id
stringlengths
8
69
url
stringlengths
33
111
title
stringlengths
8
173
summary
stringlengths
1
1.1k
text
stringlengths
110
51.6k
science-46107273
https://www.bbc.com/urdu/science-46107273
بڑے ڈیموں ’کے نقصانات کا ترقی پذیر ممالک کو اندازہ نہیں‘
جہاں ایک جانب پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے چندہ جمع کرنے کی مہم زور و شور سے جاری ہے، وہاں دوسری طرف ایک نئی تحقیق کے مطابق بڑے ڈیم ماحول کے لیے نہایت تباہ کن ثابت ہوئے ہیں اور اس تحقیق کے مصنفین کہتے ہیں کہ انھیں ڈر ہے کہ ان بڑے منصوبوں کے نقصانات کا ترقی پذیر ممالک کو اندازہ نہیں ہے۔
امریکہ کا ہوور ڈیم جس کی جھیل میں پانی کی سطح بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے امریکہ کی مشیگن سٹیٹ یونیورسٹی میں کی گئی نئی تحقیق کے مطابق امریکہ اور یورپ میں تعمیر کیے گئے بڑے ڈیم ماحول کے لیے نہایت نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ اس تحقیق میں ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اب ہر سال درجنوں کے حساب سے بڑے ڈیموں کو اکھاڑا جا رہا اور اس کی وجوہات یہ دی گئی ہیں کہ وہ اقتصادی اور ماحولیاتی طور پر فائدہ مند نہیں ہیں اور ہر ہفتے امریکہ اور یورپ میں ایک سے زیادہ ڈیم ختم کیے جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کا 71 فیصد حصہ پانی کی مدد سے پورا کیا جاتا ہے اور کئی ممالک کی ترقی میں اس کا بڑا ہاتھ ہے۔ ڈیمز کے بارے میں مزید پڑھیے کیا چندہ جمع کر کے ڈیم بن سکتا ہے؟ ’ڈیم کی مخالفت، آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے‘ ایک اور ڈیم سے دریائے سندھ کا گلا گُھٹ جائے گا؟ پاکستان کے دریا خشک کیوں ہو رہے ہیں؟ محققین کہتے ہیں کہ 1960 کے عشرے میں امریکہ اور یورپ میں ڈیم بنانے کا کام عروج پر تھا لیکن اس کے بعد سے اس میں کمی دیکھنے میں آئی ہے اور زیادہ تر ڈیموں کو ختم کیا جا رہا ہے اور اس وقت پورے امریکہ میں استعمال ہونے والی بجلی کا صرف چھ فیصد حصہ پانی کی مدد سے بنتا ہے۔ اس تحقیقی مقالے کے مصنفین کے مطابق حکومتیں سستی بجلی کی لالچ میں آ کر ڈیموں کی وجہ سے پیدا ہونے والے دیگر مسائل کو نظر انداز کر دیتی ہیں اور یہ نہیں سوچتیں کہ ان کی تعمیر کی وجہ سے ماحولیاتی اور سماجی نقصانات کتنے زیادہ ہوں گے۔ یاد رہے کہ حالیہ چند ماہ سے پاکستان میں 4500 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے دیامیر بھاشا ڈیم اور 800 میگا واٹ والے مہمند ڈیم کی تعمیر کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان نے چندہ جمع کرنے کی مہم شروع کی ہوئی ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس کی حمایت کی ہے۔ ستمبر میں پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ملک میں نئے ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کرنے والوں کو خبردار بھی کیا کہ جن لوگوں نے ڈیم کی تعمیر کو روکنے کی کوشش کی ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو ان دونوں ڈیموں کی تعمیر کے لیے 14 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن پانچ مہینے سے جاری اس چندہ مہم میں اب تک صرف پانچ کروڑ ڈالر ہی جمع ہو سکے ہیں۔ پاکستان کا تربیلا ڈیم ادھر محققین کا کہنا ہے کہ سنہ 1930 کے بعد سے تعمیر کیے گئے 90 فیصد ڈیم ان کی تعمیر کے اصل تخمینے سے کہیں زیادہ مہنگے ثابت ہوئے ہیں۔ ان ڈیموں نے دریاؤں کے ماحول کو خراب کیا اور لاکھوں لوگوں کو دربدر کرنے پر مجبور کیا۔ ماحولیاتی تبدیلی لانے میں ان ڈیموں کا بڑا ہاتھ ہے جس کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسز کا اخراج بڑھ گیا ہے جو کہ زمین کے ماحول کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئی ہیں اور ان کی وجہ سے جنگلات اور دریا دونوں ہی برباد ہوئے ہیں۔ مشیگن سٹیٹ یونیورسٹی سے منسلک اس تحقیق کے مرکزی مصنف پروفیسر ایملیو موران نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ڈیموں کے حامی خیالی جنت دکھاتے ہیں جہاں صرف فوائد نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ خواب پورے نہیں ہوتے اور ان کے نقصانات کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور معاشرے پر ان کے اثرات بعد میں نمایاں ہوتے ہیں۔' پروفیسر ایملیو موران کی رپورٹ میں برازیل کے دریائے مدیرا پر قائم دو ڈیموں کی مثال دی گئی ہے جو کہ محض پانچ سال قبل تعمیر کیے گئے تھے لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ وہ بجلی پیدا کرنے کے اپنے اصل تخمینے کا نہایت قلیل حصہ ہی بنانے میں کامیاب ہو سکیں گے اور اس کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے۔ امریکہ کا ایلواہ ریور ڈیم جو 2011 میں ختم کر دیا گیا محققین لکھتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک میں 3700 ڈیم تعمیر کے مختلف مراحل سے گزر رہے ہیں اور انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ کئی بڑے منصوبے ان دریاؤں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گے جہاں ان کی تعمیر کی جا رہی ہے۔ افریقہ کے دریائے کانگو میں گرینڈ انگا پراجیکٹ کے تخمینے کے مطابق اس منصوبے کے تحت پیدا کی جانے والی بجلی پورے بر اعظم افریقہ کی بجلی کا ایک تہائی حصہ ہو گی۔ لیکن اس تحقیق میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے 80 ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیے جانے والے اس منصوبے سے پیدا ہونے والی بجلی صنعتوں کے لیے ہوگی، نہ کہ عوام کے لیے۔ پروفیسر موران کے مطابق 'اس منصوبے سے پیدا ہونے والی 90 فیصد بجلی جنوبی افریقہ میں کان کنی کے لیے استعمال کی جائے گی اور کانگو کے عوام اس سے محروم رہیں گے۔برازیل میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ لوگوں کے سروں کے اوپر سے بجلی کے تار گزر رہے ہیں لیکن وہ ان کے بجائے 4000 کلو میٹر دور کے علاقوں میں بجلی فراہم کر رہے ہیں۔' اس رپورٹ کی ایک اور اہم تحقیق یہ ہے کہ دریاؤں پر قائم کیے گئے ان بڑے منصوبوں کی وجہ ہے غذا فراہم کرنے کے ذرائع تباہ ہو جائیں گے۔ مشرق بعید میں واقع دریائے میکونگ کے ساتھ رہنے والے اندازہً چھ کروڑ افراد جو دریا سے ملنے والی مچھلیوں پر گزارا کرتے ہیں وہ ان سے محروم ہو جائیں گے اور اس نقصان کا تخمینہ دو ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ دریاؤں پر قائم کیے گئے ان بڑے منصوبوں کی وجہ ہے غذا فراہم کرنے کے ذرائع تباہ ہو جائیں گے لیکن ان تمام خدشات کے باوجود بڑے ڈیموں کی تعمیر ابھی بھی جاری ہے۔ برازیل جہاں 67 فیصد بجلی پانی سے پیدا کی جاتی ہے، دریاؤں میں پانی کم ہونے کے باوجود بڑے ڈیم بنانے کے لیے تیار ہے۔ برازیل کے نئے صدر جئیر بولسو نارو کے منتخب ہونے کے بعد خدشہ ہے کہ ڈیموں کی تعمیر پر لگائے جانے والی عارضی پابندی اٹھا لی جائی گی اور وہ مزید 60 ڈیموں کی تعمیر پر کام دوبارہ شروع کر دیں گے۔ پروفیسر موران نے صاف لفظوں میں ڈیموں کی تعمیر کی مخالفت کی اور کہا کہ 'ہماری تحقیق سے اخذ کیے جانے والا واضح نتیجہ ہے کہ بڑے ڈیموں کا اب کوئی مستقبل نہیں ہے۔ 21 ویں صدی میں ہمیں بجلی پیدا کرنے کے لیے مختلف ذرائع کا استعمال کرنا ہو گا۔ '
140104_abudhabi_test_analysis_zs
https://www.bbc.com/urdu/sport/2014/01/140104_abudhabi_test_analysis_zs
ابوظہبی میں کیے کرائے پر پانی پھرگیا
پانچ دن کا ٹیسٹ میچ ہر دن ہر سیشن میں رنگ بدلتا ہے۔
میتھیوز کی سنچری شراکتوں نے سری لنکا کو شکست کے خطرے سے آزاد کر دیا ابوظہبی ٹیسٹ کے تیسرے دن کے اختتام پر پاکستانی ٹیم کی ممکنہ جیت کی باتیں ہونے لگی تھیں کیونکہ سری لنکن ٹیم پاکستانی برتری کا خاتمہ کرنے کے بعد صرف چار رنز کی سبقت حاصل کرتے ہوئے چار قیمتی وکٹوں سے محروم ہوچکی تھی لیکن اگلے دو دن پاکستانی بولنگ پر بہت بھاری گزرے۔ کپتان اینجلو میتھیوز ناقابل شکست سنچری بنا کر میچ کو اس مقام پر لے آئے جہاں پاکستانی بیٹسمینوں کی فاش غلطی انہیں شکست سے دوچار تو کرسکتی تھی لیکن وہ جیت کے لیے خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ سری لنکن بیٹسمین پہلی اننگز میں آسانی سے پاکستانی بولنگ کے قابو میں آئے تھے۔ جنید خان نے چوتھی مرتبہ سری لنکا کے خلاف اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کیں ۔ اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے بلاول بھٹی کا وار بھی کم مہلک نہ تھا۔ اگر میتھیوز 91 رنز کی عمدہ اننگز نہ کھیلتے تو بساط جلد لپیٹ دی جاتی۔ پاکستان کی پہلی اننگز میں سے یونس خان اور مصباح الحق کی سنچریاں نکال دی جائیں تو کچھ بھی نہیں بچتا۔ سعید اجمل کا غیر موثر ثابت ہونا پاکستان کے نقطہ نظر سے مایوس کن بات تھی دونوں کی ڈبل سنچری شراکت سے پہلے پاکستانی ٹیم نے 83 رنز پر تین وکٹیں گنوائی تھیں اور شراکت کے بعد سات وکٹیں صرف 82 پر لُٹا دیں۔ یونس خان کے بعد مصباح الحق کا ساتھ دینے والا کوئی بھی نہ تھا۔ اسد شفیق کی غیرمستقل مزاجی ان کے ٹیلنٹ کے لیے دیمک بن چکی ہے۔ ان کی طرف سے ان دنوں اگر کوئی بڑی اننگز دیکھنے میں بھی آتی ہے تو وہ اپنا کریئر بچانے کے لیے ہوتی ہے۔ میچ کا یہی ٹرننگ پوائنٹ تھا کہ پاکستانی ٹیم نے ایک بڑی برتری حاصل کرنے کا سنہری موقع ضائع کر دیا۔ سری لنکن بیٹنگ دوسری اننگز میں قدرے بہتر رہی۔ کوشل سلوا اور سنگاکارا کی نصف سنچریوں نے خسارہ کم کیا لیکن درحقیقت میتھیوز کی چندی مل اور وکٹ کیپر پرسنا جے وردھنے کے ساتھ سنچری شراکتوں نے سری لنکا کو شکست کے خطرے سے آزاد کردیا۔ سعید اجمل کا غیر موثر ثابت ہونا پاکستان کے نقطہ نظر سے مایوس کن بات تھی۔ راحت علی پہلی اننگز کی طرح دوسری اننگز میں بھی کوئی آؤٹ نہ کرسکے۔ بلاول بھٹی کو دو وکٹوں کا سودا خاصا مہنگا پڑا، انہیں رنز کی رفتار پر بہت زیادہ قابوکی ضرورت ہے۔ پاکستان کی پہلی اننگز میں سے یونس خان اور مصباح الحق کی سنچریاں نکال دی جائیں تو کچھ بھی نہیں بچتا پاکستان کی دوسری اننگز میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے احمد شہزاد اور ٹیسٹ ٹیم میں واپس آنے والے محمد حفیظ نے نصف سنچریاں سکور کیں۔ بیٹنگ کے لیے سازگار وکٹ اور اوسط درجے کے سری لنکن بولنگ اٹیک کا سب سے زیادہ فائدہ حفیظ نے ہی اٹھایا کہ صرف ایک ون ڈے سیریز کی کارکردگی پر وہ ٹیسٹ ٹیم میں واپس آگئے اور دوسری اننگز میں ناقابل شکست 80 رنز نے ان کی پورے سال کی ٹیسٹ میچوں میں انتہائی مایوس کن کارکردگی پر پردہ ڈال دیا۔ دوسرے ٹیسٹ میچ راحت علی کا ڈراپ کیا جانا یقینی ہے۔ دبئی کی وکٹ دیکھتے ہوئے محمد طلحہ یا عبدالرحمن میں سے کوئی ایک ٹیم میں شامل ہوگا جبکہ انگلی میں فریکچر کے سبب باہر ہونے والے عدنان اکمل کی جگہ سرفراز احمد لیں گے۔ خرم منظور کی جگہ شان مسعود کی واپسی ہوسکتی ہے لیکن ٹیم منیجمنٹ اس سوال کا کیا جواب دے گی کہ صرف دو ون ڈے میچوں کی کارکردگی پر عمرگل کو ٹیسٹ ٹیم میں شامل کرنے کے لیے اتنی تیزی کیوں دکھائی گئی کہ بعد میں انہیں مکمل فٹ نہ ہونے کے سبب وطن واپس روانہ کرنا پڑا ۔یہی کچھ شعیب ملک کے معاملے میں بھی کیا گیا تھا۔ یاری دوستی نبھانے کے یہ کھیل کب تک چلیں گے؟
science-49293954
https://www.bbc.com/urdu/science-49293954
جانوروں کے حقوق: ہاتھی کی کھال کی بڑھتی طلب سے ان کی نسل کشی کا خطرہ
انتباہ : اس مضمون میں چند ایسی تصاویر ہیں جو دیکھنے والوں کے لیے صدمے ک ا باعث ہو سکتی ہیں۔
ہاتھیوں کی تعداد میں کمی کے دو بنیادی عوامل ہیں، ایک تو غیر قانونی شکار اور دوسرا جنگلات کی کٹائی میانمار میں ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے کنٹری ڈائریکٹر کرسٹی ولیمز کہتے ہیں کہ ’مجھے ایسے لگا جیسے کسی نے میرے پیٹ میں مکا مار دیا ہو۔ میں یہ تصاویر برداشت تک نہیں کر پا رہا تھا۔ مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ بے یار و مددگار ہونے کا احساس ہوا۔‘ وہ ایک ایسے ہاتھی کی تصاویر کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس کی کھال مکمل طور پر اتار دی گئی تھی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’کھال مکمل طور پر اتار دی گئی تھی اور گلابی رنگ کا سڑتا ہوا گوشت واضح طور پر نظر آ رہا تھا۔‘ یہ بھی پڑھیے آخر ہاتھی اتنا کم کیوں سوتے ہیں؟ جےپور کے ’ہاتھی گاؤں‘ کے ویران ہونے کا خطرہ چین میں ہاتھی کے دانتوں کی تجارت پر پابندی کا اعلان ’میں گذشتہ 20 سال سے ہاتھیوں کی نسل بچانے کے لیے ان پر تحقیق کر رہا ہوں۔ اس دوران میں نے کئی خوفناک چیزیں دیکھی ہیں مگر یہ اس سب سے بالکل ہی مختلف تھا۔’ ثبوت ہاتھیوں کی تعداد میں کمی کے دو بنیادی عوامل ہیں، ایک تو غیر قانونی شکار اور دوسرا جنگلات کی کٹائی۔ مگر ایشیائی ہاتھیوں کے لیے ایک نیا خطرہ ان کی کھال کی بڑھتی ہوئی طلب کی صورت میں ابھر رہا ہے۔ ہاتھی اس تجارت کے ثبوت 1990 کی دہائی کے وسط میں چین میں سامنے آئے تھے مگر اب یہ واحد ملک نہیں ہے جہاں لوگ ہاتھی کی کھال سے بنی اشیا خرید رہے ہیں۔ ’ایلیفینٹ فیملی‘ نامی برطانوی غیر سرکاری تنظیم میں نسل بچانے کے شعبے کی سربراہ ڈیوڈ ایم آگری کہتے ہیں کہ ہمیں پانچ ایشیائی ممالک چین، میانمار، لاگوس، ویتنام اور کمبوڈیا میں کھالوں کی تجارت کے ثبوت ملے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کھالوں کی تجارت اس خطے میں بڑھ رہی ہے۔ مگر طلب بڑھنے کی وجہ کیا ہے؟ ہاتھی کی کھال کو خشک کر کے پاؤڈر بنایا جاتا ہے جسے چین میں دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کھال سے بنائی گئی دواؤں کو السر، معدے میں جلن یہاں تک کہ معدے کے کینسر تک کا علاج بتا کر فروخت کیا جاتا ہے۔ سفوف بنائی گئی کھال کو ہاتھی کی چربی کے ساتھ ملا کر جلد کے انفیکشنز کے علاج کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے۔ فیشن انڈسٹری بھی زیورات کی تیاری کے لیے اسے خریدتی ہے۔ ہاتھی کی کھال کو کبھی کبھی دانوں کی صورت دے کر ان سے کنگن اور ہار بنائے جاتے ہیں جبکہ پالش کی گئی کھال کے مستطیل ٹکڑوں کو نگوں کی طرح بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ شکار میانمار میں اب اس طلب کو پورا کرنے کے لیے ہاتھیوں کا بے دریغ شکار کیا جاتا ہے۔ میانمار میں اب اس طلب کو پورا کرنے کے لیے ہاتھیوں کا بے دریغ شکار کیا جاتا ہے کرسٹی ولیمز بتاتے ہیں ’ہاتھیوں کو اکثر زہر آلود ڈارٹ سے نشانہ بنایا جاتا ہے اور ہاتھی ہلاک ہونے سے پہلے کئی دن تک تڑپتے رہتے ہیں۔ اس دوران زہر ان کے جسم کے ایک ایک انچ تک پہنچ جاتا ہے۔ ’کچھ معاملات میں یوں بھی ہو سکتا ہے کہ کھال اتارے جانے کے وقت ہاتھی مفلوج ہو مگر مردہ نہ ہو۔ انتہائی مہارت اور عرق ریزی کے ساتھ ایک ایک انچ کھال اتار لی جاتی ہے۔’ ایلیفنٹ فیملی کا کہنا ہے کہ کچھ تاجر کھال کے سفوف کو گوہ کی کھال کے ساتھ ملا کر اسے روایتی دوا کے طور پر فروخت کرتے ہیں۔ خطرے کی شکار نوع ہاتھی ایشیا کے 13 ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی جنگلی آبادی اب 50 ہزار سے بھی کم ہے اور ان کی تقریباً 60 فیصد آبادی انڈیا میں پائی جاتی ہے۔ قدرت کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) نے ایشیائی ہاتھیوں کو خطرے کا شکار قرار دیا ہے۔ اپنے قد آور اور بڑے افریقی رشتے داروں کے برعکس مادہ ایشیائی ہاتھیوں کے دانت لمبے نہیں ہوتے۔ اس لیے ہاتھی دانت کے شکار سے مادہ اور بچے بچ جاتے ہیں۔ مگر سمتھسونین کنزرویشن بائیولوجی انسٹیٹوٹ کے سربراہ پیٹر لیمبروگر کہتے ہیں ’یہ سمجھنا بہت اہم ہے کہ کھال اور گوشت کے لیے شکار کیے جانے والے ہاتھیوں کی آبادی پر اثرات ہاتھی دانت کے لیے شکار سے زیادہ منفی ہوں گے۔’ طلب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق میانمار میں سنہ 2010 سے سنہ 2018 کے درمیان کم از کم 207 ہاتھی مارے گئے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق میانمار میں سنہ 2010 سے سنہ 2018 کے درمیان کم از کم 207 ہاتھی مارے گئے ہیں ایلیفینٹ فیملی کا اندازہ ہے کہ میانمار میں صرف دو ہزار جنگلی ہاتھی باقی بچے ہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ میانمار کے محکمۂ جنگلات کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر نائی نائی کیاو کہتے ہیں ’ہاتھیوں کا غیر قانونی شکار سنہ 2010 سے ایک بڑھتا ہوا مسئلہ رہا ہے۔’ میانمار میں 1940 کی دہائی میں 10 ہزار جنگلی ہاتھی موجود تھے اور اب ان کا شکار ان کی کھال کے لیے کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر کیاو کہتے ہیں ’آج ہاتھی کے پورے جسم کی طلب ہے کیونکہ چین کے لوگ روایتی دوا بنانے کے لیے اس کی سونڈ خریدتے ہیں۔ کھال کو دانوں جیسے زیورات بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ گوشت کو کئی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مارکیٹ میں اس طلب کے باعث ہاتھی غیر قانونی طور پر ہلاک کیے جاتے ہیں۔’ ہاتھیوں کی لاشوں کو کھال اتارے جاتے وقت یا جلائے جاتے وقت دیکھا گیا ہاتھیوں کی لاشوں کو کھال اتارے جاتے وقت یا جلائے جاتے وقت دیکھا گیا۔ سمتھسونین انسٹیٹیوٹ کے محققین نے میانمار میں ہاتھیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے 19 ہاتھیوں پر ریڈیو ٹرانسمیٹر لگائے۔ مارچ سنہ 2015 سے جون سنسہ 2017 کے دوران انھوں معلوم ہوا کہ سات ہاتھی ہلاک جبکہ دو غائب ہو گئے۔ اس کے علاوہ مارچ سنہ 2017 میں محققین نے آیروادی ڈیلٹا کے علاقے میں ایک ہی جگہ پر 20 ہاتھیوں کی لاشیں دریافت کیں چنانچہ ہاتھیوں کی بقا کے لیے کام کرنے والوں کو خدشہ ہے کہ غیر قانونی شکار کے بارے میں درست اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ ویتنام سنہ 2013 میں وسطی ویتنام کے رینجرز منہ ہوا ڈسٹرکٹ میں ایک مکمل کھال والے ہاتھی کے پاس پہنچے جس سے یہ امکان بڑھا کہ وہاں کے جانور بھی غیر محفوظ ہو سکتے ہیں۔ ویتنام میں جنگلی ہاتھیوں کی آبادی صرف 100 ہاتھیوں پر مشتمل ہے۔ چین جس پر پہلے الزام عائد کیا جاتا تھا کہ وہ جنگلی حیات کی مصنوعات کی غیر قانونی تجارت روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہا، نے اس عمل کو محدود کرنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن تاجر آن منتقل ہو گئے۔ ڈیوڈ ایم ایجیری کہتے ہیں کہ ’کاؤنٹر پر جنگلی حیات کی مصنوعات کی فروخت میں کمی آئی ہے تاہم انٹرنیٹ مارکیٹ میں اضافہ ہوا ہے۔ نگرانی اور کریک ڈاؤن بہت مشکل ہے۔‘ محققین کا کہنا ہے کہ اس کام کی ادائیگیاں بینک ٹرانسفر یا آن لائن ایپس سے کی جاتی ہیں۔ تجارت ایشیائی ہاتھیوں کے پروگرام مینیجر سندیپ کمار تیواری کا کہنا ہے ’جلد ہاتھی دانت کی طرح قیمتی نہیں ہے لیکن فیشن کی دنیا کی اپنی ڈائنیمکس ہیں۔ اگر اس کی مانگ میں اچانک اضافہ ہو جائے تو یہ ہاتھیوں کے لیے نقصان دہ ہو گا۔‘ ہانگ کانگ کے نزدیک چینی شہر گوانگجو میں ہاتھی کی ایک کلو جلد 200 ڈالر میں فروخت کی جا سکتی ہے ایلیفنٹ فیملی کے محقیقین کو میانمار میں ایسے تاجروں کے بارے میں پتا چلا جو ہاتھی کی جلد کو 108 ڈالر فی کلو فروخت کر رہے تھے۔ ہانگ کانگ کے نزدیک چینی شہر گوانگجو میں ہاتھی کی ایک کلو جلد 200 ڈالر میں فروخت کی جا سکتی ہے تاہم آن لائن قیمتوں میں 285 ڈالر کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ ہاتھی کی جلد سے بنی اعلیٰ معیار کے موتیوں کی مالا 32 ڈالر فی گرام میں فروخت ہوتی تھی۔ فوری تنبیہ اس بات کے خدشات ہیں کہ بڑھتی ہوئی قیمتیں ہاتھیوں کی جلد کی مانگ کو بڑھا سکتی ہیں جو جانوروں کی آبادی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے کارروائی کی جا رہی ہے، میانمار نے چین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس بڑھتی ہوئی تجارت کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ پولیس نے حالیہ دنوں میں ہاتھیوں کا غیر قانونی شکار کرنے والے دس شکاریوں کو گرفتار کیا تھا اور ان کے قبضے سے ہاتھیوں کا گوشت ضبط کیا تھا۔ لیکن میانمار اور چین کی جانب سے کی جانے والی کارروائی کے باوجود اس کے مہم گروپوں اور محافظ پسندوں کا مؤقف ہے کہ بہت کم ہے اور اس کے لیے فوری طور پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایلیفنٹ فیملی کو یقین ہے کہ جلد کی تجارت پہلے سے نازک مقامی جانوروں کی آبادی کے لیے ایک شدید خطرہ ہے ’اگر یہ اور بڑھتی گئی تو جنگلی ایشیائی ہاتھی اپنی نصف حد میں ناپید ہو سکتے ہیں۔‘ اس کا خیال ہے کہ بین الاقوامی تحفظ اور قانون نافذ کرنے والی کمیونٹی کی جانب سے فوری ردعمل ہی بحران کو روک سکے گا۔
entertainment-46709881
https://www.bbc.com/urdu/entertainment-46709881
انڈین فلم انڈسٹری کے پہلے سپر سٹار کی کہانی: ’راجیش کھنہ کی گاڑی کی دھول سے لڑکیاں مانگ بھر لیا کرتی تھیں‘
راجیش کھنہ اصل معنی میں انڈین فلم انڈسٹری کے پہلے سپر سٹار تھے۔
راجیش کھنا اپنے بالوں کے سٹائل، بڑے کالر والی شرٹ اور پلکوں کو جھکا کر نگاہوں سے تیر چھوڑنے کی ادا سے انھوں نے فلموں کے مداحوں کا دل جیت لیا تھا۔ راجیش کھنہ کی زندگی کے بارے میں ’دی انٹولڈ سٹوری آف انڈیاز فرسٹ سپر سٹار‘ کتاب لکھنے والے یاسر عثمان نے ایک بار ایک بنگالی خاتون سے پوچھا کہ راجیش کھنہ ان کے لیے کیا اہمیت رکھتے ہیں۔ یاسر کے بقول اس خاتون نے کہا کہ ’آپ نہیں سمجھیں گے۔ جب ہم ان کی فلم دیکھتے ہیں تو یہ ویسا ہی ہوتا ہے جیسے ہم ان کے ساتھ ملاقات کر رہے ہوں۔ ہم فلم دیکھنے کے لیے میک اپ کر کے، بیوٹی پارلر جا کر اور اچھے کپڑے پہن کر جاتی تھیں۔ ہمیں لگتا تھا وہ پردے پر جب پلکیں جھپکا رہے ہیں یا مسکرا رہے ہیں تو وہ ہمارے ہی لیے کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ ہال میں بیٹھی ہر لڑکی کو ایسا ہی محسوس ہوتا تھا۔ یہ بھی پڑھیے ’میں آج بھی دلیپ صاحب کی نظر اتارتی ہوں‘ ممبئی کی وہ گلیاں جہاں بالی وڈ بستا ہے ’کنگ آف رومانس‘ کو رومانس سے خطرہ! یاسر نے بتایا کہ ’ان کی سفید رنگ کی گاڑی لڑکیوں کی لپسٹک سے لال ہو جاتی تھی اور ان کی گاڑی کی دھول سے لڑکیاں اپنی مانگ بھر لیا کرتی تھیں۔ یہ سنے سنائے نہیں بلکہ سچے واقعات ہیں۔‘ داماد اکشے کمار اور اہلیہ ڈمپل کپاڈیا کے ساتھ راجیش کھنہ آغاز سے ہی مغرور اور ’لیٹ لطیف‘ راجیش کھنہ کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہمیشہ سے ’لیٹ لطیف‘ اور مغرور شخص تھے۔ جب میں نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا وہ شروع سے ہی ایسے تھے تو پتہ چلا کہ ان کی پہلی فلم ’راز‘ کی شوٹنگ کے پہلے ہی دن انہیں صبح آٹھ بجے بلایا گیا تھا۔ لیکن وہ گیارہ بجے سیٹ پر پہنچے۔ سب حیران تھے کہ یہ تو نیا لڑکا ہے، اپنی شوٹنگ کے پہلے ہی دن اتنا لیٹ کیسے ہو سکتا ہے؟ سب انہیں گھور کر دیکھ رہے تھے۔ کچھ سینیئر لوگوں نے انہیں ڈانٹا بھی۔ راجیش کھنا نے کہا کہ ’دیکھیے ایکٹنگ اور کریئر کی ایسی کی تیسی۔ میں کسی بھی چیز کے لیے اپنا لائف سٹائل نہیں بدلوں گا۔‘ اس تیور کے ساتھ دو ہی باتوں کے امکان ہوتے ہیں، یا تو انسان بہت اوپر جاتا ہے یا بہت نیچے۔ فلم آرادھنا نے راجیش کھنہ کو راتو رات سٹار بنا دیا آرادھنا سے ملی مقبولیت جس فلم نے راجیش کھنہ کو مشہور بنا دیا وہ تھی شرمیلا ٹیگور کے ساتھ ’آرادھنا‘۔ یوں تو یہ فلم شرمیلا ٹیگور کے لیے بنائی گئی تھی لیکن اس سے زیادہ مدد راجیش کھنہ کو ملی۔ یہ بھی پڑھیے سری دیوی فلموں کی کم بیک کوئن جب محمد رفیع دال چاول کھانے لندن پہنچ گئے یاسر عثمان بتاتے ہیں کہ ’اس فلم میں راجیش کھنہ کا چھوٹا سا کردار تھا۔ وہ شرمیلا ٹیگور کے شوہر بنے تھے جو فلم کے آغاز میں ہی وفات پا جاتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے فلم کی شوٹنگ آگے بڑی یہ طے ہوا کہ شرمیلا ٹیگور کے بیٹے کا کردار بھی راجیش کھنہ کو ہی دیا جائے۔‘ ’دا انٹولڈ سٹوری آف انڈین سپر سٹار‘ لکھنے والی یاسر عثمان کے ساتھ بی بی سی سٹوڈیو میں ریحان فضل ’شروع میں کہانی کا اہم کردار ماں کا تھا۔ لیکن فلم کے ختم ہونے تک راجیش کھنہ کا ڈبل رول ہو چکا تھا۔ فلم کا پرموشن اس طرح کیا گیا جیسے وہ شرمیلا ٹیگور کے لیے مدر انڈیا فلم جیسی اہمیت رکھتی ہو۔ لیکن پریمیئر پر فلم دیکھ کر باہر نکلنے والے شرمیلا ٹیگور کی بجائے اس لڑکے کی بات کر رہے تھے۔‘ راجیش کھنہ نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’میں شو شروع ہونے سے پہلے سب سے ہیلو بول رہا تھا۔ کوئی جواب تک نہیں دے رہا تھا۔ شو کے بعد وہی لوگ مجھے ڈھونڈتے ہوئے آئے۔ میں تب تک ہوٹل چلا گیا تھا۔ مجھے ہوٹل سے بلایا گیا کہ آئیے آپ کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے۔‘ اس کے بعد انہوں نے مسلسل 13-14 ہٹ فلمیں دیں۔ ایسی مثال آج تک انڈین فلموں میں نہیں ملتی۔ عثمان بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں سوشل میڈیا تھا اور نہ ہی ٹی وی چینلز، ایسے میں ایک لڑکے کا لوگوں کے دلوں پر قبضہ کر لینا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ان کی ہر فلم ہٹ اور بلاک بسٹر ہو رہی تھی۔ بڑے بڑے تھئیٹرز میں چھ سات مہینے صرف راجیش کھنہ کی فلمیں چلتی رہیں۔ فلموں کے مصنف سلیم خان ہندی فلموں کے مشہور مصنف سلیم خان نے بتایا کہ راجیش کھنہ کے لیے لوگوں میں ایسی دیوانگی تھی جو انہوں نے اس سے پہلے کبھی دیکھی نہ اس کے بعد۔ یہ بھی پڑھیے ’فنکاروں کی موت کے بعد مکمل ہونے والی فلمیں‘ بالی وڈ کی مقبول غیر ملکی اداکارائیں ان کا خیال ہے کہ ’لوگ راجیش کھنا میں خود کو دیکھتے تھے۔ ان کی مسکراہٹ لڑکیوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ ان کی آواز تو اچھی تھی ہی، ان کی فلموں کے گانے بھی بہت عمدہ ثابت ہوئے۔‘ اداکارہ انجو مہیندرو کی راجیش کھنہ سے گہری دوستی تھی انجو مہیندرو سے رشتہ یوں تو راجیش کھنہ پر مرنے والی لڑکیوں کی کمی نہیں تھی لیکن ان کی سب سے نزدیکی دوست تھیں اداکارہ انجو مہیندرو۔ یاسر عثمان نے بتایا کہ ’انجو ان کی زندگی میں تب سے تھیں جب وہ فلمیں حاصل کرنے کے لیے مشکلات سے گزر رہے تھے۔ انجو نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ انجو بھی ان دنوں سٹرگل کر رہی تھیں۔ جب وہ سٹار بن گئے تب وہ انجو کے گھر جایا کرتے تھے۔ گھر کے باہر کھڑی گاڑی کو سکول کی لڑکیاں گھیر کر کھڑی ہو جاتی تھیں۔ اور پھر راجیش کھنہ اور انجو کے رشتوں میں دراڑ آ گئی۔ وہ بہت بڑے سٹار بن گئے لیکن چاہتے تھے کہ انجو بھی ان کے ساتھ ایک سٹار کی طرح پیش آئیں۔ لیکن انجو کہتی تھیں کہ ’میرے لیے تو وہ وہی پرانے شخص تھے، لیکن وہ چاہتے تھے کہ میں ان کے ساتھ اس طرح پیش آؤں جس طرح سٹار کے ساتھ پیش آیا جاتا ہے۔ میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔‘ راجیش کھنہ کو اپنے ارد گرد تعریف کرنے والوں کی بہت چاہ تھی۔ انجو کو ان کے بارے میں جو بات غلط لگتی تھی وہ ان سے کہہ دیا کرتی تھیں۔ لیکن کامیابی حاصل ہونے کے بعد وہ انجو کو کم وقت دینے لگے۔ بعد میں راجیش کھنہ ڈمپل کپاڈیا سے ملے اور ان سے فوراً شادی کر لی یاسر نے بتایا کہ ’چند روز بعد ہی راجیش کھنہ کی زندگی میں ڈمپل کپاڈیا آئیں۔ وہ عمر میں بہت چھوٹی تھیں۔ تین چار دنوں کے اندر انہوں نے ڈمپل سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ انجو کو اس بارے میں بہت بعد میں پتہ چلا۔‘ جب راجیش کھنہ کی بارات بمبئی کے باندرا علاقے سے جوہو جا رہی تھی تو انہوں نے بیچ میں ہی راستہ بدل لیا۔ وہ بارات کو انجو کے گھر کے سامنے سے لے گئے۔ شاید راجیش کھنا کی شخصیت میں ہمیشہ سے یہ بات شامل تھی کہ ’میں بتاتا ہوں میں کیا چیز ہوں۔‘ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں ان کی انجو سے دوبارہ دوستی ہو گئی تھی۔‘ اداکارہ ممتاز کے ساتھ راجیش کھنہ کہا جاتا ہے کہ راجیش کھنہ اپنی کامیابی کو ٹھیک سے سنبھال نہیں پائے۔ یاسر عثمان نے بتایا کہ ’ناکامی سے زیادہ کامیابی نے لوگوں کو برباد کیا ہے۔ کامیابی دہرا نشہ ہے۔ کامیابی کے ساتھ بہت دولت بھی آتی ہے۔ اس کی زیادتی ہوتی ہے تو انسان لڑکھڑا کر گر بھی سکتا ہے۔ کامیابی کو ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے۔‘ راجیش کھنہ بھی توازن نہیں رکھ پائے۔ وہ کامیابی بڑھنے کے ساتھ ساتھ مغرور ہوتے چلے گئے۔ امیتابھ بچن کی کامیابی نے راجیش کھنہ کو دھچکا پہنچایا فلموں میں ’اینگری ینگ میں‘ کا دور فلموں میں اینگری ینگ میں کا دور شروع ہوتے ہی رومانوی کردار ادا کرنے والے اداکار مشکل میں آ گئے۔ راجیش کھنہ نے چند ایسی فلموں میں کام کیا جنہوں نے ان کے کریئر کو بہت نقصان پہنچایا۔ یاسر عثمان کہتے ہیں کہ ’دور بدل رہا تھا، لوگ رومانس سے ایکشن کی طرف جا رہے تھے۔ اسی وقت زنجیر آ گئی۔ اس کے بعد شولے اور دیوار۔ غصے والے کردار ابھرنے لگے۔ راجیش کھنا رومانوی فلموں کے ایکٹر تھے۔‘ اچانک فلموں کا ٹرینڈ بدلنے سے وہ ڈیپریشن میں چلے گئے۔ فلم نمک حرام کے ایک سین میں امیتابھ بچن کے لیے تھئیٹر میں ویسا ہی شور ہوا جیسا راجیش کھنہ کے لیے آرادھنا کے وقت ہوا تھا۔ لوگ امیتابھ بچن جیسا ہیئر سٹائل بنوانے لگے۔ جب راجیش کھنہ کے بالوں کا سٹائل دو روپے میں کٹ رہا تھا تبھی امیتابھ بچن کا تین روپے میں کٹنے لگا تھا۔
060101_yemen_landslide_sen
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/01/060101_yemen_landslide_sen
یمن تودہ: ہلاک شدگان 60 ہو گئے
امدادی کارروائیاں کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یمن کے ایک گاؤں میں پہاڑی تودہ کے ملبے کے نیچے سے اب تک انہوں نے کم از کم چھپن نعشیں نکالی ہیں۔
اس سے پہلے بتایا گیا تھا کہ اس تودے کے گرنے سے کم از کم تیس افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ درجنوں لاپتہ ہیں۔ یمنی حکام کا کہنا ہے کہ دارالحکومت صنعاء کے جنوب مغربی گاؤں الدفیر میں تودہ گرنے سے تیس مکان روندے گئے۔ اس کے علاوہ پینتیس افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پچاس افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔
041124_karzai_greets_na
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/11/041124_karzai_greets_na
یرغمالیوں کی رہائی، کرزئی کا خیر مقدم
افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے اقوام متحدہ کے ان تین غیر ملکی کارکنوں سے ملاقات کی ہے جنہیں منگل کو چار ہفتے یرغمال بنائے جانے کے بعد رہا کیا گیا ہے۔
اس ملاقات میں یہ تینوں بظاہر پرسکون دکھائی دیتے تھے۔ حامد کرزئی نے اغوا کاروں کی مذمت کی اور ان تینوں کو تحائف بھی دیئے۔ اس ملاقات کے دوران صحافی بھی وہاں موجود تھے تاہم انہیں ان تین افراد سے سوال پوچھنے کی اجازت نہیں تھی۔ افغان حکام کے مطابق جنوبی آئر لینڈ کی انیتا فلینیگنی، کوسوو کی شکیپ حبیبی اور فلپائن کے سفارتکار انجلیتو نایان کو اغوا کاروں نے منگل کی صبح کابل میں رہا کردیا تھا۔ صدر کرزئی نے کہا کہ انہیں ان تینوں کی رہائی پر بہت خوشی ہے۔ جلد ہی یہ تینوں اپنے اپنے ملک روانہ ہوجائیں گے تاکہ اپنے خاندانوں سے مل سکیں۔
040410_bush_sept_testimony_uj
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/04/040410_bush_sept_testimony_uj
’گیارہ ستمبر کا بُش کو علم تھا‘
امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر بُش کو گیارہ ستمبر کے حملوں سے ایک ماہ قبل پتہ چل چُکا تھا کہ القاعدہ امریکہ پر حملے کرنے والی ہے۔
اگر ان خبروں کے تصدیق ہو جاتی ہے تو امریکی ایوان زیریں یعنی کانگریس کے کمیشن کے سامنے امریکی سلامتی پر صدر بُش کی مشیر کونڈیلیسا رائس کی گواہی تردید ہو جائے گی۔ کانگریس کا ترتیب دیا گیا یہ کمیشن سن دو ہزار ایک کے گیارہ ستمبر کو ہونے والے حملوں کی تفتیش کر رہا ہے۔ اپنی گواہی کے دوران مس رائس نے کہا تھا کہ اگست دو ہزار ایک میں صدر بُش کو جو خفیہ بریفنگ دی گئی تھی اس کا بیشتر حصہ اس تاریخی معلومات پر مبنی تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ اب تک کہاں کہاں دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں۔ کانگریس کے کمیشن کے اراکین نے وہائٹ ہاؤس سے اس خفیہ بریفنگ کی دستاویز کو عوام کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
030821_ptvdrama2002_si
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2003/08/030821_ptvdrama2002_si
’بادلوں پر بسیرا‘ بہترین
پی ٹی وی، اے آر وائی، پرائم، انڈس اور سنڈے ٹی وی کے کل ملا کر سن دو ہزار دو کے دوران تقریباً چونتیس سیریل نشر ہوئے۔ لیکن یہ محض وہ سیریل ہیں جن کے مقدر میں سکرین کا منہ دیکھنالکھا تھا۔ پروڈیوس کیے جانے والے سلسلہ وار ڈراموں کی مجموعی تعداد کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ جولائی دو ہزار ایک میں ایک سروے کے مطابق اس وقت صرف کراچی میں پچاسی سیریل تیار ہو رہے تھے۔
سالِ گزشتہ کا بہترین سیریل ’بادلوں پر بسیرا ‘ تھا۔ اسے نور الہدیٰ شاہ نے لکھا۔ اور یہ کھیل تمام کا تمام امریکہ میں ریکارڈ ہوا اور تجربہ کار کیمرہ مین اسحاق چودھری نے اپنے فن کا کمال دکھایا۔ یہ پہلا پاکستانی سیریل تھا جس میں سانحۂ مشرقی پاکستان اور قیام بنگلہ دیش کے موضوع پر بات کرنے کی ہمت کی گئی۔ بہرحال اس برس کے دوران نشر ہونے والے چند سلسلوں کا ذکر یہاں بےجا نہ ہو گا۔ بہلاوا فاروق مینگل کی ہدایت کاری میں بننے والا یہ کھیل شہری زندگی کی اونچ نیچ کو احاطے میں لیتا ہے۔ چشمان ڈاکٹر ڈینس آئزک کے لکھے ہوئے اس ڈرامے میں ایک کمرشل پاکستانی پائلٹ کی زندگی دکھائی گئی ہے اور ملک کے شمالی حصوں کی خوبصورت فوٹو گرافی دیکھنے کو ملتی ہے۔ تھوڑی خوشی تھوڑا غم ذوالفقار شیخ کے تیار کردہ اس سیریل میں زر، زن اور زمین کی پرانی تکون کا قصہ ہے لیکن ساتھ ساتھ کچھ غیر ملکی مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جنّت اس سیریل میں منظر بہت مختلف ہے کیونکہ یہ کراچی کے نواح میں مچھیروں کی ایک بستی کا قصہ ہے۔ زندگی آصف علی پوتا کے بنائے ہوئے اس کھیل میںکیریکٹر ایکٹر شجاعت ہاشمی نے عرصہ دراز کے بعد ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ سال دو ہزار دو کے دوران پاکستان میں دو نئے مصنفوں نے اپنا لوہا منوایا ہے۔ ایک تو خلیل الرحمٰن قمر جو کہ فلمی دنیا کے راستے ٹی وی میں آئے تھے لیکن پھر یہیں کے ہو کے رہ گئے۔ ان کا پہلا کامیاب سیریل ’بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ تھا۔ یہ کھیل اس زمرے سے تعلق رکھتا تھا جس میں ایک سیدھا سادہ دیہاتیشہر کی پیچیدہ زندگی میں گم ہو جاتا ہے اور اس کی سادگی قدم قدم پر مزاح بکھیرتی ہے۔ اسی ماڈل کو آگے چلاتے ہوئے مصنف نے مزید کہانیاں تخلیق کرنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ ’مولوی مدن‘ والی بات پیدا نہ ہو سکی۔ البتہ سال گزشتہ کے دوران مصنف نے ’ لنڈا بازار‘ نامی سیریل لکھ کرثابت کیا کہ اس کے ترکش میں ابھی کئی طرح کے تیر باقی ہیں۔ لنڈا بازار کے پلاٹ کی ساخت اگرچہ ممبئی کی انڈر ورلڈ کے نمونے پر ڈھالی گئی ہے لیکن مہاراشٹر کے جرائم پیشہ کرداروں کو بڑی مہارت سے پنجاب میں پلانٹ کیا گیا ہے اور اندرون شہر لاہور کے کردار اپنی جیتی جاگتی شکل میں نظر آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کہیں کہیں یہ کردار زیادہ ہی بیدار ہو کر زندگی کے جامے سے نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بلند بانگ انداز غالباً مصنف کے فلمی پس منظر کی دین ہے۔ بہرحال اگر کمرشل کامیابی ہی معیار ہے تو پھر لنڈا بازار ایک کامیاب سیریل تھا۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ پاکستان میں اس برس ابھرنے والا دوسرا نام بھی ایک ایسے مصنف کا ہےجس نے کیریئر کا آغاز فلمی دنیا سے کیا تھا۔ مصنف سعید انور کا تعارف ادبی دنیا میں سعادت حسن منٹو کے شیدائی کے طور پر ہوا تھا کیونکہ وہ منٹو میموریل سوسائٹی کے اولین جنرل سیکریٹری تھے لیکن فلمی دنیا میں وہ ’ کانٹا ‘ لے کر داخل ہوئے جس میں انہوں نے اداکارہ میرا کو رشناس کرایا۔ کانٹا باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوئی تو مصنف نے ٹی وی کا رخ کیا جہاں ان کا پہلا سیریل ’راکھ‘ ایک زبردست ہٹ ثابت ہوا۔ یہ سیریل لندن میں شوٹ کیا گیا تھااور سن دو ہزار ایک کے آخر میں اس کی نمائش اے آر وائی سے شروع ہوئی جو کہ سن دو ہزار دو میں بھی جاری رہی۔ اس کامیابی کی بنا پر انہیں اگلا سیریل ’ چمک‘ لکھنے کا موقع ملا جو کہ چند ماہ پہلے پرائم سے دکھایا گیا۔ اخباری جائزوں کے مطابق چمک اور لنڈا بازار اس برس کے کامیاب ترین کمرشل سیریل تھے۔ سن دو ہزار دو میں ایک اہم بات یہ بھی ہوئی کہ مصنف اشفاق احمد کو سیریل لکھنے کے لیے قائل کر لیا گیا۔ انہوں نے زندگی میں ایک ہی سیریل لکھا تھا اور وہ عموماً اس مشقت سے بہت بھاگتے ہیں۔ بہرحال ان کا سیریل ’شاہلا کوٹ‘ ایک بڑے شہر کے نواح میں آباد گاؤں کی کہانی ہے جہاں برسوں کا امن و سکون ایک نحوست نے تباہ کر دیا ہے۔ لانگ پلے یا طویل دورانیے کے کھیل کا زوال جو برسوں پہلے شروع ہو گیا تھا اس سال بھی جاری رہا۔ البتہ پرائم نے اپنے پاس پڑے کچھ پرانے لانگ پلیز یا طویل دورانیے کے کھیلوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں ہفتہ وار پیش کرنے کی کوشش کی جو ناکام ہو گئی۔ بعد میں طویل دورانیے کے ان ڈراموں کو ایڈٹ کر کے پینتالیس منٹ میں پیش کرنے کا تجربہ بھی ہوا جو کہ پہلے سے بھی زیادہ ناکام رہا۔
world-52644655
https://www.bbc.com/urdu/world-52644655
سعودی عرب: کورونا وائرس اور تیل کے قیمتوں کا بحران شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے کیا چیلنجز لے کر آئے ہیں؟
سعودی عرب کبھی ٹیکس سے پاک ہونے کے لیے مشہور تھا۔ لیکن اب اسی ملک نے اعلان کیا ہے کہ وہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو پانچ فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کر رہا ہے اور اگلے ماہ سے ماہانہ رہائشی سبسڈی منسوخ کر رہا ہے۔
محمد بن سلمان کے دور میں سعودی عرب یکسر تبدیل ہوا ہے یہ اقدامات ایک ایسے وقت ہو رہے ہیں جب عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں گذشتہ ایک سال کے مقابلے میں نصف سے کم ہو کر رہ گئی ہیں جس سے حکومتی محصولات میں 22 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے اور بڑے پراجیکٹ رک گئے ہیں۔ سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی آرامکو نے رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں ہی اپنے مجموعی منافع میں 25 فیصد کی کمی دکھائی تھی اور اس کی بنیادی وجہ خام تیل کی قیمتوں میں کمی بتائی گئی۔ مشرق وسطی کے امور کے تجزیہ کار مائیکل سٹیفنزکے مطابق 'ان اقدامات سے اخراجات کو لگام دینے اور تیل کی کم قیمتوں کو مستحکم کرنے کی کوششوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ سعودی عرب کی معیشت نازک حالت میں ہے اور حالات کو معمول پر لانے میں کچھ وقت لگے گا۔' سعودی عرب میں مہنگائی بڑھ رہی ہے اور تیل کی قیمتوں میں کمی سے معیشت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں سعودی عرب کی معیشت کا انحصار لاکھوں غیر ہنر مند ایشیائی تارکین وطن مزدوروں پر ہے۔ ان میں سے بیشتر بھیڑ اور خراب حفظان صحت والے حالات میں رہتے ہیں۔ شہزادہ ولی عہد اب بھی اپنے ملک میں بڑے پیمانے پر مقبول ہیں لیکن مغربی ممالک میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ان کے مبینہ کردار پر شکوک و شبہات کی وجہ سے وہ اچھوت تصور کیے جاتے ہیں۔ سنہ 2018 میں ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے کے اندر سرکاری ایجنٹوں کے ذریعے صحافی کے بہیمانہ قتل کے بعد سے سعودی عرب پر بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا اعتماد کبھی پوری طرح بحال نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ ہمسایہ ملک یمن میں جنگ نے پانچ سال سے زیادہ عرصے سے سعودی عرب کے خزانے کو بغیر کسی خاص فائدے کے نچوڑا ہے اور قطر کے ساتھ ہونے والے تنازعے نے چھ ممالک کی خلیج عرب تعاون کونسل (جی سی سی) کے ظاہری اتحاد کو بھی توڑا ہے۔ تو کیا سعودی عرب شدید پریشانی میں ہے؟ یہ بھی پڑھیے سعودی کفایت شعاری مہم، ٹیکس میں اضافہ اور الاؤنس ختم سعودی عرب کا اخراجات میں کمی اور ’تکلیف دہ فیصلے‘ کرنے کا اعلان سعودی تیل کی کہانی، یہ دولت کب آئی اور کب تک رہے گی؟ 'نا مساعد حالات سے نکلنے کی اندرونی صلاحیت' پہلے کچھ پس منظر۔ کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کی سب ہی معیشتوں کو بُری طرح متاثر کیا ہے اور سعودی عرب اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اس کے پاس پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے نام سے تقریباً 320 ارب ڈالر مالیت کا سوورن ویلتھ فنڈ موجود ہے جس پر وہ اب انحصار کرے گا۔ اس کے پاس سرکاری ملکیت والی تیل کمپنی آرامکو بھی ہے جس کی قیمت گذشتہ سال 17 کھرب ڈالر لگائی گئی تھی جو کہ اُس وقت گوگل اور ایمیزون کی مشترکہ قیمت کے برابر تھی۔ سرکاری کمپنی سعودی ارامکو اب بھی ملک میں سب سے کامیاب ہے حال ہی میں کمپنی کا صرف ڈیڑھ فیصد حصہ فروخت کر کے سعودی عرب نے شیئر لسٹنگ کی تاریخ میں سب سے بڑا فنڈ، 25 ارب ڈالر، اکٹھا کیا تھا۔ سنہ 2010-11 کے درمیان ریاض میں تعینات برطانوی سابق سفیر سر ولیم پیٹی کہتے ہیں کہ سعودی عرب میں بہت زیادہ بوجھ سہنے کی صلاحیت ہے۔ ان کے ذخائر بہت بڑے ہیں اور تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود وہ شاید اس بحران سے بچ نکنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔' گذشتہ سال ستمبر میں سعودی تیل کی تنصیبات پر میزائل کے حملے اور پھر اس کے بعد رواں سال جنوری میں ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی امریکہ کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ریاض کو ایران سے لاحق بیرونی خطرہ کم از کم فوری طور پر دب گیا ہے۔ امریکی پینٹاگون نے بھی رواں ماہ ہنگامی صورتحال میں دفاع لیے نصب کیے جانے والے پیٹریئٹ میزائل واپس منگوا لیے۔ نام نہاد دولت اسلامیہ اور القاعدہ سے وابستہ جہادیوں کی جانب سے دہشت گردی کا خطرہ اگرچہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے لیکن بہت حد تک کم ضرور ہو گیا ہے۔ اس کے باوجود سعودی عرب کو ابھی بھی کچھ سنگین اور بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ معیشت رواں ہفتے ہونے والے کٹوتی کے اعلانات بہت سارے ایسے سعودی شہریوں کے لیے بُری خبر تھے جو امید کر رہے تھے کہ ملکی معیشت کا انحصار تیل سے ہٹ جائے گا اور اس طرح سعودی عرب کا مستقبل بھی مستحکم ہو جائے گا۔ ملک کے وزیر خزانہ تک نے انھیں 'تکلیف دہ اقدامات' کے طور پر بیان کیا۔ حکومت کا مقصد 26 ارب ڈالر کی بچت کرنا ہے لیکن کووڈ 19 وائرس اور تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے سعودی عرب کے مرکزی بینک کو تقریبا اتنا ہی نقصان محض مارچ کے مہینے میں اٹھانا پڑا ہے۔ رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں بجٹ کا خسارہ نو ارب ڈالر بتایا گیا ہے۔ ملک پر پڑنے والے معاشی دباؤ کے باعث ترقیاتی منصوبے خطرے میں پڑ گئے ہیں یہ پہلا موقع نہیں جب سعودی عرب نے کفایت شعاری کے بٹن کو دبایا ہو۔ سنہ 1998 کے مئی میں، میں نے ابوظہبی میں جی سی سی کے اجلاس میں شرکت کی تھی جب اس وقت کے ولی عہد شہزادہ عبداللہ نے اپنے حلیف خلیجی عرب حکمرانوں کو ایک سخت پیغام دیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا: 'تیل کی قیمت نو ڈالر فی بیرل ہے۔ اچھا وقت جا چکا ہے اور اب وہ واپس نہیں آنے والا۔ یہ ہم سب کے لیے کمر کس لینے کا وقت ہے۔' دراصل اس کے بعد تیل کی قیمت بڑھ کر 100 ڈالر فی بیرل سے بھی زیادہ ہوگئی لیکن اس کے لیے حکومت کو ملک بھر میں نئی نوکریوں پر پابندی عائد کرنی پڑی اور منصوبوں کی رفتار کم بھی کم کرنی پڑی۔ اس بار یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہوسکتا ہے۔ کورونا کی وبا اور تیل کی قیمتوں میں کمی نے ملک بھر میں ترقیاتی پراجیکٹس کو تار تار کر دیا ہے جس سے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا ولی عہد کا انتہائی سرچڑھا ’وژن 2030 پروگرام‘ اب بھی حاصل کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ سعودی عرب کا انفیکشن ریٹ مشرقِ وسطی میں سب سے بُرا ہے اس پروگرام کا مقصد ملک کو تیل کی آمدنی اور غیر ملکی مزدوری، دونوں پر سے اپنے تاریخی انحصار سے باز رکھنا ہے اور اس کے تحت 500 ارب ڈالر کا صرفہ کر کے ایک مستقبل کا شہر بنانا ہے جسے ’نيوم‎‘ کہا جائے گا۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ اب بھی آگے بڑھ رہا ہے لیکن زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کے لیے پیسے کی کمی اور تاخیر اب ناگزیر ہوچکی ہے۔ مائیکل سٹیفنز کا کہنا ہے کہ کفایت شعاری کے اقدامات سے 'خاص طور پر نجی شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔‘ 'ریاست کے ہنگامی اقدامات ملازمت پیدا کرنے والوں کو زک پہنچا رہے ہیں جس کی وجہ سے طویل مدتی بنیاد پر اس کی بحالی اور بھی مشکل ہو جائے گی۔ عالمی برادری میں مقام صحافی جمال خاشقجی کے قتل اور ابتدا میں اس کو چھپانے کی کوشش سے سعودی عرب کی عالمی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا، یہاں تک کہ لندن میں سعودی عرب کے سفیر نے کہا کہ 'یہ ہماری ساکھ پر داغ' ہے۔ اس کے بعد ہونے والے مقدمے کی سماعت اور سزاؤں کے نتیجے میں کچھ انتہائی مشتبہ افراد کو چھوڑ دیے جانے پر انسانی حقوق کے گروہوں اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ کی جانب سے ماورائے عدالت قتل پر مزید تنقید کی گئی۔ لیکن سعودی عرب دنیا کے لیے اتنی بڑی اور اتنی اہم معاشی طاقت بن گیا ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اب بھی دنیا سعودی عرب کو نظر انداز نہیں کر سکتی حال ہی میں اس نے نیو کاسل یونائیٹڈ فٹ بال کلب کے 80 فیصد حصص کے حصول کے لیے اعلی سطح پر سرمایہ کاری میں دلچسپی دکھائی ہے تاہم خاشقجی کی بیوہ خدیجہ چنگیز نے اس کی اخلاقی بنیادوں پر سخت مخالفت کی ہے۔ یمن جنگ، جس میں امریکہ اور برطانیہ کے فراہم کردہ سعودی جنگی طیاروں کے ذریعہ بمباری جاری ہے، کی وجہ سے تمام سارے فریقین کی جانب سے جنگی جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ لیکن ان فضائی حملوں کی وجہ سے شہریوں کی ہلاکتوں کو واشنگٹن اور دیگر جگہوں پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس جنگ میں بہت محدود کامیابیاں حاصل ہوئیں لیکن اس کی وجہ سے جزیرہ نما عرب کا غریب ترین ملک تباہ ہو گیا جس کے ساتھ ساتھ ریاض کے لیے امریکی سیاست دانوں کی حمایت بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ یمن میں پانچ سال سے جاری جنگ سے اب تک سعودی عرب کو کچھ حاصل نہیں ہوا سعودی ولی عہد اور اصل حکمران محمد بن سلمان (جو ایم بی ایس کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں) جن دو بڑے اتحادیوں پر اعتماد کرسکتے تھے وہ صدر ٹرمپ اور پوتن تھے۔ لیکن رواں سال تیل کے نلکوں کو کھول کر جان بوجھ کر بازار میں تیل کی فراہمی بڑھانے سے انھوں نے دونوں رہنماؤں کی مقامی معیشتوں کو نقصان پہنچایا ہے اور انھیں ناراض کیا ہے۔ ایران کے ساتھ تعلقات سرد جنگ کی حالت میں ہیں اور ہمسایہ ملک قطر کے ساتھ بھی تعلقات کوئی بہتر نہیں ہیں۔ اندرون ملک شہزادہ ولی عہد معاشرتی لبرلائزیشن کے پروگرام کو پر عملدرامد کے لیے غیر معمولی رفتار کے ساتھ آگے بڑھے ہیں اور انھوں نے ایسی ایسی آزادیاں دی ہیں جن کے بارے میں پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان میں خواتین کے گاڑی چلانے پر پابندی کو ختم کرنا، سینما گھروں کا کھلنا، مخلوط جنسی محافلِ موسیقی کا انعقاد اور کار ریلیوں کی اجازت شامل ہیں۔ حالیہ برسوں میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت ملنا ایک بڑا قدم سمجھا جا رہا ہے سعودی عرب آج بظاہر پہلے کے مقابلے میں بہت کم بے کیف جگہ ہے۔ لیکن پردے کے پیچھے سیاسی جبر میں تیزی آئی ہے اور جو کوئی بھی اس کی پالیسیوں پر سوال کرنے کی جرات کرتا ہے اس کو 'قومی سلامتی کے خطرہ' قرار دیے جانے کے بعد گرفتاری اور قید کا خطرہ ہوتا ہے۔ سر قلم کرنے کی سزا اب بھی جاری ہے جس پر انسانی حقوق کے گروہوں کی جانب سے سب سے زیادہ تنقید ہوتی ہے۔ اس سب کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب بین الاقوامی معیشت میں ایک بہت بڑا کھلاڑی ہے اور وہ نومبر میں اگلے جی 20 سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود اسے اس کے حلیف سعودی عرب کی شراکت سے شرمندہ نظر آتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے اثر و رسوخ کی کہانی محمد بن سلمان ایک بار پھر اہم شہزادوں کے خلاف سرگرم کیوں شاہی خاندان کے تین سینیئر اراکین سعودی حکومت کی حراست میں اقتدار 34 سال کی عمر میں شہزادہ محمد بن سلمان ناقابل تسخیر دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں اپنے 84 سالہ والد شاہ سلمان کی حمایت حاصل ہے اور انھوں نے منصوبہ بندی کے ساتھ تخت کے کسی بھی ممکنہ حریف کو ہٹا دیا ہے۔ ان کے کزن شہزادہ محمد بن نائف جو کبھی بہت بااختیار تھے وہ ان اہم لوگوں میں شامل ہیں جنھیں حراست میں لیا گیا اور ان سے اختیارات چھین لیے گئے۔ سنہ 2017 میں محل میں ہونے والے تخت پلٹ میں ان کی جگہ ایم ایس بی نے لی۔ ملک میں جہاں بھی جائیں، ولی عہد کا چہرہ آپ کو ہر طرف نظر آئے گا معمر اور قدامت پسند سعودیوں میں بدگمانیاں ہیں کہ ایم بی ایس کی غیر روایتی پالیسیاں ملک کو ایک خطرناک راہ پر لے جا رہی ہیں لیکن 'خوف کی فضا' کی وجہ سے کوئی بھی اس پر بات کرکے گرفتاری کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتا ہے۔ بیرون ملک ایم بی ایس کی ساکھ کے برعکس ملک میں ان کی مقبولیت خاص طور پر نوجوانوں میں برقرار ہے۔ سابق سفیر سر ولیم پیٹی کہتے ہیں کہ 'یہ وہی لوگ ہیں جنھیں ان کی لبرلائزیشن سے سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ ایم بی ایس کا وہاں ایک بڑا حلقہ ہے۔' ان کی مقبولیت کا ایک حصہ ایک نئی سعودی قوم پرستی پر مبنی ہے جو کہ بذات خود نوجوان شہزادے میں مجسم ہے۔ لیکن اس کا ایک بہت بڑا حصہ اس امید پر بھی مرکوز ہے کہ وہ انھیں معاشی طور پر ایک سنہری دور میں لے کر جا سکتے ہیں۔ لیکن اگر یہ خواب ٹوٹ جاتے ہیں اور آج سے پانچ سال بعد جن ملازمتوں کا وعدہ کیا گیا ہے وہ پورا نہیں ہوتا تو سعودی بادشاہت کی مطلق طاقت قدرے کم محفوظ ہوسکتی ہے۔
regional-40582811
https://www.bbc.com/urdu/regional-40582811
’مذہب تبدیل کرنے سے گھر والے تکلیف میں ہیں‘
انڈین شہر بیگو سرائے کے محمد انور اب آنند بھارتی بن گئے ہیں اور اب ان کے دو بیٹوں کے نام بھی امن اور سمن بھارتی ہو گئے ہیں۔ پہلے امن کا نام عامر اور سمن کا سمیر سبحانی تھا۔
انور عرف آنند نے اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ چار جولائی کو ہندو مذہب قبول کیا۔ انور عرف آنند نے اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ چار جولائی کو ہندو مذہب قبول کیا۔ آنند پیشے کے وکیل ہیں اور مذہب تبدیل کرنے کا حلف نامہ انھوں نے عدالت میں بھی جمع کروا دیا ہے۔ انور عرف آنند کے مطابق انہوں نے مذہب اپنے آس پاس کے قدامت پسند مسلمانوں سے پریشان ہوکر تبدیل کیا ہے۔ ٭ انڈیا میں 22 مسلمانوں نے ہندو مذہب اختیار کر لیا ٭ مسلمان کشمیری پنڈت کون ہیں؟ ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے بچوں کو مدرسے بھیجنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ میں عیدالفطر اور عید الاضحیٰ کے ساتھ ساتھ ہولی اور دیوالی جیسے تہواروں میں بھی شامل ہوتا تھا۔ اگر میں میت پر مٹی ڈالتا تھا تو ہندو رسومات میں بھی شامل ہوتا تھا۔ اس وجہ سے مجھے طرح طرح سے پریشان کیا جاتا تھا۔‘ مناظر حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے آنند کے تمام الزامات کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ مسلم اکثریتی علاقہ آنند نے مزید بتایا کہ ’میرے ساتھ ایسا گذشتہ آٹھ ماہ سے ہو رہا تھا، میں شروع سے ہی بیف نہیں کھاتا، اس سے انکار کرنے پر بھی میرے ساتھ زیادتی کی گئی۔ میرے گھر کے سامنے بیف کی ہڈیاں مسلسل پھینکی جاتی رہیں، میں نے اپنی شکایت مسلمان دانشوروں کے سامنے کھی لیکن انھوں نے بھی اپنے لوگوں کا دفاع کیا اور مجھے انصاف نہیں دلایا۔‘ بیگو سرائے میں آنند بھارتی کا اپنا مکان ہے۔ یہ ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں آنند بھارتی کو سب سے زیادہ شکایت اپنے پڑوسی مناظر حسین اور ان کے خاندان سے ہے۔ تاہم مناظر حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے آنند کے تمام الزامات کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم لوگوں نے انھیں بچوں کو مدرسے میں پڑھانے کے لیے کبھی نہیں کہا۔ نماز نہ پڑھنے کے سوال پر بھی ہم نے انھیں کبھی نہیں ٹوکا۔ وہ خود ہی ہر بات پر ارد گرد کے لوگوں سے جھگڑتے رہتے تھے۔‘ محمد انور نے اپنے بیٹوں کے ہمراہ گھر واپسی کی تقریب میں شرکت کی۔ طہارت کے بعد 'گھر واپسی' مناظر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ آنند تقریباً ایک سال سے کہہ رہے تھے کہ وہ مذہب تبدیل کر لیں گے۔ لیکن آنند بھارتی اس بات سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’میں دونوں مذاہب کی خصوصیات کا مطالعہ کر رہا تھا۔ دو جولائی کو میرے گھر پر آکر لوگوں نے مجھے دھمکیاں دیں جس کے بعد میں نے ہندو مذہب اپنانے کا فیصلہ کر لیا۔‘ آنند کے مطابق نہ تو وہ ہندو تنظیم سے منسلک رہے ہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’دو جولائی کے واقعے کے بعد میرے کچھ ہندو ساتھیوں نے بتایا کہ بجرنگ دل قومی مفاد میں بچھڑے بھائیوں کے ایک ہونے کی مہم چلا رہا ہے اور اس سے متفق ہو کر میں نے خود بجرنگ دل کے ضلعی کنوینر شبھم بھاردواج کے سامنے ہندو مذہب قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی۔‘ اس کے بعد شہر کے بشنپر علاقے کے ایک شیو مندر میں چار جولائی کو طہارت کے بعد محمد انور اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ ہندو ہو گئے۔ شبھم کے مطابق انور کے آنند بننے کے بعد انھیں اور آنند کو جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ہندو ثقافت آنند اپنے محلے میں جس جگہ مجھ سے ملے وہاں ان کے ساتھ شبھم بھاردواج بھی تھے۔ بات چیت کے دوران شبھم بھی ان کے گھر پر موجود رہے۔ انھوں نے بتایا ’وہ لوگ جو مذہب تبدیل کرنا چاہتے ہیں ہم ان کی مدد کرتے ہیں۔ کٹر اسلام سے پریشان لوگ ہمارے پاس آتے ہیں تو ہم ان کی مدد کرتے ہیں۔ محمد انور نے بھی دو جولائی کو ہم سے مدد مانگی۔ پھر تین جولائی کو ہمارے دفتر آکر انھوں نے ہندو ثقافت قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس کے اگلے دن ایک ہوون رکھا گیا اور ان کا مذہب تبدیل کرایا گیا۔‘ شبھم کے مطابق انور کے آنند بننے کے بعد انھیں اور آنند کو جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر، لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ان سے خود نمٹ سکتے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ انور عرف آنند کے فیصلے پر قانون کیا کہتا ہے؟ پٹنہ ہائی کورٹ کے سینئر وکیل ستیہ ویر بھارتی بتاتے ہیں کہ ’بھارت کے شہریوں کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے۔ آئین کی شق نمبر 25 شہریوں کے اس حق کی حفاظت کرتی ہے۔‘ اسلام سے ہندو مذہب قبول کرنے کے باوجود آنند کہتے ہیں کہ انھیں اسلام سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ اسلام سے شکایت نہیں ... اسلام سے ہندو مذہب قبول کرنے کے باوجود آنند کہتے ہیں کہ انھیں اسلام سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ انھیں اس مذہب کے ٹھیکیداروں سے پریشانی ہے۔ وہ تین طلاق، جائیداد میں حق جیسے مسائل کے حوالے سے اسلام میں بہتری کی بات ضرور کرتے ہیں۔ آنند کہتے ہیں ’اسلام میں ذات پات کا نظام نہیں تھا لیکن آج انڈیا میں یہ برائی اسلام میں موجود ہے۔‘ ذات پر مبنی امتیاز اور ہراساں کرنے کا تو ہندو مذہب میں بھی تصور پایا جاتا ہے، وہاں آپ کو اس سے کس طرح نجات ملے گی؟ اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں ’وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی طرف سے ہندو مذہب میں مساوات کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ 'برہمن ہو یا پاسوان، ہندو ہندو ایک اسی‘ کا نعرہ لگایا جا رہا ہے۔ ایسے میں ہندو مذہب سے امید ہے۔‘ آنند اپنی پوری بات چیت میں رہ رہ کر جن الفاظ اور دلائل کا استعمال کرتے ہیں اس پر کچھ ایسی ہندو تنظیموں کا تاثر دکھائی دیا جو مسلمانوں کی حب الوطنی پر شک کرتے ہیں اور انھیں دہشت گردوں کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں ’میں قومی مفاد میں ہندو بنا ہوں۔ قومی مفاد میں یہ ضروری ہے کہ ملک میں صرف ایک مذہب سناتن دھرم ہو۔ اسلام میں دہشت گردی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔‘ بطور ہندو ان کے گھر اور زندگی میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی ہے۔ گھر لائے ہنومان چاليسا بطور ہندو ان کے گھر اور زندگی میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی ہے۔ انھوں نے بتایا: ’گھر میں ہنومان چاليسا لے آئے ہیں۔ گنگا کے کنارے واقع سمريا دھام جاکر عبادت بھی کی۔ غسل کے بعد اور سونے کے وقت خدا کو یاد کرتے ہیں۔‘ ہندو بننے کے بعد کیا انھیں پریشان بھی کیا جا رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں آنند نے بتایا کہ ’گذشتہ جمعے کو انھیں مسلمان نوجوانوں کے ایک گروپ نے دھمکایا تھا۔ اس کی تحریری شکایت پر پولیس نے مجھے ایک مسلحہ گارڈ مہیا کیا ہے۔‘ بیگو سرائے کے سینئیر وکیل مظہرالحق پوكھريا اِسی علاقے میں ہی رہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ آنند کا ہندو مذہب کی طرف جھکاؤ پہلے بھی موجود تھا۔ وہ کہتے ہیں ’جہاں تک مجھے معلومات ہیں، ان کی موٹر سائیکل پر اوم بھی لکھا ہوا ہے اور وہ روزہ، نماز نہیں کرتے تھے۔ یہ ان کا ذاتی معاملہ تھا اور اس سے کسی کو پریشانی نہیں تھی۔‘ لیکن وہ بھی اس سے انکار کرتے ہیں کہ آنند پر اپنے بچوں کو مدرسے میں پڑھانے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ اسے وہ مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ شہر کی مسلم آبادی میں اب گنے چنے لوگ ہی بچوں کو مدرسے بھیجتے ہیں۔ مظہرالحق کے مطابق مسلم معاشرہ آنند کے اس فیصلے پر توہین ضرور محسوس کر رہا ہے لیکن لوگ نہ تو کوئی رائے دے رہے ہیں اور نہ دینا چاہتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگ اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینا چاہتے ہیں۔ ان حالات سے بچنے کے لیے مسلمانوں نے باہمی بات چیت سے طے کیا ہے کہ اس مسئلے کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اسے خود بخود ختم ہونے دیا جائے۔‘ 'کچھ لوگ اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینا چاہتے ہیں‘ گھر والے ناراض آنند بھارتی کے مطابق انھوں نے مذہب تبدیل کرنے سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں سے صلاح و مشورہ نہیں کیا تھا۔ ’مذہب تبدیل کرنے سے گھر والے تکلیف میں ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ اب میں ان سے بچھڑ گیا ہوں۔‘ پوكھريا علاقے میں ہی ان کے والد اور سوتیلی ماں کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ ان کی ماں کہتی ہیں ’ہم تو شرم سے ڈوبے جا رہے ہیں۔ وہ (انور) جیے یا مرے، ہمیں اس سے اب کوئی مطلب نہیں ہے۔‘ آنند کی سوتیلی ماں اس واقعے سے اتنی پریشانی ہیں کہ بار بار پوچھے جانے پر بھی انھوں نے اپنا نام نہیں بتایا۔ دوسری طرف آنند نے اپنی اہلیہ شبنم ستارہ کی بھی بی بی سی سے بات نہیں کروائی۔ ان کے مطابق تبدیلی مذہب کے بعد کے واقعات سے وہ پریشان ہیں۔ حالانکہ انھوں نے اس بات پر بار بار زور دیا کہ مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ انھوں نے اپنی بیوی کی رضامندی سے کیا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ شبنم نہ تو مذہب تبدیل کرنے کے لیے مندر گئیں، نہ ہی انھوں نے ابھی تک اپنا نام اب تک تبدیل کیا ہے۔ بیوی کے نام نہیں بدلے جانے کے سوال پر آنند کہتے ہیں ’ان کا نام ایسا ہے جو ہندو مسلمان سب رکھتے ہیں، اس لیے انھوں نے نام نہیں بدلا۔‘ چار جولائی کے بعد ان کے بچوں نے پیر کو دوبارہ سکول جانا شروع کر دیا ہے۔ وہ شہر کے ایک نجی انگلش میڈیم سکول میں پڑھتے ہیں۔
071229_bb_gardner
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/12/071229_bb_gardner
بینظیر کے قتل کا حکم کس نے دیا؟
بینظیر بھٹو کو کس نے مارا؟
ان کے اصل قاتل کی شناخت کبھی معلوم ہو بھی گئی تو وہ ایک ایسا شخص ہوگا جس کے بارے میں زیادہ تر لوگوں نے کبھی نہیں سنا ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کو بھیجنے والے کون تھے اور انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ پاکستان میں جہاں افواہوں کا بازار گرم ہے اس وقت دو متضاد آراء گردش کر ہی ہیں۔ ایک رائے حکومت کی طرف سے پیش کی گئی ہے کہ قاتل القاعدہ یا طالبان یا دونوں تھے۔ یقیناً رش والی جگہ پر خودکش حملہ القاعدہ کا پسندید طریقہ ہے، لیکن اس بار حملہ آور نے ناکامی کا امکان ختم کرنے کے لیےاپنے آپ کو اڑانے سے قبل فائرنگ بھی کی۔ القاعدہ اور طالبان کے پاس بینظیر بھٹو کو مارنے کی کئی وجوہات تھیں۔ سیکولر، مغرب میں تعلیم یافتہ اور ایک ایسی خاتون سیاستدان کی حیثیت سے جس کے برطانیہ اور امریکہ سے قریبی تعلقات تھے وہ اسلامی انتہاپسندوں کو مخالفت کی کئی وجوہات فراہم کرتی تھیں۔ اگر اس واقعے کے پیچھے القاعدہ کا ہاتھ ہے تو ان کے طریقہ کار کے مطابق وہ کنفیوژن میں اضافے کے لیے کچھ دیر رکنے کے بعد انٹرنیٹ پر ایک محتاط بیان جاری کرتی ہے جس میں خودکش حملہ آور کی تعریف اور حملے کی وجوہات کو مذہبی اصطلاحات میں پرو کر پیش کیا جاتا ہے۔ دوسری رائے جو محترمہ بھٹو کے حامیوں کے نزدیک درست ہے یہ ہے کہ حملے میں حملے کی ذمہ دار صدر مشرف کی حکومت ہے۔ وہ خاص طور پر آئی ایس آئی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ان کے مطابق بینظیر بھٹو کی اقتدار میں متوقع واپسی سے اتنی پریشان تھی کہ اس نے انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلے کیا۔ اس رائے کو لوگ جتنے بھی اعتماد سے پیش کریں اس کو سچ ثابت کرنے کے لیے آزاد شواہد نہیں ہیں اور مکمل طور پر شفاف اور غیر جانبدار انکوائری کے بغیر حقیقت شاید کبھی بھی معلوم نہ ہو سکے۔ پاکستانی سیاست کے گنجل میں بہت سے ایسے اسلامی عسکریت پسند گروپ ہیں جن کا تعلق نہ القاعدہ سے ہے اور نہ حکومت سے لیکن اس کے باوجود کسی ایک سے یا دونوں سے روابط ہیں۔ آئی ایس آئی نے ایک طویل عرصے تک افغانستان میں طالبان اور اور کشمیری علیحدگی پسندوں کی حمایت کی۔ صدر مشرف نے امریکہ کو قائل کرنے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں کہ انہوں نے آئی ایس آئی میں اایسے عناصر کو ختم کردیا ہے جن کے دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعلقات تھے لیکن پھر بھی بہت سے لوگوں کو شک ہے کہ ابھی پرانے رابطے پوری طرح ختم نہیں ہوئے۔ آنے والے دنوں میں پاکستانی کی داخلی صورتحال کا دارومدار اس پر ہوگا کہ آیا کہ حملہ آور کو پاکستان میں سے ہی بھیجا گیا تھا یا باہر سے۔ اگر تو اس میں القاعدہ یا طالبان ملوث ہیں تو یہ معاشرے کو اکٹھا کرنے میں مددگار ہوگا جو ایک قومی ایک رہنما کے قتل پر غمگین ہے۔ دوسری صورت میں اگر قاتل پاکستانی معاشرے کے کسی ایک دھارے کا حصہ نکلے تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
041109_squashpakistan_sen
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2004/11/041109_squashpakistan_sen
پاکستان سکواش چیمپئن شپ
پاکستان اوپن سکواش چیمپئن شپ 4 سے 10 دسمبر تک اسلام آباد کے مصحف علی میر سکواش کمپلیکس میں منعقد ہوگی۔ پاکستان اوپن کا شمار دنیائے سکواش کے چند بڑے مقابلوں میں ہوتا ہے اس مرتبہ اس کی مجموعی انعامی رقم65 ہزار امریکی ڈالرز ہے۔
پاکستان اوپن کے سلسلے میں سکیورٹی کے خدشات کو رد کرتے ہوئے پاکستان اسکواش فیڈریشن کے سیکریٹری ونگ کمانڈر ذوالفقار احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ عالمی رینکنگ کے تمام کھلاڑی دوسال قبل پاکستان اوپن اور گزشتہ سال ورلڈ اوپن کھیلنے پاکستان آچکے ہیں اور اس بار بھی32 کھلاڑیوں کے ڈراز میں بڑے نام شامل ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اوپن چونکہ قطر میں ہونے والی ورلڈ اوپن کے اگلے ہی روز شروع ہوگی لہذا صف اول کے تمام ہی کھلاڑیوں کو پاکستان آ کر اس ایونٹ میں حصہ لینے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ دوسال قبل لاہور میں ہونے والی پاکستان اوپن کینیڈا کے جوناتھن پاور نے جیتی تھی جبکہ گزشتہ سال لاہور میں ورلڈ اوپن کے سبب اس کا انعقاد نہیں ہوسکا تھا۔ پاکستان سکواش فیڈریشن پاکستان اوپن کو اعلیٰ پیمانے پر منعقد کرنے کے لیے کوشاں ہے لیکن یہ بات قابل افسوس ہے کہ پاکستان کا کوئی کھلاڑی اب اس چیمپئن شپ کو جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ 1998ء میں امجد خان کی جیت کے بعد کوئی بھی پاکستانی کھلاڑی پاکستان اوپن کی اس شاندار روایت کو برقرار نہیں رکھ سکا ہے جو جہانگیرخان اور جان شیر خان کے دم سے قائم تھی۔
080511_pashtoon_thinktank_nj
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/05/080511_pashtoon_thinktank_nj
پشتونوں کا تھنک ٹینک
پشتون سرزمین پر بڑھتے ہوئے تشدد اور دیگر معاشی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کا سائنسی انداز میں جائزے لینے اور ان کے حل کے حوالے سے ٹھوس تجاویز سامنے لانے کے لیے پشتون دانشوروں، سول سوسائٹی اورصحافیوں پر مشتمل اپنی نوعیت کا پہلا ’خودمختار تھنک ٹینک‘ قائم کیا گیا ہے۔
آریانا انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل ریسرچ اینڈ ایڈوکیسی کے نام سے اس تھنک ٹینک کا قیام اتوار کو پشاور میں واقع باچا خان مرکز میں عمل میں لایا گیا ۔ تھنک ٹینک کے منتخب چیئر پرسن معروف دانشور اور افغان امور کے ماہر ڈاکٹر فضل رحیم مروت نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکہ پرگیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد پوری دنیا بالخصوص پاکستان اور افغانستان میں آباد پشتون سرزمین پر دہشت گردی کیخلاف شروع کی جانے والی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پشتونوں کو ہی پہنچا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان حالات میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ ایسا کوئی ادارہ موجود نہیں تھا جو پورے خطہ بالخصوص پشتونوں کو درپیش معاشی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی مسائل کا سائنسی انداز میں تجزیہ کر کے انکا کا کوئی قابل عمل حل تلاش کرسکے۔ لہٰذا بقول انکے تھنک ٹینک میں شامل افراد پشتون ہونے کے ناطے اس سلسلے میں مسائل کی نشاندہی اور انکے حل کے لیے بہتر انداز میں کام کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر فضل رحیم کے بقول اس تھنک ٹینک کا کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔انہوں نے مزید کہا کہ افتتاحی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ دو ماہ کے دوران خطہ میں بڑھتے ہوئے تشدد پر قابو پانے اور حالیہ بحران میں خوراک کے ضیاع اور اسے کنٹرول کرنے کے حوالے سے دو تحقیقی مقالے لکھے جائیں گے ۔ پشاور یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد پروفیسر ڈاکٹر منہاج کو تھنک ٹینک کا شریک چیئر پرسن اور بحریہ یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد اور مضمون نگار خادم حسین کو کوآرڈینیٹر منتخب کیا گیا ہے۔
041018_shrek_musical_as
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2004/10/041018_shrek_musical_as
’شریک‘ کا میوزیکل براڈوے پر
اینیمیٹڈ کلاسک کارٹون فلم ’شریک‘ کا میوزیکل براڈوے پر دکھایا جانے والا ہے جس کی پروڈکشن کی ذمہ داری آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ڈائریکٹر سام مینڈیز کو دی گئی ہے۔
جریدے اینٹرٹینمنٹ ویکلی کے مطابق مینڈیز 2001 میں بنائی جانے والی فلم کے سٹیج میوزیکل کے کری ایٹیو کنٹرول کی ٹیم کے انچارج ہوں گے۔ جیسن مور جنہیں ان کے پپٹ میوزیکل ’ایونیو کیو‘ کی بدولت ٹونی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا ’شریک‘ کے سٹیج میوزیکل کو ڈائریکٹ کریں گے۔ اس میوزیکل کو فلم سٹوڈیو ڈریم ورکس کی حمایت حاصل ہے جس نے شریک فلم بنائی تھی۔ ’شریک‘ اینیمیٹڈ فلموں میں سب سے کامیاب فلم ہے۔ اس کی کہانی میں ایک دیو کو ایک شہزادی کی محبت میں گرفتار ہوتے دکھایا گیا ہے۔ فلم کا دوسرا حصہ ’شریک ٹو‘ حال ہی میں ریلز کیا گیا تھا۔ ڈریم ورکس سٹوڈیو بھی چاہتا ہے کہ ڈزنی کے ’بیوٹی اینڈ دی بیسٹ‘ اور ’دی لائن کنگ‘ کے میوزیکلز کی طرح وہ بھی ’شریک‘ فلم کی کامیابی کے بعد میوزیکل کا بھی فائدہ اٹھائے۔
pakistan-55783744
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55783744
اسامہ ستی اور وقاص گجر: کیا مشرف دور کی اصلاحات 2021 میں ان ہلاکتوں کی وجہ بنیں؟
پاکستان کے دو مختلف شہروں میں گذشتہ دو ہفتوں کے دوران دو افراد پولیس کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں جس کے نتیجے میں پولیس کے بے قابو ہونے کا تاثر مزید گہرا ہوا ہے اور قومی سطح پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے جس کے اثرات حکومت پر بھی دکھائی دیتے ہیں۔
اسامہ ستی کو جنوری 2021 کے اوائل میں اسلام آباد میں پولیس نے ہلاک کر دیا تھا پولیس کے یوں بے قابو ہونے کی وجوہات کو جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں کی جانے والی جنرل تنویر حسین نقوی کی اصلاحات میں تلاش کیا جاسکتا ہے جو اختیارات کو انتہائی نچلی سطح پر منتقل کرنے کے نام پر کی گئیں، جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ عوام اور پولیس کے درمیان مصالحت کار کی حیثیت رکھنے والے عنصر یعنی ضلعی انتظامیہ کا وجود برقرار نہیں رہا، جس کے نتیجے میں تشدد کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کو انتظامی اعتبار سے دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں ادارہ تعمیر نو (نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو) کی اصلاحات سے پہلے اور دوسرا اس کے بعد۔ ادارہ تعمیر نو کے تحت کی جانے والی اصلاحات سے قبل پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں قیادت ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (ڈی ایم جی) کے ہاتھ میں تھی جس کے بارے میں عمومی اتفاق ہے کہ برصغیر کو یہ نظام مغل سلطنت سے ورثے میں ملا اور انگریز حکمرانوں نے اس میں مزید اصلاحات کر کے اسے مضبوط بنا دیا۔ اس نظام کی قوت کا راز اُن وسیع انتظامی اور عدالتی اختیارات میں پوشیدہ تھا جو ڈسٹرکٹ مینیجمنٹ گروپ میں مرتکز تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد لیفٹیننٹ جنرل تنویر حسین نقوی کی زیر قیادت قائم ہونے والے ادارہ تعمیر نو کو یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ اختیارات کو نچلی سطح تک پہنچانے کا منصوبہ تیار کرے تاکہ ملک کے انتظامی ڈھانچے کو زیادہ مؤثر اور تیز رفتار بنانے کے ساتھ ساتھ اس تک عوام کی آسان رسائی کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) تنویر حسین نقوی سنہ 2010 میں جیو نیوز کے ایک پروگرام میں نوکر شاہی میں اصلاحات ایک پرانا مطالبہ تھا اس لیے اس کام کو معاشرے میں وسیع پذیرائی حاصل ہوئی۔ پاکستانی بیوروکریسی میں انتہائی مقبول’شہاب نامہ‘ کے مصنف قدرت اللہ شہاب نے لکھا ہے کہ عوام کے ساتھ سول سروسز کے افسروں کا روۤیہ اتنا توہین آمیز تھا کہ اُس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے مشرقی پاکستان میں تعینات ایک افسر کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ سوتے وقت مچھروں سے بچنے کے لیے مچھر دانی کو ٹانکنے کے لیے بانس کی چھڑیوں کے بجائے انسانوں کو کھڑا کر لیا کرتے تھے۔ وزارت داخلہ پاکستان کے ایک سابق سیکریٹری شاہد خان کہتے ہیں کہ نو آبادیاتی نظام میں اس طرز عمل کو فروغ دینے کے مقاصد واضح تھے۔ غیر ملکی حکمران چاہتے تھے کہ اس کے انتظامی افسروں کا رعب داب مقامی آبادی کے خمیر میں داخل ہو جانا چاہیے تاکہ وہ ان کے سامنے سر اٹھانے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ اس مقصد کے لیے وہ چاہتے تھے کہ ان کی نفسیاتی کیفیات، عزت نفس حتیٰ کہ ضمیر تک کو کچل کر رکھ دیا جائے۔ ملک کے مختلف مکتبہ ہائے فکر حتیٰ کہ خود بیورو کریسی میں بھی اس امر پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھی سول انتظامیہ کا یہ کردار کسی نہ کسی طرح برقرار رہا جس سے عوام کے علاوہ سیاسی طبقات میں بے چینی پائی جاتی تھی اور وہ اس میں تبدیلی کے خواہش مند تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بیورو کریسی عوام کے علاوہ اہم سیاسی شخصیات حتیٰ کہ حکومت کی ذمہ دار شخصیات کو بھی خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ یہ بھی پڑھیے ’فیصلے پر عمل نہ بھی ہوا تو تاریخ بن جائے گا‘ ’ایس ایچ او نے کھڑے کھڑے میرے مرنے والے بھائی کو ڈکیت قرار دے دیا‘ جوڈیشل انکوائری رپورٹ: ’پولیس اہلکار اسامہ ستی کو ہر قیمت پر مارنا چاہتے تھے‘ فیصل آباد میں شہری کی ہلاکت: پاکستان میں پولیس گولی کی زباں میں ہی کیوں بات کرتی ہے؟ عوام اور سیاست دانوں کے علاوہ سماج میں کچھ مزید طبقات بھی موجود تھے جنھیں سول انتظامیہ کی اِس بالادستی سے اتفاق نہیں تھا۔ ان طبقات میں عدلیہ اور پولیس کے علاوہ فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی شامل تھی۔ عدلیہ کو شکایت یہ تھی کہ ضلعی انتظامیہ کو عدالتی اختیارات بھی حاصل ہیں جو اس کے دائرہ کار میں مداخلت کا درجہ رکھتے ہیں۔ عدلیہ چاہتی تھی کہ ضلعی انتظامیہ سے عدالتی اختیارات لے کر مکمل طور پر اس کے سپرد کر دیے جائیں۔ پولیس اس نظام کے تحت ڈپٹی کمشنرز کو رپورٹ کرتی تھی مگر وہ چاہتی تھی کہ اسے ضلعی انتظامیہ کی نگرانی سے نکال کر خود مختار بنا دیا جائے۔ اس نظام سے غیر مطمئن تیسرا اور سب سے اہم طبقہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کا تھا۔ اس کے عدم اطمینان کی کئی وجوہات تھیں۔ امن و امان کے علاوہ ریاستی زندگی کے بہت سے اہم معاملات کی انجام دہی میں بعض اوقات مختلف ریاستی اداروں کا کردار اہم ہو جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود اس طبقے کو ضلعی انتظامیہ کی بالادستی تسلیم کرنی پڑتی تھی اور ان ہی کے زیر صدارت اجلاسوں میں شرکت بھی کرنی پڑتی تھی۔ عدالتی اختیار رکھنے والے ضلعی انتظامیہ کے کچھ اہل کاروں کے ذاتی طرز عمل اور بعض اوقات ان کے منصب کی مجبوری نے بھی معاشرے کے دیگر طبقات خاص طور پر فوجی عہدے داروں میں اس کے لیے تکدر پیدا کیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب جنرل پرویز مشرف فوج کے سربراہ تھے۔ ان کی ملاقات کراچی کے ایک ساحلی ہوٹل بیچ لگژری کی لابی میں ضلع جنوبی کے ایک ڈپٹی کمشنر سے ہوئی۔ جنرل صاحب نے جو ڈپٹی کمشنر کو ذاتی طور پر جانتے تھے، ان کا نام لے کر کہا کہ تم آج کل کہاں ہوتے ہو؟ ڈپٹی کمشنر نے جواب میں انھیں جب یہ بتایا کہ آپ میری ذمہ داریوں کی حدود میں موجود ہیں تو جنرل صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ پھر تو تم سے ڈرنا چاہیے۔ سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں قومی تعمیرِ نو بیورو قائم کیا تھا تاکہ حکمرانی کے نظام کو بہتر بنایا جا سکے بظاہر یہ ایک بے ضرر سی خوش گوار بات چیت تھی لیکن اسی ملاقات میں موجود ایک اور ڈپٹی کمشنر کہتے ہیں کہ جنرل مشرف کا یہ جملہ در اصل ضلعی انتظامیہ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک طویل بد مزگی کی نشان دہی کرتا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ایسے مقدمات جن میں کسی نہ کسی وجہ سے کوئی فوجی ملوث ہوجاتا تھا، ان کی پیروی کے لیے بعض اوقات اعلیٰ فوجی افسروں کو بھی ضلعی انتظامیہ کے افسروں کی عدالتوں میں پیش ہونا پڑتا تھا۔ بعض مقدمات کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ انھیں چیمبر میں نمٹا دیا جائے لیکن اکثر دیکھا گیا کہ بعض افسران اس طرح کے مقدمات چیمبروں میں نمٹانے کے بجائے عدالت کے کٹہرے میں نمٹانا پسند کرتے جہاں اعلیٰ افسروں کو بھی کٹہرے میں کھڑے ہونا پڑتا۔ سول اور فوجی بیوروکریسی کے درمیان یہ ایک ایسی بدمزگی تھی جس کی تاریخ بہت طویل تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کو بیوروکریسی اور خاص طور پر ضلعی انتظامیہ کی تنظیم نو کی ذمہ داری سونپی تو اس کے اور خاص طور پر اس کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ تنویر حسین نقوی کے ذہن میں یہ سارا پس منظر موجود تھا اور یہ اصلاحات بھی اسی ذہن کی عکاسی کرتی ہیں۔ اصلاحات سے قبل نو آبادیاتی روایت کے مطابق ضلعی انتظامیہ کا تعلق اُس کی حدود میں آنے والے کم و بیش تمام محکموں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح ہوتا تھا اور اس کی یہ بالادستی قبول کی جاتی تھی۔ ضلعی انتظامی افسران اور سربراہان ان سرکاری اور ریاستی معاملات میں اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کن کردار کیا ادا کرتے تھے اور بعض اُن ریاستی ذمہ داران کا سامنا بھی آسانی کے ساتھ کر لیا کرتے تھے جن کے سامنے عمومی طور پر دیگر ادارے حتیٰ کہ سیاست دان بھی خاموشی اختیار کیا کرتے۔ ضلعی انتظامیہ کی اس اثر انگیزی کو اگرچہ بہت سے ریاستی عوامل میں دیکھا جاسکتا ہے لیکن چند معاملات ایسے ہیں جن کا عوام کی زندگی اور مفادات کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ اشیائے ضروریہ کے نرخوں کا تعین اور اس کی پابندی کروانا ان میں سب سے اہم تھا۔ اس مقصد کے لیے ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں پرائس کنٹرول کمیٹی بنا کرتی جس میں انتظامی افسروں کے علاوہ اہم سٹیک ہولڈرز یعنی تاجروں اور صارفین کے نمائندے شامل ہوا کرتے۔ یہ نظام اگرچہ اب بھی وجود رکھتا ہے لیکن اب مؤثر نہیں۔ تجاوزات کا خاتمہ اور عوامی مقامات پر قبضے کی روک تھام بھی ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داریوں کی حدود میں شامل تھا۔ ضلعی انتظامیہ اب بھی تجاوزات کے خاتمے کے لیے متحرک دکھائی دیتی ہے لیکن پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی کارکردگی کی طرح یہ بھی مؤثر نہیں رہی۔ ماضی میں یہ کارروائیاں اب کی نسبت اس لیے مؤثر رہا کرتی تھیں کہ کارروائی اور سزا کے اختیارات ایک ہی ادارے یعنی ضلعی انتظامیہ کے پاس تھے۔ اصلاحات کے بعد یہ کمیٹیاں اب بھی ڈپٹی کمشنر ہی کی نگرانی میں موجود ہیں لیکن کارروائی کا اختیار پولیس کے پاس چلا گیا ہے جو ضلعی انتظامیہ کو جواب دہ نہیں ہے اور سزا دینے کا اختیار عدلیہ کے پاس ہے جہاں سے آسانی کے ساتھ ضمانت ہو جاتی ہے۔ اس طرح عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کی وجہ سے ان کمیٹیوں کی اثر انگیزی محدود ہو گئی ہے۔ پاکستان میں گذشتہ دو دہائیوں کے دوران اشیائے خورد و نوش، خاص طور پر آٹے اور چینی کی کم یابی، ذخیرہ اندوزی کے رجحان میں اضافے اور قیمتوں پر کنٹرول میں انتظامیہ کی ناکامی کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ عوامی مفاد کا ایک اور اہم معاملہ جس میں ضلعی انتظامیہ کا کردار انتہائی مؤثر اور فیصلہ کن ہوتا تھا، اس کا تعلق امن و امان کی بحالی اور کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنا تھا۔ کچھ عرصہ قبل راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والے فیض آباد پل پر دھرنا دیا گیا تو پولیس اسے منتشر کرنے میں ناکام ہو گئی جس کے بعد وفاقی وزرا اور انتہائی اعلیٰ سطح کے دیگر عہدے دار متحرک ہوئے لیکن اس کے باوجود دھرنے کو منتشر کروانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دھرنے کی قیادت کا مؤقف سخت ہوتا چلا گیا اور پھر یہ دھرنا اس وقت ختم کروایا جاسکا جب فوج متحرک ہوئی اور اس نے اپنی ضمانت پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور دھرنے کی قیادت کے درمیان معاہدہ کروایا جس کے نتیجے میں حکومت کی رٹ تحلیل ہو کر رہ گئی اور ایک وفاقی وزیر زاہد حامد کو مستعفی بھی ہونا پڑا۔ سنہ 2018 میں فیض آباد پر مذہبی جماعت تحریکِ لبیک کے دھرنے کو فوج کی ثالثی کے ذریعے منتشر کیا گیا تھا اس دھرنے میں عسکری اداروں کے عمل دخل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تبصرے اپنی اہمیت رکھتے ہیں اور ملک کے قومی و سیاسی معاملات سے متعلق ایک علیحدہ اور مکمل موضوع ہیں لیکن اس طرح کے معاملات سے نمٹنے کا طویل تجربہ رکھنے والے بیوروکریٹس کا مؤقف ہے کہ اصلاحات سے قبل اس نوعیت کی ہنگامی صورت حال سے نمٹنا اتنا مشکل نہیں تھا جتنا مشکل آج ہو چکا ہے۔ ماضی میں ایسے واقعات سے نمٹنے کی کم سے کم سطح سب ڈویژنل مجسٹریٹ تھی اور زیادہ سے زیادہ ڈپٹی کمشنر۔ یہ لوگ موقع پر حالات کا جائزہ لے کر کوئی فیصلہ کرتے اور اس پر عمل درآمد ہو جاتا۔ اس نظام کی اثر انگیزی کا راز یہ تھا کہ پولیس موقع پر موجود ضلعی انتظامیہ کے حکم کی پابند ہوتی تھی لیکن اب صورت حال بالکل مختلف ہے۔ اب پولیس از خود کوئی فیصلہ کر کے اس پر عمل درآمد کر دیتی ہے۔ پولیس ایک طاقت تو ہے جو اپنے اختیار، تنظیمی قوت اور اسلحے کے استعمال سے کارروائی کر گزرتی ہے لیکن اس کے پس پشت وہ انتظامی تجربہ نہیں ہوتا جو عوام اور ہجوم کی نفسیات سے آگاہی کے باعث اس سے نمٹنے کی مؤثر طاقت رکھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات میں پولیس کی طرف سے طاقت کا استعمال بڑھ چکا ہے جس کے نتیجے میں کئی بڑے حادثات بھی رونما ہو چکے ہیں جس کی ایک تکلیف دہ مثال لاہور میں سنہ 2014 میں پاکستان عوامی تحریک کے مظاہرین کے خلاف ماڈل ٹاؤن میں کارروائی کی صورت میں سامنے آئی جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔ بڑے واقعات کے مقابلے میں انفرادی نوعیت کے واقعات کے پس پشت بھی ایسی وجوہات ہی کارفرما ہیں۔ اسلام آباد میں 22 برس کے نوجوان اسامہ ندیم ستی اور فیصل آباد میں وقاص گجر کی ہلاکتوں کو بھی اس پس منظر سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ موجودہ صورت حال میں پولیس اور عوام براہ راست آمنے سامنے آ چکے ہیں۔ انتظامی تجربہ رکھنے والے سینیئر بیورو کریٹس یقین رکھتے ہیں کہ اصلاحات سے قبل ضلعی انتظامیہ عوامی ہجوم اور پولیس کے درمیان مصالحت کنندہ کی حیثیت سے ’کُشن‘ کا کردار ادا کرتی تھی اور مؤثر اس لیے رہتی تھی کہ شہر کے تمام اہم افراد اور سیاسی و غیر سیاسی طبقات کا واسطہ مختلف چھوٹے بڑے کاموں اور مقدمات کی ضمانتوں کے سلسلے میں ان سے پڑتا رہتا تھا۔ اس کی وجہ سے یہ لوگ ضلعی انتظامیہ کا احترام کرتے اور جیسے ہی اس کے ذمہ داران کسی معاملے میں سامنے آتے، عام طور پر وہ مسئلہ آسانی کے ساتھ حل ہو جاتا۔ اصلاحات کے بعد ضلعی انتظامیہ کے عدالتی اختیارات جیسے ہی ختم ہوئے، اس کی اثر انگیزی محدود بلکہ حقیقی معنوں میں ختم ہو گئی۔ پاکستان میں حالیہ چند سالوں میں پولیس کے ہاتھوں نہتے اور بے گناہ افراد کی ہلاکتوں کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم نے فیض آباد دھرنے کے از خود نوٹس کیس کے فیصلے میں لکھا ہے کہ ان معاملات میں عسکری اداروں نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کر کے سیاسی معاملات میں مداخلت کی۔ کسی عدالتی فیصلے میں فوج کے اس نوعیت کے کردار کی نشان دہی ایک منفرد واقعہ ہے لیکن تاریخ میں ایسی مداخلت کی روایت موجود ہے۔ ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کے بارے میں گوہر ایوب نے لکھا ہے کہ یہ تحریک بے اندازہ مالی وسائل رکھتی تھی اور اسے یحییٰ خان کی سرپرستی حاصل تھی۔ بعض دیگر مصنفین نے بھی لکھا ہے کہ اس تحریک کو فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کی حمایت حاصل تھی جو ان ہنگاموں پر قابو پانے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیتے تھے۔ فیض آباد دھرنے سے نمٹنے کے سلسلے میں جنرل فیض حمید کا کردار ماضی کے اس کردار سے مختلف تھا۔ وہ حکومت اور مظاہرین کے درمیان مصالحت کنندہ کی حیثیت سے سامنے آئے۔ اس قسم کے بحرانوں سے نمٹنے والے بیوروکریٹس کے مطابق فوج کے اس کردار کی گنجائش اصلاحات کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ اس سے قبل چونکہ ضلعی انتظامیہ ایسے مواقع پر پورے اختیارات کے ساتھ موجود ہوا کرتی تھی، اس لیے کسی دوسری طاقت کے اس طرح متحرک ہونے کی گنجائش بالکل نہیں تھی۔ پنجاب کے ایک سابق چیف سیکریٹری کہتے ہیں کہ جن دنوں بیوروکریسی میں اصلاحات اور ضلعی انتظامیہ سے عدالتی اختیارات واپس لینے کے منصوبے پر غور جاری تھا، اس دوران اُن کا امریکا جانا ہوا۔ وہاں ایک اجلاس میں ایک اعلیٰ امریکی عہدے دار نے اُن سے سوال کیا کہ متبادل نظام وضع کیے بغیر ضلعی انتظامیہ کے اختیارات کی سلبی سے جو خلا پیدا ہو گا اور اس خلا کے نتیجے میں جو مسائل جنم لیں گے، کیا آپ لوگوں کو اس کا اندازہ ہے؟ ’یہ وہی مسائل ہیں جو آج منھ پھاڑے ہمیں نگلنے کو تیار دکھائی دیتے ہیں۔‘ سرد و گرم چشیدہ بیوروکریٹ نے دکھ کے ساتھ کہا۔
pakistan-57340275
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57340275
ماحولیات کا عالمی دن: وزیراعظم عمران خان کا ’10 بلین ٹری سونامی منصوبہ، پاکستان کے ماحول دوست اقدامات کا عالمی سطح پر ’اعتراف‘
پہلا منظر مٹیاری سندھ کا ہے۔۔۔ روزی سکینہ بروہی اپنی پودوں کی نرسری میں بہت خوش اور مگن ہیں۔
55 سال کی عمر میں وہ کوئی محنت طلب کام کرنے سے قاصر تھیں اور ایسے میں انھیں پودوں کی نرسری بنانے کا کام مل گیا۔ نرسری کے لیے وہ گھر کے پاس ہی موجود زمین استعمال کرتی ہیں۔ وہ چمکتی آنکھوں سے بتا رہی تھیں کہ بیج بھی سرکار کے لوگ دے جاتے ہیں، لگانے کا طریقہ بھی وہی بتاتے ہیں اور جب پودے بڑے ہو جاتے ہیں تو وہی لوگ خرید بھی لیتے ہیں اور انھیں صرف محنت کرنا ہوتی ہے۔ سکینہ خوش ہیں کہ انھیں گھر بیٹھے ایک معقول آمدن ہو رہی ہے۔ دوسرا منظر اسلام آباد کا ہے جو 5 جون کو پیش آ سکتا ہے۔۔۔ دلربا موسم، افق پر سرمئی بادل اور ہلکی ہلکی بوندا باندی اور عاشقان ماحول کا قافلہ مارگلہ پہاڑوں کی طرف رواں دواں ہے۔ اس قافلے کی سربراہی وزیراعظم پاکستان عمران خان کر رہے ہیں اور ان کے ہمراہ مشیر خصوصی برائے وزارت موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم بھی موجو دہیں۔ اس قافلے کی منزل مرگلہ سلسلہ کوہ میں مکھنیال نامی ایک چھوٹے سے گاﺅں کے قریب واقع جنگل ہے جہاں عالمی یوم ماحول کی تقریبات کا آغاز ایک پودا لگا کر کیا گیا۔ یہ بھی پڑھیے ’10 برس میں لاہور کے 70 فیصد درخت کٹے، نتیجہ تو آنا تھا‘ ’بائیڈن نے ایسے ملک کو کیوں نظر انداز کیا، جس نے بلین ٹری سونامی منصوبہ شروع کیا‘ شہد کی مکھیاں ’ایک سال میں آپ کا سرمایہ دگنا کر سکتی ہیں‘ یہ وہ ’ایک ارب واں‘ پودا ہے جس کے لگتے ہی پاکستان اپنے ’ٹین بلین ٹری سونامی منصوبے‘ کے پہلے ایک ارب درختوں کی شجر کاری کی تکمیل کا ہدف حاصل کر لے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے ایک ارب درختوں کے منصوبے کا پہلا پودا بھی یہیں لگایا گیا تھا۔ مٹیاری کی روزی سکینہ اگرچہ نہیں جانتی کہ وہ حکومت کے دس ارب درختوں کی شجرکاری کا حصہ ہیں لیکن وہ دن و رات نرسری میں پودے تیار کرنے میں مصروف ہیں اور صرف وہی نہیں بلکہ ان جیسی ہزاروں خواتین ملک کے مختلف حصوں میں نرسریاں بنا کر پودے تیار کر رہی ہیں۔ درخت لگانے کی اس مہم میں حکومت نے ہر صوبے میں نرسریاں قائم کرنے کے لیے نہ صرف لوگوں کو قرضے فراہم کیے بلکہ ان سے پودے خریدنے کی یقین دہانی سے متعلق معاہدے بھی کر رکھے ہیں۔ یوں بہت خاموشی سے روزگار کا ایک نیا اور غیر روایتی ذریعہ پروان چڑھ رہا ہے اور اس معاشی انجن سے ہزاروں خواتین کے گھروں کا چولہا جل رہا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اس وقت نرسریوں میں تین کروڑ پودے تیار ہیں جنھیں آنے والے چند مہینوں میں لگا دیا جائے گا۔ عالمی یوم ماحول دنیا بھر میں عالمی یوم ماحول 5 جون کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا فیصلہ سنہ 1972 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کیا گیا تھا اور دو سال بعد یعنی سنہ 1974 میں پہلی بار یہ دن عالمی سطح پر منانے کا آغاز ہوا۔ اس پہلے یوم ماحول کو ’صرف ایک ہی کرہ ارض‘ (Only One Earth) کے عنوان سے منایا گیا تھا۔ اس سال سنہ 2021 کے یوم ماحول کا عنوان ’ماحولیاتی نظاموں کی بحالی‘ (Ecosystem restoration) ہے۔ اسی دن اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی جانب سے اگلے دس برسوں کو ’ماحولیاتی نظام کی بحالی کی دہائی‘(Decade on Ecosystem Restoration 2021 - 2030) بھی قرار دیا جارہا ہے۔ جس میں کرہ ارض پر موجود مختلف ماحولیاتی نظاموں کی بحالی کے لیے کام کیا جائے گا اور امید کی جا رہی ہے کہ فطرت اور انسان کا رشتہ ازسرنو مضبوط اور پائیدار ہو سکے گا۔ ماہرین کے نزدیک اس سال کا یوم ماحول ایک خاص اہمیت کا حامل ہے بلکہ یہ پاکستان کے لیے ایک تاریخ ساز دن ہے کیونکہ اس سال اس دن کی میزبانی کا شرف پاکستان کو حاصل ہے۔ یہ دراصل پاکستان کے ماحول دوست اقدامات کا عالمی سطح پر اعتراف سمجھا جارہا ہے۔ موسمیاتی خطروں سے نبرد آزما ممالک میں شامل ہونے کے باوجود پاکستان مسلسل بہتری کی جانب گامزن ہے بلکہ کورونا وائرس کی وبا میں جب مضبوط معیشتیں منہ کے بل آ گریں، تو پاکستان نے نہ صرف اپنے منصوبے جاری رکھے بلکہ اس شعبے میں ہزاروں کی تعداد میں نئے روزگار کے مواقع بھی فراہم کیے اور پاکستان ایک عالمی رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ اربوں درختوں کی شجرکاری کرہ ارض پر بڑھتی حدت اور بگڑتے موسموں کے حوالے سے اگرچہ ہم کسی شمار قطار میں نہیں کہ ہماری مختصر معیشت گرین ہاﺅس گیسوں کی پیداوار میں بہت نیچے یعنی 135ویں نمبر پر ہے مگر شومئی قسمت کہ بگڑتے موسموں کے خطرات بھگتنے والے ممالک میں ہم پچھلے دس برسوں سے ٹاپ 10 میں موجود ہیں۔ جرمن واچ کی The Global Climate Risk Index کی سالانہ رپورٹ کے مطابق کلائمیٹ چینج کے خطرات بھگتنے والے ممالک میں اس بار ہمارا نمبر آٹھواں ہے اور سنہ 1998 سے 2018 یعنی ان بیس برسوں میں قدرتی آفات کے باعث 9,989 جانوں کا ضیاع اور 3.8 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہو چکا ہے۔ پاکستان کا منفرد محل وقوع اسے وسائل کی دولت سے مالامال تو کرتا ہے مگر ساتھ ہی خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ قدرت کی فیاضی نے ہمیں سمندر سے لے کر بلندوبالا شمال تک ہر قسم کے ماحولیاتی نظام سے نوازا ہے یعنی سمندر، ساحل، زرعی میدان، صحرا، دریا اور سات ہزار سے زائد گلیشیئرز۔ یہاں تین عظیم پہاڑی سلسلوں کوہ ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم کا سنگم بھی واقع ہے۔ یہ جغرافیائی تنوع ہماری دولت تو ہے لیکن ہمارے لیے خطرات کا سبب بھی ہے۔ ایک طرف گلیشیئرز پگھلنے اور گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے سے سیلاب کا خطرہ منڈلاتا ہے تو دوسری جانب خشک سالی کے سائے چھائے رہتے ہپں۔ سمندری طوفان اور سمندری کٹاﺅ جیسے خطرات بھی منہ کھولے آبادیوں کو نگلنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ پاکستان جیسی کمزور معیشت کے لیے ان خطرات سے نمٹنا اتنا آسان کام نہیں۔ ماحولیاتی ماہرین اور سائنس دانوں کے مطابق ان تمام مسائل کے پس منظر میں کہیں نہ کہیں جنگلات کی بے دریغ کٹائی بھی شامل ہے۔ شاید ہمیں ادراک نہیں کہ ہم اپنے ہاتھوں اپنے لیے جہنم خرید رہے ہیں۔ درختوں کی کٹائی سے پیدا ہونے والی چند بدترین مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے ’شاندار‘ فیصلوں کے باعث باغات کا شہر لاہور درختوں سے خالی ہو کر ’سموگ ٹریپ‘ کراچی ’ہیٹ ٹریپ‘ اور اسلام آباد ’پلوشن ٹریپ‘ بنتا جارہا ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو بہرحال یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے اپنے گرین ایجنڈے کے تحت بلین ٹری سونامی اور اب 10 بلین ٹری سونامی جیسے منصوبوں سے ملک بھر میں جنگلات اور شجرکاری کے حوالے سے عام آدمی کو نہ صرف شعور بخشا بلکہ اسے ان منصوبوں میں شامل بھی کر لیا۔ بین الاقوامی پذیرائی بلین ٹری سونامی یا ایک ارب درختوں کی شجرکاری کا آغاز خیبر پختونخوا حکومت نے سنہ 2014 میں کیا تھا۔ یہ ایک ارب درخت محکمہ جنگلات اور بنجر زمینوں کے 35,000 ہیکٹرز پر لگائے گئے۔ سابق ڈی آئی جی جنگلات عبدالمناف قائمخانی اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’آج سے سات برس قبل سنہ 2014 میں شروع ہونے والے علاقائی ’بلین ٹری سونامی‘ منصوبے نے دیکھتے ہی دیکھتے بڑی خاموشی کے ساتھ انقلاب برپا کر دیا۔ خیبر پختونخواہ سے شروع ہونے والے اس منصوبے کی بازگشت تھوڑے ہی عرصے میں نہ صرف ملک بھر میں سنائی دینے لگی بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ منصوبہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ’بون چیلینج،، عالمی بینک اور آئی یو سی این جیسے ماحولیاتی اداروں کے ایجنڈے کا اہم حصہ قرار دیا جانے لگا۔‘ ’آہستہ آہستہ اسلام آباد کے ڈپلومیٹک انکلیو کے غیر ملکی سفارتکاروں نے بھی اپنی توجہ اس جانب مبذول کر لی اور پھر اپنے مشاہداتی دوروں اور جائزوں پر مبنی تاثرات سے دنیا بھر کو آگاہی کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد عالمی نشریاتی ادارے بھی اس جانب متوجہ ہوئے اور اس طرح ایک ترقی پذیر ملک کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں اسے ایک اہم قدم سے تعبیر کیا جانے لگا۔‘ صوبائی سطح پر بلین ٹری سونامی منصوبے کی کامیاب تکمیل کے بعد جونہی پاکستان تحریک انصاف کو سنہ 2018 میں مرکزی حکومت سنبھالنے کی ذمہ داری ملی تو اس نے وزیراعظم عمران خان کی ذاتی دلچسپی کے سبب دس ارب درختوں کی سونامی (10 بلین ٹری سونامی) کا میگا پروجیکٹ کے تحت ملک بھر میں دس لاکھ ہیکٹرز پر مشتمل جنگلات کی بحالی، فروغ اور بڑے پیمانے پر شجرکاری کے ذریعے سبز ماحولیاتی انقلاب برپا کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ بظاہر یہ ایک مشکل ہدف کا تعاقب ہے لیکن گذشتہ دو برسوں میں تمام تر نامساعد حالات کے باوجود یہ منصوبہ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس عرصے کے دوران نہ صرف اقوام متحدہ اور ورلڈ اکنامک فورم جیسے اداروں نے پاکستان کے اس عزم کو دل کھول کر سراہا بلکہ کئی ایک دوسرے ممالک نے جن میں جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش اور سعودی عرب شامل ہیں، اس طرح کے منصوبے اپنے ممالک میں شروع کرنے کا اعلان کیا۔ موجودہ حکومت کے ڈھائی سال گزر چکے ہیں اور ابھی تک تقریباً ایک ارب درخت لگائے جا چکے ہیں، ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ آئندہ ڈھائی برسوں میں 9 ارب درخت لگائے جاسکیں؟ اس سوال کا جواب وزیراعظم کے مشیر خصوصی وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم اس طرح دیتے ہیں کہ ’ہمارا ہدف ان پانچ برسوں میں تین ارب درخت لگانا ہے جو ہم آسانی سے پورا کرلیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ اگلی حکومت بھی ہماری ہو گی اور ہم ان درختوں کی دعاﺅں سے یہ ہدف بھی پورا کرلیں گے۔‘ ماہر ماحولیات اور نباتات رفیع الحق کا کہنا ہے کہ ’اس پروگرام نے ملکی اور عالمی سطح پر اتنی توجہ اور اہمیت حاصل کر لی ہے کہ اگر آئندہ تحریک انصاف اقتدار میں نہ بھی آ سکی تو جو بھی حکومت ہو گی اس پر اس منصوبے کی تکمیل کا عالمی دباﺅ موجود ہو گا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر اس منصوبے کو ختم یا نظر انداز کرنا کسی بھی حکومت کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔‘ ’محفوظ علاقوں‘ کا نظام شجرکاری کے علاوہ بھی حکومت پاکستان نے دیگر ماحول دوست اقدامات کیے ہیں جن میں سر فہرست محفوظ علاقوں میں اضافہ ہے۔ اس وقت پاکستان میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے 398 علاقے موجود ہیں۔ ان میں سے 31 کو نیشنل پارک کا درجہ حاصل ہے جبکہ مزید 15 نیشنل پارک بنائے جانے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ اس طرح جنگلی حیات کے لیے مختص جگہ کا رقبہ سنہ 2023 تک پاکستان کے کل رقبے کا 15 فیصد ہو جائے گا۔ ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ نیشنل پارک کے نظم و نسق چلانے کے لیے زیارت بلوچستان میں ایک نیشنل پارک اکیڈمی بھی قائم کی جائے گی جہاں نوجوانوں کو خصوصی تربیت کے بعد نوکری دی جائے گی اور امید ہے اس سے کم از کم پانچ ہزار نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔ گرین اینرجی ماہر ماحولیات ڈاکٹر پرویز نعیم کے مطابق حکومت نے فوری طور پر کوئلہ جلانے والے 2600 میگا واٹ کے منصوبے ترک کر کے اس کی جگہ 3700 میگا واٹ پن بجلی کے نئے منصوبوں پر توجہ دی ہے اور ملک میں اب بجلی کے ایسے منصوبوں کو ترجیح دی جا رہی ہے جن میں تیل یا کوئلہ نہ جلتا ہو۔ ’کوشش کی جا رہی ہے کہ شمسی، آبی اور ہوا کی تونائی کو استعمال کر کے بجلی پیدا کی جائے۔ اس وقت پاکستان میں پیدا ہونے والی بجلی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ایسے ہی منصوبوں سے آتا ہے جہاں تیل یا کوئلہ نہیں جلایا جاتا۔ کوشش ہے کہ اسی دہائی میں دو تہائی بجلی بغیر تیل یا کوئلہ جلائے بنائی جا سکے۔‘ برقی گاڑیاں ڈاکٹر پرویز نعیم کے مطابق اس حکومت کا ایک اور ماحول دوست منصوبہ برقی گاڑیوں کا فروغ ہے۔ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں شہری آلودگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے برقی گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت برقی گاڑیوں پر ڈیوٹی اور ٹیکس برائے نام کر دیا ہے۔ اس حوالے سے خاصی پیشرفت دیکھنے میں آرہی ہے۔ جرمن کار کمپنی بی ایم ڈبلیو نے اپنا چارجنگ سٹیشن اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں قائم کردیا ہے۔ پی ایس او بھی جناح سپر مارکیٹ میں ایک اور چارجنگ سٹیشن بنانے جا رہا ہے۔ کراچی میں شیل اور کراچی الیکٹرک کی شراکت سے تین چارجنگ سٹیشن کا منصوبہ ہے جو ڈیفنس، گلشن اور گڈاپ کے علاقوں میں لگائے جائیں گے۔ اس وقت ملک میں کم از کم آدھی درجن کمپنیاں برقی گاڑیوں کے اسمبل پلانٹ لگا رہی جس سے ان گاڑیوں کی قیمت موجودہ پیٹرول پر چلنے والی گاڑیوں سے بھی کم ہو جائے گی۔ حکومت پر امید ہے کہ اس دہائی کے آخر تک پاکستان کی سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں میں 30 فیصد گاڑیاں برقی ہوں گی، جس کا تناسب اگلی دہائی میں 90 فیصد تک جا سکتا ہے۔ گرین ڈپلومیسی ملک امین اسلم کا کہنا ہے ان درختوں نے بہت سے بند دروازے کھولے ہیں اور گرین ڈپلومیٹ کا کردار ادا کیا ہے۔ ’حال ہی میں سعودی عرب سے ہمارے تعلقات کچھ سردمہری کا شکار تھے لیکن جب سعودی عرب نے اپنے ملک میں بلین ٹری منصوبے کا آغاز کیا تو وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھ کر دعوت دی اور انھوں نے وہاں کا دورہ کیا جس سے تعلقات بحال ہو گئے۔‘ ’دو ماہ پہلے ہونے والی کلائمیٹ سمٹ میں پہلے امریکا نے ہمیں دعوت نہیں دی تھی مگر ظاہر ہے ہمارے کام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا تو ہمیں دعوت دینی ہی پڑی۔ بلین ٹری کا لفظ پاکستان کی پہچان بن گیا ہے۔ سعودی عرب کے بعد برطانیہ اور نیوزی لینڈ بھی ایسے ہی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔‘
151103_fifa_investigations_hk
https://www.bbc.com/urdu/sport/2015/11/151103_fifa_investigations_hk
فیفا بدعنوانی: جوش ماریا مارن امریکی عدالت میں
گذشتہ برس برازیل میں فٹ بال کے عالمی کپ کے انتظامی امور کی سربراہی کرنے والے جوش ماریا مارن امریکی عدالت میں اپنے خلاف کرپشن کے الزمات کا سامنا کررہے ہیں تاہم انھوں نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔
فیفا بدعنوانی کیس میں گرفتار ہونے والے عہدےدار فیفا کے معاملے میں امریکہ کیوں آگے انکشافات کا طوفان آنے والا ہے ایک کڑور امریکی ڈالر کہاں گئے؟ زیورخ سے امریکہ منتقلی کے بعد وہ نیویارک کی عدالت میں پیش ہوئے۔ جہاں انھوں نے کہا کہ وہ بے قصور ہیں۔ جوش ماریا مارن فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کی گورننگ باڈی کے ان سات اہلکاروں میں شامل ہیں جنھیںرواں سال مئی میں سویٹزرلینڈ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ جوش ماریا مارن سنہ 2014 کے عالمی کپ کے منتظمین میں شامل تھے۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے امریکہ اور برازیل میں کھیلوں کی کمپنیوں کے ساتھ رابطوں میں لاکھوں ڈالر رشوت لی۔ اگر ان پر یہ الزامات ثابت ہوئے تو انھیں 20 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ فیفا کے79 سالہ صدر بلیٹر سنہ 1998 سے فیفا کے انتظامات سنبھالے ہوئے ہیں اور ہمیشہ ہی کسی بھی قسم کے ناجائز اقدامات سے انکار کرتے آئے ہیں۔ تاہم ان کے خلاف بھی سوئس حکام کی جانب سے تحقیقات کا آغاز دو ماہ قبل ہوا۔
pakistan-53011866
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53011866
اقتصادی سروے: مالی سال 20-2019 میں جی ڈی پی کی شرح نمو منفی 0.4 فیصد رہی، تین ہزار ارب کا نقصان پہنچا
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کورونا کی وبا سے قبل معاشی ترقی کی شرح تین فیصد سے بڑھنے کی امید تھی تاہم مالی سال 20-2019 میں جی ڈی پی کی شرح نمو منفی 0.4 فیصد رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 2.67 فیصد رہی جبکہ صنعتی شعبہ متاثر ہوا اور اس میں ترقی کی شرح منفی 2.64 رہی ہے جبکہ خدمات کے شعبے میں یہ شرح منفی 3.4 فیصد ہے۔ اسلام آباد میں اقتصادی مالی سروے 20-2019 پیش کرتے ہوئےمشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کو معاشی بحران ورثے میں ملا۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کورونا کی وبا کے بارے مں کوئی بھی چیز یقین سے کہنا مشکل ہے کیونکہ دنیا اس پر مختلف طریقوں سے اندازے لگارہی ہے کہ کس چیز پر کتنا اثر ہوا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پورے ملک کی آمدنی 0.4 فیصد کم ہوگئی حالانکہ ہم سمجھ رہے تھے کہ آمدنی 3 فیصد بڑھے گی، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں قومی آمدن میں 3 سے ساڑھے 3 فیصد نقصان دیکھنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جی ڈی پی کا اندازہ لگایا گیا کہ جس میں تقریباً تین ہزار ارب کا نقصان پہنچا ہے۔ یہ بھی پڑھیے ’حفیظ شیخ عمران کا نہیں کسی اور کا انتخاب ہیں‘ سبسڈی: غریب کی مدد یا کرسی بچاؤ مہم؟ ’کفایت شعاری کے معاملے میں حکومت اور فوج ساتھ کھڑے ہیں‘ اہم عہدوں پر بدلتے چہرے، سرمایہ کاری کیسے ہو گی؟ انھوں نے کہا کہ ہمیں امید تھی کے ایف بی آر کی ٹیکس محصولات اگر اسی رفتار سے چلتے رہے تو 4ہزار 700ارب تک پہنچ سکتی تھی لیکن وہ اب 3ہزار 900 تک بمشکل پہنچ رہی ہے اس طرح ایف بی آر کوٹیکس محصولات کی مد میں 850 سے 900 ارب کا نقصان ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ برآمدات کی شرح صفر رہی جبکہ گذشتہ دورحکومت کے آخری دو برسوں میں غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 16-17 سے گر کر 9 کے قریب پہنچ گئے تھے۔ اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے مشیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی پیش گوئی ہے کہ کورونا وائرس کے باعث دنیا کی آمدن میں تین سے چار فیصد کمی آئے گی، اس سے خصوصی طور پر ترقی پذیر ممالک متاثر ہوں گے کیونکہ ان کی برآمدات بھی متاثر ہوں گی۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اس سے پاکستان کی ترسیلات زر بھی متاثر ہوں گی کیونکہ جو لوگ خلیجی ممالک، امریکا اور برطانیہ میں کام کرتے ہیں، ان کی آمدنی کم ہو گی، یا وہ بیروزگار ہوں گے تو ہمارے پاس کم پیسے آئیں گے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ نے کہا کہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹرانسپورٹ، ریلوے اور ایئر ٹرانسپورٹ بند رہی تو اس میں منفی ترقی ہوئی اور یہ شرح منفی 7.1 ہے۔ مشیر خزانہ کا کہ ڈالر سستا ہونے کے باعث ملک میں درآمدات کا حجم برآمدات سے دگنا ہوگیا جس کا اثر ملک کے پاس ڈالر ختم ہونے کی صورت سامنے آیا اور ملک کے قرضہ 25ہزار ارب روپے تک بڑھ گیا۔ انھوں کا کہا کہ 'اگر قرض اور واجبات کو بھی ملایا جائے تو ہمارا قرضہ تقریباً 30ہزار ارب یا 30 کھرب روپے بن چکا تھا۔' ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس میں ہم بیرونی اکاؤنٹ میں ڈیفالٹ کی جانب دیکھ رہے تھے، ہمارے اخراجات آمدن سے کافی زیادہ تھے۔ معیشت کو سنبھالنے میں حکومتی کوشش پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں حکومت نے کافی کوششں کی اور کچھ ممالک سے قرض اور مؤخر شدہ ادائیگیوں پر تیل حاصل کیا اور اس کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے 6 ارب ڈالر کا پروگرام بھی طے کیا۔ عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے ٹیکسز کو بہتر کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے اپنے کاروباروں کو مراعات دینے کے لیے کاروباری شعبے کے لیے گیس، بجلی، قرضے یہ تمام چیزیں حکومت نے اپنی جیب سے پیسے دے کر سستے کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ماضی کے قرضوں کے بوجھ کوواپس کرنے کے لیے قرضے لیے اور ماضی کے قرضوں کی مد میں 5 ہزار ارب روپے واپس کیے ہیں۔ انھوں نے کہا اس ضمن میں حکومت نے نہ صرف گذشتہ دور حکومت میں معیشت کو درپیش خطرات کو کم کیا بلکہ 20 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرکے 3 ارب ڈالر تک لے آئی۔ مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ پہلے سال اور خصوصی طور پر رواں برس کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 73فیصد کمی کی گئی۔ 'اخراجات آمدن سے کم کیے' ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ 'حکومت نے تیسری اہم چیز جو اس برس کی وہ یہ کہ اس سال بہت سخت انداز میں حکومتی اخراجات کو کنٹرول کیا گیا اور یہ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں کبھی ہوا ہو کہ کسی حکومت نے پرائمری بیلنس قائم کیا ہو، یعنی حکومتی اخراجات، آمدن سے کم ہوگئے جس سے پرائمری بیلنس سرپلس ہوگیا۔' مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 'میں اس کے لیے فنانس سیکریٹری اور وزارت خزانہ کی پوری یم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیر اعظم نے اس شعبے میں قیادت دکھائی اور جنرل باجوہ کا بھی شکر گزار ہوں کہ ہم نےفوج کے بجٹ کو منجمد کیا۔' 'سٹیٹ بینک سے قرض نہیں لیا' ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ حکومت کا ایک معاشی فلسفہ یہ تھا کہ ہم حکومت کے اخراجات کم کر کے عوام کے لیے جتنے زیادہ پیسے ہوں وہ دیں لہذا ہم نے پورا سال سٹیٹ بینک آف پاکستان سے ایک ٹکا بھی قرض نہیں لیا۔' ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ 'ہم نے پوراسال کسی بھی ادارے ، حکومتی وزارت کو ٹکا بھی اضافی گرانٹ نہیں دی کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ پاکستان کے عوام کے پیسے کو بہت احتیاط سے خرچ کیا جائے۔' مشیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کی کوشش تھی کہ عوام کو بنیادی سہولیات دی جائیں، ان کے لیے انفراسٹریکچر یعنی سڑکیں، پل، ہسپتال بنائیں اور جتنا ممکن ہو بیرونی اشیا اور دنیا پر انحصار کم کریں۔ حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ حکومت نے ٹیکسز میں بہت اچھی کامیابی حاصل کی اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پہلے ٹیکسز میں 17فیصد اضافہ ہوا۔ 'ہم نے درآمدات میں کمی کی تاکہ ڈالر کو بچائیں تو درآمدات کی کمی کی وجہ سے ٹیکس ریونیو میں بھی کمی ہوئی ورنہ ٹیکسز بڑھنے کی رفتار ایف بی آر میں تقریباً 27فیصد جا رہی تھی۔' ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت کی پانچویں اور شاید ایک بہت بڑی کامیابی یہ رہی کہ وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے کہ ہر چیز کا محور پاکستان کے عوام ہیں اور وہ عوام جو کمزور طبقے سے ہیں، جنھیں بھلادیا گیا ہے اور جن کے لیے ماضی میں بہت کم کام کیا گیا۔ 'سماجی تحفظ کا بجٹ دگنا کیا' انھوں نے کہا کہ حکومت نے کم بجٹ کے باوجود ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی وزارت سماجی تحفظ کا احساس بجٹ دگنا کیا اور اسے تقریباً 100 ارب سے 192 ارب روپے کردیا گیا اور یہ رقم ایسے سوشل سیفی نیٹس کے لیے رکھی کہ عام آدمی تک یہ پیسے اچھے انداز میں پہنچائے جائیں اور اس طریقے سے پہنچائے جائیں کہ ساری دنیا دیکھے کہ اس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ احساس پروگرام میں کوئی علاقائی مداخلت یا تعصب نہیں، کوئی مذہبی تفریق بھی نہیں اور اس کی ترجیح پاکستان کے وہ لوگ ہیں جو غریب یا کم آمدنی والے لوگ ہیں، اسی جذبے کی بنیاد پر ہمارے قبائلی علاقوں کے ضم شدہ اضلاع تھے ان کے لیے بھی 152ارب روپے رکھے گئے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ملک کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں حکومت کی جانب سے 701 ارب روپے اور نجی شعبے سے منصوبے کے لیے 250 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا۔ دوسری جانب حکومتی آمدنی بڑھانے کے لیے جو نان ٹیکس ریونیو ہیں جو بجٹ میں ایک ہزار ایک سو ارب تھے، اس کو حکومت نے سرپاس کیا اور وہ بڑھ ایک ہزار 600 ارب کی سطح تک پہنچے۔ کورونا کی وبا اور حکومتی پیکجز مشیر خزانہ عبدلحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے پہلے ہی فیصلہ کیا تھا کہ ہم نے معیشت کو کورونا وائرس سے اچھے انداز میں بچانا ہے اور اپنے لوگوں کوبچانا ہے اور اس کے لیے دو طرح کے پیکج دیے گئے۔ مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ایک ہزار 240ارب روپے کا ایک پیکج دیا گیا اور دوسری جانب سٹیٹ بینک کو سبسڈیز بھی دی گئیں، ان کے ذریعے مختلف پروگراموں پر عملدرآمد کرایا گیا تاکہ لوگوں خصوصاً چھوٹی کاروباری کمپنیوں کو پیسے میسر ہوں تاکہ وہ اپنے ملازمین کو برطرف نہ کریں۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ ان پیکجز کے تحت ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں کو رقم دینے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ ان کا کاروبار زندگی بھی چلے وہ معاشی طور پر تباہ نہ ہوں انہوں نے کہا کہ حکومت نے 280 ارب روپے کی گندم خریدی اور کسانوں اور زراعت کے شعبے میں روپے پہنچائے ، یہ ہر سال حکومت کی پالیسی ضرور ہے لیکن اس سال اس تعداد کو پچھلے سال کے مقابلے میں دگنا کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کارخانوں اور انٹرپرائزز کے بجلی کے 3 ماہ کے بل حکومت ادا کرے گی تاکہ ان کے کاروبار کی بحالی میں مدد کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ زراعت کے شعبے میں 50 ارب روپے کی اسکیمز لائے تاکہ ویاں کھاد کی قیمتیں کم ہوں اور ٹڈی دل کا مقابلہ کیا جا سکے اور کسانوں کومراعات دی جا سکیں۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ یوٹیلٹی اسٹورز کو یہ سہولت دی گئی کہ وہ 50 لاکھ کے بجائے ایک کروڑ دکانوں تک اور یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے گئے۔ انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان کے کا ویژن کے مطابق کم آمدن والے افراد کو گھر بنانے میں مدد کی جائے اور اس کے لیے 30ارب روپے رکھے گئے ہیں تاکہ وہ خود ایک گھر کے مالک بن سکیں اور اس میں ٹیکسز کی چھوٹ بھی دی گئی۔ وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ نے کہا کہ تعمیراتی صنعت کے لیے ایک پیکج دیا گیا جس میں فکس ٹیکس کی بنیاد پر ٹیکسز دیے گئے تاکہ ایف بی آر کی طرف سے ہراساں نا کیا جاسکےاور ٹیکسز کی شرح کو بھی کافی حد تک کم کیا گیا۔
040118_advanimushspeech_ua
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/01/040118_advanimushspeech_ua
مشرف کا جہاد، اڈوانی کا خیرمقدم
بھارت کے نائب وزیراعظم لال کرشن اڈوانی نے پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کے ’دہشت گردی کے خلاف جہاد‘ کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
صدر مشرف نے گزشتہ روز ایوان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جہاد کی ضرورت ہے۔ اڈوانی نے ریاست ہریانہ میں ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ جنرل مشرف کا یہ بیان خطے میں دہشتگردی کو روکنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ سارک سربراہ اجلاس کے دوران پاکستان پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشتگردی کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ کانفرنس میں مشترکہ اعلامیہ پاک بھارت کوششوں کا نتیجہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف بھارتی جدوجہد کو پہلے ہی عالمی سطح پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔
regional-50819022
https://www.bbc.com/urdu/regional-50819022
انڈیا میں مظاہرین پر تشدد، خواتین سے بدسلوکی کے الزامات پولیس کے لیے ’معمول کی بات‘ کیوں بنتے جا رہے ہیں؟
انڈیا میں شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں ملک بھر میں پرتشدد واقعات سامنے آئے ہیں جن میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور اطلاعات کے مطابق تقریباً ایک ہزار سے زیادہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
دہلی میں ہونے والے مظاہروں میں پولیس پر خواتین کے ساتھ غیر ضروری طاقت کے استعمال کے الزامات سامنے آئے ہیں سب سے زیادہ ہلاکتیں دہلی سے ملحق انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں ہوئی ہیں جہاں انڈین ایکسپریس کے مطابق 16 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ اترپردیش کے پولیس سربراہ او پی سنگھ نے خبر رساں ادارے اے این آئی سے بات کرتے ہوئے 15 افراد کے مرنے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ 879 افراد کو حراست میں لیا گيا ہے جبکہ مظاہروں میں 288 پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی بات بھی کہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے مظاہرین کے خلاف پولیس کا کردار جابرانہ رہا ہے جبکہ اترپردیش پولیس کے سربراہ اوم پرکاش سنگھ کا کہنا ہے کہ پولیس نے ضبط سے کام لیا ہے اور مظاہرین کے خلاف گولی نہیں چلائی ہے لیکن سوشل میڈیا پر آنے والی تصاویر میں پولیس کو گولی چلاتے اور پستول لہراتے دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب انڈین ایکسپریس سے ایک سینیئر پولیس افسر نے کہا کہ ریاست میں مرنے والے 16 افراد میں سے 14 لوگوں کی موت گولی لگنے سے ہوئی ہے۔ باقی دو افراد میں ایک کی موت فیروزآباد میں سر پر چوٹ لگنے سے ہوئی اور وارانسی میں پولیس کے ایکشن کے نتیجے میں ہونے والی بھگدڑ کے نتیجے میں آٹھ سالہ بچے محمد صغیر کی موت واقع ہوئی ہے۔ یہ بھی پڑھیے شہریت کے قانون کے خلاف مظاہروں کا دائرہ وسیع شہریت کا متنازع ترمیمی بل، انڈیا بھر میں مظاہرے دہلی: اکھڑے ڈیوائیڈر، ٹوٹی اینٹیں اور جلی ہوئی بسیں دلی: پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر احتجاج کے بعد 50 طلبہ رہا ’جن لوگوں کی باتوں سے فرق پڑ سکتا ہے وہ خاموش ہیں‘ گولی لگنے سے ہلاک ہونے والوں میں لکھنؤ سے محمد وکیل (32 سال)، کانپور سے آفتاب عالم (22) اور محمد سیف (25)، بجنور سے انس (21) اور سلیمان (35)، سنبھل سے بلال (24) اور محمد شہروز (23)، میرٹھ سے ظہیر (33)، آصف (20) اور عارف (20)، فیروز آباد سے نبی جہاں (24) اور رام پور سے 24 سالہ فیض خان شامل ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ مرنے والوں کے لواحقین کا کہنا ہے کہ ان کی موت پولیس کی گولی سے ہوئی ہے جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ گولیاں مظاہرین کی جانب سے چلائی گئی تھیں۔ واراناسی میں ہونے والے احتجاج میں پولیس اہلکار مظاہرین کو پیٹ رہے ہیں جبکہ گذشتہ روز انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے دہلی کے تاریخی رام لیلا میدان میں خطاب کرتے ہوئے پولیس کے خلاف پتھراؤ کی مذمت کی ہے اور کہا کہ سنہ 1947 میں آزادی کے بعد سے اب تک اپنے خدمات انجام کی انجام دہی کے دوران 33 ہزار پولیس اہلکار 'شہید' ہو گئے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ شہریت کا ترمیمی قانون کسی بھی مسلمان کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی ملک میں کوئی 'ڈیٹنشن سینٹر' یعنی حراستی مرکز ہے اور یہ کہ ملک میں این آر سی لانے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس کے بعد سے سوشل میڈیا پر 'میرا پی ایم جھوٹا ہے' ٹرینڈ کر رہا ہے۔ پول کھول نامی ایک صارف نے لکھا: 'امت شاہ: ہم این آر سی لائیں گے۔ راج ناتھ: ہم این آر سی لائیں گے۔ جے پی نڈا: ہم این آرسی لائیں گے۔ بی جے پی منشور: ہم این آر سی لائیں گے۔ دریں اثنا مودی: ہماری حکومت کے میں این آر سی کے متعلق نہ کوئی منصوبہ ہے نہ بات ہو رہی ہے۔ جھوٹ بولنے کی بھی حد ہوتی ہے' تمیزہاچی نامی ایک صارف نے وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کے بیانات کے ساتھ لکھا ہے کہ 'اگر آپ انھیں قائل نہیں کر سکتے تو انھیں کنفیوژ کر دیں۔' وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ملک میں کہیں ڈیٹنشن سینٹر نہیں ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ نہ صرف آسام میں بلکہ ملک میں دوسری جگہ بھی حراستی مراکز ہیں اور اس کا ذکر پارلیمان میں کانگریس کے رہنماؤں نے بھی کیا ہے۔ گذشتہ روز وزیراعظم مودی نے اس بات کی تردید کی کہ ملک میں کوئی حراستی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ تاہم شمال مشرقی ریاست آسام کے گوالپاڑہ ضلعے میں جب یہ حراستی کیمپ تیار کیا جا رہا تھا تو بی بی سی کے نمائندے نے وہاں کا دورہ کیا تھا خواتین سے بدسلوکی کی ویڈیوز گذشتہ ہفتے اتوار کو دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں اور پھر اترپردیش میں واقع علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہونے والی پولیس کارروائیوں پر بین الاقوامی سطح پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ علی گڑھ کے معروف مورخ عرفان حبیب کا کہنا ہے کہ پولیس کے مظالم انگریزی راج سے بھی بدتر نظر آئے۔ انھوں نے کہا کہ انگریزوں کے دور میں بھی پولیس کیمپس میں داخل ہونے سے باز رہی تھی لیکن حال ہی میں پولیس نے کیمپس میں داخل ہو کر جبرو ظلم کیا ہے۔ میڈیا میں آنے والے ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح پولیس نے گھروں میں گھس کر خواتین کو ہراساں کیا ہے۔ بی بی سی کے صحافی سمیر آتماج نے کانپور سے رپورٹ کرتے ہوئے کہا کہ خواتین نے پولیس کے گھروں میں گھسنے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے کے الزامات لگائے ہیں۔ انڈیا میں شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں ملک بھر میں پرتشدد واقعات سامنے آئے ہیں جن میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور ملک بھر میں ایک ہزار سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ دلی پولیس پر تشدد کے حالیہ الزامات دلی میں یہ پہلا واقعہ نہیں جس میں پولیس پر سنگین الزامات لگے ہوں۔ اس سے قبل جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ نے پولیس پر الزام عائد کیا تھا کہ احتجاج کے دوران پولیس نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی تھی۔ اس سے قبل نومبر میں دلی پولیس اور وکیلوں کے درمیان ہونے والی پرتشدد جھڑپیں سرخیوں میں رہیں، جس کے بعد پولیس اہلکاروں نے اس واقعے کے خلاف پولیس ہیڈ کوارٹر کے سامنے مظاہرہ بھی کیا تھا۔ پولیس پر طنز کرتے ہوئے کئی سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ پولیس والے وکیلوں سے پٹ جاتے ہیں لیکن جے این یو کے طلبہ پر لاٹھیاں برسانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ یہ واقعات پولیس کی کارگردگی، ان کی تربیت اور ان سے منسلک چند دیگر امور پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ ان سوالات میں پولیس کی جوابدہی اور ان کے کام کرنے کے طریقے پر مبینہ سیاسی اثرات بھی شامل ہیں۔ اس سلسلے میں بی بی سی ہندی کے سندیپ سونی نے انڈین پولیس سروس کے دو سینیئر افسران، اترپردیش کے سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس پرکاش سنگھ اور اروناچل پردیش پولیس کے سابق ڈائریکٹر جنرل امود کنٹھ سے بات کی۔ ’پولیس سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہونی چاہیے‘ پرکاش سنگھ نے بتایا 'پولیس میں کئی قسم کی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے پولیس فورس کے سامنے بہت سے چیلنجز اور ذمہ داریاں ہیں۔ امن و امان اور تفتیش کے کام کو الگ الگ کرنا پڑے گا۔‘ ان کے مطابق ’پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس کے احتساب کے لیے پولیس میں شکایات اتھارٹی تشکیل دینا ہوگی۔‘ انھوں نے مزید کہا ’سپریم کورٹ نے ہر ریاست میں سکیورٹی کمیشن بنانے کے لیے رہنما خطوط جاری کیے تھے۔ اس میں عوام کے نمائندے، انسانی حقوق کے کارکنان، عدالتی نظام سے وابستہ افراد اور حکومت کے نمائندوں کو شامل کیے جانے کی بات کہی گئی تھی لیکن اس سمت میں کوئی ٹھوس کام نہیں ہوا۔‘ اترپردیش کے سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس کا کہنا تھا 'پولیس کی تربیت میں بہت کمی ہے۔ کچھ ریاستوں کو چھوڑ کر بیشتر ریاستوں میں پولیس کی تربیت پرانے طرز پر کی جارہی ہے۔ ٹریننگ مراکز میں اکثر ایسے افسران بھیجے جاتے ہیں جن کو حکومت پسند نہیں کرتی ہے اور وہ مایوسی کے عالم میں تربیت دیتے ہیں۔ ایسے افسران پولیس فورس کی نئی نسل کے لیے رول ماڈل نہیں بن سکتے۔‘ انھوں نے بتایا ’حالیہ واقعات کی تصاویر ناقص تربیت کی عکاس ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ پولیس کا کام کتنا ہی معقول اور انصاف پسند کیوں نہ ہو انھیں وکیلوں کے سامنے منھ کی کھانی پڑتی ہے۔ وکیل سیاستدانوں اور عدلیہ دونوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور پولیس درمیان میں پھنس جاتی ہے۔‘ پرکاش سنگھ نے جامعہ میں ہونے والے واقعے کے حوالے سے کہا ’طلبہ پر پولیس ایکشن کی جو ویڈیوز سامنے آئی ہیں وہ بھی پولیس کی ناقص تربیت کا نتیجہ ہیں۔ پولیس کے کام کرنے کے طریقے کو کسی جادو کی چھڑی سے فوری طور پر بہتر نہیں کیا جاسکتا۔‘ انھوں نے پولیس کی پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا 'وسائل کی کمی، افرادی قوت کی کمی، تمام تر مشکلات کے باوجود اگر پولیس اچھی تربیت کے ساتھ ایمانداری کے ساتھ کام کرے گی تو عوام آہستہ آہستہ پولیس کے مسائل کو سمجھے گی۔ عوام پولیس سے اتنی غیر مطمئن نہیں جتنا میڈیا میں کچھ واقعات کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔' بھیڑ کی نفسیات دوسری جانب امود کنٹھ نے کہا کہ 'دلی پولیس متعدد بار بھیڑ کو قابو کرنے اور پرتشدد مظاہروں سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔ سنہ 1984 کے فسادات اور اس کے بعد ہونے والے بہت سے واقعات اس کا ثبوت ہیں تاہم دلی پولیس کی تربیت ٹھیک ہے اور اسے اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کے مواقع ملتے رہے ہیں۔ 'پرتشدد مظاہروں سے نمٹنے کے لیے صحیح طریقے سے تیاری کرنے، درست حکمت عملی تیار کرنے اور لوگوں سے تعلقات بنانے کے لیے ہر وقت بہتری کی ضرورت ہے۔ لوگوں میں جذبات امڈ رہے ہیں۔ مظاہرے پرتشدد ہو رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں پولیس کے پاس بہت سے آپشنز نہیں ہیں‘۔ انھوں نے مزید کہا ’اگر پولیس کسی کو پیٹ رہی ہے یا ڈنڈے مار رہی ہے اور وہ تصویر یا ویڈیو وائرل ہوگئی ہے تو ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس تصویر یا ویڈیو کے آس پاس کے حالات کیا تھے، تصویر کا وہ حصہ سامنے نہیں آتا ہے۔ ہمیں وہ صورتحال نظر نہیں آتی جس سے پولیس گزر رہی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے 'تصویر یا ویڈیو میں وہی نظر آتا ہے جس میں انسانی پہلو ہوتا ہے لیکن صحیح معنوں میں پوری تصویر اسی وقت معلوم ہوتی ہے جب تحقیقات مکمل ہو جاتی ہیں‘۔ اروناچل پردیش پولیس کے سابق ڈائریکٹر جنرل امود کنٹھ ’پولیس کی تربیت کو بہتر بنانے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تمام چیزوں کے باوجود تربیت کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ بھیڑ پر قابو پانا بہت مشکل ہوتا ہے، بھیڑ کی مختلف نفسیات ہے۔ اس میں فارمولے زیادہ کارگر نہیں ہوتے۔‘ انھوں نے کہا کہ 'پولیس میں بنیادی اصلاحات کی بات کی جاتی رہی ہے لیکن ملک کے بیشتر حصوں میں یہ کام نہیں ہوا۔ پولیس میں اصلاحات نہیں ہوسکیں۔ سنہ 1861 کا پولیس ایکٹ پرانا ہو چکا ہے لیکن پولیس اب بھی اسی کے مطابق کام کر رہی ہے۔ ’پولیس کو خود مختار اور جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے۔ امن و امان قائم کرنا یا تفتیش ہو، پولیس کو ہر طرح کے دباؤ سے آزاد کرنا ہوگا۔ پولیس کا احتساب کسی رہنما کی طرف سے نہیں بلکہ 'قانون' کے دائرے میں ہونا چاہیے۔‘
regional-54099504
https://www.bbc.com/urdu/regional-54099504
انڈیا، چین سرحدی تنازع: مودی حکومت کے لیے ایران اچانک اتنا اہم کیوں ہو گیا؟
ایران کا مطلب ہے آریائی سرزمین اور وہ خطہ جو اب انڈیا کہلاتا ہے، زمانہِ قدیم میں آریاورتا کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔
اسلامی ملک بننے سے پہلے ایران میں زرتشت مذہب کا بول بالا تھا لیکن اب یہاں پر چند ہی پارسی رہ گئے ہیں۔ اسلام کے عروج کے بعد وہاں کے کچھ پارسی نقل مکانی کر کے انڈیا چلے گئے جہاں اکثریت نے گجرات میں رہائش اختیار کی اور دیگر پارسیوں نے مغربی ممالک کا رخ کیا۔ ایران میں اکثریت شیعہ مسلمانوں کی ہے اور کہا جاتا ہے کہ دنیا میں ایران کے بعد انڈیا میں شیعہ مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔ اگر برصغیر کی تقسیم نہ ہوتی تو ایران کے ساتھ پاکستان کی نہیں، انڈیا کی سرحد ہوتی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ آٹھ ستمبر کو انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر ایران کے دورے پر تھے، جہاں انھوں نے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد ایرانی وزیر خارجہ نے ٹویٹ کی کہ انڈین وزیر خارجہ کے ساتھ مختلف معاملات پر مثبت بات چیت ہوئی ہے۔ اس سے قبل چھ ستمبر کو انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ بھی ایران میں تھے اور انھوں نے ایران کے وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل امیر حاتمی سے ملاقات کی۔ ان یکے بعد دیگرے دو ملاقاتوں پر لازمی طور پر سوال اٹھتا ہے کہ مودی حکومت کے دو اہم کابینہ کے وزیروں کا چار دن میں ایران کا دورہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اسی حوالے سے مزید پڑھیے انڈیا ایران کا ساتھ دے یا امریکہ کا؟ انڈیا کا سچا دوست ایران ہے یا سعودی عرب؟ ایران نے انڈیا کو چاہ بہار ریل منصوبے سے الگ کر دیا ایران اور چین کی گہری دوستی سے انڈیا کیوں پریشان ہے؟ ایک ہفتے میں دو وزرا کا دورہ بہت سے ممالک میں انڈیا میں سفیر کی حیثیت سے کام کرنے والے راکیش سوڈ کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کے دو وزرا کی ایران میں چار دن کے اندر آمد کو دو طریقوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ راکیش سود کہتے ہیں کہ راجناتھ سنگھ ماسکو سے واپسی پر تہران کے راستے آئے تھے اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر ماسکو روانگی سے قبل ایران گئے تھے اور دونوں انڈین فضائیہ کے طیاروں سے گئے۔ لہذا ماسکو سے نئی دہلی یا نئی دہلی سے براہ راست ماسکو جانا مقصود نہیں تھا۔ 'بیچ میں کہیں نہ کہیں رکنا ضروری ہوتا ہے اور اس کے لیے انھوں نے تہران کا انتخاب کیا۔ وہ دونوں تہران کے بجائے دبئی بھی جاسکتے تھے لیکن تہران کا انتخاب اس لیے معنی خیز ہے کیونکہ آج کل ایران انڈیا کے لیے بہت اہم ہے۔' راکیش سوڈ کا کہنا ہے کہ ایران، چین، روس، پاکستان اور ترکی مشرق وسطی میں اکٹھے ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور چین ایران اور پاکستان میں بہت سے بڑے منصوبوں پر بھی کام کر رہا ہے۔ ان کے مطابق روس بھی مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے خلاف ایک اہم طاقت ہے اور وہاں پر روس کے ساتھ ساتھ چین، پاکستان ، ترکی اور ایران بھی تقریباً ایک ہی صفحے پر ہیں۔ دوسری طرف ایران کو انڈیا کی طرف سے زیادہ اچھی خبریں نہیں مل رہی ہیں۔ انڈیا ابھی تک ایران میں چابہار پروجیکٹ پر اترنے سے قاصر ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا مشرق وسطی کے اُن ممالک کے قریب جو امریکہ کے اتحادی ہیں جیسے مثال کے طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات۔ گذشتہ ماہ 26 اگست کو لندن میں ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے زیر اہتمام عاصمہ جہانگیر میموریل لیکچر میں پاکستان کی معروف دفاعی ماہر عائشہ صدیقہ نے کہا کہ دنیا کا رخ موڑ رہا ہے اور پرانے نظام کے ساتھ ساتھ پرانے اتحاد بھی توڑے جارہے ہیں۔ عائشہ صدیقہ نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کافی تغیر آیا ہے اور اس کا براہ راست اثر انڈیا پر پڑا ہے۔ عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ 'یہاں تک کہ پاکستان نے امریکہ اور افغان طالبان مذاکرات میں بھی اہم کردار ادا کیا لیکن پاکستان کی طرف سے امریکہ کو ہونے والی تمام مالی امداد رک گئی ہے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان امریکی اتحاد میں شامل ہوگیا تاہم لوگوں نے کہا کہ پاکستان مالی مدد کی خاطر مجبوری میں شامل ہوا ہے۔' لیکن آج اگر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ اب چین ہی پاکستان کے لیے ایسا آپشن ہے جس کی طرف وہ کسی بحران کی صورت رخ کرے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی حال میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان کا مستقبل چین پر ہے۔ امریکہ، سعودی عرب اور انڈیا نے عالمی سیاست کے بدلتے ہوئے نئے مساوات میں ایک ساتھ شمولیت اختیار کی ہے اور ایسی صورتحال میں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان اب چین ، روس اور ایران کی صفوں میں شامل ہو گیا ہے۔ مشرق وسطی میں نئی ابھرتی ہوئی صورتحال عائشہ صدیقہ نے اس یادگاری لیکچر میں کہا تھا کہ ایران اور پاکستان دونوں ہی چین کے بیلٹ اور روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا حصہ ہیں اور امید کر رہے ہیں وہ اس سے پورا فائدہ اٹھا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چین اور ایران کے مابین بھی کئی بڑے معاہدوں پر دستخط کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔ لیکن کیا ایسا ہو سکے گا، اس کے جواب کے لیے ہم صرف انتظار ہی کر سکتے ہیں۔ عائشہ صدیقہ نے اپنے خطاب میں نکتہ اٹھایا کہ پاکستان میں دونوں فرقوں کے درمیان اختلافات جاری ہیں اور دوسری طرف سعودی عرب بھی ایران اور پاکستان کی دوستی کو پسند نہیں کرے گا۔ اس صورت میں پاکستان ایران اور سعودی عرب کے مابین کیسے توازن برقرار رکھے گا؟ دوسری طرف انڈین وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا تہران کا دورہ پاکستان ، ایران ، روس ، چین اور ترکی کے ذریعہ بنائے گئے اتحادوں کے آئینے میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ چین، ترکی اور پاکستان کے ساتھ انڈیا کے کبھی خاص مراسم نہیں رہے لیکن روس انڈیا کا دوست رہا ہے اور ایران کے ساتھ بھی اچھے تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ ایسی صورتحال میں انڈیا کی کوشش یہ ہے کہ ایران اور روس کے ساتھ تعلقات خراب نہ ہونے دیں۔ اس وقت انڈیا کو کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ شمال میں لداخ کی سرحد پر انڈیا اور چین کی فوج آمنے سامنے ہے۔ پھر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے بھی ایک بڑے تنازع نے جنم لیا جس کے بعد چین، پاکستان، ترکی اور حتیٰ کہ ایران نے بھی انڈیا کے اس قدم کی کھلے عام مخالفت کی۔ گو کہ روس نے انڈیا کی مخالفت نہیں کی لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ اگر چین روس کے ساتھ مل کر پاکستان کو ساتھ اتحاد میں لانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ انڈیا کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ ایک طرف ایران اور چین کی قربت بڑھتی جارہی ہے ، دوسری طرف انڈیا اور ایران کا مشترکہ چابہار پروجیکٹ لٹکا ہوا ہے۔ مشرق وسطی کے ممالک میں صرف ایران اور ترکی ہی مسئلہ کشمیر پر نکلے تھے لیکن چین کے ساتھ جاری تناؤ میں انڈیا کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ دیگر ممالک کو اپنے ساتھ لائے۔ مشرق وسطی میں چین کا مقابلہ کرنا انڈیا کے لیے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ امریکن انٹرپرائز انسٹٹیوٹ کے چین گلوبل انویسٹمنٹ ٹریکر کے مطابق 2005 سے 2019 کے درمیان چین نے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں 55 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ دوسری طرف چین اپنے آس پاس کے بہت سارے ممالک میں بھی سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ ایران کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اگر ایران کی بات کریں، تو مشرق وسطی میں وہ ایک اہم کھلاڑی ہے اور وہاں انڈیا کا اثر و رسوخ مستقل کم ہورہا ہے اور معاملات چین کے حق میں مضبوطی سے ترقی کر رہے ہیں۔ چین اور ایران کے مابین جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدے کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے کچھ دن بعد ایران نے خود اکیلے ہی چابہار منصوبے کے لیے ریلوے لنک منتقل کرنے کا کام شروع کردیا جس میں پہلے انڈیا بھی شامل تھا۔ اس ریلوے لائن کو ایران کی چابہار بندرگاہ سے افغانستان کے صوبہ زرنج تک لے جانے کا منصوبہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ایران چین کے ساتھ جس منصوبے کے بارے میں بات کر رہا ہے اس کی مالیت اربوں ڈالر ہے۔ گذشتہ سال نومبر میں ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے انڈیا کی خواتین صحافیوں کے ایک گروپ سے کہا تھا کہ فوری عالمی وجوہات یا سیاسی معاشی اتحاد سے انڈیا اور ایران کے مابین تعلقات نہیں توڑے جاسکتے ہیں۔ انڈیا نے ایران کے خلاف پابندیوں کے بارے میں آزادانہ مؤقف اپنایا ہے لیکن ہم اپنے دوستوں سے توقع نہیں کرتے ہیں کہ وہ بڑھ کر ساتھ دیں۔ انڈیا بھی ایران سے دوستی کے بارے میں طویل عرصے سے تذبذب کا شکار ہے۔ 1991 میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جب سوویت یونین کا خاتمہ ہوا، دنیا نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ جب انڈیا نے امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار کیے تو اس نے انڈیا کو ہمیشہ ایران کے قریب آنے سے روکا۔ عراق کے ساتھ جنگ کے بعد ایران اپنی فوج کو مضبوط بنانے میں مصروف تھا۔ تب سے ایران ایٹم بم بنانا چاہتا ہے اور ایٹمی پروگرام شروع کرنا چاہتا ہے۔ مگر امریکہ نہیں چاہتا ہے کہ ایران جوہری طاقت بن جائے اور مشرق وسطی میں اپنا تسلط بڑھائے۔
pakistan-39732386
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-39732386
مسلم دنیا میں توہینِ مذہب کے قوانین
مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں پڑھنے والے طالبعلم مشال خان پر توہین مذہب کا الزام لگائے جانے کے بعد ان کے ساتھی طالبعلموں کے ہاتھوں ان کی ہلاکت کے بعد پاکستان میں ایک بار پھر توہین مذہب کے قوانین کے بارے میں بحث چھڑ گئی ہے۔
دنیا کے 26 فیصد ممالک میں توہین مذہب کے حوالے سے سزاؤں کے قوانین موجود ہیں جن میں سے تقریباً 70 فیصد مسلم اکثریتی ممالک ہیں مقامی پولیس مشال کے قتل کی تحقیقات کر رہی ہے اور ابتدائی تفتیش کے بعد پولیس کی جانب سے کہا گیا کہ مشال پر لگائے گئے الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ توہین مذہب قانون کا پاکستان میں ارتقاء اس اندوہناک واقعے کے بعد ملک بھر میں ایک بار پھر توہین مذہب کے قوانین کے بارے میں بحث چھڑ گئی ہے۔ سنہ 1990 سے لے کر آج تک پاکستان میں مشتعل افراد یا ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں 69 افراد کو قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے قتل کیا ہے۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 40 افراد توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت کا انتظار کر رہے ہیں یا عمر قید بسر کر رہے ہیں تاہم پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک نہیں جہاں توہین مذہب کے حوالے سے قوانین رائج ہیں۔ تحقیقاتی ادارے پیئو ریسرچ سینٹر کی جانب سے 2015 میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے 26 فیصد ممالک میں توہین مذہب کے حوالے سے سزاؤں کے قوانین موجود ہیں جن میں سے تقریباً 70 فیصد مسلم اکثریتی ممالک ہیں۔ ان ملکوں میں توہین مذہب کے قوانین کے تحت ملنے والی سزائیں جرمانوں یا مختلف دورانیہ کے لیے قید کی شکل میں ہیں لیکن پاکستان، ایران اور سعودی عرب میں توہین مذہب کا ارتکاب کرنے پر جرمانوں اور قید کے علاوہ موت کی سزا بھی متعین ہے۔ یہاں پر بی بی سی نے چند چیدہ چیدہ مسلم ممالک میں رائج توہین مذہب کے قوانین کا جائزہ لیا ہے۔ سنہ 1990 سے لے کر آج تک پاکستان میں مشتعل افراد یا ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں 69 افراد کو قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے قتل کیا ہے پاکستان پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین 19ویں صدی میں برصغیر میں انگریزوں کے رائج قوانین کے مرہون منت ہیں۔ تقسیم ہند سے تقریباً ایک صدی قبل 1860 میں انگریزوں نے مذہبی نوعیت کے بڑھتے ہوئے مذہبی جرائم کے سبب دفعہ 295، 296 اور 298 کے نام سے تین نئے قوانین انڈین ضابطہ تعزیرات میں شامل کیے تھے۔ ان کے تحت کسی عبادت گاہ کی بے حرمتی کرنا، مذہبی تقریب میں خلل ڈالنا اور مذہبی جذبات کو دانستہ طور پر مجروح کرنا جرم قرار دیا گیا تھا۔ انگریزوں کے بنائے گئے یہ قوانین کسی مخصوص مذہب کے لیے مختص نہیں تھے اور نہ ہی ان میں سے کسی قانون میں موت کی سزا متعین کی گئی تھی۔ ان قوانین کے لاگو ہونے کے بعد 1860 سے لے کر 1947 تک بر صغیر میں توہین مذہب کے پانچ مقدمے درج ہوئے تھے جب کہ پاکستان بننے کے بعد سے لے کر 1980 تک ملک بھر میں توہین مذہب کے آٹھ مقدماعت درج ہوئے جن میں سے کوئی بھی مقدمہ گستاخی رسول یا قرآن کی بے حرمتی کا نہیں تھا۔ پاکستان بننے کے 30 سال بعد 1977 میں حکومت کا تختہ الٹنے والے آمر جنرل ضیا الحق نے اپنے 11 سال کے دورِ حکومت میں ملک کے آئین میں مزید تبدیلیاں کیں جن میں سے پانچ شقیں توہین مذہب کے قانون میں شامل کی گئیں۔ ان ترامیم میں شامل 295-B کے تحت قرآن کی بےحرمتی کرنے پر عمر قید کی سزا مقرر کر گئی جبکہ سب سے اہم ترمیم، 295-سی کے تحت پیغمبرِ اسلام کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کرنے کی سزا موت یا عمر قید بشمول جرمانہ مقرر کی گئی۔ 1990 میں ضیا الحق کی ہی قائم شدہ وفاقی شرعی عدالت نے حکم سنایا کہ دفعہ 295-C کے تحت توہین رسالت کی سزا صرف موت ہوگی۔ انگریزوں کے نافذ کردہ قوانین کے برعکس ضیا الحق کے دور میں شامل توہین مذہب کی ترامیم میں توجہ صرف دینِ اسلام سے متعلق بےحرمتی اور گستاخیوں پر تھی۔دوسری اہم تبدیلی اس حوالے سے تھی کہ نئے قوانین کے تحت غیر دانستہ طور پر توہین مذہب کرنا بھی اب جرم قرار پایا تھا۔ سعودی عرب میں اسلام کے شرعی قوانین رائج ہیں سعودی عرب سعودی عرب میں ملک کے قوانین شرعی نظام کے تحت لاگو ہوتے ہیں۔ سعودی عرب میں نافذ شرعی قوانین کے تحت توہین مذہب کا ارتکاب کرنے والا فرد مرتد قرار دیا جاتا ہے جس کی سزا موت مقرر ہے۔ 2014 میں حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے نیا قانون جاری کیا جس میں لادینیت کو بھی دہشت گردی قرار دیا گیا ہے۔ اس قانون کی دفعہ ایک میں دہشت گردی کی تشریح کرتے ہوئے واضح طور کر کہا گیا ہے ’لادینیت کا کسی بھی شکل میں پرچار کرنا اور اسلام کے بنیادی ارکان جن پر یہ ریاست قائم ہے، ان کے بارے میں سوالات اٹھانا دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔‘ ایران ایران کا ضابطۂ تعزیرات 2012 میں نئے سرے سے تشکیل دیا گیا تھا جس میں توہین مذہب کے لیے ایک نیا باب بنایا گیا ہے۔ اس نئے باب میں مرتد اور توہین مذہب کرنے والے شخص دونوں کی سزا موت مقرر کی گئی ہے۔ نئے ضابطے کی شق 260 میں قانون کے تحت کوئی بھی شخص اگر رسولِ خدا یا کسی اور پیغمبر کی گستاخی کا مرتکب ہو اسے ’سب النبی! تصور کیا جائے گا اور اس کی سزا موت ہوگی۔ اسی شق کے مطابق شیعہ فرقے کے 12 اماموں اور پیغمرِ اسلام کی بیٹی کی شان میں توہین کرنے کی بھی سزا موت ہے۔ اس نئے ضابطے میں ایک تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ اس میں سے جملہ ’اسلام کی مقدس اقدار کی توہین‘ کو حذف کر دیا گیا ہے البتہ پرانے ضابطۂ تعزیرات کی شق 513 کو ابھی بھی قانونی حیثیت حاصل ہے جس میں یہ جملہ بدستور شامل ہے۔ ان دونوں قوانین میں توہین مذہب کی سزا موت ہے۔ ان دو مخصوص قوانین کے علاوہ ایرانی آئین میں توہین مذہب کا جرم صرف ’سب النبی‘ ہی نہیں بلکہ فساد فی الارض کے بھی زمرے میں آتا ہے لیکن اس کے تحت کوئی مخصوص سزا متعین نہیں ہے۔ البتہ جرم کرنے والے کو سزائے موت اور جیل قید دونوں ہو سکتی ہے۔ مصر مصر کے آئین میں عرب سپرنگ کے بعد 2014 میں ترامیم کی گئیں جن کے بعد اسلام کو ملک کے مرکزی مذہب کا درجہ دیا گیا جبکہ صرف دیگر الہامی مذاہب کو جائز تصور کیا گیا۔ مصر کی تعزیرات کے مطابق آئین کے قانون 98-f کے تحت توہین مذہب پر مکمل پابندی عائد ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو کم از کم چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ انڈونیشیا میں توہین مذہب کے قانون کے مطابق کسی شخص پر مقدمہ درج کرنے سے پہلے تنبیہ کرنا ضروری ہے انڈونیشیا دنیا کے سب سے بڑی مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا کی ریاست کے سرکاری نظریے کے مطابق صرف 'ایک خدا پر یقین' کیا جا سکتا ہے۔ 1965 میں سابق صدر سوئیکارنو نے میں ملک کے آئین میں توہین مذہب کے قانون 156-A کے مسودے پر دستخط کیا تھا لیکن اس کا اطلاق 1969 میں صدر سوہارتو کے دور میں ہوا۔ اس قانون کے مطابق ملک کے سرکاری مذاہب، اسلام، عیسایئیت، ہندومت، بدھ مت اور کنفیوشنزم سے انحراف کرنا، یا ان مذاہب کی شان میں گستاخی کرنا، دونوں توہین مذہب کے زمرے میں آتا ہے جس کے زیادہ سے زیادہ سزا پانچ سال قید ہے۔ توہین مذہب کے قانون کے مطابق کسی شخص پر مقدمہ درج کرنے سے پہلے تنبیہ کرنا ضروری ہے لیکن اگر وہ شخص دوبارہ اس جرم کا ارتکاب کرے تو اس پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ ملک میں قانونی طور پر آزادی رائے کی اجازت ہے لیکن مذاہب پر تنقید کی سختی سے ممانعت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لادینیت اور اس کے پرچار پر بھی مکمل پابندی ہے۔ صدر سوہارتو کا 32 سالہ اقتدار 1998 میں ختم ہوا جس کے بعد ملک میں توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمات کی تعداد میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق 2005 سے 2016 کے اختتام تک 106 افراد پر توہین مذہب کا الزام ثابت ہو چکا ہے۔ 2010 میں ملک کے قوانین کے لیے کیے جانے والے عدالتی جائزے کے مطابق توہین مذہب کے قوانین میں 12 اضافی ترامیم کی تجویز دی گئی تھیں جن کو 2011 میں مذہب کے بل میں شامل کر لیا گیا ہے لیکن ابھی تک وہ قانون کا حصہ نہیں بنی ہیں۔ ملائیشیائی قانون کے تحت شق 295, 298 اور 298-A توہین مذہب کے جرائم کے خلاف استعمال ہو سکتی ہیں ملائیشیا ملایئشیا کا ضابطہ تعزیرات پاکستان کے طرز پر انگریزوں کے بنائے ہوئے قانون کی شکل میں ہے اور دونوں ممالک میں توہین مذہب کے لیے بنائے گئے قوانین بہت حد تک ملتے جلتے ہیں۔ ملائیشیائی قانون کے تحت شق 295, 298 اور 298-A توہین مذہب کے جرائم کے خلاف استعمال ہو سکتی ہیں جن کے مطابق بالترتیب کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کی بےحرمتی کرنا، دانستہ طور پر کسی بھی شخص کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے درمیان پھوٹ پڑوانا یا اشتعال دلانا جرم قرار پائے گا جس کے تحت زیادہ سے زیادہ تین سال قید اور جرمانے کی سزا ملے گی۔ اس کے علاوہ ملائیشیا کی ایک عدالت کے فیصلے کے بعد ملک میں غیر مسلم افراد پر ان کی مذہبی کتب میں لفظ 'اللہ' استعمال کرنے کی ممانعت ہے۔ اس کے علاوہ ستمبر 2015 میں بھی ایک وفاقی عدالت کے حکم کے تحت کوئی بھی مسلمان اگر ایسی کتب شائع کرتے ہوئے پکڑا گیا جس میں مذہبی قوانین کے خلاف مواد ہو، تو اس پر فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے۔
040722_blair_new_labour_sra
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/07/040722_blair_new_labour_sra
نیو لیبر: بلیئر قیادت کے دس برس
برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر اسی ہفتے 1994 میں اپنی پارٹی کے قائد چنے گۓ تھے۔ ان کی قیادت کے دوران لیبر پارٹی کا حلیہ بدل کے رہ گیا ہے جو اب نئی لیبر پارٹی کہلاتی ہے۔ ایک کہنہ مشق لیبر لیڈر ٹونی بین کا قول ہے کہ ٹونی بلیئر نے لیبر پارٹی کو نہیں بدلا ہے بلکہ ایک بالکل نئی پارٹی بنائی ہے۔
پرانے لیڈروں میں عام خیال یہی ہے کہ ان کی پارٹی کو بلیئر، براؤن اور مینڈلسن نے اغوا کرلیا ہے۔ یعنی موجودہ وزیر خزانہ گورڈن براؤن اور حکومت سے فی الحال باہر پیٹر مینڈلسن نے۔ اگر موازنہ کیجئے تو کسی حد تک یہ بات ٹھیک معلوم ہوتی ہے۔ 1994 میں کنسرویٹیو پارٹی کو حکومت کرتے ہوئے پندرہ سال ہو چکے تھے اور بظاہر یہ نظر آرہا تھا کہ لیبر پارٹی اگلے الیکشن میں بھی ووٹروں کے دل نہ جیت سکے گی۔ ٹونی بلیئر اور ان کے ساتھیوں کے سامنے دو راستے تھے ۔ یا تو پارٹی کو بائیں بازو کے نظریات پر بدستور چلایا جائے اور ایک اور ہار کا خدشہ مول لے لیا جائے ورنہ اسے ایک نئی یورپی سٹائل کی ڈیموکریٹک سوشلسٹ پارٹی بنا دیا جائے تاکہ ووٹروں کے دلوں سے یہ اندیشہ رفع ہوجائے کہ اگر اس کی حکومت بنی تہ یہ ایک بار پھر ملک کو سوشلزم کی طرف لے جانے کی کوشش کرے گی۔ اس بات کا خیال ٹونی بلیئر کی قیادت سے پہلے ہی آچکا تھا۔ ایک اور قائد نیل کنک نے انتہائی سخت موقف والے بائیں بازو کے عناصر سے پارٹی کی گلو خلاصی کرائی تھی اور پارٹی کے اندر پالیسی فیصلوں کے عمل کو نئے انداز میں ڈھالا تھا۔ نیل کنک کے بعد جون سمتھ قائد مقرر ہوئے جنہوں نے ٹریڈ یونیوں کی گرفت کو کمزور کیا۔ لیکن جون سمتھ 1994 میں وفات پاگئے اور پارٹی کی اصلاح کا کام ادھورا رہ گیا۔ اب ٹونی بلیئر اور پیٹر مینڈلسن کا زمانہ آتا ہے جنہوں نے انقلابی اقدامات کئے۔ لیبر پارٹی کے آئین میں دفعہ چار کے تحت پارٹی پر لازم تھا کہ تمام سرکاری اداروں کو مرکزی ملکیت میں رکھا جائے۔ یعنی لیبر پارٹی نج کاری کے خلاف تھی۔ اور عام ووٹروں کو اسی بنیادی اصول کے بارے میں اندیشے تھے۔ ٹونی بلیئر نے اس شق کو آئین سے خارج کرادیا۔ دوسری بات پارٹی کانفرنس تھی۔ جسے اعلیٰ ترین ادارے کی حیثیت حاصل تھی اور پالیسی کے بارے میں سارے فیصلوں کی توثیق اس سے کرانی پڑتی۔ کانفرنس میں ووٹنگ کا طریقہ یہ تھا کہ بڑی بڑی یونینوں کے بلاک ووٹ مقرر تھے۔ اور ایک یا دو مزدور انجمنیں مل کر بڑے بڑے فیصلے بدلوا سکتی تھیں۔ یہ نظام ختم کرادیا گیا۔ پارٹی ماضی میں یہ فیصلہ کرچکی تھی کہ برطانیہ یک طرفہ طور پر جوہری اسلحہ ترک کرنے کے لئے تیار ہے۔ یہ فیصلہ منسوخ کرایا گیا۔ پارٹی عوامی فلاحی کاموں پر خرچ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھی۔ ان اخراجات کے لۓ ٹیکسوں میں اضافے ضروری تھے۔ عوام کسی بھی ملک کے ہوں اونچے ٹیکس ادا کرنے سے ہچکچاتے ہیں اور لیبر پارٹی کا ٹیکس بڑھانے کا رجحان اس کی انتخابی جیت کی راہ میں حائل تھا۔ نئ لیبر نے اخراجات پر روک کا وعدہ کیا۔ ٹونی بلئیر، پیٹر منڈلسن اور گورڈن براؤن پر الزام ہے کہ ان تبدیلیوں کے لئے انہوں نے پرانے قائدین کو تو نظر انداز کیا ہی تھا لیکن دوسری جانب انہوں نے کنسرویٹیو پارٹی کی سابق رہنما مارگریٹ تھیچر اور پارٹی سے الگ ہونے والے ایک بزرگ رہنما روائے جینکنس سے مشورے کئے تھے۔ اسی لئے نئی لیبر پارٹی کو نئی کنسرویٹیو پارٹی کہا جانے لگا تھا۔ غرض کہ نئی لیبر پارٹی نے ان عناصر کو ناراض کیا جو برسوں سے اس کے لئے اینٹ اور گارے کا کام دیتے تھے تاکہ ان عناصر کو خوش کیا جاسکے جن کے ووٹ سے پارٹی بر سر اقتدار آئے گی۔اور ووٹروں کو یہ نئی جِھلمل کرتی ہوئی پارٹی بھاگئی۔ اور انیس سو ستانوے میں ٹونی بلیئر وزیراعظم بن گئے۔ اب دس سال کے بعد بہت سے ہونٹوں پر یہ سوال ہے کہ آیا نئی لیبر پارٹی کیا نئے حالات کو جھیل سکے گی یا دوبارہ پرانی پارٹی واپس آجائے گی۔
entertainment-42831257
https://www.bbc.com/urdu/entertainment-42831257
فلم ’پرچی‘ کا پرچہ
سب سے پہلے میں ایک دو باتیں واضح کر دینا چاہتا ہوں۔ اوّل تو یہ کہ نئی فلم 'پرچی' کے پیچھے جو تخلیقی ٹیم ہے، یعنی ہدایت کار اظفر جعفری اور پروڈیوسر عمران رضا کاظمی، اداکارہ حریم فاروق وغیرہ، اُن کی پہلی دو فلمیں مجھے خاصی پسند آئی تھیں، اور اُن کی وجہ سے میری توقعات اس فلم کے حوالے سے اونچی تھیں۔
اُن کی پہلی فلم 'سیاہ' حالانکہ تقریباً نہ ہونے کے برابر بجٹ پر بنائی گئی تھی، اُس میں ایک نیا پن تھا اور نظر آتا تھا کہ پیسوں کی شدید قلّت کے باوجود فلمسازوں کو فلم بنانے کا ڈھنگ آتا ہے۔ اُن کی دوسری فلم 'جانان' اپنی تھوڑی بہت تکنیکی کمزوریوں کے باوجود دیکھنے کے عین قابل تھی اور اس طرح کی فلم کے بارے میں توقعات سے کہیں بہتر فلم تھی۔ 'پرچی' کے ٹریلر میں فلم کی 'لُک' دیکھنے کے بعد میری توقعات اور اونچی ہو گئی تھیں۔ دیکھنے میں یہ ایک مزیدار فلم لگتی تھی۔ دوسری بات جو میں واضح کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پچھلے سال کی فلمیں دیکھنے کے بعد یہ بات خاص طور پر صاف ہو چُکی ہے کہ جہاں پاکستانی فلمیں تکنیکی لحاظ سے بہتر ہوتی جا رہی ہیں، اُن کے سکرپٹ بدستور کمزور ہیں اور فلم کی لکھائی پر سب سے کم توجہ دی جا رہی ہے۔ 'پرچی' اِن دونوں مسئلوں، یعنی میری توقعات اور پاکسانی فلموں کی دیرینہ کمزوریوں کا شکار نظر آتی ہے۔ ایک تو میری اُمید تھی کہ اپنی پہلی دو فلموں کے بعد 'پرچی' کے پیچھے تخلیقی ٹیم اور بھی بہتر اور نۓ طرز کی فلم بنائے گی۔ لیکن اس کے برعکس یہ فلم انتہائی کمزور سکرپٹ کا نتیجہ ہے جس سے لگتا ہے کہ فلمساز دو قدم پیچھے چلے گئے ہیں۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ فلمسازوں نے دو بالکل مختلف یانرا (انواع) کی فلموں کو آپس میں جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ وہ کچھ کچھ کرائم فلم بنانے کا ارادہ لے کر نکلے تھے لیکن رستے میں اُن کے اعصاب پر انڈیا کے ہدایتکار ڈیوڈ دھون سوار ہو گئے۔ ڈیوڈ دھون کی فلموں کی خاصیت یہ ہے کہ اُن کی فلموں کا سر ہوتا ہے نہ پیر اور ہر طرح کی بیوقوفیاں اُن میں ٹھُسی ہوئی ہوتی ہیں محض سستی ہنسی کے لیے۔ 'پرچی' کی کہانی کوشش میں تو 'نامعلوم افراد' کے طرز کی ہے۔ یعنی عام سے لوگ جن کا ایک خطرناک کرمنل سے پالا پڑ جاتا ہے اور جو اُس کے مقروض ہونے کی وجہ سے پیسے ہتھیانے کے لیے اپنا ایک منصوبہ بناتے ہیں۔ یہاں بیش (علی رحمان) جب زوڈیاک (شفقت چیمہ) کے ساتھ مشکل میں پڑتا ہے تو بیش کا بھائی بلال (عثمان مختار) اور اُن کے دوست سقی (احمد علی اکبر) اور بھولا (شفقت خان) اُس کی خاطر اِرم / میڈم صاحب (حریم فاروق) سے مدد کی التجا کرتے ہیں۔ اِرم ایک علاقے کی ڈون ہے اور اپنی چودھراہٹ بسکٹ (فیضان شیخ) کے ذریعے چلاتی ہے جو اس علاقے میں چائے کے کھوکے کا مالک ہے۔ اور پھر یہ سب مل کر پیسے جمع کرنے کے مختلف منصوبے بناتے ہیں۔ لیکن جہاں 'نامعلوم افراد' میں چالاکی بھی تھی اور سماجی تنقید کا پہلو بھی، 'پرچی' میں صرف بیوقوفیاں ہیں۔ اور جہاں 'نامعلوم افراد' کے کردار ٹھوس اور اصلی لگتے تھے، جن کی سوچ آپ سمجھ سکتے تھے، 'پرچی' کے کردار ہلکے اور حقیقت سے دور لگتے ہیں۔ خطرناک کرمنل زوڈیاک کبھی تو بہت خونخار اور ظالم لگتا ہے اور کبھی بالکل ہی مسخرہ ۔ اِرم جو اپنے علاقے کی 'سٹرانگ مین' ہے، اس کا کردار دلکش تو ہے لیکن کسی جانی پہچانی حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا اور نہ ہی کبھی یہ واضح ہوتا ہے کہ لوگ اُس سے ڈرتے کیوں ہیں؟ بظاہر تو وہ صرف لوگوں کی حفاظت ہی کرتی ہے۔ شروع شروع میں اُس کو بہت سخت جان دکھایا گیا ہے لیکن یکدم وہ بغیر کسی وجہ کے پیار میں بھی مبتلا ہو جاتی ہے۔ دونوں بیش اور بلال اِرم کو دیکھتے ہی اُس کے عشق میں لٹّو ہو جاتے ہیں لیکن اُتنے ہی اچانک سے بلال اپنے بھائی کی خاطر پیچھے ہٹ جاتا ہے، جبکہ اُس کے اپنے بھائی سے اختلافات بھی ہیں۔ اور پھر ایک کردار ہےصائمہ خنجروالی (فائزہ سلیم) کا جو سقی کی گرل فرینڈ نتاشہ (ماہِ نور حیدر) کی ماں ہے اور جو مغربی 'زومبی' فلموں سے متاثر ہے لیکن جس سے آگے اس کردار کو سمجھنا اور سمجھانا میرے بس سے باہر ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ سکرپٹ لکھتے لکھتے فلمساز بھُول گئے کہ وہ بنانا کیا چاہتے تھے۔ افسوس کہ اُن کو کوئی یہ کہنے والا نہیں تھا کہ آپ کا سکرپٹ پٹری سے اُترا ہوا ہے۔ 'پرچی' سے کچھ دن پہلے 'چھُپن چھُپائی' ریلیز ہوئی تھی۔ شروع شروع میں کئی لوگوں نے اس کے سکرپٹ اور عکس بندی کی تعریف کی، لیکن ایک دو روز میں ہی یہ بات سامنے آگئی کہ نہ صرف وہ فلم ایک تمل فلم کی کاپی ہے، بلکہ اتنی بری نقل ہے کہ اُس کا ہر ایک سین، ہر ایک ڈائیلاگ، ہر شاٹ کی فریمنگ تک اُس تمل فلم سے اُٹھائے گئے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں جو تعریف یا تنقید 'چھُپن چھُپائی' کے حصّے میں آ رہی تھی اُس کا اصل حقدار تو وہ تمل فلم تھی۔ پاکستانی فلم نے کیا تیر مارا؟ ایسا ہی کچھ حال 'پرچی' کے اداکاروں کے بارے میں بات کرتے لگتا ہے۔ حالانکہ حریم فاروق، شفقت چیمہ، علی رحمان اور عثمان مختار کوشش ضرور کرتے ہیں، اُن کے ہاتھ اتنا عجیب و غریب سکرپٹ لگا ہے کہ اُن کے کام پر تنقید اصل میں سکرپٹ کے کھاتے میں ہی جانی چاہیے۔ دو چار سین میں اچھا کام کرنے کے باوجود سارے کام پر پانی پھِر جاتا ہے کیونکہ باقی فلم میں اُن کے کرداروں کی 'موٹیویشن' سمجھ سے باہر ہوتی ہے۔ فلم میں زبردستی ٹھونسا گیا شادی کا گانا بھی اِسی مسئلے کی ایک کڑی ہے۔ 'پرچی' دیکھنے میں، یعنی عکس بندی کے حوالے سے، عموماً اچھی لگتی ہے۔ لیکن پاکستانی فلمسازوں کو اب یہ بات سمجھ جانی چاہیے کہ ڈھنگ کے سکرپٹ کے بغیر اچھی عکس بندی سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ویسے 'پرچی' کے فلمسازوں کو یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب آپ کرداروں کے ماتھوں میں کسی کو گولی مارتا دکھا رہے ہوں، تو اس کے ساتھ ہنسی مذاق نہایت ہی نامناسب لگتا ہے۔
sport-55890829
https://www.bbc.com/urdu/sport-55890829
باکسر محمد اسلم کی رِنگ میں مکا لگنے سے موت، ذمہ دار کون؟
بلوچستان کے علاقے پشین سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ باکسر محمد اسلم خان نے اپنے تینوں بھائیوں سے دو وعدے کیے تھے۔ چاہے وہ تعلیم حاصل کریں، یا باکسنگ کرنے کا شوق پورا کریں، اسلم ان کی خواہشات ہر صورت میں پوری کریں گے۔
لیکن سنیچر کی شب پروفیشنل باکسنگ کرنے والے محمد اسلم خان کراچی میں منعقد کیے گئے ایک مقابلے میں جبڑے پر مکا لگنے سے گرے اور جانبر نہ ہو سکے۔ اسلم خان نے سوگواروں میں بیوہ، دو کم سن بچیاں اور تین چھوٹے بھائی چھوڑے ہیں۔ والد کے انتقال کے بعد اسلم خان باکسنگ اور محنت مزدوری کر کے اپنے خاندان کی کفالت کرتے تھے۔ اسلم خان کے کزن حسیب خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے بھائیوں کے لیے اسلم خان ہی ان کے والد کی جگہ تھے۔ 'وہ نہ صرف اپنے بھائیوں کی تعلیم کا بہت خیال رکھتے تھے بلکہ ان کی باکسنگ کی تربیت بھی کرتے تھے۔ ان کی نگرانی بھی کرتے تھے اور ہر طرح کے اخرجات بھی پورے کرتے تھے۔' حسیب خان کا کہنا تھا کہ اسلم خان کی دو کم عمر بیٹیاں ہیں جن سے وہ بے حد پیار کرتے تھے۔ 'اسلم اکثر محفلوں میں ان کا ذکر کرتے تھے۔ شادی اور بچوں کی پیدائش سے پہلے ایسے ہوتا تھا کہ وہ دیر تک بیٹھا کرتے تھے مگر جب سے شادی ہوئی تھی انھوں نے زیادہ دیر تک بیٹھنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ کہتے تھے کہ میری بیٹیاں اور اہلیہ انتظار کر رہی ہوں گی اور یہ کہ ان کو بغیر کسی مناسب وجہ کے انتظار کروانا اچھا نہیں ہے۔' حسیب خان کا کہنا تھا کہ اسلم خان نے زندگی میں بڑا سخت وقت دیکھا تھا۔ یہ بھی پڑھیے ’اگر آج میں پاکستان میں ہوتا تو گدھا گاڑی چلا رہا ہوتا‘ ‘تم نے پاکستان کے لیے کیا کیا ہے؟‘ 'ان کے والد ایک مزدور پیشہ شخص تھے۔ اس کے بعد اسلم خان نے خود محنت مزدوری کی تھی۔ وہ دن بھر محنت مزدوری کرتے اور پھر شام کو باکسنگ پریکٹس کرتے تھے۔' حسیب خان کا کہنا تھا کہ اسلم اکثر انھیں بتاتے تھے کہ حالات نے اتنی اجازت نہیں دی کہ زیادہ عرصہ باکسنگ کر سکیں لیکن ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بھائیوں کو باکسنگ کرنے اور اس کی تربیت کے بھرپور مواقع فراہم کر سکیں۔ اسلم خان کی موت کیسے ہوئی؟ سنیچر کی رات کراچی میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کا انعقاد کرنے والے ایک نجی کلب میں باکسنگ کے چھ مقابلے منعقد کیے گئے تھے۔ اس سلسلے کی آخری فائٹ باکسر اسلم خان اور کراچی کے باکسر ولی خان کے درمیان تھی۔ اس فائٹ کے آخری راؤنڈ کے دوران یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا جب اسلم خان حریف باکسر کا مکا جبڑے پر لگنے کے بعد رنگ میں گر پڑے۔ اس دوران ریفری نے گنتی کے ذریعے فائٹ ختم کر دی لیکن اسلم خان جب ہوش میں نہیں آئے تو انھیں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ وفات پا گئے۔ محمد اسلم خان کے کوچ سردار محمد کاکڑ اس میچ کے موقع پر موجود تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ محمد اسلم 81 کلو کی کیٹگری میں باکسنگ کرتے تھے اور گذشتہ چار سال سے ان کے زیر تربیت تھے۔ 'وہ ایک سخت جان باکسر تھے۔ گذشتہ تین، چار سالوں کے دوران انھوں نے صرف مصر میں ہونے والی ایک فائٹ میں شکست کھائی تھی اور وہ مقابلہ بھی انتہائی سخت تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے تمام بین الاقوامی مقابلوں میں اپنے حریفوں کو پہلے راؤنڈ ہی میں ناک آوٹ کردیا تھا۔' سردار محمد کاکڑ کا کہنا تھا کہ جس مقابلے اور مکے پر یہ حادثہ ہوا ’وہ ایک کمزور مکا‘ تھا۔ انھوں نے کہا کہ محمد اسلم کے لیے اس کو سہہ جانا کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر ’بدقسمتی سے اس کا پاؤں پھسلا اور وہ گر گیا جس سے وہ زخمی ہوا۔ ہم لوگ فوراً اس کو ہسپتال لے کر گئے مگر وہ جانبر نہ ہوسکا۔' سردار محمد کاکڑ کا کہنا تھا کہ محمد اسلم انتہائی محنتی باکسر تھے۔ 'وہ تربیت کے اوقات کے علاوہ بھی سخت محنت کرتا تھا۔ وقت کا پابند تھا۔ ایک بڑا اور اچھا باکسر ہونے کے باوجود اس میں عاجزی اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ جتنی عزت وہ اپنے والد کی کرتا تھا۔ اتنی ہی عزت میری کرتا تھا۔' سردار محمد کاکڑ کا کہنا تھا کہ اسلم اپنے جونیئرز کا بھی بہت خیال رکھتے تھے اور دوران تربیت اکثر اوقات ان کی مدد کرتے اور ان کو مختلف مشورے بھی دیتے تھے۔ باکسر اسلم خان کی موت کا ذمہ دار کون ؟ باکسر اسلم خان کی کراچی میں باکسنگ مقابلے کے دوران موت واقع ہو جانے کے بعد کئی ذہنوں میں یہ سوال آیا ہے کہ ان کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ واضح رہے کہ اسلم خان کی موت پر پولیس میں رپورٹ درج نہیں ہوئی ہے۔ کراچی کے نجی کلب میں ہونے والے ان باکسنگ مقابلوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ پاکستان باکسنگ کونسل کے تحت منعقد کیے گئے تھے جو ملک میں پروفیشنل باکسنگ مقابلے کرا رہی ہے اور اس کے صدر پاکستان کے سابق انٹرنیشنل باکسر رشید بلوچ ہیں جو نیوزی لینڈ میں مقیم ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں پروفیشنل باکسنگ کے لیے کوئی تسلیم شدہ ادارہ نہیں ہے اور باکسنگ کے عالمی ادارے آئبا اور انٹرنیشنل اولمپکس ایسوسی ایشن سے منظور شدہ ادارہ صرف پاکستان باکسنگ فیڈریشن (پی بی ایف) ہے جو کہ ایمچر (غیر پیشہ ور) مقابلے منعقد کراتی ہے۔ پاکستان باکسنگ فیڈریشن کے سیکریٹری کرنل (ریٹائرڈ) ناصر اعجاز تونگ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ باکسر اسلم خان کی موت اتفاقیہ حادثہ نہیں ہے بلکہ ’یہ غفلت کا نتیجہ ہے‘۔ کرنل ناصر تونگ نے دعویٰ کیا کہ ان باکسنگ مقابلوں میں باکسرز کے لیے کسی قسم کے حفاظتی اور احتیاطی اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔ 'عام طور پر جب بھی باکسنگ مقابلے ہوتے ہیں ان سے پہلے باکسرز کا میڈیکل کیا جاتا ہے۔ ان کا ایم آر آئی اور سی ٹی سکین ضروری ہوتا ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ باکسر کو کسی دماغی چوٹ کا سامنا تو نہیں ہے۔' کرنل ناصر نے کہا کہ اسلم خان کی فائٹ کی جو ویڈیو انھوں نے دیکھی ہے اس میں ریفری نے فوری طور پر ڈاکٹر کو طلب کرنے کے بجائے ناک آؤٹ گنتی جاری رکھی جبکہ اسے باکسر کے مہلک وار کے فوراً بعد گنتی کرنے کے بجائے طبی امداد کے لیے ڈاکٹر کو طلب کرلینا چاہیے تھا۔ کرنل ناصر تونگ نے الزام عائد کیا کہ ملک میں پروفیشنل باکسنگ کے نام پر نوجوان باکسرز کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان باکسنگ فیڈریشن ملک میں پروفیشنل باکسنگ کے نام پر ہونے والے ان مقابلوں کو تسلیم نہیں کرتی اور نہ ہی ان کی اجازت دیتی ہے اور ان کا ادارہ حکومت سے رابطہ کر رہا ہے تاکہ اس طرح کے مقابلوں کی روک تھام ہو سکے۔ 'پاکستان باکسنگ فیڈریشن سے ملحقہ تمام اداروں کو بھی باور کرا دیا گیا ہے کہ ان کے باکسرز اور کوچز کسی بھی ایسے باکسنگ ایونٹ میں حصہ نہیں لے سکتے جو پاکستان باکسنگ فیڈریشن سے منظور شدہ نہیں ہے۔' کرنل ناصر نے مزید کہا کہ اس ضمن میں دو رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو اس واقعے کی تمام تر تفصیلات سے فیڈریشن کو آگاہ کرے گی۔ 'اسلم خان کی موت پر قانونی کارروائی نہیں ہو سکتی' اسلم خان کی موت کے حوالے سے پاکستان باکسنگ کونسل کے صدر رشید بلوچ نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ باکسنگ ایک خطرناک کھیل ہے اسی لیے پروفیشنل باکسرز فائٹ سے پہلے کنٹریکٹ سائن کرتے ہیں جس میں انھیں تمام تر خطرات سے پیشگی آگاہ کیا جاتا ہے۔ رشید بلوچ نے کہا کہ اسلم خان کی موت یقیناً افسوسناک واقعہ ہے لیکن پروفیشنل باکسنگ میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اور گذشتہ سال نیوزی لینڈ میں بھی اسی طرح ایک باکسر کی موت واقع ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا 'ایسی صورتحال میں کیا یہ کھیل بند کر دیا جائے؟ فضائی حادثے ہوتے ہیں لیکن فضائی سفر جاری رہتے ہیں۔' رشید بلوچ نے اس بات کو غلط قرار دیا کہ ان کی باکسنگ کونسل کے تحت ہونے والیے مقابلوں سے قبل باکسرز کا میڈیکل نہیں ہوتا۔ انھوں نے کہا کہ ہر مقابلے سے پہلے باکسرز کا مکمل طبی معائنہ کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں پنجاب گورنر ہاؤس میں ہونے والے مقابلوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ باکسر محمد وسیم کو اس وجہ سے شرکت سے روک دیا گیا تھا کیونکہ ان کے پاس میڈیکل کلیئرنس کا خط نہیں تھا جو باہر سے آنے والے باکسرز کے پاس ہونا ضروری ہوتا ہے۔ البتہ رشید بلوچ نے یہ واضح کیا کہ امیچر اور پروفیشنل باکسنگ میں فرق ہے اس لیے ان کی پاکستان باکسنگ کونسل کو پاکستان باکسنگ فیڈریشن سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے سابق انٹرنیشنل ریفری جج علی اکبر شاہ کا دعویٰ ہے کہ پاکستان باکسنگ کونسل کو ورلڈ باکسنگ کونسل تسلیم کرتی ہے، تاہم انھوں نے کہا کہ پاکستان میں پروفیشنل باکسنگ کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ افسوسناک ہے۔ 'عام طور پر دنیا میں باکسرز اولمپکس میں حصہ لینے کے بعد پروفیشنل باکسنگ کا رخ کرتے ہیں لیکن پاکستان میں پروفیشنل باکسنگ کے نام پر تماشہ جاری ہے۔' علی اکبر شاہ کا کہنا ہے کہ اسلم خان کی موت پر کسی قسم کی قانونی کارروائی اس لیے نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنی مرضی سے ان مقابلوں میں حصہ لے رہے تھے اور یہ موت حادثہ ہے۔
041012_musharraf_col
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/10/041012_musharraf_col
فوج کے مزید پانچ برس
کہتے ہیں کہ آج سے پانچ برس پہلے پاکستان تباہی کے دہانے پر تھا۔ سیاسی ابتری انتہا پر تھی، معیشت بربادی کی حدووں کو چھو رہی تھی۔ منصبِ اعلیٰ پر فائز لوگ شریعت کے بل میں گھس رہے تھے۔ انتظامی ڈھانچہ معطل ہو چکا تھا، عدلیہ سے انصاف کے سوا سب کچھ میسر تھا، اقتدار کے ایوانوں میں یاسیت کے سائے تھے۔پاکستان کی کشتی طوفان خیز موجوں میں پھنسنے کو تھی کہ ایک دن آسمان پر ایک (مبینہ) واقعہ ہوا اور ایک حادثے کے نتیجے میں اچانک ایک ناخدا سامنے آگیا۔
اس ناخدا نے جلوہ دکھایا تو اس شان سے کہ طاقت اور قوت اس کے پہلو بہ پہلو تھی۔ عسکری تفاخر اس کے جلو میں تھا، لشکری ذہانت اس کے شانہ بشانہ تھی اور لبیک کہنے والے چند سرفروش اس کے ہم رکاب تھے۔ بارہ اکتوبر کی نصف شب مشاورت کے ایک طویل دور کے بعد اس ناخدا نے ایک فرمان جاری کیا اور یوں ایک عہد کی ابتدا ہوئی جسے تاریخ مشرف دور کے نام سے یاد رکھے گی۔ اس عہد کو پہلے صرف فوج کی حمایت حاصل تھی لیکن بعد میں حالات کچھ یوں بدلے کہ اس پر امریکہ کی نظرِ عنایت بھی ہوگئی اور آج اس دور کو پانچ برس ہو گئے ہیں۔ سید پرویز مشرف اور ان کے لشکری مصاحب خوب جانتے تھے کہ گیارہ سال پہلے جنرل ضیاالحق نے نوے دن میں اقتدار چھوڑنے کا وعدہ اتنی مرتبہ کیا تھا کہ خود فوجیوں کو شرم دامن گیر ہونے لگی تھی۔ چنانچہ اس بار اہتمام کیا گیا کہ ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا جائے گا۔ اپنی دھن کے پکے جنرل مشرف سے ان کی سیادت کے ابتدائی ایام میں کئی مرتبہ گزارشیں ہوئیں کہ وہ بتائیں آیا معطل اسمبلیوں کو بحال کریں گے یا نہیں اور آیا وہ خود واپس جائیں گے یا نہیں لیکن وہ ہمیشہ اس کا جواب دینے سے گریز کرتے رہے۔ جنرل صاحب آئے تھے ایک حادثے کے نتیجے میں اور نہیں معلوم کیسے جائیں گے۔ لیکن جو بات معلوم ہے وہ یہ کہ بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو سیاست میں فوج کی دخل اندازی بظاہر ایک اتفاق ہو سکتی ہے لیکن ہے یہ ایک عمل کا تسلسل۔ چلیئے مان لیں کہ نواز شریف نے جنرل ضیاالدین بٹ کو فوج کا سربراہ بنانے کی ’سازش‘ کی۔ یہ بھی مان لیجیئے کہ اس فیصلے پر عمل ایسے وقت کیا گیا جب جنرل مشرف فضا میں تھے۔ لیکن سرفروشوں کو یہ بات پسند نہ آئی اور انہوں نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ نواز شریف کی فوج کا سربراہ تبدیل کرنے کی کوشش اگر کوئی جرم تھی تو انہیں عدلیہ کے ذریعےسزا دلائی جاتی۔ فوج اپنا دامن اقتدار کی آلائشوں سے بچا کے رکھتی۔ نواز شریف کی جگہ کسی دوسرے کو وزیرِ اعظم بنوا دیا جاتا (آخر عساکرِ پاکستان کے پاس درجنوں منصوبے تیار پڑے رہتے ہیں) لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیوں؟ اس کا جواب یہی ہے کہ فوج کو اقتدار سے گئے ہوئے پھر گیارہ برس ہو چکے تھے لہذا اسے واپس آنا ہی آنا تھا۔ نواز شریف، جہاز اترنے نہ دینا، جنرل ضیاالدین کی تقرری صرف ایک بہانہ تھی۔اور یہ سب کچھ سوچنے کا جواز بھی موجود ہے۔ اگر فوج نے وہ سب کچھ نہ کیا ہوتا جو اس نے گزشتہ پانچ سال میں کیا ہے تو کسے مجال تھی کہ ایسی دلیل پیش کر سکتا۔ یوں بھی شریف الدین پیزادہ کے پاس وہ سمِ قاتل ہے جس کا تریاق کم کم ہی ملتا ہے۔انہوں نے فوج کے سالار کو کوئی کمال کا نکتہ سُجھا دیا۔ ایک اور انقلابی تقریر ہوئی اور ہر شعبے میں اصلاح کے عہد کا اعلان کر دیاگیا۔ ہر طرف فوج کے سجیلے جوان نظر آنا شروع ہوگئے۔ سویلین لوگوں کو وفاؤں کے نذارنے اور فوجی ترانے سنانے کے لیے رہنے دیا گیا باقی امور کی نگرانی فوجیوں کے سپرد کر دی گئی۔ سیاست کے اصطبل میں نئے سائیس آگئے، نئے گھوڑوں کو آزمایا گیا۔ اقتدار کی دوڑ کا آغاز ہوا۔ میدانِ سیاست میں تبدیلیاں بڑے پُرامن طریقے سے ہوئیں صرف اس لیے کہ فوج کو یہی منظور تھا۔ پانچ سال پہلے بظاہر اچانک جو واقعات رونما ہوئے تھے آج ان کی کڑیاں ایک دوسرے سے پیوست دکھائی دے رہی ہیں۔ ملک میں ناخدا کی پسند کا سیٹ اپ ہے، معیشت کی شان کی گواہی کے لیے شوکت عزیز موجود ہیں۔ سیاسی ابتری کی گرد بیٹھ چکی ہے۔انتظامی ڈھانچہ عسکری ہاتھوں میں ہے لہذا ٹھیک ٹھیک کام کر رہا ہے۔پاکستان کی کشتی طوفان سےنکل چکی ہے۔ اور راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ تو کیوں نہ آج ’یومِ تفحظِ مشرف‘ پر جمہوریت اور سیاست دانوں کو پاکستان کا دشمن قرار دیتے ہوئے عہد کیا جائے کہ آئندہ اقتدار کے حقدار صرف اور صرف ناخدا ہوں گے۔
160916_srilanka_women_boys_school_dress_code_sz
https://www.bbc.com/urdu/regional/2016/09/160916_srilanka_women_boys_school_dress_code_sz
’ساڑھی پہنیں، سکرٹ ممنوع ہے‘
سری لنکا میں لڑکوں کے ایک سکول کے باہر ایک پوسٹر لگایا گیا ہے جس پر خواتین کے لیے ہدایات ہیں کہ وہ سکول میں داخل ہوتے ہوئے کونسے لباس پہن سکتی ہیں اور کونسے لباس ممنوع ہیں۔ اس پوسٹر کے حوالے سے سوشل میڈیا پر شدید بحث جاری ہے۔ بی بی سی کی عائشہ پریرا بتا رہی ہیں کہ آخر کولمبو میں لوگ اس پوسٹر سے کیوں ناراض ہیں۔
اس میں روایتی ساڑھی یا شلوار قیمص اور ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہننے کی تو اجازت ہے لیکن منی سکرٹز اور بغیر آستین والے جدید طرز کے لباسوں کو خواتین کے لیے ممنوع قرار دیا گیا ہے دارالحکومت کولمبو میں اشرافیہ طبقے کے ایک نجی سکول سینٹ جوزف کالج کے باہر آویزاں اس پوسٹر پر بغیر کسی تحریر کے تصاویر بنی ہوئی ہیں۔ اس پوسٹر میں خواتین کے ملبوسات پر مبنی 16 مختلف تصاویر ہیں اور ہر تصویر کے سامنے صحیح یا غلط کا نشان لگا ہوا ہے۔ ایک جانب وہ تصویریں ہیں جن میں خواتین کے بعض مخصوص ملبوسات کو درست بتایا گيا ہے جبکہ دوسری لائن میں جدید طرز کے بعض لباسوں کو غلط ٹھہرایا گيا ہے۔ شاید پہلی نظر میں آپ اس پوسٹر کو یہ سوچ کر نظرانداز کر دیں کہ یہ کسی فیشن میگزین کا کوئی صفحہ ہے۔ لیکن اصل میں اساتذہ سے ملنے یا اپنے بچوں کو لینے کے لیے سکول میں داخلے کے لیے خواتین کے ڈریس کوڈ کا یہ ایک چارٹ ہے۔ اس پوسٹر میں خواتین کے ملبوسات پر مبنی مختلف طرح کی 16 تصاویر ہیں اور ہر تصویر کے سامنے صحیح یا غلط کا نشان لگا ہوا ہے اس میں روایتی ساڑھی یا شلوار قیمص اور ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہننے کی تو اجازت ہے لیکن منی سکرٹز اور بغیر آستین والے جدید طرز کے لباسوں کو خواتین کے لیے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اس پر بحث اس وقت شروع ہوئی جب کالج کے ایک طالب علم نے اس پوسٹر کی ایک تصویر کو اپنے فیس بک کے صفحے پر پوسٹ کیا۔ سینٹ جوزف کالج میں انتظامی امور سے متعلق ایک افسر نے سکول میں داخل ہونے والی خواتین کے لیے اس طرح کے ڈریس کوڈ کی تصدیق کی ہے۔ اس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا ’اگر وہ سکول کے اندر آنا چاہتی ہیں تو انھیں مناسب طریقے سے کپڑے پہننے ہوں گے۔‘ کولمبو کے ہی ایک دوسرے نجی سکول سینٹ پیٹرز کالج نے بھی تصدیق کی کہ ان کے سکول کے باہر بھی اسی طرح کے ڈریس کوڈ کا ایک نوٹس آویزاں ہے۔ اس سکول کے بھی ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ اگر خواتین ڈریس کوڈ کے مطابق کپڑے نہ پہنے ہوں تو انھیں سکول میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’آخر یہ لڑکوں کا سکول ہے اور ہم نے ایک نوٹس لگا رکھا ہے تاکہ خواتین کو یہ معلوم رہے کہ انھیں کیا پہننا ہے اور کیا نہیں پہننا ہے۔‘ ان روایتی ساڑھیوں کے پہننے کی اجازت ہے جس میں پیٹ یا ناف کا حصہ عموماً نظر آتا ہے اس پوسٹر سے متعلق سوشل میڈیا پر بعض افراد نے اپنی رائے میں غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ ایک شخص نے لکھا ’بہت خوب۔۔۔۔ اب ہم مناسب طریقے سے پیچھے کی طرف چل پڑے ہیں۔‘ ایک اور شخص نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ سکول کی تمام خواتین سٹاف یا طلبا کی ماؤں کو چاہیے کہ اس کے خلاف بطور احتجاج لنگي یا پھر سوئمنگ سوٹ پہنن کر آنے لگیں۔ بعض والدین نے اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ سری لنکا میں بعض انٹرنیشنل سکولوں میں بھی خواتین کے لباس کے تعلق سے سختی برتی جاتی ہے اور اگرچہ وہاں پوسٹرز آویزاں نہیں ہیں لیکن اگر کوئی خاتون بغیر آستین والی قمیص پہن کر جائے تو اسے سکول میں داخل ہونے سے منع کر دیا جاتا ہے۔ بعض لوگوں نے اپنے تبصروں ميں اس بات کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ جدید طرز کے بعض لباسوں، جیسے بغیر آستین والی قمیص وغیرہ، پر تو پابندی ہے جبکہ ان روایتی ساڑھیوں کے پہننے کی اجازت ہے جس میں پیٹ یا ناف کا حصہ عموماً نظر آتا ہے۔ یارائی کیلی نے اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ جینز، ٹائٹ یا بغیر آستین والا لباس پہننا تو منع ہے لیکن روایتی ساڑھی، جس میں پیٹ یا ناف دکھتا ہے، کی اجازت ہے۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ بازو دیکھانا زیادہ معیوب ہے یا پھر پینٹ جینز پہننا؟ یہ پھر اس سلسلے میں مردوں کا ڈریس کہاں ہے؟ سری لنکا میں حکومت کے ماتحت سکولوں میں اس طرح کے ڈریس کوڈ کا ہونا ایک پرانی اور عام بات ہے جہاں خواتین کو صرف ساڑھی پہننے کی اجازت ہے لیکن سینٹ جوزف یا سینٹ پیٹرز جیسے نجی سکولوں میں اس طرح کا طرز ایک نئی چلن ہے۔ اس کی ایک وجہ تو کولمبو میں متوسط طبقے کے بڑھنے کے ساتھ ہی قدامت پرستی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اب اس طرح کے نجی سکولوں نے بھی اپنی باہیں ایسے روایتی طبقے کے لیے بھی کھول دی ہیں۔
070202_cancer_cure
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2007/02/070202_cancer_cure
کینسر کا معجزاتی علاج ممکن نہیں
کینسر کا معجزاتی علاج ممکن نہیں
خاصے طویل عرصے سے سائنسداں کینسر کے علاج کی تلاش میں ہیں۔ برطانیہ میں کینسر کی تحقیق میں ایک معروف ماہر نے کہا ہے کہ اس بیماری کا کبھی بھی کسی ایک جادوئی گولی سے علاج ممکن نہیں ہوگا۔ پروفیسر بروس پاؤنڈر نے کہا کہ تحقیق کا اصل مقصد مریضوں کی زندگی بچانے کے امکانات کو بڑھانا ہے۔ پروفیسر پاؤنڈر، برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے تحقیقاتی انسٹیٹیوٹ، نیو کینسر ریسرچ، کے ڈائریکٹر ہیں۔ جمہ کے روز ملکہ برطانیہ اِس ادارے کا باضابطہ افتتاح کریں گی۔ جو 300 ماہرین پر مشتمل ہوگا۔ اب سوال بنتا ہے کہ اس ادارے کا مقصد کیا ہوگا؟ کچھ عرصے پہلے اس کا جواب آسان تھا یعنی کینسر کا علاج۔ امریکہ صدر رچرڈ نکسن نے جنوری 1971 میں امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران قدرے دشوار ہدف ان الفاظ میں رکھا۔ ’ اب امریکہ میں وہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں اب کینسر کا علاج ڈھونڈنے کے لئے ویسی ہی کوششوں کی ضرورت ہے جو ہم نے ایٹم کو توڑنے اور اور انسان کو چاند پر پہچانے کے لئے استعمال کی تھیں۔‘ انہوں نے کہا کہ کئی ماہرین کینسر کے علاج کے لئے نکسن کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ انسان کو چاند پر بھیجنے کے لئے جس انجنئیرنگ اور سائینس کی ضرورت ہے اس کاہمیں ادراک ہے لیکن اس کے مقابلے میں ہم کینسر کی حیاتیاتی حقیقت بہت کم جانتے ہیں۔ پروفیسر پاؤنڈر نے یہ بھی کہا کہ ہم اب بھی امید کرتے ہیں کہ کینسر کا علاج ہوسکیں۔ لیکن اب ہمارہ مقصد کینسر کے مرض میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو کم کرنا، مریضوں کی زندگی کے معیار کو بہتر کرنا ہے۔ اس ادارے کے آدھے ماہرین اس بات پر تحقیق کریں گے کہ کینسر کس طرح بڑھتا ہے۔ باقی ماہرین اس ٹیکنالوجی پر تحقیق کرینگے جس کی مدد سے کینسر کی بہتر تشخیص ممکن ہوسکے۔ اور آخری گروپ ڈاکٹروں کا ہوگا جو مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ کینسر پر تحقیق بھی کریں گے۔
080702_sgs_case_si
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/07/080702_sgs_case_si
زرداری کے شریک ملزم کی درخواست
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی کے خلاف ایس جی ایس کیس میں شریک ملزم سوئٹزرلینڈ کے شہری جیمز نے بدھ کے روز راولپنڈی کی احتساب عدالت میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں انہوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ انہیں اس مقدمے سے بری کر دیا جائے۔
درخواست میں سوئٹزرلینڈ کے شہری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں امن وامان کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ خود عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے اس لیے انہیں اس مقدمے میں پیشی سے مشثنیٰ قرار دیا جائے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس مقدمے کے سرکردہ ملزم آصف علی زرداری قومی مفاہمتی آرڈینینس کے تحت بری ہوچکے ہیں لہذا انہیں بھی بری کر دیا جائے۔ عدالت نے اس درخواست کو سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے اور اُس کی سماعت گیارہ جولائی تک ملتوی کردی۔ نیب کے ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل ذوالفقار بھٹہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس درخواست میں درخواست گزار نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ چونکہ ایک غیر ملکی ہیں اور پاکستان میں رہائش پذیر نہیں ہیں اس لیے نیب کا قانون اُن پر لاگو نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ایس جی ایس مقدمے میں ملوث ملزم کی درخواست کو سپیشل آپریشن ڈویژن کو بھجوا دیا گیا ہے۔ ذوالفقار بھٹہ کا کہنا تھا کہ نیب کا یہی یونٹ سابق وزیر اعظم مرحومہ بیظیر بھٹو اور اُن کے خاوند اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے خلاف بیرون ممالک کیسوں کی پیروی کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس یونٹ کا ایک نمائندہ اس درخواست کی آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہوگا اور درخواست کے بارے میں نیب کا موقف عدالت میں پیش کرے گا۔
060713_un_vote_as
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/07/060713_un_vote_as
اسرائیل پر قرار داد، امریکہ کا ویٹو
امریکہ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی اس قرار داد کے مسودے کو ویٹو کیا ہے جس میں غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائی اور حماس کے عسکری بازو کے ہاتھوں اسرائیلی فوجی کو قبضے میں کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔
سلامتی کونسل کے پندرہ اراکین میں سے امریکہ وہ واحد ملک تھا جس نے اس قرار داد کے خلاف ووٹ دیا۔ اقوامِ متحدہ میں بی بی سی کے نامہ نگار رچرڈ گیلپن کے مطابق قطر کی طرف سے پیش کی جانے والی قرار داد کے مسودے کو بہت احتیاط سے لکھا گیا تھا تاکہ غزہ کی پٹی میں تشدد کے واقعات پر دونوں فریقوں کی مذمت کی جائے۔ قرار داد میں اسرائیلی فوج کی غزہ میں کارروائی کی، جس میں درجنوں فلسطینی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں، مذمت کے ساتھ ساتھ ان فلسطینیوں کی بھی مذمت کی گئی تھی جنہوں نے جون کے اختتام میں ایک اسرائیلی فوجی کو قبضے میں کیا تھا اور اسرائیل پر راکٹ برساتے رہے تھے۔ قرار داد میں اسرائیل پر زور دیا گیا کہ وہ غزہ میں اپنی کارروائی بند کر دے اور اپنی فوجوں کو واپس بلا لے۔ تاہم امریکہ، جو کہ اسرائیل کا سب سے بڑا حلیف ہے، قرار داد سے خوش نہیں تھا اور اسے ویٹو کر دیا گیا۔ اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سفیر جان بولٹن کا کہنا ہے کہ یہ قرار داد بے موقع اور غیر متوازن ہے۔ اقوامِ متحدہ میں فلسطین کے نمائندے ریاض منصور نے قرار داد کو مسترد کیئے جانے کو انتہائی بدقسمتی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ غزہ میں حالات بین الاقوامی برادری کی فوری توجہ چاہتے ہیں۔
060319_mohammad_ali
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2006/03/060319_mohammad_ali
اداکار محمد علی کا انتقال ہو گیا
پاکستان کے معروف اداکار محمد علی اتوار کو لاہور میں انتقال کر گئے ۔ ان کی عمر انہتر برس تھی۔ وہ کچھ عرصے سے گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے اور ان کا ہفتے میں دو بار ڈائلیسِس کیا جاتا تھا۔
محمد علی کا جسد خاکی پیر کی صبح تک کے لیے سرد خانے بھجوا دیا گیا۔ ان کی تدفین کا انتظام ان کی بیٹی کی لاہور آمد کے بعد کیا جائے گا۔ محمد علی نے اپنے کیرئر کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدرآباد، سندھ سے کیا۔ ان کے والدین تقسیم ہند کے بعد وہاں آکر آباد ہو گئے تھے۔ ان کی بھرپور آواز نے انہیں ایک بہترین براڈکاسٹر کی حیثیت سے منوایا اور انہیں فلمی دنیا تک پہنچانے میں بھی ان کی آواز نے ہی اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے درجنوں فلموں میں بحیثیت ہیرو کے کام کیا۔ ان کی فلموں کی زیادہ تر ہیروئن ان کی بیگم زیبا تھیں۔ انہوں نے 300 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ محمد علی زندگی سے بھرپور انسان تھے اور عوامی محلفوں اور تقربیات کو پسند کرتے اور ان میں شرکت کرتے تھے۔ گزشتہ پندرہ سال سے وہ اپنا خیراتی ادارہ چلا رہے تھے اور کافی عرصے سے بیمار بھی تھے۔
130711_book_review_sa
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2013/07/130711_book_review_sa
گجرات پیڈیا، فنون، اجرا، لوک بیانیہ اور سیاست
گجرات پیڈیا، گجرات کا انسائیکلوپیڈیے کی پہلی جلد ہے، جو پاکستانی گجرات کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔ فنون کا تازہ شمارہ اپنی روایتی آب وتاب سے آیا ہے اور اس میں دو سو ستائیس لے لگ بھگ تخلیقات ہیں۔ اجرا کے تازہ شمارے میں بھی ڈیڑھ سو کے لگ بھگ تخلیقات ہیں اور ’لوک بیانیہ اور سیاست‘ کے نام سے رانا محبوب اختر کے کالموں کا مجموعہ آیا ہے۔
لوٹ پیچھے کی طرف نام کتاب: گجرات پیڈیا مدیران: احمد سلیم/ ڈاکٹر امجد علی بھٹی صفحات: 590 قیمت: 2000 روپے ناشر: شعبہ تصنیف و تالیف، یونیورسٹی آف گجرات۔ حافظ حیات کیمپس، جلال پور جٹاں روڈ گجرات یونیورسٹی آف گجرات، نہ صرف اپنی شناخت بنانے میں بلکہ ایک الگ شناخت بنانے میں کوشاں ہے۔ شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر نظام الدین چاہتے ہیں کہ جامعہ محض سرٹیفکیٹوں اور اسناد سے آرستہ لوگ ہی فراہم نہ کرے بلکہ ایسے کام بھی کرے جس کی بنا پر جامعہ کا نام ایک باوقار تعلیمی اور تحقیقی درسگاہ کے طور پر اپنی جگہ بنائے۔ جس شیخ الجامعہ کے ذہن میں ایذرا پاؤنڈ بھی گونجتا ہو، اس سے اس کی امید بھی رکھی جا سکتی ہے۔ وہ پاؤنڈ کے حوالے سے کہتے ہیں ’انسان اور تاریخ کے درمیان وہی رشتہ ہے جو آزادی اور غلامی کے درمیان ہوتا ہے۔ اگر ہم بھی تاریخ کے مابعد ہیں تو ہم ہی اس کا ضمیر اور ہم ہی اس کا شکار ہیں۔ اس کا جہنم ہماری قیمت لے کر ہی بھر سکتا ہے‘۔ یونیورسٹی کے پاس اپنے وسائل تو ہوں گے ہی لیکن اس نے احمد سلیم کو بھی اس کام میں شامل کیا ہے۔ وہ اس کے مدیران میں شامل ہیں۔ وہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ برصغیر اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں سماجیات، سیاسیات، ادب و تاریخ پر تحقیق کے لیے درکار مواد تک رسائی کے لیے رہنمائی کر سکنے والوں میں شاید واحد یا چند میں سے ایک ہیں۔ اس پیڈیا کے مقدمے میں بالکل صحیح نشاندہی کی گئی ہے کہ نوآبادیاتی دور میں پنجاب کی ضلعی تواریخ کے حوالے سے جو کام ہوا وہ ڈیڑھ سو سال گذر جانے کے باوجود بھی بنیادی ماخذ کا کام دیتا ہے۔ یہ کام انگریز سکالروں نے محکمہ مال سے وابستہ انسویں صدی کے اہلکاروں سے کرایا اور فارسی اور اردو میں ہے۔ اسی طرح گزٹیئرز، سیٹلمنٹ و ایڈمنسٹریشن رپورٹیں اور کسٹمری لاز وغیرہ کے بارے میں مترب کیا جانے والا مواد، جو جمع تو اور مقاصد سے ہوا تھا لیکن اب ہمارا ایسا تاریخی، سیاسی اور تمدنی اثاثہ ہے جو محفوظ نہ ہوتا تو ہمیں بہت سے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا اور بہت سے باتیں تو کبھی بھی نہ کھلتیں۔ محققین و مرتبین کی اس بات سے اختلاف کی کوئی گنجائش کج بحثی کے سوا نہیں نکلتی کہ اس سلسلے کو، جو بیچ میں ٹوٹ گیا تھا پھر سے جوڑا جا رہا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ایک گجرات ہی میں نہیں ہر ضلعے میں یہ کام ہونا چاہیے۔ اگر کام خلوص سے کیا جائے تو شاید تاریخ کو عوامی بنیادیں فراہم کے امکانات بھی پیدا ہو جائیں۔ پہلی جلد کے سولہ باب بنائے گئے ہیں جن میں بالترتیب، منتخب تاریخی ماخذوں کا جائزہ، مطبوعہ و غیر مطبوعہ مطالعے، لوک ورثہ، ارضیاتی، طبیعی اور آبادیاتی ماحول، تاریخ تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے بعد، انتحابی تاریخ، ثقافتی اور روحانی ورثہ، قومیں، قبیلے اور ذاتیں، فنون اور کھیل، تعلیم، صنعت، حرفت و تجارت، سماجی فلاحی/ رفاعی ادارے اور وفتگان (رفتگان یا گذر جانے والے) کے جائزے اور ذکر ہے۔ اس کے علاوہ اہم تصاویر کا بھی ایک حصہ ہے۔ یہ کام کس نوعیت کا ہو سکا ہے، اس کے بارے میں صحیح بات تو وہی کر سکیں گے جو دستاویزات سے اس کا تقابلی جائزہ لیں گے۔ میرے خیال میں تو اس کی سمت انتہائی درست ہے۔ ابھی اس کے دو حصے اور آنے ہیں، جو لگتا ہے کہ اس حصے سے زیادہ ضخیم ہوں گے۔ ان میں کیا ہو گا اس کی وضاحت نہیں کی گئی، اسی حصے میں کر دی جاتی اور ہر حصہ دوسرے دہ حصوں کی تفصیل بھی فراہم کرتا ہو تو کچھ آسانی یقینًا ہو جاتی۔ اہتمام، ترتیب، زیبائش، کاغذ اور جلد بندی اور پروڈکشن دیدہ زیب ہے لیکن قیمت ایسی ہے کہ ادارے اور خوشحال ہی خریدنے کے اہل ہوں گے۔ تصویروں اور پروفنگ پر کچھ اور توجہ درکار ہو گی۔ اس کے باجود گجرات پیڈیا نہ صرف گجرات اور گجرات یونیورسٹی کی تاریخ کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار پائے گا بلکہ پورے پاکستان کے لیے قابلِ تقلید مثال ثابت ہو گا۔ سہہ ماہی فنون شمارہ 133 نام کتاب: سہہ ماہی فنون شمارہ 133 مدیر: نیّر حیات قاسمی مدیر اعزازی: ڈاکٹر ناہید قاسمی صفحات 468 قیمت: 350 روپے رابطہ: 251- بلاک f-2- واپڈا ٹاؤن- لاہور (پاکستان) ای میل:quarterlyfunoon@gmail.com فنون کا یہ شمارہ غالبًا کچھ تاخیر سے آیا ہے۔ لیکن آیا ہے اور اب تو فنون پاکستان سے نکلنے والے چند ایک ادبی جریدوں میں سے ہے جو اپنی اشاعت جاری رکھے ہوئے ہیں ورنہ تو ادبی جریدوں کی جگہ کتابی سلسلوں نے لے لی ہے جو نسبتًا زیادہ باقاعدگی سے بھی شائع ہو رہے ہیں۔ تاخیر کے باعث یہ شمارہ کچھ ضحیم بھی ہے اور اس میں حرفِ ثانی (اداریہ) اور بین السطور کے علاوہ حمد و نعت سمیت دو سو چوبیس کے قریب نثری اور منظوم تخلیقات ہیں۔ حرفِ ثانی میں نیّر حیات قاسمی نے اردو شاعری کے سنہری دور کے گذر جانے کا سوال اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شاعری معیار کے لحاظ سے جس قدر ناتوانی کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے مقدار میں اسی قدر فربہ نظر آتی ہے۔ انحراف کو جدت کا نام دیا جا رہا ہے۔ اگر انحراف کو انحراف ہی رہنے دیا جائے تو پھربھی اس کا کچھ مطلب ہو سکتا ہے۔ ان کی رائے غور طلب بھی ہے اور بحث طلب بھی۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ادب و فن میں شاید کہیں بھی اور کبھی بھی حال کو ماضی سے بہتر نہیں جانا گیا۔ ماضی اور ماضی بعید کے بارے میں ہی بات کی جاتی ہے اور اس میں بھی آرا کا اتفاق نہیں ہوتا۔ لیکن انھوں نے انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے حوالے سے جو مسئلہ اٹھایا ہے وہ ضرورانتہائی توجہ طلب ہے، کسی بھی مدیر کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ فیس بُک پر شیئر کی جانے والی تحریروں کے بارے میں پوری طرح جان سکے۔ اب اگر وہی تحریریں جرائد کو بھی بھیج دی جائیں گی تو اس کا اثر ضرور پڑے گا۔ اس لیے ادبی جرائد میں شائع ہونے کے خواہشمندوں کو صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ جلد بازی تو یوں بھی ادب کے حق میں اچھی نہیں۔ فنون کے اس شمارے میں رفتگاں کے بارے میں مضامین کے لیے مخصوص حصے میں ہاجرہ مسرور، لطف اللہ خاں، ملک محمد جعفر اور فیضان پیرزادہ کے بارے میں تحریریں ہیں۔ مضامین کے حصے میں ڈاکٹر سلیم اختر، مرزا حامد بیگ، صوفی عبدالرشید، عامر سہیل، پیروز بخت قاضی، ظفر سِپل، نصرت انور، ڈاکٹر ناہید قاسمی، ارشد نعیم، جلیل عالی اور طاہرہ اقبال کے افکار ہیں۔ احمد ندیم قاسمی، احمد فقیہہ اور اقتدار جاوید کی طویل نظموں کے بعد 44 دوسری نظمیں بھی ہیں جواحمد ندیم قاسمی، آفتاب اقبال شمیم، آصف ثاقب، گلزار، امجد اسلام امجد، ستیہ پال آنند، قیصر نجفی، صوفی عبدالرشید، طاہر سعید ہارون، جلیل عالی، نصیر احمد ناصر، کرامت بخاری، محمد انیس انصاری، شوکت مہدی، احمد فقیہہ، نثار ترابی، شہزاد نیّر، ندیم احمد صدیقی، عامر سہیل، ثروت زہرہ، عنبرین صلاح الدین، محمد مختار علی، بہزاد برہم، زاہد نبی، نعیم رضا بھٹی، ناہید قاسمی اور نیّر حیات قاسمی کی ہیں۔ تئیس افسانے ہیں جن میں احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ’ٹریکٹر‘ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ الطاف فاطمہ، رضیہ فصیح احمد، خالدہ حسین، گلزار، رفت مرتضٰی، پروین عاطف، نیلوفر اقبال، طاہر نقوی، عطیہ سید، محمدسعید شیخ، علی تنہا، فرحت پروین، نیلم بشیر، رئیس فاطمہ، نگہت نسیم، سلمٰی افتخار صدیقی، نجیب عمر، فرخ ندیم، محمد نعیم دیپالپور، رفعت طور، نگہت یاسمین اور نیّر حیات قاسمی کے افسانے ہیں۔ ام عمارہ اور سلمٰی اعوان کے ناولوں کے حصے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کے حوالے سے پروفیسر سحر انصاری کی یادداشتیں ہیں۔ ایک سو گیارہ غزلوں کے بعد فنون لطیفہ کا حصہ ہے جس میں مختار بیگم، طلعت محمود، مہدی حسن کے بارے میں مضامین کے علاوہ ’برگساں اور سینماگرافی‘ کے بارے میں مضمون ہے اور رگِ سنگ کے عنوان سے نفیسہ قاسمی نے آرٹ کی تاریخ کے بارے میں ایک سلسلے کی پہلی قسط لکھی ہے۔ احمد ندیم قاسمی پر مستنصر حسین تارڑ کا مضمون جگہ کی کمی کی شکایت کے باوجود رسمی سا لگتا ہے۔ اختلافات و تاثرات والے حصے کے نام کی تبدیلی انتہائی ضروری محسوس ہوتی ہے۔ ’فنون‘ نے ظاہرًا اپنا معیار بحال کر لیا ہے اب لکھنے والے جیسا لکھ رہے ہیں اس کی ذمہ داری مدیر پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ فنون جیسے شاندار ماضی کا امین ہے اس کا حال ویسا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ اتنی جلد نہیں ہو سکے گا۔ کیونکہ یہ فیصلہ صرف فنون کے بارے میں نہیں ان تمام لوگوں کے بارے میں بھی ہے جو اس میں شائع ہو رہے ہیں۔ اجرا کا نیا شمارہ نام کتاب: کتابی سلسلہ، اجرا - 13 مدیر: احسن سلیم صفحات: 576 قیمت: 400 روپے ناشر: اجرا، 1-G-3/2 ناظم آباد۔ کراچی، پاکستان یہ اجرا کا 13ھواں شمارہ ہے۔ اس بیچ میں دو شمارے گیارہ، بارہ میں بارہ کی خبر اس شمارے میں شامل خطوط سے ملتی ہے۔ مجھے ان رسالوں کو ترتیب وار دیکھنے میں یہ دلچسپی ہے کہ ان میں شاہین نیازی، ول ڈیوراں کی سٹوری آف سولّائیزیشن کا ترجمہ کر رہے ہیں لیکن دسویں شمارے میں ان کے ترجمے کی قسط نہیں تھی، تو میں سمجھا کہ مصروفیات آڑے آ گئی ہوں گی یا تھک گئے ہوں گے۔ لیکن اس شمارے سے ان کی خیریت کی اطلاع ملتی ہے۔ مندرجات پر انفرادی تبصرے کی گنجائش یہاں نہیں بنتی لیکن ان لوگوں تک اطلاع ضرور پہنچ جاتی ہے جنھیں ایسی معلومات سے بھی دلچسپی ہوتی ہے۔ اسی شمارے کو لے لیں اس میں خیابانِ خیال اور اداریے کے علاوہ چھ نعتیں ہیں۔ موضوع سخن میں ڈاکٹر سلیم اختر، ذکی احمد، قیصر عالم اور ناصر شمسی کے مضامین ہیں۔ مرزا اطہر بیگ سے اقبال خورشید کا کیا ہوا انٹرویو ہے۔ امجد اسلام امجد، سلیم کوثر، احمد صغیر صدیقی، سلیم شہزاد، طالب انصاری، سید ایاز محمود، صفدر صدیقی رضی، نسیم نازش، اختر رضا سلیمی، شاہین عباس، ارشد معراج، شہاب صفدر، علی اکبر ناطق، فہیم شناس کاظمی، عارفہ شہزاد، عامر سہیل، احمد سہیل، عطاالرحمٰن قاضی، شاہد زبیر، رفعت ناہید، میثم علی آغا، الیاس بابر غوری، علی عارف، اورنگزیب اور یاسمین حامد کی منظوم اور منظور احمد میمن اورتبسم فاطمہ کی نثری نظمیں ہیں۔ تراجم میں ول ڈیوراں کے علاوہ ہنری تھوریو، انتھونی برکلے، کلمان زاتھ، نواز، ماریو برگس یوسا، عرفانہ نذیر، نور الہدٰی شاہ، ایڈگر ایلن پو اور او ہنری کی تخلیقات ہیں۔ ماہ طلعت زیدی اور مظہر حسین شاہ کے سفر نامے ہیں۔ غزلوں کے پہلے حصے میں 39 دوسرے میں 18 اور تیسرے میں 36 کے لگ بھگ غزلیں ہیں جو 51 غزل کہنے والوں کی کاوش ہیں۔ نافۂ نایاب کے عنوان سے غالب کے فارسی خطوط کا ترجمہ ہے، شان الحق حقی پر مضمون ہے، قراۃ العین حیدر اور پروین شاکر کی رنجش کا تذکرہ ہے، منٹو کے لکھے ہوئے خاکوں پر مبنی کتابوں کا جائزہ ہے، صحابہ کرام وادیِ پشاور یا بلوچستان میں کے عنوان سے مضمون ہے اور ’شبنم شکیل: خدا حافظ مرے اے ہم نشینو‘ کے عنوان سے تعزیت ہے۔ تنقید و تجزیات کا ہی ایک اور باب ’خرد افروزیاں کے عنوان سے ہے۔ جس میں اسلم جمشید پوری، انوار احمد زئی، ضیا الحسن، امجد طفیل، دانیال طریر، طاہرہ اقبال اور محمد ندیم صادق کی تحریریں اور تجزیے ہیں۔ طنز و مزاح میں صلاح الدین حیدر، ایس ایم شاہد، شوکت جمال اور ظہیر خان کی تخلیقات ہیں۔ وسعتِ بیان میں ناصر علی سید کی شاعری، عرش گیاوی پر کتاب، ذوقی کے ناول ’آتشِ رفتہ‘، رئیس فاطمہ کی کتاب ارتکاز، مرزا عابد عباس کی کتاب ’شریر خامہ کی سرمستیاں، ابنِ صفی پر راشد اشرف کی ایک اور کتاب، منٹو پر ابوالحسن نغمی کی کتاب اور سعید احمد، ممتاز اطہر اور ستیہ پال آنند کے شعری مجموؤں پر تبصرے ہیں۔ افسانے، کہانیاں اور ناولٹ کے حصے میں سمیع آہوجہ، مشرف عالم ذوقی، محمد سعید شیخ، احمد صغیر صدیقی، اجمل اعجاز، تبسم فاطمہ، محمد حامد سراج، ڈاکٹر اختر آزاد، اقبال حسن آزاد، اقبال خورشید، محمد عمر نجیب، یٰسین احمد، ممتاز رفیق، شاہد رضوان، سائرہ غلام نبی، فائق احمد اور ظہیر مرزا کی تخلیقات ہیں۔ یہ ساری تحریریں انفرادی طور بھی قابلِ تذکرہ و بحث طلب ہیں اور اجرا کے پہلے شماروں کی طرح اس شمارے کو بھی قابلِ توجہ بناتی ہیں۔ لوک بیانیہ اور سیاست نام کتاب: لوک بیانیہ اور سیاست مصنف: رانا محبوب اختر صفحات: 163 قیمت: 400 روپے ناشر: سانجھ پبلیکیشنز، 2/46 مزنگ روڈ، لاہور E-mail:sanjhpks@gmail.com یہ کتاب رانا محبوب اختر کے ان 28 کالموں کا مجموعہ ہے جو 139 صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں اور اس کتاب سے پہلے پاکستانی اخبار ’خبریں‘ میں شائع ہوئے ہیں۔ کتاب سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کالم محبوب اختر کے کالموں کا انتخاب ہیں یا انھوں نے اب تک کل یہی 28 کالم لکھے ہیں۔ اخبارات میں شائع ہونے والے کالموں کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہوتی ہے کہ وہ روزانہ شائع ہونے والے کالم ہیں یا ہفتہ وار۔ اسی طرح اخبارات میں ادارتی صفحے پر کالم نما مضامین بھی شائع ہوتے ہیں لیکن ان کا بھی عمومی دائرہ جاری واقعات و مسائل سے ہوتا ہے۔ اخبارات نے جب سے ہفتہ وار ایڈیشن شائع کرنا شروع کیے تب سے ان ایڈیشنوں پر کالم بھی شروع ہوئے ہیں لیکن وہ کالم ایڈیشن کے موضوعات کے پابند ہوتے ہیں۔ اُن سے زیادہ آزادی ان کا لموں کو ہوتی ہے جو ہفت روزوں اور ماہناموں میں شائع ہوتے ہیں۔ ایسے کالم زیادہ تر نصف مضمون اور نصف کالم ہوتے ہیں اور انھیں اپنے اسلوب میں بھی ہر طرح کی آزادی حاصل ہوتی کالم وہ محض اس لیے کہے جاتے ہیں انھیں کوئی ایک لکھنے والا باقاعدگی سے لکھتا ہے۔ عام طور پر یہ لکھنے والا کسی خاص شعبے کا ماہر ہوتا ہے۔ اسی نوع کے کالموں میں معاشیات، سماجیات، مذہبیات اور ادبیات سمیت وہ تمام شعبے جن میں یات لگایا جا سکتا ہو شامل کیے جا سکتے ہیں۔ اس نوع کے کالم لکھنے والوں کو ان کے خاص شعبے کی وجہ سے پوری آزادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنے موضوع کی مخصوص زبان اور اصطلاحات استعمال کریں، ان سے موضوعات کو عام فہم بنانے کا تقاضا بھی نہیں کیا جاتا لیکن اس کے برخلاف اخباروں میں لکھے جانے والے کالم ہر موضوع کو عام فہم اور نتیجہ خیز بنانے کے پابند ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی کالم نگار بہ وجوہ مدیر کا چہیتا ہوتا ہے تو اس صفحے کا نگراں نہ صرف چشم پوشی سے کام لیتا ہے بلکہ اس کی پروف ریڈنگ تک میں خصوصی احتیاط سے کام لیتا ہے۔ پاکستان کے اردو اخبارات میں کام کرنے والوں میں شاید ہی کوئی ہوگا جسے اس اندرونی ثقافت کی رنگا رنگیوں اور متنوع تشدد سے نہ گذرنا پڑا ہو۔ مجھے ان ساری باتوں کا خیال اس لیے آرہا ہے محبوب اختر کے کالم ذرا وکھری ٹائپ کے ہیں اور کسی نوع سے بھی اخباری نہیں ہیں لیکن اس بات سے ان کے کالموں کی متنوع فرانز فیننیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ان کی اپیل، اثر انگیزی، وسیب سے جُڑت اور دردمندی تمام کلیوں سے آزاد ہے۔ اس کے علاوہ مجھ کم علم کے لیے یہ بات بھی ذرا انوکھی ہے کہ اس کتاب کے لیے رفعت عباس، شوکت اشفاق، ہارون رشید، سید محسن، فراست علی، عاشق بزدار، رازش ملک اور ظہور دھریجہ بطور گواہ / وکیل آنا پڑا۔ رانا محبوب اختر صرف پڑھے لکھے نہیں انگریزی پڑھے لکھے ہیں، سی ایس ایس اور ملٹائی نیشنل کا تڑکا لگے۔ عملی سیاست کے تجربہ انھوں نے صوبائی انتخابات میں شریک ہو کر حاصل کیا ہے۔ تو اندازہ کیا جا سکتا ہے یہ کالم چکی مشقت سے نہیں مشقِ سخن سے پیدا ہوئے ہیں۔ کتاب ایک بار پڑھنے کی نہیں کئی بار پڑھنے کی ہے۔ بہت اچھی چھپی ہے لیکن قیمت ان پڑھنے والوں کے لیے یقینی طور پر زیادہ ہے جو مجھے اس کتاب کے مخاطبیں کی اکثریت محسوس ہوتے ہیں اور جن کے روشن مستقبل کا رانا محبوب اختر کو یقین رہتا ہے۔ میری ناقص رائے میں یہ کتاب تو اُنھیں اپنا مستقبل روشن ہونے سے پہلے ہی پڑھنی ہے۔
entertainment-52787891
https://www.bbc.com/urdu/entertainment-52787891
حرا مانی کا خصوصی انٹرویو: ’لاک ڈاؤن میں وہ زندگی میسر آئی جس کا تصور شادی سے پہلے کیا تھا‘
’میں یہی سوچتی تھی کہ ایک سادہ سی گھریلو بیوی کی زندگی ہو گی۔ جس کی سوچ لے کر میں نے شادی کی تھی لیکن وہ زندگی مجھے 12 سال بعد قرنطینہ میں ملی ہے۔‘
یہ کہنا ہے پاکستان کی معروف اداکارہ حرا مانی کا جو آج کل کراچی میں لاک ڈاؤن سے متاثر افراد کی مدد کرنے کے باعث خاصی مقبول ہیں۔ حرا لاک ڈاؤن میں گزرنے والے روز و شب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اس سے پہلے کی جو زندگی تھی وہ بہت ٹی وی، فلمی اور ڈرامائی دنیا تھی۔ ’لاک ڈاؤن میں مجھے اپنے بچوں کے لیے ٹائم مل گیا ہے۔ کس طرح صبح ہوتی ہے کب شام ہوتی ہے پتا ہی نہیں چلتا ہے۔‘ حرا نے کہا کہ کورونا لاک ڈاؤن میں انھیں وہ زندگی میسر آئی ہے جس کا تصور انھوں نے شادی سے پہلے کیا تھا۔ یہ بھی پڑھیے ڈراموں کے مرکزی خیال میں مرد کی دوسری شادی پر سوشل میڈیا پر بحث ’آپ ہمارے ساتھ یہ کیسے کرسکتی ہیں حلیمہ باجی!‘ ’زندگی کے آٹھ سال ضائع کیے، بتایا بھی نہیں کہ شادی کر لی ہے‘ مارچ میں دنیا بھر میں کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے لاک ڈاؤن شروع ہوا تو حرا امریکہ میں تھیں جہاں سے پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں انھوں نے پاکستانیوں کے مقابلے میں امریکیوں کو بزدل کہہ کر ان کا مذاق اڑایا تھا۔ بی بی سی کے ساتھ انٹرویو کے دوران حرا نے اعتراف کیا کہ انھوں نے امریکیوں کے لیے جو جملہ استعمال کیا وہ درست نہیں تھا۔ ’میں نے ایک ایسا جملہ بولا جو مجھے نہیں بولنا چاہیے تھا۔ اس وقت اتنا زیادہ لاک ڈاؤن شروع نہیں ہوا تھا یہ میرے لیے بھی نیا تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ اُس ویڈیو میں انھوں نے پاکستانیوں کی جو تعریف کی وہ نظر انداز کر دی گئی۔ 'ہم پاکستانی قوم ذرا نڈر سی قوم ہیں۔ جب ہمیں پتا چلا تھا کہ سونامی آنے والا ہے تو سب سی ویو پہنچے تھے۔ ہم لوگوں نے سنہ 1965 کی جنگ بھی دیکھی چھتوں پر کھڑے ہو کر۔‘ ’ہم پاکستانی قوم ذرا نڈر سی قوم ہیں۔ جب ہمیں پتا چلا تھا کہ سونامی آنے والا ہے تو سب سی ویو پہنچے تھے۔ ہم لوگوں نے سنہ 1965 کی جنگ بھی دیکھی چھتوں پر کھڑے ہو کر۔ ’مجھے یاد ہے کہ جب زلزلہ آیا تھا تو میں اپارٹمنٹ میں ہوتی تھی اور ہم سارے نیچے اتر گئے تھے اور ہنسی مذاق کر رہے تھے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا ایک وقت تھا جب کراچی میں ہڑتالیں ہوتی تھیں اور سب بند ہوتا تھا، یہاں سے فائرنگ وہاں سے فائرنگ۔ تو ہم لوگ تو بہت ہمت والی قوم ہیں اور میرے خیال میں ہماری ہمت کی داد تو ساری دنیا میں دی جاتی ہو گی۔ امریکہ سے واپسی پر حرا اور مانی دونوں نے مل کر لاک ڈاؤن میں محصور غریب لوگوں کی مدد کا بیڑا اٹھایا اور راشن تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ رضاکارانہ طور پر شروع کیے گئے اس کام کے بارے میں حرا نے بتایا کہ وہ اور مانی کافی عرصے سے ایک گاڑی خریدنے کے لیے پیسے جمع کر رہے تھے۔ ’ہم اس وقت بات کر رہے تھے کہ اس دفعہ ہم نے کوئی نہ کوئی 'فورچونر' تو بُک کرانی ہی کرانی ہے۔ لیکن پھر وہی ہوا کہ جب میں امریکہ سے واپس آئی اور اس طرح کے حالات ہوئے تو میں نے مانی کو کہا کہ اب نکال لیتے ہیں اس میں سے پیسے۔ کرتے ہیں یار کچھ۔ یہ بھی کر کے دیکھتے ہیں۔‘ بی بی سی کے ساتھ انٹرویو کے دوران حرا نے اعتراف کیا کہ انھوں نے امریکیوں کے لیے جو جملہ استعمال کیا وہ درست نہیں تھا ابھی ان دونوں میاں بیوی کی جانب سے خیرات بانٹے کا عمل شروع ہی ہوا تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک بار پھر تنقید شروع ہو گئی۔ اس بار خیرات کے لیے بنائے گئے راشن کے تھیلوں کے ساتھ حرا اور مانی کی تصویریں گردش کرتی رہیں اور کہا گیا کہ انھوں نے سستی شہرت کے لیے یہ کام کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بحث بھی چھڑ گئی کہ آیا خیرات کرتے وقت تشہیر درست ہے کہ نہیں؟ اس معاملے پر حرا نے دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ’جب میں اچھے برینڈڈ کپڑے پہنتی ہوں، کسی بڑے جہاز میں سفر کرتی ہوں، اپنے بچوں کے ساتھ کسی بھی تفریحی مقام پر جاتی ہوں اور جب میں ایوارڈ جیتتی ہوں تو تصویر لگاتی ہوں۔ ’تو اب جب میں یہ اچھا کام کر رہی ہوں تو اس کی بھی میں نے تصویر لگائی تاکہ آپ لوگ بھی میرا اس مقصد میں ساتھ دے سکیں۔‘ حرا مانی اپنے کرداروں کی وجہ سے خواتین میں بے حد مقبول ہیں جو اس بات کو بھی سراہتی ہیں کہ 19 سال کی عمر میں شادی اور دو بچوں کے باوجود وہ پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری میں صفِ اول کی اداکاراؤں میں اپنا نام بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔ ان کے مشہور ڈراموں میں ’یقین کا سفر‘، ’پگلی‘، ’ٹھیس‘، ’دل موم کا دیا‘، ’آنگن‘، ’بندش‘، ’دوبول‘، ’میرے پاس تم ہو‘، ’غلطی‘ اور ‘کشف‘ شامل ہیں۔ شوبز میں اپنے کام اور سوشل میڈیا پر اپنی نجی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر کھل کر اظہار کی وجہ سے وہ اکثر ٹرولنگ کا شکار بھی رہتی ہیں لیکن حرا سمجھتی ہیں کہ اظہارِ رائے کی آزادی سب کا حق ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے شوہر سے ان منفی پیغامات کو نظر انداز کرنا سیکھا ہے۔ ’ہم مشہور شخصیات ہیں۔ ہمیں یہ بات قبول کرنی چاہیے۔ جب آپ مشہور شخصیت ہوں تو آپ پر کسی بھی قسم کی کوئی بھی تنقید ہو سکتی ہے۔‘ حرا نے مزید کہا کہ ’میں ان سارے منفی کامنٹس کو بوئیل ایگز (ابلتے انڈے) کہتی ہوں جو کہیں نہ کہیں تو ابلیں گے نا۔ ’میرے پیج پر آپ کے پیج پر۔ میرے سوشل میڈیا صفحات پر آ کے آپ اپنی دکھ بھری کہانیاں بھی مجھے سنا سکتے ہیں، کسی کی برائی کرنی ہے وہ بھی کر دیں، میری بھی کردیں کیونکہ میں آپ کو روک نہیں سکتی۔‘ البتہ بچوں کے معاملے میں وہ کافی حساس نظر آئیں۔ ’بس ایک چیز پر مجھے ذرا اعتراض ہے۔ جب بچوں پر بات آتی ہے تو مجھے غصہ آتا ہے۔ میرے خیال میں یہ بہت ہی زیادہ شیطانی سوچ ہے کہ آپ کسی بچے کو گالی دے دیں۔‘ واضح رہے کہ کچھ عرصے قبل حرا نے اپنے انسٹا گرام پر بتایا کہ وہ اپنے 11 سالہ بیٹے مزمل کو ہالی وڈ کی فلم ’جوکر‘ دکھانے سنیما لے کر گئیں۔ جس کے بعد مزمل نے اُنھیں بتایا کہ وہ خود کو فلم کے مرکزی کردار جوکر سے قریب محسوس کرتے ہیں کیونکہ انھیں بھی سکول میں ہراساں کیا گیا ہے۔ جواب میں سوشل میڈیا پر لوگوں نے حرا سمیت ان کے بیٹے کو ایک ’آر ریٹڈ‘ یا بالغوں کے لیے بنی فلم دیکھنے اور دکھانے پر کافی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس معاملے پر حرا نے دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ 'جب میں اچھے برینڈڈ کپڑے پہنتی ہوں، کسی بڑے جہاز میں سفر کرتی ہوں، جب میں اپنے بچوں کے ساتھ کسی بھی تفریحی مقام پر جا کے وقت گزار رہی ہوتی ہوں اور جب میں ایوارڈ جیتتی ہوں تو تصویر لگاتی ہوں۔ تو اب جب میں یہ اچھا کام کر رہی ہوں تو اس کی بھی میں نے تصویر لگائی تاکہ آپ لوگ بھی میرا اس مقصد میں ساتھ دے سکیں۔' حرا مانی اپنے کرداروں کی وجہ سے خواتین میں بے حد مقبول ہیں جو اس بات کو بھی سراہتی ہیں کہ 19 سال کی عمر میں شادی اور دو بچوں کے باوجود وہ پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری میں صفِ اول کی اداکاراؤں میں اپنا نام بنانے میں کامیاب رہیں۔ ان کے مشہور ڈراموں میں 'یقین کا سفر'، 'پگلی'، 'ٹھیس'، 'دل موم کادیا'، 'آنگن'، 'بندش'، 'دوبول'، 'میرے پاس تم ہو'، 'غلطی' اور 'کشف' شامل ہیں۔ شوبز میں اپنے کام اور سوشل میڈیا پر اپنی نجی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر کھل کر اظہار کی وجہ سے وہ اکثر ٹرولنگ کا شکار بھی رہتی ہیں لیکن حرا سمجھتی ہیں کہ اظہارِ رائے کی آزادی سب کا حق ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے شوہر سے ان منفی پیغامات کو نظر انداز کرنا سیکھا ہے۔ ’ہم مشہور شخصیات ہیں۔ ہمیں یہ بات قبول کرنی چاہیے۔ جب آپ مشہور شخصیت ہوں تو آپ پر کسی بھی قسم کی کوئی بھی تنقید ہو سکتی ہے۔‘ حرا نے مزید کہا کہ 'میں ان سارے منفی کامنٹس کو بوئیل ایگز (ابلتے انڈے) کہتی ہوں جو کہیں نہ کہیں تو ابلیں گے نا۔ ’میرے پیج پر آپ کے پیج پر۔ میرے سوشل میڈیا صفحات پر آ کر آپ اپنی دکھ بھری کہانیاں بھی مجھے سنا سکتے ہیں،کسی کی برائی کرنی ہے وہ بھی کردیں، میری بھی کر دیں کیونکہ میں آپ کو روک نہیں سکتی۔‘ البتہ بچوں کے معاملے میں وہ کافی حساس نظر آئیں۔ ’بس ایک چیز پر مجھے ذرا اعتراض ہے۔ جب بچوں پر بات آتی ہے تو مجھے غصہ آتا ہے۔ میرے خیال میں یہ بہت ہی زیادہ شیطانی سوچ ہے کہ آپ کسی بچے کو گالی دے دیں۔‘ واضح رہے کہ کچھ عرصے قبل حرا نے اپنے انسٹا گرام پر بتایا کہ وہ اپنے گیارہ سالہ بیٹے مزمل کو ہالی وڈ کی فلم ’جوکر‘ دکھانے سنیما لے کر گئیں۔ جس کے بعد مزمل نے اُنھیں بتایا کہ وہ خود کو فلم کے مرکزی کردار جوکر سے قریب محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ بھی سکول میں حراساں کیا جاتا ہے۔ جواب میں سوشل میڈیا پر لوگوں نے حرا سمیت ان کے بیٹے کو ایک آر ریٹڈ یا بالغوں کے لیے بنی فلم دیکھنے اور دکھانے پر کافی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
041215_iran_nuclear_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/12/041215_iran_nuclear_fz
’ایران سے بات کرنے کا ارادہ نہیں‘
وائٹ ہاوس کے ایک ترجمان نے وضحات کی ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری اسلح کے بارے میں مذاکرات کرنے کا امریکہ کا کوئی ارادہ نہیں۔
وائٹ ہاوس کے ترجمان اسکاٹ میکلینن نے کہا امریکہ ان یورپی ممالک کی حوصلہ افزائی کرتا رہے گا جو ایران کو جوہری پروگرام ترک کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ترجمان ایرانی وزیر خارجہ کمال خرازی کے اس بیان پر رد عمل کا اظہار کر رہے تھے جس میں کمال خرازی نے کہا تھا کہ ایران باہمی احترام کی بنیاد پر مذاکرات کرنے کے تیار ہے۔ کمال خرازی نے یہ بیان برسلز میں پیر کے روز سے یورپی یونین کے ساتھ شروع ہونے والے مذاکرات کے بارے میں دیا تھا۔ ان مذاکرات کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں طویل المیعاد معاہدہ طے کرنا ہے۔
070422_baghdad_violence_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/04/070422_baghdad_violence_fz
فلوجہ میں کونسل کے سربراہ ہلاک
عراق میں جاری پرتشدد کارروائیوں کے دوران اتوار کو بغداد میں ایک پولیس اسٹیشن پر دو خودکش کار بم دھماکوں میں تیرہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ فلوجہ میں شہر کی کونسل کے سربراہ سمیع عبدالمیر الجمالی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔
بغداد کے شیعہ اکثریتی علاقے میں واقع پولیس اسٹیش پر ہونے والے دھماکوں میں متعدد افراد زخمی ہوئے لیکن ان کی تعداد کے بارے میں حتمی اطلاع موصول نہیں ہو سکی۔ پولیس کے ایک ترجمان کے مطابق ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں پولیس اہلکار اور شہری دونوں شامل ہیں۔ ادھر عراق کے مغربی شہر فلوجہ میں شہری کونسل کے سربراہ سامي عبد الامير الجميلي کو نامعلوم افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ فلوجہ جہاں سنی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت آباد ہے وہاں گزشتہ چودہ مہینوں میں شہر کی کونسل کے یہ چوتھے رکن ہیں جن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق سامي عبد الامير الجميلي کا قتل سنی فرقے میں شدید تضادات کی عکاسی کرتا ہے۔ سامي عبد الامير الجميلي ایک قبیلے کے رہنما تھے اور وہ القاعدہ کے شدید مخالف سمجھے جاتے تھے۔ وہ امریکی کے ساتھ تعاون کرنے کے حامی تھے۔
050423_horsepolitics_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/04/050423_horsepolitics_sen
پنجاب میں گھوڑا سیاست
پاکستانی پنجاب کے وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی کے بارے میں لگتا ہے انہوں نے کنیہا لال ہندی کی تاریخ پنجاب کے کچھ صفحے ضرور پڑھے ہیں جو انہوں نے مشرقی پنجاب کے وزیر اعلی امریندر سنگھ کو تحفے کے طور پر گھوڑا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ سلطان نامی یہ گھوڑا بھارت کی سر زمین پر قدم رکھنے سے پہلے ہی لنگڑا ہو گیا اور اس کی جگہ پر متبادل گھوڑا پیش کیا جانے والا ہے لیکن اگر امریندر سنگھ کی بجائے راجہ رنجیت سنگھ ہوتے تو وہ چوہدری برادران کو مالا مال کردیتے کیونکہ موصوف کو خوبصورت گھوڑوں کا اس قدر جنون تھا کہ بہت سے علاقوں پر صرف گھوڑے چھیننے کے لیے حملے کیے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پنجاب کے معاملات میں گھوڑا سیاست کا کافی ہاتھ رہا ہے۔
رنجیت سنگھ کی پشاورسیاست میں لیلی نامی گھوڑے نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ لیلی پشاور کےحاکم یار محمد خان کی ملکیت میں تھا جس کو وہ جان سے زیادہ عزیز مانتا تھا۔ فتح علی خان قاچاری شاہ ایران نے اس گھوڑے کو لینے کے لیے پچاس ہزار روپیہ نقد (جو آج کے اعتبار سے کئی کروڑ روپیہ ہوگا)اور پچاس ہزار روپے سالانہ کی جاگیر کی پیشکش کی تھی۔ شہنشاہ روم نے بھی اس گھوڑے کے حصول کے لیے شہنشاہ ایران کو لکھا لیکن یار محمد نے اپنی زندگی میں یہ گھوڑا کسی کو نہ دیا۔ جب رنجیت سنگھ کو اس گھوڑے کے بارے میں پتہ چلا تو بقول کنہیا لال وہ ’مجنون ہوگیا‘ اور فوجی جرنیلوں سے کہا کہ یار محمد خان سے گھوڑا لیا جائے یا پشاور پر قبضہ کر لیا جائے۔ یار محمد خان نے بہت بہانے کیےاور جب کوئی بن نہ پڑی تو حکومت چھوڑ گھوڑا لے کر کابل بھاگ گیا۔ بعد میں اس نے رنجیت سنگھ کو یقین دلا دیا کہ گھوڑا مر گیا ہے۔رنجیت سنگھ نے اسے معاف کرکے پشاور واپس دیدیا۔ کچھ عرصہ بعد رنجیت سنگھ کو کسی جاسوس نے بتایا کہ لیلی گھوڑا اس کے پاس ہی ہے۔ رنجیت سنگھ نے اپنے بیٹے شہزادہ کھڑک سنگھ کو فوج دے کر بھیجا کہ یار محمد سے گھوڑا لے یا علاقہ چھین کر اسے ختم کردے۔ یار محمد خان نے گھوڑا دینا منظور نہ کیا اور شاہ احمد بریلوی شہید سے جا ملا۔ اس کے جواب میں رنجیت سنگھ نے یورپی جنرل ونتورہ کو ان کی سرکوبی اور لیلی گھوڑا لانے کے لیے بھیجا۔یار محمد خان اور شاہ احمد میں ناچاقی ہوگئی اور ایک لڑائی میں یار محمد مارا گیا۔ جنرل ونتورہ نے لیلی گھوڑے کو رنجیت شنگھ کے حضور بھیج دیا اور پشاور سلطان محمد خان کے سپرد کر دیا۔ رنجیت سنگھ لیلی کے ملنے سے پھولے نہ سمایا اور جنرل ونتورہ کی جاگیر دوگنا کردی۔ اسی زمانےمیں رنجیت سنگھ کو یہ خبر ملی کہ مذکورہ سلطان محمد خان کے بھائی شیر محمد خان کے پاس ’شیریں‘ نامی گھوڑا ہے۔ اس کو چھیننے کے لیے بھی شہزادہ کھڑک سنگھ کو فوج دے کر بھیجا گیا۔ کچھ رد و کد کے بعد شیر خان نے دس ہزار روپے سالانہ کی جاگیر کے بدلے شیریں گھوڑا رنجیت سنگھ کو دینا منظور کیا۔ اسی طرح نواب منکیرہ کے پاس بھی ایک پری نام کا گھوڑا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اس قدر سفید ہے کہ اس کے بدن پر کوئی اور داغ نہیں ہےاور دن میں ستر کوس (تقریبا سو میل) کا فاصلہ طے کر لیتا ہے۔ رنجیت سنگھ نے اپنے مشہور جرنیل مصر چند دیوان کو لکھا کہ وہ نواب سے گھوڑا طلب کرے اور اگر نواب دینے سے انکار کرے تو اس کی جائداد چھین لی جائے۔ دیوان مصر چند کچھ دن پہلے ہی اس سے زر نذرانہ یا خراج وصول کر کے آیا تھا لیکن راجہ کا حکم ملتے ہی واپس ہوا اور نواب سے گھوڑا چھین کر رنجیت سنگھ کی طرف روانہ کیا۔ انگریزوں کو بھی رنجیت سنگھ کی اس کمزوری کا بخوبی علم تھا لہذا انہوں نے بھی رنجیت سنگھ کے ملکہ کے لیے بھیجے تحفوں کے عوض چار گھوڑیاں اور ایک بینظیر گھوڑا بھیجا لیکن اس سلسلے میں سیاست یہ کی کہ رنجیت سنگھ سے کہا کہ یہ گھوڑیاں اور گھوڑے براستہ سندھ بھیجے جا سکتے ہیں۔ انگریز گھوڑے بھیجنے کے بہانے مستقبل کی فوجی مہموں کے لیے سندھ کا راستہ معلوم کرنا چاہتے تھے اور دریائے سندھ سے تجارت کے امکانات کا اندازہ لگانا چاہتے تھے۔ رنجیت سنگھ نئےگھوڑے ملنے کے نشے میں دھت تھا اور اس نے بلا تامل اس کی اجازت دے دی۔ انگریزوں نے بھی گھوڑا سیاست سے مقدور بھر فائدہ اٹھایا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چوہدریوں کا گھوڑا کس راستے سے امریندر سنگھ تک پہنچتا ہے اور کیا رنگ دکھاتا ہے۔
070227_iran_analysis_hk
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/02/070227_iran_analysis_hk
احمدی نژاد کی مشکلات میں اضافہ
ایران میں اٹھارہ ماہ قبل ہونے والے انتخابات میں متاثر کن کامیابی کے بعد کسی کو یہ امید نہیں تھی کہ احمدی نژاد کو ملک کے اندر اس قدر تنقید کا سامنا کرنا پڑےگا۔ایران پر مزید دباؤگزشتہ چند ہفتوں کے دوران ان پر تمام سیاسی حلقوں کی طرف سے تنقید ہورہی ہے اور بائیں بازو، اصلاح پسند جماعتوں، سابق صدر ہاشمی رفسنجانی، بااثر قدامت پسند رہنماوں اور خود احمدی نژاد کے چند سخت گیر اتحادیوں نے ان پر تنقید کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
جولائی دوہزار پانچ میں انتخابی کامیابی کے بعد سےاحمدی نژاد نے مسلسل جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ بین الاقوامی جوہری توانائی کے ادارے اور یورپ کے ساتھ جوہری توانائی کے مسئلے پر ایران کے مذاکرات کاروں کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔ان پر الزام ہے کہ ’انہوں نے کمزوری دکھائی ہے اور زوال پذیر مغربی طاقتوں کی خواہشات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔‘ آیت اللہ خمینی کی تقلید کر تے ہوئے انہوں نے امریکی عوام کو پیغام جبکہ صدر بش کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔ احمدی نژاد نے کہا تھا کہ تقریبا ایک صدی سے جاری عرب اسرائیل تنازعے کا واحد حل یہی ہے کہ یہودیوں اور فلسطینیوں کے درمیان ریفرنڈم کرایا جائے تاکہ وہ اسرائیل کے مستقبل کا فیصلہ خود کرسکیں۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای نے بارہا صدر احمدی نژاد کے موقف کی حمایت کی ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں رمضان کے مہینے کے دوران ان کے ناقدین کو خبردار کیا گیا تھا کہ وہ اپنے خیالات کے اظہار کے وقت ایمانداری اور غیرجانبداری سے کام لیں کیونکہ صدر غریبوں کی فلاح وبہبود کے لیے انتھک محنت کررہے ہیں۔ نومبر کے آخر تک احمدی نژاد کی شہرت کا ستارہ بام عروج کی جانب گامزن تھا لیکن دوسری طرف معاشی سطح پر کوئی پیش رفت نہیں ہورہی تھی۔ اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد احمدی نژاد نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں موجود بڑی تعداد میں غریب ایرانیوں کے معیار زندگی کو بہتر بنائیں گے۔ سترہ ملین ایرانیوں نے اس امید پر ووٹ دیا کہ وہ غربت میں کمی ، مہنگائی کا خاتمہ اور نئی ملازمتوں کے مواقع فراہم کریں گے۔ اسکے برعکس مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ہاؤسنگ سیکٹر میں قیمتیں بے تحاشا بڑہ گئی ہیں اور غریب اور امیر کے درمیان خلیج مزید گہری ہوگئی ہے۔ صدر کی کارکردگی پرشکوک وشبہات کا آغاز خود ان کے ساتھیوں کی طرف ہوا۔ ایرانی پارلیمنٹ کے تحقیقی ادارے جسکا کا کام اہم معاملات پر صدر کومشورے دینا ہوتا ہے۔ اس ادارے کے سربراہ نے احمدی نژاد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ملک کی تیل کی محصولات پر مبنی خصوصی فنڈ سے بغیر سوچے سمجھے رقومات نکلوائی ہیں ۔ ایران کے سخت گیر رہنما اور ماہر اقتصادیات احمد توکلی نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کوتقریباً ختم کردیا ہے۔ احمدی نژاد نے اس بیان پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنا کام جاری رکھا ۔ان کی انتخابی کامیابی کے بعد دسمبر کے اوائل میں ہونے والے مقامی حکومتوں کے پہلے انتخابات نے صورتحال کو فیصلہ کن موڑ پر لا کھڑا کیا۔ انتخابی مہم کے آغاز میں سب کا خیال تھا کہ اصل مقابلہ صدر کے سخت گیر ساتھیوں اور اصلاح پسندوں کے درمیان ہوگا۔ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ قدامت پسند یا تو کامیابی حاصل کر لیں گے یا پھر زیادہ تر نشتیں ان کے حصہ میں آئیں گی ۔انتخابی مہم کے ختم ہوتے ہی یہ بات واضح ہوتی چلی گئی کہ قدامت پسندوں کے درمیان شدید اختلافات موجود ہیں۔ اختلافات کی وجہ واضح تھی۔ ضرورت سے زیادہ پر اعتماد صدر نے دیگر قدامت پسند رہنماؤں کے ساتھ امیدواروں پر اتفاق کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان اختلافات کے نتیجے میں قدامت پسندوں کی طرف سےکئی حلقوں پر دو مختلف امیدواروں کی فہرستیں سامنے آئیں جس نے زیادہ تر ایرانیوں کو حیران کر دیاتھا۔ انتخابی نتائج صدر احمدی نژاد کے لئے تباہ کن ثابت ہوئے خصوصی طور پر تہران اور دیگر بڑے شہروں میں انکو سخت انتخابی دھچکا لگا۔ شکست کے فوراً بعد دسمبر دوہزار چھ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران پر پابندیاں عائد کیں جس کی وجہ سے صدر پر تنقید میں اضافہ ہوا۔ ان کی اقتصادی اور خارجہ پالیسی تنقید کا محور ٹھہرا۔ ایران کے بڑے رہنما نےگزشتہ تین ماہ سے صدر کے ساتھ ملاقات نہیں کی ہے جسکی وجہ شاید ان پر ہونے والی تنقید ہو۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے دی گئی دو ماہ کی مہلت کے خاتمے تک احمدی نژاد اپنے ناقدین کوکوئی جواب نہیں دے سکے۔ ایران کے صوبہ گیلان کے شہر رشت میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کے دوران احمدی نژاد نے ملک کے جوہری پروگرام پر اپنے سخت گیر موقف کا ایک بار پھر اعادہ کیا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ شاید جوہری معاملے پر صدر کے موقف میں نرمی آجائے گی لیکن انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ امریکہ کا دباؤ قبول نہیں کیا جائےگا۔ انہوں نے کہا جب تک جوہری ہتھیاروں کے مسئلے پر ایرانی عوام ان کے ساتھ کھڑے ہیں تب تک ان کی حکومت ایٹمی پروگرام کو جاری رکھے گی۔ یہ معلوم نہیں ہےکہ جوہری پروگرام کا مسئلہ مستقبل میں کمزور صدر کی حیثیت کومستحکم کرتاہے یا نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جوہری معاملے میں احمدی نژاد اپنےموقف پر قائم رہنے کے لیے پر عزم ہیں۔
061028_prep_miss_fz
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/10/061028_prep_miss_fz
سرینگر: لاپتہ افراد پر پروگرام
ہندوستان کے زیرِانتظام کشمیر میں لاپتہ لوگوں کے موضوع پر سری نگر سے ویب کاسٹ کی تیاریاں ہو ہی رہی تھیں کہ وادی کے ہر خطے سے سینکڑوں فون کالز ہمارے پاس آنے لگیں۔بھارت کے زیر انتظام کشیمر کے لاپتہ افراد پر خصوصی پروگرام
ہر کوئی اس پروگرام کی تفصیل جاننا چاہتا تھا۔ جن کے اپنے لاپتہ ہیں وہ اس پروگرام میں حصہ لینے کے خواہشمند تھے ۔ وہ اپنا درد ہمارے توسط سے دنیا کو بتانا چاہتے ہیں۔ کئی نشستوں میں پروگرام کے انعقاد سے متعلق تمام تر پہلوؤں کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔ اور پوری ٹیم کو الگ الگ ذمے داریان سونپی گئیں۔ اس حوالے سے پروگرام کے انعقاد اور ساتھ ہی براہ راست ویب کاسٹ و براڈ کاسٹ سے متعلق تیاریوں کو حتمی شکل دی گئی۔ ابتدائی تیاری کے آخر پر پروگرام کی ایک کامیاب مشق بھی کی گئی۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام اور ریڈیو پر اس پروگرام کی تشہیر کی وجہ سے عوامی حلقوں کے ساتھ ساتھ سیاسی سماجی اور انسانی حقوق کے لیئے سرگرم حلقوں نے بھی پروگرام کے بارے میں دریافت کیا۔ پچاس منٹ کے اس پروگرام کو ہندوستانی وقت کے مطابق ساڑھے آٹھ اور پاکستانی وقت کے مطابق آٹھ بجے شب ریڈیو پر سنا جا سکے گا جبکہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے قارئین پروگرام کی مفصل رودا کے علاوہ اس کی ویڈیو بھی دیکھ سکیں گے۔ اس پروگرام میں لاپتہ افراد کے تقریباً بارہ نمائندہ لواحقین اپنی روداد بیان کریں گے۔ ان کے تاثرات پر حکومت کی طرف سے دو سینیئر وزراء ، فوجی ترجمان اور انسانی حقوق کے ایک سرکردہ کارکن اپنا اپنا رد عمل پیش کریں گے۔
pakistan-51678181
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51678181
بلوچستان میں جبری گمشدگیاں: ’واپس آنے والے اسی حکومت میں لاپتہ ہوئے‘
بلوچستان کے علاقے نوشکی کے نوجوان مزار خان ساسولی کی گذشتہ برس دس سال بعد رہائی عمل میں آئی ہے۔ وہ جولائی 2009 میں جبری طور پر گمشدہ قرار پائے تھے اور اب رہائی کے بعد انھوں نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ موجودہ حکومت میں جن لاپتہ افراد نے رہائی پائی ہے ان میں وہ سب سے زیادہ عرصہ تک لاپتہ رہ چکے ہیں۔
موجودہ حکومت میں گمشدہ افراد کی واپسی کا آغاز ہوا تاہم یہ عمل بھی سیاسی ضروریات کے تحت نظر آتا ہے (فائل فوٹو) لاپتہ افراد کی واپسی سیاسی ضرورت بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس دستیاب فہرست کے مطابق ابھی تک صرف 275 کے قریب افراد واپس آئے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں 5128 لاپتہ افراد کی فہرست پیش کی تھی اور عمران خان کی حکومت کی مشروط حمایت کے لیے پیش کیے چھ نکات میں سے ایک نکتہ لاپتہ افراد کی واپسی بھی تھی۔ موجودہ حکومت میں گمشدہ افراد کی واپسی کا آغاز ہوا تاہم یہ عمل بھی سیاسی ضروریات کے تحت نظر آتا ہے۔ سردار اختر مینگل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت تک 500 افراد گھروں کو واپس آچکے ہیں لیکن انہوں نے جو فہرست پیش کی تھی اس میں سے صرف اکا دکا ہی واپس آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’اس ملک کی یہ ہی روایت ہے کہ جب کوئی کام یاد آتا ہے تو پھر ضرورت پڑتی ہے، رواں مالی سال کے بجٹ سیشن کے وقت 450 افراد واپس آئے اس کے بعد 52 افراد رہا ہوئے ہیں۔‘ یہ بھی پڑھیے ماما قدیر کون ہیں؟ ’جبری گمشدگیوں کو سیاسی رنگ دیا گیا‘ 'کچھ لاتیں اور گھونسے مارے اور کہا غلط فہمی پر اٹھایا تھا' جبری گمشدگیاں: ’700 کیس زیر التوا، مزید سینکڑوں کی اطلاع‘ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پاس دستیاب بازیاب ہونے والے 275 افراد کی فہرست کے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی اکثریت یعنی 101 افراد موجودہ حکومت کے دور یعنی 2019 اور 2019 کے نصف میں ہی لاپتہ ہوئے اور چند ماہ کے بعد انھیں رہائی حاصل ہوئی (فائل فوٹو) بازیاب افراد کی اکثریت اسی حکومت میں لاپتہ ہوئی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پاس دستیاب بازیاب ہونے والے 275 افراد کی فہرست کے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی اکثریت یعنی 101 افراد موجودہ حکومت کے دور یعنی 2018 اور 2019 کے نصف میں ہی لاپتہ ہوئے اور چند ماہ کے بعد انھیں رہائی حاصل ہوئی۔ تاہم طویل عرصے سے لاپتہ افراد میں سے ابھی اکثریت کی بازیابی نہیں ہوئی ہے۔ اصغر بلوچ کا شمار بھی ان لاپتہ افراد میں ہوتا ہے جنھیں پہلے مرحلے میں یعنی سنہ 2000 میں مبینہ طور پر جبراً لاپتہ کیا گیا۔ ان کے بھتیجے نصراللہ بلوچ نے چچا کی گمشدگی کے خلاف احتجاج کیا۔ دیگر متاثرین کے ساتھ مل کر وائس فار مسنگ پرسنز کا قیام عمل میں لائے، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے لیکن ان کے چچا واپس نہیں آئے اور موجودہ حکومت میں جب لاپتہ افراد کی واپسی کا آغاز ہوا تو ان میں بھی ان کے چچا شامل نہیں۔ انسانی حقوق کمیشن بلوچستان کے کوآرڈینیٹر فرید شاہوانی کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی واپسی مثبت پیش رفت ہے لیکن اس میں کبھی تیزی آجاتی ہے اور کبھی سست رفتاری رہتی ہے صرف رواں سال میں 53 افراد بازیاب ہوچکے ہیں تاہم جو لوگ واپس آرہے ہیں ان کی اکثریت وہی ہے جو 2018 اور 2019 کو اٹھائے گئے تھے۔ لواحقین کمیشن سے ناخوش پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا آغاز 2000 سے ہوا تقریباً 10 سال کے بعد 2011 میں جبری گمشدگیوں کا پتہ لگانے کے لیے کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا، کمیشن چاروں صوبوں کے کئی شہروں میں درخواستوں کی سماعت کرچکا ہے اور اس کی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ 1977 جبری لاپتہ افراد گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2019 تک 6500 سے زائد افراد کی گمشدگی کی شکایات آئیں جن میں سے 4365 نمٹائی گئیں، 872 کو فہرست سے نکال دیا گیا، 3500 کے قریب کا سراغ لگایا گیا، 501 جیلوں اور 810 حراستی کیمپوں میں زیرِ حراست ہیں۔ جبری گمشدگی کے بارے میں کمیشن کا دعویٰ ہے کہ لاپتہ افراد میں سے 205 افراد کی لاشیں ملیں ہیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کی تعداد کئی گنا زیادہ بتاتی ہیں۔ ایچ آر ایس پی کی 2017 کی رپورٹ کے مطابق ایک سال میں 90 مسخ شدہ لاشیں ملیں۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی موجودہ حکومت نے مذاکرات کے دوران انھیں پیشکش کی تھی کہ ان کی پیش کردہ فہرست پر کمیٹی بناتے ہیں یا کمیشن کے حوالے کرتے ہیں لیکن لاپتہ افراد کے لواحقین نے اس کی مخالفت کی کیونکہ کمیشن کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ یہ کوئی مثبت پیش رفت نہیں کرسکا ہے۔ بدین میں مظاہرہ (فائل فوٹو) بلوچستان حکومت بھی کوشاں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے جب قومی اسمبلی میں گمشدگیوں کے مسئلے کو اٹھایا تو ان کے اس اقدام میں صوبے میں سیاسی سطح پر سراہا گیا نتیجے میں ان کے سیاسی مخالف جام کمال پر بھی سیاسی دباؤ آگیا۔ نصراللہ بلوچ کے مطابق جام کمال نے انھیں بتایا کہ وہ ان کی فراہم کی گئی فہرست وزیر اعظم اور آرمی چیف سمیت دیگر اداروں کے سربراہان کے پاس لے جائیں گے بعد میں ان سے ملاقات سے واپسی پر ایک طویل نشست ہوئی تھی۔ وہ کہتے ہیں ’جام کمال نے آگاہ کیا کہ آرمی چیف نے کہا ہے کہ تصدیق شدہ فہرست حاصل کریں اس پر عملدرآمد ہوگا، ہم نے انھیں 450 افراد کی فہرست پیش کی جس میں سے نصف کے قریب لوگ بازیاب ہوچکے ہیں۔ اس سے قبل ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور اسلم رئیسانی سے بات ہوتی تھی تو ان کا یہ ہی جواب ہوتا تھا کہ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔‘ بلوچستان میں ملکی اور غیر ملکی ایجنسیاں سرگرم بلوچستان حکومت اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے درمیان ملاقات میں صوبائی وزیر داخلہ ضیا لانگو بھی موجود تھے، بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر تنظیم نے 290 افراد کی فہرست پیش کی تھی جب اس میں پیش رفت ہوئی تو لوگوں کا اعتماد بڑھ گیا اور اس فہرست میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ تعداد 350 تک پہنچ گئی جن میں سے 300 کے قریب لوگ واپس آچکے ہیں اور حکومت کی کوشش ہے کہ باقی لوگ بھی واپس آجائیں۔ وہ کہتے ہیں ’بلوچستان میں گریٹ گیم جاری تھا۔ تین ممالک کی ایجنسیاں سرگرم ہیں اور ہماری ایجنسیاں بھی کام کر رہی ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ کہاں گئے کسی بیرونی ایجنسی کے پیرول پر چل گئے، دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھ چڑھ گئے اگر وہ ہمارے ملک کی ایجنسیوں کے کسی تفتیشی عمل سے گذر رہے ہیں تو وہ بازیاب ہوتے چلے گئے باقی بھی ہوں گے۔ وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا دعویٰ ہے کہ موجودہ وقت مسنگ پرسنز کا کوئی مسئلہ نہیں ہے آج سے دس پندرہ سال قبل لوگ افغانستان اور کمشیر جہاد کے لیے چلے جاتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے (فائل فوٹو) تحریک انصاف حکومت میں 1216 افراد کی جبری گمشدگی ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی دورِ اقتدار کے 17 ماہ میں 1216 افراد کی جبری گمشدگی کے واقعات پیش آئے ہیں، جبری گمشدگی کے بارے میں کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2018 کے دوران اگست سے لیکر دسمبر تک 416 جبکہ 2019 میں مزید 800 افراد کی جبری گمشدگی کی شکایت درج کی گئیں ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن بلوچستان کے کوآرڈینیٹر فرید شاہوانی کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ رکا نہیں ہے بلکہ جاری ہے لیکن اب یہ واقعات رپورٹ کم ہو رہے ہیں لواحقین سوچتے ہیں کہ ہوسکتا ہے واپس آجائیں کیونکہ اب دو تین ماہ کے بعد کئی لوگ واپس آجاتے ہیں۔ فرید کہتے ہیں ’جو واپس آرہے ہیں بات کرنے کو تیار نہیں ہیں وہ کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں، پنجگور اور تربت میں بعض ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ جو لوگ اٹھائے گئے تھے وہ رہا ہوئے اور بعد میں دوبارہ اٹھالیے گئے۔ پاکستان کی وزارت انسانی حقوق کی سربراہ شیریں مزاری کہہ چکی ہیں کہ جبری طور پر لاپتہ افراد کی ایف آئی آر درج کی جائے گی، حکومت قانون سازی بھی کر رہی ہے، تاہم بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ ابھی تک ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے جس کی جبری گمشدگی کی ایف آئی آر درج کی گئی ہو۔ وہ پہاڑوں پر چلے گئے ہیں، لاپتہ نہیں وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا دعویٰ ہے کہ موجودہ وقت مسنگ پرسنز کا کوئی مسئلہ نہیں ہے آج سے دس پندرہ سال قبل لوگ افغانستان اور کمشیر جہاد کے لیے چلے جاتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ بلوچستان میں ایک روایت ہے کہ جب وہ لڑائی کرتے ہیں تو پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں وہ لاپتہ افراد نہیں ہیں۔ اعجاز شاہ کہتے ہیں ’جو اعداد و شمار ہیں ان میں بھی بڑا ابہام ہے۔ کتنے لوگ جبری طور پر گمشدہ ہیں، میرے پاس بھی ان کی صحیح تعداد نہیں۔ ایجنسیوں کے پاس کچھ اور تعداد ہے، پولیس، سویلین انتظامیہ اور سیاسی قیادت کے پاس الگ الگ تعداد ہے، کوئی شکایت ہے تو ہم اس کو سن رہے ہیں لیکن یہ اب کوئی ایشو نہیں ہے۔ جو پرانے کیسز ہیں ان کو حل کرنے کے لیے تمام کوششیں کر رہے ہیں کچھ لوگوں کا سندھ میں پتہ لگایا گیا اور کچھ کا بلوچستان میں وہ اب جاچکے ہیں۔‘ انسانی حقوق کمیشن نے گذشتہ سال اکتوبر میں بلوچستان پر اپنے جائزہ رپورٹ میں ڈیرہ بگٹی اور آواران سے خواتین اور بچوں کی گمشدگی کا بھی ذکر کیا ہے، اس رپورٹ میں سفارش کی گئی تھی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائیں، جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی کی جائے اور اس میں ملوث افراد کو سزا دی جائے۔
050707_london_blast_edgwareroad
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2005/07/050707_london_blast_edgwareroad
ایجوئیر روڈ
تفصیلات کے لئے متعلقہ مقام پر کلک کریں
تیسرا دھماکہ مغربی لندن کے اس اہم سٹیشن پر صبح نو بج کر سترہ منٹ پر اس وقت ہوا جب ایک ٹرین پیڈنگٹن کے لئے روانہ ہورہی تھی۔ بعد میں یہ واضح ہوا کہ ایک ٹرین میں دھماکے سے اس کے ساتھ ایک دیوار کے پار کھڑی دوسری ٹرین بھی متاثیر ہوئی۔ پولیس نے اس واقعے میں پانچ افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔
140312_mush_case_master_spy_summoned_rk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/03/140312_mush_case_master_spy_summoned_rk
پرویز مشرف کیس: خفیہ ادارے کا سربراہ عدالت میں طلب
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے اُس خفیہ ادارے کے سربراہ کو 13 مارچ کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے جس نے عدالت میں پیشی کے موقع پرپرویز مشرف کے خلاف ہونے والے ممکنہ حملے سے متعلق وزارت داخلہ کے ادارے نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل کو خفیہ رپورٹ بجھوائی تھی۔
بینچ کے سربراہ نے کہا کہ خفیہ ادارے کی اطلاع کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا عدالت نے اپنے حکم نامے میں اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ کون سی خفیہ ایجنسی نے سابق صدر پر شدت پسندوں کے ممکنہ حملوں سے متعلق وزارت داخلہ کو رپورٹ بجھوائی تھی اور نہ ہی سیکریٹری داخلہ نے 11 مارچ کو عدالت میں پیش ہوکر یہ بتایا تھا کہ کون سے خفیہ ادارے نے پرویز مشرف کی خصوصی عدالت میں پیش کے موقع پر شدت پسندوں کے ممکنہ حملوں کی اطلاع دی تھی۔ تاہم اس خفیہ ادارے سے متعلق وزارت داخلہ کے حکام خصوصی عدالت کے رجسٹرار کو بتائیں گے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کے مطابق اس وقت ملک میں 26 انٹیلیجنس ایجنسیاں ہیں اور کام کے معاملے میں ان کی آپس میں کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ وزارتِ داخلہ کے ذرائع کے مطابق شدت پسندوں کے ممکنہ حملوں سے متعلق ایسی اطلاعات آئی بی یعنی انٹیلیجنس بیورو کی طرف سے ہی وزارتِ داخلہ کو بجھوائی جاتی ہیں جبکہ کبھی کھبار ٹرپل ون بریگیڈ کی طرف سے بھی ایسی خبریں موصول ہوجاتی ہیں۔ بدھ کے روز سابق صدر کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ متعلقہ حفیہ ادارے کے سربراہ 13 مارچ کو اس بارے میں عدالت کو ان کیمرہ بریفنگ دیں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ بڑا حساس معاملہ ہے اور عدالت بھی اس بارے میں جاننا چاہتی ہے کہ اصل صورت حال کیا ہے۔ اس مقدمے میں پراسیکیوٹر ٹیم میں شامل طارق حسن کا کہنا تھا کہ جب بھی پرویز مشرف نے عدالت میں پیش ہونا ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ ضرور ہوجاتا ہے جس پر خصوصی عدالت کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جادو سے تو نہیں ہوجاتا ظاہر ہے اداروں کے پاس کچھ نہ کچھ معلومات تو ہوں گی۔ طارق حسن کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اُنھوں نے پرویز مشرف پر حملے کی کوئی دھمکی دی اور جنگ بندی کے دوران کوئی حملہ کیا جائے گا جس پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ملزم کی عدالت میں آمد کے موقع پر کوئی ایسا واقعہ رورنما نہیں ہوگا۔ بینچ کے سربراہ نے کہا کہ عدالت کے علاوہ وکیل صفائی اور پراسیکیوٹر کو بھی دھمکیاں مل رہی ہیں اور ایسی صورت حال میں خفیہ ادارے کی اس اطلاع کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سماعت کے دوران پرویز مشرف کی وکلا ٹیم کے سربراہ شریف الدین پیرزادہ نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت پرویز مشرف کو 14 مارچ کو پیش ہونے کا حکم واپس لے اور اسے 18 مارچ تک ملتوی کردیا جائے تاہم عدالت نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ عدالت نے اس مقدمے میں پرویز مشرف کی وکلا ٹیم میں شامل رانا اعجاز پر کمرہ عدالت میں داخلے پر پابندی عائد کردی ہے اور بدھ کے روز ہونے والی سماعت میں اُنھیں کمرہ عدالت میں نہیں جانے دیا گیا۔ یاد رہے کہ رانا اعجاز نے گذشتہ سماعت کے دوران اس مقدمے کی سماعت کرنے والے عدالت کے ججز کو ’ کرائے کے قاتل‘` کہا تھا جس کے بعد عدالت نے انھیں کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا تھا۔ سابق فوجی صدر کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت 13 مارچ کو ہوگی جس میں ملزم کی طرف سے دائر کی جانے والی درخواستوں ، جن میں مشرف کو بیرون ملک جانے کے اجازت اور چیف پراسیکیوٹر اکرم شیخ کی تعیناتی شامل ہیں پر بحث کی جائے گی۔
150928_facebook_offensive_messages_case_zz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/09/150928_facebook_offensive_messages_case_zz
سرگودھا میں فیس بک پر فحش مواد بھیجنے پر مقدمہ
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر فُحش مواد بھیجنے کے الزام میں ایک طالبہ کی شکایت پر چھ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق مقدمے میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے فُحش مواد بھیجنے کے الزام پر یہ مقدمہ سرگودھا شہر کے تھانہ ساجد شہید میں درج کیا گیا ہے۔ تھانے کے ایک اہلکار خضر حیات نے بی بی سی کے نامہ نگار عدیل اکرم سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے تھانے میں شکایت درج کرائی ہے کہ واقعہ میں ملوث مبینہ ملزمان ان کو گذشتہ ایک سال سے فیس بک پر فُحش مواد بھیج رہے تھے اور ہراساں کر رہے تھے۔ پولیس کے مطابق ملزمان کے باز نہ آنے پر طالبہ نے اپنے گھر والوں کو اِس تمام صورتحال سے آگاہ کیا جس کے بعد پولیس میں اندارج مقدمہ کی درخواست دائر کی گئی۔ پولیس کے مطابق مقدمے میں نامزد ایک ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ دیگر کو بھی جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
150623_india_diary_yoga_record_mb
https://www.bbc.com/urdu/regional/2015/06/150623_india_diary_yoga_record_mb
اپنے ہی بچوں کا ریکارڈ توڑ دیا!
حکومت ہند نے یوگا ڈے پر جو نیا عظیم الشان عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے، اس پر خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ لیکن نیا ریکارڈ بنانے کے لیے پرانا ریکارڈ توڑنا پڑتا ہے اور آپ شاید سوچ رہے ہوں گے کہ وہ دنیا کی کون سی طاقت ہے جس کا ریکارڈ توڑنے کے لیے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑا؟
اقوام متحدہ نے 21 جون کو عالمی یوم یوگا قرار دیا ہے اور رواں سال پہلی بار عالمی سطح پر یوگا ڈے منایا گیا پرانا ریکارڈ وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں سکولوں کے بچوں نے مل کر قائم کیا تھا۔ دس سال پہلے تقریباً 30 ہزار بچوں نے گوالیار یونیورسٹی میں ایک ساتھ یوگا کیا تھا، اس لیے ذہن میں یہ سوال تو آتا ہی ہے کہ اپنے ہی بچوں کا ریکارڈ توڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم سوالات ہیں کہ آخر بھارت کے نائب صدر حامد انصاری کو یوگا ڈے کی تقریب میں کیوں مدعو نہیں کیا گیا؟ حزب اختلاف کے زیادہ تر رہنماؤں نے کیوں اس تقریب میں شرکت نہیں کی؟ بی جے پی کے صدر امت شاہ کیوں پورے وقت کرسی پر بیٹھے رہے؟ راج پتھ پر عام لوگوں کو کیوں شرکت کی اجازت نہیں تھی، جنھیں بلایا گیا تھا کیا انھیں نہ آنے کی بھی اجازت تھی۔۔۔؟ یوگا صحت کے لیے اچھا ہے یہ تو زیادہ تر لوگ مانتے ہیں، لیکن اپنی صحت کا لوگ کیسے خیال رکھنا چاہتے ہیں، انھیں یہ فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ جو لوگ کرسی پر بیٹھ کر یوگا دیکھنا چاہتے ہیں ان کا بھی استقبال ہو، جو ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر امن کا پیغام دینا چاہتے ہیں ان کا بھی استقبال ہو۔ بنگلہ دیش سے ہارنے میں اتنی شرم کیوں؟ دھونی بھارت کے کامیاب ترین کپتان رہے ہیں بھارتی کرکٹ ٹیم بنگلہ دیش سے ایک روزہ میچوں کی سیریز کیا ہار گئی، ایسا لگتا ہے کہ جیسے طوفان آگیا ہو۔ مہندر سنگھ دھونی نے کپتانی چھوڑنے کی پیش کش کی ہے جیسے بنگلہ دیش سے ہارنے سے بڑی کوئی توہین نہ ہو۔ بنگلہ دیش آئی سی سی کا مکمل رکن ہے، اس سے پہلے بھی ہندوستان سمیت دنیا کی بہترین ٹیموں کو ہرا چکا ہے، یہ غلط مثال ہوگی، ٹیم کے غیر ملکی دوروں میں تو پھر ہر میچ کے بعد کپتان بدلنا پڑے گا۔ دھونی کو بھی یوگا کا سہارا لینا چاہیے، ہمارا مشورہ ہے کہ وہ ایک گہری سانس لیں اور چھوڑ دیں۔ ویسے بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر استعفیٰ دینا زیادہ سمجھداری کی بات نہیں۔ دھونی کو بی جے پی کی اعلیٰ ترین قیادت سے سبق لینا چاہیے۔ وزیر خارجہ سشما سواراج نے آئی پی ایل کے سابق کمشنر للت مودی کی سفری دستاویزات حاصل کرنے میں مدد کی حالانکہ وہ خود ان کی حکومت کے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کو مطلوب تھے، لیکن وہ استعفیٰ دینے سے انکار کر رہی ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ للت مودی کی مدد کے لیے تنقید کا نشانہ بنائی جا رہی ہیں اسی طرح راجستھان کی وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے اور ان کے بیٹے کے للت مودی سے روابط بھی شک کے دائرے میں ہے، الزامات کی نوعیت سنگین ہے لیکن وہ بھی مستعفی ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ممبئی پولیس کے کمشنر راکیش ماریا نے لندن میں للت مودی سے ملاقات کی کیونکہ ’مودی کے وکیل اصرار کر رہے تھے‘ انھیں بھی اس میں کوئی خاص یا قابل اعتراض بات نظر نہیں آتی۔۔۔ استعفیٰ دینے کی کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے، صرف جذبات میں یا حزب اختلاف کے دباؤ میں استعفیٰ دینا کوئی سمجھداری کی بات نہیں۔
040710_chilli_globalization_yale
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/blog/story/2004/07/040710_chilli_globalization_yale
گلوبلائزیشن: مرچ کا سفر
مرچ کا پوداچلی، چلی پیپر، آجی، ہاٹ پیپر، لوپ چیو، مرچ، فلافل، بسابس، اور چلی پپروک تمام ایک ہی پھل کے نام ہیں جو ساری دنیا کے لوگوں کے لیے فرحت کا باعث ہیں۔ ماہرِ نباتیات بے شک اس کی اصل جائے پیدائش پر متفق نہ ہوں لیکن اس کے حیرت انگیز سفر اور اس کے استعمال نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مرچ تمام ثقافتوں اور ساری دنیا میں واقعی ایک بین الاقوامی خوراک ہے۔
ثقافتی اعتبار سے کچھ علاقوں میں مرچ اتنے لمبے عرصے،تقریباً پانچ سو برس، سے پائی جاتی ہے اس لیے زیادہ تر لوگ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ مرچ اصل میں جنوبی امریکہ سے آئی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ میزو امریکہ میں مرچ تقریباً 5000 سال قبل از مسیح سے کھائی جا رہی تھی اور 7000 سال قبل از مسیح سے اگائی جا رہی تھی۔ ماہرِ آثارِ قدیمہ کے اندازے کے مطابق انسان نے 3400 اور 5000 سال قبل از مسیح سے مرچ اْگانے کا آغاز کر لیا تھا جس کا مطلب یہ ہوا کہ مرچ ان پرانی فصلوں میں سے ہے جو انسان نے شروع میں اْگانا سیکھیں۔ صاف ظاہر ہے کہ مرچ کرسٹوفر کولمبس کے امریکہ کے سفر سے بہت پہلے سے وہاں کھائی جا رہی تھی۔ حقیقت میں کولمبس کا خیال تھا کہ یہ وہ مرچ ہے جس کو وہ بھارت میں ڈھونڈنا چاہتا تھا اسی لیے اس نے اس کا نام پیمیئنٹو رکھا جس کو ہسپانوی زبان میں پیپر کہتے ہیں۔اصل میں مرچ کا کالی مرچ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں جس کو پائپر نائگرم کہتے ہیں اور جس کی تلاش کولمبس کو تھی۔ بعد میں کولمبس مرچ ہسپانیہ لایااور اسے مصالحہ کہتا رہا حالانکہ اس کا تعلق پودوں کی اس نوع سے جس میں ٹماٹر، آلو، اور تمباکو شامل ہیں۔ لیکن کولمبس کی غلطی کے باوجود مرچ کے ساری دنیا میں نقل مکانی میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی۔ بھارت کے سفر کے دوران راستے میں پرتگالی تاجر افریقہ کی مختلف بندرگاہوں پر رکتے تھے۔ افریقہ کے لوگ چونکہ پہلے سے مصالحوں سے آشنا تھے انہوں نے جلد ہی تند اور تیز ذائقے والی مرچ کو اپنے کھانوں میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔ چند ہی سالوں میں مرچ براعظم افریقہ کے مشرق میں موزمبیق تک پہنچ گئی۔ تاہم تجارت ہی صرف اس کے پھیلنے کی وجہ نہ تھی۔ پرتگالیوں کی افریقہ میں مداخلت کا بھی اس کے پھیلنے میں خاصہ عمل دخل رہا۔ پرتگالیوں نے مختلف افریقی علاقوں سے لوگوں کو غلامی کی زنجیر میں جکڑ ا تاکہ وہ دریافت کیے جانے والی ’نئی دنیا‘ میں اپنے کھیتوں کو آباد کر سکیں۔ خیال تھا کہ اگر کھیتوں میں کام کرنے والے افریقی ایک دوسرے کی زبان سے آشنا نہیں ہونگے تو ان کے بغاوت کرنے کا امکان بھی کم ہوگا۔ اس حکمت عملی کا یہ نتیجہ ہوا کہ پرتگالیوں نے غلام بنانے کا ایک بڑا جال بچھا لیا اور وہ جہاں بھی گئے، مرچ ساتھ لے گئے۔ اس طرح مرچ تمام براعظم افریقہ میں استعمال کی جانے لگی۔ جنوبی امریکہ سے بحراوقیانوس کے دوسری طرف تک مرچ کے سفر کا سراغ تو ہمیں ملتا ہے لیکن بحرالکاہل کی طرف اس کے سفر کا پتہ چلانا ذرا مشکل ہے۔ سن پندرہ سو انتالیس زاراگوسا معاہدے کے تحت ایشیا پیسیفک کے خطے میں ہسپانوی اور پرتگالی سرحدوں کا تعین کیا گیا جس میں ہسپانیہ کو فلپائن ملا اور مولوکا جہاں مصالحے پیدا ہوتے ہیں پرتگال کے ہاتھ لگے۔ سن پندرہ سو چالیس میں پرتگالی انڈونیشیا میں بھی تجارت کر رہے تھے اور اس کے بعد ہی مرچ چین پہنچ گئی لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا پرتگالی لوگ ہی مرچ چین لائے تھے یا نہیں۔ علاوہ ازیں یورپی لوگوں کے آنے سے بہت پہلے بھارتی اور عربی لوگ چین کے ساتھ تجارت کر رہے تھے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ چین کے دو صوبوں حنان اور سیژوواں (جہاں مرچ کثرت سے استعمال کی جاتی ہے) شاہراہِ ریشم کے ذریعے چین سے باہر کی دنیا کے ساتھ رابطے میں تھے۔ اس زمانے میں چین کا ان صوبوں کے ساتھ کوئی زمینی رابطہ نہیں تھا۔ سن پندرہ سو انچاس میں پرتگالی جاپان پہنچے مگر پھر بھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ آیا وہاں بھی مرچ انہوں نے متعارف کرائی کیونکہ جاپانی تو پہلے ہی سے ہسپانوی کشتیوں کے ذریعے میکسیکو تک سفر کر چکے تھے۔ سن پندرہ سو چونسٹھ میں مرچ فلپائن پہنچی اور وہاں سے ہسپانوی تجارتی راستے کے ذریعے مائیکرونیشی اور ملانیشیائی علاقوں تک پہنچ گئی۔ اگرچہ ایشیا، انڈیا اور افریقہ نے تو مرچ کو آسانی سے اپنی ثقافت میں کا حصّہ بنا لیا لیکن یورپ کے لوگوں نے اس کے استعمال کو صرف شوق، تجسس اور سجاوٹ تک ہی محدود رکھا۔ ہسپانیہ سے مرچ اینٹورپ پہنچی، وہاں سے سن پندرہ سوچھبیس میں اٹلی اور پھر سن پندرہ سو اڑتالیس میں برطانیہ۔ حیرت انگیز طور پر مشرقی یورپ میں مرچ یورپی تجارت کی وجہ سے نہیں پہنچی بلکہ خیال کیا جاتا ہے کہ مسلمان تاجر مرچ بھارت سے خلیجِ فارس کے ذریعے اسکندریہ یا شام کے شہر الیپو لائے اور وہاں سے مشرقی یورپ۔ ایک اور متبادل راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ ترک لوگ مرچ کو ایشیا سے لائے اور اسے خلیجِ فارس، ایشیاء کوچک اور بحیرہ اسود کے راستے ہنگری تک لے گئے جس پر انہوں نے پندرہ سو چھبیس میں قبضہ کرلیا تھا۔ زیادہ حیرت کا پہلو یہ ہے کہ مرچ کو شمالی امریکہ پہنچنے میں طویل عرصہ لگا۔گومیکسیکو میں مرچ صدیوں سے اگائی جا رہی تھی لیکن شمالی امریکہ میں مرچ تب سامنے آئی جب غلاموں کی تجارت زوروں پر پہنچی۔ سن سولہ سو میں انگریزوں اور ولندیزیوں نے ہسپانیہ اور پرتگال کی بحری برتری ختم کر دی جس سے مصالحوں کی تجارت بھی قدرے آزاد ہوگئی۔ مگر مصالحوں کی تجارت کے باوجود شمالی امریکیوں کو مرچ کا چسکا نہیں لگا بلکہ افریقہ میں اس کی وافر مقدار کی وجہ سے یہ یہاں پہنچی۔ افریقی کھانوں میں مرچ کا استعمال اتنا اہم ہو گیا تھا کہ غلاموں کے تاجر بڑی مقدار میں مرچ کو بحراوقیانوس کے اس پار لے آئے۔ اس سے بھی بڑھ کر شمالی امریکہ میں غلاموں کے کھانے کی عادات کو قائم رکھنے کے لیے بھی مرچ اگانا ضروری ہو گیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سترھویں صدی تک مرچ شمالی امریکہ میں جگہ بنا چکی تھی۔ آج کل مرچ کی پانچ قسمیں عام ہیں: میزو امریکہ میں کیپسیکم اینم جس کی دوسری شکلوں میں کیانی، بیل اور جالاپینو شامل ہیں، امازون کا نشیبی علاقہ جہاں کیپسیکم فروٹسن جس سے ٹوبیسکو نکلتا ہے، کیپسیکم چینز جو مغربی امازون میں ملتی ہے، کیپسیکم بکیٹم جو صرف جنوبی امریکہ میں پائی جاتی ہے اور کیپسیکم پیوبیسنز جو وسطی امریکہ اور میکسیکو میں بیسویں صدی میں ظاہر ہوئی اور ہر جگہ جانی پہچانی جاتی ہے۔ ساری دنیا میں مرچ کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس میں اتنی لچک تھی کہ یہ انسانی مداخلت کے بغیر بھی ہر طرف پھیل گئی۔ اس کا چھلکا آسانی سے اچھی طرح سوکھ جاتا ہے اور بیج زیادہ عرصے تک ثابت رہتا ہے جس کی وجہ سے اس کے لمبے سفر ممکن ہوئے۔ اس کے علاوہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے پرندے اس کے پھل کو کھاتے اور کئی میل دور تک اس کے بیج گراتے ہیں۔ کیپسیکم نامی مرکب ہے صرف مرچ ہی میں پایا جاتا ہے اور اس سے پھل کی گرمی کا تعین ہوتا ہے۔ گو کہ اس کے چھلکے اور بیج میں اس کی مقدار کم ہوتی ہے لیکن تقریباً نوے فی صد جلن پیدا کرنے والا مادہ اس کی سفید جھلی کے اندر پایا جاتا ہے۔ مرچ یا چلی کا نام قدیم آزٹک زبان نواتل سے نکلا ہے جس میں مرچ کو چلتیپن کہا جاتا ہے۔ مرچ نہ صرف کھانوں میں کڑواہٹ شامل کرتی ہے یہ دافع درد بھی سمجھی جاتی ہے۔ کیپسیاسن یا جلن پیدا کرنے والا مادہ جب ذہن تک پہنچتا ہے تو یہ نہ صرف درد پر قابو پاتا ہے بلکہ خوشگوار احساس پیدا کرتا ہے۔ کیپسیاسن کریم جوڑوں کے درد کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ اور بھی مختلف بیماریوں، جن میں گٹھیا، کمر کا درد، پاؤں کی سوجن اور رگوں سے متعلق بیماریوں کے لیے بنائی جانے والی دواؤں میں استعمال کی جاتی ہے۔ آج کل بھارت مرچ کا استعمال اور برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ بھارت ہر سال اکیاون ہزار نوسو ٹن مرچ برآمد کرتا ہے۔ یہ اس کا پاوڈر، پسی ہوئی مرچ اور چلی اولیوریزن(تیل اور کشمش کامرکب) بھی برآمد کرتا ہے۔ زیادہ تر مرچ آندرہ پردیش، اوڑیسہ، مہاراشٹر، مغربی بنگال، تامل ناڈو اور راجستھان میں اگائی جاتی ہے۔کل ملا کر بھارت سالانہ تقریباً آٹھ ملین ٹن خشک مرچ پیدا کرتا ہے۔ آپ چاہے جیسے بھی مرچ استعمال کریں۔ چاہے یہ کسی ہندوستانی سالن میں ہو یا تھائی انداز میں بنی مچھلی میں، میکسیکو کے سالسہ کی شکل میں ہو یا کورین کمچی کی صورت میں، مرچ نہ صرف کھانوں کو ذائقہ اور زبان کو مزا دیتی ہے بلکہ مزاج کو بھی خوشگوار بناتی ہے۔ ہمیں لکھئے: عالمگیریت سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟ نوٹ: یہ مضمون بی بی سی اردو آن لائن اور ییل سنٹر فار دی اسٹڈی آف گلوبلائزیشن کے درمیان پارٹنرشِپ کے تحت شائع کیا جارہا ہے اور ییل گلوبل کی کائپ رائٹ ہے۔
pakistan-37887297
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-37887297
’دہشت گردوں کا علاج، سیاسی رہنماؤں پر فرد جرم عائد‘
کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنے کے الزام میں سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین، کراچی کے میئر وسیم اختر، پاک سرزمین پارٹی کے رہنما انیس قائم خانی، ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی رؤف صدیقی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قادر پٹیل پر فرد جرم عائد کردی ہے۔
عدالت نے ڈاکٹر عاصم حسین، وسیم اختر، انیس قائم خانی اور دیگر ملزمان کے خلاف گواہوں کو 16 نومبر کو پیش کرنے کی ہدایت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جج خالدہ یاسین نے مقدمے کی سماعت کے موقعے پر ڈاکٹر عاصم حسین کو وہیل چیئر پر جناح ہسپتال سے عدالت میں پیش کیا گیا، جبکہ وسیم اختر، قادر پٹیل اور عثمان معظم کو جیل لایا گیا۔ اسی مقدمے میں ضمانت پر رہائی حاصل کرنے والے انیس قائم خانی اور رؤف صدیقی بھی اپنے وکلا کے ہمراہ پیش ہوئے۔ عدالت نے ملزمان کو فرد جرم پڑھ کر سنائی کہ انھوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کے ساتھ مقابلوں میں زخمی ہونے والے دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کا رعایتی نرخوں پر ضیاالدین ہسپتال میں علاج معالجے کی سہولت فراہم کی۔ تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا، جس کے بعد عدالت نے مقدمے کے مفرور ملزم سلیم شہزاد کو اشتہاری قرار دیکر استغاثہ کو ڈاکٹر عاصم حسین، وسیم اختر، انیس قائم خانی اور دیگر ملزمان کے خلاف گواہوں کو 16 نومبر کو پیش کرنے کی ہدایت کی۔ اس موقعے پر ڈاکٹر عاصم حسین نے عدالت سے مخاطب ہوکر کہا کہ ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا گیا ہے، انھوں نے کوئی بھی جرم نہیں کیا ہے اور جنھوں نے یہ کیا ہے ان کے خلاف بھی مقدمہ دائر کیا جائے۔ عدالت نے وسیم اختر اور عبدالقادر پٹیل کی درخواست ضمانت کی بھی سماعت کی۔ ان کے وکلا کا کہنا تھا کہ مقدمے کے تفتیشی افسر نے تحقیقات میں الزامات کو مسترد کرتے ہوئے تمام ملزمان کو بری الذمہ قرار دیا تھا اور مقدمہ خارج کرنے کی درخواست کی تھی لیکن اس کو تسلیم نہیں کیا باوجود اس کے ملزمان کے خلاف کوئی بھی ثبوت دستیاب نہیں۔ وسیم اختر کے خلاف دہشت گردوں کو پناہ دینے، 12 مئی واقعات اور اشتعال انگیز تقریر سمیت 39 مقدمات دائر ہیں جن میں سے 38 میں انھوں نے ضمانت حاصل کرلی ہے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عاصم حسین سمیت چار ملزمان کی ضمانت منظور کی ہے لہذا ان کی بھی ضمانت منظور کی جائے ۔ رینجرز کے وکیل نے ضمانت کی مخالفت کی اور کہا کہ ملزمان کے خلاف ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں، وہ دہشت گردوں کے علاج میں ملوث ہیں ان کی ضمانت منظور نہیں کی جاسکتی۔ عدالت نے درخواست پر فیصلہ 16 نومبر تک ملتوی کردیا۔ بعد میں ڈاکٹر عاصم نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بیوی کی بھی طبعیت خراب ہے، وہ آپریشن کرانے جا رہی ہیں ان کے لیے دعا کریں ساتھ میں جنھوں نے یہ مقدمات دراج کرائے ہیں ان کے لیے بھی دعا کی جائے کیونکہ ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ دوسری جانب انسداد دہشت گردی کی ایک اور عدالت نے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی جانب سے پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف تقریر اور عوام کو بھڑکانے کے مقدمے میں کراچی کے میئر وسیم اختر کی ضمانت منظور کرلی ہے اور ان کی رہائی کا حکم جاری کیا ہے۔ واضح رہے کہ وسیم اختر کے خلاف دہشت گردوں کو پناہ دینے، 12 مئی واقعات اور اشتعال انگیز تقریر سمیت 39 مقدمات دائر ہیں جن میں سے 38 میں انھوں نے ضمانت حاصل کرلی ہے۔
050316_honour_killing_campaign
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/03/050316_honour_killing_campaign
خواتین پر تشدد کے خلاف مہم
’خواتین پر تشدد خصوصًا غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اب ماہرین معاشرے میں لوگوں کے رویے میں تبدیلی کے حوالے سے کوششیں کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال کوئی ایک ہزار سے پندرہ سو خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے اور اب اس میں جائداد کے تنازعے۔ زاتی دشمنی اور بدلے لینے کے لیے خواتین کو کسی غیر مرد کے ساتھ قتل کرکے غیرت کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار کوئٹہ میں ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم آکسفام اور دیگر تنظیموں کی جانب سے منعقدہ سیمینار میں مقررین نے کیا ہے۔ یہ سیمینار اور اس کے علاوہ پوسٹرز کی نمائش اور سٹیج ڈرامہ ’ ہم کر سکتے ہیں۔۔ سیاہ کاری کا خاتمہ‘ کے عنوان سے شروع کی جانے والی اس مہم کا حصہ ہیں جس کا بلوچستان میں بدھ کے روز سے آغاز ہوا ہے۔ سینیئر صوبائی وزیر مولانا عبدالواسع نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ اسلام خواتین کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن یہاں غیرت کے نام پر صرف عورت ہی نہیں بلکہ مرد بھی قتل کر دیے جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ اسلام میں زنا کے ملزم کے لیے چار گواہیاں ضروری ہیں اور اگر ایک میں ذرا بھر شک ہو تو باقی حدود زائل ہو جاتے ہیں۔ سیمینار میں موجود دور دراز علاقوں سے آنے والی خواتین نے کہا ہے کہ یہ مسئلہ انتہائی گھمبیر ہو گیا ہے اور اب اس پر صرف افسوس یا ہمدردی کے علاوہ عملی اقدام کر نے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر خوتین پر تشدد سیاہ کاری یا کاروکاری اور دیگر متعلقہ موضوعات پر تیار کردہ پوسٹرز کی نمائش کی گئی اور اسی موضوع پر ایک سٹیج ڈرامہ پیش کیا گیا۔
080724_jammu_curfew_ra
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/07/080724_jammu_curfew_ra
شرائن بورڈ تنازعہ: جموں میں کرفیو
بھارت کے زیرانتظام کمشیر کے شہر جموں میں امراناتھ شرائن کومنتقل کی جانے والی زمین کی واپسی کے خلاف احتجاج کرنے والے ایک شخص کی خود کشی کے بعد شہر میں کشیدگی پھیل گئی جس پر مقامی انتظامیہ نے کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
جموں کے ڈویژنل کمشنر سدھنشو پانڈے نے کہا کہ کلدیپ کمار کی خود کشی کے بعد شہر میں کشیدگی پھیل جانے کی وجہ سے ایک روز کرفیو نافذ کر دیا گیا اور اگر ضرورت محسوس کی گئی تو اس میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ سری نگر اور کشمیر کے دوسرے علاقوں میں شدید احتجاج کے بعد حکومت نے اُس متنازعہ حکم نامے کو کالعدم قرار دیا تھا جس کی رو سے شرائن بورڑ کو بال تل کے مقام پر آٹھ سو کنال زمین منتقل کی گئی تھی۔ حکومتی فیصلے کے خلاف جموں خطے میں بی جے پی اور اس کی حلیف سخت گیر ہندو جماعتوں نے اس فیصلے کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کر دی تھی اور آٹھ روز کی مسلسل ہڑتال کے بعد بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا۔ اطلاعات کے مطابق کلدیپ کمار نے ہڑتالی کیمپ میں جذباتی تقریرکرتے ہوئے کہ امرناتھ شرائن کے لیے زمین واپس لینے کے لیے قربانیوں کی ضرورت ہے اور وہ سب سے پہلے قربانی دیں گے۔ کلدیپ کمار اپنی تقریر کے دوران گرگئے اور ہسپتال لیجاتے ہوئے وفات پا گئے۔ سخت گیر ہندو جماعتوں نے کلدیپ کمار کی لاش ہڑتالی کیمپ میں رکھ دی جس سے لوگوں میں اشتعال پھیل گیا اور شدید نعرہ بازی شروع ہو گئی اور مشتعل ہجوم نے بازاروں کو بند کروانا شروع کر دیا۔
regional-37678525
https://www.bbc.com/urdu/regional-37678525
کشمیر ڈائری: ’جہاں قاتل ہی منصف ہیں‘
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں تین ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری احتجاج کی لہر، تشدد اور کرفیو کا کشمیریوں پر کیا اثر پڑا ہے؟ بی بی سی اردو نے سرینگر کی رہائشی ایک خاتون سے رابطہ کیا جن کے تجربات و تاثرات کی چھٹی کڑی یہاں پیش کی جا رہی ہے۔ کشمیر میں مواصلاتی بلیک آؤٹ جزوی طور پر ختم ہوا ہے۔ لینڈ لائن اور موبائل فون کی سہولت تو بحال کر دی گئی ہے لیکن موبائل انٹرنیٹ سروس بدستور بند ہے جس کی وجہ سے یہ تحریریں آپ تک بلاتعطل پہنچانے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں نوے سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں کچھ دن پہلے ایک اور بچہ چھّروں کا نشانہ بن گیا۔ 12 سالہ جنید احمد ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ وہ اپنے گھر کے گیٹ کے پاس تھا جب اسے سر اور سینے پر چھرے لگے ۔ اس کے کچھ گھنٹوں کے بعد اس کی موت ہو گئی۔ ٭ مظفر پنڈت کی موت کب ہوئی؟ ٭ کشمیریوں کے لیے کوئی جگہ محفوظ ہے؟ ٭ کشمیر میں انڈین فوج کا 'جرنیلی بندوبست' ٭ 'بھیڑ بکریاں بچ گئیں مگر انسانی جانیں نہیں' ٭ 'ہمارے پتھر محبت کی نشانی' بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہے۔ دوسری صبح اس کے جنازے پر آنسو گیس کے گولے پھینکے گئے جس کی وجہ سے جنید کی لاش بھی جنازے کے شرکاء کے شانوں سے گر گئی۔ ہم ایک ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں سرکار انسانیت کا لفظ اپنے سیاسی طریقوں میں بہت استعمال کرتی ہے اور پھر یہی سرکار ہماری سٹرکوں اور ہمارے گھروں میں آئے دن انسانیت کے بنیادی اصول کا خون کرتی ہے۔ ہم وہاں رہتے ہیں جہاں قاتل ہی منصف ہیں۔ جہاں جھوٹ بار بار بول کے سچ بنا دیا جاتا ہے۔ جہاں سچ بولنے والوں کی زبانیں اور قلم بند کر دیے جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار خرم پرویز اور اخبار کشمیر ریڈر دونوں کو سچ بولنے کی پاداش میں خاموش کر دیا گیا۔ خرم کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حوالات میں ڈال کر اور کشمیر ریڈر کے اشاعت پر پابندی لگا کر۔ جنید احمد کی ہلاکت کے بعد ہونے والا احتجاج ہماری سرکار کے بیانات کی بات کریں تو حقیقت میں ان میں کچھ ’لوجک‘ بھی نہیں ہوتی۔ سیاست دانوں سے تو ہم سچائی کی زیادہ امید نہیں رکھتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کا پیشہ ہی سچ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہے۔ مگر یہاں تو توڑ مروڑ نہیں یہاں تو سچائی کی شکل ہی بدل دی جاتی ہے۔ مہینوں کی مزاحمت جس کے لیے سرکار کو 51 دن کا کرفیو لگانا پڑا، اس کو 'ہلہ گلہ' کہا گیا۔ وہ 'ہلہ گلہ' جس میں ابھی تک 90 سے زیادہ جانیں چلی گئی ہیں اور ہزاروں زخمی اور سینکڑوں اپنی بینائی کھو چکے ہیں۔ وہی 'ہلہ گلہ' جس میں ہر روز سرکار 50، 60 لوگوں کو گرفتار کر رہی ہے۔ یہ سب ہونے کے بعد سرکار نے ہندوستانی وزیرِ اعظم سے کشمیریوں کے زخموں پر 'مرہم' لگانے کے لیے کہا۔ جو زخم لگا رہے ہیں ان سے مرہم کی گذارش؟ اور گذارش والے خود زخم والوں کے ساتھ ہیں۔ کشمیر میں محرم کے جلوس پر سرکار نے کئی سال سے پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ اس مرتبہ بھی عاشورے پر عید کی طرح کرفیو لگایا گیا تھا۔ جب لوگوں نے اس پابندی کی خلاف ورزی کی اور محرم کے چھوٹے جلوس نکالے تو سرکار نے اس کو حالات میں بہتری کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ عام حالات میں تو انسان ان باتوں پر ہنستا ہے۔ مگر یہاں حالات ایسے ہیں کہ ان باتوں کے جھوٹ کے پیچھے قول و فعل کے جو کرتب چھپے ہیں ان کا سمجھنا ضروری ہے۔ محرم کے مہینے میں بس یہی دعا ہے کہ ہماری آزادی کی جنگ میں بھی سچائی کی جیت ہو۔
050729_iraq_bomb
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/07/050729_iraq_bomb
خودکش حملہ، پچیس ہلاک
عراق کے شہر رابعہ میں پولیس نے کہا ہے کہ ایک خودکش حملے میں پچیس فوجی ریکروٹوں سمیت پچیس افراد ہلاک اور پینتیس زخمی ہو گئے ہیں۔
رابعہ موصل سے اسّی کلومیٹر شمال مغرب میں ہے اور سوریہ کی سرحد سے قریب ہے۔ خبر رساں ایجنسی اے پی نے پولیس کے حوالے سے بتایا کہ حملہ آور نے دھماکہ خیزمواد سے بھری بیلٹ پہنی ہوئی تھی۔ عراق میں پولیس اور فوج کے اہلکار اکثر خود کش حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ عراق میں اپریل کے مہینے میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد بھی مسلسل خودکش حملے جاری ہیں جن میں بھاری جانی نقصان ہو رہا ہے۔
060210_shoaib_out_rza
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2006/02/060210_shoaib_out_rza
شعیب اختر پھر ان فٹ ہوگئے
پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان انضمام الحق نے کہا ہے کہ تیز بالر شعیب اختر ہفتے کو بھارت کے خلاف کھیلے جانے والے دوسرے اور تیسرے ون ڈے میچ میں نہیں کھیلیں گے۔
شعیب کو راوالپنڈی کے ون ڈے کی ٹیم میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ فزیو کی سفارش پر کیا گیا ہے جنہوں نے کہا تھا کہ اگر شعیب ٹخنے کی تکلیف کے ساتھ بالنگ کرتے رہے تو ان کے لئے اگلے میچوں میں کھیلنا اور مشکل ہو جائے گا۔ راولپنڈی میں ہفتے کو کھیلے جانے والے دوسرے ون ڈے سے ایک روز قبل ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انضمام نے کہا کہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ شعیب اختر تیرہ فروری کو لاہور میں کھیلے جانے والے تیسرے میچ میں بھی نہ کھیل سکیں۔ تیسرے میچ کے بعد پاکستانی فزیو شعیب کے ٹخنے کے معائنے کے بعد یہ فیصلہ کریں گے کہ کیا انہیں چوتھے میچ میں کھیلنے دیا جائے یا نہیں۔
070514_tank_killed
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/05/070514_tank_killed
ٹانک: دو ہلاک، عارضی کرفیو
صوبہ سرحد کے جنوبی شہر ٹانک میں نامعلوم افراد کی جانب سے پولیس کی گاڑی پر دستی بم کے حملے کے بعد فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کا ایک سپاہی اور شہری ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ دس شہری زخمی ہوئے ہیں۔
انتظامیہ نے عارضی طور پر کرفیو بھی نافذ کر دیا ہے۔ یہ واقع شہر کے ڈورنڈ گیٹ کے قریب پیش آیا ہے۔ زخمیوں میں ایک ہاکر بھی شامل ہے۔ ٹانک شہر کے وزیر آباد علاقے میں صبح سوا نو بجے کے لگ بھگ ایک جیپ میں سوار نامعلوم افراد نے سکیورٹی اہلکاروں کی ایک گاڑی پر دستی بم پھینکا جس سے فرنٹیئر کانسٹیبلری کے دو جبکہ پولیس کا ایک سپاہی زخمی ہوا ہے۔ اس واقعے کے بعد شہر میں جگہ جگہ فائرنگ کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ خوفزدہ تاجروں نے بازار بند کر دیا جبکہ سکیورٹی اہلکاروں نے بکتر بند گاڑیوں میں گشت شروع کر دی ہے۔ فائرنگ میں ہلکے اور بھاری اسلحے کا استعمال ہو رہا ہے۔ اس سے قبل مارچ میں مقامی شدت پسندوں کی جانب سے شہر پر حملے کے بعد کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔ قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کے ساتھ سرحد پر واقع ٹانک شہر میں حالیہ دنوں میں بم دھماکوں اور پولیس پر حملوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور اس قسم کے واقعات سے لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
sport-43268425
https://www.bbc.com/urdu/sport-43268425
’یہ کرکٹ نہیں کچھ اور ہی تھا‘
یہ پاکستان سپر لیگ 2 کی بات ہے، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کا میچ جاری تھا۔ آخری اوور میں جیت کے لیے پانچ رنز درکار تھے، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی سات وکٹیں باقی تھیں، انور علی سامنا کر رہے تھے، محمد سمیع بولنگ کر رہے تھے۔ سیزن کے ٹاپ سکورر رائلی روسو نان سٹرائیکر اینڈ پر موجود تھے۔
کیسے ممکن تھا کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز چھ گیندوں پر پانچ رنز نہ بنا پاتا؟ کچھ ہی دیر بعد کوئٹہ گلیڈی ایٹرز ایک رن سے میچ ہار چکا تھا۔ کوئی میچ سمری جب اس طرح کے کلائمیکس پہ منتج ہوتی ہے تو یقینًا دماغ ماؤف ہو جاتا ہے کہ سات وکٹیں ہاتھ میں ہوں، بہترین بیٹسمین میدان میں ہو، دو تجربہ کار آل راؤنڈر بھی سامنا کریں اور پھر بھی نتیجہ ایک رن سے شکست ہو تو ہر کوئی یہی کہہ سکتا ہے کہ یہ کرکٹ نہیں تھی کچھ اور ہی تھا۔ مگر یہ ’کچھ اور‘ ہوتا کیا ہے؟ ٹی ٹونٹی کرکٹ میں اس طرح کے ناقابل فہم ڈرامے اکثر ہو جاتے ہیں کہ پانچ وکٹیں باقی رہ جاتی ہیں اور بیٹنگ سائیڈ تین رنز سے میچ ہار جاتی ہے۔ ایسے میں جب عقدہ خالصتا کرکٹنگ پیرائے میں دیکھنے سے حل نہیں ہوتا تو نہایت آسانی سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ کرکٹ نہیں کچھ اور کھیلا جا رہا ہے۔ شارجہ میں جمعے کی شب کھیلا جانے والا پی ایس ایل کا میچ لاہور قلندرز کو ہر حال میں جیتنا چاہیے تھا۔ 52 گیندوں پہ 45 رنز درکار تھے، آٹھ وکٹیں ہاتھ میں تھیں، میکلم کریز پر موجود تھے اور اپنے مزاج کے بالکل برعکس ایک سست رفتار لمبی اننگز کھیل رہے تھے۔ کیا امر مانع تھا کہ لاہور جیت نہ پاتا؟ لیکن ایک بار پھر لاہور قلندرز کی بیٹنگ لڑکھڑا گئی۔ آخری آٹھ وکٹیں صرف 44 رنز کے عوض گر گئیں۔ آخری اوور کی پہلی گیند بھی مس ہو گئی۔ میکلم نے 19 اوور میں اپنے ارد گرد اس قدر انتشار دیکھا کہ ان کے اعصاب شل ہو گئے۔ وہ یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ ابھی اوور کی چار گیندیں باقی ہیں اور ہدف صرف ایک شاٹ کی مار ہے۔ جس وقت بین سٹوکس آخری اوور پھینکنے آئے تھے اور کارلوس براتھویٹ سامنا کر رہے تھے تو کسی کو ذرہ بھر بھی شائبہ نہیں تھا کہ اس دو بدو اعصاب کی جنگ میں فاتح کون ہو گا؟ براتھویٹ نے ورلڈ ٹی ٹونٹی کا ٹائٹل جیتنے کے لیے جو پہلا چھکا مارا، لائن اور لینتھ کے اعتبار سے وہ بری گیند نہیں تھی، اس چھکے میں فقط براتھویٹ کی خوش قسمتی تھی، ورنہ اس گیند میں ایسا کچھ برا نہیں تھا کہ یہ نتیجہ نکلتا۔ لیکن اس ایک چھکے نے بین سٹوکس کے حواس کو ایسے منتشر کیا کہ اگلی تین گیندیں انھیں سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کہاں ہیں، کیوں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ اگلی تین گیندیں بجا طور پر چھکے ہی کی حقدار تھیں۔ جس وقت کوئٹہ ایک رن سے ہارا تھا، آخری گیند کا سامنا رائلی روسو نے کیا تھا، انھیں میچ جیتنے کے لیے تین رنز درکار تھے، محمد سمیع نے انھیں روم نہیں دیا، ان کے ذہن کی چال گیند کی رفتار سے مل نہیں پائی، بمشکل وہ اتنا ہی کر پائے کہ مڈ آن کی جانب کھیل دیا۔ یہ سب جانتے ہیں کہ مڈ آن پہ کھیل کر تین رنز کبھی نہیں بن سکتے، دو رنز بھی صرف تبھی بن سکتے ہیں جب مس فیلڈ ہو جائے یا اوور تھرو ہو جائے مگر جب آپ کو ہر صورت میں دو رنز بنانا ہی ہوں تو آپ گیند کی جانب دیکھے بغیر دوڑے چلے جاتے ہیں۔ روسو جب پہلا رن لینے کے لیے دوڑے تو پچھلے چند اوورز میں جو کچھ ہوا، اس کے بعد انھیں یاد ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں، کیوں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ جس وقت روسو نے پہلا رن مکمل کیا تو دوسرے اینڈ سے تھسارا پریرا چیختے رہ گئے کہ وہ دوسرے کے لیے بھاگیں مگر روسو نے سنی ان سنی کر دی۔ اس وقت وہ صرف یہ جانتے تھے کہ وہ ایک مشکل سنگل لیتے ہوئے رن آوٹ ہونے سے بچ گئے۔ جس وننگ پوزیشن سے وہ یہاں تک پہنچے تھے، اس کی سنسنی میں انھیں یاد ہی نہ رہا کہ میچ برابر کرنے کے لیے بھی دوسرا رن تو چاہیے۔ کل شب میکولم بھی جن ذہنی چالوں اور اتار چڑھاؤ سے گزرے، ان پہ بھی کچھ ویسی ہی کیفیت طاری ہو گئی۔ ٹی ٹونٹی کی رفتار کچھ ایسی ہوتی ہے کہ جب اچانک بساط پلٹنے لگتی ہے تو پھر سبھی اس لمحے میں ایسے گم ہو جاتے ہیں کہ کوئی بھی پلٹ کر سانس نہیں لے پاتا اور نہ ہی یہ یاد رکھ پاتا ہے کہ سپر اوور دن کے بہترین بولر سے کروایا جاتا ہے نہ کہ بد ترین سے۔ کل لاہور کے بہترین بولر سنیل نارائن تھے جنھوں نے چار اوورز میں صرف 10 رنز دیے۔ جبکہ مستفیض الرحمان نے اپنے چار اوورز میں 39 رنز دیے تھے۔ لاہور نے پھر بھی سپر اوور کے لیے مستفیض الرحمن کو چنا۔ حالانکہ جس میچ کے 40 اوورز میں سپنرز نے راج کیا تھا، وہاں سنیل نارائن آندرے رسل سے کیا ڈرتے؟ واقعی یہ کرکٹ نہیں کچھ اور ہی تھا۔
141001_fazal_ur_rehman_interview_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/10/141001_fazal_ur_rehman_interview_fz
’امریکہ نے نریندر مودی کو خوش کرنے کے لیے یہ کیا‘
حرکت المجاہدین کے بانی اور انصار الامہ نامی ایک تنظیم کے رہنما مولانا فضل الرحمان خلیل نے امریکہ کی جانب سے ان پر لگنے والی پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ماضی میں روس کے خلاف سٹنگر میزائل فراہم کرنے والا امریکہ دہشت گرد ہے یا وہ۔‘
بی بی سی اردو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ طیارہ شکن سٹنگر میزائل کوئی اسلام آباد میں تو نہیں بنتے تھے۔ ’یہ میزائل جو سویت یونین کے خلاف عرب اور افغان مجاہدین استعمال کرتے تھے انہیں کون دیتا تھا؟ مدد وہ کرتے تھے شدت پسندوں کی یا میں؟ بات دراصل یہ ہے کہ ہم آہ بھی کریں تو بدنام اور وہ قتل بھی کریں تو کوئی بات نہیں۔‘ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ امریکہ نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو خوش کرنے کے لیے کیا ہے۔ ’اس میں ایک الزام بھی سچ پر مبنی نہیں۔ یہ بےبنیاد الزامات ہیں اور میں اس کے خلاف عدالت میں جاؤں گا۔ پرانی باتوں کو دوبارہ چلا کر دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔‘ ’میں دنیا کی ہر عدالت کا سامنا کرنے کو تیار ہوں لیکن اگر یہ سچ نہیں ہے تو میں جواب کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کی شدت پسند یا دہشت گرد کی تشریح مانے کو تیار نہیں ہیں۔ ’امریکہ کا دوہرا معیار ہے۔ کل تک (افغان) طالبان شدت پسند تھے لیکن آج ان کا قطر میں دفتر کھول کر بیٹھا ہوا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ وہ لاہور کے ان دو بھائیوں کو جن پر ان کے ساتھ پابندیاں لگائی گئی ہیں جانتے ہیں اور یہ کہ وہ بھی بےگناہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی مالی صورتحال پر ان پابندیوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
040427_iraq_strategy_ms
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/04/040427_iraq_strategy_ms
عراق کا حل: آپ کی نظر میں
عراق میں امریکی فوجیوں اور شیعہ ملیشیا کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ امریکی فوج کے مطابق اس نے نجف کے قریب ایک کارروائی میں درجنوں شیعہ ’جنگجو‘ ہلاک کر دیئے ہیں۔ دوسری طرف عراق سے ہسپانوی فوجیوں کی واپسی شروع ہو گئی ہے۔ یہ امریکہ کا عراق میں جنگ سے پیچھے ہٹنے والا پہلا اتحادی ہے۔
امریکہ جھڑپوں کی نئی لہر کے باوجود اس بات کا اصرار کر رہا ہے کہ وہ پروگرام کے تحت تیس جون کو اقتدار عراق میں ایک عبوری حکومت کے حوالے کر دے گا۔ تاہم اس نے خبردار کیا ہے کہ اقتدار سنبھالنے والی حکومت کو اپنے کچھ اختیارات ’اتحادیوں‘ کو تفویض کر نے پڑیں گے۔ اسی بارے میں: آپ کی نظر میں عراق کے مسئلے کا حل کیا ہے؟ کیا اب اگر امریکہ عراق کو اس کے حال پر چھوڑ دے تو وہاں موجود مختلف گروہوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش اسے مزید غیرمستحکم بنا دے گی؟ اگر آپ کو عراق کے لئے ایک لائحہ عمل بنانا پڑے تو آپ کیا تجویز کریں گے؟ آپ کی رائےآپ اپنے خیالات اردو، انگریزی یا رومن اردو میں بھیج سکتے ہیں
060706_wasim_ahmed
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2006/07/060706_wasim_ahmed
ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس: وسیم
دنیائے ہاکی میں سب سے زیادہ گول کرنے والے کھلاڑی سہیل عباس کے ریٹائرمنٹ ختم کرنے کے فیصلے کے اگلے روز انکے ہم عصر پاکستان کی ہاکی ٹیم کے سابق کپتان وسیم احمد نے بھی بین الاقوامی ہاکی سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لینے کا اعلان کر دیا۔
وسیم احمد نے کہا کہ ان کے دوست احباب نے انہیں مشورہ دیا کہ پاکستان کی ہاکی کو ان کی ضرورت ہے اسی لیے انہوں نے دو اہم ٹورنامنٹس چمپئنز ٹرافی اور عالمی کپ کے لیے ٹیم کو مضبوط کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے۔ سہیل عباس اور وسیم احمد نے دسمبر سنہ 2004 کو لاہور میں ہونے والی چمپئنز ٹرافی کے آخری روز تیسری پوزیشن کے لیے ہونے والے میچ میں فتح کے بعد اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تھا اور دونوں ہی ہالینڈ میں دو سال ہاکی لیگ کھیلتے رہے۔ ریٹائرمنٹ واپس لینے کا فیصلہ بھی ایک دن کے فرق سے کیا لیکن وسیم احمد کہتے ہیں کہ یہ سب اتفاق ہے۔ ’ہم دونوں کے فیصلوں میں باہمی مشورہ نہیں تھا اگرچہ ہم نے ایک ہی دن ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا اور ہالینڈ میں لیگ کھیلتے رہے لیکن ہم نے یہ آپس میں طے نہیں کیا تھا اور اسی لیے سہیل نے کراچی میں پریس کانفرنس کی اور میں نے لاہور میں۔‘ وسیم احمد نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ اگلے سال کے لیے لیگ کا معاہدہ کرنے کے لیے انہیں بین الاقوامی ہاکی کھیلنی پڑے گی۔ وسیم احمد اور سہیل عباس کا لیگ ہاکی کا دو سال کا معاہدہ ختم ہو چکا ہے۔لیفٹ ہاف کی پوزیشن پر کھیلنے والے وسیم احمد نے دو سو پچاسی میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی اور چودہ میچز میں ٹیم کی کپتانی کی۔
pakistan-49971305
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49971305
ایچ آئی وی ایڈز نہیں ہے، ’ہمیں بحیثیت معاشرہ اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا‘: نذیر مسیح کی کہانی
یہ سنہ 1990 کی بات ہے۔ متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابو ظہبی میں ملازمت کرنے والے 30 سالہ نذیر مسیح فروری کی ایک سرد رات لاہور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے باہر نکلے تو اُنھیں گلے لگانے والا کوئی نہیں تھا۔
ایچ آئی وی، ایڈز کے بارے میں آگاہی پھیلانے والے نذیر مسیح کی کہانی اِس سے پہلے وہ جب کبھی چھٹیاں گزارنے پاکستان آتے تھے تو تحفوں سے لدے نذیر کا استقبال کرنے کے لیے دوستوں اور رشتے داروں کا ایک ہجوم موجود ہوتا تھا۔ آج قریب 30 برس گزرنے کے بعد اُس دن کو یاد کرتے ہوئے نذیر مسیح بتاتے ہیں کہ انھوں نے جان بوجھ کر گھر والوں کو اپنے آنے کی اطلاع نہیں دی تھی۔ نذیر کے بقول اُن سے ایک ایسا جُرم سرزد ہو گیا تھا جس کی معافی اُس وقت کے پاکستان میں ممکن نہیں تھی۔ گرین ٹاؤن لاہور میں واقع اپنے آبائی گھر میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نذیر مسیح نے بتایا کہ اُن دِنوں متحدہ عرب امارات کی حکومت نے غیر ملکیوں کے ویزے میں توسیع کو ایچ آئی وی، ٹی بی اور ہیپاٹائٹس بی اور سی کے منفی ٹیسٹ سے مشروط کر دیا تھا۔ یہ بھی پڑھیے رتوڈیرو میں ایچ آئی وی وائرس کیسے پھیلا؟ کیا ایچ آئی وی صوبہ پنجاب میں بھی پھیل رہا ہے؟ پاکستان میں ایچ آئی وی کی صورتحال تشویش ناک قرار سرگودھا کا گاؤں ایچ آئی وی ایڈز کی لپیٹ میں کیسے آیا؟ ’میں نے اپنے خون کے نمونے لیبارٹری بھجوائے تو کافی ٹائم کوئی جواب نہیں آیا۔ پھر بعد میں مجھے لیب والوں نے بلوایا اور بتایا کہ میرے خون میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔‘ پرائمری کے بعد سکول چھوڑ دینے والے نذیر مسیح نہیں جانتے تھے کہ ایچ آئی وی کیا ہوتا ہے اور ایڈز کس بَلا کا نام ہے۔ اب وہ اِسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تسلیم کرتے ہیں۔ ’میں وہاں تنہا تھا اور دو دو تین تین سال گھر نہیں جا پاتا تھا۔ انسان جب اکیلا ہوتا ہے تو کئی طرح کی سرگرمیوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ وہاں عورتیں ملتی تھیں تو میں نے اُن کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر لیے۔‘ 'مجھے پتا ہوتا کہ جن عورتوں کے ساتھ میں جنسی تعلقات قائم کر رہا ہوں اُن کے ذریعے مجھے ایچ آئی وی وائرس منتقل ہو سکتا ہے تو میں ایسا ہرگز نہیں کرتا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ ایک لاعلاج مرض ہے۔' جب دنیا اُجڑ گئی نذیر مسیح کہتے ہیں کہ اُس زمانے میں پاکستان میں ایچ آئی وی کا نام لینا بھی ایک بہت بڑا جرم اور گناہ سمجھا جاتا تھا۔ ’وہ بہت پریشانی کا ٹائم تھا۔ میں اپنے کمرے میں اکیلا چھپ چھپ کر روتا تھا۔ میں یہ سوچتا تھا کہ میں نے اپنے ہاتھوں اپنا کیریئر ختم کر لیا۔ میری زندگی تباہ ہو گئی ہے۔‘ پھر نذیر نے ہمت پکڑی اور اپنی اہلیہ کو رازدار بنا کر علاج کی کوششیں شروع کیں۔ ’میری بیوی نے میرا بہت ساتھ دیا۔ وہ میرے ساتھ ڈاکٹروں کے پاس جاتی تھی۔ اُس نے مجھے سمجھایا کہ جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ اگر تم ہمت ہار دو گے تو بچوں کا کیا بنے گا۔ ’میں دو تین بڑے ہسپتالوں میں گھوما تو پتا چلا کہ وہاں ایچ آئی وی کا ٹیسٹ ہی نہیں ہوتا۔ ڈاکٹروں اور طبی عملے کا رویہ بھی بہت توہین آمیز ہوتا تھا۔ وہ ایچ آئی وی اور ایڈز میں تفریق نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ مجھے ایڈز ہے۔‘ ’یہاں ایڈز کا مریض رہتا ہے‘ نذیر مسیح کے ایچ آئی وی پازیٹیو ہونے کی بات زیادہ عرصے چھپی نہ رہ سکی اور چند ہی دنوں میں یہ خبر عام ہو گئی۔ نذیر کے بقول محلے والوں کا رویہ فوراً تبدیل ہوگیا۔ ’میں اگر گھر کے باہر کھڑا ہوتا تھا تو محلے دار کسی بہانے سے دور ہٹ جاتے تھے۔ میں ہاتھ ملانے کی کوشش کرتا تھا تو ہاتھ پیچھے کر لیتے تھے۔ ملنے والوں نے مجھ سے بات چیت بھی بند کر دی۔ لوگ کہا کرتے تھے کہ اِس گھر میں ایڈز کا مریض نذیر رہتا ہے۔‘ نذیر یاد کرتے ہیں کہ آج سے 25، 30 سال پہلے لوگ ایچ آئی وی ایڈز کو چھوت کی بیماری سمجھا کرتے تھے۔ عام خیال تھا کہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ہاتھ ملانے اور ساتھ کھانا کھانے سے ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہو جاتی ہے۔ نذیر مسیح کہتے ہیں کہ انسان آدھی موت اُس وقت ہی مر جاتا ہے جب معاشرہ اُس کے ساتھ اِس قسم کا رویہ روا رکھتا ہے۔ ایچ آئی وی دراصل ایڈز نہیں ماہرینِ صحت ایچ آئی وی اور ایڈز کو دو مختلف چیزیں قرار دیتے ہیں۔ سول ہسپتال کراچی کے ایچ آئی وی ٹریٹمنٹ سینٹر کے انچارج ڈاکٹر شاہ محمد شیخ کے مطابق ایچ آئی وی ایک وائرس ہے اور یہ وائرس اگر کسی شخص میں موجود ہے تو وہ ایڈز کا مریض نہیں ہو جاتا۔ ڈاکٹر شاہ محمد شیخ بتاتے ہیں کہ ’اگر مناسب احتیاط کے ساتھ ادویات استعمال کی جائیں تو ایچ آئی وی کو ایڈز میں تبدیل ہوتے ہوتے آٹھ سے 10 سال لگ سکتے ہیں اور اِس دوران متاثرہ شخص معمول کی زندگی گزار سکتا ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی اپنی تمام عمر ایچ آئی وی کے ساتھ گزار دے اور یہ وائرس ایڈز میں تبدیل نہ ہو۔‘ ڈاکٹر شیخ کا کہنا ہے کہ ایچ آئی وی کا واحد علاج اے آر وی (اینٹی ریٹرو وائرل) ادویات ہیں جو متاثرہ شخص کو تمام عمر کھانی ہوتی ہیں۔ یہ ادویات وائرس کو ختم نہیں کر سکتیں لیکن مریض کی قوت مدافعت کو قائم رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر شاہ محمد شیخ بتاتے ہیں کہ اگر ایچ آئی وی کا وائرس متاثرہ شخص کی قوتِ مدافعت پر حملہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو مریض آہستہ آہستہ بیمار رہنے لگتا ہے۔ ’کبھی بخار، کبھی ڈائریا یا کبھی کوئی اور بیماری ہو جاتی ہے۔ مریض کا وزن کم ہونے لگتا ہے اور وہ کمزور ہو جاتا ہے۔ اُس پر بیماریوں کا حملہ بڑھتا جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ بستر سے لگ جاتا ہے۔ اُس وقت کہا جاتا ہے کہ متاثرہ شخص ایڈز کا مریض ہوگیا ہے۔‘ ایچ آئی وی کیسے پھیلتا ہے؟ ڈاکٹر شاہ محمد شیخ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایچ آئی وی کا وائرس کئی طرح سے ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے۔ ’یہ انفیکشن ایک سے زیادہ جنسی شریکوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ انتقالِ خون کے دوران بداحتیاطی اور استعمال شدہ سرنج کا دوبارہ استعمال بھی اِس وائرس کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ ہیں۔‘ ڈاکٹر شیخ کہتے ہیں کہ ’ایچ آئی وی پازیٹیو ماں سے پیدا ہونے والے بچے کو یہ وائرس منتقل ہونے کے 40 فیصد امکانات ہوتے ہیں۔ اِس کے علاوہ سرجیکل اور ڈینٹل آلات اگر سٹرلائز نہ ہوں تو بھی یہ وائرس کسی شخص کو متاثر کر سکتا ہے۔‘ پاکستان میں ایڈز ایچ آئی وی ایڈز کا مرض دنیا بھر میں صحت کے اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے جس سے اب تک ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ صرف سنہ 2017 میں ایک کروڑ افراد ایڈز کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ اقوام متحدہ کی ایڈز سے متعلق جائزہ رپورٹ 2019 کے مطابق پاکستان ان 11 ملکوں میں شامل ہے جہاں ایڈز کے پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ عالمی ادارہِ صحت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں 2017 کے دوران ایچ آئی وی ایڈز کے 20 ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے صوبائی پروگرام مینجر ڈاکٹر سکندر علی میمن نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ 65 ہزار افراد ایچ آئی وی سے متاثر ہیں لیکن رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد صرف 25 ہزار ہے۔ ڈاکٹر میمن کا کہنا ہے کہ ’پاکستانی قانون کے مطابق کسی بھی شخص کی اجازت کے بغیر اُس کا ایچ آئی وی ٹیسٹ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر ہائی رِسک گروپس کی درست جانچ پڑتال کی جائے تو ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی اصل تعداد سرکاری اعدادوشمار سے کہیں زیادہ نکلے گی۔‘ ہائی رِسک گروپس کیا ہیں؟ ماہرین کے مطابق معاشرے کے چند مخصوص طبقوں میں عام آبادی کے مقابلے میں ایچ آئی وی انفیکشن کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ اِسی وجہ سے اُنھیں ہائی رِسک گروپس کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر سکندر علی میمن بتاتے ہیں کہ ’ہائی رِسک گروپس میں سرِفہرست سرنج کے ذریعے نشہ کرنے والے افراد ہیں جن کی تعداد ایچ آئی وی سے متاثرہ کسی بھی طبقے کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔‘ ’اِس کے بعد خواجہ سرا اور تیسرے نمبر پر مرد سیکس ورکرز ہیں۔ سب سے آخر میں خواتین سیکس ورکرز ہیں جن کو ایچ آئی وی کا خطرہ ہوتا ہے۔‘ ڈاکٹر سکندر علی میمن کے مطابق ٹرک ڈرائیورز، جیلوں میں قید افراد اور تارکینِ وطن بھی ایچ آئی وی سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ جو لوگ مختلف نوعیت کی سرجری اور انتقالِ خون کے عمل سے گزرتے ہیں اُن میں بھی ایچ آئی وی منتقل ہو سکتا ہے۔ ایچ آئی وی کی وبا گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں ایچ آئی وی کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کے متعدد واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ عالمی ادارہِ صحت کے مطابق 2003 سے لے کر اب تک پاکستان میں ایچ آئی وی کا وبائی انداز میں پھیلاؤ سات مرتبہ ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔ سنہ 2018 میں صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا کے گاؤں کوٹ عمرانہ میں ایچ آئی وی اور ایڈز کے 150 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔ رواں سال صوبہِ سندھ کے شہر لاڑکانہ کی تحصیل رتو ڈیرو میں پھیلنے والی وبا میں 800 سے زائد افراد میں ایچ آئی وی وائرس کی تصدیق ہوئی جن کی اکثریت بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ ماہرین کے مطابق ان دونوں واقعات میں ہائی رسک گروپس کے بجائے عام آبادی ایچ آئی وی وائرس کا شکار ہوئی جس کی بنیادی وجہ ڈاکٹروں اور اتائیوں کی بداحتیاطی اور غیر محفوظ طریقہِ علاج ہے۔ مریضوں کی تلاش ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص کے بعد نذیر مسیح نے فیصلہ کیا کہ وہ خود بھی زندہ رہیں گے اور اپنے جیسے دوسرے لوگوں کو بھی زندہ رکھنے کی کوشش کریں گے۔ ’میں نے اپنے علاقے میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ پہلے مجھے صرف پانچ لوگ ملے جو بدنامی کے ڈر سے اپنی صورتحال ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ میں اُن کو لیبارٹری ٹیسٹ اور ادویات حاصل کرنے میں مدد فراہم کرنے لگا۔ ساتھ ساتھ میں نے اپنا علاج بھی شروع کردیا۔‘ نذیر بتاتے ہیں کہ 90 کی دہائی میں پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس کی مخصوص ادویات یعنی اے آر وی (اینٹی ریٹرو وائرل) ادویات موجود نہیں تھیں۔ وہ اکثر یہ دوائیں انڈیا سے منگوا کر مریضوں کو دیتے تھے۔ اِسی دوران اُنھیں یواین ایڈز کی جانب سے فلپائن میں ایچ آئی وی ایڈز پر ایک کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ وہاں سے واپسی پر انھوں نے اپنی غیر سرکاری تنظیم قائم کی اور ایچ آئی وی ایڈز سے متعلق آگاہی پھیلانے کا بیڑا اُٹھایا۔ مدد کے لیے کہاں جائیں؟ حکومتِ پاکستان کے زیرِ انتظام قومی اور صوبائی سطح پر ایڈز کنٹرول پروگرام جاری ہے جس کے تحت ہسپتالوں میں ایچ آئی وی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ اِن کلینکس میں ایچ آئی وی ایڈز کی تشخیص اور علاج کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے صوبائی پروگرام مینجر ڈاکٹر سکندر علی میمن کے مطابق اِن مراکز میں علاج کے لیے دوائیں اور ٹیسٹ مفت ہیں۔ اِس کے علاوہ کلینکس میں آنے والی تمام حاملہ ماؤں کی سکریننگ بھی کی جاتی ہے تاکہ پیدا ہونے والے بچے میں ایچ آئی وی وائرس کے امکانات کو کم کیا جاسکے۔ ڈاکٹر میمن نے بتایا کہ ’صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت ہائی رسک گروپس کے ساتھ منسلک غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر ایچ آئی وی کے بارے میں آگہی کے لیے بھی کام کیا جا رہا ہے۔‘ احتیاط واحد علاج ماہرینِ صحت کے مطابق ایڈز ایک لاعلاج بیماری ہے لہذا اِس سے بچنے کا واحد طریقہ احتیاط ہے۔ سول ہسپتال کراچی کے ایچ آئی وی ٹریٹمنٹ سینٹر کے نگراں ڈاکٹر شاہ محمد شیخ بتاتے ہیں کہ انتقالِ خون کے دوران یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ خون صرف معیاری اور رجسٹرڈ بلڈ بینکس سے حاصل کیا گیا ہو اور مریض کے جسم میں منتقل کرنے سے پہلے اُس کی مکمل جانچ کی گئی ہو۔ ’دورانِ علاج اِس بات کا خیال رکھا جائے کہ ہر بار نئی سرنج استعمال کی جائے۔ عوام کو چاہیے کہ دانتوں کا علاج بھی صرف مستند ڈاکٹروں سے کروائیں جو سٹرلائز شدہ آلات استعمال کرتے ہوں۔ اِسی طرح نائی سے شیو کرواتے وقت یہ تسلی کر لی جائے کہ نیا بلیڈ استعمال کیا جا رہا ہے۔‘ ڈاکٹر شاہ محمد شیخ کے مطابق جنسی رویوں میں احتیاط کے ذریعے بھی ایچ آئی وی سے بچا جا سکتا ہے۔ اُن کا مشورہ ہے کہ ایک سے زائد جنسی شریک رکھنے والے افراد محفوظ سیکس کی عادت اپنائیں اور کنڈوم کا لازمی استعمال کریں۔ ’ایڈز اب ٹیبو نہیں‘ نذیر مسیح یاد کرتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب لوگ ایچ آئی وی ایڈز کا نام سنتے ہی فیصلہ کر لیتے تھے کہ متاثرہ شخص یقیناً جنسی بے راہ روی کا شکار ہوگا۔ لیکن اب سوچ تبدیل ہو رہی ہے اور لوگ جان گئے ہیں کہ یہ وائرس دیگر ذرائع سے بھی منتقل ہو سکتا ہے۔ ’اب بھی بہت سے لوگوں کو غلط فہمی ہے۔ کچھ سمجھتے ہیں کہ یہ وائرس متاثرہ شخص کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے، کھانا کھانے اور ہاتھ ملانے سے منتقل ہو جاتا ہے جو درست نہیں۔ اِس بارے میں آگاہی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔‘ پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے منفی سماجی رویوں کی وجہ سے اب بھی اکثر مریض اپنا ایچ آئی وی پازیٹیو سٹیٹس چھپاتے ہیں اور علاج سے کتراتے ہیں جو نادانستہ طور پر مرض کے مزید پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے۔ ماہرین کے مطابق مریض اور اُس کے خاندان کے افراد کو چاہیے کہ ایچ آئی وی کو کسی بھی دوسری بیماری کی طرح لیں اور بروقت تشخیص اور علاج کروائیں۔ نذیر مسیح مانتے ہیں کہ اصل اور دیرپا تبدیلی معاشرتی رویے بدلنے سے آئے گی۔ ’بحیثیت معاشرہ ہمیں اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ ہم نے ایچ آئی وی کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ ہمیں ایچ آئی وی ایڈز اور اِس سے متاثرہ افراد کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ یہ پاکستان میں ایچ آئی وی پر قابو پانے کی جانب پہلا قدم ہوگا۔‘
regional-45835961
https://www.bbc.com/urdu/regional-45835961
انڈیا کا زیر انتظام کشمیر: منان وانی کی ہلاکت، سکالر سے باغی
کپوارہ کی لولاب ویلی سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ منان وانی کو قریب سے جاننے والے بھی گذشتہ برس جنوری میں حیران ہوگئے جب انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی پروگرام ادھورا چھوڑ کر انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی راہ لی اور یہاں مسلح ہوکر سوشل میڈیا پر اعلان کردیا کہ وہ حزب المجاہدین میں شامل ہوگئے ہیں۔
منان وانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی پروگرام ادھورا چھوڑ کر انڈیا کے زیرانتظام کشمیر چلے گئے منان وانی کا آبائی ضلع کپوارہ لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہونے کے باعث فوجیوں سے بھرا ہوا ہے۔ وہ سائنس کے طالب علم تھے لیکن تاریخ، مذاہب اور سیاسی مزاحمت سے متعلق بھی وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ وہ اپنے مضامین میں امریکی شہری حقوق کے رہنما میلکم ایکس اور دیگر سیاہ فام مزاحمتی رہنماؤں کے حوالے دیا کرتے تھے۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والی شدت پسندی کے بارے میں مزید پڑھیے کشمیر: شوپیاں ’شدت پسندی‘ کا مرکز کیوں بن رہا ہے؟ کشمیر: ریاست کے پاس کوئی راستہ نہیں ’ہمیں نہ انڈیا چاہیے، نہ ہی پاکستان‘ پی ایچ ڈی میں منان وانی کی تحقیق کا موضوع اپنے آبائی قصبہ لولاب کی ارضیاتی خصوصیات سے متعلق تھا۔ منان وانی مسلح گروپ میں شمولیت سے قبل تقریر و تحریر میں کافی سرگرم تھے۔ وہ سٹوڈنٹ اکٹیوزم میں پیش پیش تھے۔ انھوں نے کئی طویل مضامین لکھے، جن کی اشاعت پر انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی مقامی نیوز ایجنسی کرنٹ نیوز سروس کے خلاف پولیس میں مقدمہ بھی درج ہوا اور سروس کی ویب سائٹ سے منان کا مضمون بھی ہٹایا گیا۔ منان وانی کی ہلاکت کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کشیدگی بڑھ گئی ہے اور انڈین سیکورٹی اہلکار جگہ جگہ چیکنگ کر رہے ہیں انہیں چند سال قبل بھوپال یونیورسٹی میں عالمی کانفرنس کے دوران بہترین مقالہ کے لیے ایوارڈ دیا گیا تھا، اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق وہ نہایت خالص خیالات پر مبنی تحقیق کے قائل تھے۔ انھوں نے ہتھیاروں کی کوئی باقاعدہ تربیت نہیں حاصل کی تھی لیکن ان کے دانشورانہ قد کی وجہ سے انہیں حزب میں کمانڈر کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔ منان اُس طویل فہرست میں شامل ہوگئے ہیں جس میں ایسے متعدد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جنہوں نے اپنے کیرئیر کو ادھورا چھوڑ کر بندوق تھام لی۔ منان وانی کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ موجودہ قدغنوں سے ہی نہیں بلکہ کشمیر سے متعلق تاریخ کو فراموش کروانے کی سرکاری کوششوں پر نالاں تھے۔ ان میں سے ایک مضمون میں منان لکھتے ہیں: 'کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ کی نگرانی کرنے کے لیے جاسوس معمور کیے گئے ہیں، طلبا کے لیے اظہار رائے پر پابندی ہے اور ان کے بھی پیچھے جاسوس لگے ہیں، پوری آبادی محصور ہے، قوانین بنائے جاتے ہیں تاکہ سرکاری ملازمین حکومت کی پالیسیوں کی تنقید نہ کرسکیں، اس ساری صورتحال پر وہ لوگ کیا کہیں گے جو سمجھتے ہیں کہ جموں کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔' منان وانی کی ہلاکت کے بعد انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں وہ سب نہیں ہوا جو دو سال قبل برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ہوا تھا۔ برہان کی ہلاکت نے وہاں احتجاج، مسلح مزاحمت اور مظاہروں کی نئی تحریک چھیڑ دی تھی۔ منان وانی کا آبائی ضلع کپوارہ لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہونے کے باعث فوجیوں سے بھرا ہوا ہے لیکن منان کی ہلاکت پر نہ صرف ہندنواز حلقے پریشان ہیں بلکہ سیکورٹی اداروں کے بعض افسروں کو بھی خدشہ ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بغاوت کی لہر پیدا ہوسکتی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے منان کی ہلاکت کو قومی نقصان قرار دیا۔ آئی اے ایس افسر شاہ فیصل نے ٹویٹ کیا: 'منان وانی ایک نوجوان قائد تھا۔ ہمیں اس کی ضرورت تھی، کاش اس نے تشدد کا راستہ اختیار نہ کیا ہوتا۔ کیا ہوگا اگر وہ سب لوگ جو کشمیر پر مرنا چاہتے ہیں جینے کا فیصلہ کریں۔ کوئی تو بات کرے، اس جنگ کو ختم ہونا ہوگا۔' کپوارہ کے رکن اسمبلی انجنئیر رشید نے اپنے ردعمل میں کہا :'منان کی قلم بندوق سے خاموش کردی گئی، اور اس طرح نئی دلی نے منان کے قیمتی افکار کے آگے سرینڈر کردیا۔' خفیہ پولیس کے ایک افسر نے بتایا: 'منان وانی کی ہلاکت بے شک ایک بڑی کامیابی ہے۔ لیکن اس ہلاکت کے بعد منان کی شخصیت اور ان کا نصابی ریکارڈ تعلیمی اداروں میں بغاوت کے بیچ بوئے گا، جو ہمارے لئے تشویش کی بات ہے۔' واضح رہے دو سال قبل برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے اب تک متعدد تعلیم یافتہ نوجوانوں اور سکالرز سمیت 600 نوجوان مسلح ہوکر بھارتی فورسز کے خلاف برسرپیکار ہوگئے ہیں جن میں سے اب تک کم از کم 300 عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ یہ سلسلہ اس قدر تشویشناک ہے کہ سابق وزیراعلی عمرعبداللہ نے بھی کہا کہ 'اب کشمیریوں کو پاکستان کی ضرورت نہیں' کیونکہ اب وہ پولیس اور فورسز اہلکاروں کی بندوق چھین کر جنگل میں پناہ لیتے ہیں اور فورسز پر حملے کرتے ہیں۔ کالم نگار اعجاز ایوب کہتے ہیں: 'یہ عسکریت پسندی عددی اور صلاحیتوں کے اعتبار سے بھارتی فورسز کے لیے بڑا چیلنج نہیں ہے لیکن فکری اعتبار سے یہ بھارت کی شکست ثابت ہورہی ہے کیونکہ اب ہندنواز حلقے بھی نئی دلی سے ناراض ہورہے ہیں، کجا کہ کوئی بھارتی موقف کا پرچار کرتا۔' منان وانی کے پڑوسی اور دوست نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا: 'منان وانی اُس گھٹن کو محسوس کررہے تھے جو ہم سب کا مقدر بن گئی ہے۔ انہوں نے لکھنا چاہا لیکن وہاں بھی قدغن ۔ ان کا مسلح ہونا یہ دکھا رہا ہے کہ قلم روکوگے تو وہی قلم بندوق بن جائے گی۔'
031218_pakistani_convicted_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2003/12/031218_pakistani_convicted_fz
لشکرسے تعلق پر دس سال قید
امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی محمد عتیق کو امریکہ کے آتشی اسلحہ سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کرنے اور دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے کے الزام میں دس سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
محمد عتیق پیشہ کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور امریکی ریاست پنسلوینہ میں مقیم ہیں۔ ان کو اس سال جولائی میں لشکر طیبہ کے لیے کام کرنے کی تربیت حاصل کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ان گرفتار ہونے والےگیارہ افراد میں تین نے اعتراف جرم کرلیا ہے اور ان کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں باقی سات پر مقدمات اگلے سال فروری میں چلائیں جائیں گے۔ عقیق نے عدالت میں کہا کہ میں اپنے جرم پر نادم ہوں اور میں نے معاشرے کے لیے جو مسائل پیدا کئے اس پر معافی مانگتا ہوں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ گیارہ ستمبر کے بعد لشکر طیبہ سے تربیت لینے کے لیے پاکستان گئے تھے۔ حکومت نے عتیق کو سنائی جانے والی سزا پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ عتیق ورجینیا کی ریاست میں جہادی نیٹ ورک کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر رضامند ہیں۔
060213_iraq_vedio_sen
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/02/060213_iraq_vedio_sen
’ویڈیو سے باہمی اعتماد کم ہوا ہے‘
عراقی وزیراعظم کے ترجمان نے کہا ہے کہ برطانوی فوجیوں کی مار کٹائی کی ویڈیو سے وہ باہمی اعتماد کم ہوا ہے۔ جو دونوں فریقوں کے درمیان پایا جاتا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو میں بظاہر برطانوی فوجیوں کے ہاتھوں عراقی شہریوں کو زدوکوب ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔ ترجمان بشر انہر کا کہنا ہے کہ برطانوی افواج عراق میں اچھا کام انجام دے رہی ہیں لیکن ابھی انہیں عراقیوں کے دل و دماغ جیتنے کا مرحلہ سر کرنا ہے۔ انہوں نے برطانوی حکام سے کہا ہے کہ وہ تشدد کے اس واقعے میں ملوث برطانوی فوجیوں سے قانون کے مطابق کارروائی کریں۔ادھر برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئر کہہ چکے ہیں کہ اس ویڈیوں کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔ اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ فوجی تین نوجوانوں کو لاتوں گھونسوں اور ڈنڈوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
050321_quetta_kidnap_as
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/03/050321_quetta_kidnap_as
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا اغوا، رہائی
نیشنل پارٹی کے قائدین ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور ڈاکٹر عبدالمالک جن کو اتوار کی رات نا معلوم افراد نے اغوا کر لیا تھا ہاتھ پاؤں باندھ کر دریائے بولان کے قریب چھوڑ دیا ہے۔
سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا ہے کہ وہ ڈاکٹر عبدالحئی اور ایک ساتھی کے ہمراہ کوئٹہ سے نصیر آباد جا رہے تھے کہ راستے میں مچھ کے قریب دو گاڑیوں میں سوار مسلح افراد نے انہیں روک کر پستول کی نوک پر اغوا کر لیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ اغوا کار انہیں نا معلوم پہاڑی راستوں سے دریا کے کنارے لے گئے جہاں ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ا ن کے اوپر کپڑا ڈال دیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے بتایا ہے کہ اغوا کاروں نے انہیں دھمکیاں دیں اور کہا کہ انہیں حکم ملا ہے کہ ’آپ لوگوں کو مار دیا جائے‘۔ وہ اس حالت میں کوئی تین گھنٹے تک رہے۔ اس بارے میں آج بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کے اراکین نے زبردست احتجاج کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعہ میں ملوث افراد کو فورا گرفتار کیا جائے۔
sport-54836287
https://www.bbc.com/urdu/sport-54836287
احسن رضا: سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے میں زخمی ہونے والے پاکستانی امپائر نیا عالمی ریکارڈ بنانے کے قریب
سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر ہونے والے شدت پسند حملے کو ابھی ایک ماہ ہی ہوا تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں نے چار اپریل 2009 کو فون پر امپائر احسن رضا سے بات کی تو وہ لاہور کے ایک ہسپتال میں زیرعلاج تھے۔ اُن کی سانس پھول رہی تھی اور وہ بمشکل بات کر پا رہے تھے لیکن اس حالت میں بھی وہ صرف یہی کہہ رہے تھے کہ انھیں جلد از جلد دوبارہ امپائرنگ شروع کرنی ہے۔
احسن رضا پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں سب سے زیادہ فائنل میچوں میں امپائرنگ کا منفرد اعزاز بھی رکھتے ہیں احسن رضا نے نہ صرف اپنی قوت ارادی کے بل پر کرکٹ کے میدانوں کا دوبارہ رُخ کیا بلکہ ایک بار پھر بین الاقوامی امپائرنگ کے دھارے میں شامل ہو گئے اور اب صورتحال یہ ہے کہ وہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں امپائرنگ کی نصف سنچری مکمل کرنے والے پہلے امپائر ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والے ہیں۔ آٹھ نومبر کو پاکستان اور زمبابوے کے درمیان راولپنڈی میں کھیلا جانے والا دوسرا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل احسن رضا کا بحیثیت فیلڈ امپائر 50واں ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ ہو گا۔ یہ بھی پڑھیے پاکستانی امپائر علیم ڈار کا ایک اور عالمی ریکارڈ ’اکھڑ مزاج‘ ڈیرل ہیئر سے ایشیائی ٹیموں کو شکایت کیوں تھی؟ ’دھرماسینا امپائر ہوں تو لامحدود ریویوز ملنے چاہییں‘ ’موت کو بہت قریب سے دیکھا‘ تین مارچ 2009 کو سری لنکن کرکٹ ٹیم پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملے میں اگرچہ متعدد سری لنکن کرکٹرز زخمی ہوئے تھے لیکن سب سے مہلک زخم امپائر احسن رضا کو آئے تھے۔ احسن رضا اس وین میں سفر کر رہے تھے جس میں اُن کے علاوہ امپائرز سائمن ٹافل، سٹیو ڈیوس، ندیم غوری اور میچ ریفری رس براڈ موجود تھے۔ شدت پسندوں کی فائرنگ کی زد میں آ کر اس وین کا ڈرائیور موقع پر ہلاک ہو گیا تھا اور ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے میچ آفیشلز کے رابطہ افسر عبدالسمیع کے کندھے پر گولی لگی تھی۔ احسن رضا نے شور مچا کر اپنے ساتھیوں کو نیچے لیٹ جانے کے لیے کہا تھا لیکن انھیں خیال آیا کہ کرس براڈ اپنے دراز قد کی وجہ سے فائرنگ کی زد میں آ سکتے ہیں لہذا انھیں بچانے کی کوشش میں وہ خود بُری طرح زخمی ہو گئے تھے۔ علاج کے دوران انھیں دو درجن خون کی بوتلیں لگی تھیں اور جسم پر تقریباً 85 ٹانکے لگے تھے۔ یہ صورتحال احسن رضا کی فیملی کے لیے بھی بڑی تکلیف دہ تھی لیکن ان کی والدہ اور اہلیہ نے انتہائی حوصلہ مندی سے نہ صرف احسن رضا کو معمول پر لانے میں مدد کی بلکہ تینوں بیٹیوں کی تعلیم پر بھی اُن کی مکمل توجہ رہی۔ ڈاکٹرز نے احسن رضا کو بتا دیا تھا کہ انھیں ٹھیک ہونے میں ڈیڑھ، دو سال لگ سکتے ہیں لیکن باہمت احسن رضا چھ ماہ بعد ہی امپائر کے روپ میں میدان میں نظر آنے لگے تھے۔ اس تمام تر صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جب احسن رضا ہسپتال میں زیرعلاج تھے تو کسی حکومتی شخص کو ان کی عیادت یا خبر گیری کی توفیق نہیں ہوئی تھی اور اس کے بعد بھی جب سری لنکن ٹیم کے بس ڈرائیور مہر خلیل کو حکومت کی طرف سے ان کی حوصلہ مندی پر سرکاری سطح پر پذیرائی ملی تو اس وقت بھی احسن رضا حکومت اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو یاد نہ آئے کہ انھیں بھی کسی ایوارڈ کا مستحق سمجھا جاتا۔ شدت پسندی کے اس واقعے میں شدید زخمی ہونے کے بعد احسن رضا کو یہ مشورہ بھی دیا گیا تھا کہ پاکستان کو غیرمحفوظ ملک سمجھتے ہوئے وہ برطانیہ میں مستقل سکونت اختیار کر لیں تاہم انھوں نے اس مشورے کو ترجیح نہ دی۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گی کہ اس واقعہ کے 11 سال بعد احسن رضا کو اس سال جولائی میں ایک بار پھر اپنے پیٹ کے آپریشن کے سخت مرحلے سے گزرنا پڑا ہے کیونکہ پرانے زخم انھیں دوبارہ تکلیف دینے لگے تھے۔ اس بار یہ زخم 40 ٹانکوں سے بھرے گئے اور کئی ہفتوں تک وہ آئی سی یو میں رہے۔ کرکٹر سے امپائر بننے کا سفر پاکستان کے متعدد بین الاقوامی کرکٹ امپائرز کی طرح احسن رضا نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی ہے۔ وہ وکٹ کیپر تھے جنھوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں حبیب بینک اور دوسری ٹیموں کی طرف سے چھ سالہ کریئر کے دوران 21 فرسٹ کلاس میچوں میں 56 کیچز اور سات اسٹمپڈ کیے۔ احسن رضا نےامپائر بننے کا ارادہ کیا تو ابتدا میں انھیں مشکلات کا سامنا رہا۔ وہ سنہ 2003 میں امپائرنگ کے بنیادی ٹیسٹ میں فیل ہو گئے لیکن اپنی محنت کے بل پر انھوں نے تمام مراحل عبور کیے۔ انھوں نے انگلینڈ سے بھی امپائرنگ کے دو لیول کیے جس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے امپائرنگ کے کورس بھی کامیابی سے مکمل کیے اور جب سنہ 2009 میں سری لنکا کی ٹیم پاکستان آئی تو احسن رضا ریزرو امپائر کے طور پر پینل میں شامل کیے گئے۔ احسن رضا کا امپائر کی حیثیت سے پہلا بین الاقوامی ون ڈے میچ فروری 2010 میں افغانستان اور کینیڈا کے درمیان شارجہ میں تھا۔ مئی 2015 میں انھیں پہلی بار پاکستانی سرزمین پر ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچوں میں امپائرنگ کا موقع اُس وقت ملا جب زمبابوے کی ٹیم پاکستان آئی تھی۔ یہ سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد پاکستان میں ہونے والی پہلی بین الاقوامی سیریز تھی۔ اس سیریز کے موقع پر ملکی اور غیرملکی میڈیا کی تمام تر توجہ کا مرکز کھلاڑیوں کے بجائے دو افراد تھے ایک احسن رضا اور دوسرے سری لنکن ٹیم کی بس ڈرائیور مہرخلیل۔ دونوں کے انٹرویوز کے لیے ذرائع ابلاغ کے ہر نمائندے کی یہی خواہش تھی کہ یہ انٹرویو لبرٹی چوک پر ہو جہاں سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔ احسن رضا کے لیے وہ انتہائی جذباتی لمحہ تھا اور وہ کہہ رہے تھے کہ انھیں اس واقعے کو بھلا کر آگے بڑھنا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں اپنی امپائرنگ کی وجہ سے یاد رکھا جائے، اس واقعے کی وجہ سے نہیں۔ احسن رضا اس واقعے کو ُبھلا کر اب نارمل زندگی ضرور گزار رہے ہیں لیکن اُس خوفناک واقعہ میں اپنے ساتھ موجود تمام ساتھیوں کے ساتھ خود کو اس طرح جوڑ کر رکھا ہوا ہے کہ ہر سال تین مارچ کو یہ تمام میچ آفیشلز ایک دوسرے کو ای میل کے ذریعے صحت اور محفوظ زندگی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں۔ آسٹریلوی امپائر سائمن ٹافل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ احسن رضا کی سب سے خاص بات ان کا جنون اور استقامت ہے۔ وہ امپائرنگ سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ اس کھیل کی تیسری ٹیم جو امپائرز کی ہوتی ہے اس کی اقدار اور حوصلے کو بلند رکھے ہوئے ہیں۔ سائمن ٹافل کہتے ہیں کہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ لاہور کے ہولناک واقعے سے براہ راست متاثر ہونے کے باوجود وہ بین الاقوامی سطح پر امپائرنگ میں واپس آئے اور اپنی ذمہ داری بخوبی نبھا رہے ہیں۔ احسن رضا سنہ 2017 میں ایم سی سی کی کرکٹ قوانین سے متعلق کمیٹی کا حصہ رہے ہیں۔ احسن رضا نے دنیا بھر میں ہونے والی ٹی ٹوئنٹی لیگز کے 19 فائنلز میں امپائرنگ کی ہے۔ وہ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں سب سے زیادہ فائنل میچوں میں امپائرنگ کا منفرد اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ احسن رضا نے اس سال آسٹریلیا میں ہونے والے خواتین ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں امپائرنگ کی تو وہ تیسرے پاکستانی امپائر بنے جنھیں آئی سی سی کے کسی ورلڈ کپ فائنل میں امپائرنگ کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان سے قبل محبوب شاہ نے سنہ 1987 کے مینز ورلڈ کپ اور علیم ڈار نے سنہ 2007 اور سنہ 2011 کے مینز ورلڈ کپ کے فائنل میں امپائرنگ کی تھی۔ احسن رضا نہ صرف خود بین الاقوامی میچوں میں امپائرنگ کر رہے ہیں بلکہ کئی برسوں سے وہ ایک کوالیفائیڈ ایجوکیٹر کی حیثیت سے پاکستانی امپائرز کی تربیت بھی کر رہے ہیں۔
090121_un_chief_gaza_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2009/01/090121_un_chief_gaza_fz
غزہ: اسرائیلی فوج کا انخلا مکمل
اسرائیل نے بدھ کو غزہ سے اپنی فوجوں کے انخلاء کو مکمل کر لیا ہے تاہم غزہ کے چاروں طرف اسرائیلی فوج کسی بھی ممکنہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے موجود رہے گی۔غزہ میں پچاس ہزار سے زیادہ بےگھراسرائیل فوج کے غزہ سے انخلاء کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے کہا کہ اسرائیل کے جاسوس طیارے غزہ کی فضائی نگرانی جاری رکھیں گے اور اسرائیل بحریہ بھی غزہ کے ساحلوں کی کڑی نگرانی کرتی رہے گی۔
قبل ازیں اقوام متحدہ کے ایک امدادی ادارے کے سربراہ جون ہومز نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے تمام سرحدی راستے کھول دیئے جائیں۔ انہوں نے اسرائیل سے تمام سرحدی راستے کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان راستوں کے کھولے جانے سے اشیاء ضرورت کی آزدانہ نقل و حمل میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر تعمیراتی ساز و سامان کو غزہ تک پہنچانے میں رکاوٹیں پیش آئیں تو تعمیر نو کا کام شروع نہیں کیا جا سکے گا۔ فلسطینی گروپ حماس اور اسرائیل کے درمیان اتوار کو طے پانے والے عارضی جنگ بندی کے معاہدے میں غزہ اور اسرائیل کے درمیان سرحدی چوکیاں کھولنے سے متعلق کوئی شق شامل نہیں تھی۔ یہ سرحدی چوکیاں اسرائیلی فوج کے سخت کنٹرول میں ہیں۔ جون ہومز نے کہا کہ امدادی کام کرنے والے اقوام متحدہ کے عملے کو اسرائیل کی طرف سے سرکاری اجازت حاصل ہونے کے باوجود غزہ میں داخل ہونے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ روز اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے غزہ کےدورے پر وہاں بائیس دن تک اسرائیل کی مسلسل بمباری سے ہونے والے وسیع جانی اور مالی نقصان پر صدمے اور رنج کا اظہار کیا تھا۔ بان کی مون نے غزہ میں اقوام متحدہ کے احاطے پر حملے کی مکمل تحقیقات اور اس کو نشانہ بنانے والے ذمہ دار فوجیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
071007_delhi_diary_rs
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/10/071007_delhi_diary_rs
سرکاری شراب،جاوید کانغمہ
فوج میں خصوصی میزائل گروپ
گزشتہ دنوں اڑیسہ کی ساحلی تجربہ گاہ سے اگنی۔ ون میزائل کا تجربہ کیاگیا۔ سات سو کلو میٹر کے فاصلے تک مارکرنے والے اس میزائل کے پہلے بھی کئی تجربے کیے جا چکے ہیں۔ یہ میزائل ایک ٹن وزن کے جوہری بم گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگنی۔ون کے اس تجربے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ تجربہ فوج نے کیا ہے۔ اب فوج میں ایک ’سپیشل میزائل گروپ‘ قائم کیا گيا ہے جو اگنی ٹو اور اگنی تھری اور دوسرے میزائلوں کے استعمال کی مہارت رکھتا ہے۔ جج کو قانون پڑھنے کے لیے کلاس میں بھیجا گیا دلی ہائی کورٹ نے ذیلی عدالت کے ایک جج کو ہدایت دی ہے کہ وہ فوراً قانون کی کلاس میں واپس جائیں۔ ہائی کورٹ نے یہ ہدایت اس وقت جاری کی جب ایڈیشنل سیشن جج نے ہائی کورٹ کی طرف سے ضمانت دیے جانے کے باوجود ایک ملزم کو حراست میں لینے کا حکم دیا۔ جج نے ملزم کے خلاف ناقابل ضمانت گرفتاری کا وارنٹ اور جائیداد کی قرقی کا بھی حکم جاری کیا تھا۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ ذیلی عدالت کے جج نے جس طرح کے احکامات دیے ہیں اس سے واضح ہے کہ انہیں قانونی عمل کے بنیادی نکات کی بھی معلومات نہیں ہے۔ اس لیے انہیں تین ماہ کے لیے جوڈیشل اکیڈمی بھیج دیا جائے۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے ذیلی عدالتوں کے ججوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ بات بات پر اعلیٰ پولیس افسروں اور دیگر اہلکاروں کو عدالت طلب کرنے سے گریز کریں۔ صرف سرکاری شراب پئیں دو اکتوبر گاندھی جی کا یوم پیدائش ہے۔ اس دن گاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفے کو خاص طور سے یاد کیا جاتا ہے۔ تشدد کے ساتھ ساتھ گاندھی جی شراب کے بھی سخت خلاف تھے۔ انہی کے زير اثر ہندوستان میں آئین کے رہنما اصولوں میں شراب سے پاک معاشرے کا تصور بھی شامل کیا گيا تھا۔ عدم تشدد کا فلسفہ تو اب بین الاقوامی سطح پر اہمیت کر رہا ہے لیکن شراب کے بارے میں گاندھی جی سے کم ہی لوگوں نے اتفاق کیا ہے۔ شراب کی کھپت ہندوستان میں ’دن دونی رات چوگنی‘ ہو رہی ہے۔ ہریانہ، دلی، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش جیسی ریاستوں کی آمدنی کے سب سے اہم ذرائع میں شراب بھی شامل ہے۔ شراب کی دکانوں پر حکومت کی اجارہ داری ہے اور شراب خانوں کو چھوڑ کر شراب صرف سرکاری دکانوں پر ملتی ہیں۔ گزشتہ دنوں گاندھی جی کے یوم پیدائش پر حکومت کی طرف سے شراب کے خلاف ایک اشتہار میں گاندھی جی کا یہ قول شائع کیا گيا تھا: ’شراب صرف جسم کو ہی نہیں روح کو بھی کھوکھلا کرتی ہے‘۔ اسی اشتہار میں صارفین کو الرٹ کرتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ دو اکتوبر کو شراب کی دکانیں بند رہیں گی۔ اس لیے وہ پہلے ہی اپنی خریداری کرلیں۔ ساتھ ہی یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ’شراب صرف سرکاری دکانوں سے ہی خریدیں‘۔ پینے والے کی روح کھوکھلی ہوتی ہے یا نہیں یہ تو بتانا مشکل ہے لیکن گجرات جیسی ریاستوں جہاں شراب پر پابندی لگائی گئی ہے، زبردست مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اب یہ ریاستیں شراب لانے کے نئے نئے راستے تلاش کر رہی ہیں۔ نوجوانوں کا قتل نہ کریں کشمیر میں گزشتہ اٹھارہ برسوں کی شورش کے دوران ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔ تقریباً روزانہ ہی قتل، گمشدگی، تصادم اور حملوں کے واقعات ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں کشمیر میں ایک ’انکاؤنٹر‘ میں دو میجر ہلاک ہوئے۔ ان میں سے ایک میجر کے یہاں دو ماہ بعد بچے کی پیدائش ہونی والی تھی۔ دوسرے میجر کی انتیس اکتوبر کو بنگلور میں شادی ہونے والی تھی اور شادی کی ساری تیاری مکمل تھیں۔ ’را‘ کے نئے ضابطے ہندوستان کی خفیہ سروس ’را‘ کے بارے میں خود اسی کے اہلکاروں کی طرف سے حالیہ ماہ میں کئی تنقیدی کتابیں شا‏ئع ہونے کے بعد’را‘ نے اپنے اہلکاروں کو قابو میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ’را‘ اپنے تمام اہلکاروں سے ایک ایسے تحریری اقرار نامے پر دستخط لے رہی ہے جس کے تحت کسی بھی اہلکار کو ’را‘ کے بارے میں کوئی کتاب لکھنے سے پہلے تنظیم سے اجازت لینی ہوگی اور کتاب کا متن شائع ہونے سے قبل ’را‘ کو جائزے کے لیے دیا جائے گا۔ یہ نیا ضابطہ ان سابقہ اہلکاروں پر بھی نافذ ہوگا جن کی سبکدوشی کو دو سال پورے ہو چکے ہیں۔ دہرادون میں ملٹری اکیڈمی نے اپنی ’پاسنگ آؤٹ پریڈ‘ کے لیے مشہور نغمہ نگار جاوید اختر کا ایک نغمہ منتخب کیا ہے۔ ملٹری اکیڈمی ہندوستان کی فوج کی تربیت کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ ابھی تک اس کے پاس اپنا کوئی گیت نہیں تھا اور پاسنگ آؤٹ پریڈ اور دیگر تقاریب میں فوج کی دھنیں بجائی جاتی تھیں۔ گزشتہ دنوں جاوید اختر نے اکیڈمی کے لیے ایک نغمہ لکھا: ’بھارت ماتا تیری قسم، تیرے رکشک رہیں گے ہم، دیواریں ہم بنیں گے، تلورایں ہم بنیں گے ماں‘۔ اس نغمے کی طرز راجو سنگھ نے تیار کی ہے اور اسے معروف گلوکار سونو نگم نے گایا ہے۔
040901_nepal_mosque_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/09/040901_nepal_mosque_fz
کھٹمنڈو: مسجد پر حملہ، کرفیو
نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں سینکڑوں مشتعل لوگوں نے عراق میں بارہ نیپالیوں کے قتل کے خلاف مظاہرے کے دوران ایک جامع مسجد پر حملہ کر دیا اور مسجد کو نقصان پہنچایا۔ شہر میں ان واقعات کے بعد کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
نیپالی مظاہرین مسجد پر حملہ کرتے وقت ’ہم بدلہ لیں گے‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ ایک فرانسیسی خبر رساں ادارے نے بعض ذرائع کے حوالے سے یہ دعوی کیا ہے کہ مسجد کو آگ لگا دی گئی۔ تاہم آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ کچھ مظاہرین نے حکومت کے خلاف بھی نعرے لگائے۔ انہوں نے حکومت کو یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ضروری اقدامات نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ عراق میں بارہ نیپالی یرغمالیوں میں سے گیارہ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا جبکہ ایک کا سر قلم کر کے ہلاک کیا گیا تھا۔ ان کی ہلاک کئے جانے کی تصاویر ایک ویب سائٹ پر شائع کی گئیں تھیں۔ دارالحکومت کھٹمنڈو میں مظاہرین نے مشرق وسطی سے تعلق رکھنے والی فضائی کمپنیوں اور ریکروٹنگ ایجنسیوں کے دفاتر پر بھی حملے کیے۔ مظاہرین نے وزارت محنت کے دفتر کو بھی نقصان پہنچایا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔
pakistan-54510538
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54510538
مہنگائی: پاکستان میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟
پاکستان کے شہر کراچی میں رہائش پذیر راحیل بٹ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرتے ہیں جبکہ اُن کی اہلیہ بھی ایک سکول میں ملازمت کرتی ہیں۔
دونوں کی آمدنی سے گھریلو اخراجات پورے ہو رہے تھے اور ماہانہ بنیادوں پر کچھ نہ کچھ بچت بھی ہو جاتی تھی۔ راحیل اور ان کی اہلیہ کی آمدنی کو ملایا جائے تو وہ پاکستان کی نیم متوسط آمدنی والے گھرانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں راحیل کی اہلیہ کی تنخواہ میں اگر اضافہ نہیں ہوا تو کمی بھی نہیں ہوئی، تاہم راحیل کے کاروبار کے حالات گذشتہ کئی ماہ سے اچھے نہیں چل رہے ہیں۔ کورونا وائرس کے معیشت پر منفی اثرات نے راحیل کے کاروبار کو بھی متاثر کیا تو دوسری طرف ملک کے مجموعی معاشی حالات بھی اُن کے کاروبار پر منفی انداز میں اثر انداز ہوئے جن کی وجہ سے ان کی آمدنی میں کمی واقع ہوئی۔ آمدن میں کمی اس وقت واقع ہوئی جب گھر کے اخراجات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان اخراجات میں زیادہ اضافہ اشیائے خردونوش کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ کرائے کے گھر میں رہائش پذیر اس چھوٹے سے خاندان کے گھی، چینی، آٹا، چاول، دالیں اور کچھ دوسری اشیا پر اٹھنے والے ماہانہ اخراجات حالیہ دنوں میں لگ بھگ آٹھ ہزار سے بڑھ کر تقریباً 13 ہزار تک جا پہنچے ہیں۔ ان کے مطابق ان میں دودھ، دہی، انڈوں کے اخراجات شامل نہیں جن کی قیمتیں بھی بہت بڑھ چکی ہیں۔ آمدن میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ اس وقت صرف راحیل بٹ اور ان کے خاندان کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان میں درمیانے اور نچلے طبقات کا بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ حالیہ عرصے میں اشیائے خورد و نوش اور ضروریات زندگی کی دوسری چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر وزیر اعظم عمران خان نے نوٹس لیتے ہوئے اس کے تدارک کے احکامات جاری کیے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے حکومتِ پاکستان اتنے نوٹ کیوں چھاپ رہی ہے کیا پاکستان میں مہنگائی کی وجہ ’کارٹلائزیشن‘ ہے؟ پاکستان میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟ پاکستان میں مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کرنے والے سرکاری ادارے وفاقی ادارہ شماریات نے ستمبر کے مہینے میں مہنگائی کی شرح میں 9.04 فیصد اضافے کا اعلان کیا تھا جو اگست کے مہینے میں 8.02 فیصد تھی۔ پاکستان کے مرکزی بینک نے بھی ستمبر کے آخر میں اپنی زرعی پالیسی میں غذائی اجناس کی رسد میں رکاوٹوں کی وجہ سے مہنگائی کے بڑھنے کے بارے میں اشارہ کیا تھا۔ پاکستان میں مہنگائی جانچنے کا پیمانہ پاکستان میں مہنگائی جانچنے کا پیمانہ کنزیومر پرائس انڈیکس ہے جسے عام طور پر سی پی آئی کہا جاتا ہے۔ اس انڈیکس کے ذریعے پاکستان میں مہنگائی کی شرح کو معلوم کیا جاتا ہے۔ کنزیومر پرائس انڈیکس میں آبادی کی عمومی استعمال میں آنے والی اشیا اور خدمات کا ایک سیٹ بنایا جاتا ہے جسے سی پی آئی باسکٹ کہا جاتا ہے۔ اس باسکٹ میں موجود مختلف چیزوں کی قیمتوں کو پر نظر رکھی جاتی ہے۔ سی پی آئی باسکٹ کے مطابق ایک پاکستانی اوسطاً 34.58 فیصد کھانے پینے کی اشیا پر خرچ کرتا ہے، 26.68 فیصد مکان کے کرائے، بجلی، گیس، پانی کے بلوں اور ایندھن پر، 8.6 فیصد کپڑوں اور جوتوں کی خریداری پر، تقریباً سات فیصد ہوٹلنگ، تقریباً چھ فیصد نقل و حمل، چار فیصد سے زائد گھر کی تزئین و آرائش اور مرمت پر، 3.8 فیصد تعلیم اور 2.7 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔ پاکستان میں حالیہ ہفتوں میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کی بڑی وجہ ’فوڈ انفلیشن‘ یعنی غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ تھا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں مالی سال 2018-19 میں مہنگائی کی شرح مجموعی طور پر 6.8 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جو مالی سال 2019-20 کے اختتام پر 10.7 فیصد کی شرح پر بند ہوئی۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی سابقہ وفاقی حکومت میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے دور اقتدار میں مہنگائی کی شرح چار فیصد تک رکھنے کا دعویٰ کیا تھا۔ غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ پاکستان میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان دیکھا جائے تو مقامی طور پر پیدا ہونے والی اور باہر سے درآمد ہونے والی اشیا دونوں کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ آٹے کی قیمت میں گذشتہ سال ستمبر کے مقابلے میں اس سال ستمبر تک 50 سے 60 فیصد اضافہ ہوا، چینی کی قیمت میں 20 سے 30 فیصد، دال مسور کی قیمت میں 25 فیصد، مونگ کی دال میں 40 فیصد سے زائد، دال ماش کی قیمت میں 30 فیصد سے زائد، کوکنگ آئل کی قیمت میں 10 فیصد، خشک دودھ کی قیمت میں پانچ فیصد، گوشت کی قیمتوں میں تقریباً 10 فیصد، دودھ کی قیمت میں 10 فیصد سے زائد اضافہ دیکھا گیا اور چاول کی قیمت بھی 10 فیصد سے زائد بڑھی۔ یاد رہے کہ برائلر چکن، انڈوں، ٹماٹر، پیاز اور پھلوں کی قیمتیں سیزن کے آف اور آن ہونے کے بعد بڑھتی گھٹتی ہیں تاہم سپلائی چین میں تعطل ان کی قیمتوں کو خراب کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کیوں بڑھی رہی ہے؟ ماہرین معیشت غذائی اشیا کی قیمتوں میں اس اضافے کی وجہ سپلائی چین میں تعطل، ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ اور حکومت کی بدانتظامی کو قرار دیتے ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ سپلائی چین میں اتنا زیادہ تعطل آیا کہ سبزیوں تک کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ اُن کے مطابق اس کی ایک مثال ٹماٹر ہے جس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے کو ملا جس کی ایک ہی وجہ تھی کہ اس کی رسد میں بہت زیادہ تعطل آیا۔ انھوں نے چینی اور آٹے کی قیمتوں کو ان کی ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ سے جوڑا اور کہا کہ ذخیرہ اندوز ان کی قیمتیں بڑھتی دیکھ رہے ہیں تو انھوں نے ان اشیا کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی۔ انھو ں نے کہا چار پانچ سال کے بعد انڈوں اور دودھ کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں جس کی بڑی وجہ حکومت عدم توجہ ہے۔ ڈاکٹر پاشا نے کہا اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ زرعی شعبے کا مسلسل نظر انداز ہونا بھی ہے اور جس کی وجہ سے گندم کی فصل کی پیداوار میں کمی آئی اور مزید کمی آنے کا امکان ہے جو ذخیرہ اندوزی کو ہوا دے رہا رہی ہے۔ انھوں نے حکومت کی گندم اور چینی کی درآمد میں تاخیر کو بھی اس ساری صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا یہ اقدام اگر پہلے اٹھا لیا جاتا تو صورتحال اس قدر خراب نہ ہوتی۔ ماہر معیشت محمد سہیل نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ قیمتوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ تو انتظامی طور پر کمزوری ہے کہ جس کی وجہ سے حکومت اجناس کی رسد و طلب کا صحیح اندازہ نہ کر سکی اور جب ان کی درآمد کا فیصلہ کیا تو بہت دیر کر دی جس نے اس کی قیمتوں کو کم کرنے میں مدد فراہم نہیں کی۔ انھوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی نے بھی قیمتوں میں اضافے میں کردار ادا کیا۔ ملک میں شرح سود میں کمی کے بعد لوگوں کی پیسے خرچ کرنے کی عادات میں بھی فرق آیا ہے۔ جب کم شرحِ سود پر بینک سے قرضہ مل رہا ہے تو لوگ لاگت پر میسر فنانسنگ کو خرچ کرتے ہیں جو اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔ تاہم محمد سہیل کے مطابق سب سے بڑا اثر کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے نے ڈالا ہے جس کا پاکستان کی سی پی آئی میں سب سے بڑا حصہ ہے۔ مہنگائی پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟ مہنگائی پر قابو پانے کے سلسلے میں ماہر معیشت محمد سہیل نے کہا کہ اسے تین طرح سے ہینڈل کیا جا سکتا ہے۔ جن میں ایک حکومت کے انتظامی فیصلوں میں بہتری کی صورت میں نکل سکتا ہے کہ جس کے ذریعے ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کو روکا جائے۔ دوسرا حکومت کو بروقت فیصلہ سازی کرنا ہو گی کہ کس چیز کی ملک میں کمی پر اس کی درآمد فوری کی جائے۔ حکومت نے گندم درآمد کی تاہم اس میں اتنی تاخیر کی اس نے قیمتوں میں کمی میں مدد نہیں دی۔ تیسرا سٹیٹ بینک کو بھی اپنی مانیٹری پالیسی زمینی حقائق کے مطابق ڈھالنی چاہیے کہ جس سے ایک طرف کاروباری سرگرمیاں بڑھ سکیں تو دوسری طرف مہنگائی کو بھی قابو میں رکھا جا سکے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے مہنگائی پر قابو پانے کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس پر قابو پانا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کام ہے جس میں زیادہ کردار وفاقی حکومت کا ہے، جو قیمتوں کا تعین کرتی ہے۔ انھوں نے حکومت کے ٹائیگرز فورس کے ذریعے مہنگائی پر قابو پانے کے اقدام کو نامناسب قرار دیا اور کہا کہ ضلع کی سطح پر پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو بحال کر کے قیمتوں کو قابو میں رکھنے کا کام کرنا ہو گا۔ ڈاکٹر پاشا نے زرعی شعبے پر خصوصی توجہ کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ جب تک اس شعبے کو ترقی نہیں دی جاتی اجناس کی قیمتوں میں کمی لانا مشکل ثابت ہو گا۔ حکومت کا کیا کہنا ہے؟ ‏وزیر اعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک حالیہ پیغام میں کہا ہے کہ حکومت اشیائے خورونوش سستی کرنے کے لیے تمام ریاستی وسائل بروئے کار لائے گی۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم پہلے ہی مہنگائی کے عوامل کا جائزہ لیتے ہوئے تعین کر رہے ہیں کہ آیا رسد میں واقعی کمی ہے یا مافیا کی جانب سے ذخیرہ اندوزی و سمگلنگ وغیرہ اس کا سبب ہیں۔‘ انھوں نے ٹائیگر فورس کو اپنے اپنے علاقوں میں قیمتوں کا جائزہ لے کر جائزہ رپورٹیں ٹائیگر فورس پورٹل پر پوسٹ کرنے کو کہا ہے۔ ان رپورٹس کا جائزہ جلد ہی اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں لیا جائے گا۔ دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے مہنگائی کو حکومت کی سب سے بڑی دشمن قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا مہنگائی کو اس سال نہ روکا تو ہمارے خلاف عوام کا غصہ بڑھے گا۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کم آمدنی اور زیادہ اخراجات کو مہنگائی کی وجہ قرار دیا ہے۔
world-40481137
https://www.bbc.com/urdu/world-40481137
قطر بحران: ڈیڈ لائن کے بعد کیا ہوگا؟
چار عرب و خلیجی ممالک کی جانب سے قطر پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے لیے جو 13 مطالبات پیش کیے گئے ہیں ان کی منظوری کے لیے دی گئی مہلت اب منگل کی شب ختم ہوگی۔
سعودی عرب نے قطر کے ساتھ اپنی سرحد بند کر رکھی ہے قطر اس معاملے میں اپنا جواب فریقین کے درمیان ثالثی کرنے والے ملک کویت کے حکام کو دے چکا ہے اور قطری وزیرِ خارجہ کہہ چکے ہیں کہ یہ مطالبات اتنے غیرحقیقی ہیں کہ انھیں مسترد کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ متحدہ عرب امارات کے حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ جیسے ہی قطر کو دی گئی مہلت ختم ہوتی ہے اس کے عرب ممالک کی تنظیموں کا حصہ رہنے کی پیشکش بھی واپس لے لی جائے گی، اس پر عائد اقتصادی و سیاسی پابندیاں مستقل ہو جائیں گی اور قطر کے ہمسایہ عرب ممالک اس کا بائیکاٹ کر دیں گے۔ ٭ قطر کے ساتھ کشیدگی کی چار وجوہات ٭ مطالبات پر عملدرآمد، قطر کو مزید 48 گھنٹوں کی مہلت اس بحران کی وجہ سے مغربی ممالک کے لیے دو چیزیں باعثِ تشویش ہیں۔ پہلی تو یہ کہ قطر شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے خلاف جاری جنگ میں ایک کلیدی اتحادی ہے اور وہاں امریکہ کا مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑا فوجی اڈہ واقع ہے۔ دوسرا یہ کہ قطر نے دنیا بھر میں 335 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جن میں سے اربوں ڈالر برطانیہ اور امریکہ میں لگائے گئے ہیں۔ اگر مغرب کو قطر اور اس کے مخالفین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو یہ سرمایہ کاری بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسئلہ کیا ہے؟ یہ بات دہشت گردی کی ہے یا پھر خارجہ پالیسی کی منحصر اس پر ہے کہ آپ کس فریق کی بات سن رہے ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین قطر پر دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ 20 سال سے قطر اخوان المسلمون، القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ جیسے گروپوں کی حمایت کر کے خطے کو غیر مستحکم کر رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ قطر نے سنہ 2014 میں ایسے گروہوں کی مدد ترک کرنے کا وعدہ کیا تھا جو وفا نہیں ہوا۔ یہ ممالک قطر پر عراق میں اغوا کی جانے والی شاہی شکاری پارٹی کی رہائی کے لیے ایران کی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا کو ایک ارب ڈالر کی رقم بطور تاوان ادا کرنے کا الزام بھی لگاتے ہیں۔ قطر دہشت گردوں کی حمایت اور دہشت گرد گروپوں کو تاوان کی ادائیگی کے الزامات سے انکار کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس تنازعے کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں اور اصل بات یہ ہے کہ اس کے طاقتور ہمسائے اس کی خارجہ پالیسی کو سعودی خارجہ پالیسی کے مطابق بنانا چاہتے ہیں۔ قطر کے وزیرِ خارجہ نے اس اقدام کو ملک کی سالمیت پر حملہ قرار دیا ہے۔ قطر پر شدت پسند گروہوں کی فنڈنگ کرنے کا الزام ہے عرب ممالک کے مطالبات کیا ہیں؟ سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے پیش کیے گئے 13 مطالبات میں ٹی وی چینل الجزیرہ کی بندش بھی شامل ہے جو کہ قطر کے ہمسایہ ممالک کو بری طرح کھٹکتا ہے۔ ترک فوجی اڈے کی بندش کے لیے بھی کہا گیا ہے جہاں حال ہی میں مزید فوجی اور بکتربند گاڑیاں تعینات کی گئی ہیں۔اس کے علاوہ یہ ممالک چاہتے ہیں کہ قطر ایران سے سفارتی تعلقات میں کمی لائے۔ امریکہ جو کہ یہ تنازعہ حل کروانے کے لیے کوشاں ہیں، ان مطالبات سے خوش دکھائی نہیں دیتا اور اس نے کہا ہے کہ مطالبات مناسب اور قابلِ عمل ہونے چاہییں۔ کیا قطر کے پاس جواب ہے؟ یقیناً ایسا ہی ہے لیکن جواب سعودی عرب کے پاس بھی ہے۔ کئی برسوں سے قطر کے اخوان المسلمین، حماس اور شام اور لیبیا میں اسلام پسند گروپوں سے تعلقات رہے ہیں۔ الجزیرہ پر الزام لگتا رہا ہے کہ وہ ایسے انتہاپسند مبلغین کے خیالات نشر کرتا ہے جو ایسے اقدامات کے حامی ہیں جنھیں زیادہ تر لوگ دہشت گردی کے زمرے میں شامل کرتے ہیں۔ قطر کی ہمسایہ قدامت پسند قبائلی شہنشاہیت والی ریاستیں جن میں سعودی عرب کا آلِ سعود خاندان، ابوظہبی کا النہیان خاندان اور بحرین کا الخلیفہ خاندان شامل ہے، سب اس خیال کے حامل ہیں کہ یہ اسلام پسند گروپ ان کے اقتدار کے لیے خطرہ ہیں اور کچھ معاملات میں تو وہ اخوان المسلمین کو دہشت گردی کا دوسرا نام قرار دیتے ہیں۔ سو کیا قطر حقیقت میں دہشت گردوں کی مالی مدد کر رہا ہے؟ گذشتہ ہفتے لندن آنے والے قطری حکام اس الزام کو یکسر مسترد کرتے ہیں لیکن جب سنہ 2014 میں قطری انٹیلیجنس کے سربراہ سے میری ملاقات ہوئی تھی تو انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ شام میں کالعدم شدت پسند تنظیم جبہتہ النصرہ کے قبضے سے کئی یرغمالی رہا کروانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس وقت اس گروپ کو القاعدہ کی حمایت حاصل تھی اور اغواکار مغویوں کو بغیر تاوان حاصل کیے کب اپنی مرضی سے رہا کرتے ہیں؟ قطر پر الزام لگانے والے ممالک نے ایسے 59 افراد کی فہرست جاری کی ہے جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ دہشت گردوں کے مصدقہ حامی ہیں اور قطر میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک کا تعلق تو قطر کے شاہی خاندان سے بھی ہے۔ قطر کا کہنا ہے کہ یہ فہرست سیاسی طور پر تیار کردہ جھوٹ ہے اور اس کی سرزمین پر موجود کسی بھر فرد پر دہشت گردوں سے تعاون کا شبہ ہو تو یا اس کی ہمہ وقت نگرانی کی جاتی ہے یا اس کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ کیا سعودی عرب کے پاس ثبوت ہیں؟ بہت سے افراد کے لیے سعودی عرب کی جانب سے کسی دوسرے ملک پر اسلامی شدت پسندی کے حمایت کا الزام عائد کیا جانا عجیب بات ہے۔ نائن الیون حملوں کے 19 میں سے 15 ہائی جیکروں کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ سعودی حکام کی جانب سے کوششوں کے باوجود چار ہزار سے زیادہ سعودی شہری شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کا حصہ ہیں۔ یہ بھی اہم ہے کہ دولتِ اسلامیہ کی جانب سے جن خیالات اور شدت پسندانہ نظریات کا پرچار کیا جاتا ہے وہ سعودی قدامت پسند مذہبی حلقوں کے خیالات سے بہت مماثلت رکھتے ہیں۔ ان خیالات کے مطابق جو وہابی اسلام کے سخت اور قدامت پسند خیالات سے مطابقت نہیں رکھتا تو ایسا مسلمان 'کافر' قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایسے تکفیری خیالات رکھنے والوں کے لیے دنیا کے ڈیڑھ سے دو سو ملین اہلِ تشیع مسلمان کافر ہیں۔ سعودی عرب میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان کا ملک اسلام کی اس سخت تشریح سے دوری اختیار کرے اور ملک کے نئے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ملک کی مذہبی پولیس کے اختیارات میں کمی بھی کی ہے۔ لیکن سعودی حکومت کی جانب سے دنیا بھر میں مدرسوں، مساجد اور سخت گیر خیالات کے حامل نصاب کے لیے مالی امداد دینے کی وجہ سے اس پر انتہاپسندی کی حمایت کے الزامات لگنے کا سلسلہ رکا نہیں ہے۔ Qatar and its Emir Sheikh Tamim bin Hamad Al Thani could find themselves with few Arab allies کیا اس سارے مسئلے میں برطانیہ شامل ہے؟ براہ راست تو نہیں، لیکن قطر نے برھانیہ سمیت اپنے اتحادیوں سے کہا ہے کہ وہ عرب ریاستوں کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں کو ہٹانے کے لیے مدد کریں۔ خلیجی ممالک کے علاقوں میں نگرانی کا نظام لانے کے لیے بات کی جارہی ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ کیا کوئی ملک خفیہ طور پر شدت پسندی یا دہشت گردی کی فنڈنگ کر رہا ہے۔ قطر اور متحدہ عرب امارات تو کہہ چکے ہیں کہ وہ اس پر تیار ہیں لیکن سعودی عرب کی پوزیشن تاحال واضح نہیں ہے۔ برطانیہ کے لیے صورتحال شاید اس وقت مزید شدت اختیار کر جائے، اگر سعودی اتحاد دیگر ممالک سے قطر اور ان میں سے کسی ایک کے ساتھ کاروبار کرنے کی شرط رکھ دے۔ جہاں مشہور زمانہ ڈیپارٹمینٹل سٹور ہیرڈز قطری ملکیت ہے وہیں لندن کی بلند عمارت شارڈ میں 90 فیصد، لندن سٹاک ایکسچنج میں 22 فیصد، بارکلیز میں چھ فیصد اور کانیری وارف میں 50 فیصد تک قطر کا حصہ ہے۔ خاص طور پر بریگزٹ کے بعد برطانیہ اس ساری سرمایہ کاری سے محرومی بالکل برداشت نہیں کر سکے گا۔ کیا یہ سب جنگ کی جانب بڑھ رہا ہے؟ ایسا لگتا تو نہیں لیکن ممکنات میں ضرور شامل ہے۔ متحدہ عرب امارت کی حکومت کے ترجمان نے بتایا ہے کہ ان کی حکومت اس سارے مسلے میں ’فوج‘ کو شامل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ہے، لیکن اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو یہ تمام فریقین کے لیے تباہ کن ہوگا۔ قطر کا ترکی کے ساتھ ایک طویل فوجی معاہدے ہے اور میں اس وقت بھی امریکی اور ترک فوجی اڈے موجود ہیں۔ ماسکو کے لیے قطری سفیر نے اس حوالے سے مجھے گذشتہ ہفتے بتایا تھا کہ ان کے خیال میں قطر میں ترک افواج کی موجودگی کسی بھی قسم کے حملے کو اب تک روکنے میں مددگار رہی ہے۔ اس تنازع میں شامل تمام ممالک جدید مغربی ہتھیاروں کی خرید پر اچھی خاصی رقم خرچ کر چکے ہیں لیکن ان ہتھیاروں کو حاصل کرنے کا مقصد کبھی بھی آپس میں کسی پر استعمال کرنا نہیں تھا۔ ترکی نے افواج اور اشیا قطر روانا کی ہیں امریکہ اور قطر کے درمیان 12 ارب ڈالر مالیت کے ایف 15 طیاروں کی خرید کا منصوبہ امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر باب کارکر پہلے ہی روک چکے ہیں۔ باب کارکر اس سارے مسئلے کے حل تک تمام خلیجی عرب اتحادیوں کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت روکنا چاہتے ہیں۔ ترکی اور ایران اس سب میں شامل ہو رہے ہیں؟ ترک حکومت قطر کی حمایت کر رہی ہے، فوج اور اشیا بھیج رہی ہے تاکہ خلیجی عرب پڑوسیوں کی جانب سے فضائی روابط ختم کرنے کے بعد قطر کی مدد کی جا سکے۔ قطر اور ترکی دونوں ہی سیاسی اسلام کی حمایت کرتے ہیں اور گذشتہ ہفتے مشترکہ تدابیر اور مستقبل کے تعاون کے حوالے سے بات چیت کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی قطری وفد ترک وزیر دفاع سے ملاقات کے لیے انقرہ میں موجود تھا۔ ایک اضافی مشکل یہ درپیش ہے کہ ترکی جو کہ نیٹو رکن ہے اور وہ پہلے ہی شامی کی خانہ جنگی میں گھرا ہوا ہے۔ ٭ ’قطر کو جب تک ضرورت ہے خوراک بھیجیں گے‘ ایران جو کہ قطر کا ساحلی پڑوسی ہے اور دونوں ہی ممالک خلیجی پانیوں کے نیچے موجود ایک بڑے نارتھ ڈوم گیس کے ذخائر کو استعمال کرتے ہیں۔ سعودی عرب نے اپنی سرحد قطر کے لیے بند کر رکھی ہے اور اسے تمام کھانے پینے کی اشیا درآمد کرنا پڑ رہی ہیں ایسے میں ایران مسلسل کھانے کی اشیا سے بھرے جہاز وہاں کے لیے روانہ کر رہا ہے، جس کا قطر 1948 کے برلن ایئر لفٹ سے موازنہ کر رہا ہے۔ قطر ایک اور خلیجی عرب پڑوسی اومان کے تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے بارہا کہہ چکا ہے کہ وہ تحران کے ساتھ اچھے تعلقات کا حق رکھتا ہے۔ اگر یہ تنازع حل نہیں ہوتا تو مستقبل میں قطر اور ایران کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔ تو اب ہو گا کیا؟ اب تک امریکہ اور کویت کی جانب سے کی جانے والی ثالثی کی کوشیشیں تاحال فریقین کے درمیان پیدا ہونے والے خلا کو کم کرنے میں کامیابی نہیں ہو سکی ہے۔ سعودی کہتے ہیں کہ ان کے مطالبات پر مذاکرات نہیں ہو سکتے، اماراتی حکام کا کہنا ہے کہ ’قطریوں پر صفر اعتماد‘ ہے اور قطر کا کہنا ہے کہ وہ ’محاصرے میں غیر قانونی بندش‘ میں مذاکرات نہیں کرے گا۔ سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر کے وزرا خارجہ بدھ کو آئندہ اقدامات اور تعاون کے لیے قاہرہ میں ملاقات کر رہے ہیں۔ اگر کوئی حل تلاش کر بھی لیا جاتا ہے اور موجودہ پابندیاں جزوی طور پر اٹھا بھی لی جاتی ہیں لیکن پھر بھی اس سارے تنازع سے لگنے والے گھاؤ مزید گہرے ہوتے جائیں گے۔ قطری اپنے امیر کے لیے حمایت کا اظہار کررہے ہیں 1981 میں بننے والی خلیج تعاون کی تنظیم اس وقت ٹوٹ چکی ہے اور اس کا ایک بار پھر سے مل کر کا کام کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ عملی طور پر سوائے اس کے کہ قطر مکمل طور ہار مان لے، اس صورتحال میں ہم خلیجی عرب ریاستوں میں تین دھڑے بنتے دیکھ رہے ہیں۔ ان میں سخت گیر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین تین ایسے ممالک جنھیں قطری رویے پر سب سے زیادہ تشویش ہے۔ قطر اگر تمام مطالبات کے آگے سر نہیں جھکاتا تو وہ اکیلا رہ جائے گا اور اسے صرف غیر عرب ممالک ایران اور ترکی کی حمایت حاصل ہوگی۔ غیر جانبدار ممالک میں اومان اور کویت ہوں گے جو کہ تمام فریقین کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش رکھتے ہیں اور جن کو یہ سارا تنازع پسند نہیں۔ خلیج عرب کے اس طرح سے ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے مستقبل میں واحد ایران کو فائدہ ہوگا جو کہ سعودی عرب کا حریف ہے اور وہ اپنے دشمنوں کی خامیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔
051113_1sttest_2ndday_sen
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/11/051113_1sttest_2ndday_sen
انگلینڈ: بلے بازوں کا پلہ بھاری
ملتان میں پاکستان اور انگلینڈ کے مابین کھیلے جا رہے پہلے ٹیسٹ میں انگلینڈ نے اپنی پہلی اننگز میں تین وکٹ کے نقصان پر دو سو اکیاون رن بنا لیے ہیں۔انگلینڈ کی جانب سے کپتان مارکس ٹریسکوتھک نے سنچری بنائی ہے وہ اس وقت ایک سو تینتیس رن پر بیٹنگ کر رہے ہیں جبکہ کالنگ وڈ کی جگہ نائٹ واچ مین میتھیو ہوگارڈ کریز پر آئے ہیں۔
انگلینڈ کے آؤٹ ہونے والے آخری کھلاڑی کالنگ وڈ تھے جو دس رن بنا کر شبیر کی گیند پر کامران اکمل کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔ پاکستانی بالر میچ کے دوسرے سیشن میں کوئی بھی وکٹ حاصل نہ کر سکے تھے تاہم چائے کے وقفے کے بعد شعیب ملک نے این بیل کو آؤٹ کر کے پاکستان کو دوسری کامیابی دلائی تھی۔ زخمی مائیکل وان کی جگہ ٹیم میں شامل کیے جانے والے این بیل نےاکہتر رن بنائے۔ ٹریسکوتھک اور این بیل کے درمیان دوسری وکٹ کے لیے ایک سو اسی رن کی پارٹنر شپ ہوئی۔ انگلینڈ کی ٹیم کو ابتداء میں ہی اس وقت نقصان اٹھانا پڑا تھا جب اوپنر اینڈریو سٹراس نو رن بنا کر محمد سمیع کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔ اس وقت برطانوی ٹیم کا مجموعی سکور 18 تھا۔ اس سے قبل جب دوسرے دن کا کھیل شروع ہوا تو پاکستان کی پوری ٹیم اپنی پہلی اننگز میں دو سو چوہتر رن بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ برطانوی بالروں نے پہلے سات اووروں ہی میں تین وکٹیں لے کر میچ پر اپنی ٹیم کی گرفت مضبوط کر لی۔ میچ کے دوسرے دن آؤٹ ہونے والے پہلے پاکستانی کھلاڑی محمد سمیع تھے جوگزشتہ دن کے سکور میں کوئی اضافہ کیے بغیر ہوگارڈ کی گیند پر آؤٹ ہوئے۔ انہوں نے ایک رن بنایا۔ 260 کے مجموعی سکور پر کپتان انضمام الحق 53 رن بنا کر فلنٹوف کی گیند پر سلپ میں کیچ ہو گئے۔ پاکستان کے باقی کھلاڑی ٹیم کے سکور میں صرف 14 رن کا اضافہ کر سکے۔ انگلینڈ کی جانب سے فلنٹاف نے چار، ہارمیسن نے تین، ہوگارڈ نے دو جبکہ یوڈل نے ایک وکٹ حاصل کی۔ میچ کے پہلے دن جب کھیل ختم ہوا تھا تو پاکستان نے دو سو چوالیس رن بنائے اور اس کے چھ کھلاڑی آؤٹ ہوئے تھے۔ پاکستان۔ انضمام الحق( کپتان) سلمان بٹ۔ شعیب ملک۔ یونس خان۔ محمد یوسف۔ حسن رضا۔ کامران اکمل۔ محمد سمیع۔ دانش کنیریا۔ شبیراحمد اور شعیب اختر انگلینڈ۔ مارکس ٹریسکوتھک( کپتان) اینڈریو اسٹراس۔ کیون پیٹرسن۔ ایئن بیل۔ پال کالنگ ووڈ۔ اینڈریو فلنٹوف۔ ایشلے جائلز۔ اسٹیو ہارمیسن۔ میتھیو ہوگرڈ اور گیرائنٹ جونز۔
060616_bhawalpur_blasphemy_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/06/060616_bhawalpur_blasphemy_fz
قرآن کی مبینہ بے حرمتی پر قتل
پنجاب کے جنوبی ضلع بہاولپور کے تحصیل حاصلپور میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے مبینہ طور پر مرتکب شخص کی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد علاقے میں اطلاعات کے مطابق کشیدگی پائی جاتی ہے اور حکام نے جمعہ کے روز مقتول کی تدفین کے موقع پر کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیئے سخت حفاظتی اقدامات کا اعلان کر رکھا ہے۔
مقتول ماسٹر محمد صادق کا تعلق اہلحدیث مسلک کی تنظیم جماعت الدعوۃ جبکہ مشتعل ہجوم کی مبینہ طور قیادت کرنے والے افراد کا تعلق بریلوی مسلک سے بتایا جارہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق حاصلپور کے نواحی علاقے منڈی چھوناوالا کے ایک امام قمر جاوید اور ان کے ساتھی ساٹھ سالہ ماسٹر صادق نے اپنی تنظیم کا دفتر باجوہ والی گلی کی مسجد سے کاسیہ چوکی والی مسجد منتقل کیا اور بعد میں بچے کھچے کاغذات کو تلف کرنے کی غرض سے آگ لگا دی۔ جس پر قریب ہی واقع بازار کے کچھ دکانداروں نے یہ کہہ کر ہنگامہ کھڑا کردیا کہ قمر جاوید اور ماسٹر صادق نے قرآن پاک کے صفحات جلائے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق دیکھتے ہی دیکھتے بیسیوں لوگ اکٹھے ہو گئے اور نعرے بازی کرتے ہوئے قمر جاوید اور ماسٹر صادق پر حملہ آور ہوئے اور انہیں مار مار کر بے ہوش کردیا۔ حملہ آوروں نے بعد میں دونوں بے ہوش افراد کو سڑک کے درمیان پھینک دیا اور ان کے گرد گھیرا ڈال کر اپنا احتجاج جاری رکھا۔ واقعہ کی اطلاع ہونے پر پولیس کی بھاری نفری جائے وقوعہ پر پہنچی تو پولیس کی ایک تیز رفتار گاڑی سے ٹکرانے پر ایک شخص محمد ندیم زخمی ہوگیا۔ اس پر مشتعل ہجوم نے حملہ کرتے ہوئے پولیس گاڑی کو شدید نقصان پہنچایا۔ بے قابو ہجوم کو منتشر کرنے کے لیئے پولیس کی مزید نفری بلوائی گئی جس نے جاں بلب قمر جاوید اور ماسٹر صادق کو بہاولپور کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال پہنچایا۔ علاقے میں جماعت اہلحدیث کے ذمہ داران کے مطابق قمر جاوید اور ماسٹر صادق نے کچھ پمفلٹ وغیرہ نذر آتش کیئے تھے جسے مخالف مسلک کے کچھ ’شرارتی‘ افراد نے غلط رنگ دیتے ہوئے فساد کھڑا کیا۔ حاصلپور صدر پولیس کے اہلکار محمد اسلم کے مطابق ایک شخص سعید کی درخواست پر مقتول ماسٹر صادق اور زخمی قمر جاوید کے خلاف توہین قرآن کے الزام میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ دوسوپچانوے بی کے تحت جبکہ بلوہ کرنے اور ماسٹر صادق کو قتل کرنے کے الزام میں سعید، اکرم، قاری محمد لطیف اور کئی نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ تاہم حملہ آوروں میں سے جمعہ کی صبح تک کسی کو گرفتار نہیں کیا جاسکا تھا۔ ماسٹر صادق کی میت پوسٹ مارٹم کے بعد رات گئے لواحقین کے حوالے کی گئی۔ ان کی تدفین جمعہ کے روز کی جائے گی۔ پولیس ذرائع کے مطابق اس موقعہ پر جماعت الدعوۃ کے رہنماؤں کی متوقع آمد کے پیش نظر سخت حفاظتی اقدامات کیئے جارہے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کالعدم عسکریت پسند تنظیم لشکر طیبہ پابندی لگنے کے بعد جماعت الدعوۃ کے نام سے کام کر رہی ہے۔ جماعت الدعوۃ نے حاصلپور کے واقعہ کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
071226_imran_on_boycott
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/12/071226_imran_on_boycott
’الیکشن میں ووٹ نہ ڈالیں‘
نتائج آنے پر احساس ہوگا انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے پر بار بار تنقید کی اور کہا کہ نو جنوری کو الیکشن کے نتائج کے بعد انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگا۔ عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ آٹھ جنوری کو ہونے والے الیکشن فراڈ،غیر آئینی اور غیر قانونی ہیں اور ان کی جماعت اس دن کو یوم سیاہ کے طور منائے گی۔
عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کی مجلس عمل کے دو روزہ اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی قوم سے اپیل کی کہ وہ آٹھ جنوری کو ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ووٹ نہ ڈالیں اور اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہوئے کالی پٹیاں باندھیں اور اپنے گھروں پر کالے جھنڈے لگائیں۔ اس دو روزہ اجلاس میں کیے جانے والے فیصلوں کی بابت عمران خان کا کہنا تھا اجلاس میں تین نومبر کی غیر آئینی ایمر جینسی کے بعد جمہوریت اور عدلیہ کی بحالی کےلیے شروع ہونے والی تمام تحریکوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا گیا اور آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے تحت کیے گئے تمام فیصلوں کی توثیق کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اجلاس میں عدلیہ کی بحالی تک جدوجہد کو جاری رکھنے کا بھی عزم کیا گیا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ وہ پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججز کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نظریہ ضرورت کے تحت طاقتور کا ساتھ دینے کی بجائے آئین اور قانون کی بالا دستی کے لیے ڈٹ جانے کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد یہ سب سے بڑا جرم ہے کہ ساٹھ فیصد عدلیہ کو گھر بھیج دیا گیا ہے یہ عدلیہ کا قتل عام ہوا ہے اور اس الیکشن میں شرکت کرنا پاکستان سے غداری ہے کیونکہ یہ اس عدلیہ سے غداری ہے جنہیں صدر مشرف نے غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر انہیں گھروں میں بھیج دیا اور انہیں نظر بند کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جو سیاسی پارٹیاں الیکشن لڑ رہیں ہیں وہ آئین اور قانون کے تحت نہیں بلکہ نظریہ ضرورت کے تحت الیکشن لڑ رہیں ہیں اور عوام کو چاہئیے کہ وہ ان انتخابات کا بائیکاٹ کریں۔ عمران خان نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت نوجوانوں کی شمولیت کے لیے دو ذیلی تنظیمیں بنا رہی ہے ایک انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن کے نام سے اور ایک انصاف یوتھ کے نام سے۔ عمران خان نے کہا کہ پارٹی کی مجلس عمل کے اجلاس میں ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور مہنگائی کی مذمت کی اور ان کی جماعت آٹے کی قیمت میں تین گنا اضافے اور عدم دستیابی کو عوام کے معاشی قتل کے مترادف سمجھتی ہے۔ عمران خان نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز گروپ کے انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے پر بار بار تنقید کی اور کہا کہ نو جنوری کو الیکشن کے نتائج کے بعد انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ان سیاسی جماعتوں کے رہنما خود کہتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہو گی لیکن پھر بھی وہ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ عمران خان کے مطابق الیکشن میں حصہ نہ لینے والی جماعتیں لوگوں کو اس فراڈ سے آگاہ کرنے کے لیے جلسے کر رہی ہیں۔ تیس دسمبر کو کراچی میں اکتیس کو پشاور میں دو جنوری کو کوئٹہ میں چار جنوری کو راولپنڈی میں اور پانچ جنوری کو لاہور میں جلسے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ باقی سیاسی جماعتوں کو بھی الیکشن کمپین کی بجائے الیکشن کے خلاف جلسے کرنے چاہیئں کیونکہ پی سی او کے تحت ہونے والے یہ الیکشن غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کے بعد تمام پارٹیاں دھاندلی کا رونا روئیں گی اور پھر کہیں گی کہ اے پی ڈی ایم والے صحیح تھے۔ عمران خان نے صدر مشرف پر بھر پور تنقید کی اور کہا کہ وہ پاکستان کے حسنی مبارک بننا چاہتے ہیں تاکہ اس خطے میں بھی صدر بش کے مقاصد کی تکمیل ہو سکے۔
world-46243794
https://www.bbc.com/urdu/world-46243794
جمال خاشقجی قتل کے معاملے میں ابھی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا، رپورٹ منگل تک متوقع: صدر ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے انھیں امید ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ داروں کے بارے میں رپورٹ منگل تک مکمل ہو جائے گی۔
صدر ٹرمپ نے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی رپورٹس کو 'قبل از وقت' یا 'نامکمل' قرار دیا جبکہ امریکی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ابھی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچی کہ آیا سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار کون ہے؟ صدر ٹرمپ نے کیلیفورنیا میں جنگل کی آگ سے ہونے والی تباہی کے جائزے کے دوران نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے یہ بات بھی کہی۔ انھوں نے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی رپورٹس کو 'قبل از وقت' یا 'نامکمل' قرار دیا جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سعودی شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا تھا۔ سعودی دارالحکومت ریاض میں حکام نے ان دعووں کو مسترد کر دیا ہے۔ اس سے پہلے میڈیا میں آنے والی خبروں میں کہا جا رہا تھا کہ سی آئی اے کو لگتا ہے کہ اس قتل کا حکم سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دیا تھا۔ جبکہ سعودی عرب نے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے سے منسوب اس دعوے کو رد کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دیا تھا۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان ہیتھر نورٹ کا کہنا تھا کہ اب بھی سعودی صحافی کے استنبول میں ہونے والے قتل سے متعلق لاتعداد سوالات ہیں جن کے جواب نہیں ملے۔ سعودی حکومت کا کہنا تھا کہ اس میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ملوث نہیں ہیں امریکی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اس کا کچھ اندازہ جمال خاشقجی اور سعودی ولی عہد کے بھائی شہزادہ خالد کے درمیان ہونے والی گفتگو سے ہوتا ہے۔ انھوں نے مبینہ طور پر ولی عہد کے کہنے پر سعودی صحافی سے کہا کہ وہ استنبول میں سعودی سفارتخانے جائیں، جہاں انھیں بعد میں قتل کر دیا گیا۔ شہزادہ خالد نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ ایسی کوئی گفتگو ہوئی ہے اور سعودی حکام کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کا یہ نتیجہ اخذ کرنا بالکل غلط ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ سعودی ولی عہد کا قتل میں کوئی ہاتھ نہیں۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق سی آئی اے نے جمال خاشقجی کے قتل سے قبل اور بعد میں کی جانے والی محمد بن سلمان کی فون کالز اور قتل کے بعد ترکی میں سعودی سفارت خانے میں سعودی ایجنٹس کی کالز کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو گذشتہ ماہ ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل کر دیا گیا تھا اور سعودی حکومت کا کہنا تھا کہ اس میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ملوث نہیں ہیں۔ مبینہ طور پر 15 سعودی ایجنٹس اکتوبر میں ایک سرکاری طیارے میں استنبول پہنچے تھے اور انھوں نے سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کا قتل ہے، جہاں وہ کچھ دستاویزات لینے آئے تھے۔ واشنگٹن پوسٹ نے سی آئی اے کے حوالے سے کہا ہے کہ خالد بن سلمان نے جمال خاشقجی کو کہا تھا کہ وہ دستاویزات لینے کے لیے استنبول میں سعودی قونصل خانے جائیں اور انھیں یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ محفوظ رہیں گے۔ دو اکتوبر کو استنبول میں جمال خاشقجی کو قتل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاش اب تک نہیں ملی ہے یہ واضح نہیں ہے کہ آیا خالد بن سلمان کو جمال خاشقجی کے حوالے سے بنائے گئے کسی منصوبے کا علم تھا یا نہیں لیکن امریکی انٹیلیجنس کے مطابق انھوں نے یہ فون کال اپنے بھائی کے کہنے پر ہی کی تھی۔ واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے کی ترجمان فاطمہ بہیشن نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ خالد بن سلمان نے جمال خاشقجی سے فون پر گفتگو میں ترکی جانے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی۔ دوسری جانب امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اسی حوالے سے لکھا ہے کہ سی آئی اے کو کئی ہفتوں سے یقین تھا کہ ولی عہد محمد بن سلمان جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہیں لیکن وہ یہ اس نتیجے پر پہنچنے پر ہچکچا رہے تھے کہ کیا واقعی ولی عہد نے قتل کا حکم دیا تھا۔ اخبار کے مطابق سی آئی اے نے اپنا تجزیہ ٹرمپ انتظامیہ اور قانون سازوں کو پیش کر دیا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کے سوچ میں اس وقت تبدیلی آئی جب نئی معلومات سامنے آئیں۔ ان میں وہ کال بھی شامل تھی جس میں ایجنٹوں کی ٹیم کا ایک رکن محمد بن سلمان کے ایک مشیر کو کال کر کے کہتا ہے کہ 'اپنے باس کو بتا دو' کہ مشن مکمل ہو چکا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق حکام نے تنبیہ کی ہے کہ نئی معلومات سعودی قونصل خانے میں ہونے والے قتل کے محمد بن سلمان کے ساتھ تعلق کا براہ راست ثبوت نہیں ہیں۔ خیال رہے کہ دو اکتوبر کو استنبول میں جمال خاشقجی کو قتل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاش اب تک نہیں ملی ہے۔ ’سعودی حکومت کے سخت ناقد‘ خاشقجی سعودی حکمرانوں کے بڑے ناقدین میں سے ایک تھے۔ سعودی عرب کا موقف ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم ولی عہد محمد بن سلمان نے نہیں، بلکہ ایک سینئیر انٹیلی جنس اہلکار نے دیا تھا۔ سعودی عرب نے ان خبروں کی بھی تردید کی ہے جن میں کہا گیا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کسی امریکہ اہلکار کو بتایا تھا کہ جمال خاشقجی خطرناک اسلامی شدت پسند تھے۔ دو اکتوبر کو استنبول میں جمال خاشقجی کو قتل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاش اب تک نہیں ملی ہے۔ اس سے قبل مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے لیے سعودی عرب اور ترکی میں متعدد مقامات پر غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھائی گئی۔ جمال خاشقجی کے بیٹے صالح خاشقجی نے سعودی عرب کے شہر جدہ میں سوگواران سے ملاقاتیں کیں۔ اس کے علاوہ مکہ المکرمہ اور مدینہ سمیت استنبول میں بھی جمال خاشقجی کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی گئی۔ گذشتہ ماہ امریکہ اور شعودی عرب کی دوہری شہریت رکھنے والے صالح خاشقجی نے اپنے والد کے قتل کے بعد دارالحکومت ریاض میں بادشاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان دونوں سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ تاہم ان پر عائد سفری پابندی ہٹائے جانے کے بعد وہ امریکہ گئے تھے جہاں انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ اپنے والد کو اپنے خاندان کے دیگر آنجہانی اراکین کی طرح مدینہ میں دفن کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے قبل جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ شدید صدمے میں ہیں اور انھیں یہ غم ہے کہ وہ جمال خاشقجی کو الوداع نہیں کہہ سکیں جس کی وجہ سے ان کی موت کو تسلیم کرنا مشکل ہے۔ جمال خاشقجی کی غائبانہ نمازِ جنازہ واشنگٹن، لندن، اور پیرس میں بھی پڑھائی جائے گی اور ان کے خاندان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ چار روزہ سوگ منایا جائے گا۔ جمعے کے روز ہی امریکی میڈیا میں کہا گیا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اندازوں کے مطابق ولی عہد محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا تھا۔ جمال خاشقجی کی غائبانہ نمازِ جنازہ مکہ، واشنگٹن، لندن، اور پیرس میں بھی پڑھائی جائے گی سعودی تحقیقات کا نتیجہ اس سے قبل سعودی عرب کے سرکاری وکیلِ استغاثہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم ولی عہد محمد بن سلمان نے نہیں، بلکہ ایک سینئیر انٹیلیجنس اہلکار نے دیا تھا۔ ایک ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر کو سعودی قونصل خانے میں خفیہ ایجنٹس کے ساتھ ہاتھا پائی کے بعد ایک جان لیوا انجیکشن دیا گیا۔ اس کے بعد ان کے جسم کے ٹکڑے کیے گئے، اور انہیں قونصل خانے سے نکلا گیا۔ وکیلِ استغاثہ نے اس سلسلے میں 11 افراد پر فرد جرم عائد کی ہے جن میں سے 5 کے لیے سزائے موت تجویز کی گئی ہے۔ ان کے مقدمات عدالت کے حوالے کیے گئے ہیں، جبکہ اسی سلسلے میں 10 مزید افراد کے بارے میں تفتیش جاری ہے۔ جمال خاشقجی کا ’قتل‘ اور علاقائی سیاستا سفری پابندی کا خاتمہ، جمال خاشقجی کے بیٹے امریکہ پہنچ گئے خاشقجی خاندان: سعودی معاشرے میں جدّت کا علمبردار صالح خاشقجی نے اپنے والد کے قتل کے بعد دارالحکومت ریاض میں بادشاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان دونوں سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ امریکی پابندیاں دوسری جانب امریکی محکمہ خزانہ نے جمعرات کو ان 17 سعودی باشندوں پر معاشی پابندیاں عائد کر دی تھیں جو مبینہ طور پر صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل میں ملوث ہیں۔ جن افراد پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں سعود القحطانی بھی شامل ہیں جو سعودی فرمانروہ محمد بن سلمان کے سابق مشیر ہیں۔ امریکہ محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ ان افراد میں ماہر متعب بھی ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے مبینہ طور پر آپریشن پر عملدرآمد کیا۔ انہی افراد میں استنبول میں سعودی قونصل جنرل بھی شامل ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ خاشقجی کے قتل میں یہ پابندیاں اہم قدم ہیں۔ ریاض میں ہونے والی پریس کانفرنس میں نائب وکیل استغاثہ شالان بن راجح شالان نے ملزمان کی شناخت ظاہر نہیں کی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ تفتیش سے یہ سامنے آیا ہے کہ ’قتل کا حکم دینے والا مذاکراتی ٹیم کا سربراہ تھا‘ جسے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ترکی بھیجا گیا تھا کہ وہ خاشقجی کو اپنی خود ساختہ ہجرت ختم کرکے سعودی عرب واپس آنا پر آمادہ کر سکیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’اس بارے میں ولی عہد کچھ نہیں جانتے تھے۔‘ شہزادہ محمد بن سلمان کے ناقدین کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ انہیں اس آپریشن کے بارے میں کچھ پتہ نہ ہو۔
070915_lalmosque_opening
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/09/070915_lalmosque_opening
لال مسجد: مذاکرات تعطل کا شکار
اسلام آباد کی انتظامیہ اور علماء کے درمیان لال مسجد اور جامعہ فریدیہ کو دوبارہ کھولنے کے معاملے پر ہونے والے مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔ سنیچر کے روز ہونے والے مذاکرات میں اسلام آبادکی انتظامیہ نے مذاکرات میں شامل علماء کےوفد کا یہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا کہ لال مسجد اور جامعہ فریدیہ کو ایک ساتھ کھول دیا جائے۔
اسلام آباد کے چیف کمشنر حامد علی خان نے علماء کے وفد کو بتایا کہ اسلام آباد کی انتطامیہ لال مسجد کونماز کے لیے دوبارہ کھولنے کو تیار ہے لیکن علماء اور اہل محلہ کو اس بات کی یقین دہانی کروانا ہوگی کہ امن وامان کی صورت حال خراب نہیں ہوگی۔ واضح رہے کہ علماء اور علاقے کے مکینوں کا ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ ہے کہ وہ مولانا عبدالعزیز کو دوبارہ لال مسجد کا خطیب مقرر کیا جائے اور ان کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو اس مسجد کا خطیب تسلیم نہیں کریں گے۔ وفاق المدارس کےڈپٹی سیکرٹری جنرل قاضی عبدالرشید کی سربراہی میں مذاکرات میں شامل علماء کے وفد نے ضلعی انتظامیہ سے کہا کہ جامعہ فریدیہ کی بندش کی وجہ سے وہاں پر زیر تعلیم طلباء کی پڑھائی متاثر ہو رہی ہے اس لیے جامعہ فریدہ کو جلد کھول دیا جائے جس پر انتظامیہ کے افسران نے انہیں بتایا کہ اس کے بارے میں ان کے تحفظات ہیں اور پولیس اور انتطامیہ لال مسجد آپریشن کے مقدمے کی تفتیش کررہی ہے اس لیے جامعہ فریدہ کو فوری کھولنا ممکن نہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے علماء کے وفد کو بتایا کہ وہ ان کہ مطالبے پر صلاح مشورہ کریں گے۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد چوہدری محمدعلی نےبی بی سی کو بتایا کہ مذاکرات میں بڑی حد تک پیش رفت ہوئی ہے تاہم انہوں نے بتایا کہ وہ جامعہ فریدیہ کو دوبارہ کھولنے کے بارے میں وزارت داخلہ کے حکام سے بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ علماء کے ساتھ مذاکرات کا اگلا دور آئندہ ایک دو روز میں ہوگا۔ واضح رہے کہ اسلام آْباد کی انتظامیہ نے جمعہ کے روز بھی لال مسجد نہیں کھولی تھی جس پر سینکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا اور جمعہ کی نماز سڑک پر ادا کی تھی۔
regional-47112740
https://www.bbc.com/urdu/regional-47112740
انڈیا کی وہ جیل جسے قیدی چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے
انڈیا کے شہر جے پور کی سنگانر جیل میں قیدیوں کو رہنے کو جگہ تو ملتی ہے لیکن نہ ہی کھانا اور نہ کوئی رقم۔ اپنی گزر بسر کے لیے انھیں باہر جا کر کام کرنا پڑتا ہے۔ معصومہ آہوجہ کے مطابق وہ جیل سے باہر جا کر بطور مزدور، فیکٹری ملازمین، ڈرائیور حتی کہ یوگا کے استاد کا کام کرتے ہیں اور کمائی کرتے ہیں۔
"سنگانر جیل" میں سلاخیں اور دیواریں نہیں ہیں رام چند سکول بس چلاتے ہیں۔ ان کی بیوی سگنا گارمنٹس فیکٹری میں کام کرتی ہیں۔ حال ہی میں ایک گرم دوپہر کے دوران میں نے ان دونوں کے ساتھ ان کے ایک کمرے کے گھر میں چائے پی۔ وہ مکان جس کی دیواریں پیلی اور چھت ٹین کی تھی، جس میں ایک فریج اور ٹی وی ہے جبکہ ایک کونے میں دیوتاؤں کی تصویروں اور اخباروں کے انبار کے ساتھ ایک لنچ باکس لٹک رہا تھا۔ ان کے دروازے سے آپ ایک نزدیکی ہائی وے پر چلتی گاڑیاں اور شہر کی جدید بلند عمارتوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی کہانی کچھ ایسی ہے۔ رام چند اکیلے تھے جبکہ سگنا کے خاندان نے انھیں چھوڑ دیا تھا۔ ان کے پڑوسی ان کی شادی کرانا چاہتے تھے تاکہ وہ اکیلی نہ رہ جائے اور کوئی ہو جو رام چند کا خیال رکھ سکے، اس کے لیے کھانا اور روٹیاں بنا سکے اور پھر رام چند کو سگنا سے محبت بھی ہو گئی۔ رام چند سکول بس چلاتے ہیں جبکہ ان کی بیوی سگنا گارمنٹس فیکٹری میں کام کرتی ہیں بظاہر ان کے گھر اور کہانی میں کچھ مختلف نہیں، سوائے اس کے کہ وہ دونوں قتل کے ملزم ہیں اور جیل میں رہتے ہیں۔ ان کا گھر انڈیا کی مغربی ریاست راجستھان کے شہر جے پور کی کھلی جیل سنگانر میں واقع ہے۔ اس جیل میں کوئی سلاخیں اور دیواریں نہیں، دروازے پر کوئی سکیورٹی اہلکار نہیں، اور اس بات کی اجازت ہے بلکہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ قیدی باہر جائیں اور ہر روز کام کریں۔ 1950 میں قائم کی گئی یہ جیل 450 قیدیوں کے لیے ان کا گھر ہے اور راجستھان میں اس نوعیت کے 30 اداروں میں سے ایک ہے۔ میں سنگانر سمیتا چکرورتی کے ساتھ گئی،جو ملک بھر میں قیدیوں کے لیے کھلی جیلیں بنانے کی مہم کا حصہ ہیں۔ وہ اب راجستھان میں قیدیوں کے اعزازی کمشنر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں بھی نبھا رہی ہیں اور حال ہی میں انھیں قانونی نظام پر کام کرنے پر آگامی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ سمیتا چکرورتی، سگنا اور ایک اور قیدی خاتون کے ساتھ سمیتا کہتی ہیں کہ ’کریمنل جسٹس سسٹم ایک واقعے کے بارے میں ردعمل دیتا ہے اور نہیں جانتا کہ ایک شخص کے ساتھ کیا کیا جائے‘۔ وہ جس مقصد کے تحت مہم چلا رہی ہیں وہ مقبول ہو رہا ہے۔ گذشتہ سال انڈیا کی چار دیگر ریاستوں میں کھلی جیلوں کا آغاز کیا گیا ہے۔ جب میں سمیتا کے ہمراہ سنگانر گئی تو انھوں نے قیدیوں کو اپنے کام کی پیش رفت سے بھی آگاہ کیا اور پھر وہ سب بھیڑ کی صورت میں میری طرف آئے کیونکہ وہ بات کرنا چاہتے تھے۔ چونکہ اس جیل کی سکیورٹی پر کوئی مامور نہیں لہٰذا کوئی بھی یہاں داخل ہو سکتا ہے، لیکن میری جیسے ملاقاتی وہاں کم ہی آتے ہیں۔ جیل میں موجو مکانات اور ان کے عقب میں واقع رہائشی علاقہ میں جیل کے میدان کے سامنے بچوں کی ایک نرسری میں فرش پر بیٹھ گئی اور مرد اور خواتین قیدیوں کے ایک گروپ سے بات کرنے لگی۔ اب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ یہاں کیوں ہیں تو زیادہ تر نے مختصرا کہا ’302‘۔ تعزیراتِ ہند کے مطابق دفعہ 302 قتل سے متعلق ہے۔ وہ اس کھلی جیل کو ’فارم‘ کہتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہاں رہنا کتنا آسان ہے اور وہ کتنے خوش ہیں۔ سنگانر پہنچنے تک ان سب کو بند جیلوں میں اپنی سزا کا دو تہائی حصہ گزارنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان جگہوں کے مقابلے یہ آزادی ہے۔ دراصل راجستھان حکومت کو ایسے قیدیوں کو نکالنا بھی پڑتا ہے جو یہاں سے نہیں جانا چاہتے۔ انھوں نے اپنی زندگی بنا لی ہوتی ہے- مستحکم نوکری، قریبی علاقے میں بچوں کے لیے سکول- ان چیزوں سے وہ اپنی سزا کے اختتام پر ہاتھ نہیں دھونا چاہتے۔ بہت سے قیدیوں کے مطابق انھیں ابھی بھی باہر کے لوگوں کو جیل کے بارے میں سمجھاتے ہوئے دقت ہوتی ہے۔ کچھ قیدی خواتین کے مطابق جیل کے اندر کسی مرد سے شادی کرنا آسان ہے کیونکہ جیل سے باہر مرد ان کے تجربات کو نھیں سمجھ سکتے۔ حتیٰ کہ کچھ قیدیوں کے لیے نوکری ڈھونڈنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ ان کا جیل کارڈ دیکھ کر انھیں نوکری دیتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ انڈیا میں موجود کھلی جیلیں 2015 کے اختتام پر انڈیا میں اکتالیس لاکھ نو ہزار چھ سو تئیس قیدیوں میں سے تقریباً تین ہزار سات سو نواسی قیدی کھلی جیلوں میں رہ رہے تھے۔ دو ریاستوں راجستھان اور مہاراشٹر میں کھلی جیلوں کی تعداد 42 تھی، جو کہ کل جیلوں کا نصف ہے۔ اکیس مزید جیلیں انڈیا کی پندرہ دوسری ریاستوں میں موجود تھیں۔ ذریعہ: 2015 میں انڈیا کی جیلوں کے اعدادوشمار لیکن پھر بھی وہ تقریباً ایک عام زندگی ہی گزار رہے ہیں: وہ موٹرسائیکلیں، سمارٹ فونزاور ٹی وی خریدتے ہیں۔ انھیں جیل کا یونیفارم نہیں پہننا پڑتا، اور وہ چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں۔ ہر قیدی کو حکومت کی جانب سے سنگانر کی تنگ لین میں گھر الاٹ کیا گیا ہے، باقی سب کچھ ان پر منحصر ہے۔ جیل انھیں کھانا،پانی یا کوئی مالی امداد نہیں دیتی۔ یہاں ہر شام عام جیلوں کی طرح قیدیوں کی حاضری ضرور لگائی جاتی ہے لہذا ہر روز قیدی جیل چھوڑ کر روزگار کے لیے باہر جاتے ہیں: قتل کا مجرم بطور سکیورٹی گارڈ، فیکٹری ملازم اور دیہاڑی دار مزدور کے کام کرتا ہے۔ حتیٰ کہ میں ایک ایسے قیدی سے بھی ملی جو یوگا سکھاتا ہے اور جب کہ ایک اور قریبی سکول میں سپروائزر ہے۔ یہاں صرف ایک قانون ہے، مجھے بتایا گیا کہ یہاں ہر شام قیدیوں کی حاضری لگتی ہے۔ اس کے علاوہ سنگانر بمشکل ہی جیل لگتی ہے۔ سورج ڈھلنے ہر جیل کی منتخب گورننگ باڈی کے نمائندے جیل کے داخلی راستے پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک قیدی مائیکروفون پر ایک سے 450 نمبر بلاتے ہوئے حاضری لگانا شروع کرتا ہے۔ کبھی کبھی وہ کسی ایک نمبر پر رک کر کسی قیدی کو گھر کے باہر کوڑا کرکٹ چھوڑنے پر ڈانٹ بھی دیتا ہے۔ ہر کسی کو حساب دینا ہوتا ہے، یا بند جیل میں واپسی کا خدشہ ہوتا ہے۔
vert-tra-56151377
https://www.bbc.com/urdu/vert-tra-56151377
بنگلہ دیش: قدرتی حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے والا ایک مضبوط ملک
بنگلہ دیش کے شمال مشرقی شہر سلہٹ کو چائے کے سرسبز باغات کے لیے جانا جاتا ہے، لیکن یہاں وقت پر سکول پہنچنے کے لیے بچوں کا محض صبح سویرے بیدار ہونا کافی نہیں۔
کارڈف یونیورسٹی میں انجنیئرنگ کے پروفیسر ڈاکٹر منجور مرشد بنگلہ دیش میں ہی پلے بڑھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے یاد ہے کہ ہم پُل پار کیا کرتے تھے اور ہر دوسرے سال پل کو پانی بہا لے جاتا تھا۔ ہمیں (گاؤں کے بچوں کو) اس کی عادت تھی۔ ہم کوئی دوسرا راستہ ڈھونڈ لیتے تھے۔‘ سکول کا راستہ تبدیل کرنے سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ کتنے آرام سے اس بات کا اقرار کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر مرشد کی زندگی کا یہ تجربہ کوئی غیر معمولی بات نہیں بلکہ یہاں کی روایت ہے۔ سلہٹ کا جغرافیہ مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ڈاکٹر ڈیوڈ لڈن نیو یارک یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر اور ایشین سٹڈیز کی ایسوسی ایشن کے سابق صدر ہیں۔ وہ سنہ 2003 میں شائع والے ایک مقالے میں لکھتے ہیں کہ ’سلہٹ ایک زمین کا ٹکرا ہے جو دریائے سرما پر تیر رہا ہے۔‘ اس مقالے میں قدرتی طور پر اپنی جگہ تبدیل کرنے والی جگہوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ ’ارضیاتی پرتوں میں تبدیلی ان پہاڑی علاقوں کو بلند کر رہی ہے اور دریا میں سیلاب کا باعث بننے والے گڑھے مزید نیچے جا رہے ہیں۔ زلزلوں سے پانی کے طے شدہ راستے غیر مستحکم ہو جاتے ہیں۔‘ لیکن درحقیقت بنگلہ دیش بطور ملک قدرتی طور پر اپنی جگہ تبدیل کر رہا ہے۔ اس کے جغرافیے میں دنیا میں سب سے منفرد پانی کے نیٹ ورکس میں سے ایک پایا جاتا ہے۔ یہ علاقہ دریاؤں کی حرکت کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے۔ براہم پترا، جمنا، پدما (گنگا) اور میگھنا دریاؤں کے بہنے سے ریت جمع ہوتی رہی اور یہ علاقہ بنا۔ ملک میں تقریباً 80 فیصد حصہ سیلاب سے متاثر ہونے والے میدانی علاقوں پر مشتمل ہے۔ بھاشن چار نامی جزیرہ بھی اسی طرح بنا۔ اس متنازع جگہ پر اب ہزاروں بے گھر روہنگیا پناہ گزین رہتے ہیں۔ یہ جزیرہ گذشتہ 20 برسوں کے دوران ہمالیہ سے دریائے میگھنا کے ساتھ بڑی مقدار میں بہہ کر آنے والی ریت سے وجود میں آیا۔ ملک میں پارلیمان کی عمارت جاتیہ سنسد کے تین اطراف مصنوعی جھیل تعمیر کی گئی ہے جو ملک میں دریاؤں کی خوبصورتی، ان کی تخلیقی اور تباہ کن طاقتوں کی علامت ہے۔ خوندکر نیاز رحمان کے مطابق اسے 20ویں صدی کی سب سے عظیم تعمیرات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور یہ ملک کی ثقافتی علامت بھی ہے۔ خوندکر نیاز رحمان بنگلہ دیش کی حکومت اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے ساتھ منسلک رہے ہیں اور انھوں نے شہری و دیہی منصوبہ بندی پر کام کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش میں پانی کو ایک مقدس اور پاک کرنے والی چیز سمجھا جاتا ہے۔ پانی مسلمانوں کو وضو کے ذریعے پاک کرتا ہے۔ اگر آپ ہندو ہیں تو آپ کے گھر گنگا کا پانی چھڑکا جاتا ہے۔ بدھ مت کے پیروکار اپنی عبادت کے دوران ایک پُل یا پانی کے چشمے کو پار کرتے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ملک کی اعلیٰ قانون ساز اسمبلی تک پہنچنے کے لیے پانی کو پار کرنا بھی اسی طرح مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اس چھوٹے مگر گنجان آباد ملک میں پانی اور قدرت کو زندگی سے دور نہیں رکھا جاسکتا۔ رحمان نے مجھے تاکید کی کہ ’مون سون کے دوران اگر آپ کا طیارہ بنگلہ دیش کے اوپر سے گزرے تو آپ کھڑکی سے باہر ضرور دیکھیں۔‘ ’آپ کو یہ نہیں دکھائی دے گا کہ یہاں دریا زمین کو کاٹ رہے ہیں۔ ہمارا ملک دریاؤں کے درمیان ایک خلا ہے۔‘ اور ایسا لگتا ہے کہ زندگی اسی خلا میں قدرتی آفات کے درمیان بسر کی جاتی ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق گذشتہ تین دہائیوں کے دوران بنگلہ دیش نے 200 سے زیادہ قدرتی آفات کا مقابلہ کیا ہے۔ خلیجِ بنگال کے تکونی سرے پر واقع اس ملک کو ہمیشہ نہ صرف سمندری طوفانوں اور سیلابوں کا خطرہ رہتا ہے، بلکہ شہروں کی جانب ہجرت کی وجہ سے اس گنجان آباد ملک کو زیادہ مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ کلائمیٹ چینج اسے بری طرح متاثر کر سکتی ہے کیونکہ آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے یہاں کبھی خشک سالی ہو جاتی ہے اور کبھی اچانک موسلا دھار بارشیں۔ زلزلوں کے دوران اس کے میدانی علاقوں میں سیلابی زمین کے اندر پانی جمع ہو سکتا ہے اور بنگلہ دیش میں زراعت اور پینے کے پانی کو نمکیات کے اضافے کے شدید خطرے کا بھی سامنا ہے۔ یہ خطرہ بنگلہ دیش کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن سکتا ہے۔ یہاں آنے والے سیاحوں کو بہتے پانیوں کے ایک طویل سلسلے کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے جو بعض اوقات لوگوں کے لیے آمد و رفت کے بنیادی ذرائع کا کام دیتا ہے۔ ان پانیوں میں آپ کو اکثر جدید کشتیوں اور پیڈل سے چلنے والے ان قدیم سٹیمرز کی بھیڑ دکھائی دیتی ہے جسے مقامی لوگ راکٹ کہتے ہیں۔ سنہ 2020 میں جب یہاں سیلاب آیا تو ملک کا تقریباً 40 فیصد حصہ زیرِ آب آ گیا اور 15 لاکھ بنگلہ دیشی بے گھر ہو گئے۔ یہ سیلاب مئی میں آنے والے ایک بڑے سمندری طوفان کے ساتھ ساتھ آیا، اور ایک اندازے کے مطابق بنگلہ دیش کو اس سے 13 اعشاریہ دو ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے کریگرام کے ضلعے میں متاثرین کی امداد کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم اے ایف اے ڈی کی سربراہ سعیدہ یاسمین کہتی ہیں کہ ’یہ پانچواں موقع تھا جب یہاں کے لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا تھا۔‘ لیکن اس کے باوجود یہاں لوگوں نے خود کو دوبارہ کھڑا کر لیا۔ یہ لوگ بے گھر ضرور ہوئے لیکن ناامید نہیں۔ لگتا ہے کہ بنگلہ دیشی یہ تسلیم کرتے ہیں، بلکہ شاید اس بات کے معترف ہیں کہ قدرت پیچیدہ ہے مگر اس کے اچھے برے دونوں رخ ہیں۔ قدرتی آفات کے ساتھ ہم آہنگی میں رہنا بنگلہ دیش کے لوگوں نے سیکھ لیا ہے اور یہاں آنے والے سیاح وہ بھٹیالی لوک گیت سن کر حیران ہو جائیں جن میں دریا کے ساتھ مقامی لوگوں کے رومان اور اسی دریا سے درپیش خطرات کا امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ ایک مشہور لوک گیت کے بول کچھ ایسے ہیں کہ ’کشتی کو بہت احتیاط سے چلا ماجھی، دریا کی کوئی حد نہیں ہے۔‘ نیاز رحمان کہتے ہیں کہ ’قدرتی آفات ہمیشہ انسان ہی لاتے ہیں۔ آفات کبھی بھی قدرت کی طرف سے نہیں آتیں۔ ہم خود ہی قدرت کو سمجھے بغیر اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں اور کوئی غلط حرکت کر بیٹھتے ہیں، اور پھر الزام قدرت کو دیتے ہیں۔ اب تک سات لاکھ چالیس ہزار سے زیاد روہنگیا مسلمان نقکل مکانی کر کے بنگلہ دیش آ چکے ہیں ’لگتا ہے کہ بنگلہ دیش میں یہ چیز لوگوں کی گھٹی میں شامل ہے کہ وہ قدرت کی بے پناہ طاقت اور انسان کی اس ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں کہ اسے قدرت کی مرضی کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر زندہ رہنا ہے۔‘ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہاں چونکہ آپ اپنی زمین کے بارے میں کوئی پیشنگوئی نہیں کر سکتے اس لیے بنگلہ دیشیوں میں آب و ہوا میں تبدیلی سے پیدا ہونے والے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے۔ عالمی بینک سے منسلک ڈاکٹر شفیع الاعظم احمد کے بقول اس حوالے سے ’میرا مفروضہ بڑا عجیب و غریب ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کی نفسیات اور ان کے قومی مزاج کا تعین ان کا جغرافیہ کرتا ہے۔‘ ’جب زیر زمین سیلابی پانی سے کسی دریا کا ایک کنارہ تھرتھرانے لگتا ہے تو دوسرے کنارے پر زمین کا ایک اور ٹکڑا ابھر آتا ہے۔ اور پھر بہت جلد ہی نئی جگہ پر نباتات اور جنگلی حیات ایک نئے جذبے سے پھلنا پھولنا شروع کر دیتی ہے۔ اور انسان بھی یہی کرتے ہیں۔ آپ طاقتور دریاؤں سے لڑ نہیں سکتے لیکن آپ خود میں لچک پیدا کر کے قدرت کی غیر یقینیوں کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔‘ اس کا تجربہ مجھے اس وقت بھی ہوا جب میں نے 2020 کے سیلاب کے بعد ڈھاکہ کی ایک رہائشی رنیتا رضوانہ کو فون کیا۔ میں خود کو تیار کر رہی تھی کہ وہ شاید بہت غمزدہ ہوں گی، لیکن انھوں نے بڑے باوقار انداز میں بات کی۔ مجھے اس وقت بہت حیرت ہوئی کیونکہ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ شاید بات کرتےہوئے مسکرا بھی رہی تھیں۔ وہ بولیں ’میرے لوگ ہمت والے ہیں۔ دیہات میں رہنے والے پل بنا لیتے ہیں تاکہ وہ ملک کے بڑے علاقوں سے جُڑے رہیں۔ وہ فصلوں کے ڈنٹھل اور مویشیوں کے چارے کی گانٹھوں کی مدد سے پل بنا لیتے ہیں۔ اسی طرح ان کے پاس بہت سے بانس موجود ہوتے ہیں جن سے وہ کسی اونچی جگہ پر نئے گھر بنا لیتے ہیں۔‘ لکڑی اور بانسوں کے بنے ہوئے اس قسم کے لچکدار اور بدلتے موسمی حالات کا مقابلہ کرنے والے گھر بنگلہ دیش میں جا بجا نظر آتے ہیں، جو بتاتے ہیں کہ اس ملک میں زندگی ایک مائع جیسی ہے۔ بعض اوقات اس قسم کے گھر برسات کے موسم جیسی قدرتی آفت سے ہونے والی تباہی کے بعد بنائے جاتے ہیں۔ ان دنوں میں گھروں کی تعمیر کے لیے درکار ساز و سامان کشتیوں کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ان گھروں کے قریب چھوٹے چھوٹے تالاب ہوا کرتے تھے اور جب زمین سے کھود کر نکالی گئی مٹی سے گھر کھڑے کیے جاتے تھے تو ان تالابوں کا پانی خشکی کے دنوں میں لوگوں کے کام آتا تھا۔ بنگلہ دیش میں قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں میں یہ سوچ راسخ ہے کہ قدرت ہم سب سے زیادہ بڑی حقیقت ہے اور ہمیں اس کے ساتھ رہتے ہوئے کام کرنا ہے، نہ کہ اس کے خلاف۔ ایک غیر سرکاری تنظیم واٹر ایڈ کی سربراہ حسین جہاں بتاتی ہیں کہ یہاں مقامی آبادیاں کس طرح کسی بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو ڈھال لیتی ہیں۔ ’جب آپ جانتے ہیں کہ قدرتی آفت نے آنا ہی ہے، تو آپ اس کے لیے منصوبہ بندی کر لیتے ہیں۔ کیوں ایسا ہی نہیں ہوتا۔‘ مثلاً لوگ عام طور پر سرخ پکی اینٹیں اپنے گھر کے اندر رکھتے ہیں تاکہ اگر سیلاب آئے تو آپ فوراً اینٹیں چارپائی کے نیچے رکھ کے چارپائی کو اونچا کر لیں۔ حسین جہاں کہتی ہیں کہ بنگلہ دیش کے دیہاتوں میں ایسے چولہے مقبول ہیں جنہیں آپ ایک جگہ سے اٹھا کر کے دوسری جگہ رکھ سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہاڑی علاقوں میں لوگوں کو جہاں پناہ ملتی ہے، وہ اس جگہ چولہا رکھ کے کھانا بنا لیتے ہیں۔ جب تازہ چیزیں مسیر نہیں ہوتیں تو مقامی لوگ چاول یا چاول کی روٹی اور شُٹکی (خشک مچھلی) پر گزارہ کرتے ہیں جو کہ توانائی سے بھرپور خواراک ہے۔ سیلاب کے دنوں میں جب لوگ چاروں طرف سے پانی میں گھرے ہوتے ہیں تو کشتیوں پر تیرتے ہوئے سکول بچوں کو تعلیم دینے کے لیے ان کی دہلیز تک پہنچ جاتے ہیں۔ جو غیر سرکاری تنظیم سیلابی پانی پر تیرتے ہوئے سکول چلا رہی ہے، وہ تیرتی ہوئی لائبریریاں اور کلینک بھی چلا رہی ہے۔ جیسا کہ جرمنی کی ایک تنظیم کی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ اس کے باوجود کہ بنگلہ دیش کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہیں قدرتی آفات کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے، اس ملک کے پاس وسائل اور آفات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے۔ لیکن بنگلہ دیش کی مقابلہ کرنے کی صلاحیت کا مطلب یہ نہیں کہ اسے مسکرا کر مصیبت سہنے کی عادت ہے اور جب بھی مصیبت آتی ہے تو یہ ملک کسی مدد کے بغیر خود ہی اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ کسی قدرتی آفت کے بعد ایک مرتبہ پھر سے بہتر انداز میں تیار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں مقامی آبادی کے تعاون سے قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے بہت اچھے بندوبست پائے جاتے ہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے مسٹر مرشد کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش نے قدرتی آفات سے پیشگی خبردار کرنے والے نظام میں بہت سرمایہ خرچ کیا ہے اور یہ نظام معاشرتی بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے، نہ کہ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر۔ ’یہ اصل میں مسجد کے امام، سکول کے ہیڈماسٹر، مقامی حکومت کے اہلکار اور ایسی شخصیات ہیں جن پر لوگ بھروسہ کرتے ہیں، کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو بعض اوقات تو بیٹری سے چلنے والے میگافون لیکر سائیکل، رکشتہ پکڑ کر یا پیدل لوگوں کی مدد کے لیے نکل پڑتے ہیں۔‘ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مسٹر مرشد کا کہنا تھا کہ ’مقابلہ کرنے کی صلاحیت کا انحصار وقت پر ہوتا ہے ۔ اس کی بہترین مثال بنگلہ دیش کے سکول ہیں جنہیں اکثر پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کیونک آفت گزر جانے کے بعد آپ سکولوں کی ان عمارتوں کو فوراً واپس اپنے کام پہ لگا دیتے ہیں اور یوں آپ کو ان سکولوں پر لگائے جانے والے سرمائے کا فوری پھل بھی مل جاتا ہے۔ بعد میں آپ ان ہی سکولوں کو بار بار پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔‘ اور جب سکولوں میں ہی شیلٹر فراہم کیا جاتا ہے تو لوگوں کا معلوم ہوتا ہے کہ وہاں جلد از جلد پہنچنے کا راستہ کیا ہے۔ مرشد نے حال ہی میں بنگلہ دیش میں قدرتی آفات سے بچاؤ کے نظام کا جائزہ لیا ہے اور انہیں معلوم ہوا ہے کہ اب یہاں کے روایتی طریقوں میں جدت لائی جا رہی ہے۔ ’لوگ اب زیادہ مضبوط (آر سی سی) قسم کا سیمنٹ جیسی چیزیں استعمال کر رہے ہیں۔ اس سے بنائی جانے والی عمارتوں کے اندر کے حصے گر بھی جائیں تو باقی عمارت کو نقصان نہیں پہنچتا۔‘ تاہم اس قسم کے مصنوعی مواد پر مکمل انحصار سے خبردار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’بڑھتی ہوئی عالمی حدت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں عمارتوں کے ایسے ڈھانچے بنانے چاہئیں جو صرف آج کام نہ دیں، بلکہ مستقبل میں بھی کام دیتے رہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جدید طریقوں میں ہم مقامی لوگوں کے علم کو بھی شامل رکھیں۔‘ اس کا مطلب شاید یہ ہے کہ بنگلہ دیشیوں کی یہ روایت کہ وہ اپنی زندگی کو قدرت کے ساتھ ہم آہنگ رکھتے ہیں، یہ وقت سے آگے کی سوچ ہے۔ بنگلہ دیش میں قدرتی آفات کی دخل اندازی یہاں کی زندگی کا معمول رہا ہے اور آج بھی ہے۔ اس کی عکاسی مسٹر مرشد کے سکول کے دنوں کے کیلینڈر سے ہوتی ہے جس میں لکھا ہے کہ ’ہم نے سیلاب کے دنوں میں سکول میں چھٹیاں کر دی تھیں تاکہ بچوں کی تعلیم کا نقصان کم سے کم ہو۔ ہم نے ان چھٹیوں کو پھل چننے اور فصلوں کی کٹائی کے دن قرار دے دیا۔‘ ان کے بقول جب وہ چھوٹے تھے تو ’گرمیوں کی چھٹیاں بھی محض چھٹیاں نہیں تھیں، بلکہ قدرت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے دن بھی وہی ہوا کرتے تھے۔‘ اور بنگلہ دیش سے بہتر کون جانتا ہے کہ قدرت اپنے تحائف مختلف انداز میں نچھاور کرتی رہتی ہے۔
070423_eu_iran_zs
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/04/070423_eu_iran_zs
’مزید پابندیوں پر بات ہوگی‘
لکسمبرگ میں پیر کو یورپی یونین میں شامل ممالک کے وزارئے خارجہ کے اجلاس میں ایران پر جوہری پروگرام کے حوالے سے مزید پابندیوں پر بات چیت متوقع ہے۔
اس دو روزہ اجلاس میں بیس سینئر ایرانی حکام پر سفری پابندیاں عائد کرنے اور ہتھیاروں کی فراہمی کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کی جزوی پابندیوں کو مکمل پابندی میں تبدیل کروانے کے کوششوں پر غور ہوگا۔ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اس اجلاس میں ایران کے علاوہ روس سے کشیدہ تعلقات پر بھی بات چیت ہوگی۔ روس کی جانب سے پولینڈ سےگوشت کی درآمد پر پابندی کے بعد سے یورپی یونین اور روس کے تعلقات خوشگوار نہیں۔ تاہم ایران کے معاملے پر روس یورپی یونین کے مؤقف کا مکمل حامی ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ اس تعاون کے نتیجے میں ہی دیگر معاملات پر روس اور ای یو کے تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے۔
sport-55482442
https://www.bbc.com/urdu/sport-55482442
سمیع چوہدری کا کالم: فواد عالم کے گیارہ سال اور یہ ساڑھے چھ گھنٹے
قائم چاند پوری نے کہا تھا:
قسمت کی خوبی دیکھیے، ٹوٹی کہاں کمند دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا عین قریب تھا کہ پاکستان وقت سے دو ہاتھ آگے نکل جاتا اور ایک یقینی فتح نیوزی لینڈ کو چکمہ دے جاتی۔ سارے سوالوں کا رُخ پاکستانی بیٹنگ سے پلٹ کر کیوی بولنگ کی طرف ہو جاتا اور پہلے تین دن کی کمیوں، کوتاہیوں، خامیوں کے باوجود پاکستان اس میچ سے ناقابلِ شکست آگے بڑھ جاتا۔ جس ہمت اور جرات کا مظاہرہ پاکستان نے آخری دن کیا، اس کا عشرِ عشیر بھی اگر تیسرے دن کر لیا جاتا تو بعید نہ تھا کہ ڈرا ہی اس میچ کا نتیجہ ہوتا۔ مگر تیسرے دن کی وکٹ مشکل تھی۔ بولرز کے لیے دلچسپی کے بہت سامان تھے اور بلے بازوں سے آہنی عزم درکار تھا۔ نامانوس کنڈیشنز میں اگر پاکستانی بلے باز ایسی مہارت دکھا جاتے تو یہ کہنا غلط نہ ہوتا کہ چار سال قبل کھوئی گئی عظمتِ رفتہ واپس پاکستانی ڈریسنگ روم کو پلٹ رہی ہے۔ یہ بھی پڑھیے 'رانا صاحب، تسی گریٹ او' ’ہارنا ہے ہی تو جارحانہ کھیل کر ہارو، ڈر ڈر کے ہارنے کا کیا فائدہ؟‘ میچ کے تیسرے دن ’پاکستان کی کرکٹ 1980 کی دہائی کی جانب جاتی نظر آئی‘ المیہ مگر یہ ہوا کہ پاکستان نے تیسرے دن ہی وہ بیٹنگ اپروچ اپنا لی جو پانچویں دن اختیار کرنا ہوتی ہے۔ یہاں وہ تخمینے کی گڑبڑ ہوئی جو امیدوں کے چراغ گل کرنے لگی ورنہ وہ نتیجہ بھی بعید نہ تھا جو آج چائے کے وقفے پر ممکن دکھائی دے رہا تھا۔ اور یہ سب ہوا اس فراموش کردہ بلے باز فواد عالم کے طفیل جسے ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کے لیے دس سال انتظار کرنا پڑا۔ فواد عالم کی اننگز صرف مخالف اٹیک کے لیے ہی نہیں، اپنے ہم وطن ناقدین کے لیے بھی بھرپور جواب تھی۔ فواد عالم کی اننگز کا نمایاں پہلو ان کا صبر تھا۔ جو صبر انھوں نے پچھلے دس سال سلیکشن کمیٹی کے دروازے پر دکھایا، ویسا ہی صبر انھوں نے ویگنر، ساؤتھی، بولٹ اور جیمیسن کے مشکل سوالوں کے جواب میں دکھایا۔ ٹیسٹ کرکٹ نام ہی صبر آزمائی کا ہے اور فواد عالم آج اس صبر کے امتحان میں پورا اُترے۔ وکٹ کیسی بھی ہو، اس کیوی اٹیک کے سامنے ساڑھے چھ گھنٹے سے زائد مزاحمت کرنا ہی محیرالعقول کارنامہ ہے۔ پچھلے دو تین سالوں میں یہ مزاحمت پاکستانی ٹیسٹ ٹیم سے عنقا ہوتی جا رہی تھی۔ اگر فواد عالم کے ساتھ ٹاپ آرڈر کا کوئی ایک بلے باز بھی اپنا حصہ ڈال جاتا تو پاکستان یہ ہدف حاصل بھی کر سکتا تھا اور چائے کے وقفے پہ سکور بورڈ کی صورتِ حال بھی اس کی واضح دلیل تھی۔ پاکستان کے لیے دوسرا خوش کن پہلو محمد رضوان کی قائدانہ کارکردگی ہے۔ بولنگ کی تبدیلیوں میں درست فیصلے اپنی جگہ، کریز پر موجودگی کے دوران ان کی فیصلہ سازی میں بھی قائدانہ کردار بخوبی نظر آیا۔ پہلی اننگز میں جس طرح انھوں نے بالکل شکست خوردہ ذہنیت کے عکاس سکور بورڈ کے خلاف جوابی حملہ کیا، وہ پاکستانی کرکٹ کلچر سے معدوم ہوتا جا رہا تھا۔ آج دوسری اننگز میں بھی جس ذہنی پختگی کا ثبوت انھوں نے دیا، اس کی بنیاد پر یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ کامران اکمل کے کریئر کے ابتدائی سالوں کے بعد اب کہیں آ کر پاکستان کے پاس ایک مکمل وکٹ کیپر بلے باز آیا ہے جو بوقتِ ضرورت قیادت کا بوجھ بھی اٹھا سکتا ہے۔ تب تک مصباح الحق اور یونس خان کو صرف یہ سوچنا ہے کہ ٹاپ آرڈر پر کون سا منتر پھونکا جائے کہ وہ بھی اپنے حصے کا کام کرنے لگے جس وقت شاہین شاہ اور محمد عباس مزاحمت کی دیوار بنے ہوئے تھے، پاکستانی کیمپ میں امید کی کرن موجود تھی کہ معاملات ڈرا کی جانب جا سکتے ہیں۔ مگر عباس کے جانے کے بعد بھی نوجوان نسیم شاہ نے اپنے تئیں مزاحمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ تو بھلا ہو ولیمسن کی حاضر دماغی کا کہ سینٹنر کو دوبارہ اٹیک میں واپس لائے اور ڈرا کی جانب جاتے میچ کو واضح نتیجے کی طرف موڑ دیا۔ ورنہ جس ہمت کا اظہار پاکستانی بیٹنگ نے کر چھوڑا تھا، ڈرا بالکل جائز نتیجہ تصور ہوتا۔ شکست کبھی بھی تسلی بخش نہیں ہوتی مگر پاکستان کے لیے اطمینان افروز پہلو کوئی ایک نہیں، فہیم اشرف کی بیٹنگ، شاہین آفریدی کی بولنگ، رضوان کی دو بھرپور اننگز کے ساتھ اگر فواد عالم کی لاجواب اننگز کو بھی شامل کر لیا جائے تو اگلے میچ کے لیے امید کا بہت سا سامان اکٹھا ہو سکتا۔ تب تک مصباح الحق اور یونس خان کو صرف یہ سوچنا ہے کہ ٹاپ آرڈر پر کون سا منتر پھونکا جائے کہ وہ بھی اپنے حصے کا کام کرنے لگے۔
100902_match_fixing_analysis_as
https://www.bbc.com/urdu/sport/2010/09/100902_match_fixing_analysis_as
میچ فکسنگ اور’ جسٹس‘
پاکستانی کرکٹ میں سٹے بازی اور میچ فکسنگ، الزامات اور انکشافات سے ہوتے ہوئے پابندیوں اور جرمانوں تک پہنچی تو اندازہ ہوا کہ کچھ تو تھا جس کی پردہ داری تھی۔
وسیم اکرم کے خلاف بھی میچ فکسنگ کے حوالے سے انکوائری ہوئی تھی پاکستانی کرکٹ میں پہلی بار سٹے بازی یا ناجائز طریقے سے پیسہ بنانے کا انکشاف سرفراز نواز کی زبانی سننے کو ملا تھا جنہوں نے80-1979 میں بھارت کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم کے کپتان آصف اقبال کی طرف انگلی اٹھائی تھی کہ بھارتی کپتان کے ساتھ انہوں نے جو ٹاس کیا تھا وہ بقول ان کے مشکوک تھا لیکن چونکہ سرفراز نواز کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا لہذا ان کے اس الزام کو محض ایک الزام کے طور پر ہی دیکھا جاتا رہا۔ سرفراز نواز نے میچ فکسنگ اور سٹے بازی کے اسی طرح کے الزامات شارجہ کرکٹ کے روح رواں عبدالرحمن بخاتر پر بھی عائد کئے جنہوں نے پاکستانی فاسٹ بولر کے خلاف لاہور کی عدالت میں مقدمہ بھی دائر کیا جس کی فائل اسوقت بھی کہیں پڑی ہوگی۔ پاکستانی ٹیم کے سب سے زیادہ عرصے کوچ اور منیجر رہنے والے انتخاب عالم کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ میچ فکسنگ ہوتی ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں کھلاڑیوں سے قرآن پر حلف لے کر میچ بچانے کی کوشش کے ایک واقعے کے علاوہ اس واقعے کا ذکر بھی کیا ہے کہ شارجہ میں کپتان عمران خان اور انہیں یہ اطلاع ملی کہ کرکٹرز ٹیم کی شکست پر پیسہ لگا رہے ہیں جس پر عمران خان نے جوابی وار کے طور پر رنر اپ کی پرائز منی کو جیت پر لگا دیا تھا۔ وہ میچ پاکستانی ٹیم جیت گئی تھی۔ انیس سو تراسی چوراسی میں آسٹریلیا کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم میں شامل قاسم عمر بھی ایسے ہی انکشافات کے ساتھ سامنے آئے جس کے مطابق اس دورے میں کھلاڑیوں کو جان بوجھ کر خراب کھیلنے کے لیے دھن دولت شراب و شباب کی پیشکش کی گئی۔ 1995 میں آسٹریلوی کرکٹرز شین وارن، ٹم مے اور مارک وا نے سلیم ملک پر میچ فکسنگ کا الزام لگایا کہ پاکستانی کپتان نے مبینہ طور پر ٹیسٹ میچ ہارنے کے عوض انہیں بھاری رقم کی ادائیگی کی پیشکش کی تھی۔ اسی دوران پاکستانی کرکٹ ٹیم کے جنوبی افریقہ اور زمبابوے کے دورے میں شامل وکٹ کیپر راشد لطیف اور باسط علی نے ٹیم کے کپتان سلیم ملک پر مبینہ کرپشن کے سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ دونوں کرکٹرز سلیم ملک کی قیادت میں سری لنکا کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم میں بھی شامل تھے جس میں کھیلی گئی سنگر ٹرافی سب سے مشکوک ایونٹ کے طور پر سامنے آئی اور پاکستان میں میچ فکسنگ کی تحقیقات کا زیادہ زور بھی اسی ایونٹ پر رہا۔ 1995 میں سلیم ملک پر میچ فکسنگ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شدید الزامات سامنے آنے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے سپریم کورٹ کے جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپی لیکن سلیم ملک پر الزامات عائد کرنے والے آسٹریلوی کھلاڑی پاکستان آکر بیانات دینے کے لیے تیار نہ ہوئے اور جسٹس فخرالدین جی ابراہیم نے عدم ثبوت کی بنا پر سلیم ملک کو میچ فکسنگ کے الزامات سے کلیئر کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شین وارن، ٹم مے اور مارک وا جنہوں نے سلیم ملک پر انگلیاں اٹھائی تھیں وہ خود 1994 کے اسی سری لنکن دورے میں ایک بک میکر کو پیسہ لے کر معلومات فراہم کرنے کے اعتراف میں جرمانے کی زد میں آئے لیکن آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے یہ جرمانہ خاموشی سے کیا جس کا تین سال بعد پتہ چلا۔ 1998 میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنے کونسل ممبرز جسٹس اعجاز یوسف، نصرت عظیم اور میاں محمد منیر پر مشتمل ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی جس نے آفیشلز اور کرکٹرز کے بیانات ریکارڈ کرنے کے بعد ایک عبوری رپورٹ دی جس میں کہا گیا تھا کہ کمیٹی کا حتمی فیصلہ آنے تک وسیم اکرم، سلیم ملک اور اعجاز احمد کو ٹیم سے دور رکھا جائے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں کمیٹی کے اراکین وسیم اکرم کی ٹیم میں شمولیت کے خلاف تھے اور اس بارے میں بورڈ کی کونسل کے اجلاس میں بھی بحث ہوئی لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس وقت کے چیئرمین خالد محمود نے ان تمام اعتراضات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وسیم اکرم کو پاکستانی ٹیم میں شامل ہونے کے لیے جنوبی افریقہ بھجوا دیا۔ خالد محمود اور ماجد خان (جو اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو تھے) کے درمیان شدید اختلافات کی وجہ بھی یہی تھی کیونکہ ماجد خان اس معاملے میں انتہائی سخت موقف رکھتے تھے۔ پاکستانی کرکٹ میں میچ فکسنگ اور متعدد کھلاڑیوں کے اس میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے تواتر کے ساتھ الزامات سامنے آنے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کی درخواست پر حکومت پاکستان نےستمبر 1998 میں ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا جو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک محمد قیوم پر مشتمل تھا۔ پاکستان کے کئی کرکٹرز میچ فکسنگ کے الزام کی زد میں آتے رہے ہیں جسٹس ملک محمد قیوم پر مشتمل اس کمیشن کا تحقیقاتی عمل خاصا طویل رہا جس میں کھلاڑیوں اور آفیشلز کے بیانات ریکارڈ ہوئے اور ان پر جرح کی گئی۔ جسٹس ملک محمد قیوم نے ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کی جس میں سلیم ملک اور عطاء الرحمن پر تاحیات پابندی عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی جبکہ ان دونوں کے ساتھ ساتھ وسیم اکرم، وقار یونس، انضمام الحق، مشتاق احمد، اکرم رضا اور سعید انور پر جرمانے بھی عائد کیے۔ جسٹس قیوم نے اپنی سفارشات میں وسیم اکرم کو مستقبل میں قیادت نہ دینے کے لیے بھی کہا تھا جبکہ مشتاق احمد کو بھی آئندہ کوئی ذمہ داری نہ دینے کی سفارش کی گئی تھی۔ ساتھ ہی تمام کرکٹرز کے مالی اثاثوں اور گوشواروں پر نظر رکھنے کے لیے بھی کرکٹ بورڈ سے کہا گیا تھا۔ جسٹس قیوم کی تحقیقات کے دوران چند غیرمعمولی واقعات بھی سامنے آئے۔ پاکستانی کرکٹرز پر احتساب بیورو نے بھی اپنا شکنجہ سخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ بیورو کے سربراہ سیف الرحمن تھے اور ان کے بھائی مجیب الرحمن پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایڈہاک کمیٹی کے سربراہ تھے۔ انڈیا کے سابق کپتان اور فاسٹ بولر پر جب میچ فکسنگ کا الزام لگا تو وہ ٹی وی پر آ کر بہت روئے احتساب بیورو نے وسیم اکرم کو جو اس وقت لندن میں تھے سخت وارننگ دیتے ہوئے پاکستان طلب کیا۔ پہلے ان پر زمین تنگ کی گئی اور بعد میں وہ، اعجاز احمد اور سلیم ملک تینوں تمام الزامات سے کلیئر کر دیے گئے، بلکہ سلیم ملک جنہیں ورلڈ کپ کی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا تھا دوبارہ شامل کرلیا گیا اور معین خان کو ہٹا کر وسیم اکرم کو دوبارہ کپتانی سونپ دی گئی۔ پاکستانی کرکٹ میں میچ فکسنگ تنازعے کا ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب جسٹس ملک محمد قیوم کی رپورٹ منظر عام پر آنے سے قبل برطانوی جریدے ’نیوز آف دی ورلڈ‘ نے سلیم ملک کو کیمرے کے سامنے اسی طرح ٹریپ کیا جیسا کہ چند روز قبل مظہر مجید کو کیا گیا۔ اسی دوران پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس وقت کے چیئرمین لیفٹننٹ جنرل توقیر ضیا نے جسٹس ملک محمد قیوم کی رپورٹ جاری کر دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس رپورٹ کے باقاعدہ جاری ہونے سے قبل اس کے میڈیا میں آجانے اور اس کے مندرجات کو یاور سعید نے یہ کہہ کر ماننے سے انکار کردیا تھا کہ یہ محض قیاس آرائی ہے۔ یاور سعید اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر آپریشنز تھے، تاہم بعد میں یہ ثابت ہوگیا کہ رپورٹ کے بارے میں جو کچھ میڈیا میں پہلے آیا وہ غلط نہیں تھا۔ جسٹس قیوم کی رپورٹ جاری ہونے سے تقریباً ایک ماہ قبل کرکٹ کی دنیا اس وقت جیسے ہل کر رہ گئی جب دہلی پولیس نے جنوبی افریقی کپتان ہنسی کرونئے پر میچ فکسنگ کا الزام عائد کر دیا اور اس ضمن میں ایک مبینہ بھارتی بک میکر سنجے چاؤلہ سے ان کی ٹیلیفونک گفتگو کی ٹیپ بھی پیش کر دیے۔ کرونئے نے پہلے تو انکار کیا لیکن بعد میں بک میکرز سے رابطے اور منفی لین دین کا اعتراف جرم کر لیا۔ دو سال بعد ہنسی کرونئے ایک چھوٹے جہاز کے حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ 2000 میں بھارت نے بھی میچ فکسنگ کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے کچھ کڑے اقدامات کیے جن کے مطابق سابق کپتان اظہر الدین اور اجے شرما پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی جبکہ اجے جادیجا اور منوج پربھارکر پر پانچ پانچ سال کی پابندی لگائی گئی۔ وکٹ کیپر راشد لطیف اور باسط علی نے سابق کپتان سلیم ملک پر مبینہ کرپشن کے سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تھا پاکستانی کرکٹ میں میچ فکسنگ کی تحقیقات کرنے والے چوتھے جج جسٹس کرامت بھنڈاری تھے جنہیں 1999 کے عالمی کپ خاص کر اس میں بنگلہ دیش اور بھارت کے خلاف ہارے گئے میچوں کی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی۔ جسٹس بھنڈاری نے تحقیقات کرنے کے بعد پاکستانی ٹیم کو میچ فکسنگ کے الزامات سے بری کر دیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ کے اس وقت کے سربراہ ڈاکٹرعلی باقر نے بھی ورلڈ کپ میں پاکستانی میچوں اور خاص کر پاکستانی امپائر جاوید اختر پر بھی شک ظاہر کیا تھا تاہم وہ اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے پاکستان آنے کے لیے تیار نہیں ہوئے جس کی ان سے درخواست کی گئی تھی۔ پاکستان سے باہر بھی کئی بڑے ناموں پر میچ فکسنگ اور بک میکرز سے مبینہ روابط کے الزامات لگے۔ 1993 میں آسٹریلوی کپتان ایلن بورڈر نے سابق پاکستانی کپتان مشتاق محمد پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے مبینہ طور پر انگلینڈ کے خلاف میچ ہارنے کے عوض انہیں پچاس ہزار ڈالرز کی پیشکش کی تھی۔ 1997 میں بھارتی آل راؤنڈر منوج پربھارکر نے کپل دیو پر میچ ہارنے کے لیے بھاری رقم کی پیشکش کرنے کا الزام عائد کیا۔ کپل دیو ٹی وی کے ایک پروگرام میں آئے اور اپنے اوپر عائد الزامات پر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔ 2000 میں انگلش کرکٹر کرس لوئس نے انگلینڈ کے تین کرکٹرز پر پیسے لے کر خراب کارکردگی میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے جو غلط ثابت ہوئے، بعدازاں خود لوئس کو منشیات سمگلنگ کیس میں تیرہ سال قید کی سزا ہوگئی۔ 2001 میں انگلینڈ کے وکٹ کیپر ایلک سٹیورٹ کو معلومات فراہم کرنے کے عوض بک میکر سے پیسہ لینے کے الزام سے بری کر دیا گیا۔ 2004 میں سری لنکن کپتان مرون اتاپتو بھی اسی طرح کے الزام کی زد میں آئے لیکن شواہد نہ ہونے پر سری لنکن کرکٹ بورڈ نے انہیں کلیئر کر دیا۔ اسی سال کینیا کے مورس اوڈمبے پر بک میکرز سے پیسہ وصول کرنے کا الزام ثابت ہوگیا اور ان پر پانچ سالہ پابندی عائد کردی گئی۔ 2007 ورلڈ کپ کے دوران پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کوچ باب وولمر کی اچانک موت پر قیاس آرائیوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور ان کی موت کو قتل قرار دیا جانے لگا لیکن کئی روز تک مختلف موقف پیش کرنے کے بعد جمیکن پولیس نے یہ کہہ کر فائل داخل دفتر کردی کہ یہ طبعی موت تھی۔ 2008 میں ویسٹ انڈیز کے مارلن سموئلز پر دو سالہ پابندی عائد کر دی گئی کیونکہ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے بھارتی دورے میں بک میکرز کو معلومات فراہم کی تھیں۔
130713_book_review_sa
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2013/07/130713_book_review_sa
دو مجموعے فکشن کے اور دو شاعری کے
محمود احمد قاضی کے دو ناول اور افسانہ’ٹلّہ جوگیاں (جدید)‘ اور خالد فتح محمد کے افسانے ’تانبے کے برتن‘ کے نام سے، جب کہ ریاض ساغر کی شاعری کا مجموعہ ’پانچواں موسم‘ اور فضل احمد خسرو کی شاعری ’لمحۂ موجود‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔
ٹلّہ جوگیاں (جدید) نام کتاب: ٹلّہ جوگیاں (جدید) مصنف: محمود احمد قاضی صفحات: 180 قیمت: 300 روپے ناشر: سانجھ پبلیکیشنز، 2/46 مزنگ روڈ، لاہور E-mail:sanjhpks@gmail.com ٹلّہ جوگیاں (جدید) پڑھتے ہوئے پہلی بار مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ افتخار جالب نے جو ایک بار فی بطنِ شاعر کی اصطلاح استعمال کی تھی وہ فی بطنِ فکشن نگار کے طور پر بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ محمود احمد قاضی نے اپنے ایک ناولٹ ’ٹلّہ جوگیاں (جدید)‘ کو اس مجموعے کا نام بھی بنایا ہے۔ اور اس کے ساتھ عام قاعدے کے مطابق کتاب کے سرِ ورق پر یہ وضاحت بھی نہیں کی کہ اس میں ایک اور ناولٹ اور ایک افسانہ بھی ہے۔ لیکن اس کی تو ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ اسے (A Trio) بھی قرار دیتے ہیں جس کے معنی: ایک تِگڈَم، یا تین آوازوں میں گانے یا تین سازوں پَر بَجانے کا راگ یا سَہ انتَرے کی تَقسیم بھی لیے جاتے ہیں۔ لیکن وہ جو فی بطنِ افسانہ نگار والی بات ہے وہ ٹلّہ جوگیاں میں نہیں، ’جدید‘ پر اصرار میں چھپی ہے۔ کوئی اسرار ہے جو اس اصرار میں پوشیدہ ہے اور مصنف کہیں اس کی گرہ میں بندھا ہے۔ فکشن کی اصطلاح از خود اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ اسے حقیقت تو سمجھا جائے لیکن تاریخی نوع کی نہیں۔ فکشن وہ متوازی تاریخ اور حقیقت ہے جو غیر تاریخی اور غیر حقیقی اور ہوتے ہوئے بھی ہمیں تاریخ اور حقیقت کے قریب لے جاتی ہے۔ اسی قرب سے اُسے متوازی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ مجھ ایسے عام قاری کے لیے ٹلّہ جوگیاں (جدید) ایک علاقے کا نام ہے جو ناولٹ کے آخر میں ایک تختی کی صورت منکشف ہوتا ہے۔ اس تختی پر کچھ اور بھی لکھا ہوتا تو مجھے کوئی فرق نہ پڑتا۔ نہ تو پڑھے جانے کی قوت کے حوالے سے نہ ہی معنی کے حوالے سے۔ میں تو یہی دیکھتا کہ اس میں نمایاں کرادار معتوب ہیں دوسروں کے بھی خود اپنے بھی۔ ایسا لگتا ہے وہ نہیں بلکہ زندگی انھیں گذار رہی ہے۔ وہ کسی شمار میں نہیں ہیں۔ کوئی انھیں سمجھتا نہیں۔ یہاں تک کہ ماں بیٹے کو اور بیٹا ماں کو نہیں سمجھ پاتا۔ لیکن اس میں تو کوئی ایسی خاص بات نہیں ہے جو اس سے پہلے فکشن میں نہ آئی ہو اور تو اور اردو فکشن میں بھی آئی ہو گی لیکن ایسے نہیں آئی ہو گی جیسے محمود قاضی بیان کر رہے ہیں۔ اس میں تو بیٹا موتیوں کا گجرا لاتا ہے تو ماں ناراض ہو جاتی ہے۔ ان دو ناولٹوں اور ایک افسانے پر مشتمل اس ٹریو کا قضیہ وہ درد ہے جو ان ناولٹوں اور افسانہ، تینوں میں مشترک ہے اور شاید اسی لیے محمود قاضی نے ان تینوں کو وہ راگ قرار دیا ہے جو تین سازوں پر بج رہا ہے۔ ایک بات اور جو ان تینوں میں مشترک ہے وہ کرداروں کا طبقاتی علاقہ ہے، تنویر قاضی کی اس بات سے اختلاف کی گنجائش ہے کہ وہ خطِ غربت سے نیچے کے ہیں۔ وہ نچلے طبقے کے تو ہیں لیکن اتنے پسماندہ ہیں جو پسماندگی کو مقدر کے طور پر ایسے قبول کر چکے ہیں کہ انھیں اپنے آپ پر اصرار کرنے اور ہونے کا خیال تک نہیں آتا۔ اگر تنویر قاضی نہ بھی بتاتے تو بھی پڑھنے والوں کو علم ہو جاتا کہ محمود قاضی وسیع المطالعہ ہیں کیوں کہ خود کو اس کے اظہار سے روک نہیں پائے۔ جب تک مطالعہ محو نہ ہو فکشن کا جن بالعموم قابو نہیں آتا۔ یا پھر فکشن کو مطالعے کی ری کری ایشن پر استوار کیا جا سکتا ہے۔ مجھے یہ تو علم نہیں کہ اس کے علاوہ محمود احمد قاضی کا اور کیا کیا شائع ہو چکا ہے لیکن اس ٹریو کو پڑھ کر یہ پتا چلا ہے کہ ان میں کتنی قوت ہے اور یہی وجہ تکلیف کی بھی ہے کہ انھیں اس قوت کا احساس نہیں ہے ہوتا تو بات ناولٹوں پر نہ رکتی۔ کتاب میں پروفنگ کی معمولی غلطیاں ہیں۔ کتاب اچھی پروڈکشن کا نمونہ ہے۔ قیمت بھی مناسب ہے۔ تانبے کے برتن نام کتاب: تانبے کے برتن مصنف: خالد فتح محمد صفحات 144 قیمت: 250 روپے ناشر: سانجھ پبلیکیشنز، 2/46 مزنگ روڈ، لاہور E-mail:sanjhpks@gmail.com اس کتاب میں اٹھارہ افسانے ہیں جو لگ بھگ ایک سو ستائیس صفحات پر پھیلے ہیں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ صرف ایک افسانہ ذرا طویل یعنی گیارہ صفحے کا ہے باقی سترہ میں ایک چار صفحے کا ہے اور باقی پانچ سے آٹھ صفے کے اور کوئی بھی ایسا نہیں کہ پڑھنے والے کو زیادہ جان مارنی پڑے۔ سب سے زیادہ جان تو پڑھنے والے کو اس کتاب کے دیباچے پر مارنی پڑے گی جو سمیع آہوجہ نے لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے : آئیے، افسانوی بیوٹی پارلر میں گھس کر اک جہانِ دیگر کا نظارہ کرتے ہیں۔ افسانوی خد و خال کو سنوارنے کا بیوٹی پارلر مختلف کریموں اور پاؤڈروں سے بھرا پڑا ہے جو رنگ نکھارنے کے لیے نہیں، اس کی رنگت کو تبدیل کرنے کے لیے ہیں: اسی لیے اس کے ہاں سِریت کی ایک جھلک نے اپنا آنچل پوری فضا پر ڈال کر جو روپ بخشا ہے، وہ وہ تبدیلیِ رنگت کا حربہ چونکانے والے حربے کا جواز بناتا ہے۔ انھوں نے سریت کے پٹ کھول کر جو بتایا ہے وہ آپ کتاب میں پڑھ لیجے گا لیکن میں یہ کہوں گا کہ اس دیباچے کو ہرگز بھی پہلے پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں، پہلے افسانے پڑھیں اور پھر مزا بدلنے کے لیے دیباچہ بھی پڑھ لیں۔ اس دیباچے میں انھوں خالد فتح محمد کے بارے میں وہ باتیں بھی بتائی ہیں جو کتاب میں ویسے نہیں دی گئیں جیسے یہ کہ ان کے افسانوں کا ایک مجموعے ایک سے پہلے بھی آ چکا ہے۔ ان کی زندگی کے اور باب، خاص کر عسکری، کھولنے کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن مجھے سمیع آہوجہ کی یہ چونکانے والی بات کچھ زیادہ بیٹھتی نہیں لگی۔ انداز کھردار بھی نہیں ہے، ہو بھی نہیں سکتا، ذرا طبقہ تو دیکھیں۔ لیکن کچھ باتیں وہ عجیب کرا دیتے ہیں مثلاً ’خانۂ سنگ‘ میں رخشی کا سر منڈوا دیا اور احمد حسن کو ایسا بگھایا کہ نصف صدی گذار دی۔ یہ صرف محلے یا معاشرے کا ڈر تو نہیں تھا، اندر کا تھا، اندر کا تھا تو اس کی کشمکش کہاں چلی گئی۔ مجھے لگتا ہے کہ خالد گہرائی جانتے ہیں لیکن اس میں اترنے پر تیار نہیں ہوتے لیکن بتا ضرور دیتے ہیں اور یہی بات شاید ان سے افسانے لکھواتی ہے۔ انہیں کوئی روگ نہیں جو افسانے یا کہانیاں نہیں لکھیں گے تو ان کا جینا دوبھر ہو جائے گا۔ ساری کہانیاں پڑھنے کی ہیں اور ایسی ہیں کہ ایک ساتھ پڑھنی بھی نہیں چاہیں بالکل اُسی طرح جیسے ایک ساتھ کئی خوشبوئیں نہیں سونگھنی چاہیں۔ کوئی قانونی پابندی تو نہیں لیکن دوسری کے بعد کسی خوشبو کی اصل کا پتا نہیں چلے گا۔ کچہ گلہ شاہد شیدائی سے بھی کر لیں: کہتے ہیں ’افسانے کے زیر نظر مجموعے میں وہ تمام محاسن ہیں جو کسی افسانہ نویس کو منفرد مقام عطا کرتے ہیں۔ انھوں نے کسی بندھے لگے اصول کا تتبع کیے بغیر اپنے افسانوں کو ہئیت، تکنیک اور زبان و بیان کے نت نئے تجربات سے ہم کنار کیا ہے‘۔ مجھے یقین ہے کہ اگر خالد کے افسانے شاہد شیدائی کو نام بتائے بغیر دیے جاتے تو وہ کبھی ایسی باتیں نہ کرتے۔ خالد کے افسانے اچھے ہیں، پڑھنے میں ناگوار نہیں، خالد مزے سے کہانی سناتے ہیں، کیا یہ کم ہے؟ اس کچھ اور ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟ تانبے کے برتن واقعی ایسی کہانی ہے کہ اُسے ٹائیٹل بنایا جانا چاہیے تھا۔ کتاب کی پروڈکشن عمدہ ہے۔ قیمت بالکل مناسب ہے اور مجھے اس کا ٹائٹل خاص طور پر اچھا لگا ہے۔ پانچواں موسم نام کتاب: پانچواں موسم مدیر: ریاض ساغر صفحات: 198 قیمت: 350 روپے ناشر: سانجھ پبلیکیشنز، 2/46 مزنگ روڈ، لاہور E-mail:sanjhpks@gmail.com ریاض ساغر کے اس مجموعے نے میرے لیے آسانی پیدا کردی ہے کیوں کہ اس میں انھوں نے بہت سارے وکیل جمع کر لیے ہیں۔ اس لیے میرے کچھ بتانے کی ذمہ داری کم ہو گئی ہے۔ یہ وکیل بھی ایک پہ ایک ہیں۔ انور شعور، محمد علی صدیقی، سعادت سعید، رشید مصباح، حسنین رضا، افسر منہاس، عابد حسین عابد، غلام حسین ساجد، پروفیسر محمد صفیان صفی، فاضل جمیلی اور دیگر انور شعور کا کہنا ہے: ریاض ساغر شعر و ادب کا عمیق مطالعہ رکھنے والے بہت پختہ شاعر ہیں۔ آپ کی غزلوں میں کلاسیکی رچاؤ بھی موجود ہے اور نئے نئے خیالات بھی انتہائی سلیقے اور ایمائیت کے ساتھ باندھے گئے ہیں۔ محمد علی صدیقی کہہ گئے ہیں: ریاض ساغر جذبے کی سچائی اور فکری گہرائی کے ساتھ شعر کہتے ہیں اور یہ وہ خوبی ہے جو فی زمانہ مفقود ہوتی چلی جا رہی ہے۔ انھوں نے پختہ کاری کی تائید بھی کی تھی۔ سعادت سعید نے بتایا ہے: ’ریاض ساغر کی نظمیں اور غزلیں اپنے معنوی فیبرک کے اعتبار سے عصری اردو نظم کے سیاق و سباق میں موجود انسان شناسی کی گہری روایتوں سے مربوط ہیں۔ ان کے خیال میں غریب دشمنی بدترین انسان دشمنی ہے‘۔ عابد حسین عابد: ریاض ساغر کی شاعری پڑھ کر ہمیں معاشرتی سفاکیوں کے نتیجے میں جنم لینے والی بے بس انسانی زندگی کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ فاختاؤں، پھولوں، سبز جھیلوں، تتلیوں اور نئی صبح کی خواہش میں دن گذارنے والا یہ شاعر انسانی رشتوں کی کمزور پڑتی گرفت پر بہت دکھی ہے۔ غلام حسین ساجد: ریاض ساغر کی شاعری خصوصًا اس کی نظمیں غیر محسوس طور پر ان معاملات سے جڑی ہیں جو آج کے عہد اور طرزِ معاشرت کا خصوصی استعارہ ہیں۔ عدم تحفظ، تنہائی کا دکھ، رومانی پیکار، تعصب اور عداوت کی وسعت پذیری اور اس نوع کے دیگر مسائل اس کی نظموں میں اس طرح اپنے ہونے کی جھلک دیتے ہیں جیسے ان میں اور اس کی شاعری میں ایک سرّی یگانگت فروغ پا چکی ہو۔ پروفیسر محمد صفیان صفی: میری دانست میں سرزمینِ ہزارہ سے قتیل شفائی کے بعد اور کوئی اتنی توانا آواز نہیں ابھری۔ کتاب کے ابتدائی بیس صفحے آرا کے لیے مخصوص ہیں۔ میں اس کے حق میں نہیں ہوں اس لیے کہ یہ طریقہ منفی اثر مرتب کرتا ہے۔ لیکن ریاض ساغر کا مجموعہ پڑھتے ہوئے مجھے لگا ہے کہ وہ 1990 اور 1999 میں اپنی منفرد پہچان بنانے کے بہت قریب تھے لیکن پھر وہ اس انداز کو جاری نہیں رکھ سکے۔ شاید وہ اس پتّہ مارے پر تیار نہیں ہوں گے۔ ان کی 1990 کی غزل دیکھیں: آئینے رکھ دیے گئے دیوار و در کے بیچ دیوار و در کے بیچ، مری چشمِ تر کے بیچ مدت کے بعد آئی تھی اک سانولی سی شام اک سانولی سی شام کہاں ان نگر کے بیچ پہلے مصرے کے آخری ٹکڑے کو دوسرے مصرے میں دہرانا اگر ان کی اپنی اختراع اور ایجاد تھی تو انھیں اسی انداز کو تسلسل دینا چاہیے تھا۔ اسی طرح ان کی نظم شہر آشوب ہے۔ جو انھوں نے 1999 میں کہی تھی: ہر راہ میں حائل ہے ہمارے کوئی دیوار ---------------- دیوار کے اس پار قاتل ہے لیے برچھی، سروہی لبِ سوفار-------------- ہم قتل کو تیار تو یہ انداز، اگر ان کا تھا، تو انھیں اسے قائم رکھنا تھا، اب بھی کر سکتے ہیں۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کسی کے لیے بھی ناخوشگوار نہیں ہو سکتا۔ کتاب بھی بہت اچھی چھپی ہے۔ قیمت انتہائی مناسب ہے۔ لمحۂ موجود نام کتاب: لمحۂ موجود مصنف: فضل احمد خسرو صفحات: 144 قیمت: 250 روپے ناشر: سانجھ پبلیکیشنز، 2/46 مزنگ روڈ، لاہور E-mail:sanjhpks@gmail.com فضل خسرو نے اپنی پچاس سالہ زندگی کا نچوڑ یہ نکالا ہے کہ زندگی اڑنے والی مٹھی بھر ریت ہے وہ صوفیوں اور سادھو سنتوں کی تقلید میں جیون کو مایا قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے میر تقی میر کی طرح درد و غم جمع کیے ہیں۔ دنیا کے وقوعات نے انھیں پریشانیوں میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ پیار اور عشق ان کے آئیڈیلز ہیں۔ انھوں نہ ہر لمحے ٹوٹ کر پیار کیا ہے وہ لال پھریرے لہراتے رہے ہیں انہوں نے جو خواب اگائے ہیں ان کی فصلیں ایک دن ضرور پکیں گی۔ ان کی امید پرست سوچیں انھیں اس امر کا احساس دلا رہی ہیں کہ اگر وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے کام کرتے رہے تو انسانوں سے ان کا غیر مشروط تعلق استوار ہو جائے گااور وہ ان چاہی پریشانیوں سے نجات پالیں گے۔ یہ کسی ستارہ شناس کے نہیں، فضل خسرو کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید کے الفاظ ہیں۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی کا کہنا تھا: ’یوں تو فضل احمد خسرو نے غزل اور نظم گوئی کے ساتھ یکساں طور پر مہارت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ان کی نظم گوئی کا فنِ تعمیر بطور خاص دلکش ہے۔ وہ اپنی نظم میں الفاظ کا انتخاب کفایتِ لفظی کے ساتھ کرتے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ’لمحۂ موجود‘ کی نظمیں بطور خاص متاثر کرتی ہیں۔ ہر چند کہ وہ ادیب کی سماجی ذمے داری کے تقاضوں کے قائل ہیں لیکن وہ اپنے شعری اظہار میں محاسنِ شعری کی اہمیت کا یکساں طور پر خیال رکھتے ہیں۔ لمحۂ موجود ہمارے شعری ادب میں اہم اضافہ ہے۔‘ کتاب میں ان کی سفارش کرنے والے ڈاکٹر روش ندیم بھی ہیں: ان کا کہنا ہے کہ، حسرو: لمحۂ موجود کے منفرد شاعر ہیں۔ یہ کتاب میں شامل ان کی مضمون کا عنوان ہے۔ امید ہے مضمون آپ کتاب میں پڑھ لیں گے۔ شاعری تین طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ جو ماضی کی ہوتی ہے اور حال کی اور مستقبل کی لگتی ہے اور ہوتی بھی ہے۔ دوسری وہ ہوتی ہے حال کی ہوتی ہے اور ماضی کی لگتی، یہی شاعری بالکثرت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں مشاعرے نے اسی شاعری کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تیسری وہ ہوتی ہے جو حال کی ہوتی ہے، حال کی لگتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ماضی کو ہو جاتی ہے۔ فضل خسرو کی شاعری مقصدیت سے لبریز، جوش، ولولے اور نعروں کی شاعری ہے۔ یہ مجمعوں کے لیے اور گانے کے لیے کارآمد ہو سکتی ہے اور اس نوع کے شاعر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جن مسائل نے خسرو کے ذریعے اظہار پایا ہے وہ موجود نہیں ہیں لیکن ان کا جو حل ان کی شاعری میں ہے اس حل کو پیش کرنے والے اب این جی اوز میں چلے گئے ہیں۔ اگر یہی مجموعہ کوئی ستر سال پہلے شائع ہوتا تو اس کو وہ پذیرائی ہوتی کے دیکھنے کے لائق ہوتی۔ اب بھی آپ ان جذبات کی سیر کرنا چاہیں تو ’لمحۂ موجود‘ یقینًا آپ کا مدد گار ہو گا۔
050530_kashmir_sans_frontier
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2005/05/050530_kashmir_sans_frontier
منموہن سنگھ کا بیان: سرحد کے بغیر کشمیر ممکن
انڈیا کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا ہے کہ ’سرحدوں کے بغیر کشمیر‘ کے تصور کی طرف بڑھنا ممکن ہے۔ غیر ملکی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے منموہن سنگھ نے پہلے ان معاملات کو دہرایا جو انڈیا کو منظور نہیں پھر انہوں نے کہا کہ انہیں کشمیر کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم منظور نہیں اور نہ ہی ان کے پاس ایسا مینڈیٹ ہے جس کے تحت اب سرحدیں دوبارہ سے بدلی جاسکیں۔ لیکن جب منموہن سنگھ انُ معاملات کی طرف آئے جو ان کے خیال میں ممکن ہیں تو انہوں نے کئی نئی باتوں کی طرف اشارہ دیا جو انڈیا کے روایتی موقف سے ہٹ کر تھیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان ان باتوں کو سمجھ جائے جو انڈیا کو قبول نہیں تو پھر ’امکانات لا محدود ہیں۔‘
وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا کہ ’ہمارے (پاکستان اور انڈیا) درمیان بہت سی قدریں مشترک ہیں اور ہمیں مل کر ایسے حل کے لئے کوششیں کرنا چاہئیں جس کے تحت ایک ایسے کشمیر کے تصور کی طرف بڑھنا ممکن ہے جس میں ایک طرح سے سرحدیں بے معنی ہوجائے یعنی اس سے کوئی فرق نہ پڑے کہ کوئی سری نگر میں رہ رہا ہے یا مظفر آباد میں۔‘ منموہن سنگھ نے کسی بھی ممکنہ حل کے بارے میں کوئی ٹھوس بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیچیدہ اور تاریخی معاملہ ہے۔ ’امن کا عمل صحیح سمت میں چل رہا ہے اور وہ جنرل مشرف سے مزیر ملاقاتیں کرنے کے خواہاں ہیں۔‘ وزیراعظم منموہن سنگھ کے اس بیان پر کہ بغیر سرحد کے کشمیر ممکن ہے، آپ کا کیا ردعمل ہے؟ خالد محمود، کینیڈا:میرے خیال میں شاید اب وقت آگیا ہے کہ یہ شعبدہ بازی ختم ہوجائے۔ ایک نن۔کشمیری کی کشمیر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ہم لوگوں کو کشمیر سے کیا چاہئے۔ ایک انچ زمین کا ٹکڑا بھی ہم نن۔کشمیری خرید نہیں سکتے وہاں۔ یہی حال ہندوستان میں بھی ہے۔ جب کہ کشمیریوں نے پاکستان اور ہند میں جائیدادیں بنائی ہوئی ہیں۔ مظہر شاداب، ممبئی:منموہن سنگھ کا یہ بیان دونوں ملکوں کے عوام کے لئے کسی خوشخبری سے کم نہیں ہے۔۔۔۔۔ عتیق الرحمان، سرگودھا:پاکستان بنانے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ پاکستان اور انڈیا اپنی سرحدوں پر فوجیں کھڑی کردیں۔ انڈیا کے ساتھ حالات خراب کرنے کی زیادہ ذمہ داری پاکستان کی ہے اور پاکستان کو لچک دکھانی چاہئے۔ ورنہ انیس سو اکہتر میں دو ہوئے تھے، دو پھر کچھ عرصے بعد تین ہوجائیں گے۔ مجھے اور زیادہ نہیں پتہ لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ پاکستانی گورنمنٹ میں موجود لوگوں کو پاکستان سے کوئی سروکار نہیں اور وہ صرف اپنی جیبیں بھر رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب دوبارہ انیس سو اکہتر والا سانحہ ہو۔ اگر کشمیر ایک مشکل ٹاسک ہے تو چھوڑ دیں، باقی پاکستان کی فکر کریں۔ سید رحمان، کینیڈا:یہ مشورہ انڈیا اور پاکستان سے نہیں آیا ہے، یہ انکل سیم (امریکہ) سے آیا ہے۔ مجیب راجہ، سعودی عرب:یورپ اور امریکہ کا بنایا ہوا کشمیر اسٹریٹجی گروپ پہلے سے تیار ایک فارمولے پر کام کررہا ہے جو کہ مکمل ایک خودمختار کشمیر ہوگا۔ انڈین ہیلڈ کشمیر کا ڈیفنس انڈیا کے پاس اور آزاد کشمیر کا ڈیفنس پاکستان کے پاس ہوگا اور اس فارمولے پر دونوں ملک راضی ہیں۔ شعیب، بنوں:کچھ بھی نہیں ہوگا۔۔۔۔ سفید جھوٹ، ڈرامہ نہیں۔ محمد اقلیم، ممبئی:سرحد کے بغیر کشمیر، ناممکن نہیں ہے۔ انڈیا اور پاکستان مقبوضہ کشمیر کو ملاکر ایک کشمیری ریاست بنائی جاسکتی ہے۔ یہ دیگر بات ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہونے تک حکومتی انتظام موجودہ صورتحال کے مطابق چلتا رہے۔ سرحد کے بغیر کشمیر کے بعد امید ہوسکتی ہے کہ سرحد کے بغیر بھارت اور پاک بھی (؟) ہو جائیں اور برصغیر کا یہ خطہ پھر سے ہندوستان بن جائے! گل وہاب، پشاور:اس سے نہایت موزوں وقت پھر کبھی نہیں آسکتا۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ وقت کی آواز سنیں۔ اور وقت کی آواز یہ ہے کہ مسائل کا پرامن حل ہو۔ انتہا پسندی سے کچھ نہیں بنا اب معاشی اور سماجی ترقی کی طرف قدم بڑھانا چاہئے۔ عبدالحنان، فیصل آباد:یہ سب کچھ ڈرامہ ہے۔ اگر انڈیا چاہتا تو اقوام متحدہ کی قرارداوں پر عمل کیوں نہیں کرتا۔۔۔ صغیر راجہ، سعودی عرب:کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ کشمیر کا بیسٹ حل یہ ہے کہ دونوں سائیڈ کے کشمیر کو اقوام متحدہ کی افواج کے حوالے کیا جائے۔ ہند پاک اپنی افواج نکال لیں اور کشمیری کچھ عرصہ سکون کی سانس لیں پھر عالمی افواج کے تحت وہاں رائے شماری کرائی جائے پھر جو نتیجہ آئے اس کو ہند و پاک فراخدلی سے قبول کریں۔ کمال احمد منصور، فیصل آباد:کہاں تک سنوگے، کہاں تک سناؤں ۔۔۔۔۔ عبدالجلیل میر، سعودی عرب:میں اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستان اور انڈیا اپنی افواج کشمیر سے اپنے سرحد پر واپس لے جائیں اور کشمیریوں کو حکومت بنانے کا چانس دیں اور کشمیری پولیس لا اینڈ آرڈر کی ذمہ داری سنبھالے۔ انڈیا اور پاکستان مداخلت نہ کرنے کی گارنٹی بھی دیں۔ محمد زاہد خان، لاہور:بغل میں چھڑی منہ میں رام کے مترادف ہے۔ ان پہلوؤں کے پیچھے چھپے ہوئے خنجر کے دیکھنا ہوگا۔ یا ایسا سمجھ لیں کہ نئے شکاری پرانا جال لے آئے ہیں۔ انجینیئر ایم ندیم اشرف، پاکستان:ہم اپنے کشمیریوں کی قربانی ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ کیوں کہ انہوں نے صرف پاکستان کی خاطر اپنی زندگی قربان کی۔ ان کی زندگیاں اتنی سستی تو نہیں کہ اس معاملے کو سرحدوں کے بغیر حل کیا جائے۔ ہم اتنے خود غرض کیسے ہوگئے کہ ہم اپنے کشمیر بھائیوں کا ساتھ نہ دیں؟ انڈیا کو بھی پتہ ہے کہ کشمیری صرف پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں، انڈیا کو کیا تکلیف ہے؟ اسے پہلے اسٹیٹ ٹیرورزم بند کرنی چاہئے، یہ بہت بڑا دہشت گرد ہے۔ ہم مسلمان ہیں ہم کسی سے نہیں ڈرتے۔۔۔۔ نعیم شیخ، جاپان:ہم اس سے متفق نہیں۔ ہم اپنا کشمیر چاہتے ہیں ایک مسلم ریاست کے طور پر ، پاکستان کے سرحد پر۔ جاوید اقبال ملک، چکوال:یہ سب ٹائم پاسِنگ ہے، ہمارے جنرل صاحب اور مسٹ منموہن بھی کررہے ہیں اور ویسے بھی ایک میان میں دو تلواریں کیا رہ سکتی ہیں؟ کبھی نہیں۔ اور سب سے بڑی بات ہم یہ سب کچھ کس کے لئے کررہے ہیں، جو کہ ہمارے کنٹری میں آنا بھی نہیں چاہتے، جیسےکہ مسٹر گیلانی۔ محمد علی، کیلیفورنیا:مسٹر سنگھ کو سننے کی ضرورت کہ مشرف کیا کہہ رہے ہیں۔ کنفلِکٹ مینجمنٹ کا وقت ختم ہوچکا ہے، کنفلِکٹ ریزولوشن کی ضرورت ہے۔ سکندر بلوچ، بینگ کاک:میرے خیال میں اگر دونوں طرف نیک ارادے کا مظاہرہ کیا جائے تو اب تک کشمیر ایشو حل ہوجاتا۔ لیکن پہلی بات تو دونوں ممالک پرخلوص نہیں، بالخصوص پاکستان اور انڈیا دونوں کی ملٹری نہیں چاہتی کہ یہ مسئلہ حل ہو۔۔۔۔ نعیم انور، مانٹریال:سرحد کے ساتھ یا اس کے بغیر اس مسئلے کا حل کریں اور کشمیریوں کو امن کے ساتھ رہنے دیں۔ اور دونوں ممالک ہتھیار خریدنے کے بجائے فلاح و بہبود کے کام کریں۔ مرسلین نیازی، بیجنگ:انڈین پی ایم کا بیان دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک اسٹریٹجی ہے یہ بتانے کے لئے کشمیر میں امن ہے اور انڈیا کو سکیورٹی کونسل میں مستقل رکنیت ملنی چاہئے۔ اگر انڈیا اپنے ارادوں میں مخلص ہے تو جواہر لعل نہرو کے اس بیان پر چلے جس میں انہوں نے کشمیریوں کو حقِ رائے دہی کی بات کی تھی۔ انڈیا کو کس نے کہا کہ انڈین ہیلڈ کشمیر کو انڈین آئین کا حصہ بنادے؟۔۔۔۔ برحان، بہاولپور:یہ کوئی حل نہیں ہے کہ کشمیر پاکستان کا ہے اور کشمیری پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں۔ عابد رحمان، سویڈن:انڈین پرائم منسٹر کا مشورہ دانش مندانہ لگتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ جموں و کشمیر کے مسئلے کا کوئی حل نکل آئے۔ اس کا حل دونوں ممالک کے فائدے کے لئے ہوگا۔ ساجل احمد، لاس ویگاس:کشمیر کی قسمت کا فیصلہ ہر دفعہ دوسرے ہی کیوں کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ آخر کوئی ان معصوم لوگوں سے بھی تو پوچھے جنہوں نے اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کی جان مال اور عزت کی قربانی دی ہے اور دیتے چلے جارہے ہیں۔ یہ مشرف اور منموہن کون ہیں جو ان کی زندگی کا فیصلہ کرنے بیٹھ گئے ہیں؟ محمد طارق، کینیڈا:لگتا ہے کہ دونوں ملکوں کے سربراہ کھل کر امریکہ کے بتائے ہوئے حل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس طرح کا حل نہ تو پاکستان چاہتا ہے نہ ہی انڈیا بلکہ امریکہ چاہتا ہے۔۔۔۔ اشفاق نظامانی، ٹورانٹو:دور جدید میں سرحدوں کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ مستقبل میں جنوبی ایشیا میں کوئی سرحد نہیں ہونی چاہئے۔ کیوں نہیں؟ جرمنی اور فرانس کے درمیان حقیقت میں کوئی سرحد نہیں ہے، وہ جب چاہیں سفر کرسکتے ہیں۔ یہی بات ہے انگلینڈ، فرانس اور جرمنی کے درمیان۔ یہی وقت کی ضرورت ہے۔ اگر آج کے انڈیا اور پاکستان کے رہنما اقدام نہیں کریں گے اور تاریخ میں اپنا نام رقم نہیں کرائیں گے، تب بھی مستقبل کے دوسرے رہنماؤں کی یہی کرنا پڑے گا۔ زین عابدین، میشیگان، امریکہ:یہ ایک خوشی کی بات ہے، کم از کم ہندوستان نے اسے ایک مسئلہ تو مان لیا۔ پہلے ہندوستان اٹوٹ انگ سے آگے کچھ کہنے کو تیار نہیں تھا۔ جمیل اختر بشیر، یو کے:کشمیر پر پہلے ہی انڈیا اور پاکستان کی فوجی حکومت کے درمیان ڈیل ہوچکا ہے۔ انڈیا ایک جمہوریت ہے اور وہ اپنے عوام کی خواہشات کے خلاف فیصلہ نہیں کرسکتا، جبکہ فوجی حکومت کسی کو جوابدہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کو کچھ حاصل نہیں ہوگا اور انڈیا کو سب کچھ ملے گا۔ آخر میں اگر اس ڈیل کے نتائج ٹھیک نہیں رہے جیسا کہ افغانستان میں ہوا تھا، تو فوجی الیٹ تو بچ جائیں گے، لیکن کٹھ پٹلی سیاست دانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ علی چشتی، کراچی:ہم سب جانتے ہیں کہ انڈیا کیا چاہتا ہے۔ انڈیا حقیقت میں آزاد کشمیر چاہتا ہے۔۔۔۔ محمد فدا، کینیڈا:وہ اسے ایک انٹرنیشنل ایریا بنانا چاہتے ہیں جسے جوئانٹ کمیشن یا اقوام متحدہ مینیج کرے؟ لگتا تو نہیں ہے کہ یہ انڈو پاک طریقہ ہے کام کرنے کا۔۔۔۔ محمد ارشد، جھنگ:بھارتی وزیر اعظم کے بیان سے لگتا ہے کہ مستقبل میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کوئی سرحد نہیں ہوگی۔ یہ بات تو نظریہ پاکستان کے خلاف ہے اس لیے بغیر سرحد کے کشمیر کا تصور ناممکن ہے۔ جمیل شیخ، ایٹلانٹا، امریکہ:مسٹر سنگھ کا بیان کشمیر کے حل کی طرف ایک قدم ہے۔ ہم سب کو اس کی تائید کرنی چاہیے۔ سرحدیں تو ویسے بھی صرف غریب لوگوں کے لیے ہیں۔اگر اس مسئلہ کشمیر کو حل کر لیں تو انڈیا اور پاکستان بہت ترقی کریں گے۔ جو پیسہ فوج پر خرچ ہو رہا ہے وہ دونوں ملکوں کے عوام پر خرچ ہوگا۔لیکن پاکستانی فوج کبھی مسئلہ کشمیر کو حل نہیں کرے گی کیونکہ اس طرح اس کی روزی ماری جائے گی۔ اعظم شہاب، ممبئی، انڈیا:انڈیا اور پاکستان کے عوام ایک ہیں، ان کی قدریں مشترک ہیں، ان کی تہذیب اور ثقافت ایک دوسرے سے ملتی ہے تو پھر یہ کیوں ممکن ہوکہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے سے دور رہیں۔ انڈیا اور پاکستان کو اپنے عوام کی خواہشات کے مطابق کشمیر کا مسئلہ حل کرنا ہوگا چاہے وہ استصواب رائے کے ذریعے ہویا بغیر سرحد کے کشمیر کے فارمولے کے ذریعے۔ منموہن سنگھ نے یہ فارمولا پیش کرکے اپنے ملک کے عوام کی ترجمانی کی ہے۔ اب مشرف صاحب کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے۔ سعدیہ سلمٰی، لندن:سرحد کے بغیر کشمیر ملے نہ ملے اس قسم کی باتیں ضرور سننے کو ملیں گی۔ عطاءالرحمٰن، راولپنڈی:اگر انڈیا سیرئس ہو گیا ہے تو اب پاکستان کو بھی قدم بڑھاناچاہیے کیونکہ فاصلہ کتنا ہی طویل ہو شروع ایک قدم سے ہی ہوتا ہے۔ ویسے بھی ہم آدھی عمر تو لڑ کرگزار چکے ہیں، اس میں نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ملا اب باقی کی دوست بن کے گزارنی چاہیے۔ سید الطاف حیدر، مردان:کرو کچھ نہ، محض مصروف نظر آؤ۔ محمد علی مہر، ہیوسٹن، امریکہ:میری ناقص رائے کے مطابق صرف وہی حل سب کوقابل قبول ہونا چاہیے جو کشمیریوں کو قبول ہو۔ میرا خیال نہیں کہ کسی دوسرے کشمیریوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق ہے۔ زاہد رانا، گجرانوالہ:یہ سب ڈرامہ ہے۔ اگر انڈیا کشمیر پر کچھ کرنا ہی چاہتا ہے تو پھر اسے یو این او کی قراردادوں کے مطابق ریفرنڈم کرکے کشمیر کا حل کشمیریوں کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہئے۔۔۔۔۔ سرفراز علی، لندن:چونکہ انڈیا ایک ڈیموکریٹِک ملک ہے اس لئے وہاں کے رہنما اپنے عوام کی رائے کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاسکیں گے۔۔۔۔ راحت ملک، نصیرآباد:جتنی کشیدگی رہی ہے پاکستان اور انڈیا میں اس کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ منموہن سنگھ کا بیان خوش آئند ہے۔ اس سے کم از کم دونوں طرف کے عوام کو یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ کشمیر کا مسئلہ متنازعہ ہے، اس کا حل آسان ہوتا نظر آرہا ہے۔ قیصر چشتی، انگلینڈ:انڈین وزیراعظم نے واضح طور پر پاکستان کو بتایا کہ کوئی حقیقی حل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ میکسیمم آٹونامی کشمیر کو دیں گے جب تک اقوام متحدہ کے سکیورٹی کونسل میں ویٹو نہیں مل جاتا۔۔۔۔۔ یاسر ممتام، رینالہ خرد:دل کے بہلانے کو غالب خیال اچھا ہے۔۔۔۔ شیخ محمد یحیٰ، کراچی:کشمیر نہ پاکستان کا تھا، نہ ہی ہوگا۔ بس سروس ہو یا سرحدیں کھولنے کی بات یہ سب کشمیریوں اور پاکستانیوں کو لالی پاپ دینے کے مترادف ہے۔ ندیم سلیمی:ویل، آپ کہاں تک جائیں گے؟ پہلے کشمیر میں کسی سرحد کی بات نہیں، اور بعد میں ہو برصغیر میں سرحد ہٹانے کی بات بھی کرسکتے ہیں۔ میں مسئلے کے حل کے خلاف نہیں ہوں، لیکن اس کی حدود محدود کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ کہاں تک جاسکتے ہیں۔۔۔۔ گل انقلابی سندھی، دادو:کشمیر کا انڈیا سے تعلق نہیں، پاکستان سے بھی اس کا تعلق نہیں۔ کشمیر کو صرف کشمیر ہی رہنے دیں۔۔۔۔ غماز، لندن:انڈیا کو حقیقت کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہے۔کشمیری انڈیا کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ میرے خیال میں منموہن سنگھ کا موقف صحیح ہے۔ اگر انڈیا اس تنازعے کو حل کرنا چاہتا ہے تو کشمیر کوئی ایشو ہی نہیں ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ یہ قدم صحیح سمت میں ہے۔ فدا محمد، امریکہ:انڈیا ایک سینٹی میٹر بھی مشرف کو نہیں دے گا۔ مشرف کے دور حکومت میں پاکستان ایک سیٹیلائٹ کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ ایچ حسین، یو کے:میرے خیال میں پاکستانی انتظامیہ کو اس بھارتی موقف میں لچک کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ گولڈن چانس ہے دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان مسائل کے حل کے لئے۔
pakistan-50014358
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50014358
فواد چوہدری کے ٹویٹ پر ردِ عمل: ’پولیس کے ناکوں سے کیسے چھٹکارا پایا جائے؟ آپ کی تکنیکی تجاویز درکار ہیں‘
اب ایسا تو کم ہی ہوتا ہے کہ کسی حکومت کا کوئی وزیر ہم آپ سے کسی بڑے یا اہم فیصلے کے لیے رائے مانگے، نہیں؟ اکثر اوقات تو پالیسیز طے کرنے کے بعد عوام کو بتایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جمہوریت کا مطلب ہی یہی ہے، کہ عوام اپنے نمائندے منتخب کرے اور پھر ایسے کام ان پر چھوڑ دیے جائیں۔ آخر معاشرے کو درپیش مسائل کے بارے میں سوچنے اور انہیں حل کرنے کے لیے ہی تو انہیں منتخب کیا جاتا ہے۔
شہروں میں پولیس کے ناکے نہ ہوں تو اور کیا ہو؟ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کو آپ کے آئیڈیاز درکار ہیں! لیکن پھر بھی، ذرا سوچیں، اگر کوئی حکومتی اہلکار، بلکہ اہلکار ہی نہیں وزیر آپ سے پوچھے کہ بھائی پولیس ناکے کیسے ختم کیے جائیں؟ تو آپ کیا کہیں گے؟ اگر آپ سے کسی وجہ سے مِس ہو گیا تو یہ دیکھیں، سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چوہدری کا ٹویٹ۔ اس میں وہ کہہ یہ رہے ہیں کہ پولیس ناکوں کو ختم کیسے کیا جائے۔ جو بھی حل تجویز کریں وہ ٹیکنالوجی پر مبنی ہونا چاہیے اور اگر یہ حل آپ نے ان تک اگلے 3 ہفتے میں پہنچا دیا تو آپ کو بیس لاکھ روپے انعام بھی ملے گا! اب ظاہر ہے ٹویٹ پر ردعمل تو آنا ہی تھا۔ یہ ٹویٹ چند ہی گھنٹوں میں، یہ الفاظ لکھنے تک ایک ہزار بار ری ٹویٹ ہو چکی ہے اور اسے ہزاروں لائکس حاصل ہوئے ہیں۔ نہ نہ ناکہ؟ کچھ کو وزیر صاحب کا انداز اور کچھ کو اقدام بہت پسند آئی، جیسے مصنف فوزیہ بھٹی نے لکھا کہ ’واہ! کیا بہترین آئیڈیا ہے! ناکوں کو پوری طرح ختم کرنے کا!‘ اسی طرح صحافی اجمل جامی نے لکھا، ’یہ بہترین اقدام ہے چوہدری صاحب، مجھے یقین ہے کہ آپ کو منفرد آئیڈیاز ملیں گے!‘ کچھ لوگوں نے آئیڈیاز بھی دیے، جیسے ’نیا پاکستان‘ کے نام سے ایک صارف نے لکھا، ’سی سی ٹی وی کو بہتر بنائیں اور ان کی تعداد بڑھائیں۔ ہمارے پاس سوشل میڈیا پر ’ویلی‘ عوام ہیں جو انہیں لائیو مانیٹر کر کے کوئی بھی مسئلے پولیس سٹیشن میں رپورٹ کر سکتے ہیں۔ اور میرے انعام کی رقم پنجاب پولیس میں لگا دیں!‘ کچھ نے تنقید کی، جیسے کہ ’کشمیر کال‘ کے نام سے ایک صارف نے لکھا، ’میں خود بیس لاکھ اس وزیر کو دوں گا جسے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا آتا ہو۔ یا پھر مجھے بجٹ دیں، ایک نیا پولیس کلچر، جو ٹیکنالوجی کے ذریعے کنٹرول ہو اور پنجاب بھر میں سیف سِٹیز! آپ کے پاس اب بھی 4 سال ہیں!‘ اور کچھ کو صرف ہنسی آئی!
071026_legal_notice_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/10/071026_legal_notice_fz
’ہرجانہ ادا کریں اور معافی مانگیں‘
پاکستان پیپلز پارٹی کی چئرپرسن بینظیر بھٹو کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم کو ایک قانونی نوٹس جاری کیا ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ بینظیر بھٹو پر کرپشن کا الزام عائد کرنے پر معافی مانگیں اور ہرجانہ ادا کریں یا عدالتی چارہ جوئی کا سامنا کریں۔
فاروق ایچ نائیک نے بی بی سی کو بتایا کہ ارباب غلام رحیم نے گزشتہ روز پریس بریفنگ کے دوران بینظیر بھٹو پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ایک ارب روپے کی کرپشن کی ہے جس پر بینظیر بھٹو کی جانب سے انہوں نے جمعہ کو یہ قانونی نوٹس وزیر اعلیٰ کو بھیجا ہے جو انہیں سنیچر تک وصول ہوجانا چاہیے۔ ’ہم نے لیگل نوٹس میں ان سے کہا ہے کہ بینظیر نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان پر اب تک کوئی الزام ثابت ہوا ہے اور یہ الزام جھوٹا ہے جس کا مقصد انہیں بدنام کرنا ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ قانونی نوٹس میں وزیر اعلیٰ سے کہا گیا کہ وہ ایک پریس بریفنگ کرکے اپنے اس بیان پر معافی مانگیں کہ انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا اور دس کروڑ روپے کا ہرجانہ دیں جو خیراتی اداروں میں تقسیم کیا جائے گا بصورت دیگر ان کے خلاف عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ خودکش حملہ پیسے دیکر نہیں کرایا جاسکتا بلکہ یہ جذبے کے تحت کیا جاتا ہے۔ ان کے اس بیان پر پی پی پی نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں برطرف کیا جائے اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں جیل بھیجا جائے۔ تاہم فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ کو قانونی نوٹس صرف اس بیان کی بناء پر بھیجا گیا ہے جس میں انہوں نے بینظیر پر کرپشن کا الزام لگایا ہے۔ واضح رہے کہ ارباب غلام رحیم 1993ء سے 1996ء تک پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے جب پی پی پی برسراقتدار تھی تو اس وقت وہ پارٹی کے پارلیمانی سیکریٹری تھے۔
080206_khi_election_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/02/080206_khi_election_zs
’اپوزیشن مفاہمت سیاسی نقشہ بدل سکتی ہے‘
کراچی میں اٹھارہ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے سلسلے میں جہاں ماضی میں بھاری اکثریت سے جیتنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ میدان میں ہے وہاں اس کی حریف جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ نون اور جمعیت علماء اسلام (ف) بھی مدمقابل ہیں اور جوں جوں انتخابات قریب آ رہے ہیں ان جماعتوں کی انتخابی مہم میں بھی تیزی آتی جارہی ہے۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین لندن سے براہ راست انتخابی جلسوں سے تفصیلی خطاب کررہے ہیں تو دوسری جماعتوں کے امیدواروں کا زیادہ تر زور کارنر میٹنگز پر ہے۔ مقابلے میں شریک ہر جماعت ہمیشہ کی طرح یہی کوشش کررہی ہے کہ وہ اپنے سیاسی مؤقف اور منشور سے لوگوں کو آگاہ کرے اور انہیں اٹھارہ فروری کو ووٹ ڈالنے کے لیےگھروں سے نکلنے پر آمادہ کرے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں عام انتخابات کا منظرنامہ ماضی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ شہر پر دو عشروں سے راج کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ کی روایتی حریف جماعت اسلامی میدان میں نہیں اور تجزیہ کاروں کے بقول یہ فرق شہر کے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ شہر میں قومی اسمبلی کی بیس اور صوبائی اسمبلی کی بیالیس نشستیں ہیں اور پچھلے پانچ انتخابات میں ایم کیو ایم سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرتی آرہی ہے۔ سنہ 2002 کے انتخابات میں ایم کیوایم نے قومی اسمبلی کی بارہ اور صوبائی اسمبلی کی اٹھائیس نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ایم ایم اے نے جس میں جماعت اسلامی شامل تھی، قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلی کی چھ نشستیں حاصل کی تھیں۔ تجزیہ کار پروفیسر توصیف احمد کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے خود کو انتخابی میدان سے باہر رکھنے کے فیصلے سے ایم کیو ایم کو فائدہ پہنچے گا۔ان کا کہنا ہے’ کراچی کے سابق ضلع وسطی اور شرقی میں جماعت اسلامی روایتی طور پر متحدہ سے مقابلہ کرتی تھی اور اس نے ایم ایم اے پلیٹ فارم سے 2002ء کے انتخابات میں ان اضلاع میں نشستیں بھی حاصل کی تھیں تو وہاں جماعت اسلامی کے دستبردار ہونے سے ایم کیو ایم کو ایک واک اوور ملا ہے‘۔ صحافی اسلم خواجہ اس بات سے متفق نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان حلقوں میں جہاں پچھلے انتخابات میں ایم ایم اے نے کامیابی حاصل کی تھی اور جہاں پیپلز پارٹی کا ایم ایم اے یا ایم کیو ایم سے مقابلہ رہا تھا وہاں اس مرتبہ پیپلز پارٹی کی فتح کا امکان زیادہ ہے۔ ان کے مطابق’ایک تو بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی کو ہمدردی کے ووٹ ملیں گے دوسرا اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ کراچی کے مختلف حلقوں میں روایتی طور پر ایم کیو ایم کی ووٹر نہ ہونے والی برادریاں اس مرتبہ جماعت اسلامی کی عدم موجودگی میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں‘۔ جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کے بعد جے یو آئی نے اس بار شہر کی بعض نشستوں پر عوامی نیشنل پارٹی اور ایک نشست پر مسلم لیگ قاف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی صرف ایک ایک نشست پر ہی مفاہمت کی ہے۔ پروفیسر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ اگر حزب اختلاف کی جماعتوں نے مزید حلقوں میں بھی مفاہمت کی تو انتخابی نتائج بدل سکتے ہیں ورنہ نہیں۔’پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نون اور عوامی نیشنل پارٹی کے درمیان اگر زیادہ حلقوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوگئی اس صورت میں تو کراچی میں انتخابات کا نقشہ وہ نہیں ہوگا جو 2002ء میں تھا لیکن اگر یہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ ہوئی تو انتخابات کے نتائج پر بہت کم فرق پڑے گا لیکن ان سب باتوں کا انحصار آنے والے دنوں پر ہے‘۔ کیا حزب اختلاف کی جماعتیں بھی یہی سوچ رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے صدر راشد ربانی کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ان کی جماعت کے مسلم لیگ نون، اے این پی سمیت مختلف جماعتوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے بات چیت جاری ہے اور بینظیر بھٹو کے چہلم کے بعد مزید حلقوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹس کا امکان ہے۔ دوسری طرف تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے دن لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کے لیے بھی محنت کرنا ہوگی کیونکہ ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال اور خاص کر بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد لوگوں میں عدم تحفظ اور بیگانگی کا احساس بڑھا ہے جس کی وجہ سے انتخابات کے دن غالب امکان یہ ہے کہ لوگ بہت کم تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیےگھروں سے نکلیں۔
081012_briefing_security_as
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/10/081012_briefing_security_as
سکیورٹی بریفنگ، دوبارہ شروع
قومی سلامتی کے امور پر ارکان پارلیمنٹ کی بریفنگ کے لیے بلائے جانے والے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس تین روز کے وقفے کے بعد سوموار کے روز سے دوبارہ شروع ہو رہا ہے۔ یہ اجلاس جمعرات تک جاری رہنے کی توقع ہے جس میں قبائلی علاقوں کی صورتحال اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں حکومتی پالیسی پر ارکان پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
ارکان پارلیمنٹ کے لیے قومی سلامتی سے متعلق امور پر اس بریفنگ کا اہتمام صدر مملکت آصف علی زرداری کی ہدایت پر کیا گیا ہے۔ اجلاس کے پہلے مرحلے میں پاک فوج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹنٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کی تفصیل سے ارکان پارلیمنٹ کو آگاہ کیا تھا۔ ویڈیو فلمز اور سلائیڈز کے ذریعے دی جانے والی اس بریفنگ میں فوجی آپریشن اور مسلح شدت پسندوں کی کارروائیوں کے بارے میں ارکان کو آگاہ کیا گیا تھا۔ پارلیمنٹ کے اس خصوصی اجلاس کے آغاز ہی میں سپیکر قومی اسمبلی نے تمام حاضرین سے رازداری کا حلاف لیا تھا لہذا اجلاس کی کارروائی کے بارے میں مستند حقائق تو دستیاب نہیں ہو سکے تاہم کہا جاتا ہے کہ اس بریفنگ کا سب سے نمایاں پہلو وہ مبینہ حقائق تھے جو شدت پسندوں کے خودکش حملوں کے پیچے کارفرما حکمت عملی اور عزائم سے متعلق ہیں۔ اس مفصل فوجی بریفنگ کے بارے میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے قومی سلامتی کے امور کو محض فوجی آپریشن کی تفصیل تک محدود کر دینے پر احتجاج کرتے ہوئے اجلاس کے دوسرے دن سوال و جواب کے سیشن میں حصہ نہیں لیا تھا۔ مسلم لیگ نواز اور حزب اخلاف کی دیگر جماعتوں کے مطالبے پر حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی پہلے سے طے شدہ کارروائی میں ترمیم کرتے ہوئے سوموار کے روز ارکان کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں حکومت کی پالیسی اور حکمت عملی پر بریفنگ کا انتظام کیا ہے۔ پالیسی معاملات پر اس جامع بریفنگ کے بعد ارکان پارلیمنٹ کو اس پر بحث کا موقع دیا جائے گا اور ملک کو درپیش سنگین داخلی مسائل پر انکی تجاویز طلب کی جائیں گی۔ جمعرات کے روز اس مشترکہ اجلاس کے اختتام کے موقع پر پارلیمنٹ کی جانب سے متفقہ قرارداد سامنے آنے کی توقع ہے جسکے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی خصوصی کمیٹی مستقبل میں اس قرارداد پر عملدرآمد کا جائزہ لے گی۔ ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ اس اجلاس میں مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف اور مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین بھی خصوصی دعوت پر شریک ہیں جبکہ انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی جماعتوں کے رہنماؤں قاضی حسین احمد، عمران خان، محمود خان اچکزئی اور عطاللہ مینگل نے اجلاس میں شرکت کے لیے دی جانے والی دعوت کو مسترد کر دیا تھا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر وفاقی دارالحکومت میں سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے ہیں اور پارلیمنٹ جانے والی تمام شاہراہوں کو عام ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
151227_baat_se_baat_wussat_sh
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/12/151227_baat_se_baat_wussat_sh
بی بی کا پہلا خط
میرے پیارے جیالو اور جانثارو سلام،
پیارے جیالو اور سرفروشو! مجھے اپنے قاتلوں کے نام جاننے میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی میں تم سب سے معافی مانگنا چاہتی ہوں کہ آٹھ سال بعد پہلا خط لکھ رہی ہوں۔ اب یہ بتانے کا تو کوئی فائدہ نہیں کہ میں نے کتنی بار سوچا ہوگا، قلم اٹھایا ہوگا اور رکھ دیا ہوگا۔ یہاں زمین کے برعکس سکون ہی سکون ہے۔ زندگی دیکھنے میں ہر طرح سے خوبصورت ہے۔ پاپا اور ماں ساتھ والے کاٹیج میں ہیں۔ شاہنواز بھی انہی کے ساتھ رہتا ہے۔ مرتضی کا کاٹیج کچھ فاصلے پر ہے۔ ویسے وہ یہاں بھی کم کم نظر آتا ہے۔ ہمارے پچھلی طرف ان جیالوں کے لائن سے گھر ہیں جو 18 اکتوبر 2007 کو یہاں پہنچے یا پھر 27 دسمبر کو میرے ساتھ ہی چلے آئے ۔ حالانکہ یہاں کسی بھی طرح کے مسائل نہیں جو زمین پر ہم لوگوں کی زندگی کا حصہ تھے۔ مگر عادت سے مجبور جیالوں کو کون سمجھائے۔ بہانے بہانے رضوان سے چھپ کر کوئی نہ کوئی میٹنگ کر ہی لیتے ہیں۔ میں بھی دل رکھنے کے لیے اکثر چلی جاتی ہوں مگر جب سے میں آئی ہوں پاپا دو ایک بار کے بعد کبھی نہیں گئے۔ پاپا کو ماں نے شاید گھر میں زیادہ رہنے کی عادت ڈال دی ہے یا کبھی دونوں گھر سے نکلتے بھی ہیں تو سامنے کے باغ میں اپنی فیورٹ بنچ پر بیٹھ کر دیر تک پرندوں کی آوازیں سنتے اور ایک دوسرے کو تکتے رہتے ہیں۔ اکثر سوچتی ہوں کیا یہ وہی پاپا ہیں جو زمین پر ایک پل بھی چین سے نہیں بیٹھتے تھے اور دو ڈھائی گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتے تھے۔ گڑھی خدا بخش، لاڑکانہ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں، پاپا اور ماں جب بھی مل بیٹھتے ہوں گے تو پاکستان کے حالات ڈسکس کرتے ہوں گے۔ کاش ایسا ہوتا مگر ایسا بالکل نہیں۔ ماں کو تو خیر نیچے کی زندگی کا کچھ یاد ہی نہیں البتہ پاپا سے جب جب پارٹی یا پاکستان کی بات کرنے کی کوشش کی تو فوراً چہرہ سپاٹ اور کان سرخ ہو جاتے۔ کون سی پیپلز پارٹی؟ میرے پاکستان کے تو سب لوگ یہاں ہیں۔ کون ہے جو اب تک زمین پر رہ رہا ہے؟ میں نے کئی بار وضاحت کے لیے منہ کھولنا چاہا پر نہیں کھلا۔ پچھلے ہی دنوں قاضی سلطان بھی یہاں پہنچا ہے۔ اب تک قاضی نے جو جو بتایا ہے اس کے بعد دل چاہتا ہے کچھ دن کے لیے ہی سہی مگر ایک بار پاکستان جاؤں۔ یہ ہو نہیں سکتا کیونکہ رضوان بھی اب میری سیکورٹی کی ضمانت دینے کو تیار نہیں۔ پیارے جیالو! جہاں میں ہوں وہاں کوئی رونا نہیں جانتا۔ مگر یہاں مامور فرشتے شاید مجھ سے یہ صلاحیت واپس لینا بھول گئے۔ اس لیے جب بھی رونے کو جی چاہتا ہے کمرہ بند کرلیتی ہوں تاکہ یہ راز بھی میرے یہاں تک پہنچنے کے راز کی طرح راز ہی رہے۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ میں تمہاری طرف سے غافل نہیں البتہ جیسی بے حسی پارٹی پر چھا گئی ہے اس کو دیکھ کر کبھی کبھی سناٹے میں ضرور آجاتی ہوں۔ پھر سوچتی ہوں ایسی خبریں تو آتی ہی رہیں گی۔ دل پر لے کر اپنا وقت اور موڈ کب تک برباد کیا جائے۔ پاپا کو ماں نے شاید گھر میں زیادہ رہنے کی عادت ڈال دی ہے زندگی ہو کہ پارٹی یا ایک خوبصورت مستقبل کی جدوجہد۔ تینوں کا حسن یقین سے بھرپور لوگوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب یقین ہی اٹھ جائے تو کیسی زندگی، کیسی پارٹی اور کون سی جدوجہد۔ مجھے بالکل حیرت نہیں کہ میرے یہاں آنے کے بعد سے پیپلز پارٹی ایک فرنچائز بن چکی ہے۔ سنا ہے اب کوئی بھی سب سے اونچی بولی دینے والا یہ فرنچائز لے سکتا ہے۔ شاید اب یہ پارٹی نہیں وہ مزار ہے جس کے زائرین کی دیکھ بھال سے بے نیاز متولی بس صاحبانِ مزار کے نام پر عقیدت مندوں سے رقم بٹورنے میں لگے ہیں۔ جس کے ہاتھ جو بھی آجائے۔ دکھ بس اتنا ہے کہ یہ متولی آج بھی پاپا اور میرا نام اپنے کاروبار میں استعمال کر رہے ہیں۔ پیارے جیالو اور سرفروشو! مجھے اپنے قاتلوں کے نام جاننے میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ پتہ چل بھی جائے تو مجھے کیا فرق پڑے گا۔ مگر افسوس ہے کہ آپ کے ارمانوں کا نیلام بھی اب ہمارے ناموں پر ہو رہا ہے۔ جبکہ ہم نے تو ان ارمانوں کو پروان چڑھایا تھا۔ کوشش کروں گی اگلے خط میں بہت سی اچھی اچھی باتیں کروں۔ مگر کیا کروں۔ آخر ہوں نا بھٹو کی بیٹی۔ جذباتیت ورثے میں ملی ہے۔ پھر بھی کوشش کروں گی جذبات سے عاری ہونے کی۔ نئے سال میں تم سب کی خوشیوں کے لئے دعاؤں کے ساتھ، تمہاری بے نظیر بی بی بھٹو
world-51200748
https://www.bbc.com/urdu/world-51200748
#PakistanAtDavos2020: وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں ’جب مشکل ہو تو نہ اخبار پڑھیں اور نہ ہی شام کو ٹی وی ٹاک شوز دیکھیں‘
سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ناشتے کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کو درپیش بڑے معاشی چیلنجز سے نکالنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
عمران خان نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز پر تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کو کرکٹ کریئر کے آغاز میں ہی پہلے ٹیسٹ میچ سے ڈراپ کر دیا گیا تاہم انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی منزل حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ عمران خان کے مطابق بہت اہلیت والے لوگ موجود ہوتے ہیں لیکن سہل پسندی تباہ کن ہوتی ہے۔ عمران خان کے مطابق ان کو ڈراپ ہونے کی وجہ سے بہت طنز کا سامنا رہا لیکن انھوں نے جدوجہد جاری رکھی۔ وزیر عمران خان نے شرکا کو تفصیل سے اپنے فلاحی منصوبوں اور پھر سیاسی کریئر سے متعلق بتایا۔ وہ 47 منٹ جاری رہنے والی تقریب میں وہ خود ہی گفتگو کرتے رہے۔ جیسے کلاس میں لیکچر دیا جا رہا ہو۔ ان کی گفتگو کو غور سے سننے والے شرکا نے ان سے سوالات بھی کیے۔ انھوں نے شوکت خانم ہسپتال اور میانوالی میں نمل کالج کا بھی ذکر کیا جس کا الحاق برطانیہ کی بریڈ فورڈ یونیورسٹی سے ہے اور وہاں 80 فیصد طلبا اردو میڈیم سکول سے آتے ہیں۔ عمران خان ایک سیاستدان عمران خان نے کہا کہ ان کے سیاسی سفر کے دوران بھی انھیں بڑے طنز کا سامنا رہا۔ تاہم انھوں نے مشکل صورتحال کا اعتراف کرتے ہوئے یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ کرکٹ کے دنوں کی طرح اپنے وزرا کو بھی یہی فارمولا بتاتے ہیں کہ جب مشکل ہو تو پھر نہ اخبار پڑھیں اور نہ شام کو ٹی وی پر ٹاک شوز دیکھیں۔ عمران خان نے حکومت پر تنقید کے پس منظر میں کہا کہ انھوں نے بس اپنی چمڑی مزید موٹی کرلی ہے۔ ان کے بقول وہ 40 سال سے عوام کی نظروں میں ہیں اور تنقید کا بھی سامنا کرتے آئے ہیں۔ ان کے اس فارمولے پر شرکا ہنس پڑے تو انھوں نے کہا کہ وہ سنہ 1960 کی دہائی میں بڑے ہوئے جب دنیا کی نظر میں معاشی ترقی کرنے والے پاکستان کی بڑی قدر تھی۔ ان کے مطابق جب ایوب خان امریکہ گئے تو خود امریکی صدر استقبال کے لیے ایئرپورٹ گئے۔ عمران خان ایک حکمران وزیر اعظم عمران خان نے حکومت میں گزرے والے سال کو اپنی زندگی کا مشکل ترین سال قرار دیا۔ مشکلات اور چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی بھی خوب خبر لی۔ ان کے مطابق یہ ان کی سیاست میں بڑی کامیابی تھی کہ وہ دو جماعتی نظام کا حصار توڑنے میں کامیاب ہوئے اور اپنی جماعت کو اقتدار کی مسند تک پہنچایا۔ انھوں نے برطانیہ اور امریکہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ کسی تیسری جماعت کا ان دو ترقی یافتہ ممالک میں بھی اقتدار کی جنگ میں شامل ہونا انتہائی مشکل ہے لیکن وہ دو جماعتی پارٹنرشپ پاکستان میں توڑنے میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے ماضی میں فوج اور سیاسی جماعتوں کی رساکشی اور اقتدار کے لیے ’میوزیکل چیئر‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان آج قرضوں کی دلدل میں ہے۔ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے بڑھتے جا رہے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کا وژن پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا ہے۔ جہاں ہر کوئی ترقی کر سکے، میرٹ کا ایک نظام ہو جس سے غربت کا خاتمہ کیا سکے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں ملائشیا کے حکمران مہاتیر محمد کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بھی اپنی عوام کو صبر کرنے کا کہا تھا اور یہی بات وہ بھی کہتے ہیں کہ تبدیلی آنے میں کچھ وقت ضرور لگے گا۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہم جنت میں تو جانا چاہتے ہیں لیکن مرنا نہیں چاہتے، جس پر شرکا بھی ہنس پڑے۔ اس کے بعد عمران خان خود ہی بولے اور کہا کہ شاید یہ اچھی مثال نہیں ہے۔ پھر انھوں نے کہا کہ ٹیومر کو کاٹے بغیر کینسر کا علاج ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے احساس پروگرام کا ذکر کیا جو دیہی علاقوں کی خواتین کی بہتری کے لیے بھی لائحہ عمل دیتا ہے۔ عمران خان پاکستان کے صنعتی شعبے اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا اور شرکا کو بتایا کہ سوئٹزرلینڈ جو ہر سال سیاحت میں 80 ہزار ڈالر کماتا ہے پاکستان سیاحت کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ انھوں نے خاص طور پر گلگلت بلتستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ علاقے یہاں سے دگنا خوبصورت ہیں۔ ’پاکستان کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا‘ اس سے قبل سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں جاری عالمی اقتصادی فورم کے 50ویں سالانہ اجلاس کے خصوصی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ انھوں نے کہا کہ معیشت کی ترقی کے لیے امن اور استحکام کی ضرورت ہوتی ہے مگر نائن الیون کے واقعے کے بعد خطے میں ہونے والی جنگ کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد ان کا دو ٹوک فیصلہ تھا کہ پاکستان کسی اور تنازع کا حصہ نہیں بنے گا اور صرف امن کی خاطر اتحادی بنے گا۔ پاکستان کے عالمی کردار اور سفارتی کوششوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم نے 'سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی، اور امریکا اور ایران کے درمیان بھی کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔' 'پاکستان جغرافیائی لحاظ سے خوش قسمت ملک ہے' وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 'پاکستان جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے خوش قسمت ترین ممالک میں سے ایک ہے جہاں ایک طرف چین ہے جو تیز رفتار معیشت ہے جس کے بعد وسطی ایشیائی ممالک ہیں جہاں پاکستان افغانستان میں امن آنے کی صورت میں رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایران کا ذکر کیا اور کہا کہ حالات بہتر ہونے کے بعد ایران سے تجارت کے مواقع بڑھیں گے جس سے دونوں ممالک کا فائدہ ہوگا۔ ’دوسرا بڑا پڑوسی انڈیا ہے جس کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہیں جس طرح کے تعلقات ہونے چاہیے تھے۔' وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اگر پاکستان اور انڈیا کے تعلقات بہتر ہوئے اور تجارت کا آغاز ہو گیا تو اس کی مدد سے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کھل کر سامنے آئے گی۔ سوشل میڈیا پر بھی عمران خان کی ڈیووس میں خطاب کے دوران #ImranKhanInDavos کا ہیش ٹیگ ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرتا رہا جہاں ان کی تقریر کی کافی پذیرائی ہوئی۔ صحافی اور تجزیہ کار سرل المائیڈا نے اپنی تین لفظی ٹویٹ میں لکھا، ’آئی کے، ناٹ بیڈ؟‘ یعنی برا نہیں۔ ایک اور صارف ملائکہ یوسف نے بھی عمران خان کی تقریر کی تعریف کی اور کہا کہ وزیر اعظم نے پاکستانی موقف بہت اچھی طرح سے پیش کیا ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں سکیورٹی امور کی ماہر ارسلا جاوید نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ وزیر اعظم نے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اور معدنی وسائل اور امن کے حصول کے لیے کوششوں پر زور دیا اور ملک میں ’گڈ گورننس‘ کے بارے میں بھی بات کی مگر ان کی تقریر کا زیادہ محور خطے کے سکیورٹی اور اس کے امن و امان پر تھا۔ وزیر اعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کی ڈیووس میں منگل کو ملاقات سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں منگل کو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران کہا کہ افغانستان کے معاملے پر امریکا اور پاکستان ایک صفحے پر ہیں اور وہ افغانستان میں قیام امن، طالبان اور حکومت کے معاملات کا مذاکرات سے حل چاہتے ہیں۔ جبکہ صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر کشمیر کے تنازع کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی اور کہا وہ عمران خان سے ملاقات کے دوران کشمیر کی صورتحال پر بات کریں گے اور پاکستان اور انڈیا کے درمیان اس معاملے پر جو مدد کر سکیں گے، وہ کریں گے۔ دونوں رہنما ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم (ڈبلیو ای ایف) میں شرکت کے لیے موجود ہیں جہاں ان کی خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ عمران خان میرے دوست ہیں، ان سے دوبارہ ملاقات پر خوشی ہوئی۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اچھے تعلقات ہیں جبکہ دونوں ممالک آج سے پہلے اتنے قریب کبھی نہ تھے۔ باضابطہ گفتگو سے قبل میڈیا سے مشترکہ طور پر ملاقات کے دوران دوران وزیر اعظم عمران خان نے بھی کہا کہ انھیں صدر ٹرمپ سے دوبارہ مل کر خوشی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے کردار ادا کرتا رہے گا اور اسی حوالے سے امریکی صدر کے ساتھ افغان امن عمل پر بھی بات ہوگی۔ انڈیا کے ساتھ تعلقات اور کشمیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ امریکہ اس معاملے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ عمران خان کے ہمراہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داﺅد، معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی ذوالفقار بخاری اور معاون خصوصی برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف بھی ان کے ہمراہ سفر کر رہے ہیں۔ عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر وزیر اعطم عمران خان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ دیگر عالمی رہنماﺅں سے بھی غیر رسمی ملاقاتیں کریں گے اور اس کے علاوہ وہ ڈبلیو ای ایف کے خصوصی سیشن سے خطاب کریں گے۔
031201_maimoonahashmi_letter
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2003/12/031201_maimoonahashmi_letter
میمونہ ہاشمی کی اپیل
اتحاد برائے بحالی جمہوریت ( اے آر ڈی) کے صدر اور مسلم لیگ (ن) کے قائم مقام صدر جاوید ہاشمی کی بیٹی اور رکن قومی اسمبلی میمونہ ہاشمی نے دولت مشترکہ سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کے اسیر والد کے مقدمہ کی عدالتی کاروائی کی مانیٹرنگ کرے اور حکومت پر ان کے آئینی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے زور دے۔
پیر کے روز میمونہ ہاشمی نے دولت مشترکہ کے سیکرٹری جنرل ڈؤن میکنن کے نام تحریری خط میں لکھا ہے کہ جب دولت مشترکہ کی وزارتی کمیٹی پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے عمل کو مانیٹر کررہی ہے تو ایسے موقع پر پارلیمینٹ میں حزب مخالف کے حقوق اور جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی کے حوالے سے ان کی توجہ دلانا ضروری ہے۔ میمونہ ہاشمی نے دولت مشترکہ کے نام اپنے خط میں کہا کہ ان کے والد جاوید ہاشمی کو انتیس اکتوبر کو پارلیمنٹ لاجز سے گرفتار کر لیا گیا اور ایک ہفتہ تک کسی میجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا اور پولیس نے انہیں عدالت میں پیش کیے بغیر ان کا ریمانڈ حاصل کرلیا اور ہائی کورٹ میں بھی ان کے ریمانڈ کی نقل پیش نہیں کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ عدالت کی جانب سے خصوصی ہدایت نہ ملنے تک ان کے والد کے ساتھ وکلاء اور اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ میمونہ ہاشمی نے کہا کہ ان کے والد اتحاد برائے بحالی جمہوریت (اے آر ڈی) کے صدر اور مسلم لیگ (ن) کے قائم مقام صدر ہیں اور اے آر ڈی کی قومی اسمبلی میں اسی ارکان کی نمائیندگی کرتے ہیں جبکہ حکومت نے ان کے والد کو خاموش کرانے کے ہتھکنڈے کے طور پر ان کو ایک بے بنیاد مقدمہ میں گرفتار کرلیا۔ انھوں نے کہا کہ جاوید ہاشمی نے اکیس اکتوبر کو وہ خط پڑھا تھا جس میں فوجی افسران نے زور دیا تھا کہ قومی قیادت جمہوریت کی بحالی اور انیس سو ننانوے میں کارگل کے سانحہ کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دے۔ انھوں نے کہا کہ اس خط پڑھنے کی سزا جاوید ہاشمی کو دی جا رہی ہے اور ان پر ایک بے بنیاد الزام کے تحت مقدمہ چلایا جارہا ہے ۔ میمونہ ہاشمی نے دولت مشترکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس واقعہ کا نوٹس لے اور اس کی تحقیقات کرے۔
060514_baradei_iran_sen
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/05/060514_baradei_iran_sen
پیشکش جامع اور دلیرانہ ہو: برادعی
ایٹمی معاملات پی نگرانی کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے آئی اے ای اے کے سربراہ محمد البرادعی نے کہا ہے کہ یورپی یونین ایران کو یورینیم کی افزودگی کے سے روکنے کے لیے جو پیشکش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے وہ جامع اور دلیرانہ ہونی چاہیے۔
برطانوی، فرانسیسی اور جرمن حکام یورپی یونین کی طرف سے ایسی تکنیکی اور تجارتی سہولتوں پر مشتمل ایک ایسی جامع پیشکش پر غور کر رہے ہیں جس کے بدلے ایران کو جوہری پروگرام بند کرن پر آمادہ کیا جا سکے۔ اس پیشکش میں گزشتہ برس اگست میں پیش کی گئی مراعات کے علاوہ مزید مراعات بھی شامل کی جا رہی ہیں۔ان مراعات میں سیاسی یقین دہانیوں کے علاوہ یورپ کے ساتھ تجارت میں مزید مراعات شامل ہو سکتی ہیں۔ اس پر سلامتی کونسل کے مستقل اراکین آئندہ ہفتے غور کریں گے۔ ایران نے ان اطلاعات پر یہ کہہ کر اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے کہ جوہری تحقیق اس کا حق ہے۔ تہران نے یہ کہہ کر مغربی ممالک کے خدشات رد کردیئے ہیں کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے اور اسے یورینیم کی افزودگی سے نہ روکا جائے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کو دیئے گئے یورپی یونین کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اگر بین الاقوامی خدشات دور کر دیے جائیں تو یورپی یونین محفوظ اور دیرپا جوہری توانائی کی تیاری میں ایران کی مدد کرے گی‘۔ بی بی سی کے نمائندے جوناتھن چارلس کا کہنا ہے کہ ایران کو جوہری توانائی خود تیار کرنے کی بجائے درآمد کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
041024_globalisation_immigration
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/blog/story/2004/10/041024_globalisation_immigration
امریکی تارکین وطن: گلوبلائزیشن کے معمار
گلوبلائزیشن اور روز گار کے مواقع دوسرے ملکوں میں جانے کی وجہ سے امریکہ کے مرکزی خطوں میں بہت سے پرانے چھوٹے صنعتی شہر اب ختم ہو رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ گلولائزیشن کی وجہ سے ہی دنیا کے مختلف کونوں سے تارکین وطن امریکہ آئے ہیں جس کی وجہ سے کئی دوسرے علاقوں میں کاروباری اور صنعتی زندگی بحال ہوئی ہے۔ امریکہ میں اٹلانٹا ایک اچھی مثال ہے کہ کس طرح روزگار کی نقل مکانی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔
اٹلانٹا کی مضافاتی کاؤنٹیوں میں جہاں پہلے سستی جائیداد، اچھے سکول اور کم ٹیکس جنرل موٹرز جیسے کاروبار کے لیے کشش کا باعث تھے، اب تارکین وطن اور غیرملکی مزدور کاروبار کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے عام طور پر تارکین وطن کاروباری مراکز کے قریب شہری علاقوں میں رہتے ہیں لیکن اٹلانٹا میں یہ لوگ شہری زندگی کو چھوڑ کر ڈیکالب کاؤنٹی کے مضافات میں ڈیرے ڈال رہے ہیں۔ آبادکاری کے اس نئے انداز کی وجہ سے امریکہ کے مضافات میں ایک ڈرامائی تبدیلی آرہی ہے اور اٹلانٹا جیسے شہروں میں معاشی اور کاروباری استحکام بھی لا رہی ہے۔ ویت نام، چین، میکسیکو، بوسنیا اور نائجیریا سے آئے ہوئے لوگ اب اٹلانٹا شہر کو اپنا گھر کہتے ہیں۔ ان نئے تارکین وطن میں مہم جو سرمایہ کاروں یعنی وینچر کیپٹالِسٹ سے لے کر چھوٹے کاروباری لوگ اور مزدور بھی شامل ہیں اور یہ تمام اٹلانٹا کی پھلتی پھولتی معیشت میں مواقع کی تلاش میں ہیں۔ ماضی میں تارکین وطن کی پھلتی پھولتی برادری صرف شہری علاقوں میں ہی ملتی تھی۔ انیسویں صدی میں جب تارکین وطن کی پہلی بڑی لہر شروع ہوئی تو نئے آنے والے شہر کے وسطی علاقوں میں رہتے جہاں وہ ایک دوسرے کی مدد پر انحصار کرتے۔ زیادہ اور قدرے ہم نسلی آبادیوں میں نئے آنے والے لوگ اپنے ہم وطنوں سے مدد حاصل کرتے تا کہ روزگار کی تلاش کر سکیں اور آسانی سے امریکہ کے سماجی اور قانونی مراحل کو طے کر سکیں۔ نئے آنے والے لوگ اپنی نسل، زبان، مذہب اور ثقافت میں زیادہ پر سکون رہ سکتے تھے۔ جلد ہی ایسی آبادیاں جو نسلی اور ثقافتی اعتبار سے الگ تھیں جیسے ’چائینا ٹاؤن‘ اور ’لٹل اٹلی‘ امریکی شہروں میں ایک مختلف خدوخال لے کر آئے۔ امریکہ کے شمال مشرق اور جنوب کے وسط میں پر شروع میں بہت سے تارکین وطن نے ڈیرے جمائے وہاں اب روزگار کے مواقع کی مزید کوئی گنجائش نہیں۔ نیویارک، سان فرانسیسکواور لاس اینجلس جیسے شہروں سے تارکین وطن کی پہلی نسل اب کاروبار کے نئے مواقع کی تلاش میں ایسے شہروں کا رخ کر رہے ہیں جہاں تاریخی طور پر بہت کم تارکین وطن گئے تھے۔ اسی کی دہائی میں میکسیکو کے تارکین وطن کو ٹیکساس اور لوئی زیانا میں تیل کے کاروبار میں زوال کے بعد جارجیا میں تعمیراتی کمپنیوں میں روزگار مل گیا۔ ان کمپنیوں کو سستے مزدور مل گئے اور جو ٹریڈ یونین کے مسائل سے مبرا تھے۔ جواب میں ان مزدوروں کو پہلے کی نسبت زیادہ بہتر زندگی ملی۔ نئی جگہ جانے کی وجہ سے آہستہ آہستہ روزگار کے ایسے مواقع سامنے آئے جن میں فاسٹ فوڈ کے دکانوں میں کام اور زمین استوار کرنا شامل تھا۔ تارکین وطن کے محنت کش طبقے نے ان مواقع کا خوب فائدہ اٹھایا اور مزدوروں کی ضرورت کو پورا کیا۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے بھی اٹلانٹا کی معاشی ترقی کا مطلب ہے کہ پیشہ وارانہ روزگار اور تحقیق کے شعبوں میں بھی نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ زیادہ ممکن ہے کہ تارکین وطن کا یہ متوسط طبقہ ڈیکالب کی نسلی اور ثقافتی لحاظ سے الگ آبادی کی بجائے نئی مضافاتی آبادیوں میں بسیں گے۔ تا ہم ان کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے تارکین وطن کی بے شمار نسلی تنطیموں کو، جن میں مذہبی ادارے اور برادری کے مرکز شامل ہیں، جنم دیا ہے۔ گو روزگار کے زیادہ مواقع اب بھی شہروں میں ہیں تاہم تارکین وطن اپنی آبادیاں بڑے شہروں کے باہر بنا رہے ہیں۔ جارجیا آنے والے بہت سے تارکین وطن اٹلانٹا کے وسط میں آباد نہیں ہو رہے بلکہ اس کے مضافات میں بسیرا کر رہے ہیں۔ یہ مضافات اس وقت ابھرنا شروع ہوئے تھے جب پچاس کی دہائی میں سفید فام محنت کش طبقہ جنرل موٹرز اور دوسری صنعتی اداروں میں کام کرنے کے لیے آباد ہوئے۔ صنعتی کارکن اپنے گھر بنانے کی خواہش رکھتے تھے اور وہاں پر اچھی اجرت نے یہ ممکن بنایا۔ ستر کی دہائی میں جب صنعتی اداروں نے صنعتی پیداور سے متعلق کام کو ملک سے باہر بھیجنا شروع کیا تو ریٹائر ہونے والے سفید فام کارکنوں کے گھروں کی زیادہ مانگ نہیں تھی۔ اسی کی دہائی میں جب سٹور ختم ہونے لگے تو مکانوں کی طلب بھی گرگئی۔ تب مالکان نے گھر تارکین وطن کو دینا شروع کر دیے۔ جو لوگ اٹلانٹا آ رہے تھے انہیں کم کرایوں پر ان مضافاتی علاقوں میں گھر آسانی سے ملنے لگے۔ تارکین وطن میں کاروباری طبقے نے وہاں پر نئی دکانوں اور سٹورز کی گنجائش کو محسوس کیا اور تارکین وطن میں ابھرنے والے متوسط طبقے کی انداز زندگی نے بہت سے نسلی ریسٹورانٹ اور مارکیٹوں کو جنم دیا۔ آہستہ آہستہ نسلی اشیاء کی طلب عام شہری آبادی تک پھیل گئی جو ان نئی جگہوں پر کھانے کھانا پسند کر نے لگے اور ان کی اشیاء خریدنے لگے۔ اٹلانٹا کو تارکین وطن کی کامیابی کی ہی ضرورت تھی۔ نوے کی دہائی تک شہر سماجی ترقی کی تحریک کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر جانا جاتا تھا۔ ستر کے اوائل میں اٹلانٹا چیمبر آف کامرس نے ایک نعرہ بلند کیا: ’اٹلانٹا: دنیا کا نیا عظیم بین الاقوامی شہر‘۔ حالانکہ امریکہ کے دوسرے شہروں کے امراء اس اشتہاری مہم پر ہنسے لیکن اٹلانٹا کی کوششوں سے انیس سو چھیانوے کے اولمپک کھیل وہاں ممکن ہوئے۔ جب عالمی پریس کی نظر اٹلانٹا پر پڑی اور اولمپک کھیلوں کی میزبانی کرنے والے پرانے شہروں کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے شہر پر تنقید کی گئی تو سماجی رہنماؤں کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔ نقادوں کا الزام تھا کہ تیز ترقی کی وجہ سے اٹلانٹا میں تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے اور شہر کے منظر میں وہ خوبیاں، دل کشی اور شناخت نہیں جو امریکہ کے باقی شہروں جیسے نیویارک، سان فرانسسکو اور کئی دیگر ان شہروں میں ملتی ہے جہاں پر بھی تارکین وطن کی الگ بستیاں ملتی ہیں۔ تاہم آج اٹلانٹا کے مضافات میں مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آبادیاں موجود ہیں۔ بنیادی سطح پر چھوٹے کاروباری تارکین وطن کے شاپنگ سنٹر اور مکانات کے کمپلیکس بنانے میں کامیابی نے اٹلانٹا کے رہنماؤں کی غیرت کو للکارا جو تارکین وطن کی صلاحیت کے ذریعے معاشی ترقی کے عمل کو تیز دیکھنا چاہتے تھے۔ ڈیکالب کاؤنٹی کی انتظامیہ نے بوفورڈ ہائی وے کے ساتھ کے چھ میل لمبے علاقے کو ’بین الاقوامی گاؤں‘ قرار دے کر عالمی نقل مکانی کو استعمال کر کے اس علاقے کی پستی کو روکنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے ہی علاقے میں مختلف نسلوں کے سات سو کاروباری مراکز کی کامیابی عام ہوئی ہے اور وہاں منصوبوں کے مواقع بڑھے ہیں بین الاقوامی سرمایہ کاری بھی بڑھ گئی ہے۔ بےشمار بینک اور سپر مارکیٹیں کھل گئی ہیں تاکہ وہاں کی میکسیکو سے تعلق رکھنے والے اور ایشیائی برادری کو خدمات فراہم کر سکیں۔ چامبلی میں بین الاقوامی گاؤں جو پانچ لاکھ مربع فٹ پر پھیلا ہوا ہے بہتر ملین ڈالر سے بنایا گیاہے۔ اس میں دکانوں اور ریسٹورانٹوں کے علاوہ ایک ہوٹل بھی ہے۔ ابھی کچھ عرصہ سے اٹلانٹا میٹرو علاقہ اس کوشش میں ہے کہ وہ نئے فری ٹریڈ ایریا آف دی امریکاز یعنی براعظم امریکہ کے ممالک کا آزاد تجارتی علاقے کا حصہ بننے کے لیے کوشاں ہے جس میں کینیڈا سے لے کر چِلی تک چونتیس ممالک شامل ہوں گے۔ مقامی حکومت اور کاروباری حضرات کا تخمینہ ہے کہ اس تجارتی علاقے کے بن جانے سے روزگار کے گیارہ ہزار مواقع پیدا ہوں گے اور اٹلانٹا کی معیشت پر سالانہ پانچ سو ملین ڈالر کا اثر پڑے گا۔ مقامی حکام کا خیال ہے کہ عالمی گاؤں کا اس جگہ پر واقع ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی تجارت اور نقل مکانی سے کیا کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اب دوسرے شہر اٹلانٹا سے مشورے مانگ رہے ہیں کہ وہ کس طرح سے غیرملکی سرمایہ کاروں کو اپنی طرف کھینچیں اور مقامی معیشت کو ترغیب دیں۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ ڈیی کالب کاؤنٹی کے مضافات کی کامیابی کہیں اور دہرائی جاسکتی ہے یا نہیں۔ کچھ تارکین وطن نے اس خوف کا اظہار کیا ہے کہ ان کی مقامی برادریاں بکاؤ مال اور ایسے ٹائپ ڈھلے ہوئے ہم نسلی گاؤں نہ بن کر رہ جائیں جو صرف مضافاتی آبادی کی تفریح کے لیے ہوں نہ کہ مقامی لوگوں کی ایسی بستیاں جو معاشی اور ثقافتی طور پر نشو و نما پا رہی ہوں اور دوسرے ہم نسلی مضافاتی علاقے باہر سے اور مقامی طور پر اتنی سرمایہ کاری کھینچنے میں ناکام رہے ہیں۔ بہت سے تارکین وطن جو کم اجرت پر کام کرتے ہیں، اس طرح کی سستی بستیوں میں رہ سکتے ہیں مگر ان میں پیسہ خرچ کرنے کی قوت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اس قابل نہیں سمجھا جاتا کہ وہ سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ پھر بھی اٹلانٹا کی کامیابی سے نظر آتا ہے کہ جیسے تارکین وطن دوسرے شہروں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں اور مضافاتی علاقوں میں آباد ہو رہے ہیں، ان کی آمد سے پورا خطہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے اور مزید سرمایہ کاری آسکتی ہے۔ ہمیں لکھئے: عالمگیریت سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟ نوٹ: یہ مضمون بی بی سی اردو آن لائن اور ییل سنٹر فار دی اسٹڈی آف گلوبلائزیشن کے درمیان پارٹنرشِپ کے تحت شائع کیا جارہا ہے اور ییل گلوبل کی کائپ رائٹ ہے۔
050214_mma_appeal_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/02/050214_mma_appeal_sen
فوج کےخلاف متحدہ مجلس کی اپیل
دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک کے اقتدار پر فوجی تسلط اور سیاست میں فوجی مداخلت کے خلاف متحد ہو جائیں اور اس سلسلے میں اتحاد برائے بحالیئ جمہوریت سمیت تمام جمہوری قوتوں سے بات کی جائے گی۔
پیر کو اسلام آباد میں ایم ایم اے کی سپریم کونسل کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس عمل کے رہنما لیاقت بلوچ نے کہا کہ اس اجلاس میں مجلس عمل کے رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس فوجی تسلط اور مداخلت کے خلاف جمہوری قوتوں کا متحد ہونا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے مفاہمت کے تمام راستے خود ہی بند کر دیے ہیں۔انہوں نے ایم ایم اے کی نئی احتجاجی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مارچ میں کراچی،لاہور،کوئٹہ اور پشاور میں ملین مارچ کئے جائیں گے اور مختلف شہروں کے درمیان کاروان چلائے جائیں گے جن کی قیادت مجلس عمل کے رہنما کریں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے صوبائی دارالحکومتوں میں مزدور اور وکلاء کنونشن بھی منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ ایم ایم اے نے یہ بھی اعلان کیا کہ اتحاد کے رہنما نیشنل سکیورٹی کے آئندہ اجلاس میں بھی شرکت نہیں کریں گے کیونکہ اس مسئلے پر حکومت نے مجلس عمل کے تحفظات دور نہیں کیے۔ مجلس عمل کے صدر قاضی حسین احمد نے اجلاس کے بعد صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ سترھویں ترمیم لا یعنی ہو گئی ہے اور اس کے تحت صدر جنرل مشرف کو جو بھی قانونی حیثیت حاصل تھی وہ باقی نہیں رہی اور مجلس عمل بھی اب اس معاہدے کی پابند نہیں ہے۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ سترھویں ترمیم پر مجلس عمل نے صدر جنرل مشرف سے وردی چھوڑنے کی ڈیڈلائن منوائی مگر صدر نے اس معاہدے کی پابندی نہ کر کے جرم کیا ہے۔
051019_loc_india_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/10/051019_loc_india_sen
’سرحد: صرف خاص لوگوں کے لیے‘
ہندوستان میں فوج کا کہنا ہے کہ اگر لائن آف کنٹرول کو کھولا بھی گیا تو صرف امدادی کاموں کے لیے کھلے گی اور آمد و رفت کی اجازت صرف خاص لوگوں کو ہوگی۔
فوج کے مطابق کشمیر میں امدادی کام جاری ہیں اور جلد سب کو ٹینٹ مہیا کر دیے جائیں گے۔ دلی میں ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشن مدن گوپال نے کہا کہ ’لائن آف کنٹرول اگر کھلی بھی تو صرف امدادی کاموں کے لیے ہوگی اور خاص لوگوں کو آنے جانے کی اجازت ہوگی‘۔ مسٹر گوپال نے مزید کہا کہ ابھی تو اس تجویز پر غور کیا جارہا ہے اور اس پر فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا جائیگا۔ ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا کہ کشمیر میں زلزلے سے متاثرہ امداد کی ہر ممکن کوشش جاری ہے اور فوری طور پر پناہ دینے کے لیے لوگوں میں ٹینٹ تقسیم کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مزید ٹینٹ اب بھی تیار کیے جارہے ہیں اور جلد ہی اس کام کو پورا کرلیا جائيگا۔
sport-50618094
https://www.bbc.com/urdu/sport-50618094
پاکستان: کیا کھیلوں کے انتظامی معاملات سنبھالنا صرف فوجی افسران کی ذمہ داری ہے؟
پاکستان میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کی طرح کھیلوں کے انتظامی معاملات میں بھی مسلح افواج کے حاضر یا ریٹائرڈ افسران کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم اس ضمن میں بحری اور فضائی فورسز کے مقابلے میں بری فوج کا اثرورسوخ ہمیشہ نمایاں نظر آتا ہے۔
پاکستان میں کھیلوں کے معاملات چلانے کے دو بڑے ادارے پاکستان سپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن ہیں۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن میں حال ہی میں انتخابات منعقد ہوئے جن میں رائے دہی کی نوبت اس لیے نہیں آئی کیونکہ صدر سمیت تمام ہی عہدیداران بلامقابلہ منتخب ہو گئے۔ بلا مقابلہ جیتنے والے صدر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ ) سید عارف حسن ہیں۔ تاہم یہاں اہم بات یہ ہے کہ وہ پہلی بار سنہ 2004 میں صدر بنے تھے یعنی وہ گذشتہ 15 برس سے اس عہدے پر براجمان ہیں۔ دوسری جانب پاکستان سپورٹس بورڈ میں متعدد مرتبہ ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر پاکستان آرمی سے تعلق رکھنے والے افسران کی تقرری ہوتی رہی ہے۔ یہ بھی پڑھیے ایک فاتح عالم کی طویل حکمرانی ’کیا کریں، یہ کرکٹ جو نہیں ہے‘ ’ہاکی صرف ہاری نہیں بلکہ برباد ہو گئی ہے‘ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آنے کے بعد منگلا کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل توقیر ضیا کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا تھا کتنی فیڈریشنز کی کمان مسلح افواج کے عہدیداران کے پاس ہیں؟ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن سے الحاق شدہ قومی فیڈریشنز کی تعداد 34 ہے۔ ان 34 میں سے 11 ایسی فیڈریشنز ایسی ہیں جن کے صدور سویلین نہیں ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ سید عارف حسن تیراندازی کی فیڈریشن کے صدر ہیں جبکہ میجر جنرل ریٹائرڈ اکرم ساہی (ایتھلیٹکس)، بریگیڈیئر ریٹائرڈ افتخار منصور (باسکٹ بال)، لیفٹیننٹ جنرل میاں محمد ہلالہ (گالف)، بریگیڈیئر ریٹائرڈ خالد سجاد کھوکھر (ہاکی)، ایڈمرل ظفر محمود عباسی (شوٹنگ)، وائس ایڈمرل محمد امجد خان نیازی (کشتی رانی)، ایئر مارشل عاصم ظہیر (سکیئنگ)، ایئرچیف مارشل مجاہد انور خان (سکواش)، میجر ریٹائرڈ ماجد وسیم (سوئمنگ) اور لیفٹیننٹ کرنل وسیم احمد تائیکوانڈو کے صدر ہیں۔ پاکستان شوٹنگ فیڈریشن کے صدر ایڈمرل ظفر محمود عباسی بحریہ کے جبکہ ائیرچیف مارشل مجاہد انور خان فضائیہ کے سربراہ ہیں۔ فوجی افسران کی فیڈریشنز میں موجودگی کیوں؟ یہ سوال ہر دور میں کیا جاتا رہا ہے اور یہ بھی جاننے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ آیا حاضر یا ریٹائرڈ فوجی افسران سویلین افسران کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز سے ان فیڈریشنز اور اداروں کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ پاکستان ایتھلیٹکس فیڈریشن کے صدر میجر جنرل (ریٹائرڈ) اکرم ساہی کا کہنا ہے کہ کسی بھی ایسے فوجی افسر کو کھیلوں کی فیڈریشن میں تب تک نہیں آنا چاہیے جب تک اس نے خود اس کھیل میں حصہ نہ لیا ہو، اسے چاہیے کہ وہ کوئی اور کام کرے۔ جنرل موسیٰ خان جب بری فوج کے سربراہ تھے تو انھیں صدر ایوب خان نے پاکستان ہاکی فیڈریشن کی باگ ڈور دی تھی وہ کہتے ہیں کہ انھیں چند دوسرے کھیلوں کی فیڈریشنز کا صدر بننے کی پیشکش بھی ہوئی لیکن انھوں نے ایتھلیٹکس کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ وہ خود ایتھلیٹ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اکرم ساہی لانگ جمپ میں پاکستان کی نمائندگی بین الاقوامی سطح پر بھی کر چکے ہیں۔ اکرم ساہی کا کہنا ہے کہ ایسے فوجی افسران یا بیورو کریٹس جنھیں کھیلوں کا شوق ہے انھیں فیڈریشنز میں ضرور آنا چاہیے تاکہ وہ کھیلوں کو فروغ دے سکیں۔ ’حاضر یا ریٹائرڈ افسران کو کھیلوں کی فیڈریشنز میں لانے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ نظم و ضبط قائم کرتے ہوئے اچھی ایڈمنسٹریشن کریں لیکن ان افسران میں کھیل کا جنون ہونا بھی بہت ضروری ہے۔‘ اکرم ساہی کہتے ہیں کہ بہت سی سپورٹس فیڈریشنز کو ایسے صدور چاہیے ہوتے ہیں جو اپنی شخصیت کی وجہ سے ان کی مالی مدد کر سکیں لیکن ان شخصیات کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ان کے ماتحت لوگ پیشہ وارانہ انداز میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتے بھی ہیں یا نہیں؟ جنرل پرویز مشرف ہی نے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل عزیز کو پاکستان ہاکی فیڈریشن کا صدر بنایا تھا اور یہ وہ دور ہے جب پاکستان میں ہاکی کے زوال کا سفر شروع ہوا تھا پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے سابق سپورٹس ایڈیٹراور سینیئر صحافی انیس الدین خان کہتے ہیں کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ فوجی افسران ہر کھیل میں نظر آتے ہیں۔ کئی فیڈریشنز کے کرتا دھرتا سویلین افراد ہیں، کسی بھی کھیل کی قومی فیڈریشن کا صدر ایک طریقہ کار کے تحت منتخب ہو کر آتا ہے جو کہ سویلین بھی ہو سکتا ہے اور غیر سویلین بھی۔ انیس الدین خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کھیلوں کی ترقی میں مختلف اداروں کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے، آرمی اور واپڈا ایتھلیٹکس میں نمایاں رہے ہیں۔ ’ماضی میں پی آئی اے کا کردار سب سے اہم تھا جس نے ہر کھیل کی ٹیم بنا رکھی تھی خاص کر سکواش اور ہاکی میں اس کے پاس ورلڈ چیمپیئن کھلاڑی ہوا کرتے تھے۔‘ سکواش کے سابق عالمی چیمپیئن جہانگیر خان کہتے ہیں کہ سکواش فیڈریشن کی باگ ڈور ائیر فورس سے لے کر کسی سویلین کے حوالے کرنے سے پہلے یہ سوچنا ضروری ہے کہ کیا حکومت اس کھیل کے معاملات سنبھالنے کی پوزیشن میں ہو گی؟ ’کیونکہ اس وقت سکواش کو جو کچھ حکومت یا سپورٹس بورڈ سے ملتا ہے وہ ناکافی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ سکواش کا کھیل اگر بچا ہوا ہے تو وہ ایئر فورس کی وجہ سے ہی ہے جس نے نہ صرف کھلاڑیوں کی سرپرستی کی ہے بلکہ بین الاقوامی مقابلے بھی منعقد کروائے ہیں۔ ’سکواش کا کھیل اگر بچا ہوا ہے تو وہ ائیر فورس کی وجہ سے ہی ہے‘ کیا فوجی افسران ہمیشہ کامیاب رہے ہیں؟ برگیڈیئر روڈیم کو پاکستان کے کھیلوں کی تاریخ میں ہمیشہ اہم مقام حاصل رہا ہے۔ انھوں نے فوج میں بھرتی ہونے والے جوانوں میں سے کئی ایسے ایتھلیٹس تیار کیے جنھوں نے بین الاقوامی مقابلوں میں شاندار کارکردگی دکھائی۔ ایئرمارشل نور خان کو بلاشبہ بابائے سپورٹس کہا جا سکتا ہے جنھوں نے سکواش اور ہاکی میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ وہ پاکستان کی کھیلوں کی تاریخ کے سب سے کامیاب ایڈمنسٹریٹر کے طور پر جانے جاتے ہیں جن کی منصوبہ بندی نے ہاکی اور سکواش کو بامِ عروج پر پہنچا دیا تھا۔ جنرل موسیٰ خان جب بری فوج کے سربراہ تھے تو انھیں صدر ایوب خان نے پاکستان ہاکی فیڈریشن کی باگ ڈور دی تھی۔ بریگیڈیئر حمیدی نے پہلے کھلاڑی اور پھر کپتان کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی۔ آج پاکستانی ہاکی بین الاقوامی دھارے سے باہر ہوتے ہوئے اپنی پہچان کھو چکی ہے وہ سنہ 1960 کے روم اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والی پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان تھے جس کے بعد وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری بھی رہے۔ اسی طرح بریگیڈیئر عاطف نے بھی کھلاڑی اور ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے قابل ذکر خدمات سرانجام دیں۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آنے کے بعد منگلا کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل توقیر ضیا کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ ان کے دور میں قومی کرکٹ اکیڈمی قائم ہوئی اور گراؤنڈز کی حالت بہتر کی گئی تاہم اس عرصے میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی ملی جلی رہی۔ جنرل پرویز مشرف ہی نے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل عزیز کو پاکستان ہاکی فیڈریشن کا صدر بنایا تھا۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ ) سید عارف حسن گذشتہ 15 برس سے اس عہدے پر براجمان ہیں ان کے ساتھ بریگیڈیئر مسرت اللہ سیکرٹری بنائے گئے تھے اور یہ وہ دور ہے جب پاکستان میں ہاکی کے زوال کا سفر شروع ہوا تھا اور آج جب بریگیڈئیر(ریٹائرڈ) خالد سجاد کھوکھر ہاکی فیڈریشن کے صدر ہیں تو پاکستانی ہاکی بین الاقوامی دھارے سے باہر ہوتے ہوئے اپنی پہچان کھو چکی ہے۔ تمغے کم ہوتے چلے گئے پاکستان اتوار کے روز سے نیپال میں شروع ہونے والی 13ویں ساؤتھ ایشین گیمز میں شریک ہے۔ یہ وہ گیمز ہیں جن میں پاکستان کے مجموعی طلائی تمغے انڈیا کے بعد سب سے زیادہ ہیں لیکن گذشتہ چند برسوں میں کارکردگی کا معیار بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سنہ 2006 کے ساؤتھ ایشین گیمز میں پاکستان نے 46 گولڈ میڈلز جیتے تھے۔ ریسلنگ میں انعام بٹ کی شاندار کارکردگی پاکستان کو طلائی تمغے دلا رہی ہے لیکن وہ بھی حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہیں سنہ 2010 کی گیمز میں یہ تعداد کم ہو کر 19 جبکہ سنہ 2016 میں صرف 12 گولڈ میڈلز تک رہ گئی۔ پچاس اور ساٹھ کے عشروں میں پاکستان آرمی کے ایتھلیٹس عبدالخالق، غلام رازق، مبارک شاہ، محمد نواز، اقبال، مرزاخان نے ایشیئن گیمز، کامن ویلتھ گیمز اور ورلڈ ملٹری گیمز میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان مقابلوں میں آرمی کے ایتھلیٹس بھی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکے حالانکہ نیشنل گیمز میں وہ چھائے رہتے ہیں لیکن بین الاقوامی معیار سے وہ اب دور دکھائی دیتے ہیں۔ ایتھلیٹکس کے علاوہ ریسلنگ اور باکسنگ دو ایسے کھیل تھے جن میں پاکستان نے ساؤتھ ایشیئن گیمز اور کامن ویلتھ گیمز میں قابل ذکر کارکردگی دکھائی لیکن پاکستان باکسنگ فیڈریشن کی اندرونی سیاست اور کئی اداروں میں باکسنگ ٹیموں کے ختم کیے جانے کے بعد باکسرز حالات کے ہاتھوں ناک آؤٹ ہو چکے ہیں۔ ریسلنگ میں انعام بٹ کی شاندار کارکردگی پاکستان کو طلائی کے تمغے دلا رہی ہے لیکن وہ بھی حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہیں کیونکہ انھیں بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے لیے ٹریننگ کی جو سہولتیں درکار ہیں پاکستان سپورٹس بورڈ وہ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
regional-54166336
https://www.bbc.com/urdu/regional-54166336
جوائنٹ فیملی: زیادہ تر انڈین مشترکہ خاندان میں رہنا کیوں پسند کرتے ہیں؟
ناول نگار وی ایس نیپاول لکھتے ہیں کہ انڈین خاندان ایک قبیلے کی طرح تھا جو اپنے سے منسلک افراد کو تحفظ اور شناخت فراہم کرتا تھا اور لوگوں کو خالی پن سے بچاتا تھا۔
اس بات کے بھی شواہد نہیں ہیں کہ 20ویں صدی کے آغاز سے اب تک انڈیا میں گھرانوں کے اوسط سائز میں کوئی بڑی کمی ہوئی ہے تازہ تحقیق کے مطابق اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ معاشی ترقی، بڑھتی ہوئی اربنائزیشن (دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی) تعلیم اور ثقافتی تبدیلیوں کے نتیجے میں خاندانی نظام آہستہ آہستہ تحلیل ہو جائے گا۔ کورنل یونیورسٹی سے منسلک ڈیموگرافر ایچیئن برنٹن کی تحقیق کے مطابق انڈین خاندان ایسی صورتحال سے ابھی بہت دور ہیں۔ ایچیئن برنٹن نے جدیدیت اور گھروں میں ہونے والی تبدیلیوں کے درمیان تعلق کا مطالعہ کیا ہوا ہے۔ یہ بھی پڑھیے ’جوائنٹ فیملی سسٹم میں آپ اپنا آپ تو جیتے ہی نہیں‘ ’ہم نے اپنی کہانی خود لکھی، کسی کو نہیں لکھنے دی‘ بھارت: بزرگوں کی پسند ریٹائرمنٹ ہوم کیوں؟ اُن کا کہنا ہے کہ انڈیا میں ایسے خاندانوں کی تعداد میں زیادہ اضافہ نہیں ہوا ہے جو صرف ماں باپ اور بچوں پر مشتمل ہیں۔ ایسے خاندانوں کو نیوکلیئر فیملی بھی کہتے ہیں۔ اس بات کے بھی شواہد نہیں ہیں کہ بیسویں صدی کے آغاز سے اب تک انڈیا میں گھرانوں کے اوسط سائز میں کوئی بڑی کمی ہوئی ہے۔ انڈین میں شادی کرنے کا رواج عام ہے، طلاق کی شرح کم ہے اور ایسے گھروں کی تعداد کافی کم ہے جہاں غیر شادی شدہ اور بغیر بچوں والے افراد رہتے ہیں۔ مشترکہ خاندان والے گھرانوں کے لیے آبادی کی نوعیت کے اعتبار سے حالات موافق ہیں۔ ڈاکٹر برینٹن کہتی ہیں کہ ’انڈیا نے خاندانی تبدیلیوں کے بارے میں سمجھ کو بھرپور طریقے سے چیلنج کیا ہے۔‘ ان کی تازہ تحقیق میں ایسے خاندانوں کا جائزہ لیا گیا ہے جہاں والدین اپنے شادی شدہ بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ انڈیا میں مشترکہ خاندانی نظام میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ہے انڈیا میں خواتین خاندان کو صرف اپنے بل بوتے پر علیحدہ نہیں کر سکتیں لیکن وہ اپنے شوہر کے فیصلے پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔ انڈیا میں ایک نیوکلیئر گھرانہ اس وقت وجود میں آتا ہے جب بیٹے اپنے والد کی وفات سے پہلے اپنا گھر بنا لیتے ہیں۔ جب والدین میں سے کسی ایک کا انتقال ہو جائے تو بیٹے اپنی بیوہ ماں یا باپ کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں چاہے وہ علیحدہ ہی کیوں نہ رہ رہے ہوں۔ انڈیا کے ادارے نیشنل سیمپل سروے (این ایس ایس) کے اعداد و شمار کے مطابق 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کا 50 فیصد اس وقت شادی شدہ ہے اور لگ بھگ 45 فیصد کے، جن میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے، شریکِ حیات فوت ہو چکے ہیں۔ اکیلی رہ جانے والی 80 فیصد خواتین یا افراد اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ لیکن 40 فیصد بوڑھے جوڑے یا تو بچوں کے بغیر رہتے ہیں یا اپنے غیر شادی شدہ بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ لیکن اس تعداد میں اضافہ بہت سست ہے۔ گذشتہ 25 برسوں میں اس میں صرف چھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر برینٹن کا کہنا ہے کہ یہ نیوکلیئر گھرانوں میں معمولی اضافے کی بہترین مثال ہے۔ نوجوانوں کی اپنے والدین کے ساتھ رہنے کی ایک بڑی وجہ عمروں میں اضافہ ہے۔ سنہ 2020 میں سنہ 1980 کے مقابلے میں ایک 30 برس کے آدمی کے اپنی والدہ یا والد کے ساتھ رہنے کا امکان زیادہ ہے۔ اربنائیزیشن کی سست رفتار بھی ایک وجہ ہے۔ انڈیا میں آبادی کا 35 فیصد شہروں میں رہتا ہے جبکہ چین میں 60 فیصد لوگ شہروں رہتے ہیں۔ لندن کے کنگز کالج سے منسلک سماجی امور کی ماہر ایلس ایونز، جو صنفی برابری پر ایک تحقیقی کتاب لکھ رہی ہیں، سمجھتی ہیں کہ انڈیا میں لوگوں کے جوائنٹ فیملی یا مشترکہ خاندان میں رہنے کی وجہ یہ ہے کہ خاندان کے افراد کے آپس میں مضبوطی سے جڑے رہنے سے خاندانی کاروبار میں مدد ملتی ہے اور اس سے خواتین کو نوکری کی ضرورت نہیں پڑتی جس کے نتیجے میں خاندانی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک وجہ یہ ہے کہ زیادہ اخراجات کی بنا پر اکیلے رہنا مشکل ہوتا ہے۔ جبکہ مشترکہ طور پر رہنے میں اخراجات تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ایونز کہتی ہیں کہ یہ صورتحال صرف انڈین گھرانوں تک ہی محدود نہیں۔ سنہ 1900 میں تقریباً تمام چینی، جاپانی، کوریائی اور تائیوانی خاندان بھی اسی طرح مشترکہ طور پر رہتے تھے۔ کسی میاں بیوی کا اپنے بچوں کے ساتھ الگ رہنا بہت ہی کم تھا۔ ڈاکٹر ایونز نے مجھے بتایا ’مشرقی ایشیائی گھرانوں میں بھی انڈیا کی طرح مضبوط تعلقات ہوتے تھے۔ تاہم 20ویں صدی میں ان لوگوں میں مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹتا گیا۔ جس کی وجوہات میں خاندان سے باہر روزگار، دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت اور خواتین کا روزگار کمانا شامل ہیں۔‘ ڈاکٹر ایونز کا کہنا تھا کہ ان ممالک میں لوگ اب بھی اپنے والدین کی مدد کرتے ہیں لیکن یہ کام وہ ان کے ساتھ رہ کر نہیں بلکہ انھیں رقوم بھیج کر کرتے ہیں۔ خواتین کا روزگار کمانا بھی مشترکہ خاندانوں کے ختم ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ تاہم مشرقی ایشیا میں دونوں طرح کا خاندانی نظام آج بھی قائم ہے۔ یعنی ایسے گھر جہاں میاں بیوی اپنے بچوں کے ساتھ علیحدہ رہتے ہیں اور ایسے گھر بھی ہیں جہاں بچوں کے دادا دادی یا نانا نانی بھی ساتھ رہتے ہیں۔ گذشتہ صدی سے جاپان، کوریا، تائیوان، اور چین میں خواتین بڑی تعداد میں کام پر جا رہی ہیں۔ میاں بیوی دونوں نے روزگار کما کر معاشی آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس معاشی آزادی کے ساتھ خواتین کم بچے پیدا کرتی ہیں جس کی وجہ سے انھیں گھر سے باہر جا کر کام کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ایونز کے مطابق جنوبی ایشیا میں صورتحال اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہاں خواتین کا روزگار کمانا غربت اور محرومی سے منسلک ہے۔ ’دیہی علاقوں میں خواتین کو مزدوری نہ کرنے کی صورت میں سماج میں بہتر مقام حاصل ہوتا ہے۔ یہ صورتحال مغربی یورپ میں صنعتی انقلاب کے ابتدائی زمانے جیسی ہے۔ اگر دیہی خواتین کام کرنا بھی چاہیں تو کاشت کاری میں مشینوں کے آ جانے سے ان کے لیے مواقع کم ہو رہے ہیں۔ خواتین کی روزگار کمانے میں کم شرکت کا مطلب ہے کہ نوجوان جوڑوں کی معاشی آزادی حاصل نہیں ہو گی۔‘ ڈاکٹر ایونز کہتی ہیں کہ اگر خواتین روزگار کے لیے باہر نہیں جا رہیں اور اپنے سماجی نیٹ ورک کو وسیع نہیں کر پا رہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ زیادہ جڑی رہیں گی۔ انڈیا کی مجموعی قومی پیداوار کو دیکھیں تو یہ صورتحال کوئی غیر معمولی نہیں ہے۔ اوسط اور کم آمدنی والے ممالک میں خاندانوں کا مشترکہ طور پر رہنا زیادہ عام ہے۔ سٹیون رگلز اور مسٹی ہیگنز نے 15 ممالک کے مردم شماری کے اعداد وشمار کا مطالعہ کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نسلوں سے مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے کے رحجان میں کوئی خاص کمی نہیں ہوئی ہے۔ پھر بھی یہ ایک ارتقائی عمل سے گزرتے لیکن پیچیدہ انڈین خاندان کی کہانی پوری طرح بیان نہیں کرتا۔ سماجی امور کی ماہر تلسی پٹیل نے انڈین خاندانوں پر بہت لکھا ہے، وہ کہتی ہیں کہ انڈیا میں کسی نیوکلئیر خاندان کی تشریح کرنا بھی کبھی کبھار مشکل ہوتا ہے۔ ’والدین اکثر اپنے ایک بیٹے کے گھر سے دوسرے بیٹے کے گھر منتقل ہوتے رہتے ہیں تا کہ اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ وقت گزار سکیں اور ان کی خدمت کا کام بھی بیٹوں میں تقسیم ہو سکے۔‘ ڈاکٹر پٹیل نے کہا کہ آپ کیسے اس تبدیل ہوتے مشترکہ خاندان کو بیان کریں گے جہاں والدین کبھی ایک گھر میں تو کبھی دوسرے گھر میں منتقل ہوتے رہتے ہوں۔ مشترکہ کاروبار اور معاشی مفادات بھی مشترکہ خاندانی نظام کے بقا کی ایک وجہ ہیں زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عام خیال کے برعکس غریب لوگوں کے بجائے زیادہ تر کھاتے پیتے لوگ مشترکہ خاندان میں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر برینٹن کو اپنی تحقیق میں معلوم ہوا کہ 2000 کی دہائی کے ابتدائی برسوں سے 30 کے پیٹے میں شادی شدہ غیر تعلیم یافتہ کسانوں کا اپنے بیوی بچوں کے ساتھ علیحدہ رہنے کا امکان پڑھے لکھے نوکری پیشہ لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ غریب لوگوں کے علیحدہ رہنے کے راستے میں رکاوٹیں کم ہوتی ہیں، ان کے والدین کے پاس دیکھ بھال کے لیے کوئی جائداد نہیں ہوتی اور مکانات چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کے پاس ایسی وجوہات بہت کم ہوتی ہیں جو ساتھ رہنے کی حوصلہ افزائی کریں۔ لیکن یہ بات پھر بھی یقینی ہے کہ انڈین خاندان بھی تغیر کا شکار ہے۔ خواتین آہستہ آہستہ آزاد، خودمختار اور طاقت ور ہو رہی ہیں۔ وہ اپنے شریکِ حیات کا انتخاب خود کر رہی ہیں۔ بوڑھے ماں باپ اب معاشی طور پر زیادہ آزاد ہیں اور خودمختار ہیں اور الگ رہنے کا انتخاب کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر برینٹن کے مطابق کم بچے بھی مشترکہ خاندانی نظام میں تبدیلی کی ایک وجہ بن جائیں گے۔ ایک بیٹا یا کوئی بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے آبادی کی نوعیت یا ڈیموگرافی میں تبدیلیاں آئیں گی۔ یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہو گا کہ والدین کا بوڑھے ہونے کے بعد اپنی بیٹیوں پر انحصار کتنا بڑھتا ہے۔ ڈاکٹر برینٹن کہتے ہیں کہ آخر میں انڈین خاندان میں بڑی تبدیلیوں کی وجہ امیروں کے بجائے غریب لوگ بنیں گے۔
031113_cricket_forum_ms
https://www.bbc.com/urdu/forum/story/2003/11/031113_cricket_forum_ms
کیا سیاست کرکٹ کا لازمی جزو ہے؟
نیوزی لینڈ کے خلاف پانچ ایک روزہ مقابلوں کی ہوم سیریز کے کیمپ کے لئے بائیس کھلاڑیوں کے انتخاب کے بعد پاکستان کرکٹ ایک بار پھر الزامات اور جھگڑوں کی زد میں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جو سیاست ملک کی اسمبلیوں میں نہیں ہو پا رہی، وہ کرکٹ کے میدان میں اتر آئی ہے۔
اس سیریز کے لئے ممکنہ کھلاڑیوں کی فہرست سے راشد لطیف، معین خان، یونس خان اور ثقلین مشتاق کے باہر کئے جانے کے بعد چیف سلیکٹر عامر سہیل اور کوچ جاوید میانداد کے درمیان ہونے والے تنازعہ میں ٹیم کے کپتان انضمام الحق بھی شامل ہو گئے ہیں۔ اس سے قبل راشد لطیف کے چیف سلیکٹر اور کوچ کے ساتھ اختلافات کی خبریں بھی منظرِ عام پر آتی رہی ہیں اور بہت سے کھلاڑی بھی مختلف اوقات پر اپنے اختلافات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ان تمام جھگڑوں میں انا پرستی، صوبائی عصبیت اور ذاتی پسند اور ناپسند جیسے الزامات ایک دوسرے پر لگائے گئے ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں پاکستانی کرکٹ سے سیاست کو ختم کرنا ممکن ہے؟ کیسے؟ کیا کھلاڑیوں کے انتخاب میں صوبائی نمائندگی کا خیال رکھا جانا چاہئے یا صرف اچھی کارکردگی ہی بنیادی میرٹ ہونا چاہئے؟ کیا کپتان کو کھلاڑیوں کے انتخابی عمل میں کچھ اختیار ہونا چاہئے؟ ------------اپنی رائے اردو، انگریزی یا رومن اردو میں بھی بھیج سکتے ہیں--------------- انظر گل، زیورچ، سویٹزرلینڈ میرے خیال میں کسی کو چاہیے کہ وہ بی بی سی اردو کے بارے میں عامر سہیل کو مطلع کرے کہ اس سائٹ پر اپنے بارے میں لوگوں کی رائے پڑھیں۔ اس کے بعد میرے خیال میں وہ خود ہی مستعفی ہو جانے کے لیے رضا مند ہو جائیں گے کیونکہ ننانوے عشاریہ نو فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ عامر سہیل کو اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔ عامر سہیل کی چھٹی کی جائے اور پاکستان کرکٹ کو بچانے میں میانداد کا ساتھ دیا جائے۔ حسن امیر حسن امیر، آسٹریلیا میانداد کی مخلصی پر کسی کو شک نہیں۔ عامر کا کردار سب جانتے ہیں اور ان کی حمایت کر کے جنرل صاحب نے اپنی پوزیشن بھی متنازعہ کر لی ہے۔ عامر سہیل کی چھٹی کی جائے اور پاکستان کرکٹ کو بچانے میں میانداد کا ساتھ دیا جائے۔ زیب عباسی، امریکہ میری رائے میں سعید انور ہی وہ واحد شخص ہیں جو چیف چیف سلیکٹر کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔ میری پی۔سی۔بی سے گزارش ہے کہ وہ سعید انور کو موقع دے اور مجھے امید ہے کہ اس اقدام کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ توقیر ضیاء نے عامر سہیل کو اس شرط پر چیف سلیکٹر بنایا تھا کہ وہ جنرل صاحب کے بیٹے جنید ضیاء کو زبردستی ٹیم میں گھسائیں گے۔ عامر رفیق عامر رفیق، لندن، برطانیہ شاید توقیر ضیاء نے عامر سہیل جیسے ناکام کھلاڑی کو اس شرط پر چیف سلیکٹر بنایا تھا کہ وہ جنرل صاحب کے بیٹے جنید ضیاء کو زبردستی ٹیم میں گھسائیں گے۔ عامر سہیل نے یہ کام کر دکھایا اور اب وہ جنرل صاحب کے فیورٹ ہیں اور اس عہدے پر پکے بھی ہو گئے ہیں اور یوں وہ ٹیم کا بیڑا غرق کرتے رہیں گے۔ عامر سہیل اور رمیض راجہ نے کوئی خاص کارنامہ انجام نہیں دیا لیکن اس کے باوجود وہ کرکٹ بورڈ کے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ محمد صابر محمد صابر، سعودی عرب ہماری کرکٹ ٹیم میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کا کرکٹ میں تو کوئی خاص کارنامہ نہیں ہے مگر وہ آج کرکٹ بورڈ میں بڑے بڑے عہدوں پر قبضہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان میں عامر سہیل کا نام سرفہرست ہے اور ان کے بعد رمیض راجہ کا نام آتا ہے۔ عامر سہیل نے ہمیشہ پاکستان کرکٹ کو نقصان پہنچایا ہے۔ وہ نہ تو اچھے کرکٹر، نہ اچھے کپتان، نہ ہی اچھے سلیکٹر اور نہ ہی اچھے انسان ثابت ہوئے ہیں۔ انہیں صرف گندی سیاست کرنی آتی ہے۔ ابرار مشتاق، ہانگ کانگ میرے خیال میں عامر سہیل کو فوراً نکال دینا چاہیے مگر جنرل صاحب ایسا نہیں کریں گے کیونکہ ان کے بیٹے نے بھی کرکٹ کھیلنی ہے۔ اگر پاکستان نے آئندہ کرکٹ کھیلنی ہے تو سب سے پہلے جنرل صاحب کو اور پھر عامر سہیل کو فارغ کیا جائے۔ ان لوگوں نے کرکٹ کو تباہ کر دیا ہے۔ وقار یونس کو ٹیم سے کیوں نکالا گیا ہے۔ جاوید میانداد دنیا کے بہترین کوچ ہیں۔ خرم شہزاد، فرینکفرٹ، جرمنی عامر سہیل ایک ناکام کھلاڑی رہے ہیں اور ان جیسے آدمی کو چیف سلیکٹر بنانا جنرل توقیر ضیاء کی بڑی بھول ہے۔ اس لیے میرے خیال میں کرکٹ بورڈ کے سربراہ اور چیف سلیکٹر کو لمبی رخصت پر گھر کی راہ دکھانی چاہئے۔ جنرل توقیر ضیاء عامر سہیل کو کبھی نہیں نکالیں گے کیونکہ عامر نے جنرل صاحب کے بیٹے کو کرکٹ ٹیم میں شامل کیا تھا۔ احسان خان احسان خان، پشاور، پاکستان جنرل توقیر ضیاء عامر سہیل کو کبھی نہیں نکالیں گے کیونکہ عامر نے جنرل صاحب کے بیٹے کو کرکٹ ٹیم میں شامل کیا اور بہت سے مواقع پر جنرل کے کان بھی بھرے۔ اس کے علاوہ عامر کا تعلق امیر اور صاحبِ رسوخ گھرانے سے ہے۔ عامر سہیل کرکٹ کے مستقبل کو متاثر کریں گے خاص طور پر عظیم میانداد اور ایماندار انضمام کی راہ میں رکاوٹ ڈالیں گے۔ اعجاز افضل، متحدہ عرب امارات عامر سہیل کے باعث پاکستان کو ندامت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ اپنے اختیارات کی بنا پر دوسروں سے بھڑتے رہے ہیں۔ انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک ناکام کھلاڑی ہونے کے علاوہ چیف سلیکٹر کے فرائض نبھانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ انہیں ماہر نفسیات سے رابطہ کرنا چاہیے۔ جسے کرکٹ کے ہجے نہیں آتے اسے پی۔سی۔بی کا چیئرمین بنا دینے سے تو یہی ہو گا۔ کامران خان کامران خان، کراچی، پاکستان عامر سہیل کو خود تو کھیلنا نہیں آتا، وہ ٹیم کیا سلیکٹ کریں گے۔ جسے کرکٹ کے ہجے نہیں آتے اسے پی۔سی۔بی کا چیئرمین بنا دینے سے تو یہی ہو گا۔ عامر سہیل اور جنرل توقیر ضیاء دونوں ہی بےکار ہیں۔ توقیر ضیاء کی جگہ راشد لطیف کو چیئرمین بنا دیا جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ خدیجہ صائمہ، لندن، برطانیہ پاکستان کرکٹ کو بچانا ہے تو کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کو مستعفی ہونا ہو گا۔ اگر آج تک کسی نے استعفیٰ دیا ہے تو وہ راشد لطیف ہیں کیونکہ انہوں نے یہ بات سمجھی کہ سیاست سے کرکٹ نہیں چل سکتی۔ عامر سہیل خود کو خوش قسمت تصور کریں کہ وہ ٹیم کے چیف سلیکٹر ہیں۔ احسان قریشی احسان قریشی، کینیڈا عامر سہیل کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ انہوں نے بحیثیت کھلاڑی پاکستان اور ٹیم کے لیے کوئی خاص کارنامہ انجام نہیں دیا ہے۔ اس لیے انہیں خود کو خوش قسمت تصور کرنا چاہئے کہ وہ ٹیم کے چیف سلیکٹر ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ ٹیم کو مزید نقصان پہنچائیں انہیں کرکٹ سے علیحدہ ہو جانا چاہئے۔ شاید اسی طرح ان کے کسی کاررنامے کو یاد رکھا جائے۔ ان لوگوں نے نبی کی سنت پر قائم سعید انور کو ٹیم سے باہر نکال کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ کاشف احسان کاشف احسان، ایلینائے، امریکہ عامر سہیل نے پوری ٹیم کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے۔ ان کی جگہ سعید انور کو سلیکٹر ہونا چاہئے۔ سعید انور کی ضرورت ابھی ہماری ٹیم کو بھی ہے لیکن ان لوگوں نے نبی کی سنت پر قائم ایک آدمی کو ٹیم سے باہر نکال کر بہت بڑی غلطی کی ہے اور میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر سعید انور کو ٹیم میں یا کرکٹ کے کسی اہم عہدے پر فائز نہیں کیا جاتا تو ہماری ٹیم کا حال ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔ ہماری کرکٹ کو ایک نیک آدمی کی ضرورت ہے۔ عامر سہیل کو دھکے مار کر باہر نکال دینا چاہیے۔ عمران فاروق، لاہور، پاکستان میانداد کے کوچنگ کے مختلف ادوار میں ان کے دیگر کرکٹ حکام کے ساتھ تضادات رہے ہیں۔ انہیں کبھی انعام کی رقم میں حصہ چاہیے تھا تو کبھی زیادہ اختیارات۔ کوچ کا ٹیم کی سلیکشن سے کیا لینا دینا کیونکہ اس کا کام صرف کھلاڑیوں کو تربیت دینا ہے۔ محمد طیّب، پاکستان میرا کہنا یہ ہے کہ عامر سہیل اچھے ہیں اور نیوزی لینڈ کے لیے ہماری ٹیم بھی اچھی ہے۔ اگر کرکٹ میں ہار جیت کے ذمہ دار کوچ اور کپتان ہیں تو پھر کوچ اور کپتان ہی کو چیف سلیکٹر ہونا چاہیے۔ خالد حسین خالد حسین، ٹورانٹو، کینیڈا اگر کرکٹ میں ہار جیت کے ذمہ دار کوچ اور کپتان ہیں تو پھر کوچ اور کپتان ہی کو چیف سلیکٹر ہونا چاہیے۔ عامر سہیل کا شمار پاکستان ٹیم کے عام کھلاڑیوں میں ہوتا تھا اس لیے مجھے نہیں پتہ کہ انہیں ٹیم سلیکٹ کرنے کی اہم ذمہ داری کس نے سونپ دی ہے۔ بہرحال عامر سہیل اس عہدے کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ نجف علی بلتی، کویت مہربانی کر کے کھلاڑیوں کو تھوڑے تھوڑے وقفے سے تبدیل نہ کریں۔ عامر سہیل کو فوراً گھر بھیج کر سعید انور اور وسیم اکرم جیسے اچھے لوگوں کو عامر کی جگہ نامزد کیا جائے۔ محمد جہانگیر، راولپنڈی، پاکستان سیاست ہی کی وجہ سے ہماری کرکٹ اور کرکٹ کے کھلاڑیوں کا مستقبل متاثر ہوا ہے۔ کسی میچ میں ناکامی یا کامیابی کے بعد کوچ اور کپتان ہی ذمہ دار ہوتے ہیں اس لیے انہی دونوں کو ٹیم کی سلیکشن اور تربیت کی کھلی اجازت ہونی چاہئے۔ ٹیم کی کوچنگ کے لیے جاوید میانداد سب سے زیادہ مناسب شخصیت ہیں۔ توقیر ضیاء کو مستعفی ہو جانا چاہئے اور ان کی جگہ یہ ذمہ داری کسی اور کو سنبھال لینی چاہئے۔ جنرل توقیر ضیاء کو فوج میں واپس جانا چاہئے کیونکہ ’جس کا کام اسی کو ساجھے۔۔۔‘ محمد یونس محمد یونس، کوہاٹ، پاکستان پاکستان کے چیف سلیکٹر اور سلیکشن کمیٹی کو ماضی کی بری کارکردگی سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور جنرل توقیر ضیاء کو فوج میں واپس جانا چاہئے کیونکہ ’جس کا کام اسی کو ساجھے۔۔۔‘ فضل حبیب ذکی، پاکستان یہ اچھا اقدام نہیں ہے کیونکہ اصل میں کوچ سے مشورہ کرنا چاہیے۔ عامر سہیل کو چاہئے کہ وہ اپنے فرائض سے سبکدوش ہو جائیں۔ ضمیر الحسن کھوکھر، ملتان، پاکستان عامر سہیل ایک ضدی آدمی ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ کپتان اور کوچ کے خلاف نہ بولیں۔ عامر سہیل پاکستان کو ایسے گڑھے میں دھکیل دیں گے جس سے باہر نکلنا بہت ہی مشکل ہو گا۔ اعظم شیخ اعظم خان، شارجہ عامر سہیل کو اگر مزید ان کے عہدے پر رہنے دیا گیا تو وہ پاکستان کو ایسے گڑھے میں دھکیل دیں گے جس سے باہر نکلنا بہت ہی مشکل ہو گا۔ شہزاد چیمہ، راولپنڈی، پاکستان پاکستان کرکٹ کا المیہ یہ ہے کہ ہر کھلاڑی اپنی مرضی کے مطابق کھیلنا چاہتا ہے۔ کھلاڑیوں میں ہم آہنگی اور باہمی رابطے کا فقدان ہے اور ٹیم میں جانبداری کا رجحان ہے۔ میرے خیال میں ایسی صورت حال میں کپتان اور کوچ کو سلیکشن کمیٹی کا رکن ہونا چاہئے۔ سیاست اور اقرباء پروری نے کرکٹ بورڈ میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔ امجد شیخ امجد شیخ، ملتان، پاکستان پاکستانی کرکٹ کے بیش بہا ٹیلنٹ کو ضائع ہوتا دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ سیاست اور اقرباء پروری نے کرکٹ بورڈ میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔ لیکن کرکٹ کو سیاست سے پاک کرنا بالکل ممکن ہے۔ بورڈ کے چیئرمین کے عہدے سے فوجی جنرل کو ہٹا کر عمران خان، ظہیر عباس، میانداد، سعید انور جیسے کھلاڑیوں کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔ عامر سہیل نے ہمیشہ تعصب کا مظاہرہ کیا ہے۔ عثمان خان، برطانیہ سیاست اور بدعنوانی پاکستان کے تمام اداروں میں موجود رہے گی۔ ان میں کمی صرف اسی صورت ممکن ہے اگر ملک میں شفاف اور منصفانہ نظام متعارف کرایا جائے۔ کھلاڑیوں کے انتخاب میں صوبائی نمائندگی کے بجائے حکومت کو پسماندہ علاقوں کو زیادہ فنڈ دے کر وہاں کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ لیکن ٹیم کا انتخاب صرف میرٹ کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے۔ کپتان، کوچ اور ٹیم کے منیجر کو سلیکشن کے عمل میں شامل کیا جانا چاہئے۔ منہ پھٹ چیف سلیکٹر اور سابق آمر فوجی حکمرانوں کو کرکٹ سے نکال باہر کریں اور تمام ذمہ داریاں مخلص لوگوں کے حوالے کی جائیں۔ مسرور احمد مسرور احمد، ہیوسٹن، امریکہ مجھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ذاتی پسند اور ناپسند کرکٹ پر نہایت برے اثرات مرتب کر رہی ہے اور کرکٹ میں عوام کی دلچسپی میں روز بروز کمی آتی جا رہی ہے۔ میری التجا ہے کہ منہ پھٹ چیف سلیکٹر اور سابق آمر فوجی حکمرانوں کو کرکٹ سے نکال باہر کریں اور تمام ذمہ داریاں مخلص لوگوں کے حوالے کی جائیں۔ اسد خان، کراچی، پاکستان جب تک کرکٹ بورڈ کا صدر دفتر لاہور میں رہے گا اور اس کا سربراہ ایک فوجی افسر ہو گا، اس وقت تک پاکستان کرکٹ انہی مشکلات سے دوچار رہے گی۔ اس لیے براہ کرم کرکٹ بورڈ کی باگیں سول انتظامیہ کو سونپ دیجئے۔ انجم نواز، جاپان عامر سہیل کو نکال دیں، باقی سب ٹھیک ہے۔ توقیر ضیاء اپنا عہدہ چھوڑ دیں اور ان کی جگہ کسی غیر متنازعہ شخصیت کو تعینات کیا جائے۔ نعمان احمد نعمان احمد، راولپنڈی، پاکستان ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فوجی جرنیلوں نے ملک کے ہر ادارے کو برباد کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ جب سے توقیر ضیاء نے کرکٹ بورڈ کا چارج سنبھالا ہے اس وقت سے اس ادارے اور پاکستان ٹیم کا زوال شروع ہو گیا ہے اور ٹیم کو کئی مرتبہ تاریخی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ میرے خیال میں ان مسائل کا واحد حل یہ ہے توقیر ضیاء اپنا عہدہ چھوڑ دیں اور ان کی جگہ کسی غیر متنازعہ شخصیت کو تعینات کیا جائے۔ اس قدر زیادہ تنخواہ لینے کے باوجود اگر وہ ٹیم کی سلیکشن کے معاملے میں کوچ اور کپتان کو فون نہیں کر سکتے تو اس سے بڑھ کر اور کیا بدمعاشی ہو سکتی ہے۔ قمر الٰہی قمر الٰہی، اڈمونٹن، کینیڈا عامر سہیل ایک مغرور شخص ہیں اور مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ان میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ وہ چیف سلیکٹر بنے ہوئے ہیں۔ اس قدر زیادہ تنخواہ لینے کے باوجود اگر وہ ٹیم کی سلیکشن کے معاملے میں کوچ اور کپتان کو فون نہیں کر سکتے تو اس سے بڑھ کر اور کیا بدمعاشی ہو سکتی ہے۔ ان کے بارے میں بالکل صحیح کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کھلاڑیوں سے بدلے لینا شروع کر دیے ہیں۔ چیف صاحب عامر کو کیوں مستعفی ہونے کو کہیں گے کیونکہ عامر سہیل نہ چیف صاحب کے لڑکے کو جو سلیکٹ کیا تھا اور بعد میں فضول انٹرویو دے کر اپنے فیصلے کا دفاع بھی کیا تھا۔ بےنام عامر سہیل جس عہدے پر فائز ہیں وہ دراصل اس کے لائق نہیں ہیں۔ انہیں نہ صرف برطرف کر دینا چاہئے بلکہ انہیں اپنے رویے کی سزا بھی ملنی چاہیے۔ محمد اسلم، ہانگ کانگ عامر سہیل کو اب چلے جانا چاہئے کیونکہ وہ اس عہدے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ عامر سہیل ایک بد دماغ اور ضدی شخص ہیں۔ افعان انصاری افعان انصاری، امریکہ میری رائے میں عامر سہیل ایک بد دماغ اور ضدی شخص ہیں۔ پاکستان کے لیے انہوں نے بطور کھلاڑی کوئی قابلِ ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا اور نہ ہی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جاوید میانداد کرکٹ کے ہیرو اور گورو ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ وہ عامر سہیل کو ان کے عہدے سے ہٹا کر کسی ایسے شخص کو نامزد کرے جو کرکٹ اور پاکستان سے مخلص ہو۔ عاطف مرزا، آسٹریلیا میرے خیال میں پوری سلیکشن کمیٹی کو ہی برخاست کر دینا مسئلے کا بہترین حل ہے۔ صرف کپتان اور کوچ کو سلیکشن کا ذمہ دار ہونا چاہئے اور کرکٹ بورڈ کا کام محض کوچ اور کپتان کا انتخاب ہونا چاہئے۔ اس طریق کار سے مستقبل میں تمام جھگڑے ختم ہو جائیں گے۔ آخر عامر میں ایسی کون سی بات ہے جو انہیں آج تک برداشت کیا جا رہا ہے؟ ڈاکٹر افضال ملک ڈاکٹر افضال ملک، راولپنڈی، پاکستان عامر سہیل ایک بار پھر نئے تنازعہ کا مرکزی محرک ہیں۔ جنید ضیاء کا فیصلہ ہو یا ٹیم کی سلیکشن کا، عامر سہیل کی من مانی کا پہلو ہمیشہ سامنے آیا ہے۔ آخر عامر میں ایسی کون سی بات ہے جو انہیں آج تک برداشت کیا جا رہا ہے۔ انہیں فوری طور پر باعزت طریقے استعفا دے دینا چاہئے کیونکہ ان کا کردار اب پوری طرح قوم کے سامنے آ چکا ہے۔ صداقت خان، برطانیہ میرے خیال میں سلیکٹر کا عہدہ ختم کر کے کوچ کو سلیکشن کا اختیار ہونا چاہئے۔ ویسے پاکستان میں قابلیت کوئی معیار نہیں ہے۔ عامر سہیل اپنی بدتمیزی اور بدمعاشی کی وجہ سے مشہور تھے۔ ایسے آدمی کو تو سلیکٹر ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔ صالح محمد صالح محمد، راولپنڈی، پاکستان مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ عامر سہیل کو چیف سلیکٹر کس بنیاد پر بنایا گیا ہے؟ وہ ایک اوسط درجے کے کھلاڑی تھے اور اپنی بدتمیزی اور بدمعاشی کی وجہ سے مشہور تھے۔ ایسے آدمی کو تو سلیکٹر ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔۔۔لیکن توقیر ضیاء کے ساتھ تعلقات بھی تو اچھے رکھنے ہیں۔۔۔؟ عامر گورسی، کویت یوں لگتا ہے کہ تمام کھلاڑی اپنے انا اور پیسے کے لیے کھیلتے ہیں اور انہیں ملک و قوم سے کوئی پیار نہیں ہے۔ جب تک ٹیم سے انا پرستی کا خاتمہ نہیں ہوتا تب تک پاکستان ٹیم اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکتی۔ سلیکشن کی بنیاد میرٹ ہونا چاہئے نہ کہ کسی کوچ کا بھانجا یا بورڈ کے سربراہ کا بیٹا۔ شاہنواز نصیر شاہنواز نصیر، کوپن ہیگن، ڈنمارک عمدہ کارکردگی ہی سلیکشن کی بنیاد ہونی چاہئے نہ کہ کسی کوچ کا بھانجا یا بورڈ کے سربراہ کا بیٹا۔ احمر خان، پاکستان جب تک عامر سہیل جیسے لوگ سلیکٹر بن کر کرسی پر قابض رہیں گے ٹیم میں سیاست ختم نہیں ہو سکتی۔ کرکٹ صرف ٹیلنٹ کی بنیاد پر ہونی چاہئے۔ گزشتہ پچاس برس سے صرف ایک صوبے سے کھلاڑی ٹیم میں شامل کیے جا رہے تھے لیکن اب کراچی، بلوچستان اور پشاور سے بھی کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا جانے لگا ہے۔ فوج کا ڈنڈا خود اس کے مقابلے میں عامر سہیل زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ سید فرحاج علی سید فرحاج علی، ابو ظہبی میرے خیال میں توقیر ضیاء اس کام کے لیے قطعاً مناسب آدمی نہیں ہیں۔ فوجی دوسری جگہوں پر تو اچھے لگتے ہیں مگر اس جگہ پر نہیں کیونکہ اس کا ڈنڈا خود فوج کم لیکن عامر سہیل زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ فدا ایچ زاہد، کراچی، پاکستان سیاست اور کھیل دو مختلف چیزیں ہیں۔ ٹیم کی سلیکشن خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر ہونی چاہئے۔ چونکہ کوچ اور کپتان براہ راست ذمہ دار ہوتے ہیں اس لیے ٹیم کے انتخاب میں ان کی رائے کو ترجیح دینی چاہیے۔ جب سے فوج نے کرکٹ کا انتظام سنبھالا ہے اس وقت سے پاکستان میں کرکٹ سیاست کا کھیل بن کر رہ گئی ہے۔ نوید اعوان نوید اعوان، کوپن ہیگن، ڈنمارک جب سے فوج نے کرکٹ کا انتظام سنبھالا ہے اس وقت سے پاکستان میں کرکٹ سیاست کا کھیل بن کر رہ گئی ہے۔ کرکٹ کے فوجی سربراہان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کرکٹ میں بھی ہر مسئلہ اسی طرح حل کرنےکی کوشش کرتے ہیں جیسے وہ فوج میں مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ فوجی طرز عمل زندگی کے دیگر شعبوں میں کارگر نہیں ہو سکتا خصوصاً کرکٹ بورڈ کے معاملات میں۔ تمام افسران اپنے کاغذات صاف رکھنے کی کوشش میں رہتے ہیں اور تمام غلط فیصلوں کا ذمہ دار اپنے ماتہتوں کو ٹھہراتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ بورڈ کے سربراہ ہیں۔ راج کمار، پاکستان میرے خیال میں عامر سہیل کو کسی بھی صورت پاکستان ٹیم کا سلیکٹر نہیں ہونا چاہئے بلکہ مثبت رویے کے حامل کسی سینیئر آدمی کو ان کی جگہ اس عہدے پر مقرر کرنا چاہیے۔ پنجاب کیمپ میں دیگر صوبوں کے کھلاڑیوں کو قطعاً شامل نہیں کیا جاتا جبکہ کراچی کیمپ میں بالائی سندھ اور دیگر صوبوں کے کھلاڑیوں کو جگہ دی جاتی ہے۔ میرے خیال میں یہ طرز عمل دیگر صوبوں کے مواقع چھین لینے کے مترادف ہے۔ شفاعت خان شفاعت خان، کویت اگر ہم پاکستان کے تمام علاقوں سے آنے والے کھلاڑیوں کو برابر کا موقع دینا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں صرف میرٹ کی بنیاد پر کھلاڑیوں کا انتخاب نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن ہمارے یہاں میرٹ کا بھی کوئی خالص معیار نہیں ہے کیونکہ کھلاڑیوں کا انتخاب چیف سلیکٹر، ٹیم کے کپتان اور کوچ کی ذاتی پسند اور ناپسند کی بنا پر کیا جاتا ہے مثال کے طور پر سابق کپتان عمران خان اپنی ذاتی پسند اور مرضی کی بنا پر ٹیم منتخب کرتے رہے ہیں۔ عام طور پر ٹیم کا انتخاب لاہور اور کراچی میں لگنے والے کرکٹ کیمپوں سے کیا جاتا ہے۔ لاہور کیمپ قدرے مضبوط کیمپ تصور کیا جاتا ہے اس لیے بیشتر کھلاڑی پنجاب سے لیے جاتے ہیں جبکہ کراچی کیمپ سے ٹیم میں شامل کیے جانے والے کھلاڑیوں کی تعداد مقابلتاً بہت کم ہوتی ہے۔ پنجاب کیمپ میں دیگر صوبوں کے کھلاڑیوں کو قطعاً شامل نہیں کیا جاتا جبکہ کراچی کیمپ میں بالائی سندھ اور دیگر صوبوں کے کھلاڑیوں کو جگہ دی جاتی ہے۔ میرے خیال میں یہ طرز عمل دیگر صوبوں کے مواقع چھین لینے کے مترادف ہے۔ عامر سہیل کو ہٹا کر ان کی جگہ سعید انور کو لایا جائے۔ محمد مشتاق محمد مشتاق، ہانگ کانگ میرے خیال میں عامر سہیل کو ہٹا کر ان کی جگہ سعید انور کو لایا جائے کیونکہ عامر سے بہت غلط فیصلے ہوئے ہیں۔ اور میرے خیال میں سعید انور نیک نیت آدمی ہیں اور وہ درست فیصلےکریں گے۔ اس وقت ٹیم میں وقار یونس کی ضرورت ہے اس لیے انہیں واپس لایا جائے۔ عمران حیدر، لاہور، پاکستان میرے خیال میں عامر سہیل نے یونس خان، شاہد آفریدی، مشتاق احمد اور ثقلین مشتاق کو مسترد کر کے ایک صحیح قدم اٹھایا ہے کیونکہ ان کھلاڑیوں کی حالیہ کارکردگی سے آپ بھی واقف ہیں۔ البتہ عامر سہیل نے چند غلط قدم بھی اٹھائے ہیں جن میں سے ایک وقار یونس کا ٹیم میں شامل نہ کیا جانا بھی ہے۔ ہمارے سلیکٹرز امراء یا سیاستدانوں کے بیٹوں کو ٹیم میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ عاصم شیخ عاصم شیخ، امریکہ میرے خیال میں سیاست کو کھیل سے علیحدہ ہونا چاہیے۔ ہم امراء کے بچوں کو کرکٹ کھیلنے کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ امریکہ میں باسکٹ بال کے کھلاڑیوں کو میرٹ کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں کرکٹ اس قدر شوق سے کھیلی جاتی ہے کہ کرکٹ کے اچھے کھلاڑی تلاش کرنا مشکل کام نہیں ہے لیکن ہمارے سلیکٹرز امراء یا سیاستدانوں کے بیٹوں کو ٹیم میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں غریبوں کو بھی کرکٹ کھیلنے کا موقع دینا چاہئے۔ ندیم، لاہور، پاکستان عامر سہیل ایک جذباتی شخص ہیں انہیں مہربانی کر کے کرکٹ سے علیحدہ ہی کر دیں۔ اگر آپ پاکستان ٹیم کو بنانا چاہتے ہیں تو عامر سہیل کو آؤٹ کرنا ہو گا۔ نہ صرف عامر کو بلکہ یونس خان، ثقلین مشتاق اور راشد لطیف کو بھی ٹیم سے آؤٹ کرنا ہو گا۔ عامر شاہ مشوانی، ہری پور، پاکستان پاکستان کرکٹ کے سلیکٹرز اور کوچ نے ہمیں بہت مایوس کیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ پاکستان سے مخلص نہیں ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کو چاہئے کہ وہ سلیکشن کمیٹی کو تبدیل کر دیں۔ عامر سہیل کو چیف سلیکٹر کے عہدے سے فارغ کر دیا جائے۔ وحید خان وحید خان، جرمنی پاکستان کرکٹ کا موجودہ بحران ختم کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ عامر سہیل کو چیف سلیکٹر کے عہدے سے فارغ کر دیا جائے کیونکہ اس وقت ہر کسی کو انہی سے شکایت ہے۔ محمد فرقان، لاہور، پاکستان عامر سہیل کو کرکٹ کی انتظامیہ سے باہر ہونا چاہیے۔ معین الدین حمید، کینیڈا عامر سہیل جیسی متنازعہ شخصیت کو بحیثیت چیف سلیکٹر نامزد کرنا غالباً توقیر ضیاء کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ عامر بحیثیت کھلاڑی بہت سے ناپسندیدہ واقعات میں ملوث رہے ہیں۔ چیف سلیکٹر کو ٹھنڈے مزاج کا حامل ہونا چاہئے جبکہ عامر نے چیف سلیکٹر بنتے ہی بعض سینیئر کھلاڑیوں سے بدلے لینا شروع کر دیے۔ گندی سیاست کے باعث پاکستان کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ قومی ٹیم کا انتخاب صرف میرٹ کی بنیاد پر ہونا چاہئے نہ کہ صوبائی یا علاقائی بنیادوں پر۔ سلیکشن میں ٹیم کے کپتان کو بھی ووٹ کا حق ہونا چاہیے لیکن کوچ کو اس کی اجازت نہیں ہونی چاہئے خاص پور پر ایسے وقت جو امیدوار کھلاڑیوں میں کوچ کے رشتہ دار بھی شامل ہوں۔ آصف شاہنواز، لاس اینجلس، امریکہ اندھیر نگری، چوپٹ راجہ اندھیر نگری، چوپٹ راجہ آصف شاہنواز، لاس اینجلس، امریکہ ڈاکٹر افضال ملک، راولپنڈی، پاکستان عامر سہیل کو عزت کے ساتھ خود ہی رخصت ہوجانا چاہئے، یہ نہ ہو کہ ’بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے‘ والی بات ہو جائے۔ ایاز شیراز، کراچی، پاکستان اگر پاکستان کرکٹ بورڈ کو کمرشل کمپنی کے طور پر چلایا جائے تو کرکٹ سے سیاست کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ جب چیئرمین اپنے بیٹے اور کوچ اپنے بھانجے کے لئے قانون توڑ سکتے ہیں تو چیف سلیکٹر کیوں پیچھے رہیں۔ شمسل بلوچ، کیچ، پاکستان جب ایک صوبہ ہر چیز پر اپنی بالادستی قائم رکھنا چاہے تو یہی ہوگا۔ گزشتہ چھپن سال سے بلوچستان کا ایک بھی بندہ ٹیم میں نہیں آیا۔ یاسر احمد، ٹورنٹو، کینیڈا پاکستان کرکٹ ٹیم جنرل توقیر الیون بن چکی ہے۔ جب فوج میں سیاست، عدلیہ میں سیاست تو یہاں کیوں نہیں۔ عبیدالرحمان مغل، انگلینڈ عبیدالرحمان مغل، بریڈفورڈ، انگلینڈ جب فوج میں سیاست، عدلیہ میں سیاست تو یہاں کیوں نہیں۔ جب فوجیوں کو نجی شعبوں میں تعینات کیا جائے گا تو یہی ہوگا۔ عمران زیدی، واشنگٹن، امریکہ جب کپتان ہی ہار جیت کا ذمہ دار ہے تو اسے اس ٹیم کے کھلاڑیوں کے انتخاب میں بھی پوری طرح شامل ہونا چاہئے، جس کی وہ قیادت کر رہا ہے۔ جب دنیا میں ہر جگہ ٹیم کی قیادت کرنے والے کو انتخاب کے عمل میں شریک کیا جاتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں۔ اویس چوہدری، جرمنی سلیکٹر کا عہدہ ختم کرکے یہ ذمہ داری کوچ کو سونپ دینی چاہئے۔ صرف کراچی کی مقامی ٹیم سے ٹیسٹ ٹیم میچ کھیل کر دیکھ لے۔ طاہر فاروقی، کراچی، پاکستان طاہر فاروقی، کراچی، پاکستان تعصب آج سے نہیں پہلے دن سے ہو رہا ہے اور یہ ملک شاید اسی لئے بنا ہے۔ آصف اقبال نے ٹی وی پر کہہ دیا تھا کہ ہم نے یہ لکیر کھینچ دی ہے آپ کے لئے، اس سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کرنا۔ ابھی بھی سارے کھلاڑی سفارش پر بھرتی کئے گئے ہیں جس کی مثال ہماری ٹیم کی کارکردگی ہے۔ صرف کراچی کی مقامی ٹیم سے ٹیسٹ ٹیم میچ کھیل کر دیکھ لے۔
080102_maoist_jharkhand_awa
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/01/080102_maoist_jharkhand_awa
جھارکھنڈ: چھ ماؤ نواز باغی ہلاک
ہندوستان کی شمالی ریاست جھارکھنڈ اور اڑیسہ کی سرحد پر واقع سارنڈا کے گھنے جنگلوں میں ماؤ نواز باغیوں اور پولیس کے مابین ہوئے تصادم میں پولیس نے چھ باغیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
جھارکھنڈ پولیس کے ترجمان راج کمار ملک نے بتایا کہ منگل کی دیر رات تصادم کا آغاز اس وقت ہوا جب سیم ڈیگا کے پولیس سپرٹینڈینٹ ڈی بی شرما علاقے کا گشت لگا ر ہے تھے۔ پولیس کے مطابق ماؤ نواز باغیوں نے پولیس سپرٹنڈینٹ کی گاڑی کو بارودی سرنگ سے اڑانے کی ناکام کوشش کی۔ پولیس اور ماؤنواز باغیوں کے مابین تقریبا تین گھنٹے تک گولی باری کا تبادلہ ہوا جس میں مورٹار گولے اور خودساختہ چلنے والی بندقوں کا استعمال کیا گيا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تصادم میں متعدد باغی زخمی ہوئے ہیں۔ جبکہ مورٹار دھماکے سے ایک پولیس اہلکار شدید طور پر زخمی ہوگیا جسے نہیں بچایا جا سکا۔ پولیس ترجمان مسٹر ملک کا کہنا ہے کہ ماؤ نواز باغی سیم ڈیگا کے جل ڈیگا پولیس اسٹیشن پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور باغیوں کی تعداد تقریبا ڈیڑھ سو تھی۔ جھارکھنڈ میں ماؤ نواز باغی بائیس میں سے اٹھارہ اضلاع میں سرگرم ہیں اور ہمشہ سرکاری اثاثے، پولیس، سیاسی رہنما سیمت عام عوام پر حملے کرتے رہتے ہیں لیکن حکومت باغیوں سے نمٹنے میں ناکامیاب رہی ہے۔
140627_ww1_sarajevo_live_sq
https://www.bbc.com/urdu/world/2014/06/140627_ww1_sarajevo_live_sq
شہزادہ فرڈینینڈ کا سرائیوو کا دورہ
ہم آپ کو بی بی سی کے اس صفحے پر خوش آمدید کہتے ہیں جہاں ہم ایک نہایت اہم اور تاریخی واقعے کی خبر آپ تک پہنچا رہے ہیں جو ایک سو سال پہلے آج کے ہی دن پیش آیا تھا۔ یہ واقعہ تھا آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ پر قاتلانہ حملہ جو کہ سرائیوو میں ہوا تھا۔ تاریخ کو دوبارہ زندہ کرنے کے خیال سے اور اس واقعے کو اپنے آج کے قارئین کے مزاج اور خبروں کے انداز میں سمونے کی غرض سے ہم نے اس واقعے کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ جیسے یہ آج ہی کی خبر ہو۔ یعنی اگر میڈیا اس واقعے کی خبر آج دیتا تو اس کا انداز کیا ہوتا!
09:30 ہم آپ کو بی بی سی کے ان صفحات پر خوش آمدید کہتے ہیں جو ہم نے آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ کے بوسنیا کے دورے کی خبروں کے لیے مختص کیا ہے۔ شہزادہ فرڈینینڈ آج سرائیوو پہنچ رہے ہیں۔ آسٹرو ہنگیرین سلطنت کا یہ شاہی دورہ شہزادہ فرڈینینڈ کا سب سے اہم دورہ ہے۔ اس دورے پر ڈچًِز آف ہوہنبرگ سوفی بھی شہزادہ فرڈینینڈ کے ہمراہ ہیں۔ شہزادہ فرڈینینڈ نےگذشتہ دو دن فوج کے ساتھ گزارے جبکہ اس دوران شہزادی سوفی نے سرائیوو میں واقع سکولوں، یتیم خانوں اور چرچوں کے دورے کیے۔ توقع ہے کہ آج جب شاہی جوڑا سرائیوو پہنچےگا تو یہاں پر ان کا شاندار استقبال ان کے بوسنیا کے دورے کا نکتہ عروج ثابت ہوگا۔ 09:31 اپنے سرکاری دورے کے دوران شاہی جوڑا لڈزا کے پُرآسائش ’ہوٹل بوسنیا‘ میں قیام کر رہا ہے جو کہ سرائیوو سے چھ میل مغرب میں واقع ہے۔ گذشتہ چند روز اس جوڑے کے لیے خاصے مصروف رہے ہیں اس وقت یہ دونوں ریل گاڑی کے ذریعے سرائیوو پہنچ رہے ہیں۔ گذشتہ رات انھوں نے 41 دوسرے مہمانوں کے ساتھ ایک عشائیے میں شرکت کی جن میں بوسنیا کے اعلیٰ فوجی، مذہبی اور سرکاری حکام شامل تھے۔ 09:32 آرچ ڈیوک باقاعدگی سے اپنی سلطنت کا دورہ کرتے رہتے ہیں اور وہ اب تک دنیا کے دور دراز ممالک تک بھی سفر کر چکے ہیں۔ انھوں نے 1893 میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، چین، جاپان، کینیڈا اور امریکہ کے دورے کیے تھے۔ شہزادہ فرڈینینڈ آخری مرتبہ برطانیہ گذشتہ برس گئے تھے۔اپنے اس دورے کے دوران شہزادہ فرڈینینڈ اور سوفی نے ونڈزر میں باشاہ اور ملکہ کے ساتھ قیام کیا تھا اور انھوں نے شیروُڈ فارسٹ اور بولسوور کے قلعے کا بھی دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اب شہزادہ فرڈینینڈ ’تمام انگریزی چیزوں کے قدردان‘ ہو چکے ہیں۔ 09:33 سرائیوو کو شاہی مہمانوں کی میزبانی کا شرف سنہ 1910 میں بھی حاصل ہوا تھا جب بوسنیا کے متنازعہ طور پر آٹسرو ہنگیرین مملکت کا حصہ بن جانے کے دو برس بعد سابق شنہشاہ فرانز جوزف نے اس شہر کا دورہ کیا تھا۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ شہنشاہ فرانزجوزف کی نسل سے تعلق رکھنے والے موجودہ شہنشاہ یعنی شہزادہ فرڈینینڈ کے اس دورے کا مقصد بوسنیا کے ساتھ شاہی تعلقات کو مذید مضبوط بنانا ہے۔ 09:35 شہزادہ فرڈینینڈ نے 1900 میں عوام کے دل اس وقت جیت لیے تھے جب انھوں نے محبت کو فرض پر ترجیح دیتے ہوئے شاہی عملے کی ایک رکن کاؤنٹیس سوفی چوٹک سے شادی کر لی۔ ہیپشبرگ کے شاہی خاندان سے تعلق کی وجہ سے توقع کی جا رہی تھی کہشہزادہ فرڈینینڈ کسی شاہی خاندان کی لڑکی سے شادی کریں گے۔ سوفی چوٹک کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت آخر کار انھیں صرف اس شرط پر ملی تھی کہ ان دونوں کے بچوں کا آسٹرو ہنگیرین سلطنت کی وراثت پر کوئی حق نہیں ہوگا۔ اگرچہ سوفی کے پاس ’ڈچًِز‘ کا خطاب ہے لیکن انھیں وہ تمام خصوصی مراعات نہیں دی جاتیں جو اس خطاب کی حامل دیگر خواتین کو ملتی ہیں۔ اپنے گھر ویانا میں انھیں شاہی بگھی میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جاتی، لیکن چونکہ شہزادہ فرڈینینڈ سرائیوو کا یہ دورہ مسلح افواج کے انسپیکٹر جنرل کی حیثیت میں کر رہے ہیں اس لیے آج کے جلوس کے دوران سوفی اپنے شوہر کے ساتھ ساتھ رہیں گی۔ 09:37 آج کے دن شاہی جوڑا اپنی شادی کی 14ویں سالگرہ بھی مکمل کر رہا ہے۔ یہ تصویر ان کی شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد کی ہے جب ان کی عمریں 36 اور 32 برس تھیں۔ 09:42 مقامی علاقے میں آج ایک اور سالگرہ بھی منائی جا رہی ہے۔ بوسنیائی سربوں کے لیے، جو کہ ملک کی کل آبادی کا 40 فیصد ہیں، 28 جون کی تاریخ قومی تہوار کا دن ہوتا ہے۔ یہ دن سنہ 1389 کی جنگِ کوسووو کی یاد میں منایا جاتا ہے جب سربوں نے ترکوں کو شکست فاش سے دوچار کیا تھا۔ 09:47 سینکڑوں کی تعداد میں لوگ شاہی جوڑے کے استقبال کے لیے جلوس کے مرکزی راستے کے ارد گرد جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جلوس کے تمام راستے کو پرچموں اور پھولوں سے سجایا گیا ہے۔ 09:49 ریل گاڑی سرائیوو کے ریلوے سٹیشن میں داخل ہوا چاہتی ہے جہاں معزز مہمانوں کا استقبال بوسنیا ہرزیگووینا کے فوجی گورنر جنرل آسکر پوٹیورِک اور سرائیوو کے میئر فہیم آفندی کُرکِک کریں گے۔ 09:50 اب شہزادہ فرڈینینڈ اور ان کی اہلیہ ریل گاڑی سے باہرسرائیوو کی گرم دھوپ میں قدم رکھ چکے ہیں اور معززین ان کا استقبال کر رہے ہیں۔ شہزادہ فرڈینینڈ فوجی جنرل کی وردی میں ملبوس ہیں اور انھوں نے نیلے رنگ کی ٹیونک اور سر پرسیاہ ہیلمٹ پہنا ہوا ہے جس پر مور کے سبز پر لگے ہوئے ہیں۔ 09:51 شہزادی سوفی نے سفید رنگ کا ڈریس پہنا ہوا ہے جس پر گہرے سرخ کی پٹی لگی ہوئی ہے اور انھوں نے ہیٹ بھی پہنا ہوا ہے۔ 09:53 شاہی مہمانوں کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا ہے اور 15ویں کور کے فوجی بینڈ نے آسٹریا کے قومی ترانے کی دھن بھی بجائی ہے۔ 09:54 سرائیوو کے دورے کے دوران آج شاہی جوڑا سب سے پہلے سٹی ہال پہنچے گا جہاں پر شہر کے میئر کُرکِک سرکاری طور پر مہمانوں کو خوش آمدید کہیں گے۔ میئر کے استقبالی خطاب کے بعد شہزادہ فرڈینینڈ قومی عجائب گھر میں ایک تقریب میں شرکت کریں گے اور اس کے بعد وہ شہزادی سوفی سے دوبارہ ملیں گے اور پھر دونوں ظہرانے کے لیے گورنر کی رہائش گاہ کی جانب روانہ ہو جائیں گے۔ 09:57 ظہرانے سے پہلے شاہی مہمان مختصر دورے پر ریلوے سٹیشن کے سامنے واقع ہی فوجی بارکوں میں پہنچے ہیں جہاں شہزادہ فرڈینینڈ فوجی دستوں کا معائنہ کریں گے۔ 10:00 اب دونوں شاہی مہمان اپنے میزبانوں جنرل پوٹیوریک اور کاؤنٹ فرانز وان ہرًچ کے ہمراہ ایک کھلی کار میں سوار ہو چکے ہیں۔ کار کے سامنے کے حصے پر شاہی پرچم لہرا رہا ہے۔ 10:02 اس وقت استقبالی کاروں کا یہ جلوس معزز مہمانوں کو لیے ہوئے شہر میں ایپل گھاٹی کے علاقے سےگذر رہا ہے جو کہ دریائے مِلجاکا کے شمالی کنارے پر واقع ہے۔ 10:03 شہر کے مشرقی علاقے میں واقع تُرک قلعے سے چوبیس توپوں کی سلامی سے شہر گونج اٹھا ہے اور یوں دورے کے آغاز کا باقاعدہ اعلان کیا جا رہا ہے۔ 10:04 جوں جوں شہزادہ فرڈینینڈ اور سوفی کی کار ان کے سامنے سے گذرتی ہے تو اسقبال کے لیے سڑک کی دونوں جانب کھڑے ہوئے لوگوں میں سے کچھ ’زِویو، زویو‘ کے نعرے لگا رہے ہیں جس کا مطلب ہے ’ شہنشاہ کی عمر دراز ہو۔‘ آج کے دن کے حوالے سے مقامی اخبارات میں خوب تشہر کی گئی ہے تا کہ شاہی دورے کے آخری دن زیادہ سے زیادہ لوگ باہر آئیں اور مہمانوں کا استقبال کریں۔ 10:05 اس وقت شاہی کاروں کا جلوس ایپل گھاٹی کے کنارے کنارے سٹی ہال کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سٹی ہال کی تعمیر 1896 میں ہوئی تھی۔ 10:07 کاروں کے درمیان پچاس پچاس گز کا فاصلہ رکھا گیا ہے اور اب یہ کاریں گھروں کے سامنے سے گذر رہی ہیں۔ ان گھروں کو ہیپسبرگ اور بوسنیا کے پرچموں سے سجایا گیا ہے، یوں گھروں پر آپ کو بالترتیب سیاہ و پیلے اور سرخ و پیلے رنگوں کے پرچم دکھائی دے رہے ہیں۔ استقبال کے لیے آئے ہوئے لوگوں کی اکثریت ایپل گھاٹی کی اس جانب کھڑی ہے جو سرائیو شہر کے قریب ہے کیونکہ اُس طرف سایہ ہے۔ 10:10 شہزادہ فرڈینینڈ کی کار اب پولیس سٹیشن اور فوجیوں کی نئی بارکوں کے سامنے سے گذر چکی ہے۔ 10:12 بریکنگ نیوز: شہزادہ فرڈینینڈ کے قافلے کی کاروں کے قریب ایک دھماکہ ہو گیا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ یہ دھماکہ کیسے ہوا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انھیں ایک زور دھماکے کی آواز سنائی دی اور اس کے بعد شہزادہ فرڈینینڈ کی کار تیزی کے ساتھ مڑ گئی ہے۔ دھماکے میں کسی کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ 10:13 شہزادہ فرڈینینڈ کی کار کے بالکل پیچھے آنے والی کار رک گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قافلے میں شامل ایک کار کو نقصان پہنچا ہے۔ موقع پر موجود ہجوم میں پولیس کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ بالکل سمجھ نہیں آ رہی کہ ہوا کیا ہے۔ دھماکے کی جگہ پر دھواں پھیل گیا ہے اور دھماکے سے اڑنے والے ٹکڑے ادھر ادھر بکھر گئے ہیں۔ غیر مصدقہ اطلاعات میں کہا جا رہا ہے کہ سرکاری قافلے اور استقبال کے لیے آئے ہوئے عام لوگوں میں سے کچھ افراد خمی ہو گئے ہیں۔ 10:15 شہزادہ فرڈینینڈ کی کار رک گئی ہے اور حکام شہزادہ فرڈینینڈ کو اس واقعہ کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ اطلاعات میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک بم دھماکہ ہے اور یہ بم ایپل گھاٹی کی دریا والی جانب کھڑے ہوئے ہجوم کی طرف سے کاروں پر پھینکا گیا تھا۔ 10:18 اب ہمیں جائے وقوعہ سے مناظر موصول ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ 10:19 آرچ ڈیوک اور سوفی دونوں ابھی تک اپنی کار میں ہیں اور انھوں نے اپنے میزبان محافظ کاؤنٹ فرانز وان ہرًچ کو بھیجا ہے کہ وہ عین دھماکے والی جگہ پر جا کر دیکھیں کہ کیا ہوا ہے۔ 10:21 بریکنگ نیوز: تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دھماکے میں تقریباً 20 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔زخمی ہونے والوں میں قافلے میں شامل دو فوجی افسران اور ایک خاتون بھی شامل ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ زخمی ہونے والی خاتون شہزادی سوفی نہیں ہیں۔ 10:23 اپ ڈیٹ: عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ انھوں نے ایک شخص کو شہزادہ فرڈینینڈ کی کار پر پھینکتے ہوئے دیکھا تھا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انھوں نے دیکھا کہ شہزادہ فرڈینینڈ نے اپنی جانب آتے ہوئے بم کو خود اپنے ہاتھ سے دوسری جانب موڑ دیا اور بم پیچھے آتی ہوئی کار کے راستے میں جا گرا۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس واقعے کے بعد ایک شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ شخص گھاٹی کے کنارے سے چھلانگ لگا کر موقعے سے فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ 10:24 اپ ڈیٹ: خبر ہے کہ دھماکے میں شایدشہزادی سوفی کو بھی کچھ زخم آئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دھماکے سے اڑنے والے مواد کے ٹکڑوں میں کچھ ان کے گال پر لگے جس سے انھیں خراشیں آئی ہیں۔ عینی شاہدین کا خیال ہے کہ وہ زیادہ زخمی نہیں ہوئیں۔ اطلاعات کے مطابق دھماکے میں شہزادہ فرڈینینڈ کو کسی قسم کا کوئی زخم نہیں آیا اور وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ 10:26 اپ ڈیٹ: کہا جا رہا ہے کہ دھماکے کے باوجود شہزادہ فرڈینینڈ اور شہزادی سوفی اپنا دورہ پروگرام کے مطابق جاری رکھیں گے۔ 10:28 عینی شاہدین کے مطابق انھوں نے شہزادہ فرڈینینڈ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’یہ شخص کوئی پاگل تھا۔ چلیں ہم اپنا پروگرام جاری رکھتے ہیں۔‘ 10:32 شہزادہ فرڈینینڈ اور سوفی ابھی ابھی سٹی ہال پہنچ گئے ہیں۔ یہاں شاہی مہمانوں کا استقبال کرنے والوں میں سرائیوو کے عیسائی، مسلمان اور یہودی رہنماؤں میں سے چیدہ چیدہ شخصیات موجود ہیں۔ توقع ہے کہ یہاں شہزادہ فرڈینینڈ ایک استقبالیہ تقریب میں شرکت کریں گے جبکہ شہزادی سوفی مسلمان افسران کی بیگمات سے ملاقات کریں گی۔ میئر کُرکِک شہزادہ فرڈینینڈ سے تھوڑی ہی دیر پہلے یہاں پہنچے ہیں کیونکہ وہ جس کار میں سوار تھے وہ کار جلوس میں شہزادہ فرڈینینڈ کی کار سے آگے تھی۔ میئر پوری طرح تیار ہیں اور شاہی مہمانوں کو باقاعدہ خوش آمدید کہنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ 10:35 اپ ڈیٹ: جس مقام پر بم دھماکہ ہوا ہے پولیس نے وہاں سے کئی افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ابھی تک معلوم نہیں کہ ان افراد میں آیا وہ شخص بھی شامل ہے جس نے بم پھینکا تھا۔ 10:40 اپ ڈیٹ: بم دھماکے میں زخمی ہونے والے افسران میں سے ایک کو گیریزن ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔ افسر کا نام کرنل ایرچ وان میرِزًی ہے۔ فوج کے ڈاکٹر جائے وقوعہ پر پہنچ چکے ہیں اور پولیس نے علاقے کو صاف کرنا شروع کر دیا ہے۔ 10:46 اس وقت شہزادہ فرڈینینڈ سٹی ہال میں استقبال کے لیے آئے ہوئے معززین سے ملاقات کر رہے ہیں۔ 10:52 بریکنگ نیوز: پولیس کا کہنا ہے کہ شہزادہ فرڈینینڈ پر حملے کے سلسلے میں انھوں نے ایک شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔ مشتبہ شخص کا نام نِڈلکو کابرینووِک ہے، اس کی عمر 19 سال ہے اور وہ بوسنیائی سرب ہے۔ پولیس نے اسے تھانے میں رکھا ہوا ہے اور اس مشتبہ شخص کی تصویر بھی جاری کی گئی ہے۔ 10:54 سٹی ہال میں جاری تقریب اختتام پذیر ہونے والی ہے۔ شاہی مہمان سٹی ہال سے روانہ ہونے والے ہیں۔ ان کا اگلا پڑاؤ نیشنل میوزیم پر ہوگا۔ 10:55 اپ ڈیٹ: سرکاری افسران نے بتایا ہے کہ شہزادہ فرڈینینڈ کے پروگرام میں ایک تبدیلی کر دی گئی ہے۔ اب شہزادہ اور ان کی اہلیہ سٹی ہال سے گیریزن ہسپتال جائیں گے جہاں وہ زخمیوں کی عیادت کریں گے جن میں کرنل میرِزی بھی شامل ہیں۔ 10:56 اب کاروں کا قافلہ سٹی ہال سے روانہ ہو چکا ہے اور کاریں تیز رفتاری سے یہاں سے نکل رہی ہیں۔ لگتا ہے کہ اب اس قافلے کے لیے اضافی سکیورٹی تعینات کر دی گئی ہے۔ شہزادہ فرڈینینڈ کی حفاظت کے لیے ان کی گاڑی میں دروازے کی جانب ایک فوجی افسر کو بھی بٹھا دیا گیا ہے۔ 11:00 سٹی ہال سے 300 میٹر دور لٹینر کے پُل کے قریب سے گولیوں کی آوازوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ 11:01 بریکنگ نیوز: شہزادہ فرڈینینڈ کو گولی لگ گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق شہزادے کوگولی لگ گئی ہے۔ مذید اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ 11:02 یہ فائرنگ ایپل گھاٹی اور فرانز جوزف سٹریٹ کے موڑ پر کی گئی۔ 11:06 اطلاعات کے مطابق فائرنگ کے بعد شہزادہ فرڈینینڈ کی کار تیزی کے ساتھ ایپل گھاٹی کی جانب مڑ گئی۔ 11:08 شہزادہ فرڈینینڈ کی حالت کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔ 11:10 اپ ڈیٹ: پولیس اس جگہ پہنچ رہی ہے جہاں فائرنگ ہوئی ہے۔ موقعے پر موجود ہجوم میں دنگا فساد شروع ہو گیا ہے۔ 11:14 پولیس نے ہجوم کو ایک شخص کو مارنے سے روک دیا ہے۔ 11:18 اپ ڈیٹ: ایک شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ہجوم میں سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ وہی شخص ہے جس نے شہزادے کو گولی ماری ہے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ جس شخص کو حراست میں لیا گیا ہے آیا اس کا تعلق آج صبح ہونے والے بم دھماکے سے بھی ہے۔ 11:22 عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ شہزادہ فرڈینینڈ کی گاڑی نے غلط موڑ لے لیا تھا اور گلی میں سے واپسی کے لیے موڑ کاٹ رہی تھی کہ ایک شخص آگے بڑھا اور قریب سے شہزادے پر دو گولیاں داغ دیں۔ 11:24 عینی شاہدین کے مطابق شہزادہ فرڈینینڈ اپنی نشت میں سیدھے بیٹھے ہوئے تھے جبکہ ان کی اہلیہ آگے کو جھکی ہوئی تھیں۔ 11:28 حکام نے تصدیق کی ہے کہ شہزادہ فرڈینینڈ اور ان کی اہلیہ کو گورنر آسکر پوٹیورِک کی سرکاری رہائش (جسے کونک کہا جاتا ہے) پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ ابھی تک ہمارے پاس کوئی خبر نہیں ہے کہ ان دونوں کی حالت کیسی ہے۔ 11:30 دو پادریوں کو کونک کے اندر جاتے دیکھا گیا ہے۔ 11:32 پورے سرائیو میں گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئی ہیں۔ 11:33 بریکنگ نیوز: آسٹریا کے شہزادہ اور شہزادی ہلاک ایک سرکاری افسر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شہزادہ فرڈینینڈ اور ان کی اہلیہ سوفی گولیوں کے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے ہیں۔ 11:40 پچاس سالہ آرچ ڈیوک فرڈینینڈ اور 46 سالہ ڈچًِز آف ہوہنبرگ سوفی انتقال کر گئے ہیں۔ 11:46 آج صبح کے بم دھماکے کے مشتبہ ملزم نے پولیس کو بتایا ہے کہ بم ایک بے نام ’تنظیم‘ سے حاصل کیا گیا تھا۔ اس شخص نے مذید تفصیل بتانے سے انکار کر دیا ہے اور وہ یہ بھی نہیں بتا رہا کہ آیا وہ کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھا یا نہیں۔ 11:50 بریکنگ نیوز: گرفتار شخص ہی مشتبہ قاتل ہے۔ پولیس نے مشتبہ شخص کا نام ظاہر کر دیا ہے۔ اس کا نام گورلو پرنسِپ ہے۔ وہ اس وقت پولیس کی حراست میں تھانے میں موجود ہے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا ہے کہ آیا دونوں حملوں کا آپس میں کوئی تعلق تھا یا نہیں۔ 11:54 اپ ڈیٹ: پولیس نے مشتبہ قاتل کا نام گورلو پرنسِپ بتایا ہے۔ 11:58 اطلاعات کے مطابق پرنسِپ کوگرفتار کرنے کے دوران ایک پولیس اہلکار بھی زخمی ہوا ہے۔ 12:03 اپ ڈیٹ: جس وقت فائرنگ ہوئی اس وقت ایک عینی شاہد، ڈانیلو پُسیلی شہزادے کی کار کے قریب ہی کھڑا تھا۔ پُسیلی کا کہنا ہے کہ جب حملہ آور نے شہزادے پر گولی چلائی تو اس کے فوراً بعد اس نے حملہ آور کو کالر سے دبوچ لیا۔ پُسلیلی کے بقول: ’میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں اس کا گلا دبا دوں، لیکن پھر مجھے روز قیامت کے منصف کا خیال آگیا اور میں نے اپنا ارداہ بدل دیا۔‘ 12:09 سٹی ہال میں آئے ہوئے مہمانوں میں سے ایک کا کہنا تھا کہ اس نے دیکھا کہ شہزادہ فرڈینینڈ بڑے اعتماد سے چلتے ہوئے سٹی ہال میں داخل ہو رہے تھے، لیکن وہ اسے کچھ ’عجیب‘ دکھائی دیے۔ ’میرا خیال ہے کہ وہ دکھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ بم دھماکے سےخوفزدہ نہیں ہوئے۔‘ 12:12 آج کے دورے کے حفاظتی انتظامات کے بارے میں یقیناً سوال اٹھیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ جب شہنشاہ فرانز جوزف سنہ 1910 میں سرائیوو کے دورے پر تشریف لائے تھے تو حفاظتی انتظامات آج کے مقابلے میں بہت سخت تھے۔ اُس موقعے پر جلوس کے راستے کی دونوں جانب فوجی تعینات کیے گئے تھے اور شہر میں آنے والے ہر نئے فرد کے لیے ضروری قرار دیا گیا تھا کہ وہ چھ گھنٹے کے اندر اندر اپنا اندراج کرائے۔ 12:19 ابھی ابھی ہماری بات شہزادہ فرڈینینڈ کے ذاتی محفظ کاؤنٹ فرینک ہرًِچ سے ہوئی ہے جو حملے کے وقت شہزادہ فرڈینینڈ کے ساتھ کھڑے تھے۔ انھوں نے ہمیں شہزادے اور شہزادی سوفی کے آخری لمحات کے بارے میں بتایا ہے۔ ہِرًچ کا کہنا ہے کہ گولیاں چلنے کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ’ عزت مآب کے منہ سے خون کی ایک پتلی سے لہر نکلی آئی اور میرے گال پر آ گری۔‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ جوں ہی شہزادے کی مدد کے لیے آگے بڑھے تو انھیں ایسا لگا کہ انھوں نے شہزادی کو شہزادے سے کہتے ہوئے سنا ’ کیا ہو گیا ہے آپ کو۔‘ اس کے بعد شہزادی اپنی نشت پر جھک گئیں اور انھوں نے اپنا چہرہ گھٹنوں کے درمیان چھپا لیا۔‘ ’ مجھے بالکل خبر نہیں تھی کہ انھیں بھی گولی لگ چکی ہے۔ میں نے سوچا کہ وہ صرف خوف سے نڈھال ہو گئی ہیں۔ پھر میں نے عزت مآب کو یہ کہتے سنا کہ ’سوفی، سوفی، مرنا نہیں۔ بچوں کے لیے زندہ رہو۔‘ لیفٹینینٹ کرنل ہِرًچ نے مذید بتایا: ’ میں نے شہزادہ فرڈینینڈ کو آگے کو گرنے سے بچانے کے لیے ان کا کالر پکڑ لیا اور ان سے پوچھا کہ کیا بہت درد ہو رہا ہے۔ ان کا جواب بڑا واضح تھا: ’یہ تو کچھ بھی نہیں۔‘ ’ان کا چہرہ ایک جانب کو گِرنا شروع ہوگیا لیکن وہ بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ کچھ بھی نہیں۔ انھوں نے یہ فقرہ چھ یا سات مرتبہ دھرایا اور یہی کہتے کہتے وہ بے ہوش ہوگئے۔’ یہ تو کچھ بھی نہیں! اور پھر تھوڑی ہی دیر میں گلے میں خون جمع ہو جانے کی وجہ سے مجھے ان کے دم گھٹنے کی آواز آئی۔ جب ہم کونک پہنچے تو یہ آواز بھی بند ہو چکی تھی۔‘ 12:26 شہزادہ فرڈینینڈ اور شہزادی سوفی کی میتوں کو سرکاری اعزاز کے ساتھ کونک میں رکھا جائےگا۔ 12:30 تمام شہر میں پرچم سرنگوں کیے جا رہے ہیں۔ اختتام
040703_kashmir_blast_rza
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2004/07/040703_kashmir_blast_rza
کشمیر دھماکہ: دو ہلاک تیس زخمی
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں حکام نے بتایا ہے کہ سری نگر میں بارودی سرنگ کے ایک دھماکے میں دو شہری ہلاک اور تیس کے قریب زخمی ہوگئے ہیں۔
حکام کے مطابق دھماکہ خیز مواد کو دارالحکومت سری نگر کے ڈل گیٹ کے علاقے میں ایک ریڑھی پر رکھا گیا تھا۔ اس علاقے میں عام طور پر حفاظتی انتظامات انتہائی سخت ہوتے ہیں۔ جس مقام پر دھماکہ ہوا وہاں سے ریاست کے وزیرِ اعلیٰ کی رہائش گاہ ایک کلومیٹر سے کچھ زیادہ فاصلے پر واقع ہے۔ دھماکہ کرنے والوں کا مقصد کیا تھا، یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا۔ ابھی تک کسی شدت پسند گروپ نے اس دھماکے کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کی۔
pakistan-52702137
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52702137
گردن توڑ کر قتل کرنے والا لاہور کا مالشیا ججی ’سیریل کِلر‘ کیسے بنا؟
یہ رواں برس جنوری کی بات ہے۔ صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے گنجان آباد علاقے بھاٹی گیٹ میں داتا دربار کے عین سامنے میٹرو بس کے پُل کے نیچے پولیس کو ایک لاوارث لاش ملی۔
ایسی ہی ایک لاش قریب ہی اسلام پورہ سے بھی چند ماہ قبل ملی تھی۔ ان دونوں افراد کو تیز دھار آلہ سینے میں اتار کر قتل کیا گیا تھا۔ ہلاک ہونے والے دونوں شخص نشے کے عادی اور ’مالشیے‘ تھے اور ایسے درجنوں بے گھر افراد میں شامل تھے جو داتا دربار اور اس سے ملحقہ علاقوں میں سڑک کنارے رہتے ہیں۔ ہمہ وقت لوگوں سے بھرے رہنے والے اس علاقے میں کون ان افراد کو کس وقت اور کیسے قتل کر گیا، کسی کو نہیں معلوم تھا، اور فرض کیجیے کہ معلوم تھا بھی تو کم از کم کسی نے ابتدائی تحقیقات کرنے والی پولیس کو اس بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ قریب ہی کے علاقوں شاد باغ اور پھر راوی روڈ سے بھی ایک برس پہلے دو لاشیں ملی تھیں۔ ان دونوں واقعات میں بھی طریقہ واردات ایک جیسا تھا۔ ان کو گردن کی ہڈی توڑ کر قتل کیا گیا تھا۔ راہ چلتے افراد کو گردن توڑ کر قتل کرنا عمومی مجرموں کا طریقہ کار نہیں تھا۔ نشے کے عادی افراد عموماً بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ مالشیے بھی مالش سے اتنے زیادہ پیسے نہیں کما پاتے۔ ایسے افراد چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث بھی پائے جاتے ہیں۔ تو کیا ان کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ اس کے لیے انھیں قتل کیا گیا؟ اگر نہیں تو قاتل ایسے افراد کے پیچھے کیوں تھا؟ یہ بھی پڑھیے ’مفخر نے پہلے بھی دو بار دوست کو مارنے کی کوشش کی تھی‘ جیکٹ کے دو بٹن ملزم عمران علی کی گرفتاری میں معاون ’ماڈل اقرا کی ہلاکت نشے کی زیادتی کی وجہ سے ہوئی‘ ایک عرصہ تحقیقات کے بعد بھی مقامی پولیس اس بات کا جواب اور مجرم کا سراغ نہ پا سکی تو بھاٹی گیٹ اور اسلام پورہ کے واقعات کی تحقیقات کرمنل انویسٹیگیشن ایجنسی یعنی سی آئی اے صدر کے حوالے کی گئیں۔ پولیس نے آغاز بھاٹی گیٹ پر قتل ہونے والے شخص سے کیا۔ ابتدائی تحقیقات میں پتا چلا کہ ہلاک ہونے والے کی ’برادری‘ کے لوگ انھیں ’بھولا مالشیا‘ کے نام سے جانتے تھے۔ انھوں نے پولیس کے پوچھنے پر بتایا کہ ’کافی عرصے سے وہ داتا دربار ہی کے آس پاس رہتا رہا تھا۔ کسی کو نہیں معلوم وہ کہاں سے آیا تھا، کون تھا۔‘ اسلام پورہ کے علاقے میں گذشتہ برس ستمبر میں قتل ہونے والے شخص کی شناخت بند روڈ کے رہائشی 21 سالہ محمد فہیم کے نام سے ہوئی۔ گھر والوں نے پولیس کو بتایا تھا کہ وہ نشے کا عادی تھا اور اکثر کئی کئی دن کے لیے گھر سے غائب ہو جاتا تھا۔ ایسے بے گھر لوگوں کو کون مار سکتا تھا؟ یہ پولیس کے لیے ایک معمہ تھا اور ایک اشارہ بھی۔ جن لوگوں میں ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا، ان کی موت کا راز بھی انھی کے پاس ہو سکتا تھا۔ سی آئی اے پولیس تحقیقات کے بعد ایک ایسے شخص تک پہنچ گئی جو ان چاروں قتلوں میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ راولپنڈی میں بھی ایک شخص کو گردن توڑ کر قتل کر چکا تھا۔ پولیس قاتل تک کیسے پہنچی؟ اندھے قتل کے ایسے واقعات جن میں موقع کے گواہان نہ ہوں اور شواہد بہت کم ہوں ان میں پولیس کے پاس عموماً تحقیقات کے دو آزمودہ طریقے ہوتے ہیں۔ ایک روایتی مخبروں کا نظام اور دوسرا جدید طریقہ جس میں موبائل فون سے مدد لی جاتی ہے۔ اور قاتل تک پہنچنے کے لیے پولیس نے ان دونوں طریقہ کار کا استعمال کیا۔ قاتل مرنے والے سے پیسے، قیمتی اشیا اور چند واقعات میں موبائل فون وغیرہ بھی ساتھ لے کر جاتا یا جاتے تھے۔ سی آئی اے صدر کے تحقیقاتی افسر انسپکٹر محمد یعقوب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ابتدائی طور پر قاتل کی موجودگی کا پتہ چلانے کے لیے ’جیو فینسنگ‘ کا طریقہ استعمال کیا گیا۔ اس طریقہ کار میں پولیس موبائل فون کمپنیوں یا کسی موبائل فون کی لوکیشن معلوم کرنے والے آلات کی مدد سے معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کس وقت کس علاقے میں موجود تھا۔ مختلف اوقات پر مختلف جگہ پر موجودگی کا ایک نقشہ بنا لیا جاتا ہے اور پھر اس شخص تک پہنچا جا سکتا ہے۔ تاہم انسپکٹر محمد یعقوب کے مطابق اس طریقہ کار سے بھولے مالشیے کے قتل میں پولیس کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا تھا۔ ملزم کے بارے میں یہ معلوم تھا کہ وہ اسی طبقے کے افراد میں ہو سکتا تھا جو قتل ہوئے تھے یعنی نشے کے عادی اور مالشیے۔ ’ہم نے علاقے میں موجود اپنے مخبروں سے مدد لی جو ان افراد کے پاس اٹھتے بیٹھتے رہے اور معلومات جمع کرتے رہے۔ اس کے بعد شک کی بنیاد پر مختلف افراد سے پوچھ گچھ کی گئی۔‘ 30 سالہ اعجاز عرف ججی بھی ان میں شامل تھا۔ کیا صرف وہی گردن توڑ کر قتل کرتا تھا؟ اعجاز عرف ججی نے پولیس کو بتایا کہ تین قتل اس نے اپنے ہاتھ سے کیے تھے اور دو کی منصوبہ بندی میں وہ شامل تھا جو اس کے ساتھیوں نے کیے تھے۔ اعجاز نے پولیس کو بتایا کہ وہ ’مالش کے بہانے شکار کو قریب واقع پارک میں لے جاتا تھا اور چھری کا وار کر کے یا اس کی گردن کا منکا توڑ کر اسے ہلاک کر دیتا تھا۔ اس کے بعد وہ ان کا موبائل فون اور نقدی وغیرہ لے کر موقع سے فرار ہو جاتا تھا۔‘ انسپکٹر محمد یعقوب کے مطابق ملزم نے انھیں بتایا کہ ’میں مالش کے دوران اپنے شکار کو کہتا تھا کہ اپنی گردن کو ڈھیلا چھوڑیں اور پھر ایک گھٹنا گردن کے پیچھے رکھ کر دونوں ہاتھوں سے منکا توڑ دیتا تھا۔‘ پھر یہ دیکھے بغیر کہ اس شخص کا دم نکل چکا ہے یا نہیں وہ اس کا قیمتی سامان اور پیسے لے کر جائے وقوعہ سے فرار ہو جاتا تھا۔ بھولے مالشیے کو اس نے تاہم چھری کے وار سے قتل کیا کیونکہ وہ بھی اس کی طرح مالشیا تھا اور گردن توڑنے کا طریقہ جانتا تھا۔ اعجاز نے پولیس کو بتایا کہ ’میں اسے پارک میں لے کر گیا اور اس پر چھری کا پہلا وار سینے میں دل کے پاس اور دوسرا پیٹ میں کیا۔‘ ججی فرار ہو گیا لیکن بھولا مرا نہیں۔ وہ زخمی حالت میں وہاں سے رینگتا ہوا داتا دربار کے سامنے میٹرو بس کے پل کے نیچے تک پہنچ گیا۔ انسپکٹر محمد یعقوب کے مطابق ’کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں دی اور وہ وہیں مر گیا۔ کافی وقت گزر جانے کے بعد اس کی لاش کی نشاندہی پولیس کو کی گئی۔‘ ’پہلا قتل راہگیر کی گردن توڑ کر کیا‘ ججی نے پولیس کو بتایا کہ اسلام پورہ میں محمد فہیم کا قتل اس نے راہ چلتے ہوئے چھری کا وار کر کے کیا تھا۔ لیکن تین سال قبل اس نے پہلا قتل ایک راہ چلتے شخص کی گردن کی ہڈی توڑ کر کیا تھا۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ ’پیچھے سے جا کر میں نے اسے دبوچ لیا تھا اور گردن کے پیچھے گھٹنا رکھ کر اس کی گردن کو دونوں ہاتھوں سے گھما کر توڑ دیا تھا۔‘ یہ واقع راولپنڈی کے علاقے فیض آباد میں ایک پارک کے اندر ہوا اور اس میں اس کے ساتھیوں نے بھی مدد کی تھی۔ وہ شخص موقع پر ہلاک ہو گیا تھا اور ججی اس کے پاس موجود نقدی اور موبائل فون لے کر فرار ہو گیا تھا۔ انسپکٹر محمد یعقوب کا کہنا تھا کہ ’ہر جرم کے بعد جرم کرنے والا خوف کا شکار ضرور ہوتا ہے۔ یہ اعجاز ججی کا پہلا قتل تھا اور اس کے بعد اس کو پکڑے جانے کا خوف ہوا اور وہ راولپنڈی سے بھاگ گیا۔‘ لیکن وہ نشے کا عادی تھا اور جلد ہے اس کو اسے نشے کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑی۔ لاہور میں اس نے اپنے جیسے ساتھی ڈھونڈ لیے اور ان کے ساتھ مل کر دو مزید افراد کو قتل کیا۔ اس کے بعد بھولے اور محمد فہیم کو اس نے اپنے ہاتھوں سے اکیلے قتل کیا۔ انسپکٹر محمد یعقوب کے مطابق شاد باغ اور راوی روڈ پر قتل ہونے والے افراد کی شناخت ہونا باقی تھی جس کے لیے متعلقہ پولیس کو اطلاع کر دی گئی تھی۔ ملزم نے گردن توڑ کر مارنا کہاں سے سیکھا؟ تفتیشی پولیس افسر کے مطابق ملزم نے قتل کرنے کے اس طریقے کی کوئی تربیت وغیرہ نہیں لے رکھی تھی۔ ’بس یہ کام مالش کرنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے جسم کے کن حصوں پر کتنا دباؤ دیا جائے تو انسان بیہوش ہو سکتا ہے یا اسے مارنا ہو تو اس کی گردن کیسے توڑی جا سکتی ہے۔‘ پولیس کے مطابق ماضی میں بھی اس نوعیت کے واقعات سامنے آ چکے تھے جن میں مالش کرنے والے پیشہ ور افراد ڈکیتی اور چوری کی وارداتوں میں ملوث پائے گئے تھے۔ تاہم ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ کسی کو لوٹنے کے بعد اسے قتل کر دیتے ہوں۔ انسپکٹر محمد یعقوب کے مطابق ’زیادہ تر یہ مالش کرنے والے جرائم پیشہ افراد اپنے شکار کے جسم کے کچھ ایسے حصے دباتے تھے کہ یا تو وہ سو جاتا تھا یا وہ حواس کھو بیٹھتا تھا اور وہ اس کے پیسے اور قیمتی سامان لے کر فرار ہو جاتے تھے۔‘ یہ بھی پڑھیے کیا دس سالہ بچہ بے رحم قاتل ہو سکتا ہے؟ گن نمبر 6: ایک مہلک پستول کی کہانی ’میرے باپ نے ماں کو قتل کیوں کیا؟‘ ججی کون ہے؟ اعجاز عرف ججی کو جب پولیس نے حال ہی میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے پیش کیا تو دیکھا جا سکتا تھا کہ وہ انتہائی دبلی پتلی قامت کا نشے کے عادی افراد سے مشابہہ کمزور سا شخص نظر آ رہا تھا۔ اس کے عمر 30 سال کے لگ بھگ تھی اور وہ اپنی عمر سے بڑا لگتا تھا۔ اس نے پولیس کو بتایا اس نے چھوٹی عمر ہی سے جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا جب اس نے نشہ کرنے والوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کیا۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ ’ہمارے گھر کے پاس ایک دربار تھا جس کے باہر بہت سے نشہ کرنے والے لوگ بیٹھتے تھے۔ ان کے پاس بیٹھنے سے مجھے نشے کے لت لگی۔‘ دورانِ تفتیش ججی نے پولیس کو بتایا کہ ’پہلی بار چوری میں نے نشے کے لیے اپنے گھر ہی سے کی تھی۔‘ پکڑے جانے پر گھر والوں نے مار پیٹ کر اسے گھر سے نکال دیا۔ اس دن کے بعد ججی کبھی گھر نہیں گیا۔ انسپکٹر محمد یعقوب کو ملزم نے بتایا کہ اسے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کے گھر والے اب دکھتے کیسے ہیں اور کہاں رہتے ہیں۔ اسے بس اتنا یاد تھا کہ وہ لاہور کے ایک مضافاتی علاقے اٹاری میں رہتا تھا۔ ججی نے پولیس کو بتایا کہ بھاٹی گیٹ کے علاقے میں جس مالشیے کو اس نے قتل کیا اس کے پاس سے صرف 1500 سے 1600 روپے ہی نکلے تھے وہ قتل کیوں کرتا تھا؟ گھر سے نکالے جانے کے بعد اعجاز عرف ججی نے چھوٹی موٹی چوری چکاری شروع کر دی۔ بڑھتے بڑھتے بات موٹر سائیکل چوری کرنے اور بڑی چوریوں تک پہنچ گئی۔ پولیس افسر کے مطابق وہ نشے کا عادی تھا۔ اس نے بتایا کہ ’نشے کے لیے مجھے پیسے کی ضرورت ہوتی تھی۔‘ ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اس نے مالش کرنے کا کام بھی سیکھ لیا۔ جب اس نے پہلا قتل کیا تو اسے اکٹھے پیسے ملے۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ ’پہلے قتل کے بعد جب میں بچ گیا تو مجھے لگا کہ یہ تو بڑا آسان کام ہے۔ ایک دم اتنے پیسے مل جاتے تھے اور آپ پکڑے بھی نہیں جاتے۔‘ پولیس انسپکٹر کے مطابق اس کے بعد اس نے بے خوف ہو کر قتل کرنا شروع کیا۔ ’بھولے مالشیے کے پاس صرف چار سو روپے نکلے‘ ججی نے پولیس کو بتایا کہ بھاٹی گیٹ کے علاقے اس کے ہاتھوں قتل ہونے والے بھولے مالشیے کے بارے میں اس معلوم ہوا تھا کہ اس نے اس روز اچھی کمائی کی تھی اور اس کے پاس سے 1500 سے 1600 روپے ہو سکتے ہیں۔ ’لیکن وہ جب اس پر چھریوں کے وار کر کے اس کی جیب سے پیسے نکال کر فرار ہوا تو اسے معلوم ہوا کہ بھولے مالشیے کے پاس صرف 400 روپے تھے۔‘ اسی طرح اسلام پورہ میں راہ چلتے نشے کے عادی جس شخص محمد فہیم کو اس نے قتل کیا اس کے ساتھ اس کی نشے پر لڑائی ہوئی تھی اور اس کی جیب سے وہ 1500 روپے اور موبائل فون لے کر بھاگا تھا۔ ہر واردات میں اسے چھوٹی موٹی رقوم اور موبائل فون وغیرہ ملے تھے۔ تاہم پولیس کے مطابق اس نے زیادہ تر وارداتوں میں جن لوگوں کو نشانہ بنایا وہ اسی کے حلقے کے لوگ تھے اور اسے یہ بھی ڈر تھا کہ انھیں زندہ چھوڑ دینے سے وہ پکڑا جا سکتا تھا۔ ’لیکن نشے کی عادت نے اس کی سوچنے سمجھنے کے صلاحیت متاثر کر رکھی تھی۔ وہ نشہ حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا۔‘ انسپکٹر محمد یعقوب کے مطابق ملزم نشے کے ٹیکے لگاتا تھا جو کہ ایسے افراد کے لیے آخری مرحلہ گنا جاتا ہے جس کے کچھ عرصہ بعد وہ مر جاتے تھے۔ ججی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔ تاہم جنوری میں بھاٹی گیٹ کے علاقے میں اس کے ہاتھوں قتل ہونے والے بھولے مالشیے کی تاحال شناخت نہیں ہو پائی۔ پولیس کے مطابق اس کا شناختی کارڈ نہیں بنا تھا اور اس کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد لی جا رہی تھی۔ اب پولیس کو ملزم کے گروہ میں شامل دیگر ساتھیوں کی تلاش ہے۔
080912_asian_espn_as
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2008/09/080912_asian_espn_as
ٹوئنٹی20 حقوق کے لیے ایک ارب ڈالر
اطلاعات کے مطابق ایشیائی براڈکاسٹر ای ایس پی این سٹار سپورٹس نے پہلی ٹوئنٹی20 چیمپیئنز لیگ کے کمرشل اور مارکیٹنگ حقوق خریدنے کے لیے ایک ارب ڈالر ادا کیے ہیں۔
اس رقم سے اگلے دس تک کے حقوق حاصل کر لیے گئے ہیں۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ اس کے بعد اب ٹوئنٹی20 چیمپیئنز لیگ دنیائے کرکٹ میں فی میچ اوسط کے حساب سے سب سے زیادہ مالیت کا مقابلہ بن گیا ہے۔ یہ ٹورنامنٹ تین دسمبر کو شروع ہو گا اور اس میں آٹھ ٹیمیں حصہ لیں گی جن میں مڈل سیکس کاؤنٹی کی ٹیم بھی شامل ہے۔ تاہم ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ ٹورنامنٹ کہاں ہو گا۔ اس ٹورنامنٹ میں آسٹریلیا، انڈیا اور جنوبی افریقہ سے دو دو ٹیمیں اور برطانیہ کی ٹوئنٹی20 چیمپیئن مڈل سیکس اور پاکستان کے شہر سیالکوٹ کی ٹیم شامل ہو گی۔ آسٹریلیا، انڈیا اور جنوبی افریقہ کے کرکٹ بورڈز چیمپیئنز لیگ کو مشترکہ طور پر منعقد کریں اور یہ بھی منصوبہ ہے کہ اگلے سال ٹیموں کی تعداد 12 کر دی جائے گی۔
040409_nscbill_senate_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/04/040409_nscbill_senate_fz
’ سلامتی کونسل‘ بل سینیٹ میں
پاکستان میں حزب اقتدار نے جمعہ کو قومی اسمبلی سے منظور کردہ قومی سلامتی کونسل کا بل ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں بحث کے لیے پیش کر دیاہے۔
سینیٹ میں بل پیش کئے جانے پر حزب اختلاف کی طرف سے معمولی ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی۔ خواندگی کے لیے بل پیش کئےجانے سے قبل ایوان نے اکثریت رائے سے حزب اختلاف کے دو اراکین کی دو تحریکوں کو مسترد کر دیا۔ سینیٹر عبدالطیف کھوسہ کی طرف سے پیش کی جانے والی تحریک میں کہا گیا تھا کہ بل پر عوامی رائے عامہ معلوم کرنے کے لیے اس پر بحث کو اپریل کی تیس تاریخ تک مؤخر کر دی جائے۔ سینیٹر ثنا اللہ بلوچ نے بل کو ایوان کی قائمہ کمیٹی کے حوالے کرنے کے بارے میں تحریک پیش کی تھی۔ سینیٹ کے چیئرمین میاں محمد سومرو نے عبدالطیف کھوسہ کی تحریک پر کہا کہ اس پر عوامی رائے عامہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ بل کو قومی اسمبلی پہلے ہی منظور کر چکی ہے۔
141113_shahrukh_clean_india_zs
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2014/11/141113_shahrukh_clean_india_zs
’میں تو دل اور دماغ کی صفائی میں یقین رکھتا ہوں‘
جہاں امیتابھ بچن، سچن تندولکر اور سلمان خان جیسے بڑے نام بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ’صاف بھارت‘ مشن سے وابستہ ہو چکے ہیں وہیں شاہ رخ خان کا کہنا ہے کہ وہ جہاں اس مہم کے حامی ہیں وہیں انھیں نمائش کے لیے جھاڑو لگانا کچھ عجیب سا لگتا ہے۔
شاہ رخ کے خیال میں بڑی شخصیات کے صاف بھارت مہم میں شامل ہونے سے لوگوں کو ایک اچھا پیغام ملےگا ’صاف بھارت‘ مہم کے دوران ان ستاروں نے جھاڑو ہاتھ میں لے کر اپنے گھر کے آس پاس کی صفائی کی اور اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر بھی شائع ہوئیں۔ بچوں کی تفریح سے منسلک ایک کمپنی کے پروگرام میں موجود شاہ رخ سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو وہ بولے، ’مجھے جھاڑو دینا ذرا عجیب سا لگتا ہے، خاص طور پر دستانے پہن کر جھاڑو لگانا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’میں تو دل اور دماغ کی صفائی میں یقین رکھتا ہوں۔ میرا دل صاف ہے، بس تھوڑی زبان صاف کرنی ہے۔ ایک دن سب صاف کر دوں گا۔‘ فلمی ستاروں نے جھاڑو ہاتھ میں لے کر صفائی کی اور اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر بھی شائع ہوئیں تاہم انھوں نے ’صاف بھارت‘ مہم کی تعریف کی اور کہا کہ بڑی شخصیات کے اس میں شامل ہونے سے لوگوں کو ایک اچھا پیغام ملےگا۔ اسی تقریب میں شاہ رخ سے ان کی فلم ہیپی نیو ایئر کے بارے میں جیا بچن کے تنقیدی بیان اور پھر مبینہ طور پر ان کے شوہر امیتابھ بچن کی شاہ رخ خان سے معذرت کے بارے میں بھی سوال کیا گیا۔ اس پر شاہ رخ نے کہا کہ انہیں اس معاملے پر کسی سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا، ’میں جیا جی سے بالکل ناراض نہیں ہوں۔ وہ مجھ سے سینیئر ہیں۔ مجھے ان پر غصہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔‘
050918_kgb_india_congress
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2005/09/050918_kgb_india_congress
کانگریسی وزراء کو رشوت ملی: مصنف
ہندوستان میں حزب اختلاف کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس انکشاف کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے کہ سرد جنگ کے دوران سابق سوویت یونین کی حکومت نے اندرا گاندھی کی حکومت کے سینیئر وزراء اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو رشوت دی تھی۔ یہ انکشاف ایک نئی کتاب میں کیا گیا ہے جو سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی ’کے جی بی‘ کے ایک سینئر ریکارڈ رکھنے والے اہلکار (آرکائیوِسٹ) وسیلی متروکھن نے لکھی ہے۔
اس کتاب ميں متروکھن نے اس بات کا ذکر کیاہے کہ کے جی بی نے اندرا گاندھی اور ان کی حکومت کے وزراء اور کانگریس پارٹی کو انتخابات لڑنے کے لئے کئی لاکھ روپئے دیے تھے۔ اس کتاب میں کانگریس پارٹی کے ساتھ ساتھ بائيں بازو کی جماعت پر بھی رشوت لینے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس کتاب کے اقتباسات اتوار کو ہندوستان کے اخباروں میں شائع کیے گئے ہیں۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ یہ رقم اتنخابات لڑنے کا خرچ اٹھانے اور پارٹی کے دوسرے کاموں کے لئے دی گئی تھی۔ کتاب میں 1973 کے دوارن کے جی بی کے سربراہ اولیگ کیلوگن کے حوالے سے کئی معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ کتاب میں سب سے دلچسپ بات یہ کہی گئی ہے کہ کیلوگن کے مطابق ’ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس دوران ہر شخص بکنے کے لئے تیارہے۔ کے جی بی اور مریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئے اے نے اپنی جڑيں گہرائی تک ہندوستانی حکومت میں پھیلا دیں تھیں۔‘ کیلوگن نے کتاب کے مصنف کو یہ بھی بتایا ہے کہ ایک بار ایک ایساموقع آیا تھا جب کے جی بی نے ایک ہندوستانی وزیر سے خبر لینے سے انکار کر دیا تھا کیوں کہ خبر دینے کے عوض میں وہ پچاس ہزار ڈالر کا مطالبہ کر رہے تھے۔ کتاب میں انکار کرنے کی اصل وجہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ خبر کے جی بی کو ہندوستانی وزارت خارجہ اور وزارت دفاع سے پہلے ہی مل چکی تھی۔ کانگریس پارٹی نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ کانگریس پارٹی کی جنرل سکریٹری امبیکہ سونی نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بلا کسی ثبوت کے اندرا گاندھی جیسی شخصیت پر اس طرح کے الزامات عائد کرنے پر کسی بھی طرح کا تبصرہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جس شخص نے یہ کتاب لکھی ہے انہیں اس وقت کے ہندوستان کے ماحول کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ کمیونسٹ پارٹی نے بھی ان الزامات کو مزاحیہ قرار دیا ہے۔ سی پی آئی کے رہنما اتل انجان نے کہا کہ ’یہ کیسے ممکن ہے کہ رشوت کے طور پر جو رقم دی گئی ہو اس کی رسیدیں بھی موجود ہوں؟ یہ تو کسی جاسوسی ناول میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔‘ حزب اختلاف کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس کتاب میں کانگریس پر عائد کیے جانے والے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس واقعے سے ایک بار پھر یہ واضع ہو گیا ہے کہ کانگریس کے ہاتھوں میں ہندوستان محفوظ نہیں ہے۔‘