id
stringlengths
8
69
url
stringlengths
33
111
title
stringlengths
8
173
summary
stringlengths
1
1.1k
text
stringlengths
110
51.6k
050918_advani_resignation
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2005/09/050918_advani_resignation
اڈوانی کا مستعفیٰ ہونے کا فیصلہ
ہندوستان میں حزبِ احتلاف کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر لعل کرشن اڈوانی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے یہ اعلان چیننئی میں گزشتہ دو دونوں سے جاری پارٹی کی قومی مجلسہ عاملہ کے اجلاس کے آخری دن کیا ہے۔
اڈوانی نے کہاکہ وہ دسمبر کے مہینے میں پارٹی کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر ممبئی میں ہونے والے اجلاس کے دوران اپنا استعفی سونپ دیں گے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے اڈوانی پر اپنے دو عہدوں میں سے ایک عہدے سے ہٹنے کا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ فی الوقت وہ پارلمنٹ میں ’لیڈر آف آپوزیشن‘ اور پارٹی کے صدر کے عہدے سنبھال رہے ہیں۔ ان پر یہ دباؤ سخت گیر ہندو تنظیم وی ایچ پی اور آر ایس ایس کے علاوہ خود بی جے پی کے رہنماؤں کی طرف سے بھی بڑھ رہا تھا۔ ان رہنماؤں کا مطالبہ تھا کہ اڈوانی کے پاس دونوں عہدے ہونا پارٹی کے اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ پارٹی میں ایک نظریاتی بحران اس وقت شرع ہوا جب لعل کرشن اڈوانی نے اپنے پاکستان دورے پر بانئی پاکستان قائد اعظم ممحد اعلی جناح کو ’سکیولر‘ قرار دیا تھا۔ ان کے اس بیان کے سبب آر ایس ایس اور وی ايچ پی نے ان پر پارٹی کے نظریے کی مخالفت کا الزام عائد کیا۔ اسی بیان کے سبب خود بی جے پی کے کئی سینئر رہنما اڈوانی کی مخالفت میں سامنے آئے۔ ان رہنماؤں میں یشونت سنہا، مدن لعل کھورانہ جیسے سینئر رہنما شامل ہیں۔ گزشتہ ہفتے اپنی اسی مخالفت کے سبب مدن لعل کھورانہ کو پارٹی سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی میں نوجوان نسل کے رہنماؤں کو قیادت سونپنے کی ضرورت پر بھی زور دیا جارہا ہے۔
060208_shujauddin_dead_si
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2006/02/060208_shujauddin_dead_si
کرکٹر شجاع الدین بٹ نہیں رہے
کرنل شجاع الدین بٹ پاکستانی کرکٹ کے ابتدائی دنوں کے کرکٹرز میں شامل تھے۔ گوکہ انہیں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے محدود مواقع میسر آئے اور ان کے ٹیسٹ کرکٹ میں اعدادوشمار بھی بہت زیادہ متاثر کن نہیں رہے لیکن کرکٹ کے حلقوں میں انہیں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
ان کے ساتھی کرکٹرز ان کے انتقال پر افسردہ ہیں۔ حنیف محمد نسیم الغنی مشتاق محمد اور علیم الدین کا کہنا ہے کہ وہ کرکٹ سے سچی محبت کرنے والے شخص سے محروم ہوگئے ہیں۔ بحیثیت کرکٹر میدان چھوڑنے کے بعد بھی ان کی اس کھیل سے محبت بھرپور انداز میں برقرار رہی وہ کافی عرصے تک کمنٹری باکس میں ماہرانہ رائے دیتے نظرآئے۔ان کے تجزیئے اور تبصرے بے لاگ ہوتے تھے اپنی رائے کے اظہار میں وہ مصلحت پسندی کا کبھی بھی شکار نہیں ہوئے۔ 77-1976ء میں انہیں مشتاق محمد کی قیادت میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کا دورہ کرنے والی ٹیم کا منیجر مقرر کیا گیا۔آسٹریلوی پریس کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ کسی بھی غیرملکی ٹیم کے آسٹریلیا پہنچتے ہی وہ زبانی جنگ شروع کردیتا ہے۔ پاکستانی ٹیم کو بھی اس نے دباؤ میں لینے کی کوشش کی لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ اسے جوابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کرنل شجاع الدین نے اس دورے میں آسٹریلوی میڈیا کا ترکی بہ ترکی جواب دیا خاص کر ان کے وہ ریمارکس خاصے دلچسپ تھے جن میں انہوں نے دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کا ان کی تعلیمی قابلیت کے ساتھ موازنہ کیا تھا۔ کرنل شجاع الدین لکھنے پڑنے والے کرکٹر تھے۔ انہوں نے پاکستان میں کرکٹ کی تاریخ اور روایات کو تحریری شکل میں دیتے ہوئے دو کتابیں تصنیف کیں۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے تعلق رکھتے ہوئے وہ لیفٹننٹ کرنل کے عہدے پر ریٹائر ہوئے۔ وہ سن 70 کی پاک بھارت جنگ میں جنگی قیدی بھی رہے۔
030907_theatre_si
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2003/09/030907_theatre_si
لاہور کے تھیٹروں میں رقص پابہ زنجیر
چند ماہ پہلے لاہور انتظامیہ کی طرف سے شہر میں چلنے والے پانچ تھیٹروں کی بندش اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے تنازعے نے سٹیج ڈراموں میں فحاشی کے مسئلے کو ایک بار زندہ کر دیا۔ اس سے پہلے لاہور کے تھیٹروں فحش جگت بازی اور سکرپٹ سے ہٹ کر قابل اعتراض جملے بولنے کا الزام لگایا جاتا تھا لیکن اس بار ڈراموں میں پیش کئے جانے والے رقص قابل اعتراض ٹھہرے۔
اس تنازعہ کا ابتدا میں فوجداری مقدمے کا سامنا کرنے والی اداکاراؤں پر بھی رقص کے دوران فحش حرکات کرنے کا الزام لگایا گیا تھا اور بعد میں جب تھیٹروں کو کھولنے کا اجازت بھی دی گئی تو رقص پر محدود پابندی برقرار رہی۔ لاہور میں تھیٹر سے متعلقہ تمام لوگ فحاشی کے الزام کی تردید کرتے ہیں اور تھیٹر کے ذریعے صاف ستھری تفریح مہیا کرنے کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیتے ہیں۔ اداکارہ لاشانہ کے بقول ڈانس پر پابندی سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ انہیں اداکاری کا شوق ہے۔پابندی سے پہلے بھی وہ حد میں رہ کر ڈانس کرتی تھیں۔مسرت ملتانی کہتی ہے کہ ڈرامے میں رقص ہونا چاہیے مگر فحاشی کے بغیر اور جو فنکارائیں ایسا کرتی ہیں وہ غلط ہے۔انہوں نے تو کبھی ایسےا نہیں کیا۔لاہور کی انتظامیہ کی جانب سے لگائی جانے والی پابندی سے پہلے سٹیج ڈراموں کے دوران مبینہ طور پر ایسے رقص ہوتے تھے کہ جن میں رقاصائیں تماش بینوں کی تفریح طبع کے لۓ تمام تر حدود و قیود پھلانگ جاتی تھیں۔ لاہور کے ایبٹ روڈ پر واقع ایک تھیٹر کی انتظامیہ نے ڈانس پر لگائی جانے والی پابندی کے خلاف عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے لہذا وہاں ڈانس ہو رہا ہے ۔ میں آج کل انار کلی ڈرامے میں ڈانس کر رہی ہوں پورے لباس میں صاف ستھرا ڈانس ہے اور کسی تماشائی نے آواز نہیں لگائی کہ قمیض اوپر اٹھاؤ اداکارہ سپنا اس تھیٹر میں چلنے والے رقاصہ نامی ڈرامے میں اداکارہ شہزادی اور مدیحہ شاہ ڈانس تو کر رہی ہیں مگر شاید انتظامیہ کے خوف سے یہ ڈانس اس ڈانس سے بہت مختلف ہے جو پابندی سے پہلے ہوا کرتا تھا۔محفل تھیٹر میں انار کلی نامی ڈرامے میں رقاصائیں پورے لباس کے ساتھ سٹیج پر آ کر ڈانس تو کر رہی تھیں مگر پورے جسم کو ہلانے سے خاصا پرہیز تھا۔رقاصاؤں کے بر عکس ایک مرد رقاص عامر عطا نے اپنے جسم کو خوب تھرکایا اور بہت داد وصول کی۔ ناز تھیٹر جو ذرا عقب میں واقع ہے وہاں جگت بازی کے بادشاہ امان اللہ کا ڈرامہ چل رہا تھا کہ جس میں کوئی ڈانس نہیں تھا اور شاید اسی لیۓ وہاں تماشائیوں کی تعداد بقیہ تھیٹروں کے مقابلے میں کم تھی۔ اس ڈرامے میں جگت بازی گو کہ پابندی کے زیراثر تھی مگر کبھی کبھی اپنی پرانی ڈگر پر بھی چل نکلتی کیونکہ ہال میں کافی دیر سے خاموش بیٹھے تماشائیوں کو ہنسانے کے لئے جگت کو تھوڑا بہت مسالے دار تو بنانا پڑتا ہے۔ تماشائیوں میں سے بیشتر کی رائے یہی کہ پابندی کے بعد ڈرامہ بہتر ہوا ہے اب وہ گھر کی خواتین کے ہمراہ ڈرامہ دیکھ سکتے ہیں۔ان کا کہنا کہ ڈرامے میں ڈانس ہونے چاہئیں مگر حد کے اندر جگت بازی اچھی لگتی ہے لیکن اس میں فحش جملے نہیں ہونے چاھیئں۔مگر جونہی کوئے فحش جملہ آتا تو سب کے سب کھلکھلا اٹھتے۔ تماشائیوں میں موجود کراچی سے آئے ہوئے ایک تاجر جاوید کا کہنا کہ وہ لاہور صرف اور صرف سٹیج ڈرامہ دیکھنے کے لیۓ آتے ہیں کیونکہ انہیں لاہور کے فنکاروں کی جگت بازی بہت پسند ہے۔انہیں رقص سے کوئی دلچسپی نہیں ان کے بقول کراچی میں ایسے تماشے تو خوب اور پورے جوبن پر ہوتے ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے لگنے والی اس پابندی پر ہدایت کاروں اور اداکاروں کا مؤقف کچھ اور جبکہ پرڈیوسرز کا مؤقف انکے بالکل برعکس تھا۔ گزشتہ پچیس سال سے سٹیج کے لیے ڈرامہ لکھنے اور ہدایات دینے والی ناہید خانم کے بقول کچھ فنکاراؤں نےآپس کی ضد بازی کی وجہ سے ڈانس کے نام پر غلط حرکات شروع کر دی تھیں جس کے سبب تھیٹر کو اس بحران کا سامنا کرنا پڑا اچھے رقص کو ڈرامے میں ہونا چاھیۓ۔ تیس سال سے تھیٹر سے رائٹر اور ڈاریکٹر کے طور پر وابستہ مرزا رشید اختر کے بقول ماضی میں سٹیج ڈرامہ بہت اچھا تھا اداکاری عمدہ تھی۔ کہانی اچھی ہوتی تھی۔ سکرپٹ جاندار ہوتا تھا۔مزاح کہانی کے ساتھ ساتھ چلتا تھامگر تقریبا دس سالوں سے صرف جگت بازی پر ہی انحصار کیا جاتا ہے اور گزشتہ چار پانچ سال سے ڈرامے میں ڈانسز ہونے لگے جس سے اس صنف کا مذید بیڑا غرق ہو گیا جبکہ رشید اختر کے بقول ڈرامے میں ڈانس کی قطعا گنجائش نہیں۔ جاوید حسن جو پچیس سال سے اداکاری اور ہدایت کاری کر رہے ہیں گلا کرتے ہیں کہ پانچ منٹ کا فحش ڈانس اداکار کی دو گھنٹے کی محنت اور برسوں کی ریاضت پر پانی پھیر دیتا ہے کیونکہ جو لڑکی ڈانس کرنے آتی ہے وہ سارا شو لوٹ لیتی ہے ۔ فلم اور تھیٹر کے معروف اداکار افضل خان عرف جان ریمبو کے بقول ون مین شو نے تھیٹر کا بیڑا غرق کر دیا ہے اور واقعاتی مزاح جو کبھی تھیٹر کا طرۂ امتیاز ہوا کرتا تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔انہوں نے کہا کہ جب سے اداکاراؤں نے ڈانس کرتے ہوئے تماشائيوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بیہودہ حرکتیں شروع کر دی ہیں اس سے ماحول اور تماشائی دونوں بگڑ گئے ہیں۔ ناز تھیٹر میں کام کرنے والے ایک اداکار زاہد منہاس کا مؤقف ان سب سے مختلف تھا۔ان کے بقول ڈانس پر لگنے والی یہ پابندی بالکل غلط ہے انہوں نے کہا کہ تھیٹر میں ہونے والے ڈانسز کا موازنہ اگر پاکستان کی سنسر شدہ فلموں میں ہونے والے ڈانسز سے کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ تھیٹر کے ڈانس اخلاقی طور پر فلم سے بہتر ہیں لہذا یہ پابندی ناجائز ہے۔ تھیٹر کے پرڈیوسرز کا مؤقف بھی ایسا ہی ہے۔ گزشتہ دو دھائیوں سے لاہور کے تھیٹروں کے لئے ڈرامہ پیش کرنے والے عطااللہ تو انتظامیہ سے بے حد نالاں ہیں ان کے بقول انتظامیہ کے ڈانس پر جو الزامات وہ پنجابی کی کہاوت ’آٹا گنھدی ہلدی کیوں ایں‘ کے مترادف ہے۔ اس سے زیادہ بیہودہ ڈانس تو فلموں میں ہوتا ہے ۔ان کا کہنا کہ انتظامیہ کے درجنوں لوگ روزانہ ہال کی پہلی نشستوں پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ہم وہ نشستیں فروخت بھی نہیں کر سکتے۔ عطااللہ نے انتظامیہ کے افسران کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب تو ایک دکھاوہ تھا اصل میں ان کے عزائم کچھ اور تھے۔ان کے اس رویے سے اس صنعت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ تماشائیوں کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے۔انہوں نے معروف اداکاروں کے انتظامیہ کی تائید کرنے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایاکیونکہ ڈانسز والا ڈرامہ بڑے فنکاروں کا محتاج نہیں ہوتا ار اس میں ان کا معاوضہ بھی کم ہوتاہے جبکہ ڈانس نہ ہوں تو ان کا معاوضہ بھی بڑھ جاتا ہے۔اسی لئے یہ اداکار ڈانس کے خلاف ہیں ناز تھیٹر میں برس ہا برس سے کینٹین چلانے والا منیر احمد کہتا ہے کہ اس کے کاروبار میں اسی فیصد کمی آئی ہے وہ پرانے دور کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اداکارہ نرگس کے دور میں یہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔اور اس کا کاروبار زوروں پر ہوتا تھا۔ ناز تھیٹر کے انچارج نذیر بٹ کہنا تھا کہ ہم حکومت کے احکامات کا احترام کرتے ہیں تاہم انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ وہ اس مسئلے پر ہمدردانہ غور کرے کیونکہ اس سے کئی لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ تھیٹر مالکان پرڈیوسرز اور انتظامیہ کو مل بیٹھ کر کوئی درمیانی راستہ ڈھونڈنا چاہيے۔
070830_nawaz_returns_sq
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/08/070830_nawaz_returns_sq
’سودے بازی نہیں ہونے دیں گے‘
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ان کی جماعت نے مشاورت کے بعد فیصلے کیا ہے کہ وہ اور شہباز شریف دس ستمبر کو اسلام آباد کے ایئرپورٹ پر اتریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی واپسی کے فیصلے کی توثیق آل پاکستان ڈیموکریٹک الائنس نے بھی کر دی ہے۔’وہیں اتریں گے جہاں سے بھیجا گیا تھا‘لندن میں اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’میں اور شہباز شریف اسی مقام پر (پاکستان میں) اتریں گے جہاں سے ہمیں جلاوطن کیا گیا، جہاں جمہوریت پر شب خون مارا گیا اور جو (وفاقی دارالحکومت) وفاق کی علامت ہے۔‘
اپنے عزائم کا ذکر کرتے ہوئے ان کے مطالبات تھے کہ جنرل مشرف اقتدار چیئرمین سینیٹ کے حوالے کر دیں، ملک کا نظام بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے سے پہلے 1973 کا آئین جس شکل میں تھا اس کے تحت چلایا جائے، فوج سیاست سے الگ ہوجائے اور ملک کا ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسی مفاہمت کے حق میں ہیں جو عوام، جمہوریت، قانون اور آئین کی بالادستی کے لیے ہو۔ ’ایسی مفاہمت کے لیے میں جان کی قربانی دینے کو بھی تیار ہوں۔‘ ان کا کہنا تھا ’لیکن اگر کوئی مفاہمت کی آڑ میں آٹھ سال سے اقتدار پر قابض ایک آمر کو مزید وقت دینا چاہے گا تو میں ایسا سودا نہیں ہونے دونگا، میں پاکستان واپس جا رہا ہوں عوام کے لیے اور تمام صوبوں کے لیے۔‘ نواز شریف نے کہا کہ پچھلے آٹھ سال میں سولہ کروڑ عوام کو غربت، بےروزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ ’بارہ اکتوبر کو شب خون مارا گیا اور سات نکات پیش کیے گئے ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ منتخب وزیراعظم کو کال کوٹھڑی میں ڈال کر ہائی جیکنگ کا مقدمہ چلایا گیا اور پارلیمنٹ توڑ دی گئی۔‘ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’ججوں سے پی سی او کے تحت حلف اٹھوایا گیا اور چیف جسٹس سمیت بارہ ججوں کو رخصت کر دیا گیا، آئین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا، ضمیر فروشی اور ہارس ٹریڈنگ کا بازار گرم رکھا گیا اور وزیراعظم کو ذاتی ملازم بنا دیا گیا۔‘ سابق وزیراعظم نے کہا مشرف دور میں سینکڑوں لوگوں کو غائب کیا گیا۔ ’طاقت اور بندوق کے زور پر چیف جسٹس کو آرمی ہاؤس بلا کر دھمکایا گیا اور پھر ان کے خلاف ایک جھوٹا ریفرنس دائر کیا گیا اور انہیں پانچ روز تک اپنے گھر میں نظربند رکھا گیا۔‘ نواز شریف نے چیف جسٹس کی ’معطلی‘ کے خلاف وکلاء کی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پوری قوم بیدار ہوئی نتیجتاً ملک میں عدلیہ آزاد ہوگئی۔ ان کا کہنا تھا ’موجودہ حالات میں ڈکٹیر وردی سمیت جانا چاہتا ہے اور ایسے موقع پر اسے وردی اتارنے کے نام پر مزید پانچ سال دینا کہاں کا انصاف ہوگا۔‘ نواز شریف کے مطابق پاکستان ’جرنیل شاہی‘ کی بھاری قیمت ادا کرچکا ہے۔ ’صوبائی ہم آہنگی پر کاری ضربیں لگائی جا رہی ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ آج ملک کا ہر طبقہ جمہوریت کا مطالبہ کر رہا ہے اور پاکستان ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ ’ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ حکومت کو ن کرے گا: آمریت یا عوام، ووٹ یا بندوق، مہذب معاشرہ یا جنگل کا قانون۔‘ انہوں نے کہا کہ چند رعائتوں کے عوض وہ کسی آمر کو مزید پانچ سال نہیں دینگے۔ ’عوام مشرف نام کے فرد کو مسترد کر چکے ہیں۔‘
world-47433960
https://www.bbc.com/urdu/world-47433960
یاسین ابوبکر: مبلغ، گینگسٹر، یا غریبوں کا مددگار
ٹرینیڈاڈ میں لوگ یاسین ابوبکر کو کیا سمجھتے ہیں، اس کا انحصار اس پر ہے کہ آپ یہ سوال پوچھ کس سے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یاسین ابوبکر ایک نہایت باعزت مذہبی رہنما اور ارد گرد کے لوگوں کی انتھک مدد کرنے والی شخصیت ہیں اور کچھ کا کہنا ہے کہ وہ غنڈوں کے گروہوں کو تحفظ فراہم کرنے والے 'گاڈ فادر' ہیں۔
تو پھر یاسین ابوبکر اصل میں کیا ہیں؟ یہی جاننے کے لیے ایک جمعے کو کولن فریمین ان سے ملنے ٹرینیڈاڈ کے دارالحکومت پورٹ آف سپین میں یاسین ابوبکر کے نام سے پہچانی جانے والی ایک مسجد میں پہنچے جہاں، ابو بکر خود خطبہ دے رہے تھے۔ ٹرینیڈاڈ: وزیراعظم کے قتل کی سازش ناکام ’غیر ملکی جنگجوؤں کی تعداد میں 71 فیصد اضافہ‘ جمعے کی نماز ختم ہوئی تو ہمیشہ کی طرح وہاں لوگوں کی ایک طویل قطار تھی جو یاسین ابو بکر سے مدد کی درخواست کرنے آئے ہوئے تھے۔ ان میں اکثریت ان کی تھی جو ان سے روحانی مسائل یا شادی کے لیے مشورہ کرنے آئے تھے، تاہم بعض اوقات لوگ ان سے اپنی چوری شدہ کار واپس دلوانے، قرض ختم کروانے یا ٹرینیڈاڈ میں سرگرم مختلف گینگز یا گروہوں کی آپس کی لڑائیاں اور چپقلش ختم کروانے کی درخواست بھی لیکر آتے ہیں۔ بقول ان کے 'یہ بھی جھگڑے ختم کرانے کا ایک متبادل نظام ہے۔' وہ پولیس کے ملازم تھے اور آج سے بہت پہلے، سنہ 1969 میں وہ ٹرینیڈاڈ کے ان پہلے پہلے لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے مصر سے آئے ہوئے ایک مبلغ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ ابو بکر کو مسیحیت کی نسبت اسلام زیادہ پرکشش دکھائی دیا کیونکہ انھیں مسیحیت کے ساتھ اپنے ملک کا وہ نو آبادیاتی دور یاد آ جاتا ہے جب ٹرینیڈاڈ غلام ہوتا تھا۔ لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد بھی وہ محض ایک جگہ بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کر کے مطمئن ہونے والے نہیں تھے۔ سنہ 1970 کے بعد انھوں نے کئی برس لیبیا میں کرنل قذافی کے خصوصی مہمان کی حیثیت میں گزارے، جو ان دنوں دنیا بھر میں سرگرم مسلمان کارکنوں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ اُس کے بعد ابوبکر اپنے وطن لوٹ آئے جہاں انھوں نے ’جماعت المسلمین' کے نام سے اپنی ایک تنظیم قائم کر لی۔ جلد ہی اس تنظیم کو ٹرینیڈاڈ کے غریب علاقوں میں حمایت ملنا شروع ہو گئی جہاں یہ لوگ گلیوں کو منشیات فروشوں سے پاک کرنے کا کام کر رہے تھے۔ جن لوگوں نے ابوبکر کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا، ان میں کچھ خود بھی سخت جان گینگسٹرز رہ چکے تھے، اور وہ علاقے جہاں پولیس بھی جانے سے گھبراتی تھی، وہاں اس تنظیم کے 'جرنیلوں' کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ لیکن ٹرینیڈاڈ کی حکومت کو ملک کے اندر ایک اور حکومت کا خیال پسند نہیں آیا اور پھر تنظیم کے کارکنوں اور حکومت میں جھگڑوں کے بعد یاسین ابو بکر کو محسوس ہوا کہ اب حکومت ان کی جماعت کا قلع قمع کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ حکومت جماعت کا بوریا بسترا گول کرتی، یاسین ابوبکر نے خود حکومت کی بیخ کنی کرنے کی ٹھان لی۔ سنہ 1990 میں ابو بکر کے ایک سو حامیوں نے پارلیمان پر حملہ کر کے وزیراعظم کو یرغمال بنا لیا اور حکومت کا تختہ الٹ دینے کا اعلان کر دیا۔ یہ کسی بھی مسلمان گروہ کی طرف سے کسی مغربی ملک میں حکومت کا تختہ الٹنے کی پہلی کوشش تھی۔ پارلیمان پر حملے کے چھ دن بعد جب حکومت نے معافی کا اعلان کیا تو یاسین ابو بکر نے خود کو حکام کے حوالے کر دیا اور پھر اگلے دو برس انھوں نے جیل میں گزارے۔ ابوبکر کہتے ہیں کہ گرفتاری کے بعد انھوں نے طے کر لیا تھا کہ اب وہ صرف پرامن سیاست کریں گے۔ اگرچہ اس کے بعد بھی ان کی جماعت کے ارکان پر مافیا جیسی کارروائیاں کرنے کا الزام لگتا رہا ہے اور خود ابوبکر کو بھی ان الزامات کا سامنا رہا، لیکن بعد میں انہیں قتل اور بھتہ خوری کے الزامات سے بری کر دیا گیا۔ برسوں بعد، گذشتہ عرصے میں حکومت ان خبروں سے پریشان ہو گئی کہ ابو بکر کے تقریباً ایک سو حمایتی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ میں شامل ہونے کے لیے شام چلے گئے ہیں۔ یہ تعداد کوئی بہت زیادہ نہیں لیکن صرف تیرہ لاکھ کی آبادی کے ملک سے ایک سو جنگجوؤں کا شام جانا، حکومت کے لیے بہرحال ایک پریشانی کی خبر تھی۔ بات چیت میں نرم گو اور گپ شپ لگانے والے ابو بکر تسلیم کرتے ہیں کہ گذشتہ کئی برسوں میں ان کی جماعت کچھ ایسے لوگوں کے لیے بھی پرکشش بن گئی ہے جو ان کی سیاست سے میل نہیں کھاتے۔ ان کے بقول اس کی وجہ وہ پیشہ ورانہ خطرہ ہے جو کسی بھی ایسے شخص کو درپیش ہوتا ہے جو کسی ایسے علاقے میں کام کرتا ہے جہاں غنڈہ گردی عام ہو اور آپ ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو راہ سے قدرے بھٹک چکے ہوتے ہیں۔ لیکن ابو بکر کا اصرار ہے کہ خود انھوں نے نہ کبھی کسی کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ جائے اور دولت اسلامیہ میں شامل ہو جائے اور نہ کبھی کریں گے۔ 'ہم نے اپنے پیروکاروں کو بتا دیا ہے کہ وہ وہاں نہ جائیں، دولت اسلامیہ کا پورا خیال ہی نہایت احمقانہ ہے۔' ’لیکن ابوبکر کی پریشانی شام کی جنگ نہیں ہے، بلکہ ان کو فکر اس لڑائی کی ہے جو ٹرینیڈاڈ کی گلیوں میں لڑی جا رہی ہے۔ پچھلے صرف ایک سال میں ملک میں پانچ سو قتل ہوئے، جو کہ گذشتہ بیس برس پہلے کی نسبت چار گنا زیادہ تھے۔ ان میں زیادہ تر قتل کا تعلق ملک کے غریب علاقوں میں مختلف گروہوں کی لڑائی سے تھا، اور یہی وہ علاقے ہیں جہاں سے جماعت المسلمین کے پیروکاروں کا تعلق ہے۔ اس حوالے سے ابو بکر کہتے ہیں کہ 'عمومی طور پر یہ گروہ اب بھی ہماری عزت کرتے ہیں، لیکن اب اگر ہم ان پر پولیس کی طرح براہ راست ہاتھ ڈالتے ہیں تو ریاست ہم پر بری طرح ٹوٹ پڑے گی۔ اسی لیے اب حالات بہت خراب ہو رہے ہیں اور روزانہ دو تین قتل ہو رہے ہیں۔ اب ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشا تو نہیں دیکھ سکتے۔' ڈیوڈ میلارڈ کے بقول لوگوں کو راہ سے بھٹکے ہوئے ریپ آرٹسٹوں کی بجائے اچھے ہیروز کی ضرورت ہے۔ لگتا ہے کہ ابوبکر دوبارہ تختہ الٹنے کا نہیں سوچ رہے، لیکن ٹرینیڈاڈ کے موجودہ مسائل کا جو تجزیہ ان کی جماعت کرتی ہے وہ ایسا ہی جو کوئی بھی قدامت پسند کرتا ہے۔ یہ لوگ صرف غربت کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتے، بلکہ ان کے خیال میں حالات کی خرابی کی وجہ خاندانی نظام کا ٹوٹ جانا، نوجوانوں میں ڈسپلن کی کمی اور وہ انداز زندگی بھی ہے جس کا پرچار گینسگٹرز اور ان کے پسندیدہ ریپ میوزک والے کرتے ہیں۔ اس حوالے سے جماعت کے ایک اور رکن ڈیوڈ بفی میلارڈ کہتے ہیں کہ 'ان لوگوں کو راہ سے بھٹکے ہوئے ریپ آرٹسٹوں اور موسیقاروں کی بجائے اچھے ہیروز کی ضرورت ہے۔ ان کے کچھ گانے ایسے ہوتے ہیں جن سے کوئی بھی قتل کرنے پر آمادہ ہو سکتا ہے، جس طرح بندوق ہاتھ میں آنے سے۔' میلارڈ کا اس موضوع پر بات کرنا بنتا ہے، کیونکہ وہ ایسے معاملات کو خوب جانتے ہیں۔ ماضی میں وہ خود بھی ایک مجرم تھے اور ایک دفعہ تو جمیکا کے اس منشیات سمگل کرنے والے گروہ کا حصہ بھی تھے جو منشیات امریکی ریاست میامی بھیج رہا تھا۔ یہ لوگ نہ صرف منشیات فروخت کر رہے تھے، بلکہ دوسرے ڈیلروں کو بھی لُوٹ رہے تھے۔ نرم ترین الفاظ میں آپ اسے ایک انتہائی خطرناک پیشہ کہہ سکتے ہیں، جس کے دوران میلارڈ کو تین مرتبہ گولی لگی، پانچ مرتبہ چاقو کے زخم کھانے پڑے اور کئی مرتبہ جیل کی ہوا بھی۔ اب سدھر جانے کے بعد، میلارڈ کہتے ہیں کہ ٹرینیڈاڈ کو دولت اسلامیہ سے بڑا خطرہ غنڈہ گردی اور گینگسٹرز سے ہے کیونکہ ' یہ غنڈہ گردی والی سوچ جڑیں پکڑ چکی ہے۔ آپ اس دولت کا کبھی بھی مقابلہ نہیں کر سکتے جو آپ منشیات فروشی سے کما سکتے ہیں، آپ ایسے لوگوں کو عزتِ نفس ہی دے سکتے ہیں۔ میرا انتخاب اسلام تھا، لیکن عزتِ نفس کے اور بھی راستے ہو سکتے ہیں۔' کیا واقعی کوئی اور راستہ ہے؟ ٹرینیڈاڈ کے ہی 'سی لوٹس' کے علاقے میں جہاں کہتے ہیں کہ اس نے اب غنڈہ گردی اور گینگ کلچر کے ماضی سے دامن چھڑایا جا رہا ہے، وہاں کے ایک کمیونٹی لیڈر نے مجھے بتایا کہ اِس علاقے کی شہرت ایسی رہی ہے کہ اب بھی یہاں کے نوجوانوں کو ملازمت ملنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب تک اِن صاحب کی بات سچ ہے، مجھے لگتا ہے کہ ٹرینیڈاڈ میں جرائم کا مسئلہ اپنی جگہ پر رہے گا اور کئی لوگ ہر جمعے کی نماز کے بعد یاسین ابوبکر سے ملاقات کے لیے قطار میں لگتے رہیں گے۔.
051211_saif_accident_si
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2005/12/051211_saif_accident_si
سیف علی خان کی گرفتاری، رہائی
کہتے ہیں کہ فلمی اداکار بڑے پردے پر جن کردار میں نظر آتے ہیں اصل زندگی میں اس سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن بالی وڈ اداکار سیف علی خان سکرین پر اپنے جس امیج کے لئے جانے جاتے ہیں انہوں نے عملی زندگی میں بھی اسی امیج کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔
سیف علی خان کی انسانیت اور ہمدردی کا مظاہرہ اس وقت ہوا جب ممبئی میں انکی گاڑي سے ایک تیرہ سالہ بچہ ٹکرا کر زخمی ہو گیا۔ سیف اس وقت اپنے ایک شو میں پرفارم کرنے جا رہے تھے۔ سیف کی کار کی ٹکر سے شکیل شیخ نامی بچے کی پیر کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی ۔ مصروفیات کے باوجود سیف علی خان نے شکیل کو ہسپتال میں داخل کروایا اور خود ہی پولیس کو اس واقعہ کی اطلاع بھی دی۔ پولیس نے سیف علی خان کے خلاف مقدمہ درج کیا لیکن بعد میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ سیف نے شکیل کے علاج کے لئے ہسپتال کا خرچ اٹھانے کا اعلان کیا ہے ۔ اس واقعہ کے بعد سیف کا کہنا ہے کہ ’بھلے ہی ہمارا سسٹم دھیما ہے لیکن اگر کوئی جرم نہیں کیا گيا ہے تو بہتر یہی ہوگا کہ اصولوں کے مطابق ہی چلا جائے ۔ سیف علی خان کی ہی طرح سال دو ہزار دو میں سلمان خان نے غفلت کی حالت میں فٹ پاتھ پر سوئے لوگوں پر اپنی گاڑی چڑھا دی تھی ۔ اس واقعہ میں ایک شخص ہلاک ہو گیا تھا۔ لیکن اس وقت سلمان وہاں سے فوراً چلے گئے تھے۔ اس معاملے میں ان پر ممبئی کی ایک ذیلی عدالت میں مقدمہ بھی چل رہا ہے۔
061013_blast_dead
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/10/061013_blast_dead
پشاور میں بم دھماکہ
صوبائی دارالحکومت پشاور میں ایک بم دھماکہ کے نتیجے میں ایک شخص زخمی ہوگیا ہے۔ پولیس کے مطابق دھماکہ جمعرات کی شام پانچ بج کر بیس منٹ پر افطاری کے وقت جی ٹی روڈ پشاور میں ڈائیوو بس سٹینڈ کے سامنے فٹ پاتھ پر رکھے ہوئے بم پھٹنے سے ہوا جس سے وہاں پر موجود ایک راہگیر روح اللہ زخمی ہوا۔
پولیس کا کہنا ہے یہ ایک گھریلو ساخت کا بم تھا جو فروٹ کے کریٹ میں نصب کیا گیا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز دور دور تک سنی گئی۔ دھماکے کے اطلاع ملتے ہی بم ڈسپوزل سکواڈ اور اعلیٰ پولیس حکام بھاری نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچ گئے۔ پشاور میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران یہ چوتھا بم دھماکہ تھا۔ اس سے پہلے ایک بم غربی پولیس تھانے کے حدود میں پھٹا تھا جس میں درجنوں گاڑیوں کو نقصان پہنچا تھا۔ علاوازیں لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور کوہاٹ روڈ پر گیس پائپ لائن کو بھی دو الگ لگ دھماکوں میں نشانہ بنایا گیا تھا لیکن پولیس تاحال ان کارروائیوں میں ملوث ملزمان کا کھوج لگانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ ایس ایس پی پشاور افتخار خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان دھماکوں کا بظاہر مقصد شہر میں خوف و ہراس پھیلانا ہے تاہم ان کےمطابق پولیس کو آج کے دھماکے کے بعد کچھ ایسے شواہد ملے ہیں جس سے توقع کی جارہی ہے کہ شہر میں ہونے والے ان مرحلہ وار بم دھماکوں میں ملوث اصل ملزمان تک پہنچنے میں وہ بہت جلد کامیاب ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد شہر میں سکیورٹی کا انتظام سخت کردیاگیا ہے اور شہر کو دوسرے علاقوں سے ملانے والے تمام اہم شہروں پر پولیس کی اضافی نفری تعینات کردی گئی ہے۔ واضع رہے کہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران پشاور شہر میں امن وامان کی صورتحال انتہائی خراب رہی ہے جبکہ اغواء برائے تاوان ، قتل اور ڈکیتی کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور صوبائی حکومت ان جرائم کو روکنے میں اب تک ناکام رہی ہے۔
entertainment-38425719
https://www.bbc.com/urdu/entertainment-38425719
جب محمد رفیع دال چاول کھانے لندن پہنچ گئے
موسیقار نوشاد اکثر محمد رفیع کے بارے میں ایک دلچسپ قصہ سناتے تھے:ایک بار ایک مجرم کو پھانسی دی جا رہی تھی، اس سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے نہ تو اپنے خاندان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور نہ ہی کسی خاص کھانے کی فرمائش۔
اندیا کے معروف گلوکار محمد رفیع انتہائی شریف انسان کہے جاتے تھے اس کی صرف ایک خواہش تھی جسے سن کر جیل کے ملازم حیران رہ گئے۔ اس نے کہا کہ وہ مرنے سے پہلے رفیع کا فلم 'بیجو باورا' کا نغمہ 'اے دنیا کے رکھوالے' سننا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ایک ٹیپ ریکارڈر لایا گیا اور اس قیدی کے لیے وہ گانا بجایا گیا۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس نغمے کو گانے کے لیے محمد رفیع نے 15 دنوں تک ریاض کیا تھا اور ریکارڈنگ کے بعد ان کی آواز اس حد تک ٹوٹ گئی تھی کہ کچھ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ رفیع شاید کبھی اپنی آواز واپس نہیں پا سکیں گے۔ لیکن رفیع نے لوگوں کو غلط ثابت کیا اور انڈیا کے سب سے زیادہ مقبول گلوکار بنے۔ چار فروری سنہ 1980 کو سری لنکا کے یوم آزادی پر محمد رفیع کو سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں ایک شو کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ اس دن ان کو سننے کے لیے 12 لاکھ شہری جمع ہوئے تھے، جو اس وقت کا عالمی ریکارڈ تھا۔ ترینیڈاڈ کے ایک شو کے دوران محمد رفیع سری لنکا کے صدر جے آر جے وردھنے اور وزیراعظم پریم داسا افتتاح کے فوراً بعد کسی اور پروگرام میں حصہ لینے جانے والے تھے۔ لیکن محمد رفیع کی زبردست گلوکاری نے انھیں رکنے پر مجبور کر دیا اور وہ پروگرام ختم ہونے تک وہاں سے ہلے نہیں۔ محمد رفیع کی بہو اور ان پر ایک کتاب لکھنے والی یاسمین خالد رفیع کہتی ہیں کہ 'محمد رفیع کی عادت تھی کہ جب وہ بیرون ملک کے کسی شو میں جاتے تھے تو وہاں کی زبان میں ایک گیت ضرور سناتے تھے۔' اس دن کولمبو میں بھی انھوں نے سنہالا زبان میں ایک گیت سنایا۔ لیکن جیسے ہی انھوں نے ہندی گانے، نغمے سنانے شروع کیے بھیڑ بے قابو ہو گئی اور ایسا تب ہوا جب بھیڑ میں شاید ہی کوئی اردو ہندی سمجھتا تھا۔ اگر کسی نغمے میں اظہار عشق کے 101 طریقے پیش کرنے ہوں تو آپ صرف ایک ہی گلوکار پر اپنا پیسہ لگا سکتے ہیں اور وہ ہیں محمد رفیع۔ چاہے وہ نوجوان محبت کا الھڑپن ہو، دل ٹوٹنے کی صدا ہو، پختہ محبت کا اظہار ہو، گرل فرینڈ سے درخواست ہو یا صرف اس کے حسن کی تعریف۔۔۔محمد رفیع کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ محبت کے موضوع سے قطع نظر انسانی جذبات کے جتنے بھی پہلو ہو سکتے ہیں، دکھ، خوشی، عقیدت یا حب الوطنی یا پھر گائیکی کی کوئی بھی شکل ہو بھجن، قوالی، لوک، کلاسیکی موسیقی یا غزل، محمد رفیع کے ترکش میں تمام تیر موجود تھے۔ محمد رفیع اپنی اہلیہ بلقیس کے ساتھ رفیع کو پہلا بریک موسیقار شیام سندر نے پنجابی فلم 'گل بلوچ' میں دیا تھاجبکہ ممبئی کی ان کی پہلی فلم 'گاؤں کی گوری' تھی۔ نوشاد اور ہسن لال بھگت رام نے ان کی صلاحیت کو پہچانا اور اس زمانے میں شرماجي کے نام سے مشہور آج کے خیام نے فلم 'بیوی' میں ان سے گیت گوائے۔ خیام یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: 'سنہ 1949 میں میری ان کے ساتھ پہلی غزل ریکارڈ ہوئی۔ جسے ولی (دکنی) صاحب نے لکھا تھا، 'اکیلے میں وہ گھبراتے تو ہوں گے، مٹاكے مجھ کو پچھتاتے تو ہوں گے' رفیع صاحب کی آواز کے کیا کہنے! جس طرح میں نے چاہا انھوں نے اسی گایا۔ جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو یہ گانا ریج آف دی نیشن ہو گیا۔ محمد رفیع کے کیریئر کا بہترین دور سنہ 1956 سے 1965 کا دور تھا۔ اس درمیان انھوں نے کل چھ فلم فیئر ایوارڈ جیتے اور ریڈیو سیلون سے نشر ہونے والے 'بناكا گيت مالا' میں دو دہائیوں تک چھائے رہے۔ محمد رفیع کے کیریئر کو سنہ 1969 میں اس وقت جھٹکا لگا جب 'آرادھنا' فلم ریلیز ہوئی۔ راجیش کھنہ کی چمک نے پورے انڈیا کو چکا چوند کر دیا اور آر ڈی برمن نے بڑے موسیقار بننے کی طرف اپنا پہلا بڑا قدم بڑھایا۔ رفیع کے بیٹے خالد کی شادی میں (بائیں سے دائیں) بلقيس، موسیقار ایس ڈی برمن، رفیع، خالد اور ان کی بیوی یاسمین السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا کے سابق شریک ایڈیٹر راجو بھارتن کہتے ہیں: 'آرادھنا کے تمام گيت پہلے رفیع ہی گانے والے تھے۔ اگر ایس ڈی برمن بیمار نہیں پڑتے اور آر ڈی برمن نے ان کا کام نہیں سنبھالا ہوتا تو کشور کمار سامنے آتے ہی نہیں اور ویسے بھی 'آرادھنا' کے پہلے دو ڈوئٹ رفیع نے ہی گائے تھے۔ بھارتن بتاتے ہیں کہ 'پنچم نے بہت پہلے واضح کر دیا تھا کہ اگر انھیں موقع ملا تو وہ رفیع کی جگہ نوعمر گلوکار لائیں گے۔ ’جہاں تک رفیع کی مقبولیت میں کمی کی بات ہے اس کی کچھ وجوہات تھیں۔ جن اداکاروں کے لیے رفیع گا رہے تھے یعنی دلیپ کمار، راجیندر کمار، دیوآنند، دھرمیندر، جيتیندر اور سنجیو کمار، وہ پرانے ہو گئے تھے اور ان کی جگہ نئے اداکار لے رہے تھے۔ ان کو نئی آواز کی ضرورت تھی۔ آر ڈی برمن جیسے موسیقار ابھر کر سامنے آ رہے تھے اور انھیں کچھ نیا کر کے دکھانا تھا۔‘ سنہ 70 کی دہائی کے آغاز میں سوائے لکشمی کانت پيارے لال کے موسیقاروں نے محمد رفیع کا ساتھ چھوڑنا شروع کر دیا تھا۔ لکشمی کانت تو اب رہے نہیں، لیکن پيارے لال ضرور ہیں جو کہتے ہیں کہ انھوں نے رفیع کا نہیں، بلکہ رفیع نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ جانے مانے براڈ کاسٹر امین سیانی محمد رفیع اور لکشمی کانت پيارے لال کے بارے میں ایک دلچسپ کہانی سناتے ہیں: 'ایک بار لکشمی کانت نے مجھے بتایا کہ جب وہ پہلی بار رفیع کے پاس گانا ریکارڈ کرانے کے لیے گئے تو انھوں نے ان سے کہا کہ ہم لوگ نئے ہیں اس لیے ہمیں کوئی پروڈیوسر بہت زیادہ پیسے بھی نہیں دے گا۔ ہم نے آپ کے لیے ایک گیت بنایا ہے۔ اگر آپ اسے کم پیسوں میں گا دیں تو بہت مہربانی ہو گی۔ اپنی بہو یاسمین کے ساتھ محمد رفیع ’رفیع نے دھن سنی۔ انھیں بہت پسند آئی اور وہ اسے گانے کے لیے تیار ہو گئے۔ ریکارڈنگ کے بعد وہ رفیع کے پاس تھوڑے پیسے لے کر گئے۔ رفیع نے پیسے یہ کہتے ہوئے واپس لوٹا دیے کہ یہ پیسے تم آپس میں بانٹ لو اور اسی طرح بانٹ کر کھاتے رہو۔ لکشمی کانت نے مجھے بتایا کہ اس دن کے بعد سے انھوں نے رفیع کی وہ بات ہمیشہ یاد رکھی اور ہمیشہ بانٹ کر کھایا۔ رفیع بہت کم بولنے والے، ضرورت سے زیادہ شائستہ اور شیریں زبان انسان تھے۔ ان کی بہو یاسمین خورشید بتاتی ہیں کہ نہ تو وہ شراب یا سگریٹ پیتے تھے اور نہ ہی پان کھاتے تھے۔ بالی وڈ کی پارٹیوں میں بھی جانے کا انھیں کوئی شوق نہیں تھا۔گھر پر وہ صرف لنگي ُکرتا ہی پہنتے تھے لیکن جب ریکارڈنگ پر جاتے تھے تو ہمیشہ سفید قمیض اور پتلون پہنا کرتے تھے۔ انھیں اچھی گھڑیوں اور فینسي کاروں کا بہت شوق تھا۔ لندن کی گاڑیوں کے رنگوں سے وہ بہت متاثر رہتے تھے۔ لہذا ایک بار انھوں نے اپنی فیئٹ گاڑی کو طوطے کے رنگ میں رنگوا دیا تھا۔ انھوں نے ایک بار مذاق بھی کیا تھا کہ وہ اپنی کار کو اس طرح سے سجاتے ہیں جیسے دشہرے (ہندوؤں کا تہوار) میں بیل کو سجایا جاتا ہے۔ رفیع کبھی کبھی پتنگ بھی اڑاتے تھے اور اکثر ان کے پڑوسی مننا ڈے ان کی پتنگ کاٹ دیا کرتے تھے۔ وہ بہت اچھے مہمان نواز بھی تھے۔ دعوت دینے کا انھیں بہت شوق تھا۔ حج کے دوران محمد رفیع ان کے دوست خیام بتاتے ہیں کہ رفیع صاحب نے کئی بار ان کے اور ان کی بیوی جگجیت کور کو ساتھ کھانے پر بلایا تھا اور ان کے یہاں کا کھانا بہت عمدہ ہوا کرتا تھا۔ یاسمین خالد بتاتی ہیں کہ ایک بار وہ برطانیہ کے کاونٹری میں شو کر رہے تھے اور وہ اپنے شوہر خالد کے ساتھ ان سے ملنے گئیں تو وہ تھوڑے خراب موڈ میں تھے کیونکہ انھیں وہاں ڈھنگ کا کھانا نہیں مل پا رہا تھا۔ انھوں نے پوچھا کہ یہاں سے لندن جانے میں کتنا وقت لگے گا۔ خورشید نے جواب دیا یہی کوئی تین گھنٹے۔ پھر وہ یاسمین کی طرف مڑے اور پوچھا کیا تم ایک گھنٹے میں دال، چاول اور چٹنی بنا سکتی ہو؟ یاسمین نے جی ہاں کہا تو رفیع بولے، "چلو لندن چلتے ہیں۔ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم سات بجے شو شروع ہونے سے پہلے واپس كاونٹری لوٹ آئیں گے۔ رفیع، خالد اور یاسمین بغیر کسی کو بتائے لندن گئے۔ یاسمین نے ان کے لیے فوری دال، چاول اور چٹنی اور پیاز ٹماٹر کی ترکاریاں بنائی۔ رفیع نے کھانا کھا کر یاسمین کو بہت دعائیں دیں اور ایسا لگا جیسے کسی بچے کو اس کی پسند کا کھلونا مل گیا ہو۔ جب انھوں نے كاونٹري لوٹ کر منتظمین کو بتایا کہ وہ صرف کھانا کھانے لندن گئے تھے تو وہ حیران رہ گئے۔ محمد رفیع، مکے محمد علی کے بڑے پرستار تھے۔ رفیع کو باکسنگ کے مقابلے دیکھنے کا بہت شوق تھا اور محمد علی ان کے پسندیدہ باکسر تھے۔ اپنے بیٹے خالد کے ساتھ محمد رفیع سنہ 1977 میں جب وہ ایک شو کے سلسلے میں شکاگو گئے تو منتظمین کو رفیع کے اس شوق کے بارے میں پتہ چلا۔ انھوں نے رفیع اور علی کی ایک ملاقات کرانے کی کوشش کی لیکن یہ اتنا آسان کام بھی نہیں تھا۔ لیکن جب علی کو بتایا گیا کہ رفیع بھی گلوکار کے طور پر اتنے ہی مشہور ہیں جتنا کہ وہ ایک باکسر کے طور پر ہیں، تو علی ان سے ملنے کے لیے تیار ہو گئے۔ دونوں کی ملاقات ہوئی اور رفیع نے باکسنگ پوز میں محمد علی کے ساتھ تصویر كھنچوائي۔ موسیقار نوشاد اور لتا منگیشکر دونوں کے ساتھ رفیع نے کافی کام کیا۔ میں نے راجو بھارتن سے پوچھا کہ کیا رفیع کو ان کے زندہ رہتے وہ احترام مل پایا جس کے کہ وہ حق دار تھے؟ معروف باکسر محمد علی کے ساتھ محمد رفیع بھارتن کا جواب تھا: 'شاید نہیں لیکن رفیع نے اعزاز حاصل کرنے کے لیے کبھی لابنگ نہیں کی۔ یہ دیکھ کر کہ انھیں محض پدم شری ہی مل سکا، میں مانتا ہوں کہ انھیں ان کا حق نہیں ملا۔ انھیں اس سے کہیں زیادہ ملنا چاہیے تھا۔ 'سنہ 1967 میں جب انھیں پدم شری ملا تو انھوں نے کچھ وقت تک سوچا کہ اسے مسترد کر دیں، لیکن پھر ان کو مشورہ دیا گیا کہ آپ ایک خاص کمیونٹی سے آتے ہیں اور اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ کو غلط سمجھا جائے گا۔ انھوں نے اس مشورے کو مان لیا لیکن انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اگر وہ پدم بھوشن کا انتظار کرتے تو وہ ان کو ضرور ملتا اور وہ یقینی طور پر اس حق دار بھی تھے۔'
060603_levies_killing_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/06/060603_levies_killing_zs
باجوڑ بم دھماکہ، لیویز اہلکار ہلاک
پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ میں حکام کے مطابق جمعہ کی رات ہونے والے بم دھماکے میں ایک لیویز اہلکار ہلاک جبکہ دو معمولی زخمی ہوگئے ہیں۔
یہ واقعہ رات ساڑھے نو بجے باجوڑ کے صدر مقام خار میں پیش آیا۔ حکام کے مطابق لیویز اہلکار معمول کےگشت پر تھے کہ انہیں خار کے مرکزی بازار کے قریب سڑک کنارے ایک مشکوک گٹھڑی دکھائی دی۔ تیس سالہ سپاہی راحت شاہ جونہی گٹھڑی کے قریب پہنچے تو اس میں نصب ریموٹ کنٹرول بم زوردار دھماکے سے پھٹ گیا جس سے راحت شاہ موقع پر ہلاک ہو گئے جبکہ لیویز کا ایک تحصیلدار اور ایک سپاہی معمولی زخمی ہوئے۔ زخمی ہونے والے تحصیلدار اس سے قبل بھی خار کی ایک مسجد میں بم دھماکوں میں بال بال بچے تھے۔ باجوڑ میں اس سال جنوری میں ڈمہ ڈولہ میں امریکی بمباری اور بعد میں القاعدہ کے ایک اہم رکن ابو مروان السوری کی لیویز کی ایک چوکی پر تصادم میں ہلاکت کے بعد تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
sport-57310002
https://www.bbc.com/urdu/sport-57310002
ہنسی کرونیئے: باب وولمر دلی کے پولیس کمشنر سے سابق جنوبی افریقی کرکٹ کپتان کے بارے میں کیا جاننا چاہتے تھے؟
18 اپریل 2005 کو پاکستانی کرکٹ ٹیم انڈیا کا کامیاب دورہ مکمل کر کے وطن واپس روانہ ہونے والی تھی لیکن روانگی سے کچھ دیر قبل معلوم ہوا کہ پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ باب وولمر دہلی میں پولیس کمشنر کے کے پال سے ملنے گئے ہوئے ہیں۔ اِس ملاقات کی خواہش خود باب وولمر نے ظاہر کی تھی۔
انڈین صحافی پردیپ میگزین نے اس ملاقات کا تفصیلی احوال اپنی کتاب ’Not Quite Cricket‘ میں بیان کیا ہے کیونکہ یہ ملاقات پردیپ کے توسط سے ہی ممکن ہو پائی تھی۔ پردیپ میگزین لکھتے ہیں ’پاکستانی ٹیم کے دورہ انڈیا کے دوران ٹیم کے منیجر سلیم الطاف کے ساتھ میری دوستی ہو گئی تھی جس کا سبب ہم دونوں کا مشترکہ شوق ٹینس تھا۔‘ ’ہم دونوں شام کو اکٹھے ٹینس کھیلتے تھے، ایک روز سلیم الطاف نے مجھ سے کہا کہ باب وولمر دہلی کے پولیس کمشنر کے کے پال سے ملنا چاہتے تھے لہذا آپ اس سلسلے میں مدد کریں اور ملاقات کا وقت لے کر دیں۔‘ یہ بھی پڑھیے ہنسی کرونیئے: جو اپنے ساتھ کئی راز لے گئے ’میچ فکسنگ کی نہیں تو اعتراف کیوں کروں؟‘ سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے 10 سال: دنیا کو دھوکہ دینے والی تین ’نو بالز‘ پردیپ میگزین لکھتے ہیں ’مجھے اندازہ تھا کہ باب وولمر دہلی پولیس کمشنر سے جنوبی افریقہ کے سابق کپتان ہنسی کرونیئے کے حوالے سے ملنا چاہتے تھے۔ کے کے پال وہ پولیس افسر تھے جن کی نگرانی میں ہنسی کرونیئے اور بک میکر سنجے چاؤلہ کے تعلقات کے بارے میں تحقیقات ہوئی تھی اور کے کے پال نے ہی سات اپریل 2000 کو دہلی میں پریس کانفرنس کر کے اِن دونوں کے ٹیلی فونک رابطے کا انکشاف کیا تھا۔‘ باب وولمر ’باب وولمر یہ جاننا چاہتے تھے کہ ان تحقیقات میں کتنی سچائی تھی کیونکہ وہ کسی طور پر بھی ہنسی کرونیئے کو اس معاملے میں ملوث سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھے اور پولیس کمشنر سے ملاقات میں یہ بات کُھل کر سامنے آ گئی تھی۔‘ یاد رہے کہ باب وولمر پاکستانی ٹیم سے پہلے جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کے کوچ تھے اور یہ وہی دور ہے جس دوران ہنسی کرونیئے کے بک میکرز سے رابطوں اور مبینہ طور پر ان سے بھاری رقمیں وصول کرنے کی کہانیاں سامنے آئی تھیں جس کے بعد جنوبی افریقی حکومت نے ’کنگ کمیشن‘ قائم کر کے اس بارے میں تحقیقات کی تھیں۔ ان تحقیقات کی روشنی میں ہنسی کرونیئے پر کرکٹ کھیلنے پر تاحیات پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ وولمر اور پولیس کمشنر کی ملاقات میں کیا ہوا؟ پردیپ میگزین لکھتے ہیں ’پولیس کمشنر کی جانب سےملاقات پر آمادگی کے بعد میں باب وولمر کو لے کر جنوبی دہلی میں کے کے پال کی رہائش گاہ پہنچا جہاں دونوں کے درمیان بڑی دلچسپ گفتگو ہوئی۔‘ وہ لکھتے ہیں ’پولیس کمشنر ابتدا میں پُرسکون انداز میں باب وولمر کو یہ بتانے لگے کہ کرونیئے واقعی اس معاملے میں ملوث تھے اور اس سلسلے میں ہونے والی تحقیقات صاف شفاف تھیں لیکن جب باب وولمر ہنسی کرونیئے کا دفاع کرتے ہوئے بہت آگے نکلنے لگے تو پھر کے کے پال کا لہجہ بھی بدل گیا اور انھوں نے بعض ایسے سوالات کر دیے جنھوں نے باب وولمر کو لاجواب کر دیا۔‘ پردیپ میگزین کہتے ہیں ’کے کے پال نے وولمر سے سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوچ یا ایک ایسا شخص جو کپتان کے بہت زیادہ قریب ہو وہ اس بات سے لاعلم رہے یا اسے شک ہی نہ ہو کہ ٹیم کا کپتان بک میکرز کے پے رول پر ہے؟‘ ’کے کے پال نے باب وولمر سے یہ بھی سوال کیا کہ ہنسی کرونییے کنگ کمیشن کے سامنے بک میکرز کی پیشکشوں اور ان سے ملنے والی رقوم کا اعتراف کر چکے ہیں اور یہ بھی بتا چکے ہیں کہ ایک سے زائد مرتبہ ٹیم میٹنگ میں انھوں نے اپنے کھلاڑیوں سے بک میکرز سے ملنے والی پیشکشوں کے بارے میں رائے لی کہ انھیں قبول کیا جائے یا نہیں؟ تو آپ کو ان میٹنگز کا کیوں پتہ نہیں چل سکا؟‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’اس سوال پر باب وولمر دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے اور انھوں نے کے کے پال کو جواب دیا کہ انھیں ان میٹنگز کے بارے میں بعد میں پتہ چلا۔‘ دہلی کے پولیس کمشنر نے باب وولمر کو یہ بھی یاد دلایا کہ آپ سنہ 1999 کے ورلڈ کپ میں ڈریسنگ روم میں بیٹھ کر اس آلے کے ذریعے میدان میں موجود کرونیئے سے کیا بات کر رہے تھے جو اُن کے کان میں لگا ہوا تھا؟ آپ کو معلوم نہیں تھا کہ کرونیئے ایک فکسر ہیں؟ وولمر کے پاس اس کا جواب صرف یہی تھا وہ اپنے کپتان سے میچ کی حکمت عملی پر بات کر رہے تھے۔ وولمر کو واقعی کرونیئے کے بارے میں کچھ نہیں پتہ تھا؟ پردیپ میگزین نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ملاقات میں کے کے پال اور وہ خود اس شک و شبہے میں مبتلا تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ باب وولمر اتنی اہم باتوں سے لاعلم رہے ہوں، انھیں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وولمر اس معاملے میں بہت کچھ جانتے ہوں لیکن چھپا رہے ہوں۔ عام خیال بھی یہی ہے کہ باب وولمرکو ہنسی کرونیئے کے بک میکرز سے رابطوں اور پیشکشوں کے بارے میں بہت کچھ معلوم تھا۔ اس کا اندازہ جنوبی افریقہ کے چند کھلاڑیوں کے ان بیانات سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو انھوں نے کنگ کمیشن کے سامنے دیے تھے۔ ان بیانات کے مطابق جب سنہ 1996 میں جنوبی افریقی ٹیم انڈیا کے دورے کا آخری میچ ممبئی میں کھیل رہی تھی جسے آخری لمحات میں انٹرنیشنل میچ کا درجہ دے دیا گیا تھا جس پر جنوبی افریقی کھلاڑی ناخوش تھے کیونکہ وہ اس دورے میں بہت تھک چکے تھے اور چاہتے تھے کہ یہ دورہ جلد ختم ہو جائے۔ اس موقع پر ہنسی کرونیئے کو بک میکر مکیش گپتا نے میچ ہارنے کے عوض دو سے ڈھائی لاکھ ڈالرز کی پیشکش کی۔ بعد میں اس نے کرونیئے کے رابطہ کرنے پر اس پیشکش میں ایک لاکھ ڈالرز کا اضافہ بھی کر دیا تھا کیونکہ کچھ کھلاڑی اس تجسس میں تھے کہ کیا یہ پیشکش بڑھ سکتی ہے یا نہیں؟ تاہم اینڈریو ہڈسن، ڈیرک کروکس اور ڈیرل کلینن نے اس پیشکش کو فوراً ٹھکرا دیا تھا۔ آئی سی سی کے سابق چیف ایگزیکٹیو ڈیوڈ رچرڈسن نے جو اُس وقت جنوبی افریقی ٹیم کے وکٹ کیپر تھے کنگ کمیشن کے سامنے بیان میں کہا تھا کہ ان کے بین الاقوامی کریئر میں یہ پہلا موقع تھا کہ ٹیم کے ماحول میں اس طرح کی پیشکش زیرغور آئی ہو۔ آف سپنر پیٹ سمکوکس نے کنگ کمیشن کے سامنے اپنے بیان کے دوران کہا تھا کہ یہ پیشکش بہت سنجیدگی سے لی گئی تھی بلکہ اس دوران انھوں نے بذلہ سنجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاتون ایڈووکیٹ شامیلا بتوہی کے سوال پر کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ میچ ہارنے کے بدلے بھاری رقم کی یہ پیشکش کہاں سے آئی تھی؟ سمکوکس کا جواب تھا ’آپ کو خود اندازہ ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے یہ وزیراعظم کی طرف سے تو نہیں آئی ہو گی۔‘ ’ہمیں یہ پیسے لے لینے تھے‘ انگلینڈ کے صحافی سائمن وائلڈ نے اپنی کتاب ’Caught‘ میں ممبئی کے اس میچ کے دوران ڈریسنگ روم میں پیش آنے والے واقعے کا ذکر کیا ہے جس میں ہنسی کرونیئے یہ ڈیل نہ ہونے پر بہت خفا تھے اور انھوں نے غصے میں آ کر کھانے کی پلیٹ اس زور سے اُچھالی کہ چکن کے ٹکڑے چھت پر جا لگے تھے۔ سائمن وائلڈ نے اپنی کتاب میں باب وولمر کے ڈیلی ٹیلیگراف کو دیے گئے ایک انٹرویو کا حوالہ بھی دیا ہے کہ باب وولمر نے کرونیئے کو یہ کہتے سُنا کہ ’اگر ہم پیسے لے لیتے تو ان پیسوں سے ہم فین کورٹ (ایک انتہائی مہنگا علاقہ) میں ایک گھر خرید سکتے تھے۔‘ باب وولمر ایک جانب تو اپنے انٹرویوز میں ان تمام واقعات کو بیان کرتے رہے تھے لیکن جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر علی باقر نے کنگ کمیشن کے سامنے اپنے بیان میں کہا تھا کہ باب وولمر اور ٹیم کے منیجر رابرٹ موزیل نے انھیں کبھی بھی دورے کی رپورٹ میں اس طرح کی کسی بھی بات سے آگاہ نہیں کیا جبکہ باب وولمر کا کہنا یہ تھا کہ وہ ڈاکٹر علی باقر کو اس بارے میں بتاتے رہے تھے۔ باب وولمر نے جون 2000 میں وزڈن کرکٹ منتھلی کو دیے گئے انٹرویو میں کرونیئے کے بارے میں یہ کہا تھا کہ وہ سٹاک مارکیٹ میں بھی بہت زیادہ متحرک تھے اور کرکٹ ان کا واحد ذریعہ معاش نہیں تھا۔ سلیم ملک نے کرونیئے سے کیا کہا؟ ہنسی کرونیئے نے کنگ کمیشن کے سامنے اپنے بیان میں کہا تھا کہ بک میکر نے ان سے پہلا رابطہ جنوری 1995 میں مینڈیلا ٹرافی کے بیسٹ آف تھری کے پہلے فائنل سے قبل کیپ ٹاؤن میں کیا تھا۔ اُس وقت وہ پچیس سال کے تھے اور انھیں کپتان بنے ہوئے صرف تین ماہ ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ شخص پاکستانی یا انڈین تھا جسے وہ صرف ’جان‘ کے نام سے جانتے تھے۔ کرونیئے کا کہنا تھا کہ ’مجھے جان نامی اس شخص نے ہارنے کے عوض دس ہزار ڈالرز کی پیشکش کی تھی جس کا ذکر میں نے صرف آف سپنر پیٹ سمکوکس سے کیا لیکن جب میں میدان میں گیا تو پاکستانی کپتان سلیم ملک نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے جان سے بات کر لی ہے؟‘ 'سلیم ملک کا یہ کہنا اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ بھی مجھے ہونے والی اس پیشکش سے واقف تھے۔' یہ وہی میچ ہے جس میں ٹاس جیت کر جنوبی افریقہ کو پہلے بیٹنگ دینے کے معاملے پر کپتان سلیم ملک اور وکٹ کیپر راشد لطیف کے درمیان شدید اختلافات سامنے آئے تھے اور اسی کے بعد راشد لطیف نے ٹیم میں مبینہ گڑبڑ کی آواز بلند کی تھی۔ کرونیئے نے کنگ کمیشن کو یہ بھی بتایا تھا کہ سنہ 1996میں جب جنوبی افریقی ٹیم شارجہ میں تھی تو سنیل نامی بک میکر نے اُن سے رابطہ کر کے ٹیم کے انڈیا کے دورے میں میچز فکس کرنے کی بات کی تھی جسے انھوں نے رد کر دیا تھا۔ ہنسی کرونیئے کی زندگی میں چند اور بھی مشکوک افراد آئے جن سے انھوں نے رقمیں وصول کیں اور اس دلدل میں دھنستے چلے گئے بالآخر یکم جون 2002 کو وہ جنوبی افریقہ میں ایک چھوٹے جہاز کے حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ باب وولمر ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی آئرلینڈ کے خلاف حیران کُن شکست کی اگلی صبح 18 مارچ 2007 کو کنگسٹن جمائیکا کے ہوٹل کے اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے۔ ہنسی کرونیئے کی طرح باب وولمر کی موت کے نتیجے میں بھی کئی رازوں پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پردہ پڑ گیا۔
061113_baloch_blasts_rza
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/11/061113_baloch_blasts_rza
کوئٹہ دھماکہ: 2 ہلاک، 10 زخمی
کوئٹہ میں سمنگلی ہاؤسنگ سکیم کے قریب پنج فٹی کے علاقے میں ایک دھماکے سے کم سے کم دو افراد ہلاک اور دس زخمی ہوئے ہیں۔
کوئٹہ کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس غلام قادر تھیبو نے بتایا ہے کہ دھماکہ ایک سائکل پر رکھے ہوئے بم سے ہوا ہے جس سے ایک افغان بچی اور ایک نوجوان ہلاک ہوا ہے۔ بچی کی عمر چھ سے سات سال بتائی گئی ہے۔ ڈی آئی جی پولیس نے بتایا کہ ایک شخص برگر کے سٹال پر آیا اور سائکل چھوڑ کر چلا گیا۔ سائکل پر آدھا کلو وزنی بم تھا جس کے پھٹنے سے نقصان ہوا ہے۔ سول ہسپتال میں موجود ڈاکٹر جاوید نے بتایا ہے کہ چار زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ اکثر زخمیوں کو جسم کے مختلف حصوں پر چوٹیں آئی ہیں۔ پنج فٹی کا علاقہ شہر کے بارونق اور مہنگی رہائشی سکیم جناح ٹاؤن اور سمنگلی ہاؤسنگ سکیم کے قریب واقع ہے۔
pakistan-55161999
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55161999
میر ظفراللہ خان جمالی: ’جب چھوٹے صوبے کے وزیراعظم کے پر نکل آئے‘
پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی 76 برس کی عمر میں راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں وفات پا گئے اور ان کو اپنے آبائی علاقے روجھان جمالی میں جمعرات کی صبح سپردِ خاک کر دیا گیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد سے وہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پہلے منتخب وزیرِ اعظم تھے۔ میر ظفر اللہ خان جمالی کو چار روز قبل دل کا دورہ پڑا تھا جس کے بعد انھیں راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ کوئٹہ میں ہمارے نامہ نگار ممد کاظم نے ان کی قریبی رشتہ دار اور سابق وزیرِ اعلیٰ میر جان محمد جمالی نے اس بات کی تصدیق کی اور انھوں نے بتایا ہے کہ کل ان کی میت ان کے آبائی علاقے ضلع جعفرآباد روجھان جمالی میں لائی جائے گی اور وہیں سپرد خاک کیا جائے گا۔ میر ظفر اللہ جمالی کا شمار بلوچستان کے ان چند بلوچ سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے وفاقی جماعتوں کے ساتھ سیاست کو ترجیح دی اور صوبے میں مقبول قوم پرستی کے رجحان سے خود کو دور رکھا۔ انھیں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پہلے منتخب وزیر اعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ ابتدائی زندگی میر ظفر اللہ جمالی کی پیدائش قیام پاکستان سے تین سال قبل یعنی 1944 میں ڈیرہ مراد جمالی کے قصبے روجھان جمالی میں ہوئی۔ انھوں نے پرائمری تعلیم مقامی طور پر حاصل کی اور اس کے بعد گھوڑا گلی مری میں بورڈنگ سکول چلے گئے جس کے بعد اے لیول انھوں نے لاہور کے ایچی سن کالج سے کیا۔ انھوں نے کالج کے بعد مزید تعلیم پنجاب میں ہی جاری رکھی اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبے سیاست سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ اردو، پنجابی، سندھی، پشتو اور براہوی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ سیاسی گھرانہ ظفر اللہ جمالی کا گھرانہ مسلم لیگ سے تعلق رکھتا تھا۔ ان کے چچا جعفر خان جمالی محمد علی جناح اور بعد میں ان کی بہن فاطمہ جناح کے قریب رہے۔ ظفر اللہ جمالی کا دعویٰ تھا کہ ان کے چچا نے فاطمہ جناح کو رضامند کیا تھا کہ وہ ایوب خان کے خلاف انتخاب لڑیں جبکہ اس سے قبل وہ خواجہ ناظم الدین اور حسین سہرودری کو انکار کر چکی تھیں۔ ظفر اللہ جمالی نے فاطمہ جناح کے انتخابی دورے کے وقت ان کے گارڈ کے طور پر بھی فرائض سر انجام دیے اور بعد میں ان کے پولنگ ایجنٹ بھی مقرر ہوئے۔ سیاست میں آمد روجھان جمالی کے جمالی خاندان کی سیاسی شناخت جعفر خان جمالی تھے۔ ان کی وفات کے بعد یہ ذمہ داری میر ظفراللہ جمالی نے سنبھالی اور پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ ظفراللہ جمالی نے اس شمولیت کے بارے میں کہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو چچا کی تعزیت کے لیے آئےتھے اور والد کے کہنے پر انھوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ 1970 کے انتخابات میں انھیں سردار چاکر خان نے شکست دی اس کے بعد وہ 1977 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، جنرل ضیاالحق نے جب مارشل لا نافذ کیا تو وہ ان سیاست دانوں میں شامل تھے جنھوں نے جنرل ضیاالحق کا ساتھ دیا۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ان کو پانی و بجلی کی وزارت دی گئی جب جنرل ضیاالحق نے محمد خان جونیجو حکومت کو برطرف کر دیا تو انھیں بلوچستان کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ سنہ 1988 میں دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد وہ ہر اس سیاسی جماعت میں شامل رہے جو حکومت میں رہی، اس دوران انہوں نے مسلم لیگ ، مسلم لیگ ق اور حالیہ دنوں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔ بلوچستان کا پہلا وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کو پاکستان کا 13واں اور بلوچستان سے پہلا وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ ان کی نامزدگی سے قبل مسلم لیگ ق اور متحدہ مجلس عمل میں اتحادی حکومت سازی کے لیے مذاکرات جاری تھے۔ مسلم لیگ ق کے رہنما اور سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان جمالی کے خلاف تھے کیونکہ بلوچستان کی سیاست میں مولانا فضل الرحمان اور جمالی ایک دوسرے کے حریف تھے دوسری وجہ یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمان خود بھی امیدوار تھے۔ ایم ایم اے سے مذاکرات میں کامیابی کے بعد پرویز مشرف نے وزیر اعظم کی نامزدگی چوہدری شجاعت پر چھوڑ دی اور ان کی رائے تھی کہ بلوچستان میں ہمیشہ سے احساس محرومی کا شکار رہا ہے وہاں سے کوئی وزیراعظم نہیں ہوا اس لیے وہیں سے کسی کا انتخاب کرنا چاہیے۔ 'پارٹی نے تجویز منظور کر دی اور مشرف نے کہا کہ وہ انھیں نہیں جانتے لیکن آپ لوگوں نے فیصلہ کیا ہے تو اس طرح جمالی کا نام حتمی ہو گیا۔ انھوں نے محسوس کیا کہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کو ظفر اللہ جمالی کےنام پر کچھ تحفظات ہیں، ان کی سوچ تھی کہ بطور وزیراعلیٰ ان کا ریکارڈ درست نہیں تھا۔' بلوچستان کے سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار لکھتے ہیں کہ انھوں نے وزیراعظم کا خواب تو دو دہائی پہلے دیکھا تھا لیکن جنرل ضیاالحق نے محمد خان جونیجو کا انتخاب کیا تاکہ سندھ میں بھٹو کی پھانسی کے بعد موجود جذبات کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔ رمز فیلڈ کے ساتھ ملاقات اور مشرف کی ناراضگی یکم اکتوبر 2003 میں میر ظفر اللہ جمالی بطور وزیراعظم امریکہ کے دورے پر گئے، جہاں انھوں نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور سیکریٹری دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ سے ملاقاتیں کیں۔ بعد میں ان کا یہ دورہ ان کی وزارت عظمی کے خاتمے کی ایک بڑی وجہ بنا کیونکہ اس دورے سے اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف شدید ناراض ہوئے تھے۔ اس امریکی دورے میں موجودہ وفاقی وزیر شیخ رشید احمد بطور وفاقی وزیر اطلاعات ان کے ہمراہ تھے وہ اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ وزیر خارجہ خورشید قصوری بھی ساتھ تھے، رمز فیلڈ کے ساتھ ملاقات میں جمالی نے کہا کہ میں نے اکیلے میں بات کرنی ہے اس طرح تقریباً تیس سے چالیس منٹ رمز فیلڈ اور جمالی کی ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔ 'ابھی میں باہر بیٹھا ہوا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل احسان کا فون آیا کہ شیخ رشید آپ کہاں ہیں؟ میں نے بتایا کہ میں میٹنگ کے باہر بیٹھا ہوں اور جمالی صاحب کا انتظار کر رہا ہوں انھوں نے پوچھا کہ اندر میٹنگ میں جمالی صاحب کے ساتھ اور کون ہے؟ خارجہ سیکریٹری اور وزیر خارجہ ہیں۔ تو میں نے کہا کہ کوئی نہیں حالانکہ سفیر نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اگر وزیر خارجہ بھی ساتھ ہوں تو بہتر ہے، لیکن جمالی صاحب نے ون ٹو ون ملاقات کو ہی ترجیح دی۔ شیخ رشید کے مطابق دو تین منٹ منٹ ہی گزرے تھے کہ جنرل پرویز مشرف کا بھی فون آ گیا اور پرویز مشرف نے کہا کہ ''شیخو' کدھر ہو، تو میں نے کہا جمالی صاحب کے ساتھ۔ انھوں نے کہا کہ جمالی صاحب کدھر ہیں تو میں نے کہا کہ رمز فیلڈ کے ساتھ۔ پھر پرویز مشرف نے پوچھا کہ رمز فیلڈ کے ساتھ اور کون ہے تو میں نے کہا کہ اور کوئی نہیں ہے تو انھوں نے کہا کہ خورشید قصوری اور سفیر کہاں ہیں تو میں نے بتایا کہ وہ دونوں میرے ساتھ کھڑے ہیں، تو انھوں نے کہا کہ 'آل رائٹ، اوکے' ۔ ایک دم میں کھنکا اور سمجھ گیا۔' شیخ رشید کا خیال ہے کہ چوہدری برادران نے جمالی کو اس لیے چنا تھا کہ ان کے خیال میں ایک چھوٹے صوبے کا وزیر اعظم "پر" نہیں نکال سکے گا اور جس طرح چوہدری کہیں گے ویسے ہی ہو گا لیکن ایسا نہ ہوا۔ جمالی وزیراعظم نظر آنا شروع ہو چکے تھے اور امریکی دورے کے بعد تو ان کا خیال تھا کہ وہ بہترین پوزیشن میں ہیں۔ وہ مسلم لیگ ق کا کوئی عہدہ لینا چاہتے تھے اور چوہدری کسی صورت میں دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چوہدری شجاعت حسین اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں صدر کو پہلی شکایت یہ تھی کہ وہ سست آدمی ہیں سرکاری فائلیں کئی کئی روز تک ان کے دفتر میں ان کے دستخطوں کی منتظر رہتی ہیں لیکن ان کو کوئی پرواہ نہیں۔ دوسری شکایت اس وقت پیدا ہوئی جب جمالی بطور وزیراعظم امریکہ کےدورے پر گئے اور واپسی پر انھوں نے صدر پرویز مشرف کو جو بریفنگ دی وہ اس بریفنگ سے مختلف تھی جو پرویز مشرف کو ذرائع سے ملی تھی۔ چوہدری شجاعت مزید لکھتے ہیں کہ صدر پرویز مشرف نے انھیں اور پرویز الٰہی کو بتایا کہ وزیراعظم اٹھتے ہی بارہ بجے ہیں دوسرا ان کا دورہ امریکہ کے بارے میں طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں بطور وزیراعظم وہ ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں آپ ان سے کہیں کہ فوری مستعفی ہو جائیں۔ صدر کا یہ پیغام لے کر جب وہ وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو جمالی نے کہا کہ آپ صدر صاحب سے کہیں انھیں اس طرح بے توقیر کر کے نہ نکالیں وہ خود ہی مستعفی ہو جاتے ہیں۔ صدر مشرف کی خواہش تھی کہ جمالی خود شوکت عزیز کا نام تجویز کریں جمالی نے کہا کہ میں آپ کا نام تجویز کر سکتا ہوں شوکت عزیز کا نہیں۔ ’گھر میں لمبی چوڑی ٹیبل تک نہ تھی‘ میر ظفر اللہ جمالی نے شان و شوکت کے بجائے سادہ زندگی گزاری اور کسی کو ذاتی اور سیاسی طور پر رنج نہیں پہنچایا۔ پی ٹی وی کے سابق ایم ڈی اختر وقار عظیم اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ سادگی کے معاملے میں وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی کم نہ تھے عام دنوں کی طرح وزارت عظمی کے زمانے میں بھی ان کے مزاج اور رہن سہن میں سادگی برقرار رہی۔ 'وہ جتنے عرصے وزیراعظم رہے ان کے بیوی بچوں نے وزیراعظم ہاؤس کا رخ نہیں کیا۔ بدستور کراچی کے گلشن اقبال میں اپنے گھر میں مقیم رہے۔ ان کے گھر کے پاس سیکیورٹی کا کوئی بھرپور انتظام نہیں تھا۔' 'ایک بار وزیراعظم کراچی ہی میں تھے کہ کسی ہنگامی نوعیت کے معاملے پر قوم سے خطاب کرنے کی ضرورت پڑ گئی وزیراعظم کے گھر پر ہی ریکارڈنگ کا وقت طے ہوگیا۔' 'میں نے سنا اور دیکھا ہے کہ عام طور پر سرکاری افسر اور سیاست دان اپنے ذاتی گھروں کی تزئین و آرائش بھی سرکاری خزانے سے کروا لیتے ہیں کیونکہ وقتاً فوقتاً انہیں وہاں رہنا ہوتا ہے۔ جمالی صاحب کے یہاں ایسا کچھ نہ تھا۔ہم ان کے گھر پہنچے تو وہاں کوئی ایسی چوڑی اور بڑی میز نہ مل سکی جس پر مناسب طریقے سے مائیکرو فون رکھ کر ریکارڈنگ کی جا سکتی۔' 'ایک چھوٹے سے سٹول پر بہت سی کتابیں رکھ کر اس حد تک اونچا کیا گیا کہ اس پر مائیکروں فون لایا جا سکے۔ کتابوں کے سائیز مختلف تھے اس لیے عارضی طور پر بنائی گئی میز کی شکل چوکور یا مستطیل ہونے کے بجائے مخروطی بن گئی۔' 'وزیراعظم نے خاموشی سے اس پر ریکارڈنگ کروائی اور ٹی وی عملے کا شکریہ ادا کیا۔ایک آدھے مرتبہ تو وہ کراچی میں گاڑی چلاتے ہوئے بھی دیکھے گئے۔ ایسے سادہ مزاج اور صاف گو آدمی کا زیادہ عرصہ تک حکمران رہنا ممکن نہ رہا جلد ہی مقتدر حلقے ان سے ناراض ہوگئے۔' ہاکی کے میدان کے کھلاڑی میرظفر اللہ خان جمالی سیاسی میدان کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے میدان میں بھی خاصے متحرک رہے۔ پاکستان کی ہاکی کے بہت قریب رہے اس کھیل سے ان کے والہانہ لگاؤ کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے خود زمانۂ طالب علمی میں ہاکی کھیلی تھی۔ انھوں نے قومی ہاکی چئمپین شپ میں پنجاب کی نمائندگی بھی کی تھی۔ 1984 کے لاس اینجلز اولمپکس میں پاکستانی دستے کے سربراہ تھے اور انھوں نے پاکستان ہاکی فیڈریشن میں چیف سلیکٹر کی ذمہ داری طویل عرصے تک نبھائی جس کے بعد انھیں پاکستان ہاکی فیڈریشن کا صدر بنا دیا گیا۔ وہ سنہ 2004 سے 2008 تک صدر کے عہدے پر فائز رہے لیکن بیجنگ اولمپکس میں پاکستانی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے نتیجے میں سابق کھلاڑیوں نے انھیں صدر کے عہدے سے ہٹانے کی مہم چلائی اور یوں میرظفراللہ جمالی کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا جس کے بعد اس وقت کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق اولمپئن قاسم ضیا کو فیڈریشن کا صدر مقرر کیا گیا تھا۔ سنہ 2015 میں میرظفراللہ خان جمالی کے دوبارہ ہاکی فیڈریشن کا صدر بننے کے امکانات پیدا ہوگئے تھے جب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے انھیں قومی ہاکی کے معاملات میں دلچسپی لینے کے لیے کہا تھا لیکن میرظفراللہ جمالی کو اس بات کا بے حد افسوس تھا کہ وزیراعظم کی ہدایت کے باوجود فیڈریشن میں تقرریاں ان سے مشاورت کے بغیر کی گئیں جنھیں انھوں نے مسترد کر دیا تھا۔ 'اور وہ انگاروں پر نہیں چلے' بلوچستان سے سیاست کے میناروں نواب خیربخش مری، سردار عطااللہ مینگل اور میر غوث بخش بزنجو کی ان کی ذاتی اور سیاسی قربت نہیں رہی۔ ان سیاست دانوں کا شمار ترقی پسند قوم پرست سیاست دانوں میں کیا جاتا ہے۔ میر ظفر اللہ جمالی اور نواب اکبر بگٹی کے خاندانوں میں قریبی اور سیاسی مراسم رہے لیکن 1992 میں ان کے دوسرے بیٹے سلال بگٹی کوئٹہ میں ایک حملے میں ہلاک ہو گئے۔ چوہدری شجاعت حسین لکھتے ہیں کہ 'اکبر بگٹی ظفر اللہ جمالی کو بھی اپنے بیٹے کے قتل کا ذمہ دار سمجھتے تھے واقعے کے کچھ عصے کے بعد جمالی انھیں ڈیرہ بگٹی لے گئے تاکہ وہ انھیں بتائیں کہ ان کا اس قتل میں کوئی ہاتھ نہیں۔ لہذا انھیں معاف کر دیں۔' 'بگٹی مجھے دوسرے کمرے میں لے گئے اور کہا کہ جمالی کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، میں نے کہا کہ ان کا کوئی قصور نہیں۔ ان کو معاف کردیں۔ کہنے لگے ٹھیک ہے، میں ان کو معاف کردیتا ہوں لیکن میری ایک شرط ہے۔ جمالی سچے ہیں تو دہکتے انگاروں (بے گناہی ثابت کرنے کے لیے قبائلی رسم) پر ننگے پاؤں چل کر دکھائیں۔ جب یہ بات ظفر اللہ جمالی کے علم میں آئی تو انھوں نے دہکتے انگاروں پر چلنے سے معذرت کر لی۔'
150729_wusat_malik_ishaq_sa
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/07/150729_wusat_malik_ishaq_sa
اینہو چھڈو اونہوں مارو ؟
پنجاب میں رمضان سے قبل دو مسجد اماموں کو نفرت انگیز تقاریر پر مختلف المعیاد قید کی سزا، پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کی پچھلی برسی پر ایک مظاہرے پر حملہ کرنے والے جوشیلوں کو تین تا پانچ برس کے لیے جیل اور اب کالعدم لشکرِ جھنگوی کے رہنما ملک محمد اسحاق اور ان کے دو صاحبزادوں سمیت چودہ افراد کی پنجاب پولیس سے ’مقابلے‘ میں ہلاکت؟
ملک اسحاق ابتدا میں کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے رکن تھے لیکن اپنی مبینہ متشدد پالیسی کی بنیاد پر سپاہ صحابہ سے اختلاف کے بعد ایک نئی تنظیم لشکر جھنگوی کی بنیاد رکھی تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر جزوی اور نیم دلانہ عمل درآمد کے بجائے اب اس منصوبے پر جامع انداز میں عمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ پشاور کے آرمی پبلک سکول کے قتلِ عام کے بعد کم ازکم اس بارے میں تو قومی اتفاقِ رائے ہوگیا تھا کہ اب کہنے کا وقت گزر گیا، کرنے کا وقت آگیا۔ مگر جس طرح سے جیلوں میں طویل عرصے سے پڑے سزائے موت کے منتظر مجرموں کو پھانسی پر لٹکانے کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ بات سامنے آئی کہ یہ پھانسیاں دہشت گردی کے خلاف ابتدائی سیاسی اتفاق رائے کے برعکس اُن مجرموں کو زیادہ دی جا رہی ہیں جنھیں انفرادی جرائم میں سزا سنائی گئی تھی۔ آج تک جتنے مجرموں کو لٹکایا گیا ان میں ہر چھ میں سے پانچ مجرم اسی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ چنانچہ سوال اٹھا کہ کیا اس انداز سے پھانسیاں دینے سے اُن دہشت گردوں کو کچھ کان ہو جائیں گے کہ جن کی تمنا ہی موت ہے۔ دوسرا سوال یہ ابھرا کہ انفرادی وارداتوں کے مجرموں کے خلاف تو کوئی نہ کوئی گواہی دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے لیکن دہشت گردوں کے خلاف کون گواہی دے گا کہ جن کے مقدمے سننے سے جج بھی گھبراتے ہیں اور ان میں سے کچھ دہشت گردوں کو مبینہ طور پر سیاسی حکومتوں کے اندر ایک خاص طرح کی لابی کی پشت پناہی یا نرم گوشے کی سہولت اور بعض حساس اداروں کی بھی حسبِ ضرورت و مصلحت جزوقتی و کل وقتی حمایت حاصل ہے یا رہی ہے۔ ملک اسحاق پر شیعہ اور دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے قتل کے درجنوں مقدمات قائم کیے گئے تھے اور وہ تقریباً 15 سال جیل میں رہے اس سوال کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ اگر تو نیشنل ایکشن پلان کی ترجیحات میں مذہب و عقیدے کے نام پر دہشت گردی اور ان کے پشت پناہوں کی گردن زدنی کے ساتھ ساتھ علاقائی و قوم پرست انتہا پسندی کی بیخ کنی بھی شامل ہوگئی ہے تو پھر پنجاب، خیبر پختونخواہ اور کراچی کے برعکس بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ یہ پالیسی کیوں نہیں اپنا رہی کہ انتہا پسندی کا جواب صرف سیکورٹی ادارے اپنی قانونی حیثیت میں دیں اور اس کام میں طفیلی پرائیویٹ ملیشیائیں استعمال کرنے سے گریز کریں۔ یقیناً ضربِ عضب اور انٹیلی جینس کی بنیاد پر ٹارگٹڈ آپریشنز سے مجموعی طور پر بہتری آئی ہے۔ یقیناً یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ روایتی جنگ کے برعکس ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد ہے۔ مگر یہ جنگ صرف درخت کے پتے جھاڑنے سے نہیں جیتی جا سکتی جب تک جڑوں پر پوری توجہ نہیں دی جائے۔ اور جڑیں اکھاڑنے کے لیے ضروری ہے کہ سوچ کا دھارا بدلنے پر بھی اسی قدر توجہ دی جائے جتنی توجہ پتے جھاڑنے پر ہے۔ ان لوگوں کے پیچھے جانے کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے جو بندوق چلانے سے زیادہ خطرناک کام کرتے ہیں یعنی دماغ مسلح کرتے ہیں۔ فرسودہ نظامِ انصاف کو بھی لیپا پوتی کے بجائے ازسرِ نو تعمیر کی ضرورت ہے تاکہ بالائے قانون پولیس مقابلوں اور جبری گمشدگی کے دھبوں سے بچا جا سکے اور گیہوں سے زیادہ گھن نہ پس جائے۔ اور اس سب سے بھی زیادہ اس مسئلے کو گریبان سے پکڑنے کی ضرورت ہے کہ عام آدمی کی ناامیدی رفتہ رفتہ امید میں بدلے۔ یہ صرف کہنے سے نہیں ہوگا۔ جب تک اس کا سماجی، سیاسی، اقتصادی اور نفسیاتی احساسِ محرومی ختم نہیں ہوگا بھلے ختم نہ بھی ہو تب بھی اس کو یہ احساس ضرور ہونا چاہیے کہ اس سمت کچھوے کی رفتار سے ہی سہی مگر کام ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس جملے کو بھی فیصلہ سازوں کو اپنے دماغ سے کھرچنے کی ضرورت ہے کہ ’اے ساڈا بندہ اے تے او اونہاں دا بندہ ہے۔ اینوں چھڈ دیو تو اونہوں مار دیو۔‘ ورنہ تو یہی باتیں ہوتی رہیں گی کہ سب کچھ وقتی ہے یا ان پھرتیوں کا تعلق پاک چائنا اکنامک کاریڈور سے ہے یا پھر عالمی برادری کی نظروں میں اپنا امیج بہتر بنانے کی ایک اور کوشش ہے۔
051111_new_captain_2
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/11/051111_new_captain_2
مائیکل وان کپتان نہیں ہوں گے
انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے کپتان مائیکل وان گھٹنے کی تکلیف کے سبب ہفتے سے شروع ہونے والے ملتان ٹیسٹ میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ ان کی جگہ نائب کپتان مارکس ٹریسکوتھک قیادت کے فرائض انجام دیں گے۔
انگلینڈ کی ٹیم کے میڈیا افسر اینڈریو والپول نے بتایا ہے کہ مائیکل وان کی فٹنس پر نظر رکھی جارہی ہے وہ فی الحال ٹیم کے ساتھ رہیں گے۔ پہلے ٹیسٹ میں ان کی جگہ مارکس ٹریسکوتھک ٹیم کی قیادت کرینگے۔ وان کے فٹ نہ ہونے کی صورت میں بقیہ دورے میں بھی مارکس ٹریسکوتھک قیادت کی ذمہ داری نبھائیں گے۔ ٹریسکوتھک اس سے قبل گزشتہ سال نیوزی لینڈ کے ِخلاف لارڈز ٹیسٹ میں بھی انگلینڈ کی کپتانی کرچکے ہیں اس میچ میں بھی انہیں یہ موقع مائیکل وان کے گھٹنے کی تکلیف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ملا تھا۔ ٹریسکوتھک کا کہنا ہے کہ پچھلے سال کی یادیں ابھی تازہ ہیں اور اتفاق سے انہیں دوبارہ یہ ذمہ داری ملی ہے جس کے لیے وہ تیار ہیں۔ اپنے ملک کی قیادت کرنا کسی بھی کرکٹر کے لیے باعث اعزاز ہے۔ مائیکل وان نے31 ٹیسٹ میچوں میں انگلینڈ کی قیادت کی ہے جن میں سے19 ٹیسٹ جیتے ہیں صرف5 میں شکست ہوئی ہے اور7 ڈرا ہوئے ہیں۔
060401_deccan_diary
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/04/060401_deccan_diary
دکن ڈائری: اگادی، حزب اختلاف کے بھی نجومی۔۔۔
ایک برہمن نے کہا ہے یہ سال اچھا ہے۔
’اگادی‘ تلگو زبان بولنے والوں کےلیۓ سال نو کے آغاز کا تہوار ہے جو آندھرا پردیش میں بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کی ایک بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس موقع پر نجومی اور پنڈت آئندہ ایک برس کےلیۓ اپنی پیشین گوئیاں سناتے ہیں اور ستاروں کی چال اور زائچہ دیکھ کر بتاتے ہیں کہ ان کے خیال میں سال نو میں کیا اچھا اور کیا برا ہونے والا ہے۔ اسی طرح کی سب سے بڑی تقریب ریاستی حکومت کے زیراہتمام حیدرآباد میں منعقد ہوتی ہے جس میں خود وزیراعلی شرکت کرتے ہیں اور اس موقع پر ایک سرکاری پنڈت اپنی پیشین گوئیاں کرتا ہے جسے لوگ بڑی دلچسپی سے سنتے ہیں۔ خوش خبری پر خوش اور بری پیشین گوئی پر پریشان ہوتے ہیں۔ لیکن حالیہ کچھہ عرصے سے یہ سارا معاملہ ایک مضحکہ خیز رخ اختیار کرگیا ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ پنڈت، ویدوں اور شاستروں کے ماہرین یہ دیکھ کر پیشین گوئی کرنے لگے ہیں کہ ان کے سننے والے کون ہیں۔ اس سال حکومت کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی اصل جماعت تلگو دیشم نے بھی اگادی کی تقاریب کا بڑے پیمانے پر اہتمام کیا۔ جہاں سرکاری تقریب میں موجود پنڈت مگاڑی چندر شیکھر شاستری نے حکومت نواز پیشن گوئیاں کیں تو تلگو دیشم کی تقریب میں شریک پنڈت نے کہا کہ ہوا تو اپوزیشن کے قائد چندرا بابو نائیڈو کے حق میں چل رہی ہے۔ شاستری صاحب نے بتایا کہ اس برس خوب اچھی بارش ہوگی، فصلیں لہلہائیں گی، وزیراعلی راج شیکھر ریڈی کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی اور وہ سکون سے حکومت کریں گے اور اگر کچھہ گڑبڑ ہو بھی گئی تو حکومت کا فائدہ ہوگا- دوسری طرف تلگو دیشم کے پنڈت سرینواس گرگیا کا کہنا تھا کہ وزیراعلی ریڈی کے لیۓ معاملہ گڑبڑ ہی گڑبڑ ہے۔ بارش ہوگی لیکن اتنی زیادہ کہ سیلاب اور طوفان سے زبردست تباہی ہوگی۔ سیاسی اعتبار سے حالات تلاطم خیز ہوں گے۔ درمیانی مدت کے اِنتخابات ہوں گے۔ تلگو دیشم کے صدر چندرا بابو نائیڈو مرکز میں کئی سیاسی جماعتوں کو ساتھ لیکر ایک تیسرا محاذ تشکیل دیں گے، خود ہی اس کی قیادت کرینگے اور اسے کانگریس اور بی جے پی دونوں کے متبادل کے طور پر پیش کریں گے۔ سن 2005 میں کئی برسوں کے بعد معمول سے کہیں زیادہ بارش ہوئی، تمام ذخائر آب بھرگۓ اور فصل بھی بہت شاندار رہی۔ تو کیا یہ پنڈت بھی آج کل سیاستدانوں کی طرح ہوا کا رخ دیکھ کر بات کرنے لگے ہیں؟ تلنگانہ کا شوراس برس تلگو بولنے والوں کا سال نو تلگو بولنے والے عوام کی ریاست آندھرا پردیش کی تقسیم اور تلنگانہ ریاست کے قیام کے مطالبے کے شور و غل کے درمیان منایا گیا۔ جب سے قومی اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے تلنگانہ کے مطالبے کی تائید کا اعلان کیا ہے تب سے تلنگانہ ریاست کی تحریک چلانے والی سیاسی جماعت تلنگانہ راشٹر سمیتی (ٹی آر ایس) کا رنگ ہی بدل گیا ہے۔ ٹی آر ایس کے سربراہ چندر شیکھر راؤ پرامید ہیں کہ اب ان کی منزل دور نہیں ہے، وہ تو اس اعلان کے ساتھہ دہلی گئے ہیں کہ اب کی بار تلنگانہ ریاست لیکر ہی لوٹیں گے۔ انہوں نے یہ دھمکی بھی دے ڈالی ہے کہ اگر کانگریس کی زیر قیادت مخلوط یو پی اے حکومت نے نئی ریاست کے قیام کا بل پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا تو ان کی جماعت یو پی اے حکومت سے علیحدگی اختیار کرلےگی۔ جو قارئین ہندوستان کی گنجلک سیاست سے واقف نہیں ہیں انہیں بتاتے چلیں کہ ٹی آر ایس ایک چھوٹی سی علاقائی جماعت ہے۔ پارلیمنٹ میں اس کے صرف پانچ ارکان ہیں لیکن یو پی اے حکومت کئی جماعتوں نے مل کر بنائی ہے اسی لیۓ ٹی ار ایس بھی اس طرح کی دھمکیاں دیتی رہتی ہے۔ منموہن سنگھ کی حکومت میں اس کے دو وزیر ہیں جن میں سے ایک چندر شیکھر راؤ ہیں۔ چندرشیکھر راؤ کہہ رہے ہیں کہ تلنگانہ ریاست کا قیام صرف کچھ وقت کی بات ہے۔ جبکہ نجومی چندر شیکھر شاستری اور سرینواس گرگیا کا کہنا ہے کہ تلنگانہ کبھی نہیں بنے گا۔ اب تلنگانہ کے عوام حیران ہیں کہ سچ کون بول رہا ہے چندر شیکھر راؤ یا چندر شیکھر شاستری؟ ویسے چندر شیکھر راؤ بھی ستاروں کی چال کو اپنے حق میں کرنے کےلیۓ اپنی سی کوشش کررہے ہیں۔ خصوصی یگیہ اور پوجا کے بعد اب وہ درگاہوں کی چوکھٹ بھی چوم رہے ہیں۔ ملک کا سب سے بڑا سافٹ ویئر کیمپساب چاہے چندر شیکھر راؤ صحیح بول رہے ہوں یا چندر شیکھر شاستری۔ حیدرآباد میں ترقی کی دیوانہ وار دوڑ پر ریاست کی تقسیم کے خطرے کا کوئی اثر نظر نہیں آرہا ہے اور ہر روز کسی نہ کسی بڑے پراجیکٹ کے قیام اور نۓ معاہدے پر دستخط کا اعلان ہورہا ہے۔ آئی ٹی کے محاذ سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ ہندوستان میں سافٹ ویئر کی سب سے بڑی کمپنی انفوسس نے ہندوستان میں اپنا سب سے بڑا کیمپس حیدرآباد میں قائم کرنے کے سمجھوتے پر بالآخر دستخط کردیے ہیں۔ اس کے لیۓ ریاستی حکومت نے سستے داموں پر پانچ سو پچاس ایکڑ زمین کمپنی کو فراہم کی ہے۔ دوسری طرف انفوسس کے سربراہ نارائن مورتی نے اعلان کیا کہ اس پراجیکٹ میں پچیس ہزار لوگوں کو ملازمتیں ملیں گی اور یہ دنیا میں اپنی نوعیت کا سب سے عصری سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ سنٹر ہوگاجس پر کمپنی ایک ہزار دو سو پچاس کروڑ روپے خرچ کرےگی۔ ریاست کے حکام کا کہنا ہے کہ انفوسس کے کیمپس کے قیام سے انہیں سن 2009 تک سافٹ ویئر کی برآمدات کو چودہ ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ انفوسس ہندوستان کی سب سے بڑی ملٹی نیشنل آئی ٹی کمپنی ہے جس کےلیۓ تیس ملکوں میں پچاس ہزار سے زیادہ لوگ کام کرتے ہیں اور جس کی سافٹ ویئر کی برآمدات دو ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ اور اب انٹیل بھیاگر امریکہ کی سب سے بڑی سافٹ ویئر کمپنی مائیکرو سافٹ نے دنیا بھر میں اپنا دوسرا سب سے بڑا مرکز حیدرآباد میں قائم کیا ہے تو امریکہ میں الیکٹرانکس ہارڈویئر کی سب سے بڑی کمپنی انٹیل نے بھی حیدرآباد میں بڑی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حیدرآباد میں کمپیوٹر سلیکون چپس اور مائیکرو پراسیسر بنانے کا جو پلانٹ قائم ہورہا ہے اس میں انٹیل بتیس ملین ڈالر کا سرمایہ لگائے گا اور اپنی ٹیکنالوجی بھی دے گا۔ یہ پلانٹ جسے میگا فیب بھی کہا جاتا ہے جنوبی کوریا کے ایک صنعتکار جون من قائم کررہے ہیں جو پہلے مرحلے میں چھ سو پچاس ملین ڈالر اور دوسرے مرحلے میں ڈھائی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ رکھتے ہیں اور آئندہ پندرہ برسوں میں وہ بارہ ملین ڈالر کے سرمائے سے اس میں مزید توسیع کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نینو ٹیکنالوجی پارک اس فیب سٹی کے علاوہ ہے جو امریکہ کی ایک اور کمپنی سیم انڈیا تین ارب ڈالر کے خرچ سے حیدرآباد میں قائم کررہی ہے اور اس کےلیۓ انٹیل کی حریف اے یم ڈی کمپنی ٹیکنالوجی فراہم کرے گی۔ ان دونوں کمپنیوں میں 25 ہزار افراد کو روزگار ملنے کی امید ہے۔ ویسے اربوں ڈالر کے یہ دونوں پراجیکٹ ایک ہی کام کرینگے۔ کمپیوٹر، سیل فون، ٹیلی ویژن، ڈی وی ڈی اور دوسری الیکٹرانک اشیاء کےلیۓ مائیکرو پراسیسرس اور سلیکن چپ کی تیاری، اسی طرح حیدرآباد دکن نہ صرف سافٹ ویئر بلکہ الیکٹرانک ہارڈویئر کا بھی ایک بڑا مرکز بننے کی طرف رواں دواں ہے۔
031004_karachi_disturbance_ib_am
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2003/10/031004_karachi_disturbance_ib_am
کراچی میں توڑ پھوڑ اورگرفتاریاں
کراچی میں جمعہ کو سپارکو کی بس پر کیے گئے حملے کا شکار ہونے والے ایک شخص کو جب شہر کے وسطی ضلع میں دفن کیا گیا تو شہر کے کچھ حصے میں مشتعل ہجوم کا احتجاج دیکھنے میں آیا۔ جمعہ کو پیش آنے والے واقعہ میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں چار کا تعلق مسلمانوں کے شیعہ فرقہ سے تھا۔
لوگوں نے پٹرول پمپوں، دکانوں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو نقصان پہنچایا اور ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو اشک آور گیس استعمال کرنی پڑی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تقریباً تیس افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ بس پر حملے کا شکار ہونے والے تین افراد کو کراچی شہر میں مختلف مقامات پر دفن کیا گیا ہے جبکہ باقی تین لاشوں کو سنیچر کے روز ان کے آبائی شہر روانہ کر دیا گیا ہے۔ یہ چھ افراد اس وقت ہلاک ہو گئے جب کراچی کے مغربی حصے میں نامعلوم مسلح افراد نے چالیس افراد کو جمعہ کی نماز کے لیے مسجد لے جانے والی ایک بس پر حملہ کر دیا۔ حکام نے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والے ایک شیعہ مسلم شخص کا جنازہ جب رضویہ سوسائٹی سے اٹھایا گیا تو لوگوں نے مشتعل ہو کر تین پیٹرول پمپوں، چند موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے علاوہ تیل کے ایک ٹینکر، ایک بس، کئی دکانوں اور ایک پولیس چوکی کو نقصان پہنچایا۔ موقع پر موجود لوگوں کا کہنا ہے کہ ہجوم پر قابو پانے کے لیے پولیس نے آنسو گیس استعمال کی۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل طارق جمیل کے مطابق تقریباً تیس افراد کو بدامنی پھیلانے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ٹریفک گھنٹوں معطل رہی اور جنازہ نیم فوجی رینجرز اور پولیس دستے کی حفاظت میں قبرستان پہنچا۔ البتہ کراچی میں ہی دفنائے جانے والے باقی دو افراد کی تدفین پرامن رہی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ واقعہ کی تفتیش کے لیے تین ٹیمیں تشکیل دی جا چکی ہیں۔ پاکستان اور کراچی میں گزشتہ تقریباً دس برس کے دوران کئی ہزار لوگ فرقہ وارانہ انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔ کراچی میں اگست کے مہینے میں تبلیغی جماعت سے وابستہ پانچ بھائیوں، ایک شیعہ مسلم اور ایک سنی مسلم ڈاکٹر کو ہلاک کر دیا گیا تھا لیکن ابھی تک قاتلوں کا سراغ نہیں مل سکا ہے۔
031211_noorani_your_tributes
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2003/12/031211_noorani_your_tributes
مولانا نورانی: آپ کی نظر میں
جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما مولانا شاہ احمد نورانی اٹھہتر سال کی عمر میں جمعرات کے روز اسلام آباد میں انتقال کرگئے۔ ان کی وفات سے پاکستان کی سیاست اور مذہبی جماعتوں میں قیادت کا ایک خلاء پیدا ہوگیا ہے۔ پاکستانی سیاست میں ان کا سب سے اہم کام یہ رہا ہے کہ انہوں نے تمام مذہبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔
مولانا نورانی انیس سو بہتر سے جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ تھے۔ انہیں ایک تجربہ کار سیاست دان، مذہبی رہنما اور مبلغ اسلام کی حیثیت سے جانا جاتا رہا ہے۔ تقسیم ہند سے قبل انہوں نے الہ آباد یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ اردو، عربی، فارسی، انگریزی، سواحلی اور فرانسیسی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔ آپ کے خیال میں پاکستانی سیاست اور معاشرے میں مولانا نورانی کا کیا کردار رہا ہے؟ آپ انہیں کیسے یاد رکھنا چاہیں گے؟ یہ فورم اب بند ہو چکا ہے، قارئین کی آراء نیچے درج ہیں محمد عتیق الرحمان، ٹوکیو: میری نظر میں مولانا شاہ احمد نورانی مذہبی معاملات اور سیاست میں حق گوئی کی علامت تھے۔ انہوں تمام مذہبی فرقوں کو ایک پیلٹ فارم پھر متحد کیا جو شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی اور وہابی کے نام پر لڑتے رہے ہیں۔ مولانا نورانی نے ہی ملی یکجہتی کونسل کا قیام اس وقت کرایا جب حکومت شیعہ۔سنی فسادات روکنے میں ناکام ثابت ہوگئی تھی۔ انہوں نے یہ ثابت کر دکھایا کہ اولیاء اور صوفیائے کرام کا کام معاشرے میں مذہبی رواداری اور امن کو فروغ دینا ہے۔ عطاء القدوس طاہر، کینیڈا: نورانی صاحب کی وفات سے متحدہ مجلس عمل کے لئے ایک بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ ان سے امید تھی کہ پاکستان کی جھوٹ اور نفرت سے بھری ہوئی سیاست میں کوئی بہتری لاسکتے تھے۔ نسیم بھٹی، ملتان: مولانا نورانی آج ہم میں نہیں لیکن ان کی تعلیمات اور فیض ہمارے درمیان ہمیشہ رہے گا۔ احمد نواز نقوی، کراچی: وہ پاکستانی سیاست میں اعتدال پسند کردار کے حامی تھے۔ شیراز تبسم، کشمیر، پاکستان: مولانا نورانی ایک بہت بڑی ہستی تھے۔ انہوں نے ملک سے چوروں اور ٹھگوں کی سیاست کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ چودھری، شیکاگو: مولانا نورانی ایک اچھے انسان اور اچھے سیاست دان تھے۔ تمام مذہبی رہنماؤں کو ان کی پیروی کرنی چاہئے۔ میں ان کی زندگی کو دنیاوی کامیابی کے پس منظر میں نہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ آصف رضا، لاہور: وہ ایک عظیم عالِمِ اسلام تھے۔ قادیانیوں کے بارے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ وحید چودھری، وِکٹوریہ، کینیڈا: وہ موجودہ دور کے سب سے بڑے عالم تھے۔ شکیب بنرجی، لندن: مولانا نورانی ایک عظیم شخصیت تھے۔ ڈاکٹر سلما علوی، عمان: ہمیں مولانا نورانی جیسے معروف عالم کی موت سن کر افسوس ہوا ہے۔ وہ اسلام کے لئے کام کررہے تھے۔ انہیں اسلامی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ اسی سال نواب زادہ نصراللہ خان کی موت کے بعد نورانی جیسے سیاست دان کی موت پاکستان کے لئے افسوس کی بات ہے۔ سید فاروق، کینیڈا سید فاروق، کینیڈا: مولانا نورانی ہی صرف متحدہ مجلس عمل کے باعمل رہنما تھے۔ اسی سال نواب زادہ نصراللہ خان کی موت کے بعد نورانی جیسے سیاست دان کی موت پاکستان کے لئے افسوس کی بات ہے۔ راشد فراز، اونٹاریو، کینیڈا: مولانا سینیئر پارلیمینٹرین، سیاست دان اور مذہبی رہنما تھے۔ ان کی موت کو ایم ایم اے کے حلقوں میں خصوصی طور پر محسوس کیا جائے گا۔ مجھے کوئی ایسا شخص نہیں دکھائی دیتا جو مجلس عمل کی جماعتوں کو اکٹھا کرسکے۔ عبدالعلیم، ناگویا، جاپان: اگر وہ چاہتے تو ان دو دو ٹکے کے ضمیر فروش سیاست دانوں کی طرح وزارت، سفارت وغیر لیکر عیش و آرام کی زندگی بسر کرسکتے تھے۔ وہ عظیم انسان تھے۔ زرتاشیہ فیصل، محتدہ عرب امارات: ان کی تعریف میں جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ انہوں نے تمام مذہبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے ملک سے فرقہ واریت کو ختم کرنے میں اہم مدد کی۔ محی الدین وانی، پاکستان: بلاشبہہ وہ ایک عظیم اسکالر تھے۔ انہوں نے مختلف فرقوں کو اکٹھا کیا۔ وہ ہمیشہ جمہوریت کے لئے لڑتے رہے۔ وہ ایک ایماندار سیاست دان تھے۔ حافظ محمد احمد، سکر، پاکستان: میری نظر میں مولانا نورانی اس وقت کے ولی ہیں۔ اس خلاء کو کبھی پورا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سلمان جلالی، ٹورانٹو، کینیڈا: اسلام کی خدمات کے لئے ہم انہیں یاد رکھیں گے۔ احمدیہ معاملات میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ذیشان جلیل، امریکہ: اگرچہ میں نے انہیں صرف ایک بار دیکھا تھا۔ لیکن میں ان کا نورانی چہرہ ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ عبید ماجد، بریڈفورڈ، برطانیہ: پاکستان میں وہ ایک اچھے اسکالر تھے اور انہوں نے ایم ایم اے کی رہنمائی بھی کی۔ دوسرے سیاست دانوں کو چاہئے کہ وہ ان کی پیروی کریں اور جنرل مشرف کے خلاف تحریک چلائیں۔ انہوں نے اسلام کا سیاست کے لئے استعمال کیا اور سیاست میں انہوں نے کوئی اچھی کارکردگی نہیں دکھائی ہے جس کی تعریف کی جائے۔ عاصم خان، امریکہ عاصم خان، امریکہ: میں ان سے مطمئن نہیں ہوں۔ انہوں نے اسلام کا سیاست کے لئے استعمال کیا اور سیاست میں انہوں نے کوئی اچھی کارکردگی نہیں دکھائی ہے جس کی تعریف کی جائے۔ مبشر احمد وانس، شارجہ: وہ ایک مولانا تھے اور سیاست میں ملوث تھے۔ اس طرح کے مذہبی رہنماؤں سے مسلمانوں کے لئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ اس طرح کے لوگ مسلم امہ کی صحیح قیادت نہیں کرتے۔ ایم فرحان یونس خان، کراچی: ان کی موت سے ملک و قوم کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ وہ ایک بہت ہی نفیس انسان تھے اور ساری عمر دین کی خدمت کرتے رہے تھے۔ شہزاد پاشا، کراچی: مولانا نورانی ایک بڑے سیاست دان تھے۔ ان کی موت سے مجھے صدمہ پہنچا ہے۔ مصطفیٰ ناز، بہاولپور: وہ اسلام کے اہم رہنما تھے اور ہم انہیں بھلا نہیں سکیں گے۔ ندیم ملک، پاکستان: مجھے افسوس ہے کہ ایک اور انسان چل بسا۔ لیکن ایسے مذہبی رہنماؤں کے لئے میرے دل میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہارون رشید ملک، اسلام آباد: مولانا نورانی ایک عظیم شخص، سیاست دان اور اسکالر تھے۔ انہوں اسلام کی بہتری کے لئے قوم کو متحد کیا۔ انہوں مختلف مکتبۂ فکر کے علماء کو بھی اکٹھا کیا۔ حامد شاہ، ٹورانٹو: علامہ نورانی کی وفات سے پاکستان میں سیاست اور مذہب کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ وہ صداقت کی راہ پر چلتے رہے۔ محمد رضوان رضوی، پاکستان: وہ ایک اچھے انسان تھے۔ اور ایک اچھے سیاست دان اور مذہبی رہنما بھی۔ نوید کامران، دوبئی: وہ ایک عظیم شخصیت تھے، اور پاکستانی سیاست میں ایک اہم رہنما بھی۔ انہیں مسلم عوام کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ غیور شاہ، سرگودھا: وہ ایک مذہبی عالم تھے اور ہمیشہ زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں مثبت طور پر سوچتے رہے، جیسے انسانی امداد، پارلیمانی عمل، مذہبی معاملات، وغیرہ۔ مولانا نورانی کی زندگی بھی دوسرے مذہبی رہنماؤں کی طرح بہت زیادہ تضادات کا شکار رہی ہے۔ جمیل احمد، لندن جمیل احمد، لندن: مولانا نورانی کی زندگی بھی دوسرے مذہبی رہنماؤں کی طرح بہت زیادہ تضادات کا شکار رہی ہے۔ اگر ان کی زندگی پر تفصیلی روشنی ڈالیں تو فرقہ واریت میں بھی ملوث نظر آئے گی اور مذہبی انتہا پسندی میں بھی۔ بحرحال ان کی جگہ اب کوئی دوسرا شخص اختیار کرلے گا۔ ابرار عوان، جرمنی: مولانا نورانی بہت ہی بلند پایہ شخصیت تھے۔ محمد سعید قریشی، ایبٹ آباد: مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات سے پاکستانی سیاست اور علمائے کرام میں ایک خلاء پیدا ہوگیا ہے۔ عامر حسین، نوٹنگھم، برطانیہ: پاکستان ایک مدبر سیاست دان سے محروم ہوگیا ہے۔ مولانا کی سیاسی زندگی ہر قسم کے کرپشن سے پاک اور صاف رہی تھی۔ اور جب اس سم کے لوگ ساتھ چھوڑ جائیں تو یہ خلاء لمبے عرصے تک پر نہیں ہوتا۔ فہمیم تنولی، ایبٹ آباد: میرے خیال میں مولانا نورانی کا سیاست میں اور پاکستان کے مذہبی معاملات میں اہم کردار رہا ہے۔ وہ مسلم دنیا کے ایک اہم عالم تھے اور ان کی خدمات کو دنیائے اسلام میں یاد دکھا جائے گا۔ زاہد استانکزئی، بِشکیک: شواہد سے یہ واضح ہے کہ مولانا نورانی اور ان کے دوستوں نے القاعدہ جیسے شدت پسندوں کی حمایت کی تھی۔ ان کی وجہ سے افغانستان میں طالبان جیسے عناصر اقتدار میں آئے۔ عقیل تالپور، حیدرآباد: مولانا صاحب بہت اچھے انسان تھے۔ انہوں نے اسلام کی بہت خدمات کی ہیں۔ انہوں نے جمہوریت کے لئے بہت کوشش کی۔ ہم ایک عالم دین سے محروم ہوگئے ہیں۔ ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ عزیزاللہ، پشاور عزیزاللہ، پشاور: میرے خیال میں ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلاء کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ ہم ایک عالم دین سے محروم ہوگئے ہیں۔ ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ عبدالحسن علی، لاہور: مولانا شاہ احمد نورانی کو میں ایک مذہبی شخصیت کے حوالے سے یاد رکھوں گا کیوں کہ اتنی بڑی شخصیت کو سیاست کے حوالے سے یاد نہیں رکھا جاسکتا۔ ڈاکٹر عارف چودھری، اسٹاک ہوم: وہ ایک بڑے اسلامی اسکالر تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کی کوئی بھی شخص ان کی جگہ نہیں لے سکتا۔ وہ بین الاقوامی سطح کے اسکالر اور سیاست دان تھے۔ انہوں نے ہمیشہ کشمیریوں کی حمایت کی تھی۔ وہ صرف گفتار کے غازی نہیں تھے، بلکہ کردار کے بھی غازی تھے۔
080404_new_opp_leader_senate
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/04/080404_new_opp_leader_senate
سینیٹ: کامل علی آغااپوزیشن لیڈر
مسلم لیگ قاف کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے سینیٹر کامل علی آغا کو سینیٹ میں قائد حزب مخالف نامزد کردیا ہے اور اس ضمن میں چیئرمین سینیٹ کو درخواست بھی دے دی گئی ہے۔
چودھری شجاعت نے فیصلہ اتحادی جماعتوں اور سینیٹ میں مسلم لیگ قاف کے سابق قائد ایوان وسیم سجاد کے ساتھ صلاح مشورہ کے بعد کیا۔ اٹھارہ فروری کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ قاف کے قائد ایوان وسیم سجاد نے نگران وزیر اعظم محمد میاں سومرو کو اپنا استعفی پیش کردیا تھا۔ وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ انہوں نے پارلیمانی روایت کے تحت اپنے عہدے استفٰی دیا ہے تاکہ نئے وزیر اعظم اپنی مرضی کے قائد ایوان کو چن سکیں۔ دوسری جانب وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سینیٹ میں پیپلزپارٹی کے سابق قائد حزب اختلاف سینیٹر رضا ربانی کو قائد ایوان مقرر کردیا تھا۔ کامل علی آغا مسلم لیگ قاف کے چیف وہپ ہیں اور مسلم لیگ قاف کی حکومت میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور بھی رہ چکے ہیں۔ خیال رہے کہ مسلم لیگ قاف پنجاب کے صدر چودھری پرویز الہٰی پہلے ہی قومی اسمبلی میں قائد حزب مخالف مقرر ہوچکے ہیں۔
071203_bali_conference_as
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2007/12/071203_bali_conference_as
بالی میں ماحولیات پر اہم کانفرنس
انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں آج یعنی پیر سے ماحولیات کے حوالے سے ایک اہم کانفرنس شروع ہو رہی ہے جس کے بارے میں توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس میں ہونے والے مذاکرات آئندہ ماحولیات پر عالمی پالیسی تشکیل دینے کے لیے اہم ثابت ہوں گے۔
سن 2012 میں کیوٹو معاہدہ ختم ہو رہا ہے اور کوششیں جاری ہیں کہ اس کی جگہ لائے جانے والے معاہدے پر اتفاقِ رائے ہو جائے۔ بالی میں ہونے والے مذاکرات میں اس بات پر بھی غور کیا جائے گا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے کوئی ہدف مقرر کرنا ضروری بھی یا نہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ماحولیات کے ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ بالی کانفرنس میں امریکہ کا کردار نہایت اہم ہو گا۔ بالی میں ہونے والی اس دو ہفتے کی کانفرنس میں اس بات پر بحث کی جائے گی کہ کس طرح غریب ملکوں کی مدد کی جائے کہ وہ عالمی حدت سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا مقابلہ کر سکیں۔ دریں اثناء صدر بش نے جو قوانین کی جگہ ٹیکنالوجی پر ضرور دیتے ہیں کہا ہے کہ 2005 کے مقابلے میں 2006 میں امریکہ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 1.5 فیصد تک کمی آئی ہے۔ یاد رہے کہ اس برس جون میں جی ایٹ اجلاس کے موقع پر صدر بش نے گیسوں کے اخراج میں قابلِ ذکر حد تک کمی لانے اور 2009 کے آخر تک کیوٹو پروٹوکول کی جگہ نیا نظام لانے کے حوالے سے بات چیت پر آمادگی ظاہر کی تھی۔
120819_afghanistan_history_tim
https://www.bbc.com/urdu/world/2012/08/120819_afghanistan_history_tim
افغانستان نئی تاریخ کیوں لکھ رہا ہے؟
افغانستان کی وزارت تعلیم نے تعلیمی اداروں کے لیے تاریخ کے نئے نصاب کی توثیق کی ہے جس میں ملک کے جنگ زدہ ماضی کی تقریباً چار دہائیوں کو حذف کر دیا گیا ہے۔
بلال سروری بی بی سی نیوز، سروبی، چاریکر، افغانستان حکومت کا مؤقف ہے کہ ان نئی نصابی کتب سے لسانی اور سیاسی خطوط پر منقسم افغانستان میں یک جہتی پیدا ہوگی۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس نئے نصاب سے ملک میں یکجہتی آئے گی جو اب تک لسانی اور سیاسی خطوط پر منقسم رہا ہے۔ لیکن ناقدین ا فغان وزراء پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ طالبان اور دوسرے طاقتور گروہوں کو خوش کرنے کے لیے تاریخ کے وہ حصے حذف کر رہے ہیں جو ان گروہوں کو برائی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نیٹو اور امریکی افواج کے انخلاء سے پہلے طالبان کی حمایت جیتنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان ایک غیر یقینی دور میں داخل ہو رہا ہے جس میں طالبان اور دوسرے کرداروں کے ساتھ پیچیدہ انتظامات متوقع ہیں۔ خستہ حالی کا کوئی ذکر نہیں افغانستان کے پچھلے چالیس سال دنیا میں کسی بھی ملک کی تاریخ کا پرآشوب ترین عرصہ ہیں۔ شمالی میدانوں کے افراد کی تکالیف کا اس نصاب میں کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ تاریخ کے نصاب میں انیسں سو ستر کی خون ریز بغاوت، انیس سو اناسی کی روسی جارحیت اور بعد میں قائم ہونے والی روس کی حمایتی کمیونسٹ حکومت سمیت خفیہ پولیسں کی جانب سے کی گئی انسانی حقوق کی ان گنت خلاف ورزیوں کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے ناقدین کا کہنا ہے کہ تاریخ کے نصاب میں سنہ انیسں سو ستر کی خون ریز بغاوت، سنہ انیس سو اناسی کی روسی جارحیت اور بعد میں قائم ہونے والی روس کی حمایتی کمیونسٹ حکومت سمیت خفیہ پولیسں کی جانب سے کی گئی انسانی حقوق کی ان گنت خلاف ورزیوں کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ اسی طرح مجاہدین کے مختلف گروہوں کے درمیان ہونے والی خانہ جنگی جس کا کابل انیس سو نوے کی دہائی میں شکار رہا اور جس کے نتیجے میں ستر ہزار افراد ہلاک ہوئے بھی اس نصاب سے غائب ہیں۔ اس تنازع کے نتیجے میں طالبان کو عروج ملا لیکن اس کا بھی اس میں کہیں ذکر نہیں ہے اور بعد میں امریکہ کی قیادت میں ہونے والے حملے کا بھی کوئی ذکر نہیں جس کے نتیجے میں طالبان کو شکست ہوئی۔ ’جنگ کے نتیجے میں آنے والی تکالیف کا بھی کوئی ذکرنہیں ہے۔ کابل ایک قتل عام کا علاقہ تھا اس کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ کتاب کہتی ہے کہ ملا عمر کو دو ہزار ایک میں ہٹا دیا گیا لیکن یہ نہیں بتاتی کہ ملا عمر ہے کون۔‘ ’نیٹو اور امریکہ کی موجودگی کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی دو انگلیوں سے سورج کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘ وزارت تعلیم نے ان تجاویز کو رد کیا ہے کہ اس نئے نصاب کو ترتیب دینے میں کوئی بیرونی ہاتھ ہے جبکہ امریکی افواج کا کہنا ہے کہ ان کی طرف سے ان کتب کے مواد کے بارے میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی اگرچہ ان میں سے کچھ میں امریکہ کے پیسے خرچ ہوئے ہیں۔ امریکی افواج کے کابل میں ایک ترجمان ڈیوڈ لاکن نے کہا کہ ’ہمارے ثقافتی مشیروں نے معاشرتی علوم کی کتب کو غیر مناسب مواد یعنی تشدد کے لیے ترغیب دینا یا مذہب کی بنیاد پر تفریق کے نقطۂ نظر سے نظرثانی کی تھی۔‘ "اگر طلبا ماضی میں ہونے والے تشدد کے بارے میں نبہیں پڑھیں گے تو وہ اس سے مستقبل میں کیسے بچیں گے۔" میرواعض سکول می پڑھانے والے استاد عبدالقدوس بی بی سی نے کابل کے مضافات میں دو سکولوں کا دورہ کیا جہاں نئی کتابیں متعارف کروائی گئی ہیں۔ میرواعظ سکول میں پڑھانے والے استاد عبدالقدوس نے کہا ’اگر طلباء ماضی میں ہونے والے تشدد کے بارے میں نہیں پڑھیں گے تو وہ اس سے مستقبل میں کیسے بچیں گے؟۔‘ سرابی ہائی سکول جو کابل سے پچھہتر کلومیٹر دور ہے اس میں مجھے ایک جماعت میں بیٹھنے کا موقع ملا جس میں ایک استاد اپنے چھٹی جماعت کے طالب علم کو اس نئی چمکدار نصابی کتاب میں سے پڑھنے کے لیے کہتا ہے۔ طالب علم سردار محمد داؤد پر ایک باب پڑھتا ہے جو سنہ انیس سو ترپن سے تریسٹھ کے درمیان ملک کے وزیراعظم اور دس سال کے لیے صدر رہے۔ اس باب میں سردار داؤد کے عروج کی تو بات کی گئی ہے مگر انہوں نے کیسے اپنے چچازاد بھائی ظاہر شاہ کی بادشاہت کا خاتمہ کیا اس کا کوئی ذکرنہیں ہے۔ اس کے بعد کا باب بھی ملک کی تاریخ میں ہونے والی خونی بغاوتوں کے بارے میں خاموش تھا جو افغانستان کے سیاسی منظرنامے کو بدلتی رہی ہیں۔ جیسا کہ نجیب اللہ سمیت ماسکو کی حمایت یافتہ حکومتیں یا پھر ان کے استعفی کے بعد ہونے والی خانہ جنگی جس نے طالبان کو عروج دیا اور پھر ان کے بعد میں ہونے والے زوال کا بھی۔ بچوں کو کبھی بھی پتہ نہیں چلے گا میں نے ایک گیارہ سالہ طالب علم مسلم سے پوچھا جو بڑے انہماک سے اپنے ساتھی کو پڑھتے ہوئے سن رہا تھا ’روسی جارحیت کے دوران سروبی میں کیا ہوا؟‘ "ہماری قوم کے درمیان سینکڑوں اور ہزاروں معاملات پر عدم موافقت ہے اور میری ذمہ داری ہے کہ میں ملک میں اتفاق بڑھاؤں نہ کے نااتفاقی۔ میں ایک تقسیم کرنے والے تعلیمی ایجنڈے کی حوصلہ افزائی نہیں کروں گا۔" افغان وزیر تعلیم فاروق وردک مسلم نے جواب میں کہا ’روسی افغانستان سے اسلام ہٹانا چاہتے تھے۔ بہت سارے لوگ مارے گئے کئی گاؤں پر بمباری کی گئی اور لاکھوں افراد کو پاکستان میں پناہ لینی پڑی۔‘ میں نے پوچھا ’تمہیں کیسے پتا چلا؟ یہ تو تمہاری کتاب میں نہیں لکھا ہے؟‘ مسلم نے معصومیت سے جواب دیا ’میرے والدین نے مجھے بتایا‘۔ طلباء کو طالبان کے عروج و زوال کے بارے میں صرف چند حوالے ملیں گے۔ ان کے استاد نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ نئی نصابی کتب ایک پوری نسل کو ماضی کے بارے میں معلومات سے محروم کریں گی۔ افغانستان میں انٹرنیٹ کی رسائی اور بیرونی دنیا سے رابطہ بہت محدود ہے بچوں کو باقی دنیا کے بچوں کی نسبت صرف نصابی کتابوں پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔‘ ’اب حکومت نے گزشتہ چالیس سالوں کی بحرانی تاریخ کو تاریخ کی نصابی کتابوں سے حذف کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور لاکھوں طلباء کو یہ پتا بھی نہیں چلے گا کہ افغانستان اس حال تک کیسے پہنچا۔‘ سروبی کی طرح شمالی میدانوں کو بھی روسی فوج اور طالبان کی جانب سے بہت سی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ نصابی کتاب کہتی ہے کہ ملا عمر کو دو ہزار ایک میں ہٹا دیا گیا لیکن یہ نہیں بتاتی کہ ملا عمر کون ہے۔ چاریکر کا مصروف شہر آج سے بارہ سال پہلے تک ایک تباہی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ طالبان نے اس شہر کو شمالی اتحاد کا ساتھ دینے کی پاداش میں تباہ کیا۔ میر واعظ سکول کے استاد عبدالقدوس نے کہا ’ہزاروں درخت کاٹ دیے گئے، کھیت اور باغات اجاڑ دیے گئے، گھروں کو تباہ کیا گیا اور لوگوں کو قتل کیا گیا۔‘ لیکن طالبان کی ’دھرتی جلانے‘ کی پالیسی کا بھی تاریخ کی نئی نصابی کتابوں میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ قدوس کے مطابق ’طالبعلموں کے لیے اہم ہے وہ تمام حکومتوں کے بارے میں پڑھیں قطع نظر اس کے کہ اس کا دور حکومت اچھا تھا یا برا۔ تاریخ کو پڑھنے کی بنیادی مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو دہرایا نہ جائے لیکن اگر طلباء ماضی کے تشدد کے بارے میں پڑھیں گے ہی نہیں وہ اس سے مستقبل میں کیسے بچیں گے؟۔‘ دھوکہ وزیر تعلیم فاروق وردک کا کہنا ہے کہ تاریخ کے بعض حصوں کو کتابوں سے حذف کرنے کا فیصلہ ملک کے وسیع مفاد میں کیا گیا ہے تاہم ڈر یہ ہے کہ طالب علموں کو بنیادی تاریخی واقعات کے بارے میں سچائی جاننے سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ "کابل خانہ جنگی کے دوران تباہ ہوا تھا جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ طالبان کے دورِحکومت میں خواتین کے ساتھ بہت مظالم ہوئے تھے۔ ان کے کام کرنے یا سکول جانے کی ممانعت تھی۔ سینکڑوں خواتین کو زنا کے مبینہ الزامات کے تحت سنگسار کیا گیا تھا اس سب کو نصابی کتب میں جگہ نہیں ملی۔" ایک خاتوں رکن اسمبلی انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہماری قوم کے درمیان سینکڑوں اور ہزاروں معاملات پر عدم موافقت ہے اور میری ذمہ داری ہے کہ میں ملک میں اتفاق بڑھاؤں نہ کے نااتفاقی۔ میں ایک تقسیم کرنے والے تعلیمی ایجنڈے کی حوصلہ افزائی نہیں کروں گا۔ اب اگر میں ایک ایسی چیز لکھوں جس پر کوئی قومی اتفاق رائے نہیں ہے تو میں غیر رضا مندی کی بات حتیٰ کہ جنگ کو جماعت اور سکولوں میں لے کر جا رہا ہوں۔ میں ایسا کبھی نہیں کروں گا۔‘ لیکن بہت سے دوسرے افراد کے لیے یہ نصاب کے ساتھ ایک ’دھوکہ‘ ہے۔ ناقدین سوال کرتے ہیں کہ ہم آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں اگر ہم اپنے ماضی سے چشم پوشی کرتے رہیں گے اور اس کا سامنا نہیں کریں گے؟‘ ایک خاتوں رکن اسمبلی نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’کابل خانہ جنگی کے دوران تباہ ہوا تھا جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ طالبان کے دورِحکومت میں خواتین کے ساتھ بہت مظالم ہوئے تھے۔ ان کے کام کرنے یا سکول جانے کی ممانعت تھی۔ سینکڑوں خواتین کو زنا کے مبینہ الزامات کے تحت سنگسار کیا گیا تھا اس سب کو نصابی کتب میں جگہ نہیں ملی۔‘ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات
world-54000430
https://www.bbc.com/urdu/world-54000430
شام کے صدر بشارالاسد نے کامیابی سے بغاوت کا مقابلہ کیسے کیا؟
شام کے صدر بشارالاسد نے آبادی کے ایک بڑے حصے کی بغاوت کے باوجود نو برس سے زیادہ عرصے تک اقتدار پر فائز رہ کر بہت سے عالمی مبصرین کو حیران کر رکھا ہے۔
بشارالاسد کہتے ہیں کہ انھیں بیرونی قوتوں کے حمایت یافتہ باغیوں کا سامنا ہے تیونس اور مصر میں اپنے ہم عصر سربراہانِ مملکت کے برعکس، جب اُن کے اور ان کی حکومت کے خلاف سنہ 2011 میں مظاہروں کے سلسلے کا آغاز ہوا تو انھوں نے حزبِ مخالف کی آواز کو کچل ڈالنے کے احکامات جاری کیے، بجائے اس کے کہ وہ اسے برداشت کرتے۔ سکیورٹی فورسز کی سخت کارروائیوں سے مظاہروں کا سلسلہ رکنے کے بجائے ایک مسلح تصادم کی صورت اختیار کر گیا، جس میں بقول مخالفین کے پونے چار لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، ایک کروڑ دس لاکھ افراد بے گھر ہوئے، متعدد شہر تباہ اور کئی ممالک شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کرنے کے لیے شامل ہو گئے۔ یہ بھی پڑھیے شام میں جنگ بندی کے لیے روس اور ترکی کے درمیان معاہدہ طے شام میں جنگ: تیل کی آمدن سے کسے فائدہ پہنچ رہا ہے؟ ’شامی فوجیوں پر فضائی حملہ غلطیوں کی وجہ سے ہوا‘ ادلب میں جاری ’آخری معرکے‘ کا دائرہ وسیع سنہ 2015 کے بعد روس اور ایران نے بشارالاسد کے حق میں حالات کو بدلنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ان دونوں ممالک نے باغیوں اور جہادیوں کو کئی علاقوں میں شکست دینے یا انھیں شمال مغربی صوبے ادلب تک محدود کرنے میں، شام کی حکومتی افواج کی مدد کی۔ ایک حادثاتی صدر 11 ستمبر سنہ 1965 میں پیدا ہونے والے بشارالاسد کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا وہ شام کی مسندِ اقتدار پر بیٹھیں گے۔ صدر حافظ الاسد کے دوسرے بیٹے کے طور پر انھیں اپنی من پسند زندگی گزارنے کی کھلی چھٹی تھی۔ انھوں نے سنہ 1988 میں دمشق یونیورسٹی کے کالج آف میڈیسن سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کی۔ اُس کے بعد امراضِ چشم (آفتھلمولوجی) میں سپیشلائزیشن کی، اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے۔ اسد خاندان شام پر چار دہائیوں سے حکومت کر رہا ہے اپنے بڑے بھائی باصل اسد کی سنہ 1994 میں ایک کار حادثے میں ہلاکت کے بعد بشارالاسد کو فوری طور پر برطانیہ سے طلب کر کے انھیں سیاسی سٹیج پر دھکیل دیا گیا۔ انھوں نے حمص میں شامی فوجی اکیڈمی میں داخلہ لیا اور تیزی سے ترقی کی منازل کرتے ہوئے سنہ 1999 میں کرنل کے عہدے تک پہنچ گئے۔ اپنے والد کے آخری دنوں میں بشارالاسد شام کو جدید بنانے کے نعرے اور انٹرنیٹ پھیلانے کے سب سے بڑے علمبردار بن کر ابھرے۔ انھیں اس وقت ملک کے اندر انسدادِ بدعنوانی کارروائیوں کا سربراہ بنا دیا گیا۔ اصلاحات کے ساتھ عِشوہ گری جب ان کے والد کا ایک ربع صدی تک اقتدار میں رہنے کے بعد سنہ 2000 میں انتقال ہوا تو بشارالاسد کو صدر بنانے کے لیے سکیورٹی اداروں، افواج اور حکمران جماعت بعث پارٹی میں ان کے وفاداروں نے تمام حالات سازگار کر لیے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اقلیتی فرقے ’علوی‘ جس سے ان کا تعلق تھا، وہاں بھی ان کی حمایت بڑھ چکی تھی۔ انھیں شام کی افواج کا کمانڈر ان چیف بنایا گیا اور ساتھ ہی وہ حکمران جماعت بعث پارٹی کے سیکریٹری جنرل منتخب ہو گئے۔ اس کے بعد ملک میں صدارتی ریفرنڈم ہوا جس سے ان کی صدارت کی توثیق ہو گئی۔ بشارالاسد اور ان کی برطانیہ میں پیدا ہونے بیوی عاصمہ نے ملکہ برطانیہ سے سنہ 2002 میں ملاقات کی تھی حکومت کے سربراہ بننے کے کچھ ہی عرصے کے بعد انھوں نے سینکڑوں سیاسی قیدیوں کو رہا کیا اور تین دہائیوں کے بعد ایک آزاد اخبار شروع کرنے کی اجازت بھی دی۔ اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے دانشوروں کو سیاسی جلسے جلوس منعقد کرنے کی بھی اجازت دے دی۔ لیکن 'الربیع الدمشق' کے نام سے پہچانی جانے والی سیاسی بیداری کی تحریک کچھ عرصہ ہی چل سکی۔ سنہ 2001 سے دانشوروں کے جلسوں کو بند کرنا شروع کر دیا گیا، حزب اختلاف کے کئی چیدہ رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا اور صحافت کی آزادی پر پھر سے قدغنیں لگنے لگیں۔ پھر اُس پوری دہائی کے دوران ہنگامی حالات کا نفاذ رہا اور ان اقتصادی آزادیوں کو برقرار رکھا گیا جن سے طبقہِ امرا اور حکومت کے اتحادیوں کو فائدہ پہنچتا تھا۔ سنہ 2007 کے مئی کے مہینے میں ایک اور ریفرنڈم کے ذریعے 97 فیصد ووٹوں کی حمایت کے ساتھ جسے حزب اختلاف نے ایک ڈھونگ کہا، بشارالاسد مزید سات برسوں کے لیے صدر بن گئے۔ سخت گیر سفارت کاری اپنی خارجہ پالیسی میں بشارالاسد نے شام کے تاریخی دشمن ملک، اسرائیل کے خلاف سخت گیر سفارت کاری کی پالیسی کو برقرار رکھا۔ اسرائیل نے شام کے علاقے گولان کی پہاڑیوں پر سنہ 1967 کی عرب-اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کر لیا تھا۔ صدر اسد نے زور دیا کہ اسرائیل کے ساتھ اُس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک اسرائیل یہ مقبوضہ علاقے 'مکمل طور پر' واپس نہیں کر دیتا ہے۔ شام ان تمام عسکری تنظیموں کی حمایت کرتا ہے جو اسرائیل کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ سنہ 2003 میں صدر اسد نے امریکہ کی عراق میں فوجی کارروائی کی کھل کر مخالفت کی۔ شام کی عراق میں عسکریت پسند تنظیموں کی خفیہ امداد کی وجہ سے امریکہ ان سے کافی ناراض ہوا، لیکن ان کی یہ پالیسی شام اور اس خطے میں بہت مقبول تھی۔ رفیق حراری کے ایک دھماکے میں ہلاکت کے بعد جب شام پر الزامات لگنا شروع ہوئے تو شام نے لبنان سے اپنی فوجوں کا انخلا کر لیا شام جس کے پہلے ہی سے امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے، سنہ 2005 کے بیروت کے دھماکے کے بعد اور بھی زیادہ خراب ہو گئے۔ اس بم دھماکے میں لبنان کے سابق وزیرِ اعظم رفیق حریری ہلاک ہوئے تھے۔ اس دھماکے کے لیے صدر اسد، شام کی سکیورٹی فورسز جنھیں لبنان میں ایک غالب طاقت حاصل تھی اور شام کی اتحادی شیعہ تنظیم حزب اللہ کو موردِ الزام ٹھرایا جانے لگا۔ بشارالاسد کے اس واقعہ میں ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کیے جانے کے باوجود، عالمی برادری کے غم و غصے نے شامی افواج کو لبنان سے نکل جانے پر مجبور کیا، جہاں وہ گذشتہ 29 برس سے موجود تھیں۔ ’بیرونی سازش‘ جب سنہ 2011 میں شام کے جنوبی شہر درعا میں ہنگامے پھوٹ پڑے، اس وقت صدر اسد کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ ان سے کیسے نمٹیں۔ پہلے پہل تو انھوں نے اصرار کیا کہ ان پُرتشدد ہنگاموں کی وجہ سے ان کی سیاسی اصلاحات کی کوششیں دب گئی ہیں، انھوں نے کہا کہ یہ ہنگامے شام کو غیر مستحکم کرنے کی بیرونی سازشوں کا حصہ ہیں۔ ابتدا میں صدر اسد نے چند شرپسند عناصر کو اپنے خلاف مظاہروں کا ذمہ دار ٹھہرایا اس کے اگلے مہینے صدر اسد نے قابل نفرت ہنگامی حالت کے قانون کو ہٹا دیا جو کہ سنہ 1963 سے نافذ العمل تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی مظاہرین کے خلاف کارروائیاں بھی تیز کر دی گئیں، فوجیوں اور ٹینکوں کو شورش زدہ علاقوں میں 'بدمعاشوں کے مسلح گروہوں' سے لڑنے کے لیے تعینات کر دیا گیا۔ سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور صدر اسد کے اصلاحات کے اعلانات کے باوجود ملک کے ہر کونے میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ حزب اختلاف کے مظاہرین نے پہلے پہل تو اپنے دفاع کے لیے لیکن بعد میں حکومت کی وفادار فوجوں کو اپنے علاقوں سے نکالنے کے لیے اسلحہ اٹھا لیا۔ سنہ 2012 کے جنوری کے مہینے میں صدر بشارالاسد نے بقول ان کے 'دہشت گردی' کو 'آہنی ہاتھوں' کے ذریعے کچلنے کے عزم کا اظہار کیا۔ صدر بشارالاسد نے ایک ایسے نئے آئین پر ریفرنڈم کرانے پر اصرار کیا جس نے آئین کی اس شق کو جس میں بعث پارٹی کو 'معاشرے اور ریاست کے رہبر' کا مقام دیا ہوا تھا، اُسے ختم کر دیا گیا اور اس طرح ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت دے دی۔ لیکن حزب اختلاف نے یہ اعلان بھی مسترد کر دیا۔ شام کے کئی شہروں اور قصبوں کی طرح حُمص بھی اس خانہ جنگی سے تباہ و برباد ہو گیا ہے اگلے چند مہینوں میں اس وقت صدر اسد پر دباؤ بڑھنے لگا جب باغیوں نے شمال اور مشرقی علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور حزب اختلاف کے قومی اتحاد کو سو کے قریب ممالک کی جانب سے شامی عوام کی ایک قانونی طور پر نمائندہ تنظیم سمجھا جانے لگا۔ اُس برس کے اختتام تک جب ہلاکتوں کی تعداد 60 ہزار سے زیادہ ہو گئی، صدر بشارالاسد نے باغیوں کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا تھا جنھیں وہ 'اللہ کے دشمن اور مغرب کے ایجنٹ' کہتے تھے۔ کیمیائی ہتھیار سنہ 2013 کے آغاز میں حکومت کی وفادار فوج نے ملک کے جنوبی اور مغربی حصوں میں باغیوں کے قبضے کو ختم کرنے کے لیے کارروائی شروع کی۔ شام کی ان فوجوں کو اس وقت بہت زیادہ تقویت حاصل ہوئی جب لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ نے اپنے عسکری ونگ کے ارکان کو باغیوں کے خلاف جنگ کے لیے بھیجنا شروع کیا۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے سنہ 2013 میں غوطہ میں ہوئے سارین گیس کے حملے کی ذمہ داری کسی پر بھی عائد نہیں کی تھی اُسی برس اگست میں صدر اسد کو اس وقت اپنا دفاع کرنا پڑا جب ان کے حامیوں پر الزام عائد کیا گیا کہ دمشق کے مضافات میں ہوئے ایک حملے میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے تھے۔ باغیوں کے زیرِ قبضہ غوطہ پر اعصاب شکن سارین گیس کے راکٹ حملے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے ان حملوں کے بارے میں طے کیا تھا کہ یہ حملہ حکومت کے حامیوں ہی نے کیا ہو گا، تاہم صدر بشارالاسد نے اس حملے کا ذمہ دار باغیوں کو قرار دیا تھا۔ اگرچہ مغربی طاقتوں نے اس حملے کے بعد تادیبی کارروائی کے طور پر شام پر فضائی حملے نہیں کیے، تاہم انھوں نے صدر اسد کو مجبور کیا کہ وہ کیمیائی ہتھیاروں کے انسداد کے اقوام متحدہ کے ادارے او پی سی ڈبلیو کو شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی تفصیل پیش کریں۔ حزب اختلاف نے سنہ 2014 میں صدر اسد کے دوبارہ انتخابات کو مسترد کردیا تھا اس کے نتیجے میں شام کا کیمیائی ہتھیاروں سے دستبرداری کا عمل اس برس جون میں مکمل ہوا، وہی مہینہ جب صدر اسد نے تیسرے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا جس میں انھیں اپنے زیرِ انتظام خطے میں 88 فیصد ووٹ ملے۔ کئی دہائیوں کے بعد دوسرے امیدواروں کے نام بھی پہلی مرتبہ بیلٹ پیپر پر شامل کیے گئے تھے، لیکن حزبِ اختلاف نے ان انتخابات کو بھی ڈھونگ قرار دیا تھا۔ اِسی برس موسمِ گرما میں صدر بشارالاسد کے حامیوں اور حزب اختلاف کے درمیان جنگ پر سے عالمی توجہ اُس وقت ہٹ گئی جب خطے میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ نامی شدت پسند تنظیم، جس کے کنٹرول میں عراق اور شام کا ایک بڑا خطہ آچکا تھا اور اس نے اپنی 'خلافت' قائم کرنے کا اعلان کر دیا تھا، ایک نئی طاقت بن کر ابھری۔ اب دنیا کی ساری توجہ اس گروہ کی جانب مبذول ہو گئی تھی۔ روسی مداخلت سنہ 2015 کے پہلے نصف میں شامی حکومت کو مسلسل کئی شکستوں کا سامنے کرنا پڑا جس کے دوران ملک کے شمالی علاقے ادلب سمیت کئی شہروں پر باغیوں کا قبضہ ہو گیا اور مشرقی خطے پر دولتِ اسلامیہ قابض ہو گئی۔ اپنے اتحادی کی اس تشویشناک حالت پر روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے ستمبر میں صدر اسد کو بچانے کے لیے ایک بڑی فضائی کارروائی کا حکم دیا۔ سنہ 2016 میں مشرقی حلب میں جنگ کے دوران روسی ائیر فورس کی کارروائی نے فیصلہ کن کردار ادا کیا روسی فوج نے اعلان کیا تھا کہ اس کی فضائی کارروائی میں صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جائے گا، لیکن حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ روسی طیاروں نے بار بار شامی مسلح گروہوں اور شہری علاقوں کو بمباری کا نشانہ بنایا۔ روسی مداخلت کے بعد شام میں صدر بشارالاسد کی پوزیشن پھر سے مستحکم ہو گئی۔ روسی فضائیہ کی شدید بمباری نے حلب کے مشرق میں سنہ 2016 میں اور مشرقی غوطہ میں سنہ 2018 میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے تحقیق کاروں نے شامی حکومت اور روسی فوج پر فوجی کارروائیوں کے دوران وسیع سطح پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کیے ہیں جس کے نتیجے میں خبروں کے مطابق، سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے اور دسیوں ہزاروں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ روس کا کہنا ہے سنہ 2015 سے لے کر اب تک اس کے 63000 فوجیوں نے مختلف اوقات میں شام میں کارروائیوں میں حصہ لیا ہے اقوام متحدہ اور او پی سی ڈبلیو کے مشترکہ تحقیقی مشن نے شامی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ سنہ 2017 میں خان شیخون نامی قصبے پر سارین گیس کے حملوں کی ذمہ دار تھی۔ حزبِ اختلاف کے صحت کے کارکنان کے مطابق اس حملے میں 80 شامی باغی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ شامی حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ مشرقی غوطہ کے ایک قصبے دومہ پر کلورین گیس کے حملے میں بھی شامی حکومت ملوث تھی، جس میں بقول حزبِ اختلاف، 40 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس مرتبہ کے الزامات کے بعد امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے شام کے خلاف فوجی کارروائی کی جس کے دوران 'شامی حکومت کی کیمیائی ہتھیاروں سے وابستہ تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔' صدر اسد اور روسی حکومت نے جنگی جرائم کے الزامات کی تردید کی اور کہا کہ خان شیخون اور دومہ کے واقعات کی کہانی حزب اختلاف اور ان کی پشت پناہی کرنے والی مغربی قوتوں نے گھڑی تھی۔ ادلِب کی لڑائی مشرقی غوطہ پر دوبارہ سے قبضہ کرنے کے بعد شامی حکومت کی حامی فوج نے مخالفین کے آخری تین مضبوط ٹھکانوں پر حملوں کی منصوبہ بندی شروع کی۔ انھوں نے مئی سنہ 2018 میں حمص کے شمالی علاقے پر قبضہ کیا پھر دو ماہ بعد درعا صوبے پر دوبارہ سے مکمل قبضہ کر لیا۔ پھر انھوں نے صوبہ ادلب 'آزاد' کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے 30 لاکھ نفوس والے اس شہر پر ایک بھرپور فوجی کارروائی کی تو بہت زیادہ خونریزی ہو گی۔ ان میں سے نصف آبادی نے شام کے دوسرے حصوں سے بے گھر ہو نے کے بعد ادلب میں پناہ لی تھی۔ تقریباً دس لاکھ افراد جو ادلب میں پناہ لیے ہوئے تھے، ادلب کی سنہ 2018 اور سنہ 2019 کی لڑائیوں کے دوران پھر سے بے گھر ہوئے صدر اسد اگرچہ رُکنا نہیں چاہتے تھے لیکن یہ حملہ اس ستمبر میں روس اور ترکی کے درمیان ایک معاہدے کی وجہ سے روک دیا گیا۔ اس معاہدے میں جنگی محاذوں سمیت اس خطے کو دو دشمنوں کے درمیان ایک غیر فوجی علاقہ قرار دے دیا گیا اور ادلب میں جنگ لڑنے والے جہادی جنگجؤوں کو وہاں سے پسپا ہونے کا موقع دیا گیا تھا۔ تاہم اس معاہدے پر مکمل طور عمل درآمد نہیں ہو سکا، اور ہوائی اور زمینی لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ سنہ 2019 کے اواخر میں صدر اسد کی حامی فوجوں نے دوبارہ سے کارروائی شروع کی۔ سینکڑوں افراد مارے گئے اور ترکی اور روس کے درمیان مارچ سنہ 2020 میں ایک اور معاہدے کے طے پانے سے پہلے تک پانچ لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ اس کے بعد حکومتی فوجوں کے زیرِ قبضہ آنے والے علاقوں میں اقتصادی بحران کے باعث مظاہرے شروع ہو گئے اور پہلی بار صدر اس مسئلے کی جانب توجہ دینے پر مجبور ہوئے۔ صدر بشارالاسد اس خانہ جنگی سے بچ نکلے ہیں لیکن شام کو اس جنگ کی ایک بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے جس کا بوجھ اس ملک کو اگر کئی دہائیوں تک نہیں تو کم از کم کئی برسوں تک ضرور اٹھانا پڑے گا۔
pakistan-46233674
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-46233674
نواز شریف کی خاموشی:’این آر او عمران نہیں، پیچھے بیٹھی فوج دے سکتی ہے‘
پاکستان میں ان دنوں یہ سوال کئی لوگوں کی زبان پر ہے کہ مسلم لیگ نون کے تاحیات قائد نواز شریف نے اچانک طویل خاموشی کیوں اختیار کر لی ہے اور ان کی بیٹی مریم نواز کے ٹوئٹر ہینڈل سے ٹویٹس کیوں نہیں داغی جا رہیں جنھیں چند عرصے قبل تک حساسیت کی بنیاد پر مقامی ذرائع ابلاغ نشر کرنے سے گریز کرتے تھے۔
ویسے تو جولائی میں الیکشن سے قبل نواز شریف اور مریم نواز لندن سے واپسی پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل چلے گئے تھے اور وہاں سے کسی قسم کے سیاسی بیان دینے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر تھی لیکن ایون فیلڈ ہاؤس اپارٹمنٹس مقدمے میں سزا کے بعد دونوں باپ بیٹی نے کھلے عام اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیان دینا شروع کر دیے تھے جو پہلے صرف ’مجھے کیوں نکلا‘ کے مقبول نعرے تک محدود تھے۔ ستمبر میں میاں نواز شریف اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی وفات کے بعد ان کی آخری رسومات کے لیے پیرول پر جیل سے رہا ہوئے تو سوگ کی فضا کی وجہ سے سیاست پر کسی نے بات نہیں کی لیکن دوبارہ جیل جاتے ہی دو دن بعد ان کی سزا اسلام آباد ہائی کورٹ نے معطل کر دی تو عام خیال یہ تھا کہ اب نواز شریف سیاسی امور پر کھل کی بات کریں گے لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ایسا کیا ہوا کہ نواز شریف خاموش ہیں؟ کیا کوئی معاہدہ ہوا ہے؟ اس سوال پر سیاسی امور کے تجزیہ کار اور سینیئر صحافی عارف نظامی نے کہا کہ ان کے علم میں نہیں کہ کوئی غیر اعلانیہ معاہدہ ہوا ہے لیکن فطری طور پر اگر میاں نواز شریف کا خیال ہے کہ سارا کچھ سٹیبلشمنٹ کرا رہی ہے اور کچھ مقتدر قوتیں چاہتی ہیں کہ وہ سامنے نہ آئیں تو اس صورت میں وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ خود ہی خاموش ہیں اور مصلحتاً کوئی ایسی بات نہیں کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ اس کے ساتھ وہ یہ بھی نہیں چاہتے ہیں کہ اپنے لیے مزید کوئی نئے محاذ نہ کھولیں۔ میاں نواز شریف کے علاوہ اگر بات کی جائے تو ان کی صاحبزادی مریم نواز اپنے والد سے زیادہ متحرک تھیں اور اپنے تلخ بیانات کی وجہ خبروں میں تھیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ انھوں نے لندن سے پاکستان آنے سے پہلے ایک ویڈیو میں کہا تھا کہ’ ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے۔۔۔‘ اس بارے میں مزید پڑھیے ’وزیراعظم بتائیں این آر او کون مانگ رہا ہے‘ کیا رہائی کے بعد نواز شریف کا بیانیہ بدلے گا؟ سینسر شپ کی پاکستانی ڈکشنری تو کیا مریم بھی کسی خاص مصلحت کے تحت خاموش ہیں؟ اس کے جواب میں عارف نظامی نے کہا کہ مریم نواز کا کوئی بھی بیان سامنے نہیں آیا ہے تو اس سے ثابت یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ سب اپنے والد کی آشیر باد سے کر رہی تھیں۔ عارف نظامی ں نے کہا کہ لگتا ہے کہ نواز شریف کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ ان کی جی ٹی روڈ والی پالیسی کا کوئی فائدہ نہیں ملا اور نہ ہی الیکشن سے عین پہلے لندن سے پاکستان آنے سے کوئی خاص فائدہ ہوا تو بہتر ہے کہ چوہدری نثار اور شہباز شریف والی لائن اپنائیں کہ آرام سے گھر بیٹھیں۔ کیا مسلم لیگ نون نے ایک خاص حکمت عملی کے تحت ایسا کیا؟ سیاسی امور کی تجزیہ کار، صحافی بینظیر شاہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بظاہر مسلم لیگ نون کی قیادت کا مشترکہ فیصلہ ہے کہ ابھی زیادہ کھل کر سامنے نہ آئیں اور یہ فیصلہ زیادہ نواز شریف کا ہی ہے جس میں اعلیٰ قیادت (نواز شریف، مریم نواز اور شہباز شریف) جارحانہ انداز نہ اپنائیں اور پارٹی میں ان سے نچلے درجے کی قیادت جارحانہ رہے جس میں مشاہد اللہ خان، خاقان عباسی اور خواجہ سعد رفیق اور دیگر رہنما شامل ہیں۔ بینظیر شاہ نے اس کی وجہ یہ بھی بتائی کہ تحریک انصاف کو صوبہ پنجاب میں حکومت کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ جیو نیوز سے منسلک صحافی بینظیر شاہ کے مطابق ان کی حال ہی میں ایک سینیئر بیوروکریٹ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ابھی تک یہ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ اس وقت صوبے میں پاور سینٹر کیا ہے جس میں ایک طرف پرویز الہی فیصلے کر رہے ہیں تو دوسری جانب گورنر پنجاب چوہدری سرور اپنے طور پر فیصلے لے رہے ہیں لیکن صوبے کے وزیراعلیٰ کوئی فیصلہ نہیں لے پا رہے ہیں تو اس صورتحال میں مسلم لیگ نون سمجھتی ہے کہ وہ سخت موقف اپنائیں اور تحریک انصاف پر سیاسی طور پر حملہ کریں۔ بینظیر شاہ نے مزید کہا کہ ’تحریک انصاف کی صوبے میں طرز حکومت میں مسائل کی وجہ سے مسلم لیگ کی قیادت نے بظاہر فیصلہ کیا ہے کہ دیکھو اور صحیح وقت کا انتظار کرو کی پالیسی اپنائی جائے۔‘ انھوں نے کہا کہ ابھی مسلم لیگ کی یہ ہی پالیسی رہے گی اور خاص کر جب اعلیٰ قیادت کے خلاف کیسز عدالتوں میں ہیں تو وہ سمجھ رہے ہیں کہ ابھی جارحانہ حکمت عملی کی ضرورت نہیں کیونکہ عام انتخابات ابھی پانچ برس دور ہیں لیکن بلدیاتی انتخابات قریب آنے پر شاید پالیسی میں بدلاؤ آئے۔ مسلم لیگ نون کا کیا موقف ہے؟ اس حوالے سے مسلم لیگ نون کے کئی رہنماؤں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن جواب نہیں ملا تاہم سابق پارلیمانی سیکریٹری رانا افضل سے بات کرنے میں کامیابی ملی۔ ان سے اپنے قائد میاں نواز شریف کی جیل سے واپسی کے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ پارٹی کی حکمت عملی ہے تو اس پر انھوں نے کہا کہ یہ جماعت کی حکمت عملی نہیں بلکہ ان کے خیال میں نواز شریف کی اپنی سوچ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت ملک کے حالات ایسے ہیں کہ جب ہم اور حزب اختلاف کوئی بات کرتے ہیں تو حکومت اور اس کے حمایتی اسے سازش سمجھ لیتے ہیں لیکن اس وقت حکومت اور ان کے حامی اتنی غلطیاں خود کر رہے ہیں کہ ان کے خیال میں میاں صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ ( تحریک انصاف) کی اصلیت خود ہی سامنے آ جائے اور ہمارے کندھے پر رکھ کی کوئی بات نہ کی جائے۔ اس بارے میں مزید پڑھیے ’آئی ایس آئی عدالتی معاملات کو مینوپلیٹ کرنے میں ملوث‘ ’آرمی چیف اپنی مرضی کے بینچ بنوانے والوں کو روکیں‘ خیال رہے کہ گذشتہ ماہ مسلم لیگ نون کے رہنما رانا مشہود نے بھی نجی ٹی وی کو انٹرویو میں فوج کے ساتھ معاملات کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ ان کے خیال میں اب بہت حد تک معاملات ٹھیک ہو چکے ہیں۔ اس پر صحافی نے سوال کیا کہ یہ معاملات ٹھیک کیسے ہوئے ہیں؟ تو اس پر رانا مشہود نے کہا کہ'معاملہ ٹھیک اس طرح سے ہوا ہے کیونکہ شاید ان کو( فوج) یہ سمجھ آ گئی ہے کہ انھوں نے جسے گھوڑا سمجھا تھا وہ خچر نکلے اور جو خچر ہیں وہ ڈیلیور نہیں کر پا رہے ہیں۔' فوج نے ایک ٹویٹ میں رانا مشہود کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ بیانات قرار دے کر ملکی استحکام کیلئے نقصان دہ قرار دیا ’ان کے نزدیک یہ ان کا سمجھدار قدم ہے جو کہ ہماری جماعت کے لیے بھی اچھا ثابت ہو رہا ہے اور یہ خود ہی غلطیاں کیے جا رہے ہیں جس میں عمران خان سے منسوب بیان سامنے آیا ہے کہ یو ٹرن لینا جائز ہے جو کہ ان کی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی غطی ہے اور میں اور دوسرے رہنما پہلے ہی ان کو گھیرا ہوا ہے اور اس نے ( عمران) نے ہمیں سخت رویہ اپنانے کا ایک موقع فراہم کر دیا ہے۔' یہاں ان سے جب پوچھا کہ وزیراعظم عمران خان این آر او نہ دینے کی بات کر رہے ہیں تو یہ این آر او کیا مسلم لیگ نون کی قیادت مانگ رہی ہے تو اس پر رانا افضل نے کہا کہ’ یہ لوگ این آر او کیا دے سکتے ہیں ۔۔۔ این آر او کے پیچھے فوجی بیٹھی ہے، وہ دے سکتی ہے، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ دے سکتی ہے ۔۔۔ نیب دے سکتی ہے مگر اس کا عمران خان سے کیا تعلق ہے۔۔۔۔؟‘ انھوں نے مزید کہا کہ’ موجودہ وقت میں اگر فوج نے بھی این آر او دینا ہو تو کیا میاں صاحب کے خلاف کیس ختم ہو جائیں گے ۔۔۔ تو کیا نیب کھڑی ہو جائے اور فوج لوگوں کو منہ دکھا سکے گی۔۔۔ میرے خیال میں اب اس میں بہت تاخیر ہو چکی ہے۔‘ عارف نظامی نے بھی اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ’ این آر او ایک علامتی چیز بن گئی ہے، کوئی ڈیل ہو گئی ہے۔ تو کیا فوج سے ڈیل ہوئی ہے یا عمران خان سے تو یہ دونوں چیزیں ابھی قبل از وقت ہیں اور کوئی ڈیل ہوتی تو شہباز شریف کو اس طرح سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا اور نواز شریف کے خلاف عدالت میں فاسٹ ٹریک مقدمہ چل رہا ہوتا اور ابھی یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ کتنے دن جیل میں رہتے ہیں۔‘
040827_adil_smallest_ms
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/blog/story/2004/08/040827_adil_smallest_ms
سینتیس انچ کا آدمی
فرج سے آئیسکریم نکالنے میں مسئلہ ہوتا ہے۔ ’میرا نام عدیل احمد ہے اور میرا دعویٰ ہے کہ میں اس وقت دنیا کا سب سے چھوٹے قد کا انسان ہوں۔ میری عمر چوبیس سال اور قد سیسنتیس انچ ہے۔ میری تحقیق کے مطابق اب تک بھارتی شخص گل محمد دنیا کے سب سے چھوٹے قد کے انسان تھے جن کا قد گینس بک آف ورلڈ دو ہزار چار کے مطابق بائیس انچ تھا اور اب وہ حیات نہیں ہیں‘۔
’میں کراچی کے لیاقت نیشنل ہسپتال میں آپریٹر کا کام کرتا ہوں۔ میں نے انٹر تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد کمپیوٹر کورس کیا اور یہ جاب حاصل کی۔ کام کی جگہ پر اتنی مدد ضرور ملی ہے کہ میری ڈیسک میرے قد کے حساب سے رکھی گئی ہے۔ باقی دیگر کام میں اپنے گھر والوں اور دفتر کے بعض دوستوں کی مدد سے کر لیتا ہوں‘۔ ’مگر فرج سے آئیسکریم نکالنے یا پانی کی بوتل اتارنے میں مسئلہ ہوتا ہے۔ اسی طرح کپڑے استری کرنے میں بھی دقت پیش آتی ہے۔ گھر میں ایسا کوئی خاص انتظام نہیں ہے کہ میں اپنے کام سہولت سے کر سکوں مگر گھر والوں کی مدد سے کام چل ہی جاتا ہے‘۔ ’فی الحال میری خواہش اور جدو جہد یہی ہے کہ کسی طرح ملکی سطح پر یہ دعویٰ ثابت کرسکوں کہ میرا قد اس وقت دنیا نہیں تو کم ازکم اس ملک میں تو ضرور سب سے کم ہے اور اس کے باوجود میں نارمل انسان کی زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں یہ دعویٰ کراچی کے مختلف کتب خانوں میں موجود عالمی ریکارڈ بکس کی چھان بین کے بعد ہی کر رہا ہوں‘۔ ’اگرچہ میرے گھر والے اور احباب تو میرا ساتھ دیتے ہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اصل سپورٹ حکومت سے ملنی چاہیے‘۔ ’میں گورنر سندھ عشرت العباد کے دفتر بھی گیا مگر رینجر گارڈز نے مجھے اندر جانے نہیں دیا۔ میں نےصدر مشرف اور سابق وزیر اعظم جمالی کو بھی اپنی تفصیل سےآگاہ کرنے کے لیے فیکس بھیجے تھے مگر کوئی جواب نہیں آیا‘۔ ’آج کل میں نے گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ کو بھی فیکس بھیجا ہوا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ چھ ہفتے میں جواب آئے گا۔ ابھی دو ہفتے ہو گئے ہیں۔ انہوں نے میری ویڈیو بھی مانگی ہے۔ مگر ابھی تک میں بنوا نہیں سکا ہوں`۔ ’ہاں مجھے ایک لڑکی بھی پسند تھی۔ مگر اس سے اظہار سے پہلے ہی اس کی شادی ہوگئی وہ تو نارمل قد کی تھی۔ ماں کہتی ہیں کہ بیٹا بھول جاؤ۔ مگر بھولا تو نہیں جا سکتا۔ اب تو جہاں ماں کہیں گی کر لیں گے۔ تیرے نام ہم نے کیا ہے جیون اپنا سارا صنم‘۔ نوٹ: عدیل احمد نے اپنی یہ گفتگو بی بی سی کراچی کے دفتر میں ہماری ساتھی عروج جعفری سے کی۔ اگر آپ بھی اپنی کہانی ہمارے قارئین تک پہنچانا چاہیں تو ہمیں لکھ بھیجیں۔ اگر آپ چاہیں گے تو ہم آپ کا نام ظاہر نہیں کریں گے۔
060130_trainaccedent_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/01/060130_trainaccedent_sen
’جہلم حادثہ: تین مسافر ہلاک ہوئے‘
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ریلوے شمیم حیدر نے کہا ہے کہ جہلم کے قریب ٹرین کے حادثے میں تین مسافر ہلاک اور تیس سے پینتیس زخمی ہوئے ہیں۔ جن میں سے ایک کی حالت نازک ہے۔
انہوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حادثے کے لیے شروع کیا جانے والا امدادی آپریشن مکمل ہو چکا ہے اور تمام مسافروں کو جائے حادثہ سے منتقل کیا جا چکا ہے۔ زخمیوں کو ہسپتالوں میں طبی امداد دی جا رہی ہے اور دوسرے مسافروں کو ان کی منزلوں کی طرف روانہ کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انکوائری کے لیے وفاقی انسپکٹر آف ریلویز کو انکوائری افسر مقرر کر دیا گیا ہے اور ایک دو دن میں حادثے کے اسباب کا پتہ چل جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ حادثے سے تین اموات ہوئی ہیں اور تیس سے پینتیس مسافرزخمی ہوئے ہیں۔ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ریلوے کا کہنا تھا کہ ابھی اسباب کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی وجہ تیز رفتاری تھی یا بریک کے ساتھ کچھ کیا گیا تھا۔ شمیم حیدر کے مطابق کے مطابق اب تک کی اطلاعات کے مطابق ٹرین میں کل ساڑھے چار سو مسافر تھے۔ ٹرین پٹری سے اتری اور کچھ ڈبے نیچے کھائی میں جاگرے ان میں بھی خاصے مسافر تھے لیکن اللہ کی مہربانی سے زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا۔
041024_bjp_nexlite
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2004/10/041024_bjp_nexlite
حکومت باغیوں سے سختی کرے: اڈوانی
بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعت بی جے پی نے وفاقی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ آندھرا پردیش کی ریاستی حکومت کی نکسلائٹ باغیوں سے نمٹنے میں مدد نہیں کر رہی۔
بھارت کے سابق نائب وزیر اعظم اور بی جے پی کے صدر لال کرشن اڈوانی نے کہاہے کہ نکسلائٹ باغی بھارت کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کی قیادت میں قائم حکومت کو یکساں قومی پالیسی اپنانی چاہیے۔ اڈوانی نے یہ بات آندھرا پردیش کے دورے کے دوران کہی جہاں ریاستی حکومت باغیوں کے ساتھ امن مذاکرات کر رہی ہے۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کی کہ اس نے باغیوں کے ہتھیار ڈالنے سے پہلے ان سے مذاکرات شروع کر دیئے ہیں۔ مبصرین نے کہا ہے کہ نکسلائٹ کی نظر میں تشدد کے ذریعے ایک مثالی ریاست کا قیام وجود میں آ سکتا ہے۔ تین دہائیوں سے وہ بھارت میں مختلف مقامات پر حکومتی اہلکاروں پر حملے کرتے رہے ہیں۔
051023_more_quake_pak_ra
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/10/051023_more_quake_pak_ra
پاکستان: زلزلوں کے مزید جھٹکے
پاکستان کے مختلف علاقوں میں اتوار کی شب پھر زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے۔ پاکستان کے میٹ آفس کے مطابق ان جھٹکوں یا آفٹر شاکس کی شدت ریکٹر سکیل پر پانچ اعشاریہ نو ریکارڈ کی گئی ہے
جبکہ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق ان جھٹکوں کی شدت ریکٹر سکیل پر چھ ریکارڈ کی گئی ہے یہ جھٹکے آٹھ اکتوبر کے زلزلوں کے بعد سب سے زیادہ شدید آفٹر شاکس تھے۔ پاکستان کے میٹ آفس کے ڈائریکٹر جنرل قمرالزمان کے مطابق ان جھٹکوں کا مرکز پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے چالیس کلومیٹر شمال مغرب تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ آٹھ اکتوبر کے زلزلے کے بعد ان آفٹر شاکس کے بارے میں محکمہ موسمیات نے پہلے ہی کہا ہوا ہے کہ یہ جھٹکے اگلے دو سے تین ہفتے تک جاری رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان جھٹکوں سے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ ہو سکتی ہے اور پہلے سے متاثرہ عمارتیں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ جھٹکے اسلام آباد سمیت ہزارہ ڈویژن، شمالی علاقہ جات ،صوبہ سرحد کے شہر پشاور مانسہرہ اور ایبٹ آباد اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں محسوس کئے گئے۔تاہم ان علاقوں سے ابھی تک کسی جانی نقصان کی اطلاعات نہیں ملی ہے۔
060708_kolleru_lake_endangered
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/07/060708_kolleru_lake_endangered
کولیرو جھیل، روزی کا مسئلہ
ایشیا میں تازہ پانی کی بڑی جھیلوں میں سے ایک کولیرو آندھرا پردیش کے دو ساحلی ضلعوں مغربی گوداوری اور کرشنا میں 900 مربع کیلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ خلیج بنگال کے ساحل پر واقع یہ عظیم الشان جھیل گـزشتہ چار دہوں سے موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا تھی لیکن اب طویل عرصہ کے بعد اسے کھل کر سانس لینے کا موقع ملا ہے۔
سپریم کورٹ کے احکامات کو روبہ عمل لاتے ہوئے ریاستی حکومت نے اس جھیل میں غیرقانونی طور پر بنائے گئے مچھلی پالنے کے تالابوں کو منہدم کردیا ہے۔ تین مہینے تک جاری رہنے والی اس کارروائی میں ایک ہزار سات سو فش ٹینکس کو منہدم کیا گیا اور اس کے لیے بعض مقامات پر دھماکو اشیاء بھی استعمال کی گئیں۔ اس طرح جھیل کی 44 ہزار ایکڑ زمین کو واپس حاصل کیا گیا اور پانی کے آسانی کے ساتھھ بہاؤ کا راستہ کھولا گیا۔ یہ کارروائی جھیل کی اصلی حالت کو بحال کرنے اور اس کے ماحول کا تحفظ کرنے کے منصوبے کے تحت کی گئی۔ ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ یہ جھیل صدیوں سے سائبیریا اور دنیا کے دوسرے حصوں سے آنے والے پرندوں کی پسندیدہ منزل تھی اور یہ جھیل سینکڑوں قسم کی مچھلیوں، آبی جانداروں اور پرندوں کی آماجگاہ تھی لیکن جب سے وہاں تجارتی پیمانے پر مچھلی پالنے کا سلسلہ شروع ہوا تب سے وہاں کا ماحول تباہ ہوگیا۔ جھیل کی اصلی حالت کو بحال کرنے کے مقصد سے حکومت نے اس علاقے کو پرندوں کی محفوظ پناہ گاہ بھی قرار دے دیا تھا۔ مچھلی کے تالابوں کو ہٹانے کی کارروائی انتظامیہ کے لیے بھی آسان نہیں تھی کیونکہ ان تالابوں کی بڑی تعداد سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کی ملکیت تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی انہدامی کارروائیوں کے خلاف سرکاری عہدیداروں کو ڈرانے دھمکانے کے واقعات بھی پیش آئے لیکن بالآخر سپریم کورٹ کی مقررہ حد کے اندر یہ کام مکمل کرلیا گیا۔ لیکن اب جہاں ماہرین ماحولیات اور سرکاری عہدیدار اپنی اس کامیابی پر خوش ہیں وہیں غیرسرکاری تنظیمیں اور مقامی لوگ بے حد ناراض اور برہم ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ مچھلی کے تالابوں کی برخاستگی سے دیڑھ لاکھ لوگوں کا روزگار متاثر ہوا ہے اور ان دونوں ضلعوں کی معیشت پر تباہ کن اثر پڑا ہے۔ ریاست کی ایک بڑی غیر سرکاری تنظیم لوک ستہ کے سربراہ اور سابق آئی اے ایس آفیسر جے پرکاش نارائن کا کہنا ہے کہ حکومت نے نتائج کے بارے میں غور کیے بغیر اور متاثر ہونے والے لوگوں کی آبادکاری کے بارے میں سوچے بغیر یہ کارروائی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جھیل کی جو زمینیں حکومت نے واپس لی ہیں ان میں بیس ہزار ایکڑ زمین لوگوں کی نجی ملکیت اور دس ہزار ایکڑ زمین خود حکومت کی فراہم کردہ تھی۔ متاثر ہونے والوں میں اکثریت دلتوں اور دوسرے کمزور طبقات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانونا حکومت کو کسی کی بھی زمین لینے کا اختیار ہے لیکن ان کو معاوضہ ادا کیا جانا چاہیے- جے پرکاش نارائن نے اس بات کو مضحکہ خیز قرار دیا کہ جس علاقے سے لوگوں کو ہر سال چھ سو تا سات سو کروڑ روپۓ کی آمدنی ہوتی تھی، اس کے لیے متاثرہ خاندانوں کو حکومت دس کروڑ روپۓ کا معاوضہ دینے کی بات کررہی ہے۔ انہوں نے اسے انتہائی غیرجمہوری اور عوام دشمن حرکت قرار دیا اور مطالبہ کیا ہے کہ حکومت متاثرین کی آبادکاری کے لیے قدم اٹھائے۔ ان کا اندازہ ہے کہ کل ملا کر اس علاقے کی سالانہ معیشت ڈھائی ہزار کروڑ روپۓ کی تھی جو اب باقی نہیں رہی۔ سب سے زیادہ برا اثر ان 122 مواضعات پر پڑا ہے جو اس جھیل کے بیچ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پارتھا سارتھی کا کہنا تھا کہ مچھلی پالنے کے تمام تالاب غیرقانونی نہیں تھے بلکہ خاصی تعداد ان لوگوں کے تالابوں کی تھی جنہیں 1975 ء میں حکومت نے ماہی گیری کی حوصلہ افزائی کے لیے زمین فراہم کی تھی۔ پارتھا سارتھی کا کہنا تھا کہ ابتدا میں مقامی لوگ چھوٹے پیمانے پر ماہی گیری کیا کرتے تھے لیکن جب اس میں زیادہ منافع ہونے لگا تو بڑے بڑے بیوپاری اور سیاسی لیڈر بھی اس میں کود پڑے اور انہوں نے بڑے بڑے فش ٹینکس تعمیر کرڈالے - جے پرکاش نارائن اور پارتھا سارتھی دونوں اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ مچھلی کے تالابوں کی وجہ سے وہاں کا ماحول خراب ہوا تھا یا وہ سیلاب کا سبب بن رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس راستے سے پانی بہہ کر سمندر تک پہنچتا ہے اسے صاف نہ کرنے کے نتیجے میں سیلاب آرہا تھا۔ جہاں حکومتی عہدیدار مطمئن ہیں کہ انہوں نے جھیل کی صفائی کا کام مکمل کرلیا ہے وہیں مقامی عوام میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ان کی بازآبادکاری اور متبادل روزگار کے لیے جلد قدم نہیں اٹھاتی ہے تو یہ لاوا پھوٹ سکتا ہے۔
071221_highprofile_target_sq
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/12/071221_highprofile_target_sq
مرتا عام شہری ہی ہے
پاکستان میں گزشتہ چار سالوں کے دوران صدرجنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو سمیت چھ اعلیٰ حکومتی، فوجی اور سیاسی شخصیات کو ’ ٹارگٹ‘ بنایاگیا ہے تاہم مبینہ دہشت گردوں کو اپنے’اہداف‘ کو نشانہ بنانے میں ناکامی ہوئی ہے۔ ان حملوں میں مبینہ ٹارگٹ کی بجائے دو سو چون سے زیادہ بےگناہ شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
اس عرصے میں صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف وہ پہلی اعلیٰ حکومتی شخصیت تھے جن پر چودہ دسمبر دو ہزار تین کو راولپنڈی میں جھنڈا چیچی پل پر ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے حملہ کیا گیا تاہم اس حملے کو ناکام بنایا گیا تھا۔ اس کے گیارہ روز بعد پچیس دسمبر دو ہزار تین کوان پر دوسرا حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں چودہ افراد ہلاک جبکہ چالیس زخمی ہوگئے تھے۔جنرل مشرف اس حملے میں بھی محفوظ رہے تھے۔ دس جون دوہزار چار کو کراچی میں کلفٹن کے علاقے میں کراچی کے کور کمانڈر لیفٹننٹ احسن سلیم حیات ایک حملے میں بال بال بچے تاہم اس حملے کے نتیجے میں دس افراد جان بحق ہوئے تھے۔ تیس جون دوہزار چار کو پاکستان کے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کو ضلع اٹک میں اس وقت ایک خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا جب وہ قومی اسمبلی کےضمنی انتخابات کی مہم میں مصروف تھے۔اس حملے میں وہ محفوظ رہے لیکن دیگر چھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پاکستان کے سابق وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کو اٹھائیس اپریل دو ہزار سات کو چارسدہ میں ایک مبینہ خود کش حملے کا نشانہ بنایاگیا۔اگرچہ اس حملے میں وہ خود معمولی طور پر زخمی ہوئے تھے لیکن حملے کے نتیجے میں ریلی میں شامل تیس سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ آفتاب شیر پاؤ کو جمعہ اکیس دسمبر دو ہزار سات کو چارسدہ میں دوبارہ ’ٹارگٹ‘ بنایا گیا جس میں وہ خود تو محفوظ رہے البتہ پچاس سے زیادہ افراد ہلاک اور سو کے قریب زخمی ہوگئے۔ اگرچہ بظاہر ان حملوں کا نشانہ اعلیٰ حکومتی اہلکار تھے مگر ان کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر بے گناہ شہری تھے جنکی مجموعی تعداد دو سو چون سے زیادہ ہے۔
080121_bollywood_diary_awa
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2008/01/080121_bollywood_diary_awa
گووندہ کا طمانچہ اور سلمان کی ادا
بڑا طمانچہگووندہ نے فلمستان کے سیٹ پر ایک لڑکے کو تھپڑ جڑ دیا۔اس طمانچہ کی گونج سارے شہر میں سنی گئی کیونکہ سارے ٹیلی ویژن چینلز نے اس کی خوب پبلسٹی کی۔ معاملہ پولیس تک بھی پہنچا، یہ سب نے دیکھا لیکن شاید کسی نے وہ طمانچہ نہیں دیکھا جو بیچارے فلمساز کمار منگت کے منہ پر پڑا۔ پندرہ لاکھ روپے کا۔ جی ہاں اس واقعہ کی وجہ سے انہیں اپنے دو دن کی شوٹنگ منسوخ کرنی پڑی اور پورے پندرہ لاکھ روپے کا خسارہ جھیلنا پڑا۔
سیف راکسچھوٹے نواب سیف علی خان نے اتوار کی شام لوگوں کو جھومنے پر مجبور کر دیا۔پریکریما اور سٹرنگس بینڈ کے ساتھ سیف نے اپنے گٹار اور اپنی آواز کا جادو جگایا تو وہاں موجود لڑکیاں ان سے نئے انداز پر فدا ہو گئیں (ویسے آپ ان میں چند لڑکوں کو بھی شامل کر سکتے ہیں)۔ کرینہ مصر میں شوٹنگ میں مصروف تھیں اس لیے وہ سیف کو راکس کرتے نہیں دیکھ سکیں۔کرینہ افسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ نہیں تھیں تو کیا ہوا آپ تو سیف کے ہاتھوں پر اپنے نام کے ساتھ موجود تھیں۔ ایشوریہ کی مصروفیت سونے کے دل والاامیتابھ بچن نے پٹنہ کی دو بچیوں کی تعلیم و تربیت کا پورا خرچ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔لیکن صرف یہیں تک نہیں بگ بی نے اب اترپردیش کے ایک گاؤں میں لڑکیوں کے لیے خصوصی سکول کھولنے کی تیاری شروع کر دی ہے اور یہ سکول ان کی بہو ایشوریہ رائے بچن کے نام پر ہوگا۔اب ہم پوچھیں گے ان لوگوں سے جو یہ کہتے ہیں کہ آخر بگ بی کو اتنی اہمیت کیوں دی جاتی ہے انہوں نے سماج کے لیے کیا کام کیا۔ ہمارا خیال ہے اب تو ان کی زبانیں بند ہو جائیں گی۔۔۔۔۔ شاہد کی مشکلیں انیس کاروں کی تباہیصرف ایک فلم میں انیس کاریں تباہ کرنے کی قیمت تھی ڈیڑھ کروڑ روپیہ، جی ہاں فلم سنڈے کے ہدایت کار روہت شیٹی نے اپنی فلم میں ایک منظر فلمانے کے لیے ایک دو نہیں انیس کاریں دھماکہ کے ساتھ اڑا دیں۔شیٹی کیا یہ آپ کا جنون ہے۔ سلمان کی ادا چار کروڑ روپے کی وینسنجے دت اپنے لیے وینٹی وین بنا رہے ہیں۔ جدید سہولیات سے لیس اس وین کو بنانے کی لاگت ہو گی چار سے پانچ کروڑر وپے۔۔۔۔ان کے دوست دلیپ چھابریہ بتاتے ہیں کہ اس وین میں گلوبل کنکشن ہوگا۔ آفس لاؤنج میں ہر سیٹ پر ویڈیو کنکشن، ساٹھ انچ کا پلازمہ ٹی وی سکرین، شراب خانہ بیٹھنے کے لیے کرسیاں اور یہ سب کچھ چھپا ہوا ہوگا۔ بس ایک بٹن دبایا اور الہ دین کے جن کی طرح سب حاضر۔۔۔ کرینہ کو تحفہویسے تو جب سے سیف نے کرینہ کو اپنے دل کی رانی بنایا ہے انہیں وہ تحفہ دیتے ہی رہتے ہیں لیکن اب انہوں نے اپنی فلم پروڈکشن کمپنی کے تحت بنانی جانے والی تین میں سے دو فلمیں انہیں بطور تحفہ ددے دی ہیں۔۔۔ہاں یہ ہی قیمتی تحفہ خواجہ غریب نواز کا سیٹ سلمان کی کتابہمیں جہاں تک پتہ ہے اس کے مطابق سلمان مصوری کر رہے تھے پھر انہوں نے فلم کی کہانی لکھنی شروع کی ان کی کہانی پر فلم ’ ویر‘ بنے گی لیکن یہ کتاب۔ ہمارے مخبر نے کہا ہے کہ سلمان بہت جلد ’ باڈی بلڈنگ‘ کسرتی جسم بنانے کے نسخوں پر کتاب لکھنے والے ہیں کیونکہ ویسے بھی فلم انڈسٹری میں ہر ہیرو کسرتی جسم بناتے وقت ان سے ٹپس لینا نہیں بھولتا ہے۔ سلو بھیا ہمیں یقین ہے کہ آپ کی یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ بک جائے گی۔
050228_oscar_india_nj
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2005/02/050228_oscar_india_nj
بھارتی دستاویزی فلم کیلیے آسکر
اس سال بھارت کے بارے میں ایک دستاویزی فلم ’Born Into Brothels‘ کو بہترین دستاویزی فلم کے لئے آسکر دیا گیا ہے۔ یہ فلم کلکتہ شہر کے ریڈ لائیٹ علاقے میں رہنے والی جسم فروش عورتوں کے بچوں کی زندگی پر بنائی گئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فلم خود بچوں نے ہی بنائی تھی فلم کے ہدایت کار زانا برسکی اور روز کفمین نے ان بچوں کو کیمرے دئیے تھے۔ فلم پروڈیوسروں کا کہنا ہے فلم میں دکھائے جانے والے بچوں کی شناخت کو چھپانے کے لئے یہ فلم بھارت میں نہیں دکھائی جا رہی کیونکہ اس طرح ان بچوں کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ فلم ناقدین کا کہنا ہے کہ بچوں نے اس دنیا کی انوکھی اور تلخ حقیقتوں کو بہت ہی سادگی سے دکھایا ہے جس ماحول اور دنیا میں وہ رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کارٹون فلم ’The Incredibles ‘ کو بہترین اینیمیٹڈ فلم اور بہترین ساؤنڈ ایڈیٹنگ کے لئے آسکر دیا گیا ہے۔
world-38285714
https://www.bbc.com/urdu/world-38285714
ستاروں سے بھری آسماں کی مانگ
انڈونیشیا کے جزیرے مشرقی جاوا میں فعال آتش فشاں برومو کے اوپر ہزاروں ستارے جگمگاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ ’ٹائم لیپس‘ تصویر ملیشیائی فوٹوگرافر گرے چاؤ نے لی ہے۔ انھوں نے جنوب مشرقی ایشیا کے مختلف حصوں میں رات کے مناظر کی دلفریب تصویر کشی کی ہے۔
ایک ناکارہ کشتی کہکشاں کے سائے تلے۔ چاؤ نے یہ تصویر اپنے آبائی قصبے تیرنگانو میں لی۔ ملیشیا کے کیمرون پہاڑ میں سبزیوں کے ایک فارم کے اوپر رقص کناں کہکشاں۔ ہماری زمین نظامِ شمسی کا حصہ ہے جو مرغولے دار کہکشاں کے ایک کنڈل میں واقع ہے۔ اس کہکشاں میں ہمارے سورج کی طرح کے کم از کم ایک کھرب ستارے موجود ہیں۔ طلوعِ آفتاب سے کچھ ہی لمحے قبل لی جانے والی اس تصویر میں انڈونیشیا کے کاواہ ایجن آتش فشاں کا ایک منظر دکھایا گیا ہے۔ چاؤ کہتے ہیں کہ جب انھوں پہلی بار کہکشاں دیکھی تو ایسا لگا جیسے وہ کسی فلم کا منظر دیکھ رہے ہوں۔ ’رات کی حسین و دلکش حقیقت کو کیمرے میں قید کر لینا بہت زبردست تجربہ ہے۔‘ ملیشیا کے جزیرے بورنیو میں کوہ کنابالو کے اوپر بادلوں سے جھلکتی کہکشاں کا ایک منظر۔ چاؤ کہتے ہیں کہ انھیں یہ تصویر لینے کے لیے کیمرے کا ساز و سامان اٹھا کر پہاڑ کی آٹھ کلومیٹر چڑھائی چڑھ کر یہاں پہنچنا پڑا۔ کوہ کنابالو کا یہ مقام سطحِ سمندر سے ساڑھے 13 ہزار فٹ بلند ہے۔ تمام تصاویر کے حقوق محفوظ ہیں۔
pakistan-47663789
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-47663789
عورت مارچ: ’گالیوں بھرے پیغامات کے ساتھ مجھ پر تیزاب پھینکنے کی دھمکی دی جارہی ہے‘
اس ماہ کی 15 تاریخ کو کراچی کے علاقے لیاری میں وہاں کے ایک صحافی کے بارے میں تین محلوں کی مسجدوں میں جمعے کے خطبے میں اعلانات کروائے گئے۔ ان خطبات میں الزام لگایا گیا کہ 'یہ شخص غیر ملکی ایجنڈے پر کام کررہا ہے اور علاقے کی لڑکیوں کو ورغلا کر کر انھیں اسلام اور تہذیب سے دور کررہا ہے۔'
اس ماہ کی آٹھ تاریخ کو ملک بھر میں عورت مارچ کا انعقاد کیا گیا یہی پیغام سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بُک اور واٹس ایپ پر بھی جاری کیا گیا جس کے بعد اس صحافی کو دوستوں کی طرف سے فون موصول ہونا شروع ہوئے اور انھیں احتیاط کرنے کی تنبیہ بھی کی گئی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لیاری سے تعلق رکھنے والے اس صحافی نے بتایا کہ ان کے ساتھ یہ سب عورت مارچ میں لیاری کی بچیوں اور خواتین کو لے جانے کے سبب کیا جارہا ہے۔ 'عورت مارچ کے بعد میرے ایک دوست نے مجھے کہا کہ مسجد میں تمہارے خلاف خطبہ سننے کے بعد میں نے اپنے مولانا صاحب سے بات کی کہ آیا تم سے تعلق رکھا جاسکتا ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ اس دوست سے تعلق رکھ سکتے ہو اور اجازت ملنے کے بعد ہی وہ مجھ سے ملنے آیا۔' عورت مارچ اور اس کے بعد آنے والے رد عمل کے بارے میں مزید پڑھیے مردانہ ہدایت نامہ برائے عورت مارچ خواتین کا عالمی دن: مختلف شہروں میں عورت مارچ ختم ’عورت کی شناخت مرد سے نہیں ہوتی، اس کا اپنا وجود ہے‘ آپ کو مبارک ہو، آ پ عورت ہیں ! عورت مارچ میں شامل لوگوں کے لیے مشکلات اس ماہ کی آٹھ تاریخ کو پاکستان کے مختلف شہروں سمیت کراچی کے فرئیر ہال میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر بڑے پیمانے پر خواتین جمع ہوئیں اور اپنے حقوق اور مطالبات پوسٹرز اور بینرز کی شکل میں عوام کے سامنے رکھے۔ ان میں سے چند بینرز اور پوسٹرز پر درج کیے گئے پیغامات کی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر تنقید ہوئی اور بات اب اس نہج تک پہنچ گئی ہے کہ عورت مارچ میں شامل ہونے والی کئی خواتین اور ان کو وہاں تک لانے والے چند مردوں کو مختلف طریقوں سے دھمکایا جا رہا ہے۔ عورت مارچ میں شامل ایک لڑکی نے بی بی سی سے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی صورت میں بتایا کہ 'میں نے جو پوسٹر اٹھایا ہے وہ اس وقت فیس بُک پر وائرل ہوگیا ہے۔ اس کے نیچے کئی مردوں نے گالیاں دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کو ہم بتاتے ہیں کہ آوارہ کہلانا کیا ہوتا ہے۔' حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی نے بتایا کہ فیس بُک پر ایک صفحہ چلایا جارہا ہے جس کی دیکھ بھال ایک سیاسی جماعت کے ہاتھ میں ہے۔ 'اس پیج کے ذریعے چند مشہور ہونے والے بینرز پر لکھے ہوئے الفاظ کو فوٹو شاپ کے ذریعے نہایت ہی فحش زبان میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اس سے ہمیں مزید خطرات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے کیونکہ وہ بھی وائرل ہورہے ہیں۔ عورت مارچ میں شرکت کرنے کے بعد میرے ذاتی فیس بُک پیج پر مجھے گالیوں بھرے پیغامات کے ساتھ ساتھ مجھ پر تیزاب پھینکنے کی دھمکی دی جارہی ہے۔' عورت مارچ منتظمین کی جانب سے اس وقت فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کو ایک رپورٹ بھیجی گئی ہے جس میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق کم از کم 15 خواتین کی طرف سے فیس بُک اور مختلف ویب سائٹ سے موصول ہونے والی دھمکی آمیز مواد کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے عورت مارچ کی ایک منتظم نے بتایا کہ 'زیادہ تر دھمکیاں مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے آرہی ہیں جن میں ہمیں جان سے مارنے کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ ریپ کرنے کی دھمکی دی جارہی ہیں۔' اس قسم کی دھمکیاں ملنے کی زیادہ تر شکایات اب تک سندھ کے شہر کراچی سے موصول ہورہی ہیں۔ اس کے بعد حیدرآباد، لاہور اور پشاور میں خواتین کو آن لائن تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عورت مارچ منتظمین کے مطابق پاکستان کے مختلف چھوٹے شہروں میں عورت مارچ کا نام استعمال کرنے کے بجائے 'وومن ڈیموکریٹک فرنٹ' اور 'ہم عورتیں' جیسے نام استعمال کیے گئے تاکہ ان کو مشکلات کا سامنا نہ ہو اور وہ اپنی مرضی کے مطالبات بھی سامنے لاسکیں لیکن عورت مارچ پر ہونے والی تنقید کے نتیجے میں ان خواتین کو اپنی برادریوں میں اب تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں عوامی ورکرز پارٹی کی ایک رکن کے خلاف ان کی ہی پارٹی کے ایک رکن نے جماعت کی سینٹرل کمیٹی میں شکایت اس بنیاد پر درج کی کہ 'ان کی اس مارچ میں شمولیت پارٹی کے اخلاقی دائرے کی خلاف ورزی ہے۔' خیبر پختونخواہ اسمبلی میں عورت مارچ کے خلاف قراردار پیش اسی ماہ کی 20 تاریخ کو خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی میں متحدہ مجلسِ عمل کی ریحانہ اسماعیل نے عورت مارچ کے خلاف ایک قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا کہ مارچ کے ذریعے خواتین نے 'فحش نعرے لگائے' اور ان کے خلاف وفاقی حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ ان 'درپردہ قوتوں کے خلاف کاروائی کرے۔' اس قرارداد پر دستخط کرنے والوں میں ایم ایم اے کی خواتین کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی خواتین بھی شامل تھیں جن کو کافی تنقید کا سامنے کرنا پڑا۔ صوبائی اسمبلی کی پہلی خاتون ڈپٹی سپیکر مہر تاج روغانی بھی اسمبلی میں پیش ہونے والی قرارداد کے بارے میں مثبت رائے رکھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ قرارداد ٹھیک ہے۔ 'فحش زبان ہماری ثقافت کا حصہ نہیں ہے اور اس طرح کی زبان استعمال کرکے ہم اپنے مقاصد کے خلاف جارہے ہیں۔ ہم نے گھریلو تشدد کے خلاف بِل منظور کروایا۔ اس کا سدِ باب تو ہونے دیں۔ یہ کہنا کیسی بات ہوئی کہ میرا جسم میری مرضی؟ ہمارا مذہب اور ثقافت ان باتوں کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمیں اپنے دائرے میں رہنا چاہیے۔‘ اس حوالے سے حکومتی ذرائع بتاتے ہیں کہ اب تک پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے سندھ سے تعلق رکھنے والے عورت مارچ کے چند منتظمین اور انسانی اور سماجی حقوق پر کام کرنے والے افراد نے ملاقات کی جس میں بلاول بھٹو نے ان کو 'تسلی دیتے ہوئے مکمل تعاون کی امید دی ہے۔' یاد رہے کہ چند روز قبل سندھ اسمبلی میں ایم ایم اے کے رکن سید عبدالرشید نے بھی قرار داد پیش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکی۔ 'اگر کچھ ہو تو ون فائیو کو فون ضرور کیجیے گا' لیاری سے تعلق رکھنے والے صحافی نے بلاول بھٹو سے ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ملاقات حکومتی ارکان کے علاوہ پولیس افسران سے بھی ہوئی۔ 'مجھ سے کہا گیا کہ آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اور آپ کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔ لیکن مجھے باہر چھوڑتے ہوئے ڈی آئی جی پولیس نے کہا کہ اگر کوئی حملہ کرے تو ون فائیو کو ضرور فون کرنا۔' انھوں نے بتایا کہ ان کے خلاف مساجد میں خطبات چلنے کے بعد اُسی روز ایک خط بھی موصول ہوا جو ان کے علاوہ لیاری میں موجود علما، مختلف مساجد کے امام اور مختلف برادریوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کو بھی بھیجا گیا تھا۔ اس خط میں ان صحافی کے علاوہ سماجی اور انسانی حقوق پر کام کرنے والے چند اور افراد کا بھی نام لیا گیا اور کہا گیا کہ 'غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے والے ان افراد کے خلاف قرآن و حدیث کے مطابق قدم اٹھایا جائے کیونکہ انھوں نے اپنے بینر میں 'میرا جسم میری مرضی جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔' لیاری سے تعلق رکھنے والے صحافی صرف صحافت ہی نہیں بلکہ خواتین اور خاص کر بچیوں کے فلاح کے لیے ایک کیفے چلاتے ہیں جس میں لڑکیوں کو تعلیم کے علاوہ، سائیکل چلانے، نئی زبانیں سیکھنے اور دیگر فن سکھائے جاتے ہیں جو ان بچوں کے والدین کہیں اور سکھانے کی سکت نہیں رکھتے۔ لیکن عورت مارچ پر ہونے والی تنقید اور منتظمین کو دھمکی آمیز پیغامات ملنے کے نتیجے میں والدین اب اپنی لڑکیوں کو کیفے بھیجنے سے کترا رہے ہیں۔ 'اس بار جو انگریزی کی کلاس ہوئی اس میں صرف 13 لڑکیاں تھیں جبکہ ہمارے کیفے میں کافی بڑی تعداد ہوتی ہے۔' انھوں نے کہا: 'آپ اسی سے تحریک کے مستقبل کا اندازہ لگالیں۔ کل کو اگر لوگوں نے اس نوعیت کے مارچ میں شامل ہونے سے ڈر محسوس کیا تو مجھے بذاتِ خود اس بات کا بہت افسوس ہوگا کیونکہ اس مارچ کے پیچھے ایک اچھی سوچ ہے۔' لیاری سے منسلک صحافی کا کیس سامنے لانے میں سماجی حقوق پر کام کرنے والی کارکن اور ایسوسییٹ پروفیسر ندا کرمانی پیش پیش رہی ہیں۔ عورت مارچ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'ہم سب کو اس بات کا علم تھا کہ کچھ حد تک ردّعمل سامنے آئے گا جیسا کہ پچھلے سال کے عورت مارچ کے بعد ہوا۔ لیکن جہاں پچھلے سال تنقید سوشل میڈیا تک محدود تھی وہیں اس سال اس تنقید میں ایک شدت کا عنصر موجود ہے۔' انھوں نے کہا: 'اب تک کوئی پرتشدد واقعہ پیش نہیں آیا ہے لیکن سوشل میڈیا اور مختلف حلقوں کی جانب سے سامنے آنے والی شدید تنقید کے باعث عورت مارچ سے جُڑے بہت سے لوگ ایک غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں۔' پروفیسر ندا نے کہا کہ اس طرز عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مارچ نے صنفی اقدار کے بارے میں موجودہ خیالات اور روایات کو چیلنج کیا ہے اور یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اس ملک میں پدرشاہی نظام کتنا منظم اور غیر لچکدار ہے۔
080317_iraq_killed_sen
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2008/03/080317_iraq_killed_sen
کربلا: خاتون بمبار حملہ، 42 ہلاک
عراقی محکمۂ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے لیے مقدس شہر کربلا میں ایک خاتون خود کش بمبار کے حملے میں کم از کم بیالیس افراد کو ہلاک اور اٹھاون کو زخمی ہوئے ہیں۔
عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ دھماکہ امام حسین کے روضہ کے قریب ایک کیفے میں ہوا اور دھماکے کے نتیجے میں لاشیں سڑک پردور دور تک بکھر گئیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سات ایرانی بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے بھی اس مقدس شہر کو ہوناک بموں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور گزشتہ اپریل میں ہونے والے دو بم دھماکوں کے دوران سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حکام اس دھماکے کی ذمہ داری کا شک القاعدہ کے سرکشوں پر کر رہے ہیں لیکن اب کسی نے بھی اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ اس دوران عراق کے دارالحکومت بغداد کے ایک فٹبال گراؤنڈ نامعلوم سرکشوں کے ایک دھماکے میں پانچ افراد ہلاک اور سات زخمی ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ بغداد میں اور نواح کے دیگر واقعات میں دو عراقی شہری اور دو امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ دھماکے اور ہلاکتیں اس وقت ہوئی ہیں جب امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی عراق کے سرکاری دورے پر پہنچے ہیں۔
051018_mushraf_loc_yourviews
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2005/10/051018_mushraf_loc_yourviews
'ایل او سی کھولنے پر تیار ہیں'
پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ زلزلے کے بعد لوگوں کوتعمیر نو اور اپنے عزیزوں سے ملاقات کے لیے کنٹرول لائن عبور کرنے کی سہولت میسر ہونی چاہیے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید قصوری نے بی بی سی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ یہ تجویز امدادی کارروائیوں سے مشروط نہیں ہے۔ ادھر بھارتی وزارت خارجہ نے صدر مشرف کے اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت بھی چاہتا ہے کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف رہنے والے لوگ آسانی سے ایک دوسرے سے مل سکیں اور ایک دوسرے کی مدد کر سکیں۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے اس بیان اور بھارتی رد عمل پر آپ کی کیا رائے ہے؟ ایسے وقت پر جب کشمیر کو ایک بہت بڑے سانحے کا سامنا ہے آپ کے خیال میں کیا دونوں ممالک کو اپنے روایتی مواقف ترک کرکے لائن آف کنٹرول پر نرمی کرنی چاہیے یا سرحد کھول دینی چاہیے؟ ہارون رشید، سیلاکوٹ، پاکستان:یہ وقت سیاست کرنے کا نہیں ہے، انسانیت کو بچانے کا ہے۔ جماعت اسلامی والوں کے خدشات اپنی جگہ، لیکن ہمیں اس وقت کشمیریوں کو بچانا ہے اور اس کے لیے ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں اور ویسے بھی ایل او سی کشمیر کے درمیان ہے اور دونوں طرف کشمیری رہتے ہیں۔ اس بات سے ہمیں ڈرنا نہیں چاہئے کہ پاکستان کی سالمیت کو کچھ خطرہ ہو گا۔ پاک فوج اس کو کنٹرول کر سکتی ہے۔ سعد طارق، صادق آباد، پاکستان:شاید میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں ان کو بیان کر کے اپنے دکھ اور تکلیف کا اظہار کر پاؤں، پر میں بھی تو ایک پاکستانی ہوں۔۔۔ہم آج زندہ مثال ہیں پوری دنیا کے لیے ایک متحد قوم کی۔ اور ایل او سی کھول دینی چاہیے۔ یہ ایک اچھا قدم ہے کیونکہ آج ہمارے کئی بھائی بہن وہاں ہماری راہ دیکھ رہے ہیں اور ہم یہاں ان کے لیے رات دن دعاوں میں مصروف ہیں۔ این خان، ہالینڈ:بہت اچھی بات ہے۔ اس مشکل وقت میں اگر کوئی ملک بھی مدد کرے ہم پاکستانیوں کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ انڈیا اگر مدد کر رہا ہے تو اچھی بات ہے۔ جماعت اسلامی کو اگر اعتراض ہے تو وہ ان کو ہر بات پر رہتا۔ جو اس ہنگامی حالت میں ہماری مدد کرے وہ ہمارا دوست ہے، بس۔ عارف قریشی، ٹنڈو محمد خان، پاکستان:دونوں ممالک ہمسایہ ہیں، ایک دوسرے کا دکھ سمجھ سکتے ہیں۔ اس سے بہتر اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ ایل اوسی کے پار سے مدد آئے یا اسرائیل مدد دے۔ میں اس کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ اس مصیبت کی گھڑی میں کوئی ہماری مدد کرے اللہ ان کو خوش رکھے۔ پاکستان مصیبت میں ہے۔ اگر کوئی بھی مدد کرتا ہے اسے ضرور قبول کرنا چاہیے۔ یہی وقت کی نزاکت ہے۔ لائن آف کنٹرول ایک لکیر ہی تو ہے۔ اس کا رشتے ناتوں سے کیا تعلق؟ ختم ہونی چاہئیں یہ ساری بندشیں۔ ڈاکٹر بشارت امین کٹھو، ٹنگمرگ، باراملہ، کشمیر:میں اس قدم کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ اس سے شاید بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی برسوں سے چلنے والے کشمیر تنازعہ کا کوئی حل نکالا جا سکے۔ ایچ رضوان نجیب، لاہور، پاکستان:یہ بالکل غلط ہے۔ پاکستانی کافی ہیں ہمارے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے۔ ہمارے حکمران بدعنوان ہیں۔ جب فوج بھی بدعنوان حاکموں کے تحت ا جاتی ہے تو فضول بن جاتی ہے۔ ناثر رشید، چترا، پاکستان:تمام لوگ جو کشمیر میں امداد بھیج رہے ہیں ان کا بہت بہت شکریہ۔ امداد ٹھیک سے تقسیم نہیں ہو رہی۔ پاک فوج اورحکومت کو چاہیے کہ وہ ہر گاوں میں اپنا کیمپ بنائے تاکہ امداد کی تقسیم صحیح طرح سے ہو سکے اور زلزلے سے ہونے والے نقصان کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے۔ ریاض ڈیرہ مٹنگ، گلگت، پاکستان:میرے خیال سے یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ اس طرح جو لوگ بچھڑے ہوئے ہیں، آپس میں مل سکیں گے اور خاندان آپس میں اپنا دکھ درد بانٹ سکین گے۔ یوسف، اسلام آباد، پاکستان:بات یہ ہے کہ جو بھی تھا اصل میں اللہ کی طرف سے تھا۔۔۔ اور اب ہمیں سارے مسلمانوں کو سچے دل سے توبہ کرنی چاہیے اور اللہ سے دعا کرنی چاہیے تاکہ آگے ایسا نہ ہو۔سید سجاد رضوی، امریکہ:میرے خیال میں یہ صدر صاحب کا انتہائی غلط فیصلہ ہے۔مجھ کو اس زلزلے کی آڑ میں کچھ اور ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہ ایل او سی کھولنا اور انڈین آرمی کا اس طرف آنا پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ صدر صاحب ملک کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ محمود خاطب، نامعلوم:میرے خیال میں یہ ایک صحیح قدم ہے۔ مگر اس سے زیادہ خطرناک۔ انڈیا سے ہیلی کاپٹر نہیں لیے۔ اس طرح تو بے شمار انڈین جاسوس آ سکتے ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو وہ بھی صحیح ہے۔ میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ انڈین جو کہ اپنے تھوڑے سے زخمیوں تک امداد نہیں پہنچا سکتا، ہماری مدد کرنے میں پرخلوص نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی گیسچر ہے۔ عرفان صادق، میرپور:اگر لائن آف کنٹرول کو کھول دیا جائے تو دونوں طرف کے کشمیری ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنے میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کو سہارا دے سکتے ہیں۔ ریاض، گلگت:میرے خیال میں یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ اس طرح جو لوگ بچھڑے ہوئے ہیں آپس میں مل سکیں گے۔ اور خاندان آپس میں انپنا دکھ درد بانٹ سکیں گے۔ اس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ دونوں ممالک امن کی جانب سنجیدہ ہیں۔ ثاقب حسن خان، راولپنڈی:بات یہ ہے کہ جہاں انڈیا سے مقابلے کی بات آتی ہے تو یہ لوگ کارگل تک پہنچ جاتے ہیں اور یہاں کشمیر میں کچھ نہیں کررہے ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ جو لوگ شہید ہوئے ہیں ان کی صحیح تعداد کو چھپایا جارہا ہے۔ شیخ محمد یحیٰ، کراچی:لائن آف کنٹرول میں نرمی پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انڈیا اور پاکستان سب سے پہلے کشمیر کی سرحد پر سے اپنی فوج واپس بلوائیں اور ان دونوں ممالک کی افواج کی جگہ یو این او کی فوج تعینات کی جائے۔ اس اقدام سے دونوں ممالک کے عوام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ امداد پہنچانے میں آسانی ہوگی۔ ریاض خان، جدہ:میرے خیال میں اگر پاکستان انڈین آفر کو قبول کرلے تو لوگوں کی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ سید نقوی، لاہور:دیکھیں یہ وقت ہے محبت کو عام کرنے کا اور محبتوں کو سرحدوں کی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔۔۔ رضوان خان، کراچی:آپ کس انڈیا کی بات کررہے ہیں جو لائن آف کنٹرول میں نرمی کرے، میں نہیں سمجھتا، یہ وہ انڈیا ہے جس نے قیامِ پاکستان کے وقت لاکھوں مہاجرین کو قتل کیا، آپ اس سے کیا امید کررہے ہیں؟ محمد اشرف، بحرین:ہندوستان اپنے زیرتسلط کشمیر کے لوگوں کی جانیں تو بچا نہیں سکا، وہ آزاد کشمیر کے لئے کیا کرے گا؟ بس سب سیاسی بیان بازی ہے۔ قراۃ العین حیدر، پاکستان:آج جو کچھ بھی ہمارے شمالی علاقہ جات کے ساتھ ہوا اگر میں یہ کہوں کہ یہ زلزلے کا نتیجہ نہیں ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا اور اگر یہ زلزلہ ہی تھا تو یہ کون سے پہاڑیوں کا سلسلہ تھا جو کہ پوری کی پوری بستیاں لے ڈوبا؟ کہیں یہ کوئی ایسی معاملہ تو نہیں جس میں کوئی مفاد شامل ہو ہماری حکومت کا؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی ایسی جگہ پر زلزلہ آئے جہاں کے پہاڑ صدیوں سے سوئے ہوئے ہیں؟ اور پھر کوئی ایسا زلزلہ نہیں جو صرف زمین کو ہلاکر گیا ہو بلکہ یہ تو ایک ایسا زلزلہ تھا کہ یہ سب تباہ کر گیا۔۔۔۔ عرفان صادق، میرپور:لائن آف کنٹرول میں نرمی میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس مسئلے پر سیاست بالکل نہیں ہونی چاہئے۔ اس وقت متاثرین کو صرف اور صرف فوری امداد کی ضرورت ہے۔ اسجد سردار، نیو یارک:ہاں، اگر اس سے لوگوں کی جان بچ سکتی ہے تو ہمیں مزید ڈِسپلین کی ضرورت ہے تاکہ ریلیف آپریشن کو منظم بنایا جاسکے۔ عالمگیر بیگ، سویڈن:پتہ نہیں پاکستان گورنمنٹ کی کس قسم کی پالیسی ہے، اتنے لوگ مارے گئے، مزید کی جان کو خطرہ ہے، جان کو بچانا ہو تو حرام بھی حلال ہوجاتا ہے۔ مگر ہماری پاکستان کی ہٹ دھرم گورنمنٹ کو صرف اور صرف انڈیا سے ہی دشمنی ہے۔ کم سے کم مجھ کو سمجھ نہیں آتی ان لوگوں کی۔ آصف ملک، پیرس:لائن آف کنٹرول کو نرم کرکے لوگوں کی جان بچانی چاہئے کیوں کہ سب سے پہلے انسانیت ہے اور بعد میں سیاست۔ لیکن میرا خیال یہ ہے کہ سب انڈیا کا ڈرامہ ہے۔ انڈیا ایسا کرے گا نہیں، وہ بس دنیا کے سامنے اپنی پوزیشن صاف کرنا چاہتا ہے، حالانکہ مقبوضہ کشمیر میں ابھی اس نے کوئی خاص امداد نہیں کی لوگوں کی۔ محمد مہربان، ہانگ کانگ:میری رائے تو یہ ہے کہ اس مشکل گھڑی میں کنٹریز کو مل جل کر کام کرنا چاہئے کیوں کہ نقصان دونوں طرف ہوا ہے۔ اگر جس وقت زلزلہ آیا تھا اس وقت دونوں ممالک اپنے اختلاف بھلاکر مل کر کام کرتے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کتنی ہی زندگیاں بچاسکتے تھے۔ ذیشان حامد ثانی، سیالکوٹ:میں کافی پریشان ہوں اور دکھی ہوں۔ میں کچھ کھا نہیں سکتا، اور ہر بار جو زلزلہ آتا ہے تو میں وہ وقت اور دن نہیں بھول سکتا۔ میں اپنے مسلم بھائیوں اور بہنوں کے بارے میں فکرمند ہوں۔ جاوید کشمیری، بیجنگ:میں پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے ضلع باغ گاؤں دھرے کا رہنے والا ہوں، میرے ضلع میں ابھی تک کوئی امداد نہیں پہنچی، لوگ ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔۔۔۔ نوید نقوی، کراچی:انڈین وزیراعظم کا یہ بیان صرف اور صرف ایک سیاسی بیان ہے۔ وہ لوگ کیا آزاد کشمیر کی مدد کریں گے جن کے ہاتھ خود کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ جہاں تک بات ہے لائن آف کنٹرول کو نرم کرنے کی تو اس پر پاکستان سے زیادہ خود انڈیا کو سوچنا چاہئے کیوں کہ پاکستان خود چاہتا ہے کہ یہ مسئلہ حل ہوجائے۔ مگر انڈیا ایسا نہیں چاہتا۔ جو کنٹری اقوام عالم کی رائے کا احترام نہ کرے وہ کسی کی مدد کیا کریں گے؟ طارق محمود، سرگودھا:جو عذاب آنا تھا وہ آکر رہا۔ اس ٹاپِک پر سیاست تو کی جاسکتی ہے، اس وقت کسی کی دلجوئی نہیں، کوئی فائدہ نہیں۔ شریف لون، کوالالمپور:یہ حقیقت میں بدقسمتی ہے یہ جان کر بی بی سی یا سی این این میں کسی نے بھی انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے تنگدار علاقے کی کوئی کوریج نہیں کی جہاں مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق نوے فیصد مکان تباہ ہوگئے۔ تنگدار سے بیرونی دنیا کا فون کے ذریعے کوئی رابطہ نہیں ہے، گرچہ مقامی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ سیٹلائٹ فون قائم کیا گیا ہے۔انڈین وزیراعظم کے ذریعے ریلیف پیکج کا اعلان بھی سرینگر یا دہلی سے شروع ہوتا ہے۔ سب سے غریب لوگ جو موت کو دھوکہ دینے میں کامیاب رہے اب آنیوالی سردی میں موت کا سامنا کرنے والے ہیں۔ شریف خان، فرینکفرٹ:لڑنے سے کچھ نہیں بنتا۔ انڈیا اور پاکستان کو لائن آف کنٹرول نارمل کرنا چاہئے اور کشمیری بہن بھائیوں کی مدد کرنی چاہئے۔ سلیم خان، پشاور:بالکل، لائن آف کنٹرول کو ختم کردینا چاہئے اور لوگوں کو بچانا چاہئے۔ طاہر کریول، اسلام آباد:لائن آف کنٹرول میں نرمی کی بجائے اسے مستقل بنیادوں پر ختم کرکے بھی ممکن ہو تو بھی انسانوں کی جانیں بچانا چاہئے۔ یہ دور جاہلانہ دشمنی کا نہیں، پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بھی رہ سکتے ہیں۔ صرف ملا اور آرمی اپنا رزق بند ہونے کے خطرے پر کشمیر کو خواہ مخواہ کا مسئلہ بناکر لوگوں کی زندگیاں کھیل رہے ہیں۔ اب انہیں محنت کرکے کمانا چاہئے اور مظلوم کشمیریوں کی جانوں کی قیمت نہیں وصول کرنا چاہئے۔ شوکت پیر، شاہ نور پُل:لائن آف کنٹرول کو بالکل کھول دینا چاہئے، بلکہ زلزلے کے پہلے دن ہی کھول دینا چاہئے تھا۔ امان اللہ خان آغا، ناظم آباد:زلزلے کسی بھی ملک میں آئیں، یہ اللہ کا ایک عذاب ہے، ہمیں اللہ سے توبہ کرنی چاہئے اور اپنے عملوں کو درست کرنا چاہئے۔ چاند بٹ، جرمنی:لائن آف کنٹرول کو کھولنے یا نہ کھولنے کا کوئی فائدہ نہیں، کیوں کہ عوام کی حکومت ہوتی ہے تو عوام کا خیال بھی رکھتی۔ آرمی کے ہیلی کاپٹر کہاں ہیں؟ پاکستانی بچیں گے تو پاکستان بچے گا۔ آرمی سے پاکستان کبھی نہیں بچے گا۔ پاکستانیوں کی جانوں کو بچاؤ چاہے کچھ بھی ہو۔ عمران احمد، کراچی:پاکستان کی سیاست کا مہور ہے: تنازعہ ہمیشہ قائم رہے۔ تاکہ اس پر بیٹھ کر سیاست کی جاسکے۔ جب ساری دنیا کا نقشہ گوگل نے ویب سائیٹ پر رکھ دیا ہے تو ابھی بھی کچھ بیوقوف کہتے ہیں کہ انڈین ہیلی کاپٹر پاکستانی علاقے کے پِکچر لے لیتے اگر ان کو ریلیف آپریشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی جاتی۔ آزاد کشمیر کے وزیراعظم، شوکت عزیز کا کشمیر میں اتنی چاپلوسانہ مسکراہت سے اسقتبال کررہے تھے کہ خون کھول اٹھا۔ یہ وقت بھی گزر جائے گا، قوم بھول جائے گی، سیاست دان اسی وقت کے انتظار میں اپنے ڈراوِنگ روم میں بیٹھیں ہیں۔ پاکستان زندہ آباد۔ فراز قریشی، کراچی:یہ کون لوگ ہیں جو ابھی بھی انڈیا سے دشمنی کی بات کرتے ہیں؟ جب انسان ہی نہیں رہیں گے تو لائن آف کنٹرول کیسے؟ میری پاکستانی حکام سے گزارش ہے کہ اس وقت اپنی انڈیا دشمنی بھول جائیں۔ شاہد کشمیری، اسلام آباد:اگر لائن آف کنٹرول میں نرمی ہوجائے تو پاکستان کی فوج کیا کھائے گی؟ کشمیر پاکستانی پنجابی آرمی کے لئے ایک روزگار ہے۔ ہم کشمیری اپنے مادر وطن کی تقسیم سے کافی دکھی ہیں۔ ہمیں ان کی ہمدردی اور حمایت نہیں چاہئے۔ ہم صرف آزادی چاہتے ہیں۔ خدا کے لئے ہمیں اکیلا چھوڑ دیں۔۔۔۔ آصف میاں، لاہور:زلزلے سے متاثرین کی مدد کے لئے لائن آف کنٹرول میں نرمی کی ضرورت ہے۔ بعد میں اس سے غریب لوگوں کی مدد بھی ہوسکے گی، اور ڈیفنس پر پیسہ کم خرچ ہوگا۔ علیم اختر، گجرات:کیا آپ لوگ انڈیا اور 'را' پر بھروسہ کرسکتے ہیں؟ تو پھر کیوں لائن آف کنٹرول کھولنے کی بات کررہے ہیں؟ شاہد اعظم خان، برسلز:اس قیامت کی اس گھڑی میں بھی کشمیر کے سینے پر کھینچی گئی خونی لکیر اپنا اثر دکھا رہی ہے اور پاکستان اور انڈیا کے حکمران اپنی منافقانہ پالیسیوں سے کشمیری عوام کو اپنے دکھ درد میں شریک نہیں ہونے دےرہے ہیں۔ کنٹرول لائن کے دونوں طرف کشمیری عوام رہتے ہیں، نہ کہ پاکستانی یا انڈین۔ کشمیری عوام کے دکھ درد کو سمجھنے والا کوئی نہیں ہے، ہمیشہ کی طرح کشمیری عوام دو پتھروں کے درمیان پیسے جارہے ہیں۔ ارشد خان، جاپان:آپ میری رائے کبھی شائع نہیں کرتے۔ بس اتنا ہی کافی ہے۔ راجہ مجیب الرحمان، گھوٹکی:لائن آف کنٹرول پر تنازعہ ہر حال میں ختم ہونا چاہئے کیوں کہ دونوں ممالک اس چھوٹے سے ٹکڑے کے لئے سالوں سے لڑ رہے ہیں اور اس بہانے ملکی بجٹ کا پچہتر فیصد حصہ اس پر خرچ ہوتا ہے۔۔۔۔ اقبال، پاکستان:اگر لائن آف کنٹرول میں نرمی کرنے سے جانیں بچ سکتی ہیں تو ایسا کیوں نہیں کریں۔ انسانیت کو بچانا بیکار کے بحث سے کافی اہم ہے۔ اگر یہ معاملہ حساس ہے تو حکومت کو چاہئے کہ اقوام متحدہ اور این جی اوز کو اجازت دے کہ وہاں جاکر خوراک اور ادویات فراہم کرسکیں۔ عمران زاہد، کینیڈا:میرا دوست راجہ آصف جس نے مظفرآباد میں حال ہی میں ایک ٹریول ایجنسی کھولا تھا لاپتہ ہے۔ اگر کسی کو کچھ معلوم ہے تو مجھے اطلاع دے: imranzahid@hotmail.com اللہ وڑایو بزدار، گھوٹکی:اس وقت جب آزاد کشمیر پہ قیامت ٹوٹی ہے، اس کی آدھی آبادی تباہ ہوگئی ہے، ایسے وقت میں لائن آف کنٹرول کا ہونا مزید عذاب ہے۔ اس وقت لائن آف کنٹرول کو ختم کرکے دونوں حصوں کے لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے اور ایک دوسرے کے دکھ کا ساتھی بننے کا موقع ملنا چاہئے۔ زاہد مرزا، ٹورانٹو:میرے خیال میں یہ ٹائم انسانی زندگی بچانے کا تھا۔ پاکستان کو اس شرط پر قبول کرنی چاہئے تھی کہ ہیلی کاپٹر پاکستانی یا کسی فرینڈ کنٹری کے پائلٹ آپریٹ کریں گے، اس طرح بہت سی جانیں بچ سکتی تھیں۔ عمران راجپوت، کشمیر باغ:زلزلے کے متاثرہ لوگ ابھی تک کھلے آسمان تلے کھیتوں میں پڑے ہوئے ہیں، جو تارپلین آرمی کی طرف سے ملی ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ بارش کم اور اندر پانی زیادہ آرہا ہے۔ ہمارے پاس ابھی تک ایک کمبل اور صرف تارپلین پہنچی ہے، ہم روڈ سے دو سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہوں گے، جو لوگ امداد دوسرے شہروں سے لے رہے ہیں وہ بھی آرمی والے روک رہے رہیں۔ اس سے پہلے 'را' کے ایجنٹ لوٹ رہے تھے، میں آپ کو ڈیلی میل نہیں کرسکتا، اس کے لئے میں آپ سے اور متاثرین سے معذرت چاہتا ہوں۔ صغیر راجہ، سعودی عرب:انسانیت کا تقاضہ ہے کہ فی الفور لائن آف کنٹرول کو نرم کردینی چاہئے، اگر نسان ہی نہ رہا تو لائن آف کنٹرول کا کیا کرنا؟ عبدالسلام، تمیرگرہ:جس طرح موجودہ حکومت ہندوستان اور امریکہ سے ڈری ہوئی ہے اور ان سے ہر محاظ پر پسپائی اختیار کیے ہوئے ہیں، میرا نہیں خیال کہ کشمیر میں مزید ان کو کوئی دلچسپی ہے۔ ہندوستان جس چیز کے لئے اتنے سالوں سے لڑرہا ہے اس نے وہ سب کچھ پالیا ہے، مگر پاکستان سب کچھ ہارے گا اور ہار رہا ہے۔ کشمیری لوگوں کو اس زلزلہ سے سبق سیکھنا چاہئے نہ کہ اپنی زمین ہندوستان کے حوالے کردیں۔ ورنہ اللہ سب دیکھ رہا ہے اور اس سے بڑا زلزلہ بھی آسکتا ہے۔ ظفراحمد، پاکستان:یہ ایک زمینی حقیق ہے، اس لئے ممکن نہیں ہے کیوں کہ ایسے اقدام کے کئی اثرات ہوسکتے ہیں۔ جاوید اقبال ملک، چکوال:میرا خیال یہ ہے کہ جب پاکستان اسرائیل جیسے ازلی دشمن کو تسلیم کرچکا ہے تو پھر انڈیا کے ساتھ دوہرا رویہ کیوں ہے؟ ہمیں اب تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ یقینی طور پر قیمتی جانیں بچانا ضروری تھا۔ مگر ہم میں ہمیشہ 'انا' کا مسئلہ ہے۔ احسن شیخ، ٹورانٹو:اگر انسانی جان قیمتی ہے تو پھر لائن آف کنٹرول کی اہمیت نہیں ہے۔ لیکن دونوں طرف کے قاتل لیڈر کے لئے انسان سے زیادہ ان کی سیاست زیادہ قیمتی ہے۔ عامر، اسلام آباد:لائن آف کنٹرول کو کھولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔ روڈ رابطوں کی ضرورت نہیں، صرف ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ہی کافی ہے۔ اور انڈیا کے بجائے بین الاقوامی برادری پاکستان کے لئے ٹھیک ہے۔ اور ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر میں انہوں نے کیا کیا ہے کہ پاکستان کو مدد دینے کی پیشکش کررہے ہیں؟
040524_iraq_deaths_rza
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/05/040524_iraq_deaths_rza
عراق: ایک سال، پانچ ہزار ہلاکتیں
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے عراق میں لوگوں کی ہلاکتوں پر ایک جائزہ کروایا ہے جس کے مطابق ایک سال کے دوران عراق میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
اس جائزے کے مطابق صدر بش کی طرف سے بڑی فوجی کارروائی کے خاتمے کے اعلان کے بعد بارہ ماہ کے عرصے میں بغداد، کرکک اور کربلا میں پانچ ہزار سے زیادہ عراقی مارے گئے ہیں۔ جائزے کے مطابق مرنے والے عراقیوں کی یہ تعداد تین سو پچاس ماہانہ سے زیادہ ہے۔ اسی عرصے کے دوران سن دو ہزار دو میں عراق میں مارے جانے والوں کی تعداد صرف چودہ تھی۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنیسٹ انٹرنیشنل نے مارچ کے مہینے میں بتایا تھا کہ عراق پر حملے اور بعد میں وہاں قبضے کے بعد سے اب تک لگ بھگ دس ہزار عراقی شہری مارے گئے ہیں۔ مرنے والوں کی تعداد میں ہونے والے اس اضافے میں سڑکوں پر پیش آنے والا حادثات بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مرنے والوں کی اس تعداد میں مجرمانہ حملوں یا سرگرمیوں میں زندگی سے ہاتھ دھونے والے عراقی شامل ہیں۔
050114_tsunami_concert_am
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2005/01/050114_tsunami_concert_am
سونامی کنسرٹ اور ’کرائے کے قاتل‘
سونامی کے متاثرین کے لیے ہونے والے بڑے کنسرٹ کے منتظمین اس کوشش میں ہیں کہ شو کے ٹکٹ ایسے افراد تک نہ پہنچ پائیں جو انہیں انٹرنیٹ پر فروخت کرنے کی کوشش کریں گے۔
کارڈف ملینیم سٹیڈیم کے مینیجر پال سارجنٹ نے یہ ٹکٹ فروخت کر کے منافع کمانے کی کوشش کرنے والے لوگوں کو ’ کرائے کے قاتل‘ قرار دیا ہے۔ انٹرنیٹ پر خرید و فروخت کی ایک مشہور ویب سائٹ ای بے پر درجنوں ٹکٹ نیلامی کے لیے پیش کیے گئے ہیں البتہ یہ ٹکٹ بیچنے والے متعدد افراد کا کہنا ہے کہ وہ یہ رقم متاثرین کی امداد کے لیے دیں گے۔ ای بے ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ ان ٹکٹوں کی انٹرنیٹ پر دوبارہ فروخت غیر قانونی بات نہیں ہے۔ ایرک کلیپٹن، کین، سنو پٹرول، مینک سٹریٹ پریچرز، بیڈلی ڈران بوائے، جولز ہالینڈ، لبرٹی ایکس، لیمار، شارلٹ چرچ، کریگ ڈیوڈ اور ایمبریس جیسے گلوکاروں اور بینڈز سے سجے اس کنسرٹ کے ساٹھ ہزار ٹکٹ صرف تین دن میں فروخت ہو گئے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس کنسرٹ کے باعث سونامی کے متاثرین کے لیے دس لاکھ پاؤنڈ جمع کیے جا سکیں گے۔
060504_moussaoui_sentence_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/05/060504_moussaoui_sentence_fz
موساوی کو عمر قید
امریکہ میں ایک جج نے گیارہ ستمبر کے حملوں میں ملوث القاعدہ کے رکن اور دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے والے زکریہ موساوی کو عمر قید کی سزا سنائی ہے جس میں رہائی یا ’پے رول‘ کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔
عدالت کی طرف سے سزا سنائے جانے سے پہلے زکریہ موساوی نے کہا کہ امریکہ پر خدا کا عذاب نازل ہو اور اسامہ کی خدا حفاظت کرے اور ’تم اس تک کبھی نہیں پہنچ سکتے۔‘ سینتیس سالہ موساوی کولاراڈو کی انتہائی سخت سکیورٹی والی جیل میں باقی زندگی قید تنہائی میں گزاریں گے۔ فرانسیسی شہریت رکھنے والے موساوی کو بدھ کو ایک جیوری نے موت کی سزا سنائے جانے کی بجائے عمر قید سزا سنانےکی سفارش کی تھی۔ موساوی کی والدہ نے فرانسیسی حکام سے درخواست کی ہے کہ وہ موساوی کو فرانس منتقل کرنے کی بات امریکی حکام سے کریں۔ امریکی اٹارنی جنرل ایلبرٹو گونزالس نے کہا کہ اگر انہیں اس قسم کی کوئی درخواست ملی تو وہ اس پر ضرور غور کریں گے۔ گوانزالس نے عدالت کی طرف سے موساوی کو سنائی جانے والی سزا پر اطمینانکا اظہار کیا۔ استغاثہ نے ان کے لیئے یہ کہہ کر سزائے موت طلب کی تھی کہ ’ان کے لیئے اس اچھی زمین پر کوئی جگہ نہیں ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ عدالت نے انضاف کیا۔ نیویارک کے میئر روڈولف گولیانی نے کہا کہ وہ سزائے موت نہ سنائے جانے پر مایوس ہیں۔
151209_urdu_conference_karachi_sh
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2015/12/151209_urdu_conference_karachi_sh
ٹی وی ٹاک شوز بھی بہت بڑے ڈرامے ہیں‘
پاکستان کے نامور اداکار مصطفیٰ قریشی نے کہا ہے کہ ٹی وی چینلز پر سیاستدانوں کے ٹاک شوز بھی بہت بڑے ڈرامے بن گئے ہیں جن میں مکالمہ، ڈرامہ، کلائمکس اور سب کچھ ہوتا ہے۔ یہاں فنون لطیفہ کے حوالے سے کوئی اکیڈمی یا ادارہ نہیں ہے جس کی وجہ سے اداکاروں کی سیکنڈ لائن نہیں بن سکی جس وجہ سے آج فنون لطیفہ تنزلی کا شکار ہے۔
مصطفیٰ قریشی نے کہا کہ پاکستان میں متوازی سینما قائم کرنے کی ضرورت ہے فلم، ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے سینئر اداکار مصطفیٰ نے ان خیالات کا اظہار بدھ کو کراچی آرٹس کونسل میں جاری عالمی اردو کانفرنس کے پروگرام اردو ڈرامہ و فلم کے موضوع پر صدارتی خطاب کر تے ہوئے کیا۔اس کانفرنس میں بھارت سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے اردو کے دانشوروں اور ادیبوں نے شرکت کی۔ مصطفیٰ قریشی نے کہا کہ پاکستان میں متوازی سینما قائم کرنے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر فلمی تعلقات قائم کیے جائیں اور پاکستانی فلمیں بھی بھارت میں ریلیز ہوں۔ مصطفیٰ قریشی نے کہا کہ پاکستان میں کوئی کلچرل پالیسی نہیں ہے جس کی وجہ سے فلم اور ڈرامے کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ ۔اس کانفرنس میں بھارت سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے اردو کے دانشوروں اور ادیبوں نے شرکت کی کانفرنس کے مقررین نے پاکستان کے ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے ڈراموں اور لکھاریوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین نے کہا کہ آج ٹی وی چینلز سے سکرپٹ ایڈیٹر غائب ہو گئے ہیں اور ڈرامے کی سلیکشن مارکیٹنگ کے لوگ کرتے ہیں اور یہی ڈرامے کی ناکامی کی بڑی وجہ ہے۔ اردو اور سندھی زبان کی ڈرامہ نویس نور الہدیٰ شاہ کا کہنا تھا کہ کہ آج ڈرامہ اردو کی کوئی خدمت نہیں کر رہا پی ٹی وی کا ڈرامہ رائٹر ادب سے آتا تھا مگر آج حالات اس کے برعکس ہیں پہلے ڈرامہ رائٹر بہتر گھروں سے آتے تھے جبکہ آج کل کے ڈرامہ نویس اپنا گھر چلانے کے لیے آتے ہیں ٹی وی چینلز کے مالکان اور پروڈیوسرز انھیں مواد فراہم کرتے ہیں اور وہ ٹوٹی پھوٹی اردو میں کمرشل بنیادوں پر کام کر کے اپنا کچن چلاتے ہیں۔ نامور ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید نے کہا کہ اردو صرف زبان ہی نہیں بلکہ دونوں میڈیم کے لیے بہت اہم چیز ہے۔ گیت اور فلم اردو میں ہی لکھے جاتے ہیں ماضی میں انڈیا نے ہمارے ڈراموں کو کاپی کیا آج ہم فلم اور ٹیلی وژن دونوں میڈیا کا صحیح استعمال نہ کر کے گھاٹے میں جا رہے ہیں۔ اس سے قبل اردو تنقید کا معاصر منظر نامہ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ہندوستان سے آئے ہوئے دانشور ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی نے کہا کہ ہندوستان میں تنقید حقارت کے لیے لکھی جاتی ہے جبکہ پہلے تنقید کو ایک سائنسی پہلو سمجھا جاتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ تنقید کی صورتحال ہندوستان اور پاکستان دونوں میں ہی کوئی امید افزہ نہیں ہے اب تنقید ڈکٹیٹ کر رہی ہے۔ یونیورسٹیوں میں تحقیق و تنقید کے مضامین لکھے جاتے ہیں لیکن ان کی صورتحال بھی کوئی خاص قابل ذکر نہیں سمجھتی جاتی۔ کانفرنس میں’اردو کے پاکستان کی دیگر زبانوں سے رشتے‘ کے موضوع پر بھی نشست منعقد کی گئی، جس سے خطاب کرتے ہوئے نامور ادیب مظہر جمیل کا کہنا تھا کہ زبانوں کا معاملہ انسانی معاشروں کی طر ح ہے، زبانیں ایک دوسرے سے مل کر ترقی کرتی ۔ ان کے مطابق مظہر جمیل نے مزید کہا کہ سندھی اور اردو زبان کے 3 سے 4 سو سال پرانے رشتے ہیں جو مزید مضبوط ہورہے ہیں۔ آخری اجلاس میں بین الاقوامی شہرت یافتہ ستار نواز استاد رئیس خان اور ان کے صاحبزادے فرحان رئیس خان نے ستار پر پرفارم کیا سندھی دانشور امداد حسینی نے کہا کہ زبانیں کبھی آپس میں نہیں لڑتیں بلکہ زبانیں بولنے والے لڑتے ہیں زبانوں کا آپس میں کوئی تنازع نہیں تو انھیں آگے بڑھنے دیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر قاسم بگھیو کا کہنا تھا کہ زبان کی طاقت مذہب سے زیادہ ہے۔ زبانوں اور مذہب کا فیصلے نافذ نہیں ہوتے رائج کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان کو سب سے زیادہ نقصان اردو کے دوستوں نے پہنچایا ہے۔ کانفرنس میں تین کتابوں کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی، جن میں کشور ناہید کی کتاب ’مٹھی بھر یادیں‘، ش فرخ کی کتاب ’مدار‘ اور مرحوم مصدق سانول کا مجموعہ ’یہ ناتمام زندگی جو گزری‘ شامل ہیں۔ مصدق سانول کے دوست اداکار و ہدایتکار خالد احمد نے شرکا کو بتایا کہ انھوں نے مصدق کے ساتھ بہت وقت گزارا ہے لیکن وہ اس کی شاعری کے فن سے ناواقف تھے وہ ان کو ایک ڈائریکٹر، ڈرامہ رائٹر، ایکٹر اور موسیقار کی حیثیت سے جانتا تھا۔ خالد احمد نے اس موقع پر مصدق سانول کی منتخب نظمیں بھی حاضرین کو سنائیں۔ آخری اجلاس میں بین الاقوامی شہرت یافتہ ستار نواز استاد رئیس خان اور ان کے صاحبزادے فرحان رئیس خان نے ستار پر پرفارم کیا۔
040112_womeninnews_smana_3
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/guest/story/2004/01/040112_womeninnews_smana_3
بارہ جنوری: 1703خواتین قیدی
ہمیشہ کی طرح آج بھی اخباروں کے پڑھنے سے یہ لگتا ہے کہ خواتین سے متعلق خبریں اس طرح نہیں پیش کی جارہی ہیں جیسے کی جانی چاہئیں۔ ہفتے کے روز اخبار دن نے اس خبر کو تو شامل کیا تھا کہ نازیبا حرکت کرتے ہوئے لڑکا اور لڑکی گرفتار، مگر اسی اخبار میں کسی اور خبر کو جگہ نہیں دی گئی ہے جو عورتوں کے خلاف ہونیوالے جرائم سے تعلق رکھتی ہو۔
جیو ٹیلی ویژن نے ایک خبر نشر کی ہے جس کے مطابق شائستہ عالمانی کو سرکاری ملازمت اور مکان کی پیشکش کی گئی ہے۔ ایم این اے شیری رحمان نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ حکومت قبائلی علاقوں میں ایسی رسومات کے خلاف سخت اقدامات کرے گی جن کی وجہ سے شائستہ عالمانی جیسی عورتوں کو اس کے قبیلے والے یا تو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں یا پھر انہیں بیچ دیا جاتا ہے۔ شائستہ کے کیس کو آج کے اخبارات میں کسی حد تک مکمل تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ روزنامہ دن کے ومین اور کِڈز کارنر نامی کالم میں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ آج کل شادی کے نام پر عورت کا سودا ہورہا ہے اور شادی ایک ڈِیل یعنی بِزنس اور منافع بخش کاروبار بن گئی ہے، جس میں نقصان صرف لڑکی کا ہوتا ہے جو کبھی بھی چولہا پھٹنے سے مرتی ہے، تو کبھی تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ اخبار جنگ نے ایک صفحہ پر مبنی خواتین ایڈیشن میں ایک خبر شائع کی ہے کہ جیل اسٹاف میں خواتین افسروں کی تقرری کی گئی ہے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں چھیاسی جیل ہیں جن میں ایک ہزار سات سو تین خواتین قید ہیں جو کہ اخباری رپورٹ کے مطابق ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہیں۔ جیل جیسی جگہوں پر خواتین کے مثبت کردار کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ اور رپورٹ کے مطابق خواتین افسر جیل کو اصلاحی ادارہ بنانا چاہتی ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین قیدی نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں اور طبی سہولیات سے نامحروم ہیں۔ اردو روزنامہ ایکسپریس نے شاد باغ سے دو لڑکیوں کے اغوا کے بعد زیادتی کی خبر کو شائع کیا ہے۔ میں نے آج آٹھ دس اخبار دیکھے مگر افسوس کہ کسی اخبار نے اس خبر کو مکمل طور پر پیش نہیں کیا۔ یہ خبر انتہائی سنسنی خیز انداز میں پیش کی گئی جو کہ ہمیشہ کی طرح اندرونی صفحات میں گم ہوگئی۔ روزنامہ خبریں کی پیر کی اشاعت میں ایک خبر گھریلو تشدد، جبری شادی اور والدین کی تنگ نظری سے متعلق ہے۔ اس کے مطابق لگ بھگ بارہ سو پاکستانی لڑکیاں ہر سال اپنا گھر چھوڑ دیتی ہیں اور بعض اوقات دوسرے ممالک میں جاکر پناہ لیتی ہیں۔ ان کے لئے واپسی کا راستہ صرف موت ہے۔ خبر سے یہ واضح نہیں ہے کہ لڑکیاں کیوں غائب ہوجاتی ہیں؟ اخبار نوائے وقت میں ایک رپورٹ کے مطابق جنسی کاروبار اور انسانی اسمگلِنگ کے باعث پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد اسی ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ اِنڈس ویژن ٹی وی پر آج ایک پروگرام میں نشر کیا گیا جس میں یہ موضوع اٹھا گیا کہ برتر کون؟ لڑکا یا لڑکی؟ اس لڑکے لڑکیوں نے شرکت کی۔ ان کا خیال تھا کہ لڑکے والدین کی معاشی امداد کرتے ہیں اس لئے انہیں برتری دی جاتی ہے۔ اسی پروگرام میں یہ بات بھی ابھر کر آئی کہ لڑکوں کی برتری کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ روزنامہ ایکسپریس میں آج یہ بھی خبر ہے کہ پنجاب کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پانچ خواتین کو صوبائی وزیر بنایا گیا ہے۔ خواتین کے حوالے ایسے بہت سے موضوع ہیں جن کی اشاعت سے ان کی فلاح و بہبود اور دیگر دوسرے اداروں میں ان کی کارکردگی کو سامنے لایا جاسکتا ہے۔ نوٹ: سیدہ سمانہ زہرا زیدی پنجاب یونیورسٹی میں لسانیات کی طالبہ ہیں۔ اور بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے لئے ذرائع ابلاغ میں خواتین سے متعلق مسائل پر ڈائری لکھ رہی ہیں۔ آپ اس ڈائری پر اپنی رائے دیں۔
130725_syria_killings_nj
https://www.bbc.com/urdu/rolling_news/2013/07/130725_syria_killings_nj
شام:اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک
اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ شام کی جنگ میں اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیںْ۔.
تازہ ترین اندازوں کے مطابق صرف گزشتہ ماہ ہی شام میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سات ہزار ہے۔ بان کی مون نیو یارک میں اقوامِ متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں بول رہے تھے جہاں امریکی وزیِر خارجہ جان کیری بھی موجود تھے۔ دونوں ہی رہنماؤں نے جلدی ہی اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
031024_usa_ali_am
https://www.bbc.com/urdu/forum/story/2003/10/031024_usa_ali_am
میں امریکہ کیوں آیا؟
میں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں ایم۔بی۔اے کی ڈگری حاصل کی ہے اور میں مائیکروسافٹ کا سند یافتہ آفس منیجر بھی ہوں۔ میں امریکہ جانے کا خواہشمند تھا کیونکہ اپنے خاندان والوں کے پاس جانا چاہتا تھا۔ مگر جب بھی میں نے ویزہ حاصل کرنے کی کوشش کی، امریکی سفارتخانہ نے ویزہ دینے سے انکار کر دیا۔
کسی نے مجھے بتایا کہ لاہور میں ایک ایجنٹ بارہ ہزار ڈالر کے عوض ویزہ دلوا دیتا ہے۔ میں نے اسے تین قسطوں میں رقم ادا کر دی اور ایجنٹ نے مجھے انٹرویو کی تیاری کروا دی۔ میں جعلی کاغذات لے کر ویزہ افسر کے پاس پہنچا اور مجھے تین سال کا ویزہ دے دیا گیا۔ میں امریکہ چلا آیا لیکن یہاں میں قانونی طور پر کام کر سکتا ہوں اور نہ ہی کسی کالج میں داخلہ لے سکتا ہوں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود میں بھارت سے تعلق رکھنے والے چند افراد کے پاس ملازم ہوں اور وہ مجھ سے انتہائی برا سلوک کرتے ہیں۔ مجھے نصف تنخواہ پر کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ میرے مالک جانتے ہیں کہ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔ مجھے نصف تنخواہ ملتی ہے کیونکہ میرے مالک جانتے ہیں کہ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔ رشید خاور مجھے کسی امریکی لڑکی سے شادی کرنی ہے تاکہ گرین کارڈ حاصل کر سکوں لیکن ایسی شادی پر میرے والدین رضامند نہیں ہیں۔ وہ مجھے کسی لڑکی سے دوستی بھی نہیں کرنے دیتے۔ میرا مستقبل تاریک ہوجاتا جا رہا ہے اور جب کبھی میں اپنے دوستوں کے بارے میں سنتا ہوں کہ کوئی بینک میں ملازمت کر رہا ہے اور کوئی سرکاری ملازم ہے تو مجھے احساس ہونے لگتا ہے کہ امریکہ آ کر میں نے ایک غلط قدم اٹھایا کیونکہ پاکستان میں رہ کر میں بھی اچھے خاصے پیسے کما سکتا تھا۔ نوٹ: اس آپ بیتی کے راقم امریکہ میں مقیم ہیں اور ان کے کہنے پر نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اگر آپ بھی وطن سے دور دربدری کی زندگی گزار رہے ہیں، تو ہمیں اپنی کہانی کم سے کم الفاظ میں لکھ کر بھیجئے۔ اگر آپ چاہیں گے تو ہم آپ کا نام شائع نہیں کریں گے۔
050526_pakwi_firstest
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/05/050526_pakwi_firstest
ویسٹ انڈیز:345 پر آؤٹ
پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے باربیڈوس کے شہر برج ٹاؤن کے کینسنگٹن اوول سٹیڈیم میں ہونے والے پہلے ٹیسٹ میچ کے پہلے دن ویسٹ انڈیز کی پوری ٹیم 345 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی ہے۔تفصیلی سکور کارڈپاکستان کو پہلی اننگز کھیلنے کے لیے صرف چار اوور ملے اور شاہد آفریدی اور سلمان بٹ اوپن کرنے آئے۔ دن کے اختتام تک شاہد آفریدی نے ایک چھکے کی مدد سے بارہ رنز بنائے تھے جبکہ سلمان بٹ نے پانچ رنز بنائے تھے۔ پاکستان کا مجموعی سکور بائیس رن تھا۔
میچ کی خاص بات برائن لارا کی شاندار اننگز تھی۔ لارا کے علاوہ ویسٹ انڈیز کے کپتان چندرپال نے انتہائی ذمہ دارانہ اننگز کھیلی۔ وہ 92 رنز بنانے کے بعد دانشن کنیریا کی گیند پر ایک آسان کیچ دے کر آؤٹ ہو گئے۔ ان کا کیچ بازید خان نے لیا۔ ویسٹ انڈیز کے ٹیل اینڈرز ٹیم کے سکور میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کر سکے اور یکے بعد دیگرے آؤٹ ہوتے رہے۔ پاکستان نے میچ کے شروع میں ہی ویسٹ انڈیز کے تین کھلاڑی آؤٹ کر کے میزبان ٹیم پر دباؤ ڈالا تھا، برائن لارا اور چندر پال اس کو قدرے کم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے چوتھی وکٹ کے لیے 169 رنز کی پارٹنرشپ بنائی۔ پاکستان کی طرف سے شبیر احمد، عبدالرزاق اور دانش کنیریا نے تین تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ جبکہ ایک کھلاڑی ویول ہائنڈز 28 رنز بنا کر رن آؤٹ ہو گئے۔ پاکستان کی طرف سے یوسف یوحنا یہ میچ نہیں کھیل رہے۔ وہ اپنے والد کے علیل ہونے کے باعث واپس پاکستان چلے گئے ہیں۔ کیونکہ انضمام الحق اور شعیب ملک بھی پابندی کے باعث یہ میچ نہیں کھیل سکتے اس لیے ان کی جگہ بازید خان اور یاسر حمید کھیل رہے ہیں۔ لاارا کینسنگٹن اوول میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے ویسٹ انڈین کھلاڑی بن گئے ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے پہلے آوٹ ہونے والے کھلاڑی کرس گیل تھے جو چار رنز بنا کر شبیر احمد کی ایک گیند پر عبدالرزاق کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔ اس وقت ویسٹ انڈیز کا سکور بارہ تھا۔ اور جب سکور پچیس پر پہنچا تو دوسرے نبمر پر آنے والے بیٹسمین ساروان بھی شبیر کی گیند کی ایک گیند کو کھیلنے کی کوشش میں سلپ میں بازید خان کے ہاتھوں آؤٹ ہو گئے۔ کرکٹ کی تاریخ میں تیس ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں باپ اور بیٹے نے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی لیکن اس سے پہلے ایسی مثال صرف ایک ہے جس میں تین نسلوں نے ملک کی نمائندگی کی ہو۔ باربیڈوس کی ہی رہنے والی ہیڈلی فیملی نے تین نسلوں تک ویسٹ انڈیز کی نمائندگی کی تھی۔ پاکستان کو تیسری کامیابی 45 کے سکور پر ملی جب بولنگ میں تبدیلی کر کے رانا نوید کی جگہ عبدالرزاق کو لایا گیا۔ انہوں نے 19 رنز پر سمتھ کو آؤٹ کر دیا۔ سمتھ کا کیچ یاسر حمید نے لیا۔ روایتی طور پر برج ٹاؤن کے کینسنگٹن اوول سٹیڈیم کی وکٹ تیز کھیلتی اور تیز بولروں کی مدد کرتی ہے لیکن اب ماہرین کے مطابق سپنر بھی اس پر اچھی گیند کر سکتے ہیں۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس تاریخی سٹیڈیم میں یہ آخری میچ کھیلا جا رہا ہے اور اس کے بعد اسے گرا کر ورلڈ کپ کے لیے نیا سٹیڈیم بنایا جائے گا۔ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان آج تک کل 39 ٹیسٹ میچ ہوئے ہیں جن میں سے پاکستان نے بارہ جیتے ہیں، ویسٹ انڈیز نے تیرہ جبکہ چودہ ڈرا ہوئے۔ آج تک پاکستان نے ویسٹ انڈیز آ کر ویسٹ انڈیز سے کوئی بھی ٹیسٹ سیریز نہیں جیتی ہے۔ کینسنگٹن اوول کی وکٹ پر اب تک ویسٹ انڈیز نے 41 ٹیسٹ میچ کھیلیں ہیں جن میں سے 20 جیتے، 5 ہارے اور 15 ڈرا ہوئے ہیں۔ پاکستان کی ٹیم: یاسر حمید، سلمان بٹ، شاہد آفریدی، بازید خان، یونس خان، عبدالرزاق، کامران اکمل، عاصم کمال، دانش کنیریا، رانا نوید، شبیر احمد اور شاہد نذیر بارہویں کھلاڑی ہیں۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم: کرسٹوفر گیل، ڈیون سمتھ، رام ناریش ساروان، برائن لارا، شیو نارائن، چندرپال، ویول ہائنڈز، کورٹنی براؤن، ڈیرن پاول، فیڈل ایڈورڈز، ریون کنگ، کوری کولیمور شامل ہیں جبکہ آئین بریڈشا بارہویں کھلاڑی ہیں۔
060518_azlan_shah_ak
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2006/05/060518_azlan_shah_ak
اذلان شاہ ہاکی کے شیڈول کا اعلان
پندرہویں اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کے شیڈول کا اعلان کردیا گیا ہے جس کے مطابق اٹھارہ سے پچیس جون تک کوالالمپور میں ہونے والے اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم اپنا پہلا میچ انیس جون کو ہالینڈ کے خلاف کھیلےگی۔
پاکستانی ٹیم کو گروپ بی میں رکھاگیا ہے جس میں دیگر تین ٹیمیں ہالینڈ، نیوزی لینڈ اور ارجنٹائن ہیں۔ گروپ اے آسٹریلیا، بھارت، جنوبی کوریا اور میزبان ملائیشیا پر مشتمل ہے۔ پاکستانی ٹیم دوسرا میچ بیس جون کو نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلے گی جبکہ بائیس جون کو ہونے والے تیسرے میچ میں اس کا سامنا ارجنٹائن سے ہوگا۔گزشتہ سال اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ آسٹریلیا نے جیتا تھا۔ فائنل میں اس نے جنوبی کوریا کو گولڈن گول کی بدولت شکست دی تھی۔ پاکستان نے نیوزی لینڈ کو ہرا کر کانسی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔ پاکستان کے شکیل عباسی ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے تھے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے پندرہویں اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کے لیئے بائیس مئی سے کراچی میں قومی کیمپ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
061123_mutilatin_egypt_sz
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/11/061123_mutilatin_egypt_sz
خواتین کے ختنے پر بحث
دنیا کے کئی مسلم رہنماؤں نےمصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہونے ایک کانفرس میں خواتین کے ختنوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
جامعہ الازہر کے ایک ممتاز عالم دین نے کہا ہے کہ مذہبی طور پر خواتین کے ختنوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے ایک جائزے کے مطابق دنیا بھر میں دس کروڑ سے زیادہ خواتین کے ختنے کئے گئے ہیں۔ خواتین کا ختنہ کرنا زمانہ جاہلیت کی ایک قدیم روایت ہے لیکن بعض علماء کا یہ موقف رہا ہے کہ مذہبی اعتبار سے یہ ایک ضروری عمل ہے۔ قاہرہ میں اس موضوع پر بات چیت کے لیے کانفرنس کا اہتمام جرمنی کی ایک غیر سرکاری تنظیم نے کیا ہے۔ تاکہ اس قدیم روایت کو ختم کیا جا سکے۔
entertainment-38926690
https://www.bbc.com/urdu/entertainment-38926690
امل اور جارج کلونی کے ہاں ’جڑواں بچوں کی پیدائش متوقع‘
امریکی میڈیا کے مطابق انسانی حقوق کی نمایاں وکیل امل کلونی اور ان کے ایوارڈ یافتہ اداکار شوہر جارج کلونی کے ہاں ’جڑواں بچوں کی پیدائش متوقع‘ ہے۔
امل اور جان کلونی کی شادی سنہ 2014 میں وینس میں ہوئی تھی سی بی ایس کے ایک میزبان کے مطابق جڑواں بچوں کی پیدائش جون میں ہوگی۔ اس جوڑے کے ایک اور قریبی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وہ ’بہت خوش ہیں۔‘ تاہم جارج کلونی اور امل کلونی کی جانب سے اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ امل اور جان کلونی کی شادی سنہ 2014 میں وینس میں ہوئی تھی جس میں میں ڈیمن اور بل مرے سمیت کئی نامور شخصیات نے شرکت کی تھی۔ گذشتہ ماہ اس حوالے سے افواہیں گردش کرنا شروع ہوگئی تھی جب امل کلونی کو ڈھیلے ڈھالے لباس میں دیکھا گیا تھا۔ 55 سالہ جارج کلونی نے نئی کامیاب ہالی وڈ فلموں میں کام کیا ہے اور دو مرتبہ اکیڈمی ایوارڈ جیت چکے ہیں۔ 39 سالہ امل کلونی کئی معروف مقدمات کی وکالت کر چکی ہیں جن میں یوکرینی وزیراعظم یولیا تموشنکو اور وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کے مقدمات بھی شامل ہیں۔
040525_polluted_water_na
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/05/040525_polluted_water_na
آلودہ پانی، بارہ افراد ہلاک
صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد میں اطلاعات ہیں کہ آلودہ پانی کے استعمال سے اب تک بارہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس سے قبل پولیس نے ان مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جو پینے کے لیے گندے پانی کی فراہمی پر احتجاج کررہے تھے۔
حکام کے مطابق گندے پانی کے استعمال سے ایک ہزار سے زائد افراد ہیضہ یا معدے کے دیگر امراض میں مبتلا پوگئے ہیں۔ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال کی چیف میڈیکل آفیسر نے بتایا کہ معدے کی تکالیف کے مریض اب بھی ہسپتال لائے جارہے ہیں۔ دیگر کئی ہسپتالوں نے بھی ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافے کی تصدیق کی ہے۔ پولیس نے کہا ہے کہ قاسم آباد کے ناظم اور واسا (واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی) کے ڈائریکٹر نے سندھ نیشنل پارٹی کے کارکنان کے خلاف شکایت کی تھی۔ شکایت میں کہا گیا تھا ’مشتعل مظاہرین ہمارے دفاتر میں گھس گئے اور عمارت کے احاطے میں موجود نجی اور سرکاری گاڑیوں کو نقصان پہنچایا‘۔ سندھ نیشنل پارٹی نے واسا کے دفتر کے سامنے پیر کے روز یہ مظاہرہ کیا تھا۔ واسا حیدر آباد کو پانی کی فراہمی کا ذمہ دار ادارہ ہے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ پانی آلودہ اور زہریلا ہے اور اس سے منگل کے روز تک بارہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ دریں اثناء واسا کے مینیجنگ ڈائریکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ پانی کے معیار میں بہتری آئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس پانی کے نمونے تجزیہ کے لیے لیبارٹری بھیج رہے ہیں۔
040711_bd_floods_nad
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/07/040711_bd_floods_nad
بھارت: سیلاب سے سو افراد ہلاک
بنگلادیش اور بھارت کے شمال مشرق میں مون سون بارشوں کی بعد شدید سیلابوں نے ہزاروں لوگوں کو گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔
سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ برم پتر میں سیلاب کے باعث صرف بھارت میں کم از کم ایک سو لوگ اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ بنگلادیش میں ملک کا ایک تہائی حصّہ سیلابی پانی سے متاثر ہوا ہے جس کی وجہ سے دیہاتی علاقوں میں ہزاروں لوگ باقی دنیا سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ کئی لوگوں کی ہلاکت کی خبریں بھی ہیں۔ نیپال میں حکام کا کہنا ہے کہ پچھلے ہفتہ میں سیلابی ریلوں کی زد میں آنے سے بارہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور دارالحکومت کھٹمنڈو میں تودے گرنے کی وجہ سے کئی اہم شاہرائیں بند ہو گئی ہیں۔
pakistan-56136768
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56136768
ڈسکہ ضمنی انتخابات میں پریزائڈنگ افسران کے ’لاپتہ‘ ہونے کا معاملہ، ’یہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری لگتی ہے‘
ڈسکہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نون کی جانب سے مبینہ دھاندلی کے الزامات اور '23 لاپتہ پریزائیڈنگ افسران' کے کئی گھنٹوں تک ’غائب‘ رہنے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنیچر کو جاری کیے گئے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ 20 پولنگ سٹیشنز کے نتائج پر شبہ ہے لہذا مکمل انکوائری کے بغیر غیر حتمی نیتجہ جاری کرنا ممکن نہیں ہے اور یہ معاملہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری لگتی ہے۔
ای سی پی کے مطابق این اے 75 کے نتائج اور پولنگ عملہ 'لاپتہ' ہونے کے معاملے پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ معاملے کی اطلاع ملتے ہی رات گئے مسلسل آئی جی پنجاب ،کمشنر گجرانوالہ اور ڈی سی گجرانوالہ سے رابطے کی کوشش کرتے رہے لیکن رابطہ نہ ہوا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ چیف سیکریٹری پنجاب سے رات تین بجے رابطہ ہوا اور ان کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ گمشدہ افسران اور پولنگ بیگز کی تلاش کی جائے گی لیکن بعد میں ان سے دوبارہ رابطہ ممکن نہ ہو سکا اور کئی گھنٹوں کے بعد 'تقریباً صبح چھ بجے پریزایئڈنگ افسران پولنگ بیگز کے ہمراہ حاضر ہوئے۔' ای سی پی نے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے کوتاہی برتنے پر اور پولنگ میٹریل میں ردوبدل کی صورت میں متعلقہ افسران کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ سنیچر کو ای سی پی کی جانب سے جاری کیا گیا اعلامیہ اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ نون کے سینئیر رہنما احسن اقبال نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈسکہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 میں '23 لاپتہ پریزائیڈنگ افسران کے اغوا' کی تحقیقات سامنے آنے تک نتیجہ روکیں۔ احسن اقبال نے بی بی سی کے شہزاد ملک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تو اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ 23 پولنگ سٹیشنز کا عملہ پولنگ مکمل ہونے کے بعد نتائج لے کر 'کہاں غائب ہو گیا تھا۔' 'قانونی طور پر تو ان نتائج کو ریٹرننگ آفیسر کے آفس جانا تھا جو کہ وہاں سے زیادہ دور نہیں تھا۔ لیکن چار گھنٹے تک لاپتہ رہنا شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔' مسلم لیگ کے رہنما نے الیکن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کی بھی تحقیقات کرے کہ متعدد پولنگ سٹیشنز پر چار گھنٹے تک پولنگ رکوائی گئی جس سے ان کے بقول ہزاروں نون لیگ کے ووٹرز ووٹ ڈالنے سے محروم رہے۔ انھوں نے کہا کہ جس طرح کے حالات پیدا کیا گئے اس سے حقلے میں ہونے والا الیکشن مشکوک ہو گیا ہے۔ اسی حوالے سے مزید پڑھیے 2018 کے انتخابی نتائج: ’بس اپنے کام سے کام رکھو‘ آر ٹی ایس تنازع: ’فیصلہ‘ عید کے بعد کیا جائے گا اس سے قبل احسن اقبال نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کہ ڈسکہ کے مسلم لیگ نون کے مضبوط علاقوں میں سارا دن فائرنگ کر کے خوف و ہراس کی فضا بنائی گئی جس کی مقصد نون لیگ کے ووٹرز کا ٹرن آؤٹ کم کرنے کی کوشش تھی۔ رہنما نون لیگ نے مطالبہ کیا کہ جہاں پولنگ بند تھی اور جن پولنگ سٹیشنز کے پریزائڈنگ افسران 'لاپتہ' تھے وہاں پر دوبارہ پولنگ کرائی جائے۔ میڈیا سے گفتگو میں احسن اقبال نے کہا کہ این اے 75 کا نتیجہ روکنے کی درخواست نون لیگ کی امیدوار نوشین افتخار نے جمع کرائی ہے۔ واضح رہے کہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 ڈسکہ میں گذشتہ روز ہونے والے ضمنی انتخاب کے نتائج ریٹرنگ آفیسر نے روک دیے اور ان کے مطابق حلقہ کے حتمی نتیجے کا اعلان الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ اس سے قبل اس حلقے کے کل 360 میں سے 337 پولنگ سٹیشنوں کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ نون کی سیدہ نوشین افتخار 97 ہزار 588 ووٹ لے کر آگے تھیں جبکہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار علی اسجد ملہی 94 ہزار 541 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر تھے۔ این اے 75 کا حلقہ پی ایم ایل نون کے رکن صاحبزادہ سید افتخارالحسن شاہ کے انتقال سے خالی ہوا تھا۔ ڈسکہ ضمنی انتخابات میں بد امنی، دو افراد ہلاک حلقہ این اے 75 سیالکوٹ کے ضمنی انتخاب میں شدید بے نظمی بھی دیکھنے میں آئی اور فائرنگ کے نتیجے میں دو افراد جاں بحق اور دو زخمی ہوگئے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اس حوالے سے الزام لگایا ہے کہ مسلم لیگ ن کے امیدوار کے گارڈز نے پولنگ سٹیشن پر فائرنگ کی۔ فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ن لیگ کے ورکرز نے فائرنگ کی اور پنجاب میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں جہاں جہاں موقع ملا پولنگ روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ انھوں نے کہا کہ ن لیگ والوں کی ان حرکتوں کے باعث دو افراد جان کی بازی ہار گئے۔ دوسری جانب رہنما پی ٹی آئی عثمان ڈار نے لیگی رہنما رانا ثناء اللہ پر ڈسکہ میں حالات خراب کرانے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ رانا ثناء اللہ کے خلاف ایف آئی آر کٹوائیں گے۔ ضمنی انتخابات میں نوشہرہ سے نون لیگ کی حیران کن جیت، کرم سے پی ٹی آئی کی فتح خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے گڑھ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حیران کن کامیابی سے پی ٹی آئی 2018 میں جیتی گئی نشست کھو بیٹھی۔ نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی ڈسکہ کی این اے 75 اور قبائلی ضلع کرم کی نشست این اے 45 اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں پی پی 51 وزیر آباد اور پی کے 63 نوشہرہ میں ضمنی انتخابات کے لیے پولنگ ہوئی جہاں روایتی حریف پی ایم ایل این اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے مدمقابل رہے۔ سال 2018 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے این اے 75 اور پی پی 51 کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور گذشتہ شب آنے والے غیرسرکاری نتائج کے مطابق پارٹی سخت مقابلے کے بعد وزیر آباد کی نشست جیت گئی جبکہ ڈسکہ کی نشست پر نتیجہ روک لیا گیا ہے۔ تاہم نون لیگ کے لیے سب سے اہم جیت پی کے 63 نوشہرہ سے ہوئی جہاں پی ٹی آئی کو شکست کی توقع نہ تھی۔ مسلم لیگ نون کے امیدوار افتخار ولی، جنھیں اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حمایت بھی حاصل تھی، نے ضمنی انتخاب میں 21 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے فتح سمیٹی جبکہ ان کے مقابلے پی ٹی آئی کے میاں عمر کاکا خیل 17 ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ لے سکے۔ نوشہرہ کی نشست پی ٹی آئی کے قانون ساز اور عمر کاکا خیل کے والد میاں جمشید الدین کی موت کے بعد خالی ہوئی تھی۔ اس نشست کے بارے میں سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک نے دعوی کیا تھا کہ پی ٹی آئی یہ انتخاب باآسانی جیت جائے گی۔ پی پی 51 وزیر آباد کے غیر حتمی نتائج کے مطابق (ن) لیگ کی بیگم طلعت محمود صرف پانچ ہزار ووٹ کے فرق سے پاکستان تحریک انصاف کے چودھری یوسف کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئیں۔ نون لیگ کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت کے کارکنوں نے پی پی51 وزیرآباد میں پی ٹی آئی کے لیے ہونے والی ووٹ چوری کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مریم نواز نے کہا کہ 'پی ٹی آئی کے لوگوں کی جانب سے کی جانے والیل ووٹوں کے بیگز کی چوری کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی عادل چٹھہ اور عطااللہ تارڈ نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔' مریم نواز نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں پیغام دیا کہ 'میں ان سب کو خبردار کرنا چاہتی ہوں کہ جنھوں نے ڈسکہ اور وزیرآباد سے نتائج روکے ہیں اور نتائج تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں یہ مہنگا پڑے گا۔' انھوں نے کہا کہ 'یہ سرعام دھاندلی ہے' اور دعویٰ کیا کہ یہ سب پی ٹی آئی کی ایما پر کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نوازنے ٹوئٹر پر کئی ویڈیوز جاری کیں جس میں ان کے مطابق دھاندلی کرنے کے مناظر ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے کہا کہ 'پاکستان مسلم لیگ (ن) کے متحرک تمام کارکن وہاں موجود تھے اور انہوں نے جانے نہیں دیا، ہم ایسے جانے نہیں دیں گے، جو 2018 میں ہوا اب مزید نہیں ہوگا۔' صحافی حامد میر نے بھی اسی حوالے سے ٹویٹ کی اور لکھا کہ گمشدہ ہونے والے چند افسران واپس آ گئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ دھند کی وجہ سے گم ہو گئے تھے۔ اسی تناظر میں صحافی احمد نورانی نے ٹوئٹر پر سوال اٹھایا کہ ’جن جن پولنگ اسٹیشنز کا عملہ ’غائب‘ ہوا, صرف انھی کو دھند کا سامنا کرنا پڑااور انھی کے موبائل بند ہوئے۔‘
pakistan-53097899
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53097899
پاکستان میں کورونا کے مریضوں میں اضافہ، کیا پاکستان کا طبی نظام مفلوج ہو گیا ہے؟
پاکستان میں اس وقت کورونا کے مریضوں کے لیے ہسپتالوں میں بستروں، ادویات، طبی آلات اور وینٹیلیٹر کا حصول دن بہ دن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس بات کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب مجھے خود اپنے ایک عزیز کو ہسپتال میں داخل کروانے کے لیے بہت سے اعلیٰ حکام سے التجائیں کرنی پڑیں۔
جس عزیز کے لیے مجھے بیڈ کی تلاش تھی وہ رشتے میں تو میرے خالو تھے لیکن میرے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے۔ گذشتہ جمعرات کی رات مجھے ان کی بیٹی کی کال موصول ہوئی کہ انھیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے، بھائی انھیں کئی پرائیوٹ ہسپتالوں میں لے کر گیا لیکن وہاں کورونا کے مریضوں کے لیے مزید جگہ نہیں ہے۔ اس نے مجھے کہا ’پلیز تم کچھ کرو‘ یہ جملہ سننے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ شاید اسے یہ یقین ہے کہ اس وقت صرف میں ہی انھیں ہسپتال میں داخل کروا سکتی ہوں۔ یہ بھی پڑھیے کورونا وائرس انسانی جسم پر کیسے حملہ آور ہوتا ہے بچوں کو کورونا وائرس کے بارے میں بتائیں، ڈرائیں نہیں مریض سے ذاتی انسیت اور ان کے گھر والوں کے اعتبار اور یقین نے مجھے مجبور کر دیا کر میں بطور صحافی اپنا تعارف کروا کر اعلیٰ حکام کو بھی کالز کروں تاکہ انھیں کسی سرکاری ہسپتال میں ہی جگہ اور وینٹیلیٹر مل سکے میں نے حکومت کے دیے ہوئے ہیلپ لائن نمبروں پر کالز ملائیں تو وہاں سے معلوم ہوا کہ کس سرکاری ہسپتال میں جگہ ہے اور کس میں نہیں۔ تاہم جب میں ان ہسپتالوں میں موجود اپنے جاننے والے ڈاکٹروں سے معلوم کیا تو پتا چلا کہ ان ہسپتالوں میں بھی جگہ نہیں ہے۔ اس دوران مریض کی حالت زیادہ بگڑنے پر ہم نے ریسکیو 1122 کو کال کی تاکہ انھیں کم از کم آکسیجن لگائی جا سکے۔ انھیں ایمبولینس میں جناح ہسپتال لے آئے لیکن وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہاں بھی جگہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ان کی آکسیجن کا لیول 75 فیصد ہے اور مریض کو ذیابیطس بھی ہے اس لیے انھیں کسی بھی وقت وینٹیلیٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ جس کے بعد میں نے کئی صحافیوں، ہسپتالوں کی انتظامیہ اور محکمہ صحت کے افسروں کو کالز ملا کر معلوم کرنا شروع کیا کہ کس ہسپتال میں جگہ اور وینٹیلیٹر دستیاب ہے۔ مریض سے ذاتی انسیت اور ان کے گھر والوں کے اعتبار اور یقین نے مجھے مجبور کر دیا کر میں بطور صحافی اپنا تعارف کروا کر اعلیٰ حکام کو بھی کالز کروں تاکہ انھیں کسی سرکاری ہسپتال میں ہی جگہ اور وینٹیلیٹر مل سکے۔ کئی گھنٹے گزر گئے لیکن کہیں سے امید نظر نہیں آئی۔ اس واقعے سے قبل مجھے اتنا تو معلوم تھا کہ کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھنے سے شہر کے ہسپتالوں میں جگہ کم ہے لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ ہمارا صحت کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے اور ہم جس ہسپتال میں جائیں وہاں ہی بستر دستیاب نہیں ہوگا۔ بہت سے علاقوں کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے محکمہ صحت کے ایک افسر نے مجھے کہا آپ مریض میو ہسپتال لے جائیں وہاں بیڈ بھی مل جائے گا اور وینٹیلیٹر بھی موجود ہے۔ آپ وہاں جائیں اور ہسپتال کے سی او کو جا کر میرا حوالہ دیں۔ دل کو کچھ اطمینان ہوا کہ اب علاج ہو سکے گا۔ میں نے ان کے بیٹے سے کہا آپ انھیں فوراً میو ہسپتال لے کر پہنچیں میری بات ہو گئی ہے۔ اس نے روتے ہوئے جواب دیا کہ 'آپی اب یہ ایمبولینس والا کہہ رہا ہے کہ نئی ایمبولینس منگوائیں کیونکہ میری کال صرف جناح ہسپتال تک کی تھی‘۔ اسی کال کے دوران میں نے اسے ایمبولینس کے عملے کو یہ کہتے سنا کہ ’بھائی پلیز لے جائیں میو ہسپتال، مریض کی حالت بہت خراب ہے میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ کہو تو پاؤں بھی پڑ جاؤں گا۔ آپ بےشک پیسے زیادہ لے لینا۔‘ لیکن وہ نہیں مانے۔ مجھے یہ بات سن کر بہت تکلیف ہوئی اور سمجھ نہیں آئی کہ کس سے یہ سوال کروں کہ کیا اس وائرس نے ہمارے نظام کو اتنا بوسیدہ کر دیا ہے کہ اس لاچاری کے عالم میں بھی ہم کسی کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہو رہے ہیں۔ ہم نے دوسری ایمبولینس بلائی جس میں ہم مریض کو میو ہسپتال لے کر پہنچے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہاں موجود ڈی ایم ایس سے بات کرنی پڑی کہ برائے مہربانی مریض کو داخل کر لیں۔ پھر اس کے بعد میں میو ہسپتال لاہور سی او سے درخواست کی کہ ’سر مریض کو داخل کر کے ان کا جلد از جلد علاج شروع کروا دیں کیونکہ ان کی حالت کافی خراب ہے۔‘ جس کے بعد انھوں نے مریض کو کورونا کے مشتبہ وارڈ میں داخل کر لیا جہاں لواحقین کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اگلے تین گھنٹے اندر کیا ہوتا رہا ہم نہیں جانتے تھے۔ اسی دوران ایک خاتون وارڈ کے پاس سے زارو قطار روتی ہوئی آئیں اور کہنے لگی کہ 'کیوں لے آئے اپنے مریض کو یہاں، یہ تو سب کو مار کر بھیج رہے ہیں۔ میرے گھر کے تین لوگ مر چکے ہیں کیونکہ یہاں کوئی سہولت نہیں ہے اور ہم تو رل گئے ہیں‘۔ یہ سن کر ہم مزید پریشان ہو گئے اور دل کو تسلی دیتے رہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم نے وہاں موجود ڈاکٹر سے بار بار رابطہ کیا جس پر ہمیں بتایا گیا کہ مریض کو آکسیجن لگا دی گئی ہے۔ وارڈ کے اندر سے ہمیں ایک سادہ پرچی پر ایکٹمرا کا انجیکشن لکھ کر دے دیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ کچھ ٹیسٹ کروانے کی ہدایت کی گئی جو ہم نے فوراً کروا لیے۔ اس کے بعد مجھ سمیت ہم سب گھر والے ساری رات ایکٹمرا کا انجیکشن، پلازما اور علاج میں استعمال ہونے والی ادویات ڈھونڈنے میں لگے رہے جو ہمیں نہیں ملیں۔ متاثرہ علاقوں میں ماسک لازمی قرار دیے دیئے گئے ہیں صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ مریض کی طبیعت ٹھیک ہو رہی ہے اور ان کا آکسیجن لیول بھی 94 پر آ گیا ہے۔ تھوڑی تسلی ہوئی! اس دوران میں مسلسل ڈاکٹرز اور میو ہسپتال کی انتظامیہ سے رابطے میں تھی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ ان کے سینے کا ایکسرے کروانا ہے لیکن میو ہسپتال کی ایکسرے مشین اس وقت خراب تھی۔ ڈی ایم ایس نے کہا تھوڑی دیر میں ٹھیک ہو جائے گی پھر ڈاکٹر آئیں گے اور مریض کو دیکھیں گے۔ کچھ ہی دیر میں پتا چلا کہ میرے خالو کی طبیعت دوبارہ خراب ہو گئی ہے۔ ہم پریشانی میں دوبارہ ڈی ایم ایس کے کمرے کی طرف گئے اور انھیں بتایا کہ مریض کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ برائے مہربانی انھیں دیکھ لیں کیونکہ سینیئر ڈاکٹر تو پتا نہیں کب آئیں گے۔ وہاں موجود ڈی ایم ایس نے کہا کہ ہم تھوڑی دیر میں انھیں آئی سی یو میں شفٹ کر دیں گے۔ کچھ دیر بعد کے بعد ان کا بیٹا ان کی حالت کے بارے میں معلوم کرنے گیا تو معلوم ہوا کہ مریض اپنے بیڈ پر موجود نہیں ہے۔ پریشانی کے عالم میں ہم سب ہی ادھر ادھر بھاگتے رہے کہ شاید مریض کو آئی سی یو میں شفٹ کر دیا ہو لیکن وہ وہاں بھی موجود نہیں تھے۔ اسی دوران تقریباً دو گھنٹے کا وقت گزر گیا۔ انتظامیہ سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ آپ نے مریض کا نام ٹھیک نہیں لکھوایا اس لیے وہ وارڈ میں نہیں ہے اور انھیں آئی سی یو میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔ ہمیں اس بات پر تسلی نہ ہوئی اور ہم خود انھیں تلاش کرتے رہے تو پتا چلا کہ وہ دو گھنٹے قبل اکیلے باتھ روم جانے پر مجبور ہوئے تھے کیونکہ وارڈ میں ایسا عملہ موجود نہیں تھا جو شدید بیمار مریض کو باتھ روم تک لے جاتا۔ آکسیجن کی کمی کے باعث وہ وہاں گر گئے اور کافی دیر تک وہیں پڑے رہے اور اس کے باعث ان کی موت ہو گئی۔ یہ پہلا واقعہ نہیں تھا جو میرے عزیز کے ساتھ پیش آیا۔ اس سے قبل بھی بہت سے مریضوں کے لواحقین کی جانب سے ان کے مریضوں کو صحت کی بنیادی سہولتیں نہ ملنے کی شکایات سامنے آچکی ہیں۔ میں نے ہسپتال عملے کی اس غفلت کے بارے میں بتانے کے لیے میو ہسپتال کے سی ای او کو فون کیا اور کہا کہ برائے مہربانی دیکھیں کیا ہو رہا ہے کیونکہ ہمارا مریض دو گھنٹوں بعد باتھ روم سے ملا ہے۔ جس پر وہ بولے کہ 'اگر کوئی مریض کہے کہ میں نے باتھ روم جانا ہے تو ہم کیسے روک سکتے ہیں۔ آپ لوگ فورا ہسپتال پر الزام لگا دیتے ہیں۔ ہم لوگ روز اپنی جان داؤ پر لگا کر آتے ہیں اور علاج کرتے ہیں۔‘ جس پر میں نے انھیں کہا ’سر! اگر آپ کو میری کوئی بات بری لگی ہے تو میں اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں اور میں فرنٹ لائن پر کام کرنے والے ہر شخص کی عزت کرتی ہوں۔ میرا بس یہی سوال ہے کہ کیا وارڈ میں کوئی بھی ایسا عملہ نہیں تھا جو انھیں باتھ روم لے جاتا یا ایک ایسا مریض جو شدید بیمار ہے، کیا اسے اکیلے باتھ روم جانے کی اجازت ہوتی ہے؟‘ مجھے ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ملا۔ تاہم انھوں نے میرے عزیز کی موت پر مجھے تعزیت کا ایک میسج ضرور بھیجا۔ اس وقت میں نے ایسی بے بسی محسوس کی جو آج تک زندگی میں کبھی محسوس نہیں کی ہو گی۔ یہ پہلا واقعہ نہیں تھا جو میرے عزیز کے ساتھ پیش آیا۔ اس سے قبل بھی بہت سے مریضوں کے لواحقین کی جانب سے ان کے مریضوں کو صحت کی بنیادی سہولتیں نہ ملنے کی شکایات سامنے آچکی ہیں اس واقعے کو گزرے ایک ہفتہ ہو گیا ہے لیکن ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب میں نے یہ نہ سوچا ہو کہ کتنی امید اور یقین سے ان کے گھر والوں نے مجھے کہا تھا کہ ان کا علاج کروا دو تاکہ وہ جلدی ٹھیک ہو کر گھر آسکیں۔ اپنا گھر سنبھال سکیں، اپنی نوکری پر واپس جا سکیں، اپنے بچوں کو پڑھا سکیں اور ان کے خوابوں کو پورا کر سکیں۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تاہم ان کی بیٹی آج بھی مجھے روزانہ اپنے والد کی تصویر بھیج کر پوچھتی ہے کہ 'اگر پاپا کی اچھی دیکھ بھال ہوتی تو وہ زندہ ہوتے؟ اگر وہ باتھ روم نہ جاتے تو وہ بچ سکتے تھے نا؟ اگر کوئی وقت پر انھیں وہاں سے اٹھا لیتا تو ان کی موت نہ ہوتی؟' ان تمام سوالوں کے جواب میرے پاس اس بچی کو دینے کے لیے صرف تسلی ہے۔ لیکن میں خود شاید اس احساس جرم سے کبھی باہر نہ آسکوں کہ 'کاش میں انھیں میو ہسپتال نہ بھیجتی۔‘
050123_bihar_killings
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2005/01/050123_bihar_killings
بہار میں سیاستدان قتل
بِہار میں حکام کے مطابق ماؤ نواز باغیوں نے ایک سیاسی رہنما کو قتل کردیا ہے۔ سابق رکن پارلیمنٹ راجیش کمار کا تعلق گیا سے تھا اور وہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں لوک جن شکتی پارٹی کے امیدوار تھے۔
گیا کے مجسٹریٹ چیتنیا پرساد کا کہنا ہے کہ ہفتے کی رات کو راجیش اپنی انتخابی مہم میں مصروف تھے کہ اچانک تقریباً ایک سو مسلح افراد نے انکی گاڑی کو گھیر لیا۔ ان لوگوں نے ان پر اندھا دھند گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں راجیش، انکا باڈی گارڈ، ڈرائیور اور ایک دیگر شخص موقع پر ہی ہلاک ہوگۓ۔ راجیش امام گنج حلقے سے انتخاب لڑ رہے تھے۔ لوک جن شکتی پارٹی کے لیڈر اور مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان نے اس واقعے کی سخت مذمت کی ہے۔ انہوں نے ریاست میں لالو پر ساد یادو کی جماعت راشٹریہ جنتادل کی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ لالو پرساد یادو اور رام ولاس پاسوان مرکز میں کانگریس کے زیر قیادت متحدہ ترقی پسند محاذ حکومت میں وزیر ہیں۔ لیکن ریاست بہار میں دونوں ایک دوسرے کے سیاسی حریف ہیں۔ بہار میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور پہلے دور کے لیے انتخابی مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔
040823_imran_us_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/08/040823_imran_us_fz
عمران خان : امریکی اڈے پر پریشان
بین الاقوامی شہرت کے حامل پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان، تحریک انصاف پارٹی کے قائد اور قومی اسمبلی کے رکن عمران خان کو اتوار کو امریکہ پہنچنے پر ہوائی اڈے پر روک لیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق عمران خان ایک بین الاقومی پرواز کے ذریعے جب اتوار کو امریکہ کی ریاست ورجنیا کے ڈیلس ہوائی اڈے پر اترے تو انہیں امیگریشن کے عملے نے روک لیا۔ امریکہ سے صحافی سلیم رضوی نے بتایا کہ عمران خان کو ائیرپورٹ کے ایک کونے میں بٹھا دیا گیا۔ عمران کے استفسار کرنے پر امیگریشن کے حکام نے انہیں بتایا کہ ان کا نام کسی لسٹ میں چیک کیا جا رہا ہے۔ تاہم تین گھنٹے تک عمران خان کو پریشان کرنے کے بعد امگریشن اسٹاف نے انہیں جانے دیا۔ عمران خان قومی اسمبلی میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کی مخالفت کرنے والے ارکان میں پیش پیش ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں جنرل مشرف کے علاوہ امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا کہ امریکہ نے اس جنگ کے نتیجے میں اپنے مخالفین میں اضافہ کر لیا ہے۔
pakistan-51921084
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51921084
وسعت اللہ خان کی خصوصی تحریر: سو سالہ شیخ مجیب اور آج کا پاکستان
اگر سکول میں پڑھائی جانے والی مطالعہِ پاکستان کی کتاب پر یقین کر لیا جائے تو بس اتنا پتہ چلتا ہے کہ کبھی کوئی مشرقی بنگال پاکستان کا حصہ تھا جسے انڈیا نے ایک سازش کے تحت پاکستان سے علیحدہ کر دیا۔ یعنی آج کی سکول جانے والی نسل جتنا موہن جو دڑو کے بارے میں جانتی ہے، مشرقی بنگال کے بارے میں اتنا بھی نہیں جانتی۔ اس کے بعد آپ یہ توقع بھی کریں کہ وہ شیخ مجیب الرحمان کے بارے میں تھوڑا بہت تو جانتی ہو گی تو یہ اس نسل کے ساتھ زیادتی ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ دیکھیے اگر مشرقی بنگال یا مشرقی پاکستان کی علیحدگی یا بنگلہ دیش بننے کے اسباب کے بارے میں درسی کتابوں میں تفصیلاً پڑھایا جائے گا تو پھر شیخ مجیب کے ساتھ ساتھ یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی بنگال میں فوجی ایکشن کا بھی تذکرہ کرنا پڑے گا۔ یہ بھی پڑھیے اسٹیبلشمنٹ تو سب کی دوست ہے مجیب قاتلوں کو پھانسی سے کیا حل ہوا؟ تین کہانیاں! تذکرہ ہوگا تو بچے سوالات بھی پوچھیں گے۔ چنانچہ اس سے کہیں بہتر یہ نہیں کہ فرض کر لیا جائے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کوئی مشرقی پاکستان بھی تھا اور پھر اس نے اپنا نام بنگلہ دیش رکھ لیا، قصہ ختم۔ آج کل کے سکولی نصاب میں صرف چار بنگالیوں کا تذکرہ ملتا ہے: اے کے فضل الحق جنھوں نے 1940 کی قرار دادِ لاہور پیش کی تھی، خواجہ ناظم الدین چونکہ وہ گورنر جنرل رہے تھے اور حسین شہید سہروردی اور محمد علی بوگرہ چونکہ وہ کچھ عرصے پاکستان کے وزیرِ اعظم رہے۔ سب سے زیادہ ذکر علامہ اقبال اور محمد علی جناح کا ہوتا ہے۔ جب میں نے شیخ مجیب کے بارے میں پڑھنا شروع کیا تو اچانک مجھے احساس ہوا کہ جناح اور مجیب کی سیاسی زندگی میں کئی مماثلتیں ہیں۔ جیسے جناح شروع میں کٹر کانگریسی تھے، وہ ہندوستانی قوم پرستی پر یقین رکھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ ہندو اور مسلمان ’ہندوستانیت‘ کی چھتری تلے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ مگر پھر رفتہ رفتہ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ دونوں الگ قومیں ہیں۔ شیخ مجیب کٹر مسلم لیگی، پارٹی کی طلبا تنظیم مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنگال کے پرجوش رہنما تھے۔ سہروردی کی سرپرستی میں تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا۔ مگر پاکستان بننے کے ایک سال کے اندر ہی انہیں محسوس ہونے لگا کہ مغربی پاکستان اور مشرقی بنگال کی سوچ، سیاسی رجحانات، ثقافت اور سماجی ڈھانچے میں خاصا فرق ہے۔ آبادی میں کم ہونے کے باوجود فوج اور بیورو کریسی اور پالیسی سازی میں مغربی پاکستان بالادست ہے لہٰذا نئے ملک کا وفاقی انتظام شاید بہت عرصے تک اس طرح سے نہ چل سکے یا تو یہ نظام تبدیل ہوگا یا پھر ٹوٹ جائے گا۔ پہلا دھچکہ بنگالی یا اردو کے قومی زبان بننے کے جھگڑے سے لگا۔ دوسرا دھکا ون یونٹ نے پہنچایا۔ بنگال نے چھپن فیصد اکثریت کے باوجود وفاق کی بقا کے لیے ون یونٹ کا فارمولا قبول کر لیا۔ انیس سو چھپن کا پارلیمانی آئین بھی متفقہ طور پر بن گیا۔ حتیٰ کہ باقی ملک کی طرح مشرقی بنگال نے بھی پہلے مارشل لا کو قبول کر لیا۔ مارشل لا کے تحت نئے آئین کو بھی قبول کر لیا۔ بنیادی جمہوریت کے نظام کو بھی قبول کر لیا۔ اور اس کے تحت جنوری انیس سو پینسٹھ میں ہونے والے پہلے صدارتی انتخابات میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ حزبِ اختلاف کی جس کمیٹی نے محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑنے پر بہت کوشش کر کے آمادہ کیا، یہ کمیٹی حسین شہید سہروردی کی کراچی کی رہائش گاہ لکھم ہاؤس میں تشکیل پائی تھی۔ اس کمیٹی میں شیخ مجیب الرحمان بھی شامل تھے۔ جن دو افراد نے فاطمہ جناح کے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے ان میں سے ایک صاحب کا نام شیخ مجیب الرحمان تھا۔ وہی مشرقی پاکستان میں فاطمہ جناح کی صدارتی مہم کے منتظم بھی تھے۔ اگر آپ اس زمانے کی تصاویر دیکھیں تو ہر جلسے میں شیخ مجیب محترمہ کے آگے پیچھے نظر آئیں گے۔ بنگالیوں نے فاطمہ جناح کا بھرپور ساتھ دیا اور یہ بات ایوب خان سے ہضم نہ ہو سکی اور ایوب خان کی جیت بنگال سے ہضم نہ ہو سکی۔ مگر اونٹ کی کمر پر آخری تنکہ ستمبر انیس سو پینسٹھ کی جنگ تھی جو اس نظریے سے لڑی گئی کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان کے محاز پر کیا جائے گا۔ اس نظریے نے بطور ایک وفاقی یونٹ بنگال کے احساسِ تنہائی کو مکمل کر دیا اور پھر اس کے ردِ عمل میں اگلے برس چھ نکات کا جنم ہوا۔ مغربی پاکستان کی حکمران قیادت نے ان نکات کو سنجیدگی سے لینے یا ان پر بات کرنے یا کوئی مصالحتی راہ نکالنے یا ٹھوس یقین دہانیاں کروانے کے بجائے اجنبیت کا راستہ اختیار کیا جس کے سبب خلیج بنگال بڑھتی چلی گئی۔ اس کا اندازہ آپ کو صدر ایوب خان کی ذاتی ڈائری پڑھ کے بخوبی ہو سکتا ہے۔ میں چند مثالیں پیش کرتا ہوں: چوبیس مئی انیس سو سڑسٹھ۔ مارننگ نیوز کے بنگالی صحافی محسن علی نے مجھ سے ملاقات کی اور جاننا چاہا کہ میں مشرقی پاکستان کے حالات کو کس طرح دیکھتا ہوں؟ میں نے کہا کہ میں تو تمام ترقیاتی وسائل فراہم کر رہا ہوں مگر دوسری جانب سے صوبائیت اور علیحدگی پسندی کو ہوا دے کر مغربی و مشرقی بازو کو ایک دوسرے سے بدظن کرنے اور مرکز کو بلیک میل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔وہاں جان بوجھ کر زبان اور ثقافت کو ہندو رنگ دیا جا رہا ہے۔ٹیگور ان کا خدا بن چکا ہے۔ہر شے پر بنگالی رنگ ہے حتیٰ کہ گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں بھی بنگلہ میں ہیں۔ایک مغربی پاکستانی خود کو ڈھاکہ میں اجنبی محسوس کرتا ہے۔ وہ شعوری یا لاشعوری طور پر علیحدگی کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اپنے تشخص کو ہندو مت میں جذب کرنے کے خطرے کو نہیں بھانپ رہے۔ اٹھائیس جون انیس سو سڑسٹھ۔ مشرقی پاکستان کی جانب سے مغربی پاکستان کو بلیک میلنگ کے ذریعے دباؤ میں رکھنے کے رجحان سے کیسے نمٹا جائے۔اس معاملے پر غور کرنے کے لیے آج گورنر مغربی پاکستان جنرل موسیٰ اور وزرا سے ملاقات ہوئی۔اس پر اتفاق کیا گیا کہ مرکز اور مغربی پاکستان کو انتظامی سختی کرنا پڑے گی اور اسمبلیوں اور میڈیا میں مشرقی پاکستان کی عدم وفاداری کو بے نقاب کرنا ہوگا۔عین ممکن ہے کہ جب ان سے کہا جائے گا کہ وہ چاہیں تو پاکستان سے نکل سکتے ہیں، تو یہ سن کر ان کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ بارہ اگست انیس سو سڑسٹھ۔مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کی دوری اور ہندو زبان و ثقافت اپنانے کی کوشش کا سبب یہ ہے کہ ان کی نہ اپنی کوئی زبان ہے نہ ثقافت۔اردو سے ان کا منہ موڑنا ظاہر کرتا کہ وہ برصغیر کی اجتماعی مسلمان ثقافت اپنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ان کی جانب سے دو سرکاری زبانوں کا مسلط کیا جانا پاکستان کے لیے ایک المیہ ہے۔چونکہ ان کے ہاں اسلامی فلسفے پر لٹریچر کی کمی ہے لہٰذا اقبال کی منتخب تحریروں کو بنگلہ میں ترجمہ کر کے بڑے پیمانے پر تقسیم کیا جائے۔مگر جب تک خود بنگالی اسے فروغ نہیں دیں گے تب تک اس منصوبے کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ اکیس اگست انیس سو سڑسٹھ۔ مشرقی پاکستان پر ملٹری انٹیلی جینس کی رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں کی پچانوے فیصد آبادی سچی مسلمان اور پاکستانی ہے۔شہری علاقوں میں طلبا، اساتذہ اور دانشوروں کی اکثریت نیپ، عوامی لیگ یا کیمونسٹوں کی حامی ہے لہٰذا انہیں پاکستان سے کوئی لگاؤ نہیں۔عوامی لیگ ایک بنگالی قوم پرست علیحدگی پسند جماعت ہے۔ سات ستمبر انیس سو سڑسٹھ۔ خواجہ شہاب الدین (مرکزی وزیر) نے مشرقی پاکستان کے تفصیلی دورے کے بعد حالات سے آگاہ کیا۔وہ آبادیدہ تھے۔میں نے کہا کہ جو لوگ خود نہیں بچنا چاہتے انہیں کیسے بچایا جا سکتا ہے۔میں نے خواجہ سے پوچھا کہ تم کیا مستقبل دیکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی ڈھاکہ کی جائیداد فروخت کر کے مغربی پاکستان منتقل ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔میں نے خواجہ صاحب کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اگر حالات بہت برے ہو گئے تو ہم مشرقی پاکستان میں تخریب کاری کے خلاف لڑنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ضرورت پڑی تو خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ہم کروڑوں مسلمانوں کو ہندو کی غلامی سے بچانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ تو یہ تھی ایوب خان کی سوچ ۔ہم سب جانتے ہیں کہ ایوب خان کا بنیادی پس منظر سیاسی نہیں عسکری تھا۔ کیا محمد علی جناح ہندوستان توڑنا چاہتے تھے؟ اگر ایسا تھا تو انہوں نے کیبنٹ مشن پلان کیوں قبول کیا اور پھر مئی انیس سو سینتالیس میں پارٹیشن سے تین مہینے پہلے تک کیوں کوشش کرتے رہے کہ کوئی نہ کوئی ایسی راہ نکل آئے کہ جس پر چل کر مسلمان اپنے سیاسی حقوق کی ٹھوس آئینی ضمانتوں کے سہارے متحدہ ہندوستان میں رہ سکیں۔ مگر نہرو اور پٹیل نے پاکستان بنوا دیا اور علیحدگی پسند و غدار جناح کو قرار دیا۔ تو کیا شیخ مجیب الرحمان بنگلہ دیش بنانا چاہتے تھے؟ کیا وہ غدار اور بھارتی ایجنٹ تھے؟ عام پاکستانیوں کو پچیس مارچ انیس سو اکہتر کے بعد سے یہی گھٹی پلائی گئی۔ اس عرصے میں دونوں حصوں کے مابین اطلاعات کی ترسیل کا نظام یحیٰ حکومت کے کنٹرول میں تھا اور سیکریٹری اطلاعات روئداد خان تھے۔ شیخ مجیب کا نام انیس سو اڑسٹھ میں اگرتلہ سازش کیس میں ڈال کر یہ تاثر دیا گیا کہ چھ نکات دراصل انڈیا کے ساتھ مل کر ملک توڑنے کی سازش ہے۔ اس کیس کی سماعت کے لیے ایک خصوصی ٹریبونل بھی تشکیل دیا گیا۔ مگر جب نومبر انیس سو اڑسٹھ میں ایوب خان کے خلاف طلبا تحریک چلی اور اقتدار پر ایوب خان کی گرفت اتنی ڈھیلی ہو گئی کہ انہیں اعلان کرنا پڑا کہ وہ اگلے صدارتی انتخاب میں امیدوار نہیں ہوں گے، انہیں قومی سیاستدانوں کی گول میز کانفرنس طلب کرنا پڑی۔ اور مشرقی پاکستان کی قیادت کو اس کانفرنس میں شرکت پر آمادہ کرنے کی قیمت پر اگرتلہ کیس واپس لے کر ٹریبونل ختم کرنا پڑا۔ اس کے بعد شیخ مجیب کا سیاسی گراف مشرقی پاکستان میں چھت سے لگ گیا۔ ایوب خان کی معزولی سے پہلے تمام سیاستدانوں کا مطالبہ تھا کہ انیس سو چھپن کا آئین بحال کیا جائے۔ مگر یحییٰ حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے کے بجائے باسٹھ کا آئین بھی ختم کر دیا اور لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت بالغ رائے دہی کی بنیاد پر آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کروانے کا اعلان کر کے نیا پینڈورا باکس کھول دیا۔ لیگل فریم ورک آرڈر کی ابتدائی شق یہ تھی کہ صرف وہ سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لینے کی اہل ہیں جو نظریہِ پاکستان اور پاکستان کی سالمیت پر کامل یقین رکھتی ہوں۔ عوامی لیگ کو اگر چھ نکات سمیت ان انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملی اور نتائج آنے کے بعد جب یحییٰ خان نے شاہ ایران سے شیخ مجیب کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے مستقبل کے وزیرِ اعظم ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی بار محبِ وطن قیادت نے کسی ملک دشمن، غدار، غیر ملکی ایجنٹ کو وزیرِ اعظم بنانے کا فیصلہ کیا؟ شیخ مجیب کی سات مارچ انیس سو اکہتر تک جتنی بھی تقاریر ہیں، ان میں سے ہر تقریر میں یہ کہا جاتا تھا کہ ہم اپنی قسمت کے مالک خود بننا چاہتے ہیں۔ کسی بھی تقریر میں انتہائی دباؤ کے باوجود یہ جملہ نہیں ملتا کہ میں آج سے بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کرتا ہوں۔ یہ اعلان تو آپریشن شروع ہونے کے بعد میجر ضیا الرحمان نے چٹاگانگ ریڈیو سٹیشن پر قبضے کے بعد کیا۔ شیخ مجیب الرحمان کو پچیس مارچ انیس سو اکہتر کو آپریشن سرچ لائٹ شروع ہونے کے اگلے دن ڈاکٹر کمال حسین کے ہمراہ مغربی پاکستان منتقل کیا گیا۔ آپریشن سے ایک دن پہلے ذوالفقار علی بھٹو کراچی ایئرپورٹ پر اترے اور کہا ’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔‘ بھٹو اور فوجی قیادت اور جماعتِ اسلامی وغیرہ تو چلیے ایک پیج پر تھے مگر مغربی پاکستان کے باقی رہنما اور جماعتیں کیا کر رہے تھے؟ آپریشن سے پہلے اصغر خان، مولانا شاہ احمد نورانی، نیشنل عوامی پارٹی اور بائیں بازو کی دیگر جماعتیں مجیب کو اقتدار منتقل کرنے کی حامی تھیں۔ لیکن فوجی آپریشن کے بعد تحریک ِ استقلال کو چھوڑ کے لگ بھگ سب ہی قومی جماعتوں نے زبانی تشویش تو ظاہر کی مگر پھر معنی خیز کنارہ کشی اختیار کر لی۔ چین نواز کیمونسٹ بھی خاموش رہے۔ البتہ جام ساقی اور ان کے ساتھیوں نے آپریشن کے خلاف کراچی میں ایک چھوٹا سا جلوس نکالا اور دو چار گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ انفرادی سطح پر ملک غلام جیلانی (عاصمہ جہانگیر کے والد) لاہور کے مال روڈ پر فوجی آپریشن کے خلاف پلے کارڈ اٹھائے تنہا کھڑے رہے۔ آئی اے رحمان، طاہر مظہر علی خان، وارث میر اور روزنامہ آزاد سمیت چند ہی نام ہیں جو مخالفت کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ باقی سب کو سانپ سونگھ گیا۔ حالانکہ انیس سو ستر کے عام انتخابات میں عوامی لیگ نے تو مغربی پاکستان میں درجن بھر امیدوار کھڑے کیے تھے مگر پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان میں ایک بھی ٹکٹ نہیں دیا۔ مگر آپریشن شروع ہونے کے چھ ماہ بعد ستمبر انیس سو اکہتر میں عوامی لیگ کے روپوش ارکانِ اسمبلی کی خالی نشستیں پُر کرنے کے لیے مشرقی پاکستان کے ضلعی مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز کے دفاتر میں سیٹوں کی بندر بانٹ ہوئی تو اس میں پیپلز پارٹی نے بھی بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ بلکہ پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالحفیظ پیرزادہ نے اس پر ناخوشی ظاہر کی کہ سیٹوں کی تقسیم میں مغربی پاکستان میں کامیابی کے تناسب کا خیال نہیں رکھا گیا۔ شیخ مجیب کو آپریشن کے بعد ڈھاکہ سے ساہیوال جیل اور پھر لائل پور منتقل کیا گیا جہاں انہیں لائل پور ٹیکسٹائیل مل کے ایک کوارٹر اور اس سے متصل تہہ خانے میں رکھا گیا۔ ان پر ملک دشمنی اور بغاوت کے جرم میں مقدمہ چلانے کے لیے ایک خصوصی ٹریبونل قائم کیا گیا۔ شیخ صاحب نے ٹریبونل کا بائیکاٹ کیا۔ مگر ان کی جانب سے اے کے بروہی کو سرکاری وکیل مقرر کیا گیا۔ یہ ٹریبونل کب ٹوٹا یا نہیں ٹوٹا، اس میں کیا کارروائی ہوئی، اس کا ریکارڈ کہاں ہے؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ بس اتنا ہوا کہ بیس دسمبر کو بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالا اور دس جنوری انیس سو بہتر کو ایک خصوصی پرواز سے شیخ مجیب الرحمان اور ڈاکٹر کمال حسین کو لندن روانہ کر دیا گیا جہاں سے وہ براستہ دلی ڈھاکہ پہنچ گئے۔ فروری انیس سو چوہتر میں شیخ مجیب الرحمان کو لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر اہلِ پاکستان نے آخری بار محبِ وطن یا غدار کے بجائے ایک آزاد ملک کے وزیرِ اعظم کے روپ میں بھٹو صاحب کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دیکھا۔ اس کے بعد سے باقی ماندہ پاکستان کی تاریخ میں سے مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش کا تذکرہ بھی کہیں غروب ہو گیا۔ (اس مضمون کی تیاری میں آئی اے رحمان، ڈاکٹر جعفر احمد اور زبیر رحمان سے کی گئی گفتگو نے بنیادی مدد کی)
040829_swat_arrests_as
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/08/040829_swat_arrests_as
القاعدہ کے شبہے میں گرفتاریاں
صوبہ سرحد کے شمالی ضلع سوات میں حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے اتوار کے روز تین افراد کو القاعدہ کے ساتھ روابط کے شبہ میں گرفتار کیا ہے۔ خیال ہے کہ ان میں ایک صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے میں ملوث ہے۔
حکام کے مطابق پولیس کی ایک پارٹی نے جسے فوجی مدد بھی حاصل تھی اتوار کی صبح سوات میں مٹا کے علاقے میں شوار نامی گاؤں میں محمد رحیم نامی ایک شخص کے مکان پر چھاپہ مارا۔ کارروائی کے دوران محمد رحیم، اس کے بیٹے عمر رحمان اور ان کے ایک مہمان کو حراست میں لے لیا گیا۔ پولیس نے اس مکان سے اسلحہ، گولہ بارود اور مواصلاتی آلات بھی برآمد کیے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ محمد رحیم اور اس کا بیٹا کسی مشکوک کارروائی میں ملوث نظر نہیں آتے تھے لیکن ان کے مہمان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ حکام بھی اس مہمان کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں بتا رہے ہیں۔ اس سے قبل فروری میں بھی اس گاؤں میں ایک چھاپہ مارا گیا تھا تاہم اس وقت پولیس کے ہاتھ کوئی نہیں آیا تھا۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ گرفتار افراد میں سے ایک صدر پرویز مشرف پر گزشتہ برس قاتلانہ حملے میں ملوث ہے۔ صوبہ سرحد کی وادی سوات سیاحت کے لیے مشہور ہے لیکن اس قسم کی کارروائی کا غالباً یہ پہلا واقعہ ہے۔
080408_balochistan_speaker_uk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/04/080408_balochistan_speaker_uk
بلوچستان: سپیکر اور ڈپٹی پراتفاق
بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں نے متفقہ طور پر پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے رکن اسمبلی اسلم بھوتانی کو سپیکر اور جمعیت علماءاسلام کے مطیع اللہ آغا کو ڈپٹی سپیکر نامزد کیا ہے ۔ ان کا باقاعدہ انتخاب منگل کو ہوگا۔
دونوں اراکین نے پیر کے روز پانچ بجے اپنے کاغذات جمع کرا دیے تھے اور دونوں کے کاغذات درست قرار دے دیے گئے۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب منگل کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ہورہا ہے۔ ان دو اراکین کے علاوہ کسی اور نے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے عہدے کے لیے کاغذات جمع نہیں کرائے۔ اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں کا اجلاس بلوچستان اسمبلی میں ہوا جس میں پیپلزپارٹی کے شفیق احمد اور قاف لیگ کے اسلم بھوتانی کے ناموں پر غور کیا گیا۔ ادھر پیپلز پارٹی کے ساتھ طے کیے گئے معاہدے کے تحت ڈپٹی سپیکر کا عہدہ جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کو دیا گیا تھا جس پر جماعت نے غور کے بعد سابق وزیر اطلاعات مطیع اللہ آغا کو امیدوار نامزد کر دیا۔ مطیع اللہ آغا کا تعلق پشین سے ہے اور جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے اہم رکن ہیں۔ وہ سابق دور حکومت میں اطلاعات کے وزیر رہے ہیں۔
081218_masood_profile
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/12/081218_masood_profile
مولانا مسعود اظہر کا ’جہادی‘ سفر
کالعدم جہادی تنظیم جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر دس جولائی سن انیس سو اڑسٹھ کو پاکستان کے شہر بہاولپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولانا اللہ بخش دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور بہاولپور کے ایک مقامی سرکاری سکول میں ہیڈماسٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ وہ مذہبی رحجانات رکھتے تھے اور شاید اسی لیے انہوں نے اپنے ایک دوست مفتی سعید کے کہنے پر مسعود اظہر کو کراچی میں بنوری مسجد سے ملحق جامعہ العلوم اسلامیہ میں داخل کرا دیا۔ یہاں پاکستان کے علاوہ عرب، سوڈانی اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے طلباء بھی زیر تعلیم تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس زمانے میں جامعہ العلوم اسلامیہ کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد عسکری تنظیم حرکت المجاہدین کے زیر اثر تھی۔
کہا جاتا ہے جامعہ اسلامیہ میں ہی مسعود اظہر کی ملاقات حرکت المجاہدین کے امیر مولانا فضل الرحمٰن خلیل سے ہوئی۔ مولانا خلیل کی دعوت پر انہوں نے حرکت المجاہدین میں شمولیت اختیار کر لی۔ بھارتی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کو تفتیش کے دوران دیئے گئے ایک بیان میں مولانا مسعود اظہر نے بتایا ہے کہ حرکت المجاہدین میں شمولیت کے بعد انہیں عسکری ٹریننگ کے لیے افغانستان بھیج دیا گیا، تاہم کمزور جسامت کی وجہ سے وہ چالیس روزہ لازمی کورس مکمل نہ کر سکے۔ پڑھنے لکھنے کی طرف ان کے رحجان کی وجہ سے مولانا مسعود اظہر کو حرکت المجاہدین کے ترجمان ماہانہ رسالہ نکالنے کو کہا گیا۔ انہوں نے ماہانہ رسالے ’صدائے مجاہدین‘ کا پہلا شمارہ اگست انیس سو نواسی میں شائع کیا۔ جلد ہی ان کا شمار حرکت المجاہدین کے اہم رہنماؤں میں ہونے لگا۔ سن انیس سو چورانوے میں حرکت المجاہدین اور حرکت الجہاد کو ملا کر ایک نئی عسکری تنظیم حرکت الانصار کی بنیاد رکھی گئی اور دونوں تنظیموں کے عسکری کمانڈروں کو حکم دیا گیا کہ وہ مشترکہ کارروائیاں کریں۔ سی بی آئی کو دیئے گئے بیان میں مولانا مسعود اظہر نے بتایا ہے کہ ’اسی موقع پر یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ مجھے بھارت کے زیر انتظام کشمیر بھیجا جائے تاکہ میں زمینی حقائق کا جائزہ لے سکوں۔ اس مقصد کے لیے میں پہلے بنگلہ دیش گیا اور وہاں سے ایک پرتگالی پاسپورٹ پر سفر کرتے ہوئے بھارت کے دارالحکومت دِلی پہنچ گیا۔‘ سن انیس سو پچانوے میں مولانا مسعود اظہر کا نام اس وقت عالمی افق پر ابھرا جب عسکریت پسندوں کے ایک غیر معروف گروپ الفاران نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے پہلگام ضلع میں چھ غیر ملکی سیاحوں کو اغواء کر لیا اور ان کی رہائی کے بدلے مولانا مسعود اظہر کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اغواء کیے جانے والے سیاحوں میں سے ایک کو قتل کر لیا گیا جبکہ ایک اور سیاح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ باقی چار سیاح ابھی تک لاپتہ ہیں اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں ہلاک کر دیا گیا ہے۔ مولانا مسعود اظہر سن دو ہزار میں انڈین ائیر لائن کے مسافر طیارے کے اغواء کے بعد ایک سو پچپن مسافروں کی رہائی کے بدلے رہا ہوئے۔ ان کے ساتھ بھارتی قید سے رہائی پانے والے دیگر قیدیوں میں کشمیری عسکری رہنماء مشتاق زرگر اور پاکستانی نژاد برطانوی شہری عمر سعید شیخ تھے۔ بھارتی قید سے رہائی کے بعد وہ پاکستان آ گئے اور یہاں انہوں نے جیش محمد کے نام سے ایک نئی جہادی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ چند ہفتوں کے اندر اندر اس نئی تنظیم کے دفاتر جنوبی پنجاب سمیت ملک کے مختلف حصوں میں کھل گئے۔ جیش محمد پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کئی حملوں کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ان میں دسمبر سن دو ہزار ایک میں بھارتی پارلیمنٹ پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے جس کے بعد عالمی دباؤ کے پیش نظر سابق صدر مشرف نے جیش محمد اور لشکرِ طیبہ پر پابندی عائد کر دی تھی۔ تاہم مبصرین کے مطابق جیش محمد نے پابندی کے بعد ’تحریک خدام القرآن‘ کے نام سے اپنا ’جہادی‘ مشن جاری رکھا۔ سابق صدر مشرف کے حکم پر مولانا مسعود اظہر کو گھر پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔ تاہم چودہ دسمبر سن دو ہزار دو کو لاہور ہائی کورٹ نے ان کی نظر بندی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ مولانا مسعود اظہر کا نام ان شخصیات کی فہرست میں بھی شامل ہے جن کی حوالگی کا مطالبہ بھارتی حکومت کرتی رہتی ہے۔ اس فہرست میں شامل دیگر شخصیات میں داؤد ابراہیم اور ٹائیگر میمن جیسے نام بھی شامل ہیں۔ ممبئی کے شدت پسند حملوں کے بعد جب بھارت نے ایک پھر شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تو ابتدائی طور پر مولانا مسعود اظہر کو حراست میں لینے کا ذکر کیا گیا۔ پاکستان کے وزیر دفاع احمد مختار نے منگل کے روز ہندوستان کے ایک نجی ٹی وی چینل سی این این آئی بی این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ممبئی بم حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ذکی الرحمٰن لکھوی کے ساتھ ساتھ مولانا مسعود اظہر کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ تاہم جمعرات کے روز دِلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر شاہد ملک نے اس بات کی تردید کی اور کہا کہ شدت پسند تنظیم جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر نظربند نہیں ہیں اور ان کے بارے میں حکومت پاکستان کو کوئی علم نہیں ہے۔
070717_cj_hearing_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/07/070717_cj_hearing_fz
’رات میں اجلاس کس نے بلایا‘
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی آئینی درخواست کی سماعت کرنے والے تیرہ رکنی بینچ کے سربراہ خلیل الرحمان رمدے نے کہا ہے کہ نو مارچ کو رات کے اندھیرے میں کس نے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلایا جس میں چیف جسٹس کو سنے بغیر انہیں کام کرنے سے روکنے کا حکم جاری کر دیا۔ضمیمہ: چیف جسٹس اور حکومت چیف جسٹس کی معطلی: خصوصی ضمیمہ
تیرہ رکنی بینچ کے سربراہ نے منگل کو سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان مخدوم علی خان سے بارہا استفسار کیا کہ نو مارچ سپریم جوڈیشل کونسل کی میٹنگ کس کے حکم پر بلائی گئی تھی اور کیا کونسل کسی جج کو صفائی کا موقع دیئے بغیر اسے کام کرنے سے روکنے کی مجاز ہے؟ یاد رہے کہ نو مارچ کو دن کے وقت صدر جنرل پرویز مشرف نے راولپنڈی میں چیف آف آرمی سٹاف ہاؤس میں چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری سے ملاقات کی تھی اور اسی روز شام کو چیف جسٹس کے خلاف صدارتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کیا گیا اور چیف جسٹس کو کام کرنے سے روکنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ اسی شام سپریم جوڈیشل کونسل نے چیف جسٹس کو کام کرنے سے روکنے کا ایک اور حکم جاری کر دیا تھا۔ تیرہ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہا کہ عدالت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ قائم مقام چیف جسٹس کے حلف لینے کے ایک گھنٹے کے بعد کونسل کے دو ممبران سپریم جوڈیشل کونسل کی پہلی میٹنگ میں شرکت کے لیے کراچی اور لاہور سے کیسے اسلام آباد پہنچ گئے۔ اٹارنی جنرل مخدوم علی خان نے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلائے جانے کے بارے میں عدالت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہیں ٹیلی فون پر کونسل کے اجلاس کے بارے میں اطلاع موصول ہوئی تھی تاہم انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا پہلا اجلاس کس نے طلب کیا تھا۔ جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہا کہ عدالت بہت سے نکات پر جان بوجھ کر سوالات نہیں اٹھا رہی کیونکہ ان نکات کے اٹھائے جانے سے کئی شخصیات کا ذکر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت جہازوں کی آمد اور رونگی کا ریکارڈ منگوا کر یہ پتہ لگا سکتی ہے کہ ایک گھنٹے کے اندر لاہور اور کراچی سے کس طرح سپریم جوڈیشل کونسل کے دو ارکان اسلام آباد پہنچے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلائے جانے کے بارے میں عدالت کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کا اٹارنی جنرل نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ اعتزازاحسن کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراض پر جسٹس رمدے نے کہا کہ عدالت یہ سوالات اٹارنی جنرل کے سامنے رکھ سکتی ہے، اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ اس کا جواب دینا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ایک موقع پر بینچ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ عدالت کو چیف جسٹس کے وکیل علی احمد کرد کو بذریعہ ٹرین کوئٹہ بھیجنا چاہیے یا ہوائی جہاز؟ اٹارنی جنرل نے جب چیف جسٹس کو جبری رخصت پر بھیجنے کے فیصلے کا دفاع کرنا شروع کیا تو بینچ کے سربراہ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا اگر جج کو ریفرنس دائر کیئے جانےکے بعد جبری رخصت پر بھیجا جا سکتا ہے تو عدلیہ کی آزادی کا کیا بنے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسی صورت میں عدالتی چارہ جوئی ممکن ہوتی ہے اور عدالتیں ایسے معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مستقبل میں صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ کسی جج کے بارے میں کوئی حکم جاری کرے لیکن موجودہ مقدمے میں چیف جسٹس کو صدراتی حکم 27 کے تحت چھٹی پر بھیجا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل مخدوم علی خان نے جب برطانیہ کے ایک عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا جس میں جج کو موقع دیا گیا کہ وہ خود ہی چھٹی پر چلا جائے تو جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس کو رضاکارانہ طورپر چھٹی پر بھیجنے کا موقع دیا گیا تھا۔ اٹارنی جنرل نے جواباً کہا کہ سارے حالات عدالت کے سامنے ہیں اور وہ کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ ملک کے چیف جسٹس سے کسی یہ تک پوچھنا گورا نہیں کیا کہ آپ خود چھٹی پر جانا چاہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کے ٹیلیفون تو کٹے ہوئے تھے لیکن کسی شخص کو بھیجوا کر بھی تو پوچھا جا سکتا تھا۔ جسٹس محمد نواز عباسی نے کہا کہ اگر کسی جج کو اس بنا پر کام سے روکا جائے کہ اس کی ذہنی صحت اس قابل نہیں ہے کہ وہ عدالتی فیصلے کر سکے تو کیا ایسے جج سے بھی پوچھا جائے گا کہ وہ رضاکارانہ طور پر چھٹی پر جانا پسند کریں گے؟ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ ایسی صورت میں جب جج پر پاگل ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہو تو سپریم جوڈیشل کونسل کو کم از کم اس پاگل جج کو دیکھنا تو چاہیے کہ کیا پاگل ہے بھی یا نہیں۔ اٹارنی جنرل نے سپریم جوڈیشل کونسل کی بند کمرے میں کارروائی سے متعلق اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر جج چاہے جس کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے تو کارروائی کو بند کمرے میں کرنا ضروری ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر جج کونسل کی کارروائی کو کھلی عدالت میں کروانا چاہے تو پھر اس کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس ہونا چاہیے کہ کیا فیصلہ آتے ہیں۔ ججوں کے تعصب سے متعلق اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ یہ اختیار کسی جج کو ہی ہونا چاہیے کہ وہ فیصلہ کرے کہ وہ اپنے سامنے مقدمے میں انصاف کر سکتا ہے یا نہیں۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ ایسے جج کے بارے میں اٹارنی جنرل کیا کہیں گے جس کے بارے میں چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ وہ ان سے بات تک کرنا پسند نہیں کرتے اور ان کی مخالفت کا پورے پاکستان کو علم ہے۔ جسٹس ایم جاوید بٹر نے کہا کہ کسی جج کا تعصب بلکل عیاں ہو تو کیا ایسی صورت میں بھی یہ معاملہ جج کی صوابید پر چھوڑ دینا چاہیے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے ججوں کے تعصب کے فیصلے کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے آصف زرداری مقدمے میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا حوالہ دیا جس میں کچھ جس میں سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس راشد عزیز اور ہائی کورٹ کے جج ملک قیوم (وفاقی حکومت کے وکیل) کو متعصب قرار دیا گیا تھا۔ جسٹس محمد نواز عباسی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جس بینچ نے جسٹس راشد عزیز کو متعصب قرار دیا جس کی بنیاد پر انہیں عدلیہ سے نکلنا پڑا، اسی بینچ کے کئی جج بعد میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئے جن کا جسٹس راشد عزیز کی موجودگی میں چیف جسٹس آف پاکستان بننے کا کوئی چانس ہی نہیں تھا۔ اس پر وفاقی حکومت کے وکیل ملک قیوم نے کہا کہ سید شریف الدین پیرزادہ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ مقدمے کے نتیجے کی صورت میں موجودہ بینچ کے کئی ججوں کے چیف جسٹس آف پاکستان بننے کا موقع ہے۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے ہنستے ہوئے کہا :’میرا تو چیف جسٹس بننے کا کوئی چانس ہی نہیں ہے۔” ملک قیوم نے کہا کہ سید شریف الدین پیرزادہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے (جسٹس رمدے) چیف جسٹس بننے کا بھی چانس ہو سکتا ہے۔ اعتزاز احسن نے اس موقع پر کہا کہ سید شریف الدین پیرزادہ کچھ اور ججوں کو معطل کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ سید شریف الدین پیرزادہ نے کچھ ججوں کو بچانے کے لیے چیف جسٹس کے خلاف عدالتی بے ضابطگی کے الزامات تو واپس لے لیا لیکن انہوں نے چیف جسٹس کے طیارہ استعمال کرنے کا الزام واپس نہیں لیا حالانکہ اس میں بھی چیف جسٹس اکیلے نہیں تھے بلکہ کچھ اور جج بھی ساتھ تھے۔ چیف جسٹس کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ عدالت اگر سید شریف الدین پیرزادہ کو ان ججوں کے نام بھی بتا دیں یہ وہ الزام واپس لے لیں گے۔ اٹارنی جنرل کی طرف سے دلائل کے اختتام پر چیف جسٹس کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے سارا دن عدالت کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ انہوں نے قانون کی کتابوں میں کانگریشنل سائلنس کی اصطلاح تو پڑھی تھی لیکن آج اٹارنی جنرل آپریشن سائلنس کا مظاہرہ کیا ہے۔ قبل ازیں مخدوم علی خان نے انٹیلیجنس بیورو کے ڈائریکٹر کی ایک رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کی گئی جس میں عدالت کو مطلع کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کی عمارت اور سپریم کورٹ کے ججوں کی رہائش گاہوں کو جاسوسی کے آلات سے پاک کرنے کے لیے ’ٹیکنکل سویپنگ‘ مکمل کر لی گئی۔ سپریم کورٹ نے انٹیلیجنس بیورو کو حکم دیا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کی عمارت اور ججوں کی رہائش گاہوں کی تلاش لیں کہ کہیں وہاں جاسوسی کے آلات تو نصب نہیں کیے گئے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے چاروں صوبائی ہائی کورٹس اور صوبوں میں ججوں کی رہائش گاہوں کی ’ٹیکنیکل سوئپنگ‘ مکمل کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت طلب کر لی۔ عدالت نے کہا کہ وفاقی حکومت کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ چودھری اختر علی کے ساتھ انصافی ہوئی ہے اور حکومت کو چودھری اختر علی ایڈوکیٹ کے نقصان کو پورا کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کا لائسنس اس بنیاد پر معطل کر دیا تھا کہ انہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے کچھ ایسے کاغذات عدالت میں دائر کر دیئے تھے جن میں ججوں کو گالیاں دی گئی تھیں۔ وفاقی سیکرٹری قانون جسٹس ریٹائرڈ منصور احمد نے ججوں کے بارے میں نازیبا الفاظ والا ریکارڈ عدالت کے سامنے رکھوانے پر عدالت سے غیر مشروط معافی کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔ اٹارنی جنرل مخدوم کے دلائل ختم ہونے کے بعد سید شریف الدین پیرزادہ کل سے اپنے دلائل شروع کریں گے۔
pakistan-51558388
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51558388
#BalakotAirStrike: جابہ میں ان دیکھے خوف کا راج اور نہ نظر آنے والی سکیورٹی ہے
پاکستان کے سیاحتی مقام بالاکوٹ کے قریب جابہ نامی گاؤں پر انڈین طیاروں کی بمباری کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے لیکن اس نیم آباد پہاڑی علاقے کا کچھ حصہ آج بھی لوگوں کے لیے علاقہ ممنوعہ بنا ہوا ہے۔
بالاکوٹ روڈ پر جابہ زرعی فارم کے سامنے دائیں طرف سے وہ علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں انڈین طیاروں نے بم گرائے تھے اس علاقے کے گرد سکیورٹی اور انٹیلی جنس کا نہ نظر آنے والا سخت پہرا واقعے کے ایک سال بعد بھی موجود ہے۔ یہاں سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا کہ 25 فروری 2019 کو تھا حتیٰ کہ اس گاؤں کے رہائشی نوران شاہ کا گھر جسے بمباری سے جزوی نقصاں پہنچا تھا، اسی حالت میں موجود ہے۔ میزائل گرنے کی وجہ سے بنے دو، چار گڑھے اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ بالاکوٹ روڈ پر جابہ زرعی فارم کے سامنے دائیں طرف سے وہ علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں انڈین طیاروں نے بم گرائے تھے۔ گاؤں جانے کے لیے نالہ روڈ عبور کرنی پڑتی ہے، جہاں گرمیوں اور سردیوں میں پانی چلتا رہتا ہے۔ یہ بھی پڑھیے بالاکوٹ فضائی حملہ: وہ سوال جن کے جواب نہیں مل سکے ’ابھینندن پاکستان میں کوئی میزائل فائر نہ کر سکے تھے‘ مدرسہ تعلیم القرآن اور بالاکوٹ وادی کا گمشدہ استعارہ بالاکوٹ حملہ، کب کیا ہوا؟ ’بالاکوٹ کا مدرسہ ہمیشہ سے یہاں موجود ہے‘ خوف کا راج ایک سال قبل جب اس علاقے میں حملے کے بعد جانا ہوا تھا تو مقامی لوگ مکمل طور پر تعاون کر رہے تھے اور واقعے کی تفصیلات کیمرے کے سامنے آ کر بتا رہے تھے۔ مگر اب جب دوبارہ اس علاقے میں جانا ہوا تو سڑک کنارے ہی سے لوگوں کا رویہ دیکھ کر سمجھ میں آ گیا کہ بات بننا مشکل ہے۔ گذشتہ سال جب سڑک کنارے سے کنگڑ گاؤں کے لیے پیدل سفر کیا تھا تو کئی مقامی لوگ مدد کرنے کو تیار تھے۔ مگر اب جب ہم نے نالہ عبور کیا تو کوئی ہم سے بات کرنے کو بھی تیار نہیں تھا۔ ایک بزرگ شخص سے درخواست کی کہ وہ ہمیں ایک سال قبل کی کچھ تفصیلات بتائیں تو ان کا جواب تھا کہ ’ایک سال گزر گیا ہے، اب کیا گڑے مردے اکھاڑتے ہو۔‘ یہ کہہ کر وہ چلتے بنے۔ اسی طرح دیگر لوگوں سے بات کرنے کی کوشش کی تو وہ بھی بات کرنے کو تیار نہیں تھے اور وہ واضح طور پر خوفزدہ دکھائی دے رہے تھے۔ ’یہاں تصویر، ویڈیو نہ بنائی جائے‘ جابہ بازار سے تقریبا ایک گھنٹے کا پیدل سفر طے کر کے کنگڑ پہنچے تو وہاں موجود چھ گھروں کے تمام مردوں نے بات کرنے سے دو ٹوک انکار کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’اس کی اجازت نہیں ہے۔ اگر ہم بات کریں گے تو ہم سے پوچھ گچھ ہو گی۔‘ یہی نہیں بلکہ انھوں نے ہمیں بھی منع کیا کہ اس مقام پر ویڈیو اور تصاویر نہ بنائیں، اس کی اجازت نہیں ہے۔ یہ بھی پڑھیے ’انڈین حملے سے ماحول کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے‘ ’جنگ کی خوشی پالنا امیروں کا شوق ہے‘ انھوں نے ہمارے سامنے ہی مختلف لوگوں کو فون ملانے شروع کر دیے اور جب کال اٹھا لی جاتی تو وہ انھیں بتاتے کہ یہاں میڈیا کے لوگ پہنچے ہیں جو تصاویر اور ویڈیو بنا رہے ہیں۔ ایک مقامی شخص نے مجھے اپنا فون دیا اور کہا کہ بات کریں۔ جب بات کی تو فون پر دوسری طرف موجود شخص نے واضح طور پر کہا کہ وہ انٹیلیجنس سے بات کر رہے ہیں اور ’یہاں تصاویر اور ویڈیو نہ بنائی جائے۔‘ نوران شاہ کا گھر جسے بمباری سے جزوی نقصاں پہنچا تھا 12 ماہ بعد بھی اسی حالت میں ہے جب مذکورہ شخص سے سوال کیا گیا کہ جب یہ کوئی ’نو گو ایریا‘ نہیں تو تصاویر لینے یا ویڈیو بنانے پر پابندی کیوں اور یہ کہ مقامی لوگوں کو میڈیا سے بات کرنے سے کیوں منع کیا گیا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں تھوڑی دیر میں فون کرتا ہوں۔‘ اور پھر پانچ سات منٹ بعد ہمارے آس پاس موجود تمام مقامی لوگ ہمیں چھوڑ کر چلے گے۔ ایک مقامی شخص جو واضح طور پر فون پر ہدایات لے رہا تھا، اس سے کہا کہ ہمارے پاس کچھ دیر تو رکیں مگر وہ بولا کہ ’ہم غریب لوگ ہیں۔ ادھر ہی رہنا ہے۔ ہمیں جو کہا جائے گا، ہمیں اس پر عمل کرنا ہو گا۔‘ کنگڑ میں نوران شاہ کا گھر میزائل حملے کے نتیجے میں بننے والے گڑھے کے بالکل قریب واقع ہے۔ جب ہم نیچے سے ان کے گھر کی طرف چلے تو ہمیں دیکھ کر وہ اوپر پہاڑ کی طرف چلنا شروع ہو گئے۔ ان سے گزارش کی کہ تھوڑا وقت دیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے گھاس کاٹنی ہے۔‘ حالانکہ یہ جمعہ یعنی چھٹی کا دن تھا۔ ممنوعہ علاقہ کنگڑ آبادی میں پہاڑ پر نوران شاہ کا آخری گھر ہے جس کے بعد وہاں پر کوئی آبادی نہیں ہے۔ اس سے اوپر صرف پہاڑ اور جنگلات ہیں۔ نوران شاہ کے گھر سے اوپر کے پہاڑی علاقے ہی میں ٹھنہ کے پہاڑ ہیں جہاں مدرسہ تعلیم القرآن موجود ہے۔ نوران شاہ کے گھر سے مدرسہ تعلیم القران جانے کا کوئی باقاعدہ راستہ تو موجود نہیں۔ مگر بتایا گیا کہ مقامی لوگوں کے لیے پیدل آدھے گھنٹے کا راستہ ہے۔ مدرسہ تعلیم القران کی طرف جانے کا اصل راستہ جابہ بازار میں بالاکوٹ روڈ کے علاقے میں ہے مگر اس طرف سے بھی کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ بتایا گیا کہ نوران شاہ کے گھر تک تو سب آ جا سکتے ہیں مگر بمباری کے سال بعد بھی اس سے آگے کوئی نہیں گیا ہے۔ اور کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ وہاں پر کیا ہوا تھا۔ ایک مقامی صحافی کے مطابق جب انھوں نے علاقے کا رُخ کیا تھا تو اس وقت انھیں نوران شاہ کے گھر تک جانے کی اجازت دی گئی اور وہاں تک کوئی بھی روک ٹوک نہیں تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب میں نے نوران شاہ کے گھر سے اوپر کی طرف جانے کی کوشش کی تو وہ مقامی لوگ جن کی رہنمائی میں، میں نوران شاہ کے گھر تک پہنچا تھا انھوں نے مجھ سے معذرت کر لی کہ وہ مجھے یہاں سے اوپر نہیں لے جائیں گے۔ ’جب میں نے تنہا جانے کی کوشش کی تو پانچ، سات منٹ کی مسافت کے بعد مجھے یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ میرا اکیلا جانا کسی بھی صورت مناسب نہیں۔ یہ پہاڑی اور جنگلی علاقہ ہے، یہاں پر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’مجھے روکنے والوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ میری حفاظت کے پیشِ نظر وہ مجھے اوپر نہیں جانے دیں گے۔‘ اس صحافی کا کہنا تھا کہ دوسرے روز جب انھوں نے جابہ بازار بالاکوٹ روڈ کے راستے سے مدرسہ تعلیم القرآن جانے کی کوشش کی تو سادہ کپڑوں میں موجود اہلکار بڑی نرمی سے انھیں اپنے ساتھ لے گئے۔ ’میرے ساتھ کوئی بدتمیزی تو نہیں ہوئی مگر 10، 11 گھنٹے سخت پوچھ گچھ کی گئی۔‘ جابہ حملے کے بعد کنگڑ اور جابہ کا علاقہ سیاحوں کا مرکز بن گیا تھا ’میرے موبائل پر غیر ملکی نمبروں سے میرے دفتر اور ساتھیوں کی کالیں تھیں۔ ان کالوں سے متعلق پوچھ گچھ کی جاتی رہی۔ پھر مجھے میرے دفتر اور ساتھیوں کی مداخلت پر جانے کی اجازت ملی۔‘ سیاحوں کی دلچسپی جابہ حملے کے بعد کنگڑ اور جابہ کا علاقہ سیاحوں کا مرکز بن گیا تھا۔ ناران، کاغان، بالاکوٹ اور دیگر علاقوں کی طرف جانے والے سیاح رُک کر اس علاقے کی طرف جاتے تھے۔ ایبٹ آباد کے رہائشی خرم خان اپنے خاندان کے ہمراہ گذشتہ سال ناران جاتے ہوئے اس علاقے میں گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میرے بچوں کو اس بات کا شوق تھا کہ وہ علاقہ دیکھیں جہاں انڈیا نے حملہ کیا۔ ہم لوگ اس علاقے میں کافی دیر رُکے تھے اور کچھ دیر گھومتے پھرتے رہے تھے۔‘ بالاکوٹ سے تعلق رکھنے والے ٹیکسی ڈرائیور سردار فرحان کا کہنا تھا کہ حملے کے بعد لوگ بڑی تعداد میں اس علاقے میں جانے لگے تھے۔ ’جب یہ تعداد بڑھنے لگی تو ہمیں واضح طور پر کہا گیا کہ اس طرف کسی کو بھی لے کر نہ جایا کریں۔‘ مقامی لوگوں کا بھی کہنا تھا کہ انھیں کہا گیا کہ وہاں آنے والے لوگوں کے ساتھ اس طرف جانے میں تعاون نہ کیا کریں جس کے بعد مقامی لوگوں نے سیاحوں کو راستہ دینے اور رہنمائی کرنے کا سلسلہ بند کر دیا۔ پھر اس مقام پر سیاحوں کی تعداد کم سے کم ہوتی گئی۔ تاہم اب بھی اکا دکا لوگ یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق حملے کے بعد سے مدرسہ بند ہے اور اب وہاں کوئی بھی موجود نہیں اور نہ ہی وہاں کوئی سرگرمی ہو رہی ہے ’مدرسہ بند ہے‘ مدرسہ تعلیم القرآن حملے کے بعد سے بند ہے۔ گذشتہ سال حملے کے بعد بین الاقوامی میڈیا پر بالاکوٹ روڈ پر نصب مدرسہ تعلیم القرآن کے جس بورڈ کی تصاویر آئی تھیں وہ بورڈ بھی اب ہٹا دیا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق حملے کے بعد سے مدرسہ بند ہے اور اب وہاں کوئی بھی موجود نہیں اور نہ ہی وہاں کوئی سرگرمی ہو رہی ہے۔ کبھی کبھار مدرسے میں مقیم دو لوگ نظر آتے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق وہ صرف مدرسے کی دیکھ بھال کے لیے وہاں مقیم ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذکورہ مدرسے میں ’ہمارے بچے کبھی پڑھنے نہیں جاتے تھے۔ علاقے کے بچے قرآن کی تعلیم مقامی مسجد کے مدرسے میں ہی حاصل کرتے تھے اور تعلیم القرآن میں صرف وہ ہی طالبعلم ہوتے تھے جو کہ ہاسٹل میں رہائش اختیار کرتے تھے۔‘ حملے کے بارے میں یاد کرتے ہوئے مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ حملے کی رات تک مدرسے میں طالب علم مقیم تھے جن کی تعداد تین سے چار سو تک ہو سکتی ہے۔ ایک مقامی شخص کے مطابق جب دھماکے ہوئے تو پہلا خیال ذہن میں یہ ہی آیا کہ مدرسے میں ہی کچھ ہوا ہے۔ پھر کچھ معلومات لیں تو پتا چلا کہ مدرسے کے قریب ہی بم وغیرہ گرے ہیں مگر مدرسے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ مقامی افراد کے مطابق صبح جب روشنی ہوئی تو لوگ سب سے پہلے کنگڑ کے علاقے کی طرف گئے جہاں فوج کے اہلکار بڑی تعداد میں موجود تھے۔ 2019 میں حملے کے بعد فوج کی جانب سے غیر ملکی عمائدین کو علاقے کے دورے پر لے جایا گیا تھا ان افراد کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے ہمیں آگے جانے سے روک دیا تھا۔ فوجی صبح تقریباً آٹھ بجے تک اسی علاقے میں رہی تھی مگر میڈیا کے نمائندوں کے موقع پر پہنچنے سے پہلے ہی وہ واپس چلے گئے اور اس کے بعد وہاں پر فرنٹیئر کانسٹیلبری کے اہلکار پہنچ گئے تھے۔‘ مدرسہ تعلیم القران جابہ کے پہاڑ ڈھنہ پر محکمہ جنگلات کی ملکیتی زمین پر واقع ہے جہاں کے گھنے جنگلات کو ماسر ریزور فارسٹ کہا جاتا ہے۔ جس علاقے میں مدرسہ واقع ہے وہاں پر انسانی مداخلت بہت ہی کم ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ مدرسہ 1980 کی دہائی میں قائم کیا گیا تھا اور یہاں پہلے افغان طلبا موجود ہوتے تھے۔ نوے کی دہائی میں ان کی جگہ پاکستانی اور کشمیری طلبا نے لے لی تھی۔ نوّے کی دہائی کے آغاز میں جب کالعدم حرکت الانصار قائم ہوئی تو اس مدرسے کا انتظام حرکت الانصار کے ہاتھ میں چلا گیا تھا اور اس وقت مولانا مسعود اظہر حرکت الانصار کا حصہ تھے۔
051124_psychological_problems
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2005/11/051124_psychological_problems
شہری بھارتیوں کی نفسیاتی الجھنیں
معاشرے کی موجودہ پیچیدہ صورت حال میں لوگ کئی طرح کی نفسیاتی پریشانیوں کا شکار ہورہے ہیں اور اسی لیے ہندوستان میں اعصابی تناؤ اور ذہنی کشمکش کے علاج کے لیے نفسیاتی ماہرین کی مدد اب ایک عام بات ہے۔ تقریبا سبھی ہسپتالوں میں ماہرنفسیات ہیں اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے مسائل حل کے لیے ان کا سہارا لے رہی ہے۔
ذہنی تناؤ کم کرنے اور دل ہلکا کرنےکے لیے بعض کمپنیوں نے کئی طرزکی مو سیقی کی بھی تخلیق کی ہے۔ لیکن شہروں کی تیز رفتار زندگی میں پیچدگیاں اتنی بڑھ رہی ہیں کہ ہسپتالوں میں نفسیاتی ماہر ین سے ملاقات کے لیے لوگ گھنٹوں قطار میں لگتے ہیں۔ دلی میں نفسیاتی امراض کے مشہور ڈاکٹر دیپک رہیجا کہتے ہیں کہ اب لوگ اپنی پریشانیوں کے تئیں بیدار ہیں اور اس سے پہلے کہ وہ ٹوٹ جائیں مدد چاہتے ہیں۔ انہوں نےبتایا کہ ’آج کل ایسے لوگ بہت آتے ہیں جن کا ذہنی نظام الجھا ہو۔ وہ جذباتی الجھنوں اور رشتوں اور تعلقات کی پیچدگیوں میں مبتلا ہوتے ہیں کیوں کہ شہری رہن سہن تیزی سے بدلا ہے۔‘ وہ مزید کہتے ہیں: ’لوگوں کو اپنے آپ سے امیدیں زیادہ ہیں لیکن افسردگی اور مایوسی کو برداشت کرنے کی ہماری قوت کم ہوگئی ہے۔ شراب اور نشیلی ادویات کا استعمال بہت ہے۔ اس کے علاوہ ازدواجی زندگی میں اختلافات عام بات ہیں اور ایسے ہی لوگ ہماری مدد چاہتے ہیں۔‘ نفسیاتی امراض بھی الگ الگ قسم کے ہوتے ہیں اور کئی تو ایسے ہیں جو بعض مخصوص پیشہ وارانہ حالات میں پنپتے ہیں۔ ڈاکٹر راغب حسین بتاتے ہیں کہ ان کے پاس امتحان میں فیل ہونے والے طلباء کی تعداد زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آج کی زندگی بہت مصروف ہے۔ رات دن کام کرنے سے کلینکل ڈپریشن کے کیس بہت زیادہ ہیں اور اس میں سافٹ ویئر انجینئئر اور کال سینٹرز کے پیشہ ور زیادہ مبتلاہوتے ہیں۔‘ نفسیاتی پریشانیوں اور اعصابی تناؤ میں روز بہ روز اضافے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ لیکن جب پیچیدگیاں مریض کی سمجھ سے باہر ہوجائیں تو پھر وہ سائیکولوجسٹ یعنی نفسیاتی ماہر کی مدد کے لیے وقت اور پیسے دونوں خرچ کرتے ہیں۔ پرائیوٹ کمپنی کی ایک مینیجر نیہا نے بتایا کہ ’میں بڑی آزاد خیال تھی لیکن شادی کے بعد میری ذہنی الجھنیں بڑھ گئیں۔ میں بڑی مشکل میں تھی اور جب پریشانی برداشت سے باہر ہوگئی تو ایک دوست کے کہنے پر میں نے سائیکولوجسٹ کی مدد لی اور مجھے کافی فائدہ ہوا ہے۔‘ ڈاکٹر رہیجا کی کلینک پر ایک مریض نے بتایا کہ ’میری فیملی پرابلم تھی۔ ایک وقت تھا کہ لوگ اپنی تکلیف و درد سہہ لیتے تھے یا پھر بڑوں کی مدد سے غم ہلکاکر لیتے تھے۔ کاش میرے ساتھ بھی خاندان کے لوگ ہوتے اور میری مدد کرتے۔ آخر کار تنگ آکر میں نے ڈاکٹر کی مدد لی ہے اور اب کچھ سکون ہے۔‘ قطار میں لگے ایک دوسرے مریض نے کچھ یوں کہا: ’اس مصروف ترین دور میں اگر زندگی تن تہنا ہے تو قوت برداشت بھی کم ہو گئی ہے۔ ایسی صورت میں نفسیاتی ڈاکٹر آخری سہارا ہیں۔ انہی کی بدولت میری خوشیاں پھر واپس ہورہی ہیں۔‘ آخر نفسیات کے ماہر اس طرح کی ذہنی بیماریو ں کا علاج کیسے کرتے ہیں؟ سائیکولوجسٹ شہزاد بتا تے ہیں: ’ذہنی پریشانی کے جال میں آدمی اتنا الجھ جاتا ہے کہ وہ بڑی مشکل سے خود نکل پاتا ہے۔ ایسے میں ماہرین ان کی پریشانیوں کو سمجھ کر اس کا حل پیش کرتے ہیں اور حل خود مریض میں چھپا ہوتا ہے۔‘ مایوسی اور افسردگی سے نکالنے کے لیے ماہر اپنے مریضوں کے ساتھ گھنٹوں بات کرتے ہیں۔ اس کے فائدے کے بارے میں جب ایک مریض سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا: ’اگر مجھ جیسی آزاد خیال تعلیم یافتہ لڑکی کو اس طرح کی کونسلگ سے فائدہ ہوسکتا ہے تو عام آدمی کے لیے تو بہت مفید ہوگی۔‘ ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہنی کشمکش کے شکار لوگ زیادہ تر بڑے شہروں میں ہیں۔ آج کے معاشرے میں سبھی عمر کے لوگ اس میں مبتلا ہیں۔ لیکن ڈاکٹروں کے مطابق ایک تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اب نئی عمر کے بچے بھی سنگین نوعیت کی ذہنی الجھنوں کا شکار ہورے ہیں اور اکثر ان کے مسائل جنسی آزادی کی صورتحال سے پیدا ہورہے ہیں۔
080513_china_resuce_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2008/05/080513_china_resuce_fz
چین: وسیع امدادی آپریشن شروع
چین کے جنوب مغربی حصہ میں سات اعشاریہ آٹھ کی شدت سے آنے والے زلزلے کے بعد وسیع پیمانے پر امدادی کارروائیوں کا آغاز کر دیا گیا ہے جبکہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس زلزلے میں بارہ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔چین میں زلزلے سے ہلاکتیں زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر وینچوان میں امدادی کام کرنے کے لیے فوج پہنچ گئی ہے تاہم زلزلے کے بعد بارشوں کے باعث امدادی کام میں دشواری پیش آ رہی ہے۔
سیچوان صوبے کے دیگر علاقوں میں تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہزاروں افراد کو نکالنے کی سرتوڑ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ زلزلے کی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے اس بات خدشہ ظاہر کیا جا رہا کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ چینی وزیر اعظم وین جایا باو زلزلہ زدہ علاقے میں پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے امدادی کارکنوں سے کام کی رفتار تیز کرنے کو کہا ہے۔ زلزلے کے مرکز کے جنوب مشرق میں واقع دوجیناگ شہر میں مقامی شہریوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا جب تک ملبے تلے دبے ہوئے کسی ایک بھی فرد کو بچانے کی امید باقی ہے وہ سر توڑ کوششیں جاری رکھیں گے۔ چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنوا کے مطابق صوبے سیچوان کے ساتھ مواصلاتی نظام کٹ گیا ہے۔ چین کے صدر ہو جینتاؤ نے حکم دیا ہے کہ متاثر افراد کی مدد کے لیے تمام تر کوششیں کی جائیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بیچوان کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں پر اسی فیصد عمارتیں منہدم ہو گئی ہیں اور ان میں تین سے پانچ ہزار افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے اور تقریباً دس ہزار افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ امریکی محکمہ ارضیات نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ زلزلے کا مرکز سیچوان صوبے کے شہر چینگڈو سے بانوے کلو میٹر دور شمال مغرب میں تھا۔ اس صوبے کی آبادی تقریباً دس ملین ہے۔ زلزلےکے بعد علاقے میں ٹیلی فون کا نظام ٹھپ ہو گیا ہے۔ چینگڈو کی عمارتوں میں شگاف پڑ گئے اور پانی کے پائپ پھٹ گئے اور علاقے کے لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ ژِنہوا کے مطابق زلزلے کے چوالیس جھٹکے محسوس کیے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ علاقوں سے خبریں بہت تیزی سے آ رہی ہیں اور یہ پہلی بار ہے کہ چینی سرکاری میڈیا اتنی تندہی سے کام کر رہی ہے۔
050317_mukhtara_reappeal_am
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/03/050317_mukhtara_reappeal_am
’جدوجہد جاری رکھوں گی‘
مختاراں مائی نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے گاؤں میں اپنا سکول بدستور چلاتی رہیں گی۔ اس سکول میں ڈھائی سو لڑکیاں اور ڈیڑھ سو لڑکے زیر تعلیم ہیں۔
جنوبی پنجاب کےگاؤں میر والا میں پنچایت کے حکم پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی مختاراں مائی کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث افراد کی رہائی کے بعد ان کی جان کو خطرہ ہے اور وہ صدر جنرل پرویز مشرف سے اپیل کرتی ہیں کہ ان افراد کو دوبارہ حراست میں لیا جائے۔ مختاراں مائی نے اس موقع پر ان افراد کی رہائی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کے ساتھ زیادتی کرنے والے پڑھے لکھے نہیں تھے مگر ان افراد کو رہا کرنے والے پڑھے لکھے ہیں جس سے ان کو صدمہ پہنچا ہے۔ مختاراں مائی نے کہا کہ انہوں نے اپنے گاؤں کے تھانے میں رہائی پانے والے ان افراد کے خلاف ایف آئی آر بھی کٹوائی ہے جس میں پولیس سے ان افراد کو دوبارہ حراست میں لینے کی درخواست کی گئی ہے۔ مختاراں مائی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومتی رکن قومی اسمبلی کشمالہ طارق نے کہا کہ وہ مختاراں مائی کے ہمراہ وفاقی وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ سے ملاقات کریں گی جس میں مختاراں مائی کیس کے مبینہ ملزمان کو ایم پی او کے تحت گرفتار کرنے کی درخواست کی جائے گی۔
160414_lhr_missing_female_journalist_sr
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2016/04/160414_lhr_missing_female_journalist_sr
’میں کیوں زینت کو یاد کر کے روتی رہی،‘
زینت شہزادی کو لاپتہ ہوئے ایک سال بیتنے کو ہے لیکن ان کے چھوٹے سے گھر میں جیسے وقت تھم سا گیا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی ڈریسنگ ٹیبل پر زینت کی کنگھی اور لپ سٹک جوں کی توں دھری ہیں۔ الماری میں کپڑے لٹک رہے ہیں، اور ان کی والدہ بھی ایک سال سے امید و بیم کے درمیان جھول رہی ہیں۔
اپنے گھرانے کی واحد کفیل زینت اغوا سے پہلے بھارتی شہری حامد انصاری کی پاکستان میں گمشدگی کے کیس پر کام پر رہی تھیں کنیز بی بی ایک اضطراب کے عالم میں کبھی ڈریسنگ ٹیبل کا سامان سجاتی ہیں تو کبھی کپڑوں کی سلوٹیں درست کرتی ہیں۔ ان کی آواز میں کپکپاہٹ ہے۔ ’میں نے زینت کے سردیوں کے کپڑے سنبھال کر رکھ دیے ہیں اور اب گرمیوں کے نکال رہی ہوں، مجھے پتہ ہے وہ واپس آ کر پہنے گی۔‘ 24 مارچ کو زینت کے سب سے چہیتے بھائی صدام نے خودکشی کر لی۔ کنیز بی بی کا کہنا ہے کہ وہ زینت کی طویل گمشدگی سے دلبرداشتہ ہو گیا تھا۔ ’وہ روز پوچھتا تھا آپی کب آئیں گی، بس اپنی زندگی کے آخری دن اس نے کہا، امی آپی اب نہیں آئیں گی۔‘ کنیز بی بی کہتی ہیں کہ ’شاید یہ میرا ہی قصور ہے، میں کیوں اس کے سامنے زینت کو یاد کر کے روتی رہی، اس بچے سے برداشت نہیں ہوا۔‘ اپنے گھرانے کی واحد کفیل زینت اغوا سے پہلے بھارتی شہری حامد انصاری کی پاکستان میں گمشدگی کے کیس پر کام پر رہی تھیں اور انھوں نے ممبئی میں حامد کی والدہ سے رابطہ کرنے کے بعد ان کی جانب سے جبری گمشدگی کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ اس مقدمے کے حوالے سے جبری گمشدگیوں کے حکومتی کمیشن کی تحقیقات میں بھی ان کا اہم کردار تھا۔ اسی سال فروری میں سکیورٹی اداروں نے حامد انصاری کو فوجی عدالت میں پیش کیا اور انھیں تین سال کی سزا سنائی گئی۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم وکیل حنا جیلانی نے بتایا: ’ان کے گھر والوں سے ہمیں پتہ چلا کہ ایک بار پہلے بھی زینت کو سکیورٹی والے زبردستی اٹھا کر لے گئے تھےاور چار گھنٹے بعد چھوڑ دیا۔ زینت نے گھر والوں کو بتایا کہ وہ اس سے حامد کے بارے میں تفتیش کر رہے تھے۔‘ 19 اگست 2015 کو زینت شہزادی رکشے میں دفتر جا رہی تھیں کہ دو کرولا گاڑیوں نے ان کا راستہ روکا، مسلح افراد نکلے اور انھیں زبردستی گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔ اگلے دن زینت کی جبری گمشدگیوں کے کمیشن میں پیشی تھی۔ لاہور جیسے شہر میں دن دہاڑے ایک خاتون صحافی کا لاپتہ ہونا انسانی حقوق کے سرگرم اداروں کے لیے باعثِ فکر ہے۔ حنا جیلانی نے کہا: ’ہمیں کافی حد تک یقین ہے کہ یہ کام خفیہ ایجنسیوں ہی کا ہے کیونکہ ان کی حراست میں اگر کوئی بھی ہو تو پولیس کا کسی قسم کا بس نہیں چلے گا۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس کیس میں پولیس تقریباً بے بس ہو چکی ہے۔‘ اس کیس کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج ہے جبکہ جبری گمشدگیوں کے بارے میں حکومتی کمیشن بھی اس کیس کی تفتیش کر رہا ہے۔ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ وہ زینت شہزادی کی بازیابی کی کوششیں کر رہے ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ خفیہ اداروں نے اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ ایک اعلیٰ اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں امید ہے آئندہ ایک دہ ماہ میں کیس حل کر لیا جائے گا۔ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پر اندرونی اور بیرونی دباؤ کی وجہ سے اس مسئلے کے حل کے لیے سنہ 2011 میں ایک خصوصی کمیشن بنایا گیا تھا۔ مسنگ پرسنز کے 3000 سے زائد مقدمات میں سے اب تک 1300 سے زائد مقدمات حل نہیں ہو سکے۔ صرف فروری میں لاپتہ افراد کے 70 مزید کیس کمیشن میں جمع کروائے گئے۔ زینت کا نام بھی اب اس لمبی فہرست میں شامل ہو چکا ہے، جن کے لواحقین سالہاسال سے دربدر ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کے نتیجے میں خفیہ ادارے کئی افراد کو وارنٹ یا وضاحت کے بغیر حراست میں لے رہے ہیں۔ حنا جیلانی کا کہنا ہے: ’اگر ایسے قوانین بنائیں جائیں گے جو موجودہ قوانین سے متصادم ہوں اور جب ان اداروں پر کوئی احتساب یا نگرانی کا نظام نہ ہو تو یہ بہت خطرناک ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ جبری گمشدگیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔‘ ان تمام کا خمیازہ زینت شہزادی جیسے لاپتہ ہونے والے افراد کا خاندان چکا رہا ہے۔ اپنے آپ کو کچھ دلاسہ دینے کے لیے کنیز بی بی روزانہ اپنے بیٹے کی قبر پر آ کر پھول چڑھاتی ہیں۔ جب کہ بیٹی کے معاملے میں انھیں یہ محدود سکون بھی میسر نہیں۔ انھوں نے روتے ہوئے مجھ سے کہا کہ ’بیٹا مجھے کوئی اتنا تو بتا دے کہ اپنی زینت کا انتظار کروں یا اس کی مغفرت کے لیے دعا؟‘
070105_kashmir_strike_sz
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/01/070105_kashmir_strike_sz
صدام کی پھانسی کے خلاف ہڑتال
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عراق کے سابق صدر صدام حسین کی پھانسی کے خلاف جمعہ کے روز ایک ہڑتال کی گئی ہے جس سے عام زندگی متاثر ہوئی ہے۔
وادی کشمیر کے بیشتر علاقوں میں دکانیں بند ہیں اور سڑک پر ٹریفک کم ہے۔ ہڑتال کا اعلان کسی خاص گروپ یا جماعت کی طرف سے نہیں کیا گیا ہے لیکن اس کا اثر بیشتر علاقوں میں ہے۔ گزشتہ دو روز سے سری نگر کی سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ احتجاج کے دوران مظاہرین امریکہ کےصدر جارج بش اور برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے پتلے جلا رہے ہیں۔ کشمیر میں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے اور عوام میں صدام حسین کی پھانسی کے خلاف سخت ناراضگی پائی جاتی ہے۔ کشمیر کے علاوہ ہندوستان کے دیگر ریاستوں میں بھی صدام حسین کی پھانسی کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز اترپردیش کے شہر آگرہ میں بھی ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا۔
080313_khi_journalists_protest
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/03/080313_khi_journalists_protest
کراچی میں صحافیوں کا احتجاج
کراچی میں صحافیوں کی تنظیم نےگزشتہ روز پریس کلب کے باہر صحافیوں پر تشدد کا ذمہ دار نگران صوبائی حکومت کو قرار دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ایم کیو ایم خواتین پر حملہ و تشددکراچی پریس کلب اور کراچی یونین آف جرنلسٹ کے زیر اہتمام جمعرات کی شام احتجاجی جلسہ منعقد کیا گیا جس میں صحافیوں پر تشدد اور انہیں کئی گھنٹے تک ہراساں کرنے کی مذمت کی گئی۔
پریس کلب کے سیکریٹری جنرل امتیاز فاران کا کہنا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین اسمبلی نے پریس کلب آکر ان واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور کہا تھا کہ اس میں کوئی تیسرا ہاتھ ملوث ہے۔ جماعت کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے اس واقعے کو تنظیم کی مقبولیت کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ واقعہ ان کے لیے اچھنبے کی بات ہے یہ ایک سازش ہوئی ہے، کچھ عناصر نے ایک بڑے عرصے کے بعد حقیقی کو زندہ کرنے کی کوشش کرکے متحدہ قومی موومنٹ کی برسوں کی کوششوں پر پانی پھیرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اس پر پرانے بہتان اور الزام عائد کیے جائیں۔‘ کراچی یونین آف جرنلسٹ کے صدر خورشید تنویر نے پولیس کو اس جرم میں برابر کا شریک قرار دیا۔’اس واقعے کے وقت تک پولیس موجود رہی مگر خاموش تماشائی بنی رہی پھر غائب ہوگئی‘۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ کی نگران حکومت اس واقعے کی ذمہ دار ہے کراچی یونین آف جرنلسٹ یہ حق محفوط رکھتی ہے کہ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروائے ۔ کراچی پولیس کے سربراہ نیاز صدیقی کا کہنا ہے کہ پریس کلب کے باہر خواتین کا آپس میں جھگڑا ہوا تھا، صحافیوں پر تشدد سے وہ لاعلم ہیں۔ان کا کہنا تھا ’پولیس اس سے باہر موجود ہوتی ہے، بدھ کے روز بھی پولیس دور تھی اور خواتین آپس میں لڑ پڑی جنہیں الگ کیا گیا۔ نیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ پریس کلب کے باہر نہ فائرنگ ہوئی اور نہ ہی کوئی ہلاک یا زخمی ہوا ہے۔
pakistan-57059367
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57059367
12 مئی کا کراچی: ’وہ دن جب کسی حملہ آور کو کوئی ڈر نہیں تھا‘
'گولی اس کے گلے میں لگی تھی۔ اِس حالت میں بھی اُس نے زخم سے اُبلتا ہوا خون روکنے کے لیے اپنا ہاتھ گردن پر رکھا ہوا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ جان بچانے کے لیے اُس کی مدد کروں مگر مسلسل گولیاں چل رہی تھیں۔ نہ تو خود میری جان محفوظ تھی نہ ہی اس کے پاس کوئی امید یا ذریعہ کہ میں اُسے بچانے کی کوشش کر سکتا۔'
12 مئی 2007 کو کراچی میں ہونے والی قتل و غارت گری کی منظر کشی کرتے ہوئے پاکستانی ٹی وی چینل جیو نیوز سے وابستہ صحافی قاضی حسن تاج کا لہجہ، 14 برس بعد بھی جذبات سے بھرپور ہے۔ قاضی حسن اُن بہت سے صحافیوں، عینی شاہدین، سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ نگاروں میں شامل ہیں جن سے اُس دن کی روداد اور یہ کہانی اب دوبارہ لکھنے کے لیے طویل گفتگو ہوئی۔ اور پھر جو الزامات، تجزیے یا دعوے اس تحقیق میں اب سامنے آئے اُن پر جواب اور موقف لینے کی خاطر خود سابق چیف جسٹس اور اپنی سیاسی جماعت بنا لینے والے افتخار محمد چوہدری سے بھی کئی ہفتوں تک رابطے کی متواتر کوششیں کی گئیں مگر وہ دستیاب نہ ہوسکے۔ الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ کے اُس دھڑے، جسے اب ایم کیو ایم لندن کہا جاتا ہے، کے ترجمان مصطفیٰ عزیز آبادی نے اُن تمام الزامات کو رد کیا ہے جو سیاسی رہنماؤں، صحافیوں یا تجزیہ نگاروں نے عائد کیے اور اس واقعے یا اس سے جُڑے تمام واقعات کو اپنی تنظیم کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ اب ایم کیو ایم (بہادر آباد دھڑے) سے وابستہ کراچی کے سابق میئر وسیم اختر 12 مئی 2007 کو وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیرِ داخلہ تھے اور انھوں نے بھی اُس وقت اپنے کردار اور حکومتی اقدامات کا دفاع کیا۔ 12 مئی 2007 کے جس واقعے کے بارے آپ یہ داستان پڑھ رہے ہیں اُس روز پاکستان کے (اُس وقت) معزول کر دیے جانے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری (اُس وقت کے) فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے حکم پر اپنی معطلّی کے خلاف کراچی میں، وکلا اور قانون دانوں کے جلسے میں شرکت کرنا چاہتے تھے۔ اس دوران شہر میں دن بھر لاقانونیت، بدترین تشدد اور بھیانک قتل و غارت بھی جاری رہی اور مختلف واقعات میں کم از کم 48 افراد قتل ہوئے۔ سیاسی حلقے مقتولین کی تعداد 56 یا اُس سے بھی زیادہ بتاتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے 12 مئی، کراچی کی سیاست کا 'ٹرننگ پوائنٹ' اُس ایک ہی دن میں ڈھائی سے تین سو کے لگ بھگ افراد گولیاں لگنے یا دیگر پرتشدد حملوں کی وجہ سے زخمی ہوئے جن میں دعووں کے مطابق پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت کئی سیاسی جماعتوں کے کارکنان شامل تھے۔ مسلّح جتھوں کے ہاتھوں پورا شہر یرغمال دکھائی دیا اور تقریباَ ہر اہم شاہراہ پر اور ہر علاقے میں شہری زندگی دن بھر مفلوج رہی۔ عینی شاہدین اور ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس، انتظامیہ اور سرکاری ادارے بھی دن بھر جاری رہنے والی اس کشمکش کے دوران یا تو 'منظر سے غائب' رہے یا پھر 'خاموش تماشائی' کا کردار ادا کرتے رہے۔ اُس روز ہلاک و زخمی ہونے والوں کے نام تو پولیس کارروائی اور عدالتی مراحل میں سامنے آگئے مگر قاتل اس روز بھی ہمیشہ کی طرح 'نامعلوم' تھے اور آج بھی 'نامعلوم' ہی ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں تھا کہ پولیس، انتظامیہ یا ریاستی اداروں کو علم ہی نہیں تھا کہ شہر کی سڑکوں پر کون کس کو اور کیوں قتل کر رہا ہے۔ تحقیق کے دوران بی بی سی کو اس دن سے متعلق کراچی پولیس کے اُس وقت کے سربراہ کا ایک خفیہ مراسلہ ملا۔ سی سی پی او کے دفتر سے 11 مئی 2007 کو پولیس کی اعلیٰ قیادت کو بھیجے گئے اس مراسلے میں تمام متعلقہ حکام کو متنبہ کیا گیا تھا کہ جہاں ایک طرف حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں چیف جسٹس کا استقبال کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں وہیں ایم کیو ایم نے بھی جنرل مشرف کی جانب سے چیف جسٹس کے خلاف بھیجے جانے والے صدارتی ریفرینس کے 'پولیٹیسائزڈ' ہونے یعنی غلط انداز میں سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیے جانے کے خلاف تبت سینٹر پر مرکزی جلسے اور شہر بھر میں جلوسوں کے انعقاد کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس خط میں پولیس کے سربراہ نے خبردار کیا تھا کہ 'اس موقع پر شہر میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ لہٰذا حکم دیا جاتا ہے کہ متعلقہ افسران چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت تمام انسانی جانوں کی حفاظت یقینی بنائیں اور ممکنہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے امن و امان برقرار رکھنے کی خاطر انتظامات و اقدامات کیے جائیں۔' تاہم حیرت انگیز طور پر اس خط میں دو جگہ انتہائی پرزور انداز میں حُکام کو تنبیہ کی گئی کہ 'جلسے، جلوس کے دوران کوئی بھی پولیس اہلکار کسی بھی طرح کے اسلحہ سے لیس نہیں ہو گا۔' (یہ وہ نکتہ ہے جس پر متاثرہ سیاسی جماعتیں آج بھی سوال اٹھاتی ہیں۔) پولیس سربراہ کے مراسلے سے واضح تھا کہ ریاست اور اُس کے تمام ادارے اس صورتحال اور ممکنہ لاقانونیت کے تمام خدشات سے بخوبی واقف تھے اور جانتے تھے کہ کون سی قوّتیں کیا کچھ کرسکتی ہیں۔ جب چیف جسٹس کراچی پہنچے چیف جسٹس افتخار چوہدری کا دورۂ کراچی اس تحریک کا ہی حصہ تھا جو ان کی عہدے سے معطلی کے بعد شروع ہوئی تھی اور ملک بھر میں وکلا تنظیموں نے فیصلہ کیا تھا کہ جسٹس افتخار چوہدری ملک میں مختلف بار ایسوسی ایشنز سے خطاب کریں گے۔ اسی سلسلے میں ملک کے کئی شہروں میں افتخار چوہدری کے ایسے ’طوفانی اور ہنگامی‘ دورے شروع ہوئے جس میں جج اور وکلا بھی شامل ہوتے چلے گئے اور اس ساری احتجاجی لہر نے ایک قسم کی مشرف مخالف سیاسی تحریک کا رخ اختیار کر لیا۔ لاہور ، ایبٹ آباد ، ساہیوال ، جیسے شہروں میں ایسے اجتماعات منعقد ہوتے رہے اور ایسے میں ہی 12 مئی کا وہ دن طلوع ہوا جب چیف جسٹس اسلام آباد سے کراچی کے ہوائی اڈّے تک تو پہنچ گئے تھے مگر شہر میں داخل ہونے کی اُن کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی ، یا "ناکام" بنا دی گئی۔ اسی روز جنرل مشرف نے اسلام آباد میں اپنا جلسہ کرنے کا اعلان کیا جس میں انہوں نے مکّے لہرا کر اپنی طاقت کا وہ اظہار کیا جو ذرائع ابلاغ کی توجّہ کا مرکز بنا۔ ادھر کراچی میں جنرل مشرف کی مخالف تمام سیاسی جماعتوں نے اعلان کیا کہ افتخار چوہدری کا استقبال جلوسوں کی شکل میں کیا جائے گا اور دوسری طرف الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ نے اعلان کیا کہ جسٹس چوہدری کے خلاف ریفرینس کے سیاست زدہ ہو جانے کے خلاف کراچی بھر میں جلسے جلوس منعقد کئے جائیں گے۔ قیوم صدیقی اُن صحافیوں میں شامل تھے جو جسٹس افتخار چوہدری کو کراچی لے جانے والے طیارے میں اُن کے ہمراہ تھے۔ ان کے مطابق جنرل مشرف کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا تھا کہ کسی بھی قیمت پر جسٹس افتخار چوہدری کو کراچی کے ہوائی اڈّے کی عمارت سے باہر نہیں نکلنے دیا جائے گا۔ 'فیصلہ تھا کہ انھیں کراچی میں جہاز سے اترنے کے بعد ایئر لفٹ کر کے (یعنی ہیلی کاپٹر کے ذریعے) واپس اسلام آباد منتقل کر دیا جائے گا۔' 12 مئی کو افتخار محمد چودھری نے سندھ ہائی کورٹ بار کے 50 سالہ تقریب سے خطاب کرنا تھا قیوم صدیقی نے بتایا کہ پی کے 301 جو افتخار چوہدری کو لے کر کراچی جا رہی تھی اُس کے مسافروں میں اکثریت وکلا کی تھی۔ ان کے بقول جب افتخار چوہدری اسلام آباد کے ہوائی اڈے پہنچے تو وہیں وکلا کی بڑی تعداد ان کے حق میں اور جنرل مشرف کے خلاف زبردست نعرے بازی کر رہی تھی۔ اسلام آباد کے ہوائی اڈّے پر خفیہ اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی بھی بڑی تعداد موجود تھی اور قیوم صدیقی کو یاد ہے کہ طیارے میں سوار ہونے سے پہلے ہی کراچی سے خبریں آنے لگیں کہ وہاں کیا صورتحال بن چکی ہے۔ 'جب جہاز کراچی کے ہوائی اڈے کے قریب تھا تو اچانک چوہدری افتخار نے میری طرف دیکھا اور پوچھا کہ ہاں بھئی قیوم کیا خبریں ہیں کراچی سے، کچھ پتا ہے کیا ہو رہا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ جیسے اتریں گے میں (کراچی کے ساتھیوں سے) آپ کو پوچھ کر بتاؤں گا۔ 'جب ہم اتر کر جہاز سے باہر آئے تو لاؤنج میں موجود کئی افراد نے افتخار چوہدری کو ایک جانب چلنے کو کہا مگر اعتزاز احسن چیف جسٹس کا ہاتھ پکڑ کر یہ کہتے ہوئے انھیں دوسری جانب لے گئے کہ آپ ان کے ساتھ نہ جائیں۔ 'باقاعدہ وہاں ایک دھکّم پیل یا دھینگا مشتی کی سی کیفیت تھی کہ سادہ لباس میں نامعلوم لوگ افتخار چوہدری کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے مگر اعتزاز احسن اور اطہر من اللّہ (موجودہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ) نے دیگر وکلا کے ساتھ مل کر باقاعدہ یہ کوشش ناکام بنا دی۔' قیوم صدیقی کے مطابق پھر وکلا نے فیصلہ کیا کہ وہ اور چیف جسٹس ہوائی اڈّے کے سی آئی پی لاؤنج میں بیٹھ کر استقبال کے لیے آنے والے وکلا کا انتظار کریں گے۔ 'کچھ دیر میں سندھ کے ہوم سیکریٹری وہاں پہنچے اور انھوں نے افتخار چوہدری کو بتایا کہ باہر حالات بہت خراب ہیں لہٰذا ہم آپ کو باہر جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ وہ سیکریٹری صاحب غالباً کوئی ریٹائرڈ بریگیڈیئر تھے اور اُن سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منیر ملک کی لفظی جھڑپ بھی ہوئی۔ 'باہر سے مختلف آوازیں بھی آتی رہیں۔ یوں لگتا رہا جیسے آس پاس کچھ ہو رہا ہے۔ ایک مرتبہ تو ایسا لگا کہ کچھ لوگ زبردستی ہوائی اڈّے کے اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ڈر تھا کہ کہیں فائرنگ یا حملے کا کوئی واقعہ وہاں ایئرپورٹ پر ہی نہ ہو جائے۔' ایئرپورٹ کے باہر کیا ہو رہا تھا؟ مگر کراچی ایئرپورٹ کے باہر کیا ہو رہا تھا یہ بتایا کراچی میں تعینات جیو نیوز کے ایوی ایشن رپورٹر طارق ابوالحسن نے جو اس وقت وہیں موجود تھے۔ 'ہمیں اپنے دفتر میں ایک رات پہلے ہونے والے اجلاس کے دوران ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ آنے والی صبح کیا کچھ ہو سکتا ہے'۔ صحافیوں کے مطابق رات ہی سے شہر کے راستے اور بیشتر سڑکیں بند کر دی گئیں۔ 11 مئی کی شام ہی سے ایسا ماحول بن گیا جو ہُو کا عالم کہلاتا ہے اور عموماً ایم کیو ایم کی ہڑتال کے موقع پر ہوتا تھا۔ طارق ابوالحسن نے بتایا کہ 'ہم نے رات کو ہی کیمرہ گاڑی کی ڈگی میں چھپا کر ایئرپورٹ جانے کی کوشش کی مگر کورنگی کاز وے کے قریب کچھ لوگ سڑک پر کھڑے تھے جنھوں نے ہمیں واپس کردیا کہ آپ آگے نہیں جا سکتے۔ 'ہم ملیر ندی کے کچے پکے راستے سے گزر کر رات قریباً تین بجے وائرلیس گیٹ پر پہنچے مگر راستہ پھر بند ملا اور پولیس کے ساتھ کچھ لوگ کھڑے تھے جنھوں نے پھر ہمیں آگے نہیں جانے دیا۔ بالآخر ہم اندرونی راستوں سے ہوتے ہوئے کسی نہ کسی طرح صبح سات بجے کے قریب کراچی ایئرپورٹ کے جناح ٹرمینل پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔' طارق ابوالحسن نے بتایا کہ 'تقریباً ساڑھے آٹھ بجے ہمیں پتا چلا کہ ملیر گوٹھ سے وکیلوں کا ایک قافلہ روانہ ہوا تھا جس پر ملیر پندرہ کے قریب حملہ ہوا ہے۔ جلوس میں شریک وکلا نے ہمیں فون کر کے بتایا کہ ان کے دو، تین ساتھی گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔ 'جب مختلف سمتوں سے ہم کو کئی مقامات سے دھواں اٹھتا نظر آیا تو اندازہ ہوا کہ اب شاہراہ فیصل پر گاڑیاں جلائی جا رہی ہیں۔ پھر ہر تھوڑی دیر بعد تشدد کی کوئی نہ کوئی خبر موصول ہوتی رہی تاہم حیرت انگیز طور پر ہوائی اڈّے یا اس کی عمارت کے آس پاس کہیں پولیس نظر نہیں آئی۔' طارق کے مطابق 'ساڑھے دس بجے کے لگ بھگ یہ اطلاع آئی کہ ملیر ہالٹ پر زبردست فائرنگ ہوئی ہے۔ پھر عوامی نیشنل پارٹی کے کچھ لوگوں نے ہم سے رابطہ کیا کہ اُن کے کچھ ساتھی اس حملے کا نشانہ بنے ہیں۔ جماعت اسلامی کے لوگوں کا فون آیا کہ وہ شاہ فیصل کالونی کے علاقے سے ایئرپورٹ پہنچنا چاہتے تھے اور اُن پر بھی حملہ ہوا ہے۔ 'گیارہ بجے کے قریب وکلا کا ایک گروہ کسی طرح ہوائی اڈّے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ ان وکلا نے وہاں پہنچتے ہی نعرے بازی شروع کر دی تو ایم کیو ایم کے کچھ لوگ جو پی آئی اے اور سول ایوی ایشن کے ملازمین تھے جماعت کے جھنڈے لیے موٹر سائیکلوں پر وہاں پہنچ گئے اور انھوں نے وہاں سے ان وکلا کو بھگا دیا۔ ہم بھی وہیں موجود تھے مگر کسی نے ہمیں کام کرنے سے نہیں روکا۔' طارق ابوالحسن کے مطابق 'انتظامیہ ہو یا پولیس اور رینجرز، کوئی ان واقعات کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہا تھا جو تب تک پوری شاہراہ فیصل پر پھیل چکے تھے۔' جیو ٹی وی کے کیمرہ مین تاج اور اُن کے ڈرائیور بھی فائرنگ کی زد میں آئے جنھیں 'معجزانہ' طور پر بچایا جیو نیوز کراچی کے بیورو چیف فہیم صدیقی نے۔ وہ بتاتے ہیں 'میں اس وقت خود شاہراہ فیصل پر تھا اور پیپلز پارٹی کی ایک ریلی پر مسلّح افراد کا حملہ دیکھ چکا تھا۔ یہ حملہ دو جلوسوں پر ہوا جن میں سے ایک کی قیادت پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو اور دوسرے کی قیادت شہلا رضا کر رہی تھیں۔' فہیم کا کہنا ہے کہ درجنوں مسلّح افراد وہاں پہلے سے موجود تھے اور اس حملے میں دونوں جانب سے فائرنگ ہوئی اور کئی گاڑیاں جلا دی گئیں۔ فہیم کے مطابق اس تصادم کے وقت ایم کیو ایم کراچی کی تنظیمی کمیٹی کے اُس وقت کے سربراہ حماد صدیقی بھی وہیں موجود تھے۔ ’اچانک آواز آئی کہ انھیں روکو، اس گاڑی میں اسلحہ ہے‘ یہ تفصیل بتاتے ہوئے فہیم صدیقی نے جو کچھ بتایا اسے شاید 12 مئی کو ہونے والے تشدّد کے سب سے بھیانک واقعات میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے۔ 'تاج اور ڈرائیور دونوں ہی مختلف اطراف سے ہونے والی فائرنگ کے بیچ پھنس گئے اور اُن کے پاس کوئی چارہ نہیں بچا سوائے اس کے کہ فائرنگ کی وجہ سے رُک جانے والی ایک منی بس کے نیچے لیٹ کر جان بچائیں۔ 'تاج کی فون کال کے بعد دفتر نے مجھ سے رابطہ کیا۔ چونکہ حماد صدیقی وہیں تھے تو میں نے اُن سے کہا کہ ملیر میں ہمارا کیمرہ مین دونوں جانب سے فائرنگ میں گھر گئے ہیں پلیز آپ ہماری مدد کیجیے۔ حماد نے کسی سے بات کی اور مجھ سے کہا کہ اچھا آپ وہاں چلے جائیں۔ لوگ آپ کو جانتے ہیں اور آپ کی مدد کی جائے گی۔ آپ اپنے ساتھیوں کو خود لے آئیں۔ 'جب میں حماد صدیقی کے بتائے ہوئے مقام پر پہنچا تو آپ نے شاید فلموں میں تو دیکھا ہو گا کہ گاڑی میں مشین گن لگی ہوئی ہے اور اس کی گولیوں کا پٹّہ الگ لٹک رہا ہے مگر میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار یہ حقیقت میں دیکھا کہ ایک صاحب نے مشین گن اٹھائی ہوئی تھی اور دوسرے نے گولیوں کا پٹّہ سنبھالا ہوا تھا۔ 'گاڑی سے اترتے ہی ایک صاحب نے مجھے شناخت کر کے کہا کہ اچھا آپ اپنے لوگوں کو لینے آئے ہیں۔ وہ سامنے کھڑی منی بس کے نیچے آپ کے لوگ لیٹے ہوئے ہیں اُنھیں لے جائیں۔ انھیں فون کر دیں کہ نکل آئیں تب تک کوئی فائر نہیں ہو گا۔ 'میں نے تاج کو فون کیا تو وہ نکل کر آ گئے۔ جب وہ میرے پاس آئے تو تاج نے بتایا کہ منی بس میں اندر بھی کچھ لوگ ہیں اور ان میں سے کچھ زخمی بھی ہیں۔ میں نے وہاں موجود مسلّح افراد سے کہا کہ آپ ان لوگوں کو بھی جانے دیں تو ان مسلّح افراد نے کہا کہ اور بھی کوئی جانا چاہتا ہے تو چلا جائے۔ بس سے لوگ اترے تو مسلّح افراد نے ان کی تلاشی لے کے کر ایک ایک کر کے جانے دیا۔ 'بعد میں یہ ہوا کہ اسی منی بس سے اتر کر کچھ لوگ ایک گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے جانے لگے کہ اچانک آواز آئی کہ انھیں روکو۔۔۔انھیں روکو، اس گاڑی میں اسلحہ ہے۔ سڑکے کے درمیان کھلے دروازوں والی گاڑی اور اس کے گرد گری لاشوں کی تصویر 12 مئی 2007 کے ہنگاموں کی پہچان بن کر رہ گئیں 'گاڑی میں چار لوگ سوار تھے، انھیں اتارا گیا اور ایک مسلّح شخص نے جس کے دونوں ہاتھوں میں اسلحہ تھا، دونوں ہاتھوں سے گولیاں چلا کر ہمارے سامنے ہی ان سب کو ختم کر دیا'۔ 14 برس بعد بھی یہ واقعہ بتاتے ہوئے فہیم صدیقی کے الفاظ اُن کے حلق میں اٹک کر رہ گئے۔ 'آپ نے شاید 13 مئی کے اخبارات میں اس کی تصویر دیکھی ہو گی (کہ ایک گاڑی کے باہر لوگ مردہ پڑے ہیں) شاید روئٹرز کی جانب سے آئی تھی۔ وہ اسی واقعے کی تصویر تھی جو میرے ہی ساتھ وہاں جانے والے فوٹو گرافر ضیا مظہر نے کھینچی تھی اور غالباً تمام اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔' فہیم نے بھیانک واقعے کی منظر کشی کی تو ان کی آواز میں آج بھی خوف محسوس کیا جا سکتا تھا۔ وہ بولے 'آپ نے بھی اور ہم سب نے بھی تشدّد کے بدترین واقعات کور کیے ہیں مگر جب بھی ہم کسی موقع پر پہنچے تو حملہ آور جا چکے ہوتے تھے۔ 12 مئی وہ دن تھا جب کسی حملہ آور کو کوئی ڈر نہیں تھا کہ پولیس آ جائے گی'۔ ایم کیو ایم الطاف حسین (دھڑے) کے ترجمان مصطفیٰ عزیز آبادی کا کہنا تھا کہ وہ واقعہ بہ واقعہ ہر پیشرفت کی وضاحت نہیں کر سکتے بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ '12 مئی وہ دن تھا جب اسٹیبلشمنٹ کے بعض عناصر نے ایم کیو ایم کے خلاف سازش کی۔' ’جان بچانے کو تھانے میں گھسنا چاہا تو دروازہ اندر سے بند تھا‘ پاکستانی ٹی وی چینل نیوز ون ٹی وی کے رپورٹر احسان کوہاٹی بھی ایسی ہی قتل و غارت کے عینی شاہد ہیں۔ 'ہم بلوچ کالونی پل سے کسی نہ کسی طرح شاہراہ فیصل پر پہنچے تاکہ ایئرپورٹ کی جانب جا سکیں۔ ڈرگ روڈ کے قریب اُس جگہ جہاں ریل کی پٹڑی ہے وہاں پر ایک طرف سٹیشن ہے تو دوسری طرف تھانہ۔ وہاں ریلوے پھاٹک بند تھا۔ اُس کے پیچھے بسوں کی لمبی قطار تھی اور ایم کیو ایم کے جھنڈے لیے سینکڑوں افراد وہاں موجود تھے۔ ہم نے فیصلہ کیا اب یہیں رُک کر دیکھتے ہیں کیونکہ اب جو کچھ ہو گا یہیں پر ہو گا۔ 'دوپہر کے وقت اچانک موٹر سائیکل پر سوار کچھ افراد جن کے ہاتھوں میں پیپلز پارٹی کے جھنڈے تھے 'جئے بھٹّو' کے نعرے لگاتے ہوئے صدر کی طرف سے شاہراہ فیصل پر آتے دکھائی دیے۔ نعرہ بازی کرنے والے اُن موٹرسائیکل سواروں کے پیچھے پیپلز پارٹی کی ریلی کے بہت سے شرکا تھے جن میں وقار مہدی (پیپلز پارٹی سندھ کے موجودہ جنرل سیکریٹری اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے مشیر) بھی تھے۔' احسان کوہاٹی کے مطابق 'جیسے ہی یہ لوگ نعرے لگاتے وہاں پہنچے جہاں ایم کیو ایم کے پرچم بردار افراد پہلے ہی سے موجود تھے تو ایم کیو ایم کے لوگوں نے اپنے ہتھیار نکال لیے اور پھر ایم کیو ایم والی طرف سے بغیر کچھ کہے سنے بلادریغ گولی چلا دی گئی۔' احسان کے مطابق 'دوسری طرف یعنی پیپلز پارٹی والی سائیڈ پر بھی لوگ خالی ہاتھ نہیں تھے۔ ریلی میں شریک لوگوں نے بھی اپنے ہتھیار نکال لئے اور جوابی فائرنگ شروع کر دی۔ جب پیپلز پارٹی کی طرف کے موٹرسائیکل سوار گولیاں لگنے سے گرے تو پھر تو دونوں جانب سے زبردست فائرنگ شروع ہو گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ 'اتنی خطرناک صورتحال بن گئی کہ خود مجھے لگا کہ کہیں مجھے بھی گولی ہی نہ لگ جائے اور جان بچانے کی خاطر میں بھاگتا ہوا وہاں موجود پیدل چلنے والوں کے لیے بنے پُل کی سیڑھیوں کے نیچے جا کے بیٹھ گیا۔ وہ جگہ بھی زیادہ محفوظ نہ لگی تو میں بھاگ کر شاہراہ فیصل تھانے کی عمارت میں گھسنا چاہا مگر پولیس سٹیشن کا دروازہ اندر سے بند تھا۔ پولیس جسے اس قتل و غارت کو روکنا تھا وہ حفاظت سے اپنے گھر (تھانے) میں تھی۔' احسان کوہاٹی نے بتایا کہ 'میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے جو اپنی جان بچانا چاہتے تھے۔ جب ہم سب نے ہاتھ اندر ڈال کر تھانے کا بند دروازہ کھولا تو اندر ڈی ایس پی چوہدری سہیل فیض موجود تھے۔ وہ مجھے جانتے تھے لہٰذا مجھے اندر آنے دیا گیا۔ ہم تھانے کی چھت پر پہنچے اور دیکھا کہ دونوں جانب سے گولیاں چلائی جا رہی تھیں۔ 'جب فائرنگ رُکی تو پولیس کے ایک ایس ایس پی تھے عارف خان (اب شاید ڈی آئی جی ہیں) اُن کو میں نے باہر جاتے دیکھا تو میں بھی اُن کے ساتھ باہر آیا مگر عارف خان کے ساتھ سپاہیوں کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا اور ایم کیو ایم کے وہ لوگ جن کے اپنے ہاتھوں میں اسلحہ تھا وہ پولیس افسر سے کہہ رہے تھے کہ دیکھیں وہ لوگ (پیپلز پارٹی کے جھنڈے بردار مسلّح افراد) ہم پر گولیاں چلارہے ہیں آپ اُن کو روکیں۔ آپ ان پر فائرنگ کیوں نہیں کرتے ان کو روکیں۔' احسان کوہاٹی کے مطابق 'اُس دن کراچی شہر میں بہت بُرے حالات تھے۔ پولیس نظر نہیں آ رہی تھی اور جو تھی وہ غیر مسلّح تھی۔ تمام سڑکیں اس مہارت سے بند کی گئی تھیں کہ کوئی گاڑی آگے نہیں جا سکتی تھی۔ 'آپ اسے مسلّح تصادم کہیں یا فائرنگ کا تبادلہ بس یہی ہو رہا تھا۔ اس سوال پر کہ صرف ایم کیو ایم کے لوگ فائرنگ کر رہے تھے، باقی جماعتوں نے کیا کچھ نہیں کیا، احسان کوہاٹی نے کہا کہ 'میں نے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے لوگوں کو تو مسلّح دیکھا۔ 'اے این پی والے اوپر پُل پر تھے۔ میں نے اُنھیں نہیں دیکھا تو اس لیے میں اُن کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اُس دن جو بھی سڑک پر آیا تھا ناں، وہ اپنے انتظام کے ساتھ آیا تھا۔ جس کے پاس ہتھیار یا ہتھیار چلانے والے تھے وہی سڑک پر تھا۔' احسان کوہاٹی کے مطابق میڈیا کی گاڑیوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ 'میں گاڑی میں اپنے کیمرہ مین جنید خان کے ساتھ ایف ٹی سی پل پہنچا۔ سامنے لائنز ایریا کی عمارتوں کی چھتیں نظر آ رہی تھیں اور چھتوں پر مسلّح لوگ تھے۔ میری نظر پڑی تو وہ اپنا اسلحہ سیدھا کر چکے تھے اور ہماری گاڑی اُن کے نشانے پر تھی۔ میں نے جنید سے کہا، نیچے ہو جاؤ۔ ہم دونوں نیچے ہوئے ہی تھے کہ کسی نے ہماری گاڑی کو بھی نشانہ بنایا اور گولیاں چلائیں مگر ہمارا ڈرائیور تھا عارف کسی طرح گاڑی بھگا کر لے گیا۔ 'ہماری گاڑی پر واضح طور پر چینل کا نام لکھا تھا اور پتا چل رہا تھا کہ یہ میڈیا کی گاڑی ہے مگر انہوں نے ہمیں بھی ٹارگٹ کیا۔' احسان کوہاٹی اور اُن جیسے دیگر صحافیوں، سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں نے جو الزامات عائد کیے اُس پر ایم کیو ایم الطاف حسین دھڑے کے ترجمان مصطفیٰ عزیز آبادی کا کہنا تھا کہ یہ سب الزامات بےبنیاد ہیں۔ '12 مئی ایک بڑا سانحہ تھا جس میں تو خود ہمارے بھی 14 کارکنان شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ اگر ایم کیو ایم پر الزام لگایا جاتا ہے تو پھر ہمارا سوال یہ ہے کہ ہمارے وہ 14 کارکنان جن کے نام، پتے تفصیلات ہم نے جاری کیں اُن کو کس نے شہید کیا؟' 'یہ واقعہ دراصل تھا ہی ایم کیو ایم کے خلاف ایک بہت بڑی سازش کا حصّہ۔' مصطفیٰ عزیز آبادی نے کہا۔ ’شکار کی طرح ہمارے ساتھی مارے جارہے تھے‘ لیکن احسان کوہاٹی کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے بھی کئی رہنما اور قائدین 12 مئی 2007 کے دن شہر بھر میں جاری رہنے والی قتل و غارت کے عینی شاہد ہیں۔ پیپلز پارٹی کے کراچی کے سابق صدر اور موجودہ رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل بھی اپنے جلوس کے ہمراہ تھے۔ ان کا کہنا ہے 'پولیس کو بہت اچھی طرح اندازہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ یہاں تک کہ ایم کیو ایم لیبر ونگ کے ایک ذمہ دار نے جو میرے ذاتی دوست تھے اور میں اُن کا نام آپ کو اس گفتگو میں نہیں بتا سکتا انہوں نے بھی مجھے 11 مئی کو آکر کہا کہ کل گھر سے نہ نکلیے گا۔ بہرحال 12 مئی کو ہم نکلے تو ٹاور کے بس سٹاپ کے پاس پل پر ناہید خان ، صفدر عباسی وغیرہ بھی ہمارے ساتھ ہو گئے۔ کیماڑی جانے والے راستے کی طرف سے کوئینز روڈ پر اترتے وقت میں نے دیکھا کہ اے این پی کے شاہی سیّد بھی کھڑے ہوئے تھے۔جماعت اسلامی کے جھنڈے بھی نظر آئے اور یوں آہستہ آہستہ حزب اختلاف کی قریباً تمام سیاسی جماعتوں کا قافلہ سا بن گیا تھا۔ جب ہم صدر تھانے کے بالکل قریب شاہراہ فیصل پہنچے تو وہاں سڑک پر کنٹینرز کھڑے کرکے رکاوٹیں بنا دی گئیں تھیں۔ جب سڑک بند ملی تو ہم نے متبادل راستہ اختیار کرنے کے لیے یو ٹرن لیا تو شاہی سید جو بالکل پیچھے تھے وہ آگے ہوگئے۔ اب ہم واپس جانے والے راستے پر تھے اور شاہی سید آگے جا چکے تھے اور ہم بالکل آخر میں یو ٹرن لے کر مڑے اور ابھی سڑک عبور کر ہی رہے تھے کہ اچانک چاروں جانب سے ہم پر گولیوں کی بوچھاڑ ہو گئی۔ 'قطار میں فلائی اوور پر بھاری ہتھیار لیے مسلّح افراد کھڑے تھے اور ہم پر گولیاں چلا رہے تھے۔ یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کون لوگ تھے مگر یہ تو سب کو پتا تھا کہ ایم کیو ایم والے نہیں چاہتے کہ ایسا ہو (کوئی جلوس نکلے)۔ میں سڑک پر آیا تو ناہید خان میرے لیے پریشان ہو رہی تھیں۔ اچانک میرے ساتھی حسین بادشاہ اور فضل اکبر کو گولی لگ گئی۔یہ دونوں میرے پاس ہی تھے اور میں بس معجزانہ طور پر بچ گیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو ایک ایسی سیاہ رنگ کی کرولا گاڑی آئی جیسی کہ اس وقت ٹاؤن ناظمین کو دی گئی تھیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس گاڑی میں سے مزید اسلحہ نکال کر ان مسلّح افراد کو دیا گیا۔ شاہی سید صاحب فلائی اوور برج کے بالکل نیچے پہنچ چکے تھے، وہ پناہ کے لیے ایف ٹی سی کی عمارت میں جا گھسے۔سڑک پر کھڑے ہم لوگوں کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اپنی جان بچائیں یا گولیاں لگنے سے زخمی ساتھیوں کو سڑک پر سے اٹھائیں۔ ہسپتال پہنچ کر یہ بھی پتا چلا کہ ہمارے ملیر کے ساتھیوں پر بھی ایسے ہی حملے ہوئے ہیں۔ ملیر میں ہمارے ضلعی صدر راجہ رزاق کی گاڑی جلائے جانے کی اطلاع بھی ہسپتال میں ہی ملی۔ عبدالقادر پٹیل نے دعویٰ کیا کہ جب حملہ ہوا تو ناہید خان نے اور ہم نے شاید ہی کوئی محکمہ ہو جس سے رابطہ کرکے یہ بتانے کی کوشش نہ کی ہو مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ 'شکار کی طرح ہمارے ساتھی مارے جا رہے تھے مگر ہم اتنے بے بس تھے کہ بہت سوں کو تو اٹھا بھی نہیں سکے۔ شاید پاکستان میں کبھی کسی سیاسی جماعت کو مین ہنٹ یا لائسنس ٹو کل کی طرح ایسی اجازت نہ کبھی ملی تھی اور خدا نہ کرے کہ کبھی آئندہ ملے۔' حالات بگڑنے کے بعد اگلے دن شہر میں فوج تعینات کر دی گئی عبدالقادر پٹیل کے اس الزام پر مصطفیٰ عزیز آبادی کا کہنا ہے کہ یہ الزامات سراسر غلط ہیں۔ 'ہم نے بھی اُس دن کے تمام شواہد جمع کرکے ایک ویڈیو بھی ریلیز کی تھی جس کا نام ہے "بٹر ٹرتھ" اس میں آپ دیکھ لیں ریلی میں پیپلز پارٹی کے عوامی نیشنل پارٹی کے لوگ اور دیگر جماعتوں کے لوگ مسلّح جدید ہتھیار لیے ریلی میں شریک ہیں، ویڈیوز موجود ہیں کہ ایم کیو ایم کے لوگوں کو مارا جا رہا ہے، فائرنگ ہو رہی ہے۔' جب مصطفیٰ عزیز آبادی سے پوچھا گیا کہ آپ کے لوگ مسلّح نہیں تھے تو انھوں نے کہا 'اب دیکھیں یہ یک طرفہ الزام ہے ناں! سارا الزام صرف اور صرف ایم کیو ایم پر۔ یہ سراسر غلط ہے۔ اگر ایم کیو ایم کا کسی بھی ریکی پر حملے کرنے یا کسی کو مارنے کا منصوبہ ہوتا تو اُسی روز ایم کیو ایم کے تبت سینٹر پر عدلیہ کی آزادی کے حق میں ریلی کا اعلان کیا تھا اور ہماری جو ریلیاں (ریلی) وہاں جا رہی تھی اُس میں شریک ہونے کے لیے نوجوان ، بزرگ ، خواتین ، بچّے پوری پوری فیملیز وہاں جا رہی تھیں۔تو ہمارا اگر کوئی منصوبہ یا ارادہ ہوتا تو ہمارے لوگ ماؤں ، بہنوں اور بچّوں کو لے کر شریک ہوتے؟' صحافی قاضی حسن تاج کوریج کے لیے شاہراہ فیصل پر ایف ٹی سی فلائی اوور پر ہی موجود تھے۔ وہ اس دن کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں 'دوپہر کے وقت بلوچ کالونی کے پُل پر ایم کیو ایم کے پندرہ بیس لوگ موٹرسائیکل پر نظر آئے۔ اتنے میں ایک منی بس جس پر اے این پی کے جھنڈے لگے ہوئے تھے آتی نظر آئی۔ جب وہ بالکل ہمارے سامنے پل کے بالکل نیچے پہنچے تو اوپر پُل پر پہلے ہی سے موجود مسلّح افراد نے منی بس کو ہدف بنا کر گولیاں چلانی شروع کر دیں۔ بہت زبردست اور بھرپور فائرنگ ہورہی تھی۔ بس اب اُس صورتحال میں تھی کہ نہ آگے جاسکتی تھی ، نہ پیچھے۔ اُس کے لیے سب سے محفوظ مقام یہی تھا کہ پل کے نیچے ہی رک جائے کیونکہ اوپر دونوں جانب یعنی پُل کے نیچے جانے یا باہر نکلنے والی طرف سے بھرپور گولیاں چلائی جا رہی تھیں۔ مگر ایسا نہیں تھا کہ صرف بس پر حملہ ہورہا تھا ۔ خود اس بس سے بھی جوابی فائرنگ کی گئی اور اندر بس میں سوار افراد نے بھی گولیاں چلانی شروع کر دیں۔ میں اپنی جگہ سے ذرا ہی آگے بڑھا تو دیکھا (اور کیمرے میں ریکارڈ بھی کیا) کہ کچھ لوگ زخمی وہاں پڑے ہیں اور مدد کے لیے چیخ چلّا رہے ہیں لیکن فائرنگ اتنی شدید تھی کہ کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا تھا۔ اسی دوران پاکستانی بحریہ (نیوی) کی ایک جیپ میں سوار شاید کوئی افسر وہاں پہنچے اور ہم نے دیکھا کہ مسلّح نوجوانوں نے اس سرکاری جیپ کا راستہ بھی روکا۔ جیپ میں سے باوردی سپاہی اترے جن سے مسلّح افراد کی کوئی بات ہوئی۔ ہم دور تھے سُن تو نہیں سکے مگر اندازہ ہوا کہ شاید وہ افسر آگے جانا چاہتے تھے اور اُن کے ساتھ تعینات سپاہی مسلّح افراد سے آگے جانے کی بات کررہے تھے مگر بڑی تعداد میں مسلّح افراد نے انہیں جانے نہیں دیا۔ بالآخر وہ جیپ واپس جانے پر مجبور ہوگئی اور اُس دن مجھے عملی طور پر ادراک ہوا کہ ریاست کی اندر ریاست کیا ہوتی ہے۔ جب ہم وہاں سے نکلے تو ایسے مناظر دیکھے جو اب بیان کرنا بھی مشکل ہے" قاضی حسن تاج کے لہجے میں جذبات ابھرنے لگے۔ "انسان کو مرتے دیکھ رہے ہیں اور کچھ کر بھی نہیں پا رہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ریسکیو ادارے بھی چاہتے ہوں کہ سڑکوں پر پڑے زخمیوں کو اٹھائیں مگر کچھ کر نہیں پا رہے تھے۔ مجھے نہیں پتہ جس منی بس کو نشانہ گیا تھا اُس میں کتنے لوگ ہلاک ہوئے لیکن تین زخمی تو میں نے خود اپنی آنکھ سے دیکھے تھے۔ اُن میں ایک شخص تھا گولی اس کے گلے میں لگی تھی۔ اِس حالت میں بھی اُس نے زخم سے اُبلتا ہوا خون روکنے کے لیے اپنا ہاتھ گردن پر رکھّا ہوا تھا۔ وہ بولنے کی کوشش کررہا تھا میں دس سے پندرہ فٹ کے فاصلے سے اسے دیکھ تو سکا مگر کچھ کر نہیں پایا سوائے اس کے کہ میں خود اپنی جان بچا کر وہاں سے نکلوں۔ جنگ زدہ ماحول میں بھی لوگوں کو پتا ہوتا ہے کہ کون کس کو کیوں مار رہا ہے مگر وہاں تو شاید مارنے والے کو بھی نہیں پتا تھا کہ میں کس کو مار رہا ہوں اور مرنے والے کو بھی نہیں پتا تھا کہ اُسے کون کیوں مار رہا ہے۔ اے این پی کے صوبائی صدر شاہی سید شاہراہِ فیصل پر پیش آنے والے واقعات کے عینی شاہدین میں سے ہیں۔ ان کا کہنا تھا 'صرف ہمارے لوگ نہیں ہر قوم، ہر پارٹی کے لوگ جان سے گئے۔ 48 لوگ قتل ہو گئے جن میں 20، 22 تو ہمارے کارکنان تھے۔ اس روز سرکاری بربریت تھی۔ سرکار کون تھی، کس کی حکومت تھی یہ سب چیزیں ریکارڈ کا حصّہ ہیں۔' 'ٹی وی چینلز دیکھ لیں ، عدالت کا ریکارڈ دیکھ لیں اس وقت جو وزیر داخلہ تھا اُن سے پوچھیں کہ پولیس کہاں تھی، پولیس کا اسلحہ کہاں تھا؟ ہم نے تو اس وقت بھی جنرل مشرف سے مطالبہ کیا تھا کہ آپ وزیر داخلہ سے پوچھیں کہ اس کی ذمہ داری بنتی ہے وہ بتائے کہ گولیاں کس نے چلائیں۔' مئی 2007 میں امورِ داخلہ کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر وسیم اختر کا کہنا ہے کہ 12 مئی کے دن وہ مکمل طور پر صورتحال کے انچارج نہیں تھے ’صورتحال اتنی گھمبیر ہو گئی تھی کہ مشیر داخلہ تو میٹر ہی نہیں کر رہا تھا' اے این ہی سندھ کے صدر شاہی سید نے جو الزامات عائد کئے اُن پر ردّعمل میں اُس وقت وزارت داخلہ سندھ کے سربراہ صوبائی مشیر داخلہ وسیم اختر تھے جو اس سلسلے میں ایم کیو ایم اور اپنے کردار کا دفاع کرتے نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'پولیس ایک فورس ہوتی ہے جس کا افسر ہوتا ہے آئی جی اور پھر ہوم سیکریٹری اور انھوں نے جو اقدامات لیے تھے شہر کے سارے ڈی آئی جیز کے ساتھ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں جیسے ملٹری انٹیلیجینس ، آئی ایس آئی، آئی بی اور کراچی بار ایسوسی ایشن، سب نے اجلاس کیا تھا اور یہ سب اقدامات لیے تھے کہ کیا تقاضے ہیں ، کیا ہونا چاہیے تاکہ صورتحال کو قابو میں رکھا جا سکے۔' انھوں نے کہا 'آپ کے پاس بھی وہ خط ہے جو پولیس کے سربراہ نے لکھا تھا۔ ذمہ دار آئی جی کی ہوتی ہے کہ بطور سربراہ کس کس جگہ پر پولیس فورس کو تعینات کیا جائے ، کس کس جگہ پر سڑک بند کی جائے ، کس کے پاس ہتھیار ہونا چاہیے یا نہیں۔ یہ فیصلہ وہ کرتے ہیں ، جو انھوں نے کیا اور یہ رپورٹ عدالت میں پیش بھی کی گئی۔' 'عدالت کے احکامات میں نشاندہی کی گئی ہے کہ فورس (پولیس) کی جانب سے غفلت برتی گئی ہے۔' وسیم اختر نے کہا۔ جب وسیم اختر سے سوال کیا گیا کہ ان کے پاس تمام اختیار تھا تو کیا انھوں نے بطور سربراہ وزارت داخلہ اپنی ذمہ داری نبھائی؟ تو وسیم اختر نے کہا کہ وہ مکمل طور پر صورتحال کے انچارج نہیں تھے۔ ' یہ معاملہ سب کے سامنے تھا۔ آئی جی ، ڈی آئی جی ، گورنر ، آئی بی کے صوبائی سربراہ ، ایم آئی کے صوبائی سربراہ ، آئی ایس آئی کے صوبائی سربراہ یہ سب بیٹھے تھے گورنر کے ساتھ اور یہ سب فیصلہ کر رہے تھے کہ کیا کرنا چاہیے۔ صورتحال اتنی گھمبیر ہو گئی تھی کہ مشیر داخلہ تو میٹر ہی نہیں کر رہا تھا۔' وسیم اختر کے مطابق 'جو(قانون نافذ کرنے والے اداروں کا) اجلاس ہوا جس میں میں بھی تھا اُس میں بتایا یہ گیا تھا کہ خدشہ ہے کہ اگر چیف جسٹس صاحب ایئرپورٹ سے ہائی کورٹ جائیں گے تو خدشات ہیں کہ اُن پر کوئی حملہ ہو سکتا ہے تو یہ طے کیا گیا کہ چیف جسٹس صاحب کو کمشنر (کراچی) بتائیں جو کہ انھوں نے بتایا کہ یہ خدشات ہیں، آپ (چیف جسٹس) تعاون کریں تو ہم (انتظامیہ) آپ کو بکتر بند گاڑی سے یا ہیلی کاپٹر سے ہائی کورٹ لے جائیں۔کمشنر نے بتایا اور چیف جسٹس نے منع کر دیا۔ 'خیر وہ نہیں ہوا اور نقصان ہوا، جانیں ضائع ہوئیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وفاقی حکومت کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے، صوبائی حکومت کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔ میں تو بہت چھوٹے عہدے پر تھا بڑے عہدیدار جیسے گورنر یا وزیر اعلیٰ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ سب فیصلے کر رہے تھے۔' ان کا کہنا تھا کہ 'میں تو خود حیران تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ مجھ پر تو سارے الزامات سیاسی مخالفت میں لگائے جاتے ہیں۔ یہ سب بیان بازی ہے۔ میں تو اپنی ذمہ داری پوری کر رہا تھا۔ ہم صرف مشورہ دے رہے تھے۔ پولیس ہینڈل کر رہی تھی۔ وہاں ساری ایجینسیز تھیں۔ پولیس وزیراعلیٰ کو رپورٹ کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 12 مئی کو 'وسیم اختر ناکام نہیں ، نظام ناکام ہوا۔ یہی عدالت نے بھی کہا تھا۔میری تو کوئی سنوائی ہی نہیں ہو رہی تھی۔ میں تو مشیر تھا وزیراعلیٰ کا ، خود وزیراعلیٰ کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اگر ناکامی تھی تو انتظامیہ کی مجموعی ناکامی تھی۔ اگر تحقیقات کرنا ہے تو مشرف صاحب، گورنر اور وزیراعلیٰ کو بھی بلا لیں'۔ اس سلسلے میں مصطفیٰ عزیز آبادی کا بھی کہنا تھا کہ 'اس روز حکومت بھی، وزیر داخلہ بھی سب (حالات کو قابو کرنے میں) بےبس نظر آئے۔ ’ججوں کو محکمۂ اطلاعات کا دروازہ پھاند کر عدالت تک پہنچنا پڑا‘ سیاستدان کچھ بھی کہیں حقیقت یہ تھی کہ 12 مئی کو کراچی کی صورتحال اتنی دگرگوں ہوچکی تھی کہ ایک جانب چیف جسٹس ائیرپورٹ پر ایک قسم کے محاصرے میں تھے تو دوسری جانب ہائی کورٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہو جانے والے وکلا اور جج بھی محصور دکھائی دیے۔ جمال خورشید انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کے کورٹ رپورٹر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ 'سارا علاقہ مسلّح افراد کے کنٹرول میں تھا۔ مجھے یہ اطلاعات ملیں کہ ہائی کورٹ کے وکلا پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کی گاڑی پر لوگوں نے لاتیں ماریں۔ بعض ججوں کو تو محکمۂ اطلاعات کا دروازہ پھاند کر عدالت تک پہنچنا پڑا اور میں نے راستے میں صدر تھانے میں اس صوتحال میں بھی پولیس اہلکاروں کو تاش کھیلتے دیکھا۔' ’مسلّح افراد کو لائیو دکھانا شروع کیا تو زبردست فائرنگ شروع ہو گئی‘ وکلا اور ججوں کو جس صورتحال کا سامنا تھا کراچی میں میڈیا بھی کچھ ویسی ہی صورتحال کا سامنا کر رہا تھا۔ ممتاز صحافی طلعت حسین 12 مئی کو ملک کے نجی ٹی وی چینل "آج ٹی وی" کے ڈائریکٹر نیوز اینڈ کرنٹ افئیرز تھے۔ طلعت حسین نے بتایا کہ اس دن دفتر پہنچنے تک انہوں نے جو صورتحال دیکھی تو فیصلہ کیا کہ شہر کا مزاج ریکارڈ کرنے کے لیے گُرومندر پر واقع چینل کے دفتر کی چھت پر ہی دو کیمرے نصب کروا دیے جائیں۔ 'ہمارے دفتر کے ہاس مسلّح افراد جمع تھے۔ لائیو دکھانا شروع کر دیا تب ہی زبردست فائرنگ شروع ہو گئی۔ دوسری طرف پٹیل پاڑہ کی جانب سے بھی زبردست فائرنگ ہو رہی تھی۔ ابھی ٹی وی کے ذریعے یہ دکھایا جا ہی رہا تھا کہ آج ٹی وی کے مالکان میں سے وامق زبیری نے مجھے فون کرکے کہا کہ ایم کیو ایم کے وزیر (دراصل مشیر) داخلہ وسیم اختر کہہ رہے ہیں کہ لائیو کوریج بند کر دیں۔ اتنی دیر میں کیمرہ مین نے نیچے آکر بتایا کہ گُرومندر پر فائرنگ کرنے والے اب کیمرے کی طرف گولیاں چلا رہے ہیں تو میں نے ہدایت کی کیمرہ آن رکھ کر کیمرہ مین کو نیچے بلوا لیں۔ تھوڑی دیر بعد وامق زبیری نے پھر کہا کہ وسیم اختر اب کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ نے کوریج بند نہیں کی تو ہم آپ کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ میرا فیصلہ تھا کہ اس کو چلنے دیا جائے۔ ابھی یہ بات چل ہی رہی تھی کہ فائرنگ کی آواز بہت شدید ہو گئی اور ہمارے سامنے نیوز روم پر گولیاں لگنا شروع ہو گئیں اور شیشے ٹوٹنے لگے۔ 'ہم نیچے بیٹھ گئے اور رپورٹنگ شروع کر دی کہ ہمارے دفتر کی عمارت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ فائرنگ مسلسل ہونے لگی اور وامق زبیری نے مجھ سے کہا کہ آپ یہ (لائیو کوریج) بند کر دیں۔ میں نے کہا کہ نشانہ تو وہ بنا چکے اب یہ چلنے دیں۔ اس دوران پتا چلا کہ نیوز روم میں سے ہی کوئی حملہ آوروں کو بتا رہا تھا کہ کون کوریج کروا رہا ہے۔ ہماری نیوز اینکر نادیہ مرزا (جو اب پی ٹی وی سے وابستہ ہیں) آن ائیر تھیں۔ میں اُن کو ہدایات دے رہا تھا کہ آپ تبصرہ کرتی رہیں جو کچھ دکھایا جارہا ہے۔ تو وہ بولتی رہیں۔ ہماری نشریات میں نہ تو کسی کا نام لیا گیا اور نہ ہی یہ خبر دی کہ وسیم اختر ہمارے ٹی وی کی انتظامیہ سے کیا کہہ رہے ہیں۔ پھر انتظامیہ کو (کراچی کے سابق ناظم اور اب پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کا فون آیا کہ آپ صرف ایم کیو ایم کو کیوں دکھا رہے ہیں ؟ پٹیل پاڑہ سے بھی تو گولیاں چلائی جارہی ہیں وہ بھی دکھائیں۔ میں نے کہا کہ اگر آپ ہماری ٹیم کو پٹیل پاڑہ جانے دیں تو ہم وہ بھی دکھا دیں گی۔ اتنے میں دفتر کے باہر کھڑی ہوئی خود ہماری اینکر نادیہ مرزا کی گاڑی جلا دی گئی اور اینکر نے لائیو ٹرانسمیشن (براہ راست نشریات میں خود) اپنی گاڑی کو ٹی وی پر جلتے ہوئے دیکھا۔پھر حملہ آوروں نے چھت پر لگا ہوا کیمرہ بھی گولی مار کر توڑ دیا۔' آج ٹی وی کے دفتر پر لگنے والی گولیوں کے نشان طلعت حسین کے مطابق 'حملے کے بعد وامق زبیری اور انتظامیہ نے مجھے کہا کہ آپ کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے آپ نے یہ حملہ کروا دیا۔' اس بارے میں جب وسیم اختر سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا 'خواہ مخواہ جھوٹی باتیں ہیں یہ۔ میری آج تک کبھی اس سلسلے میں زبیری برادران سے کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ جھوٹ پر مبنی بات ان کو زیب نہیں دیتی۔ اگر میں نے دھمکی دی تو انھوں نے ریکارڈ کر لیا ہو گا سنوا دیں ناں !' طلعت حسین نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ کوریج کے بعد آج ٹی وی کے رپورٹرز کے گھروں پر آنے والے ایم کیو ایم سے متعلق افراد نے اُنھیں دھمکیاں دیں اور پھر انھیں اپنے رپورٹرز کو کسی اور مقام پر منتقل کرنا پڑا۔ اس پر وسیم اختر کہتے ہیں کہ 'دیکھیں، نائین زیرو والے کیس میں ابھی سب بری ہو گئے، ولی بابر کے مقدمے میں بری ہو گئے ناں اب میں کیا کہوں ؟ اب میڈیا کچھ بھی کہتا رہے۔' مصطفیٰ کمال کا بھی کہنا ہے کہ 'پٹیل پاڑہ سے پیپلز پارٹی والے فائر کررہے تھے اور یہاں سے ایم کیو ایم والے کر رہے ہوں گے ، مگر ٹی وی پر کوئی حملہ نہیں ہوا۔' پولیس کہاں تھی؟ جیو نیوز کے رپورٹر طارق ابوالحسن شام تک کراچی ایئر پورٹ پر ہی موجود رہے جہاں اندر چیف جسٹس عملاً محصور تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'سات بجے کے قریب آئی جی کراچی پولیس نیاز صدیقی سمیت اعلیٰ افسران وہاں نمودار ہوئے تو ہم نے اُن سے پوچھا کہ دن بھر پورے شہر میں لوگوں کو قتل کیا جاتا رہا تو آپ سب کہاں تھے تو اُن کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ ہمیں جواب دیے بغیر دوڑ کر ایئرپورٹ کی عمارت کے اندر چلے گئے۔' تقریباً تمام صحافیوں ، تجزیہ نگاروں ، سیاستدانوں قائدین و رہنماؤں نے اس نکتے پر بھی اصرار کیا کہ 12 مئی کو جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو پولیس کہاں تھی ، قانون نافذ کرنے والے وہ حُکّام جن کی ذمہ داری شہر کے امن و امان کو ہے صورت قائم رکھنا تھا وہ سب کیا کررہے تھے۔ اس سلسلے میں جب موقف جاننے کے لیے اس وقت کی کراچی پولیس کے سربراہ اظہر فاروقی سے رابطہ کیا گیا تو وہ ان کا کہنا تھا کہ اب تو وہ اس معاملے سے لاتعلق ہیں چونکہ اب وہ ریٹائر ہوچکے ہیں۔ جب ان سے درخواست کی گئی کہ اس وقت جب یہ سب ہو رہا تھا تب تو وہ ہی متعلقہ افسر اعلیٰ (پولیس سربراہ) تھے تو حیرت انگیز طور پر انہوں نے کہا 'پتا نہیں۔ مجھے اب یاد نہیں ہے ۔۔' اور فون بند کرکے رابطہ منقطع کردیا۔ اس وقت کے ڈی آئی جی آپریشن مشتاق شاہ کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کے باوجود ان سطور کے لکھے جانے تک دستیاب نہ ہو سکے۔ 12 مئی کے اس سانحے میں اگرچہ ہلاک ہونے والے 48 ہوں یا 56 ایک بات تو طے ہے کہ اُن میں سے کسی کو بھی انصاف نہیں مل سکا۔ عدالت سیاست اور ریاست کے بیچ 12 مئی کو جو بھی کچھ ہوا ، ایم کیم ایم (الطاف دھڑے) کے ترجمان مصطفیٰ عزیز آبادی کا یہ مطالبہ بہت دانشمندانہ نظر آتا ہے کہ ایک آزاد کمیشن قائم کیا جائے اور تمام متاثرین شواہد کے ساتھ کمیشن میں پیش ہوجائیں۔ مگر پاکستان میں عدالت سیاست اور ریاست ان حالات سے دو چار رہے ہیں کہ اب اعتبار ، اعتماد اور اعتقاد ہی لرز کر رہ گئے ہیں۔ 12 مئی کی یہ کہانی دوبارہ لکھنے کے لیے میرے مدد کرنے والے تمام افراد، چاہے وہ سیاستدان ہوں یا صحافی، تجزیہ نگار ہونا یا عینی شاہد سب کے سب اس ایک نکتے پر متفق ہیں کہ ان کی امیدیں اور توقعات کبھی پوری نہیں ہو سکیں۔ 2008 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی تو بھی اسے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کرنے میں ایک برس کا عرصہ لگ گیا اور تب بھی پاکستان کے ٹی وی چینلز پر کھلے عام کہا گیا کہ ایسا اس وقت پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مداخلت سے ہی ممکن ہوا۔ ادھر بحال ہوجانے کے بعد افتخار چوہدری 'نجات دہندہ' کا وہ کردار ادا نہ کر پائے جس کی توقعات پورا پاکستان اُن سے وابستہ کر چکا تھا۔ اے این پی سندھ کے صدر شاہی سیّد کا کہنا تھا 'ہمیں تو گلہ افتخار چوہدری سے ہے کہ وہ بالکل خاموش ہو گئے تھے۔ وہ تو خود اپنے لیے انصاف نہ لے سکے۔' پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل کے خیالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں' ہمیں تو افسوس ہوا کہ ہم نے کیوں جانیں دیں ان کے لیے انہوں نے ہمارے ساتھ ہی زیادتی کر دی۔ ہم تو قانون کے رکھوالے کے لیے جا رہے تھے اب وہ رکھوالا ایسا نکلا تو ہمیں افسوس ہوا۔ یہاں تک کے ان کی وکیل کرد صاحب جیسے لوگوں کو افسوس ہوا'۔ ایم کیو ایم کے ایک سابق رہنما نے ، جو جماعت کے حصّے بخرے ہونے کے بعد اب سیاست سے لاتعلق ہو چکے ہیں مگر اب بھی الطاف حسین کے جانبدار یا حمایتی سمجھے جاتے ہیں، ایک فکر انگیز نکتے کی نشاندہی کی۔ 'پہلی بات تو یہ افتخار چوہدری نے تو امیدوں کے ساتھ وہ کیا کہ پھر کبھی کراچی والے دوبارہ کسی کے بھی لیے سڑک پر نہیں نکلے۔۔۔پھر یہ سمجھا جاتا ہے کہ 12 مئی کی ساری ذمہ داری ایم کیو ایم پر ہے۔ سب کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم نے ریاست کے ساتھ مل کر چیف جسٹس کی ریلی کو ناکام بنانے کے لیے سب کچھ کر دیا۔ کبھی آپ نے یہ سوچا کہ اگر ریاست نہیں چاہتی تھی کہ چیف جسٹس کراچی میں جلوس کے ساتھ ہائی کورٹ جائیں یا ریاست چاہتی تھی کہ کراچی میں اُن کا خطاب نہ ہونے پائے تو کیا وہ جہاز جو چیف جسٹس کو کراچی لایا اسلام آباد سے اُڑ سکتا تھا، ریاست کی مرضی کے بغیر؟ کبھی سوچیے گا!'
regional-54381509
https://www.bbc.com/urdu/regional-54381509
نیُو شُو: چین میں خواتین کے لیے مخصوص خفیہ زبان
چین کا جنوب مشرقی صوبہ ہنان پتھریلے پہاڑوں کی عمودی چوٹیوں پر مشتمل ڈرامائی قسم کے ایک معمے کی مانند ہے جہاں چاولوں کے کھیتوں سے مزیّن دریائی وادیاں حسین اور دلکش منظر پیش کرتی ہیں۔
اس خطے کا 80 فیصد علاقہ پہاڑوں پر مشتمل ہے، جس کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے پہاڑی گاؤں ایک دوسرے سے آزاد اکائیوں کی صورت میں تعمیر ہوئے۔ ان پہاڑی چٹانوں کے دامن میں آباد دیہات میں جو کہ باقی دنیا سے پوشیدہ تھے، نیُو شُو نے جنم لیا تھا: دنیا کا واحد رسمُ الخط جو عورتوں نے تخلیق کیا اور صرف عورتوں ہی نے اپنے لیے استعمال کیا۔ چینی زبان میں اِس کے معنی ہیں 'عورتوں کا رسم الخط'، نیُو شُو انیسویں صدی میں صوبہ ہنان کے جیانگ ینگ شہر میں اُس وقت بہت معروف ہوا جب ہان، یاؤ اور میاؤ نسل کی عورتوں نے اسے اپنے اظہارِ خیال کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ اُس زمانے میں عموماً ان معاشروں میں اس قسم کی آزادئِ اظہارِ رائے پر اصرار نہیں کیا جاتا تھا تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ عورتوں کی یہ زبان سونگ خاندان (960-1279) کی بادشاہت کے زمانے میں پیدا ہوئی تھی یا شاید تین ہزار برس قبل شانگ خاندان کے زمانے میں اس کی تخلیق ہوئی تھی۔ اس کا رسمُ الخط کسان عورتوں میں ماں کی جانب سے ان کی بیٹیوں کو نسل در نسل ورثے میں منتقل ہوتا رہا اور چین کے جاگیردار معاشرے کی بہنیں اور سہیلیاں ایک دوسرے کے ساتھ اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے استعمال کرتی رہیں جس زمانے میں ان کے پیروں کو باندھ دیا جاتا تھا اور انھیں تعلیم کے مواقع نہیں دیے جاتے تھے۔ اس زمانے کی عورتوں کی اکثریت ناخواندہ ہوتی تھی، اور وہ نیُو شُو کے رسمُ الخط کو دیکھ کر صرف نقل کرنے کی مشق کرنے سے سیکھتی تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نیُو شُو رسمُ الخط نے عورتوں کی ایک منفرد ثقافت کو فروغ دیا جو آج بھی زندہ ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ شاید کئی صدیوں تک یا شاید ہزاروں برس تک یہ رسمُ الخط زبان جسے بولا نہیں جاتا ہے، جیانگ ینگ شہر سے باہر اسے کوئی نہیں جانتا تھا، اور اس رسمُ الخط کے بارے میں باہر کی دنیا کو سنہ اسّی کی دہائی میں علم ہوا۔ عورتوں کے لیے نیُو شُو کا رسم الخط جاگیردارانے چینی معاشرے میں ماؤں سے ان کی بیٹیوں تک ثقافتی ورثے کے طور پر منتقل ہوا ہے آج، جب اس زبان کو مہارت کے ساتھ 'بولنے' والی آخری شخصیت کو مرے ہوئے سولہ برس ہوچکے ہیں، اس غیر معروف رسمُ الخط کا پھر سے جنم ہو رہا ہے۔ اس زبان کے دوبارہ سے فروغ پانے کا مرکز 'پووائی' نامی گاؤں ہے جو دریائے ژیاؤ سے گھرا ہوا ہے اور اس تک رسائی کا صرف ایک ہی رستہ ایک جھولتا ہوا پُل ہے۔ پووائی کے رہنے والے ایک شخص زِن ہُو کے مطابق، نیُو شُو رسمُ الخط پوائی کے قریب کے چار قصبوں اور اٹھارہ دیہات میں استعمال ہوتا تھا۔ جب ماہرین نے 200و نفوس پر مشتمل پوائی گاؤں میں نیُو شُو لکھنے والی عورت کو دریافت کیا تو یہ گاؤں اِس رسمُ الخط پر تحقیق کا مرکز بن گیا۔ سنہ 2006 میں اس زبان کو سٹیٹ کونسل آف چائنا کے ایک سرکاری ادارے 'ناقابلِ فہم قومی ثقافتی ورثہ' نے اپنی فہرست میں شامل کر لیا۔ اس کے ایک برس بعد پووائی جزیرے کی سرزمین پر ایک میوزیم تعمیر کیا گیا جہاں زِن نے اس زبان کے سات دیگر افراد کے ہمراہ مترجم یا وارث کے طور پر کام کا آغاز کیا جس میں یہ اس زبان کو سیکھتے، لکھتے، گاتے اور اس کو نقش و نگار کے ساتھ آراستہ کرکے اس کی کتابت کرتے۔ نیُو شُو ایک صوتی رسم ُالخط ہے جو دائیں سے بائیں جانب لکھا جاتا ہے جو کہ جیانگ ینگ میں بولی جانے والی چار مقامی زبانوں کے ایک گُڈ مُڈ ملغوبے کی طرح ہے۔ ہر علامت ایک حرف کی نمائندگی کرتی ہے اور یہ ایک تراشے ہوئے بانس کے قلم سے اور برتن میں جلی ہوئی سیاہ راکھ سے بنائی گئی روشنائی سے لکھی جاتی ہے۔ چینی زبان کے حروف سے متاثر ہونے کی وجہ سے اس کی شکل خمدار لمبائی کی طرح ہوتی ہے جن کی باریک سی کتابت ترچھے انداز میں نیچے کی جانب ڈھلتی ہے اور بعض اوقات پتلی سی تحریر ہونے کی وجہ سے اسے مقامی لوگ 'مچھر جیسی تحریر' بھی کہتے ہیں۔ نیُو شُو زخفیہ لکھائی میں تیار کیے گئے عورتوں کے پیغامات پنکھوں، دوپٹوں اور سوتی کمربندوں میں کاڑھے جاتے تھے نیُو شُو نے گھریلو اور سماجی مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لیے دیہاتی عورتوں میں ایک دوسرے کے درمیان ایک رابطے اور ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے ذریعے کا کردار ادا کیا۔ خوشگوار اور دوستانہ انداز کے پیار بھرے نیُو شُو رسمُ الخط کے الفاظ کو رومالوں، دوپٹوں، پنکھوں اور کمر بندوں پر رنگین دھاگوں کے ساتھ کاڑھا جاتا اور پھر اِنہیں تحفتاً ایک دوسرے کو دیا جاتا۔ اگرچہ نیُو شُو بولی جانے والی زبان نہیں تھی تاہم عورتیں اسے اپنی محفلوں میں اس رسمُ الخط سے بنے ہوئے مصرعوں، نظموں یا نعروں کو جو بچوں کی نظموں سے لے کر جنم دن کی مبارکباد دینے اور اپنے افسوس کے اظہار یا شادی سے متعلقہ شکایتوں کے بیان کے لیے گاتیں۔ بوڑھی عورتیں اپنی زندگی کی کہانی پر مشتمل گیت کہتیں جن پر وہ اپنی سہیلیوں یا جوان عورتوں کو اپنی زندگی کے مصائب بیان کرتیں یا ان اشعار میں اچھے اوصاف بیان کرتیں یا دوسری عورتوں کو بتاتیں کہ عفت، تقویٰ اور احترام کے ذریعے ایک اچھی بیوی کس طرح بنا جاتا ہے۔ اگرچہ نیُو شُو اُن عورتوں کے لیے، جو چین میں خواندگی کے مواقع نہیں حاصل کر سکتی تھیں، ایک ذریعہِ ابلاغ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ دراصل اپنے وقت میں ایک سخت قسم کے پدرشاہی معاشرے کے خلاف سرکشی کا ایک خفیہ رسمُ الخط تھا۔ تاریخی طور پر چینی عورت کے لیے ایک قابلِ قبول رویہ نہیں سمجھا جاتا تھا کہ وہ سرِ عام اظہارِ تاسف کرے، زراعتی کاموں کی مشکلات بیان کرے یا اپنے غم و الم کے احساسات بیان کرے۔ نیُو شُو نے ان عورتوں کو اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کا موقع دیا اور عورتوں کے درمیان غم و خوشی بانٹنے کے لیے ایک انجمن سازی کا ماحول دیا جو کہ اُس وقت کے پدر شاہی معاشرے میں ایک کلیدی کردار تھا۔ وہ عورتیں جنہوں نے ایسا مضبوط رشتہ قائم کیا وہ (خواہرانِ قسم خوردہ) 'پکی بہنیں' کہلاتیں اور عموماً تین تین یا چار چار عورتوں کا ایک گروہ جن کی آپس میں کوئی رشتہ داری نہیں ہوتی تھی، وہ ایک دوسرے کے ساتھ خطوط لکھ کر اور نظمیں گا کر دوستی کے عہد و پیمان کرتیں۔ جہاں انھیں اپنے خاندان کے مردوں کے سامنے دب کر رہنے پر مجبور کیا جاتا تھا، وہیں یہ 'پکّی بہنیں' ایک دوسرے کی صحبت میں ایک دوسرے کی دلجوئی کرتیں۔ سنہ 2000 میں پووائی میں ایک نیُو شُو سکول کھولا گیا اور زِن نے اپنی ماں اور بہن کو وہاں پڑھنے کے لیے کہا۔ اب وہ طلبا کو نیُو شُو پڑھاتی ہیں، سیاحوں کی میوزیم میں رہنمائی کرتی ہیں اور اب اس زبان کا ایک چہرہ بن گئی ہیں اور ایشیا اور یورپ میں دوروں کا آغاز کر رہی ہیں۔ زِن کہتی ہے کہ '(اس زبان کے) کچھ وارثوں نے جیسا کہ ہم میں سب سے بڑی نیُو شُو خط کی وارث ہی یینکزین ہیں، یہ خط اپنی دادیوں اور نانیوں سے سیکھا جو اب اپنی عمروں کے اسّی کے پیٹے میں ہیں۔ لوگ اس خط کو اس لیے پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ منفرد ہے اور وہ اسے سیکھنا چاہتے ہیں اور اسے جاننا چاہتے ہیں۔' لیکن یہ ابھی بھی پُر اسرار بات ہے کہ یہ رسمُ الخط چین کے ایک دوردراز علاقے میں کیوں پیدا ہوا اور اس نے وہاں فروغ کیوں پایا۔ نیویارک کے سکڈمور کالج میں چینی زبان کی پروفیسر کیتھی سِلبر جنہوں نے سنہ 1986 میں نیُو شُو رسمُ الخط سیکھا ہے اور اس پر تحقیق بھی کی، کہتی ہیں کہ 'میرے خیال اس کی کئی وجوہات ہیں جن کا جنوبی چین میں وجود ہے، غیر ہان لوگ، چینی اثر بڑھنے کی وجہ سے غیر چینی نسلیتوں کا چینی بننے کا رجحان، ان علاقوں کا دور دراز واقع ہونا۔' سِلبر نے سنہ 1989 میں نیُو شُو کے آخری کاتب یائی نِیان ہوا کے ساتھ کئی ماہ گزارے تھے جس میں انھوں نے یائی کے کام کا معیاری چینی زبان میں ترجمہ کیا تھا اور اس موضوع پر لیکچر دینے شروع کیے تھے۔ آج ہم نیُو شُو کے بارے میں جو بھی جانتے ہیں اس کا سہرا ایک مرد محقق ژاؤ شوئی کے سرجاتا ہے جس نے اس رسمُ الخط کے بارے میں سنہ 1950 میں اُس وقت سنا تھا جب اس کی ایک رشتہ دار خاتون کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی تھی جو نیُو شُو رسم الخط والے خطے میں رہتا تھا۔ ژاؤ نے سنہ 1954 میں جیانگ ینگ کے ثقافتی محکمے کے لیے اس رسم الخط کے خفیہ حروف کو جاننا شروع کیا، لیکن ساٹھ کی دہائی میں ماؤزے تنگ کے 'ثقافتی انقلاب' کے شروع ہوجانے کی وجہ سے ژاؤ کا کام ریاستی پالیسیوں کی زد میں آگیا۔ ژاؤ سنہ 2004 میں اس دور کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'اس زبان پر تحقیق کام کی وجہ سے مجھ پر رجعت پسند ہونے کا الزام لگایا گیا۔ انہوں نے میرے تحقیقی کام کی کئی دستاویزات نذرِ آتش کر دیں اور مجھے ایک حراستی کیمپ میں بھیج دیا گیا جہاں سے مجھے 21 برس قید کے بعد 1979 میں رہائی ملی۔' پووائی کا چھوٹا سا گاؤں جہاں اب ایک میوزیم ہے جس کا مقصد نیُو شُو کو محفوظ بنانا ہے انقلاب کے ایک عمل کے حصے کے طور پر چین جاگیردارانہ دور کی ہر شہ اور بات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتا تھا اور اگر کوئی نیُو شُو استعمال کرتا دکھائی دیتا تو اس کی مذمت کی جاتی۔ اور پھر ساتھ ساتھ جب عورتوں کو سنہ 1950 میں تعلیم بھی دی جانی لگی تو اس رسم خط کا استعمال اور بھی کم ہو گیا۔ سنہ 2003 میں اپنے انتقال سے ایک برس قبل، اور اور اس رسم الخط کے لکھنے والے ایک مقامی آخری کاتب کے زمانے میں ژاؤ نے اس خط کو چینی زبان میں ترجمہ کرنے کا انتھک کام جاری رکھا۔ سنہ 2003 میں اپنی موت سے اور نیُو شُو کے مہارت رکھنے والے آخری کاتب یانگ ہوان یی کی موت سے پہلے ژاؤ نے نیُو شُو کی پہلی لغت مرتب کی تاکہ اس رسمُ الخط کو فروغ مل سکے اور دنیا اس کی اہمیت کے بارے میں جان سکے۔ دریائے زیاؤ میں گھرے شاندار نیُو شُو باغ کے میوزیم میں کلاسوں کے کمرے اور نمائیش کے لیے ایک ہال ہے۔ اس کی دیواروں پر ویڈیوز، تصویریں اور ثقافتی فن پارے آویزاں ہیں جبکہ ان کلاسوں میں آرائش اور کتابت سے ایک ثقافتی تعلق بنانے کے مواقع ملتے ہیں۔ اس میوزیم کی حال ہی میں توسیع کی گئی ہے اور اب یہاں اس رسم الخط کے شعروں اور نغموں کا سالانہ میلہ بھی ہوتا ہے جو نیُو شُو 'زبان' میں ہوتا ہے۔ گرمیوں کے موسم میں میوزیم میں نیُو شُو سکھانے کا انتظام بھی ہوتا ہے اور اس خط کا ہر وارث باری باری اس کی تاریخ بتاتا ہے اور کتابت کے فن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ لیکن زِن کا کہنا ہے کہ نیُو شُو کو سیکھنا کافی مشکل ہے۔ 'اس کو سیکھنے میں کچھ مشکلات ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اس کے حروف لکھنے کا انداز عام چینی زبان کے حروف کے لکھنے سے مختلف ہیں۔ پھر یہ کہ اس کے تلفظ کے مسائل ہیں۔ اگر آپ مقامی زبان کا انداز بول ہی نہیں سکتے ہیں تو آپ کے لیے نیُو شُو پڑھنا یا گانا مشکل ہوگا۔' 'تیسرے دن کی کتاب' وہ ڈائیریاں ہیں جن میں نوبیاہتا اپنے دل کی باتیں درج کرتی ہے۔ نیُو شُو کے استمال کی ایک اہم وجہ شادیاں ہیں۔ رواتی طورپر شادیوں کے بعد دلہن اپنے والدین کا گھر چھوڑے گی اور پِیا کے گھر سدھارے گی۔ دلہن اپنی نئی زندگی میں عموماً اپنے آپ کو تنہا محسوس کرے گی، اس لیے نیُو شُو نے اُسے اپنی غمگین کیفیت کو بیان کرنے کا ایک ذریعہ بہم پہنچایا اور اس کی اس غم کی داستان گوئی نے اُس کا اپنے جیسی کئی غمگین سکھیوں سے اُس کا تعلق جوڑ دیا۔ نوبیاہتا لڑکی اپنی زندگی کے نئے کردار میں جب داخل ہوتی ہے تو شادی کے تین روز بعد اُسے اپنی نئی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کی رسم 'سن ژاؤشو' سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس رسم کے مطابق دلہن کو نئے گھر کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس رسم کے مطابق، 'تیسرے دن کی کتاب' دی جاتی ہے جو کہ کپڑے کی بنی ہوتی ہے۔ اس کتاب میں دلہن کی ماں اور دیگر قریبی رشتہ دار اُس سے جدا ہونے کے غم کا اظہار کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ اس کتاب کے چند ابتدائی صفحات پر اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں اور اس کتاب کے باقی صفحے خالی چھوڑ دیے جائیں گے تاکہ اس میں دلہن اپنے خیالات رقم کر سکے یا انہیں اپنی ڈائری کی طرح استعمال کرے۔ حالیہ برسوں میں میوزیم کے اہلکاروں کی وجہ سے نیُو شُو رسمُ الخط کو پھر سے فروغ ملا ہے۔ آج کے دور میں نیُو شُو کی روایات کی اصلی نوادرات مشکل سے ملتی ہیں، ان میں سے بیشتر انقلاب کے زمانے میں تباہ کردی گئی تھیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں اس کی کئی اشیا فلموں میں، گیتوں میں اور ادب میں پیش کی جا رہیں ہیں۔ اس کے علاوہ جیانگ ینگ بھر میں نوجوان عورتیں میوزیم میں نیُو شُو کا رسم الخط لکھنا سیکھ رہی ہیں۔ اس سال موسمِ گرما میں بیس لڑکیوں نے خط سیکھنے کے لیے اپنا نام درج کرایا تھا۔ اور زِن جیسے اس کے وارثوں نے چین کے مقبولِ عام ایپ 'وی چیٹ' کے ذریعے آن لائین کلاسیں بھی شروع کردی ہیں۔ نیُو شُو کے مطالعے کے اس وقت سب سے بڑے محقق لمنگ ژاؤ نے حال ہی میں اسی موضوع پر بیجینگ کی سِنگوئی یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا ہے۔ ان کے مطابق، نیُو شُو کے کردار میں اب ایک ارتقا ہوا ہے۔ 'یانگ ہوان یی' کی موت کے بعد (نیُو شُو) اب عورتوں کے (خفیہ رسم الخط) کے دور سے آگے بڑھ گیا ہے۔ اب یہ ورثے میں نہیں ملتا ہے اور نہ یہ قدرتی طور پر استعمال کیا جاتا ہے بلکہ اب اسے باقاعدہ سیاحت اور کاروبار کے لیے پڑھا جاتا ہے۔ بلا شبہ یہ بھی ایک طریقے سے اِسے محفوظ کرنے اور ترکے میں دیے جانے کا ایک طریقہ ہے۔' آج لِمنگ کو یقین ہے کہ نیُو شُو رسمُ الخط عورت کو بااختیار بنانے اور اور اس کی خوبصورتی اور طاقت کی قدر کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ لِمنگ کہتی ہیں کہ '(نیُو شُو) نے اپنا تاریخی مقصد حاصل کر لیا ہے --- نچلے طبقے کی عورتوں کی جنگ کا ایک ثقافتی ہتھیار، جن کو تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں تھا اور نہ وہ لکھ سکتی تھیں۔ اب وہ صرف خوبصورت کتابت کے نمونے، دانائی اور دلیر روح مستقبل کی نسلوں کے لیے اپنے ترکے میں چھوڑتی ہے۔
031118_suggest_topic_forum_ms
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2003/11/031118_suggest_topic_forum_ms
موضوع کا انتخاب کیجئے
آپ کس موضوع پر بحث کرنا چاہتے ہیں؟ آپ کے کیا سوالات ہیں؟
کیا ایسے کوئی موضوعات ہیں جو آپ کے خیال میں اہم ہیں اور ان پر لوگوں کی آراء لی جانی ضروری ہیں۔ کس موضوع پر آپ اپنی رائے دینا یا دوسروں کی آراء جانا پسند کریں گے۔ نئے مباحثوں کے لئے اپنی تجاویز ہمیں لکھ بھیجئے اور ہم ان میں سے منتخب موضوعات پر مباحثے شروع کریں گے جیسے کہ نیچے تجویز کیا گیا مباحثہ۔ مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کو کیسے ختم کیا جا سکتاہے؟ تجویز کردہ: عرفان احمد صدیقی اگر مباحثوں میں کسی رائے پر آپ سوال اٹھانا چاہیں یا کسی بھی موضوع پر اپنی رائے بھیجنا چاہیں، ہم آپ کی تجاویز کا خیر مقدم کریں گے۔ آپ اپنی تجاویز اردو، انگریزی یا رومن اردو میں بھی بھیج سکتے ہیں عرفان احمد صدیقی، فیض آباد، بھارت مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کو کیسے ختم کیا جا سکتاہے؟ میر نعیم مری، سبی، پاکستان کیا دہشت گردی کی بنیادی تعریف وضع نہیں ہونی چاہئے؟ ڈاکٹر خورشید عالم ایاز، گجرات، پاکستان میں پاکستانی تارکینِ وطن کے مسائل پر مباحثہ کروانا چاہتا ہوں۔ یہ دنیا کا پہلا ملک ہے جو اپنے تارکینِ وطن کو کئی قسم کے شناختی کارڈ بنوانے پر مجبور کرتا ہے۔ پہلے دو سو روپے خرچ کرکے قومی شناختی کارڈ بنوانا پڑتا ہے۔ جب پاکستانی بیرونی ممالک میں کام کرنے کیلئے جاتے ہیں تو انہیں پی او ایف نامی کارڈ بنوانا پڑتا ہے جس پر پندرہ ڈالر کے اخراجات آتے ہیں۔ دوہری شہریت کے افراد کو جو کارڈ بنوانا پڑتا ہے اس پر مزید پندرہ ڈالر کی لاگت آتی ہے اور جو پاکستانی نژاد افراد ہوتے ہیں انہیں علیحدہ سے سو ڈالر کا کارڈ بنوانا پڑتا ہے۔ یہ سراسر زیادتی ہے کہ وہ پاکستانی جو ملک کو اربوں رروپے کا زرِ مبادلہ فراہم کرتے ہیں انہیں اس بےرحمی سے لوٹا جائے۔ سجاد مظہر، اسلام آباد، پاکستان کیا پاکستان ایک ناکام ریاست ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے، فوج، نوکر شاہی، سیاستدان یا عوام۔ ڈاکٹر افضال ملک، روالپنڈی، پاکستان کیا آپ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کے حالیہ عوام دوست اقدامات سے مطمئن ہیں؟ کیا مقامی طور پر کی جانے والی کال مفت ہونی چاہئے؟ پی ٹی سی ایل کے مجاز حکام کو آپ کیا مشورہ دینا پسند کریں گے؟ منصور علی، ایبٹ آباد، پاکستان کیا امن کی بنیاد جمہوریت ہے؟ عدیل پاشا،برمنگھم، برطانیہ امن بغیر رنگ، نسل، ذات پات اور مذہب کی تمیز کئے سب کوانصاف مہیا کرنے سے قائم ہوگا۔ کیا اقوامِ متحدہ اب کسی کام کا رہ گیا ہے؟ طاہر فاروقی، کراچی، پاکستان طاہر فاروقی، کراچی، پاکستان کیا اقوامِ متحدہ اب کسی کام کا رہ گیا ہے؟ محمد علی بھائی، سرگودھا، پاکستان کیا آپ پاکستان کی موجودہ حکومت سے، جو سیاستدانوں اور تھانوں کے باہمی گٹھ جوڑ کا مرکب ہے، مطمئن ہیں؟ ہمایوں ارشد نیل، کراچی پاکستان کیا خلافت اور صلح حدیبیہ کی طرز پر مغرب سے سمجھوتا ہی عالمی امن اور دہشت گردی کے خاتمے کا ضامن ہے؟ اظہار بٹ، شارجہ دنیا سے غربت کیسے ختم کی جا سکتی ہے؟ علی، پاکستان اصل دہشت گرد کون ہے؟ مسلمان، امریکہ یا اسرائیل؟ پاکستان میں لاؤڈ سپیکروں والی محل نما مسجدوں کا اسلام اور حدیث میں کیا مقام ہے؟ تلاوت بخاری، پاکستان تلاوت بخاری، پاکستان پاکستان میں لاؤڈ سپیکروں والی محل نما مسجدوں کا اسلام اور حدیث میں کیا مقام ہے؟ احمد بلال، کراچی، پاکستان ہماری سماجی اقدار تیزی سے زوال پذیر کیوں ہو رہی ہیں؟ زکی، پاکستان کیا شیعہ مسلمان خود کو پاکستان میں محفوظ محسوس کرتے ہیں؟ محمد ثاقب احمد، بہار، پاکستان دہشت گردی کسے کہتے ہیں؟ افغانستان میں غیرملکی قبضے کے خلاف لڑنے والے دہشت گرد کون ہیں؟ سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے یا اب امریکہ کے خلاف لڑنے والے؟ شیخ فیصل ہدالوی، خوشاب، پاکستان آج کی دنیا کے انسان کا سب سے بڑا المیہ کیا ہے؟ طاہر فاروقی، میرپور خاص، پاکستان اسلامی ممالک آجکل امریکی عتاب کا نشانہ کیوں بنے ہوئے ہیں اور کیا صرف مسلمان ہی دہشت گرد ہیں؟ صالح محمد، راولپنڈی، پاکستان جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دور سے پاکستان نے کیا سیکھا اور اب جنرل پرویز مشرف کی خدمات کا ملک کے مستقبل پر کیا اثر پڑے گا؟ علی رضا علوی، اسلام آباد، پاکستان مولانا اعظم طارق کے قتل میں کون ملوث ہے؟ کیا علامہ ساجد نقوی اس کارروائی میں ملوث ہیں یا انہیں پھنسانے کے لیے سازش کی گئی ہے؟ طاہر فاروق آرائیں، میرپور خاص، پاکستان اسلامی دنیا آج کل امریکہ کے عتاب کا کیوں شکار ہے؟ پہلے افغانستان، پھر عراق اور اب ایران اور شام۔ کیا پوری دنیا میں صرف مسلمان ہی دہشت گرد ہیں۔ محمد جنید، کیلگری، کینیڈا ہم کارگل کی جنگ کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ امریکہ جمہوریت کی بات کرتا ہے اور کیوں اسے دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ عائشہ احمد، اسلام آباد، پاکستان عائشہ احمد، اسلام آباد، پاکستان بہترین نظام حکومت پر بحث ہونی چاہئے۔ ہمارے اردگرد کئی طرح کے نظام موجود ہیں جیسے کہ امریکی صدارتی نظام، برطانوی پارلیمانی نظام، جرمن نظام اور اسی طرح کے کئی اور ممالک میں مروج نظام۔ امریکہ جمہوریت کی بات کرتا ہے اور کیوں اسے دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ سعادت احمد، پشاور، پاکستان اسلام اور دہشت گردی قیصر خان لالہ، گجرانوالہ، پاکستان کیا مذہبی جماعتوں پر پابندی سے فرقہ واریت اور امن و آمان کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ کیا اس طرح یہ جماعتیں ختم ہو جائیں گی۔ منیر حسین، شکاگو، امریکہ بےنظیر، نواز شریف اور الطاف حسین، کیا ان سب کو پاکستان واپس آنا چاہئے؟ مظفر اسلامی ممالک کے جو آج کل حالات ہیں اس کی کیا وجوہات ہیں۔
140426_bollywood_roundup_mb
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2014/04/140426_bollywood_roundup_mb
امیتابھ کی دعا اور پولنگ میں غیرحاضر ستارے
بالی وڈ راؤنڈ اپ سننے کے لیے کلک کریں۔
رنویر کا کنڈوم اشتہار رنویر سنگھ کی دیپیکا کے ساتھ حالیہ فلم رام لیلا بہت کامیاب رہی بالی وڈ کی تاریخ میں شاید ہی کسی ليڈنگ ہیرو نے کبھی کنڈوم کا اشتہار کیا ہو لیکن رنویر سنگھ نے اس روایت کو توڑتے ہوئے ایک کنڈوم کا اشتہار کیا۔ ان کے اس اشتہار کا ویڈیو یو ٹیوب پر جاری ہوتے ہی سوشل میڈیا پر اس کے متعلق زبردست بحث ہونے لگی۔ بعض افراد نے اسے بہترین قرار دیا تو بعض نے اسے بکواس کہا۔ واضح رہے کہ یو ٹیوب پر اسے بہت زیادہ لوگ دیکھ رہے ہیں اور 24 گھنٹوں کے اندر تقریباً ایک لاکھ افراد اسے دیکھ چکے ہیں۔ رنویر سنگھ کا کہنا ہے کہ اختلاط کے دوران حفاظتی اقدام کے پیغام کو فروغ دینے کے لیے اس طرح کے اشتہارات ضروری ہیں۔ پولنگ کے دن غیر حاضر ستارے پریتی زنٹا جو اپنی ٹیم کنگزالیون پنجاب کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ان دنوں یو اے ای میں نظر آتی ہیں وہ بھی ووٹ ڈالنے کے لیے جمعرات کو ممبئی آئیں بھارتی الیکشن کمیشن کی تمام تر کوششوں اور پیغامات کے باوجود جمعرات کو لوک سبھا انتخابات کے لیے فلم نگری ممبئي میں محض 53 فی صد پولنگ ہوسکی۔ جہاں امیتابھ بچن اور ان کے اہل خانہ، شاہ رخ خان، رنبیر کپور، گلزار اور پریتی زنٹا سمیت کئی فنکاروں نے ووٹ دیا تو وہیں کئی دوسرے بڑے سٹارز اس دن غیر حاضر تھے۔ پریتی زنٹا جو اپنی آئی پی ایل ٹیم کنگزالیون پنجاب کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ان دنوں متحدہ عرب امارات کے شہروں میں نظر آتی ہیں وہ بھی ووٹ ڈالنے کے لیے جمعرات کو ممبئی آئیں۔ لیکن تمام ٹی وی چینلوں اور دوسرے پلیٹ فارمز پر بے باکی سے اپنی رائے رکھنے والے اور سماجی بیداری کا ثبوت دینے والے نغمہ نگار جاوید اختر اور ان کی اہلیہ اداکارہ اور سماجی کارکن شبانہ اعظمی وہاں نظر نہیں آئے۔ وہ دو دن پہلے ہی امریکہ کے فلوریڈا میں ہونے والے آئیفا کی تقریب میں شرکت کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔ ان کے علاوہ اداکارہ دیپکا پاڈوکون بھی ووٹ نہیں ڈال سکیں حالانکہ انھوں نے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ ووٹ ڈالنے کے بعد ہی آئیفا جائیں گی۔ سلمان خان، انیل کپور، سوناکشی سنہا، سیف علی خان، مادھوری ڈکشیت اور رتیک روشن جیسے اداکار بھی اس روز ممبئی سے غیر حاضر رہے اور انھوں نے بھی ووٹ نہیں ڈالے۔ اپنے منہ میاں مٹھو کیا ریوالور رانی کوئن سے بہتر ثابت ہوگی جب سے کوئن فلم میں کنگنا راناوت کی اداکاری کی چہار جانب سے پزیرائی ہوئی ہے تب سے کنگنا اپنے آپ میں پھولے نہیں سمار رہی ہیں۔ اس سرخوشی کے عالم میں وہ اپنی تعریف آپ ہی کیے جا رہی ہیں۔ اس ہفتے ان کی نئی فلم ریوالور رانی ریلیز ہوئی ہے تاہم ان کی کوئین کی کامیابی کا چرچا ابھی معدوم ہوتا نظر نہیں آتا۔ خود اپنی تعریف میں کنگنا کہتی ہیں کہ گینگسٹر سے میں نے اپنے کیریئر کی شروعات کی تھی اور اب مجھے اداکاری کرتے ہوئے آٹھ سال ہو گئے۔ اب میری جو پرفارمنس کوئین یا دیگر فلموں میں نظر آتی ہے وہ کافی منجھي ہوئی ہے۔اس سے پہلے آپ ایک ناتجربہ کار اداکارہ سے ایسے کام کی توقع نہیں کر سکتے تھے۔ یہ میری آٹھ سال کی تپسیا (سخت ریاض اور مشق) کا نتیجہ ہے۔ کنگنا کی نئی فلم ریوالور رانی میں ان کا کردار کوئین کے کردار سے بالکل مختلف ہے۔ اس فلم کی ہدایت سائیں کبیر شریواستو نے دی ہے۔ مانگی تھی اک دعا جو قبول ہو گئی اس سے قبل بھوت ناتھ میں امیتابھ کے ساتھ شاہ رخ خان اور جوہی چاولہ تھے فلم بھوت ناتھ کے سيكوئل بھوت ناتھ ریٹرن کو لوگوں نے بہت پسند کیا اور یہ ناقدین کے ہاتھوں بھی بچ گئي یعنی فلم کامیاب رہی۔ حال ہی میں امیتابھ بچن سے جب فلم کی کامیابی کے بارے میں بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا: ’میں نے خدا سے یہ درخواست کی تھی کہ فنکاروں کے لیے نہیں، لوگوں کے لیے نہیں، ہدایت کاروں کے لیے نہیں، لیکن فلم ساز روی چوپڑہ کے لیے یہ فلم کامیاب ہو جائے اور میری آرزو پوری ہو گئی ہے۔‘ روی چوپڑہ فلم ساز اور ہدایت کار بی آر چوپڑہ کے بیٹے اور یش چوپڑہ کے بھتیجے ہیں اور گذشتہ کچھ عرصے سے بیمار ہیں۔
050617_kashmir_peace_yourviews
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2005/06/050617_kashmir_peace_yourviews
شیخ رشید اور تربیتی کیمپس
حال ہی میں ہونے والے کشمیری رہنماؤں کے دورہ پاکستان میں علیحدگی پسند رہنماء یاسین ملک نے کہا کہ ان کے عسکری دنوں میں موجودہ وزیر اطلاعات نے انہیں اور ان کے کئی ساتھیوں کو اپنے فارم ہاوس میں پناہ دی اور کھانا کھلایا۔ تاہم انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ شیخ رشید احمد نے انہیں عسکری تربیت فراہم کی۔
تاہم اس کے فوراً بعد سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ نے یہ بیان دے دیا کہ شیخ رشید احمد اسلام آباد سے کچھ دور واقع اپنے فارم ہاؤس پر ایک عسکری کیمپ چلاتے تھے جوانیس سو نوے میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے کہنے پر بند کروایا گیا۔ شیخ رشید احمد نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے عسکریت پسندوں کو صرف سر چھپانے کی جگہ دی تھی۔ بھارت نے ان اطلاعات پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ بھارت کی حزب اختلاف کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماء اور سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شیخ رشید احمد کو سری نگر آنے سے منع کریں۔ اس نئے تنازعہ سے شیخ رشید کے دورہ کشمیر پر بھی سوال پیدا ہو گیا ہے۔ آپ اس تمام معاملے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ کیا ان بیانات کا ایسے وقت پر سامنے آنا معنی خیز ہے، جب بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کی کوششیں تیز کی جا رہی ہیں؟ آپ کو کیا لگتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کی امن کے لیے کوششوں کے باوجود کشمیر میں تشدد کے واقعات میں کمی کیوں نہیں آ رہی؟ اگر آپ اپنا پیغام موبائل فون سے ایس ایم ایس کے ذریعے بھیجنا چاہتے ہیں تو ہمارا نمبر ہے: 00447786202200 راحیل علوی، لاہور:جو بھی باتیں ماضی میں ہوئیں وہ پاکستان کو بھی پتہ ہیں اور انڈیا کو بھی۔ لیکن اگر واقعی انڈیا پیس پروسیس میں مخلص ہے تو انہیں ان چیزوں کو اِگنور کرنا ہوگا۔ جیسے پاکستان نے کافی چیزیں اِگنور کی ہیں۔ اور اگر انڈیا میں ماضی کی طرح اس ڈِسپیوٹ کو مزید لٹکانا ہے تو وہ (واضح نہیں)۔۔۔۔ نوید احمد، لاہور:مرزا صاحب کو اب یاد آرہا ہے جب حالات ٹھیک ہورہے ہیں؟ اس وقت یہ کہاں تھے جب یہ سب کچھ ہورہا تھا، کیمپ کے اندر یا باہر؟ اب سیاست میں آنا چاہتے ہیں؟ بیروز گار بابا، جرمنی:میرے خیال سے اگر شیخ رشید نے جو کچھ بھی کام کیا ہے بہت اچھا کیا ہے کیوں کہ کشمیری ہمارے مسلم بھائی ہیں۔۔۔۔ عرفان سہیل ملک، چکوال:میں اپیل کرتا ہوں محترم جناب یاسین ملک اور جناب اسلم بیگ سے کہ یہ وقت ہے ہمارے کشمیری بھائیوں کا جو کہ عرصہ اٹھاون سالوں سے جد و جہد آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں اور ہمارے لیڈر بھی اور میں نہیں چاہتا کہ ہم ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرتے رہیں، اس کا فائدہ دوسرے مذہب کے لوگ اٹھارہے ہیں۔۔۔۔ اعجاز اعوان، کراچی:مجاہدین کو ٹریننگ کیمپ کس نے دیے اور کہاں دیے یہ ہم سے زیادہ انڈینز کو معلوم ہے، بس آپ لوگ یہ دعا کرو کہ یہ مسئلہ حل ہوجائے، ایسے میں دونوں ملکوں کے عوام کا بھلا ہے۔ حسن بلوچ، ٹورانٹو:لگتا ہے شیخ رشید صاحب قربانی کا بکرہ نمبر دو بننے والے ہیں۔ بکرہ نمبر ایک تو سب کو یاد ہی ہوں گے، ارے اپنے ڈاکٹر صاحب۔ جس طرح نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی اسمگلنگ کا الزام ان پر تھوپ کر پاکستان آرمی، گورنمنٹ اور انٹیلیجنس سروسز نے اپنی جان چھڑا لی، بالکل اسی طرح لگتا ہے کشمیریوں کی ٹریننگ کا کریڈِٹ شیخ رشید کو دیکر آرمی اپنی معصومیت ثابت کرسکتی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں آپ ایک شہر سے دوسرے شہر درجنوں چیک پوسٹ (خاص طور پر بلوچستان میں) سے گزرے بغیر نہیں جاسکتے، ڈاکٹر قدیر خان نے اپنا نیٹورک کیسے چلایا؟ اور شیخ رشید نے ٹریننگ کیسے دی؟ پاکستان میں آرمی کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا، ٹریننگ چاہے شیخ رشید نے دی یا کسی اور نے، آرمی کی مرضی ضرور شامل تھی۔ چاہے پاکستان کی گورنمنٹ اور آرمی جو کہے، ساری دنیا جانتی ہے کہ پردے کے پیچھے کیا ہوتا رہا ہے۔ جہاں تک رہا سوال کہ پاکستان کی کوششوں کے باوجود کشمیر میں وائیولینس کیوں ہے، تو میرے خیال میں کشمیری اب پاکستان کے کنٹرول سے بھی نکل چکے ہیں۔ جیسے طالبان نے اپنی مرضی چلانی شروع کردی تھی اسی طرح کشمیری فائٹرز نے بھی۔ ویسے یہ بات بالکل سچ ہے، جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیز نے دوسرے ملکوں میں ڈسٹربینس کے لئے ٹیرورسٹ پیدا کیے، اب اپنا ملک انہیں ٹیرروسٹ کا شکار بنا ہوا ہے۔ وقار عادل، نواب شاہ:شیخ صاحب پر الزام لگانے والوں کو سوچنا چاہئے کہ پاکستان کی آرمی اتنی کمزور ہے کہ اسے کشمیر میں آپریشن کروانے کے لئے شیخ صاحب کی مدد لینی پڑ جائے؟ شیخ صاحب اپنے حلقے کے لوگوں کو نالا لئی میں ڈوبنے سے تو بچا نہ سکے، کشمیریوں کو آزادی کیا خاک دلوائیں گے۔ محمد این اکرام، لندن:انہوں نے اچھا کیا۔ خالد ملک، چکوال:جب دونوں ملک اپنے سیاسی اختلافات کو دور کرنے پر زور دے رہے ہیں جبکہ حالات بھی کافی سازگار ہیں۔ ان نازک حالات میں دونوں ملکوں کے نمائندوں کو ایسی بیان بازی سے پرہیز کرنا چاہئے کیوں کہ ایسے حالات میں ایسے بیانات سوایے شرارت کے کچھ نہیں۔ (خالد ملک صاحب، آپ ایک ہی ای میل کو ہزاروں بار بھیجتے ہیں جس کی ضرورت نہیں، وقت نقصان ہوتا ہے، آپ کا بھی،ہمارا بھی: ایڈیٹر) عبدالباسط، فیصل آباد:میرے خیال میں یہ جو کچھ بھی ہوا برا ہوا۔ یاسین ملک کو یہ نہیں بتانا چاہئے تھا۔ اب اسلم بیگ نے اپنی سیاست چمکائی ہے۔۔۔۔ جاوید سوراٹھیا، شیکاگو:شیخ رشید نے جو کچھ بھی کیا وہ ہرپاکستانی کرتا، انڈیا نے بھی جو کچھ کیا وہ ہر انڈین کرتا۔ اب جب وقت آگیا ہے امن کا، مذاکرات کا اور دوستی کا تو پہلے کیا ہوا تھا اور کیا ہوچکا ہے وہ سب بھول جانا چاہئے۔۔۔۔ علی عمران شاہین، لاہور:شیخ رشید نے ٹریننگ کیمپ قائم کیے اور کشمیریوں کو ٹریننگ دی یا نہیں، اس کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا لیکن اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ بالکل ٹھیک کرتا ہے کیوں کہ دنیا میں کیا ایک دوسرے کی مدد اور اتحاد اور کوئی نہیں کرتا؟ کیا امریکہ فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کو بالکل کھلے عام اور بدماشی کے ساتھ اس کی مدد نہیں کرتا؟۔۔۔ کریم خان، کینیڈا:لگتا ہے مشرف، شیخ رشید کو جمالی کی طرح کلین بولڈ کرنا چاہتے ہیں، اس لئے تو اسلم بیگ سے باؤلنگ کروارہے ہیں۔۔۔ شاہدہ اکرم، ابوظہبی:آپ کو نہیں لگتاکہ جس وقت بھی کوئی اچھا کام ہونے کو ہو تو اس میں کسی نہ کسی طرح سے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں اس طرح کے بیانات کا ایسے وقت میں آنا ایک سوچا سمجھا پلان ہے۔ امن قائم کرنے کی کوششوں میں یہ سب کچھ ایک پتھر پھینک کر تماشہ دیکھنے کے مترادف ہے۔ اگر اس موقع پر بھی پاکستانی حکومت خاموش رہی تو اور بہت سے بیانات بھی آسکتے ہیں۔ آپ کو نہیں لگتا کہ امن کی کوششوں کے باوجود کشمیر میں ہونے والے تشدد کے واقعات میں زیادتی میں ان نادیدہ طاقتوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے جو نہیں چاہتے کہ دونوں ملکوں کے لوگ امن کا راستہ اختیار کریں اور اس خطے میں لوگوں کو بھی سکھ کا سانس لینا نصیب ہو؟ شیخ رشید کے اوپر لگائے گئے الزام اگر درست بھی ہیں تو مجھے پھر بھی یاسین ملک صاحب سے اس بیان پر انتہائی افسوس ہوا ہے، کس قدر عجیب صورتحال پیدا کردی ہے انہوں نے اس بیان کی صورت میں ۔۔۔۔ شاہزیب خان، ایتھنز:میں تو صرف یہی کہوں گا کہ جنرل صاحب یہ بتائیں انہیں یہ خیال آج آرہا ہے کہ کیمپ چل رہے تھے؟ جاوید ایوب کشمیری، بیجنگ:شیخ رشید کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ٹریننگ کیمپ چلاتے رہے ہیں درست نہیں ہے کیوں کہ یاسین ملک بھی اس کی تردید کرچکے ہیں۔ دوسری بات اگر مرزا اسلم بیگ کو یہ پتہ تھا تو انہوں نے اس سے پہلے یہ کیوں چھپائے رکھا تھا، حالانکہ وہ آرمی چیف تھے۔۔۔۔ بابر راجہ، جاپان:یہ بڑے المیہ کی بات ہے کہ ہمارے ملک کی سیاست چمکانے کے لیے یہ لوگ ملک کو بدنام کرتے ہیں۔ ایسے بیان دینے سے اچھا ہے کہ ملک میں کوئی اچھا کام کریں، جس سے ملک کا نام ہو نہ کہ بدنامی۔ عاصف محمود، امریکہ:میرے خیال میں یاسین ملک نے یہ بیان دے کر اپنی ناپختگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہیں سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیئے۔ یاسین ملک کے بیان کو میڈیا نے ضرورت سے زیادہ توجہ دی۔ اس کے علاوہ مرزا اسلم بیگ کے بیان سے یہ پتا چلتا ہے کہ در اصل وہ بھی ایک سیاست دان ہی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اس کے بعد کشمیری رہنماء ذمہ دارانہ رویہ اختیار کریں گے۔ عرفان عنایت، پاکستان:ہو ہی نہیں سکتا۔ کوا کبھی ہنس کی چال چل ہی نہیں سکتا۔۔ جاوید اقبال ملک، چکوال، پاکستان:یاسین ملک اور مرزا اسلم بیگ، دونوں ہی انتہائی ذمہ دار لوگ ہیں اور دونوں نے ایک ایسے موقع پر بیان دیے ہیں کہ جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان انتہائی اہم بات چیت جاری ہے اور پوری دنیا میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ شاید ’مسئلہ کشمیر‘ بات چیت کے ذریعے حل ہو جائے۔ اب شیخ رشید کے حوالے سے اس طرح کے بیان آنا انڈیا اور پاکستان کے لیے ٹھیک نہیں ہے اور امن کی کوششوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ عطیق رحمان، لندن، برطانیہ:بدلتے ہوئے حالات میں سب کچھ بدل گیا ہے۔ کل جس پر شیخ صاحب کو فخر تھا آج اسی پر پشیماں ہیں۔ جب ایل کے اڈوانی صاحب پاکستان آ سکتے ہیں تو شیخ صاحب کیوں نہیں جا سکتے؟ شیخ صاحب تو اڈوانی سے زیادہ روشن خیالی کا دعوی رکھتے ہیں۔ محمد علی قریشی، پاکستان:اگر شیخ رشید نے عسکریت پسندوں کو کھانا کھلایا تو اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے بلکہ یہ تو اسلام میں ثواب کا کام ہے، آئے ہوئے مہمان کو کھانا کھلانا تو کوئی جرم نہیں۔ ہاں جہاں تک خیال ہے تربیت دینے کا تو میں خود راولپنڈی میں رہتا رہا ہوں۔ شیخ رشید کا ایک نام ہے سیاست میں اور راولپنڈی میں وہ اس قسم کا کام نہیں کر سکتے۔ ان کا کام اسمبلی میں بولنا ہے نہ کہ بارڈر پر یا کس مہم میں لڑنا۔ رؤف وارس، کویت:سب سے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسے وقت میں ایسے بیانات آنا بالکل غلط ہے کیونکہ جب امن کی کوششیں جاری ہیں اور ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں گے تو کوئی بھی تلملا اٹھے گا۔ خیر اب دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلم بیگ صاحب کو اس وقت بیان دینے کی ضرورت کیوں آن پڑی؟ اگر انہوں نے کیمپ چلایا بھی ہے تو یہ کیوں بیچ میں آ گئے؟ یہ سب کرسی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ کسی کو انسانوں اور انسانیت کی قدر ہی نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو یہ جو امن کی کوششیں ہو رہی ہیں ان کو انجام تک پہنچانے کی کوشش کرتے۔ امین اللہ شاہ، پاکستان:پاکستانی لیڈرز کی ہی کرتوت اپنے اپنے مخصوص وقت پر ان کے قومی مفاد میں ہوتی ہے۔ یہ کارنامہ بھی انہی کرتوتوں کی کڑی ہوگا۔ پاکستان جتنا بھی جھکے انڈیا وہیں رہے گا۔ پاکستان یوں ہی خام خیالی میں ہیں۔ محمد فراز، کراچی، پاکستان:ارے جناب کیا سارا کچرا ایک سولین پر ڈال کر ہماری فوج کیا ثابت کر رہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کشمیری دہشت گرد کیمپ میں ٹریننگ کون دیتا تھا۔ اگر شیخ رشید کا یہ کیمپ تھا بھی تو اس میں ٹریننگ دینے والے کون تھے؟ واہ جناب واہ! ساری عمر افغان جنگ لڑی، نیوکلیئر ویپن کو بیچا، کشمیر میں جہاد کروایا اور وقت آنے پر سارا الزام دوسروں پر ڈال دیا۔ پرویز اختر، اومان:اللہ سب کو ہدایت دے۔ جو بھی شیخ رشید کے خلاف جو کچھ کہہ رہا ہے یہ صرف شیخ رشید کو داغدار کرنا چاہتے ہیں۔ رشید سِوِل آدمی ہے، ٹریننگ دینا آرمی کا کام ہے۔ دوسرا، رشید کے پاس اتنے ذرائع نہ ابھی ہیں نہ پہلے ہونگے۔ یہ صرف ان کی امیج خراب کرنے اور پیس پروسیس کو روکنے کے لیے ہماری رٹایئرڈ آرمی چیف کر رہے ہیں۔ اللہ کے لیے انڈیا اور پاکستان کی دوستی ہونے دیں۔ کم سے کم اب تو خاموش ہو جائیں۔ کس لیے اپنے ملک اور اپنی قوم کے خلاف باتیں کرتے ہیں؟ عاصف علی، کراچی، پاکستان:اگر یہ سب سچ ہے تو شاید یہ شیخ رشید کی زندگی کا سب سے اچھا کام ہوگا۔ افسوس ہے یاسین ملک پر، جس نے پناہ دی اسی کو ڈس لیا۔ احسان فراموشی کی بھی حد ہے۔ اور مرزا اسلم بیگ کو تو خبروں میں رہنے کا بہانا چاہیئے۔ قادر سید، کینیڈا:بی بی سی کو وہ ویڈیو کلپ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے جس میں شیخ رشید نے کہا تھا کہ کشمیر دو یا تین سال میں آزاد ہو جائے گا۔ عمیر خالد، لاہور، پاکستان:کیا یہ سب ایک منصوبے کے تحت نہیں کیا جا رہا؟ اس سب کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ جب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان حالات معمول پر آنے لگتے ہیں تو یہ کون سی طاقت ہے جو اس میں خلل ڈالتی ہے؟ اس سب میں کس کا مفاد ہے؟ کون ہے جو نہیں چاہتا کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے؟ گڑے مردے اکھاڑنے سے کون فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ حمد بخاری، فیصل آباد، پاکستان:ایک قدم آگے۔۔دو قدم پیچھے۔۔۔ ریاض فاروقی، دبئی:سب سے پہلے تو یہ کوئی انکشاف نہیں ہے۔ ساری دنیا کو پتا ہے کس نے کیا کیا ہے، اور ابھی تو یہ سلسلہ شروع ہوا ہے۔ آگے آگے دیکھیئےہوتا ہے کیا۔ جے کے ایل ایف کے ایک رہنماء امان اللہ خان نے بھی آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے اور اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام ہیں، جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ آشکار ہونگے۔
040911_saudi_elections_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/09/040911_saudi_elections_fz
سعودی عرب میں جمہوریت کا آغاز
سعودی حکومت نے ملک بھر میں پہلی مرتبہ بلدیاتی سطح کے انتخابات کرانے کی تاریخوں کا اعلان کر دیا ہے۔
سعودی عرب میں مونسپل کونسلز کے انتخابات کا سلسلہ اکتوبر میں شروع ہو جانے کی توقع تھی۔ بلدیات کے وزیر مطب بن عبدالعزیز نے کہا ہے کہ انتخابات کا پہلا دور دارالحکومت ریاض میں اگلے برس فروری کی دس تاریخ کو ہو گا۔ ملک کے باقی حصوں میں ووٹنگ مارچ اور اپریل میں کرائی جائے گی۔ ابھی تک حکومت نے یہ واضح نہیں کیا کہ کیا ان انتخابات میں خواتین کو حصہ لینے کا حق حاصل ہو گا یا نہیں اور ان کو ووٹ ڈالنے کا حق بھی دیا جائے گا یا نہیں۔
040530_yale_tomato_if
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/blog/story/2004/06/040530_yale_tomato_if
ٹماٹر کے آغاز اور عروج کی کہانی
ٹماٹر اطالوی کھانوں کی علامت ہے، میکسیکو کے کھانے اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتے اور اس کی بغیر برگر کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ٹماٹر کی دریافت سب سے پہلے پیرو میں ہوئی تھی۔ آج ٹماٹر کی عالمی سطح پر مقبولیت اور مقامی کھانوں میں اس کا لازمی استعمال ایک نا قابل تردید حقیقت ہے۔ لیکن دنیا کے اس سفر میں ٹماٹر نے بہت سے نام بدلے ہیں۔
یہ بات حتمی طور پر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ ٹماٹر پیرو سے میکسیکو کب اور کیسے پہنچا۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہسپانوی فاتح ہرنان کورٹز نے ٹماٹر کو پندرہ سو بیس میں سپین میں متعارف کرایا۔ سپین سے ٹماٹر اٹلی اور پھر فرانس پہنچا۔ اس کے مخلتف ناموں میں سپین میں ’پوم دی مورو‘ ( مورز کا سیب)، اٹلی میں ’پومی د اورو‘ (سنہری سیب) اور فرانس میں ’پوم د آمور‘ (محبت کا سیب) شامل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹماٹر کی اولین اقسام پیلے رنگ کی تھیں کیونکہ اطالوی اسے سنہرا کہتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انگریزی میں مستعمل نام اس کے اصل نام ’ٹومیٹل‘ کے قریب ترین ہے۔ لیکن ٹماٹر نےموت اور ذائقہ کے بارے میں ان خدشات پر جلد ہی قابو پا لیا اور اٹھارویں صدی کے درمیان تک ٹماٹر کی ترکیبیں برطانیہ کے باورچی خانوں کی زینت بن چکی تھیں۔ دریں اثناء ٹماٹر استعمال کے ساتھ شمالی امریکہ پہنچا لیکن وہاں اسے سجاوٹ کے لئے کام آنے والی خصوصیات کی بناء پر اگایا گیا۔ اٹھارہ سو بیس تک ٹماٹر امریکہ میں بھی مقبولیت کی سند حاصل کر چکا تھا۔ اٹھارویں صدی کے آخر تک ٹماٹر کی کھپت میں بہت اضافہ ہو چکا تھا۔ جوزف کیمپل اور ان کے سوپ کی بدولت انیس سو بیس سے ٹماٹر کی پیداوار میں اضافہ ہونے لگا۔ دنیا میں اس وقت ٹماٹر کی سب سے زیادہ پیداوار امریکہ، چین، ترکی،اٹلی اور بھارت میں ہوتی ہے۔ چین میں ٹماٹر کی پیداوار انیس سو چھیانوے میں چودہ ملین میٹرک ٹن سے بڑھ کر سن دو ہزار میں سترہ ملین میٹرک ٹن ہوگئی۔ چین میں ٹماٹر کی کھپت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہ کھپت انیس سو چھیانوے میں گیارہ اعشاریہ پانچ کلوگرام فی کس سے بڑھ کر سن دو ہزار میں تیرہ سترہ اعشاریہ پانچ کلوگرام فی کس ہوگئی ہے۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کھپت کا زیادہ ترحصہ ’کیچ اپ‘ پر مبنی ہے۔ سولہویں صدی میں جب برطانوی فوجی چین کے ساحل پر اترے تو انہیں ’کیچی ایپ یا کیٹسیپ‘ نامی مقامی چیز کھانے کے لئے پیش کی گئی۔ ’کیچی ایپ‘ کو مچھلی کا اچار بنانے والی مصالحوں اور تیل سے تیار کیا جاتا تھا اور یہ سوس کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ برطانیہ نے اس سوس کو اپنا لیا اور اس میں تبدیلی کر کے اسے ’کیچ اپ‘ کی شکل دے دی۔ برطانیہ میں ’کیچ اپ‘ کی پہلی ترکیب سترھویں صدی میں سامنے آئی جب سرکے، وہائیٹ وائن، ادرک، مرچ، لونگ اور لیموں کی’ کیچ اپ‘ بنائی گئی۔ اٹھارویں صدی کے اوائل میں نووا سکوٹیا، امریکہ میں جیمز میز نے پہلی دفعہ ٹماٹر کی کیچ اپ کی ترکیب شائع کی۔ اٹھارہ سو بیس تک کیچ اپ امریکہ کے طول و عرض میں بک رہا تھا۔ لیکن اٹھارہ سو بیس میں ایچ جے ہینز نے ’ٹماٹو کیچ اپ‘ کو اپنی مصنوعات کا حصہ بنا لیا جس کے بعد اس کی پیداوار میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ ٹماٹر کی اس مقبولیت کی ایک وجہ اس کا تنوع بھی ہے۔ ٹماٹر ہر طرح کے کھانوں میں اس طرح رچ بس گیا ہے کہ یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ ٹماٹر کی دریافت پیرو میں ہوئی تھی۔ ایک اطالوی کے لئے یہ ماننا کہ پاستا کبھی ’پومی ڈورو سوس‘ کے بغیر ہوتا تھا، اتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک انڈین کے لئے یہ ماننا کہ ’روغن جوش‘ یا ’سامبر‘ ٹماٹر کے بغیر بھی تیار کیا جا سکتا تھا۔ ٹماٹر اب اتنا عام ہو گیا ہے کہ اس کے بغیر پیزا، برگرز، سالسا یا فرینچ فرائیز کا تصور بھی محال ہے۔ لوگوں میں اس بات پر تو اختلاف ہو سکتا ہے کہ ٹماٹر پھل ہے یا سبزی؟ لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ ٹماٹر کے بغیر اس دنیا میں اتنا مزہ نہ ہوتا جتنا اب ہے۔
pakistan-55020148
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55020148
پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ ماڈل، پاکستان کے لیے سود مند یا نقصان دہ؟
پاکستان کے صوبہ سندھ میں حیدرآباد سے میرپورخاص تک خستہ حال سڑک دونوں شہروں کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیے عذاب بنی ہوئی تھی۔ سندھ کے ان دو شہروں کے درمیان تقریباً ساٹھ کلومیٹر کا سفر کئی گھنٹوں میں طے ہوتا تھا۔
تاہم چند سال قبل اس خستہ حال سڑک کے بجائے دو رویہ سڑک پر گاڑیاں تیز رفتاری سے سفر کرتے ہوئے ساٹھ کلومیٹر کے سفر کو ایک گھنٹے سے کم وقت میں طے کرتی نظر آئیں۔ حیدرآباد اور میر پورخاص کے درمیان بننے والی نئی دو رویہ سڑک سندھ حکومت نے نجی شعبے کے تعاون سے بنائی۔ اس منصوبے کو پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) ماڈل کے تحت بنایا گیا ہے۔ صوبہ سندھ میں حکمران جماعت اس ماڈل کے تحت تعمیر کی جانے والی اس سڑک کو پی پی پی ماڈل کی ایک بہترین مثال قرار دیتی ہے۔ یہ بھی پڑھیے ’حکمرانوں کی مفاد پرستی نے کراچی کا کیا حشر کر دیا‘ پاکستان میں ’منی بجٹ‘، ترقیاتی اخراجات میں کمی ترقیاتی فنڈز پر تحریکِ انصاف کے اراکین ناراض کیوں؟ پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) ماڈل ہے کیا؟ پاکستان میں دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبتاً یہ ایک نیا تصور ہے، جس کے تحت انفراسٹرکچر اور سماجی شعبوں میں منصوبوں کی تکمیل کی جاتی ہوتی ہے۔ پاکستان میں وفاق اور صوبوں کی سطح پر پی پی پی ماڈل کے تحت کچھ منصوبے مکمل ہو چکے اور کچھ پر کام جاری ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں مالی وسائل کی کمی کا شکار ہونے کی وجہ سے پی پی پی ماڈل کے تحت منصوبے بنانا چاہتی ہیں۔ پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ یعنی پی پی پی ماڈل کس طرح کام کرتا ہے کہ بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان میں پائیدار ترقی سے متعلق کام کرنے والے ادارے (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے بتایا کہ یہ ماڈل مختلف طریقوں سے کام کرتا ہے۔ ایک طریقہ تو ہے کہ حکومت کوئی منصوبہ مکمل کرتی ہے اور اس کا انتظام پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دیتی ہے کہ وہ اسے چلائے۔ دوسرے طریقے کے تحت پرائیوٹ سیکٹر ایک منصوبے میں پیسہ لگاتا ہے اور اس کا انتظام حکومت کے حوالے کر دیتا ہے یا پھر اس پیسے کی وصولی تک خود چلا کر اسے پھر حکومت کے حوالے کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر سلہری نے کہا اس ماڈل کےتحت کچھ منصوبے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن میں حکومتی اور نجی شعبہ دونوں مل کر کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اس سلسلے میں بتایا کہ اس ماڈل کے بہت سے پہلو ہیں کہ جس میں پرائیوٹ سیکٹر فناننسگ سے لے کر انتظام سنبھال سکتا ہے اور بعض معاملات میں تو حکومت ان منصوبوں کو بھی ان کے حوالے کر دیتی ہے جو کچھ عرصہ حکومتی نگرانی میں چلنے کے باوجود کارکردگی نہیں دکھاتے۔ انھوں نے کہا کہ اس ماڈل کے تحت انفراسٹرکچر کے شعبے سے لے کر سماجی شعبوں یعنی تعلیم اور صحت وغیرہ میں منصوبوں کو مکمل کر کے ان کا انتظام چلایا جاتا ہے۔ ’یہ ماڈل ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتا‘ سندھ حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی تخفیف غربت حکمت عملی کے اسٹرٹیجک ایڈوائزر ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ سندھ میں صحت کے شعبے میں غیر سرکاری تنظیم کو رورل ہیلتھ سنٹرز کا انتظام دینے کا تجربہ کامیاب نہیں ہوا۔ ان کے مطابق اپنی ٹیم کے ساتھ جب انھوں نے مختلف رورل سنٹرز کا دورہ کیا تو وہاں کے حالات اچھے نہیں نظر آئے۔ ڈاکٹر، ادویات اور علاج معالجے کی سہولیات کے لحاظ سے ان سنٹرز کے حالات اچھے نہیں تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک سال پہلے ان سنٹرز کی جو بد تر حالت تھی وہ آج بھی برقرار ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسی طرح انفراسٹرکچر کے شعبے میں حیدرآباد سے ضلع ٹنڈو محمد خان کے درمیان سٹرک کو پہلے پی پی پی ماڈل بنانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ تاہم منصوبے کی ’فیزیبلٹی سٹڈی‘ مکمل ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ اس میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جب کہ اس روڈ پر ٹریفک کا بہاؤ اتنا زیادہ نہیں کہ پرائیوٹ سیکٹر کی جانب سے لگائی جانے والی رقم اسے منافع کے ساتھ واپس کی جا سکے۔ حکومت سندھ نے بعد میں اس منصوبے کو پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ ماڈل کی تحت بنانے کا منصوبہ ترک کر کے اسے صوبائی حکومت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت اپنے وسائل سے مکمل کیا۔ پاکستان میں پی پی پی ماڈل کب متعارف ہوا؟ پاکستان میں پی پی پی ماڈل کے تحت انفراسرکچر اور سماجی شعبوں میں منصوبوں کی تاریخ دنیا کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں نئی ہے۔ پاکستان میں صوبہ سندھ نے وفاق اور دوسرے صوبوں کے مقابلے میں پی پی پی ماڈل کے تحت منصوبوں پر کام میں پہل کی۔ وفاق اور دوسرے صوبوں کے مقابلے میں صوبہ سندھ میں اس ماڈل پر کام چار پانچ سال پہلے شروع ہواجس کی سب سے بڑی مثال حیدرآباد میر پورخاص ہائی وے ہے۔ پاکستان میں صوبہ سندھ کے بعد وفاق اور دوسرے صوبوں میں بھی اس ماڈل کے تحت منصوبوں پر کام شروع ہوا۔ وفاقی حکومت نے اس ماڈل کے تحت منصوبوں کو مربوط منصوبہ بندی کے تحت بروئے کار لانے کے لیے 2017 پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ اتھارٹی ایکٹ کو منظور کیا، جس کے تحت پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس اتھارٹی کے ذمے ایک ریگولیٹری فریم ورک بنا کر پرائیوٹ سیکٹر کو مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنا ہے۔ اسی طرح چاروں صوبوں میں بھی پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ایکٹ بن چکے ہیں۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے پاکستان میں پی پی پی ماڈل کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ماڈل پر وفاق اور دوسرے صوبوں کے مقابلےمیں بڑے پیمانے پر سندھ میں کام شروع ہوا۔ سندھ میں دوسروں کے مقابلے میں چار پانچ سال پہلے کام شروع ہوا۔ تاہم انھوں نے نشاندہی کی کہ جسے آج پی پی پی ماڈل کہا جاتا ہے وہ ایک دوسری شکل میں پاکستان میں پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں کامیاب ہوا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں پاکستان انڈسٹریل ڈویلمپنٹ کارپوریشن (پی آئی ڈی سی) کے ذریعے حکومت ایک فکیٹری لگاتی تھی جب یہ فیکٹری چل پڑتی تھی تو حکومت اسے پرائیویٹ شعبے کے حوالے کر دیتی تھی۔ ڈاکٹر قیصر نے بتایا کہ اس ماڈل نے پاکستان میں انڈسٹریلائزیشن کو بہت زیادہ تقویت دی اور پاکستان میں آج جتنی بھی انڈسٹریلائزیشن ہے وہ اسی ماڈل کی وجہ سے ہے۔ ان کے مطابق ملک میں موجودہ پی پی پی ماڈل کا تصور نیا ہے اور اس پر کام کچھ سال پہلے شروع ہوا۔ ڈاکٹر عابد سلہری کے مطابق حکومت اور پرائیوٹ سیکٹر کی درمیان منصوبوں پر اشتراک مختلف صورت میں رہا ہے۔ اگر موجودہ پی پی پی ماڈل سے پہلے دیکھا جائے تو ملک میں توانائی کے شعبے میں نجی شعبے نے بجلی کے کارخانے لگائے تھے، جن سے حکومت بجلی خریدنے کی پابند تھی۔ انھوں نے کہا پاکستان میں پی پی پی ماڈل کے تحت منصوبوں پر کام کامیابی سے چل رہا ہے۔ پاکستان میں پی پی پی ماڈل کے چند نمایاں منصوبے کون سے ہیں؟ پاکستان میں پی پی پی ماڈل کے تحت منصوبے کا آغاز اور ان کی تکیمل کے سلسلے میں منصوبوں کا ذکر کیا جائے تو ایسے منصوبوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ پبلک پرائیوٹ پاڑٹنرشپ اتھارٹی کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق اس ماڈل کے تحت مکمل ہونے والے منصوبوں میں کراچی حیدرآبادہائی وے کی چھ لین موٹر وے میں تبدیلی، لاہور سیالکوٹ موٹروے کی تعمیر، اسلام آباد لاہور موٹر وے کی تزئین نو اور حیات آباد پشاور فلائی اوور کی تعمیر شامل ہیں۔ اس طرح زیر تکیمل منصوبوں میں سکھر حیدرآباد کا منصوبہ سب سے نمایاں ہے۔ صوبہ پنجاب میں اس ماڈل کے تحت انفراسٹرکچر اور سماجی شعبے میں چالیس منصوبے مختلف مراحل میں ہیں۔ صوبہ سندھ میں اس ماڈل کے تحت آٹھ منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں جب کہ انیس منصوبوں پر کام اور منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ پی پی پی ماڈل فائدہ مند یا نقصان دہ ہے؟ پی پی پی ماڈل کے تحت منصوبے ملک کے لیے سود مند ہیں یا اس کا کوئی نقصان ہے کہ بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس ماڈل کے تحت کس طرح کا معاہدہ کیا جاتا ہے اور کس طرح کی شرائط حکومت اور پرائیوٹ پارٹی کے درمیان طے کی جاتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سندھ میں اگرحیدرآباد میر پورخاص ہائی وے کی تعمیر اس ماڈل کے تحت ایک اچھا منصوبہ ہے تو اسی طرح صحت کے شعبے میں بنیادی مراکز صحت کو نجی شعبے کے حوالے کرنا کا منصوبہ ایک ناکام منصوبہ ہے۔ ان کے مطابق عمموماً انفراسٹرکچر کے شعبوں میں یہ ماڈل زیادہ کامیاب نظر آتا ہے کہ جہاں ایک پرائیویٹ پارٹی ایک منصوبے میں پیسہ لگانے کے بعد کچھ عرصے تک اس منصوبے کو چلا کر اپنے پیسے وصول کرتی ہے اور پھر اسے حکومت کے حوالے کر دیتی ہے۔ ان کے مطابق سماجی شعبے میں شاید یہ اتنا زیادہ کامیاب نہ ہو تاہم ہر کیس میں ایسا بھی نہیں ہے جس کی مثال بدین میں سرکاری ہسپتال کا انتظام ایک پرائیوٹ ادارے کے حوالے کرنا ہے کہ جو بڑی کامیابی سے اسے چلا رہے ہیں۔ ڈاکٹر بنگالی نے کہا کہ پاکستان جیسے ملکوں میں اس ماڈل کی ضرورت ہے کیونکہ ایک ایسا ملک جس کے پاس وسائل کی کمی ہو اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے بجٹ میں گنجائش نہ ہو تو پھر اس ماڈل کے تحت ہی منصوبے مکمل کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عابد سلہری نے اس سلسلے میں بتایا کہ یہ ماڈل پاکستان جیسے ملک کے لیے فائدہ مند ہے تاہم ایک خاص منصوبہ کی افادیت یا اس کے نقصان دہ ہونے کا تعین ان شرائط سے ہوتا ہے جو حکومت کسی پرائیوٹ پارٹی سے کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کا کام صرف منصوبہ پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کرکے ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی ذمہ داری ہے کہ اگر منصوبہ مکمل ہوتا ہے تو اس کی کوالٹی چیک کرے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں شفافیت کو بھی یقینی بنائے۔ اگر ایک خاص منصوبہ نجی شعبہ مکمل کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے تو پھر یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے مکمل کرے۔ ڈاکٹر سلہری نے کہا پی پی پی ماڈل کے تحت کسی منصوبے سے ملک اور لوگوں کو فائدہ یا نقصان ہونے کا سارا دارو مدار معاہدے کی شرائط پر ہے کہ حکومت کس طرح یہ معاہدہ کرتی ہے کہ وہ ملک کی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے سود مند ثابت ہو۔ ملک میں حکومتی منصوبوں میں پرائیوٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے کردار سے متعلق بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سلہری نے کہا کہ اس کا انحصار بھی ان شرائط سے ہے کہ جو معاہدے میں شامل ہوتی ہیں۔ اگر کسی پرائیوٹ پارٹی کو دانستہ طور پر مراعات دے کر اسے یہ منصوبہ دے دیا جاتا ہے تو لازماً اس میں نیب آئے گا۔ ڈاکٹر سلہری نے بتایا کہ ابھی تک یہ ماڈل پاکستان میں کامیابی سے نافذ ہوا ہے اور اس کے تحت کچھ منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں اور کچھ پر عمل درآمد جاری ہے۔
050106_shoaib_tsunami_cricket_am
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/01/050106_shoaib_tsunami_cricket_am
سونامی امدادی میچ، شعیب ان فِٹ
سونامی کے متاثرین کی مدد کی غرض سے آسٹریلیا کے شہر ملبورن میں آئندہ ہفتے کھیلے جانے والے کرکٹ میچ میں پاکستان کے تیز بولر شعیب اختر زخمی ہونے کے باعث حصہ نہیں لے پائیں گے۔
شعیب اختر ایشیئن الیون کی جانب سے کھیلنے والے تھے جس کا مقابلہ باقی دنیا کی ٹیم سے ہونا تھا لیکن پٹھہ کھِچ جانے کے بعد شعیب یہ میچ نہیں کھیلیں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ میچ نہ کھیلنا ایک ’دانشمندانہ‘ فیصلہ ہے کیونکہ بصورت دیگر وہ طویل عرصے تک بیمار ہو سکتے ہیں۔ ادھر سچن تندولکر بھی کہنی میں چوٹ کے باعث کھیلنے سے قاصر ہوں گے لیکن وہ اسی ہزار ممکنہ تماشائیوں کے ساتھ میچ دیکھنے سٹیڈیم آئیں گے۔ انگلینڈ کے فاسٹ بولر ڈیرن گوف اپنے بیٹے کے اصرار پر میچ کھیلنے آسٹریلیا روانہ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سونامی سے ہلاک ہونے والوں میں ایک تہائی چھوٹے بچے تھے۔ ’میرے دونوں بچوں نے اپنا جیب خرچ عطیے کے طور پر دے دی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میں بھی اپنا کردار ادا کروں۔‘ ڈیرن گوف نے کہا کہ سپورٹس کی دنیا کے حوالے سے کرکٹ نے تباہی کی زد میں آنے والوں کی امداد کے لیے بڑھ چڑھ کر مدد کی ہے۔
040920_indian_fishermen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/09/040920_indian_fishermen
چوالیس بھارتی ماہی گیر گرفتار
پاکستان کی میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی نے سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے پر چوالیس بھارتی ماہی گیروں کو گرفتار کر لیا ہے۔
ایجنسی کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کے ان ماہی گیروں کو کل گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے زیر استعمال سات کشتیاں بھی قبضے میں لے لی گئی ہیں۔ ترجمان کے مطابق یہ ماہی گیر پاکستان کی ایکسکلوسو اکنامک زون میں مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔ ان ماہی گیروں کو آج ڈاکیارڈ پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے اور ان کو کل ایک مقامی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ پاکستان نے ماہی گیروں کی گرفتاری کی اطلاع بھارتی میری ٹائم ایجنسی کو دے دی ہے۔ پاکستان اور بھارت نے پچھلے سال خیر سگالی کے طور پر سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے والے سینکڑوں ماہی گیروں کو رہا کیا تھا۔
pakistan-38995577
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-38995577
سوشلستان: ’باغی بہت بڑا ہوں مجھے مار دیجیے‘
سوشلستان میں اس ہفتے پاناما کیس کی واپسی ہوئی اور حسب معمول سیاسی رہنما اور وزرا سب کام چھوڑ کر عدالت حاضری دینے پہچنے جیسے دنیا کا سب سے اہم کام یہی ہے اور عوام نے اسی لیے حکومت کو ووٹ دیا اور وزرا کا تقرر ہوا تھا۔ مگر چلتے ہیں اس ہفتے کے اہم موضوع کی جانب یعنی ملک میں ہونے والے خودکش حملے۔
'ہسپتال کے لیے پیسہ نہیں سیاست کے لیے ہے' سیہون میں صوفی لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے حملے کے بعد سے سوشل میڈیا پر غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اور شدید تنقید کی جا رہی ہے جس کی زد میں سیکورٹی فورسز اور سیاستدان سب ہیں، جن سے لوگ سوال بهی کر رہے ہیں۔ مگر اس ساری بحث میں سندھ میں بنیادی ڈهانچے کی زبوں حال کا ماجرا کهل کر سامنے آ گیا ہے۔ لوگ پیپلز پارٹی کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جو گذشتہ نو سال سے صوبے پر حکمرانی کر رہی ہے اور سنده اس کا گڑھ سمجها جاتا ہے۔ صحافی امر گوریرو نے لکها: 'سیہون کے قریب ترین ہسپتال 135 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جہاں پر بنیادی سہولیات بهی دستیاب نہیں ہیں۔ ' ان حملوں میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کے الزام کے حوالے سے نظام بلوچ نے لکها: 'کیا انڈیا اور افغانستان نے ہمیں کہا تھا کہ ہم اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کے بعد سہولت کے لیے ہسپتال تعمیر نہ کریں؟' عثمان اسد نے اسی حوالے سے لکها کہ 'لوگ زخمیوں کو ابتدائی طور پر موٹر سائیکلوں پر لے کر ہسپتال گئے کیونکہ کوئی ایمبولینس نہیں تهی۔' مگر اس تبصرے کے مخالف رائے رکهنے والے بهی موجود ہیں جیسا کہ نعمان نے لکها 'ہر بڑِے مزار کے قریب بڑے ہسپتال تعمیر کریں مگر ان مدرسوں کی امداد بند نہ کریں جن کی فنڈنگ بیرونی ممالک سے آتی ہے۔' اور ایسے موقع پر جنرل راحیل شریف کو یاد کرنے والے بهی موجود تهے جس کی وجہ یہاں لکهنا ضروری نہیں۔ احتجاج کا حق لاہور میں مال روڈ پر دوا ساز اداروں کی جانب سے احتجاج کی حفاظت کے لیے موجود پولیس اور ٹریفک پولیس کے سینیئر اہلکاروں پر خودکش حملے کے بعد اس احتجاج پر تنقید کی جا رہی ہے اور اس کے مقصد پر بات کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسے کلپس بھی شیئر کیے جا رہے ہیں جن میں لاہور کے چیف ٹریفک پولیس آفیسر کیپٹن ریٹائرڈ سید احمد مبین کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ 'خدا کے واسطے، اللہ رسول کے واسطے، احتجاج کریں مگر سائیڈ پر کریں۔ اس میں کسی کی جان جا سکتی ہے۔' اور پھر انھی کی جان رات کے خودکش حملے میں چلی گئی اور احتجاج تتر بتر ہو گیا۔ احمد مبین کا اشارہ ٹریفک میں پھنسنے والی ایمبولینسوں کی جانب تھا جو مال روڈ کے بند ہونے کی وجہ سے گھر گئی تھیں۔ سید حسین نے لکھا کہ 'لاہور ہائی کورٹ کو مال روڈ پر ہر قسم کے احتجاج پر پابندی عائد کرنی چاہیے اور اس مقصد کے لیے کوئی جگہ مخصوص کی جانی چاہیے۔' شاہزیب خانزادہ نے سوال کیا 'جب انٹیلیجنس تھی کہ لاہور میں ممکنہ طور پر خودکُش حملہ ہو سکتا ہے تو پھر اس قسم کے احتجاج کی اجازت کیوں دی گئی؟ میڈیا کا دباؤ تھا یا کچھ اور؟' ایک صاحب نے فیس بُک پر لکھا 'دھماکہ اور اس کے بعد مذمت۔ یہ تسلیم کہ اس کی مذمت کی جانی چاہیے مگر ان احتجاج کرنے والوں کا کیا جن کے ذاتی مفادات نے کئی بہنوں کو بیوہ کیا اور بچوں کو یتیم، اور جنھوں نے خودکش حملہ آور کو موقع فراہم کیا؟' مگر سوال یہ ہے کہ کیا احتجاج کرنے والوں پر اس سارے حملے کا الزام دھر دینا درست ہے؟ کیا یہ انتظامیہ کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اجازت دینے سے پہلے اس سب کو ملحوظ رکھتے کیونکہ ماضی میں سیاسی اور دوسرے مظاہرین کو اجازت دینے سے انکار بھی کیا جاتا رہا ہے۔ مگر جس طرح سکیورٹی کے ادارے حملوں کے بعد پھُرتی دکھاتے ہیں اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی لوگ سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹتے رہتے ہیں۔ ایک نظم جو کیپٹن احمد مبین نے اپنی فیس بُک پروفائل پر چند دن قبل پوسٹ کی تھی اسے بہت زیادہ شیئر کیا جا رہا ہے جس میں وہ خدا لگتی بہت ساری باتیں لکھ گئے ہیں: میں پوچھنے لگا ہوں سبب اپنے قتل کا میں حد سے بڑھ گیا ہوں مجھے مار دیجیے ہے امن شریعت تو محبت مرا جہاد باغی بہت بڑا ہوں مجھے مار دیجیے فیس بُک ویڈیو میں تبدیلیاں فیس بُک نے گذشتہ دنوں اعلان کیا کہ اس نے ویڈیوز میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ اب ویڈیو جیسے ہی آپ کی ٹائم لائن پر آئے گی تو آواز کے ساتھ چل پڑے گی۔ فیس بُک کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی کے ساتھ جب جب آپ اپنی ٹائم لائن پر اوپر نیچے جائیں گے آواز کم زیادہ ہو گی۔ اگر آپ کا فون سائلنٹ موڈ پر ہے تو فیس بُک اس کو نظر انداز نہیں کرے گا اور ویڈیو کی آواز نہیں آئے گی۔ اس ہفتے کا تعارف اس ہفتے ذکر کریں گے اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے فوٹوگرافر زہران کا جو وائلڈ لائف فوٹوگرافر ہیں۔ انھیں پرندوں اور جانوروں کی تصاویر کو ان کے قدرتی ماحول میں کهینچنے کا شوق ہے۔ ان کی تصاویر آپ ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ https://m.facebook.com/ZahranCR اس ہفتے کی تصاویر کراچی میں نجی چینل سما کی گاڑی پر فائرنگ کراچی میں لائن مین بجلی کی تاروں کو ٹھیک کرتے ہوئے
060422_qazi_speech
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/04/060422_qazi_speech
اسلام آباد پر مارچ زیرغور: قاضی
پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد مجلس عمل کے صدر قاضی حسین احمد نے کہا ہے کہ ’فوج کو جہاں زمین ملتی ہے اس پر قبضہ کرلیا جاتا ہے اور پھر (انہیں الاٹ کرنے کے لیے) جھوٹ موٹ کے (فوجی) تمغے بنائے جاتے ہیں اور تمغوں کے ساتھ (فوجیوں کو) اراضی کے مربعے اور پلاٹ الاٹ کر دیے جاتے ہیں۔‘
قاضی حسین احمد نے کہا کہ حالانکہ کسی فوجی نے جنگ نہیں لڑی ہے‘ کسی نے کوئی بہادری نہیں دکھائی اور نہ ہی کوئی فتح حاصل کی ہے لیکن اس کے باوجود انہیں ستارہ جرآت، ہلال جرآت، ہلال امتیاز اور نجانے کیا کیا تمغے دیے جارہے ہیں اور ہر تمغے کے ساتھ اراضی کے مربعے اور پلاٹ دیے جا رہے ہیں۔ وہ سنیچر اور اتوار کی شب لاہور کے مینار پاکستان کے سبزہ زار میں ہونے والی شان مصطفی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ صدر مشرف بندوق کے ذریعے زبردستی اقتدار میں آئے ہیں اور وہ ’کبھی بھی‘ انتخابات کراکے نہیں جائیں گے۔ مجلس کے رہنما نے کہا کہ صدر مشرف کو ہٹانے کے لیے قوم کو اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاج کرنا ہوگا۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ وہ مجلس عمل میں شامل دوسری جماعتوں سے مشورے کے بعد جلد ہی اسلام آباد میں احتجاج اور دھرنے کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک بار اسلام آباد پہنچ گئے تو پھر جنرل مشرف کے استعفی دیکر جانے تک نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عوام اس موقع پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج برداشت کرنے کے لیے تیار رہیں اور اگر گولی بھی چلے تو بھی وہاں سے نہ ہٹیں۔ قاضی حسین احمد نے صدر مشرف کے ایران کے معاملے پر غیرجانبدار رہنے کے بیان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے معاملے میں پاکستان اگر غیرجانبدار رہے گا تو خود اس کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی کیونکہ ’اگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایران کا ایٹمی پروگرام نامنظور ہے تو پھر وہ پاکستان کی ایٹمی پروگرام کیسے برداشت کر لیں گے۔‘ قاضی حسین احمد نے کہا کہ پاکستان کو خاموش تماشائی بننے کے بجائے کھل کر ایران کا ساتھ دینا چاہیے۔ان کے مطابق صدر مشرف امریکہ اور مغرب کے آلہ کار ہیں اور انہیں ایک تحریک کے ذریعے ہٹا دینا چاہیے۔ مجلس عمل کے صدر نےکراچی میں میلاد النبی کے بم دھماکے کا الزام ایک بار پھر ایم کیو ایم اور اس سے تعلق رکھنے والے حکام پر عائد کیا ہے۔
sport-54405234
https://www.bbc.com/urdu/sport-54405234
37 گیندوں پر آفریدی کی سنچری:’ریکارڈز خوش قسمت کرکٹرز کے حصے میں آتے ہیں‘
ستمبر 1996 میں پاکستان کی انڈر 19 کرکٹ ٹیم ویسٹ انڈیز کے دورے پر تھی۔ یہ دورہ ٹیم کی کارکردگی سے زیادہ اس کے ایک کھلاڑی ذیشان پرویز کے مبینہ طور پر ریپ کے الزام میں گرفتار ہونے اور معاملہ عدالت تک جانے کی وجہ سے شہ سرخیوں میں آچکا تھا۔ اسی دوران ٹیم کے منیجر کو یہ پیغام ملتا ہے کہ لیگ سپنر شاہد آفریدی کو فوراً دورے سے واپس بھیج دیا جائے۔
دراصل پاکستانی کرکٹ ٹیم نیروبی میں جنوبی افریقہ، سری لنکا اور کینیا کے ساتھ چار قومی ون ڈے ٹورنامنٹ کھیل رہی تھی اور تجربہ کار لیگ سپنر مشتاق احمد کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ٹیم کو لیگ سپنر کی ضرورت تھی اس لیے قرعہ فال شاہد آفریدی کے نام نکلا۔ شاہد آفریدی ویسٹ انڈیز سے کراچی پہنچے اور پھر فوراً نیروبی روانہ ہو گئے۔ کسے خبر تھی کہ یہ طویل تھکا دینے والا سفر ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے لیے ہو رہا تھا۔ شاہد آفریدی نیروبی پہنچنے پر جس ٹیم میں شامل ہوئے اس میں اکثریت سٹار کرکٹرز کی تھی لیکن ان تمام سینئر کھلاڑیوں نے پہلی بار ٹیم میں شامل ہونے والے نوجوان شاہد آفریدی کو خوش آمدید کہا اور انھیں اس ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں دیر نہیں لگی۔ یہ بھی پڑھیے اب دوسرا لالہ نہیں آئے گا روی شاستری نے ’بوم بوم‘ کا خطاب دیا تھا: آفریدی ’شکریہ شاہد آفریدی‘ شاہد آفریدی کہتے ہیں ʹپاکستانی ٹیم کی نیٹ پریکٹس میں جب مجھ سے بیٹنگ کے لیے کہا گیا تو مجھے حیرانی ہوئی کہ میں لیگ سپنر کے طور پر یہاں آیا ہوں تو پھر یہ بیٹنگ‘ شاہد آفریدی نے نیٹ میں وسیم اکرم، وقاریونس، ثقلین مشتاق اور اظہر محمود کے خلاف اعتماد سے بیٹنگ کی بلکہ ان کی گیندوں پر کھل کر سٹروکس کھیلے۔ اگلے دن نیٹ پریکٹس میں انھوں نے محسوس کیا کہ وسیم اکرم اور وقار یونس کی گیندوں کی رفتار تیز ہوگئی ہے لیکن ان کی گیندیں جتنی تیزی سے ان کی طرف آتیں اتنی ہی قوت والے شاٹس انھیں دور کا راستہ دکھاتے۔ شاہد آفریدی کہتے ہیں ʹمیں اس نیٹ بیٹنگ سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ میرے کانوں میں سینئر کھلاڑیوں کی آوازیں آئیں کہ آفریدی کو اوپنر یا ون ڈاؤن کے طور پر آزمایا جا سکتا ہے۔ ظاہری طور پر میں نے حیرانی دکھائی لیکن میں دل ہی دل میں میں بہت خوش تھا کیونکہ مجھے یہ محسوس ہورہا تھا کہ میں بیٹنگ میں کچھ کرسکتا ہوں۔‘ آدھی رات کو شاداب کبیر کو جگا دیا دو اکتوبر کو پاکستان کا مقابلہ کینیا سے تھا جس میں شاہد آفریدی نے اپنے بین الاقوامی کریئر کا آغاز کرنا تھا۔ انھیں اس بات کی اس قدر خوشی تھی کہ وہ رات صحیح طور پر نہ سو سکے۔ وہ خود بتاتے ہیں ʹمیری آنکھ کھلی تو مجھے لگا کہ صبح ہو گئی ہے اور میں نے نہ صرف تیار ہونا شروع کر دیا بلکہ اپنے ساتھی شاداب کبیر کو بھی جگا دیا لیکن مجھے اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب شاداب نے کہا لالہ اس وقت ڈھائی بج رہے ہیں سو جاؤ۔ صبح اٹھنے پر میں نے شاداب کبیر سے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں سنتھ جے سوریا اور مرلی دھرن کو خوب چھکے مار رہا ہوں تو شاداب کبیر نے میرا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ لالہ تم نے خواب کیسے دیکھ لیا تم تو رات کو سوئے ہی نہیں۔‘ شاہد آفریدی نے کینیا کے خلاف اپنا پہلا میچ کھیلا لیکن اس میچ میں ان کی بیٹنگ نہیں آئی جبکہ بولنگ میں انھوں نے دس اوورز میں بتیس رنز دیے لیکن انھیں کوئی وکٹ نہ مل سکی۔ ریکارڈ ساز کارکردگی کا دن 4 اکتوبر کو پاکستانی ٹیم ورلڈ چیمپئن سری لنکا کے مقابل تھی۔ نیروبی جم خانہ گراؤنڈ میں تماشائیوں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی لیکن انھیں کیا خبر تھی کہ آج وہ ایک ریکارڈ ساز اننگز دیکھنے والے خوش قسمت شائقین بننے والے ہیں۔ رانا تنگا نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا۔ کپتان سعید انور اور سلیم الہی سکور کو 60 تک لے گئے۔ اس موقع پر سلیم الہی 23 رنز بنا کر دھرما سینا کی گیند پر آؤٹ ہوئے۔ کریز پر آنے والے نئے بیٹسمین شاہد آفریدی تھے۔ آفریدی نے پہلی گیند روکی لیکن اگلی ہی گیند پر انھوں نے چھکا مار دیا۔ سری لنکن بولرز جن میں چمندا واس، سجیوا ڈی سلوا، سنتھ جے سوریا، دھرما سینا اور متایا مرلی دھرن شامل تھے یہ سوچتے ہی رہ گئے کہ آفریدی کو ایسی کونسی گیند کریں جسے وہ باؤنڈری کا راستہ نہ دکھا سکیں۔ یہ وہ بولرز تھے جنھوں نے سری لنکا کو اسی سال ون ڈے کا عالمی چیمپئن بنوایا تھا لیکن ایک نیا نوجوان بیٹسمین انھیں اپنی مرضی سے کھلا رہا تھا۔ سنتھ جے سوریا کے ایک اوور میں شاہد آفریدی نے تین چھکے اور دو چوکے مارے۔ دو مرتبہ گیند کار پارکنگ میں جا گری۔ مرلی دھرن جیسے بولر نے بھی بے بسی سے گیند کو گراؤنڈ سے باہر جاتے ہوئے دیکھا۔ آفریدی انھیں بھی رعایت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ شاہد آفریدی نے اپنی نصف سنچری 18 گیندوں پر مکمل کی۔ یوں وہ صرف ایک گیند کی کمی سے سنتھ جے سوریا کا 17 گیندوں پر نصف سنچری کا عالمی ریکارڈ برابر نہ کر سکے لیکن ابھی سنچری اور وہ بھی ورلڈ ریکارڈ سنچری مکمل ہونا باقی تھی۔ شاہد آفریدی جس بے رحمی سے ہر گیند کو کھیل رہے تھے ان کے ساتھ کریز پر موجود سعید انور ہر چھکے اور چوکے پر ان کے پاس آ کر حوصلہ افزائی کررہے تھے۔ اس اننگز میں سعید انور نے بھی تین ہندسوں کی خوبصورت اننگز کھیلی تھی۔ شاہد آفریدی نے مرلی دھرن کی گیند پر لیگ سائیڈ پر چوکا لگا کر اپنی سنچری 37 گیندوں پر مکمل کی جس میں 6 چوکے اور بھرپور قوت والے 11 چھکے شامل تھے۔ وہ چالیس گیندوں پر 102 رن بنا کر آؤٹ ہوئے۔ شاہد آفریدی سے قبل ون ڈے انٹرنیشنل میں تیز ترین سنچری کا ریکارڈ سنتھ جے سوریا کا تھا جنھوں نے نیروبی کے اس ٹورنامنٹ سے چھ ماہ قبل سنگاپور میں پاکستان کے خلاف 48 گیندوں پر سنچری مکمل کی تھی۔ سچن تندولکر کے بیٹ سے بیٹنگ شاہد آفریدی نے جس بیٹ سے یہ مشہور اننگز کھیلی وہ دراصل انڈین بیٹسمین سچن تندولکر کا تھا جو انھوں نے پاکستان کے فاسٹ بولر وقاریونس کو تحفے میں دیا تھا۔ وقاریونس اس بیٹ کی کہانی یوں بیان کرتے ہیں۔ ʹمجھے یہ بیٹ سچن تندولکر نے دیا تھا۔ اس زمانے میں کرکٹرز سووینئر کے طور پر بیٹ کا تبادلہ کرتے تھے۔ مجھے یہ بیٹ پسند آیا تھا لہذا سچن نے یہ مجھے دیا تھا۔ شاہد آفریدی نے نیٹ پریکٹس کے دوران جس جارحانہ انداز سے بیٹنگ کی تھی تو میں نے میچ میں ان سے کہا کہ آپ اس بیٹ سے کھیل کر دیکھو۔ آفریدی نے اس اننگز میں عالمی ریکارڈ قائم کردیا اور یہ بیٹ پھر انھی کا ہو گیا۔‘ وقاریونس کہتے ہیں ʹآفریدی کی وہ اننگز آج بھی ذہن پر نقش ہے کیونکہ اس دور میں اس طرح کی جارحانہ بیٹنگ کا رواج نہیں تھا۔ صرف سنتھ جے سوریا اس زمانے میں جارحانہ بیٹنگ کے لیے شہرت رکھتے تھے ایسے میں ایک نوجوان بیٹسمین نے انٹرنیشنل کرکٹ میں آ کر جس طرح کی دھواں دھار بیٹنگ کی وہ بہت بڑا کارنامہ تھا۔‘ وقار یونس اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں جب شاہد آفریدی چھکے پر چھکے مار رہے تھے تو ڈریسنگ روم میں سب اس اننگز کو انجوائے کررہے تھے اور جیسے کسی پارٹی کا ماحول بن گیا تھا لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ ہم تمام کھلاڑیوں کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ہمیں ایک ایسا کھلاڑی مل گیا ہے جو گیم چینجر ہے۔ بیٹنگ کرنے والا لیگ سپنر آ گیا لیگ سپنر مشتاق احمد کو اچھی طرح یاد ہے کہ شاہد آفریدی ان کی جگہ ٹیم میں آئے تھے اور ایک یادگار اننگز کھیل کر چھا گئے۔ ʹسہارا کپ ٹورنامنٹ کے دوران میرے گھٹنے میں تکلیف ہو گئی تھی اور ٹورنامنٹ کے بعد میں آپریشن کرا کر پاکستان آیا تھا۔ ایک روز میرے ایک دوست کا فون آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ آپ کی جگہ ٹیم میں شامل ہونے والے شاہد آفریدی نے ون ڈے کی تیز ترین سنچری بنا ڈالی ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ ایک پاکستانی نوجوان نے یہ عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔‘ مشتاق کہتے ہیں ʹآفریدی کی اس اننگز کے بعد میں ذہنی طور پر تیار ہو گیا تھا کہ اب اگر کسی ایکسٹرا بیٹسمین کو کھلانے کی بات ہو گی جو لیگ سپن بھی کرتا ہو تو یقیناً پہلی ترجیح شاہد آفریدی ہی ہوں گے۔ ہم دونوں ایک ساتھ بھی کھیلے بلکہ اس وقت ثقلین مشتاق بھی ٹیم میں ہوتے تھے اور ہماری سپن بولنگ نے پاکستانی ٹیم کو کئی اہم کامیابیاں دلوائیں۔‘ آفریدی کا ریکارڈ کیسے ٹوٹا؟ شاہد آفریدی کا 37 گیندوں پر سنچری کا عالمی ریکارڈ 17سال تک قائم رہا۔ یکم جنوری 2014 کو نیوزی لینڈ کے کورے اینڈرسن نے ویسٹ انڈیز کے خلاف کوئنز ٹاؤن میں آفریدی سے ایک گیند کم کھیل کر یعنی 36 گیندوں پر سنچری مکمل کی اور شاہد آفریدی کو ان کے ورلڈ ریکارڈ سے محروم کردیا لیکن اٹھارہ جنوری 2015 کو جنوبی افریقہ کے اے بی ڈی ویلیئرز نے ویسٹ انڈیز کے خلاف جوہانسبرگ میں غیرمعمولی کارکردگی دکھاتے ہوئے صرف 31 گیندوں پر سنچری بناڈالی اور ون ڈے انٹرنیشنل میں تیز ترین سنچری کے مالک بن گئے۔ اے بی ڈی ویلیئرز نےاس اننگز میں صرف 44 گیندوں پر149 رنز اسکور کیے تھےجن میں 16 چھکے اور 9 چوکے شامل تھے۔ کون کون سے چھکے یاد ہیں؟ شاہد آفریدی کہتے ہیں ʹریکارڈ کبھی بھی منصوبہ بندی اور سوچ کر نہیں بنائے جاتے یہ خوش قسمت کرکٹرز کے حصے میں آتے ہیں ۔ یہ کسی کارنامے سے کم نہیں ہوتے۔‘ اپنی کینیا والی اننگز کے گیارہ چھکوں کے علاوہ بھی کوئی ایسا چھکا ہے جو آپ کو یاد ہو؟ شاہد آفریدی کہتے ہیں: سنہ ʹ2005 میں آسٹریلیا کے خلاف ہوبارٹ میں کھیلے گئے ون ڈے میں گلین میک گرا کو میں نے دو چھکے اور تین چوکے مارے تھے اسی طرح بریٹ لی کو بھی دو چھکے اور ایک چوکا مارا تھا۔ 26 گیندوں پر 56 رنز کی وہ اننگز یاد رہتی ہے۔‘ ’اسی طرح سنہ 2010 کے ایشیا کپ میں 109 رنز کی اننگز میں، میں نے مرلی دھرن کو پانچ چھکے مارے تھے۔ جب آپ کسی بھی ورلڈ کلاس بولر کے خلاف اچھا کھیلتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے خاص کر مرلی جیسے بولر کے خلاف جنھیں چھکا مارنا آسان نہیں تھا۔‘
pakistan-39754924
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-39754924
ڈان لیکس: وزیراعظم نواز شریف کا نوٹیفیکیشن فوج کی طرف سے مسترد
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے سنیچر کو ڈان لیکس انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کو پہلے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے مسترد کر دیا جس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اصلی نوٹیفیکشن ابھی جاری کیا جانا باقی ہے۔
٭ ’ڈان لیکس‘: سفارشات کو عوام کے سامنے رکھا جائے گا * ڈان لیکس میں کب کیا ہوا ’حکومت کا رویہ شروع سے ہی مناسب نہیں تھا‘ ’اداروں کے درمیان ٹویٹس پر بات نہیں ہوتی‘ چند گھنٹوں کے وقفے سے وزیر اعظم کے نوٹیفیکیشن، اس پر آئی ایس پی کی ٹوئٹ اور وفاقی وزیر داخلہ کے وضاحتی بیان کے سامنے آنے سے ملک کے الیکٹرانک میڈیا پر شوربرپا ہو گیا جس پر چوہدری نثار علی خان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے ایک طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کے دستخط سے وزیر اعظم کے پیڈ پر جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کو چوہدری نثار علی نے کہا کہ یہ وزارتِ داخلہ کو ریفرنس تھا اور اس معاملے پر اصل نوٹیفیکیشن جاری کرنا تو وزارتِ داخلہ کی ذمہ داری ہے۔ وزیر اعظم کے نوٹیفیکیشن میں واضح احکامات جاری کیے تھے جن میں خارجہ امور کے مشیر طارق فاطمی سے ان کا عہدہ واپس لیے جانے کے علاوہ تین اور احکامات جاری کیے گئے تھے۔ یاد رہے کہ مشیر خارجہ کے عہدے سے کسی کو علیحدہ کیا جانا وزارتِ داخلہ کے اختیارات میں نہیں آتا۔ قبل ازیں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور باجوہ نے ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے ڈان لیکس کے حوالے سے جاری کیے گئے اعلامیہ کو مسترد کر دیا تھا۔ انھوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا: 'ڈان لیکس کے حوالے سے جاری کیا گیا اعلان انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے۔ یہ نوٹیفیکیشن مسترد کیا جاتا ہے۔' سنیچر کی صبح وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے انکوائری کمیٹی کے 18ویں پیرے کی منظوری دی ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ وزارت اطلاعات و نشریات کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین کے خلاف 1973 کے آئین کے ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن (ای اینڈ ڈی) رولز کے تحت کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔ سنیچر کی شام کو ایک نوٹیفیکیشن میں پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین علی کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس کے علاوہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ روزنامہ ڈان اس کے مدیر ظفر عباس اور سرل المائڈہ کا معاملہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے سپرد کر دیا جائے جبکہ اے پی این ایس سے کہا جائے گا کہ وہ پرنٹ میڈیا کے حوالے سے ضابطہ اخلاق تشکیل دے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ضابطہ اخلاق خاص طور پر پرنٹ میڈیا کے لیے ملکی سلامتی کے معاملات پر رپورٹنگ کے حوالے سے قواعد و ضوابط کا تعین کرے گی اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ قومی اہمیت اور سکیورٹی سے متعلق معاملات پر خبریں صحافت کے بنیادی اور ادارتی اصولوں کے خلاف شائع نہ ہوں۔ پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کی ٹویٹ کا عکس اس سے قبل گذشتہ دنوں پاکستان میں وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ انگریزی اخبار ڈان میں قومی سلامتی کے منافی خبر شائع ہونے کی تحقیقاتی رپورٹ میں کمیٹی کی سفارشات کو وزیر اعظم کی جانب سے منظوری ملنے کے بعد عوام کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ خیال رہے کہ گذشتہ برس اکتوبر میں شائع ہونے والی خبر میں غیر ریاستی عناصر یا کالعدم تنظیموں کے معاملے پر فوج اور سول حکومت میں اختلاف کا ذکر کیا گیا تھا تاہم حکومت اور فوج دونوں نے اس خبر کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیا تھا۔ اس کے بعد وزیراعظم کی جانب سے گذشتہ برس اکتوبر میں وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کو اس خبر کی اشاعت رکوانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا نہ کرنے پر ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔
040710_taliban_afghanistan_sen
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/07/040710_taliban_afghanistan_sen
افغانستان میں متعدد طالبان ہلاک
افغانستان کے جنوبی سرحدی شہر سپین بولدک کے قریب افغان فوجیوں کی ایک چوکی پر کوئی چالیس کے لگ بھگ مشتبہ طالبان نے حملہ کیا ہے لیکن افغان حکام کا دعوی ہے کہ حملہ پسپا کر دیا گیا ہے اور اس کارروائی میں طالبان کے ایک کمانڈر ملا عبدالحئی ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
سپین بولدک میں سرحدی امور کے انچارج عبدالرازق نے بتایا ہے انھیں یہ اطلاع بھی موصول ہوئی ہے کہ اس حملے میں چار طالبان ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے تین کی لاشیں ان کے ساتھی فرار ہوتے ہوئے ساتھ لے گئے ہیں جب کہ ایک لاش وہ چھوڑ گئے ہیں۔ دوسری جانب آزاد ذرائع نے کہا ہے کہ مشتبہ طالبان کا ایک رکن ہلاک اور ایک زخمی ہوا ہے۔ سپین بولدک کی انتظامیہ کے مطابق اس کارروائی میں افغان فوجیوں کا کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔ عبدالرازق نے بتایا ہے کہ چالیس کے لگ بھگ مسلح طالبان نے رات لوئے کاریز کے علاقے میں ککڑی کے مقام پر ایک افغان فوجی چوکی پر حملہ کیا جسے افغان فوجیوں نے پسپا کر دیا۔ انھوں نے بھی کہا ہے کہ اس کارروائی میں طالبان کے کمانڈر ملا عبدالحئی ہلاک ہوئے ہیں۔ دریں اثناء قندھار سے یہ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ مشتبہ طالبان نے ایک سکول کی عمارت کو آگ لگا دی ہے۔ یہ عمارت حال ہی میں بچوں کے لیے امریکہ کی مدد سے بنائی گئی تھی۔ مقامی انتطامیہ کا کہنا ہے کہ اس واردات میں کوئی نقصان نہیں ہوا۔ یہ سکول میوند ضلع میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ گزشتہ روز صوبہ ہلمند میں افغان فوجیوں اور مشتبہ طالبان کے مابین جھڑپ میں تین طالبان اور تین افغان فوجی زخمی ہوئے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب سے افغانستان میں انتخابات کے حوالے سے تیاریاں شروع ہوئی ہیں اس طرح کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
080417_afghan_attack
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2008/04/080417_afghan_attack
افغانستان: مسجد کے باہر ہلاکتیں
افغانستان میں حکام کے مطابق ملک کے جنوبی شہر زرنج میں ایک مسجد کے باہر خودکش حملہ ہوا ہے جس میں کم سے کم بیس لوگ ہلاک اور تیس زخمی ہو گئے ہیں۔ نیمروز صوبے کے گورنر غلام دستگیر آزاد کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک ضلعی پولیس افسر اور بارڈر رِیزرو پولیس کمانڈر شامل ہیں۔
گورنر کے مطابق دھماکہ ایک مسجد کے باہر مصروف بازار میں ہوا اور ممکنہ طور پر حملے میں دو بمبار شریک تھے۔ حملے کے وقت لوگ مسجد میں شام کی نماز کی تیاری کر رہے تھے۔ ابتدائی طور پر یہ واضح نہیں کہ حملے کے پیھچے کس کا ہاتھ ہے لیکن اس طرح کے حملوں کے لیے طالبان کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتاہے۔ افغانستان کے حکام کے مطابق غزنی کے صوبے میں بھی دو واقعات میں کم سے کم بارہ شدت پسند ہلاک ہوئے۔ افغانستان میں ہزاروں غیر ملکی افواج کی موجودگی کے باوجود طالبان صدر حامد کرزئی کی حکومت کے خلاف برسر پیکار ہیں اور اس ماحول میں پرتشدد واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زرنج صوبے نیمروز کا دارالحکومت ہے جس کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں۔ نیمروز کا شمار ان صوبوں میں ہوتا ہے جہاں بین الاقوامی افواج مستقل بنیادوں پر تعینات نہیں ہیں۔ یہاں حالیہ مہینوں میں تشدد کے واقعات اضافہ ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ عام خیال ہے کہ جوں جوں طالبان ہلمند کے صوبے میں غیر ملکی افواج کے دباؤ کی وجہ سے نیمروز میں داخل ہو رہے ہیں ان کا وہاں اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔
world-38196479
https://www.bbc.com/urdu/world-38196479
قطبِ شمالی میں زندگی کی جھلکیاں
تین برس قبل امریکی ریاست الاسکا کے قصبے گیلینا کے باسیوں کو یوکون دریا میں سیلاب کے بعد اپنے گھربار چھوڑنا پڑے تھے۔ الاسکا کے نیشنل گارڈ اور نیشنل آرمی گارڈ نے تین سو مکینوں کا انخلا کروایا تھا۔ ان میں سے بہت سے جب سیلاب اترنے کے بعد اپنے گاؤں لوٹے تو پتہ چلا کہ اب ان کے گھر رہائش کے قابل نہیں رہے۔ اس کے بعد ایک باسی نے برطانوی فوٹوگرافر ایڈ گولڈ کو بلا کر ان سے کہا کہ وہ اس برادری کی تصویر کشی کریں۔
گولڈ نے جو پہلی تصویر لی وہ گیلینا کے شہری سڈنی ہنٹنگڈن کے جنازے کی تھی۔ ان کے تابوت کو یخ بستہ یوکون دریا کے اوپر سے گھسیٹ کر قبرستان تک لے جایا گیا۔ گولڈ نے 2015 کے اواخر اور 2016 کے اوائل میں گیلینا میں چھ ہفتے گزارے۔ یہ علاقہ قطبِ شمالی سے صرف 130 کلومیٹر دور واقع ہے۔ انھوں نے یہاں کی تصویر کشی کے لیے جدید ترین ڈیجیٹل کیمروں کی بجائے ایک ایسے فلم کیمرے کو ترجیح دی جو 1930 کی دہائی میں بنایا گیا تھا۔ گولڈ کی تصاویر میں اس برفانی علاقے کی لوگوں کی مشکل زندگیاں اور ان کی ذاتی داستانوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ جیک پوگریسبنسکی میں 1986 میں کام کی تلاش میں الاسکا آیا تھا۔ یہاں آتے ہی مجھے ایڈونچر کا سامنا کرنا پڑ گیا اور میں کوئی کام نہیں کر سکا۔ میں اور میری دوست ایگل کے علاقے تک گئے۔ ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔ ہم نے ایک کشتی بنائی اور یوکون دریا میں اسے چلاتے ہوئے گیلینا تک آ گئے۔ میری دوست امید سے تھی۔ مجھے کام کی ضرورت تھی اس لیے ہم نے گلیلینا میں ایک شراب خانہ کھول لیا۔ ورجینیا جانسٹن میں 1927 میں نولاٹو میں پیدا ہوئی تھی اور مجھے فوراً ہی گود لے لیا گیا تھا۔ مجھے کبھی معلوم نہیں ہو سکا کہ میرے اصل والدین کون تھے۔ مجھے سکول میں پتہ چلا کہ میں گود لی گئی ہوں۔ مجھے 1940 میں ہولی کراس میں ایک کیتھولک سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اس کے بعد میری شادی ہو گئی۔ میرے کل 14 بچے پیدا ہوئے، جن میں صرف چھ زندہ ہیں۔ میرے 103 پوتے پوتیاں ہیں جو الاسکا کے مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ میری دو پڑ پڑپوتیاں بھی ہیں۔ اینڈریو ہنٹنگنٹن میں الاسکا کے گاؤں تانانا سے یہاں آیا ہوں۔ میرے والد نصف سفید فام اور نصف آتھاباسکان (مقامی ایسکیمو) تھے۔ وہ کان کن تھے۔ میری ماں مکمل آتھاباسکان ہیں۔ میں نے ٹیلی ویژن پر کتوں سے چلنے والی برف گاڑیوں کی ریس دیکھی اور مجھے بھی اس کا شوق ہو گیا۔ میں نے آٹھ سال پہلے خود بھی ان دوڑوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ میں اس کھیل میں حصہ لینے والا پہلا بہرا شخص ہوں۔ کیمرون ریٹن میں کالج میں طبی تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں تاکہ لوگوں کی خدمت کر سکوں۔ میری اونی ٹوپی میری دادی نے تیار کی ہے۔ میرے جوتے سیل اور اودبلاؤ کی کھال سے بنے ہوئے ہیں۔ یہ دو سال سے میرے پاس ہیں۔ ہماری لکڑی کا کیبن اندر سے خستہ ہو چکا ہے اس لیے ہم اب اس میں نہیں رہتے۔ ٹم بوڈونی یہ سائیکل میرے پاس پچھلے 20 برسوں سے ہے۔ اسے میں نے ریاست الی نوئے سے خریدا تھا۔ میرے دستانے ’آوارہ کتے‘ کہلاتے ہیں کیوں کہ جب بعض اوقات کتے انھیں دیکھ کر مشتعل ہو جاتے ہیں۔ وہ شاید انھیں کتے سمجھتے ہیں۔ یہاں شدید سردی کی وجہ سے دستانے بےحد ضروری ہیں۔ یہاں رہنے کے لیے مناسب لباس انتہائی اہم ہے۔ جو ہنڈورف میں نے 2012 میں یہ دکان شروع کی، اس میں اندازاً 20 ہزار اشیائے فروخت موجود ہیں۔ میں مچھلیاں کاٹنے والے چاقو بھی بیچتا ہوں۔ یہ گولیاں 0.22 کیلیبر کی ہیں اور انھیں مرغابیوں کے شکار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بریڈ سکوٹن میں شکاری ہوں اور میں نے یہ کام نو برس کی عمر سے شروع کیا تھا۔ میں ریاست آئیوا کا رہنے والا ہوں۔ اب بہت کم لوگ ایسے ہیں جو پھندا لگا کر شکار پکڑتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ تمام الاسکا میں کل ملا کر پانچ ہزار شکاری ہوں گے۔ تصاویر: ایڈ گولڈ
040430_shoaib_not_clear
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2004/04/040430_shoaib_not_clear
شعیب کلیئر نہیں ہوئے: کرکٹ بورڈ
پاکستان کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر شعیب اختر کی فٹنس کے معاملے نے متنازعہ صورت اختیار کرلی ہے ۔ شوکت خانم ہسپتال کی میڈیکل رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ شعیب اختر کی گیارہویں پسلی میں فریکچر ہے جس کی وجہ سے وہ بھارت کے خلاف پنڈی ٹیسٹ میں بولنگ نہیں کرسکے تھے لیکن دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ شوکت خانم ہسپتال کی یہ رپورٹ حرف آخر نہیں بلکہ اس رپورٹ کی اہمیت ہے جو پاکستان کرکٹ بورڈ کا قائم کردہ میڈیکل کمیشن پیش کرے گا۔
شوکت خانم ہسپتال کی رپورٹ منظرعام پر آنے پر پاکستان کرکٹ بورڈ خوش نہیں ہے اور اس نے ہسپتال کی انتظامیہ سے باقاعدہ احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ یہ اہم نوعیت کی دستاویز پاکستان کرکٹ بورڈ کے قائم کردہ میڈیکل کمیشن کی حتمی رپورٹ کے آنے سے پہلے ہی میڈیا کوکیوں دے دی گئی۔ غیرجانبدار حلقوں نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ رپورٹ ہسپتال کے ذرائع کے بجائے شعیب اختر کے ذریعے میڈیا تک پہنچی ہو جو یقینا موجودہ صورتحال سے خوش نہیں اور اپنا نام فورا کلیئر کرانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ میڈیا میں آجانے والی رپورٹ درست بھی ہو لیکن اس صورتحال سے پی سی بی کے مقررہ کردہ کمیشن کو ضرور دھچکہ پہنچا ہے جس کی رپورٹ آئندہ ہفتے منظرعام پر آنے والی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ شعیب اختر کے معاملے میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے ضرورت سے زیادہ غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے شہرت دی ۔ فٹنس اور رویہ دو الگ معاملے تھے اگر پاکستان کرکٹ بورڈ کو منیجر اور کپتان کی رپورٹس کی روشنی میں شعیب اختر کے مبینہ لاپرواہ رویے پر کارروائی کرنی تھی تو وہ اسی وقت کی جاسکتی تھی جہان تک فٹنس کا تعلق ہے تو یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پہلے تو پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹیم کے ڈاکٹر کی ابتدائی رپورٹ کی روشنی میں یہ دعوی کیا تھا کہ شعیب اختر کا مسل پھٹ گیا تھا اب شوکت خانم ہسپتال کی رپورٹ پسلی میں فریکچر کی بات کرتی ہے تو اس میں سب سے پہلے جس شخص سے سوال جواب ہونا چاہیئے وہ ٹیم کے ڈاکٹر ریاض احمد ہیں جنہوں نے کس بنیاد پر صرف مسل کے پھٹنے کی تشخیص کی تھی اور اگر یہ معاملہ فریکچر کا تھا تو شعیب اختر نے دھواں دار بیٹنگ کیسے کرلی؟ اور اتنے دنوں وہ کسی تکلیف کے کیسے گھومتے رہے ہیں ؟
151217_migrants_painful_pics_sq
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/12/151217_migrants_painful_pics_sq
دلخراش تصاویر کے کردار کہاں گئے؟
گزشتہ عرصے میں جب بھی شمالی یورپ کی جانب گامزن مہاجرین اور تارکین وطن کی کوئی دلخراش تصویر منظر پر آئی، اس نے دنیا بھر میں لوگوں کے دل دہلا دیے اور ہر دوسرے شخص کی آنکھ بھر آئی۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیمرہ بند ہو جانے کے بعد اس مہاجر یا تارک وطن کا کیا ہوا، وہ لوگ گئے کہاں؟
یہی جاننے کے لیے ہماری نام نگار کیٹی رضال نے ان تصویروں کے تین کرداروں سے ملاقات کی ہے۔ 15 اگست 2015 کی ایک تصویر کے کردار، لیث مجید ’کاش مجھے اپنی تصویر کبھی دوباہ نہ دیکھنی پڑی،‘ لیث مجید کی اوپر دی گئی تصویر اس وقت کھینچی گئی تھی جب وہ اپنے خاندان کے ہمراہ لٹے پٹے یونان کے ساحل پر اترے تھے، اور اس دن کے بعد یہ تصویر ا‘س کھٹن سفر اور درد کی علامت بن گئی جس سے گزر کر مہاجرین یورپ پہنچ رہے ہیں۔ میں نے جب لیث کو یہ تصویر دکھائی تو ان کی ہمت جواب دے گئی اور وہ ایک مرتبہ پھر رو دیے۔ ’یہ تصویر اس پریشانی اور ان مصیبتوں کو ایک مرتبہ پھر تازہ کر دی دیتی ہے جو میری بیوی بچوں اور میں نے برداشت کیں۔ ہم مرتے مرتے بچے تھے۔‘ جب لیث مجھے ایک ٹوٹی پھوٹی کشتی پر اپنے جان لیوا سفر کی کہانی سنا رہے تھے تو ان کے رواں آنسوؤں کو دیکھ کر مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ ’ہم اس ہوا میں سانس لے رہے تھے جس میں موت کی بدبو پھیل چکی تھی۔ ہماری حالت ناقابلِ بیان تھی۔ ہمارے ذہن ماؤف ہو چکے تھے۔ اس چھوٹی کشتی پر سوار لوگوں میں سے کچھ مر چکے تھے اور باقی بچ جانے والے کسی بھی لمحے سمندر میں ڈوب سکتے تھے۔ ہمیں لگا کہ ہم لوگ بھی اپنے بچوں سمیت جلد ہی مر جائیں گے۔‘ تصویر میں لیث کے چہرے پر درد، کسی بڑے درد سے نجات اور خوف کے ملے جلے جذبات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیث کی اہلیہ ندا کا کہنا تھا کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی جب وہ جرمنی کی سڑک پر نکلتے ہیں تو لوگ انھیں فوراً پہچان لیتے ہیں۔ ’ہم جہاں جاتے ہیں، لوگ میرے شوہر سے کہتے ہیں کہ ’’ہم نے آپ کی تصویر دیکھی تھی۔ امید ہے اب آپ محفوظ ہیں اور یہاں جرمنی میں خوش ہیں؟‘‘ لیث کہتے ہیں کہ جنتی توجہ انھیں اپنی تصویر کے بعد ملی ہے وہ اس پر ابھی تک حیران ہیں۔ ’میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میری اس المناک تصویر کے بعد مجھے جرمنی اور باقی دنیا سے اتنی توجہ ملے گی۔ مجھے خوش ہوتی ہے کہ اس تصویر کے حوالے سے دنیا بھر میں لوگ میرے دوست بن گئے ہیں، لیکن میں جب بھی اپنی تصویر دیکھتا ہوں، غم میں ڈوب جاتا ہوں۔‘ لیث اور ندا کے چار بچے ہیں، جن میں سے سب سے چھوٹا رات کو سکون سے سو نہیں سکتا۔ اس نے سمندر میں جو دہشت دیکھی، اس کے خیال سے وہ ہڑبڑا کر جاگ گاتا ہے۔ چونکہ اُس کشتی پر زیادہ تر لوگ شام سے تھے، اسی لیے ذرائع ابلاغ میں شروع شروع میں لیث اور ان کے خاندان کو بھی شامی بتایا گیا، لیکن اصل میں لیث اور ندا کا تعلق عراق سے ہے۔ بغداد میں لیث مکینک کا کام کرتے تھے اور ان کی اپنی دکان بھی تھی۔ ندا سکول میں پڑھاتی تھیں، لیکن جب غنڈوں نے انھیں دھمکیاں دینا شروع کر دیں تو انھوں نے عراق سے نکل جانے کا فیصلہ کر لیا۔ ’وہ دو مرتبہ میرے بچے کو اغوا کر کے مجھ سے تاوان وصول کر چکے تھے، لیکن وہ باز نہیں آ رہے تھے اور مجھے دھمکیاں دیتے تھے کہ وہ ایک مرتبہ پھر میرے بچے کو اغوا کر لیں گے۔‘ ندا نے مجھے بتایا کہ غنڈوں سے جان چھڑانے کے لیے وہ لوگ تاوان میں بیس لاکھ عراقی دینار (2,400 پاؤنڈ) دے چکے تھے لیکن ’وہ لوگ پھر بھی ہمارے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔‘ آخر میں بھی اس غنڈے کا یہی کہنا تھا کہ ’ مجھے رقم ادا کر۔ اگر تم پیسے نہیں دو گی تو ہم تمھارے شوہر کو مار دیں گے، اور تہمارے ایک بچے کو بھی تم سے چھین لیں گے۔‘ لیث کا کہنا تھا کہ ’یہاں جرمنی میں ہم خود کو محفوظ سمجھتے ہیں اور لوگوں کا سلوک بہت اچھا ہے۔‘ لیث اپنے خاندان کے ہمرارہ ہزاروں دیگر تارکین وطن کے ساتھ ایک پرانی فوجی بیرک میں رہ رہے ہیں جہاں ہر گھرانے کے پاس اپنا ایک کمرہ ہے۔ لیث کی ضیعیف والدہ ابھی تک عراق میں ہیں۔ لیث کو خطرہ ہے کہ کوئی غنڈہ ان کی والدہ کو مار دے گا، اسی لیے وہ والدہ کو بھی اپنے پاس جرمنی بلانا چاہتے ہیں، لیکن ابھی تک لیث اور ان کے خاندان کبو جرمنی میں سکونت کا حق نہیں ملا ہے اور ان کی پناہ کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ لیث اور ندا کو فکر ہے کہ اگر ان کی درخواست مسترد ہو جاتی ہے تو انہیں واپس عراق جانا پڑے گا جہاں ان کی جان کو خطرہ ہے۔ ’ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اگر جرمنی انکار کر دیتا ہے تو ہمارے پاس واپس عراق چلے جانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔‘ اسامہ عبدالمحسن، 15 ستمبر 2015 ’اب میں اس واقعے کو بھول چکا ہوں اور میری توجہ اپنے خاندان اور بیٹے کے مستقبل پر ہے۔ شروع شروع میں جب میں یہاں پہنچا تھا تو میں شدید غصے میں تھا۔‘ شام سے تعلق رکھنے والے اسامہ عبدالمحسن فٹ بال کے کوچ ہیں اور جب ان کی تصویر کھیچی گئی تو انھوں نے اپنے بیٹے کو اٹھایا ہوا تھا اور وہ ہنگری کے پولیس اہلکاروں سے جان بچا کر بھاگ رہے تھے۔ لگتا تھا کے خاتون صحافی فوٹوگرافر نے جان بوجھ کر اسامہ کو ٹھوکر ماری تھی، تاہم اس و اقعے کے بعد خاتون نے معافی مانگ لی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایسا اپنے دفاع میں کیا تھا۔ اس تمام واقعے کو ایک جرمن صحافی نے اپنے ویڈیو کیمرے میں محفوظ کر لیا تھا جس کے بعد یہ ویڈیو پوری دنیا میں پھیل گئی۔ اُس وقت اسامہ کا کہنا تھا کہ اس خاتون کو کبھی معاف نہیں کریں گے جس نے انھیں گرایا تھا، لیکن اب اسامہ نے اپنا خیال بدل دیا ہے۔ اگرچہ مذکورہ خاتون کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا تھا لیکن اسامہ کو سپین کے فٹ بال کلب نے اپنے ہاں نہ صرف ملازمت دے دی بلکہ انھیں ایک مکان بھی دیا۔ ریئل میڈرڈ نامی اس کلب نے اسامہ اور ان کے بیٹے زید کو اپنے ایک میچ میں مدعو کیا جہاں زید اپنے پسندیدہ کھلاڑی رونالڈو کے ہاتھ پکڑے ہوئے میدان میں آئے۔ اسامہ کے بقول ’یہ سب کسی خواب کی تعبیر سے کم نہیں تھا۔ میرے بیٹا کہتا تھا کہ کیا ’میں رونالڈو کو اپنے ہاتھ سے چھُو سکوں گا؟‘ میچ کے بعد رونالڈو نے اپٹی شرٹ زید کو تحفے میں دے دی اور زید کا اسرار تھا کہ وہ کسی دوسرے کھلاڑی سے اس وقت تک آٹوگراف نہیں لے گا جب تک رونالڈو اس شرٹ پر دستخط نہیں کر دیتے۔‘ اب جبکہ اسامہ اور اپنے دو بیٹوں کے ساتھ میڈرڈ میں ایک نئی زندگی شروع کر رہے ہیں، ان کی اہلیہ اور ان کے دو بچے ابھی تک ترکی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اسامہ کو امید ہے کہ سپین ان کی بیوی اور بچوں کو بھی اپنے ہاں پناہ دے دے گا۔ اسامہ کے لیے سب بڑی چیز وہ آزادی ہے جو انھیں یورپ میں نصیب ہوئی ہے۔ ’سوچ کی آزادی، اظہار کی مکمل آزادی۔ ایک آزاد آدمی ہونے کا احساس بہت خوبصورت احساس ہے۔ میں سپین کے لوگوں کی گرمجوشی دیکھ کر بھی حیران ہو گیا ہوں۔ ہر کوئی مدد کی پیشکش کر رہا تھا۔ میرے لیے یہ بہت بڑی بات ہے۔‘ محمد ضتارع، 4 ستمبر 2015 4 ستمبر کے دن محمد ضتارع ان ہزاروں تارکین وطن میں شامل تھے جنھیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہنگری میں ایک ریل گاڑی میں ٹھونس دیا گیا تھا اور ہنگری کے پولیس اہلکار انھیں یورپ میں داخل ہونے سے روک رہے تھے۔ ’ہنگری میں چار دن تک پولیس کے خلاف لڑنے کے بعد میں نے تہیہ کر لیا کہ اب میں ریل گاڑی کی بجائے پیدل ہی شمالی یورپ کو روانہ ہو جاؤں گا۔‘ شام سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ محمد نے وہاں پر تقریباً ایک ہزار لوگوں کو قائل کر لیا کہ وہ سب بُوڈاپسٹ سے آسٹریا کی سرحد تک کا 180 کلومیٹر کا سفر پیدل ہی طے کریں گے۔ میں نے ان لوگوں سے کہا کہ ’گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ آج ہم آٹھ گھنٹے پیدل چلیں گے اور کل بھی آٹھ گھنٹے پیدل چلیں گے۔‘ محمد نے تین صحافیوں کو قائل کیا کہ وہ ان کے سفر کی تصاویر اور وڈیوز بنائیں۔ محمد نے کہا تھا کہ ’ اگر کیمروں والے ہمارے ساتھ ساتھ چلیں گے تو پولیس ہم پر تشدد کرنے سے باز رہے گی۔‘ محمد اور ان کے ساتھیوں کے اس سفر کی تصاویر اور وڈیوز نے لوگوں کو ان سفری داستانوں کی یاد دلا دی جن کا ذکر الہامی کتابوں میں ملتا ہے۔ یہ وڈیوز دنیا بھر میں براہ راست دکھائی جانے لگیں اور دیکھنے والوں کو جلد ہی احساس ہونے لگا کہ یورپ کو مہاجرین کی آمد کی شکل میں کس بحران کا سامنا ہے۔ آخر کار ہنگری کے حکام بھی ہار گئے اور انھوں نے اس قافلے کے لیے بسوں کا بندوبست کر دیا۔ محمد آج کل جرمنی میں ہی اپنی پناہ کی درخواست پر فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک عرصے سے جرمنی پہنچنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ’جب میں چھوٹا بچہ تھا، میں اس وقت سے جرمنی آنا چاہتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے گاڑیوں کا بہت شوق ہے، بی ایم ڈبلیو اور مرسیڈیز میری پسندیدہ کاریں ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میں وہ فیکٹریاں دیکھوں جہاں یہ خوبصورت کاریں بنتی ہیں۔‘ ابھی تک محمد کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی ہے، لیکن محمد مہاجرین کے اس پیدل سفر میں اپنے کردار کو بھولے نہیں ہیں۔ ’مجھے اپنے کردار پر فخر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک دن میں اپنی یہ تصویر اپنے بچوں کو دکھاؤں۔ میں اپنے بچوں کو بتاؤں گا کہ ان کے باپ نے کیا کِیا تھا۔ میرے بچے یقیناً مجھ پر فخر کریں گے۔‘
070207_us_iraq_money_rs
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/02/070207_us_iraq_money_rs
’عراق، اربوں ڈالر بھیجنا درست تھا‘
عراق میں امریکی انتظامیہ کے سابق سربراہ پال بریمر نے 2003 اور 2004 کے دوران اربوں ڈالر نقد رقم بغداد بھیجنے کا دفاع کیا ہے۔ اس رقم کے ایک بڑے حصے کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ وہ کہاں خرچ کیا گیا۔
انہوں نے کانگریس کی ایک کمیٹی کو بتایا کہ عراق کے وزیر خزانہ نے سرکاری ملازمین کو تنخواہوں اور پینشن کی ادائیگی کے لیے رقم کی درخواست کی تھی۔ یہ رقم تیل کی برآمد سے ہونے والی آمدنی اور معزول صدر صدام حسین کے منجمند اثاثوں پر مشتمل تھی۔ پال کا کہنا تھا کہ رقم کی تقسیم کے وقت اکاؤنٹنگ کے جدید معیار کے مطابق عمل کرنا ناممکن تھا۔ سماعت کے وقت کانگریس کے ایک رکن ہنری واکس مین نے پال بریمر سے پوچھا کہ کیا کبھی اتنی بڑی رقم کو جنگی علاقے میں بھیجا گیا ہے؟۔
140405_afghan_election_fears_sa
https://www.bbc.com/urdu/regional/2014/04/140405_afghan_election_fears_sa
دھاندلی نتائج دھندلے نہ کر دے
اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں سنیچر کے صدارتی اور صوبائی کونسلوں کے انتخابات میں سکیورٹی اہم ترین عنصر ہوگا کہ ووٹر کتنے بےخوف ہوکر حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ان کا صاف و شفاف انعقاد دوسرا اہم پہلو ہوگا جو اسے قابلِ قبول بنائے گا۔ ابھی پولنگ ہوئی نہیں اور پہلے سے عبداللہ عبدللہ جیسے بعض امیدواروں نے انگالیاں اٹھانا شروع کر دی ہیں۔
’کمیشن کا عملہ صلاحیت کے بجائے نسلی، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر لیے جانے کا امکان ہے۔‘ افغان شہری ایمل خٹک کا تاثر ماضی کے انتخابات میں بھی دھاندلی کی وجہ سے لاکھوں ووٹ مسترد کیے جانے سے، اُن انتخابی نتائج پر داغ لگے۔ اس وقت مقامی جنگی سرداروں اور بااثر لوگوں کی مداخلت، سرکاری مشینری کا غلط استعمال، پولنگ کی مناسب نگرانی کی صلاحیت نہ ہونا اور انتخابی کمیشن کی کمزور خودمختاری آڑے آئی تھی۔ انتخانی حکام سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں کو دور کرے تاکہ ’بھوت‘ پولنگ سٹیشنوں کے قیام جیسا فراڈ ممکن نہ ہونے دیا جا سکے۔ عام شہریوں کو بھی تشویش لاحق ہے کہ کہیں حکومت تو کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔ کابل کے ایک شہری ولی محمد نے اپنی ترجیع اور تشویش بی بی سی اردو کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت نے دھاندلی نہ کی تو ان کے امیدوار ڈاکٹر اشرف غنی جیت جائیں گے ورنہ کچھ اور ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیسوں کے عوض ووٹ بیچنے کی کابل میں کوئی روایت نہیں ہے۔ دو ہزار نو کے صدارتی و صوبائی اور دو ہزار دس کے اولسی جرگے (قومی اسمبلی) کے انتخابات میں سکیورٹی خدشات کی وجہ سے بڑی تعداد میں افغان ووٹ نہیں ڈال سکے تھے۔ لیکن اب الزام یہ ہے کہ امیدواروں نے اپنے حامیوں کے کئی کئی کارڈ بنوا دیے ہیں۔ کم عمر نوجوانوں کی بطور ووٹر اندراج بھی مسئلہ ہے جبکہ بااثر افراد کی دھونس دھندلی کا امکان بھی موجود ہے۔ ایمل خٹک ماضی کے انتخابات بھی کافی قریب سے دیکھ چکے ہیں۔ وہ ایک اور خدشہ ظاہر کرتے ہیں ’ڈیٹا مینوپلیشن (معلومات میں موڑ توڑ) کا خطرہ موجود ہے۔ پولنگ سٹیشن پر بھی گنتی ہو جاتی ہے پھر انھیں گننے کے لیے صوبائی دارالحکومت روانہ کیا جاتا ہے جہاں ایک کو ایک ہزار اور ایک ہزار کو ایک لاکھ کیا جانا آسان ہے۔ ان علاقوں میں سکیورٹی مسئلہ ہے لوگ اپنی مرضی کے امیدواروں کے ووٹ بھر دیں گے۔‘ افغانستان کے انتخابی کمیشن پر بھی لوگوں کی نظریں ہیں۔ ایمل خٹک کہتے ہیں کہ نئے کمیشن کا قیام اور اسے آزاد بنانے کے لیے قانون سازی تو ہوئی ہے اور کوئی بڑی شکایت ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے لیکن ایک مسئلہ اس کی صلاحیت کا ہوسکتا ہے۔ ’کمیشن کا عملہ صلاحیت کے بجائے نسلی، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر لیے جانے کا امکان ہے۔‘ ایک اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ ماضی میں غیر ملکی افواج اور افغان سکیورٹی فورسز کی موجودگی میں پولنگ سٹیشنوں کی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ تھی اور ان سب کو مناسب سکیورٹی مہیا نہیں کی جاسکی تھی تو اب جب غیر ملکی فوجی نہیں رہے صرف افغان سکیورٹی ادارے کیسے چھ ہزار پولنگ سٹیشنوں کی نگرانی کرسکیں گے۔ پاکستان کی طرح افغانستان میں بھی میڈیا بہت قلیل مدت میں زیادہ پھلا پھولا ہے۔ انتخابی مہم اس پر بھی بھرپور انداز میں چلائی گئی۔ تو کیا میڈیا جانبداری اور نشریاتی دھاندلی سے پاک رہا؟ یہ سوال میں نے افغان صحافی سمی یوسفزئی کے سامنے رکھا۔ ’اس مرتبہ انتخابی مہم جلسوں کی بجائے میڈیا پر چلی۔ گذشتہ دونوں انتخابات پر اٹھنے والے اخراجات کی مجموعی رقم سے زیادہ اس مرتبہ میڈیا پر اشتہارات اور بل بورڈز پر لگایا گیا۔ تاہم سب سے زیادہ مقبول بحث مباحثے رہے۔‘ کہا جا رہا ہے کہ افغانستان نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا ہے۔ اس وجہ سے آج کے انتخاب کو سابق انتخابات سے بہتر مانا جا رہا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سوالات اور الزامات پولنگ اور نتائج کے بعد نہیں اٹھائے جائیں گے۔ اس کا امکان موجود رہے گا۔
040328_wanarelease_ua
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/03/040328_wanarelease_ua
وانا: یرغمال سرکاری اہلکار رہا
جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں نیم فوجی دستے کے بارہ سپاہیوں سمیت چودہ یرغمالی رہا کر دیئے گئے ہیں جبکہ اس قلعہ نما مکان کا محاصرہ ختم کیا جا رہا ہے جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہاں اسلامی شدت پسندوں نے پناہ لے رکھی ہے۔
خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق قبائلی علاقوں کے لئے سکیورٹی چیف برگیڈیئر محمود شاہ نے بتایا ہے کہ محاصرے کے مقاصد حاصل کر لیے گئے ہے اس لئے اتوار کی شام تک فوج مذکورہ علاقے سے محاصرہ اٹھا لے گی۔ اس سے قبل یرغمالی بنانے والوں نے مذاکرات کی غرض سے آئے عمائدین اور علماء پر مشتمل ایک جرگے کو سنیچر کے روز یقین دہائی کروائی تھی۔ جرگے میں جنوبی وزیرستان کے موجودہ ایم این اے مولانا عبدالمالک اور سابق رکن قومی اسمبلی مولانا نور محمد کے علاوہ شمالی وزیرستان کے سابق رکن قومی اسمبلی مولانا دیندار بھی شامل تھے۔ مذاکرات کا یہ عمل ایک ایسے نازک وقت میں کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے جب علاقے میں آٹھ فوجیوں کی لاشیں ملنے کے بعد لوگوں میں کافی تشویش اور خوف پایا جاتا تھا۔ محاصرے والے علاقے میں گھر گھر تلاشی کا عمل سنیچر کو بھی جاری رہا۔ مبینہ القاعدہ اور طالبان شدت پسندوں کے خلاف اس ماہ کی سولہ تاریخ کو وانا کے اطراف میں کارروائی شروع کی گئی تھی جس میں اب تک عام شہریوں تک متعدد افراد مارے جا چکے ہیں۔
regional-37893283
https://www.bbc.com/urdu/regional-37893283
کشمیر ڈائری: ریاستی سرکار دہلی سے وفاداری میں اندھی
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں تقریباً چار ماہ سے جاری احتجاج کی لہر، تشدد اور کرفیو کا کشمیریوں پر کیا اثر پڑا ہے؟ بی بی سی اردو نے سرینگر کی رہائشی ایک خاتون سے رابطہ کیا جن کے تجربات و تاثرات کی نو یں کڑی یہاں پیش کی جا رہی ہے۔ کشمیر میں مواصلاتی بلیک آؤٹ جزوی طور پر ختم ہوا ہے۔ لینڈ لائن اور موبائل فون کی سہولت تو بحال کر دی گئی ہے لیکن موبائل انٹرنیٹ سروس بدستور بند ہے جس کی وجہ سے یہ تحریریں آپ تک بلاتعطل پہنچانے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
اس ہفتے میں ایک دفعہ پھر بچوں پہ چھّروں کا وحشیانہ استعمال ہوا کشمیر میں ہر سال اکتوبر کے آخری ہفتے سرکار چھ ماہ کے لیے جموں منتقل ہو جاتی ہے۔ اس کو 'دربار موو' کہتے ہیں۔ یہ رسم مہاراجہ کے وقت سے چل رہی ہے۔ بات بس یہی ہے کہ ہماری سرکار سے کشمیری جاڑے کی سرد ہوا برداشت نہیں ہوتی ہے اس لیے چھ ماہ کے لیے جموں اور اس کی معتدل ہوا کا رخ کرتی ہے۔ ٭ 'بےتکے بیانات میں شعور کے کچھ قطرے کون ملائے گا' ٭ مظفر پنڈت کی موت کب ہوئی؟ ٭ کشمیریوں کے لیے کوئی جگہ محفوظ ہے؟ ٭ کشمیر میں انڈین فوج کا 'جرنیلی بندوبست' ٭ 'بھیڑ بکریاں بچ گئیں مگر انسانی جانیں نہیں' ٭ 'ہمارے پتھر محبت کی نشانی' ٭ 'جہاں قاتل ہی منصف ہیں' ٭ کشمیر میں تعلیم بھی سیاست کی زد پر مگر اس دفعہ تو سرکار سے کشمیر کی گرم ہوا برداشت نہیں ہوئی جو پچھلے سال چار ماہ سے یہاں چل رہی ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ ریاستی سرکار جموں میں ہو یا کشمیر میں، احکامات تو دہلی سے جاری ہوتے ہیں۔ ریاستی سرکار کا کام بس ان احکامات پہ عمل کرنا ہے۔ حالیہ سرکار نے تو اس معاملے میں دہلی سے اپنی وفاداری کا بھرپور ثبوت دیا، اور دیتی جا رہی ہے، گولیوں اور چھّروں کے بےتحاشہ استعمال سے جس کی آج تک مثال نہیں۔ اس ہفتے میں ایک دفعہ پھر بچوں پہ چھّروں کا وحشیانہ استعمال ہوا۔ زخمیوں میں ایسی تین بچیاں بھی شامل ہیں جن کی آنکھوں میں چھّرے لگائے گئے۔ یہ واقعہ پلوامہ میں پیش آیا۔ ان میں سے ایک بچی 13 سالہ عفرح پانچویں جماعت کی طالبہ ہے۔ اس کی دونوں آنکھوں میں چھّرے لگے ہیں۔ آنکھوں کے علاوہ چہرے اور گردن پر بھی چھّرے لگے ہیں۔ اس پر چھّرے داغنے سے پہلے اس کے بال بھی نوچ لیے گئے۔ سچائی تو یہ ہے کہ ریاستی سرکار جموں میں ہو یا کشمیر میں، احکامات تو دہلی سے جاری ہوتے ہیں عفرح کا چہرہ دیکھ کے شوپیاں کی 14 سالہ انشا یاد آتی ہے جس کی دونوں آنکھوں کی بینائی جولائی میں چھّروں کی نذر ہوگئی۔ وہ بھی عفرح کی طرح اپنے گھر میں تھی جب اسے چھّروں کا نشانہ بنایا گیا۔ انشا کے کئی آپریشن ہوئے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اسے سرکار نے اپنے خرچے پر دہلی کے سرکاری ہسپتال بھی بھیج دیا۔ وہاں کشمیر کی وزیر اعلیٰ اس سے ملنے بھی آئیں۔ اس ملاقات کی تصویریں بھی اخباروں میں شائع ہوئیں اور پھر جموں میں ایک تقریر کے دوران وزیراعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنی ایک آنکھ انشا کو دینے کے لیے تیار ہیں اگر اس سے انشا کی بینائی واپس آئے گی۔ انشا کے زخموں کی ذمہ دار حکومت کے یہ الفاظ کس کے لیے ہیں اور سزا کا ذمہ دار کون ہے؟ اب عفرح پر حملے کے بعد وزیراعلیٰ اپنی دوسری آنکھ بھی عفرح کو دینے کے لیے تیار ہیں؟ ان کے پاس تو دو ہی آنکھیں ہیں۔ باقی ان سینکڑوں بچوں اور بچیوں کا کیا ہو گا جن کی بینائی چھّرے لگنے سے چلی گئی؟ انشا اب گھر واپس آ گئی ہے اور اپنی اندھیری آنکھوں کے ساتھ ایک نئی زندگی جینے کی تیاری کر رہی ہے۔ ہم کشمیری زبان میں ایک فقرہ استعمال کرتے ہیں جو بینائی سے محروم لوگوں کے ضمن میں استعمال ہوتا ہے۔۔' وینجی گاش'۔ اس کا مطلب ہوتا ہے 'دل کی روشنی' اور یہ فقرہ بینائی سے محروم ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو کسی کی مدد کے بغیر چل پھر سکیں۔ یہ فقرہ انسانوں کی اندورنی طاقت اور ارادوں کی مضبوطی کی خوبصورتی سے تعریف کرتا ہے۔ خدا کرے ہمارے ماحول میں، جہاں ریاستی سرکار دہلی سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اندھی ہو گئی، وہاں انشا اور عرفان کے دلوں کی روشنی اس لمبی تاریک رات کو منور کر دے جس سے ہم گزر رہے ہیں۔
040628_guantanamo_us_legal_system_nj
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/06/040628_guantanamo_us_legal_system_nj
گوانتانامو قیدی کی عدالت تک رسائی
امریکہ کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ کیوبا کے گوانتانامو بے کیمپ میں قید مشتبہ شدت پسند اپنی قید کو چیلنج کرنے کے لئے امریکی نظامِ قانون کا استعمال کر سکتے ہیں۔
یہ فیصلہ بش انتظامیہ کے لئے ایک بڑا دھچکا تصور کیا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں امریکی عدالتوں میں قیدیوں کی جانب سے سینکڑوں اپیلیں دائر ہو سکتی ہیں۔ اس سے قبل امریکہ کی نچلی عدالتوں نے فیصلہ دیا تھا کہ گوانتا ناموبے کے قیدی امریکی دائرہ انصاف سے باہر ہیں۔ اس فیصلہ میں کسی قیدی کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ آیا وہ بے قصور ہیں یا قصوروار۔ گوانتانامو بے میں رکھے گئے تقریباً 600 قیدیوں کو القاعدہ اور طالبان کے خلاف کارروائی کے دوران افغانستان اور پاکستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ان قیدیوں کے انسانی حقوق یا تقریباً دو برس سے بغیر کسی مقدمے کے ان کی گرفتاری کے بارے میں کچھ نہیں کہا ۔ ایک علیحدہ لیکن متعلقہ فیصلے میں عدالت نے کہا کہ ’ ان امریکی شہریوں کو جنھیں دشمن جنگجو قرار دیا گیا ہے انھیں بھی امریکہ کی عدا لت میں اپنی نظر بندی چیلنج کرنے کا حق ہے۔
040127_egyptbuldgcollapse_ua
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/01/040127_egyptbuldgcollapse_ua
قاہرہ: عمارت گرنے سے آٹھ ہلاک
مصر میں امدادی کارکن اس عمارت کا ملبہ ہٹانے اور وہاں پھنسے ہوئے افراد کو بچانے میں مصروف ہیں جو دارالحکومت قاہرہ میں گرگئی ہے۔
اب تک آٹھ لاشیں نکال لی گئی ہیں۔ مرنے والے چھ افراد کا تعلق پولیس اور آگ بجھانے والے عملے سے ہے۔ یہ لوگ عمارت کے گرنے سے پہلے وہاں لگی ہوئی آگ پر قابو پانے کے لئے عمارت میں گئے تھے۔ اس واقعہ میں تقریباً تیس افراد زخمی بھی ہوگئے ہیں جبکہ بعض اب بھی عمارت کے اندر پھنسے ہوئے ہیں۔ شہر کے گورنر کا کہنا ہے کہ عمارت کو چار منزل تک بنانے کی اجازت دی گئی تھی لیکن اس پر سات غیرقانونی منزلیں تعمیر کر دی گئیں تھی۔ خیال ہے کہ آگ ایک ایسی دکان سے شروع ہوئی تھی جس میں آتشگیر مادہ رکھا ہوا تھا۔
regional-51145522
https://www.bbc.com/urdu/regional-51145522
شہریت کا متنازع قانون: کیا انڈیا نے نفرت کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے؟
انڈیا کی ریاست مغربی بنگال میں بی جے پی کی ریاستی شاخ کے صدر دلیپ گھوش نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ’جو لوگ متنازع شہریت کے قانون کی مخالفت کر رہے ہیں اور جو عوامی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں انھیں ’کتوں کی طرح گولی مار دینی چاہیے جس طرح‘ ان کی ’حکومت اتر پردیش، آسام اور کرناٹک میں کر رہی ہے۔‘
ریاست مغربی بنگال کے شہر کولکتہ میں انڈین مسلم خواتین شہریت کے متنازع قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں ریاست اتر پردیش جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے، وہاں کے ایک وزیر نے گذشتہ دنوں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جو لوگ ریاست کے وزیرِ اعلیٰ یا وزیر اعظم کے خلاف نعرے لگائیں گے میں انھیں زندہ دفن کر دوں گا۔‘ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مظاہروں کے دوران تخریب کاری کون کر رہے ہیں، یہ ان کے لباس سے واضح ہے۔‘ یہ بھی پڑھیے انڈیا کی سب سے بڑی ریاست میں مسلمان دہشت زدہ کیوں؟ ’میں انڈین شہریت ثابت کرتے ہوئے مرنا نہیں چاہتی‘ ’گولیوں اور ٹوٹنے والی لاٹھیوں کا خرچ بھی مظاہرین ادا کریں‘ جامعہ کی لڑکیوں نے ماتھے کے آنچل کو پرچم بنا لیا! انڈیا میں ہزاروں ایسے ہندو، سکھ، بودھ اور مسیحی تارکین وطن عشروں سے مقیم ہیں جو پڑوسی ملکوں کے سیاسی حالات، کچھ تفریق اور جبر کے سبب اپنا ملک چھوڑنے کے لیے مجبور ہوئے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح یہاں بھی بیشتر ایک بہتر زندگی کی تلاش میں آئے۔ ان تارکین کی غالب اکثریت غریب اور کمزور طبقے کی ہے۔ شہریت کے ترمیمی قانون کا مقصد ایسے تمام غیر مسلم تارکین کو شہریت دینا ہے۔ ملک میں برسوں سے مقیم تارکینِ وطن کو شہریت دینا یقیناً ایک انسانی ہمدردی کا قدم ہے۔ اس پہلو پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ شہریت قانون کی مخالفت اس لیے ہو رہی ہے کہ تارکین کو شہریت دینے کا فیصلہ مذہب کی بنیاد پر کیا گیا ہے اور مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کو اس سے باہر رکھا گیا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ انسانی ہمدردی کی آڑ میں اس قانون کا مقصد سیاسی ہے۔ ریاست اترپردیش کے شہر کانپور میں پولیس مظاہرین پر اسلحہ تانے ہوئے ہے شہریت کے قانون کا فوری تعلق آسام کے حالیہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) سے ہے۔ آسام میں 19 لاکھ باشندوں کو شہریت کی فہرست سے باہر رکھا گیا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق اس میں اکثریت بنگالی ہندوؤں کی ہے مگر کئی لاکھ بنگالی مسلمان بھی شہریت سے باہر رکھے گئے ہیں۔ شہریت قانون کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ شہریت کے نئے قانون کے تحت حکومت آسام میں شہریت کی فہرست سے باہر ہونے والے ہندوؤں کو تو شہریت دے دے گی لیکن لاکھوں مسلمانوں کو ’گھس بیٹھیے‘ قرار دے کر شہریت اور قومیت سے محروم کر دے گی۔ انڈیا کے مسلمان پورے ملک میں اس قانون کی اس لیے بھی مخالفت کر رہے ہیں کہ اگر مستقبل میں پورے ملک میں این آر سی نافذ کیا گیا تو اس قانون کے تحت شہریت سے باہر ہونے والے ہندوؤں کو تو دوبارہ شہریت مل جائے گی لیکن متاثرہ مسلمانوں کی شہریت ختم ہو جائے گی۔ حکومت کی دلیل ہے کہ شہریت کا قانون شہریت دینے کے لیے ہے کسی کی شہریت واپس لینے کے لیے نہیں۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اگر صرف شہریت دینے کا سوال تھا تو یہ قدم اپوزیشن کی حمایت سے موجودہ قوانین کے تحت ہی آسانی سے اٹھایا جا سکتا تھا، لیکن اس کا مقصد سیاسی ہے۔ حکومت نے پارلیمنٹ میں جب شہریت کے بل کو پیش کیا تو اسے اندازہ نہیں تھا کہ ایک کمزور اپوزیشن اس بل کی اتنی شدت سے مخالفت کرے گی اور اسے مسلمانوں کا نہیں بلکہ ملک کے سیکولر آئین پر حملے کا ایک مسئلہ بنا دے گی۔ اور شاید حکومت کو یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ کسی لیڈر یا تنظیم کے بغیر مسلمان پورے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں اس کی مخالفت میں سڑکوں پر آ جائیں گے۔ انڈیا کے طلبہ میں ایک عرصے سے ملک کے حالات خاص طور پر ملازمت کے کم ہوتے ہوئے مواقع پر ایک عرصے سے بے چینی پنپ رہی تھی۔ جامعہ ملیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی کے احتجاجی طلبہ پر پولیس کی بے رحمانہ کارروائی نے بے چین طلبہ میں جلتی پر آگ کا کام کیا۔ الہٰ آباد کے منصور علی پارک میں مظاہرین کئی دن سے لگاتار احتجاج کر رہے ہیں بظاہر یہ مخالفت اب ایک ملک گیر تحریک بن چکی ہے اور اس تحریک میں مسلم خواتین کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں خواتین مظاہروں، احتجاج اور دھرنوں میں شریک ہو رہی ہیں۔ دلی کا شاہین باغ خواتین کی مزاحت کی علامت بن گیا ہے اور حکومت کے لیے یہ صورتحال غیر متوقع تھی۔ ملک گیر مظاہروں سے حکومت نے فی الحال دفاعی رخ اختیار کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو ملک گیر این آر سی نافذ کروانے کے اپنے فیصلے کو واپس لینا پڑا ہے۔ فروری کے دوسرے ہفتے میں دلی کے اسمبلی انتخابات میں اگر ‏عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کو دوبارہ شکست دے دی تو مودی اور امیت شاہ کو ایک اور دھچکہ پہنچ سکتا ہے لیکن وہ پیچھے ہٹنے والے رہنما نہیں ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ اپوزیشن یا مظاہرین کی کوئی بڑی غلطی یا دہشت گردوں کی جانب سے کوئی بڑی واردات صورتحال کو یکلخت بدل سکتی ہے۔ اس مرحلے پر انڈیا ایک تغیر سے گزر رہا ہے۔ ملک کے مسلمان تقسیم ہند کے بعد پہلی بار اجتماعی طور پر اپنے ملک میں اپنے حق کے دفاع کے لیے کھڑے ہوئے ہیں جس میں انھیں طلبہ اور ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے عام شہریوں سے زبردست حمایت مل رہی ہے۔ یہ تحریک کہاں تک جائے گی اس مرحلے پر کچھ اندازہ لگانا مشکل ہے، لیکن آنے والے دنوں میں حالات کے مزید بگڑنے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ نئی دہلی میں جامعہ ملیہ کے باہر طلبا شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کی سیاسی منزل انڈیا کو سبھی کو مساوی حق دینے والی ایک جمہوریت سے ہندو اکثریتی جمہوریت میں تبدیل کرنا ہے جس میں مسلمانوں اور مسیحی شہریوں کی حیثیت برابری کی نہیں بلکہ ثانوی ہوگی۔ اس کے لیے آئین میں ابھی کئی ترامیم کی جائیں گی اور یکساں سول قوانین بھی حکومت کے ایجنڈے میں ہے۔ لیکن مودی اور امیت شاہ کا یہ سیاسی سفر پُرخطر ہے۔ ملک کی معیشت تیزی سے زوال پذیر ہے اور بین الاقوامی حلقوں میں مودی کی قیادت کے بارے میں شبہات ظاہر کیے جا رہے ہیں اور مقامی انتخابات میں انھیں کئی ریاستوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ شہریت قانون کے خلاف اس تحریک کی کامیابی یا ناکامی ملک کی مستقبل کی سیاست میں اہم کردار ادا کرے گی۔
070524_china_bloggers
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/05/070524_china_bloggers
چینی بلاگر شناخت چھُپا سکتے ہیں
چینی حکومت نے بلاگ لکھنے والوں کے لیے اپنا اصل نام ظاہر کرنا لازمی قرار دینے کا منصوبہ ترک کر دیا ہے۔ چین میں تقریباً دو کروڑ بلاگر ہیں اور گزشتہ سال حکومت کی طرف سے اس منصوبے کی انٹرنیٹ کے صارفین نے شدید مخالفت کی تھی۔
حکومت نے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ نام ظاہر کرنے کی شرط رکھنے سے بلاگ لکھنے والے زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے۔ اس کے برعکسبلاگروں کا موقف تھا کہ حکومت معلومات پر پابندی لگانا چاہتی ہے۔ نئے ضوابط کے تحت حکومت بلاگروں کی حوصلہ افزائی کرے گی کہ وہ اپنا اصل نام ظاہر کریں اور ایسے افراد کے لیے بہتر سروس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بلاگروں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ چین کے ایک مشہور بلاگر پِنگ کے نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حکومتی فیصلہ کو سراہا جس کے تحت لوگوں سے ’زبردستی ان کے کوائف حاصل کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے‘۔ ایک اور معروف بلاگر وانگ زاؤفینگ نے کہا کہ وہ بری زبان برداشت کر سکتے ہیں لیکن نام ظاہر کرنے کی شرط کے حق میں نہیں۔ انہوں نے کہا ’انٹرنیٹ کی ایک خاصیت بدتہذیبی ہے، ہم بد تہذیب ہیں اور انٹرنیٹ پر یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے‘۔
040122_nuclear_yourviews
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2004/01/040122_nuclear_yourviews
سائنسدانوں کی گرفتاری صحیح ہے؟
حالیہ دنوں میں پاکستان پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹیکنالوجی منتقل کی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے کہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کچھ سائنسدانوں نے ذاتی لالچ کی وجہ سے ایسا کیا ہو۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستانی حکومت نے کئی ایٹمی سائنسدانوں سے پوچھ گچھ کی ہے اور بعض کو حراست میں لے لیا ہے۔ وزیراعظم ظفراللہ جمالی نے کہا ہے کہ جوکچھ بھی ہورہا ہے وہ قوم کے مفاد میں ہورہا ہے۔
آپ کے خیال میں کیا ایٹمی سائنس دانوں سے پوچھ گچھ اور ان کی گرفتاری صحیح ہے؟ آپ اپنی رائے انگریزی، اردو یا roman urdu mein bhej sakte ہیں پچھلے ڈیڑھ برس سے حکومت جوہری راز اور طاقت کی تجارت سے مکمل انکار کرتی رہی ہے۔ اب اچانک اس کا کہنا ہے کہ کچھ سائنسدان ملوث ہیں۔ یہ ایک سفید جھوٹ ہے۔ اعجاز افضل، ابوظہبی اعجاز افضل، ابوظہبی: یہ شرمناک بات ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ پچھلے ڈیڑھ برس سے حکومت جوہری راز اور طاقت کی تجارت سے مکمل انکار کرتی رہی ہے۔ اب اچانک اس کا کہنا ہے کہ کچھ سائنسدان ملوث ہیں۔ یہ ایک سفید جھوٹ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جنرل مشرف اور دوسرے اعلیٰ فوجی حکام ملوث رہے ہوں اور اب اپنی گردن بچانے کے لئے اسے دوسروں کے سر تھونپ رہے ہیں۔ ان سائنسدانوں نے ہمارے دفاع کو مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ صدر اور دوسرے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ جو کرتا ہے بالآخر وہی بھرتا ہے۔ فضل وہاب، سوات، پاکستان: یہ بالکل غلط ہے کیوں کہ یہ سائنسدان ہمارے ہیرو ہیں۔ مشرف یہ صرف امریکہ کو خوش کرنے کے لئے کر رہے ہیں اور وہ اسلام کے دشمن ہیں۔ مولانا عبدالطیف، چترال، پاکستان: جب گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔ مشرف صاحب کی شامت آئی ہے کہ انہوں نے ملک کے محسن سائنسدانوں کے خلاف ہمارے دشمن امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانی شروع کر دی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ غداروں کا انجام ہمیشہ عبرت ناک ہوتا ہے۔ عبیدالرحمان مغل، برطانیہ: پاکستان امریکہ کی کالونی ہے اور مشرف اس کے غلام۔ سیاسی جماعتیں اس ظلم پر خاموش ہیں اور ہم اپنے ہیروز سے شرمندہ۔ جان محمد بروہی، خضدار: ہمارے نوجوانوں پر کیا اثر پڑے گا۔ وہ سوچیں گے کہ سائنسدانوں کو مناسب تنخواہ نہیں مل رہی ہوگی تبھی تو انہوں نے ایسا کام کیا۔ ہمارے دشمن کیا کہیں گے کہ ہمارے سائنسدان مخلص نہیں ہیں۔ بہرحال جو ہوا غلط ہوا۔ یاسر صدیقی، لاہور، پاکستان: پاکستان کو جوہری پروگرام ہمیشہ سے فوج کے زیرِ نگرانی رہا ہے۔ یہ بہت حساس نوعیت کا پروگرام رہا ہے اس لئے سائنسدانوں کو آزادی حاصل نہیں رہی ہوگی کہ وہ حساس معلومات کا تبادلہ کر سکیں۔ اس لئے اس کا تمام الزام فوج کے سر جاتا ہے نہ کہ سائنسدانوں کے۔اس سے اندازہ ہوتا ہےکہ ہمارے سامنے نہ کوئی مقاصد ہیں اور نہ ہی ہم متحد ہیں۔ مشرف نے خود کو ننگِ ملت، ننگِ دین، ننگِ وطن ثابت کر دیا ہے۔ آمر ایسے ہی کیا کرتے ہیں۔ ظفر حسین، فیصل آباد ظفر حسین، فیصل آباد: یہ ایک منافقانہ قدم ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے خود کو ننگِ ملت، ننگِ دین، ننگِ وطن ثابت کر دیا ہے۔ آمر ایسے ہی کیا کرتے ہیں۔ صالح محمد، راولپنڈی: اس ناپاک فوج سے پوچھ گچھ ضروری ہے کیونکہ یہ ہر چیز کی بلا شرکت غیرے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ ہر چیز پر فوج کا کنٹرول اور اگر کوئی مسئلہ ہوا بھی ہے تو فوج سے ہی جواب طلبی کرنی چاہئے کیونکہ فوجی جنرل ہی کے آر ایل کا سربراہ ہے۔ مسعود ریاض صدیقی، کشمیر: جنرل مشرف کاگل سے پسپائی کے ذمہ دار ہیں اور سائنسدانوں کی تفتیش ایک گھٹیا حرکت ہے۔ محمد اقبال، کوٹلی: جنرل مشرف جیسے کتنے ظالم اور جابر حکمران جن کا خواب اسلام کے چاہنے والوں کو ختم کرنا تھا، وہ سب اپنے خواب کے ساتھ ہی جہنم کی نظر ہو گئے۔ محمد اشرف، پاکستان: میرے خیال میں یہ سائنسدان ہمارے ملک کے ہیرو ہیں۔ ان لوگوں نے ہمارے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا ہے اس لئے ہمیں ان لوگوں کو گرفتار کرنے کی بجائے انہیں انعامات سے نوازنا چاہئے۔ مجھے لگتا ہے کہ سائنسدانوں کو امریکی دباؤ کے نتیجے میں حراست میں لیا گیا ہے۔ امجد خان، سعودی عرب: سائنسدانوں کی تفتیش کرنا ہم سب کے لئے باعث شرم ہے۔ یہ لوگ ہمارے ہیرو ہیں اور میرا نہیں خیال کہ انہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر یہ سب کیا ہے۔ اگر امریکہ، برطانیہ اور فرانس اپنے آلات بیچ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ مسعود قریشی، میرپور: یہ سراسر زیادتی ہے۔ ایک روز صدر جنرل پرویز مشرف کو بھی ان مراحل سے گزرنا ہے۔ راجہ شوکت، مظفرآباد: میرے خیال میں یہ ہمارے قومی مفاد میں نہیں ہے۔ ہمیں قدیر خان اور دیگر سائنسدانوں جیسے ہیروز کا خیال رکھنا چاہئے کیونکہ انہوں نے ہمارے ملک کے لئے بہت کچھ کیا ہے۔ رفیق احمد کنڈی، پاکستان: سائنسدانوں کی گرفتاری بالکل غلط اقدام ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کی پہلی کڑی ہے جو مشرف صاحب کو لے ڈوبے گی۔ اللہ نے چاہا تو وہ قوت ضرور آئے گا جب کارگل سے پسپائی اختیار کرنے والوں کی بھی ڈیبریفنگ ہو گی۔ محمد وقاص، آسٹریلیا محمد وقاص، آسٹریلیا: مغرب زدہ حکمرانوں سے آپ اس کے علاوہ توقع بھی کیا کر سکتے ہیں جو قوم کے ان عظیم لوگوں کو ذلیل کر رہے ہیں جن کی بدولت آج پاکستان کا وجود ہے اور قوم اس بربریت سے محفوظ ہے جو کشمیر میں جاری ہے۔ مجھے ایسی ضمیر فروش اور بےحس قوم کا فرد ہونے پر شدید دکھ ہے۔ اللہ نے چاہا تو وہ قوت ضرور آئے گا جب کارگل سے پسپائی اختیار کرنے والوں کی بھی ڈیبریفنگ ہو گی۔ شاہد بٹ، سعودی عرب: ملک کے ایسے ہیروز کو یوں حراست میں لینا کسی طرح بھی جائز کارروائی نہیں ہے۔ حکومت اپنی کارروائیوں کے ذریعے اپنا دباؤ کم کرنا چاہتی ہے۔ مشیر حسن، کراچی: سب سے بڑی مجرم پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیاں ہیں کیونکہ ان کی ہوتے ہوئے ہی یہ ٹیکنالوجی ملک سے باہر گئی ہے۔ نور اسلم خٹک، پاکستان: پاکستان حکومت جو کچھ کر رہی ہے وہ سب امریکہ اور برطانیہ کے اشارے پر کر رہی ہے۔ سائنسدانوں کی گرفتاری سراسر ظلم و زیادتی ہے۔ یہ سائنسدان ہماری قوم کے ہیرو ہیں جو زیرو ہیں وہ قوم کے ہیرو بن کر حکومت چلا رہے ہیں۔ مناس شروف، امریکہ: یہ ملک ایسے معزز ہیروز کے لائق ہی نہیں ہے۔ تو پھر بھارت کو پاکستانی فوج اسی طرح ہڑپ لینے دو جیسا اس نے انیس سو اکہتر میں کیا تھا۔ یہ سب کچھ ان نامعقول لوگوں کی وجہ سے ہو رہا ہے جو صرف اپنی کرسی کو بچانا چاہتے ہیں۔ راحیل: مشرف پاکستان کی تباہی کے راستے پر گامزن ہیں۔ مزمل مفتی، چنیوٹ: کیا امریکہ نے اپنے ان سائنسدانوں کو گرفتار کیا ہے جن پر اسرائیل کو جوہری ٹیکنالوجی فراہم کرنے کا الزام تھا۔ اگر امریکہ نے ایسا نہیں کیا تو پاکستان اپنے ہیروز کی چھان بین کیوں کر رہا ہے۔ سائنسدان اس سب اس کے ذمہ دار کیوں ہیں کیونکہ سب کچھ تو فوج کے ہاتھ میں ہے۔ محمد نثار خان، پاکستان محمد نثار خان، پاکستان: مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور یہ سائنسدان اس سب اس کے ذمہ دار کیوں ہیں کیونکہ سب کچھ تو فوج کے ہاتھ میں ہے۔ نامعلوم: حکومت کاو فوج کو شرم آنی چاہئے کہ جن سائنسدانوں کی بنا پر وہ اپنے دشمنوں کو للکار سکتے ہیں، انہی کو قصوروار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ہم آخر کب تک خاموش تماشائی بنے رہیں گے۔ ملک اکبر: سائنسدان نہیں بلکہ صرف سیاستدان ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ نعمان احمد، راولپنڈی: بلاشبہ ایٹمی ٹیکنالوجی کی منتقلی اچھی بات نہیں اور اس کے ذمہ دار افراد سے نہ صرف پوچھ گچھ بلکہ انہیں سزا بھی ہونی چاہئے۔ لیکن اس پورے عمل میں سائنسدانوں کی عزت و احترام کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ سمیع اللہ خان، میانوالی: بڑی عجیب بات ہے کہ اتنے اہم سائنسدانوں کے ساتھ اس قدر ناروا سلوک برتا جا رہا ہے۔ ملک کے قومی ہیرو آئی ایس آئی کی پوچھ گچھ کا شکار جبکہ بھارت میں یہی ہیرو ملک کے سردار ہیں۔ محمد حیدر اورکزئی، ہنگو: مجھے نہیں معلوم کہ حکومت نے سائنسدانوں کو کیوں حراست میں لیا ہے۔ وہ اسلامی بم کے ہیرو تھے۔ اگر انہوں نے ٹیکنالوجی منتقل کی تو حکومت اس وقت خاموش کیوں تھی۔ مجی وسیم، لاہور: میرے خیال سے یہ باعث شرمناک بات ہے۔ یہ مسلم سائنسدانوں کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ میر عابد علی، شارجہ: جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ بڑی طاقتوں کے اشارے پر ہورہا ہے۔ امریکہ اسرائیل پر پابندی کیوں نہیں لگاتا ہے۔ امریکہ کے اوپر پابندی کیوں نہیں؟ اگر سابق حکومتوں کی پالیسی بھی یہ تھی تو سائنسدانوں کا کوئی قصور نہیں۔ ہاں آئندہ کے لئے واضح حکمت عملی اپنانی چاہئے۔ آصف منہاج، ٹورانٹو آصف منہاج، ٹورانٹو: اگر ان سائنسدانوں نے حکومتی پالیسی کے خلاف کچھ اپنے طور پر کیا ہے تو ان سے پوچھ گچھ ضرور ہونی چاہئے۔ اس طرح اگر سابق حکومتوں کی پالیسی بھی یہ تھی تو سائنسدانوں کا کوئی قصور نہیں۔ ہاں آئندہ کے لئے واضح حکمت عملی اپنانی چاہئے۔ سہیل یونس، نیوجرسی: ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ یہ سائنسدان ہمارے ہیرو ہیں اور ان کی عزت کی جانی چاہئے۔ آفتاب کاکا، پاکستان: میرے خیال میں ایٹمی سائنسدانوں کی گرفتاری صحیح نہیں ہے۔ لئیق احمد، بہار: یہ بالکل ناانصافی ہے۔ شاہدہ اکرم، ابوظہبی: جمالی صاحب کے بیان کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ہم سب احسان فراموش قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ہم اپنے محسنوں کا سودا بہت آرام سے کر سکتے ہیں اور یہی سب کچھ ہمیشہ سے ہورہا ہے۔ کس کس کا ماتم کریں اور جو کچھ بھی ہورہا ہے میرے خیال میں انتہائی افسوس کی بات ہے۔
150514_peshawar_terrorist_arrest_zh
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/05/150514_peshawar_terrorist_arrest_zh
پشاور: حیات آباد میں ’دو شدت پسند ہلاک، دو گرفتار‘
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں پولیس کے مطابق حیات آباد کے علاقے میں آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز نے دو شدت پسندوں کو ہلاک جبکہ دو کو حراست میں لے لیا ہے۔
شدت پسندوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک سکیورٹی اہلکار زخمی ہوا ہے پولیس کے مطابق شدت پسندوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک سکیورٹی اہلکار زخمی ہوا ہے۔ سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق دوسری جانب پشاور ہی کے علاقے یکہ توت میں موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم افراد کی فائرنگ سے پولیس کے اے ایس آئی ہلاک ہو گئے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بھی حیات آباد کے علاقے میں کئی دہشت گردی اور سر بریدہ لاشیں ملنے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ واضح رہے حال ہی میں پشاور کے علاقے حیات آباد میں شیعہ مسلک کی ایک مسجد میں تین خودکش دھماکوں سے کم از کم 20 افراد ہلاک اور 40 سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔ پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں اس واقع کے بعد سرچ اینڈ سٹرائک آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا جس میں مشتبہ مقامات پر پولیس اور دیگر اداروں کے اہلکار مشترکہ کارروائیوں کرکے شت پسندوں ، غیر ملکیوں اور جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کر رہے ہیں۔
050903_katrina_eyewitness
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/blog/story/2005/09/050903_katrina_eyewitness
قطرینہ: ایک ڈاکٹر کی رپورٹ
ڈاکٹر گریگ ہینڈرسن امریکہ کے شہر نیو آرلینز میں ایک ڈاکٹر ہیں۔ سمندری طوفان قطرینہ کی تباہی کے بعد وہ شہر میں ہی رہے۔ نیو آرلینز کے رِٹز کارلٹن ہوٹل میں، جہاں دیگر ڈاکٹروں کے ساتھ وہ ایک کانفرنس میں شریک تھے، انہوں نے ایک عارضی ہسپتال کا قیام کیا۔ وہاں سے ڈاکٹر ہینڈرسن نے طوفانی سیلاب سے پھیلنے والی تباہی کی معلومات اپنے دوستوں کو ارسال کرنی شروع کی۔ ڈلاس میں ان کے ایک دوست ایس سائر نے ڈاکٹر ہینڈرسن کی ایک رپورٹ بی بی سی کو فراہم کی جو حسب ذیل ہے:
’ذاتی طور پر میں اور میری فیملی ٹھیک ہیں۔ میری بیوی اور دو چھوٹی بیٹیاں میسیسیپی کے شہر جیکسن میں اب محفوظ ہیں۔ میں اب عارضی طور پر نیو آرلینز کے رِٹز کارلٹن ہوٹل میں ہوں۔ یہ ہوٹل کنال اسٹریٹ پر واقع کی ایک پرانی عمارت میں ہے جسے کچھ کم نقصان پہنچا۔ دوسرے ہوٹلوں کو کافی نقصان ہوا، کھڑکیاں ٹوٹ گئیں، اور ہوٹل کے مہمانوں کو بھی محفوظ مقام پر پہنچانا پڑے گا۔ پیر کی شب پانی آگیا۔ کنال اسٹریٹ اب ایک کنال (دریا) میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ڈاؤن ٹاؤن کی تمام عمارتوں کی پہلی منزلیں پانی میں ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ چیریٹی ہسپتال اور تولین ہسپتال سیلاب کی وجہ سے اتنے متاثر ہوئے ہیں کہ مریضوں کی طبی امداد کرنے کی ان کی اہلیت محدود ہے۔ یہاں اوچسنر واحد ہسپتال ہے جو پوری طرح سے ٹھیک کام کررہا ہے۔ لیکن میں نے ان سے بھی بات کی اور انہوں نے بتایا کہ جنرٹروں سے کام چلارہے ہیں لیکن پانی اور غذا کی کمی ہے۔ شہر میں پینے کا پانی نہیں ہے، نکاسئ آب کے وسائل باقی نہیں رہے، بجلی نہیں ہے، اطلاعات کی فراہمی کے وسائل بھی کام نہیں کررہے، لاشیں ابھی نکالی جارہی ہیں جو سیلاب میں بہتی ہوئی پائی گئیں۔ ہم فکرمند ہیں کہ کالرا پھیل سکتا ہے، پولیس کے پاس بھی اطلاعات کی ترسیل کے وسائل نہیں ہیں۔ پولیس کے کچھ مسلح افراد یہاں ہوٹل میں ہیں تاکہ امن عامہ کو بحال رکھنے کی کوشش کرسکیں۔ یہ مشکل ہے کیوں کہ لوٹ جاری ہے۔ لیکن اس میں سے لوٹ کے زیادہ تر واقعات چوری کے لئے نہیں ہیں۔ یہ غریب اور پریشان لوگ ہیں جن کے پاس رہنے کو گھر نہیں، طبی سہولیات نہیں، کھانے کے لئے اشیاء نہیں، پانی نہیں، تاکہ یہ اپنے لوگوں کی مدد کرسکیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایسے کچھ لوگوں کے پاس ہتھیار ہیں، یہ لوگ خطرناک ہیں۔ ہمیں بندوق چلنے کی آوازیں سنائی دیتی رہتی ہیں۔ کنال اسٹریٹ کے بیشتر علاقے پر مسلح لوٹیروں نے قبضہ کررکھا ہے۔ ہم امید کررہے ہیں کہ نیشنل گارڈز کے ارکان ضروری تعداد میں یہاں آجائیں۔ راتوں رات طبی سہولیات اور ہسپتالوں کی حالت خراب ہوچکی ہیں۔ ہوٹل میں کئی لوگ بوڑھے اور بچے ہیں۔ کئی ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں مختلف نوعیت کی بیماریاں لاحق ہیں۔ ہم نے ہوٹل کے فرینچ کوارٹر بار میں ایک عارضی ہسپتال قائم کیا ہے۔ ہمارے پاس سات ڈاکٹروں اور نرسوں کی ٹیم ہے۔ ہم امید کررہے ہیں کہ پورے سینٹرل بزنس ڈِسٹرکٹ اور فرینچ کوارٹر علاقے میں طبی سہولت کا یہی واحد مرکز ہے۔ بڑی مشکل سے پولیس کی مدد سے آج ہم لوگ کنال اسٹریٹ پر والگرینز (دوا کی دکان) پر پہنچے۔ پوری فارمیسی اندھیرے میں ہے اور پانی بھرا ہوا ہے۔ ہم نے تمام ادویات کو کوڑے کے تھیلوں میں بھر لیا۔ ہم امید کررہے ہیں کہ ہمیں مختلف نوعیت کے طبی مسائل اور زخموں سے نمٹنا پڑے گا۔ خدشہ ہے کہ انفیکشن اور کالرا بڑے مسائل ہوسکتے ہیں۔ ہمارے لئے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ نیشنل گارڈز کہاں ہیں؟ ہم ہیلی کاپٹروں اور جیٹ کی آوازیں سنتے ہیں جو آسمان میں منڈلا رہے ہیں۔ لیکن زمین پر پولیس کی موجودگی نہیں ہے، جس کی وجہ سے لوٹ ہورہی ہے۔ امدادی ادارے ریڈ کراس اور سیلویشن آرمی بھی دکھائی نہیں دیتے۔ ہاں مارشل لاء ہے اس لئے ہم اپنے گھروں کو بھی نہیں جاسکتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایسا کب تک چلے گا، یہ میری سب سے بڑی فکر ہے۔ صدمہ پہنچتا ہے جب ہم نقصانات کے بارے میں سوچتے ہیں، کتنا وقت لگے گا پھر سے یہ سب کچھ بنانے میں۔ اور اتنے لوگ مرگئے ہیں۔۔۔‘
070727_nasa_computer
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2007/07/070727_nasa_computer
خلائی کمپیوٹر میں نقص، تحقیقات
امریکی خلائی ادارہ ناسا عالمی خلائی سٹیشن کے لیے ایک کمپیوٹر میں مبینہ طور پر خرابی پیدا کرنے کے ایک واقعے کی تحقیق کر رہا ہے۔ یہ کمپیوٹر آئندہ ماہ ’اینڈیور‘ نامی خلائی شٹل کے ذریعے خلائی سٹیشن پر پہنچایا جانا تھا۔
امریکی خلائی ادارے نے کہا کہ کمپیوٹر کو نقصان دانستہ پہنچایا گیا تھا لیکن یہ آئندہ ماہ سات اگست کو خلائی شٹل کی روانگی سے پہلے ٹھیک کر دیا جائے گا۔ ادارے نے کہا کہ اس نقص کی وجہ سے شٹل کی روانگی میں تاخیر نہیں ہو گی۔ ناسانے اس بات پر زور دیا کہ اس حرکت سے خلا بازوں کی زندگی خطرے میں نہیں تھی۔ کمپیوٹر میں نقص کا واقعہ اس وقت منظر عام پر آیا ہے جب اس سے پہلے خلابازوں کی صحت کے بارے میں قائم ایک پینل نے انکشاف کیا تھا کہ دو مواقع پر خلابازوں کو انتہائی نشے کی حالت میں پرواز کی اجازت دی گئی تھی۔ اس پینل کا انکشاف مجلے ’ایوی ایشن ویک اینڈ سپیس ٹیکنالوجی‘ میں شائع کیا گیا تھا۔ خلائی ادارے نے ابھی تک ان الزامات پر تبصرہ نہیں کیا لیکن وہ جمعہ کو اس کے بارے میں بیان جاری کرنے والا ہے۔ ناسا کے ایک اہلکار ولیم گرسٹنمایر نے کہا کہ کمپیوٹر میں نقص کا اس ماہ کے آغاز میں پتہ چلا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی ایسا نقص نہیں تھا جس کا آسانی سے پتہ نہ چلتا۔ کہا جا رہا ہے کہ ناسا کے کسی خلائی مشن میں دانستہ خرابی پیدا کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
040525_pakistan_flagmeeting_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/05/040525_pakistan_flagmeeting_sen
پاک امریکہ میٹنگ نہیں ہو سکی
پاکستان اور امریکی فوجیوں کے درمیان سرحدی ابہام دور کرنے کی خاطر شمالی وزیرستان کے لوڑا منڈی کے پہاڑی علاقے میں متوقع ملاقات منگل کو نہیں ہوسکی۔
اسلام آباد میں پاکستانی فوج کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ’ملاقات سفری مسائل کی وجہ سے نہیں ہوسکی اور اب یہ جمعرات کو متوقع ہے۔‘ حکام کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں جسے فوجی زبان میں فلیگ میٹنگ کہا جاتا ہے مستقبل میں غلط فہمیوں سے بچنے اور ابہام کو دور کرنے کے لئے اقدامات پر غور ہوگا۔ پاک افغان سرحد پر بسنے والے مقامی پاکستانیوں کا کہنا تھا کہ مئی کے مہینے میں کئی مرتبہ امریکی فوجی سرحد پار کرکے پاکستانی علاقے میں گھس آئے اور تلاشی اور پوچھ گچھ کا کام کیا۔ البتہ پاکستانی حکومت نے دو مرتبہ دراندازی کی تصدیق کی اور اس پر امریکہ سے احتجاج کیا۔ دوسری جانب امریکی حکام نے صرف ایک مرتبہ دو مئی کو غلطی سے گھس آنے کا اعتراف کیا تھا۔
060123_kuwait_reforms_zs
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/01/060123_kuwait_reforms_zs
کویت: شیخ جابر کی اصلاحات خطرے میں
کویت کے امیر شیخ جابر الاحمد کی وفات کے بعد ملک میں سرکاری طور پر چالیس روزہ سوگ منایا جارہا ہے جبکہ کویتی پارلیمان نے خرابی صحت کی بنیاد پر نئے امیر کی تقرری کے خلاف دو تہائی اکثریت سے فیصلہ کیا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کویت میں اس اقدام کے لیے آئینی طریقہ کار استعمال کیا گیا ہے۔اس سے قبل کویت میں پارلیمان کی طرف سے امیر کو ہٹائے جانے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
شیخ سعد العبداللہ کو دس روز قبل امیر کویت شیخ جابر الصباح کے انتقال کے بعد نیا امیر مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ پچھہتر سالہ شیخ سعد العبداللہ ناسازئی طبع کی وجہ سے نئے امیر کا حلف اٹھانے کے قابل نہیں تھے۔ سعد العبداللہ کی تقرری سے شدید آئینی کشمکش پیدا ہو گئی تھی اور اس معاملے پر حکمران صباح خاندان میں بھی اختلاف پیدا ہوگئے تھے۔ اب نئے امیر کے انتخاب تک ملک کا انتظام کابینہ کے ہاتھ میں ہوگا۔ توقع ہے کہ موجودہ وزیر اعظم شیخ صباح الاحمد الصباح کو نیا امیر چنا جائے گا۔ کویت میں شیخ جابر کی نافذ کی ہوئی اصلاحات کو روایتی سخت گیر حلقوں کی جانب سے درپیش خطرے کا جائزہ لیتے ہوئے بی بی سی کے تجزیہ کار جوناتھن فرائر نے کویت کے موجودہ حالات پر ایک نظر ڈالی ہے۔ شیخ جابر تقریباً تیس برس تک دنیا کے اس چھوٹے مگر امیر ملک کے صدر رہے۔ کویت کی آبادی دو ملین ہے جبکہ تیل کی پیداوار کے لحاظ سے یہ دنیا کا دسواں بڑا ملک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تیل نکالنے کے لیے بھی کویت میں زیادہ محنت کی ضرورت نہیں، یہ قدرتی انداز میں ہی ایسے مقامات پر موجود ہے کہ باآسانی نکال لیا جاتا ہے۔ چونکہ تیل کے کنویں اونچائی پر واقع ہیں اس لیے یہ آسانی کے ساتھ پائپوں کے ذریعے ڈھلوان سے نیچے ریفائنری تک پہنچایا جاتا ہے۔ بے شک کویتی باقاعدگی سے اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ صرف ستر برس پہلے یہ دنیا کا غریب ترین ملک تھا۔تقریباً گزشتہ دو صدیوں سے یہاں کا ذریعہ آمدن سمندر میں سچے موتیوں کی تلاش تھی۔ مزید یہ کہ شدید گرمی کے موسم نے اس ملک کو مزید غیر دوستانہ بنادیا تھا لیکن تیل کی دریافت نے کایا ہی پلٹ ڈالی۔ ستر کی دہائی سے کویت کی معیشت نے پھلنا پھولنا شروع کیا۔ اب کویت کا دارالحکومت کویت سٹی ایک جدید ترین شہر ہے جہاں جدید شاپنگ مالز کے علاوہ دس بڑی شاہراہیں بنائی گئی ہیں۔ انیس سو نوے میں صدام نے کویت کو عراق میں ضم کرنے کی غرض سے اپنی فوجوں کے ساتھ یہاں چڑھائی کردی تھی۔ شیخ جابر کو سعودی عرب پہنچادیا گیا۔ عراقیوں نے یہاں کافی لوٹ مار کی اور کئی تیل کے کنوؤں کو آگ لگادی۔ جس کے بعد امریکی سربراہی میں افواج نے کویت کا دفاع کیا اور ملک کی بحالی میں مدد کی۔ شیخ جابر بھی وطن واپس لوٹ آئے۔ یہی وہ وقت تھا جب ملک میں جمہوری نظام نے اپنا اثر کھونا شروع کیا۔ صرف مردوں پر مشتمل کویتی پارلیمان نے خواتین کے ووٹ کے حق کے خیال کو رد کردیا۔ خواتین کے ساتھ ایسا سلوک کویت کی جدیدیت کی نفی کرتا ہے۔ ملک میں دو ہی با اثر حلقے ہیں۔ روایت پسند اور جدت پسند اور ان میں سے روایت پسند سخت گیر حلقے کو پارلیمان میں واضح نمائندگی حاصل ہے۔ یہاں برسوں پہلے شراب پر پابندی عائد کردی گئی تھی کیونکہ یہ اسلام کے اصولوں سے ہم آہنگ نہیں۔ حال ہی میں لائیو میوزک بھی پابندی کی زد میں آگیا ہے۔یہاں کوئی نائٹ کلب بھی نہیں اور غیر مردو عورت کے میل جول کو سخت گیر اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ کویت میں لڑکوں لڑکیوں کی واحد قابل قبول ملاقات کی صورت سٹاربکس کافی یا پیزا شاپ میں ملنا جلنا ہے۔ کچھ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں انہیں الجھن کا شکار کررہی ہیں جبکہ آزاد خیال اور امیر طبقے کے لوگ اپنی رنگ رلیوں کے لیے خلیج کے آزاد خیال ممالک مثلاً دبئی یا پھی لندن وغیرہ جاکر اپنے شوق پورے کرتے ہیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہاں بسوں پر سفر کیا لیکن مقامیوں کا خیال ہے کہ بسیں صرف ان انڈین نژاد افراد کے لیے موزوں ہیں جو یہاں کام کے لیے آتے ہیں یا پھر وہ کویتی طلبا جو ابھی ڈرائیو کرنے کی عمر تک نہیں پہنچے ہیں۔ یہ طلباء اس قدر بدتمیز ہیں کہ اپنے رویہ میں یہ اکثر بگڑے ہوئے برطانوی طلباء کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔یہ بسوں میں چھلانگیں لگاتے ہیں، کھڑکیوں سے باہر لٹکتے ہیں اور انڈین افراد کا مذاق اڑاتےہیں۔ یہ انڈین افراد ان بچوں کی بدتمیزی پر کچھ بولنے سے بھی ڈرتے ہیں اور خاموش رہنے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔ نامہ نگار کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایک بس پر سوار تھا۔ ڈرائیور نے ایسے ہی چند طلباء کو اتارا اور بس آگے بڑھادی۔ اس کے بعد ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ ان بچوں نے کھڑکیوں پر پتھروں کی بوچھاڑ کردی تھی اور وہ ایک شیشہ کرچی کرچی ہوگیا۔ ’ہم سب کو شیشوں کے ٹکڑے لگے‘۔
040604_afghans_killed_na
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/06/040604_afghans_killed_na
امریکی آپریشن: سترہ افغان ہلاک
ایک امریکی فوجی ترجمان کے مطابق افغانستان کے جنوبی علاقے میں امریکی فوج نے ایک جھڑپ میں سترہ افغان عسکریت پسندوں کو ہلاک کردیا ہے۔
قندہار میں کیا گیا یہ آپریشن گزشتہ ایک سال کے دوران سب سے بڑی فوجی کارروائی تھی۔ افغان حکام کے مطابق ہلاک ہونے والے ’طالبان جنگجو‘ تھے۔ تین امریکی فوجی معمولی زخمی ہوئے ہیں۔ افغانستان میں بیس ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ افغان حکام کے مطابق جھڑپ بدھ کو شروع ہوئی تھی جب امریکی اور افغان فوجوں نے قندہار کے ایک صوبے میں یہ آپریشن شروع کیا۔ قندہار کی حکومت کے ترجمان خالد پشتون نے بتایا کہ جھڑپ تین سو افغان اور بہت سے امریکی فوجیوں کے درمیان ہوئی۔ ان کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد تیرہ ہے جبکہ امریکی یہ تعداد سترہ بتاتے ہیں۔ پشتون کا کہنا ہے کہ آٹھ کو گرفتار کیا گیا ہے۔
050330_pakindia_shoib_ms
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2005/03/050330_pakindia_shoib_ms
پاکستان، انڈیا، جنگ اور محبت
اس وقت جب بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کی جنگ جاری ہے، پاکستانی کرکٹر شعیب ملک اور ایک ہندوستانی لڑکی کے درمیان محبت نے بھی میڈیا کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ شعیب ملک نے حیدرآباد میں جہاں پہلی مرتبہ اپنے سسرالی خاندان سے ملاقات کی وہاں وارم اپ میچ میں ایک نصف سنچری بھی سکور کی۔
شعیب کی عائشہ سے ملاقات کی کہانی بھی بالی وڈ کی کسی فلم سی لگتی ہے۔ سال دو ہزار میں جب شعیب پاکستانی ٹیم کے ساتھ دوبئی گئے تو عائشہ ایک ہوٹل میں اپنی چابیاں بھول گئیں جنہیں شعیب لوٹانے کے لیے آئے۔ یوں شروع ہونے والی دوستی دو ہزار دو میں فون پر ہونے والے نکاح میں بدل گئی۔ عائشہ نے جب یہ خبر اپنے والدین کو سنائی تو وہ شروع میں ناراض ہوئے اور پھر رضامند ہوگئے۔ تاہم جہاں ایک طرف اس طرح کی خبریں سننے میں آتی ہیں وہاں دوسری طرف اداکارہ میرا کو ایک بھارتی فلم میں کام کرنے پر بقول ان کے موت کی دھمکیاں ملنے کی خبریں بھی چند دن پہلے تک چھپتی رہی ہیں۔ آخر پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں اس طرح کے تضادات کیوں ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ پاکستان میں ہر بس، گلی اور دکان پر انڈین گانوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور بھارتی فلمی ستارے انتہائی ہر دلعزیز ہیں لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد ہر قدم پر انڈیا سے مقابلے کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے؟ پاکستان اور انڈیا کے تعلقات پر ’جنگ اور محبت میں سب جائز ہے‘ والا محاورہ کیوں صادق آتا ہے؟ کیا آپ یا آپ کے کسی جاننے والے کے ساتھ شعیب ملک جیسے واقعات پیش آئے ہیں؟ آپ کو اس میں کیا مشکلات پیش آئیں؟ وحید علی، جدہ:میری تو دعا ہے کہ ایسے واقعات ہزاروں کی تعداد میں ہونے چاہئیں کیوں کہ میں بھی ایک پاکستانی ہوں اور میں بھی انڈیا کی لڑکی سے پیار کرتا ہوں جو حیدرآباد دکن سے ہے۔ انشاء اللہ ہم جلد ہی شادی کریں گے۔ ریاض فاروق، کراچی:مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے لوگ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ میرا صرف فلم میں کام کرنے کے لئے ہر کام کرجائیں۔۔۔۔۔ فہیم، پاکستان:انڈیا اور پاکستان کے لوگوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔۔۔۔ محمد اشرف، مناما:شعیب ملک کی طرح کے واقعات کبھی کبھی ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک بھارتی فلموں کو دیکھنے والے شاید قومی غیرت کو دفن کرچکے ہیں۔ یہ لوگ ایسی فلمیں دیکھ کر کیسے سکون محسوس کرتے ہیں۔۔۔۔ کامران ایوب، سنٹرل لندن:رشتے تعلقات اور رابطے تین مختلف چیزیں ہیں۔ جہاں تک رشتوں کو دیکھا جائے تو دنیا کا ہر شخص جو مسلمان ہے وہ پاکستانی ہے کیوں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اس لئے پاکستانیوں کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ مسلمان انڈین ہے یا۔۔۔۔ وقار شاہ:میں نیویارک میں رہتا ہوں اور میری ہونے والی اہلیہ انڈین ہیں۔۔۔۔ عارف رانا، کینیڈا:زندگی میں کوئی دشمن بھی تو ہونا چاہئے۔ ہر طرف محبت کے بول بھی اتنے اچھے نہیں لگتے۔ فرید ویرانی، کراچی:جی ہاں، جنگ اور محبت میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ شعیب ملک، کوئی ٹھیک سمجھے یا نہ سمجھے، میں ٹھیک سمجھتا ہوں اور میرا پورا فرینڈ سرکل آپ سے متفق ہے۔ ماز_ایوان، کینیڈا:جہاں تک بات شعیب کی محبت کی ہے تو لڑکی مسلم ہے۔ بس بات ختم ورنہ تو پاکستان والے اس پر بھی بڑا اعتراض کرتے ہیں کہ۔۔۔۔ (واضح نہیں)۔ رضا احمد، پاکستان:میرے خیال میں کھلاڑیوں کو ملک کے لئے رول ماڈل ہونا چاہئے، پاکستانی لڑکیاں پوری دنیا میں سب سے بہتر ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ شعیب کے لئے پورے ملک میں لڑکی نہیں ہے۔ پاکستان میں غیرملکی لڑکی سے شادی کرنا سماجی حیثیت کے لئے اچھا سمجھا جاتا ہے اور شعیب ملک جیسے لوگوں کو یہ جاننا چاہئے کہ وہ ملک کے نوجوانوں کے لئے رول ماڈل ہیں۔ میں اس شادی کے خلاف ہوں۔ فیصل چانڈیو، حیدرآباد سندھ:انڈیا اور پاکستان ایک سکے کے دو الگ الگ رخ ہیں۔ ہم کچھ بھی کرلیں، ہم ایک نہیں ہوسکتے کیوں کہ ہم کسی کے دشمن نہیں اور وہ ہمیں دوست تسلیم کرنا نہیں چاہتے۔۔۔۔ کاشف اسلام، لاہور:اس تضاد کی سب سے بڑی وجہ ہے ہمارا نصاب ہے۔ ہم لوگوں کو، خاص طور سے میرے نسل کے لوگوں کو کتابوں میں ایک ہی بات بتائی جاتی رہی ہے کہ انڈیا ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اب اتنے دنوں کے بعد اچانک آپ کے بدترین دشمن آپ کا بہترین (دوست) کیسے بن سکتا ہے؟ رہی بات انڈین گانے سننے کی تو جیسے یہاں انڈین فلمیں اور گانے پسند کیے جاتے ہیں، ویسے ہی انڈیا میں پاکستانی گانے سنے جاتے ہیں اور یہ انسان کی فطرت ہے کہ اسے اپنے گھر کا کھانا اتنا پسند نہیں ہوتا جتنا ہمسائے کے گھر کا۔۔۔۔ ضیاء سید، کینیڈا:اگر ہم انڈین ڈانسر کو پسند کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم انڈیا کو پسند کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔ عمران بیگ، یو کے:انڈین فلمیں کوالٹی کی وجہ سے پاکستان میں مقبول ہیں لیکن دو قومی نظریہ اپنی جگہ اٹل ہے اور کسی قیمت پر بھارت سے دوستی ہمیں منظور نہیں ہے۔ شادی کے معاملات اس سے الگ ہیں، شادی کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ مفکر، بہاولپور:محبت اور جنگ میں سب ٹھیک ہے۔ سنا نہیں آپ نے محبت اندھی ہوتی ہے، تو پھر پاکستان کیا، انڈیا کیا؟ قدم بڑھاؤ شعیب ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ جاوید جمال الدین، ممبئی:میں گذشتہ مہینے انٹرنیشنل ایکسچن وزیٹیر کے طور پر ایک ساؤتھ ایشین گروپ کے ساتھ امریکہ کے دورے پر گیا تھا۔ اس گروپ میں تین ہندوستانی، تین پاکستانی اور ایک ایک بنگلہ دیش، نیپالی اور سری لنکا کے شہری تھے۔ اس سفر کے دوران محسوس ہوا کہ ہمارے پاکستان دوست نجی طور پر بھارت کی ترقی کا ہر حال میں اعتراف کرتے ہیں لیکن جہاں امریکن حکومت کے نمائندوں، دانشوروں اور شہریوں کے درمیان ڈیبیٹ میں شرکت کرتے ہیں تو ان کا ٹون بدل جاتا ہے اور انڈیا کے تعلق سے ایسی باتیں کرتے ہیں جن کا کوئی وجود نہیں ہے۔۔۔۔۔ واجد زیدی، راولپنڈی:پیار کسی سرحد کا محتاج نہیں ہوتا، دشمنی ۔۔۔ سے نہیں اس کی ذہنیت سے ہے، پیار تو پھر بھی مسلم سے ہی کیا ہے، آپ دونوں کو کنگریچولیٹ کریں۔۔۔۔ نوروز علی، امریکہ:محبت اندھی ہوتی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کی دوستی بھی اندھی محبت کی طرح ہے جو دیکھی نہیں جاسکتی بلکہ محسوس کی جاسکتی ہے۔ علی چشتی، کراچی:انڈیا میرے آباء و اجداد کا ملک ہے، پاکستان خصوصی طور پر میرے آباء و اجداد کے لئے بنایا گیا۔ پاکستان نے ہمیں سب کچھ دیا ہے۔ میں تین بار انڈیا گیا ہوں اور میں نے جو کچھ بھی دیکھا ہے میں خود کو لکی محسوس کرتا ہوں۔ اگر پاکستان نہیں بنا ہوتا تو میرے دادا جنرل نہیں بنتے اور میرے والد کیمسٹری میں پی ایچ ڈی حاصل نہیں کرتے۔ جہاں تک شعیب کا مسئلہ ہے، یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ اسلم خان، ہانگ کانگ:انہیں شادی کرنے دیں، یہ ذاتی معاملہ ہے۔ ہمیں کوئی مشورہ نہیں دینا چاہئے۔ ماجد مرزا، چاہ جٹن، پاکستان:میرے خیال سے آپ میرا اور شعیب کا موازنہ نہ کریں۔ شعیب ایک سینسیبل بوائے ہے جو کرکٹ میں ہے، وہ انڈیا کے خلاف پاکستان کے لئے میچ میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔ جبکہ میرا کی وجہ سے پاکستان کی ساکھ خراب ہورہی ہے۔۔۔۔ شیخ محمد یحیٰ، کراچی:یہی تو دو قومی نظریہ کی اصل وجہ ہے، ہماری قوم ہر چیز برداشت کرلے گی مگر جہاں مقابلے کی بات آتی ہے وہاں دو قومی نظریہ سامنے آجاتا ہے۔ سید محمد عمران، جرمنی:پاکستان کی ترقی انڈیا کی مرہون منت ہے۔ آج ہم جس مقام پر بھی ہیں، اس کی بڑی وجہ انڈیا سے ہمارا کمپیٹیشن ہے۔ اب رہی بات تضادات کی تو یہوں بھی تو کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی عوام زیادہ ریزنیبل ہیں، اس لئے انڈیا سے اختلاف ہونے کے باوجود ان کی کوالٹی کی چیزوں کو اچھا کہتے ہیں اور پسند بھی کرتے ہیں۔ شکیل ملک، لندن:مجھے خوشی ہے کہ شعیب ملک انڈیا کے داماد بن رہے ہیں۔۔۔ آئی آئی کہلون، امریکہ:تقسیم سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ کہیں بھی کیا تقسیم سے مسائل کا حل ہوا ہے؟ جب انڈیا اور پاکستان ایک ملک کا حصہ تھے کوئی مسئلہ تھا؟ تقسیم کی وجہ سے لاکھوں لوگ ہلاک ہوگئے اور کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوا۔ عبدالوحید، میری لینڈ، امریکہ:سیالکوٹی ہونے کی حیثیت سے شعیب کو سوچنا چاہئے کہ وہ کیا وہ بگھارے بینگن کے لئے تیار ہے۔۔۔ ہارون اعظم، کراچی:اس میں اتنے تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اگر شعیب کسی مسلم لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے تو اسے سراہنا چاہئے۔ لیکن جب تک کشمیر کا تنازعہ ہے، پاکستانیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ کشمیر کو بھول جائیں۔ تمام دوستانہ روابط کے باوجود انڈیا بگلیہار ڈیم بنارہا ہے۔۔۔۔ ندیم رانا، بارسلونا:محبت میں مذہب اور روایت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ محبت جذبات کا نام ہے، امن اور حقیقی احساسات کا نام ہے۔ ساجد رحمان، مالاکنڈ ایجنسی:انڈیا اور پاکستان کے تعلقات میں تضاد اس لئے ہیں کیوں کہ اگر سیاست اور کشمیر کو پاکستانی دیکھتے ہیں تو انڈیا سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ اس لئے ہم ان سے جنگ کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہےکہ پاکستان میں انڈین ایکٹرس اتنے ہردلعزیز ہیں کہ پاکستان میں ایکٹرس ہیں نہیں اور فلم انڈسٹری اس قابل نہیں تو انڈین ہی ملے گا۔ اور شعیب ملک جیسا واقعہ پیش آئے تو شادی ہی کریں گے۔ ہم کو نفرت انڈیا سے ہی انڈین لڑکیوں سے نہیں۔ امن مہر، شارجہ:یہ مشکل راستہ ہے دونوں ملکوں کے تعلقات کا۔۔۔۔ شاد خان، ہانگ کانگ:انڈیا ہمیشے سے چاہتا ہے کہ قاعد اعظم محمد علی جناح والا دوقومی نظریہ غلط ہے اور ہم پاکستانی ہر قیمت پر انڈیا کو غلط کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ محمد بخش، جوہی سندھ:شعیب کو بھی مرلی کی طرح لوگوں کی باتوں کی پرواہ کیے بغیر شادی کرنی چاہئے۔ اگر اس کی وائف کا تعلق انڈیا سے ہے تو کیا ہوا، ہے تو اصل میں مسلمان۔۔۔۔ پیار کا مذہب نہیں ہوتا۔ عابد علی خان، دوبئی:یہ کافی اچھا ہے۔ میرے پاس مثال نہیں۔ لیکن یہ انڈیا اور پاکستان کے لوگوں کو سمجھنے کے لئے بہت ہی اچھی مثال ہے۔ شعیب اور عائشہ جذبات سمجھتے ہیں۔۔۔۔ نعیم، لاہور:کوئی مشکلات پیش نہیں آنی چاہئے کیوں کہ محبت سٹی یا کنٹری کی پابند نہیں ہے۔ فریدہ بھانی، حیدرآباد سندھ:انگریزوں نے پاکستان اور انڈیا کو تو دو حصوں میں تقسیم کردیا مگر وہ دونوں ملک کی ثقافت اور زبانوں کو تقسیم کرنے میں ناکام رہے۔ پہلے دونوں ملکوں کو سرد جنگ کے زمانے میں عالمی طاقتوں نے استعمال کیا اور رہی قصر دونوں جانب کے انتہا پسندوں کی تو اب عوام میں شعور آگیا ہے اور وہ واپس میں ایک اچھے پڑوسی کی طرح رہنا چاہتے ہیں۔ شعیب ملک کو دنیا کی پرواہ کیے بغیر اپنی محبت کو اپنانا چاہئے۔ نفیس نصیر، اٹلانٹا:یہ شعیب کا ذاتی معاملہ ہے۔ بی بی سی کسی کی زندگی کے بارے میں کیوں پریشان ہے؟ شاہد محمود، فیصل آباد:اصل میں یہ ایک میڈیا وار ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایجوکیشن بھی شعور دیتی ہے کہ ماضی میں جو کچھ ہوچکا ہے اب اسے ایک طرف رکھ کر دنیا کے نئے تقاضوں کے مطابق سوچنا، دیکھنا، سمجھنا اینڈ فیصلہ کرنا پڑے گا۔ اگرچہ ماضی بہت تلخ ہے لیکن اگر پھر بھی ہم نے نیو حالات کے مطابق سمجھوتے نہ کیے تو نقصان بھی ہوگا اور دنیا میں بھی پیچھے رہیں گے۔ ویسے بھی مسلم دنیا کے ایجوکیشنل لیول سب کو معلوم ۔۔۔ سید شفاعت حسین فخری، ابو ظہبی:ضروری نہیں کیوں کہ آپ لوگ شائع نہیں کرتے۔۔۔۔ عزیز خان، امریکہ:(ایکٹریس) میرا؟ کس کو پرواہ! اگر ان کی گرلس کو کِس کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بھی ہماری چِکس کو انہیں کِس کرنے دیں! گرو اپ پیوپل!! راحیل جعفری، کراچی:میں تو انڈین فلم اور گانے صرف ایک انٹرٹینمنٹ کی حیثیت کے طور پر سنتا ہوں، جہاں تک بات ہے انڈین سے مقابلے کی تو وہ ہمارا رائیول ہیں اور ہم ان کو تو یہ جنگ جاری رہے گی، آپ کا ان کے بارے میں کیا خیال ہے جو وہ ہمارے گانے، ڈرامے، فلموں کی کاپی کرتے ہیں۔۔۔۔ ف علی، ابو ظہبی:عشق نچایا گلی گلی۔۔۔شعیب کو نچائے عائشہ۔۔۔ حیدرآباد حیدرآباد۔ احمد جمیل ترک، لاہور:آپ محبت اور جنسی اظہار کو تو ایک دوسرے سے الگ ہی رکھیں۔ ایک تو دو انسانوں کا فطری اور سوسائٹی کے لئے قابل قبول رویہ ہے اور دوسرا جسم کا کمرشیل استعمال۔۔۔۔
050105_spielberg_donation_na
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2005/01/050105_spielberg_donation_na
سپیلبرگ کی جانب سے امداد کا اعلان
ہالی وڈ کے فلم ڈائریکٹر سٹیون سپیلبرگ سونامی کے متاثرین کے لیے ڈیڑھ ملین ڈالر کی امداد دیں گے۔ یہ عطیہ ابتدائی طور پر تین مختلف امدادی اداروں ’سیو دی چلڈرن‘ ’کیئر‘ اور ’آکسفیم‘ کے پاس جائے گا جو جنوبی ایشیا میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
سپیلبرگ کے ترجمان نے کہا ہے کہ اگرچہ سپیلبرگ عموماً اس طرح کے عطیات کو خفیہ رکھتے ہیں تاہم اس دفعہ انہوں نے یہ اعلان اس لیے کیا ہے تاکہ امداد دینے کے لیے دیگر افراد کی حوصلہ افزائی ہو۔ گلوکار ولی نیلسن امداد جمع کرنے کے لیے اتوار کو ایک کنسرٹ کریں گے جس میں دیگر فنکار بھی شریک ہوں گے۔ کنسرٹ کے ٹکٹوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم ریڈ کراس، یونیسف اور ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے درمیان تقسیم ہوگی جو اسے متاثرین تک پہنچائیں گے۔ اداکارہ سانڈرا بُل اوک پہلےہی متاثرین کے لیے ایک ملین ڈالر امداد کا اعلان کرچکی ہیں جبکہ اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو نے بھی یونیسف کو ’خطیر رقم‘ بطور عطیہ دی ہے۔ دریں اثناء بالی وڈ نے بھی امداد جمع کرنے کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں۔ شاہ رخ خان اور دیگر فنکاروں نے سونامی سے متاثرہ بچوں کے لیے کروڑوں روپے کا عطیہ دیا ہے۔ سابق مس انڈیا پونم ڈھلون متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں گی۔ وہ اداکار ویوک اوبرائے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک پورے گاؤں کی سرپرستی کا ذمہ لینا چاہتی ہیں۔ دنیا بھر میں عطیہ جمع کرنے کے لیے خصوصی فون لائنز اور ٹی وی شوز کا اہتمام کیا گیا ہے۔
150820_pak_india_relation_timeline_zz
https://www.bbc.com/urdu/regional/2015/08/150820_pak_india_relation_timeline_zz
پاک بھارت تعلقات: اوفا کے بعد اب دہلی کا سفر
ماضی کو دیکھتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری کی کوششوں کا عمومی پیٹرن یہی رہا ہے کہ دونوں جانب سے پیش آنے والے واقعات کے بعد الزام تراشیوں سے تعلقات کو کشیدگی کی جانب لے جایا جائے اور پھر اس میں کمی کی کوششیں کی جائیں، لیکن ان کو ٹھوس تعلقات میں بدلنے میں کوئی غیر معمولی اقدام اٹھانے سے’گریز‘ ہی کیا جائے۔
دونوں ممالک کے رہنماؤں کی گذشتہ ماہ اوفا میں ملاقات ہوئی اب بھارت اور پاکستان کے درمیان سلامتی امور کے اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے لیے پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز بھارت کا دورہ کر رہے ہیں لیکن اس وقت بھی دونوں جانب سے الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے اور سرحدوں پر کئی ماہ سے کشیدگی جاری ہے۔ پاک بھارت تعلقات کے نشیب و فراز دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات سے پہلے ہونے والے واقعات میں سے چند کا احوال مئی 2013 میں دہلی میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات میں تعلقات کو معمول پر لانے پر بات ہوئی اور اس کے 14 ماہ بعد روسی شہر اوفا میں ملاقات میں پھر اسی نکتے پر اتفاق کرتے ہوئے دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کی دہلی میں ملاقات کرانے کا فیصلہ کیا۔ بھارت نے الزام عائد کیا کہ گورداس پور میں حملہ آور پاکستان سے آئے تھے لیکن اوفا میں کیے گئے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے میں تقریباً ڈیڑھ ماہ کا عرصہ لگا اور اس دوران پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے یہ ملاقات بھی کٹھائی میں پڑتی دکھائی دی۔ اس ملاقات کے بعد پاکستانی وزیراعظم کو وطن واپسی پر یہ کہہ کر خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ ملاقات میں کشمیر کے تنازعے کی بات نہیں کی گئی اور اسی وجہ سے دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں عید ملن پارٹی میں کشمیری حریت کانفرنس کے نمایاں رہنماؤں نے شرکت سے انکار کر دیا۔ پاکستان میں کشمیر کو مسئلے کو نہ اٹھانے پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے اوفا ملاقات کے تیسرے ہی دن وزیر اعظم کے قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر سینیٹر سرتاج عزیز نے بیان دیا کہ اس ملاقات میں بھی کشمیر کا معاملے پر بات ہوئی اور بھارتی قیادت پر واضح کیا گیا ہے کہ کشمیر پر بات کیے بغیر بھارت کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے جا سکتے۔ اوفا میں ملاقات سے پہلے دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز کے درمیان ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر دو طرفہ فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا اور اس میں ملاقات کے بعد کچھ کمی آئی لیکن تھوڑے ہی دن بعد دوبارہ فائرنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا جس میں جہاں عام شہری مارے گئے وہیں پاکستان کی جانب سے اپنی حدود میں بغیر پائلٹ کے بھارتی جاسوس طیارے کو مار گرانے کا دعویٰ کیا گیا۔ 19 جولائی کو پاکستان نے بیان دیا کہ بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ کر کے اوفا سمجھوتے کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس دوران 22 جولائی کو وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بھارتی ہم منصب کو آموں کا تحفہ بھیجا اور 27 جولائی کو پاکستان کی سرحد سے متصل بھارتی ریاست پنجاب کے ضلع گورداس پور میں تھانے پر حملہ ہوا جس میں تین حملہ آوروں سمیت دس افراد مارے گئے۔ اس واقعے کے دو دن بعدبھارت نے الزام عائد کیا کہ گورداس پور تھانے پر حملہ کرنے والے شدت پسند سرحد پار پاکستان سے آئے تھے جبکہ پاکستان نے اس الزام کو بےبنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے الزامات خطے کی سلامتی کے لیے خطرناک ہیں۔ سرحدوں پر فائرنگ جاری کشیدگی کے دوران 31 جولائی کو وزیراعظم کے قومی سلامتی اور خارجہ امور کے خصوصی مشیر سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کی ملک میں مداخلت کے معاملے کو اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر اٹھانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز کی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر جھڑپیں بھی جاری رہیں پاکستانی کے اعلیٰ سفارتی اہلکار کی جانب اس بیان کے دو دن بعد بھارت نے بھارت نے پاکستان کو رواں ماہ کے آخر میں قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان ملاقات کی تجویز دی اور 7 اگست کو مشیر خارجہ سرتاج عزیز اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات پر نتیجہ خیز مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔ م شیر خارجہ کے اس بیان سے ایک دن پہلے ہی چھ اگست کو بھارت کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ جموں خطے کے ضلع ادھم پور میں بارڈر سکیورٹی فورس کی ایک بس پر فائرنگ کرنے والے شدت پسندوں کا تعلق پاکستان ہے۔ پاکستان نے اس الزام کی سختی سی تردید کی۔ 19 اگست کو جہاں پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے پر بھارت سے احتجاج کیا، وہیں تعلقات بہتر کی بجائے خراب زیادہ خراب ہونے پر اسی دن اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے پاکستان اور بھارت کی سرحدی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک سے کہا ہے کہ وہ ’انتہائی ضبط‘ کا مظاہرہ کریں۔ اب دونوں ممالک کے سکیورٹی مشیروں کی 23-24 اگست کو دہلی میں ملاقات سے پہلے پاکستانی ہائی کمیشن نے دہلی میں ایک استقبالیے میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے رہنماؤں کو مدعو کیا ہے اور اس کے جواب میں بھارتی حکام نے علیحدگی پسند کشمیری رہنما سید علی گیلانی کو نظر بند کر دیا ہے۔ کٹھمنڈو میں ملاقات نہیں ہوئی، صرف مصافحہ ہوا اس پر پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ بھارت دہشت گردی کے الزامات کے بجائے تعاون پر زور دے اور وہ کشمیری رہنماؤں کو پاکستان کے مشیر برائے خارجہ اور سلامتی سرتاج عزیز سے ملاقات کرنے کی اجازت دے۔ ان حالات میں دونوں ممالک کے حکام کے بعد دہلی میں ملاقات ہو رہی ہے اور موجودہ زمینی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس ملاقات میں شاید کسی بریک تھرو کے امکان کم ہیں۔ اس سے پہلے ماضی میں ایسے کئی مواقع آئے جب دونوں ہسمایوں نے اپنے رشتوں کو مضبوط کرنے کے عہد کیے لیکن یہ کبھی وفا نہیں ہو سکے۔ ان میں پہلے کشمیر کے تنازعے کی وجہ سے معاملات خراب ہونے کا تاثر ملتا تھا پھر بات دہشت گردی کے مسئلے پر آ کر رک جاتی۔ دونوں ممالک کے تعلقات کے تناظر میں اوفا میں نواز مودی ملاقات سے پہلے رونما ہونے والے واقعات کے لیے یہاں کک کریں۔