تو ہے ہی اسرائیلی کلب میں ۔۔۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا دم کیوں نکلا جا رہا ہے۔‘ فرانس کے نائس فٹ بال کلب نے الجزائر کے فٹبالر یوسف اتل کو حماس اسرائیل تنازع سے متعلق سوشل میڈیا پوسٹ کرنے پر معطل کر دیا گیا جبکہ فرانسیسی فٹ بال سٹار کریم بینزیما، جو اب سعودی کلب الاتحاد کے لیے کھیلتے ہیں، انھیں بھی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں غزہ کے لوگوں کی حمایت کے اظہار کے بعد شدید ردعمل کا سامنا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cz92g90g25zo", "summary": "پاکستانی آلراؤنڈر عماد وسیم کی جانب سے گذشتہ روز تمام فارمیٹ سے ریٹائرمنٹ کے اعلان کے بعد سے کرکٹ پر بحث تقسیم کا شکار ہے۔ ", "title": "’عماد وسیم نے ریٹائرمنٹ لینے میں جلدی کر دی، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کو ان کی ضرورت ہو گی‘", "firstPublished": "2023-11-25T15:08:31.007Z", "id": "cz92g90g25zo", "article": "پاکستانی آل راؤنڈر عماد وسیم کی جانب سے گذشتہ روز تمام فارمیٹ سے ریٹائرمنٹ کے اعلان کے بعد سے کرکٹ پر بحث تقسیم کا شکار ہے۔ اس دوران ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں وہ زیادہ کامیاب بولر ثابت ہوئے اور انھوں نے اس فارمیٹ میں 21 کی اوسط سے 65 وکٹیں حاصل کیں۔ عماد کی بلے بازی میں بھی وقت کے ساتھ بہتری دیکھنے کو مل رہی تھی اور ان کا دنیا بھر کی لیگز کھیلنے کا تجربہ بھی بہت زیادہ رہا ہے۔ عماد وسیم کی جانب سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ سیلیکٹر وہاب ریاض کی جانب سے پاکستان کی آسٹریلیا سیریز کے لیے ٹیم کے اعلان کے چار روز بعد سامنے آیا ہے۔ اس پریس کانفرنس کے دوران وہاب ریاض نے حارث رؤف کو آڑے ہاتھوں لیا تھا کیونکہ ان کے مطابق حارث حامی بھرنے کے بعد پیچھے ہٹ گئے تھے۔ حارث رؤف کی جانب سے باضابطہ طور پر اس حوالے سے ردِ عمل نہیں دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ حارث آسٹریلیا میں بگ بیش لیگ کے لیے بھی میلبرن سٹارز کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر اکثر افراد کا خیال ہے کہ عماد وسیم کیونکہ پی سی بی کے کانٹریکٹڈ کھلاڑیوں کی بی کیٹیگری میں شامل ہیں اور پی سی بی کی جانب سے کھلاڑیوں پر ایک سال میں دو سے زیادہ لیگز نہ کھیلنے کی پابندی عائد ہے اس لیے انھوں نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ راشد لطیف کی جانب سے ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ ’‏عماد وسیم کو ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لینی چاہیے۔ پاکستان ٹیم کا سب سے اچھا سپن باولر عماد ہی ہے اور بیٹنگ میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ محمد حفیظ کی جانب سے ایک ٹویٹ میں عماد وسیم کا شکریہ ادا کیا گیا ہے اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا گیا ہے۔ اکثر صارفین عماد وسیم کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں اور ان کی جانب سے کھیلی گئی میچ وننگ اننگز کا تذکرہ کر رہے ہیں جن میں سے ایک ورلڈ کپ 2019 میں افغانستان کے خلاف 49 ناٹ آؤٹ کی اننگز بھی ہے۔ کچھ صارفین بابر اعظم پر ان کو نہ سلیکٹ کرنے کے حوالے سے بھی تنقید کر رہے ہیں جب کچھ صارفین عماد وسیم کو پاکستان کرکٹ پر دیگر لیگز کو فوقیت دینے کی بات کر رہے ہیں۔ تاہم یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ جب وفاق میں فروری کے انتخابات کے بعد نئی حکومت آئے گی تو چیئرمین پی سی بی بدلنے کی صورت میں عماد کو یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایسا ہو گا یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن فی الحال آئندہ برس کے آغاز میں نیوزی لینڈ کے ساتھ پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں کم از کم عماد وسیم موجود نہیں ہوں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckrpkz4kn41o", "summary": "افغانستان اور نیپال کے علاوہ جنوبی ایشیائی کرکٹ کھیلنے والے تین دیگر ممالک پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے سابق کھلاڑیوں اور منتظمین نے حالیہ دنوں میں بی سی سی آئی سے کھل کر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ ", "title": "راناٹنگا کا جے شاہ پر ’سری لنکن کرکٹ چلانے‘ کا الزام، پاکستان سمیت دیگر ایشیائی ممالک انڈین کرکٹ بورڈ سے ناراض کیوں؟", "firstPublished": "2023-11-23T05:02:51.429Z", "id": "ckrpkz4kn41o", "article": "افغانستان اور نیپال کے علاوہ جنوبی ایشیائی کرکٹ کھیلنے والے تین دیگر ممالک پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے سابق کھلاڑیوں اور منتظمین نے حالیہ دنوں میں بی سی سی آئی سے کھل کر ناراضی کا اظہار کیا۔ سری لنکا کے سابق کرکٹر ارجونا راناٹنگا نے حال ہی میں بی سی سی آئی کے سیکریٹری جے شاہ پر سری لنکن کرکٹ بورڈ (ایس ایل سی) کے معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ سری لنکن کرکٹ بورڈ پہلے ہی غیر یقینی صورتحال سے دوچار تھا لیکن ورلڈ کپ میں اپنی ٹیم کی شکست کے بعد ہنگامہ آرائی اور حکومتی مداخلت کے باعث آئی سی سی نے سری لنکن بورڈ کی رکنیت معطل کر دی۔ انھوں نے کہا کہ ’سری لنکن کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں اور جے شاہ کے درمیان تعلقات کی وجہ سے بی سی سی آئی کو لگتا ہے کہ وہ سری لنکن کرکٹ کو کچل سکتے ہیں اور اس کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں۔‘ اس کے علاوہ کچھ سابق کرکٹرز نے بھی ٹاس اور پچ کے حوالے سے اس گمان کا اظہار کیا کہ انڈیا غلط طریقوں اور راستوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ رواں سال 28 مئی کو بی سی سی آئی نے سری لنکا، افغانستان اور بنگلہ دیش کے کرکٹ بورڈز کے صدور کو آئی پی ایل فائنل دیکھنے کے لیے مدعو کیا تھا۔ بعد ازاں ایشیا کپ کے شیڈول میں تبدیلی کر دی گئی۔ سری لنکن کرکٹ بورڈ نے بی سی سی آئی کی حمایت کی اور پی سی بی ایشین کرکٹ میں اکیلا رہ گیا۔ لیکن سری لنکا اور بنگلہ دیش نے متحدہ عرب امارات میں گرم موسم کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی اور بالآخر پی سی بی کو سری لنکا کو ایشیا کپ کی مشترکہ میزبانی کے لیے قائل کرنا پڑا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سابق سربراہ نجم سیٹھی نے بھی ایکس پر ایک طویل پوسٹ لکھی جس میں اے سی سی کے سربراہ اور بی سی سی آئی کے سیکریٹری جے شاہ کو نشانہ بنایا گیا۔ بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کی کرکٹ سے متعلق سرگرمیوں کے چیئرمین جلال یونس نے اس بات پر ناراضی کا اظہار کیا کہ ان کے کھلاڑیوں کو ٹورنامنٹ کے دوران سری لنکا اور پاکستان کا دورہ کرنا پڑا۔ بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ چندیکا ہتھورو سنگھا نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کولمبو میں کھیلے جانے والے سپر فور میچ کے لیے آئی سی سی کی جانب سے ریزرو ڈے رکھنے پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے اسے جانبدارانہ اقدام قرار دیا۔ لیکن بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ اور سری لنکا کرکٹ بورڈ نے جلد ہی ایک وضاحت جاری کرتے ہوئے اس ساری بحث کو ختم کر دیا کہ ’یہ فیصلہ چاروں ٹیموں اور اے سی سی کی رضامندی سے کیا گیا تھا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ck5pe577046o", "summary": "انڈین خبررساں ادارے اے این آئی نے گذشتہ روز صبح تقریباً دس بجے ایک ویڈیو جاری کی جس میں وزیر اعظم مودی نے کوہلی اور کپتان روہت شرما کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا ہے اور کہہ رہے ہیں کہ ’آپ لوگ دس دس گیم جیت کر آئے ہو۔ یہ تو ہوتا رہتا ہے۔ مسکرائیے بھائی، دیش آپ کو دیکھ رہا ہے۔ ‘", "title": "انڈین ٹیم کے ڈریسنگ روم کا ’متنازع‘ دورہ: ’اچھا ہوتا اگر مودی غم سے نڈھال کھلاڑیوں کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہ کرتے‘", "firstPublished": "2023-11-22T05:40:24.917Z", "id": "ck5pe577046o", "article": "اتوار کو احمد آباد میں ورلڈ کپ کے فائنل میں انڈیا کی شکست کے بعد منگل کو وزیراعظم نریندر مودی کی انڈین کرکٹ ٹیم کے ساتھ ڈریسنگ روم کی ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں وہ انڈین کھلاڑیوں سے ملتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انڈین خبررساں ادارے اے این آئی نے گذشتہ روز صبح تقریباً دس بجے ایک ویڈیو جاری کی جس میں وزیر اعظم مودی نے وراٹ کوہلی اور کپتان روہت شرما کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا ہے اور کہہ رہے ہیں کہ ’آپ لوگ دس دس گیم جیت کر آئے ہو۔ یہ تو ہوتا رہتا ہے۔ مسکرائیے بھائی، دیش آپ لوگوں کو دیکھ رہا ہے۔ میں نے سوچا مل لوں آپ سب سے۔‘ ایک منٹ 26 سیکنڈ کی اس ویڈیو کے دوران وہ کوہلی اور روہت شرما کی پیٹھ بھی تھپتھپاتے ہیں اور ان کے ہاتھ پکڑ کر ان کے درمیان کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کے پیچھے انڈیا کے وزیر داخلہ نظر آتے ہیں اور پھر وہ دوسری جانب مڑ کر دیکھتے ہیں اور انڈین ہیڈ کوچ راہل دراوڈ سے پوچھتے ہیں کہ ’کیا راہل۔۔۔ کیسے ہیں؟ آپ لوگوں نے محنت بہت کی ہے لیکن۔۔۔‘ ان سے ہاتھ ملاتے ہیں اور کندھے پر تھپکی دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ مڑ کر سارے کھلاڑیوں کے درمیان آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’ایسا ہوتا رہتا ہے اور ساتھیوں کے حوصلے بلند کرتے رہیے اور آپ لوگ کبھی فارغ ہو کر دلی آئيں گے تو بیٹھیں گا آپ کے ساتھ۔ میری طرف سے آپ سب کو دعوت ہے۔‘ انھوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’ڈریسنگ روم کسی بھی ٹیم کے لیے اس کا مقدس مقام ہوتا ہے۔ آئی سی سی کھلاڑیوں اور معاون عملے کے علاوہ کسی کو بھی ان کمروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ انڈیا کے وزیراعظم کو ڈریسنگ روم کے باہر ٹیم سے ملنا چاہیے تھا۔‘ واضح رہے کہ انڈیا کی امیر ترین شخصیت مکیش امبانی کے گھر کا نام اینٹیلیا ہے جبکہ جس سٹیڈیم میں فائنل کھیلا گیا، اس کا نام انڈین وزیراعظم کے نام پر ’نریندر مودی سٹیڈیم‘ رکھا گیا ہے۔ آرتی ناگپال نامی ایک صارف نے مودی کا شکریہ ادا کیا اور لکھا کہ ’مودی جی اس محبت کے لیے آپ کا شکریہ۔ ہمارے لڑکوں کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ ٹیم انڈیا چیمپیئن ہے۔ آپ شاندار ہیں۔ ہم تمام انڈینز آپ سے محبت کرتے ہیں اور احترام کرتے ہیں۔ انڈیا جذبات کا نام ہے اور آپ اس کی نبض کو پہچانتے ہیں۔‘ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے منگل کو راجستھان میں ایک انتخابی ریلی کے دوران ورلڈ کپ میں انڈیا کی شکست کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی پر طنز کیا اور اس بارے میں معیوب جملا کسا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0d24gm2yg3o", "summary": "کمنز کا ٹیلنٹ اس ورلڈ کپ فائنل میں کھل کر سامنے آیا۔ کمنز نے انڈین ٹیم کے ہر کھلاڑی کے لیے الگ حکمت عملی وضع کی۔ انھوں نے خود کو ایک عظیم کپتان ثابت کیا۔ ان کے مطابق محض حکمت عملی بنانا اہم نہیں بلکہ میدان میں اس کو مکمل طور پر لے کر آگے بڑھنا اور کپ جیتنا اہم ہے۔", "title": "پیٹ کمنز: غیر روایتی آسٹریلوی کپتان جنھوں نے ایک مسلمان کھلاڑی کے لیے شراب پارٹی رکوا دی", "firstPublished": "2023-11-22T02:45:21.726Z", "id": "c0d24gm2yg3o", "article": "’مجھے احمد آباد کے سٹیڈیم میں لاکھوں شائقین کو خاموش کروانے سے بہت اطمینان ملا۔‘ یہ الفاظ آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم کے کپتان پیٹ کمنز نے انڈیا کو ورلڈ کپ فائنل میں شکست دینے کے بعد ادا کیے لیکن ان کے ان الفاظ کو احساس برتری کا اظہار قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ کمنز ایک عام آسٹریلوی کپتان نہیں۔ رکی پونٹنگ نے سنہ 2007 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ورلڈ کپ سیمی فائنل سے قبل ایک انٹرویو میں کہا کہ ’جیک کیلس اچھے کھلاڑی ہیں اور ان کا ریکارڈ بہت اچھا ہے لیکن وہ ہمارے خلاف کچھ نہیں کر پائیں گے۔ اگر ہمارا منصوبہ کامیاب رہا تو ہم کیلس کو شکست دیں گے۔‘ کمنز ’حادثاتی‘ طور پر آسٹریلیا کے کپتان بنے۔ انھوں نے ایک تنازع میں گھرے ٹم پین سے کمان لی اور اس کے بعد ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں آسٹریلیا کو فتح سے ہمکنار کروایا۔ جس وقت انھیں کپتان بنایا گیا تو اس وقت تک انھوں نے صرف چار ایک روزہ میچوں میں ہی ٹیم کی کپتانی کر رکھی تھی۔ اس وقت تنقید ہوئی کہ کرکٹ بورڈ نے ایک ایسے کھلاڑی کو کپتان بنا دیا، جس کے پاس اہم ورلڈ کپ سیریز کا تجربہ ہی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ورلڈ کپ سے قبل آسٹریلیا کی ٹیم نے ہر انڈین کھلاڑی کا انفرادی سکیچ تیار کر رکھا تھا۔ روہت شرما کی کمزوری کیا ہے، ان کو کھیل سے کیسے باہر کیا جائے، ورات کوہلی کا رن ریٹ کیسے قابو میں رکھا جائے اور کے ایل راہل پر کیسے دباو ڈالا جائے۔ کمنز اچھے بولر ہی نہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر عمدہ بلے بازی بھی کر سکتے ہیں۔ ایشز سیریز کے دوران پہلے ٹیسٹ میچ میں جیت کے لیے 281 رنز درکار تھے اور آسٹریلیا 221 رن پر آٹھ وکٹیں گنوا چکا تھا جب کمنز میدان میں آئے اور ناقابل شکست 44 رنز بنا کر ٹیم کو فتح سے ہمکنار کروایا۔ اگر آسٹریلیا یہ میچ ہار جاتا تو ان کے لیے فائنل تک رسائی مشکل ہو جاتی۔ ایک کپتان کی حیثیت سے کمنز نے اس بات کو یقینی بنایا کہ بولنگ اور بلے بازی دونوں میں ہی وہ ایسی کارکردگی دکھائیں کہ ٹیم کامیاب ہو۔ کمنز کا ٹیلنٹ اس ورلڈ کپ فائنل میں کھل کر سامنے آیا۔ کمنز نے انڈین ٹیم کے ہر کھلاڑی کے لیے الگ حکمت عملی وضع کی۔ انھوں نے خود کو ایک عظیم کپتان ثابت کیا۔ ان کے مطابق محض حکمت عملی بنانا اہم نہیں بلکہ میدان میں اس کو مکمل طور پر لے کر آگے بڑھنا اور کپ جیتنا اہم ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں کمنز کی بات کو غلط نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ غالب ذہنیت نہیں۔ آسٹریلیا قدرتی طور پر کھیلوں کا ملک ہے۔ وہاں کے کھلاڑی قدرتی طور پر اپنے مخالفین سے اس طرح بات کرتے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g2r4j1yj8o", "summary": "انڈیا کی شکست سے لاکھوں انڈین مداحوں کے دل ٹوٹے اور بہت سے لوگوں نے اپنی بھڑاس سوشل میڈیا پر نکالی۔ کچھ دلبرداشتہ فینز نے ٹرولنگ کرتے ہوئے ٹریوس ہیڈ کی اہلیہ اور بیٹی کو دھمکیاں بھی دی ہیں۔\n", "title": "ٹریوس ہیڈ کی بیوی اور بیٹی کو دھمکیاں: ’کیا ہم اتنا نیچے گر گئے ہیں، کرکٹ کب دھمکیوں اور گالیوں تک جا پہنچا‘", "firstPublished": "2023-11-21T06:04:53.578Z", "id": "c3g2r4j1yj8o", "article": "انڈیا میں منعقدہ 2023 ورلڈ کپ اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ اتوار اور سوموار کی درمیانی شب اختتام پذیر ہوا۔ آسٹریلیا کے اوپنر ٹریوس ہیڈ نے نئی تاریخ رقم کی اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے تن تنہا انڈیا کے جیت کے طوفان کا رخ موڑ دیا۔ انڈیا کی شکست سے لاکھوں انڈین مداحوں کے دل ٹوٹے اور بہت سے لوگوں نے اپنی بھڑاس سوشل میڈیا پر نکالی۔ کچھ دلبرداشتہ فینز نے ٹرولنگ کرتے ہوئے ٹریوس ہیڈ کی اہلیہ اور بیٹی کو دھمکیاں بھی دی ہیں۔ کچھ لوگ اپنی بھڑاس آسٹریلین کرکٹر مچل مارش کی ایک تصویر پر بھی نکال رہے ہیں جس میں انھوں نے ورلڈ کپ ٹرافی پر اپنے دونوں پاؤں رکھے ہوئے ہیں۔ بہت سے صارفین نے ٹریوس ہیڈ کو نشانہ بنایا اور انسٹا گرام پر ان کی پروفائل پر جا کر ان کی اہلیہ اور بیٹی کو جان سے مارنے اور ریپ کی دھمکیاں دی ہیں۔ اے پی ایس واسی نامی ایک صارف نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اس کے سکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ مکمل طور پر بیہودہ ہے۔ انڈین کرکٹ فینز ورلڈ کپ کی جیت کے بعد ٹریوس ہیڈ کی بیوی اور بیٹی کو ریپ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔‘ جبکہ پالیٹکس 2022 نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ٹریوس ہیڈ کی بیٹی صرف ایک سال کی ہے اور اسے انڈین کرکٹ فینز کی جانب سے انسٹاگرام پر موت اور ریپ کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔‘ لیکن انڈین فینز کی جانب سے اس قسم کی ٹرولنگ کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے قبل سنہ 2021 میں جب انڈین ٹیم پاکستان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئی تھی تو محمد شامی کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا تھا اور انھیں بعض حلقوں نے ’غدار‘ قرار دیا تھا۔ ورات کوہلی نے ایک پریس کانفرنس میں محمد شامی کی حمایت کی جس پر بعض کرکٹ مداحوں نے کوہلی کی اہلیہ اداکارہ انوشکا شرما اور ان کی دس ماہ کی بیٹی کو ریپ کی دھمکی دی تھی۔ اس کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دھمکی دینے والے شخص کو گرفتار کر لیا تھا۔ ٹریوس ہیڈ نے ورلڈ کپ کی فتح کے بعد مچل مارش کی ایک تصویر پوسٹ کی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ اس تصویر کے ساتھ انھوں نے لکھا کہ ’سخت محنت کریں یہاں تک کہ کامیابی آپ کے قدموں تلے ہو۔‘ سینی ویب نامی ایک صارف نے آئی سی سی اور بی سی سی آئی کو ٹیگ کرتے ہوئے مچل مارش کی تصویر پوسٹ کی اور لکھا کہ ’یہ سلوک کھیل کی سالمیت کے لیے بے ادبی ہے۔ برائے مہربانی اس پر غور کریں اور اس معاملے کو مناسب طور پر سلجھائیں۔‘ کرک شاہ نامی ایک صارف نے کرکٹ بورڈز، جے شاہ اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ ’اس کے خلاف کارروائی کریں کہ اس سلوک نے ہماری روایت کی توہین کی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n0zgg5r5yo", "summary": "دورۂ آسٹریلیا کے لیے 18 رکنی سکواڈ کا اعلان کرتے ہوئے چیف سلیکٹر وہاب ریاض نے کہا ’حارث رؤف آخری لمحے پر پیچھے ہٹ گئے۔۔۔ مجھے لگتا ہے پاکستان کو اس چیز کا نقصان ہو گا۔‘", "title": "پاکستانی ٹیم کے لیے ’قربانی‘ نہ دینے پر تنقید: ’حارث رؤف کو بریک لینے کی اجازت ہونی چاہیے‘", "firstPublished": "2023-11-20T14:26:24.040Z", "id": "c4n0zgg5r5yo", "article": "پاکستان کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر وہاب ریاض نے دعویٰ کیا ہے کہ فاسٹ بولر حارث رؤف نے دو روز پہلے تک پاکستان کے ریڈ بال سکواڈ کا حصہ بننے کی حامی بھری تھی لیکن ایک رات پہلے وہ پیچھے ہٹ گئے۔ حارث سے ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے وہاب ریاض نے کہا کہ ’ہماری حارث رؤف سے اس دورے کے لیے بات ہوئی تھی، دو دن پہلے تک انھوں نے اس دورے کے لیے رضامندی ظاہر کی تھی لیکن کل رات انھوں نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا۔‘ وہاب کا کہنا تھا کہ ’حارث کو اس چیز کا خدشہ تھا کہ انھیں کوئی فٹنس کے مسائل نہ ہوں، ورک لوڈ وغیرہ۔ میں اور محمد حفیظ ان کے ساتھ بیٹھے ہیں اور ان کو دورے پر ہر طرح سے سہولیات دینے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ اس دورے پر فیل بھی ہوتے تو میں اس کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار تھا۔‘ ’لیکن آخری لمحے حارث رؤف پیچھے ہٹ گئے اور ہمیں بتایا کہ اس دورے کے لیے وہ دستیاب نہیں ہیں۔۔۔ مجھے لگتا ہے پاکستان کو اس چیز کا نقصان ہو گا۔‘ ایک سوال کے جواب میں وہاب ریاض کا کہنا تھا کہ ہمیں ان سے ایک دن میں دس سے بارہ اوور درکار تھے اور ہم چاہتے تھے کہ وہ سکواڈ کا حصہ ہوں کیونکہ وہ امپیکٹ بولر ہیں۔ ’ہمارے باقی 140 پلس بولنگ کرنے والے بولرز اس وقت زخمی ہیں اور کہیں نہ کہیں آپ کو پاکستان کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے نہ کہ آپ پیچھے ہٹ جائیں۔‘ وہاب ریاض کی پریس کانفرنس کے بعد سے سوشل میڈیا پر ان کے حارث رؤف سے متعلق بیانات زیرِ بحث ہیں۔ حارث رؤف ورلڈ کپ میں اپنی خراب بولنگ کی وجہ سے پہلے ہی تنقید کی زد میں تھے اور مگر اب ان کی جانب سے مبینہ طور پر خود کو دورۂ آسٹریلیا کے لیے دستیاب نہ کرنا ایک بار پھر انھیں توجہ کا مرکز بنا رہا ہے۔ بہرام نامی صارف نے کہا کہ وہاب ریاض کو حارث رؤف کے فیصلے پر اس لیے تنقید نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ ’انھوں نے خود اس وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی جب پاکستان کو ان کی دورۂ آسٹریلیا کے لیے ضرورت تھی۔‘ دورۂ آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز کے لیے پاکستان کا 18 رکنی سکواڈ چیف سلیکٹر وہاب ریاض نے کہا کہ صائم ایوب کو ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار پرفارمنس پر ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔ صائم نے قائداعظم ٹرافی اور پاکستان کپ دونوں میں متاثرکن کارکردگی دکھائی۔ ’ان کی شمولیت سے ٹیم کی بیٹنگ مزید مضبوط ہوگی، جو پہلے ہی مضبوط ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy62jwppe6zo", "summary": "ٹیم انڈیا کی پورے ورلڈ کپ کی کارکردگی ایک طرف اور فائنل کا کھیل دوسری طرف نظر آتا ہے اس لیے لوگوں کے دلوں میں سوالوں کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ ہے کہ آخر انڈین ٹیم فائنل میں آ کر کیونکر ناکام ہوئی؟", "title": "احمد آباد کی ’سلو پچ‘: کیا انڈیا کو اپنا ہی داؤ بھاری پڑا؟", "firstPublished": "2023-11-20T06:47:26.396Z", "id": "cy62jwppe6zo", "article": "ایک لاکھ سے زیادہ تماشائیوں کے سامنے اور ایک ارب 40 کروڑ لوگوں کی ’نیک خواہشات اور دعاؤں‘ کے باوجود آسٹریلیا نے ورلڈ کپ میں ناقابل تسخیر انڈین ٹیم کو فائنل میں شکست سے دوچار کیا اور ریکارڈ چھٹی بار ورلڈ کپ کی فاتح قرار پائی۔ ٹیم انڈیا کی پورے ورلڈ کپ کی کارکردگی ایک طرف اور فائنل کا کھیل دوسری طرف نظر آتا ہے اس لیے لوگوں کے دلوں میں سوالوں کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ ہے کہ آخر انڈین ٹیم فائنل میں آ کر کیونکر ناکام ہوئی؟ آج سے لگ بھگ ایک ماہ قبل جب اسی سٹیڈیم میں انڈیا نے ورلڈ کپ کے ابتدائی میچوں میں پاکستان کو شکست سے دوچار کیا تھا تو مبصرین کی جانب سے ’سلو پچ‘ کی بات کی گئی تھی۔ اس کے بعد کے متعدد میچوں میں سلو پچ کی شکایت کی گئی اور الزام عائد کیا گیا کہ میزبان ملک اپنے سپنرز کے لیے سلو پچ تیار کر رہا ہے۔ ممبئی کے وانکھیڑے سٹیڈیم میں نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں بھی یہ بات سامنے آئی اور انڈیا کو اس کا خاطر خواہ فائدہ بھی ہوا کیونکہ ٹیم انڈیا نے رنز کا ایسا پہاڑ کھڑا کیا کہ جس کے بوجھ تلے نیوزی لینڈ کی ٹیم دب گئی اور رہی سہی کسر محمد شامی کی تباہ کن بولنگ نے پوری کر دی جنھوں نے اس میچ میں ریکارڈ سات وکٹیں لیں۔ معروف صحافی اور کرکٹر دلیپ سردیسائی کے بیٹے راجدیپ سردیسائی نے پہلے ڈرنکس کے بعد لکھا کہ ’ورلڈ کپ فائنل کے لیے یہ کم مناسب سلو اور ڈرائی پچ رہی (آئی سی سی/ بی سی سی آئی کو اس بابت چند سوالات کے جواب دینے ہوں گے)۔ روہت کو سیٹ ہونے کے بعد بڑے سکور کے لیے جانا چاہیے تھا۔ آسٹریلینز نے شاندار فیلڈنگ کی ہے۔ ٹریوس ہیڈ کا ناقابل یقین کيچ، کمنز نے درست لینتھ پر بولنگ کی، کوہلی نے اپنے کھیل پر قابو رکھا ہوا ہے اور انھیں اس وکٹ پر جمے رہنا چاہیے۔۔۔‘ اس سے قبل صحافی سگاریکا گھوش نے سیمی فائنل کے وقت لکھا تھا کہ ’انڈیا ورلڈ کپ 2023 میں برتر ٹیم رہی ہے تو پھر انڈیا کو پچ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کیا ضرورت؟ یقینی طور پر ورلڈ کپ کی نگرانی آئی سی سی کرتی ہے نہ کہ بی سی سی آئی؟ پھر کرکٹ پچ سے ’چھیڑ چھاڑ‘ کے الزامات کیوں؟‘ اوے وویک نامی صارف نے ٹویٹ کیا: ’میں اس کم ٹوٹل کے لیے روہت شرما کو ذمہ دار گردانتا ہوں۔ اس لیے نہیں کہ وہ خراب کھیلے، بلکہ اس لیے کہ انھیں سست پچ کو دیکھتے ہوئے حکمت عملی کے ساتھ اپنی بیٹنگ کرنا چاہیے تھا۔ کبھی کبھی اپنی پوری صلاحیت کے ادراک کے لیے فطری کھیل سے انحراف کرنا ضروری ہوتا ہے۔ خاص طور پر ورلڈ کپ کے فائنل میں ان کا آؤٹ ہونا انتہائی اہم تھا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cmmpv0m5g2qo", "summary": "اور پھر جب ٹورنامنٹ میں پہلی بار ٹاس ہارنے کا جھٹکا لگا تو بھی کمنز نے روہت کے دل کی مراد پوری کرتے ہوئے پہلے بیٹنگ کی پیشکش کر ڈالی۔ انڈیا خود بھی پہلے بیٹنگ ہی کرنا چاہتا تھا۔ تو پھر پیچھے بچا کیا تھا جو اس ٹیم کو ٹرافی اٹھانے سے روک پاتا؟", "title": "’مسئلہ روہت شرما کی قسمت کا نہیں تھا‘: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-11-20T03:32:51.756Z", "id": "cmmpv0m5g2qo", "article": "اور پھر جب ٹورنامنٹ میں پہلی بار ٹاس ہارنے کا جھٹکا لگا تو بھی کمنز نے روہت کے دل کی مراد پوری کرتے ہوئے پہلے بیٹنگ کی پیشکش کر ڈالی۔ انڈیا خود بھی پہلے بیٹنگ ہی کرنا چاہتا تھا۔ تو پھر پیچھے بچا کیا تھا جو اس ٹیم کو ٹرافی اٹھانے سے روک پاتا؟ روہت شرما نے پاور پلے کا آغاز بھی اسی معمول کی جارحیت سے کیا جو وہ اس ورلڈ کپ میں کرتے چلے آئے ہیں۔ ان سست پچز پہ رنز بٹورنے کا بہترین وقت وہی ہوتا ہے جب گیند نئی ہو اور فیلڈرز دائرے کے اندر محدود ہوں۔ روہت کی بے غرض اننگز کے بعد جیت کا رستہ لگ بھگ ہموار ہو چلا تھا۔ مگر انھوں نے بھی اپنا بہترین اسی دن کے لیے بچا کر رکھا تھا اور استعمال شدہ پچ کی خشکی کا فائدہ تب اپنے جز وقتی بولرز سے اٹھایا جب وراٹ کوہلی اور کے ایل راہول کسی ایک بولر کو ہدف بنانے کی سوچ رہے تھے۔ حالانکہ اگر انڈیا پاکستان کے خلاف اسی پچ پہ اپنے میچ سے ہی کوئی سبق سیکھ پاتا تو یقیناً مار دھاڑ کے لیے آخری پندرہ اوورز کا منتظر نہ رہتا اور جو آغاز روہت شرما نے فراہم کیا تھا، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بیچ کے اوورز میں مثبت کرکٹ کھیلتا۔ کیونکہ یہ واضح تھا کہ جونہی گیند پرانا ہوا، ہلکی سی ریورس سوئنگ آئی، باؤنڈریز بٹورنا کارِ دشوار ہو رہے گا۔ مگر یہاں اہم ترین معرکے میں قلیل ترین ہدف کے دفاع کو نئی گیند محمد شامی کے حوالے کر دی گئی۔ شماریاتی اعتبار سے روہت شرما کا یہ فیصلہ قابلِ توجیہہ ہو سکتا ہے کہ دو بائیں ہاتھ کے اوپنرز کے خلاف شامی کا حالیہ ریکارڈ مفید ثابت ہو سکتا تھا، مگر نئی گیند شامی کے ہاتھ میں تھمانا بہرحال ایک داؤ تھا جو آغاز میں ہی انڈیا کو مہنگا پڑ گیا۔ بلا شبہ دوسری اننگز میں حالات بیٹنگ کے لیے قدرے سازگار تھے مگر جو بولنگ وسائل یہاں روہت شرما کو میسر تھے، اگر مثبت اپروچ سے برتے جاتے تو یہ یقینی تھا کہ اوس گرنے سے پہلے ہی بات آسٹریلوی لوئر مڈل آرڈر تک جا پہنچتی اور یہی بیٹنگ مدافعانہ خول میں جاتی نظر آتی۔ ٹریوس ہیڈ نے جس ارتکاز کے ساتھ روہت شرما کا وہ کیچ پکڑا تھا، وہی ارتکاز ان کی بیٹنگ میں بھی نمایاں رہا۔ انھوں نے سوا لاکھ کے ہجوم کا شور و غوغا اپنے دماغ میں جذب کیا اور اس دباؤ کا مقابلہ اپنے بلے سے کیا۔ نہ تو کہیں کھیل کو خود پہ حاوی ہونے دیا اور نہ ہی انھوں نے خود کھیل سے آگے بڑھنے کی کوئی کوشش کی۔ ایک دہائی سے عالمی ٹرافی کی کھوج میں لڑکھڑاتی انڈین ٹیم نے گھر آئی ٹرافی کو گنوا دیا اور ستم ظریفی یہ کہ اس میں دوش قسمت کا بھی نہیں تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1pjj0y7lqo", "summary": "کرکٹ ورلڈ کپ 2023 میں آسٹریلیا نے انڈیا کو شکست دے کر چھٹی بار ٹائٹل اپنے نام کر لیا ہے۔ انڈیا اگرچہ اس ٹورنامنٹ میں اپنے سابقہ 9 میچ جیت کر ناقابلِ شکست ٹیم بن کر سامنے آیا اور پوائنٹس ٹیبل پر نمبر ون پوزیشن نے اسے فائنل کے لیے آئیڈل ٹیم بنا دیا تھا۔ ", "title": "ورلڈ کپ کی ناقابلِ شکست ٹیم انڈیا فائنل ہار گئی: ’یہ دیکھنا تکلیف دہ تھا، کوئی بات نہیں ٹیم انڈیا آج ہمارا دن نہیں تھا‘ ", "firstPublished": "2023-11-19T14:11:16.962Z", "id": "cd1pjj0y7lqo", "article": "کرکٹ ورلڈ کپ 2023 میں آسٹریلیا نے انڈیا کو شکست دے کر چھٹی بار یہ ٹائٹل اپنے نام کر لیا ہے۔ انڈیا کی ٹیم اس ٹورنامنٹ میں گذشتہ نو میچوں میں فتح کے ساتھ ناقابلِ شکست تھی مگر اسے آسٹریلوی بلے باز ٹریوس ہیڈ کی سنچری کی بدولت چھ وکٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انڈیا نے اپنے ہدف کا دفاع کافی جارحانہ انداز میں شروع کیا اور آسٹریلیا کی ٹیم کے اوپنرز کو سنبھلنے کا موقع دیے بغیر واپس پویلین پہنچا دیا تھا۔ لیکن چوتھی وکٹ کی شراکت میں ٹریوس ہیڈ اور مارنس لیبوشین نے ٹیم کو نہ صرف سہارا دیا بلکہ انڈیا کی امیدوں پر اوس بن کر گرے۔ اس شراکت میں انھوں نے اپنی ٹیم کو کامیابی تک پہنچا دیا تھا تاہم میچ کے اختتامی لمحات میں بڑی شاٹ کھیلنے کی کوشش میں ہیڈ باؤنڈری پر کیچ آؤٹ ہو گئے۔ انھوں نے 137 رنز بنائے۔ سوشل میڈیا پر انڈین شائقین کی مایوسی میچ میں بہت پہلے سامنے آنے لگی تھی جب آسٹریلین ٹیم نے 190 رنز بنا لیے تھے۔ شائقین کرکٹ نے اس وقت میدان سے جانا شروع کر دیا تھا۔ لیکن کچھ سوشل میڈیا صارفین انھیں حوصلہ دیتے نظر آئے کہ مایوسی قبل از وقت ہے لیکن ان کی تسلی کسی کام نہ آئی۔ ٹریوس ہیڈ جو اس میچ کے ہیرو بن گئے ان کے لیے رضوان غلزئی کا کہنا تھا ’ ٹریوس ہیڈ کی تاریخی اننگز۔ انھوں نے آسٹریلیا کو راکھ کے ڈھیر سے باہر نکالا، پہلے روہت شرما کے اس حیرت انگیز کیچ سے اور پھر یہ۔۔۔ سپر سٹار بلے باز۔‘ ورلڈ کپ سے باہر ہو جانے کے بعد پاکستانی شائقین نے لطف اٹھانے کا موقع نہیں جانے دیا اور کئی پاکستانی سوشل میڈیا صارفین بابر اعظم کی ٹریوس ہیڈ کو بیٹ گفٹ کرنے کی ایک پرانی ویڈیو شئیر کر کے یہ کہتے نظر آئے کہ ٹریوس کی اننگ کی وجہ یہ ہے۔ آسٹریلیا 1983 اور 2011 میں جیتنے والے انڈیا کے خلاف اپنی چھٹا ورلڈ کپ ٹائٹل جیتنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس شخص نے ’آزاد فلسطین‘ کی ٹی شرٹ پہن رکھی تھی اور اس کے ہاتھ میں جھنڈا تھا۔ وہ پچ پر ویراٹ کوہلی کے قریب آیا اور کوہلی کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ کچھ دیر کے لیے میچ میں خلل پڑا اور پھر سکیورٹی اہلکار اسے باہر لے گئے۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے اس واقعے کو سکیورٹی کی بڑی خامی قرار دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی شائقین کرکٹ اسے غیر ذمہ دارانہ قرار دے رہے ہیں۔ سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر اچانک حملہ کیا۔ اس حملے میں تقریباً 1200 لوگ مارے گئے اور 200 سے زیادہ یرغمالیوں کو اغوا کر کے غزہ لے جایا گیا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2z8gy1dl6o", "summary": "امروہہ کے پُرسکون گاؤں سہس پور علی نگر میں پیدا ہونے والے اور اپنا لڑکپن کچے میدانوں میں ٹینس گیندوں سے کرکٹ کھیل کر گزارنے والے محمد شامی آئی سی سی ورلڈ کپ 2023 میں ہلچل مچا چکے ہیں۔", "title": "محمد شامی: امروہہ کا شرمیلا لڑکا ’سمی‘ جس نے کرکٹ کی دنیا میں کھلبلی مچائی", "firstPublished": "2023-11-19T13:04:14.665Z", "id": "cv2z8gy1dl6o", "article": "امروہہ کے پُرسکون گاؤں سہس پور علی نگر میں پیدا ہونے والے اور اپنا لڑکپن کچے میدانوں میں ٹینس گیندوں سے کرکٹ کھیل کر گزارنے والے محمد شامی آئی سی سی ورلڈ کپ 2023 میں ہلچل مچا چکے ہیں۔ سہس پور علی نگر گاؤں میں اب صحافیوں کی بھیڑ ہے اور گاؤں والوں کے پاس بھی محمد شامی سے متعلق متعدد کہانیاں سنانے کو ہیں۔ گاؤں کے لوگ محمد شامی کو ’سمی بھائی‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ سمی جب چھوٹے تھے تو ان کے والد توصیف علی گاؤں میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ سہس پور کے رہنے والے محمد جمعہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس گاؤں میں کرکٹ لانے والے توصیف ہی تھے۔ ان دنوں ہم ریڈیو پر کمنٹری سنتے تھے، وہاں سے کرکٹ کا شوق پیدا ہوا، توصیف کرکٹ کِٹ لے کر آئے اور گاؤں میں ایک پچ بنائی۔‘ محمد شامی نے اپنی رفتار سے اپنی پہچان بنائی تھی۔ علاقے میں ہونے والے کرکٹ ٹورنامنٹس میں ان کا کھیل دیکھنے کے لیے لوگ بڑی تعداد میں جمع ہو جاتے تھے۔ سہس پور علی نگر گاؤں کے باہر بنائے جانے والے پولی ٹیکنیک کالج کا گراؤنڈ بھی گاؤں کے بچوں کے لیے کھیل کا میدان ہے۔ سبز گھاس اور فلیٹ پچ کے اس میدان میں گاؤں کے بہت سے لڑکے دوپہر کو کرکٹ کھیل رہے ہوتے ہیں۔ محمد شامی نے نوجوانوں کی پوری نسل کو متاثر کیا ہے اور اس میں ان کے گاؤں کے لڑکے بھی شامل ہیں۔ ورلڈ کپ میں محمد شامی کی شاندار کارکردگی کے بعد اب امروہہ ضلع انتظامیہ یہاں سٹیڈیم بنانے جا رہی ہے۔ امروہہ کے ضلع مجسٹریٹ راجیش کمار تیاگی کا کہنا ہے کہ ’ہم نے حکومت کو محمد شامی کے گاؤں میں ایک چھوٹا سٹیڈیم بنانے کی تجویز بھیجی ہے اور منظوری ملتے ہی اس کے لیے کام شروع کر دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتیں اس گاؤں میں کھیلوں کی سہولیات کو ترقی دینے کے اعلانات بھی کر رہی ہیں۔ راشٹریہ لوک دل کے رہنما جینت چودھری نے کہا ہے کہ وہ اپنے پارلیمانی فنڈ سے محمد شامی کے گاؤں میں کھیلوں کی سہولیات تیار کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب محمد شامی کے گھر پر خوشی کا ماحول ہے۔ دہلی سے درجنوں صحافی یہاں پہنچ چکے ہیں اور ایک ایک کر کے شامی کے گھر والوں کا انٹرویو کر رہے ہیں۔ حسیب خود بھی کرکٹ کھیلتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے والد کرکٹ کھیلا کرتے تھے، انھیں دیکھ کر ہم دونوں بھائی کرکٹ کے دلدادہ ہو گئے، شامی کی رفتار تھی، گھر والوں نے اس کی تربیت پر توجہ دی، دو بھائیوں میں سے صرف ایک کو بھیجا جا سکا، شامی چلا گیا اور آج نتائج سامنے آ رہے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0627lgd8z8o", "summary": "روہت کے اب تک کے اس کامیاب سفر میں اب بس اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ کرکٹ کے عالمی کپ کو اپنے ہاتھوں میں تھامنے اسے ہوا میں بلند کرنے اور اس بڑے ایونٹ میں اپنی سرزمین پر کامیابی اپنے نام کرنے کی۔", "title": "روہت شرما: سکول کی فیس معاف کروانے سے ورلڈ کپ فائنل تک کا سفر", "firstPublished": "2023-11-19T06:04:00.356Z", "id": "c0627lgd8z8o", "article": "انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان روہت شرما نے ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے احمد آباد میں ہونے والے فائنل تک انڈین ٹیم کے اس سفر میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے والد، جو ایک ٹرانسپورٹ فرم کے گودام میں کام کرتے ہیں، ان کی آمدنی کم تھی، اس لیے روہت ان دنوں اپنے دادا اور چچا روی شرما کے گھر رہتے تھے، لیکن وہاں بھی حالات مختلف نہیں تھے غربت نے وہاں کے مکینوں کو بھی پریشان کر رکھا تھا۔ یوگیش پٹیل کے مطابق، جو اب 54 سال کے ہیں، ’ہمارے کوچ نے کہا کہ اس لڑکے میں کرکٹ کی بہت مہارت ہے لیکن اس کی فیملی ہمارے سکول کی 275 روپے ماہانہ فیس اپنی مالی حالت اور غربت کی وجہ سے ادا نہیں کر سکی، لہذا اسے سکالرشپ دیا جائے۔‘ اس فیصلے کے کئی سال بعد خود روہت شرما نے کرکٹ پر تجزیے اور تبصرے کرنے والی ویب سائٹ ’ای ایس پی این کرک انفو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’کوچ چاہتے تھے کہ میں وویکانند سکول میں داخلہ لوں اور کرکٹ کھیلنا شروع کروں لیکن میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ پھر انھوں نے مجھے سکالرشپ دی اور چار سال تک مجھے مفت پڑھنے اور کھیلنے کا موقع ملا۔‘ اس نئے سکول میں داخل ہونے کے چند ماہ کے اندر ہی روہت شرما نے 140 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی جس کے چرچے ممبئی کے سکولوں، میدانوں اور کرکٹ ناقدین تک ہوئے۔ 2019 کے ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے روہت اس حالیہ کرکٹ ورلڈ کپ میں اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی لائے ہیں اور یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ بڑے ہدف کی پرواہ کیے بغیر میچ کی ابتدا میں پہلے پاور پلے میں ہی بولرز پر حملہ کر دیتے ہیں اور جارحانہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں وہ آسٹریلیا کے خلاف صفر پر آؤٹ ہوئے تھے لیکن اس کے بعد روہت شرما کا سکور کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہا ہے۔ 131 رنز کی انگز سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ 86، 48، 46، 87، 4، 40، 61 کے بعد 47 رنز تک چلتا ہے اور روہت کی ان اننگز میں اُن کا سٹرائیک ریٹ 124.15 رہا ہے، جو قابل ستائش ہے۔ روہت کی اس پرفارمنس نے نہ صرف انڈیا کو اچھا آغاز دینے میں مدد دی ہے بلکہ کسی بھی ٹیم کی جانب سے دیے جانے والے بڑے ہدف کا کامیابی سے تعاقب کرنا بھی اُن کے لیے آسان بنا دیا ہے۔ روہت کے اب تک کے اس کامیاب سفر میں اب بس اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ کرکٹ کے عالمی کپ کو اپنے ہاتھوں میں تھامے اسے ہوا میں بلند کرنے اور اس بڑے ایونٹ میں اپنی سرزمین پر کامیابی اپنے نام کرنے کی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp6p26k4x8no", "summary": "اگر یہاں کمنز کو ٹرافی اٹھانا ہے تو پھر مچل سٹارک کو بھی وہی عزم دہرانا ہو گا کہ وہ وراٹ کوہلی اور کے ایل \n راہول کو سنبھال پائے تو احمد آباد کے جمِ غفیر پہ سکوت طاری ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ پڑھیے سمیع چوہدری کا تجزیہ۔", "title": "اگر سٹارک میک گرا کا عزم دہرا پائے: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-11-19T02:56:08.954Z", "id": "cp6p26k4x8no", "article": "ڈیڑھ ماہ کے طویل سفر کا آخری پڑاؤ آن پہنچا ہے اور ٹورنامنٹ کی دو بہترین ٹیمیں انڈیا کے شہر احمد آباد میں اس ٹرافی کا آخری معرکہ لڑنے کو ہیں جہاں انڈین شائقین کا ایک نیلگوں سمندر تاریخ کا نظارہ کرے گا۔ ہوم گراؤنڈز میں کھیلنے کا اگر فائدہ ہے تو ہوم کراؤڈ کی موجودگی کا دباؤ بہت حد تک اس فائدے کو منہا بھی کر دیتا ہے۔ اور پھر جہاں بہت کچھ داؤ پہ لگا ہو، وہاں فارم اور تکنیک کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں، مقابلہ محض ٹیمپرامنٹ کا ہو رہتا ہے۔ احمد آباد میں یہ فائنل اسی پچ پہ کھیلا جا رہا ہے جہاں انڈیا نے پاکستان کے خلاف نہایت سہل برتری بٹوری تھی۔ مگر پیٹ کمنز اس امر سے قطعاً پریشان نہیں ہیں کہ استعمال شدہ پچ یا ہوم کراؤڈ کی موجودگی سے انڈین ٹیم کو کوئی ممکنہ نفسیاتی برتری مل پائے گی۔ اگر مچل سٹارک اور ہیزل ووڈ کا ابتدائی سپیل اس لاشعوری خوف پہ ضرب لگا گیا اور امتحان لوئر مڈل ارڈر تک آن پہنچا تو انڈین کیمپ کے حواس بکھر بھی سکتے ہیں۔ اور اگرچہ نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں ایک آسان فتح انڈیا کا مقدر ہوئی مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ بولنگ ڈیپارٹمنٹ میں اکیلے محمد شامی کو سارا بوجھ اپنے کندھوں پہ اٹھانا پڑا۔ چونکہ یہ پچ استعمال شدہ ہے، سو یہاں بھی متوقع یہی ہے کہ محمد شامی آسٹریلوی بیٹنگ کا بھرپور امتحان ثابت ہوں گے۔ لیکن اگر آسٹریلوی بیٹنگ ان سے نمٹنے کی کوئی موثر حکمتِ عملی کھوج پاتی ہے تو روہت شرما کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں کہ حالیہ میچز میں بمراہ اور سراج کماحقہ کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ جبکہ اس کے برعکس متواتر اوسط کارکردگی دکھانے والے مچل سٹارک سیمی فائنل میں اپنی بہترین کاوش کے ساتھ ابھرے اور دھماکے دار افریقی بیٹنگ لائن کے بخیے ادھیڑ ڈالے۔ لیکن آسٹریلیا کو اپنے امکانات روشن کرنے کے لیے سٹارک سے کہیں زیادہ اپنے کپتان کمنز کی بولنگ میں عمدگی درکار ہو گی جن کے لیے یہ ٹورنامنٹ بالکل متاثر کن نہیں رہا۔ آخری بار جب یہ دونوں ٹیمیں ایک ورلڈ کپ فائنل میں مدِ مقابل آئی تھیں تب گلین میک گرا نے میچ سے پہلے ہی یہ کہا تھا کہ وہ ٹنڈولکر کو سنبھال لیں گے۔ اور پھر ہوا بھی یہی کہ میک گرا کے ٹنڈولکر کو سنبھالتے ہی باقی انڈین بیٹنگ بھی سمٹ گئی اور ٹرافی رکی پونٹنگ لے گئے۔ اگر یہاں کمنز کو ٹرافی اٹھانا ہے تو پھر مچل سٹارک کو بھی وہی عزم دہرانا ہو گا کہ وہ وراٹ کوہلی اور کے ایل راہول کو سنبھال پائے تو احمد آباد کے جمِ غفیر پہ سکوت طاری ہوتے دیر نہیں لگے گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjkprd4z4klo", "summary": "اس بھونچال کے دوران پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین نہ صرف پی سی بی پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ پاکستان میں کرکٹ کوچنگ سے متعلق بحث کرتے ہوئے انڈیا کی مثالیں دے رہے ہیں۔", "title": "’پاکستان کرکٹ ٹیم اشرافیہ کی تجربہ گاہ بن چکی ہے‘", "firstPublished": "2023-11-18T15:44:09.036Z", "id": "cjkprd4z4klo", "article": "محمد حفیظ کا نام کچھ عرصہ پہلے پاکستان سپر لیگ کی جانب سے ڈرافٹ کی ڈائمنڈ کیٹیگری میں سامنے آیا تھا۔ وہ اب بھی مختلف لیگز کا حصہ ہیں اور سنہ 2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہوئے تھے۔ تاہم حفیظ کے پاس نہ تو کوچنگ کا کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی انھوں نے لیول تھری کوچنگ کورس کر رکھا ہے جو پی سی بی کی جانب سے اپنی ویب سائٹ پر ہیڈ کوچ کے لیے درج شرائط میں سے ہے۔ پی سی بی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ محمد حفیظ پاکستان کرکٹ بورڈ میں ٹیم کے ہیڈ کوچ نہیں بن سکتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کے پاس ہیڈ کوچ بننے کے لیے ’لیول تھری سرٹیفیکیشن‘ نہیں ہے، اسی لیے حفیظ پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے صرف ’ڈائریکٹر‘ کی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔ سوشل میڈیا پر پی سی بی کی جانب سے کیے گئے ان فیصلوں کے بارے میں ابھی بحث چلی ہی رہی تھی کہ گذشتہ روز سابق فاسٹ بولر وہاب ریاض کو چیف سیلیکٹر بنانے کا اعلان کیا گیا۔ وہاب اس وقت نگران وزیرِ کھیل پنجاب ہیں اور انھوں نے اس عہدے کے ساتھ ہی سیلیکٹر کا عہدہ سنبھالنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ وہاب نے تاحال باضابطہ طور پر فرینچائز کرکٹ کو خیرباد تو نہیں کہا لیکن ان کی فرینچائز پشاور زلمی نے ان کی خدمات کے اعتراف میں ایک سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس پر پوسٹ ضرور کیا ہے۔ اس بھونچال کے دوران پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین نہ صرف پی سی بی پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ پاکستان میں کرکٹ کوچنگ سے متعلق بحث کرتے ہوئے انڈیا کی مثالیں دے رہے ہیں۔ صحافی رضوان علی نے اس بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے پی سی بی کی ویب سائٹ پر ہیڈ کوچ بھرتی کرنے کے لیے شرائط کا حوالہ دیا اور لکھا کہ کیا پہلی دو شرائط پڑھنے کا کہا۔ اسد نامی کرکٹ کے مداح نے اس صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے لکھا کہ ’اس وقت جو کچھ بھی پاکستان کرکٹ کے ساتھ ہو رہا ہے وہ درد ناک ہے۔ ’ایسے کئی لوگ ہیں جو متعلقہ تجربے اور تعلیم کے باوجود نچلے لیول کی کرکٹ میں بھی کوچنگ نہیں کر پاتے لیکن سب سے اوپر کے درجے پر کوچنگ کرنے کے لیے کسی بھی تجربے یا تعلیم کی ضرورت نہیں۔‘ صحافی عبداللہ نیازی نے محمد حفیظ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’نہ صرف ان کا کوئی کوچنگ کا تجربہ نہیں ہے بلکہ حفیظ نے اب تک آسٹریلیا میں کبھی ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا۔ اس حوالے سے اکثر صارفین راہل ڈریوڈ کی مثال بھی دے رہے ہیں جنھیں انڈیا کی بہترین کارکردگی کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crgp9pw32v7o", "summary": "دوسری جانب سوشل میڈیا پر چند افراد انڈین ٹیم کی ان پے در پے کامیابیوں کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ایسے افراد کا اعتراض خالصتاً انڈین ٹیم کی انتہائی عمدہ بولنگ پر ہے جس کا اظہار ہم نے پورے ٹورنامنٹ میں دیکھا ہے۔", "title": "ٹاس کا سکہ، پچ کی تبدیلی اور گیندوں میں ہیر پھیر: انڈین ٹیم پر لگائے گئے وہ الزامات جن پر وسیم اکرم بھی شرمندہ ہوئے", "firstPublished": "2023-11-17T07:08:17.575Z", "id": "crgp9pw32v7o", "article": "یہ تنازع ابھی تھما نہیں تھا کہ پاکستان کے سابق کرکٹر سکندر بخت کی جانب سے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا گیا جس میں انھوں نے ٹاس کے وقت انڈین کپتان پر ٹاس کے وقت سکہ ایک مخصوص انداز میں پھینکنے کا الزام عائد کیا۔ خیال رہے کہ ورلڈ کپ کی میزبان ٹیم ہونے کا فائدہ، گراؤنڈ میں شائقین سے ملنے والی زبردست حمایت، پچ اور موسم کی اچھی معلومات وہ تمام عوامل ہیں جو انڈین ٹیم کی اس ٹورنامنٹ میں مدد کرتے آئے ہیں۔ ٹیم انڈیا کے سات سے آٹھ کھلاڑی زبردست فارم میں ہیں اور انہی وجوہات کی بنا پر سابق کوچ روی شاستری نے اپنے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ’(ٹیم انڈیا کے لیے) یہ ورلڈ کپ جیتنے کا صحیح وقت ہے۔‘ دوسری جانب سوشل میڈیا پر چند افراد انڈین ٹیم کی ان پے در پے کامیابیوں کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ایسے افراد کا اعتراض خالصتاً انڈین ٹیم کی انتہائی عمدہ بولنگ پر ہے جس کا اظہار ہم نے پورے ٹورنامنٹ میں دیکھا ہے۔ اور ان کے ساتھ کلدیپ یادو اور جدیجہ جیسے دو سپنرز بھی جن کا سامنا حریف ٹیموں کے لیے پورے ٹورنامنٹ میں ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ اس لیے کرکٹ ماہرین کی متفقہ رائے یہی ہے کہ انڈین ٹیم کے پاس اب تک کا سب سے مضبوط بولنگ اٹیک موجود ہے۔ تاہم ان تمام تر کامیابیوں کے باوجود انڈین بولنگ اٹیک کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس کی ابتدا پاکستان سے اس وقت ہوئی جب سابق پاکستانی کرکٹر حسن رضا نے انڈین ٹیم کے سری لنکا کو 55 رنز پر آؤٹ کرنے کے بعد شکوک کا اظہار کیا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں چلنے والے حسن رضا کے انٹرویو میں انھیں کہتے سنا جا سکتا ہے کہ انڈین بولرز کو دی گئی گیندوں کے حوالے سے تحقیقات ہونی چاہییں۔ انڈین بولرز گیند کو زیادہ سوئنگ کر رہے ہیں۔ رضا نے دعویٰ کیا کہ میتھیوز بھی ممبئی کے میچ میں شامی کی سوئنگ دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ ان کا مزید دعویٰ تھا کہ انڈین بولرز کو دوسری اننگز میں آئی سی سی یا بی سی سی آئی سے مدد مل رہی ہے اور انھیں دوسری گیند دی جا رہی ہے جو زیادہ سوئنگ کر رہی ہے۔ ’مجھے لگتا ہے کہ تھرڈ امپائر بھی انڈین ٹیم کی مدد کر رہے ہیں۔‘ پاکستان کے سابق کپتان وسیم اکرم نے بھی اس نوعیت کے خدشات کو مضیحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ انڈین کرکٹ ٹیم کی کامیابی کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور جو باتیں کر رہے ہیں وہ مضحکہ خیز ہیں جو جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہیں۔ ایک نجی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں وسیم اکرم نے کہا کہ ’میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کو انڈین کرکٹ ٹیم کی کامیابی پر شک ہے۔ یہ مضحکہ خیز ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pdvd29103o", "summary": "ورلڈ کپ سیمی فائنلز کی تاریخ کے شاید سب سے سنسنی خیز میچ کھیلنے والی دو ٹیمیں جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا جب بھی آمنے سامنے آئیں تو یہی امکان ہوتا ہے کہ ایک بہترین میچ دیکھنے کو ملے گا اور کلکتہ کے ایڈن گارڈنز میں آج ایسا ہی ہوا۔ ", "title": "جنوبی افریقہ کا ورلڈ کپ فائنل کھیلنے کا خواب ادھورا رہ گیا، دلچسپ مقابلے کے بعد آسٹریلیا فائنل میں", "firstPublished": "2023-11-16T17:06:30.538Z", "id": "c6pdvd29103o", "article": "ورلڈ کپ سیمی فائنلز کی تاریخ کے شاید سب سے سنسنی خیز میچ کھیلنے والی دو ٹیمیں جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا جب بھی آمنے سامنے آئیں تو یہی امکان ہوتا ہے کہ ایک بہترین میچ دیکھنے کو ملے گا اور کلکتہ کے ایڈن گارڈنز میں آج ایسا ہی ہوا۔ جنوبی افریقہ ایک مرتبہ پھر ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ مرحلے میں باہر ہو گئی اور اس کا پہلی بار فائنل تک پہنچنے یا ورلڈ چیمپیئن بننے کا خواب ادھورا رہ گیا۔ تاہم جنوبی افریقی بولرز نے اس دوران بہترین کاکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میچ کو 48ویں اوور تک کھینچا لیکن آسٹریلین بولرز نے بھی خوب مقابلہ کیا اور آخری رنز بغیر وکٹ گنوائے حاصل کیا اور یوں آسٹریلیا اپنے آٹھویں فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ یوں 19 نومبر کو انڈیا اور آسٹریلیا کی ٹیمیں احمد آباد کے نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم میں مدِ مقابل ہوں گی۔ یہ دونوں ٹیمیں اس سے قبل سنہ 2003 کے ورلڈ کپ فائنل میں بھی آمنے سامنے آئی تھیں تاہم اس میچ میں انڈیا کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کولکتہ کے ایڈن گارڈنز میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں جنوبی افریقا کی ٹیم کے کپتان ٹمبا باووما نے آسٹریلیا کیخلاف ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ بارش کے امکانات کے ساتھ شروع ہونے والے اس دوسرے سیمی فائنل کے بارے میں آئی سی سی کی جانب سے پہلے ہی کہہ دیا گیا تھا کہ اگر میچ بارش سے متاثر ہوا تو 17 نومبر کو میچ کا آغاز وہیں سے ہو گا جہاں رُکے گا۔ تاہم اس میچ میں آسٹریلیا کے خلاف جنوبی افریقہ 24 رنز پر 4 کھلاڑی تھے کہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا یعنی بارش نے میچ روک دیا۔ مگر کچھ ہی دیر کے بعد بارش تھم گئی اور میچ کا دوبارہ آغاز ہوا۔ چار کھلاڑیوں کے پیولین لوٹنے کے بعد ہینرک کلاسن اور ڈیوڈ ملر نے ٹیم کو مُشکل سے نکالا اور 95 رنز کی شراکت قائم کی مگر دن اچھا نا ہو تو کیا ہو سکتا ہے یہ پاٹنرشپ تب ٹوٹ گئی جب کلاسن 47 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ آسٹریلیا کی جانب سے ٹریوس ہیڈ اور ڈیوڈ وارنر نے اننگم کا آغاز پُر اعتماد انداز میں کیا۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے دیے جانے والے 213 رنز کے ہدف کے تعاقب میں آسٹریلیا کا آغاز جارحانہ رہا، اور اوپنرز ٹریوس ہیڈ اور ڈیوڈ وارنر نے دوسری انگز کے ابتدائی 7 اوورز میں 60 رنز کی شاندار کی شراکت تو قائم ہوئی مگر پھر وارنر 29 رنز بنا کر ایڈن مارکم کی گیند پر بولڈ ہو گئے۔ 193 رنز کے مجموعی سکور پر 7 وکٹیں گرنے کے بعد سٹارک اور کمنز نے جنوبی افریقی بولرز کا پُر اعتماد انداز میں سامنا کیا میچ کے آخری اوورز میں کُچھ کیچ بھی ڈراپ ہوئے مگر سٹارک اور کمنز نے میچ آسٹریلیا کو جتوا دیا۔ مچل سٹارک 38 گیندوں پر 19 اور کمنز 29 گیندوں پر 14 رنز بنا کر ناقابل شکست رہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cg3pgx5rj43o", "summary": "’دنیا نے 30 سال سے اس بات پر ہنسنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔‘ یہ کہنا ہے ویوین رچرڈز اور نینا گپتا کی بیٹی مسابا کا جنھوں نے ایک پاکستانی شو کے دوران کرکٹ کمنٹیٹر رمیز راجہ کے برتاؤ پر سوال اٹھایا ہے۔ ", "title": "ویوین رچرڈز کے بارے میں ’نسل پرستانہ‘ مذاق پر رمیز راجہ کی ہنسی:’آپ ایسی بات پر ہنسے جس پر دنیا نے 30 سال قبل ہنسنا چھوڑ دیا تھا‘ ", "firstPublished": "2023-11-16T11:11:36.632Z", "id": "cg3pgx5rj43o", "article": "’دنیا نے 30 سال سے اس بات پر ہنسنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔‘ یہ کہنا ہے ویوین رچرڈز اور انڈین اداکارہ نینا گپتا کی بیٹی مسابا کا جنھوں نے ایک پاکستانی شو کے دوران کرکٹ کمنٹیٹر رمیز راجہ کے برتاؤ پر سوال اٹھایا ہے۔ دراصل کچھ عرصہ قبل نشر کیے گئے نجی چینل ’سُنو ٹی وی‘ کے ایک شو میں مزاحیہ کرداروں نے رمیز راجہ کی موجودگی میں نینا گپتا اور ویوین رچرڈز کے افیئر کا ذکر کرتے ہوئے نسل پرستی پر مبنی شعر سُنایا۔ یہ معاملہ اس وقت تو سوشل میڈیا کی توجہ حاصل نہیں کر سکا مگر لگ بھگ دو ماہ بعد گذشتہ روز مسابا گپتا نے رمیز راجہ پر تنقید کرتے ہوئے ایک سخت مؤقف اپنایا اور یوں سوشل میڈیا پر یہ معاملہ زیرِ بحث آ گیا۔ وضاحتی بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہم یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ سابق چیئرمین پی سی بی جناب رمیز راجہ کا جو اس پروگرام میں شریک تھے، خاتون آرٹسٹ کی بات سے کوئی تعلق تھا نہ انھوں نے دوران پروگرام اس بات کوئی گرہ لگائی۔ لہذا ان کو بلاوجہ اس معاملے سے جوڑا جا رہا ہے۔‘ اس پر اس وقت کمنٹری پر موجود رمیز راجہ ہنسے تھے اور جب ان سے ساتھی کمنٹیٹر نے اس کا ترجمہ کرنے کا کہا تھا تو انھوں نے مختصر بات کرتے ہوئے اس بارے میں بات نہیں کی تھی جس پر انھیں سوشل میڈیا پر خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کئی ہفتوں تک یہ کلپ گردش کرتا رہا مگر پھر گذشتہ روز نینا گپتا اور ویوین رچرڈز کی بیٹی مسابا نے اس پر اپنا ردعمل دیا۔ ایکس پر ان کا کہنا تھا کہ ’رمیز راجہ (سر)، گریس ایک خوبی ہے جو کچھ لوگوں میں ہی ہوتی ہے۔ میرے والد، ماں اور مجھ میں اس کی بہت گریس ہے۔ آپ میں یہ نہیں ہے۔‘ مسابا گپتا نے کہا کہ ’یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ آپ نیشنل ٹی وی پر ایک ایسی بات پر ہنس رہے ہیں جس پر دنیا نے قریب 30 سال قبل ہنسنا چھوڑ دیا تھا۔ مستقبل میں قدم رکھیں۔ ہم تینوں سر بلند کیے یہیں موجود ہیں۔‘ بعض صارفین نے یہ نکتہ اٹھایا کہ شو کے اینکرز ایسا کوئی تبصرہ کرنے سے روک سکتے تھے یا پھر چینل کی انتظامیہ اور رمیز راجہ کی جانب سے اس کی مذمت کی جانی چاہیے تھی۔ تاہم ایسا اب تک نہیں ہوا۔ ایک صارف نے رمیز راجہ کے دفاع میں کہا کہ ’وہ آخر میں اس تبصرے پر ناخوش لگے۔ انھوں نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی کیونکہ یہ اچھا موقع نہیں تھا۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cnlpg9nrdrqo", "summary": "اس میں شبہ نہیں کہ بابر اعظم کی قائدانہ صلاحیتیں قابلِ بحث تھیں اور کچھ اہم ترین لمحات پہ ان کے آن فیلڈ فیصلے بھی پاکستان ٹیم کو بہت مہنگے پڑے مگر بابر سے کہیں زیادہ مہنگے فیصلے ان پی سی بی سربراہان اور انہیں مقرر کرنے والے وزرائے اعظم کے تھے جن کی بھینٹ بابر کو چڑھنا پڑا۔", "title": "’بابر اعظم پی سی بی کی بھینٹ چڑھ گئے‘: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-11-16T07:50:30.946Z", "id": "cnlpg9nrdrqo", "article": "حسبِ توقع حالیہ ورلڈ کپ کی ناکام مہم جوئی کا ملبہ بھی ایک اور کپتان کے سر پہ گرا کر پی سی بی اپنی تمام تر کوتاہیوں سے ہاتھ جھاڑ چکا ہے۔ چار سال تک قومی ٹیم کی قیادت نبھانے کے بعد بالآخر بابر اعظم مستعفی ہو گئے اور ان کی جگہ 'نئی' قیادت سامنے لائی گئی ہے۔ اس کے ایک ہی برس بعد آسٹریلیا میں منعقدہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں بابر اعظم کی قیادت نے مزید عروج دیکھا جب ان کی ٹیم انگلینڈ کے خلاف فائنل تک پہنچی اور ایونٹ کی رنر اپ ٹھہری۔ اگرچہ اس فائنل میچ میں بھی پاکستان فتح کے عین قریب آ چکا تھا مگر شاہین آفریدی انجری کے سبب اپنے آخری دو اوورز نہ پھینک پائے اور بابر ٹرافی اٹھانے سے محروم رہ گئے۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ تین ایشیا کپ، دو ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ اور حالیہ ون ڈے ورلڈ کپ تک پاکستان کی قیادت کرنے کے باوجود بابر اعظم کوئی بڑا ٹائٹل جیتنے میں ناکام رہے۔ ان پہ تنقید کا نمایاں ترین پہلو یہی رہا کہ دباؤ کے ہنگام وہ اپنے اعصاب مجتمع نہیں رکھ پاتے اور فیصلہ سازی میں کلیدی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں۔ آسٹریلوی سر زمین پہ کوئی ٹیسٹ میچ جیتے پاکستان کو دو دہائیاں بیت چکی تھیں اور متوقع یہ تھا کہ ہوم گراؤنڈز پہ پاکستان آسٹریلیا کے لئے ایک سخت حریف ثابت ہو گا۔ مگر بابر اعظم کی فیصلہ سازی اہم لمحات پہ خطا کھاتی رہی اور مدافعانہ حکمت عملی کے سبب پاکستان آسٹریلیا سے سیریز ہار گیا۔ مگر نگاہوں سے اوجھل ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس چار سالہ عہد میں بابر اعظم کو چار مختلف پی سی بی سربراہان سے معاملہ کرنا پڑا۔ اسی طرح کوچنگ سیٹ اپ میں بھی تبدیلیوں کی بھرمار رہی اور تین ہیڈ کوچز کی یکسر الگ الگ سوچوں سے نمٹنا پڑا۔ جب 2019 میں احسان مانی نے مصباح الحق کو کوچنگ کی ذمہ داری سونپی تو انہیں اگلے دس برس کے لئے ٹیم تیار کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا جہاں تجربات کے نتیجے میں کچھ ابتدائی ناکامیاں متوقع تھیں۔ مگر دو برس کی ریاضت کے بعد اسی منیجمنٹ کے تحت، بابر کی قیادت میں، پاکستان جنوبی افریقہ کو ٹیسٹ سیریز کلین سویپ کرنے اور آسٹریلیا کو ون ڈے سیریز ہرانے تک پہنچ پایا۔ اس میں شبہ نہیں کہ بابر اعظم کی قائدانہ صلاحیتیں قابلِ بحث تھیں اور کچھ اہم ترین لمحات پہ ان کے آن فیلڈ فیصلے بھی پاکستان ٹیم کو بہت مہنگے پڑے مگر بابر سے کہیں زیادہ مہنگے فیصلے ان پی سی بی سربراہان اور انہیں مقرر کرنے والے وزرائے اعظم کے تھے جن کی بھینٹ بابر کو چڑھنا پڑا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n5rp60697o", "summary": "جب ولیمسن نے بازو کھولنے کا فیصلہ کیا، تب محمد شامی دوبارہ اٹیک میں آ گئے جنھوں نے آتے ہی اس ڈراپ کیچ کا کفارہ ادا کر دیا۔ پہلے سپیل میں دونوں کیوی اوپنرز کو ہدف بنانے کے بعد شامی نے دوسرے سپیل کے پہلے ہی اوور میں کپتان اور نائب کپتان کی دو قیمتی وکٹیں اڑا دیں۔", "title": "’اکیلے محمد شامی ہی کافی ہو رہے‘: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-11-16T02:01:13.358Z", "id": "c4n5rp60697o", "article": "پہلے سپیل میں دونوں کیوی اوپنرز کو ہدف بنانے کے بعد شامی نے دوسرے سپیل کے پہلے ہی اوور میں کپتان اور نائب کپتان کی دو قیمتی وکٹیں اڑا دیں نجانے یہ ناک آؤٹ مرحلے کا دباؤ تھا کہ انڈین کراؤڈ کا شور و غوغا کہ جب ساؤدی گڈ لینتھ کو ہدف بنانا چاہتے تو اندازے کی غلطی اسے شارٹ پچ میں بدل رہی تھی اور جب وہ یارکر لینتھ کو نشانہ بناتے تو نتیجہ فل ٹاس کی شکل میں نکلتا۔ یہاں ٹاس جیتنا روہت شرما کی خوش بختی تھی مگر کیوی بولنگ اس قسمت پر بھاری پڑ سکتی تھی اگر نظم و ضبط سرے سے بھلا نہ دیا جاتا اور ولیمسن کے پلان صحیح طور سے برت لیے جاتے مگر یہاں اکیلے ساؤدی ہی نہیں، بولٹ اور فرگوسن بھی اپنے بہترین پہ نہیں تھے۔ اور اس انڈین بولنگ اٹیک کا بہترین تب ابھر کر آتا ہے جب نئی گیند کے ساتھ ساتھ فلڈ لائٹس کی چکا چوند بھی میسر ہو جائے۔ جسپریت بمراہ سانس لینے کی جگہ فراہم نہیں کرتے تو محمد سراج کا ڈسپلن ہاتھ کھولنے کی مہلت نہیں دیتا اور حریف ٹاپ آرڈر پاور پلے کا فائدہ اٹھانے سے محروم ہی رہ جاتا ہے۔ اور جب پاور پلے ختم ہوتا ہے، تب روہت شرما محمد شامی کی شکل میں اپنا مہلک ترین ہتھیار بے نقاب کرتے ہیں جن کی لیٹ سوئنگ ولیمسن جیسے گھاگ بلے بازوں کو بھی دقت میں ڈالے رکھتی ہے۔ ممبئی کی یہ پچ اگرچہ استعمال شدہ تھی مگر پھر بھی اس مٹی میں رنز کی اس قدر بہتات تھی کہ اتنا خطیر ہدف بھی تب قابلِ تسخیر نظر آنے لگا جب ولیمسن اور ڈیرل مچل کی صبر آزما ساجھے داری انڈین کیمپ پہ یوں طاری ہوئی کہ فیلڈرز ہڑبڑانے لگے اور محمد شامی نے ایک آسان سا کیچ بھی گرا دیا۔ کیوی ٹیم ہمیشہ چار بولرز کے ساتھ میدان میں اترتی ہے تاکہ بیٹنگ کو بھرپور گہرائی مل سکے اور اس کیوی لائن اپ میں بھی گلین فلپس، مارک چیپمین اور مچل سینٹنر کا آسرا موجود تھا کہ اگر آخری پانچ اوورز میں مطلوبہ رن ریٹ 12 فی اوور بھی ہوتا تو پہنچ میں رہتا۔ یہ میچ بھی اسی سمت میں بڑھ رہا تھا کہ شاید آخری چھ سات اوورز میں کیوی بیٹنگ بھاری پڑ جاتی اور پھر اپنی روایت کے برعکس یہاں محمد شامی کے سوا کوئی پیسر بھی موثر نہ ہو پایا تھا۔ کلدیپ یادیو بھی وکٹوں سے محروم رہے اور رویندرا جڈیجہ بھی کوئی بریک تھرو نہ دے پائے۔ اور جب ولیمسن نے بازو کھولنے کا فیصلہ کیا، تب محمد شامی دوبارہ اٹیک میں آ گئے جنھوں نے آتے ہی اس ڈراپ کیچ کا کفارہ ادا کر دیا۔ پہلے سپیل میں دونوں کیوی اوپنرز کو ہدف بنانے کے بعد شامی نے دوسرے سپیل کے پہلے ہی اوور میں کپتان اور نائب کپتان کی دو قیمتی وکٹیں اڑا دیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cg3p87dnyngo", "summary": "انڈیا نے ٹاس جیت کر پہلے کھیلتے ہوئے ویراٹ کوہلی اور شریاس آئیر کی شاندار سنچریوں کی بدولت مقررہ 50 اوورز میں چار وکٹوں کے نقصان پر 397 رنز بنائے ہیں۔ ", "title": "کوہلی کی 50 ویں سنچری اور شامی کی سات وکٹوں کی بدولت انڈیا کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچ گیا ", "firstPublished": "2023-11-15T15:35:21.337Z", "id": "cg3p87dnyngo", "article": "انڈیا نے نیوزی لینڈ کو محمد شامی کی شاندار بولنگ کی بدولت کرکٹ ورلڈ کپ کے پہلے سیمی فائنل میں 70 رنز سے شکست دے دی ہے۔ آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ کا پہلا سیمی فائنل بدھ کو ممبئی کے وانکھیڈے سٹیڈیم میں کھیلا گیا جہاں انڈیا نے ٹاس جیت کر پہلے کھیلتے ہوئے ویراٹ کوہلی اور شریاس ایئر کی شاندار سنچریوں کی بدولت مقررہ 50 اوورز میں چار وکٹوں کے نقصان پر 397 رنز بنائے۔ اس سے قبل انڈیا کے بلے بازوں نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا اور ویراٹ کوہلی نے 117 رنز بنا کر اپنی ریکارڈ 50 ویں سنچری مکمل کی۔ ویراٹ ون ڈے انٹرنیشنل میں سب سے زیادہ سنچریاں بنانے والے بلے باز بن گئے ہیں۔ اس کے بعد دوسرے اینڈ پر موجود شبمن گلِ کا ساتھ دینے ویراٹ کوہلی آئے اور دونوں نے عمدہ کھیل پیش کرتے ہوئے دوسری وکٹ کے لیے 93 رنز کی شراکت داری بنائی۔ اس وقت تک انڈیا نے ایک وکٹ کے نقصان پر 162 رنز بنائے تھے اور امید تھی کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم شاید اس موقع سے فائدہ اٹھا کر میچ میں واپسی کرنے میں کامیاب ہو جائے لیکن ان فارم شریاس آئیر نے یہ ہونے نہ دیا۔ شریاس آئیر 70 گیندوں پر آٹھ چھکوں اور چار چوکوں کی مدد سے 105 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے۔ اختتامی اوورز میں لوکیش راہل نے جارحانہ بیٹنگ کی اور 20 گیندوں پر دو چھکوں اور پانچ چوکوں کی بدولت 39 رنز بنائے۔ انڈیا نے چار وکٹوں کے نقصان پر 397 رنز بنائے جو اب تک ورلڈ کپ سیمی فائنل میں کسی بھی ٹیم کی جانب سے بنایا گیا سب سے بڑا سکور ہے۔ انڈین سپرسٹار اجے دیوگن نے ویراٹ کوہلی کو ان کی 50ویں سنچری پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا لکھا کہ ’50ویں سنچری بنانا یقیناً ایک شاندار اقدام ہے۔۔۔ آپ کی لگن، ٹیلنٹ اور بہترین پرفارمنس اس وقت سرفہرست ہے۔ بہت مبارک ہو بھائی۔۔۔مزید سنچریاں بناتے رہو۔‘ انڈین فلم سٹار سنی دیول نے ویراٹ کوہلی کی سنچری پر تبصرہ کیا کہ ’بادشاہ فتح حاصل کرتے ہیں اور وانکھنڈے سٹیڈیم کے سٹینڈز اس تاریخ کے گواہ ہیں جب کوہلی نے شاندار کارنامہ انجام دیتے ہوئے 50ویں سنچری کا ریکارڈ قائم کیا۔ آئی سی سی کے بیان میں کہا گیا کہ ’اس طوالت کے ایونٹ کے اختتام پر پہلے سے طے شدہ پچز میں تبدیلیاں معمول ہیں، اور پہلے بھی ایک دو بار یہ تبدیلیاں کی جا چکی ہیں۔ یہ تبدیلی ہمارے میزبان کے ساتھ مل کر وینیو کیوریٹر کی سفارش پر کی گئی تھی۔ اس ضمن میں آئی سی سی کے آزاد اور غیر جانبدار پچ کنسلٹنٹ کو اس تبدیلی سے آگاہ کیا گیا تھا اور ایسا نہیں کہہ جا سکتا کہ یہ پچ اچھا کھیل پیش نہیں کرے گی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy92kgqep5vo", "summary": "انڈیا میں ہونے والے ورلڈ کپ میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد پاکستان کے کپتان بابر اعظم تینوں فارمیٹس کی کپتانی سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ ", "title": "بابر اعظم کرکٹ ورلڈ کپ میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد کپتانی سے مستعفی، شان مسعود ٹیسٹ، شاہین آفریدی ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے کپتان مقرر", "firstPublished": "2023-11-15T16:01:03.035Z", "id": "cy92kgqep5vo", "article": "انڈیا میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد کپتان بابر اعظم نے ٹیم کی کپتانی سے استعفی دے دیا ہے۔ پاکستان کی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل مرحلے تک رسائی میں ناکامی کے بعد سے بابر کی کپتانی کے چار سالہ دور کے خاتمے کی خبریں گرم تھیں اور بابر اعظم کی جانب سے یہ اعلان بدھ کو لاہور میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ ذکا اشرف سے ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔ بابر اعظم نے بطور کپتان 20 ٹیسٹ، 43 ون ڈے اور 71 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں پاکستانی ٹیم کی قیادت کی اور اب انھوں نے تینوں فارمیٹس میں ٹیم کی کپتانی چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ’آج میں بطور کپتان پاکستان ٹیم تینوں فارمیٹس سے مستعفی ہو رہا ہوں۔ یہ ایک مشکل فیصلہ ہے لیکن میرے خیال میں یہی اس فیصلے کا صحیح وقت ہے۔ میں تینوں فارمیٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرتا رہوں گا۔ میں نئے کپتان اور ٹیم کی اپنے تجربے اور لگن سے مکمل حمایت کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کے مستعفی ہونے کے بعد شان مسعود کو ٹیسٹ جبکہ شاہین آفریدی کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا کپتان مقرر کیا ہے۔ ون ڈے فارمیٹ کے لیے فی الحال نئے کپتان کا تقرر نہیں کیا گیا ہے جس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ تقریبا ایک سال تک پاکستانی ٹیم نے کسی ون ڈے انٹرنیشنل میچ میں حصہ نہیں لینا ہے۔ بابر اعظم کی ورلڈ کپ 2023 میں بطور کپتان اور بلے باز کارکردگی ان کے معیار کے اعتبار سے خاصی مایوس کن رہی۔ انھوں نے نو میچوں میں 320 رنز بنائے اور اننگز کے اہم موقعوں پر آؤٹ ہوتے رہے۔ خیال رہے کہ بابر اعظم کی کپتانی کے بارے میں اس سال کے آغاز سے ہی قیاس آرائیاں چل رہی تھیں۔ گذشتہ سال پاکستان کو ہوم سیریز میں آسٹریلیا سے ایک صفر جبکہ انگلینڈ سے تین صفر سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کی جانب سے مستعفی ہونے کے فیصلے پر سابق کرکٹرز اور ان کی مداحوں کی جانب سے ٹوئٹر پر پیغامات شیئر کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پی سی بی کی جانب سے کپتان بابر اعظم کو الوداع کہنے سے پہلے ہی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے نئے کپتانوں کے ناموں کا اعلان کیا گیا ہے جس پر صارفین پی سی بی پر تنقید کر رہے ہیں۔ اس ٹیم کی شان اور عزت کے ساتھ قیادت کرنے کے لیے کپتان آپ کا شکریہ۔ آپ آج تک پاکستان کرکٹ ٹیم کے کے لیے ایک بہترین تحفہ ثابت ہوئے ہیں۔ جس طرح سے آپ نے شدید تنقید کے باوجود کھلاڑیوں کی حمایت کی ہے وہ آپ کے کردار اور یقین کے بارے میں واضح کرتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cg3pn4d15jxo", "summary": "گذشتہ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست کی یادیں آج بھی انڈیا میں تازہ ہیں اور اس ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی بھی رواں پلیئنگ الیون میں شامل ہیں۔ ", "title": "ورلڈ کپ سیمی فائنل میں انڈیا پھر کیویز کے مدمقابل: ممبئی کی پچ انڈیا کی ’ناک آؤٹ‘ کی پریشانی دور کر پائے گی؟", "firstPublished": "2023-11-15T05:15:45.090Z", "id": "cg3pn4d15jxo", "article": "ون ڈے ورلڈ کپ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو نیوزی لینڈ ٹیم کی مستقل کارکردگی بہ آسانی سمجھ میں آتی ہے۔ سنہ 2007 کے بعد سے یہ ٹیم ہر ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ نیوزی لینڈ سنہ 2015 اور 2019 میں فائنل تک پہنچی تھی اور 2019 کے فائنل میں انتہائی سنسنی خیز مقابلے کے بعد انگلینڈ کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہوئی۔ 2021 میں اسی ٹیم نے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل میں انڈیا کو شکست دی تھی۔ نیوزی لینڈ کے سابق وکٹ کیپر بلے باز ایئن سمتھ موجودہ ٹورنامنٹ میں کمنٹری کر رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 'نیوزی لینڈ کی موجودہ اور پچھلی کئی ٹیموں میں ایک خوبی رہی ہے۔ ٹیم ایک یا دو یا تین سٹار کھلاڑیوں کے ارد گرد نہیں کھیلتی۔ ٹیم آل راؤنڈ کارکردگی پر یقین رکھتی ہے جو کھلاڑی کی موجودہ فارم پر منحصر ہے۔' گذشتہ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست کی یادیں آج بھی انڈیا میں تازہ ہیں اور اس ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی بھی رواں پلیئنگ الیون میں شامل ہیں۔ مانچسٹر میں کھیلے گئے اس میچ میں نیوزی لینڈ کے 239 رنز کا تعاقب کرتے ہوئے انڈین ٹاپ آرڈر بلے بازوں کے سکور کچھ اس طرح تھے: اس کے بعد نیوزی لینڈ آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور پاکستان کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہوئی اور پوائنٹس ٹیبل میں نیچے چلی گئی لیکن پھر وہ اپنا آخری میچ جیت کر کسی طرح سیمی فائنل میں پہنچی۔ نیوزی لینڈ کی بیٹنگ اس ٹورنامنٹ کے آغاز سے ہی شاندار رہی ہے۔ اوپنر رچن رویندر اپنے بیٹ سے رنز بنا رہے ہیں جبکہ کپتان کین ولیمسن انجری سے واپسی کے بعد اچھے فارم میں نظر آ رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کی طرف سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں کونوے نے کہا: 'ہم سب جانتے ہیں کہ انڈیا ایک اچھی ٹیم ہے۔ وہ ایک مضبوط سکواڈ ہیں اور اچھی فارم کے ساتھ کھیل رہے ہیں لیکن ہم اس چیلنج کا بھی انتظار کر رہے ہیں۔' سیمی فائنل کے میچ میں مضبوط ہونے کے لیے انڈیا کو پہلے 10 اوورز بغیر وکٹ کھوئے کھیلنا ہوں گے، خاص طور پر اگر اسے ٹاس ہارنے کی صورت میں نیوزی لینڈ کے سکور کا تعاقب کرنا پڑا تو۔ انڈین کوچ راہول دراوڈ نے سیمی فائنل سے قبل سٹار سپورٹس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ کہنا غلط ہو گا کہ سیمی فائنل سے پہلے کوئی دباؤ نہیں ہے۔ کرکٹ کے کھیل میں کسی بھی کھیل میں جیتنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ آپ بس اچھی طرح سے تیاری کر سکتے ہیں اور یہی ہم کر رہے ہیں۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cl5pwge03y0o", "summary": "پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق ٹیسٹ کرکٹر عبدالرزاق کی جانب سے معذرت پر مبنی یہ جملے سوشل میڈیا پر اس وقت گردش کر رہے ہیں جس میں انھوں نے انڈین اداکارہ اشویریہ رائے کے حوالے سے کہے گئے الفاظ پر معافی مانگی ہے۔", "title": "عبدالرزاق کی ایشوریہ رائے سے متعلق مثال دینے پر معذرت: ’کرکٹ پر بات کرتے ہوئے کوئی عورت کی تضحیک کیسے کر سکتا ہے‘", "firstPublished": "2023-11-15T03:21:23.499Z", "id": "cl5pwge03y0o", "article": "پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق ٹیسٹ کرکٹر عبدالرزاق کی جانب سے معذرت پر مبنی یہ جملے سوشل میڈیا پر اس وقت گردش کر رہے ہیں جس میں انھوں نے انڈین اداکارہ ایشوریہ رائے کے حوالے سے کہے گئے الفاظ پر معافی مانگی ہے۔ عبدالرزاق کا نام سوشل میڈیا پر اس وقت ٹرینڈ کرنے لگا تھا جب دو روز قبل انھوں نے ایک تقریب کے دوران سوال کے جواب میں نیت کے حوالے سے اپنی بات شروع کی۔ اور اس دوران ایک مثال کے بیچ میں وہ اداکارہ ایشوریہ رائے کا نام بھی لے آئے جس کے بعد سے اس نامناسب مثال پر عبدالرزاق کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کا یہ کلپ بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اس نامناسب جملے کو یہاں دوبارہ شائع نہیں کیا جا رہا لیکن اس وقت ان کے ہمراہ سٹیج پر سابق کپتان شاہد آفریدی اور فاسٹ بولر عمر گل بھی موجود تھے جو عبدالرزاق کی بات مکمل ہوتے ہی تالیاں بجاتے ہیں۔ اس کے بعد سے شاہد آفریدی اور عمر گل نے بھی اس بارے میں معافی مانگی ہے۔ تاہم سوشل میڈیا پر صارفین نہ صرف عبدالرزاق کے بیان پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ ان کی جانب سے کی گئی معذرت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’اپنی معذرت کے دوران بھی وہ اپنے رویے کی مذمت نہیں کر رہے بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں کسی اور خاتون کی مثال دینا چاہتا تھا۔۔۔ یہ ان کی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔‘ پاکستان میں آئے روز خواتین کے حوالے سے کسی بھی جانی پہچانی شخصیت کے منھ سے تضحیک آمیز الفاظ کی ادائیگی کوئی نئی بات نہیں لیکن اس بار بات تھی بالی ووڈ کی فنکارہ ایشوریہ رائے کی جن کے لاکھوں کروڑوں فینز صرف انڈیا میں نہیں بلکہ پاکستان میں بھی بستے ہیں۔ اس ویڈیو کلپ کا وائرل ہونا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر عبدالزاق پر شدید تنقید کی جانے لگی۔ سپورٹس اینکر سویرا پاشا نے عبدالرزاق کے ان ریمارکس کو ان کا ’احمقانہ‘ تبصرہ قرار دیتے ہوئے مذمت کی۔ ایکس پر انھوں نے لکھا ’کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے تشبیہہ کے طور پر ایک عورت کی تضحیک کوئی کیسے کر سکتا ہے۔ ایسی حماقت کر کے اپنی توہین کروانے سے بہتر ہے خاموش رہیں۔‘ پاکستانی کرکٹ کے لیجنڈ شاہد آفریدی نے سما ٹی وی کے پروگرام میں اینکر کے سوال کے جواب میں عبدالرزاق کے بیان پر شدید مزمت کی ہے۔ واضح رہے کہ عبدالرزاق کے ان متنازعہ جملوں پر شاہد آفریدی اور عمر گل کی جانب سے تالیاں بجانے اور مسکرانے پر ان دونوں کو بھی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c889y88l13zo", "summary": "جوڈو، جوجتسو، باکسنگ کے علاوہ دیگر مارشل آرٹس کے کئی ایسے کھیل ہیں جن کی تیکنیک کو اس گیم میں استعمال کیا جا سکتا ہے اس لیے اسے باقی کھیلوں کے مقابلے میں ایک پُرتشدد کھیل کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔", "title": "پاکستان میں مکسڈ مارشل آرٹس کا رجحان: ’جب منھ پر ایک مُکا پڑتا ہے آپ سب پریشانیاں بھول جاتے ہیں‘", "firstPublished": "2023-11-14T07:45:52.499Z", "id": "c889y88l13zo", "article": "کرکٹ کے علاوہ پاکستان میں کسی بھی دوسرے کھیل کی طرح مکسڈ مارشل آرٹس (آیم ایم اے) کے بھی کچھ دیوانے ہیں جو محدود وسائل کے باوجود اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ وہ خود بھی ایم ایم اے کی ٹریننگ لیتے ہیں اور ان کے بقول اس کھیل میں مُکوں کے علاوہ لاتوں کا بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ جوڈو، جوجتسو، باکسنگ کے علاوہ دیگر مارشل آرٹس کے کئی ایسے کھیل ہیں جن کی تیکنیک کو اس گیم میں استعمال کیا جا سکتا ہے اس لیے اسے باقی کھیلوں کے مقابلے میں ایک پُرتشدد کھیل کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ لیکن گذشتہ ایک دہائی میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرنے والے یو ایف سی کی بدولت بھی اس کھیل کو پسند کرنے والوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یو ایف سی یعنی یونائٹڈ فائٹنگ چیمپیئن شپ مکسڈ مارشل آرٹس کی ایک معروف امریکی کمپنی ہے۔ دوسری جانب ورلڈ چیمپیئن شپ میں پاکستان کی پہلی خاتون ایم ایم اے فائٹر ایمان فیصل خان کا خیال کہ اس کھیل کا انتخاب انھوں نے اپنے آپ کو ’جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط رکھنے کے لیے کیا تھا۔‘ پاکستان کی پہلی خاتون ایم ایم اے فائٹر ایمان فیصل خان نے جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط رہنے کے اس کھیل کو چُنا ’بہت زیادہ فائٹرز پچھلے دس بارہ سال میں ضائع ہوئے ہیں۔‘ اس کی وضاحت کرتے ہوئے دانیال نے کہا کہ کئی ایسے فائٹرز ہیں جنھوں نے کسی بھی سطح پر حمایت نہ ملنے کے باعث لڑنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ ’نوجوانوں کو اس کھیل میں آتا دیکھ کر مجھے بہت حوصلہ ملتا پہ۔ بچوں کا یہی خواب ہوتا ہے کہ میں پاکستان کی طرف سے کرکٹ کھیلوں اسی طرح سے ہمیں ایم ایم اے میں بھی اس طرح کے بچے چاہیں جو یو ایف سی کا خواب دیکھتے ہوں۔‘ پاکستان کے بڑے شہروں میں اب کچھ روایتی جمز میں بھی ایم ایم اے کی ٹریننگ دی جا رہی ہے۔ نوجوان بھی اب اس کھیل کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ بہت سے کھیلوں کی طرح یہ بھی انسان کو جسمانی اور ذہنی طور پر فٹ رہنے میں مدد کرتا ہے۔ کام پر پریشانی ہو یا گھر پر مسائل چل رہے ہوں ماہر نفسیات انسب خالد کے مطابق ’جب منھ پر ایک مُکا پڑتا ہے آپ سب پریشانیاں بھول جاتے ہیں اور اپ فوکس کرتے ہیں کہ موجودہ وقت میں کیسے رہا جائے اور اپنے آپ کو کیسے بچایا جائے۔‘ دانیال ناصر کے مطابق صرف کُشتی دیکھنے سے بھی آپ اپنے بارے میں اتنا کچھ جان سکتے ہیں جو شاید باقی کھیلوں سے آپ نہ جان سکیں۔ ’آپ ایک فائٹر کے اندر جب دیکھتے ہیں کہ وہ کتنی شدت سے ایک ٹائٹل جیتنا چاہتا ہے، کتنی شدت سے اپنا نام بنانا چاہتا ہے تو آپ کو اپنے بارے میں بھی تھوڑا سوچنا پڑتا ہے کہ کیا میں بھی اپنے شعبے میں اُتنی ہی محنت کر رہا ہوں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2q24q92lx5o", "summary": "مورگن کو اس کے بعد میدان میں اپنی ٹیم کے ساتھیوں کی مزید مدد کی ضرورت نہیں پڑی، آخری دو بلے بازوں کو انھوں نے کلین بولڈ کیا۔", "title": "آخری اوور میں صرف پانچ رنز کی ضرورت لیکن مخالف ٹیم نے چھ گیندوں پر چھ وکٹیں لے کر میچ جیت لیا ", "firstPublished": "2023-11-13T15:58:04.843Z", "id": "c2q24q92lx5o", "article": "کرکٹ کی دنیا میں انہونیاں ہونا کوئی نئی بات نہیں اور ایسی ہی ایک انہونی آسٹریلیا کے کلب کرکٹ کے ایک میچ میں ہوئی۔ گولڈ کوسٹ کے پریمیئر لیگ ڈویژن تھری میں سرفرز پیراڈائز کلب کی ٹیم نے مدگیرابا کے خلاف فتح لگ بھگ مٹھی میں کر لی تھی اور 179 رنز کے ہدف کے تعاقب میں انھیں آخری اوور میں صرف پانچ رنز کی ضرورت تھی جبکہ ان کی چھ وکٹیں بھی باقی تھیں۔ لیکن مدگیرابا کے کپتان گیرتھ مورگن نے چھ گیندوں پر چھ وکٹیں حاصل کر کے نہ صرف جیت حاصل کی بلکہ سب کو حیرت میں بھی ڈال دیا۔ مورگن نے گولڈ کوسٹ بلیٹن کو بتایا کہ ’یہ مضحکہ خیز ہے، امپائر نے اوور کے آغاز میں مجھ سے کہا کہ میچ جیتنے کے لیے مجھے ہیٹ ٹرک کرنی پڑے گی۔‘ ’جب یہ ہو گیا تو وہ میری طرف دیکھتے رہ گئے۔‘ یہ افراتفری اس وقت شروع ہوئی جب ٹیم کے اوپنر جیک گارلینڈ نے گیند کو سیدھا مڈ وکٹ کی طرف اچھال دیا اور 65 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ اگلے دو بلے باز مڈ آن اور مڈ وکٹ پر کیچ آؤٹ ہوئے۔ اس وقت تک لگاتار تین وکٹیں گر چکی تھیں لیکن مورگن نے ابھی بس نہیں کی تھی۔ مورگن کہتے ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ ہیٹ ٹرک کے بعد میں نے سوچا تھا کہ میں اب یہ میچ نہیں ہارنا چاہتا۔ پھر یہ پاگل پن بن گیا۔‘ اگلے بلے باز آوٹ ہوئے تو سرفرز پیراڈائز کی ٹیم کے آٹھ کھلاڑی 174 رنز پر آؤٹ تھے۔ مورگن کو اس کے بعد میدان میں اپنی ٹیم کے ساتھیوں کی مزید مدد کی ضرورت نہیں پڑی، آخری دو بلے بازوں کو انھوں نے کلین بولڈ کیا۔ انھوں نے کہا کہ جب میں نے آخری گیند پر سٹمپس کو پیچھے جاتے دیکھا تو مجھے یقین نہیں آیا، میں نے ایسا کچھ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں جب مورگن نے ایسی شاندار بولنگ کی ہو۔ کلب کے فیس بک پیج پر مورگن کے والد نے لکھا کہ ’مورگن نے ایک بار ایک اوور میں پانچ وکٹیں حاصل کی تھیں لیکن وہ چھ وکٹیں حاصل نہیں کر سکے تھے کیونکہ اوور کے آغاز میں صرف پانچ وکٹیں باقی تھیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cmlpngev2x7o", "summary": "ورلڈ کپ میں کچھ بڑے اپ سیٹ دیکھنے میں آئے اور کچھ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جن کی وجہ سے ورلڈ کپ شہ سرخیوں میں رہا۔ ", "title": "رحمان اللہ گرباز کا احمد آباد میں ’سنچری سے بھی بڑا کارنامہ‘: ’اسی لیے افغان کھلاڑیوں کو انڈیا میں اتنا پیار ملتا ہے‘", "firstPublished": "2023-11-13T10:52:22.186Z", "id": "cmlpngev2x7o", "article": "انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ 2023 اپنے دلچسپ اختتام کی طرف بڑھ گیا ہے اور چار ٹیمیں سیمی فائنل میں پہنچ چکی ہیں۔ ورلڈ کپ میں کچھ بڑے اپ سیٹ دیکھنے میں آئے اور کچھ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جن کی وجہ سے ورلڈ کپ شہ سرخیوں میں رہا۔ رواں ورلڈ کپ میں افغانستان کی ٹیم کی کارکردگی نے سب کو حیران کر دیا۔ افغانستان کی ٹیم نے انگلینڈ، پاکستان اور سری لنکا جیسی سابقہ ورلڈ چیمپیئن ٹیموں کو شکست دے کر تاریخ رقم کی۔ تاہم اس وقت افغانستان سے تعلق رکھنے والے کرکٹر رحمان اللہ گرباز اپنی مہربانی اور خیر کے کام کی وجہ سے سوشل میڈیا پر زیر بحث ہیں۔ انھوں نے پتا کیا تو معلوم ہوا کہ یہ شخص افغانستان کے کرکٹر رحمان اللہ گرباز ہیں۔ لو شاہ نے ایک ویڈیو اپ لوڈ کی ہے جس میں گرباز چند لوگوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں جبکہ سوتے ہوئے لوگوں کے پاس کچھ رکھتے نظر آ رہے ہیں۔ گرباز کے جانے کے بعد لو شاہ وہاں گئے اور دیکھا کہ فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے کئی لوگوں کے پاس 500 روپے کی انڈین کرنسی رکھی تھی۔ کولکتہ نائٹ رائیڈرز کی ٹیم کے ’ایکس‘ ہینڈل سے ایک ٹویٹ میں لکھا گیا کہ ’افغانستان سے آیا ایک فرشتہ۔ افغانستان کے صوبہ ہرات میں آنے والے زلزلے کے لیے پیسے جمع کرنے سے لے کر اب غیر ملکی سرزمین پر اپنی ہمدردانہ فطرت کا مظاہرہ کرنے میں لگے ہیں۔ گرباز ہم سب کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔‘ کانگریس کے رکن پارلیمان ششی تھرور نے بھی اس ویڈیو کو پوسٹ کیا اور لکھا کہ ’افغانستان کے بیٹسمین رحمان اللہ گرباز کا یہ کام حیرت انگیز ہے۔ یہ کسی بھی سنچری سے بڑا کارنامہ ہے جو وہ کبھی سکور کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ کئی سنچریاں سکور کریں گے۔‘ راجندر کمبھٹ نامی صارف نے لکھا کہ ’ایک پاک روح اور ایک اچھا انسان ہونے کے لیے کسی کا مذہب کیا ہے یہ بات اہمیت نہیں رکھتی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے کچھ سیاستدان اس سے سبق لیں گے۔ افغانستان کے بلے باز رحمان اللہ گرباز نے ہمیشہ کے لیے انڈین شہریوں کے دلوں میں جگہ بنا لی ہے۔‘ انھوں نے سنہ 2019 میں ٹی 20 اور سنہ 2021 میں افغانستان کی ون ڈے ٹیم میں ڈیبیو کیا۔ وہ آئی پی ایل میں پنجاب کنگز اور لکھنؤ سپر جائنٹس جیسی ٹیموں کے لیے بھی کھیل چکے ہیں۔ گرباز نے 43 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل اور 35 ون ڈے کھیلے ہیں۔ جس میں وہ ون ڈے میں پانچ سنچریاں بھی بنا چکے ہیں۔ اس ورلڈ کپ میں انھوں نے نو میچز میں 280 رنز بنائے، جس میں دو نصف سنچریاں شامل ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n871nn6qwo", "summary": "ان کے پاس ’پلان بی‘ اور ’سی‘ کا فقدان دکھائی دیتا ہے اور وہ اس دوران کچھ تبدیل کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ بلے باز کے مطابق فیلڈ پلیسمنٹ کرنی ہو یا کسی پارٹ ٹائم بولر کو اوورز دینے ہوں بابر اس معاملے میں ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں اور یوں میچ پاکستان کی گرفت سے نکل جاتا ہے۔ ", "title": "الجھے ہوئے بابر اعظم کی فیصلہ کن موقعوں پر ’غیر یقینی‘ جو ان کے دور کپتانی کے اختتام کا باعث بن سکتی ہے", "firstPublished": "2023-11-12T05:51:17.793Z", "id": "c4n871nn6qwo", "article": "یہاں وہ ایڈم زیمپا کی قدرے شارٹ گیند پر شارٹ مڈ وکٹ پر کھڑے پیٹ کمنز کو کیچ دے بیٹھے۔ بابر یہی شاٹ ان کے سر کے اوپر سے بھی کھیل سکتے تھے، لیکن اس فیصلہ کن مرحلے پر وہ چوک گئے اور پاکستان کو اس میچ میں 62 رنز سے شکست ہوئی۔ بابر عموماً دباؤ میں ہی اپنا بہترین کھیل سامنے لاتے ہیں لیکن گذشتہ چند ماہ سے ان میں وہ الجھن نظر آ رہی ہے جو اس سے پہلے ایشیا کپ یا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ میچوں میں دیکھنے کو ملتی تھی۔ ماضی میں بابر اس حوالے سے پوچھے گئے سوالات پر مؤقف دے چکے ہیں۔ انھوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ’مصباح بھائی انھیں مشورے ضرور دیتے ہیں لیکن میدان میں وہ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔‘ اس میچ کی ہار کا ذمہ دار حسن علی کے ڈراپ کیچ کو سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستان کی آغاز کے سات اوورز میں دفاعی بلے بازی بھی اس شکست کی وجہ بنی تھی۔ اس انداز میں تبدیلی لانا ممکن ہے اور اس کا مظاہرہ ورلڈ کپ میں روہت شرما نے کیا جن کے جارحانہ آغاز کی بدولت انڈیا کی بیٹنگ 300 سے زیادہ کے ٹوٹل بنانے اور اہداف کا تعاقب کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ یہ ہچکچاہٹ ہی ہے جو ان کی جانب سے میچ کی سمت تبدیل کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے ’جو چل رہا ہے چلتا رہے‘ کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا کرنے پر مجبور کرتی ہے اور یوں بابر بطور کپتان بھی میچ پر گرفت حاصل نہیں کر پاتے۔ ان کے پاس ’پلان بی‘ اور ’سی‘ کا فقدان دکھائی دیتا ہے اور وہ اس دوران کچھ تبدیل کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ بلے باز کے مطابق فیلڈ پلیسمنٹ کرنی ہو یا کسی پارٹ ٹائم بولر کو اوورز دینے ہوں بابر اس معاملے میں ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں اور یوں میچ پاکستان کی گرفت سے نکل جاتا ہے۔ یہ ٹرینڈ ہمیں ان کی بیٹنگ اور کپتانی دونوں میں ہی دکھائی دیتا ہے کہ جب ٹورنامنٹ میں پریشر کے دوران ایک قدم آگے بڑھا کر کاری ضرب لگانے کی باری آئے تو بابر چوک جاتے ہیں اور روایتی، قدرے محفوظ انداز اپنانے پر اکتفا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی مثال ہمیں ٹیم سیلیکشن میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کے بیچ کے اوورز کی وکٹیں گذشتہ ایک سال سے مسئلہ بنی ہوئی تھیں لیکن ٹیم نے شاداب کی بری پرفارمنس اور بعد میں نواز کی وکٹوں کے قحط کا توڑ نہیں ڈھونڈا۔ آسٹریلیا سیریز کے لیے قرعہ کس کے نام نکلتا ہے، اس بارے میں تو آئندہ چند ہفتوں میں معلوم ہو جائے گا لیکن کیا پاکستان سنہ 2027 کے ورلڈ کپ تک اس مرتبہ کی گئی غلطیوں پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکے گا یا نہیں، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اس غیر یقینی صورتحال میں کسی کے پاس نہیں ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1p9j164ego", "summary": "پورا ٹورنامنٹ گزر گیا مگر بابر اعظم اس حقیقت کا ادراک نہ کر پائے کہ حارث رؤف کی تباہ کن پیس پاور پلے میں ان کی اپنی ٹیم سے زیادہ مخالف بیٹنگ کا موثر ہتھیار بن جایا کرتی ہے۔ پڑھیے سمیع چوہدری کا کالم", "title": "’بے نظم، بے ضبط، بے ربط‘: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-11-11T17:00:26.972Z", "id": "cd1p9j164ego", "article": "بابر کا جانا ٹھہر چکا تھا۔ ورلڈ کپ میں ان کی یہ آخری اننگز ان کے پورے ٹورنامنٹ کا خلاصہ تھی کہ احتیاط اور جارحیت کے بیچ کا جو خلجان یہاں دکھائی دیا، وہ اس سارے ایونٹ میں پاکستانی کاوشوں کا عکاس تھا۔ اس سے پہلے، ٹاس کے وقت، جب بابر اعظم جاس بٹلر کے ہمراہ کھڑے تھے اور میچ ریفری نے بٹلر کی جیت کا اعلان کیا تو بابر اعظم کے چہرے کا رنگ یوں بدل کر رہ گیا جیسے وہ ٹاس نہیں، میچ ہی ہار بیٹھے ہوں۔ گو دونوں کپتانوں کے لئے اس میچ میں کچھ زیادہ معنویت بچی نہیں تھی مگر بابر کے برعکس جاس بٹلر کی ٹیم کا رویہ بے حد مثبت تھا، جن کی ٹیم ورلڈ کپ کے آغاز سے پہلے سیمی فائنل ہی نہیں، فائنل تک کے لئے فیورٹ قرار دی جا رہی تھی۔ اور انگلش ٹیم نے اس میچ میں وہ بھرم پوری طرح سے نبھایا کہ بیٹنگ میں بھی نہایت مثبت اپروچ برتی گئی اور بولنگ میں بھی اتنا ہی مثبت رویہ رکھا گیا کہ جیسے یہ میچ ٹورنامنٹ کے تناظر میں بہت اہمیت کا حامل ہو۔ پورا ٹورنامنٹ گزر گیا مگر بابر اعظم اس حقیقت کا ادراک نہ کر پائے کہ حارث رؤف کی تباہ کن پیس پاور پلے میں ان کی اپنی ٹیم سے زیادہ مخالف بیٹنگ کا موثر ہتھیار بن جایا کرتی ہے۔ شاہین آفریدی اپنے کنارے سے عمدہ بولنگ کر رہے تھے اور جو ہلکی سی بھی سوئنگ میسر تھی، اس سے انگلش اوپنرز کو مخمصے میں ڈالے ہوئے تھے مگر حارث رؤف نے جس نوعیت کی وائیڈ سے اپنے دن کا آغاز کیا، وہ ہدف سے اس قدر ہی پرے تھی جتنا بالآخر پاکستان اس میچ میں رہ گیا۔ افتخار احمد بھی نو میچز گزر جانے کے باوجود کپتان کا اس قدر اعتماد حاصل نہ کر پائے کہ دوسرے کنارے سے انہیں اٹیک کرنے کا موقع دیا جاتا۔ جب حارث رؤف کے پہلے تین اوورز کی قیمت سوچ سے بھی تجاوز کرنے لگی، تب کہیں بابر نے گیند افتخار کو تھمایا مگر تب تک انگلش اوپنرز قدم پوری طرح جما چکے تھے۔ اور پھر بیٹنگ میں پاکستان نے شاید سب کچھ ہی فخر زمان پہ چھوڑ رکھا تھا کہ ان کے رخصت ہوتے ہی تعاقب کی ساری امیدیں لپیٹ ڈالی گئیں۔ بابر اعظم کے بعد کچھ دیر رضوان رکے مگر رکے رکے سے ہی رہے۔ اس کے بعد سلمان آغا کے سوا جو بھی آیا، زیادہ رک نہ پایا۔ ایونٹ ضائع ہو چکنے کے بعد بھی پاکستان یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ اس طرح کی سست وکٹ پہ لمبے مجموعے کے لئے نئی گیند پہ پاور پلے کا فائدہ اٹھانا ضروری ہوتا ہے۔ نہ تو پاکستانی بولنگ پہلے پاور پلے میں حریف بیٹنگ کے قدم روک پائی اور نہ ہی پاکستانی بیٹنگ اس مرحلے میں اپنے قدم بڑھا پائی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c89qdg2y9leo", "summary": "ورلڈ کپ اپنی فطرت میں بہت ہی ستم پرور ہوا کرتے ہیں کہ اگر مہم جوئی کامیاب رہے تو کئی سٹارز جنم پاتے ہیں اور کرئیر سنور جاتے ہیں۔ لیکن ناکامی ایک ایسا بوجھ ہوا کرتی ہے کہ جس کے ملبے تلے سے بچ نکلنے کو \n بعض اوقات انفرادی کاوشیں بھی کم پڑ جاتی ہیں۔ پڑھیے سمیع چوہدری کا کالم۔ ", "title": "’ناکامی کے ملبے سے بچنے کی ایک امید‘: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-11-10T08:48:25.242Z", "id": "c89qdg2y9leo", "article": "ٹرینٹ بولٹ پورے ٹورنامنٹ میں اوسط کارکردگی کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے اچانک عین سمے، اپنے بہترین پہ امڈ کر آئے اور پاکستان کو سیمی فائنل سے لگ بھگ خارج از امکان کر ڈالا۔ بولٹ اور کیویز کی اس پرفارمنس کے بعد، اب بظاہر یہ آخری میچ بابر اعظم کی ٹیم کے لیے محض ایک رسمی کارروائی سا ہے، جسے ائیرپورٹ پہنچنے سے قبل بس نمٹانا ہے۔ مگر دوسری جانب انگلش ٹیم کے لیے یہ معرکہ ایک آخری دمک کی مانند ہے جو شمع کو بجھنے سے پہلے بہرحال دکھانا ہے کہ اسی پہ چیمپیئنز ٹرافی کی کوالیفکیشن بھی ٹکی ہے۔ اگرچہ نیدرلینڈز کا انڈیا کو شکست دے پانا تقریباً ناممکن ہے مگر جاس بٹلر یہاں خود کو قسمت کے رحم و کرم پہ ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیں گے۔ انگلش کیمپ کے لیے نیدرلینڈز کے خلاف فتح کئی اعتبار سے خوش آئند تھی کہ نہ صرف مہینہ بھر بعد فتوحات کا سلسلہ بحال ہوا بلکہ بین سٹوکس بھی اپنی اصل فارم میں لوٹے اور سیمرز کے ساتھ ساتھ سپن بولنگ یونٹ نے بھی عمدہ کاوش دکھلائی۔ پاکستان کے خلاف میچ سے پہلے انگلش کیمپ کا اعتماد بحال ہو جانا بہرحال بابر اعظم کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے جو سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو جانے کے بعد اب اپنی مہم جوئی کا اختتام کم از کم ایک مثبت نکتے پہ کرنا چاہیں گے۔ گذشتہ روز پی سی بی کے سوشل میڈیا نے ٹوئٹر پہ شاداب خان کی بحالئ صحت اور پریکٹس میں شرکت کو بطور خوشخبری اناؤنس کیا۔ گو یہ پاکستانی شائقین کے لیے کسی اعتبار سے کوئی خوش خبری نہ تھی مگر شاداب کے لیے بہرطور ایک آخری موقع ضرور ہے کہ ناکام ورلڈ کپ کے بعد پی سی بی کی حتمی انہدامی کارروائی میں سے بچ نکلنے کا کوئی امکان پیدا کر پائیں۔ پاکستانی کیمپ میں اگرچہ کوئی ایسے عمر رسیدگان موجود نہیں کہ جن کے سر پہ تلوار گرا کر اس ناقص کارکردگی کا بوجھ ہلکا کیے جانے کی کوشش ہو پائے، مگر پی سی بی کی حیرت ناکیوں سے کچھ بعید بھی نہیں ہے۔ سو ہر کھلاڑی کو بہترین کھیل پیش کر کے اپنی ہستی کا جواز لانے کا موقع میّسر ہو گا۔ ریاضیاتی اعتبار سے نیٹ رن ریٹ میں کیویز پہ برتری کے جو تقاضے پاکستان کو نبھانا ہیں، وہ تو ناممکن ہو ہی چکے ہیں مگر آخری میچ میں فتح نہ صرف شائقین کے لیے ایک اثبات کا سامان ہو سکتی ہے بلکہ کچھ کھلاڑی اپنی انفرادی کارکردگی کی بنا پہ، ریویو کمیٹی کی یقینی شمشیر زنی سے ممکنہ حفاظت کا اہتمام بھی کرنا چاہیں گے۔ ورلڈ کپ اپنی فطرت میں بہت ہی ستم پرور ہوا کرتے ہیں کہ اگر مہم جوئی کامیاب رہے تو کئی سٹارز جنم پاتے ہیں اور کرئیر سنور جاتے ہیں۔ لیکن ناکامی ایک ایسا بوجھ ہوا کرتی ہے کہ جس کے ملبے تلے سے بچ نکلنے کو بعض اوقات انفرادی کاوشیں بھی کم پڑ جاتی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crgp70j77zlo", "summary": "اکثر شائقین اب بھی یہ جاننا چاہتے ہوں گے کہ کیا پاکستان کی اب بھی سیمی فائنل تک رسائی کی کوئی امید باقی ہے؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ ایسا ہونا بہت مشکل ہے بلکہ اگر پاکستان کی بولنگ فارم کو دیکھا جائے تو شاید ناممکنات میں سے ہے۔", "title": "’وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں۔۔۔‘ کیا پاکستان اب بھی سیمی فائنل میں پہنچ سکتا ہے؟", "firstPublished": "2023-11-09T15:51:57.136Z", "id": "crgp70j77zlo", "article": "نیوزی لینڈ نے آج سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے کی امید میں بیٹھی پاکستان اور افغانستان کی ٹیموں کو مایوس کر دیا ہے اور سری لنکا کو پانچ وکٹوں سے شکست دے دی ہے۔ اکثر شائقین اب بھی یہ جاننا چاہتے ہوں گے کہ کیا پاکستان کی اب بھی سیمی فائنل تک رسائی کی کوئی امید باقی ہے؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ ایسا ہونا بہت مشکل ہے بلکہ اگر پاکستان کی بولنگ فارم کو دیکھا جائے تو شاید ناممکن بھی۔ میچ کے بعد براڈ کاسٹر کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے کہ سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے اگر پاکستان پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 300 رنز بناتا ہے تو اسے انگلینڈ کو 13 رنز پر آل آؤٹ کرنا ہو گا، (یعنی 288 یا اس سے زیادہ رنز سے) جبکہ اگر پاکستان پہلے بولنگ کرتے ہوئے انگلینڈ کو 50 رنز پر آؤٹ کرتا ہے تو اسے یہ ہدف ڈھائی اوور یعنی 15 گیندوں میں حاصل کرنا ہو گا۔ پاکستان اس صورتحال تک اس لیے پہنچا کہ ورلڈ کپ کے پہلے دو میچوں میں فتح حاصل کرنے کے بعد پاکستان چار لگاتار میچ ہارا جس میں افغانستان سے شکست بھی شامل تھی۔ خیال رہے کہ سنہ 2019 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے پوائنٹس برابر تھے لیکن نیٹ رن ریٹ کی بنیاد پر نیوزی لینڈ سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اس سے نہ صرف پاکستان کے مجموعی نیٹ رن ریٹ پر فرق پڑا بلکہ پاکستان کو خاص طور پر جنوبی افریقہ کے خلاف شکست کے دوران یہ گیندیں انتہائی اہم ثابت ہوئیں۔ اس کے علاوہ اکثر افراد گذشتہ تین ورلڈ کپس سے پاکستان کی جانب سے آسٹریلیا کے خلاف اہم کیچ ڈراپ کرنے کے بارے میں بھی بات کر رہے ہیں۔ اس ورلڈ کپ میں اسامہ میر نے آسٹریلیا کے خلاف میچ میں ڈیوڈ وارنر کا کیچ 10 رنز پر چھوڑا اور انھوں نے 163 رنز کی شاندار اننگز کھیلی جو فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ پورے ٹورنامنٹ میں ہی پاکستان کی بولنگ خاصی ناقص رہی ہے اور فاسٹ بولرز میں حارث رؤف جبکہ سپن ڈیپارٹمنٹ مکمل طور انڈیا کی سازگار پچوں پر وکٹیں لینے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستانی مداح جنوبی افریقہ کے خلاف شکست کے بعد سے پاکستان کی فتوحات کے علاوہ دیگر میچوں کے نتائج سے بھی امید لگائے بیٹھے تھے اور یہ نتائج آج تک تمام میچوں میں پاکستان کے حق میں آ رہے تھے۔ اکثر صارفین یہ بات بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اس کارکردگی کے بعد سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے کا مستحق نہیں تھا۔ ایک صارف نے اسے ’قدرت کا انتقام‘ قرار دیا۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’شاید بابر اعظم کی کپتانی کا اختتام بغیر کوئی ٹرافی جیتے ہو جائے گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cx71v3yj0x8o", "summary": "کرکٹ پر خبروں اور تجزیوں کی ویب سائٹ کرک انفو کے سینیئر مصنف سدھارتھ مونگا نے بی بی سی کو بتایا کہ افغانستان کی اس ٹورنامنٹ میں کارکردگی سنسنی خیز رہی ہے۔ افغانستان کا کوالیفائنگ لیگز سے تقریباً سیمی فائنل تک پہنچنے کا سفر حیران کن ہے اور انھوں نے 25 سالوں میں جو کیا وہ کرنے کے لیے دوسری ٹیموں کو 60-70 سال لگتے ہیں۔", "title": "جلاوطنی میں کرکٹ سیکھ کر چیمپیئن ٹیموں کو ہرانے والی افغان ٹیم طالبان حکومت میں کیسے چل رہی ہے؟", "firstPublished": "2023-11-09T11:37:22.691Z", "id": "cx71v3yj0x8o", "article": "اس کرکٹ ورلڈکپ میں افغانستان نے سابق چیمپیئنز انگلینڈ، پاکستان اور سری لنکا کو شکست دی لیکن منگل کو آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست نے اس کی سیمی فائنلز تک پہنچنے کی امید مدھم کر دی ہے۔ کرکٹ پر خبروں اور تجزیوں کی ویب سائٹ کرک انفو کے سینیئر صحافی سدھارتھ مونگا نے بی بی سی کو بتایا کہ افغانستان کی اس ٹورنامنٹ میں کارکردگی سنسنی خیز رہی ہے۔ افغانستان کا کوالیفائنگ لیگز سے تقریباً سیمی فائنل تک پہنچنے کا سفر حیران کن ہے اور انھوں نے 25 سالوں میں جو کیا وہ کرنے کے لیے دوسری ٹیموں کو 60-70 سال لگتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ افغان عوام میں کرکٹ کے لیے بے مثال محبت ہے اور یہ محبت ان کی رہنمائی کرتی ہے۔ سدھارتھ مونگا کا کہنا ہے کہ سنہ 2001 میں جب سے ٹیم بنی ہے تب سے افغانستان کے پاس ایک متاثرکن بولنگ لائن اپ ہے جو مخالف ٹیم کو مختلف مراحل میں محدود کر سکتی ہے لیکن سب سے زیادہ بہتری ان کی بیٹنگ میں آئی ہے۔ سدھارتھ مونگا کہتے ہیں کہ ’اس وقت خوبصورتی یہ ہے کہ آپ اس ٹیم میں تین یا چار بڑے سٹارز چن نہیں سکتے۔ یہ ایک ایسی ٹیم ہے جہاں ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے اور ان کی جیت کو کوئی اپ سیٹ نہیں کہہ سکتا۔ انھوں نے آسانی سے ہدف کا تعاقب کیا ہے۔‘ افغانستان کے 34 صوبوں میں ہزاروں کرکٹ کلب موجود ہیں جو سکول سے لے کر ٹی ٹوئنٹی لیگز تک مختلف سطحوں پر ٹیلنٹ کا انتخاب کرتے ہیں۔ ڈومیسٹک میچ کابل، جلال آباد اور خوست کے پانچ سٹیڈیمز اور تقریباً 15 چھوٹے کرکٹ گراؤنڈز میں کھیلے جاتے ہیں۔ افغانستان کرکٹ بورڈ کے نصیب خان کا کہنا ہے کہ ٹیم کو اپنے ملک میں کرکٹ کی اچھی سہولیات سے بڑے پیمانے پر فائدہ ہوا ہے۔ پہلے کے برعکس جب کرکٹرز زیادہ تر انڈیا اور دبئی میں رہتے اور تربیت حاصل کرتے تھے۔ سدھارتھ مونگا کا کہنا ہے کہ 1990 کی دہائی میں بھی جب طالبان پہلی بار اقتدار میں آئے تھے تو انھوں نے مردوں کو کرکٹ کھیلنے سے نہیں روکا تھا۔ ان کی نظر میں کرکٹرز دوسرے کھیلوں کے کھلاڑیوں کے مقابلے میں زیادہ مناسب کپڑے پہنتے تھے۔ ٹیم کے لیے آگے کیا ہوگا یہ کہنا مشکل ہے۔ مثالی طور پر، وہ مزید دو طرفہ ٹورنامنٹ کھیلنا چاہتے ہیں لیکن سدھارتھ مونگا کا کہنا ہے کہ شاید بہت سے بورڈز افغانستان کے ساتھ میچ نہیں کھیلنا چاہتے کیونکہ ان کے پاس خواتین کی ٹیم یا ایسا ڈھانچہ نہیں ہے جو خواتین میں اس کھیل کو فروغ دے سکے۔ واضح طور پر افغانستان ایک اور کرشمے کی امید کر رہا ہے۔ لیکن جنوبی افریقہ جانتا ہے کہ انھیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان نے اب تک ثابت کر دیا ہے کہ ان کے لیے تقریباً کچھ بھی ممکن ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjmp0j94r7no", "summary": "انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ اب ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکا ہے جہاں سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے ایک جگہ بچی ہے اور تین ٹیمیں اسے پانے کی کوشش میں لگی ہیں۔", "title": "بارش کا امکان اور نیوزی لینڈ کیخلاف سری لنکا کی فتح کی دعائیں: کرکٹ ورلڈ کپ کا ایک عام سا میچ خاص کیسے بنا؟", "firstPublished": "2023-11-09T02:46:10.320Z", "id": "cjmp0j94r7no", "article": "انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ اب ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکا ہے جہاں سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے ایک جگہ بچی ہے اور تین ٹیمیں اسے پانے کی کوشش میں لگی ہیں۔ سری لنکا پہلے ہی سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو گئی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ نیوزی لینڈ پر فتح اس کی سنہ 2025 میں پاکستان میں منعقد ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی میں شمولیت کے امکانات بڑھا دے گی۔ خیال رہے کہ سنہ 2025 کی چیمپیئنز ٹرافی میں اس ورلڈ کپ میں پاکستان کے علاوہ پہلے سات درجوں پر آنے والی ٹیمیں شامل ہوں گی۔ پاکستان بطور میزبان اس ٹورنامنٹ میں پہلے ہی شامل ہے۔ پاکستان کی بات کریں تو اسے یا تو نیوزی لینڈ کی شکست میں یا میچ بارش کے باعث نہ ہونے سے فائدہ حاصل ہو گا کیونکہ یوں انگلینڈ کے خلاف آخری میچ سے پہلے نیوزی لینڈ کے آٹھ یا نو پوائنٹس ہوں گے اور پاکستان کی انگلینڈ پر فتح اسے سیمی فائنل تک پہنچا سکتی ہے۔ آسان لفظوں میں یہ ریاضی کا ایک فارمولا ہے جو کسی بھی کرکٹ میچ میں بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے بقیہ وسائل (وکٹوں اور اوورز) کے اعتبار سے ترمیم شدہ ہدف ترمیم کا تعین کرتا ہے۔ اس فارمولے کے تحت پلیئنگ کنڈیشنز میں رد و بدل کیا جاتا ہے، یعنی مقابلے میں شریک ایک یا دونوں ٹیموں کے لیے رنز اور اوورز میں کٹوتی کی جا سکتی ہے۔ یہ فارمولا اس بات پر محیط ہے کہ بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے پاس دو قسم کے وسائل ہوتے ہیں، یعنی ون ڈے میچ میں 300 گیندیں اور 10 وکٹیں۔ جیسے جیسے اننگز آگے بڑھتی ہے، یہ دونوں وسائل کم ہوتے رہتے ہیں اور بالآخر صفر پر جا پہنچتے ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ٹیم تمام 300 گیندیں یا 50 اوورز تک بیٹنگ مکمل کر لے، یا پھر اپنی تمام 10 وکٹیں کھو دے۔ تاہم یہ میچ بینگلورو کے چناسوامی کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلا جا رہا ہے جہاں پانی نکاسی کا انتہائی جدید نظام موجود ہے جو چند ہی منٹ میں گراؤنڈ کو واپس کھیلنے کی پوزیشن میں لے آتا ہے۔ چناسوامی کرکٹ سٹیڈیم میں دنیا کے باقی کرکٹ گراؤنڈز کی نسبت بارش کے وقفے کے بعد میچ جلدی شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ ایک امریکی کمپنی سب ایئر کا خصوصی نظام ہے جسے یہاں سنہ 2016 میں نصب کیا گیا تھا۔ اس نظام کو ’سب سرفیس ایئریشن اینڈ ویکیوم پاورڈ ڈرینج‘ سسٹم کا نام دیا گیا ہے اور یہ دنیائے کرکٹ میں ایسا نظام فٹ کرنے والا پہلا میدان ہے۔ یہ نظام اس سے پہلے دنیا کے دوسرے کھیلوں کے 500 گراؤنڈز میں نصب کیا جا چکا ہے جن میں این ایف اور فٹبال کے گراؤنڈز شامل ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn3pgn4k31vo", "summary": "اب تک کی کارروائی یہی واضح کرتی ہے کہ یہ ورلڈ کپ انڈیا کا ہے اور اگر باقی تین سیمی فائنلسٹس اس حقیقت کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں تو انھیں پہلے انڈیا کو ہرانا ہو گا کیونکہ جو انڈیا کو ہرا پایا، ٹرافی اس سے دور نہیں ہو گی۔", "title": "’جو بھی انڈیا کو ہرا پایا‘: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-11-08T12:39:09.138Z", "id": "cn3pgn4k31vo", "article": "نیوزی لینڈ کے لیے بُری خبر یہ ہے کہ سری لنکا کے خلاف ان کا میچ بارش کی نذر ہو سکتا ہے۔ اگر یہ میچ بُرے موسم میں بہہ گیا تو ولیمسن کی ٹیم اگلے میچوں میں افغانستان اور پاکستان کی شکست کی منتظر رہے گی۔ افغانستان کی جنوبی افریقہ کے خلاف شکست تو بعید از قیاس نہیں ہے مگر انگلش ٹیم کا موجودہ فارم سے پاکستان کو ہرا پانا تقریباً ناممکن ہے۔ اب تک کی کارگزاری میں یہ بھی واضح ہوا ہے کہ جنوبی افریقی ٹیم اپنی بہترین کارکردگی کے لیے ٹاس پر قسمت کی تائید کی منتظر رہتی ہے۔ ابھی تک ٹورنامنٹ کے تین میچز میں انھیں ہدف کا تعاقب کرنا پڑا ہے اور محض پاکستان کے خلاف ایک وکٹ کی دقت آمیز کامیابی حاصل ہو پائی ہے۔ سو، ناک آؤٹ مرحلے میں اگر ٹیمبا باوومہ ٹاس ہار گئے تو حریف کپتان یقیناً انھیں پہلے بولنگ کی دعوت ہی دیں گے کیونکہ ہدف کے تعاقب میں یہی مضبوط ترین بیٹنگ لائن اپنے اندر ہی اعصاب کا ایک میدان جنگ بن جاتی ہے اور پہلی اننگز میں کشتوں کے پشتے لگانے والے بزرجمہر دوسری اننگز میں بلا چلانے سے ہی ہلکان ہو رہتے ہیں۔ ناک آؤٹ مراحل میں، ٹاس جیتنے والے کپتان پہلے بیٹنگ کو اس لیے بھی ترجیح دیں گے کہ فلڈ لائٹس کی مصنوعی روشنی میں دو نئی گیندوں کا سامنا کرنا عموماً بلے بازوں کے لیے دشوار ہوا کرتا ہے۔ اور اگر بولنگ اٹیک انڈیا کا ہو تو پھر یہ دشواری دقت سے بھی سوا ہو کر ممکنات کے جہاں سے باہر نکل جاتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ بحث تواتر سے ہو رہی تھی کہ اگر شاہین آفریدی، حارث رؤف اور نسیم شاہ پر مشتمل اٹیک دنیا کا بہترین پیس اٹیک ہے تو اس قبیل کی کوئی اور شے بھی کیا کہیں موجود ہے۔ مگر اب یہ بحث تمام ہو چکی کہ جسپریت بمراہ، محمد سراج اور محمد شامی پہ مشتمل اٹیک بلاشبہ دنیا کا بہترین پیس اٹیک ہے۔ یہ انڈین پیس اٹیک لفظی اعتبار سے صحیح معنوں میں ناقابلِ تسخیر ہے جب گیند نئی ہو، وکٹ میں ہلکی سی بھی سوئنگ ہو اور مصنوعی روشنیاں جل رہی ہوں۔ ہاں، اگر کسی ٹیم کو ایسا جری ٹاپ آرڈر میسر ہو جو اس تند رفتاری کے سامنے اپنے قدم چلا سکتا ہو اور گیند کی چمک ماند پڑنے تک اس یلغار کو جھیل سکتا ہو تو شاید اچھے فٹ ورک والے مڈل آرڈر بلے باز اس کا کوئی توڑ کر پائیں۔ اب تک کی کارروائی یہی واضح کرتی ہے کہ یہ ورلڈ کپ انڈیا کا ہے اور اگر باقی تین سیمی فائنلسٹس اس حقیقت کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں تو انھیں پہلے انڈیا کو ہرانا ہو گا کیونکہ جو انڈیا کو ہرا پایا، ٹرافی اس سے دور نہیں ہو گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c162r1redkeo", "summary": "کرکٹ کی دنیا میں ’میڈ میکسی‘ کے نام سے مشہور گلین میکسویل نے دکھا دیا کہ وہ نہ صرف ایک جینیئس ہیں بلکہ قابل قدر مہارت بھی رکھتے ہیں۔\n", "title": "گلین میکسویل: آسٹریلیا کے ’میڈ میکسی‘ کی ڈبل سنچری، جسے کرکٹ کی لوک داستانوں کی طرح یاد رکھا جائے گا", "firstPublished": "2023-11-08T06:33:58.837Z", "id": "c162r1redkeo", "article": "جو لوگ کرشموں اور معجزات پر یقین رکھتے ہیں انھوں نے انڈیا کے معاشی دارالحکومت ممبئی کے وانکھیڑے سٹیڈیم میں گلین میکسویل کے کھیل کی شکل میں ایک کرشمے کو انجام پذیر ہوتے دیکھا۔ میکسویل نے اس اننگز میں نہ صرف آسٹریلیا کو شکست سے بچایا بلکہ 128 گیندوں پر 201 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر تاریخ میں اپنا نام بھی درج کرایا۔ کرکٹ کی دنیا میں ’میڈ میکسی‘ کے نام سے مشہور گلین میکسویل نے دکھا دیا کہ وہ نہ صرف ایک جینیئس ہیں بلکہ قابل قدر مہارت بھی رکھتے ہیں۔ گلین میکسویل نے اگرچہ بہت کم عمر میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آسٹریلوی کرکٹ میں دھوم مچا دی لیکن وہ بین الاقوامی کرکٹ میں اس قسم کی کامیابی حاصل نہیں کر سکے لیکن وقتاً فوقتاً ان کی چنگاریاں نظر آتی رہیں جس کی وجہ سے وہ دس سال تک آسٹریلیا کی ون ڈے ٹیم میں شامل رہے۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیائے کرکٹ کو ان سے جس قسم کی بلے بازی کی توقع تھی اس کا مظاہرہ انھوں نے ممبئی کے وانکھیڑے سٹیڈیم میں انتہائی خوبصورت انداز میں کیا اور یوں لگا کہ وہ کوئی فن پارہ تخلیق کر رہے ہیں جس میں ہر طرح کے رنگ ہیں۔ وہ تیز ترین ڈبل سنچری کا ریکارڈ صرف دو گیندوں سے حاصل نہ کر سکے، انڈیا کے ایشان کشن نے یہ کارنامہ 126 گیندوں میں انجام دیا تھا جبکہ میکسویل نے 128 گیندوں کا سامنا کیا لیکن میکسویل کی ڈبل سنچری اس سے کہیں زیادہ ناگفتہ بہ حالات میں کھیلتے ہوئے بنائی گئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ نہ صرف رن لیتے ہوئے میدان میں گر پڑے بلکہ کریز پر پہنچنے کے بعد ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ شدید تکلیف کے باعث اب کھیل مزید جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ یہاں سے ان کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونا بھی مشکل تھا۔ میکسویل کو اپنے ساتھی کھلاڑیوں کا تعاون بھی ملا اور انھوں نے دماغی معالج سے سیشن بھی لیا۔ اس سب کا فائدہ ہوا اور وہ چھ ماہ بعد کرکٹ کے میدان میں واپس آئے۔ لیکن لیگ کرکٹ میں دنیا بھر کی ٹیموں میں ان کی بہت مانگ ہے۔ آئی پی ایل میں بھی وہ کروڑوں روپے میں نیلام ہوتے ہیں۔ وہ کنگز الیون پنجاب، ممبئی انڈینز اور رائل چیلنجرز بنگلور کی ٹیموں کا حصہ رہ چکے ہیں لیکن آئی پی ایل میں ان کی کوئی بھی اننگز یادگار نہیں کہی جا سکتی۔ دی کرکٹ منتھلی میں سنہ 2017 میں گلین میکسویل پر ’میڈ میکسی‘ نامی آرٹیکل میں ان لوگوں کے ساتھ بات چیت ہے جو انھیں جانتے ہیں۔ ان میں سب لوگوں نے ایک بات جو کہی وہ یہ کہ برسوں کے بعد اور ایک ہنگامہ خیز کریئر کے بعد، ایک چیز جو تبدیل نہیں ہوئی، وہ ہے میکسویل کے کھیلنے کا اپنا انداز۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/clwp29d27jeo", "summary": "اس افغان بولنگ لائن اپ اور ایسی میچ صورتحال اور ذاتی صحت کو دیکھتے ہوئے میکسویل کی یہ اننگز یقیناً ون ڈے تاریخ کی بہترین اننگز میں سے ایک گردانی جائے گی۔", "title": "میکسویل ٭201: ’میکسویل نے ایک ٹانگ پر پاکستان کی امیدوں کا بوجھ اٹھایا۔۔۔ یہ بھی قدرت کے نظام کا حصہ تھا‘", "firstPublished": "2023-11-07T17:43:47.747Z", "id": "clwp29d27jeo", "article": "اس کے بعد سے میکسویل نے جو کیا اسے ون ڈے کرکٹ کی تاریخ کی سب سے لاجواب اننگز کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ میکسویل کو نہ صرف افغانستان کے بہترین سپنرز کا سامنا کرنا تھا بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانا تھا کہ وہ آسٹریلوی بولرز کے ساتھ بیٹنگ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ سٹرائک لیں۔ جیسے ہی میکسویل کی سنچری مکمل ہوئی تو ان کی ٹانگ میں واضح طور پر تکلیف کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے۔ میچ میں کئی مرتبہ فزیو کو میدان میں آ کر میکسویل کو دوا دینی پڑی لیکن وہ ریٹائرڈ ہرٹ نہیں ہوئے میدان پر رہے اور ایک جینیئس بلے باز کی طرح صرف ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر ایسی شاٹس کھیلتے رہے جو دیکھ کر سب ہی حیرت میں مبتلا ہو گئے۔ اپنے کندھوں پر تمام ذمہ داری لیتے ہوئے میکسویل آخر تک جارحانہ انداز میں بلے بازی کرتے رہے اور اچھی گیندوں کو بھی باؤنڈری پار پہنچاتے رہے اور آخرکار اپنے آخری چھکے سے ڈبل سنچری بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس افغان بولنگ لائن اپ اور ایسی میچ صورتحال اور ذاتی صحت کو دیکھتے ہوئے میکسویل کی یہ اننگز یقیناً ون ڈے تاریخ کی بہترین اننگز میں سے ایک گردانی جائے گی۔ میکسویل نے آسٹریلیا کی مقابلے کے بغیر نہ ہارنے کی سپرٹ برقرار رکھی اور 10 چھکوں اور 24 چوکوں سے بنائی گئی ڈبل سنچری سے آسٹریلیا کو سیمی فائنل تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہاں افغانستان کے بولرز کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے جنھوں نے آسٹریلوی بیٹنگ کو اس صورتحال تک پہنچایا، اور ابراہیم زدران کے 129 ناٹ آؤٹ کی شاندار اننگز کو بھی سراہنا نہیں بھولنا چاہیے جنھوں نے آج افغانستان کے لیے ورلڈ کپ مقابلوں میں پہلی سنچری بنائی ہے۔ افغانستان نے آج ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 291 رنز بنا کر یہ یقینی بنایا تھا کہ آسٹریلیا کو اس ہدف کا تعاقب کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن پھر میکسویل ان کی راہ میں حائل ہو گئے۔ جہاں سوشل میڈیا پر میکسویل کی اس اننگز کی تعریفیں ہو رہی تھیں وہیں پاکستانی مداح بھی اس میچ کو بڑے غور سے دیکھ رہے تھے کیونکہ آج افغانستان کی فتح کی صورت میں پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی مزید مشکل ہو جاتی۔ میکسویل کی اننگز کے بارے میں بات کرتے ہوئے مظہر ارشد کا کہنا تھا کہ یہ ون ڈے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ کسی بلے باز نے دوسری اننگز میں ڈبل سنچری بنائی ہے۔ یہ ایک شاندر اننگز تھی۔ احمر نقوی نے لکھا کہ ’ہم سب نے آسٹریلیا سے ایسی شکستوں کا مزہ چکھا ہے جس میں کوئی ایک کھلاڑی کھڑے کھڑے میچ جتوا دے۔ لیکن ایسا صرف ایسی صورتحال میں کرنا جب آپ صرف اپنے ہاتھ ہی ہلا سکتے ہوں، ایک عظیم کارنامہ ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cmmp71817d1o", "summary": "انڈیا کی ٹیم اس طریقے سے آج تک کسی بھی ورلڈ کپ یا کسی اور ٹورنامنٹ میں نہیں چھائی رہی جیسا وہ اب کر رہے ہیں۔ تیز بولر ہوں، یا سپنر، اوپنر بلے باز ہوں یا مڈل آرڈر، سب نے ہی اعتماد اور بہادری سے کھیلا ہے ", "title": "کرکٹ ورلڈ کپ: انڈیا کی ’ڈریم ٹیم‘ ناقابل تسخیر کیوں؟", "firstPublished": "2023-11-07T06:09:15.741Z", "id": "cmmp71817d1o", "article": "اب تک کرکٹ ورلڈ کپ میں انڈیا کے شائقین کی توجہ کا مرکز ویراٹ کوہلی رہے ہیں۔ پہلے تو یہ سوال تھا کہ کیا انڈیا کے سٹار بلے باز سچن تندولکر کی 49 سنچریوں کا ریکارڈ برابر کر پائیں گے یا نہیں؟ پھر جب انھوں نے یہ ریکارڈ برابر کر دیا تو اب سوال ہو رہا ہے کہ اگلی اور 50ویں سنچری کب بنائیں گے؟ کپتان روہت شرما بھی یہی کر رہے ہیں لیکن اپنے بلے سے۔ وہ کھیل کا آغاز ہی جارحانہ طریقے سے کرتے ہیں اور یہ حکمت عملی اب تک خوب چلی ہے۔ جنوبی افریقہ کیخلاف اس کا شاندار مظاہرہ دیکھنے کو ملا جب پہلے پاور پلے میں انڈیا نے 91 رن بنائے۔ روہت شرما 24 گیندوں پر 40 رن بنا کر آؤٹ ہو گئے لیکن اس دوران ان کی ٹیم چھٹے اوور میں 60 رن بنا چکی تھی اور اسی لیے ویراٹ کوہلی اور شریاس کو سنبھل کر کھیلنے کا وقت ملا اور انھوں نے 134 رن جوڑے۔ انڈیا کی ٹیم اس طریقے سے آج تک کسی بھی ورلڈ کپ یا کسی اور ٹورنامنٹ میں نہیں چھائی رہی جیسا وہ اب کر رہے ہیں۔ تیز بولر ہوں، یا سپنر، اوپنر بلے باز ہوں یا مڈل آرڈر، سب نے ہی اعتماد اور بہادری سے کھیلا اور اس دوران سنچریاں بنی ہیں، بولرز نے ایک ہی میچ میں پانچ پانچ وکٹیں لی ہیں، بہترین وکٹ کیپنگ ہوئی اور عمدہ کیچ پکڑے گئے۔ کسی بھی ورلڈ کپ کے اعتبار سے اس بار انڈیا کے تیز بولر جسپریت بمرا، محمد شامی اور محمد سراج، لیفٹ آرم سپنرز کی جوڑی کے ساتھ حریف ٹیموں کو تباہ کر رہے ہیں۔ اپنے ہی گھر میں کھیلے جانے والے عالمی کپ میں اس ٹیم سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ آسٹریلیا کیخلاف میچ کو چھوڑ کر جہاں آغاز میں ہی انڈیا نے تین وکٹیں کھو دی تھیں، انڈیا کے بلے باز کسی قسم کے دباؤ کے بغیر کھیلے ہیں۔ جو لوگ کوہلی کے انجام کی باتیں کر رہے تھے اب ان کی اگلی سنچری کی توقع میں خوشی منا رہے ہیں۔ ورلڈ کپ ناک آؤٹ مرحلے تک پوری ٹیم کھیلتی ہے جس کے بعد کسی ایک کھلاڑی کی حیران کن کارکردگی کسی کے خواب کو چکنا چور کر سکتی ہے۔ 2003 کے ورلڈ کپ میں انڈیا کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے جب لگاتار آٹھ میچ جیتنے کے بعد فائنل میں آسٹریلیا سے سامنا ہوا تو صرف رکی پونٹنگ نے 121 گیندوں پر 140 رن بنا دیے جن میں آٹھ چھکے شامل تھے۔ کوئی بھی ٹیم ایسی کارکردگی کیخلاف کوئی منصوبہ نہیں بنا سکتی اور صرف دعا کر سکتی ہے کہ بلے باز خود ہی آؤٹ ہو جائے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا مشہور باکسر مائیک ٹائیسن نے کہا تھا کہ ’ہر کسی کے پاس ایک منصوبہ ہوتا ہے جب تک ان کے منھ پر مکا نہیں پڑ جاتا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czk245nxe1ro", "summary": "آئی سی سی مینز ورلڈ کپ کے میچ میں اپنی حریف ٹیم کے ’چھکے چھڑانے‘ کے ارادے سے میدان میں اترنے والے سری لنکن کھلاڑی اینجلو میتھیو انٹرنیشنل کرکٹ میں ’ٹائم آؤٹ‘ ہونے والے پہلے کھلاڑی بن گئے ہیں۔", "title": "اینجلو میتھیوز ’ٹائمڈ آؤٹ‘: سری لنکن بلے باز نے کس طرح کرکٹ ورلڈ کپ کی ناپسندیدہ تاریخ اپنے نام کی", "firstPublished": "2023-11-06T15:45:47.215Z", "id": "czk245nxe1ro", "article": "سری لنکا اور بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان میچ جاری ہے اور جگہ ہے دلی کا ارون جیٹلی کرکٹ گراؤنڈ۔ اسی دوران کیمرہ دکھاتا ہے کہ 35 سالہ سری لنکن بلے باز اینجلومیتھیوز بغیر کھیلے اپنا ٹوٹا ہوا ہیلمٹ کچرے کے ڈبے میں پھینکتے ہوئے میدان سے باہر جا رہے ہیں۔ اور کمنٹری میں بتایا جا رہا ہے کہ اینجلومیتھیوز کو ’ٹائمڈ آؤٹ‘ کر دیا گیا ہے۔ اور یوں کرکٹ ورلڈ کپ کے میچ میں اپنی حریف ٹیم کے ’چھکے چھڑانے‘ کے ارادے سے میدان میں اترنے والے سری لنکن کھلاڑی اینجلومیتھیوز انٹرنیشنل کرکٹ میں ’ٹائمڈ آؤٹ‘ ہونے والے پہلے کھلاڑی بن گئے۔ کرکٹ ورلڈ کپ کا ہر میچ ہی یوں تو شائقین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتا ہے تاہم چھ نومبر کو دہلی کے ارون جیٹلی کرکٹ گراؤنڈ میں بین الاقوامی کرکٹ کی تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ پیش آیا۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے میچ میں سری لنکن آل راؤنڈر اور سابق کپتان اینجلومیتھیوز، سمارا ویریا وکرما کی وکٹ گرنے پر کریز پر آئے لیکن جب وہ آئی سی سی کے رولز کے مطابق دو منٹ کے اندر کھیل کے لیے تیار نہ ہو سکے تو انھیں ’ٹائمڈ آؤٹ‘ کر دیا گیا اور یوں وہ میدان سے کھیلے بغیر ہی واپس لوٹ گئے۔ آئی سی سی رول بُک کی شق 40.1.1 کے مطابق ایک بلے باز کے آؤٹ یا ریٹائر ہونے کے بعد ٹیم کے اگلے بیٹسمین کو تین منٹ کے اندر اندر وکٹ پر پہنچ پر اگلی گیند کھیلنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوتا ہے، اور اگر کوئی پلیئرایسا کرنے میں ناکام رہے تو سے ’ٹائمڈ آؤٹ‘ کے اس قانون کے تحت آؤٹ قرار دے کر باہر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم انڈیا میں جاری ورلڈ کپ کے رائج قوانین کے مطابق اس وقت کو گھٹا کر تین منٹ سے دو منٹ کر دیا گیا ہے۔ واپس آتے ہیں ارون جیٹلی کرکٹ گراؤنڈ میں جہاں کیمرہ دکھاتا ہے کہ جب سدیرا سمارا وکرما کے آؤٹ ہونے کے بعد سری لنکا کے 35 سالہ اینجلو میتھیوز کھیلنے کے لیے میدان میں آئے تو ہیلمٹ ٹھیک کرنے کے دوران ان کو اندازہ ہوا کہ وہ فکس نہیں ہو پا رہا۔ اسی کوشش میں ان کے ہاتھوں ہیلٹ کا سٹرپ ٹوٹ گیا تووہ اپنا ٹوٹا ہوا ہیلمٹ ہاتھ میں لیے پہلے بنگلہ دیش کے کپتان شکیب الحسن سے بات کرتے دکھائی دیے۔ میتھیوز انٹرنیشنل کرکٹ کے دوران ٹائم آؤٹ ہونے والے پہلے کھلاڑی ہیں لیکن فرسٹ کلاس کرکٹ اس کے طرح کے واقعات پیش آ چکے ہیں اور چھ کھلاڑی ٹائم آؤٹ ہو چکے ہیں۔ کئی صارفین نے ان لمحات کے سکرین شاٹ بنا کر شیئر کیے جب میتھیوز کو اپنے حریف ٹیم کی کپتان سے اپیل کرتے اور نفی میں جواب پاتے دکھایا گیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c282k118dwjo", "summary": "ایک زمانے میں انھیں ان کے جارحانہ رویے کی وجہ سے ’بیڈ بوائے‘ کہا جاتا تھا لیکن ویراٹ نے اب نہ صرف انڈین شائقین بلکہ پوری دنیا کے کرکٹ شائقین کے دلوں میں اپنے لیے ایک منفرد مقام بنا لیا ہے۔", "title": "کوہلی کی 49 سنچریوں کا ریکارڈ: جب سچن تندولکر نے خود کہا کہ ویراٹ ان کا ریکارڈ توڑیں گے ", "firstPublished": "2023-11-06T05:16:50.196Z", "id": "c282k118dwjo", "article": "ایک زمانے میں انھیں ان کے جارحانہ رویے کی وجہ سے ’بیڈ بوائے‘ کہا جاتا تھا لیکن ویراٹ نے اب نہ صرف انڈین شائقین بلکہ پوری دنیا کے کرکٹ شائقین کے دلوں میں اپنے لیے ایک منفرد مقام بنا لیا ہے۔ ویراٹ کے لیے یہ ایک بڑا دھچکہ تھا کیونکہ ان کے والد نے بھی ان کے کرکٹ سفر میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اچانک وہ دنیا سے چلے گئے اور اس وقت ویراٹ انھیں الوداع کہنے کے لیے بھی نہیں تھے لیکن ویراٹ اس وقت بھی مضبوط رہے۔ ویراٹ کی اپنے کھیل میں مستقل مزاجی اور رنز بنانے کے جذبے نے انھیں سچن تندولکر کے برابر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ ویراٹ کو اکثر عالمی کرکٹ میں اگلے ’سچن‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ویراٹ نے خود سچن تندولکر سے رہنمائی حاصل کی۔ آسٹریلیا میں سنہ 2011-12 کی سیریز میں اگرچہ ٹیم انڈیا بری طرح سے ہار گئی تھی لیکن ویراٹ کے لیے یہ قابل ذکر تھی کیونکہ انھوں نے اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری اسی سیریز کے دوران سکور کی، جو ان کے کیریئر میں ایک سنگ میل ثابت ہوئی۔ لیکن ’بہتر کھیل‘ کے ان کے مضبوط عزم کو نہ صرف نوجوان انڈین شائقین نے پسند کیا بلکہ انھیں دنیا بھر کے نوجوانوں نے بھی خطرہ محسوس کیا۔ ان کی محنت کے لیے لگن اور ’جذبے سے کھیلنے‘ کے رویے نے آسٹریلوی کرکٹ شائقین کو متاثر کیا اور ساتھ ہی آسٹریلوی عوام میں ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ ان خوبیوں نے ویراٹ کو انڈین کرکٹ میں ایک خاص مقام دلایا اور وہ دھونی کی ریٹائرمنٹ کے بعد کپتانی کی ذمہ داری بھی نبھا چکے ہیں مگر کرکٹ ٹیم کی کپتانی ان کے کیرئیر کے لیے کچھ مشکل ثابت ہوئی۔ سال 2021-22 ویراٹ کوہلی کے لیے ایک مشکل دور لے کر آیا۔ ان کا بلا، جو آسانی سے رنز بنانے کے لیے جانا جاتا ہے، اپنا جادو کھوتا دکھائی دے رہا تھا۔ کرکٹ کھیلنے کی مسلسل محنت نے انھیں تھکا دیا تھا۔ ان کی جدوجہد ان کی بلے بازی کی کارکردگی سے عیاں تھی۔ لیکن یہ واپسی آسان نہیں تھی۔ 2022 میں سٹار سپورٹس کو انٹرویو دیتے ہوئے ویراٹ نے انکشاف کیا تھا کہ ’میں نے تقریباً ایک ماہ تک اپنا بیٹ نہیں اٹھایا۔ پچھلے دس سال میں پہلی بار ایسا ہو رہا تھا۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ یہ سب سطحی ہے۔ میں مسلسل اپنے آپ سے کہہ رہا تھا کہ میرے پاس صلاحیت ہے، مجھ میں صلاحیت ہے۔ میرا ذہن مجھے آگے بڑھنے کو کہہ رہا تھا، اسی وقت میرا جسم مشورہ دے رہا تھا کہ مجھے آرام کرنا چاہیے۔ اسے آرام کی ضرورت ہے۔ مجھے وقفہ چاہیے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgrp2pr2xn4o", "summary": "گو، بادی النظر میں پاکستانی شائقین اس فتح کو قدرت کے نظام کی کاریگری سے تعبیر کر سکتے ہیں مگر درحقیقت یہ فخر زمان کی کاریگری تھی جو کیوی اٹیک کی کم مائیگی اور ولیمسن جیسے ذہین کپتان کی منصوبہ سازی پہ یکسر بھاری پڑ گئی۔", "title": "’یہ قدرت کا نہیں، فخر کا نظام تھا‘: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-11-05T04:36:09.344Z", "id": "cgrp2pr2xn4o", "article": "دونوں ہی چالیں اپنے تئیں یوں غلط ثابت ہوئیں کہ یکے بعد دیگرے حارث رؤف اور شاہین آفریدی نے ورلڈ کپ کے بدترین اعدادوشمار اپنے نام کئے۔ دوسری جانب تیسرے پیسر سے محروم کین ولیمسن کو جب فخر زمان کی یلغار سے پالا پڑا تو وہ بھی دھند میں ٹامک ٹوئیاں مارتے نظر آئے۔ بنگلورو کی یہ پچ رنز سے بھرپور تھی، گھاس نام کو نہ تھی اور یہاں کسی سپیشلسٹ سپنر کے بغیر میدان میں اترنا بہت بڑی حماقت تھی۔ مگر کیویز نے یہاں پاکستان سے بھی بڑی حماقت کر ڈالی اور تیسرے سیمر کو الیون میں شامل کرنا ضروری خیال نہ کیا۔ ٹاس جیت کر کیویز کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دینے کا فیصلہ گو پچ کے لحاظ سے ایسا دانشمندانہ نہیں تھا مگر یہ بصیرت بہرحال اس میں تھی کہ ہدف کے تعاقب کے ہنگام اگر بارش ہو گئی تو بیٹنگ ٹیم کے لیے ترجیحات زیادہ واضح رہنے کا امکان ہوا کرتا ہے۔ یہ بھی طے کرنا دشوار ہے کہ پہلے پاور پلے میں پاکستانی بولنگ زیادہ احمقانہ تھی یا کیوی بولنگ۔ شاہین آفریدی کبھی لیگ سٹمپ کے باہر بھٹکتے پائے گئے تو کبھی آف سٹمپ سے پرے کھوئے کھوئے سے دکھائی دیے۔ کیوی بیٹنگ نے پاکستانی بولنگ کی غلطیوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور رچن رویندرا نے اپنے مختصر ترین کرئیر کی تیسری سینچری داغ ڈالی۔ ولیمسن بھی طویل غیر حاضری کے بعد ٹیم میں واپس آئے اور اپنی موجودگی سے اس بیٹنگ لائن کو تقویت فراہم کی جو جنوبی افریقی بولنگ مہارت کے سامنے بری طرح آشکار ہوئی تھی۔ یہ ہدف تقریباً ناقابلِ تسخیر تھا اگر کیوی اٹیک کو ساؤدی اور بولٹ کے سوا کوئی تیسرا باقاعدہ سیمر مہیا ہوتا۔ مگر جو بولنگ وسائل ولیمسن کو دستیاب تھے، ان کو بھی دانشمندی سے استعمال کر جاتے تو بھی شاید یہ فتح پاکستان کے حصے نہ آ پاتی۔ مگر جہاں فخر زمان بارش کے منڈلاتے خطرے اور ڈک ورتھ لوئیس کے تقاضوں سے پوری طرح آگاہ تھے، وہیں ولیمسن اس سارے حساب کتاب سے یکسر غافل نظر آئے۔ جہاں وکٹ میں بولرز کے لیے ذرہ بھر تائید نہ تھی اور ٹرینٹ بولٹ کو بھی فخر زمان آڑے ہاتھوں لے رہے تھے، وہاں اگر ولیمسن گلین فلپس کو دو اوورز آزمانے کے بعد ڈیرل مچل کے سست میڈیم پیس کٹرز کی طرف رجوع کرتے تو شاید کوئی بچت کی سبیل بن بھی پاتی۔ مگر اپنے کم بیک کے بعد فخر زمان جس دھواں دھار فارم میں ہیں، وہاں شاید کوئی بہترین بولر بھی ان کا رستہ روکنے کو کم پڑ جاتا۔ جس درستی اور برق رفتاری سے فخر کا بلا اور قدم متحرک ہوئے، وہاں اگر بارش نہ بھی برستی تو جیت پاکستان ہی کا مقدر ٹھہرتی۔ گو، بادی النظر میں پاکستانی شائقین اس فتح کو قدرت کے نظام کی کاری گری سے تعبیر کر سکتے ہیں مگر درحقیقت یہ فخر زمان کی کاریگری تھی جو کیوی اٹیک کی کم مائیگی اور ولیمسن جیسے ذہین کپتان کی منصوبہ سازی پہ یکسر بھاری پڑ گئی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjj8jg83g3go", "summary": "پاکستان ٹیم نے سنیچر کو نیوزی لینڈ کے خلاف انتہائی غیر معمولی انداز میں میچ جیت کر ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک پہنچنے کی امیدوں کو برقرار رکھا ہے۔ ", "title": "کرکٹ ورلڈ کپ: نیوزی لینڈ کو شکست دینے کے بعد پاکستان ٹیم سیمی فائنل کی دوڑ میں اس وقت کہاں کھڑی ہے", "firstPublished": "2023-11-01T10:17:26.617Z", "id": "cjj8jg83g3go", "article": "پاکستان ٹیم نے سنیچر کو نیوزی لینڈ کے خلاف انتہائی غیر معمولی انداز میں میچ جیت کر ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک پہنچنے کی امیدوں کو برقرار رکھا ہے۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے 402 رنز کے ہدف کے تعاقب میں فخر زمان کی جارحانہ اور بابر اعظم کی ذمہ دارانہ اننگز کی بدولت بارش کے باعث محدود ہونے والے میچ میں پاکستان نے ڈی ایل ایس میتھڈ کے تحت میچ 21 رنز سے جیت لیا۔ یہ یقیناً ایک غیر معمولی فتح تھی جس کے بارے میں آئندہ کئی سالوں تک بات ہوتی رہے گی لیکن اس کے باوجود پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات اب بھی دوسرے میچوں کے نتائج پر منحصر ہیں۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ نے آٹھ، آٹھ میچ کھیل رکھے ہیں اور دونوں ہی ٹیموں نے اب اپنا آخری میچ کھیلنا ہے۔ نیوزی کا سری لنکا کے ساتھ میچ نو نومبر کو بینگلورو میں ہی کھیلا جائے گا۔ جبکہ پاکستان کا مقابلہ انگلینڈ سے 11 نومبر کو کولکتہ میں ہو گا۔ ایسے میں اگر افغانستان دو میں سے ایک میچ بھی ہارتا ہے اور 10 پوائنٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو اسے پاکستان اور نیوزی لینڈ کی فتوحات کی صورت میں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ اس کا نیٹ رن ریٹ دونوں ٹیموں سے بہتر ہے۔ یعنی اسے جنوبی افریقہ یا آسٹریلیا کے بڑے مارجن سے فتح حاصل کرنی ہو گی۔ اگر افغانستان اپنے دونوں میچ جیتنے میں کامیاب ہو جائے تو وہ سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر جائے گا۔ ایک میچ جیتنے کی صورت میں یا تو اسے اپنا نیٹ رن ریٹ مثبت کرنا ہو گا یا پھر یہ امید کرنی ہو گی کہ پاکستان اور نیوزی لینڈ اپنے میچ ہار جائیں۔ دوسری جانب نیوزی لینڈ تاحال اپنے نیٹ رن ریٹ کے باعث قدرے بہتر پوزیشن پر ہے۔ اگر نیوزی لینڈ سری لنکا کو نو نومبر کو شکست دے دیتا ہے تو پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف بڑے مارجن سے فتح حاصل کرنی ہو گی۔ اس کی مثال کرکٹ تجزیہ کار اور اعدادوشمار کے حوالے سے مہارت رکھنے والے صحافی مظہر ارشد اس طرح دیتے ہیں کہ اگر نیوزی لینڈ نے سری لنکا کو پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 300 رنز بنا کر ایک رن سے شکست دی تو پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف میچ میں لگ بھگ 130 رنز سے فتح حاصل کرنی ہو گی۔ اگر نیوزی لینڈ اور سری لنکا کا میچ بارش کے باعث نہ ہو سکا تو پاکستان کو افغانستان کی شکستوں کی امید رکھنے کے ساتھ انگلینڈ کو ہرانا ہو گا۔ پاکستانی مداح آئندہ ہفتہ افغانستان کے دونوں میچوں کے علاوہ نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے سب سے اہم میچ پر نظریں جمائے رکھیں گے۔ ساتھ ہی انھیں یہ امید بھی کرنی ہو گی کہ پاکستان انگلینڈ کے خلاف اپنا میچ جیت جائے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw52xk0ql63o", "summary": "نیوزی لینڈ کے خلاف ورلڈ کپ کے انتہائی اہم میچ میں بنگلورو میں بارش ایک مرتبہ پھر پاکستان پر مہربان ہو گئی اور پہلے ہی بارش کے باعث محدود ہونے والے میچ میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے تحت 21 رنز سے شکست دے دی ہے۔", "title": "’قدرت کا نظام‘ پاکستان پر مہربان، نیوزی لینڈ کو 21 رنز سے شکست: بنگلورو کے آسمان پر منڈلاتے بادلوں تلے فخر زمان کے چھکوں کی برسات", "firstPublished": "2023-11-04T09:18:13.341Z", "id": "cw52xk0ql63o", "article": "بنگلورو کے ایم چناسوامی سٹیڈیم میں آج پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلے گئے انتہائی اہم میچ میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا جسے پاکستانی مداحوں کی جانب سے ’قدرت کا نظام‘ کہا جا رہا ہے۔ بارش کے باعث محدود ہونے والے میچ میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے تحت 21 رنز سے شکست دے کر سیمی فائنل میں جانے کی امیدیں برقرار رکھی ہیں۔ دونوں پاکستانی بلے بازوں نے ہدف کو ذہن میں رکھا اور جارحانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو فتح تک برتری میں رکھنے میں کامیاب رہے اور پھر جب آخری مرتبہ بارش کے باعث میچ روکنا پڑا تو پاکستان ڈی ایل ایس پار سکور سے 21 رنز آگے تھا۔ اس میچ کی خوبصورتی یہ تھی کہ پہلی اننگز کے اختتام پر کسی کے گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ پاکستان اس ہدف کا تعاقب کرنے میں کامیاب ہو پائے گا اور پھر کچھ فخر زمان کی جارحانہ بیٹنگ، بابر اعظم کی ذمہ دارانہ اننگز اور کچھ ’قدرت کے نظام‘ کے باعث پاکستان یہ میچ 21 رنز سے جیتنے میں کامیاب ہو گیا۔ فخر اس سے قبل ایشیا کپ میں انتہائی بری فارم میں دکھائی دے رہے تھے اور ورلڈ کپ کے وارم اپ میچز کے ساتھ ساتھ نیدرلینڈز کے خلاف پاکستان کے پہلے میچ میں بھی فخر کچھ خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے تھے۔ پاکستان کو اسی وجہ سے ان کی جگہ عبداللہ شفیق کو ٹیم میں شامل کرنا پڑا تھا۔ تاہم امام الحق کی ورلڈ کپ کے دوران ناقص پرفارمنس اور پاکستان ٹیم مینجمنٹ کے مطابق فخر کو ہونے والی گھٹنے کی انجری کے باعث انھیں بنگلہ دیش کے خلاف میچ تک نہیں کھلایا جا سکا۔ ان کے اس بیان کے بعد ان پر خاصی تنقید ہوئی تھی تاہم جب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 میں پاکستان کی ٹیم ایک موقع پر خاصی مشکل صورتحال میں تھی اور اس کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے نیدرلینڈز کا جنوبی افریقہ کو شکست دینا ضروری تھا تو ایڈیلیڈ کے میدان پر ایسا ہی ہوا اور پاکستان بنگلہ دیش کے خلاف فتح حاصل کر کے سیمی فائنل اور پھر فائنل میں پہنچ گئی۔ اس کے بعد سے یہ اصطلاح پاکستانی مداحوں میں خاصی مشہور ہے۔ یہ سب عوامل اور اگر مگر کی گیم پاکستان کے تقریباً ہر ٹورنامنٹ مہم کا خاصا رہی ہے۔ پاکستان کو اس ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے اب بھی سری لنکا بمقابلہ نیوزی لینڈ میچ پر نظریں رکھنی ہوں گی اور اس میچ میں نیوزی لینڈ کی شکست اور پاکستان کی انگلینڈ کے خلاف جیت پاکستان کو سیمی فائنل تک رسائی دینے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان کی ٹیم کو کم از کم ایک میچ ہارنا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c889ed8eyg9o", "summary": "انڈین فاسٹ بولر محمد شامی نے رواں ورلڈ کپ میں دو بار پانچ وکٹیں لے کر جہاں اپنی اہمیت واضح کی ہے وہیں وہ انڈیا کی جانب سے ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ 45 وکٹ لینے والے بولر بھی بن گئے ہیں۔", "title": "ورلڈ کپ میں انڈیا کے لیے سب سے زیادہ وکٹس لینے والے محمد شامی جن کے لیے 22 گز سے لمبی ہر جگہ ’پچ‘ ہوتی ہے", "firstPublished": "2023-11-04T06:10:11.875Z", "id": "c889ed8eyg9o", "article": "انڈین فاسٹ بولر محمد شامی نے رواں ورلڈ کپ میں دو بار پانچ وکٹیں لے کر جہاں اپنی اہمیت واضح کی ہے وہیں وہ انڈیا کی جانب سے ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ 45 وکٹ لینے والے بولر بھی بن گئے ہیں۔ محمد شامی نے رواں ورلڈ کپ کے صرف تین میچوں میں شرکت کی ہے اور ابھی تک 14 وکٹیں لے چکے ہیں۔ اس سے قبل سنہ 2019 کے ورلڈ کپ میں انھوں نے صرف چار میچز کھیلے تھے اور انھوں نے 14 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ ان کے ہاں پانچ بیٹے پیدا ہوئے اور انھوں نے سب کو تیز گیند باز بنانے کی کوشش کی لیکن انھیں اپنے بیٹے محمد شامی میں وہ چنگاری نظر آئی جو کبھی خود ان میں ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ وہ اسے 15 سال کی عمر میں قریبی شہر مراد آباد کے معروف کرکٹ کوچ بدرالدین صدیق کے پاس لے کر پہنچے اور انھیں اپنی شاگردی میں لینے کی درخواست کی۔ شامی کے والد توصیف علی اب حیات نہیں۔ بی بی سی کے نمائندے دلنواز پاشا نے سنہ 2016 میں ان کے والد سے ملاقات کی تھی تو انھوں نے بتایا تھا کہ جب وہ اپنے بیٹے کو ٹی سکرین پر وکٹ لے کر اچھلتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ وہ شامی کو لے کر اس وقت کے انڈیا کے کپتان سورو گنگولی کے پاس لے گئے اور شامی نے جب نیٹس میں گنگولی کو بولنگ کی تو وہ ان سے متاثر ہوئے اور انھیں مغربی بنگال کی رنجی ٹیم کے لیے موزوں قرار دیا اور اس طرح محمد شامی بنگال کی ٹیم کا حصہ بنے۔ اپنے پہلے ورلڈ کپ یعنی سنہ 2014-15 کے دوران انھوں نے سات میچوں میں 17 وکٹیں لی تھیں پھر سنہ 2019 کے ورلڈ کپ میں چار میچوں میں 14 وکٹیں اور پھر رواں ورلڈ کپ کے تین میچوں میں انھوں نے 14 وکٹیں لے کر ظہیر خان اور جواگل سریناتھ کے انڈیا کی جانب سے ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ 44 وکٹیں لینے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ ’وہ محمد شامی ہے۔ انڈین کرکٹر ہے۔ اس کے لیے میرا احترام اور بڑھ گیا ہے۔ پچھلے 4 سالوں میں انھیں اپنی بیوی کی طرف سے جھوٹے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنی بیٹی کے بیمار ہونے پر بھی اس سے نہیں مل سکے۔ بی جے پی کے حامیوں نے سٹیڈیم میں مذہبی نعرے لگاتے ہوئے ان کے ساتھ بدتمیزی کی اور پھر انھیں 4 میچوں میں ٹیم سے باہر رکھا گیا۔‘ شامی کا ریکارڈ ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ نمایاں رہا ہے اور جس رفتار سے وہ وکٹیں لے رہے ہیں وہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ ابھی وہ ورلڈ کپ میں آل ٹائم سب سے زیادہ وکٹیں لینے والوں میں آٹھویں نمبر پر ہیں لیکن 20 سے زیادہ وکٹیں لینے والوں میں ان کا اوسط سب سے بہتر ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyd2ppdm7n2o", "summary": "کپل دیو کہا کرتے تھے کہ اگر آپ اچھی کرکٹ کھیلیں تو یہ آپ کے بہت سے عیبوں کو چھپا سکتی ہے۔ لیکن فی الوقت پاکستان ورلڈ کپ میں جس مقام پر ہے، وہاں اب صرف اچھی کرکٹ ہی عیب چھپانے کو کافی نہیں ہے۔", "title": "اب صرف اچھی کرکٹ ہی کافی نہیں: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-11-03T12:28:31.066Z", "id": "cyd2ppdm7n2o", "article": "کپل دیو کہا کرتے تھے کہ اگر آپ اچھی کرکٹ کھیلیں تو یہ آپ کے بہت سے عیبوں کو چھپا سکتی ہے۔ لیکن فی الوقت پاکستان ورلڈ کپ میں جس مقام پر ہے، وہاں اب صرف اچھی کرکٹ ہی عیب چھپانے کو کافی نہیں ہے۔ پاکستان کے امکانات کا دارومدار اب بہترین کرکٹ کے علاوہ بہت زیادہ قسمت پر بھی ہے۔ ماضی کے کئی آئی سی سی ٹورنامنٹس میں پاکستان کی قسمت عین مواقع پر جاگتی رہی ہے اور حالیہ ورلڈ کپ میں بھی معاملہ کچھ کچھ اسی سمت بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ نیوزی لینڈ کا نیٹ رن ریٹ جہاں پر تھا، وہاں سے پاکستان کے امکانات وا ہونے کو کیویز کی ایک بھاری شکست لازم تھی۔ اور پھر قسمت کی خوبی دیکھیے کہ آسٹریلیا کے خلاف پونے چار سو رنز کے تعاقب میں عین قریب آ جانے والی کیوی بیٹنگ جنوبی افریقی بولنگ کے ہاتھوں مضحکہ خیز بن کر رہ گئی۔ سو، اب جہاں ارد گرد کے نتائج عین پاکستان کی توقعات پر پورا اتر رہے ہیں، وہاں یہ ضروری ہے کہ پاکستان سیمی فائنل تک رسائی کے لیے کیویز کو بڑے مارجن سے ڈھیر کرے، جس کے لیے صرف اچھی کرکٹ کافی نہ ہو گی بلکہ بہترین سے بھی بہتر کھیل کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ جیمیسن اگرچہ گزشتہ دورۂ نیوزی لینڈ پر ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے لیے بھیانک خواب ثابت ہو چکے ہیں مگر ون ڈے کرکٹ بہرحال ایک مختلف کھیل ہے اور یوں اچانک سکواڈ میں آمد پر وہ کس حد تک متاثر کن ہوں گے، یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن اگر کیوی تھنک ٹینک بہرطور لوکی فرگوسن پر ترجیح دے کر جیمیسن کو الیون میں شامل کرتا ہے تو ان کی طویل قامت اور غیر متوقع باؤنس پاکستانی بلے بازوں کے لیے ایک سرپرائز فیکٹر ضرور ثابت ہو سکتا ہے جس سے محتاط رہنا ہو گا۔ پاکستان نے اب تک کے اپنے سفر میں گاہے بگاہے جو تبدیلیاں کی ہیں، ان کے بعد یہ ایک متوازن الیون ہے۔ ٹاپ آرڈر میں فخر زمان کی واپسی سے ابتدائی اوورز کا کھیل مضبوط ہوا ہے جبکہ پیس اٹیک میں محمد وسیم کی شمولیت کے نتائج سبھی کے لیے حیرت کا باعث ہیں کہ وہ پہلے اپنی منیجمنٹ کا اعتماد کیوں نہیں حاصل کر پائے؟ دھیمے سے رن اپ اور غیر پیچیدہ بولنگ ایکشن کے ساتھ ناصرف محمد وسیم بآسانی 140 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ کی رفتار پیدا کرتے ہیں بلکہ بہترین لینتھ کو ہٹ کرنے میں ان کا ڈسپلن بھی اپنے دیگر ساتھیوں سے بہتر دکھائی دیتا ہے۔ دیگر ٹیموں کے نتائج کو کنٹرول کرنا تو اب پاکستان کے ہاتھ میں نہیں ہے مگر جو پاکستان کے اختیار میں ہے، وہ پاکستان کو ضرور کرنا ہو گا۔ اور وہ صرف اچھی کرکٹ کھیلنا نہیں بلکہ بہترین کرکٹ کھیلنا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c517ypzpwq0o", "summary": "دفاعی چیمپئین انگلینڈ ٹورنامنٹ کے آغاز سے بہت پہلے ہی نہ صرف سیمی فائنل بلکہ فائنل تک کے لیے فیورٹ قرار دی جا رہی تھی مگر جو خلجان انگلش کیمپ پر طاری رہا، اس سے خود انگلینڈ ہی نہیں، دیگر ٹیمیں بھی مبہوت سی ہو گئیں۔ ", "title": "ون ڈے کرکٹ کو آئی پی ایل نہ سمجھیے: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-11-02T11:26:46.875Z", "id": "c517ypzpwq0o", "article": "دفاعی چیمپیئن انگلینڈ ٹورنامنٹ کے آغاز سے بہت پہلے ہی نہ صرف سیمی فائنل بلکہ فائنل تک کے لیے فیورٹ قرار دی جا رہی تھی مگر جو خلجان انگلش کیمپ پر طاری رہا، اس سے خود انگلینڈ ہی نہیں، دیگر ٹیمیں بھی مبہوت سی ہو گئیں۔ لکھنؤ میں ٹاس جیت کر بٹلر نے پہلے بولنگ کا فیصلہ اس لیے کیا کہ آئی پی ایل میں عموماً یہ گراؤنڈ اہداف کے تعاقب کے لیے موزوں رہا ہے مگر یہ فیصلہ بھی انگلش فتوحات کا سلسلہ بحال نہ کر پایا کیونکہ ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کے پیرامیٹرز بہرحال آئی پی ایل سے کہیں مختلف ہیں۔ ایسی ہی ایک اور غلط فہمی یہاں اوس کے حوالے سے بھی غالب رہی ہے۔ کچھ کپتان محض اس بنیاد پر شدید گرمی میں بھی پہلے بولنگ کر کے اپنے پیسرز کو جوکھم میں ڈالتے رہے کہ دوسری اننگز میں اوس کے سبب گیند پر گرفت رکھنا دشوار ہو گی اور بلے بازی آسان ہو جائے گی۔ مگر اس خلجان کے ہنگام بھی بہرحال گاہے بگاہے بہت دلچسپ کرکٹ دیکھنے کو ملی۔ سری لنکن بولنگ نے جہاں انگلش بیٹنگ کا ٹھٹھہ اڑا چھوڑا تو وہیں افغان بولنگ سری لنکن بلے بازی پر بھاری پڑ گئی اور پھر ایڈن گارڈنز میں نیدرلینڈز نے بنگلہ دیش کو شکست دے کر ایک اور ٹیسٹ ٹیم کے خلاف ریکارڈ کامیابی بٹوری۔ نیدرلینڈز چونکہ ایسوسی ایٹ لیول سے کوالیفائی کر کے آئی تھی، سو بہت کم توقعات اس سے جڑی تھیں مگر آسٹریلیا کے سوا ان کی بولنگ تقریباً ہر ٹیم کے لیے ایک کڑا امتحان رہی ہے۔ سکاٹ ایڈورڈز کی کپتانی بھی ایسی مثبت جارحیت سے لبریز ہے کہ جاس بٹلر، پیٹ کمنز اور بابر اعظم جیسوں کو بھی ان سے سیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ نیدرلینڈز اگر اپنے باقی ماندہ میچز میں سے ایک بھی جیت پائے تو اس کے لیے، دو برس بعد، پاکستان کی میزبانی میں چیمپیئنز ٹرافی کھیلنا بعید از امکان نہیں ہو گا۔ یہ بجائے خود ڈچ کرکٹ کے لیے ایک بہت بڑا سنگِ میل ہو گا۔ اور اگر نیدرلینڈز کوالیفائی کر جاتی ہے تو اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ انگلینڈ بھی ممکنہ طور پر چیمپیئنز ٹرافی میں شرکت سے محروم رہ جائے گی۔ ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کرکٹ کی دفاعی چیمپیئین ٹیم کے لیے یہ ایک ایسا جھٹکا ہو گا جو ٹیم الیون اور منیجمنٹ میں سے کئی گردنوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اور جہاں نسیم شاہ کی انجری سے پہلے پاکستانی پیس اٹیک دنیا کا مضبوط ترین بولنگ یونٹ قرار دیا جا رہا تھا، وہاں بمراہ کی واپسی کے بعد محمد سراج اور شامی کے ہمراہ ان کا اٹیک اس دعوے کو چیلنج کر رہا ہے۔ ساتھ ہی مارکو یئنسن، کگیسو ربادا اور جیرلڈ کوئٹزی کا جوڑ بھی اس دعوے کی دوڑ سے دور نہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ck7w78pj4l7o", "summary": "یہ جیت اگرچہ بہت دیر سے آئی اور شاید ورلڈ کپ کے سیاق و سباق میں اس قدر سودمند بھی ثابت نہ ہو پائے مگر جس دباؤ کا شکار بابر اعظم پچھلے دو ہفتوں میں رہے ہیں، ان کے لیے بہرحال یہ ایک تازہ سانس سی فرحت بخش ہو گی۔", "title": "’شاہین نے پاکستان کا فخر بحال کر دیا‘: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-11-01T02:49:18.192Z", "id": "ck7w78pj4l7o", "article": "اگرچہ سیمی فائنل تک پاکستان کی رسائی کے رستے ابھی بھی ان گنت اگر مگر سے اٹے پڑے ہیں مگر مسلسل چار میچز گنوانے کے بعد اس جیت نے پاکستان کو کچھ بھرم بحال کرنے کا موقع فراہم کیا اور امیدوں کو یکسر بجھنے سے بچا لیا۔ بنگلہ دیشی کپتان شکیب الحسن تو خود ہی دو روز پہلے واضح کر چکے تھے کہ حالیہ ورلڈ کپ ان کی تاریخ کی بدترین مہم جوئی ثابت ہوئی ہے اور اگرچہ سیمی فائنل کی دوڑ لاحاصل ہو چکی تھی مگر چیمپیئنز ٹرافی تک رسائی ابھی بھی کچھ نہ کچھ مقصدیت کا جواز تھی۔ محمود اللہ اور لٹن داس کی ساجھے داری وہ لمحہ تھا کہ جہاں ناصرف بنگلہ دیش کا یہ ڈراؤنا سپنا ختم ہو سکتا تھا بلکہ چیمپیئنز ٹرافی کی کوالیفکیشن کے امکانات بھی روشن ہو سکتے تھے۔ لیکن لٹن داس حسبِ ماضی اچھے آغاز کو بہتر انجام میں بدلنے سے قاصر رہ گئے۔ شاہین آفریدی کا یہ بہترین دن تھا۔ پہلی ہی گیند سے انھوں نے نہ صرف وکٹ کی چال بھانپ لی بلکہ اپنی لینتھ میں بھی وہ ڈسپلن پیدا کیا کہ حریف ٹاپ آرڈر جائے رفتن نہ پائے ماندن کی تصویر بن کر رہ گیا۔ اور شاہین کا بہترین واپس آتے ہی پاکستانی فیلڈنگ میں بھی کھویا ہوا اعتماد لوٹ آیا۔ اور پھر میڈیا کے محاذ پر جاری مارا ماری نے پاکستان کی آن فیلڈ کاوشوں سے بڑھ کر آف فیلڈ چہ میگوئیوں کا بازار گرما رکھا تھا۔ اس ہاہاکار کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ انضمام الحق 'مفادات کے ٹکراؤ' کے پے در پے الزامات پر اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ فخر زمان ایک ایسے کھلاڑی ہیں کہ اگر اپنی روانی میں آ جائیں تو کسی بھی حریف کا قصہ تمام کر دیتے ہیں۔ گو ابتدا میں وہ قدرے محتاط رہتے ہیں مگر جونہی پچ کی چال سے ہم آہنگ ہو جائیں، اس کے بعد انھیں روکنا بہت محال رہتا ہے۔ یہاں شاہین نے پاور پلے میں جو دام بنگلہ دیشی بیٹنگ کے لیے بچھایا، اسی کی فراہم کردہ تقویت سے فخر نے بنگلہ دیشی بولنگ پر یوں حملہ کیا کہ شکیب الحسن بوکھلا کر رہ گئے۔ بحیثیتِ مجموعی تینوں شعبوں میں پاکستانی ٹیم حریف کیمپ پر یکسر حاوی نظر آئی اور اسی بدولت یہ سبقت بھی پاکستان کا مقدر ٹھہری۔ یہ جیت اگرچہ بہت دیر سے آئی اور شاید ورلڈ کپ کے سیاق و سباق میں اس قدر سودمند بھی ثابت نہ ہو پائے مگر جس دباؤ کا شکار بابر اعظم پچھلے دو ہفتوں میں رہے ہیں، ان کے لیے بہرحال یہ ایک تازہ سانس سی فرحت بخش ہو گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw030j9l344o", "summary": "کلکتہ میں بنگلہ دیش کے خلاف کھیلے جانے والے ورلڈ کپ کے ایک اہم میچ میں پاکستان نے سات وکٹوں کے بھاری مارجن سے فتح حاصل کر لی ہے۔", "title": "پاکستان کی بنگلہ دیش کو سات وکٹوں سے شکست: ’فخر کی صلاحیت پر یقین تھا لیکن انھیں فارم میں آنے میں آنے میں شاید دیر ہو گئی‘", "firstPublished": "2023-10-31T13:09:31.792Z", "id": "cw030j9l344o", "article": "کلکتہ میں بنگلہ دیش کے خلاف کھیلے جانے والے ورلڈ کپ کے ایک اہم میچ میں پاکستان نے سات وکٹوں کے بھاری مارجن سے فتح حاصل کر لی ہے۔ پاکستانی کو گذشتہ چار میچوں سے لگاتار شکست کے بعد آج جب فیلڈنگ کی دعوت دی گئی تو شاہین آفریدی نے ٹیم کو وہ آغاز فراہم کر دیا جس کی امید ان سے ورلڈ کپ کے آغاز سے کی جا رہی تھی۔ اسی طرح بیٹنگ میں پاکستان کو آج فخر زمان کی واپسی کی صورت میں سکھ کا سانس نصیب ہوا اور ان کی جارحانہ اننگز کے باعث پاکستان نے یہ ہدف 33ویں اوور میں حاصل کر لیا۔ پاکستانی اوپنرز فخر زمان اور عبداللہ شفیق نے 128 رنز کی اوپننگ شراکت کے ذریعے یہ یقینی بنایا کہ پاکستان اس اہم میچ میں اپنا نیٹ رن ریٹ بہتر کر سکے۔ فخر زمان سات چھکوں کے ساتھ 81 رنز کی عمدہ اننگز کھیلنے میں کامیاب ہوئے۔ فخر گذشتہ چند میچوں میں انجری کا شکار تھے جبکہ اس سے قبل ایشیا کپ اور ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں ان کی فارم پر سوالیہ نشان موجود تھے۔ پاکستان کو سیمی فائنل تک کوالیفائی کرنے کے نہ صرف اپنے اگلے دو میچوں میں فتوحات حاصل کرنی ہیں بلکہ دیگر ٹیموں کے میچوں کے نتائج اپنے حق میں آنے کی امید رکھنی ہے جن میں نیوزی لینڈ کی اپنے اگلے تینوں میچ شکست بھی شامل ہے۔ اس سے قبل بنگلہ دیش کی اننگز میں شاہین نے پہلے ہی اوور میں وکٹ حاصل کر کے تنزید حسن کو ایل بی ڈبلیو کیا تھا اور پھر دوسرے اوور میں نجم الحسین شانتو کو بھی آؤٹ کرتے ہوئے پاکستان کو پاور پلے میں بہترین آغاز فراہم کر دیا۔ آغاز میں ہی تین وکٹیں گرنے کے بعد لٹن داس اور محمود اللہ نے 73 رنز کی اچھی شراکت قائم کرتے ہوئے بیٹنگ کو سہارا دیا۔ اس ٹورنامنٹ میں بنگلہ دیش کی لیے سنچری بنانے والے واحد بلے باز محمود اللہ کو آج بالآخر بیٹنگ لائن اپ میں اوپر بھیجا گیا تھا اور انھوں نے آج نصف سنچری بنائی۔ پاکستان کی جانب سے بہترین بولنگ پرفارمنس کے بارے میں اکثر صارفین کا خیال ہے کہ یہ بہت ورلڈ کپ میں بہت دیر بعد جا کر سامنے آئی ہے۔ اسی طرح اکثر صارفین شاہین آفریدی کی جانب سے محمود اللہ کو آؤٹ کرنے کی ویڈیو شیئر کر رہے ہیں اور اس کا موازنہ وسیم اکرم کی جانب سے 92 کے ورلڈ کپ فائنل میں ایلن لیمب کو کروائی گئی مشہور گیند سے کر رہے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ روی شاستری پر بھی تنقید کر رہے ہیں جنھوں نے ورلڈ کپ کے آغاز میں کہا تھا کہ شاہین آفریدی وسیم اکرم جیسے بہترین فاسٹ بولر نہیں بس ایک اچھے بولر ہیں۔ صحافی سلیم خالق نے لکھا کہ ‏’دیر سے ہی سہی پاکستانی پیس بولنگ فارم میں تو واپس آ ہی گئی، یہ درست ہے کہ بنگلہ دیش ورلڈکپ کی سب سے کمزور ٹیم ہے لیکن اچھی کارکردگی جس کے بھی خلاف ہو اسے سراہنا چاہیے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c03d3zvlg73o", "summary": "افغانستان کی ٹیم انڈیا میں جاری رواں ورلڈ کپ میں پے در پے کامیابیاں حاصل کر رہی ہے اور اس ٹیم کو ملکی ٹیم کے بعد بظاہر سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے۔", "title": "انڈیا میں افغانستان کی ٹیم کو کسی بھی دوسری ٹیم سے زیادہ حمایت کیوں حاصل ہے؟", "firstPublished": "2023-10-31T07:14:12.509Z", "id": "c03d3zvlg73o", "article": "افغانستان کی ٹیم انڈیا میں جاری رواں ورلڈ کپ میں پے در پے کامیابیاں حاصل کر رہی ہے اور اس ٹیم کو ملکی ٹیم کے بعد بظاہر سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے۔ معین الدین حمید نے بی بی سی سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی تاریخی اور سیاسی وجوہات ہیں۔ اگرچہ افغانستان انڈیا کا براہ راست پڑوسی نہیں ہے لیکن پھر بھی دونوں کا تاریخی تعلق رہا ہے اور پاکستان کے مقابلے افغانستان میں انڈیا کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ اور یہی صورت حال اب انڈیا میں بھی ہے۔ دوسری جانب افغانستان پر امریکہ کے قبضے کے بعد افغانستان میں انڈیا نے ترقیاتی پروگراموں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اور سنہ 2021 کے وسط میں افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد سے افغان ٹیم کو انڈیا نے پناہ دے رکھی ہے اور بہت سے مبصرین کے خیال میں انڈیا افغانستان کی ٹیم کا ’دوسرا گھر‘ ہے۔ ’سیاسی وجوہات کی بنا پر آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑی نہیں ہیں جبکہ افغانستان کے کھلاڑی یہاں نظر آتے ہیں اور اسی وجہ سے نئے کرکٹ شائقین میں ان سے ایک طرح کی انسیت بھی ہے۔ لیکن حالیہ ورلڈ کپ میں انھوں نے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے یہ لگتا ہے کہ اب زیادہ افغان کھلاڑی آئی پی ایل میں نظر آئيں گے۔‘ بہت سے صارفین نے ان کی بات سے اتفاق کیا ہے۔ انوپما سنگھ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ بالکل درست ہے اور انڈیا میں افغانستان ٹیم کو جو تعاون ملا ہے وہ الگ ہی سطح پر ہے اور اس کے لیے تمام کھلاڑی شکرگزار ہیں۔ ہم انھیں کئی گنا ترقی کرتا دیکھنا چاہتے ہیں۔‘ وازمہ سائل نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’سلام افغانستان اور انڈیا۔ ورلڈ کپ میچز جیتنے کی خوشی کچھ الگ ہی تھی مگر انڈین دوستوں کی حمایت سے یہ خوشی دگنی ہو گئی ہے۔ شکریہ انڈیا آپ کا افغان ٹیم کی خوشی میں شامل ہونے کے لیے اور عرفان پٹھان کے لیے خصوصی شکریہ ان کے ڈانس کے لیے جس نے ہم لوگوں کا دل جیت لیا۔ انڈیا افغان دوستی زندہ باد۔‘ جبکہ صحافی نذرانہ یوسفزئی نے لکھا کہ ’افغانستان کی ٹیم طالبان حکومت کی صفر حمایت کے ساتھ کھیل رہی ہے اور اس نے اب تک اتنا کچھ حاصل کیا ہے۔ یہ عالمی سطح کے کھیل کا مظاہرہ ہے۔ ان کو دیکھنا کتنا اچھا تھا۔ افغانوں کو مسکراتا دیکھ کر بہت خوش ہوں۔‘ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انڈیا میں پاکستان کے خلاف کسی بھی ٹیم کی حمایت دیکھنے میں آئی اور انڈینز میں یہ تبدیلی سنہ 2014 میں مودی حکومت کے بعد واضح طور پر دیکھی جا رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72dpyznz4xo", "summary": "پاکستانی کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ورلڈ کپ کے دوران اپنا استعفیٰ پیش کیا ہے اور اپنے اوپر مفادات کے ٹکراؤ سے متعلق الزامات پر دُکھ ظاہر کیا ہے۔ ", "title": "انضمام الحق ’مفادات کے ٹکراؤ‘ کے الزام پر مستعفی: ’کسی پر بھی ایسے الزامات لگیں تو دُکھ ہوتا ہے‘ ", "firstPublished": "2023-10-30T14:39:31.956Z", "id": "c72dpyznz4xo", "article": "پاکستانی کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ورلڈ کپ کے دوران اپنا استعفیٰ پیش کیا ہے اور اپنے اوپر مفادات کے ٹکراؤ سے متعلق الزامات پر دُکھ ظاہر کیا ہے۔ انضمام نے سما ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف کو اپنا استعفیٰ پیش کرنے کی تصدیق کی اور کہا کہ وہ اپنے خلاف مفادات کے ٹکراؤ پر قائم کمیٹی کی تحقیقات تک عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔ پی سی بی کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ میڈیا پر گذشتہ کئی دنوں سے یہ باتیں زیرِ بحث تھیں کہ انضمام بطور چیف سلیکٹر کھلاڑیوں کے ایجنٹس کی ایک کمپنی میں شیئر ہولڈر ہیں جس سے مفادات کا ٹکراؤ ہو سکتا ہے اور بورڈ نے اس سارے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے ذریعے آئندہ دنوں میں حقائق سامنے آجائیں گے۔ ان کے مطابق انضمام نے خود اپنا استعفیٰ پیش کیا اور اگر ان کا نام کلیئر ہو جاتا ہے تو وہ اس عہدے پر دوبارہ آ جائیں گے۔ دریں اثنا پی سی بی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹیم کے انتخاب کے عمل سے متعلق میڈیا میں رپورٹ ہونے والے مفادات کے ٹکراؤ کے حوالے سے الزامات کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل کی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان انضمام الحق کو 7 اگست 2023 کو قومی مینز سلیکشن کمیٹی کا چیف سلیکٹر مقرر کیا گیا تھا اور رواں ماہ کے شروع میں انھیں جونیئر مینز سلیکشن کمیٹی کا چیئرمین بھی مقرر کیا گیا تھا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم پر جہاں ورلڈ کپ میں لگاتار چار میچوں میں شکست پر تنقید کی جا رہی ہے وہیں یہ معاملہ بھی زیر بحث رہا ہے کہ چیف سلیکٹر انضمام الحق پلیئرز مینجمینٹ کی ایک کمپنی ’یازو انٹرنیشنل لمیٹڈ‘ کے شیئر ہولڈرز میں شامل ہیں جس سے مفادات کے ٹکراؤ کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ گذشتہ روز چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف سے اے آر وائی کو دیے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا تھا کہ پلیئرز ایجنٹ طلحہ رحمانی کی کمپنی میں انضمام شیئر ہولڈر ہیں اور ٹیم کے آٹھ کھلاڑیوں کو وہ مینج کرتے ہیں تو کیا یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ ان کے مطابق ورلڈ کپ کے دوران فوری طور پر نئے چیف سلیکٹر کی ضرورت نہیں اور کچھ دنوں میں یہ معاملات واضح ہو جائیں گے جس کے بعد انضمام دوبارہ اس عہدے پر آ سکتے ہیں۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر پی سی بی کے ذرائع نے کہا کہ بابر اعظم اور چیئرمین پی سی بی کے درمیان سرد مہری کی خبریں جھوٹ پر مبنی تھیں جس کی وجہ سے ذکا اشرف پر دباؤ پیدا ہوا اور انھوں نے ایک انٹرویو کے ذریعے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ بعض سابق کھلاڑیوں نے انضمام کے اس فیصلے کی حمایت کی ہے اور ان سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1dwz172wpo", "summary": "ورلڈ کپ کے آغاز سے پہلے ہی یہ مہم جوئی زور شور سے شروع ہو چکی تھی اور یہ میڈیا پہلے دن سے ہی پاکستان کی ہر حریف ٹیم کے بارہویں کھلاڑی کا کردار ادا کر رہا ہے اور کل بھی بابر اعظم کا مقابلہ بنگلہ دیش کے گیارہ کھلاڑیوں سے کہیں زیادہ ان کے بارہویں کھلاڑی سے ہی ہو گا جس کا تعلق بنگلہ دیش سے نہیں بلکہ بدقسمتی سے، پاکستان ہی کی ٹی وی سکرینوں سے ہے۔", "title": "بابر کا مقابلہ بنگلہ دیش کے بارہویں کھلاڑی سے ہے، سمیع چوہدری کا کالم ", "firstPublished": "2023-10-30T10:24:37.867Z", "id": "cd1dwz172wpo", "article": "نیدرلینڈز سے شکست کے بعد جب بنگلہ دیشی کپتان شکیب الحسن نے کہا کہ وہ ورلڈ کپ کی مہم جوئی سے تو خارج ہو ہی چکے ہیں مگر ان کی نظر ابھی مزید فتوحات کھوج کر چیمپیئینز ٹرافی کی کوالیفکیشن پر ہے تو کئی کرکٹ بورڈز کے لیے یہ خبر کسی جھٹکے سے کم نہ تھی۔ اس اضطراب کا ذمہ دار بھی خود بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ ہی ہے جہاں انتظامی معاملات آمرانہ انداز میں اور ٹیم سلیکشن بچکانہ انداز میں ہو رہے ہیں۔ اندرونی سیاست کی خلفشاریوں کا یہ عالم ہے کہ گیارہ کھلاڑی ٹیم میں نہیں ڈھل پا رہے اور ٹاپ پرفارمر بلے باز کا بیٹنگ آرڈر میچ در میچ نیچے سرکتا جا رہا ہے۔ شکیب الحسن نے کہا کہ وہ ورلڈ کپ کی مہم جوئی سے تو خارج ہو ہی چکے ہیں مگر ان کی نظر ابھی مزید فتوحات کھوج کر چیمپئینز ٹرافی کی کوالیفکیشن پر ہے تو کئی کرکٹ بورڈز کے لیے یہ خبر کسی جھٹکے سے کم نہ تھی یوٹیوب پر کلکس اور ویوز کی دوڑ میں بھاگتے ’سینیئر‘ صحافی ٹیم کو بیچ دیے جانے کے انکشافات فرما رہے ہیں اور ایک جید صحافی اس امر پر معترض ہو رہے ہیں کہ ٹیم کا میڈیا مینیجر نیکر پہن کر کیوں گھوم رہا ہے اور اس کا ٹیم کی کارکردگی پر کس قدر منفی اثر مرتب ہو رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ذکا اشرف ان تمام صحافتوں پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور شکایت موصول ہوتے ہی میڈیا مینیجر کو پاکستان واپس بلا چکے ہیں۔ ٹیم کی کارکردگی سے وہ پہلے ہی بری الذمہ ہو چکے ہیں کہ کپتان اور چیف سلیکٹر ہی تمام نقص کے ذمہ دار ہیں۔ آسٹریلین اور انگلش سپورٹس جرنلزم کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے بارہویں کھلاڑی کا کردار نبھایا کرتے ہیں اور اپنی چیخ و پکار سے حریف ٹیموں کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں جبکہ اس کے برعکس پاکستانی سپورٹس جرنلسٹس ایسے تعصبات سے یکسر خالی ہیں کہ وہ ہمیشہ حریف ٹیموں کے بارہویں کھلاڑی کی شکل میں اپنی ہی کرکٹ کی جڑیں کاٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔ جو منفیت یہاں بابر اعظم کے خلاف پھیلائی جا رہی ہے، اس میں بنیادی وجہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں پر کوئی کرکٹنگ بحث نہیں بلکہ یہ ساری مہم جوئی اس لیے ہو رہی ہے کہ ان کا تعلق اس ریجن سے نہیں جہاں سے میڈیا کی ہمدردیاں وابستہ ہیں۔ ورلڈ کپ کے آغاز سے پہلے ہی یہ مہم جوئی زور شور سے شروع ہو چکی تھی اور یہ میڈیا پہلے دن سے ہی پاکستان کی ہر حریف ٹیم کے بارہویں کھلاڑی کا کردار ادا کر رہا ہے اور کل بھی بابر اعظم کا مقابلہ بنگلہ دیش کے گیارہ کھلاڑیوں سے کہیں زیادہ ان کے بارہویں کھلاڑی سے ہی ہو گا جس کا تعلق بنگلہ دیش سے نہیں بلکہ بدقسمتی سے، پاکستان ہی کی ٹی وی سکرینوں سے ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw03z2780jro", "summary": "اگر آپ اس وقت یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو یقیناً آپ بھی ان چند پاکستانی مداحوں میں سے ایک ہوں گے جنھیں اب بھی ٹیم کے ورلڈ کپ سیمی فائنل تک کوالیفائی کرنے کی امید ہو گی مگر ہمارے پاس آپ کے لیے کچھ زیادہ خوش آئند خبر نہیں ہے۔ ", "title": "اگر مگر کا کھیل، کیا پاکستان اب بھی سیمی فائنل تک پہنچ سکتا ہے؟", "firstPublished": "2023-10-30T04:19:51.599Z", "id": "cw03z2780jro", "article": "اگر آپ اس وقت یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو یقیناً آپ بھی ان چند پاکستانی مداحوں میں سے ایک ہوں گے جنھیں اب بھی ٹیم کے ورلڈ کپ سیمی فائنل تک کوالیفائی کرنے کی امید ہو گی مگر ہمارے پاس آپ کے لیے کچھ زیادہ خوش آئند خبر نہیں ہے۔ ٹیم کو جہاں انڈیا سے سات وکٹوں سے بھاری شکست ہوئی وہیں آسٹریلیا کے خلاف بھی پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس ناقص رہی۔ پھر چنئی میں افغانستان سے اپ سیٹ شکست اور جنوبی افریقہ کے خلاف صرف ایک وکٹ سے شکست کے بعد اب پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی انتہائی مشکل ہو گئی ہے۔ ٹیم کو اب سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے اپنے بقیہ تین میچوں میں فتح حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر میچوں کے نتائج پر بھی انحصار کرنا پڑے گا اور یہ صرف ایک یا دو ٹیموں کی نہیں بلکہ متعدد ٹیموں کے نتائج پر منحصر ہے۔ نیدرلینڈ کی ٹیم جس نے اس ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ اور بنگلہ دیش کو شکست دی ہے کے چھ میچوں کے بعد چار پوائنٹس ہیں لیکن آسٹریلیا سے 309 رنز کی بھاری شکست کے بعد اس کا نیٹ رن ریٹ خاصا کم ہو چکا ہے۔ اس کے بعد پاکستان ٹیم چار نومبر کو بنگلورو میں نیوزی لینڈ کے مدِ مقابل آئے گی۔ یہ وہی ہائی سکورنگ گراؤنڈ ہے جہاں پاکستان کو آسٹریلیا سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم اس وقت پوائنٹس ٹیبل پر تیسری پوزیشن پر ہے اور اس کے آٹھ پوائنٹس ہیں۔ اس کے بعد پاکستان اپنا آخری میچ انگلینڈ کے خلاف 10 نومبر کو کلکتہ میں کھیلے گا۔ انگلینڈ کی ٹیم اس وقت پوائنٹس ٹیبل پر سب سے نیچے ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو نیوزی لینڈ کی ٹیم، جو اس وقت آٹھ پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، کے پوائنٹس میں اضافہ نہیں ہو گا اور پاکستان اپنے بقیہ تین میچوں میں فتح حاصل کر کے پوائنٹس ٹیبل پر چوتھی پوزیشن حاصل کر سکے گا۔ اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ آسٹریلیا کے بھی چھ میچوں کے بعد آٹھ پوائنٹس ہیں اور اس کا نیٹ رن ریٹ بھی نیوزی لینڈ سے کم ہے تو پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی اس کے نتائج پر منحصر کیوں نہیں ہے؟ اگر آسٹریلیا اپنا ایک میچ بھی جیتنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے دس پوائنٹس ہو جائیں گے اور معاملہ ایک مرتبہ پھر سے نیٹ رن ریٹ پر آئے گا۔ کرکٹ کے کھیل میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اگر ٹیبل پر سرِ فہرست جنوبی افریقہ کو نیدرلینڈز سے شکست ہو سکتی ہے تو کوئی بھی ٹیم کسی بھی دن کسی بھی ٹیم سے ہار سکتی ہے۔ تاہم اس وقت آسٹریلیا کی فارم میں واپسی سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات روشن ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2q37n37exvo", "summary": "انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ کا 26 واں میچ بالآخر سنسنی خیز ثابت ہوا اور ہار جیت کے فیصلے سے قبل لوگوں کی دھڑکنیں دوبتی ابھرتی رہیں۔", "title": "’خراب امپائرنگ اور خراب قواعد پاکستان کی شکست کی وجہ بنے‘: ہربھجن کے شکوے پر گریم کا جواب شکوہ", "firstPublished": "2023-10-28T05:44:35.542Z", "id": "c2q37n37exvo", "article": "انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ کا 26 واں میچ بالآخر سنسنی خیز ثابت ہوا اور ہار جیت کے فیصلے سے قبل لوگوں کی دھڑکنیں ڈوبتی ابھرتی رہیں۔ جنوبی افریقہ کے خلاف گذشتہ رات ہونے والے میچ میں گو کہ میدان بالآخر جنوبی افریقہ کی جھولی میں چلا گیا لیکن پہلی بار انڈین تماشائیوں نے بھی پاکستان کی دل کھول کر تعریف کی اور سب کی زبان پر بس ایک بات تھی کہ اگر حارث رؤف کی آخری گیند پر امپائر کا فیصلہ پاکستان کے حق میں جاتا تو یہ ورلڈ کپ جی اٹھتا۔ ہوا یوں کہ تبریز شمسی کی گیند پر بابر سوئپ شاٹ کھیلنے گئے اور وہ چوک گئے۔ وکٹ کپیر ڈی کاک نے کیچ لیا اور شمسی کے ساتھ افسردگی کی تصویر نظر آئے کہ بابر بال بال بچ گئے لیکن باووما نے بابر کے چہرے کا تاثر دیکھ لیا اور بھانپ لیا کہ کچھ نہ کچھ غلط ہے۔ انھوں نے تجربے سے یا پھر بابر کی کیفیت سے یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں کی کہ بابر آؤٹ ہیں اور انھوں نے جھٹ سے ریویو لے لیا۔ انڈیا کے سابق سپنر ہربھجن سنگھ نے اپنے ٹویٹ میں اسے ’بیڈ امپائرنگ‘ قرار دیا۔ انھوں نے لکھا کہ 'پاکستان خراب امپائرنگ کی وجہ سے یہ میچ ہار گیا۔ آئی سی سی کو یہ رول بدل دینا چاہیے۔ اگر گیند سٹمپ کو لگ رہی ہے تو وہ آؤٹ ہونا چاہیے خواہ امپائر نے آؤٹ قرار دیا ہو یا نہیں۔ نہیں تو پھر ٹیکنالوجی کا کیا فائدہ؟' ہربھجن سنگھ کا ماننا ہے کہ اگر بال سٹمپس سے ٹکرا رہی ہے تو آؤٹ دیا جانا چاہیے اور یہ حق بہ جانب بھی ہے۔ اسی طرح رواں ورلڈ کپ میں ہی جب آسٹریلین اوپنر ڈیوڈ وارنر اس طرح آؤٹ ہوئے تھے تو وہ بہت بدظن نظر آئے اور انھوں نے اس امپائر کال کو بدلنے کی بات کہی تھی۔ بہر حال پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان ہونے والے اس میچ کو برسوں یاد رکھا جائے گا کیونکہ جنوبی افریقہ نے پہلی بار کسی آئی سی سی ٹورنامنٹ میں پاکستان کو شکست دی ہے اور پہلی بار رواں ورلڈ کپ میں ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے کامیاب ہوئی ہے۔ جنوبی افریقہ کی جارحیت نے بھی اسے میچ میں ہمیشہ بالادستی فراہم کی۔ انھوں نے شروع سے ہی وکٹ کے کھونے کے ڈر کے بغیر کھل کر شاٹ کھیلے اور ان کی راہ میں کبھی بھی رن ریٹ حائل نہیں ہوا۔ ڈی کاک سے لے کر ہر ایک کھلاڑی نے کھل کر شاٹ کھیلے اور اسی کا نتیجہ رہا کہ بابر کو اپنے تیز بالروں کے سارے اوورز وقت سے پہلے ختم کرنے پڑے۔ اب پاکستان کے ورلڈ کپ کے اگلے مرحلے یعنی سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات بھی معدوم ہو کر رہ گئے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51xmv03zygo", "summary": "یہاں سب سے بڑا دوش تھا پی سی بی کی سیاست آلود راہداریوں کا کہ جہاں متمکن لوگ فقط اپنی من پسند تعیناتیوں اور مراعات کے حصول کی تگ و دو میں ہی رہتے ہیں اور فیصلے ہمیشہ میڈیا پر چلتی ہواؤں کے رخ دیکھ کر کرتے ہیں۔ ", "title": "’یہ دوش پی سی بی کا بھی تھا‘: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-10-28T01:33:52.231Z", "id": "c51xmv03zygo", "article": "عبداللہ شفیق کا آغاز بہت ہی محتاط تھا۔ امام الحق کے قدم حرکت سے گریزاں تھے۔ جب بلے باز یوں اپنی بقا کی جنگ میں محو ہو تو یہ کسی بھی بولر کے لیے تقویت کی نوید ہوتی ہے۔ جو تکنیکی معذوریاں امام الحق کی بلے بازی کا خاصہ ہیں، وہ اب دنیا کے ہر بولر پر آشکار ہو چکی ہیں۔ یہ لکھتے لکھتے قلم تھک چکے کہ ان کنڈیشنز میں جب تک نئے گیند پر پہلے پاور پلے کا فائدہ نہیں اٹھایا جائے گا، تب تک عالمی سطح کی مسابقت ایک خام خیالی ہی رہے گی۔ جو کام بیٹنگ سائیڈ کو پہلے تیس اوورز میں کر گزرنا چاہیے، وہ کام ہمیشہ آخری بیس اوورز پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ٹاپ آرڈر اور مڈل آرڈر خود بقا کی جنگ لڑ کر لوئر آرڈر سے ہمیشہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ کوئی معجزہ کر گزریں گے مگر پرانی گیند کے ساتھ سلو کٹرز اور ہلکی پھلکی ریورس سوئنگ اکثر ان سارے ارمانوں کو بہا لے جایا کرتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ یہاں کسی نابغے نے افتخار احمد کو سعود شکیل سے بھی پہلے بھیجنے کا فیصلہ کر لیا جب سپنرز سرگرم تھے۔ بلاشبہ بابر اعظم نے یہاں غالباً اپنے کرئیر کی بہترین کپتانی کر چھوڑی اور پاکستانی بولرز نے بھی اننگز کے دوسرے مرحلے میں کایا یوں پلٹی کہ جنوبی افریقی ڈریسنگ روم کی سانسیں دشوار ہو گئیں۔ مگر یہاں فرق نمایاں تھا تو پھر پہلے پاور پلے کا ہی، کہ وہیں سے جنوبی افریقی بیٹنگ نے جیت کی بنیاد ڈالی اور وہیں سے پاکستانی بیٹنگ نے بھی اپنی شکست کی راہ ہموار کی۔ یہ کرب ناک ہے کہ ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کو مسلسل چار میچز میں شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔ اگرچہ اس سے پہلے کی ناکامیوں میں بلے بازی، فیلڈنگ، بولنگ اور بابر اعظم کی قیادت برابر کے ذمہ دار تھے مگر یہاں بابر اعظم کی کپتانی کا اتنا دوش نہیں تھا۔ یہاں دوش تھا تو اوپنرز کی مدافعانہ بیٹنگ کا تھا، یہاں دوش تھا تو اس جینئس کا تھا جس نے افتخار احمد کو مڈل اوورز میں بیٹنگ پر بھیجنے کا فیصلہ کیا اور پاکستانی بیٹنگ پچاس اوورز بھی نہ گزار پائی۔ اور یہاں سب سے بڑا دوش تھا پی سی بی کی سیاست آلود راہداریوں کا کہ جہاں متمکن لوگ فقط اپنی من پسند تعیناتیوں اور مراعات کے حصول کی تگ و دو میں ہی رہتے ہیں اور فیصلے ہمیشہ میڈیا پر چلتی ہواؤں کے رخ دیکھ کر کرتے ہیں۔ یہ کسی پروفیشنل ادارے کا رویہ نہیں ہوتا کہ جیت کی صورت میں کریڈٹ لینے کو تو ہمیشہ پہل کرے اور ہار کی صورت میں ملبہ گرنے پر کپتان کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے، خود ہاتھ جھاڑ کر بری الذمہ ہو جائے۔ دو روز پہلے جس پریس ریلیز سے چئیرمین نے خود کو اس ٹیم سلیکشن اور کارکردگی سے منہا کیا، وہ بے حد شرمناک تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cerkmvr1jn4o", "summary": "ورلڈ کپ کے ایک سنسی خیز میچ میں جنوبی افریقہ نے پاکستان کو ایک وکٹ سے شکست دی مگر حارث رؤف کے سپیل کی آخری گیند یہ نتیجہ بدل سکتی تھی۔ ", "title": "’اگر یہ آؤٹ دیا جاتا تو ہم جیت جاتے۔۔۔‘ وہ آخری وکٹ جو حارث رؤف کی آخری گیند پر نہ مل سکی", "firstPublished": "2023-10-27T15:00:07.754Z", "id": "cerkmvr1jn4o", "article": "ورلڈ کپ کے ایک سنسی خیز میچ میں جنوبی افریقہ نے پاکستان کو ایک وکٹ سے شکست دی مگر حارث رؤف کے سپیل کی آخری گیند یہ نتیجہ بدل سکتی تھی۔ حارث کی یہ تیز گیند تبریز شمسی کے پیڈز پر لگی اور پاکستانی کھلاڑیوں نے نہایت اونچی آواز میں اپیل کر دی۔ لیکن گیند لیگ سٹمپ کو صرف کلِپ کر رہی تھی، یعنی آن فیلڈ امپائر کا فیصلہ برقرار رہا اور اس کے بعد جنوبی افریقہ نے یہ میچ ایک وکٹ سے جیت لیا۔ رواں ورلڈ کپ کے دوران یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ امپائرز کال پر کیے جانے والے فیصلے متنازع ہوئے ہیں۔ ڈیوڈ وارنر جب سری لنکا کے خلاف ایل بی ڈبلیو قرار پائے تو انھوں نے ڈی آر ایس پر آؤٹ کے فیصلے کو برقرار رکھے جانے پر تنقید کی تھی۔ انڈیا میں جاری ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ کی پاکستان کو شکست کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان عالمی مقابلوں میں ایک ساتھ چار میچ ہار چکا ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کی تین جبکہ حارث رؤف اور وسیم جونیئر کی دو، دو وکٹوں کے باوجود جنوبی افریقہ نے نو وکٹوں کے نقصان پر کامیابی سے 271 رنز کے ہدف کا تعاقب ممکن بنایا۔ جنوبی افریقہ کی بیٹنگ کا آغاز ہوا تو بابر نے آف سپنر افتخار احمد کو نئی گیند تھما دی مگر یہ فیصلہ طویل عرصے تک نہ چل سکا اور ابتدائی طور پر انھوں نے دو اوورز میں بغیر کسی کامیابی کے 15 رنز دیے۔ پاکستان کو دوسری کامیابی حسن علی کی جگہ ٹیم میں شامل کیے گئے محمد وسیم جونیئر نے دلائی۔ انھوں نے جنوبی افریقہ کے کپتان ٹیمبا باوما کو 28 رنز پر ایک اچھے باؤنسر کی مدد سے آؤٹ کیا۔ مارکرم اور ملر کے درمیان 70 رنز کی شراکت نے جنوبی افریقہ کی جیت کے امکان روشن کیے تاہم پھر ملر 29 رنز پر شاہین آفریدی کی گیند پر آؤٹ ہوئے۔ مارکو جینسن کی وکٹ حارث رؤف نے حاصل کی جس کے بعد اسامہ میر نے 91 رنز پر مارکرم کی وکٹ حاصل کر کی۔ شاہین آفریدی نے کوٹزی کو 10 رنز بنانے کے بعد آؤٹ کر دیا جو جنوبی افریقہ کی آٹھویں وکٹ تھی۔ پھر حارث رؤف نے لنگی نگیڈی کی نویں وکٹ حاصل کی۔ سنو نیوز کے ایک پروگرام میں عاقب جاوید نے کہا تھا کہ ’جو بِگ ہٹر ہمیں مل گیا ہے، اس کی پانچ فُٹ چھ انچ ہائٹ ہے۔ اس کی اتنی اتنی ٹانگیں اور بازو ہیں۔‘ وہ ان کا موازنہ جنوبی افریقہ کے کلاسن سے کر رہے تھے۔ نادرا نامی صارف کہتی ہیں کہ نیشنل ٹی وی پر بات کرنے کا یہ طریقہ ٹھیک نہیں اور اینکر انھیں روکنے کے بجائے خود ہنس رہے تھے۔ وانشیکا نے کہا کہ لگتا ہے ’سعود شکیل نے عاقب جاوید کی تنقید کو کافی سنجیدگی سے لیا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c84knd2x9dlo", "summary": "گذشتہ روز پاکستان کرکٹ ٹیم کوئی میچ تو نہیں کھیل رہی تھی تاہم اس دن کیے گئے فیصلے پاکستان میں کرکٹ کو درپیش مسائل کے عکاس ضرور تھے۔ اس پریس ریلیز سے بورڈ کیا ثابت کرنا چاہتا ہے اور اس نے بیچ ٹورنامنٹ اپنے میڈیا مینیجر کو انڈیا سے واپس کیوں بلوایا ہے؟", "title": "ورلڈ کپ کے بیچ سکواڈ سے متعلق متنازع بیان اور میڈیا مینیجر کی پاکستان واپسی: ’ٹیم سے بھی بُری پرفارمنس بورڈ کی ہے‘", "firstPublished": "2023-10-27T12:51:57.171Z", "id": "c84knd2x9dlo", "article": "یہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاکستان اور جنوبی افریقہ کے میچ سے قبل شائع کی جانے والی پریس ریلیز سے لیا گیا اقتباس ہے۔ اس میں جہاں پاکستان کرکٹ فینز کو ٹیم کی حمایت جاری رکھنے کا کہا گیا ہے وہیں بظاہر ورلڈ کپ میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کا بوجھ کپتان بابر اعظم اور چیف سلیکٹر انضمام الحق کے سر ڈال کر بورڈ نے بظاہر بری الذمہ ہونے کی کوشش کی ہے۔ گذشتہ روز پاکستان کرکٹ ٹیم کوئی میچ تو نہیں کھیل رہی تھی تاہم اس دن لیے گئے فیصلے پاکستان میں کرکٹ کو درپیش مسائل کے عکاس ضرور تھے۔ اس پریس ریلیز سے بورڈ کیا ثابت کرنا چاہتا ہے اور بورڈ نے بیچ ٹورنامنٹ اپنے میڈیا مینیجر کو انڈیا سے واپس کیوں بلوایا ہے؟ کرکٹ کمنٹیٹر اور تجزیہ کار آصف احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ پریس ریلیز ٹورنامنٹ کے عین بیچ میں جاری نہیں ہونی چاہیے تھی اور نہ ہی میڈیا مینیجر کو یوں نکالنا چاہیے تھا۔ ان کے مطابق اس وقت پے در پے میچ ہارنے کے بعد ٹیم کے حوصلے بڑھانے کی ضرورت تھی جبکہ ایسے اقدامات تو ’مورال‘ پست کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے میچ کے روز یعنی 20 اکتوبر کو کھیلوں کی کوریج کرنے والے سینیئر صحافی عبدالماجد بھٹی نے ایک ٹویٹ کیا جس میں چیئرمین ذکا اشرف اور سی او او سلمان نصیر کو مخاطب کر کے کہا گیا تھا کہ ’پروفیشنل ازم کے اس دور میں چیئرمین ذکا اشرف اور سی او او سلمان نصیر پاکستان ٹیم کے میڈیا منیجر احسن ناگی سے میڈیا کی جان چھڑوا دیں تو پی سی بی کا سافٹ امیج بہتر ہو گا۔ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ احسن ناگی کو ہٹائے جانے سے میڈیا کے تحفظات سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ پی سی بی کا اندرونی معاملہ ہے۔ تاہم مینیجر کو واپس بھیجنے کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد انھوں نے ٹویٹ کیا کہ ’غرور اور تکبر اللہ تعالی کو پسند نہیں، بے آبرو ہو کر پرسوں لاہور روانہ ہو گا۔۔۔ شکریہ ذکا صاحب۔‘ کرکٹ تجزیہ کار ڈاکٹر نعمان نیاز نے اس حوالے سے تبصرہ کرتا ہوئے کہا کہ پی سی بی کی پریس ریلیز میں تضادات ہیں۔ ایک طرف انھوں نے مداحوں سے ٹیم کو سپورٹ کرنے کا کہا ہے اور دوسری طرف انھوں ے بابر اعظم کا بطور کپتان مستقبل غیر یقینی بنا دیا اور بلاواسطہ طور پر ان پر اور انضمام الحق پر سلیکشن کی ذمہ داری عائد کر دی ہے اور اپنے آپ کو بری الذمہ ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اب فرض کیا کہ اگر پاکستان ورلڈ کپ جیت جاتا ہے تو پھر بورڈ کا مؤقف کیا ہو گا۔ ان کے مطابق میڈیا مینیجر کو یوں عین ٹورنامنٹ کے درمیان گھر نہیں بھیجنا چاہیے تھے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy01mn2pk3xo", "summary": "تو پھر گذشتہ پانچ ماہ میں ایسا کیا ہوا کہ بظاہر ہر شعبے میں بہترین کارکردگی دکھانے والی ٹیم انڈیا جا کر بولنگ اور فیلڈنگ میں خاص طور پر بری طرح ناکام دکھائی دی؟", "title": "بابر اعظم کے سر پر لٹکتی تلوار اور منصوبہ بندی کا فقدان جو پاکستان کی ورلڈکپ میں ناقص کارکردگی کی وجہ بنا", "firstPublished": "2023-10-27T02:56:55.530Z", "id": "cy01mn2pk3xo", "article": "پاکستانی ٹیم کی یہ روایت خاصی پرانی ہے کہ جب وہ کسی ٹونامنٹ میں برا آغاز کرے تو پھر اچانک اسے ہوش آتا ہے اور پھر ٹیم کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ تاہم پاکستان کی گذشتہ تین میچوں پر نظر ڈالیں تو قومی ٹیم کی ناقص فیلڈنگ اور بولنگ اور بینچ پر بیٹھے متبادل کھلاڑیوں کو دیکھ کر ایسا ہرگز نہیں لگتا کہ یہ ٹیم اس صورتحال کو تبدیل کر پائے گی۔ لیکن سوال یہ ضرور بنتا ہے کہ بات یہاں تک پہنچی کیسے؟ تو پھر گذشتہ پانچ ماہ میں ایسا کیا ہوا کہ بظاہر ہر شعبے میں بہترین کارکردگی دکھانے والی ٹیم انڈیا جا کر بولنگ اور فیلڈنگ میں خاص طور پر بری طرح ناکام دکھائی دی؟ تاہم اس انٹرویو میں انھوں نے ایک اہم انکشاف یہ بھی کیا تھا کہ نیوزی لینڈ سیریز سے قبل جب انھوں نے ذمہ داری سنبھالی تھی تو عبوری سلیکشن کمیٹی (جس کی سربراہی شاہد آفریدی کر رہے تھے) قومی ٹیم میں تبدیلیوں کے علاوہ کپتان کو بھی تبدیل کرنا چاہتی تھی۔ اس ورلڈ کپ میں پاکستان کی بولنگ اور فیلڈنگ دونوں ہی بہت ناقص رہی ہیں۔ اس کی وجہ واضح طور پر پاکستانی کھلاڑیوں میں تھکاوٹ کے آثار بھی ہیں جو ایک تھکا دینے والے ایشیا کپ شیڈول اور سری لنکا میں حبس اور گرمی میں کھیلی جانے والی لنکا پریمیئر لیگ اور افغانستان کے خلاف سیریز کے باعث ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح ایشیا کپ میں پاکستان ٹیم کے تھکا دینے والے شیڈول اور سری لنکا میں ہی افغانستان سے سیریز کھیلنے نے بھی کھلاڑیوں پر مزید دباؤ بڑھایا۔ اسی طرح جب سکواڈ کی سیلیکشن کا موقع آیا تو کپتان بابر اعظم کی جانب سے انھی کھلاڑیوں پر بھروسہ کیا گیا جو ایک عرصے سے ٹیم کے ساتھ موجود تھے، حالانکہ وہ حالیہ عرصے میں آؤٹ آف فارم تھے۔ سنہ 2019 کے ورلڈ کپ سے اس سال 15 جولائی تک پاکستان نے صرف 27 ون ڈے کھیلے تھے، یہی وجہ تھی کہ اس بارے ٹیم کامبینیشنز کا استعمال نہیں کیا جا سکا اور توجہ ٹی ٹوئنٹی پر رہی۔ شاداب خان جو انجریز کا شکار رہے ہیں خود کو ون ڈے کرکٹ میں بطور بولر منوانے میں ناکام رہے ہیں اور تبھی ان کی جگہ اسامہ میر کو بیک اپ کے طور پر کھلایا گیا اور انھوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں اچھا پرفارم بھی کیا تاہم انھیں بعد میں ورلڈ کپ سے پہلے میچوں میں چانس نہیں دیے گئے جو سمجھ سے بالاتر تھی۔ اب دیکھنا ہو گا کہ پاکستان ورلڈ کپ کے بقیا میچوں میں بھی مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کرے گے یا وہ سوئچ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو پائے گا جو عموماً ایسے موقعوں پر ماضی کی پاکستانی ٹیمیں ڈھونڈ پائی ہیں اور جس کا ذکر شاداب خان کر رہے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c89wned9r8lo", "summary": "پاکستان کرکٹ کی بھی دیرینہ خوبی یہی رہی ہے کہ یہ کبھی بھی، کسی کو بھی حیران کر سکتی ہے۔ اور جس طرح کا بحران فی الوقت بابر کو درپیش ہے، اس سے زیادہ بہتر موقع بھی شاید میسر نہیں ہو سکتا تھا کہ پاکستان اٹھ کھڑا ہو اور اپنے بہترین کھیل کے اظہار سے سب خدشات کو رفع کر دے۔", "title": "وہ ’ایک‘ جیت پانے کی آخری مہلت: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-10-26T13:39:54.249Z", "id": "c89wned9r8lo", "article": "بابر اعظم کہتے ہیں کہ فیلڈنگ ایک رویے کا نام ہے اور ٹیم فی الحال اس رویے سے خالی نظر آ رہی ہے۔ جو جو باتیں بابر اعظم نے اس تاریخی شکست کے بعد پریس کانفرنس میں کہیں، وہ کوئی انکشاف نہیں تھیں بلکہ کوئی بھی مبصر باریک بینی سے پاکستان کی کارکردگی جانچنے کے بعد بتا ہی سکتا تھا۔ بابر سے متوقع یہ تھا کہ وہ اس شکست کی وجوہات سے پردہ اٹھاتے۔ یہ تو ناظرین بھی جانتے ہیں کہ پاکستانی سپنرز اچھی بولنگ نہیں کر رہے اور دباؤ پیدا نہ کرنے کے سبب وکٹوں سے بھی محروم رہے ہیں۔ سو، بابر اعظم کی جانب سے یہ اعتراف بہرحال ایک خوشگوار حیرت تھا ورنہ کچھ روز پہلے تک تو وہ یہی کہہ رہے تھے کہ شاداب خان بولنگ بہت عمدہ کر رہے ہیں مگر وکٹوں کے معاملے میں شومئی قسمت کا شکار ہیں۔ بحیثیتِ مجموعی بابر کی وہ پریس کانفرنس اس لحاظ سے خوش کن تھی کہ بالآخر انھوں نے ان کوتاہیوں کا اعتراف کرنا شروع کر دیا ہے جنھیں اب تک وہ بدقسمتی کا لبادہ پہناتے چلے آ رہے تھے اور تواتر سے یہی امید بندھاتے آ رہے تھے کہ وننگ ٹریک پر چڑھنے سے وہ فقط ایک جیت کی دوری پر ہیں۔ مگر اب وہ ایک جیت پانے کو مہلت نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان کو سیمی فائنل تک رسائی کے لیے اپنے باقی ماندہ سبھی میچز نہ صرف جیتنا ضروری ہیں بلکہ نیٹ رن ریٹ میں بھی بہتری لانا اشد ضروری ہے۔ اور پھر یہ کہ ان باقی ماندہ مقابلوں میں محض ایک بنگلہ دیش کے سوا کوئی بھی حریف آسان نہیں ہے۔ اگرچہ ورلڈ کپ مقابلوں میں جنوبی افریقہ بارہا پاکستان کے ہاتھوں ڈھیر ہو چکی ہے اور گذشتہ چند آئی سی سی ایونٹس میں تو متواتر یہ ٹیم پاکستان کو زیر کرنے کی سعادت سے محروم رہی ہے۔ مگر چنئی میں جس جنوبی افریقہ کا سامنا بابر اعظم کو کرنا ہے، وہ حیرت انگیز فارم میں ہے۔ اور ایسا بھی نہیں کہ سپن ڈیپارٹمنٹ سے ہی پاکستان کو کوئی سکھ کا سانس مل سکے۔ کیشو مہاراج بھی بھرپور ڈسپلن کے ساتھ جلوہ گر رہے ہیں اور چنئی میں غالبا تبریز شمسی بھی ان کے ہمرکاب ہو کر پاکستانی مڈل آرڈر کا امتحاں لینے کو موجود ہوں گے۔ پاکستان کرکٹ کی بھی دیرینہ خوبی یہی رہی ہے کہ یہ کبھی بھی، کسی کو بھی حیران کر سکتی ہے۔ اور جس طرح کا بحران فی الوقت بابر کو درپیش ہے، اس سے زیادہ بہتر موقع بھی شاید میسر نہیں ہو سکتا تھا کہ پاکستان اٹھ کھڑا ہو اور اپنے بہترین کھیل کے اظہار سے سب خدشات کو رفع کر دے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gl0zdz8m2o", "summary": "ابھی زیادہ مہینے نہیں گزرے جب وراٹ کوہلی نے یہ اعتراف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی کہ حالیہ دور میں پاکستانی کپتان بابر اعظم شاید کرکٹ کے تینوں فارمیٹس میں بہترین بلے باز ہیں۔", "title": "کیا پاکستان ٹیم کی کارکردگی کے ذمہ دار صرف کپتان بابر اعظم ہیں؟", "firstPublished": "2023-10-26T08:02:05.257Z", "id": "c3gl0zdz8m2o", "article": "ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب وراٹ کوہلی نے یہ اعتراف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی کہ حالیہ دور میں پاکستانی کپتان بابر اعظم شاید کرکٹ کے تینوں فارمیٹس میں بہترین بلے باز ہیں۔ ویسے تو کوہلی کوہلی ہیں لیکن بابر اعظم کئی اپنی حالیہ فارم کے باوجود آئی سی سی رینکنگ میں دنیا کے نمبر ون بلے باز ہیں۔ لیکن پاکستانی کرکٹ شائقین اور ماہرین کی دلیل یہ ہے کہ اگر کپتان ورلڈ کپ کے اہم میچوں میں بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے تو باقی دلائل بے معنی ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے سابق کپتان راشد لطیف نے بابر اعظم کا موازنہ کوہلی کے اس دور کپتانی سے کیا جب ان پر ڈریسنگ روم میں کسی کی بات نہ سننے کا الزام لگتا تھا تو سابق فاسٹ بولر عاقب جاوید نے کہا کہ بابر سے بہتر کپتان شاہین شاہ آفریدی ہو سکتے ہیں۔ کسی کو پرواہ نہیں ہوتی کہ کپتان کے پاس کیسی ٹیم ہے۔ کرکٹ میں ایک پرانی کہاوت ہے کہ کوئی بھی کپتان اتنا ہی اچھا ہوتا ہے جتنے اس کی ٹیم میں شامل کھلاڑی ہوتے ہیں۔ محمد رضوان اور عبداللہ شفیق کو چھوڑ کر کسی دوسرے بلے باز نے اتنے رنز نہیں بنائے کہ اسے پلیئنگ الیون میں شمولیت کے لیے مضبوط امیدوار سمجھا جائے۔ لیکن، بابر کو اس شعبے میں زیادہ بڑے مسائل کا سامنا ہے جو پاکستانی کرکٹ کی سب سے بڑی طاقت رہی ہے۔ پاکستانی باؤلنگ اٹیک کی کارکردگی دیکھ کر سابق کپتان اور تیز گیند باز وسیم اکرم اور وقار یونس بھی مایوس نظر آئے ہیں۔ اور اسی لیے سابق کپتان اور بیٹنگ کوچ محمد یوسف نے بابر کا دفاع کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسی شکستوں کے لیے اکیلے بابر کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔ یوسف کا کہنا ہے کہ پاکستان صرف بابر کی وجہ سے نہیں ہارا اور ایسی صورتحال میں وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بابر کے کھیل میں کوئی خامیاں نہیں ہیں یا ان کی کپتانی میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن پاکستان کرکٹ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ان کے پاس صرف بابر ہی ہے جو دنیا کے سامنے ایک ورلڈ کلاس بلے باز کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ کوہلی اور روہت شرما جیسے کھلاڑی بھی حالیہ برسوں میں ان کی نمبر ون رینکنگ کو چیلنج کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ چند ماہ قبل تک بابر ٹی ٹوئنٹی میں ٹاپ 5 اور ٹیسٹ میں بھی ٹاپ 5 میں تھے۔ انضمام الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد بابر واحد پاکستانی بلے باز ہیں جنھوں نے اپنے بلے کے بل بوتے پر دنیا میں شہرت حاصل کی۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کرکٹ انھیں وہ عزت نہیں دے رہی جس کے وہ حقدار ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckre8p8mx57o", "summary": "انڈیا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے نتائج یہ واضح بتا رہے ہیں کہ کھیل کے میدان میں بھی سبقت انہی ٹیموں کی ہے جن کے بورڈز کی جیبیں بھری ہوئی ہیں۔", "title": "’کرکٹ کہیں ایک قبیلے کا کھیل نہ بن جائے‘: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-10-25T11:04:03.451Z", "id": "ckre8p8mx57o", "article": "ٹورنامنٹ کے تین ہفتے مکمل ہو چکے ہیں اور تین اپ سیٹ میچز کے سوا باقی تمام نتائج نہ صرف حسبِ توقع بلکہ خاصی حد تک یکطرفہ بھی رہے ہیں۔ یہ نتائج جنریشن زی کے اس دعوے کو مزید تقویت دینے کا باعث ہیں کہ ٹی ٹوئنٹی کے ساون میں ون ڈے کرکٹ خزاں کی سی بوریت کے سوا کچھ نہیں۔ مگر انڈین پچز میں گیند اور بلے کے درمیان توازن بھی ویسا نہیں ہے اور چار برس گزرنے کے بعد ٹیموں کے مسابقتی معیار میں تفاوت بھی اس قدر بڑھ چکا ہے کہ تین اپ سیٹ نتائج ملنے کے باوجود ابھی تک کوئی ایک میچ سنسنی خیز کہلانے کے قابل نہیں رہا۔ جزوی طور پہ اس بوریت کو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی افراط سے بھی منسوب کیا جا سکتا ہے کہ اکثر کھلاڑیوں کے ٹیمپرامنٹ ایک روزہ کھیل کی مشقت جھیلنے سے قاصر نظر آتے ہیں اور 50 اوورز تک اپنی توانائیاں جواں رکھنے کے قابل نہیں۔ انگلینڈ اگرچہ انجریز، سلیکشن کی ہول سیل تبدیلیوں اور جاس بٹلر کی متوسط قائدانہ صلاحیتوں کے سبب ابھی تک اپنے ٹائٹل کے دفاع سے قاصر دکھائی دے رہا ہے مگر انڈیا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے نتائج یہ واضح بتا رہے ہیں کہ کھیل کے میدان میں بھی سبقت انہی ٹیموں کی ہے جن کے بورڈز کی جیبیں بھری ہوئی ہیں۔ آئی سی سی کا مالیاتی تقسیم کار ماڈل چونکہ ٹی وی ریٹنگز اور ریونیو کو مدِ نظر رکھ کر اپنی ترجیحات وضع کرتا ہے، سو ہر گزرتے ون ڈے ورلڈ کپ کے ساتھ سری لنکا، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسی ٹیموں کی کارکردگی میں گراوٹ آتی جا رہی ہے جبکہ انڈیا، انگلینڈ اور آسٹریلیا کے نتائج سال بہ سال بہتر سے بہترین ہوئے چلے جاتے ہیں۔ معیارات میں تفاوت اس قدر بڑھ چکا ہے کہ باقی ماندہ دو درجن مقابلوں کی پیش گوئی کرنے کو زیادہ دماغ لڑانے کی ضرورت نہ پڑے گی۔ شیڈول پر انگلی رکھ کر ابھی سے یہ بتایا جا سکتا ہے کہ کون سا میچ کس کے نام ہو گا اور کتنے مارجن سے ہو سکے گا۔ جنوبی افریقہ واحد ایسی ٹیم ابھری ہے جو مالیاتی اعتبار سے بگ تھری کے ہم پلہ نہیں ہے اور پنڈتوں کی پیش گوئیوں میں بھی سیمی فائنل کی دوڑ کے قریب نہیں تھی مگر تباہ کن بیٹنگ اور ناقابلِ تسخیر بولنگ اٹیک کے طفیل حتمی چار کی دوڑ میں نئی فیورٹ بن چکی ہے۔ مگر اس کے علاوہ اب تک کے سبھی نتائج یہ واضح کر رہے ہیں کہ کھیل کے فروغ بارے آئی سی سی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود کرکٹ اب ایک قبیلے کا کھیل بنتا جا رہا ہے اور یہی رجحان جاری رہا تو یہ قبیلہ بھی آہستہ آہستہ مزید سکڑ کر صرف دو تین ٹیموں تک محدود ہو جانے کا خدشہ ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ce9dekky62yo", "summary": "افغانستان ٹیم کے مینٹور کے طور پر اجے جدیجا نے اس ٹیم کی سوچ بدل دی ہے۔ ٹیم پر گہری نظر رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ اجے جدیجا نے اس ٹیم کو جیت کا گر سکھایا ہے۔", "title": "اجے جدیجا: میچ فکسنگ الزامات پر پابندی کا سامنا کرنے والے سابق انڈین کپتان جنھوں نے افغان ٹیم کو ’فتح کے گُر‘ سکھائے", "firstPublished": "2023-10-25T06:01:49.429Z", "id": "ce9dekky62yo", "article": "کرکٹ ورلڈ کپ کے میچ میں افغانستان نے پاکستان کو آٹھ وکٹوں سے شکست دی تو ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے لگا جس میں انڈین کرکٹر اجے جدیجا سے سوال کیا جاتا ہے کہ افغانستان کی ٹیم بڑی ٹیموں کو کیوں نہیں گرا پاتی تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ’تبھی تو آپ کہہ رہے ہو کہ افغانستان چھوٹی ٹیم ہے، جس دن گرا دیں گے اس دن یہ بڑی ٹیم ہو جائے گی۔‘ افغانستان کی ٹیم اس ورلڈ کپ میں اب تک دو بڑی ٹیموں کو ’گرا‘ چکی ہے۔ 15 اکتوبر کو دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کو 69 رنز سے شکست دینے کے ’سنسنی خیز کرشمے‘ کا شور ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ اسی ٹیم نے پاکستان کو آٹھ وکٹوں سے شکست دے دی۔ اس جیت کی گونج چنئی سے لے کر دلی، اسلام آباد اور کابل تک سنائی دی اور اسی دوران اجے جدیجا کا نام لیا گیا جو بہت پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ افغانستان بھی ایک بڑی ٹیم ہے۔ سچن تندولکر نے لکھا کہ ’اس ورلڈ کپ میں افغانستان کی کارکردگی شاندار رہی ہے۔ بیٹنگ میں ان کا نظم و ضبط، انھوں نے جو رویہ دکھایا، جس طرح سے وہ وکٹوں کے درمیان رنز بنانے کے لیے تیز دوڑتے ہیں وہ ان کی محنت کی عکاسی کرتے ہیں۔ شاید یہ سب مسٹر اجے جدیجا کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ہوا ہے۔‘ اجے جدیجا جو میدان پر ہمیشہ مسکراتے نظر آتے تھے، اپنی چستی اور کھیل کی وجہ سے انڈین ٹیم کے مقبول کھلاڑیوں میں سے ایک تھے۔ مداحوں کے لیے وہ ’مسٹر چارمنگ‘ تھے۔ تب یہ بھی دعویٰ کیا جاتا رہا کہ ’بہت سے شائقین صرف ان کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔‘ افغانستان ٹیم کے مینٹور کے طور پر اجے جدیجا نے اس ٹیم کی سوچ بدل دی ہے۔ ٹیم پر گہری نظر رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ اجے جدیجا نے اس ٹیم کو ’جیت کا گر‘ سکھایا ہے۔ پاکستان کے سابق کپتان اور وکٹ کیپر راشد لطیف نے ایک پروگرام میں بتایا کہ یہ عہدہ لینے سے پہلے اجے جدیجہ نے انھیں کال کی اور پوچھا کہ کیا انھیں افغان ٹیم کے مینٹور کے طور پر کام کرنے کے لیے حامی بھرنی چاہیے۔ پاکستان کے سابق کپتان شعیب ملک نے اجے جدیجا کو کھیلتے دیکھا ہے اور ان کے ساتھ بطور تبصرہ نگار بھی کام کر چکے ہیں۔ شعیب ملک کا خیال ہے کہ افغانستان کی ٹیم میں تبدیلی کا زیادہ تر کریڈٹ جدیجا کو دینا چاہیے۔ افغانستان کی پاکستان کے خلاف جیت کے بعد شعیب ملک کا کہنا تھا کہ ’میں نے اجے جدیجا کے ساتھ 2015 ورلڈ کپ کے دوران ایک چینل کے لیے کام کیا ہے۔ کرکٹ کے بارے میں ان کی سمجھ بہت اچھی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv20zerpjp2o", "summary": "اس تحریر میں ہم یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان سے رینکنگ میں کئی درجہ نیچے موجود افغانستان کی ٹیم کے ساتھ پاکستان کا میچ ’سیاسی‘ کیسے بنا؟", "title": "ابراہیم زدران کا پاکستان میں افغان پناہ گزینوں سے متعلق بیان: پاکستان، افغانستان کرکٹ میچ ’سیاسی‘ کیسے بنا؟", "firstPublished": "2023-10-23T03:47:27.780Z", "id": "cv20zerpjp2o", "article": "تاہم کل ورلڈ کپ کے میچ میں افغانستان نے پاکستان کو ون ڈے کرکٹ میں پہلی بار شکست دی تو جہاں افغان ٹیم کی سوشل میڈیا پر تعریف کی جانے لگی اور مبارکبادوں کا سلسلہ شروع ہوا وہیں ابراہیم زدران کا یہ بیان بھی گردش کرنے لگا۔ خیال رہے کہ پاکستان افغانستان میچ ورلڈ کپ سے کئی ماہ قبل اس وقت زیرِ بحث آیا تھا جب پی سی بی کی جانب سے اس کے شیڈول میں تبدیلی کی غیر معمولی درخواست کی گئی تھی۔ یہ میچ گراؤنڈ کے اندر ہونے والے واقعات کے ساتھ ساتھ اس سے باہر ہونے والے جھگڑوں اور سوشل میڈیا ٹرینڈز کے باعث بھی خاصا بدنام ہے۔ اس تحریر میں ہم یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان سے رینکنگ میں کئی درجہ نیچے موجود افغانستان کی ٹیم کے ساتھ پاکستان کا میچ ’سیاسی‘ کیسے بنا؟ اس تحریر میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے آئی سی سی سے آسٹریلیا اور افغانستان کے خلاف میچوں کے شیڈول میں تبدیلی کی درخواست کی گئی تھی جس کے باعث وہ دونوں میچوں میں ’فیورٹ‘ بن جائے گا۔ پی سی بی اور آئی سی سی کی اس لیکڈ بات چیت سے عام تاثر یہ ملا کہ پاکستان چنئی میں افغانستان سے اس لیے کھیلنے سے خائف ہے کیونکہ چنئی کی پچ سپنرز کے لیے سازگار سمجھی جاتی ہے اور افغان سپنرز جو کہ آئی پی ایل کے دوران بہترین بولنگ کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں اس کا بھرپور فائدہ اٹھا کر پاکستانی بلے بازوں کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ افغان کرکٹ کی تاریخ لکھنے والے اکثر افراد کے مطابق افغانستان میں کرکٹ کی بینیاد انھی پناہ گزین کیمپوں میں رکھی گئی تھی۔ وقت کے ساتھ جب افغانستان میں کرکٹ کا ڈھانچا بہتر ہونے لگا تو پاکستان سے متعدد کوچز نے افغان ٹیم کی کوچنگ کی جن میں کبیر خان اور انضمام الحق شامل ہیں۔ اس کے بعد سے اب جب بھی افغانستان اور پاکستان کا میچ ہوتا ہے تو صورتحال گراؤنڈ یا گراؤنڈ سے باہر کشیدہ رہنے کا خدشہ رہتا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر افغانستان کی انڈیا سے شکست کے بعد پاکستان میں چلنے والے ٹرینڈز میں افغان کھلاڑیوں کو مختلف القابات سے نوازا جاتا رہا ہے۔ اس کے بعد نسیم شاہ کی جانب سے دو یادگار چھکے مارے گئے اور پاکستان یہ میچ آخری اوور میں ایک وکٹ سے جیتنے میں کامیاب ہوا تھا۔ اس میچ کے بعد بھی شارجہ کرکٹ گراؤنڈ میں افغان تماشائیوں کی جانب سے کرسیاں پھینکنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس کے بعد شارجہ میں انتظامیہ کی جانب سے کارروائی کی گئی تھی۔ تاہم جو بھی ہو، پاکستان اور افغانستان کے درمیان آنے والے سالوں میں مقابلے ہمیشہ کی طرح دلچسپ رہیں گے اور ان پر گراؤنڈ میں ہونے والے واقعات کے ساتھ ساتھ گراؤنڈ سے باہر ہونے والے واقعات بھی اثرانداز ہوتے رہیں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g32e23gwdo", "summary": "بابر اعظم نے جہاں اپنی بیٹنگ سے پاکستانی اننگز کی نبض بحال کی، وہیں اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے ایک اچھے قابلِ دفاع مجموعے کو افغان بلے بازوں کی جھولی میں ڈال دیا۔ ", "title": "یہ کپتانی اسی ہار کی حقدار تھی: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-10-24T02:14:23.335Z", "id": "c3g32e23gwdo", "article": "افغان بیٹنگ پاکستانی فیلڈرز پہ وحشت ڈھا رہی تھی اور میچ کے اختتامی لمحات کی جانب جب مڈ آف پہ کھڑے کپتان بابر اعظم کیمرے کے کلوز شاٹ کی زینت بنے تو ان کی آنکھیں کسی کرب آلود نمی سے گویا چھلکنے کو تھیں۔ مگر بابر اعظم نے جہاں اپنی بیٹنگ سے پاکستانی اننگز کی نبض بحال کی، وہیں اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے ایک اچھے قابلِ دفاع مجموعے کو افغان بلے بازوں کی جھولی میں ڈال دیا۔ محمد نواز کی عدم دستیابی بلاشبہ بابر کے اختیار میں نہ تھی۔ مگر نجانے یہ حقیقت کیسے ہر بار ان کی نظر سے اوجھل رہ جاتی ہے کہ پاکستانی سپنرز کی اس پریشان مہم جوئی میں افتخار احمد ان کا وہ واحد ہتھیار ہیں جو اب تک ہمہ قسمی بلے بازوں کے لئے دقت پیدا کرتے رہے ہیں۔ سو، اگر شماریاتی اعتبار سے پاور پلے میں لیگ سپن سے احتراز برتنا ناگزیر تھا اور پیسرز بھی اپنی لائن پہ گرفت نہیں رکھ پا رہے تھے تو کیا امر مانع تھا کہ ایک کنارے سے گیند افتخار احمد کو تھما دی جاتی اور افغان اوپنرز کی جارحیت کے لئے آف سپن کا دامِ تزویر بچھا دیا جاتا۔ مگر نہ تو بابر اعظم محدود سوچ کے حصار سے باہر کچھ سُجھا پائے، نہ ہی پیسرز اپنی لائن میں کوئی ڈسپلن نبھا پائے اور نہ ہی پاکستانی فیلڈرز اپنی کاوش میں کوئی بہتری لا پائے۔ اور جب ایک کنارے سے شاہین کا سپیل مختصر کیا بھی گیا تو سپن کو موقع دینے کی بجائے بابر نے گیند حارث رؤف کو تھما دی۔ پھر اننگز کے بیچ وہ مرحلہ بھی آیا کہ جب گیند کی دمک ماند پڑ گئی اور حسن علی کے دوسرے سپیل میں واضح طور پہ ریورس سوئنگ کی جھلک بھی نظر آئی۔ تب بھی کافی میچ باقی تھا اور اگر بابر اعظم دانش مندی سے کام لیتے تو بھی انہونی کو ٹال سکتے تھے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ موجودہ افغان ٹیم اپنی تاریخ کی بہترین ٹیم ہے اور مسابقتی کرکٹ کھیل کر کسی بھی حریف کو شکست دے سکتی ہے۔ مگر یہاں اس پیس اٹیک اور سکور بورڈ پہ جڑے ایسے مجموعے کے ساتھ ہدف کے تعاقب میں جیت کا سوچنا کسی بھی بیٹنگ یونٹ کے لئے دشوار تھا۔ وہ تو بھلا ہو کہ افغان کرکٹ کو یہاں بابر اعظم جیسا حریف کپتان میسر آ گیا جس نے یہ یقینی بنایا کہ تعاقب کے کسی بھی مرحلے پہ افغان بلے بازوں کو کہیں کوئی دقت نہ پیش آ جائے۔ افغان پاکستان کرکٹ رقابت آج تک ایک بے جوڑ اور منطق سے ماورا شے تھی مگر یہاں حشمت اللہ کی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے کہ انہوں نے بہترین کرکٹ کھیل کر اس رقابت کو معنویت بخش دی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c06r2r522rro", "summary": "انڈیا میں جاری ورلڈ کپ کے دوران افغانستان نے پاکستان کو آٹھ وکٹوں سے شکست دی ہے۔ 283 رنز کے ہدف کے تعاقب میں جہاں افغان بلے باز مکمل کنٹرول میں نظر آئے وہیں وکٹوں کی تلاش میں پاکستانی بولرز کی بے بسی عیاں تھی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ افغانستان نے پاکستان کو عالمی مقابلوں میں شکست دی ہے۔ ", "title": "افغانستان کے خلاف تاریخی شکست: ’اب بابر یہ نہیں پوچھ سکیں گے کہ مجھے کیوں نکالا‘", "firstPublished": "2023-10-23T14:05:17.957Z", "id": "c06r2r522rro", "article": "انڈیا میں جاری ورلڈ کپ کے دوران افغانستان نے پاکستان کو آٹھ وکٹوں سے شکست دی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ افغانستان نے پاکستان کو عالمی مقابلوں میں شکست دی ہے۔ چنئی میں پاکستان کی جانب سے پہلی اننگز میں 282 رنز کے جواب میں افغان بلے باز مکمل کنٹرول میں دکھائی دیے۔ اوپنرز ابراہیم زدران اور رحمان اللہ گرباز کی نصف سنچریوں کے بعد مڈل آرڈر نے 49ویں اوور میں باآسانی ہدف کے تعاقب کو ممکن بنایا۔ پاکستانی بولرز وکٹوں کی تلاش میں بے بس دکھائی دیے۔ شاہین شاہ آفریدی اور حسن علی نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی مگر کپتان حشمت اللہ شاہدی اور رحمت شاہ کے درمیان 96 رنز کی ناقابل شکست شراکت نے مقابلہ یکطرفہ بنا دیا تھا۔ پاکستانی کپتان بابر اعظم نے کہا کہ ’افغانستان کے خلاف شکست سے درد تو ہوا ہے۔ ہماری بولنگ اچھی نہیں رہی۔ ہم مڈل اوورز میں وکٹیں نہ لے سکے۔‘ دوسری اننگز کی ابتدا میں افغان اوپنرز عمدہ کھیلے اور 21 اوورز میں 130 رنز کی شراکت قائم کی۔ ابراہیم زدران اور رحمان اللہ گرباز نے اپنی نصف سنچریوں کے دوران پاکستانی بولرز کی خوب پٹائی کی۔ جہاں پاکستانی بولرز وکٹیں کی تلاش میں بے بس دکھائی دے رہے تھے وہیں رحمان شاہ نے 41ویں اوور میں اپنی نصف سنچری مکمل کی۔ عبد اللہ نے کپتان بابر کے ساتھ بھی 54 رنز کی شراکت قائم کی مگر اپنی نصف سنچری مکمل کر کے لیفٹ آرم لیگ سپنر نور احمد کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔ اس میچ میں نور کو افغان پیسر فضل حق فاروقی کی جگہ ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ اس میچ میں شاداب کی واپسی نے پاکستان کے لوئر میڈل آرڈر کو مضبوط کیا۔ ان کی افتخار احمد کے ساتھ 45 گیندوں پر 73 رنز کی شراکت اور آخری 10 اوورز میں 91 رنز کی بدولت پاکستان کا مجموعی سکور سات وکٹوں کے نقصان پر 282 رنز ٹھہرا۔ میڈل اوورز میں افغان بولرز کی نپی تلی بولنگ نے پاکستانی بلے بازوں کو کافی پریشان کیے رکھا۔ نور احمد نے 49 رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کیں۔ اس شکست کے باوجود پاکستان ورلڈ کپ کے پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں نمبر پر ہے اور اب بھی اس کے چار میچز باقی ہیں۔ جبکہ افغانستان چار پوائنٹس کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔ کرکٹ تجزیہ کار مظہر ارشد کے مطابق افغانستان نے آج ون ڈے کرکٹ میں سب سے بڑے ہدف کا تعاقب کیا ہے۔ اس دوران بہت سے صارفین بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ جیسے نمرہ نے تجویز دی کہ ’ورلڈ کپ کے بعد شاداب کو ٹیم سے نکال دینا چاہیے اور بابر کو کپتانی سے۔ حارث رؤف کو صرف ٹی ٹوئنٹی میں کھلانا چاہیے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy612j0jxpvo", "summary": "انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ میں انڈیا کی ٹیم نے لگاتار پانچویں جیت حاصل کرکے سیمی فائنل میں جانے کے لیے اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے جبکہ مایہ ناز کرکٹر وراٹ کوہلی سب سے زیادہ رنز بنانے والوں کی فہرست میں محمد رضوان اور روہت شرما کو پیچھے چھوڑ کر پہلے نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔", "title": "انڈین شائقین بہترین کھیل پیش کرنے والے وراٹ کوہلی کو ’خود غرض‘ کیوں کہہ رہے ہیں؟", "firstPublished": "2023-10-23T07:35:59.931Z", "id": "cy612j0jxpvo", "article": "انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ میں انڈیا کی ٹیم نے لگاتار پانچویں جیت حاصل کرکے سیمی فائنل میں جانے کے لیے اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے جبکہ مایہ ناز کرکٹر وراٹ کوہلی سب سے زیادہ رنز بنانے والوں کی فہرست میں محمد رضوان اور روہت شرما کو پیچھے چھوڑ کر پہلے نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔ وپن تیواری نامی ایک صارف کوہلی اور بابر اعظم کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’بابر اعظم نے اپنے پورے ون ڈے کریئر میں 5492 رنز بنائے ہیں جبکہ وراٹ کوہلی نے صرف کامیابی کے ساتھ ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے 5786 رنز بنائے ہیں۔ اس لیے ان کا پلاسٹک کے بادشاہ سے مقابلہ نہیں کیا جانا چاہیے۔‘ اگر بابر اعظم فی الحال رینکنگ میں نمبر ایک پر ہیں لیکن وراٹ کوہلی اپنے ہم عصروں میں سب سے آگے ہیں۔ انھوں نے 274 اننگز میں 13437 رنز سکور کیے ہیں جس میں 48 سنچریاں اور 69 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ رواں ورلڈ کپ میں وہ پانچ اننگز میں 354 رنز کے ساتھ سر فہرست ہیں اور ان کا اوسط 118 رنز کا ہے۔ ان کے بعد روہت شرما 311 رنز اور محمد رضوان 294 رنز کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ روہت کا اوسط 62 کا ہے جبکہ محمد رضوان کا اوسط 98 رنز کا ہے لیکن انھوں نے ان دونوں انڈین کرکٹروں سے ابھی ایک ميچ کم کھیلے ہیں۔ اس سے قبل 19 اکتوبر کو بنگلہ دیش کے خلاف ہونے والے میچ میں وراٹ کوہلی کو سنچری مکمل کرنے کے لیے 26 رنز درکار تھے جبکہ انڈیا کو جیت کے لیے بھی اتنے ہی رنز چاہیے تھے۔ ایسے میں دوسرے سرے پر کھیلنے والے کے ایل راہل نے رنز نہ بنا کر کوہلی کو سنچری مکمل کرنے میں مدد کی اور کوہلی نے میچ جیت کر مین آف دی میچ کا انعام حاصل کیا۔ یہ ان کی ون ڈے میں 48 ویں سنچری تھی۔ گذشتہ روز نیوزی لینڈ کے خلاف بھی انھیں سنچری کے لیے 13 رنز درکار تھے اور انڈیا کو جیت کے لیے بھی اتنے ہی رنز چاہیے تھے۔ دوسرے سرے پر کھیلنے والے رویندر جڈیجہ ان کو سنچری بنانے کا موقع دے رہے تھے لیکن وہ اپنی 49 ویں سنچری مکمل کرنے میں ناکام رہے۔ چیتن نامی ایک صارف نے کے ایل راہل کا بیان جلی حروف میں پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ان کے لیے ہے جو کوہلی کو خودغرض کہتے ہیں۔ اس بیان کے مطابق کے ایل راہل نے کہا کہ ’میں نے ایک رن لینے سے منع کر دیا تو کوہلی نے کہا کہ اگر آپ سنگل نہیں لیں گے تو لوگ کہیں گے کہ ہم اپنی ذاتی ریکارڈ کے لیے کھیل رہے ہیں تو ہم نے کہا کہ ہم لوگ آسانی کے ساتھ جیت رہے ہیں آپ اپنی سنچری مکمل کریں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cx0ee01zvwpo", "summary": "جو لگی بندھی کپتانی تاحال بابر اعظم کرتے چلے آ رہے ہیں، اس سے نمایاں ہو رہا ہے کہ وہ سب کچھ ڈریسنگ روم سے ہی طے کر کے نکلتے ہیں اور زمینی حقائق لاکھ بدلتے رہیں، وہ اپنے پلان اے سے ذرا سا بھی انحراف نہیں کرتے۔ پڑھیے سمیع چوہدری کا کالم۔ ", "title": "سمیع چوہدری کا کالم: ’کپتان بابر اعظم کب نمودار ہوں گے؟‘", "firstPublished": "2023-10-22T09:02:39.424Z", "id": "cx0ee01zvwpo", "article": "اب اگرچہ سیمی فائنل کی دوڑ میں پاکستانی امیدیں مدھم پڑ رہی ہیں مگر پوائنٹس ٹیبل جس ہلچل کا شکار ہے، یہ یقینی ہے کہ لو ابھی تک بجھی بھی نہیں ہے۔ اور اس تناظر میں افغانستان کے خلاف معرکہ انتہائی اہمیت کا حامل ہو چکا ہے۔ دوسری جانب افغانستان نے انگلینڈ کو مات کرنے کے بعد تمناؤں کا جو معیار اپنے لیے طے کر چھوڑا تھا، کیویز کے خلاف وہ پورا ہونے سے کوسوں دور رہ گیا۔ اس کا سبب افغان بیٹنگ سے کہیں زیادہ ناقص فیلڈنگ اور ٹاس کے مرحلے پہ فیصلہ سازی کا خلجان تھا۔ ابتدائی تین میچز کی پے در پے ناکامیوں کے بعد امام الحق بھی فارم میں واپس آئے اور آسٹریلیا کے خلاف ایک اچھی اننگز کھیلی۔ مگر انھیں یہ بھی غور کرنا ہو گا کہ ان کی اس اننگز کا ٹیم کو فائدہ تبھی ہو سکتا تھا اگر وہ ففٹی سینچری میں بدل پاتی اور سٹرائیک ریٹ بھی ٹیم کی ضروریات کے مطابق ڈھل پاتا۔ ایک اور مثبت پہلو محمد رضوان کی مستقل مزاجی ہے جو اکیلے ہی نہ صرف مڈل آرڈر کا بوجھ ڈھوتے آ رہے ہیں بلکہ ٹاپ آرڈر کی عدم جارحیت کی بھی تلافی کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ لیکن ان کے تسلسل سے فائدہ اٹھانے کے لیے ٹاپ آرڈر کو بھی فوری اپنے سٹرائیک ریٹ پہ نظرِثانی کی ضرورت ہے۔ اب اگر پاکستان کو باقی ماندہ مہم جوئی سے اپنے شائقین کی امیدیں جواں رکھنا ہیں تو سب سے اہم پہلو بابر اعظم کی اپنی فارم ہے جو اس ورلڈ کپ میں کہیں بھی مکمل روانی میں دکھائی نہیں دیے۔ انڈیا کے خلاف اکلوتی ففٹی میں بھی ان کی اننگز تفکرات سے لیس تھی اور کسی بھی مرحلے پہ وہ بولرز کو دباؤ میں نہیں لا پائے۔ اگر یہاں بابر اعظم اپنی نمبرون انٹرنیشنل رینکنگ سے انصاف کر پائے تو پاکستان کے امکانات کا پلڑا بھاری ہو سکتا ہے۔ بلاشبہ افغان بولنگ پاکستان کے لیے امتحان بن سکتی ہے کہ چنائی کی پچ عموماً سپنرز کے لیے سازگار رہا کرتی ہے اور افغانستان کا سپن ڈیپارٹمنٹ یقیناً اس ایونٹ کے تمام شرکا میں سے بہترین ہے۔ قیادت کے محاذ پہ بھی بابر اعظم کو اپنا کھیل بہت بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ صرف یہ سمجھنا اہم ہے کہ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کیوں ضروری ہے بلکہ یہ بھی ذہن نشین کرنا ہو گا کہ تاحال اس ورلڈ کپ میں دوسری اننگز کی اوس ایک واہمے کے سوا کچھ ثابت نہیں ہوئی۔ اور پریشر میچز میں ہمیشہ سکور بورڈ پہ جڑا مجموعہ ہی مفید ثابت ہوا کرتا ہے۔ جو لگی بندھی کپتانی تاحال بابر اعظم کرتے چلے آ رہے ہیں، اس سے نمایاں ہو رہا ہے کہ وہ سب کچھ ڈریسنگ روم سے ہی طے کر کے نکلتے ہیں اور زمینی حقائق لاکھ بدلتے رہیں، وہ اپنے پلان اے سے ذرا سا بھی انحراف نہیں کرتے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c8744n7526ro", "summary": "دفاعی چیمپین انگلینڈ کی چار میچوں میں تیسری شکست نے اسے دم بخود کر دیا ہے۔ لیکن جنوبی افریقہ کے ہاتھوں اسے جس ہزیمت کا سامنا رہا وہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ ", "title": "جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست کے بعد کیا دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کی ورلڈ کپ کی امیدیں ختم ہو گئیں؟", "firstPublished": "2023-10-22T05:52:37.132Z", "id": "c8744n7526ro", "article": "دفاعی چیمپین انگلینڈ کی چار میچوں میں تیسری شکست نے اسے دم بخود کر دیا ہے۔ لیکن جنوبی افریقہ کے ہاتھوں اسے جس ہزیمت کا سامنا رہا وہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ اگرچہ انگلینڈ سیمی فائنل میں پہنچنے کی دوڑ سے باہر نہیں ہوئی ہے لیکن یہ پے در پے شکست نے بظاہر اس کے اوسان خطا کر دیے ہیں اور اسے اس دوڑ سے باہر سمجھا جا رہا ہے۔ پھر افغانستان کے ہاتھوں شکست نے اسے نئے سرے سے سوچنے پر مجبور کر دیا لیکن جنوبی افریقہ کی ٹیم کل ممبئی میں کچھ دوسرے ہی ارادے سے اتری تھی۔ جنوبی افریقہ کے لیے کپتانی کے فرائض انجام دینے والے ایڈن مارکرم نے کہا کہ انھیں اس وقت حیرت ہوئی جب انگلینڈ نے ٹاس جیت کر انھیں بیٹنگ کی دعوت دی۔ وہ اپنے ٹاس جیتنے کی صورت میں بھی پہلے بیٹنگ چاہتے تھے کیونکہ ممبئی کے وانکھیڑے سٹیڈیم کی گرمی میں وہ اپنے کھلاڑیوں کو بہت زیادہ ایکسپوز نہیں کرنا چاہتے تھے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ چونکہ انگلینڈ ہدف کا تعاقب کرنا پسند کرتی ہے اس لیے شاید انھوں نے یہ فیصلہ کیا۔ بہر حال جب جنوبی افریقہ پہلے بیٹنگ کرنے کے لیے اتری اور دوسری ہی گیند پر رواں ورلڈ کپ کے تین میچوں میں دو سنچریاں سکور کرنے والے ڈی کاک صرف چار رنز بنا کر ٹوپلی کی گیند پر آؤٹ ہو گئے تو ایسا لگا کہ انگلینڈ نے درست فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب مارکو جانسین نے تین چوکے اور چھ چھکوں کی مدد سے 75 رنز بنائے اور ناٹ آوٹ رہے۔ کلاسین آخری اوور کی پہلی گیند پر آوٹ ہوئے اور اس وقت تک 394 رنز بن چکے تھے اور ہدف 400 کے پار جاتا نظر آ رہا تھا لیکن آخری اوور میں صرف پانچ رنز بن سکے تاہم جنوبی افریقہ نے انگلینڈ کے سامنے 400 رنز کا ایک مشکل ہدف رکھا۔ دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کی اس بری شکست کا سوشل میڈیا پر چرچا ہے۔ ای ایس پی این کرک انفو نے لکھا کہ انگلینڈ کی اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنے کی امید ایک دھاگے سے لٹکی ہے۔ اس کے جواب میں کسی نے ’دلبرداشتہ‘ ہونے کا اظہار کیا تو کسی نے اس اسے انگلینڈ کی ’خراب کارکردگی‘ قرار دیا۔ کرکٹر دلیپ سر دیسائی کے بیٹے صحافی راجدیپ سردیسائی نے لکھا کہ ’ٹورنامنٹ سے پہلے میں نے انڈیا بمقابلہ انگلینڈ کو (فلم لگان 2.0) کے طور پر فائنل کے لیے چنا تھا۔ ورلڈ کپ میں دو ہفتے ہی گزرے ہیں کہ دفاعی چیمپین انگلینڈ تھکی ہوئی نظر آ رہی ہے اور ان کی ہمت بہت تیزی سے جواب دے رہی ہے۔ یہ زبردست ہزیمت تھی۔ شروع میں میرا بلیک ہارس جنوبی افریقہ تھی۔ اب وہ ٹائٹل کے لیے سنجیدہ دعویداروں میں سے ایک ہے۔ وہ تمام ٹیموں میں درمیانی اوورز کے بہترین پاور ہاؤس ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c5172rxn6lyo", "summary": "سجاد کو ہر دن مزدوری کے دوران بھاری سیمنٹ اور بجری کا مکسچر بلاکس میں ڈالنا پڑتا ہے۔ مگر شام کو وہ اپنا شوق پورا کرنے دریا کے کنارے جمناسٹکس کی پریکٹس کرتے ہیں۔ ", "title": "ثمر باغ کے ہنرمند نوجوان: ’مزدوری مجبوری ہے اور جمناسٹکس میرا جنون‘", "firstPublished": "2023-10-22T05:11:51.940Z", "id": "c5172rxn6lyo", "article": "یہ کہنا ہے خیبر پختونخوا کے علاقے ثمر باغ کے نوجوان سجاد کا جو دن میں ایک بلاک فیکٹری میں مزدوری کے بعد شام کو جمناسٹکس کلب جاتے ہیں۔ ہر دن مزدوری کے دوران انھیں بھاری سیمنٹ اور بجری کا مکسچر بلاکس میں ڈالنا پڑتا ہے۔ مگر شام کو وہ اپنا شوق پورا کرنے دریا کے کنارے جمناسٹکس کی پریکٹس کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ لگ بھگ 40 دیگر لڑکے روزانہ شام کو اپنے اپنے کاموں سے فارغ ہو کر دریا کے کنارے جمناسٹک کی پریکٹس کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سجاد کی ایک ایسی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ ڈبل سمر سالٹ اور ٹرپل ٹوئسٹ جمپ میں اپنی مہارت دکھاتے ہیں۔ اس ویڈیو کے بارے میں معلوم کیا تو بتایا گیا کہ یہ ثمر باغ کے نوجوان ہیں جنھوں نے ایک جمناسٹکس کلب بنایا ہے۔ جب وہ پشاور میں جمناسٹکس سیکھ رہے تھے تو ’دل میں یہ خیال آتا تھا کہ ثمر باغ میں باقی لڑکے بھی اس طرف آئیں اور اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ بیشتر علاقوں میں بیروزگاری کی وجہ سے نوجوان نشے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ میرا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ بچوں کو نشے سے بچا سکوں۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ لڑکے باقی چار کرتب نہیں کر پاتے، جیسے ڈبل سمر سالٹ یا ٹرپل ٹوئسٹ۔ ’اس میں لینڈنگ میں کم ہی لوگ مہارت حاصل کر پاتے ہیں۔ سجاد اس میں ماہر ہے لیکن سارا دن مزدوری کرنے کے بعد جب یہاں پریکٹس کے لیے آتا ہے تو اس میں توانائی نہیں ہوتی، وہ جسم پر زور لگاتا ہے۔‘ جمناسٹکس کلب ایک چھوٹے سے ہال میں قائم کیا گیا ہے جو ایک چھوٹی مارکیٹ میں واقع ہے۔ اس کلب میں چھوٹے بچوں سے لے کر 20 سال تک کے لڑکے پریکٹس کرتے ہیں۔ سجاد نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے والد وفات پا چکے ہیں جس کی وجہ سے وہ صرف چھٹی جماعت تک تعلیم حاصل کر سکے۔ ’چھ بھائی اور چار بہنوں میں سے صرف ایک بھائی سکول جاتا ہے، باقی سب کوئی نہ کوئی مزدوری کرتے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’جمناسٹکس کا شوق تو بچپن سے ہی تھا۔ گھر میں کچھ نہ کچھ کرتب کرتا رہتا تھا۔ ایک دن ٹی وی پر جمناسٹکس دیکھ کر مجھے حوصلہ ملا اور میں اسے توجہ سے دیکھنے لگا۔‘ وہ ٹی وی میں دکھائی جانے والی جمناسٹکس خود گھر میں کرنے لگے۔ ’ایک دن دوست نے بتایا کہ یہاں ایک جمناسٹکس کلب بنا ہے وہاں جا کر دیکھو۔ اس کلب میں جب آیا تو ثنا اللہ سے ملاقات ہوئی اور یہاں انھوں نے میری تربیت کی۔ اس کے بعد میں یہ مشکل ڈبل سمرسالٹ اور ٹرپل ٹوئسٹ جمپ سیکھ گیا۔ میری کوشش ہے کہ اس کھیل میں اپنا نام پیدا کروں اور اگر میری طرف توجہ دی گئی تو مجھے یقین ہے کہ میں بہت اچھی کارکردگی دکھا سکتا ہوں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n880xezj8o", "summary": "ویڈیو جمعے کے دن انڈیا میں کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران پاکستان اور آسٹریلیا میچ کے بیچ وائرل ہوئی جس میں دعوی کیا گیا کہ بنگلورو کے ایم چناسوامی میں تعینات ایک انڈین پولیس اہلکار نے ایک پاکستانی مداح کو ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے سے روکا۔", "title": "’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے سے روکنے کی ویڈیو: ’پولیس اہلکار انڈیا میں سب لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتا‘", "firstPublished": "2023-10-21T06:03:33.621Z", "id": "c4n880xezj8o", "article": "اس گفتگو پر مشتمل ویڈیو جمعے کے دن انڈیا میں کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران پاکستان اور آسٹریلیا میچ کے بیچ وائرل ہوئی جس میں دعوی کیا گیا کہ بنگلورو کے ایم چناسوامی میں تعینات ایک انڈین پولیس اہلکار نے ایک پاکستانی مداح کو ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے سے روکا۔ اس وجہ سے یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا اس ویڈیو میں پیش آنے والا واقعہ درست ہے اور آیا انڈین پولیس اہلکار نے کسی پاکستانی مداح کو پاکستان کے حق میں نعرے بلند کرنے سے خود روکا۔ انڈین کرکٹ بورڈ کی جانب سے بھی اب تک کوئی موقف سامنے نہیں آ سکا۔ انھوں نے مزید لکھا کہ ’یہ شخص تمام انڈین شہریوں کی نمائندگی نہیں کرتا۔ لیکن اس کی طرف سے اس پرستار کو ایسا کرنے سے روکنے کی جو بھی وجہ بتائی گئی ہے، وہ درست نہیں ہے۔ یہ قانونا درست نہیں ہے۔ سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کا مقصد لوگوں کے لیے کھیل سے لطف اندوز ہونے کا ماحول بنانا ہے۔ انھیں ہمیں اس وقت یہ احساس کرانا چاہیے کہ کرکٹ لوگوں کو ساتھ لانے کا ایک ذریعہ ہے۔اور ہر ناظر کو بین الاقوامی ٹورنامنٹ کے دوران اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کا حق ہے۔ آئی سی سی اور بی سی سی آئی کو اس معاملے کی تحقیقات کرنی چاہیے تاکہ ہر کوئی ورلڈ کپ کے میچوں سے لطف اندوز ہو سکے اور یہ سب کے لیے محفوظ جگہ بن سکے۔‘ انڈیا میں مان امن سنگھ چنا نامی ایک صارف نے اس ویڈیو پر رد عمل دیتے ہوئے لکھا: ’کتنی احمقانہ بات ہے اور یہ سب شرمناک حد تک جا رہا ہے۔ آپ ایک پاکستانی مداح کو پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے سے کیسے روک سکتے ہیں؟‘ سدھارتھ نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا: ’ذرا تصور کریں کہ اگر کسی پاکستانی سٹیڈیم میں ایک انڈین سپورٹر کو پاکستانی پولیس والے نے بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانے سے روکا اور اسے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے کی اجازت دی، تو کیا آپ کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی؟‘ پاکستانی ناظرین کی عدم موجودگی کے لحاظ سے یہ ورلڈ کپ پاکستان کے لیے اب تک کا مشکل ترین ورلڈ کپ کہا جا رہا ہے۔ آسٹریلیا کے میچ سے قبل انڈیا کے ساتھ ہونے والے میچ کے دوران پاکستانی وکٹ کیپر اور بلے باز محمد رضوان کو ’جے شری رام‘ کے نعروں کا بھی سامنا کرنا پڑا اور پی سی بی نے شائقین کی جانب سے اس ناروا رویے کی شکایت آئی سی سی سے کی ہے جبکہ ایک انڈین وکیل نے محمد رضوان کی جانب سے میدان میں نماز ادا کرنے پر آئی سی سی سے شکایت کی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp4jj8gyzqgo", "summary": "یہ بات عقل سے بالاتر ہے کہ جہاں دیگر اٹیک پہ یلغار ہونے کے بعد اسامہ میر بھی بے اثر ثابت ہو رہے تھے، وہاں دن کے سب سے مفید بولر افتخار احمد کا کوٹہ پورا کروانا ضروری کیوں نہیں سمجھا گیا؟\n", "title": "’مگر جو کوتاہی ابتدا سے ہوئی‘: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-10-21T02:29:02.556Z", "id": "cp4jj8gyzqgo", "article": "ایشیا کپ سے اب تک شاہین آفریدی اپنی بہترین کارکردگی ظاہر نہیں کر پا رہے تھے اور اس کا خمیازہ ٹیم کے مجموعی نتائج میں نمایاں ہو رہا تھا۔ مگر جب شاہین اپنی اصل کو لوٹے، تب تک باقی پرزے اپنی جگہ سے سرک چکے تھے اور جمود ایک بار پھر ٹوٹنے سے رہ گیا۔ اس ٹورنامنٹ میں تاحال پاکستان کے تین نمایاں المیے رہے تھے کہ ٹاپ آرڈر اپنے حصے کا بار نہیں اٹھا رہا تھا، شاہین آفریدی اپنی اصل تاثیر پیدا نہیں کر پا رہے تھے اور شاداب خان مڈل اوورز میں اپنا کردار نبھانے سے قاصر رہے تھے۔ بنگلورو میں پاکستان نے شاداب خان کے المیے کا حل یہ نکالا کہ انھیں آرام دے دیا گیا اور اسامہ میر کا ورلڈ کپ ڈیبیو ہوا۔ اور شاہین آفریدی کی بولنگ میں بھی اب تک جو کسر رہی تھی، اس کی بھی بھرپور تلافی ہوتی نظر آئی۔ جس پچ پہ بولرز کے لیے کوئی جائے پناہ نہ تھی، وہاں وہ دن کے سب سے مؤثر بولر ٹھہرے۔ یہاں شاہین تو اپنی اصل کو لوٹے مگر ان کے باقی سبھی ساتھی رستہ بھٹک گئے۔ اس کے برعکس ڈیوڈ وارنر کا کیچ ڈراپ ہونے کی دیر تھی کہ پاکستانی فیلڈرز کے شانے جھکتے چلے گئے، چہرے مرجھانے لگے اور شامت کو گویا نوشتۂ دیوار سمجھ لیا گیا۔ اس کے بعد ساری پاکستانی بولنگ بے رہروی کی ایک رو میں بہتی چلی گئی۔ اس بے خودی کے ہنگام پاکستان یہ حقیقت بھی نظر انداز کر بیٹھا کہ بنگلورو کی اس بے جان پچ میں جہاں بولرز کے لئے وحشت کا سامان تھا اور باؤنڈریز کی طوالت جس قدر مختصر تھی، یہاں اچھی بولنگ کے خلاف بھی سوا تین سو کے لگ بھگ سکور ہونا ہی تھا۔ مگر وارنر کا کیچ ڈراپ ہونے کے بعد پاکستانی کیمپ پہ جو پژمردگی طاری ہوئی، پے در پے لائن و لینتھ کی جو کوتاہیاں برتی گئیں اور پھر بابر اعظم جس دفاعی خول میں جا گھسے، وہاں سے واپس آنے کو کوئی معجزہ ہی درکار تھا۔ یہ بات عقل سے بالاتر ہے کہ جہاں دیگر اٹیک پہ یلغار ہونے کے بعد اسامہ میر بھی بے اثر ثابت ہو رہے تھے، وہاں دن کے سب سے مفید بولر افتخار احمد کا کوٹہ پورا کروانا ضروری کیوں نہیں سمجھا گیا؟ اس سارے اٹیک میں سے افتخار واحد بولر تھے جو تند خو وارنر اور مارش کے لیے مسلسل معمہ بنے رہے، مگر بابر اعظم نے ان کا کوٹہ مکمل کروانے کی بجائے اپنے لگے بندھے حساب کتاب پہ عمل پیرا رہنا مناسب سمجھا۔ وہ تو بھلا ہو شاہین آفریدی کا، کہ چار سو سے بھی سوا کسی ریکارڈ مجموعے کی سمت بڑھتی آسٹریلوی یلغار کا رستہ روک دیا اور ان کی تقلید میں دیگر پاکستانی بولرز کے بھی حواس کچھ بحال ہوئے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cpvl2vw4el7o", "summary": "بینگلورو میں ورلڈ کپ کے 18ویں میں آج پاکستان کو آسٹریلیا نے 62 رنز سے شکست دے دی ہے اور یوں پاکستان اب پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں پوزیشن پر آ گیا ہے۔", "title": "پاکستان کو آسٹریلیا سے 62 رنز سے شکست: ’ہم بابر اعظم کا فلاپ شو آخر کب تک دیکھتے رہیں گے؟‘", "firstPublished": "2023-10-20T14:28:29.748Z", "id": "cpvl2vw4el7o", "article": "بینگلورو میں ورلڈ کپ کے 18ویں میں آج پاکستان کو آسٹریلیا نے 62 رنز سے شکست دے دی ہے اور یوں پاکستان اب پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں پوزیشن پر آ گیا ہے۔ افتخار احمد نے بھی آتے ہی جارحانہ انداز اپنایا اور اپنی اننگز میں تین چھکے لگائے، تاہم انھیں زیمپا نے ایل بی ڈبلیو کر دیا۔ پاکستان کی وکٹیں اس کے بعد سے یکِ بعد دیگرے گرنا شروع ہوئیں اور آخری اوورز میں کوئی بھی بلے باز کریز پر رکنے میں ناکام رہا۔ اس میچ کے آغاز سے پہلے سب کی نظریں شاہین شاہ آفریدی پر ٹکی ہوئی تھیں کیونکہ وہ اس ٹورنامنٹ میں اچھا آغاز فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں، تاہم آج وہ بہتر فارم میں نظر آئے اور آغاز میں ہی ڈیوڈ وارنر کا کیچ نکالنے میں کامیاب ہوئے لیکن اسامہ میر نے ایک آسان کیچ چھوڑ دیا۔ یہاں سے پاکستانی بولرز کی وہ درگت بننی شروع ہوئی کہ ایک موقع پر ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ آسٹریلیا پاکستان کے خلاف 400 سے زیادہ رنز بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ آسٹریلوی اوپنرز ڈیوڈ وارنر نے 163 اور مچل مارش نے 121 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر آسٹریلیا کو ایک ایسی بنیاد فراہم کی جس کے بعد باقی بلے بازوں کی جانب سے ایک اچھی شراکت بھی انھیں 400 رنز تک پہنچا سکتی تھی۔ وارنر اور مارش کے درمیان پہلی وکٹ پر 259 رنز کی شراکت داری قائم ہوئی جو کہ پاکستان کے خلاف ورلڈکپ میں کسی بھی وکٹ پر سب سے بڑی شراکت داری ہے۔ اس شراکت کو توڑنے والے شاہین آفریدی نے 34 ویں اوور میں پہلے مچل مارش اور پھر گلین میکسویل کو اوپر تلے دو گیندوں پر آؤٹ کر کے پاکستان کا بولنگ میں کم بیک کرنے کی راہ ہموار کی۔ صحافی شاہد ہاشمی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کو آسٹریلیا کے خلاف آخری 20 اوورز میں 168 رنز درکار تھے جبکہ سری لنکا کے خلاف اس موقع پر 173 رنز چاہیے تھے لیکن سعود شکیل نے ایک خراب شاٹ کھیلی اور افتخار اور رضوان ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔‘ اکثر صارفین کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈراپ کیچز کے باعث اس صورتحال کا شکار ہوا اور بولنگ میں پاکستان نے 30 سے 40 رنز زیادہ دیا جس کا ٹیم کو نقصان ہوا۔ اسی طرح ایک صارف نے اس ورلڈ کپ میں کپتانوں کی بیٹنگ اوسط بھی لکھی اور بابر اعظم کی چار میچوں کے بعد اوسط صرف 20 رنز تھی۔ کرکٹ کمنٹیٹر ہرشا بھوگلے نے ایکس پر لکھا کہ آسٹریلیا کے لیے یہ ایک بہترین میچ تھا لیکن پاکستان کے سامنے بہت سارے سوالات اب بھی موجود ہیں جن میں بابر کی ناقص فارم، وکٹیں حاصل کرنے میں ناکامی اور نئی گیند سے اچھی بولنگ کرنا شامل ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgl3ep93d8zo", "summary": "ورلڈ کپ کے گذشتہ روز کے میچ میں انڈیا نے بنگلہ دیش کے خلاف سات وکٹوں سے فتح حاصل کی۔ مگر اس دوران یہ بات زیرِ بحث رہی کہ امپائر رچرڈ کیٹلبرو کے وائیڈ نہ دینے کے فیصلے سے وراٹ کوہلی کو اپنی سنچری مکمل کرنے کا موقع ملا۔ ", "title": "امپائر کا وائیڈ نہ دینے کا فیصلہ جس سے کوہلی کو سنچری مکمل کرنے کا موقع ملا", "firstPublished": "2023-10-20T05:27:34.051Z", "id": "cgl3ep93d8zo", "article": "ورلڈ کپ کے گذشتہ روز کے میچ میں انڈیا نے بنگلہ دیش کے خلاف سات وکٹوں سے فتح حاصل کی۔ مگر اس دوران یہ بات زیرِ بحث رہی کہ امپائر رچرڈ کیٹلبرو کے وائیڈ نہ دینے کے فیصلے سے وراٹ کوہلی کو اپنی سنچری مکمل کرنے کا موقع ملا۔ یہ اس وقت ہوا جب انڈین ٹیم دوسری اننگز میں 257 کے ہدف کا تعاقب کر رہے تھے۔ تین وکٹوں کے نقصان پر انڈیا کا سکور 255 تھا۔ انڈیا کو جیت کے لیے دو رنز درکار تھے مگر کوہلی کی سنچری میں تین رنز باقی تھے۔ بنگلہ دیشی سپنر نسیم احمد کے اوور کی پہلی گیند لیگ سائیڈ سے کیپر کے گلووز میں گئی مگر امپائر نے مسکراتے ہوئے اس پر وائیڈ کا اشارہ نہیں دیا۔ سوشل میڈیا پر متعدد صارفین نے تبصرہ کیا ہے کہ کیٹلبرو کے فیصلے سے کوہلی کو سنچری مکمل کرنے کا موقع ملا۔ اس معاملے پر امپائر بھی تنقید کی زد میں آئے ہیں۔ ورلڈ کپس میں آٹھ سال بعد آنے والی کوہلی کی تیسری سنچری اور انڈیا کی یہ فتح سوشل میڈیا پر بھی زیرِ بحث ہیں۔ میچ کے بعد کوہلی کے ساتھ بیٹنگ کرنے والے بلے باز کے ایل راہل نے کہا کہ وہ چاہتے تھے کوہلی سنگل نہ لیں اور اپنی سنچری مکمل کریں۔ ’وارٹ کچھ کنفیوژڈ تھے۔ انھوں نے کہا میں سنگل نہ لے کر اچھا نہیں لگوں گا۔ یہ ورلڈ کپ ہے۔ میں نہیں چاہتا یہ تاثر جائے کہ میں صرف اپنا ریکارڈ مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ پھر میں نے انھیں کہا کہ میں سنگل نہیں لوں گا۔‘ امپائر کی جانب سے وائیڈ نہ دینے کا فیصلہ بھی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے جس پر وشال مشرا نامی صارف نے لکھا کہ ’رچرڈ کیٹلبرو کرکٹ کی تاریخ کے ایک بہترین امپائر ہیں۔‘ ان کے مطابق یہ ’بے تکی بات ہے کہ لوگ ان پر یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ انھوں نے کوہلی کو فائدہ پہنچانے کے لیے وائیڈ نہیں دی۔ امپائر تو نئے قواعد پر عمل پیرا تھے جن کے بارے میں ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کو معلوم نہیں ہے۔‘ کوہلی کی سنچری سے قبل وائیڈ نہ دینے کے فیصلے کا ممکنہ تعلق سنہ 2022 میں ایم سی سی کے کرکٹ قواعد میں کی جانے والی تبدیلی سے ہوسکتا ہے۔ ایم سی سی کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’جدید کھیل میں بیٹرز پہلے سے کہیں زیادہ بال کرائے جانے سے قبل اپنی پوزیشن تبدیل کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ بہت ہی ناانصافی پر مبنی سمجھا جائے گا کہ اگر کسی ایسی بال کو وائیڈ قرار دیا جائے جو اس جگہ سے گزرے جہاں بلے باز پہلے کھڑا تھا۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg1320mx9ko", "summary": "اگر شاداب خان کو کھلانا ناگزیر ٹھہرا اور وہ بھی اپنی بہتر فارم میں آ گئے تو آسٹریلوی مڈل آرڈر کا امتحان تو لیں گے۔ اور اگر شاہین آفریدی بھی اپنے اصل کو لوٹ آئے تو پھر یہ ناممکن نہیں کہ پاکستان کی تازہ مہم جوئی کسی بھی ٹیم کے لئے ناقابلِ تسخیر ہو ٹھہرے۔", "title": "اگر شاہین بھی اپنی اصل کو لوٹ آئے: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-10-19T10:50:31.995Z", "id": "crg1320mx9ko", "article": "لیکن نسیم شاہ کی انجری کے ہنگام یہ کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ شاہین آفریدی بھی میگا ایونٹ میں یوں بے اثر سے ہو رہیں گے۔ اب جو شاہین پاکستانی اٹیک کی قیادت کر رہے ہیں، وہ کسی بھی زاویے سے ویسی تاثیر ظاہر نہیں کر پا رہے جو ان کا خاصہ تھی۔ جو فُل لینتھ یارکرز ان سوئنگ ہوا کرتے تھے، اب وہ فل ٹاس بن رہے ہیں اور نئی گیند کے ساتھ کوئی کاٹ پیدا نہ کرنے کے باوجود، شاہین اپنی لینتھ کو کھینچنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ شاہین کی ابتدائی وکٹوں سے جو سہولت دیگر بولرز کو میسر ہوا کرتی تھی، وہ بھی مفقود ہو رہی ہے اور بوجھ ہے کہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ شاہین وکٹیں نہیں لے رہے، حال ہی میں انھوں نے پاکستان کی تاریخ کا ایک اور ریکارڈ اپنے نام کیا ہے کہ متواتر ڈیڑھ درجن سے زیادہ میچز میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ وکٹ سے محروم رہے ہوں مگر ان کی وکٹیں تب نمایاں ہو رہی ہیں جب تک حریف مڈل آرڈر سکور بورڈ پر حاوی ہو چکا ہوتا ہے۔ شاہین کی کہانی سے کہیں زیادہ الم شاداب خان کی فارم میں بھرے ہیں جو سال بھر سے زیادہ گزر جانے کے بعد بھی ون ڈے کرکٹ میں جدوجہد کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کی گوگلی مخالف بلے بازوں کے لیے تر نوالہ بن رہی ہے، یارکرز فل ٹاس بن رہے ہیں اور بیک آف لینتھ سہل ہاف ٹریکرز کا روپ دھار چکی ہے۔ پاکستان کے لیے تیسرا بڑا عقدہ ٹاپ آرڈر کی کوتاہ ہمتی ہے جہاں امام الحق اپنے انفرادی اہداف کی تگ و دو میں یوں منہمک ہیں کہ عموماً ٹیم کے مفادات پسِ پشت رہ جاتے ہیں اور پاور پلے کا بوجھ بھی مڈل آرڈر پر منتقل ہو جاتا ہے۔ جبکہ مڈل آرڈر لوئر مڈل آرڈر کی پست قامتی کا ازالہ کرنے کی خواہش میں احتیاط کے حصار میں جکڑا نظر آتا ہے۔ پیٹ کمنز آگاہ ہیں کہ اس قدر ناتواں آغاز کے بعد ان کی ٹیم کو اپنے باقی ماندہ تمام مقابلے جیتنا ہوں گے ورنہ سیمی فائنل تک رسائی کا خواب حسرت میں بدل جائے گا۔ پھر نوید یہ بھی ہے کہ بہترین مڈل آرڈر بلے باز اور آف سپن کرنے والے ٹریوس ہیڈ بھی پاکستان کے خلاف میچ کے لیے دستیاب ہو چکے ہوں گے۔ اگر شاداب خان کو کھلانا ناگزیر ٹھہرا اور وہ بھی اپنی بہتر فارم میں آ گئے تو آسٹریلوی مڈل آرڈر کا امتحان تو لیں گے۔ اور اگر شاہین آفریدی بھی اپنے اصل کو لوٹ آئے تو پھر یہ ناممکن نہیں کہ پاکستان کی تازہ مہم جوئی کسی بھی ٹیم کے لئے ناقابلِ تسخیر ہو ٹھہرے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72d18rn5k5o", "summary": "چار روز پہلے تک یہ ورلڈ کپ شاید تاریخ کا سب سے بورنگ ایونٹ دکھائی دے رہا تھا مگر افغانستان اور نیدرلینڈز کی ہمت جواں ہوئی تو اب نہ صرف ہر فیورٹ کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے بلکہ ون ڈے ورلڈ کپ بھی اپنی کھوتی ہوئی معنویت پانے کو قدم بڑھا رہا ہے۔", "title": "اور ورلڈ کپ 'زندہ' ہو گیا: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-10-18T02:21:46.219Z", "id": "c72d18rn5k5o", "article": "افغانستان کی اس تاریخی فتح نے نہ صرف گلوبل ایونٹ کو رعنائی بخشی بلکہ اپنی طرح کے دیگر ناتوانوں کی امیدوں کو بھی جِلا بخشی کہ اگر نظم و ضبط برقرار رہے، جذبات چڑھنے نہ پائیں اور ہمت ہمراہ ہو تو کوئی بھی چوٹی ناقابلِ تسخیر نہیں ہوا کرتی۔ نیدرلینڈز جب ورلڈ کپ کوالیفائرز کھیل رہی تھی تو اپنے کئی اہم ترین کھلاڑیوں سے محروم تھی کہ وہ کاؤنٹی کرکٹ کے معاہدوں میں بندھے تھے اور کاؤنٹی چیمپئن شپ کے کڑے مرحلے پہ کوئی بھی منتظم اپنے کلیدی مہروں کو آزاد کرنا گوارا نہیں کر رہا تھا۔ مگر اس کے باوجود انھوں نے سکاٹ لینڈ کو شکست دی، یقینی فیورٹ آئرلینڈ کو مات کیا اور ویسٹ انڈیز کو چاروں خانے چِت کر کے اس عالمی سٹیج تک رسائی حاصل کی۔ کپتان سکاٹ ایڈورڈز اپنی اپروچ میں اس قدر واضح تھے کہ ورلڈ کپ سے پہلے ہی بتا رہے تھے، ’ہمیں اسوسی ایٹ نہ کہا جائے، ہم یہاں مسابقتی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں۔‘ نیدرلینڈز جب ورلڈ کپ کوالیفائرز کھیل رہی تھی تو اپنے کئی اہم ترین کھلاڑیوں سے محروم تھی کہ وہ کاؤنٹی کرکٹ کے معاہدوں میں بندھے تھے اور کاؤنٹی چیمپئن شپ کے کڑے مرحلے پہ کوئی بھی منتظم اپنے کلیدی مہروں کو آزاد کرنا گوارا نہیں کر رہا تھا۔ مگر اس شکست میں بھی یہ عیاں تھا کہ اگر ڈچ بیٹنگ کسی روز اپنی بولنگ کا ساتھ نبھا گئی تو کوئی نہ کوئی بڑی ٹیم منہ کے بل ضرور گر پڑے گی۔ اور پھر ون ڈے فارمیٹ کے علاوہ ٹی ٹونٹی میں اپ سیٹ کرنا ڈچ کرکٹ کے لئے کوئی نئی بات تو تھی نہیں۔ بالآخر گزشتہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی نیدرلینڈز ہی کی مرہونِ منت تھی۔ ہر ورلڈ کپ سے پہلے ماضی کے فاتحین اور کرکٹ لیجنڈز اپنے چار فیورٹ سیمی فائنلسٹس کی پیش گوئی کیا کرتے ہیں۔ یہاں آغاز پہ، جنوبی افریقہ لگ بھگ کسی بھی پیش گوئی کا حصہ نہ تھی مگر سری لنکن بولنگ کی بے مثال درگت بنانے اور آسٹریلین بیٹنگ کو تگنی کا ناچ نچانے کے بعد ٹیمبا باوومہ کی ٹیم واضح طور پہ سیمی فائنل کی سمت گامزن نظر آنے لگی تھی۔ جنوبی افریقہ کی بیٹنگ مہارت ابھی تک اپنے ٹاپ آرڈر کی ممنون رہی ہے اور ایڈورڈز کے بولنگ اٹیک نے پہلے پہل اسی ٹاپ آرڈر کا رستہ روکا۔ جب اوپر کی تین وکٹیں گر گئیں تو پھر مڈل آرڈر کے پاس بھی ڈچ بولنگ اور فیلڈنگ کے ڈسپلن کا کوئی جواب نہ تھا۔ چار روز پہلے تک یہ ورلڈ کپ شاید تاریخ کا سب سے بورنگ ایونٹ دکھائی دے رہا تھا مگر افغانستان اور نیدرلینڈز کی ہمت جواں ہوئی تو اب نہ صرف ہر فیورٹ کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے بلکہ ون ڈے ورلڈ کپ بھی اپنی کھوتی ہوئی معنویت پانے کو قدم بڑھا رہا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1veq20g53o", "summary": "’اس بات سے قطع نظر کہ پاکستانی شائقین اور کچھ کرکٹ ماہرین شاہین شاہ آفریدی کی کتنی ہی تعریف کریں، مگر اُن کا اور وسیم اکرم کا کوئی موازنہ نہیں ہو سکتا۔‘", "title": "کیا شاہین شاہ آفریدی وسیم اکرم کی طرح مؤثر اور خطرناک بولر ہیں؟", "firstPublished": "2023-10-17T15:18:17.413Z", "id": "cd1veq20g53o", "article": "کیا پاکستانی فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی وسیم اکرم کی طرح مؤثر اور خطرناک ہیں؟ ’اس بات سے قطع نظر کہ پاکستانی شائقین اور کچھ کرکٹ ماہرین شاہین شاہ آفریدی کی کتنی ہی تعریف کریں، مگر اُن کا اور وسیم اکرم کا کوئی موازنہ نہیں ہو سکتا۔‘ یہ بات انڈین ٹیم کے سابق کپتان اور کوچ روی شاستری نے حال ہی میں کہی ہے۔ روی شاستری نے مزید کہا کہ شاہین شاہ آفریدی سے زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، شاہین وسیم اکرم نہیں ہیں۔ وہ ایک اچھا بولر ہے لیکن اس کی اتنی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ وہ ایک ڈیسنٹ بولر ہے لیکن کسی کو یہ کہنے پر مجبور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ شاہین ایک ناقابل یقین بولر ہے۔‘ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستانی شائقین شاہین شاہ آفریدی کی کافی عرصے سے تعریف کرتے آ رہے ہیں اور اُن کا ماننا ہے کہ آفریدی کے لیے ویراٹ کوہلی اور روہت شرما کو آؤٹ کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ مگر احمد آباد کی پچ کوئی بہانہ نہیں ہو سکتی کیونکہ شاہین پچھلے دو میچوں میں کچھ خاص نہیں کر سکے، جو حیدرآباد میں کھیلے گئے تھے، اس کے باوجود کہ پاکستانی ٹیم نے حیدرآباد میں ہی پریکٹس کی اور وہاں کافی وقت گزارا۔ آسٹریلیا کے خلاف وہاں کھیلے گئے پریکٹس میچ میں بھی شاہین زیادہ وکٹیں حاصل نہیں کر سکے تھے۔ ذرا وسیم اکرم اور شاہین شاہ کے اعدادوشمار پر ایک نظر ڈالیں اور آپ دیکھیں گے کہ دونوں میں بہت فرق ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ وکٹوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور شاہین آفریدی کو ممکنہ طور پر اس کے قریب پہنچنے سے پہلے طویل عرصے تک اپنے عروج پر بولنگ کرنی ہو گی۔ دوسری بات یہ کہ کوئی بھی کم میچوں میں اچھی اوسط رکھ سکتا ہے لیکن وسیم اکرم جیسا بولر ہی 100 سے زائد ٹیسٹ اور 300 سے زائد ون ڈے میچوں میں اتنی بہترین اوسط برقرار رکھ سکتا ہے۔ اس سے قبل سال 2020 میں بھی ایک پاکستانی چینل نے شاہین شاہ اور نسیم شاہ کا موازنہ وسیم اکرم اور وقار یونس کی جوڑی سے کیا تھا۔ تب وقار نے کہا تھا کہ ’انہیں جلدی نہیں کرنی چاہیے، یہ دونوں اچھے اور وکٹ لینے والے بولر ہیں لیکن وہ ابھی اس مقابلے کے قابل نہیں ہیں۔‘ تاہم سچ تو یہ ہے کہ پکچر ابھی باقی ہے اور وقت ہی بتائے گا کہ کیا وہ وسیم اکرم سے میچ کر پاتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے انھیں کم از کم ایک دہائی تک پوری فٹنس کے ساتھ ٹاپ لیول پر بولنگ کرنی ہو گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n893k3jq4o", "summary": "یہ حیران کن ہے کہ اولمپکس کا واحد کرکٹ میچ فرانس میں ہوا جہاں آج بھی کرکٹ میں دلچسپی نہیں پائی جاتی۔ اس میچ کے قوانین بھی کچھ مختلف تھے۔ ان کرکٹ ٹیموں کے کھلاڑیوں کی تعداد 11 نہیں 12 تھی۔", "title": "123 سال کے وقفے کے بعد کرکٹ اولمپکس 2028 میں شامل: جب کرکٹ پہلی اور آخری بار اولمپکس کا حصہ بنی", "firstPublished": "2023-10-16T14:54:24.562Z", "id": "c4n893k3jq4o", "article": "ادھر انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ کورڈ کے سربراہ رچرڈ گولڈ کا خیال ہے کہ امریکہ میں اولمپکس کے ذریعے مردوں اور خواتین کی کرکٹ دنیا بھر میں دکھانے کا یہ ایک زبردست موقع ہے۔ ’مجھے کوئی شک نہیں کہ اولمپکس میں شمولیت سے خواتین کے کھیل کو ترقی ملے گی۔‘ چار سال بعد سنہ 1900 کے اولمپکس میں بھی کرکٹ کو شامل کیا گیا۔ یہ اولمپکس مقابلے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہوئے۔ اولمپکس کی تاریخ میں صرف ایک بار کرکٹ میچ منعقد ہوا، وہ بھی اسی اولمپکس کے دوران۔ یہ حیران کن ہے کہ اولمپکس کا واحد کرکٹ میچ فرانس میں ہوا جہاں آج بھی کرکٹ میں دلچسپی نہیں پائی جاتی۔ پیرس میں منعقدہ اولمپکس میں 19 کھیلوں کے مقابلوں کا اہتمام کیا گیا، کرکٹ بھی ان میں شامل تھی۔ ٹورنامنٹ میں چار ٹیمیں شامل تھیں: نیدر لینڈز، بیلجیئم، برطانیہ اور فرانس۔ اس میچ کے قوانین بھی کچھ مختلف تھے۔ ان کرکٹ ٹیموں کے کھلاڑیوں کی تعداد 11 نہیں 12 تھی۔ آپ یہ بھی نوٹ کریں گے کہ اس وقت صرف ٹیسٹ کرکٹ تھی یعنی میچ پانچ دن پر محیط ہوتے ہیں لیکن اولمپکس میں یہ میچ صرف دو دن تک جاری رہا۔ اس کے لیے برطانیہ نے اپنی قومی ٹیم نہیں بھیجی بلکہ ایک مقامی کلب ’ڈیون اینڈ سمرسیٹ وانڈررز‘ نے برطانیہ کی نمائندگی کی۔ دراصل کلب کے کھلاڑی فرانس کے دورے پر تھے جن سے کہا گیا کہ وہ پیرس جا کر اولمپکس میں بھی حصہ لے لیں۔ یہ بھی حیران کن ہے کہ اس میچ کی فاتح ٹیم کو گولڈ میڈل نہیں ملا بلکہ برطانوی ٹیم کو چاندی کا تمغہ ملا اور فرانسیسی ٹیم کو کانسی کا تمغہ دیا گیا۔ پیرس اولمپکس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ سینٹ لوئس میں منعقد ہونے والے تیسرے اولمپکس کے دوران کرکٹ کو بھی شامل کیا جائے گا لیکن ایک بار پھر شرکت کرنے والے ممالک نہیں ملے اور اس کی وجہ سے کرکٹ کو مقابلے میں شامل کرنے کا منصوبہ منسوخ کرنا پڑا۔ اس کے بعد پھر کرکٹ کو اولمپکس میں شامل نہیں کیا گیا۔ ان دنوں صرف ٹیسٹ میچز ہوتے تھے۔ اولمپکس میں اتنے لمبے میچوں کا انتظام کرنا مشکل تھا۔ یہ خدشہ بھی تھا کہ مزید ٹیموں کی شرکت کے ساتھ یہ اور بھی طویل عرصے تک جاری رہے گا۔ اسی وجہ سے ایک طویل عرصے تک کرکٹ کو اولمپک گیمز سے باہر رکھا گیا۔ نئے کھیلوں کی شمولیت سے متعلق شرائط میں میزبان ملک میں اس کھیل کے بارے میں ایک کلچر ہونا بھی ضروری ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہے کہ ایک کھیل جو کسی اولمپکس میں شامل ہے اسے اگلے اولمپک کھیلوں میں بھی شامل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cj5v14v6g1jo", "summary": "انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ کے 13ویں میچ میں ایک بڑا اپ سیٹ اس وقت ہوا جب ون ڈے رینکنگ میں 9ویں نمبر کی ٹیم افغانستان نے دفاعی چیمپیئن اور ’فیورٹس‘ انگلینڈ کو 69 رنز سے شکست دی۔ ", "title": "کرکٹ ورلڈ کپ: ٹورنامنٹ کی تاریخ میں افغانستان کی مسلسل شکست کا سلسلہ دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کے خلاف فتح کے ساتھ تمام ہو گیا", "firstPublished": "2023-10-15T17:39:13.409Z", "id": "cj5v14v6g1jo", "article": "انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ کے 13ویں میچ میں ایک بڑا اپ سیٹ اس وقت ہوا جب ون ڈے رینکنگ میں 9ویں نمبر کی ٹیم افغانستان نے دفاعی چیمپیئن اور ’فیورٹس‘ قرار دیے جانے والے انگلینڈ کو 69 رنز سے شکست دی۔ انگلینڈ کی تین اہم وکٹیں حاصل کرنے والے مجیب الرحمان کو ’میچ کا بہترین کھلاڑی‘ قرار دیا گیا، جنھوں نے یہ ایوارڈ افغانستان میں زلزلے سے متاثرہ لوگوں کے نام کیا۔ جبکہ راشد خان نے اس اہم میچ میں سپورٹ کے لیے دلی والوں کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے سٹیڈیم میں افغانستان کی عمدہ کارکردگی کو سراہا۔ جہاں دلی میں افغانستان میں کی اس تاریخی جیت پر ٹیم کو کافی سراہا جا رہا ہے وہیں ورلڈ کپ میں دوسری شکست پر انگلینڈ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ اوپنرز رحمان اللہ گرباز اور ابراہیم زدران نے 114 رنز کی شراکت کے ساتھ ٹیم کو بہترین آغاز دیا تاہم مڈل اوورز میں عادل رشید کی تین وکٹوں نے رن ریٹ پر بریک لگائی۔ جواب میں انگلینڈ کو پہلا جھٹکا دوسرے اوور میں لگا جب فضل حق فاروقی نے اوپنر جونی بیئرسٹو کو ایل بی ڈبلیو کیا۔ اس کے بعد سے انگلش بیٹنگ سنبھل نہ پائی اور یکے بعد دیگرے اس کی وکٹیں گِرتی چلی گئیں۔ انگلینڈ کی ٹیم 41ویں اوور میں 215 رنز پر آل آؤٹ ہوئی اور یوں افغانستان نے 69 رنز سے یہ میچ جیت لیا۔ سوشل میڈیا پر ایک طرف افغانستان کو سراہا جا رہا ہے تو دوسری طرف انگلش ٹیم کے لیے رواں ورلڈ کپ کے دوران بڑھتی مشکلات بیان کی جا رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انگلینڈ کو آج بولنگ اور بیٹنگ دونوں میں مار پڑی۔ ’نیوزی لینڈ اور افغانستان دونوں نے انگلینڈ کو بُری طرح شکست دی ہے۔ اب ان کے پاس مزید غلطیوں کی گنجائش نہیں۔‘ مظہر ارشد نے بتایا کہ افغانستان کو ورلڈ کپ کے گذشتہ مقابلوں میں 14 بار شکست ہوئی تھی مگر اب ہار کا سلسلہ دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کے خلاف بڑی فتح سے تھم گیا ہے۔ کمٹیٹر ہرشا بھوگلے نے اسے افغان کرکٹ تاریخ کا ’سب سے بڑا لمحہ‘ قرار دیا جبکہ شعیب اختر نے تبصرہ کیا کہ یہ ٹیم ’جدید دور کی کرکٹ کھیلتی ہے۔ یہ آپ پہلے 10 اوورز میں ان کی بیٹنگ سے دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔‘ افغان فین وژمہ ایوبی نے آج سٹیڈیم میں سپورٹ پر انڈین شائقین کا شکریہ ادا کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر افغانستان کے ایک نوجوان فین کی تصویر بھی گردش کر رہی ہے جو اس فتح پر آبدیدہ ہوگیا اور اسے مجیب سے ہاتھ ملاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میچ کے بعد پوائنٹس ٹیبل پر نظر دوڑائی جائے تو اب ایک، ایک جیت کے ساتھ انگلینڈ پانچویں جبکہ افغانستان چھٹے نمبر پر ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c725j9812pxo", "summary": "میچ سے پہلے بابر اعظم نے کہا تھا کہ وہ ان مقابلوں کی یکطرفہ تاریخ سے آگاہ تھے اور ان کے بقول ہر سلسلے کو کہیں نہ کہیں تو رکنا ہی ہوتا ہے۔ مگر یہ کس نے سوچا تھا کہ ریکارڈ شکنی تو درکنار، یہ ٹیم شکست میں ذرا \n سا بھرم بھی نہ بچا پائے گی۔ پڑھیے سمیع چوہدری کا کالم۔ ", "title": "سمیع چوہدری کا کالم: محتاط آغاز نے انجام خراب کر دیا", "firstPublished": "2023-10-15T02:48:15.748Z", "id": "c725j9812pxo", "article": "کرکٹ کی تاریخ کے کامیاب ترین کپتان مہندرا سنگھ دھونی تھے جن کی قیادت میں انڈیا نے تینوں آئی سی سی ٹائٹلز جیتے۔ دھونی کہا کرتے تھے کہ کامیابی کے لیے خوف کو بُھلا رکھنا اور احتیاط کو پسِ پشت ڈالنا ضروری ہوتا ہے۔ احمد آباد کی یہ پچ حیدرآباد یا دہلی کی طرح رنز کی برسات سے لیس نہیں تھی مگر غور طلب پہلو یہ تھا کہ یہاں نئی گیند کے ساتھ قطعی کوئی سیم، سوئنگ یا سپن بھی دستیاب نہیں تھی۔ اور ون ڈے کرکٹ میں پہلا پاور پلے ہی وہ موقع ہوتا ہے جہاں فیلڈنگ پابندیوں کے طفیل ٹاپ آرڈر کو جرات مندانہ کرکٹ کھیلنے کی سہولت دستیاب ہوتی ہے۔ مڈل اوورز کی بیٹنگ میں بھی پاکستان نے خوبی اسی کو جانا کہ پہلے تیس اوورز میں کسی طرح سے وکٹیں بچا رکھی جائیں اور ساری توجہ پارٹنرشپ جوڑنے پہ مرکوز رہی۔ اس بِیچ یہ بھی ملحوظِ نظر نہ رہا کہ یہ پارٹنرشپ جوڑی کس رن ریٹ پہ جا رہی ہے؟ اننگز تمام ہونے پر کلدیپ یادیو بھی سنجے منجریکر کو یہی بتاتے پائے گئے کہ پاکستانی بلے باز کوئی پیش رفت کرنا ہی نہیں چاہ رہے تھے۔ شاید ٹیم میٹنگ میں ہی طے کر لیا گیا تھا کہ بس کسی نہ کسی طرح یادیو اور جدیجا کے اوورز گزار لینا ہی غنیمت ہو گی۔ مگر روہت شرما کی کپتانی قابلِ داد تھی کہ عین اسی لمحے وہ محمد سراج کو اٹیک میں واپس لائے اور پرانی گیند کے ساتھ انھوں نے کراس سیم بولنگ شروع کی۔ ان کی رفتار کے تغیر اور کٹرز نے بابراعظم کے دفاع میں دراڑ ڈال دی اور اس کے بعد دوسرے کنارے سے جب بمراہ حملہ آور ہوئے تو انہدام کا اک ایسا دروازہ کھلا کہ جسے بند کرنے کی کوئی ترکیب پاکستان کو سجھا کے نہ دی۔ یہ ممکن تھا کہ اگر پاکستانی ٹاپ آرڈر یوں مدافعانہ خول میں محصور نہ ہو رہتا اور نئی گیند کے ساتھ کچھ مثبت اپروچ سے بیٹنگ کر لی جاتی تو مڈل آرڈر پہ اس قدر توقعات کا بوجھ ہی نہ پیدا ہوتا اور پاکستان پونے تین سو کے لگ بھگ ایک قابلِ قدر مجموعہ تشکیل دینے میں کامیاب رہتا۔ بلاشبہ انڈیا تینوں شعبوں میں پاکستان سے بہتر ٹیم تھی اور یقیناً فیورٹ بھی تھی مگر پاکستان کی کم مائیگی اس قدر بھی متوقع نہ تھی کہ کوئی لڑائی لڑے بغیر ہی ہتھیار پھینک ڈالے گی اور یوں بازی گنوا دے گی۔ میچ سے پہلے بابر اعظم نے کہا تھا کہ وہ ان مقابلوں کی یکطرفہ تاریخ سے آگاہ تھے اور ان کے بقول ہر سلسلے کو کہیں نہ کہیں تو رکنا ہی ہوتا ہے۔ مگر یہ کس نے سوچا تھا کہ ریکارڈ شکنی تو درکنار، یہ ٹیم شکست میں ذرا سا بھرم بھی نہ بچا پائے گی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g3jvwg1pwo", "summary": "ورلڈکپ کے اتنے بڑے میچ میں پاکستان کی ٹیم کا ایک اچھی پوزیشن پر آنے کے باجود ڈھیر ہو جانا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ یہ اس لیے بھی غیر معمولی تھا کیونکہ چار روز قبل حیدرآباد میں پاکستان نے سری لنکا کا 345 رنز کا ہدف باآسانی چار وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا تھا۔", "title": "اچانک ایسا کیا ہوا جس نے 300 رنز کی امید کو 191 آل آؤٹ میں بدل دیا؟", "firstPublished": "2023-10-14T16:31:49.602Z", "id": "c3g3jvwg1pwo", "article": "یہ اس لیے بھی غیر معمولی تھا کیونکہ چار روز قبل حیدرآباد میں پاکستان نے سری لنکا کا 345 رنز کا ہدف باآسانی چار وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا تھا۔ ورلڈکپ کے اتنے بڑے میچ میں پاکستان کی ٹیم کا ایک اچھی پوزیشن پر آنے کے باجود ڈھیر ہو جانا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ بابر بھی نصف سنچری بنانے کے بعد گیند کو تھرڈ مین کی جانب گائیڈ کرنے گئے اور ایک آسان گیند پر ایک بہت اہم موقع پر اپنی وکٹ گنوا دی اور یہیں سے پاکستان ٹیم کا مڈل آرڈر ایک ایک کر کے پویلین جانے لگا اور پاکستان صرف 200 رنز بھی عبور کرنے میں ناکام رہا۔ انڈین بولنگ کی خاص بات آغاز میں ہی اس بات کو بھانپنا تھا کہ یہ وکٹ بیٹنگ کے لیے اچھی ہے اس لیے یہاں فاسٹ بولرز کو وکٹ سے کوئی مدد حاصل نہیں ہو گی اس لیے انھوں نے کراس سیم بولنگ، کٹرز اور سلو ڈیلیوریز کا استعمال کرنا شروع کیا۔ اب اس تمام صورتحال میں سوشل میڈیا صارفین پاکستان ٹیم میں تبدیلیوں کے خواہاں ہیں۔ پاکستان ٹیم کو ایک مسئلہ بیچ کے اوورز میں وکٹیں حاصل کرنے کے ہے کیونکہ اس کے سپنرز اچھی بولنگ کروانے میں ناکام ہیں، اس لیے آنے والے میچوں میں اسامہ میر کو ٹیم میں شامل کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ پاکستان کے سابق ٹیسٹ اوپنر اور چیف سیلیکٹر محمد وسیم نے اس بارے سوش میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’لوگوں کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان ٹیم پہلے 30 اوورز میں کنٹرول میں تھی لیکن میرے خیال میں پاکستان نے میچ پہلے 30 اوورز میں ہی ہارا ہے۔‘ کرکٹ تجزیہ کار اور کمنٹیٹر ہرشا بھوگلے نے پاکستان کی بیٹنگ اننگز کے بعد لکھا کہ ’یہ بہت کم وقت میں انتہائی غیر معمولی انداز میں وکٹیں گری ہیں۔ سراج کی وکٹ کے باعث مزید وکٹوں کے لیے دروازہ کھلا اور انڈین بولنگ میں ہمیشہ سے ہی ایسا کرنے کی صلاحیت تھی۔ انھوں نے روہت شرما کی کپتانی کی بھی تعریف کی۔ ان کے علاوہ ناصر حسین کا کمنٹری پر یہ بھی کہنا تھا کہ ’پاکستان نے اپنے لیے بہت بڑا ہدف سوچ رکھا تھا، یہ پچ انگلینڈ بمقابلہ نیوزی لینڈ میچ سے مختلف تھی۔ پاکستان کو 280 کا ہدف رکھنا چاہیے نہ کہ 340 رنز کا۔‘ انڈیا کے سابق فاسٹ بولر ونکتیش پرساد نے لکھا کہ ’ایسا لگا کہ پاکستانی کھلاڑی بری طرح سے گھبرا گئے تھے۔‘ شاید یہ تجزیہ اس لیے بھی معقول ہے کیونکہ پاکستان ٹیم ایک لاکھ کے قریب تماشائیوں کے سامنے یہ میچ کھیل رہی تھی اور انڈیا میں ہونے والے اس میچ میں پاکستانی بلے باز ہدف سیٹ کرتے ہوئے ڈگمگا گئے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/sport-67110450", "summary": "احمد آباد کے نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم میں ورلڈ کپ میں اپنے تیسرے میچ میں انڈیا نے پاکستان کو سات وکٹوں کے بھاری مارجن سے شکست دے دی ہے اور پاکستان کی جانب سے دیا گیا 192 رنز کا ہدف 31ویں اوور میں پورا کر لیا ہے۔", "title": "انڈیا ورلڈ کپ میں پاکستان کے خلاف تاحال ناقابلِ تسخیر، احمد آباد میں سات وکٹوں سے شکست دے دی", "firstPublished": "2023-10-14T07:19:05.000Z", "id": "ce803981-f00c-44d6-9008-e1692d1a0689", "article": "احمد آباد کے نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم میں ورلڈ کپ میں اپنے تیسرے میچ میں انڈیا نے پاکستان کو سات وکٹوں کے بھاری مارجن سے شکست دے دی ہے اور پاکستان کی جانب سے دیا گیا 192 رنز کا ہدف 31ویں اوور میں پورا کر لیا ہے۔ احمد آباد کے نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم میں ورلڈ کپ میں اپنے تیسرے میچ میں انڈیا نے پاکستان کو سات وکٹوں کے بھاری مارجن سے شکست دے دی ہے اور پاکستان کی جانب سے دیا گیا 192 رنز کا ہدف 31ویں اوور میں پورا کر لیا ہے۔ انڈین فاسٹ بولر جسپریت بمرا کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا ہے۔ انھوں نے اپنے سات اوورز میں صرف 19 رنز دیے تھے اور شاداب خان اور محمد رضوان کی وکٹیں حاصل کی تھیں۔ پاکستان کے 192 رنز کے ہدف کے تعاقب میں انڈیا نے صرف 14 اوورز میں 100 رنز بنا لیے ہیں اور اس کے صرف دو کھلاڑی آؤٹ ہیں۔ دوسری جانب، روہت شرما کی نصف سنچری بھی مکمل ہو گئی ہے اور انڈیا اس میچ میں پاکستان کو بڑی شکست دینے کے قریب ہے۔ انڈیا کی جانب سے کپتان روہت شرما اور وراٹ کوہلی مثبت بیٹنگ کرتے ہوئے انڈیا کو سات اوورز کے اختتام پر 54 رنز تک لے گئے ہیں۔ پاکستان نے 191 رنز کے دفاع میں آغاز میں متعدد چوکوں کے بعد انڈیا کی پہلی وکٹ گرا دی ہے اور شبمن گل آؤٹ ہو کر پویلین لوٹ گئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے کپتان بابر اعظم سب سے زیادہ 50 رنز بنا سکے جبکہ ان کا ساتھ دینے والے محمد رضوان نے 49 رنز بنائے۔ انڈیا کی جانب سے جسپریت بمرا، محمد سراج، ہارڈک پانڈیا، کلدیپ یادو اور روندرا جڈیجا نے دو، دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ پاکستانی ٹیم نے صرف 32 رنز پر سات وکٹیں گنوا دی ہیں اور اب پاکستان کا 200 رنز کے اندر آؤٹ ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ تاہم محمد سراج کی جانب سے بابر اعظم کو بولڈ کیا گیا اور پھر لائن لگ گئی۔ اگلے سات اوورز میں پاکستان نے مزید چار وکٹیں گنوا دیں اور یوں اب پاکستان کے لیے ایک اچھے ٹوٹل تک پہنچانے بھی مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ بمرا اور کلدیپ یادو نے مڈل اوورز میں پاکستانی بیٹنگ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے اور اس وقت پاکستان کے سات کھلاڑی آؤٹ ہو چکے ہیں۔ افتخار احمد نے آتے ہی پہلے کلدیپ یادو کو چوکا لگایا لیکن پھر ان کی گیند پر بولڈ ہو گئے۔ انھوں نے صرف چار رنز بنائے اور اس وقت پاکستان کی بیٹنگ مشکلات کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔ اس وقت پاکستان کا سکور 125 ہے اور اس کے دونوں اوپنرز پویلین لوٹ چکے ہیں۔ پاکستان کو مڈل اوورز میں ایک طویل شراکت کی ضرورت ہے اور انڈین سپنرز جڈیجا اور کلدیپ یادو اچھی بولنگ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czq794qxn6no", "summary": "انڈیا بمقابلہ پاکستان ایک ایسا میچ ہوتا ہے جہاں ماضی کی کارکردگی جیت کی ضامن نہیں ہوتی۔ یہ مہارت، تیاری، حکمت عملی اور سب سے بڑھ کر اعصاب کی جنگ کا آخری امتحان ہوتا ہے۔", "title": "انڈیا بمقابلہ پاکستان: اعصاب کی جنگ، کرکٹ کے گراؤنڈ میں", "firstPublished": "2023-10-14T01:28:26.174Z", "id": "czq794qxn6no", "article": "لیکن انڈیا بمقابلہ پاکستان ایک ایسا میچ ہوتا ہے جہاں ماضی کی کارکردگی جیت کی ضامن نہیں ہوتی۔ یہ مہارت، تیاری، حکمت عملی اور سب سے بڑھ کر اعصاب کی جنگ کا آخری امتحان ہوتا ہے۔ وہ اپنی اننگز کو خاموشی سے آگے بڑھاتے ہیں، تقریباً ایسے جیسے وہ دوسروں کی نظروں سے چھپ رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ان کے مخالفین کو اندازہ ہو کہ کیا ہو رہا ہے، ان کا سکور 50 یا 60 تک پہنچ چکا ہوتا ہے اور پھر وہ اپنی مرضی سے چوکے، چھکے مارنے لگ جاتے ہیں۔ وہ میدان میں بھی نہایت پرسکون رہتے ہیں اور پریشان نہیں ہوتے، چاہے میچ کیسا ہی چل رہا ہو۔ پاکستان کے بولرز سری لنکا کے خلاف بہت اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے تھے، اور ٹیم کی فیلڈنگ بھی بری رہی تھی۔ لیکن انڈیا کے خلاف میچ ایک ایسا تھیٹر ہے جہاں ہر کھلاڑی اپنی بہترین کارکردگی دینا چاہتا ہے۔ اور یہی وہ تحریک ہے جو ہر پاکستانی بولر چاہتا ہے۔ انڈین کپتان اکیلے ہی میچ کو پاکستان سے چھیننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ ایک اوپنر ہیں جو جم کر کھیلتے ہیں اور میچ کے آخر تک کھیل کر اسے ختم کرنا پسند کرتے ہیں۔ دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے اس بلے باز نے سنہ 2019 میں پانچ سنچریاں بنائی تھیں، کسی بھی بلے باز کی ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ سنچریاں۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ آج انڈیا کے پاس قابل رشک باؤلنگ لائن اپ ہے جو پاکستانی بیٹنگ کو زیر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جہاں شامی کنٹرولڈ جارحیت پر یقین رکھتے ہیں، وہیں سراج کا ہتھیار ان کی رفتار ہے۔ لیکن اگر نریندر مودی سٹیڈیم کی وکٹ سپن کرتی ہے تو انڈیا تینوں فاسٹ بولرز کے ساتھ نہیں جا سکتا۔ سپن کے شعبے میں کلدیپ یادیو ایک نئی دریافت ہیں۔ ٹیم میں ان کی واپسی سنسنی خیز رہی ہے۔ ایشیا کپ کے میچ میں انھوں نے پاکستانی بلے بازوں کے لیے بہت مشکلات پیدا کی تھیں اور پانچ وکٹوں کے ساتھ میچ کا اختتام کیا۔ اور یہ میچ انڈیا 228 رنز کے شاندار مارجن سے جیتا۔ اس کے بعد جدیجا اور تجربہ کار سپنر آر اشون ہیں جو اپنی بہترین گیند بازی سے پاکستان کی اننگز کو بریک لگا سکتے ہیں۔ لیکن ٹِرک صحیح کمبینیشن میں ہے کہ روہت تین تیز گیند بازوں اور دو سپنروں کے ساتھ جاتے ہیں یا تین سپنروں اور دو تیز گیند بازوں کے ساتھ، یہ ایک مشکل فیصلہ ہوگا۔ ٹیموں کو اپنی حکمت عملی کو فائن ٹیون کرنے کے لیے آخری لمحے تک انتظار کرنا پڑے گا۔ دریں اثنا، اس میں کوئی شک نہیں کہ شائقین کو کرکٹ کا ایک اچھا کھیل دیکھنے کو ملے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czq7923lvnlo", "summary": "پاکستان کے لیے بڑی دقت فی الحال شاہین آفریدی کی فارم ہے جو ایشیا کپ سے اب تک اپنا بہترین ظاہر نہیں کر پائے۔", "title": "اگر پاکستان اسے جنگ نہ سمجھے: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-10-13T10:21:20.078Z", "id": "czq7923lvnlo", "article": "مگر انڈیا آسٹریلیا میچ چنائی کی سست پچ پہ کچھ ایسی سنسنی پیدا نہ کر پایا جو پہلی گیند سے بھی پہلے پاک انڈیا مقابلوں کے ہمراہ ہوا کرتی ہے۔ اگرچہ ون ڈے ورلڈ کپ کی یکطرفہ تاریخ کے پیشِ نظر اب تک یہ جوش ماند پڑ جانا چاہئے تھا مگر گلوبل ایونٹ کی 48 سالہ تاریخ کے باوجود اس مقابلے کی دلچسپی جوں کی توں ہے۔ اور جب یہ امر بھی ملحوظِ نظر رکھا جائے کہ انڈین بولنگ ڈچ اور لنکن اٹیک سے کہیں دشوار چیلنج ہو گا تو پاکستان کے امکانات کافی مدھم پڑتے نظر آتے ہیں کہ انجری سے واپسی کے بعد بمراہ بہترین فارم میں ہیں جبکہ ان کے ہمراہی محمد سراج کی لائن و لینتھ بھی حالیہ مہینوں میں کمال رہی ہے۔ لیکن پاکستان کے لیے بڑی دقت فی الحال شاہین آفریدی کی فارم ہے جو ایشیا کپ سے اب تک اپنا بہترین ظاہر نہیں کر پائے۔ پچھلے کچھ برسوں سے شاہین کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ نئی گیند کے ساتھ فُل لینتھ پہ یارکرز اور ان سوئنگ کے ہمراہ حملہ آور ہوتے ہیں اور یہ ان کی ابتدائی کامیابیوں کی کلید بھی رہا ہے۔ مگر پچھلے کچھ عرصے میں وہ نئی گیند سے ویسی ان سوئنگ حاصل نہیں کر پا رہے جو بلے بازوں کے لئے خطرہ بن پائے۔ اور یہ دقت تب سوا ہو جاتی ہے جب بلے بازوں کی جوابی جارحیت کے باوجود شاہین اپنی لینتھ کو کھینچنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ سری لنکا کے خلاف میچ میں بھی یہی کچھ ہوا۔ پاکستان کے لیے اس سے بھی بڑا عقدہ سپنرز کی کم مائیگی رہا ہے۔ شاداب خان متواتر ٹی ٹونٹی کھیلنے کے بعد ابھی تک ون ڈے کرکٹ کے اسرار و رموز سے شناسا نہیں ہو پائے اور صحیح لائن لینتھ کی کھوج میں بھٹکتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ انڈیا کی قوت پیس بولنگ کے علاوہ سپن ڈیپارٹمنٹ میں بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ جس طرح سے رویندرا جدیجا اور کلدیپ یادو نے آسٹریلوی بلے بازوں کو چاروں خانے چِت کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس انڈین ٹیم کے سبھی شعبے اپنی کمال مہارت سے سرگرمِ عمل ہیں۔ لیکن پاکستان کے لیے خوش کن پہلو یہ ہے کہ پچھلے چند برس کے اعدادوشمار میں اگر لیفٹ آرم سپن کے خلاف ٹیموں کی اوسط کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان اوّلین نمبر پہ ہے جہاں اس کی اوسط 82 رنز کے لگ بھگ ہے اور یہ دوسرے درجے پہ کھڑی ٹیم کے اوسط سے بھی دوگنا ہے۔ دونوں ٹیمیں اپنے پہلے دو دو میچز جیت چکی ہیں اور یہاں ایک دوسرے کی فتوحات کے آگے بند باندھنے کو میدان میں اتریں گی۔ سری لنکا کے خلاف ورلڈ کپ کی تاریخ کا سب سے بڑا ہدف طے کرنے کے بعد یہاں پاکستان کا مورال بھی بلند ہو گا اور ایسے پریشر میچز میں اعتماد کی فراوانی فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn48r7d075yo", "summary": "سرد تعلقات کے باوجود انڈیا اور پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ محبت، احترام اور دوستی کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ جیسے ایشیا کپ کے دوران پاکستانی فاسٹ بولر شاہین آفریدی نے انڈین بولر جسپریت بمرا کو ان کے نوزائیدہ بچے کے لیے تحفہ دیا۔", "title": "’انھوں نے اپنا بیٹ نکالا اور مجھے بچا لیا‘ انڈین اور پاکستانی کھلاڑیوں کی دوستی کی کہانی", "firstPublished": "2023-10-13T06:49:56.899Z", "id": "cn48r7d075yo", "article": "جب بھی انڈیا اور پاکستان کی کرکٹ ٹیمیں میدان میں ٹکراتی ہیں، دنیا روایتی حریفوں کے درمیان کھیلوں کا سب سے سخت مقابلہ دیکھتی ہے۔ لیکن سرد تعلقات کے باوجود ان کی کرکٹ کی تاریخ دونوں ٹیموں کے درمیان محبت، احترام اور دوستی کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ گذشتہ ماہ ختم ہونے والے ایشیا کپ میں پاکستانی بولر شاہین آفریدی نے انڈین فاسٹ بولر جسپریت بمرا کو ان کے نوزائیدہ بچے کے لیے تحفہ دیا، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ دیکھی گئی۔ اس اقدام اور تصویر نے پاکستانی اور انڈین شائقین دونوں کے دل جیت لیے۔ اسی طرح 2022 میں وائرل ہونے والی ایک تصویر میں انڈیا کی خواتین کی کرکٹ ٹیم پاکستانی کپتان بسمہ معروف کے بچے کو میدان سے باہر دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ اس تصویر نے انٹرنیٹ پر دلوں کو پگھلا دیا تھا۔ سنہ 2012 کے بعد سے کرکٹ کی دونوں عظیم ٹیموں کے درمیان کوئی دو طرفہ سیریز نہیں ہوئی ہے۔ یہ ممالک صرف انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے ایونٹس اور ایشیا کپ میں ایک دوسرے کا سامنا کر چکے ہیں۔ اس سال یعنی سنہ 1947 کو غیر منقسم ملک کی کرکٹ ٹیم کے ایک کھلاڑی فضل محمود کو تقسیم کے دن 15 اگست کو انڈین شہر پونے میں ایک کیمپ میں شرکت کے لیے کہا گیا۔ آخر کار بدامنی کی وجہ سے کیمپ کو ختم کر دیا گیا، لیکن اس کے بعد ان کے اور ان کے انڈین ساتھی سی کے نائیڈو کے درمیان جو کچھ ہوا وہ تاریخی تھا۔ ’مجھے ٹرین میں چند انتہا پسندوں نے دیکھا جو مجھے نقصان پہنچانا چاہتے تھے، لیکن سی کے نائیڈو نے مجھے ان سے بچایا۔ اس نے اپنا بیٹ نکالا اور انھیں مجھ سے دور رہنے کو کہا۔‘ نائیڈو کو انڈیا میں کرکٹ کا علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ فضل محمود پاکستان کے پہلے عظیم بولروں میں سے ایک تھے جو نئے بننے والے ملک میں پوسٹر بوائے بن گئے کیونکہ انھوں نے آزادی کے بعد اپنی ٹیم کو شروع سے بنایا تھا۔ پچھلے سال جب انڈین سپن بولر بشن سنگھ بیدی سکھوں کے گرودوارے جانے کے لیے پاکستان گئے تو پاکستان کرکٹ ٹیم کے ان کے ہم عصر پرانے دوست ان سے ملنے آئے تھے۔ ان کے سابق مخالف پاکستانی کوچ انتخاب عالم، جنھوں نے 1970 کی دہائی میں ملک کی ٹیم کی کپتانی کی تھی، بیدی کے لیے پرفارم کرتے ہوئے لوئس آرمسٹرانگ کا گانا ’وین دی سینٹس گو مارچنگ اِن‘ سنایا۔ انتخاب عالم انڈیا میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے۔ وہ 2004 میں اپنی پیدائش گاہ واپس آئے، ایک مقامی انڈین کرکٹ ٹیم پنجاب کی کوچنگ کرنے والے پہلے غیر ملکی بن گئے۔ انڈین ٹیم کے سابق کپتان ویراٹ کوہلی اور پاکستانی کپتان بابر اعظم باقاعدگی سے ایک دوسرے کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn48mr565qlo", "summary": "پاکستانی کرکٹ میزبان زینب عباس نے انڈیا جاری ورلڈکپ کے دوران اچانک ٹورنامنٹ چھوڑ کر انڈیا سے واپسی کے حوالے پہلی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر شیئر کی جانے والی پوسٹس کے حوالے سے شرمندہ ہیں۔ ", "title": "’انڈیا سے ڈی پورٹ نہیں کیا گیا۔۔۔ پوسٹس کے باعث لوگوں کی دل آزاری پر شرمندہ ہوں: زینب عباس", "firstPublished": "2023-10-09T15:32:43.982Z", "id": "cn48mr565qlo", "article": "پاکستانی کرکٹ میزبان زینب عباس نے انڈیا میں جاری ورلڈکپ کے دوران اچانک ٹورنامنٹ چھوڑ کر انڈیا سے واپسی کے حوالے سے پہلی بار اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر شیئر کی جانے والی پوسٹس کے حوالے سے شرمندہ ہیں۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’میں اس درد کے بارے میں بخوبی آگاہ ہوں جو میری شیئر کی گئی پوسٹس (ٹویٹس) کے باعث لوگوں کو ہوا اور میں اس پر شرمندہ ہوں۔‘ واضح رہے کہ آئی سی سی کی جانب سے انڈیا جانے والی پاکستانی میزبان زینب عباس کے حوالے سے اس وقت تنازع سامنے آنا شروع ہوا جب انڈین وکیل ونیت جندال نے اپنی ٹویٹ میں زینب عباس پر انڈیا اور ہندو مخالف پیغامات لکھنے کا الزام عائد کیا تھا۔ اپنے ان الزامات کے حوالے سے ونیت جندال نے پانچ اکتوبر کو اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ایڈووکیٹ اور سماجی کارکن ونیت جندال کی جانب سے زینب عباس کے خلاف شکایت پولیس میں درج کر دی گئی ہے۔ جس میں سائبر سیل دہلی پولیس سے درخواست کی گئی ہے کہ زینب عباس کی جانب سے ہندو مذہب کے خلاف توہین آمیز ریمارکس اور انڈیا مخالف بیان دینے پر مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔‘ خیال رہے کہ اس سے قبل ایسی اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ زینب عباس کو ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔ تاہم آئی سی سی نے اس کی تردید کی تھی اور اپنے مختصر جواب میں آئی سی سی کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’زینب عباس ذاتی وجوہات کی وجہ سے انڈیا سے واپس گئی ہیں، انھیں ڈی پورٹ کرنے کی اطلاعات درست نہیں۔‘ اس سے قبل، زینب عباس نے اپنے اس انتخاب پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور دو اکتوبر کو انڈیا روانگی سے قبل انھوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں انتہائی خوشی کا اظہار کیا تھا اور ساتھ ہی لکھا تھا کہ سرحد کے دوسری پار سے مخالفت کے بجائے وہاں کے طور طریقوں اور تہذیب سے ہمیشہ سے ایک دلچسپی رہی ہے۔۔۔ جہاں کھیل کے میدان میں ایک دوسرے کے حریف لیکن میدان سے باہر بھائی چارہ اور محبت موجود ہے۔ آئی سی سی نے تو اپنے بیان میں زینب عباس کے جانے کے فیصلے کو ذاتی وجوہات قرار دیا ہے تاہم اس سے قبل یہ اطلاعات سامنے آ رہی تھیں کہ پاکستانی میزبان زینب عباس انڈیا میں اپنے خلاف دائر کردہ درخواستوں کے بعد ورلڈ کپ کو چھوڑ کر انڈیا سے واپسی کے لیے روانہ ہو گئی ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c7270xlj93eo", "summary": "تاحال چنئی کے سوا باقی سبھی وینیوز پر رنز کی گنگا بہتی رہی ہے اور جب حالات یوں بلے بازی کی جانبداری کر رہے ہوں، تب یکطرفہ مقابلے زور پکڑتے ہیں اور کمزور ٹیموں کے امکانات ماند تر ہو جاتے ہیں۔ سو، ابھی تک سری لنکا، بنگلہ دیش اور افغانستان کہیں کوئی حیرت کا سامان پیدا نہیں کر پائے۔ ", "title": "ون ڈے کرکٹ کو نئی روح درکار ہے: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-10-12T13:54:42.566Z", "id": "c7270xlj93eo", "article": "مارک نکولس کرکٹ کی معتبر آوازوں میں سے ایک ہیں۔ حال ہی میں وہ ایم سی سی کی سربراہی پر فائز ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ون ڈے کرکٹ کو صرف ورلڈ کپ تک محدود کر دیا جائے اور دوطرفہ مقابلوں میں اس فارمیٹ سے احتراز برتا جائے۔ ٹی ٹونٹی کرکٹ کی آمد کے بعد سے ہر ون ڈے ورلڈ کپ پر ایک اضافی بوجھ بھی لاد دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ مختصر طرز کی کرکٹ کے ایک روزہ دورانئے کی بقا کا جواز بھی پیدا کرے اور یقینی بنائے کہ صرف ٹی وی ریٹنگز ہی نہیں، ٹکٹوں کی فروخت بھی عروج پر رہے۔ افتتاحی میچ میں انگلینڈ کی ٹیم سلیکشن منطق سے بالاتر تھی۔ انگلش بولنگ اور بٹلر کی قیادت اس سے بھی بدتر رہی۔ اور یوں نیوزی لینڈ نے ایک مناسب ہدف کا ٹھٹھہ اڑا کر رکھ دیا۔ پاکستان کے خلاف ڈچ بولنگ نے شروع میں ایک اپ سیٹ کی امید سی پیدا کی مگر ڈچ بیٹنگ اس توقع کا بوجھ اٹھا نہ پائی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی ایک انجریز دیکھنے کو ملیں اور بیشتر ٹیمیں اپنے کلیدی چہروں کے بغیر گلوبل ایونٹ تک پہنچی۔ سو، اگر انجریز کے بادل یوں ہر ٹیم پہ منڈلا رہے ہوتے تو شاید زیادہ مسابقتی کرکٹ دیکھنے کو مل سکتی تھی۔ تاحال چنئی کے سوا باقی سبھی وینیوز پر رنز کی گنگا بہتی رہی ہے اور جب حالات یوں بلے بازی کی جانبداری کر رہے ہوں، تب یکطرفہ مقابلے زور پکڑتے ہیں اور کمزور ٹیموں کے امکانات ماند تر ہو جاتے ہیں۔ سو، ابھی تک سری لنکا، بنگلہ دیش اور افغانستان کہیں کوئی حیرت کا سامان پیدا نہیں کر پائے۔ افغانستان کی کرکٹ پچھلے چند برسوں سے بہت پُرجوش رہی ہے اور ان سے توقعات جوڑنے والوں کی تعداد بھی روز بروز بڑھوتری پر مائل ہے مگر ابھی تک وہ بڑے ایونٹس میں کسی بھی حریف کے لیے لمحۂ فکریہ بننے سے گریزاں ہے کہ راشد خان بھی ٹاپ ٹیموں کے خلاف وہ ہتھیار نہیں بن پائے جو ٹی ٹونٹی فرنچائز کرکٹ میں ان کی شہرت ہو چلی ہے۔ اور اگرچہ سری لنکا اپنی بولنگ کے طفیل پہلے ہی پریشان تھا، ورلڈ کپ سے عین پہلے ہسارنگا کی انجری نے اس پہ ایک اور گھاؤ ڈال چھوڑا ہے۔ جبکہ بنگلہ دیشی کرکٹ اپنے انتظامی مسائل اور غیر منطقی ٹیم سلیکشن کے سبب اس بار بھی کوئی تاثیر پیدا کرنے سے محروم نظر آتی ہے۔ مارک نکولس کی تجویز بھلے کتنی ہی نامعقول کیوں نہ دکھائی دے، ان کے خدشات بہرحال بجا ہیں اور تاحال یہ ورلڈ کپ ان کا جواب دینے سے قاصر رہا ہے۔ مگر عین ممکن ہے کہ شیڈول جوں جوں آگے بڑھے، شاید پچز کے مزاج میں کچھ بدلاؤ آئے، بلے بازوں کی یکطرفہ برتری کم پڑے اور شاید چھوٹی ٹیمیں بھی کوئی اپ سیٹ رچا کر اس فارمیٹ میں نئی روح پھونک سکیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1q3gn4zqjo", "summary": "’سرحد کا دروازہ جب اس طرح سے کھول دیا گیا تو اس صلائے عام پر تقریباً 20 ہزار ہندوستانی دوڑے۔ بہت سے لوگ (شائقین کرکٹ) تو امرتسر سے سائیکلوں پر لاہور جاتے دیکھے گئے۔‘ ", "title": "جب ٹیسٹ میچ میں پاکستان سے شکست پر انڈین تماشائیوں نے اپنی ہی ٹیم پر حملہ کیا", "firstPublished": "2023-10-12T06:52:20.654Z", "id": "cd1q3gn4zqjo", "article": "’سرحد کا دروازہ جب اس طرح سے کھول دیا گیا تو اس صلائے عام پر تقریباً 20 ہزار ہندوستانی دوڑے۔ بہت سے لوگ (شائقین کرکٹ) تو امرتسر سے سائیکلوں پر لاہور جاتے دیکھے گئے۔‘ ڈھاکا (موجودہ بنگلہ دیش)، بہاول پور، لاہور، پشاور اور کراچی میں ہوئے ان میچوں پر وزڈن کا تبصرہ تھا کہ: ’کسی بھی طرف سے پہل کرنے کے لیے تیار نہ ہونے کے باعث سیریز برابر ہوئی۔ تمام پانچ ٹیسٹ تاریخ میں پہلی بار ڈرا ہوئے۔ شکست کا خوف دونوں ٹیموں کے ذہنوں میں سرفہرست رہا اور ایسا لگتا ہے کہ جب تک دونوں ممالک کو یہ احساس نہیں ہو جاتا کہ ٹیسٹ میچ ہارنا وہ تباہ کن سانحہ نہیں ہے جس کا وہ تصور کرتے نظر آتے ہیں، ان کے درمیان کھیل عملی طور پر غیر دلچسپ رہنے کا امکان ہے۔‘ ’کئی بازاروں میں ان مہمانوں کے لیے چائے پانی کا اہتمام عام ہوتا۔ سڑکوں پر لوگ اجنبیوں کو بھی آواز دے دے کر بلاتے، دو روز بعد تو یہ کیفیت ہو گئی کہ بچے بھی کھیل کھیل میں بڑوں کی نقل میں اس طرح کے جملے دہرانے لگے ’جی آئیاں نوں، جی صدقے‘ اور یہ میلا چار روز تک رہا۔‘ مصنف سریش مینن کا کہنا ہے 1955 میں ہزاروں شائقین کراچی ایئرپورٹ پر انڈین کرکٹرز کے استقبال کے لیے جمع ہوئے۔ جب بھی ہندوستانی کھلاڑی دورہ پاکستان کے دوران خریداری کرنے جاتے تو دکاندار اکثر ان سے پیسے لینے سے انکار کر دیتے۔ سرحد پر فوجیوں کی نقل و حرکت سے تناؤ میں اضافہ ہوا تو 1987 میں جنرل ضیا الحق جے پور ٹیسٹ میچ دیکھنے اور انڈین وزیر اعظم راجیو گاندھی سے ملاقات کے لیے جا پہنچے۔ اس سے تناو کم ہوا اور ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کے لیے فضا سازگار ہوئی۔ دو کرکٹ ناولوں کے مصنف رچرڈ ہیلر اور پاکستان کرکٹ کی تاریخ ’وونڈڈ ٹائیگر‘کے مصنف پیٹر اوبورن کے مطابق پاکستان کرکٹ کے سربراہ شہریار خان نے لکھا ہے کہ اس دورے کے اختتام پر انڈین ہائی کمشنر نے ان سے کہا کہ ’بیس ہزار انڈین کرکٹ شائقین نے پاکستان کا دورہ کیا۔ گویا آپ نے انڈیا میں پاکستان کے 20 ہزار سفیروں کو بھیج دیا ہے۔‘ سنہ 2006میں تقریباً 3,000 لوگ صبح ہی سے انڈیا کی سرحدی چوکی پر قطار میں کھڑے تھے تاکہ پیدل پاکستان میں داخل ہوں اور پھر دونوں ٹیموں کے درمیان تیسرے ایک روزہ بین الاقوامی میچ کے لیے لاہور جاسکیں ۔ سنہ 2012 کے بعد سے انڈیا اور پاکستان کے دو طرفہ میچ نہیں ہوئے جب پاکستان انڈیا میں تین ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلنے گیا تھا۔دوطرفہ ٹیسٹ کرکٹ تو اس سے بہت پہلے تمام ہوگئی تھی۔ یہ وہی عام لوگ ہیں جو کبھی ہزاروں کی تعداد میں کرکٹ میچ دیکھنے ایک سے دوسرے ملک جاتے تھے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy91dwewzpyo", "summary": "کرکٹ کے شائقین احمدآباد میں 14 اکتوبر کے پاکستان انڈیا میچ کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ وہیں دوسری جانب اس میچ کے لیے کرکٹ کی تاریخ کے غیر معمولی سیکورٹی کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ ", "title": "پاکستان، انڈیا میچ کے لیے کمانڈوز، اینٹی ڈرون سسٹم اور ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی", "firstPublished": "2023-10-12T03:56:57.927Z", "id": "cy91dwewzpyo", "article": "کرکٹ کے شائقین احمدآباد میں 14 اکتوبر کے پاکستان انڈیا میچ کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ وہیں دوسری جانب اس میچ کے لیے کرکٹ کی تاریخ کے غیر معمولی سکیورٹی کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ میچ کے روز سٹیڈیم اور شہر میں 11 ہزار سے زیادہ سکیورٹی اہلکار حفاظت کے لیے تعینات کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ عالمی کپ کے افتتاحی میچ کے لیے 3500 پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے لیکن پاکستان انڈیا کے اہم میچ کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ احمدآباد کے ایڈیشنل پولیس کمشنر چراغ کوراڈیا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’دوسرے میچوں کے مقابلے اس میچ کے لیے بہت سخت حفاظتی انتظامات ہوں گے۔‘ پولیس نے اینٹی ڈرون سسٹم کا بھی انتظام کیا ہے۔ انڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق ممبئی پولیس کو گذشتہ دنوں ایک ای میل موصول ہوئی جس میں کسی گمنام شخص نے وزیر اعظم نریندر مودی کو نقصان پہنچانے اور احمدآباد کے کرکٹ سٹیڈیم کو بم سے اڑانے کی دھمکی دی تھی۔ ای میل میں جیل میں قید گینگسٹر لارنس بشنوئی کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کیس کے تناظر میں کرائم برانچ نے بدھ کی شب ایک شخص کو گجرات کے راجکوٹ شہر سے گرفتار کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کی دھمکی والی میل اسی شخص نے بھیجی تھی۔ کوراڈیا کا کہنا تھا کہ ’کسی کو ای میل یا دھمکی سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ احمدآباد پولیس ایک باصلاحیت فورس ہے اور شہر میں فل پروف حفاظتی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔‘ میچ کے لیے سٹیڈیم میں ایک لاکھ شائقین کے آنے کی توقع ہے۔ ایک اعلیٰ پولیس افسر کے مطابق میچ کے روز سٹیڈیم اور شہر میں گجرات پولیس، نیشنل سکیورٹی گارڈ کمانڈو، فساد شکن فورسز اور ہوم گارڈز سمیت 11 ہزار سکیورٹی اہلکارحفاظتی ڈیوٹی پر تعینات کیے جائیں گے۔ انھوں نے اعلی اہلکاروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس اہم میچ کے خوش اسلوبی سے انعقاد کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔ شہر کے پولیس کمشنر لی ایس ملک نے بتایا ہے کہ سٹیڈیم میں بھگڈر کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بھی ہنگامی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ سٹیڈیم میں سکیورٹی اہلکار بچاؤ اور امدادی کارروائیوں کی مشق کر رہے ہیں۔ سٹیڈیم کے سبھی دروازوں اور اطراف میں سکیورٹی پہلے ہی سخت کر دی گئی ہے۔ اس دوران پولیس نے بدھ کو چار افراد کو پاکستان انڈیا میچ کے جعلی ٹکٹ فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ یہ افراد جعلی ٹکٹ بیس ہزار روپے میں فروخت کر رہے تھے۔ احمد آباد پولیس نے اصل ٹکٹ کے چھ سکیورٹی فیچر جاری کیے ہیں اور شائقین پر زور دیا ہے کہ وہ سٹیڈیم پہنچنے سے پہلے اپنے ٹکٹ کی جانچ کر لیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1rdm5j45ko", "summary": "ورلڈکپ کے نویں میچ میں انڈیا نے افغانستان کو با آسانی آٹھ وکٹوں سے شکست دے کر مسلسل دوسری کامیابی حاصل کر لی اور اب انڈیا اور پاکستان دونوں ہی 14 اکتوبر کو احمد آباد میں دو فتوحات کے بعد آمنے سامنے آئیں گے۔ ", "title": "انڈیا کی افغانستان پر باآسانی فتح: کوہلی نے تماشائیوں کو نوین الحق پر جملے کسنے سے کیوں روکا؟", "firstPublished": "2023-10-11T17:45:38.127Z", "id": "cd1rdm5j45ko", "article": "ورلڈکپ کے نویں میچ میں انڈیا نے افغانستان کو با آسانی آٹھ وکٹوں سے شکست دے کر مسلسل دوسری کامیابی حاصل کر لی اور اب انڈیا اور پاکستان دونوں ہی 14 اکتوبر کو احمد آباد میں دو فتوحات کے بعد آمنے سامنے آئیں گے۔ آج انڈیا نے افغانستان کا 273 رنز کا ہدف با آسانی 35 اوورز میں دو وکٹوں کے نقصان پر پورا کیا تو یہ دراصل کپتان روہت شرما کی تاریخ ساز اننگز کی بدولت اتنی جلدی ممکن ہوا۔ ان کے علاوہ ایشان کشن اور وراٹ کوہلی 47 اور 55 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔ افغانستان کی جانب سے دونوں وکٹیں راشد خان نے حاصل کیں۔ نئی دہلی کے ارون جیٹلی سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے میچ میں افغانستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا تاہم مقررہ اوورز میں ٹیم آٹھ وکٹوں کے نقصان پر صرف 272 رنز ہی بنا سکی۔ دونوں کے درمیان 121 رنز کی شراکت ہوئی تو ایک موقع پر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ افغانستان 300 رنز سے زیادہ کا ہدف دے گا لیکن پھر یکِ بعد دیگرے وکٹیں گرنے کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا۔ عظمت اللہ عمر زائی نے 62 رنز سکور کیے۔ اب انڈیا اور پاکستان دونوں ہی اپنے دونوں میچ جیتنے کے بعد ایک دوسرے سے احمد آباد میں 14 اکتوبر کو میچ کھیلنے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے گذشتہ روز سری لنکا کے 345 رنز کے ہدف کو باآسانی چار وکٹوں کے نقصان پر پورا کر لیا تھا۔ اس سے قبل پاکستان نے نیدرلینڈز کو اپنے پہلے میچ میں 81 رنز سے ہرایا تھا۔ دوسری جانب انڈیا نے چنئی میں آٹھ اکتوبر کو آسٹریلیا کے خلاف اپنے میچ میں چھ وکٹوں سے فتح حاصل کی تھی۔ انڈیا کی اس فتح کے بارے میں سوشل میڈیا پر انڈین مداح بہت خوش دکھائی دے رہے ہیں اور خاص طور پر روہت شرما کی عمدہ بیٹنگ کی تعریف کر رہے ہیں۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے سابق انڈین بلے باز وی وی ایکس لکشمن کا کہنا تھا کہ سنہ 2011 ورلڈکپ میں روہت شرما ٹیم کے لیے سیلیکٹ نہیں ہو سکے تھے اور اب انھوں نے صرف دو ورلڈ کپس میں سات سنچریاں بنا لی ہیں۔ نوین الحق آؤٹ ہو کر پویلین پہنچ گئے اور پھر آخری وکٹ امت مشرا کی گری تو وراٹ کوہلی مخالف ٹیم سے ہاتھ ملانے کے لیے آگے بڑھے، اس دوران انھوں نے نوین الحق سے ہاتھ ملاتے ہوئے انھیں کچھ کہا جس پر دونوں کے درمیان ایک بار پر تلخ کلامی ہوئی اور درمیان میں میکسویل کو آ کر دونوں کو علیحدہ کرنا پڑا۔ دہلی وراٹ کوہلی کا ہوم گراؤنڈ ہے، تاہم وراٹ نے تماشائیوں سے نوین الحق پر ہوٹنگ نہ کرنے یا ان پر جملے کسنے سے منع کرنے کا اشارہ کیا اور بعد میں دونوں کو ہنستے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw03rx2pj39o", "summary": "سنہ 1983 کا کرکٹ ورلڈ کپ انڈیا کے کچھ کھلاڑیوں کے لیے سیر و تفریح کے موقع سے زیادہ کچھ نہیں تھا کیونکہ انڈیا کہیں مقابلے میں تھا ہی نہیں۔ مگر پھر انگلش کرکٹ بورڈ کی جانب سے دو ٹکٹ نہ دینے پر پاکستان اور انڈیا نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ کرکٹ ورلڈ کپ انڈیا اور پاکستان میں منعقد کروایا جائے۔", "title": "فائنل کی دو ٹکٹیں نہ ملنے کا ’رنج‘ اور ضیاالحق کا دورہ: جب پاکستان، انڈیا نے مل کر انگلینڈ سے ورلڈ کپ کی میزبانی ’چھینی‘", "firstPublished": "2023-10-11T04:39:19.977Z", "id": "cw03rx2pj39o", "article": "سنہ 1983 کا کرکٹ ورلڈ کپ، انڈیا کے کچھ کھلاڑیوں کے لیے سیر و تفریح کے موقع سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ کرکٹر سندیپ پاٹل لکھتے ہیں کہ ’انڈیا مقابلے میں کہیں تھا ہی نہیں۔ پچھلے دو کرکٹ ورلڈ کپس میں اس نے شاید ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو۔ اس لیے ہم انڈیا سے روانہ ہوئے تو عملی طور پر چھٹی کے موڈ میں تھے۔ کرکٹ ہماری پہلی ترجیح نہیں تھی۔‘ ’سالوے نے انگلش کرکٹ بورڈ (ایم سی سی) سے دو ٹکٹوں کے حصول کی درخواست کی۔ گو انڈیا فائنل کھیل رہا تھا مگر اس درخواست کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا گیا کہ لارڈز پر پہلا حق ایم سی سی ارکان کا ہے اور انڈین کرکٹ بورڈ کو اضافی ٹکٹ نہیں دیے جا سکتے۔‘ سری لنکن بورڈ کے سربراہ گامنی ڈسانائیکے نے اس شرط پر ہاں میں ہاں ملائی کہ اُن کے ملک کا اس ایونٹ میں کوئی مالیاتی حصہ نہیں ہو گا، یوں ایک طرح سے یہ انڈیا اور پاکستان پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ 1987 کے کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی کے مشترکہ خواب کو تعبیر کریں۔ امرت ماتھر لکھتے ہیں کہ انگلینڈ کے حکام نے کہا کہ انھوں نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے نسیم حسن شاہ کی ووٹنگ نہیں دیکھی کیونکہ اُن کا قد چھوٹا تھا۔ (نسیم حسن شاہ بعد میں پاکستان کے چیف جسٹس اور کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنے۔) بِندرا کے مطابق معاہدے پر دستخط کرنے کے وقت امبانی کی ایک شرط تھی کہ وہ ورلڈ کپ سے ٹھیک پہلے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والے ایک نمائشی میچ میں انڈین وزیر اعظم کے ساتھ بیٹھیں گے، جسے قومی ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کیا جائے گا۔ ماتھر کے مطابق سالوے اور بندرا کو قومی نشریاتی ادارے دور درشن سے بھی نمٹنا پڑا جس نے ورلڈ کپ کی کوریج کے عوض میزبانوں سے رقم کا مطالبہ کیا اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے راجیو گاندھی سے کہنا پڑا۔ دوسری جانب پی ٹی وی پاکستان میں اس ایونٹ کی کوریج کر رہا تھا۔ اگلا اعتراض ٹیموں کے انڈیا اور پاکستان میں ایک سے دوسری جگہ سفر کے بارے میں تھا۔ وجہ یہ تھی کہ انگلینڈ میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک سفر کرنا زیادہ مشکل نہیں تھا لیکن پاکستان اور انڈیا دو بہت بڑے ملک ہیں۔ اس کے جواب میں، سول ایوی ایشن کے حکام نے اعلان کیا کہ وہ ورلڈ کپ کے پروگرام کے مطابق اپنے فلائیٹ شیڈول کو ایڈجسٹ کریں گے۔ ماتھر لکھتے ہیں کہ ’اسلام آباد کے باہر مری میں ہونے والے ورلڈ کپ کے اجلاس میں پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیا الحق نے کشیدگی کا ذمہ دار انڈین فوج کو ٹھہرایا۔ بِندرا، جن کا تعلق ضیا کی طرح پنجاب کے شہر جالندھر سے تھا، نے تعطل کو توڑنے کے لیے جنرل ضیا کو انڈیا کے دورے کا مشورہ دیا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckv0jlvq89jo", "summary": "سب احوال سے بالاتر رہی محمد رضوان کی ہمت کہ کوئی انجری ان کا رستہ روک پائی اور نہ ہی تھکن ارادوں میں حائل ہو پائی کہ منزل تک پہنچ کر ہی دم لیا۔", "title": "مگر رضوان کی ہمت بالاتر رہی: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-10-11T03:07:08.715Z", "id": "ckv0jlvq89jo", "article": "جب رستہ طویل ہو اور قدم شروع میں ہی ڈگمگا جائیں تو کامیاب وہی رہتا ہے جو حواس کھونے نہ دے اور منزل سے پہلے پہلے سنبھل جائے۔ پاکستان بھی اس طویل رستے کی ابتدا میں خوب ڈگمگایا۔ اس پر ستم ظریفی یہ رہی کہ جس ٹورنامنٹ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ سپنرز کا کردار اہم تر ہونے کو ہے، وہاں حسبِ معمول شاداب خان اور محمد نواز ایک بار پھر روٹھی فارم کو منانے کی تگ و دو میں نظر آئے۔ داسون شانکا نے پہلے بلے بازی کا فیصلہ اس سوچ کے تحت کیا تھا کہ پچھلے میچ کے بعد شدید دباؤ میں گِھری بولنگ کے عزائم بلند کرنے کو سکور بورڈ پر ایک ایسا حوصلہ افزا مجموعہ جڑا ہو کہ وسائل کی کمیابی سے دوچار اٹیک کی ہمت بندھانے کو کافی ہو رہے۔ مگر میچ تمام ہونے تک یہ طے کرنا دشوار ہو چکا تھا کہ دونوں ٹیموں کے فیلڈنگ اور بولنگ ڈسپلن میں سے بدتر کسے ٹھہرایا جائے۔ جہاں پاکستانی فیلڈنگ بھول بھلیوں میں کھوئی نظر آئی، وہاں سری لنکا کا نظم و ضبط اس سے بھی ابتر نکلا۔ مگر جس طرح کی تکنیکی مضبوطی اور اعصابی پختگی عبداللہ شفیق میں جھلکتی ہے، وہ فی زمانہ نوجوان کرکٹرز میں خال ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ عبداللہ کی ذہنی بلوغت کا مکمل نمونہ تھا کہ یکے بعد دیگرے امام الحق اور بابر اعظم کا ساتھ گنوانے کے بعد بھی اضمحلال کو پاس پھٹکنے نہ دیا۔ اور پھر انھیں محمد رضوان کی شکل میں وہ آزمودہ کار سنگت میسر ہوئی کہ جس نے دوسرے کنارے سے بھرپور سنبھالا دیا۔ گو پاکستان میچ کی چال سے بہت پیچھے رہ چکا تھا مگر ان دونوں نے کہیں بھی مطلوبہ رن ریٹ کو اعصاب پر حاوی نہیں کیا اور شانکا کی غلطیوں کے منتظر رہے۔ ون ڈے کرکٹ کی خوبصورتی یہ ہے کہ ٹی ٹونٹی کے برعکس یہاں کئی ایک پڑاؤ آتے ہیں اور ایک مرحلے کی پست ہمتی کا ازالہ کرنے کو دوسرا مرحلہ میسر ہوتا ہے۔ پاکستانی بولنگ ہی کی طرح بیٹنگ بھی ابتدا میں جہاں ڈگمگا گئی تھی، اننگز کے دوسرے مرحلے میں اس لغزشِ پا کو کمال مہارت سے رفع کر لیا گیا۔ جہاں سعود شکیل کی شمولیت سے مڈل آرڈر کی کجی دور ہوئی تھی، وہیں اب عبداللہ شفیق کی آمد سے ٹاپ آرڈر کا نقص بھی دور ہو گیا اور ان کی شاندار اننگز کے طفیل، ورلڈ کپ کی تاریخ کا سب سے بڑا ہدف طے کرنے کا ایک نیا ریکارڈ پاکستان کے نام ہوا۔ اور اس سب احوال سے بالاتر رہی محمد رضوان کی ہمت کہ کوئی انجری ان کا رستہ روک پائی اور نہ ہی تھکن ارادوں میں حائل ہو پائی کہ منزل تک پہنچ کر ہی دم لیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2q39r42y0xo", "summary": "سری لنکا نے 20 سے 30 اووز کے درمیان 102 رنز بنائے تو ایک موقع پر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہدف 400 کے قریب ہو گا، تاہم پاکستانی فاسٹ بولرز نے آخری 20 اوورز میں بہتر بولنگ کا مظاہرہ کیا اور یکِ بعد دیگرے وکٹیں لیں جس کے باعث سری لنکا کو 344 رنز تک روکا جا سکا۔", "title": "رضوان اور عبداللہ شفیق کی سنچریوں کی بدولت پاکستان سری لنکا کے خلاف ریکارڈ ہدف کے تعاقب میں کامیاب", "firstPublished": "2023-10-10T13:04:49.035Z", "id": "c2q39r42y0xo", "article": "سری لنکا کے خلاف ورلڈ کپ 2023 میں اپنے دوسرے میچ میں پاکستان نے وہ کر دکھایا جس کی عموماً اس کے مداحوں کو اس کے بلے بازوں سے بالکل امید نہیں ہوتی، یعنی ایک ایسے ہدف کا تعاقب جو آغاز میں خصوصاً کپتان بابر اعظم کی وکٹ گرنے کے بعد ناقابلِ تسخیر دکھائی دے رہا تھا۔ اس تمام صورتحال میں مسئلہ یہ بھی تھا کہ پاکستان نے آج تک ورلڈ کپ مقابلوں میں کبھی 265 رنز سے زیادہ کا ہدف حاصل نہیں کیا تھا۔ آغاز میں دونوں کی رنز بنانے کی رفتار قدرے سست تھی لیکن پھر وقت کے ساتھ اعتماد بڑھنے اور سری لنکن بولرز کی ناقص بولنگ نے میچ کا پانسہ پاکستان کی جانب پلٹ دیا۔ ان کا سٹائلش انداز ان کے جارحانہ کھیل میں نظر آ رہا تھا اور انھوں نے سپنرز اور فاسٹ بولرز دونوں ہی کے خلاف انتہائی اطمینان اور جارحانہ انداز سے بیٹنگ کی اور پاکستان کو اس ہدف کے تعاقب میں ایک بہترین بنیاد فراہم کر دی۔ ان کا ساتھ دینے والے محمد رضوان نے دوسری جانب سے ایک لمبی اننگز کھیلی اور آخری اوور تک کریز پر موجود رہے۔ انھوں نے آٹھ چوکے اور تین چھکے لگائے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان ورلڈ کپ میں دوسرا میچ بھی جیت جائے۔ حیدرآباد کے راجیو گاندھی سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے میچ میں سری لنکا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو آغاز میں ہی حسن علی کی جانب سے وکٹ لینے کے بعد ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پاکستان سری لنکا کو کم ٹوٹل پر روکنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ تاہم پھر شاہین آفریدی کی گیند پر کوسال مینڈس کا کیچ امام الحق سے چھوٹا اور پھر پاکستانی بولرز کی بدقسمتی کا آغاز ہوا۔ کوسال مینڈس نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے 77 گیندوں پر چھ چھکے اور 14 چوکے لگاتے ہوئے 122 رنز بنائے اور پاکستانی بولرز کو لاجواب کر گئے۔ ان کے جارحانہ انداز کے باعث نہ تو پاکستانی کپتان ایک فیلڈ سیٹ کر پائے اور نہ ہی پاکستانی بولرز کو سمجھ آئی کہ کیا لائن رکھی جائے۔ سری لنکا نے 20 سے 30 اووز کے درمیان 102 رنز بنائے تو ایک موقع پر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہدف 400 کے قریب ہو گا، تاہم پاکستانی فاسٹ بولرز نے آخری 20 اوورز میں بہتر بولنگ کا مظاہرہ کیا اور یکِے بعد دیگرے وکٹیں لیں جس کے باعث سری لنکا کو 344 رنز تک روکا جا سکا۔ سنہ 2011 میں یہ ریکارڈ آئرلینڈ کا تھا جب اس نے چار وکٹوں کے نقصان پر انگلینڈ کے خلاف 329 رنز کا ہدف حاصل کیا۔ ورلڈ کپ میچز میں بنگلہ دیش نے دو بار 322 رنز کا ہدف حاصل کیا ہے۔ سری لنکا نے سنہ 1992 میں زمبابوے کے خلاف 313 رنز بنا کر ورلڈ کپ میں بڑی جیت اپنے نام کیے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cldxl4prxp4o", "summary": "اس رپورٹ میں ہم آپ کو انڈین نژاد ان پانچ کھلاڑیوں کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں جو اس کرکٹ ورلڈ کپ 2023 میں مختلف ٹیموں کے لیے کھیل رہے ہیں۔", "title": "ورلڈ کپ 2023: وہ انڈین نژاد کرکٹر جو دوسرے ممالک کے لیے کھیل رہے ہیں", "firstPublished": "2023-10-10T07:31:48.751Z", "id": "cldxl4prxp4o", "article": "ویڈیو میں وہ کہتے ہیں کہ ’میرا نام اندربیر سنگھ سوڈھی ہے۔ میرے خیال میں میچوں کی پنجابی میں کمنٹری ہونی چاہیے۔‘ ان کی ایک اور ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر کئی بار دیکھی جا چکی ہے جس میں وہ بلے کو تھامے پنجابی گانا گا رہے ہیں۔ انڈیا میں کرکٹ کے جنون سے ہر کوئی واقف ہے اور اسی جذبے کو انڈیا کے بیرون ملک مقیم شہری دنیا کے مختلف ممالک میں لے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کی مختلف ٹیموں میں کئی انڈین نژاد کھلاڑی بھی حصہ لے رہے ہیں۔ جو ٹیمیں ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہیں بھی کر سکیں، اُن میں بھی بہت سے کھلاڑی انڈین نژاد ہیں۔ کینیڈین ٹیم ون ڈے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہیں کر سکی ہے لیکن وہ ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کر چکی ہے اور اس ٹیم میں 5 سے زائد کھلاڑی انڈین نژاد ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سنگاپور کرکٹ ٹیم کے 15 کھلاڑیوں میں سے 12 کھلاڑی انڈین نژاد ہیں۔ اس رپورٹ میں ہم آپ کو انڈین نژاد اُن پانچ کھلاڑیوں کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں جو اس کرکٹ ورلڈ کپ 2023 میں مختلف ٹیموں کے لیے کھیل رہے ہیں۔ ایش نے آکلینڈ کے ایک ہائی سکول میں تعلیم حاصل کی جو کرکٹ کے لیے مشہور نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں علاقائی کلب کی ٹیموں میں جگہ بنانا مشکل نظر آیا۔ اس کے ساتھ ایک اور پریشانی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اب ہم ایک ایسے کرکٹ کھلاڑی کی بات کرنے جا رہے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا نام دو کرکٹ کھلاڑیوں کے نام پر رکھا گیا۔ سنہ 2018 میں جب راچن ایک بیٹنگ آل راؤنڈر کے طور پر انڈر 19 ورلڈ کپ کھیل رہے تھے تو ان کے والد روی کرشنامورتی نے ای ایس پی این کرک انفو سے بات کی۔ راچن ابھی اپنے کیریئر کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ انھوں نے کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے پہلے میچ میں انگلینڈ کے خلاف شاندار کارکردگی دکھائی اور 96 گیندوں پر 123 رنز کی شاندار اننگز کھیلی اور مین آف دی میچ بھی رہے۔ راچن کو نیوزی لینڈ کے روشن مستقبل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ وکرم جیت سنگھ اب ہالینڈ کے لیے اوپننگ بلے باز کے طور پر کھیل رہے ہیں۔ بائیں ہاتھ کے بلے باز وکرم جیت نے اب تک 25 میچوں میں 800 سے زیادہ رنز بنائے ہیں۔ اس کے بعد تیجا نے 2019 میں ڈچ شہر یوٹریچٹ کے ایک کلب کے لیے کھیلنا شروع کیا۔ بہت ڈرامائی انداز میں ان کو ہالینڈ میں نوکری مل گئی اور پھر ہالینڈ کی ٹیم میں بھی جگہ ملی۔ تیجا کو گذشتہ سال مئی میں ہالینڈ کی ٹیم میں منتخب کیا گیا تھا۔ اب تک وہ نیدرلینڈز کے لیے 20 سے زیادہ ون ڈے اور 6 ٹی ٹوئنٹی میچ کھیل چکے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c874e26pe85o", "summary": "کرکٹ انڈیا میں ایک مذہب کی طرح سب سے زیادہ مقبول کھیل ہے۔ اگرچہ یہ مردوں کا کھیل رہا ہے لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔", "title": "لڑکیوں کی روایت شکن کرکٹ ٹیم: ’جو لڑکے کر سکتے ہیں، لڑکیاں بھی کر سکتی ہیں‘", "firstPublished": "2023-10-09T12:33:27.394Z", "id": "c874e26pe85o", "article": "اگر یہ سنہ 1989 کی ہالی وڈ فلم فیلڈ آف ڈریمز کا منظر لگتا ہے تو یہ حقیقت سے زیادہ دور نہیں ہوگا۔ یہ 18 لڑکیاں گلاب سنگھ کرکٹ ٹیم کی رکن ہیں۔ کرکٹ انڈیا میں ایک مذہب کی طرح سب سے زیادہ مقبول کھیل ہے۔ اگرچہ یہ مردوں کا کھیل رہا ہے لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔ اس سال کے شروع میں، انڈیا نے خواتین کی کرکٹ پریمیئر لیگ، ڈبلیو پی ایل، شروع کی ہے، جو انڈین پریمیئر لیگ، آئی پی ایل، کا ایک ورژن ہے۔ یہ تیزی سے دنیا کی سب سے زیادہ منافع بخش خواتین کی فرنچائزز میں سے ایک بن گئی ہے، جو امریکہ میں خواتین کی باسکٹ بال لیگ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ انڈیا میں خواتین کئی سالوں سے کرکٹ میں سرگرم اور اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ ڈبلیو پی ایل نے انھیں مرکزی دھارے میں لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اب انھیں میڈیا پر بھی پذیرائی حاصل ہوتی ہے جو اس سے قبل صرف مردوں کی ٹیموں کے لیے مخصوص ہوا کرتی تھی۔ اکتوبر میں انڈیا کے کرکٹ بورڈ کی گورننگ باڈی نے کہا ہے کہ تمام کنٹریکٹ یافتہ خواتین کرکٹرز کو مردوں کے برابر میچ فیس ادا کی جائے گی۔ یہ ملک کے سب سے پسندیدہ کھیل میں صنفی مساوات کو فروغ دینے کا ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ سکول جانے سے پہلے سمرنجیت دادی کے ساتھ روٹیاں پکاتی ہیں۔ سکول کے بعد اپنی عمر کی دیگر بچیوں کی طرح گھر کے کام کرنے کے بجائے، اپنے باپ اور دادی کی حمایت سے، وہ کرکٹ کا لباس پہن کر پریکٹس پر چلی جاتی ہیں۔ اب ان کی بہن بھی ان کے ساتھ جاتی ہے۔ ان لڑکیوں کے لیے کرکٹ کھیلنا کچھ الگ سا ہے۔ چند گھنٹوں کے لیے صنف سے جڑے امتیاز ان سے دور ہو جاتے ہیں۔ دس سالہ ہرسمرت کور کہتی ہیں کہ جب ہم میچ کھیلتے ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں انڈیا کی ٹیم میں ہوں۔ ’جب میں چھکا لگاتی ہوں تو میں جانتی ہوں کہ یہ میں نے انڈیا کے لیے کیا۔ مجھے صرف ایک بات کا احساس ہے کہ ابھی تو میں انڈیا کی ٹیم میں نہیں ہوں لیکن ایک دن ضرور کھیلوں گی۔‘ وہ ہفتے میں ایک دن ضرور میدان میں اترتی ہیں۔ کبھی وہ چوٹ کھا جانے والی کھلاڑیوں کی ہمت باندھتی ہیں تو کبھی صرف انھیں دیکھتی ہیں۔ ان کو عورت پر سماج کے دباؤ کا بخوبی اندازہ ہے۔ گلاب سنگھ شاید پروفیشنل کرکٹر بننے کا خواب بیچ رہے ہیں کہ یہ لڑکیاں کسی دن دنیا میں انڈیا کی نمائندگی کر سکیں گی۔ لیکن جو سبق وہ ان لڑکیوں کو سکھا رہے ہیں وہ انمول ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czd0knkgvpno", "summary": "انڈیا نے جنوبی ہند کے شہر چینئی میں آسٹریلیا کو چھ وکٹوں سے شکست دے کر اپنے ورلڈ کپ کا آغاز کیا ہے جس میں وراٹ کوہلی اور کے ایل راہل نے اپنے شاندار کھیل اور فارم کا مظاہرہ کیا ہے۔", "title": "اچھی گیندوں کی عزت، حملے کے لیے درست بولر کا انتخاب: کوہلی، راہل کی شراکت باقی ٹیموں کے لیے انتباہ!", "firstPublished": "2023-10-09T06:04:28.821Z", "id": "czd0knkgvpno", "article": "انڈیا نے جنوبی ہند کے شہر چنئی میں آسٹریلیا کو چھ وکٹوں سے شکست دے کر اپنے ورلڈ کپ کا آغاز کیا ہے جس میں وراٹ کوہلی اور کے ایل راہل نے اپنے شاندار کھیل اور فارم کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان پانچ ٹیموں نیوزی لینڈ اپنے رن ریٹ کی وجہ سے سرِفہرست ہے جبکہ جنوبی افریقہ اور پاکستان بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان کے بعد بنگلہ دیش اور انڈیا کا نمبر آتا ہے جبکہ نیوزی لینڈ کے ہاتھوں ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں شرمناک شکست کی وجہ سے انگلینڈ آخری یعنی دسویں پوزیشن پر ہے۔ لیکن پھر وراٹ کوہلی اور کے ایل راہل نے اپنے فارم اور اعلی معیار کے کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے 165 رنز کی شراکت اور کوہلی 85 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے جبکہ کے ایل راہل نے چھکے کے ساتھ انڈیا کو جیت دلائی اور انھیں ’مین آف دی میچ‘ قرار دیا گیا۔ جبکہ پاکستانی فاسٹ بولر محمد عامر نے لکھا کہ ’کنگ کوہلی اور راہل نے کیا اننگز کھیلی۔‘ اس کے ساتھ انھوں نے اپنا ایک یو ٹیوب لنک پیش کیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ انھیں آسٹریلیا کا پہلے بیٹنگ کرنا سمجھ میں نہیں آیا اور پھر انھوں نے کہا کہ اگر کوہلی کا کیچ ہو جاتا تو یہ میچ آسٹریلیا جیت سکتا تھا کیونکہ وکٹ دوسری اننگز میں بھی مشکل تھی لیکن پھر اوس کی وجہ سے قدرے آسان ہو گئی۔‘ سابق انڈین کرکٹر محمد کیف نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’پانچویں نمبر پر کے ایل راہل کی کامیابی کا نسخہ یہ ہے کہ اچھی گیندوں کی عزت، پارٹنر شپ قائم کرنا، حملے کے لیے درست بولر کا انتخاب اور اخیر میں حالات کے لحاظ سے اپنے شاٹ کا انتخاب کرنا ہے۔ کے ایل راہل اچھے فنشر ہیں۔‘ جبکہ وراٹ کوہلی کے لیے انھوں نے لکھا کہ ’ہدف کا تعاقب کرنے کے ماہر وراٹ کوہلی صحیح وقت پر کریز پر آئے اور اپنے انداز میں وہ لے میں نظر آئے۔ اس ورلڈ کپ میں بہت سے بولر ان سے ڈر رہے ہوں گے۔‘ بہت سے صارفین نے لکھا کہ سنچری ان کا حق تھا لیکن بہت سے 80 رنز سنچری پر بھاری ہوتے ہیں اور پھر انھوں نے کوہلی کے سنہ 2016 کے ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کے خلاف 82 ناٹ آوٹ اور سنہ 2022 کے ٹی-20 ورلڈ کپ میں پاکستان کے خلاف 82 ناٹ آوٹ اور گذشتہ شب آسٹریلیا کے خلاف 85 رنز کا ذکر کیا۔ پاکستان کی ایشیا کپ میں انڈیا کے خلاف مایوس کن کارکردگی رہی ہے لیکن اس نے بھی جیت کے ساتھ ورلڈ کپ کا آغاز کیا ہے۔ منگل کے روز اس کا سری لنکا سے میچ ہے جس کے بعد وہ انڈیا کے سامنے ہوگی اور دنیا بھر میں شہرت رکھنے والی پاکستانی بولنگ کو انڈیا کے اچھے فارم میں نظر آنے والے بیٹسمینوں کا سامنا ہوگا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/clje2n9g970o", "summary": "اب جبکہ کل پاکستان اور سری لنکا حیدرآباد میں مدِ مقابل ہوں گے تو حالیہ فتح سے حاصل شدہ اعتماد کے طفیل امکانات کا پلڑا واضح طور پر پاکستان کے حق میں جھکا نظر آتا ہے۔ اور پاکستان کے فیورٹ ہونے کی مزید وجہ یہ بھی ہے کہ جنوبی افریقہ کے ہاتھوں فقیدالمثال درگت بننے کے بعد سری لنکن ٹیم فی الحال دباؤ کا شکار بھی ہو گی۔", "title": "امتحان پاکستانی سپن کا ہی ہو گا: سمیع چوہدری کا کالم", "firstPublished": "2023-10-09T03:11:07.064Z", "id": "clje2n9g970o", "article": "ورلڈ کپ میں نیدرلینڈز کے خلاف فتح کا حلیہ اگرچہ پاکستان کی توقعات کے عین مطابق نہ تھا مگر بہرطور تین ہفتے تک فتح کے ذائقے سے محروم رہنے کے بعد یہ اعتماد کی واپسی کی سمت پہلا قدم ضرور تھا اور اس جیت میں کئی ایک مثبت پہلو موجود تھے۔ اب جبکہ کل پاکستان اور سری لنکا حیدرآباد میں مدِ مقابل ہوں گے تو حالیہ فتح سے حاصل شدہ اعتماد کے طفیل امکانات کا پلڑا واضح طور پر پاکستان کے حق میں جھکا نظر آتا ہے۔ اور پاکستان کے فیورٹ ہونے کی مزید وجہ یہ بھی ہے کہ جنوبی افریقہ کے ہاتھوں فقیدالمثال درگت بننے کے بعد سری لنکن ٹیم فی الحال دباؤ کا شکار بھی ہو گی۔ ورلڈ کپ کا آغاز ہر ٹیم جیت کے اعتماد کے ساتھ کرنا چاہتی ہے مگر سری لنکا کو وہ اعتماد میسر نہیں آ پایا۔ اور اگرچہ چار سیمی فائنلسٹس کی مختلف پیشگوئیوں کے بیچ سری لنکا کہیں نظر نہیں آتی مگر یہ یاد رہنا چاہیے کہ ایشیئن کنڈیشنز میں سری لنکن سپنرز اپنا جادو جگا پائیں تو بہرطور ممکنات کو پلٹتے دیر نہیں لگا کرتی۔ حیدرآباد کی کنڈیشنز میں بھی دہلی کی سی رنز کی برسات دیکھنے کو نہ ملے گی۔ یہاں سپن کا پلڑا بھاری رہنے کا امکان ہے اور اگر پہلے میچ کے برعکس سری لنکن تھنک ٹینک نے بہتر الیون منتخب کی تو گمان یہی ہے کہ لہیرو کمارا اور مہیش تیکشنا ٹیم کا حصہ ہوں گے۔ سو، نیدرلینڈز کے خلاف میچ میں بھی اگر پاکستانی ٹاپ آرڈر ڈچ سپن کے خلاف مشکلات کا شکار رہا تو دنیتھ ویلالگے کے سرپرائز فیکٹر کے علاوہ مہیش تیکشنا بھی جس قسم کا تجربہ رکھتے ہیں، وہاں پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہو گی کہ اگر سری لنکن سپنرز پاکستانی بیٹنگ میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہو رہے تو بابر اعظم کے لیے دشواری بڑھ سکتی ہے۔ دوسری جانب سری لنکن بیٹنگ ہمیشہ کی طرح یہاں بھی جارحیت پر مائل نظر آئے گی۔ ایسے میں اگرچہ پاکستانی پیس اٹیک پر بظاہر کوئی سوالیہ نشان نہیں کہ حسن علی کی نپی تلی میڈیم پیس ان سست وکٹوں پر جارح مزاج بلے بازوں کے لیے دامِ تزویر ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے لیے مثبت پہلو یہ ہے کہ ایشیا کپ فائنل کی ہزیمت اور پہلے میچ کی خفت آمیز شکست کے بعد سری لنکن ٹیم جس دباؤ سے نکلنا چاہ رہی ہے، پاکستان اپنا پہلا میچ جیت کر پہلے ہی اس دباؤ سے نکل چکا ہے۔ مگر دوسرا زاویہ یہ بھی ہے کہ اس شکست میں بھی سری لنکن بیٹنگ نے جنوبی افریقی بولنگ کو کہیں نک کہیں الجھائے رکھا۔ سو، پاکستانی پیس اٹیک بھلے اپنے حصے کا بوجھ اٹھا جائے، اصل امتحان ایک بار پھر پاکستانی سپنرز کا ہی ہو گا کہ سری لنکن بلے باز سپن سے نمٹنے میں ڈچ بیٹنگ سے بہت بہتر ثابت ہوں گے اور پاکستان کی حالیہ پریشانیوں میں سپن ہی نمایاں تر رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gyeex9qzvo", "summary": "شادی والے دن نوپور شیکھر نے شارٹس اور بنیان پہنی تھی۔ ان کا یہ حلیہ دیکھ کر لوگ حیران ہوئے کہ کیا کوئی اپنی شادی میں ایسا حلیہ بناتا ہے؟ \n", "title": "عامر خان کی بیٹی کی شادی: نیکر بنیان میں دوڑتے ہوئے شادی ہال پہنچنے والا دلہا جو مشہور شخصیات کا ٹرینر ہے", "firstPublished": "2024-01-05T03:26:24.556Z", "id": "c3gyeex9qzvo", "article": "بالی وڈ میں ’مسٹر پرفیکشنسٹ‘ کہلائے جانے والے اداکار عامر خان کی بیٹی آئرہ خان شادی کے بندھن میں بندھ گئیں اور ان کے دلہا نوپور شیکھر فٹنس ٹرینر ہیں۔ نوپور شکرے انڈیا میں فٹنس کی دنیا کا ایک بڑا نام ہیں۔ بالی وڈ میں جہاں شادیاں شاہانہ انداز میں ہوتی ہیں اور ملبوسات، شادی کی جگہ اور سجاوٹ ہیڈ لائنز میں جگہ بناتی ہے وہیں اتنی دھوم دھام سے نہ ہونے کے باوجود نوپور شیکھر اور آئرہ خان کی شادی کا چرچا ہے۔ شادی والے دن نوپور شیکھر نے شارٹس اور بنیان پہنی ہوئی تھی اور ان کا یہ حلیہ دیکھ کر لوگ حیران ہوئے کہ کیا کوئی اپنی شادی میں ایسا حلیہ بناتا ہے؟ پھر ان کا یہ روپ اب وائرل ہوگیا اور نوپور شیکھر کا نام راتوں رات بحث میں آ گیا۔ نوپور کے اس حلیے کو بہت سے لوگوں نے پسند کیا اور کچھ نے اس پر تنقید بھی کی۔ صرف اپنے شادی کے کپڑوں کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اپنے ایک اور فیصلے کی وجہ سے بھی نوپور شیکھر خبروں میں ہیں۔ وہ شادی کے مقام تک گھوڑا یا مہنگی گاڑی نہیں لے کر گئے بلکہ وہ جاگنگ کرتے ہوئے اپنی دلہن تک پہنچے۔ انھوں نے کالی بنیان اور سفید رنگ کی شارٹس پہن کر 8 کلومیٹر تک جاگنگ کی اور ان ہی کپڑوں میں شادی رجسٹر بھی کی۔ نوپور اور آئرہ کی شادی کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں۔ اس لیے لوگ یہ جاننے کے لیے متجسس ہیں کہ بالی وڈ کے ’مسٹر پرفیکشنسٹ‘ کے داماد نوپور شیکھر کون ہیں؟ نوپور فٹنس کوچ اور کنسلٹنٹ بھی ہیں۔ وہ فٹنس کی دنیا کا ایک بڑا نام ہیں۔ نوپور شیکرے اپنی صحت کا بہت خیال رکھتے ہیں اور ان کے انسٹاگرام پر ان کی ورزش کرتے ہوئے کئی ویڈیوز موجود ہیں۔ ان کے 30 ہزار سے زیادہ فالوورز ہیں۔ نوپور عامر خان کی بیٹی آئرہ خان کے ٹرینر بھی تھے۔ فٹنس کے سفر کے دوران دونوں کو ایک دوسرے سے پیار ہو گیا اور تقریباً دو سال کے اندر ان کا رشتہ گہرا ہو گیا اور انھوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ آئرہ خان اور نوپور کی پہلی ملاقات سنہ 2020 میں ہوئی تھی۔ لاک ڈاؤن کے دوران آئرہ اپنے والد کے گھر رہنے آئی تھیں اور اس دوران دونوں کی ملاقات ہوئی۔ ستمبر 2022 میں نوپور نے ایک سائیکلنگ ایونٹ کے دوران آئرا کو پرپوز کیا۔ ایک سال کی ڈیٹنگ کے بعد اب دونوں نے شادی کر لی ہے۔ شادی میں عامر خان کی دونوں بیویاں موجود تھیں جبکہ آئرہ کے بھائی جنید اور چھوٹے بھائی آزاد بھی موجود تھے۔ شادی میں نوپور کی پوری فیملی بھی موجود تھی۔ نوپور ایک عام مہاراشٹری خاندان کے فرد ہیں۔ وہ اپنی شادی کو سادہ رکھنا چاہتے تھے۔ لہٰذا وہ بغیر کسی نمود و نمائش کے تمام رسومات سادگی سے ادا کرنا چاہتے تھے اور ایسا ہی ہوا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c04y501l8m9o", "summary": "پنجابی موسیقی میں ریپ کی آمد نے پنجابی گلوکاروں اور گانوں کی پہنچ کو وسیع کردیا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ’ریپ‘ جیسی غیر ملکی موسیقی نے پنجاب کی لوک موسیقی کو تباہ کر دیا ہے۔", "title": "’بغاوت کی آواز‘ سمجھا جانے والا ریپ میوزک پنجابی معاشرے کا حصہ کیسے اور کیوں بنا؟", "firstPublished": "2024-01-04T12:59:58.349Z", "id": "c04y501l8m9o", "article": "دُنیا میں بولی جانے والی اہم زبانوں میں سے ایک پنجابی بھی ہے، اس زبان میں موسیقی اور گلوکاری دُنیا بھر میں یکسر مقبول ہے۔ جدید موسیقی کی دُنیا میں جہاں انگریزی ریپ بہت مقبول ہے وہیں پنجابی زبان میں ہونے والی لوک گلوکاری کے بعد اب پنجابی ریپ ایک ایسی طرز ہے کہ جس میں گلو کار بیان تو اپنے احساسات کرتا ہے مگر وہ شاید ترجمانی پورے معاشرے کی کر دیتا ہے۔ پنجابی موسیقی میں ریپ کی آمد نے پنجابی گلوکاروں اور گانوں کی پہنچ کو وسیع کردیا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ’ریپ‘ جیسی غیر ملکی موسیقی نے پنجاب کی لوک موسیقی کو تباہ کر دیا ہے۔ فلمی مورخ اور پنجابی پاپ گلوکاری پر ایک کتاب پر کام کرنے والے مندیپ سنگھ سدھو کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ ریپ گانا پاپ گلوکاری سے مختلف صنف ہے لیکن پنجابی گلوکاری میں پاپ کلچر کی آمد نے پنجابی موسیقی میں ریپ گانا بھی شامل کیا ہے۔ مندیپ سدھو کا کہنا ہے کہ 1990 کی دہائی میں پنجابی نوجوان بابا سہگل ان گلوکاروں میں سے ایک تھے جنھوں نے پہلی بار غیر ملکی ریپ کو انڈین موسیقی میں لایا۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ایک یہ کہ جو شخص اقتدار سے تنگ آ جاتا ہے وہ عاجز بن جاتا ہے، وہ خود سے کمزوروں کو دھکا دیتا ہے اور اقتدار کو چیلنج نہیں کرتا۔ پنجابی میں ریپ نے وادیوں کو چمکانا شروع کر دیا۔‘ موسیقار چرنجیت آہوجا کا کہنا ہے کہ ’1990 کی دہائی کے بعد آج کا ریپ آہستہ آہستہ مقبولیت حاصل کرنے لگا کیونکہ جب پنجابی گانوں میں غیر ملکی آلات کو بھی شامل کیا گیا تو اس نے نوجوانوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔‘ ’وہ اور ان کی نوجوان نسل وہاں کے کلبز اور پبز میں گئے اور انھوں نے اس موسیقی کو ملانا شروع کر دیا۔ اس وقت ہمارے لوک سازوں کی جگہ غیر ملکی آلات نے لے لی تھی۔‘ مندیپ سدھو کا کہنا ہے کہ پنجابی ریپ میوزک بھی ایک طرح سے ایک انقلاب تھا اور دوسری طرف اس نے پنجابی لوک آلات کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ نغمہ نگار چرنجیت آہوجا کا کہنا ہے کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ ریپ نے پنجابی گانوں کی پہنچ میں اضافہ کیا ہے۔ گورداس مان، سردل سکندر، ملکیت سنگھ جیسے گلوکاروں نے پنجابی موسیقی کو دنیا میں نہایت بہترین انداز میں پیش کیا۔ ہم ریپ کو باہر کس سے کہیں گے، ریپ کس سے آیا ہے؟‘ آہوجا کا کہنا ہے کہ یہ ریکارڈ کم از کم سو سال پرانا ہوگا اور اسے کیشو دت نے گایا تھا۔ اس کے مطابق یہ گانا امریکی گروپ ’دی جوبلیرز‘ کے مذکورہ بالا گانوں سے پہلے کا ہو سکتا ہے۔ آہوجا کا کہنا ہے کہ ’یہاں تک کہ پرانے بھجنوں میں بھی ریپ جیسا انداز سنا جاتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxx3ekx04pwo", "summary": "اب جب ہم اگلے سال کا خیر مقدم کر رہے ہیں تو 2024 میں ایسی کون سی فلمیں ہیں جس کا فلم بینوں کو ابھی سے ہی انتظار ہے اور انھوں نے پہلے ہی شائقین کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رکھی ہے۔ ", "title": "سنہ 2024 میں ریلیز ہونے والی وہ انڈین فلمیں جن کا لوگوں کو بے صبری سے انتظار ہے", "firstPublished": "2024-01-02T14:47:07.273Z", "id": "cxx3ekx04pwo", "article": "سنہ 2023 تو انڈین فلم انڈسٹری کے لیے کامیاب رہا اوربڑے پردے پر دھماکے دار فلموں کی انٹری جاری رہی جہاں شاہ رخ خان نے چار سال بعد ایک بار پھر ’پٹھان‘ اور ’جوان‘ جیسی فلمیں بنا کر نمبر ون کا اعزاز حاصل کیا۔ تو دوسری جانب سنی دیول نے ’غدر 2‘ کے ساتھ باکس آفس کے کئی ریکارڈ توڑے۔ اب جب ہم اگلے سال کا خیر مقدم کر رہے ہیں تو 2024 میں ایسی کون سی فلمیں ہیں جس کا فلم بینوں کو ابھی سے ہی انتظار ہے اور انھوں نے پہلے ہی شائقین کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رکھی ہے۔ سدھارتھ آنند نے گذشتہ سال شاہ رخ خان کے ساتھ سال کی سب سے کامیاب فلم ’پٹھان‘ کی ہدایت کاری کی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ فائٹر میں ’پٹھان‘ کی کامیابی کو دہراتے ہیں یا نہیں۔ عامر خان بھی 2024 میں بطور ہدایت کار واپس آ رہے ہیں۔ وہ ستارے زمین پر نامی فلم بنا رہے ہیں جو کرسمس پر ریلیز ہو گی۔ عامر خان کی کرسمس پر ریلیز ہونے والی فلموں نے تاریخ رقم کی ہے جس میں ’گجنی‘، ’تھری ایڈیٹس‘، ’پی کے‘، ’تارے زمین پر‘ اور ’دھوم 3‘ شامل ہیں۔ ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے کہ یہ ستارے زمین پر فلم میں کام کریں گے یا نہیں۔ کووڈ کی وبا کے سال میں، ساؤتھ انڈین فلم ’پشپا‘ نے فلم بینوں کو محظوظ کیا اور پورے ہندوستان میں باکس آفس پر نئے ریکارڈ بنائے تھے۔ اب سال 2024 میں اس فلم کا سیکوئل ’پشپا 2: دی رول‘ریلیز ہو گا۔ یہ فلم 15 اگست کو یوم آزادی پر ریلیز کی جائے گی۔ ساؤتھ انڈین سٹار اللو ارجن کا بطور پشپراج پوسٹر ان کی سالگرہ پر پیش کیا گیا۔ لوگوں میں اس فلم کو لے کر جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ سنہ 1996 میں ایس شنکر کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ’انڈین‘ کا اگلا حصہ 27 سال بعد ’انڈین 2‘ 2024 میں ریلیز ہو گا۔ کمل ہاسن ایک بار پھر کمانڈر کے روپ میں نظر آئیں گے۔ فلم بینوں کو اس سیکوئل کا بے صبری سے انتظار ہے۔ دیباکر بنرجی کی 2010 کی فلم 'لو سیکس اور دھوکہ' (ایل ایس ڈی) نے راج کمار راؤ کو ہندی سنیما میں متعارف کرایا۔ اب ہدایت کار دیباکر بنرجی پروڈیوسر ایکتا کپور کے ساتھ مل کر 'ایل ایس ڈی 2' لے کر آرہے ہیں جو 2024 میں ریلیز ہو گی۔ سنہ 2024 انڈیا میں انتخابات کا سال ہے کیونکہ لوک سبھا انتخابات اسی سال ہونے والے ہیں۔ اس سال ہندی سنیما میں ایسی کئی فلمیں ہیں جو انتخابی ماحول کی گرما گرمی کو بڑھا سکتی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1wy3vn63leo", "summary": " برطانیہ میں فیشن کی ایک طالبہ جو یہ سوچ رہی تھیں کہ انھوں نے اپنے قیمتی سکیچز کھو دیے ہیں اس وقت حیرت زدہ رہ گئیں جب وہ انھیں پتا چلا کہ یہ تو پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ ", "title": "برطانیہ میں گمشدہ فن پارے جو لاہور میں کباڑیے کی دکان سے ملے", "firstPublished": "2024-01-02T05:42:09.586Z", "id": "c1wy3vn63leo", "article": "’آج سے ٹھیک دو سال پہلے میں ایک کباڑیے کی دکان پر گیا، جہاں سے مجھے تین سکیچ بکس ملیں جن میں ذہن کو جھنجھوڑ دینے والے فن پارے تھے۔ میں نے انھیں خرید لیا، صرف 200 روپے میں۔ جب میں گھر جا رہا تھا تو میں سوچنے لگا کہ کوئی اپنی اتنی محنت کیوں پھینک دے گا۔ ان تینوں کتابوں کے سرورق پر ایک ہی نام لکھا ہوا تھا اور وہ تھا گریس ہارٹ۔‘ یہ کہنا تھا لاہور سے تعلق رکھنے والے فیشن فوٹو گرافر تاجور منیر کا جنھوں نے اپنی انسٹا گرام پوسٹ میں برطانیہ کی ایک طالبہ کے کھو جانے والے فن پاروں کے ملنے اور پھر ان کی جانب سے اسے واپس برطانیہ بھیجنے کی دلچسپ کہانی شیئر کی۔ تاجور منیر نے مزید لکھا ’میں نے انسٹاگرام پر ان کا نام سرچ کیا اور انھیں ڈھونڈ لیا۔ میں نے انھیں میسج بھیجا کہ مجھے ان کا کام ملا ہے اور یہ حیرت انگیز ہے، میں یہ جاننے کے لیے متجسّس ہوں کہ انھوں نے اسے پھینک کیوں دیا۔‘ انھوں نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا کہ ’پھر گریس نے بتایا کہ یہ ان کا پورٹ فولیو ہے اور انھیں اندازہ نہیں یہ ان سے برطانیہ میں کیسے کھو گیا۔‘ ادھر برطانیہ میں فیشن کی ایک طالبہ جو یہ سوچ رہی تھیں کہ انھوں نے اپنے قیمتی سکیچز کھو دیے ہیں اس وقت حیرت زدہ رہ گئیں جب انھیں پتا چلا کہ یہ تو پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ پھر گریس ہارٹ کو پتا چلا کہ ان کا فن چار ہزار میل دور لاہور کی ایک دکان میں فروخت ہو گیا۔ اس کے بعد، قسمت نے ایک اور عجیب موڑ لیا اور شہر کے ایک فوٹوگرافر نے ان کے ڈیزائنز انھیں واپس بھیجنے سے پہلے انھیں انسٹاگرام پر ڈھونڈ لیا۔ یہ سب اس وقت ہوا جب گریس ہارٹ مانچسٹر میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں فیشن کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایک درخواست کے لیے اپنا پورٹ فولیو تیار کر رہی تھیں۔ خوش قسمتی سے 20 سالہ طالبہ کو اس کورس میں شامل کر لیا گیا کیونکہ وہ اس کام کی تصاویر بھیجنے میں کامیاب ہو گئیں جو انھوں نے کئی سال لگا کر بنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں بہت زیادہ ذہنی دباؤ میں تھی کیونکہ آرٹ کی وہ کتابیں ہی میرے پاس اس بات کا ثبوت تھیں کہ میں نے سکول میں یہ کام کیا تھا۔‘ ہارٹ کو یہ معمہ تب سمجھ آنا شروع ہوا جب تاجور منیر نامی شخص کا انسٹاگرام پیغام موصول ہوا۔ گریس ہارٹ نے کہا کہ انھوں نے شروع میں تاجور کے انسٹا گرام میسج کو دھوکہ سمجھا اور کوئی جواب نہیں دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’میں نے ہمیشہ اپنے فن پر بہت فخر کیا ہے، جب مجھے احساس ہوا کہ یہ غائب ہو گیا ہے تو یہ بہت پریشان کن تھا۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckk560l3kn1o", "summary": "سال 2023 میں جہاں بڑے بجٹ کی میگا فلمیں سنیما ہالوں کی رونقیں واپس لائیں وہیں کئی چھوٹی فلموں نے بڑے اور اہم مسائل پر بات کرنے کی جرات دکھائی۔", "title": "شاہ رخ خان کی ’پٹھان‘ سنی کی ’غدر 2‘ اور رنبیر کی ’اینیمل‘۔۔۔ بالی وڈ کے لیے سال 2023 کیسا رہا؟", "firstPublished": "2023-12-27T04:51:07.641Z", "id": "ckk560l3kn1o", "article": "سال 2023 میں جہاں بڑے بجٹ کی میگا فلمیں سنیما ہالوں کی رونقیں واپس لائیں وہیں کئی چھوٹی فلموں نے بڑے اور اہم مسائل پر بات کرنے کی طاقت دکھائی۔ سنہ 2023 میں ایک اور خاص بات یہ تھی کہ 90 کی دہائی کے کئی بڑے ہیروز نے دکھایا کہ ان کا سکہ اب بھی چلتا ہے چاہے وہ سلمان خان کی ’ٹائیگر زندہ‘ کی کامیابی ہو یا سنی دیول کی ’غدر-2‘ کی۔ ’راکی اور رانی کی پریم کہانی‘ میں کرن جوہر کے تمام پرانے ٹریڈ مارک اور دقیانوسی باتیں ہیں۔ لیکن ’غدر‘ اور ’پٹھان‘ کے ایکشن کے درمیان اس فلم نے بڑی پردے پر رومانوی فلموں کی صاف ستھری تفریح کو خوبصورتی سے واپس لایا۔ فلموں کے پروپیگنڈے کا ہتھیار بننے کے الزام پر پروفیسر ایرا بھاسکر کہتی ہیں، ’آج کل بہت سی فلمیں صرف اکثریت کی بات کرتی ہیں۔ آج کے سیاسی حالات میں سینما کو پروپیگنڈے کا ہتھیار بنا دیا گیا ہے۔ تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔’یہ کتابیں ہوں یا فلمیں۔‘ سنیما ہالوں کے علاوہ او ٹی ٹی تفریح کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ 2023 میں او ٹی ٹی پر بہت سی فلموں اور سیریز نے لوگوں کو اپنے منفرد اور کبھی کبھی بولڈ موضوعات جیسے فلم ’گل موہر‘ سے حیران کر دیا۔ لوگوں نے کرینہ کپور کو، جو مرکزی دھارے کی ہندی فلموں کی سب سے کامیاب اداکاراؤں میں سے ایک ہے، کو پہلی بار او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر فلم ’جانے جان‘ میں دیکھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اداکاری میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا مقابلہ جیدیپ اہلاوت، کرینہ اور وجے ورما کے درمیان ہے۔ اسرار کی صنف پر سوجوئے گھوش کی گرفت ہمیشہ کی طرح مضبوط تھی۔ ویب سیریز ’لسٹ سٹوریز 2‘ جو جنسیت پر مبنی ہے اس کا بھی کافی چرچا ہوا، خاص طور پر کونکنا سین شرما کی ہدایت کاری میں بنائی گئی کہانی، جہاں اسے گھر میں کام کرنے والی نوکرانی کے نقطہ نظر سے بتایا گیا ہے۔ تمام تر تبدیلیوں کے باوجود خواتین ہدایت کاروں کی فلمیں اب بھی مقابلے میں کم ہی نظر آتی ہیں۔ سنہ 2023 کے گوگل ٹرینڈز کے بارے میں بات کرتے ہوئے سب سے زیادہ گوگل کی جانے والی انڈین مشہور شخصیت کیارا اڈوانی تھیں۔ یوٹیوبر اور بگ باس او ٹی ٹی کے فاتح ایلوش یادو پانچویں پوزیشن پر رہے۔ بعد میں، ایک ریو پارٹی میں سانپ کا زہر فراہم کرنے پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czv54ezy9jpo", "summary": "حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ناول اور فلم کو ریلیز ہوئے 50 سال ہو گئے ہیں مگر یہ کہانی جس نوجوان پر مبنی ہے وہ آج بھی گمنامی میں ہے۔ ", "title": "’شیطان کے زیرِ اثر‘ لڑکے کی کہانی جس سے متاثر ہو کر فلم ’دی ایکسوسسٹ‘ بنی", "firstPublished": "2023-12-24T07:33:40.226Z", "id": "czv54ezy9jpo", "article": "حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ناول اور فلم کو ریلیز ہوئے 50 سال ہو گئے ہیں اور اس کی بے پناہ کامیابی کے باوجود اس نوجوان کی حقیقی شناخت اور تاریخ، جس کی کہانی سے متاثر ہو کر یہ ناول لکھا گیا، آج بھی گمنامی میں ہے۔ اس وقت کے پریس کے مطابق، خاندان کا خیال تھا کہ لڑکے کی اپنی خالہ سے اوئیجا بورڈ کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوششیں اس غیر فطری عمل کی وجہ بنی تھیں جن کا وہ سامنا کر رہے تھے: انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے خود ہی کرسیوں کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا، رولینڈ کا پلنگ بھی عجیب انداز میں ہل رہا تھا۔ اور یہ کہ فرش پر بھی بے وجہ گہرے نشانات موجود تھے، جیسے کوئی بھاری فرنیچر کو گھسیٹ رہا ہو۔ ڈیوک یونیورسٹی کے شعبہ پیرا سائیکالوجی کو بھیجے گئے ایک خط میں شلزے کو اس غیر فطری واقعے کے گواہوں میں سے ایک کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کی رولینڈ کا خاندان تجربہ کر رہا تھا: ’کرسیاں اس کے ساتھ حرکت کر رہی تھیں، اور ایک اس پر آ پڑی تھی۔ اور جب بھی رولینڈ اپنے بستر پر ہوتا تو وہ ہلنا شروع ہو جاتا۔‘ وہاں ایک پادری ریمنڈ بشپ نے اس نوجوان کی کہانی میں دلچسپی لی اور اسے یونیورسٹی کے حکام کے پاس لے گیا جنھوں نے اس پادری کو یہ دیکھنے کی اجازت دی کہ اس لڑکے کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ بشپ نے اپنے دوروں کی تفصیلات ایک ڈائری میں درج کرنا شروع کر دی جسے بعد میں یونیورسٹی نے اپنے پاس رکھا۔ جِن نکالنے کے عمل کے دوران پادری باؤڈرن شیطان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی شناخت بتائے اور لڑکے کے جسم سے نکل جائے۔ اس پر رولینڈ نے ایک خراب اور بھاری آواز میں مبینہ طور پر جواب دیا کہ ’اسے (رولینڈ) کو صرف ایک اور لفظ کہنا ہے، ایک اور لفظ۔ ایک چھوٹا سا لفظ، جو میرے لیے ایک بڑا اہم لفظ ہے۔ وہ یہ لفظ کبھی نہیں کہے گا۔ میں ہمیشہ اس میں رہوں گا۔ میرے پاس شاید زیادہ طاقت نہ ہو لیکن میں ہمیشہ اس میں ہوں. وہ یہ لفظ کبھی نہیں کہے گا۔‘ کیلی کے مطابق اس معاملے کی پرانی تحقیقات میں کمی تھی اور چیزوں کے حرکت کرنے جیسے واقعات کی مختلف وضاحتیں ہو سکتی تھیں۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ عمل کے دوران طبی نگرانی کی کمی بشپ کی ڈائریوں میں گواہی کی صداقت پر شکوک پیدا کرتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxe6vn0vg85o", "summary": "اداکارہ رشمیکا مندانا، پرینکا چوپڑا جوناس اور عالیہ بھٹ ان بالی وڈ سٹارز میں شامل ہیں جنھیں ایسی ویڈیوز کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان ویڈیوز میں ان کے چہرے یا آواز کی جگہ کسی اور کے چہرے یا آوازیں تھیں۔", "title": "بالی وڈ کی اداکارائیں اور معروف انڈین شخصیات ڈیپ فیک پورن بنانے والوں کے نشانے پر کیوں؟", "firstPublished": "2023-12-24T05:39:32.233Z", "id": "cxe6vn0vg85o", "article": "اداکارہ رشمیکا مندانا، پرینکا چوپڑا جوناس اور عالیہ بھٹ ان بالی وڈ سٹارز میں شامل ہیں جنھیں ایسی ویڈیوز کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان ویڈیوز میں ان کے چہرے یا آواز کی جگہ کسی اور کے چہرے یا آوازیں تھیں۔ ایسی ویڈیوز بنانے کے لیے تصاویر اکثر سوشل میڈیا پروفائلز سے لی جاتی ہیں اور ان کی رضامندی کے بغیر استعمال کی جاتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشیل انٹلیجنس (اے آئی) کی ماہر آرتی سامانی نے بی بی سی کو بتایا کہ 'ابھی تک ہالی وڈ اس کا خمیازہ بھگت رہا تھا' اور یہ کہ ہائی پروفائل متاثرین میں نٹالی پورٹ مین اور ایما واٹسن جیسی اداکارہ شامل ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ 'اس کے نتیجے میں ویڈیو کلپس تیزی سے پھیلتے ہیں، مسئلے کو بڑھاتے ہیں' اور اس طرح کی ویڈیوز کا محرک دگنا ہو گیا ہے۔ میگا سٹار پرینکا چوپڑا جوناس کی بھی ایک ویڈیو حال ہی میں وائرل ہوئی تھی۔ اس معاملے میں ان کے چہرے کو تبدیل کرنے کے بجائے ان کی آواز کا استعمال کیا گيا اور اس کے ذریعے ایک برانڈ کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کے خیالات بھی پیش کیے گئے تھے۔ اداکارہ عالیہ بھٹ بھی اس طرح کے ویڈیو سے متاثر ہوئی ہیں۔ ایک ویڈیو میں ان کے چہرے کا استعمال کیا گیا ہے جو مختلف فحش اشارے کرتی ہے۔ ان کے علاہ اداکارہ کترینہ کیف سمیت دیگر ستاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے معاملے میں فلم 'ٹائیگر 3' کی ایک تصویر جس میں وہ تولیے میں نظر آتی ہیں کو ایک مختلف لباس سے بدل دیا گیا اور اس طرح جسم کے زیادہ حصے کو کھلا دکھایا گیا ہے۔ اے آئی سے صرف بالی وڈ اداکارہ ہی متاثر نہیں ہوئی ہیں بلکہ حال ہی میں دوسروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان میں معروف انڈین صنعت کار رتن ٹاٹا بھی ہیں جن کی سرمایہ کاری کے مشورے دیتے ہوئے ایک ڈیپ فیک ویڈیو بنائی گئی ہے۔ مندانا کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ملک کے آئی ٹی وزیر راجیو چندر شیکھر نے ڈیپ فیکس کے خلاف بات کرتے ہوئے کہا: 'یہ غلط معلومات کی تازہ ترین اور اس سے بھی زیادہ خطرناک اور نقصان دہ شکل ہیں اور پلیٹ فارمز کے ذریعے ان سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔' انھوں نے کہا: 'یہ صرف بالی وڈ کے اداکار نہیں ہیں۔ ڈیپ فیکس سیاست دانوں، کاروباری لوگوں اور دیگر کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں بہت سی حکومتوں نے انتخابات میں جمہوری عملداری جیسے ڈیپ فیکس کے دیگر چیزوں پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں تشویش کا اظہار شروع کر دیا ہے۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1jlk92nzlo", "summary": "اس ڈرامے میں دِکھایا گیا ہے کہ ایک پڑھی لکھی باشعور لڑکی علیزے اپنے والدین کی مرضی سے ایک امیر اور پُرکشش کاروباری شخصیت شیری سے شادی کرتی ہے اور اُسے آہستہ آہستہ احساس ہوتا ہے کہ اُس کا شوہر ایک خود پرست، غصے کا تیز اور بدلحاظ انسان ہے۔ ", "title": "میکال ذوالفقار کا ڈرامہ ’جیسے آپ کی مرضی‘: ’بہت سی خواتین نے مجھے بتایا کہ ان کا شوہر بھی شیری جیسا تھا‘", "firstPublished": "2023-12-22T06:07:42.946Z", "id": "cd1jlk92nzlo", "article": "پاکستانی ڈرامے کے ناظرین کے لیے سنہ 2023 کانٹینٹ کے لحاظ سے کافی دلچسپ سال رہا اور یہی وجہ ہے کہ ہر ہفتے مختلف ڈرامے ٹرینڈ کر رہے ہوتے ہیں۔ اِن ہی میں ایک ڈرامہ ’جیسے آپ کی مرضی‘ ہے، جسے حال ہی میں کینسر کے باعث مرنے والی انڈسٹری کی مقبول اداکارہ و ڈرامہ نگار نائلہ جعفری نے تحریر کیا جبکہ اداکارہ صبا حمید نے ڈائریکٹ کیا ہے۔ اس ڈرامے میں دِکھایا گیا ہے کہ ایک پڑھی لکھی باشعور لڑکی علیزے اپنے والدین کی مرضی سے ایک امیر اور پُرکشش کاروباری شخصیت شیری سے شادی کرتی ہے اور اُسے آہستہ آہستہ احساس ہوتا ہے کہ اُس کا شوہر ایک خود پرست، غصے کا تیز اور بدلحاظ انسان ہے۔ اس ڈرامے میں ایک سین انتہائی دلچسپ تھا جس میں نتاشا کا شوہر میرب (اداکار علی سفینہ) اُس کے پیروں پر لوشن لگا رہا ہوتا ہے اور شیری اور علیزے کے کمرے میں داخل ہوتے ہی میرب گھبرا کر بستر سے گر جاتا ہے۔ اس سین کی شوٹ پر جب میں نے سوال کیا تو میکال نے قہقہہ لگاتے ہوئے مجھے درست کیا کہ ’وہ بیڈ سے گرتا نہیں بلکہ وہ (نتاشا) اُسے ٹھڈا مارتی ہے کہ چلو اُترو۔‘ ڈرامہ ’جیسے آپ کی مرضی‘ میں شیری کا کردار بے حد منفی ہے جو ہر دوسرے کردار پر حاوی نظر آتا ہے۔ میں نے میکال سے سوال کیا کہ جن کرداروں سے ناظرین نفرت کرتے ہیں اُن کو پرفارم کرنے کا کسی اداکار پر کیا اثر پڑتا ہے۔ انھوں نے اپنے بیان پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’اُس کی یہ وجہ نہیں کہ میرے لیے ہیرو کا باپ بننے میں کوئی حرج ہے، ایسا بالکل نہیں۔ بات یہ تھی کہ میں ریٹائر ہونا چاہتا ہوں اور میں مزید کام نہیں کرنا چاہتا۔ اس کو میں نے تفریحی انداز میں کہہ دیا کہ جب میں ہیرو کا باپ بنوں گا تو ریٹائرمنٹ لے لوں گا۔ مجھے اکثر لگتا ہے کہ میں بات ذرا ہلکے پھلکے انداز میں کرتا ہوں اور وہی ہیڈ لائن بن جاتی ہے۔‘ میکال ذوالفقار نے دیگر فنکاروں کی طرح اداکاری کے ساتھ ساتھ اپنے بزنس بھی شروع کر رکھے ہیں۔ ’ہیڈلائنز‘ کے نام سے لاہور میں اُن کا سیلون ہے اور حال ہی میں انھوں نے ’چاہیے ڈاٹ کام‘ کے نام سے ایک آن لائن مارکیٹ بزنس بھی شروع کیا ہے۔ وہ ایک بار پھر ہنسی مذاق کے انداز میں بولے کہ ’اپنا سیلون بہت فائدہ مند ہوتا ہے۔ آپ جب آئیں آپ کو سٹار ٹریٹمینٹ ملتا ہے‘ لیکن پھرسنجیدگی سے اپنے کاروبار پر وضاحت دیتے ہوئے بولے کہ ’اگر میرے پاس بیچنے کی طاقت ہے تو کیوں نہ میں اپنی چیز ہی بیچوں۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c10yv9g2dv1o", "summary": "فلم ساز راج کمار ہیرانی کی ہدایتکاری میں بننے والی فلم ’ڈنکی‘ کی شاہ رخ خان سمیت پانچ دوستوں کے گروہ کے گرد گھومتی ہے، جو لندن جانے اور رہائش اختیار کرنے کے خواہاں ہیں", "title": "ڈنکی: تارکین وطن کی مشکلات پر مبنی شاہ رخ خان کی نئی فلم، جس میں پانچ دوست ہر قیمت پر انگلینڈ پہنچنا چاہتے ہیں", "firstPublished": "2023-12-21T11:08:58.812Z", "id": "c10yv9g2dv1o", "article": "بالی ووڈ فلموں کے سپر سٹار کہلائے جانے والے شاہ رخ خان کی سال 2023 میں ریلیز ہونے والی فلموں ’پٹھان‘ اور ’جوان‘ کی شہرت ابھی تھمی نہیں کہ اب سال کے اختتام کے قریب اُن کی ریلیز ہونے والی فلم ’ڈنکی‘ نے دھوم مچا دی ہے، جسے آج دنیا بھر کے سنیما گھروں میں ریلیز کر دیا گیا ہے۔ ’ڈنکی‘ کی کہانی پانچ ایسے دوستوں کے گرد گھومتی ہے جو اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے لندن جا کر زندگی بسر کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس فلم کی کاسٹ میں شاہ رخ خان کے ساتھ تاپسی پنو، وکی کوشل، دیا مرزا، بومن ایرانی، دھرمیندر سمیت دیگر اداکار بھی شامل ہیں۔ ہدایتکار راج کمار ہیرانی کی فلم ’ڈنکی‘ کی کہانی انڈین ریاست پنجاب سے شروع ہوتی ہے، جہاں دوستوں کا ایک گروپ گاؤں چھوڑ کر انگلینڈ جانے کا فیصلہ کرتا ہے لیکن قانونی طریقے سے وہاں جانے کا ان کا ابتدائی خواب ناکام ہو جاتا ہے اور وہ ’ڈنکی‘ کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ سابق فوجی افسر شاہ رخ خان (ہارڈی) ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ہارڈی کی ملاقات فلم کے اہم کردار منو (تاپسی پنو)، بالی (انیل گروور) اور بگو (وکرم کوچر) سے ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر شخص کے پاس لندن جانے کی اپنی وجوہات ہیں۔ اپنی اس فلم کے لیے شاہ رخ خان نے دو روز قبل دبئی میں ہونے والی پروموشن کے دوران کہا تھا کہ ’ڈنکی ان تمام لوگوں کے بارے میں ہے جو کام کی وجہ سے اپنا گھر چھوڑ کر کہیں اور گھر بنا چکے ہیں، جیسا کہ آپ لوگوں نے دبئی میں بنایا۔ ہم جہاں بھی ہوں وہ گھر بن جاتا ہے۔ یہ فلم اسی کہانی کو بیان کرتی ہے۔‘ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر #AskSRK کے نام سے شاہ رخ خان کے سیشن میں جہاں فینز کو سپر سٹار سے فلم کے بارے میں جاننے کا موقع ملا وہیں شاہ رخ خان نے بہت دلچسپ انداز میں صارفین کے سوالوں کے جواب بھی دیے۔ ایک اور صارف نے اسی حوالے سے پوچھا کہ شاہ رخ خان کی بیگم گوری کو ان کی فلم کیسی لگی؟ جس پر شاہ رخ نے جواب دیا کہ ’انھوں نے کہا ہے کہ یہ فلم فخر کے قابل ہے اور اس میں انھیں مزاح بہت پسند آیا۔‘ اس کے جواب میں شاہ رخ خان نے سنیل شیٹی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ ’مجھے امید ہے آپ تھیٹر میں قہقہہ لگانے کے بعد روئیں گے بھی جیسا کہ راج کمار ہیرانی کی فلموں میں ہوتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cle74pg807lo", "summary": "جب آپ یوشا کو ایک کراپ ٹاپ اور لانگ سکرٹ یا فراک پہننے اپنے کمر کو لچکاتے ہوئے رقص کرتا دیکھتے ہیں تو آپ صنف کی قید سے آزاد ہو کر انھیں داد دیے بنا نہیں رہ سکتے۔", "title": "پاکستانی بیلی ڈانسر یوشا حسین: ’گھاگھرا چولی پہنو گے تو کتنا برا لگے گا، تمھیں یہ سب کرتا دیکھ کر ہمیں شرم آئے گی‘", "firstPublished": "2023-12-19T06:17:15.174Z", "id": "cle74pg807lo", "article": "کیونکہ یوشا ایک مرد بیلی ڈانسر ہیں۔۔۔ جی ہاں آپ نے درست پڑھا، مرد بیلی ڈانسر۔ اور جب آپ انھیں ایک کراپ ٹاپ اور لانگ سکرٹ یا فراک پہننے اپنے کمر کو لچکاتے ہوئے رقص کرتا دیکھتے ہیں تو آپ صنف کی قید سے آزاد ہو کر انھیں داد دیے بنا نہیں رہ سکتے۔ یوشا حسین بتاتے ہیں کہ شروع میں گھر والوں نے بھی میرے اس شوق اور فن کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ میرے خاندان میں پہلے کسی نے ایسا رقص نہ کیا تھا نہ سیکھا تھا۔ ’بھائی کو موسیقی سے لگاؤ تھا جو بس گٹار بجا لیتا تھا۔‘ یوشا کا کہنا ہے کہ اس سفر میں مشکلیں تو بہت آئی لیکن وہ کبھی ہمت نہیں ہارے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ مسئلہ پاکستانی معاشرے میں ڈانس کو بُرا سمجھا جانا اور خصوصاً لڑکے کے بیلی ڈانس سے متعلق تو بہت قدامت پسندی پائی جاتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ کہ ہمارے معاشرے میں اس بات کو تسلیم نہیں کیا جاتا کہ کوئی لڑکی لڑکے والا کام کر سکتی ہے یا لڑکا لڑکی کے کام کر سکتا ہے۔ یوشا کہتے ہیں کہ ’کچھ عرصہ قبل آرٹس کونسل میں یوتھ فیسٹول ہوا اور جب میں سٹیج پر گیا تو پہلے پہل لوگ مجھے فراک میں دیکھ کر ہنسے کہ یہ کیا کرے گا لیکن جب میں نے اپنا ڈانس ختم کیا تو وہاں موجود ہر کوئی مجھے دادا دے رہا تھا۔ ہر موبائل کی لائٹ آن تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی کنسرٹ ہو۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ’جب بھی میں سٹیج پر جاتا ہوں تو پہلے تو لوگ مجھے دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ ایک لڑکے نے کراپ ٹاپ اور فراک پہن رکھا ہے، یہ لڑکا ہے بھی کہ نہیں۔۔۔ یہ کیا کرے گا۔‘ یوشا کہتے ہیں کہ ’اس رقص کی طرف میرا رجحان جنھیں دیکھ کر ہوا وہ انڈیا کے پہلے بیلی ڈانسر ایشان ہلال ہیں۔ اگرچہ میری آج تک ان سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن میں انھیں استاد مانتا ہوں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ انھیں پتا ہے کہ اگر یوشا رقص کے اس انداز کو آگے لے کر آ رہا ہے تو اس کی نیت ٹھیک ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستانی معاشرے میں ایک لڑکا ہو کر لڑکی والا کام کرنا، یعنی کوئی نزاکت والے کام کرے تو اسے تسلیم نہیں کیا جاتا مگر اگر لڑکی لڑکوں والے کام کرے تو اسے شاباش دی جاتی ہے۔‘ یوشا کے مطابق ’میں سب کو کہتا ہوں کہ اپنی زندگی کو کھل کر جیو، زندگی کے رنگ دیکھو اور زندگی کو بھرپور انداز میں جیو اور ثابت کرو کہ آپ کچھ منفرد کر سکتے ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ میری خواہش ہے کہ میں مستقبل میں ایک کریوگرافر بن جاؤں اور رقص کی اس قسم کو پاکستان میں مزید فروغ دوں اور نکھاروں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0k2rledyzzo", "summary": "گھر والوں کی طرف سے بھی شاہین کو مخالفت اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا وہ بتاتی ہیں کہ انھیں سمجھانے میں کامیاب ہوگئیں۔\n’اب چنگ میری زندگی کی جنگ ہے جو میں اپنی کمیونٹی اور سماج سے ہی لڑ رہی ہوں اور آئندہ بھی لڑتی رہوں گی۔‘", "title": "چنگ: ایک نایاب ساز جو ’سماج کے خلاف جنگ‘ میں سندھ کی شاہین کا ہتھیار بنا", "firstPublished": "2023-12-13T08:16:54.724Z", "id": "c0k2rledyzzo", "article": "چنگ ویسے تو موسیقی کا آلہ ہے لیکن شاہین گل کے لیے یہ زندگی سے لڑنے کا ہتھیار بن چکا ہے اور وہ کہتی ہیں ان کی ’زندگی کی جنگ اب چنگ کے سنگ‘ ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ چنگ سندھی اور بلوچ ثقافت کا حصہ ہے اور وہ اپنے بچپن میں ریڈیو پاکستان سے اس کی آواز سنتی تھیں جس کے بعد انھیں اس ساز سے انسیت ہوئی۔ ’چنگ چرواہوں کا ساز اور ساتھی ہوتا تھا۔ جب چرواہے اپنے جانوروں کو لے کر جنگل میں جاتے تو وہ چنگ بجایا کرتے تھے۔ چنگ بجانا اُن کا مشغلہ تھا اور جب وہ فطرت کے مناطر کے درمیان بیٹھ کر چنگ بجاتے تو وہ اس ماحول سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہو جاتے۔ چونکہ میرا تعلق بھی گاؤں، اِس کی مٹی اور فطرت سے ہے اس لیے میں بھی اس ساز کے ساتھ جڑ گئی۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ ’یہ ساز اور اس کے جانکار اب نایاب ہو چکے ہیں، جو چند گنے چنے باقی بچے ہیں وہ بھی مرد ہیں کیونکہ اس ساز کو مردوں سے زیادہ منسوب کیا جاتا ہے۔ ایسی ایک بھی عورت نہیں تھی جو عوام میں اس ساز کو بجاتی ہو۔‘ ’مجھے سکھانے والا کوئی نہیں تھا چنانچہ میں نے اسے اپنے طور پر سیکھنے کی ٹھانی۔ گھر میں نانا کو اس ساز سے کسی حد تک انسیت تھی۔ میری مسلسل جستجو رہی لیکن کوئی استاد نہیں ملا۔ پھر میں نے یوٹیوب سے مدد حاصل کی کیونکہ انڈیا میں بھی یہ ساز بجایا جاتا ہے اور وہاں کی پرفارمنس کی ویڈیوز موجود ہیں۔ ان ویڈیوز سے میں نے چنگ کے لہرے وغیرہ سیکھے۔‘ شاہین بتاتی ہیں کہ ’چنگ لوہار بناتے تھے۔ یہ بانسری کی طرح سانس والا ساز ہے اور سانس ہی اس کی بنیاد ہے کیونکہ سانس سے ہی اس کے سروں میں ردہم پیدا ہوتا ہے۔ اس کا جو اتار چڑھاؤ ہے وہ زبان سے تبدیل ہوتا ہے۔ زبان کو ہم نے پیچھے کی طرف موڑ دیا تو اس کی آواز بھاری ہو جائے اور اگر زبان کو لمبا کر کے اوپر والے دانتوں کی طرف لے گئے تو آواز باریک ہو جائے گی۔‘ شاہین گل کے شوق اور جنون کی راہ میں کافی رکاوٹیں بھی آئیں لیکن وہ اِن کو عبور کرتی رہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے قبیلے کے لوگوں کے لیے ان کی پبلک پرفارمنس کو سمجھنا اور ہضم کرنا مشکل تھا۔ شاہین گُل کا دعویٰ ہے کہ عوامی سطح پر چنگ نہ بجانے کے مطالبے سے انکار ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی۔ تاہم شاہین کے مطابق اپنے گھر والوں کو وہ سمجھانے میں کامیاب رہیں۔ ’اب چنگ میری زندگی کی جنگ ہے جو میں اپنی کمیونٹی اور سماج سے ہی لڑ رہی ہوں اور آئندہ بھی لڑتی رہوں گی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n0gr9l70po", "summary": "پاکستانی اداکار احمد علی اکبر کا کہنا ہے کہ اُن کے مقبول ترین کردار ’پری زاد‘ کے بعد اگرچہ انھیں ڈراموں میں تو کام بدستور پہلے ہی کی طرح مل رہا ہے مگر اشتہاروں میں کام ملنا کم ہو گیا کیونکہ شاید ’پری زاد‘ کی سانولی رنگت برینڈز کے ساتھ میل نہیں کھاتی۔", "title": "احمد علی اکبر: ’پری زاد کے بعد اشتہارات میں کام ملنا کم ہو گیا‘", "firstPublished": "2023-12-12T04:26:57.987Z", "id": "c4n0gr9l70po", "article": "پاکستانی اداکار احمد علی اکبر کا کہنا ہے کہ اُن کے مقبول ترین کردار ’پری زاد‘ کے بعد اگرچہ انھیں ڈراموں میں تو کام بدستور پہلے ہی کی طرح مل رہا ہے مگر اشتہاروں میں انھیں کام ملنا کم ہو گیا کیونکہ شاید ’پری زاد‘ کی سانولی رنگت برینڈز کے ساتھ میل نہیں کھاتی۔ بی بی سی کو ایک خصوصی انٹرویو میں احمد علی نے کہا کہ ’اشتہارات کی دنیا‘ میں انھیں کام ملنا کم ہو گیا کیونکہ ’شاید پری زاد اُن کے برینڈز کے ساتھ نہیں جاتا مگر دوسری جانب (ڈراموں میں) جس طرح پہلے کام آفر ہوتا تھا ویسا ہی ابھی ہوتا ہے۔‘ احمد اس وقت ڈرامہ سیریل ’ایڈیٹ‘ میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ احمد کی ڈرامے ’پری زاد‘ کے لیے، جس میں انھوں نے سانولی رنگت والے ہیرو کا کردار ادا کیا، کافی پذیرائی ہوئی۔ احمد علی نے کہا کہ ’پری زاد کا کردار ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔ اس کردار کی کچھ چیزیں پہلے سے میرے اندر تھیں۔ شاید اسی لیے میں اس کردار کو بہت اچھے سے سمجھ سکا۔‘ اس فلم کے بارے میں بات کرتے ہوئے احمد کا کہنا تھا کہ جب ڈائریکٹر شعیب سلطان نے انھیں بتایا کہ یہ فلم اقبال مسیح کی کہانی سے متاثر ہے تو اس میں ان کی دلچسپی پیدا ہوئی۔ ’مجھے ڈائریکٹر نے بتایا کہ یہ فلم اقبال مسیح کی زندگی، سرگرمیوں اور موت پر مبنی ہے۔ کسی سچی کہانی پر کام کرنے کا میرے لیے اس سے اچھا موقع کوئی اور نہیں تھا۔ بنیادی طور پر جن لوگوں کو اقبال کی کہانی کا نہیں پتا، وہ اس فلم کو دیکھنے ضرور جائیں۔ اقبال نے بچوں کی جبری مشقت کے خلاف آواز بلند کی تھی کیونکہ وہ خود اس چیز کا شکار تھے۔‘ احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ پیرس کے شہر بارسلونا میں اکتوبر میں ’گنجل‘ کی سکریننگ کے بعد لوگوں نے فلم کو بہت سراہا اور پیرس میں اس فلم کو بیسٹ سکرین پلے کا ایوارڈ بھی ملا ہے۔ حال میں احمد نے بڑے اور چھوٹے پردے پر جتنے کردار نبھائے وہ کافی سنجیدہ اور حساس نوعیت کے ہیں۔ کیا یہ ان کی اپنی مرضی سے ہے یا وہ ٹائپ کاسٹنگ کا شکار ہیں؟ اس سوال کے جواب میں احمد نے کہا کہ ’یہ تو وقت بتائے گا کہ انڈسٹری ٹائپ کاسٹ کرتی ہے یا نہیں کیونکہ میری توجہ صرف کہانی پر ہوتی ہے، آگے وہ کیسی نکلتی ہے اس پر تو میرا کنٹرول نہیں۔‘ ’میں اس عمل کا چھوٹا سا حصہ ہوں۔ کامیڈی میری طاقت ہے لیکن اس کو لکھنا اور اچھے سے سکرین پر ادا کرنا بہت مشکل کام ہے۔ مجھے جب بھی کامیڈی والا سکرپٹ آفر ہو گا تو میں اس کو سکرین پر بہت اچھے سے ادا کرنے کی کوشش کروں گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g28x2lp72o", "summary": "کورین ڈراموں میں اب جنتے مرد مرکزی کردار نظر آتے ہیں اتنے ہی خواتین کے مرکزی کردار نظر آتے لیکن یہ رجحان ہمیشہ ایسے نہیں تھا۔", "title": "کورین ڈراموں کی بے بس اور نازک خواتین جو اب مضبوط اور پر تشدد ہو گئیں", "firstPublished": "2023-12-10T04:50:28.023Z", "id": "c3g28x2lp72o", "article": "بہت سارے کورین ڈراموں میں اب پیچیدہ اور طاقتور خواتین کردار نظر آتے ہیں جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کوریا کے معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے اور میڈیا کے رجحانات میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ کورین ڈراموں کو کے- ڈرامہ کہا جاتا ہے۔ کے ڈراموں میں اب اس کا امکان کافی زیادہ ہے کہ جتنے مرد مرکزی کردار ہوں گے اتنے ہی ڈراموں میں آپ کو خواتین کا مرکزی کردار ملے گا۔ کے ڈراما میں خواتین کے کردار ہمیشہ سے اتنے دلچسپ نہیں تھے۔ روایتی طور پر ڈرامے ایسے بنائے جاتے تھے جن کو سارا گھر اکٹھے بیٹھ کر دیکھ سکتا تھا لیکن اب ان ڈراموں میں سیکس، دونوں اصناف سے جنسی تعلقات اور بزرگ افراد کی رومانوی زندگی پر مبنی کہانیاں ہیں جو ممنوعات کے تصور کو توڑ رہے ہیں۔ ڈراموں میں امیر اور طاقتور کرداروں کو اب بھی پسند کیا جاتا ہے لیکن اب وہ خواتین بھی ہو سکتی ہیں۔ ’کریش لینڈنگ آن یو(Crash Landing On You) ایک مثال ہے جو عالمی سطح پر مقبول ہوئی یہ ایک امیر جنوبی کورین خاتون کی ایک شمالی کوریا کے فوجی افسر کے ساتھ محبت کی کہانی ہے۔ ہونگ کہتی ہیں اب انھیں لکھتے ہوئے بجٹ کے بارے میں نہیں سوچنا پڑتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھیں اس بات کی بھی فکر ہے کہ ایکشن والے شوز کے پیچھے کہیں کم شور والی خواتین کی کہانیاں ایک طرف نہ کر دی جائیں۔ انھیں ابھی سے نظر آ رہا ہے کہ سٹریمنگ سروس کورین ڈراموں کو تبدیل کر رہے ہیں۔ ’میں نے انھیں 14 سال پہلے دیکھنا شروع کیا۔ بہت کم تشدد ہوتا تھا اور سیکس بھی بہت کم تھا۔ آپ کو صرف ایک بوسے کے لیے 10 ویں قسط تک کا انتظار کرنا پڑتا تھا اور اب تو ایسا بالکل نہیں ہوتا۔‘ جان میکڈونلڈ کہتی ہیں ’کے ڈراموں میں خواتین کی جنسی زندگی آزاد اور راحت بھری نہیں ہوتی۔ لیکن اب یہ بھی تبدیل ہو رہا ہے۔‘ ’ایتےوان کلاس‘ میں ایک ٹرانسجینڈر کردار کو دکھایا جاتا ہے جس کا احترام ہوتا ہے۔ یہ شو ایک ویب ٹون سے بنائی گئی تھی۔ ویب ٹون ایک قسم کے کورین کامک ہیں جنھیں فون کا سیدھا رکھ کر کے پڑھا جاتا ہے۔ ان کے اکثر لاکھوں مداح ہوتے ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کہانیوں کو ڈراموں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ’جب رومینٹک سین آتے تھے تو کورین ڈراموں میں زیادہ جارحانہ مرد کردار ہوتے تھے۔ ہمیں یہ خطرناک لگا تو ہم نے مسئلہ بننے سے پہلے اس سے نمٹ لیا۔‘ لیکن وہ کہتی ہیں ’شاید اب وقت آگیا ہے کہ مرد اس بات کو نوٹ کریں کہ خواتین کی تصورات میں کیا شامل ہے۔ خواتین صدیوں سے مردوں کے تصورات کو پورا کرتی رہی ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp4pgkrr7rdo", "summary": "کسی کا خیال ہے کہ سہانا نے ایکٹنگ اچھی نہیں کی تو کوئی سہانا کے ڈانس پر اعتراض کر رہا ہے۔ بہت سے صارفین نے اس فلم کی کاسٹنگ کے حوالے سے اقربا پروری کا الزام بھی لگایا ہے۔", "title": "’دی آرچیز‘ میں سہانا خان کی ادکاری پر تنقید: ’ٹک ٹاک اور ریلز بنانے والے بھی بہتر ہونٹ ہلا سکتے ہیں‘", "firstPublished": "2023-12-09T05:49:25.922Z", "id": "cp4pgkrr7rdo", "article": "زویا اختر کی ہدایت کاری میں بننے والی ’دی آرچیز‘ سہانا خان کی ڈیبیو فلم ہے اور اس بارے میں چہ مگوئیاں بھی جاری ہیں کہ سہانا اب اور فلموں میں بھی نظر آئیں گی لیکن اگر سوشل میڈیا پر نظر ڈالی جائے تو اکثر صارفین اس فلم میں سہانا کی پرفارمنس سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ کسی کا خیال ہے کہ سہانا نے ایکٹنگ اچھی نہیں کی تو کوئی سہانا کے ڈانس پر اعتراض کر رہا ہے۔ بہت سے صارفین نے اس فلم کی کاسٹنگ کے حوالے سے اقربا پروری کا الزام بھی لگایا ہے۔ ایک صارف نے آرچیز کا مقابلہ کرن جوہر کی فلم ’سٹوڈنٹ آف دا ایئر‘ سے کرتے ہوئے لکھا کہ ’سہانا خان، خوشی کپور اور اگستیا نندا خوفناک اداکار ہیں جنھوں نے اداکاری کی کوشش تک نہیں کی۔ انھوں نے ڈائیلاگ بولنے کے لیے بمشکل ہی منہ کھولا۔‘ پریتک آریان نے لکھا کہ ’یہاں تک کہ ٹک ٹاک اور ریلز بنانے والے بھی سہانا خان سے بہتر انداز میں ہونٹ ہلا سکتے ہیں۔ وہ اقربا پروری کی بدترین مصنوعات میں سے ایک ہیں۔‘ ایک اور صارف نے لکھا ’15 منٹ آرچیز دیکھنے کے بعد مجھے یہ فیصلہ کرنے میں مشکل ہو رہی ہے کہ سہانا خان کی اداکاری بری ہے، ڈانس یا پھر ڈائیلاگ ادا کرنے کا انداز۔۔۔‘ لیکن جہاں بہت سے صارفین نے اس فلم میں سہانا خان کی پرفارمنس پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا وہیں ان کے والد اور بالی ووڈ کنگ شاہ رخ خان اپنی بیٹی کی ڈیبیو فلم پر خاصے خوش نظر آئے۔ سرکٹ نامی صارف نے لکھا ’میں جھوٹ نہیں بولوں گا لیکن سہانا کی اداکاری میری توقعات سے بڑھ کر رہی۔ وہ ایک امیر بچی نظر آ رہی تھیں اور یہ ہی ان کا کردار تھا، جو انھوں نے بخوبی نبھایا۔‘ نیٹ فلکس کی اس فلم نے اس کامک سیریز کے فینز کے درمیان بحث کو جنم دیا ہے، جہاں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انڈین تناظر سے اس کامک سیریز کو مقبولیت ملے گی وہیں بہت سے لوگ تنقید بھی کر رہے ہیں کہ اس فلم کے کردار ’انڈین دکھائی نہیں دیتے۔‘ آرچیز 1970 کی دہائی میں انڈیا میں آئی۔ اس کے فینز دہلی کی لائبریریوں سے اس کی کاپیاں لیا کرتے تھے۔ یہ کامک بک سٹورز اور سڑک پر لگے کتابوں کے ٹھیلوں سے بھی ملتی تھیں لیکن یہ بہت مہنگی ہوتی تھیں اور اسی لیے بچے اپنے دوستوں سے اس کی کاپیاں لیتے یا بیرون ملک مقیم اپنے رشتہ داروں سے اس کی کاپیاں منگواتے۔ اس کامک سیریز کے کرداروں نے نوجوانوں کے بہت سے شوز اور فلموں کو متاثر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ بالی ووڈ ڈائریکٹر کرن جوہر نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ سنہ 1998 میں ان کی بلاک بسٹر فلم ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘ بہت حد تک آرچیز کامک سے متاثر ہو کر بنائی گئی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2zypj9j4qo", "summary": "آٹو ٹیون اور ری مکس کے زمانے میں، سوشل میڈیا کی ریلز اور سٹوریز سے دور، ٹرینڈ اور ہیش ٹیگ کی دنیا سے پرے مگر ہیں کچھ شوقین، جنھیں دسمبر کی یہ شام بے حد اداس کر گئی ہے۔ جو جانتے ہیں کہ استاد حسین بخش گلو چل بسے تو پھر صدیوں میں پیدا نہیں ہوتا۔", "title": "’استادوں کے استاد‘ حسین بخش گلو جن کی محفل لتا منگیشکر نو گھنٹے تک سنتی رہیں", "firstPublished": "2023-12-06T07:22:12.392Z", "id": "cv2zypj9j4qo", "article": "موسیقی کے پٹیالہ اور شام چوراسی گھرانوں نے پنجاب میں بڑے بڑے گائیک پیدا کیے، حسین بخش گلو کا تعلق ان دونوں گھرانوں سے تھا، ایک طرف استاد بڑے غلام علی کی میراث، دوسری طرف چاند خان اور سورج خان کی لڑی، ایک خیال گائیکی کے لیے معروف، دوسرا درپد کے لیے مشہور، دونوں کا امتزاج۔۔۔ پھر ہندوستانی کلاسیکل، غزل، ٹھمری، کافی، فوک، ماہیا، حسین بخش نے جو گایا، کمال گایا۔ ناروے کے سفر کے دوران حسین بخش گلو نے ان سے کہا کہ ’یار فہیم میں نے اتنی ریاضت کی ہے لیکن دسترس نہیں ہوتی، صبح گانے پر سانس اور ہوتی ہے اور شام کو کچھ اور۔‘ فہیم مظہر کے مطابق مہدی حسن اور غلام علی جیسے فنکار بھی اس خطے کے بہت بڑے نام ہیں لیکن ان کی گائیکی میں الفاظ اور شاعری پر زور ہوتا ہے۔ ’لفظ‘ کی جہتیں نمایاں کی جاتی ہیں لیکن حسین بخش گلو کی آواز ہی شاعری ہے۔ وہ آواز کے زیر و بم سے ہی تمام تر اثر پیدا کرتے ہیں۔ لتا منگیشکر کی فرمائش پر فلمساز یش چوپڑا کے گھر پر تقریب منعقد کی گئی اور استاد کو بلایا گیا۔ حسین بخش گلو نے اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ لتا نے آدھے گھنٹے تک کا وقت طے کیا تھا لیکن انھوں نے گانا شروع کیا تو نو گھنٹے تک موجود رہیں اور ان کا گانا سنتی رہیں۔ اس محفل میں دلیپ کمار، سائرہ بانو، میوزک ڈائریکٹر خیام سمیت بہت بڑے بڑے نام موجود رہے۔ اسی طرح بالی وڈ گلوکار سونو نگم کا استاد گلو کے متعلق ایک بلاگ میں کہنا ہے کہ وہ ان کو بہت مانتے ہیں جب بھی انھیں کچھ اچھا سننا ہوتا ہے تو وہ ان کو سنتے ہیں۔ ان سے بہت سیکھا ہے۔ جم میں ورزش کے دوران وہ استاد کا ہی گایا ہوا کلام سن اور گنگنا رہے ہیں۔ استادوں کا یہ استاد اس دسمبر ہم سے بچھڑ گیا۔ موسیقی کا ایک خزانہ ہے جو مٹی تلے دفن ہوا۔ انٹرنیٹ کے اس دورمیں چاہیے تو تھا کہ حسین بخش گلو کے سینکڑوں گیت سننے کو دستیاب ہوتے، لیکن گنی چنی ریکارڈنگز موجود ہیں جو زیادہ تر نجی محفلوں کی ہیں۔ چند ہی انٹرویوز ہیں اور وفات کی چند سطری خبریں کچھ چینلز اور ویب سائٹس پر۔ لیکن کیا ان میں ایسا کوئی ہو گا جو ان جیسا ’ریاضی‘ ہو۔جو عمر کے بیس تیس سال صرف سیکھنے پر لگا دے۔ آٹو ٹیون اور ری مکس کے زمانے میں، سوشل میڈیا کی ریلز اور سٹوریز سے دور، ٹرینڈ اور ہیش ٹیگ کی دنیا سے پرے، مگر ہیں کچھ شوقین، جنھیں دسمبر کی یہ شام بے حد اداس کر گئی ہے۔ جو جانتے ہیں کہ استاد حسین بخش گلو چل بسے تو پھر صدیوں میں پیدا نہیں ہوتا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cekp77n1rkzo", "summary": "بظاہر اپنے منفرد فیچرز کی وجہ سے ایک چینی لڑکی کا کردار نبھانے والی اداکارہ ہورا پُراعتماد ہیں کہ انڈسٹری میں اُنھیں ٹائپ کاسٹ نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ خود کو مختلف کرداروں میں ڈھالنے کا ہنر جانتی ہیں۔ \n", "title": "چینی لڑکی ’فاطمہ فینگ‘ کا کردار نبھانے والی ہورا بتول: ’لوگوں نے کہا تم اتنی صاف اردو کیسے بول لیتی ہو‘", "firstPublished": "2023-12-06T05:22:52.665Z", "id": "cekp77n1rkzo", "article": "پاکستانی اداکارہ ہورا بتول نے حال ہی میں ایک ڈرامہ سیریل ’فاطمہ فینگ‘ میں ایک چینی لڑکی کا کردار نبھایا ہے۔ ہورا نے بی بی سی اردو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ اُن کا تعلق بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے ہے اور وہ ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہورا اگر پاکستانی ہیں تو انھوں نے ایک چینی لڑکی کے کردار کو اتنی بخوبی کیسے نبھایا اور اس سلسلے میں انھوں نے کس سے مدد لی۔ جواب میں انھوں نے بتایا کہ ’میرے شروع سے کافی چینی دوست ہیں اور ابھی بھی ہیں، چونکہ میں نے اُن کے ساتھ کافی وقت گزارا ہوا ہے اور مجھے پتا ہے کہ اُن کا اٹھنا بیٹھنا کس طرح ہے۔‘ ہورا نے اپنے تجربے سے بتایا کہ چینیوں کے مزاج میں تجسّس ہوتا ہے اور وہ لوگ بہت تیزی سے چیزیں سیکھ لیتے ہیں اور ان ہی چیزوں کو انھوں نے اپنے کردار میں دِکھانے کی کوشش بھی کی۔ ہورا بتول نے بھی اس بات کو تسلیم کیا لیکن انھوں نے اس بات کی منطق اور وضاحت اپنے انداز میں دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر میں اسے فروخت کے نقطہ نظر سے بتاؤں تو ہمارے پاکستانی لوگوں کو ڈراموں میں بہت زیادہ ڈرامہ پسند ہے۔ ہمارے ڈراموں میں سب سے زیادہ ڈرامہ کدھر ہوتا ہے؟ فیملیز میں! تو ایک مطابقت بھی رکھی ہے شاید سکرپٹ رائٹر نے کہ گھروں میں یہ چیز ہوتی ہے تو چلو یہ پہلو بھی لے آئیں۔‘ بظاہر اپنے منفرد فیچرز کی وجہ سے ایک چینی لڑکی کا کردار نبھانے والی اداکارہ ہورا پُراعتماد ہیں کہ انڈسٹری میں اُنھیں ٹائپ کاسٹ نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ خود کو مختلف کرداروں میں ڈھالنے کا ہنر جانتی ہیں۔ ’میں نے اس سے پہلے بھی جتنے کردار کیے اُن میں سے کوئی بھی فاطمہ فینگ نہیں لگتا۔ اُن میں میرا لہجہ مختلف ہے، میری چال ڈھال اور بات چیت کا انداز مختلف ہے۔ اگر میں ایک ہی چیز کرتی رہوں گی تو میں ٹائپ کاسٹ ہو جاؤں گی اور لوگ کہیں گے کہ یہ یہی کرتی ہے اس کی یہی کرنے دو۔‘ اس بارے میں اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نہیں سمجھتی کہ میرے جیسے فیچرز ہماری انڈسٹری میں موجود ہیں۔ جب آپ خود مختلف ہوں تو آپ مختلف چیزیں بھی کرسکتے ہو۔‘ ہورا کا تعلق پاکستان کی ایک پسماندہ کمیونٹی ہزارہ سے ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ شروع میں اُن کی والدہ کو سننے کو ملتا تھا کہ ’کیوں آپ نے اپنی بیٹی کو انڈسٹری میں بھیجا، آپ کو پتا تو ہے کس طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ میری ماما ہروقت جائے نماز پر ہوتی ہیں کہ دعا کرو اس کے لیے یہ کامیاب ہوجائے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crgp92p9733o", "summary": " نپولین نے جوزفین کو بہت سے محبت بھرے خطوط لکھے۔ ان خطوط میں ’جذباتی بلیک میلنگ‘ شامل تھی اور محبت کا اظہار اتنی بار ہوا کہ یہ جذبات کم اور دھمکیاں زیادہ محسوس ہوتے۔\n", "title": "کیا نپولین بوناپارٹ اور ان کی پہلی بیوی جوزفین کے درمیان واقعی محبت تھی؟", "firstPublished": "2023-12-05T07:51:00.411Z", "id": "crgp92p9733o", "article": "سکاٹ کا کہنا ہے کہ اس فلم میں نپولین کو ایک ایسے شخص کے طور پر دکھایا گیا ہے جس نے جوزفین کی محبت جیتنے کی کوشش میں دنیا کو فتح کرنے کی کوشش کی اور جب وہ جوزفین کی محبت جیت نہ سکا تو اس نے اسے تباہ کرنے کے لیے دنیا کو فتح کر لیا، اور اس عمل میں خود کو تباہ کر لیا۔ جب یہ خبر آئی کہ وینیسا کربی جوزفین کا کردار ادا کریں گی تو تاریخ دان دنگ رہ گئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نپولین کا کردار ادا کرنے والے ہواکین فینکس کی عمر کربی سے 14 سال زیادہ ہے مگر درحقیقت جوزفین نپولین سے چھ سال بڑی تھی لیکن جوزفین اور نپولین کے درمیان عمر کے فرق نے ان کی زندگی اور محبت پر گہرا اثر ڈالا۔ اٹلی سے انھوں نے جوزفین کو بہت سے محبت بھرے خطوط لکھے۔ ان خطوط میں ’جذباتی بلیک میلنگ‘ شامل تھی اور محبت کا اظہار اتنی بار ہوا کہ یہ جذبات کم اور دھمکیاں زیادہ محسوس ہوتے۔ یہاں تک کہ جب جوزفین اٹلی میں رہنے آئیں تو نپولین ان کے ہر قدم سے باخبر رہتے۔ اس وقت تک نپولین کا جذبہ کچھ کم ہو چکا تھا لیکن وہ جوزفین کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتے تھے۔ نپولین کو اپنی بیوی کو جاننے کے فوائد کا اندازہ ہو گیا تھا اور انھوں نے یہ بھی قبول کر لیا تھا کہ ایک دوسرے کے لیے ان کے جذبات کی سطح مختلف ہے۔ نپولین مصر میں ایک مہم پر تھے جب انھیں ثبوت پیش کیا گیا کہ جوزفین کا کسی اور کے ساتھ افیئر ہے۔ اس حوالے سے نپولین نے اپنے بھائی کو خط بھیجا لیکن وہ درمیان میں لیک ہو گیا اور برطانیہ میں شائع ہو گیا۔ نپولین 1807 میں پولینڈ کے سفر پر جوزفین کو اپنے ساتھ نہیں لے کر گئے اور وہاں ان کا ایک بڑے گھرانے کی خاتون ماریا والیوسکا کے ساتھ طویل تعلق رہا لیکن اس عرصے کے دوران ان کے خطوط سے پتا چلتا ہے کہ وہ اب بھی جوزفین سے محبت کرتے تھے۔ پھر بھی ان کی طلاق کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔ کیا وہ شروع میں نپولین سے محبت کرتی تھی؟ شاید نہیں۔ کیا انھیں بعد ازاں نپولین سے محبت ہو گئی تھی؟ شاید ہاں۔ نپولین نے جوزفین کی عمر اور اس بارے میں تنقید کی پرواہ نہیں کی اور ان کے بچوں کا بھی خوب خیال رکھا۔ بالآخر نپولین کو بیٹے کی ضرورت نے ان کی طاقت اور اس کی شادی دونوں میں خلل ڈالا لیکن ملک چھوڑنے سے پہلے ان کا مالمیسو کا دورہ ظاہر کرتا ہے کہ جوزفین اس کے لیے کتنی اہم تھیں۔ نپولین نے 1821 میں اپنی موت سے کچھ دیر پہلے ایک خواب دیکھا تھا۔ نپولین کے وفادار مارشل نے لکھا کہ ’نپولین نے بتایا کہ انھوں نے جوزفین کو دیکھا اور ان سے بات کی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2z7vp2epxo", "summary": "’ارجن ویلی نے پیر جوڑ کے گنڈاسی ماری۔۔۔‘ جب بھی لوک داستان کے یہ الفاظ ڈھول کی تھاپ پر گونجتے ہیں تو پنجابیوں کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔ ", "title": "مولا جٹ کی طرح گنڈاسا اٹھانے والے ’ارجن ویلی‘ جن کا ذکر رنبیر کی نئی فلم ’اینیمل‘ میں ہوا", "firstPublished": "2023-12-05T03:23:43.503Z", "id": "cv2z7vp2epxo", "article": "’ارجن ویلی نے پیر جوڑ کے گنڈاسی ماری۔۔۔‘ جب بھی لوک داستان کے یہ الفاظ ڈھول کی تھاپ پر گونجتے ہیں تو پنجابیوں کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔ گاؤں کے بزرگوں نے بتایا کہ ارجن ویلی کا تعلق سدھو خاندان کے شوبھا سنگھ اور چندا سنگھ کی نسل سے تھا۔ ان کی یاد میں ایک مقبرہ بھی تعمیر کیا گیا۔ گاؤں کے لوگوں نے بتایا کہ جب ارجن ویلی گھر سے بھاگ گئے تو اسی دوران گاؤں میں پولیس سٹیشن قائم کیا گیا۔ سابق سرپنچ جگراج سنگھ دودھر کہتے ہیں کہ ’ارجن ویلی ان کے خاندان سے تھے۔ جب بارات کی لڑائی ہوئی تو ارجن ویلی کے دھڑے کی گنڈوں اور ڈانگوں سے لڑائی ہوئی۔ بابا ارجن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے پاؤں زمین پر رکھتے تھے اور گنڈاسے سے لڑتے تھے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’یہیں سے لوک داستان بنی کہ ارجن ویلی نے پیر جوڑ کے گنڈاسی ماری۔ ہمارے بابا ارجن جسمانی طور پر بہت مضبوط تھے اور ذہنی طور پر بھی بہت تیز۔‘ ’میرے والد نے مجھے بتایا کہ انگریزوں کے دور میں ان کا گھر دو بار گرایا گیا تھا۔ ہاں، ارجن ویلی کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ انھوں نے علاقے کی بیٹیوں اور بہنوں کی عزت کی حفاظت کی۔‘ جگراج سنگھ داؤدھر کہتے ہیں کہ ’جب یہ اطلاع پولیس تک پہنچی تو پولیس نے گولیاں چلا کر یہ ظاہر کیا کہ ارجن ویلی اور ان کے ساتھی کا پولیس مقابلہ ہوا ہے۔‘ ’اس کے بعد آس پاس کے دیہاتوں میں لوگوں کو مارا پیٹا گیا اور اکٹھا کیا گیا۔ ارجن ویلی کی لاش پر بھنگڑے ڈالے گئے۔ پولیس نے یہ کام برطانوی حکومت کی طرف سے ارجن ویلی کے سر پر رکھا ہوا انعام حاصل کرنے کے لیے کیا۔‘ گاؤں کے نوجوان بوٹا سنگھ مکینیکل انجینیئر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خوشی کی بات ہے کہ ارجن ویلی کی وجہ سے ان کا گاؤں آج زیرِ بحث ہے۔ اینیمل میں ارجن ویلی کے ذکر کے بعد ضلع لدھیانہ کے گاؤں روڑکا کے ایک خاندان نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ارجن ویلی ان کے پردادا ہیں۔ اس خاندان کا دعویٰ ہے کہ ارجن ویلی بعد میں ’امرت دھاری‘ یعنی کٹر سکھ بن گئے اور انھوں نے ’پنجابی سبھا مورچے‘ کے دوران فیروز پور میں جیل بھی کاٹی۔ جوگندرپال سنگھ ورک کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نے ارجن کو ان کی خدمات پر تمر پترا اعزاز سے بھی نوازا تھا۔ گلوکار بھوپندر ببل نے میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا کہ ’ارجن ویلی کوئی ایک شخص نہیں تھا۔ درحقیقت یہ پنجاب کے دیہاتوں کے کردار ہیں جو کسی بھی ظلم کے خلاف ڈٹ جاتے تھے۔ یہ کردار دیہی جنگوں میں بھی استعمال ہوتے تھے۔ تو یہ بہت سے ہو سکتے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c729ye0vvd9o", "summary": "مونا لیزا دنیا کی مشہور ترین پینٹنگز میں سے ایک ہے۔ یہ تصویر باصلاحیت مصور لیونارڈو ڈاونچی نے بنائی تھی۔ ایک فنکار ہونے کے علاوہ لیونارڈو بہت سے شعبوں میں ماہر تھے۔", "title": "مونا لیزا کی مسکراہٹ کے پیچھے سائنس یا راز کیا ہے؟", "firstPublished": "2023-12-04T09:39:46.686Z", "id": "c729ye0vvd9o", "article": "مونا لیزا دنیا کی مشہور ترین پینٹنگز میں سے ایک ہے۔ یہ تصویر باصلاحیت مصور لیونارڈو ڈاونچی نے بنائی تھی۔ ایک فنکار ہونے کے علاوہ لیونارڈو بہت سے شعبوں میں ماہر تھے۔ وہ علم کے بھوکے تھے۔ وہ مصوری سے ہٹ کر بہت سے شعبوں کے بارے میں جاننے کے لیے بے چین تھے۔ وہ اناٹومی، ریاضی، نظریات میں دلچسپی رکھتے تھے۔ انھوں نے فن اور سائنس میں کبھی فرق نہیں کیا۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا وہ اس کی پینٹنگز میں جھلک رہا تھا۔ لیونارڈو کی پینٹنگز کا تجزیہ کرنا مشکل ہے کیونکہ ان کی پینٹنگز ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ لیکن اگر آپ کو بتایا جائے کہ انھوں نے مونا لیزا کا چہرہ اپنی اناٹومی کتاب سے کھینچا ہے تو پھر آپ اسے اس طرح نہیں دیکھیں گے جیسے آپ اب تصویر کو دیکھتے ہیں۔ لیکن وہ سیدھے اور ناہموار نہیں ہیں۔ مونا لیزا کے وہم کے پیچھے یہی وجہ ہے۔ یہ وجہ اتنی مشہور ہے کہ اسے ’مونا لیزا ایفیکٹ‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن، یہ وہم نہیں ہے۔ یہ خالصتاً آپٹکس پر مبنی ہے۔ اب دیکھتے ہیں مونا لیزا کی مشہور مسکراہٹ۔۔۔ اگر آپ براہ راست مونالیزا کی پینٹنگ پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ مسکرا نہیں رہی ہے۔ لیکن اگر آپ اسے ایک طرف سے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ مسکرا رہی ہے۔ پینٹنگ میں مونا لیزا کے ہونٹوں کے کونوں پر ’فوماٹو‘ نامی ایک بے ہوش خاکہ استعمال کیا گیا ہے۔ لیونارڈو، جو آپٹکس میں مہارت رکھتا تھے، نے محسوس کیا کہ جب ہم کسی چیز کو سیدھا دیکھتے ہیں تو ہماری بصارت تیز ہوتی ہے۔ دراصل مونالیزا کی تصویر ہماری آنکھوں کو دھوکہ دے رہی ہے۔ یہ اثر پینٹنگ میں مونا لیزا کے ہونٹوں کے کونوں پر نیچے کی طرف ایک انتہائی نازک لکیر کھینچ کر حاصل کیا جاتا ہے۔ تو اس تصویر میں مونا لیزا مسکرا نہیں رہی ہیں؟ تصویر میں صاف نظر آئے تو ان کے ہونٹوں کے کونے خاکستری نظر آتے ہیں۔ اس سے ہونٹوں کی شکل بدل جاتی ہے۔ اس سے ان کی مسکراہٹ ہوتی ہے۔ اس سے ان کے ہونٹوں کی حرکت اور مسکراہٹ کا تاثر ملتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ آپ کو دیکھ رہی ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ جیسے ہی تصویر کو ایک مختلف سمت میں کھینچا جاتا ہے، اس کی آنکھیں حرکت کرتی نظر آتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ تین شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ ان کے مطابق ’میرا خیال ہے کہ جسم ایک طرف جھکا ہوا ہے اور مونا لیزا کی نگاہیں سیدھی ہیں، جس سے تصویر نمایاں ہے۔‘ اس لیے ان کی آنکھیں جھکی ہوئی نظر آتی ہیں۔ لیکن مارٹن کیمپ کا کہنا ہے کہ لیونارڈو نے اس روایت کو توڑا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cj5pg51d814o", "summary": "بالی وڈ سٹار رنبیر کپور کی یکم دسمبر کو ریلیز ہونے والی فلم ’اینیمل‘ یعنی جانور کو شاہ رخ خان کی فلم ’جوان‘ کے بعد سال کی کامیاب ترین فلم قرار دیا جا رہا ہے لیکن سیکس اور پرتشدد مناظر سے بھرپور ہونے کے باعث اسے ناقدین اور خواتین کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی ہے۔", "title": "’اینیمل‘: رنبیر کپور کی سیکس، تشدد اور متنازع ڈائیلاگ سے بھرپور فلم جسے تنقید کا سامنا ہے", "firstPublished": "2023-12-04T06:25:30.036Z", "id": "cj5pg51d814o", "article": "بالی وڈ سٹار رنبیر کپور کی یکم دسمبر کو ریلیز ہونے والی فلم ’اینیمل‘ یعنی جانور کو شاہ رخ خان کی فلم ’جوان‘ کے بعد سال کی کامیاب ترین فلم قرار دیا جا رہا ہے لیکن سیکس اور پرتشدد مناظر سے بھرپور ہونے کے باعث اسے ناقدین اور خواتین کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی ہے۔ برٹش بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن نے بھی اسے صرف بالغوں کے دیکھے جانے والی فلم قرار دیا ہے کیونکہ بورڈ کے مطابق ہدایتکار سندیپ ریڈی وانگا کی فلم اینیمل میں ’گھریلو تشدد کے کئی مناظر ہیں جن میں مرد خواتین کو مارتے ہیں، ان کی تذلیل کرتے ہیں، زبردستی کرتے ہیں۔‘ دی ہندوستان ٹائمز نے اس فلم کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس میں ’تشدد اپنے عروج پر ہے۔ خون ہی خون نظر آتا ہے۔ ہر طرف خون کی ہولی ہے۔ یہ وحشت اور شیطانیت سے بھرپور ہے۔ وانگا کی اس فلم اینیمل میں رنبیر کپور کو شیطانی، خوفناک اور ہیجان زدہ اوتار میں پیش کیا گیا ہے۔ کیا ہم اس سے محبت کرتے ہیں؟ جی بلکل!‘ صحافی سجاتا ناراین اخبار ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں لکھتی ہیں کہ ’ہاف ٹائم تک ہم یا تو رن وجے (فلم میں رنبیر سنگھ کے کردار کا نام) سے محبت کرنے لگتے ہیں یا اس سے نفرت کرتے ہیں لیکن ہم اسے مسترد یا نظر انداز نہیں کر پاتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی فلم نہیں ہے جہاں آپ اپنے موبائل فونز چیک کر سکیں کیونکہ رنبیر کپور اپنی مسحور کن پرفارمنس کے ساتھ آپ کو سکرین سے نظریں ہٹانے نہیں دیتے۔‘ اینیمل میں رنبیر کپور کے علاوہ اداکار بابی دیول بھی ہیں جنھوں نے اس کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے یقین ہی نہیں آ رہا ہے۔‘ ان دونوں کے علاوہ سنہ 1980 اور 90 کی دہائی کے سٹار انیل کپور، اداکارہ رشمیکا مندانا اور ترپتی دمری اس فلم میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ فلم میں کشت و خون کے علاوہ سیکس کے بولڈ مناظر بھی ہیں یہاں تک کہ اداکار رنبیر کپور نے خود کو پوری طرح برہنہ پیش کیا ہے جسے بہت سے ناقدین نے کسی سرکردہ اداکار کے لیے ’جرات مندانہ قدم‘ کہا ہے۔ سوشل میڈیا پر فلم میں خواتین کی منظر کشی اور ان کیخلاف کی جانے والی باتوں کے ساتھ سیکس کے مناظر اور برہنگی پر اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے فلم کو انتہائی پرتشدد فلم قرار دیا ہے۔ نیزیفیرا ضیا نامی صارف نے لکھا: ’ہم نے بالی وڈ کی فلموں میں اس قسم کے بہیمانہ ایکشن مناظر کی امید نہیں کی تھی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/clmpe52xx8go", "summary": " مکی ماؤس کو پہلی بار والٹ ڈزنی نے اینی میٹڈ شارٹ فلم ’سٹیم بوٹ ویلی‘ میں 18 نومبر1928 کوپیش کیا۔ ڈزنی نے انڈسٹری میں اپنی تباہی سے راج کرنے تک کے سفر پر بات کرتے ہوئے کہا۔ ’پچھلے چند سالوں میں، ہم نے بہت سے مختلف شعبوں میں قدم رکھا ہے۔ میں صرف امید کرتا ہوں کہ ہم کبھی بھی ایک چیز کو نظر انداز نہیں کریں گےکہ بلندیوں کا تمام سفر ایک چوہے سے شروع ہوا ہے۔‘", "title": "مکی ماؤس: وہ چوہا جو والٹ ڈزنی کو تباہی سے نکال کر شہرت کی بلندیوں تک لے گیا", "firstPublished": "2023-12-03T14:13:50.961Z", "id": "clmpe52xx8go", "article": "مکی ماؤس کو پہلی بار شارٹ اینی میٹڈ فلم ’سٹیم بوٹ ویلی‘ میں پیش کیا گیا۔ یہ شارٹ فلم 18 نومبر 1928 کو ریلیز ہوئی تھی۔ تاہم اگلے سال اس شارٹ فلم کا ایک حصہ عوامی ڈومین میں داخل ہو جائے گا یعنی اس کے کاپی رائٹس عام کر دیے جائیں گے. ڈزنی 1928 سے لے کر اب تک اپنی سب سے مشہور مختصر دورانیے کی اینی میٹڈ فلم ’سٹیم بوٹ ویلی‘ کے جملہ حقوق سے محروم ہونے جا رہا ہے اور اس میں ڈزنی کے سب سے مشہور کردار مکی ماؤس کا اصل ورژن شامل ہے۔ مکی ماؤس کی ریلیز کے وقت والٹ ڈزنی کو تباہی کا سامنا تھا۔ کمپنی نے اس وقت حال ہی میں اپنی مقبول تخلیق ’اوسوالڈ دی لکی ریبٹ‘ کے حقوق کھو دیے تھے اور ان کا زیادہ تر عملہ کارپوریٹ تنازعے کا شکار ہو گیا تھا۔ اس عرصے کے دوران فائنانس نہ ہونے کے سبب ڈزنی پر مایوسی غالب تھی۔ اس وقت ڈزنی نے اپنے اینی میٹرز، لیس کلارک اور اُب آئی ورکس، کو اپنے دماغ میں چلنے والے ایک آئیڈیا پر کام کرنے کے لیے تیار کیا جس میں ایک ہمدرد چوہا غلط مہم جوئی کے ایک سلسلے میں مزاحیہ انداز میں اپنا راستہ تلاش کرتا ہے۔ والٹ ڈزنی نے ایک ایسا کارٹون بنانے کا فیصلہ کیا جس میں سکرین پر دکھائے جانے والے ایکشن کو ایک پیچیدہ طریقے سے موسیقی اور صوتی اثرات کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔ سٹیم بوٹ ویلی کی کامیابی نے کارٹونوں کے ایک نئے دور کا آغاز کیا اور اس سے والٹ ڈزنی کا پوری انڈسٹری پر راج ہو گیا اور اسی دوران ڈزنی نے 1937 میں آسکر ایوارڈ یافتہ سنو وائٹ اور سیون ڈورفز(Snow White and the Seven Dwarfs) بنا کر اپنے نام کا جھنڈا گاڑ دیا۔ ’لہٰذا، میں نے کیمروں سے لیس اپنے عملے کو جنگلوں میں بھیجا تاکہ اس بات کو فلمایا جا سکے کہ ایک جانور دراصل اپنے طرز زندگی میں کیا کرتا ہے اور فنکاروں کے مطالعہ کے لیے بنائی گئی اس فلم میں میں نے محسوس کیا کہ وہاں ایک بہت اچھی کہانی تھی جو کبھی سامنے ہی نہیں لائی گئی۔‘ والٹ ڈزنی کی اس سیریز نے کئی اکیڈمی ایوارڈز جیتے جن میں 1954 میں دی لیونگ ڈیزرٹ کے لیے پہلی بار بہترین دستاویزی فلم کا آسکر ایوارڈ بھی شامل ہے۔ ڈزنی نے انڈسٹری میں اپنی تباہی سے راج کرنے تک کے سفر پر بات کرتے ہوئے کہا۔ ’پچھلے چند سالوں میں، ہم نے بہت سے مختلف شعبوں میں قدم رکھا ہے۔ میں صرف امید کرتا ہوں کہ ہم کبھی بھی ایک چیز کو نظر انداز نہیں کریں گےکہ بلندیوں کا تمام سفر ایک چوہے سے شروع ہوا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw42j00gnl2o", "summary": "بالی ووڈ کے فنکاروں کی پارٹی کی تصاویر ہمیشہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی نظر آتی ہیں۔ پاپارازی کے کیمرے ان ستاروں کی تصاویر لینے کے لیے ہمہ وقت بے تاب رہتے ہیں۔ اب ان کے کیمروں پر سب سے زیادہ کثرت سے آنے والا چہرہ اوری ہے. وہ پارٹی میں شاید کسی مشہور شخصیت کی تصویر لینا بھول جائیں مگراوری کو نہیں بھولتے۔ ", "title": "بالی وڈ اداکاروں کے ساتھ نظر آنے والے ’اوری‘ جن کے ساتھ تصویر لینے کے لیے لوگ لاکھوں روپے ادا کرتے ہیں", "firstPublished": "2023-11-30T06:08:31.368Z", "id": "cw42j00gnl2o", "article": "اب بالکل اسی انداز میں سوشل میڈیا پر صرف ایک سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آخر اورہان اوترمانی عرف اوری کون ہیں جو کئی مشہور شخصیات کے ساتھ مختلف پارٹیوں میں نظر آتے ہیں؟ بالی ووڈ کے فنکاروں کی پارٹی کی تصاویر ہمیشہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی نظر آتی ہیں۔ فوٹو گرافرز کے کیمرے ان ستاروں کی تصاویر لینے کے لیے ہمہ وقت بے تاب رہتے ہیں۔ اب ان کے کیمروں پر سب سے زیادہ کثرت سے آنے والا چہرہ اوری کا ہے۔ وہ پارٹی میں شاید کسی مشہور شخصیت کی تصویر لینا بھول جائیں مگر اوری کو نہیں بھولتے۔ انھوں نے نیو یارک کے پارسنز سکول آف ڈیزائن سے گریجویشن کیا۔ اپنے بچپن سے ہی وہ کئی دیگر بڑے صنعت کاروں کے بچوں کے ساتھ ساتھ بالی ووڈ فنکاروں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ نیسا دیوگن اور سارہ علی خان سے لے کر جھانوی کپور تک، بہت سے سٹار کڈز اوری کو اپنا بہترین دوست مانتے ہیں۔ وہ اکثر ان سب کے ساتھ پارٹیوں میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ کافی ود کرن میں اس تذکرے کے بعد اوری ریئلٹی شو ’بگ باس‘ کے گھر پہنچ گئے جہاں سلمان خان نے بھی ان سے پوچھا لیا ’آپ کرتے کیا ہیں؟‘ اس پر اوری نے جواب دیا کہ وہ کام کرتے ہیں۔ نیویارک میں رہائش کے دوران اوری کی ایک ایسی تصویر وائرل ہو گئی جس میں ان کے ساتھ مشہور امریکی فنکار کائلی جینر نظر آئیں۔ اوری ٹام فورڈ اور پراڈا جیسے بڑے برانڈز کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ان کے لنکڈ ان پروفائل کے مطابق، وہ ریلائنز انڈسٹریزمیں پروڈکٹ مینیجر کے خاص عہدے پر ہیں۔ یہ بھی ان کے امبانی خاندان سے تعلقات کی ایک وجہ ہے۔ وہاں ان کی ملاقات بالی ووڈ کے ستاروں اور کئی مشہور بزنس مین کے بچوں سے ہوئی۔ یہ سب اوری کے ہم عمر تھے اور انھوں نے ایک ساتھ پڑھا بھی تھا۔ جب اوری بگ باس کے گھر میں داخل ہوئے تو بالی ووڈ اداکار سلمان خان نے اوری سے پوچھا کہ وہ روزی روٹی کے لیے کیا کرتے ہیں؟ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’میں بہت محنت کرتا ہوں۔‘ اوری نے ایک موقع پر سلمان خان کو بتایا کہ وہ کیسے پیسے کماتے ہیں۔ انھوں نے مشہور شخصیات کی پارٹیوں میں جانے کی وجہ بھی بتائی۔ اوری کے مطابق لوگ ان سے ملنے کے شوقین ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ اوری سے مل کر وہ خود کو جوان محسوس کرتے ہیں۔ اوری کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوگوں نے انھیں بتایا ہے کہ ان سے ملاقات کے بعد بہت سے لوگوں کی صحت کے مسائل کم ہو گئے ہیں۔ اوری سوشل میڈیا پر کافی متحرک ہیں۔ انسٹاگرام پر ان کے لاکھوں مداح ہیں۔ انھیں اپنے فیشن سینس کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ خود کو گلوکار، نغمہ نگار اور فیشن ڈیزائنر کہتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c9739d8g119o", "summary": "بادشاہ کا کہنا ہے کہ ان کا ’بنیدای مقصد تفریح فراہم کرنا ہے‘ اور وہ ان ایشوز پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جو ان کے لیے اہمیت کے حامل ہیں جیسا کہ بچوں کی تعلیم اور ماحولیاتی تبدیلی۔ \n", "title": "بالی وڈ کے ریپر بادشاہ ’ایک پرسکون ہفتے کے لیے شہرت کا ایک سال چھوڑنے کو تیار‘", "firstPublished": "2023-11-26T05:00:37.634Z", "id": "c9739d8g119o", "article": "اگر آپ بالی وڈ کے کسی نائٹ کلب میں ڈانس کر رہے ہیں تو اس بات کے کافی امکانات ہیں کہ وہاں بادشاہ کا گانا لگا ہوگا۔ بادشاہ ایسے ریپر ہیں جو انڈیا میں ایک دہائی سے میوزک کے شعبے پر چھائے ہوئے ہیں۔ ان کے ہٹ گانوں میں ’ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘، ’کالا چشمہ‘ اور ’بیبی کو بیس پسند‘ شامل ہیں۔۔۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس حقیقت سے محبت کرتے ہیں کہ ’بہت سے لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور مجھے یہ محبت محسوس بھی ہوتی ہے۔ مگر یہ شہرت کسی حد تک بے سکونی کا بھی باعث بن جاتی ہے۔‘ 37 برس کے بادشاہ کے یو کے آفیشل ایشین میوزک چارٹ پر کئی ہٹ گانے ہیں اور اب سنیچر سے وہ برطانیہ کے دورے پر ہیں۔ ان کا یہ سفر کوئی زیادہ آسان بھی نہیں تھا۔ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذہنی صحت پر بھی کام کر رہے ہیں اور انھوں نے کہا کہ کاش وہ بہت پہلے اس شعبے کے ماہرین کی خدمات حاصل کرتے۔ بادشاہ، جن کا پورا حقیقی نام ادتیا پراتیک سنگھ سسودیا ہے، کا کہنا ہے کہ وہ ڈپریشن میں مبتلا رہے ہیں اور ایسی ’اینگزائٹی ڈس آرڈر‘ کا بھی شکار رہے کہ جس کا علاج ضروری ہو جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ایسا کیا ہے کہ اس متعلق بات تک نہ کی جائے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’بہادری اس بات کو تسلیم کرنے میں ہے کہ کچھ گڑ بڑ ہے اور اگر کچھ گڑ بڑ ہے تو پھر اسے درست کرنا بھی ضروری ہے۔‘ بادشاہ کا کہنا ہے کہ ان کے طبی علاج کے علاوہ میوزک بھی ان کی ذہنی تازگی کی وجہ ہے۔ ان کے مطابق ’مجھے لگا کہ شاید یہ ہارٹ اٹیک ہے کیونکہ دھڑکن تیز ہو گئی تھی۔ میں نے اپنا فون نکالا اور کچھ لکھنا شروع ہو گیا۔ اگلے 15 منٹ تک میں ٹھیک ٹھاک تھا۔ اور میں یہ جانتا ہو کہ یہ میوزک کی وجہ سے ہے۔‘ انڈیا، جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہاں آزادی اظہار رائے پر پابندیاں عائد ہیں اور نامی گرامی شخصیات بھی متنازع امور پر تبصرہ کرنے کی وجہ سے مشکل میں پھنس جاتی ہیں۔ بادشاہ کا کہنا ہے کہ یہ سمجھنا اہم ہے کہ آپ کے الفاظ کو مختلف رنگ دیا جا سکتا ہے۔ بادشاہ کا کہنا ہے کہ ان کا ’بنیادی مقصد تفریح فراہم کرنا ہے‘ اور وہ ان ایشوز پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جو ان کے لیے اہمیت کے حامل ہیں جیسا کہ بچوں کی تعلیم اور ماحولیاتی تبدیلی۔ ان کے مطابق یہ بہت مثبت کام ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’والدین کے ساتھ شاید ہمالیہ کے پہاڑوں پر جانا اور کولڈ پلے سننا۔۔ یہ ایک خوشی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxr1gnq43ydo", "summary": "میکسیکو سے تعلق رکھنے والی مقبول ادارکاہ میلیسا بریرا جو امریکی ٹی وی ’سکریم‘ کا حصہ تھیں کو دو روز قبل فلسطین کی حمایت می بیان دینے پر سیریز کے ساتویں ایڈیشن سے فارغ سیریز کی پروڈکشن سے فارغ کر دیا گیا تھا نے کہا ہے کہ خاموش رہنا اب آپشن نہیں رہی۔", "title": "’اسرائیل مخالف‘ سوشل میڈیا پوسٹس پر ہالی وڈ اداکار برطرف: ’میرے لیے خاموشی آپشن نہیں‘", "firstPublished": "2023-11-24T16:15:24.083Z", "id": "cxr1gnq43ydo", "article": "میکسیکو سے تعلق رکھنے والی مقبول ادارکاہ میلیسا بریرا جو امریکی ٹی وی سیریز ’سکریم‘ کا حصہ تھیں کو دو روز قبل اسرائیل مخالف بیان دینے پر سیریز کے ساتویں ایڈیشن سے فارغ کر دیا گیا تھا نے بالآخر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا ہے کہ ’ان کے لیے خاموش رہنا آپشن نہیں ہے۔‘ بریرا نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی سے متعلق اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پوسٹس کیں جن میں انھوں نے اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ میں ’نسل کشی‘ بند ہونی چاہیے اور یہ کہ اسرائیل ’غزہ کو حراستی مرکز کے طور پر استعمال کر رہا ہے‘۔ انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے لکھا کہ ’اس زمین پر ہر شخص۔۔۔ مساوی انسانی حقوق، وقار اور آزادی کے مستحق ہے۔ میرا ماننا ہے کہ لوگوں کا ایک گروپ ان کی قیادت نہیں کر سکتا اور کوئی بھی گورننگ باڈی تنقید سے بالاتر نہیں ہونی چاہیے۔‘ انھوں نے اپنے بیان کے اختتام پر کہا کہ ’میں دن رات دعا کرتی ہوں کہ مزید ہلاکتیں نہ ہوں، مزید تشدد نہ ہو اور پرامن طریقے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے۔ میں ان لوگوں کے لیے بولتی رہوں گی جنھیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ میں امن و سلامتی، انسانی حقوق اور آزادی کی وکالت جاری رکھوں گی۔ خاموشی میرے لیے آپشن نہیں ہے۔‘ حالیہ ہفتوں میں بریرا کی جانب سے شیئر کی جانے والی دیگر پوسٹس میں سے ایک میں ہولوکاسٹ (دوسری عالمی جنگ کے دوران ہونے والی یہودیوں کی نسل کُشی) کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے بارے میں بتایا گیا ہے تاکہ ’اسرائیلی اسلحے کی صنعت کو فروغ دیا جا سکے‘ اور دوسری پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کے ساتھ ’فی الحال حراستی کیمپ جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم یہود دشمنی یا کسی بھی شکل میں نفرت پھیلانے کو بالکل برداشت نہیں کرتے، جس میں نسل کُشی، یا ہولوکاسٹ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے یا نفرت انگیز تقاریر میں حد سے تجاوز کرنے والی کسی بھی چیز کا جھوٹا حوالہ شامل ہے۔‘ ایک اور ہالی ووڈ ایجنسی کی سینئر شخصیت سی اے اے کی مہا دخیل نے بھی تنازعے کے بارے میں انسٹاگرام پوسٹس پر ردعمل کا اظہار کیا ہے، جن میں سے ایک میں کہا گیا تھا کہ ’نسل کُشی دیکھنے سے زیادہ دل دہلا دینے والی بات کیا ہے؟‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g2n49709ro", "summary": "’نمک حرام‘ کے ڈائریکٹر شکیل خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ناظرین کو یقین دلایا کہ اس ڈرامہ میں آخر تک تجسس برقرار رہے گا لیکن انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’یہ ہر گھر کی کہانی نہیں ہے۔‘", "title": "’اِس وقت ایک نوکر پورے پاکستان کا ہیرو ہے‘: ڈرامہ ’نمک حرام‘ کے اداکار عمران اشرف سے گفتگو", "firstPublished": "2023-11-24T02:15:10.552Z", "id": "c3g2n49709ro", "article": "فی الحال اُن کا ڈرامہ ’نمک حرام‘ ہم انٹرٹینمنٹ چینل سے نشر کیا جا رہا ہے جس میں وہ ایک ’مرید‘ کا کردار کر رہے ہیں۔ اسی کے بارے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے عمران اشرف نے بتایا کہ ڈرامہ نگار ثقلین عباس پانچ سال پہلے جب یہ ڈرامہ لکھ رہے تھے تو اُنھیں ٹی وی پر دیکھ کر کہتے تھے ’یہ مرید آ گیا‘۔ ’نمک حرام‘ کے ڈائریکٹر شکیل خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ناظرین کو یقین دلایا کہ اس ڈرامہ میں آخر تک تجسس برقرار رہے گا لیکن انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’یہ ہر گھر کی کہانی نہیں ہے۔ یہ ان چند لوگوں کی کتھا ہے جو شاید ان کی گھروں کی دیواروں سے باہر کبھی نکلی ہی نہیں ہے۔‘ شکیل خان نے مزید کہا کہ ’یقیناً کردار تو ہمارے ہی ماحول اور معاشرے کے ہیں لیکن یہ لوگ آپ کو عام طور پر ہر جگہ نظر نہیں آتے۔ میرا دیکھنے والوں کے لیے اتنا پیغام ہے کہ یہ کوئی سوشل ڈرامہ نہیں ہے، اس میں اپنے آپ کو نہ تلاش کریں۔اس میں کہانی اور کرداروں کو انجوائے کریں۔‘ نمک حرام کے مرید کے بارے میں بات کرتے ہوئے بولے کہ ’مجھے ڈائریکٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو میرا مینرازم ہے، جو میری واکس ہیں، میرا تولیہ پکڑنا، گلاس میں کوئی چیز ڈالنا، کھانے کی پلیٹ کو کیسے اٹھانا ہے، وہ سب شکیل خان صاحب نے بتایا۔ باقی مرید میں پیدا ہوا ہوں۔‘ عمران اشرف نے ’نمک حرام‘ سے پہلے ’رقصِ بسمل‘ میں اداکارہ سارہ فلک خان کے ساتھ کام کیا تھا۔ سکرین کی اس جوڑی کو ناظرین نے بے حد سراہا تھا۔ مداحوں کی محبت کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ’میں ایک کیریکٹر ہیرو ہوں۔ میں سیدھا والا ہیرو نہیں ہوں۔ سب سے خوشی کی بات یہ ہے کہ اللہ کے کرم سے ایک نوکر بھی ہیرو ہے پورے پاکستان کا اس وقت۔ یہ ایک الگ بات ہے اور لوگ اس کو قبول کر رہے ہیں۔‘ ’جہاں تک بات مذاق رات کی ہے میں اپنے اللہ کا بہت شکر کرتا ہوں کہ جو اِن مشکل اوقات میں جب کے ہر طرف اداسی ہے، فلسطین میں کیا ہو رہا ہے آپ کو پتا ہے، ہر طرف لوگ پریشان ہیں، مہنگائی کی وجہ سے کچھ لوگ پریشان ہیں، ڈپریشن کی سطح ملک میں اور پوری دنیا میں بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، اگر میرے رب نے مجھے ایک گھنٹہ دے دیاہے کہ میں اپنے ملک کے لوگوں کو ہنسا سکوں تو میں اس پر بہت خوش ہوں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy920ylgykdo", "summary": "بالی وڈ کے ’سلطان‘ سلمان خان کی فلم ٹائیگر 3 نے اپنی ریلیز کے دسویں دن تک دنیا بھر میں 400 کروڑ کمائی کر لی ہے یہ ان کی سنہ 2017 میں آنے والی فلم ’ٹائیگر زندہ ہے‘ کے بعد کی سب سے کامیاب فلم ثابت ہو رہی ہے۔", "title": "ٹائیگر 3: دیوالی پر ریلیز ہونے والی ’کامیاب ترین فلم‘ جو 400 کروڑ سے زیادہ کا بزنس کر چکی ہے", "firstPublished": "2023-11-22T13:39:27.157Z", "id": "cy920ylgykdo", "article": "بالی وڈ کے ’سلطان‘ سلمان خان کی فلم ٹائیگر 3 نے اپنی ریلیز کے دسویں دن تک دنیا بھر میں 400 کروڑ کمائی کر لی ہے یہ ان کی سنہ 2017 میں آنے والی فلم ’ٹائیگر زندہ ہے‘ کے بعد کی سب سے کامیاب فلم ثابت ہو رہی ہے۔ اگرچہ یہ فلم ہندوؤں کے سب سے بڑے تہوار دیوالی کے دن ریلیز ہوئی تھی تاہم اس نے پہلے دن ہی 44 کروڑ کا ریکارڈ بزنس کیا اور یہ سلمان خان کی کامیاب ترین اوپننگ والی فلم بن گئی۔ مبصرین کے مطابق یہ سلمان کے لیے ایک اہم کارنامہ ہے کیونکہ سنہ 2017 کی ’ٹائیگر زندہ ہے‘ کے بعد سے انھوں نے کوئی بھی بڑی ہٹ فلم نہیں دی۔ تاہم فلم کے بڑے بجٹ کے پیش نظر یہ آمدنی بہت زیادہ نہیں ہے۔ جبکہ ان کی پہلی ’ٹائیگر‘ فلم نے ریلیز سے اب تک مجموعی طور پر 335 کروڑ روپے کمائے تھے تاہم ٹائیگر 3 ابھی بھی ’ٹائیگر زندہ ہے‘، ’وار‘ اور ’پٹھان‘ جیسی فلموں سے پیچھے ہے۔ اسی قبیل کی شاہ رخ خان کی اداکاری والی فلم ’پٹھان‘ رواں سال کے شروع میں آئی تھی اور اس نے دنیا بھر میں 1000 کروڑ روپے سے زیادہ کی کمائی کی جبکہ اس کے بعد آنے والی فلم ’جوان‘ نے اس سے بھی زیادہ کمائی حاصل کی ہے اور یہ رواں سال کی اب تک کی سب سے کامیاب فلم کہی جا رہی ہے۔ اس فلم کی ریلیز کے وقت کے متعلق بہت ساری باتیں کہی گئيں۔ یہ فلم روایت سے ہٹ کر اتوار کو سب سے بڑے تہوار کے دن ریلیز کی گئی تھی جس دن کوئی بھی فلم ریلیز نہیں کرنا چاہتا ہے کیونکہ لوگ دیوالی کے تہوار کے جشن میں مصروف ہوتے ہیں۔ فلم میں سلمان خان کے ساتھ اداکارہ قطرینہ کیف اور اداکار عمران ہاشمی ہیں۔ اور سنہ 2017 میں آنے والی فلم ’ٹائیگر زندہ ہے‘ کا اسے سیکوئل کہا جا رہا ہے۔ یہ فلم پہلی فلم کی طرح پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ اور انڈین خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ اینلیسیں ونگ (را) کے درمیان خفیہ منصوبوں کی کہانیوں پر مبنی ہے۔ فلم میں سلمان خان نے انڈین جاسوس کا کردار ادا کیا ہے جبکہ عمران ہاشمی نے پاکستانی ایجنسی کے سربراہ کا کردار نبھایا ہے۔ اس فلم میں بالی وڈ کے بادشاہ کہے جانے والے اداکار شاہ رخ خان کا ایک چھوٹا سا کردار ہے اور وہ اپنی فلم ’جوان‘ کے کردار میں آ کر اویناش ’ٹائیگر‘ سنگھ راٹھور یعنی سلمان خان کو بچاتے ہیں جو کہ پاکستانی خفیہ ادارے کی قید میں ہوتے ہیں جبکہ عمران ہاشمی جاسوسوں کی جاری کشمکش میں کترینہ کیف کو بھی کھینچ لیتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cq5py5ny5g8o", "summary": "نپولیئن کون تھا اور اس کی شخصیت اتنی متنازع کیوں ہے؟", "title": "جابر آمر یا اصلاح پسند بادشاہ: یورپ پر راج کرنے والے نپولین کا ہٹلر سے موازنہ کرنے پر فرانسیسی سیخ پا کیوں ہوئے؟", "firstPublished": "2023-11-20T12:08:43.550Z", "id": "cq5py5ny5g8o", "article": "تو آخر سچ کیا ہے؟ نپولین کی شخصیت اتنی متنازع کیوں ہے؟ لیکن نپولین کی شخصیت تاریخ میں اور ان کا نام ادب میں زندہ رہا۔ جارج اورویل کے ناول ’اینیمل فارم‘ میں ڈکٹیٹر بن جانے والے جانور کو نپولین کا نام دیا گیا۔ لیکن کیا نپولین کو ایک آمر قرار دینا منصفانہ طرز عمل ہو گا یا دیگر آمروں سے ان کا موازنہ درست ہے؟ آسٹریلیا کے مؤرخ اور پروفیسر فلپ ڈوائیر کہتے ہیں کہ ’اگر یہ بحث ہو گی کہ نپولین ایک آمر اور جابر حکمران تھا یا نہیں تو میں شاید اس بات کی حمایت کروں کہ وہ ایک جابر آمر تھا لیکن یقیناً وہ ہٹلر یا سٹالن جیسا نہیں تھا جنھوں نے اپنے ہی لوگوں پر مظالم ڈھائے اور لاکھوں افراد کی اموات کی وجہ بنے۔‘ فلپ کہتے ہیں کہ ’بہت کم لوگ، جن میں کچھ صحافی بھی شامل تھے، نپولین کی مخالفت اور اس کی حکومت گرانے کے الزام میں مارے گئے۔ اگر ہم کسی سے نپولین کا موازنہ کر سکتے ہیں تو فرانسیسی بادشاہ لوئی سے کر سکتے ہیں جس نے ایسی غیر ضروری جنگیں چھیڑیں جن میں لاکھوں افراد بے وجہ مارے گئے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’فرانسیسی لوگ نپولین کو ایک اصلاح پسند کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس کے پاس ایک غیرمعمولی دماغ تھا جس نے ان قوانین اور اداروں کی بنیاد رکھی جن کے تحت ہم آج زندگیاں گزار رہے ہیں۔‘ لیور پول یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر چارلس اسڈیل نے نپولین پر کافی کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں نپولین کو ایک عسکری رہنما کے طور پر دیکھتا ہوں جس کے لیے اس کا ذاتی مقصد اہم تھا۔ اس کے پاس ایک واضح منصوبہ تھا کہ وہ کیسا فرانس چاہتا ہے اور یورپ کو کیسا بنانا چاہتا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ پیغام دیا گیا کہ فرانس کی کوئی غلطی نہیں تھی اور باقی سب مل کر فرانس کے خلاف ہو چکے تھے۔ یہ ایک طاقتور تصور ہے جو آج تک باقی ہے اور اسی کی وجہ سے نپولین کی شخصیت بھی زندہ ہے۔‘ تاہم وہ بھی نپولین اور ہٹلر یا سٹالن کے درمیان موازنے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ’نپولین کی شخصیت میں بہت سی خامیاں تھیں لیکن اس کے دور حکومت میں نسلی امتیاز کی کوئی پالیسی نہیں تھی۔‘ یاد رہے کہ فلم کے ڈائریکٹر رڈلے سکاٹ گلیڈی ایٹر جیسی فلمیں بنا چکے ہیں اور اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کسی فلم کی پروموشن کیسے کرنی چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ ان کو اس بات کا اندازہ ہو کہ ان کے اس بیان کی وجہ سے فلم کی تشہیر ہو گی اور انھوں نے اسی مقصد سے یہ بیان دیا ہو۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g24l4608jo", "summary": "امریکہ کے ملک ایل سلواڈور میں جاری مس یونیورس کے مقابلوں میں موجود ایریکا رابن ’مِس یونیورس‘ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔ ‘ وہ کہتی ہیں کہ مس یونیورس پاکستان کا خطاب حاصل کرنے اور اپنے پلیٹ فارم کو اچھی اور مثبت تبدیلی کے لیے استعمال کرنے پر مجھے پختہ یقین ہو گیا ہے کہ خواب سچ ہوتے ہیں۔‘", "title": "ہتھ پنکھا، لہنگا چولی اور سر پر دوپٹہ، مس یونیورس مقابلے کی پہلی پاکستانی حسینہ ایریکا رابن", "firstPublished": "2023-11-18T07:24:24.395Z", "id": "c3g24l4608jo", "article": "’پاکستان۔۔۔ ایریکا رابن اپنے ملک اور دنیا بھر میں خواتین کے لیے مساوی مواقع اور بہتر تعلیم تک رسائی کے حقوق کی حامی ہیں۔ 25 سالہ ایریکا میوزک اور سفر سے دلچسپی رکھتی ہیں اور وہ ایل سلواڈور میں یہاں کی ثقافت، کھانوں اور فطرت سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔‘ ایل سلواڈور میں جاری مس یونیورس کے مقابلوں میں موجود ایریکا رابن ’مِس یونیورس‘ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔ اس سیگمنٹ میں ایریکا کے لباس کو ’نمبر ون‘ کا نام دیا گیا جسے ایریکا نے اپنی پہچان بھی قرار دیا ہے۔ انسٹا گرام اکاونٹ پر انھوں نے اس لباس کی وضاحت میں لکھا ہے کہ ’نمبر ون میری زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ میں اپنے پیارے ملک پاکستان کی ایک فیصد اقلیت سے تعلق رکھتی ہوں جو ہمارے پرچم میں سفید رنگ کی علامت ہے۔‘ میسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی ایریکا رابن مس یونیورس کے مقابلے میں حصہ لینے اور مس یونیورس پاکستان کا خطاب حاصل کرنے پر بہت پرجوش ہیں۔ اس حوالے سے اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹ پر انھوں نے لکھا ہے۔ ’جب میں چھوٹی تھی تو میں ہمیشہ مس یونیورس کے مقابلوں کو دیکھ کر سوچتی تھی کہ پاکستان کی کوئی خاتون اپنی نوعیت کے شاندار اولمپکس میں شامل کیوں نہیں ہو سکتی لیکن مجھے اس بات کا بھی دل سے یقین ہے کہ کچھ بھی ناممکن نہیں۔‘ ’اب مس یونیورس پاکستان کا خطاب حاصل کرنے اور اپنے پلیٹ فارم کو اچھی اور مثبت تبدیلی کے لیے استعمال کرنے پر مجھے پکا یقین ہو گیا ہے کہ خواب سچ بھی ہوتے ہیں۔‘ ایریکا رابن امریکہ میں جاری مس یونیورس 2023 کے مقابلے کے مختلف مراحل میں پاکستان کی ثقافت کو بھرپور اجاگر کر رہی ہیں۔ ’مس یونیورس کے مقابلے میں ہماری پہلی مس پاکستان کو ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ مجھے امید ہے کہ ہم اپنی لڑکیوں کی اسی طرح سپورٹ اور مدد کر سکتے ہیں جس طرح ہم بین الاقوامی مقابلوں کے دوران اپنے مردوں کی حمایت کرتے ہیں۔ مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والی ایریکا رابن کو مالدیپ میں منعقد ہونے والے ابتدائی مقابلوں کے آخری مرحلے میں منتخب ہونے والی پانچ خواتین میں سے ’مس یونیورس پاکستان‘ منتخب کیا گیا تاہم اس خبر کے سامنے آنے پر ایریکا کو اپنے ہی ملک میں مخالفتوں کا سامنا رہا۔ ایریکا رابن جہاں اس انتخاب کو اپنے لیے اعزاز سمجھ رہی ہیں وہیں وہ اس پر پاکستان میں اٹھنے والے شدید ردعمل پر بہت حیران بھی ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ایریکا رابن نے مزید بتایا تھا کہ زوم پر ہونے والے مقابلے کے دوسرے سلیکشن راؤنڈ کے دوران ان سے اس ایک چیز کا نام بتانے کو کہا گیا جو وہ اپنے ملک کے لیے کرنا چاہتی تھیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cekp2ypz1dko", "summary": "گذشتہ سال قاتلانہ حملے میں مارے جانے والے پنجابی گلوکار شبدیپ سنگھ عرف سدھو موسے والا کا نیا گانا ’واچ آؤٹ‘ یوٹیوب پر آتے ہی موضوعِ بحث بن گیا ہے۔", "title": "سدھو موسے والا کا نیا گانا ’سیکشن 12‘: ’تمھیں اس وقت تک زندہ نہیں رہنے دوں گا جب تک میں مر نہ جاؤں‘", "firstPublished": "2023-11-15T09:18:58.758Z", "id": "cekp2ypz1dko", "article": "گذشتہ سال قاتلانہ حملے میں مارے جانے والے پنجابی گلوکار شبدیپ سنگھ عرف سدھو موسے والا کا نیا گانا ’واچ آؤٹ‘ یوٹیوب پر آتے ہی موضوعِ بحث بن گیا ہے۔ 29 مئی 2022 کو انھیں دن دیہاڑے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ سدھو موسے والا کی موت کے بعد ریلیز ہونے والا یہ ان کا پانچواں گانا ہے۔ سدھو موسے والا اپنے گانوں میں قانونی شقوں سے متعلق اصطلاحات کا ذکر کرتے تھے اور ان پر تنقید بھی کیا کرتے تھے، وہ قانون اور اس سے فائدہ اٹھنے والے سماج کے خلاف اپنے گانوں کو ترتیب دیتے اور ان پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کی مختلف آرا ہیں کہ سدھو موسے والا نے اس گانے میں دفعہ 12 کا ذکر کیوں کیا اور اس کا کیا مطلب ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک جاننے والے نے یہ بھی بتایا کہ اس کا تعلق سدھو موسے والا کے کسی کے ساتھ کاروباری معاہدے سے بھی ہوسکتا ہے۔ سدھو موسے والا کے بہت سے گانوں میں وہ ایک خاص تناظر میں اپنے ’دشمنوں‘ یا ’ساتھیوں‘ کا ذکر ملتا ہے۔ سدھو موسے والا کے گانوں میں ہتھیاروں کا ذکر عام رہا ہے۔ اس وجہ سے کئی سماجی کارکنوں نے وقتاً فوقتاً ان کی مخالفت بھی کی ہے۔ سدھو موسے والا کے مداح اس گانے پر جوش و خروش کا اظہار کر رہے ہیں جو ان کے پسندیدہ گلوکار کی موت کے تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد ریلیز ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بہت سے لوگ اس گیت میں تشدد کے ذکر کے معاشرے پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس گانے میں وہ اپنے مخالفین کو چیلنج کرتے نظر آ رہے ہیں۔ سدھو موسے والا کے والد بلکور سنگھ نے بھی حکومت پر ان پر نظر رکھنے کا الزام لگایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’سدھو کے گانے کی مقبولیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے جانے کے بعد بھی لوگ ان سے کتنا پیار کرتے ہیں۔‘ سدھو موسے والا کی موت کے بعد اب تک پانچ گانے ریلیز ہو چکے ہیں جن میں ایس وائی ایل، وار سکھ جرنیل ہری سنگھ نلوا، میرا نام اور چوری شامل ہیں۔ جون 2022 میں سدھو کا ایس وائی ایل گانا ریلیز کیا گیا تھا جس پر انڈیا میں یوٹیوب پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ یہ گانا پنجاب اور ہریانہ کے درمیان جاری ایس وائی ایل نہر تنازعہ کے بارے میں تھا۔ سدھو نے گانے میں سکھ عسکریت پسند بلوندر سنگھ جٹانا کا بھی ذکر کیا تھا۔ اپریل 2023 میں سدھو کا نیا گانا ’میرا نام‘ ریلیز کیا گیا تھا جسے انھوں نے انگلینڈ کے ریپر برنا بوائے کے ساتھ گایا تھا۔ سدھو موسے والا قتل کیس میں اب تک درجنوں گرفتاریاں کی جا چکی ہیں۔ لارنس بشنوئی کو بھی مرکزی ملزم کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgxpvzqk21vo", "summary": "بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ بحیثیت کم عمر بیوی اور بہو منت کے کردارسے انھوں نے کافی کچھ سیکھا ہے۔", "title": "اقرا عزیز: ’میں نے عائزہ خان سے سیکھا جنھوں نے اداکاری کے ساتھ ہی اپنی فیملی اور خود کو بھی ترجیح دی‘", "firstPublished": "2023-11-15T04:05:16.935Z", "id": "cgxpvzqk21vo", "article": "’اتنی زیادہ مشکل نہیں تھی جتنی منت کو اپنے پیار کو پانے میں آ رہی ہے لیکن (اس کے اندر) جو پُرجوش اور خوش مزاج لڑکی ہے اس سے اپنے آپ کو زیادہ ملاتی ہوں۔ اپنی ذاتی زندگی میں منت کے کردار سے بہت کچھ سیکھا۔‘ بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ بحیثیت کم عمر بیوی اور بہو منت کے کردارسے انھوں نے کافی کچھ سیکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ منت کا کردار ان کی شخصیت سے بہت زیادہ قریب ہے اور اس میں بہت ساری چیزیں مشترک ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’گھریلو سیاست اور معاملات تو ہم بہت زیادہ دکھاتے ہیں لیکن اس ڈرامے میں ان کے پیچھے کی حقیقت دیکھنے کو ملے گی۔ اقرا نے گفتگو کے دوران بتایا کہ انھیں اپنے ساتھی اداکار کا کام ڈرامہ سیریل ’جو بچھڑ گئے‘ اور باقی ڈراموں میں پسند آیا تھا اور اسی وجہ سے انھیں لگا کہ ان دونوں کی آن سکرین کیمسٹری اچھی رہے گی۔ اقرا کی ذاتی زندگی کی بات کی جائے تو اپنے بیٹے کبیر کی پیدائش کے بعد ’منت مراد‘ ان کا دوسرا پروجیکٹ ہے۔ اس سے قبل انھوں نے ڈرامہ سیریز ’ایک تھی لیلیٰ‘ میں مرکزی کردار ادا کیا تھا جو اسی سال آن ائیرہوا تھا۔ اس کے بعد جب منت مراد کے سیٹ پر گئیں تو اس کا تجربہ کافی اچھا تھا کیونکہ اقرا ڈائریکٹر، پروڈیوسرز اور کچھ ساتھی اداکاروں سے پہلے سے واقف تھیں۔ وہ سارا دن سب کو کھلاتی پلاتی رہتی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا کبیر بھی اکثر سیٹ پر آیا کرتا تھا۔ تاہم انھوں نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ اپنے بیٹے کبیر کو چھوڑ کر سفر کرنا کافی مشکل تھا۔ اقرا نے بتایا کہ جب وہ حاملہ تھیں تو اس دوران شوٹس وغیرہ نہیں کر رہی تھیں لیکن سوشل میڈیا کیمپینز پر کام کر رہی تھیں۔ اپنے بیٹے کبیر کی پیدائش کے بعد جب لوگ ان سے پوچھتے کہ وہ کام کیوں نہیں کر رہیں تو انھیں ایسا لگتا ہی نہیں تھا کہ انھوں نے کوئی وقفہ لیا تھا۔ ’میں اپنے اُس فیز کو انجوائے کر رہی تھی۔۔۔ میں اپنے آپ کو تھوڑا وقت دینا چاٖہتی ہوں۔ میں نے بہت کم عمر میں کام کرنا شروع کیا اور ہر دن کام کیا۔ یاسر سے ملنے سے پہلے تک میں نے ہر اتوار کو بھی کام کیا۔ یہ میرا پہلا بچہ ہے، میں اس وقت کو یادگار بنانا چاہتی ہوں۔‘ ’میں نے عائزہ خان سے بہت سیکھا، جس طریقے سے انھوں نے واپس اداکاری میں قدم جمائے۔ ساتھ ہی اپنی فیملی اور اپنے آپ کو بھی ترجیح دی۔‘ اپنے مستقبل کے حوالے سے اقرا نے بتایا کہ وہ سکرین پر نظر آنا چاہتی ہیں لیکن ساتھ ہی اپنی فیملی کو بھی ترجیح دینا چاہتی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6prez01541o", "summary": "جب سے بگ باس سیزن 7 وجے ٹی وی پر شروع ہوا ہے، تب سے تنازعات اور تنقیدوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ بچوں کے لیے یہ شو دیکھنا خطرناک کیوں ہے؟", "title": "بگ باس سیزن 7 میں ’زہریلے مزاج کا فروغ‘: ’اگر بچے یہ شو دیکھیں گے تو اپنا بچپن کھو دیں گے‘", "firstPublished": "2023-11-11T13:10:18.399Z", "id": "c6prez01541o", "article": "جب سے بگ باس سیزن 7 وجے ٹی وی پر شروع ہوا ہے، تب سے تنازعات اور تنقید میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ کسی بھی دوسرے سیزن کے مقابلے میں بالغوں کا مواد، جنسی طعنے، ریپ کی شکایات اور بہت کچھ ہو رہا ہے۔ جو کسی اور سیزن میں نہیں ہوا وہ اس سیزن میں ہوا ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے وچترا کے اس بیان کی مذمت کی تھی کہ اگر وہ فوری طور پر ریپ کی اطلاع نہیں دیں گے تو چوٹ ٹھیک ہو جائے گی اور وہ ان کی شکایت قبول نہیں کریں گے۔ بہت سے لوگوں نے محسوس کیا کہ وچیترا ریپ کا نشانہ بننے والوں پر الزام لگا رہی ہیں اس کے علاوہ شو میں مردوں کا مذاق اڑانے والی مایا نے کہا ہے کہ شو کے تمام مرد اس سیزن میں ’فضول‘ ہیں۔ سیزن کے بالکل شروع میں، وچیترا کو شو مںی شریک اننیا کے ’ٹیٹو‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ’مورل پولیس‘ کی طرح کام کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ مقابلے سے نکالے گئے یوکیندرن نے اپنی اہلیہ ہیما مالنی کے ساتھ ایک ویڈیو ڈسکشن میں کہا کہ ’بگ باس‘ کا گھر ’زہریلا‘ ہو گیا ہے۔ اس طرح اس سیزن میں کئی تنازعات نے جنم لیا ہے۔ شو کی میزبانی کرنے والے اداکار کمل ہاسن نے کہا کہ 18 سال سے کم عمر کے بہت سے لوگ اس شو کو دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس میڈیا اسپیس میں سماجی ماحول ہے۔ بچے اس مرحلے پر ہوتے ہیں جہاں وہ نہیں جانتے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ اب بچے زیادہ تر میڈیا والوں کو اپنے رول ماڈل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ’بگ باس‘ شو میں کامیڈی کے نام پر دوسروں کی تضحیک اور تذلیل بڑھ رہی ہے۔ پدرشاہی سوچ کی باقیات بھی شو میں پھیلی ہوئی ہیں۔ جب بچے گھر میں یہ شو روزانہ دیکھتے ہیں تو ان کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔ اس سے بچوں میں تشدد کے بڑھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔‘ اس بارے میں بی بی سی تمل سے بات کرتے ہوئے دماغی صحت کی کنسلٹنٹ سوجاتا نے کہا، ’یہ ایسا ہے جیسے زہریلے ماحول کو عام ماحول میں بدل رہے ہیں۔ پروگرام بغیر سنسر کے نشر کیا جاتا ہے۔ بچے تب سے یہ شو دیکھ رہے ہیں۔ اس شو کا نوجوانوں پر بہت زیادہ اثر پڑے گا۔ ‘ سجاتا کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو لوگ عوام میں کسی کو برا بھلا کہتے ہیں ان کے لیے یہ رجحان بنتا جا رہا ہے ’یہاں ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ اپنے دل کی بات کہنا ایمانداری ہے۔ اس لیے نامناسب الفاظ استعمال کرنے والے ایسے بولتے ہیں جیسے باہر ان کا نام داغدار ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/clkp7mk9yvpo", "summary": "اداکارہ انوشے عباسی نے بتایا کہ اس ڈرامے میں فلمائے گئے سینز حقیقت سے اتنے قریب ہیں کہ لوگ اُن کو خود سے جوڑ سکتے ہیں ’شادیوں میں ایسا ہی ہوتا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ طلاق جیسی بڑی چیز لے آتے ہیں‘۔", "title": "ڈرامہ ’ایک سو ایک طلاقیں‘: ’میں نے پہلے ایسا کردار کبھی نہیں کیا جو مجھ سے ملتا ہو‘ انوشے عباسی", "firstPublished": "2023-11-08T06:02:33.782Z", "id": "clkp7mk9yvpo", "article": "اس ڈرامے میں اداکارہ انوشے عباسی نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ انوشے عباسی ایک ایسی بیوی کا کردار ادا کر رہی ہیں جس کو اپنے شوہر سے بہت سے مسائل ہیں اور وہ کافی کوشش کرنے کے باوجود روزمرہ کی لڑائیوں کو روک نہیں پا رہی ہوتی۔ انوشے نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کو ڈرامے کرنے میں اسی وجہ سے زیادہ مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ اُن کو کئی جگوں پر لگتا تھا کہ اگر ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو میاں بیوی مل کر بات کر کے حل کرنے کی کوشش کریں تو شادی بچائی جا سکتی ہے۔ اس ڈرامے میں پاکستانی معاشرے کے اُن پہلوں پر بھی نظر ڈالی گئی ہے جو طلاق کی وجوہات بنتی ہیں۔ جیسے کہ ساس کا بیٹے کے گھر میں دخل اندازی کرنا، لڑکی کا شوہر سے بات بات پر ناراض ہو جانا وغیرہ۔ انوشے نے بتایا کہ اس ڈرامے میں فلمائے گئے سین حقیقت سے اتنے قریب ہیں کہ لوگ اُن کو خود سے جوڑ سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ایسا ہی ہوتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ طلاق جیسی بڑی چیز لے آتے ہیں۔‘ انوشے عباسی نے کہا کہ ’عموماً وکیل سے اُس وقت بات کی جاتی ہے جب طلاق لینی ہو مگر اس ڈرامے میں بہت خوب صورت انداز میں ایک وکیل لوگوں کی شادیاں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘ انوشے عباسی آئے دن سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر اپنی تصویروں کی وجہ سے لوگوں کی توجہ حاصل کرتی رہتی ہیں، کئی بار تو اُن کو شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے مگر انوشے نے بتایا کہ وہ صرف اُن لوگوں کے کمنٹس پڑتی ہیں جنھوں نے اُن کے کام کو سراہا ہو کیونکہ اُن لوگوں کی وجہ سے اُن کو مزید اچھا کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ’ورکنگ وومن‘ ڈرامے کی خاص بات یہ ہے کہ اس ڈرامے کی مرکزی کاسٹ میں خواتین ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی ڈائریکٹر یاسرا رضوی اور رائٹر بی گل ہیں۔ اس ڈرامے میں ان تمام خواتین کے لیے ایک پیغام ہے جو کام کی جگہ پر مردانہ تسلط کے سامنے جھکنے سے انکار کرتی ہیں اور دقیانوسی تصورات کو توڑنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ایسے معاشرے کے لیے کوشش کر رہی ہیں جو عورت کی کامیابی اور منفرد ہونے کا جشن منائیں۔ انوشے نے بتایا کہ وہ مستقل میں بھی کامیڈی رولز کرنا چاہیں گی کیونکہ وہ خود کو ایک ورسٹائل ایکٹر کے طور پر دیکھتی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g3w5n5e3no", "summary": "مشہور پنجابی ریپر شبنیت سنگھ نے لندن میں ایک کنسرٹ کے دوران ان کی ہوڈی کو لے کر تنازع پیدا ہونے کے بعد لوگوں سے نفرت اور منفی باتیں پھیلانا بند کرنے کی اپیل کی ہے۔", "title": "شوبھنیت سنگھ: پنجابی ریپر کنسرٹ میں ’اندرا گاندھی کے قتل کے منظر والی‘ ہوڈی لہرانے پر تنقید کی زد میں", "firstPublished": "2023-11-02T14:32:51.142Z", "id": "c3g3w5n5e3no", "article": "انڈیا کے مشہور پنجابی ریپر شوبھنیت سنگھ نے لندن میں ایک کنسرٹ کے دوران ان کی ہوڈی کو لے کر تنازع پیدا ہونے کے بعد لوگوں سے نفرت اور منفی باتیں پھیلانا بند کرنے کی اپیل کی ہے۔ یہ تنازع انڈیا اور کینیڈا کے درمیان تعلقات خراب ہونے کے فوراً بعد سامنے آیا جب کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ ان کا ملک کینیڈا میں ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل میں انڈین حکومت کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی تحقیقات کر رہا ہے تاہم انڈیا نے اس الزام کی سختی سے تردید کی تھی۔ حالیہ تنازع لندن میں شوبھ کے ویک اینڈ کنسرٹ کے بعد شروع ہوا۔ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ فرش سے سیاہ ہوڈی اٹھا رہے ہیں اور اسے سامعین کے سامنے لہراتے ہیں۔ منگل کو ریپر نے انسٹاگرام سٹوری پر ایک بیان جاری کیا، جس میں انھوں نے کہا کہ ’لندن میں میرے پہلے شو میں سامعین نے مجھ پر بہت سارے کپڑے، زیورات اور فون پھینکے تھے۔ میں وہاں پرفارم کرنے کے لیے گیا تھا، یہ دیکھنے کے لیے نہیں کہ مجھ پر کیا پھینکا گیا اور اس پر کیا ہے۔‘ بالی وڈ ادا کارہ کنگنگا رناوت بھی شوبھنیت پر تنقید کرنے والوں میں شامل ہیں۔ انھوں نے ایکس پر لکھا ’ایک بوڑھی عورت کے بزدلانہ قتل کا جشن منا رہے ہیں جنھیں اس نے اپنا نجات دہندہ مقرر کیا تھا۔ جب آپ پر بھروسہ کیا جاتا ہے کہ آپ کی حفاظت کی جائے لیکن آپ اعتماد اور ایمان کا فائدہ اٹھائیں اور ان ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے ان لوگوں کو ہلاک کریں جن کا مقصد حفاظت کرنا تھا تو یہ بہادری نہیں بلکہ بزدلی کا شرمناک عمل ہے۔‘ شوبھ کا اصل نام شوبھنیت سنگھ ہے۔ اس کے والدین پیشے کے اعتبار سے استاد ہیں۔ شوبھ کے بڑے بھائی کو پنجابی سنیما کی دنیا میں ایک اداکار، اینکر اور گلوکار کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ ایک ذاتی یوٹیوب چینل پر شوبھ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کے بڑے بھائی نے کہا کہ شوبھ سدھو (موسے والا) کو سنتا رہا ہے، اس نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہو گا، ایک نئی نسل اور ایک نیا جذبہ ہے۔‘ شوبھ کا سفر ایک گانے سے شروع ہوا اور انھوں نے کئی گانوں کے ذریعے اپنی پہچان چھوڑی۔ پہلے گانے کی ریلیز کے تقریباً دو سال بعد 12 مئی 2023 کو شوبھ نے اپنی مکمل البم ’سٹیل رولنگ‘ کا اعلان کیا جو 19 مئی 2023 کو اپنے یوٹیوب پر ریلیز ہوا۔ اس البم میں چھ گانے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxw92r7xen4o", "summary": "یوں تو آج شاہ رخ کو کنگ آف رومانس کہا جاتا ہے لیکن شاہ رخ نے کامیابی کی پہلی سیڑھی رومانس کے ذریعے نہیں بلکہ اینٹی ہیرو بن کر چڑھی۔", "title": "شاہ رخ خان کا ’بازی گر‘ سے ’جوان‘ تک کا سفر: ایک اینٹی ہیرو جو پہلے ’کِنگ آف رومانس‘ اور پھر سُپرسٹار بنا", "firstPublished": "2023-11-02T07:21:30.201Z", "id": "cxw92r7xen4o", "article": "یوں تو آج شاہ رخ کو کنگ آف رومانس کہا جاتا ہے لیکن شاہ رخ نے کامیابی کی پہلی سیڑھی رومانس کے ذریعے نہیں بلکہ اینٹی ہیرو بن کر چڑھی۔ سینیئر فلمی صحافی نمرتا جوشی کا کہنا ہے کہ ’بازیگر‘ اور ’ڈر‘ میں شاہ رخ کے اینٹی ہیرو جذبات ایک لڑکی سے ان کی محبت کی وجہ سے تھے۔ لیکن بعد میں انھوں نے ولن کے کردار کو چھوڑ کر ایک کُول اور رومانوی ہیرو کی شناخت بنا لی۔ 'دل والے دلہنیا لے جائیں گے'، 'دل تو پاگل ہے'، 'کچھ کچھ ہوتا ہے'، یہ تمام فلمیں بعد میں آئیں اور شاہ رخ کو کنگ خان بنایا۔ لیکن کنگ خان بننے کے راستے میں شاہ رخ کے اینٹی ہیرو کے کرداروں نے شاہ رخ خان کے لیے کامیابی کی زمین تیار کر دی۔ اور لوگوں کو ایک ایسے اداکار سے بھی متعارف کرایا جو رسک لینے کی ہمت رکھتا تھا۔ چاہے وہ 'انجام' ہو، 'مایا میم صاب' یا 'اوہ ڈارلنگ یہ ہے انڈیا'۔ ’بازیگر‘ اور ’ڈر‘ کی طرح ’جوان‘ کے آزاد راٹھور بھی ایک طرح کے اینٹی ہیرو ہیں لیکن وہ 90 کی دہائی کے اینٹی ہیروز سے مختلف ہیں۔ آزاد راٹھور ایک چوکس گروہ کے ذریعے معاشرے میں پھیلی بدعنوانی کو چیلنج کرتے ہیں، وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں، حکمرانی کے قواعد و ضوابط سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن یہ اینٹی ہیرو 'بازیگر' کے وکی یا ڈر کے راہول جیسے لوگوں کو نہیں مارتا، بلکہ لوگوں کی جان بچاتا ہے۔ تاہم، نمرتا جوشی کو بھی اپنی شکایتیں ہیں۔ ’جوان کامیاب رہی ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ میرے لیے بطور فلم کام کرے گی۔ یہ مردوں کی بالادستی والی فلم ہے جہاں شاہ رخ یقینی طور پر اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ خواتین کو بھی جگہ ملے۔ اس کے بجائے، میں ’چک دے انڈیا‘ جیسی فلم میں شاہ رخ کو ترجیح دوں گی جہاں وہ خواتین کی ٹیم کو فتح کی طرف لے جاتا ہے۔ جوان میں صنفی مساوات کو ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ کارآمد تھا۔‘ شاہ رخ کی کامیابی ’بازیگر‘ اور ’ڈر‘ کے قاتل اور اینٹی ہیرو کرداروں کو کسی حد تک ہیومنائز کرنا تھا۔ اسی دوران شاہ رخ بھی راج بن کر آئے، ’سودیش‘ میں موہن بنے۔ ’پہلی‘ میں گاؤں کے کشن لال کے روپ میں نمودار ہوئے۔ ’یس باس‘ میں راہول کا کردار نبھایا جس کی چاند تارے توڑنے کی خواہش تھی۔ ’ہے رام‘ کے امجد علی خان اور زیرو کے بوا سنگھ جیسے کردار بھی ان کے حصے میں آئے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cje9e1l2rz8o", "summary": "حسن عسکری نے ایک ایسے وقت میں بابرہ شریف سے ایک مُنتقِم دوشیزہ کا کردار ادا کروایا جب فلم کی ہیروئین نزاکت اور حسن و جمال کا پیکر تصور کی جاتی تھیں اور یہی کردار فلم کی کامیابی کی وجہ بنا۔ اِسی طرح فلم ’میلہ‘ میں انجمن کا کردار بھی اس بات کی گواہی ہے کہ آغا جان نے انجمن سے ’میلہ‘ کا کردار کروا کے ان کے اندر روایتی ہیروئن کے تاثر کو توڑ دیا۔", "title": "آغا جان: لالی وڈ کے روایت شکن فلم ساز جنھوں نے سلطان راہی کے ہاتھ میں گنڈاسہ تھمایا ", "firstPublished": "2023-11-01T05:05:12.906Z", "id": "cje9e1l2rz8o", "article": "حسن عسکری نے ایک ایسے وقت میں بابرہ شریف سے ایک مُنتقِم دوشیزہ کا کردار ادا کروایا جب فلم کی ہیروئین نزاکت اور حسن و جمال کا پیکر تصور کی جاتی تھیں۔ لیکن فلم ’سلاخیں‘ میں بابرہ شریف کے انتقام لینے والی لڑکی کے کردار کو لوگوں نے سراہا اور یہی کردار فلم کی کامیابی کی وجہ بنا۔ اِسی طرح فلم ’میلہ‘ میں انجمن کا کردار بھی اس بات کی گواہی ہے کہ آغا جان نے انجمن سے ’میلہ‘ کا کردار کروا کے ان کے اندر روایتی ہیروئن کے تاثر کو توڑ دیا۔ حسن عسکری نے اِس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی کہ ’فلم کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔‘ آغا جان نے انجمن سے ’میلہ‘ کا کردار کروا کے ان کے اندر روایتی ہیروئن کے تاثر کو توڑ دیا انجمن کہتی ہیں کہ ’سلطان راہی مرحوم کی ہیروئن ہوتے ہوئے میرا روایتی امیج ایک ڈانسر ہیروئن کا بن گیا تھا لیکن حسن عسکری نے پنجابی فلم ’میلہ‘ سے اسے بدل دیا تھا۔‘ حسن عسکری نے ایسے وقت میں بابرہ شریف سے ایک مُنتقِم دوشیزہ کا کردار کروایا جب ہیروئین حسن و جمال کا پیکر تصور کی جاتی تھیں ’ان فلموں میں اگر صرف میرے کرداروں کی بات کی جائے تو سب کے شیڈ بھی مختلف تھے اور یہ سارا کریڈٹ آغا صاحب کا تھا۔ میں نے ہمیشہ اقرار کیا ہے کہ شباب کیرانوی کے بعد حسن عسکری نے میری صلاحیتیوں سے بہترین انداز میں کام لیا ہے۔‘ انڈیا میڈیا میں رپورٹ کیا گیا کہ برصغیر میں سب سے ممتاز تسلیم کئے گئے اداکار دلیپ کمار نے حسن عسکری کی فلم ’سلاخیں‘ میں بابرہ شریف کی پرفارمنس کا حوالہ دیتے ہوئے ہدایتکار سے کہا کہ ’اس اداکارہ کو میرے مقابل کردار میں کاسٹ کیا جائے۔‘ ’70 کی دہائی کا آغاز تھا اور میں نگارخانوں کے چکر کاٹ رہا تھا ، مجھے کوئی منھ نہیں لگاتا تھا ،اگر کوئی دفتر کے اندر بٹھاتا بھی تو چائے پانی آنے تک مجھے فارغ کردیتا۔ اس وقت میری کہانی صرف حسن عسکری نے سنی تھی۔‘ ناصر ادیب نے کہا کہ ’جٹ سیریز کی جتنی بھی فلمیں ہیں ان کا کریڈٹ حسن عسکری کے کرافٹ کو دیتا ہوں۔ وحشی جٹ اور مولاجٹ کی باکس آفس پر غیر معمولی کامیابی کے بعد بھیڑ چال میں سینکڑوں فلمیں لکھی گئیں جن کا مرکزی کردار جٹ تھا لیکن یہ تمام فلمیں ڈبوں میں بند ہوتی رہیں۔‘ ناصرادیب نے کہا کہ آغا جی کی بات مانتے ہوئے لڑکی کو سکرپٹ میں زندہ رکھا اور آغا حسن عسکری کا یہ فلمی معجزہ آج بھی سیلولائیڈ پر محفوظ ہے۔ آغا جان فلم سٹوڈیوز اور ان کی راہداریوں کو مزید ویران کر گئے ہیں۔ شاید کسی کے دل میں یہ احساس جاگ جائے کہ اظہارِ تخلیق کے ذرائع بند ہونے سے تخلیق کار دم توڑ دیتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd17vg7738no", "summary": "کافی ود کرن کا آٹھواں سیزن جمعرات کو دیپیکا پڈوکون اور رنویر سنگھ کی جوڑی کے ساتھ شروع ہوا جس میں دونوں اداکاروں نے اپنی 11 سالہ محبت اور شادی سے جڑی بہت سی ان سنی کہانیاں سنائیں۔", "title": "دیپیکا اور رنویر کی محبت کی کہانی: جب دیپیکا کی والدہ نے ناراض ہو کر پوچھا ’یہ شخص کون ہے؟‘", "firstPublished": "2023-10-29T13:55:23.274Z", "id": "cd17vg7738no", "article": "کافی ود کرن کا آٹھواں سیزن جمعرات کو دیپیکا پڈوکون اور رنویر سنگھ کی جوڑی کے ساتھ شروع ہوا جس میں دونوں اداکاروں نے اپنی 11 سالہ محبت اور شادی سے جڑی بہت سی ان سنی کہانیاں سنائیں۔ رنویر نے بتایا کہ اس کے بعد سب نے ایک ساتھ رات کا کھانا کھایا۔ رنویر نے دیپیکا کو ان کے دانتوں میں کوئی چیز پھنسے ہونے کا بتایا۔ ’وہ میرے پاس بیٹھی ہوئی تھی، میں نے ان کے دانت کی طرف اشارہ کیا اور انھیں بتایا تو انھوں نے کہا کہ آپ خود اسے ہٹا دیں۔ میں نے اسے اپنے ہاتھوں سے ہٹایا لیکن مجھے اس وقت جو بجلی کا جھٹکا لگا وہ ابھی تک موجود ہے۔‘ پھر رنویر نے بتایا کہ انھوں نے 2015 میں دیپیکا کو شادی کی پیشکش کی جس کے بعد دونوں نے خاموشی سے منگنی کر لی اور اسے تین سال تک سب سے چھپایا۔ ایک سندھی خاندان سے تعلق رکھنے والے رنویر سنگھ کو دیپیکا پڈوکون کے خاندان کے ساتھ جڑنے میں کچھ وقت لگا۔ آخر کار 14 نومبر 2018 کو دونوں نے شادی کر لی۔ رنویر کا خیال ہے کہ انھیں منگنی سے پہلے دیپیکا کے گھر والوں سے ملنا چاہیے تھا۔ شو میں اپنے رشتے کی تفصیلات بتانے کے بعد دیپیکا اور رنویر کی شادی کے کچھ سنہری لمحات ناظرین کے ساتھ شیئر کیے گئے۔ اس میں رنویر کے بارے میں پرکاش پڈوکون کی رائے، رنویر سنگھ کے والد کا تبصرہ، دیپیکا کی شادی پر رائے اور شادی کے خوبصورت لمحات کو دکھایا گیا۔ دیپیکا کے والد پرکاش پڈوکون نے کہا کہ ان کا خاندان بہت بورنگ ہے اور رنویر ان کی زندگی میں اچھی تبدیلیاں لائے ہیں۔ دیپیکا نے بتایا کہ ’میں تقریباً آٹھ سے نو ماہ سے ڈپریشن کے ساتھ تنہا جدوجہد کر رہی تھی۔ ایک بار رنویر کے ساتھ ناشتہ کرتے ہوئے میں اچانک رونے لگی۔‘ رنویر نے دیپیکا کی فیملی کو ممبئی بلایا۔ اس کے بعد وہ بالکل ٹھیک رہیں لیکن جیسے ہی گھر والے واپس جانے والے تھے، دیپیکا کے تاثرات بدلنے لگے جس پر ان کی والدہ سمجھ گئیں۔ دیپیکا نے بتایا کہ گذشتہ برسوں میں رنویر نے نفسیاتی مریضوں اور ان سے نمٹنے کے طریقے کو سمجھا ہے۔ دیپیکا نے رنویر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جیون ساتھی کے طور پر انھوں نے ایسا ماحول بنایا ہے جس میں وہ خود کو محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ رنویر سنگھ جلد فرحان اختر کی فلم ڈان تھری میں نظر آئیں گے اور وہ چاہتے ہیں کہ لوگ انھیں اس کردار میں قبول کریں۔ جب رنویر سے پوچھا گیا کہ وہ کس مرد اداکار کے ساتھ محبت کا کردار نبھا سکتے ہیں تو انھوں نے جواب میں رنبیر کپور کا نام لیا جو دیپیکا کے سابقہ بوائے فرینڈ ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cz48z7d17j7o", "summary": "سنہ 1766 کا ایک تھیٹر ٹوکن جو اس کے مالک کو لامحدود شوز تک رسائی دیتا ہے نیلام ہونے جا رہا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کے پاس بھی یہ ٹوکن جائے گا وہ شخص آج بھی اس تھیٹر میں جا کر مفت کے شوز دیکھ سکتا ہے۔\n", "title": "250 سال پرانا تھیٹر ٹوکن جسے آج بھی مفت شوز دیکھنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے", "firstPublished": "2023-10-29T08:14:21.859Z", "id": "cz48z7d17j7o", "article": "سنہ 1766 کا ایک تھیٹر ٹوکن جو اس کے مالک کو لامحدود شوز تک رسائی دیتا ہے نیلام ہونے جا رہا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کے پاس بھی یہ ٹوکن جائے گا وہ شخص آج بھی شاید اس تھیٹر میں جا کر مفت کے شوز دیکھ سکتا ہے۔ برطانیہ کے شہر برسٹل میں واقع برسٹل اولڈ وک کے تھیٹر کے پہلے شراکت داروں کے لیے 50 ٹوکن تیار کیے گئے جنھیں استعمال کرتے ہوئے وہ وہاں پر پیش کی جانے والی کسی بھی پرفارمنس کو دیکھنے کے مجاز تھے۔ برسٹل اولڈ وک نے اس ٹوکن کے اوپر اپنا موقف دیتے ہوئے کہا ’ہم اس اس بات کے لیے مشہور ہیں کہ ہم تصدیق کیے گئے تمام ٹوکنز کے لیے اپنی پالیسی پر برقرار رہتے ہیں۔‘ ولٹ شائر نیلام گھر یہ توقع کر رہا ہے کہ یہ ٹوکن جس کا نام ٹکٹ نمبر 35 ہے 1500 سے 2500 پاؤنڈ کے درمیان کی قیمت میں فروخت ہو گا۔ برسٹل اولڈ وک نے مزید کہا ’اگر یہ واقعی مستند ہے تو ہم اپنی پالسی پر عمل کرتے ہوئے (ٹوکن کے) مالک کو مفت کے ٹکٹس دیں گے۔‘ انھوں نے کہا ’بیچنے والوں کا تعلق برسٹل سے ہے اور انھوں نے ہمیشہ اس چیز کو مقامی تاریخ کے ایک اہم ٹکڑے کے طور پر قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔‘ اس تھیٹر کو تھیٹر رویل کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسے 1764 اور 1766 کے درمیان کنگ سٹریٹ پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کے 50 شراکت دار تھے جن میں سے ہر کسی نے نے تھیٹر کی تعمیر کے لیے 50 پاؤنڈ جمع کروائے تھے جو کہ 18ویں صدی میں ایک بڑی رقم تھی۔ ان افراد کو اس کے بدلے ایک چاندی کا ٹوکن دیا گیا تھا۔ ٹوکن پر لکھا ہے ’اس ٹکٹ کا مالک اس (تھیٹر) ہاؤس میں نمائش کی جانے والی ہر پرفارمنس کو دیکھنے کا حقدار ہے۔‘ اس کے بعد آنے والے سالوں میں یہ ٹکٹس تبدیل ہوئے، بیچے گئے، گم ہوئے واپس مل گئے حتیٰ کے ان کی جعل سازی بھی کی گئی لیکن یونیورسٹی آف برسٹل تھیٹر کلیکشن کے وسیع ریکارڈ کچھ سکوں کی اصلیت کا پتہ لگانے میں مدد کر سکتے ہیں۔ 1791 میں ایک ٹکٹ 30 پاؤنڈ میں پیش کیے جانے کا ریکارڈ موجود ہے مطلب یہ کہ ٹکٹ خود ایک قیمتی چیز تھی۔ دستاویز بتاتے ہیں کہ 1815 تک یہ سکہ برسٹل کے بلیو گلاس میکر جان وڈھم کے پاس چلا گیا تھا۔ وادھم خاندان کے پاس فرنچائے منور تھا جو اب ایک نرسنگ ہوم ہے۔ جان وادھم فرنچائے مینور کے مالک تھے، جو اب بھی موجود ہے اور سنہ 1820 میں برسٹل فلوٹنگ ہاربر کمپنی کے ڈائریکٹر بھی تھے۔ ٹکٹ نمبر 35 کو اس کے بعد جان وادھم کے بیٹے تھامس کے حوالے کر دیا گیا، جو 1843 میں برسٹل کے ہائی شیرف بنے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cpe8xqvqd8no", "summary": "امریکہ کی پوپ سنگر برٹنی سپیئرز سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ ’پہلے غربت، پھر شہرت، پھر اپنے ہی خاندان کے ہاتھوں‘ بُری طرح پھنس جانے والے شخص پر کیا گزرتی ہے۔ یہی سب کچھ شامل ہے برٹنی سپیئرز کی کتاب ’دی وویمن اِن می‘ میں جو منگل کے روز مارکیٹ میں آئی ہے۔", "title": "’ٹی وی میزبان میری چھاتی کی جانب جُھک کر بات کرتے تو میں شائستگی سے مسکراتی‘: برٹنی سپیئرز کی یادداشتیں", "firstPublished": "2023-10-28T08:14:48.918Z", "id": "cpe8xqvqd8no", "article": "امریکہ کی پوپ سنگر برٹنی سپیئرز سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ ’پہلے غربت، پھر شہرت، پھر اپنے ہی خاندان کے ہاتھوں‘ بُری طرح پھنس جانے والے شخص پر کیا گزرتی ہے۔ یہی سب کچھ شامل ہے برٹنی سپیئرز کی کتاب ’دی وویمن اِن می‘ میں جو منگل کے روز مارکیٹ میں آئی ہے۔ یہ سنہ 1998 کی بات ہے جب برٹنی پاپ چارٹ پر سر فہرست آ گئیں۔ وہ سب ان کے لیے بہت سنسنی خیز تھا تاہم پریس نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ ان کی کوئی ایجنسی تھی جس کے گانے ان کے لیے لکھے گئے تھے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ ان کا عوام میں یہ مکروہ تاثر عمر رسیدہ مردوں نے بنایا تھا۔ انھیں ایک پاکباز، خدا سے ڈرنے والی لڑکی کے طور پر پیش کیا گیا حالانکہ وہ خود لکھتی ہیں کہ 14 سال کی عمر سے وہ باقاعدہ سگریٹ نوشی کیا کرتی تھیں بلکہ جنسی تعلق میں بھی آ گئی تھیں۔ اپنی والدہ کے ساتھ سنہ 2000 میں لکھی گئی کتاب ’ہارٹ ٹو ہارٹ‘ میں وہ لکھتی ہیں۔ کتاب کے سب سے دہلانے والے اسباق میں سے ایک میں انھوں نے جسٹن ٹمبرلیک کے ساتھ اپنے تعلقات کے دوران اپنے ’ابارشن‘ یعنی اسقاط حمل سے متعلق بات کی ہے۔ اس علیحدگی کے بعد پریس میں ان کی تذلیل کی گئی۔ اس دوران ٹمبرلیک نے اس بات پر زور دیا کہ برٹنی نے ان کے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ برٹنی نے بتایا ہے کہ ان دنوں پیپل میگزین کے ایک فوٹوگرافر نے ان سے اپنا ہینڈ بیگ خالی کرنے کا مطالبہ کیا تھا، تاکہ وہ چیک کر سکیں کہ آیا اس میں منشیات یا سگریٹ موجود ہے۔ برٹنی پر بالآخر دباؤ بہت زیادہ بڑھ گیا۔ سنہ 2007 میں اپنی خالہ سینڈرا کی موت سے پریشان اور افسردہ برٹنی سپیئرز شدید ڈپریشن میں چلی گئیں۔ اسی دوران انھوں نے ہیئر سیلون کا رخ کیا اور قینچی اٹھا کر اپنے بال کاٹ دیے۔ وہ ہسپتال کے سٹریچر پر لٹائے جانے اور اپنی مرضی کے خلاف دوائی لینے پر مجبور ہونے کی بات کرتی ہیں۔ انھیں رازداری میں نہانے کی اجازت نہیں ملتی۔ بوائے فرینڈز کے ساتھ ڈیٹ پر جانے سے پہلے ان کی جانچ پرتال کی جاتی اور انھیں برٹنی کے ماضی کے جنسی تعلقات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ برٹنی سپیئرز کی تحریر میں اپنے والد کے بارے میں بات کرتے ہوئے خاص طور پر غصے کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس تحریر میں ان کے خاندان کی باتوں کے علاوہ کوئی حقیقی ولن یا سکینڈل سامنے نہیں آئے اور نہ ہی برٹنی سپیئرز کی موسیقی یا اندرونی زندگی کے بارے میں کوئی بڑا انکشاف ہوا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nly7pwre9o", "summary": "پاکستانی اداکار ثاقب سمیر نے بی بی سی اردو کےساتھ انٹرویو میں کہا کہ وہ کوئی بھی ڈرامہ سائن کرنے سے پہلے صرف دو چیزیں دیکھتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کردار انھوں نے پہلے نہ کیا ہو اور اُسے وہ خود انجوائے کریں گے کہ نہیں۔ ", "title": "ڈرامہ کابلی پلاؤ: غفار بٹ کا کردار ادا کرنے والے ثاقب سمیر جنھیں ’باربینہ کے علاوہ کچھ سمجھ نہیں آ رہی‘", "firstPublished": "2023-10-25T02:53:07.107Z", "id": "c4nly7pwre9o", "article": "بی بی سی اردو کے ساتھ انٹرویو میں ثاقب نے بتایا کہ گو کریئر کے آغاز میں انھیں فیملی کو بتاتے ہوئے مشکل ہوئی کہ وہ اداکار بننا چاہتے ہیں لیکن اُن کی فیملی کی طرف سے انھیں کافی سپورٹ ملی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ کوئی بھی ڈرامہ سائن کرنے سے پہلے صرف دو چیزیں دیکھتے ہیں یعنی کہ وہ کردار انھوں نے پہلے نہ کیا ہو اور اُسے وہ خود انجوائے کریں گے کہ نہیں۔ ثاقب سمیر نے اپنے کردار غفار بٹ کے بارے میں کہا کہ ’کافی وجوہات ہوتی ہیں کہ اتنا بڑا قدم اٹھایا جاتا ہے۔ پیچھے لالچ بھی ہے، منفی سوچ بھی ہے، بچہ نہ ہونا وہ بھی ہے، دوسری شادی اور باربینہ پسند آنا، وہ سب مل ملا کے ایسا لگ رہا ہے کہ اگر ایک بندہ ایسی صورتحال میں ہو گا تو وہ ایسا ہی ہو گا۔‘ ساتھ ہی انھوں نے ’کابلی پلاؤ‘ کی کہانی بنانے پر ڈرامہ نگار ظفر معراج کی تعریف کی اور کہا کہ ’یہی خوبصورتی ہوتی ہے ایک سکرپٹ کی کہ ہمارے ڈرامہ نگار ظفر معراج صاحب جنھوں نے حقیقت کی ایسی چیزیں ملائی ہیں کہ عجیب نہیں لگ رہا کہ نہیں ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ سکرپٹ ایسا لکھا ہوا ہے اُس پر کاشف نثار۔ میں کہتا ہوں وہ ڈائریکٹر نہیں ہیں وہ جادوگر ہیں۔‘ ثاقب سمیر ڈرامہ سیریل ’جیون نگر‘ میں بیک وقت دو کرداروں بِلا اور نیلو میں نظر آرہے ہیں جو ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں اور بلاشبہ یہ دونوں ہی کردار کافی چیلنجنگ ہیں۔ اس ڈرامے میں صرف ثاقب سمیر ہی نہیں بلکہ سینیئر اداکار سہیل احمد نے بھی دو کردار ببر شاہ اور لالی گرو نبھائے ہیں۔ انھوں نے جھجھکتے ہوئے بتایا کہ اُن کے دونوں کردار بلا اور نیلو آمنے سامنے آئیں گے اور بیک وقت یہ دو کردار کرنے میں اُنھیں اور پوری ٹیم کو ہی کافی مشکل ہوئی۔ اداکار ثاقب سمیر نے اس ڈرامہ میں خاور کا کردار کیا ہے۔ کہانی کا دفاع کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم بات کرتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں؟ تو ایسے لوگ واقعی ہیں۔ اتنے بڑے بڑے امیر لوگ ہیں۔اور پھر اگر اُن کی ایک ہی بیٹی ہو تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اُس کی کوئی خواہش پوری نہ کریں۔ ’اب میں سوچتا ہوں تو شروع سے مجھے نصیر الدین شاہ، طلعت حُسین، راحت کاظمی اور ضیا محی الدین صاحب پسند تھے، مجھے اوم پوری اور عرفان خان پسند تھے یا نواز الدین پسند ہیں۔ انھی کی ایکٹنگ دیکھتا تھا، انھی کو آئیڈل بناتا تھا۔ یہ ساری چیزیں ہم نے بنا دی ہیں کہ یہ مثبت کردار ہے، یہ منفی کردار ہے، اداکار ہے تو وہ کسی میں منفی کردار کر رہا ہے، کسی میں مثبت۔ تبھی تومزہ آتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2e880m1j1no", "summary": "پرہجوم گلیوں کے درمیان سائیکل پر سوار کوئی آدمی اگر گزر رہا ہو تو اس میں کوئی جائے حیرت نہیں۔ لیکن اگر وہی شخص آنکھوں پر اس طرح پٹی باندھ کر گزرے کہ سانس لینے کے لیے اس کے صرف نتھنے کھلے ہوں تو لوگ حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔ اور پٹی بھی کچھ اس طرح کہ پہلے آنکھوں پر آٹے کے پیڑے ہوں، پھر اس پر روئی رکھی گئی ہو اور پھر اس پر کئی تہہ کی پٹی اس طرح بندھی ہو کہ بندے کو کچھ نہ سجھائی دے۔", "title": "آنکھوں پر پٹی باندھ کر کتابیں پڑھنے والے انڈین جوگی خدا بخش جنھیں ’صدی کا عجوبہ‘ قرار دیا گیا", "firstPublished": "2023-10-24T07:15:16.484Z", "id": "c2e880m1j1no", "article": "پرہجوم گلیوں کے بیچ سائیکل پر سوار کوئی آدمی اگر گزر رہا ہو تو اس میں کوئی جائے حیرت نہیں۔ لیکن اگر وہی شخص آنکھوں پر اس طرح پٹی باندھ کر گزرے کہ سانس لینے کے لیے اس کے صرف نتھنے کھلے ہوں تو لوگ حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔ اور پٹی بھی کچھ اس طرح کہ پہلے آنکھوں پر آٹے کے پیڑے ہوں، پھر اس پر روئی رکھی گئی ہو اور پھر اس پر کئی تہہ کی پٹی اس طرح بندھی ہو کہ بندے کو کچھ نہ سجھائی دے۔ وہ اپنے اس جادوئی کارنامے یا کرتب کی ’ایکس رے کی آنکھوں والا آدمی‘ کی سرخی سے تشہیر کرتے تھے۔ وہ اپنے منفرد اور مخصوص انداز میں اس طرح کے کئی کارنامے انجام دیتے۔ جیسے کہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر کسی کتاب سے اقتباس پڑھتے اور سوئی میں دھاگہ ڈال کر لوگوں کو حیران کر دیتے۔ امتحان لینے والوں نے کدا بخش کی ہر پہلو سے جانچ کی اور آگ پر چلنے سے قبل اور اس کے بعد بھی انھوں نے ان کے پیروں اور تلوں کی جانچ کی تاکہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ کہیں کدا بخش نے کوئی دھوکہ دینے والی چیز تو نہیں پہن رکھی ہے۔ ذہن کو ہمہ تن متوجہ کرنے میں موم بتی کے شعلے کے سیاہ دھبے کو اس وقت تک گھورنا شامل تھا جب تک کہ ’اس کے آس پاس کی ہر چیز غائب نہ ہو جائے‘ اور وہ اس شخص کے چہرے کو پوری طرح سے دیکھ سکتا تھا جسے وہ سب سے زیادہ پیار کرتا تھا، یعنی اپنے بھائی کے چہرے کو۔ کئی سالوں تک ہر رات موم بتی کی مشق کرنے کے بعد کدا بخش کو 24 سال کی عمر میں احساس ہوا کہ اگر وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور کسی چیز پر شدت کے ساتھ توجہ مرکوز کرتے ہیں تو 'میں جس چیز کو دیکھ رہا ہوں اس کا خاکہ مبہم، مدھم انداز میں دیکھ سکتا ہوں۔' ایسا نہیں کہ مسٹر بخش کے دعووں کو چیلنج نہیں کیا گیا۔ کچھ لوگ جنھوں نے ان کے نام نہاد ایکس رے کھیل کا مطالعہ کیا وہ یہ نتیجہ اخذ کر رہے تھے کہ وہ اپنی ناک کے اطراف میں جھانک رہا تھا۔ کدا بخش پر مضمون لکھنے والے کیٹلن رینی ملر کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود ان کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ بخش سنہ1981 میں کیلیفورنیا کے لاس اینجلس میں فوت ہو گئے۔ انھوں نے اپنے آخری ایام میجک کیسل میں جادوگروں کے ساتھ تاش کھیلتے ہوئے گزارے۔ بوتھ لکھتے ہیں کہ انھیں اسی صورت میں شکست دی جا سکتی تھی جب انھوں نے اپنی آنکھوں پر پٹی نہ باندھ رکھی ہو۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cnk31vyd3y5o", "summary": "ڈرامہ سیریل ’جندو‘ کی فلمنگ صحرا میں کی گئی ہے جبکہ اس میں اداکار رانگھری زبان میں بات کرتے ہیں۔ اپنی زندگی کا حوالہ دیتے ہوئے اداکارہ حمائمہ ملک نے کہا کہ شاید یہ کردار اُن سے بہتر ’کوئی نہ کر پاتا۔‘", "title": "جندو: ’کندھے پر اصل انسان کو اٹھایا، اپینڈکس آپریشن کے فوراً بعد ریت پر بھاگی‘، حمائمہ ملک", "firstPublished": "2023-10-16T06:04:39.143Z", "id": "cnk31vyd3y5o", "article": "پاکستانی اداکارہ حمائمہ ملک ایک انتہائی جاندار پراجیکٹ ’جندو‘ کے ساتھ 12 سال بعد ٹی وی سکرین پر واپس نظر آ رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ کہانی اُن کی اپنی زندگی سے بہت ملتی جلتی ہے۔ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے حمائمہ ملک نے بتایا کہ انھوں نے جندو کا کردار صرف اس لیے کیا کیونکہ اس پراجیکٹ کو انجم شہزاد ڈائریکٹ کر رہے تھے، گو انھیں اس کردار کے لیے آخری منٹ پر اپروچ کیا گیا تھا۔ اپنی زندگی کا حوالہ دیتے ہوئے حمائمہ نے کہا کہ شاید یہ کردار اُن سے بہتر ’کوئی نہ کر پاتا۔‘ ڈرامہ سیریل ’جندو‘ کی فلمنگ صحرا میں کی گئی ہے جبکہ اس میں اداکار رانگھری زبان میں بات کرتے ہیں۔ ڈرامے کی ابتدائی چند اقساط میں بعض شائقین کو زبان سمجھنے میں مشکل پیش آئی لیکن ان کی آسانی کے لیے سکرین پہ اردو میں ڈائیلاگ چلائے جانے لگے۔ انھوں نے بتایا کہ آغاز میں وہ رانگھری زبان سیکھنے اور ’جندو‘ کی شوٹ کے لیے بہت پُرجوش تھیں لیکن ریگستان میں مسلسل رہنے کی وجہ سے دس دن بعد وہ سارا جوش ختم ہوگیا۔ سردیوں میں شروع ہونے والا شوٹ گرمیوں میں ختم ہوا۔ اس دوران اُن کے والد کو فالج کا اٹیک ہوا اور اُنھیں دو روز بعد اطلاع ملی۔ ڈرامہ سیریل ’جندو‘ کا ایک انتہائی جذباتی سین جندو کا اپنے شوہر بخشو کی پیڑ سے لٹکتی لاش کو اپنے کندھے پر لاد کر گھر لانے کا تھا۔ اسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے حمائمہ نے خود جذباتی ہوگئیں اور کہنے لگیں کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ سین میں نے ہی کیا ہے لیکن جب میں نے سکرین پہ دیکھا تو بہت روئی۔ فیمنزم کے بارے میں اپنی تشریح دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’فیمنسٹ کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ میں روٹی نہیں بناؤں گی، میں کھانا نہیں بناؤں گی، میں یہ کر دوں گی، میں وہ کر دوں گی، نہیں۔ یہ سب تو ایک عورت کی خوبصورتی ہے۔ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی آپ بہت کچھ اور بھی کرسکتے ہیں۔‘ داد سائیں کا کردار کرنے والے اداکار نذر الحسن کے بارے میں حمائمہ نے کہا کہ ’میں اُن کے بارے میں کیا کہوں وہ تو ایک سکول ہیں پورا۔ وہ بہت ہی شاندار ہیں اور مجھے اُن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ وہ سرپرائزز سے بھر پور ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ہاجرہ یامین ان کی پسندیدہ اداکارہ ہیں جو وقت کی بے حد پابند بھی ہیں۔ انھوں نے نعیمہ بٹ اور فقیرے کا کردار کرنے والے اداکار فراز اور ماریہ کے کام کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کے علاوہ سب تھیٹر کے آرٹسٹ تھے۔ حمائمہ نے اپنے انڈین فینز سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب ہمسایہ ملک سے اتنا پیار ملتا ہے تو آپ کو اور زیادہ فخر محسوس ہوتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c9wl7ljkd4yo", "summary": "اپنے تین دہائیوں سے زائد کے کریئر میں بالی وڈ کے سپرسٹار شاہ رخ خان کی لڑکپن والی مستیاں، چمکتی دمکتی آنکھیں اور گالوں پر پڑتے ڈمپل والی دلکش مسکراہٹ انھیں دلفریب رومانوی ہیرو بناتی ہے، جس کے لیے وہ جانے جاتے ہیں۔ تاہم رواں برس وہ سکرین پر ایک نئے ہی سٹار کے روپ میں نمودار ہوئے ہیں۔ ان کا یہ جنم ان کے پہلے کرداروں سے یکساں مختلف ہے۔ ", "title": "شاہ رخ خان: بالی وڈ کے ’رومانس کنگ‘ ایکشن سٹار کیسے بنے", "firstPublished": "2023-10-15T07:55:24.300Z", "id": "c9wl7ljkd4yo", "article": "اپنے تین دہائیوں سے زائد کے کریئر میں بالی وڈ کے سپرسٹار شاہ رخ خان کی لڑکپن والی مستیاں، چمکتی دمکتی آنکھیں اور گالوں پر پڑتے ڈمپل والی دلکش مسکراہٹ انھیں دلفریب رومانوی ہیرو بناتی ہے، جس کے لیے وہ جانے جاتے ہیں۔ تاہم رواں برس وہ سکرین پر ایک نئے ہی سٹار کے روپ میں نمودار ہوئے ہیں۔ ان کا یہ جنم ان کے پہلے کرداروں سے یکساں مختلف ہے۔ ایک وقفے کے بعد ان کی فلموں میں واپسی بالی وڈ کی اس برس کی بڑی کامیابی ہے۔ اس فلم کی ناقد انوپم چوپڑا کے مطابق ایک دلکش رومانوی ہیرو کے برعکس اب وہ اس سکرین پر ’ایک لڑاکا مشین‘ کے روپ میں نمودار ہوئے ہیں۔ شاہ رخ خان کو ابتدائی کامیابی ہیرو مخالف کرداروں سے ملی ہے۔ سنہ 1993 کی فلم ڈر میں وہ ایک ولن کے روپ میں نظر آئے۔ اسی برس بازی گر میں وہ ایک جنونی عاشق کے روپ میں نمودار ہوئے۔ سنہ 1994 میں فلم انجام میں وہ ایک انتقام کی آگ میں جلنے والے کے روپ میں نظر آئے۔ ان کا بازو پھیلا کر محبت کا اظہار ان کے بہت سے کرداروں کی عکاسی کرتا ہے۔ شاہ رخ کے ’ہنر‘ کی پہلی جھلک جو شاہ رخ کے نام ہے، دیوانہ میں بھی دیکھنے کو ملی، دونوں بازو پھیلا کر دنیا بھر میں پیار کرنے والے۔ ’ایسی دیوانگی دیکھی نہیں کبھی‘ گانا یاد رکھیں جس میں شاہ رخ ایکروبیٹک پرفارمنس دیتے ہوئے آتے ہیں اور بازو پھیلائے ہوئے اپنے دل کی بات کرتے ہیں۔ انوپم چوپڑا کا کہنا ہے کہ ان فلموں میں ایک بہت مشکل توازن برقرار رکھا گیا ہے اور یہ وہ مشکل ہوتی ہے جس کا ان کے ساتھ کام کرنے والے ہر ہدایت کار کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس فلم میں مداحوں کے لیے تفریح کا سامان، ناظرین کو کچھ نئی پیشکش کرتے ہوئے ایک سٹار کی افسانوی سٹار کی حیثیت کو بھی برقرار رکھنے جیسا توازن رکھا گیا ہے۔ جوان میں شاہ رخ خان ایک فوجی کے بیٹے کا کردار ادا کرتے ہیں جو اپنے باپ پرعائد کیے گئے الزامات کو دور کرنے کے لیے لڑ رہا ہے۔ وہ ایک ایسے بدعنوان سیاسی نظام پر ضرب کاری کے لیے مختلف روپ اختیار کرتے ہیں جہاں عام آدمی کو انصاف تک رسائی حاصل نہیں ہو پاتی۔ انوپم چوپڑا کے مطابق سوا دیس جیسی فلم جس میں وہ ناسا کے انجنیئر کا کردار ادا کرتے ہیں جو رہائش کے لیے انڈیا آ جاتے ہیں، اور اس میں وہ ایک خاص قسم کی محب وطنی پر بات کرتے ہیں۔ مگر جو کچھ گذشتہ چند عرصے میں انڈیا میں ہوا تو اس چیز نے ان کی زندگی میں اب سیاسی رنگ زیادہ شامل کر دیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gxz79kzwvo", "summary": "اسرائیل اور فلسطینی جنگجو گروپ حماس کے درمیان جاری جنگ میں ہلاکتیں 1100 سے تجاوز کر چکی ہیں اور مرنے والوں میں بچوں کی تعداد خاصی ہے۔ ", "title": "فلسطین، اسرائیل تنازع پر معروف شوبز شخصیات کے بیانات: کسی کو کاروباری نقصان ہوا تو کوئی ٹرول ہوا", "firstPublished": "2023-10-11T07:41:22.401Z", "id": "c3gxz79kzwvo", "article": "عسکریت پسند گروپ ’حماس‘ کی جانب سے ’طوفان الاقصیٰ آپریشن‘ کے آغاز کے بعد سے اب تک اسرائیل اور فلسطین میں عورتوں اور بچوں سمیت ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2150 ہو چکی ہے۔ اگرچہ اس جاری کشیدگی نے فلسطین کے مسئلے کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے لیکن دنیا اس معاملے پر پہلے کی ہی طرح منقسم نظر آتی ہے۔ جہاں امریکہ، انڈیا اور یورپی ممالک نے اسرائیل کی واضح انداز میں حمایت کی ہے وہیں ایران اور شام جیسے مسلم ممالک نے فلسطین کی تحسین کی ہے۔ دوسری جانب معروف میگزین ’پلے بوائے‘ نے اعلان کیا ہے کہ وہ حماس کے اسرائیل پر حملے کی سپورٹ کرنے کے باعث میا خلیفہ سے کاروباری روابط اور معاہدے ختم کر رہے ہیں۔ ’دی ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق سوارا بھاسکر نے انسٹاگرام پر لکھا: ’اگر آپ نے فلسطینیوں پر اسرائیل کے ناختم ہونے والے مظالم، فلسطینیوں کے گھروں پر جبری قبضے، جبری بے دخلی، آبادکار اسرائیلیوں کے تعصب اور تشدد، فلسطینی بچوں اور نوعمروں کے قتل، غزہ کی دہائیوں طویل ناکہ بندی اور بمباری، غزہ میں عام شہریوں، بشمول سکولوں اور ہسپتالوں پر بمباری پر آپ نے صدمہ اور وحشت محسوس نہیں کیا ہے تو پھر مجھے افسوس ہے کہ اسرائیل پر حماس کے حملوں پر آپ کے صدمے اور خوف کا اظہار منافقت ہے۔‘ اس کے علاوہ وہ ایسے پوسٹ بھی شیئر کر رہی ہیں جن میں انسانی ہمدردی کا اظہار کیا گیا ہے۔ انھوں نے ماہر معاشیات یانس واروفاکس کے ٹویٹ کو بھی شیئر کیا ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ 'دس لاکھ بچوں کے لیے نہ کوئی بجلی ہے، نہ کھانا ہے، نہ ایندھن ہے۔ یہ کسی مہذب دنیا کا جواب نہیں ہو سکتا چاہے کیسے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں کہ کس نے کیا کیا اور کس نے پہلے کیا اور کس نے بعد میں۔‘ ڈینس بل نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’کائلی جینر، ایشلی ٹسڈیل، صوفیا ریچی اور نینا ڈوبریو یہ سب اسرائیل کی حمایت میں سامنے آئی ہیں، جو ملک معصوم فلسطینی شہریوں اور بچوں کا قتل کر رہا ہے اور ان کی زمین چرا رہا ہے۔ یہ سب کو پتا ہونا چاہیے کہ یہ لوگ حقیقتا فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت کر رہے ہیں۔‘ پاکستانی نژاد نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے مزید لکھا: ’جنگ بچوں کو بھی نہیں بخشتی، یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی نہیں جو اسرائیل سے اغوا کیے گئے تھے اور ان لوگوں کو بھی نہیں جو غزہ میں بغیر کچھ کھائے پیے فضائی حملوں کے دوران چھپے ہوئے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgl0r1d2vvjo", "summary": "انڈین فلم اداکار شاہ رخ خان کو موت کی دھمکی ملنے کے بعد ممبئی میں ان کی رہائش گاہ اور ان کی ذاتی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یہ دھمکی انھیں حالیہ دنوں میں فون کالز کے ذریعے مل رہی تھی۔ نئے سیکورٹی انتطام کے تحت چھ مسلح کمانڈو ان کی حفاضت پر چوبیس گھنٹے مامور رہیں گے۔\n", "title": "موت کی دھمکی کے بعد شاہ رخ خان کی سکیورٹی مزید سخت، ’منت‘ کے گرد بھی پولیس کے پہرے", "firstPublished": "2023-10-10T15:44:02.786Z", "id": "cgl0r1d2vvjo", "article": "انڈین فلم اداکار شاہ رخ خان کو موت کی دھمکی ملنے کے بعد ممبئی میں ان کی رہائش گاہ اور ان کی ذاتی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یہ دھمکی انھیں حالیہ دنوں میں فون کالز کے ذریعے مل رہی تھیں۔ نئے سکیورٹی انتطام کے تحت چھ مسلح کمانڈو ان کی حفاظت پر 24 گھنٹے مامور رہیں گے۔ خبر رساں ایجنسی اے این آئی نے ممبئی پولیس کے حوالے سے خبر دی ہے کہ شاہ رخ خان نے چند دنوں پہلے مہاراشٹر حکومت سے تحریری شکایت درج کروائی تھی کہ ان کی دو حالیہ کامیاب فلموں ’پٹھان‘ اور ’جوان‘ کی ریلیز کے بعد انھیں مبینہ طور پر جان سے مارنے کی دھمکیوں کی کالز آ رہی ہیں۔ ان کی شکایت کے بعد حکومت نے ان کی سکیورٹی میں فوری طور پر اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھیں پہلے بھی سکیورٹی ملی ہوئی تھی اور دو مسلح کمانڈو ان کی حفاظت پر تعینات تھے۔ اب شار رخ کو ’وائی‘ زمرے کی سخت سکیورٹی فراہم کی گئی ہے جس کے تحت چھ مسلح کمانڈو اور پانچ دیگر پولیس اہلکار ان کی حفاظت کررہے ہیں۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شاہ رخ خان کی سکیورٹی میں اضافہ کرنے کا فیصلہ ’شاہ رخ خان کو فوری اور ممکنہ خطرے‘ کے سبب کیا گیا ہے۔ شاہ رخ کے خلاف مظاہرے کے بعد ممبئی کے ان کے بنگلے کے اطراف حفاظتی انتظامات سخت کر دیے گئے تھے۔ اس سال مارچ میں دو افراد ان کے گھر کی دیوار پر کود کر اندر داخل ہو گئے تھے۔ انھیں سکیورٹی گارڈز نے پکڑ لیا تھا۔ احتجاجیوں کا کہنا تھا کہ اس گانے میں زعفرانی رنگ کی اہانت کی گئی ہے۔ زعفرانی رنگ کو ہندو مذہب سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ایودھیا کے ایک سادھو نے مبینہ طور پر شاہ رخ خان کو جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب شاہ رخ کو موت کی دھمکی دی گئی ہو۔ حال میں فلمساز سنجے گپتا نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں لکھا تھا کہ ممبئی میں 90 کے عشرے میں جب انڈرورلڈ کے گینگسٹر فلم اداکاروں پر وصولی اور کسی خاص فلم ساز کے لیے کام کرنے کے لیے دباؤ ڈالا کرتے تھے اس وقت شاہ رخ واحد اداکار تھے جو ان کے سامنے نہیں جھکے تھے۔ وائی زمرے کی سخت سکیورٹی بالی وڈ کے ایک دوسرے اداکار سلمان خان کو بھی فراہم کی گئی ہے۔ انھیں گینگسٹر لارنس بشنوئی نے جان سے مارنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ یہ گینگسٹران دنوں جیل میں ہے۔ ان دونوں کے علاوہ امیتابھ بچن، اکشے کمار، عامر خان، انوپم کھیر اور ہیروئن کنگنا رانوت کو ’ ایکس‘ زمرے کی سکیورٹی ملی ہوئی ہے جس کے تحت تین مسلح محافظ 24 گھنٹے ان کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1wy3q0014no", "summary": "گذشتہ ہفتے عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے بھی کورونا وائرس کی نئی قسم JN-1 کے پھیلاؤ کے حوالے سے وارننگ جاری کی گئی تھی۔ پاکستان میں تاحال اس حوالے سے ٹیسٹنگ کی سہولت تو میسر نہیں ہے لیکن ڈاکٹروں کو خدشہ ہے کہ موسمِ سرما کورونا کی علامات والے اکثر مریضوں کو کورونا کی نئی قسم نے متاثر کیا ہے۔", "title": "کورونا وائرس کی JN-1 قسم کیا ہے جس کا ممکنہ پھیلاؤ پاکستان میں لوگوں کو شدید بیمار کر رہا ہے؟", "firstPublished": "2024-01-02T07:18:00.995Z", "id": "c1wy3q0014no", "article": "آمنہ خان جیسی ملی جلی علامات لیے درجنوں مریض علاج کی غرض سے مختلف ہسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں تاہم ابھی تک مکمل طور پر یہ واضح نہیں کہ یہ کورونا وائرس ہے یا پھر کوئی دوسرا وائرس جو زیادہ تر لوگوں کو متاثر کر رہا۔ گذشتہ ہفتے عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے بھی کورونا وائرس کی نئی قسم JN-1 کے پھیلاؤ کے حوالے سے وارننگ جاری کی گئی تھی۔ کورونا وائرس کے اومیکرون کی ایک ذیلی قسم کو عالمی ادارۂ صحت نے اس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کی وجہ سے اس کی درجہ بندی ایک پراسرار قسم کے طور پر کی ہے۔ گذشتہ ہفتے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک سرکاری مراسلے میں سکریٹری برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ پنجاب نے صوبے میں کورونا وائرس کی نئی قسم کے پھیلاؤ کے بارے میں جاننے کے لیے اس بات پر زور دیا کہ ’ہمھیں کورونا کی ٹیسٹنگ ایک بار پھر تیزی سے کرنا ہو گی تاکہ اس وائرس کی نئی قسم کی شدت کا اندازہ لگانے اور اس کی منتقلی کو روکنے میں مدد مل سکے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس اس وقت جو مریض آ رہے ہیں وہ کورونا کی تمام علامات کے ساتھ آ رہے ہیں جبکہ پاکستان کے پاس اس وقت کورونا کے نئے وائرس JN-1 کو ٹیسٹ کرنے والے کٹس موجود نہیں۔ ’ہم زیادہ تر مریضوں کی علامات کو دیکھتے ہیں تو ٹیسٹ، ایکسرے یا سکین کرواتے ہیں جس سے کسی حد تک یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ مریض کورونا وائرس کا شکار ہے یا نہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’زیادہ تر مریضوں کو چیک کرنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ کورونا کی یہ نئی قسم میوٹیٹ ہو کر یہاں پھیل رہی ہے کیونکہ ہمارے ہاں سموگ اور فضا میں اتنے زہریلے کیمیکل پائے جاتے ہیں کہ لوگ وائرس سے متاثر بھی زیادہ دیر کے لیے ہو رہے ہیں۔‘ انھوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ابھی تک ہمارے پاس نہ تو ایسی کٹس موجود ہیں جو کورونا کی نئی قسم کی موجودگی کا پتا لگا سکیں اور نہ ہی ویکسین موجود ہیں، جس بڑی تعداد سے لوگ متاثر ہو کر آ رہے ہیں حکومت کو چاہیے کہ سنجیدگی سے اس مسئلے کو دیکھے۔‘ اس سوال کے جواب میں نگران صوبائی وزیر برائے صحت ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ ’ابھی تک کوئی ایک کیس بھی پاکستان میں JN-1 وائرس کا رپوٹ نہیں ہوا۔ البتہ دنیا میں یہ تیزی سے پھیل رہا ہے اس لیے ہم نے بروقت اقدام اٹھاتے ہوئے ٹیسٹنگ کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں تاکہ معلوم کر سکیں کہ اس کا پھیلاؤ کتنا ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’ہاں یہ بات درست ہے پاکستان میں پہلے بھی کورونا کے کیسز کی تعداد اصل تعداد سے کم رپورٹ ہوتی رہی ہے لیکن یہ صرف یہاں ہی نہیں ہوا بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسا ہی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c983dqyew94o", "summary": "چار سال قبل چین سے شروع ہونے والے کورونا وبا کے کیسز آہستہ آہستہ پوری دنیا میں پھیل گئے اور لاکھوں لوگ اس مہلک بیماری کا شکار ہو گئے تھے۔ اب چین کے شمالی علاقے میں بچوں میں نمونیا کی خبریں تشویش کا باعث بن گئی ہیں۔", "title": "چینی بچوں میں کون سی بیماری پھیل رہی ہے اور کیا اس کا کورونا سے کوئی تعلق ہے؟", "firstPublished": "2023-12-01T12:02:41.226Z", "id": "c983dqyew94o", "article": "چار سال قبل چین سے شروع ہونے والے کورونا وبا کے کیسز آہستہ آہستہ پوری دنیا میں پھیل گئے اور لاکھوں لوگ اس مہلک بیماری کا شکار ہو گئے تھے۔ اب چین کے شمالی علاقے میں بچوں میں نمونیا کی خبریں تشویش کا باعث بن گئی ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے ایک اہلکار نے کہا ہے کہ چین میں سانس کی بیماری کے جو کیسز سامنے آرہے ہیں ان کی تعداد کورونا کی طرح زیادہ نہیں ہے اور ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ کسی نئے یا غیر معمولی پیتھوجین کی شناخت نہیں ہوئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ماریا وین نے کہا ہے کہ چین میں بچوں میں ان کیسز میں اضافے کی وجہ کورونا کی وجہ سے لگائی جانے والی پابندیاں لگتی ہیں جن کی وجہ سے بچے اس پیتھوجن سے دور رہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم نے وبا سے پہلے کے حالات کا موازنہ کرنے کو کہا ہے اور اس وقت جو لہر دیکھی جا رہی ہے وہ اس سطح کی نہیں ہے جس سطح کی کورونا کی لہر 2018-19 میں تھی۔‘ پریس انفارمیشن بیورو کی طرف سے دی گئی معلومات کے مطابق ہیلتھ سیکریٹری نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو خط لکھا ہے اور صحت عامہ کے مراکز اور ہسپتالوں کو اس بیماری کے پیش نظر تیار رہنے اور اس کا جائزہ لینے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین میں کورونا کے دوران لگائی گئی پابندیوں کے خاتمے کے بعد یہ پہلا موسم سرما ہے اور اس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کی قوتِ مدافعت کم ہوگی۔ اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ چین میں کوئی نیا وائرس یا پیتھوجین نہیں پایا گیا ہے۔ ڈاکٹر وید پرکاش بتاتے ہیں کہ مائکوپلازما ایک جراثیم ہے اور یہ زیادہ تر بچوں پر حملہ کرتا ہے۔ یہ گلے اور سانس کے نظام کو متاثر کرتا ہے، جو نمونیا کا باعث بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر اننت موہن کا کہنا ہے کہ کورونا کو چین میں پھیلنے والے فلو سے جوڑنا مشکل ہے۔ ان کے مطابق ’یہ ممکن ہے کہ جن لوگوں کو کورونا نہیں ہوا، ان کے جسم میں اینٹی باڈیز نہ ہوں۔ اس کے ساتھ حاملہ خواتین اور ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس وغیرہ جیسی بیماریوں سے متاثرہ افراد اس قسم کے انفیکشن کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ جب تک جسم موسم کی تبدیلی کے لیے تیار ہوتا ہے، جیسا کہ سردیوں کا موسم، قوت مدافعت کم ہونے کی وجہ سے وائرس یا فلو کا حملہ ہوتا ہے۔ اس لیے الرجی اور نمونیا بھی ہوتا ہے۔ کورونا کے دوران ایک مہم شروع کی گئی تھی ’ماسک کا دو گز کا فاصلہ ضروری ہے‘۔ اب بھی ڈاکٹر اسی طرح اس سے بچنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn49rdm3rg2o", "summary": "مشہور کاسمیٹک برانڈ لااو'ریئل کی وارث فرانکواز بیٹنکورٹ میئرز دنیا بھر میں 100 ارب ڈالر کی مالک بننے والی پہلی خاتون بن گئی ہیں۔", "title": "لوریئل کی وارث فرانکواز بیٹنکورٹ میئرز 100 ارب ڈالر کی مالکن بننے والی دنیا کی پہلی خاتون", "firstPublished": "2023-12-30T04:43:03.871Z", "id": "cn49rdm3rg2o", "article": "لوریئل کی وارث فرانکواز بیٹنکورٹ میئرز 100 ارب ڈالر کی مالک بننے والی پہلی خاتون مشہور کاسمیٹک برانڈ لوریئل کی وارث فرانکواز بیٹنکورٹ میئرز دنیا بھر میں 100 ارب ڈالر کی مالک بننے والی پہلی خاتون بن گئی ہیں۔ یہ بات دنیا بھر کے امیر لوگوں کی درجہ بندی کرنے والے ادارے بلومبرگ بلینیئرز انڈیکس نے کہی ہے۔ اس فرانسیسی کاسمیٹکس کمپنی کی بنیاد مز میئرز کے دادا نے رکھی تھی۔ حالیہ دنوں میں کمپنی کے حصص کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ درجہ بندی میں اوپر آئی ہیں۔ دنیا کے امیر ترین افراد کی درجہ بندی کے مطابق 70 سالہ مز بیٹنکورٹ میئرز دنیا کی 12ویں امیر ترین شخصیت بن گئی ہیں۔ گذشتہ جمعرات کو لااوریئل کے حصص پیرس میں ریکارڈ بلندی پر پہنچ گئے اور ان کی دولت 100 ارب کے پار چلی گئی۔ کووڈ وبا کے بعد کمپنی کی فروخت میں بھی سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ تاہم وہ اب بھی فرانسیسی تاجر برنارڈ آرنولٹ کی 179 بلین ڈالر کی مجموعی مالیت سے بہت پیچھے ہیں۔ آرنولٹ دنیا کے سب سے بڑے لگژری گروپ ایل وی ایم ایچ کے بانی ہیں۔ اور ان کی کمپنی کے پورٹ فولیو میں فنڈی اور لوئی وتّیوں جیسے مشہور برانڈز شامل ہیں۔ فرانکواز بیٹنکورٹ میئرز کمپنی کے بورڈ کی وائس چیئرپرسن ہیں۔ وہ اور ان کے خاندان والے لوریئل میں سب سے زیادہ 35 فیصد حصص کے مالک ہیں۔ لیلیئن بیٹنکورٹ اپنی بیٹی فرانکواز بیٹنکورٹ میئرزکے ساتھ اپنی والدہ لیلیئن بیٹنکورٹ کی سنہ 2017 میں موت کے بعد وہ اس کمپنی کی جانشین سے سربراہ بن گئیں۔ لیلیئن کو فرانس کی امیر ترین شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا اور فرانسیسی رہنماؤں کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات کے بارے میں باتیں ہوا کرتی تھیں اور وہ شہ سرخیوں میں رہا کرتی تھیں۔ تاہم، بعد کے سالوں میں ان کی اپنی اکلوتی بیٹی بیٹنکورٹ میئرز کے ساتھ عوامی تنازعات سامنے آئے تھے جب فرانکواز میئرز نے ایک فوٹوگرافر اور سوشلائٹ پر اپنی والدہ کی ذہنی حالت کا فائدہ اٹھانے کا الزام لگایا تھا۔ سنہ 2011 میں ایک فرانسیسی عدالت نے یہ فیصلہ سنایا تھا کہ لیلیئن ڈیمنشیا یعنی نسیان کی بیماری کی ایک قسم کی زد میں ہیں اور انھوں نے مز میئرز کو ان کی دولت اور آمدنی پر اختیار دیا تھا۔ فرانکواز بیٹنکورٹ میئرز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کے بہت سے امیروں کی سماجی تقریبات میں شرکت کرنے کے بجائے خلوت کو ترجیح دیتی ہیں۔ وہ دن میں کئی گھنٹے پیانو بجاتی ہیں اور انھوں نے دو کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں سے ایک بائبل یعنی انجیل کا مطالعہ ہے اور دوسری کتاب یونانی دیوتاؤں کا شجرہ ہے۔ ’دی بیٹنکورٹ افیئر‘ نامی کتاب کے مصنف ٹام سینکٹن نے بتایا کہ وہ اپنے ہی بنے ہوئے پیپے میں رہتی ہیں اور وہ بنیادی طور پر اپنے خاندان والوں میں ہی محدود رہتی ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c972ljg7612o", "summary": "سحرش رضا نے اپنی کمپنی پر ہونے والی تنقید کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ ’مجھے بہت باتیں سننے کو ملیں کہ تم لنڈا بیچ رہی ہو اور زیادہ تر خواتین یہ کہتی تھیں کہ میں تو کبھی کسی کی اترن نہیں پہنوں گی۔‘", "title": "پاکستانی خواتین اور استعمال شدہ کپڑوں کی خرید و فروخت: ’ان کپڑوں کی تصاویر سوشل میڈیا سے ہٹا دیں، کسی کو پتا نہ چلے‘", "firstPublished": "2023-12-17T03:19:02.183Z", "id": "c972ljg7612o", "article": "بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میں یہ کام پچھلے پانچ سال سے کر رہی ہوں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں یہ بات یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ خواتین کی بڑی تعداد اب پری لووڈ کپڑوں کی خریداری کرتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جیسا کہ برانڈڈ کپڑوں کا بہت زیادہ مہنگا ہونا۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’بے شک یہ رجحان بڑھ رہا ہے لیکن میں آپ کو یہ بتا سکتی ہوں کہ ابھی بھی بہت سے خواتین اور مرد پری لوّڈ کپڑے خریدتے تو ہیں لیکن خریدنے کے بعد ان کا اکثر یہ مطالبہ ہوتا کہ آپ ان کپڑوں کی تصاویر سوشل میڈیا سے ہٹا دیں تاکہ کسی کو پتا نہ چلے۔ ایسی ہی ملتی جلتی وجوہات بیان کرتے ہوئے ایسی ہی ایک کمپنی چلانے والی سحرش رضا نے بتایا کہ یہ کام شروع کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ ’میرے ارد گرد بہت سی ایسی خواتین تھیں، جو اپنی الماری کھولتی تھیں اور ان کے کپڑے الماری سے باہر گر رہے ہوتے تھے لیکن ان کا بس یہی ایک ڈائیلاگ سننے کو ملتا تھا کہ میرے پاس تو کچھ پہننے کو نہیں ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’اس جملے کی مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ اتنے کپڑے ہونے کے باوجود خواتین کہتی ہیں کہ کچھ پہننے کو نہیں لیکن جب میں نے اپنی تحقیق کی تو پھر یہ سمجھ آیا کہ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ خواتین کے پاس کپڑے نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بار بار وہی کپڑے نہیں پہننا چاہتیں۔‘ سحرش رضا نے اپنی کمپنی پر ہونے والی تنقید کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ ’مجھے بہت باتیں سننے کو ملیں کہ تم لنڈا بیچ رہی ہو اور زیادہ تر خواتین یہ کہتی تھیں کہ میں تو کبھی کسی کی اترن نہیں پہنوں گی۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’اب جب اتنے پیسوں میں بھی میرا کام نہیں ہو رہا تو میں نے اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر فیس بک پر مختلف گروپس میں اپنی صورت حال بتاتے ہوئے لکھا کہ مجھے اس طرح کا لہنگا اتنے پیسوں میں چاہیے تو کئی خواتین نے مجھے مثبت جواب دیے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ میں استعمال شدہ کپڑوں اور جوتوں کا استعمال گذشتہ ڈھائی برسوں سے کر رہی ہوں۔ جب میں نے سوشل میڈیا اور مختلف کمپنیوں سے استعمال شدہ کپڑے خریدنے شروع کیے تو سب سے پہلے میرے گھر والوں اور دیگر بہنوں کو اعتراض ہوا کہ تم کیوں کسی کے پہنے ہوئے کپڑے خرید رہی ہو۔ انھوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں میں اب کافی شعور آ گیا ہے اور اب وہ پیسوں اور کپڑوں کا ضیاع کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہی نہیں وہ لوگ جو پہلے یہ کہتے تھے کہ ہم تو لنڈے کا مال کبھی نہیں پہنتے وہ بھی اب استعمال شدہ چیزوں کو خریدتے ہوئے بدلی ہوئی سوچ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c162yw1kl6jo", "summary": "کوفیہ کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ یقینا یہ ایک سادہ رومال سے بڑھ کر ہے۔ بہت سے فلسطینیوں کے لیے یہ مزاحمت اور جدوجہد کی علامت اور ایک ایسا سیاسی اور ثقافتی آلہ ہے جس کی اہمیت میں 100 سال کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ ", "title": "کوفیہ: فلسطینی مزاحمت کی شناخت بننے والا رومال کیا ہے اور یہ اتنا مشہور کیسے ہوا؟", "firstPublished": "2023-12-04T02:48:16.504Z", "id": "c162yw1kl6jo", "article": "کوفیہ کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ یقینا یہ ایک سادہ رومال سے بڑھ کر ہے۔ بہت سے فلسطینیوں کے لیے یہ مزاحمت اور جدوجہد کی علامت اور ایک ایسا سیاسی اور ثقافتی آلہ ہے جس کی اہمیت میں 100 سال کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ جین ٹائنین نیدرلینڈ کی ایمسٹرڈیم یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ایک مورخ ہیں جنھوں نے کوفیہ پر تحقیق کر رکھی ہے۔ انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’فلسطینی برطانیہ سے مایوس ہو چکے تھے اور مزاحمت کر رہے تھے۔ اس دوران یہ ضروری تھا کہ مزاحمت کرنے والوں کی شناخت ممکن نہ ہو اور یوں کوفیہ برطانوی حکام کو کنفیوز کرنے کی حکمت عملی کا اہم جزو بن گیا۔‘ اینو لنگالا نے کوفیہ کی معاشرتی اور سیاسی تاریخ پر کتاب لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کوفیہ ایک موثر عسکری حکمت عملی کا حصہ تھا لیکن یہ ایک متحدہ مزاحمتی تحریک کی علامت بھی بن گیا۔‘ جین کا کہنا ہے کہ اس وقت سے ہی کوفیہ فلسطینی حق خود ارادیت، معاشرتی انصاف اور اتحاد کی علامت بنا۔ ’یہ باغیوں کے لیے ایک پیغام تھا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔‘ کوفیہ کی مختلف اقسام ہیں اور سب کے رنگ بھی مختلف ہیں۔ تاہم فلسطینیوں میں سب سے زیادہ رواج سیاہ اور سفید کوفیہ کا ہے۔ کوفیہ میں تین نمایاں چیزیں ہیں؛ زیتون کے پتے اس علاقے میں زیتون کے درختوں کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ زمین سے تعلق کی علامت بھی ہیں۔ لال رنگ فلسطینی مچھیروں کی نمائندگی کرتا ہے اور ان کا بحیرہ روم سے تعلق بھی ثابت کرتا ہے جبکہ کالا رنگ فلسطین کے ہمسائیوں کے ساتھ روایتی تجارتی راستوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ 1930 کی بغاوت کے بعد کوفیہ فلسطینی شناخت کا لازم و ملزوم حصہ بن گیا۔ مورخین کا اتفاق ہے کہ نبکہ کے باعث، جب اسرائیل کے قیام کے بعد لاکھوں فلسطینیوں کو جبری طور پر بے دخل کر دیا گیا، اس علامت کی شدت میں اضافہ ہوا۔ یاسر عرفات کی کوئی تصویر ایسی نہیں جس میں ان کو کوفیہ کے بغیر دیکھا جا سکے۔ شام، اردن اور لبنان میں انھوں نے یہی رومال پہنے لڑائی لڑی جبکہ 1974 میں اقوام متحدہ میں فلسطینی حق خود ارادیت پر تقریر کرتے وقت بھی انھوں نے کوفیہ پہن رکھا تھا۔ 20 سال بعد جب ان کو امن کا نوبل انعام دیا گیا تب بھی وہ کوفیہ اوڑھے نظر آئے۔ اپنی تحقیق میں انھوں نے بتایا ہے کہ 1970 میں مغرب میں بہت سے نوجوانوں نے کوفیہ کو اپنایا جس سے وہ نوآبادیاتی نظام اور سرمایہ کاری نظام کیخلاف مزاحمت کی حمایت دکھانا چاہتے تھے۔ یہ کپڑا اتنا مشہور ہوا کہ چین تک میں اس کی تیاری شروع ہو گئی۔ اب فلسطین میں کوفیہ بنانے والی صرف ایک ہی فیکٹری باقی ہے۔ غرب اردن کے شہر ہیبرون میں 1961 میں اس فیکٹری کو یاسر ہرباوی نے قائم کیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cj7p2xpzv5po", "summary": "رخشندہ خٹک نے پاکستان میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی ماڈل کے طور پر شوبز میں شہرت حاصل کی۔ پاکستانی صحافی رولنڈ بورجیس کا کہنا ہے کہ جب وہ کہیں داخل ہوتیں تو مرد کَن اَنکھیوں سے انھیں دیکھتے اور خواتین ان کے لباس اور انداز کا جائزہ لے رہی ہوتیں۔ وہ ساڑھی باندھتیں تو خواتین میں ویسا ہی ٹرینڈ چل پڑتا۔", "title": "پاکستان کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی ماڈل جن کے کھانوں کی ترکیبیں کینیڈا کے ریستورانوں میں استعمال ہوتی ہیں", "firstPublished": "2023-11-20T04:18:41.573Z", "id": "cj7p2xpzv5po", "article": "خٹک والد اور برمی والدہ سے ملی خوبصورت اور بلند قامت لیے رخشندہ نے جب کام شروع کیا تب پاکستان میں ایک ’ٹاپ ماڈل‘ کے ایک شوٹ کا معاوضہ تقریباً 1000 روپے تھا (اس وقت اسے کافی زیادہ سمجھا جاتا تھا) جب کہ انھیں صرف 300 روپے ملتے۔ (تب ایک امریکی ڈالرپونے پانچ روپے کا تھا) وہ تب تک اشتہاروں کی ضرورت بن چکی تھیں، سو ایسا ہی ہوا۔ رخشندہ خٹک نے پاکستان میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی ماڈل کے طور پر شوبز میں شہرت حاصل کی۔ پاکستانی صحافی رولنڈ بورجیس کا کہنا ہے کہ جب وہ کہیں داخل ہوتیں تو مرد کَن اَنکھیوں سے انھیں دیکھتے اور خواتین ان کے لباس اور انداز کا جائزہ لے رہی ہوتیں۔ وہ ساڑھی باندھتیں تو خواتین میں ویسا ہی ٹرینڈ چل پڑتا۔ رخشندہ خٹک نے پاکستان میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی ماڈل کے طور پر شہرت حاصل کی بورجیس نے سنہ 1969 میں رخشندہ کے ایک انٹرویو میں لکھا کہ ’اگرچہ رخشی (جیسا کہ انھیں ان کے کچھ دوست جانتے ہیں) نے ڈیزائننگ یا گھریلو سجاوٹ کی کوئی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن وہ اپنے کپڑے خود ڈیزائن کرتی ہیں اور کچھ کی خود سلائی کرتی ہیں۔ گھر کو پیشہ ورانہ طور سے سجایا ہے۔ اور چاہے برمی ہو یا پاکستانی بہت ہی لذیذ پکوان بناتی ہیں۔‘ کراچی میں پیدا ہونے والے چنگیز نے مجھے بتایا کہ ’والد میری والدہ کے لیے انتہائی عمدہ زیورات بناتے تھے۔پاکستان میں وہ ہمیشہ یا تو پارٹیوں کے مہمان ہوتے یا میزبان۔ اکثر مہمان معززین کی بیویاں اس زیور پر تبصرہ کرتیں جو ماں نے پہن رکھا ہوتا تو والد اسے وہیں انھیں بیچ دیتے۔ ماں کو یہ اچھا نہ لگتا مگر والد کہتے کہ فکر نہ کرو، میں تمھیں اس سے بھی اچھا بنا دوں گا اور ایسا ہی ہوتا۔‘ سنہ 2012 سے لاس اینجلس اور کینیڈا میں پیشہ ور اداکار کے طور پر کام کرتے چنگیز کا کہنا تھا کہ ’جین بانڈ فلم کے وقت ماں کی عمر بہت کم تھی۔اور شاید انھوں نے اسے اسی طرح لیا جیسے ایک ماڈل لیتی کہ آپ کو اس بات کا بہت خیال ہو کہ آپ کیسی نظر آتی ہیں۔‘ کینیڈا منتقلی کے وقت رخشندہ خٹک کل وقتی ماڈلنگ سے کنارہ کش ہو گئی تھیں لیکن اکثر شاید 30 برسوں میں 20 بار، جب وہ پاکستان جاتیں تو کوئی نہ کوئی کام ان کا منتظر ہوتا۔ وہ جب بھی جاتیں تو لامحالہ اخبارات میں ان پر مضمون چھپتے۔ بورجیس نے لکھا کہ ’ان کے اس دنیا سے جانے پر مجھ جیسے پرستار اس میراث کا جشن مناتے ہیں جو انھوں نے چھوڑی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رخشندہ خٹک پاکستان کی پہلی سپر ماڈل تھیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ce9pjr9r121o", "summary": "علینہ ایک پلس سائز ماڈل ہیں جن کو ٹک ٹاک پر ویڈیوز بنانے کا بہت شوق تھا۔ اسی وجہ سے اُنھوں نے اپنی متعدد ویڈیوز ٹک ٹاک پر پوسٹ کیں، جس کے بعد اُن کو معاشرے کے تلخ رویے کا سامنا کرنا پڑا۔", "title": "پاکستان کی پلس سائز انفلوئنسرز: ’شوہر دبلے پتلے دیکھ کر لوگوں نے پاکیزہ رشتے کو ماں بیٹے کا رشتہ بنا دیا‘", "firstPublished": "2023-11-12T03:13:39.166Z", "id": "ce9pjr9r121o", "article": "آج سے تین سال قبل سوشل میڈیا انفلوئنسر اور ماڈل علینہ فاطمہ کی ایک ویڈیو ٹک ٹاک پر وائرل ہوئی اور اس کے بعد سے اُن کی زندگی مکمل طور پر بدل گئی۔ علینہ ایک پلس سائز ماڈل ہیں جن کو ٹک ٹاک پر ویڈیوز بنانے کا بہت شوق تھا۔ اسی وجہ سے اُنھوں نے اپنی متعدد ویڈیوز ٹک ٹاک پر پوسٹ کیں، جس کے بعد اُن کو تلخ رویوں کا سامنا کرنا پڑا اور انھیں مختلف القابات دیے گئے۔ لیکن علینہ نے اُن جملوں کو اپنی طاقت بنایا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں آج جو کچھ بھی ہوں لوگوں کی اُن باتوں کی وجہ سے ہوں جو مجھے سنائی گئیں، میں نے لوگوں کی سوچ کو اپنے شوق کے آگے نہیں آنے دیا اور اپنا کام جاری رکھا۔‘ علینہ نے بی بی سی کو تین سال پہلے بھی انٹرویو دیا تھا جب اُن کی یہ ویڈیو وائرل ہوئی تھی، مگر آج وہ بتاتی ہیں کہ اُنھوں نے اپنے جسم کو تسلیم کر لیا ہے۔ ’میں نے خود کو اسی حال میں قبول کیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے بھی مجھے اسی حال میں قبول کر لیا ہے۔‘ علینہ کا شکوہ ہے کہ اُنھیں بھی عام لڑکیوں کی طرح ماڈلنگ کرنا، ٹک ٹاک ویڈیوز بنانا اور ایسی بہت سی دیگر چیزیں کرنے کا شوق ہے۔ ’مگر لوگ سمجھتے ہیں یہ سب پلس سائز لڑکی کے بس کی بات نہیں۔‘ ’تم تو اتنی موٹی ہو تم سے کون شادی کرئے گا؟‘ یہ الفاظ علینہ نے بھی اپنی زندگی میں بہت سن رکھے ہیں کہ جس کی وجہ سے وہ کہیں نہ کہیں یہ ضروری سوچتی تھیں کہ ’کیا واقعی مجھ سے کوئی شادی کرے گا۔‘ اس دوران علینہ سے کئی لوگ متاثر ہوئے جن میں ان کے شوہر فیدہ حسین بھی شامل ہیں۔ فیدہ سے علینہ نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا اور اُن سے شادی کی۔ مگر سوشل میڈیا پر شادی کی تصویریں ڈالتے ہی علینہ کو ایک بار پھر ایسی باتیں سننے کو ملی جس کی اُن کو اُمید نہیں تھی۔ ایسی ہی ایک پلس سائز انفلوئنسر شیلہ زید ہیں جو اپنی پوسٹس اور مواد کے ذریعے ناصرف خواتین میں خود اعتمادی پیدا کر رہی ہیں بلکہ نئے فیشن کے حساب سے پلس سائز خواتین کو نئے نئے گر بھی سکھا رہی ہیں۔ اسی کا جواب دیتے ہوئے شیلہ نے کہا کہ ’ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ وزن کے حساب کے ساتھ کپڑوں کو منسوب کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پلس سائز لڑکیاں کچھ گنے چنے کپڑے ہی پہنتی ہیں۔‘ علینہ اور شیلہ کا ماننا ہے کہ اگر اُن کی طرح پلس سائز خواتین ’جیسی ہیں ویسے تسلیم کر لیں‘ تو وہ زندگی کی مشکلات اور لوگوں کے رویوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتی ہوں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cljx58ng2dno", "summary": "عمران خان سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کو قطعی ترجیح نہیں دیتے تاہم دوسری طرف وہ چند سیٹیں رکھنے والی جماعت ق لیگ کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ بھی دے چکے ہیں۔ تو اگر تحریکِ انصاف بلے کے نشان سے محروم ہی رہی تو کیا وہ کسی دوسری پارٹی کے ساتھ الحاق کر سکتی ہے؟\n", "title": "تحریکِ انصاف بلے کے نشان سے محروم ہی رہی تو کیا وہ کسی دوسری پارٹی کے ساتھ الحاق کر سکتی ہے؟", "firstPublished": "2024-01-04T04:55:55.488Z", "id": "cljx58ng2dno", "article": "جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دے کر بلے کا انتخابی نشان واپس لیا تھا تو پی ٹی آئی کا موقف یہ تھا کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو بطور ایک سیاسی جماعت کے انتخابی عمل سے باہر کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اب پشاورہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد کئی نئے سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کو ڈویژن بینچ یا سپریم کورٹ سے کوئی ریلیف نہیں ملتا اور بَلے کے نشان سے محروم ہی رہتی ہے تواس کی حکمت عملی کیا ہو گی اور اس کے پاس دیگر آپشن کیا ہیں؟ کیا پی ٹی آئی کسی دوسری جماعت کے ساتھ الحاق کر سکتی ہے؟ علاوہ ازیں مختلف انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن جیتنے والے پی ٹی آئی کے اُمیدوار اگر اپنی جماعت کی حکومت بنتا نہیں دیکھتے تو کیا پارٹی کے ساتھ اپنی وفاداری رکھ سکیں گے؟ اگر پی ٹی آئی بَلے کے نشان سے محروم رہتی ہے اور دوسرے انتخابی نشان کا حصول بھی کسی وجہ سے ممکن العمل نہیں ہو پاتا تو کیا کسی دوسری جماعت کے ساتھ الحاق کی طرف جا سکتی ہے؟ یہ سوال بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا جواب پی ٹی آئی کی ساخت طرزِ سیاست اور پی ٹی آئی رہنما عمران خان کے سیاسی اسلوب سے بہت حد تک مل جاتا ہے۔ عمران خان کا اندازِ سیاست غماز ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کو قطعی ترجیح نہیں دیتے تاہم دوسری طرف وہ چند سیٹیں رکھنے والی جماعت ق لیگ کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ بھی دے چکے ہیں۔ اسی طرح 2018 کے الیکشن میں ق لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کر چکے ہیں اور الیکشن کے بعد چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر مخلوط حکومت بھی بنا چکے ہیں مگر اس سب کے باوجود موجودہ حالات میں شاید وہ ایسا نہ کر سکیں۔ جبکہ عامر ہاشم خاکوانی کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کے پاس یہ آپشن ہے کہ اس کے اُمیدوار شیخ رشید کی عوامی لیگ اور وحدت المسلمین کے پلیٹ فارم پر الیکشن لڑ سکتے ہیں لیکن اگر پی ٹی آئی ایسا کرتی ہے تو اس کی اپنی شناخت متاثر ہو گی کہ مذکورہ بالا پارٹیاں، چھوٹی سطح کی ہیں اور عمران خان کو اپنی پارٹی کے حوالے سے احساسِ تفاخر بھی ہے، یوں یہ گنجائش نہیں کہ وہ کسی پارٹی کے ساتھ الحاق کر سکیں۔ اب یہاں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اگر پی ٹی آئی کسی جماعت سے الحاق نہیں کرتی اور بَلے کے نشان سے بھی محروم رہتی ہے تو کس نوعیت کے سیاسی نقصان سے دوچار ہو سکتی ہے؟ ’کسی بھی سیاسی جماعت کو اُس کے بنیادی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ پانچ سال بعد ووٹرز ووٹ ڈالنے جائیں تو سامنے انتخابی نشان ہی نہ ہو تو اس سے مسائل تو پیدا ہوں گے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cj5ge1q40pro", "summary": "پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے بعد یہ بحث اب بھی جاری ہے کہ کیا وہ آٹھ فروری کو الیکشن لڑ سکیں گے یا نہیں؟ آخر عمران خان کے کاغذات نامزدگی مسترد کیوں ہوئے اور الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے بعد امیدواروں کے لیے کیا راستے موجود ہیں۔ ", "title": "کیا عمران خان آٹھ فروری کے انتخابات میں حصہ لے سکیں گے؟", "firstPublished": "2024-01-02T04:31:16.555Z", "id": "cj5ge1q40pro", "article": "پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے بعد یہ بحث اب بھی جاری ہے کہ کیا وہ آٹھ فروری کو الیکشن لڑ سکیں گے یا نہیں؟ لاہور سے مسترد کیے گئے امیدواروں کی فہرست جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ عمران خان کے کاغذات نامزدگی اس لیے مسترد کیے گئے کیونکہ وہ حلقے کے رجسٹرڈ ووٹر نہیں اور عدالت کی طرف سے سزا یافتہ ہیں اسی لیے انھیں نااہل قرار دیا گیا۔ ان تمام پیچیدگیوں کے درمیان یہ سوال اب بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کیا عمران خان آٹھ فروری کو انتخابات لڑنے کے اہل ہوں گے یا نہیں؟ ہم نے قانونی ماہرین سے اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کی مگر اس سے پہلے سمجھ لیں کہ آخر عمران خان کے کاغذات نامزدگی مسترد کیوں ہوئے اور الیکشن کمیشن کا طریقہ کار کیا ہے اور یہ بھی الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے بعد امیدواروں کے لیے کیا راستے موجود ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جو آج کل پاکستان کی سیاست میں دلچسپی رکھنے والا ہر شخص ہی پوچھ رہا ہے۔ موجودہ صورتحال اور عمران خان کی توشہ خانہ مقدمے میں سزا سے قانونی طور پر یہی رائے پائی جاتی ہے کہ وہ آٹھ فروری کو الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ اگر سپریم کورٹ ان کی سزا ختم کر دے، تب بھی قانونی ماہرین کے مطابق کئی سقم موجود ہیں۔ خیال رہے کہ انتخابی نشان الاٹ ہونے کے بعد ہر حلقے کے لیے بیلٹ پیپرز چھپنے کا کام شروع ہوتا ہے۔ ان بیلٹ پیپرز پر الیکشن لڑنے والے امیدواروں (سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار) کے انتخابی نشان پر مہر ثبت کی جاتی ہے۔ تو اگر عمران خان کی آٹھ فروری سے پہلے سزا ختم ہو جائے اور انھیں بے قصور قرار دے دیا جائے تو ان کے کاغذات نامزدگی تسلیم سمجھے جائیں گے اور وہ اس دن الیکشن لڑ سکیں گے؟ اس سوال کا جواب بھی بظاہر نہیں ہے تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلے پر بھی منحصر ہے۔ شاہ خاور اپنی دلیل پر قائم ہیں کہ چاہے سپریم کورٹ انھیں یکم فروری کو ہی باعزت بری کر دے ’تب بھی عمران خان یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے دسمبر میں جمع ہونے والے کاغذات نامزدگی کی بنیاد پر وہ یہ الیکشن لڑیں گے۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ عمران خان آٹھ فروری کے انتخابات کی ٹرین اب مِس کر چکے ہیں‘ لیکن اس میں کوئی ابہام نہیں کہ عمران خان سزا کے خاتمے کی صورت میں ضمنی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/clw89zgwvpdo", "summary": "خدشات میں اُلجھے یہ سوالات عام ذہنوں میں ہیں یا نہیں مگر فیصلہ سازوں کے ذہن میں ضرور گونج رہے ہیں۔ اب اُنھیں کون بتائے کہ اختیار اور اقتدار کی غلام گردشوں میں پلنے والے سنگین خطرات کو جس مخصوص عینک سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اُس کا نمبر بدل چکا ہے۔", "title": "اگر مگر میں اُلجھا پاکستان: عاصمہ شیرازی کا کالم", "firstPublished": "2024-01-02T02:35:31.181Z", "id": "clw89zgwvpdo", "article": "دہائیوں سے نازک دور سے گُزرنے والی مملکت پر اب جب اصل نازک وقت پڑا ہے تو کوئی سمجھنے کو تیار نہیں۔ گردش ایام بدل گئی، ہندسے بدل گئے، تاریخ بدل گئی مگر حالات نہیں بدلے۔ دعا ہے کہ نیا سال اچھا ہو مگر بُرا ہو اس ’مگر‘ کا جو اُمید اور خدشے کے درمیان آ کھڑا ہوا ہے۔ وطن عزیز اگر مگر میں گھِر چکا ہے، سوالات خدشات کا روپ دھارے سامنے آ کھڑے ہیں۔ اس برس معیشت کا کیا حال ہو گا؟ معاشی حالات یہی رہے تو کیا ہوگا؟غربت بڑھ رہی ہے جبکہ بڑھتا افراط زر انسانوں کو سستا کر رہا ہے۔ خدشات میں اُلجھے یہ سوالات عام ذہنوں میں ہیں یا نہیں مگر فیصلہ سازوں کے ذہن میں ضرور گونج رہے ہیں۔ اب اُنھیں کون بتائے کہ اختیار اور اقتدار کی غلام گردشوں میں پلنے والے سنگین خطرات کو جس مخصوص عینک سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اُس کا نمبر بدل چکا ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہائبرڈ رجیم کے سیاسی کردار کو جیل میں بند رکھا جائے، اُنھیں سیاست سے روک دیا جائے، کارکنوں کو ڈرا دیا جائے مگر اُن کے پیچھے چُھپے عسکری کرداروں کو ’مقدس میوزیم‘ میں چھپا دیا جائے۔ آدھا سچ اور آدھا انصاف مملکت کی جڑوں کو کھوکھلا کر چکا ہے اب تو صرف شکستہ ڈھانچہ ہے جو ہلکے سے اشارے کا منتظر ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ایک بار پھر اکہتر کی طرح معاشرے میں تقسیم کی خلیج وسیع ہو چکی ہے، اکہتر کے انتخابات طویل آمریت کا نتیجہ بنے اور ملک دو حصوں میں تقسیم ہوا، معیشت الگ آخری سانسوں پر، ریاست اور معاشرہ سب بحران کا شکار ہیں۔ یہ بھی محض اتفاق ہے کہ اندرونی محاذ پر لڑتی ریاست کو بیرونی خطرات کا سامنا بھی ہے، مغربی اور مشرقی محاذ پر بھی خطرات منڈلا رہے ہیں۔ پڑوسی انڈیا انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے اور وہاں سے ’حافظ سعید‘ کی حوالگی کے مطالبے کی ٹائمنگ اپنی جگہ اہم ہے۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ انڈیا میں بھی پاکستان اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ انتخابات میں کام آئے گا؟ عام انتخابات کے پہلے یعنی کاغذات نامزدگی کے مرحلے کو یقینی طور پر مس ہینڈل کیا گیا اور طاقت وروں کے ساتھ ساتھ تھیٹر لگانے کو تیار کی بورڈ جنگجوؤں نے کامیابی سے عام انتخابات کو متنازعہ بنانے میں بہرحال اپنا کردارادا کیا ہے۔ شاہ محمود قریشی کی ویڈیو گرفتاری کے بعد سمجھنے والوں کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ انتخابات کیمروں کی نگرانی میں ہوں گے۔ ایسے میں مقتدرہ بے بس اور اختیار سوشل میڈیا کا ہی ہو گا۔ بہرحال شاہ محمود کی گرفتاری قابل مذمت ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو دہرایا نہ جائے، سردار اختر مینگل جیسے رہنماؤں کو بلوچستان کی سیاست سے آؤٹ کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہا ہے کہ انتخابات کا منصوبہ کیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cldr1l717lko", "summary": "پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کی جانب سے شائع کی گئی ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں میں سے تقریباً 90 فیصد کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے اتنی بڑی تعداد میں اپنے امیدواران کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جانے کو انتخابی عمل میں بدترین دھاندلی قرار دیا ہے۔", "title": "عمران خان سمیت تحریک انصاف کے متعدد رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی مسترد: ’اب مائنس ون انتخابات کی راہ ہموار کی جا رہی ہے‘", "firstPublished": "2023-12-31T01:50:49.932Z", "id": "cldr1l717lko", "article": "پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے کاغذاتِ نامزدگی لاہور کے بعد میانوالی سے بھی مسترد ہونے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں اور سابق ارکان پارلیمان کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کیے جانے کے حوالے سے پیغامات شیئر کیے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کی جانب سے شائع کی گئی ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں میں سے تقریباً 90 فیصد کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔ اس دعوے کی حوالے سے الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا گیا ہے تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ این اے 166 سے پی ٹی آئی کی امیدوار کنول شوذب کے مطابق ان کے کاغذاتِ نامزدگی اس لیے مسترد کیے گئے کیونکہ ان کے تائید کنندہ اور تجویز کنندہ کو حراست میں لیا گیا اور حراساں کیا گیا۔ این اے 83 اسامہ میلہ کی جانب سے بھی ٹویٹ کیا گیا ہے ان کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی اور یاسمین راشد کے کاغذاتِ نامزدگی بھی مسترد کر دیے گئے۔ اس کے علاوہ سابق وزیر اور رہنما پی ٹی آئی علی محمد خان کے کاغذاتِ نامزدگی این اے 23 سے مسترد کیے گئے جبکہ سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے کاغذاتِ نامزدگی بھی مسترد کر دیے گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’عوام سے کہتا ہوں ہم ڈرے نہیں ہیں آپ لوگوں نے ظلم کا بدلہ ووٹ سے لینا ہے۔‘ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے آفیشل اکاؤنٹ کی جانب سے متعدد ایسی ویڈیوز بھی جاری کی گئی ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مختلف حلقوں سے امیدواروں کے تجویز اور تائید کنندگان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے مطابق صنم جاوید کے کاغذاتِ نامزدگی بھی مسترد کروا دیے گئے ہیں جبکہ تیمور سلیم جھگڑا کی جانب سے جاری ویڈیو میں بتایا گیا ہے کہ ان کے کاغذاتِ نامزدگی قومی اور صوبائی اسمبلی سے مسترد کر دیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن کی جانب سے جاری بیان میں کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرنے کے اس سلسلے کی مذمت کی گئی ہے اور الیکشن ٹریبیونلز میں اسے چیلنج کرنے کا اعادہ کیا گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اتنی بڑی تعداد میں اپنے امیدواران کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جانے کو انتخابی عمل میں بدترین دھاندلی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بے نظیر کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے آئی جے آئی بنائی گئی، نواز شریف کو ملک سے باہر نکال دیا گیا تھا مگر ایسی تمام کوششیں بے سود رہیں۔ ان کے مطابق آخری دن بھی تحریک انصاف اعلان کر سکتی ہے کہ کس امیدوار کو ووٹ دیے جائیں اور پھر ایسے امیدواران کو ووٹ مل سکیں گے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4ny9re33xzo", "summary": "سرتاج عزیز یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کسی عسکری قوت کے نتیجے میں نہیں بلکہ جمہوری جدوجہد اور ووٹ کے ذریعے بنا مگر پھر یہاں جمہوری عمل اور ووٹ کا تسلسل 75 برسوں تک نہ دیکھ سکے۔ وہ جدید معاشی اصلاحات کے بانی تھے مگر بدقسمتی سے ملک میں جمہوری تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے وژن پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔", "title": "سرتاج عزیز تحریک پاکستان کے کارکن، ’وہ سیاستدان نہیں تھے مگر سیاستدانوں کو ان کی طرح کا ہونا چاہیے‘", "firstPublished": "2024-01-03T12:26:05.709Z", "id": "c4ny9re33xzo", "article": "انڈیا کے ساتھ ’لاہور پراسس‘ پر لکھتے ہوئے انھوں کہا کہ چناب فارمولا اور لاہور ڈکلریشن پر تفصیل سے مذاکرات ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہوئی کے انڈیا میں واجپائی حکومت کے اقتدار سے بے دخل ہونے سے مسئلہ کشمیر پھر کھٹائی میں پڑ گیا۔ انھوں نے کہا کہ جب میں 12 جون 1999 کو نیو دہلی میں واجپائی کو ملا تو مجھ سے بات کرتے ہوئے جذبات میں ان کی آواز رندھ گئی اور انھوں نے کہا کہ ’میں دونوں ممالک کے درمیان پائیدار امن کے لیے بڑی نیک نیتی اور بڑی امید سے پاکستان گیا تھا۔ مگر کارگل بحران نے سب تہس نہس کر دیا۔‘ سرتاج عزیز نے لکھا کہ یہ بات سن کر میں نے خود بڑی مشکل سے اپنے جذبات پر قابو پایا۔ ان کے مطابق جب وہ مارچ 2005 اور 2006 میں انڈیا میں مختلف کانفرنسز میں گئے تو انڈیا کے وزیراعظم من موہن سنگھ نے انھیں ذاتی حیثیت میں کھانے پر بلایا اور ان سے خوب دل کی باتیں کیں اور کہا کہ وہ دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے پاکستان کے ساتھ پائیدار امن کے خواہاں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر میں اپنے دور حکومت میں اس بڑے ایجنڈے کی تکمیل میں کامیاب ہو گیا تو شاید تاریخ میں میرا نام رقم ہو جائے۔‘ سرتاج عزیز کے مطابق دھماکوں سے قبل نواز شریف نے امریکی صدر کو بڑے اطمینان سے بتا دیا کہ اب کوئی اور چارہ نہیں رہ گیا ہے۔ ان کے مطابق چار برس بعد سنہ 2002 تک ان کے ذہن میں یہ تھا کہ اگر پاکستان ایٹمی دھماکے نہ کرتا تو کیا ہو جاتا۔ مگر ان کے مطابق جب 13 دسمبر 2001 میں انڈین پارلیمنٹ پر حملے کے بعد جس طرح دس مہینے تک پانچ لاکھ کی تعداد میں انڈین فوج پاکستان کی سرحد پر تعینات رہی تو اس سے ایٹمی دھماکوں کی اہمیت بھی واضح ہو گئی۔ سرتاج عزیز کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور اس وقت اپوزیشن لیڈر بینظیر بھٹو نے بھی حکومت پر ایٹمی دھماکے کرنے کے لے دباؤ ڈالا تھا۔ مگر سرتاج عزیز دھماکوں کا مطالبہ کرنے والوں پر تنقید کرتے رہے۔ ان کے مطابق سرتاج عزیز یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کسی عسکری قوت کے نتیجے میں نہیں بلکہ جمہوری جدوجہد اور ووٹ کے ذریعے بنا مگر پھر یہاں جمہوری عمل اور ووٹ کا تسلسل 75 برسوں تک نہ دیکھ سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ سرتاج عزیز جدید معاشی اصلاحات کے بانی تھے مگر بدقسمتی سے ملک میں جمہوری تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے وژن پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ ان کے مطابق سنہ 1990 کی دہائی میں جو معاشی پالیسیاں پاکستان اختیار کیے ہوئے تھا وہی انڈیا اور بنگلہ دیش نے بھی کیا مگر ان کے آگے نکلنے کی وجہ وہاں جمہوری عمل کا تسلسل تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cl79npqz40po", "summary": "کیریکٹر اے آئی ایک مقبول پلیٹفارم بن گیا ہے جس پر کوئی بھی اصلی شخصیات یا افسانوی کرداروں کے چیٹ بوٹ بنا سکتے ہیں۔\n", "title": "کیریکٹر اے آئی: دلچسپ ویب سائٹ جس پر نوجوان مصنوعی ذہانت کے ذریعے اپنے نفسیاتی مسائل کا حل ڈھونڈ رہے ہیں", "firstPublished": "2024-01-07T12:17:32.485Z", "id": "cl79npqz40po", "article": "ہیری پوٹر، ایلون مسک، بیونسے، سوپر ماریو اور ویلادمیر پوتن ان سب کے سمیت کیریکٹر اے آئی (Character.ai) پر لاکھوں دیگر مصنوعی ذہانت سے بنی شخصیات ہیں جن سے آپ بات چیت کر سکتے ہیں۔ کیریکٹر اے آئی ایک مقبول پلیٹ فارم بن گیا ہے جس پر کوئی بھی اصلی شخصیات یا افسانوی کرداروں کے چیٹ بوٹ بنا سکتے ہیں۔ کیریکٹر اے آئی یہ نہیں بتاتا کہ کتنے لوگوں نے اس مخصوص چیٹ بوٹ کو استعمال کیا ہے لیکن وہ یہ بتاتے ہیں کہ ہر روز ان کی ویب سائٹ پر کُل 3.5 ٹریلین صارف آتے ہیں۔ سین فرانسِسکو میں واقع یہ کمپنی کے مطابق صارفین کی زیادہ دلچسپی افسانوی کرداروں میں ہے اور وہ ان کو تفریح کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ مقبول اینیمے (جاپانی اینیمیشن) یا رائڈن شوگن جیسے کمپیوٹر گیم کرداروں کے چیٹ بوٹ ہیں جس کو 282 ملین میسیجز بھیجے جا چکے ہیں۔ تاہم لاکھوں چیٹ بوٹس میں سے چند ہی ہیں جو سائیکالوجسٹ جتنے مقبول ہیں اور کُل ملا کر 475 ایسے چیٹ بوٹس ہیں جن کے نام میں ’تھیریپی‘، ’تھیراپسٹ‘، ’سائکیٹرسٹ‘ یا ’سائکالوجسٹ‘ ہے اور وہ دیگر زبانوں میں بھی بات کر سکتے ہیں۔ سیم اپنے بوٹ کی کامیابی سے اتنے حیران ہیں کہ وہ اس وقت جس پوسٹ گریجیویٹ ریسرچ پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں وہ ہے مصنوعی ذہانت کا تھیراپی کے لیے استعمال کا بڑھتا رجحان اور نئی نسل اس کی طرف کیوں مائل ہے۔ کیریکٹر اے آئی پر زیادہ تر لوگ 18 سے 30 سال کے درمیان کی عمر کے ہیں۔ تھریسا پلومین ایک پیشہ ور سائیکوتھیراپسٹ ہیں اور انھوں نے اس چیٹ بوٹ کا استعمال کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں اس بات پر کوئی حیرانی نہیں ہے کہ اس قسم کی تھیراپی نوجوان نسل میں مقبول ہے لیکن یہ کتنی مؤثر ہے وہ اس پر سوال اٹھاتی ہیں۔ کیریکٹر اے آئی تھیراپی کے انقلاب کے لیے ایک عجیب جگہ ہے۔ کمپنی کی ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں خوشی ہے کہ لوگوں کو ان کے اور کمیونٹی کے بنائے ہوئے کرداروں سے بہت مدد اور تعلقات مل رہے ہیں لیکن صارفین کو جائز مشورے اور رہنمائی کے لیے شعبے کے تصدیق شدہ پیشہ ور افراد سے مشورہ کرنا چاہیے۔‘ کمپنی کا کہنا ہے کہ صارفین کی طرف سے چیٹ بوٹ کو بھیجے گئے میسیجز اور جواب خفیہ رہتے ہیں لیکن اگر مثال کے طور پر تحفظ کے لیے اگر معلومات تک رسائی کی ضرورت پڑے تو عملے میں سے کوئی بھی ان کو پڑھ سکتا ہے۔ ریپلیکا جیسی دیگر ایل ایل ایم پر مبنی مصنوعی ذہانت کی سروسز اسی طرح کی ہیں لیکن اس ویب سائٹ میں جنسی گفتگو کی وجہ سے یہ 18 سال سے بڑے لوگوں کے لیے ہے اور اعداد و شمار کی کمپنی سیمیلر کے مطابق اس ویب سائٹ پر کیریکٹر اے آئی کے مقابلے میں کم لوگ آتے ہیں اور وقت بھی کم لگاتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cz79r2j2wjlo", "summary": "ہم نے ان شہروں کے رہائشیوں اور حال ہی میں یہاں کا رخ کرنے والے سیاحوں سے بات کی جو ای آئی یو رپورٹ انڈیکس میں ان کے خطے کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں سستے ہیں۔", "title": "دنیا کے وہ پانچ شہر جن کی سیر آپ کم بجٹ میں بھی کر سکتے ہیں", "firstPublished": "2023-12-31T10:17:14.323Z", "id": "cz79r2j2wjlo", "article": "اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ (ای آئی یو) نے حال ہی میں سال 2023 میں دنیا بھر میں رہائش کی قیمت کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق یہ گذشتہ پانچ برسوں میں 2.9 فیصد اوسط اضافے سے بہت بڑا اضافہ ہے۔ اس رپورٹ کے گلوبل انڈیکس سے موازنہ کیا جائے تو پھر دنیا کے کچھ شہر ابھی بھی نسبتاً سستے ہیں۔ جیسا سنگاپور اور زیورخ جیسے شہر بہت مہنگے تصور کیے جاتے ہیں اور ان کے مقابلے میں کچھ دیگر شہر سستے سمجھے جاتے ہیں۔ ہم نے ان شہروں کے رہائشیوں اور حال ہی میں یہاں کا رخ کرنے والے سیاحوں سے بات کی جو ای آئی یو رپورٹ انڈیکس میں ان کے خطے کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں سستے ہیں۔ سفری اخراجات سے متعلق کام کرنے والی ویب سائٹ ’ایکسپیکٹِستان‘ کے مطابق یہ شہر دیگر شہروں کے مقابلے میں 56 فیصد تک سستا ہے، جس کی وجہ سے خانہ بدوش اس شہر کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ یہاں کے فیڈو میوزک سے لطف اندوز ہونے کے بعد وہ غریب دوست مقام ’تاسکا دو چیکو‘ کا رخ کرنے کی صلاح دیتی ہیں۔ مصنف اور ’ڈیجیٹل نومیڈ‘ جوزفائن ریمو فنڈرپ کا کہنا ہے کہ یہاں اخراجات پانچ سال پہلے کے مقابلے میں بہت مختلف ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق ایک چیز جو میں نے سیکھی ہے وہ یہ ہے کہ آپ غیرملکی کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے کے بجائے نقد ادائیگی کریں تو بہتر ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک طریقہ ہے کہ آپ کیسے اور کہاں کہاں سے اپنے خرچے کم کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق یہاں کرائے اور کھانے بہت سستے ہیں۔ وہ اب واپس یورپ جانے کے بجائے یہاں چھے ماہ تک رہنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ یہاں اردگرد کے علاقے مزید سستے ہیں۔ کریئر گیپرز پر ٹریول بلاگر ایلکس ٹریمباتھ کا کہنا ہے کہ وہ حال ہی میں یہاں کے مضافتی علاقے سان ٹیلمو میں رہے ہیں، جو کہ کم خرچ اور بالا نشین مقام ہے۔ امریکہ کے نیویارک اور لاس اینجلس جیسے بڑے شہر ابھی بھی دس بڑے مہنگے شہروں کی فہرست میں شامل ہیں جبکہ پڑوسی ملک کینیڈا کے شہر ابھی سستے ہیں۔ کینیڈا کے تمام شہروں میں سب سے زیادہ سستا ٹورونٹو ہے، جس کا درجہ بندی میں 27واں نمبر بنتا ہے۔ اس وقت جاپان اپنے شہروں کو اپنی کرنسی ین کی قدر کو بہتر کرنے اور دیگر معاشی چیلنجز پر قابو پانے کے لیے سیاحوں کی آمد کے لیے زیادہ مناسب بنا رہا ہے۔ تا کہ سیاح یہاں مہنگائی کی وجہ سے آنے کا ارادہ ترک نہ کر سکیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2m8n7g83no", "summary": "کیسپر امریکی شہر فیلاڈیلفیا سے فارٹ مائرز، فلوریڈا اپنی دادی سے ملنے جا رہے تھے۔ لیکن وہ فورٹ مائرز سے چار گھنٹے کی مسافت پر اورلینڈو پہنچ گئے۔ انھیں فضائی کمپنی کی طرف سے غلطی سے غلط جہاز پر سوار کروا دیا گیا تھا۔", "title": "اکیلے سفر کرنے والے چھ سالہ بچے کو ایئرلائن نے غلط منزل پر پہنچا دیا", "firstPublished": "2023-12-27T07:48:04.635Z", "id": "cv2m8n7g83no", "article": "امریکہ میں اکیلے ہوائی سفر کرنے والا چھ سالہ بچہ ’غلط جہاز میں سوار‘ ہو کر اپنی منزل کی بجائے دوسرے شہر پہنچ گیا ہے۔ کیسپر امریکی شہر فیلاڈیلفیا سے فارٹ مائرز، فلوریڈا اپنی دادی سے ملنے جا رہے تھے۔ لیکن وہ فورٹ مائرز سے چار گھنٹے کی مسافت پر اورلینڈو پہنچ گئے۔ انھیں فضائی کمپنی کی طرف سے غلطی سے غلط جہاز پر سوار کروا دیا گیا تھا۔ سپیریٹ ایئرلائنز نے کیسپر کی دادی سے معذرت کی ہے اور بچے کو اورلینڈو تک گاڑی چلا کر آ کر لینے پر اٹھنے والے اخراجات کو ادا کرنے کی بھی پیشکش کی ہے۔ جمعرات کو کیسپر کو اپنی دادی ماریا راموس سے ملنے کے لیے فیلاڈیلفیا انٹرٹیشنل ایئرپورٹ سے ساؤتھ ویسٹ فلوریڈا انٹرنیشنل ایئر پورٹ جانا تھا۔ لیکن کیسپر کو اولینڈو کے جہاز پر بٹھا دیا گیا جو فورٹ مائرز سے 260 کلومیٹر دور واقع ہے۔ اس واقعے نے مشہور ہالی ووڈ فلم ہوم الون 2 کی یاد دلا دی جس میں مرکزی کردار کیون کرسمس پر غلط جہاز پر سوار ہو جاتا ہے اور اپنے گھر والوں سے دور ہو جاتا ہے۔ جس جہاز پر کیسپر کو سوار ہونا چاہیے تھا جب وہ لینڈ ہوا اور اس سے ماریا راموس کے پوتے نہیں اترے تو وہ گھبرانے لگیں۔ ماریا ریموس نے ایک مقامی ٹی وی چینل کو بتایا کہ ’میں جہاز کے اندر بھاگ کر فلائٹ اٹینڈنٹ کے پاس گئی اور ان سے پوچھا ’میرا پوتا کہاں ہے؟ فیلاڈیلفیا میں اسے آپ کے حوالے کیا گیا تھا؟‘ خوش قسمتی سے اورلینڈو میں لینڈ کرنے کے بعد کیسپر نے اپنی دادی کو فون کر لیا۔ اس کے بعد ماریا ریموس گاڑی پر اپنے پوتے کو لینے کے لیے اورلینڈو ایئرپورٹ پہنچ گئیں۔ ’یہ کیسے ہوا؟ کیا انھوں نے اسے جہاز سے اتارا؟ کیا وہ خود سے غلط جہاز میں چلا گیا؟‘ سپیریٹ ایئرلائنز نے ایک بیان میں واقعے پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپنے مہمانوں کی سلامتی اور انھیں ایک جگہ سے دوسرے مقام تک لے جانے کی ذمہ داری کو بہت سنجیدہ لیتے ہیں اور ہم اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ہم (بچے کے) اہلخانہ سے اس تکلیف دہ تجربے پر معذرت خواہ ہیں۔‘ اس قسم کی غلطی عام بات نہیں ہے لیکن ماضی میں اکیلے سفر کرنے والے بچے اور دیگر مسافر غلط فلائٹس پر سوار ہو چکے ہیں۔ سنہ 2009 میں امریکہ میں اکیلے سفر کرنے والی دو بچیاں امریکہ کے اندر ہی کانٹینینٹل ایئرلانز کی غلط پروازوں پر سوار ہو گئیں تھیں۔ اس واقعے پر ایئرلائن کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ’عملے کے درمیان غلط معلومات کے تبادلے‘ کے نتیجے میں ہوا تھا۔ اسی طرح 2019 میں سویڈن جانے والے بچے کو غلطی سے یونائٹڈ ایئرلائنز کی جرمنی جانے والی پرواز میں بٹھا دیا گیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0wyz4yyv54o", "summary": "دبئی سے نکوراگوا جانے والے ایک مسافر طیارے کو فرانس کے ایک ہوائی اڈے پر انسانی سمگلنگ کے شبہ میں کئی دنوں تک روکے جانے کے بعد چھوڑ دیا گیا ہے جومنگل کی صبح انڈین شہر ممبئی پہنچا ہے۔", "title": "انسانی سمگلنگ کا شبہ: انڈین مسافروں سے بھرا طیارہ فرانس میں جانچ کے بعد ممبئی پہنچ گیا", "firstPublished": "2023-12-23T04:58:16.234Z", "id": "c0wyz4yyv54o", "article": "دبئی سے نکوراگوا جانے والے ایک مسافر طیارے کو فرانس کے ایک ہوائی اڈے پر انسانی سمگلنگ کے شبہ میں کئی دنوں تک روکے جانے کے بعد چھوڑ دیا گیا ہے جومنگل کی صبح انڈین شہر ممبئی پہنچا ہے۔ اس سے قبل خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پیرس کے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ طیارے کے مسافروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ ’انسانی سمگلنگ‘ کا معاملہ ہو سکتا ہے۔ فرانس میں انڈین سفارت خانے نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک بیان میں کہا ہے کہ انھیں فرانس کے حکام نے طیارے کے روکے جانے کے بارے میں اطلاع دی۔ انھوں نے لکھا کہ’فرانسیسی حکام نے ہمیں بتایا کہ دبئی سے نکاراگوا جانے والے ایک طیارے میں 303 افراد سوار تھے جن میں سے زیادہ تر انڈین شہری ہیں۔ سفارت خانے کی ٹیم نے قونصلر رسائی حاصل کر لی ہے۔ ہم صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور مسافروں کی فلاح و بہبود کو بھی یقینی بنانے کی کوشش میں ہیں۔‘ خبر رساں ادارے روئٹرز نے اطلاع دی ہے کہ یہ رومانیہ کی لیجنڈ ایئر لائنز کا چارٹر طیارہ تھا جو پیرس سے تقریباً 160 کلومیٹر دور وتری ایئرپورٹ پر تکنیکی وجوہات کی بنا پر اترا تھا جس کے بعد فرانس کی انتظامیہ نے اسے انسانی اسمگلنگ کے شبے میں دوبارہ پرواز نہیں بھرنے دی۔ ایوی ایشن ویب سائٹ ایئرلائن ڈاٹ نیٹ نے اطلاع دی ہے کہ 21 دسمبر کو طیارے کو حراست میں لیے جانے کے بعد ہوائی اڈے کو بند کر دیا گیا۔ فرانسیسی نیوز سائٹ لاموندے کے مطابق ’مارنے‘ کی مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بتایا ہے کہ جمعرات کو مسافر زیادہ وقت تک طیارے میں ہی رہے جبکہ رات میں انھیں سونے کے لیے وتری کے چھوٹے ایئرپورٹ کی عمارت میں لے جایا گيا اور جمعے کو انھیں ایک عارضی کیمپ میں منتقل کیا گیا۔ پراسیکیوٹر کے دفتر کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’303 مسافروں اور کیبن کریو کی شناخت کی جانچ کی جا رہی ہے۔ وہ ان حالات کی بھی جانچ کر رہے ہیں جن میں مسافروں کو لے جایا جا رہا تھا اور ان کے سفر کے مقاصد کے بارے میں بھی جاننے کوشش جاری ہے۔‘ یہ واضح نہیں کہ طیارے کو پرواز بھرنے کی اجازت دینے سے قبل حکام اس فیصلے پر پہنچے ہوں کہ اس پرواز میں کوئی جرم نہیں ہوا۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ یہ پرواز نکاراگوا کا سفر دوبارہ شروع کرنے کے بجائے ممبئی کیوں بھیجی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے گردش کرنے والی خبروں میں بھی بہت سے بیانات سانے آ رہے ہیں۔ دی پلین گائی نامی ایک صارف نے سوشل میڈیا پر فرانس میں انڈین سفارت خانے کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا ہے کہ ’یہ ایئر کمپنی اتفاق سے انڈین طیارہ کمپنی سپائس جیٹ کو بھی چلاتی رہی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4ny7m2p9m0o", "summary": "اولی کے مالک باب ولیمز کہتے ہیں کہ ’ہم دونوں کوئی مثال قائم کرنے کی غرض سے نہیں نکلے تھے۔ یہ ایک عام سی بلی ہے اور یہ میری کشتی کا ایسے ہی لازمی حصہ ہے جیسے اس میں موجود فرنیچر اور اسے پیچھے چھوڑ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔‘", "title": "اولی: کشتی رانی کے مقابلے میں پہلی بار کسی بِلّے کی تاریخی شرکت", "firstPublished": "2023-12-25T14:35:08.875Z", "id": "c4ny7m2p9m0o", "article": "سڈنی کے ساحل پر اس بار کشتی رانی (یاٹ ریس) کے مقابلے میں ’اولی‘ ایک تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔ وہ منگل کو سڈنی سے ہوبارٹ یاٹ ریس میں حصہ لینے والوں کی قطار میں سب سے آگے کھڑے ہوں گے۔ اب آپ سوچیں گے کہ قطار میں اگے کھڑے ہونے سے کون سی تاریخ رقم ہو گی؟ توآپ کو بتا دیں کہ اولی ایک بِلّا ہے۔ لیکن اس پُرمشقت سمندری ریس میں کسی بھی بلی کے سفر کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں۔ گو کہ کبوتروں کے ذریعے ایک بار ساحل پر واپس پیغامات بھیجنے کے لیے استعمال کرنے کا ذکر تو ہے لیکن بلیّاں ؟ ان کا ذکر کہیں موجود نہیں۔ اولی کے مالک باب ولیمز کہتے ہیں کہ ’ہم دونوں کوئی مثال قائم کرنے کی غرض سے نہیں نکلے تھے۔ یہ ایک عام سی بِلّا ہے اور یہ سلف سکس (Sylph VI ) نامی کشتی کا ایسے ہی لازمی حصہ ہے جیسے اس میں موجود فرنیچر اور اسے پیچھے چھوڑ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔‘ باب ولیمز نے اس ریس سے پہلے بات کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا ’میں نے بہت سے ایڈونچرز کیے ہیں جنھیں پاگل پن سمجھا جاتا ہے تاہم یہ ان میں سے ایک نہیں ہے۔‘ آسٹریلیا کے کروزنگ یاٹ کلب نے وضاحت کی کہ ریس میں حصہ لینے کے لیے جانوروں پر پابندی لگانے کے حوالے سے کوئی اصول نہیں ہیں، اور سمندری سفر میں بلیوں کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ جبکہ سلف ایک پرانی کشتی ہے جس نے کئی دہائیوں پہلے سڈنی سے ہوبارٹس چند مقابلوں میں حصہ لیا تھا جبکہ یہ باب ولیم کا پہلا موقع ہے کہ وہ اسے دوڑانے جا رہے ہیں۔ باب ولیم بحریہ کے ایک ریٹائرڈ افسر رہ چکے ہیں جنھوں نے اپنی زندگی سمندر کو عبور کرتے ہوئے گزاری ہے۔ جس میں حال ہی میں دنیا کا تن تنہا دنیا کا چکر لگانا بھی شامل ہے جس میں اولی ان کے ہمراہ رہی ہے۔ ان کے سفر میں ذیادہ تر اولی ہی ہمراہ ہوتا ہے۔ ’اگرچہ بلیوں کو پانی سے نفرت ہے لیکن مجھے پتہ ہے کہ اولی تیراکی کر سکتا ہے، کیونکہ اس نے ایک بار کتے کے حملے سے بچنے کے لیے پانی میں چھلانگ لگا دی تھی۔‘ سلف اور اس کے مکینوں کے لیے امید کی جا رہی ہے کہ وہ اس کھیل ر میں محفوظ طریقے سے شامل ہوتے ہوئے ہوبارٹ کی طرف نسبتاً آرام دہ رفتار سے آگے بڑھیں گے۔ اس کھیل میں منزل پر پہنچنے کا تیز ترین ریکارڈ 2017 میں قائم کیا گیا جس کا دورانیہ ایک دن اور نو گھنٹے کا ہے لیکن تیز رفتاری کا یہ ریکارڈ ایک بہت بڑے اور جدید سپر یاٹ نے بنایا تھا۔ ’سلف ایک پرانی اور سست رفتار کشتی ہے تاہم ہماری خواہش نئے سال کے جشن کے لیے وقت پر ہوبارٹ پہنچنا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cl508g7zj2jo", "summary": "کلدیپ نے بتایا کہ جب وہ میکسیکو میں داخل ہوئے تو ایک ایجنٹ نے انھیں اپنی کار میں بٹھایا اور پیچھے لیٹنے کو کہا۔ اس ایجنٹ نے انھیں ایک ایسی جگہ پر اتارا، جہاں سے انھیں پیدل دو پہاڑیاں عبور کرنے کو کہا گیا۔ ", "title": "ڈنکی: ’امریکہ جانے کے لیے 33 لاکھ روپے ضائع کیے، زمین بیچ دی اور کئی ماہ جیل میں گزارے لیکن اب اپنے ملک میں رہنا چاہتا ہوں‘", "firstPublished": "2023-12-22T13:54:31.708Z", "id": "cl508g7zj2jo", "article": "کلدیپ سنگھ نے بتایا کہ ان کا شروع سے ہی امریکہ جانے کا خواب تھا اور سال 2010 میں وہ پہلے سنگاپور گئے، بعد میں ڈرائیور کے طور پر عراق چلے گئے۔ پھر انھوں نے ایجنٹ سے کہا کہ وہ انھیں انڈیا واپس بھیج دیں کیونکہ وہ وہاں نہیں رہنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد ایجنٹ نے انھیں برازیل جانے کا آپشن دیا اور وہ وہاں کام کرنے لگے۔ کلدیپ سنگھ نے بتایا کہ وہ برازیل میں ایک اور ایجنٹ کے رابطے میں آئے، جس نے انھیں امریکہ بھیجنے کے لیے 30,000 ڈالر کا مطالبہ کیا۔ کلدیپ سنگھ نے بتایا کہ انھوں نے پہلے ایجنٹوں کو تین ہزار ڈالر ادا کیے، جس کے بعد انھیں اور ان کے دوست کو پیرو جانے والی بس میں بٹھایا گیا۔ کلدیپ کا کہنا تھا کہ آخر کار وہ ایکواڈور میں داخل ہوئے، جہاں سے انھوں نے اپنے آگے کے سفر کے لیے بس لی۔ اس کے بعد وہ کولمبیا پہنچ گئے، جہاں انھیں کسی کے گھر میں رکھا گیا۔ کلدیپ بتاتے ہیں کہ انھیں پانامہ پہنچنے کے لیے جنگلوں کو عبور کرنے کے لیے تقریباً دو دن تک پیدل چلنا پڑا اور جنگل میں سفر کرتے ہوئے انھوں نے ایک دریا عبور کیا، جہاں پانی ان کی گردن تک تھا۔ انھوں نے بتایا کہ جب ان کے پاس پینے کا پانی ختم ہو گیا تو انھوں نے اپنے ایک ساتھی سے پانی مانگا تو اس نے کلدیپ کو صرف چند گھونٹ ہی دیے۔ کلدیپ کے مطابق دو دن بعد وہ پانامہ میں داخل ہوئے جہاں انھوں نے حکام کو بتایا کہ وہ نیپال سے ہیں اور امریکہ جا رہے ہیں۔ کلدیپ نے بتایا کہ گوئٹے مالا کے بعد وہ میکسیکو میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ کلدیپ نے بتایا کہ جب وہ میکسیکو میں داخل ہوئے تو ایک ایجنٹ نے انھیں اپنی کار میں بٹھایا اور پیچھے لیٹنے کو کہا۔ اس ایجنٹ نے انھیں ایک ایسی جگہ پر اتارا، جہاں سے انھیں پیدل دو پہاڑیاں عبور کرنے کو کہا گیا۔ کلدیپ نے بتایا کہ ایجنٹوں نے انھیں متنبہ کیا تھا کہ وہ میکسیکو میں مقامی مافیا کے خطرے کی وجہ سے اپنے گھر سے باہر نہ نکلیں۔ کلدیپ نے بتایا کہ ’پولیس اور انتظامیہ نے مجھ سے پوچھ گچھ کی اور انھیں مجھ پر شک ہونے لگا۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھے جلد ہی ملک بدر کر دیا جائے گا۔‘ ڈی پورٹ ہونے کا سن کر اپنے جذبات کے بارے میں بتاتے ہوئے کلدیپ نے کہا کہ میرے سر پر دکھ کا پہاڑ گر گیا کیونکہ میں 30 لاکھ روپے خرچ کر کے اور پنجاب میں اپنی زمینیں بیچ کر امریکہ آیا تھا۔ کلدیپ کے مطابق ’پانچ ماہ بعد جب میں امیگریشن آفس گیا تو انھوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے انڈین سفارت خانے سے میرا پاسپورٹ ڈھونڈ لیا ہے اور یہ کہ امریکہ میں میرا آخری دن تھا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyj977wg7lgo", "summary": "آن لائن دھوکہ دہی کے شکار لوگوں کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے اور بکنگ ڈاٹ کام پر ہیکرز کی جانب سے بہت سے لوگوں کو دھوکہ دینے کی اطلاعات ہیں۔ لہٰذا اگر آپ چھٹیوں پر سفر کے دوران بکنگ کر رہے ہیں تو محتاط رہیں۔\n", "title": "ہوٹل اور ہوائی ٹکٹ بک کرانے کے دوران آن لائن فراڈ سے بچنے کے 10 طریقے", "firstPublished": "2023-12-18T12:21:45.905Z", "id": "cyj977wg7lgo", "article": "آن لائن دھوکہ دہی کے شکار لوگوں کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے اور بکنگ ڈاٹ کام پر ہیکرز کی جانب سے بہت سے لوگوں کو دھوکہ دینے کی اطلاعات ہیں۔ لہٰذا اگر آپ چھٹیوں پر سفر کے دوران بکنگ کر رہے ہیں تو محتاط رہیں۔ پھر جب انھوں نے اصل بکنگ ڈاٹ کام پر کلک کیا تو انھیں فوری طور پر انتباہی پیغام ملا۔ ای میل دراصل اس ہوٹل کی تھی جس میں انھوں نے بکنگ کرائی تھی۔ انھوں نے ای میل میں کہا ہم نے آپ سے کیو آر کوڈ یا لنک کے ذریعے کسی ادائیگی کی درخواست نہیں کی ہے۔ اگر آپ کو ان موضوعات کے حوالے سے کوئی پیغام موصول ہوتا ہے تو براہ کرم ایسے پیغام کو نظر انداز کریں، اپنی نجی معلومات اور تفصیلات کو خفیہ رکھیں اور بکنگ ڈاٹ کام کے کسٹمر سروس کیئر سے رابطہ کریں۔ سیاحت کے سائبر گپھلے پر تحقیق کرنے والے میک افی لیب کے سینیئر سکیورٹی ریسرچر اولیور ڈیون کا کہنا ہے کہ ’سکیمرز آپ کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں یا وہ آپ کو اس عمل میں جلدی کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر- اگر آپ تاخیر کرتے ہیں تو بکنگ نہیں ہو گی۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔‘ کیا آپ آنے والی چھٹی کے لیے کسی تلاش میں رہتے ہیں؟ ایسے میں آپ کو آن لائن اشتہارات کے بہت سے پاپ اپس مل سکتے ہیں۔ لیکن ان میں سے کچھ فراڈ ہو سکتے ہیں۔ وہ آپ کو ایک ایسی ای میل بھیج سکتے ہیں جو کسی آفیشل بکنگ سروس کی طرح لگے لیکن حقیقت میں وہ جعلی ہو۔ لہٰذا اگر آپ ایک ایگریگیٹر یا تھرڈ پارٹی بکنگ سائٹ (کسی ہوٹل یا ایئر لائن سے براہ راست بکنگ کرنے کے بجائے) استعمال کرنے جا رہے ہیں تو ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے برانڈز یا معروف کمپنیوں کا استعمال کرنا زیادہ محفوظ ہے جن کے بارے میں آپ نے شاید سنا ہو اور وہاں بیان کردہ دیگر تمام حفاظتی نکات کو استعمال کرتے ہوئے تمام اصولوں پر عمل کریں۔ مثال کے طور پر فریب دینے والے آپ کو غیر موجود ہوٹلوں کے جعلی اشتہارات کے ذریعے نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ٹرپ ایڈوائزر اور بکنگ ڈاٹ کام جیسی مشہور کمپنیوں کی سائٹس چیک کریں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آیا ہوٹل واقعتاً موجود ہے۔ صارفین کے تحفّظ کے قوانین کا عام طور پر مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ استعمال کرتے ہیں تو آپ دھوکہ دہی سے متعلق لین دین سے محفوظ ہیں، دوسرے لفظوں میں، آپ عام طور پر اپنے پیسے واپس حاصل کر سکیں گے (چاہے اس میں وقت اور پریشانی کیوں نہ لگے)۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ck74rr7evjgo", "summary": "ٹائٹینک کے ڈوبنے کے 111 سال بعد بھی اس کا ملبہ ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ سمندر کی گہرائیوں میں غرقاب ہونے والے اس جہاز کے ٹکڑے دریافت ہونے کے بعد سے بہت سی افواہوں، خرافات اور شکوک و شبہات کا موضوع رہا ہے۔ اس مضمون میں ٹائٹینک کے بارے میں پانچ اہم حقائق بتائے گئے ہیں۔", "title": "’مصری ممّیاں اور سونے کے سکے‘: ٹائٹینک سے متعلق وہ پانچ غلط فہمیاں جن پر ایک زمانہ یقین کرتا رہا ", "firstPublished": "2023-12-17T12:22:04.243Z", "id": "ck74rr7evjgo", "article": "ٹائی ٹینک 14 اپریل 1912 کی رات کو ڈوبنا شروع ہوا اور تین گھنٹوں کے اندر 15 تاریخ کے اوائل میں مکمل طور پر سمندربُرد ہو گیا۔ یہ حادثہ سطح سمندر سے چار ہزار میٹر کی گہرائی میں پیش آیا۔ اس حادثے میں 1500 سے زیادہ مسافر سمندر میں ڈوب گئے۔ سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ٹائٹینک کی تباہی آج بھی سب سے بڑی سمندری آفت سمجھی جاتی ہے۔ ستمبر 1985 میں ٹائی ٹینک کا ملبہ نکالا گیا۔ یہ نیو فاؤنڈ لینڈ، کینیڈا سے 650 میل دور ہے۔ حادثہ سطح سمندر سے چار ہزار میٹر کی گہرائی میں پیش آیا تھا جس میں جہاز کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے۔ ڈوبنے کے مقام پر ٹائی ٹینک کے دو حصے ملے۔ ان دونوں حصوں کے درمیان 800 میٹر کا فاصلہ ہے۔ تباہی کے 111 سال بعد بھی اس کا ملبہ ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ سمندر کی گہرائیوں میں غرقاب ہونے والے اس جہاز کے ٹکڑے دریافت ہونے کے بعد سے بہت سی افواہوں، خرافات اور شکوک و شبہات کا موضوع رہا ہے۔ آئیے اب اس مضمون سے ٹائٹینک کے بارے میں پانچ اہم حقائق جانتے ہیں۔ اس بارے میں بہت سی قیاس آرائیاں موجود ہیں کہ ٹائٹینک کا ایک مقصد سمندر میں تیز رفتاری کا ریکارڈ توڑنا تھا تاہم یہ سراسر غلط ہے۔ اس جہاز کا منصوبہ رفتار کا ریکارڈ بنانا نہیں بلکہ تفریح کی غرض سے جانے والوں کے لیے بحری سفر کو یادگار اور آرام دہ بنانے کی غرض سے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ ٹائٹینک کے بارے میں یہ کہانی بھی بہت مشہور ہوئی کہ اس جہاز میں مصری ممّیاں اور سونے کے سکٹے موجود تھے لیکن یہ بھی محض اندازے ہی تھے۔ اس جہاز کی فہرست میں سونے کے سکوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ البتہ ’وائٹ سٹار‘ نامی جہاز 1917 میں سونے کے سکے لے جاتے ہوئے ڈوب گیا تھا۔ ایک اور افواہ یہ بھی تھی کہ مصری ممّیوں کو ٹائی ٹینک پر سوار کروایا گیا تھا۔ جہاز کے مکینوں کے بہت سے اکاؤنٹس ہیں جو بہت قیمتی اشیاء لے کر جا رہے ہیں۔ جہاز میں سوار تمام سامان سمندر میں گم ہو گیا۔ بہت سے مسافر ان مصنوعات کے لیے انشورنس کے دعوے کرتے ہیں۔ تاہم ان میں مصری ممّیوں کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ تاہم اس واقعے کا کہیں بھی ثبوت موجود نہیں ہے۔ اس جہاز کو چلانے والی کمپنی وائٹ سٹار لائن کے جہازوں کی شہرت اتنی بری نہیں۔ ٹائٹینک کے ڈوبنے کے بعد ایک بڑا الزام یہ سامنے آیا کہ نچلے درجے پر سفر کرنے والے مسافروں کو لائف بوٹس کی سہولت نہیں دی گئی۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ جہاز کے برف کے تودے سے ٹکرانے کے بعد تھرڈ کلاس کے مسافروں کو لائف بوٹ پر سوار ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ تاہم ٹائٹینک کے حادثے میں زندہ بچ جانے والے مسافر ولیم سوپر بھی اس کی تردید کرتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw4el89p33do", "summary": "کسی بھی یادگار، عجائب گھر یا ٹور سے زیادہ، فیری پر سفر کرنے سے سیاحوں کو نہ صرف استنبول کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، بلکہ اس سے پیار ہو جاتا ہے۔ ", "title": "استنبول شہر جس کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں؟", "firstPublished": "2023-12-16T14:54:12.600Z", "id": "cw4el89p33do", "article": "یہ زمین پر کھڑے ہو کر سمجھنے کے لیے بہت بڑا ہے۔ لہٰذا، جب کہ بہت سے سیاح استنبول کے تاریخی جزیرہ نما میں قسطنطنیہ کے ہپوڈروم، آیا صوفیہ کی مسجد اور توپکاپی محل کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں، فیری پر سوار ہونے سے نہ صرف آپ کو ان میں سے بہت سے مقامات کے صاف نظارے کا موقع ملتا ہے، بلکہ اس سے زائرین کو یہ سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ کس طرح شہر کا پرتوں والا ماضی اس کے متحرک حال میں فٹ بیٹھتا ہے۔ استنبول کی فیریز نے بھی شہر کی منفرد ثقافت اور ترقی کو تشکیل دینے میں مدد کی ہے۔ جیسا کہ 19ویں صدی کے وسط میں استنبول کی آبادی میں اضافہ ہوا، 1844 میں عوامی فیریوں کی وجہ سے آبنائے باسپورس، مارمارا سی انلیٹ اور گولڈن ہارن ایسٹوری کے ساتھ ساتھ رہنے والے لوگوں کو استنبول کے مختلف آبی علاقوں کے درمیان آسانی سے سفر کرنے میں مدد ملی۔ 1970 کی دہائی میں جب وسطی اور مشرقی اناطولیہ کے باشندے روزگار کی تلاش میں استنبول کی طرف ہجرت کر گئے تو وہ اپنی مختلف زبانیں اور کھانے پینے کے رسم و رواج کو بھی اپنے ساتھ لے کر آئے، بہت سے پہلی بار شہر کی ایک فیری پر یوروپی براعظم میں داخل ہوئے۔ ایک مقامی صحافی عادل بالی نے لکھا کہ ’فیریز استنبول کی علامت بنی ہوئی ہیں۔ فیریز نہ صرف مسافروں کو بلکہ معاشرے کی ثقافت، روایات اور عادات کو بھی لے کر چلتی ہیں۔ فیری کی گھاٹ پر سٹریٹ موسیقاروں کا کنسرٹ سننا، فیری کی ریلنگ پر ٹیک لگانا۔۔۔ چائے کی گھونٹ لیتے ہوئے اخبارات یا کتابیں پڑھنا اور استنبول کی پینٹنگ دیکھنا جہاں بگلے ناچتے ہیں، یہ سب اس ثقافت کا حصہ ہیں۔‘ استنبول کی فیریز پر سالانہ تقریباً چار کروڑ مسافر سفر کرتے ہیں، جو باسپورس کو دنیا کی مصروف ترین آبی گزرگاہوں میں سے ایک بناتا ہے۔ لیکن ساحلوں پر کھڑی کئی مساجد اور میناروں کے علاوہ، مسافروں کو ڈولفنز کے گروہ، شیئر واٹر پرندے اور شہر میں ہر جگہ موجود بگلے بھی نظر آتے ہیں۔ پرندے فیریز کے ساتھ ساتھ اڑتے رہتے ہیں اور وہ کشتیوں کے ساتھ اس قدر جڑ گئے ہیں کہ فیری چلانے والی کمپنی سحر ہٹلاری نے اپنے لوگو پر بگلوں کے سیاہ، سفید اور ان کی چونچ کے پیلے رنگ کو اپنایا ہے۔ کسی بھی یادگار، عجائب گھر یا ٹور سے زیادہ، فیری پر سفر کرنے سے سیاحوں کو نہ صرف استنبول کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، بلکہ اس سے پیار ہو جاتا ہے۔ استنبول کی فیری لائن کی سربراہ صنم دیدتاس کا خیال ہے کہ یہی وجہ ہے کہ تقریباً 200 سالوں سے کشتیوں سے متاثر ہو کر نظمیں، پینٹنگز، ناول، گانے اور فلمیں بنائی جا رہی ہیں۔ ’استنبول کو دریافت کرنے کا بہترین طریقہ ہے کہ فیری پر چڑھیں اور باسپورس دیکھیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72yr2zzdd7o", "summary": "20 دسمبر کو ایک بلاگر اور ٹی وی پریزنٹر نستیا ایولیوا نے ایک ’تقریباً برہنہ پارٹی‘ کے نام سے ماسکو کے موتوبور نائٹ کلب میں ایک پارٹی رکھی تھی۔ جس کا ڈریس کوڈ ہی بے لباسی یا برہنہ پن تھا۔", "title": "روس میں ’برہنہ پارٹی‘ جس پر ہنگامے کے بعد سیلیبرٹیز وضاحتیں دینے پر مجبور ہیں", "firstPublished": "2023-12-28T04:06:00.709Z", "id": "c72yr2zzdd7o", "article": "20 دسمبر کو ایک بلاگر اور ٹی وی پریزنٹر نستیا ایولیوا نے ایک ’تقریباً برہنہ پارٹی‘ کے نام سے ماسکو کے موتوبور نائٹ کلب میں ایک پارٹی رکھی تھی۔ جس کا ڈریس کوڈ ہی بے لباسی یا برہنہ پن تھا۔ اس پارٹی میں چنیدہ چنیدہ امیر پوپ سٹارز اور مشہور شخصیات نے شرکت کی جن میں معروف روسی ریپر واسیو (اصلی نام نکولائی واسیلیف) بھی شامل تھے اور جو اس پارٹی میں صرف جوتے اور عضو تناسل کو ایک جراب سے ڈھانپے ہوئے آئے تھے۔ اس ’برہنہ پارٹی‘ کی میزبان اور منتظم نستیا ایولیوا کو قانونی کارروائی کا سامنا ہے۔ 20 سے زیادہ لوگوں نے اس کے خلاف مقدمے کی درخواست پر دستخط کیے ہیں۔ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ڈیفنڈر آف دی فادر لینڈ فاؤنڈیشن کو ایک ارب روبل (85 لاکھ پاؤنڈ) ادا کرے، یہ ایک تنظیم ہے جو کریملن کے ’خصوصی آپریشن‘ کے شرکا کو رقم عطیہ کرتی ہے۔ اس پارٹی میں شریک دیگر مشہور سٹارز اور شخصیات کو بھی سنگین نتائج کا سامنا ہے کیونکہ ان کے کنسرٹس کی تاریخوں کی منسوخی اور اشتہاری معاہدے ختم ہونے کی باتیں ہو رہی ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ روسی ٹی وی پر پہلے سے ریکارڈ شدہ نئے سال کی شام کے تفریحی شوز میں سے کچھ ستاروں کو ایڈٹ کیا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے ناموں کو ہٹا دیا گیا ہے، ان کے ویڈیو پیغامات کو نکال دیا گیا ہے۔ جس کے بعد پارٹی میں شریک ہونے والے معروف سٹارز میں سے ایک ایک کر کے سوشل میڈیا پر آ رہے ہیں۔ ان میں سے چند پارٹی میں شرکت کرنے پر معذرت کر رہے ہیں تو کچھ کا اصرار ہے کہ انھوں نے پارٹی میں شرکت کر کے کچھ غلط نہیں کیا۔ اب مکمل لباس میں سامنے آنے والے میگا سٹار فلپ کرکورو نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ’میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے غلطی کی۔ شاید اس طرح کی پارٹی میں شریک ہونا میری آخری حماقت تھی، جس کے نتیجے میں روس میں میرے کیریئر پر پابندیاں لگ گئیں۔ یہ وہ واحد ملک ہے جہاں میں ایک فنکار اور شہری کے طور پر موجود ہوں۔‘ اس پارٹی کی میزبان اور منتظم نستیا ایولیوا نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’وہ کہتے ہیں ناں کہ روس معاف کرنا جانتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو، میں آپ لوگوں سے دوسرا موقع مانگنا چاہوں گی اور اگر آپ کا جواب نفی میں ہے، تو میں اپنی سرعام پھانسی کے لیے تیار ہوں۔ میں پیچھے نہیں ہٹوں گی، میں کسی بھی نتیجے کے لیے تیار ہوں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ce5j33xyj60o", "summary": "انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعلی اور نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ اگر ہم نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل نہیں کیا تو ہمیں اسی حشر کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا آج غزہ اور فلسطینیوں کو سامنا ہے۔", "title": "فاروق عبداللہ کے بیان پر تنازع: ’پاکستان سے بات چیت نہیں کی گئی تو کشمیر کا حشر غزہ جیسا ہوگا‘", "firstPublished": "2023-12-27T06:51:37.801Z", "id": "ce5j33xyj60o", "article": "انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ اگر ہم نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل نہیں کیا تو ہمیں اسی حشر کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا آج غزہ اور فلسطینیوں کو سامنا ہے۔ خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق فاروق عبداللہ نے انڈیا کے سابق وزیر اعظم اور بی جے پی کے رہنما اٹل بہاری واجپائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’میں نے ہر بار یہ ہی کہا ہے۔ واجپائی جی نے کہا تھا کہ دوست بدلے جا سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں بدلے جا سکتے۔ ہم پڑوسیوں کے ساتھ مل کر رہیں گے تو دونوں ترقی کریں گے۔ اگر ہم دشمنی نبھاتے رہے تو تیزی سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’مودی جی نے بھی حال ہی میں یہ کہا تھا کہ جنگ کوئی حل نہیں ہے، مسائل کو بات چیت سے حل کرنا ہوگا، وہ بات چیت کہاں ہے؟ آج عمران خان کو چھوڑیں، اب نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم بننے والے ہیں۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ بات چیت کریں گے، کیا وجہ ہے کہ ہم بات کرنے کو تیار نہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم نے اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل نہیں کیا تو میں معذرت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں بھی غزہ اور فلسطینیوں کی طرح (صورت حال کا) سامنا کرنا پڑے گا، جن پر آج اسرائیل بمباری کر رہا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میں نے آپ سے پہلے بھی کہا ہے کہ دہشت گردی ابھی بھی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ 370 ختم ہو جائے گا تو دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔ وہ دہشت گردی کے لیے 370 کو ذمہ دار مانتے تھے۔ مجھے افسوس ہے کہ آج وہ بالکل چپ ہیں۔ اور سیاحت پر بولتے رہتے ہیں کہ سیاحت اتنی ہو گئی اور سیاحت اتنی ہو گئی۔ سیاحت ہی سب کچھ نہیں ہے۔ دہشت گردی ہے، دہشت گردی رہے گی، جب تکہ اس کی جڑ کو ہم لوگ سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے۔‘ فاروق عبداللہ کے بیان پر انھیں بی جے پی کے حامیوں کی جانب سے ٹرول کا سامنا ہے۔ سیفرن ڈیلہائٹ نامی ایک صارف نے فارق عبداللہ کے بیٹے اور سابق وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’اگر آپ کے والد فاروق عبداللہ یہ سجھتے ہیں کہ پاکستان سے نہ بات کرنے سے جموں کشمیر ’غزہ‘ بن جائے گا تو آپ سب کے لیے اچھا ہے کہ آپ پاکستان چلے جاؤ اور وہاں محفوظ رہو۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72y87k9388o", "summary": "انڈیا میں سوشل میڈیا پر گذشتہ 48 گھنٹے سے داؤد ابراہیم کا نام ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے اور انھیں ’زہر دیے جانے‘ یا اُن کی ’کراچی میں موت‘ کی غیرمصدقہ خبریں گردش کر رہی ہیں۔", "title": "دل کا دورہ، کورونا، دماغ میں رسولی اور اب زہر۔۔۔ انڈیا کو مطلوب داؤد ابراہیم دوبارہ خبروں میں کیوں", "firstPublished": "2023-12-19T10:57:07.468Z", "id": "c72y87k9388o", "article": "انڈیا میں سوشل میڈیا پر گذشتہ 48 گھنٹے سے داؤد ابراہیم کا نام ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے اور انھیں ’زہر دیے جانے‘ یا اُن کی ’کراچی میں موت‘ کی غیرمصدقہ خبریں گردش کر رہی ہیں۔ داؤد ابراہیم کے حوالے سے ان ٹرینڈز کی ابتدا دراصل دو روز قبل اس وقت ہوئی جب مقامی میڈیا پر انڈیا کو مختلف جرائم میں مطلوب انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم کو زہر دینے جیسی خبروں نے گردش شروع کی۔ یہ غیرمصدقہ دعوے کیے گئے کہ زہر خورانی کے بعد داؤد کراچی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ کراچی کے ہسپتال میں ان کی موجودگی کے کسی دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی اور انڈین میڈیا میں بھی یہ بات صرف دعوؤں تک محدود ہے۔ یاد رہے کہ انڈر ورلڈ ڈان اور ممبئی دھماکوں میں انڈیا کو انتہائی مطلوب داؤد ابراہیم لگ بھگ گذشتہ تین دہائیوں سے انڈین میڈیا کی توجہ کا مرکز رہے ہیں اور اتنے ہی عرصے سے وہ مفرور بھی ہیں۔ ان کے بارے میں انڈیا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ پاکستان میں مقیم ہیں تاہم پاکستان نے ہمیشہ اس نوعیت کے الزامات اور دعوؤں کی تردید کی ہے۔ گذشتہ تین ہفتے سے مہاراشٹر کی اسمبلی میں بھی داؤد ابراہیم کا نام گونج رہا ہے اور اس کی وجہ ریاستی وزیر گریش مہاجن کی سنہ 2017 کی ایک تصویر ہے جس میں وہ مبینہ طور پر داؤد ابراہیم کے خاندان کے ایک فرد کی شادی میں شریک نظر آ رہے ہیں۔ داؤد ابراہیم کا کسی نہ کسی حوالے سے انڈین میڈیا میں موجود رہنا کوئی نئی بات نہیں اور اُن کی موت سے متعلق دعوے تو کافی پرانے ہیں۔ اس سے قبل سنہ 2017 میں داؤد کو دل کا دورہ پڑنے سے موت کا شکار ہونے کی بات سامنے آئی تھی اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انھیں کراچی کے ایک ہسپتال میں داخل کروایا گیا جہاں ان کی موت ہو گئی۔ سنہ 2017 میں ہی دماغ میں موجود رسولی کے باعث بھی داؤد کی موت کی خبر بھی میڈیا کی زینت بنی۔ اسی طرح اس سے ایک سال قبل سنہ 2016 میں سوشل میڈیا پر خبر گردش کرنے لگی کہ داؤد ابراہیم کو گینگرین ہوا ہے اور ہائی بلڈ پریشر اور بلڈ شوگر کے نتیجے میں ان کی ٹانگوں کو خون کی فراہمی نہیں ہو پا رہی ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹروں کو شاید ان کی ٹانگیں کاٹنا پڑیں اور دعویٰ اس وقت بھی یہی تھا کہ داؤد کراچی میں زیر علاج ہیں۔ ابتدا میں ان کا تعلق حاجی مستان اور کریم لالہ سے بھی رہا۔ اسّی کی دہائی میں جرائم کی دنیا میں حاجی مستان کا طوطی بولتا تھا اور انھوں نے داؤد ابراہیم کے سر پر ہاتھ رکھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/clw8vvvrvvwo", "summary": "کسی آن لائن جلسے میں شامل ہونے کے لیے آپ کو کسی سواری کا بند و بست نہیں کرنا پڑتا اور نہ ہی جلسۂ گاہ میں افراتفری کا ڈر ہوتا ہے۔ آپ باآسانی ایک کلک سے کسی آن لائن جلسے میں شامل ہوسکتے ہیں۔ مگر شاید اسی طرح ایک ہی کلک سے آپ کی اس جلسے تک رسائی روکی جاسکتی ہے۔ ", "title": "تحریک انصاف کا ورچوئل جلسہ اور سوشل میڈیا کی بندش کی شکایات: ’پی ٹی آئی روز آن لائن جلسے کرتی ہے تو انٹرنیٹ روز بند کیا جائے گا؟‘", "firstPublished": "2023-12-18T07:08:26.680Z", "id": "clw8vvvrvvwo", "article": "عام انتخابات 2024 سے قریب ڈیرھ ماہ قبل ایک ایسے وقت میں جب سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت تحریک انصاف کے کئی رہنما جیل میں ہیں اور جماعت کو جلسے کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، پی ٹی آئی نے عوام تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے ’ورچوئل اجتماع‘ کا راستہ اپنایا ہے۔ کسی آن لائن جلسے میں شامل ہونے کے لیے آپ کو کسی سواری کا بندوبست نہیں کرنا پڑتا اور نہ ہی جلسۂ گاہ میں افراتفری کا ڈر ہوتا ہے۔ آپ باآسانی ایک کلک سے کسی آن لائن جلسے میں شامل ہو سکتے ہیں مگر شاید اسی طرح ایک ہی کلک سے آپ کی اس جلسے تک رسائی روکی جاسکتی ہے۔ پی ٹی اے نے کہا کہ ’ملک بھر میں انٹرنیٹ تک رسائی کی مجموعی صورتحال بظاہر معمول کے مطابق ہے اور میڈیا سے گزارش کی جا رہی ہے کہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ انٹرنیٹ کی بندش کے حوالے سے کسی بھی غیر مصدقہ خبر کو پھیلانے سے گریز کریں۔‘ تاہم تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ ’فاشسٹ حکومت نے پی ٹی آئی کے تاریخی ورچوئل جلسے سے قبل انٹرنیٹ کی رفتار کم کی اور پاکستان بھر میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بند کر دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عمران خان کی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں۔‘ سوشل میڈیا پر صارفین انٹرنیٹ تک رسائی روکنے پر حکام کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے آن لائن جلسے پر طرح طرح کے تبصرے بھی کیے جا رہے ہیں۔ کچھ صارفین کا کہنا تھا کہ انھیں اس آن لائن جلسے کے بارے میں پتا ہی اس وقت چلا جب ان کے انٹرنیٹ نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ان کے مطابق آن لائن سنسرشپ نہ صرف معلومات تک رسائی اور اظہار رائے کی آزادی جیسے بنیادی حقوق کے خلاف ہے بلکہ یہ حربہ کبھی بھی کارآمد ثابت نہیں ہوتا، جیسے ماضی میں لوگوں کو یوٹیوب کی بندش کے بعد وہاں ’توہین آمیز ویڈیو‘ کا علم ہوا تھا۔ انھوں نے مزید لکھا کہ ’حکومت ایک طرف آئی ٹی کے شعبے میں برآمدات بڑھانا چاہتی ہے اور دوسری طرف ایک جماعت کے ورچوئل جلسے کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہے۔‘ عزیر یونس کے خیال میں حکمراں طبقے کو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا ’شیطانی میڈیا ہے اور نوجوانوں کو کرپٹ ہونے سے بچانے کے لیے اس پر سختیاں ضروری ہیں۔‘ تو کیا یہ آن لائن جلسہ کامیاب رہا؟ پاکستان میں عام طور پر جلسوں میں لوگوں کی تعداد کے حوالے سے کافی تبصرے کیے جاتے ہیں۔ آن لائن ویوز کے اعداد و شمار پر بھی لوگ بٹے ہوئے نظر آئے ہیں۔ یوٹیوب پر تحریک انصاف کے ’پہلے ورچوئل پاور شو‘ کو 14 لاکھ ویوز ملے ہیں۔ کچھ لوگوں کی نظر میں آن لائن جلسے کی حکمت عملی ’کامیاب‘ رہی تاہم بعض ’بوٹس‘ کی موجودگی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g2xdngpglo", "summary": "پاکستان کے مشہور صحافی اور اینکر پرسن وسیم بادامی کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم (سابق ٹوئٹر) پر فالو کرنے والے صارف اس وقت حیران ہوئے جب ان کے اکاؤنٹ سے عجیب و غریب ٹویٹس سامنے آنا شروع ہو گئیں۔ لیکن جلد ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ ان کا اکاؤنٹ ہیک ہو گیا ہے۔", "title": "وسیم بادامی کا اکاؤنٹ ہیک: ’ایکس‘ اکاؤنٹ کو محفوظ کیسے بنایا جائے اور اگر یہ ہیک ہو جائے تو کیا کیا جائے؟", "firstPublished": "2023-11-30T04:16:50.944Z", "id": "c3g2xdngpglo", "article": "پاکستان کے مشہور صحافی اور اینکر پرسن وسیم بادامی کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابق ٹوئٹر) پر فالو کرنے والے صارفین گذشتہ روز اُس وقت حیران ہوئے جب اُن کے اکاؤنٹ سے عجیب و غریب ٹویٹس سامنے آنا شروع ہوئے۔ ابتدا میں کچھ صارفین کو لگا کہ یہ حالات حاضرہ سے متعلق کوئی بات ہے، لیکن اس دوران وسیم بادامی کے ٹی وی چینل سے منسلک ایک اور اینکر اور ان کے ساتھی اقرار الحسن نے اپنے اکاؤنٹ سے ٹویٹ کر کے آگاہ کیا کہ وسیم بادامی کا اکاؤنٹ ’ہیک‘ ہو گیا ہے اور اس سے آنے والی ٹویٹس کو سنجیدہ نہ لیا جائے۔ اس کے بعد بھی وسیم بادامی کے اکاؤنٹ سے ٹویٹس کرنے کا سلسلہ جاری رہا اور اس دوران وسیم بادامی اور ان کی فیملی کی چند تصویر بھی شیئر کی گئی۔ ملٹی فیکٹر ویریفیکیشن یا ٹو سٹیپ اوتھینٹیکیشن ایک ایسا فیچر ہے جس کے تحت کسی کمپیوٹر صارف کو دو یا اس سے زیادہ ثبوت فراہم کرنے کے بعد ہی اس ویب سائٹ یا پلیٹ فارم تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ 2020 میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انٹرنیٹ پر صارفین کے حقوق کی کارکن نگہت داد کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر اپنے اکاؤنٹ محفوظ بنانے کے لیے صارفین کو اپنا مضبوط پاسورڈ باقاعدگی سے تبدیل کرنا چاہیے اور اسے کسی ای میل یا صفحے پر درج نہیں کرنا چاہیے۔ الگ الگ اکاؤنٹ کے پاس ورڈ مختلف ہونے چاہییں۔ اگر کسی وجہ سے کسی کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہیک ہو جائے اور اس کے پاس اکاؤنٹ تک رسائی نہیں رہتی تو وہ ایکس (سابق ٹوئٹر) کے ’ہیلپ سینٹر‘ کے لنک پر جا کر وہ موجود فارم میں تفصیلات درج کر کے بھی اپنا اکاؤنٹ واپس حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر اکاونٹ تک رسائی نہیں رہی تو صارف سے اس کا ہینڈل اور اکاؤنٹ سے منسلک ای میل کا پوچھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پوچھا جاتا ہے کہ آخری دفعہ اکاؤنٹ تک رسائی کب ہو رہی تھی اور پھر پوچھا جاتا ہے کہ اکاؤنٹ بناتے ہوئے کون سا ای میل یا فون نمبر استعمال کیا گیا تھا۔ اس کے بعد آپ سے مزید معلومات لی جاتی ہیں کہ آیا اس ای میل تک آپ کی رسائی ہے یا جو فون نمبر آپ نے بتایا ہے اس پر آپ کو ایس ایم ایس موصول ہو جاتا ہے، آپ کس ملک میں مقیم ہیں، آپ کو کیا شک ہے کہ کیسے آپ کا اکاؤنٹ ہیک ہوا، اپنے مسئلے کی تفصیل لکھیے، اگر کوئی سکرین شاٹ ہے تو وہ ہیلپ سینٹر کو فراہم کیجیے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اکاؤنٹ کی رسائی حاصل ہے تو وہ آنے والے فارم میں آپ سے آپ کا ای میل، یوزر نیم یا فون نمبر وغیرہ مانگے جاتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کے ای میل یا نمبر پر کوڈ بھیجا جاتا ہے۔ کوڈ کے کامیابی سے اندراج کے بعد ایکس آپ کو نیا پاس ورڈ درج کرنے کا کہتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c9739p4gqj6o", "summary": "سوشل میڈیا انفلوئنسر جنید اکرم نے حال ہی میں تفریحی مقاصد کے لیے پاکستانی ساحلوں پر جانے کے تجربوں پر مبنی بظاہر ایک مزاحیہ ویڈیو پوسٹ کی۔ لیکن شاید اس پر ویسا ردعمل نہیں آیا جس کی وہ امید کر رہے تھے۔", "title": "’جنید بھائی، ساحل پر جا کر لوگوں کو گھورا نہ کریں‘", "firstPublished": "2023-11-24T08:26:59.103Z", "id": "c9739p4gqj6o", "article": "سوشل میڈیا انفلوئنسر جنید اکرم نے حال ہی میں تفریحی مقاصد کے لیے پاکستانی ساحلوں پر جانے کے تجربوں پر ایک ویڈیو پوسٹ کی لیکن شاید اس پر ویسا ردعمل نہیں آیا جس کی وہ امید کر رہے تھے۔ جنید اکرم کو پاکستان کے عام لوگوں کی زندگیوں اور سماجی رویوں پر مزاحیہ کمنٹری کے لیے جانا جاتا ہے مگر بعض سوشل میڈیا صارف اب ان پر ’طبقاتی تفریق‘ ظاہر کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس ٹویٹ کے جواب میں جنید اکرم نے یہ ویڈیو ایکس پر پوسٹ کی۔ انھوں نے انسٹاگرام پر بھی اسے لگایا۔ پھر ایک شاٹ میں ایک سندھی ٹوپی پہنے شخص سمندر کے سامنے اپنی شلوار اتار کر نِکر پہنتا ہے۔ اس کے بعد چار لوگ مل کر ایک ہی انداز میں ناچ رہے ہوتے ہیں۔ ہر سین کے آخر میں جنید نظر آتے ہیں اور ان کے چہرے کے تاثرات مایوسی اور حیرت والے ہوتے ہیں، یعنی وہ اس طرح کی چیزوں پر ناپسندیدگی ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس پوسٹ میں استعمال کی جانے والی ویڈیوز بظاہر ان کی خود بنائی ہوئی نہیں ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام مناظر پاکستانی ساحلوں کے ہیں۔ بعض لوگوں نے الزام لگایا کہ اس ویڈیو میں جنید اکرم ایک نامناسب پیغام دے رہے ہیں اور لوگوں کے بارے میں جانے انجانے میں غلط رائے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اگر ایسا ہی کچھ غیر ملکی یا سفید فام افراد کر رہے ہوتے تو ان پر ایسی تنقیدی ویڈیو بنا کر نچلے طبقے کا مذاق نہ اڑایا جاتا۔ جنید اکرم کی ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے ذولفقار علی بھٹو جونیئر نے ٹویٹ کیا کہ ’جب آپ ساحل پر جاتے ہیں تو لوگوں کو گھورا نہ کریں۔ اس ویڈیو میں کوئی بھی کچرا نہیں پھینک رہا، نہ جنگلی حیات کو تنگ کر رہا تھا۔‘ ایک اور صارف عثمان انصاری نے جنید اکرم پر الزام لگایا کہ اگر ویڈیو میں دکھائے گئے لوگ سفید فام ہوتے تو شاید انھیں ان سے مسئلہ نہ ہوتا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ لوگ بس ان لمحات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن آپ نے اس پر انتہائی جانبدار اور غلط رائے قائم کرنے والی ویڈیو بنائی ہے۔ ایک طرف آپ کہتے ہیں لوگوں کو زندگی گزارنے دو تو دوسری طرف آپ ان کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ جبکہ راہل پوچھتے ہیں کہ جو لوگ جنید اکرم پر تنقید کر رہے ہیں ’کیا وہ کراچی کے ساحلوں کو دورہ کرتے رہتے ہیں؟‘ ان کی رائے میں یہاں ماحول ہرگز اچھا نہیں جسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ ایک مزاحیہ ویڈیو ہے، اس پر سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ’سب گھر کا غصہ ٹوئٹر پر اُتار رہے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckrp73lpnr8o", "summary": "ایسےانفلوئنسرز جن کے پاس خطے سے متعلق کوئی مہارت نہیں سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلا کر مشہور ہو رہے ہیں اور اس سے پیسے بھی کما رہے ہیں", "title": "وہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز جو اسرائیل اور غزہ کے متاثرین کی تکلیف سے پیسے کما رہے ہیں", "firstPublished": "2023-11-19T09:16:13.407Z", "id": "ckrp73lpnr8o", "article": "سوشل میڈیا پر ایسے کئی انفلوئنسرز اسرائیل اور غزہ کی جنگ سے متعلق غلط معلومات اور دل خراش مناظر ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پوسٹ کر ان کی تکلیف سے پیسا کما رہے ہیں۔ اکتوبر میں انگریزی زبان میں ان کا شائع کردہ مواد سب سے زیادہ دیکھا اور شیئر کیا گیا ہے۔ تاہم، ہاریٹز نے کبھی بھی ایسی کوئی خبر شائع نہیں کی اور اخبار نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ جیکسن کی پوسٹ میں ’جھوٹ‘ ہے اور اس کی ’ہاریٹز کی رپورٹنگ میں قطعی طور پر کوئی بنیاد نہیں ہے۔‘ یہ پوسٹ اب بھی دستیاب ہے اور اس کے پچاس لاکھ سے زیادہ ویوز ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جیکسن نے اپنا موقف برقرار رکھتے ہوئے کہا وہ تنازعے کے بارے میں ’سچ‘ بول رہے تھے۔ انھوں نے کہا اگرچہ وہ اس موضوع پر سات اکتوبر سے پہلے شاز و نادر ہی ذکر کرتے تھے لیکن انھوں نے دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس متعلق بات کی تھی۔ جب ان سے ان کی مہارت میں کمی کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے زور دے کر کہا کہ ’ماہرین اور میڈیا اصل میں ماہر نہیں ہیں۔‘ دو دائیں بازو کے امریکی انفلوئنسرز کولن رگ اور ڈوم لوکر (اصل نام ڈومینک میک جی) پہلے اس تنازع پر بات نہیں کرتے تھے لیکن ان دونوں نے اکتوبر کے مہینے میں اسرائیل-غزہ کے بارے میں ٹویٹ کر کے دسیوں ہزار فالوورز حاصل کیے، بالترتیب 700,000 اور 600,000 سے زیادہ لوگ اب ان کو فالو کرتے ہیں۔ ڈوم لوکر (اصل نام ڈومینک میک جی) نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے تنازع کے متعلق معلومات شیئر کرنا بند کر دیا ہے اور انھوں نے اس الزام کی تردید کی کہ وہ تنازع کے متاثرین کی تکلیف سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔ بی بی سی ویریفائی کے شایان سردارزادہ ایکس پر پھیلنے والی اسرائیل-غزہ جنگ سے متعلق وائرل جعلی گمراہ کن پوسٹس کی نگرانی اور ان کو غلظ ثابت کر رہے ہیں۔ ایلون مسک نے پیسوں کے عوض ایکس پریمیم اور پریمیم پلس سبسکرپشن متعارف کروائی۔ پیسے دینے والوں کے رپلایز کو ’بوسٹ‘ ملتا ہے یعنی وہ فیڈ پر پہلے نظر آتے ہیں۔ صارف اپنے اکاؤنٹس پر بامعاوضہ سبسکرپشنز بھی پیش کر سکتے ہیں۔ وہ ایکس کے ریوینیو-شیئرنگ سکیم کے تحت اشتہاروں سے پیسے بھی حاصل کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ پیسے دے کر اکاؤنٹس کی سبسکریپشن کے ریٹ مختلف ہیں۔ جیکسن ماہانہ تین ڈالر لیتے ہیں جبکہ دیگر مقبول اکاؤنٹس ایک سے پانچ ڈالر لیتے ہیں۔ ان کے کتنے سبسکرائبرز ہیں یہ معلومات عام نہیں ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51lw18njv4o", "summary": "حماس کے جنگجوؤں نے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔ اس حیران کر دینے والے حملے کے بعد حماس کی میڈیا حکمت عملی میں بھی تبدیلی سامنے آئی۔ انھوں نے اپنا پیغام پھیلانے کے لیے اکثر روایتی میڈیا کا استعمال کیا لیکن اس بار وہ میسجنگ ایپ ٹیلی گرام کا بھی بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔", "title": "حماس اور القسام بریگیڈ کی نئی حکمت عملی، جس سے سوشل میڈیا پر اس کے سبسکرائبرز کی تعداد میں لاکھوں کا اضافہ ہوا", "firstPublished": "2023-10-30T11:47:42.786Z", "id": "c51lw18njv4o", "article": "حماس کے جنگجوؤں نے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔ اس حیران کر دینے والے حملے کے بعد حماس کی میڈیا حکمت عملی میں بھی تبدیلی سامنے آئی ہے۔ انھوں نے اپنا پیغام پھیلانے کے لیے اکثر روایتی میڈیا کا استعمال کیا ہے لیکن میسجنگ ایپ ٹیلی گرام کے استعمال نے میڈیا کے حوالے سے ان کی حکمت عملی تبدیل کر دی ہے۔ فلسطینی علاقوں میں حکمرانوں کے بیچ آنے والی دراڑ نے حماس کو غزہ میں میڈیا پر غلبہ حاصل کرنے میں مدد دی۔ انھوں نے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے روایتی میڈیا خاص طور پر الاقصٰی ٹی وی پر انحصار کیا۔ سنہ 2011 میں عرب سپرنگ کی احتجاجی تحریکوں میں سوشل میڈیا کی طاقت ابھر کر سامنے آئی تھی۔ حماس اور اس سے منسلک میڈیا نے بڑے پلیٹ فارمز پر اپنی پکڑ بنا لی۔ حماس نے اپنے ایجنڈے کو بڑھاوا دینے کے لیے اپنے میڈیا کا استعمال کیا۔ ان کو نہ صرف اسرائیل کے ساتھ تنازعات میں استعمال کیا جاتا ہے بلکہ ان میں غزہ میں حماس کی طرف سے کیے جانے والے انتظامی اقدامات پر بھی توجہ دلائی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال نے حماس میں میڈیا کی مختلف قسم کی پروڈکشن صلاحیتوں کو فروغ دینے میں مدد کی ہے۔ اس میں اپنے جنگجوؤں کی تربیت کے دوران بنائی گئی پروپیگنڈا ویڈیوز بھی شامل ہیں جن کا مقصد ’دشمن‘ یعنی اسرائیل کو پیغام دینا ہے۔ حماس نے عبرانی زبان میں ویڈیوز اور گانے نشر کرنے کے لیے بھی سوشل میڈیا کا استعمال کیا ہے۔ سنہ 2017 میں حماس نے یوٹیوب پر عبرانی میں ایک اینیمیٹڈ میوزک ویڈیو شائع کی۔ اس کا عنوان ’صیہونی تم غزہ میں تباہ ہو جاؤ گے‘ تھا۔ اس ویڈیو میں اسرائیلی فوج کو تشدد کی دھمکیاں دی گئیں تھیں۔ حماس اور القسام بریگیڈ کے آفیشل ٹیلی گرام چینلز سنہ 2015 میں بنائے گئے تھے۔ یہ غزہ میں مقیم گروپس اور اسرائیل کے درمیان ایک ہفتے کی مہلک جھڑپوں کے بعد بنائے گئے تھے۔ اسی زمانے سے ان چینلز کو پروموشنل ویڈیوز اور پیغامات نشر کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ 7 اکتوبر کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد سے حماس اور القسام بریگیڈ کے چینلز کے سبسکرائبرز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ٹیلی گرام چینل اور اس کے کیٹلاگ ٹی جی سٹیٹ (TG Stat) کے مطابق سبسکرائبرز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حماس کے ٹیلی گرام چینلز کا بڑھتا ہوا دائرہ میڈیا کی ایک منظم حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ جیسے ہی حماس کے جنگجوؤں نے اپنا حملہ شروع کیا القسام بریگیڈ نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر پچھلے برسوں میں شائع ہونے والی ویڈیوز سے کہیں زیادہ اعلیٰ معیار کی ویڈیوز شیئر کرنا شروع کر دیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp937xzm307o", "summary": "کھیلوں کی دنیا کے سابق سپر سٹار آسکر پسٹوریئس شاید دنیا کے بدنام ترین قاتل ہیں۔ پیرا اولمپئین آسکر پسٹوریئس کو اپنی گرل فرینڈ ریوا سٹین کیمپ کے قتل کے تقریباً 11 سال بعد جنوبی افریقہ کی جیل سے پیرول پر رہا کر دیا گیا ہے۔", "title": "آسکر پسٹوریئس: اپنی گرل فرینڈ کا قاتل ایک زوال پذیر ہیرو ", "firstPublished": "2024-01-05T14:08:54.421Z", "id": "cp937xzm307o", "article": "کھیلوں کی دنیا کے سابق سپر سٹار آسکر پسٹوریئس شاید دنیا کے بدنام ترین قاتل ہیں۔ پیرا اولمپئین آسکر پسٹوریئس کو اپنی گرل فرینڈ ریوا سٹین کیمپ کے قتل کے تقریباً 11 سال بعد جنوبی افریقہ کی جیل سے پیرول پر رہا کر دیا گیا ہے۔ آسکر پسٹوریئس جو اب 37 سال کے ہیں نے 2013 میں اپنی گرل فرینڈ سٹین کیمپ کو متعدد بار فائر کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ سٹین کیمپ کی والدہ نے آسکر کی رہائی پر کہا ہے کہ وہ سابق ایتھلیٹ کو رہا کرنے کے فیصلے کو قبول کرتے ہیں لیکن ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کا خاندان ’عمر قید کی سزا‘ کاٹ رہا ہے۔ آسکر پسٹوریئس نے سنہ 2013 ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اپنی گرل فرینڈ ریوا سٹین کیمپ پر اس وقت چار مرتبہ گولی چلائی تھی جب وہ باتھ روم میں تھیں۔ یاد رہے کہ پہلے انھیں غلطی سے قتل کرنے کے جرم میں پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ جس کے بعد انھیں ایک سال بعد جیل سے رہا کر دیا گیا تھا اور باقی سزا کے پانچ سال انھیں گھر میں نظربند ہو کر گزارنے تھے تاہم بعد میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کے بعد 2015 میں عدالت نے فیصلے کو تبدیل کر کے انھیں قتل کا مرتکب قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک ایسی مشہور شخصیت نہیں رہے، وہ فیشن کی دنیا سے باہر ہونے کے بعد واپسی کی کوشش کر رہے ہوں یا پھر وہ اپنی ذاتی برائیوں سے لڑ رہے ہوں۔ ایک ایتھلیٹ کے طور پر ان کا کیریئر ختم ہو گیا ہے۔ عام طور پر جب کسی شخص کو مقدمے کے بعد قتل کا مجرم قرار دیا جاتا ہے تو قاتل کا بیان جو متاثرہ خاندان کے لیے بہت پریشان کن ہوسکتا ہے عام طور پر عوامی گفتگو سے غائب ہوجاتا ہے اور قاتل اکثر دہائیوں تک جیل میں نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ اس معاملے میں قاتل دنیا بھر میں مشہور ہے اور اپنی 30 کی دہائی میں ہے اور اسے آٹھ سال سے بھی کم قید کے بعد رہا کیا گیا ہے۔ جنوبی افریقہ کے قانون کے مطابق نصف سزا کاٹنے کے بعد تمام مجرموں کو پیرول کا حق حاصل ہے۔ تاہم جنوبی افریقی انسانی حقوق کے گروپ ویمن فار چینج سے وابستہ بلوا اڈونس کا کہنا ہے کہ پسٹوریئس کی جلد رہائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’جب بھی کسی خواتین کے قتل یا صنفی بنیاد پر تشدد کا ارتکاب کرنے والوں کی بات آتی ہے تو قاتلوں کے معاملے میں نرمی کو معمول بنایا جا رہا ہے۔‘ گسکوٹ کے لیے پوزیشن واضح ہے۔ سنہ 2013 میں جب سے ان کی دوست ریوا سٹین کیمپ کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا، تب سے انھیں ’ ایک لمحے کے لیے بھی چین نہیں آیا۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cqq14x7n72ro", "summary": "انڈیا کی سپریم کورٹ نے کولکتہ ہائی کورٹ کے ایک بینچ کے اس فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ لڑکیوں کو اپنی جنسی خواہشات پر قابو رکھنا چاہیے۔ ", "title": "کولکتہ ہائی کورٹ کا لڑکیوں کو جنسی خواہشات پر قابو رکھنے کا مشورہ قطعی غلط ہے: انڈین سپریم کورٹ", "firstPublished": "2024-01-05T13:02:49.608Z", "id": "cqq14x7n72ro", "article": "انڈیا کی سپریم کورٹ نے کولکتہ ہائی کورٹ کے ایک بینچ کے اس فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ لڑکیوں کو اپنی جنسی خواہشات پر قابو رکھنا چاہیے۔ انڈین سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ججوں کو اس طرح کے حساس معاملات میں اپنے ذاتی خیالات اور رائے کے اظہار سے بچنا چاہیے۔ اس طرح کا مشاہدہ دینا قطعی طور پر غلط ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک نوعمر لڑکی کے اغوا اور جنسی زیادتی کے ایک معاملے میں کولکتہ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے دسمبر کے اوائل میں مغربی بنگال کی حکومت کو ایک نوٹس بھیج کر پوچھا تھا کہ آیا اس نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی ہے یا نہیں۔ جمعرات کو اس معاملے کی مزید سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ہائی کورٹ کا یہ کہنا کہ ’بلوغت کو پہنچنے والی لڑکیوں کو دو منٹ کے جنسی لطف لینے کے بجائے اپنی جنسی خواہشوں پر قابو رکھنا چاہیے۔ نہ صرف غلط ہے بلکہ یہ نئے مسئلے پیدا کر سکتا ہے۔‘ عدالت نے اس سے پہلے کی سماعت میں کہا تھا کہ ججوں کو کسی مقدمے کا فیصلہ قانون اور حقائق کی روشنی میں کرنا چاہیے اور انصاف کے عمل میں تبلیغ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ہائی کورٹ کے بینچ نے اس کیس میں جو مشاہدات دیے ہیں وہ قطعی غیر ضروری تھے۔ اس نے عدالت کے فیصلے کے جواز کے بارے میں بھی سوال کیا۔ اس معاملے میں ملزم کے خلاف تعزیرات ہند اور نابالغ بچیوں کے ساتھ ریپ کے قوانین کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ اور کولکتہ ہائی کورٹ نے ملزم کو بری کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ معاملہ ہائی کورٹ میں آنے سے پہلے بنگال کی ایک ذیلی عدالت نے ملزم کو نابالغ لڑکی کے اغوا اور ریپ کا مجرم قرار دیا تھا۔ ملزم نے اس فیصلے کے خلاف کولکتہ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں ملزم کو بری کرتے ہوئے مشاہدات میں کہا تھا کہ ’یہ ہر نو بالغ اور نوعمر لڑکی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے جسم کی پاکیزگی برقرار رکھنے کا تحفظ کرے۔‘ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ معزز ججوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ مقدمات میں اپنے ذاتی خیالات کے اظہار اور تبلیغ کرنے سے گریز کریں گے۔ اس مقدمے پر اب آئندہ سماعت 12 جنوری کو ہو گی۔ سوشل میڈیا پر بھی بعض صارفین نے کولکتہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔ جوش کمار نامی صارف نے مائیکرو بلاگنگ سائٹ ایکس پر طنزیہ انداز میں پوچھا ہے کہ ججوں نے لڑکیوں سے اپنی جنسی خواہشات پر قابو رکھنے کی بات جج کے طور پر یا ماہر جنسیات کے طور پر کہی ہے؟ مغربی بنگال کی حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgekdgpqkpzo", "summary": "جنسی جرائم کے مجرم جیفری ایپسٹین سے متعلق امریکی عدالتی دستاویزات منظر عام پر لائی گئی ہیں جن میں برطانوی شہزادہ اینڈریو اور بل کلنٹن سمیت معروف شخصیات کے نام درج ہیں۔ ", "title": "ایپسٹین سکینڈل: شہزادہ اینڈریو، بل کلنٹن سمیت نامور شخصیات کا جنسی جرائم سے متعلق عدالتی دستاویزات میں ذکر", "firstPublished": "2024-01-04T15:37:54.601Z", "id": "cgekdgpqkpzo", "article": "جنسی جرائم کے مجرم جیفری ایپسٹین سے متعلق امریکی عدالتی دستاویزات منظر عام پر لائی گئی ہیں جن میں برطانوی شہزادہ اینڈریو اور بل کلنٹن سمیت کئی معروف شخصیات کے نام درج ہیں۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کا ذکر ان دستاویزات میں کئی بار ہوا ہے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ماضی میں ایپسٹین کے ساتھی رہے ہیں۔ تاہم انھوں نے ان جرائم سے لاعلمی ظاہر کی ہے۔ دستاویزات کی ابتدائی فائلز قریب 900 صفحات پر مشتمل ہیں۔ انھیں بدھ کو نیو یارک کی جج لوریٹا پریسکا کے حکم پر منظر عام پر لایا گیا۔ جج کا مؤقف تھا کہ ان میں سے کئی نام پہلے ہی میڈیا میں اور میکسویل کے کریمنل ٹرائل کے دوران منظر عام پر آچکے ہیں۔ جج پریسکا نے کہا کہ کئی لوگوں نے ان دستاویزات کو منظر عام پر لانے پر کوئی اعتراض ظاہر نہیں کیا۔ تاہم انھوں نے جنسی جرائم کے بعض متاثرین کے نام خفیہ رکھنے کا حکم دیا۔ عدالتی دستاویزات میں بل کلنٹن کا نام بھی درج ہے تاہم ان پر کسی غیر قانونی عمل کا الزام نہیں لگایا گیا۔ جب ان سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا گیا تو ان کے نمائندوں نے ایپسٹین کے جرائم پر 2019 میں جاری کیا گیا بیان شیئر کیا۔ اس میں انھوں نے اس حوالے سے لاعلمی ظاہر کی تھی۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق میکسویل کے وکلا نے میڈیا کی ان رپورٹس کی تردید کی جن کے مطابق جنوری 2001 میں اقتدار سے جانے کے بعد بل کلنٹن نے کریبیئن میں ایپسٹین کے پرائیویٹ جزیرے کا دورہ کیا تھا۔ دستاویزات میں شوبرگ کہتی ہیں کہ ایپسٹین نے 2001 میں انھیں کہا تھا کہ وہ نیو جرسی کے کسینو جانے پر ڈونلڈ ٹرمپ سے رابطہ کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جیفری نے کہا ’بہت خوب ہم ٹرمپ کو کال ملائیں گے۔‘ اس سے قبل جہاز کے پائلٹوں نے کہا تھا کہ وہ نیو یارک لینڈ نہیں کرسکتے اور انھیں نیو جرسی میں اٹلانٹک سٹی رکنا پڑے گا۔ مس جوفرے سے عدالت میں پوچھا گیا کہ آیا انھیں نیو میکسیکو کے گورنر بل رچرڈسن سمیت کسی بااختیار شخصیات سے سیکس پر مجبور کیا گیا۔ گذشتہ سال وفات سے قبل رچرڈسن نے اس کی تردید کی کہ وہ کبھی جوفرے سے ملے۔ انھوں نے تمام الزامات کی تردید کی تھی۔ 2014 کی عدالتی دستاویزات کے مطابق ایپسٹین بااختیار شخصیات کو ’جنسی فائدے‘ دینے کے لیے متاثرین کی سیکس ٹریفکنگ کرتے تھے، ان میں ’ایک جانے مانے وزیر اعظم‘ اور دیگر عالمی رہنما‘ شامل تھے۔ دستاویزات میں درج ہے کہ ایپسٹین ’سیاسی اور مالی طور پر طاقتور افراد کو‘ استعمال کرتے تھے تاکہ وہ ’ان کے ساتھ کاروباری، ذاتی، سیاسی اور مالی طور پر روابط قائم کر سکیں اور ممکنہ بلیک میلنگ کی معلومات حاصل کر سکیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cye63d2p0yyo", "summary": "انڈین بحریہ نے کہا ہے کہ اس کارگو جہاز (ایم وی لیلا نورفولک) پر کیے گئے آپریشن کے دوران انھیں کوئی ہائی جیکر نہیں ملا۔", "title": "انڈین بحریہ کے کمانڈوز نے صومالیہ میں پھنسے بحری جہاز کو قزاقوں سے کیسے بچایا؟", "firstPublished": "2024-01-06T13:56:49.228Z", "id": "cye63d2p0yyo", "article": "انڈین بحریہ نے جمعہ کی شام کو مطلع کیا کہ اس کے کمانڈو سکواڈ نے صومالیہ کے قریب پھنسے ہوئے کارگو جہاز سے 15 انڈینز سمیت عملے کے 21 افراد کو بحفاظت نکال لیا ہے۔ بحریہ نے کہا ہے کہ اس کارگو جہاز (ایم وی لیلا نورفولک) پر کیے گئے آپریشن کے دوران انھیں کوئی ہائی جیکر نہیں ملا۔ بحریہ نے تین ویڈیوز بھی جاری کی ہیں جن میں انڈین کمانڈوز ایک کارگو جہاز پر ریسکیو آپریشن کرتے نظر آ رہے ہیں۔ برازیل سے بحرین جانے والے لائبیریا کے جھنڈے والے کارگو جہاز ایم وی لیلا نورفولک کے ہائی جیک ہونے کی پہلی خبر جمعرات کی شام کو آئی۔ عملے کی جانب سے بھیجے گئے پیغام میں بتایا گیا تھا کہ پانچ سے چھ مسلح افراد بحری جہاز پر سوار ہو گئے تھے۔ جس کے بعد جمعرات کو ہی انڈین بحریہ کو یہ خبر دی گئی جس کے بعد بحری جہاز اور اس میں پھنسے عملے کے ارکان کو بحفاظت نکالنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔ انڈین بحریہ کے ترجمان نے کہا کہ جیسے ہی اس واقعے کی اطلاع ملی فوج کے قائم کردہ پلیٹ فارمز نے فوری جوابی کارروائی کی۔ اس کے بعد جمعے کی دوپہر تک انڈین بحریہ کی کارروائی سے متعلق خبریں آنا شروع ہو گئیں۔ انڈین بحریہ نے کہا ہے کہ آئی این ایس چنئی کو بحری قزاقوں کے خلاف گشت پر تعینات کیا گیا تھا لیکن یہ خبر آنے کے بعد اس جنگی جہاز کو مال بردار جہاز کی طرف روانہ کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی انڈین بحریہ نے اپنا ایک طیارہ بھی اس سمت بھیجا جس نے کارگو جہاز کے اوپر سے پرواز کی۔ اس طیارے نے کارگو جہاز کے ساتھ بھی رابطہ قائم کیا۔ انڈین بحریہ نے کہا ہے کہ آئی این ایس چنئی نے ایم وی لیلا نورفولک کو پانچ جنوری کی سہ پہر 3:15 پر روکا تھا۔ اس کے کچھ دیر بعد آئی این ایس چنئی پر موجود کمانڈو سکواڈ نے کارگو جہاز پر تلاشی کا عمل شروع کیا۔ کارگو جہاز نورفولک کے ریسکیو مشن کو انڈین بحریہ کے ہیڈکوارٹر میں براہ راست دیکھا جا رہا تھا۔ فوج کے سینئر عہدیداروں نے اے این آئی کو بتایا کہ ڈرون متعلقہ حکام کو لائیو فوٹیج بھیج رہے ہیں۔ کارگو جہاز ایم وی لیلا نورفولک انڈین بحریہ نے کہا ہے کہ انھیں کارگو جہاز (ایم وی لیلا نورفولک) پر کوئی ہائی جیکر نہیں ملا ہے۔ بحریہ کا اندازہ ہے کہ ان کے انتباہ کرنے کے بعد قزاقوں نے اپنا ارادہ بدل لیا ہو گا۔ انڈین بحریہ نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ ’کمانڈوز کو جہاز کی تلاشی کے دوران کوئی سمندری ڈاکو نہیں ملا ایسا لگتا ہے کہ انڈین بحریہ کے انتباہ کے بعد ہائی جیک کرنے والوں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔‘ تلاشی کے عمل کی تکمیل کے بعد، بحریہ جہاز کے معمول کے کام کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے ضروری مدد فراہم کر رہی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0wy1650r1xo", "summary": "یہ سنہ 2017 کی سب سے اچھی خبر تھی۔ سیرا لیون کے ’پیس ڈائمنڈ‘ کی دریافت نے دنیا بھر کے میڈیا نے خوب کوریج دی۔ اس ہیرے سے کان کنوں کے حصے میں جو پیسہ آیا وہ کیسے خرچ ہوا؟ ", "title": "’انکل وہ پتھر چمک رہا ہے‘: ایک بڑا ہیرا دریافت کرکے ملک کی قسمت بدلنے والے نوجوانوں پر کیا بیتی", "firstPublished": "2024-01-06T03:29:13.257Z", "id": "c0wy1650r1xo", "article": "یہ سنہ 2017 کی سب سے اچھی خبر تھی۔ سیرا لیون کے ’پیس ڈائمنڈ‘ کی دریافت نے دنیا بھر کے میڈیا نے خوب کوریج دی۔ لیکن اس کارنامے کے پیچھے وہ کان کن کارفرما تھے، جنھوں نے اس پتھر کو تلاش کرنے کے لیے بہت محنت کی تھی۔ اینڈریو سیفی بہت ذہین طالب علم تھے لیکن غربت کی وجہ سے انھیں سکول چھوڑنا پڑا۔ کمبا جانبول کا خاندان سنہ 1991 اور سنہ 2002 کے درمیان خانہ جنگی کی وجہ سے تباہ حال ہو چکا تھا۔ ایک مقامی پادری نے کھدائی کے لیے پانچ افراد کو سپانسر کیا، جس میں یہ دونوں بھی شامل ہوئے۔ شرط یہ تھی کہ انھیں مزدوری نہیں دی جائے گی اور اس کے بدلے میں انھیں اور ان کے اہل خانہ کو کھدائی کا سامان اور خوراک دی جائے گی۔ اگر ہیرا دریافت ہو جائے تو ’سپانسر‘ کو سب سے زیادہ حصہ ملے گا۔ کان کنوں نے معمول کے مطابق اس دن ہیروں کی تلاش میں کام شروع کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’میں نے بہتے پانی میں یہ پتھر دیکھا، جو نیچے کی طرف جا رہا تھا، میں نے اس سے پہلے کوئی ہیرا نہیں دیکھا، یہ صرف میری دانشمندی تھی۔‘ ان کے مطابق ’میں نے ایک منٹ سے زیادہ اس پتھر پر نظریں جمائے رکھیں، پھر میں نے اپنے چچا سے کہا ’انکل وہ پتھر چمک رہا ہے، یہ کیسا پتھر ہے؟‘ لیکن یہ منصوبہ اس وقت ناکام ہو گیا جب ان کی ویزا درخواست مسترد کر دی گئی۔ جان بل سیرا لیون واپس آ گئے۔ اس کے حصے کی بڑی رقم خرچ ہو چکی تھی۔ جبکہ اینڈریو سیفی نے اپنے نئے سفر کا آغاز کیا۔ انھوں نے سیرا لیون میں جو گھر خریدا تھا اس کے علاوہ ان کے حصے میں ہیرے کی فروخت سے جو پیسہ آیا وہ مکمل خرچ ہو چکا تھا۔ اب وہ کہتے ہیں کہ وہ گھر جانا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کے دلوں میں سب سے بڑا درد یہ ہے کہ انھیں اپنی دریافت کا صحیح ’کریڈٹ‘ کبھی نہیں ملا۔ میڈیا رپورٹس بنیادی طور پر اس پادری پر مرکوز تھیں جنھوں نے ان لوگوں کو کان کنی کے لیے ملازم رکھا تھا۔ درحقیقت کان کنوں کے بارے میں بہت کم ذکر کیا گیا تھا۔ اینڈریو سیفی کو بھی لگتا ہے کہ جیسے ان کا نام لینے والا ہی کوئی نہیں ہے۔ ان کے مطابق ’اگر میں نے زیادہ پیسہ کمانے کے لیے بیرون ملک جانے کی خواہش نہ رکھی ہوتی تو میں اس ضائع شدہ رقم سے بہت کچھ کر لیتا۔‘ یہ وہ زندگی نہیں تھی جس کی انھوں نے توقع کی تھی، لیکن کمبا جانبول فی الحال فری ٹاؤن میں اچھی زندگی گزار رہے ہیں اور ایلومینیم کی کھڑکیاں بناتے ہیں۔ اینڈریو سیفی کی بیرون ملک مقیم ہونے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2vyz6pjp2eo", "summary": "نیوزی لینڈ میں 24 گھنٹے سے سمندر میں پھنسے شخص کو ان کی گھڑی کی چمک سے ریسکیو کر لیا گیا ہے۔ انھوں نے یہ بتانے کے لیے کہ وہ مصیبت میں ہیں، اپنی گھڑی سے اشارہ دیا۔\n", "title": "وہ گھڑی جس نے سمندر میں پھنسے شخص کی جان بچائی: ’شارک مچھلی نے مجھے سونگھ کر چھوڑ دیا‘", "firstPublished": "2024-01-04T07:03:50.070Z", "id": "c2vyz6pjp2eo", "article": "نیوزی لینڈ میں 24 گھنٹے سے سمندر میں پھنسے شخص کو ان کی گھڑی کی چمک سے ریسکیو کر لیا گیا ہے۔ انھوں نے یہ بتانے کے لیے کہ وہ مصیبت میں ہیں، اپنی گھڑی سے اشارہ دیا۔ یہ شخص، جن کا نام ظاہر نہیں کیا جا رہا، مچھلیوں کا شکار کرتے ہوئے اپنی کشتی سے گر گئے تھے۔ ان کے مطابق سمندر میں ایک شارک مچھلی نے انھیں سونگھا اور پھر وہ انھیں وہیں چھوڑ کر چلی گئی۔ سمندر میں مچھیروں کے ایک گروپ نے اس شخص کو سمندر سے ریسکیو کیا۔ نیوزی لینڈ کی پولیس کا کہنا ہے کہ اس شخص نے 55 کلومیٹر دوری پر شمالی جزیرے کے مشرقی ساحل تک پہنچنے کی کوشش کی مگر سمندری موجوں نے ان کا مشن ناکام بنا دیا۔ پولیس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اس شخص نے سمندر میں سرد رات گزاری۔ تھکاوٹ کی وجہ ان میں تیرنے کی سکت باقی نہیں رہی تھی۔‘ تین مچھیروں نے بدھ کی سہہ پہر اپنی کشتیوں پر سے ہی پانی میں اس شخص کی گھڑی کی چمک سے اندازہ لگایا کہ وہ سمندر میں ہیں۔ انھیں جزیرہ نما کورومینڈل کے ایک قریبی قصبے وانگاماٹا لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے ان کا معائنہ کیا۔ ریسکیو کیے جانے والے شخص کی کشتی کے بارے میں ابھی کچھ معلوم نہیں مگر اس کی تلاش جاری ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس حادثے کے باوجود اس شخص کا زندہ بچ جانا ایک معجزہ ہے۔ پولیس کے مطابق اگر تین مچھیروں نے اس شخص کو بچانے کے لیے فوری کوشش نہ کی ہوتی تو پھر اس شخص کا بچنا مشکل تھا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2jmvnrly7o", "summary": "معروف پنجابی گلوکار سدھو موسے والا کے قتل کے مبینہ ماسٹر مائنڈ اور پنجاب پولیس کو متعدد مقدمات میں مطلوب گولڈی برار کو انڈین حکومت نے دہشت گرد قرار دیا ہے۔", "title": "سدھو موسے والا قتل کے مبینہ ماسٹر مائنڈ گولڈی برار کو انڈین حکومت نے دہشتگرد قرار دے دیا", "firstPublished": "2024-01-02T03:13:37.733Z", "id": "cv2jmvnrly7o", "article": "معروف پنجابی گلوکار سدھو موسے والا کے قتل کے مبینہ ماسٹر مائنڈ اور پنجاب پولیس کو متعدد مقدمات میں مطلوب گولڈی برار کو انڈین حکومت نے دہشت گرد قرار دیا ہے۔ نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کا ماننا ہے کہ گولڈی برار دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں اور انھیں یو اے پی اے کے فورتھ شیڈول کے تحت دہشت گرد قرار دیا گیا۔ لارنس بشنوئی گینگ سے وابستہ گولڈی برار 29 مئی 2022 کو سدھو موسے والا کے مبینہ قتل کے بعد روشنی میں آئے۔ گولڈی برار کے رشتہ دار گُرلال برار کو چندی گڑھ میں مبینہ طور پر بمبیہا گینگ نے قتل کر دیا تھا۔ گُرلال طلبہ تنظیم ایس او پی یو کے سابق ریاستی صدر تھے۔ پولیس کے مطابق گولڈی برار نے اپنے رشتہ دار گُرلال برار کے قتل کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا کیونکہ گولڈی برار کو گُرلال برار کے قتل کے معاملے میں گُرلال سنگھ بھلوان پر شبہ تھا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس معاملے میں گرفتار ملزم نے اپنے بیان میں بتایا کہ گولڈی اس کیس کا ماسٹر مائنڈ تھا جس نے گُرلال سنگھ بھلوان کے قتل کے لیے گاڑی، ہتھیار، شوٹر اور رہائش کا انتظام کیا تھا۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ گُرلال بھلوان کے قتل کے بعد گولڈی برار نے مبینہ طور پر فرید کوٹ اور مکتسر صاحب کے علاقوں میں کئی لوگوں کو تاوان کے لیے فون کرنا شروع کر دیا۔ ایف آئی آر کے مطابق انھوں نے موگا کے اس شخص پر گولیوں سے حملہ کیا اور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تاہم سنہ 2015 میں گولڈی برار کو اس کیس میں عدالت نے جرم ثابت نہ ہونے پر بری کر دیا تھا۔ 2013 میں ابوہر کے رہائشی راکیش رینہوا نے الزام لگایا کہ گولڈی برار اور دیگر دو افراد نے مبینہ طور پر بندوق کے زور پر انھیں اپنی گاڑی میں گھسیٹ لیا اور تیز دھار ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ اس کیس میں بھی گولڈی برار کو بری کر دیا گیا۔ ایک ملزم پون نہرا نے پوچھ گچھ کے دوران بتایا کہ انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کینیڈا میں رہنے والے لارنس بشنوئی اور گولڈی برار کی ہدایت پر رنجیت سنگھ رانا کا قتل کیا تھا۔ مقتول کی ماں منجیت کور نے بھی اس کی تصدیق کی۔ یہ معاملہ عدالت میں ابھی بھی زیر سماعت ہے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ سنہ 2020 کے بعد جرائم میں گولڈی برار کی مبینہ شمولیت میں اضافہ ہوا۔ وہ جن جرائم میں مبینہ طور پر ملوث ہے، ان میں بھتہ خوری اور قتل شامل ہیں۔ لیکن گولڈی سب سے زیادہ اس وقت سرخیوں میں آئے جب انھوں نے مبینہ طور پر پنجابی گلوکار سدھو موسے والا کو قتل کر دیا۔ سدھو موسے والا کو دو سال قبل 29 مئی کو گولی مار دی گئی تھی۔ اس کے بعد سے گولڈی پنجاب پولیس کی موسٹ وانٹڈ لسٹ میں شامل ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nypedz3xvo", "summary": "ریڈی خاندان ایک وسیع و غریض گھر میں رہتا تھا۔ ان کے گھر کے آس پاس بہت کم پڑوسی تھے۔ پچھلے دو سال میں یہاں کچھ گھر بنائے گئے تھے لیکن قریب ترین گھر بھی ریڈی خاندان کے گھر سے کم از کم 100 فٹ کے فاصلے پر ہے۔", "title": "قتل، خود کشی یا طبعی موت۔۔۔ انڈیا میں ایک ہی گھر سے ملنے والے پانچ ڈھانچوں کا معمہ کیا ہے؟", "firstPublished": "2024-01-01T08:24:22.775Z", "id": "c4nypedz3xvo", "article": "پولیس کو اپنی تحقیقات میں پتا چلا ہے کہ خاندان کے سربراہ جگن ناتھ ریڈی (85 سال)، ان کی بیوی پریما (80 سال)، بیٹی تریوینی (62 سال) اور دو بیٹے کرشنا (60 سال) اور نریندر (57 سال) اپنے رشتہ داروں سے فاصلہ رکھتے تھے اور ان سے کوئی میل جول نہ رکھتے تھے۔ وہ خاندان لوگوں سے اتنا الگ تھلگ رہتا تھا کہ ان کا گھر جولائی سنہ 2019 سے بند تھا اور لوگوں کو ان کے بارے میں کوئی شک بھی نہیں ہوا لیکن انسانی ڈھانچے ملنے کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب دو دن پہلے کچھ لوگوں نے گھر کا مرکزی دروازہ کھلا دیکھا۔ ریڈی خاندان ایک وسیع و غریض گھر میں رہتا تھا۔ ان کے گھر کے آس پاس بہت کم پڑوسی تھے۔ پچھلے دو سال میں یہاں کچھ گھر بنائے گئے تھے لیکن قریب ترین گھر بھی ریڈی خاندان کے گھر سے کم از کم 100 فٹ کے فاصلے پر ہے۔ ان کے گھر کے بالکل دوسری طرف ایک گھر تھا لیکن اس خاندان کے لوگوں کا بھی ریڈی خاندان سے کوئی رابطہ نہیں تھا کیونکہ خود ریڈی خاندان ان لوگوں سے فاصلہ رکھتا تھا۔ اگر کوئی ان کے دروازے پر دستک دیتا تو بھی وہ باہر نہ آتے تھے اور صرف کھڑکی سے بات کرتے تھے۔ کچھ سال سے اس گھر کے آس پاس کے لوگ علاقے میں بدبو کی شکایت کر رہے تھے لیکن پولیس نے اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ گھر بند ہونے کی وجہ سے پولیس بھی کافی دن تک نہیں آئی۔ گھر کا بیرونی گیٹ بھی بند تھا لیکن تقریباً دو ماہ قبل گیٹ ٹوٹ گیا جس کے بعد دو روز قبل لوگوں نے پولیس کو اطلاع دی کہ گھر کا دروازہ بھی انھیں ٹوٹا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ایک رپورٹ میں جگن ناتھ ریڈی کے جسم میں خون جمنے کی شکایت کا ذکر تھا۔ ریکارڈ سے یہ بھی پتا چلا کہ جگن ناتھ ریڈی کی بیٹی سپونڈائلائٹس کے مرض میں مبتلا تھیں جبکہ کرشنا موٹاپے اور دل کی بیماری میں مبتلا تھے۔ سب سے چھوٹے بیٹے نریندر کی صحت سے متعلق زیادہ کچھ نہیں ملا۔ ایک پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک نوٹ ایسا بھی ملا ہے جس میں اشارہ دیا گیا ہے کہ خاندان کوئی انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے حالانکہ اس پر نہ تو تاریخ درج ہے اور نہ ہی دستخط کیے گئے تھے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس خاندان کے ایک رشتہ دار نے پولیس کو بتایا کہ ریڈی خاندان کے افراد اپنی بیماریوں سے پریشان تھے۔ اس کے علاوہ انھیں اپنی بیٹی کی شادی نہ ہونے پر بھی فکر تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2eyz2ml7pzo", "summary": "وہ ایک بہت ذہین ڈاکٹر تھے جنھیں یہ یقین تھا کہ سینکڑوں لوگوں کو مار کر بھی وہ قانون کی گرفت سے محفوظ رہیں گے۔ پولیس کے ہاتھوں شبے کی بنیاد پر پکڑے جانے کے باوجود اُن کا یہ یقین کم نہیں ہوا تھا۔", "title": "200 سے زائد مریضوں کا قاتل ڈاکٹر ٹائپ رائٹر کی ایک غلطی سے کیسے پکڑا گیا؟", "firstPublished": "2023-12-29T12:46:38.035Z", "id": "c2eyz2ml7pzo", "article": "وہ ایک بہت ذہین ڈاکٹر تھے جنھیں یہ یقین تھا کہ سینکڑوں لوگوں کو مار کر بھی وہ قانون کی گرفت سے محفوظ رہیں گے۔ پولیس کے ہاتھوں شبے کی بنیاد پر پکڑے جانے کے باوجود اُن کا یہ یقین کم نہیں ہوا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ لوگ اچانک مر جاتے ہیں، خصوصاً بوڑھے لوگ جنھیں ایک دن مرنا ہی ہوتا ہے۔ وہ بضد رہے کہ انھوں نے کچھ غلط کام نہیں کیا اور یہ کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اُن کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔ مگر ان تمام تر خوش فہمیوں کے باوجود وہ محض ایک چھوٹی سے غلطی پر پکڑے گئے۔ اسی شک کی بنیاد پر ایلن میسی نے ایک مرتبہ اپنی بیٹی ڈیبی کو بتایا تھا کہ ڈاکٹر ہیرالڈ کے پاس علاج کی غرض سے جانے والے مریضوں میں شرح اموات بہت زیادہ ہے۔ ایک اور خطرناک بات جو ایلن نے محسوس کی تھی وہ یہ کہ مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین تھیں۔ ایلن یہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ یہ بات کیسے کریں کیونکہ اُن کے چھوٹے سے گاؤں میں ڈاکٹر ہیرالڈ بہت عزت دار شخص کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ایلن اس بات سے بھی پریشان تھیں کہ ایسے آدمی پر الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے۔ ان پر شک کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر ہیرالڈ کے بہت سے مردہ مریضوں کو دفن کرنے کے بجائے جلایا جا رہا تھا۔ ان کے رشتہ دار اس کے لیے درخواست کر رہے تھے۔ ڈاکٹر ہیرالڈ کی پرورش ایک غریب گھرانے میں ہوئی تھی۔ ان کے والد ٹرک ڈرائیور تھے اور والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ ہیرالڈ پر ماں کا بہت اثر تھا۔ ماں نے ہیرالڈ کو صرف ایک سبق سکھایا تھا کہ اگر وہ غربت سے نکلنا چاہتا ہے تو اچھی تعلیم حاصل کرے۔ ہیرالڈ نے سنجیدگی سے اس ہدایت پر عمل کیا۔ تو جب ڈاکٹر لنڈا رینالڈس پہلی بار پولیس کے پاس گئیں تو پولیس کو ان کے خلاف کچھ غلط نہیں ملا۔ پولیس نے ریکارڈ دیکھے لیکن انھیں سب ٹھیک ہی لگا۔ پولیس کی سوچ یہ تھی کہ ایسے شخص کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں کیوں لیا جائے جس سے لوگوں کو بھی ان پر غصہ آئے گا۔ مریضوں والے رجسٹر میں وہی کچھ درج تھا جو ڈاکٹر ہیرالڈ پولیس کو بتاتے آئے تھے چنانچہ یہاں سے کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ پولیس کے پاس ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا، لیکن ایک فرانزک ماہر نے کمپیوٹر کا معائنہ کیا اور مختلف معلومات سے پردہ اٹھایا۔ یہ ہیرالڈ کی تیسری اور سب سے بڑی غلطی تھی۔ حکام کو خدشہ تھا کہ ہیرالڈ جیل میں بھی قتل کا سلسلہ نہیں روک سکے گا اور یہ خدشہ سچ ثابت ہوا کیونکہ ہیرالڈ کے ساتھ جیل میں دو قیدیوں کو درد کش ادویات کی زیادہ مقدار کی وجہ سے آئی سی یو میں داخل کرنا پڑا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czkj9888vgvo", "summary": "انڈین ریاست پنجاب میں کینیڈا جانے کے لیے آئلٹس پاس لڑکی کے ساتھ شادی کرنا ایک رجحان بن گیا ہے جس میں بظاہر لڑکا اور لڑکی دونوں کا فائدہ ہے۔", "title": "آئلٹس پاس لڑکی سے شادی اور ’45 لاکھ روپے خرچ‘ لیکن کینیڈا کا ویزا پھر بھی نہ ملا", "firstPublished": "2023-12-29T03:38:51.202Z", "id": "czkj9888vgvo", "article": "’لڑکا صرف کینیڈا جانے کے لیے لڑکی سے شادی کرے گا، جب لڑکی، لڑکے کو کینیڈا بلائے گی تو وہ وہاں جا کر اپنی بیوی کو طلاق دینے کا پابند ہو گا۔‘ اس معاہدے میں یہ شرط بھی ہے کہ 12ویں جماعت پاس کرنے کے بعد لڑکی کو انٹرنیشنل انگلش لینگویج ٹیسٹنگ سسٹم (آئلٹس) بھی پاس کرنا ہو گا۔ لڑکی کے پڑھنے کا خرچہ لڑکا اٹھائے گا جبکہ بدلے میں لڑکی سپاؤس ویزے پر لڑکے کو کینیڈا بلا لے گی۔ شادی بھی ہوئی، رشتہ دار بھی آئے اور اس شادی کو رجسٹر بھی کیا گیا لیکن والدین نے لڑکی کی رخصتی نہیں کی کیونکہ ان کی نظر میں یہ شادی نہیں بلکہ کینیڈا جانے کا ایک معاہدہ ہے۔ معاہدے کے مطابق بلجیت جگی کے اہلخانہ سواتی کے ساتھ شادی اور کینیڈا میں سواتی کی تعلیم پر ہونے والے تمام اخراجات پورے کریں گے جبکہ بدلے میں سواتی کینیڈا پہنچنے پر اپنے شوہر (سوربھ) کو وہاں اپنے پاس لے آئے گی۔ اس کے بعد 2023 میں سواتی انڈیا واپس آتی ہیں اور مارچ کے مہینے میں انھوں نے سوربھ کے بڑے بھائی بلجیت جگی سے شادی کی۔ ان دونوں کی عمر میں 13 سال کا فرق ہے۔ بی بی سی نے کویتا اور کینیڈا میں مقیم ان کی بیٹی سواتی سے بھی اس معاملے پر بات کی۔ لڑکی کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف بلجیت کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ کافی عرصے سے انڈین پنجاب میں بیرون ملک خصوصاً کینیڈا جانے کے لیے کانٹریکٹ شادی کا رجحان چل رہا ہے۔ اس میں لڑکی آئلٹس پاس کرتی ہے اور ایسے لڑکے سے شادی کر لیتی ہے جو اس کے ساتھ کینیڈا جانے کے لیے تیار ہو اور اس کے تعلیمی اخراجات اٹھا سکے۔ لڑکی کینیڈا پہنچنے کے بعد لڑکے کو کینیڈا آنے کی دعوت دیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ شادی دراصل لڑکے کے لیے کینیڈا جانے کا ٹکٹ ہوتی ہے۔ یہاں بھی لووپریت سنگھ نے آئلٹس پاس کرنے والی لڑکی بینت کور سے شادی کی اور اس کے بیرون ملک جانے کے تمام خرچے خود اٹھائے۔ یہ کیس اس وقت عدالت میں ہے۔ لووپریت سنگھ کے چچا ہرویندر سنگھ سدھو نے کہا کہ اُس وقت بھی ایسے لڑکے سامنے آ رہے تھے جو ایسے دھوکے کا شکار ہوئے لیکن کینیڈا جانے کا رجحان لوگوں کے دماغوں پر سوار تھا۔ پنجاب یونیورسٹی آف پٹیالہ کے سابق پروفیسر گیان سنگھ کا کہنا ہے آئلٹس پاس لڑکیوں کے ساتھ شادی کا رجحان پورے پنجاب میں ہے۔ وہ کہتے ہیں ’اس کی وجہ پنجاب میں بے روزگاری اور کینیڈا کی چمک ہے۔ جب لڑکی کینیڈا پہنچتی ہے تو صورتحال پیچیدہ ہو جاتی ہے کیونکہ لڑکے اور لڑکی کے خیالات میں بہت فرق آ جاتا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ لڑکوں کی کم تعلیم اور آئلٹس میں اچھے سکور نہ آنے کی وجہ سے وہ اکثر شادی کر کے کینیڈا جانے کا سوچتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nykd8w0ego", "summary": "انڈین ریاست چھتیس گڑھ کی ایک عدالت نے اپنی بیوی کے ساتھ غیر فطری انداز میں سیکس کرنے کا جرم ثابت ہونے پر شوہر کو 9 سال قید بامشقت اور 10 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔", "title": "بیوی کے ساتھ غیرفطری انداز میں سیکس کرنے پر شوہر کو 9 سال قید بامشقت، تشدد کے الزام میں ساس، سسر اور نند کو بھی سزائیں", "firstPublished": "2023-12-26T14:49:20.344Z", "id": "c4nykd8w0ego", "article": "انڈین ریاست چھتیس گڑھ کی ایک عدالت نے اپنی بیوی کے ساتھ غیر فطری انداز میں سیکس کرنے کا جرم ثابت ہونے پر شوہر کو 9 سال قید بامشقت اور 10 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ اس کے علاوہ اپنی بیوی پر حملہ آور ہونے اور اسے تشدد کا نشانہ بنانے کے الزامات کے تحت شوہر کو مزید ایک سال قید بھگتنا ہو گی اور ایک ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ خاتون کے وکیل نیرج چوبے کے مطابق عدالت نے خاتون کے ساس اور سسر کو بھی 10 ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ خاتون کی بھابھی کو چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ سسرال والوں کو بھی بہو پر تشدد کرنے اور ہراساں کرنے کے الزامات پر سزا سنائی گئی ہے۔ مقامی عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب پہلے ہی انڈیا میں میریٹل ریپ (شوہر کا اپنی بیوی کے انکار کے باوجود اسے جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کرنا) اور شادی کے رشتے میں رہتے ہوئے شوہر کی جانب سے خاتون کو غیر فطری جنسی حرکات پر مجبور کرنے جیسے مسائل پر بحث جاری ہے۔ استغاثہ کے مطابق اِس جوڑے کی شادی سنہ 2007 میں ہوئی تھی جس کے بعد ہی سے بیوی پر مبینہ تشدد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ خاتون کی درخواست کے مطابق انھیں شادی کے بعد ذہنی و جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ اس دوران انھیں متعدد مرتبہ غیرفطری انداز میں سیکس کرنے پر مجبور بھی کیا گیا۔ اسی دوران خاتون کے ہاں ایک بیٹی کی پیدائش بھی ہوئی اور سنہ 2016 میں وہ اپنے شوہر کا گھر چھوڑ کر واپس اپنے والدین کے ہاں آ گئیں اور اپنے شوہر اور سسرال والوں کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا۔ خاتون نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ اُن کا شوہر انھیں ہراساں کرنے کی غرض سے اُن کے ساتھ غیر فطری جنسی تعلق قائم کرتا اور اس دوران وہ ناصرف خود فحش فلمیں دیکھتا بلکہ اپنی اہلیہ کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کرتا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ملزم کے جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے انھیں نو سال کی قید بامشقت کی سزا سنائی جاتی ہے جبکہ اس کے علاوہ عدالت نے ان پر 10 ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔ چھتیس گڑھ ہائیکورٹ کے وکیل دیویش کمار کا کہنا ہے کہ مقامی عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے اس کے خلاف بڑی عدالت میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے لیکن عدالتوں سے اس طرح کے فیصلے سامنے آنے کے بعد ان مسائل پر سماجی تفہیم پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd17k0jq594o", "summary": "بلوچستان کی حالیہ تحریک کو سمجھنا ہو گا، گزشتہ تحاریک سے یہ تحریک قطعی مختلف اور یکسر جُدا ہے۔ اس بار یہ تحریک یوں بھی مختلف ہے کہ راہبر عورتیں ہیں، یہ سمجھنا ہو گا کہ حق دو تحریک کی مائی زینب ہو یا ماہ رنگ بلوچ اور سمی یہ سب عورتیں بدلے ہوئے بلوچستان کا پتا دے رہی ہیں جس کا اندازہ نہیں لگایا جا رہا۔ پڑھیے عاصمہ شیرازی کا کالم۔ ", "title": "چٹان عورتوں کی زنانہ وار تحریک: عاصمہ شیرازی کا کالم", "firstPublished": "2023-12-26T08:11:58.142Z", "id": "cd17k0jq594o", "article": "ماہ رنگ بلوچ سے نہ عوام ناآشنا ہیں اور نہ سمی دین بلوچ اب غیر معروف رہی ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے اپنے پیارے ڈھونڈتی یہ بچیاں اب حوصلہ کھو چکی ہیں۔ اسلام آباد میں لگے کیمپ میں بیٹھا ایک ایک شخص ایک کہانی ہے یہ سب لوگ کہانیاں ہیں۔ یہ سب اسلام آباد کو اپنی کہانیاں سُنانے آئے ہیں، کسی کا باپ موجود نہیں تو کسی کا بیٹا غائب، کوئی اپنے طالبعلم بیٹے کے لاپتہ ہونے کا بتا رہا ہے تو کوئی اپنے والد کی گمشدگی کی پکار لگا رہا ہے۔ ان کے ستائے ہوئے چہرے اور تلخ لہجے پتہ دے رہے ہیں کہ اب کی بار اسلام آباد نے ان کی بات نہ سُنی تو یہ دکھ دل میں نہیں دبائیں گے، یہ چٹانیں اب لاوے کا بوجھ برداشت نہ کر پائیں گی۔ دسمبر کی سرد رات کے نصف میں ویمن پولیس سٹیشن میں میری موجودگی میں ارباب اختیار سے ماہ رنگ یہ سوال بار بار اُٹھا رہی تھی کہ ہمارا قصور کیا ہے؟ کیوں ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں؟ ہم اپنا حق ہی تو مانگ رہے ہیں، آپ ہماری بات تو سُنیے۔ کیا ہم اس سلوک کے مستحق ہیں؟ یوں تو بلوچستان گذشتہ کئی دہائیوں سے شورش زدہ ہے لیکن پچھلے چند سالوں میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین تر ہو چکا ہے۔ حالیہ جاری تحریک یوں تیز ہوئی جب بلوچ طالبعلموں کو مبینہ طور پر اٹھایا گیا اور بائیس برس کے بالاچ مولا بخش کو لاش کی صورت لوٹایا گیا۔ پولیس کا موقف ہے کہ بالاچ زیر حراست تھا مگر عسکریت پسندوں کے حملے میں مارا گیا۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں اس طرح کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں مگر اصل سوال یہ ہے کہ بلوچ طالبعلموں کو ہی کیوں اُٹھا لیا جاتا ہے۔ علم کے طالبوں سے خوف کیسا؟ بہر حال اگر شکایت ہے تو گرفتار کیا جائے، عدالتوں کے روبرو پیش کیا جائے نہ کہ اُنھیں غائب کر دیا جائے۔ بھلا کبھی آواز بھی قتل ہوئی ہے، کبھی سوچ بھی اغواء کی جا سکی ہے یا کبھی خیال کو زنجیریں پہنائی گئی ہیں؟ بلوچستان کی حالیہ تحریک کو سمجھنا ہو گا، گذشتہ تحاریک سے یہ تحریک قطعی مختلف اور یکسر جُدا ہے۔ اس بار یہ تحریک یوں بھی مختلف ہے کہ راہبر عورتیں ہیں، یہ زنانہ وار لڑائی کا آغاز ہے، بلوچستان میں حق دو تحریک کے بعد یہ نیا پہلو سامنے آیا ہے۔ یہ سمجھنا ہو گا کہ حق دو تحریک کی مائی زینب ہو یا ماہ رنگ بلوچ اور سمی یہ سب عورتیں بدلے ہوئے بلوچستان کا پتا دے رہی ہیں جس کا اندازہ نہیں لگایا جا رہا۔ یہ عورتیں مردوں کی حفاظت بن گئی ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4ny7x24778o", "summary": "پاکستان کے شہر جڑانوالہ میں چار ماہ قبل مسیحی برادری نے سینکڑوں مظاہرین کی جانب سے دو درجن گرجا گھروں اور دسیوں مکانوں میں توڑ پھوڑ کا منظر دیکھا۔ کرسمس کی تیاریوں کے دوران بھی یہ لوگ اپنے نقصانات کے صدمے میں ہیں۔", "title": "جڑانوالہ فسادات کے کئی ماہ بعد بھی مسیحی برادری خوفزدہ: ’گلی میں کسی کی چیخ کی آواز بھی آئے تو سب ڈر جاتے ہیں‘", "firstPublished": "2023-12-24T08:40:23.253Z", "id": "c4ny7x24778o", "article": "جڑانوالہ میں مسیحی برادری کرسمس سے قبل کی تقریبات میں شریک شمال مشرقی پاکستان کے شہر جڑانوالہ میں چار ماہ قبل مسیحی برادری نے سینکڑوں مظاہرین کی جانب سے دو درجن گرجا گھروں اور دسیوں گھروں میں توڑ پھوڑ کا منظر دیکھا۔ اس کے بعد حکومت نے ان کے گرجا گھروں اور مکانات کی تعمیر نو میں مدد کے لیے رقم کا وعدہ کیا۔ لیکن اب ان کا سب سے بڑا تہوار کرسمس سامنے ہے اور اس تہوار کی تیاری کے دوران ابھی بھی بہت سے مسیحی برادری کے لوگ حملے سے ہونے والے نقصانات کے صدمے میں ہیں۔ یہ جلوس چرچ سے شروع ہوتا ہے جس میں پادری کے ہمراہ دو ڈھولچی اور تقریبا 15-20 پُرجوش گویے شامل ہیں۔ یہ جلوس تاریک گلیوں سے گزرتا ہے جہاں لوگ اپنے موبائل کی ٹارچ سے روشنی کرتے ہیں اور جیسے جیسے یہ آگے بڑھتا ہے ہر گلی اور موڑ سے اس میں مزید لوگ شامل ہوتے جاتے ہیں۔ بچے اپنے کرسمس کے بہترین لباس میں ملبوس ہیں، کچھ اپنی پسندیدہ کیرول لائنوں کو بہ آواز بلند گا رہے ہیں۔ جبکہ دوسرے لوگ شرماتے ہوئے اس میں شامل ہوتے ہیں۔ وہ سب چمکدار کمانوں، فادر کرسمس ٹوپیوں اور لائٹ اپ ٹرینرز کے ساتھ چمکدار لباس میں ملبوس سڑکوں سے گزرتے ہوئے کیرول کے جلوس میں شامل ہوتے ہیں۔ جلوس کی رہنمائی سے تھوڑی دیر کا وقفہ لے کر وہ کہتے ہیں کہ 'کرسمس اب ہمارے دلوں میں ہے۔ عیسی مسیح میرے لیے نجات دہندہ ہیں۔ انھوں نے مجھے حملے کے دوران بچایا۔ وہ ہم سب کے نجات دہندہ ہیں۔' ہجوم پرتشدد ہو گیا، چرچوں اور نجی گھروں پر حملہ کر دیا گيا۔ مسیحی برادری کے بہت سے لوگ شہر میں اپنے گھروں کو چھوڑنے اور کھلے میدانوں میں رات گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ توڑ پھوڑ کے ان واقعات میں نو پولیس اہلکار زخمی ہوئے لیکن کسی شہری کی جان نہیں گئی۔ حکومت کی طرف سے پیسے کی امداد کے ساتھ ساتھ خیراتی اداروں، این جی اوز اور مقامی مساجد اور گرجا گھروں میں منعقدہ آؤٹ ریچ پروگراموں کے ذریعے کام کیے گئے ہیں اور عطیات دیے گئے ہیں۔ لیکن چار ماہ بعد بھی کچھ گھروں میں اس رات ہونے والی توڑ پھوڑ کے نشانات نظر آتے ہیں۔ کیپٹن ضیا کا کہنا ہے کہ 'قانون کے نفاذ کا اپنا ایک عمل ہے۔ محکمہ پولیس اور حکومت یہاں کے دو سب سے بڑے سٹیک ہولڈرز ہیں۔ ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اس فعل کو مستقبل میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اگر ہم نے انصاف کو یقینی نہیں بنایا تو یہ ہوتا رہے گا۔' بچے سنو مین، کرسمس کے درختوں اور فادر کرسمس کی تصویروں سے سجے سٹیج پر اپنے کرسمس ڈانس کے معمولات کو احتیاط سے ریہرسل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51z0w2w935o", "summary": "نگران وزیراعظم نے ایک بلوچ صحافی کو بتایا کہ جب میں سونے جا رہا تھا تو میں نے اسلام آباد انتظامیہ کو ہدایات دیں کہ بلوچ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔ اب میں نہیں جانتا کہ جب نگران وزیراعظم اپنی خوابگاہ کا دروازہ بند کر لیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔\n", "title": "نگران وزیر اعظم کی خواب گاہ سے براہ راست", "firstPublished": "2023-12-23T07:55:01.647Z", "id": "c51z0w2w935o", "article": "کل رات ہمارے نگران وزیراعظم اپنے پسندیدہ خوابگاہ میں سوئے اور سونے سے پہلے انھیں علم تھا کہ ان کے آبائی صوبے سے ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے بچیاں، عورتیں، بچے اور نوجوان اسلام آباد پہنچے۔ نگران وزیراعظم نے ایک بلوچ صحافی کو بتایا کہ جب میں سونے جا رہا تھا تو میں نے اسلام آباد انتظامیہ کو ہدایات دیں کہ بلوچ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔ اب میں نہیں جانتا کہ جب نگران وزیراعظم اپنی خوابگاہ کا دروازہ بند کر لیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔ عین اُس وقت جب بلوچستان سے لایا گیا نگران محو خواب ہوا تو اسلام آباد کی سڑکوں پر سخت سردی میں مظاہرین پر پانی والی توپ سے یخ اور غالباً گندے پانی کی بوچھاڑ کی جاتی ہے، وردی والے اور بغیر وردی والے وحشیانہ لاٹھی چارج کرتے ہیں۔ جو صرف اپنے پیاروں کی آزادی اور انصاف مانگنے آئے تھے ان کو گھسیٹ کر تھانوں میں بند کیا جاتا ہے اور پھر سڑکوں پر بسیں کھڑی کر دی جاتی ہیں کہ انھیں جہاں سے آئے ہیں وہاں چھوڑ کر آؤ۔ اب ہمیں کوئی اسلام آباد کے راز جاننے والا ہی بتا سکتا ہے کہ نگران وزیراعظم جب سونے کے لیے اپنے فیورٹ بیڈروم میں جاتا ہے تو دروازہ اندر سے خود بند کرتا ہے یا باہر سے بند کیا جاتا ہے۔ اسلام آباد کی یخ بستہ رات میں پانی کی توپ کی یلغار میں ٹھٹھرتے ایک تھانے سے دوسرے تھانے میں اپنے بچوں کو ڈھونڈتے مظاہرین میں ماہ رنگ اور سمی دین بلوچ بھی شامل ہیں۔ پاکستان کا کوئی بھی صحافی جو کبھی کراچی، کوئٹہ یا اسلام آباد پریس کلب سے گزرا ہے وہ جانتا ہے کہ ماہ رنگ اور سمی بچپن ہی سے احتجاجی کیمپوں میں بیٹھی ہیں، ہماری آنکھوں کے سامنے جوان ہوئی ہیں اور لیڈر بنی ہیں۔ اب اپنے پیارے ہلاک اور گمشدہ بھائیوں کے لیے آواز اٹھانے اسلام آباد پہنچی ہیں، تو پولیس والے ان سے پوچھتے ہیں کہ تمھارے مرد کہاں ہیں؟ کچھ مار دیے، باقی غائب کر دیے، ایک کو وزیراعظم کی خوابگاہ میں بند کر دیا یا اس نے اندر سے کنڈی لگا لی۔ دوسرا سوال یہ کہ وزیراعظم بھی تمھارا، سینیٹ کا چیئرمین بھی، چیف جسٹس بھی تمھارا پھر اسلام آباد میں دربدر کیوں ہو۔ سمی دین بلوچ جس کی تعلیم و تربیت احتجاجی کیمپوں میں ہوئی ہے اس کا سیدھا سا جواب دیتی ہے کہ یہ سوال ان تینوں سے جا کر پوچھو۔ ہمارے تمام سیاستدانوں پر الزام لگتا ہے کہ انھیں جب ضرورت پڑتی ہے تو وہ بوٹ پالش کرنے کے کام پر لگ جاتے ہیں، کبھی کسی بغاوت کا جھانسہ بھی دیتے ہیں لیکن ایک ہاتھ میں بوٹ چمکانے والا برش تیار رکھتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ceq4lvqz583o", "summary": "مقامی حکام کے مطابق جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ کی چارلس یونیورسٹی میں ایک اسلحہ بردار حملہ آور نے فائرنگ کر کے 14 افراد کو ہلاک جبکہ 25 کو زخمی کر دیا ہے۔ اس حملے کو ملک کی حالیہ تاریخ کا سب سے خطرناک حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔", "title": "پراگ کی یونیورسٹی میں فائرنگ سے 14 افراد ہلاک: ’حملہ آور کے داخل ہونے سے پہلے دروازہ بند کر دیا‘", "firstPublished": "2023-12-22T04:35:24.722Z", "id": "ceq4lvqz583o", "article": "مقامی حکام کے مطابق جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ کی چارلس یونیورسٹی میں ایک اسلحہ بردار حملہ آور نے فائرنگ کر کے 14 افراد کو ہلاک جبکہ 25 کو زخمی کر دیا ہے۔ اس حملے کو ملک کی حالیہ تاریخ کا سب سے خطرناک حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ شہر کے تاریخی مرکز میں موجود چارلس یونیورسٹی میں فائرنگ کے بعد 24 سالہ حملہ آور کو بھی مار دیا گیا۔ جمعرات کی شام کو ایک بریفنگ میں ملک کے پولیس چیف اور وزیر داخلہ نے کہا کہ حملہ آور اسی فیکلٹی کا ایک طالبعلم تھا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ پراگ سے 21 کلومیٹر دور ایک گاؤں سے تھا اور ملزم کے والد کو جمعرات کے دن ہی مردہ حالت میں پایا گیا تھا۔ حملہ آور نے یہ سب کیوں کیا اس کے متعلق فوری اطلاعات نہیں تھیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت یہ تحقیق کر رہے کہ گذشتہ ہفتے پراگ کے قریب جنگل میں دو افراد کی موت کا ذمہ دار بھی شاید یہی شخص تھا۔ ’پھر ہمیں پتا چل گیا کہ کچھ بڑا ہو رہا ہے۔ انٹر نیٹ پر اس بارے میں کچھ نہیں ہے اور میڈیا اور خبروں میں بھی کچھ نہیں ہے۔ پھر کسی وقت سپیشل آپریشن گروپس کے اہلکار پہنچے اور انھوں نے کمرے کی تلاشی لی اور باہر چلے گئے، انھوں نے ہمیں اندر ہی رہنے کا کہا۔ انھوں نے کہا ’لوگوں کا ایک ہجوم سڑک پار کر رہا تھا جب پہلی گولی چلی۔ مجھے لگا کہ جیسے کوئی پٹاخہ پھٹا ہے یا گاڑی کے سائلینسر میں سے آواز آئی ہے لیکن پھر میں نے دوسرے فائر کی آواز سنی اور لوگ بھاگنا شروع ہو گئے۔‘ ’میں نے سکوائر سے 30 فٹ دور گولی زمین پر گرتے ہوئے دیکھی اس کے بعد میں جھک کر دکان میں چھپ گئی۔ پورے علاقے کو بند کر دیا گیا اور درجنوں پولیس کی گاڑیاں اور ایمبولینسیں یونیورسٹی کی جانب جا رہی تھیں۔‘ چارلس یونیورسٹی کے طلبا نے کہا کہ حملے کے وقت انھوں نے خود کو کلاس رومز میں بند کر لیا تھا ۔ چارلس یونیورسٹی کے طالبعلم جیکب ویزمین نے ایکس پر لکھا ’اس وقت پراگ میں کلاس روم میں پھنسا ہوا ہوں۔ حملہ آور کے داخل ہونے سے پہلے کمرے کا دروازہ بند کر دیا تھا۔‘ خبر رساں ادارے رائٹرز نے فیکلٹی کی ای میل دیکھی جس میں عملے کو حملے کے بارے میں خبردار بھی کیا گیا۔ اس میں لکھا گیا ’جہاں ہیں وہاں رہیں، کہیں نہ جائیں، اگر آپ دفاتر میں ہیں تو انھیں بند کر دیں اور دروازے کے سامنے فرنیچر رکھ دیں، لائٹ بند کر دیں۔‘ چارلس یونیورسٹی کی بنیاد 1347 میں رکھی گئی یہ جمہوریہ چیک کی سب سے پرانی اور بڑی یونیورسٹی ہے اور یورپ کی پرانی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2d8gwdwwlo", "summary": "قتل کرنے والے دونوں نوجوانوں کے درمیان واٹس ایپ پیغامات، لوگوں کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی، قتل، تشدد اور جُرم کی دُنیا سے متعلق دیگر معاملات پر بات چیت اور معلومات جمع کرنے سے متعلق جو باتیں سامنے آئی ہیں اُن کو پڑھنا انتہائی مُشکل اور بلند حوصلے والے لوگوں کا کام ہے۔‘", "title": "تیز دھار چاقو سے اپنی ’دوست‘ کا بہیمانہ قتل کرنے والے دو نابالغ جنھیں ’قتل کرنے کی ہوس‘ تھی", "firstPublished": "2023-12-21T14:08:15.362Z", "id": "cv2d8gwdwwlo", "article": "یہ وہ چند باتیں یا ایک ہولناک قتل کی جانب لے کر جانے والی ابتدائی چند سطریں ہیں جن کے بعد ہم ایک ایسے واقعے کو بیان کرنے جا رہے ہیں کہ جو شاید کچھ قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو۔ اس جرم کو انجام دینے سے پہلے مجرموں نے باقاعدہ منصوبہ بنایا، اس گھناؤنی قتل کی واردات کے لیے جو منصوبہ بنا اُسے ایک کاغذ کے ٹُکڑے پر لکھا گیا، کہ کیا، کب اور کیسے کرنا ہے۔ بریانا کے قتل کے یہ منصوبہ بندی کیسے ہوئی تو اس بارے میں کیس کی ڈپٹی پراسیکیوٹر ارسلا ڈوئل کا کہنا تھا کہ ’بریانا کو قتل کرنے والے دونوں نوجوانوں کے درمیان واٹس ایپ پیغامات، لوگوں کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی، قتل، تشدد اور جُرم کی دُنیا سے متعلق دیگر معاملات پر بات چیت اور معلومات جمع کرنے سے متعلق جو باتیں سامنے آئی ہیں اُن کو پڑھنا انتہائی مُشکل اور بلند حوصلے والے لوگوں کا کام ہے۔‘ پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس قتل میں ملوث 16 سال کے لڑکے اور لڑکی کا جو منصوبہ سامنے آیا ہے وہ دل دہلا دینے والا ہے اور اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ان دونوں کے دل و دماغ میں کس قدر خوفناک اور گھناؤنی قتل کی سازش چل رہی تھی۔‘ حکام کے مطابق بریانا کی موت کا یہ پروانہ ہاتھ سے لکھا گیا اور اس پر ایک طویل منصوبہ بندی کے بعد عمل کیا گیا۔ حراست میں لیے جانے کے بعد یہ دونوں نوجوانوں میں سے ایکس (عُمر کم ہونے کی وجہ سے شناخت چھپانے کی غرض سے فرضی نام ’ایکس‘ استعمال کیا جا رہا ہے) کے بیڈروم سے ملا تھا۔ سفاک قاتلوں نے بریانا کی لاش کو پارک میں چھپانے کا منصوبہ تک بنایا تھا لیکن یہاں معاملہ اُن کی منصوبہ بندی کے مطابق نہ ہو سکا اور وجہ یہ تھی کہ اپنے کتوں کے ساتھ سیر پر نکلنے والے دو افراد نے انھیں دیکھ لیا۔ اس موقع پر وہ جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ چیشائر پولیس کے ڈیٹیکٹیو کانسٹیبل مائیک ایونز نے کہا کہ شروع سے ہی یہ واضح تھا کہ ایکس اور وائے دونوں کو اس بات کا یقین تھا کہ وہ یہ سب اتنی منصوبہ بندی کے ساتھ کریں گے کہ کسی کو اس بارے میں نہ تو علم ہوگا اور نہ ہی کسی کو اُن پر کسی بھی قسم کا شک ہوگا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’میں جانتا ہوں کہ لوگ۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اس طرح کی امیج ہوگی جو انھوں نے خود بنائی لیکن حقیقت میں وہ بہت ذہین بچے ہیں جنھوں نے اتنا بڑا جُرم کرنے کے لیے اتنی کم عُمری میں ایسی خطرناک منصوبہ بندی کی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cpv6wg9w66qo", "summary": "جج ایمی پالمبو نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’اس عدالت کو واضح اور ٹھوس شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ جس جرم کے لئے سیمنز کو قصوروار ٹھہرایا گیا، سزا سنائی گئی اور قید کیا گیا تھا۔۔۔ سیمنز نے ایسا نہیں کیا وہ اس جُرم کے مرتکب نہیں ہوئے۔", "title": "قتل کے جرم میں 48 سال جیل میں گزارنے کے بعد بیگناہ قرار دیے جانے والا قیدی: ’یہ میری ثابت قدمی کا صلہ ہے‘", "firstPublished": "2023-12-21T09:34:26.488Z", "id": "cpv6wg9w66qo", "article": "امریکی ریاست اوکلاہوما کی ایک عدالت نے ایک ایسے شخص کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے بری کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں جو قتل کے جرم میں گذشتہ نصف صدی سے جیل کاٹ رہے تھے۔ ابتدائی طور پر 70 سالہ گلین سیمنز کو جولائی میں رہا کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے تاہم اس وقت عدالت کے ایک جج نے ان کے مقدمے میں دوبارہ کارروائی اور سماعت کا حکم دیا تھا۔ تاہم دوبارہ سماعت کے بعد ایک کاؤنٹی ڈسٹرکٹ اٹارنی نے پیر کے روز کہا کہ ان کے جرم میں ملوث ہونے کے حوالے سے شواہد ناکافی ہیں۔ اب منگل کے روز ایک حکم میں اوکلاہوما کاؤنٹی کی ڈسٹرکٹ جج ایمی پالمبو نے گلین سیمنز کو بے گناہ قرار دیا ہے۔ جج ایمی پالمبو نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’اس عدالت کو واضح اور ٹھوس شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ جس جرم کے لیے سیمنز کو قصوروار ٹھہرایا گیا، سزا سنائی گئی اور قید کیا گیا، سیمنز نے اُس جُرم کا ارتکاب کیا ہی نہیں۔‘ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق فیصلے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سیمنز کا کہنا تھا کہ ’یہ اُن کی انصاف کے لیے مسلسل کوشش اور ثابت قدمی کا ثمر ہے۔‘ سیمنز کو اوکلاہوما سٹی کے مضافاتی علاقے میں شراب کی دکان پر ڈکیتی کے دوران کیرولین سو راجرز نامی شخص کے قتل کے الزام میں 48 سال، ایک ماہ اور 18 دن قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ نیشنل رجسٹری آف ایکسونیشن کے مطابق اس طرح وہ امریکہ میں کسی جرم کے بغیر سب سے طویل عرصے تک قید کاٹنے والے شخص بن گئے ہیں۔ سیمنز کی عمر 22 سال تھی جب انھیں اور شریک ملزم ڈان رابرٹس کو سنہ 1975 میں سزائے موت سنائی گئی۔ بعد ازاں امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے سزائے موت پر دیے جانے والے فیصلوں کی وجہ سے ان سزاؤں کو کم کر کے عمر قید کر دیا گیا تھا۔ فیصلے سامنے آنے کے بعد سیمنز کا کہنا تھا کہ قتل کے وقت وہ اپنی آبائی ریاست لوزیانا میں موجود تھے۔ گلین سیمنز اور رابرٹس کو ایک نوجوان کی گواہی کی وجہ سے سزا سنائی گئی تھی۔ رابرٹس کو 2008 میں پیرول پر رہا کیا گیا تھا۔ غلط طور پر سزا یافتہ افراد جو اوکلاہوما میں وقت گزارتے ہیں انھیں معاوضے کے طور پر 175،000 ڈالر (138،000 پاؤنڈ) ادا کیے جاتے ہیں۔ آن لائن فنڈز جمع کرنے والی ایک تنظیم ’گو فنڈ می‘ کے مطابق سیمنز اس وقت جگر کے سرطان سے لڑ رہے ہیں جس نے ان کی زندگی گزارنے کے اخراجات اور کیموتھراپی میں مدد کے لیے ہزاروں ڈالر جمع کیے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51z6jjed3po", "summary": "اٹلی کی ایک عدالت نے ایک پاکستانی نژاد جوڑے کو اپنی 18 سالہ بیٹی کے قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ اس قتل کی وجہ بیٹی کی جانب سے ارینج میرج سے انکار بتائی گئی ہے۔ ", "title": "’شادی سے انکار پر‘ بیٹی کے قتل کا الزام، اٹلی میں پاکستانی نژاد والدین کو عمر قید کی سزا", "firstPublished": "2023-12-20T14:11:47.277Z", "id": "c51z6jjed3po", "article": "اٹلی کی ایک عدالت نے ایک پاکستانی نژاد جوڑے کو اپنی 18 سالہ بیٹی کے قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ اس قتل کی وجہ بیٹی کی جانب سے ارینج میرج سے انکار بتائی گئی ہے۔ ان کے والد شبر عباس کو اگست میں پاکستانی حکام نے گرفتار کر کے اٹلی کے حوالے کیا تھا۔ ثمن کی والدہ نازیہ شاہین کو ان کی غیر موجودگی میں سزا سنائی گئی ہے۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کہیں پاکستان میں ہی روپوش ہیں۔ شبر عباس نے اس سے قبل عدالت کو بتایا تھا کہ انھوں نے ’اپنی زندگی میں کبھی اپنی بیٹی کے قتل کا نہیں سوچا تھا۔‘ واضح رہے کہ اس مقدمے میں ثمن کے چچا دانش حسنین کو قتل میں ملوث ہونے کے جرم میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم ان کے دو کزنز کو بری کر دیا گیا تھا۔ اپریل 2021 کے اواخر میں والدین کے ہاتھوں ثمن عباس کے قتل نے اٹلی کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ان کی گمشدگی کے بعد اٹلی کی مسلم برادری نے جبریوں شادیوں کے خلاف ایک فتویٰ بھی جاری کیا تھا۔ ثمن نے ایک پاکستانی نژاد نوجوان کو ملنا شروع کیا تھا۔ علاقائی دارالحکومت بولوگنا کی ایک سڑک پر ان دونوں کی بوسہ لیتے ہوئے ایک تصویر سامنے آئی تھی جس نے مبینہ طور پر ان کے والدین کو مشتعل کر دیا تھا۔ پولیس کی جانب سے جاری کردہ 29 اپریل 2021 کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ثمن عباس کے خاندان کے تین افراد نے بیلچے اور ایک نیلا بستہ اٹھا رکھا ہے۔ ان کی لاش بالآخر گذشتہ نومبر ایک فارم ہاؤس کے قریب سے برآمد ہوئی، جہاں یہ خاندان رہتا تھا۔ اس جگہ کی نشاندہی ثمن کے چچا نے یہ کہتے ہوئے کی کہ ان کی بھتیجی کو وہاں دفن کیا گیا ہے۔ نازیہ شاہین کی عدم موجودگی میں شمالی شہر ریگیو ایمیلیا کی عدالت نے دونوں والدین کو مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی۔ شبر عباس نے اس سے قبل عدالت کو بتایا تھا کہ وہ بے قصور ہیں۔ انھوں نے اصرار کیا کہ وہ اور ان کی اہلیہ صرف اسی رات ان کی بیٹی کا پیچھا کر رہے تھے جس رات وہ غائب ہوئی تھیں کیونکہ وہ ناخوش تھے کہ اتنی دیر ہو چکی تھی اور وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ وہ کہاں جا رہی ہیں۔ قبائلی رسم و رواج میں ایسی لڑکی جو کسی سے تعلقات استوار کرے تو اسے خاندان کی عزت پر دھبے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور عموماً پہلے عورت کو قتل کیا جاتا ہے اور پھر مرد کا تعاقب کیا جاتا ہے۔ گذشتہ ماہ پاکستان کے ضلع کوہستان میں ایک 18 سالہ خاتون کو ان کے والد اور چچا نے قبائلی عمائدین کے حکم پر گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ قتل کی وجہ وہ تصویر بنی جس میں انھیں ایک مرد کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cnd73x23n0yo", "summary": "بعض اندازوں کے مطابق 400 سے زیادہ ویڈیو کلپس موجود تھے جن میں 300 کے قریب قصور کے گاؤں حسین خانوالہ کے بچوں کے حوالے سے تھے۔ انسدادِ دہشت گردی عدالت نے مرکزی ملزم حسیم عامر سمیت تین افراد کو عمر قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جنھیں اب لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے بری کر دیا ہے۔ ملزمان کو کن بنیادوں پر بری کیا گیا؟ ", "title": "قصور ویڈیوز سکینڈل کے ملزمان بری: کیا ایسا ہو سکتا ہے اصل ملزم کبھی گرفتار ہی نہ ہوا ہو؟", "firstPublished": "2023-12-19T10:18:51.503Z", "id": "cnd73x23n0yo", "article": "کچھ اندازوں کے مطابق 400 سے زیادہ ویڈیو کلپس موجود تھے جن میں 300 کے قریب قصور کے گاؤں حسین خانوالہ کے بچوں کے حوالے سے تھے۔ مقامی آبادی کے غم و غصے اور پولیس سے پُرتشدد جھڑپوں کے بعد انتظامیہ اور پولیس نے ان الزامات پر تحقیقات کا آغاز کیا۔ اس جے آئی ٹی نے 30 سے زیادہ مقدمات کی تفتیش کی اور 19 ایسے بچوں کی نشاندہی کی جنھیں ریپ کیا گیا۔ انھوں نے جن شواہد کا جائزہ لیا ان میں 50 کے قریب ویڈیو کلپس اور 70 سے زیادہ تصاویر شامل تھیں جو پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی رپورٹ کا حصہ تھیں۔ دو سال تک چلنے والے مقدمات کے بعد انسدادِ دہشت گردی عدالت نے مرکزی ملزم حسیم عامر سمیت تین افراد کو عمر قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ دو سال بعد دوبارہ مقدمہ ہائی کورٹ سے واپس ٹرائل کورٹ میں آنے پر اے ٹی سی نے ان ملزمان کی سزا برقرار رکھی تھی۔ تاہم حال ہی میں لاہور ہائیکورٹ کے ایک دو رکنی بینچ نے قصور ویڈیوز سکینڈل کے تینوں مرکزی ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے ان کی عمر قید کی سزا کو کالعدم قرار دیا اور انھیں بری کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شہرام سرور کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے قصور ویڈیوز سکینڈل کیس کی سماعت کی، جس دوران ملزمان کے وکلا کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ ٹرائل کورٹ نے حقائق کے برعکس سزا سنائی، 2015 میں مقدمہ درج ہوا اور دوران سماعت پراسیکیوشن کی جانب سے تینوں ملزمان کے خلاف ویڈیو سکینڈل سے متعلق بطور ثبوت ایک بھی ویڈیو پیش نہیں کی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اس مقدمے کا نو صفحات پر تحریری اور تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ملزمان پر جرم ثابت کرنا وکیل استغاثہ کی ذمہ داری ہے اور وہ مناسب طرح سے یہ ثابت نہیں کر سکے ہیں۔ اس مقدمےمیں وکیل استغاثہ کے موقف میں کافی قانونی سقم موجود ہیں لہذا عدالت شک کی بنیاد کا فائدہ دیتے ہوئے ملزمان کی سزاؤں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انھیں بری کرنے کا حکم دیتی ہے۔ جب اس بارے میں ملزمان کے وکلا سے بات کی گئی توملزمان کے وکیل عابد حسین کھچی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس مقدمے میں ایک سے زیادہ ایسے نکات تھے جن کو بنیاد بنا کر لاہور ہائیکورٹ نے قصور ویڈیو سکینڈل کے ملزمان کو رہا کرنے کا فیصلہ دیا ہے۔ ایڈووکیٹ عابد حسین کھچی کہتے ہیں کہ عدالت میں کسی ملزم کو ریلیف حاصل کرنے کے لیے مقدمے میں ایک آدھ جھول ہی کافی ہوتا ہے اور اس مقدمے میں ایک سے زیادہ ایسے شکوک و شبہات موجود تھے جن کا ملزمان کو فائدہ ہوتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2lyxd3yv9vo", "summary": "امِت چودھری کے مطابق ان کے لیے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ سے بری ہونا آسان نہیں تھا۔ وہ دو سال سے زیادہ جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے تھے۔", "title": "انڈیا: پولیس افسر کے قتل کا ملزم جس نے وکالت پڑھ کر اپنا مقدمہ خود لڑا اور باعزت بری بھی ہوا", "firstPublished": "2023-12-18T11:27:51.389Z", "id": "c2lyxd3yv9vo", "article": "یہ 23 ستمبر سنہ 2023 کی بات ہے۔ انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں مظفر نگر کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کا ماحول دوسرے دنوں کے مقابلے کچھ مختلف تھا۔ اور وہ شخص امِت چودھری تھے جن کی عمر تقریباً 30 سال ہے۔ وہ قتل کے ایک مقدمے میں نامزد ملزم تھے اور اپنے کیس کا خود دفاع کر رہے تھے۔ امِت چودھری کے مطابق ان کے لیے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ سے بری ہونا آسان نہیں تھا۔ وہ دو سال سے زیادہ جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے تھے۔ بہر حال اب 12 سال بعد 23 ستمبر سنہ 2023 کو عدالت نے اس معاملے میں امِت چودھری سمیت 12 ملزمان کو بری کر دیا۔ ایک ملزم نیتو کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اس دوران چار ملزمان کی موت ہو گئی جن میں سے دو قتل کی سازش کرنے والوں میں شامل تھے۔ مسٹر امِت نے بی بی سی کو بتایا: ’میری بہن اسی گاؤں میں رہتی ہے۔ اہم سازش کرنے والوں میں سے ایک میری بہن کا دیور نیٹو تھا۔ میں اس دن گاؤں میں ان لوگوں کے ساتھ تھا، شاید اسی لیے اس میں میرا نام بھی شامل کر لیا گیا تھا۔‘ امِت کہتے ہیں: ’2009 میں میں نے مظفر نگر کالج سے 12 ویں پاس کیا، اس کے بعد میں بڑوت سے بی اے کر رہا تھا۔ اسی دوران یہ واقعہ پیش آیا اور مجھے جیل بھیج دیا گیا۔‘ انھوں نے مزید بتایا: ’میں 2019 میں میرٹھ ڈسٹرکٹ کورٹ میں ایک وکیل کے طور پر رجسٹرڈ ہوا۔ عدالت سے اجازت کے بعد، میں نے اپنے کیس کی نمائندگی کے لیے مظفر نگر کورٹ میں حاضر ہونا شروع کیا۔‘ امِت کے مطابق انھیں وہاں سے جو پیسے ملتے تھے ان سے وہ کھانے پینے کا بندوبست بھی نہیں کر پاتے تھے۔ بی بی سی نے گڑگاؤں کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں خاتون وکیل وندنا اوبرائے سے بھی بات کی۔ انھوں نے بتایا: ’امِت نے میرے ساتھ 2015 میں کام کیا، اس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ مالی بحران کا شکار ہے، ورنہ میں ان کی ضرور مدد کرتی۔‘ امِت کا ایک رشتہ دار بھی وہاں ایم ایس سی کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ان کی درخواست پر ان کے ایک جونیئر پرشانت کمار نے امِت کی مدد کی۔ ان کے دوست وویک کہتے ہیں: ’خود ایک طالب علم ہونے کی وجہ سے میں امِت کی زیادہ مدد نہیں کر سکا۔ آج میں اس کے بری ہونے پر خوش ہوں۔‘ امِت چودھری کی جونیئر پرینکا تومر نے بی بی سی کو بتایا: ’میں نے کہا تھا کہ اگر امِت چودھری کو عدالت سے بری کر دیا جاتا ہے تو میں دعوت کروں گی، اب وہ وقت آ گیا ہے۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gyn0557gyo", "summary": "اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سارہ انعام قتل کیس میں مرکزی ملزم شاہنواز کو سزائے موت اور دس لاکھ جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔ عدالت نے اس مقدمے میں شریک ملزم اور شاہنواز امیر کی والدہ ثمینہ شاہ کو بری کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔", "title": "سارہ انعام قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہنواز امیر کو سزائے موت، والدہ عدم ثبوت پر بری", "firstPublished": "2023-12-14T08:17:08.570Z", "id": "c3gyn0557gyo", "article": "اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سارہ انعام قتل کیس میں مرکزی ملزم شاہنواز کو سزائے موت اور دس لاکھ جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔ عدالت نے اس مقدمے میں شریک ملزم اور شاہنواز امیر کی والدہ ثمینہ شاہ کو بری کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اس کیس میں ملزمان شاہنواز امیر اور ان کی والدہ ثمینہ شاہ کو آج اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ناصر جاوید رانا کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ملزمان کی موجودگی میں عدالت اس مقدمے کا فیصلہ سنایا۔ اس موقع پر سارہ انعام کے والد انعام الرحیم اور فیملی کے دیگر اراکین بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ مرکزی ملزم کو سزا سنانے جانے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے سارہ انعام کے والد نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ شریک ملزمہ ثمینہ شاہ کی بریت کے فیصلے پر خوش نہیں ہیں اور وہ ہائیکورٹ میں اس کو چیلنج کریں گے۔ قتل کے اس مقدمے کی سماعت کے دوران شاہنواز امیر نے اپنے دفاع میں کسی گواہ کو پیش نہیں کیا تاہم عدالت میں بیان دیتے ہوئے انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ قتل سے ایک رات قبل انھوں نے سارہ کے ہمراہ ڈنر کیا اور سو گئے اور جب وہ صبح اٹھے تو سارہ انعام باتھ روم گئی ہوئی تھیں، جس کے بعد وہ (شاہنواز) ایف ایٹ مرکز سے ناشتہ لینے گئے اور جب واپس آئے تو دیکھا کہ سارہ انعام کی لاش فرش پر پڑی ہے۔ واضح رہے کہ پولیس نے سارہ انعام قتل کیس میں تفتیش کی غرض سے ملزم کے والد ایاز امیر کو بھی گرفتار کیا تھا تاہم دو روز تک حراست میں رکھنے کے بعد انھیں عدالتی حکم پر رہا کر دیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں ایاز امیر کی بریت اس بنیاد پر ہوئی کہ وہ وقوعہ کے روز چکوال میں تھے اور دوسرا یہ کہ انھوں نے اس واقعہ سے متعلق پولیس کو مطلع کیا تھا۔ اس مقدمے کے پراسیکیوٹر حسن عباس کے مطابق اس مقدمے میں مرکزی ملزم کی والدہ ثمینہ شاہ بھی ملزم تھیں۔ تاہم ان کا کردار ملزم کی سہولت کاری کرنے اور حقائق کو چھپانے کی حد تک ہے۔ گرفتاری کے بعد متعلقہ عدالت نے ثمینہ شاہ کی اس مقدمے میں ضمانت منظور کر لی تھی اور انھیں حاضری سے بھی استثنیٰ دے دیا تھا تاہم ملزمہ نے بھی اپنا بیان عدالت نے ریکارڈ کیا تھا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ 22 نومبر کو رات اکھٹے کھانا کھا کر سو گئے اور جب وہ صبح اٹھیں تو ان کے بیٹے شاہنواز نے انھیں بتایا کہ سارہ انعام قتل ہو گئی ہیں۔ پولیس کے مطابق سارہ انعام کے قتل کا یہ واقعہ 23 ستمبر بروز جمعہ صبح 10 سے 11 بجے کے درمیان پیش آیا تھا۔ اس مقدمے کی ایف آئی آر کے مطابق قتل کی اس واردات کی اطلاع ملزم شاہنواز کی والدہ ثمینہ شاہ نے پولیس کو دی تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c9w2819gw33o", "summary": "پاکستانی قوانین کے مطابق بغیر لائسنس ٹریفک حادثے میں کسی کی جان جانے کی صورت میں ڈرائیور کے لاف قتل کا مقدمہ بھی ہوسکتا ہے، لہذا لائسنس اتنا ہی ضروری ہے جتنا شناختی کارڈ۔شاید اسی ڈر سے، ٹریفک انسپیکٹر کے مطابق، پچھلے 45 روز میں قریب تین لاکھ افراد لرنر لائسنس بنوا چکے ہیں۔ ", "title": "پاکستانی خواتین کے پہلے ڈرائیونگ ٹیسٹ میں فیل ہونے کی زیادہ شرح: ’خواتین بُری ڈرائیور نہیں، بس وہ گھبرا جاتی ہیں‘", "firstPublished": "2023-12-14T03:59:37.388Z", "id": "c9w2819gw33o", "article": "دراصل گذشتہ ماہ لاہور میں کم عمر ڈرائیور کے ہاتھوں ایک ہی خاندان کے چھ افراد کی ہلاکت نے صوبے میں ٹریفک کے نظام پر کئی سوالات کھڑے کر دیے تھے۔ اس کارروائی کے نتیجے میں نئے لائسنس بنوانے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ٹریفک انسپکٹر عمران فراز کے مطابق ’پہلے ہمارے پاس روزانہ کی بنیاد پر ہزار سے پندہ سو افراد لرنر (تربیتی) لائسنس بنوانے آتے تھے جن کی تعداد اب اوسطاً نو سے دس ہزار ہوگئے ہیں۔‘ پاکستانی قوانین کے مطابق بغیر لائسنس گاڑی چلانے اور اس دوران کسی ٹریفک حادثے میں کسی کی جان جانے کی صورت میں ڈرائیور کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی ہو سکتا ہے، لہذا لائسنس اتنا ہی ضروری ہے جتنا شناختی کارڈ۔ کیونکہ اگر آپ لائسنس یافتہ ڈرائیو ہیں اور حادثے کے نتیجے میں کسی شخص کی جان چلی جاتی ہے تو مقدمہ قتل خطا کا ہوتا ہے۔ شاید اسی ڈر سے، ٹریفک انسپکٹر کے مطابق، پچھلے 45 روز میں قریب تین لاکھ افراد نئے لرنر لائسنس بنوا چکے ہیں۔ مگر جب بات لڑکیوں کی آتی ہے تو پاکستانی معاشرے میں عموماً والدین یہی سوچتے ہیں کہ ’پہلے شادی ہو جائے، اس کے بعد سارے کام کریں۔ ایسی صورتحال میں لڑکیاں نہ تو گاڑی سیکھ پاتی ہیں اور نہ ہی گاڑی چلا پاتی ہیں۔‘ ثمینہ راشد کا خیال ہے کہ کار چلانے کے لیے سب سے ضروری خود اعتمادی ہے جو تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے خواتین میں کم رہ جاتی ہے۔ عائشہ ظفر ان خواتین میں سے تھیں جنھوں نے باآسانی ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کر لیا۔ وہ بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ ’عام طور پر خواتین اپنے والد، بھائی یا شوہر سے کار چلانا سیکھتی ہیں۔ گھر والے عموماً سکھاتے بعد میں اور ڈانٹتے پہلے ہیں، جو کسی بھی خاتون کی خود اعتمادی ختم کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔‘ ٹیسٹ کے دوران ایک، ایک چیز پر نظر ہوتی ہے اور زندگی میں کوئی بھی ٹیسٹ ہو تو اسے فیل کرنے کا ڈر تو بہرحال ہوتا ہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ گاڑی چلانے سے پہلے سیٹ اور گاڑی کے شیشے اپنے مطابق ایڈجسٹ نہیں کرتے جس کی وجہ سے انھیں نظر نہیں آتا۔ جبکہ کئی خواتین گھبرا بھی جاتی ہیں۔ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں کون پوچھتا ہے؟ باقی یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میری سستی ہے۔ جب بھی لرنر لائسنس کی میعاد ختم ہوتی ہے تو دوبارہ تجدید کروا لیتا ہوں۔‘ سسٹم کی اس خرابی پر بات کرتے ہوئے انسپکٹر عمران فراز کا کہنا تھا کہ ’قانونی طور پر ہم ایسے لوگوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر سکتے ہیں جن کے پاس کسی بھی قسم کا بھی لائسنس موجود ہو۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c8786e0vyxxo", "summary": "حکام کا کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب میں ضلع بہاولپور کے چڑیا گھر میں بنگالی نسل کے شیروں کے حملے سے ہلاک شخص کی شناخت ان کے فنگر پرنٹ اور جیب میں پڑے کارڈ کی مدد سے کر لی گئی ہے۔ ", "title": "بہاولپور کے چڑیا گھر میں شیر کے پنجرے میں موجود لاش کی شناخت مکمل، سکیورٹی لیپس کا اعتراف", "firstPublished": "2023-12-06T14:54:36.057Z", "id": "c8786e0vyxxo", "article": "حکام کا کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب میں ضلع بہاولپور کے چڑیا گھر میں بنگالی نسل کے شیروں کے حملے سے ہلاک شخص کی شناخت ان کے فنگر پرنٹ اور جیب میں پڑے کارڈ کی مدد سے کر لی گئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر کے مطابق محمد جاوید کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا بلاول منشیات کا عادی تھا۔ اس سے قبل انتظامیہ نے کہا تھا کہ ہلاک ہونے والے نوجوان چڑیا گھر کی انتظامیہ کا حصہ نہیں اور ان کے جسم پر پنجوں کے ساتھ ساتھ انجیکشن کے نشانات پائے گئے تھے۔ ادھر ڈائریکٹر جنرل وائلڈ لائف اینڈ فشریز ساؤتھ پنجاب ڈاکٹر انصر چٹھہ کا کہنا ہے کہ ’یہ بات معمہ بنی ہوئی ہے کہ مرنے والا کہاں سے آیا اور چڑیا گھر کے اندر کیسے گیا۔ اس کی آواز یا چیخ و پکار تک کسی نے نہیں سنی۔‘ ڈی جی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات بھی واضح نہیں ہوسکی کہ مرنے والا شخص رات کو چڑیا گھر کے اندر آیا یا پھر صبح سویرے ’کیونکہ ہمیں تو دن گیارہ بجے کے بعد پتا چلا کہ یہاں شیر کے احاطہ میں لاش پڑی ہے۔ شیر کے احاطہ میں دو الگ الگ کمرے ہیں، ایک کمرے میں میل شیر ہے جبکہ دوسرے کمرے میں فی میل (شیرنی) اور اس کے دو بچے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ عام طور پر چڑیا گھر کا عملہ ڈیوٹی پر موجود ہوتا ہے، کوئی جانوروں کو خوراک ڈالتا ہے تو کوئی پنجروں کی صفائی کرتا ہے۔ لیکن چونکہ پنجرے کافی زیادہ ہیں اس وجہ سے کسی کو واقعے کے بارے میں پتا نہیں چل سکا۔‘ ڈپٹی کمشنر ظہیر انور جپہ کا کہنا ہے کہ وہ ہوم سیکرٹری پنجاب کے ساتھ آن لائن کانفرنس میٹنگ کر رہے تھے جب انھیں اس واقعہ کی اطلاع ملی جس پر وہ ہوم سیکریٹری کے نوٹس میں یہ بات لائے اور میٹنگ چھوڑ پر ہنگامی طور پر چڑیا گھر پہنچے جہاں سراسیمگی پھیلی ہوئی تھی۔ ان کے مطابق ’چڑیا گھر کے عملے سے اس بارے الگ الگ پوچھ گچھ کی گئی لیکن اس واقعہ کے محرکات سامنے نہیں آسکے اور بظاہر یہی لگتا ہے کہ مرنے والے شخص کا دماغی توازن درست نہیں تھا جو رات گئے اندھیرے میں اس پنجرے میں کود گیا ورنہ کوئی ذی شعور ایسا اقدام نہیں اٹھا سکتا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’چڑیا گھر کے گردونواح کے سی سی ٹی وی کیمروں سے رات گئے لوگوں کے آنے جانے کا ریکارڈ چیک کیا جارہا ہے یہ شخص کس طرح چڑیا گھر کے اندر داخل ہوا اور رات گئے شہریوں کے چڑیا گھر آنے جانے کے اوقات کار کیا ہوتے ہیں اس بابت بھی ڈائریکٹر چڑیا گھر سے تفصیلات مانگی گئی ہیں جن کی روشنی میں پولیس قانونی کارروائی کرے گی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cg6p9x7ey43o", "summary": "بلبل شاہ اور ان کے خاندان کی پہلی منزل راولپنڈی تھی۔ راولپنڈی سے انھیں کراچی کے سفر کا آغاز کرنا تھا۔ بلبل شاہ طویل سفر کے بعد تھک کر اونگھ رہے تھے کہ اچانک ان کی اہلیہ بی بی روشن ان پر گر پڑیں اور انھیں کہا کہ ’لیٹے رہو فائرنگ ہورہی ہے اور بچے میں نے سیٹ کے نیچے چھوڑ دیے ہیں۔‘\n\n\n\nبی بی روشن نے اپنے جسم پر ایک دو نہیں بلکہ چھ گولیاں کھائیں مگر اپنے خاوند بلبل شاہ اور بچوں کو محفوظ رکھا ۔", "title": "بی بی روشن: چھ گولیاں کھا کر اپنے شوہر اور بچوں کو بچانے والی خاتون، ’لیٹے رہو، بچے سیٹ کے نیچے چھپا دیے ہیں‘", "firstPublished": "2023-12-07T02:59:54.426Z", "id": "cg6p9x7ey43o", "article": "بلبل شاہ اور ان کے خاندان کی پہلی منزل راولپنڈی تھی۔ راولپنڈی سے انھیں کراچی کے سفر کا آغاز کرنا تھا۔ بلبل شاہ طویل سفر کے بعد تھک کر اونگھ رہے تھے کہ اچانک ان کی اہلیہ بی بی روشن ان پر گر پڑیں اور انھیں کہا کہ لیٹے رہو فائرنگ ہو رہی ہے اور بچے میں نے سیٹ کے نیچے چھپا دیے ہیں۔ بی بی روشن نے اپنے جسم پر ایک یا دو نہیں بلکہ چھ گولیاں کھائیں مگر اپنے خاوند بلبل شاہ اور بچوں کو محفوظ رکھا تھا۔ بلبل شاہ کہتے ہیں کہ ہر وہ گولی جو مجھے لگ سکتی تھی وہ بی بی روشن نے اپنی جسم پر لے لی تھی۔ مجھے ہی نہیں بلکہ کمال بہادری اور جرات سے بچوں کو بھی محفوظ کیا تھا۔ بلبل شاہ کہتے ہیں کہ کوشش کے باوجود کہ مجھے بی بی روشن نے اٹھنے نہیں دیا۔ فائرنگ کے شروع میں ان کی آواز آئی تھی مگر اب ان کی آواز بھی بند ہو گئی تھی۔ ’شاید وہ لوگ یہ سمجھے کہ بس میں آگ لگی چکی ہے اب مزید فائرنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد میں نے بی بی روشن کو زور لگا کر اپنے اوپر سے سائیڈ پر کیا تو دیکھا کہ وہ زخمی تھیں۔ مجھے ان کی یہ بات یاد آ گئی کہ بچے سیٹ کے نیچے ہیں۔ انھیں بچانا ہے۔‘ بلبل شاہ کا کہنا تھا کہ ’میں نے دونوں بچوں کو سیٹ کے نیچے سے نکالا اور اٹھا کر بس سے باہر نکلا تو بس کی راہداری میں زخمی پڑے تھے چیخ و پکار تھی۔ کوئی سانس لے رہا تھا اورکوئی بے سدھ پڑا تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’میں دوبارہ بس میں گیا اور بی بی روشن کو اپنی پیٹھ پر لاد کر نیچے لانا شروع کر دیا۔ دوبارہ بس میں جانا اور ان کو نیچے لانا بہت مشکل تھا۔ مجھے اب پتا چل گیا تھا کہ مجھے اور بچوں کو بچاتے ہوئے بی بی روشن نے اپنی جسم پر گولیاں کھا لی تھیں وہ لہو لہان تھیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’گلگت میں بی بی روشن کا دوسرا آپریشن ہوا ہے۔ یہ دوسرا آپریشن پانچ گھنٹے طویل تھا۔ اس آپریشن کے دوران ڈاکٹر بھی پریشان ہو گئے تھے مگر پانچ گھنٹے کے بعد انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ بہتر ہیں۔‘ ’میں ان سے خود زیادہ بات نہیں کرتا بس ان ہی کے پاس ہوتا ہوں۔ وزیر آئے تھے تو انھوں نے ان وزیر سے اپنے لیے کچھ نہیں مانگا بلکہ کہا کہ اس راستے کو پر امن بنائیں جہاں پر ہر کچھ عرصے بعد بے گناہ لوگ اپنی زندگی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جو قیامت ہم نے دیکھی ہے اب کوئی اور نہ دیکھے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n5y95yv6wo", "summary": "صحافیوں کو اس بات کا بھی یقین تھا کہ کیونکہ عدالت نے اپنے گذشتہ حکم نامے میں جیل کے اندر قائم کی گئی عدالت کو اوپن کورٹ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ جس کی بھی خواہش ہو تو وہ جیل کے اندر آکر اس عدالتی کارروائی کو دیکھ سکتا ہے اس لیے اب انھیں اندر جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ", "title": "اڈیالہ جیل میں سائفر کیس: ’صحافیوں کو دیکھ کر مقدمے کی دوبارہ سماعت‘", "firstPublished": "2023-12-02T16:54:48.518Z", "id": "c4n5y95yv6wo", "article": "صحافیوں کو اس بات کا بھی یقین تھا کہ کیونکہ عدالت نے اپنے گذشتہ حکم نامے میں جیل کے اندر قائم کی گئی عدالت کو اوپن کورٹ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ جس کی بھی خواہش ہو تو وہ جیل کے اندر آکر اس عدالتی کارروائی کو دیکھ سکتا ہے اس لیے اب انھیں اندر جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پھر آہستہ آہستہ یوں ہوا کہ پہلے اس مقدمے کے پراسیکوٹر اور ملزمان عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے وکلا اور ان کے اہلخانہ کے کچھ افراد کو جیل کے اندر جانے کی اجازت دی گئی اس کے بعد صحافیوں کو بھی یقین ہوچلا تھا کہ اب تو اب تو ان کی باری ہےاور ابھی عدالت گیٹ پر موجود صحافیوں کو اندر بلا لے گی کیونکہ خصوصی عدالت کے جج ان صحافیوں کو خود دیکھکر گئے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صحافیوں میں تشویش بڑھنے لگی کیونکہ اندر سے اطلاعات آرہی تھیں کہ جیل کے اندر سماعت شروع ہوچکی ہے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر جب صحافیوں نے جیل کے اندر جانے کی کوشش کی تو وہاں پر موجود سکیورٹی عملے نے انھیں روک لیا او کہا کہ ابھی جج صاحب نے اس بارے میں کوئی حکم نہیں دیا۔ اسی دوران جیل سپرنٹینڈنٹ نے ایک ڈی ایس پی جس کا نام الطاف تھا کو فوکل پرسن مقرر کیا اور وہ صحافیوں کے نام لکھ کر لے گئے جس کے بعد صحافیوں کو کچھ یقین ہوچلا کہ چلیں اب تو اندر جاکر عدالتی کارروائی دیکھیں گے کیونکہ ضابطے کی کارروائی تو پوری کرنا قانونی تقاضا ہے۔ جن صحافیوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی تو انھوں نے پروگرام بنایا کہ مذکورہ جج جب سماعت کے بعد باہر نکلیں گے تو ان کی گاڑی روک کر احتجاج کیا جائے گا۔ اس کی اطلاع ملنے پر پولیس کی اضافی نفری اس گیٹ پر تعینات کردی گئی جس گیٹ سے سائفر مقدمے کی سماعت کرنے والے جج جیل کے اندر گئے تھے۔ وہاں پر موجود سکیورٹی میں اضافہ کردیا بعدازاں سکیورٹی سٹاف کے صحافیوں کو بتایا کہ اس جیل کے پانچ گیٹ ہیں اور جج کسی بھی گیٹ سے باہر جاسکتے ہیں جس کے بعد صحافیوں کا احتجاج کرنے کا پلان ماند پڑ گیا۔ سائفر مقدمے کی سماعت کرنے والے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے سنیچر کو ہونے والی عدالتی کارروائی کے بارے میں جو حکم نامہ جاری کیا ہے اس کی پہلی دو لائنوں میں لکھا ہوا ہے کہ اس عدالتی کارروائی کو دیکھنے کے لیے میڈیا اور عوام موجود تھی جن کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 352 کی تکمیل ہوگئی ہے۔ ضابطہ فوجداری کا قانون کسی بھی مقدمے کے اوپن ٹرائیل سے متعلق ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ck5p374py7ro", "summary": "پولیس کے مطابق انھیں شبہ ہے کہ تصاویرکو فوٹو شاپ کیا گیا، جس کا مقصد علاقے میں خون خرابہ کروانا ہو سکتا ہے۔ ", "title": "کوہستان میں نام نہاد غیرت کے نام پر لڑکی کا قتل، تصاویر وائرل کرنے والے ملزم کی تلاش کے لیے ایف آئی اے سے مدد طلب", "firstPublished": "2023-11-27T15:38:34.348Z", "id": "ck5p374py7ro", "article": "پولیس کے مطابق انھیں شبہ ہے کہ تصاویرکو فوٹو شاپ کیا گیا، جس کا مقصد علاقے میں خون خرابہ کروانا ہو سکتا ہے۔ پولیس نے قتل کے الزام میں لڑکی کے والد کے بعد چچا کو بھی گرفتار کر لیا ہے جبکہ چچا زاد بھائی اور ایک اور رشتہ دار کو بھی تفتیش کے لیے اپنی حراست میں لیا ہے۔ پولیس کے مطابق لڑکی کے والد کا عدالت سے سات روزہ ریمانڈ بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ کوہستان میں ایک لڑکے اور لڑکی کی سوشل میڈیا پر تصاویر وائرل ہونے کے بعد لڑکی کو قتل کر دیا گیا ہے جبکہ لڑکے کو پولیس نے اپنی حفاظتی تحویل میں لے رکھا ہے۔ لڑکی نے عدالت میں بیان دیا کہ اس کو کوئی خطرہ نہیں، جس کے بعد اس کو اپنے والدین کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی تاہم اس واقعے میں جس لڑکے کا نام سامنے آ رہا ہے، وہ مفرور ہے۔ ضلع کوہستان خیبر پختونخوا کا انتہائی دور افتادہ اور پسماندہ علاقہ ہے۔ سنہ 2012 میں بھی ضلع کوہستان کے علاقے پالس میں مئی 2010 میں ہونے والی ایک شادی کی تقریب کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں چار لڑکیوں کی تالیوں کی تھاپ پر دو لڑکے روایتی رقص کر رہے تھے۔ یہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ویڈیو میں رقص کرنے والے بن یاسر اور گل نذر کے بھائی افضل کوہستانی نے دعویٰ کیا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکیوں کو ذبح کر کے قتل کر دیا گیا ہے تاہم گذشتہ برسوں کے دوران افصل کوہستانی سمیت ان کے چار بھائیوں کو بھی قتل کیا جا چکا ہے۔ واضح رہے کہ کوہستان میں جس شخص کو بھی نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کرنا ہو تو اسے ’چور‘ قرار دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد مقامی رسم و رواج کے مطابق اس شخص کا قتل لازم ہو جاتا ہے۔ کوہستان پولیس کے مطابق انھوں نے دوسری لڑکی کو اپنی حفاظتی تحویل میں لیا اور عدالت میں پیش کیا تاکہ اس کو دارالمان منتقل کرنے کے احکامات حاصل کیے جائیں مگر عدالت میں لڑکی نے بیان دیا کہ اس کو اپنے والدین سے کوئی خطرہ نہیں۔ پولیس کے مطابق لڑکے نے ان کے سامنے دعوی کیا ہے کہ یہ تصویر جعلی ہے اور اس کے پیچھے کوئی سازش ہے۔ پولیس کے مطابق لڑکے کا دعویٰ ہے کہ ’یہ ہمیں مروانے کی سازش کی گئی ہے۔‘ ڈی ایس پی کولئی پالس مسعود خان نے بتایا ہے کہ تصاویر وائرل ہونے کے بعد مقامی رسم و رواج کے مطاق لڑکیوں اور لڑکوں کے قتل کے خدشے کے پیش نظر پولیس فعال ہے۔ مسعود خان کے مطابق پولیس اپنے فرائض تندہی سے انجام دے رہی ہے جبکہ قانون کی عملداری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ درج مقدمے میں قتل کی دفعات کے علاوہ غیرت کے نام پر قتل کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں جن میں راضی نامہ یا صلح کی اجازت نہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cnkp1dlydn7o", "summary": "پاکستان کی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے دو ریٹائرڈ افسران میجرعادل فاروق راجہ اور کیپٹن حیدر رضا مہدی کو فوجی اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے کے الزام میں قید بامشقت کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ دونوں سابق افسران یوٹیوب پر اپنے وی لاگز میں آرمی چیف سمیت اعلیٰ فوجی قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔", "title": "بغاوت پر اکسانے کے الزام میں پاکستانی فوج کے سابق اہلکاروں کو آرمی ایکٹ کے تحت قید بامشقت کی سزائیں", "firstPublished": "2023-11-25T08:16:49.963Z", "id": "cnkp1dlydn7o", "article": "پاکستان کی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے دو ریٹائرڈ افسران میجرعادل فاروق راجہ اور کیپٹن حیدر رضا مہدی کو فوجی اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے کے الزام میں قید بامشقت کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق دونوں سابق افسران کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کیا گیا جس کے تحت نہ صرف سزائیں سنائی گئیں بلکہ ان کے رینک بھی ضبط کر لیے گئے ہیں۔ بیان کے مطابق میجر ریٹائرڈ عادل فاروق راجہ کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی جبکہ کیپٹن ریٹائرڈ حیدر رضا مہدی کو 12 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ’دونوں سابق افسران کو پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل (ایف جی سی ایم) کے تحت فوجی اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے کے الزام میں سزا سنائی گئی ہے۔‘ واضح رہے کہ یوٹیوبر اور وی لاگر میجر ریٹائرڈ عادل فاروق راجہ کو تحریک انصاف کا حامی سمجھا جاتا تھا۔ وہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے 10 روز بعد پاکستان سے برطانیہ چلے گئے تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق میجر (ر) عادل فاروق راجہ اور کیپٹن (ر) حیدر رضا مہدی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت ’حاضر سروس اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے‘ پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت سزا سنائی گئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دونوں ریٹائرڈ افسران کے خلاف سات اور نو اکتوبر 2023 کو عدالتی کارروائی کے بعد سزا سنائی گئی جبکہ سابق افسران کے رینکس بھی 21 نومبر 2023 سے ضبط کر لیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ میجر ریٹائرڈ فاروق راجہ نے لندن پہنچنے کے بعد اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے پاکستانی فوج پر شدید تنقید کا سلسلہ جاری رکھا۔ عادل فاروق راجہ برطانیہ میں رہتے ہوئے پاکستان کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت پر بھرپور تنقید کرتے رہے تھے اور اس نوعیت کے الزامات میں تیزی آنے کے بعد برطانیہ میں ان کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ بھی دائر کیا تھا۔ میجر عادل راجہ پاکستانی فوج میں خدمات سر انجام دینے کے بعد بھی فوجی منصوبوں سے وابستہ رہے۔ ان کے وی لاگز عموماً موجودہ عسکری قیادت کے خلاف ہوتے ہیں جن میں وہ فوج میں موجود اپنے ’ذرائع‘ جنھیں وہ ’خاموش مجاہد‘ کہتے ہیں، کے حوالے سے دعوے اور الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔ حیدر رضا مہدی بھی وی لاگز بناتے ہیں اور یہ عادل راجہ کے ساتھ مل کر بھی وی لاگز بناتے رہے ہیں۔ کیپٹن ریٹائرڈ سید حیدر رضا مہدی پاکستانی فوج کے ایک سابق افسر ہیں۔ ان کے پیٹریان اکاؤنٹ کے مطابق وہ ایک ’پاکستانی کینیڈین جیو پولیٹیکل تجزیہ کار اور کرنٹ افیئرز کمنٹیٹر‘ ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ce9pq07npvno", "summary": "بلوچستان کے ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے بالاچ بلوچ کی لاش ان چار لوگوں کی لاشوں میں شامل تھی جن کے بارے میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ سی ٹی ڈی کی ایک کارروائی کے دوران مارے گئے تھے تاہم بالاچ بلوچ کے خاندان کا کہنا ہے کہ انھیں نہ صرف گھر سے اٹھا گیا تھا بلکہ انھیں 21 نومبر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بھی پیش کیا گیا تھا۔ ", "title": "’بھائی کو گرفتار نہیں کیا بلکہ گھر سے اٹھایا گیا‘: کیچ میں سی ٹی ڈی کارروائی میں مارے جانے والے بالاچ بلوچ پر کیا الزام تھا؟", "firstPublished": "2023-11-25T03:48:38.894Z", "id": "ce9pq07npvno", "article": "یہ کہنا تھا بلوچستان کے ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے واحد بلوچ کا جن کے چھوٹے بھائی بالاچ بلوچ کی لاش ان چار لوگوں کی لاشوں میں شامل تھی جن کے بارے میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ سی ٹی ڈی کی ایک کارروائی کے دوران مارے گئے تھے۔ تربت سول سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست نے بتایا کہ مارے جانے والے تمام افراد پہلے سے جبری طور پر لاپتہ تھے اور ان کو مبینہ طور پر دوران حراست ہلاک کرنے کے بعد یہ بے بنیاد الزام عائد کیا گیا کہ تین افراد سی ٹی ڈی کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں مارے گئے جبکہ بالاچ مارے جانے والوں کی ہی فائرنگ سے مارا گیا۔ دوسری جانب سرکاری حکام کا اور سی ٹی ڈی کا کہنا ہے بالاچ کا تعلق مبینہ طور پر کالعدم عسکریت پسند تنظیم سے تھا اور انھیں ان کے دوسرے ساتھیوں کی نشاندہی کے لیے لے جایا جا رہا تھا کہ جہاں وہ مقابلے کے دوران اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے۔ بالاچ بلوچ کی لاش ان چار لوگوں کی لاشوں میں شامل تھی جن کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ وہ سی ٹی ڈی کی ایک کارروائی کے دوران مارے گئے تھے بی بی سی کی جانب سے بالاچ بلوچ کے لواحقین اور احتجاج کرنے والی تنظیموں کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی نے بالاچ نامی ایک شخص کو گرفتار کیا تھا جنھوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ ان کا تعلق کالعدم تنظیم سے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان معلومات کی بنیاد پر سی ٹی ڈی نے وہاں چھاپہ مارا تاکہ ان لوگوں کو گرفتار کیا جائے مگر جب سی ٹی ڈی کے اہلکار وہاں پہنچے تو بالاچ نامی شخص کے ساتھیوں نے سی ٹی ڈی کے اہلکاروں پر راکٹ فائر کیا۔ جس پر سی ٹی ڈی اور دہشت گردوں کے درمیان 20 منٹ تک فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا جس کے دوران یہ لوگ مارے گئے جبکہ ان کے بعض ساتھی فرار ہوئے۔‘ اس سلسلے میں بی بی سی نے کیچ پولیس کے سربراہ ضیا مندوخیل سے فون پر رابطہ کیا لیکن انھوں نے کال وصول نہیں کی تاہم کیچ پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ان افراد کی لاشوں کو سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے ہسپتال منتقل کیا تھا اور یہ بتایا تھا کہ یہ لوگ مقابلے میں مارے گئے ہیں۔ دوران تفتیش انھوں نے اعتراف کیا کہ ان کا تعلق کالعدم عسکریت تنظیم سے ہے۔ انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ یہ بارودی مواد اپنے دیگر ساتھیوں کے لیے لے جا رہا تھا جنھوں نے تربت شہر میں دہشت گردی کی ایک اور کارروائی کرنی تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cnepjg2gr0lo", "summary": "سنہ 2016 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں شدت پسندی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ نقصان سکیورٹی فورسز کا ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان واپس اس دور کی طرف جا رہا ہے، جب شدت پسندی کے زیادہ واقعات رونما ہو رہے تھے۔", "title": "’شدت پسندی سے 19 فیصد زیادہ اموات‘ کیا پاکستان میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں؟", "firstPublished": "2023-11-23T07:00:11.388Z", "id": "cnepjg2gr0lo", "article": "پاکستان میں حکام کی جانب سے ان واقعات کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان سمیت دیگر شدت پسند تنظیموں پر عائد کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں تاہم نہ صرف افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت بلکہ ماضی کی حکومتیں بھی ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتی رہی ہیں۔ پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے اور کیا پاکستان دوبارہ سے شدت پسندی کے سابقہ دور کی جانب بڑھ رہا ہے؟ سنہ 2022 کے مقابلے میں اس سال شدت پسندی کے واقعات میں ہونے والی اموات کی تعداد 19 فیصد زیادہ ہے رپورٹ کے مطابق رواں سال کی دوسری سہہ ماہی میں شدت پسندی کے واقعات میں 284 ہلاکتیں ہوئیں۔ سال کی تیسری سہہ ماہی میں ان کی تعداد بڑھ کر 445 ہو گئی اور اس طرح تین ماہ میں ان واقعات میں 57 فیصد اضافہ ہو گیا۔ رپورٹ کے مطابق دونوں صوبوں میں شدت پسندی کے واقعات کے رحجان میں گزشتہ پانچ سال میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور سنہ 2022 کے مقابلے میں اس سال ایسے واقعات میں ہونے والی اموات کی تعداد 19 فیصد زیادہ ہے۔ سنہ 2016 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں شدت پسندی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ نقصان سکیورٹی فورسز کا ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان واپس اس دور کی طرف جا رہا ہے، جب شدت پسندی کے زیادہ واقعات رونما ہو رہے تھے۔ ’2021 اور 2022 میں افغانستان میں دھماکوں میں یا دوسرے واقعات میں جو لوگ مارے گئے ان کی فہرست کو دیکھ لیں۔ تحریک طالبان یا دوسرے گروپوں کے لوگ وہاں مارے جا رہے ہیں جو اس بات کی گواہی ہے کہ ٹی ٹی پی وہاں موجود ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر نفرتوں کاایک طوفان برپا ہے۔ بے روزگار لوگوں کی ایک بڑی تعداد افغانستان میں ہو گی۔ ان کا گھر بار نہیں ہو گا تو پھر کیا ہو گا۔ افغان حکومت کے جو جوابات آ رہے ہیں وہ افسوسناک اور حیران کن ہیں۔ ان کے بارے میں سوچنا ہوگا کہ معاملہ ٹھیک طرف نہیں جا رہا۔ پاکستان کی جانب سے بھی سخت بیانات آرہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گردی میں اضافہ ہو گا۔‘ واضح رہے کہ افغان حکام افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات کے حوالے سے الزامات کی سختی سے تردید کرتے رہے ہیں جبکہ ماضی میں افغان حکام پاکستان پر افغانستان میں مداخلت اور عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1v20p2w2weo", "summary": "احسان داوڑ نے بتایا کہ وہ نہ تو کسی سیاسی جماعت کے رکن رہے ہیں اور جس وقت خڑ قمر کا واقعہ پیش آیا اس وقت وہ پشاور میں تھے اور پی ڈی ایم اے کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ ", "title": "خیبر پختونخوا کے سینیئر سرکاری افسر انتہائی مطلوب شدت پسندوں کی فہرست میں کیسے شامل ہوئے؟", "firstPublished": "2023-11-22T12:48:09.319Z", "id": "c1v20p2w2weo", "article": "احسان داوڑ سنہ 1995 سے صحافت کے شعبے سے وابستہ تھے جبکہ گذشتہ کئی برسوں سے وہ پی ڈی ایم اے کے ترجمان کے طور پر فرائض ادا کر رہے ہیں سابق سینیئر صحافی کا نام منگل کے روز پاکستان کے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنا شروع ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خیبرپختونخوا کے انسداد دہشت گردی کے ادارے ’سی ٹی ڈی‘ نے گذشتہ روز انتہائی مطلوب شدت پسندوں کی ایک فہرست جاری کی جس میں ’احسان اللہ‘ نامی شخص کا نام موجود ہے جس کے ساتھ تصویر اور دیگر تفصیلات احسان داوڑ کی ہیں۔ یہ سب اس حقیقت کے باوجود ہو رہا تھا کہ احسان ایک سرکاری ادارے میں ترجمان کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے احسان نے کہا کہ ’اس فہرست میں احسان اللہ کے نام کے ساتھ اپنی تصویر اور تفصیلات کی موجودگی دیکھ کر مجھے ابتدا میں سخت صدمہ ہوا۔ مجھے دوستوں نے فون کر کے بتایا کہ سی ٹی ڈی کی جاری کردہ نئی فہرست میں آپ کا نام اور تصویر موجود ہے۔‘ سی ٹی ڈی کے مطابق ان کے حوالے سے ایف آئی آر 2019 میں درج کی گئی تھی جب شمالی وزیرستان کے علاقے خڑ قمر کے مقام پر آرمی چوکی کے قریب فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا۔ خڑ قمر تحصیل دتہ خیل میں یہ واقعہ 26 مئی 2019 کو پیش آیا تھا جس میں کم سے کم 15 افراد ہلاک اور 27 زخمی ہو گئے تھے۔ بنیادی طور پر خڑ قمر میں مقامی لوگ احتجاج کر رہے تھے اور اس احتجاج میں اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر بھی شامل تھے۔ اس واقعے کے بعد ان دونوں رہنماؤں کو گرفتار بھی کیا گیا تھا اور انھیں چار ماہ تک ہری پور جیل میں رکھا گیا تھا اور بعد میں ان کی ضمانت پر رہائی ہوئی تھی۔ سی ٹی ڈی کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ احسان اللہ چونکہ عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے تو انھیں مفرور قرار دے دیا گیا تھا اور پھر ڈی پی اور شمالی وزیرستان کی جانب سے جون 2021 میں احسان اللہ کے سر کی قیمت دس لاکھ روپے مقرر کرنے کا کہا گیا تھا۔ شمالی وزیرستان کے ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ چونکہ احسان اللہ کا نام ایک ایف آئی آر میں درج ہے اور وہ مفرور تھے اس لیے ان لیے ان کا نام اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ احسان داوڑ نے بتایا کہ وہ 2018 میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارہ پی ڈی ایم اے سے منسلک ہیں۔ سی ٹی ڈی کی جانب سے وضاحت کے بعد احسان داوڑ نے بتایا کہ وہ نہ تو کسی سیاسی جماعت کے رکن رہے ہیں اور جس وقت خڑ قمر کا واقعہ پیش آیا اس وقت وہ پشاور میں تھے اور پی ڈی ایم اے کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c102qgqglvro", "summary": "پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پولیس نے ایک ڈی ایس پی کا مبینہ ڈکیتی کے الزام میں جسمانی ریمانڈ حاصل کیا ہے۔ ڈی ایس پی پر الزام ہے کہ انھوں نے ایک شہری کے گھر پر چھاپہ مار کر دو کروڑ روپے نقدی اور 70 تولہ سونے کے زیوارت چھینے ہیں۔", "title": "تاجر کے گھر سے دو کروڑ روپے، 70 تولہ سونا لوٹنے کے کیس میں گرفتار ڈی ایس پی جسمانی ریمانڈ پر کراچی پولیس کے حوالے", "firstPublished": "2023-11-22T11:46:51.752Z", "id": "c102qgqglvro", "article": "پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پولیس نے ایک شہری کے گھر سے دو کروڑ روپے اور 70 تولے سونے کی ڈکیتی کے مقدمے میں اپنے محکمے کے ہی ایک ڈی ایس پی کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا ہے۔ زیر تربیت افسر عمیر طارق کے خلاف ایک شہری کی درخواست پر جو مقدمہ درج کیا گیا ہے اس کے مطابق ڈی ایس پی زبردستی اُن کے گھر میں داخل ہوئے، اہلخانہ کو یرغمال بنایا، ڈکیتی کی اور گھر کے مردوں کو اغوا کر کے ساتھ لے گئے۔ یہ مقدمہ درجن بھر سے زائد ملزمان کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ ملزم ڈی ایس پی عمیر طارق کو آج عدالت پیش کیا گیا جہاں جج نے ان کو ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا ہے ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’19 نومبر کی رات 2 بج کر بیس منٹ پر پولیس یونیفارم اور سول ڈریس میں ملبوس 15 سے 20 افراد ایک کالی ویگو، ایک پولیس موبائل، مہران کار اور چند موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر میرے گھر آئے اور تلاشی کے دوران سب گھر والوں کو ایک کمرے میں یرغمال بنایا اور تمام تالے توڑ کر گھر میں موجود تمام سامان باہر نکال لیا۔‘ شہری نے الزام عائد کیا کہ اس کارروائی کے دوران یہ پولیس اہلکار اور سول کپٹروں میں ملبوس افراد گھر میں موجود تقریباً 2 کروڑ روپے نقد، 80 تولہ سونے کے زیورات، موبائل فون، لیپ ٹاپ وغیرہ ساتھ لے گئے۔ پولیس میں درج ہونے والے مقدمے کے مطابق شہری نے بتایا کہ ان افراد نے انھیں اور اُن کے ایک بھائی کو پولیس موبائل میں سوار کیا اور تمام نقدی اور زیوارت سمیت سامان بھی اسی پولیس موبائل میں ڈال دیے۔ شہری کے مطابق اُن کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ کچھ بھی دیکھ نہیں پا رہے تھے، بعدازاں انھیں بلوچ کالونی پل پر (شاہراہ فیصل) اتارا اور دوسری گاڑی میں سوار کر دیا اور انھیں دیوار کی طرف کھڑا ہونے کے لیے کہا۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ انھوں نے ابتدا میں پیرآباد تھانے پر درخواست دی تھی لیکن ایف آئی آر درج نہیں کروائی، تاہم اب تمام تر معلومات اکھٹی کر کے وہ ایف آئی آر درج کروا رہے ہیں لہذا ڈی ایس پی سمیت 15 سے بیس افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ وکیل کے مطابق ڈی ایس پی زیر تربیت ہیں اور اُن کے پاس اپنا گن مین ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ چھاپہ سندھ پولیس کے بڑے افسران کے کہنے پر مارا گیا تھا اور انھوں نے ہی زیر تربیت ڈی ایس پی کو چھاپے کو سپروائز کرنے کی ہدایت کی تھی جسے انھوں نے اپنے دفتر سے سپروائز کیا اور واٹس ایپ کے ذریعے سینیئر افسران کو اس کی اطلاع دی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c9r694ev1e6o", "summary": "پاکستان کے شہر لاہور کے علاقے ڈی ایچ اے میں حال ہی میں ایک گاڑی کی ٹکر سے ایک ہی خاندان کے چھ افراد کے ہلاک ہونے کے واقعے کے مقدمے میں پولیس نے ملزم کے خلاف قتل اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کا اضافہ کر دیا ہے۔", "title": "لاہور میں گاڑی کی ٹکر سے چھ افراد کی ہلاکت کے مقدمے میں اب نئی دفعات کیوں شامل کی گئی ہیں؟", "firstPublished": "2023-11-17T15:51:19.965Z", "id": "c9r694ev1e6o", "article": "پاکستان کے شہر لاہور کے علاقے ڈی ایچ اے میں حال ہی میں ایک گاڑی کی ٹکر سے ایک ہی خاندان کے چھ افراد کے ہلاک ہونے کے واقعے کے مقدمے میں پولیس نے ملزم کے خلاف قتل اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کا اضافہ کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ لاہور کے علاقے ڈی ایچ اے فیز 7 میں گذشتہ سنیچر کو ایک تیز رفتار گاڑی نے دوسری گاڑی کو ٹکر ماری، جس میں سوار ایک ہی خاندان کے چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ابتدا میں پولیس کا کہنا تھا کہ ٹکر مارنے والی گاڑی کو چلانے والا کم عمر ڈرائیور تھا جو گاڑی چلانے یا لائسنس رکھنے کا اہل نہیں تھا۔ اس وقت پولیس نے اس واقعے کو ٹریفک حادثہ قرار دیتے ہوئے ایف آئی آر درج کی تھی، جس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 279 اور 322 لگائی گئی تھیں۔ یہ دفعات ٹریفک حادثے کی صورت میں دیت کے حوالے سے ہیں۔ اس میں ملزم کے باآسانی رہا ہونے کی گنجائش موجود ہے۔ اس واقعے کا مقدمہ تھانہ ڈیفنس سی سے کاہنہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ لاہور پولیس کے مطابق مقدمے میں قتل اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات مدعی مقدمہ کی درخواست پر شامل کی گئی ہیں جنھوں نے پولیس کو نئی معلومات فراہم کی ہیں۔ ہلاک ہونے والے چھ افراد میں سے ایک کے والد رفاقت علی مدعی مقدمہ ہیں۔ لاہور پولیس کے مطابق انھوں نے نئی معلومات میں پولیس کو بتایا ہے کہ واقعے سے قبل ملزم کی ان کے بیٹے سے تلخ کلامی ہوئی تھی۔ مدعی نے پولیس کو بتایا کہ منع کرنے پر ملزم نے ان کو دھمکایا اور ان کا تعاقب جاری رکھا۔ مدعی کے مطابق اس کے بعد ہی ملزم نے تیز رفتاری سے اپنی گاڑی کی ٹکر اس گاڑی کو ماری جس میں ان کا بیٹا اور خاندان کے پانچ دیگر افراد سوار تھے۔ پولیس کی طرف سے نئی دفعات مقدمے میں شامل کرنے کے خلاف ملزم نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ ان کے وکیل کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان کی عمر 17 سال کے لگ بھگ ہے اور اس لیے وہ قانونی طور پر جووینائل یا کم عمر ملزم تصور ہونے چاہئیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ پنجاب کے نگران وزیراعلی محسن نقوی کے حکم پر پولیس نے ایف آئی آر میں قتل اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل کی ہیں۔ 'پولیس کے اس اقدام کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا جائے اور ملزم کو اس کے تمام آئینی حقوق فراہم کیے جائیں۔' وہ کہتے ہیں کہ اس واقعے کے میڈیا میں رپورٹ ہونے والے اور ظاہری حالات و واقعات سے ایسا نظر آتا ہے کہ اس پر انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کا اطلاق نہیں بنتا۔ ’اور یہ ثابت کرنا بھی مشکل ہو گا کہ ملزم نے قتل کرنے کی نیت سے گاڑی کو ٹکر ماری۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72qj3j7jdzo", "summary": "برطانوی شہری ریٹا رابرٹس قتل ہونے والی ان 22 خواتین میں سے ایک ہیں جن کی شناخت کے لیے یورپ کی پولیس نے اس سال کے آغاز میں باقاعدہ ایک مہم شروع کی تھی۔ شناخت کی اس مہم کو’آپریشن آئیڈینٹیفائی می‘ کا نام دیا گیا۔ وہ 1992 میں اپنے گھر سے بیلجیئم کے لیے روانہ ہوئی تھیں۔", "title": "برطانوی خاتون جن کی لاش کی شناخت قتل کے 31 سال بعد ایک ٹیٹو کی مدد سے ممکن ہوئی", "firstPublished": "2023-11-16T06:45:35.501Z", "id": "c72qj3j7jdzo", "article": "یہ ساری باتیں انٹرپول کی جانب سے شیئر کیے گئے ریٹا رابرٹس کے خاندان کے افراد کے بیان میں کہی گئی تھیں۔ ریٹا رابرٹس قتل ہونے والی ان 22 خواتین میں سے ایک ہیں جن کی شناخت کے لیے یورپ کی پولیس نے اس سال کے آغاز میں باقاعدہ ایک مہم شروع کی تھی۔ شناخت کی اس مہم کو’آپریشن آئیڈینٹیفائی می‘ کا نام دیا گیا۔ برطانوی خاتون ریٹا رابرٹس نے 1992 میں کارڈف میں واقع اپنے گھر سے بیلجیئم کے شہر اینٹورپ تک کا سفر کیا تھا۔ جس کے چار ماہ بعد ان کی نا قابل شناخت تشدد ذدہ لاش ملی تھی۔ انٹرپول کی ویب سائٹ پر دستیاب اس بلیک نوٹسز کی فہرست میں ان خواتین کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں جن میں لاشوں کی ممکنہ شناخت کرنے والی اشیا کی تصاویر سے لے کر بعض کیسز کی تفصیلات بھی ہیں جن میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ان لاشوں کے چہرے کو قابل شناخت بنانے کی کوشش بھی کی گئی۔ ریٹا رابرٹس نے فروری 1992 میں کارڈف میں واقع اپنے گھر سے بیلجیئم کے شہر اینٹورپ تک کا سفر کیا تھا۔ ان کی لاش چار ماہ بعد دریا کے پانی کی رکاوٹ کے لیے لگائے گئے جنگلے کے پاس پڑی ہوئی ملی۔ انٹرپول پولیس سروسز کے سربراہ سٹیفن کاوناگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ خاندان کے ایک فرد نے ان کے ٹیٹو سے ان کی شناخت کی جو سبز پتوں کے ساتھ ایک سیاہ پھول اور اس کے نیچے ان کے نام کا مخفف ’R'Nick‘ پر مشتمل تھا۔ ٹیٹو کو پہچاننے کے بعد خاندان نے بیلجیم میں موجود تفتیش کاروں سے ملاقات کی اور باقاعدہ طور پر ان کی شناخت کی۔انٹرپول پولیس سروسز کے سربراہ سٹیفن کاوناگھ نے اس سارے قصے کو خوفناک تضاد کا مجموعہ قرار دیا۔ ’ایک جانب ہمیں فخر ہے کہ ہم رکن ممالک کے ساتھ کام کرنے میں کامیاب رہے ہیں، ہمیں فخر ہے کہ ہم اس غریب خاتون ریٹا کی شناخت کرنے میں کامیاب رہے ہیں، لیکن دوسری طرف ہم اس خاندان کے لیے اس تباہ کن خبر کا وسیلہ بنے جس میں ان کے پیارے کو بے رحمانہ انداز میں قتل کر کے ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا گیا۔‘ بیلجیئم کے حکام اب عوام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ریٹا رابرٹس یا ان کی موت کے آس پاس کے حالات کے بارے میں کسی بھی معلومات کے ساتھ آگے آئیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں مئی میں آپریشن آئیڈینٹیفائی می شروع ہونے کے بعد سے اب تک تقریباً 1,250 ایسے پیغامات موصول ہوئے جن میں نیدرلینڈ، بیلجیم اور جرمنی میں ملنے والی ان 22 خواتین کی لاشوں سے متعلق کچھ نہ کچھ معلومات شیئر کی گئی تھیں۔ یہ مہم ڈچ پولیس کی طرف سے شروع کی گئی تھی جو ایک ایسی خاتون کی شناخت کے لیے کوشاں تھے جس کی لاش 1999 میں ایمسٹرڈیم کے مضافات میں ایک دریا میں تیرتی ملی تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crgpxl9dneno", "summary": "لاہور کے چیف ٹریفک آفیسر کیپٹن ریٹائرڈ مستنصر فیروز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کم عمر ڈرائیورز لاہور پولیس کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ رواں برس اب تک پولیس 20 ہزار سے زیادہ کم عمر ڈرائیورز کے چالان کر چکی ہے۔ ", "title": "کم عمر ڈرائیور کے ہاتھوں چھ افراد کی ہلاکت: کیا ایسے بچوں اور ان کے والدین کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے؟", "firstPublished": "2023-11-14T03:55:31.043Z", "id": "crgpxl9dneno", "article": "تھانہ ڈیفینس سی پولیس نے رفاقت علی کی درخواست پر مقدمہ درج کر کے کم عمر ڈرائیور کو گرفتار کر لیا ہے جن کا تعلق لاہور کے علاقے عسکری الیون سے ہے۔ ابتدائی تفتیش کے دوران کم عمر ڈرائیور نے پولیس کو بتایا کہ وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ لاہور ٹریفک پولیس نے پیر کے روز سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر گرفتار کیے گئے کم عمر ڈرائیور کی ایک ویڈیو شائع کی ہے جس میں وہ اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ ڈرائیونگ کرنے کے اہل نہیں ہیں اور سکول میں آٹھویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ دوستوں کے ساتھ کھانا کھانے نکلے تھے۔ انھوں نے یہ اعتراف کیا کہ ان کی گاڑی کی رفتار تیز یعنی ایک سو کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ تھی۔ تاہم اس بیان میں ساتھ ہی انھوں نے یہ کہا کہ ان کے سامنے اچانک سے ایک گاڑی آئی جس کی رفتار بہت کم تھی۔ وکیل اور قانونی ماہر میاں علی اشفاق نے بی بی سی سے بات کرے ہوئے بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو جووینائل یا کم عمر ملزم سمجھتے ہوئے مکمل طور پر ہر الزام سے بری کر دیا جائے گا۔ ’اس کے ساتھ ساتھ پولیس کو تحقیقات میں یہ بات معلوم کرنا ہو گی کہ کیا جس شخص کے نام پر گاڑی رجسٹرڈ ہے وہ کم عمر بچے کا والد یا والدہ ہے اور اگر ایسا ہے تو وہ یہ جانتے تھے کہ بچہ ڈرائیونگ لائسنسن نہ رکھنے کے باوجود گاڑی چلا رہا ہے۔ کیا انھوں نے اس کو گاڑی چلانا سکھایا ہے یا کسی اور نے۔‘ لاہور کے چیف ٹریفک آفیسر کیپٹن ریٹائرڈ مستنصر فیروز کا کہنا ہے کہ ’بچے کے والدین کے خلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔ لاہور کے چیف ٹریفک آفیسر کیپٹن ریٹائرڈ مستنصر فیروز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کم عمر ڈرائیورز لاہور پولیس کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ رواں برس اب تک پولیس 20 ہزار سے زیادہ کم عمر ڈرائیورز کے چالان کر چکی ہے۔ سی ٹی او لاہور مستنصر فیروز نے بتایا کہ ٹریفک پولیس اس حوالے کم عمر ڈرائیورز کی روک تھام کے حوالے سے آگاہی مہمات چلاتی رہتی ہے جو اس نوعیت کے جرائم کو روکنے کا ایک طریقہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ لاہور میں 70 لاکھ سے زیادہ موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں ہیں جبکہ دوسری طرف ان کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ٹریفک پولیس کی نفری تین ہزار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کم عمر اور بغیر لائسنسن کے ڈرائیونگ کرنے والوں کے خلاف سختی سے قانون کے نفاذ کے لیے مہمات چلا رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ لاہور کے جس علاقے میں یہ حادثہ پیش آیا وہ زیادہ گنجان آباد نہیں ہے اس لیے وہاں پولیس کی موجودگی بھی کم ہے۔ تاہم اس حادثے کے بعد پولیس کی اس علاقوں میں موجودگی کو بڑھانے کے لیے بھی لائحہ عمل تیار کر لیا گیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw82pwew331o", "summary": "الزام لگایا جا رہا ہے کہ انیل سنگھ، ان کے والد اور خاندان کے دیگر افراد نے 20 لاکھ روپے کی انشورنس کروائی اور دو سال بعد انیل کی ’حادثاتی موت‘ کا دعویٰ کر کے پالیسی کی شرائط کے مطابق چار گنا زیادہ رقم یعنی 80 لاکھ کا دعویٰ کر کے دھوکہ کیا۔", "title": "’بھکاری کو زندہ جلا‘ کر 80 لاکھ کا انشورنس فراڈ کرنے والا شخص 17 سال بعد کیسے پکڑا گیا؟", "firstPublished": "2023-11-10T13:16:05.684Z", "id": "cw82pwew331o", "article": "اس شخص پر الزام یہ لگایا جا رہا ہے کہ انیل سنگھ ملک، ان کے والد اور خاندان کے دیگر افراد نے ملک کر 20 لاکھ روپے کی انشورنس کروائی اور دو سال بعد انیل کی ’حادثاتی موت‘ کا ڈرامہ رچا کر بیمہ پالیسی کی شرائط کے مطابق چار گنا زیادہ رقم یعنی 80 لاکھ کا دعویٰ کر کے دھوکہ و فراڈ کیا۔ اس معاملے پر پولیس سے ملنے والی تفصیلات کے مطابق اترپردیش کے چھوٹے سے گاؤں بھٹانگر میں رہنے والے وجے پال سنگھ نے سال 2004 میں اپنے 20 برس کے بیٹے انیل سنگھ ملک کے لیے 20 لاکھ روپے کی لائف انشورنس پالیسی لی۔ پولیس کے مطابق اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے چالاک باپ بیٹے نے مسلسل دو سال تک اس پالیسی کا پریمیم بھی ادا کیا۔ ڈیڑھ سال کے انشورنس کے بعد ایک گاڑی بھی خریدی اور اس کی انشورنس بھی کروائی۔ احمد آباد کرائم برانچ کے ڈی سی پی چیتنیا منڈلک نے اس کیس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’وجے پال سنگھ کے دو بیٹے ہیں جن کا نام ابھے سنگھ اور انیل سنگھ ہے۔ مالی مجبوریوں کی وجہ سے وجے پال نے پیسہ کمانے کے لیے یہ شارٹ کٹ آزمایا۔ جلد رقم کمانے کے لیے چھوٹے بیٹے انیل کا بیمہ کروایا گیا۔‘ باپ اور بیٹے نے فراڈ اور قتل کے بارے میں پولیس کو دیے گئے بیان میں اس سازش کی تفصیلات بتائیں جن کے مطابق ’پالیسی کے دو سال بعد، وجے پال اور ان کے بڑے بیٹے ابھے سنگھ بھٹانگر گاؤں سے آگرہ کے لیے نکلے اور اپنے ساتھ دو دیگر جاننے والوں، مہیپال گڈریا اور راکیش کھٹک، کو لے گئے۔ اس سفر سے پہلے مہیپال اور راکیش دھن کور اور غازی آباد کے درمیان ایک بھکاری کو ہوٹل میں اچھا کھانا کھلانے کے لیے لے آئے۔‘ پولیس تفتیش میں سامنے آنے والی معلومات کے مطابق گاڑی کے نمبر کی بنیاد پر وجے پال سنگھ سے رابطہ کرنے کے بعد انھوں نے دعویٰ کیا کہ لاش ان کے بیٹے انیل سنگھ کی ہے اور انھوں نے اس کی آخری رسومات ادا کیں۔ وجے پال سنگھ نے انشورنس کمپنی سے بیمہ کی رقم کا مطالبہ کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ان کے بیٹے انیل سنگھ کی موت احمد آباد جاتے ہوئے کار حادثے میں ہوئی۔ پولیس کے مطابق انیل سنگھ کے والد نے انشورنس کمپنی سے 80 لاکھ کی انشورنس اور کار انشورنس کی رقم کا دعویٰ کیا کہ ان کے بیٹے کی موت ہو گئی ہے اور انھوں نے اس رقم کے پانچ حصے کیے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ’پولیس کو ابتدائی تفتیش میں پتا چلا ہے کہ اس نے اس منصوبے پر عمل کرتے ہوئے اپنے والدین یا خاندان کے دیگر افراد کو کبھی فون تک نہیں کیا۔ 17 سال میں وہ کبھی اپنے آبائی شہر بھی نہیں گیا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g2vjddje1o", "summary": "ثنا اللہ شر کو شاعری اور گلوکاری سے لگاؤ ہے۔ وہ پولیس کے خلاف شاعری کرتا جبکہ اس کے جواب میں پولیس اہلکار جوابی شاعری بھیجتے تھے اور یہ ویڈیوز بھی مقامی طور پر مقبول رہیں۔ ثنا اللہ شر کی شاعری مقامی گلوکاروں نے گائی بھی ہے۔ ", "title": "سندھ کا سوشل میڈیا ’سٹار‘ ڈاکو جس نے اپنے اکاؤنٹ کو پولیس پر تنقید اور لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے استعمال کیا", "firstPublished": "2023-11-07T05:05:01.996Z", "id": "c3g2vjddje1o", "article": "گھوٹکی پولیس نے ثنا اللہ شر کو پیر کی صبح اوباوڑو میں مقامی عدالت میں ریمانڈ کے لیے پیش کیا، پولیس نے ان پر غیر قانونی اسلحہ رکھنے کا الزام عائد کیا ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق ثنا اللہ شر کے خلاف اغوا، قتل اور تاوان کے 20 سے زائد سنگین نوعیت کے مقدمات دائر ہیں جن میں رانوتی میں ہی گذشتہ سال پولیس پر حملے کا مقدمہ بھی شامل ہے جس میں ایک ڈی ایس پی، دو ایس یچ او اور دو پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ وسطی جیون شاہ تھانے میں ایس ایچ او غلام مصطفیٰ میرانی نے سرکار کی مدعیت میں ثنا اللہ شر کے خلاف دائر مقدمے میں بتایا کہ پولیس گشت پر تھی کہ انھیں اطلاع ملی کہ ڈاکو راہب شر اپنے ساتھیوں سمیت واردات کے لیے پکے ایریا کی طرف جا رہا ہے، اس اطلاع پر انھوں نے پولیس اہلکاروں کے ساتھ ڈاکوں کا پیچھا کیا اور نور شاہ دم دموں کے مقام پر مقابلہ کیا۔ کشمور کے صحافی ممتاز سولنگی کے مطابق ثنا اللہ شر کا تعلق کچے کے علاقے گھیل پور سے ہے جو دریا کے اندر ہے۔ اگر دریا میں پانچ لاکھ کیوسک بھی پانی آجائے تو یہ علاقہ زیر آب آ جاتا ہے اور لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑتی ہے۔ گھوٹکی کے سابق ایس ایس پی تنویر تنیو کے مطابق گھیل پور میں ڈاکو سلطو شر، راہب شر و دیگر سرگرم تھے اور ثنا اللہ شر ان کے گینگ میں شامل ہو گیا۔ اس گینگ میں شمولیت کے بعد ابتدائی طور پر وہ باورچی کا کام کرتا تھا۔ ثنا اللہ شر نے فیس بک اور ٹک ٹاک پر اپنا اکاؤنٹ بنایا جس پر وہ باقاعدگی سے اپنا پیغام شیئر کرتا جبکہ بعض اوقات لائیو سٹریمنگ بھی کرتا۔ ان ویڈیوز میں وہ پولیس افسران کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو ڈراتا دھمکاتا بھی تھا جبکہ پولیس پر حملے کے بعد کی بھی ویڈیوز شیئر کی جاتی تھیں۔ ثنا اللہ شر کی ویڈیو کی ابتدا مظلوم عوام کے ترجمان کے نام سے ہوتی تھی۔ ان ویڈیوز میں اپنے سردار کے لیے تعریف ہوتی تھی جبکہ وہ جے یو آئی کی قیادت پر تنقید کرتا اور ساتھ میں صحافیوں کو بھی درس دیتا۔ ایس ایس پی تنویر تنیو کے مطابق ان ویڈیوز میں وہ شر گینگ کے علاوہ جاگیرانی اور بھیا گینگز کی بھی پیغام رسانی کا کام کرتا تھا۔ وہ مقامی طور پر ڈاکوؤں کا ترجمان بن گیا تھا۔ ثنا اللہ شر کو شاعری اور گلوکاری سے لگاؤ ہے۔ وہ پولیس کے خلاف شاعری کرتا جبکہ اس کے جواب میں پولیس اہلکار جوابی شاعری بھیجتے تھے اور یہ ویڈیوز بھی مقامی طور پر مقبول رہیں۔ ثنا اللہ شر کی شاعری مقامی گلوکاروں نے گائی بھی ہے۔ موجودہ نگران حکومت نے ڈاکوؤں کے خلاف پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت پولیس اور رینجرز کی جانب سے گرفتاریاں جاری ہیں جبکہ حالیہ دنوں میں ثنا اللہ شر کی گرفتاری قابل ذکر ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cljp8z2n459o", "summary": "2002 کے کریک ڈاؤن کے دوران حافظ قاسم جیسے بہت سے جنگجو قانون نافذ کرنے والے پاکستانی اداروں کی نظروں میں آئے اور اسی برس کراچی پولیس کے کرائم انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ نے حافظ قاسم کو گرفتار کر لیا۔", "title": "جہاد سے امجد صابری قتل کیس تک۔۔۔ قتل کی 34 وارداتوں میں ملوث حافظ قاسم رشید کون ہیں", "firstPublished": "2023-11-06T03:48:15.853Z", "id": "cljp8z2n459o", "article": "کراچی پولیس کی اعلیٰ قیادت سے تعلق رکھنے والے ذرائع سے بی بی سی کو حاصل ہونے والی ایک ’انٹیروگیشن رپورٹ‘ اور پولیس و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ ترین افسران کی مدد سے کی جانے والی بی بی سی کی تحقیق کے مطابق حافظ قاسم رشید کراچی کے علاقے تین تلوار (کلفٹن) میں کراچی میٹرو پولیٹن کے سرونٹ کوارٹرز میں 17 اپریل 1979 کو ام تمیم اور عبدالرشید کے گھر پیدا ہوئے۔ کئی بار گرفتاری کے بعد دوران حراست کی جانے والی تفتیش میں ملزم نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے تفتیش کاروں کو بتایا کہ کے ایم سی سرونٹ کوارٹرز میں اُس کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد اُس کا خاندان کراچی (جنوبی) کے علاقے ہجرت کالونی منتقل ہوا جہاں قریباً دس برس کے بعد یہ کنبہ جونیجو ٹاؤن میں مستقلاً رہائش پذیر ہوگیا۔ 2002 کے اس کریک ڈاؤن کے دوران حافظ جیسے بہت سے جنگجو قانون نافذ کرنے والے پاکستانی اداروں کی نظروں میں آئے اور اسی برس کراچی پولیس کے کرائم انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ نے حافظ کو گرفتار کرلیا۔ بی بی سی کو دستیاب تفتیشی رپورٹ کے مطابق پہلی بار گرفتار ہونے پر بارود اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں جیل جانے والے حافظ قاسم کو محض چھ ماہ بعد ہی عدم ثبوت کی بنا پر صمانت پر رہائی تو مل گئی مگر 2003 میں ایک تاریخ پر پیشی کے لیے عدالت سے واپسی پر سی آئی ڈی پولیس نے اسے دوبارہ گرفتار کر لیا۔ ’اس مقصد کے لیے سول لائنز میں واقع سی آئی ڈی کے مرکزی دفتر کو راکٹ سے نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ راکٹ سی آئی ڈی کے دفتر کے عقب سے گزرنے والے ریلوے لائن پر نصب کیا گیا مگر شاید ہدف کے غلط تعین کی وجہ سے یہ راکٹ سی آئی ڈی کے دفتر کو نشانہ بنانے کی بجائے شہر کے وسط میں گُرو مندر کے علاقے میں جا گرا لیکن ذرائع سے ہمیں پتا چل گیا کہ اس حملے کے پیچھے کون ہے۔ حافظ قاسم اتنا خطرناک ہے کہ اسی کے گروہ نے جنرل مشرف پر بھی راکٹ حملہ کرنے کی کوشش کی تھی اور اس غرض سے کراچی ائیرپورٹ پر اسی قسم کے راکٹ نصب کیے گئے تھے۔‘ کراچی پولیس، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے بہت سے حُکام سے ہونے والی پس پردہ گفتگو، بی بی سی کو حاصل ہونے والی تفتیشی رپورٹس اور مختلف اداروں کی جانب سے جمع شدہ سرکاری معلومات اور اب حافظ قاسم کو گرفتار کرنے والے سی ٹی ڈی حکام کے دعووں کے مطابق حافظ قتل کی کم از کم 34 وارداتوں میں ملوث رہا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cx7w2q7g311o", "summary": "سمگلروں کے درمیان شدید فائرنگ اور مہلک کار حادثات سے حالیہ مہینوں میں یورپ پہنچے کے خواہشمند افراد کی جانب سے اپنائے گئے زمینی راستوں کو اور بھی پُرخطر بنا دیا ہے۔ مگر اس کے باوجود یورپ جانے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ", "title": "سمگلروں کے درمیان فائرنگ اور وہ مہلک حادثات جو یورپ پہنچنے کے راستوں کو مزید پُرخطر بنا رہے ہیں", "firstPublished": "2023-11-03T07:36:20.886Z", "id": "cx7w2q7g311o", "article": "سمگلروں کے درمیان شدید فائرنگ اور مہلک کار حادثات سے حالیہ مہینوں میں یورپ پہنچے کے خواہشمند افراد کی جانب سے اپنائے گئے زمینی راستوں کو اور بھی پُرخطر بنا دیا ہے۔ مگر اس کے باوجود یورپ جانے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ گذشتہ ہفتے حریف گروہوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں کم از کم تین افراد ہلاک ہوئے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے شہری تھے جو غیرقانونی طریقے سے یورپ پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ فائرنگ کا یہ واقعہ ہنگری کی سرحدی باڑ سے چند سو میٹر دور سربیا کی حدود میں پیش آیا۔ سرحد پر بھاری مضبوط باڑ، روزانہ کی نظر بندیوں اور ان تارکین وطن کو واپس بھیجنے جیسے اقدامات کے باوجود بھی ہنگری انھیں روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ 175 کلومیٹر طویل سرحد کے ساتھ مضبوط، برقی تار سے لیس ہنگری کی باڑ نہ صرف سمگلروں کو یہ کنٹرول کرنے میں مدد دیتی ہے کہ کون کب اس سرحد کو پار کرتا ہے بلکہ انھیں اپنے طور پر اس سرحد کو پار کرنے والوں کو روکنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ سمگلروں کے ایک طبقے میں اب ہتھیاروں کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ دن کی روشنی میں سبوتیکا میں بنائی گئی ایک ویڈیو میں سمگلروں کی کار کی فرنٹ سیٹ کے درمیان والی جگہ پر ایک کلاشنکوف دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک اور پولیس اہلکار نے تارکین وطن کے ایک گروپ کے خلاف بھی بندوق کی نوک پر باڑ سے دھکیلنے جیسے ناروا سلوک کی تصدیق کی ہے، جس سے ان مسلح سمگلروں کے ان تارکین وطن کے ساتھ ناروا سلوک کی بھی تصدیق ہوتی ہے۔ سربیا کی رپورٹ کے مطابق ان افراد کو ہنگری میں زبردستی داخل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ تارکین وطن کو ہنگری پولیس اور سرحد پر تعینات اہلکار بھی مارتے پیٹتے ہیں۔ ان واقعات سے متعلق سربیا کے طبی شعبے کے اہلکار اور ہنگری کے صحافی بھی رپورٹ کرتے ہیں۔ تاہم ہنگری کی پولیس ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ یہاں سے فرار ہونے والوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے، لیکن حراست میں لیے گئے زیادہ تر افراد کو ہورگوس کے قریب باڑ کے دروازے سے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ آسٹریا کی پولیس ان واقعات کا ذمہ دار گینگ باسز کی جانب سے متعارف کرائے گئے ایک نئے بزنس ماڈل کو قرار دیتی ہے۔ اب ان گروہوں کی طرف سے ڈرائیوروں کو صرف اس صورت میں ادائیگی کی جاتی ہے جب وہ ان تارکین وطن کو لے جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ ماضی میں انھیں ان کی آدھی رقم پہلے ہی ادا کر دی جاتی تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c9wlvpmmdgvo", "summary": "انڈیا کی ریاست اترپردیش کے شہر کانپور میں ایک بڑے ٹیکسٹائل تاجر کے نابالغ بیٹے کے اغوا اور قتل کے معاملے میں پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزمان نے پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے مذہبی نعروں کا استعمال کیا۔\n", "title": "اغوا اور قتل کی سازش جس میں پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے’اللہ اکبر‘ کے نعروں کا استعمال کیا گیا", "firstPublished": "2023-11-02T12:10:45.159Z", "id": "c9wlvpmmdgvo", "article": "انڈیا کی ریاست اترپردیش کے شہر کانپور میں ایک بڑے ٹیکسٹائل تاجر کے نابالغ بیٹے کے اغوا اور قتل کے معاملے میں پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزمان نے پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے مذہبی نعروں کا استعمال کیا۔ پولیس نے واقعے میں ملوث تینوں ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تاجر کے بیٹے کے اغوا اور قتل میں اس کی ٹیوشن ٹیچر جو پہلے اسے گھر میں پڑھانے آتی تھی اور اس کے دوست ملوث تھے۔ پولیس کی ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا تھا کہ قتل کے بعد ملزمان نے 30 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا اور اس واقعے سے متعلق سی سی ٹی وی فوٹیج بھی پولیس کے ہاتھ لگی ہے۔ خط میں مذہبی نعروں کے بارے میں پولیس نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ ملزم پربھات شکلا، شیوا اور ٹیوشن ٹیچر رچیتا نے پولس کی توجہ ہٹانے کے لیے خط میں ایک خاص مذہب سے متعلق نعرے لکھے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پربھات شکلا نے اپنے دوستوں شیوا اور رچیتا کے ساتھ مل کر قتل کی سازش رچی تھی اور قتل کے بعد کسی کو ان پر شک نہ ہو انھوں نے تاجر کے گھر اغوا اور تاوان کی رقم کا مطالبہ کرتے ہوئے خط بھیجا تھا۔ پولیس نے بتایا ہے کہ پیر کی شام 4.30 بجے نابالغ طالب علم اپنی کوچنگ کے لیے گھر سے نکلا تھا اور معمول کے مطابق جب وہ گھر واپس نہیں آیا تو گھر والوں نے پہلے طالب علم سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ ’پیر کے روز، اس نے ایک پولیس چوکی کے قریب تاجر کے بیٹے سے اپنے گھر کے لیے لفٹ مانگی اور بعد میں اسے کولڈ ڈرنک پلائی جس میں نشہ آور چیز تھی‘ پولیس کے مطابق ’بعد میں، وہ تاجر کے بیٹے کو اپنے گھر کے قریب ایک کمرے میں لے گیا اور گلا دبا کر اس کا قتل کر دیا۔ قتل کے بعد ملزم نے تاجر کو تاوان کے لیے خط لکھا۔‘ اس کے جواب میں پولیس کا کہنا ہے کہ ’ملزم پربھات کو طالب علم اور اس کی ٹیوشن ٹیچر رچیتا کے درمیان دوستی پسند نہیں تھی۔ اس کی وجہ سے اس نے یہ سازش رچی اور پھر اس میں رچیتا اور اس کے دوست شیوا کو شامل کیا۔‘ کانپور کے ٹیکسٹائل تاجر کے بیٹے کے قتل سے ناراض کانپور ٹیکسٹائل کمیٹی کے اہلکاروں نے کینڈل مارچ نکالا۔ تاجروں نے پولیس انتظامیہ سے ملزمان کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ کانپور ٹیکسٹائل کمیٹی کے سینیئر نائب صدر رومیت سنگھ ساگاری نے کہا کہ ’ملزمان پولیس کی حراست میں ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ انھیں سخت سے سخت سزا دی جائے۔ انھیں موت کی سزا دی جائے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ced50x0xyyqo", "summary": "صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے ہیڈ کوارٹر پاڑہ چنار اور اردگرد کے علاقوں میں ایک ہفتہ قبل زمین کے تنازعے پر شروع ہونے والی پرتشدد جھڑپوں میں منگل کی شام فوج تعینات کیے جانے کے بعد امن قائم ہو گیا ہے۔ ", "title": "کرم میں کشیدگی: ’سکیورٹی فورسز نے جرگہ کی مدد سے امن قائم کروا دیا، سفید جھنڈے لہرا دیے گئے‘", "firstPublished": "2023-10-29T06:39:19.655Z", "id": "ced50x0xyyqo", "article": "صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے ہیڈ کوارٹر پاڑہ چنار اور اردگرد کے علاقوں میں ایک ہفتہ قبل زمین کے تنازعے پر شروع ہونے والی پرتشدد جھڑپوں میں منگل کی شام فوج تعینات کیے جانے کے بعد امن قائم ہو گیا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی نگران حکومت کے وزیرِ اطلاعات فیروز جمال کاکا خیل نے اتوار کو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ زمین کے تنازع پر تصادم کے بعد جرگے کے ذریعے مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور جلد صورتحال پر قابو پا لیا جائے گا۔ ڈی پی او کرم نے بی بی سی پشتو کے افتخار خان سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’جرگے کی سفارشات پر عمل درآمد نہ ہونے کے بعد علاقے میں فوج تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور آج 80 فیصد جگہ پر فوج کو تعینات کیا جائے گا۔‘ ضلع کرم میں تین مہینے پہلے بھی مختلف قبائل کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں جس میں جانی نقصانات ہوئے تھے اور ہھر امن کمیٹیوں کے ذریعے امن قائم کر دیا گیا تھا۔ حالیہ جھڑپوں کے بعد ضلع کرم کے داخلی اور خارجی راستے بند ہیں۔ علاقے میں نیم فوجی دستوں کے اہلکار فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ انٹرنیٹ اور موبائل سروس بھی گزشتہ تین روز سے بند ہے۔ علاقے میں شدید تصادم کے باعث عام لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ پاڑہ چنار میں موجود ایک متاثرہ شخص نے صحافی زبیر خان کو بتایا تھا کہ صورتحال انتہائی گھمبیر ہے۔ سارے علاقے میں فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ بچے اور خواتین خوف کے عالم میں ہیں۔‘ ’دونوں گروپ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو چکے ہیں۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے گاؤں اور علاقوں پر بھاری اسلحے سے فائرنگ کی جا رہی ہے۔ جس سے عام لوگ بہت متاثر ہو رہے ہیں۔‘ مقامی افراد سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ضلع کرم میں چند ماہ سے کشیدگی جاری ہے۔ اس تصادم کا آغاز زمین کے ایک ٹکڑے کی ملکیت پر تنازعے سے ہوا تھا۔ اس حالیہ تصادم سے پہلے بھی کئی لوگ مارے جا چکے ہیں۔ حالیہ تصادم کا آغاز ایک گروہ کی جانب سے دوسرے گروہ کے خلاف دھرنوں اور مظاہروں کے بعد ہوا ہے جس میں پہلے ایک مزدور کی ہلاکت ہوئی اور اس کے بعد ایک اور شخص اور پھر گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس کا الزام دونوں گروپوں نے ایک دوسرے پر عائد کیا۔ ضلع کرم میں فرقہ ورانہ فسادات اور لڑائیوں کی تاریخ طویل ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد اس خطے میں تقریباً ہر 10 سال کے بعد بڑے فسادات رونما ہوئے جس میں 1961، 1971، 1987، 1996 اور 2007 شامل ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pkj4e4750o", "summary": "سائفر مقدمے میں دوسرے نامزد ملزم سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اڈیالہ جیل میں ہی قید ہیں تاہم عمران خان اور شاہ محمود کو الگ الگ بیرکوں میں رکھا گیا ہے اور ان دونوں ملزمان کی ملاقات صرف اسی روز ہی ہوتی ہے جب خصوصی عدالت کے جج اڈیالہ جیل میں اس مقدمے کی سماعت کے لیے جاتے ہیں۔", "title": "عمران خان، شاہ محمود قریشی اور ’پھانسی گھاٹ کی جانب کُھلنے والی کھڑکی‘", "firstPublished": "2023-10-29T10:06:52.783Z", "id": "c6pkj4e4750o", "article": "سائفر مقدمے میں دوسرے نامزد ملزم سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اڈیالہ جیل میں ہی قید ہیں تاہم عمران خان اور شاہ محمود کو الگ الگ بیرکوں میں رکھا گیا ہے اور ان دونوں ملزمان کی ملاقات صرف اسی روز ہی ہوتی ہے جب اس مقدمے کی سماعت کے لیے قائم خصوصی عدالت کے جج اڈیالہ جیل میں اس مقدمے کی سماعت کے لیے جاتے ہیں۔ جیل حکام کا کہنا ہے کہ جب بھی سائفر مقدمے کی سماعت اڈیالہ جیل میں ہوتی ہے تو عدالت عمران خان سے انھیں جیل میں ملنے والی سہولتوں کے بارے میں دریافت کرتی ہے اور جیل حکام کے بقول گذشتہ سماعت میں عمران خان نے انھیں ملنے والی سہولتوں پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اس مقدمے کے دوسرے ملزم شاہ محمود قریشی کو جس کمرے میں رکھا گیا ہے وہ چھ بائی دس کا کمرہ ہے یعنی چھ فٹ چوڑا اور دس فٹ لمبا ہے۔ مقدمے کی سماعت اڈیالہ جیل منتقل ہونے سے پہلے شاہ محمود قریشی کو جب اس مقدمے کی سماعت کے دوران اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں لایا گیا تو انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں جس کمرے میں رکھا گیا ہے وہ جیل میں موجود پھانسی گھاٹ کے قریب واقع ہے اور ان کے کمرے کی کھڑکی اس طرف کُھلتی ہے جس طرف پھانسی گھاٹ واقع ہے۔ محکمہ جیل خانہ جات پنجاب کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ چونکہ عمران خان اڈیالہ جیل میں ایک ملزم کی حیثیت سے ہیں اس لیے انھیں جیل میں وہی سہولتیں دی جا رہی ہیں جو جیل مینوئل کے مطابق ملزمان کو دی جاتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چونکہ عمران خان کے ایک سابق وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہیں اس لیے انھیں الگ بیرک میں رکھا گیا ہے جہاں پر ان کے ساتھ کوئی دوسرا ملزم نہیں رہ رہا۔ اہلکار کا کہنا تھا کہ قیدیوں کو جیل کے اندر کھانا تیار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے لیکن اس حوالے سے جیل میں موجود باورچی ہی کھانا تیار کرتے ہیں اور ملزم یا مجرم ان قیدیوں کو اس کا معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اٹک جیل میں جب بطور قیدی تھے تو اس وقت سپریم کورٹ کے حکم پر جیل حکام کی طرف سے ایک رپورٹ عدالت میں جمع کروائی گئی تھی جو عمران خان کو جیل میں دی جانے والی سہولتوں سے متعلق تھی۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی لیگل ٹیم کے رکن بیرسٹر گوہر خان کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم کے کھانے پینے پر مہینے کا چالیس ہزار روپے تک کا خرچہ آتا ہے جو کہ پیشگی ادا کر دیے جاتے ہیں۔ عمران خان کی لیگل ٹیم میں شامل شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ اڈیالہ جیل میں بھی سابق وزیر اعظم کی کھانے پینے کے معاملے میں وہی روٹین ہے جو اٹک جیل میں تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn0de7eqzx1o", "summary": "زیادہ تر گرفتار خواتین وہ ہیں جو پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین عمران خان کی حمایت میں بات کرتی تھیں۔ ان میں کچھ سوشل میڈیا انفلوئنسرز بھی شامل ہیں۔ ", "title": "پی ٹی آئی کی خواتین کارکنان کی رہائی اور پھر گرفتاری: ’وہ صرف دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم کتنے سخت ہیں‘", "firstPublished": "2023-10-28T02:57:48.729Z", "id": "cn0de7eqzx1o", "article": "پولیس کے مطابق لاہور میں 'پی ٹی آئی کے کارکنان' نے ان مظاہروں میں فوجی یا فوج کے نام سے منسلک املاک پر ’حملہ کیا اور نقصان پہنچایا۔‘ ان میں لاہور کے کور کمانڈر کی رہائش گاہ اور مین بلیورڈ گلبرگ پر واقع عسکری ٹاور بھی شامل ہیں۔ جن مظاہرین کو ان کیسز میں نامزد کیا گیا ان میں بڑی تعداد خواتین کارکنان کی بھی شامل تھی۔ زیادہ تر گرفتار خواتین وہ ہیں جو پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین عمران خان کی حمایت میں بات کرتی تھیں۔ ان میں کچھ سوشل میڈیا انفلوئنسرز بھی شامل ہیں۔ صنم جاوید خان بنیادی طور پر سوشل میڈیا انفلوئنسر اور پی ٹی آئی اور عمران خان کی حمایتی ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر ان کے فالوورز کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ عمران خان کی گرفتاری سے قبل کے دنوں میں وہ اکثر زمان پارک کے باہر دیگر خواتین کارکنان کے ساتھ موجود ہوتی تھیں۔ ’ان پر بہت زیادہ دباؤ ہے تاہم وہ ثابت قدم ہیں اور نہ صرف پی ٹی آئی کی خواتین بلکہ جیل کے دوسرے قیدیوں کے لیے بھی ایک مثال ہیں۔‘ خدیجہ شاہ چار اور خواتین کے بارے میں بھی اس خط میں بتاتی ہیں۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد پولیس نے پورے ملک سے سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی تقریباً تمام قیادت کو گرفتار کیا۔ اُن میں سے بہت سے رہنماؤں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا رہا۔ وہ جب بھی عدالت سے ضمانت ملنے پر رہا ہوتے پولیس ان کو دوبارہ گرفتار کر لیتی۔ اس کے بعد وہ رہنما رہا ہو کر ایک پریس کانفرنس کرتے جس میں وہ سیاست سے کنارہ کشی اور پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کرتے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن حنا جیلانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں پی ٹی آئی کی خواتین کارکنان کے بار بار ضمانت ملنے کے باوجود دوبارہ گرفتار ہونے کے پیچھے وجہ یہ ہے کہ ریاست یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ کسی کو آسانی سے جانے نہیں دے گی۔ 'میرے خیال میں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس طرح وہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ دیکھو ہم کتنے سخت ہیں۔ اور دوسرا جس طرح پی ٹی آئی کو نشانہ بنایا گیا ہے یہ افراد اس کا شکار بھی ہو رہے ہیں۔' حنا جیلانی کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس نوعیت کے مقدمات میں ان افراد کو ملوث کیا گیا ہے ان میں سے بہت سے مقدمات میں مصدقہ دستاویز بھی فراہم نہیں کی گئیں جبکہ زیادہ تر الزامات ایسے ہیں جو قابلِ ضمانت ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cnevrnv7v48o", "summary": "یہ فلموں جیسی کہانی ایک موبائل سِم کارڈ، ہائی کمیشن کے ایک نامعلوم ’کانٹیکٹ‘ اور ایک گرفتاری کے گِرد گھومتی ہے۔ ", "title": "پاکستانی شہریت چھوڑ کر انڈین شہریت حاصل کرنے والا شخص جاسوسی کے الزام میں گرفتار", "firstPublished": "2023-10-25T13:28:24.688Z", "id": "cnevrnv7v48o", "article": "گرفتاری کے بعد انسداد دہشت گردی سکواڈ نے الزام عائد کیا ہے کہ مہیشوری نے پاکستانی ایجنٹوں کو مبینہ طور پر ایک انڈین سم کارڈ فراہم کرنے میں مدد کی تھی اور اِسی سم کارڈ کی مدد سے ایجنٹ انڈین فوج کے عملے کے بارے معلومات حاصل کر رہے تھے۔ حکام نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ مہیشوری نے یہ سم کارڈ پاکستانی ایجنٹوں کو اپنے انڈیا میں مقیم بعض رشتے داروں کو پاکستان کا ویزا دلانے کے عوض فراہم کیا تھا۔ مقامی پولیس کی ابتدائی تفتیش کے مطابق 53 سالہ مہیشوری پاکستان کے صوبہ سندھ کے رہنے والے ہندو تھے۔ ان کی شادی گجرات کے آنند قصبے کے نزدیک ایک چھوٹے سے گاؤں تارا پور کے راٹھی خاندان میں ہوئی تھی۔ اس برادری کے لوگ انڈیا اور پاکستان میں منقسم ہیں۔ راٹھی خاندان انڈیا میں تیل اور اناج کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ پاکستان سے انڈیا آنے والے ہندوؤں کو انڈیا کی شہریت دلانے میں مدد کرنے والے ایک کارکن ڈاکٹر اوم مہیشووری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’واجپئی حکومت کے دوران جب انڈیا اور پاکستان کے رشتے بہتر ہو رہے تھے تو اُس وقت بہت سے پاکستانی علاج معالجے کے لیے طویل مدتی ویزوں پر انڈیا آتے جاتے رہتے تھے۔‘ ’مہیشوری بھی طویل مدتی ویزے پر آئے اور واپس نہیں گئے اور بلآخر سنہ 2006 کے اوائل میں انھیں انڈیا کی شہریت مل گئی۔ اپنی سسرال کی مدد سے انھوں نے وہاں کریانے کی ایک دکان کھولی اور رفتہ رفتہ ایک کامیاب بزنس مین بن گئے۔ بعدازاں انھوں نے کئی دکانیں اور مکان بنا لیے، جنھیں وہ کرائے پر دیتے تھے۔‘ تاہم بعد میں پاکستان میں رہائش پزیر اپنے ایک کزن کی مدد سے انھوں نے ویزہ حاصل کر لیا جس نے، پولیس کے دعویٰ کے مطابق، انھیں انڈیا میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک اہلکار سے متعارف کروایا تھا۔ پولیس کا الزام ہے کہ ’پاکستان میں چھ ہفتے کے قیام کے دوران وہ پاکستانی خفیہ ایجنٹوں کے رابطے میں آئے۔‘ پاکستان کے سفر کے بعد مہیشوری نے اپنی بہن، جن کی شادی انڈیا میں ہی ہوئی ہے، اور اپنے بہنوئی کو بھی ہائی کمیشن کے اسی رابطے (کانٹیکٹ) کے ذریعے ویزا دلوایا۔ اوم پرکاش جت نے دعویٰ کیا کہ ہائی کمیشن کے اس ’کنٹیکٹ‘ نے مہیشوری کو گجرات کے ایک شخص کے ذریعے ایک سم کارڈ دیا اور کہا کہ وہ یہ سم کارڈ اپنی بہن کو دے دیں۔ حکام کے دعوے کے مطابق مہیشوری کی بہن مبینہ طور پر یہ سم کارڈ اپنے ساتھ پاکستان لے گئیں اور انھوں نے یہ سم اپنے کزن کے حوالے کر دی جو بظاہر پاکستان کے ایجنٹ کے حوالے کی گئی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cl7x98ykwr1o", "summary": "متحدہ عرب امارات کے اعلیٰ پولیس افسران کناہن نامی جرائم پیشہ گروہ سے متعلق بین الاقوامی تحقیقات کے سلسلے میں اس وقت ڈبلن میں آئرلینڈ کے حکام سے اہم ملاقاتوں میں مصروف ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان دنیا کے خطرناک ترین جرائم پیشہ گروہوں میں سے ایک پر کیا بات چیت چل رہی ہے؟", "title": "کناہن گینگ: ایک ارب یورو بٹورنے والا آئرلینڈ کا ’سب سے دولتمند، طاقتور اور بے رحم‘ جرائم پیشہ گروہ", "firstPublished": "2023-10-25T08:23:58.929Z", "id": "cl7x98ykwr1o", "article": "متحدہ عرب امارات کے اعلیٰ پولیس افسران کناہن نامی جرائم پیشہ گروہ سے متعلق بین الاقوامی تحقیقات کے سلسلے میں اس وقت ڈبلن میں آئرلینڈ کے حکام سے اہم ملاقاتوں میں مصروف ہیں۔ منگل کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈریو ہیرس نے کہا ہے کہ دبئی کی پولیس نے پہلے ہی ان کی ’بین الاقوامی سطح پر کیے جانے والے منظم جرائم کی جاری تحقیقات‘ میں ’بڑی مدد‘ فراہم کی ہے۔ اس وقت بین الاقوامی سطح پر کناہن گروہ کے مالی معاملات اور آئرلینڈ کی تاریخ میں منشیات کی سب سے بڑی مقدار میں ضبطگی کے درمیان تعلق پر بھی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ دبئی پولیس کے وفد کا یہ دورہ آئرلینڈ کی وزیر انصاف ہیلن میک اینٹی کی اپنے متحدہ عرب امارات کے ہم منصب کے ساتھ مجرموں کی حوالگی سے متعلق دوطرفہ معاہدے کے امکان پر بات چیت کے ایک دن بعد کیا گیا ہے۔ اس ملاقات میں دونوں ممالک کے وزرا نے باہمی قانونی معاونت اور سزا یافتہ قیدیوں کی منتقلی کے امکانات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات کے بعد بات کرتے ہوئے ہیلن نے کہا کہ ’آج صبح ہماری نتیجہ خیز گفتگو ہوئی، جس میں گاردا یعنی آئرلینڈ کی قومی پولیس کے کمشنر ڈریو ہیرس کے دبئی کے حالیہ دورہ اور اس کے نتائج سے متعلق صورتحال زیر غور آئی۔‘ ان کے مطابق ان کی ملاقات میں اس کے علاوہ آئرلینڈ کے حکام جو آئندہ چند روز میں اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کے لیے متحدہ عرب امارات کا سفر کر رہے ہیں کے معاملے پر بھی بات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم بین الاقوامی جرائم سے نمٹنے کے لیے آئرلینڈ کی قومی پولیس اور تحقیقاتی ایجنسی کی طرف سے قائم کردہ مثبت اتحاد پر کام کر رہے ہیں اور پرعزم ہیں کہ سرحدیں فوجداری انصاف کے مؤثر تعاون میں رکاوٹ نہیں بنیں گی۔‘ سنہ 2016 میں ریجنسی ہوٹل میں ہونے والے قتل کے بعد عوام کی توجہ کناہن گینگ پر مرکوز ہوئی۔ اس قتل کے بعد ہی اس گروہ کے بین الاقوامی روابط کا انکشاف ہوا۔ امریکی محکمہ خزانہ نے ’کناہن‘ گروہ کو دنیا کے خطرناک ترین گروہوں میں سے ایک قرار دیا ہے، جس کا موازنہ جرائم کی دنیا میں نام بنانے والی تنظیموں جیسا کہ اٹلی کی کیمورا، میکسیکو کی لاس زیٹاس اور جاپان کی یاکوزا سے کیا جا سکتا ہے۔ کناہن گینگ کی بنیاد کرسٹی کناہن سینیئر نے رکھی تھی لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی روزمرہ کی کارروائیاں اب خاص طور پر بیٹوں ڈینیئل اور ان کے بعد کرسٹوفر جونیئر کے ذمے ہیں۔ ڈینیئل کناہن کا نام اس سے قبل آئرلینڈ کی عدالتوں میں یورپ میں متحرک گروہوں میں سے سب سے نمایاں ’ڈرگ گینگ‘ کے سربراہ کے طور پر سامنے آیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp4jp2k2r99o", "summary": "40 سال قبل ایک ’ربر کے چہرے والا شخص‘ برطانیہ میں مغربی ویلز کے دیہی علاقے میں پکڑا گیا تھا جس کا خیال تھا کہ ایسی دور دراز جگہ پر اسے کوئی تلاش نہیں کر سکتا۔ ", "title": "بھیس بدلنے کا ماہر بین الاقوامی منشیات سمگلر جو ایک قصبے میں پیسے لٹانے کی وجہ سے پکڑا گیا", "firstPublished": "2023-10-23T02:57:49.207Z", "id": "cp4jp2k2r99o", "article": "40 سال قبل ایک ’ربر کے چہرے والا شخص‘ برطانیہ میں مغربی ویلز کے دیہی علاقے میں پکڑا گیا تھا جس کا خیال تھا کہ ایسی دور دراز جگہ پر اسے کوئی تلاش نہیں کر سکتا۔ ڈان ایونز اس آپریشن کے سربراہ تھے جس کے دوران برگ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ تقریبا 40 سال بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ دراصل نیو پورٹ کے لوگوں کے تجسس نے برگ کو گرفتار کروایا۔ سیو وارنر کے مطابق ’ایک رات میرے والد نے ساحل کے قریب جا کر دیکھا کہ دو لوگ ایک جگہ پر سو رہے تھے جہاں شاید منشیات رکھی جاتی تھیں۔‘ مقامی مچھیروں کو شک گزرا کہ یہ افراد غیر قانونی طور پر شکار کرنے والے نہ ہوں۔ گینگ ممبران نے مقامی مچھیروں کو بتایا تھا کہ وہ گرین لینڈ میں جانوروں پر بنائی جانے والی ایک فلم کے لیے ایک مہم کی تیاری کر رہے ہیں۔ تاہم مچھیروں نے ان کی بات کا یقین نہیں کیا اور مقامی پولیس افسران کو آگاہ کر دیا جو تفتیش کرنے پہنچ گئے۔ تلاش کے دوران پولیس والوں کے ہمراہ ایک کسان بھی تھا جس نے ایک پتھر اٹھا کر پھینکا تو عجیب سی آواز آئی۔ پولیس نے جلد ہی بروسویل کو گرفتار کر لیا۔ ڈان ایونز کہتے ہیں کہ ’وہ ایک پراسرار شخص تھا جس نے ہمیں 17 جھوٹے نام اور پتے دیے۔ ہم جانتے تھے کہ وہ ہمیں کچھ نہیں بتائے گا لیکن ہم نے دیکھا کہ اس نے ہائکنگ بوٹ پہن رکھے ہیں جن پر فائبر گلاس کے چھینٹے موجود ہیں جو اس بنکر پر بھی تھے۔‘ برگ کو بھی اگلے ہی دن گرفتار کر لیا گیا۔ جب برگ نے پولیس کو دیکھا تو اپنا سامان چھوڑ کر دوڑنے کی کوشش کی جس کے دوران وہ ایک خاردار تار پر سے کودا تو دوسری جانب ایک کھائی میں جا گرا۔ پولیس نے برگ کے سامان سے ایک ریڈیو برآمد کیا جسے سمگلنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ پولیس افسران نے اس ریڈیو کو پہاڑی کے اوپر نصب کیا تو رات کے وقت ان کو ایک آواز سنائی دی جس میں کہا گیا کہ ’ماں، مجھے اندر جانا ہے، اپنے ہاتھ سے کیچڑ اتارنا ہے۔‘ اس آپریشن کے دوران پولیس کو علم ہوا کہ بوسویل آئل آف مین کے ایک بینک میں پیسہ جمع کروا رہا تھا۔ ایونز بتاتے ہیں کہ دسمبر 1982 میں بوسویل دو بریف کیس لے کر بینک گیا اور اس نے 10 لاکھ ڈالر جمع کرائے۔ ’ہم نے بینک کے منیجر سے پوچھا کہ اس نے یہ بات حکام کو کیوں نہیں بتائی تو اس کا چہرہ لال ہو گیا اور اس نے کہا کہ کسی کا 50 ہزار ڈالر شاپنگ بیگ میں لا کر بینک میں جمع کرانا غیر معمولی بات نہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2l39vnd15lo", "summary": "انتظار مسیح کے لیے یہ ان کی زندگی کی ’سب سے خوفناک رات‘ تھی جب ڈاکوؤں نے فرار سے قبل ان کی بیوی کو ریپ کا نشانہ بنایا۔ شیخوپورہ پولیس نے ایسے ہی ایک اور واقعے پر بھی مقدمہ درج کیا تھا۔ دونوں واقعات میں ڈاکوؤں نے مسیحی خواتین کا ریپ کیا تھا اور وہ بار بار ہمسائے کا دروازہ کھلوانے پر مجبور کرتے تھے۔ ", "title": "شیخوپورہ: ڈکیتی کی وارداتوں میں خواتین کا مبینہ ریپ کرنے والا گینگ جو متنازع پولیس مقابلے میں مارا گیا", "firstPublished": "2023-10-19T03:55:38.345Z", "id": "c2l39vnd15lo", "article": "منیر مسیح کے مطابق ان کی بہن اور بیوی کے ساتھ پانچ ملزمان نے چھ مرتبہ ریپ کیا۔ ’یہ سب پلک چھپکنے کے دوران ہوا تھا، جس کی وجہ سے کسی کو بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اچانک گھر میں کیا ہوا۔‘ ایک سوال کے جواب میں منیر مسیح نے بتایا کہ ان کے ہمسائے، جن کا تعلق ان کی ہی برادری سے ہے، نے پولیس کو بتایا ہے کہ ان کی بیوی کے ساتھ ریپ کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ منیر مسیح نے بتایا کہ ’ملزمان پوری چھان بین کر کے آئے تھے۔ ہمارے دونوں گھر گاؤں سے ذرا ہٹ کے ہیں اور باہر کی دیواریں بھی اونچی ہیں جن پر چڑھنے کے لیے وہ ایک سیڑھی بھی ساتھ لائے تھے۔‘ وہ سیڑھی اب بھی منیر کے گھر میں موجود ہے۔ اس واقعے کی رپورٹ کروانا بھی منیر مسیح کے لیے آسان نہیں تھا۔ ان کے بہنوئی نے پولیس رپورٹ کرانے سے منع کر دیا کہ ’لوگ کیا کہیں گے، کون تھانے اور کچہریوں میں ملزمان کے پیچھے بھاگتا پھرے۔‘ اس واقعے کی درج ایف آئی آر کے مطابق ’کم از کم آٹھ مسلح اہلکار ایک پولیس موبائل وین میں ریپ اور ڈکیتی جیسے سنگین جرائم میں ملوث پانچ گرفتار ملزمان بشمول محمد نعیم، وسیم، محمد عمران، طیب اور وکرم الحسنین کو مال مسروقہ کی برآمدگی کے لیے لے جا رہے تھے کہ اچانک ملزمان کے آٹھ سے 10 مسلح ساتھیوں، جو چار موٹر سائیکلوں اور ایک کار پر سوار تھے، نے پولیس موبائل کو روکا اور تمام مسلح پولیس اہلکاروں سے اسلحہ چھین کر ہتھکڑیوں میں جکڑے اپنے ساتھیوں سمیت بائی پاس کے پاس مال منڈی مویشیاں کی طرف فرار ہو گئے۔‘ ڈی پی او کا کہنا ہے کہ ’اب تک دو مسیحی خاندان سامنے آ چکے ہیں، جن کی خواتین کے ساتھ اس گروہ نے دوران ڈکیتی ریپ بھی کیا تھا۔ مزید بھی کئی اور ہو سکتے ہیں کیونکہ لوگ عزت کی خاطر اور ڈر خوف سے بھی سامنے آ کر پولیس کو سچ نہیں بتاتے۔‘ ان پانچ ملزمان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک سینیئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’اب تک کی تفتیش سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ شیخوپورہ میں انکاؤنٹر کے دوران مارا جانے والا گینگ صرف اور صرف مسیحی خاندانوں کی خواتین کو ریپ کرنے کے لیے ہی ٹارگٹ کرتا تھا۔‘ پولیس افسر کے مطابق شیخوپورہ میں درج ریپ اور ڈکیتی کے کیسز کا بغور مشاہدہ کیا گیا ہے اور ڈی این اے، برآمد سامان، موبائل فون، جیو فینسنگ اور دیگر شواہد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انھی ملزمان نے اب تک سامنے آنے والے دونوں مسیحی خاندانوں کی خواتین کو دوران ڈکیتی ریپ بھی کیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c03d81dq47mo", "summary": "انڈیا کی ایک عدالت نے برسوں سے سزائے موت کے منتظر دو ایسے ملزمان کو بری کر دیا ہے جن پر 19 خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کا الزام تھا۔", "title": "19 خواتین اور بچوں کے ریپ اور قتل کے الزام میں 14 سال سے سزائے موت کے منتظر دو ملزمان بری", "firstPublished": "2023-10-16T11:18:39.781Z", "id": "c03d81dq47mo", "article": "انڈیا کی ایک عدالت نے برسوں سے سزائے موت کے منتظر دو ایسے ملزمان کو بری کر دیا ہے جن پر 19 خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کا الزام تھا۔ سریندر کولی اور مونندر سنگھ پنڈھر کو 2009 میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور اُس وقت ان کیس میں سامنے آنے والی تفصیلات نے پورے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ تاہم مقامی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف ملزمان نے ہائیکورٹ میں اپیل کی اور پیر (آج) کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ملزم کولی کو اُن 12 مقدمات میں بے قصور قرار دیا جن میں انھیں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ عدالت نے دوسرے ملزم پنڈھر کو بھی دو مقدمات میں قصوروار نہیں پایا۔ عدالتی فیصلہ سامنے آنے کے بعد اُن کے وکیل نے میڈیا کو بتایا کہ دونوں افراد کو ’عدم ثبوتوں‘کی وجہ سے بری کر دیا ہے، ہائیکورٹ اس کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کرے گی۔ خواتین اور بچوں کے مبینہ قتل کا انکشاف سنہ 2006 میں اُس وقت ہوا جب دارالحکومت دلی کے ایک متمول مضافاتی علاقے ’نوئیڈا‘ میں واقع مونیندر سنگھ پنڈھر کے گھر کے سامنے موجود گٹر کے اندر سے جسمانی اعضا اور بچوں کے کپڑے ملے تھے۔ اس وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ کم از کم 19 نوجوان خواتین اور بچوں کو ریپ کے بعد قتل کیا گیا اور ان کی لاشوں کے ٹکڑے کر کے پھینک دیے گئے۔ پولیس نے اُس وقت الزام لگایا تھا کہ یہ تمام وارداتیں پنڈھیر کے گھر ہوئی تھیں جہاں کولی بطور ملازم کام کرتے تھے۔ پولیس نے الزام لگایا تھا جن بچوں کی باقیات ملی ہیں انھیں پنڈھیر کے ملازم کولی ورغلا کر اور مٹھائی اور چاکلیٹ کا لالچ دے کر پنڈھیر کے گھر لاتے تھے۔ پولیس نے مزید الزام عائد کیا تھا کہ دوران تفتیش کولی نے اعتراف جرم کیا تھا تاہم جب انھیں عدالت میں پیش کیا گیا تو انھوں نے پولیس کو دیے گئے اپنے اعترافی بیان کو واپس لیا اور دعویٰ کیا کہ پولیس نے تشدد کے ذریعے ان سے یہ بیان لیا تھا۔ انڈیا میں سنگین جرائم کی تحقیقاتی ایجنسی ’سی بی آئی‘ نے ان دونوں افراد کے خلاف مجموعی طور پر قتل اور ریپ کے 19 مقدمات درج کیے، جب کہ کولی پر قتل، اغوا، ریپ اور ثبوتوں کو تباہ کرنے جیسے الزامات بھی عائد کیے گئے۔ ان وارداتوں کی تفصیلات سامنے آنے پر ملکی سطح پر غم و غصہ کا اظہار کیا گیا اور بہت سے شہریوں نے پولیس پر غفلت کا الزام بھی لگایا۔ میڈیا نے جرائم کی چونکا دینے والی نوعیت کی وجہ سے مرکزی ملزم کے گھر کو ’خوفناکیوں کا گھر‘ قرار دیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/clkj4m32vn8o", "summary": " بلوچستان کے شہر تربت میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے چھ مزدوروں کے ٹھیکیدار نیاز کے مطابق ہلاک ہونے والے پانچ مزدوروں کا تعلق ملتان کے علاقے شجاع آباد سے ہے۔", "title": "تربت میں فائرنگ سے چھ مزدور ہلاک: ’ماموں کو ہر صورت گھر واپس جانا تھا مگر اب ان کی لاش جا رہی ہے‘", "firstPublished": "2023-10-15T10:38:29.624Z", "id": "clkj4m32vn8o", "article": "تربت میں فائرنگ سے ہلاک ہونے والے مزدوروں کی میتیں ان کے آبائی علاقوں میں منتقل کی گئیں بلوچستان کے دور دراز علاقے تربت میں کام کرنے والے مزدور شفیق اور سکندر نے مل کر سنیچر کے روز اپنے گاؤں شجاع آباد جانے کا پروگرام بنایا، جو صوبہ پنجاب کے شہر ملتان کے قریب واقع ہے۔ ’شفیق کی مزدوری کے پیسوں میں سے اس کو آٹھ ہزار روپے دیے گئے تھے، میں نے کہا تھا کہ باقی 16 ہزار گاؤں میں پہنچا دوں گا۔۔۔‘ یہ کہنا ہے بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر تربت میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے چھ مزدوروں کے ٹھیکدار نیاز کا۔ انھی مزدوروں میں شفیق اور سکندر بھی شامل تھے۔ ہلاک ہونے والے پانچ مزدوروں کا تعلق صوبہ پنجاب میں ملتان کے علاقے شجاع آباد سے ہے۔ اس میں ٹھیکدار نیاز کے دو سگے بھائی، ایک ماموں اور ایک ماموں زاد کے علاوہ ان کے قریبی رشتہ دار شامل تھے۔ جبکہ ضلع ناروال سے تعلق رکھنے والے نیاز کے قریبی دوست بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔ تربت پولیس کے مطابق یہ واقعہ ٹارکٹ کلنگ کا ہے جس پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت سی ٹی ڈی تھانہ مکران میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ جبکہ اتوار کو تربت میں ہلاک کیے جانے والے چھ مزدروں کی لاشیں حکومت بلوچستان کے ہیلی کاپٹر میں ملتان پہنچا دی گئیں ہیں۔ نگراں وزیر اعلیٰ بلوچستان میر علی ڈوملی نے کوئٹہ سے مزدوروں کی لاشوں کو ملتان کے لیے روانہ کیا جبکہ ڈپٹی کمشنر کیچ حسین بلوچ بھی مزدوروں کی میتیوں کے ہمراہ ملتان گئے۔ تربت میں فائرنگ سے ہلاک ہونے والے چھ مزدوروں کے قتل کا مقدمہ ٹھیکدار نیاز کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ نیاز نے بیان دیا کہ وہ گذشتہ دس برس سے تربت میں تعمیراتی کام کروا رہے ہیں۔ سنیچر کی شب انھیں تقریباً 1:30 بجے اطلاع ملی کہ چند نامعلوم مسلح افراد نے تربت کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن میں ان کے بھائی شہباز، وسیم اور دیگر مزدوروں کو گولیاں مار کر قتل اور زخمی کر دیا ہے۔‘ نیاز کا کہنا تھا کہ ماموں شفیق چھ بچوں کے والد تھے۔ ان کی سب سے بڑی بیٹی کی منگنی ہو چکی تھی جب کہ اب شادی کے دن قریب تھے۔ یہ شادی دسمبر میں ہونا تھی۔ نیاز کے مطابق ’یہ ان کی بڑی اور لاڈلی بیٹی تھی۔ جب بیٹی کی شادی کا وقت قریب آیا تو انھوں نے چھ ماہ پہلے مجھے سے کہا کہ وہ دوبارہ مزدوری پر جانا چاہتے ہیں تاکہ بیٹی کی شادی کے اخراجات کے لیے پیسے اکٹھے ہو سکیں۔ ان کی واپسی کا پروگرام تو ستمبر میں تھا مگر اچانک ان کی اہلیہ کی طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cl7xjzk4r5jo", "summary": "پاکستان کے صوبہ پنجاب کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ڈسکہ میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے عسکریت پسند تنظیم کے مبینہ رکن شاہد لطیف کے قاتلوں کو گرفتار کر لیا ہے۔", "title": "پنجاب پولیس کا پٹھان کوٹ حملے میں انڈیا کو مطلوب مولانا شاہد لطیف کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ", "firstPublished": "2023-10-11T15:55:09.436Z", "id": "cl7xjzk4r5jo", "article": "پاکستان کے صوبہ پنجاب کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ڈسکہ میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے عسکریت پسند تنظیم کے مبینہ رکن شاہد لطیف کے قاتلوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ بدھ کو ضلع سیالکوٹ میں نامعلوم حملہ آوروں نے پٹھان کوٹ حملے میں انڈیا کو مطلوب عسکریت پسند شاہد لطیف کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا۔ سیالکوٹ پولیس کے مطابق قتل کا واقعہ تحصیل ڈسکہ میں بدھ کی صبح فجر کی نماز کے دوران پیش آیا۔ فائرنگ کے اس واقعہ میں مولانا شاہد لطیف موقع پر ہلاک ہو گئے تھے جبکہ بعد میں ایک اور زخمی بھی ہلاک ہو گیا تھا۔ ملزمان کی گرفتاری کا دعویٰ انسپیکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے جمعے کے روز پریس کانفرنس میں کیا ہے۔ پولیس کی مدعیت میں درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ جیسے ہی مسجد میں موجود افراد نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تینوں ملزمان نے فائرنگ کر دی جس سے مولانا شاہد لطیف کے علاوہ مولانا عبدالاحد اور ہاشم نامی افراد زخمی ہو گئے۔ اس سے قبل، ڈی پی او سیالکوٹ محمد حسن نے مقامی میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’نامعلوم مسلح افراد مسجد میں آئے اور انھوں نے فائرنگ کی، یہ دہشتگردی کا واقعہ ہے۔ اسے ہم ٹارگٹ کلنگ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس میں مولانا شاہد اور ہاشم جانبر نہ ہو سکے اور عبدالاحد زخمی ہیں۔‘ 17 گھنٹے تک جاری رہنے والے اس حملے سے متعلق انڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس کی منصوبہ بندی میں مولانا شاہد لطیف بھی ملوث تھے۔ ماجد نظامی کے مطابق انڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے اس حملے کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنے والے کچھ لوگوں کے ایک گروہ کی فون کالوں کے ذریعے سے نشان دہی کی جس میں مولانا شاید لطیف بھی شامل تھے۔ جس کے بعد ان پر انڈیا میں باقاعدہ چند مقدمے بھی درج ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا شاہد لطیف کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو ابھی بھی انڈیا کو مطلوب تھے۔ انڈیا نے انٹر پول کی مدد سے ان کا ریڈ نوٹس بھی جاری کیا تھا۔ فیض اللہ خان کا کہنا تھا کہ مولانا شاید لطیف کا قتل چند دن قبل پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے ایک اور کشمیری رہنما ابو قاسم کے قتل سے ملتا جلتا ہے اور تقریباً اسی طرح یہ قتل بھی ہوا ہے۔ فیض اللہ خان کہتے ہیں کہ ’اس واقعے سے قبل جیش محمد کے ابراہیم مستری، حزب المجاہدین کے امتیاز عالم، لشکر طیبہ کے ابو قاسم اور اب جیش محمد ہی کے مولانا شاہد لطیف کی مسجد میں نماز کے وقت ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے۔‘ ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ مجھ تک یہ معلومات پہنچی ہیں کہ اس سے پہلے کے واقعات میں کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جن کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں لائی جا رہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd153rdp7glo", "summary": "بی بی سی کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک منظم طریقے سے پاکستان میں موجود ایجنٹ بھکاریوں یا ضرورت مند افراد کو اس مقصد کے تحت مشرق وسطیٰ کے ممالک، خصوصاً سعودی عرب، ایران اور عراق بھجواتے ہیں جہاں بھیک سے حاصل ہونے والی رقم میں اُن کو بھی حصہ ملتا ہے۔", "title": "پاکستان سے بیرون ممالک جانے والے بھکاریوں کے گروہ: ’یہاں روپے ملتے ہیں، سعودی عرب میں ریال میں بھیک ملتی ہے‘", "firstPublished": "2023-10-11T06:35:31.004Z", "id": "cd153rdp7glo", "article": "نسرین بی بی اس سے پہلے 16 مرتبہ جبکہ پروین نو مرتبہ پاکستان سے باہر عمرہ کی ادائیگی یا زیارتوں پر جانے کے بہانے بھیک مانگنے کے لیے سعودی عرب، ایران اور عراق جا چکی تھیں۔ اسلم اور عارف اگرچہ سعودی عرب تو پہلی بار جا رہے تھے لیکن ماضی میں وہ متعدد مرتبہ ایران اور عراق زیارتوں کے بہانے بھیک مانگنے کے لیے سفر کر چکے تھے۔ بی بی سی کو دستیاب ایف آئی آر کے متن کے مطابق یہ تمام ملزمان پہلے بھی سعودی عرب، ایران اور عراق بھیک مانگنے کی غرض سے جا چکے ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزمان اور ان کے ایجنٹ جہاں زیب کے درمیان موبائل پر بھیجے گئے پیغامات سے بھی اس گروہ کے باہر کے ممالک میں جا کر بھیک مانگنے کے شواہد ملے ہیں اور ان کے موبائلز فرانزک کے لیے بھجوا دیے گئے ہیں۔ یہ دعویٰ سامنے آنے کے بعد بی بی سی کی تحقیق سے علم ہوا کہ ایک منظم طریقے سے پاکستان میں موجود ایجنٹ بھکاریوں یا ضرورت مند افراد کو اس مقصد کے تحت مشرق وسطیٰ کے ممالک، خصوصاً سعودی عرب، ایران اور عراق بھجواتے ہیں جہاں بھیک سے حاصل ہونے والی رقم میں اِن ایجنٹس کو بھی حصہ ملتا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محمد ریاض خان نے دعویٰ کیا کہ ’اب تک کی تفتیش کے مطابق باہر کے ممالک میں جا کر بھیک مانگنا ایک منظم جرم بن چکا ہے جس میں مختلف گروہ پاکستان اور بیرون ملک سے ملوث ہیں۔‘ سوشل میڈیا پر فیس بک پیج چلانے والے ایک ایجنٹ نے بھکاریوں کو عمرے کے نام پر سعودی عرب لے جانے کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہاں روپے ملتے ہیں، سعودی عرب میں ریال میں بھیک دی جاتی ہے۔ زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔‘ سیکریٹری وزارت اوورسیز پاکستانی ذوالفقار حیدر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انھیں سعودی عرب، ایران اور عراق کی جانب سے مطلع کیا گیا تھا جس کے بعد معلومات کو رپورٹ کی شکل میں پیش کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ’پھر ایف آئی اے کو حرکت میں لانا پڑا۔ جیسا کہ آپ سب کو پتا ہے اس وقت ایف آئی اے انسانی سمگلنگ کی روک تھام میں سرگرمِ عمل ہے۔ اور اس کے بارے میں جو بھی معلومات ہیں وہ آپ سب کے سامنے لا رہے ہیں۔‘ پروفائلنگ کے عمل کے دوران ہوٹل بکنگ، واپسی کے ٹکٹ کی موجودگی اور مسافروں کے پاس موجود کیش سے بھی اس بات کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ آیا مسافر عمرہ کی غرض سے ہی سفر کر رہے ہیں یا ان کا وہاں جانے کا مقصد کوئی اور ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cev7y1jz24go", "summary": "کوہستان ویڈیو سکینڈل کے ایک مرکزی کردار بن یاسر کا کہنا ہے کہ ہم پہلے ہی قابل رحم زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے گھر، باغات، زمین پر دوسروں کا قبضہ ہے۔ ہم اپنے گاؤں نہیں جاسکتے ہیں۔ ایک جگہ پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ہم سے روزگار کے مواقع چھن چکے ہیں۔ اتنی قربانیاں دینے کے بعد ملزماں کے بری ہونا ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔", "title": "کوہستان ویڈیو سکینڈل کے ملزمان قتل کے الزام سے بری: ’میرے چار بھائی قتل ہو چکے مگر اب بھی خطرہ ہے‘", "firstPublished": "2023-10-11T03:40:33.151Z", "id": "cev7y1jz24go", "article": "یہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ویڈیو میں رقص کرنے والے بن یاسر اور گل نذر کے بھائی افضل کوہستانی نے دعویٰ کیا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکیاں بازغہ، سیرین جان، بیگم جان، آمنہ اور ان کی کم عمر مددگار شاہین کو ذبح کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔ کوہستان ویڈیو سکینڈل میں لڑکیوں کے قتل کے الزام سے بری ہونے والے ملزمان کے وکیل عاطف علی جدون ایڈووکیٹ نے بتایا کہ تحریری فیصلہ منگل کے روز سامنے آیا ہے اور ممکنہ طور پر اب ان بری ہونے والے افراد کی رہائی کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پانچ میں سے تین لڑکیاں غیرت کے نام پر قتل ہو چکی ہیں اور شہادتوں کو چھپانے کے لیے ان کی لاشوں کو دریا برد کیا گیا تھا تاہم ٹرائل کے دوران جو شہادتیں ریکارڈ ہوئیں وہ ظاہر کرتی ہیں کہ وقوعہ کا مرکزی ملزم شمس الدین تھا، جو اب زندہ نہیں ہے۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قتل کرنے کا الزام ثابت نہیں ہوا ہے اس لیے ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔ تاہم عدالت نے قرار دیا کہ ملزمان پر جرم کے ثبوت مٹانے اور غلط اطلاعات فراہم کرنے کے الزامات ثابت ہوتے ہیں، جس میں ان کی سزا کو بحال رکھا جاتا ہے۔ عدالت کے اس فیصلے پر جب بی بی سی نے اس ویڈیو سکینڈل کے ایک مرکزی کردار بن یاسر جو کہ اس ویڈیو میں بھی نظر آ رہے ہیں، سے رابطہ کیا تو انھوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سنہ 2012 سے سنہ 2019 کے درمیان بن یاسر کے چار بھائیوں کو یہ ویڈیو سکینڈل سامنے آنے کے بعد قتل کیا جا چکا ہے۔ عدالتی فیصلے کے بعد بن یاسر نے اپنے خاندان کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم پہلے ہی قابل رحم زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے گھر، باغات، زمین پر دوسروں کا قبضہ ہے۔ ہم اپنے گاؤں نہیں جا سکتے ہیں۔ ایک جگہ پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ہم سے روزگار کے مواقع چھینے چکے ہیں۔ اتنی قربانیاں دینے کے بعد ملزمان کے بری ہونا ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔‘ بن یاسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کوہستان ویڈیو سکینڈل کے ملزمان کا بری ہونا میرے اور میرے خاندان کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ ہم پہلے ہی افضل کوہستانی سمیت چار بھائیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ میں نے اپنے اور اپنے خاندان کے تحفظ کے لیے پولیس کو دوبارہ درخواست دی ہے۔‘ سال 2018 میں اس قتل کا مقدمہ کا مقدمہ درج کیا گیا اور سال 2019 میں ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج نے ٹرائل کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے آٹھ میں سے پانچ ملزماں کو بری کردیا تھا جبکہ تین کو قتل کی دفعات کے علاوہ گواہی کو چھپانے وغیرہ کی دفعات میں قید کی سزا دی تھی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2qe47qeelo", "summary": "ہیر سے متعلق کسی کو قطعی طور پر یہ تو معلوم نہیں ہے کہ وہ کوئی حقیقی کردار تھا یا نہیں مگر قصہ ہیر کا ایک جغرافیائی پہلو ہے جس میں یہ پنجاب کی مقامی ذاتوں اور ان کے درمیان کشیدگی کی عکاسی کرتا ہے۔ ", "title": "وارث شاہ جنھوں نے ہیر کو ہیرو اور کیدو کو ’اسٹیبلشمنٹ‘ بنا دیا", "firstPublished": "2023-12-24T04:38:51.935Z", "id": "cv2qe47qeelo", "article": "رانجھا جب جوگی بن کر ہیر کی تلاش میں کھیڑوں کے دیس رنگ پور پہنچتا ہے تو اس سے سوال ہوتا ہے کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیا ہے اور اس کی ذات کیا ہے۔ وارث شاہ کی ہیر میں رانجھا جواب میں کہتا ہے کہ شیر، سانپ اور فقیر کا کوئی دیس نہیں ہوتا۔ ان کا وطن وہی ہے جہاں وہ کھڑے سانس لے رہے ہیں۔ ان کی رائے میں وارث شاہ اپنی ہیر میں عقلیت اور عملیت پسندی کے زیادہ قریب رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وارث شاہ کی ہیر عام فہم ہے، جس کا مقصد معاشرتی قدروں کو سامنے لانا ہے۔ ہیر وارث شاہ کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کا خاتمہ ’ٹریجِڈی‘ پر ہوتا ہے۔ کیدو کو ہیر کا ایسا چچا بتایا گیا ہے جو غیرت کے نام پر اپنی بھتیجی ہیر کے کسی کم ذات یا رتبے والے عشق کو اپنے خاندان کی توہین سمجھتا ہے اور ہیر کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ کیدو کو زیادہ تر فلموں میں بھی ولن کے روپ میں ہی دکھایا گیا ہے۔ منظور اعجاز کے مطابق وارث شاہ نے کیدو کو اسٹیبلشمنٹ کے ’ڈیفنڈر‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔ کیدو خود آزاد منش ہے مگر ہیر کو کہتا ہے کہ وہ معاشرتی اقدار سے ماورا نہیں۔ ان کی رائے میں اس ہیر میں کیدو کا چھوٹا سا کردار ہے۔ طارق بھٹی کے مطابق وارث شاہ نے ہیر کو ہیرو بنایا اور یہ بات تاریخی طور پر بھی درست ہے کہ پنجاب کی ثقافت میں عورت بااختیار ہے اور اسے اس کا باپ اور بھائی گھر کی چابیاں دینے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ پنجابی کی زیادہ تر لوک داستانوں میں لڑکی کا نام پہلے آتا ہے اور اس پر ہی زیادہ لکھا گیا ہے۔ ہیر سے متعلق کسی کو قطعی طور پر یہ تو معلوم نہیں ہے کہ وہ کوئی حقیقی کردار تھا یا نہیں مگر قصہ ہیر کا ایک جغرافیائی پہلو ہے جس میں یہ پنجاب کی مقامی ذاتوں اور ان کے درمیان کشیدگی کی عکاسی کرتا ہے۔ طارق بھٹی کے مطابق شاعر ایک متحرک زمانے میں سانس لے رہا ہوتا ہے۔ وارث شاہ نے اپنے تخیل اور فکر کی بنیاد پر ہیر تخلیق کی۔ ان کے مطابق جب شاعر کسی تاریخی واقعے، داستان یا اساطیر کو شاعری میں ڈھالتا ہے تو پھر وہ صحافی کی طرح حقائق کا پابند نہیں رہتا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cljx1gwk9l3o", "summary": "ویلز میں قرون وسطیٰ کے ابتدا کا قبرستان دریافت ہوا ہے جو آثار قدیمہ کے ماہرین کے لیے ایک معمہ بن گیا ہے اور وہ اسے دیکھ کر اپنا سر کھجا رہے ہیں۔\n", "title": "ویلز میں قرون وسطیٰ کا پراسرار قبرستان: ’یہ لوگ دانتوں کو بطور اوزار استعمال کرتے تھے‘", "firstPublished": "2024-01-07T05:52:00.032Z", "id": "cljx1gwk9l3o", "article": "ویلز میں قرون وسطیٰ کے ابتدا کا قبرستان دریافت ہوا ہے جو آثارِ قدیمہ کے ماہرین کے لیے ایک معمہ بن گیا ہے اور وہ اسے دیکھ کر اپنا سر کھجانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یونیورسٹی آف ریڈنگ میں آثار قدیمہ کے مقامات پر ملنے والی ہڈیوں کی ماہر سمر کورٹس کہتی ہیں کہ 1500 سال پرانے ہونے کے باوجود ڈھانچے اچھی حالت میں ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ اس بارے میں یقینی نہیں بتا پا رہے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ کیا یہ قبرستان ایک طویل عرصے کے لیے استعمال ہوا جس دوران دفن کرنے کے طریقوں میں تبدیلی آتی رہی؟ یا کچھ لوگوں کو مختلف طریقے سے دفنایا گیا تاکہ دکھایا جائے کہ وہ مختلف ہیں؟ ماہرین کی ٹیم کا خیال ہے کہ اس مقام پر تقریباً 70 قبریں ہیں اور اب تک 18 کو مکمل طور پر کھود لیا گیا ہے قبروں کے اردگرد جو چیزیں مل رہی ہیں وہ بھی حیران کن ہیں اور وہ یہ بتاتی ہیں کہ پہلی صدی کے وسط میں زندگی دورِ حاضر سے بہت مختلف تھی۔ برتنوں اور پیالیوں کے ٹکرے ملے ہیں اور جانور کی ہڈی کے ٹکرے بھی ملے ہیں جنھیں ذبح کر کے جلا دیا گیا تھا۔ ایک ایسی چیز بھی ملی ہے جو اس آبادی کے بارے میں ایک دلچسپ معلومات دیتی ہے وہ ہے ایک لکڑی کا چھوٹا ٹکڑا جسے مارکر کے طور پر کھیل میں سکور لکھنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یونیورسٹی آف کارڈف میں قرون وسطیٰ کے آثار قدیمہ کے ماہر ڈاکٹر اینڈی سیمین اس ٹیم کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں اس دور کے قبرستان کے برعکس یہ جگہ صرف مُردوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے نہیں ہوتی تھی۔ ’جب ہم قبرستان کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہم ایک بند جگہ کے بارے میں سوچتے ہیں جہاں ہم نہیں جاتے لیکن یہ ماضی میں شاید زندگی کے لیے کافی مرکزی ہوتے تھے۔‘ ’اور یہ جگہ صرف تدفین کے لیے نہیں ہے، اس جگہ پر لوگ اکٹھے ہوتے تھے، وہ اپنے مردوں کو دفن کر رہے تھے لیکن وہ دیگر سماجی سرگرمیاں بھی یہاں کرتے تھے جیسے کھانا پینا۔‘ ان کے خیال میں یہ فرانس کے بورڈو کے علاقے سے ہے اور یہ واحد درآمد شدہ چیز نہیں ہے جو یہاں سے ملی ہے، ٹیم کو مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے بھی ملے ہیں جو ممکنہ طور پر شمالی افریقہ سے ہیں۔ یہ جاننے کے لیے کہ یہ قبرستان کب استعمال کیا جاتا تھا مزید تحقیق درکار ہے اور ڈی این اے کے تجزیے سے دفن ہوئے ڈھانچوں کے بارے میں مزید معلومات ملیں گی۔ یہ قبرستان ہر انفرادی شخص اور اس پوری برادری کے بارے میں بھی کچھ معلومات دے گی جس سے اس دور کے اوپر کچھ روشنے آئے گی جس کے بارے میں آج بھی ہم بہت کم جانتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c03y05rzlqvo", "summary": "لبنان میں حماس کے نائب صالح العروری کی ڈرون حملے میں ہلاکت ایک اور ایسی پیش رفت ہے جو مشرق وسطی میں حالات کو خطرناک موڑ پر لے آئی ہے۔ کیا خطے کی دوسری ریاستی اور غیر ریاستی طاقتیں بھی اس جنگ میں بھر پور طریقے سے شامل ہونے والی ہیں؟", "title": "حوثی باغی، لبنان اور پراکسیز: غزہ جنگ خطے کو کیسے اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے؟", "firstPublished": "2024-01-06T13:40:55.384Z", "id": "c03y05rzlqvo", "article": "دوسری جانب لبنان میں حماس کے نائب صالح العروری کی ڈرون حملے میں ہلاکت ایک اور ایسی پیش رفت ہے جو مشرق وسطی میں حالات کو خطرناک موڑ پر لے آئی ہے۔ کیا خطے کی دوسری ریاستی اور غیر ریاستی طاقتیں بھی اس جنگ میں بھر پور طریقے سے شامل ہونے والی ہیں؟ جب سے اکتوبر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہوئی اُس کے بعد سے یہ سوال بار بار اُٹھائے جا رہے ہیں کہ خطے میں بڑی طاقتوں کا کیا مؤقف ہے اور کیا حالات کسی بڑے تصادم کی طرف جا سکتے ہیں؟ یہ سوال حالیہ پیش رفت کے بعد اور بھی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ اس واقعے کے بعد اسرائیل کے سابق وزیر اور برطانیہ میں ملک کے سابق سفیر مارک ریگیو نے اپنے بیان میں کہا کہ ’جس نے بھی یہ کیا ہے، یہ لبنان کی ریاست پر حملہ نہیں ہے۔ یہ دہشت گرد تنظیم حزب اللہ پر حملہ نہیں ہے۔۔۔ جس نے بھی کیا ہے یہ حماس پر حملہ ہے۔ یہ واضح ہے۔‘ اس حملے نے حزب اللہ کو جھنجھوڑا ہے اور عام طور پر ایسے واقعات کے بعد ردِ عمل میں بدلہ لینے کی روایت بھی موجود ہے۔ اس پر سامنے آنے والے رد عمل سے حالات کی سنگینی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل کے لیے امریکہ کی حمایت برقرار ہے۔ گو کہ خطے میں مسلمان ممالک اب تک اس تنازعے میں کوئی مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں البتہ اس جنگ میں دوسری غیر ریاستی مسلح طاقتیں شامل ہیں اور متحرک بھی ہیں۔ جغرافیائی حساب سے حوثی یمن کی کوسٹ لائن کے ایسے علاقے کو کنٹرول کرتے ہیں جو عالمی تجارت کے لیے بہت اہم ہے۔۔۔ اس تجارت میں اسرائیل کا بھی اہم حصہ ہے اور اسی راستے سے انھوں نے اسرائیل سے وابستہ بحری جہاز گیلیکسی لیڈر کو ہائی جیک کیا اور اُسے الہدیدہ کی بندرگاہ کے پاس لے گئے۔ اس تناظر میں اگر شام اور عراق کے حالات دیکھیں تو وہاں بھی امریکی فوجی اڈوں پر حملوں کو اسی جنگ کی ایک کڑی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ حزب اللہ اگر لبنان سے اپنے حملوں میں اضافہ کرتا ہے تو اُس کی بھی اسرائیل کے ساتھ جنگ شروع ہوسکتی ہے۔ یہ لبنان اور خطے کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔ اس جنگ میں اب تک زیادہ بڑا کردار پراکسیز یا غیر ریاستی اداروں کا رہا ہے مگر باتھ سپا یونیورسٹی سے منسلک مشرق وسطی کے ماہر ڈاکٹر افتخار ملک کے مطابق بیشتر عرب ممالک اور اسلامی ممالک کی جانب سے سٹیٹس کو، کو چیلنج کرنے یہ بدلنے کی خاطر خواہ کوشش نظر نہیں آئی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cqv1yx3npeno", "summary": "اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ کے ’فور کارنر‘ منصوبے کے تحت اسرائیل غزہ کا مجموعی سکیورٹی کنٹرول اپنے پاس رکھے گا اور اس کے علاوہ اسرائیلی بمباری کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہی کے بعد ایک اسرائیلی انتظامیہ علاقے میں بحالی اور تعمیرِ نو کی ذمہ داری سنبھالے گی۔", "title": "غزہ کے مستقبل سے متعلق مجوزہ ’منصوبہ‘ جس میں غزہ کا مجموعی سکیورٹی کنٹرول اسرائیل اپنے پاس رکھے گا", "firstPublished": "2024-01-06T02:13:06.547Z", "id": "cqv1yx3npeno", "article": "اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ ختم ہونے کے بعد غزہ میں مستقبل کی حکمرانی سے متعلق کُچھ تجاویز کے ساتھ ایک خاکہ پیش کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ غزہ کا نظم و نسق اس جنگ کے بعد حماس کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس علاقے سے متعلق تمام تر معاملات کی نگرانی اسرائیلی انتظامیہ خود کرے گی۔ ان کا یہ دورہ ایک ایسے اہم وقت میں ہو رہا ہے کہ جب منگل کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں حماس کے سرکردہ رہنما صالح العروری کے قتل کے بعد خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ صالح کے قتل کا الزام اسرائیل پر ہی عائد کیا جا رہا ہے۔ تاہم ایسا اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ اب تک صالح کے بیروت میں قتل کے بعد سے اسرائیل نے نہ تو اس واقعے میں ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے اور نہ ہی اس کی تردید۔ اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ کے ’فور کارنر‘ منصوبے کے تحت اسرائیل غزہ کا مجموعی سکیورٹی کنٹرول اپنے پاس رکھے گا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیلی بمباری کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہی کے بعد ایک اسرائیلی انتظامیہ علاقے میں بحالی اور تعمیرِ نو کی ذمہ داری سنبھالے گی۔ کابینہ کے اجلاس میں اس منصوبے پر تفصیل سے بات نہیں کی گئی اور اسرائیلی وزیر اعظم بینیامن نتن یاہو نے عوامی طور پر اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ اجلاس تلخی کی وجہ سے قبل از وقت ختم ہو گیا اور کچھ وزراء نے حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو ہونے والے حملے سے متعلق واقعات کی تحقیقات کے لیے پیش کیے جانے والے ناموں پر برہمی کا اظہار کیا۔ اگرچہ اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ کی تجاویز کو ان کی کابینہ کے کچھ ساتھیوں کی تجویز سے زیادہ عملی سمجھا جاسکتا ہے ، لیکن امکان ہے کہ فلسطینی رہنماؤں کی جانب سے انھیں مسترد کردیا جائے گا جو کہتے ہیں کہ اس تباہ کن جنگ کے ختم ہونے کے بعد غزہ کے باشندوں کو خود علاقے کو چلانے کی مکمل اجازت دی جانی چاہیے۔ تاہم اس کے برعکس اسرائیلی وزیر اعطم کی جانب سے یہ بیان ضرور سامنے آیا ہے کہ غزہ میں جنگ ابھی کئی ماہ تک جاری رہ سکتی ہے، جس کا مقصد حماس کو مکمل طور پر غزہ سے کچلنا ہے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ کے منصوبے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ میں جنگ کے اگلے مرحلے میں کس طرح آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جوابی مہم کے آغاز کے بعد سے غزہ میں ہلاک ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد جمعرات تک 22 ہزار 400 سے تجاوز کر چُکی ہے جو اس علاقے کی 23 لاکھ آبادی کا تقریباً ایک فیصد ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg0l831zplo", "summary": "کمپنی کا کاروبار مشرق وسطیٰ اور دیگر جگہوں میں متاثر ہوا ہے جہاں اس کے خلاف صارفین نے بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ اس بائیکاٹ کی وجہ یہ تاثر ہے کہ یہ کمپنی اسرائیل کی حمایت کرتی ہے۔", "title": "میکڈونلڈز کا اسرائیل غزہ تنازع پر بائیکاٹ مہم کی وجہ سے کاروبار پر ’معنی خیز‘ اثر پڑنے کا اعتراف", "firstPublished": "2024-01-05T11:45:20.967Z", "id": "crg0l831zplo", "article": "مشہور فاسٹ فوڈ چین میکڈونلڈز کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ تنازعے کے تناظر میں مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک میں صارفین کی جانب سے بائیکاٹ مہم سے ان کے کاروبار پر ’معنی خیز‘ اثر پڑا ہے۔ کمپنی کا کاروبار مشرق وسطیٰ اور دیگر جگہوں میں متاثر ہوا ہے جہاں اس کے خلاف صارفین نے بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ اس بائیکاٹ کی وجہ یہ تاثر ہے کہ یہ کمپنی اسرائیل کی حمایت کرتی ہے۔ چیف ایگزیکٹیو کرس کیمپزنسکی نے لنکڈ ان پوسٹ میں اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے اس سارے ردعمل کا الزام ’غلط معلومات‘ پر لگایا ہے۔ یہ بڑی امریکی کمپنی کے دوسرے سربراہ ہیں جنھوں نے اسرائیل اور غزہ کی جنگ سے کاروبار پر ہونے والے اثر کے متعلق بات کی ہے۔ کرس کیمپزنسکی نے اپنی پوسٹ میں لکھا ’جنگ اور اس سے منسلک غلط معلومات کی وجہ سے مشرق وسطیٰ اور خطے سے باہر کی کئی مارکیٹیں معنی خیز کاروباری اثرات کا سامنا کر رہی ہیں جو میکڈونلڈز جیسے برانڈز کو متاثر کر رہی ہیں۔‘ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے میکڈونلڈزکے کارپوریٹ ہیڈکواٹر نے اس معاملے پر خاموش رہنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ کمپنی تنازعے سے بچ نہیں سکی۔ اسرائیل کے غزہ پر حملوں کے بعد میک ڈونلڈز اسرائیل نے کہا تھا کہ اس نے اسرائیلی فوج تک ہزاروں کھانے کے ڈبے مفت پہنچائے ہیں۔ اس عمل کی وجہ سے غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں سے برہم لوگوں نے اس برینڈ کے بائیکاٹ کا آغاز کیا، اس کی وجہ سے مسلم اکثریتی ممالک جیسے کویت، پاکستان اور ملائشیا میں مالکان کو لاتعلقی کا بیان جاری کرنا پڑا۔ کرس کیمپزنسکی کی یہ پوسٹ اس وقت سامنے آئی ہے جب حالیہ دنوں میں بائیکاٹ کے حوالے سے مہم نے زور پکڑا ہے۔ فلسطین کی حمایت کرنے والی تحریک بی ڈی ایس، اسرائیل کا بائیکاٹ، وہاں سے سرمایہ نکالنے اور اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس تحریک نے میکڈونلڈز کو باضابطہ ہدف نہیں بنایا تھا لیکن اس ہفتے اس نے بھی برینڈ کا بائیکاٹ کرنے کا کہا ہے۔ بی ڈی ایس کی جانب سے یہ اقدام میکڈونلڈ ملائیشیا، جسے ایک سعودی کمپنی کی حمایت حاصل ہے کی جانب سے ملائیشیا بی ڈی ایس پر 1.3 ملین ڈالر ہرجانے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں میکڈونلڈ ملائیشیا نے کہا ہے کہ بی ڈی ایس ملائیشیا نے اس متعلق ’جھوٹے اور غلط بیانات‘ دیے اور ان کے کاروبار کو نقصان پہنچایا۔ بی ڈی ایس نے کہا ہے کہ ’اسرائیل میں اپنے شرمناک فرنچائز معاہدے کو ختم کرنے کے لیے اپنی پرنٹ کمپنی میک ڈونلڈز کارپوریشن پر دباؤ ڈالنے کے بجائے، میک ڈونلڈز ملائیشیا اور اس کے سعودی مالک ملائشیا میں فلسطینیوں کی آزادی کی جدوجہد کی حامی پرامن یکجہتی کی آوازوں کو خاموش کرنے کی شدید کوشش کر رہے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg7kr2dp3do", "summary": "مشرقِ وسطیٰ اور اس سے کہیں دور جو سائے اسرائیل غزہ جنگ کے باعث چھائے تھے وہ رواں ہفتے حماس کے رہنما صالح العاروری کی لبنان میں ہلاکت کے بعد مزید گہرے ہو گئے ہیں۔ ", "title": "حماس کے اہم ترین رہنما صالح العاروری کا قتل جو مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے", "firstPublished": "2024-01-04T10:50:54.400Z", "id": "crg7kr2dp3do", "article": "مشرقِ وسطیٰ اور اس سے کہیں دور جو سائے اسرائیل غزہ جنگ کے باعث چھائے تھے وہ رواں ہفتے حماس کے رہنما صالح العاروری کی لبنان میں ہلاکت کے بعد مزید گہرے ہو گئے ہیں۔ العاروری حماس کے ڈپٹی سیاسی رہنما تھے جنھیں جنوبی بیروت میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کیا گیا تھا۔ وہ حماس کے مسلح گروہ القسام بریگیڈ میں ایک اہم رہنما تھے اور حماس رہنما اسماعیل ہنیا کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔ وہ حزب اللہ اور حماس کے درمیان رابطے کی غرض سے لبنان میں موجود تھے۔ اس سے قبل اس مسلح اور سیاسی قوت نے غزہ جنگ میں صرف لفظی ردِ عمل دینے پر اکتفا کیا ہے اور اس کے علاوہ اسرائیل کی جنوبی سرحد پر اکا دکا حملے بھی کیے ہیں۔ اس محدود ردِ عمل کا مقصد لبنان کو ایک اور مہنگی جنگ میں پھنسانے سے بچانا ہے۔ لبنان میں گروہ کی حمایت جنوبی علاقوں میں تو بہت زیادہ ہے لیکن بیروت اور اس کے شمال میں سنہ 2006 کی اسرائیل لبنان جنگ کی یادیں اب بھی اکثر کے ذہنوں میں تازہ ہیں اور ملک اب بھی متعدد ایسے بحرانوں کی زد میں ہے جو اس کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ اسرائیل کا قریبی اتحادی امریکہ ہے اور اس نے اب تک کئی بار حزب اللہ کے خلاف جنگ شروع کرنے سے خبردار کیا ہے کیونکہ اس کے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں۔ تاہم العاروری اور چھ دیگر افراد کے قتل جن میں حماس کے دو فوجی کمانڈر بھی شامل ہیں کے بعد سے خطے میں تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ بحیرۂ احمر میں اسرائیل سے تعلق رکھنے والے بحری جہازوں کو ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغی نشانہ بنا رہے ہیں۔ اسرائیل کے دشمن اور دوست یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا حماس کو فوجی قوت کے ذریعے تباہ کیا جا سکتا ہے اور ایک ایسی جنگ جس میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں فلسطینی عوام میں مزید دکھ اور غم و غصے کا باعث بن رہی ہے۔ جن حماس رہنماؤں نے سات اکتوبر کے اسرائیل پر کیے گئے حملے کی منصوبہ بندی کی ان میں سے یحییٰ سنوار سمیت متعدد کے بارے میں اب بھی یہی گمان کیا جا رہا ہے کہ وہ غزہ میں ہی کہیں چھپے ہوئے ہیں۔ العاروری کی لبنان میں ہلاکت کے بعد ترکی اور قطر بھی محتاط ہوں گے جہاں حماس کے لیڈر موجود ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ وہاں محفوظ ہیں۔ ان ہائی پروفائل ہلاکتوں کے بعد پہلا نقصان قاہرہ میں ہونے والی بات چیت میں تعطل کا باعث بنا ہے جو اسرائیلی جیلوں میں موجود فلسطینی قیدیوں اور حماس کی پاس موجود یرغمالیوں کے تبادلے کے بارے ہو رہی تھی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2ey6ldyqqpo", "summary": "صالح العاروری سے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ حماس کے مسلح ونگ قاسم بریگیڈ میں ایک اہم مقام رکھتے تھے اور حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کے قریبی اتحادی اور ساتھی تھے۔ وہ لبنان میں اپنے گروپ اور حزب اللہ کے درمیان رابطے کے طور پر کام کر رہے تھے۔", "title": "اسرائیل کا ’ڈراؤنا خواب‘ اور لبنان میں ڈرون حملے میں مارے جانے والے حماس کے رہنما صالح العاروری کون تھے؟", "firstPublished": "2024-01-03T07:22:21.192Z", "id": "c2ey6ldyqqpo", "article": "بیروت میں حماس کے اہم رہنما کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد اسرائیل نے کہا ہے کہ یہ حملہ حماس پر کیا گیا نہ کہ لبنان پر تاہم اس کے بعد حماس اور اس کے اتحادی حزب اللہ کی جانب سے سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی ہے۔ صالح العاروری سے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ حماس کے مسلح ونگ قاسم بریگیڈ میں ایک اہم مقام رکھتے تھے اور حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کے قریبی اتحادی اور ساتھی تھے۔ وہ لبنان میں اپنے گروپ اور حزب اللہ کے درمیان رابطے کے طور پر کام کر رہے تھے۔ صالح العاروری نے کم عمری میں اخوان المسلمون میں شمولیت اختیار کی اور پھر 1987 میں حماس کے کارکنوں میں شمولیت اختیار کی اور 1991 سے 1992 کے درمیان مغربی کنارے میں القاسم برگیڈ کے قیام میں حصہ لیا۔ اسرائیل کی جیلوں میں 20 سال گزارنے والے عصمت منصور نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ 1994 سے لے کر اب تک کئی سال تک صالح العاروری کے ساتھ رہے ہیں۔ اس تناظر میں منصور کا کہنا ہے کہ جیل کے اندر سے العروری نے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی قیادت میں اہم کردار ادا کیا جس کے تحت 1027 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا جن میں غزہ میں حماس کے موجودہ رہنما یحییٰ سنوار بھی شامل ہیں۔ اس کے بعد، اسرائیلی سپریم کورٹ نے صالح العاروری کو فلسطینی علاقوں سے ہٹانے کا فیصلہ سنایا، جہاں سے وہ شام چلے گئے اور پھر وہاں سے ترکی اور قطر کے بعد لبنان کے جنوبی مضافات پہنچ گئے جو بیروت میں حزب اللہ کا سب سے اہم گڑھ ہے۔ صالح العاروری سنہ 2010 میں حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن اور پھر 2017 میں نائب صدر کے طور پر منتخب ہوئے تھے، جسے اس وقت حماس کی جانب سے اسرائیل کے خلاف اپنی جنگ کی توثیق کے طور پر دیکھا جا رہا تھا، جس میں ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیا گیا تھا جو مغربی کنارے میں فوجی کارروائی کی قیادت کرے گی اور تحریک کے دوسرے سب سے بڑے عہدے پر ایران کے قریب ہے۔ اس وقت فلسطینی نیوز رپورٹس کے مطابق، اپنے انتخاب کے چند دن بعد، صالح العاروری نے تہران کا دورہ کیا اور حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ سے عوامی طور پر ملاقات کی۔ العاروری طویل عرصے تک اسرائیل کو سب سے مطلوب شخص رہے، انھیں مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجیوں اور آباد کاروں کے خلاف حملوں کے ’معمار‘، غزہ اور لبنان سے راکٹ فائر کرنے کا اہم کردار قرار دیا جاتا ہے، اور اسرائیلی میڈیا نے انھیں اسرائیل کا ڈراؤنا خواب اور ایران اور حزب اللہ کے تعلقات کا ’گاڈ فادر‘ قرار دیا۔ اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی دہشت گردوں کی امریکی فہرست میں بھی شامل ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd17qw2re1vo", "summary": "اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کا کہنا ہے کہ غزہ اور مصر کے درمیان سرحدی علاقہ ’فلاڈیلفی راہداری‘ اسرائیل کے زیرِ انتظام ہونی چاہیے تاہم مصری مبرین نے متنبہ کیا ہے کہ مصر اور غزہ کے درمیان سرحدی پٹی پر بمباری سے دونوں ملکوں کے درمیان حالات کشیدگی اختیار کر سکتے ہیں۔", "title": "مصر اور غزہ کے درمیان ’فلاڈیلفی راہداری‘ کیا ہے اور اسرائیل اسے کیوں کنٹرول کرنا چاہتا ہے؟", "firstPublished": "2023-12-31T12:24:24.090Z", "id": "cd17qw2re1vo", "article": "اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کا کہنا ہے کہ غزہ اور مصر کے درمیان سرحدی علاقہ ’فلاڈیلفی راہداری‘ اسرائیل کے زیرِ انتظام ہونی چاہیے۔ مصری مبرین نے متنبہ کیا ہے کہ مصر اور غزہ کے درمیان سرحدی پٹی پر بمباری سے دونوں ملکوں کے درمیان حالات کشیدگی اختیار کر سکتے ہیں۔ مصر اور غزہ کی پٹی کے درمیان 14 کلو میٹر کا سرحدی علاقہ ہے جس کے شمال میں بحیرہ روم اور جنوب میں اسرائیلی علاقہ کرم ابو سالم ہیں۔ دو سال بعد حماس نے غزہ کی پٹی کا انتظام سنبھالا اور سرحد کے فلسطینی علاقوں کا کنٹرول لے لیا۔ غزہ پر اسرائیلی سختیوں کے ساتھ فلسطینیوں کی جانب سے راہداری عبور کر کے مصر کی جانب نقل و حرکت بڑھ گئی۔ مصر نے بارہا حماس پر ان عسکری گروہوں کی حمایت کا الزام لگایا ہے جو مصری فورسز کو نشانہ بناتے ہیں۔ ایسا سابق مصری صدر محمد مرسی کے اقتدار سے جانے کے بعد ہوا جنھیں اخوان المسلمین کی حمایت حاصل تھے اور جن کے حماس سے اچھے تعلقات تھے۔ اس کے بعد سے سرحدی پٹی کے حالات بدلتے رہے ہیں۔ فلسطین کی طرف حماس نے سرحدی علاقوں کو بلڈوز کیا اور خاردار تاریں نصب کیں۔ جبکہ مصر نے سٹیل کی دیوار تعمیر کی اور وہاں مصری شہر رفح اور اس کے قصبوں سے گھروں اور زرعی علاقے ختم کیے تاکہ سینا کے پانچ کلومیٹر کے علاقے تک سرحدی بفر زون کی توسیع ہوسکے۔ فلسطینی اور مصری علاقوں کے بیچ مرکزی گزرگاہ رفح زمینی کراسنگ ہے۔ یہ غزہ کے رہائشیوں کے لیے باہری دنیا تک جانے کا واحد راستہ ہے۔ اسرائیلی حکام نے غزہ کی پٹی اور جنوبی اسرائیل کے درمیان تمام چھ کراسنگ بند کر رکھی ہیں۔ مصرین سمجھتے ہیں کہ اس کے لیے اسرائیل اور مصر کو اپنے درمیان امن معاہدے کے نئے پروٹوکول پر اتفاق کرنا ہوگا۔ یہ ایسا ہی ایک پروٹوکول ہوگا جیسا 2005 میں جاری ہوا تھا جب 2005 میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے انخلا کیا تھا۔ اسرائیلی منصوبے کے باوجود مصر نے اس معاملے پر تاحال اپنا مؤقف نہیں بتایا۔ مصری تجزیہ کار خالد عکاشہ کا خیال ہے کہ سیاسی اعتبار سے موجودہ مصری انتظامیہ روایت پسند رہے گی کیونکہ اس معاملے میں اسرائیل کی حمایت کرنا ایسا ہی ہوگا کہ جیسے وہ فلسطین کے مسئلے پر کوئی سمجھوتہ کر رہا ہے۔ عکاشہ کے مطابق سرحدی پٹی کا انتظام اسرائیل کو دینے کا مطلب ہوگا کہ اسرائیل ہی رفح کراسنگ کو کنٹرول کرے گا۔ یہ واحد راستہ ہے جو فی الحال اسرائیل کے کنٹرول میں نہیں اور اس سے فلسطینیوں پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ سمیر غطاس کے مطابق مصر کو خدشہ ہے کہ اگر اسرائیل کو فلاڈیلفی راہداری کا کنٹرول مل گیا تو اس سے غزہ کے رہائشیوں کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں جو کہ پہلے ہی کھلے قید میں رہنے پر رہتے ہیں۔ ’بالآخر غزہ کی پٹی کے لوگ وہاں سے نکلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgxj4y17w7jo", "summary": " میری نسل کے لوگوں نے ٹیلی ویژن پر پہلی جنگ تب دیکھی تھی جب سنہ 1990 میں امریکہ اور اس کی اتحادی فوجوں نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ ", "title": "محمد حنیف کا کالم: ’ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے آپ کے پورے خاندان کا خاتمہ کر دیا‘", "firstPublished": "2023-12-30T04:22:05.778Z", "id": "cgxj4y17w7jo", "article": "میری نسل کے لوگوں نے ٹیلی ویژن پر پہلی جنگ تب دیکھی تھی جب سنہ 1990 میں امریکہ اور اس کی اتحادی فوجوں نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ خبریں پڑھنے والے نے ہیڈلائن کچھ اس طرح پڑھی تھی جیسے فٹ بال میچوں پر کمنٹری کرنے والے جوش میں آ کر کسی گول کا منظر بیان کرتے ہیں۔ اسی دن سے عالمی جنگیں ہمارے گھروں میں گھس آئی ہیں۔ آپ کسی بھی دن، رات کے کھانے کے وقت ٹی وی لگائیں تو دنیا میں کہیں نہ کہیں کسی شہر کا آسمان بمباری سے جگمگا رہا ہو گا اور گورے صحافیوں کو اس شہر کا درست نام لینا کبھی نہیں آئے گا۔ آہستہ آہستہ لائیو کوریج اور میڈیا جنگ کا لازمی حصہ بن گئے جس طرح کسی زمانے فوج کے ساتھ طبل اور نقارے بجانے والے چلتے تھے، جو اپنی سپاہ کا خون گرماتے تھے۔ اسی طرح نیویارک ٹائمز اور وال سٹریٹ جرنل جیسے اخبارات کے مدبر صحافی پہلے جنگ کا جواز سمجھاتے تھے پھر الیکٹرانک میڈیا میں ان کے بھائی بہن حملہ آور فوجوں کے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں میں بیٹھ کر جنگ کی کوریج کے لیے پہنچ جاتے تھے۔ ان جنگوں میں بندوق کی نالی اور ان کی آنکھ دشمن کو ایک ہی نظر سے دیکھتے تھے۔ جدید جنگ تقریباً ایک مکمل سا پیکج بن گئی تھی جس میں اسلحے کا کاروبار بھی خوب پھلتا پھولتا اور جنگ زدہ لوگوں کے لیے خیموں اور کمبلوں کی مانگ بھی ہمیشہ ضرور رہتی۔ جن کو ازلی خون کی پیاس تھی انھیں بھی خوراک مل جاتی اور جن کے دل انسانیت سے بھرپور تھے ان کا دھندہ بھی چلتا رہتا۔ جب اسرائیل نے غزہ پر وحشت ناک بمباری شروع کی (اور چونکہ ایڈیٹوریل گائیڈلائن کی ضرورت ہے اس لیے بتاتے چلیں کہ یہ لڑائی سات اکتوبر کے حماس حملوس سے شروع نہیں ہوئی 70 سال پہلے شروع ہوئی تھی) تو موسمی دفاعی تجزیہ نگاروں کا بھی خیال تھا کہ امریکہ اور اس کی باقی نام نہاد برادری چند دن اسرائیل کو کھلا ہاتھ دے گی، ایک کے بدلے دس مارو، اگر کسی نے غزہ میں گھر، سکول، ہسپتال، میوزیم بنا لیا ہے تو اسے نیست و نابود کر دو۔ بچے مریں گے مارو لیکن پھر مغربی ضمیر انگڑائی لے کر بیدار ہو گا اور کہے گا ہم نے بہت ہزار بچوں کی لاشوں کی تصویریں دیکھی ہیں اب یہ کام بند کرو۔ لیکن مغربی ضمیر کی گنتی ابھی پوری نہیں ہوئی۔ اس مرتبہ کرسمس پر وہاں حضرت عیسیٰ کے بچپن کے مجسمے کو ایک ملبے کے ڈھیر میں پڑا ہوا دکھایا گیا اور محترم پادری منتھر آئزیک نے اپنے کرسمس کے خطبے میں فرمایا: ’اور آج کے بعد ہمارا کوئی یورپی دوست ہمیں انسانی حقوق یا عالمی قانون پر لیکچر نہ دے کیونکہ ہم گورے نہیں ہیں اور تمہاری اپنی ہی منطق کے مطابق انسانی حقوق اور عالمی قانون ہم پر لاگو نہیں ہوتے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg7nk0qxreo", "summary": "اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیلی فوج کی وسطی غزہ میں پناہ گزین کیمپوں کی جانب پیش قدمی کے باعث تقریباً ڈیڑھ لاکھ فلسطینی ان علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔", "title": "اسرائیلی فوج کی وسطی غزہ میں پناہ گزین کیمپوں کی جانب پیش قدمی کے باعث ’ڈیڑھ لاکھ فلسطینی‘ نقل مکانی پر مجبور", "firstPublished": "2023-12-24T02:34:55.586Z", "id": "crg7nk0qxreo", "article": "اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیلی فوج کی وسطی غزہ میں پناہ گزین کیمپوں کی جانب پیش قدمی کے باعث تقریباً ڈیڑھ لاکھ فلسطینی ان علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے حال ہی میں اپنے زمینی حملے کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اس میں بوریج، نصیرات اور المغازی پناہ گزین کیمپوں کو بھی شامل کیا ہے جہاں ہزاروں فلسطینی اس لیے مقیم تھے کیونکہ انھیں اسرائیل کی جانب سے سات اکتوبر کی جنگ کے آغاز کے بعد شمالی غزہ سے انخلا کا کہا گیا تھا۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 11 ہفتوں کی لڑائی کے دوران غزہ میں 21 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔ اسرائیلی فوج نے وسطی غزہ کے علاقوں بشمول بوریج اور نصیرات کیمپوں کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا اور متاثرہ علاقوں میں تقریباً 90 ہزار افراد اور 61 ہزار بے گھر افراد کو جنوب کی طرف دیر البلاح قصبے کی طرف جانے کے لیے کہا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ رفح شہر جو پہلے ہی غزہ کا سب سے زیادہ گنجان آباد شہر بن چکا ہے - نے نئے علاقوں میں اسرائیلی زمینی افواج کی دراندازی کے درمیان حالیہ دنوں میں تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی منتقلی دیکھی ہے۔ غزہ میں پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کے ڈائریکٹر ٹام وائٹ نے کہا ہے کہ ’زیادہ سے زیادہ لوگوں کو غزہ کے جنوب میں واقع شہر رفح جانے کے لیے دھکیلا جا رہا ہے۔‘ رہائشیوں نے رائٹرز کو بتایا، \"جمعرات کو شدید لڑائی جاری رہی جب اسرائیلی ٹینکوں نے شمال اور مشرق سے گنجان آباد بوریج کیمپ کی طرف پیش قدمی کی۔\" حماس نے ایک ویڈیو کلپ بھی شائع کیا جس میں کہا گیا ہے کہ اس کے جنگجو اسرائیلی فوجیوں اور گاڑیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ نے 7 اکتوبر سے مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج اور آباد کاروں کے ہاتھوں 300 فلسطینیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ اسرائیلی فوج نے 24 دسمبر کو غزہ میں پناہ گزین کے المغازی کیمپ پر اپنے فضائی حملے میں معصوم شہریوں کو پہنچنے والے نقصان پر افسوس ظاہر کیا ہے۔ حملے کی زد میں آنے والے ایک شخص نے کہا تھا کہ اس نے بمباری میں اپنی بیٹی اور نواسوں کو کھو دیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کا خاندان محفوظ پناہ حاصل کرنے کے لیے شمال سے مرکزی غزہ آیا تھا۔ فلسطینی ہلال احمر نے کہا تھا کہ ’شدید‘ اسرائیلی بمباری کی وجہ سے المغازی اور پناہ گزینوں کے دیگر دو کیمپوں البریج اور النصیرت کے درمیان سڑک بند ہوگئی ہے۔ ’اس سے ایمبولینسوں اور ریسکیو ٹیموں کی طرف سے مدد میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gyz34k7mvo", "summary": "احمد بتاتے ہیں کہ 12 دسمبر کو وہ شمالی غزہ کی پٹی میں اپنے روزمرہ کام یعنی زخمی فلسطینیوں کو طبی امداد فراہم کرنے کے سلسلے میں گھر سے نکلے ہی تھے کہ انھیں اپنے ایک پڑوسی کا وہ ٹیکسٹ میسج موصول ہوا جس نے اُن کی زندگی تہہ و بالا کر کے رکھ دی۔\n", "title": "غزہ پر بمباری: ’ملبے تلے میرے دو بیٹوں اور چھ ماہ کی بیٹی کی لاشیں ہیں، میرے پاس کوئی نہیں بچا۔۔۔ وہ سب چلے گئے‘", "firstPublished": "2023-12-28T02:56:10.014Z", "id": "c3gyz34k7mvo", "article": "احمد بتاتے ہیں کہ اُس دن (12 دسمبر) وہ شمالی غزہ کی پٹی میں اپنے روزمرہ کام، یعنی زخمی فلسطینیوں کو طبی امداد فراہم کرنے کے سلسلے میں گھر سے نکلے ہی تھے کہ انھیں اپنے ایک پڑوسی کا وہ ٹیکسٹ میسج موصول ہوا جس نے اُن کی زندگی تہہ و بالا کر کے رکھ دی۔ احمد کے مطابق ’اس میسج میں لکھا تھا ’انھوں نے آپ کے گھر پر بمباری کی ہے۔۔۔ اور آپ کا سارا خاندان ملبے تلے دب گیا ہے۔‘ یہ میسج پڑھ کر میں گھر کی جانب واپس بھاگا۔ وہاں کا منظر اتنا ہولناک تھا کہ میں اُسے دیکھ کر اس جگہ سکتے کی حالت میں منجمد ہو گیا جہاں میں کھڑا تھا۔ پھر میں وہیں بیٹھ گیا۔ اسی دوران وہاں موجود لوگوں نے اس عمارت سے زندہ بچ جانے والے لوگوں کو نکالنا شروع کیا جہاں میرا گھر تھا۔ وہ بچ جانے والوں کو ایک گدھا گاڑی پر رکھ رہے تھے کیونکہ بمباری کے بعد وہاں ایمبولینس نہیں جا سکتی تھی۔‘ تھوڑی دیر آہ و زاری کے بعد انھوں نے اپنی بات دوبارہ شروع کی ’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔۔۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ گذشتہ 70 دن سے (غزہ پر اسرائیلی بمباری کے آغاز کے بعد سے) میں ہر اس شخص کو طبی امداد فراہم کر رہا ہوں جس نے مجھ سے اس کی درخواست کی یا جسے طبی مدد کی ضرورت تھی۔۔۔ مگر دوسری جانب میں اپنے قریب ترین افراد کی مدد کرنے سے قاصر ہوں۔‘ احمد بتاتے ہیں کہ ان کے گھر میں موجود ان کے خاندان کے چند افراد ایسے تھے جو بمباری کا نشانہ بن کر زخمی ہوئے تھے اور بے گھر ہونے کے بعد انھی کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ احمد کے مطابق وہ ان زخمیوں کو بھی درد کش ادویات کے علاوہ کوئی طبی علاج فراہم کرنے سے قاصر تھے اور درد کش ادویات بھی دن میں تین دفعہ دینے کے بجائے محض ایک دفعہ دے رہے تھے کیونکہ ان ادویات کی کمی تھی۔ احمد نے اپنی بات کا اختتام یہ کہتے ہوئے کیا کہ غزہ کی صورتحال ایسی ہے کہ ان کی زندگی میں پیش آنے والے اس بڑے سانحے نے بھی انھیں اپنے روزمرہ کے کام سے نہیں روکا۔ ’یہاں تک کہ جس دن میں نے اپنے بیٹے کی لاش ملبے تلے سے نکال کر اسے دفن کیا، تو تدفین کے فوراً بعد میں کام پر چلا گیا تاکہ زخمیوں کی مدد کر سکوں اور انھیں موت کے منھ میں جانے سے بچا سکوں اور میں یہ کام کرنے سے باز نہیں آؤں گا۔ عین ممکن ہے کہ جب آپ مجھے دوبارہ اس نمبر پر کال کریں تو کوئی آپ کو بتائے کہ اس نمبر کا مالک بمباری میں فوت ہو چکا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1eyv2jgqjeo", "summary": "صرف ایک سال بعد عونی حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی جنگ میں مارے جانے والے پہلے فلسطینی بچوں میں سے ایک بن گئے۔", "title": "’میں ہوں عونی، ایک نئی ویڈیو کے ساتھ۔۔۔‘: 12 سالہ فلسطینی لڑکے کا وہ خواب جو اس کی موت کے بعد پورا ہوا", "firstPublished": "2023-12-25T08:38:27.586Z", "id": "c1eyv2jgqjeo", "article": "اگست 2022 میں پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں عونی مائيک تھامے کھڑے ہیں اور وہ اپنے یوٹیوب گیمنگ چینل کے لیے اپنے عزائم کا اعلان کرتے ہوئے مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں: ’تو دوستوں، میں اب اپنا تعارف کرواتا ہوں۔ میں غزہ میں رہنے والا فلسطینی ہوں اور میری عمر 12 سال ہے۔ اس چینل کا مقصد ایک لاکھ سبسکرائبرز، پھر پانچ لاکھ اور پھر 10 لاکھ سبسکرائبر حاصل کرنا ہے۔‘ صرف ایک سال بعد عونی حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی جنگ میں مارے جانے والے پہلے فلسطینی بچوں میں سے ایک بن گئے۔ بہت سے لوگوں کے لیے وہ ایک ایسے 13 سالہ گیمر ہیں جو غزہ کی پٹی میں بڑی تعداد میں ہلاک ہونے والے بچوں کی نمائندگی کی علامت بن چکے ہیں۔ غزہ میں حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد اب تک غزہ میں 20,000 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں سے ایک تہائی سے زیادہ بچے ہیں۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے (یونیسیف) نے غزہ کو ’بچوں کے لیے دنیا کی سب سے خطرناک جگہ‘ قرار دیا ہے۔ حماس کے حملے کے بعد جیسے ہی اسرائیل نے جوابی کارروائی شروع کی تو عونی کی خالہ علاء کو غزہ شہر میں اپنے خاندان کے گھر کی تباہی کا خیال آیا۔ وہ کہتی ہیں کہ رات کو تقریباً سوا آٹھ بجے کے لگ بھگ ان کے فون کا انباکس دوستوں کے ان پیغامات سے بھرا ہوا تھا کہ عونی کے خاندانی گھر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ عونی کی ایک فیس بُک پوسٹ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کمپیوٹر کا ایک مدر بورڈ تھامے ننھے طالبعلموں کے سامنے کھڑا ہے اور انھیں اس کے بارے میں آگاہی دے رہا ہے کہ یہ کیسے کام کرتا ہے۔ ان کے سکول کی فیس بک پوسٹس میں انھیں بہت سے اعزازات اور انعامات جیتتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ عونی کے ایک دور کے رشتہ دار اشرف الدوس ایک پروگرامر کے طور پر کام کرتے ہیں اور کئی یوٹیوب چینلز چلانے میں مدد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عونی اکثر اپنے چینل کے حوالے سے مشورہ لینے کے لیے ان سے رابطہ کرتا تھا۔ لیکن اکتوبر 2023 میں عونی کی موت کے بعد ان کے ویڈیوز کو اس وقت ویوز ملنے لگے جب ان کے چینل سے متعلق تفصیلات کویت سے تعلق رکھنے والے گیمر ابو فلاح سمیت کئی بڑے یوٹیوبرز نے شیئر کیں۔ عونی کا پورا خاندان، اس کے چار بھائی اور بہنیں اور ماں اور باپ، سب اس کے ساتھ مارے گئے تھے۔ لیکن اس کے زندہ بچ جانے والے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ انھیں اس شہرت پر فخر ہے جو عونی کو موت کے بعد ملی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0vy4v455lqo", "summary": "’میں نے سڑک کے کنارے مختلف جگہوں پر تقریباً 10 لاشیں دیکھیں جبکہ بکھرے اور گلے سڑے انسانی اعضا مکھیوں سے ڈھکے ہوئے تھے جنھیں پرندے نوچ رہے تھے۔ ان سے تعفن اور بدبو اٹھ رہی تھی جس کا میں نے پہلے کبھی تجربہ نہیں کیا تھا۔‘ بی بی سی عربی کے کیمرہ مین جہاد المشراوی نے غزہ سے اپنی نقل مکانی کے بارے میں چونکا دینے والی تفصیلات بتائیں ہیں۔", "title": "غزہ سے نقل مکانی: ’میں نے 10 لاشیں دیکھیں، ایک سر کٹی لاش کے ہاتھوں نے ابھی تک کار سٹیئرنگ تھام رکھا تھا‘", "firstPublished": "2023-12-21T12:43:14.290Z", "id": "c0vy4v455lqo", "article": "غزہ پر اسرائیلی بمباری کے ہفتوں بعد 16 نومبر کو شمالی غزہ کے جہاد المشراوی اپنے خاندان کو لے کر اپنے گھر سے چلے گئے۔ بی بی سی عربی کے کیمرہ مین جہاد المشراوی نے اپنی نقل مکانی اور اس مشکل سفر کے بارے میں چونکا دینے والی تفصیلات بتائیں ہیں۔ ہم بہت جلدی میں گھر سے نکلے تھے۔ ہم اس وقت روٹیاں پکا رہے تھے جب ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے سامنے والے گھروں پر ایک ایک کر کے بمباری ہو رہی ہے۔ میں جانتا تھا کہ جلد ہی ہماری باری بھی آ جائے گی۔ ہم نے اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے ہی کچھ سامان باندھ رکھا تھا لیکن یہ سب کچھ اتنا جلدی میں ہوا کہ ہم وہ ساتھ لانا ہی بھول گئے۔ ہم نے تو حتیٰ کہ اپنے گھر کا مرکزی دروازہ بھی بند نہیں کیا۔ میں جانتا تھا کہ جنوبی غزہ میں بجلی نہیں، پانی نہیں اور لوگوں کو بیت الخلا استعمال کرنے کے لیے گھنٹوں قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے لیکن آخر کار صرف پانی کی بوتل اور کچھ بچ جانے والی روٹی لے کر ہم نے ہزاروں دوسرے لوگوں کے ساتھ صلاح الدین روڈ سے جنوبی عزہ کی طرف وہ خطرناک سفر کیا جس کے بارے میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ محفوظ ہے۔ البتہ میری بیوی، بچے، والدین اور میں سب بحفاظت چوکی سے گزر گئے لیکن میرے دو بھائیوں کو تاخیر ہوئی۔ جب ہم ان کا انتظار کر رہے تھے تو ایک اسرائیلی فوجی نے ہمارے سامنے موجود لوگوں کے ایک گروہ پر جو کنٹینرز کی طرف واپس جانے کی کوشش کر رہے تھے چیخ کر آگے جانے کا کہا۔ وہ افراد اپنے حراست میں رکھے گئے رشتہ داروں کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہے تھے۔ جب ہم مزید جنوب کی طرف بڑھے تو میں نے سڑک کے کنارے مختلف جگہوں پر تقریباً 10 لاشیں دیکھیں جبکہ باقی بکھرے ہوئے گلے سڑے جسم کے اعضا مکھیوں سے ڈھکے ہوئے تھے جنھیں پرندے نوچ رہے تھے۔ ان سے تعفن اور بدبو اٹھ رہی تھی جس کا میں نے پہلے کبھی تجربہ نہیں کیا تھا۔ اسی اثنا میں ایک اسرائیلی ٹینک ایک برابر والی سڑک پر سے نمودار ہوا جو انتہائی تیز رفتاری سے ہماری طرف بڑھ رہا تھا۔ ہم خوفزدہ تھے اور بھاگنے کے لیے ہمیں لاشوں کے اوپر سے بھاگنا پڑا۔ ہجوم میں سے کچھ لوگ لاشوں پر گر گئے۔ ٹینک نے مین روڈ تک پہنچنے سے تقریباً 20 میٹر پہلے اپنا راستہ بدلا۔ جب بی بی سی نے اسرائیلی فوج سے ٹینک اور لاشوں کے بارے میں پوچھا تو اس کا کہنا تھا کہ ’دن کے وقت ٹینک ان راستوں پر حرکت کرتے ہیں جو صلاح الدین روڈ سے ملتے ہیں لیکن ایسا کوئی معاملہ نہیں تھا کہ ٹینک غزہ میں انسانی ہمدردی کی راہداری پر شمال سے جنوب کی طرف جانے والے شہریوں کی طرف بڑھے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cz9elgn4jgpo", "summary": "اگرچہ اس وقت غزہ میں مکمل طور پر جنگ بندی دور دکھائی دیتی ہے تاہم کچھ تازہ پیشرفت کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ میں وقفے کا امکان موجود ہے۔ ", "title": "اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں دوسرے وقفے کے لیے کوششیں تیز، اسماعیل ہنیہ کی قاہرہ میں ملاقاتیں", "firstPublished": "2023-12-20T17:01:59.217Z", "id": "cz9elgn4jgpo", "article": "اگرچہ اس وقت غزہ میں مکمل طور پر جنگ بندی دور دکھائی دیتی ہے تاہم کچھ تازہ پیشرفت کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ میں وقفے کا امکان موجود ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے خاتمے تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ حماس سنہ 2007 سے غزہ کی پٹی پر حکومت کر رہی ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ان کا تبادلہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں سے کیا جا سکتا ہے جنھیں گذشتہ ڈیل میں رہا ہونے والی خواتین اور نوعمروں سے زیادہ سنگین جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا اور یہ کہ جنگ بندی ایک یا دو ہفتے تک جاری رہ سکتی ہے۔ اسرائیل کے صدر آئزک ہرزوگ نے منگل کے روز سفارتکاروں کو بتایا کہ ان کا ملک انسانی بنیادوں پر دوسری بار جنگ میں وقفے کے لیے تیار ہے اور یہ کہ مزید یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنانے کے لیے غزہ میں مزید انسانی امداد بھیجنے پر تیار ہے۔ اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے منگل کے روز غزہ کی پٹی میں 300 اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ فلسطینی ریڈ کریسنٹ کا کہنا ہے کہ جنوبی غزہ میں جبالیہ کے مقام پر اسرائیلی فورسز نے اس کی ایک ایمبولینس کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ اسرائیلی رہنماؤں کے خیال میں فوجی دباؤ کے ذریعے حماس کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکتا ہے۔ تاہم یرغمال بنائے جانے والے افراد کے اہل خانہ اسرائیل کی اس حکمت عملی سے متفق نہیں ہیں۔ اس بے چینی میں اس وقت اضافہ ہوا جب جمعے کے روز اسرائیلی فوج نے ان میں سے تین یرغمالیوں کو خود گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ اپنے دورے سے قبل ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ کوئی بھی غیرضروری طور پر اس تنازعے کی طوالت کا قائل نہیں ہے۔ ان کے مطابق ’مگر یہ اہم ہے کہ یہ جنگ بندی پائیدار ہو۔‘ اقوام متحدہ کے ادارے ڈبلیو ایف پی کا کہنا ہے کہ غزہ کی نصف آبادی کو فاقوں کا سامنا ہے لہٰذا فوری طور پر جنگ بندی کی جائے اور تمام سرحدیں فوری طور پر کھول دی جائیں۔ اقوام متحدہ بھی غزہ میں جنگ بندی کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے 19 لاکھ افراد یا اپنے گھر سے محروم ہو گئے ہیں یا پھر وہ غزہ چھوڑ کر ہی چلے گئے ہیں۔ غزہ میں انسانی امداد نہ پہنچنے سے متعلق بھی تشویش بڑھ گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اس وقت غزہ میں زندگی بالکل خطرے کے دھانے پر ہے یعنی اب وہاں موجود آبادی کا زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cpv6zp2pq4vo", "summary": "غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے تقریبا ایک ماہ سے حراست میں لیے گئے چھ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ انھیں بری طرح پیٹا گیا اور ایک شخص نے کہا کہ اسرائیلی فوجیوں کی گولی لگنے سے ان کی دائیں ٹانگ کاٹ دی گئی۔", "title": "اسرائیلی حراست سے رہائی پانے والے فلسطینی: ’وہ پوچھتے رہے حماس کے لوگ کہاں ہیں، انھوں نے میری ٹانگ کاٹ دی‘", "firstPublished": "2023-12-19T12:26:21.604Z", "id": "cpv6zp2pq4vo", "article": "چھ میں سے پانچ افراد جن کا کہنا ہے کہ انھیں بری طرح پیٹا گیا تھا وہ تقریبا ایک ماہ تک اسرائیلی حراست میں رہنے کے بعد تھکے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ غزہ سے تعلق رکھنے والے چھ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ انھیں اسرائیلی فوج نے تقریباً ایک ماہ کی حراست کے دوران شدید تشدد کا نشانہ بنایا، انھیں مارا اور پیٹا گیا۔ ان میں سے ایک شخص کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے اُن کی دائیں ٹانگ میں گولی ماری، جسے بعد میں کاٹنا پڑا، اس سب کے باوجود اُنھیں اور دیگر کو حراست میں لے لیا گیا۔ آئی ڈی ایف کی قید سے رہا ہونے والے فلسطینی محمد داؤد نے کہا کہ انھیں اس لیے حراست میں لیا گیا کیونکہ انھوں نے اسرائیل کے جنوب کی طرف جانے کے حکم کی پیروی کی تھی۔ محمد داؤد نے مُجھے بتایا کہ انھیں 26 دن تک حراست میں رکھا گیا اور بالآخر رہا کر دیا گیا کیونکہ ’انھیں ہم سے وہ نہیں ملا شاید جس کی انھیں تلاش تھی۔‘ داؤد نے بتایا کہ ’اگر کوئی انھیں یہ کہتا کہ وہ بیمار ہیں یا ان کی ٹانگ کاٹ دی گئی ہے تو وہ (اسرائیلی فوجی) جواب دیتے کہ ’ہماری بلا سے، چاہے یہیں مر جاؤ۔‘ ایک بار پھر، آئی ڈی ایف نے ان تمام الزامات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ قیدیوں کو دن میں تین وقت کا کھانا، پانی اور طبی سہولیات مناسب مقدار میں فراہم کی جاتی تھیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ غزہ میں اسرائیلی فوج نے کتنے افراد کو حراست میں لیا ہے یا انھیں کہاں رکھا گیا ہے۔ ابالحسن نے انتہائی تکلیف اور بھری آنکوں کے ساتھ مُجھے یہ بتایا کہ ’جب میں نے انھیں بتایا کہ میں وہ سب نہیں جانتا جو آپ مُجھ سے پوچھ رہے ہیں، تو انھوں نے میرے ایک بھی لفظ کا اعتبار نہیں کیا اور میری ٹانگ پر گولی مار دی، یہ ظلم یہاں رُکا نہیں اس کے بعد انھوں نے میری ٹانگ کاٹ دی۔‘ محمود ابو حسین نے کہا کہ اسرائیلی فوجیوں نے ان کی ٹانگ پر اس وقت گولی ماری جب انھوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ حماس اور یرغمالی کہاں ہیں ایک اور عمر رسیدہ شخص محمد یوسف علی ابو شملہ بھی ہسپتال کی راہداری میں انتظار کر رہے تھے۔ ان کا تعلق غزہ شہر کے مشرق میں واقع زیتون کے پڑوس سے ہے۔ بی بی سی سے بات کرنے والے ساتویں شخص شملہ نے دوسرے لوگوں کی طرح ہلکے سرمئی رنگ کا ٹریک سوٹ پہنا ہوا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلی افواج نے انھیں کسی اور وقت میں حراست میں لیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’انھیں چھ دیگر افراد کے ساتھ حراست میں لیا گیا جن میں ان کے تین بیٹے، دو بھتیجے اور ایک بھائی شامل ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgr348lz7nxo", "summary": "مس برنارڈو کی طرح کچھ افراد اس گفتگو کے بارے میں سوچ رہے ہیں جو ان کی اپنے بچوں کے ساتھ ہوئی تھی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے دوبارہ کوفیہ خریدنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں بہت سال پہلے یہ پہنا کرتی تھی اور اب میں دوبارہ سے پہنا کروں گی۔‘", "title": "غزہ اسرائیل جنگ اور امریکہ میں مسلم مخالف رویے: ’بیٹی کو سمجھایا کہ کچھ لوگ نفرت سے بھرے ہیں‘", "firstPublished": "2023-12-18T03:52:15.856Z", "id": "cgr348lz7nxo", "article": "ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنی بیٹی کو سمجھایا کہ انھیں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے، کچھ لوگ ایسے ہیں جو اندھے ہیں، جو نفرت سے بھرے ہوئے ہیں۔‘ برلنگٹن کی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا 24 نومبر کو تین افراد کو گولی مارنا نفرت پر مبنی جرم تھا یا نہیں۔ ملزم جیسن ایٹن نے اقدام قتل کے الزامات سے انکار کیا ہے۔ حملے کے وقت وہ عربی اور انگریزی دونوں زبانیں بول رہے تھے، ان میں سے دو نے کوفیہ پہن رکھا تھا جو ایک روایتی فلسطینی سکارف ہے جو اکثر فلسطینی شناخت اور یکجہتی کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے نے انھیں خوفزدہ کر دیا کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل اور غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے امریکہ میں بظاہر فلسطینی ہونا ایک خطرہ کی علامت بن چُکا ہے۔ بورڈونارو کا کہنا تھا کہ ’میں نے ان تینوں نوجوانوں کی تصویر دیکھی تو میرے سامنے میرے بچوں کے چہرے آگئے، میں نے اپنے اندر شدید صدمہ اور درد محسوس کیا، مجھے لگا جیسے وہ میرے بچے تھے۔‘ اس کے بعد انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو فون کیا اور ’تکلیف دہ الفاظ کا تبادلہ ہوا‘، جس میں انھوں نے اپنے بچوں کو مشورہ دیا کہ وہ عوامی مقامات پر کوفیہ پہننے سے گریز کریں۔ نیو جرسی میں کیئر کی شہری حقوق کی وکیل آیہ ذکی نے کہا کہ فلسطینی مائیں حال ہی میں اپنے بچوں سے اس مسئلے پر بات کرنے کے بارے میں مشورے کے لیے ان کے پاس آ رہی ہیں۔ ذکی کا کہنا تھا کہ ’گھروں میں ان بچوں کے درمیان خوف سے بھری بات چیت ہو رہی ہے جو اپنی شناخت کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں اور وہ مائیں اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ انھیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘ تاہم اس خوف اور مایوسی کے درمیان ہمت کا جذبہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ کچھ روز قبل برلنگٹن میں ہونے والے واقعے کے بعد شہر میں دو دعائیہ تقاریب منعقد ہوئی تھیں جن میں ان تینوں فلسطینیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ ان میں سے ایک اس ہسپتال کے سامنے منعقد ہوئی جس میں یہ فلسطینی لڑکے اس وقت موجود تھے اور اس میں اکثر افراد نے کوفیہ بھی پہن رکھے تھے۔ برنارڈو کی طرح کچھ افراد اس گفتگو کے بارے میں سوچ رہے ہیں جو ان کی اپنے بچوں کے ساتھ ہوئی تھی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے دوبارہ کوفیہ خریدنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں بہت سال پہلے یہ پہنا کرتی تھی اور اب میں دوبارہ سے پہنا کروں گی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1mgk2nme5o", "summary": "اس واقعے کے بعد ایک بار پھر آئی ڈی ایف کی حکمت عملی اور امتیازی سلوک پر سوالات اٹھتے ہیں۔ اس سب کے بعد صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے کہ اسی طرح کے حالات میں کتنے معصوم شہری مارے جا چکے ہیں۔", "title": "غزہ میں یرغمالیوں کی ہلاکت: اسرائیلی فوج کی متنازع حکمتِ عملی اور یرغمالیوں کی رہائی سے جڑے خطرات", "firstPublished": "2023-12-17T09:38:02.772Z", "id": "cd1mgk2nme5o", "article": "اس واقعے کے بعد ایک بار پھر آئی ڈی ایف کی حکمت عملی اور امتیازی سلوک پر سوالات اٹھتے ہیں۔ اس سب کے بعد صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے کہ اسی طرح کے حالات میں کتنے معصوم شہری مارے جا چکے ہیں۔ آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ وہ شہریوں کو نقصان پہنچانے سے بچنے کے لیے بہت احتیاط سے کام لے رہی ہے لیکن غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد میں ہولناک حد تک ہونے والے اضافے اور غزہ میں 18 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل پر اندھا دھند بمباری کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ برطانوی سفیر مغویوں کی رہائی کے لیے مذاکرات کے ذریعے دباؤ ڈالنے کے لیے وزیر داخلہ سے ملنے گئے تھے۔ انھیں بتایا گیا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے، یمنی فوج پہلے ہی داخل ہو چکی ہے۔ اغوا کیے گئے افراد میں سے ایک چوتھائی فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک اور دیگر زخمی ہوئے تھے۔ 2009 میں جب ایک برطانوی صحافی سٹیفن فیرل کو طالبان نے افغانستان میں اغوا کیا تھا تو انھیں برطانوی سپیشل فورسز نے بازیاب کروایا تھا لیکن اس حملے کے نتیجے میں ان کا ایک امدادی کارکن، دو عام شہری اور ان کا افغان مترجم بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ اگلے سال امریکی نیوی کی ایک ٹیم نے برطانوی امدادی کارکن لنڈا نورگروو کو بازیاب کرانے کی کوشش کی، جنھیں طالبان نے افغانستان میں اغوا کیا تھا۔ اس چھاپے میں ان کے اغوا کار مارے گئے لیکن وہ اپنے ایک ریسکیو اہلکار کی طرف سے پھینکے گئے دستی بم سے ہلاک ہو گئیں۔ سنہ 2012 میں نائجیریا میں ایک برطانوی اور ایک اطالوی یرغمالی کی رہائی کے لیے برطانوی سپیشل فورسز کا آپریشن اس وقت ناکام ہو گیا تھا جب نائجیریا کے ایک فوجی نے قبل از وقت اپنے ہتھیار سے فائرنگ کر دی تھی۔ اس کے بجائے وہ ان کا قتل لائیو سٹریم کر کے زیادہ سے زیادہ نفسیاتی اثرات مرتب کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ان حالات میں، مسلح مداخلت، اگر ان کا پتا لگایا جا سکتا ہے تو یہ عام طور پر دستیاب واحد آپشن ہوتا ہے۔ حماس کہ بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک ہائبرڈ کیس ہے۔ سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں ان کا حملہ ایک ظالمانہ اقدام تھا۔ اس کے باوجود وہ بعد میں 100 سے زیادہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے سودے بازی کرنے کو تیار ہیں۔ آج حماس کی قید میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کے رشتہ دار اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پہلے ہی رہا ہونے والے تقریباً تمام افراد کسی بھی فوجی کارروائی سے نہیں بلکہ قطر اور مصر کی جانب سے حماس کے ساتھ مذاکرات اور ثالثی کے ذریعے اپنے گھروں میں واپس لوٹنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جنرل ہربرٹ کہتے ہیں کہ ’یرغمالیوں کی واپسی صرف سفارتی ذرائع سے ہی ممکن ہے، غزہ میں اس مسئلے کا کوئی مؤثر فوجی حل فی الوقت دکھائی نہیں دے رہا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51z819y0m3o", "summary": "اسرائیلی فوجی حکام کے مطابق غزہ میں آئی ڈی ایف نے غلطی سے جن تین اسرائیلی یرغمالیوں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا وہ اس دوران سفید کپڑے کا ٹکڑا لہرا رہے تھے۔", "title": "غزہ میں ’غلطی سے ہلاک‘ کیے جانے والے اسرائیلی یرغمالی سفید کپڑا تھامے، مدد کے لیے پُکار رہے تھے: اسرائیلی فوج", "firstPublished": "2023-12-16T07:08:41.301Z", "id": "c51z819y0m3o", "article": "اسرائیلی فوجی حکام کے مطابق غزہ میں آئی ڈی ایف نے غلطی سے جن تین اسرائیلی یرغمالیوں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا وہ اس دوران سفید کپڑے کا ٹکڑا لہرا رہے تھے۔ عبرانی زبان میں مدد کے لیے ایک پکار سُنی گئی جس پر بٹالین کمانڈر نے آئی ڈی ایف کے اہلکاروں کو گولی نہ چلانے کا حکم دیا۔ عہدیدار نے بتایا کہ زخمی حالت میں یرغمالی ایک مرتبہ پھر عمارت سے باہر نکلا جس پر دوبارہ گولیاں برسا دی گئیں، اور اسے ہلاک کر دیا گیا۔ سمیر تلاکا جو کہ بدو ہیں کو کبوتز نیر ایم کے مقام سے اغوا کیا گیا تھا۔ وہ اسرائیلی قصبے ہرہ میں رہتے تھے جبکہ کبوتز میں مرغیوں کے فارم پر کام کرتے تھے۔ سات اکتوبر کی صبح وہ کام پر ہی تھے۔ حماس کے حملے کے بعد انھوں نے اپنی بہن کو فون کر کے بتایا کہ وہ گولیاں لگنے سے زخمی ہو گئے ہیں۔ دریں اثناء رہائی پانے والے تھائی یرغمالی ویچیان ٹیمتھونگ نے ان کے ساتھ گزارے گئے اپنے وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ ان کے پاس کوئی مشترکہ زبان نہیں تھی اس لیے وہ ایک دوسرے سے بات چیت کرنے اور ایک دوسرے کی اخلاقی حمایت کرنے کے لیے اشاروں کی زبان کا استعمال کرتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ وہ ان افراد کی موت کے بارے میں جان کر ’صدمے کی حالت‘ اور ’افسردہ‘ ہیں، جن کے ساتھ انھوں نے تقریبا 50 دن حماس کی قید میں گزارے۔ رواں ماہ کے اوائل میں اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے ان کے اہل خانہ نے اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈال رکھا ہے کہ وہ کم از کم کچھ قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک نئی جنگ بندی کا اعلان کریں۔ ابتدائی معاہدے کے نتیجے میں اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے بدلے 100 سے زائد یرغمالیوں کو رہا کیا گیا تھا۔ ناما وینبرگ، جن کے کزن ایٹائی سویرسکی یرغمال ہیں، نے کہا ’جو کچھ ہوا اُس نے ہمیں خوف کی ایک نا ختم ہونے والی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے، یرغمالی جو زندہ تھے اب مر چکے ہیں۔ ’ہمیں لاشوں یا بیگوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت تک جنگ بندی کریں جب تک تمام یرغمالی زندہ واپس نہیں لوٹ آتے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمیں اُن یرغمالیوں کی تلاش رہتی ہے کہ جو یہاں سے گئے تو زندہ تھے مگر اب وہ مردہ واپس آ رہے ہیں۔ مقامی صحت حکام کے مطابق غزہ میں حماس کے حملوں کے جواب میں شروع کی جانے والی جنگ، جس میں اسرائیل میں تقریبا بارہ سو افراد ہلاک ہوئے تھے، 18 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں، اور لاکھوں افراد کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nyvqx0vn9o", "summary": "غزہ میں سرد بارش ہوتی ہے۔ اس بارش میں ایک کم عمر لڑکا ایک بچے کی کفن میں لپٹی لاش لے کر چل رہا ہے۔ مہذب دنیا یہ بحث کر رہی ہے کہ کوفیہ پہننے سے یا جنگ بندی یا آزادی کے نعرے لگانے سے کس کے کتنے جذبات مجروح ہو رہے ہیں۔ یروشلم کے جوان کو کہا تھا کہ تمھارا محلہ ہی نہیں پوری دنیا پاگل خانہ ہے۔ ", "title": "یروشلم کا ’پاگل خانہ‘: محمد حنیف کا کالم", "firstPublished": "2023-12-16T11:11:56.487Z", "id": "c4nyvqx0vn9o", "article": "سات، آٹھ سال پہلے کراچی میں جرمنی میں رہنے والا ایک فلسطینی نژاد نوجوان ملنے آیا۔ وہ کسی انٹرنیشنل این جی او کے لیے کراچی پر رپورٹ تیار کر رہا تھا۔ میں عام طور پر اس طرح کی ملاقاتوں سے یہ کہہ کر جان چھڑاتا ہوں کہ میں زندگی کے کسی بھی شعبے کا ماہر نہیں ہوں۔ نوجوان نے بتایا کہ اس کا بچپن یروشلم میں گزرا ہے۔ والدین اور باقی خاندان ابھی بھی وہیں پر ہیں۔ میں نے اس پر اپنے یروشلم کے قیام اور چند دنوں میں کشید کیے ہوئے علم کی دھاک بٹھانے کے لیے پوچھا کہ اس کا تعلق یروشلم کے کون سے محلے سے ہے۔ نوجوان نے میری بات صبر سے سنی اور کہا کہ یہ سب آپ کا مسئلہ ہو گا مجھے تو یروشلم بالکل پسند نہیں ہے بلکہ سچ پوچھیں تو مجھے ’پاگل خانہ‘ لگتا ہے۔ میں نے پریشان ہو کر پوچھا وہ کیسے؟ اس نے کہا کہ آپ سوچیں کہ دنیا کے سب سے بڑے مذہبی جنونی ایک دو میل کے ریڈیس اور تنگ گلیوں والے علاقے میں بند کر دیے گئے ہیں اور ہزاروں سالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم پاگل نہیں ہیں۔ جب سے سات اکتوبر شروع ہوا ہے تو میں اس نوجوان اور یروشلم کی گلیوں میں گزرے اس کے بچپن کے بارے میں سوچتا ہوں۔ یروشلم کی گلیوں میں وہ یہودی بھی رہتے ہیں جو انتہائی مذہبی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا، لمبے کالے کوٹوں والے، باریشی اور انتہائی خوبصورت لٹوں والے۔ مجھے سمجھایا گیا کہ یہ اس لیے اتنے تیز چل رہے ہیں کہ کبھی کبھی ساتھ والی تنگ گلی سے فلسطینی بچے تیزی سے بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور ان کو اڑنگی لگا کر گرا دیتے ہیں۔ چونکہ یروشلم کے فلسطینی محلوں میں ان بچوں کے لیے جو اسرائیلی جیلوں میں نہیں ہیں، کھیلنے کی کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ جا کر اڑنگی لگاتے ہیں اور دوسری تنگ گلی میں غائب ہو جاتے ہیں۔ دو کلومیٹر کا فاصلہ دس منٹ میں بھی طے ہو سکتا ہے اور دو دن میں بھی اور اگر اسرائیلی فوجی جوان کی بندوق طے کرے تو یہ فاصلہ کبھی طے نہیں ہو گا۔ مسلمان، یہودی، مسیحی خود کو انسان سمجھتے ہوں یا نہ، حضرت ابراہیم کو اپنا دادا پیغمبر سمجھتے ہیں۔ غزہ میں سرد بارش ہوتی ہے۔ اس بارش میں ایک کم عمر لڑکا ایک بچے کی کفن میں لپٹی لاش لے کر چل رہا ہے۔ مہذب دنیا یہ بحث کر رہی ہے کہ کوفیہ پہننے سے یا جنگ بندی یا آزادی کے نعرے لگانے سے کس کے کتنے جذبات مجروح ہو رہے ہیں۔ یروشلم کے جوان کو کہا تھا کہ تمھارا محلہ ہی نہیں پوری دنیا ’پاگل خانہ‘ ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51z0mez5k3o", "summary": "ہولوکاسٹ اور دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی میں نازی حکومت نے 60 لاکھ یہودیوں کا قتل کیا تھا تاہم اب جرمنی کی شہریت کے حصول کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ضروری شرط عائد کر دی گئی ہے جو جرمنی کے عرب اور مسلم حلقوں میں تنازع کا باعث بنی ہوئی ہے۔", "title": "جرمنی کی شہریت حاصل کرنے کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا ضروری شرط کیوں قرار دیا گیا؟", "firstPublished": "2023-12-15T03:40:05.898Z", "id": "c51z0mez5k3o", "article": "ریاست زاکسن نے حال ہی میں جرمن شہریت کے حصول کے لیے ایک نئی شرط شامل کی ہے جو ملک کے عرب اور مسلم حلقوں میں تنازع کا باعث بنی۔ جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کے مطابق ریاستی اور وفاقی سطح پر اس شرط کو بائیں طرف جھکاؤ والی جماعت کرسچن ڈیموکریٹس نے پیش کیا مگر اسے دیگر جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ تاہم تین جماعتوں پر مشتمل حکومتی اتحاد میں اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے کہ ایسے اقدامات اسرائیل مخالف جذبات سے نمٹنے میں کتنے سازگار ثابت ہوں گے۔ انھیں خدشہ ہے کہ کشیدگی کے ماحول میں ایسے کسی اقدام سے مزید تقسیم پیدا ہوسکتی ہے۔ ہولوکاسٹ اور دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی میں نازی حکومت نے 60 لاکھ یہودیوں کا قتل کیا۔ اس لیے اب جرمن ریاست کا خیال ہے کہ اس پر اسرائیل کے لیے ایک ’خاص ذمہ داری‘ عائد ہوتی ہے۔ جرمن حکام کے مطابق اس کے محض سیاسی مقاصد نہیں بلکہ جرمنی کے اپنے وجود کے لیے بھی یہ لازم ہے۔ جرمنی میں عرب اور مسلم برداری نے اس پالیسی کی مخالفت کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حکام فلسطینیوں کی بات نہیں سنتے اور ان کی تاریخ کو نظر انداز کرتے ہیں۔ کترینا نے وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’بعض اوقات اسرائیل پر تنقید یہود دشمنی ہو سکتی ہے یا اس کے پسِ پشت یہود دشمنی ہو سکتی ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں ایک جیسے ہیں۔ یہ واضح ہوتا ہے جب ہم یہود دشمنی کو یہودیوں کے خلاف نسلی تعصب کی طرح سمجھیں کیونکہ ایسے بہت سے یہودی اور اسرائیلی یہودی ہیں جو اسرائیلی ریاست پر تنقید کرتے ہیں۔‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ جرمنی میں 2015 کے بعد سے زیادہ تر یہود مخالف واقعات پناہ گزینوں نے نہیں بلکہ سفید فام جرمنوں نے انجام دیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’مشرق وسطی سے آنے والے تارکین وطن میں ہولوکاسٹ کے بارے میں جاننے، جمہوریت کے جرمن تصور کو سمجھنے اور خود کو ضمن کرنے میں خاصی دلچسپی ہے۔ ان میں جرمن بحث کو سیکھنے اور سمجھنے کی بہت خواہش ہوتی ہے۔‘ کترینا نے جرمن میڈیا کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ’سب یہ سمجھتے ہیں جیسے مظاہرین دہشت گردی کی حمایت کر رہے ہیں جو کہ گمراہ کن ہے۔ مظاہرین میں کئی لوگ شامل ہوتے ہیں جن کے انفرادی اور پیچیدہ تصورات ہوتے ہیں۔‘ انھوں نے اپنی بات کا اختتام یہ کہہ کر کیا کہ ’جرمنی میں تاریخی اعتبار سے ہولوکاسٹ اور اسرائیل کے قیام کے درمیان ایک تعلق محسوس کیا جاتا ہے۔ تاہم جرمن حکومت اس تعلق کو نظر انداز کر دیتی ہے کہ ہولوکاسٹ کا تعلق نکبہ سے بھی ہے جس میں فلسطینیوں کے بے گھر ہونے نے دنیا کے بدترین پناہ گزین کے بحران کو جنم دیا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c882e3ydx4vo", "summary": "غیر سرکاری تنظیم سیو دی چلڈرن کی ایک رپورٹ کے مطابق،اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے یہ نابالغ فلسطینی بچے جسمانی اور جذباتی زیادتی کا شکار ہیں۔ ہر پانچ میں سے چاربچوں نے مار پیٹ کی شکایات کی ہیں۔\n69 فیصد کا کہنا ہے کہ انھیں تلاشی لینے کے بہانے برہنہ کر دیا گیا اور تقریباً نصف بچوں کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے وقت تشدد کے باعث وہ زخمی ہوئے، کچھ کو گولیاں لگیں اور کچھ کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ یہ تحقیق گزشتہ سال جولائی میں شائع ہوئی تھی۔", "title": "فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا سامنا کرنے والے فلسطینی بچے: ’رہائی کے بعد میرا بھائی محمد وہ نہیں رہا جسے ہم جانتے تھے‘", "firstPublished": "2023-12-14T09:49:14.829Z", "id": "c882e3ydx4vo", "article": "غیر سرکاری تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے یہ کم عمر فلسطینی بچے جسمانی اور جذباتی زیادتی کا شکار بنتے ہیں۔ تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق ہر پانچ میں سے چار (86 فیصد) بچوں نے مار پیٹ کی شکایات کی، 69 فیصد کا کہنا تھا کہ انھیں تلاشی لینے کے بہانے برہنہ کر دیا گیا اور تقریباً نصف بچوں نے بتایا کہ گرفتاری کے وقت ہونے والے تشدد کے باعث وہ زخمی ہوئے، کچھ کو گولیاں لگیں اور کچھ کی ہڈیاں ٹوٹیں۔ واضح رہے کہ غزہ کا مغربی کنارہ اور مشرقی بیت المقدس اسرائیلی فوج کے زیر قبضہ ہیں اس لیے ان علاقوں میں گرفتار ہونے والے فلسطینیوں کو فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس عمل میں عمر کی کوئی تخصیص نہیں یعنی کم عمر بچوں یا 18 سال سے کم عمر گرفتار شدہ افراد کا ٹرائل بھی انھی فوجی عدالتوں میں ہوتا ہے۔ کریم کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب ان کی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ ایک پستول سے کھیل رہے تھے۔ کریم کے مطابق یہ پستول ایک درخت کے نیچے موجود ایک سوٹ کیس ملی تھی جسے انھوں نے کھیلنے سے بعد خود پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں دوران حراست اسرائیلی فوج کے ہاتھوں دو فلسطینی بچوں کو گولی مار کر ہلاک کیے جانے کی فوٹیج دیکھنے پر بھی مجبور کیا گیا۔ یہ وہی وڈیوز ہیں جن کو دیکھ کر بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کو رنج و کرب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسرائیلی فوج پر پتھر پھینکنا ان بیشتر جرائم میں سرفہرست ہے جس کے لیے فلسطینی کم عمر بچوں کو حراست میں لیا جاتا ہے۔ ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل سمیت دیگر انسانی حقوق کے گروہوں کا ماننا ہے کہ اس جرم کی سزا اس وقت 10 سے 20 سال تک بھی ہو سکتی ہے جب سامنے یہ بات ہو کہ پتھر سے حملہ کس پر کیا گیا۔ انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کے ذریعہ رپورٹ کیے جانے والے معروف کیسوں میں سے ایک احمد منصرہ کا ہے جنھیں 13 سال کی عمر میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر ایک تصفیہ میں دو افراد کو چاقو سے وار کرنے کی کوشش کرنے کا الزام تھا۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے 2013 میں اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ اسرائیلی فوج کی حراست میں بچوں کی نظر بندی کے لمحے سے لے کر بچے کے خلاف مقدمہ چلانے اور بالآخر سزا پانے تک کے تمام مراحل میں بڑے پیمانے پر بدسلوکی منظم اور ادارہ جاتی تھی۔ 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق حراست میں لیے گئے تقریباً نصف افراد نے سیو دی چلڈرن کو بتایا کہ وہ رہا ہونے کے بعد اپنی معمول کی زندگیوں میں واپس آنے سے قاصر ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cz795n9nx90o", "summary": "اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت سے غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی کی قرارداد کو منظور کر لیا ہے۔ تاہم امریکہ، اسرائیل، آسٹریا اور پیراگوئے سمیت دس ممالک نے جنگ بندی کی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا ہے۔ ", "title": "اقوام متحدہ کا غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ: امریکہ کی قرارداد کی مخالفت مگر جو بائیڈن کی بمباری پر اسرائیل کو تنبیہ ", "firstPublished": "2023-12-13T04:36:36.305Z", "id": "cz795n9nx90o", "article": "اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت سے غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی کی قرارداد کو منظور کر لیا ہے۔ تاہم امریکہ، اسرائیل، آسٹریا اور پیراگوئے سمیت دس ممالک نے جنگ بندی کی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا ہے۔ اس قرارداد کے حق میں 153 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ برطانیہ، جرمنی، اٹلی، ہالینڈ اور یوکرین سمیت 23 ممالک ووٹنگ سے اجتناب کیا۔ یہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے ایسی دوسری قرار داد ہے جس میں غزہ میں جنگ بندی کی بات کی گئی ہے۔ اس سے قبل اکتوبر میں اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ میں وقفہ کرنے سے متعلق ایک قرار داد پاس کی تھی۔ اس قرار داد کے حق میں 121، مخالفت میں 14 جبکہ 44 اراکین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ جنگ بندی سے متعلق اس قرارداد پر تبصرہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ’یہ جنگ بندی ان اسرائیلیوں کے لیے خطرناک ہو گا جنھیں وحشت ناک حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ ان فلسطینیوں کے لیے بھی خطرناک ہو گی جو حماس سے پاک ایک بہتر مستقبل کا حق رکھتے ہیں۔‘ اقوام متحدہ میں فلسطین کے سفیر نے کہا ہے کہ جنگ بندی کی قرارداد کے حق میں ووٹ ایک تاریخی دن تھا، جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے ایک مضبوط پیغام گیا ہے۔ حماس نے اقوام متحدہ کی طرف سے جنگ بندی کی قرارداد کو خوش آئند قرار دیا ہے جبکہ اسرائیل کے اقوام متحدہ میں سفیر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس قراردادا سے حماس کی مزید طویل عرصے کے لیے کارروائیاں کرنے کا موقع مل سکے گا۔ انھوں نے جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں دیگر ممالک پر زور دیا کہ وہ حماس سے یرغمال بنائے جانے والے افراد کی واپسی اور اسرائیل کے حق میں غیرمسلح ہونے کا مطالبہ کرے۔ اگرچہ امریکہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غزہ میں جنگ بندی سے متعلق قرارداد کی مخالفت کی ہے مگر امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ غزہ پر اندھا دھند بمباری کے باعث اسرائیل عالمی حمایت کھو رہا ہے۔ امریکی صدر نے سنہ 2024 کے انتخابات کے لیے منگل کو الیکشن عطیات سے متعلق ہونے والی تقریب میں اپنے خطاب میں مزید کہا کہ اسرائیل اپنی سلامتی کے لیے اب صرف امریکہ پر ہی انحصار نہیں کرتا بلکہ اب اسے یورپی یونین، یورپ اور دنیا کے اکثریتی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم انھوں نے واضح کیا کہ اسرائیل غزہ پر اندھا دھند بمباری سے عالمی حمایت کھو رہا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2e2411p21ro", "summary": "عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ غزہ میں اب صرف ایک تہائی ہسپتال عارضی طور پر فعال ہیں۔ دوسری طرف فیشن برانڈ زارا کا کہنا ہے کہ اسے ’افسوس‘ ہے کہ اس کی ایک تشہیری مہم کی تصاویر کو غزہ جنگ سے جوڑا گیا۔ ", "title": "غزہ میں ’صرف ایک تہائی ہسپتال فعال‘، فیشن برانڈ زارا کو تشہیری مہم پر ’افسوس‘", "firstPublished": "2023-12-11T13:57:08.764Z", "id": "c2e2411p21ro", "article": "عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ غزہ میں اب صرف ایک تہائی ہسپتال عارضی طور پر فعال ہیں۔ دوسری طرف فیشن برانڈ زارا کا کہنا ہے کہ اسے ’افسوس‘ ہے کہ اس کی ایک تشہیری مہم کی تصاویر کو غزہ جنگ سے جوڑا گیا۔ ڈبلیو ایچ او کے رچرڈ پیپرکورن نے بتایا کہ ’صرف 66 دنوں میں غزہ میں صحت عامہ کا نظام 36 فعال ہسپتالوں سے سکڑ کر 11 عارضی فعال ہسپتالوں پر آچکا ہے۔ ان میں سے صرف ایک شمال میں جبکہ 10 ہسپتال جنوب میں ہیں۔‘ رچرڈ پیپرکورن نے کہا کہ غزہ کے ہسپتالوں میں بستروں کی قلت دور کرنے کی ضرورت ہے اور مجموعی طور پر نظام کو ’فعال کرنا ہوگا‘۔ دریں اثنا اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر بمباری جاری رکھی ہوئی ہے جس دوران اس کی توجہ جنوبی شہر خان یونس پر مرکوز ہے۔ مصری سرحد رفح کے قریب بھی فضائی حملے جاری ہیں۔ حماس کے اہلکار کا کہنا ہے کہ اس دوران 22 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل پر زور ڈالے گا کہ عام شہریوں کی زندگی کو مزید تحفظ فراہم کیا جائے۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مزید اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ ’اسرائیل کی حکمت عملی کی جیت اس وقت ہوگی جب وہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرے اور طویل مدتی امن کے لیے کام کرے۔‘ خیال رہے کہ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں 18 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 240 افراد کو یرغمالی بنا لیا گیا تھا۔ معروف فیشن برانڈ زارا کو ’افسوس‘ ہے کہ اس کی ایک تشہیری مہم سے ’غلط فہمی‘ نے جنم لیا۔ اس مہم کی بعض تصاویر پر اس لیے تنقید کی جا رہی تھی کیونکہ یہ غزہ میں جاری جنگ سے ملتی جلتی ہیں۔ برطانیہ میں اشتہارات کی نگرانی کرنے والی ادارے کو اس حوالے سے کئی شکایات موصول ہوئیں جبکہ اس پر سوشل میڈیا پر بھی تنقید کی گئی جس کے بعد زارا نے اس مہم کی تمام تصاویر حذف کر دی ہیں۔ تاہم زارا نے کہا ہے کہ اس مہم کا مقصد وہ نہیں تھا جو بعض صارفین نے اخذ کیا۔ ’یہ مہم جولائی میں بنائی گئی اور اس کی تصاویر ستمبر میں کھینچی گئیں۔‘ زارا کا مؤقف ہے کہ ’یہ تصاویر ایک مجسمہ ساز کے سٹوڈیو میں کھینچی گئیں جہاں کئی نامکمل مجسمے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ کپڑوں کی تیاری کے عمل کو آرٹ کے ماحول سے جوڑا جائے۔‘ خیال رہے کہ اس سے قبل ایم اینڈ ایس نامی برانڈ پر فلسطینی پرچم کے رنگوں میں ایک کرسمس پارٹی کی تصویر پر تنقید کی گئی تھی۔ ایم اینڈ ایس نے بھی معذرت کر کے تصاویر ہٹا دی تھیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n0nzln42ro", "summary": "اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کے تمام علاقوں میں زمینی کارروائی جاری ہے اور اس نے وہاں موجود 20 لاکھ عام شہریوں کو ’المواصی‘ کے ’انسانی بنیادوں پر بنائے گئے زون‘ میں جانے کی ہدایت کی ہے۔ یہ زون صرف آٹھ اعشاریہ پانچ مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ہے جو اسلام آباد میں واقع بین الاقوامی ایئرپورٹ کے رقبے سے بھی کم ہے۔", "title": "غزہ کا ’محفوظ علاقہ‘ جو اسلام آباد ایئرپورٹ سے بھی چھوٹا مگر لاکھوں فلسطینوں کی پناہ گاہ ہے", "firstPublished": "2023-12-10T03:38:50.751Z", "id": "c4n0nzln42ro", "article": "اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کے تمام علاقوں میں زمینی کارروائی جاری ہے اور اس نے وہاں موجود 20 لاکھ عام شہریوں کو ’المواصی‘ کے ’انسانی بنیادوں پر بنائے گئے زون‘ میں جانے کی ہدایت کی ہے۔ یہ زون صرف آٹھ اعشاریہ پانچ مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ہے جو اسلام آباد میں واقع بین الاقوامی ایئرپورٹ کے رقبے سے بھی کم ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کو کم سے کم رقبے میں جانے پر مجبور کرنے کے باعث ’بیماری کے پھیلاؤ کے لیے سازگار ماحول پیدا ہو رہا ہے۔‘ انھوں نے کہ غزہ میں ہر 750 افراد کے لیے ایک غسل خانہ اور 150 افراد کے لیے ایک ٹوائلٹ موجود ہے۔ اس کے علاوہ ان کے مطابق غزہ میں آغاز میں موجود 36 ہسپتالوں میں سے صرف 14 فعال ہیں جن میں سے دو شمال اور 12 جنوب میں ہیں۔ خیال رہے کہ اس سے قبل اقوام متحدہ کے ایک سینیئر امدادی اہلکار نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے وہاں کی آدھی آبادی فاقہ کشی کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر کارل سکاؤ نے کہا کہ غزہ پٹی میں ضروری سامان کا صرف ایک حصہ ہی داخل ہو پا رہا ہے جس کی وجہ سے 10 میں سے نو لوگوں کو روزانہ کا کھانا بھی میسر نہیں۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ سات اکتوبر سے غزہ کے اندر اور باہر نقل و حرکت پر بہت زیادہ پابندیاں عائد ہیں۔ واضح رہے کہ سات اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کی سخت حفاظتی باڑ کو توڑ دیا تھا اور ان کے حملے میں 1,200 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ انھوں نے 240 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ گذشتہ ماہ بین الاقوامی دباؤ اور سات روزہ عارضی جنگ بندی سے غزہ پٹی میں کچھ اشد ضروری امدادی اشیا کی ترسیل کی اجازت ملی تھی لیکن ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کا اصرار ہے کہ غزہ پٹی کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اب دوسرے سرحدی کراسنگ کو کھولے جانے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے رہنما خان یونس میں ممکنہ طور پر سرنگوں کے زیر زمین نیٹ ورک میں چھپے ہوئے ہیں، اور یہ کہ وہ گروپ کی عسکری صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے لیے گھر گھر اور 'کونے کونے' میں لڑ رہا ہے۔ اسرائیلی فوج نے بار بار غزہ کے 20 لاکھ شہریوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایک ایسے علاقے جسے وہ ’یومینیٹیرین زون‘ کہہ رہے ہیں وہاں منتقل ہو جائیںآ خیال رہے کہ یہ علاقپ لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ سے بھی چھوٹا ہے۔ عام شہریوں کا کہنا ہے کہ بدلتے ہوئے پیغامات کی وجہ سے محفوظ علاقوں کی نشاندہی کرنا ان کے لیے ایک مشکل بن گئی ہے۔ اسرائیلی فوج کی ہر پوسٹ میں ایک نقشہ ہے جس میں المواصی کے اندر ایک علاقے میں جانے کو کہا جاتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cx0108nw4q5o", "summary": "ہدفیہ نسل کی عزتِ نفس کو زبانی و عملاً مسلسل کچلتے رہو، کسمسانے کی جرات کرے تو جیل میں بھر دو، چیختے ہوئے سڑک پر آئے تو ٹھنڈا کرنے کے لئے سر کا نشانہ لو۔ بالکل ہی آپے سے باہر ہو کے رسیاں تڑانے لگے اور عالمِ غیض میں حملہ کر دے تو نسل ہی مٹا دو۔ دھیرے دھیرے قسط وار۔ مبادا باقی دنیا کا ضمیر نہ جاگ پڑے۔", "title": "’امریکہ تو ہے ہی گھٹیا، مگر آپ کیا ہیں؟‘: وسعت اللہ خان کا کالم", "firstPublished": "2023-12-10T12:28:09.694Z", "id": "cx0108nw4q5o", "article": "اگر آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت کے توریتی اصول پر ہی انتقام لیا جاتا تو بھی بارہ سو کے بدلے بارہ سو جانوں کا کفارہ بنتا ہے۔ مگر جب نشہ ہی طاقت کا ہو اور باز پرس سے مکمل چھوٹ بھی ہو اور مقصد بدلے کے بجائے مکمل نسلی بیخ کُنی ہو اور غصہ کھوپڑیوں کے مینار بنائے بغیر اترنا محال ہو تو تمام الہامی احکامات بھی دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اب چونکہ نسل کشی کو سوشل میڈیا کا بدتمیز چیلنج درپیش ہے لہٰذا ایک سلیقہ مند پروپیگنڈہ ڈھانچے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ پہلے کے برعکس آج کی جنگ بھی دو محاذی ہے، زمینی محاذ اور پروپیگنڈے کا محاذ۔ مطلوبہ کامیابی کے لیے دونوں کو بیک وقت فعال رکھنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے ان فلسطینیوں کے وجود سے ہی انکار کر دو۔ دنیا نہ مانے تو حرف، صوت اور تصویر کی پوری طاقت لگا کے ثابت کرنے کی کوشش کرو کہ یہ دیکھنے میں تو انسان لگتے ہیں مگر دراصل یہ دو ٹانگوں پر چلنے والے نیم جانور ہیں۔ ان کا دماغ بیل کا سا ہے، ان کا مرنا جینا اتنا ہی اہم ہے جتنا کسی بھیڑ یا بھیڑیے کا۔ نیز یہ کہ جانور بھلے دو ٹانگوں پر چلے یا چار پر، شعور سے عاری ہوتا ہے لہٰذا اس کی تکلیف بھی انسانی معیار پر پوری نہیں اترتی۔ چنانچہ جب بھی وہ خود پر ہونے والی زیادتی کے ردِ عمل میں کبھی سینگ مارے یا دلتی جھاڑنے کی کوشش کرے یا باربرداری کے قابل نہ رہے تو اسے بیابان کی جانب ہنکال دو، بیچ دو یا مار ڈالو۔ جدید نسل کُشی مرحلہ وار ہوتی ہے، یعنی کسی بھی تاریخی، سماجی یا قانونی بہانے سے ہدف کمیونٹی سے چھت اور پاؤں تلے کی زمین چھین لو، معاشی سکت مفلوج کر دو، اندر کا سکون اغوا کر لو۔ گھر سے باہر نکلے تو خود کو ایسے دیدہ و نادیدہ محاصرے میں محسوس کرے کہ زمین اور فضا بھی دشمن لگے۔ ہدفیہ نسل کی عزتِ نفس کو زبانی و عملاً مسلسل کچلتے رہو، کسمسانے کی جرات کرے تو جیل میں بھر دو، چیختے ہوئے سڑک پر آئے تو ٹھنڈا کرنے کے لیے سر کا نشانہ لو۔ بالکل ہی آپے سے باہر ہو کے رسیاں تڑانے لگے اور عالمِ غیض میں حملہ کر دے تو نسل ہی مٹا دو۔ دھیرے دھیرے قسط وار۔ مبادا باقی دنیا کا ضمیر نہ جاگ پڑے۔ اور جاگ بھی پڑے تو سوکھے منھ سے کہہ دو ’آپ کو ان نیم انسانوں کی بہت تکلیف ہے نا، ایسا کرو آپ انھیں اپنے ہاں لے جا کے رکھ لو۔‘ ظاہر ہے کہ یہ فارمولا یا فائنل سلوشن سے بچنے کا واحد حل کوئی نہیں مانے گا۔ لہذا اپنا نسل کُش کام پوری توجہ سے جاری رکھو۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cerpwlwperzo", "summary": "گذشتہ جمعے سے اسرائیل نے غزہ کے جنوب میں شدید بمباری کا آغاز کیا جس کے بعد غزہ کے دوسرے سب سے بڑے شہر خان یونس کے ہسپتالوں میں زخمیوں لوگوں کی بڑی تعداد آ رہی ہے جو اس کی سکت سے زیادہ ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار عدنان البرش اس وقت یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا انھیں اپنا کام جاری رکھنا چاہیے یا سب چھوڑ کر اپنے گھر والوں کے پاس جانا چاہیے جہاں ’زیادہ سے زیادہ وہ سب اکٹھے مر جائیں‘ گے۔ ", "title": "غزہ میں بی بی سی کے رپورٹر: ’مجھے اپنی زندگی بھی ختم ہوتی نظر آ رہی ہے‘", "firstPublished": "2023-12-10T01:40:05.443Z", "id": "cerpwlwperzo", "article": "پھر دھول میں لپٹی ایک اور گاڑی آتی ہے اور ایک چار یا پانچ سال کے بچے کی مدد کر کے اسے اس گاڑی سے نکالا جاتا ہے۔ وہ اس قابل ہوتا ہے کہ خود چل کر گاڑی سے اُتر کر اندر چلا جائے۔ جمعے سے اسرائیل نے غزہ کے جنوب میں شدید بمباری کا آغاز کیا جس کے بعد غزہ کے دوسرے سب سے بڑے شہر خان یونس کے ہسپتالوں میں زخمیوں کی بڑی تعداد آ رہی ہے جو اس کی سکت سے کہیں زیادہ ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق جنگ کے دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے کم از کم 1200 سے زائد لوگ مارے جا چُکے ہیں اور اس کے بعد ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 16 ہزار سے تجواز کر چکی ہے۔ بی بی سی عربی کے رپورٹر عدنان البرش خان یونس میں ناصر ہسپتال کے باہر سے رپورٹنگ کرتے ہوئے جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیلی فوج نے عام شہریوں کو شمالی غزہ چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ غزہ کے 23 لاکھ رہائشیوں کی بڑی تعداد نے اپنی جانیں بچانے کے لیے جنوب کا رخ کیا تھا۔ دھماکوں کی آوازوں کے درمیان ایک بچے نے کہا ’جب ہم کھیل رہے ہوں اور بمباری شروع ہو جائے تو ہم فوراً دیواروں کے ساتھ خیموں میں جا کر سو جانے کا بہانا کرتے ہیں۔‘ ہسپتال میں ایک خاتون نے بتایا کہ وہ خان یونس کے مشرقی علاقے الفاخاری کی جانب گئیں جب انھیں فون کالوں کے ذریعے بتایا گیا کہ وہ جگہ ’سیف زون‘ یعنی محفوظ مقام ہے۔ لیکن اب وہ کہتی ہیں اس علاقے میں بہت بمباری ہو رہی ہے اور صورتحال ’بہت بری‘ ہے۔ خان یونس مرکز میں سماح الوان دو خالی پانی کی بوتلیں لہراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کے چھے بچے پیاسے ہیں۔ ان کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ مجھے اپنی زندگی بھی ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ جنگ کی ابتدا سے میرے اور میرے خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس سب کے باوجود یہ پہلی دفعہ ہے جب مجھے سمجھ نہیں آرہی کیا کیا جائے۔ مُجھ سے میری قوت ارادی اور اختیار چھین لیا گیا ہے۔ اپنے گھر والوں کو محفوظ رکھنے اور منصوبے بنانے کی مجھے عادت ہے لیکن اب میں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا۔ میرا تعلق شمال سے ہے لیکن میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اس وقت جنوب کی طرف روانہ ہوا جب اسرائیلی فوج نے حکم دیا کہ ایسا کریں، انھوں نے کہا جنوب ’محفوظ‘ ہے۔ کیا مجھے جنوب میں رفح کی جانب جانا چاہیے، اپنا کام جاری رکھنا چاہیے اور اُمید رکھنی چاہیے کے میرے گھر والے ٹھیک رہیں گے؟ یا مجھے رپورٹنگ چھوڑ کر واپس جانے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ اگر کوئی آفت ہی آنی ہے تو ہم سب پر اکٹھی آئے کم از کم ہم اکٹھے مر تو جائیں گے؟"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c889z895n33o", "summary": "رفعت کا مار کر جس سے وہ غزہ کی یونیورسٹی میں انگریزی ادب پڑھاتے تھے ،اسرائیلی بم کا مقابلہ نہ کر پایا اور وہ اپنی بہن اور چار بچوں سمیت ایک اسرائیلی حملے میں ہلاک ہو گئے۔ \n", "title": "’آپ کو بتانا تھا کہ کل ہمیں ہمارے بچوں کے ساتھ مار دیا جائے گا‘: محمد حنیف کا کالم ", "firstPublished": "2023-12-09T09:17:56.284Z", "id": "c889z895n33o", "article": "غزہ کے شاعر اور استاد رفعت العزیز نے اپنی ہلاکت سے چند دن پہلے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ہم کچھ بھی کہہ لیں، کچھ بھی کر لیں، اسرائیلی ہمیں مار دیں گے۔‘ اُس کے بعد کہا تھا کہ ’غزہ میں نہ پانی ہے نہ کہیں بھاگنے کا کوئی راستہ۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ ہم اجتماعی خود کشی کر لیں لیکن ہم وہ نہیں کریں گے۔ میں ایک استاد ہوں میرے گھر میں لکھنے والا ایک مارکر ہے۔ جب اسرائیلی میرے گھر کا دروازہ توڑ کر مجھے اور میرے خاندان کو مارنے آئیں گے تو میں وہی مارکر ان پر دے ماروں گا اور غزہ کا ہر شہری یہی کرے گا۔‘ رفعت کا مار کر جس سے وہ غزہ کی یونیورسٹی میں انگریزی ادب پڑھاتے تھے ،اسرائیلی بم کا مقابلہ نہ کر پایا اور وہ اپنی بہن اور چار بچوں سمیت ایک اسرائیلی حملے میں ہلاک ہو گئے۔ روانڈا کے قتل عام کے بعد ایک صحافی نے اپنی زمینی رپورٹنگ کو بنیاد بنا کر ایک کتاب لکھی جس میں بتایا گیا کہ قتل عام کا ماحول کیسے بنایا گیا، کیسے مہینوں تک مقامی ریڈیو سٹیشنوں اور اخباروں میں پروپیگنڈا کیا گیا اور جب قتل عام شروع ہوا تو مارے جانے والوں کو پہلے سے پتہ تھا کہ اگلی باری ان کی ہے۔ کیونکہ ہماری پڑھی لکھی مغربی عوام، آئی فون اور انسانی حقوق ایجاد کرنے والی قومیں اپنے فون پر ’ہم اور ہمارے بچے مار دیے جائیں گے‘ والا پیغام اور اس پیغام کو پہنچانے والے دھاڑتے بموں اور سیٹیاں بجاتے میزائل، باپ کے ہاتھ میں بچی (جسے وہ ایسے تیار کر رہا ہے جیسے قبر کے بجائے سکول بھیجنے والا ہو)، میری روح کی روح مغربی اور مشرقی طاقتیں غزہ سے ہر لمحے آنے والے پیغام کا جواب اس طرح دے رہی ہیں کہ قتل عام کرنے والے کا ہاتھ تھام کر پوچھ رہی ہیں کہ آپکو کوئی تنگی تو نہیں؟ اور بم چاہیں یہ لیں۔ بچوں کو مارنے کے ہمارے ریکارڈ توڑنے پر خرچہ بھی ہوا ہو گا تو کتنے بلین اور یہ جو غزہ میں انگریزی پڑھانے والے استاد اور شاعر کو مارا ہے تو ہم دنیا کو بتا دیں گے کہ وہ تو تھا ہی متنازع۔ استاد رفعت کے انگریزی ادب پڑھانے کے شوق اور اپنے مار کر سے اسرائیل کو دھمکی دینے والی ادا سے مجھے ایک پاکستانی انگریزی ادب کا استاد یاد آیا جس نے اپنی کلاس میں کوئی متنازع بات کہہ دی تھی یا اپنے مارکر سے لکھ دی تھی۔ مجھے یقین ہے جب ہمارے انگریزی ادب کے استاد کو استاد رفعت کی خبر پہنچے گی تو جنوبی پنجاب کی ایک جیل میں قید تنہائی والے سیل سے ایک دعا نکلے گی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c032r3kkl71o", "summary": "امریکا نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں انسانی بنیادوں پر غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرارداد کوغیر متوازن اور غیر حقیقت پسندانہ قرار دے کر ویٹو کردیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ مغربی کنارے، لبنان، شام، عراق اور یمن میں بڑھتا تنازعہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ ", "title": "اقوام متحدہ کی غزہ میں جنگ بندی کے لیے آرٹیکل 99 کے تحت ووٹنگ کی قرارداد امریکہ نے ویٹو کر دی", "firstPublished": "2023-12-07T15:29:00.196Z", "id": "c032r3kkl71o", "article": "امریکہ نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں انسانی بنیادوں پر غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرارداد ایک بار پھر ویٹو کردی ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے سلامتی کونسل میں آرٹیکل 99 کے تحت غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے ووٹنگ کے آغاز پر کہا کہ مغربی کنارے، لبنان، شام، عراق اور یمن میں بڑھتا تنازع بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ ’میں نے اس سلسلے میں کچھ سفارت کاروں سے بھی بات کی جن کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیلیوں کو ایک اور مہینہ دے سکتے ہیں۔ میرے خیال میں انتونیو گوتیرس کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ اس مہلت کو مختصر کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ نہ صرف بین الاقوامی دباؤ بڑھا رہے ہیں بلکہ جزوی طور پر امریکیوں کو یہ سوچنے پر آمادہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے موقف پر بہت دیر تک قائم نہیں رہ سکتے۔‘ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے غزہ میں ’انسانی بحران کے سنگین خطرے‘ سے خبردار کرتے ہوئے فوری طور پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔ انھوں نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کے نفاذ کا جواز پیش کرتے ہوئے سلامتی کونسل کے صدر کو لکھے خط میں کہا تھا کہ ’غزہ میں صورتحال تیزی سے ایک انسانی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے، جس کے ممکنہ طور پر فلسطینیوں اور خطے میں امن و سلامتی کے لیے ناقابل واپسی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس نتیجے سے ہر قیمت پر گریز کیا جانا چاہیے۔‘ اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب 15 کے آرٹیکل 99 میں کہا گیا ہے کہ ’سیکریٹری جنرل سلامتی کونسل کی توجہ کسی بھی ایسے معاملے پر لا سکتے ہیں جس سے ان کی رائے میں بین الاقوامی امن و سلامتی کو خطرہ ہو۔‘ اپنے خط میں سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے بین الاقوامی سلامتی کو یقینی بنانے کے انچارج ادارے پر زور دیا کہ وہ جنگ بندی کی درخواست کے ذریعے انسانی تباہی کے بحران سے بچنے کے لیے مداخلت کرے جو امداد کی فراہمی میں سہولت فراہم کرتا ہے اور شہری آبادی کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان ستیفان دوجاریک نے کہا ہے کہ سیکریٹری جنرل کی جانب سے آرٹیکل 99 کا استعمال ’ڈرامائی اقدام ہے‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس سے قبل آرٹیکل 99 کا ذکر دسمبر 1971 میں اس وقت کے سیکریٹری جنرل یو تھانٹ نے کیا تھا جب انھوں نے کونسل کو مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) اور برصغیر کی صورتحال کے بارے میں بتایا جس سے عالمی امن و سلامتی کو خطرہ درپیش تھا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g2j1ypldyo", "summary": "خان یونس اور شمالی غزہ میں لڑائی جاری ہے مگر اس دوران سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں اسرائیلی فورسز نے درجنوں فلسطینی مردوں کو برہنہ حالت میں حراست میں لے رکھا ہے۔ عینی شاہدین میں سے ایک شخص کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز کے فوجی علاقے میں داخل ہوئے اور میگا فونز کے ذریعے مردوں کو ان کے گھروں اور یو این سکولوں سے باہر نکلنے کا حکم دیا تھا۔ ", "title": "غزہ میں زیرِ تحویل فلسطینیوں کو برہنہ کرنے کی ویڈیو: ’اسرائیلی فوجیوں نے گولی مارنے کی دھمکی دی تھی‘", "firstPublished": "2023-12-08T09:38:50.877Z", "id": "c3g2j1ypldyo", "article": "خان یونس اور شمالی غزہ میں لڑائی جاری ہے مگر اس دوران سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں اسرائیلی فورسز نے درجنوں فلسطینی مردوں کو برہنہ حالت میں حراست میں لے رکھا ہے۔ بی بی بی نے اس ویڈیو کی تصدیق کی ہے جس میں فلسطینی افراد کو برہنہ حالت میں صرف زیر جامہ (انڈر ویئر) پہنے دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ اپنے گھٹنوں پر ہیں اور ان کے گرد اسرائیلی فوجی ہیں۔ خیال ہے کہ ان افراد کو شمالی غزہ کے علاقے بیت لاہیا سے گرفتار کیا گیا تھا۔ مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ گرفتار کیے گئے افراد میں سے ایک شخص نامور صحافی ہے۔ ویڈیو کے بارے میں پوچھے جانے پر اسرائیلی حکومت کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ حراست میں لیے گئے تمام افراد فوج میں بھرتی کی عمر کے تھے اور انھیں ’ان علاقوں سے حراست میں لیا گیا تھا جہاں سے عام شہری ہفتوں پہلے نکل گئے تھے۔‘ جمعہ کو اسرائیلی حکومت کے ترجمان ایلون لیوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان افراد کو شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ اور شیجائیہ سے حراست میں لیا گیا تھا، جنھیں انھوں نے \"حماس کے مضبوط گڑھ اور اہم مراکز‘ قرار دیا۔ بی بی سی نے ایک ایسے شخص سے بھی بات کی ہے جس کا کہنا ہے کہ اس کے 10 کزن اس گروپ کا حصہ تھے جسے اسرائیلی فوج نے جمعرات کو بیت لاہیا سے حراست میں لیا تھا۔ وہ شخص جو حفاظتی خدشات کے باعث اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں نے بی بی سی عربی کے نامہ نگار ایتھر شیلابی کو بتایا کہ اسرائیلی فورسز کے فوجی علاقے میں داخل ہوئے اور میگا فونز کے ذریعے مردوں کو ان کے گھروں اور اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی کے سکولوں سے نکلنے کا حکم دیا۔ انھوں نے اسرائیلی آپریشن کے آغاز کے بعد شمالی غزہ سے جانے سے انکار کر دیا تھا اور ہلاکت سے دو دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں متعدد دھماکوں کی آوازیں سنی جا سکتی تھیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اس جنگ کی ابتدا میں اسرائیل نے شمالی غزہ میں رہنے والے لوگوں کو جانے کا حکم دیا تھا اور اب جنوبی غزہ میں شدید لڑائی سے اپنی جانیں بچانے کے لیے کئی ہزار عام شہریوں نے رفح کا رخ کر لیا ہے۔ خان یونس میں ہونے والے واقعات کے بارے میں ہم زیادہ تفصیلات نہیں دے سک رہے۔ بدھ کو اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ ان کی فوج شہر کا محاصرہ کر رہی ہے۔ جمعرات فوج کی طرف سے کہا گیا کہ انھوں نے ’حماس کے دہشتگردوں کو ہلاک کیا ہے اور درجنوں دہشتگردی سے منسلک اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cl4pk4rd52lo", "summary": "فلسطین کی عسکریت پسند تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ اسرائیل غزہ جنگ کے دوران نمایاں شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ان کی صحیح شناخت کوئی نہیں جانتا۔ وہ ہمیشہ ویڈیو ریکارڈنگ میں اپنے چہرے کو سرخ کوفیہ (فلسطینی روایتی سکارف) سے ڈھانپ کر آتے ہیں۔", "title": "حماس کی میڈیا مشین کہلائے جانے والے ابو عبیدہ کون ہیں؟", "firstPublished": "2023-12-08T03:11:38.672Z", "id": "cl4pk4rd52lo", "article": "فلسطین کی عسکریت پسند تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے ترجمان اسرائیل غزہ جنگ کے دوران نمایاں شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ان کا نام ابو عبیدہ ہے اور انھیں حماس کی میڈیا مشین کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ اکثر سوشل میڈیا پر تنظیم کے پیغامات کو آن لائن پھیلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کا عرفی نام ابو عبیدہ، پیغمبر اسلام کے ساتھیوں میں سے ایک ابو عبیدہ بن الجراح کی نسبت سے ہے۔ وہ ایک مسلمان فوجی کمانڈر تھے۔ ابو عبیدہ القسام کے کمانڈر محمد الدیف کی طرف سے ’آپریشن طوفان الاقصیٰ‘ کا آغاز کرنے کے بعد ایک معروف شخصیت بن گئے۔ حماس کی طرف سے سات اکتوبر کو اسرائیل پر کیے جانے والے حملے کو حماس نے آپریشن طوفان الاقصیٰ کا نام دیا تھا۔ اس حملے میں جنوبی اسرائیل میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ابو عبیدہ کی صحیح شناخت کوئی نہیں جانتا۔ وہ ہمیشہ ویڈیو ریکارڈنگ میں اپنے چہرے کو سرخ کوفیہ (فلسطینی روایتی سکارف) سے ڈھانپ کر آتے ہیں۔ وہ ویڈیو میں قرآن کی ایک لکھی ہوئی آیت کے ساتھ کھڑے ہو کر حماس کی عسکری کارروائیوں کی پیشرفت اور ان کی تفصیلات کے بارے میں بتاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ابو عبیدہ اپنے ٹیلیگرام چینل کے ذریعے اپنی تقاریر شیئر کرتے ہیں، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ٹیلیگرام چینل 2020 میں شروع کیا گیا تھا۔ وہ کسی اور معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر سرگرم نہیں ہے۔ ان کی ویڈیو تقریریں سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہیں اور کئی نیوز چینلز پر نشر ہوتی ہیں۔ لندن سے شائع ہونے والے ایک مشہور عرب روزنامے الشرق الاوسط کے مطابق’ابو عبیدہ کو 2002 میں پہلی بار القسام کے فیلڈ عہدیداروں میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا تھا۔‘ اخبار کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اپنا چہرہ ڈھانپ کر میڈیا سے بات کی اور القسام بریگیڈ کے سابق رہنما عماد عقیل کے انداز کو نقل کیا گیا، جسے اسرائیل نے 1993 میں جیل بھیج دیا تھا۔ سنہ 2006 میں ابو عبیدہ کو القسام بریگیڈز کا باضابطہ ترجمان مقرر کیا گیا۔ وہ پہلی مرتبہ عوامی سطح پر 25 جون 2006 کو منظر عام پر آئے تھے جب حماس سمیت مسلح گروپوں نے غزہ کی سرحد کے قریب ایک اسرائیلی فوجی چوکی پر حملہ کیا تھا۔ سنہ 2014 میں اسرائیل غزہ جنگ کے دوران ابو عبیدہ نے ایک ٹیلی ویژن خطاب میں اسرائیلی فوجی شاول ہارون کی گرفتاری کا دعویٰ کیا تھا، حالانکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ مر چکا ہے۔ ابو عبیدہ کی اصل شناخت بہت سے لوگوں کے لیے ایک معمہ رہی ہے۔ 25 اکتوبر کو اسرائیلی فوج کے ترجمان آوچی آدرعی نے ایک ویڈیو ٹویٹ کی جس میں ایک شخص کی تصویر دکھائی گئی اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ ابو عبیدہ ہے۔ آدرعی نے ٹویٹ میں کہا کہ اس شخص کا اصل نام ’حذیفہ سمیر عبداللہ الکہلوت‘ تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ce9p73lejv4o", "summary": "اسرائیل میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ غزہ میں زمینی حملے میں حصہ لینے والے اُن کے کُچھ فوجیوں کو ’شیگیلا‘ نامی ایک ایسی بیماری متاثر کر رہی ہے کہ جو انسانی جسم کے ایک انتہائی اہم جُز ’معدے‘ کو متاثر کرتی ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بیماری غزہ کے جنگ زدہ علاقے میں حفظان صحت کی خراب صورتحال اور غیر محفوظ خوراک کے نتیجے میں پھیل رہی ہے۔", "title": "اسرائیلی فوج میں پھیلنے والی پراسرار بیماری ’شیگیلا‘ کیا ہے اور یہ انسانی جسم کو کیسے متاثر کرتی ہے؟", "firstPublished": "2023-12-07T04:28:25.586Z", "id": "ce9p73lejv4o", "article": "اسرائیل میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ غزہ میں زمینی حملے میں حصہ لینے والے اُن کے کُچھ فوجیوں کو ’شیگیلا‘ نامی ایک ایسی بیماری متاثر کر رہی ہے کہ جو انسانی جسم کے ایک انتہائی اہم جُز ’معدے‘ کو متاثر کرتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بیماری غزہ کے جنگ زدہ علاقے میں حفظان صحت کی خراب صورتحال اور غیر محفوظ خوراک کے نتیجے میں پھیل رہی ہے۔ شیگیلا بیکٹیریا کی ایک قسم ہے۔ جب یہ بیکٹیریا جسم میں داخل ہوتا ہے تو یہ ایک قسم کے اسہال کا سبب بنتا ہے جسے ’شیگلوسس‘ کہا جاتا ہے۔ شیگیلا اکثر بے گھر افراد، بین الاقوامی مسافروں، مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنے والے مردوں اور ان لوگوں میں پایا جاتا ہے جن کے جسم میں قوت مدافعت کی سطح کم ہوتی ہے۔ جنوبی کوریا میں انٹرنیشنل ویکسین انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں کی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ایشیائی ممالک جیسے بنگلہ دیش، چین، پاکستان، انڈونیشیا، ویتنام اور تھائی لینڈ میں شیگیلوس صنعتی ممالک کے مقابلے میں سو گنا زیادہ عام ہے۔ تاہم امریکی صحت کے حکام نے شیگیلا بیکٹیریا کی ایک قسم کی نشاندہی کی ہے جو اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت کرتی ہے، جسے شیگیلا ایکس ڈی آر یا شیگیلا سونی کہا جاتا ہے۔ سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ 2022 میں امریکہ میں شیگیلا کے پانچ فیصد کیسز کا تعلق منشیات کے خلاف مزاحمت کرنے والی قسم سے تھا۔ اس نے اسے ’صحت عامہ کے لئے سنگین خطرہ‘ قرار دیا ہے۔ آسوٹا اشدود یونیورسٹی ہسپتال میں متعدی امراض کے یونٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر تال بروش کے مطابق اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کے متعدد ڈاکٹروں نے غزہ میں خدمات انجام دینے والے فوجیوں میں آنتوں کی شدید بیماری کی اطلاع دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے نے اس بیماری کی شناخت شیگیلا کے طور پر کی ہے۔ متاثرہ فوجیوں کو الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے اور علاج کے لئے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر بروچ کا کہنا ہے کہ وبا پھیلنے کی ایک واضح وجہ اسرائیلی شہریوں کا پکا ہوا کھانا ہے جو غزہ میں فوجیوں کو بھیجا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کھانے کو شیگیلا اور دیگر نقصان دہ بیکٹیریا سے آلودہ کیا جا سکتا ہے، جس کی وجہ نقل و حمل کے دوران ٹھنڈا نہ ہونا، یا کھانے سے پہلے مکمل طور پر گرم نہ ہونا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ ایک بار جب فوجیوں کو ڈائریا ہو جاتا ہے، تو میدان جنگ میں حفظان صحت کی ناقص حالت ایک شخص سے دوسرے فرد میں منتقلی کا باعث بنتی ہیں۔ ڈاکٹر بروچ کا کہنا ہے کہ ’فوجیوں کو صرف خشک کھانے پینے کی اشیاء جیسے ڈبہ بند کھانا، کریکر، پروٹین بار اور میوے بھیجے جانے چاہئیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0k2dd0gz95o", "summary": "اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کے کمیونیکیشن مینیجر ریکارڈو پیریز کے مطابق غزہ کی پٹی میں یتیم بچوں کی صحیح تعداد کا تعین کرنا ’جنگ کے اس ماحول اور تیزی سے بدلتی ہوئی زمینی صورت حال‘ کو دیکھتے ہوئے ایک بڑا چیلنج ہے۔", "title": "غزہ کے یتیم بچے:’میں نے اپنی ٹانگ اور اپنا خاندان کھو دیا لیکن میرے پاس اب بھی کچھ خواب موجود ہیں‘", "firstPublished": "2023-12-06T14:17:59.451Z", "id": "c0k2dd0gz95o", "article": "غزہ کی پٹی میں کام کرنے والا طبی عملہ ایک مخصوص جملے کی مدد سے جنگ زدہ ماحول اور اس کا شکار ہونے والے افراد کی صورتحال بیان کر رہے ہیں۔ یہ اظہار غزہ کے بہت سے بچوں کے لیے صورتحال کی ہولناکی کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کی زندگی ایک سیکنڈ میں بدل جاتی ہے، ان کے والدین، بہن بھائی اور دادا دادی مارے جاتے ہیں، اور کچھ بھی دوبارہ پہلے جیسا نہیں ہوتا ہے سب ختم ہو جاتا ہے۔ یہ جنگ اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا جس میں 1200 اسرائیلی ہلاک اور 240 کے قریب افراد حماس کی جانب سے یرغمال بنا لیے گئے اور اسرائیل نے غزہ پر اپنی فوجی چڑھائی کا آغاز کیا۔ احمد کے چچا ابراہیم ابو امشا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بم دھماکے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ انڈونیشیا ہسپتال میں ایک بچہ ہے اور اس کے ساتھ کوئی نہیں ہے، لہذا ہم فوری طور پر وہاں گئے۔ ’احمد ایک اجنبی کے ساتھ تھے۔ انھوں نے کہا کہ احمد دھماکے کے بعد دور جا گرے تھے اور وہ گھر سے تقریبا 20 میٹر (65 فٹ) کی دوری پر زخمی حالت میں پائے گئے۔ ابراہیم، جو اب بھی اپنے خاندان اور اپنی بہن کے بچوں کے ساتھ بے گھر ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ احمد کو غزہ سے باہر علاج کے لیے بھیجنے کے قابل ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ شمالی غزہ کے علاقے جبل الرئیس میں ایک پڑوسی کے گھر پر فضائی حملے کے بعد مونا کو ملبے تلے سے نکالا گیا۔ مونا کے والدین، بھائی اور دادا مارے گئے تھے۔ مونا کی آنکھ بری طرح زخمی ہو گئی تھی اور ان کا جبڑا ٹوٹ گیا تھا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ’میں نے نرس کو یہ کہتے ہوئے سنا، ’خدا ان پر رحم کرے۔‘ میں جانتی تھی کہ اس کا مطلب میری ماں اور باپ سے ہے۔‘ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کے کمیونیکیشن مینیجر ریکارڈو پیریز کے مطابق غزہ کی پٹی میں یتیم بچوں کی صحیح تعداد کا تعین کرنا ’جنگ کے اس ماحول اور تیزی سے بدلتی ہوئی زمینی صورت حال‘ کو دیکھتے ہوئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ پیریز نے مزید کہا کہ تنظیم نے غزہ کے ہسپتالوں اور طبی عملے تک پہنچنے کی کوشش کی تاکہ بچوں کی شناخت اور ان کا اندراج کیا جا سکے، لیکن ’یہ کوششیں انتہائی مشکل حالات کی وجہ سے بہت سست روی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔‘ انھوں نے وضاحت کی کہ نہ صرف ’افراتفری اور بھیڑ‘ کے ماحول میں پناہ گاہوں اور ہسپتالوں کی وجہ سے محفوظ اور عارضی دیکھ بھال کے انتظامات کی نشاندہی کرنا ’تقریبا ناممکن‘ ہے، بلکہ ’دستاویزات کی شناخت، تلاش کرنے اور رشتہ داروں کے ساتھ بچوں کو دوبارہ ملانے کا عمل انتہائی مشکل ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw42enkv0p4o", "summary": "اسرائیل نے غزہ کے تمام علاقوں میں فوجی کارروائیوں کو وسعت دینے کا اعلان کیا ہے تاہم بعض یرغمالیوں کے لواحقین اسرائیلی حکومت سے مذاکرات کے میز پر لوٹنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ", "title": "اسرائیل کی غزہ کے ’تمام علاقوں میں‘ زمینی کارروائیاں، وار زون میں ’ہسپتال بھی محفوظ مقام نہیں‘", "firstPublished": "2023-12-03T04:19:51.442Z", "id": "cw42enkv0p4o", "article": "اسرائیل نے غزہ کے تمام علاقوں میں فوجی کارروائیوں کو وسعت دینے کا اعلان کیا ہے تاہم بعض یرغمالیوں کے لواحقین اسرائیلی حکومت سے مذاکرات کے میز پر لوٹنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پیر کی صبح اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہگاری کا کہنا ہے کہ غزہ میں اس کے زمینی حملوں کا دائرہ کار غزہ کے تمام علاقوں تک پھیل چکا ہے، جس کا مقصد حماس کے اہداف کو نشانہ بنانا ہے۔ انھوں مزید کہا کہ اسرائیلی فوجی براہ راست فلسطینی جنگجوؤں سے لڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی فورسز جنوبی غزہ کی جانب پیش قدمی کر رہی ہیں اور وہاں اس کی ٹینک بھی دیکھے گئے ہیں۔ اس نے نئی علاقوں پر مشتمل ایک نقشہ جاری کیا ہے جس میں شہریوں کو نقل مکانی کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ سنیچر کی شام ایک بریفنگ میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے حماس کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے ’تمام اہداف حاصل کرنے‘ تک اسرائیلی فوجی آپریشن جاری رکھنے کا عہد کیا۔ پیر کی صبح اسرائیلی فوج نے غزہ میں 20 فلسطینی علاقوں میں شہریوں کو نقل مکانی کرنے کی ہدایت دی اور اپنی زمینی کارروائیوں کو وسعت دینے کا اعلان کیا۔ امریکی حکام نے اسرائیلی کارروائیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں اپنے دفاع کا حق ہے تاہم اسرائیلی فوجیوں سے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے ایک مشیر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اسرائیل معصول شہریوں کی ہلاکتیں روکنے کے لیے ’زیادہ سے زیادہ کوششیں کر رہا ہے‘۔ سات روزہ جنگ بندی میں حماس نے غزہ میں قید 110 یرغمالیوں کو رہا کیا جس کے بدلے میں 240 فلسطینیوں کو اسرائیلی جیلوں سے آزاد کیا گیا۔ بعض یرغمالیوں کے لواحقین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو ’کسی بھی قیمت پر‘ حماس کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا ’کیونکہ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ کسی بھی قیمت پر یرغمالیوں کو واپس لائیں گے۔‘ ہائم کے بھائی کو فیسٹیول کے دوران اغوا کیا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’خاندان جنگ کی حکمت عملی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے لیکن وہ جواب مانگ رہے ہیں۔ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ ہم سے ملیں گے لیکن یہ نہیں ہوا۔‘ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے اس پر اپنے ردعمل میں کہا کہ ’خاندانوں کی درخواست پر ملاقات کو بدھ کی بجائے مزید پہلے شیڈول کرنے پر غور کیا جائے گا۔‘ حماس کے ایک سینیئر اہلکار نے کہا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کے لیے دوبارہ مذاکرات ’مستقل جنگ بندی‘ سے مشروط ہوں گے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cg6weex05d9o", "summary": "کلیٹن نے چار ہزار ڈالر سے بھرا ایک لفافہ اپنے گھر کے کچن کاؤنٹر پر رکھا۔ ان کی بیوی اور انھوں نے گھر کی باڑ لگانے کے لیے ایک کنٹریکٹر کو یہ رقم دینی تھی۔", "title": "وہ لالچی کتا جو اپنے مالک کے 11 لاکھ روپے ہڑپ کر گیا", "firstPublished": "2024-01-05T06:56:15.182Z", "id": "cg6weex05d9o", "article": "امریکہ میں ایک کتے نے اپنے مالک کے چار ہزار ڈالر یعنی 11 لاکھ روپے کھا لیے ہیں۔ امریکی ریاست پینسلوانیا میں ایک کتا لفافے میں رکھے پیسوں پر ٹوٹ پڑا اور اس وجہ سے انٹرنیٹ پر وائرل بھی ہو گیا۔ کلیٹن اور کیری لا نے سیسل نامی اس کتے کی قے اور پاخانے سے زیادہ تر نوٹوں کے بدبودار ٹکڑے جمع کر لیے لیکن 450 ڈالر ابھی تک غائب ہیں۔ سیسل کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹر نے اس جوڑے کو بتایا کہ ان کے کتے کی صحت ٹھیک رہے گی۔ دسمبر کے اوائل میں پٹسبرگ شہر میں کلیٹن نے چار ہزار ڈالر سے بھرا ایک لفافہ اپنے گھر کے کچن کاؤنٹر پر رکھا۔ ان کی بیوی اور انھوں نے گھر کی باڑ لگانے کے لیے ایک کنٹریکٹر کو یہ رقم دینی تھی۔ 30 منٹ بعد اپنے پالتو کتے کو اپنی زندگی کی سب سے مہنگی ترین دعوت اڑاتے ہوئے دیکھ کر کلیٹن کے اوسان خطا ہو گئے۔ مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کیری نے کہا ’ایک دم سے کلیٹن نے مجھے آواز دی کہ سیسل چار ہزار ڈالر کھا رہا ہے۔ مجھے لگا میں یہ نہیں سن رہی ہوں، مجھے تقریباً دل کا دورہ پڑنے والا تھا۔‘ واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے اس جوڑے نے اپنے کتے کو ’نادان‘ کہا۔ کیری نے بتایا ’وہ ہر چیز نہیں کھاتا۔ آپ ٹیبل پر سٹیک رکھ جائیں لیکن وہ اس کو ہاتھ بھی نہیں لگائے گا۔‘ پیسے کھانے کے بعد جب سیسل آرام کرنے کے لیے لیٹ گیا تو اس کے پریشان مالکوں نے فوراً اس کے ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ سیسل کو کسی طبی علاج کی ضرورت تو نہیں۔ اس کے بعد اس جوڑے کو نوٹوں کے ٹکڑے جمع کرنے کا انتہائی مشقت بھرا کام کرنا پڑا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ نوٹ جوڑتے، انھیں انتظار کرنا تھا کہ سیسل قے کر کے پیسے نکالے۔ اس کے بعد انھوں نے ان نوٹوں کو دھویا۔ کیری نے مقامی اخبار کو بتایا ’ان سے بہت بدبو آ رہی تھی۔‘ اس جوڑے نے 50 اور 100 ڈالر کے نوٹوں کو ایک ایک کر کے ٹیپ سے جوڑنے کی کوشش کی۔ انھوں نے کوشش کی کہ نوٹوں کے دونوں جانب کے سیریئل نمبر مل جائیں جس سے یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ بینک پھٹے نوٹوں کو لے کر انھیں نئے نوٹ دے دے گا۔ یاد رہے کہ ایسا ہی ایک واقعہ سنہ 2022 میں پیش آیا تھا، جب نیوزویک نے اطلاع دی تھی کہ فلوریڈا میں ایک خاتون کے کتے نے 2000 ڈالر کھا لیے۔ اس واقعے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی تھی، جس میں کتے کی مالکن کو روتے ہوئے دیکھا گیا۔ لیکن سیسل کے مالک اس واقعے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور انھوں نے وائرل ویڈیو پر لکھا کہ ’ملنے والے باقی نوٹ ہمارا سب سے مہنگا فن پارہ ہوں گے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c97zd136dr3o", "summary": "1889 میں 20 ممالک کی سوشلسٹ اور مزدور جماعتوں اور ٹریڈ یونینز کے نمائندوں کے اجلاس میں یکم مئی کو تین برس قبل شکاگو میں پیش آنے والے واقعات کی یاد میں یومِ مزدور منانے کا فیصلہ کیا گیا۔", "title": "یومِ مزدور: محنت کشوں کا عالمی دن یکم مئی کو ہی کیوں منایا جاتا ہے", "firstPublished": "2024-05-01T03:37:00.816Z", "id": "c97zd136dr3o", "article": "بہت سے ممالک میں یکم مئی کو موسم بہار کے ایک قدیم تہوار کے طور پر جانا جاتا ہے، لیکن آج کل اس دن کو عالمی یوم مزدور کے نام سے منایا جاتا ہے تاکہ دنیا بھر میں محنت کشوں کی تاریخی جدوجہد اور کامیابیوں کو یاد کیا جا سکے۔ ہر سال اس دن دنیا بھر میں مظاہرے ہوتے ہیں جن کا مقصد کارکنوں کو بہتر حالاتِ کار اور ٹریڈ یونینز کو زیادہ اختیارات دینے کے مطالبات دہرانا ہوتا ہے۔ ابتدائی دنوں میں چند سوشلسٹ اور کمیونسٹ تنظیمیں اور مزدور دوست گروہ یہ دن منایا کرتے تھے لیکن پھر اس کا دائرہ دنیا بھر میں پھیلتا گیا۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی ہڑتال یکم مئی کو شکاگو میں کی گئی اور ایک اندازے کے مطابق اس دن احتجاج کے لیے وہاں 40 ہزار کارکن جمع ہوئے۔ اس وقت شکاگو امریکی صنعت کا مرکز اور یونین آرگنائزیشن کا مرکز تھا۔ پولیس کی سختی سے مشتعل مزدور رہنماؤں اور ہڑتال کرنے والے مظاہرین نے چار مئی کو شکاگو کے مشہور ہے مارکیٹ سکوائر پر مظاہروں کا اہتمام کیا۔ اس دن ایک نامعلوم حملہ آور نے پولیس اہلکاروں پر بم پھینک دیا اور دھماکے اور اس کے بعد ہونے والی فائرنگ کی وجہ سے سات پولیس اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ 1889 میں 20 ممالک کی سوشلسٹ اور مزدور جماعتوں اور ٹریڈ یونینز کے نمائندوں کے اجلاس میں یکم مئی کو ان واقعات کی یاد میں یومِ مزدور منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ شکاگو میں ہونے والی جھڑپوں نے آنے والے برسوں میں بائیں بازو کی بہت سی جماعتوں کے لیے تحریک کا کام کیا۔ بی بی سی سربیا کی نتاشا اندجیلکووچ کے مطابق جنوبی یورپ میں، یوم مئی کو سب سے پہلے منانے والے سلووینین اور کروٹس تھے جو اس وقت آسٹرو ہنگری سلطنت کا حصہ تھے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جرمنی نے اس دن چھٹی دینے کا فیصلہ تو کیا لیکن آزاد یونینوں کو ختم کر دیا جس کا نتیجہ جرمن مزدور تحریک کے عملی طور پر خاتمے کی شکل میں نکلا اور پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد ہی جرمنی میں ایسی ٹریڈ یونینز دوبارہ بن سکیں۔ کمیونسٹ رہنماؤں کا خیال تھا کہ یومِ مزدور پر تعطیل اور جشن یورپ اور امریکہ میں محنت کش طبقے کو سرمایہ داری نظام کے خلاف جدوجہد میں متحد ہونے کی ترغیب دے گا۔ سوشلسٹ وفاقی جمہوریہ یوگوسلاویہ میں بھی ایسی ہی صورتحال تھی، جہاں 1945 میں یکم مئی کو سرکاری طور پر تعطیل کا اعلان کیا گیا اور اسے جلسے جلوسوں کے ساتھ منایا گیا تھا۔ متحدہ ہندوستان میں یوم مزدور منانے کا آغاز یکم مئی 1923 کو مزدور کسان پارٹی نے مدراس میں کیا تھا جبکہ حکومت پاکستان نے یکم مئی 1972کو پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر سرکاری سطح پر یکم مئی کو محنت کشوں کا دن قرار دیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/c4n1wpypjr9t", "summary": "محکمۂ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے کہا ہے کہ بشام میں چینی انجینیئرز کے قافلے پر حملے میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ملوث ہے اور اس کے خلاف مشترکہ کارروائیوں کے دوران چار ملزمان گرفتار کیے گئے ہیں۔", "title": "بشام میں چینی شہریوں پر حملے میں ٹی ٹی پی ملوث، چار ملزمان گرفتار: سی ٹی ڈی", "firstPublished": "", "id": "c4n1wpypjr9t", "article": "محکمۂ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے کہا ہے کہ بشام میں چینی انجینیئرز کے قافلے پر حملے میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ملوث ہے اور اس کے خلاف مشترکہ کارروائیوں کے دوران چار ملزمان گرفتار کیے گئے ہیں۔ رابطہ کرنے پر ضلع چمن کے ڈپٹی کمشنر اطہر عباس راجہ نے بتایا کہ پوست کی فصل کو تلف کرنے کے لیے مشترکہ کارروائی کی جارہی ہے جس میں لیویز فورس، فرنٹیئر کور اور اینٹی نارکوٹکس فورس کے اہلکار شامل ہیں۔ صوبہ سندھ کی انسداد دہشت گردی عدالت نے ایم کیو ایم کے رہنما رضا علی عابدی کے قتل کے مقدمے میں جرم ثابت ہونے پر چار ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ عدالت نے کیس کے مفرور ملزمان محمد فاروق، حسنین اور غلام مرتضی عرف کالی چرن کے خلاف کیس داخل دفتر کر دیا ہے۔ عدالت نے حکم میں کہا ہے کہ ملزمان جب بھی گرفتا ہوں تو انھیں عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ محکمۂ\nانسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے کہا ہے کہ بشام میں چینی انجینیئرز کے قافلے پر\nحملے میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ملوث ہے اور اس کے خلاف مشترکہ کارروائیوں\nکے دوران چار ملزمان گرفتار کیے گئے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ حملے میں ملوث نیٹ\nورک کے ’اہم کرداروں کا تعین کر لیا گیا ہے۔ چار ملزمان کی گرفتاری عمل میں آئی\nہے۔‘ انھوں نے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان ایک دوسرے کے سٹریٹجک پارٹنرز ہیں۔ ان ملاقاتوں میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وفاقی وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ، وفاقی وزیر پیٹرولیم مصدق ملک، وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان اور وفاقی وزیر پاور اویس احمد خان لغاری بھی موجود تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے\nسوشل میڈیا پر جسٹس بابر ستار کے خلاف ’جھوٹی‘ اور ’توہین آمیز‘ مہم پر ردِعمل دیتے\nہوئے کہا ہے کہ ’جسٹس بابر ستار کے پاس کبھی پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی\nشہریت نہیں رہی۔‘ اتوار کو اسلام آباد ہائی\nکورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’اس توہین آمیز مہم کے دوران معزز\nجج، ان کی اہلیہ اور بچوں کے حساس سفری دستاویزات اور ان کے ٹیکس ریٹرنز میں درج\nاثاثوں کی تفصیلات سوشل میڈیا پر جھوٹے الزامات کے ساتھ پوسٹ کی گئیں۔‘ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین\nبیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہدایت پر پنجاب میں پبلک\nاکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین کے لیے قائد حزب اختلاف صوبائی اسمبلی ملک احمد خان بھچر\nکو نامزد کیا گیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cz5dpn76kzno", "summary": "ترکی کی سالانہ افراط زر کی شرح مارچ میں 68.5 فیصد تک بڑھ گئی ہے اور لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد خوراک یا رہائش جیسی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے کریڈٹ کارڈز کا سہارا لے رہی ہے۔", "title": "ترکی میں کریڈٹ کارڈ کے سہارے زندگی: ’شادی کی خریداری کارڈ سے کی، اب قسطوں میں قرض چکاؤں گی‘", "firstPublished": "2024-04-27T07:59:46.712Z", "id": "cz5dpn76kzno", "article": "ترکی کی سالانہ افراط زر کی شرح مارچ میں 68.5 فیصد تک بڑھ گئی ہے اور لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد خوراک یا رہائش جیسی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے کریڈٹ کارڈز کا سہارا لے رہی ہے۔ اس وقت خاص طور پر اشیائے خورد کی بڑھتی ہوئی قیمتیں عوام پر بوجھ بن رہی ہیں۔ آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (او ای سی ڈی) کے ممالک میں ترکی میں سب سے زیادہ غذائی افراط زر ہے، جو کہ سالانہ 70 فیصد ہے، جو او ای سی ڈی کی اوسط 6.7 فیصد سے دس گنا زیادہ ہے۔ زیادہ تر مرکزی بینک افراط زر سے لڑنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کرتے ہیں، لیکن ترکی میں اس وقت شرح سود 10.5 فیصد تھی۔ ایسے میں لوگوں کے لیے بینکوں سے قرض لینا یا کریڈٹ کارڈز پر انحصار کرنا ایک بہتر آپشن تھا کیونکہ شرح سود مہنگائی سے کم تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ طویل مدت میں ان کا قرض آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا۔ مارچ میں مرکزی بینک نے افراط زر کو قابو میں رکھنے کے لیے غیر متوقع طور پر شرح سود میں 500 ’بیسس پوائنٹس‘ کا اضافہ کر کے 50 فیصد کر دیا۔ محمد سمسیک نے حال ہی میں کریڈٹ کارڈز پر بھی ممکنہ ’ریگولیشنز‘ کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے استعمال پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ ماہر اقتصادیات بنہان ایلیف یِلمز نے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے یا چکر (جہاں لوگ اپنی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے زیادہ قرض حاصل کرتے ہیں) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’کم شرح سود کی طویل مدت کی وجہ سے دوسرے کارڈ سے نقد رقم نکالنے یا موجودہ کریڈٹ کارڈ کے قرض کو ادا کرنے کے لیے ذاتی قرض لینے جیسے طریقے ابھی بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔‘ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ بہت سے لوگ سخت مالیاتی پالیسی میں پھنس گئے ہیں کیونکہ خوراک کی قیمتیں تین گنا بڑھ گئی ہیں اور حالیہ بلند شرح سود نے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان حالات میں عام گھرانے اور کمپنیاں قرض کے جال میں پھنس گئیں اور وہ افراط زر کے دور سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ لوگ اپنے کریڈٹ کارڈز پر خرچ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ بلا سود قسطیں دینے کا آپشن دیتے ہیں۔ انھوں نے خبردار کیا کہ ترکی میں متوسط طبقہ سکڑ رہا ہے۔ انھوں نے حکام پر زور دیا کہ وہ کریڈٹ کارڈز کے استعمال کو محدود کرنے کی بجائے آمدنی کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے کم آمدنی والے گروہوں کی مدد کریں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjljx234jpjo", "summary": "روایتی طور پر انڈین گھرانے بچت کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں مگر اب اس رجحان میں تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے اور کیا یہ انڈین معیشت کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے؟", "title": "انڈیا کے لوگ پہلے جیسی بچت کیوں نہیں کر رہے؟", "firstPublished": "2024-04-27T03:00:53.075Z", "id": "cjljx234jpjo", "article": "انڈین گھرانے ہمیشہ سے بچت کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ہر گھرانہ اپنی کمائی کا ایک معقول حصہ ضرورت کے دنوں کے لیے بچا کر رکھتا ہے۔ اکثر اوقات، اس مقصد کے لیے لوگ اپنے خرچے بھی کم کرتے ہیں تاہم اس رجحان میں اب تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، اب زیادہ تر گھرانے اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے قرض لے رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی جانب سے کی جانے والی بچت میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس وجہ سے لوگوں کو اپنی کمائی کا بیشتر حصہ ان قرضوں کی ادائیگیوں پر خرچ کرنا پڑٰ رہا ہے۔ بڑھتے ہوئے قرضوں کی شرح اور کم ہوتی بچت انڈین معیشت کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟ کیا یہ افراطِ زر میں اضافے اور بڑھتی ہوئی مالی مشکلات کی جانب اشارہ کرتی ہے یا پھر یہ ایک بہتر مستقبل کا عندیہ ہے؟ نکھل کہتے ہیں کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قرض لینے والوں کے بارے میں زیادہ تفصیلات میسر نہیں ہے۔ کتنے لوگوں نے قرض لیے ہیں؟ وہ کام کیا کرتے ہیں؟ لی گئی رقم کس مقصد کے لیے استعمال کی گئی یا کتنے افراد نے قرض واپس کیے ہیں؟ تنیشا اور نکھل کے مطابق انڈین گھرانے اپنی مجموعی کمائی کا تقریباً 12 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ شرح چین، فرانس، برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک سے زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ انڈیا میں قرضوں پر وصول کی جانے والی شرح سود ہے جو ان ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، انڈیا میں دیے جانے والے قرضوں کی مدت مذکورہ بالا ممالک سے کم ہے۔ زیکو داس گپتا اور شری نواس راگھویندر ماہرِ معاشیات ہیں اور ان کا تعلق عظیم پریم جی یونیورسٹی سے ہے۔ انھوں نے انڈین اخبار ’دی ہندو‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں خبردار کیا ہے کہ قرضوں میں اضافہ کے ساتھ بچت میں کمی سے قرضوں کی واپسی اور مالیاتی کمزوری کے حوالے سے خدشات جنم لے رہے ہیں۔ دوسری جانب، رتھن رائے جیسے ماہر معاشیات جی 20 ممالک میں سب سے کم فی کس آمدنی والے ملک میں قرض پر بڑھتے ہوئے انحصار کے بارے میں فکر مند دکھائی دیتے ہیں۔ بزنس سٹینڈرڈ میں شائع اپنے مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ حکومت بنیادی خدمات اور سبسڈی دینے کے لیے قرض لیتی ہے، جبکہ گھرانے استعمال کرنے کے لیے قرض لیتے ہیں۔ راما بیجاپرکر ایک بزنس کنسلٹنٹ ہیں۔ وہ اپنی کتاب ’للی پٹ لینڈ‘ میں لکھتی ہیں کہ انڈین صارفین کی کی جانب سے بڑھتی کھپت کے پیچھے عام انڈین کی ایک بہتر زندگی کی آرزو، عوامی اشیا اور سہولیات کا ناقص معیار، اور غیر مستحکم معمولی آمدنی کارفرما ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51n076n43qo", "summary": "اب وہ دن گئے جب سنہ 2021 کے اواخر میں ٹیسلا کی مارکیٹ ویلیو ایک ٹریلین ڈالر سے بھی زائد تھی اور سب اشاریے یہ کہہ رہے تھے کہ الیکٹرک کار بنانے والی یہ کمپنی اب ناقابل تسخیر ہے لیکن اب کمپنی کے بانی اور سی ای او ایلون مسک کے اس کماؤ پوت کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے جس نے اس کمپنی کے لیے شدید مسابقتی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کو مشکل بنا دیا ہے۔", "title": "ٹیسلا: وہ چار وجوہات جو الیکٹرک گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنی کو درپیش بحران کا سبب ہیں ", "firstPublished": "2024-04-26T13:05:10.316Z", "id": "c51n076n43qo", "article": "اب وہ دن گئے جب سنہ 2021 کے اواخر میں ٹیسلا کی مارکیٹ ویلیو ایک ٹریلین ڈالر سے بھی زائد تھی اور سب اشاریے یہ کہہ رہے تھے کہ الیکٹرک کار بنانے والی یہ کمپنی اب ناقابل تسخیر ہے۔ لیکن اب کمپنی کے بانی اور سی ای او ایلون مسک کے اس کماؤ پوت کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے جس نے اس کمپنی کے لیے شدید مسابقتی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کو مشکل بنا دیا ہے۔ چین کی الیکٹرک کاریں بنانے والی کمپنیوں نے اپنی کاروں کو کم قیمت پر مارکیٹ میں متعارف کروایا ہے جس سے ٹیسلا کی کاروں کی مانگ پر اثر پڑا اور ایسے میں ایلون مسک کی جانب سے حالیہ ملازمتوں میں کٹوتی کے اعلان کو مارکیٹ میں مثبت انداز سے نہیں دیکھا گیا۔ اور پھر جب اس کی سب سے بڑی حریف چینی کمپنی بی وائی ڈی گذشتہ برس کی آخری سہ ماہی میں سب سے زیادہ الیکٹرک کاریں فروخت کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بن کر ٹیسلا کو اس کے مقام سے ہٹا دیا تو اس وقت میں بھی حالات سازگار نہیں دکھائے دیتے تھے۔ متعدد تجزیہ کاروں اور سرمایہ کاروں نے کہا کہ اگرچہ ٹیسلا کے لیے مکمل طور پر خود مختار کاریں بنانا اس کے مستقبل کے لیے اہم ہے لیکن اس سے بہتر ہے کہ وہ ایک سستی الیکٹرک کار بنانے پر توجہ دے جو آج اس کی ترقی کے لیے اہم ہے۔ سنہ 2003 سے ٹیسلا کے قیام کے بعد سے اس کی نشیب و فراز کی ایک تاریخ رہی ہے۔ بہت سوں کا قیاس ہے کہ کیا یہ بھی ایسا ہی ایک بحران ہے جو ماضی کی طرح گزر جائے گا یا یہ کمپنی کو تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے؟ ٹیسلا نے اپریل کے وسط میں اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی کمپنی کی تنظیم نو کے منصوبے کے تحت دنیا بھر سے دس فیصد ملازمین کو برخاست کرے گی جس کا مقصد اخراجات میں کمی لانا اور کمپنی کی پوزیشن کو بہتر بنانا ہے۔ ٹیسلا نے پہلی سہ ماہی میں نو فیصد آمدنی میں کمی بھی ظاہر کی، جو 2012 کے بعد سے سال بہ سال کی سب سے بڑی کمی ہے۔ اس سال اب تک کمپنی کو نقصان پہنچانے والا ایک اور عنصر اس کی تازہ ترین گاڑی سائبر ٹرک کو مارکیٹ سے واپس لانا تھا۔ تمام چیلنجوں کے باوجود، ایلون مسک نے اس ہفتے کمپنی کے مستقبل کے بارے میں ایک پرامید تقریر کی اور سرمایہ کاروں کو بتایا کہ وہ سنہ 2025 کے دوسرے نصف میں شروع ہونے والے نئے ماڈلز کو مارکیٹ میں متعارف کروائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اس نے کم قیمت ماڈل بنانے کا منصوبہ ترک کر دیا ہے۔ اس کم قیمت ماڈل گاڑی کی قیمت کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ 25000 ڈالر تک تھی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckv7lq4q8ljo", "summary": "صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے موقع پر توقع کی جا رہی تھی کہ پاکستان کے توانائی بحران کو حل کرنے کے لیے اہم سمجھے جانے والے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے مستقبل سے متعلق معاملات بھی زیر غور آئیں گے مگر ایرانی صدر کی جانب سے کی جانے والے اہم ملاقاتوں کے بعد ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس اور سرکاری پریس ریلیز میں اس اہم منصوبے کا تذکرہ غائب رہا۔ اس کی ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟", "title": "صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے دوران ’ایران، پاکستان گیس پائپ لائن‘ منصوبے کا تذکرہ کیوں نہیں ہوا؟", "firstPublished": "2024-04-23T11:07:25.605Z", "id": "ckv7lq4q8ljo", "article": "صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان اس لیے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ رواں برس جنوری میں پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بھی کشیدگی پیدا ہو گئی تھی جب دونوں ممالک نے ’دہشتگردوں کے خلاف کارروائی‘ کرتے ہوئے ایک دوسرے کی سرزمین پر میزائل حملے کیے تھے۔ دونوں ممالک ماضی میں بھی ایک دوسرے پر عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ اس دورے کے موقع پر توقع کی جا رہی تھی کہ پاکستان کے توانائی بحران کو حل کرنے کے لیے اہم سمجھے جانے والے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے مستقبل سے متعلق معاملات بھی زیر غور آئیں گے مگر ایرانی صدر کی جانب سے کی جانے والے اہم ملاقاتوں کے بعد ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس اور سرکاری پریس ریلیز میں اس اہم منصوبے کا تذکرہ غائب رہا۔ اس صورتحال کے بعد متعدد سوالات نے جنم لیا کہ اس اہم منصوبے پر خاموشی کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا پاکستان مبینہ ممکنہ امریکی دباؤ میں اس پر منصوبے پر بات کرنے سے گریزاں ہے یا یہ دونوں ممالک کا ایک سوچا سمجھا اقدام ہے؟ اور اگر اس اہم منصوبے پر ہی بات نہیں ہو رہی تو دونوں ممالک کو ایرانی صدر کے اس دورہ پاکستان سے کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ پاکستان اور ایران کے درمیان 7.5 ارب ڈالرز مالیت کا گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح سنہ 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے آخری دنوں میں اُس وقت ہوا تھا جب اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے ایران کا دورہ کیا۔ ابتدائی طور پر پاکستانی حکام کی جانب سے اس منصوبے کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے اسے پاکستان کے توانائی کے بحران کا حل قرار دیا گیا تھا۔ جبکہ اس منصوبے پر تاخیر نے پاکستان کو پہلے ہی مشکل صورت میں ڈال رکھا ہے کیونکہ ایک طرف اپنے حصے پر پائپ لائن بچھانے کا کام نہ کرنے پر ایران کی جانب سے عالمی اداروں کے ذریعے پاکستان پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے جبکہ دوسری صورت میں امریکہ کی جانب سے پہلے سے کمزور پاکستانی معیشت پر پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق دونوں ممالک میں کچھ اہم مسائل ہیں جو ابھی حل طلب ہیں، پاکستان کو اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے پیسے درکار ہیں جبکہ گوادر میں ابھی تک اس پائپ لائن بچھانے سے متعلق زمین کی الاٹمنٹ نہیں ہوئی ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ پاکستان کو امریکہ کی جانب سے پابندیوں کا خدشہ ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ دوسری جانب ’ایران کی طرف سے اس منصوبے کے تحت گیس کی قیمت کے تعین کا مسئلہ ہے۔ اب تک ایران نے اس معاملے میں تاخیر کے باوجود خیرسگالی کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنے حصے کی گیس پائپ لائن بروقت تعیمر نہ کرنے پر پاکستان پر جرمانہ عائد کرنے کی کارروائی کا آغاز نہیں کیا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c29652l9ej9o", "summary": "میکسیکو میں چینی کمپنی کا بڑھتا اثر و رسوخ میکسیکو کے لیے تو فائدہ مند ہے ہی، مگر کیا میکسیکو چینی کمپنیوں کے لیے امریکہ میں داخلے کے لیے کوئی پوشیدہ راستہ تو نہیں؟", "title": "’میڈ ان میکسیکو‘: چین اور امریکہ کی تجارتی جنگ سے میکسیکو کس طرح مستفید ہو رہا ہے؟", "firstPublished": "2024-04-22T13:29:33.685Z", "id": "c29652l9ej9o", "article": "اب یہ تمام اشیا امریکہ میں بڑے ریٹیلرز جیسے کوسٹکو اور وال مارٹ کی جانب سے خریدے جائیں گے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ایک چینی کمپنی ہے اور اس کا میکسیکو میں موجود مینوفیکچرنگ پلانٹ چینی سرمائے سے تعمیر کیا گیا ہے۔ ’مان واہ‘ ان سینکڑوں چینی کمپنیوں میں سے ایک ہے جو حالیہ برسوں میں شمالی میکسیکو کے صنعتی علاقوں میں منتقل ہوئی تاکہ پیداوار کو امریکی مارکیٹ کے قریب لایا جا سکے۔ لیکن بچت کے ساتھ ساتھ، ان کی حتمی مصنوعات کو مکمل طور پر میکسیکن سمجھا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ چینی کمپنیاں دونوں ممالک کے مابین جاری تجارتی جنگ کے دوران چینی مصنوعات پر عائد امریکی محصولات اور پابندیوں سے بچ سکتی ہیں۔ کمپنی کے جنرل منیجر یو کین وی نے بی بی سی کے نامہ نگار کو سائٹ کا دورہ کروایا۔ یو کین وی کا کہنا ہے کہ اُن کی کمپنی کے میکسیکو منتقل ہونے سے کمپنی کو اقتصادی اور علاقے میں نقل و حمل میں بہتر مواقع میسر آ سکیں گے۔ اس چینی کمپنی نے سنہ 2022 میں میکسیکو کے شہر مونٹیری تھی تاہم اُن کے 450 ملازمین پہلے سے ہی یہاں کام کر رہے تھے۔ یو کین وی کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ آنے والے سالوں میں پلانٹ کے حجم میں اضافہ کیا جائے گا جس کے بعد اُن کے ملازمین کی تعداد 1200 سے زیادہ ہو جائے گی۔ میکسیکو کے سابق نائب وزیر برائے بیرونی تجارت ہوان کارلوس بیکر پنیڈا کا کہنا ہے کہ ’میکسیکو میں سرمایہ لانے کی وجوہات یہاں موجود ہیں۔ مجھے اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ جلد ہی ماند پڑنے والی ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’اگرچہ میکسیکو میں آنے والا چینی سرمایہ کچھ ممالک اور اُن کی پالیسیوں کے لیے پریشان کن ہو سکتا ہے۔‘ اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’بین الاقوامی تجارتی قانون کے مطابق یہ مصنوعات ہر طرح سے میکسیکو کی ہیں۔‘ اس نے میکسیکو کو دو سپر پاورز کے درمیان ایک واضح سٹریٹیجک ملک بننے کا موقع دیا ہے۔ میکسیکو نے حال ہی میں چین کو امریکہ کے اہم تجارتی شراکت دار کے طور پر پیچھے چھوڑ دیا ہے جو ایک اہم اور علامتی تبدیلی ہے۔ میکسیکو کی نیشنل آٹونومس یونیورسٹی میں سینٹر فار چائنا میکسیکو سٹڈیز کے اینریک ڈوسل کا کہنا ہے کہ ’شہر میں پرانے امیر شخص یعنی امریکہ کو شہر میں آنے والے نئے امیر شخص یعنی چین سے مسائل کا سامنا ہے۔‘ تاہم ایسے میں میکسیکو کے پاس موجودہ دور اور وقت میں اس نئے سہ رخی تعلقات کے بارے میں کوئی خاص حکمت عملی نہیں ہے۔ لیکن چاہے یہ امریکہ کے لیے ایک پسِ پردہ دروازہ ہو، یا سپر پاورز کے درمیان ایک مہنگی جنگ کا حصہ ہو، یہ اس وقت عالمی تجارت کے اس مُشکل دور میں میکسیکو کے لیےانتہائی اہم اور فائدہ مند ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n108mdp27o", "summary": "سنہ 2009 کے بعد 30 سال سے کم عمر کے تمام ارب پتی نوجوانوں کو یہ بہت بڑی دولت وراثت میں ملی ہے۔ اس اشاعت میں 33 سال یا اس سے کم عمر کے 25 ارب پتیوں میں سے صرف سات نے اپنی دولت خود بنائی ہے۔", "title": "دولت کی عظیم منتقلی جو نوجوانوں کو ’کچھ کیے بغیر‘ ارب پتی بنا رہی ہے", "firstPublished": "2024-04-20T07:31:39.917Z", "id": "c4n108mdp27o", "article": "سنہ 2009 کے بعد 30 سال سے کم عمر کے تمام ارب پتی نوجوانوں کو یہ بہت بڑی دولت وراثت میں ملی ہے۔ اس اشاعت میں 33 سال یا اس سے کم عمر کے 25 ارب پتیوں میں سے صرف سات نے اپنی دولت خود بنائی ہے۔ اس شعبے میں 15 برس تجربہ رکھنے والے یوری فریٹاس اس نئے بات سے متفق ہیں کہ عالمی دولت کی اگلی نسل کو منتقلی تیز رفتاری سے جاری ہے اور دنیا کے ارب پتی ہر عمر میں اپنی دولت اگلی نسل کو منتقل کر رہے ہیں۔ آنے والی دہائیوں میں متوقع نوجوان ارب پتی ورثا کی یہ نئی لہر تاریخ کے ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب چند خاندانوں کے ہاتھوں میں آمدنی کا ارتکاز دنیا کی اکثریت کی زندگی کو بدتر بنا رہا ہے۔ اس سال کے شروع میں آکسفیم کی طرف سے شائع ہونے والی عدم مساوات کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2020 کے بعد دنیا کے پانچ سب سے بڑے ارب پتیوں کی دولت میں دوگنا اضافہ ہوا ہے، جبکہ اسی عرصے میں دنیا کی 60 فیصد آبادی یعنی تقریباً پانچ ارب افراد کی دولت میں کمی آئی ہے۔ جب کہ دنیا کی دس بڑی کمپنیوں میں سے سات میں ارب پتی بطور سی ای او یا بڑے شیئر ہولڈرز ہیں، دنیا کی 1,600 سے زیادہ بڑی اور بااثر کمپنیوں میں سے صرف 0.4 فیصد نے اپنے کارکنوں کو معقول اجرت دینے کا عوامی طور پر عہد کیا ہے۔ برازیلی انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس کے اپلائیڈ اکنامکس کے شعبے کے محقق ڈینیئل ڈیوک بتاتے ہیں کہ اپنے ورثے کو آنے والی نسلوں تک پہنچانے کی انتہائی امیروں کی یہ کوشش حالیہ اقدامات کا ردعمل ہو سکتی ہے۔ کئی ممالک ارب پتیوں کے لیے کئی دہائیوں کی فراخ دلی کے بعد اب مزید ترقی پسند ٹیکس ماڈلز پر بحث کریں گے۔ ارب پتیوں کی نئی نسل سماجی طور پر زیادہ جڑی ہوئی ہے، زیادہ ڈیجیٹل ہے اور کم از کم اپنی باتوں میں اپنے والدین سے زیادہ اس بات کی پرواہ کرتی ہے کہ ان کی سرمایہ کاری سے کرہ ارض پر موسمی اور سماجی دونوں طرح کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ یو بی ایس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ ارب پتی تاجروں کے کئی اعلیٰ درجے کے کیسز ہیں جو اپنی دولت کا ایک بڑا حصہ انسان دوستی کے لیے عطیہ کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں مگر یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ ان کے ورثا اس پر صحیح عملدرآمد کریں گے یا نہیں۔ ’جبکہ پہلی نسل کے ارب پتیوں میں سے دو تہائی سے زیادہ یعنی 68 فیصد نے کہا کہ اپنے انسان دوستی کے اہداف کو حاصل کرنا اور دنیا پر اس کا مثبت اثر ڈالنا ان کی میراث کا بنیادی ہدف تھا مگر ورثا میں سے ایک تہائی سے بھی کم یعنی 32 فیصد نے اس طرح کی نیت ظاہر کی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/crgydz54jylt", "summary": "پاکستان میں آج قومی و صوبائی اسمبلی کے 21 حلقوں میں ضمنی انتخابات کے سلسلے میں پولنگ کا وقت ختم اور ووٹوں کی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ پی پی 54 نارووال میں پولنگ سٹیشن کے قریب ایک شخص ہلاک ہوا جس پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ صاحب نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سے رپورٹ طلب کی ہے۔", "title": "ضمنی الیکشن: 21 حلقوں میں پولنگ کا وقت ختم اور گنتی شروع، نارووال میں ایک شخص کی ہلاکت پر رپورٹ طلب", "firstPublished": "", "id": "crgydz54jylt", "article": "پاکستان میں آج قومی و صوبائی اسمبلی کے 21 حلقوں میں ضمنی انتخابات کے سلسلے میں پولنگ کا وقت ختم اور ووٹوں کی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ پی پی 54 نارووال میں پولنگ سٹیشن کے قریب ایک شخص ہلاک ہوا جس پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ صاحب نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سے رپورٹ طلب کی ہے۔ پاکستان میں آج قومی و صوبائی اسمبلی کے 21 حلقوں میں ضمنی انتخابات کے دوران پولنگ کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلی کی 16 نشستوں پر پولنگ صبح 8 بجے شروع ہوئی جو شام 5 بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہی۔ ایک بیان میں سکندر سلطان راجہ کا\nکہنا تھا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تمام امیدواروں کے ایجنٹس کو پولنگ\nسٹیشن پر فارم 45 کی کاپیاں مہیا کی جائیں۔ انھوں نے تمام امیدواروں پر بھی زور\nدیا کہ فارم 45 کی کاپیاں ضرور حاصل کریں۔ الیکشن کمیشن نے پی پی 54 نارووال میں پولنگ سٹیشن کے قریب ’ایک شخص کی ہلاکت‘ پر افسوس ظاہر کیا۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ صاحب نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ناروال سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے معاملے پر رپورٹ طلب کی ہے۔ ادھر الیکشن کمیشن نے بلوچستان کے حلقہ پی بی 50 قلعہ عبداللہ میں مسلح افراد کے پولنگ سٹیشن میں داخلے کی خبروں کا نوٹس لیا۔ ایک بیان کے مطابق چیف الیکشن کمشنر نے ذاتی طور پر آئی جی بلوچستان سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور اس معاملے پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف سخت کاروائی کی ہدایت کی۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 149 لاہور میں پریذائیڈنگ آفیسر کی جانب سے پولنگ ایجنٹس سے فارم۔45 پر ’پیشگی دستخط کروائے جانے‘ کے معاملے پر صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب سے فوری رپورٹ طلب کی ہے تاکہ ’کمیشن مزید قانونی کارروائی عمل میں لا سکے۔‘ پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے کل 22 حلقوں میں انتخابات آج ہو رہے ہیں جس میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 21 حلقوں میں ضمنی انتخاب جبکہ بلوچستان کے حلقہ پی بی 50 میں سپریم کورٹ کے حکم پر آج ری پول (دوبارہ انتخاب) بھی ہو رہا ہے۔ سنہ 2022 میں پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے حوالے سے مسلم لیگ ق اور آصف علی زرداری کے مابین معاملات طے پانے کی خبریں آ رہی تھیں لیکن پھر ایسا کیا ہوا کہ انھوں نے پی ٹی آئی کی حمایت کا فیصلہ کیا؟ بعض افراد کا ماننا ہے کہ اس وقت مونس الہی نے اپنے والد کو عمران خان کی حمایت پر منایا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0klnl5l87go", "summary": "دنیا کی پانچویں بڑی معیشت انڈیا اُن چند ممالک میں سے ایک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں جبکہ گذشتہ سال یہ چاند کے قطب جنوبی پر اُترنے والا پہلا ملک بنا ہے۔ کئی عالمی مبصرین اس بات کی پیش گوئی کر رہے ہیں کہ انڈیا دنیا کی اگلی عالمی سپر پاور ہو سکتا تاہم اس ملک کو ملنے والا عروج اُمید اور خطرے دونوں ہی کا امتراج ہے۔", "title": "کیا انڈیا دنیا کی اگلی سپر پاور بن سکتا ہے؟", "firstPublished": "2024-04-16T07:16:53.041Z", "id": "c0klnl5l87go", "article": "انڈیا دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور گذشتہ سال انڈیا چاند کے قطب جنوبی پر اُترنے والا پہلا ملک بنا تھا۔ انڈیا دنیا میں سب سے زیادہ گنجان آباد ملک ہے جبکہ اس نے حال ہی میں برطانیہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی پانچویں بڑی معیشیت کا درجہ بھی حاصل کر لیا ہے۔ کئی عالمی مبصرین اس بات کی پیش گوئی کر رہے ہیں کہ انڈیا دنیا کی اگلی عالمی سپر پاور ہو گا لیکن اس ملک کو ملنے والا عروج اُمید اور خطرے دونوں ہی کا امتراج ہے۔ نریندر مودی نے اگست 2023 میں جنوبی افریقہ کے دورے کے دوران اعلان کیا تھا کہ ’انڈیا دنیا کی ترقی کا انجن‘ ہو گا۔ اور اس کے بعد سنہ 2023 کے آخر تک انڈیا نے دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت کے طور پر اپنا اعزاز حاصل کیا۔ یاد رہے کہ گذشتہ سال کے آخری تین مہینوں میں اس کی معیشت کے حجم میں 8.4 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ دہائیوں کے برطانوی راج نے ملک کے لیے ناکافی بنیادی ڈھانچا اور زرعی صنعت چھوڑی اور یہ ملک اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کا پیٹ بھرنے سے بھی قاصر تھا۔ اس وقت کے اندازوں کے مطابق انڈیا میں لوگوں کی متوقع عمر 35 سال تھی تاہم ورلڈ بینک کے مطابق آج یہ تقریبا دگنا ہو کر 67 سال ہو گئی ہے جبکہ عالمی اوسط 71 برس ہے۔ ’ایچ ایس بی سی‘ کی ایک بریفنگ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ انڈیا کو اپنی آبادی میں اضافے کی شرح کے پیش نظر اگلی دہائی میں مزید سات کروڑ ملازمتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے، لیکن حقیقت میں اور اندازوں کے مطابق اس کی ایک تہائی سے زیادہ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اس وقت انڈیا کی کُل آبادی 1.4 ارب افراد پر مشتمل ہے اور انڈین ماہرین اقتصادیات بشار چکرورتی اور گورو ڈالمیا نے پیش گوئی کی ہے کہ سنہ 2030 تک ملک میں کام کرنے کی عمر کے اہل افراد کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کر جائے گی۔ انھوں نے ’ہارورڈ بزنس ریویو‘ کو حال ہی میں بتایا کہ جاپان اور چین سمیت دیگر ایشیائی معیشتوں کی معاشی چھلانگ کا انحصار اُن ’کام کرنے کی عمر کی آبادی میں اضافے‘ پر ہے۔ لیکن ان تمام نوجوانوں کو ملک میں رکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں بیرون ملک رہنے والے افراد میں سب سے زیادہ تعداد انڈیا کے شہریوں کی ہے۔ امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی معیشت کی پالیسی کے پروفیسر ڈاکٹر اشوک مودی کے مطابق جہاں متوسط طبقہ پھل پھول رہا ہے وہیں انڈیا میں بڑے پیمانے پر عدم مساوات بھی ہے۔ اور یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ یہ فرض کرنا بے وقوفی ہے کہ انڈیا بڑے پیمانے پر اصلاحات کے بغیر سپر پاور بن جائے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/c25rwe0504qt", "summary": "وفاقی وزارتِ داخلہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ کی بندش کے حوالے سے جمع کردہ ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اس پلیٹ فارم نے غلط استعمال کی روک تھام سے متعلق حکومت پاکستان کے احکامات کی پاسداری نہیں کی جس کے باعث اس پر پابندی لگانا ضروری تھا۔", "title": "’ایکس‘ کے غلط استعمال سے متعلق حکومت پاکستان کے احکامات کی پاسداری نہ ہونے پر پابندی لگائی: وزارتِ داخلہ", "firstPublished": "", "id": "c25rwe0504qt", "article": "وفاقی وزارتِ داخلہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ کی بندش کے حوالے سے جمع کردہ ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اس پلیٹ فارم نے غلط استعمال کی روک تھام سے متعلق حکومت پاکستان کے احکامات کی پاسداری نہیں کی جس کے باعث اس پر پابندی لگانا ضروری تھا۔ وزارت داخلہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کی بندش کے\nخلاف درخواست پر رپورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرواتے ہوئے درخواست کو خارج کرنے کی استدعا کر دی ہے۔ وزارت\nداخلہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروائی جانے والی اپنی رپورٹ میں کہا کہ ’ایکس\nپاکستان میں رجسٹرڈ ہے اور نہ ہی پاکستانی قوانین کی پاسداری کے معاہدے کا شراکت\nدار جب کہ ایکس نے پلیٹ فارم کے غلط استعمال سے متعلق حکومت پاکستان کے احکامات کی\nپاسداری بھی نہیں کی، حکومت پاکستان کے احکامات کی پاسداری نہ ہونے پر ایکس پر پابندی\nلگانا ضروری تھی۔‘ وزارتِ\nداخلہ کی رپورٹ کے مطابق ’ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے ’ایکس‘ سے چیف جسٹس کے\nخلاف پراپیگنڈا کرنے والے اکاؤنٹس پر پابندی کی درخواست کی تھی مگر ایکس حکام نے\nسائبر کرائم ونگ کی درخواست کو نا صرف نظر انداز کیا بلکہ اس کا کوئی جواب تک نہیں\nدیا، عدم تعاون پر ایکس کے خلاف ریگولیٹری اقدامات بشمول عارضی بندش کا جواز ہے\nاور حکومت کے پاس ایکس کی عارضی بندش کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا، انٹیلی\nجنس ایجنسیوں کی درخواست پر وزارت داخلہ نے ایکس کی بندش کے احکامات جاری کیے تھے۔ رپورٹ\nمیں مزید کہا گیا ہے کہ ایکس کی بندش کا فیصلہ قومی سلامتی اور امن و امان کی\nصورتحال برقرار رکھنے کیلئے کیا گیا، شدت پسندانہ نظریات اور جھوٹی معلومات کی\nترسیل کیلئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کیا جارہا ہے، چند شرپسند عناصر کی\nجانب سے امن و امان کو نقصان پہنچانے کیلئے ایکس کو استعمال کیا جارہا ہے، عدم\nاستحکام کو فروغ دینے کیلئے ایکس کو بطور آلہ استعمال کیا جارہا ہے، ٹک ٹاک کے\nپاکستانی قانون کی پاسداری کے معاہدے پر دستخط کے بعد پابندی کو ختم کر دیا\nگیا تھا۔ سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹس میں کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹسں کا ایک میکانزم دیا گیا ہے جس کے\nمطابق اگر سائفر گم ہو جائے تو وزارتِ خارجہ کو رپورٹ کرنا ضروری ہے، 28 مارچ کو\nوزارت خارجہ کو وزیراعظم آفس نے سائفر کاپی کی گمشدگی سے آگاہ کر دیا تھا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیض حمید کے دستخط پر وزیراعظم شاہد خاقان، وزیرداخلہ احسن اقبال نے بھی اتفاق کیا تھا۔ حکومتی پالیسی میں خامیوں کی وجہ سے فیض آباد دھرنے جیسے واقعات کو ہوا ملتی ہے، پالیسی سازوں کو فیض آباد دھرنے سے سبق سیکھنا ہو گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gje5nrkz5o", "summary": "بین گذشتہ برس امریکہ میں50,000 خود سوزی کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ یہ اب تک امریکہ میں کسی ایک سال میں خود سوزی کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد بنتی ہے۔ لیکن ماہرین اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟", "title": "’وہ دو زندگیاں جی رہا تھا، خودکشی کی منصوبہ بندی کے ساتھ منگنی کی انگوٹھی بھی خرید رہا تھا‘", "firstPublished": "2024-04-13T04:47:36.957Z", "id": "c3gje5nrkz5o", "article": "21 برس کے بین نے گذشتہ برس اپریل میں خود سوزی کر لی تھی۔ وہ ایک ابھرتے ہوئے اولمپک ایتھلیٹ اور نارتھ کیرولینا سٹیٹ یونیورسٹی کے ہونہار طالبعلموں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ بین کے بہت سارے دوست تھے۔ اچھے تعلقات تھے اور بہت پیار کرنے والا خاندان تھا۔ بین گذشتہ برس امریکہ میں 50 ہزار خود سوزی کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ یہ اب تک امریکہ میں کسی ایک سال میں خود سوزی کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد بنتی ہے۔ اب سوال یہ کہ بین نے خودکشی کیوں کی؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب سالاس فیملی تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بین کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے نے ڈپریشن (ذہنی دباؤ) سے متعلق سنہ 2020 میں مختصر عرصے کے لیے زیر علاج بھی رہے اور پھر بین نے اپنے والدین کو یہ یقین دلایا کہ وہ اب بالکل صحت مند ہیں۔ نارتھ کیرولینا سٹیٹ یونیورسٹی میں کئی افراد نے خود کشی کی ہے۔ گذشتہ تعلیمی سال میں بین سمیت سات طالب علموں نے خود سوزی کی۔ اس تعلیمی سال میں اب تک تین خود کشیاں ہو چکی ہیں، جن میں سے ایک جنوری کے آخر میں ہوئی۔ اس ریاست نے کونسلرز اور ڈراپ ان سپیس کی تعداد میں اضافہ کیا ہے، کیو پی آر، کا ایک ایسا نظام متعارف کرایا ہے تا کہ طلبہ ان علامات کو پہچان سکیں کہ ان کے دوست یا کلاس فیلوز ایسی کی حالت سے دوچار ہیں تا کہ پھر وہ ان کی مدد کر سکیں۔ جسٹن ہولنگز ہیڈ کہتی ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ ہم ناقابل تصور حالات میں جو کچھ کر سکتے تھے ہم وہ پوری تندہی کے ساتھ کر رہے ہیں۔‘ گذشہ برس اس نظام کا مقصد کسی نہ کسی طور پر اس مشکل سے بحفاظت نکلنا تھا اور یہ مدد اور امید بہم پہنچانی تھی کہ آپ ایک زندگی کو بچا سکتے ہیں۔‘ امریکہ میں صحت کے تحفظ کے ادارے ’سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول‘ کے مطابق خود کشی اب 35 سال سے کم عمر کے امریکیوں میں موت کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہے۔ دسمبر 2021 میں امریکی سرجن جنرل نے خودکشی کی کوشش کرنے والے نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں صحت عامہ کی ایک نادر ایڈوائزری جاری کی، جس میں سوشل میڈیا اور وبائی مرض کو الگ الگ کیا گیا، جس نے ’جوانوں کو پہلے سے ہی درپیش بے مثال تناؤ کو بڑھا دیا۔‘ امریکا میں 988 پر کال میں (خودکشی سے متعلق قومی ہیلپ لائن ہے، جس کے امریکہ میں 200 سے زیادہ مراکز ہیں) صرف گذشتہ برس ماہانہ 100,000 کالز کا اضافہ ہوا ہے۔ ٹونی کا کہنا ہے کہ ’زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ ہمارے ساتھ ہو سکتا ہے، تو یہ کسی اور کے ساتھ ہوسکتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/cd1qn8gp189t", "summary": "بلوچستان کے ضلع نوشکی میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9 مسافروں سمیت 11 افراد کی ہلاکت کی تناظر میں وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کہا کہ ’دہشتگردی کے خلاف ریاست کی اس جنگ کو سیاسی ذمہ داری اور مشترکہ لائحہ عمل کے ساتھ لڑیں گے۔‘", "title": "’دہشتگردی کے خلاف جنگ صرف سیکورٹی فورسز کی ہی نہیں بلکہ ریاست کی جنگ ہے‘ وزیر اعلیٰ بلوچستان", "firstPublished": "", "id": "cd1qn8gp189t", "article": "بلوچستان کے ضلع نوشکی میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9 مسافروں سمیت 11 افراد کی ہلاکت کی تناظر میں وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کہا کہ ’دہشتگردی کے خلاف ریاست کی اس جنگ کو سیاسی ذمہ داری اور مشترکہ لائحہ عمل کے ساتھ لڑیں گے۔‘ بلوچستان کے ضلع نوشکی میں پنجاب\nسے تعلق رکھنے والے 9 مسافروں سمیت 11 افراد کی ہلاکت کی تناظر میں وزیر اعلیٰ\nبلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیرِ صدارت امن و امان سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس\nمنعقد ہوا۔ اعلامیہ کے مطابق وزیر اعلیٰ\nبلوچستان نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف یہ جنگ صرف سیکورٹی فورسز کی نہیں ہے بلکہ امن\nدشمنوں کے خلاف یہ جنگ ریاست کی جنگ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’دہشتگردی کے\nخلاف ریاست کی اس جنگ کو سیاسی ذمہ داری اور مشترکہ لائحہ عمل کے ساتھ لڑیں گے۔‘ بلوچستان کے ضلع نوشکی میں اغوا کے بعد قتل کیے جانے والے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد کی لاشیں سنیچر کوکوئٹہ پہنچا دی گئیں۔ یاد رہے کہ یہ افراد کوئٹہ سے تفتان جانے کے لیے ایک مسافر بس میں بیٹھے تھے۔\nاس علاقے میں شرپسندوں کی فائرنگ سے مجموعی طور پر11 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے دو کا تعلق نوشکی سے تھا۔ نوشکی کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے تاہم اس کے مختلف علاقوں میں پشتونوں کے بڑیچ سے قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی آباد ہیں۔ بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد نوشکی میں بھی بدامنی کے بڑے واقعات پیش آرہے ہیں ۔ فروری 2022ء میں نوشکی میں فرنٹئیرکور کے ہیڈکوارٹر پر ایک بڑا حملہ کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ کی جانب سے قبول کی گئی تھی۔ نوشکی میں ماضی میں اس نوعیت کے دیگر واقعات کی ذمہ داری بھی کالعدم بی ایل اے کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع نوشکی میں نامعلوم افراد کی طرف سے کی جانے والی فائرنگ سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد سمیت کل 11 افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوگئے۔ انھوں نے بتایا کہ اس بس سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو اتارا گیا، جنھیں کچھ فاصلے پر لے جانے کے بعد فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد کوئٹہ سے تفتان جانے کے لیے مسافر بس میں بیٹھے تھے۔ ایس ایس پی نوشکی نے بتایا کہ انہی شرپسندوں کی طرف سے سلطان چڑھائی کے علاقے میں ایک اور گاڑی کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے نوشکی میں بیگناہ مسافروں کے قتل کی مذمت کی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2vwg6g103lo", "summary": "سنگاپور کی جانب سے نہ صرف کاروبار کرنے والی ملکی کمپنیوں کے آسانیاں پیدا کی گئیں بلکہ آبی بندرگاہوں، ہوائی اڈوں، سڑکوں اور عوامی ٹرانسپورٹ کے نظام میں بھی سرمایہ کاری کی گئی تاکہ کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دیا جا سکے۔", "title": "کاروبار شروع کرنے کے لیے دنیا کے 10 بہترین ممالک کون سے ہیں؟", "firstPublished": "2024-04-12T14:46:43.421Z", "id": "c2vwg6g103lo", "article": "دُنیا بھر میں کاروباری شخصیات اور ادارے اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کرنے کے مواقع ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اس فہرست کو مرتب کرتے وقت محققین کی جانب سے 82 ممالک میں اقتصادی استحکام، سیاسی صورتحال، کاروباری مواقع، تجارتی پابندیوں اور ٹیکس کے نظام کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ’اکنامسٹ انٹیلیجنس یونٹ‘ کے مطابق آنے والے برسوں میں سنگاپور، ڈنمارک اور امریکہ وہ ممالک ہوں گے جہاں سرمایہ کاری کرنے کے لیے ماحول سازگار ہو گا۔ سنگاپور جنوب مشرقی ایشیا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی آبادی تقریباً 60 لاکھ کے قریب ہے۔ اس ملک کو بڑے سرمایہ کاروں کے لیے جنت اس لیے قرار دیا جاتا ہے کیونکہ یہاں تجارتی نظام شفاف، جدید ٹیکنالوجی، سیاسی استحکام اور کرپشن دیگر ممالک کی نسبت کم ہے۔ سنگاپور کی جانب سے گذشتہ کئی برسوں سے غیرملکی سرمایہ کاری ملک میں لانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں اور اس سلسلے میں اُن کی طرف سے ٹیکس میں کمی، تجارتی نظام میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں اصلاحات متعارف کروائی گئیں۔ سنگاپور کی جانب سے نہ صرف کاروبار کرنے والی ملکی کمپنیوں کے آسانیاں پیدا کی گئیں بلکہ آبی بندرگاہوں، ہوائی اڈوں، سڑکوں اور عوامی ٹرانسپورٹ کے نظام میں بھی سرمایہ کاری کی گئی تاکہ کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دیا جا سکے۔ ’اکنامسٹ انٹیلیجنس یونٹ‘ کی جانب سے کچھ ایسے ممالک کو بھی اپنی رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے جن کی رینکنگ تو شاید زیادہ اچھی نہ ہو لیکن وہاں غیرملکی سرمایہ کاروں کی توجہ مبذول ہو رہی ہے۔ نئی حکومت کی جانب سے مقامی کرنسی پر کنٹرول ختم کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے اقدامات لیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ان اقدامات کو نافذ کرنے میں ارجنٹائن کی حکومت کو دشواری کا سامنا ہے کیونکہ ان اصلاحات پر کانگرس اور یونینز کی جانب سے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔ جمہوریہ ڈومینیکن بھی ایک ایسا ملک ہے جہاں اقتصادی حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ اس ملک کو لاطینی امریکہ کا وہ ملک کہا جاتا ہے جہاں سیاسی استحکام موجود ہے اور وہاں کاروباری سرگرمیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مثال کے طور پر لیتھیم کے کاروبار میں دلچپسی رکھنے والی کمپنیوں پر یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ اس کاروبار میں حکومت کی شراکت دار بنیں۔ ’اکنامسٹ انٹیلیجنس یونٹ‘ میں چلی کی تنزلی کے پیچھے اور بھی عوامل کارفرما ہیں، جس میں مزدوروں کے لیے نئے قوانین، ان کی تنخواہوں میں اضافہ اور کام کے اوقات کم کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ نکولس سالدیاس کہتے ہیں کہ حال ہی میں چلی میں غیرملکی سرمایہ کاروں پر کان کُنی کے سیکٹر میں بھی نئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان تمام مسائل کے باوجود بھی ’اکنامسٹ انٹیلیجنس یونٹ‘ کی جانب سے چلی کے ٹیکس کے نظام، اقتصادی مارکٹس اور انفراسٹرکچر کو سراہا گیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c99zknr7wdqo", "summary": "ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق سنہ 2023 میں انڈیا میں صاف کیے گئے 900 ٹن سونے میں سے 117 ری سائیکل ذرائع سے آیا۔ ", "title": "سونے کی ریفائنریوں کا فروغ پاتا کاروبار: ’ہم چاہتے ہیں کہ انڈیا بھی سوئٹزرلینڈ والی پوزیشن پر آ جائے‘", "firstPublished": "2024-04-12T12:30:46.712Z", "id": "c99zknr7wdqo", "article": "ستیش پرتاپ کا خاندان انڈیا میں گذشتہ کئی دہائیوں سے سونے کو ریفائن یا صاف کرنے کے کام سے وابستہ ہے۔ اپنے والد اور دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ستیش بھی جیولرز سے خام سونا اکٹھا کرتے ہیں، اسے پگھلاتے ہیں اور اسے سونے کی اینٹوں کی شکل دے کر دوبارہ جیولرز کو فروخت کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر انڈین گھرانوں میں 25,000 ٹن سونا موجود ہے، اور ہمیشہ اس میں سے کچھ نہ کچھ فروخت کے لیے مارکیٹ میں دستیاب ہوتا ہے، خاص طور پر مہنگائی کے اس دور میں جب سونے کی قیمت زیادہ ہے اور معیشت کے حالات کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیں تو لوگ چاہتے ہیں کہ وہ سونا فروخت کر کے کچھ رقم حاصل کر لیں۔ ’زیادہ تر جیولرز ہم سے سونا خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ہم چھوٹی گولڈ ریفائنریاں ہر شہر میں واقع ہیں۔ کسی جیولر کی جانب سے دیا گیا سونا ہم چند گھنٹوں میں صاف کر کے واپس کر دیتے ہیں، یہ بڑی ریفائنریوں کی طرح نہیں جنھیں ری سائیکل شدہ سونے کو ریفائن کرنے میں کئی دن لگتے ہیں۔‘ ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق سنہ 2023 میں انڈیا میں صاف کیے گئے 900 ٹن سونے میں سے 117 ری سائیکل ذرائع سے آیا۔ وہ چاہتے ہیں کہ انڈیا گولڈ ریفائننگ کے لیے ایک عالمی مرکز بن جائے، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ زیادہ غیر صاف شدہ سونا درآمد کیا جائے اور بڑی فرموں کے لیے سونے کی زیادہ سے زیادہ ری سائیکلنگ پر قبضہ کر لیا جائے۔ ہرشد اجمیرا کے مطابق ’سوئٹزرلینڈ دنیا کا سب سے بڑا گولڈ ریفائننگ سینٹر اور ’ٹرانزٹ ہب‘ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انڈیا بھی اسی پوزیشن میں ہو۔‘ سی جی آر میٹالوئز انڈیا کے معروف گولڈ ریفائنرز میں سے ایک ہیں، جو ایک سال میں تقریباً 150 ٹن سونا صاف کرتے ہیں۔ ورلڈ گولڈ کونسل انڈیا کے چیف ایگزیکٹیو سوماسندرم پی آر کا کہنا ہے کہ ’یہ صنعت بتدریج زیادہ منظم اور بہتر کارکردگی کی طرف منتقل ہو رہی ہے، جس کی قیادت بیورو آف انڈین سٹینڈرڈز کے لائسنس یافتہ ریفائنریوں کے ذریعے کی جا رہی ہے، جو سونے کی بہتر مصنوعات کے لیے قابل اعتماد معیارات قائم کر رہی ہے۔ یہ انڈیا کو ایک عالمی مرکز بنائے گی۔‘ کچھ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چھوٹے ریفائنرز پر زمین تنگ ہو رہی ہے۔ کنسلٹنسی فراہم کرنے والی کمپنی میٹلز فوکس کے مطابق سنہ 2015 میں ری سائیکلنگ انڈسٹری کا 70 سے 75 فیصد حصہ غیر منظم تھا۔ سنہ 2021 تک یہ کم ہو کر 60 سے 65 فیصد رہ گیا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg9m2mgjg0o", "summary": "وسطی امریکی ملک ایل سلواڈور کے صدر نائیب بوکیلے نے بیورنِ ملک کے انجینئرز، ڈاکٹروں اور فلسفیوں کو 'پانچ ارب ڈالر' مالیت کے پانچ ہزار پاسپورٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔\n\n", "title": "ایل سلواڈور انجینئرز، ڈاکٹروں اور فلسفیوں کو پانچ ہزار پاسپورٹ مفت کیوں دے رہا ہے؟", "firstPublished": "2024-04-07T14:57:49.545Z", "id": "crg9m2mgjg0o", "article": "وسطی امریکی ملک ایل سلواڈور کے صدر نائیب بوکیلے نے بیرونِ ملک کے سائنسدانوں، انجینئرز، ڈاکٹروں، آرٹسٹس اور فلسفیوں کو ’پانچ ارب ڈالر‘ مالیت کے پانچ ہزار پاسپورٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ ایکس پر ایک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ہم بیرون ملک سے انتہائی ہنر مند سائنسدانوں، انجینئروں، ڈاکٹروں، فنکاروں اور فلسفیوں کو پانچ ہزار مفت پاسپورٹ (جن کی مالیت وہاں کے پاسپورٹ پروگرام میں 'پانچ ارب ڈالر' کے برابر ہے) کی پیشکش کر رہے ہیں۔ صدر بوکیلے کا کہنا ہے کہ کم تعداد کے باوجود، ان کی شراکت کا ہمارے معاشرے اور ہمارے ملک کے مستقبل پر بہت گہرا اثر پڑے گا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ہم بیرونِ ملک سے یہاں منتقل ہونے والے خاندانوں اور اثاثوں پر صفر فیصد ٹیکس اور ٹیرف کو یقینی بنا کر ان کی نقل مکانی میں سہولت فراہم کریں گے۔ اس میں تجارتی قیمت والی اشیا جیسے آلات، سافٹ ویئر اورانٹیلیکچوئل پراپرٹی شامل ہیں۔ ایل سلواڈور وسطی امریکہ کا سب سے چھوٹا ملک ہے، یہ امریکی ریاست میساچوسٹس سے بھی چھوٹا ہے۔ یہاں کاسٹیلین، جسے ہسپانوی زبان بھی کہا جاتا ہے، سرکاری زبان ہے اور ایل سلواڈور میں تقریباً یہی بولی جاتی ہے۔ ایل سلواڈور میں زیادہ تر آبادی (تقریباً 84 فیصد) کا تعلق مسیح مذہب سے ہے۔ دو بڑے مذہبی گروہ کیتھولک (47 فیصد) اور پروٹسٹنٹ (33 فیصد) ہیں۔ جون 2021 میں، صدر نائیب بوکیلے نے کہا تھا کہ وہ ایل سلواڈور میں بٹ کوائن کو قانونی ٹینڈر بنانے کے لیے قانون سازی کریں گے۔ بٹ کوائن کا قانون ایل سلواڈور کی قانون ساز اسمبلی نے 9 جون 2021 کو منظور کیا تھا۔ بٹ کوائن سرکاری طور پر 7 ستمبر 2021 کو قانونی ٹینڈر بن گیا۔ ایل سلواڈور فی کس ترسیلات زر کے لحاظ سے خطے میں سرفہرست ہے، جو کہ ملک کی تقریباً تمام برآمدی آمدنی کے برابر ہے۔ امریکہ میں رہنے والے سلواڈورینز کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلات جو کہ ایل سلواڈور میں خاندان کے افراد کو بھیجی جاتی ہیں، غیر ملکی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں اور تجارتی خسارے کو پورا کرتی ہیں۔ وسطی امریکی ملک ال سلواڈور میں جرائم پیشہ گروپوں کے درمیان گينگ وار کے سبب قتل اور غارت گری ایک عام بات تھی۔ صدر بوکیل نے مارچ 2022 میں ’گینگز کے خلاف جنگ‘ کا اعلان کرتے ہوئے ہنگامی اقدامات کو منظور کیا تھا جس میں کئی بار توسیع ہو چکی ہے۔ انسداد جرائم کی مہم میں 64 ہزار سے زائد مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بے گناہ لوگوں کو پالیسی میں پھنسایا گیا ہے، لیکن بوکیل کا گینگ مخالف دباؤ سیلواڈور کے لوگوں میں مقبول ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pjp83y515o", "summary": "پاکستانی وزیرِاعظم شہباز شریف اپنے وزرا کے ہمراہ سنیچر کو سعودی عرب روانہ ہوں گے جہاں ان کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات متوقع ہے۔ ان کے پیشرو نواز شریف اور عمران خان بھی وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب جا چکے ہیں۔", "title": "شہباز شریف سعودی عرب روانہ: وزیرِ اعظم نے پہلے سرکاری دورے کے لیے اسی مُلک کا انتخاب کیوں کیا؟", "firstPublished": "2024-04-06T04:03:26.156Z", "id": "c6pjp83y515o", "article": "پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں جو بھی سیاستدان انتخابات جیت کر وزیرِاعظم کے عہدے پر فائز ہوا ہے، اس نے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے سعودی عرب کا ہی انتخاب کیا ہے۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ ماضی کے وزرائے اعظم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وزارتِ اعظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلا غیرملکی دورہ سعودی عرب کا ہی کریں گے جس کے لیے وہ سنیچر کے روز روانہ ہوئے۔ ان کے ہمراہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی ہیں۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق وزیرِاعظم شہباز شریف کی اس دورے کے دوران سعودی ولی عہد اور وزیرِاعظم شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات بھی متوقع ہے۔ اس دورے پر وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار، وزیرِ دفاع خواجہ آصف، وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر برائے اقتصادی امور احد چیمہ اور وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ بھی سعودی عرب روانہ ہوئے ہیں۔ پاکستانی وزیرِاعظم اپنے وفد کے ساتھ سعودی عرب کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب ان کے ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی درخواست پر آئندہ مہینوں کے دوران نئے پروگرام پر بات چیت کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے بھی ماضی میں پاکستان کی وقتاً فوقتاً مدد کی جاتی رہی ہے۔ خیال رہے نومبر 2021 میں پاکستان کے گرتے ہوئے زرِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے سعودی عرب نے پاکستان کے مرکزی بینک کے اکاؤنٹ میں تین ارب ڈالر کی رقم ایک سال کے لیے جمع کروائی تھی، تاہم بعد میں سعودی حکومت نے اس کی مدت میں مسلسل کئی بار توسیع کی اور اب یہ رقم پاکستانی بینک کے اکاؤنٹ میں دسمبر 2024 تک جمع رہے گی۔ وزیرِاعظم شہباز شریف کے سعودی عرب کے دورے کا ایجنڈا تو اب تک حکام کی جانب سے شیئر نہیں کیا گیا ہے، لیکن خیال یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی وفد اور ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان کی ملاقات میں سرمایہ کاری اور معاشی معاملات زیرِ گفتگو آئیں گے۔ اس سے قبل سنہ 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں اس وقت کے وزیرِاعظم عمران خان کو وزارتِ اعظمیٰ کے منصب سے ہٹا دیا گیا تھا اور پاکستان کی پارلیمنٹ نے شہباز شریف کو ملک کا وزیرِاعظم منتخب کیا تھا۔ تجزیہ کار مشرف زیدی کہتے ہیں کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وزیراعظم بن جانے اور ان کے ’وژن 2030‘ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کی مالی مدد فراہم کرنے کے لیے ایک نیا طریقہ کار طے کر دیا ہے۔ واضح رہے دہائیوں سے سعودی عرب کی معیشت کا انحصار تیل سے پیدا ہونے والی آمدنی پر رہا ہے لیکن اب شہزادہ محمد بن سلمان ’وژن 2030‘ کے ذریعے اس سے چھُٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/cjkdkxj4em1t", "summary": "پاکستان کے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ شہباز شریف وفد کے ہمرا سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔", "title": "وزیراعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد سے ملاقات", "firstPublished": "", "id": "cjkdkxj4em1t", "article": "پاکستان کے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ شہباز شریف وفد کے ہمرا سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے محمد بن سلمان کی خصوصی دعوت پر افطار ڈنر میں شرکت کی۔ افطار کے بعد دو طرفہ پر بات ہوئی۔ وفد کے ہمرا ملاقات کے علاوہ وزیراعظم اور سعودی ولی عہد کے درمیان ون آن ون ملاقات بھی ہوئی۔ وزیراعظم نے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی صحت کے لیے دعا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا گذشتہ ماہ بشام کے علاقے میں ایک خودکش حملے میں چینی انجینیئرز سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے جس پر وزیر اعظم شہباز شریف نے چینی حکام کو تحقیقات اور واقعے میں ملوث افراد کو سزائیں دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ تاہم عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ’حکومت گرانے کے باوجود دو مرتبہ جنرل باجوہ سے ملاقات کر سکتا ہوں تو کسی سے بھی ملاقات کر سکتا ہوں کیونکہ اس وقت میری ذات کا مسئلہ نہیں پاکستان کا ایشو ہے، مجھے قائل کر لیں۔‘ بیرسٹر گوہر نے راولپنڈی میں\nاڈیالہ جیل کے باہر بانی تحریکِ انصاف کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے\nبات کرتے ہوئے کہا کہ ’بانی پی ٹی آئی نے آج عدت کیس کی سماعت کے بعد میڈیا سے بات\nکرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ’جو میرے خلاف سیاسی بنیادوں پر کیس بنائے\nگئے وہ بے بُنیاد ہیں، جو ہمارے خلاف وعدہ معاف گواہ بنے اُن پر اور چیئرمین نیب\nپر ہم مقدمات درج کروائے جائیں گے اُن کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے۔‘ انڈیا میں ایک انٹرویو کے دوران وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ سے\nجب یہ سوال کیا گیا کہ انڈیا پر دی گارڈین کی ایک رپورٹ میں یہ الزام لگایا گیا ہے\nکہ انڈیا کے خفیہ ادارے ’را‘ نے 20 پاکستانی شہریوں کو، 20 دہشت گردوں کو پاکستان\nمیں گھس کر مارا ہے تو اس کا جواب دیتے ہوئے راج ناتھ سنگھ نے اس بات کی تصدیق یا\nتردید تو نہیں کی مگر یہ ضرور کہا کہ ’کوئی بھی دہشت گرد ہمارے پڑوسی مُلک سے انڈیا\nکے امن و امان کو خراب کرنے کی کوشش کرے گا تو اُس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا،\nیعنی اگر کوئی دہشت گرد یہاں کارروائی کے بعد بھاگ کر پاکستان جائے گا تو پاکستان\nمیں گھس کر اُسے ماریں گے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1rxv183g07o", "summary": " حالیہ دنوں میں سونے کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ سونے کی قیمت میں معمولی کمی دیکھی گئی ہو۔", "title": "سونے کی قیمت میں مسلسل اضافہ: کیا متوسط طبقے کو اس میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے؟", "firstPublished": "2024-04-05T11:13:59.901Z", "id": "c1rxv183g07o", "article": "لیکن حالیہ دنوں میں سونے کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ سونے کی قیمت میں معمولی کمی دیکھی گئی ہو۔ شانتا کمار کہتے ہیں کہ ’امریکہ میں بے روزگاری کا انڈیکس بہت نیچے چلا گیا۔ رئیل اسٹیٹ کا شعبہ بھی گر رہا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں بھی ترقی کی رفتار نظر نہیں آ رہی۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ اس سب کا اثر معیشت پر پڑ رہا ہے اور اس کا اثر سونے کی قیمتوں پر بھی پڑ رہا ہے۔‘ ’جب آپ بینک میں رقم جمع کرتے ہیں تو منافع کی شرح کم ہوتی ہے۔ اس لیے بہت سے لوگ سونے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں کیونکہ یہ زیادہ محفوظ ہے۔ اس کی وجہ سے سونے کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ مارکیٹ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔‘ پاکستان میں اس وقت سونے کی قیمت بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور ایسے حالات میں متوسط طبقے کی سونے میں سرمایہ کاری سے متلعق ماہرین کہتے ہیں کہ لوگوں کو اس میں سوچ سمجھ کر سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاہم وہ کہتے ہیں کہ سونے کی قیمت میں عالمی حالات کی وجہ سے مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ ستیش کمار کا کہنا ہے کہ ’جنوری میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں افراط زر کی شرح 3.1 فیصد ہے جو امریکی فیڈرل ریزرو کے 2 فیصد کے ہدف سے بہت زیادہ ہے۔ یہ بھی سونے کی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔‘ اس بارے میں احسن الیاس نے کہا کہ اس وقت سونے کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے اور مڈل کلاس کی ایک سوچ ہوتی ہے کہ جب سونے کی قیمت بڑھتی ہے تو اس وقت سونے کی خریداری کرتی ہے اور جب سونے کی قیمت گرتی ہے تو اسے جلدی میں فروخت کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ مائنڈ سیٹ صحیح نہیں بلکہ مناسب یہی ہے کہ جب سونے کی قیمت میں کمی ہو تو اس وقت اس میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔‘ اگر ہم گذشتہ 20 سال پر نظر ڈالیں تو سونے کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بازار میں سونے کی مانگ میں اضافہ ہوا۔ ستیش کمار کا کہنا ہے کہ ’فیڈرل ریزرو کے سود کی شرح سے متعلق فیصلے کا جون میں انتظار ہے۔ یہ امریکہ میں انتخابات کا وقت ہے۔ امریکی انتخابات کے نتائج پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والی جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں کا اثر ہو گا۔ سونے کی قیمت پر اثر پڑتا ہے۔ اگر مہنگائی بڑھی تو سونے کی قیمت مزید بڑھے گی۔‘ بین الاقوامی مالیاتی فرم جے پی مورگن کے اندازوں کے مطابق سونے کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ سنہ 2025 تک سونے کی قیمت میں اضافہ جاری رہے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjrjjzvgyjgo", "summary": "پچھلی دہائی میں سو ارب ڈالرز کلب کے اراکین کی دولت میں 255 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو کہ اوسط ارب پتی کی دولت سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ ان کی زیادہ تر دولت مالیاتی منڈیوں میں لگائی جاتی ہے جس سے ان کے اثاثے مسلسل بڑھتے اور گرتے رہتے ہیں۔", "title": "دنیا کے 14 امیر ترین افراد کون ہیں اور ان کی دولت میں مسلسل اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟", "firstPublished": "2024-04-03T08:48:56.286Z", "id": "cjrjjzvgyjgo", "article": "گذشتہ برس فوربز کی امیر ترین افراد کی فہرست میں صرف چھ افراد شامل تھے جن کے پاس انفرادی طور پر 100 ارب ڈالرز سے زیادہ مالیت کے اثاثے اور دولت تھی۔ گذشتہ برس میکسیکو سے تعلق رکھنے والے لاطینی امریکہ کے امیر ترین شخص کارلوس سلم اس امیر ترین افراد کے 100 ارب ڈالرز میں شامل نہیں ہو سکے تھے کیونکہ اس وقت ان کی دولت کی کل مالیت 93000 ملین ڈالر تھی۔ تاہم اس سال وہ اس کلب میں شامل ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ 100 ارب ڈالرز کی دولت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دولت دنیا کے بہت سے ممالک کی مجموعی قومی پیداوار ( جی ڈی پی) کے حجم سے زیادہ ہے (یعنی ان تمام اشیا اور خدمات کے مجموعہ سے زیادہ مالیت جو ایک قوم پیدا کرتی ہے۔) فرانس سے تعلق رکھنے والے برنارڈ آرنالٹ مسلسل دوسرے سال دنیا کے امیر ترین شخص ہیں۔ سنہ 2023 کے دوران ان کی دولت میں دس فیصد اضافہ ہوا اور اس کی وجہ ان کے لگثرری برانڈ لوئی ویٹون، کرسچیئن ڈائر، اور سیفورا کے لیے ایک شاندار سال ہونا ہے۔ وہ دنیا کے ان لگثرری برانڈز کے مالک ہیں۔ گذشتہ برس ان کی ٹیکنالوجی کمپنی ’اوریکل‘ کے حصص میں 30 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا، جس سے ان کی مجموعی دولت میں اضافہ دیکھنے میں آیا، اگرچہ وہ کمپنی کے سی ای او کے عہدے سے سبکدوش ہو گئے ہیں لیکن ایلیسن اب بھی کمپنی کے صدر، چیف ٹیکنالوجی آفیسر اور اس کے سب سے بڑے شیئر ہولڈر ہیں۔ انڈیا سے تعلق رکھنے والے کاروبار شخص مکیش امبانی کے کاروباری گروپ ریلائنس انڈسٹریز کے حصص کی قدر میں واضح اضافہ سے ان کی دولت میں رواں برس اضافہ ہوا ہے۔ ان کی کمپنی پیٹرو کیمکلز، تیل و گیس، ٹیلی کمیونیکشن، رٹیل اور فنانشل سروس فراہم کرتی ہے۔ ان کی دولت میں پچھلے سال اضافہ ہوا جس کی وجہ ان کی کپڑوں کی کمپنی انڈیٹیکس کے حصص میں 43 فیصد اضافہ ہونا ہے۔ یہ کمپنی زارا برانڈ کی چین کا انتظام سنبھالتی ہے۔ اس کے رئیل سٹیٹ پورٹ فولیو میں بنیادی طور پر یورپ اور امریکہ میں لاجسٹکس، رہائشی اور دفتری جائیدادیں شامل ہیں۔ یہ کبھی دنیا کے امیر ترین شخص تھے اور اب بھی لاطینی امریکہ کے امیر ترین شخص ہیں۔ میکسیکو کی کرنسی کی قدر میں اضافے اور ان کے صنعتی گروپ گروپو کارسو کے حصص کی قدر میں 60 فیصد اضافے کی بدولت پچھلے سال ان کی دولت میں اضافہ ہوا ہے۔ پچھلی دہائی میں سو ارب ڈالرز کلب کے اراکین کی دولت میں 255 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو کہ اوسط ارب پتی کی دولت سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ ان کی زیادہ تر دولت مالیاتی منڈیوں میں لگائی جاتی ہے جس سے ان کے اثاثے مسلسل بڑھتے اور گرتے رہتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/ce7xx6g6j8yt", "summary": "سپریم کورٹ کے مزید پانچ ججز کو دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سکیورٹی حکام نے یہ خطوط کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے حوالے کر دیے ہیں۔\nدوسری طرف بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بغیر اجازت ریلی نکالنے پر تحریک انصاف کے صوبائی اور مقامی رہنماؤں کے خلاف پولیس نے قومی اداروں اور حکومت کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔", "title": "جسٹس عائشہ ملک سمیت سپریم کورٹ کے مزید پانچ ججز کو مشکوک خطوط موصول", "firstPublished": "", "id": "ce7xx6g6j8yt", "article": "سپریم کورٹ کے مزید پانچ ججز کو دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سکیورٹی حکام نے یہ خطوط کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے حوالے کر دیے ہیں۔\nدوسری طرف بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بغیر اجازت ریلی نکالنے پر تحریک انصاف کے صوبائی اور مقامی رہنماؤں کے خلاف پولیس نے قومی اداروں اور حکومت کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ کے مزید پانچ ججز کو دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سکیورٹی حکام نے یہ خطوط کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے حوالے کر دیے ہیں۔ پولیس اہلکاروں نے بی بی سی کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے ان دس ججز کو ایک ہی روز خطوط پوسٹ کیے گئے تھے جن میں سے کچھ کو تین دن پہلے اور کچھ کو آج موصول ہوئے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈی جی امیگریشن کو رکن قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے رہنما زین قریشی کو پاسپورٹ جاری کرنے کی ہدایات جاری کر دیں جبکہ ان کا نام ای سی ایل اور نو فلائی لسٹ سے نام نکالنے کی درخواست پر وزارت داخلہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 29 اپریل تک جواب طلب کر لیا ہے۔ عدالتی ذرائع کے مطابق جسٹس علی باقر نجفی کو بھی مشکوک خط موصول ہوا۔ اطلاع ملتے ہی کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) حکام اور پولیس لاہور ہائیکورٹ پہنچ گئے اور تحقیقات شروع کر دیں۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججز کو مشکوک خطوط موصول ہونے کے حوالے سے حکام کی تحقیقات ابھی جاری ہے اور یہ تعین کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان خطوط میں موجود مواد کیا واقعی اینتھریکس تھا۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بغیر اجازت ریلی نکالنے پر تحریک انصاف کے صوبائی اور مقامی رہنماؤں کے خلاف پولیس نے قومی اداروں اور حکومت کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔ پولیس کی ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ پی ٹی آئی رہنماؤں نے این او سی کے بغیر ریلی نکالی اور مظاہرہ کیا جس میں قومی اداروں اور حکومت کے خلاف عوام میں نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط والے معاملے پر سپریم کورٹ کے ساتھ میٹنگ کی روشنی میں ہم نے کابینہ کی منظوری کے ساتھ انکوائری کمیشن بنایا اور سابق چیف جسٹس تصدیق جیلانی کی مشاورت اور رضامندی کے ساتھ انکوائری کمیشن کو نوٹیفائے کیا مگر بعد میں جسٹس جیلانی نے معذرت کر لی جس کے بعد سپریم کورٹ نے اس پر سوموٹو لیا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjj55lnz4qeo", "summary": "حکام کا کہنا ہے کہ ڈالی کا عملہ، جو ابھی بھی جہاز پر ہے، کو واپس لانے کا کوئی پروگرام نہیں۔ اس بات کا امکان نہیں کہ عملہ جہاز کی منتقلی سے پہلے اس سے نکل سکے، جو بذات خود ایک انتہائی پیچیدہ اور طویل عمل ہے۔", "title": "سامنے بالٹیمور کا تباہ شدہ پل، جہاز میں ’پریشانی اور خاموشی‘: ڈالی پر سوار 20 انڈین شہریوں کی واپسی کیسے ہو گی؟", "firstPublished": "2024-04-02T15:12:46.348Z", "id": "cjj55lnz4qeo", "article": "تفتیش کار اب یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس حادثے کی وجہ کیا تھی۔ اس کے علاوہ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ کیا عملہ جہاز چھوڑ پائے گا یا نہیں۔ انڈیا نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ عملے کے 21 میں سے 20 افراد کا تعلق انڈیا سے ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جہاز رانی کی عالمی صنعت میں تقریباً تین لاکھ 15 ہزار انڈین ملازمت کر رہے ہیں جو اس شعبے سے وابستہ افراد کا 20 فیصد بنتا ہے۔ بالٹیمور بندرگاہ پر آنے والے بحری جہازوں کے نظام کو دیکھنے والے ’اپوسٹل شپ آف سی‘ نامی پروگرام کے اینڈریو میڈلٹن کا کہنا ہے کہ اس حادثے کے بعد وہ جہاز کے عملے کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر کئی بار بات کر چکے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ڈالی کا عملہ، جو ابھی بھی جہاز پر ہے، کو واپس لانے کا کوئی پروگرام نہیں۔ اس بات کا امکان نہیں کہ عملہ جہاز کی منتقلی سے پہلے اس سے نکل سکے، جو بذات خود ایک انتہائی پیچیدہ اور طویل عمل ہے۔ ویزوں کے ساتھ ساتھ ملاحوں کو جہاز سے اترنے کے لیے پاسز کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انھیں ایسے افراد کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو انھیں جہاز سے ٹرمینل کے گیٹ تک لے جائیں، اگرچہ یہ کام اس علاقے میں جہاز رانی کی صنعت سے وابستہ غیر سرکاری تنظیمیں بھی کر سکتی ہیں۔ بالٹیمور حادثے کے بعد امدادی کارروائی کرنے والی متحدہ کمانڈ نے پیر کے روز بی بی سی کو بتایا تھا کہ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ تحقیقات کب تک چلیں گی اور ’جب تک یہ عمل مکمل نہیں ہو جاتا‘ عملہ جہاز پر ہی موجود رہے گا۔ ’انٹرنیشنل سی فیرئرز ویلفیئر اینڈ اسسٹنس نیٹ ورک‘ میں انٹرنیشنل آپریشنز مینجر کے عہدے پر فائز اور سمندری سفر کے تجربہ کار چراغ بہاری کا ماننا ہے کہ ڈالی کے سارے عملے کو واپس آنے میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔ جوشوا میسک کہتے ہیں کہ ’سب سے خوش وہ جہاز ہوتے ہیں جہاں عملہ ساتھ مل بیٹھتا ہے اور ایک دوسرے کی کمپنی سے لطف و اندوز ہوتا ہے لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔‘ چراغ بہاری کا کہنا ہے کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ اس واقعے اور میڈیا میں اس بات پر بحث کہ اس حادثے کا ذمہ دار کون ہے، کے پس منظر میں عملے کو ذہنی صحت کے حوالے سے مدد کی ضرورت ہو گی۔ ’عملے کے افراد پہلے ہی صدمے میں اور بہت زیادہ تناؤ کا شکار ہیں۔ وہ ایک غیر ملک میں ابھی تک جہاز پر ہیں۔ ہمیں ان کے ساتھ کھڑے ہونے اور انھیں اس بات کا یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ ان کے بارے میں کسی قسم کی رائے قائم نہیں کی جائے گی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/clkmm00eg44o", "summary": "امریکی ڈالر دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کرنسی ہے جسے دنیا میں غیر سرکاری طور پر سونے جیسا مقام حاصل ہے کیوں کہ بین ااقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے مطابق دنیا بھر میں 62 فیصد مالیاتی ذخائر اسی کرنسی میں محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ ", "title": "تھالر سے ڈالر تک: یورپ کے ایک گاؤں میں جنم لینے والا سکہ دنیا کی طاقتور کرنسی کیسے بنا؟", "firstPublished": "2024-04-02T09:41:02.742Z", "id": "clkmm00eg44o", "article": "امریکی ڈالر دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کرنسی ہے جسے غیر سرکاری طور پر سونے جیسا مقام حاصل ہے کیوںکہ بین ااقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے مطابق دنیا بھر میں موجود 62 فیصد مالیاتی ذخائر اسی کرنسی میں محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ دنیا کے تقریبا 31 ممالک میں یا تو امریکی ڈالر سرکاری کرنسی کے طور پر رائج ہے یا پھر ان ممالک میں سرکاری کرنسی کا نام بھی ڈالر ہے جبکہ دیگر 66 ممالک کی کرنسی کی قدر کا دارومدار امریکی ڈالر سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن دنیا کی سب سے طاقتور کرنسی کا نام ڈالر کیسے پڑا اور یورپ کے ایک دور دراز گاؤں سے اس کا آغاز کیسے ہوا؟ یہ ایک دلچسپ کہانی ہے جو پانچ سو سال قبل آج کے چیکوسلاویکیا نامی ملک سے شروع ہوئی اور جس کا کلائمیکس امریکہ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد ہونے والی ایک خفیہ ملاقات پر ہوا جس نے امریکی کرنسی کو دنیا کی سب سے طاقتور کرنسی بنا دیا۔ جیسن گوڈون نے اپنی کتاب ’آل مائٹی ڈالر اینڈ دی انونشن آف امریکا‘ میں لکھا ہے کہ ان لوگوں کے لیے مقامی آبادی سے لین دین ایک مسئلہ بن گیا۔ تاہم جلد ہی ان کو معلوم ہوا کہ مقامی لوگوں کے لیے ایک سیپ بہت قیمتی ہے جس کے بدلے وہ خوراک اور دیگر ضروریات زندگی جیسا کہ کھالیں ان سے خرید سکتے ہیں۔ یہ سیپ اتنی بیش قیمت ہو گئی کہ میسیچوسٹس کالونی نے 1637 میں اسے باقاعدہ کرنسی کا درجہ دے دیا۔ لین دین کے لیے تمباکو اور مکئی بھی استعمال ہوا کرتے تھے۔ امریکی کانگریس نے طے کیا کہ ایک ڈالر میں 100 سینٹ ہوں گے لیکن مختلف ریاستوں کے درمیان یہ ایک متنازع معاملہ بن گیا کیوں کہ ریاستیں اس بات پر منقسم تھیں کہ وفاقی حکومت کو ریاستی معاملات میں کس حد تک مداخلت کی اجازت ہونی چاہیے۔ یوں کرنسی کے اعلان کے باوجود پہلا سرکاری ٹکسال 1792 میں قائم ہوا۔ لیکن یہ واحد نظریہ نہیں۔ اس علامت کے حوالے سے ایک اور روایت یہ ہے کہ سب سے پہلے جب تھالر سکہ کا اجرا ہوا تو اس پر ایک مسیحی کراس پر بل کھاتا سانپ نظر آتا تھا جو ایک مذہبی کہانی کی جانب اشارہ تھا اور امریکی ڈالر کی علامت بھی اسی سکے سے اخذ کی گئی۔ یورپی ممالک جنگ کے نیتجے میں تباہ حال تھے جب کہ امریکہ کے پاس دنیا میں سونے کے سب سے بڑے ذخائر تھے۔ اس کانفرنس کے بعد طے ہوا کہ امریکی ڈالر بین الاقوامی تجارت کے لیے استعمال کیا جائے گا اور اسی ملاقات میں بنائے جانے والے ادارے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک، جنگ کے بعد معاشی مشکل کا سامنا کرتے ممالک کو امریکی ڈالر میں ہی قرض دیں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cqqww376zneo", "summary": "بنگلہ دیش میں انڈیا آؤٹ کی مہم کچھ انفلوئنسروں، سماجی کارکنوں اور اثرورسوخ رکھنے والی شخصیات کی طرف سے شروع کی گئی ہے جسے عوام اور حزب اختلاف کے سیاستدانوں کے ایک حصے کی حمایت حاصل ہے", "title": "مالدیپ کے بعد بنگلہ دیش میں بھی ’انڈیا آؤٹ‘ کا نعرہ: کیا بنگلہ دیش مالدیپ کے نقش قدم پر چلنے میں کامیاب ہو پائے گا؟", "firstPublished": "2024-04-02T08:20:25.997Z", "id": "cqqww376zneo", "article": "بنگلہ دیش میں یہ مہم کچھ انفلوئنسرز، سماجی کارکنوں اور اثرورسوخ رکھنے والی شخصیات کی طرف سے شروع کی گئی ہے جسے عوام اور حزب اختلاف کے سیاستدانوں کے ایک حصے کی حمایت حاصل ہے۔ اس مہم نے اپوزیشن ’بی این پی‘ کی طرف سے بائیکاٹ کیے جانے والے انتخابات میں عوامی لیگ کی حالیہ کامیابی کے بعد زور پکڑا ہے۔ اگرچہ بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی جماعت ’بی این پی‘ کے کچھ سرکردہ رہنماؤں جیسا کہ مسٹر رضوی نے اس مہم کی حمایت کا اظہار کیا ہے تاہم پارٹی نے ابھی تک اس پر باضابطہ اپنا موقف واضح طور پر بیان نہیں کیا ہے۔ انھوں نے بنگلہ دیش میں جاری مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا: ’ہر پڑوسی انڈیا سے ناراض ہے۔ پاکستان دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے، چین نواز نیپال انڈین غنڈہ گردی سے نفرت کرتا ہے، لنکا کو تملوں اور باسزم کی وجہ سے (انڈیا کے ساتھ) مسائل ہیں، مالدیپ نے ہمیں لات مار کر باہر نکال دیا، بھوٹان چین کی طرف جھک رہا ہے، اور اب بنگلہ دیش میں ’انڈیا آؤٹ‘ تحریک سرگرم ہے۔‘ واشنگٹن میں مقیم بنگلہ دیشی صحافی مشفق الفضل انصاری نے اس بابت امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھو میلر سے ایک سوال پوچھا۔ مشفق انصاری نے پوچھا کہ ’بنگلہ دیش میں ’انڈیا آوٹ‘ کی مہم زور پکڑتی جا رہی ہے۔ لوگ انڈین مصنوعات کا بڑے پیمانے پر بائیکاٹ کر رہے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ انڈیا پس پردہ شیخ حسینہ کو اقتدار میں برقرار رکھنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ آپ ان حالات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟‘ پروفیسر سنجے بھاردواج نے کہا کہ ’جہاں تک بنگلہ دیش کا سوال ہے تو یہ تین طرف سے زمین سے انڈیا سے گھرا ہے جبکہ چوتھی طرف خلیج بنگال ہے۔ دونوں ممالک کی مشترکہ روایت رہی ہے اور دونوں طرف بنگالی بولنے والی برادریاں رہتی ہیں جس میں ہندو مسلم دونوں شامل ہیں۔ ان کے درمیان شادی بیاہ کے رشتے ہیں اور مشترک تہذیبی اقدار ہیں۔ ان کا ایک دوسرے پر بہت زیادہ انحصار ہے۔‘ مسٹر بھاردواج کے مطابق اگرچہ بنگلہ دیش تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں شامل ہے اور وہاں چین اور جاپان کے اشتراک میں انفراسٹرکچر کے ترقیاتی منصوبے اور کام ہو رہے ہیں لیکن ان کے لیے پتھر سے لے کر بجری تک سب انڈیا سے جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آج کے دور میں جب معیشت بازار پر مبنی ہے تو ’بائیکاٹ‘ گھسی پٹی چیز ہو گئی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg4vp7rq82o", "summary": "پاکستان میں دکانداروں اور چھوٹے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور ان سے ٹیکس وصول کرنے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ’تاجر دوست‘ نامی سکیم متعارف کروائی ہے۔ ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ تاجر دوست سکیم ہے کیا ہے اور یہ ماضی کی سکیموں سے کیسے مختلف ہے؟", "title": "’تاجر دوست‘: حکومت کی دکانداروں اور چھوٹے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی سکیم کیا ہے اور کیا یہ کامیاب ہو پائے گی؟", "firstPublished": "2024-04-02T06:13:55.314Z", "id": "crg4vp7rq82o", "article": "پاکستان میں دکانداروں اور چھوٹے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور اُن سے ٹیکس وصول کرنے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ’تاجر دوست سکیم‘ متعارف کروائی ہے۔ تاہم ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا کہ حکومت ریٹیل یا ہول سیل کے شعبے سے ٹیکس وصول کرنے کا سوچ رہی ہو۔ چاہے 2006 میں فوجی آمر پرویز مشرف کے دور حکومت میں لائی گئی اسی نوعیت کی سکیم ہو یا سنہ 2015 اور سنہ 2019 میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوششیں۔۔۔ مگر ان سب کوششوں میں ایک قدر مشترک رہی یعنی یہ سب کوششیں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکیں۔ ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی ’تاجر دوست سکیم‘ کیا ہے اور یہ ماضی کی اس نوعیت کی سکیموں سے کیسے مختلف ہے؟ آفاق قریشی کے مطابق ملک میں 30 سے 35 لاکھ ایسے ریٹیلرز ہیں جو ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں اور اس سکیم کا بنیادی مقصد ان تاجروں اور دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے۔ دوسری جانب راولپنڈی کے چیمبر آف سمال ٹریڈرڈ کے سینیئر نائب صدر نعیم اشرف کا کہنا ہے کہ یہ ماضی کی پالیسیوں سے اس طرح ملتی جلتی ہے کہ اس کو لاگو کرنے سے پہلے تاجروں اور متعلقہ لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس ردعمل کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ذیشان مرچنٹ نے کہا کہ یہ سکیم نہایت ہی پیچیدہ ہے۔ ’اگر مجھ جیسے ٹیکس ماہر کو یہ سکیم سمجھنے کے لیے مشکل پیش آئی تو عام تاجر کو یہ سکیم کیسے سمجھ میں آئے گی؟‘ سابق وزیر برائے اصلاحات اور ٹیکس امور کے ماہر اشفاق تولہ بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ یہ سکیم عام تاجر کے لیے سمجھنا مشکل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پالیسیاں ڈرائنگ روم میں بن جاتی ہیں اور یہ کاغذ پر لکھی ہوتی ہیں، جب آئی ایم ایف کی جانب سے سوالات کیے جاتے ہیں تو یہ پالیسی نکال کر لاگو کر دی جاتی ہے۔‘ اشفاق تولہ نے دعویٰ کیا کہ اُن کے دور میں ایک ایسی پالیسی پر کام ہو رہا تھا جس پر ’تاجر بھی مان گئے تھے‘ اور اس کے تحت تاجر جب خریداری کرتا ہے اس موقع پر انکم ٹیکس کی مد میں ان سے ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ لین دین ریکارڈ پر ہوتی ہیں۔ لیکن ایف بی آر کا اس متعلق موقف یہ ہے کہ ٹیکس کی رقم وصول کرنے سے زیادہ ادارے کی ترجیح ہے کہ ان تاجروں اور دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے اور یہ ممکن نہیں اگر فکسڈ ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/live/c3gk0rjjl2kt", "summary": "چیف جسٹس عامر فاروق سمیت اسلام آباد ہائیکورٹ کے آٹھ ججز کو مشکوک خطوط موصول ہونے کے معاملہ پر تھانہ سی ٹی ڈی میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ ادھر حکمران اتحاد کے حمایت یافتہ امیدواروں نے سینیٹ انتخابات میں 19 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے اپوزیشن ارکان کی حلف برداری سے متعلق تنازع کے باعث سینیٹ انتخابات کے لیے ووٹنگ ملتوی کر دی گئی۔", "title": "ججز کو مشکوک پاؤڈر اور دھمکی آمیز نشانات والے خطوط کی ایف آئی آر درج، حکمران اتحاد کے حمایت یافتہ امیدوار سینیٹ کی 19 نشستوں پر کامیاب", "firstPublished": "", "id": "c3gk0rjjl2kt", "article": "چیف جسٹس عامر فاروق سمیت اسلام آباد ہائیکورٹ کے آٹھ ججز کو مشکوک خطوط موصول ہونے کے معاملہ پر تھانہ سی ٹی ڈی میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ ادھر حکمران اتحاد کے حمایت یافتہ امیدواروں نے سینیٹ انتخابات میں 19 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے اپوزیشن ارکان کی حلف برداری سے متعلق تنازع کے باعث سینیٹ انتخابات کے لیے ووٹنگ ملتوی کر دی گئی۔ خیال رہے کہ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ میں جمع کروائی جانے والی درخواست میں الیکشن کمیشن اور حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کو فریق بنایا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کے پی میں سینیٹ انتخابات کے انعقاد کو مخصوص نشستوں پر ارکان کے حلف سے مشروط کیا جا چکا تھا۔ چیف جسٹس\nعامر فاروق سمیت اسلام آباد ہائیکورٹ کے آٹھ ججز کو مشکوک خطوط موصول ہونے کے معاملے پر تھانہ سی ٹی ڈی میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ\nمنگل کے روز اسلام\nآباد ہائیکورٹ کے عدالتی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ’چیف جسٹس عامر فاروق\nسمیت 8 ججز کو مشکوک خطوط موصول ہوئے۔‘ منگل کے روز حکمران اتحاد نے\nسینیٹ کی 19 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ خیبر پختونخوا میں مخصوص نشستوں پر\nمنتخب ہونے والے اپوزیشن ارکان کی حلف برداری سے متعلق تنازع پر انتخابات ملتوی\nکردیے گئے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات ملتوی کر دیے ہیں جبکہ دوسری جانب وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ وہ صوبے میں مخصوص نشستوں پر اپوزیشن اراکین کو حلف نہیں لینے دیں گے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ انتخابات کے\nلیے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کر دی ہے، پنجاب کی سات جنرل نشستوں اور\nبلوچستان کی سات جنرل اور دو خواتین نشستوں پر امیدوار بلامقابلہ سینیٹر منتخب\nہوگئے جن میں سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، سابق نگراں وزیر اعلی پنجاب محسن\nنقوی، پرویز رشید، احد چیمہ، طلال چوہدری، ناصر بٹ اور سنی اتحاد کونسل کے حامد\nخان اور علامہ راجہ ناصرعباس شامل ہیں۔ مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن\nکمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ ’ریکارڈ کے مطابق سنی اتحاد کونسل کی جانب سے\nخواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے فہرست جمع نہیں کروائی گئی تھی اور سنی\nاتحاد کونسل نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی جماعت میں شمولیت کے\nبعد الیکشن کمیشن کو چار خط لکھے تھے، جس میں یہ نشستیں دینے کے لیے درخواست دی\nگئی تھی۔ پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت کے معاملے\nپر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط پر ازخود نوٹس لیا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cmmqp6ve58jo", "summary": "چین کی سمارٹ فون کمپنی شیاؤمی نے اپنی پہلی الیکٹرک گاڑی متعارف کروا دی ہے اور وہ جلد ہی مزید گاڑیاں بنانے کے آرڈر لینا شروع کر دے گی۔ ", "title": "شیاؤمی الیکٹرک کار: 24 گھنٹے میں 89 ہزار آرڈر، خریداروں کے لیے چھ مہینے کا انتظار", "firstPublished": "2024-03-29T04:08:35.961Z", "id": "cmmqp6ve58jo", "article": "چین کی سمارٹ فون کمپنی شیاؤمی نے اپنی پہلی الیکٹرک گاڑی متعارف کروا دی ہے اور وہ جلد ہی مزید گاڑیاں بنانے کے آرڈر لینا شروع کر دے گی۔ شیاؤمی کی جانب سے الیکٹرک کار متعارف کروانے کے عمل کو ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا اور ’بی وائے ڈی‘ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ شیاؤمی نے ایک ایسے وقت میں الیکٹرک کار متعارف کروائی ہے جب دُنیا بھر میں ان گاڑیوں میں لوگوں کی دلچسپی میں کمی دیکھنے میں آئی ہے اور ان گاڑیوں کی قیمتوں پر بھی کمپنیوں کے درمیان ایک رسہ کشی کی صورتحال بن چکی ہے۔ شیاؤمی کو امید ہے کہ ’ایس یو 7‘ کا فون اور لیپ ٹاپ سے منسلک آپریٹنگ سسٹم اور اس میں نصب دیگر ڈیوائسز صارفین کی ای ویز میں دلچسپی بڑھا دے گی۔ ریسرچ کمپنی ’کاؤنٹر پوائنٹ‘ کے مطابق شیاؤمی سمارٹ فون بنانے والی دُنیا کی تیسری بڑی کمپنی ہے جس کا مارکیٹ میں شیئر 12 فیصد ہے۔ ابتدائی طور پر شیاؤمی کی الیکٹرک کاریں چینی حکومت کی ملکیت بائیک گروپ کے بیجنگ میں واقع پلانٹ میں بنائی جائیں گی۔ اس پلانٹ کے پاس سالانہ دو لاکھ گاڑیاں بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ گاڑیوں کی مارکیٹ کا تجزیہ کرنے والی کمپنی ’آٹو موبیلیٹی‘ سے منسلک بِل روسو کا کہنا ہے کہ ’الیکٹرک کار بنا لینا بھی ایک بڑی بات ہے، لیکن مارکیٹ میں اپنی گاڑیوں کی جگہ بنانا شیاؤمی کے لیے زیادہ بڑے اعزاز کی بات ہوگی۔‘ شیاؤمی کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ 10 برسوں میں اپنی گاڑیوں کے کاروبار پر 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے۔ رائسٹڈ انرجی سے منسلک ابھیشیک مُرلی کہتے ہیں کہ ’چین کی الیکٹرک کار مارکیٹ بہت سمجھ دار ہے اور وہاں الیکٹرک کار بنانے والی کمپنیوں کے لیے ماحول بھی سازگار ہے۔‘ چین میں اس وقت الیکٹرک کاروں کی قیمتوں پر بھی کمپنیوں کے درمیان ایک سرد جنگ جاری ہے۔ ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا نے حال ہی میں اپنی گاڑیوں کی قیمت میں ہزاروں ڈالر کی کمی کی ہے جبکہ مقامی کمپنی بی وائے ڈی بھی اپنی گاڑیوں کی قیمتیں گرا رہی ہے۔ دُنیا میں کاروں کی مارکیٹ میں پہلے سے ہی بہت ساری کمپنیوں کے درمیان مقابلہ جاری ہے اور ایسے میں شیاؤمی کو بھی اس مارکیٹ میں کام کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ شنگھائی میں واقع الیکٹرک کار بنانے والی کمپنی ’نیو‘ نے بدھ کو اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ وہ اگلے تین مہینوں میں اپنی نئی کاروں کی تعداد میں کمی کریں گے۔ دوسری جانب ٹیسلا کی جانب سے بھی چند ہفتوں میں 2024 کے ابتدائی تین مہینوں کی کارکردگی رپورٹ جاری کی جائے گی۔ حال ہی میں یورپین یونین نے تحقیقات کا آغاز کیا ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ چین کی حکومت سے منسلک کمپنیوں نے کاریں بنانے والی یورپی کمپنیوں کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd19pqlge71o", "summary": "کینیڈا کے صوبے اونٹاریو نے غیر ملکی طلبہ سے متعلق نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ یہ پالیسی کینیڈا کے اس سال کے آغاز میں اعلان کردہ پالیسی سے آزاد ہے۔ نئی پالیسی کے تحت فیڈرل پول سے آنے والے 96 فیصد غیر ملکی طلبہ سرکاری امداد یافتہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکیں گے۔ \n", "title": "کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کی غیر ملکی طلبہ کے لیے نئی پالیسی: ’ان شعبوں کو ترجیح ملے گی جن کی مانگ زیادہ ہے‘", "firstPublished": "2024-03-30T03:29:09.408Z", "id": "cd19pqlge71o", "article": "کینیڈا کے صوبے اونٹاریو نے غیر ملکی طلبہ سے متعلق نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ یہ پالیسی کینیڈا کے اس سال کے آغاز میں اعلان کردہ پالیسی سے آزاد ہے۔ نئی پالیسی کے تحت فیڈرل پول سے آنے والے 96 فیصد غیر ملکی طلبہ سرکاری امداد یافتہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکیں گے۔ صوبائی حکومت نے یہ فیصلہ وفاقی حکومت کی جانب سے ہر صوبے میں غیر ملکی طلبہ کی تعداد کو محدود کرنے کی پالیسی کے اعلان کے ردعمل کے طور پر کیا ہے۔ غیر ملکی طلبہ کی تعداد کو محدود کرنے کا فیصلہ وفاقی حکومت نے اس سال کے آغاز میں کیا تھا۔ اس پالیسی سے یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اونٹاریو اس نئی پالیسی سے تقریباً 50 فیصد بین الاقوامی طلبہ سے محروم ہو جائے گا۔ زیادہ تر غیر ملکی طلبہ کو اونٹاریو سے تصدیق کا خط لینا ہوگا اور اسے وفاقی حکومت کی شرط کے مطابق اپنے ’سٹڈی پرمٹ‘ کے ساتھ دینا ہوگا۔ حکومت چاہتی ہے کہ بارہویں جماعت کے بعد کینیڈا آنے والے غیر ملکی طلبہ کو اونٹاریو میں رہنے اور تعلیم حاصل کرنے کا اچھا تجربہ ہو۔ اس کے لیے تمام سرکاری امداد یافتہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ان کے پاس آنے والے تمام بین الاقوامی طلبہ کے لیے رہائش کے اختیارات موجود ہوں۔ اگر یہ قانون منظور ہو جاتا ہے تو اس سے طلبہ کی ذہنی صحت میں مدد ملے گی اور انھیں کیمپس کا زیادہ سازگار ماحول ملے گا۔ اس سے فیسوں میں شفافیت بڑھے گی۔ یہ قانون تمام بین الاقوامی طلبہ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ کونسل نے اس سے قبل عام پروگراموں میں ٹیوشن فیس میں پانچ فیصد اضافے اور یونیورسٹیوں کے مالی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے گرانٹس میں 10 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا تھا۔ جنوری میں کینیڈین حکومت نے کہا کہ وہ ایک مقررہ حد لگا کر غیر ملکی طلبہ کو جاری کیے جانے والے مطالعاتی اجازت ناموں کی تعداد کو دو سال تک کم کرنے جا رہی ہے۔ اس حد کے تعین کے بعد ایک سال میں کینیڈا آنے والے غیر ملکی طلبہ کی تعداد میں 35 فیصد کمی واقع ہو جائے گی۔ حکومت کی جانب سے ایک اور بڑی تبدیلی کر دی گئی ہے۔ اب ستمبر سے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلنے والے کالجوں سے فارغ التحصیل طلبہ کو ’ورک پرمٹ‘ نہیں دیا جائے گا۔ اونٹاریو میں ایسے کالج عام ہیں۔ نئی پالیسی کے تحت اس حد کو ان ریاستوں میں اور بھی کم رکھا گیا ہے جہاں ماضی میں بین الاقوامی طلبہ کی تعداد پہلے ہی زیادہ ہو چکی ہے۔ یہ آر جی اقدامات اگلے دو سالوں تک لاگو ہوں گے۔ تاہم سنہ 2025 میں قبول شدہ ’سٹڈی پرمٹ‘ کی درخواستوں کی تعداد کا فیصلہ اس سال کے آخر میں کیا جائے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2xv20vklggo", "summary": "کازی منٹن ایک خود ساختہ ’کمپیر‘ ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ زیادہ سے زیادہ انعامات جیتنے کے لیے مقابلوں میں حصہ لینا ان کی عات ثانیہ کا حصہ ہے۔ کازی ان مقابلوں کے بارے میں کیا کہتی ہیں اور وہ اپنی عملی زندگی میں کیا کچھ کر رہی ہیں؟", "title": "ایک دن میں 50 مقابلوں سے 80 ہزار پاؤنڈ مالیت کے انعامات جیتنے والا جوڑا: ’مفت کی مشقت کے بجائے تخلیقی مقابلوں پر توجہ دیتی ہوں‘", "firstPublished": "2024-03-29T21:00:38.688Z", "id": "c2xv20vklggo", "article": "برطانیہ میں رہائش پذیر ایک جوڑے کا کہنا ہے کہ ایک دن میں 50 مقابلوں میں حصہ لے کر جہاں انھوں نے پرتعیش مقامات کی سیاحت اپنے نام کی ہے وہیں انھوں نے تقریباً 80,000 پاؤنڈ مالیت کے انعامات بھی جیتے ہیں۔ پیمبروک شائر میں ’فریش واٹر ایسٹ‘ سے تعلق رکھنے والی 63 برس کی کازی منٹن نے کہا کہ ’میری خریداری کی فہرست وہ چیزیں ہیں جو ان مقابلوں کا حصہ ہوتی ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک مشغلہ ہے۔ میں دن میں دو گھنٹے ان مقابلوں پر صرف کرتی ہوں، اور پھر میں اپنی معمول کی زندگی جیتی ہوں۔‘ کازی منٹن ایک خود ساختہ ’کمپیر‘ ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ زیادہ سے زیادہ انعامات جیتنے کے لیے مقابلوں میں حصہ لینا ان کی عات ثانیہ کا حصہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی کامیابی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ آن لائن مفت مقابلوں میں حصہ لینے سے گریز کرتی ہیں، جن میں بہت سے کھلاڑی حصہ لے رہے ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسے مفت مقابلوں کے بجائے وہ زیادہ تخلیقی مقابلوں پر اپنی نظریں گاڑے رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ایسے مقابلوں کو بہت جدوجہد والے مقابلے کہا جاتا ہے، جن میں حصہ لینے کے بعد آپ کو حقیقت میں کچھ کرنا ہوتا ہے، کوئی ویڈیو یا تصویر کھینچنی ہوتی ہے، خریداری کے لیے جانا ہوتا ہے اور ان سب کاموں کے لیے کچھ زیادہ عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔‘ اس جوڑے کی حالیہ مقابلوں میں سے ایک جیت اس وقت ہوئی جب کازی منٹن نے ’کنفیکشنری‘ (مٹھائیاں، ٹافیا وغیرہ) بنانے والی کمپنی ’سوئزلز‘ کی طرف سے منعقدہ ایک مقابلے کے بارے میں پتا چلا، جس میں آنے والوں سے کہا گیا کہ وہ یہ بتائیں کہ وہ اس کمپنی کے کتنے مداح ہیں۔ آن لائن کیمپر کمیونٹی تک رسائی اور پھر ان مقابلوں کی تحقیق کے بارے میں کازی کہتی ہیں کہ میں نے ابھی سوچا کہ ’یہ واقعی آسان ہے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم ایک ساتھ کوالی شاپنگ کرنے گئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح ’کوالی‘ ایک پروموشنل پروڈکٹ ہے جسے مقابلوں میں شریک ہونے کے لیے آپ کو خریدنا پڑتا ہے۔ وہ اور لی تین کاروبار چلاتے ہیں، بشمول اس کا ٹیٹو پارلر اور پیمبروک شائر میں ان کی سلائی کی دکان۔ وہ ایک آزاد سماجی کارکن کے طور پر بھی کام کرتی ہیں اور وہ پی ایچ ڈی بھی کر رہی ہے۔ کازی کا کہنا ہے کہ ان کاصبح ساڑھے چھ بجے سے ​​ساڑھے آٹھ بجے تک کا وقت صرف مقابلوں کے لیے وقف ہے۔ ان کے مطابق ’ہمارے گروپ میں ہر کوئی اپنی مرضی سے اور مکمل خوشی کے ساتھ مقابلوں کی تفصیلات شیئر کرتا ہے اور پھر جیتنے والوں کی خوشی میں شریک ہو جاتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pex523we7o", "summary": "پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے نے 1987 سے لے کر آج تک ’صرف ایک سال منافع کمایا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی حکومت اس ادارے کو بہتر نہیں کر سکی۔‘", "title": "پی آئی اے: خسارے میں ڈوبی پاکستان کی قومی ایئرلائن کو ٹھیک کرنے کے بجائے فروخت کیوں کیا جا رہا ہے؟", "firstPublished": "2024-03-29T03:25:54.769Z", "id": "c6pex523we7o", "article": "نجکاری امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی شہباز رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ وفاقی حکومت پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کے قیام کی پہلے ہی منظوری دے چکی ہے، جس کے حوالے سے پی آئی اے کے ذمے 600 سے 625 ارب کا قرضہ کیا جائے گا جو اس کے بعد وفاقی حکومت کی ذمہ داری بن جائے گا۔ انھوں نے بتایا کہ جب وہ پاکستان مسلم لیگ ن کے تیسرے دورِ حکومت میں چیئرمین نجکاری کمیشن بنے تو اس کے بعد پی آئی اے کی نجکاری کے لیے تمام پروفیشنل مراحل کو طے کر لیا گیا تھا، لیکن سیاسی وجوہات کی بنا پر یہ کام مکمل نہیں ہو سکا۔ انھوں نے مزید کہا کہ پی آئی اے کا مالی خسارہ اتنا زیادہ ہے کہ کوئی بھی پرائیوٹ پارٹی اتنے بڑے خسارے والے ادارے کو لینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ نجکاری کمیشن سے پی آئی اے کے ملازمین اور اس کے اثاثوں کے بارے میں پوچھا گیا تو اس کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اظہارِ دلچسپی کے مرحلے کے بعد یہ معاملہ زیرِ بحث آئے گا جس میں اس بات پر غور کیا جائے گا کہ ان ملازمین کو ایئرلائن کا نیا خریدار کم از کم کتنے عرصے تک ملازمت پر رکھنے کا پابند ہوگا۔ شہباز رانا کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کے بعد ملازمین کو ایک سے تین سال تک ملازمت پر رکھنے کی تجویز زیرِ غور ہے۔ تاہم اس کے بعد انھیں ملازمت سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایئرلائن کے فنانشل ایڈوائزر کی جانب سے ایک سال تک ملازمین کو نوکریوں پر رکھنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ سابقہ نگراں حکومت کی جانب سے اس کی مدت تین سال طے کی گئی تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری سے حکومت کو سرمایہ کاروں کی جانب سے سرمایہ حاصل ہوگا جس کی ملک کو اس وقت اشد ضرورت ہے۔ نجکاری کے بعد پی آئی اے کی متوقع کارکردگی پر بات کرتے ہوئے خرم شہزاد نے کہا کہ جب کوئی نجی کمپنی اس کا آپریشن سنبھالے گی تو یقینی طورپر ایئرلائن کی کارکردگی بھی بہتر ہو گی۔ محمد زبیر نے اس سلسلے میں کہا کہ نجکاری کے پس پردہ دو مقاصد ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ کوئی بھی ادارہ ان لوگوں کے پاس جائے جو اس کے کاروبار کو سمجھتا ہو، کوئی ایئر لائن اگر پی آئی اے کو خریدتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ زیادہ بہتر طریقے سے پی آئی اے کو چلائیں گے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ 1987 سے لے کر آج تک پی آئی اے نے صرف مالی سال 07-2006 میں منافع کمایا، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی حکومت اس ادارے کو بہتر نہیں کر سکی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c80zdyj28w7o", "summary": "گذشتہ چند ہفتوں سے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے یہ عندیہ دیا جا رہا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کے ساتھ ساتھ ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ تو اس بات چیت کا مرکز کیا ہے اور پی ٹی آئی کو اپنے لیے کیا ’ریلیف‘ درکار ہے؟ ", "title": "عمران خان کس سے مذاکرات چاہتے ہیں اور ان کی شرائط کیا ہیں؟", "firstPublished": "2024-05-01T08:45:57.337Z", "id": "c80zdyj28w7o", "article": "گذشتہ چند ہفتوں سے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے یہ عندیہ دیا جا رہا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کے علاوہ ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ جبکہ اس سے قبل پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی نے پاکستان کے مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں کہا تھا کہ وہ صرف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مذاکرات چاہتے ہیں کیونکہ موجودہ حکومت نے ’ہمارا مینڈیٹ چوری کیا ہے اور یہ عوام کے مسترد شدہ لوگ ہیں۔ ان سے کیا مذاکرات ہوں گے؟‘ اگر پی ٹی آئی اور اسٹیبشلمنٹ کے درمیان مذاکرات پر حکومتی بیانات اور ردعمل کو دیکھا جائے تو وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ انھیں پی ٹی آئی کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کا علم نہیں ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے پارلیمنٹ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے رہنما مذاکرات کے معاملے پر تقسیم اور ابہام کا شکار ہیں۔ ’کبھی کوئی بیان آیا ہے تو کبھی کچھ کہا جاتا ہے۔‘ اس تمام سیاسی بیان بازی کے درمیان چند سوالات ابھرے ہیں کہ عمران خان خود کیا چاہتے ہیں؟ کیا پی ٹی آئی مذاکرات کے معاملے پر اندرونی تقسیم کا شکار ہے؟ پی ٹی آئی سیاسی جماعتوں کی بجائے فوج سے کیوں بات کرنا چاہتی ہے؟ اور ماضی کی طرح ایک بات پھر سیاسی نظام کی نفی کرتی پی ٹی آئی نے تقریباً ایک سال میں اپنی اس روش سے کیا سیکھا ہے؟ دریں اثنا مجیب الرحمان شامی کی رائے میں ’عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ ان کے مذاکرات اسٹیبلشمنٹ، آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے ہوں، اور وہ سیاسی رہنماؤں خصوصاً موجودہ حکومت سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتے ہیں، نہ ہی ایسا کوئی عندیہ ان کی جانب سے دیا گیا ہے۔‘ عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ’عمران خان یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ سیاسی قوتوں کے ساتھ بات نہیں کریں گے اور دوسری جانب وہ آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی کا نام لے کر ان پر الزامات لگاتے ہیں اور اس طرح سے وہ ایک ہی وقت میں فوج میں اہم عہدوں پر تنقید کر کے انھیں الگ کرتے ہیں اور اس طرح وہ مقتدر حلقوں پر اپنا دباؤ بڑھاتے ہیں کہ ان کے ساتھ بات چیت کی جائے۔‘ مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جماعت کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسٹیبشلمنٹ کی وجہ سے ہو رہا ہے اور وہ اس کی وجہ سے ہی اقتدار سے محروم ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کی جماعت حالیہ الیکشن بھی اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے ہی ہاری ہے، بے شک وہ اس کا الزام حکراں اتحاد کی جماعتوں پر عائد کرتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/clkedynzwxno", "summary": "اس ویڈیو کے بارے میں سوشل میڈیا پر طرح طرح کی آرا موجود ہیں تاہم ایک بڑا دعوی یہ بھی سامنے آیا کہ یہ ہیلی کاپٹر گندم کو سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ چند افراد نے یہ دعوی بھی کیا کہ یہ فوجی مشق ہے۔ لیکن حقیقت کیا ہے اور اس ویڈیو میں کیا ہو رہا ہے؟", "title": "’گندم خشک کرنے کی کوشش‘ یا جنگی مشق: سوشل میڈیا پر فوجی ہیلی کاپٹروں کی وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟", "firstPublished": "2024-05-01T07:31:23.798Z", "id": "clkedynzwxno", "article": "اس ویڈیو کے بارے میں سوشل میڈیا پر طرح طرح کی آرا موجود ہیں تاہم ایک بڑا دعوی یہ بھی سامنے آیا کہ یہ ہیلی کاپٹر گندم کو سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ چند افراد نے یہ دعوی بھی کیا کہ یہ فوجی مشق ہے۔ لیکن حقیقت کیا ہے اور اس ویڈیو میں کیا ہو رہا ہے؟ یہ تاحال واضح نہیں کہ مذکورہ مناظر کس مقام کے ہیں اور کب عکس بند کیے گئے۔ بی بی سی بھی آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کر پایا کہ یہ مناظر کس مقام کے ہیں اور یہ ویڈیو کس تاریخ کو ریکارڈ کی گئی تاہم ہم نے اس حوالے سے چند حقائق جاننے اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اٹھنے والے سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں بی بی سی نے پاکستان آرمی ایوی ایشن کے ایک سابق افسر اور پائلٹ کے سامنے یہ ویڈیو رکھی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ ہیلی کاپٹر کیا کر رہے ہیں؟ اس ویڈیو کو شیئر کرنے والے صارف نے ساتھ ہی درج عبارت میں لکھا تھا کہ یہ ایک فوجی مشق کے مناظر ہیں۔ تاہم اس تحریر میں بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کس مقام کی اور کس تاریخ کے مناظر ہیں۔ ٹک ٹاک پر سامنے آنے کے بعد اس ویڈیو کو یو ٹیوب پلیٹ فارم پر بھی ایک صارف کی جانب سے شیئر کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ یہ جنگی مشقوں کے مناظر ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ٹک ٹاک پر بی بی سی نے جو ویڈیو دیکھی اس میں چند اور مناظر بھی موجود ہیں جن میں یہ فوجی ہیلی کاپٹر پہلے فضا میں پرواز کرتے ہوئے کھیتوں کے اوپر ایک پوزیشن سنبھالتے ہیں اور ویڈیو کے آخر میں ایک ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر بھی زمین پر کھڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اسی ویڈیو کا صرف ایک منظر، جس میں ہیلی کاپٹر ہوا میں معلق ہیں، ایکس پلیٹ فارم پر اس عبارت کے ساتھ شیئر کیا گیا کہ یہ گندم کو خشک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس ویڈیو میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ہیلی کاپٹرز کے سامنے اونچے درختوں کی ایک لمبی قطار ہے اور مشق کے مطابق یہ فرض کیا گیا ہو گا کہ درختوں کی دوسری جانب فرضی دشمن یا حملے کا ہدف موجود ہے۔‘ اگرچہ ان دعووں کی حمایت میں ایسے کوئی شواہد موجود نہیں کہ زیربحث ویڈیو میں موجود فوجی ہیلی کاپٹروں کو گندم کی فصل کو خشک کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا ایسا کرنے سے واقعی گندم یا کوئی اور فصل جو بارش کی وجہ سے متاثر ہو چکی ہو، خشک کی جا سکتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cld03gq0geko", "summary": "عالمی کاربن اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس لیے موسمیاتی بحران کے لیے پاکستان قصوروار نہیں لیکن یہ موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کا شکار ہو رہا ہے۔ کسی بھی ملک کو اس تکلیف سے نہیں گزرنا چاہیے جو پاکستان کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔", "title": "کیا ’بے وقت اور ضرورت سے زیادہ بارشیں‘ پاکستان کو درپیش موسمیاتی چیلنجز کی عکاس ہیں؟", "firstPublished": "2024-05-01T04:33:24.841Z", "id": "cld03gq0geko", "article": "لیکن بدلتے ہوئے موسم کے چیلنجز سے نمٹنا ایک مسلسل جدوجہد ہے کیونکہ ہر سال ہی پاکستان کو ایک نئے طرح کی موسمیاتی صورتحال کا سامنا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق پاکستان کے کچھ علاقوں میں پچھلے چند ہفتوں میں معمول سے دگنی اور کہیں کہیں تو دگنی سے بھی زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ دنیا بھر سے جتنا کاربن خارج ہو رہا ہے اس میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن پاکستان کا شمار اس کاربن کے اخراج کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ملکوں میں ہوتا ہے۔ یہاں 2022 میں ہونے والے موسمیاتی حادثوں کا جائزہ لیا جائے تو پہلے پاکستان مارچ کے مہینے میں گرمی کی ایک خوفناک لہر کا شکار ہوا۔ اسے دنیا کی تاریخ میں کسی بھی ملک کا گرم ترین مارچ قرار دیا گیا۔ جبکہ مئی کے مہینے میں جیکب آباد کا درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا اور یہ دنیا کا گرم ترین شہر بن گیا۔ عالمی کاربن اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس لیے موسمیاتی بحران کے لیے پاکستان قصوروار نہیں لیکن یہ موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کا شکار ہو رہا ہے۔ کسی بھی ملک کو اس تکلیف سے نہیں گزرنا چاہیے جو پاکستان کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔ اس کانفرنس میں کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تبدیلی سےنمٹنے اور اس سے ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے پاکستان کو نو ارب کی مالی مدد دینے کے وعدے لیے گئے جو ابھی تک بھی مکمل طور پر پورے نہیں ہوسکے اور نہ ہی 2022 میں متاثر ہونے والی کمیونٹیز کی پوری طرح بحالی ہو سکی ہے۔ ایسے میں حالیہ بارشوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی ماہر عائشہ خان کہتی ہیں کہ بے موسمی اور غیر معمولی بارشیں ہی پریشانی کا باعث نہیں بن رہی بلکہ اس سال شمالی علاقوں میں معمول سے کم ہونے والی برفباری سے بھی مقامی آبادیوں میں کافی تشویش ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’لیکن اس سال برف فروری میں پڑنا شروع ہوئی ہے اور اس کی ایک پتلی سی تہہ ہے جو تھوڑی سی گرمی سے ہی پگھل جائے گی اور جب کسانوں کو پانی کی ضرورت ہو گی اس وقت ان کے لیے پانی دستیاب نہیں ہو سکے گا اور ان علاقوں میں اناج کی قلت کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’پورے جنوبی ایشیا اور خاص طور پر پاکستان میں درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس تیزی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے ہمارے موسموں کا نظام درہم برہم ہو رہا ہے۔ چونکہ ہم ایک زرعی ملک ہیں اور پانی کا ہماری زرعی معیشت سے گہرا تعلق ہے تو ان موسمیاتی حادثوں سے نہ صرف جانی اور انفراسٹرکچر کا نقصان ہو رہا ہے بلکہ ان سے سب سے زیادہ ہماری زراعت متاثر ہو رہی ہے۔ اس نقصان کا تخمینہ لگانا آسان نہیں ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cx9wp8zjd81o", "summary": "جون 2016 میں جب عامر خان نے اسلام آباد باکسنگ اکیڈمی کا افتتاح کیا تواس وقت ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس اکیڈمی کو انگلینڈ میں قائم اپنی اکیڈمی کی طرز پر بنایا ہے اور جلد ہی یہ اکیڈمی عالمی چیمپئن تیار کرنا شروع کردے گی۔", "title": "اکیڈمی ’واگزار‘ کروانے پر باکسر عامر خان کا فوج اور حکومت کا شکریہ: مگر ایک باکسنگ اکیڈمی ایف سی اہلکاروں کی قیام گاہ کیسے بنی؟", "firstPublished": "2024-04-30T07:12:48.813Z", "id": "cx9wp8zjd81o", "article": "پیر کے روز پاکستانی نژاد برطانوی باکسر عامر خان نے ایک ویڈیو کے ذریعے اپنا یہ بیان جاری کیا۔ جس میں انھوں نے پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع ایک باکسنگ کی ٹریننگ اکیڈمی کے مناظر بھی دکھائے اور کہا کہ ’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پہلے یہاں کتنا گند تھا، جو اب صاف ہو چکا ہے۔‘ واضح رہے کہ عامر خان نے 2015 میں اسلام آباد میں ایک باکسنگ اکیڈمی کھولنے کے لیے پاکستان سپورٹس بورڈ سے معاہدہ کیا تھا۔ اس اکیڈمی کا افتتاح جون 2016 میں ہوا۔ جب عامر خان نے اسلام آباد باکسنگ اکیڈمی کا افتتاح کیا تو اُس وقت اُن کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس اکیڈمی کو انگلینڈ میں قائم اپنی اکیڈمی کی طرز پر بنایا ہے اور ’جلد ہی یہ اکیڈمی عالمی چیمپئن تیار کرنا شروع کر دے گی۔‘ عامر خان نے اپنی ویب سائٹ پر اس باکسنگ اکیڈمی کی بنیاد رکھنے کی وجہ بتاتے ہوا لکھا تھا کہ ’ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہیں، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اب ان میں سرمایہ کاری کریں۔ میرا مقصد ہر بچے کو اوپر اٹھانا اور ان کی پوری صلاحیت تک پہنچنے میں ان کی مدد کرنا ہے۔ آپ کی مدد سے، ہم مزید بچوں کو سڑکوں سے ہٹا سکتے ہیں اور پرتشدد جرائم جیسے مسائل سے لڑ سکتے ہیں۔‘ ان کے مطابق ’اکیڈمی کا مقصد نوجوانوں کو اپنی توانائیوں کو پیداواری انداز میں استعمال کرنے کے لیے ایک محفوظ جگہ فراہم کرنا ہے، جبکہ ایک ایسا ماحول بھی تیار کرنا ہے جو انھیں صحت مند عادات اور مثبت ذہنیت سے مالا مال متوازن طرز زندگی کی طرف راغب کرے۔‘ اکیڈمی کو ایف سی اہلکاروں سے خالی کروانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان سپورٹس بورڈ کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ ’کافی وقت سے اکیڈمی کو خالی کروانے کے لیے کام کیا جا رہا تھا اور بورڈ کو اس بارے میں بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کی جانب سے ایک خط بھی موصول ہوا تھا۔‘ تاہم اس حوالے سے بات کرتے ہوئے وزارتِ داخلہ کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ ’ایف سی اہلکاروں کو مقامی انتظامیہ کی درخواست پر سفارتخانوں کی حفاظت کے لیے اسلام آباد لایا گیا تھا اور جب کسی فورس کو انتظامیہ کی درخواست پر کہیں لایا جاتا ہے تو اُس کے رہنے اور کھانے پینے کی ذمہ داری مقامی انتظامیہ کی ہوتی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’دوسری جگہوں کے برعکس، عامر خان اکیڈمی کا ماحول بہت اچھا تھا اور وہاں کوئی سیاست نہیں تھی۔ اس لیے وہاں ہر طرح کا بچہ آتا تھا۔‘ عثمان کا کہنا ہے کہ 2019 میں انھوں نے عامر خان کے ساتھ بھی ٹریننگ کی تھی۔ عامر خان اکیڈمی سے تربیت حاصل کرنے والے ایک اور باکسر باکسر ظہور کا کہنا تھا کہ انھوں نے 2018 سے 2022 تک وہاں ٹریننگ حاصل کی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59778778", "summary": "متحدہ قومی موومنٹ سے وابستہ سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کو 25 دسمبر 2018 کی شب کراچی کے علاقے ڈیفینس میں خیابان اتحاد کے قریب واقع اپنے ہی گھر کے باہر قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے قتل کے پیچھے کیا عوامل تھے اور ایسا آخر کس کی ایما پر کیا گیا، تین سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی یہ سوالات جواب کے منتظر ہیں۔", "title": "ایم کیو ایم رہنما جن کے قتل کے لیے آٹھ لاکھ کی سپاری دی گئی", "firstPublished": "2021-12-25T11:43:38.000Z", "id": "de37bd06-2593-4914-89e8-7933c16154b7", "article": "کراچی میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما علی رضا عابدی کے قتل کے مقدمے میں جرم ثابت ہونے پر چار افراد کو عمرقید کی سزا سنائی ہے۔علی رضا عابدی کو ساڑھے پانچ برس قبل کراچی میں ہی ان کی رہائش گاہ کے باہر قتل کر دیا گیا تھا اور 29 اپریل 2024 کو عدالت نے چار مجرمان عبدالحسیب، غزالی، محمد فاروق اور ابوبکر کو عمرقید کی سزا سناتے ہوئے ان پر ایک، ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا جبکہ تین مفرور ملزمان کی گرفتاری تک ان کے خلاف مقدمہ داخل دفتر کر دیا۔ سوات کے بازار میں سردی کے دنوں میں کئی یخنی فروخت کرنے والے موجود ہوتے ہیں۔ ایک ایسے ہی ریڑھی والے سے یخنی پی کر جب میں اپنے ہوٹل کے کمرے میں پہنچا اور ٹی وی آن کیا تو سکرین ان الفاظ کے ساتھ سرخ نظر آئی: ’کراچی میں ایم کیو ایم کے سابق رکن اسمبلی علی رضا عابدی کو گھر کے باہر قتل کردیا گیا۔‘ کراچی کی اس متحرک اور بے باک آواز کے قتل کے پیچھے کیا عوامل تھے اور ایسا کس کی ایما پر کیا گیا، تین سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی یہ سوالات جواب کے منتظر ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ سے وابستہ سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کو 25 دسمبر 2018 کی شب کراچی کے علاقے ڈیفینس میں خیابان اتحاد کے قریب واقع اپنے ہی گھر کے باہر قتل کر دیا گیا تھا۔ ’خواجہ اظہار اور فیصل سبزواری یہ اعتراض کرتے تھے کہ ان کو ضمنی انتخابات کا ٹکٹ نہ دیں کیونکہ ان کا تعلق لندن گروپ سے ہے حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ اگر لندن گروپ سے تعلق ہوتا تو ایم کیو ایم پاکستان کے ٹکٹ پر ایکشن کیوں لڑتا۔ اسے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ الطاف حسین کے نام کے ساتھ جڑنے کا مطلب یعنی آپ کا حشر وہی ہوگا جو اور لوگوں کا ہوا ہے، علی رضا اتنا بے وقوف نہیں تھا کہ ایک ایسے وقت میں الطاف حسین کی حمایت یا اتحاد کرے جب پاکستان میں ان کا نام لینا بھی جرم ہو۔‘ کراچی میں سیاسی رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ گزشتہ تین دہائی سے جاری ہے لیکن کیا علی رضا عابدی کے قتل کے پیچھے بھی سیاسی محرکات تھے؟ ان کے والد اِخلاق عابدی کا کہنا ہے کہ یہ ایسا قتل نہیں کہ کسی نے سوچا اور کر دیا اس کے پیچھے بالکل سیاسی مقاصد موجود ہیں۔ اخلاق عابدی کا کہنا ہے کہ سی ڈی آر کے مطابق ملزمان کی علی رضا عابدی کی فیکٹری، سیون سیز اور گھر کے باہر موجودگی کی تصدیق ہوتی ہے اس کے علاوہ وہ ان کے ہینڈلر کے ساتھ بھی رابطے میں رہے ہیں اور جنھوں نے رضا کو قتل کروایا، ان سے بھی ان کا رابطہ ہے۔ سی ڈی آر میں وہ ٹیلیفون نمبر بھی نظر آرہے ہیں ’جن کے نمبر پہچانے نہیں جاتے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/entertainment-56915060", "summary": "منور ظریف کو دنیا سے گئے لگ بھگ آدھی صدی ہونے کو ہے لیکن ان کا فن اور اس کے تمام رنگ ابھی تک تازہ محسوس ہوتے ہیں۔ مرزا اسد اللہ خان غالب کے کلام کی طرح منورظریف کی اداکاری بھی کبھی آؤٹ ڈیٹڈ نہیں ہوئی۔", "title": "گھر والوں سے چھپ کر فلم سٹوڈیو جانے والے منور ظریف جو مزاحیہ اداکاری کے ’غالب‘ قرار پائے", "firstPublished": "2021-04-29T07:09:24.000Z", "id": "20c47829-70b6-4026-9a51-1589fd4bf1d1", "article": "دونوں اداکارائیں فلم میں ایک دوسرے کی بھابی اور نند یعنی ہیر اور اس کی نند سیتی کا کردار کر رہی تھیں جو کہانی کے مطابق ایک دوسری کی شدید مخالف تھیں لیکن منور ظریف کی بے ساختہ اداکاری نے دونوں کو فلم کے سیٹ پر بے تکلف سہیلیاں بنا دیا تھا۔ ظریف کا شمار ان فنکاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے فلموں میں 'جگت' متعارف کرائی لیکن وہ صرف جگت یا جملے بازی پر اکتفا نہیں کیا کرتے تھے بلکہ کسی بھی کردار کو مکمل جزئیات کے ساتھ پیش کیا کرتے تھے اور اس کے ساتھ جگت کا استعمال کیا کرتے۔ منورظریف کو دنیا سے گئے لگ بھگ آدھی صدی ہونے کو ہے لیکن ان کا فن اور اس کے تمام رنگ ابھی تک تازہ محسوس ہوتے ہیں۔ مرزا اسد اللہ خان غالب کے کلام کی طرح منورظریف کی اداکاری بھی کبھی آؤٹ ڈیٹیڈ نہیں ہوئی۔ وہ منور ظریف کے دوستوں علی اعجاز، خلیفہ نذیر اور رفیع خاور کو بھی سختی سے ڈانٹتے تھے کہ وہ اداکاری کا خیال دل سے نکال کر کوئی اور تعمیری کام کریں لیکن منور ظریف پر چھوٹا بھائی ہونے کے باعث پابندی خصوصی تھی۔ علی میاں بتاتے ہیں کہ منورظریف ان کے ساتھ چھپ چھپ کر فلم سٹوڈیوز جایا کرتے اور جب کبھی ظریف صاحب کو پتہ چلتا تو وہ منور ظریف کو ڈانٹتے، لیکن جب انھوں نے محسوس کیا کہ منور کو فن کے اظہار سے روکنا صحیح نہیں تو انھوں نے انھیں کیمرہ مین بننے کی اجازت دے دی اور ایک کیمرہ مین کا اسسٹنٹ بھی کروا دیا۔ ان کے بچپن کے دوست علی میاں کی ساری زندگی منور ظریف کے ساتھ گزری۔ وہ جب بھی اپنے بچپن کے دوست کو یاد کرتے ہیں تو ان کے ساتھ گزرے لمحات اور واقعات کسی فلم کی طرح ان کے ذہن کے پردے میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 'ہم اکثر رات کو اپنے محلے قلعہ گجر سنگھ میں عبدالکریم روڈ پر رمضان کے ہوٹل کی چھت پر بیٹھا کرتے تھے اور رات گئے تک اس وقت کے مقبول انڈین اور پاکستانی گانے گاتے۔ ہمارا مرکزی گلوکار منور ظریف ہوتے جو گانا گانے کے علاوہ ڈھولک بھی بجاتے کیونکہ انھیں ڈھولک بجانا پسند تھا اور وہ اس ساز پر پوری دسترس رکھتے تھے۔ کبھی کبھار وہ طبلہ بھی لے آتے، عابد شجاع گھڑا بجاتے اور خلیفہ نذیر باجے پر ہوتے ،گائیکی کی محفل رات گئے تک جاری رہتی۔' ان کی موت کے بعد ان کو کاپی کرنے کا رواج زور پکڑ گیا۔ ملک کے اندر ان کے فن سے متاثر فنکاروں کی تعداد نصف درجن کے قریب تھی جن میں علی اعجاز،البیلا، عمر شریف اور کچھ دیگر فنکار شامل ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2rm6vdk1do", "summary": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے چھور چھاؤنی سے 13 سالہ بچے کی تشدد زدہ لاش برآمد ہونے اور ورثا کے احتجاج کے بعد پاکستانی فوج کے ایک بٹمین (اردلی) کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔", "title": "چھور کینٹ میں 13 سالہ لڑکے کا قتل: پاکستانی فوج کے اردلی کے خلاف مقدمہ درج، ’ملزم فوج کی تحویل میں‘", "firstPublished": "2024-04-28T14:04:31.520Z", "id": "cv2rm6vdk1do", "article": "پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے چھور چھاؤنی سے 13 سالہ بچے کی تشدد زدہ لاش برآمد ہونے اور ورثا کے احتجاج کے بعد پاکستانی فوج کے ایک بٹمین (اردلی) کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ مقتول علی حسن کے اہل خانہ کے مطابق ملزم پیسوں کی ادائیگی کے لیے مقتول کو چھاؤنی کی طرف لے کر گیا تاہم اس کے بعد مقتول واپس نہیں آیا اور ان کی لاش سی ایم ایچ ہسپتال کے پیچھے واقع جنگل سے ملی۔ ادھر عمر کوٹ کے ضلعی ہسپتال کے ڈاکٹر دلیپ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ بچے کی موت ’گلا گھونٹنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ رسی، تار یا کسی اور چیز سے گلا گھونٹا گیا ہے، جس کا نشان گلے پر موجود ہے۔‘ 28 اپریل کو چھور کے گاؤں کھیت سنگھ کے رہائشی گل حسن منگریو نے تھانہ چھور میں دائر کیے گئے مقدمے میں موقف اختیار کیا کہ ان کے 13 سال کے بھائی علی حسن بھینسیں چراتے تھے جبکہ ملزم چھاؤنی کے فوجیوں کی بکریاں چراتے تھے۔ مدعی کے مطابق ملزم نے علی حسن سے شہد خریدا تھا جس کے بعد ان کا بھائی ان سے رقم کا تقاضا کرتا رہا جو ادا نہیں کی جا رہی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ چھاؤنی کے باہر ایک ملاقات میں ملزم نے پیسے دینے کی حامی بھری جس کے بعد ان کا بھائی ملزم کے ساتھ فوجی چھاؤنی کی طرف چلا گیا۔ گل حسن کے مطابق چھاؤنی میں تلاش کے دوران ان کے بھائی کی لاش سی ایم ایچ ہسپتال کے پیچھے واقع جنگل سے ملی جس کے ’چہرے اور جسم پر تشدد اور زخموں کے نشانات تھے جبکہ گلے پر ایک نیل دائرہ تھا۔‘ علی حسن مہر کی گمشدگی اور قتل کے خلاف کھیت سنگھ کی رہائشی خواتین اور مردوں نے چھور کینٹ کے سامنے کئی گھنٹے تک احتجاج کیا تھا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ مقدمہ درج کر کے اس واقعے میں ملوث ملزم کو گرفتار کیا جائے۔ حکام نے متاثرین سے کئی گھنٹوں تک مذاکرات کیے جس دوران ایف آئی آر درج کرانے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ جب ایس ایس پی آصف رضا سے یہ پوچھا گیا کہ مقدمہ درج کرنے میں تاخیر کیوں ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ اس میں کون ملوث ہے یا کیا ہوا ہے۔ ’جب پولیس نے اپنا انٹیلیجنس نظام متحرک کیا اور پتا چلا تو پھر مقدمہ درج کیا گیا۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ جوانوں نے بھی تلاش کی لیکن کوئی پتا نہیں چلا۔ اس کے بعد حکام نے ’ہم سے پوچھا کہ آپ کو کیوں یقین ہے کہ بچہ یہاں ہوگا؟‘ جس پر انھوں نے بتایا کہ وہاں ملزم کو مقتول کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔ مقتول کے چچا کے مطابق فوجی حکام نے ملزم سے تفتیش کی جس نے پھر ’جگہ کی نشاندہی کی اور بچے کی لاش ملی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crgyxvxexp4o", "summary": "اگرچہ پاکستان کے آئین میں نائب وزیر اعظم کے عہدے کا ذکر نہیں ملتا تاہم پارلیمانی سیاست کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی ماضی میں بھی مثال موجود ہے۔ ادھر کچھ مبصرین کی رائے ہے کہ یہ فیصلہ وزیر اعظم شہباز شریف کا نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کا ہے۔", "title": "شہباز شریف نے اسحاق ڈار کو پاکستان کے نائب وزیرِ اعظم کا ’نمائشی عہدہ‘ کیوں دیا؟", "firstPublished": "2024-04-28T15:52:53.012Z", "id": "crgyxvxexp4o", "article": "اتوار کو اس ضمن میں کابینہ ڈویژن کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے سینیٹر اسحاق ڈار کو فوری طور پر تاحکمِ ثانی ملک کا نائب وزیرِاعظم مقرر کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی وزیرِاعظم نے کسی کو اپنا نائب مقرر کیا ہوا۔ اس سے قبل سنہ 2012 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت میں اس وقت کی حکومتی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے چوہدری پرویز الٰہی کو بھی ملک کا نائب وزیراعظم مقرر کیا گیا تھا۔ ادھر آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین میں ’نائب وزیراعظم‘ کے عہدے کا کوئی ذکر نہیں۔ پاکستان میں پارلیمانی سیاست پر نظر رکھنے والی تنظیم ’فافن‘ سے منسلک راشد چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ایک انفارمل سا عہدہ ہے اور حالیہ تاریخ میں ہمیں اس کی مثال بھی ملتی ہے جب چوہدری پرویز الٰہی کو اس منصب پر فائر کیا گیا تھا۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسحاق ڈار کو نائب وزیرِاعظم مقرر کرنے میں نواز شریف کی مرضی موجود ہے تو انھوں نے کہا کہ ’شہباز شریف اہم فیصلوں پر عمومی طور پر نواز شریف سے مشاورت کرتے ہیں، ممکن ہے کہ انھوں نے اس حوالے سے بھی ان کی رائے لی ہو۔‘ دوسری جانب پاکستانی سیاست کو سمجھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیرِ اعظم تقرری کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن کی اندرونی سیاست سے ہے۔ نواز شریف کے نزدیک اسحاق ڈار کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے سلمان غنی کہتے ہیں کہ: ’میں اکثر کہتا ہوں کہ میں ن لیگ میں کسی بھی قسم کے مذاکرات یا بات چیت کو تب تک سنجیدہ نہیں سمجھتا جب تک اسحاق ڈار اس میں شامل نہ ہوں۔‘ دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسحاق ڈار کو نائب وزیرِاعظم بنانا وزیرِاعظم شہباز شریف کا نہیں بلکہ ان کے بڑے بھائی نواز شریف کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے طرزِ سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’پچھلی کئی دہائیوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک بھائی اسٹیبلشمنٹ کا حامی ہوتا ہے تو دوسرا اس کے خلاف کھڑا دکھائی دیتا ہے۔‘ ’لیکن ن لیگ کی سیاست ہم نے یہی دیکھی ہے کہ جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو شہباز شریف وزیرِ اعلیٰ پنجاب تھے۔ اب مریم نواز وزیرِ اعلیٰ پنجاب ہیں، ان پر ہمیشہ سے یہی تنقید ہوتی ہے کہ یہ لوگ یہ طاقتور عہدے خاندان میں ہی رکھتے ہیں۔‘ احمد ولید کے مطابق ’میرے خیال میں شہباز شریف نے اسحاق ڈار کو نائب وزیرِ اعظم بنا کر اس تاثر کو رد کرنے کی کوشش کی ہے کہ نواز شریف یا ان میں کوئی اختلاف ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cl5k2w8e7y1o", "summary": "پاکستان میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے گذشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں سولر پینل کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ توانائی کے ماہرین کے مطابق سولر انرجی کو زیادہ تر وہ افراد اپنا رہے ہیں جو استطاعات رکھتے ہیں اور بنیادی مسئلہ نیٹ میٹرنگ ہے۔ ", "title": "گھریلو صارفین کے سولر پینل لگانے سے عام عوام پر مہنگی بجلی کا بوجھ کیسے پڑ رہا ہے؟", "firstPublished": "2024-04-28T09:40:53.678Z", "id": "cl5k2w8e7y1o", "article": "بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے گذشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں سولر پینل کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے والے سولر پینلز کی مانگ میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس میں گھریلو صارفین سے لے کر زراعت کے شعبے میں ٹیوب ویل اور صنعتیں شامل ہیں جو سولر پینل کے ذریعے بجلی پیدا کر رہی ہیں۔ مگر ان افراد کو پریشانی اس وقت لاحق ہوئی جب گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایسی خبریں سامنے آئیں جن میں کہا گیا کہ حکومت سولر پینل کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والے افراد پر ٹیکس لگانے جا رہی ہے۔ ان خبروں میں دعویٰ کیا گیا کہ حکومت کی جانب سے ایسے گھریلو اور کمرشل صارفین پر ٹیکس عائد کیا جائے گا جو سولر پینل کے ذریعے اپنی بجلی خود پید ا کر رہے ہیں اور یہ ٹیکس دو ہزار روپے فی کلو واٹ ہوگا۔ ان خبروں میں کہا گیا کہ پاکستان کے پاور ڈویژن کی جانب سے یہ سمری تیار کر کے حکومت کو بھیجی گئی ہے۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ’یہ بات درست ہے کہ نیٹ میٹرنگ کا موجودہ نظام شمسی توانائی میں غیر صحت مندانہ سرمایہ کاری کو فروغ دے رہا ہے کیونکہ صاحبِ ثروت لوگ بے تحاشہ سولر پینل لگا رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں گھریلو اور صنعتی صارفین سمیت حکومت کو بھی سبسڈی کی شکل میں ایک روپے 90 پیسے کا بوجھ برادشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں تقریباً ڈھائی سے تین کروڑ غریب صارفین متاثر ہو رہے ہیں۔ اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو اگلے دو برسوں میں ان ڈھائی سے تین کروڑ غریب صارفین کے بلوں میں کم از کم تین روپے 35 پیسے فی یونٹ کا مزید اضافہ ہو جائے گا۔ توانائی کے ماہرین کے مطابق سولر انرجی کو زیادہ تر وہ افراد اپنا رہے ہیں جو استطاعات رکھتے ہیں اور بنیادی مسئلہ نیٹ میٹرنگ ہے جس میں حکومت کو سولر انرجی کے ذریعے بجلی بنانے والے صارفین سے بجلی خریدنا پڑتی ہے۔ پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران سولر انرجی کے استعمال کے بڑھتے رجحان کو دیکھا گیا ہے۔ اس بارے میں توانائی کے شعبے کے ماہر ریونیوبل فرسٹ میں پروگرام منیجر مصطفیٰ امجد نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پاکستان میں سولر انرجی ایک نئی پیش رفت ہے جس میں اس وقت زیادہ اضافہ دیکھا گیا جب ملک میں بجلی قیمتوں میں زیادہ اضافہ ہوا۔ انھوں نے کہا ٹیکس کی جو بات کی گئی ہے وہ دراصل میں نیٹ میٹرنگ پر ٹیکس ہے یعنی جب سولر پینل سے بجلی بنا کر اسے حکومت کو بیچا جاتا ہے ۔انھوں نے کہا نیٹ میٹرنگ والے سولر پینل امیر افراد ہی لگا سکتے ہیں کیونکہ اس کی لاگت بہت زیادہ ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn3d2m99xj5o", "summary": "پاکستان اور انڈیا کے دو قدیم تعلیمی اداروں، جن کی بنیاد تقریبا ڈیڑھ سو سال قبل رکھی گئی تھی، میں حال ہی میں وائس چانسلر کے عہدوں پر دو خواتین کو تعینات کیا گیا جس کے بعد یہ سوال اٹھا کہ اس تاریخ ساز پیش رفت کو اتنا وقت کیوں لگا۔ ", "title": "برصغیر کے دو قدیم تعلیمی اداروں میں خواتین کو وائس چانسلر بننے میں ڈیڑھ سو برس کیوں لگے؟", "firstPublished": "2024-04-28T06:53:26.020Z", "id": "cn3d2m99xj5o", "article": "پاکستان اور انڈیا کے دو قدیم تعلیمی اداروں، جن کی بنیاد تقریبا 150 سال قبل رکھی گئی تھی، میں حال ہی میں وائس چانسلر کے عہدوں پر دو خواتین کو تعینات کیا گیا جس کے بعد یہ سوال اٹھا کہ اس تاریخ ساز پیش رفت کو اتنا وقت کیوں لگا۔ واضح رہے کہ انڈیا کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر نعیمہ خاتون جبکہ پاکستان میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں ڈاکٹر شازیہ بشیر کو حال ہی میں بطور وائس چانسلر تعینات کیا گیا ہے۔ ان دونوں تعلیمی اداروں سے متعدد خواتین سمیت نامور شخصیات نے تعلیم حاصل کی لیکن اتنے برسوں میں ایک قدر مشترکہ دونوں میں یہ بھی رہی کہ وائس چانسلر کا عہدہ کسی خاتون کو نہ مل سکا۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جسے پہلی خاتون وی سی کے لیے 104 سال انتظار کرنا پڑا، کی پہلی چانسلر سلطان جہاں بیگم (بیگم بھوپال) خود ایک خاتون تھیں۔ اس سوال پر پروفیسر عذرا کہتی ہیں کہ اگر گلریز صاحب نہ ہوتے تو بھی نعیمہ خاتون وائس چانسلر بن جاتیں کیوں کہ یہ بحث شروع ہو گئی تھی کہ ایک خاتون کو اے ایم یو کا وائس چانسلر بننا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر یہ کام بیس سال پہلے کر لیا جاتا تو معاشرہ اس کے لیے تیار نہ ہوتا۔ ان کے مطابق اساتذہ، طالب علموں اور عملے کے لیے ذہنی طور پر یہ قبول کرنا بہت آسان ہے کیوں کہ نعیمہ خاتون پرنسپل بھی رہ چکی ہیں، اس لیے انھیں وائس چانسلر کی ذمہ داری نبھانے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نازش بیگم نے کہا کہ اے ایم یو ٹیچرز ایسوسی ایشن میں خواتین کی نمائندگی کم رہی ہے، لیکن اس بار جیت نے ہمارے حوصلے بلند کیے ہیں اور ہم نے ایسوسی ایشن میں کل آٹھ رکنی نشستوں میں سے دو خواتین اساتذہ کو منتخب کرنے کے لیے قرارداد پاس کی۔ ہمیں پہلی خاتون وائس چانسلر ملنے پر بہت خوشی ہے اور اس سے دیگر خواتین کو بھی آگے آنے اور اپنی نمائندگی کا دعوی کرنے کی ترغیب ملے گی۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بھی حکومت پنجاب نے ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر شازیہ بشیر کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی (جی سی یو) لاہور کا قائم مقام وائس چانسلر مقرر کیا تو وہ اس تعلیمی ادارے کی 160 سالہ تاریخ میں پہلی خاتون سربراہ بنیں۔ ڈاکٹر مبارک علی کا ماننا ہے کہ ’یہ ایک عمل ہے اور صرف ایک یا دو تعیناتیاں ہونا یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں کہ تبدیلی آ چکی ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ یورپ میں بھی سکینڈینیویا ممالک کو چھوڑ کر بہت زیادہ جامعات میں خواتین اعلی عہدوں پر موجود نہیں ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n196251dzo", "summary": "33 سالہ پرجول ریوننا کے خلاف ان کی گھریلو ملازمہ نے جنسی ہراسانی کا الزام لگایا ہے اور اس متعلق پولیس میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔", "title": "پرجول ریوننا: رکن پارلیمان کی مبینہ جنسی تشدد کی ویڈیوز نے انڈین الیکشن کو ہلا کر رکھ دیا", "firstPublished": "2024-04-30T11:10:03.994Z", "id": "c4n196251dzo", "article": "33 سالہ پرجول ریوننا کے خلاف ان کی گھریلو ملازمہ نے جنسی ہراسانی کا الزام لگایا ہے اور اس متعلق پولیس میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ اس میں ان کے والد ایچ ڈی ریوننا کے خلاف بھی شکایت درج کی گئی ہے۔ پولیس نے اس معاملے میں تعزیرات ہند کی 354 اے (جنسی ہراسانی)، 354 ڈی (پیچھا کرنا)، 506 (دھمکی) اور 509 (خواتین کی حرمت کی پامالی) دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا۔ ادھر پرجول ریوننا کے دفتر نے اِن الزامات کو مسترد کیا ہے اور ان ویڈیوز کو جعلی قرار دیا ہے۔ ’انھوں نے اب تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ ہم اس پر ایکشن نہیں لے سکتے کیونکہ امن و امان ریاست کا مسئلہ ہے، ریاستی حکومت کو اس پر کارروائی کرنی ہوگی۔۔۔ ہم تحقیقات کے حق میں ہیں اور ہماری پارٹنر جے ڈی (ایس) نے بھی اس پر کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آج شاید ان کی کور کمیٹی کی میٹنگ ہے اور اقدامات کیے بھی جائیں گے۔‘ 28 اپریل کو درج کی جانے والی ایف آئی آر میں شکایت کنّڑ زبان میں درج کی گئی ہے۔ اس میں شکایت کرنے والی خاتون نے بتایا کہ انھیں اور ان کی بیٹی کو مستقل طور پر جنسی طور پر ہراسانی کا شکار بنایا گیا۔ ’جب بھی ان کی بیوی بھوانی گھر پر نہیں ہوتی تھی ریوننا مجھے نامناسب طریقے سے چھوتے تھے۔ انھوں نے مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ وہ دوسرے لوگوں سے کہتے تھے کہ وہ میری بیٹی کو لے آئیں تاکہ وہ اس سے تیل کی مالش کروا سکیں۔ پرجول میری بیٹی کو ویڈیو کال کرتا اور اس سے فحش باتیں کرتا تھا۔‘ پرجول ریوننا کے والد نے گذشتہ روز سوموار کو صحافیوں کو بتایا کہ چونکہ یہ معاملہ سپیشل جانچ ٹیم کے سامنے ہے اس لیے ’میں کسی بھی چیز کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا‘ لیکن انھوں نے اتنا ضرور کہا کہ ان کا بیٹا ضرورت پڑنے پر واپس آجائے گا۔ اخبار انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ ویڈیوز خود ملزم نے بنائیں اور اس میں اِن خواتین کے چہرے دیکھے جاسکتے ہیں جنھیں مبینہ طور پر جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اس واقعے کے بعد کرناٹک کے خواتین کمیشن کی سربراہ ناگلکشمی چوہدری نے ریاستی پولیس سربراہ کو خط لکھ کر قصورواروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب آپ کچھ ویڈیوز دیکھتے ہیں تو آپ کا خون کھولتا ہے۔ ایک عورت مدد کی بھیک مانگتی ہے۔‘ دوسری طرف ریوننا کی انتخابی مہم کے ایجنٹ پورن چندر تیجسوی ایم جی نے نوین گوڈا نامی ایک شخص کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی جس میں ریوننا کو بدنام کرنے کے لیے ویڈیوز کو گردش کرنے کا الزام لگایا گیا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjlj9rgyd5ko", "summary": "ایران سے لیک ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے تین اہلکاروں نے کیسے ایک نوجوان ایرانی خاتون کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا اور پھر اُن کو ہلاک کیا۔ اس رپورٹ کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ایرانی سکیورٹی فورسز نے تحریر کی ہے۔", "title": "نیکا شاکرمی: خفیہ رپورٹ جس نے سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 16 سالہ ایرانی لڑکی کی جنسی ہراسانی اور ہلاکت کا راز فاش کیا", "firstPublished": "2024-04-30T06:07:05.688Z", "id": "cjlj9rgyd5ko", "article": "ایران سے لیک ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ ایک نوجوان ایرانی خاتون کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تین اہلکاروں نے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا اور اُن کو ہلاک کیا۔ اس رپورٹ کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ایرانی سکیورٹی فورسز نے تحریر کی ہے۔ ’میں صرف یہ سوچ رہا تھا کہ اسے کہاں لے جایا جائے اور میں نے کسی سے کوئی سوال نہیں کیا۔ میں نے صرف یہ پوچھا کہ کیا یہ سانس لے رہی ہے؟ میرا خیال ہے کہ بھروز نے جواب دیا کہ نہیں، وہ مر چکی ہے۔‘ مرتضی نے پاسداران انقلاب کے ہیڈ کوارٹر تیسری بار فون کیا۔ اس بار مرتضی نے ایک سینیئر افسر سے بات کی جن کے لیے رپورٹ میں نعیم 16 کا کوڈ استعمال کیا گیا ہے۔ اس دوران رپورٹ کے مطابق ’تین لاٹھیاں اور تین ٹیزر استعمال ہوئے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ کس چوٹ سے ہلاکت ہوئی۔‘ یہ رپورٹ ایرانی حکومت کے اس موقف کی تردید کرتی ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ نیکا نے خودکشی کی۔ نیکا کی تدفین کے ایک ماہ بعد سرکاری ٹی وی پر حکومتی تحقیقات کے نتائج کا اعلان کیا گیا کہ نیکا نے ایک عمارت سے چھلانگ لگا کر خودکشی کی۔ اکثر اوقات انٹرنیٹ پر گردش کرنے والی مبینہ سرکاری ایرانی دستاویزات جھوٹی نکلتی ہیں۔ تاہم ایسی دستاویزات کی حقیقت کا تعین کرنا مشکل نہیں ہوتا کیوں کہ یہ غلطیوں سے بھرپور ہوتی ہیں اور ان میں گرائمر یا الفاظ کی غلطیوں سمیت فارمیٹ کی غلطیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔ چند نشانیوں میں سے ایک حکومتی محکمے یا ایجنسی کا غلط نشان بھی شامل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ سرکاری زبان کے استعمال کو جانچنا بھی ایک ایسا طریقہ ہے جس سے سرکاری دستاویزات کی حقیقت کو پرکھا جا سکتا ہے۔ جس رپورٹ پر ہم نے تحقیق کی اس میں بھی چند ایسی چیزیں شامل تھیں۔ مثال کے طور پر ناجا پولیس فورس کو ’فراجہ‘ لکھا گیا تھا۔ اسی لیے اس کی تصدیق کے لیے ہم نے ایک سابقہ ایرانی انٹیلیجنس افسر سے رابطہ کیا جو سینکڑوں مصدقہ دستاویزات دیکھ چکے ہیں جنھوں نے پاسداران انقلاب کے آرکائیو کے ذریعے رپورٹ کے نمبر کی تصدیق کہ اور ان کو علم ہوا کہ یہ رپورٹ 2022 میں حکومت مخالف تحریک پر مرتب ہونے والی ایک جامع فائل کا حصہ ہے جو 322 صفحات پر مشتمل ہے۔ ان الزامات کو ایرانی حکومت اور پاسداران انقلاب کے سامنے پیش کیا گیا جنھوں نے بی بی سی کو کوئی جواب نہیں دیا۔ ہم اب تک یہ جانتے ہیں کہ نیکا کی ہلاکت کے ذمہ دار اہلکاروں کو سزا نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ جاننے کے لیے رپورٹ میں سے ہی پتہ چلتا ہے ٹیم 12 کے تمام اراکین کا تعلق حزب اللہ گروپ سے ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cx7d0l65xjjo", "summary": "بال ٹھاکرے کی جماعت شیو سینا کو سخت گیر ہندو قوم پرست جماعت کے طور پر جانا جاتا رہا ہے مگر اب اس جماعت کی قیادت کرنے والے ادھو ٹھاکرے مسلم ووٹرز سے ان کی جماعت کو ناصرف ووٹ دینے کی اپیلیں کرتے نظر آ رہے ہیں بلکہ بہت سے مسلم ووٹر ان کی جانب راغب بھی ہو رہے ہیں۔ کیا ادھو ٹھاکرے کو اس نئے سیاسی تجربے سے فائدہ ہو گا؟ ", "title": "مسلمان ووٹر بال ٹھاکرے کی شیو سینا کے حامی: ’جیسے ہماری دشمنی مشہور تھی ویسے دوستی بھی مشہور ہو گئی‘", "firstPublished": "2024-04-30T04:11:20.444Z", "id": "cx7d0l65xjjo", "article": "مگر اب وہی ادھو ٹھاکرے ریاست بھر کے مسلم ووٹروں سے اپیلیں کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کے جلسوں اور دوروں میں مسلم کمیونٹی کے ووٹروں کی بھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ موجودہ لوک سبھا انتخابات میں ادھو ٹھاکرے کو اس نئے سیاسی تجربے سے کتنا فائدہ ہونے والا ہے؟ اور کیا کانگریس کا یہ روایتی ووٹ بینک ادھو ٹھاکرے کی طرف بڑھ رہا ہے؟ شیو سینا کو ہمیشہ سے ایک ایسی پارٹی کے طور پر جانا جاتا ہے جو بنیاد پرست ہندوتوا کی سیاست کرتی ہے۔ چند اسمبلی حلقوں کو چھوڑ کر شیوسینا کو کبھی بڑی تعداد میں مسلم ووٹ نہیں ملے۔ اس سے قبل شیو سینا نے ریاست میں سخت گیر ہندوتوا نظریے کو بڑھاوا دیا تھا، خاص طور پر ممبئی اور مراٹھواڑہ میں۔ کہا جاتا تھا کہ اس کوشش کے ذریعے مراٹھی کے ساتھ ساتھ شیو سینا کا ہندوتوا ووٹ بینک بھی بنا، اب ادھو ٹھاکرے مسلم ووٹروں کو اپنی طرف سے منانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ ادھو ٹھاکرے مسلم ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان کا روایتی ’ہندو ووٹ‘ ان کے ساتھ ہی رہے گا۔ یہی نہیں، ادھو ٹھاکرے کو بی جے پی سے اتحاد توڑنے کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کی کوشش کرنا ہو گی اور یہ ان کے لیے ایک امتحان ہے۔ بائیکلہ سے یشونت جادھو اور پھر ایم ایل اے یامینی جادھو کو بھی مسلم ووٹ ملے۔ سمر کھڈسے کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقامی سطح پر شیوسینا کے نیٹ ورک اور کام کی وجہ سے شیو سینا کو مسلم ووٹ ملتے نظر آرہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’موجودہ صورت حال میں یہ ہے کہ مسلم ووٹروں کا جھکاؤ کانگریس اور این سی پی کے مقابلے مشعل کے انتخابی نشان کی طرف ہو گا کیونکہ ادھو ٹھاکرے کو بی جے پی کے خلاف جارحانہ سیاسی جنگ لڑنے والے چہرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کانگریس کا روایتی ووٹ بینک ٹھاکرے کو جاتا ہے تو کیا اس کا اثر کانگریس پر پڑے گا؟ اس بارے میں بات کرتے ہوئے پردھان کہتے ہیں ’یہ واضح ہے کہ اس سے کانگریس پر اثر پڑے گا۔ ریاست میں کانگریس کمزور ہو گئی ہے۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان کا ووٹ بینک کبھی شیو سینا کے پاس آئے گا۔‘ انھوں نے کہا ’مسلم ووٹر بہت سٹریٹجک ہیں۔ وہ جیتنے والے گھوڑے پر سوار دکھائی دے رہے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ مودی اقلیتوں کے دوست نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ، مسلم ووٹروں کو لگتا ہے کہ ادھو ٹھاکرے نے مہواکاس اگھاڑی کی حکومت بنا کر مودی کو کامیابی سے چیلنج کیا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c72pz3d4p4vo", "summary": "سنہ 2014 میں بی جے پی رہنما نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انڈیا میں بسنے والے 20 کروڑ مسلمانوں کی زندگی مشکل ہو گئی ہے۔ ", "title": "اپنے ہی ملک میں نظروں سے اوجھل: مودی کے انڈیا میں مسلمان ہونا کیسا ہے؟", "firstPublished": "2024-04-29T09:22:45.438Z", "id": "c72pz3d4p4vo", "article": "جب سے نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی سنہ 2014 میں اقتدار میں آئی ہے، انڈیا کے 20 کروڑ مسلمانوں کی زندگیوں میں ایک ہنگامہ خیز سفر کا آغاز ہوا ہے۔ اور مسلم مخالف نفرت انگیز تقریر میں اضافہ ہوا ہے۔ اور ایسے تین چوتھائی واقعات بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں سے سامنے آئے ہیں۔ لیکن بی جے پی اور وزیراعظم مودی اس بات سے انکاری ہیں کہ انڈیا میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔ سابق بینکرسید ظفر اسلام نے سنہ 2014 میں پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی اور ان کے دو بچے ہیں، جن میں سے ایک اس وقت سکول میں ہے۔ لیکن پھر مسلمانوں کی نمائندگی میں کمی کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ بی جے پی کے پاس پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں کوئی مسلم وزیر اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں کوئی رکن بھی نہیں ہے اور ملک بھر میں 1000 سے زیادہ میں سے صرف ایک رکن قومی اسمبلی مسلمان ہے۔ ان کے مطابق کانگریس اوردیگر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں بی جے پی کو شکست دینے کے لیے مسلمانوں کو استعمال کر رہی ہیں۔ اگر کوئی جماعت مسلمان امیدوار میدان میں اتارتی ہے اور مسلمان اسے ووٹ نہیں دیں گے تو پھر ایسے میں کون سی جماعت اسے ٹکٹ جاری کرے گی۔؟‘ یہ سچ ہے کہ انڈیا کے صرف آٹھ فیصد مسلمانوں نے سنہ 2019 میں بی جے پی کو ووٹ دیا تھا اور وہ تیزی سے مودی کی پارٹی کے خلاف ایک بلاک کے طور پر ووٹ دے رہے ہیں۔ سنہ 2020 کے بہار ریاستی انتخابات میں 77 فیصد نے بی جے پی مخالف اتحاد کی حمایت کی تھی۔ ان کے مطابق ’فلاحی سکیمیں تمام لوگوں تک پہنچ رہی ہیں۔ کچھ سکیموں سے سب سے زیادہ فائدہ مسلمان اٹھا رہے ہیں۔ پچھلے 10 سالوں میں کوئی بڑا فساد نہیں ہوا۔ درحقیقت سنہ 2020 میں شہریت کے متنازع قانون پر دلی میں ہونے والے فسادات میں 50 سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں، جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔ لیکن انڈیا میں آزادی کے بعد سے کئی سالوں میں اس سے کہیں زیادہ بدتر صورتحال پیدا ہوئی۔‘ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ مودی کی قیادت میں انڈیا میں مسلمانوں کے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں؟ اگلے سال آرزو انڈیا کے 707 میڈیکل کالجوں کی طرف سے ایک لاکھ نشستوں کے لیے 20 لاکھ سے زیادہ امیدواروں میں سے ایک ہوں گی۔ گذشتہ اپریل میں 15 برس کے محمد شاکر اور ان کے دوست نے پٹنہ کے لیے چھ گھنٹے بس پر سفر کیا۔ رستے میں ہندو تہوار کے جلوس کی وجہ سے مذہبی فسادات کی زد میں آنے والے ضلعے سے بھی گزرے۔ انھوں نے پانی کی بوتل اور چند کھجوریں لے کر یہ سفر طے کیا، ایک مسجد میں رات گزاری، رحمانی 30 کے داخلے کے امتحان میں بیٹھے اور کامیاب ہو گئے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd18rydq92eo", "summary": "ایسے وقت میں جب ٹک ٹاک دنیا کی مقبول ترین ایپس میں سے ایک بن چکی ہے انڈین ٹک ٹاک اکاؤنٹس اور ویڈیوز آج بھی آن لائن موجود ہیں اور وقت کے دھارے میں منجمد دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں امریکہ میں ٹک ٹاک پر ممکنہ پابندی اور اس کے صارفین کے مستقبل کے بارے میں باآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں۔", "title": "ٹک ٹاک پر پابندی لگی تو ان کا کیا ہو گا جن کی یہ آواز بنی؟", "firstPublished": "2024-04-29T07:16:38.106Z", "id": "cd18rydq92eo", "article": "ایسے وقت میں جب ٹک ٹاک دنیا کی مقبول ترین ایپس میں سے ایک بن چکی ہے انڈین ٹک ٹاک اکاؤنٹس اور ویڈیوز آج بھی آن لائن موجود ہیں اور وقت کے دھارے میں منجمد دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے آپ امریکہ میں ٹک ٹاک اور اس کے صارفین کے مستقبل کے بارے میں باآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ایسے میں جب امریکہ کے 15 کروڑ ٹک ٹاک صارفین ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں، انڈیا میں پابندی کی کہانی ثابت کرتی ہے کہ کہ صارفین بہت جلدی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایسی پابندیوں کے نتیجے میں ان ایپس کےنتیجے میں جنم لینے والی ثقافت بھی ان کے ساتھ ہی دم توڑ جاتی ہیں۔ جب جون 2020 میں انڈین حکومت کی جانب سے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی گئی تو اس وقت ان کے 11 ہزار فالوورز تھے اور ان کی کئی ویڈیوز لاکھوں بار دیکھی جا چکی تھی۔ جب انڈیا میں ٹک ٹاک پر پابندی لگی تو اس کے ساتھ ہی حکومت نے 58 دیگر چینی ایپس پر بھی پابندی لگا دی۔ ان میں سے کچھ ایپس آج کل امریکہ میں کافی مقبول ہو رہی ہیں۔ اس نئے قانون کے نتیجے میں ٹک ٹاک پر پابندی سے امریکی حکام کو ایک نظیر مل گئی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے وہ دیگر چینی ایپس پر بھی پابندی عائد کر پائیں گے۔ امریکی سیاست دانوں کی جانب سے ٹک ٹاک کے بارے میں رازداری اور قومی سلامتی کو لے کر جن خدشات کا اظہار کیا گیا ہے ان کا اطلاق دیگر کمپنیوں پر بھی ہو سکتا ہے۔ جب بھی کسی مشہور ایپ پر پابندی لگتی ہے تو دیگر ایپس اس کی جگہ لینے کی کوشش ضرور کرتی ہیں۔ اگر امریکہ میں ٹِک ٹاک پر پابندی لگ جاتی ہے تو، امریکی سوشل میڈیا کا منظرنامہ بھی انڈیا جیسا ہو سکتا ہے۔ انسٹاگرام اور یوٹیوب پہلے ہی خود کو مختصر ویڈیوز کے پلیٹ فارم کے طور پر منوا چکے ہیں۔ اب تو لنکڈ ان (LinkedIn) بھی ٹک ٹاک طرز کی ویڈیو فیڈ کا تجربہ کر رہا ہے۔ ٹک ٹاک انڈیا میں بھی قانونی راستہ اپنا سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔انڈیا میں لگائی جانے والی پابندی بھی فوری طور پر محض چند ہفتوں کے اندر نافذ ہو گئی تھی۔ مگر امریکہ میں ٹِک ٹاک کے کیس کا عدالت سے فیصلہ آنے میں برسوں لگ سکتے ہیں اور اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ امریکی عدالت اس قانون کو برقرار رکھے گی۔ انڈیا میں ٹک ٹاک پر پابندی پر چین کے ردعمل کی متعدد وجوہات ہیں۔ ایک حقیقت یہ ہے کہ چین میں انڈیا کی ٹیک انڈسٹری موجود نہیں ہے۔ دوسری جانب، امریکہ کی ٹیک انڈسٹری جوابی کارروائی کے لیے کافی مواقع فراہم کرتی ہے۔ چین پہلے ہی امریکی ٹیکنالوجی کو مقامی متبادل کے ساتھ تبدیل کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ ٹک ٹاک پر پابندی سے اس میں تیزی آسکتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c9ez37x400vo", "summary": "دُنیا بھر میں پالیسی ساز، تجزیہ کار اور عسکری رہنما اب بھی ایران اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے میزائلوں کے تبادلے پر فکرمند نظر آتے ہیں۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جب ایک چھوٹی سی تکنیکی غلطی ایک اور عالمی تنازع کو جنم دینے کا باعث بن سکتی تھی۔ ذرا سوچیے کہ ایران اور اسرائیل ایک براہ راست جنگ کے کتنے قریب پہنچ چکے تھے۔", "title": "ایران اور اسرائیل کے میزائل حملوں نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال کو کس طرح تبدیل کیا ہے؟", "firstPublished": "2024-04-29T04:15:24.833Z", "id": "c9ez37x400vo", "article": "لیکن دُنیا بھر میں پالیسی ساز، تجزیہ کار اور عسکری رہنما اب بھی ایران اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے میزائلوں کے تبادلے پر فکرمند نظر آتے ہیں۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جب ایک چھوٹی سی تکنیکی غلطی ایک اور عالمی تنازع کو جنم دینے کا باعث بن سکتی تھی۔ ذرا سوچیے کہ ایران اور اسرائیل ایک براہ راست جنگ کے کتنے قریب پہنچ چکے تھے۔ ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ ایران اور اسرائیل نے ایک دوسرے کی سرزمین پر براہ راست حملے کیے ہوں۔ ان کے مطابق اسرائیل پر ایرانی حملے کی پہلے سے پیش گوئی کرنا ایک بڑی انٹیلی جنس فتح تھی اور یہ کہ اسرائیل کے دفاع کے لیے جو اتحادی عسکری تعاون نظر آیا وہ بھی بے مثال تھا۔ ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سب کے نتیجے میں ایران اور اسرائیل نے یہ سبق سیکھا کہ کشیدگی بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جب انھیں ایران کے منصوبے کی شدت کا علم ہوا تو انھیں یہ ڈر لاحق ہوگیا کہ اگر اسرائیل نے ایرانی حملے کا سخت جواب دیا تو خطے میں ایک اور جنگ چھڑ جائے گی۔ کچھ اور غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ایران واقعی اسرائیل کو بڑا نقصان پہنچانا چاہتا تھا تو اسے پیشگی وارننگ نہیں دینا چاہیے تھی، اسے اپنے اہداف میں اضافہ کرنا چاہیے تھا اور ایک حملہ ختم ہونے کے بعد دوسرے حملے بھی کرنے چاہیے تھے۔ لبنان کی جانب سے وہ حزب اللہ سے اسرائیل پر بڑا حملہ کرنے کے لیے کہہ سکتا تھا وہ کہتی ہیں کہ ’عرب ریاستوں نے تعاون کیا ہے کیونکہ بنیادی طور پر وہ علاقائی تصادم سے بچنا چاہتے ہیں۔ اور وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے مغربی اتحادیوں کے اچھے شراکت دار ہیں۔ یہ صرف قومی خودمختاری کا معاملہ ہے۔ وہ اپنی فضائی حدود میں میزائلوں کو اڑتے یا دھماکے ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔‘ ہو سکتا ہے کہ ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا ہو لیکن اس نے اپنے اتحادیوں کو اپنے ارادے کے بارے میں خبردار کر دیا تھا۔ اس نے پہلے ہی اشارہ دے دیا تھا کہ یہ ایک یک طرفہ حملہ ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ایران کو بھی اسرائیل کی جوابی کارروائی کے بارے میں اطلاع دی گئی تھی۔ یقیناً ایران نے ابتدائی مرحلے سے ہی اشارہ دیا تھا کہ وہ اسرائیل کے جوابی حملے کا جواب دینے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ایران اور اسرائیل دونوں نے ایک حد کو توڑا ہے اور براہ راست حملہ اب ایک آسان آپشن ہے۔ ہوکیم اس سے متفق نہیں ہیں کہ ایران اور اسرائیل نے ایک دوسرے کو سمجھ لیا ہے۔ اان کا کہنا ہے کہ اسرائیل یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cljdg6rp03ko", "summary": "اٹھارہویں اورانیسویں صدی میں انگریزی زبان میں چھپنے والے اخبار مدراس کوریئر نے لکھا ہے کہ ’عوام ان سے اتنی محبت کرتے تھے کہ مغربی پہاڑیوں کے کسان یہ تسلیم کرنے ہی کو تیار نہیں تھے کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں۔‘", "title": "چاند بی بی: بیجاپور کی ملکہ جن کی بہادری اور ہمت پر مغلوں نے انھیں ’چاند سلطان‘ کا لقب دیا", "firstPublished": "2024-04-29T03:55:09.864Z", "id": "cljdg6rp03ko", "article": "سنہ 1580 میں علی عادل شاہ کا قتل ہوا تو چاند بی بی نے ثابت کیا کہ وہ صرف ان کی بیوہ نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بھی بہت کچھ ہیں۔ ’ان مخالف جماعتوں میں سے ایک کے رہنما نے اکبر کے بیٹے اور تب گجرات میں مغل فوج کے سالار شہزادہ مراد سے مدد مانگی۔ مراد کو یہ موقع اچھا لگا اور خانِ خاناں، جنھیں اکبر نے ان کی مدد کو بھیجا تھا، کے ساتھ احمد نگر کی جانب پیش قدمی کی۔ لیکن جب مغل فوجیں قلعے کے باہر پہنچیں توانھیں پتا چلا کہ ان کی آمد کا سن کر شہرمیں ان کے داخلے کو روکنے کے لیے ایک دوسرے کے مخالف کئی دھڑے چاند بی بی کی قیادت میں اکٹھے ہو چکے ہیں۔ ہیول نے لکھا ہے کہ اکبر کے بیٹے شہزادہ مراد، اگرچہ ہمت میں کم نہیں تھے، لیکن شراب زیادہ پینے اور اپنے گرم مزاج کے زیر اثر، خانِ خانان جیسے قابل اور تجربہ کار جنرل سے الجھتے رہتے جنھیں اکبر نے ان کا مشیر بنا کر بھیجا تھا۔ ’خود کو سازشیوں کے چُنگل میں پاتے ہوئے، چاند بی بی نے بہترین ممکن شرائط پر ابوالفضل کے ساتھ بات چیت کی۔ ایک معاہدے پر دستخط ہوئے؛ لیکن دلیراور بے خوف چاند بی بی کو ان کے محل میں سپاہیوں کے ایک ہجوم نے اس افواہ پر قتل کر دیا کہ وہ ان کے ساتھ غداری کر رہی ہیں۔ محقق سارہ وحید نے لکھا ہے کہ چاند بی بی بیک وقت اسلامی، ہندی، فارسی اور دکنی دنیا سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ اثرات چاند بی بی کے بصری تخیل میں عیاں ہیں۔ ’زیادہ تر پینٹنگز میں ملکہ کو باز سے شکار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ عام طور پرایک مردانہ تفریح تھی، لیکن یہاں باز چاند بی بی کے لیے خواتین کی خودمختاری کی علامت ہے۔‘ سارہ کہتی ہیں کہ ’میں نے جنوبی ہند میں چاند بی بی کی تلاش میں ان مقامات کا دورہ کیا جہاں کبھی چاند بی بی کی حکمرانی تھی۔ میں اس نیتجے پر پہنچی کہ چاند بی بی آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔‘ اٹھارہویں اورانیسویں صدی میں انگریزی زبان میں چھپنے والے اخبار مدراس کوریئر نے لکھا ہے کہ ’عوام ان سے اتنی محبت کرتے تھے کہ مغربی پہاڑیوں کے کسان یہ تسلیم کرنے ہی کو تیار نہیں تھے کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں۔‘ ’وہ کہتے تھے کہ وہ ایک سرنگ کے ذریعے نکل گئی تھیں اور پہاڑوں کے کسی غار میں چھپی ہوئی ہیں۔ جب وقت آئے گا تو وہ پھر ظاہر ہو جائیں گی اور احمد نگر کا سنہری دور پھر سے واپس آجائے گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ce5lnl86l0xo", "summary": "’میں نہیں جانتا کہ میں کب تک زندہ رہوں گا مگر میں لاٹری کھیلتا رہوں گا‘ یہ کہنا ہے سیفان کا جو امریکہ میں 1.3 ملین کی لاٹری جیتے ہیں", "title": "امریکہ میں 1.3 ارب ڈالر کی لاٹری جیتنے والا شخص: ’مجھے نہیں پتا یہ رقم خرچ کرنے کے لیے میرے پاس کتنا وقت ہے‘", "firstPublished": "2024-05-01T07:02:08.236Z", "id": "ce5lnl86l0xo", "article": "امریکہ میں ایک تارکین وطن ملکی تاریخ کی چوتھی سب سے بڑی لاٹری جیتنے والے خوش قسمت بن گئے ہیں۔ جنوبی مشرقی ایشیا کی ریاست لاؤس سے تعلق رکھنے والے چینگ سیفان نامی شخص کی 1.3 ارب ڈالرز کی ’پاور بال لاٹری‘ لگی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی راتوں تک وہ اپنے سرہانے تلے نمبروں کی چادر بچھا کر سوتے رہے۔ امریکہ کی ریاست اوریگون کے شہر پورٹ لینڈ میں رہنے والے سیفان یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں نے خدا سے مدد کی دعا کی تھی کہ میرے بچے چھوٹے ہیں اور میں بہت کمزور ہوں میری طبعیت ٹھیک نہیں۔‘ انھوں نے سات اپریل کو ہونے والی 1.3 بلین ڈالر کی قرعہ اندازی میں اپنے نمبرز کو ملایا تھا اور لاٹری کے منتظمین نے پیر کے روز خوش قسمت فاتح کو انعامی رقم دی۔ لیکن صرف سیفان ہی خوش قسمت نہیں ہیں بلکہ اس لاٹری سے ان کی بیوی اور ایک دوست کی قسمت میں چمک اٹھی ہے۔ انھوں نے اپنی بیوی اور ایک دوست کے ساتھ مل کر قرعہ اندازی کے لیے 20 سے زیادہ ٹکٹ خریدنے کے لیے پیسے جمع کیے تھے اور ان میں سے ایک نمبر پر اُن کا انعام نکل آیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ وہ انعامی رقم میں سے 25 فیصد اپنی اہلیہ ڈوانپین اور 50 فیصد اپنی دوست لیزا چاؤ کو دیں گے۔ سیفان نے انعامی رقم کا چیک ملنے کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’میرے پاس یہ سارا پیسہ خرچ کرنے کے لیے کتنا وقت ہے میں نہیں جانتا؟ بلکہ میں کب تک زندہ رہوں گا میں یہی بھی نہیں جانتا؟‘ جب انھیں پتا چلا کہ وہ یہ لاٹری جیت گئے ہیں، تو انھیں اس بات کا بڑی بے چینی سے انتظار تھا اور وہ بے صبری سے یہ خبر اپنی دوست اور اپنی اہلیہ کو سُنانا چاہتے تھے۔ سیفان نے بتایا کے ’میں نے اپنی اہلیہ سے پوچھا کہ تم کہاں ہو؟ انھوں نے مُجھے جواب دیا کہ میں کام پر جا رہی ہوں جس پر میں نے انھیں کہا کہ ’تمہیں اب ملازمت کرنے اور کام پر جانے کی ضرورت نہیں۔‘ ٹکٹوں کی قیمت بڑھنے کے ساتھ ہی ایک ارب ڈالر سے زیادہ کے بڑے انعامات زیادہ عام ہو گئے ہیں۔ اب تک کی سب سے بڑی انعامی رقم 2022 میں 2.04 ارب امریکی ڈالر تھی۔ اس لاٹری کے قواعد میں ترمیم کر کے اسے مزید مشکل بنا دیا ہے جس سے اس سے گرینڈ پرائز کے جیتنے کے امکانات کم ہو کر 292.2 ملین میں سے ایک فرد کے رہ گئے ہیں۔ فی الحال تو سیفان کا کہنا ہے کہ وہ لاٹری کھیلتے رہیں گے۔ سیفان کہتے ہیں کہ ’شاید میں دوبارہ لاٹری جیت جاؤں، اور ایک مرتبہ پھر خوش قسمت ٹھہروں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2vw8wqwyn2o", "summary": "ان مظاہروں سے قبل بھی امریکی جامعات میں فلسطین کے حامی گروہوں نے اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس عالمی مہم کا حصہ بنیں جس کے تحت اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ اور اسرائیل سے جڑی کمپنیوں پر پابندیوں کی حمایت کی جاتی ہے۔ اس عالمی مہم کو ’بی ڈی ایس‘ کا نام دیا گیا ہے۔", "title": "کولمبیا یونیورسٹی سے فلسطین کے حامی مظاہرین کی گرفتاری: امریکی جامعات میں احتجاج کرنے والے طلبہ کیا چاہتے ہیں؟", "firstPublished": "2024-05-01T05:39:50.102Z", "id": "c2vw8wqwyn2o", "article": "امریکہ کے شہر نیو یارک میں سینکڑوں پولیس افسران نے کولمبیا یونیورسٹی سے فلسطین کی حمایت میں مظاہرے کرنے والے طلبا کو ہٹانے کے لیے چھاپہ مارا ہے جس کی ڈرامائی فوٹیج میں پولیس اہلکاروں کو ایک سیڑھی کے ذریعے ایک ہال میں داخل ہوتے ہوئے اور طلبا کو نکالتے ہوئے دیکھا گیا ہے جن کو حراست میں لیے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ واضح رہے کہ امریکہ میں درجنوں جامعات میں طلبا نے غزہ کی جنگ کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران دھرنا دے رکھا ہے اور کولمبیا یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبا نے جامعہ کی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ غزہ کی پٹی میں جاری جان لیوا عسکری کارروائیوں کی بنا پر اسرائیل سے تعلق ختم کیا جائے۔ امریکہ میں بی بی سی کے پارٹنر ادارے سی بی ایس نیوز نے رپورٹ کیا ہے کہ اب تک تقریباً 100 مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور انھیں پولیس سٹیشن لے جاتے دیکھا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دھرنے کے مرکزی مقام ہیملٹن ہال کو مظاہرین سے خالی کرا لیا گیا ہے۔ تاہم دیگر جامعات میں ایک مختلف طریقہ بھی اپنایا گیا ہے جہاں مظاہروں کو جاری رکھنے دیا گیا ہے۔ دوسری جانب چند جامعات نے گریجوئیشن کی تقریبات کے منسوخ ہونے کے خدشے کو وجہ بتاتے ہوئے طلبا کو ہٹانے کی کوششیں کی ہیں۔ ان مظاہروں سے قبل بھی امریکی جامعات میں فلسطین کے حامی گروہوں نے اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس عالمی مہم کا حصہ بنیں جس کے تحت اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ اور اسرائیل سے جڑی کمپنیوں پر پابندیوں کی حمایت کی جاتی ہے۔ اس عالمی مہم کو ’بی ڈی ایس‘ کا نام دیا گیا ہے۔ کوئی بھی امریکی یونیورسٹی باقاعدہ طور پر اس مہم کا حصہ نہیں بنی ہے تاہم چند جامعات نے ماضی میں مخصوص مالی تعلقات ختم کیے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس مہم سے جنگ سے فائدہ اٹھانے والوں کی شناخت ہو گی اور اس مسئلے کے بارے میں آگاہی پھیلانے میں بھی مدد ملے گی۔ کولمبیا یونیورسٹی میں ہونے والی کارروائی سے قبل سوموار کے دن ٹیکساس، یوٹاہ اور ورجینیا میں بھی گرفتاریاں عمل میں آ چکی ہیں۔ بوسٹن میں نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی اور مظاہرین کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت احتجاجی کیمپ کی ایک مخصوص حد کا تعین کیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ امریکی سیاست دانوں نے جامعات سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان مظاہروں کے دوران یہودی مخالف رویوں کی شکایات کی بنا پر کارروائی کریں۔ متعدد جامعات میں یہودی طلبا نے بی بی سی کو ایسے واقعات کے بارے میں بتایا ہے جن کی وجہ سے ان میں خوف پیدا ہوا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cj7vpv2pkvro", "summary": "سوات کو پاکستان کا ایک قدامت پسند علاقہ سمجھا جاتا ہے جہاں ماضی میں طالبان کا خاصا اثر و رسوخ رہا ہے اور لڑکیوں کی تعلیم پرپابندیاں بھی دیکھنے میں آئی ہیں۔", "title": "’سیلون میں خواتین سروسز فراہم نہیں کریں گی‘: سوات میں مرد کے فیشل کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس کی کارروائی", "firstPublished": "2024-03-29T15:23:21.974Z", "id": "cj7vpv2pkvro", "article": "پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں سوشل میڈیا پر خواتین کے ہاتھوں ایک مرد کے فیشل کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد علاقہ مکینوں کی جانب سے شدید ردِعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ سوات کو پاکستان کا ایک قدامت پسند علاقہ سمجھا جاتا ہے جہاں ماضی میں طالبان کا خاصا اثر و رسوخ رہا ہے اور لڑکیوں کی تعلیم پرپابندیاں بھی دیکھنے میں آئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ گُلابی لباس میں ایک خاتون ایک نوجوان کا فیشل کر رہی ہیں جبکہ پینٹ شرٹ میں ملبوس دیگر خواتین اور مرد بھی وہاں موجود ہیں۔ اس سیلون کے داخلی راستے پر شیشہ نصب ہے جہاں سے باہر سڑک پر آتے جاتے لوگوں کو تو دیکھا جاسکتا ہے لیکن باہر سے کوئی شخص اندر نہیں دیکھ سکتا۔ ان کے مطابق سیلون کے مالک نے پولیس کو یقین دہانی کروائی ہے کہ ’آئندہ سیلون میں خواتین سروسز فراہم نہیں کریں گی۔‘ پولیس کے مطابق سیلون میں کام کرنے والی خواتین کو واپس ان کے علاقوں میں بھیج دیا گیا ہے اور مالکان پر جُرمانہ عائد کرنے رہا کر دیا گیا ہے۔ سوات کے علاقے رحیم آباد میں واقع اس سیلون کو ایک دن بند رکھنے کے بعد اب دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس سیلون میں چھ خواتین اور سات مرد کام کر رہے تھے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر نوجوان کے فیشل کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد یہ باتیں بھی سامنے آئی تھیں کہ افطار کے بعد لوگ گھر سے باہر نکلیں گے اور اس سیلون کو بند کروادیں گے۔ مقامی صحافی سلمان یوسفزئی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ سوات کا ہی ایک کم عمر لڑکا یوٹیوب اور فیس بُک پر کافی متحرک ہے اور اس نے ہی اپنا فیشل کروانے کے بعد یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ویڈیو فیس بُک پر دیگر پیجز نے بھی لگائی اور چند ہی لمحوں میں یہ وائرل ہوگئی۔ سلمان یوسفزئی کہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ لوگ سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکلتے پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے سیلون بند کروا دیا، جس کے سبب مقامی لوگوں کے غصے میں کمی آئی اور امن و امان کا کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ سوشل میڈیا میں فیس بک پیجز پر لوگوں نے سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا کہ اس کام کی روک تھام ضروری ہے ورنہ نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہو سکتی ہے ۔ سوات میں کام کرنے والے سوشل ایکٹوسٹ عابد علی جان کہتے ہیں کہ ویڈیو پر ردِعمل اتنا شدید تھا کہ ضلع کے میئر شاہد علی کو بھی متحرک ہونا پڑا جس کے فوری بعد پولیس نے سیلون بند کروا کر دو افراد کو حراست میں لیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxezke7nl5ro", "summary": "ان شکایات کے بعد کہ سیاح گلیوں میں مشہور جاپانی رقاصوں کو ہراساں کرتے ہیں۔جاپان کے قدیم دارالحکومت کیوٹو کے مشہور گیشا ضلع میں کے کچھ حصوں سے سیاحوں پر پابندی عائد کی جائے گی۔", "title": "جاپان میں تفریح فراہم کرنے والی خواتین گیشا کے علاقے میں ’بے قابو‘ سیاحوں سے کیسے نمٹا جائے گا؟", "firstPublished": "2024-03-09T10:03:14.206Z", "id": "cxezke7nl5ro", "article": "اگر آپ کبھی جاپان کے قدیم دارالحکومت کیوٹو گئے ہوں تو آپ نے وہاں گیشا دیکھی ہوں گی۔ اگر آپ نہ بھی گئے ہوں تو آپ نے ویسے ہی حلیے میں جاپان سے متعلق فلموں اور ڈراموں میں اداکارائیں ضرور دیکھیں ہوں گی۔ ان کا چہرہ پاؤڈر کی وجہ سے سفید ہوتا ہے اور انھوں نے خواتین کا خوبصورت جاپانی لباس ’کیمونو‘ پہنا ہوا ہوتا ہے۔ کیوٹو میں وہ اکثر شہر کے ’گی اون‘ ڈسٹرکٹ کی تنگ گلیوں میں چلتے نظر آتی ہیں۔ لیکن اب شہر کے اس تاریخی حصے میں کچھ نجی راہداریوں کو سیاحوں کے لیے بند کیا جارہا ہے۔ مقامی انتظامیہ کے اہلکار ایسوکازو اوتا نے اے پی نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہم اپریل میں سائن بورڈ لگائیں گے جو سیاحوں کو نجی گلیوں میں جانے سے روکیں گے۔‘ سیاحوں کا مجمع گی اون کی تنگ اور قدیم گلیوں میں گائیڈز کے پیچھے چلتے ہوئے یہاں تک پہنچتا ہے جہاں گائیڈ کبھی کبھار رک کر وہاں کی دلچسپ تاریخ کے بارے میں لمبی تقریریں کرتے ہیں۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں گیشا اور ان کی شاگرد (جنھے مائکو) بالوں پر زیورات لگائے اور کیمونو میں ملبوس رقص اور موسیقی کرتی نظر آتی ہیں۔ کیمروں سے لیس سیاح گی اون میں پہنچتے ہیں جہاں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ رقص کی کلاس کے لیے جاتی ان خواتین کی تصویریں کھینچ سکیں یا جب وہ اپنی روایتی ڈنر پارٹی میں مشغول ہوں تو ان کی تصویریں لی جائیں۔ کئی سالوں سے تنگ کرنے والے سیاحوں کے بارے میں شکایات سامنے آ رہی ہیں۔ مقامی انتظامیہ بتاتی ہے کہ ’بے قابو سیاح‘ گیشا کو ہراساں کرتے ہیں اور کبھی کبھار زبردستی ان کے کیمونو (کپڑوں) کو چھوتے ہیں یا ان کے ساتھ تصویریں کچھینچتے ہیں۔ جب کورونا وائرس کی وبا پھیلی اور سیاحوں کی تعداد میں کمی ہوئی تو یہ مسئلہ اتنا گمبھیر نہیں رہا تھا لیکن اب سیاح اپنی پوری طاقت کے ساتھ واپس آ گئے ہیں۔ گی اون کے جنوبی حصے کی ڈسٹرکٹ کاؤنسل کے نمائندہ سیکریٹیری اوتا کہتے ہیں کہ جب گیشا ایک سے دو میٹر چوڑی تنگ گلی میں چل رہی ہوتی ہیں تو سیاحوں کی بھیڑ ’پاپارازی‘ کی طرح برتاؤ کرتی ہے۔ اس علاقے کی عوامی راہداریاں اور گلیاں سیاحوں کے لیے کھلی رہیں گی اور بقیہ کیوٹو میں اندرونِ جاپان اور بیرون ملک سے سیاحوں کی بڑی تعداد موجود رہے گی۔ تقریباً 25 ملین سیاح جاپان کے کھانوں، جدید ٹیکنالوجی آلات، خوبصورت باغ اور فوجی پہاڑ اور سالانہ چیری کے پھولوں سے محظوظ ہونے کے لیے جاپان آتے ہیں۔ سیاحوں کی تعداد کے اس اندازے کی وجہ سے گی اون کے رہائشی گھبرائے ہوئے ہیں۔ ان کی مقامی کاؤنسل نے آنے والے سیاحوں کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے چند مہینے پہلے کہا تھا ’کیوٹو ایک تھیم پارک نہیں ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cyx7qv270d7o", "summary": "یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی ایک تحقیق کے مطابق چھوٹے پارکوں اور علاقوں میں بھیڑوں کی مٹرگشت کا اثر انسانوں پر بھی پڑتا ہے اور ان کے خوشی کے احساسات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ممکنہ طور پر اسی طرح ایک اچھا سویٹر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ", "title": "وہ خصوصیات جو ایک سویٹر کو ’زندگی بھر کا ساتھی‘ بناتی ہیں", "firstPublished": "2024-02-07T13:13:53.090Z", "id": "cyx7qv270d7o", "article": "دُنیا بھر کی فیشن مارکیٹ میں اونی ملبوسات کی مقبولیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ یہ سوالات بھی جنم لے رہے ہیں کہ ان ملبوسات کا زمین اور اُس پر رہنے والی مخلوق پر کیا اثر پڑے گا۔ ساسکیا جیکسٹرا ایمسٹرڈم میں 'ایکسٹریم کیشمیر' نامی فیشن برانڈ کی بانی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'لوگوں کو یہ بات نہیں معلوم کہ ایک اچھا سویٹر اُن اشیا میں سے ہے جو لوگوں کو زمین اور قدیم روایات سے براہ راست جوڑتا ہے۔' ان کے مطابق ایک اچھا سویٹر زندگی بھر کا 'ساتھی' ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں سویٹرز بنانے کے لیے 'نِٹنگ' کی تکنیک کا سہارا لیا جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں سویٹرز کو ایک سوئی اور دھاگوں کی مدد سے گراہیں لگاگر بنایا جاتا ہے اور اس عمل کو سویٹر بُننا کہا جا تا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'مجھے ابھی بھی جس طرح یہ سویٹر تیار کیے جاتے ہیں یہ سارا عمل بہت پسند ہے۔ دیگر ملبوسات کے مقابلے میں شاید ہاتھ سے بنے ہوئے ان سویٹر کا ہر ایک ’سِٹچ‘الگ کہانی ہے۔' اون سمیت ہر طرح کی اشیا کی فیکٹری میں پیداوار غیر اخلاقی اور جابرانہ عمل ہے۔ جانوروں پر تحقیق کرنے والے کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ انسانی ہاتھوں سے تیار کردہ مصنوعات اون کے اعلیٰ معیار اور انسانی فلاح کے لیے ضروری ہے۔ جانوروں کی صحت پر تحقیق کرنے والے مشی گن یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر رچرڈ ارہارڈٹ کا کہنا ہے کہ اگر اونی دھاگہ حاصل کرنے کے لیے درست عمل اختیار کیا جائے تو بھیڑوں کو بیماریوں سے بچایا جا سکتا ہے اور اس کے اچھے اثرات ان کی پیدا ہونے والے بچوں پر بھی بڑھتے ہیں۔ ان کے مطابق اس عمل کے ذریعے نہ صرف 'ماں اور بچوں میں اُنسیت' بڑھتی ہے بلکہ بہن اور بھائیوں میں بھی محبت بڑھتی ہے۔ ریسرچرز کا یہ بھی خیال ہے کہ اون فارمنگ اگر چھوٹے پیمانے پر کی جائے تو اس کے مٹی پر بھی اچھے اثرات پڑتے ہیں۔ پروفیسر کیرن لانچبف اور ڈاکٹر جون واکر کے مطابق بھیڑوں کی موجودگی سے مٹی میں ذرخیزی بھی بڑھتی ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی ایک تحقیق کے مطابق چھوٹے پارکوں اور علاقوں میں بھیڑوں کی مٹرگشت کا اثر انسانوں پر بھی پڑتا ہے اور ان کے خوشی کے احساسات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ بھیڑیں خوش ہیں ہمیشہ اپنے ڈیزائنرز سے پوچھیں کہ ان کے پاس اونی دھاگہ آتا کہاں سے ہے اور اُن سے یہ بھی دریافت کریں کہ اونی دھاگہ حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ اس حوالے سے نیویارک کی ایک نوجوان ڈیزائنر کا کہنا ہے کہ 'مجھے بہت غصہ آتا ہے جب میں کوئی مہنگا سویٹر خریدتی ہوں اور پہلی بار پہننے کے بعد ہی خراب ہو جاتا ہے۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cnl4k271ejvo", "summary": "طبی شعبے سے متعلق ایک تنظیم میو کلینک کی ویب سائٹ کے مطابق اعصابی خلیوں کے یہ چھالے یا رسولیاں جینیاتی نقائص کی وجہ سے ہوتی ہیں اور یہ پھوڑا یا رسولی اعصابی نظام میں کہیں بھی بن سکتی ہے۔ ", "title": "نیوروفائبرومیٹوسس: پورے جسم پر چھالے پڑ جانے والا عارضہ کیا ہے اور یہ کیوں ہوتا ہے؟", "firstPublished": "2024-04-30T13:50:55.428Z", "id": "cnl4k271ejvo", "article": "نیوروفائبرومیٹوسس کو وون ریکلنگہاؤسن یا نیوروفائبروما بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اعصابی نظام سے متعلق ایک جینیاتی بیماری ہے۔ طبی شعبے سے متعلق ایک تنظیم میو کلینک کی ویب سائٹ کے مطابق اعصابی خلیوں کے یہ چھالے یا رسولیاں جینیاتی نقائص کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ میو کلینک لندن میں قائم ایک تنظیم ہے جو طبی علاج اور تحقیق کے شعبوں میں خدمات فراہم کرتی ہے۔ اس ویب سائٹ کے مطابق یہ پھوڑا یا رسولی اعصابی نظام میں کہیں بھی بن سکتی ہے۔ دماغ، ریڑھ کی ہڈی اور اعصاب میں بھی۔ این ایف ٹو جین، کروموسوم 22 پر واقع ہے، مرلن نامی ایک پروٹین تیار کرتا ہے۔ یہ پروٹین جسم میں پھوڑے یا رسولیوں کو کنٹرول میں رکھتا ہے۔ لیکن اگر اس جین میں کوئی تبدیلی آجائے تو مرلن پروٹین کی پیداوار رک جاتی ہے۔ نتیجے کے طور پر، جسم میں خلیات بے قابو ہو جاتے ہیں. اس بیماری کو خود این ایف 2 یا یوروفائبرومیٹوسس ٹائپ ٹو بیماری کہا جاتا ہے۔ شوانومیٹوسس ایک بیماری ہے جو دو جینز میں تبدیلی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ بیماری دو ٹیومر دبانے والے جینز، ایس ایم اے آر سی بی 1 اور ایل زیڈ ٹی آر 1 میں بعض تغیّرات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ نیوروفائبروماس کی وجہ سے ٹیومر یا پھوڑے جان لیوا نہیں ہوتے۔ یہ ٹیومر عام طور پر کینسر سے وابستہ نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات وہ کینسر کے خلیوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ میو کلینک اور ویب ایم ڈی، ایک امریکی تنظیم ہے جو انسانی صحت اور صحت کی دیکھ بھال سے متعلق مضامین شائع کرتی ہے، متعدد نیوروفائبرومیٹوسس کی علامات اور پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ اس کے نتائج کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے۔ کان میں ٹیومر یا گانٹھ۔ اس سے سننے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ یہ علامات جوانی یا ابتدائی جوانی کے دوران ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ شکایات یا علامات عصبی خلیوں پر رسولی کے اثر یا جسم کے اندرونی اعضا پر ٹیومر کی وجہ سے پیدا ہونے والے تناؤ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ کچھ بچوں میں ہڈیوں کی ساخت نارمل نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ سے ٹیڑھی ٹانگیں، ٹوٹی ہوئی ہڈیاں اور ٹوٹی ہوئی ہڈی کے بعد اس کا نہ جڑنا جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ این ایف ون ریڑھ کی ہڈی کو موڑنے کا سبب بنتا ہے۔ اس مسئلے کو درست کرنے کے لیے سرجری کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ساتھ ہی آسٹیوپوروسس کا مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ پورے جسم پر ہوں تو انھیں ہٹایا نہیں جا سکتا۔ جو لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں وہ معمول کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ ایک جینیاتی بیماری ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ کوئی چُھوت بیماری نہیں ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cmm3v8nz4q5o", "summary": "ایک اندازے کے مطابق 2020 میں دنیا بھر میں پروسٹیٹ کینسر سے تین لاکھ 75 ہزار مردوں کی ہلاکت ہوئی اور خدشہ ہے کہ 2040 تک ان اموات میں 85 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔", "title": "پروسٹیٹ کینسر: دنیا بھر میں مردوں کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والا سرطان کیا ہے اور اس کا علاج کیسے ممکن؟", "firstPublished": "2024-04-28T12:17:36.737Z", "id": "cmm3v8nz4q5o", "article": "طبی جریدرے لانسیٹ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پروسٹیٹ کینسر کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2020 میں پروسٹیٹ کینسر کے 14 لاکھ نئے کیسز سامنے آئے۔ خدشہ ہے کہ سنہ 2040 میں یہ تعداد بڑھ کر 29 لاکھ ہو جائے گی۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ 112 ممالک میں مردوں میں سب سے زیادہ عام کینسر ہے اور کینسر کے تمام کیسز میں سے 15 فیصد پروسٹیٹ کینسر ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2020 میں دنیا بھر میں پروسٹیٹ کینسر سے تین لاکھ 75 ہزار مرد ہلاک ہوئے اور خدشہ ہے کہ 2040 تک ان اموات میں 85 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق ہر سال ایک لاکھ کی آبادی میں اس کے چار سے آٹھ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ گذشتہ 25 برسوں میں قومی سطح پر کیسز میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ شہری آبادی میں پروسٹیٹ کینسر میں 75 سے 85 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اخروٹ جتنا ہوتا ہے لیکن عمر کے ساتھ بڑا ہوتا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ 45 سے 50 سال کی عمر کے بعد مردوں میں پروسٹیٹ سے متعلق مسائل پیدا ہوجاتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کینسر ہے۔ ڈاکٹر وکرم بروا کوشک آرٹیمس ہسپتال میں یورولوجی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 'جیسے جیسے آبادی کی اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے، پروسٹیٹ کینسر کے کیسز بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن کیسز کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔‘ ڈاکٹر ایس وی ایس دیو کا کہنا ہے کہ انڈیا میں کینسر رجسٹری کے مطابق گذشتہ ایک دہائی میں ٹیسٹیکولر کینسر کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ مغربی ممالک کے مقابلے میں دو سے تین گنا کم ہے۔ لانسیٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پروسٹیٹ کینسر کی تشخیص کم ہوتی ہے اور دنیا بھر میں یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں دیر سے تشخیص بھی ایک عنصر ہے۔ امریکی حکومت کی آفیشل ویب سائٹ نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ کے مطابق پی ایس اے کی کوئی نارمل یا مخصوص سطح نہیں ہے۔ پہلے 4.0 این جی / ایم ایل یا اس سے کم کو نارمل سمجھا جاتا تھا۔ لیکن یہ دیکھا گیا کہ جن لوگوں کی سطح اس سے کم تھی ان میں پروسٹیٹ کینسر تھا اور جن کی سطح 10 این جی / ایم ایل سے زیادہ تھی ان میں نہیں دیکھا گیا۔ لانسیٹ کی رپورٹ کے مطابق سال 2020 کے بعد مشرقی ایشیا، جنوبی امریکہ، مشرقی یورپ اور شمالی امریکہ جیسے ممالک میں پروسٹیٹ کینسر کے کیسز اور اموات ہوں گی۔ تاہم ان تمام ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کینسر کا علاج ممکن ہے اور اس کی سست رفتار کی وجہ سے مریضوں کی جلد اموات کا خطرہ کم ہوتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c97zx73nnq9o", "summary": "عائشہ صرف سات سال کی تھیں جب یہ علم ہوا کہ ان کے دل کا پچیس فیصد حصہ ناکارہ ہو چکا ہے۔ رفتہ رفتہ عائشہ کا دل معمول کے مطابق کام کرنا چھوڑ رہا تھا۔ ", "title": "پاکستانی عائشہ جسے انڈین شہری کے دل نے نئی زندگی دی: ’سرجری کے پیسے نہیں تھے، ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ آ جائیں، ہم سنبھال لیں گے‘", "firstPublished": "2024-04-28T03:12:20.791Z", "id": "c97zx73nnq9o", "article": "عائشہ صرف سات سال کی تھیں جب یہ علم ہوا کہ ان کے دل کا 25 فیصد حصہ ناکارہ ہو چکا ہے۔ رفتہ رفتہ عائشہ کا دل معمول کے مطابق کام کرنا چھوڑ رہا تھا۔ 2019 میں پہلی بار صنوبر اور عائشہ انڈیا کے شہر چنئی میں ایک ماہر امراض قلب سے ملے۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد عائشہ کو دل کا دورہ پڑا۔ اس صورت حال میں عائشہ کے دل میں ایک مصنوعی آلہ لگایا گیا تاہم کراچی لوٹنے کے دو سال بعد ہی انھیں ایک انفیکشن ہوا جس کے بعد ان کے دل کی دائیں سمت نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ تب ڈاکٹروں نے انھیں بتایا کہ اب ٹرانسپلانٹ ہی واحد حل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’پہلی بار عائشہ یہاں آئی اور اسے دل کا دورہ پڑا تو ہم نے ایکمو نامی آلہ نصب کیا تھا۔ ہم نے خون پمپ کرنے والا ایک مصنوعی آلہ بھی لگایا تھا جس کے بعد ان کو گھر واپس بھیج دیا کیوںکہ ان کی جسمانی صحت بہتر ہو چکی تھی۔ لیکن پاکستان میں مصنوعی ہارٹ پمپ کی منایٹنگ کے لیے سہولیات موجود نہیں ہیں اور اسی وجہ سے خون کی ایک نالی میں لیکج ہو گئی۔‘ بی بی سی اردو کے لیے صحافی زبیر خان سے بات کرتے ہوئے سرجن ڈاکٹر کے آر بالا کریشنن نے اس ٹرانسپلانٹ کی پیچیدگیوں پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ٹرانسپلانٹ آسان نہیں تھا کیونکہ عائشہ کے دل کے پاس انفیکشن تھا اور بھی بہت سے مسائل تھے۔ یہ ایک لمبا اور نازک ٹرانسپلانٹ تھا۔ عائشہ بچپن سے میرے پاس آرہی تھی اور میں اور میری ساری ٹیم چاہتی تھی کہ عائشہ ایک صحت مند زندگی گزارے۔‘ ڈاکٹر کریشنن کا کہنا تھا کہ ’ہم نے عائشہ کا سینہ اپنی پوری تسلی کے بعد بند کیا تھا کیونکہ ہم دیکھنا چاہ رہے تھے کہ کیا نتائج نکلتے ہیں اور کیا مزید کسی سرجری کی ضرورت پڑ سکتی ہے یا نہیں۔ لہذا اس دوران صرف ٹرانسپلانٹ کرنے والی ٹیم ہی نہیں بلکہ آئی سی یو کا بھی بہت بڑا کردار تھا۔ ایسے ٹرانسپلانٹ میں اگر آئی سی یو مناسب، جدید ترین اور ماہرین پر مشتمل نہ ہو تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں مگر ہماری آئی سی یو ٹیم اور ان کے سربراہ ڈاکٹر سریش نے شاندار طریقے سے عائشہ کا خیال رکھا تھا۔ ڈاکٹر سریش کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت حساس کیس تھا۔ دل ہی سے خون پورے جسم میں گردش کرتا ہے۔ اس کے خون کی روانی کو برقرار رکھنا بھی لازمی تھا۔ عائشہ کی قوت مزاحمت بہت کم ہوچکی تھی۔ وہ بہت کمزور تھی۔ اس میں خدشہ تھا کہ کئی کہیں گردے اور پھر دوسرے اعضا میں کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوجائے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2rnd74rplo", "summary": "بکنگھم پیلس کا کہنا ہے کہ کینسر کے علاج میں بہتری آنے کے بعد اب بادشاہ چارلس اگلے ہفتے سے عوامی مصروفیات کا دوبارہ آغاز کریں گے۔ اگرچہ ابھی بادشاہ مکمل طور پر عوامی مصروفیات میں فعال نہیں ہوں گے مگر پیلس کی طرف سے اس حوالے سے حوصلہ افزا اشارے مل رہے ہیں۔", "title": "بادشاہ چارلس کینسر کے علاج میں پیش رفت کے بعد اگلے ہفتے دوبارہ عوامی مصروفیات کا آغاز کریں گے", "firstPublished": "2024-04-27T06:35:59.641Z", "id": "cv2rnd74rplo", "article": "بکنگھم پیلس کا کہنا ہے کہ کینسر کے علاج میں بہتری آنے کے بعد اب بادشاہ چارلس اگلے ہفتے سے عوامی مصروفیات کا دوبارہ آغاز کریں گے۔ اگرچہ بادشاہ مکمل طور پر عوامی مصروفیات میں فعال نہیں ہوں گے مگر پیلس کی طرف سے اس حوالے سے حوصلہ افزا اشارے مل رہے ہیں۔ اگلے منگل کو بادشاہ چارلس کینسر کے علاج کے ایک سینٹر کے علامتی دورے سے اپنی مصروفیات کا آغاز کریں گے۔ ان کے موسم گرما کے منصوبوں میں ایک سرکاری دورہ شامل ہے، جہاں وہ جاپان کے شہنشاہ اور ملکہ کی میزبانی کریں گے۔ یہ ایک محتاط امید بھرا پیغام ہے مگر بادشاہ کا علاج، جو فروری میں شروع ہوا تھا، اب بھی جاری ہے اور اس کے اختتام کی کوئی تاریخ نہیں دی گئی ہے۔ بکنگھم پیلس نے جمعہ کو جاری کردہ ایک بیان میں بادشاہ کی عوامی مصروفیات اور ان کی حالت کے بارے میں تفصیلات جاری کی ہیں۔ پیلس کے مطابق یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ’ان کا علاج کب تک جاری رہے گا۔‘ پیلس سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈاکٹروں کو اب تک ہونے والی پیشرفت سے بہت حوصلہ ملا ہے اور وہ بادشاہ کی مسلسل صحت یابی کے بارے میں بہتری کی امید رکھتے ہیں۔ بادشاہ کو لاحق کینسر کی قسم کا انکشاف نہیں کیا گیا لیکن ان کی میڈیکل ٹیم ’اب تک ہونے والی پیشرفت سے کافی حد تک مطمئن ہے اور بادشاہ اب عوامی سطح پر متعدد فرائض دوبارہ شروع کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔‘ پیلس کا کہنا ہے کہ عین وقت پر طبی مشورے کے مطابق فیصلے کیے جائیں گے۔ فروری سے کینسر کی تشخیص کے بعد سے بادشاہ چارلس عوامی مصروفیات سے دور ہیں۔ بادشاہ اب ملکہ کیملا کے ساتھ اگلے ہفتے کینسر کے علاج کے مرکز کا دورہ کریں گے، وہ مریضوں اور عملے سے ملاقات کریں گے اور کینسر کی تحقیق کے لیے اپنا تعاون ظاہر کریں گے۔ جون کے آخر میں، بادشاہ چارلس ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے جاپان کے شہنشاہ اور مہارانی کا استقبال کریں گے، یہ 1998 کے بعد جاپان کے شہنشاہ کا پہلا سرکاری دورہ ہے۔ عمومی طورپر، اس طرح کے دوروں میں بکنگھم پیلس میں سرکاری ضیافت اور کیریج پریڈ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ تاہم بادشاہ کی صحت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جاپان کے شنشاہ کے دورے کے دوران اس میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اس سال کا آغاز شاہی خاندان کے لیے مشکل رہا ہے۔ شہزادی آف ویلز بھی کینسر کی تشخیص کے بعد سے زیرِ علاج ہیں۔ بادشاہ چارلس کا کہنا ہے کہ وہ کینسر کی تشخیص کے بعد موصول ہونے والے ان پیغامات اور کارڈز سے بہت متاثر ہوئے ہیں جن میں ان کی صحت یابی کی دعائیں کی گئی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czq5gxyw9gvo", "summary": "پنڈلی کے نچلے حصے میں واقع سولوس ان کثیر الجہتی اعضا میں سے ایک ہے جو نہ صرف ہمیں سیدھا رکھتا ہے بلکہ اس کے اندر دو اہم رگیں بھی ہوتی ہیں جو خون کی گردش میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔", "title": "ہمارے جسم میں موجود ’دوسرا دل‘ کیسے کام کرتا ہے؟", "firstPublished": "2024-04-26T11:47:54.832Z", "id": "czq5gxyw9gvo", "article": "پنڈلی کے نچلے حصے میں واقع سولوس ان کثیر الجہتی اعضا میں سے ایک ہے جو نہ صرف ہمیں سیدھا رکھتا ہے بلکہ اس کے اندر دو اہم رگیں بھی ہوتی ہیں جو خون کی گردش میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ وہ ریشے ہیں جو اگرچہ اچانک حرکت کرنے کے لیے نہیں بنے لیکن ان میں بہت مزاحمت ہوتی ہے اور تھکاوٹ کی چند علامات کے ساتھ گھنٹوں تک سکڑ سکتے ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جو آپ کو لمبے وقت تک کھڑے ہونے یا چلنے کے قابل بناتی ہے۔ سولس، ایک ساختی پٹھے کے طور پر جو آپ کو سیدھا رہنے میں مدد کرتا ہے، اس میں آہستہ آہستہ پھڑکنے والے ٹشو کی ایک بڑی مقدار ہوتی ہے، کچھ ایسی ساخت میں جو اسے تھکاوٹ کے بغیر بڑی مقدار میں توانائی پیدا کرنے کے قابل بناتا ہے۔ ڈاکٹر کارلس پیڈریٹ بتاتے ہیں کہ ’سولوس میں پٹھوں کے فائبر کی ایک بڑی مقدار ہوتی ہے اور پٹھوں کے فائبر میں ایک عنصر ہوتا ہے جو توانائی کی تخلیق کے لیے کلیدی ہے، مائٹوکونڈریا۔ مائٹوکونڈریا کی بڑی تعداد کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہم اسے متحرک کرتے ہیں تو یہ بڑی مقدار میں توانائی پیدا کرتا ہے۔‘ یہ ریشوں کی کثافت ہے جو جسم کے وزن کے بمشکل ایک فیصد نمائندگی کرنے والے اس پٹھے کو قابل بناتی ہے کے جسم کے بہت سے دوسرے اعضا کے مقابلے میں اس میں بہت زیادہ توانائی رکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ہیملٹن نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ یہ عمل کیسے کام کرتا ہے ’سولوس کی جسمانی ساخت دیگر عضلات سے مختلف ہوتی ہے۔ آپ کی پنڈلی کے اندر، کچھ بڑی رگیں ہیں جو آپ کے تلوے تک جاتی ہیں اور وہ رگیں وہاں ہونے کی ایک بہت اچھی وجہ ہے۔‘ ’لیکن عقلمند فطرت نے ان رگوں کو سولس کے اندر ڈال دیا تاکہ پٹھوں کے سکڑنے پر وہ بھی سکڑ جائیں۔ جب یہ دبتے ہیں تو خون سے سے بھری یہ رگیں خالی ہو جاتی ہیں اور وہ خون واپس دل میں بھیج دیتی ہیں۔‘ بنیادی طور پر آپ کے ہر قدم کے ساتھ آپ اپنی ٹانگوں میں موجود خون کو واپس دل کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ یہ نظام جس میں پاؤں کی متعدد رگیں اور گیسٹروکینیمائس پٹھے بھی شامل ہیں، اسے پوپلائٹل پمپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘ جسم کے تمام پٹھوں عضلات کی طرح سولوس کو صحت مند رہنے کے لیے کام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کام کے برعکس جس میں ہم تیز فائبر پٹھوں کے تابع ہوتے ہیں، سولوس کا کام سست اور زیادہ مستقل کام ہونا چاہیے۔ ’اس لیے، اسے صرف کام کی ضرورت ہے۔ آپ اسے ساکت نہیں چھوڑ سکتے۔ آرام اور آرام دہ طرز زندگی اس کے لیے بہت برا ہے لیکن زور آور کام کرنے کی زیادتی بھی اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxwvkenm3v2o", "summary": "گُردوں کے عطیہ دہندگان کی کمی کی وجہ سے دُنیا بھر میں ہی بہت سے لوگ زندگی اور موت سے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ لڑ رہے ہیں ایسے ہی لوگوں میں سے ایک برطانیہ کی ڈیسٹنی بھی تھیں کہ جنھوں نے سب سے زیادہ دن اور وقت ہسپتال میں رہنے کا ریکارڈ بنایا۔", "title": "’مایوس‘ والدہ کی چیٹ روم میں اپیل جس نے اُن کی پانچ سالہ بیٹی کی جان بچائی", "firstPublished": "2024-04-23T13:30:19.548Z", "id": "cxwvkenm3v2o", "article": "ڈیسٹینی ابھی صرف 10 ماہ کی تھیں کہ اُن کے گردوں نے ٹھیک سے کام کرنا بند کر دیا، جس کے بعد سے انھیں برطانیہ کے ’گریٹ اورمنڈ سٹریٹ‘ ہسپتال میں ڈائیلاسز کے لیے جانا پڑتا تھا، اور اتنی کم عُمری میں اس تکلیف دہ عمل سے گُزرنے والی وہ دنیا کی سب سے کم عُمر فرد بن گئیں۔ اس طرح اگر ڈائیلاسز پر لگنے والے دنوں اور وقت کا حساب کیا جائے تو ڈیسٹینی کی زندگی کے تقریباً چھ ماہ مشین سے جڑے رہے، جو ہسپتال کا ایک اور نیا ریکارڈ بنا کہ اتنی کم عمری میں کسی بچے نے اب تک کا سب سے طویل وقت ہسپتال میں مشینوں کے درمیان گُزارا۔ عمومی طور پر گردوں کے ٹرانسپلانٹ کی بات ہو تو ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کے خون اور ٹشوز میچ ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے اور زیادہ تر کیسز میں وہی عطیہ کر سکتے ہیں۔ لیکن ڈیسٹینی کے خاندان میں سے کوئی بھی انھیں گُردے کا عطیہ کرنے کے قابل نہیں تھا اور قومی سطح پر اعضا کی کمی، خاص طور پر نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے عطیہ دہندگان کی کمی ننے اُن کی مُشکلات میں اضافہ کیا۔ لیفی نے ڈیسٹینی کو گُردہ دینے کی خواہش کا اظہار تو کیا مگر خون کے نمونے اور ٹشوز کے میچ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اُن کی مدد نہ کر سکیں، لیکن اسی سب کے بیچوں بیچ ڈیسٹینی کے لیے گُردے کا بندوسبت تو ہوا مگر لیفی کی بجائے کسی اور اجنبی کی صورت میں۔ ماریہ، ڈیسٹینی اور لیفی سب نے مل کر بی بی سی کو اس معاملے کی فلم بندی کے لیے دعوت دے ڈالی کیونکہ انھیں معلوم ہوا کہ ’این ایچ ایس بلڈ اینڈ ٹرانسپلانٹ‘ (این ایچ ایس بی ٹی) کی جانب سے چلائی جانے والی ’یو کے لیونگ کڈنی شیئرنگ سکیم‘ کی مدد سے انھیں تو کامیابی حاصل ہوئی ہے مگر ایسے کرنے کی وجہ ایسے والدین کی بھی مدد ہو جائے گی کہ جو اپنے بچے کے لیے گُردے کی تلاش میں ہوں۔‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ ہم بھی ماریا اور ڈیسٹینی جیسی ہی کیفیت سے گُزر رہے ہوں، خاص طور پر تب جب کوئی آپ کی مدد کے لیے نہ مل رہا ہو۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’لوگوں کے لیے یہ جاننا بہت مشکل ہے کہ میں اپنا گردہ کسی ایسے شخص کو کیوں عطیہ کروں گی جس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے، جسے میں ٹھیک سے جانتی بھی نہیں اور بس انھیں میں آن لائن ملی ہوں۔‘ اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’آپ جانتے ہیں کہ میرے لیے اس سب میں کُچھ بھی نہیں۔ لیکن میں بس ڈیسٹینی کو ایک صحت مند اور خوشگوار ماحول میں پروان چڑھتے دیکھنا چاہتی ہوں اور بس میرے لیے سب کُچھ یہی ہے اس سے زیادہ کُچھ نہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp4gze48l49o", "summary": "جب بھی گردوں کا معمول کا کام تعطل کا شکار ہوتا ہے تو اس کی وجہ کوئی نہ کوئی بیماری ہوتی ہے اور ایسے میں ایک بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ یہ بیماری ابتدائی مراحل میں سامنے نہیں آتی بلکہ چند علامات تو مکمل طور پر ظاہر بھی نہیں ہوتیں۔", "title": "گردوں کی آٹھ عام بیماریوں کی علامات کیا ہوتی ہیں؟", "firstPublished": "2024-04-23T07:29:59.130Z", "id": "cp4gze48l49o", "article": "گردوں کی بیماریوں میں اضافے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ امراض ابتدائی مراحل میں زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ اسی لیے یہ ضروری ہے کہ گردوں کی بیماریوں اور ان کی علامات کو سمجھا جائے تاکہ مرض کے ابتدائی لمحات میں ہی ڈاکٹر کی مدد حاصل کی جاسکے تاہم ان تفصیلات میں جانے سے قبل یہ جان لیتے ہیں کہ گردے کیا اور کیسے کام کرتے ہیں۔ جب بھی گردوں کا معمول کا کام تعطل کا شکار ہوتا ہے تو اس کی وجہ کوئی نہ کوئی بیماری ہوتی ہے اور ایسے میں ایک بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ یہ بیماری ابتدائی مراحل میں سامنے نہیں آتی بلکہ چند علامات تو مکمل طور پر ظاہر بھی نہیں ہوتیں۔ ڈاکٹر ملی میتھیو کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے بیماری کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں اور طبی معائنے اور ٹیسٹ کے ذریعے ہی یہ جانا جا سکتا ہے کہ بیماری کس حد تک بڑھ چکی ہے۔ یہ گردوں کی ایک ایسی بیماری ہوتی ہے جو طویل عرصے تک رہتی ہے اور یہ اکثر ایسے افراد کو لاحق ہوتی ہے جن کو ذیابطیس یا بلڈ پریشر کا عارضہ ہوتا ہے۔ اس بیماری کے ابتدائی مرحلے میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں اور اہم بات یہ ہے کہ یہ بیماری درست علاج سے دور ہو سکتی ہے۔ ذیابیطس کے علاوہ گردوں کو جو مرض زیادہ متاثر کرتا ہے وہ ہائی بلڈ پریشر ہے جس کی وجہ سے گردوں میں موجود خون کی نالیوں کو نقصان پہنچتا ہے اور یوں ان کا معمول کا کام متاثر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے خون سے غیر ضروری مواد کی صفائی کا کام نہیں ہو پاتا اور نہ ہی خون سے جسم کے لیے نقصان دہ معدنیات نکل پاتی ہیں۔ یوں غیر ضروری مواد خون کی نالیوں میں اکھٹا ہو جاتا ہے اور بلڈ پریشر کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ یہ بیماری کسی بیکٹیریا کی وجہ سے ہو سکتی ہے اور اگر اس انفیکشن کو جلد دور نہ کیا جائے تو یہ پیشاب کی نالی کے اوپر والے حصے تک پہنچ کر گردوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یہ بیماری مثانے میں رسولی کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتی ہے اور گردوں کو ناکارہ بنا سکتی ہے۔ اس کی وجوہات میں جینیات کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ یہ گردوں کی ایک ایسی بیماری ہے جس کا آغاز زیادہ تر بچپن اور نوجوانی میں ہو جاتا ہے۔ گردوں کی مکمل ناکامی میں گردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں تاہم اس مرض سے متاثرہ افراد میں علامات کا بہت دیر سے علم ہوتا ہے جب بیماری عام طور پر بہت بڑھ چکی ہوتی ہے۔ اس مرض کی علامات صرف اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب گردے مکمل طور پر کام کرنا چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ اس کی جو علامات اس وقت ظاہر ہوتی ہیں ان میں بھوک میں کمی، قے، شدید جسمانی کمزوری، جسم کا پھول جانا اور نیند نہ آنا شامل ہوتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cmm36pd84jdo", "summary": "یہ عقیدہ یا فرسودہ سوچ کہ ہائمن (کنوارپن کی جھلی) جنسی تاریخ کا جسمانی ’ثبوت‘ فراہم کرتی ہے، کنوارپن کی جانچ کی بنیاد ہے، جس کی عالمی ادارہ صحت نے 2018 میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر مذمت کی تھی۔ ", "title": "پاکستان سمیت کئی ممالک میں کنوارپن کے ٹیسٹ پر پابندی تو لگی مگر کیا سوچ بھی بدلی؟", "firstPublished": "2024-04-22T14:12:13.730Z", "id": "cmm36pd84jdo", "article": "وہ اجنبی دراصل یہ پوچھ رہی تھیں کہ کیا سراس اس کے ہائمن یا پردۂ بِکارت (کنوارپن کی جھلی) کو دیکھ سکتی ہے اور انھیں بتا سکتی ہیں کہ کیا یہ ’برقرار‘ ہے یا اسے کوئی نقصان تو نہیں پہنچا ہے، کیونکہ ان کی برادری میں شادی کے وقت کنوارے ہونے کا دباؤ بہت زیادہ تھا اور ان کے شوہر کے لیے یہ خون کی شکل میں واضح طور پر دیکھنا اس بات کی گواہی تھی کہ وہ کنواری تھیں۔ یہ عقیدہ یا فرسودہ سوچ کہ ہائمن (کنوارپن کی جھلی) جنسی تاریخ کا جسمانی ’ثبوت‘ فراہم کرتی ہے، کنوارپن کی جانچ کی بنیاد ہے، جس کی عالمی ادارۂ صحت نے 2018 میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر مذمت کی تھی۔ اس طرح کے ٹیسٹ مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں۔ ہر چیز کے جسمانی معائنے سے لے کر شادی کی رات کی رسومات تک جہاں خون سے لت پت بیڈ شیٹ ظاہر ہونے کی توقع کی جاتی ہے اور یہاں تک کہ دولہا اور دلہن کے اہل خانہ کو بھی دکھایا جاتا ہے۔ اس کی کوئی سائنسی بنیاد نہ ہونے کے باوجود اور کنوارپن بذاتِ خود ایک ایسا سماجی روّیہ اور سوچ ہے کہ جس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں لوگ اب بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک عورت کی جنسی تعلقات کی تاریخ کسی نہ کسی طرح اس کی جسمانی ساخت سے جُڑی ہوئی ہوتی ہے اور یہ کہ تمام خواتین پہلی بار جنسی تعلق قائم کرنے کے بعد خون میں لت پت ہو جاتی ہیں۔ یقیناً ان میں سے کُچھ بھی سچ نہیں، پھر بھی اس طرح کے عقائد دنیا بھر کی زبانوں، مذاہب اور برادریوں میں آج کے اس جدید دور میں بھی پائے جاتے ہیں۔ سائنسدانوں کے درمیان سب سے پہلے تو اس بارے میں بحث ہوئی کہ ہائمن ہے ہی کیوں۔ کیا یہ اس وقت کی باقیات میں سے تو کُچھ نہیں کہ جب ہمارے قدیم ممالیہ جانوروں نے پانی سے نکل کر زمین کا رخ کیا؟ واقعی کوئی نہیں جانتا۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ دیگر انواع میں ٹشو کا زیادہ مقصد ہوتا ہے، مثال کے طور پر گِنی پِگ کے ہائمنز ’میٹنگ سیزن یا ہیٹ‘ میں جانے پر تحلیل ہوجاتے ہیں اور پھر ختم ہونے پر دوبارہ بڑھتے ہیں۔ لیکن ہمارے یعنی انسانوں میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ چونکہ برطانیہ میں ہائمن کی مرمت یا بحالی پر پابندی لگانے والا قانون پارلیمنٹ کے ذریعے کام کرتا ہے، یہ واضح ہے کہ کچھ سرجن اب بھی اس پر کام کر رہے ہیں اور اب بھی برطانیہ کی سرزمین پر خدمات پیش کر رہے ہیں۔ لندن کے ایک سرجن کا کہنا ہے کہ ہائمن کی مرمت ان خواتین کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے جنھیں جنسی تعلقات یا سخت جسمانی سرگرمیوں کی وجہ سے جنسی نقصان پہنچا ہو۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ceq3ld223yno", "summary": "مشہور انڈین یوگا گرو بابا رام دیو کے دنیا بھر میں لاکھوں پیروکار ہیں تاہم ان کی ساکھ کو اس وقت دھچکا لگا ہے جب انڈیا کی سپریم کورٹ نے انھیں یہ جھوٹا دعویٰ کرنے پر معافی مانگنے کا حکم دیا ہے کہ ان کی کمپنی کی مصنوعات سنگین بیماریوں کا ’علاج‘ کر سکتی ہیں۔", "title": "’یوگا گرو‘: بخار سے لے کر کینسر جیسی موذی بیماریوں کے ’قدرتی ادویات سے علاج‘ کے دعویدار بابا رام دیو اب کیوں تنقید کی زد میں ہیں؟", "firstPublished": "2024-04-21T11:28:26.262Z", "id": "ceq3ld223yno", "article": "مشہور انڈین یوگا گرو بابا رام دیو کے دنیا بھر میں لاکھوں پیروکار ہیں تاہم ان کی ساکھ کو اس وقت دھچکا لگا ہے جب انڈیا کی سپریم کورٹ نے انھیں یہ جھوٹا دعویٰ کرنے پر معافی مانگنے کا حکم دیا ہے کہ ان کی کمپنی کی مصنوعات سنگین بیماریوں کا ’علاج‘ کر سکتی ہیں۔ بابا رام دیو اور اُن کے ساتھی آچاریہ بال کرشن کی جانب سے سنہ 2006 میں دواؤں کی برانڈ ’پتنجلی‘ قائم کی گئی تھی۔ سنہ 2006 کے بعد سے انھوں نے ٹوتھ پیسٹ سے لے کر جلد کی دیکھ بھال اور دیگر بیماریوں کے علاج کا دعویٰ کرنے والی ادویات تک ہر چیز فروخت کی ہے۔ لیکن آیورویدک دوائیں ان کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی مصنوعات میں سے ایک ہیں۔ لیکن گذشتہ ہفتے انڈین سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے اُن کی کمپنی کی ادویات کے اشتہارات پر پابندی لگا دی کہ یوگا گرو ’غلط معلومات‘ پھیلا رہے ہیں اور صارفین کو ’گمراہ‘ کر رہے ہیں۔ سال 2022 میں پتنجلی کا خالص گائے کا گھی فوڈ سیفٹی ٹیسٹ میں فیل ہو گیا تھا، لیکن بابا رام دیو نے یہ کہتے ہوئے نتائج کو مسترد کر دیا تھا کہ نمونوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔ سال 2023 میں اس برانڈ کو ایک ویجیٹیریئین ڈینٹل پروڈکٹ میں کٹل فش کا استعمال کرنے پر قانونی نوٹس بھیجا گیا تھا۔ کمپنی کے خلاف تازہ ترین کارروائی 2022 میں اس وقت شروع ہوئی تھی جب انڈین میڈیکل اسوسی ایشن نے ایک جھوٹے اشتہار کے خلاف عدالت میں عرضی دائر کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ فرم کی مصنوعات تھائیرائیڈ، ذیابیطس اور یہاں تک کہ میکیولر انحطاط کا بھی علاج کر سکتی ہیں۔ اس کے وکیل اس حکم پر عمل کرنے پر راضی ہو گئے لیکن ایک دن بعد بابا رام دیو نے آیورویدک دواؤں کے ’علاج‘ کی طاقت کو دگنا کر کے بیان کیا اور کہا کہ اگر ان کے دعوے جھوٹے پائے گئے تو وہ ’موت کی سزا کا سامنا کرنے‘ کے لیے تیار ہیں۔ یہ معاملہ جنوری میں اس وقت دوبارہ توجہ کا مرکز بنا جب سپریم کورٹ کو ایک گمنام خط موصول ہوا جس میں کمپنی کی جانب سے عدالتی حکم پر عمل کرنے سے انکار کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بابا رام دیو ایک بڑے پیمانے پر مقبول شخصیت ہیں۔ ان کے پیروکار انھیں قدرتی اور روایتی تمام چیزوں کے ماہر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ 58 سالہ رام دیو ان کے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی کی قیادت کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں۔ یوگا گرو باقاعدگی سے مودی کی تعریف کرتے ہیں اور 2014 کے عام انتخابات میں انھوں نے کھلے عام اپنے پیروکاروں سے بی جے پی کو ووٹ دینے کے لیے کہا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pyx0jg442o", "summary": "کیر کو زندگی کے اختتام کے تجربات کے مطالعے پر دنیا کے سرکردہ افراد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ان کے مطابق، یہ تجربات عام طور پر موت سے ہفتوں پہلے شروع ہوتے ہیں، اور اختتام کے قریب آتے ہی ان کی فریکوئنسی میں اضافہ ہوتا ہے۔ انھوں نے لوگوں کو اپنی زندگی کے اہم لمحات کو یاد کرتے ہوئے دیکھا، ماؤں، والد، بچوں اور یہاں تک کہ پالتو جانوروں سے بھی بات کرتے ہوئے جو کئی سال پہلے مر چکے تھے۔", "title": "مرنے سے قبل چند افراد کو اپنے وہ پیارے کیوں دکھائی دیتے ہیں جو پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں؟ قریب المرگ افراد کے تجربات", "firstPublished": "2024-04-18T14:59:11.970Z", "id": "c6pyx0jg442o", "article": "ڈاکٹر کیر کا کہنا ہے کہ انھوں نے موت سے قبل لوگوں کو اپنی زندگی کے اہم لمحات کو یاد کرتے ہوئے دیکھا۔ اپنی ماؤں، والد، بچوں اور یہاں تک کہ پالتو جانوروں سے بھی بات کرتے ہوئے دیکھا، جو کئی سال پہلے مر چکے تھے۔ ان کی تحقیق اس بات پر مرکوز ہے کہ زندگی کے آخری لمحات میں یہ تجربات کس فریکوئنسی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ ان کی ابتدا موت سے کتنے دن پہلے شروع ہو جاتی ہے، اس دوران مریض کیا محسوس کرتے ہیں اور لواحقین پر اس کے اثرات کیا ہوتے ہیں۔ ’مرنا ایک قدرتی عمل ہے۔ جب آپ آغاز ہفتہ (یعنی سوموار) کو مریض سے بات چیت کرتے ہیں، تو عین ممکن ہے کہ آپ کو مریض کی جانب سے ملنا والا ردعمل اختتام ہفتہ (یعنی جمعہ) کو ملنے والے ردعمل سے انتہائی مختلف ہو۔ یہی وجہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ان سے ان کے تجربات کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نے نوٹس کیا ہے کہ جیسے جیسے مریض اپنی موت کے قریب پہنچتا ہے تو اس نوعیت کے واقعات پیش آنے کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‘ جواب: ’مرنے کے قریب انٹرویو کیے گئے افراد میں سے تقریباً ایک تہائی سفر جیسے موضوعات پر بات کرتے ہیں۔ اس سفر میں ان کے ساتھ اُن کے وہ پیارے اور محبت کرنے والے لوگ شامل ہوتے ہیں جو ان سے پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جیسے جیسے کوئی اپنی موت کے قریب پہنچتا ہے تو مردہ افراد کو دیکھنے کی فریکوئنسی بڑھ جاتی ہے۔ مرنے والے کے لیے مرحوم افراد کو دیکھنا اور انھیں محسوس کرنا طمانیت اور سکون کا باعث بنتا ہے۔‘ ’ایک اور دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ وہ اپنے خوابوں میں کسے دیکھتے ہیں۔ وہ لوگ بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں جو مرنے والے کی زندگی میں انتہائی قریب تھے یا جن سے انھیں بہت زیادہ محبت تھی، جنھوں نے زندگی میں مرنے والے کا ہر موقع پر ساتھ دیا اور ان کی حفاظت کی۔ سادہ الفاظ میں وہ افراد جو مرنے والے کے بہت قریب تھے۔ اور ان افراد میں والدین میں سے کوئی ایک یعنی صرف ماں اور صرف باپ یا دونوں بھی سرفہرست ہیں، یا کوئی بھائی یا بہن۔‘ جواب: بچے اسے بہتر طریقے سے محسوس کرتے ہیں کیونکہ اُن کے پاس وہ فلٹر نہیں ہیں جو بالغوں کے پاس ہوتے ہیں۔ بچوں میں قدرتی طور پر ایک کُھلا پن ہوتا ہے۔ وہ تصورات اور حقیقت کے درمیان واضح سرحدیں نہیں کھینچتے۔ ان کے ذہن میں موت کا بھی کوئی واضح تصور موجود نہیں ہوتا، لہٰذا وہ اس لمحے میں ہی جی رہے ہوتے جس سے وہ گزر رہے ہوتے ہیں۔ وہ واقعات اور اپنے اختتام کو سلسلہ وار انداز میں نہیں سوچتے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pymjyn0ypo", "summary": "گلاکوما کی تشخیص اور علاج ابتدائی مراحل میں ہی ہونا نہایت اہم ہوتا ہے ورنہ اس بات کا خدشہ ہوتا ہے کہ بتدریج اس کی شدت میں اضافہ ہو گا اور بینائی مکمل طور پر جا سکتی ہے۔", "title": "گلاکوما: وہ بیماری جو علامات ظاہر کیے بغیر بینائی چھین لیتی ہے ", "firstPublished": "2024-04-12T06:43:07.760Z", "id": "c6pymjyn0ypo", "article": "’گلاکوما‘ ایک ایسی ہی بیماری ہے جو حالیہ دنوں میں کافی زیادہ حد تک عام ہو رہی ہے۔ اس بیماری کے پھیلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زیادہ تر اس کا آغاز بنا کسی قسم کی علامات کے بغیر ہوتا ہے اور اس وقت تک اس کے بارے میں علم نہیں ہوتا جب تک کہ متاثرہ فرد کی بینائی کافی حد تک جا چکی ہوتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس بیماری کے بڑھ جانے کے بعد بینائی کو بحال کرنا ممکن نہیں رہتا لیکن اس پراسرار بیماری کی علامات ہوتی کیا ہیں اور ان کو ابتدائی وقت میں کیسے جانچا جا سکتا ہے؟ برطانوی ہیلتھ سروس این ایچ ایس کے مطابق اس کی وجہ ایسا مائع ہوتا ہے جو آنکھوں میں اکھٹا ہو کر نسوں پر دباؤ ڈالتا اور ان کو نقصان پہنچاتا ہے۔ گلاکوما سے متاثرہ افراد کی بینائی متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے اور اگر ابتدائی مرحلے میں اس کی تشخیص نہ ہو اور علاج نہ شروع کیا جائے تو بینائی مکمل طور پر کھو سکتی ہے۔ اس بیماری سے جڑی ایک پیچیدگی یہ ہے کہ ابتدائی مراحل میں اس کی کوئی علامات واضح نہیں ہوتیں اور اسی لیے اس کی تشخیص تجربوں سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ اس بیماری کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے جس سے بینائی متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ گلاکوما کی تشخیص اور علاج ابتدائی مراحل میں ہی ہونا نہایت اہم ہوتا ہے ورنہ اس بات کا خدشہ ہوتا ہے کہ بتدریج اس کی شدت میں اضافہ ہو گا اور بینائی مکمل طور پر جا سکتی ہے۔ گلاکوما لاحق ہونے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ آنکھوں کے اندر موجود مائع درست طریقے سے راستہ نہیں بنا پاتا اور یوں دباؤ کی وجہ بن جاتا ہے جس سے آنکھ اور دماغ کو جوڑنے والی آپٹک نس متاثر ہوتی ہے۔ باقاعدگی سے آنکھوں کا معائنہ کروانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ علامات کی غیر موجودگی میں بھی اس مرض کی تشخیص کی جا سکتی ہے اور اسی لیے تجویز کیا جاتا ہے کہ ہر دو سال میں ایک بار آنکھوں کا معائنہ کروا لینا چاہیے۔ اگر کوئی شخص گلاکوما کی وجہ سے بینائی کھو دے تو پھر اس کی بینائی واپس نہیں آ سکتی تاہم اگر بینائی ایک خاص حد تک ہی متاثر ہوئی ہو تو پھر علاج کے ذریعے اسے مذید متاثر ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ گلاکوما کے علاج کا انحصار اس کی قسم پر ہوتا ہے اور عام طور پر آنکھوں میں دباؤ کم کرنے کے لیے مخصوص قطرے ڈالے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ لیزر کے ذریعے آنکھوں میں مائع کے راستے میں رکاوٹ کو دور کیا جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سرجری کی مدد بھی لی جا سکتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cedx8ve5yk2o", "summary": "دماغ شاید جسم کی نرم بافتوں میں سب سے نرم ہے اور اسی وجہ سے یہ ایک ایسا عضو ہے جو مرنے کے بعد جلد گلنے لگتا ہے، جو ایک مائع میں تبدیل ہو جاتا ہے جو کھوپڑی سے غائب ہو جاتا ہے۔ ", "title": "اُن انسانی دماغوں کا معمہ جو سینکڑوں برس گزرنے کے باوجود قدرتی طور پر محفوظ ہیں", "firstPublished": "2024-04-09T16:36:48.673Z", "id": "cedx8ve5yk2o", "article": "دماغ ہمارے جسم میں موجود نرم ترین ٹشوز (بافتوں) میں سب سے نرم ٹشو ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسی انسان کے مرنے کے بعد جسم کا یہی عضو سب سے پہلے گلنا سڑنا شروع ہوتا ہے۔ ہمارے مرنے کے کچھ دیر بعد دماغ کے مائع میں تبدیل ہونے کا عمل شروع ہوتا ہے اور جلد ہی یہ مائع انسانی کھوپڑی سے غائب ہو جاتا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبۂ ارتھ سائنسز کے پروفیسر ایسے دماغوں کے مطالعے کی بدولت اس بات کی تصدیق کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ اعصابی ٹشوز پہلے کے اندازے سے کہیں زیادہ کثرت میں برقرار رہتے ہیں، اور خاص حالات سے انھیں جسم سے مدد ملتی ہے جو اُن کے زوال کو روکنے میں مدد کرتی ہیں۔ مورٹن ہیورڈ کا خیال ہے کہ یہ قدیم دماغ ہمارے ماضی کے بارے میں معلومات کا ایک اہم ذریعہ ہو سکتے ہیں، جن کا ابھی تک فائدہ نہیں اٹھایا گیا ہے۔ انھوں نے سائنس میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’اصولی طور پر ہمیں دماغ میں موجود پروٹین اور ڈی این اے کو تلاش کرنا چاہیے، جو ہڈیوں کے مقابلے میں کم تیزی سے گلتے سڑتےہیں۔ ایک بار جب ہمارے پاس یہ مواد آ جائے گا تو ہم اس سے اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں۔‘ انھوں نے اس کی سائنسی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’ان چیزوں میں سے ایک جس نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ گلنے سڑنے کا عمل تھا۔ جس طرح ہم سب کی زندگی مختلف ہے، اُسی طرح موت میں بھی ہمارے اجسام کے ساتھ پیش آنے والا عمل مختلف ہوتا ہے۔ اور بہت کچھ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ کا طرز زندگی کیسا تھا اور اس کی موت کیسے ہوئی۔‘ ملنے والے قدیم دماغوں میں سے ہر ایک کا موازنہ اسی علاقے کی تاریخی آب و ہوا کے اعداد و شمار سے کیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ کب اور کہاں پائے گئے۔ ان تجزیوں سے ماحولیاتی حالات کے نمونوں کا بھی پتا چلتا ہے جو نہ صرف دماغ کو بلکہ ہمارے جسم میں موجود تمام نرم ٹشوز کو محفوظ رکھتے ہیں۔ مارٹن نے نیوسائنٹسٹ پورٹل کو بتایا کہ یہ میکینزم ابھی مکمل طور پر معلوم نہیں ہے۔ ’اس کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہمارے پاس انسانی جسم سے صرف دماغ اور ہڈیاں بچی رہ گئی ہیں۔ جبکہ بافی کا جسم بشمول ہماری جلد، پٹھے وغیرہ کچھ نہیں بچے۔‘ مفروضہ یہ ہے کہ بعض حالات میں آئرن یا کاپر جیسے مادے پروٹین اور لپڈس کے درمیان بانڈز کی تشکیل کو متحرک کر سکتے ہیں، یہ زیادہ مستحکم مالیکیولز بناتے ہیں جو کسی جسمانی عضو کے گلنے سڑنے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اور یہ دماغ میں پائے جانے والے پروٹینز اور لپڈز کی فطرت میں ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0d3m3jp8jxo", "summary": "کینڈیڈا البیکنز ایک قسم کی پھپھوندی ہے جو عام طور پر انسانی مائیکروبائیوٹا میں توازن میں رہتی ہے اور جسم میں صحت مند مائکروجینز کا حصہ ہے۔ لیکن اس جاندار کو ’موقع پرست‘ سمجھا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ جب حالات سازگار ہوں تو یہ انفیکشن کا سبب بن سکتا ہے۔\n\n", "title": "’کینڈیڈائسس‘: عضو تناسل میں خارش اور جلن کا باعث بننے والا انفیکشن کیوں ہوتا ہے اور اس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟", "firstPublished": "2024-04-09T14:15:11.299Z", "id": "c0d3m3jp8jxo", "article": "کینڈیڈا البیکنز‘ نامی پھپھوندی عام طور پر انسانی جسم میں ایک توازن کی حد میں موجود ہوتی ہے اور اس کی موجودگی صحت کے لیے ضروری ہے۔ لیکن انسانی جسم میں موجود اس پھپھوندی کو ’موقع پرست‘ بھی کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی اس پھپھوندی کے لیے ہمارے جسم کے حالات سازگار بنتے ہیں تو یہ انفیکشن کا باعث بن جاتی ہے۔ ہمارے جسم میں موجود اس فنگس کی مقدار جب صحت کے لیے درکار ضروری مقدار سے بڑھتی ہے تو ہمارا جسم عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں جنسی اعضا کا یہ انفیکشن ’کینڈیڈائسس‘ ظاہر ہوتا ہے۔ ماہواری، حمل کے دوران یا مانع حمل ادویات کے باعث خواتین کے جسم میں ہارمونز کا اُتار چڑھاؤ ہو سکتا ہے، جو وجائنل پی ایچ (وجائنا میں موجود سیال مادہ) کے توازن کو متاثر کر سکتا ہے، جس کے باعث اس عضو میں فنگس کی نشوونما کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوتا ہے۔ خواتین کے علاوہ یہ انفیکشن مردوں کو متاثر کر سکتا ہے اور برازیلین سوسائٹی آف یورولوجی کے شعبہ انفیکشنز اور سوزش سے منسلک ماہر صحت بیانکا میسیڈو کہتی ہیں کہ خواتین میں اس انفیکشن کی وجوہات کے برعکس مرد اس سے اس وقت متاثر ہوتے ہیں جب وہ طویل عرصے تک گیلے کپڑوں میں ملبوس رہیں یا ان کا عضو تناسل لمبے عرصے تک نمی والے ماحول یا نم کپڑوں میں رہے۔ خواتین میں اس کی علامات یہ ہیں کہ ان کی وجائنا سے ایک قسم کے سفید مادے کا اخراج ہو سکتا ہے، جنسی اعضا میں جلن محسوس ہو سکتی ہے، پیشاب کرتے وقت تکلیف ہو سکتی ہے اور جنسی تعلق قائم کرنے کے دوران درد ہو سکتا ہے۔ برازیل کے سانتا پولا ہسپتال کے یورولوجسٹ ایلکس میلر کہتے ہیں کہ ’مختلف قسم کے فنگس کی تشخیص سکریپنگ (متاثرہ جسم کے حصے سے ٹشو یا سیال مادے کے نمونے جمع کرنے) کے ذریعے کی جا سکتی ہے، اس طریقہ تشخیص میں زخموں کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور فنگس کی مختلف اقسام کی شناخت کی جاتی ہے۔ ایلکس میلر کہتے ہیں کہ ’یہ انفیکشن زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے اور اس کا شکار وہ افراد جن میں پہلے ہی قوت مدافعت کی کمی ہوتی ہے، اُن کا علاج کرنا زیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔ کسی صحت مند مرد میں بعض اوقات یہ انفیکشن خود بخود غائب بھی ہوجاتا ہے اور دو سے تین دنوں کے اندر خود بخود بہتری آ جاتی ہے۔‘ کینڈیڈیاسس کا ایک اور ممکنہ اظہار جلد پر ہوتا ہے، عام طور پر جسم کے نم اور گرم رہنے والے حصوں میں جیسا کہ بغل اور چھاتی کے نیچے۔ اس کی وجہ سے جلد پر سرخ دھبے پڑ جاتے ہیں جن میں اکثر شدید خارش ہوتی ہے اور جِلد کی ہرتیں اُترنے لگتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6p42q75qvqo", "summary": "غلط طرز زندگی اور کھانے کی عادات انسانی جسم کے فضلہ کے اخراج کے عمل کو متاثر کرتی ہیں۔ اس حوالے سے گردے کی پتھری ایک عام مسئلہ ہے۔", "title": "گردے کی پتھری کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچا جائے؟", "firstPublished": "2024-04-08T03:17:08.564Z", "id": "c6p42q75qvqo", "article": "غلط طرز زندگی اور کھانے کی عادات انسانی جسم کے فضلے کے اخراج کے عمل کو متاثر کرتی ہیں۔ اس حوالے سے گردے کی پتھری ایک عام مسئلہ ہے۔ گردے کی پتھری جسم سے خارج ہونے والے فضلے میں شامل معدنیات کے گردوں میں جمع ہونے کی وجہ سے بنتی ہے۔ سائٹریٹ گردے کی پتھری کی تشکیل کو روکنے کے لیے ذمہ دار ہے۔ اس لیے پتھر بنانے اور پتھری کو روکنے والے عناصر کا توازن برقرار رہنا ضروری ہے۔ کچھ لوگوں کے پیشاب میں پہلے سے ہی کیلشیم کی زیادتی ہوتی ہے اور کھانوں کی عادات کے علاوہ کافی پانی نہ پینا بھی اس کا سبب بن سکتا ہے۔ عام طور پر 5-6 ملی میٹر کی پتھری پیشاب کے ذریعے نکل جاتی ہے تاہم اس دوران کچھ درد ہو سکتا ہے۔ اگر پتھری زیادہ بڑی ہو تو علاج کی ضرورت ہے۔ تاہم اگر مثانے میں پتھری ہو یا سائز میں چھوٹی ہو تو سی ٹی سکین کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ پتھر کے سائز اور مقام کے لحاظ سے لیزر سرجری یا اوپن سرجری کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق بہت سے مریضوں کی ادویات کے ساتھ ساتھ خوراک میں بھی تبدیلیاں کی جاتی ہیں اور ہر ایک کو چاہیے کہ اپنے جسم کی ضروریات کے مطابق پانی پیئے۔ جی ہاں، مردوں میں کئی وجوہات کی بنا پر عورتوں کے مقابلے میں گردے کی پتھری ہونے کا امکان زیادہ ہو سکتا ہے۔ جیسے بہت زیادہ باہر رہنا، جسمانی مشقت اور پسینے کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی وغیرہ۔ ایک بار پتھر بننے کے بعد اس کے دوبارہ پیدا ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ ایک بار جب یہ جسم سے نکل جائے تو آپ کو یہ فکر چھوڑ نہیں دینی چاہیے کہ یہ واپس نہیں آئے گا بلکہ ایسے مریض جن کے گردوں میں اکثر پتھری بن جاتی ہے، ان کے گردے فیل ہونے کے امکانات بھی بہت بڑھ جاتے ہیں۔ علاج کا بنیادی مقصد پتھری بننے کی وجہ تلاش کرنا ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر آپ پتھروں کی تشکیل کو نہیں روک سکتے۔ گردوں کے ایک ماہر ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ ’ایک سولہ سالہ لڑکی میرے پاس علاج کے لیے آئی تھی۔ اس کی حالت بہت سنگین تھی۔ اس کے پہلے ہی دو آپریشن ہو چکے تھے اور سی ٹی سکین سے ہمیں پتھر دوبارہ ملا۔‘ پہلے صرف چالیس یا اس سے زیادہ عمر کے لوگ اس بیماری کا شکار نظر آتے تھے تاہم حالیہ برسوں میں نوجوان مرد اور خواتین گردے کی پتھری کے مسائل کے ساتھ ہسپتال آ رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس کی حمایت کرنے کے لیے کافی ڈیٹا موجود نہی لیکن یہ واضح ہے کہ یہ مسئلہ زیادہ ہونے کا امکان ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pjxk47r1yo", "summary": "ہم میں سے اکثر لوگ ذہن میں کسی بھی چیز کا تصور کر سکتے ہیں، سیب کی شکل ہو یا کمرے کا کوئی منظر یا کسی دوست کی مسکراہٹ لیکن ہر کسی کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔", "title": "’میرا ہارڈویئر ٹھیک ہے لیکن مانیٹر بند‘: وہ کیفیت جس میں چہرے پہچاننے میں بھی مشکل ہوتی ہے", "firstPublished": "2024-04-05T14:47:47.183Z", "id": "c6pjxk47r1yo", "article": "ہم میں سے اکثر لوگ ذہن میں کسی بھی چیز کا تصور کر سکتے ہیں، سیب کی شکل ہو یا کمرے کا کوئی منظر یا کسی دوست کی مسکراہٹ لیکن ہر کسی کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ 43 سالہ میری واتھن کے لیے یہ بہت ہی حیران کن بات ہے کہ لوگ اپنے ذہن میں کسی بھی چیز کا خاکہ بنا سکتے ہیں۔ میری اپنی زندگی کے سب سے اہم موقعوں کو بھی ذہن میں یاد نہیں کر سکتیں جیسا کہ ان کی شادی کا دن۔ ان کے دو بیٹے اگر ان کے سامنے نہ ہوں، تو وہ ان کی شکل اپنے ذہن میں نہیں لا سکتیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے سب کچھ یاد ہوتا ہے لیکن بس میں اس کی تصویر اپنے ذہن میں نہیں بنا سکتی۔ میری کو اپنی اس غیر معمولی کیفیت کا احساس دوستوں سے بات چیت میں ہوا کہ وہ دوسرے لوگوں کی طرح نہیں اور ان کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ان کے شوہر ماضی کے واقعات کو ذہن میں ایسے دیکھ سکتے ہیں جیسے کوئی فلم دیکھ رہے ہوں۔ میں بہت حساس ہوں اور اپنی حسوں سے ہی رہنمائی لیتی ہوں تو جب کسی بات کو یاد کرنا ہو تو میرے لیے وہ تصویر نہیں، احساس کی شکل میں ہوتا ہے۔ پروفیسر زیمان کو یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کیفیت سے متاثرہ افراد اپنے ذہن میں تصاویر کو اتنا واضح طریقے سے دیکھتے ہیں کہ ان کے لیے یہ کہنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا یہ اُن کا خیال تھا یا وہ اصل میں کوئی چیز دیکھ رہے تھے۔ دنیا بھر میں تقریباً تین فیصد افراد میں یہ کیفیت موجود ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر زیادہ تر لوگ متعدد مراحل سے گزرتے ہیں، بشمول دماغ کو یہ یاد رکھنے کے لیے مجبور کرنا کہ سیب کیسا نظر آتا ہے اور دماغ کو فعال کرنا اس کی تصویر بناتا ہے۔ پروفیسر زیمان کا کہنا ہے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایفینٹیزیا سے متاثر بہت سے افراد خواب دیکھتے ہوئے تصاویر کا تصور کر سکتے ہیں، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دماغ کی گہرائیوں سے شروع ہونے والا ایک زیادہ بے ساختہ کام ہے۔ ایفینٹیزیا کے فوائد بھی ہیں۔ یہ کسی کی ذہنی صحت کو محفوظ رکھنے کا کام دے سکتے ہیں کیونکہ وہ ان کا اس لمحے میں رہنے کا زیادہ امکان ہے اور ان کا مثال کے طور پر خوفناک یا تناؤ والے واقعات کا تصور کرنے کا امکان کم ہوتا ہے۔ پروفیسر زیمان کہتے ہیں کہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ’ذہن میں کسی چیز کا تصور کرنا اور اسے ایک خاکے کی شکل میں ڈھالنا اس کے لیے کوئی خاص شرط تو نہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cld40nq3xyro", "summary": "انسانی جسم میں لگائے جانے والے سؤر کے اس گُردے میں جینیاتی طور پر ترمیم کی گئی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں امکان تھا کہ انسانی جسم اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتا۔", "title": "پہلا مریض جس میں سور کا گردہ ٹرانسپلانٹ کرنے کے بعد ہسپتال سے گھر بھیج دیا گیا", "firstPublished": "2024-04-04T14:09:14.490Z", "id": "cld40nq3xyro", "article": "امریکہ کے ہسپتال میں ایک شخص میں سؤر کے گُردے کی پیوندکاری کے بعد صحتیاب ہوتے ہی انھیں ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ انسانی جسم میں لگائے جانے والے سؤر کے اس گُردے میں جینیاتی طور پر ترمیم کی گئی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں امکان تھا کہ انسانی جسم اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتا۔ ماضی میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ سورؤں سے اعضا کی پیوند کاری ناکام ہو چکی ہے لیکن سائنسدان اب تک اس طریقہ کار کی کامیابی کو پیوند کاری کے میدان میں ایک تاریخی سنگ میل قرار دیے ہیں۔ ڈاکٹروں نے 16 مارچ کو چار گھنٹے طویل سرجری کے دوران جینیاتی طور پر ترمیم شدہ سور کے گردے کو ان کے جسم میں کامیابی کے ساتھ ٹرانسپلانٹ کیا۔ ایک بیان میں سلیمن کا کہنا تھا کہ ہسپتال سے گھر جانے کے قابل ہونا ان کی زندگی کے ’خوش ترین لمحات میں سے ایک‘ تھا۔ سنہ 2018 میں انھیں ایک وفات پا چکے شخص کا گردہ لگایا گیا تھا تاہم گذشتہ سال اس نے کام چھوڑ دیا اور ڈاکٹروں نے انھیں سور کے گردے کی پیوند کاری کا آئیڈیا دیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے اسے نہ صرف میری مدد کے ایک راستے کے طور پر دیکھا بلکہ یہ ان ہزاروں لوگوں کے لیے امید فراہم کرنے کا ایک طریقہ بھی ہے جنھیں زندہ رہنے کے لیے ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہے۔‘ سلیمن کو سور کا جو گردہ لگایا گیا، اس میں کیمبرج میں قائم دوا ساز کمپنی ای جینیس نے ترمیم کی تاکہ ’سور کے نقصان دہ جینز کو ہٹا کر انسانوں کے ساتھ اس کی مطابقت کو بہتر بنانے کے لیے کچھ انسانی جینز شامل کیے جائیں۔‘ ہسپتال کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار کے لیے انھوں نے 1954 میں دنیا میں انسانی اعضا کی پہلی کامیاب پیوند کاری سے رہنمائی لی (گردے کی پہلی پیوند کاری میں یہ ہسپتال شامل تھا)۔ اس طریقہ کار کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے اجازت دی۔ ٹرانسپلانٹ پر کام کرنے والی ٹیم نے اسے ایک تاریخی قدم قرار دیا، جو دنیا میں اعضا کی کمی کا ممکنہ حل فراہم کر سکتا ہے، خاص طور پر نسلی اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والوں کے لیے جنھیں یہ کمی زیادہ متاثر کرتی ہے۔ سلیمن کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ’اس تکنیکی پیشرفت کے نتیجے میں اعضا کی وافر فراہمی (ایک اچھی طرح سے کام کرنے والا گردہ جو تمام ضرورت مند مریضوں کو مل سکے) صحت کے شعبے میں برابری اور گردے کی خرابی کا بہترین حل بن سکتی ہے۔‘ مگر 2023 میں وفات پا جانے والے اور زندہ افراد کی جانب سے اعضا عطیہ کرنے کی تعداد صرف 23500 تھی۔ ایک مریض کے جسم پر ایسے نشانات تھے جن سے ظاہر ہوا کہ ان کے مدافعتی نظام نے عضو کو مسترد کر دیا تھا اور یہ ٹرانسپلانٹس میں ایک بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1vlyz76rylo", "summary": "میری کیوری پولینڈ کے شہر وارسا میں 7 نومبر 1867 کو پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے آبائی ملک میں ثانوی تعلیم کے مراکز میں خواتین کے لیے دروازے بند تھے، اسی لیے وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنی بہن کے پاس فرانس چلی گئیں۔", "title": "میری کیوری: دو بار نوبل انعام جیتنے والی خاتون سائنسدان جنھوں نے سرطان کا علاج آسان بنایا", "firstPublished": "2024-03-31T16:06:19.057Z", "id": "c1vlyz76rylo", "article": "میری کیوری فرانس کے شہر ماسئی سے 15 جولائی 1926 کو برازیل کے شہر ریو دے جینیرو ایک بحری جہاز کے ذریعے آئیں تھیں اور اس سفر میں ان کے ہمراہ ان کی بڑی صاحبزادی ارینے بھی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب فرانسیسی سائنسدان پیارے کیوری انتقال کر چکے تھے اور میری کیوری بیوہ ہو چکی تھیں۔ ان کے شوہر 19 اپریل 1906 کو پیرس میں سڑک پار کرتے ہوئے حادثہ کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ میری کیوری کے اس دورے کے دوران انھیں برتھا لُطز کا ساتھ بھی حاصل تھا جو برازیل میں خواتین کے سیاسی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں۔ برازیل پہنچنے کے بعد تھکن سے چُور میری کیوری فلیمنگو میں واقع اپنے ہوٹل چلی گئیں جہاں وہ آرام کرنا چاہتی تھیں، جبکہ ان کی بیٹی تیراکی کے لیے پاس ہی موجود سمندر چلی گئیں۔ اس کے بعد وہ 16 اگست کو ٹرین کے ذریعے اپنی صاحبزادی ایرینے کے ہمراہ برازیل کے شہر بیلو ہوریزونٹے چلی گئیں۔ سنہ 1978 میں اپنی ایک کتاب میں ڈاکٹر پیڈرو ناوا نے میری کیوری کے بارے میں لکھا کہ ’ان کا قد چھوٹا تھا، وہ سیاہ لباس زیبِ تن کیے ہوئیں تھیں۔ وہ ہمیشہ ان ہی کپڑوں میں ملبوس ہوتی تھیں، ان کے بال اچھی طرح سے نہیں بنے ہوئے ہوتے تھے اور ان کے ہاتھ اکثر کپکپا رہے ہوتے تھے، جبکہ ان کے جوتوں کا صرف ایک ہی بٹن لگا ہوا ہوتا تھا۔‘ میری کیوری کے سوٹ کیس میں دو ریڈیم کی سوئیاں تھیں جنہیں۔ سرطان کے علاج کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔ یہ سوئیاں انھوں نے برازیل کے ہسپتال کو تحفے کے طور پر دی تھیں۔ میری کیوری پولینڈ کے شہر وارسا میں 7 نومبر 1867 کو پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے آبائی ملک میں ثانوی تعلیم کے مراکز میں خواتین کے لیے دروازے بند تھے، اسی لیے وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنی بہن کے پاس فرانس چلی گئیں۔ ایک وقت پر نوبل کمیٹی نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ میری کیوری کی انعام کے لیے نامزدگی کو خارج کردیا جائے کیونکہ ان کے ایک شادی شدہ مرد سے تعلقات تھے۔ تاریخ دان کرسٹینا اراریپے فریرا کہتی ہیں کہ ’میری کیوری ان تمام خواتین کے لیے ایک روشن مثال تھیں جو سائنس میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ وہ ایک غیرمعمولی شخصیت تھیں جنھیں صرف اس لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ ایک عورت تھیں۔‘ برازیل کے دورے کے آٹھ برس کے بعد مئی 1934 میں میری کیوری بیمار ہوئی اور دوبارہ کبھی اپنی لیبارٹری میں داخل نہیں ہو سکیں۔ اس بیماری کے دوران ان کی آنکھیں کمزور ہوگئیں اور ان کی قوتِ سماعت بھی چلی گئی۔ مختصر علالت کے بعد وہ 4 جولائی 1934 کو انتقال کر گئیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ceq7zznn629o", "summary": "نیوروفیریٹنوپیتھی دماغ کی ایک نایاب بیمارے یا کیفیت ہے کہ جو اس میں مبتلا ہونے والے لوگوں کے دماغ کی نشو نما کو متاثر کرتی ہے۔ ", "title": "اپنے ہی اندر قید ہو جانے والی بہنیں: ’اس کا یوں اپنے آپ میں رہنا مایوس کن اور تکلیف دہ ہے‘", "firstPublished": "2024-03-25T21:42:09.012Z", "id": "ceq7zznn629o", "article": "نیوروفیریٹنوپیتھی دماغ کی ایک نایاب بیماری یا کیفیت ہے کہ جو اس میں مبتلا ہونے والے لوگوں کے دماغ کی نشو نما کو متاثر کرتی ہے۔ اس بیماری میں دماغ میں ایسے پروٹین کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے کہ جو اپنے اندر بڑے پیمانے پر آئرن کو جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کو بولنے اور نگلنے میں مُشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بیماری اکثر ایک ہی خاندان کے متعدد لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ بی بی سی نے اس بیماری کی تشخیص ہونے والی چار بہنوں کے خاندان سے بات کی۔ معلوم ہوا کہ یہ ایک جینیاتی بیماری تھی اور گریٹر مانچسٹر کے علاقے راچڈیل سے تعلق رکھنے والے خاندان میں کسی کو بھی اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ کیمبرج یونیورسٹی میں ہونے والے ایک ٹرائل میں اس بات کی جانچ کی جائے گی کہ آیا موجودہ دوا کو دماغ سے بڑے مقدار میں جمع ہونے والے آئرن کو نکالنے کے لیے دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے، اور کچھ مریضوں میں اس مرض کے اضافے یا ممکنہ طور پر ’ٹھیک‘ کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کے شوہر 59 سالہ سٹیفن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنے ارد گرد کی دنیا میں ہونے والی ہر چیز کو سمجھ سکتی ہیں، لیکن بات چیت نہیں کر سکتیں۔ یونیورسٹی آف کیمبرج سے تعلق رکھنے والے نیورولوجی کے پروفیسر پیٹرک چنری اس بیماری کو تسلیم کیے جانے کے تقریبا 25 سال بعد ایک سال تک جاری رہنے والی دوا ’ڈیفریپرون‘ کا ایک سال تک ٹرائل شروع کرنے والے ہیں، جس سے انھیں امید ہے کہ یہ ’دماغ سے آئرن نکالنے‘ اور بیماری کو اس کے ٹریک پر روکنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ پروفیسر چنری بتاتے ہیں کہ مریضوں میں 10 سال تک علامات ظاہر ہونے کے بعد، اضافی آئرن ’واضح طور پر دماغ کو نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے اور ٹشو تباہ ہو چکے ہوتے ہیں۔‘ پروفیسر چنری کا کہنا ہے کہ ’اگر یہ تجربہ کامیاب ہو جاتا ہے تو تمام ڈاکٹر لوگوں میں علامات ظاہر ہونے سے پہلے ہی اس دوا کو انھیں دے سکتے ہیں۔‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے دماغ میں آئرن کی زیادہ مقدار سے منسلک دیگر مسائل کے علاج کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ لز کی بیٹی پینی اپنے خاندان میں بہت سے لوگوں کی دیکھ بھال میں مدد کرتی ہیں لیکن یہ نہیں جانتی کہ انھیں یہ بیماری ہے یا نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں کوشش کرتی ہوں کہ اس کے بارے میں نہ سوچوں، اگر آپ اس کے بارے میں سوچیں گے تو مجھے یقین ہے کہ یہ تیزی سے آگے بڑھے گا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51eqnllzgeo", "summary": " انسانی جسم میں لگائے جانے والے سؤر کے اس گُردے میں جینیاتی طور پر ترمیم کی گئی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں امکان تھا کہ انسانی جسم اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتا۔", "title": "انسانی جسم میں سؤر کے گردے کی پیوند کاری: ’یہ لاکھوں مریضوں کو ایک نئی زندگی دے سکتی ہے‘", "firstPublished": "2024-03-23T04:09:47.905Z", "id": "c51eqnllzgeo", "article": "بتایا جاتا ہے کہ انسانی جسم میں سؤر کے گُردے کی پیوندکاری کے بعد ایک 62 سالہ شخص تیزی سے صحتیاب ہو رہے ہیں اور انھیں بہت جلد ہسپتال سے فارغ کر دیا جائے گا۔ انسانی جسم میں لگائے جانے والے سؤر کے اس گُردے میں جینیاتی طور پر ترمیم کی گئی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں امکان تھا کہ انسانی جسم اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتا۔ دماغی طور پر مردہ قرار دے دیے جانے والے افراد میں سؤر کے گردے کو تجرباتی بنیادوں پر ڈالا جا چُکا ہے۔ میساچوسٹس جنرل ہسپتال نے ایک بیان میں کہا کہ 16 مارچ کو کی جانے والی چار گھنٹے کی سرجری مریضوں کو آسانی سے دستیاب اعضاء فراہم کرنے کی تلاش میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس سے قبل سات سال تک ڈائیلاسز پر رہنے کے بعد 2018 میں اسی ہسپتال میں ان کے گردے کی پیوند کاری کی گئی تھی کیونکہ ان کے اپنے گردے ٹھیک سے کام نہیں کر رہے تھے۔ پانچ سال بعد، پیوند کاری ناکام ہو گئی اور انھیں مئی 2023 میں ڈائیلاسس پر واپس جانا پڑا۔ ان کے ڈاکٹروں نے وضاحت کی کہ انھیں بار بار ڈائیلاسز کی وجہ سے پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے انھیں ہر دو ہفتوں میں خون کے جمنے کے سلسلے کو روکنے اور کُچھ دیگر مسائل پر قابو پانے کی غرض سے ہسپتال کا چکر لگانا پڑتا تھا جس کی وجہ سے اُن کی معمول کی زندگی متاثر ہوئی۔ سلیمن کا کہنا تھا کہ انھوں نے گردے کی پیوند کاری کے فوائد اور نقصانات کا بھی سوچا تو تھا مگر نے اسے نہ صرف اپنے لیے فائدہ مند سمجھا بلکہ ان ہزاروں لوگوں کے لیے امید کی ایک کرن بھی بنے کہ جنھیں زندہ رہنے کے لیے گُردے کی پیوند کاری کی ضرورت ہوتی ہے مگر کوئی ڈونر نہیں مل رہا ہوتا۔ انسانی عطیہ دہندگان کے اعضاء کی ان لوگوں کے لیے دائمی کمی ہے جنھیں ان کی ضرورت ہے۔ تاہم جانور عطیہ کے اس معاملے میں انسانوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ سؤر کا یہ گردہ خوصی طور میساچوسٹس کے کیمبرج کے ای جینیسس نامی ادارے کی جانب سے فراہم کیا گیا تھا۔ سؤر سے حاصل کیے جانے والے اس گُردے میں سے ایسے جینیاتی عناصر کو نکالا گیا کہ جو انسانی جسم کے لیے نقصان کا باعث بن سکتے تھے اور اُن کی جگہ اُنھیں شامل کیا گیا جن کی وجہ سے اسے کارآمد بنا کر انسانی جان بچانے میں مدد مل سکے۔ پیوند کاری کرنے والی ٹیم میں شامل ڈاکٹر تتسو کاوائی نے کہا کہ ’ہمیں اُمید ہے کہ پیوند کاری کا یہ طریقہ کار دنیا بھر میں ان لاکھوں مریضوں کو ایک نئی زندگی دے سکتا ہے کہ جو گردے فیل ہونے کی کوجہ سے موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2yd0090yyo", "summary": "پنجابی پاپ گلوکار سدھو موسے والا کی والدہ چرن کور اور والد بلکور سنگھ کے ہاں دوسرے بچے کی پیدائش ہوئی ہے۔ بچے کی پیدائش کا چرچا اس لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ سدھو موسے والا کی والدہ چرن کور نے اس بچے کو آئی وی ایف تکنیک کے ذریعے جنم دیا ہے۔ مگر یہ تکنیک ہے کیا؟", "title": "سدھو موسے والا کی والدہ کے ہاں آئی وی ایف کے ذریعے دوسرے بچے کا جنم، یہ تکنیک کیا ہے اور اس کے لیے کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے؟", "firstPublished": "2024-03-20T07:09:44.844Z", "id": "cv2yd0090yyo", "article": "پنجابی پاپ گلوکار سدھو موسے والا کی والدہ چرن کور اور والد بلکور سنگھ کے ہاں دوسرے بچے کی پیدائش ہوئی ہے۔ نومولود بچے کے نام کے بارے میں شوبھدیپ سنگھ (سدھو موسے والا) کے والد بلکور سنگھ نے اتوار کو کہا کہ یہ بچہ بالکل ان کے لیے شوبھدیپ جیسا ہے۔ اس بچے کی پیدائش بھٹنڈہ کے ایک نجی ہسپتال میں ہوئی۔ بچے کی پیدائش کا چرچا اس لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ سدھو موسے والا کی والدہ کی عمر 58 سال ہے۔ عام طور پر اس عمر میں بچے کو جنم دینا مشکل ہوتا ہے۔ چرن کور نے اس بچے کو آئی وی ایف یعنی ان وٹرو فرٹیلائزیشن تکنیک کے ذریعے جنم دیا ہے۔ مگر یہ تکنیک ہے کیا؟ آئی وی ایف ایک ایسا طریقہ کار ہے جس کے دوران عورت کے ایگز (انڈوں) کو مرد کے سپرم سے لیبارٹری میں فرٹیلائز کیا جاتا ہے اور اس کے بعد جنین کو عورت کے رحم (بچہ دانی) میں ڈالا جاتا ہے۔ ان کے مطابق، ’آئی سی ایس آئی نے ان جوڑوں کے لیے والدین بننا آسان بنا دیا ہے، جنھیں مردوں کے سپرم کی کم یا ناقص معیار کی وجہ سے مسائل کا سامنا تھا۔ اس ٹیکنالوجی نے ڈونر سپرم کی ضرورت کو بھی ختم کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اب اسے بلا جھجک اپنانے لگے ہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ چرن کور روزانہ ان کے پاس میڈیکل چیک اپ کے لیے آتی تھی۔ کبھی کبھی یہ تھوڑا مشکل تھا، بڑھاپے میں کبھی کبھی بلڈ پریشر بڑھ جاتا اور خون بہنے لگتا۔۔۔ پھر ہم اس کا خیال رکھتے تھے۔ ڈاکٹر شیوانی کا کہنا ہے کہ خواتین میں مینوپاز یا ماہواری بند ہونے کے بعد آئی وی ایف کے ذریعے حاملہ ہونا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ مینوپاز کا مطلب ہے کہ عورت کے رحم میں انڈے تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ 2021 میں انڈیا میں ایک نیا قانون اسسٹڈ ری پروڈکٹیو ٹیکنالوجی (ART) ایکٹ نافذ ہوا۔ ڈاکٹر سنیتا اروڑہ اس قانون کے تحت آئی وی ایف حاصل کرنے کے لیے ماں کی زیادہ سے زیادہ عمر 50 سال اور والد کی عمر 55 سال تک بڑھانے کی بھرپور حمایت کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’45 سال سے زیادہ عمر کے آئی وی ایف کے معاملات میں، ہم طبی صحت پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ کیونکہ حمل کے دوران دل کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اور بلڈ پریشر بھی اوپر نیچے ہوتا ہے۔ کئی بار خواتین ایسی تبدیلیوں کو برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتیں۔‘ مثال کے طور پر،’اگر بیوی کی عمر 40-45 سال کے درمیان ہے لیکن شوہر کی عمر 56 سال ہے یا بیوی کی عمر 51 سال ہے اور شوہر کی عمر 53 سال ہے، تو ایسی صورتوں میں میڈیکل فٹنس کی بنیاد پر آئی وی ایف کی اجازت دینے پر غور کیا جا سکتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2ypx8n7nko", "summary": "ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شوگر مانیٹر ان لوگوں کے لیے ضروری نہیں ہے جو ذیابیطس کا شکار نہیں ہیں۔ ایسا کرنے سے غذائیت کی کمی کا مسئلہ بن سکتا ہے۔", "title": "بلڈ شوگر ڈائیٹ کیا ہے اور اگر آپ کو ذیابیطس نہیں تو ڈاکٹر اس سے گریز کا مشورہ کیوں دیتے ہیں؟ ", "firstPublished": "2024-03-19T06:21:44.078Z", "id": "cv2ypx8n7nko", "article": "پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان دنوں بازار میں شوگر مانیٹر ڈیوائس کے اشتہارات بھی بکثرت نظر آتے ہیں۔ وہ اکثر ان لوگوں کے لیے بھی تجویز کیے جاتے ہیں جن کو ذیابیطس نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شوگر مانیٹر ان لوگوں کے لیے ضروری نہیں ہے جو ذیابیطس کا شکار نہیں ہیں۔ ایسا کرنے سے ان میں غذائیت کی کمی باعث بھی بن سکتا ہے۔ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروسز کے ذیابیطس کنسلٹنٹ پروفیسر پارتھاکر کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی حتمی ثبوت نہیں ہے کہ جن لوگوں کو ذیابیطس نہیں ہے ان میں ذیابیطس کو کنٹرول کرنے میں اس کا کوئی کردار ہے۔ کروک اور زیڈ او ای کے ناقدین کا یہ بھی ماننا ہے کہ مسلسل گلوکوز مانیٹر (CGMs) لوگوں کو بلڈ شوگر کے انتظام اور خوراک میں تبدیلیاں کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ ایس کمپنی کا کہنا ہے کہ ان تمام ٹیسٹوں نے اسے یہ شناخت کرنے میں مدد کی ہے کہ یہاں تک کہ دو صحت مند افراد بھی ایک ہی کھانے کے لیے مختلف ردعمل ظاہر کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کے خون میں شوگر بڑھ سکتی ہے اور دوسرے شخص کے مقابلے میں کاربوہائیڈریٹ کھانے کے بعد زیادہ کم ہو سکتی ہے۔ تاہم کچھ دوسرے محققین اس طریقہ کار اور شوگر کی سطح کی پیمائش کے اس نظام پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے شوگر کا صحیح ادراک یا تعین نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ماہر غذائیت اور ذیابیطس کے محقق ڈاکٹر نیکولا گیس کا کہنا ہے کہ بلڈ شوگر کو صحت کے مسائل سے جوڑنے والے زیادہ تر شوگر گلوکوز کی سطح پر مبنی ہیں، جو صرف ذیابیطس یا ذیابیطس کے خطرے والے لوگوں میں دیکھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر نیکولا گیس کو تشویش ہے کہ جو لوگ زیڈ او ای کی مصنوعات استعمال کرتے ہیں وہ کھانے کی اشیا کو کم کر رہے ہیں جو ان کی صحت کے لیے فائدہ مند ہیں۔ لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کے بلڈ شوگر کو بڑھا سکتا ہے۔ پروفیسر پارتھا کر کا کہنا ہے کہ جب ذیابیطس کے شکار افراد اسے غیر ضروری طور پر استعمال کرتے ہیں تو ایک مختلف مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بلڈ شوگر لیول کے اعدادوشمار کے بارے میں بہت ضدی ہو جاتے ہیں۔ یہ حالات کھانے کی خرابی میں بدل سکتے ہیں۔ ’ایٹنگ ڈس آرڈر‘ چیریٹی بیٹ کا کہنا ہے کہ کھانے کی خرابی کے شکار افراد اکثر اعدادوشمار پر توجہ دیتے ہیں۔ لہٰذا وہ اس بیماری میں مبتلا لوگوں کو گلوکوز میٹر کے استعمال کی سفارش نہیں کرے گا۔ ڈاکٹر نیکولا گیس کا کہنا ہے کہ چونکہ اس مطالعے کے مختلف پہلو ثابت نہیں ہوئے ہیں، اس لیے لوگوں کو زیادہ پھل اور سبزیاں کھانے کی ضرورت ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nqeemrgmpo", "summary": "24 سالہ جان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انسانی ہڈیوں کو تیزاب سے صاف کیا جاتا ہے جس کے بعد ان کے ڈی این کے پتہ نہیں لگایا جا سکتا۔‘ ", "title": "چھ لاکھ ڈالر سے زیادہ مالیت کی ہڈیوں کا بیوپاری: ’یہ شو پیس نہیں، یہ ہڈیاں اُن لوگوں کی ہیں جو کبھی زندہ تھے‘", "firstPublished": "2024-03-17T07:58:27.162Z", "id": "c4nqeemrgmpo", "article": "جی آپ نے درست پڑھا۔ ہم بات کرنے جا رہے ہیں 24 سالہ امریکی شہری جان پچیا فیری کی جن کے پاس چھ لاکھ امریکی ڈالر کی انسانی ہڈیوں کا ایک ذخیرہ موجود ہے جس کی مالیت پاکستانی روپے میں 16 کروڑ 80 لاکھ بنتی ہے۔ جان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’امریکہ اور شاید دُنیا کہ کُچھ اور مُمالک میں اب بھی ایسے پرانے اور قدیم گھروں کی تعداد کافی زیادہ ہے کہ جن کے تہہ خانوں میں مکمل انسانی ڈھانچے یا کُچھ ہڈیاں موجود ہوں۔‘ تاہم وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں کے سامنے اچانک سے یہ ہڈیاں اور انسانی ڈھانچے آجاتے ہیں وہ اس بارے میں نہیں جانتے کہ ان کے ساتھ انھوں نے کیا سلوک کرنا ہے اور کس سے رابطہ کرنا ہے۔ مگر جان کا ماننا ہے کہ جو ہڈیاں یا انسانی باقیات اُن کے پاس موجود ہیں وہ ملک میں انسانی باقیات کا سب سے بڑا مجموعہ ہے جس میں انھیں مناسب طریقے سے نہ صرف جمع کیا گیا ہے بلکہ انکی دیکھ بحال بھی کی جا رہی ہے۔ جان نے اپنے تہہ خانے میں موجود ہڈیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ’یہ ان لوگوں کی باقیات یا ہڈیاں ہیں جنھوں نے طبی تحقیق کے لیے اپنے جسم عطیہ کیے تھے۔ انھیں قبرستانوں یا قدیم تدفین کے مقامات سے غیر قانونی طور پر حاصل نہیں کیا گیا۔‘ جان نے بات آگے بڑھائی اپنے تہہ خانے سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ ’یہ وہ ہڈیاں ہیں جنھیں تیزاب کی مدد سے صاف کیا گیا ہے اور ان میں کوئی ڈی این اے نہیں ہے۔ لہذا، انھیں ڈی این اے مطالعہ کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا، اور ایک بات اور اہم یہ بھی ہے کہ انھیں دفن کرنا بھی قانون کے تحت جرم ہے۔‘ امریکہ میں زیادہ تر طبی عجائب گھر بڑی مقدار میں انسانی ہڈیوں کو سنبھالنے کے لئے ڈیزائن نہیں کیے گئے ہیں، لہذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا کیا جائے جن کے پاس انسانی ہڈیاں ہیں۔ جان کہتے ہیں کہ ’اگر کسی شخص کو قتل کا مجرم پایا جاتا ہے تو اس کی لاش کو طبی جانچ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پھر بھی انسانی باقیات کی مانگ کم نہیں ہوئی۔ جیسے جیسے حالات بگڑتے گئے، قبروں کو لوہے کی باڑ اور پنجروں کی چاردواری میں بنایا جانے لگا کہ کوئی قبر میں سے کسی کی لعش کو نا نکالے۔‘ جان کہتے ہیں کہ ’بہت سے طبی اداروں نے اس وقت کہا تھا کہ اگر آپ اپنے رشتہ داروں کی لاشیں طبی تحقیق کے لیے عطیہ کرتے ہیں تو یا تو ہم ان کی آخری رسومات کا خرچ برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں یا ایک مخصوص رقم آپ کو دی جا سکتی ہے۔ اس سے بہت الجھن پیدا ہوئی اور بہت سارے جرائم ہونے لگے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd15625y45qo", "summary": "اس کے علاوہ 12 ماہ سے کم عمر کے بچوں کو خالص یا کچا شہد یا بازار میں دستیاب شہد نہیں کھلانا چاہیے۔ ہم نے اپنے ارد گرد اکثر یہ دیکھا ہے اور اس بارے میں بھی بات ہوتی سُنی ہے کہ بچے کی پیدائش کے فوراً بعد اُسے گُھٹی کے طور پر شہد چٹایا جاتا ہے جس کے بارے میں ماہرین کی رائے مختلف ہے۔ ", "title": "کیا چینی کے بجائے شہد کا استعمال صحت کے لیے زیادہ بہتر ہوتا ہے؟", "firstPublished": "2024-03-16T16:27:41.599Z", "id": "cd15625y45qo", "article": "شہد کی مکھیاں پھولوں سے رس جمع کرنے کے بعد اسے اپنے گھر یعنی شہد کے چھتے تک لے جاتی ہیں جہاں یہ سُنہری مائع ان شہد کی مکھیوں کے لیے موسم سرما کی خوراک کے طور پر بھی محفوظ کیا جاتا ہے۔ خالص شہد میں امینو ایسڈ، اینٹی آکسیڈنٹس، وٹامنز، منرلز اور شوگر پائی جاتی ہے، مگر یہاں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ بات ’خالص شہد‘ کی ہو رہی ہے۔ شہد میں ’فرکٹوز‘ نامی ایک ایسا جُزو پایا جاتا ہے کہ جو اسے چینی سے بھی زیادہ میٹھا بناتا ہے۔ فریکٹوز قدرتی طور پر پھلوں، سبزیوں اور ان سے تیار کردہ خالص جوس میں پایا جاتا ہے۔ شہد کو کئی سالوں سے جراثیم کش کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ زخموں کے بھرنے کے عمل کو تیز کرتا ہے۔ یہ کم شدید زخموں، چھالوں اور جلنے کی صورت میں بننے والے زخموں کو بھرنے اور ان کے جسم پر سے داغ تک کو ختم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ تاہم، اگرچہ گلیسیمک انڈیکس میں شہد چینی سے کم درجہ رکھتا ہے، لیکن اس میں کیلوریز زیادہ ہوتی ہیں اور بلڈ شوگر کو بڑھاتا ہے، اس لیے اسے اعتدال کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے۔ شہد چینی سے زیادہ میٹھا ہوتا ہے اس لیے آپ اسے کم مقدار میں استعمال کر سکتے ہیں لیکن اس میں تھوڑی زیادہ کیلوریز ہوتی ہیں اس لیے اسے کھاتے وقت احتیاط کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ زیادہ مقدار میں شہد کا استعمال زیادہ فائدہ مند نہیں ہوتا۔ شوگر کے مریضوں کے لیے چینی کی جگہ شہد استعمال کرنے کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ دونوں ہی آپ کے خون میں شکر کی سطح کو بڑھا دیں گے اور فائدے کا سوچتے سوچتے بات نقصان کی جانب جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ 12 ماہ سے کم عمر کے بچوں کو خالص یا کچا شہد یا بازار میں دستیاب شہد نہیں کھلانا چاہیے۔ ہم نے اپنے ارد گرد اکثر یہ دیکھا ہے اور اس بارے میں بھی بات ہوتی سُنی ہے کہ بچے کی پیدائش کے فوراً بعد اُسے گُھٹی کے طور پر شہد چٹایا جاتا ہے جس کے بارے میں ماہرین کی رائے مختلف ہے۔ جہاں ہم نے شہد کے انسانی جسم اور اس کے فوائد کی بات کی تو ایک بات کا ذکر جاتے جاتے ضروری ہے اور وہ یہ کہ یہ شہد اُن مکھیوں کے لیے بھی بہت ضروری ہوتا ہے کہ جو سارا سال انتہائی محنت سے ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے پھول سے رس جمع کر کے اسے بناتی ہیں۔ شہد کی مکھیوں کے لیے اہم اس لیے ہوتا ہے کیونکہ یہ ان مکھیوں کی موسمِ سرما کی خوراک ہوتی ہے۔ اُن کی زندگی کا دور و مدار اُسی شہد پر ہوتا ہے کہ جس کے ہم میں سے اکثر دیوانے ہوتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxez0p12vgvo", "summary": "ٹیپ وارم انڈے ’فضلے سے آلودہ کھانے، پانی، یا سطحوں کے ذریعے پھیلتے ہیں۔ انسان اس سے آلودہ کھانا کھانے یا آلودہ انگلیوں کو اپنے منہ میں ڈالنے پر انڈے نگل جاتے ہیں۔ \n", "title": "سر درد میں مبتلا شخص جس کے دماغ سے ڈاکٹروں کو لاروا ملا: ’وجہ اچھی طرح ہاتھ نہ دھونا یا کم پکا گوشت کھانا ہو سکتا ہے‘", "firstPublished": "2024-03-15T14:13:53.068Z", "id": "cxez0p12vgvo", "article": "مسلسل سر کے درِد میں مبتلا ایک شخص کے دماغ میں ٹیپ وارم (پیٹ میں پائے جانے والے کیڑے) کا لاروا پاپا گیا ہے اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ممکن ہے یہ سور کا کچا گوشت کھانے کی وجہ سے مریض کے دماغ میں داخل ہوا ہو۔ ڈاکٹروں نے انھیں دماغ کا سکین کروانے کا مشورہ دیا۔ سکین کیے جانے پر معلوم ہوا کہ اُن کے دماغ میں ٹیپ وارم (عموماً پیٹ میں پائے جانے والے کیڑے) کے لاروے کی موجودگی کے سبب ایک چھالا بن گیا تھا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہاتھوں کو درست طریقے سے نہ دھونے کے سبب بھی ٹیپ وارم کا لاروا انسانی دماغ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ ٹیپ وارم سے متاثرہ شخص کے جسم سے نکنے والے فضلے کے ذریعے یہ انفیکشن گھر کے دیگر افراد کو بھی لگ سکتا ہے۔ اس عمل کو ’آٹو انفیکشن‘ کہا جاتا ہے۔ امریکن جرنل آف کیس رپورٹس میں اس کیس کا ریکارڈ درج کرتے ہوئے ڈاکٹروں نے لکھا کہ ’یہ محض ایک اندازہ ہے کہ اس شخص کے جسم میں سیسٹی سرکوسس آٹو انفیکشن کے ذریعے منتقل ہوا کیونکہ انھوں نے ہاتھ نامناسب طریقے سے دھوئے ہوں گے۔‘ متاثرہ شخص کے ’کم پکے ہوئے سور کا گوشت‘ کھانے کے رجحان کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ وہ اپنی ’کھانے پینے کی عادات‘ کی وجہ سے اس انفیکشن کا شکار ہوئے ہیں۔ امریکن سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے مطابق ٹیپ وارم لاروا پٹھوں اور دماغ جیسے ٹشوز میں داخل ہو جاتا ہے اور چھالے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ دماغ میں چھالا بن جانے کی حالت کو نیوروسیسٹی سرکوسس کہا جاتا ہے۔ ٹیپ وارم کے انڈے ’فضلے سے آلودہ کھانے یا پانی کے ذریعے پھیلتے ہیں۔‘ ’انسان آلودہ کھانا کھانے یا آلودہ انگلیوں کو اپنے منہ میں ڈالنے کے سبب لاروا یعنی ٹیپ وارم کے انڈے نگل جاتے ہیں۔‘ سی ڈی سی کے مطابق ’ٹیپ وارم سے متاثرہ شخص خود کو یا خاندان کے دیگر افراد کو آٹو انفیکشن سے متاثر کر سکتا ہے۔‘ ماہرین کا کہنا ہے کہ کم پکا ہوا سور کا گوشت کھانے سے آپ کو سیسٹی سرکوسس نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ صورتحال امریکہ یا برطانیہ میں عام ہے جہاں سور کے گوشت کی سخت جانچ کی جاتی ہے۔ یہ انفیکشن سب سے زیادہ لاطینی امریکہ، ایشیا اور افریقہ کے کچھ حصوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ انفیکشن سب سے زیادہ دیہی علاقوں میں عام ہے جہاں سور کے ٹیپ وارم سے متاثرہ افراد کو آزادانہ طور پر گھومنے پھرنے کی اجازت ہوتی ہے اور حفظانِ صحت اور خوراک کے تحفظ کے طریقے ناقص ہیں۔ لوگوں کو اس طرح کے انفیکشن سے سب سے زیادہ خطرہ ہاتھ نہ دھونے، آلودہ کھانا کھانے یا آلودہ پانی پینے سے ہوتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c25lp82jgezo", "summary": "جب سے یہ خبر آئی ہے کہ انڈو نیشیا کی ایک فلائٹ کے دونوں پائلٹ دورانِ پرواز سوئے ہوئے پائے گئے پائلٹوں کے تھکن اس ہفتے توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ لیکن عسکری تنظیمیں کئی دہائیوں سے اس مسئلے سے نمٹ رہی ہیں اور ان کے پاس اس کا ایک حیرت انگیز حل موجود ہے۔", "title": "’پائلٹ کا نمک‘: 20 کپ کافی کے برابر طاقتور دوا جو پائلٹ کو دورانِ پرواز سونے نہیں دیتی", "firstPublished": "2024-03-15T10:08:34.701Z", "id": "c25lp82jgezo", "article": "جب سے یہ خبر آئی ہے کہ انڈونیشیا کی ایک فلائٹ کے دوران دونوں پائلٹ سوئے ہوئے پائے گئے تو پائلٹوں کی تھکان اس ہفتے توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے لیکن عسکری تنظیمیں کئی دہائیوں سے اس مسئلے سے نمٹ رہی ہیں اور ان کے پاس اس کا ایک حیرت انگیز حل موجود ہے۔ آج بھی یہ گولی امریکی فوجی عملے کے زیر استعمال ہے۔ وہ اسے اسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں یعنی پائلٹ کی تھکاوٹ، جو طویل مشن کے دوران ہوا بازوں پر طاری ہو سکتی ہے اور ان کا تحفظ خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ جب وہ آسمان میں یہاں وہاں گھومتے ہیں تو لڑاکا پائلٹوں کے پاس اکثر اپنے ارد گرد کا مشاہدہ کرنے اور یہ فیصلہ کرنے کے لیے صرف چند سیکنڈ ہوتے ہیں کہ خطرے پر کس طرح رد عمل ظاہر کرنا ہے۔ لہٰذا تھکاوٹ آسانی سے مہلک ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف کم مصروف مشن بوریت کا باعث بن سکتے ہیں جو تھکاوٹ کے اثرات میں اضافہ کرتے ہیں۔ ونگیلر جیگٹ کہتے ہیں کہ ’چند سال پہلے، جب ہمارے ٹیسٹ پائلٹوں نے ایک نیا مشن مکمل کیا تھا، تو انھوں نے شکایت کی تھی کہ اس وقت کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے کیفین کافی نہیں تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ پرواز کے دوران انھیں بیدار رہنے میں مدد ملے۔‘ ’یہ صرف پائلٹ نہیں ہیں جو عسکری تناظر میں نیند کی کمی کے اثرات کا شکار ہوسکتے ہیں۔ کچھ خاص آپریشنز کو کامیابی کے ساتھ مکمل کرنے کے لیے کریو خاص طور پر ہیلی کاپٹروں پر جن میں ڈور گنر بھی شامل ہوسکتے ہیں جن کا کام ہتھیاروں کو ہدایات دینا اور فائر کرنا ہے اس کے علاوہ نیز اہم سامان کو لوڈ اور اتارنا بھی ان کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ زمین پر پائلٹوں کو اڑان بھرنے اور اترنے میں مدد کرنے کے لیے ہمیشہ ایئر ٹریفک کنٹرولر موجود ہوتے ہیں۔ لیکن کمرشل پائلٹوں کے لیے اس سب کا کیا مطلب ہے؟ آخرکار ان کی طویل شفٹیں اکثر فوجی پائلٹوں کے مقابلے میں زیادہ منظم ہوتی ہیں اور وہ ہر سال بادلوں کے درمیان ایک ہزار گھنٹے گزارتے ہیں۔ اس لیے انھیں جیٹ لیگ اور انتہائی تھکاوٹ کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ ’میں سمجھتی ہوں کہ کمرشل ایوی ایشن کے لیے ہمیں مزید باریک بین ہونے کی ضرورت کہ ہم اپنے پائلٹس اور معاشرے سے کیا چاہتے ہیں۔ کیا ہمیں واقعی اپنے کمرشل پائلٹوں کی ضرورت ہے جو ہمیں دوسرے شہر تک جانے کے لیے رات بھر پرواز کریں یا ہمیں یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ انسانوں کی بھی اپنی حدود ہیں اور ہمیں نیند کی ضرورت کا احترام کرنا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c25lxlr18qxo", "summary": "پال کو سنہ 1952 میں پولیو ہوا جب ان کی عمر صرف چھ برسں تھی اور اس کی وجہ سے ان کا جسم گردن سے نیچے مفلوج ہو گیا۔ اس مرض کی وجہ سے وہ خود سے سانس لینے کے قابل نہیں رہے اس لیے ڈاکٹرز نے انھیں ایک دھاتی سیلنڈر میں رکھا جہاں انھوں نے اپنی باقی کی تمام عمر گزاری۔ اسی حالت میں رہتے ہوئے انھوں نے نہ صرف قانون کی ڈگری حاصل کی بلکہ اس کی پریکٹس بھی کی۔ انھوں نے اپنی یاداشتوں کی ایک کتاب بھی شائع کروائی۔", "title": "’لوہے کے پھپیپھڑوں والا انسان‘ جو اپنے مفلوج جسم کے ساتھ وکیل بنا اور کتاب بھی شائع کی", "firstPublished": "2024-03-14T04:19:39.727Z", "id": "c25lxlr18qxo", "article": "پال کو سنہ 1952 میں پولیو ہوا جب ان کی عمر صرف چھ برس تھی اور اس کی وجہ سے ان کا جسم گردن سے نیچے مفلوج ہو گیا۔ اس وجہ سے وہ خود سے سانس لینے کے قابل بھی نہیں رہے تھے۔ اس لیے ڈاکٹرز نے انھیں ایک دھاتی سیلنڈر میں رکھا جہاں انھوں نے اپنی باقی کی تمام عمر گزاری۔ اسی حالت میں رہتے ہوئے انھوں نے نہ صرف قانون کی ڈگری حاصل کی بلکہ اس کی پریکٹس بھی کی۔ انھوں نے اپنی یاداشتوں کی ایک کتاب بھی شائع کروائی۔ فلپ اس بات کی تعریف کرتے ہیں کہ ان کے بھائی کس قدر خود کفیل تھے حالانکہ وہ ایک بیماری سے نمٹ رہے تھے جس نے انھیں روزمرہ کے کام جیسے کے کھانا کھانے تک سے معذور کر دیا تھا۔ سنہ 1952 میں جب وہ بیمار ہوئے تو ان کے آبائی قصبے ڈیلس کے ڈاکٹرز نے ان کا آپریشن کیا اور ان کی جان بچائی لیکن پولیو کی وجہ سے ان کا جسم خود سانس لینے کے قابل نہیں رہا۔ اس کی وجہ سے انھیں نام نہاد لوہے کے پھیپھڑے میں رکھا گیا جو کہ ایک دھاتی سیلنڈر تھا اور وہ ان کے جسم کو گردن تک ڈھانپے ہوئے تھا۔ یہ پھیپھڑا جسے وہ اپنا ’لوہے کا گھوڑا‘ کہتے تھے انھیں سانس لینے میں مدد کرتا تھا۔ یہ ہوا کو اندر کھینچتا جس سے پھیپھڑوں میں ہوا بھرتی اور اور پھر ہوا بھی باہر نکالتا اس طرح پھیپھڑے سانس لینے کا عمل جاری رکھتے۔ پولیو کے کئی مریض جنھیں ’لوہے کے پھیپھڑے‘ میں رکھا گیا وہ بچ نہیں پائے لیکن پال دہائیوں تک زندہ رہے۔ اس کے بعد 1950 کی دہائی میں پولیو ویکسین ایجاد ہوئی اور مغربی دنیا سے اس بیماری کا خاتمہ ہو گیا۔ پال نے سکول پاس کرنے کے بعد سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ سنہ 1984 میں انھوں نے آسٹن یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور دہائیوں تک قانون کی پریکٹس کی۔ انھوں نے سنہ 2020 میں اخبار گارڈین کو بتایا تھا ’میں جانتا تھا کہ میں اپنی زندگی کے ساتھ کچھ کر لوں گا اور یہ ایک ذہنی چیز ہو گی۔‘ اسی سال ان کی یاداشتوں پر مبنی ایک کتاب شائع ہوئی جسے لکھنے میں انھیں آٹھ برس لگے۔ اسے لکھنے کے لیے انھوں نے ایک پلاسٹک کی ڈنڈی کو کی بورڈ پر ٹائپ کرنے کے لیے استعمال کیا اور کچھ حصہ وہ اپنے دوست کو بول کر لکھواتے رہے۔ پال کے بھائی فلپ کہتے ہیں کہ ان کی کتاب شائع ہونے کے بعد انھیں احساس ہوا کے ان کے بھائی پوری دنیا میں لوگوں کے لیے کس قدر متاثر کن حیثیت رکھتے تھے۔ طب کی دنیا میں یہ ’لوہے کے پھیپھڑے‘ 1960 کی دہائی میں وینٹیلیٹرز سے تبدیل کر دیے گئے لیکن الیگزینڈر اسی سلینڈر میں رہے کیونکہ ان کے بقول انھیں اب اس کی عادت ہو گئی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxxz9zdx0e0o", "summary": "عزیر بن یاسین کے مختلف جسمانی اعضا عطیہ کرنے سے سات لوگوں کو نئی زندگی مل گئی جو پاکستان میں میڈیکل سائنس میں ایک تاریخی واقعہ ہے۔ ان تمام افراد کی حالت اب بہت بہتر ہے اور وہ تیزی سے صحت مند ہو رہے ہیں۔ سات افراد کی صحت مند زندگی کی وجہ بننے والے عزیر بن یاسین کون تھے اور ان کے گھر والوں کو یہ فیصلہ کرنے میں کتنی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔\n\n", "title": "’زہر دے دو اب یہ تکلیف برداشت نہیں ہو رہی‘: دو بہنوں کا اکلوتا بھائی جس کے اعضا عطیہ کرنے سے سات افراد کو نئی زندگی ملی", "firstPublished": "2024-03-13T04:40:11.732Z", "id": "cxxz9zdx0e0o", "article": "راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں عزیر بن یاسین کو وینٹیلیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ ہسپتال میں وہ لازمی ٹیسٹ بھی اپنے اپنے وقت پر ہو رہے تھے، جن میں یہ حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے کہ دماغ مردہ ہو چکا ہے اور اب صرف وینٹی لیٹر ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یوں عزیر بن یاسین کے مختلف جسمانی اعضا عطیہ کرنے سے سات لوگوں کو نئی زندگی مل گئی جو پاکستان کی میڈیکل سائنس میں ایک تاریخی واقعہ ہے۔ ان تمام افراد کی حالت اب بہت بہتر ہے اور وہ تیزی سے صحت مند ہو رہے ہیں۔ ان میں ضلع کوہاٹ سے تعلق رکھنے والا ایک سات سالہ بچہ ہمدان خان بھی شامل ہے۔ ہمدان خان میں عزیر بن یاسین سے حاصل کردہ جگر کے ایک ٹکڑے کی پیوند کاری کی گئی ہے۔ ان کے والد لوہب خان کہتے ہیں کہ ہمارا پورا خاندان سات سالہ بیٹے ہمدان خان کے لیے جگر عطیہ کرنے والے عزیر بن یاسین کے لیے نوافل پڑھ کر دعا کرتا ہے۔ سات افراد کی صحت مند زندگی کی وجہ بننے والے عزیر بن یاسین کون تھے اور ان کے گھر والوں کو یہ فیصلہ کرنے میں کتنی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مطابق ’میں نے یہ دیکھا تو فیصلہ کیا کہ عزیر تو اب اس دنیا میں نہیں رہے اس سے پہلے کہ ان کا وینٹی لیٹر بھی اتر جائے ان کے اعضا سے لوگوں کو نئی زندگی دیتے ہیں اس سے بڑا تحفہ عزیر کے لیے کوئی نہیں ہو سکتا۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر خود عزیر کو یہ فیصلہ کرنا پڑتا تو وہ بھی یہ ہی فیصلہ کرتے۔ بس اس فیصلے کے بعد کچھ دیر تک سوچا کہ یہ سبز آنکھیں عطیہ نہیں کرتی ہوں۔ یہ ان پر بہت پیاری لگتی تھیں۔ میری اور بیٹی کی پسندیدہ تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’دوسرا کام یہ دیکھنا تھا کہ کون سے اعضا عطیہ ہو سکتے ہیں اس کے لیے اسلام آباد کی ایک ہسپتال سے ہنگامی بنیادوں پر مدد حاصل کی گئی، جب پتا چل گیا کہ عزیر کا جگر، آنکھیں اور گردے محفوظ انداز میں حاصل کر کے ٹرانسپلانٹ ہو سکتے ہیں تو اس کے بعد ماہرین کنسلٹنٹ کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ اپنے آپریشن کی تیاری کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر جگر کو دو حصوں میں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ جگر صحت مند ہو۔ عزیر جوان العمر تھے، ان کا جگر صحت مند تھا اور یہ فیصلہ ضروری ٹیسٹ کرنے کے بعد کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ جگر انسانی جسم میں کمی بیشی پر خود بخود اپنی پرورش کرتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2yenvyzmpo", "summary": "اگر کسی شخص کو لگتا ہے کہ اس کے سر میں درد ہو سکتا ہے تو ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں کہ ایسی غذاؤں سے دور رہیں جو سر درد کا سبب بن سکتی ہیں جیسے چاکلیٹ، ڈیری اور پنیر، خاص طور پر سحری کے کھانے کے دوران، اور ان کی جگہ کاربوہائیڈریٹ جیسے براؤن بریڈ، پھلیاں، چنے، اوٹس اور جو کی روٹی، فائبر والی کوئی بھی غذائیں اور سبزیاں جن میں پوٹاشیم موجود ہو، کھجور اور کیلے کھانے شامل ہیں۔", "title": "روزے کی حالت میں مائیگرین کے ناقابلِ برداشت درد سے بچنے کے لیے کیا کریں؟ ", "firstPublished": "2024-03-10T13:16:39.507Z", "id": "cv2yenvyzmpo", "article": "دردِ شقیقہ نے خلیل کو اپنا طرز زندگی تبدیل کرنے اور بعض صحت مند غذاؤں کے استعمال کی ترغیب دی ہے، جس سے انھیں درد کی اذیت سے بچنے میں مدد ملتی ہے جیسا کہ باقاعدگی سے ناشتہ اور کافی پینا، لیکن جب بھی رمضان کا مہینہ قریب آتا ہے تو خلیل کو ایک عجیب سے پریشانی لاحق ہو جاتی ہے، اور وہ یہ کہ اس مہینے میں تبدیل ہونے والی روٹین کا اُن پر نا جانے کیا اثر ہوگا۔ بعض اوقات تو وہ اسی پریشانی اور دردِ شقیقہ کی وجہ سے پورا مہینہ روزہ رکھنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ نیورو سرجن ڈاکٹر احمد التمیمی نے بی بی سی کو بتایا کہ ماہ رمضان کے دوران مائیگرین یا دردِ شقیقہ کے امکانات تعداد اور شدت میں بڑھ جاتے ہیں لہٰذا مریضوں کو غذا اور طرز زندگی کے طریقوں کا علم ہونا چاہیے جن پر عمل کر کے درد کو کم کیا جا سکتا ہے جب کہ غذائی ماہر فاطین النشاش کا کہنا ہے کہ رمضان کے آغاز سے قبل کچھ تیاری مریضوں کو دردِ شقیقہ کے حملوں اور اس کی شدت کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ تمیمی کے مطابق اب تک مائیگرین کا کوئی دائمی علاج نہیں ہے یعنی ایسی کوئی دوا نہیں ہے جو مریض کو ہمیشہ کے لیے ٹھیک کر دے، لیکن ایسی متعدد دوائیں ہیں جو دورے کی شدت کے مطابق مریضوں کو تجویز کی جاتی ہیں، جن میں سے کچھ دورے اور اس سے وابستہ علامات کو ختم کر سکتی ہیں، اور ان میں سے کچھ اس کی فریکوئنسی یا شدت کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ خواتین کو میگنیشیم سے بھرپور غذائیں کھانے کا بھی مشورہ دیا جاتا ہے جو حیض کے دوران خون کی شریانوں کو آرام دینے میں مدد دیتی ہیں، خاص طور پر سبزیاں، اس کے علاوہ مچھلی میں دستیاب اچھے فیٹی ایسڈز فائدہ مند ہیں۔ اگر کسی شخص کو لگتا ہے کہ اس کے سر میں درد ہوسکتا ہے تو وہ مشورہ دیتی ہے کہ ایسی غذاؤں سے دور رہیں جو سر درد کا سبب بن سکتی ہیں جیسے چاکلیٹ، ڈیری اور پنیر، خاص طور پر سحری کے کھانے کے دوران اور ان کی جگہ کاربوہائیڈریٹ جیسے براؤن بریڈ، پھلیاں، چنے، اوٹس اور جو کی روٹی، فائبر والی کوئی بھی غذائیں اور سبزیاں جن میں پوٹاشیم موجود ہو، کھجور اور کیلے کھانے شامل ہیں۔ النشاش اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ کسی شخص کی روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کی صلاحیت کا انحصار علاج کرنے والے ڈاکٹر پر ہوتا ہے، دورے کے مطابق ان کی فریکوئنسی اور شدت، مثال کے طور پر سر درد سے منسلک مسلسل قے کی صورت میں مریض کو لیکوئڈز اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c80kpwx1g2yo", "summary": "برطانیہ کے سب سے دور دراز جزائر میں سے ایک ’ہیبریڈیئن آئی لینڈز آف اوئسٹ اور بینبیکولا‘ کی جانب سے ڈاکٹروں کو یہاں آ کر نوکری کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے پرکشش تنخواہ پیکج کا اعلان کیا ہے۔", "title": "دور دراز گاؤں، گنتی کی آبادی اور ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ ماہانہ: برطانوی حکومت ڈاکٹروں کو یہ آفر کیوں دے رہی ہے؟", "firstPublished": "2024-03-05T12:46:47.007Z", "id": "c80kpwx1g2yo", "article": "کیا ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ تنخواہ آپ کو سکاٹ لینڈ کے سب سے خوبصورت علاقے میں منتقل ہونے پر مجبور کر سکتی ہے؟ برطانیہ کے سب سے دور دراز جزائر میں سے ایک ’ہیبریڈیئن آئی لینڈز آف اوئسٹ اور بینبیکولا‘ کی جانب سے ڈاکٹروں کو یہاں آ کر نوکری کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے پرکشش تنخواہ پیکج کا اعلان کیا ہے۔ ان کے قریبی جزیرے پر کچھ والدین نئے سکول ٹیچر کی تلاش میں ہیں جو پرائمری سکول میں پڑھنے والے پانچ بچوں اور دو نرسری کلاس میں پڑھنے والے بچوں کو پڑھا سکیں۔ سکول ٹیچر کی تنخواہ 68 ہزار پاؤنڈ بتائی گئی ہے۔ یہاں رہنے والے اکثر افراد کے لیے یہ نوکریوں سے بڑھ کر پُرکشش ہے، یہ دراصل نئے لوگوں کو سکاٹ لینڈ کے جزائر میں موجود آبادی میں شامل کرنا ہے۔ ’سب لوگ کسی دور دراز جزیرے میں آ کر رہنے کے حوالے سے خود سے فیصلہ نہیں کرتے۔ طبی شعبے میں کام کرنے والے افراد کے لیے ان جزائر پر کام کرنا بہت دور دراز علاقوں میں آ کر کام کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔‘ بینبیکولا میڈیکل پریکٹس میں شمولیت کے لیے این ایچ ایس ویسٹرن آئلز کی جانب سے عام طور پر دی جانے والی تنخواہ سے ’40 فیصد زیادہ‘ تنخواہ دی جا رہی ہے تاکہ دیہی سطح پر نئے لوگوں کو لایا جا سکے۔ وہ ایسے ڈاکٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جنھیں ’ایڈونچر کا شوق ہے اور دیہی سطح پر طبی سہولیات میں کام کرنا چاہتے ہیں۔‘ ہیلتھ بورڈ کی جانب سے ان نوکریوں کی تشہیر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ برطانیہ کے ’سب سے خوبصورت علاقوں‘ میں کام کرنے کا موقع ہے۔ یہی نہیں حکومت کی جانب سے کامیاب امیدواروں کو ان جزائر میں منتقل ہونے کے لیے بھی خرچہ دیا جائے گا اور انھیں ’گولڈن ہیلو‘ کے تحت 10 ہزار پاؤنڈ بھی دیے جائیں گے۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ تنخواہ ان مراعات میں سے ہے جس کے باعث ’لوگ یہاں رہنے، کام کرنے اور زندگی گزرانے کے لیے تیار ہو جائیں۔‘ ہائی لینڈ کونسل کی جانب سے ہیڈٹیچر کے لیے سالانہ تنخواہ 62 ہزار پاؤنڈ کے قریب دی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ریموٹ ورکنگ الاؤنس 5500 پاؤنڈ بھی دیا جا رہا ہے۔ جزیرے پر زندگی کے بارے میں بات کی جائے تو یہاں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے تحت بجلی بنائی جاتی ہے اور یہاں سے مین لینڈ تک پہنچنے کے لیے ڈیڑھ گھنٹے کا کشتی کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس جزیرے پر بڑی تعداد میں سرخ ہرن بھی موجود ہیں اور اس کا زیادہ تر رقبہ سکاٹش حکومت کی ایجنسی نیچرسکاٹ کی ملکیت ہے۔ آئل آف رم کمیونٹی ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے ان اقدامات سے نوجوان فیملیز یہاں آباد ہوں گی اور ’جزیرے پر زندگی مزید بہتر ہو گی۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c90eqp5xllyo", "summary": " ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے پلاسٹک کے ڈبے روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہیں۔ ہم اسے ذخیرہ کرنے، فریج میں رکھنے، گرم کرنے اور کھانے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن کچھ سائنسدانوں کو تشویش ہے کہ پلاسٹک میں موجود کیمیکلز ہمارے جسموں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔", "title": "کیا واقعی پلاسٹک کے ڈبوں میں کھانا رکھنے یا گرم کرنے سے بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں؟", "firstPublished": "2024-03-05T06:01:17.070Z", "id": "c90eqp5xllyo", "article": "یہ عین ممکن ہے کہ آپ دفتر میں سینڈوچز یا اپنا کھانا لے جانے کے لیے پلاسٹک کے ڈبوں کا استعمال کر رہے ہوں یا گھر میں کھانا فریزر میں محفوظ کرنے کے لیے بھی انھی ڈبوں کا استعمال کر رہے ہوں۔ بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جو پلاسٹک کے ڈبوں یا پلیٹوں میں ہی کھانا مائیکروویو میں گرم بھی کر لیتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے پلاسٹک کے ڈبے روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہیں۔ ہم ان ڈبوں کو کھانے پینے کی اشیا رکھنے اور کھانے کی ایک جگہ سے دوسری جگہ ترسیل کے لیے عموماً استعمال کرتے ہیں۔ فوڈ ڈیلیوری والے حضرات بھی انھی پلاسٹ کے ڈبوں میں ہمیں کھانا فراہم کرتے ہیں۔ لیکن کچھ سائنسدانوں کو تشویش ہے کہ پلاسٹک میں موجود کیمیکلز ہمارے جسموں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ پلاسٹک کی اشیا بنانے کے لیے استعمال ہونے والے مضر صحت اجزا ہمارے کھانے اور مشروبات میں شامل سکتے ہیں۔ تاہم کچھ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان ضوابط کو نافذ نہیں کیا جا رہا ہے اور ان دعوؤں کی تصدیق کے لیے کافی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کہ پلاسٹک کے کھانے کے برتن، خاص طور پر وہ جن میں گرم کھانا رکھا جاتا ہے ہیں یا کھانا گرم کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، جسم کو نقصان نہیں پہنچاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے ڈبوں کی تیاری کے دوران پلاسٹک کے علاوہ بہت سے دوسرے کیمیکل بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر رنگ اور ایڈیٹیو (وہ مواد جو پلاسٹک کے ڈبے کو نرم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے)۔ ’گرم کھانے کے پلاسٹک سے رابطے میں آنے سے بھی ایسی مضر اشیا کی بہت زیادہ منتقلی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ مائیکرو ویو میں اسی پلاسٹک کے برتن میں کھانا گرم کرتے ہیں جو آپ سلاد کو ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ کیمیکلز کی بڑی مقدار آپ کے کھانوں کے ذریعے آپ کے جسم میں داخل ہو جائے۔‘ تشویش کے ان 388 مادوں میں سے 197 فوڈ کانٹیکٹ پلاسٹک کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس میں فوڈ پیکجنگ، فوڈ سٹوریج کنٹینرز، ڈنر پلیٹس، کٹلری اور بہت سی دوسری اشیا شامل ہیں۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ان میں سے بہت سے کیمیکل کھانے سے رابطے میں آنے کے بعد کھانے میں منتقل ہوتے ہیں اور پھر جسم میں جاتے ہیں۔ امریکن اکیڈمی آف نیوٹریشن اینڈ ڈائٹیٹکس دنیا کی خوراک اور غذائیت کے پیشہ ور افراد کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ یہ صارفین کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ صرف ٹھنڈے کھانے کو ذخیرہ کرنے کے لیے پلاسٹک کے کنٹینرز استعمال کریں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51d3qnk0q7o", "summary": "انیسویں صدی کی ایک خوشگوار شام جرمنی کے شہر ہائڈل برگ میں ڈاکٹر ایڈولف کسمال ہجوم سے بلند ہونے والے شور کی جانب لپکے تو یہ حیران کر دینے والا منظر اُن کے سامنے تھا۔ تلوار نِگلنے کے مظاہرے سے مسحور ہوتے کسمال نے سوچا کہ کیا اِسی طرح کے عمل سے انسانی جسم کے اندر جھانکا جا سکتا ہے؟ ", "title": "تلوار نگلنے والے ہندوستانی فنکار جنھوں نے انڈوسکوپی کی ایجاد اور طبی تحقیق کو نئی راہ دکھائی", "firstPublished": "2024-03-02T02:45:32.017Z", "id": "c51d3qnk0q7o", "article": "19 ویں صدی کی اُس خوشگوار شام جب جرمنی کے شہر ہائڈل برگ کی پُررونق گلیوں سے گزرتے ڈاکٹر ایڈولف کسمال ہجوم سے بلند ہونے والے شور کی جانب لپکے تو یہ حیران کر دینے والا منظر اُن کے سامنے تھا۔ رابرٹ ینگسن نے ’دی میڈیکل میورِکس‘ میں لکھا ہے کہ ’تلوار نِگلنے کے مظاہرے سےمسحور ہوتے کسمال نے سوچا کہ کیا اِسی طرح کے عمل سے انسانی جسم کے اندر جھانکا جا سکتا ہے؟‘ 19ویں صدی کی ابتدا کے ایک میگزین کے مطابق جب برطانیہ میں یہ فن پہلی بار پہنچا تو ہندوستان کے تلوار نگلنے والوں کی صلاحیتوں کو ناقابلِ یقین سمجھا گیا۔ سنہ 1813 میں ’تلوار نگلنے‘ کی تشہیر اس نئے اور حیران کن کارنامے کے طور پر کی گئی جو ہندوستانی کرتب دکھانے والوں نے اُس وقت لندن میں کیا۔ اس فن کا مظاہرہ کرنے والے بعض اوقات یورپ اور امریکہ کا دورہ بھی کرتے اور اِن مظاہروں کی روداد ’دی ٹائمز‘ میں کچھ ان الفاظ میں چھپتی رہیں کہ ’تلوار نگلنے کے نئے پن نے عوام کی توجہ کسی بھی چیز سے ہٹ کر اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔ ہندوستانی جادوگروں نے تلوار نگل کر شہر کو حیران کر دیا ہے۔‘ لانگ اور پائن نے لکھا ہے کہ ’ڈاکٹر ایڈولف کسمال نے تلوار نگلنے کا کرتب کرنے والے ’آئرن ہنری‘ کی مدد سے ایک ایسا آلہ تیار کیا جسے بیماری کی جانچ کے لیے غذائی نالی کے ذریعے جسم کے اندر گہرائی تک لے جایا جا سکتا تھا۔‘ ’کسمال ٹیومر والے مریض کی غذائی نالی میں کافی دور تک نہ دیکھ پانے پر مایوس تھے۔ آئرن ہنری نے 47 سینٹی میٹر لمبی ایک ٹیوب نگلی، جس کے ذریعے کسمال نے آئینے اور تیل کےلیمپ کی مدد سے تلوار نگلنے والے کے پیٹ میں تمام غذائی راستہ دیکھا۔‘ اس کا تجربہ بھی 1906 میں ایک تلوار نگلنے والے پر کیا گیا جب جرمن ڈاکٹر ایم کریمر نے دل کی سرگرمی جاننے کے لیے اُن کی غذائی نالی سے ایک الیکٹروڈ داخل کیا۔ جنوری 2006 میں تلوار نگلنے کے ماہر ڈین میئر نے نیش وِل (ٹینیسی) میں محققّین کے ساتھ کام کیا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ آیا تلوار نگلنے میں شامل تکنیکوں کو نگلنے کی خرابی میں مبتلا مریضوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سنہ 2007 میں تلوار نگلنے کے ماہر ڈائی اینڈریوز نے جان ہاپکنز یونیورسٹی میں ڈاکٹر شیرون کیپلان کے ساتھ کام کیا تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ آیا تلوار نگلنے کا استعمال ایسے مریضوں کی مدد کے لیے کیا جا سکتا ہے جن کے گلے کو شدید نقصان پہنچ چکا ہو۔ صحافی اولیویا بی ویکسمن نے تلوار نگلنے والے اور اس فن کی تاریخ پر ییل میں لیکچر دینے والے ٹوڈ رابنس سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ اینڈوسکوپی ان کے لیے کیسے آسان رہی۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw4m4lezl24o", "summary": "یہ خیال کیا جاتا تھا کہ بچہ دانی ایک ایسا جانور ہے جو جسم کے اندر گھومتا پھرتا ہے اور جس پر عورت کا کوئی کنٹرول نہیں: اسے ایک ’آوارہ بچہ دانی‘ سمجھا جاتا تھا۔", "title": "قدیم یونانیوں میں ’آوارہ بچہ دانی‘ کا نظریہ جس کے ڈر سے کنواری خواتین کی شادی کر دی جاتی", "firstPublished": "2024-02-27T04:49:52.363Z", "id": "cw4m4lezl24o", "article": "یہ خیال کیا جاتا تھا کہ بچہ دانی ایک ایسا جانور ہے جو جسم کے اندر گھومتا پھرتا ہے اور جس پر عورت کا کوئی کنٹرول نہیں: اسے ایک ’آوارہ بچہ دانی‘ سمجھا جاتا تھا۔ کتاب میں انھوں نے لکھا ہے کہ عورتوں میں ’رحم اور اندام نہانی ایک جانور سے مشابہت رکھتے ہیں جو پیدائش کے خواہش مند ہوتے ہیں‘ اور یہ کہ اگر اس سے طویل عرصے تک کوئی پھل نہ حاصل ہو سکے، تو بچہ دانی (رحم) ’چڑچڑا اور غصے کا شکار ہو جاتی ہے اور یہ پورے جسم میں گھومتی ہے۔‘ یہ خیال کہ بچہ دانی جسم کے اندر گھومتی پھرتی ہے اور دوسرے اعضا کو متاثر کرتی ہے، سب سے پہلے قدیم مصر میں ظاہر ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہپوکریٹک ٹریٹیز میں تھا کہ جس عورت نے سیکس نہیں کیا ہے اس کے رحم میں ’اپنی کوئی نمی نہیں ہوتی ہے اور اس کے بچہ دانی میں خالی کرنے کی وجہ سے ایک بڑی جگہ موجود ہوتی ہے‘ لہٰذا یہ پورے جسم میں حرکت کرتی ہے کیونکہ یہ ’خشک‘ اور وزن میں ہلکی ہوتی ہے۔ یہ خیال بھی تھا کہ جسم کے اندر خشک بچہ دانی جگر، دل، پسلیوں، گلے میں منتقل ہو سکتی ہے۔ اس ہلکے پن کی وجہ سے وہ جہاں بھی جانا چاہتی وہاں جا سکیی تھی اور وہاں، اپنی جگہ سے ہٹ کر یہ بہت سے علامات کا باعث بنتی۔ چونکہ یہ فرض کیا گیا تھا کہ بچہ دانی میں سونگھنے کی حِس ہے لہٰذا انھوں نے تجویز پیش کی کہ جہاں یہ بھٹک کر چلی جائے وہاں وہاں بدبو ڈالیں اور اس کے ساتھ ہی اندامِ نہانی پر خوشبو ڈالیں تاکہ اچھی خوشبو سے متاثر ہو کر، یہ وہاں واپس آ جائے۔ اگرچہ اس مشہور یونانی ڈاکٹر کا ماننا ہے کہ بچہ دانی جسم کے گرد گھومتی نہیں ہے، وہ اسے جسمانی طور پر ناممکن سمجھتے ہیں، لیکن وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہے کہ یہ اپنی پوزیشن تبدیل کرتی ہے، مثال کے طور پر حمل کے دوران۔ یہ خیال کہ ہسٹیریا ایک بیماری ہے جو بچہ دانی کی وجہ سے ہوتی ہے اور یہ خواتین کے لیے ایک مخصوص بیماری ہے ، وقت کے ساتھ ساتھ برقرار رہا۔ مثال کے طور پر وکٹورین انگلینڈ میں خواتین میں ہسٹیریا، پاگل پن یا غیر مستحکم جذباتی حالتوں کی تشخیص برقرار رکھی گئی۔ اگرچہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس کا علاج ولوا یعنی ادام نہانی کو برقی تحریک دینے سے کیا جا سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ 19ویں صدی کے طبی نظریات کا خیال تھا کہ آرگیزم خطرناک ہو سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cg6d9vl53dwo", "summary": "سائنسدان اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ عمر بڑھنے کے ساتھ کینسر کا خطرہ کیوں بڑھ جاتا ہے اور اب امید کی جا رہی ہے کہ یہی چیز نئے علاج دریافت کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔", "title": "بڑھتی عمر کے ساتھ کینسر کا خطرہ کیوں بڑھ جاتا ہے؟", "firstPublished": "2024-02-24T12:29:46.706Z", "id": "cg6d9vl53dwo", "article": "ماساشی ناریتا، جو کیمبرج یونیورسٹی میں کینسر اور بڑھاپے پر تحقیق کرتی ہیں، وہ ایک خاص مالیکیول پی53 کی جانب اشارہ کرتی ہیں جو کینسر کو دبانے کا کام کرتا ہے۔ تاہم عمر کے ساتھ اس کی افادیت کم ہوتی جاتی ہے۔ یہ نوجوانوں میں بہت کم عام ہوتا ہے لیکن بڑی عمر کے لوگوں میں زیادہ عام ہے اور اس کے دو بڑے نتائج ہو سکتے ہیں۔ پہلا خطرہ خون کے کینسر کا ہے، اور دوسرا مختلف قسم کے امیون خلیوں جیسے کہ مونوسائٹس، میکروفیجز، اور لمفوسائٹس کی فعالیت میں تبدیلی ہے جو کہ خون کے بنیادی خلیوں سے بنتے ہیں۔ ناریتا اور ان کے تحقیقی گروپ نے مختلف قسم کے کینسرز کی پیدا کرنے والے جینز میوٹیشنز پر تجربات کیے ہیں جو عمر کے ساتھ عام ہو جاتے ہیں تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ انسانی جسم پر کیا اثر ہوتا ہے۔ وہ اور ان کی ٹیم نے پہلے ہی یہ معلوم کر لیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اس سے خلیوں کی بڑھتی ہوئی ’سینیسین‘ یعنی جب پرانے اور نقصان زدہ خلیے تقسیم ہونا اور بڑھنا بند کر دیتے ہیں۔ سینیسین خلیوں کی زیادتی ان کے آس پاس کے ماحول کو کئی نقصان دہ طریقوں سے بدل سکتی ہے، دائمی سوزش کو متحرک کر سکتی ہے جو مزید نقصان اور کینسر کے خطرے میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ جیسے جیسے انسانی یادداشت عمر کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے، ہمیں بھولنے کی عادت ہو جاتی ہے اور ہم غلطیوں کا شکار ہو جاتے ہیں، کچھ کینسر بیالوجسٹ کا شک ہے کہ انفرادی خلیے بھی وقت کے ساتھ اپنی یادداشت کھو سکتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کس طرح صحیح طریقے سے برتاؤ کرنا ہے۔ برطانیہ کے انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ریسرچ میں ایپیجینیٹکسٹ لوکا میگنانی کا کہنا ہے کہ یہ بریسٹ کینسر کے لیے موزوں نظریہ ہے، جو ممکنہ طور پر مینوپاز میں شروع ہونے والی ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ این ایچ ایس کے مطابق، بریسٹ کینسر کے 80 فیصد کیسز 50 سال کی عمر سے زیادہ عمر والی عورتوں میں ہوتے ہیں۔ لیکن یہ خیالات کینسر سے نمٹنے کے بالکل نئے طریقوں کی جانب بھی لے جا سکتے ہیں۔ کینسر کی دوا کے سب سے فعال شعبوں میں سے ایک چھوٹے مالیکیول ہیں جو p53 میں میوٹیشنز کے نقصان دہ اثرات کو دور کرنے اور اس کے معمول کے ٹیومر سپریسنگ فنکشنز کو بحال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اینٹی ایجنگ سائنسدان اس وقت مختلف کیمیائی کاکٹیلز کے ساتھ ابتدائی مرحلے کی کلینیکل ٹرائلز کر رہے ہیں جو بغیر صحت مند ٹشو کو نقصان پہنچائے سینسین سیلز کو مار کر ہٹا دیتے ہیں۔ انھیں سینولیٹکس کہا جاتا ہے جن میں ایک اینٹی آکسیڈنٹ فیسیٹن، انگور کے بیج کا نچوڑ پولیفینول پروسیانیدن C1، اور دوا داساتینیب کا ایک اور قدرتی کیمیکل نامی کورسیٹن کے ساتھ مجموعہ شامل ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c87nnz4676eo", "summary": "احناف تحمید نامی لڑکے کو منگل کی رات ختنے کروانے کے لیے ہسپتال لایا گیا تھا اور اہلِخانہ کا الزام ہے کہ بچے کی موت اس بغیر اجازت ’مکمل طور پر بے ہوش‘ کرنے کی وجہ سے ہوئی۔\n", "title": "ختنے کرنے کے دوران 10 سالہ لڑکے کی موت: کیا بچوں کو اینستھیزیا دینا خطرناک ہو سکتا ہے؟", "firstPublished": "2024-02-23T03:08:33.829Z", "id": "c87nnz4676eo", "article": "احناف تحمید نامی لڑکے کو منگل کی رات ختنے کروانے کے لیے ہسپتال لایا گیا تھا اور اہلِخانہ کا الزام ہے کہ بچے کی موت اس بغیر اجازت ’مکمل طور پر بے ہوش‘ کرنے کی وجہ سے ہوئی۔ ڈھاکہ میڈیکل کالج اور ہسپتال کے سابق اینستھیزیا ماہر ڈاکٹر شاہ عالم نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ بچے کے ہموار اور محفوظ ختنے کے لیے اینستھیزیا کی ضرورت ہے۔ بچے کے والد فخر العالم نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ دس سالہ احناف تہمد کو منگل کی رات تقریباً ساڑھے آٹھ بجے ڈھاکہ کے مالی باغ چودھری پاڑہ میں جے ایس ڈائیگنوسٹک اینڈ میڈیکل چیک اپ سنٹر میں ختنے کے مقصد سے لے جایا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ دن پہلے میں نے سنا تھا کہ ایک لڑکا ’مکمل بے ہوشی‘ کی وجہ سے مر گیا تھا۔ اسی جب میں اپنے بیٹے کو ہسپتال لے کر گیا تو میں نے ڈاکٹر کے ہاتھ پکڑے اور ان سے درخواست کی کہ وہ میرے بیٹے کو مکمل اینستھیزیا نہ دیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’بنیادی طور پر یہ ٹیسٹ مریض کی جسمانی حالت کے بارے میں اندازہ لگانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ اس کے لیے کس قسم کا اینستھیزیا محفوظ رہے گی۔‘ اس لیے اگر کسی قسم کے معائنے کے بغیر جسم پر بے ہوشی کی دوا لگائی جائے تو مریض کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس جلد کا کچھ مدافعتی فعل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ عضوتناسل کا آخری حصہ انتہائی حسّاس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ختنہ ہونے کے بعد کے ابتدائی دنوں میں اس حصے پر ہوا یا لباس کا لمس محسوس ہونے سے بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ یہ جگہ کسی حد تک سخت ہو جاتی ہے اور زیادہ تر حساسیت کھو دیتی ہے۔ ایک طرف امریکہ میں اکثریتی ڈاکٹروں کا موقف ہے کہ بچے کی پیدائش کے فوراً بعد ہی اس کے ختنہ کرنا زیادہ بہتر ہے۔ امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس کے مطابق ’نوزائیدہ لڑکوں کے ختنے کرنے میں صحت کے فوائد اس سے منسلک خطرات سے کہیں زیادہ ہیں۔‘ ختنے کے لیے عمر کے تعین کے بار ے میں اس تنظیم کی حتمی رائے یہ ہے کہ ’یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو والدین ڈاکٹر کے مشورے اور رہنمائی کی مدد سے کرنا ہوتا ہے۔‘ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ ’بڑے پیمانے پر قابل قبول رائے کے برعکس ختنے میں طبی اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا خطرہ ہوتا ہے۔ سب سے عام پیچیدگیوں میں خون بہنا، انفیکشن، میٹل سٹیناسس (پیشاب کی نالی کا تنگ ہونا) اور پینک اٹیکس کا ہونا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgrjjpkewxwo", "summary": "سوہانی کو 7 فروری کو دہلی کے ایمس ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا، جہاں ان کا علاج کیا جا رہا تھا۔ لیکن 16 فروری کو وہ جان کی بازی ہار گئیں۔", "title": "دنگل فلم کی سوہانی بھٹناگر: پٹھوں کی نایاب بیماری جس نے نوجوان اداکارہ کی جان لے لی", "firstPublished": "2024-02-22T08:00:24.737Z", "id": "cgrjjpkewxwo", "article": "عامر خان کی ریسلنگ فلم دنگل میں ببیتا پھوگٹ کے بچپن کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ سوہانی بھٹناگر 19 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ سوہانی کو 7 فروری کو دہلی کے ایمس ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں ان کا علاج کیا جا رہا تھا۔ لیکن 16 فروری کو وہ جان کی بازی ہار گئیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر اس مرض کی صحیح وقت پر تشخیص اور ماہرین کی نگرانی میں اس کا علاج کیا جائے تو اس کی سنگینی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق ڈرماٹومائوسائٹس کی صحیح وجوہات کا پتا نہیں چلایا جا سکا ہے تاہم یہ مسئلہ آپ کے جینز، بزرگ افراد میں کینسر، کوئی اور انفیکشن، دوا یا ماحول کی کسی بھی چیز سے الرجی کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ اس میں خون کی وہ شریانیں جو خون کو جلد اور پٹھوں تک لے جاتی ہیں، سوج جاتی ہیں۔ اس سے جلد پر جامنی یا سرخ دھبے بن سکتے ہیں، جو درد یا خارش کا سبب بن سکتے ہیں۔ ابتدائی علامات ظاہر ہونے پر مریض کی میڈیکل ہسٹری اور جسمانی معائنہ کر کے ان علامات کی وجہ معلوم کی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر انجو جھا کا کہنا ہے کہ تصدیق کے لیے خون کے ٹیسٹ، الیکٹرومائیلوگرام (ای ایم جی) اور بائیوپسی (جسم سے کچھ مواد نکال کر لیبارٹری میں جانچنا) کی مدد لی جاتی ہے۔ ڈاکٹر انجو جھا کا کہنا ہے کہ ڈرماٹومیوسائٹس 5 سے 14 سال کی عمر کے بچوں یا 40 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات یہ بچوں میں تیزی سے بڑھتا ہے اور جب تک اس کی تشِخیص ہوتی ہے اس سے پہلے ہی کافی نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اداکارہ سوہانی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو گا۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ مدافعتی نظام کو کنٹرول کرنے کے لیے امیونوسوپریسنٹس (ایسی ادویات جو قوت مدافعت کو کمزور کرتی ہیں) دی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے مریض کو دیگر بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق، ڈرماٹومیوسائٹس کا علاج صرف علامات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر پٹھوں میں سختی ہے تو تھراپی کی جاتی ہے۔ جلد کے دھبوں کو روکنے کے لیے دوائیں دی جاتی ہیں۔ قوت مدافعت کو بڑھانے والی ادویات بھی دی جاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’پہلے اپنی علامات کو ٹھیک کریں۔ ایک بار تشخیص ہونے کے بعد مناسب علاج کروائیں۔ بعض اوقات سٹیرائیڈز بھی دی جاتی ہیں۔ لوگوں میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں کہ سٹیرائیڈز نہیں لینی چاہیں۔ لیکن صحیح ڈاکٹر، جیسے ڈرمیٹولوجسٹ یا ریمیٹولوجسٹ کا ہونا ضروری ہے۔ ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اس کے مشورے سے مناسب علاج کروائیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckrd8z8gyy1o", "summary": "ہمارا دماغ ایک اعصابی وائرنگ سسٹم ہے۔ دماغ میں اربوں نیوران ہوتے ہیں۔ ہمارے حسی اعضاء جیسے آنکھ، کان، ناک، منہ اور جلد بیرونی معلومات کو دماغ تک پہنچاتے ہیں۔ ’یہ معلومات نیوران کے درمیان روابط بنا کر محفوظ کی جاتی ہیں۔", "title": "ہم اپنے دماغ کو صحت مند اور تیز کیسے بنا سکتے ہیں؟", "firstPublished": "2024-02-20T08:46:08.150Z", "id": "ckrd8z8gyy1o", "article": "وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا دماغ ایک وائرنگ سسٹم جیسا ہے۔ دماغ میں اربوں نیوران ہوتے ہیں۔ ہمارے حسی اعضا جیسا کہ آنکھ، کان، ناک، منہ اور جلد بیرونی معلومات کو دماغ تک پہنچاتے ہیں۔ ’یہ معلومات نیوران کے درمیان روابط بنا کر دماغ میں محفوظ کی جاتی ہیں۔‘ راجیش کہتے ہیں کہ ’جب ہم پیدا ہوتے ہیں تو یہ نیوران بہت کم رابطوں میں ہوتے ہیں۔ اضطراری رابطے پہلے سے موجود ہیں، جیسا کہ بچے کا ہاتھ کسی گرم چیز کے ساتھ لگنے سے اس کا اپنے ہاتھ کو فوراً سے اپنی جانب واپس کھینچنا وغیرہ۔ لیکن وہ زمین سے پکڑ کر کیڑا یا کوئی مضر رینگنے والا جانور اٹھا کر منہ میں ڈال سکتا ہے کیونکہ اس کے دماغ میں ایسے کنکشن نہیں ہوتے جو اسے یہ بتا سکیں کہ ایسا کرنا خطرناک ہے۔ مگر وقت کے ساتھ بچہ سیکھتا رہتا ہے اور اس کے دماغ میں اعصابی رابطے بنتے رہتے ہیں۔‘ ماہر نفسیات راجیش پانڈے بتاتے ہیں کہ ’اگر سادہ زبان میں سمجھا جائے، تو ذہن سازی کا مطلب یہ جاننا ہے کہ دماغ میں باہر سے ہمارے حسی اعضا کے ذریعے کیا معلومات آ رہی ہیں اور دماغ کے اندر پہلے سے موجود معلومات کو کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’انسانی دماغ زندگی بھر کے اعصابی رابطے بنا سکتا ہے۔ آپ 80 سال کی عمر میں بھی نئی زبان سیکھ سکتے ہیں۔ کسی نئی جگہ جانے، روٹین کو توڑ کر کچھ نیا کرنے کے بہت سے فائدے ہیں۔ ہمیں بس اسے نئے تجربات دیتے رہنا ہے۔‘ اب تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ بچوں میں نیوروپلاسٹیسٹی زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن اب پوری دنیا میں اس کا استعمال دماغ کو فعال رکھنے اور اس سے ہونے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے بالغوں میں کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کی سائنس صحافی میلیسا ہوگن بوم کو بتایا کہ ’ہر انسان کا دماغ اپنی تال میں کام کرتا ہے۔ اگر اس شخص کو اس کے دماغ کی تال کے مطابق معلومات دی جائیں تو وہ تیزی سے سیکھ سکتا ہے۔‘ کیمبرج یونیورسٹی میں کیے گئے ایک تجربے میں لوگوں کو حل کرنے کے لیے کچھ سوالات دیے گئے۔ پھر اس کے دماغ کی برقی سرگرمی کی پیمائش کی گئی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ اس کا دماغ کس تال میں کام کر رہا ہے۔ پھر جب اس تال کے مطابق سوالات دیے گئے تو وہ انھیں بہتر طریقے سے حل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ مستقبل میں لوگوں کو ان کے دماغ کی تال کے مطابق بہتر طریقے سے سکھایا جا سکتا ہے، ان کی نیوروپلاسٹیٹی کو بڑھایا جا سکتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c1v12xvy414o", "summary": "مریم اور ندے جب پیدا ہوئیں تو جسمانی طور پر آپس میں جڑی اِن جڑواں بہنوں کے بارے میں خیال ظاہر کیا گيا تھا کہ وہ دنیا میں چند ہی دنوں کی مہمان ہوں گی۔ ", "title": "دنیا میں چند دنوں کی مہمان قرار دی جانے والی دھڑ جڑی بہنیں جنھوں نے زندہ رہ کر ڈاکٹروں کے اندازے غلط ثابت کیے", "firstPublished": "2024-02-19T08:51:20.130Z", "id": "c1v12xvy414o", "article": "مریم اور ندے جب پیدا ہوئیں تو جسمانی طور پر آپس میں جڑی اِن جڑواں بہنوں کے بارے میں خیال ظاہر کیا گيا تھا کہ وہ دنیا میں چند ہی دنوں کی مہمان ہوں گی۔ لیکن مریم اور ندے اب سات سال کی ہو گئیں ہیں اور اُن کے بارے میں خیال ہے کہ یہ یورپ میں بڑی ہوتی واحد دھڑ جڑی بہنیں ہیں یعنی اُن کا جسم تو ایک ہے مگر روحیں دو۔ اِن دونوں بہنوں کی اپنی منفرد شخصیات اور مزاج ہیں، مگر زندہ رہنے کے لیے وہ ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں۔ جسمانی طور پر جڑواں بچے دنیا میں انتہائی نایاب ہیں۔ برطانیہ میں ہر پانچ لاکھ پیدائشوں میں سے صرف ایک سر یا دھڑ جڑے بچوں کا جوڑا ہوتا ہے۔ اُن میں سے تقریباً نصف مردہ پیدا ہوتے ہیں جبکہ ایک تہائی پیدائش کے 24 گھنٹے کے اندر ہی مر جاتے ہیں۔ جب سنہ 2016 میں سینیگال میں یہ جڑواں بہنیں پیدا ہوئیں تو ان کے والدین ایک مکمل بچے کی توقع کر رہے تھے۔ ڈاکٹروں کو امید نہیں تھی کہ یہ دھڑ جڑی بہنیں چند دنوں سے زیادہ زندہ رہ پائیں گی۔ ’ہم صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ ان کے ساتھ رہیں اور انھیں اس سفر میں اکیلے نہ چھوڑیں۔ ہم نے پہلے ہی بہت واضح طور پر دیکھ لیا کہ یہ دونوں اپنے لیے لڑنے والی ہیں، جو زندہ رہنے پر ڈٹی ہوئی ہیں۔‘ ڈاکٹر گیلین باڈی یونیورسٹی ہاسپٹل آف ویلز میں ماہر امراض اطفال ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شروع شروع میں تو تھوڑا سا پُرجوش تھا اور پھر احساس ہوا کہ یہ ایسی چیز ہے جس کے بارے میں میں نے صرف نصابی کتابوں میں ہی پڑھا ہے۔‘ ’اُن کے درمیان ٹانگوں کا ایک جوڑا اور ایک شرونی ہے۔ ان کے پیٹ سے اوپر کی طرف جائیں تو بہت سے مختلف اعضا جڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں قطعی طور پر نہیں معلوم، لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ کچھ اعضا مشترک ہیں جب کہ کچھ انفرادی ہیں۔‘ ’اُن کا اعصابی نظام اور ریڑھ کی ہڈیاں الگ الگ ہیں پھر بھی وہ کسی نہ کسی طرح مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں اور انھیں ایک دوسرے کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ بازو کو کیسے حرکت دینا ہے یا ٹانگ کو کیسے حرکت دینی ہے۔‘ ابراہیما کی خواہش ہے کہ ان کی بیٹیاں ایک معمول کی زندگی گزاریں، دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلیں، ہنسیں، دوست بنائیں اور انفرادی طور پر ترقی کریں۔ ’اںھیں کسی سے چھپنے کی ضرورت نہ ہو اور ان کا ایک نارمل سکول میں پڑھنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس معاشرے کا حصہ ہیں اور وہ خوش قسمت ہیں کہ اس کمیونٹی کا حصہ بنیں۔‘ مریم اور ندے کے لیے اگلا چیلنج کھڑا ہونا اور چلنے کی کوشش کرنا ہے۔ وہ فی الحال ایک فریم کی مدد سے ہر روز تقریباً 20 منٹ کھڑی ہو پاتی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cp9wx01dkg2o", "summary": "انفیکشن ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں سیوریج کا نظام مناسب نہیں ہے اور اگر بیت الخلا صاف نہیں ہیں تو بھی۔ کچا گوشت کھانے کے ساتھ ساتھ کیڑوں کے انفیکشن والی مچھلی کھانے سے تکلیف ہوسکتی ہے۔", "title": "بچوں کے پیٹ میں درد کا سبب بننے والے کیڑوں کا خاتمہ کیسے کیا جائے؟", "firstPublished": "2024-02-18T14:05:32.955Z", "id": "cp9wx01dkg2o", "article": "کیڑوں کی پیٹ میں موجودگی یا یہ انفیکشن اکثر اس صورت میں ہوسکتا ہے جب کوئی فرد یا بچہ کسی ایسی چیز کو ہاتھ لگا لے کہ جس پر کیڑے کے انڈے ہوں، اور اگر آپ اس کے بعد اپنے ہاتھ نہیں دھوتے تو بس جناب وہی ہوتا ہے جس کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں یعنی ہاتھ نا دھونے کی وجہ سے وہ انڈے آپ کے پیٹ میں داخل ہو جاتے ہیں۔ انفیکشن یا کیڑوں کے انڈوں پر مشتمل مٹی کے ساتھ رابطے کی وجہ سے ہوسکتا ہے، یا کیڑوں کے انڈوں پر مشتمل کھانا کھانے یا پینے کا پانی پینے سے ہوسکتا ہے۔ انفیکشن ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں سیوریج کا نظام مناسب نہیں ہے اور اگر بیت الخلا صاف نہیں ہیں تو بھی۔ کچا گوشت کھانے کے ساتھ ساتھ کیڑوں کے انفیکشن والی مچھلی کھانے سے تکلیف ہوسکتی ہے۔ بعض اوقات پالتو جانور بھی اس انفیکشن یا پیٹ میں کیڑوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ جو لوگ ان اشیاء یا سطحوں کو چھوتے ہیں اور پھر اسی ہاتھ کو منہ پر لگاتے ہیں وہ جراثیم سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ دھاگے نما کیڑوں کے انڈے دو ہفتے تک اکثر مقامات پر زندہ رہتے ہیں۔ اس کے مطابق آپ کو کسی بھی کھانے کی چیز کو کھانے سے پہلے اپنے ہاتھوں کو دھونا چاہیے۔ ہاتھوں کو مٹی کو چھونے کے بعد اور ٹائلٹ کے استعمال کے بعد اچھے سے دھونا چاہیے۔ جب آپ کسی ایسے علاقے میں جائیں جہاں آپ کو شک ہو کہ پانی گدلہ یا گندہ ہو سکتا ہے تو بند پانی کی بوتل سے پانی کا استعمال کریں۔ بچوں کو کتے اور بلی کے فضلے کے قریب جانے اور ان جگہوں پر کھیلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، اور ایسی جگہ کے پھلوں اور سبزیوں سے گریز کرنا چاہیے جہاں انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہو۔ اس سے خون کی کمی ہوسکتی ہے اور چھوٹے بچوں کی نشوونما متاثر ہوسکتی ہے۔ غذائی قلت کا خطرہ بھی ہوتا ہے اور آپ کے اعضاء کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مدھوسودن ملٹی سپیشلسٹ ہاسپٹل، ڈومبیولی کے ڈائریکٹر آف ہیلتھ ڈاکٹر روہت کاکو پیٹ کے کیڑوں کو ختم کرنے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’12 سے 23 ماہ کی عمر کے بچوں، ایک سے چار سال کی عمر کے بچوں اور پانچ سے 12سال کی عمر کے بچوں کو سال میں ایک بار یا سال میں دو بار حفاظتی دوا دی جاتی ہے تاکہ مٹی سے پیدا ہونے والے کیڑوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔ دوا کی خوراک عمر اور ضرورت کے مطابق کم کردی جاتی ہے۔‘ ڈاکٹر روہت کاکو کا کہنا ہے کہ ’کیڑوں کی وجہ سے ہونے والی کئی بیماریاں بچوں اور عمر رسیدہ افراد کو بھی متاثر کرتی ہیں، اس لیے یہ دوائیں سال میں دو بار یعنی ہر چھ ماہ میں ڈاکٹر کے مشورے سے لینی چاہییں۔ یہ عمل دو سال سے زیادہ عمر کے بچوں کے ساتھ شروع کیا جا سکتا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51v2ywprdgo", "summary": "ایستھر نے کہا کہ ’سٹورٹ ہمیشہ بچے کی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ رہیں گے اور میں اس بات کو یقینی بناؤں گی کہ وہ اپنے والد کی کہانی اور وراثت کے بارے میں جاننے والا ہو۔‘", "title": "شوہر کی وفات کے دو سال بعد حاملہ ہونے والی خاتون: ’یہ سب معجزے کی طرح لگتا ہے‘", "firstPublished": "2024-02-12T12:55:11.807Z", "id": "c51v2ywprdgo", "article": "اس جوڑے نے 2021 میں بچے کی پیدائش کے لیے آئی وی ایف ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کیا تھا، باتھر کے دماغ میں کینسر کی تشخیص اور اس کے صرف دو ماہ بعد، اُن کے پھیپھڑوں کے ایمبولزم سے ان کی موت سے پہلے ابھی صرف دو راؤنڈ مکمل ہوئے تھے۔ اس کے بعد ایستھر باتھرز نے آئی وی ایف کی مدد سے حاملہ ہونے کی مزید آٹھ کوششیں کیں جبکہ ایک تنظیم ’انسائڈ سٹورٹ ہیڈ‘ پر بھی کام جاری رکھا، یہ ایک ایسی تنظیم تھی کہ جس میں کینسر کے دیگر مریضوں کی مدد کے لیے ایک فنڈ بھی جمع کیا جا رہا تھا۔ ایستھر باتھرز کا کہنا تھا کہ ان کی کہانی ’امید‘ اور’کوشش‘ یا ’مسلسل جدوجہد‘ پر مبنی ہے اور انھیں خوشی ہے کہ انھوں نے آئی وی ایف کی نجی فنڈنگ کے جذباتی اور مالی دباؤ کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔ ایستھر کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنے رشتے کو مزید مضبوط کرنے کے لیے منصوبہ بندی شروع کر دی تھی، ہم نے اپنی پہلی ڈیٹ پر ہی والدین بننے کی خواہش کا نہ صرف اظہار کیا بلکہ اس کی بھی منصوبہ بندی شروع کی۔‘ جنوری 2021 میں سٹورٹ ایک دروازے سے ٹکرا گئے تھے جس کے بعد انھیں نام یاد رکھنے میں مسلسل دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے جب انھوں نے سی ٹی سکین کروایا تو اس بات کے شواہد ملے کے انھیں دماغ میں ایک خاص قسم کے کینسر کا سامنا ہے۔ کینسر کی تشخیص کے دو ہفتے سے بھی کم عرصے کے بعد ان دونوں نے منگنی کی اور پھر بہت جلد شادی بھی کر لی، یہ سب ایک ایسے وقت میں ہوا کہ جب انھیں ایک دوسرے کو ملے اور جانے صرف ایک سال ہی ہوا تھا۔ ایستھر کا کہنا تھا کہ 24 ہفتوں کی حاملہ ہونا ’حقیقی‘ محسوس ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میرے لیے ماں بننا بہت اہم ہے لیکن میرے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں سٹورٹ کے بچے کی ماں بنوں گی۔ میں ہمیشہ جانتی تھی کہ اُن کی موت کے بعد میں اس وقت تک یہ کوشش جاری رکھوں گی جب تک کے مُجھ میں ہمت باقی ہوگی۔‘ ایستھر باتھرز نے کہا کہ وہ فاؤنڈیشن کے ذریعے سٹورٹ کی وراثت کو جاری رکھنے کی منتظر ہیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ ان کے بچے کو معلوم ہو کہ ان کے والد کون ہیں۔ ایستھر نے مزید کہا کہ ’سٹورٹ ہمیشہ بچے کی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ رہیں گے اور میں اس بات کو یقینی بناؤں گی کہ وہ اپنے والد کی کہانی اور وراثت کے بارے میں جانتے ہوں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’اس کے پاس محبت کی کمی نہیں ہوگی، یہاں اس دُنیا میں ہر کوئی اس سے ملنے کے لیے بہت بیتاب ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6px3xm1x5no", "summary": "اب آپ اس قد آور شخصیت کی انتہائی معمولی نظر آنے والی قبر کے پاس کھڑے ہیں جو کبھی ہندوستان کی اہم سیاسی جماعتوں کانگریس، مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کے صدر ہوا کرتے تھے۔ ", "title": "اجمل خان: ’چہرہ دیکھ کر مرض کا پتا لگا لینے والے‘ حکیم جو مسلم لیگ اور کانگریس دونوں کے صدر رہے", "firstPublished": "2024-02-12T06:45:06.542Z", "id": "c6px3xm1x5no", "article": "آپ پھاٹک عبور کر کے بستی حسن رسول میں داخل ہوتے ہیں۔ یہاں چھوٹے چھوٹے گھروں کے ساتھ بہت سی قبریں نظر آتی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ قبرستان ہے یا بستی۔ لوگ قبروں کے گرد خوش گپیاں کرتے پائے جاتے ہیں۔ گاہے گاہے گھروں سے ڈھول باجے اور موسیقی کی مشق کرنے والے کچھ لوگوں کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ اب آپ اس قد آور شخصیت کی انتہائی معمولی نظر آنے والی قبر کے پاس کھڑے ہیں جو کبھی ہندوستان کی اہم سیاسی جماعتوں کانگریس، مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کے صدر ہوا کرتے تھے۔ حکیم اجمل خان کی قبر کے سامنے ایک ادھیڑ عمر کی عورت بیٹھی ہیں جن کا نام فوزیہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ حکیم صاحب کی قبر کی دیکھ بھال کرنے والوں میں شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں ہم قرآن خوانی کرتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں: ’میں حکیم صاحب کے یوم پیدائش (11 فروری) پر اپنے بھائی اور خاندان کے افراد کے ساتھ قبر پر ضرور آتا ہوں۔ یہ کمپاؤنڈ ہمارے خاندان کا تھا۔ ہمارے بزرگ یہاں دفن ہیں لیکن اب اس پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔‘ حکیم صاحب کی موت بھی رام پور میں ہوئی۔ دہلی کے بہت سے بوڑھے لوگ دعویٰ کرتے تھے کہ انھیں طب کی دنیا میں ملکہ اور خاصہ حاصل تھا اور وہ اپنے کام میں اتنے ماہر تھے کہ مریض کی کسی بھی بیماری کو اس کا چہرے دیکھ کر ہی معلوم کر لیتے تھے۔ پہلی ملاقات کے بعد گاندھی جی اور حکیم اجمل خان کے درمیان گہرا تعلق پیدا ہو گیا۔ گاندھی جی نے خود حکیم اجمل خان کو مشورہ دیا کہ وہ دہلی میں ایک بڑا ہسپتال قائم کریں تاکہ یہاں کی آبادی کو فائدہ ہو۔ اس وقت تک حکیم صاحب صرف لال کنواں سے پریکٹس کرتے تھے۔ حکیم اجمل خاں نے ہندوستان کی آزادی کی لڑائی اور عدم تعاون کی تحریک میں گاندھی کا ساتھ دیا تھا۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر بھی منتخب ہوئے اور 1921 میں احمد آباد میں منعقدہ کانگریس کے اجلاس کی صدارت کی۔ حکیم صاحب کانگریس کے صدر بننے والے پانچویں مسلمان تھے۔ اس سے پہلے وہ 1919 میں مسلم لیگ کے صدر بھی رہے تھے۔ انھوں نے 1906 میں ڈھاکہ میں منعقد ہونے والی مسلم لیگ کی پہلی کانفرنس میں بھی شرکت کی تھی۔ وہ سنہ 1920 میں آل انڈیا خلافت کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ واضح رہے کہ خلافت کمیٹی ترکی میں خلافت کی بحالی کے لیے قائم کی گئی تھی۔ دہلی حکومت کی ویب سائٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہ ہندو مہاسبھا کے صدر بھی تھے۔ حکیم اجمل خان نے سنہ 1925 میں جامعہ کو علی گڑھ سے قرول باغ دہلی منتقل کیا۔ اب جامعہ ملیہ کا اپنا کیمپس ہے جو جنوبی دہلی کے اوکھلا گاؤں کے پاس واقع ہے اور اب اس پورے علاقے کو جامعہ نگر کہا جاتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c9r5nlkepwyo", "summary": "آپ کی فٹنس اور صحت کی سطح کچھ بھی ہو چقندر اسے بہتر کرنے کا ایک اچھا نسخہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس میں ایسے مادے پائے جاتے ہیں جو آپ کی صحت کے لیے مفید ہیں۔", "title": "جسم کو توانا اور دماغ کو تیز رکھنے والی سبزی چقندر کے پانچ انمول فوائد", "firstPublished": "2024-02-11T15:27:27.671Z", "id": "c9r5nlkepwyo", "article": "آپ کی فٹنس اور صحت کی سطح کچھ بھی ہو چقندر اسے بہتر کرنے کا ایک اچھا نسخہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اب نئے شواہد سامنے آنے لگے ہیں جو اس کے غیرمعمولی فوائد کو واضح کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں اسے اپنی معمول کی خوراک میں شامل کرنا چاہیے۔ اگرچہ زیادہ مقدار میں نائٹریٹ کا استعمال اچھا نہیں لیکن جب ہم چقندر جیسی سبزیوں میں قدرتی طور پر پائے جانے والے نائٹریٹ کھاتے ہیں تو یہ صحت کے لیے مفید ہوتا ہے۔ برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایکزیٹر میں اپلائیڈ فزیالوجی کے پروفیسر اینڈی جونز نے 10 سال تک کھلاڑیوں کی کارکردگی پر تحقیق کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’نائٹرک آکسائیڈ ایک ویسوڈیلیٹر ہے۔ یہ خون کی نالیوں کو چوڑا کرتا ہے۔ یہ خون کو آسانی سے بہنے میں مدد کرتا ہے اور یہ جسم کے خلیوں کو مناسب آکسیجن پہنچانے کا کام کرتا ہے۔‘ جنسی جوش کے لیے بھی نائٹرک آکسائیڈ کی مناسب مقدار ضروری ہے اور رومیوں کے ہاں چقندر کے رس کے اس استعمال سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ تاہم اب تک کسی تحقیق میں یہ ثابت نہیں ہوا کہ چقندر کے رس کا اثر ویاگرا سے ملتا جلتا ہے۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر ہم ورزش کے ساتھ چقندر کے جوس کا استعمال کریں تو دماغ کے اس حصے میں رابطہ بڑھ سکتا ہے جو ہمارے جسم کی حرکت کو کنٹرول کرتا ہے۔ ایسا کرنے سے دماغ کا وہ حصہ نوجوان بالغوں جیسا بن سکتا ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اگر چقندر کا جوس دن میں دو بار 10 دن تک پیا جائے تو آپ کے منہ کے اندر موجود بیکٹیریا کا توازن بہتر ہو سکتا ہے۔ اینڈی جونز کا کہنا ہے کہ ’اس بات کا امکان موجود ہے کہ نائٹرک آکسائیڈ کے اثر کی وجہ سے پٹھوں کو زیادہ آکسیجن ملتی ہے اور اس سے آپ کا جسم بہتر طریقے سے کام کرنے لگتا ہے۔‘ سنہ 2009 کی ایک تحقیق میں پتا چلا ہے کہ چقندر کا جوس پینے والے کھلاڑی ورزش کے دوران اپنی جسمانی قوت برداشت کو 16 فیصد تک بڑھا سکتے ہیں۔ ایتھلیٹکس کے نقطہ نظر سے یہ تحقیق ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ سنہ 2012 میں لندن اولمپکس اور پیرا اولمپک گیمز سے پہلے لندن میں چقندر کا جوس آسانی سے دستیاب نہیں تھا کیونکہ تقریباً تمام ایتھلیٹس اس کی تلاش میں تھے۔ اس لیے اگر کھیلوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا مقصود ہو تو ایسے کسی بھی گیم کے آغاز سے کتنی دیر پہلے چقندر کا استعمال کرنا چاہیے۔ اینڈی جونز ایک اور مشورہ دیتے ہیں کہ چقندر کو پکاتے وقت احتیاط برتیں اور جس پانی میں وہ ابالے جاتے ہیں اسے نہ پھینکیں کیونکہ نائٹریٹ پانی میں حل پذیر ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ چقندر کے زیادہ سے زیادہ صحت کے فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ اسے کچا یا بھون کر کھائیں یا اس کا جوس پی لیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ce5kzpk0jnxo", "summary": "ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جو مرد عضو تناسل کی کمزوری سے منسلک عارضے (ایریکٹائل ڈسفنکشن) کے لیے ویاگرا جیسی دوا کا استعمال کرتے ہیں ان میں الزائمر کی بیماری کا خطرہ کم ہو سکتا ہے۔", "title": "ویاگرا استعمال کرنے والے مردوں میں ’الزائمر کا خطرہ کم ہو سکتا ہے‘", "firstPublished": "2024-02-11T06:44:55.575Z", "id": "ce5kzpk0jnxo", "article": "ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جو مرد عضو تناسل کی کمزوری سے منسلک عارضے (ایریکٹائل ڈسفنکشن) کے لیے ویاگرا جیسی دوا کا استعمال کرتے ہیں ان میں الزائمر کی بیماری کا خطرہ کم ہو سکتا ہے۔ 260,000 سے زیادہ مردوں پر کی گئی اس تحقیق میں معلوم ہوا کہ جو لوگ ایسی دوائیں لیتے ہیں ان میں ڈیمنشیا کا امکان 18 فیصد کم تھا۔ الزائمرز سے متاثرہ لوگوں کے دماغ میں ’بیٹا امیلائیڈ‘ بنتا ہے۔ یہ نئی دوائیاں اس پر حملہ کرتی ہیں اور ممکن ہے کہ اس سے الزائمر کے علاج کا طریقہ بدل سکتا ہے۔ ویاگرا جیسی دوائیں ابتدا میں ہائی بلڈ پریشر اور انجائنا کے علاج کے لیے بنائی گئی تھیں۔ وہ سیل سگنلنگ میسنجر پر عمل کر کے کام کرتے ہیں جو یاداشت سے بھی منسلک ہو سکتا ہے۔ وہ دماغی خلیوں کی سرگرمیوں کو بھی متاثر کرتے ہیں اور جانوروں میں تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ان کا دماغ پر کچھ حفاظتی اثر بھی ہوتا ہے۔ نیورولوجی میں ہونے والی نئی تحقیق میں یونیورسٹی کالج لندن کے محققین نے عضو تناسل کی کمزوری کے شکار ہزاروں مردوں کے طبی نسخے کو دیکھا اور ان لوگوں کا ان لوگوں کے ساتھ موازنہ کیا جنھیں یہ دوا نہیں دی گئی تھی۔ جن مردوں کو عضو تناسل کی کمزوری کے لیے دوا دی گئی تھی ان میں الزائمر ہونے کے سب سے کم امکان تھے۔ اس سے یہ بات اخذ ہو سکتی ہے کہ اس دوا کا مستقل استعمال بیماری پر زیادہ اثر انداز ہو سکتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق یہ نہیں بتاتی کہ آیا خود انھی دوائیوں کی وجہ سے لوگوں میں الزائمر کا خطرہ کم ہوتا ہے لیکن اس سے تحقیق کے نئی راستے کھلتے ہیں۔ محققین مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین پر بھی آزمائش کرنا چاہتے ہیں تاکہ دیکھا جا سکے کہ اس دوا سے ان پر کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں۔ بہت سے عوامل ہیں جو بیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔ تحقیق نے ان میں سے کچھ کے لیے اپنے نتائج کو موافق بنایا اس میں عمر، صحت کی بنیادی حالت، لی گئی دوسری دوائیں اور آیا تحقیق میں حصہ لینے والا سگریٹ نوشی کرتا تھا شامل ہے۔ یونیورسٹی آف ایڈنبرا سے تعلق رکھنے والی اور برٹش نیورو سائنس ایسوسی ایشن کی صدر پروفیسر تارا اسپائرز جونز نے کہا کہ ’یہ مطالعہ حتمی طور پر یہ ثابت نہیں کرتا کہ عضو تناسل کی دوائیں الزائمر کے خطرے کو کم کرتی ہیں لیکن اس بات کا اچھا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ اس قسم کی دوائی مستقبل میں مزید مطالعہ کے قابل ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’یہ ہو سکتا ہے کہ یہ علاج کا اثر براہ راست نیوران پر اثر انداز ہو (اگر دوا خون ’بلڈ برین بیریئر‘ کو عبور کرنے کے قابل ہو) اور/یا خون کے بہاؤ کو بڑھا کر، لیکن ان دونوں مفروضوں کو جانچنے کی ضرورت ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ck564r7w25po", "summary": "حیرت کی بات نہیں کہ مائیکرو سلیپس نشہ آور افراد میں اور بھی زیادہ عام ہیں۔ لیکن تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہم میں سے اکثر ان کا شکار ہیں۔", "title": "نیند کی چھوٹی ’جھپکیوں‘ یا مائیکرو نیپس کے انسانی صحت پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟", "firstPublished": "2024-02-04T13:37:35.607Z", "id": "ck564r7w25po", "article": "تعجب کی بات نہیں ہے، نارکولیپسی والے لوگوں میں مائکرو سلیپس اور بھی زیادہ عام ہیں، لیکن تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر ان کے قریب ہیں۔ ہم جتنے زیادہ تھکے ہوئے ہیں، اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ ہم مائیکرو سلیپ کریں۔ برطانیہ کی یونیورسٹی آف لافبورو میں نیند کے محقق یوون ہیریسن نے دریافت کیا کہ یہ جھپکیاں دوپہر اور شام کے وقت زیادہ عام ہوتی ہیں اور اکثر نیند کی طویل مدت سے پہلے ہوتی ہیں۔ ٹیم کا اندازہ ہے کہ یہ بہنے کا لاشعوری ردعمل ہوسکتا ہے، سونے کی کوشش نہیں، بلکہ جاگنے کی کوشش۔ یہ طویل نیند یا نیپ میں نہیں دیکھا جاتا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ مائیکرو سلیپ عام نیند سے مختلف ہیں اور صرف مختصر نہیں ہیں۔ ویڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے تین چوتھائی نے تصادم سے پہلے مائیکرو سلیپ کے آثار دکھائے تھے۔ ایک ڈرائیور کے لیے واقعات کا سلسلہ اس طرح چلتا تھا۔ حادثے سے ایک منٹ قبل انھوں نے تیزی سے پلکیں جھپکنا شروع کیں، حادثے سے 38 سیکنڈ قبل ان کے جسم نے حرکت کرنا بند کر دیا، اس کے بعد آہستہ آہستہ پلکیں جھپکنے لگیں اور پھر حادثے سے چار سیکنڈ قبل ان کی آنکھیں صرف دو سیکنڈ کے لیے بند رہیں۔ حادثے سے ایک سیکنڈ پہلے انھوں نے دوبارہ دروازہ کھولا، لیکن اس کے لئے کچھ کرنے کے لئے بہت دیر ہو چکی تھی اور ٹرک سڑک سے اُتر چکا تھا۔ نیند کے بارے میں تحقیق کرنے والے جم ہورن نے اپنی کتاب ’سلیپ فارنگ: اے جرنی تھرو دی سائنس آف سلیپ‘ میں لکھا ہے کہ اس کا ثبوت دوسری عالمی جنگ کے دوران بمباری کے بعد انگلینڈ لوٹنے والے ہوا بازوں کی ہلاکتوں سے ملتا ہے۔ فضا میں دشمن سے ہونے والی لڑائی کا خوف، توجہ، جیتنے کی کوششیں، اور ایڈرینالین نے انھیں بیدار رکھا، چاہے وہ کتنے ہی تھکے ہوئے کیوں نہ ہوں۔ لیکن جب گھر جاتے ہوئے کوئی خلل نہیں پڑا تو کچھ پائلٹ ایسے بھی تھے جو سونے کی ضرورت پر قابو پا گئے اور اس کے نتیجے میں ان کے طیارے گر کر تباہ ہو گئے۔ انسانوں کے لیے، چنسٹریپ پینگوئن کے برعکس، مائیکروسلیپس رات کی مناسب نیند کا متبادل نہیں ہیں۔ اگر وہ بہت کثرت سے ہوتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ہمیں کافی نیند نہیں مل رہی۔ لیکن جب ہم ڈرائیونگ نہیں کر رہے ہیں یا کچھ اور نہیں کر رہے ہیں جہاں توجہ بہت ضروری ہے، تو شاید ہمیں یہاں اور وہاں چند سیکنڈ کی اضافی شٹ آئی کے بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crgrndnkg97o", "summary": "خارش یا کھجلی کا شمار عام طور سنگین بیماریوں میں نہیں ہوتا۔ آپ کو اپنے آس پڑوس میں شاید ہی کوئی ایسا ملے جو اسے ایک سنگین بیماری سمجھتا ہو۔ لیکن اگر خارش کی بیماری طول پکڑ لے اور دائمی ہو جائے تو یہ کسی شخص کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔", "title": "ایسی خارش جو انسان کا سکھ چین چھین لیتی ہے اور رات کو سونے تک نہیں دیتی ", "firstPublished": "2024-01-27T08:55:04.804Z", "id": "crgrndnkg97o", "article": "خارش یا کھجلی کا شمار عام طور سنگین بیماریوں میں نہیں ہوتا۔ آپ کو اپنے آس پڑوس میں شاید ہی کوئی ایسا ملے جو اسے ایک سنگین بیماری سمجھتا ہو۔ لیکن اگر خارش کی بیماری طول پکڑ لے اور دائمی ہو جائے تو یہ کسی متاثرہ شخص کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ اس پر یقین کرنا مشکل ہو سکتا ہے، لیکن خارش کی ایک شکل ایسی ہوتی ہے جس میں انسان کو مسلسل خارش ہوتی رہتی ہے اور بار بار کھجانے کے باوجود وہ کم نہیں ہوتی۔ باربار اور زور زور سے کھجانے کی وجہ سے اس شخص کا کھجلی سے متاثرہ حصہ خون آلود بھی ہو جاتا ہے لیکن اسے سکون نہیں ملتا ہے۔ تاہم، یہ راحت کی بات ہے کہ یہ متعدی بیماری نہیں ہے، یعنی یہ کسی کے چھونے یا قریب آنے سے نہیں پھیلتی۔ شاید اس لیے بھی اسے نایاب بیماری کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ فوسیٹ اپنی نئی تحقیق کے بارے میں بتاتی ہیں: ’آئی ایل-31 کیمیکل کو کنٹرول کرنے والی دوا کا ایک اثر یہ ہو سکتا ہے کہ یہ مدافعتی نظام کو تباہ کر سکتی ہے اور اگرچہ اس سے خارش محسوس نہیں ہوتی لیکن سوزش بے قابو ہو سکتی ہے۔‘ اس طرح کی خارش میں مبتلا افراد کے علاج کے لیے ڈوپیلوماب کا استعمال امریکہ جیسے ممالک میں بھی شروع ہو چکا ہے۔ اسے حال ہی میں آئی ایل-4 اور آئی ایل-13 دونوں کیمیکلز کو کنٹرول کرنے کا لائسنس ملا ہے۔ ڈاکٹر یوسیپووچ کہتے ہیں: ’پروریگو نوڈولرس سب سے زیادہ خارش والی حالتوں میں سے ایک ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اس کا کوئی موثر علاج نہیں تھا، اس لیے مریضوں کو بہت تکلیف ہو رہی تھی۔ لیکن اب انھیں امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔‘ 2۔ کھجلی کو کم کرنے کے لیے دوائیں دستیاب ہیں، لیکن وہ پی این کے مریضوں میں زیادہ مؤثر نہیں ہیں۔ ایسی حالت میں خارش بڑھ جاتی ہے اور ایک قسم کا سلسلہ بن جاتا ہے۔ وہ مریضوں کو سمجھاتے ہیں کہ وہ خارش سے حتی الامکان بچیں۔ 3۔ پی این کے بارے میں ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف وہاں ہوتا ہے جہاں ہاتھ پہنچ سکتا ہے، یعنی خارش کھجانے سے شروع ہوتی ہے۔ اگر ہاتھ کمر کے اوپری حصے تک نہ پہنچتا ہے تو وہ وہاں نہیں ہوتی۔ وہ مریضوں کو سمجھاتے ہیں کہ وہ اپنے ناخن چھوٹے رکھیں اور مٹھی بند رکھیں۔ 5۔ اس بیماری کا ابھی تک کوئی روایتی علاج نہیں ہے، اس لیے طویل مدتی علاج احتیاط کے ساتھ کرنا ہوگا۔ بعض اوقات یہ مریضوں کے لیے تکلیف دہ بھی ہو سکتا ہے، وہ ڈپریشن میں جا سکتے ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ کی بھی کونسلنگ کی جاتی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c2j5lkl77nko", "summary": "اگر آپ بھی کسی کے چہرے کو یاد نہیں رکھ پاتے تو جان لیں کہ اس کیفیت کو نفسیات کی زبان میں پروسوپاگنوسیا کہا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں ایسا بھی ممکن ہے کہ چہرہ تو یاد رہے لیکن شناخت کرنا مشکل ہو۔", "title": "شناسا چہرے بھولنے کی کیفیت: ’جب مجھے کوئی جاننے والا نظر آتا تو میں یہ سوچتی رہتی کہ یہ کون ہے؟‘", "firstPublished": "2024-01-26T12:17:20.801Z", "id": "c2j5lkl77nko", "article": "’اس کی مسکراہٹ نے میری اس کیفیت کو بڑھاوا دیا جو روزانہ مجھے تنگ کرتی ہے۔ یعنی میں لوگوں کے چہرے یاد نہیں رکھ پاتی۔‘ ’میرے ساتھ کئی برسوں تک ایسا ہوتا رہا کہ جب مجھے کوئی نظر آتا تو میں سوچتی یہ کون ہے؟ کیا میں اسے جانتی ہوں؟ کیا یہ میرے ساتھ کام کرتے ہیں؟ میں ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتی اور مجھے حیرت ہوتی کہ اگر یہ میرے ساتھ کام کرتے ہیں تو میں ان کو پہچان کیوں نہیں پاتی۔‘ اگر آپ بھی کسی کے چہرے کو یاد نہیں رکھ پاتے تو جان لیں کہ اس کیفیت کو نفسیات کی زبان میں ’پروسوپاگنوسیا‘ کہا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں ایسا بھی ممکن ہے کہ چہرہ تو یاد رہے لیکن شناخت کرنا مشکل ہو۔ ڈاکٹر روپالی شیوالکر دلی کے سینٹ سٹیفن ہسپتال میں شعبہ نفسیات کی سربراہ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’یہ کیفیت تب پیدا ہوتی ہے جب دماغ کے دائیں طرف کے حصے کو خون کی فراہمی میں کمی ہو کیونکہ دماغ کا یہی حصہ چہروں کو یاد رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘ نتالیا کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ اس کیفیت کے شکار افراد کو انجانے میں ’مغرور‘ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بطور صحافی ان کو لوگوں سے ملنا ہوتا ہے لیکن انھیں اس کیفیت کی وجہ سے مشکل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر روپالی شیوالکر کہتی ہیں کہ ’یہ کیفیت متاثرہ فرد کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ اس سے ذہنی صحت پر بھی اثر پڑتا ہے۔ ڈپریشن، ذہنی تناؤ اور پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔‘ ’اگر یہ کیفیت کسی چوٹ یا زخم کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے تو پھر اس بنیادی مسئلے کی تشخیص کی جاتی ہے اور دوائی دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر دماغ میں سوزش ہے تو دوا کے ذریعے سوزش کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘ ڈاکٹر روپالی مشورہ دیتی ہیں کہ ’کسی سے ملاقات سے پہلے انھیں اپنی کیفیت کے بارے میں آگاہ کریں، دوستوں کو بتائیں کہ جب بھی وہ آپ سے ملیں تو وہ اپنا تعارف کروائیں، کسی سے ملاقات کریں تو اُن سے کہیں کہ وہ اپنے بارے میں آپ کو آگاہ کریں کہ وہ کون ہیں اور لوگوں کو ان کے چہرے کے بجائے ان کی آواز اور حرکات کی مدد سے پہچاننے کی کوشش کریں۔‘ نتالیا کہتی ہیں کہ ’لوگوں کو نظر انداز کرنا بہت بُرا لگتا ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ لوگ مجھ سے مل کر ایسا محسوس کریں کہ میں انھیں نظر انداز کر رہی ہوں۔ لیکن میں بتانا چاہتی ہوں کہ ہم جیسے لوگوں کو غلط سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ہماری زندگی مشکل ہو جاتی ہے۔ میں سب سے دوستانہ رویہ رکھنا چاہتی ہوں اور کسی سے یہ پوچھتے ہوئے ہچکچانا نہیں چاہتی کہ وہ کون ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd17yw90evdo", "summary": "چے کو بلڈ کینسر تھا اور ڈاکٹروں نے اس کے والدین کو جواب دے دیا تھا کہ اس کے زندہ بچنے کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ اس کے بعد کسی ’معجزے‘ کی اُمید لیے بچے کے والدین ہری دوار گئے کہ ان کا بیٹا صحت یاب ہو جائے گا۔", "title": "بلڈ کینسر میں مبتلا بچہ اور ’معجزے‘ کی متلاشی ماں جن پر اپنے ہی بیٹے کو ڈبو کر مارنے کا الزام لگا", "firstPublished": "2024-01-25T16:05:43.421Z", "id": "cd17yw90evdo", "article": "اس موقع پر ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد مقامی پولیس نے خاتون اور دونوں مردوں کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ بچے کی میت کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا دیا گیا ہے۔ ہری دوار پولیس کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق ہر کی پوھڑی پر ایک خاتون کی جانب سے اپنے ہی بچے کو ڈبو کر مارنے کا دعویٰ غلط ہے بلکہ یہ معاملہ ’بظاہر ایمان اور آخری اُمید‘ سے جڑا ہوا ہے۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ اس کیس کی ہر زوایے سے تحقیق جاری ہے اور پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے بعد اب تفصیلی رپورٹ کا انتظار ہے۔ انھوں نے کہا کہ پولیس کی ابتدائی تفتیش کے مطابق ویڈیو میں نظر آنے والا بچہ بلڈ کینسر کے مرض میں مبتلا تھا اور چونکہ وہ کینسر کی آخری سٹیج پر تھا اس لیے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز دہلی نے اسے ہسپتال میں داخل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کیس کی تحقیقات کرنے والے ایک ذمہ دار پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ویڈیوز سامنے آنے کے بعد والدین کو تھانے لایا گیا اور ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔ تاہم پوسٹ مارٹم میں موت کی وجہ ڈوبنا ثابت نہ ہونے کی بنا پر انھیں رہا کر دیا گیا تاکہ وہ اپنے بچے کی آخری رسومات ادا کر سکیں۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’واقعے کے دن صبح 7 بجے بچے کے چچا نے انھیں ہری دوار جانے کے لیے بلایا۔ اور وہ بچے اور اس کے والدین کے ہمراہ نو بج کر دس منٹ پر دہلی سے روانہ ہوئے۔ بچے کے ساتھ اُن کے والدین اور ایک خالہ بھی تھیں۔ بچہ دورانِ سفر بڑی مُشکل سے سانس لے رہا تھا۔‘ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بچے کے والد راج کمار پھولوں کی فروخت کا کا کام کرتے ہیں اور اُن کی بیوی گھریلو خاتون ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں۔ بیٹے کی موت کے بعد اب ان کی ایک بیٹی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ بچے کو بلڈ کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور ڈاکٹروں نے اس کے والدین کو جواب دے دیا تھا کہ اس کے زندہ بچنے کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ پڑوسی کے مطابق ڈاکٹروں سے جواب ملنے کے بعد والدین کسی ’معجزے‘ کی اُمید لیے ہری دوار گئے تاکہ ان کا بیٹا صحت یاب ہو سکے۔ مدن رائے بھی سوشل میڈیا کے رویے سے ناراض نظر آتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ’کیا آپ اس طرح کی تحقیقات کے بغیر خبریں شائع کرتے ہیں؟ وہ غریب لوگ پہلے ہی افسردہ اور بچے کی موت کی وجہ سے پریشان اور صدمے کی حالات میں ہیں اور سب سے بڑھ کر اُن کے بارے میں میڈیا پر خبریں چل رہی ہیں۔ کیا اُن کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو سکتی جو بنا کُچھ سوچے اور سمجھے ہر خبر چلا دیتے ہیں؟‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/clj980n2p0lo", "summary": "یوگا، ورزش اور سب سے بڑھ کر اعتماد کسی بھی بیماری کا پہلا علاج ہوتا ہے۔", "title": "خود اعتمادی کیسے انسانی جسم کو بیماری سے لڑنے میں مدد کر سکتی ہے؟", "firstPublished": "2024-01-23T10:30:32.556Z", "id": "clj980n2p0lo", "article": "بہت سے ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ اگر آپ اپنے آپ پر یقین رکھتے ہیں تو آپ جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط بن سکتے ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ آپ ہر قسم کی مُشکل اور مصیبت پر قابو بھی پا سکتے ہیں۔ انیتا شرما کی قوت ارادی نے انھیں کبھی مایوس نہیں ہونے دیا۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کی بیماری چیلنجنگ ضرور ہے، لیکن وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ وہ آسانی سے اس کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔ بی بی سی ریلز سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر زکریا کا کہنا تھا کہ ’اس سے ایپینیفرین، ایڈرینالین اور ہارمون نوراڈرین کی سطح میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ہارمونز طاقت کے احساس کو بڑھاتے ہیں اور آپ مُشکل سے مُشکل وقت میں بھی مثبت سوچنے لگتے ہیں۔ ڈاکٹر گیلن کے مطابق ’پورے اعتماد کے ساتھ ورزش کرنے سے پٹھوں کی طاقت میں بہت زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہی ایک کھلاڑی کی طاقت کا اصل راز ہے۔‘ انیتا نے بی بی سی کے آر دویدی کو بتایا کہ کیمو کے دوران نامناسب ادویات کی وجہ سے ان کا ہاتھ اچانک سوج گیا اور پھر تین انگلیوں نے کام کرنا بند کر دیا۔ انیتا کے مطابق کسی کو کبھی بھی بے بس محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ اپنے آپ پر یقین رکھنا سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپریشن کے بعد بھی وہ بستر پر لیٹنا پسند نہیں کرتی تھیں۔ انیتا کو جولائی 2013 میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور ایک ہفتے کے اندر ان کا آپریشن ہوا تھا۔آپریشن کے دوسرے دن سے ہی وہ اکیلی ہی کسی کی بھی مدد کے بغیر واش روم جانا شروع ہو گئیں تھیں۔ وہ مثبت سوچ پر زور دیتی ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ ورزش جسم کو مضبوط بناتی ہے اور مثبت سوچ ذہنی مضبوطی کا باعث بنتی ہے جس کے بعد مشکل ترین چیلنجز بھی خود کو چھوٹا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ورزش دماغی بیماری میں بھی مفید ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر ذہنی بیماری کا مسئلہ زیادہ سنگین نہ ہو تو یوگا اور ورزش کی مدد سے اس پر بڑے پیمانے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اُن کے مطابق تمام نفسیاتی ماہرین اپنے مریضوں کو ادویات کے ساتھ باقاعدگی سے ورزش کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، کیونکہ جسمانی طور پر فعال افراد کے لیے ذہنی مسائل سے نمٹنا اور ان پر قابو پانا آسان ہے۔ زکری ایم گیلن کے مطابق اگر آپ میں اعتماد ہے تو آپ ورزش سے اپنے پٹھوں کو مضبوط بنا کر ایک ایتھلیٹ کی طرح طاقت حاصل کر سکتے ہیں لیکن حد سے زیادہ اعتماد سے دور رہنا بھی ضروری ہے۔ کوشش کریں کہ کم اور کبھی کبھی زیادہ وزن اٹھائیں تاکہ عضلات جسم کی ضروریات کے مطابق آسانی سے تیار ہوجائیں اور وہ ورزش کے فوراً بعد پروٹین لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gy3jl556ro", "summary": "دنیا بھر میں ہونے والی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ برن آوٹ کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمیں مسلسل اپنے کام کی جگہوں پر مقابلے کے کلچر کا سامنا ہے اور ہمیں ہر وقت ایک جدوجہد کا سامنا ہے۔", "title": "برن آؤٹ: شدید تھکاوٹ کی یہ حالت کیسے ہوتی ہے اور اس سے کیسے بچا جائے", "firstPublished": "2024-01-22T07:12:47.453Z", "id": "c3gy3jl556ro", "article": "دنیا بھر میں بالغان کی تقریباً ایک تہائی سے زائد تعداد مسلسل تھکاوٹ محسوس کرتی ہے اور برن آوٹ (شدید تھکن) کے کیسز بھی بڑھ رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور اس سے کیسا بچا جا سکتا ہے؟ ان کی کتاب ’ایگزہوسٹڈ: این اے زی فار دا ویئری‘ برن آوٹ اور سائنس کے تعلق پر ہے اور اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ زندگی میں آنے والے اضطراب سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ برن آوٹ کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ میرا خیال ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمیں مسلسل اپنے کام کی جگہوں پر مقابلے کے کلچر کا سامنا ہے اور ہمیں ہر وقت ایک جدوجہد کا سامنا ہے۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کام کو سراہے نہ جانے کے احساس سے برن آؤٹ کا خطر دُگنا ہو جاتا ہے۔ یہ بہت اضطرابی کیفیت ہوتی ہے اور اس کا علاج زیادہ مشکل بھی نہیں لیکن پھر بھی دفاتر میں کام کرنے والے ہمارے منیجر ہمیں سراہنے کی کوشش نہیں کرتے۔ مسلسل یا شدید تھکن سے بچنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ اپنی ترجیحات کو سمجھیں تاکہ ہم عقلمندی سے اس بات کا جائزہ لے سکیں کہ ہم نے اپنے کمفرٹ زون میں کتنا وقت لگانا ہے اور طبعیت کی بحالی پر کتنا وقت لگے گا۔ بطور کوچ کام کے دوران میں ہمیشہ ’ایکسیپٹینس اور کمٹمنٹ تھراپی‘ کے اصولوں کا استعمال کرتی ہوں۔ یہاں ’ایکسیپٹینس‘ یعنی ’توقعات‘ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے بارے میں ’منفی‘ سوچ رکھنا، ڈر، غصے یا دُکھی ہونے جیسے احساسات رکھنا کوئی بڑی بات نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ان تمام احساسات کا سامنا آپ فوری طور پر کریں۔ ان احساسات سے نکلنے میں لفظوں کا استعمال بھی آپ کی مدد کرتا ہے جیسے کہ ’میں بہت غصے میں ہوں‘ کی جگہ آپ ’مجھے لگتا ہے مجھے غصہ آ رہا ہے‘ جیسے الفاط کا استعمال کریں۔ اس سے آپ کے سوچنے کے نظریے پر واضح فرق پڑے گا اور یہ اکثر آپ کو کنٹرول میں رہنے کے احساس سے بھی متعارف کروائے گا۔ جب ہم اپنے کام میں مستقل طور پر مصروف ہوتے ہیں تو یہ ہماری شناخت کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ معاملہ اکثر اتنی خطرناک صورتحال اختیار کر جاتا ہے کہ اس سے بچنا یہ اس سے دور رہنا آپ کو ناممکن نظر آتا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ کام کے علاوہ بھی ہماری زندگی میں ایسی چیزیں ہوں جو ہمیں لطف کے احساس سے روشناس رکھیں اور ہمیں یہ بھی پتا چلتا رہے کہ صرف کام ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy7r3vxd4y5o", "summary": "بہت زیادہ میٹھے کا استعمال فوری طور پر جسم میں انسولین کی ضرورت سے زیادہ پیداوار کا باعث بنتا ہے۔ اس سے بھوک بڑھ جاتی ہے اور یہ ایک چکر بن جاتا ہے۔ اس کے بعد کئی طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں۔\n", "title": "خوشی کے موقع پر کچھ میٹھا ضرور کھائیں، لیکن ہوشیار رہیں کیونکہ میٹھا خوشیاں چھین بھی سکتا ہے", "firstPublished": "2024-01-17T07:45:59.842Z", "id": "cy7r3vxd4y5o", "article": "یہ کاربوہائیڈریٹ قدرتی طور پر کئی قسم کے کھانے میں پائے جاتے ہیں۔ یہ زیادہ تر پھلوں میں پائے جاتے ہیں اور شوگر بھی ایک کاربوہائیڈریٹ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’جب انسولین کی مقدار بڑھ جاتی ہے تو یہ کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔‘ ایسی حالت میں گلوکوز دوسرے آپشنز کے ذریعے داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے جس سے خلیات میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں گلوکوز جسم میں چربی کی صورت میں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے اور پھر مسائل ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق اس کی وجہ سے جسم میں شوگر لیول بڑھنے لگتا ہے اور کئی طرح کی بیماریاں جنم لینے لگتی ہیں۔ بہت زیادہ میٹھے کا استعمال فوری طور پر جسم میں انسولین کی ضرورت سے زیادہ پیداوار کا باعث بنتا ہے۔ اس سے بھوک بڑھ جاتی ہے اور یہ ایک سائیکل بن جاتا ہے جو کئی طرح کے مسائل کو جنم دیتا ہے۔ ڈاکٹر راجیو کوول بتاتے ہیں کہ ’میٹھا کھانے سے جسم کو دیگر کاربوہائیڈریٹس کے مقابلے میں فوری طور پر زیادہ کیلوریز ملتی ہیں۔ اس سے ہمیں توانائی ملتی ہے اور خوشی بھی ملتی ہے۔‘ ساتھ ہی ڈاکٹر سریندر کمار کا کہنا ہے کہ ’میٹھا کھانے سے بھی ایک طرح کی خوشی ملتی ہے۔ جب ہم اسے کھاتے ہیں اور یہ ہمارے دماغ میں جذب ہو جاتا ہے تو اینڈورفن ہارمونز خارج ہوتے ہیں جس سے ہمیں خوشی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مٹھائیاں بے ترتیب طور پر کھانا شروع کر دیں۔‘ ڈاکٹر راجیو کوول کا کہنا ہے 1980 یا 1990 کی دہائی کے وسط میں امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد میں وزن بڑھنے یا ذیابیطس کا مسئلہ دیکھا گیا۔ یہ اس لیے تھا کہ اس وقت چینی کھانا عیش و عشرت یا لطف اندوزی کا ذریعہ تھا۔ لیکن اب پچھلے 15 سالوں سے بچوں کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے کیونکہ انہیں کھانے پینے کی اشیا کے بہت سے آپشن مل رہے ہیں۔ سب سے پہلے موٹاپے کا مسئلہ ہے اور اس کے بعد دیگر مسائل بھی جنم لیتے ہیں جیسے ہائی بلڈ پریشر، کولیسٹرول، ذیابیطس اور دیگر امراض قلب وغیرہ۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے ڈاکٹر سریندر کمار کا کہنا ہے کہ ’کینسر یا شوگر کا مریض اگر دن کے مختلف اوقات میں تھوڑی سی آئسکریم کھاتا ہے تو اس کے جسم میں موجود انسولین اسے برداشت کر لیتی ہے۔ لیکن شوگر کی بڑی مقدار فوراً اندر داخل ہو جاتی ہے تو جسم اسے سنبھال نہیں سکے گا۔‘ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn09dp774zdo", "summary": "’جب میں ٹوائلٹ گئی تو دیکھا کہ میری اندام نہانی سے کوئی پُھولی ہوئی چیز باہر آ رہی ہے، مجھے سیکس کرتے وقت درد محسوس ہوتا تھا، مگر مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیوںکہ اس وقت میں اپنے جسم کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔‘", "title": "یوٹیرائن پرولیپس یعنی بچہ دانی کا گِرنا: ’اگر شرمندگی کا احساس نہ ہوتا تو میں بہت پہلے ڈاکٹر کے پاس چلی جاتی‘", "firstPublished": "2024-01-16T04:22:42.640Z", "id": "cn09dp774zdo", "article": "جب نتاشجا وِلسن نے پہلی بارمحسوس کیا کہ اُن کے اندامِ نہانی یا وجائنا کے اندر موجود ایک اُبھار نیچے کی جانب سرکنے کے لیے زور لگا رہا ہے تو انھیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اُن کے جسم کے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔ اس بارے میں کسی سے مدد لینے کا سوچ کر بھی انھیں شرم محسوس ہو رہی تھی۔ اُس وقت انُ کی عمر صرف 18 سال تھی اور وہ گھر سے دور یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں۔ انھوں نے اس کیفیت کے بارے کبھی کسی سے نہیں سُنا تھا، حالانکہ 50 فیصد عورتوں کو زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر اس کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’جب میں ٹوائلٹ گئی تو میں نے دیکھا کہ میری وجائنا میں سے کوئی پُھولی ہوئی چیز باہر آ رہی ہے۔‘ ’مجھے پیشاب کے قطرے گِرنے کی بھی شکایت تھی اور سیکس کرتے وقت درد بھی محسوس ہوتا تھا۔‘ ’مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیوںکہ اس وقت میں اپنے جسم کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔‘ جب انھوں نے اپنی بعض سہیلیوں سے پوچھا کہ کیا وجائنا میں اُبھار کا احساس ہونا معمول کی بات ہے، تو انھیں بتایا گیا کہ ’ہو سکتا ہے کہ یہ تمھارا ’جی سپاٹ G spot‘ ہو یا ویسے ہی کوئی دھبہ ہو۔‘ (جی سپاٹ، وجائنا کے اندر وہ مقام ہے جو سیکس کے دوران انتہائی حساس اور لذت کا باعث ہوتا ہے۔) پیڑُو یا پیلوِس کے پٹھے یا عُضلات پیٹ کے اعضا کو اپنی جگہ پر تھامے رکھتے ہیں۔ مگر جب یہ کسی وجہ سے کمزور پڑ جاتے ہیں تو ’پیلوِک آرگن پرولیپس‘ واقع ہوتا ہے، یعنی ایک یا ایک سے زیادہ اعضا اپنی معمول کی پوزیشن سے نیچے چلے جاتے ہیں۔ اس سے ایک بلج یا اُبھار سا پیدا ہوتا ہے جو وجائنا کے اندر یا باہر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اپنی جگہ سے نیچے سرکنے والا یہ عضو رحم، آنت، مثانہ یا وجائنا کا اُوپری حصہ ہو سکتا ہے۔ اس کی عمومی علامات میں نیچے کی طرف دباؤ یا کسی چیز کے وجائنا سے باہر آنے کا احساس شامل ہو سکتا ہے، جیسے’ٹینس کی گیند پر بیٹھنے‘ کا احساس، ساتھ ہی مثانے اور آنتوں کے مسائل اور سیکس کے دوران تکلیف ہونا شامل ہو سکتا ہے۔ ’ہمیں نہ صرف خواتین اور ڈاکٹروں میں آگاہی اور تعلیم کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین میں یہ تصور بدلا جا سکے کہ معالجین خواتین کے مخصوص عوارض کو قابل توجہ نہیں سمجھتے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c882205v6j1o", "summary": "بہت سے لوگوں کو ایس اے ڈی کی کلینیکل تشخیص یا اس کی تمام علامات کے بغیر بھی اُداسی اور توانائی میں کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس عام افسردگی کو غیر رسمی طور پر ’ونٹر بلیوز‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ وسیع پیمانے پر پائی جاتی ہے۔", "title": "جنوری کا سرد موسم آپ کے مزاج، یادداشت اور سیکس لائف پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟", "firstPublished": "2024-01-12T13:27:27.416Z", "id": "c882205v6j1o", "article": "اگرچہ اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ کینیڈا کے کالے ریچھ بھی موسموں کے ساتھ ساتھ اپنے طرز عمل اور رویوں میں تبدیلی لاتے ہیں یا یوں کہہ لیا جائے کہ وہ اپنے آپ کو ہر آنے والے وقت کے مطابق ڈھالتے ہیں لیکن انسانی نفسیات میں ان تغیرات پر بہت کم تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ موسمِ سرما میں ڈپریشن کی موجودگی، جسے ’سیزنل ایفیکٹو ڈس آرڈر‘ (ایس اے ڈی) کے نام سے جانا جاتا ہے، اب نہ صرف عام ہو چُکا ہے بلکہ اب اسے قابلِ علاج مرض کے طور پر قبول بھی کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو ایس اے ڈی کی کلینیکل تشخیص یا اس کی تمام علامات کے بغیر بھی اُداسی اور توانائی میں کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس عام افسردگی کو غیر رسمی طور پر ’ونٹر بلیوز‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ وسیع پیمانے پر پائی جاتی ہے۔ ونٹر بلیوزیا دکھی خیالات سے متعلق ان احساسات کے درمیان بہت سی ممکنہ وضاحتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک مقبول نظریہ یہ بھی ہے کہ روشنی کی کم سطح جسم کی حیاتیاتی گھڑی میں مداخلت کرتی ہے، یعنی دن کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ انسانی مزاج میں بھی تبدیلی آتی ہے اور وہ سُست ہوتا چلا جاتا ہے مگر رُکتا نہیں۔ تبدیل شدہ ذہنیت یقینی طور پر شدید اداس لوگوں کے لیے علاج نہیں ہو سکتی لیکن لیبووٹز تجویز کرتے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے لوگ موسم سرما کی مثبت خصوصیات کو محسوس کرنا اور اسے اپنانا سیکھ کر اداسی کو شکست دے سکتے ہیں، جیسے قدرتی خوبصورتی جو اس سے آتی ہے۔ ہم ابھی تک اس موسمی تغیر کی وجوہات نہیں جانتے ہیں۔ خراب علمی کارکردگی لوگوں کے عام طور پر افسردہ احساسات کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ جب ہم دکھی محسوس کرتے ہیں تو ہمیں سیدھی بات بھی سوچنے میں مشکل ہوتی ہے۔ ایک اور امکان یہ ہے کہ یہ موسم سرما میں وٹامن ڈی کی کمی کی عکاسی کرتا ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دماغ کی صحت میں مدد کرتا ہے۔ اس کا مزید ثبوت ہماری فلم دیکھنے کی عادات سے ملتا ہے۔ آن لائن فلموں کے پسندیدگی سے متعلق ملنے والے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ جب درجہ حرارت کم ہوتا ہے تو لوگ دیگر فلموں کے مقابلے میں رومانوی فلموں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایک ایسی دریافت جسے متعدد لیبارٹری تجربات میں دہرایا گیا۔ دل کو چھو لینے والی فلم بظاہر باہر کی سردی کی وجہ سے جذباتی گرمجوشی اور پیار کی ہماری بڑھتی ہوئی خواہش کو پورا کرتی ہے۔ وضاحت جو بھی ہو، اس تغیر کے حقیقی عالمی صحت کے نتائج ہیں، مزید مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ اسی عرصے میں جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن میں اضافہ اور کمی ہوئی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cd195vn4703o", "summary": "سپین کی حکومت نے اپنی متنازع ’گولڈن ویزا‘ سکیم کو ختم کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اس سکیم کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سپین میں بہت تیزی سے قیام پذیر ہونے کی سہولت میسر تھی۔\n", "title": "’گولڈن ویزا‘: سپین نے غیر ملکی اشرافیہ اور سرمایہ کاروں کے لیے بنائی گئی سکیم کیوں ختم کی؟", "firstPublished": "2024-04-10T05:36:55.271Z", "id": "cd195vn4703o", "article": "سپین کی حکومت نے اپنی متنازع ’گولڈن ویزا‘ سکیم کو ختم کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اس سکیم کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سپین میں بہت تیزی سے قیام پذیر ہونے کی سہولت میسر تھی۔ یورپ میں معاشی بحران کے دوران اس سکیم کے ذریعے غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی گئی جس کی سپین کو اشد ضرورت تھی۔ سپین کا پراپرٹی سیکٹر اس بحران سے بہت متاثر ہوا تھا۔ گولڈن ویزا سکیم کے تحت غیر ملکی افراد سپین کے ریاستی بانڈز میں 20 لاکھ یورو کی سرمایہ کاری کر کے بھی گولڈن ویزا حاصل کر سکتے تھے یا پھر ان کے لیے سپین کی ابھرتی کمپنیوں میں سرمایہ کاری مانگی جاتی تھی۔ ادھر سپین کے باہر سے بھی دباؤ بڑھا ہے۔ یورپی یونین نے اپنے ممالک کو ایسی سکیمز ختم کرنے کا کہا تھا اور اس کی وجہ یوکرین جنگ کے دوران سکیورٹی خدشات بتائی گئی۔ آئرلینڈ نے اگلے سال اپنی گولڈن ویزا سکیم ختم کی، پرتگال نے اس میں اصلاح کی جس کے بعد اب وہاں محض پراپرٹی خریدنے پر رہائش کا حق نہیں دیا جاتا۔ ڈاکٹر سورک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ترکی سب سے زیادہ شہریت کے مواقع دینے والا ملک ہے۔ اس شعبے میں ڈاکٹر سورک کی تحقیق کے مطابق، ترکی کی گولڈن پاسپورٹ سکیم کے لیے درخواستیں عالمی شہریت کی سالانہ فروخت کا نصف حصہ ہیں۔ سنہ 2022 میں، برطانیہ کی حکومت نے ایک سکیم ختم کر دی جس کے تحت دولت مند غیر ملکی شہریوں کو ملک میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی تھی اگر وہ اپنے ساتھ اثاثے لاتے ہیں۔ اگلے سال، آئرلینڈ نے اپنا گولڈن ویزا ختم کر دیا، جب کہ پرتگال نے اس کے اپنے ورژن پر نظر ثانی کی، اب جائیداد کی خریداری کے بدلے رہائش کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ فنڈز میں سرمایہ کی منتقلی اور تحقیقی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے اس عمل کو جاری رکھا گیا۔ یورپی یونین کے مختلف اداروں کی طرف سے بھی اس پر تنقید کی گئی ہے۔ 2022 میں، شہری آزادیوں، انصاف اور امور داخلہ سے متعلق یورپی یونین کی کمیٹی نے گولڈن پاسپورٹ پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا اور یورپی یونین تک ویزا فری رسائی والے تیسرے ممالک سے کہا کہ وہ اپنی گولڈن پاسپورٹ سکیموں کو ختم کریں۔ اور 2023 میں، ہوم آفس کی طرف سے شروع کیے گئے یوکے میں گولڈن ویزوں کے جائزے سے پتہ چلا کہ ’غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ایک چھوٹی سی تعداد ممکنہ طور پر زیادہ خطرے میں تھی جس کا بدعنوانی یا منظم جرائم سے تعلق ہے۔‘ جنوبی ترکی کا ساحلی شہر انطالیہ ان میں سے ایک ہے۔ روسی اور یوکرائنی سیاحوں میں روایتی طور پر مقبول انطالیہ یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد مستقل پناہ گاہ بن گیا تھا۔ مقامی لوگوں کو شکایت ہے کہ رئیل اسٹیٹ کی مانگ میں اضافے نے قیمتیں بڑھا دی ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ckd80j99ylwo", "summary": "بی بی سی نے ایف آئی اے کے سینیئر اہلکار سے بات کر کے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ ایسی کون سی چیزیں ہیں جنھیں اپنے ساتھ لے جانے کی وجہ سے کسی مسافر کو سزا یا جرمانے کا سامنا کرنا پڑ ستکا ہے۔ ", "title": "پی آئی اے کی اہلکار کی گرفتاری اور پھر معطلی: ’کینیڈا سے ممنوعہ اشیا کی فہرست کا انتظار ہے‘", "firstPublished": "2024-03-30T21:28:38.768Z", "id": "ckd80j99ylwo", "article": "پاکستان کے شہر لاہور سے دو روز قبل کینیڈا پہنچنے والی قومی ائیرلائن کی فلائیٹ پی کے 789 کے عملے کو اس وقت کسٹم حکام نے روک لیا جب جہاز کے عملے میں سے ایک خاتون کے سامان سے ممنوعہ اشیا برآمد ہوئیں۔ ابتدائی اطلاعات یہ تھیں کہ پی آئی اے کی خاتون کریو ممبر کے سامان سے پاسپورٹس برآمد ہوئے تاہم بعد میں کسٹم حکام کی جانب سے جاری ابتدائی رپورٹ میں ’کونٹرا بینڈ‘ (ممنوعہ اشیا) کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مذکورہ کریو ممبر کو ان کے عہدے سے معطل کر دیا گیا، وہ کینیڈا میں تھیں، ان کے سامان کی تلاشی لی گئی، ممنوعہ اشیا برآمد ہونے پر انھیں حراست میں لیا گیا۔ ‘ ان کا کہنا ہے کہ ’اب تک کی اطلاعات یہی ہیں کہ کریو کے 11 لوگ تھے، کینیڈین کسٹم حکام نے اس خاتون سمیت تین کو پکڑا اور پھر دو کو چھوڑ کر اس کریو ممبر کو تین گھنٹے کے لیے حراست میں رکھا۔‘ پی آئی اے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ہم کینیڈین حکام کی رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔ کونٹرا بینڈ اشیا میں مزید کیا کیا شامل تھا یہ ابھی معلوم نہیں ہوا، رپورٹ کے بعد اس پر کارروائی کریں گے۔‘ پی آئی اے کے ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ ’یہ خاتون اس وقت ملک واپس آ رہی ہیں لیکن ہم نے رپورٹ کے بعد انھیں معطل کر دیا تھا۔ وہ کیا لے کر کینیڈا پہنچی تھیں یہ تفصیل آنے کے بعد ہی انھیں سزا کا تعیّن ہوگا۔‘ خیال رہے کہ گذشتہ دو برس کے دوران پی آئی اے کے کیبن کریو کا کینیڈا میں جا کر روپوش ہو جانے کے گیارہ واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ پی آئی اے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ ایک الگ معاملہ ہے جس میں پاکستان عملے کے اراکین روپوش ہو جاتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ عملے کے اراکین کی جانب سے ممنوعہ اشیا لے کر دوسرے ملک جانے کے کم واقعات ہیں۔ جیسے ماضی میں امریکہ میں کریو ممبر سگریٹ لے کر چلے جاتے تھے۔ بی بی سی نے ایف آئی اے کے سینیئر اہلکار سے بات کر کے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ ایسی کون سی چیزیں ہیں جنھیں اپنے ساتھ لے جانے کی وجہ سے کسی مسافر کو سزا یا جرمانے کا سامنا کرنا پڑ ستکا ہے۔ ان کے مطابق ویسے تو ہر ملک کے مسافروں کے داخلے کے لیے بالکل یکساں قوانین نہیں ہیں۔ تاہم کچھ قوانین ہر جگہ اور ہر خـطے میں بہت واضح ہیں۔ ایف آئی اے اہلکار کے مطابق: ان چیزوں کے علاوہ ہر ملک کے اپنے سرحدی قوانین ہوتے ہیں جن کے بارے میں معلومات ہونا ضروری ہے۔ ان میں سے کچھ سرزنش اور کچھ حراست کا سبب بن سکتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czrzmm331jlo", "summary": "گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے عملے کے 10 ارکان کینیڈا پہنچنے پر ’غائب‘ ہو چکے ہیں اور اس مسئلے کے تدارک کے لیے پی آئی اے کی جانب سے کیے گئے اقدامات بے اثر ہوتے دکھائی دیے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ پی آئی اے کا عملہ اتنی بڑی تعداد میں کینیڈا میں ’پناہ حاصل کرنے‘ کی کوشش کر رہا ہے؟", "title": "’سب کچھ رازداری سے ہوتا ہے، کسی کو بھنک بھی نہیں پڑتی‘: پی آئی اے کا عملہ کینیڈا پہنچ کر ہی کیوں ’غائب‘ ہو رہا ہے؟", "firstPublished": "2024-03-17T05:34:15.515Z", "id": "czrzmm331jlo", "article": "جہاں ایک رائے یہ ہے کہ اس کی وجوہات پاکستان میں گذشتہ چند برسوں سے بگڑتی معاشی صورتحال اور پی آئی اے کی آنے والے دنوں میں نجکاری سے جڑی ہیں وہاں پی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ یہ دراصل کینیڈا کے پناہ لینے سے متعلق لبرل قوانین ہیں جن کا فائدہ پی آئی اے کے عملے کی جانب سے اٹھایا جا رہا ہے۔ تاہم اس عرصے کے دوران کسی اور ایئرلائن کے کیبن کریو کے کینیڈا میں غائب ہونے کی خبریں سامنے نہیں آئی ہیں۔ تاہم کینیڈا کی امیگریشن پر نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ صرف پی آئی اے کے عملے یا پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ متعدد ممالک کے افراد کینیڈا کے لبرل قوانین کا فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود کیا وجہ ہے کہ کینیڈا پی آئی اے کے عملے کا ’غائب‘ ہونے کے لیے فیورٹ ملک بن گیا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے ٹورونٹو میں حکام، پی آئی اے اور دیگر ایئرلائنز کے ساتھ کام کرنے والے عملے سمیت کینیڈا میں امیگریشن سے منسلک وکیل اور امیگریشن کنسلٹنٹ سے بات کی ہے۔ بی بی سی نے پی آئی اے اور دیگر ایئرلائنز میں کام کرنے عملے کے سابق اور حاضر سروس ارکان سے بات کر کے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ عملے کے اراکین کے لیے ’غائب‘ ہونا اتنا آسان کیوں ہوتا ہے۔ انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس دستاویز پر کریو کی معلومات، ایئرکرافٹ رجسٹریشن نمبر اور فلائٹ کی آمد اور واپسی کے اوقات درج ہوتے ہیں۔ یہ دستاویز دراصل امیگریشن حکام کے لیے ’گارنٹی‘ سمجھی جاتی ہے کہ عملے کے ارکان درج کی گئی تاریخ پر ملک سے واپس چلے جائیں گے۔ ایک نجی ایئرلائن کے کمرشل پائلٹ جو بین الاقوامی فلائٹس کر چکے ہیں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ معاملہ دوسری فلائٹس میں اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ پی آئی اے کا ریگولیٹری کنٹرول اتنا سخت نہیں ہے جتنا دوسری ایئرلائنز کا ہے۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پی آئی اے کے اراکین کے حوالے سے تو خبر نمایاں طور پر رپورٹ ہوئی ہے لیکن گذشتہ چند سالوں سے پاکستان سمیت دیگر ممالک سے لوگوں کا مختلف وجوہات کو بنیاد بنا کر کینیڈا میں پناہ لینے کے لیے درخواستوں میں بڑا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے کینیڈا میں امیگریشن کنسلٹنسی کے شعبے سے منسلک عبداللہ بلال کینیڈین حکومت کی جانب سے آتھرائزڈ کنسلٹنٹ ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کینیڈا کے قانون کے مطابق آپ کینیڈا میں پناہ حاصل کرنے کے لیے کسی بھی پورٹ آف انٹری پر درخواست جمع کروا سکتے ہیں لیکن اگر آپ ایک دفعہ ملک کے اندر داخل ہو جائیں تو آپ کسی کے پاس رہ کر کچھ عرصے بعد پناہ حاصل کرنے کے لیے کیس فائل کر دیتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgxd1xeyw7xo", "summary": "یہ وہ جزائر ہیں جہاں ماضی میں بازنطینی بادشاہ اور عثمانی سلطان سرکش اور تنگ کرنے والے شہزادوں اور اپنے دیگر حریفوں کو جلاوطن اور قید کرتے تھے۔ تاہم آج یہ ایسے منفرد جزیرے بن گئے ہیں جن کی سڑکوں پر گاڑیاں نہیں چلتیں۔", "title": "ترکی کے اُن جزائر کی سیر جہاں عثمانی سلطان سرکش شہزادوں اور حریفوں کو نابینا کر کے قید کرتے تھے", "firstPublished": "2024-03-13T14:35:26.275Z", "id": "cgxd1xeyw7xo", "article": "یہ وہ جزائر ہیں جہاں ماضی میں بازنطینی بادشاہ اور عثمانی سلطان سرکش اور تنگ کرنے والے شہزادوں اور اپنے دیگر حریفوں کو جلاوطن اور قید کرتے تھے۔ تاہم آج یہ ایسے منفرد جزیرے بن گئے ہیں جن کی سڑکوں پر گاڑیاں نہیں چلتیں۔ مؤرخ بیٹنی ہیوز اپنی کتاب ’استنبول: ٹیل آف تھری سیٹیز‘ میں ان جزائر کے بارے میں لکھتی ہیں ’یہاں (سرکش) شہزادوں کو نابینا کیا جاتا، اُن پر تشدد کیا جاتا، اور قید و جلاوطن کیا جاتا۔ آج جزائر کی جانب جانے والا خوشگوار سفر گذشتہ صدیوں میں عام طور پر ایک انتہائی تکلیف دہ سفر ہوتا ہو گا۔‘ سنہ 1453 میں قسطنطنیہ کی عثمانیوں کے ہاتھوں فتح کے بعد بھی یہ جزائر اپنی بازنطینی شناخت کیسے قائم رکھ پائے، اس بارے میں اوزگے کہتی ہیں کہ ’روایتی طور پر اِن جزیروں پر رہنے والے زیادہ تر لوگ استنبول کے اقلیتی گروہوں میں سے تھے۔ خاص طور پر یونانی اور آرمینیائی۔ یہ عموماً کثیر ثقافت سلطنت عثمانیہ کے اشرافیہ ہوتے تھے اور ان میں سے بہت سے قدیمی خاندانوں کے آج بھی یہاں گھر ہیں۔‘ یہ بتاتے ہوئے کہ کس طرح مشکل اور مصائب سے بھرپور تاریخ نے جزیرے کی ایک منفرد شناخت بنائی ہے، اوزگے کہتی ہیں کہ ’ماضی کے ساتھ ایک جذباتی رشتہ ہے اور جزیرے کے لوگوں کو اس پر فخر ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ ان کی کہانی میں تسلسل ہے اور انھیں اس پر فخر ہے۔‘ جب ہم بس سے اترے اور چٹان کی چوٹیوں پر واقع ایک پرانے آرمینیائی چرچ کے لیے راستے پر چلنے لگے تو اوزگے نے کہا ’سوچیں (16 ملین) آبادی والے شہر کے ساتھ اس طرح کے خاموش جزیرے کو کیسے رکھا جاتا ہو گا۔ میں اس کوشش کا احترام کرتی ہوں۔ چھ یا سات ملین یورو کے گھروں کے مالک اپنی بی ایم ڈبلیو اور چمکتی گاڑیاں یہاں نہیں لا سکتے۔ جزیرے کی ایک ثقافت ہے اور لوگوں کو اسے اپنانا ہو گا۔‘ بجلی سے چلنے والے ذرائع آمد و رفت ایک اچھی تبدیلی ہے۔ جب میں سنہ 2016 میں یہاں آیا تھا تو سیاح ٹانگے استعمال کرتے تھے۔ گھوڑوں کو غلیظ ماحول میں رکھا جاتا تھا لہذا 2020 میں مقامی حکومت نے بگیوں پر پابندی لگا دی تھی اور اس کی جگہ بجلی سے چلنے والی گاڑیاں متعارف کروا دیں۔ ہم نے بویوک آدا میں چند کلو میٹر کی چہل قدمی کی اور اس راستے پر چلے جو جنگل سے گزرتا ساحل پر پہنچ جاتا ہے اور اس راستے میں آپ کو عثمانی شہزادوں کے محلات بھی نظر آتے ہیں۔ شہروں سے آنے والے لوگوں میں یہاں کا سبزا بہت مقبول ہے، وہ یہاں تازہ ہوا اور قدرت کے قریب ہونے کے لیے آتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2y10038yvo", "summary": "آج کی ترقی یافتہ بین الاقوامی دنیا میں یہ ایک قابل فہم اور عملی رویہ ہے کیونکہ کامیابی کے لیے اکثر اس میں خود کو ظاہری طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو کیا یہ تبدیلیاں اس آزاد اور پُرجوش شہر کی سیلفیز سے نفرت کو کبھی ختم کر پائیں گی؟", "title": "یورپ کا شہر جہاں سیلفی لینا معیوب سمجھا جاتا ہے", "firstPublished": "2024-03-10T08:04:19.802Z", "id": "cv2y10038yvo", "article": "مجھے برلن آئے چھ ماہ ہو چکے تھے لیکن یہ پہلا موقع نہیں تھا جب میں نے ايسا سنا تھا۔ یہاں میں نے واضح طور پر بہت کم لوگوں کو اپنے فون کے کیمرے کے ساتھ عوامی مقامات پر پوز دیتے دیکھا ہے کیونکہ یہاں سیلفیز کو خود پسندی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ میرے آبائی شہر سڈنی میں اس کے عالمی شہرت یافتہ بندرگاہ اور لاتعداد دلکش ساحلوں کے ساتھ سوشل میڈیا کے لیے سیلفیز لینا روزمرہ کی ایک تفریح ہے۔ لیکن برلن میں یہ بہت نایاب چیز نظر آتی ہے۔ اسی وجہ سے نہ صرف برلن کے کلب دنیا کی بہترین ٹیکنو موسیقی کا گھر ہیں بلکہ وہ یہاں آنے والوں کو وہ کچھ فراہم کرتے ہیں جسے بالکل مختلف مانا جاتا ہے یعنی کہ ایسی جگہ جہاں لوگ اس طرح کے کام کرنے کے لیے آزاد ہیں جسے عام طور پر عوام میں قبول نہیں کیا جاتا۔ یہ ایک عوامی ڈیجیٹل ڈی ٹوکس کی طرح ہے جس کا میں نے سڈنی کے ساحل پر کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا اور ہر دوسرے شہر میں موسیقی کے مقامات کے برعکس آپ کو برلن میں کنسرٹ کرنے والے موسیقاروں کے لیے اپنے کیمرے اٹھائے ہوئے لوگوں کا ہجوم تقریباً کبھی نظر نہیں آئے گا۔‘ برلن میں مقیم فیشن سماجی اثر و رسوخ رکھنے والی اور کاروباری خاتون ایمیلی اسٹینسکو کو ہی لیں جو اپنے انسٹاگرام پر 64,000 فالوورز کے لیے اکثر اپنی سیلفیز پوسٹ کرتی رہتی ہیں۔ جب ہم نے ان کے نو سال کے اپنائے ہوئے شہر اور اس کے اطالوی آبائی شہر کے درمیان سیلفیز کے حوالے سے مختلف سماجی رویوں کے بارے میں بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’لوگ برلن میں بہت گھورتے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ برلن اس مقام پر ہے جہاں عوام میں سیلفی لینا اب بھی قدرے غیر معمولی سمجھا جاتا ہے۔ آج کی ترقی یافتہ بین الاقوامی دنیا میں یہ ایک قابل فہم اور عملی رویہ ہے کیونکہ کامیابی کے لیے اکثر اس میں خود کو ظاہری طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو کیا یہ تبدیلیاں اس آزاد پر جوش شہر کی سیلفیز سے نفرت کو کبھی ختم کر پائیں گی؟ مجھے امید نہیں۔ میں برلن کے آزادانہ رویے سے محبت کرنے لگی ہوں، جس کے نتیجے میں مجھے اپنی رات کو دستاویزی شکل دینے یا دوسروں کو یہ ثابت کرنے کے لیے پوسٹ کرنے کا دباؤ محسوس نہیں ہوتا کہ میں واقعی میں مزے کر رہی ہوں۔ اس کے بجائے، میرے دن اور خاص طور پر میری راتیں پیاری جگہیں بن گئی ہیں جن میں یاد رکھنے کے قابل یادیں تخلیق کی جاتی ہیں، نہ کہ وہ جگہیں جہاں مجھے ایسا کرنے کے لیے تصاویر لینے کی ضرورت ہو۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg7l258dero", "summary": "اپنے ’سلک روڈ پروگرام‘ ذریعے یونیسکو نے کھیوا کو ’تعلیم، سائنس اور ثقافت کا مرکز، اور صدیوں پر محیط تہذیبوں کے گہوارہ کے طور پر متعارف کرایا ہے۔‘", "title": "خیوا: قرون وسطیٰ کی مساجد اور شاندار محلات کے ساتھ شاہراہ ریشم پر آباد ایک قدیم شہر", "firstPublished": "2024-03-04T07:39:16.610Z", "id": "crg7l258dero", "article": "دوسری جانب، لکڑی پر کندَہ کاری کے ایک ماہِر اپنی کرسی پر بیٹھے لکڑی کی بنی ہوئی خوبصورت شطرنج کی بساط پر کام کرنے میں مشغول تھے۔ قالین بننے میں مصروف خاتون نے ایک لمحے کے لیے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور پھر دوبارہ اپنے کام میں مگن ہو گئیں۔ یونیسکو نے اپنے ’سلک روڈ پروگرام‘ میں خیوا کو ’تعلیم، سائنس اور ثقافت کے مرکز کے علاوہ صدیوں پر محیط تہذیبوں کے گہوارے‘ کے طور پر متعارف کرواتا ہے۔ اس شہر کی وسیع تاریخ کو دیکھتے ہوئے میں حیران تھا کہ آج کے دور میں سمرقند اور بخارا کی مقابلے میں چند ہی سیاح خیوا کا رُخ کرتے ہیں۔ اس بات کا مقصد شکایت کرنا نہیں، بلکہ میں تو خوش تھا کہ زیادہ سیاح نہ ہونے کی بدولت میں ان خوبصورت مقامات کو بڑے پرسکون انداز میں دیکھ پا رہا تھا۔ یونیسکو نے ایچھان قلعہ کو سنہ 1990 میں عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔ تاہم، اس سے پہلے ہی ازبک حکومت نے یہاں کے رہائشیوں کو قلعے کی دیواروں سے باہر منتقل کر دیا تھا تاکہ اس ثقافتی ورثے کو محفوظ بنا کر اس کی اصل شکل میں بحال کیا جا سکے۔ بہزاد لیری ’ویجر اکسپیڈیشن‘ کے سی ای او ہیں جو سیاحوں کو وسطی ایشیا کے سفر پر لے جاتی ہے۔ لیری نے خیوا کو ’صحرا میں موجود ماضی کا آثار‘ اور ایک ایسے قدیم شہر کے طور پر بیان کیا جو مسافروں کو ماضی میں واپس جانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ خیوا کی تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے مجھے بہت کچھ دیکھنے کو ملا۔ ایک ٹائلوں والا محل، ایک کثیر ستونوں والی مسجد، سڑک پر لگا ایک مجسمہ جس میں دو آدمی خوشی سے باتیں کر رہے ہیں، سیرامک سٹوڈیو اور اس کے بغل میں بنی قالین سازی کی ورکشاپ۔ کنیا آرک قلعے میں بنے عجائب گھر جائیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے الجبرا اور الگورتھم جیسے تصورات کی جڑیں دنیا کے اس حصے سے ملتی ہیں۔ خیوا میں پیدا ہونے والے ریاضی دان محمد بن موسی الخوارزمی کو اس کا سہرا جاتا ہے۔ کنیا آرک قلعہ یہاں کا ایک اور اہم محل ہے۔ 12ویں صدی کے اس محل کے قابلِ ذکر حصوں میں تخت کا کمرہ، خزانے کا کمرہ، اصطبل اور نیلی دیواروں اور رنگ برنگی چھت والی مسجد شامل ہے۔ میں دیر شام آرک گیا اور اس کے مینار پر چڑھ گیا تاکہ وہاں سے غروبِ آفتاب کا منظر دیکھ سکوں۔ یہاں آنے کے بعد میں نے ذہنی طور پر اس فہرست کو ترک کر دیا جو پہلے بنائی تھی اور خود کو قسمت کے دھارے پر چھوڑ دیا۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4njnwk4ywvo", "summary": "انڈیا میں ریلوے حکام نے ایک مال بردار ٹرین کے بغیر ڈرائیور 70 کلومیٹر سے زیادہ سفر کرنے کے معاملے پر تحقیقات کا حکم دیا ہے۔", "title": "ڈرائیور کے بغیر مال بردار ٹرین کا ’فرار‘: 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگتی 53 بوگیوں کو کیسے روکا گیا؟", "firstPublished": "2024-02-27T10:14:53.992Z", "id": "c4njnwk4ywvo", "article": "انڈیا میں ریلوے حکام نے ایک مال بردار ٹرین کے بغیر ڈرائیور 70 کلومیٹر سے زیادہ سفر کرنے کے معاملے پر تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں ڈرائیور کے بغیر ایک تیز رفتار ٹرین کو کئی ریلوے سٹیشنوں سے انتہائی تیزرفتاری سے گزرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ یہ مال بردار ٹرین اتوار کو جموں و کشمیر کے علاقے ’کٹھوعہ‘ سے پنجاب کے ضلع ہوشیار پور تک بغیر ڈرائیور چلتی رہی تھی۔ ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ وہ بمشکل اس ٹرین کو روکنے میں کامیاب ہوئے اور اس دوران کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ریلوے حکام نے سرکاری نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کو بتایا کہ یہ واقعہ مقامی وقت کے مطابق شام سات بج کر 25 منٹ سے رات نو بجے کے درمیان پیش آیا۔ اس ٹرین سے 53 مال بردار بوگیاں منسلک تھیں، جن میں پتھر اور چپس لدے ہوئے تھے، اور یہ سامان جموں کشمیر سے پنجاب لے جایا جا رہا تھا۔ حکام کے مطابق کٹھوعہ کے مقام پر ایک سٹیشن پر یہ ٹرین عملے کی تبدیلی کے لیے رُکی اور اس میں سوار ڈرائیور اور دیگر عملہ اس سے اُتر گیا۔ تاہم اسی اثنا میں یہ ریل ڈھلوان پر خودبخود سرکنے لگی اور اس نے رفتار پکڑ لی۔ ٹرین تقریباً 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آگے بڑھی اور اُس کے رُکنے سے قبل تقریباً پانچ سٹیشن عبور کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ چلتی ٹرین کے بارے میں اطلاع موصول ہونے کے بعد اہلکاروں نے اس کے راستے میں موجود ریلوے پھاٹکوں کو بند کر دیا۔ ریلوے حکام نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ ’ریل کو اُس وقت کامیابی سے روک گیا جب ریلوے اہلکاروں نے ٹرین کو روکنے کے لیے پٹریوں پر لکڑی کے بلاک لگائے۔‘ لکڑی کے بلاکس نے ٹرین کی رفتار کو کم کرنے میں مدد کی۔ حکام نے پی ٹی آئی کو مزید بتایا کہ وہ ٹرین کے کٹھوعہ میں ایک دفعہ رُکنے کے بعد اس کے دوبارہ حرکت میں آنے کی صحیح وجہ کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے بچا جا سکے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g3lld99d9o", "summary": "یہ سنہ 1576 کی بات ہے جب ہندوستان کی سرزمین پر مغلیہ سلطنت کا پرچم لہرا رہا تھا اور عرب دنیا سمیت دنیا کے بیشتر حصے پر سلطنت عثمانیہ کی حکومت تھی کہ اسی دوران مغل شہزادی گلبدن بیگم سفر حج پر روانہ ہوئیں۔", "title": "بادشاہ بابر کی لاڈلی بیٹی گلبدن بیگم جنھوں نے حرمین کے قیام کے دوران سلطنت عثمانیہ کے فرمان کو بھی ٹھکرا دیا", "firstPublished": "2024-02-17T06:41:07.219Z", "id": "c3g3lld99d9o", "article": "یہ سنہ 1576 کی بات ہے جب ہندوستان کی سرزمین پر مغلیہ سلطنت کا پرچم لہرا رہا تھا اور عرب دنیا سمیت دنیا کے بیشتر حصے پر سلطنت عثمانیہ کی حکومت تھی۔ اگر ہندوستان میں مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کی حکومت تھی تو سلطنت عثمانیہ کا تاج سلطان مراد علی کے سر پر تھا۔ یہ مغل دور حکومت کے ہندوستان میں پہلا موقع تھا جب کوئی خاتون حج کے لیے روانہ ہو رہی تھیں۔ حج اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے اور یہ صاحب حیثیت ہر مسلمان پر فرض ہے۔ وہ شہزادی کوئی اور نہیں بلکہ ہندوستان میں مغل سلطنت کے بانی ظہیرالدین محمد بابر کی بیٹی گلبدن بانو بیگم تھیں جنھوں نے 53 سال کی عمر میں فتح پور سیکری کے آرام و آسائش والی دنیا کو چھوڑ کر ایک ایسے سفر پر جانے کا فیصلہ کیا جو اگلے چھ سال تک جاری رہا۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ دربار کے مرد مورخین نے ’عزو احترام‘ یا حرمت کے نام پر خواتین عازمین حج کے سفر سے متعلق حقائق کو ظاہر نہیں کیا۔ اکبر کا سب سے بڑا خواب مغلیہ سلطنت کا پرچم پورے ہندوستان پر لہرانا تھا۔ جیسے جیسے وہ ہندوستان میں اپنی سلطنت کی توسیع کر رہے تھے ویسے ویسے وہ خود کو زیادہ پرہیزگار اور خطا نہ کرنے والے شخص کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ روبی لال اپنی کتاب لکھتی ہیں: ’شہنشاہ کے علاوہ کسی کو شاہی حرم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ اس حرم میں خوبصورت اور حرمت والی خواتین رہا کرتی تھیں۔ یہ ایک طرح سے اس بات کا ثبوت تھا کہ مغل بادشاہ کی حیثیت تقریباً مقدس تھی۔‘ روبی لال نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’جب ان خواتین کا قافلہ سرخ پتھر کے بنے مغلیہ قلعے والے پایہ سلطنت فتح پور سیکری کی گلیوں سے گزر رہا تھا تو انھیں دیکھنے کے لیے سڑکوں پر عام عورتوں اور مردوں کا ہجوم موجود تھا۔‘ سلطنت مغلیہ کی شہزادی گلبدن بیگم کی طرف سے کیے جانے والے اس انعام و اکرام اور داد و دہشت نے عثمانی سلطان مراد کو ناراض کر دیا۔ کیونکہ انھوں نے اسے دنیا میں مغل بادشاہ اکبر کی بڑھتی ہوئی سیاسی طاقت کے طور پر دیکھا۔ بہر حال پانچویں فرمان کے بعد سنہ 1580 میں گلبدن بیگم اور ان کی ساتھی حجاج خواتین نے عرب سے رخت سفر باندھا اور دو سال کے طویل سفر کے بعد سنہ 1582 میں ان کا قافلہ فتح پور سیکری سے 60 کلومیٹر دور کھانوا پہنچا۔ اگرچہ گلبدن بیگم کے اس سفر کا ذکر اکبرنامہ میں تفصیل سے ملتا ہے لیکن ان کے عرب دنیا میں گزارے گئے وقت اور سلطان مراد کی طرف سے ان کی بے دخلی کے متعلق واقعات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہی نہیں یہ ذکر کہیں اور بھی نہیں ملتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cnen1xnpeyno", "summary": "یہ ایک ایسا مقام ہے کہ جو آپ کو اس بات کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ مہم جوئی کے لامتناہی اور غیر متوقع مواقعے امریکہ کے اس مقام پر موجود ہیں اور فاصلہ ہے تو سہی مگر نا ہونے کے برابر۔", "title": "امریکہ کا وہ غیرمعمولی اور پراسرار کونا جسے برسوں تک کسی نے تلاش کرنے کی ہمت نہیں کی", "firstPublished": "2024-02-06T07:08:13.224Z", "id": "cnen1xnpeyno", "article": "یوٹاہ کے ایک چھوٹے سے قصبے ایسکالانٹے کے باہر ایک تنگ وادی میں ایڈونچر گائیڈ رِک گرین ایک عجیب و غریب سرحد کی تلاش کر رہے ہیں جو اتنی نامعلوم ہے کہ اس کا شمار زمین پر موجود سب سے پراسرار مقامات میں ہوتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’یہ وہ جگہ ہے جہاں امریکہ میں پہاڑوں کے آخری سلسلے ہنریوس کا نام رکھا گیا تھا۔ یہ دریاؤں کا آخری گھر ہے اور یہ امریکہ کا وہ آخری مقام تھا جسے 1870 کی دہائی میں دریافت کیا گیا تھا۔ ہر کوئی اس کے باہر سے ہی گزرتا رہا کیونکہ یہ بہت خطرناک تھا۔‘ آج جنوبی یوٹاہ کی گرینڈ سٹئیرز ایسکلانٹے امریکہ میں سب سے خطرناک اور ناقابلِ رسائی مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ ایک ایسا مقام ہے جو پیچیدہ سطح مرتفع، پہاڑوں اور چٹانوں سے بھرا ہوا ہے اور جسے کبھی بھی مکمل طور پر دُنیا کے سامنے نہیں لایا گیا اور نہ ہی کوئی امریکی شہری، مقامی باشندہ یا کوئی اور اسے سمجھ پایا ہے۔ مثال کے طور پر یہ علاقہ کچھ امریکی ریاستوں ڈیلاویئر اور رہوڈ آئی لینڈ سے بھی بڑا ہے۔ محققین یہاں موجود وادیوں کو ’سائنس مونومنٹ‘ کا نام دیتے ہیں کیونکہ یہ علاقہ ایک بہت بڑی بیرونی تجربہ گاہ بن گیا ہے جس کے ہر کونے کو سائنسدان ہمارے ماحول، ہماری تاریخ اور ہمارے سیارے کے ماضی کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’پانی اور خوراک کی کمی کے باوجود زندہ رہنا ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ یہ قدیم برادری آخر کار مشکلات اور خشک سالی کی وجہ سے علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئی۔‘ اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ہر صبح مجھے کسی نہ کسی نئے مقام پر دیکھا جا سکتا ہے۔ میں عام طور پر یا تو پیدل سفر کرتا ہوں یا پھر سائیکل چلاتا ہوں۔ میں آنے والے دن کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھتا ہوں۔ جب میں کسی ایک جانب نکل پڑتا ہوں تو میں اکثر دوسروں کو دیکھتا ہوں جن کے بارے میں مجھے صرف شک ہے کہ وہ اسی طرح کی وجوہات کی بنا پر وہاں موجود ہیں۔‘ زمین ایک استاد کی مانند ہے، یہ آپ کو بہت کُچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع دیتی ہے، یہ ان مسافروں کو ناپسندیدہ سبق بھی دے سکتی ہے جو بغیر تیاری کے آتے ہیں۔ اس مقام پر فون کوریج بہت کم ہے۔ جونیپر اور پائن کے درخت شدید گرمی میں زندہ رہنے کے لیے اپنی شاخیں آپ کے اُوپر بچھا دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مقام ہے کہ جو آپ کو اس بات کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ مہم جوئی کے لامتناہی اور غیر متوقع مواقع امریکہ کے اس مقام پر موجود ہیں۔ فاصلہ ہے تو سہی مگر نا ہونے کے برابر۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51w6e9pl0qo", "summary": "دُنیا کے اتنے سارے ممالک کا سفر سستا نہیں بلکہ بہت زیادہ مہنگا ہے۔ اس بحری جہاز کے سب سے سستے ٹکٹ کی قیمت 59 ہزار ڈالر یا 46 ہزار پاؤنڈز فی کس ہے۔", "title": "بحری جہاز پر دُنیا کا ’سب سے خوبصورت‘ سفر جسے ٹک ٹاکرز نے ’ریئلٹی شو‘ بنا دیا", "firstPublished": "2024-02-01T04:32:38.915Z", "id": "c51w6e9pl0qo", "article": "سوچیے کہ آپ ایک بڑے سے بحری جہاز میں سفر کر رہے ہیں اور اسی دوران آپ کے ٹِک ٹاک پر نئے فالوورز کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوتا چلا جائے۔ اگر آپ ٹِک ٹاک کے 'فور یو' پیچ پر جائیں تو ہوسکتا ہے کہ آپ ان میں کچھ لوگوں کو پہچان لیں جو کہ ایک بحری جہاز میں نو مہینوں کی مدت پر محیط دُنیا کے سفر پر نکلے ہیں۔ اس کی تشہیر ’بحری جہاز پر کیے گئے اب تک کے سب سے خوبصورت‘ سفر کے طور پر کی گئی جو کہ دنیا کے سات براعظموں میں واقع 60 ممالک پر محیط ہے۔ لیکن دُنیا کے اتنے سارے ممالک کا سفر سستا نہیں بلکہ بہت زیادہ مہنگا ہے۔ اس بحری جہاز کے سب سے سستے ٹکٹ کی قیمت 59 ہزار ڈالر یا 46 ہزار پاؤنڈز فی کس ہے۔ سفر مہنگا ہونے کے باوجود یہ جہاز مسافروں سے بھرا ہوا ہے اور اس پر موجود لوگ اپنے سفر کو سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں۔ برینڈی خود اس سفر کے دوران ایک لاکھ 83 ہزار سے زائد فالوورز حاصل کر چکی ہیں۔ اس سفر کے حوالے سے پائی جانے والی آن لائن دلچپسی کا اثر اس بحری جہاز پر بھی پڑا جس کے متعلق برینڈی کا کہنا ہے کہ وہاں پہلے کوئی ایسا شخص موجود نہیں تھا جو اُن کے بال سنوار سکے لیکن آن لائن فالوورز کے کمنٹس کی وجہ سے جہاز پر ایک ایسا شخص میسر آگیا جو بال سنوارنے کا ماہر ہے۔ اس بحری جہاز کو بنانے والی کمپنی رائل کریبیئن نے اس خبر کے حوالے سے بی بی سی کی طرف سے بھیجے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ سوشل میڈیا پر اس سفر سے متعلق کافی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ ایک افواہ یہ بھی سامنے آئی کہ مشرقِ وسطیٰ میں پیدا پونے والی کشیدگی کے سبب سفر روک دیا گیا ہے۔ برینڈی کا کہنا ہے کہ 'دنیا بھر میں جاری کشیدگی کے سبب جہاز کا راستہ دو سے تین مرتبہ تبدیل کیا گیا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ سفر فی الحال ختم نہیں ہو رہا بس اس کا راستہ تبدیل کیا گیا ہے۔ یہ بات بھی سننے میں آئی تھی کہ جہاز کے سفر کے دوران کوئی خاتون حاملہ ہوگئی ہیں لیکن برینڈی کا کہنا ہے کہ وہ خاتون 'پہلے سے ہی حاملہ تھیں' اور 'انھوں نے اس سفر کی منصوبہ بندی اسی دوران کی تھی۔‘ اس جہاز کے مسافروں کے سوشل میڈیا پر فالوورز کی بڑھتی ہوئی تعداد کا اثر باقی لوگوں پر بھی پڑ رہا ہے اور اب انفلوئنسرز بھِی مختصر دورانیے کے سفر کے لیے اس جہاز پر سوار ہو رہے ہیں۔ انجیلا اس حوالے سے کہتی ہیں کہ 'یہ بالکل اس طرح ہے جیسے آپ اپنے ایڈونچر کا انتخاب خود کر رہے ہیں اور کسی کتاب کا حصہ ہیں اور لوگ انتخاب کر رہے ہوں کہ وہ پیراشوٹ کے ذریعے چھوٹے سیگمنٹس کے لیے جہاز پر سوار ہو جائیں۔'"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pez4j0mmmo", "summary": "جنوبی کوریا نے یکم جنوری 2024 سے ڈیجیٹل خانہ بدوشوں کے لیے ایک نئے ویزے کا اجرا شروع کیا ہے۔ دو سال کی مدت والے اس ویزے میں آپ باآسانی اپنی ریموٹ نوکری برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ", "title": "ڈیجیٹل خانہ بدوشوں کے لیے جنوبی کوریا کا نیا ’ورکیشن ویزا‘ کیا ہے؟", "firstPublished": "2024-01-30T03:30:20.402Z", "id": "c6pez4j0mmmo", "article": "جنوبی کوریا نے یکم جنوری 2024 سے ڈیجیٹل خانہ بدوشوں کے لیے ایک نئے ویزے کا اجرا شروع کیا ہے۔ دو سال کی مدت والے اس ویزے میں آپ باآسانی اپنی ریموٹ نوکری برقرار رکھ سکتے ہیں۔ جنوبی کوریا کبھی بھی ڈیجیٹل خانہ بدوشوں کے لیے سرِفہرست ملک نہیں رہا تاہم اس کا ایک نیا ویزا گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا اعلان 2023 کے اواخر میں کیا گیا اور یکم جنوری 2023 سے اس پر عملدرآمد شروع ہوچکا ہے۔ ’ورکیشن ویزا‘ کے ذریعے ایک ملازم (اور ان کا خاندان) دو سال تک جنوبی کوریا میں رہ سکیں گے۔ اس سے قبل غیر ملکیوں کو محض 90 روز کا سیاحتی ویزا دیا جاتا تھا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ امیدوار کسی غیر ملکی کمپنی کا ملازم ہو اور اس نے اسی صنعت میں کم از کم ایک سال تک کام کیا ہو تاہم اس کے لیے قریب 50 ہزار پاؤنڈز سالانہ تنخواہ اور 59 ہزار پاؤنڈز کی پرسنل ہیلتھ انشورنس بھی ضروری ہے۔ مگر جنوبی کوریا میں ڈیجیٹل خانہ بدوشوں کے لیے کیا سہولیات ہیں اور اس ملک کے بارے میں کیا جاننا ضروری ہے، اس بارے میں ہم نے ماضی میں یہاں قیام کرنے والے سیاحوں سے بات کی ہے۔ جینودو جزیرہ بھی رموٹ ورکرز کے پسندیدہ مقامات میں سے ہے۔ یہ ملک کا سب سے بڑا جزیرہ ہے اور جنوبی کوریا کے اکثر رہائشی یہاں چھٹیاں منانے آتے ہیں۔ مارکل نے کہا کہ ’اس چھوٹی سی جگہ پر دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ بطور آتش فشاں جزیرہ اس کی دلچسپ تاریخ ہے۔ آپ یہاں خواتین غوطہ خوروں کو دیکھ سکتے ہیں جس کے لیے یہ جزیرہ مشہور ہے۔‘ یہاں دو مرکزی شہر ہیں جہاں سب باآسانی دستیاب ہوتا ہے: جینودو اور سیوگویپو۔ خانہ بدوشوں کا کہنا ہے کہ ایسے کئی ریستوران ہیں جہاں آپ پُرسکون ماحول میں کام کر سکتے ہیں اور کام کے بعد آرام کی جگہیں بھی قائم ہیں مگر یہاں بڑے شہروں جیسی نائٹ لائف نہیں۔ ریموٹ ورکرز کا کہنا ہے کہ یہاں رہتے ہوئے آپ مختلف جگہوں پر گھوم پھر لیتے ہیں اور اسی دوران آپ کو کام کے لیے مخصوص جگہیں بھی مل جاتی ہیں۔ علاقے کے اعتبار سے یہ چھوٹا ملک ہے مگر یہاں سفر کرنا قدرے آسان ہے۔ آپ کی رہائش گاہ کہیں بھی ہو، آپ دن میں سیاحتی دورے کر سکتے ہیں۔ پارش نے کہا کہ سبوے اور قطاروں میں معمر افراد سب سے تیزی سے اپنی جگہ بناتے ہیں لیکن وہ دل کے اچھے ہوتے ہیں۔ ’وہ آپ کو کھانے کی پیشکش کرتے ہیں، آپ کے کھانے کے پیسے دیتے ہیں اور دوسروں کا بہت خیال بھی رکھتے ہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0d71kl22wyo", "summary": "میکسیکو میں ایک شخص نے پرواز کے تاخیر کا شکار ہونے کے بعد نہ صرف ہوائی جہاز کا ہنگامی دروازہ کھولا بلکہ وہاں سے نکل کر ونگ پر چلنے لگے جس کے بعد انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ ", "title": "جہاز کا ایمرجنسی دروازہ کھول کر ونگ پر چلنے والا شخص، جسے ساتھی مسافروں نے خوب سراہا", "firstPublished": "2024-01-29T03:02:53.256Z", "id": "c0d71kl22wyo", "article": "دنیا بھر میں ہزاروں افراد روزانہ ہوائی سفر کرتے ہیں بیشتر کا سفر پُر سکون اور آرام دہ گزرتا ہے لیکن کچھ سفر کسی نہ کسی وجہ سے یاد گار بن جاتے ہیں۔ آپ کی نظر سے ایسی خبریں تو ضرور گزری ہوں گی کہ کبھی اڑتے جہاز کی کھڑکی کا بڑا حصہ ٹوٹ کر نکل گیا، کبھی جہاز کی پوری چھت ہی اڑ گئی، کبھی کسی مسافر کا باتھ روم میں بند ہو جانا اور کبھی پائلٹ کے کاک پٹ سے نکلتے ہی کاک پٹ کا دروازہ لاک ہو جانا۔ پروازوں کا تاخیر کا شکار ہونا بھی کوئی کم بڑی مشکل نہیں ہوتی اور یہ مسافروں کو اکثر کوفت کے ساتھ ساتھ غصّے میں بھی مبتلا کر دیتی ہے۔ کبھی کبھی تو مسافر بطور احتجاج کچھ بھی کر جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ میکسیکو میں ہوا جہاں ایک شخص نے پرواز کے تاخیر کا شکار ہونے کے بعد نہ صرف ہوائی جہاز کا ہنگامی دروازہ کھولا بلکہ وہاں سے نکل کر ونگ پر چلنے لگا، جس کے بعد اس کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس شخص نے یہ حرکت اس وقت کی جب گوئٹے مالا سٹی جانے والا طیارہ ایئر کنڈیشننگ یا مسافروں کے لیے پانی کے بغیر کئی گھنٹے تک ائیرپورٹ پر موجود جہازوں کے راستے پر پھنسا رہا۔ میکسیکو انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا کہنا ہے کہ اس حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تاہم مسافر کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ جہاز کے دیگر مسافروں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ اس شخص کو سب کی حمایت حاصل ہے۔ یہ واقعہ گذشتہ جمعرات کو تقریباً 11:30 بجے پیش آیا تھا، جب میکسیکو سٹی سے ایرومیکسیکو کے لیے پرواز تقریباً تین گھنٹے تاخیر کا شکار ہوئی۔ واقعے سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تاخیر ہوائی اڈے پر ہونے والے مینٹیننس کے کام کی وجہ سے ہوئی۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ نامعلوم مسافر کے اس اقدام کے بعد طیارے کی تبدیلی ضروری ہو گئی تھی۔ یہ واضح نہیں کہ آیا یہ شخص اب بھی حراست میں ہے یا نہیں یا اسے کن الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تاہم مسافروں نے اس واقعے کو مختلف انداز میں دیکھا۔ ساتھی مسافروں کی جانب سے ہاتھ سے لکھے گئے نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ہنگامی دروازہ کھولنے والے مسافر نے یہ عمل سب کی حفاظت کے لیے اور سب کی حمایت کے ساتھ کیا کیونکہ تاخیر اور ہوا کی کمی نے مسافروں کی صحت کے لیے خطرناک حالات پیدا کیے تھے۔‘ انھوں نے لکھا کہ ’اس نے ہماری زندگیاں بچائیں‘ اور سوشل میڈیا پر تقسیم کیے گئے اس نوٹ میں ان کے نام اور دستخط بھی شامل کیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ مسافروں کے لیے جہاز کے دروازے کھولنا منع ہے کیونکہ یہ عمل دیگر مسافروں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cpegn539gp8o", "summary": "انٹرپول کے مطابق ایشیا، مشرقی افریقہ، جنوبی امریکہ اور مغربی یورپ کے ہزاروں نوجوان مرد و خواتین کو کمپیوٹر سے متعلق نوکریوں کے جھوٹے وعدوں کے ذریعے سائبر جرائم کے ان کیمپوں میں کام کرنے کا لالچ دیا جاتا ہے۔", "title": "سائبر غلاموں کی فوج: تھائی لینڈ سے سرمایہ کاری کے پیغامات کیسے امیروں کو دیوالیہ بنانے کا باعث بنتے ہیں؟", "firstPublished": "2024-04-13T13:53:48.919Z", "id": "cpegn539gp8o", "article": "وہ روی جیسے سمگل شدہ لوگوں کو ان سکیمز میں طویل عرصے تک کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ جعلی آن لائن شناخت کا استعمال کرتے ہوئے خواتین کا روپ دھارتے ہیں اور امریکہ اور یورپ میں تنہائی کا شکار مردوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ انٹرپول کے مطابق ایشیا، مشرقی افریقہ، جنوبی امریکہ اور مغربی یورپ کے ہزاروں نوجوان مرد و خواتین کو کمپیوٹر سے متعلق نوکریوں کے جھوٹے وعدوں کے ذریعے سائبر جرائم کے ان کیمپوں میں کام کرنے کا لالچ دیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق صرف سنہ 2023 میں میانمار میں ایک لاکھ 20 ہزار سے زیادہ افراد اور کمبوڈیا میں مزید ایک لاکھ افراد کو ان سمیت دیگر آن لائن فراڈ میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا تھا جن میں غیر قانونی جوئے سے لے کر کرپٹو کرنسی کی سکیمز شامل تھیں۔ روی ایک کمپیوٹر ماہر ہیں، جو شدت سے سری لنکا سے نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے تھے اور وہ جس معاشی بحران میں گرے ہوئے تھے جب انھیں معلوم ہوا کہ کوئی شخص بنکاک میں ڈیٹا بیس سسٹم میں معلومات درج کرنے کے لیے نوکریوں کی پیشکش کر رہا ہے۔ تھائی لینڈ میں سپیشل انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل پیا رکساکول نے کہا کہ ’ہمیں دنیا کے ساتھ بات چیت کرنے اور لوگوں کو ان جرائم پیشہ گروہوں کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان گروہوں کے ہتھے نہ چڑھ سکیں۔‘ روی نے انکشاف کیا کہ انھیں خاص طور پر مغربی ممالک میں امیر مردوں کو نشانہ بنانے اور چوری شدہ فون نمبرز، سوشل میڈیا اور میسجنگ پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے ان کے ساتھ رومانوی تعلقات استوار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس سرگرمی کے پیمانے کا اندازہ لگانا مشکل ہے، لیکن یو ایس فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن کی سنہ 2023 کی انٹرنیٹ کرائم رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ امریکہ میں اس طرح کے 17 ہزار سے زیادہ گھپلے ہوئے ہیں اور ان میں لوٹی جانے والی رقم 652 ملین امریکی ڈالر بنتی ہے۔ اس کے اکاؤنٹ کے مطابق روی کا کہنا ہے کہ اسے ایک مہینے کے بعد کسی دوسرے گینگ کو فروخت کر دیا گیا کیونکہ وہ ’کمپنی‘ جس کے لیے وہ شروع میں کام کرتے تھے دیوالیہ ہو گئی تھی۔ یہ آخری بار نہیں ہے۔ انھوں نے میانمار میں گزارے چھ ماہ میں تین مختلف گروہوں کے لیے ایک جبری مزدور کے طور پر کام کیا۔ انھوں نے انھیں جانے نہیں دیا اور ایک دن ان کی ٹیم کے لیڈر سے تصادم ہوا، جس کی وجہ سے انھیں سزا دی گئی۔ وہ انھیں ایک سیل میں لے گئے جہاں 16 دن تک انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ آخر کار گینگ لیڈر ان سے ملنے آیا اور انھیں سافٹ ویئر کے تجربے کی وجہ سے دوبارہ کام کرنے کا ’ایک آخری موقع‘ دیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c80zrlr5g67o", "summary": "کنگنا کو اپنے بیانات کی وجہ سے سوشل میڈیا پر اکثر ٹرولنگ کا سامنا رہتا ہے اور حال ہی میں اب ان پر بیف (گائے کا گوشت) کھانے کا الزام لگا، جس کے بعد وہ وضاحت دینے پر مجبور ہو گئیں۔", "title": "کنگنا کو گائے کا گوشت کھانے سے متعلق وضاحت کیوں دینا پڑی؟", "firstPublished": "2024-04-09T06:20:24.081Z", "id": "c80zrlr5g67o", "article": "کنگنا کو اپنے بیانات کی وجہ سے سوشل میڈیا پر اکثر ٹرولنگ کا سامنا رہتا ہے اور حال ہی میں اب ان پر بیف (گائے کا گوشت) کھانے کا الزام لگا، جس کے بعد وہ وضاحت دینے پر مجبور ہو گئیں۔ انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر میں کانگریس کے رہنما وجے واڈیٹیور نے الزام لگایا کہ کنگنا نے خود ہی اعتراف کیا اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ وہ بیف پسند کرتی ہیں اور بیف کھاتی ہیں لیکن اس کے باوجود بی جے پی نے انھیں لوک سبھا انتخابات کے لیے اپنا امیدوار بنایا۔ اس کے بعد کنگنا کو سوشل میڈیا پر ٹرول کیا جانے لگا اور لوگ ان کی پرانی پوسٹ نکال کر پوسٹ کرنے لگے جس کے بعد انھوں نے لکھا کہ ’میں گائے کا گوشت یا کسی اور قسم کا سرخ گوشت نہیں کھاتی۔ یہ شرمناک ہے، میرے بارے میں بالکل بے بنیاد افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔‘ ایک صارف نے ’دی فلم سٹریٹ جرنل‘ کا سرورق شیئر کیا جس میں ایک مضمون میں کنگنا کے حوالے سے کہا گیا کہ ’ممنوع کھانے بہت مزیدار ہوتے ہیں، کنگنا کو بیف سٹیک بہت پسند ہے۔‘ اس کے بعد ہماچل پردیش حکومت میں وزیر کابینہ وکرمادتیہ سنگھ نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کنگنا خود کئی بار بیف کھانے کی بات قبول کر چکی ہیں۔ کانگریس رہنما انھیں بدنام نہیں کر رہے بلکہ وہ خود اس کے لیے ذمہ دار ہیں۔‘ یہ الزام اداکارہ کے لیے ممکنہ طور پر نقصان دہ ہے کیونکہ وہ آنے والے ہفتوں میں شمالی ریاست ہماچل پردیش میں بی جے پی کے امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی پارٹی بی جے پی ملک کی ہندو آبادی سے اپنی حمایت حاصل کرتی اور آنے والے انتخابات میں مضبوط کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ رناوت اور تنازعات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سنہ 2020 میں جب وہ ہندی سنیما میں اپنی شہرت کے عروج پر تھیں تو انھوں نے انڈسٹری میں لوگوں کے خلاف سنگین الزامات کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ سنہ 2021 میں ٹوئٹر پر ان کا اکاؤنٹ تشدد پر اکسانے کے الزام میں معطل کر دیا گیا تھا، جب انھوں نے مودی پر اپوزیشن رہنماؤں کو ’قابو‘ کرنے پر زور دیا تھا۔ ہماچل پردیش میں پیدا ہونے والی کنگنا نے جب اداکاری کرنے کا ادارہ بنایا تو پہلے دہلی میں تھیٹر ڈائریکٹر اروند گوڑ سے اداکاری کا ہنر سیکھا اور پھر ممبئی چلی گئیں۔ اس فلم کے کردار نے کنگنا کو لائم لائٹ میں لایا۔ کنگنا نے اپنی پہلی ہی فلم میں اتنی اچھی اداکاری کی کہ انھیں فلم فیئر بیسٹ ڈیبیو کا ایوارڈ بھی ملا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cz4zx95pdzzo", "summary": "’ایکس‘ کو رواں سال فروری کی 17 تاریخ کو بند کیا گیا تھا تاہم حکومت کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں کی جا رہی تھی۔ آخر کار حکومت کو عدالت کے سامنے ماننا پڑا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو ان ہی کے احکامات پر بند کیا گیا تھا لیکن اس کی وجہ کیا بنی؟", "title": "قومی سلامتی کو خطرہ یا پی ٹی آئی کا بیانیہ، پاکستانی حکومت نے ایکس پر پابندی کیوں لگائی؟", "firstPublished": "2024-04-04T15:20:39.523Z", "id": "cz4zx95pdzzo", "article": "پاکستان میں رواں برس انتخابات کے بعد سے ملک میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (ٹوئٹر) کو بندش کا سامنا ہے اور اب ملک کی حکومت کی جانب سے بھی اس کے بند ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ ’ایکس‘ کو رواں سال فروری کی 17 تاریخ کو بند کیا گیا تھا تاہم حکومت کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں کی جا رہی تھی۔ لیکن آخر کار حکومت کو عدالت کے سامنے ماننا پڑا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو ان ہی کے احکامات پر بند کیا گیا تھا۔ ’ایکس‘ پر پابندی کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی اُٹھایا گیا تھا جہاں گذشتہ روز وزارتِ داخلہ کے حکام نے دورانِ سماعت چیف جسٹس عامر فاروق کو بتایا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو انٹیلیجنس ایجنسیوں کی رپورٹس پر بند کیا گیا تھا۔ پاکستان وہ پہلا ملک نہیں جہاں ’ایکس‘ کو بند کیا گیا بلکہ اس فہرست میں روس، ایران، چین، میانمار، ترکمانستان اور شمالی کوریا جیسے وہ ممالک بھی شامل ہیں جہاں یا تو آمرانہ نظام نافذ ہے یا پھر ان پر جمہوری اقدار کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ پاکستانی وزیر کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ ’ایکس‘ پر ملک دشمنوں سے فنڈنگ لے کر ’ریاست کے مفادات کے خلاف‘ استعمال کیا جاتا ہے اور معیشت کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پابندی میں سمجھتا ہوں کہ اصولی طور پر نہیں ہونی چاہیے لیکن جب ایسے بیانات آتے ہیں جو قومی سلامتی اور قومی مفاد کو نقصان پہنچاتے ہیں، اس کے خلاف حفاظت کیسے کی جائے؟ ہمارے پاس کیا میکنیزم ہے کہ اس کو روکا جائے؟‘ انھوں نے کہا کہ ’اس سے قومی سلامتی کو نہیں بلکہ حکومت کے بیانیے کو خطرہ ہوسکتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر اسے چیلنج کیا جاتا ہے۔‘ انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’بعض صورتحال میں، بعض جگہ پر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی سکیورٹی سے متعلق معاملات ہو سکتے ہیں لیکن سوشل میڈیا کے پورے پلیٹ فارم کو قومی سلامتی سے جوڑ کر اسے بند کر دینے کی کوئی منطق نہیں۔‘ ان کے مطابق ’اس پابندی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی سیاسی طور پر متحرک ہونے اور بیانیہ بنانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں اور اس میں ایکس پاکستان میں بہت اہم ہے۔‘ تجزیہ کار ضیغم خان نے یہ بھی کہا کہ انھیں ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت کی جانب سے کسی ’فائر وال‘ کا انتظام کیا جائے تاکہ پورے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے بجائے منتخب اکاؤنٹس کو بلاک کیا جا سکے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crg0jynm9ldo", "summary": "ٹوئیٹر پر چلنے والے تازہ ترین ٹرینڈ میں صارفین آلٹ ٹیکس کا استعمال کرتے ہوئے اپنے چاہنے والوں کے ساتھ پیغامات شیئر کر رہے ہیں تاہم اس کا استعمال بینائی سے محروم افراد کے لیے مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔", "title": "’کلک ہیئر‘: ایکس کا وہ فیچر جو ہر خاص و عام صارف کی توجہ حاصل کر رہا ہے", "firstPublished": "2024-03-31T12:48:30.023Z", "id": "crg0jynm9ldo", "article": "پچھلے کچھ روز سے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک نیا ٹرینڈ ’کلک ہیئر‘ چل رہا ہے جس میں سینکڑوں لوگ حصہ لے رہے ہیں۔ لیکن یہ کلک ہیئر ٹرینڈ ہے کیا اور کیسے اس کا استعمال کچھ افراد کے لیے مسائل کا سبب بن رہا ہے؟ اگر آپ ایکس کے صارف ہیں تو آپ نے شاید حال ہی میں دیکھا ہوگا کہ لوگ ایک تصویر شیئر کر رہے ہیں جس پر جلی حروف میں ’کلک ہیئر‘ (Click here) لکھا ہوتا ہے۔ دراصل آلٹ فیچر ایکس پر کافی عرصے سے موجود ہے مگر حال میں یہ کافی ٹرینڈ کر رہا ہے۔ نہ صرف عام صارفین بلکہ معروف شخصیات اور سپورٹس پیجز بھی اس فیچر کا استعمال کرتے ہوئے اپنے فالوورز کے ساتھ پیغامات شیئر کر رہے ہیں۔ پاکستان سپر لیگ کے 2024 ایڈیشن کی فاتح ٹیم اسلام آباد یونائیٹڈ نے اپنے آلٹ پیغام میں لکھا ہے کہ پی ایس ایل کی سب سے کامیاب ٹیم اپنے چاہنے والوں سے بہت پیار کرتی ہے۔ جبکہ کچھ صارفین اس فیچر کا استعمال کرتے ہوئے اپنے سیاسی خیالات اور پسند ناپسند کا اظہار کررہے ہیں۔ ایکس کے آلٹ ٹیکسٹ فیچرکی مدد سے کوئی بھی صارف تصویر شیئر کرتے وقت اس تصویر کی تفصیل لکھ سکتا ہے۔ صارفین اپنی کسی بھی تصویر کے بارے میں ایک ہزار حروف تک کا پیغام لکھ سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آلٹ ٹیکسٹ فیچر ان صارفین کے لیے کافی کارآمد ہوتا ہے جہاں انٹرنیٹ کی رفتار کم ہے اور تصویریں لوڈ ہونے میں مشکلات ہوتی ہیں۔ جہاں کئی صارفین اس فیچر کو اپنے دوستوں اور چاہنے والوں کے ساتھ پیغام شیئر کرنے کے لیے استعمال کررہے وہیں کئی افراد اس کے خلاف بھی ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ایکس پر آلٹ ٹیکسٹ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ اس سے پہلے سنہ 2023 میں بھی یہ ٹرینڈ کر چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق آلٹ ٹیکسٹ فیچر کا ایک بڑا مقصد نابینا یا جزوی بینائی والے افراد کو انٹرنیٹ استعمال کرنے میں مدد دینا ہے۔ کسی بھی تصویر کے ساتھ آلٹ ٹیکسٹ یا آلٹرنیٹ ٹیکسٹ میں اس تصویر سے متعلق تفصیل درج ہوتی ہے جو نابینا یا جزوی بینائی والے افراد کو اس کے بارے جاننے میں مدد دیتی ہے۔ کونر سکاٹ گارڈنر بینائی سے محروم ہیں۔ بی بی سی سے بات چیت کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ آلٹ ٹیکسٹ ان کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ آن لائن پوسٹ کیے جانے والے بیشتر مواد کا انحصار تصاویر پر ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے لوگ کافی معلومات تصاویر کے ذریعے شیئر کرتے ہیں، آیا وہ ٹیکسٹ ہو یا کوئی میم۔ انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارم تو چلتے ہی تصاویر پر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آلٹ ٹیکسٹ انھیں اس تمام تصویری مواد تک رسائی فراہم کرتا ہے، اور ان کو انٹرںیٹ پر ایک مساوی تجربہ حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51ld4jdmqpo", "summary": "برطانیہ میں سائبر فلیشنگ کے نئے قانون کے تحت ایک پیڈو فائل یعنی بچوں کی طرف جنسی رغبت رکھنے والے شخص کو قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔ ", "title": "’سائبر فلیشنگ‘: برطانیہ میں 15 برس کی لڑکی کو اپنے عضو تناسل کی تصویر بھیجنے والے کو قید کی سزا", "firstPublished": "2024-03-19T21:39:12.608Z", "id": "c51ld4jdmqpo", "article": "برطانیہ میں سائبر فلیشنگ کے نئے قانون کے تحت ایک پیڈو فائل یعنی بچوں کی طرف جنسی رغبت رکھنے والے شخص کو قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔ 39 برس کے نیکولس ہاکس 15 برس کی لڑکی کو اپنے عضو تناسل کی تصویر بھیجنے کا جرم ثابت ہونے پر اس نئے قانون کے تحت جیل جانے والے پہلے مجرم بن گئے ہیں۔ بیسلڈن میں ایسیکس کے رہائشی جو کہ ایک ’رجسٹرڈ جنسی مجرم‘ ہیں نے ایک خاتون کو بھی ایسی عریاں تصاویر بھیجی تھیں۔ واضح رہے کہ انھیں آن لائن سیفٹی ایکٹ کے تحت سزا سنائی گئی ہے۔ یہ قانون 31 جنوری کو نافذ ہوا۔ تاہم سکاٹ لینڈ، جس کا الگ قانونی نظام ہے، میں یہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ایک جرم ہے۔ واضح رہے کہ سائبر فلیشنگ ایک ایسا عمل ہے جس میں عام طور پر ایک مجرم ایک آن لائن پلیٹ فارم ۔۔ میسجنگ ایپلی کیشنز اور سوشل میڈیا۔۔ کے ذریعے لوگوں کو غیر مناسب اور عریاں تصاویر بھیجتا ہے۔ نکولس ہاکس پہلے ہی ایک رجسٹرڈ جنسی مجرم تھے، جن کے بارے میں گذشتہ سال 16 سال سے کم عمر کے ایک بچے کے سامنے اپنے حساس جسم کے اعضا دکھانے جنسی تعلقات اور ’جنسی سرگرمی‘ کے لیے ’کمیونٹی آرڈر‘ دیا گیا تھا۔ ان کی یہ رجسٹریشن نومبر 2033 تک رہی۔ انھوں نے کہا کہ یہ قانون ڈیجیٹل کی دنیا میں جرم کرنے والوں کے خلاف استغاثہ کے ہاتھ مزید مضبوط کرتا ہے۔ ان کے مطابق جس طرح وہ لوگ جو حقیقت میں ایسے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر جس طرح کی کارروائی کا سامنا انھیں کرنا پڑ سکتا ہے بالکل اسی طرح وہ مجرم جو آن لائن ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اب سکرین کے پردے کے پیچھے چھپ کر قانون کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔ ان کے مطابق ’ہم نے قانون میں تبدیلی کی ہے تاکہ اس طرح کی گھناؤنی حرکتیں کرنے والوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جا سکے اور آج کی سزا ایک واضح پیغام ہے کہ اس طرح کے رویے کے سنگین نتائج نکلیں گے۔‘ سائبر فلیشنگ کے موضوع پر ایک کتاب کی مصنفہ پروفیسر کلیئر میک گلین نے بی بی سی ریڈیو 4 کے ’ٹوڈے پروگرام‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انھیں خدشہ ہے کہ قانون میں اب بھی خامیاں موجود ہیں۔ سائبر فلیشنگ کے مسئلے کو گذشتہ سال بی بی سی ٹو کی ایک دستاویزی فلم میں زیر بحث لایا گیا تھا، جسے ’ایملی اٹیک: آسکنگ فار اِٹ؟‘ کا نام دیا گیا۔ ’ٹوڈے پروگرام‘ میں بات کرتے ہوئے لوٹن سے تعلق رکھنے والی ایملی نے کہا کہ انھیں آن لائن ’ہزاروں‘ نامناسب اور عریاں تصاویر موصول ہوئیں مگر وہ چپ کر کے اس صدمے کو پی گئیں۔ ان کے مطابق ہمیں واقعی ایسے معاملات پر غور کرنے کی ضرورت ہے جنھیں ایک عرصے سے معمولی ہی لیا جاتا رہا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51le85yp92o", "summary": "ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی اور دنیا بھر میں اربوں افراد کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استمعال کرنے کے بعد اب یہ بات ایک بڑا موضوعِ گفتگو ہے کہ ان کسی شخص کی موت کے بعد اس کی آن لائن موجودگی کا کیا ہوگا۔", "title": "مرنے کے بعد فیس بُک سمیت ہمارے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا کیا ہوتا ہے اور اس ضمن میں وصیت کرنا ضروری کیوں ہے؟", "firstPublished": "2024-03-16T12:38:08.001Z", "id": "c51le85yp92o", "article": "’کچھ لوگ نہیں جانتے کہ میتھیو مر چکے ہیں۔ آج بھی جب ان کی سالگرہ کا دن آتا ہے تو سوشل میڈیا پر ان کی فرینڈز لسٹ میں موجود لوگ انھیں سالگرہ کی مبارکباد کے پیغامات بھیجتے ہیں۔ مجھے یہ سب اچھا نہیں لگتا۔‘ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب دنیا بھر میں اربوں صارفین فیس بُک، ٹوئٹر سمیت دیگر درجنوں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استمعال کرتے ہیں تو ایک بڑا موضوعِ گفتگو یہ بن چکا ہے کہ آن لائن موجود کسی شخص کی وفات کے بعد اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا کیا ہو گا۔ چند سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ایسے ہیں جو مرنے والے سوشل میڈیا صارف کے کسی قریبی رشتہ دار کی جانب سے صارف کی موت کی تصدیق کے بعد اکاؤنٹ کو بند کر دیتے ہیں جبکہ چند سوشل میڈیا پلیٹ فارمز متبادل ذرائع اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ گوگل (یوٹیوب، جی میل اور گوگل فوٹوز کی مالک کمپنی ہے) اپنے صارفین کو یہ آپشن دیتا ہے کہ وہ اپنا غیر فعال اکاؤنٹ کی سیٹنگ میں یہ طے کر دیں کہ ایک خاص مدت تک ان کا اکاؤنٹ غیرفعال رہنے کے بعد کسی صارف کے اکاؤنٹ اور اس میں موجود ڈیٹا کے ساتھ کیا کیا جائے۔ بی بی سی ورلڈ سروس کے نمائندہ ٹیکنالوجی جو ٹائڈی کہتے ہیں کہ ’اس معاملے (موت کی صورت) میں ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا اپنا طریقہ کار ہے، لیکن تمام سوشل میڈیا کمپنیاں مرنے والوں کی پرائیویسی کو ترجیح دیتی ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ نئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسا کہ ٹک ٹاک اور سنیپ چیٹ پر اس ضمن میں کوئی انتظام یا گائیڈ لائنز موجود نہیں ہیں۔ یعنی اگر کوئی ٹک ٹاک یا سنیپ چیٹ صارف کی موت ہو جاتی ہے تو اس کے اکاؤنٹ کا کیا ہو گا۔ برطانیہ کی ڈیجیٹل لیگیسی ایسوسی ایشن کے بانی جیمز نورس نے اس بات پر زور دیا کہ ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ وہ سوشل نیٹ ورکس پر اپ لوڈ کیے جانے والے مواد کے بارے میں سوچے اور جب ممکن ہو تو بیک اپ بنائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بات کا منصوبہ بندی کرنا ضروری ہے کہ آپ کی موت کی صورت میں آپ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا کیا ہونا چاہیے۔ وہ صارفین پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی ’ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا وصیت‘ تیار کریں جس سے پتہ چلے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے اکاؤنٹس کا کیا جائے۔ لیکن اس کے باوجود ان کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کسی مرحوم صارف کے سوگوار رشتہ داروں کے لیے اس عمل کو آسان بنا سکتے ہیں۔ ’میرے خیال میں اپنے کسی پیارے کے موت کے سرٹیفکیٹ جیسے دستاویز کو مسلسل دیکھنا واقعی تکلیف دہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں ایسا کرنے سے گریز کر رہی ہوں کیونکہ یہ صرف ایک خوفناک کاغذ کا ٹکڑا ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cl4xy6pemj4o", "summary": " پنجاب کی نو منتخب وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں انھیں ایک خاتون پولیس افسر کا دوپٹہ ان کے سر پر جماتے دیکھا جا سکتا ہے جو کام کے دوران ان کے سر سے کھسک گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر کچھ نے اس پر مریم کو شاباش دی۔ ان کے خیال میں یہ ان کا عوام میں وہی ’گھلنا ملنا‘ ہے جسے تبرک سمجھ کر قبول کیا جائے۔ جبکہ کچھ نے یہ کہا کہ ان کا ایسا کرنا خاتون کی ’پرسنل سپیس‘ کی خلاف ورزی تھی۔", "title": "مریم نواز کا پولیس اہلکار کے سر پر دوپٹہ ٹھیک کرنے پر کہیں شاباشی تو کہیں ’پرسنل سپیس‘ کی بحث", "firstPublished": "2024-02-29T03:59:09.293Z", "id": "cl4xy6pemj4o", "article": "ایسے میں دل چاہتا ہے کہ پورے معاشرے کی ری بونڈنگ کر کے سمجھایا جائے کہ کسی کو کسی بھی مقصد سے چھونے سے پہلے ان کی اجازت لینا ضروری ہے۔ اسے کہتے ہیں ’پرسنل سپیس‘ کا احترام۔ یعنی ’فاصلہ رکھیں‘ ٹرکوں پر لکھے اس دو لفظی جملے میں آپ کے لیے بہترین سبق موجود ہے۔ حال ہی میں پنجاب کی نو منتخب وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں انھیں ایک خاتون پولیس افسر کا دوپٹہ ان کے سر پر جماتے دیکھا جا سکتا ہے جو کام کے دوران ان کے سر سے کھسک گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر کچھ نے اس پر مریم کو شاباش دی۔ ان کے خیال میں یہ ان کا عوام میں وہی ’گھلنا ملنا‘ ہے جسے تبرک سمجھ کر قبول کیا جائے۔ جبکہ کچھ نے یہ کہا کہ ان کا ایسا کرنا خاتون کی ’پرسنل سپیس‘ کی خلاف ورزی تھی۔ بحث کی ضرورت کیوں ہے۔ اس سوال کے جواب میں جینڈر سٹڈیز کی ماہر فرزانہ باری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان جیسے معاشرے کے سیاق و سباق میں جہاں خاتون کی عزت اس کے دوپٹے یا لباس سے جوڑی جاتی ہے، ایک با رسوخ عہدیدار کا سرکاری افسر کا دوپٹہ واپس سر پر رکھنا اس سوچ کو اور مضبوط کرے گا۔‘ نحل زہرہ، ایک ڈینٹسٹ ہیں۔ بی بی سی نے اس بارے میں بحیثیت ایک خاتون پروفیشنل ان کی رائے جاننا چاہی۔ ان کا پہلا رد عمل یہی تھا کہ اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ دوپٹہ درست کر دیا تو اسے ’ایشو‘ نہ بنایا جائے۔ لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے کام کے دوران ان کا مریض یا اس کا ’اٹنڈنٹ‘ ان کا ماسک یا لباس درست کرنے کی کوشش کرے تو ان کا رد عمل کیا ہو گا۔ صحافی مہر حسین نے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’چاہے یہ مریم نواز کا دوپٹہ ٹھیک کرنے کا واقعہ ہو یا اچھرہ میں خاتون کے لباس پر ان پر توہین مذہب کا الزام، یہ سب ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ خاتون کیا پہنتی ہے یہ اس کا اپنا فیصلہ تصور نہیں کیا جاتا۔‘ لئیق نامی صارف نے لکھا کہ ’مریم نواز کا پولیس اہلکار کے سر پر دوپٹہ ٹھیک کرنے کے عمل کی سوشل میڈیا پر تشہیر ن لیگ کا دائیں بازو کی حمایت حاصل کرنے کے لیے تھی۔ اگر انھیں عورت کے پردے کا اتنا ہی خیال تو اسے ویڈیو کو سوشل میڈیا پر شائع ہی کیوں کیا گیا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cj533yjr3jlo", "summary": "سوشل میڈیا سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر غلط معلومات کے پھیلاؤ سے نمٹنے والا ٹول ’کمیونٹی نوٹس‘ اس وقت پاکستان میں سیاست اور معلومات کے غلط استعمال کا ذریعہ بن چکا ہے۔ مسلم لیگ نواز، پاکستان کے نگران وزیراعظم اور صحافیوں سے متعلق کمیونٹی نوٹس شائع کرنے والے اکاؤنٹس کی جانب سے صرف ایک طرح کے بیانیہ سے متعلق ہی سیاق و سباق دیا جانا کیا محض اتفاق ہے یا یہ کوئی منظّم فعل ہے۔", "title": "سوشل میڈیا ’کمیونٹی نوٹس‘ کیا ہوتے ہیں اور یہ پاکستان میں سیاسی مخالفین کے خلاف کیسے استعمال ہو رہے ہیں؟", "firstPublished": "2024-02-22T02:35:16.533Z", "id": "cj533yjr3jlo", "article": "کیا آپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ کو استعمال کرتے ہوئے کبھی غور کیا ہے کہ اکثر پوسٹ کے نیچے آپ کو ایک مختصر تحریر ملے گی جس میں پوسٹ سے متضاد معلومات یا اس پوسٹ کو کرنے والے سے متعلق ایسی معلومات ہوں گی جو اس پوسٹ میں موجود معلومات کی سچائی یا مسند ہونے پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہیں۔ اس مختصر تحریر کو کمیونٹی نوٹس کہا جاتا ہے۔ اور ایکس کے مالک ایلون مسک کے مطابق گمراہ کن اور جھوٹی خبروں سے نمٹنے کا بڑا مفید ’ہتھیار‘ ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر غلط معلومات سے نمٹنے والے کمیونٹی نوٹس اس وقت پاکستان میں خود سیاسی میدان بنا ہوا ہے، جہاں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف اور اسے کے حامیوں پر الزام ہے کہ یہ مخالف جماعت مسلم لیگ نواز، نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور پی ٹی آئی کے ناقد صحافیوں کے پوسٹ کے نیچے کمیونٹی نوٹس کی شکل میں اپنا پراپیگینڈہ کر رہے ہیں۔ اکتوبر 2020 میں امریکی کانگریس پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے حملے کے بعد اس وقت ٹوئٹر، موجودہ ایکس، نے ’برڈ واچ‘ متعارف کروایا، جس کا مقصد زیادہ دیکھی جانے والی ٹویٹس پر اضافی سیاق و سباق دینا تھا تا کہ صارفین اس بات کا تعین خود کر سکیں کہ آیا ٹویٹ میں دی گئی معلومات صحیح ہیں بھی یا نہیں۔ تاہم یہ فیچر اس وقت چند ہی مغربی ممالک میں دستیاب تھا۔ اس کے بعد جب ایلون مسک نے ٹوئٹر کو خریدا تو ’برڈ واچ‘ کا نام تبدیل کر کے کمیونٹی نوٹس رکھ دیا اور اب یہ دنیا تمام ممالک میں دستیاب ہے۔ اس کے بعد آپ کا نوٹ ایکس پر اس پوسٹ کے نیچے شائع ہو جائے گا۔ مگر کام یہی نہیں ختم ہوتا۔ اس کے بعد اس پوسٹ کو پڑھنے والوں کو بھی اس نوٹ کو ریٹ کرنا ہو گا کہ آیا یہ سیاق و سباق دینے میں مددگار ثابت ہوا ہے یا نہیں۔ اگر زیادہ لوگ اس کو ’غیر مددگار‘ ریٹ کر دیتے ہیں تو ایکس اس کو پوسٹ کے نیچے سے ہٹا دیتا ہے اور اگر زیادہ صارفین اس کمیونٹی نوٹ کو ’مددگار‘ ریٹ کرتے ہیں تو یہ اس پوسٹ کے نیچے برقرار رہتا ہے۔ کمیونٹی نوٹس میں اپنا اندراج کرنے کے لیے لازم ہے کہ آپ نے کئی پوسٹ کو ایکس پر ریٹ کیا ہو۔ تو کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ان مسلم لیگ نواز اور نگران وزیراعظم اور صحافیوں پر کمیونٹی نوٹس شائع کرنے والے اکاؤنٹس نے صرف ایک طرح کے بیانیہ سے متعلق ہی سیاق و سباق دیا یا اس میں کوئی منظّم کوشش بھی شامل ہے؟ یہ بات افسوسناک اور پریشان کن ہے کہ غلط معلومات کے پھیلاؤ سے نمٹنے والا کمیونٹی نوٹس اس وقت پاکستان میں سیاست اور معلومات کے غلط استعمال کا ذریعہ بن چکا ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ce5kj0mexk3o", "summary": "تھوڑا عرصہ پہلے کی بات ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ، پاکستان تحریکِ انصاف کو ’سوشل میڈیا کی جماعت‘ کا طعنہ دیتی تھیں لیکن پی ٹی آئی کو سوشل میڈیا جماعت کا طعنہ دینے والی جماعتوں کو اُس وقت ادراک نہ ہو سکا کہ اگلے الیکشن کا میدان ڈیجیٹل پلیٹ فارم قرار پائے گا۔", "title": "پی ٹی آئی کو ’سوشل میڈیا کی پارٹی‘ کا طعنہ دینے والی جماعتیں کیسے سوشل میڈیا پر ہی اس سے شکست کھا گئیں", "firstPublished": "2024-02-19T12:13:08.021Z", "id": "ce5kj0mexk3o", "article": "لیکن ذرا توقف کریں! تھوڑا عرصہ پہلے کی بات ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ پاکستان تحریکِ انصاف کو ’سوشل میڈیا کی جماعت‘ کا طعنہ دیتی تھیں۔ پھر بعد ازاں جب عمران خان نے ٹک ٹاک کا استعمال کیا تو دونوں جماعتوں کے بعض لیڈروں نے اُن کو ٹک ٹاک کا وزیرِ اعظم کہہ کر پھبتی بھی کَسی۔ پی ٹی آئی کو سوشل میڈیا جماعت کا طعنہ دینے والی جماعتوں کو اُس وقت ادراک نہ ہو سکا کہ اگلے الیکشن کا میدان ڈیجیٹل پلیٹ فارم قرار پائے گا۔ جس وقت خاتون اُمیدوار کو انتخابی مہم کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے اثر کی اہمیت کا اندازہ ہوا، اُس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔ نو فروری کی صبح جب اُس صوبائی حلقہ کا نتیجہ آیا تو پی ٹی آئی کا حمایت یافتہ اُمیدوار جو بالکل نیا چہرہ تھا اور جس نے ایک دِن بھی مہم نہیں چلائی تھی، اُس خاتون اُمیدوار جس نے تین سال گھر گھر مہم چلائی، پر سبقت لے گیا۔ ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے جس موثر طریقے سے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا استعمال کیا، اُس نے ووٹرز کو قابو کیے رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ووٹرز کی ذہن سازی ایک عرصہ سے مسلسل ہو رہی تھی۔ ڈیٹاورس کے سروے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حلقہ کے دیہی علاقوں میں جو ووٹرز سوشل و الیکٹرانک میڈیا کے انفلوئنس میں آ رہا تھا، اسے الیکٹرانک و سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر زیادہ مواد پی ٹی آئی کے حوالے سے دیکھنے کو مل رہا تھا اور عمران خان کے خلاف متبادل آوازوں (جیسا کہ نواز شریف اور مریم نواز) کی کمی تھی۔ اگر یہ آوازیں تھیں بھی تو جذباتیت سے معمور ہرگز نہیں تھیں۔ اس حوالے سے ایک اہم ڈیجیٹل پلیٹ فارم ’ٹی سی ایم‘ کے ڈائریکٹر نیوز واحد علی کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی ہمیشہ کی طرح سوشل میڈیا پر اپنی مہم میں جدت متعارف کروانے کے حوالے سے سبقت لے گئی، چاہے ورچوئل پاور شو ہو، ٹک ٹاک جلسہ ہو، روزانہ کی بنیادپر ٹوئٹر سپیس کا استعمال ہو یا عمران خان کی پرانی تقاریر کو دوبارہ براہ راست سوشل میڈیا پلیٹ فورمز پر چلانا ہو، یہاں تک کہ الیکشن کے بعد اے آئی کی مدد سے تیار کردہ عمران خان کی وکٹری سپیچ ہو۔‘ ’خاص کر بلاول بھٹو کے پوڈکاسٹ کی سوشل میڈیا پر کافی دھوم رہی، جماعت اسلاامی کے کچھ امیدواروں نے ذاتی حیثیت خاص کر اسلام باد سے میاں اسلم اور کراچی سے حافظ نعیم کی سوشل میڈیا ٹیم کافی ایکٹو نظر آئی مگر تربیت یافتہ سٹاف نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ مؤثر مہم نہ کر سکے۔ نمبر ون پر بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کی ٹیم تھی جس کا سب سے بڑا کارنامہ اپنے ووٹر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے پولنگ بوتھ تک نکال کر لانا تھا وہ بھی درست انتخابی نشان کی انفارمیشن کے ساتھ۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cedqvd3y7ezo", "summary": "صبح صبح جب میں نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر بابر اعظم کا ٹرینڈ دیکھا تو یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ ہو نہ ہو انھوں نے بنگلہ دیش میں جاری بی پی ایل ٹی ٹوئنٹی لیگ میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہے جس کا مجھے علم نہیں۔ پھر پتا چلا کہ وہ ایکس پر ایک سپیس میں فینز کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ ", "title": "’مجھ سے زیادہ میری اہلیہ کو فکر ہے کہ بابر کی شادی کب ہو گی‘ ", "firstPublished": "2024-02-02T06:05:57.092Z", "id": "cedqvd3y7ezo", "article": "صبح صبح جب میں نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر بابر اعظم کا ٹرینڈ دیکھا تو یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ ہو نہ ہو انھوں نے بنگلہ دیش میں جاری بی پی ایل ٹی ٹوئنٹی لیگ میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہے جس کا مجھے علم نہیں۔ جب ایک دو ٹویٹس دیکھے تو پتہ چلا کہ پاکستان کے سابق کپتان بابر اعظم نے بالی وڈ کے اداکار شاہ رخ خان کی ’آسک ایس آر کے‘ کی طرز پر ’آسک بابر اعظم‘ ہیش ٹیگ کے تحت اپنے مداحوں کے سوالوں کے جواب دینے کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ اگر شاہ رخ خان تحریری جواب دیتے ہیں تو بابر نے ٹوئٹر سپیس کے روپ میں اپنے مداحوں کے سوالوں کے زبانی جواب دیے جو کہ ان کے مداحوں کے لیے کسی خواب سے کم نہ تھا اور انھوں نے اپنے سوال کے جواب ملنے پر بے انتہا مسرت کا اظہار بھی کیا ہے۔ جواب میں بابر اعظم نے کہا کہ لوگوں نے تو ان کی شادی نہ جانے کتنی بار کروا رکھی ہے۔ یہ جواب سن کر مجھے معین اختر کا ایک شو یاد آ گیا جس میں وہ پاکستان کے سابق کپتان اور سابق وزیر اعظم عمران خان سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کی شادی کب ہو رہی ہے اور انھوں نے بڑے ہی پر لطف انداز میں کچھ ایسا ہی جواب دیا تھا کہ وہ سو کر اٹھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کی شادی ہو چکی ہے۔ بہر حال ان سے ان کے مشکل حالات سے نمٹنے کے بارے میں بھی پوچھا گیا اور یہ بھی پوچھا گیا کہ سنہ 2016 اور سنہ 2024 کے بابر اعظم میں کیا فرق ہے تو انھوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ذہنیت، طرزعمل اور یقین کا فرق ہے۔ رکاوٹیں زندگی کا حصہ ہیں اور ان سے نکلنا اور انھیں پار کرنا اور ان کے لیے اپنے اعتبار سے کام کرنا اہمیت کا حامل ہے۔‘ ان سے انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) اور پی ایس ایل کے درمیان بہتر ٹورنامنٹ کے بارے میں جو سوال ہوا اس پر انھوں نے اپنے ملک میں ہونے والی لیگ کا ساتھ دیا۔ بابر اعظم اپنی مخصوص شاٹ کور ڈرائیو کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ ان کے نزدیک سب سے اچھا کور ڈرائیو لگانے والا کھلاڑی کون ہے تو انھوں نے سمتھ کا نام لیا جبکہ بہت سے صارفین کو یہ گمان تھا کہ وہ انڈین بیٹسمین وراٹ کوہلی کا نام لیں گے۔ بابر اعظم کا گذشتہ آسٹریلیا کا دورہ مایوس کن رہا جبکہ نیوزی لینڈ کے خلاف وہ لے میں نظر آئے۔ اب وہ بنگلہ دیش میں جاری لیگ بی پی ایل میں رنگپور رائیڈرز کے لیے کھیلتے ہوئے چار میچز میں 157 رنز بنا چکے ہیں اور سب سے زیادہ رنز بنانے والوں میں چوتھے نمبر پر ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cw59xp451yyo", "summary": "لاہور کے شاہدرہ ٹاؤن کے علاقے میں بہت ہی قلیل عرصے کے دوران دو ڈاکو خوف اور دہشت کی علامت بن کر سامنے آئے۔ لوگ ڈرتے تھے کہ ٹوپیاں پہنے وہ دونوں پھر کہیں سے نمودار ہوں گے، کسی کو لوٹیں گے، گولیاں چلائیں گے اور لوگوں کو زخمی یا قتل کر کے فرار ہو جائیں گے۔", "title": "لاہور کا ٹوپی گینگ: پولیس ’مردم شماری والی خواتین‘ کی مدد سے ’ڈاکوؤں‘ تک کیسے پہنچی؟", "firstPublished": "2024-04-10T04:34:51.058Z", "id": "cw59xp451yyo", "article": "لاہور کے شاہدرہ ٹاؤن کے علاقے میں بہت ہی قلیل عرصے کے دوران دو ڈاکو خوف اور دہشت کی علامت بن کر سامنے آئے۔ لوگ ڈرتے تھے کہ ٹوپیاں پہنے وہ دونوں پھر کہیں سے نمودار ہوں گے، کسی کو لوٹیں گے، گولیاں چلائیں گے اور لوگوں کو زخمی یا قتل کر کے فرار ہو جائیں گے۔ صرف دو ماہ میں انھوں نے پانچ افراد کو قتل کیا۔ ان میں ایک پولیس کانسٹیبل بھی شامل ہے۔ ایک اور پولیس کانسٹیبل اور بہت سے عام شہری ان کی گولیوں کا نشانہ بن کر زخمی ہوئے۔ وہ صرف ڈکیتی کے دوران مزاحمت یا پولیس سے اچانک سامنے ہو جانے پر ہی گولیاں نہیں چلاتے تھے۔ کم از کم تین افراد کو انھوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ٹارگٹ کر کے قتل کیا۔ لاہور کی سٹی پولیس کے مطابق ’وہ دونوں چھلاوے کی طرح آتے، واردات کرتے، گولیاں چلاتے اور واپس جا کر شاہدرہ ہی میں چھپ جاتے۔‘ ان دونوں کا تعلق ’ٹوپی گینگ‘ سے بتایا جا رہا ہے۔ اس گینگ کے ارکان نے چوری، ڈکیتی یا قتل کی وارداتوں میں اس انداز سے ٹوپیاں پہن رکھی ہوتی ہیں کہ واردات کے دوران ان کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا مقصد اپنی شناخت چھپانا ہوتا ہے۔ پولیس کے مطابق دونوں ڈاکوؤں کو شک تھا کہ شہروز ان کے خلاف پولیس کو مخبری کرتا تھا۔ ڈکیتی اور قتل کے ان دو واقعات کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پر ان دونوں ڈاکوؤں کے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کی خبریں سامنے آئیں۔ لاہور پولیس نے تصدیق کی کہ دونوں ڈاکوؤں کو ’پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔‘ ان کی شناخت عباس اور حیدر علی بتائی گئی۔ دونوں کی عمریں 22 سے 24 سال کے درمیان ہیں۔ انھوں نے پہلی مبینہ ڈکیتی کی واردات رواں برس 31 جنوری کو کی جس میں یہ ایک راہگیر سے نقدی وغیرہ چھین کر فرار ہوئے اور جاتے ہوئے گولی مار کر اسے زخمی کر دیا۔ کچھ ہی روز بعد تین فروری کو انھوں نے مبینہ طور پر ڈکیٹی کے دوران فائرنگ کر کے ایک شخص کو قتل کیا۔ ٹوپی گینگ کے دونوں مبینہ ڈاکو زیادہ سے زیادہ عرصے تک پولیس کو خود سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ پولیس کے مطابق انھیں شہروز نامی شخص پر شک تھا کہ وہ پولیس کو ان کے خلاف مخبری کر رہا ہے۔ مبینہ طور پر اپنی آخری ڈکیتی کی واردات میں 17 سالہ لڑکی کو قتل کرنے کے بعد انھوں نے شہروز کو بھی قتل کیا۔ ایس پی سٹی نے بتایا کہ جب پولیس دونوں مبینہ ڈاکوؤں کو گرفتار کرنے اس مقام تک پہنچی جہاں وہ چھپے ہوئے تھے تو پولیس کو دیکھ کر انھوں نے ’پولیس پر فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس کے ساتھ اسی شوٹ آؤٹ میں دونوں ڈاکو ہلاک ہو گئے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c0d330p84j2o", "summary": "سنہ 1241 میں منگولوں نے پہلی بار پنجاب پر چڑھائی کی۔ چاروں طرف لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا۔ جو چیز سامنے آئی اسے برباد کیا۔", "title": "جب پنجاب کے عام لوگوں نے منگول حملہ آوروں کے خلاف لاہور شہر کا دفاع کیا", "firstPublished": "2024-04-03T03:24:37.682Z", "id": "c0d330p84j2o", "article": "منگولوں نے پنجاب کو پہلی مرتبہ سنہ 1221 میں دیکھا۔ سنہ 1241 میں منگولوں نے پہلی بار پنجاب پر چڑھائی کی۔ چاروں طرف لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا۔ جو چیز سامنے آئی اسے برباد کیا۔ تیرہویں صدی کے فارسی مؤرخ قاضی منہاج سراج جوزجانی نے اپنی کتاب ’طبقات ناصری‘ (ترجمہ غلام رسول مہر) میں لکھا ہے کہ ’تاتاری لشکروں کے آنے کی خبر ملتان پہنچی تو یہاں کے والی ملک کبیر الدین ایاز نے اپنی عزت کی خاطر چَتر شاہی (بادشاہوں کے سر پر لگایا جانے والا بڑا چھاتا) کا انتظام کر لیا اور فوج جمع کر لی اور لڑائی کے لیے تیار ہو گئے۔‘ ’ملک اختیار الدین قراقش کو جب اہل لاہور کے مختلف اور متفرق رجحانات کا علم ہو گیا اور انھوں نے دیکھ لیا کہ قاضی اور ممتاز اصحاب فصیلِ شہر پر پہرہ دینے میں بہت کوتاہی کر رہے ہیں تو ساتھ ہی اندازہ ہو گیا کہ اس صورتِ حال کا انجام اچھا نہیں ہو سکتا اور ایسے شہر کی حفاظت ان کی طاقت سے باہر ہے۔‘ ’ان میں سے ایک جواں مرد لاہور کے کوتوال تھے، جن کا نام آقسنقر تھا۔ اس جنگ و پیکار میں ہزار رستموں پر بھی ترجیح حاصل تھی۔ وہ اپنے متوسلوں کے ہمراہ برابر لڑتے رہے۔ دوسرے بہادر دین دار محمد تھے، جو لاہور میں میرِ اصطبل تھے۔ انھوں نے اپنے بیٹوں اور متوسلوں کے ساتھ شہادت پائی۔‘ منہاج سراج لکھتے ہیں کہ تاتاریوں نے لاہور پر قبضہ کر لیا اور شہر کو برباد کر کے لوٹ گئے۔ عزیزالدین احمد لکھتے ہیں کہ کچھ مؤرخوں کا کہنا ہے کہ منگولوں نے لاہور پر پورا سال قبضہ جمائے رکھا اور شہر کے مظلوم عوام اور مضافات کی بستیوں کے سہارا لوگوں کو جی بھر کر لوٹا اور برباد کیا۔ ’چغتائی خانات کے جھنڈے تلے منگولوں کو شمالی پنجاب میں مستقل موجودگی قائم کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ سماجی اور سیاسی نظم و نسق کے مکمل طور پر تباہ ہونے کے علاوہ، قابل کاشت اراضی کا وسیع خطہ برباد ہو گیا اور گھاس کے میدان میں تبدیل ہو گیا کیونکہ خانہ بدوش منگول طرز زندگی سے وابستہ جنگی گھوڑے اور مویشی دریائے سندھ کے علاقے میں داخل ہوئے۔‘ ’(لاہور میں) مغل پورہ کے نواحی علاقے کی بنیاد منگول آباد کاروں نے رکھی ۔ دُوا چغتائی نے 1301 میں لاہور پر حملہ کیا۔ 1398 میں تیمور کی فوج کے دستے نے لاہور پر قبضہ کیا اور ایسا لگتا ہے کہ یہ شہر تب تک ویران پڑا تھا جب تک اسے مبارک شاہ نے 1422 میں دوبارہ تعمیر نہیں کیا۔ 1524 میں (ظہیر الدین) بابر کی فوجوں نے لاہور کو لوٹا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cjkdlr07y55o", "summary": "لاہور کی ایک مقامی عدالت نے اپنی پہلی بیوی سے تحریری اجازت اور اس ضمن میں درکار قانونی کارروائی مکمل کیے بغیر دوسری شادی کرنے والے شخص کو سات ماہ قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سُنائی ہے۔", "title": "لاہور میں بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی پر شوہر کو سزا: ’چار شادیوں کی اجازت کے ساتھ قانونی تقاضے بھی ہیں‘", "firstPublished": "2024-03-17T04:39:10.689Z", "id": "cjkdlr07y55o", "article": "لاہور کی ایک مقامی عدالت نے اپنی پہلی بیوی سے تحریری اجازت اور اس ضمن میں درکار قانونی کارروائی مکمل کیے بغیر دوسری شادی کرنے والے شخص کو سات ماہ قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سُنائی ہے۔ اس معاملے کی ابتدا چار ستمبر 2021 کو اُس وقت ہوئی جب لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے اپنے شوہر کے خلاف مقامی عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اُن کے شوہر نے اُن کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کر لی ہے۔ فریقین کے دلائل سننے کے بعد لاہور کی فیملی کورٹ نے شوہر کو مسلم فیملی لا آرڈیننس 1961 کی دفعہ چھ کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگرچہ مسلمان شخص کو ایک ہی وقت میں چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے مگر اس کے لیے کچھ قانونی تقاضے بھی پورا کرنے ہوتے ہیں۔ آرڈیننس کی دفعہ 6 ایک سے زیادہ شادیوں سے متعلق ہے اور اس کے مطابق پہلی شادی کی موجودگی میں کوئی شخص دوسری شادی اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ آربیٹریشن کونسل (یونین کونسل) سے اس ضمن میں تحریری اجازت نامہ نہ حاصل کر لے۔ اس ضمن میں یونین کونسل میں دی جانے والی درخواست کے ساتھ درخواست گزار کو فیس جمع کروانی ہوتی ہے، پہلی شادی کی موجودگی میں دوسری شادی کرنے کی وجہ لکھنی ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بتانا ہوتا ہے کہ نئی شادی کے لیے پہلی بیوی یا بیویوں سے اجازت حاصل کی گئی ہے۔ یہ درخواست موصول ہونے کے بعد کونسل درخواست گزار مرد اور اس کی پہلی بیوی کو اپنا ایک، ایک نمائندہ مقرر کرنے کے احکامات دیتی ہے اور معاملہ ثالثی کمیٹی کو بھیجا جاتا ہے۔ ثالثی کمیٹی نمائندوں کو سُن کر اگر اس بات پر مطمئن ہو کہ دوسری شادی کرنے کی معقول وجہ موجود ہے تو دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کا مشروط یا غیرمشروط اجازت نامہ جاری کر دیا جاتا ہے۔ آرڈینس کی دفعہ 6 کے مطابق اگر اوپر بیان کی گئی قانونی کارروائی مکمل کیے بغیر کوئی شخص شادی کرتا ہے تو اس کو پہلی بیوی کو فوری طور پر معجل و غیرمعجل مہر فوری طور ادا کرنا ہوتا ہے اور قانونی کارروائی کی جائے گی جس کی زیادہ سے زیادہ سزا ایک سال اور پانچ لاکھ تک جرمانہ ہو سکتی ہے۔ لاہور کی عدالت نے قرار دیا کہ چونکہ شوہر دوسری شادی سے قبل یہ تمام تر قانونی کارروائی پوری نہیں کر سکا اس لیے اسے سات ماہ قید اور جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔ اس سے قبل سنہ 2013 میں اسلامی نظریاتی کونسل نے حکومت پاکستان کو قانون سے دوسری شادی سے متعلقہ پیشگی شرائط اور قانونی تقاضوں کو ختم کرنے کی تجویز دی تھی اور کہا تھا کہ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت دی گئی ہے اور اگر پہلی بیوی راضی نہ بھی ہو تو دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کرنا غیرشرعی نہیں ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c51nl0jk1kpo", "summary": "مئی 2001 کی ایک شام کو دریائے نیل پر تیرتی ایک کشتی پر کچھ افراد اکھٹے تھے لیکن کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ کچھ ہی دیر بعد یہاں موجود افراد میں سے کچھ کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل جائیں گی۔ مگر ایسا کیا ہوا تھا اس کشتی پر اور یہ افراد کون تھے۔", "title": "قاہرہ 52: ’اقرار کرنے پر مجبور کیا گیا کہ ہم جنسی تعلق قائم کرنے کے پیسے لیتے ہیں‘", "firstPublished": "2024-04-29T12:51:07.262Z", "id": "c51nl0jk1kpo", "article": "مئی 2001 کی ایک شام کو دریائے نیل میں ایک کشتی پر کچھ افراد اکٹھے تھے لیکن کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ کچھ ہی دیر بعد یہاں موجود افراد میں سے کچھ کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل جائیں گی۔ مگر ایسا کیا ہوا تھا اس کشتی پر اور یہ افراد کون تھے۔ ’قاہرہ 52‘ کے نام سے مشہور مردوں کے ایک گروہ کو مئی 2001 کی ایک شام کو دریائے نیل میں اس کوئن بوٹ نامی کشتی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ عمر نے بتایا کہ ’وہ ایک خوبصورت شام تھی، کشتی دریائے نیل پر دھیرے دھیرے تیر رہی تھی، سب لوگ وہاں خوش تھے، میں کشتی پر بنے ایک کیبن کی کھڑکی کے قریب کھڑا تھا اور پس منظر میں موسیقی اور چاند کے پانی پر پڑتے عکس نے اس کو مزید خوبصورت بنا دیا تھا۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ دوران حراست ایک سوال جو مجھ سے بار بار کیا گیا وہ یہ تھا کہ تم نے ایک مرد سے کتنی مرتبہ شادی کی ہے، جس پر میں حیران تھا کہ یہ کیسا سوال ہے اور اس کا کوئنز بوٹ سے کیا تعلق ہے۔ یہ سب کچھ بہت حوفناک تھا۔‘ واضح رہے کہ اس وقت مصر میں ہم جنس پرستی کے خلاف کوئی واضح قانون موجود نہیں تھا اور ان افراد پر برائی اور بے حیائی پھیلانے کا مقدمہ چلایا گیا۔ اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے انھیں ایسے تذلیل آمیز طبی معائنے کرنے کا کہا گیا جس کی کوئی سائنسی منطق نہیں تھی۔ عمر اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ شاید مئی کے وسط کا ایک دن تھا جب میں جیل میں بیدار ہوا تو مجھے کہا گیا کہ تم آج رہا ہو کر گھر جا رہے ہو۔ اور میں پریشان ہو گیا۔ بعدازاں مجھے پتا چلا کہ میرے سزا ختم کر دی گئی ہے کیونکہ اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے حسنی مبارک کو کہا تھا کہ اس 52 افراد کو چھوڑ دیا جائے۔‘ رہائی کے بعد کی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمر کہتے ہیں کہ رہائی کے بعد میں گلی سے نہیں گزر سکتا تھا، لوگ مجھے پر فقرے کستے، انگلی اٹھاتے تھے۔ کیونکہ مشرق وسطیٰ میں اس بات کو غلط اور معیوب سمجھا جاتا ہے۔ عمر کا کہنا ہے کہ جو کچھ آج سے 23 سال قبل ہوا اس کے برے خواب آج بھی انھیں آتے ہیں۔ وہ اس سب کے بعد مصر میں نہیں رہ سکے اور جلد ہی ہجرت کر کے برطانیہ آ گئے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgxwl47qyg3o", "summary": "یہ گھڑی ٹائیٹینک پر سفر کرنے والے ایک مسافر جان جیکب ایسٹر کی تھی اور اس کی نیلامی کا تخمینہ 150,000 پاؤنڈ لگایا گیا تھا۔", "title": "ٹائیٹینک: اس خوفناک رات مسافر کی ’فریز ہونے والی‘ سونے کی پاکٹ واچ نو لاکھ پاؤنڈ میں نیلام", "firstPublished": "2024-04-29T09:35:08.680Z", "id": "cgxwl47qyg3o", "article": "ٹائیٹینک کے ایک امیر ترین مسافر کی سونے کی پاکٹ واچ نو لاکھ پاونڈز میں نیلام ہوئی ہے جو کہ اس کی مطلوبہ قیمت سے چھ گنا زیادہ ہے۔ یہ گھڑی ٹائیٹینک پر سفر کرنے والے ایک مسافر جان جیکب ایسٹر کی تھی اور ولٹشائر میں ہونے والی اس کی نیلامی میں اسے 150,000 پاؤنڈ میں نیلام ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ یہ پاکٹ واچ ٹیکس اور فیس کی مد میں اخراجات ملا کر ایک اور ٹائیٹینک کے نوادرات کے برابر آ گئی ہے اور اس گھڑی کے خریدار کو 11 لاکھ 75 ہزار پاؤنڈ ادا کرنے ہوں گے۔ اس گھڑی کی نیلامی کرنے والے اینڈریو کا کہنا ہے کہ یہ ’عالمی ریکارڈ‘ ہے کیونکہ اس سے قبل ٹائیٹینک کے ایک نوادر کی نیلامی 11 لاکھ پاونڈز میں ہوئی تھی۔ اس نیلامی میں چمڑے سے بنا ایک وائلن کیس بھی نیلام ہوا جو اس شخص کا تھا جس نے سنہ 1912 میں جہاز کے ڈوبتے وقت ڈیک پر آرکسٹرا کی قیادت کی تھی۔ اس کی بولی دو لاکھ نوے ہزار پاؤنڈز میں لگی اور ٹیکسز اور دیگر فیس ملا کر اس کی قیمت تین لاکھ 66 ہزار بنی۔ 14 اپریل 1912 کو ٹائٹینک برطانیہ کے جنوب میں واقع ساؤتھمپٹن کی بندرگاہ سے نیویارک جاتے ہوئے شمالی بحر اوقیانوس میں ایک برفانی تودے سے ٹکرا گیا تھا۔ اس واقعے میں 1500 سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ یہ حادثہ بحری تاریخ کے بدترین حادثوں میں سے ایک تھا اور اس واقعے پر بہت سی کتابیں، ڈرامے، گانے اور ہالی وڈ کی فلمیں بنائی گئی ہیں۔ برٹش ٹائیٹینک سوسائٹی کے چیئرمین ڈیوڈ بیڈرڈ کا کہنا ہے کہ ٹائیٹینک سے ملنے والی متعدد گھڑیاں جو اس خوفناک رات کو فریز ہو گئی تھیں اس والی گھڑی کو پھر سے چلایا گیا اور پھر یہ ایسٹر کے بیٹے وینسنٹ نے پہن لی۔ انھوں نے مزید کہا کہ جے جے ایسٹر کی گھڑی کو دیکھنے کے قابل ہونا، یہ جانتے ہوئے کہ یہ اس کی جیب میں تھی جب اس نے اپنی جوان، حاملہ دلہن کو لائف بوٹ پر سوار کیا اور یہ ایک قابل ذکر بات ہے کہ وہ خود یہ جانتے ہوئے کہ وہ زندہ نہیں بچیں گے واپس ٹائیٹینک پر چلے گئے۔‘ تاہم ہم ٹائیٹینک کمیونٹی کے معاملے پر اس لحاظ سے خوش قسمت رہے کہ یہ اشیا لوگوں نے خرید لیں، چاہے یہ کروڑ پتی ہوں یا عام لوگ وہ بہت کشادگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ ان نوادرات کو نمائش کے لیے لیز یا قرض پر دے دیتے ہیں۔ ہینری کے مطابق وائلن، جسے ٹائیٹینک کی یادگاروں کا ’نایاب اور سب سے مشہور ٹکڑا‘ سمجھا جاتا ہے، سنہ 2013 میں الگ سے نیلامی کی گئی تھی اور اس وقت کی ریکارڈ قیمت نو لاکھ پاؤنڈ میں فروخت ہوا تھا۔ بیگ اور گھڑی کو ہارٹلے کی آخری رسومات کے ایک نادر موقعے پر نیلام کیا گیا جو لنکاشائر میں 18 مئی 1912 کو منعقد ہوا تھا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cld0zd12wdxo", "summary": "یہ حملہ حکومت مخالف انتہا پسندانہ عقائد سے متاثر ہو کر کیا گیا تھا اور اس بم دھماکے میں 168 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ اس وقت تک یہ امریکہ میں دہشت گردی کا سب سے مہلک حملہ تھا۔ یہ امریکی سرزمین پر کسی امریکی کی طرف سے کیا گیا آج تک کا سب سے ہولناک حملہ ہے۔", "title": "نائن الیون سے قبل امریکہ میں دہشتگردی کا سب سے بڑا حملہ جس میں سابق فوجی ملوث تھے", "firstPublished": "2024-04-19T10:15:33.099Z", "id": "cld0zd12wdxo", "article": "یہ حملہ حکومت مخالف انتہا پسندانہ عقائد سے متاثر ہو کر کیا گیا تھا اور اس بم دھماکے میں 168 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ اس وقت تک یہ امریکہ میں دہشت گردی کا سب سے مہلک حملہ تھا۔ یہ امریکی سرزمین پر کسی امریکی کی طرف سے کیا گیا آج تک کا سب سے ہولناک حملہ ہے۔ انھوں نے آواز دے کر پوچھا کہ وہاں کوئی ہے تو ان کے ایک دوست نے جواب دیا اور انھیں خبردار کیا کہ وہ وہاں سے حرکت نہ کریں۔ روتھ دیکھ نہیں سکتی تھی لیکن ان کے ارد گرد ملبہ بکھرا تھا اور وہ اس جگہ سے صرف ایک فٹ کی دوری پر تھی جہاں سے آٹھوں منزل کا حصہ منہدم ہو گیا تھا۔ وہ کہتے یں کہ ’ میرے خیال میں اس وقت سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور جیسے سوال کیا کہ ’تمہارا ایک اور بم سے کیا مطلب ہے؟ اس وقت تک ہمیں یہ نہیں پتا تھا کہ یہ ایک بم دھماکہ ہے۔‘ اسے گھنٹوں تک اس کا احساس نہیں ہوا، لیکن دو فوٹوگرافروں نے اس عین اس لمحے کو قید کر لیا تھا۔ اوکلاہوما سٹی کے فائر فائٹر کی خاک اور خون میں لت پت بے جان بچی کو اٹھائے ہوئے کی تصویر اس دن سب سے مشہور ہوئی۔ وہ تصویر جسے ہم نے دوبارہ شائع نہ کرنے کے لیے فیصلہ کیا ہے، اس دن کے ظلم اور شہر کی بے گناہی دونوں کی عکاسی کرتی ہے۔ بدھ کے روز یہ اطلاعات پھیل گئیں کہ بم دھماکے کا تعلق کسی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم سے ہو سکتا ہے۔ لیکن آرین کو اس وقت اس بم دھماکے کا ذمہ دار کون تھا کی تفصیلات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ کیون میکولو دن بھر بم دھماکے کی جگہ پر کام کرتے رہے اور متاثرین کی مدد کرنے کی کوشش کرتے رہے، انھیں پتا نہیں تھا کہ ان کی اہلیہ کو زچگی کی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا ہے۔ ان کا چوتھا اور سب سے چھوٹا بچہ جارڈن پیدا ہوا۔ کرس اور دیگر فائر حکام نے پہلا دن زندہ بچ جانے والوں کی تلاش میں گزارا۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد، یہ واضح ہو گیا تھا کہ اب آپریشن بحالی کی طرف مڑ گیا تھا۔ انھیں اس کیفیت سے نکلنے میں کئی سال لگ گئے جس سے وہ گزرے تھے۔ اس کے بعد وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ وہ ہمیشہ حراست میں رہا تھا اور شہر سے فرار ہونے کے دوران غیر متعلقہ الزامات کی وجہ سے اسے حراست میں لیا گیا تھا۔ وہ اور فوج کے ایک سابق ساتھی ٹیری نکولس، جنھوں نے اپنے حکومت مخالف خیالات کا اظہار کیا تھا، پر اگست 1995 میں قتل اور سازش کے الزامات میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n19917lv3o", "summary": "آسٹریلیا نے ایک فرانسیسی شہری کو ان کی بہادری کی وجہ سے آسٹریلوی ویزا دینے کا وعدہ کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ جب تک چاہیں آسٹریلیا میں رہ سکتے ہیں۔", "title": "شاپنگ مال میں چاقو بردار شخص سے لڑنے والے شخص کو ویزے میں توسیع اور آسٹریلین شہریت کی پیشکش", "firstPublished": "2024-04-16T09:11:05.677Z", "id": "c4n19917lv3o", "article": "آسٹریلیا نے ایک فرانسیسی شہری کو اُن کی بہادری کی وجہ سے آسٹریلوی ویزا دینے کا وعدہ کیا گیا ہے جبکہ آسٹریلوی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ’بہادر شہری‘ جب تک چاہیں آسٹریلیا میں رہ سکتے ہیں۔ رواں ہفتے جہاں ملک بھر میں اس واقعے پر غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں حملہ آور کو روکنے کی کوشش کرنے والے فرانسیسی شہری کو ملک میں مزید رہنے کے لیے ویزے کی مدت بڑھانے کی بھی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ان کے عارضی ویزے کی معیاد آئندہ ایک ماہ میں ختم ہونے والا ہے۔ وزیر اعظم انتھونی البانی نے کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ فرانسیسی شہری ڈیمین گیرو کے ویزا کی تجدید میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ انھیں کچھ لوگوں نے ’بولارڈ مین‘ بھی کہا ہے۔ انھوں نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں کہا: ’میں ڈیمین سے یہ کہتا ہوں کہ آپ کا استقبال ہے، آپ جب تک چاہیں یہاں قیام کریں۔‘ ایک سفید ٹی شرٹ میں ڈیمین گیرو کا سکلیٹر (خودکار زینہ) پر کاچی کا سامنا کرنے کا منظر دنیا بھر میں نشر کیا گیا ہے۔ ویڈیو میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح سے اس کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسٹر گیرو کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے ایک دوست سیلاس ڈیسپریو دونوں کنسٹرکشن ورکر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ حملہ آور کو دیکھ کر بغیر سوچے سمجھے حرکت میں آ گئے تھے اور یہ کہ بس یہ ان کا وقتی جوش کا نتیجہ تھا۔ ڈیمین گیرو نے اتوار کو آسٹریلوی ٹی وی نیٹ ورک ’چینل سیون‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ’ہم نے اسے آتے دیکھا تو ہم سوچنے لگے کہ ہمیں اسے روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘ اس کے بعد ایک کرسی لے کر وہ کاچی کے پیچھے نچلی منزل کی طرف دوڑے۔ اسی وقت ایک پولیس افسر وہاں پہنچ چکے تھے جو کاچی کا پیچھا کر رہے تھے۔ جب اس نے مڑ کر اس پر چاقو سے حملہ کرنا چاہا تو اسی وقت پولیس افسر نے حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ کوئینز لینڈ پولیس نے کہا ہے کہ وہ کئی سالوں سے مسلسل بٹی ہوئي زندگی گزار رہا تھا اور اسے پہلی بار 17 سال کی عمر میں دماغی بیماری کی تشخیص ہوئی تھی۔ نیو ساؤتھ ویلز پولیس نے سوموار کے روز کہا کہ بظاہر ’واضح‘ طور پر ایسا لگتا ہے کہ اس نے خواتین کو نشانہ بنایا ہے کیونکہ ہلاک ہونے والے چھ افراد میں سے پانچ خواتین ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے اور مقبول ترین شاپنگ سینٹرز میں سے ایک پر ہونے والے حملے نے آسٹریلیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے کیونکہ اس ملک میں اس طرح کے بڑے پیمانے پر قتل عام بہت کم ہوتے ہیں۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/c80k2lr10q0o", "summary": "چینی کمپنیوں نے تربیلہ ڈیم کے توسیعی منصوبے، داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور دیامیر بھاشا ڈیم پر عارضی طور پر اپنا کام بند کر دیا ہے جس کی وجہ سے یومیہ اجرت حاصل کرنے والے مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں۔ ", "title": "’مزدور عید سے پہلے بے روزگار ہوگئے‘: چینی انجینیئرز پر حملے کے بعد داسو ڈیم سیمت دیگر منصوبوں پر کام بند", "firstPublished": "2024-03-30T04:44:34.849Z", "id": "c80k2lr10q0o", "article": "اس پریشانی میں مبتلا عظمت زاہد صرف واحد مزدور نہیں ہیں بلکہ داسو ہائیڈرو پراجیکٹ پر کام کرنے والے تقریباً چھ سو مزدوروں کے سر پر بےروزگاری کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت مزدور کوہستان کے رہائشی ہیں۔ اس دوران منصوبے پر کام کرنے والے مزدوروں کی چینی کمپنی نے انھیں بتایا ہے کہ اب وہ عارضی طور پر کام روک رہی ہے اور جب دوبارہ ضرورت ہو گی تو ان کو بلا لیا جائے گا۔ تاہم تربیلہ ڈیم کے توسیعی منصوبے، داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور دیامیر بھاشا ڈیم پر جو چین کی مختلف کمپنیاں کام میں مصروف تھیں انھوں نے اپنا کام عارضی طور پر بند کر دیا ہے۔ چین ہی کا عملہ مختلف تعمیراتی شعبوں کی نگرانی کرتا ہے۔ اب ان چینی کمپنیوں نے کام بند کردیا ہے جس وجہ سے داسو ہائیڈرو پراجیکٹ پر کچھ دنوں سے کام بند ہے۔ دیامیر بھاشا ڈیم کے ایک اہلکار کے مطابق چین اور پاکستان کی عسکری کمپنی ’ایف ڈبلیو او‘ مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں۔ دیامیر بھاشا ڈیم پر کوئی چار سو چینی سٹاف خدمات انجام دیتا ہے، جنھوں نے اپنا کام بند کیا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ کوئی تین ہزار مقامی لوگ کام کرتے ہیں اور اب ان کو بھی یہ کہا گیا ہے کہ کام عارضی طور پر بند ہے۔ تاہم ایف ڈبیلو او اپنا کام کر رہی ہے۔ تربیلہ پراجیکٹ کی لیبر یونین کے رہنما اسلم عادل کا کہنا ہے کہ چین کی کمپنی نے توسیعی منصوبے پر کام روکنے کا اعلان کیا ہے۔ سنگھوا یونیورسٹی کے شعبہ ریسرچ اور نیشنل سٹریٹجی کے ڈائریکٹر کیو ایان فینگ نے چین کے میڈیا گلوبل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ حملہ سنہ 2021 کے حملے کی طرز پر کیا گیا۔ ’پراجیکٹ (داسو ڈیم) دور دراز اور پہاڑی علاقے میں واقع ہے، جہاں پر مذہبی انتہا پسند اور دہشت گرد تنظمیں بہت فعال ہیں۔ اور ان کے حملہ کرنے کے انداز میں یکسانیت نظر آتی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس حملے کے بعد پاکستان اپنی سکیورٹی کو بہتر کرے جو کہ ایک طویل اور مشکل کام ہے، جس کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہو گی۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ حملے کے اصل ملزمان کو بے نقاب کرنا باقی ہے۔ پشاور سے سکیورٹی اور گورنس کے امور پر نظر رکھنے والے صحافی لحاظ علی کہتے ہیں کہ چین کی کمپنیوں نے کام احتجاجاً روکا ہے۔ ان کے مطابق ’اب پاکستان کو چین کی حکومت اور ان کمپنیوں سے مذاکرات کرنا ہوں گے، جس کے بعد امید یہی ہے کہ چین کی کمپنیاں دوبارہ کام شروع کردیں گیں کیونکہ انھوں نے بھی بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cgr94dj9vqvo", "summary": "پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے بشام میں منگل کو چینی انجینیئرز پر حملے کی اب تک کسی گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس کے پیچھے’فری لانس جہادی‘ بھی ہوسکتے ہیں جو باقاعدہ کسی کالعدم تنظیم سے وابستہ نہیں۔جبکہ پاکستان اور چین دونوں نے اسے دہشتگردی کا واقعہ قرار دیا ہے۔", "title": "پاکستان میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی کیوں نشانہ بن رہے ہیں اور یہ حملے کون کر رہا ہے؟", "firstPublished": "2024-03-27T04:30:33.941Z", "id": "cgr94dj9vqvo", "article": "پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے بشام میں منگل کو چینی انجینیئرز پر حملے کی اب تک کسی گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ جبکہ پاکستان اور چین دونوں نے اسے دہشتگردی کا واقعہ قرار دیا ہے۔ مقامی پولیس کے مطابق اس حملے میں پانچ چینی انجینیئرز جبکہ ایک پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہوئے ہیں۔ پاکستانی حکام نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی چینی سفارتکاروں سے مل کر دکھ کا اظہار کیا۔ چین کی طرف سے اس حملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 2021 میں بھی داسو منصوبے کے قریب چینی انجینیئرز کی بس پر حملہ ہوا تھا جس سے پاکستان اور چین میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے جوڑا گیا تھا۔ اس حملے میں نو چینی شہریوں سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے جس پر دو ملزمان کو سزائے موت بھی سنائی گئی تھی۔ کسی گروہ کی جانب سے تاحال اس حملے کی ذمہ داری قبول نہ کیے جانے پر بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس کے پیچھے’فری لانس جہادی‘ بھی ہوسکتے ہیں جو باقاعدہ کسی کالعدم تنظیم سے وابستہ نہیں۔ صحافی احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا ہے ’ان دونوں حملوں کی ذمہ داری کسی بھی گروہ نے قبول نہیں کی تھی بلکہ پچھلے حملے سے بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دوری اختیار کی تھی۔ میں توقع کر رہا تھا کہ شاید یہ دولتِ اسلامیہ خُراسان کی کوئی کارروائی ہو لیکن اب تک ان کی جانب سے بھی ذمہ داری لینے کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔‘ ان کا کہنا ہے کہ نام نہاد دولت اسلامیہ خُراسان والے کبھی بھی کسی حملے کی ذمہ داری فوری طور پر قبول نہیں کرتے۔ ٹی ٹی پی نے بھی حملے میں ملوث ہونے کی تردید کر دی ہے۔ احسان اللہ ٹیپو کا کہنا ہے کہ اب جن پر اس حملے میں ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے وہ ایسے جہادی عناصر ہیں جنھیں فری لانسرز کہا جا سکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا تعلق ماضی میں جہادی تنظیموں سے تعلق رہا ہے جیسے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ یا القاعدہ برصغیر کے ساتھ۔ آج کل وہ آزاد حیثیت میں کام کر رہے ہیں تو ان کو حملے آؤٹ سورس کیے جاتے ہیں اور ان کو اہداف دیے جاتے ہیں، اور وہ پھر خودکش حملہ آور بھرتی کرتے ہیں اور حملہ کر دیتے ہیں۔ احسان اللہ ٹیپو کا کہنا ہے کہ ’کچھ عرصے پہلے پاکستان میڈیا پر ایسی خبریں بھی چلیں تھیں کہ طارق بٹن خراب افغانستان میں مارا گیا ہے۔ لیکن جب ہماری ٹی ٹی پی یا افغان طالبان سے بات ہوئی تو انھوں نے اس خبر کی تردید کردی تھی۔ ہوسکتا ہے اس بار بھی اس حملے میں طارق بٹن خراب کا نام آئے کیونکہ یہ حملہ بھی داسو کے حملے جیسا ہی ہے۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cj7v8ngprego", "summary": "جب ریسکیو حکام کو بشام میں چینی انجینیئروں کی بس پر حملے کی اطلاع ملی تو وہ ٹھیک 12 منٹ میں جائے وقوعہ پہنچ گئے تھے۔ ایک ریسکیو اہلکار نے دیکھا کہ آگ لگنے سے لاشوں کی شناخت بھی مشکل ہوچکی تھی۔", "title": "’چار لاشیں مکمل جل چکی تھیں‘: بشام میں چینی انجینیئرز پر خودکش حملے کے عینی شاہدین نے کیا دیکھا", "firstPublished": "2024-03-26T16:07:30.831Z", "id": "cj7v8ngprego", "article": "جب ریسکیو حکام کو بشام میں چینی انجینیئرز کی بس پر حملے کی اطلاع ملی تو وہ ٹھیک 12 منٹ میں جائے وقوعہ پہنچ گئے تھے۔ ایک ریسکیو اہلکار نے دیکھا کہ آگ لگنے سے لاشوں کی شناخت بھی مشکل ہو چکی تھی۔ خیال رہے کہ جولائی 2021 کے دوران داسو ڈیم کے منصوبے پر کام کرنے والے نو چینی انجینیئرز سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے نومبر 2022 کے دوران اس حملے میں ملوث دو ملزمان کو سزائے موت سنائی تھی جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے بتایا گیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں جب وہ سڑک کی طرف آئے تو نالے میں گاڑی پڑی تھی اور گاڑی سمیت ہر طرف جھاڑیوں میں آگ لگی ہوئی تھی۔ ’پھر پولیس آئی اور لوگوں کو ایک طرف کر دیا۔ ریسکیو والوں نے آگ بجھانے کا کام شروع کیا۔‘ ایک ریسکیو اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ واقعے کی اطلاع ملنے کے 12 منٹ کے اندر ریسکیو حکام جائے وقوعہ پر پہنچ چکے تھے۔ ریسکیو اہلکار نے بتایا کہ انھوں نے پہلے گاڑی میں لگی آگ کو بجھایا اور اس کے بعد گاڑی سے لاشیں نکالیں۔ ان کی بھی شناخت نہیں ہو پا رہی تھی۔ جائے وقوعہ پر پہنچنے والے بشام کے مقامی صحافی عرفان حسین بتاتے ہیں کہ جب ریسکیو حکام آگ بجھانے میں لگے ہوئے تھے تو اسی دوران پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس مقام کو گھیرے میں لے چکے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ ’سڑک پر ایک گاڑی کے پرزے بکھرے پڑے تھے۔ انجن کہیں پڑا تھا اور باقی پرزے دور دور گرے ہوئے تھے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ یہ اس حملہ آور کی گاڑی ہو سکتی ہے جس میں بارودی مواد رکھا گیا ہوگا۔‘ عرفان حسین علی کے مطابق وہاں تفتیش کے دوران اہلکاروں نے کہا کہ یہ ہو سکتا ہے کہ حملہ آور جس گاڑی میں سوار تھا وہ وہاں رُکی ہوئی ہو اور جب چینی انجینیئروں کی گاڑی وہاں پہنچی تو اس پر حملہ کر دیا گیا مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حملہ آور کی کار سامنے سے آ رہی ہو۔ ٹی ایچ کیو ہسپتال بشام کے ڈاکٹر شاہ فہد کہتے ہیں کہ ڈرائیور اور ایک چینی کے علاوہ سارے افراد ایسے جل گئے تھے کہ شناخت کے قابل نہیں تھے۔ انھوں نے کہا کہ واقعے میں ایک چینی خاتون بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل تھیں۔ جبکہ اس سے قبل کیچ سے متصل ضلع گوادر میں پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر بھی متعدد شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا جسے پاکستانی حکام کے مطابق ناکام بنا دیا گیا تھا۔ اس حملے میں سرکاری حکام نے دو اہلکاروں کے مارے جانے کی تصدیق کی تھی جبکہ آٹھ حملہ آور بھی ہلاک کر دیے گئے تھے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/ck5w499y8nxo", "summary": "ہیٹی ایک ایسا ملک جو اس وقت بدامنی کی وجہ سے مفلوج ہے اور ایک عبوری حکومت کے قیام کا منتظر ہے، ایسے میں ہم اقتدار اور طاقت کی رسا کشی کی دوڑ میں شامل ان گینگ لیڈروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو اس کی ڈوریں ہلا رہے ہیں۔", "title": "اسلحہ سمگلر، سزا یافتہ صدارتی امیدوار اور قتلِ عام کا ملزم: اُن طاقتور گینگ لیڈرز کی کہانیاں جو ہیٹی کی قیادت کرنا چاہتے ہیں", "firstPublished": "2024-03-13T15:08:38.864Z", "id": "ck5w499y8nxo", "article": "لیکن ان دونوں گینگ سربراہان کے ساتھ ساتھ ایک سابق باغی بھی ہیں جو حال ہی میں امریکہ کی ایک جیل سے رہا ہوئے ہیں اور اب وہ ملک کا صدر بننے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو اس تمام تر پیچیدہ صورتحال کو مزید تڑکا لگانے کے مترادف ہے۔ ہیٹی ایک ایسا ملک جو اس وقت بدامنی کی وجہ سے مفلوج ہے اور ایک عبوری حکومت کے قیام کا منتظر ہے۔ ملک کے وزیراعظم طاقتور مافیا سربراہان کے دباؤ میں آ کر مستعفیٰ ہو چکے ہیں جب کے اس سے قبل وہ اپنے ہی ملک میں روپوش تھے۔ ایسے میں ہم اقتدار اور طاقت کی رسا کشی کی دوڑ میں شامل اُن گینگ لیڈروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو اِس وقت ملک کی ڈوریں ہِلا رہے ہیں۔ تاہم ان دونوں گینگ لیڈرز میں شہرت کی بھوک مشترک ہے لیکن ایزو اپنے سیاسی خیالات کو نشر کرنے کے بجائے میوزک ویڈیوز شائع کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔ نوجوان گینگسٹر نے متعدد ریپ ویڈیوز جاری کیں اور ایک لاکھ فالوورز حاصل کرنے پر انھیں یوٹیوب کی طرف سے سلور بٹن سے بھی نوازا گیا ہے۔ رومین لی کور برسوں سے ہیٹی کے مافیا گروہوں کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جس چیز نے ایزو کو نمایاں کیا وہ یہ ہے کہ وہ پورٹو پرنس کی بندرگاہ اور سمندری راستوں پر کنٹرول حاصل کرنے میں اس کی کامیابی ہے۔ اس کامیابی کی مدد سے وہ ہتھیاروں کی تیز رفتار سمگلنگ کے قابل ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایزو نے منشیات کی سمگلنگ کے ذریعے پیسہ کمانے کے لیے ہیٹی کے ’کمزور سکیورٹی نظام‘ سے بھی فائدہ اٹھایا ہے اور مبینہ طور پر اس کی سمگلنگ کی کھیپ جنوبی امریکہ سے براہ راست ہیٹی کے علاقے ویلاج لای ڈائی میں پہنچتی ہیں جو اس کے زیر کنٹرول ہیں۔ گائے فلپ ایک اور سابق پولیس افسر ہیں جو بدمعاش بن گئے ہیں۔ 56 سالہ فلپ نے سنہ 2004 میں صدر برٹرینڈ آرسٹائڈ کے خلاف بغاوت کی قیادت کی تھی۔ سنہ 2016 میں ہیٹی میں انھوں نے سینیٹ کا انتخاب لڑا اور جیت گئے تھے لیکن اپنے عہدے کا حلف اٹھانے سے کچھ دن پہلے انھیں منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ ان سے پوچھے گئے ایک سوال پر کہ کیا اُن کی جیل کی سزا صدارتی محل کے راستے میں رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے، انھوں نے کہا کہ ’(جنوبی افریقہ کے سابق صدر) نیلسن منڈیلا نے بھی جیل کاٹی تھی۔ (وینزویلا کے سابق صدر) ہوگو شاویز بھی جیل گئے تھے، (برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا دا سلوا) بھی جیل میں تھے۔۔۔ اور اس لیے اگر میرے لوگ مجھ پر یقین اور بھروسہ کرتے ہیں، تو میں ان کا لیڈر بنوں گا۔ یہ میرے لوگوں پر منحصر ہے، کسی اور پر نہیں۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czdzxq3k3zvo", "summary": "لاطینی امریکی ملک ہیٹی کے دارالحکومت کے 80 فیصد علاقوں پر مختلف گینگز یعنی مسلح گروہوں کا قبضہ ہے جبکہ جیلوں پر ان کے دھاوا بولنے کے بعد ہزاروں قیدی کھلے بندوں گھوم رہے ہیں اور ایک گینگ لیڈر ملک کے وزیر اعظم کو کھلم کھلا دھمکیاں دے رہے ہیں اور ان کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔", "title": "’لاپتا‘ وزیراعظم، گینگ کی سربراہی کرنے والا سابق پولیس افسر اور ہزاروں مجرموں کا فرار: وہ ملک جہاں لاقانونیت کا راج ہے", "firstPublished": "2024-03-05T07:43:19.640Z", "id": "czdzxq3k3zvo", "article": "لاطینی امریکہ کے ملک ہیٹی کے دارالحکومت کے 80 فیصد علاقوں پر مختلف گینگز یعنی مسلح گروہوں کا قبضہ ہے جبکہ جیلوں پر اُن مسلح گروہوں کے کارندوں کے حملے کے نتیجے میں ہزاروں قیدیوں کو رہا کروا لیا گیا ہے۔ گینگ لیڈر ملک کے وزیر اعظم کو کُھلم کھلا دھمکیاں دے رہے ہیں اور اُن کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ہیٹی کی حکومت نے اتوار کے روز ملک میں ایک بڑی جیل پر مسلح گروہوں کے حملے کے بعد ملک میں تین روزہ ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جیل پر حملے کے نتیجے میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 3700 سے زیادہ قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں ہیٹی کے مسلح گروہ اِس وقت دارالحکومت ’پورٹو پرینس‘ کے تقریباً 80 فیصد حصے پر قابض ہیں اور یہاں گینگز کے ہاتھوں ہونے والے تشدد نے پورے ملک کو برسوں سے متاثر کر رکھا ہے۔ یہاں ہم اس بات پر نظر ڈال رہے ہیں کہ کس طرح مسلح گروپس اس ملک کے دارالحکومت اور دیگر علاقوں کے بڑے حصے پر غلبہ حاصل کر رہے ہیں۔ صدر موئسی کے دور میں بھی گینگز کی جانب سے تشدد عروج پر تھا لیکن اُن کے قتل سے پیدا ہونے والے طاقت کے خلا نے ان گروہوں کو مزید علاقوں پر قبضہ کرنے اور زیادہ بااثر بننے کا موقع دیا۔ صدر موئسی نے ایریل ہنری کو اپنے قتل سے کچھ عرصہ قبل اپنا وزیر اعظم نامزد کیا تھا۔ اور ان کے منتخب نہ ہو کر اس عہدے پر تعینات ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ اُن کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی ہمدردی کی کوآرڈینیٹر الریکا رچرڈسن کے مطابق دارالحکومت کا اسی فیصد حصہ اب ان گینگز کے کنٹرول میں ہے اور ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو ’غیر انسانی‘ سطح کے تشدد کا سامنا ہے۔ سنہ 2022 میں گینگ لیڈر نے ’امن‘ کے لیے اپنا منصوبہ پیش کیا تھا جس میں یہ تجویز کیا کہ ان کے گینگ کے اراکین کو معافی کی پیشکش کی جائے اور ہیٹی کے 10 علاقوں کے نمائندوں کے ساتھ ایک کونسل بنائی جائے۔ اس وقت سے ہی وہ دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ خود کو ایک ’انقلابی‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان سب کے پیچھے ان کا مقصد اپنے آپ کو ’ناجائز‘ لیڈر کی بدنامی سے نکالنا ہے۔ فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ ہیٹی کے وزیراعظم ہنری کہاں ہیں لیکن ہزاروں قیدی فرار ہونے کے ساتھ جی-9 کے طاقتور رہنما نے کھلے عام ان سے استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے اور اس صورتحال کے باعث ملک میں فوری طور پر نظم و ضبط بحال کرنے کی کوشش اور بھی مشکل میں پڑ گئی ہے۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cmmqn0753z2o", "summary": "برطانیہ میں ایک خاتون کو ہی ایمرجنسی سروس 999 پر اپنے پولیس افسر سابقہ ساتھی کی جانب سے گھریلو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی اطلاع دینے پر نہ صرف گرفتار کر لیا گیا بلکہ 18 گھنٹے ایک سیل میں بھی گزارنے پڑے۔", "title": "پارٹنر کی بدسلوکی کی اطلاع دینے پر متاثرہ خاتون ہی گرفتار: ’وہ جانور تھا، وہ مجھے انسان نہیں بلکہ اپنا غلام سمجھتا تھا‘", "firstPublished": "2024-03-01T14:02:53.388Z", "id": "cmmqn0753z2o", "article": "برطانیہ میں ایک خاتون کو ہی ایمرجنسی سروس پر اپنے سابقہ ساتھی اور پولیس افسر کی جانب سے گھریلو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی اطلاع دینے پر نہ صرف گرفتار کر لیا گیا بلکہ انھیں 18 گھنٹے ایک سیل میں بھی گزارنے پڑے۔ بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ جس وقت ایوا نے اس پولیس افسر کے متعلق اطلاع دی تھی اسی عرصے کے دوران اس افسر کے ساتھ تعلق میں رہنے والی ایک خاتون افسر نے بھی اس پر اسی طرح کے الزامات لگائے تھے۔ ویسٹ مرشیا پولیس کا کہنا ہے کہ اس خاتون کی گرفتاری کا جائزہ لیا جا رہا ہے لیکن دونوں معاملات میں افسر کے طرز عمل کی تفتیش نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی مجرمانہ فعل ہوا۔ تاہم بی بی سی نے دو دیگر خواتین سے بھی بات کی ہے جو اس افسر کے ساتھ تعلقات میں تھیں اور دونوں نے کہا کہ انھیں اس کی جانب سے بدسلوکی کے ایسے ہی تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی برس اکتوبر میں ایوا نے اس پولیس افسر سے اپنا تعلق ختم کر دیا لیکن ان دونوں کو گھر میں ہی رہنا پڑا جب تک اسے فروخت کیا جا رہا تھا۔ ایک ماہ بعد ایوا نے اپنے پولیس افسر ساتھی کی جانب سے ہراساں کرنے اور اس کے ساتھ زبانی اور مالی طور پر بدسلوکی کرنے کی اطلاع پولیس کو دی۔ حالانکہ ایوا جس صورتحال میں تھی وہ ’انتہائی ناخوشگوار‘ تھی مگر ویسٹ مرشیا پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے افسر نے کوئی مجرمانہ فعل نہیں کیا تھا۔ اسی دوران دوسری خاتون افسر نے بھی اس افسر کے بارے میں بدسلوکی اور زبردستی اس پر اپنا اختیار رکھنے کی اطلاع دی تھی۔ ایوا نے بتایا کہ دسمبر 2022 میں انھوں نے خوفزدہ ہو کر 999 پر کال کی لیکن افسران کے پہنچنے پر انھیں ہی حملے کے شبہ میں گرفتار کر لیا گیا۔ بی بی سی نے اس افسر کے بارے میں جن دیگر خواتین سے بات کی ہے ان میں سے ایک نے کہا کہ اسے پولیس میں نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’انھیں (پولیس کو) تربیت دی جاتی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان سے کیا توقع کی جاتی ہے۔ اسے بیج نہیں پہننا چاہیے۔‘ اس پولیس افسر کی ایک اور سابقہ ساتھی نے ہمیں بتایا کہ اسے آج بھی اس سے ڈر لگتا ہے۔ پولیس اور کرائم کمشنر جان کیمپین نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ گھریلو زیادتی کے کچھ متاثرین پولیس کو اپنے تجربات کی اطلاع دینے میں آسانی محسوس نہیں کرتے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’وہ اپنی طاقت کا استعمال کرتا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ پولیس نے میری مدد کی تھی۔ جب میں نے مدد کے لیے فون کیا تو کوئی میری مدد کے لیے نہیں آیا بلکہ وہ آئے اور مجھے گرفتار کر لیا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cxx528zn985o", "summary": "برطانیہ کے علاقے ہڈرفیلڈ میں 15 مئی 2023 کو ایک دہرے قتل کی واردت پیش آئی۔ اس قتل کی واردات میں ایک شخص نے اپنی سابقہ بیوی اور اس کے ساتھ کو خنجر کے وار کر کے موت گھاٹ اتار دیا تھا۔ بی بی سی کو دستیاب پولیس کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق پولیس کو اس ممکنہ دوہرے قتل کے بارے میں چار دن پہلے سے ہی مقتولہ نے خبردار کیا تھا۔ \n", "title": "’وہ میرا اور بچوں کے گلے کاٹ دے گا‘ چار بچوں کی ماں کا قتل جس کی ’اطلاع‘ پولیس کو پہلے ہی دی گئی تھی", "firstPublished": "2024-02-29T14:02:07.218Z", "id": "cxx528zn985o", "article": "برطانیہ کے علاقے ہڈرفیلڈ میں 15 مئی 2023 کو ایک دوہرے قتل کی واردت پیش آئی۔ اس قتل کی واردات میں ایک شخص نے اپنی سابقہ بیوی اور اس کے ساتھی کو خنجر کے وار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ 27 سالہ کیٹی ہگٹن اور ان کے ساتھی سٹیون ہارنٹ کو کیٹی کے سابقہ شوہر مارکوس اوسبورن نے اس رات خنجر سے حملہ کر کے قتل کیا تھا مگر بی بی سی کو دستیاب پولیس کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق پولیس کو اس ممکنہ دوہرے قتل کے بارے میں چار دن پہلے سے ہی مقتولہ نے خبردار کیا تھا۔ بی بی سی کو دستیاب ریکارڈ کے مطابق کیٹی ہگٹن نے قتل سے چار روز قبل مغربی یورکشائر پولیس کو بتایا تھا کہ انھیں خطرہ ہے کہ مارکوس انھیں ’بری طرح زخمی یا قتل‘ کر دے گا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کیٹی کی جانب سے معلومات کے بعد ممکنہ حملے اور جرم کا جائزہ لیا جا رہا تھا اور کیٹی ہگٹن اور ان کے چار بچوں کو کس طرح تحفط فراہم کیا جائے اس بارے میں غور ہو رہا تھا کہ ان کے قتل کا واقعہ ہو گیا۔ وہ کئی برسوں سے اوسبورن کے ساتھ تعلقات میں تھیں لیکن اپریل 2023 کے آخر میں انھوں نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ وہ 11 مئی کو ہڈرز فیلڈ کے مشرق میں ٹاؤن سینٹر ہارپ انگے میں اس کے بنا ہی اپنے آبائی گھر واپس آ گئی تھی۔ جس دن کیٹی ہگٹن پولیس سے مدد طلب کرنے گئی تھی اس کے ایک دن بعد 12 مئی کو ایک سوشل ورکر نے کرکلیس کونسل دفتر سے ان سے رابطہ کیا اور ان کی مدد کی پیشکش کی۔ جس کے بعد مغربی یارکشائر پولیس نے اوسبورن کو گرفتار کیا لیکن کچھ ہی دیر بعد اسے پولیس کی جانب سے گھریلو تشدد کے حوالے سے تنبیہ نوٹس دے کر چھوڑ دیا گیا۔ اس نوٹس کے مطابق وہ کیٹی ہگٹن سے رابطہ نہیں کر سکتا اور وہ ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا اور اس کی خلاف ورزی کرنے پر اسے دوبارہ گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اس کے اگلے دن اتوار 14 مئی کو کیٹی ہگٹن اپنے نئے ساتھی ہارنٹ کے ساتھ سنیما گئی اور انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک تصویر شیئر کی اور اس کے بعد جب وہ دونوں ہارپ انگے کے علاقے پہنچے تو اوسبورن نے ان پر حملہ کر دیا۔ پانچ جولائی 2023 کو اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج کرل کے سی نے کہا کہ ’ یہ منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا حملہ تھا، جو چند گھنٹے جاری رہا۔‘ پولیس کے مطابق اوسبورن نے کیٹی اور ہارنٹ کو تیز دھار ہتھیار سے نشانہ بنایا اور گھر پر موجود ایک اور شخص پر تشدد کیا۔ اگلے دن یعنی 15 مئی کو مقامی انتظامیہ اور دیگر ایجنسیوں کے اہلکار کیٹی ہگٹن کی جانب سے درج شکایت کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس میں شریک ہوئے تھے اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق یہ ’ایک ہنگامی اجلاس تھا۔‘"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cz4dp89r8p8o", "summary": "انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے شہر ہلدوانی میں جمعرات کی شام مبینہ طور پر غیر قانونی مسجد اور مدرسے توڑے جانے کے خلاف ہونے والے تشدد میں پانچ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔", "title": "انڈیا: ریاست اتراکھنڈ میں مدرسے کی عمارت کو گرائے جانے پر پرتشدد ہنگامے، پانچ ہلاک", "firstPublished": "2024-02-10T09:31:10.954Z", "id": "cz4dp89r8p8o", "article": "انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے شہر ہلدوانی میں جمعرات کی شام مبینہ طور پر غیر قانونی مسجد اور مدرسے کو منہدم کیے جانے کے خلاف ہونے والے مظاہروں اور تشدد کے بعد بندوقوں کے سائے میں حالات پرامن ہیں۔ ضلعی پولیس کا کہنا ہے کہ ہلدوانی تھانہ کے علاقے میں غیر قانونی تعمیرات ہٹانے کے دوران پتھراؤ شروع ہو گیا تھا۔ یاد رہے کہ ہلدوانی کے علاقے بنبھول پورہ میں مبینہ طور پر غیر قانونی طور پر بنائے گئے مدرسہ کو منہدم کرنے کے دوران مقامی لوگوں نے پتھراؤ شروع کر دیا تھا جس کے بعد آگ بھی لگائی گئی۔ میونسپل ملازمین اور پولیس اہلکار مدرسہ کو ہٹانے کے کام میں مصروف تھے۔ بی جے پی رہنما نیہا جوشی نے اس تشدد کو ریاست میں حالیہ دنوں میں نافذ ہونے والے ’یونیفارم سول کوڈ‘ سے جوڑا ہے جس کی چند مسلمانوں نے مخلافت کی تھی اور مسلمانوں کے حقوق کی وکالت کرنے والی ایک تنظیم نے اس قانون کو ’غیر ضروری، نامناسب، باہم مخالف اور ناقابل عمل‘ کہا تھا۔ اس پراپرٹی کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک خالی جائیداد ہے، جس پر دو ڈھانچے بنائے گئے ہیں۔ یہ نہ تو کسی مذہبی ڈھانچے کے طور پر رجسٹرڈ ہیں اور نہ ہی ان کو کہیں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ ان ڈھانچے کو مدرسہ کہا جاتا ہے، جبکہ کچھ لوگ انھیں ’نماز پڑھنے کی جگہ‘ (مسجد) کہتے ہیں۔ دستاویزات میں ان کا کوئی قانونی وجود نہیں ہے۔‘ جمعرات کو ہونے والے تشدد کے دو دن بعد ہلدوانی میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔ انٹرنیٹ کنکشن بند ہیں اور لوگوں کو کچھ پتہ نہیں کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ انتظامیہ کی کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’پچھلے چار پانچ دنوں سے پولیس اس علاقے میں آ رہی تھی اور وہ بتا رہی تھی کہ مدرسے اور مسجد کو ہٹا دیا جائے گا۔ جمعرات کی صبح انتظامیہ کے لوگ جے سی بی (بلڈوزر) مشین لے کر یہاں پہنچے۔ میں یہاں چھ بجے کے قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہاں پتھراؤ ہو رہا ہے اور کچھ گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی ہے۔‘ اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی جمعہ کی دوپہر ہلدوانی پہنچے اور بنبھول پورہ میں ہنگامہ آرائی میں زخمی ہونے والی خواتین پولیس ٹیم اور دیگر پولیس اہلکاروں، انتظامیہ، میونسپل کارپوریشن کے ملازمین اور صحافیوں کی خیریت دریافت کی۔ ان تنظیموں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’ہلدوانی کے علاقے ’ملک کا باغ‘ میں انتظامیہ کی جانب سے ایک غیر منصفانہ کارروائی میں ایک مسجد اور ایک مدرسے کو زبردستی مسمار کردیا گیا، جس کے خلاف احتجاج کرنے والی مقامی خواتین پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا، جس کے بعد ماحول پرتشدد ہو گیا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cn0995kvnzgo", "summary": "کانگریس پارٹی نے گزشتہ سال اپنی حکومت بناتے ہوئے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ پوری طاقت کے ساتھ ان خلاقیات کا درس دینے اور سرِ عام لوگوں پر تشدد کرنے والے افراد سے سختی سے نمٹے گی اور ان واقعات کا خاتمہ کیا جائے گا۔", "title": "ہندو لڑکے سے ملنے جانے والی مسلمان لڑکی پر ’تشدد اور گینگ ریپ‘: ’اخلاقیات کا درس دینے والوں کی غیر اخلاقی حرکات‘", "firstPublished": "2024-01-13T03:45:15.429Z", "id": "cn0995kvnzgo", "article": "خاتون نے بتایا کہ اس کے بعد انھیں ہوٹل سے سات مسلم افراد نے اغوا کیا اور انھیں قریبی ویران جگہ پر لے گئے جہاں اگلے 24 گھنٹوں تک انھیں ریپ کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ جب یہ دونوں ہوٹل کے کمرے میں موجود تھے تو باہر سے چند لوگ کمرے میں مرمت کی غرض سے داخل ہونے کی کوشش کی روکے جانے پر ان لوگوں نے زبردستی کی اور ہوٹل کے کمرے میں داخل ہو گئے۔ انھیں یہ کہتے سُنا جا سکتا ہے ’میں نے ان سے بھیک مانگی، میں نے کہا کہ مُجھے جانے دیں، لیکن انھوں نے میری ایک نہ سُنی۔ میں ان کے قدموں میں گر گئی اور التجا کی کے میری عزت پر ہاتھ نہ ڈالا جائے۔‘ پولیس نے اس بارے میں کسی بھی قسم کی کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ ان خاتون کے ساتھ ہوٹل میں موجود دیگر مذاہب کے لوگ کون تھے اور اُن کے ساتھ خاتون کا کیا تعلق ہے۔‘ یہ دونوں کرناٹک حکومت کی بے روزگاری الاؤنس سکیم یووا ندھی کے لیے اپنا اندراج کرانے کے لیے آئے تھے۔ ہنگل معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی جن نو لوگوں پر تشدد کا الزام لگایا گیا ہے، وہ سبھی مسلم برادری سے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’لڑکی کے ساتھ ہاتھا پائی کے بعد، اسے ایک ویران جگہ پر لے جایا گیا اور مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان انتشار پسند عناصر کی موجودگی اور اس واقعہ کے بعد یہ گمان ہونے لگا ہے کہ ریاستی حکومت موجود ہے بھی یا نہیں؟ بسوراج بومئی نے کہا کہ ’چیف منسٹر سدارامیا، جو اخلاقی درس دینے والوں کے حق میں بات کرتے ہیں، اس خاص واقعے پر خاموش کیوں ہیں؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ شرپسندوں کا تعلق اقلیتی برادری سے تھا؟ سدارامیا کو اس واقعے پر اپنا موقف واضح کرنا چاہیے۔‘ ہیٹ ڈیٹیکٹر نامی ایک ایکس ہینڈل پر لکھا گیا کہ ’پولیس نے کرناٹک کے دارالحکومت بنگلورو سے 256 کلومیٹر دور چکمگلورو میں دو مسلم نوجوانوں پر حملہ کرنے کے الزام میں ایک ہندوتوا گروپ سے وابستہ چار لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔‘ حملہ آوروں نے ایک ہندو لڑکی کے ساتھ مسلم نوجوانوں کی موجودگی پر اعتراض کیا اور اُن پر حملہ کیا گیا۔ یہ واقعہ سی سی ٹی وی کیمروں میں ریکارڈ ہوگیا اور چاروں افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ جن نوجوانوں پر حملہ کیا گیا انھیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ کانگریس پارٹی نے گزشتہ سال اپنی حکومت بناتے ہوئے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ پوری طاقت کے ساتھ ان خلاقیات کا درس دینے اور سرِ عام لوگوں پر تشدد کرنے والے افراد سے سختی سے نمٹے گی اور ان واقعات کا خاتمہ کیا جائے گا۔"} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/cy0ddzg77zko", "summary": "انتہا پسند ہندو تنظیموں کے ارکان نے اس فلم کے کچھ حصوں پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ انھوں نے اس سین پر بھی اعتراض کیا جہاں اداکارہ بریانی پکانے سے قبل نماز ادا کر رہی ہیں۔ ", "title": "’برہمن عورت کی بریانی پکانے سے قبل نماز‘ نیٹ فلکس نے ’ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح‘ کرنے والی فلم ہٹا دی", "firstPublished": "2024-01-12T15:13:09.862Z", "id": "cy0ddzg77zko", "article": "ایک انڈین فلم، جسے ’ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح‘ کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، کو ریلیز کے چند دن بعد ہی نیٹ فلیکس سے ہٹا دیا گیا ہے۔ نیٹ فلیکس کا کہنا ہے کہ تامل فلم ’اناپورنی‘ کو اس کے لائسنسر کی درخواست پر ہٹایا گیا۔ اس فلم میں اداکارہ نیانتھرا کو ایک ہندو برہمن عورت کے روپ میں دکھایا گیا ہے، جنھیں شیف بننے کا شوق ہے۔ فلم کی کہانی کے مطابق نیانتھرا خاندان کے مذہبی عقائد کے خلاف جاتی ہیں۔ وہ گوشت کھاتی ہیں اور اسے پکانا بھی سیکھ رہی ہیں۔ سخت گیر ہندو تنظیموں کے ارکان نے اس فلم کے کچھ حصوں پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ انھوں نے اس سین پر بھی اعتراض کیا جہاں اداکارہ بریانی پکانے سے قبل نماز ادا کر رہی ہیں۔ کچھ ہندوؤں نے اس منظر پر بھی ناراضی کا اظہار کیا جہاں ایک مسلمان کردار کہتا ہے کہ ہندوؤں کے دیوتا رام بھی گوشت کھاتے تھے۔ اداکارہ نیانتھرا اور اس فلم سے جڑے دیگر دو افراد کے خلاف انڈین ریاست مدھیہ پردیش میں مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ حالیہ برسوں میں ہندوؤں کے سخت گیر ہندو گروپوں کی طرف سے کئی فلموں پر یہ اعتراضات عائد کیے گیے ہیں کہ ان میں مذہبی جذبات کو مجروح کیا گیا۔ سنہ 2021 میں ایمازون کے پرائم شو ’تان دیو‘ (Tandav) نے بھی اس وقت معافی مانگی جب ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے ہندو دیوتاؤں کی تضحیک کی۔ تامل فلم ’اناپورنی‘ کو یکم دسمبر کو تھیٹرز میں ریلیز کیا گیا، جس پر ناقدین کی طرف سے ملے جُلے ’ریویوز‘ سامنے آئے۔ اس فلم کو اس وجہ سے سراہا بھی گیا کہ اس میں ایک دقیانوسی خاندان سے ایک خاتون کو دکھایا گیا، جو اپنے خوابوں کی تکمیل کی جستجو میں ہے۔ اس فلم کی منظوری انڈیا کے سینسر بورڈ نے دی، جوعوامی نمائش کے لیے فلموں کا جائزہ لیتا ہے مگر اس پر تنازع اس وقت شروع ہوا جب لوگوں نے اسے نیٹ فلیکس پر دیکھا، جہاں اسے 29 دسمبر کو ریلیز کیا گیا۔ گذشتہ ہفتے رمیش سولنکی کی جانب سے ممبئی میں فلم کے خلاف شکایت بھی درج کروائی گئی تاہم ابھی تک پولیس نے اس پر کوئی مقدمہ درج نہیں کیا۔ جمعرات کو رمیش سولنگی اور وی ایچ پی کے ترجمان نے زی انٹرٹینمنٹ انٹرپرائزز کا ایک معافی نامہ شیئر کیا۔ زی سٹوڈیوز کی اس کمپنی کا بھی فلم بنانے میں اشتراک تھا۔ زی سٹوڈیوز نے یہ بھی کہا کہ پروڈیوسر فلم کے بارے میں خدشات کو دور کریں گے اور نیٹ فلکس کے ساتھ مل کر فلم کو اس کے پلیٹ فارم سے ہٹانے کے لیے کام کر رہے تھے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ یہ فلم نیٹ فلیکس سے ہٹا دی گئی لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو اس معاملے پر خوش نہیں ۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/czd8jkzn0nno", "summary": "نوکری ٹھکرا کر یا نوکری چھوڑ کر اپنا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ شاید ماضی میں کبھی اتنا عام نہیں تھا جتنا اب ہے اور جین زی یعنی وہ لوگ جو 1996کے بعد پیدا ہوئے، اس ٹرینڈ کو لیڈ کر رہے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ ٹرینڈ تیزی سے بڑھ رہا ہے؟ ", "title": "’اپنا باس خود بننے کی خواہش یا آمدن کے محدود مواقع‘ جنریشن زی نوکری کیوں نہیں کرنا چاہتی؟", "firstPublished": "2024-04-27T06:02:58.918Z", "id": "czd8jkzn0nno", "article": "نوکری کو ٹھکرا کر یا نوکری کو چھوڑ کر اپنا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ شاید ماضی میں کبھی اتنا عام نہیں تھا جتنا اب ہے۔ جنریشن زی یعنی وہ لوگ جن کی پیدائش 1996 کے بعد ہوئی ہے وہ تبدیلی کے اس رجحان کو لیڈ کر رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ دُنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے؟ خاص طور پر اکثر نوجوان ان دنوں بس یہ چاہتے ہیں کہ کوئی انھیں یہ نہ کہے کہ میاں آفس آنے میں اتنی دیر کیوں کی یا جو کام آپ کے ذمے لگایا تھا وہ کیوں نہیں ہوا۔ اب تو نوجوان ملازمت سے دور بھاگنے کی کوشش میں ہیں اور بس ایک لیپ ٹاپ اور اچھے انٹرنیٹ کی مدد سے دُنیا کو ایکسپلور کرنا چاہتے ہیں۔ برطانیہ کے ایک بڑے مالیاتی ادارے لائڈز بینک کے ایک وسیع سروے میں سامنے آیا ہے کہ جنریشن زی کے نوجوانوں میں سے 60 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ نوکری چھوڑ کر خود اپنا کوئی کام شروع کرنا چاہیں گے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ہمیشہ سے کسی کے لیے کام کرنے کے خیال سے متفق نہیں تھیں اور انھوں نے دوران تعلیم ہی طے کر لیا تھا کہ انھیں نوکری نہیں بلکہ اپنا کام شروع کرنا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ سب سے پہلا اعتراض خاندان کی جانب سے تھا تاہم ان کا ماننا ہے کہ اب کاروبار کرنا بہت آسان ہو گیا ہے، بس ایک لیپ ٹاپ اور وائی فائی ہونا چاہیے اور آپ پوری دنیا کے لوگوں سے جڑ سکتے ہیں۔ سلمان شاہد کہتے ہیں کہ ’اپنا باس خود‘ بننے کی بات تو ایک مذاق سے شروع ہوئی تھی، لیکن وہ اب حقیقت کا روپ دھار رہی ہے۔ اب نوجوان انٹرنشپ اور فری لانسنگ کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ اس کام کے اوقات میں لچک ہے اور گھر سے کام کرنے کی وجہ سے ان کا سفر پر اٹھنے والا خرچ بھی کم ہو رہا ہے اور اپنے کام کا معاوضہ بھی اچھا مل رہا ہے۔ سلمان شاہد سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ملازمت کے حالات اتنے خراب ہیں کہ چار برسوں تک یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان (جس نے اپنی تعلیم پر 15-20 لاکھ خرچ کیے ہیں) اگر 35-40 ہزار کی ماہانہ تنخواہ والی نوکری (وہ بھی کسی کی مہربانی سے) لے کر خوش ہو رہا ہے تو یہ اس نوجوانوں کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے جو ہمارا معاشرہ اپنے نوجوانوں کے ساتھ کر رہا ہے۔ نوکری کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے ہر مہینے آپ کے ہاتھ میں ایک تنخواہ آتی ہے، آپ کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ کمپنی کو کیسے چلانا ہے، پیسے کہاں سے آئیں گے اور طے شدہ اوقات میں کام کرنے سے آپ گھر والوں کو بھی وقت دے پاتے ہیں مگر آمدن محدود ہوتی ہے اور بڑھنے کے مواقع بھی بہت محدود ہوتے ہیں۔ "} {"url": "https://www.bbc.com/urdu/articles/crgye1440r0o", "summary": "یو پی بورڈ میں ٹاپ کرنے والی طالبہ پراچی کہتی ہیں کہ ’اس ٹرولنگ کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ اگر مجھے ایک یا دو کم نمبر ملتے تو بہتر ہوتا۔‘ انھوں نے اپنی تصاویر پر بنائے جانے والے میز پر ردعمل دیا کہ انھوں نے اب سوشل میڈیا کا استعمال بند کر دیا ہے اور محض پڑھائی پر توجہ دے رہی ہیں۔ ", "title": "’اگر میں ٹاپ نہ کرتی تو لوگ میری شکل پر توجہ نہ دیتے‘", "firstPublished": "2024-04-27T10:33:29.384Z", "id": "crgye1440r0o", "article": "پراچی کہتی ہیں کہ ’اس ٹرولنگ اور ہجوم کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ اگر مجھے ایک یا دو نمبر کم ملتے تو بہتر ہوتا۔ اگر میں ٹاپ نہ کرتی تو لوگ میری شکل پر توجہ نہ دیتے۔ پراچی نے سوشل میڈیا دیکھنا چھوڑ دیا ہے تاکہ ٹرولنگ جھیلنی نہ پڑے۔ تاہم انھوں نے ٹرولرز کا شکریہ ادا کیا ہے کہ سوشل میڈیا نے انھیں اتنی کم عمر میں اتنا مشہور کر دیا ہے۔ پراچی کی والدہ ممتا نگم کہتی ہیں کہ ’ہم نے اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دی کہ ہماری بیٹی کے اوپری ہونٹوں پر بال بڑھ گئے ہیں۔ مجھے اپنی بیٹی اس طرح پسند ہے۔ میں نے کبھی اسے پارلر لے جانے کا سوچا بھی نہیں تھا۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے افسوس ہے کہ لوگوں نے ہماری بیٹی کی صلاحیتوں کے بجائے اس کی جسمانی شکل پر زیادہ توجہ دی، ٹرول کیے جانے کے فوراً بعد ہم نے اپنی بیٹی کو بٹھایا اور نہایت شائستہ انداز میں سمجھایا کہ ان تمام چیزوں کی ذمہ داری آپ خود لیں گی۔ یہ آپ کو بالکل متاثر نہ ہونے دیں کیونکہ ہمارے گھر میں کوئی بھی سوشل میڈیا کو دیکھنے کے لیے فون نہیں اٹھا رہا۔‘ پراچی نے کہا ’ٹاپ کرنے کے بعد میں تھوڑا سا دباؤ بھی محسوس کر رہی ہوں کہ اب لوگوں کی توقعات بڑھ گئی ہیں۔ اس لیے مجھے بہت محنت کرنی پڑے گی۔ میرے پاس ٹرول پڑھنے کا وقت نہیں ہے۔ میں ان لڑکیوں کو بھی بتانا چاہوں گی۔ جن کی جسمانی ساخت عام لوگوں سے تھوڑی مختلف ہے، ان کے لیے ہر چیز کو نظر انداز کر کے مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے۔‘ ہیمنت کا کہنا ہے کہ ’میں ایک انسٹاگرام صارف ہوں۔ میں نے پراچی کے لیے کی گئی زیادہ تر پوسٹس کا جواب دیا ہے۔ لوگوں نے مجھے بہت گالیاں بھی دی ہے اور نازیبا الفاظ بھی استعمال کیے ہیں۔ لیکن ہم پراچی کے حق میں مسلسل لکھ رہے ہیں۔ اسے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔‘ پراچی کے دوسرے ہم جماعت گیانیندر ورما کا کہنا ہے کہ ’جب لوگ پراچی کو سوشل میڈیا پر ٹرول کر رہے تھے تو ہم سب نے مل کر یہ مہم شروع کی تھی۔ گھر بیٹھے بغیر جانے کسی کو ٹرول کرنا بہت آسان ہے۔ ٹرول کرنے والا پراچی نگم کا ریکارڈ نہیں توڑ سکتا۔‘ گیانیندر کا مزید کہنا ہے کہ ’اب گاؤں کے ہر گھر میں ایک فون ہے۔ ہر کسی نے یہ ٹرول دیکھے ہوں گے۔ جن لڑکیوں کی جسمانی ساخت حیاتیاتی وجوہات کی وجہ سے قدرے مختلف ہے، ان کے والدین اپنی بیٹیوں کو کیسے تعلیم دیں گے؟ وہ صرف یہ سوچیں گے کہ یہ کیا ہے؟ پڑھائی کا استعمال کرتے ہوئے، اگر اس کا نام لیا جائے گا تو اس کی بیٹی کو ٹرول کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘"}