id
stringlengths 8
69
| url
stringlengths 33
111
| title
stringlengths 8
173
⌀ | summary
stringlengths 1
1.1k
| text
stringlengths 110
51.6k
|
---|---|---|---|---|
060812_deccan_diary | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/08/060812_deccan_diary | دکن ڈائری : بد ترین سیلاب، کوک کو جھٹکا | سیلاب سے تباہی | ریاست آندھرا پردیش میں اس برس کے سیلاب سے اس قدر جانی و مالی نقصان ہوا ہے کہ گزشتہ پچاس برسوں میں اس طرح کی تباہی صرف دوسری مرتبہ دیکھنے میں آئی ہے- ریاست کے چار بڑے دریاؤں میں ایک ساتھ طغیانی نے سولہ اضلاع کو متاثر کیا ہے۔ چھ لاکھ لوگ بے گھر ہوئے ہیں اور کئی ہزار مکانات تباہ ہوگئے ہیں۔ دس لاکھ ایکڑ کے رقبےکی فصل کو نقصان پہنچا ہے- ابتدائی اندازے کے مطابق دو ہزار کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ہے اور اس سے سنبھلنے میں آندھرا پردیش کو کافی عرصہ لگےگا- انتظامیہ اور عوام کی پریشانی یہ ہے کہ یہ ریاست میں طوفانوں اور سیلابوں کے موسم کا محض آغاز ہے۔ ہر برس اگست اور اکتوبر کے درمیان خلیج بنگال میں طوفان آتے ہیں جس کے سبب پوری ریاست میں بارش ہوتی ہے۔ ریاست ابھی اس پہلے جھٹکے سے سنبھلی بھی نہیں ہے کہ خلیج بنگال میں ایک اور طوفان کے آثار نظر آرہے ہیں- چونکہ تمام آبی ذخائر اور تالاب پہلے ہی بھر چکے ہیں اس لیے مزید بارش، تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ مورتیوں کی غرقابی اس برس بھی ہوگی آندھرا پردیش کی ہائی کورٹ نے حیدرآباد کی حسین ساگر جھیل میں ہندو تنظیموں کو اس برس وسرجن یعنی مورتیوں کی غرقابی کی مشروط اجازت دے دی ہے۔ اس سے قبل آلودگی کے خطرے کی بنیاد پر عدالت نے اس پر پابندی عائد کردی تھی۔ چونکہ ریاستی حکومت نے اس برس پابندی پر عمل کرنے میں معذوری ظاہر کی تھی اس لیے مشروط اجازت دی گئی ہے۔ حکومت کا کہنا تھا کہ اس پرعمل سے تشدد بھڑکنے کا خدشہ ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ حسین ساگر میں وسرجن کی اجازت صرف اسی برس کے لیے ہوگی ۔ آئندہ سال سے کسی قیمت پراس کی اجازت نہیں دی جائیگی- بی جے پی اور اسکی حلیف ہندو نظریاتی تنظیموں نےعدالت کےاس فیصلے پر خوشی ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ مستقبل میں بھی وہ حسین ساگر میں ہی وسرجن کریں گے۔ ہندو تنظیمیں گنیش پوجا کا تہوار بڑی دھو دھام سے مناتی ہیں ۔ اس موقع پر وہ حیدرآباد کو ’بھاگیہ نگر‘ اور حسین ساگر کو’ونایک ساگر‘ کا نام دیتی ہیں۔ اس طرح کے رویئے نے اس جلوس کو ایک فرقہ وارنہ رنگ دے دیا ہے۔ کولڈ ڈرکنز کی فروخت میں کمی ملک میں کولڈ ڈرنکز کے خلاف جو آوازیں اٹھی ہیں اس سے جنوبی ہند بھی اچھوتا نہیں رہا ہے۔ کیرالا نے اس پر مکمل پابندی عائد کردی ہے جب کہ کرناٹک اور آندھرا پردیش نے جزوی پابندی لگائی ہے۔ آندھرا پردیش کے ایک ریاستی وزیر کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومتوں کو سافٹ ڈرنکز پر پابندی عائد کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ایسا کوئی بھی فیصلہ مرکزی حکومت ہی کرسکتی ہے۔ لیکن رائے عامہ کو مطمئن کرنے کے لیے حکومت نے سرکاری ہسپتالوں، سکولوں، کالجوں اور تمام دوسرے سرکاری اداروں میں سافٹ ڈرنکز کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی ہے۔گزشتہ دنوں اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ سافٹ ڈرنکز میں زہریلے مادے پائے جاتے ہیں۔ ایک غیر سرکاری ادارے کی رپورٹ کے بعد سافٹ ڈرنکز کے کار و بار کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ ان مشروبات کی فروخت میں دس سے پندرہ فیصد کی کمی آئی ہے۔ |
080316_delhi_diary_awa | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/03/080316_delhi_diary_awa | قرضوں کی معافی، مسلمانوں کے زخم | انتخابات کی تیاریاں | اس برس دلی، مہاراشٹر، کرناٹک، راجستھان، اور مدھیہ پردیش سمیت کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہيں۔ آئندہ برس پارلیمنٹ کے انتخابات ہونے والے ہيں۔ جس طرح کے حالات ہيں ایسا لگتا ہے کہ پارلیمانی انتخابات جلد ہی ہونے والے ہیں۔ منموہن سنگھ کی حکومت کافی پریشان ہے۔ یہ انتخابی برس ہے لیکن تمام کوششوں کے باوجود مہنگائی قابو میں نہيں آرہی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ حکومت کسانوں کے ساٹھ ہزار کروڑ روپیے معاف کرنے کے بعد اب کپڑے کی صنعت سے منسلک بنکروں کے قرض معاف کرنے کا موڈ بنارہی ہے۔ حکومت سرکاری ملازمین کو خوش کرنے کے لیے بھی اس ہفتے کسی بھی وقت تنخواہوں میں تقریبا بائیس فیصد اضافے کا اعلان کرے گی۔ مسلمانوں کے زخم بھر گیے انہوں نے کہا کہ وہ مسلمانوں کے زخم بھرنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے جو بار بار فسادات کا ذکر کر کے زخموں کو تازہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسرے مذہب کے احترام کے لیے گوشت مت کھائیے گجرات حکومت نے جین مذہب کے پریوشن تہوار کے دوران نو دنوں کے لیے مذبخ خانوں میں جانوروں کے ذبیح پر یہ کہہ کر پابندی لگادی تھی کہ اس کا مقصد جین مذہب کے تیئں احترام کا اظہار کرنا ہے۔ لیکن گوشت فرختوں کی ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے کاروبار کرنے کے ان کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور انہيں مالی نقصان پہنچے گا۔ عدالت کا کہنا ہے تھا کہ ہندوستان ایک کثیر ثقافتی ملک ہے اور اس طرح کا قدم جائز ہے۔ جین مذہب کے پیروکار گوشت نہیں کھاتے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد دوسری ریاستیں بھی مختلف مذہبی تہواروں کے نام پر گوشت کی فروخت پر پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں۔ کامن ویلتھ گیمز سے دلی کا فائدہ گیمز سے پہلے دارالحکومت دلی کی سڑکیں بین لااقوامی میعار کی بنائي جائیں گی۔سڑکوں پر روشنی کا بہتر انتظام ہوگا۔ بجلی اور پانی کی سپلائی کے لیے نئے نئے انتظامات کیے جارہے ہیں۔ شہر کی بہتر امیج دکھانے کے لیے دارالحکومت سے ہزاروں بھکاریوں کو یہاں سے ہٹا دیا جائے گا۔ میونسپل کارپوریشن شہر کو صاف رکھنے کے لیے ایک نیا ضابطہ نافذ کرنے جارہی ہے جس کے تحت گندگی پھیلانے، تھوکنے، سڑک کے کنارے پیشاب کرنے، گھرکے باہر برتن کپڑے دھونے پر موقع پر ہی دو سو روپیے کا جرمانہ کیا جائے گا۔ باہر نہانے، پاخانہ کرنے پر سو روپیے اور پالتو جانوروں کی گندگی پر پانچ سو روپیے کا جرمانہ ہوگا۔ کارپوریشن اس ضابطے کے نفاذ کے لیے سینکڑوں افسروں کو تعینات کرنے والی ہے۔ اڈوانی کی کتاب میں دلچسپ حقائق اس سوانحی کتاب میں اڈوانی نے واجپئی سے اپنے تعلقات، بی جے پی کی حکومت کے ایام، کرگل کی لڑائي، پارلیمنٹ پر حملے اور محمد علی جناح کو سیکولر کہنے کے تنازعہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ایل کے اڈوانی آئندہ پارلیمانی انتخابات میں متحدہ حزب اختلاف کے وزارت عظٰمی کے امیدوار ہیں اور باور کیا جاتا ہے کہ یہ کتاب انہوں نے اپنی شبیہ بہتر کرنے کے لیے لکھی ہے۔ |
030908_pak_net_craze | https://www.bbc.com/urdu/science/story/2003/09/030908_pak_net_craze | پاکستان:’نیٹ کے جیالے‘ | تحریر: عاطف خان، کراچی | صبح کے سات بجے ہیں اور ڈاکٹر درِنجف کو ایک نئے دن کا سامنا ہے۔ ایک کامیاب گائناکالوجسٹ کا دن کیسا ہو سکتا ہے؟ لوگوں کے لئے خوش خبریاں مگر اس کے اپنے لئے مصرفیات سے بھرا ایک اور دن مگر ساری مصروفیات سے پہلے، حتٰی کے چائے کے ایک کپ سے پہلے، اس کے لئے اپنے آن لائن دوستوں کو ہیلو کہنا لازمی ہے۔ ڈاکٹر درِنجف پاکستان کے ان بیس یا پچیس لاکھ لوگوں میں سے ایک ہیں جو گزشتہ سالوں میں بےتحاشہ بڑھتے ہوئے Net craze کا شکار ہیں۔ان کے لئے مقررہ وقت پر اپنے آن لائن عزیزوں سے ملنا شاید مریضوں سےملنے سے کم نہیں ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کا یہ رجحان آج سے تقریباًسات سال پہلے اس تک خاص و عام کی رسائی سے شروع ہوا۔ ایک دور تھا جب Yahoo ایک مضحکہ خیزلفظ سنائی دیتا تھا مگر آج پاکستان کی پہلی انٹرنیٹ جنریشن پر اکیسویں صدی کا سورج طلوع ہوچکا ہے۔ MP3s کی surfing سے لے کر نئے سافٹ ویئر کے Beta version کی downloading تک پاکستانی نیٹ صارفین کا شوق دیوانگی کی حد تک پہنچ چکا ہے جس کی وجہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی قیمتوں میں کمی بھی ہے۔ مثال کے طور پر عمر جو کہ ایک کالج کے طالب علم ہیں، کہتے ہیں کہ زندگی کمپیوٹر کے بغیر بے رنگ ہے۔ وہ دن کے آٹھ گھنٹے اپنے کمپیوٹر کے سامنے گزارتے ہیں اور جب پڑھائی نہ ہو تو وقت کا کسے اندازہ رہتا ہے۔ عمر Ineshh, Kaaza اور Winamex سے گانے ڈاؤن لوڈ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میرا کمپیوٹر میرے لئے ایک بھائی کی طرح ہے۔ اگر یہ اور انٹرنیٹ میرے پاس ہوں تو دوست نہ ہونے کے باوجود مجھے کبھی اکیلے پن کا احساس تک نہیں ہوتا۔‘ پاکستان میں انٹرنیٹ کا استعمال تین قسم کا ہے: تفریحی، تعلیمی اور تخلیقی و معاشی۔ MP3s ڈاؤن لوڈ کرنے سے لے کر عزیزوں سے چیٹ کرنا اور نئے دوستوں کی تلاش تک، تخلیقی و معاشی مصروفیات مثلاً نئے سافٹ ویئر کے اجراء اور newsalert اور تعلیمی سرگرمیاں مثلاً مطالعے کا مواد اور بیرونی ممالک کی یونیورسٹیوں کے داخلہ فارم وغیرہ کی ڈاؤن لوڈنگ پر محیط ہیں۔ ہر شعبہ کی طرح تعلیم کے شعبہ میں بھی انٹرنیٹ بے حد اہمیت کا حامل ہے مثلاً ایاز جو بی بی اے کے طالب علم ہیں، اعلٰی تعلیم کے حصول کے لئے انٹرنیٹ کی مدد سے مختلف یونیورسٹیوں کے داخلہ فارم ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں اور مختلف شعبوں کے سربراہان اور پروفیسروں سے رابطہ کرتے ہیں۔ ان کے بقول انٹرنیٹ ان کے لئے اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا مچھلی کے لئے پانی۔ ایاز کا کہنا کہ پڑھائی کے دوران انٹرنیٹ کتابوں سے بڑھ کر مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ دوسری طرف عمر جیسے لوگوں کے لئے انٹرنیٹ تعلیمی سرگرمیوں میں صرف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ساتھ رابطہ رکھنے تک محدود ہے۔ تعلیمی سرگرمیوں میں اہمیت کے باوجود پاکستان میں انٹرنیٹ کی شہرت کی وجہ چیٹ اور بالخصوص ’پیار کی تلاش‘ ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ Yahoo, Msn اور AoL سے لے کر MIRC تک ہر کوئی ’پرفیکٹ میچ‘ کی تلاش میں سرگرداں نظر آتا ہے۔ گزشتہ دور میں ’کس کو پیار کروں؟‘ کی دہائی دینے والے آج ’کس کس کو پیار کروں؟‘ کی الجھنوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگ اس ضمن میں ناامید دیکھائی دیتے ہیں مگر یاد رہے کہ پیار نہ ملنے کا مطلب ہرگز نہیں کہ cyber space میں پیار نہیں ہے۔ ڈاکٹر درِنجف آن لائن پیار کی پرزور حامی ہیں چونکہ انہوں نے نہ صرف اپنی زندگی کا پیار آن لائن پایا بلکہ ہمیشہ کے لئے اسے اپنا بھی لیا۔ اور اب وہ Internet addict ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب بیوی اور بہو بھی ہیں۔ آن لائن محبت میں ناکامی کے باوجود چیٹ پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں رہنے والے نئے لوگوں سے ملنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ایاز کا کہنا ہے کہ ’گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد ساری دنیا ہمارے خلاف ہو گئی ہے۔ میں دوسرے ملکوں میں رہنے والے لوگوں سے online بات کرتا ہوں اور انہیں اپنا نقطۂ نظر سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں اپنے آپ کو امن کا سفیر سمجھ کر اپنے ملک (پاکستان) کی حفاظت کی کوشش کرتا ہوں۔‘ عالیہ جو ایڈورٹائزنگ کے شعبہ سے وابسطہ ہیں کہتی ہیں کہ انٹرنیٹ کا استعمال بالخصوص چیٹ کرنا نوجوانوں میں اکیلے پن یا سماج سے الگ تھلگ ہونے کا باعث بن رہا ہے اور یہ ایک صحت مند رجحان قطعی نہیں ہے۔ عالیہ اور ان جیسے کئی ماننے والوں کے اعتراض کے باوجود یہ انٹرنیٹ ہی ہے جس کی بدولت آج پاکستانی اور ان کے دور دوراز مقیم عزیز ایک دوسرے سے صرف ایک کلِک کے فاصلے پر ہیں۔ پاکستانی سائبر کیفے، دفتروں اور گھروں میں کمپیوٹر کے گرد جمع ہوتا یہ ہجوم سوچنے والوں کے لئے ایک لمحۂ فکریہ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ وہ عشق ہے جس کی نہ دوا ہے اور نہ ہی کوئی مرکزِ بحالی rehabilitation centre، مگر پھر کسی عاشق کو ایسی کسی دوا کی تلاش بھی تو نہیں۔ |
040103_saarcdiary_talia_daytwo | https://www.bbc.com/urdu/interactivity/blog/story/2004/01/040103_saarcdiary_talia_daytwo | سارک ڈائری: عوامی کانفرنس کی ترجیحات | جنوری تین: پاکستانی کباب | آج میں راولپنڈی گئی، پہلی بار احساس ہوا کہ اسلام آباد کتنا ڈل ہے۔ راولپنڈی میں زندگی کی رونق ہے، سڑکوں پر عام آدمی ہیں، ہرطرف گہما گہمی ہے، لوگ موٹر سائکل سے جارہے ہیں، سڑکوں پر بسیں، تانگے دکھائی دیے، بازار دیکھا۔ جبکہ اسلام آباد میں صرف بڑی بڑی عمارتیں، خوبصورت کاریں، اور چاروں طرف فوجی موجود ہیں۔ غیرسرکاری اداروں کے ہمارے اجلاس میں آج سارک ممالک کے درمیان ویزہ کی ضرورت ختم کرنے کی افادیت پر بات ہوئی۔ ہمارے ساتھیوں کا خیال تھا کہ سارک حکومتیں اس سمت میں قدم اٹھائیں اور پورٹ آف اِنٹری جیسے ہوائی اڈوں پر پہنچنے پر ان ملکوں کے لوگوں کو ویزہ دینے کی سہولت فراہم کی جائے۔ ہندوستان سے آئے ہوئے ہمارے ساتھی نے بتایا کہ انہیں ویزہ ملنے میں کتنی پریشانیاں ہوئیں جس کی وجہ سے وہ دیر سے پہنچے۔ میں آج پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں شریک ہوئی جس میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازعات پر بات چیت ہوئی۔ ہمارا خیال تھا کہ کشمیر کی بنیادی وجہ سے سارک علاقائی تعاون کے عمل میں پیش رفت نہیں ہورہی ہے اور اسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں ہم لوگوں نے کہا ہے کہ دہشت گردی کا لفظ کشمیر کے حوالے سے استعمال نہ کیا جائے، دہشت گردی کی صرف امریکی تشریح قبول نہیں کی جانی چاہئے۔ ہم نے دہشت گردی پر اضافی معاہدے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ ہمارے ساتھیوں نے ایک قرارداد منظور کی جس میں ہم نے سارک ممالک سے غیرقانونی چھوٹے ہتھیاروں کا خاتمہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں چھوٹے ہتھیاروں کی موجودگی کی وجہ سے عام فرد کو تشدد کرنے کا حوصلہ مل جاتا ہے۔ ہم نے اسے دہشت گردی کی بنیادی وجہ قرار دیا۔ ہم لوگوں نے سافتا یعنی آزادانہ تجارت کے معاہدے کی حمایت کی لیکن ہم نے اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ اس میں خواتین مزدوروں کے لئے خصوصی امداد فراہم کی جائے۔ نیپال، بنگلہ دیش، مالدیپ، انڈیا، پاکستان کے نمائندوں نے سارک ممالک میں مزدوروں کے لئے یکساں حقوق کی افادیت پر زوردیا۔ مالدیپ کے ہمارے ساتھی کا خیال تھا کہ اس سے ان کے یہاں بعض سماجی مسائل کا ازالہ ہوسکتا ہے۔ نیپال کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ سارک میں ہندوستان اور پاکستان پر توجہ کی وجہ سے ان کے اقتصادی مسائل پر کوئی بات نہیں کرتا اور انہیں سفارتی اور اقتصادی طور پر نظر انداز کیا جارہا ہے، صرف اس لئے کہ نیپال ایک چھوٹا ملک ہے۔ ہمارا عوامی اجلاس کل بھی جاری رہے گا۔ آج کے دن ہم نے کافی مسائل پر روشنی ڈالی۔ کھانے پینے کا اچھا انتظام تھا، شام کا کھانا اچھا ملا، بالخصوص پاکستانی کباب جو مجھے بنگلہ دیش میں نہیں ملتا۔ دو جنوری: عوامی ضرورت ہم ڈھاکہ سے چار لوگ سارک سربراہی کانفرنس کے ساتھ ساتھ غیرسرکاری اداروں کی جانب سے منعقد کی جانیوالی عوامی اجلاس میں شرکت کے لئے اسلام آباد پہنچے، کُل سولہ گھنٹے لگے کیونکہ براہ راست کوئی پرواز نہیں تھی۔ اس لئے ہم نے پہلی بات سارک ممالک کے اندر براہ راست پرواز کی ضرورت پر کی۔ ہندوستان، نیپال، سری لنکا اور دیگر سارک ممالک سے غیرسرکاری اداروں کے کارکن اس عوامی کانفرنس میں شرکت کررہے ہیں۔ سب کا یہی مسئلہ تھا، براہ راست فلائٹ کا نہ ہونا۔ یہ چوتھی پیپلز سمِٹ ہے۔ جو دوجنوری سے چار جنوری تک منعقد ہورہی ہے۔ اس سے قبل تین عوامی اجلاس کولمبو، دہلی، اور اسلام آباد میں ہوئے ہیں۔ پاکستان کا یہ میرا پہلا سفر نہیں ہے، لیکن اسلام آباد پہلی بار آئی ہوں۔ کافی کھلی جگہ ہے، ڈھاکہ میں کافی بھیڑ ہوتی ہے۔ یہاں آنے کے بعد تھوڑا سکون محسوس ہوا۔ یکم جنوری کو یہاں ہمارے ساؤتھ ایشیا پارٹنرشِپ کے ساتھیوں نے ہمیں خوش آمدید کیا۔ یکم جنوری کو ہم لوگوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جہاں ہم نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ہم سارک ممالک کے لوگوں سے مل رہے ہیں جبکہ سارک سربراہی اجلاس میں ان ممالک کے رہنما عوام سے نہیں صرف رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔ مجھے تعجب ہوا کہ کسی بھی صحافی نے اس پریس کانفرنس کے دوران عوامی اجلاس یعنی پیپلز سمِٹ میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ اسلام آباد کے پبلِک لائبریری آڈوٹیریم میں دو جنوری کو ہمارے سہ روزہ عوامی اجلاس کا افتتاح ہوا۔ نیپال، سری لنکا، ہندوستان، پاکستان کے نمائندوں نے ان ملکوں کے رہنماؤں پر عوام کی ضروریات کو واضح کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انڈیا سے جو کارکن آئے ہوئے ہیں انہوں نے معذرت کی کہ وہ گزشتہ عوامی اجلاس میں وہ شریک نہیں ہوسکے تھے، کیونکہ اسلام آباد میں سارک کا سربراہی اجلاس ہندوستان پاکستان کشیدگی کی وجہ سے نہیں ہو سکا تھا لیکن عوامی اجلاس ہوا تھا۔ اس سال عوامی اجلاس میں غیرسرکاری اداروں کے دو سو سے زائد کارکن شامل ہوئے ہیں۔ صرف بھوٹان سے کوئی نمائندہ نہیں آیا۔ سارک سربراہی اجلاس کی مناسبت سے ہم عوام کے مسائل پر بات کررہے ہیں، ان سبھی ملکوں میں عوام کے مسائل ایک ہی جیسے ہیں۔ اور پہلے روز ہم نے اس بات کی ضرورت پر زوردیا کہ سبھی ملکوں میں ایک عوامی تنظیم قائم کی جائے جو باضابطگی سے عوام کی ضروریات کو ملکی رہنماؤں پر واضح کرے۔ نوٹ: طالیہ رحمان ڈھاکہ میں غیرسرکاری تنظیم ڈیموکریسی واچ کی سربراہ ہیں اور وہ روزانہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے لئے ڈائری لکھ رہی ہیں۔ سارک اجلاس کے بارے میں آپ بھی اپنی رائے ہمیں لکھ کر بھیج سکتے ہیں۔ |
040126_whoiswho_hutton_si | https://www.bbc.com/urdu/indepth/story/2004/01/040126_whoiswho_hutton_si | ہٹن انکوائری میں کون کیا؟ | ٹونی بلیئر | ہٹن انکوائری کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو پہنچ سکتا ہے۔ ان پر الزام تھا کہ وہ عراقی ہتھیاروں سے متعلق خفیہ اداروں کی رپورٹ پر اثرانداز ہوئے ہیں اور انہوں نے رپورٹ میں ردو بدل کروایا ہے۔ ہٹن انکوائری کے سامنے اپنے بیان میں ٹونی بلیئر نے اس الزام کو ’مکمل طور پر لغو‘ قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر یہ بات ٹھیک ہوتی تو اس بات پر انہیں استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ الیسٹر کیمبل الیسٹر کیمبل کو بجا طور پر ہٹن انکوائری کا مرکزی کردار قرار دیا جا سکتا ہے۔ بی بی سی کے صحافی اینڈریو گیلیگن کی رپورٹ میں ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ ڈاؤننگ سٹریٹ نے، جہاں الیسٹر کیمبل اطلاعات کے شعبے کے انچارج تھے، عراق کے وسیع تباہی کے ہتھیاروں سے متعلق حکومت کی دستاویز کو زیادہ پراثر بنانے کے لئے اس میں ردو بدل کیا۔ یہی بات حکومت اور بی بی سی کے مابین تنازعے کا باعث بنی۔ گریگ ڈائیک بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے گریگ ڈائیک پر کارپوریشن کی طرف سے پیش کئے گئے تمام پروگراموں کے اچھا یا برا ہونے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگرچہ اینڈریو گیلیگن کی خبر کے نشر ہونے کے وقت گریگ ڈائیک چھٹیوں پر تھے لیکن انہوں نے اس وقت بی بی سی کے نیوز کے شعبے کے سربراہ رچرڈ سیمبروک کی حمایت کی تھی جب حکومت کی طرف سے اینڈریو گیلیگن کی رپورٹ پر پے در پے حملے ہو رہے تھے۔ ہٹن انکوائری میں اپنے بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کے خیال میں حکومت کی طرف سے بی بی سی پر کئے جانے والے حملے ایک منصوبے کا حصہ تھے جس کا بنیادی مقصد پرانے حساب چکانا تھا۔ اینڈریو گلیگن اینڈریو گلیگن کی اٹھائیس مئی کو ریڈیو فور کے ٹوڈے پروگرام میں نشر ہونی والی رپورٹ ہی حکومت اور بی بی سی کے درمیان تنازعے کا باعث بنی۔ اس رپورٹ میں اینڈریو گلیگن نے دعویٰ کیا تھا کہ خفیہ اداروں کے ایک سینیئر ذریعہ نے انہیں بتایا ہے کہ خفیہ اداروں کے اہلکار عراق کے وسیع تباہی کے ہتھیاروں پر حکومتی دستاویز کے مندرجات سے خوش نہیں ہیں، خاص طور پر اس نقطے پر جس میں کہا گیا ہے کہ عراق پینتالیس منٹ کے اندر ہتھیار تیار کرکے استعمال کر سکتا ہے۔ بعد میں اپنے ایک اخباری مضمون میں انہوں نے دستاویز میں ردوبدل کرنے کا الزام الیسٹر کیمبل پر لگایا۔ جیف ہون سیکرٹری دفاع جیف ہون نے شروع میں اپنے محکمے کی طرف سے ڈاکٹر کیلی کا نام افشا کرنے سے متعلق اٹھائے جانے والے متعدد اقدامات سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔ لیکن بعد میں انہوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ ڈاکٹر کیلی کا نام منظر عام پر لانے سے متعلق اٹھائے جانے والے اقدامات میں ملوث تھے۔ ان اقدامات میں محمکہ دفاع کے پریس آفس کی طرف سے اخبار نویسوں کے سوالوں کے جواب میں ڈاکٹر کیلی کے اینڈریو گیلیگن کے ذریعہ ہونے کی تصدیق بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر کیلی محمکہ دفاع میں ہردلعزیر اور احترام کی نظر سے دیکھے جانے والے ڈاکٹر کیلی غالباً برطانیہ میں جراثیمی ہتھیاروں پر سب سے زیادہ علم رکھنے والے ماہر تھے۔ وہ اقوام متحدہ کے اسلحہ کے معائنہ کار کی حیثیت سے بھی کام کر چکے تھے اور اپنے اسی تجربے کی بنیاد پر انہوں نے عراق ہتھیاروں پر حکومتی دستاویز کی تیاری میں حصہ لیا تھا۔ ہٹن انکوائری سے متعلق دیگر اہم شخصیات میں بی بی سی کے بورڈ آف گورنر کے صدرنشین گیون ڈیوس، ڈاکٹر کیلی کی بیوہ جانیس کیلی، بی بی سی کے نیوز کے شعبے کے سربراہ رچرڈ سیمبروک، جوائنٹ انٹیلیجنس کمیٹی کے چیئرمین جان سکارلٹ، بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ کے سائنس کے شعبے کی ایڈیٹر سوزن واٹس اور خود لارڈ ہٹن شامل ہیں۔ |
pakistan-37526067 | https://www.bbc.com/urdu/pakistan-37526067 | ’کون سا میڈیا ہاؤس جنگ لائیو نشر کرے گا؟' | انڈین جرنیلوں کا اجلاس | ’انڈین ریٹائرڈ جرنیلوں کو بتایا گیا کہ وہ میڈیا پر کیا بولیں گے اور اخباری مضامین میں کیا لائن لیں گے‘ سوشلستان پر جنگ کا بخار کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا اور اب تو یہ بات اظہر من الشمس ہوتی جا رہی ہے کہ سرحدوں پر جنگ ہو نا ہو میڈیا پر زوروشور سے جاری ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اس ہفتے سوشل میڈیائی اور روایتی میڈیا کے سپاہی اور جرنیل کیا کرتے رہے ہیں۔ اب جنگی صورتحال ہو تو جرنیلوں کا اجلاس ہونا معمولی کی بات نہیں مگر بھارتی صحافی راہول کنول کے مطابق انڈین فوج کے سربراہ نے سینئر ریٹائرڈ جرنیلوں کا اجلاس طلب کیا جس میں یہ طے کیا جائے کہ یہ جرنیل میڈیا پر کیا بولیں گے اور اخباری مضامین میں کیا لائن لیں گے۔ انڈین ویب سائٹ سکرول ان کے ایڈیٹر روہان وینکٹ نے لکھا کہ 'صحافت قوم پرستی کی تنگ نظری میں پھنس گئی ہے۔' زویا طارق کا کہنا تھا کہ 'جنگ کے طبل بجانے والے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے لوگوں کو تحقیق کرنی چاہیے کہ جنگیں کتنی تباہی کُن ہوتی ہیں خصوصاً ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگیں۔' حنا جو گستاخ کے نام سے ٹویٹ کرتی ہیں نے سوال پوچھا کہ 'کس میڈیا ہاؤس کو جنگ براہِ راست نشر کرنے کے حقوق ملیں گے؟ اس میں کس اینکر کا لیڈ رول ہو گا؟' مگر اس ساری صورتحال میں پاکستانی اور انڈین میڈیا کے لیے جو سب سے بڑا لمحہ فکریہ ہے وہ یہ ہے کہ کتنے لوگ ہیں جو حقیقت میں اس کی نشریات پر اعتبار کرتے ہیں؟ نقوی نے لکھا کہ ’انڈیا اور پاکستان میں ایسا کوئی ایک بھی میڈیا کا ادارہ نہیں ہے جس پر آپ اب اچھی اور غیر جانبدارنہ معلومات حاصل کر سکیں۔' اور اگر غور کیا جائے تو یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے کیونکہ لوگ اعتبار کریں تو کس پر کریں؟ کیونکہ فرحان حسین کے بقول 'آخر کوئی کیوں جوہری تنازع چاہے گا جو انہیں ہلاک کرے سوائے اس کے کہ وہ خودکشی پر آمادہ ہو۔ اس صورت میں اسے ایک ڈاکٹر کی ضرورت ہے جنگ کی نہیں۔' کسے فالو کریں؟ اس ہفتے بات کرتے ہیں خواتین کامیڈینزکی خصوصاً اردو میں کامیڈی کرتی ہیں۔ خواٹونز ایسا ہی ایک گروپ ہے جس میں شامل خواتین مزاح کی حدود کو نا صرف چیلنج کر رہی ہیں بلکہ ایسے موضوعات پر بھی بات کر رہی ہیں جن پر عام طور پر بات نہیں کی جاتی۔ خواٹونز کو آپ اس فیس بُک پیج پر فالو کر سکتے ہیں۔ اس ہفتے کی تصویر ماحولیات کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے یہ انسٹالیشن بنائی گلگت بلتستان میں سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے آلودگی اور گندگی میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کی جانب توجہ مبذول کروانے کے لیے ہنزہ کے چند ماحولیات کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے یہ انسٹالیشن بنائی ہے۔ تصویر بشکریە پامیر ٹائمز نایاب بی بی کے ریو پیرالمپکس میں تمغہ لینے کے بارے میں عمران خان نے ٹویٹ کی بہت چھان پھٹک کے باوجود ریو پیرالمپکس کے تمغوں کی فہرست میں نایاب بی بی جن کے بارے میں عمران خان نے ٹویٹ کی ان کا نام نہیں ملا۔ |
070728_bbmush_kashif_si | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/07/070728_bbmush_kashif_si | بینظیر مشرف ملاقات اور پاکستانی سیاست | شاعر نےکہا تھا: | اورکھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں شاعر کے ذہن میں تو جانے کس کا نقشہ ہو، ان دنوں پاکستان کے فوجی صدر جنرل مشرف اور بینظیر بھٹو پر یہ شعر ضرور صادق آتا ہے۔ عشق کی مانند سیاست میں دو کشتیوں کی سواری بھی زیادہ دیر نہیں چھپتی اور بالآخر یہی کچھ پاکستان میں’اعتدال پسندی‘ کے دو بڑے علمبرداروں کے ساتھ ہوا ہے اور تمام تردیدوں کے باوجود ابو ظہبی میں دونوں کی ملاقات کسی طور چھپائے نہ چھپی۔ بالفرض محال یہ مان بھی لیں کہ ملاقات نہ ہوئی تو بھی جنرل مشرف ہوں یا بینظیر، اب تک کے اپنے حلیفوں کو یہ بات باور نہیں کراپائیں گے اور کوئی سمجھوتہ نہ ہونےکی صورت میں بھی دونوں کے یہ ہمراہی تو ساتھ دینےسے تو رہے۔ دیکھا جائے تو یہ ملاقات وقت گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے جیسی محسوس ہوتی ہے۔ دونوں کے لیے شائد اس ملاقات کا وقت نو مارچ کو گزرچکا ہے۔ نو مارچ کو چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے پہلے تک جنرل مشرف ملک میں سیاسی لحاظ سے نہایت مضبوط دکھائی دیتے تھے اور موجودہ اسمبلیوں سے ان کے انتخاب کی راہ میں بظاہر کوئی چیز حائل نہیں تھی۔ لیکن پھرجنرل مشرف اپنےمستقبل کو ہرشک و شبہےسےبالاتررکھنے کومطلوبہ حد تک فرمانبردار ایک چیف جسٹس کی تلاش میں ریفرنس دائر کرتے ہیں۔ نو مارچ تک سمجھوتہ جنرل مشرف سے زیادہ بینظیر بھٹو کی ضرورت تھا اور اسی لیےجنرل مشرف کی جانب سےکسی لچک کامظاہرہ بھی نہیں ہوا تھا۔ لیکن نومارچ کے بعد یہ سمجھوتہ جنرل مشرف کی بھی ایک بڑی ضرورت بن چکا تھا۔ نو مارچ سے انیس جولائی تک فریقین میں شائد گفتگو تو بہت رہی لیکن سمجھوتےکی بیل منڈھے یوں نہ چڑھی کہ ریفرنس پرچیف جسٹس کی غیرمتوقع جرات مندی سےپیداہونےوالی وکلاء کی تحریک نےجہاں دیدہ بینظیر پر بھی جنرل مشرف کی حاجت مندی آشکارکردی تھی اورایسےمیں نہ صرف ان کے مطالبات بڑھ گئے تھے بلکہ فریق مخالف کے مطالبات کا پاس بھی کم رہ گیا تھا۔ دونوں فریق انیس جولائی تک کوئی معاہدہ کرلیتے تو کرلیتے، اب ایسا کوئی سمجھوتہ دونوں کے لیے ناممکن نہیں تو اس سے کم بھی نہیں اور ابوظہبی کی تازہ ترین سیاسی مہم جوئی نے یہ بات واضح بھی کردی ہے۔ ساتھ ہی اب نوبت یہ بھی آگئی ہے کہ قائداعظم لیگ کے ارکان صاف صاف کہنے لگے ہیں کہ وہ جنرل مشرف کو یہ جانتے ہوئے کیسے دوسری مدت کے لیے منتخب کرادیں کہ وہ منتخب ہوتے ہی اسمبلییوں کی چھٹی کردیں گے اور انتخابات میں جنرل مشرف کی حمایت ان کو منتخب کرانے والے ارکان کے لیے عوام کے سامنےکسی گالی اور اسکینڈل سے کم نہیں ہوگی۔ ایسے میں جنرل مشرف کو بلاشبہ نئے سیاسی سہارے کی ضرورت ہے اور بینظیر کو بھی اقتدارکاہما اپنےسر پربٹھانے کےلیے جی ایچ کیو کی آشیرباد چاہیے تھی۔ لیکن بیس جولائی کے بعد تو صورتحال بالکل ہی بدل چکی ہے۔ اب جنرل مشرف صدارتی انتخاب کے لیے نہ تو قائداعظم لیگ کے کندھے کا سہارا لے سکتے ہیں نہ ہی شاید اب وہ کندھا انہیں بھرپور سہارا دے سکے۔ لیکن اب کیا ہو۔ خبریں یہ ہیں کہ ابوظہبی مذاکرات کی تان جنرل مشرف کی وردی پر آکر ٹوٹی کہ بینظیر انہیں باوردی صدر بنانے پر راضی نہیں اور جنرل مشرف وردی کو پہلے ہی اپنی کھال قرار دے چکے ہیں کہ جو اتاری نہیں جاسکتی۔ جنرل مشرف دوبارہ انتخاب سے پہلے وردی اتارنےکا خطرہ مول نہیں لے سکتے اور بینظیر بھٹو وردی میں انہیں منتخب کراکے نہ تو ترپ کے پتے سے محروم ہونا چاہتی ہیں نہ ہی اس کے عوامی اثرات کی ذلت کھلے بندوں اٹھانے پر تیار ہیں۔ تاہم اس ممکنہ سمجھوتے کی اور بھی مشکلات ہیں۔ قائداعظم مسلم لیگ کےبہت سےارکان اسمبلی ایسےہیں جن کےلیے بوجوہ پیپلز پارٹی کےساتھ شراکت ممکن نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی بھی سیٹ سےاسمبلی کاٹکٹ ایک پارٹی ایک ہی کو دے سکتی ہے اور سیاسی مخالف کو اپنی پارٹی کا ٹکٹ ملنے کی صورت میں ناراض رکن کا پڑاؤ مخالف پارٹی میں ہی ہونا ہے۔ پنجاب کی عددی اکثریت کے تناظر میں جنرل مشرف سے بینظیر کا کوئی بھی سمجھوتہ اگر سندھ میں نعمت ہوگا تو اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ یہی سمجھوتہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے لیے گالی اور زحمت اور مخالفین کے لیے آسمانی انعام بن جائے۔ پنجاب میں یہ صورتحال نواز مسلم لیگ کے لیے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا بھی بن سکتی ہے۔ کوئی بھی ممکنہ سمجھوتہ موجودہ سیاسی منظرنامے میں مولانا فضل الرحمٰن کی سودے بازی کی صلاحیت کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوگا اور ان کے لیے صرف دو راستے چھوڑے گا۔ اولاً ، وہ بینظیر اور جنرل مشرف کی ہمراہی اختیار کریں۔ لیکن اس کا انتہائی غیرمعمولی منفی اثر صوبہ سرحد میں ان کے ووٹروں پر ہوگا۔ یہ فیصلہ مجلس عمل کی ان کی ساتھی جماعت اسلامی بھی قبول نہیں کرے گے اور اتحاد کے ثمرات سے زیادہ نفاق کے کانٹے تقسیم شدہ ووٹوں کی صورت میں مولانا کے حصے میں آئیں گے۔ سونے پر سہاگہ، اسفندیار ولی اور محمود اچکزئی کا تازہ اتحاد بلوچستان میں بھی ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گا۔ ایسے میں جنرل مشرف کی ہمراہی مولانا کے لیے تقریباً شجر ممنوعہ ہی ہوگی۔ دوم، وہ نواز مسلم لیگ کے ساتھ چلیں جائیں۔ یہ صورت یقیناً صوبۂ سرحد ، بلوچستان اورپنجاب میں پیپلزپارٹی کی مشکلات میں اضافےکا ہی باعث ہوگی۔ اور اس سب پر مستزاد ، سمجھوتے اور مذاکرات کی یہ ساری بیل منڈھے چڑھ گئی تو بھی سارے انتظام پر ’نوآزاد سپریم کورٹ‘ کا کوئی بھی آئینی فیصلہ لوہار کی چوٹ ثابت ہوسکتا ہے۔ اب ایسے میں کون ایسا سیاسی احمق ہوگا جو جنرل مشرف کی ڈولتی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے اپنا آپ داؤ پر لگائے۔ جنرل مشرف چاہےاب کتنی ہی لکیرپیٹیں، بینظیربھٹواتنی نادان دکھائی نہیں دیتیں۔ |
060708_deccan_diary_na | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/07/060708_deccan_diary_na | مسلمانوں کے ادھورے خواب: دکن ڈائری | مسلمانوں کے ادھورے خواب | گزشتہ سال کی طرح اب کی بار بھی اعلٰی تعلیمی اداروں میں داخلوں میں پانچ فیصد مخصوص نشستوں سے فائدہ حاصل کرنے کے سلسلے میں آندھرا پردیش کے مسلمانوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کی درخواست کومسترد کردیا ہے۔ حکومت چاہتی تھی کہ اس تعلیمی سال بھی مسلمانوں کے لیئے پانچ فیصد سیٹیں مخصوص رکھی جائیں۔ گزشتہ سال ہائی کورٹ نے مسلمانوں کو پانچ فیصد ریزرویشن دینے سے متعلق ریاستی حکومت کے قانون کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ ریاستی حکومت نے ہائی کورٹ کے اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا یہ درخواست ابھی التوٰی میں پڑی ہے کیونکہ سپریم کورٹ کی دستوری بنچ ہی اس معاملے پر کوئی فیصلہ کرسکتی ہے۔ سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی دینے سے انکار کردیا۔ سپریم کورٹ کے انکار سے آندھرا پردیش کے مسلمانوں کو بہت صدمہ پہنچا ہے کیونکہ گزشتہ سال اس ریزرویشن کی بدولت انہیں میڈیکل کالجوں میں تقریبًا دو سو سیٹیں اور انجینئرنگ کالجوں میں تقریبًا چار ہزار سیٹیں ملی تھیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے حیدرآباد کے رکن پارلیمینٹ اسدالدین اویسی نے کہا کہ ریزرویشن کا فائدہ پہنچانے میں ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے حکومت مسلم طلباء کے تعلیمی اخراجات کا بوجھ خود برداشت کرے۔ دوسری طرف ریاست کے وزیر اقلیتی بہبود فریدالدین نے کہا کہ حکومت اس مسئلہ کے حل کے لیئے قانونی کارروائی کررہی ہے۔ آندھرا پردیش کی سیاست نے ایک بار پھر بڑی کروٹ لی ہے۔ مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے بعد ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی بھی اب تلگو دیشم کے صدر چندرا بابو نائیڈو سے ہاتھ ملانے کی تیاری کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ گزشتہ مہینے جس طرح نائیڈو اور سی پی آئی ایم کے جنرل سکریٹری پرکاش کرت کے درمیان ملاقات نے ایک نئی سیاسی صف بندی کی راہ ہموار کی تھی اسی طرح اب نائیڈو اور سی پی آئی کے جنرل سکریٹری اے بی بردھن کی ملاقات نے بھی کافی ہلچل مچادی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں ہی ملاقاتیں حیدرآباد کی ایک ممتاز شخصیت اور ایک اردو روزنامے رہنمائے دکن کے مدیر سید وقارالدین کی جانب سے دیئے گئے عشائیہ میں ہوئی۔ وقارالدین نہ صرف دونوں کمیونسٹ جماعتوں سے قریبی روابط رکھتے ہیں بلکہ وہ انہیں تلگو دیشم سے دوبارہ قریب کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں سیکولر طاقتوں کو مضبوط کرنے کے لیئے تلگو دیشم اور بائیں بازو کی جماعتوں کا قریب آنا ضروری ہے۔ جہاں ان واقعات سے تلگو دیشم کے حوصلے بلند ہوئے ہیں وہیں ریاست اور مرکز میں کانگریس سخت تشویش میں مبتلا ہوگئی ہے۔ تلگو دیشم اور بائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے اس کا ایک اشارہ اسی ہفتے ضلع پریشد کے انتخابات میں دیکھنے کو ملا جس میں ٹی ڈی پی ۔ سی پی آئی ایم اتحاد نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ حیدرآباد میں اہم یادگاروں اور عمارتوں کی فہرست میں ایک بڑا اضافہ ہونے والا ہے۔ نیویارک میں راک فیلر سنٹر اور لندن میں ملبوک ٹاور جیسی عمارتیں تعمیر کرنے والی امریکی کمپنی ٹشمین اسپریئر Tishman Spreyer پچاس ملین ڈالر یا دو سو پچیس کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے ایک بیس منزلہ آئی ٹی ٹاور تعمیر کرے گی۔ اس کے لیئے ریاستی حکومت نے شہر کے مضافات میں بارہ ایکڑ زمین اس کمپنی کو الاٹ کی ہے جس کے لیئے یہ کمپنی تقریبًا پچاس کروڑ روے ادا کرے گی۔ یہ شہر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر سافٹ ویئر کمپنیوں کا اب تک کا سب سے بڑا مرکز ہوگا۔ اس ٹاور میں کل ملا کر پندرہ لاکھ مربع فٹ کی گنجائش ہوگی اور تقریبًا سات ہزار افراد بیک وقت کام کرسکیں گے۔ ویسے اس وقت حیدرآباد میں ہائی ٹیک سٹی اور دوسرے بڑے مراکز میں تقریبًا ایک لاکھ پینسٹھ ہزار افراد برسرروزگار ہیں۔ |
070603_delhi_diary_rs | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/06/070603_delhi_diary_rs | دلی ڈائری: صدر کون، بدلتا وقت اور مایاوتی | نیا صدر کون | ہندوستان میں نئے صدر کے انتخاب کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعت بی جے پی موجودہ صدر اے پی جے عبدالکلام کو دوبارہ صدر بنانے کی خواہاں تھی لیکن کانگریس کی حمایت نہ ملنے کے بعد وہ نائب صدر بھیروں سنگھ شیخاوت کو صدر کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کا سوچ رہی ہے۔ ادھر کانگریس نے بھی اپنی پوزیشن واضح نہیں کی ہے۔ کانگریس کی طرف سے جو نام سامنے آ رہے ہیں ان میں وزیر خارجہ پرنب مکھرجی کا نام سب سے اوپر ہے لیکن اطلاعات ہیں کہ وہ صدر بننے کے بہت مشتاق نہیں ہیں۔ ڈاکٹر کرن سنگھ اور سشیل کمار شندے کے نام بھی لیے جارہے ہیں۔ ابھی سات آٹھ برس پہلے کی بات ہے کہ ہندوستان کو بھی بیشتر ترقی پزیر ملکوں کی طرح غیر ملکی زر مبادلہ کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ قرضوں کی ادائیگی اور درآمدات کے لیے غیر ملکی زرمبادلہ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پچھلے چند برسوں میں حالات تیزی سے بدل گئے ہیں۔ آج ہندوستان میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر دو سو بلین ڈالر کے قریب ہیں۔ ملک کی برآمدات میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ صرف اپریل میں دس ارب ڈالر کے سامان اور خدمات دوسرے ملکوں کو فروخت کیے گئے۔ اس برس برآمدات ڈیڑھ سو ارب ڈالر سے تجاوز کرنے کی توقع ہے۔ یہ ہڈیاں کس کی ہیں؟ گجرات کے جام نگر شہر میں لکھوٹیا جھیل سے گزشتہ دنوں انسانی ہڈیاں برآمد ہوئی ہیں۔ ان میں متعدد کھوپڑیاں، ہاتھ، پیر اور دیگر حصوں کی ہڈیاں شامل ہیں جن کی تعداد نوے کے قریب بتائی گئی ہے۔ پولیس نے تفتیش کے بعد بتایا کہ یہ ہڈیاں ان لاشوں کی ہیں جنہیں طبی تحقیق کے بعد جھیل میں پھینک دیا گیا۔ لیکن مقامی میڈیکل کالج نے اس کی تردید کی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ لاشیں کن لوگوں کی تھیں۔ دلی تعلیم کا ایک بڑا مرکز ہے۔ یہاں سکولوں سے لے کر یونیورسٹیز تک داخلہ ملنا خوش قسمتی سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کے سکولوں میں بچوں کی کارکردگی ملک گیر سطح پر بہت اچھی رہی ہے۔ گزشتہ دنوں دسویں اور بارہویں کے نتائج کا اعلان ہوا۔ ایک بار پھر دلی کے بچوں نے زبر دست کامیابی حاصل کی۔ لیکن اسی دلی کے اردو میڈیم سکولوں کی کارکردگی انتہائی بری رہی۔ دلی میں اردو میڈیم کے تقریباً بیس سکول ہیں اور یہاں بچوں کے پاس ہونے کا تناسب عموماً پچاس فیصد سے کم رہا ہے۔ گجرات میں گدھوں کی آبادی میں اضافے کے لیے کئی منصوبوں کے باوجود گدھوں کی تعداد تیزي سے کم ہو رہی ہے۔ پچھلے دنوں گجرات میں دو دن کی گدھ شماری کی گئی۔ سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہےکہ جونا گڈھ، بنس کانٹھا اور کچھ اضلاع میں گزشتہ برسوں میں گِدھوں کی تعداد آدھی سے بھی کم رہ گئی ہے اور کئی نسلیں تو معدوم بھی ہوگئی ہیں۔ مایاوتی کی مایااترپردیش میں اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعلیٰ مایاوتی نے اپنے حریف اور سابق وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو اور ان کے قریبی ساتھیوں کے خلاف کئی فیصلے کیے ہیں۔ ریاستی حکومت نے مسٹر یادو کے ساتھی امر سنگھ کی حفاظت پر تعینات حفاظتی عملہ بھی ہٹالیا ہے۔ مسٹر سنگھ کو انتہائی سخت ’زیڈ‘ زمرے کی سکیورٹی ملی ہوئی تھی۔ مسٹر سنگھ نے عدالت میں درخواست کی ہے کہ ان کی سکیورٹی واپس کی جائے لیکن مایاوتی کا کہنا ہےکہ مسٹر سنگھ کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور سکیورٹی صرف انہوں نے اپنی حیثیت بڑھانے کے لیے رکھی ہوئی تھی۔ |
071125_delhi_diary_ak | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/11/071125_delhi_diary_ak | مودی کی مخالفت، عبادت گاہوں کا بیمہ | بائیں بازو کا امتحان | ہندوستان میں غالبا بائیں بازو کی جماعتیں ہی ایسی سیاسی تنظیمیں رہی ہیں جن پر کبھی فرقہ پرستی کا الزام نہیں لگا ہے۔ گزشتہ دنوں نندی گرام کے حالات پر قابو پانے میں ریاست کی کمیونسٹ حکومت پر ہر طرح کی نکتہ چینی تو ہوئی ہی ساتھ میں اسے پہلی بار فرقہ پرست بھی کہا گیا ۔ نندی گرام میں مسلمانو ں کی خاصی آبادی ہے لیکن ہندوؤں کی اکثریت ہے ۔ کئی ہفتوں سے جاری پر تشدد واقعات میں بیشتر ہلاکتیں مسلمانوں کی ہوئی ہیں۔ مالی طور پر بھی سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہی اٹھانا پڑا ہے۔ ریاستی اور قومی اخبارات نے مسلم زاویہ کو خوب اچھالا اور حکمراں کمیونسٹوں کو دفاعی رخ اختیار کرنا پڑا۔ دلچسپ پہلو یہ کہ مسلم مخالف سمجھی جانے والی بی جے پی نے بھی بنگال کی حکومت پر مسلمانوں پر ظلم کرنے کا الزام لگایا اور اسے فرقہ پرست قرار دیا ہے۔ اب جبکہ متنازعہ مصنفہ تسلیمہ نسرین کو ریاستی حکومت کے رویے کے سبب اچانک کولکتہ چھوڑنا پڑا ہے تو ایک بار پھر کمیونسٹس تنقید کے نشانے پر ہیں۔ مارکسی پارٹیاں ہندوستان میں اظہار آزادی کی حمایت کرتی رہی ہیں اور ناقدوں کا کہنا ہے کہ اب وہ خود اس کے خلاف کام کر رہی ہے ۔ مودی کے خلاف کون لڑے ؟ گجرات میں اسمبلی انتخابات قریب آرہے ہیں اور کانگریس کے سامنے ایک مشکل یہ ہے کہ وہ وزیر اعلی نریندر مودی کے خلاف کسے کھڑاکرے؟ ریاست کے کئی اعلی کانگریسی رہنماؤں نے شکست کے اندیشے سے مودی کے خلاف لڑنے سے پہلے ہی انکار کر دیاہے۔ اطلاعات ہیں کہ کانگریس نے معروف کلاسیکی رقاصہ ملکہ سارہ بھائی سے بھی رجوع کیا تھا لیکن بظاہر انہوں نے سیاست میں نہ اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کانگریس نے بالاخر مہاتما گاندھی کے پر پوتے توشار گاندھی کو مودی کے خلاف اتارنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے بھی انتخاب لڑنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا ’وہ مودی کو گاندھی کو شکست دینے کا سکون حاصل کرنے نہیں دینا چاہیں گے۔‘ کانگریس گجرات کے انتخابات میں بہت منظم طریقے سے اتر رہی ہے ۔ مودی کو بی جے پی کے متعدد اعلی رہنماؤں کی مخالفت کا سامنا ہے اور سنگھ پریوار بھی ان سے خوش نہیں ہے ۔ بظاہر مودی کوبھی دباؤ محسوس ہو رہا ہے اور گزشتہ دنوں انہوں نے تمام ’ہندو فورسز‘ کو متحد ہونے کی کال کی حمایت کی ہے۔ یہ اپیل ان کے مذہبی گرو کی طرف سے آئی ہے اور اس کا مقصد بی جے پی کے سبھی ناراض دھڑوں کو متحد کرنا ہے۔ دہشت گردی سے تحفظ کا بیمہ ہندوستان میں شدت پسندی کے خطرات کے پیش نظر بڑی بڑی کمپنیاں اور عبادت گاہیں تیزی سے بیمہ کمپنیوں کا رخ کررہی ہیں۔ شمال مشرقی ریاستوں، ہند پاک سرحدی ریاستوں ماؤنوازوں کی اثراتی ریاستوں اور ایل ٹی ٹی ای کی سرگرمیوں والے خطے میں بڑي بڑی کمپنیاں اب تحفظ کے پیش نظر بیمہ پالیساں خرید رہی ہیں۔ دہشت گردی کے خطرات سے تحفظ کے بیمے کی رقم گزشتہ پانچ برس میں دو ارب روپے سے بڑھ کر اب چھ ارب روپے تک ہوگئی ہے۔ دہشت گردی کے حملوں کا کوریج امریکہ میں گیارہ ستمبر کے حملے کے بعد ہندوستان میں شروع ہوا تھا۔ ملک ميں شدت پسندوں کی طرف سے صرف اہم تنصیبات کو خطرہ لاحق ہے بلکہ بڑی بڑی عبادت گاہیں بھی اس کے نشانے پر ہیں۔اکشردھام مندر، بنارس کا سنکٹ موچن مندر، اجمیر کی درگاہ اور دلی کی جامع مسجد بھی شدت پسندوں کے حملوں کا نشان بن چکی ہیں۔ دلی میں پاکستان کی مقبولیت ہر برس کی طرح اس بار بھی جب دلی میں بین الاقوامی میلہ شروع ہوا تو دلی والوں کی بھیڑ ٹوٹ پڑی۔ اس میلے میں ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے ساتھ ساتھ دینا کے مختلف ممالک بھی اپنی اپنی مصنوعات کی نمائش اور فروخت کے لیے اپنا اسٹال لگاتے ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں سے پاکستان نے بھی اس میلے میں حصہ لینا شروع کیا ہے۔ پاکستان کی مصنوعات میں گہری دلچسپی رہی ہے لیکن اس بار کراچی کےالحاج بندو خان کے ریستوران سب کی توجہ کا مرکز ہے۔ مٹن بوٹی، سیخ کباب، حلوہ پراٹھا کی تھالی حاصل کرنے کے لیے پاکستان اسٹال کے باہر لمبی خطاریں لگ رہی ہیں۔ لوگوں کو پاکستانی کھانا تو بہت پسند آیا لیکن ایک شکایت یہ تھی کہ وہ زرا مہنگے ہیں۔ امیروں کے شہر دارالحکومت دلی میں ایک لاکھ اڑتیس ہزار ایسے خاندان ہیں جن کی سالانہ آمدنی دس لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ جبکہ چندی گڑھ ایک ایسا شہر ہے جہاں ہر ساتویں گھر کی آمدنی دس لاکھ سے زیادہ کے زمرے میں آتی ہے ۔ انڈیکس انالیٹکس نے اپنے ایک جائزے میں بتایا ہے کہ دلی کے علاوہ بنگلور، ممبئی، تھانے، پونے، احمدآباد، سورت، چنڈی گڑھ، جےپور، حیدرآباد اور کولکتہ جیسے شہروں میں دس لاکھ روپے سالانہ کمانے والے گھروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لکھ پتی افراد کی تعداد کے لحاظ سے چھوٹے شہروں کی کارکردگی بڑے شہروں کے مقابلے کافی بہتر ہے ۔ |
090302_help | https://www.bbc.com/urdu/institutional/2009/03/090302_help | ہیلپ اور عمومی سوالات | ہیلپ اور عمومی سوالات | موضوعات: اس ویب سائٹ کو دیکھنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ جی ایم ٹی کا مطلب کیا ہے؟ ویڈیوز کیسے دیکھی جا سکتی ہیں اور آڈیوز سننے کا طریقہ کیا ہے؟ پورٹیبل ورژن کیا ہے؟ موبائل ورژن کیا ہے؟ ادارتی مسائل کے بارے میں عمومی سوالات تکنیکی مسائل سے متعلق عمومی سوالات موضوعات سِنڈیکیشن (آر ایس ایس اور ATOM فیڈز) شارٹ ویوز پر ریڈیو سننا سِنڈیکیشن فیڈ بیک کے لیے فارم پوڈکاسٹ تلاش یا سرچ میں آپ کو تصاویر، آڈیوز اور ویڈیوز کیسے بھیجوں؟ اس ویب سائیٹ کو دیکھنے کا بہترین طرقہ کیا ہے؟ یہ ویب سائیٹ 1024 پِکسلز کی چوڑائی کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی ہے۔ اگر آپ اس سے کم ریزولیوشن کی سکرین استعمال کر رہے ہیں، تو آپ کو اس ویب سائٹ پر موجود تمام اشیاء دیکھنے کے لیے اُوپر سے نیچے سکرول کرنا پڑے گا۔ دوسرا طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ اس ویب سائٹ کا کم گرافکس والا ورژن (low-graphic version) استعمال کریں۔ اس ویب سائیٹ کے کچھ فیچرز ایسے ہیں جو یہ سوچ کر بنائے گئے ہیں کہ آپ کے کمپیوٹر پر جاوا سکرپٹ کی آپشن آن یا انیببلڈ ہے۔ جاوا سکرپٹ کو انیبلڈ کرنے کے لئیے آپ مندرجہ عمل کر سکتے ہیں: انٹرنیٹ ایکسپلورر فار وِنڈوز (Internet Explorer for Windows) کی صورت میں: انٹرنیٹ آپشنز میں جا کر ٹولز مینیو میں جائیے، سکیورٹی والے ٹیب پر کلک کیجیے، انٹرنیٹ زون کو ہائی لائٹ کیجیے اور سکیورٹی آپشنز کھولنے کے لیے کسٹم لیول کے بٹن پر کلک کیجیے۔ فہرست کے آخر میں سکرپٹنگ کی آپشن پر جائیے اور اسے این ایبل کر دیجیے۔ او کے کا بٹن دبا کر پینلز کو بند کر دیجیے۔ اب دوبارہ اس صفحہ کو ری لوڈ کیجیے جو جاوا سکرپٹ سے چلتا ہے۔ انٹرنیٹ ایکسپلورر فار میک (Internet Explorer for Mac): ایکسپلورر کے مینیو میں جائیں اور پروفائل کی آپشن کو تلاش کیجیے۔ ونڈو کی بائیں جانب دی ہوئی فہرست میں سے سلیکٹ کانٹینٹ کی آپشن کو سلیکٹ کیجیے۔ ایکٹِو کانٹینٹ کے سیکشن میں جائیے۔ ایبل سکرپٹنگ کی آپشن کے سامنے کلک کیجئیے۔ اب اس وِنڈو کو بند کر کے ویب سائٹ کے مذکورہ صفحہ کو ری فریش کیجیے، اور ویب کانٹینٹ میں موجود جاوا لِنک کو این ایبل کیجیے۔ سفاری (Safari): مینیو میں جا کر پریفرینسِز میں جائیے، سکیورٹی پر کِلک کیجیے۔ یہاں پر موجود جاوا سکرپٹ کی آپشن کو چیک یا آن کر دی کیجیے۔ فائر فاکس (Firefox): ٹُولز کے مینیو میں جا کر آپشنز کو سلیکٹ کیجئیے۔ اس کے بعد ویب فیچرز پر کلک کیجیے، جاوا این ایبل کرنے کے بعد اوکے کر دیجیے۔ اُوپرا (Opera): ٹولز میں جا کر کوئک پریفرینسز میں جائیے اور اینیبل جاوا سکپرٹ پر کِلک کر دیجئیے۔ ویڈیوز دیکھنے اور آڈیوز سننے کا طریقہ کیا ہے؟ بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی ویڈیوز اور آڈیوز ہماری ویب سائٹ پر مختلف جگہوں پر موجود ہوتی ہیں، کبھی ویڈیو یا آڈیو کے طور پر اور کبھی مختلف خبروں کے اندر۔ ہمارے آڈیو یا ویڈیو کلپ دیکھنے اور سننے کے لیے آپ کے پاس کم از کمkbps 56 کا انٹرنیٹ کنکشن ہونا ضروری ہے، تاہم بہترین نتائج تیز رفتار براڈ بینڈ کنکشن کی صورت میں ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ مختلف خبروں کے اندر دیے ہوئے آڈیو/ویڈیو کلپس کو کھولنے کے لیے، آپ کو فلیش پلیئر پلگ اِن کی ضرورت ہو گی۔ فلیش پلیئر ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئیے یہاں کلک کیجئیے۔ http://www.bbc.co.uk/website/categories/plug/flash/flash.shtml?intro2 بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر موجود دیگر آڈیوز اور ویڈیوز سننے اور دیکھنے کے لئیے آپ کو ریئل پلیئر یا وِنڈوز میڈیا پلیئر درکار ہو گا۔ رئیل پلیئر ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئیے یہاں کلک کیجئیے۔ http://www.bbc.co.uk/website/categories/plug/real/newreal.shtml?intro2 ونڈوز میڈیا پلیئر ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئیے یہاں کلک کیجئیے۔ http://www.bbc.co.uk/website/categories/plug/winmedia/newwinmedia.shtml?intro2 یاد رکھیے کہ بی بی سی کی ویب سائٹ پر موجود ویڈیوز اور آڈیوز وغیرہ کے لیے درکار تمام پلگ اِنز مفت فراہم کیے جاتے ہیں، اس لیے آپ کو کبھی بھی اپنے کریڈٹ کارڈ وغیرہ کی تفصیل نہیں دینا ہو گی۔ آپ جب یہ پلگ اِنز ڈاؤن لوڈ کریں گے تو آپ سے پوچھا جائے گا کہ آپ مذکورہ کمپنی کی شرائط استعمال وغیرہ سے متفق ہیں یا نہیں، تاہم بی بی سی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذکورہ کمپنی کو چاہئیے کہ وہ آپ کو یہ بھی بتائے کہ وہ آپ کے ذاتی کوائف وغیرہ کو کیونکر استعمال کرے گی۔ موبائل اور پورٹیبل ورژنز (Mobile and Portable Versions ): آپ انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے موبائل فون پر بھی بی بی سی اردو ڈاٹ کام سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے خاص طور پر ویپ یا WAP کی سہولت دی ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں ہم آپ کو ایک جاوا سوفٹ وئر ایپلیکیشن کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں۔ آپ یہ جاوا ایپلیکیشن اپنے موبائل فون پر ڈاؤن لوڈ اور اِنسٹال کر سکتے ہیں اور اپنے موبائل فون پر ہماری شہہ سرخیوں سے جب چاہیں باخبر رہ سکتے ہیں۔ پوڈکاسٹ (podcast): آپ چلتے پھرتے بھی بی بی سی آڈیوز سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ہماری پوڈکاسٹ سروس سے فائدہ اٹھانے کی لئیے آپ ضروری سافٹ ویئر یہاں سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ مزید معلومات کے لئیے یہاں کلک کیجئیے۔ (link to podcast index page) موضوعات اور خبروں کی تلاش: آپ بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر موجود خبروں کے متن، آڈیوز اور ویڈیوز تک رسائی مختلف طریقوں سے حاصل کر سکتے ہیں۔ صفحہ اول اور ہمارے دوسرے انڈیکس میں آپ وہ تازہ ترین خبریں وغیرہ دیکھ سکتے ہیں جو ہماری ادارتی ٹیم نے آپ کے لیے تیار کی ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں انواع و اقسام کی خبریں اور دوسری کہانیاں مختلف موضوعات کےتحت بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ اگر آپ کسی خاص خبر کی تلاش میں ہیں تو آپ ہماری 'تلاش' کی سہولت استعمال کر سکتے ہیں۔: ( Link for search) سوشل بُک مارکنگ لنک (Social Book-marking link) : اب بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر آپ کو کئی ایک سوشل بُک مارکنگ یا شیئرنگ والی ویب سائیٹس کے ایڈریس اور لِنک بھی ستیاب ہوں گے۔ اس قسم کے لنکس ہماری ہر خبر اور آڈیو/ویڈیو والے صفحے پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ سوشل بُک مارکنگ یا شئرنگ والی ویب سائٹس آپ کو یہ سہولت دیتی ہیں کہ آپ اپنی پسند کی خبروں وغیرہ کو انٹرنیٹ پر محفوظ، ٹیگ اور شئر کر سکتے ہیں۔ یوں یہ خبریں آپ نہ صرف اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں بلکہ جب چاہیں کسی بھی کمپیوٹر سے اپنی محفوظ شدہ خبروں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ آپ بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر کوئی اسی خبر دیکھیں جو آپ چاہتے ہیں کہ آپ اپنے آئندہ استعمال کے لئیے محفوظ کر لیں یا اپنے کسی دوست کے ساتھ شیئر کریں، تو آپ ایسا بُک مارکنگ سے کر سکتے ہیں۔ سوشل بُک مارکنگ کی سہولت فراہم کرنے والی یہ تمام ویب سائیٹس یہ سروس مفت فراہم کرتی ہیں، تاہم ہر کسی کے طریقہ کار میں فرق ہو سکتا ہے۔ اس بارے میں مذید معلومات وِکی پیڈیا سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ پتہ ہے : http://en.wikipedia.org/wiki/social_bookmarking آر ایس ایس اور ایٹم (RSS and ATOM) آر ایس ایس کی سہولت سے آپ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ویب سائیٹ پر کب کسی نئی خبر کا اضافہ ہوا ہے، یا اسے اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔ اس سہولت کا فائدہ یہ ہے کہ ہم جوں ہی کوئی خبر شائع کرتے ہیں آپ کو ہماری ویب سائیٹ پر آئے بغیر معلوم ہو جاتا ہے کہ ویب سائیٹ کیا نئی خبر یا ویڈیو/آڈیو آ گئی ہے۔ اس بات پر بحث ہوتی رہتی ہے کہ آخر آر ایس ایس سے مراد کیا، تاہم زیادہ تر لوگوں کا خیا ہے کہ اس سے مراد 'ریئل سپمل سِنڈیکیشن' ہے۔ مختصر یہ کہ آر ایس ایس ایک ایسا طریقہ ہے کہ جس میں آپ کی بجائے آپ کا کمیپیوٹر ویب سائٹ کو پڑھتا ہے۔ آر ایس ایس کے بارے میں مذید جاننے اور یہ معلوم کرنے کے لیے کہ اسے کیسے استعمال کیا جاتا ہے آپ یہاں کلک کر سکتے ہیں [URL for ‘what is RSS?' feeds] سِنڈیکیشن- مزید معلومات ادارتی حوالے سے عمومی سوالوں کے جواب: میں آپ کو تصاویر، آڈیوز اور ویڈیوز کیسے بھجوا سکتا ہوں؟ دیگر سہولیات (Accessibility): ایسے افراد کے لیے کہ جو کسی معذوری کا شکار ہیں، انٹرنیٹ ایک بہت بڑی سہولت ثابت ہو سکتا ہے اور یہ انہیں معاشرے اور خود بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر بھرپور طریقے سے حصہ لینے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ ہم بی بی سی اردو ڈاٹ کو ایسے تمام افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ موزوں بنائیں۔ اس سلسلے میں ہم جو سہولتیں فراہم کرتے ہیں ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ سیمینٹک مارک اپ (Semantic Mark up) : سنہ دو ہزار آٹھ کے آخر سے ہم نے اپنے صفحات کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ترتیب دینا شروع کر دیا ہے، تاکہ خاص سیاق و سباق کے حوالے سے ہماری خبروں تک رسائی سرچ انجنز کے ذریعے بھی ممکن ہو سکے۔ - آر ایس ایس اور ایٹم فیڈز(RSS and ATOM Feeds): ہم نے آپ کے لئیے بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے صفحہ اول اور ہمارے دیگر موضوعات کے حوالے سے آر ایس ایس فیڈ اور ایٹم فیڈ کا بندوبست بھی کر دیا ہے۔ - لو گرافکس ورژن (Low Graphics Version): یہ سہولت فراہم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے وہ تمام قارئین جو کسی تکنیکی مجبوری( مثلاً اچھے براڈ بینڈ کا میسر نہ ہونا) کے باعت ہماری معمول کی ویب سائیٹ تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے، وہ بھی ہماری خبروں سے محروم نہ رہیں۔ - ویب سائٹ کا رنگ اور پس منظر تبدیل کرنے کی سہولت - بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر شائع ہونے والے مواد کا سائز بڑا کرنے کی سہولت۔ ( اپنے انٹرنیٹ براؤزر کی 'وئیو) کی آپشن میں جا کر آپ 'زوم' یا 'ٹیکسٹ سائز' کے ذریعے ہماری خبروں کے متن کا سائز بڑھا سکتے ہیں۔) - بی بی سی اردو ڈاٹ کی فراہم کردہ سہولیات کے بارے میں مزید معلومات کے لیے بی بی سی کی انگریزی ویب سائٹ پر موجود 'مائی ویب' کی آپشن پر جائیے۔ - http://www.bbc.co.uk/accessibility جی ایم ٹی کیا ہے؟ زمین پر کھیچی ہوئی تصوراتی لکیر سے زیرو ڈگری کے فاصلے پر پائے جانے وقت کو دنیا کا معیاری وقت یا گرینچ مِین ٹائم کہا جاتا ہے۔ یہ لکیر قطب شمالی کو قطب جنوبی سے ملاتی ہے اور لندن کے مضافات میں واقع گرینچ کے مقام سے گزرتی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک اور شہروں کے اوقات ان مقامات کے گرینچ سے گزرنے والی لکیر (گرینچ میریڈین) سے قربت یا دوری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس کا عمومی اصول یہ ہے کہ اگر آپ گرینچ میریڈین سے مشرق میں ہیں تو آپ کا وقت جی ایم ٹی سے آگے ہوگا۔ (مثلاً چین کا معیاری وقت جی ایم ٹی جمع آٹھ گھنٹے ہے)۔ اسی طری گرینچ میریڈین سے مغرب میں پائے جانے والے مقامات کے مقامی اوقات گرینچ کے معیاری وقت سے پیچھے ہوتے ہیں۔ (مثلاً نیویارک کا معیاری وقت جی ایم ٹی منفی پانچ گھنٹے ہوتا ہے۔) بی بی سی کا معیاری وقت اور جی ایم ٹی: بی بی سی عالمی سروس پر عموما جی ایم ٹی کو ہی معیاری وقت کہا جاتا ہے، تاہم بی بی سی کی مختلف زبانوں کی ویب سائیٹس پر دیگر ممالک کے معیاری اوقات بھی دکھائے جاتے ہیں۔ موسم کے لحاظ سے تبدیلیاں: گرینچ کا معیاری وقت سال بھر تبدیل نہیں ہوتا، اس لئیے موسم سرما میں برطانیہ کے معیاری وقت اور گرینچ مِین ٹائم میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ تاہم مارچ میں برطانیہ میں گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کر دی جاتی ہیں اس لئیے گرمیوں میں برطانیہ کا مقامی وقت گرینچ سے ایک گھنٹہ آگے ہوتا ہے۔ دنیا کے کئی دیگر ممالک بھی طلوع آفتاب کے بدلتے اوقات کے مطابق اپنا مقامی وقت آگے پیچھے کرتے ہیں۔ یو ٹی سی: چند عالمی میڈیا ادارے اپنے نشریات میں گرینچ کے معیاری وقت کی بجائے یو ٹی سی یا کوآرڈینیٹڈ یونیورسل ٹائم کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ عملاً ان دونوں اوقات میں کوئی فرق نہیں۔ میں بی بی سی اردو کیسے سُن سکتا ہوں؟ اب کئی ممالک میں بی بی سی کی عالمی سروس کے پروگرام ایف ایم اور اے ایم پر سنے جا سکتے ہیں، تاہم دنیا کے بیشتر علاقوں میں ہماری نشریات شارٹ ویوو ریڈیو پر ہی سنی جاتی ہیں۔ |
130427_sen_book_review | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/04/130427_sen_book_review | آندھی کا رجز، ایک نیا شعری باطن | نام کتاب: آندھی کا رجز | آندھی کے رجز میں اقبال کی خطیبانہ گونج بھی سنائی دیتی ہے اور کہیں کہیں حبیب جالب کی مس فٹ نعرے بازی مصنف: احمد جاوید صفحات: 192 قیمت: 300 روپے ناشر: شہرزاد، 155 بی، بلاک 5، گلشنِ اقبال، کراچی شعری اظہار بہر صورت فرد کی ذات سے منسلک ہوتا ہے۔ اسی سے اسلوب بناتا ہے اور اسی سے پہچان کو ممکن بنانے والے عوامل کو شکل دیتا ہے۔ اس کا اطلاق شعر پر ہی نہیں ہر تخلیق پر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ہر فرد کو اپنی انفرادیت تک رسائی کی سہولت آسانی سے ممکن ہو سکتی ہے۔ لیکن اصل اور پہلا مشکل مرحلہ یہی ہوتا ہے کہ ہر فن کا اظہار کرنے والا اپنے آپ تک رسائی حاصل کرے۔ اپنی انفرادیت کو ڈھونڈے۔ جنھیں ہم فطری تخلیق کار کہتے ہیں انھیں بہ وجوہ یہ سہولت نسبتاً جلد حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ بات ہم آہنگی کے تناسب کے اظہار کے لیے استعمال کی جاتی ہے، کسی نوع کی ودیعیت نہیں ہوتی۔ ودیعیت کا مفروضہ ایک عقیدہ ہے اور ایک الگ جغرافیہ رکھتا ہے۔ انسان کی سب سے بڑی ایجاد زبان، محض زبان نہیں، مسلسل پابند اور منقلب کرنے والی ایسی قوت ہے جو سماجی مسلمات، رد و قبول، روایت و وراثت سے مسلح ہوتی ہے اور ہر مرحلے پر فرد کو نئی سے نئی پابندیوں میں باندھتی ہے اور نئے سے نئے تقاضوں کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ احمد جاوید کی شاعری پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مہارت اور تکنیک کو جذبات پر ترجیح دیتے ہیں اور موجودہ زبان کو ایک نیا پیرایہ دینے میں کوشاں ہیں۔ ان کے ہاں آپ کو سینٹ جان پرس اور اقبال کی خطیبانہ گونج بھی سنائی دے گی اور کہیں کہیں حبیب جالب کی مس فٹ نعرے بازی بھی۔ موجودہ نظموں میں وہ جدیدیت کے مخالف بھی نظر آتے ہیں، محمد حسن عسکری اور سلیم احمد کے معنوں میں۔ سینٹ جان پرس نثری نظم کا وہ پہلا شاعر تھا جسے نوبل انعام پیش کیا گیا۔ جس نے کسی اور فارم کو اپنے اظہار کے لیے مناسب نہیں سمجھا۔ لیکن وہ کیونکہ زود ہضم نہیں تھا اس لیے اس کے اسلوب کے قریب جانے کی کوشش بھی بہت کم لوگوں نے کی یہاں تک کے نقادوں نے بھی اس بھاری پتھر کو چوم کر دور رکھ دیا کیونکہ اس کے ہاں خالص شعریات کی تجسیم ہوتی ہے۔ اس کا اسلوب ایک خاص خطابت سے عبارت ہے۔ احمد جاوید کو بت شکنی کا شوق ہے، جس کے لیے انھوں نے اپنے حریف طے کیے ہیں اور بجز کچھ نظموں کے ہر نظم میں ایک ایک کر کے ان پر حملہ آور ہوتے اور بعض پر تو بار بار ہوتے اور اپنے تعیں انھیں مسمار بھی کرتے ہیں۔ لیکن یہ جنگ کہیں باہر نہیں خود ان کے اندر ہی جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تاریخ کے بنے ہوئے تھیلوں سے ہمیشہ کوئی بے حد اہم چیز رہ جاتی ہے۔(اس لیے) اب بالکل نیا تناظر ضروری ہے، اس نادیدنی عہد سے عہدہ برا ہونے کے لیے ورنہ تو دیکھنا ایک احمقانہ تصور ہے جسے آنکھیں مانتی ہیں۔ لیکن آنکھیں، خواہ بینائی کی کسی بھی قبیل سے تعلق رکھتی ہوں، ایسے پیچیدہ منظر کو صحت اور ثقاہت (قابلِ اعتبار انداز) کے ساتھ نقل نہیں کر سکتیں۔ یہ مجموعہ ایک نئی شعریت کی بنیاد ہوگا یہ بات وہ کر رہے ہیں اُن خرابوں کے بارے میں جن کی عظیم ترین صناع ہوائیں ہیں اور جو ایک پراسرار، غیر معروف اندھیرے کی دبیز دیواروں پر بے رنگی کے ساتھ نقش ہیں۔ یہ اس مجموعے میں شامل نظم ’ایک خیال‘ کی ترتیب میں تبدیلی ہے۔ صرف ’تاریخ کے بنے ہوئے تھیلوں‘ کی کمزوری کو کچھ دیر کے لیے بھول جائیے باقی نظم کو دیکھیے اور بتائیے اس سے پہلے اردو میں ایسا اسلوب کہاں ہے؟ میں نے جو بات پہلے کی تھی وہ اسی اسلوب کے حوالے سے کی تھی۔ مجھے اسلوب کے اس شکوہ میں سینٹ جان پرس اور اقبال کا اتصال لگتا ہے جو محض نقالی نہیں ہے۔ ورنہ تو پرس کے اسلوب کو برتنے کی کوشش تو سب سے پہلے انیس ناگی نے کی تھی اور اقبال کے انداز کے پیرو کار تو ان گنت ہیں جو تاریخی شعور کی کمی اور علمی فقدان کے سبب ان کے لسانی آہنگ کی بازگشت سے آگے نہیں نکل پاتے۔ آندھی کا رجز میں شاعر میں یقین کی بے اندازہ موجودگی نے شعری باطن کو از حد نقصان دیا ہے۔ شاعر لاکھ کہتا ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ وہ خود کو ایک احمقانہ ’میں‘ کے شکستہ نقاب سے وابستہ رکھے لیکن اس کے لیے راہِ مفر نہیں ہے۔ پانچ نظموں کو چھوڑ باقی باون نظموں کا اسلوب، پرس کو بھول بھی جائیں تو، اردو میں کسی کی پیروی نہیں، خود اپنی ایجاد ہے۔ یہی شاعری کی پہلی شرط ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ چند ایک نظموں کے علاوہ اکثر نظمیں پڑھنے والوں سے بہت سی تیاری کا تقاضا کریں گی اگر یہ مجموعہ مقبول ہو گا تو یقیناً ایک نئی شعریت کی بنیاد ہو گا۔ لیکن شاعری سے سنجیدہ تعلق رکھنے والوں کے لیے اس مجموعے کا مطالعہ لازمی ہے۔ احمد جاوید نے شیخ محی الدین العربی کی ایک کتاب اور اقبال کے دو فارسی مجموعوں پیام مشرق اور جاوید نامہ کو اردو میں منتقل کرنے کے علاوہ اردو کے کئی شعرا کے انتخاب کیے ہیں جو الگ الگ کتابوں کی شکل میں شائع ہو چکے ہیں۔ وہ فارسی اور انگریزی میں بھی شاعری کرتے ہیں۔ انھیں فلسفے اور خاص طور پر اسلامی فلسفہ سے گہری دلچسپی ہے۔ وہ 1985 سے اقبال اکادمی لاہور کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ٹی وی کے کئی پروگراموں سے بھی انھیں خاص شہرت حاصل ہے۔ مختصراً آپ انھیں ایسا نیا ترقی پسند بھی سمجھ سکتے ہیں جو استعمار مخالف ہے اور مذہب و تصوف کی بظاہر متحارب روایات کو بھی یکجا کرنا چاہتے ہیں۔ اس کتاب کو جیکسن پولاک کی جس پینٹنگ سے آراستہ کیا گیا ہے وہ بھی خالی از معنی نہیں ہے۔ |
060730_delhi_diary_na | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/07/060730_delhi_diary_na | ممبئی دھماکے، سائنسدان، گنجے | سلامتی کی مصیبت | ممبئی بم دھماکوں کے بعد مختلف مقامات پر بم رکھنے اور دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی گمنام ٹیلیفون کالوں اور ای میل پیغامات سے پولیس اور خفیہ ادارے تنگ آگئے ہیں۔ خفیہ پیغامات بھیجنے والوں نے صدر اے پی جے عبدالکلام تک کو دھمکی دے ڈالی۔ پولیس نے تنگ آکر تمام سائبر کیفے والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے یہاں آنے والے تمام لوگوں کا ریکارڈ رکھیں اور نیٹ استمعال کرنے کی اجازت صرف انہیں دیں جن کے پاس باقاعدہ فوٹو شناختی کارڈ ہو۔ ان کا نام پتہ ، فون نمبر، اور دیگر تمام تفصیلات ایک رجسٹر میں درج کی جائیں۔ یہی نہیں بلکہ انٹرنٹ کے ذریعے وہ کس کس سائیٹ پر گئے ہیں اور کس کس سے رابطہ قائم کیا ہے، اس کا بھی ریکارڈ ’مین سرور‘ میں کم از کم چھ مہینے تک محفوظ رکھا جائے۔ جاسوسی سے افراتفری ان دنوں فوج کی تینوں شاخوں سمیت کئی خفیہ ادارے خود اپنے ہی جاسوسوں سے پریشان ہیں۔ قومی سلامتی کونسل اور ’نیوی وار روم‘ میں امریکہ کے لیئے جاسوسی کا معاملہ ابھی منظر عام پر آیا ہی تھا کہ سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ سابق کانگریس حکومت میں وزیر اعظم کے دفتر میں ایک اعلٰی اہلکار جوہری راز امریکہ کو دے رہے تھے۔ قندھار کے بعد ایودھیا سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے اپنی حالیہ کتاب ’اے کال ٹو آنر‘ میں قندھار ہائی جیک کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اس سے کچھ تنازع بھی پیدا ہوا ہے۔ آر ایس ایس نے بھی کتاب کی ٹائمنگ پر اعتراض کیا۔ اب جسونت سنگھ نے بتایا ہے کہ وہ ایودھیا پر کتاب لکھ رہے ہیں۔ یہ کتاب دراصل رام جنم بھومی تحریک اور بابری مسجد کے انہدام پر مختلف دانشوروں کے مضامین پر مبنی ہوگی لیکن اس کا ابتدائیہ اور اختتامیہ جسونت سنگھ لکھیں گے۔ اطلاعات ہیں کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح پر بھی ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔ ہندوستانی سائنسدانوں کو پاکستان سے خطرہوزیر اعظم کے سائنسی امور کے مشیر پروفیسر سی این راؤ نے حکومت سے کہا ہے کہ اگر سائنسدانوں کے لیئے تنخواہوں کا الگ نظام وضع نہیں کیا گیا تو جلد ہی کوئی بھی نوجوان سائنسدان یا ٹکنیکل پرسن سرکاری یا غیر سرکاری شعبے میں آنا پسند نہیں کرے گا۔ انھوں نے پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ’تنخواہوں کے اعتبار سے سائنس ایک بہترین شعبہ ہے۔ پاکستان نے گزشتہ چند برسوں میں اپنے سائنس دانوں کی تنخواہوں میں تین گنا سے بھی زیادہ اضافہ کیا ہے‘۔ پروفیسر راؤ نے کہا کہ آئی آئی ٹی جیسے موثر اداروں میں اپنی کارکردگی بہتر کرنی ہوگی۔ ’وہاں تین سو پچاس فیکلٹی ممبر سال میں صرف 50 پی ایچ ڈی دے پارہے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو جلد ہی پاکستان چین کے ساتھ سائنس کے شعبے میں ہندوستان کے لیئے ایک بڑا عالمی چیلنج بن جائے گا‘۔ ہندوستان انتہائی ناخوش ہندوستانیوں کا شمار دنیا میں سب سے کم خوش رہنے والے افراد میں کیا گیا ہے۔ برطانیہ لیسٹر یونیورسٹی کے ایک عالمی جائزے میں 178ملکوں کے لوگوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس میں ہندوستان 125ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کی حالت اس سے بھی بری ہے۔ جبکہ نیپال (119) اور بنگلہ دیش (104) اور سری لنکا کے لوگ ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں سے زیادہ خوش رہتے ہیں۔ گنجوں کی یونین ایک عرصے سے گنجوں کا مذاق اڑایا جاتا رہا ہے۔ کبھی انہیں ’ٹکلا‘ کبھی گنجا، کبھی ’چٹیل‘ تو کبھی چنڈول جیسے ناموں سے پکارا گیا ہے۔ لیکن اب جھاڑ کھنڈ کے جمشید پور میں ’گنجا ایکتا یونین‘ بتائی گئی ہے۔ یونین کے صدر نے کہا ہے کہ ’کوئی بھی پیدائش سے گنجا نہیں ہوتا۔ اگر گنجوں کا کوئی مذاق اڑائے گا تو اسے عدالت تک لے جایا جائے گا‘۔ گنجوں کی یونین کا کہنا ہے کہ گنجے پن کی وجہ سے لڑکیوں سے دوستی سے لے کر شادی بیاہ اور نوکریوں تک میں تقریق برتی جاتی ہے۔ یونین نے مطالبہ کیا ہے کہ دلتوں اور جسمانی طور پر معذور لوگوں کی طرز پر ملازمتوں میں گنجوں کی سیٹیں بھی مخصوص کی جائیں۔ |
130729_book_review_rwa | https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2013/07/130729_book_review_rwa | طلسمِ ہوشربا کا ایک شاندار انتخاب | انور سِن رائے | نام کتاب: طلسم ہوشربا مصنفین: محمد حسین جاہ، احمد حسین قمر انتخاب: محمد حسن عسکری صفحات: 336 قیمت: 500 ناشر: آصف جاوید، نگارشات، پبلیشرز، 24 مزنگ روڈ، لاہور طلسمِ ہوشربا کے اس انتخاب میں اگر عزیز احمد کا مقدمہ اور محمد حسن عسکری کا دیباچہ نہ ہوتا، اور انتحاب کے پہلی بار شائع ہونے کے ذکر کی طرح انھیں بھی غیر ضروری سمجھا لیا جاتا تو معاملہ بہت آسان ہو جاتا۔ پھر یہی بتانا پڑتا کہ اس انتخاب میں جو رکھا گیا ہے وہ کیسا ہے، اس میں کیا ہے اور اسے کیوں پڑھا جائے۔ انیسویں صدی کے آخری حصے میں لکھی جانے والی اس داستان کے مصنفین اور شائع کرنے والوں کو اگر سات جلدوں کے بعد دو جلدوں کے ضمیمے کی بھی ضرورت محسوس ہوئی تو یہ کہنا پڑے گا کہ وہ اس کہ اہل نہیں تھے۔ ان نو میں سے پہلی چار جلدیں محمد حسین جاہ نے اور باقی احمد حسین قمر نے، اور انھیں نہ اہل کہنے والا کم سے کم ایسا ہونا چاہیے کہ اس نے معیار یا مقدار میں کم سے کم اتنا کام کیا ہو۔ معاملہ مقدار کی کمی کا ہے، یعنی چھٹائی کر کے وہ مال نکال لیا ہے جو انتخاب کرنے والے کے مقاصد کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ معاملہ ہر انتخاب میں پیش آتا ہے۔ انتخاب کرنے والا پہلے مقاصد طے کرتا ہے اور پھر جو اس پر پورا نہیں اترتا اُسے الگ کرتا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انتخاب اور تدوین کو ایک کر کے دیکھا جائے۔ اگرچہ تدوین میں بھی پہلے روح کا تعین کر لیا جاتا ہے اور پھر جو زیادہ ہوتا ہے اسے الگ کر دیا جاتا ہے جیسے پتھر سے مجسمہ تراشا جاتا ہے یا لکڑی سے کوئی شکل نکالی جاتی ہے لیکن زبان کے ذریعے بیان ہونے کا معاملہ شاید ایسا نہیں۔ اس میں وہ باتیں بھی آ جاتی ہیں جو بظاہر بیان کرنے والے کو، بیان کرتے وقت محسوس نہیں ہوتیں۔ اس بات کو جدید تنقید کے ذریعے بھی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے اور اس بات سے بھی جسے عسکری نے چیزوں اور نثر کے رشتے سے بیان کیا ہے۔ میں نے نہ تو طلسم ہوشربا پوری پڑھی ہے اور نہ ہی اس تبصرے کو کبھی پورا پڑھنے تک موقوف رکھ سکتا ہوں۔ اس لیے میں یہ نہیں بتا سکتا کہ جو چھوڑ دیا گیا ہے اس میں کیا کیا چھٹ گیا ہے اور وہ کتنا ضروری تھی یا نہیں تھا۔ لیکن اردو میں عسکری نے جو ساکھ بنائی ہے یا دھاک بٹھائی ہے، وہ نہ بھی ہوتی تو انھوں نے دیباچے میں جو کچھ کہا ہے اس کی بنا پر بھی یہ انتخاب فکشن لکھنے والوں کے لیے ہی نہیں اردو پڑھنے والے سبھی لوگوں کے ضرور اہم قرار پاتا۔ یہ دیباچہ انھوں نے سنہ 1950 میں لکھا تھا تو ایک اندازہ تو یہی ہوتا ہے کہ یہ انتخاب پہلی بار اسی سال یا اس سے اگلے سال یعنی سنہ 1951 میں چھپا ہوگا۔ عسکری نے ایک تو جاہ اور قمر کی نثر اور انداز میں فرق قائم کیا ہے۔ پہلے وہ بتاتے ہیں کہ رجب علی بیگ سرورکے ہاں نثر چیزوں کو تصورات میں بدل دیتی ہے اور میرامن کی نثر میں چیزیں ایک دوسرے سے الگ اور اپنی روشنی سے منور دکھائی دیتی ہیں۔ پھر یہ بیان ہے کہ طلسم ہوشربا کی نثر چیزوں کو تصورات میں نہیں بدلنا چاہتی، اس نثر کو شاید چیزوں کی روح سے وہ ہم آہنگی حاصل نہیں، اس کے برخلاف وہ ہر چیز میں الگ الگ اور زیادہ دلچسپی لیتی ہے۔ ان کا کہنا ہے، 1۔ یہ نثر ہر چیز میں اس کا چٹ پٹا پن تلاش کرتی ہے۔ 2۔ یہ نثر چیزوں کی پیاسی ہے اور ان سے لذت لینے کا کوئی موقع کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ اس دیباچے میں آج کے فکشن کو دیکھنے اور اس پر بات کرنے کی لیے اتنی باتیں ہیں کہ اگر کھل گئیں تو یہاں سمٹ نہیں پائیں گی۔ اس لیے وہ سن لیں جو عسکری نے اس انتخاب کو کرتے ہوئے پیش نظر رکھیں یا جنھیں بروئے کار لائے۔ 1۔ ہر انتخاب (ٹکڑا) اپنی جگہ پورا قصہ ہو۔ 2۔ طلسمِ ہوشربا میں جو مختلف اسالیب ملتے ہیں ان کے تمام نمونوں کی نمائندگی ہو۔ 3۔ گنجلک نثر بھی ہے لیکن اسے کانٹ چھانٹ کر مختصر کر دیا ہے۔ 4۔ طلسم ہوشربا کو میں نے ایک عام ادب پڑھنے والے یا ایک ایسے آدمی کی طرح پڑھا ہے جس نے افسانے لکھے اور مختلف اقسام کی نثر نگاری اور اس کی ضرورتوں کو سمجھنے کو کوشش کی۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ کتاب ہماری قوم کی وہ تصویر دکھاتی ہے جو قوم نے ایک زمانے میں اپنے ذہن میں قائم کر رکھی تھی‘۔ ’ان صفحوں میں اردو نثر نگاری اور افسانہ نویسی کے بعض بہترین نمونے موجد ہیں‘۔ اب عزیز احمد: طلسم ہوشربا، دراصل عورتوں کی داستان ہے، طلسم ہوشربا کی عورتیں زیادہ تر جادو گرنیاں ہیں، شریف جادوگرنیاں اور رذیل جادو گرنیاں، الھڑ جادوگرنیاں اور چالاک جادو گرنیاں، کٹنیاں اور بلائیں، لیکن قصے کی تہ کے نیچے یہ سب اس زمانے کے لکھنؤ کی عورتیں ہیں۔ ان میں سبھی طرح کی عورتیں ہیں، بیگمات جو زہرِ عشق اور دوسری مثنویوں کی عورتوں کی طرح چھپ چھپ کے عاشقی کرتی ہیں، رسوائی سے ڈرتی ہیں لیکن عشق بھر پور، بدمست جوانی کے عشق سے باز نہیں آتیں۔ چوک کی رنڈیاں جن کی بات چیت، نرت میں شہد پن ہے۔ مٹکنے والی خادمائیں اور اصیلیں۔ (جن کے) انکار کا مطلب اقرار ہے اور اقرار کا اصرار۔ عزیز احمد بھی کہتے ہیں کہ طلسمِ ہوشربا میں ہر طرح کی زبان محفوظ کی گئی ہے۔ وہ کٹنیوں کے بول سے مثال دیتے ہیں: ’ہمارے کام کو آپ کیا پوچھتے ہیں؟ ہم نے سینکڑوں کے گھر غارت کر دیے۔ لاکھوں کو بہلا پھسلا کر بیچ ڈالا۔ ہزاروں نسبتیں اور بیاہ کرا دیے۔ صدہا طلاقیں دلوائیں اور بہت بیٹیاں جن کا دامن تک کسی نے نہ دیکھا تھا، ان کے نو نو یار کرادیے‘۔ ضرورت تو اس بات کی بھی ہے کہ اردو کے روایتی اور کلاسیکی ادب کو کوئی ایسی ادیب اور دانشور بھی پڑھے جو نسائیت کے بارے میں مردوں سے زیادہ فہم رکھتی ہو۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عکم برداری اور نعرے بازی کرنے والی تو بہت ہیں لیکن پتہ مار کے اس پر لگنے والی کوئی دکھائی نہیں دیتی۔ میری شدید خواہش کہ میرا یہ خیال غلط ثابت ہو، سال چھ مہینے میں نہیں تو دو چار سال میں۔ جس کتاب میں یہی نہیں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہو کیا اسے پڑھنے کو دل نہیں کرے گا؟ پھر کتاب اچھی بھی چھپی ہے، مجلد ہے، کاغذ ضرور نیوز پرنٹ ہے۔ جس بنا ہر کہہ سکتے ہیں کہ قیمت کچھ زیادہ ہے۔ |
071217_bollywood_diary_ka | https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2007/12/071217_bollywood_diary_ka | فراخدل شاہ رخ،امرتا کی لاٹری | شاہ رخ کی فراخدلی | فلم ’اوم شانتی اوم‘ کی کامیابی سے سب سے زیادہ فائدہ کسے ہوا؟ ارے بھئی شاہ رخ کی گھریلو خادمہ کو۔ خان نے خوشی میں اسے پورے ایک لاکھ روپے کا بونس دیا۔اس پر ہی اکتفا نہ کرتے ہوئے فراخدل خان نے اپنے شاہانہ انداز میں اپنے ملازمین میں پورے ڈیڑھ کروڑ روپے تقسیم کر دیے اور ساتھ ہی اپنی پروڈکشن کمپنی کے تمام سٹاف اور گھریلو ملازمین کے لیے خصوصی پارٹی بھی دی۔اب ہمیں یقین ہے کہ خان کی ہر آنے والی فلم کی کامیابی کے لیے صرف ان کے پرستار اور دوست ہی نہیں ان کے ملازمین بھی دعائیں کریں گے۔ راجستھان کا چاندنی چوک ہمارے جغرافیہ بہت کمزور ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ ہم دہلی کے چاندی چوک کو راجستھان میں لے آئیں لیکن کیا کریں راکیش اوم پرکاش مہرہ نے یہی کرنے کی کوشش کی ہے۔وہ فلم ' دلی سکس ' بنا رہے ہیں۔ اس کے لیے چاندنی چوک پر مناظر فلمانا ہے لیکن اتنی بھیڑ بھاڑ والی جگہ پر ابھیشیک اور سونم کپور کے ساتھ عکس بندی بہت ہی مشکل مرحلہ ہے۔ اس لیے ایک سال تک انہوں نے ایسے علاقہ کی تلاش کی جہاں وہ چاندنی چوک کا منظر پیدا کر سکیں۔ان کی تلاش راجستھان کے سمبھر علاقے پر جا کر ختم ہوئی۔اب وہاں چاندنی چوک کا سیٹ بنے گا۔ سلمان کی قیمت سلمان کو اپنی قیمت کا اندازہ ہے اس لیے ہی شاید انہوں نے زی ٹیلی فلمز کی جانب سے سو کروڑ روپوں کی پیشکش ٹھکرا دی۔ہمارے خبرو نے خبر دی کہ زی نے سلمان کے ساتھ سو کروڑ روپوں کا معاہدہ کرنے کی بات کہی۔ ابھی بات چیت جاری تھی کہ سلمان کو پتہ چلا کہ یہ قیمت تین فلموں کے لیے ہے تو انہوں نے اس سے انکار کر دیا۔اور کیوں نہ ہو جب سلمان اب رائٹر بھی بن چکے ہیں اور انہیں ایک فلم کے لیے پینتیس کروڑ روپے مل رہے ہیں تو پھر وہ اس وقت اس قیمت پر ایک ساتھ تین فلموں کا معاہدہ کر کے اپنا نقصان کرنا نہیں چاہ رہے ہیں۔صحیح جا رہے ہوں سلو بھیا۔ گلوکار فرحانبالی وڈ میں اب ہر فنکار ہمہ جہت بننے کی کوشش میں ہے۔ کوئی اداکار ہدایت کار بن رہا ہے تو کوئی گیت گارہا ہے۔اب فرحان اختر بھی ان کے نقش قدموں پر چلنے کی کوشش میں ہیں۔ وہ پہلے ہدایت کار بنے پھر اداکار اور اب وہ گلوکار بن گئے ہیں۔جی ہاں چونکیے مت ! انہوں نے موسیقار شنکر احسان لوئے کی جوڑی کے ساتھ ایک دو نہیں پورے چار نغمے ریکارڈ کیے ہیں اور فلم کا نام ہے ' راک آن ' اکشے کا کمال اکشے کمال کرنے میں ماہر ہیں۔سٹنٹ کرنے اونچی لمبی چھلانگ لگانے میں کوئی اداکار ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن اب پتہ چلا ہے کہ وہ روزانہ اسی سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے ہیں۔آسٹریلیا میں ' سنگ از کنگ ' نامی فلم کی شوٹنگ چل رہی ہے۔ اکشے اور یونٹ کے کچھ ممبرز وہاں کی طویل ترین عمارت کے ایک فلیٹ میں رہتے ہیں۔ اور اکشے روزانہ گھنٹوں کام کرنے کے بعد اسی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچتے ہیں۔ یش راج فلمزکی پریشانی اس سال ایک دو نہیں چار فلاپ فلمیں دینے کے بعد یش چوپڑا اور آدتیہ چوپڑہ بہت پریشان ہیں۔ان کی صرف ایک ہی فلم کامیاب ہوئی وہ تھی شاہ رخ خان کی ’چک دے انڈیا ‘۔ یش راج نے اپنے تین لکی سٹارز شاہ رخ ، پریتی زنٹا اور رانی مکھرجی کے ساتھ ایک ہنگامی میٹنگ کی اور اس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایک بار پھر خان، پریتی زنٹا اور رانی مکھرجی کو لے کر ایک فلم بنائی جائے۔ویسے آدتیہ ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔ اگر رانی آپ کے لیے لکی ہیں تو پھر ان کے ساتھ کی گئی دو فلمیں فلاپ کیوں ہوئیں؟ اڈلی سامبھر مچھلی ہم کسی ہوٹل کا مینو نہیں پڑھ رہے ہیں بلکہ ہم یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ سب آج کل کرینہ کپور کے ڈائٹ کا حصہ بن چکے ہیں۔گوا میں فلم گول مال رٹینز کی شوٹنگ ہو رہی ہے۔ وہاں کرینہ اور امرتا ارورہ ڈائٹنگ کر رہی ہیں اور ان کے کھانے کا شیڈول پڑھ کر آپ پریشان ہو جائیں گے صبح صرف چائے یا کافی ۔دو گھنٹوں بعد اڈلی سامبھر ، دوپہر میں گوا میں بنی مچھلی کا سالن اور تھوڑا سا چاول، شام کے وقت مونگ پھلی اور چنا چائے کے ساتھ اور رات میں پنیر ٹکہ ،ٹماٹر سوپ اور سویا ڈائٹ۔اس لیے دونوں نے اپنا دس کلو وزن کم کر لیا۔ سیف کا تحفہ سیف نے اس مرتبہ کرینہ کو نہ تو سالٹیر ہیرا دیا نہ ہی کوئی لباس بلکہ اس مرتبہ سیف نے کرینہ کو لیپ ٹاپ تحفہ میں دیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ جلد از جلد کمپیوٹر سیکھ لیں۔ارے بھئی اگر آپ کسی ایسے جگہ پہنچ گئے جہاں فون کا نیٹ ورک کام نہ کرتا ہو تو ؟ حال دل سنانے کے لیے لیپ ٹاپ پر چیٹ کرنا سب سے آسان ہے۔ امرتا راؤ کی لاٹری امرتا راؤ نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ انہیں کسی روز سلمان خان کا فون آئے گا اور وہ ان کی خوبصورتی کی تعریف کریں گے۔جی ہاں امرتا کو جب سلمان خان نے فون کر کے کہا کہ وہ اپنی نئی آنے والی فلم ' مائی نیم از انتھونی گونسالویز 'میں بہت حسین لگ رہی ہیں تو انہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ انہیں لگا کوئی ان کے ساتھ مذاق کر رہا ہے لیکن جب سیٹ پر موجود فلمساز بونی کپور نے بھی بات کی تو امرتا کے ہوش ہی اُڑ گئے۔دراصل اس فلم میں امرتا نے اپنی سیدھی سادی شلوار اور ساڑھی امیج والی لڑکی کے ایک ماڈرن لڑکی کی طرح جدید لباس پہنے ہیں۔اب پتہ نہیں کہ قطرینہ کا اس پر کیا رد عمل ہوتا ہے۔ لکی بائے چانس خبریں یہ تھیں کہ جاوید اختر کی بیٹی اور فرحان کی بہن زویا فلم ' لکی بائے چانس ' بنانے کے لیے تبو کے پاس گئیں۔باتیں طے ہو گئیں لیکن اس دوران تبو نے زویا سے فلم کے سکرپٹ کو بدلنے کے لیے کہہ دیا۔ زویا نے تبو کے کہنے پر عمل کیا انہوں نے تبدیلی کی لیکن سکرپٹ بدلنے کے بجائے ہیروئین بدل دی۔اور اب ان کی فلم میں کونکنا سین کام کریں گی۔ مسالہ فلم کا سوال ہے مادھوری ڈکشت اور سری دیوی کی طرح اب کرشمہ کپور بھی فلموں میں واپسی چاہتی ہیں لیکن ان کا مطالبہ ہے کہ وہ فلم مسالہ فلم ہو کیونکہ آج کل ایسی ہی فلمیں پسند کی جا رہی ہیں۔ویسے کئی فلمساز کرشمہ کے پاس سکرپٹ لے کر پہنچے ہیں لیکن اب تک کرشمہ کو کسی کی بھی سکرپٹ پسند نہیں آیا۔ بی بی کیا آپ جانتی نہیں کہ بالی و ڈ کی زیادہ تر فلمیں مسالہ فلمیں ہی ہوتی ہیں یا پھر آپ فلموں کے انتخاب میں اتنی دیر نہ کر دیں کہ پھر پ کے پاس ہیروئین نہیں ہیروئین کی ماں کے رول کے لیے لوگ آنے لگیں۔ |
040101_majlis_article_rza | https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/01/040101_majlis_article_rza | ایم ایم اے، آسان باش! | اقبال نے کبھی کہا تھا | یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لئے------! کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف اقبال کے زمانے میں فقیہانِ شہر کا یک زبان ہونا غالباً اتنی بڑی بات ہو گی کہ انہوں نے مومنوں کو اس بات کی مبارکباد دی کہ ’میرے خلاف ہی سہی، فقیہانِ شہر اکٹھے بھی ہو گئے ہیں اور یک زباں بھی ہیں۔‘ مجھے نہیں معلوم کہ اگر آج حضرتِ علامہ مملکتِ خدادادِ پاکستان کے سیاسی اور مذہبی فقیہان کو دیکھتے تو اپنے جذبوں کو موزوں لفظوں میں کس طرح ڈھالتے؟ شاید آج بھی وہ مبارکباد ہی پیش کرتے کہ پاکستان کے سیاسی مصلحین اور مذہبی مبلغوں نے کہ جن کی زبان جنرل مشرف کو غدار تک کہنے سے بھی نہیں چُوکی تھی، یک زبان ہو کر ملک کا صدر منتخب کروا دیا۔ چلیں کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے سترہویں ترمیم پر لے دے کے بعد اتفاق ہوا اور جنرل صاحب کو صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ پارلیمان کے زیریں اور بالا دونوں ہی ایوانوں سے اعتماد کا ووٹ مل گیا۔ اے آر ڈی والے بے نواؤں نے تھوڑا بہت شور و غل کیا مگر مجلسِ عمل کے رہنماؤں نے اس ’لہو و لعب‘ سے اجتناب کرتے ہوئے خاموش رہ کر بھی وہ بات کہہ ہی دی کہ جو عرصۂ دراز تک جنرل مشرف کے کانوں میں رس گھولتی رہے گی۔ لوگ کہیں گے کہ مجلسِ عمل نے دو صوبوں میں اپنی حکومتیں بچانے اور عدالتِ عظمٰی سے اپنی اسناد کے خلاف فیصلہ رکوانے کے لئے جنرل صاحب کو اپنا سب کچھ مان لیا ہے۔ لیکن شاید ایسا نہیں ہے۔ بھلا مجلسِ عمل کے اکابرین کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی کیا پروا؟ اور پھر حق و باطل کا امتیاز جن کی طبیعتِ ثانیہ بن چکا ہو انہیں کوئی اس طرح کا طعنہ کیسے دے سکتا ہے؟ نیکی اور بدی یا خیر و شر اکابرینِ مجلس کو سمجھانا گویا سورج کو چراغ دکھانا ہی ہے۔ یقیناً جنرل صاحب اس قابل ہوں گے کہ اعتماد (کے ووٹ) کے وقت ان کی مخالفت نہ کی جائے ورنہ مجلس کے رہنماؤں میں اتنی اخلاقی جرآت ہے کہ وہ ’شر‘ کی کسی بھی پیش قدمی کے خلاف ’سیسہ پلائی دیوار‘ بننے کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بس سمجھ میں نہ آنے والی بات محض اتنی ہے کہ وہ زبانیں جن پر خطابت نثار رہتی ہے اور جن کی کاٹ کا شہرہ ایک زمانے میں ہے، انہیں نیام میں رہنے کے لئے کسی معاہدے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر ہمارے جنرل صاحب اعتماد کے ووٹ کے قابل نہ تھے تو اسلامی شِعار کے مطابق اس کا برملا اظہار تو عینِ ثواب تھا۔ اور اگر جنرل صاحب اعتماد کے قابل تھے تو اس حقیقت کے اعلان میں سخاوت کی بجائے بُخل کیوں اور خاموشی چہ معنی؟ مسئلہ اضداد کا نہیں تھا بلکہ نقیضین کا تھا۔ لہذٰا بیچ کی کوئی راہ اختیار نہیں کرنی تھی بلکہ دو میں سے ایک بدل کا انتخاب کرنا تھا۔ مجلس کے پاس اپنے اس عمل کے جواز بھی بے شمار ہوں گے اور تاویلیں بھی لا تعداد ہوں گی۔ ویسے بھی: فقیہِ شہر قاروں ہے لُغت ہائے حجازی کا حسبِ معمول اب مجلس کہے گی کہ اس کا یہ فیصلہ پاکستان کے وسیع تر قومی مفاد میں ہے۔ اور پاکستان کے وسیع تر مفاد کی یہ بے چاری اصطلاح اتنی وسیع المعنی ہے کہ جس نے جب چاہا اپنے مفاد کے لئے اس کا بے دریغ استعمال کیا۔ جنرل ضیاء الحق سے پہلے کا زمانہ چھوڑیئے، گزشتہ پندرہ سال کے دوران پہلے پاکستان کے وسیع تر مفاد میں بے نظیر کو اقتدار دیا گیا اور پھر واپس لے لیا گیا۔ پاکستان کے اسی وسیع تر مفاد میں پہلے نواز شریف کو منتریوں کا پردھان بنایا گیا اور بعد میں جلا وطن کر دیا گیا۔ پاکستان کے اسی وسیع تر مفاد میں مجلسِ عمل کے ایک اہم ترین بازو یعنی جماعتِ اسلامی کو آگے کر کے ’دشمن ملک‘ کے وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپئی کے نہ صرف استقبال سے انکار کیا گیا بلکہ لاہور میں اُن کی ’آؤ بھگت‘ بھی کی گئی اور آج پھر پاکستان کے وسیع تر مفاد میں واجپئی سے محبت کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں اور اسلام آباد میں ان کے لئے دیدہ و دل فرشِ راہ ہیں۔ پاکستان کے وسیع تر مفاد کی اصطلاح کی بے حرمتی کرکے ایک بار پھر اسے ہی مجلس کے تازہ ترین اقدام کا جواز بنایا جائے گا اور مجلس کی ’خاموش بیانی‘ ایک مقدس عمل بن کر تاریخ کے کسی صفحے پر رقم ہو جائے گی۔ یہ تو صرف تاریخ کی چھان پھٹک کرنے والوں کو ہی پتہ چلے سکے گا کہ فقیہانِ پاکستان ہی چہرے بدل بدل کر کبھی جنرل ضیاء کو راج کرواتے ہیں اور کبھی جنرل مشرف کے سر پر اعتماد کا تاج سجاتے ہیں۔مجلس کی دیگر جماعتوں نے اگر ایسا نہیں بھی کیا تو ایسوں کے ساتھ شریک ضرور ہو گئی ہیں۔ اقبال نے ’ابلیس کی مجلسِ شورٰی‘ میں پتہ نہیں کیوں کہا تھا جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں---------------! |
060927_nida_fazli_feature_rs | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/09/060927_nida_fazli_feature_rs | ساتوں دن بھگوان کے۔۔ | میرا ایک دوہا ہے، | ساتوں دن بھگوان کے، کیا منگل کیا پیرجس دن سوئے دیر تک بھوکا رہے فقیر اس دوہے کو لکھے ہوئے کئی سال بیت گئے تھے آج اچانک یاد آ گیا۔ اس کی یاد آنے کی وجہ مہاراشٹر کے پاور لوم کے شہر مالیگاؤں میں آٹھ ستمبر کو ہونے والے دھماکے ہیں جن کی لپیٹ میں آئے بتیس لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے۔ سو سے زائد گھائلوں میں بڑی تعداد ان بھکاریوں کی بتائی جاتی ہے جو شب بارات کے دن دور دور سے چل کر وہاں کی رحمانی مسجد کے سامنے اور مسجد سے تھوڑے فاصلے پر بڑے قبرستان کے ارد گرد بیٹھے تھے۔ جو بھیک مانگ کر روزی روٹی چلاتے ہیں وہ مذہب کی تقسیم کو نہیں مانتے۔ ان کے لیئے مندر کے بھگوان، مسجد کے رحمان یا مالیگاؤں کے بڑے قبرستان میں قبروں کے نشان ۔۔۔ سب برابر ہوتے ہیں۔ سیاست بکھاریوں کی اس سیکولر خاصیت سے بخوبی واقف ہوتی ہے اس لیئے کبھی ان کے ماتھے پر تلک لگاکر رام سیوک بنا دیا جاتا ہے ۔ کبھی ان کے سر پر ٹوپی رکھ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگوایا جاتا ہے اور کبھی سیاسی قوت کے اظہار کے لیئے انہیں گاؤں کھیڑوں سے بلا لیا جاتا ہے۔ جدھر بھی روٹی بلاتی ہے غریبی ادھر چلی جاتی ہے۔ غریبی کی دنیا کھاتے پیتے لوگوں کی دنیا کی طرح سیماؤں اور سرحدوں میں نہیں بٹتی۔ اس کی دنیا روٹی سے شروع ہوتی ہے اور روٹی پر ہی ختم ہوجاتی ہے۔ وہ خدا کو مورت یا قدرت کے روپ میں نہیں سوچتی۔ تاج محل کی نگری کے شاعر نذیر احمد غالب کے سینئر ہم عصر تھے۔ آدمی کی سوچ اور نظریے میں اس کا طبقہ جھانکتا ہے۔ اسی طبقاتی اعتبار سے غالب کی فکر کا مرکز موت، زندگی، خدا اور کائنات تھے جبکہ نذیر جو گھر گھر جاکر بچوں کو پڑھانے والے استاد تھے ان کے مضامین روٹی، مفلسی اور خیرات تھے۔ وہ کھاتے پیتے لوگوں کی دنیا میں بھوکوں ننگوں اور پھکڑوں کے شاعر تھے۔ ان کے اسی گناہ کےسبب ایک لمبے عرصے تک ادب کے ناقدوں نے انہیں منہ نہیں لگایا۔ کبیر کی طرح نذیر کو بھی تاریخ نے بہت دیر سے اپنایا۔ نذیر عوامی شاعر تھےاور عام لوگوں کی ہی طرح ان کی قسمت میں بھی غریبی کے راستے میں بھاگتی دوڑتی روٹی کا پیچھا کرنا تھا۔ غالب شکم سیر فلسفے کے فنکار جبکہ نذیر بھوک میں روٹی کی تلاش کے کلاکار تھے۔ غالب فرماتے ہیں:دل ڈھونڈھتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دنبیٹھے رہیں تصورجاناں کیے ہوئے غالب کو تصورجاناں کے لیئے فرصت درکار تھی اور نظیر کی شاعری غریبی کے روگ سے بیمار تھی۔ نذیر کے ’روٹی نامے‘ کا یہ بند ملاحظہ ہو۔پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سےیہ مہروماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کےوہ سن کے بولا بابا، خدا تم کو خیر دےہم تو نہ چاند سمجھے نہ سورج ہی جانتےبابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں دہشت کون پھیلاتا ہے، اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، کون اس کے آگے ہے، کون اس کے ساتھ ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب کی تلاش سوچنے والوں کو مسلسل بھٹکاتی رہتی ہے۔ ان سوالوں کے جواب لوگ اپنے اپنے محدود دائروں میں ٹٹولتے نظر آتے ہیں۔ کوئی اسلام کو اس کا ذمےدار مانتا ہے کوئی اسے عیسائیت کی شکل میں پہچانتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جسے میں نے ’جانے دو‘ سے جوڑا ہے صدیوں سے مٹھی بھر لوگوں کے استحصال کا شکار ہے، اس سچ کو چھپانے کے لیئے بڑی بڑی اسکیمیں بنائی جاتی ہیں، رنگ برنگی تصویریں چھپوائی جاتی ہیں، نئی نئی دیواریں ڈھائی جاتی ہیں، طرح طرح کی نقابیں پہنائی جاتی ہیں اور اس طرح عام آدمی کی سوچ کی آزادی پر کنڈی چڑھائی جاتی ہے۔ ہمارا سماج چرواہوں اور بھیڑوں کا سماج ہے۔ چرواہے شمار میں بھلے ہی کم ہوں لیکن ان کی ہانکنے والی لکڑیوں کا خوف زیادہ ہوتا ہے۔ بھیڑیں شمار میں خواہ کتنی زیادہ کیوں نہ ہوں ان کا مذہب چرواہوں کے پیچھے ہی چلنا ہوتا ہے۔ وہ یوں ہی چل رہی ہیں، صدیوں سے چل رہی ہیں، کیونکہ انہیں چپ چپ چلنے والی بھیڑ اسی ایشور، گاڈ یا خدا نے بنایا ہے۔ ہمارے سماج میں مذہب نے ہمیشہ اس قادر مطلق کو مطلق العنان کے طور پر سوچا اور مشتہر کیا ہے۔ اس فکر کی تبلیغ نے آدمی کی جہد کو نامرد بنا دیا ہے۔ اس نامردی کے خلاف جو آواز اٹھاتا ہے مجرم گردانا جاتا ہے۔ ’اپنے اختیار‘ کی بات رب العالمین کے نزدیک گستاخی تصور کی جاتی ہے۔ ایشور کے اسی روپ کے حکم کے مطابق دروپدی داو پر لگائی جاتی ہے اور پتی کے ساتھ زندہ پتنی جلائی جاتی ہے۔ اور جب اس کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے تو مراٹھی کے درویش شاعر تکارام کی پوتھی ان سے چھین کر ندی میں بہائی جاتی ہے۔ کچھ سال قبل ممبئی کے کئی علاقے شراب کے غیر قانونی اڈّوں میں جگمگاتے تھے۔ وہاں اسکاچ سے ٹھرّے تک ہر طرح کی شراب ملتی تھی۔۔۔۔ شرابوں کے برانڈوں کے حساب سےپینے والوں کی فکر بھی اونچی نیچی ہوتی تھی۔ الگ الگ میزوں کو سجائے لوگ نشہ کر رہے تھے، انہی میں ایک میں بھی تھا۔ اسکاچ والی میز سے آواز آئی ’مائی ڈیر گاڈ از اے کانسپٹ‘، وہ دکھائی نہ دے کر ہر جگہ ہے‘۔ ہندوستانی وہسکی والے اسی موضوع پر بول رہے تھے، ’وہ بھلے ہی نظر نہ آئے لیکن اس پر یقین کرنے سے دل کو سکون ملتا ہے‘۔ غریبی کسی طرح کی ہو، کسی علاقے کی ہو وہ ایک بینک ڈرافٹ کی طرح ہے جسے ہر کوئی جیب میں ڈالے گھومتا ہے اور جہاں ضرورت ہوتی ہے اسے کیش کرا لیتا ہے۔ لیڈر اسے کیش کراکے کرسی پاتا ہے، مصور اسے کیش کراکے اس سے تصویر بناتا ہے، شاعر اسے کیش کراکے انسانیت کا پرچم لہراتا ہے۔ غریبی سب کی ضرورت ہے۔ اس کے ہونے سے ہی سماج کی چمک دمک ہے۔ دنیا میں چہل پہل ہے۔ پریم چند کی ایک مشہور کہانی ’ کفن‘ کے بارے میں ایک دلت ناقد کی تنقید یاد آتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا پریم چند دلتوں کے متوسط طبقے کے ہمدرد تھے۔ خود دلت نہیں تھے اس لیئے بیوی اور بہو کی موت سے اگائے چندے کو شراب بناکر پیتے ہیں اور آلو بھون کر کھاتے ہیں۔ اس سماجی ناانصافی کے خلاف وہی آواز اٹھاتے ہیں۔ مالیگاؤں کی خبر پڑھ کر میں نے ایک غزل کہی تھی، اس کا ایک شعر ملاحظہ ہو:کہیں کی بھوک ہو ہر کھیت اس کا اپنا ہےکہیں کی پیاس ہو آئےگی وہ ندی کی طرح۔ |
150311_muslim_prisoners_as | https://www.bbc.com/urdu/world/2015/03/150311_muslim_prisoners_as | برطانوی جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد کیوں زیادہ ہے؟ | یہ ایک راز ہے۔ | جیلوں میں مسلمان قیدیوں کا تناسب 14.4 فیصد ہے جو کہ 2002 میں 7.7 فیصد تھا۔ کیوں جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے؟ سنہ 2002 میں انگلینڈ اور ویلز قید 5,502 قیدیوں نے کہا تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔ تین سال بعد یہ تعداد بڑھ کر 7,246 ہو گئی اور اب دسمبر 2014 میں یہ 12,225 بتائی جا رہی ہے۔ ٹھیک ہے قیدیوں کی مجموعی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہ تعداد 2002 میں 70,778 تھی جو کہ گزشتہ دسمبر تک بڑھ کر 84,691 ہو گئی تھی۔ لیکن جیلوں میں قیدیوں کی 20 فیصد بڑھنے والی تعداد مسلمان قیدیوں کی تعداد سے کہیں کم ہے جو کہ 122 فیصد بڑھی ہے۔ اس کی ایک ممکنہ وضاحت تو یہ ہو سکتی ہے کہ مسلمانوں کی مجموعی آبادی بھی بڑھی ہے۔ سنہ 2001 کی مردم شماری میں انگلینڈ اور ویلز میں مسلمانوں کی تعداد کل آبادی کا تین فیصد تھی جو کہ تقریباً 1.5 ملین بنتی تھی۔ سنہ 2011 میں یہ تعداد بڑھ کر 4.8 فیصد یعنی 2.7 ملین ہو گئی۔ سو آپ کہیں گے کہ اسی تناسب سے جیلوں میں بھی قیدیوں کی تعداد بڑھی۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو جیلوں میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔ اب جیلوں میں مسلمان قیدیوں کا تناسب 14.4 فیصد ہے جو کہ 2002 میں 7.7 فیصد تھا۔ دہشت گردی پر میڈیا کی توجہ سے لگے گا کہ جیلوں میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا تعلق اسلامی دہشت گردوں کو دی جانے والی سزاؤں سے ہے۔ لیکن اعداد و شمار یہ نہیں بتاتے۔ وزارتِ انصاف کے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ اکتوبر 2012 سے لے کر جنوری 2015 تک 178 قیدیوں میں سے 104 مسلمان قیدی دہشت گردی جیسے جرائم کی وجہ سے قید ہیں جن کا محرک انتہا پسندانہ نظریات ہیں۔ یہ تعداد مسلمانوں کی کل آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ ایک اور عنصر جو بتایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ غیر ملکی قیدیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جو کہ گزشتہ برس 10,500 تھی۔ جیلوں میں مسلمان قیدی سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے وزارتِ انصاف کے 2013 کے ایک تجزیے کے مطابق مسلمان قیدیوں میں سے 30 فیصد برطانوی شہری نہیں۔ گزشتہ برس 10 غیر ملکی قیدیوں میں سب سے نمایاں دو مسلمان ممالک میں سے تھے: پاکستانی (522) اور صومالی (417) تھے۔ اس سے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ برطانیہ کی نسلی گروہ اور آبادی کی ہییت بدل چکی ہے جس کی وجہ امیگریشن میں اضافہ، بیرون ممالک سے سفر، اور غیر ملکی ماؤں کے بچے ہیں۔ اس لیے جیل کی آْبادی بھی بدل چکی ہے جس میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ لیکن اس کے کچھ پسِ پردہ پہلو بھی ہیں۔ سنہ 2010 میں اس وقت کی چیف انسپکٹر آف پرزن ڈیم این نے جیل میں مسلمانوں پر ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں انھوں نے جیل میں مسلمانوں کی تعداد کا تعلق عمر اور معاشی اور اقتصادی پروفائل سے جوڑا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’برطانیہ میں زیادہ تر مسلمان قیدیوں کی عمریں غیر مسلموں سے کم ہیں اور زیادہ تر نچلے درجے کے سماجی اور اقتصادی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ گزشتہ برس 58 فیصد مسلمان قیدی 30 سال یا اس سے کم عمر کے تھے۔ گزشتہ برس ایک اہم رپورٹ میں ہورنسے ریچڈ کی لیڈی لولا ینگ نے بھی رپورٹ میں کہا تھا کہ اس بات کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں کہ انھیں روکا جائے اور ان کی تلاشی لی جائے، اور اس کے بھی زیادہ امکانات ہیں کہ وہ رحم کی اپیل نہ کریں اور ان پر مقدمہ چلے۔ ’یہ عدم مساوات ملازمت، صحت اور سماجی برابری نہ ہونے کے ایک پیچدہ مرکب کا حصہ ہے جو ان کی زندگیوں پر اثر کرتا ہے۔‘ لیکن ان کی تحقیق سے ایک اور پریشان کن بات بھی سامنے آتی ہے اور وہ امتیازی سلوک ہے۔ اس کے مطابق پالیسی بنانے والے اور سیاستدانوں کو ابھی منفی سٹیریوٹائپنگ اور ثقافتی فرق کا اثر صحیح طرح سمجھ نہیں آیا۔ لیڈی ینگ نے کہا کہ ’ہم جن قیدیوں کو ملے ان میں سے سبھی نے کہا کہ ان کی نسل، قومیت اور عقیدے کی وجہ سے ان سے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔‘ ’سیاہ فام قیدی محسوس کرتے ہیں کہ انھیں منشیات فروش سمجھا جاتا ہے اور مسلمانوں کو دہشت گرد۔‘ یہ بھی قابلِ ذکر بات ہے کہ جیل میں ایک مرتبہ رہا ہو کر دوبارہ جرم کر کے سزا پانے والے مسلمان قیدیوں کا تناسب دوسرے قیدیوں سے بہت کم ہے۔ |
070311_bollywood_diary_na | https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2007/03/070311_bollywood_diary_na | خان کی باڈی، رانی کی ناک، شلپا کی آفرز | کنگ خان کی باڈی | کنگ خان آج کل پروٹین پر مبنی غذا کھا رہے ہیں اور اپنی باڈی بنانے کے لیے ہفتے میں چار مرتبہ اپنے خصوصی ٹرینر کے ساتھ مشق کر رہے ہیں۔ خان اپنی ہوم پروڈکشن فلم ’اوم شانتی اوم ‘ کے لیے اتنی محنت کر رہے ہیں کہ اب وہ بھی اپنے سلو بھیا کی طرح شرٹ اتار کر رقص کر سکتے ہیں۔۔ کیا خیال ہے؟ ہمیں تو لگتا ہے کہ اب سلو بھیا اور کنگ خان کے درمیان مقابلہ ہو ہی جانا چاہیے۔ ملکہ کی جیتملکہ حسن ایش اور شلپا شیٹی کو شکست دے کر ملکہ شیراوت نے آخر کار ہالی وڈ فلم ’ان ویلڈ‘ حاصل کرلی ہے۔ہالی وڈ فلمساز بل بینرمین کی فلم میں وہ ایک ایشیائی مسلم خاتون کا کردار نبھائیں گی جس کے دو شوہر اور ایک محبوب ہے۔ اسی کردار میں وہ بہت بولڈ بھی ہیں۔ اب سمجھ میں آیا آپ کی کہ ملکہ کیوں جیت گئیں! آپ پوچھیں گے یہ ابھیش کون ہے؟ ارے بھئی بالی وڈ نے شارٹ فارم کے طور پر ابھی(ابھیشیک بچن ) اور ایش کو ملا کر ابھیش بنا دیا۔ خیر ابھیش کی شادی کی تاریخ پھر ٹل گئی۔ ہمارے خبری نے خبر دی ہے کہ دونوں شادی کے لیے بہت بے چین ہیں لیکن کیا کریں دونوں اتنے مصروف ہیں کہ وہ شادی کی تاریخ پر بات کرنے کے لیے وقت نہیں نکال پا رہے۔ اُف رے مجبوری۔ ایش جودھا اکبر کی شوٹنگ میں مصروف ہیں تو ایب درونا کی شوٹنگ میں۔ ارے ٹھہریے درونا کی شوٹنگ تو منسوخ ہو گئی ہے، تو پھر شاید کچھ وقت نکل آئے۔ اب آپ ایک بار پھر انتظار کیجیے ابھیش کی شادی کی تاریخ اور جگہ کا کیونکہ سنا جارہا ہے کہ یہ شادی اب اومید پیلس میں نہیں ہوگی۔ رانی مکھرجی کی ناک کٹ گئی۔ وہ محاورے والی ناک نہیں بلکہ اصلی ناک۔ رانی اور کونکنا فلم ’لاگا چنری میں داغ ‘ کی شوٹنگ کر رہی تھیں۔ دونوں پر رقص کا منظر فلمایا جا رہا تھا۔ کونکنا کے ہاتھ سے وہ کھلونا گر پڑا جسے لے کر وہ ناچ رہی تھیں اور وہ سیدھے رانی کی ناک پر لگا۔ رانی کی ناک پر گہرا نشان بن گیا۔ کونکنا نے رانی سے معافی مانگ لی اور رانی نے اس پر گہرا میک اپ لگا کر فوری طور پر چھپا لیا۔ برقع میں زیارت خواجہ معین الدین چشتی غریب نواز کے آستانہ پر اب ہربالی وڈ اداکارہ برقع میں حاضری دینے پر مجبور ہے۔ امیشا پٹیل اور ودیا بالن نے حال میں ہی آستانہ پر نہ صرف حاضری دی اور منت کا دھاگہ باندھا بلکہ برقع میں رہنے کی وجہ سے انہوں نے کافی وقت وہاں گزارا۔ ہمیں ڈر ہے کہ اب یہ خبر پھیلتے ہی لگتا ہے لوگ ہر برقع پوش کے آس پاس نہ منڈلانے لگیں۔ جان ابراہام ’بے جان‘ ہیں اور ان کے چہرے پر تاثرات ہی نہیں ہیں۔ بھئی یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں کیونکہ ہمیں تو بپاشا کے غصہ سے ڈر لگتا ہے۔ یہ ریمارکس دراصل ’بے بو‘ یعنی اپنی کرینہ کپور کے ہیں۔ دراصل بپاشا سے ان کی ’تو تو میں میں‘ پرانی ہے اور اب ’بے بو‘ نے اس جھگڑے کو بڑھا دیا ہے۔ کرینہ اب ایسی بھی کیا دشمنی۔ جہاں تک ہمیں پتہ ہے بے بو آپ کی کوئی فلم آسکر تک نہیں پہنچی۔ ہے ناں! سیف روزا کی جوڑی آخر وہی ہوا جس کی پیشن گوئی ہم نے پہلے ہی کر دی تھی۔ افسوس سیف ایک بار پھر اکیلے رہ گئے۔ ایسے وقت میں جبکہ سیف اپنی بیماری سے اٹھ بھی نہیں پائے، روزا کا ان کی زندگی سے چلے جانا کسی کو اچھا نہیں لگا۔ روزا واپس سوئٹزرلینڈ چلی گئی ہیں۔ ویسے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ بیماری کے دوران ان کی سابقہ بیوی امریتا سنگھ نے ان کی تیمار داری بھی کی اور میڈیا کی فون کالز کا جواب بھی دیا۔ ’کھویا کھویا چاند‘ فلم کی شوٹنگ کے دوران ایک روز اچانک سوہا کھوئی کھوئی سی لگیں۔ پتہ چلا وہ بچوں کی طرح ناراض ہو گئی ہیں کیونکہ انہیں سیٹ پر ان کا وہ من پسند دہی نہیں ملا جسے وہ ہمیشہ کھاتی ہیں۔ وہ تو اچھا ہوا کہ انہوں نے شوٹنگ منسوخ نہیں کی بلکہ شاٹ دینے کے بعد اپنی میک اپ وین میں جا کر دورازہ بند کر لیتی تھیں۔ فلمساز سدھیر مشرا نے وعدہ کیا کہ وہ دہی جہاں بھی ملے گا وہ اسے سوہا کے گھر ضرور پہنچا دیں گے۔ سوہا آپ بڑی کب ہوں گی؟ شلپا کے لیے ڈھیروں آفرز؟ سننے میں تو یہی آیا تھا کہ شلپا کے لیے ہالی وڈ اور بالی وڈ میں فلموں کا انبار لگ جائے گا۔ کہاں ہیں فلمیں؟ ایک ہالی وڈ کی فلم ملنے والی تھی وہ تو ملکہ کے حصے میں آگئی۔ لیکن بالی وڈ۔۔۔ ابھی تک کسی بھی فلمساز نے شلپا کے ساتھ فلم بنانے کا اعلان بھی نہیں کیا؟ ملکہ کمل حسن کی تمل فلم کی شوٹنگ کے لیے امریکہ جانے والی تھیں۔ لیکن عین وقت پر فلم کا شیڈول بدلنا پڑا اور پورا یونٹ کوالالمپور چلا گیا۔ یہ تبدیلی کیوں؟ ملکہ کی وجہ سے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے امریکہ کے ویزے کی تاریخ ختم ہو گئی تھی۔ ہمیں اس میں سے جھوٹ کی بو آرہی ہے ہمیں پتہ چلا کہ اتنے کم وقت میں ملکہ کو ویزا ہی نہیں دیا گیا۔ عامر کا نیا بزنس؟ عامر خان فلم اداکار ہیں اور آج کل اپنی فلمیں بھی بنا رہے ہیں، یہ تو سبھی جانتے ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آج کل اپنے چاکلیٹ لیکن سنجیدہ ہیرو کا نیا بزنس کیا ہے؟ انہوں نے بکروں کی افزائش اور بکروں کے فارم کا بزنس شروع کیا ہے اور یہ انہوں نے اپنے بھائی فیصل کی مدد کے لیے کیا ہے۔اتنے کامیاب ہیرو کے بھائی اور کامیاب فلمساز کے بیٹے ہونے کے باوجود فیصل فلموں میں ناکام رہے۔ کیا آپ کو یاد ہے ان کی فلمیں مدہوش ، میلہ۔۔۔۔ چلیے جانے دیجیے۔ بگ بی کا ورلڈ کپ کرکٹ میں انڈیا کی جیت اور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بگ بی نے ایک گیت گایا ہے۔اگر ( کاش ) انڈیا نے ورلڈ کپ جیت لیا تو اس میں بڑا ہاتھ بگ بی کے نغمے کا ضرور ہوگا۔ جی ہاں سنجو باباعرف منا بھائی ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ ہاٹ سیٹ پر شاہ رخ کے سامنے بیٹھے تھے۔ یقین نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ ہاٹ سیٹ پر بیٹھنے سے انہیں پسینہ آگیا تھا لیکن کنگ خان نے انہیں ’کول‘ کیا اور منا بھائی پچیس لاکھ روپے جیت گئے جو انہوں نے عطیہ کے طور پر دے دیے۔ ریکھا کی ’نہ ‘سدا بہار اداکارہ ریکھا نے اپنی ہی فلم ’یاترا‘ کی تشہیر (جس میں انہوں نے امراؤ جان کی طرح رقص کیا ہے) کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ وجہ؟ وہ کہتی ہیں کہ وہ میڈیا کو انٹرویو نہیں دیتی ہیں۔ ہاں اب تو ساری دنیا جانتی ہے لیکن ریکھا جی اتنی بھی پراسراریت کیوں؟ آخر آپ میڈیا کے سوالوں سے کیوں پریشان ہوتی ہیں؟کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک وقت یاسا آئے جب آپ انٹرویو دینا چاہیں اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو؟ واقعی میں سنجو بابا فلم کانٹے پارٹ ٹو کا سکرپٹ لکھ رہے ہیں۔ فلمساز سنجے گپتا سنجو بابا کی کہانی سے بہت خوش ہیں اور اس پر فلم جلد ہی بنے گی۔ گپتا چاہے خوش ہوں یا نہ ہوں منا بھائی آج کل بہت خوش ہیں کیونکہ وہ اس وقت عدالت کے جھنجھٹوں سے آزاد ہیں۔ رام ۔ لکھن دوست دوست آپ کو فلم یاد ہے رام لکھن جس میں رام تھے جیکی شروف اور لکھن انیل کپور۔ فلم بہت کامیاب ہوئی تھی لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ جب یہ فلم بن رہی تھی اس وقت دونوں اداکار ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن فلم میں دونوں بھائیوں کی محبت قابل دید تھی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ سنجو بابا اور گووندا جب فلمیں کرتے تھے اس وقت اسی طرح دونوں میں جھگڑا ہوتا تھا لیکن پردے پر ان کی جوڑی کامیاب کامیڈی جوڑی کہلائی۔ ہاں بھئی اسے ہی تو اداکاری کہتے ہیں۔ |
130802_book_review_zz | https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2013/08/130802_book_review_zz | امجد طفیل کی کلیاتِ منٹو کی اہمیت | نام کتاب: کلیاتِ منٹو | اُن پڑھنے والوں کے لیے جو لکھتے بھی ہیں عثمانی کی کلیات زیادہ کارآمد ہو گی مرتب: امجد طفیل ناشر: نےرےٹیو(Narratives) پرائیویٹ لیمیٹڈ۔ E-mail:info@narratives.pk سات جلدوں پر مشتمل امجد طفیل کی مرتب کردہ یہ کلیات سعادت حسن منٹو کی یہ پہلی کلیات نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی تین کوششیں ہو چکی ہیں۔ ایک پاکستان سے اور دو ہندوستان سے شائع ہوئیں۔ پاکستان سے پہلی کلیات چھ حصوں اور مخلتف ناموں سے سنگِ میل لاہور نے شائع کی۔ اس کے بعد ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کے لیے ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے چھ جلدوں میں تدوین کی۔ اسے حروف تہجی کی بنیاد پر مرتب کیا گیا۔ اس میں پہلی تین جلدوں میں افسانے ہیں باقی تین میں بالترتیب ڈرامے، خاکے اور مضامین۔ تیسری کلیات قومی کونسل برائے اردو زبان نئی دہلی کے لیے پروفیسر شمس الحق عثمانی نے مرتب کی۔ جسے اب اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان نے شائع کرنا شروع کیا ہے اور ابھی اس کے پہلی جلد آئی ہے۔ پہلی دو کلیات کے بارے میں امجد طفیل کا کہنا ہے: سنگِ میل لاہور سے شائع ہونے والی کلیات میں کئی فاش غلطیاں ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر ہمایوں اشرف کی مرتب کردہ کلیات میں بھی غلطیاں موجود ہیں۔ کلیات کی تدوین کے مسائل پر امجد طفیل نے اپنی کلیات کی تیسری جلد میں تفصیلی بات کی ہے۔ امجد نے پروفیسر عثمانی کی کلیات پر زیادہ بات نہیں کی، میں نے بھی وہ کلیات پوری نہیں دیکھی لیکن او یو پی پاکستان سے شائع ہونے والی ان کی کلیات کی پہلی جلد دیکھ کر ہی، میرے خیال میں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کا کام کیسا ہے، صحت کیسی ہے اور میری حد تک تو غلطیوں سے پاک ہے۔ امجد نے موجودہ کلیات کو سات جلدوں میں مرتب کیا ہے۔ پہلی تین جلدیں افسانوں پر مشتمل ہیں، چوتھی میں ڈرامے، پانچویں میں خاکے، چھٹی میں مضامین اور ساتویں تراجم پر مشتمل ہے۔ اس اعتبار سے اس کلیات میں سعادت حسن منٹو کا اب تک دریافت ہو سکنے والا تمام کام آ گیا ہے۔ اجمد طفیل کے اس کام کی اہم ترین بات یہ ہے کہ انھوں نے منٹو کے افسانوں کو مرتب کرتے ہوئے زمانی ترتیب کو سامنے رکھا ہے، اس سے پڑھنے والے کو منٹو کے تخلیقی سفر اور فنی اعتبار سے ہونے والی تبدیلیوں کو جاننے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ لیکن میری ناقص رائے میں اگر افسانوں، ڈراموں، خاکوں، تراجم اور مضامین کو زمانی اعتبار سے ترتیب دیا جائے اور پڑھا جائے تو ذہنی اور فکری سفر کو زیادہ بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ یعنی ترجمے، افسانے، ڈرامے اور خاکے سال بہ سال ترتیب دیے جائیں۔ یا کم سے کم موجودہ صورت میں بھی ایک ضمیمہ اس حوالے سے شامل کیا جائے تو تخلیقی اور فنی سفر زیادہ واضح ہو سکتا ہے۔ خیر یہ راستہ کھلا ہے اور اس اعتبار سے کام کرنا کسی کے لیے بھی پروفیسر شمس الحق عثمانی اور اجمد طفیل کی کلیات کے بعد خاصا آسان رہے گا۔ امجد طفیل کی کلیات یوں بھی اہم ہے کہ اس میں انھیں ’بطور خاص محمد سلیم الرحمٰن، ڈاکٹر تحسین فراقی، اور ڈاکٹر ضیا الحسن کی معاونت حاصل رہی ہے‘۔ امجد طفیل نے اس کلیات کی ہر جلد کے شروع میں کچھ نے کچھ تنقیدی مواد فراہم کیا ہے۔ مثلًا پہلی جلد میں عرصِ مرتب کے بعد انتہائی جامع حیات نامہ، منٹو کی خود اپنی مطبوعہ کتب اور ان کے مرتب کردہ رسائل کی تفصیل، منٹو پر لکھی جانے والی اور مرتب کی جانے والی کتب، خطوط اور فلمی کہانیوں کی تفصیل، کلیات، مجموعی کام، تحقیق و تنقید اور رسائل کے خصوصی نمبروں کی تفصیل ہے۔ جلد دوم میں عرضِ مرتب کے بعد ’سعادت حسن منٹو کے افسانے: تکنیکی و موضوعاتی تنوع‘ کے عنوان سے مضمون ہے۔ تیسری جلد میں جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا ہے عرضِ مرتب کے نوٹ کے بعد ’کلیاتِ منٹو اور تدوینِ متن کے مسائل‘ کے عنوان سے بہت سی ایسی باتیں بھی سامنے آ گئی ہیں جو ایسے بکھری ہوئی تھیں کہ کبھی پوری طرح سامنے نہیں آئی تھیں۔ کلیات کی چوتھی جلد ڈراموں پر مشتمل ہے۔ اس میں بقول منٹو کے ’ریڈیائی فیچر‘ بھی ہیں۔ ڈراموں کے بارے میں منٹو کے اس مشاہدے کو دہرانا ضروری ہے ’یہ ڈرامے روٹی کے اس مسئلے کی پیداوار ہیں جو ہندوستان میں ہر اس ادیب کے سامنے اس وقت تک موجود رہتا ہے، جب تک وہ مکمل طور پر ذہنی اپاہج نہ ہو جائے‘۔ اس جلد میں ’منٹو ڈرامے: فنی و فکری تجزیہ‘ کے عنوان سے مضمون شامل ہے۔ خاکوں پر مشتمل پانچویں جلد میں عرض مرتب کے بعد ’سعادت حسن منٹو کی خاکہ نگاری‘ کے عنوان سے مضمون ہے، جس سے خاکوں کے بارے میں اور کسی حد تک شخصیات کے بارے میں بھی معلومات ملتی ہیں۔ چھٹی جلد منٹو کے مضامین پر مشتمل ہے۔ اس میں منٹو کے افسانوں پر بنائے جانے والے مقدمات کے حوالے سے لکھے گئے مضامین کے علاوہ فحاشی کے بارے میں بھی مضامین شامل ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ان مضامین کے بارے میں ’سعادت حسن منٹو کے مضامین کا تجزیاتی مطالعہ‘ کے عنوان سے خود امجد طفیل کا بھی مضمون شامل ہے۔ ساتویں جلد میں منٹو کے کیے ہوے تمام تراجم یک جا کر دیے گئے ہیں۔ اس میں زیادہ ترجمے تو افسانوں کے ہیں لیکن ڈراموں اور شاعری کے تراجم بھی ہیں اور ان کے ساتھ باری علیگ اور منٹو کے اپنے لکھے ہوئے تعارفی مقدمات بھی۔ عرضِ مرتب میں امجد نے بالکل صحیح کہا ہے کہ ان تراجم نے منٹوکی فنی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ نئے لکھنے والے ان تراجم سے بھی کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ اگرچہ اصل بات تو ترجمے کرنے کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے مترجم زبان اور الفاظ کے اس تجربے سے گزرتا ہے جو ایک زبان کے احساسات، تجربات اور مشاہدات کو دوسری زبان میں لاتے ہوئے ہی حاصل ہوتا ہے۔ اس جلد میں ’منٹو کے تراجم کی تخلیقی حیثیت‘ کے عنوان سے امجد طفیل نے نہ صرف منٹو کے ترجموں کے انتہائی اہم پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے بلکہ ترجموں کی مجموعی نوعیتوں کو بھی موضوع بنایا ہے۔ بلاشبہ امجد طفیل کی مرتب کردہ کلیات شاید اب تک منٹو کی عمدہ ترین کلیات ہے۔ شاید میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے شمس الحق عثمانی کی تدوین اور ترتیب کا انداز زیدہ بہتر محسوس ہوا ہے۔ خاص طور انھوں نے جیسے حواشی میں بہت سی باتوں کی وضاحت کی ہے وہ پڑھنے والے کو ہر بات کا جواز بھی پیش کر دیتی ہے۔ اجمد طفیل کے اس کام کی اہم ترین بات یہ ہے کہ انھوں نے منٹو کے افسانوں کو مرتب کرتے ہوئے زمانی ترتیب کو سامنے رکھا ہے اُن پڑھنے والوں کے لیے جو لکھتے بھی ہیں عثمانی کی کلیات زیادہ کارآمد ہو گی، جب کہ عام پڑھنے والے کے لیے امجد طفیل کی مرتب کردہ کلیات دیگر تمام کلیات اور مجموعوں کے مقابل بہترین ہو گی۔ کیونکہ اس میں محض چند ایک غلطیاں ہیں اور وہ بھی ایسی ہیں منٹو کے کام کی اہمیت کو کسی طور کم نہیں کر سکتیں۔ ساتوں جلدوں کے صفحات اور قیمتیوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔ جلد اوّل: صفحات: 479، قیمت: 900 روپے۔ جلد دوم: صفحات: 656، قیمت: 1000 روپے۔ جلد سوم: صفحات: 501، قیمت: 900 روپے۔ جلد چہارم: صفحات: 674، قیمت: 900 روپے۔ جلد پنجم: صفحات: 279، قیمت: 575 روپے جلد ششم: صفحات: 574، قیمت: 850 روپے جلد ہفتم: 360، قیمت: 675 روپے۔ اگر آئندہ اشاعت میں ہر جلد میں باقی جلدوں کے مشمولات کی تفصیل، ہر جلد کے پشتے پر بھی جلد کا نمبر دینے اور شمس الحق عثمانی کے حواشی کا بھی فائدہ اٹھانے میں قباحت نہ سمجھی جائے تو اس کلیات کی افادیت اور بڑھ سکتی ہے۔ یہ کلیات دیدہ زیب ہے، قیمت کام کی نوعیت کے اعتبار سے اگرچہ مناسب ہے لیکن عام پڑھنے والوں کے لیے ضرور زیادہ ہو گی۔ |
120908_naseer_trabi_book_ka | https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2012/09/120908_naseer_trabi_book_ka | ’شعریات اصلاح اردو کی ایک کوشش‘ | کتاب: شعریات | عارف وقار بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور مصنف: نصیر ترابی ناشر: پیراماؤنٹ پبلشنگ انٹر پرائز صفحات: 215 قیمت: 345 روپے سنِ اشاعت:2012 سب سے پہلے یہ وضاحت کر دی جائے کہ معروف شاعر نصیر ترابی کی مرتب کردہ یہ کتاب محض عروض یا صنائع بدائع کے مباحث پر مبنی حدائق البلاغت جیسی کوئی تصنیف نہیں ہے بلکہ یہاں شعریات کا مفہوم بنیادی طور پر وہی ہے جو صدیوں پہلے ارسطو نے بوطیقا میں استعمال کیاتھا۔ سنسکرت، لاطینی اور کلاسیکی یونانی جیسی حنوط شدہ زبانوں کے صرفی و نحوی اصول و ضوابط چونکہ منجمد اور متحّجر ہو کر ایک حتمی شکل اختیار کر لیتے ہیں جن میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہوتا اس لیے اُن کا تجزیہ بھی آسان ہوتا ہے اور تدریس بھی۔ لیکن زندہ زبانوں کی صورتِ حال بہت مختلف ہے۔ اِن پر ایک طرف تو سیاسی، تجارتی اور معاشی سطح پر بین الاقوامی زبانیں اپنا اثر ڈالتی ہیں اور دوسری جانب روزمرہ استعمال کے میدان میں علاقائی بولیاں اِن پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ سوال لسانیاتی سے زیادہ سیاسی نوعیت کا ہے کہ ایک قومی زبان کو کس حد تک اِن بین الاقوامی اور علاقائی دھاروں کے رحم و کرم پر چھوڑا جاسکتا ہے۔ اہلِ فرانس نے اپنی زبان کو شُدھ رکھنے کی خاطر قومی سطح کی کمیٹیاں تشکیل دے رکھی ہیں جو فرینچ زبان میں داخل ہونے والے نامناسب الفاظ و محاورات کی چھانٹی کرتی رہتی ہیں۔ لیکن انگریزی والوں نے اپنی زبان کو دنیا بھر کی زبانوں اور ثقافتوں سے استفادہ کرنے کی چھوٹ دے رکھی ہے چنانچہ آج امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جزائر غرب الہند کی انگریزی اپنے مشترکہ خزینہء الفاظ کے ساتھ ساتھ مخصوص علاقائی لفظالی سے بھی مالا مال ہے۔ اور پاک و ہند میں استعمال ہونے والی انگریزی کو بھی ’انڈین انگلش‘ کے علیحدہ زُمرے میں تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں پنپنے والی اُردو بھی ایک خود رو پودے کی طرح اپنے برگ و بار نکال رہی ہے اور اصولاً اُس کی نشو نما کے بارے میں کسی طرح کی پریشانی کا کوئی جواز نہیں ہے لیکن عملاً صورتِ حال اس سے بہت مختلف ہے۔ کوئی بھی زبان جب اپنے ارتقاء کی اس منزل پہ پہنچ جاتی ہے جہاں اس کا ایک معیاری محاورہ متیعن ہو جاتا ہے تو پھر علاقائی دھارے اور عالمی اثرات اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بلکہ اس میں تنوع اور رنگا رنگی پیدا کرتے ہیں، جیسا کہ انگریزی کی مثال میں ہم نے دیکھا ہے لیکن گیسوئے اُردو تو ابھی منت پذیرِ شانہ ہے چنانچہ اس پر آرائش و زیبائش کے لئے پھُول پتیاں لگانا ایسا ہی ہے جیسے بال دھوئے بغیر اُن پر خوشبو چھڑک دی جائے یا گندے بالوں میں خوبصورت ریشمی ربن ڈال دیا جائے۔ اُردو کے بالوں میں کنگھی کرنے کی کوشش تو سترھویں صدی ہی سی جاری ہے۔ لیکن اصلاحِ زبان کا بِیڑا روائیتی طور پر وہی لوگ اُٹھاتے رہے ہیں جو شعر کو لسانی معائب سے پاک رکھنا چاہتے ہیں۔ انسیویں صدی میں واحد استثناء غالباً انشااللہ خان انشا ہیں جن کی دریائے لطافت میں دلی کے گلی کوچوں کی بولی ٹھولی کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے اور عام آدمی کی بول چال کو حرفِ مطبوعہ کے مقابل لا کھڑا کیا گیا ہے۔ نصیر ترابی کی شعریات اصلاحِ زبان کی اُنہی کوششوں کے سلسلے کی کڑی ہے جو نمودِ اُردو سے لیکر آج تک مختلف شکلوں میں جاری رہی ہیں۔ لیکن ماضی کے مصلحین کا مسئلہ اگر یہ تھا کہ گلی محلّے کی زبان کے اردوئے معلّیٰ پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، تو آج کا مصلحِ زبان واویلا کر رہا ہے کہ ایف ایم ریڈیو، ٹی وی چینلوں اور ڈائجسٹ ٹائپ کے رسالوں نے اردو کی شکل بگاڑ کے رکھ دی ہے۔ چنانچہ نئی نسل کی توجہ صحتِ زبان کی طرف دلانا اشد ضروری ہے۔ نصیر ترابی کی تصنیف، شعر کی تعریف سے شروع ہوتی ہے۔ وہ شعر کہنے کےلیے پانچ عناصر کو ضروری قرار دیتے ہیں، 1 ) موزونیء طبع 2 ) شعری مطالعہ 3 ) زبان آشنائی 4 ) خیال بندی 5 ) مشقِ سخن اسکے بعد وہ شاعر کی چار قسمیں گنواتے ہیں 1 ) بڑا شاعر 2 ) اہم شاعر 3) خوشگوار شاعر 4 ) محض شاعر اُردو میں بڑے شاعر اُن کے نذدیک صرف پانچ ہیں: میر، غالب، انیس، اقبال اور جوش۔ جبکہ اہم شاعروں میں وہ آٹھ نام گِنواتے ہیں: یگانہ، فراق، فیض، راشد، میراجی، عزیز حامد مدنی، ناصر کاظمی اور مجید امجد۔ شعر و ادب کے ناقدین اس فہرست کو کاملاً مسترد کر سکتے ہیں یا اسکی ترتیب بدل کر اس میں ترمیم و اضافہ کر سکتے ہیں۔ لیکن زبان و بیان کے ایک مبتدی اور شعر و سخن کے ایک نو آموز طالبِ علم کے لیے اس طرح کی واضح درجہ بندی اور دو ٹوک تقسیم بڑی حوصلہ بخش اور کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ کتاب کے دیگر اباب میں بھی مروجہ اصنافِ سخن، متروکہ اصناف، درست املا، تلفظ، تذکیرو ثانیت، واحد جمع، ُمنافات، مشابہ الفاظ، سابقے لاحقے، غلط العام الفاظ اور نافذہ اصطلاحات کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے اور نصیر ترابی نے اپنے مخصوص خوشگوار اور چُلبلے انداز میں ان خشک قواعدی موضوعات کو بھی اتنا دلچسپ بنا دیا ہے کہ گرامر سے بیزار کسی شخص کو بھی یہ کتاب تھما دی جائے تو ختم کئے بغیر اُٹھ نہیں سکے گا۔ کتاب میں جا بجا مشاہیرِ اردو کی تصنیفات سے انتہائی بر محل اقتباسات درج کیے گئے ہیں جن سے کتاب کی افادیت مزید بڑھ گئی ہے۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات |
060827_delhi_dairy_sen | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/08/060827_delhi_dairy_sen | وزیراعظم کے بھائی کو کیوں پکڑا گیا؟ | وزیر اعظم کی سادگی | گزشتہ دنوں وزیراعظم کی رہائش گاہ پر اسپیشل پروٹیکشن گروپ کے کمانڈوز نے ایک بزرگ سکھ وزیٹر کوحراست میں لے لیا۔ یہ بزرگ ایک آٹو رکشا کے ذریعے ہاتھوں میں بیگ لیئے ہوئے وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر پہنچـے تھے اور خود کو وزیراعظم کا بھائی بتا رہے تھے۔ حیران و پریشان کمانڈو پنـجاب میں سیکیورٹی فورسز سے ان کی تفصیلات حاصل کرنے کی کو شش کر رہی تھیں۔ اس دوران وزیراعظم کے مشیروں کو بھی خبر دی گئی کہ ایک شخص کو حراست لیا گیا ہے اور وہ خود کو وزیراعظم کا بھائی بتا رہا ہے۔ وزیراعظم منموہن سنگھ سے جب اس کا ذکر کیا گیاتو پتہ چلا کہ وہ واقعی ان کے بھائی تھے۔ دراصل مسٹر سنگھ نے انہیں لینے کے لیئے ریلوے اشٹیشن کار بھیجنی تھی لیکن وہ بھول گئے اور رہائش گاہ کے استقبالیہ کو بھی اس کی کوئی خبرنہیں دی۔بھائی کی خبر ملتے ہی مسٹر سنگھ بھاگتے ہوئے رسپشن پر پہنچے، اپنے بھائی سے معافی مانگی انھیں گلے لگایا اور ان کا سامان خود اٹھا کر اندر جانے لگے۔ حیران کمانڈو نے فورً ان کے ہاتھ سے سوٹ کیس لے کر اندر پہنچایا۔ صدی کی سب سے شاہانہ شادی پچھلے دنوں عالمی میگزین ’فوربس‘ نے اس صدی کی سب سے شاہانہ شادیوں کی فہرست پیش کی۔ اس میں ہندوستانی نژاد سٹیل کے بادشاہ لکشمی متل کی بیٹی کی شادی سب سے اوپر تھی۔ متل نے اپنی بیٹی ونیشا کی شادی کی میزبانی میں امریکہ، فرانس اور روس کے تین ارب پتیون کو بھی مات دے دی۔ جدید تاریخ میں اس طرح کی شادی کی ایک مثال دبئی کےموجودہ امیرشیخ محمد بن رشید المخدوم کی شادی کی دی جاتی ہے۔ ان کی شادی 1981 میں ہوئی تھی اور اس وقت تقریبا ساڑھے چار کروڑ ڈالر خرچ کیئے گئے تھے۔ جو آج کے دس کروڑ ڈالر کے برابر خیال کیئے جاتے ہیں۔گنیس بک آف ریکارڈز میں یہ دنیا کی سب سے شاہانہ شادی کے طور پر آج بھی درج ہے۔ اربوں کی دولت، کوئی وارث نہیں ہندوستان کے بینکوں میں تقریبا دس ارب روپے ایسے پڑے ہوئے ہیں جن کا کوئی دعوے دار نہیں ہے۔ یہ رقم ان کھاتوں میں پڑی ہوئی ہے جو دس برس یا اس سے زیادہ عرصے سے استعمال میں نہیں ہیں اوران کے بارے مین بینکون نے بھی جاننے کی کوشش نہیں کی ہے یہ کھاتے دار کہاں گئے۔ ان میں سے تقریبا ساڑھے آٹھ ارب روپے سرکاری ملکیت کے بینکوں میں ہیں۔اگر غیر استعمال شدہ کھاتوں کی مدت گھٹا کر دس کے بجائے پانچ برس کر دی جائے تو بے دعوے والی رقم تقریبا سو ارب تک پہنچ جاتی ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے بینکوں کو یہ ہدایت کی ہے کہ اگر کوئی کھاتہ ایک سال تک استعمال میں نہیں رہتا تو کھاتے دار کا پتہ لگایا جائے۔ سرکاری بینکون کو ابھی تک اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی کہ کوئی کھاتے دار اپنا اکاؤنٹ استعمال کیوں نہیں کر رہا۔ الٹے وہ کئی طرح کے چارجز بھی وصولتے رہے ہیں۔ بابری مسجد اور جودہ سالہ تحقیحقات بابری مسجد کے انہدام کے دس دن بعد 16 دسمبر 1992 کو جسٹس ایم ایس لبرہن کی قیادت میں ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا۔ مسجد کے انہدام کے بارے میں اس کمیشن کو اپنی رپورٹ تین مہینے کے اندر، مارچ 1993 تک پیش کرنی تھی لیکن چودہ برس گزرنے کے بعد اب بھی اس کمیشن کی رپورٹ مکمل نہیں ہو سکی ہے۔ کمیشن کے ایک ریٹائرڈ سیکریٹری ممبر کا کہنا ہے تاخیر کا بنیادی سبب وہ قانونی رکاوٹیں تھیں جو متعلقہ افراد کی طرف سے کھڑی کی گئیں۔اتر پردیش کے سابق وزیراعلیٰ کلیان سنگھ کو کمیشن کے روبرو آنے میں بارہ برس سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔ کمیشن نے دو وزرائے اعظم متعدد سرکردہ سیاسی رہنماؤں اور سو سے زیادہ گواہوں کے بیانات قلم بند کیئے ہیں۔ کمیشن کی رپورٹ ایک ایسے وقت میں آ رہی ہے جب اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہونگے۔ اگر ماضی کی روایت کو سامنے رکھیں تو کمیشن کی رپورٹ پر عمل ہونے کی کوئی امید تو نہیں کی جا سکتی لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس سے یو پی کی انتخابی فضا ضرور گرم ہو جائے گی اور شاید وہ دن دور نہیں جب سیاسی جماعتیں اس بات کا کریڈٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں کہ منہدم بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کا عمل ان کی کوششوں سے ہی ممکن ہوا۔ گجرات فسادات اور فون کالز کے ثبوت بی جے پی نے گجرات فسادات کی تحقیقات کرنے والے ناناوتی کمیشن سے کہا ہے کہ وہ فسادات کے دوران ریاستی وزراء، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل اور اعلی پولیس افسروں کے درمیان موبائل فون پر بات چیت کی تفصیلات کے تجزیے کے خلاف ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ ایک اعلی پولیس افسر کے ذریعے کمیشن میں پیش کی گئي دو سی ڈی کوئی اہمیت نہیں رکھتیں کیوں کہ اس میں صرف کی اور موصول کی گئی کالزکے نمبر دیے گئے ہیں اور اس میں بات چیت کی تفصیل نہیں ہے۔ فسادات سے متاثرہ لوگوں کے وکلا کا کہنا ہے کہ ان کالز سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاستی انتظامیہ فسادیوں کی مدد کر رہی تھی جب کہ بی جے پی کا کہنا ہے کہ وزراء پولیس افسروں اور بلوائیوں کے درمیان کالز کے اس کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ سے کچھ نہین ثابت ہوتا کیونکہ فسادات کے دوران یہ موبائل فون ان کے رشتے داروں کے پاس تھے۔ ناناوتی کمیشن نے ریاستی حکومت سے کہا ہے وہ اس سی ڈی کے تجزیے کے لیئے ماہرین کی ایک فہرست پیش کرے آر ایس ایس پر سیریل شدت پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس اور اس کی کامیابیوں پر ایک ٹی وی سیریل تیار کیا جا رہا ہے۔ اس سیریل میں بعض ایپیسوڈ رام جنم بھومی کی تحریک پر مشتمل ہونگے۔ ار ایس ایس کے ترجمان اخبار ’آرگنائزر‘ کے مطابق اس سیریل کا نام ’ماتر بھومی‘ (مادر وطن) ہوگا اور اس میں 70 ایپیسوڈ ہونگے۔ اخبار کے مطابق سنگھ کا یہ سیریل نومبر سے ایک ٹی وی چینل پر نشر ہو گا۔ |
070702_bollywood_diary | https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2007/07/070702_bollywood_diary | فلم سٹار بےگھر، سلّو کی دعوت | اُف یہ بارش | ممبئی کا اگر ہر شہری یہ کہہ رہا ہو تو آپ کہیں گے یار یہ تو ہر سال کا رونا ہے لیکن اس کا کیا کہ اب ہمارے بالی وڈ کے شہنشاہ اور سٹارز ایسا کہنے پر مجبور ہیں۔ بگ بی کے بنگلے ’پرتیکشا‘ میں پانی بھر گیا اور بگ بی سمیت ایب، ایش اور جیا کو دوسرے بنگلے میں منتقل ہونا پڑا۔ بیچاری ہماری کوریوگرافر اور ہدایت کار فرح خان اور ان کے شوہر ایک دو نہیں پانچ گھنٹے تک اپنے پوش علاقے میں پوش عمارت کی ٹیرس سے پانی نکال کر پھینک رہے تھے کیونکہ وہ پانی ان کے گھر میں آ چکا تھا اور سارا گھر پانی پانی ہو گیا تھا۔ ویسے ایک بات کا اندازہ تو ہو گیا کہ قدرت بھی توازن برقرار رکھتی ہے۔ بیمار سلّو موسم نے مزاج کیا بدلہ کہ ’ہی مین ‘ سلمان خان کی طبیعت ناساز ہو گئی۔ ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ سلّو بھیا دو دن سے بخار میں مبتلا ہیں اور گھر والوں کے ساتھ ان کی قریبی دوست قطرینہ کیف ان کی تیمارداری کر رہی ہیں۔ قطرینہ کہیں یہ پریکٹس کے طور پر تو نہیں کر رہیں کیونکہ سننے میں آیا ہے کہ سلّو اور کیٹ اسی سال دسمبر میں شادی کرنے والے ہیں۔ ویسے کیٹ کو ہمارا ایک نیک مشورہ ہے (مشورہ دینے کے پیسے تو نہیں لگتے نا) کہ وہ کھانا پکانا بھی سیکھ لیں کیونکہ سلّو کھانے کے بہت شوقین ہیں۔ سلو کی پارٹی بی ٹاؤن یعنی اپنے بالی وڈ میں یہ سب جانتے ہیں کہ سلّو کو پارٹی کرنے کے لیے کسی خاص موقع یا وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جس دن ' بھائی' گھر میں ہوتے ہیں اس دن اپنے خاص دوستوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ گھر میں کھانے بنائے جاتے ہیں۔ اور وہ بھی ایسے کھانے کہ سن کر ہی منہ میں پانی آجائے۔اس دعوت کا کھانا تو نہیں البتہ فہرست سامنے ہے ' پردہ بریانی، لال مانس ( راجستھانی ڈش) چکن افغانی، کئی اقسام کے کباب، دہی وڑا، کھیر اور بہت کچھ۔ اس دعوت کے سب سے اہم مہمان تھے عامر خان جو کبھی کسی کے گھر نہیں جاتے۔ اب انہوں نے اپنے گرد بنا یہ گھیرا توڑنا شروع کر دیا ہے۔ سلّو کے گھر وہ نہ صرف گئے بلکہ ان کے والد سلیم کے ساتھ ایک گھنٹہ گفتگو کی اور انہیں ایک اچھا سا سکرپٹ لکھنے کی دعوت بھی دی۔ چلئے مسقتبل میں ایک اچھی فلم کا انتظار کیجئے۔ ایب کی ایک اور قسم پتہ نہیں ایب اب اور کتنی قسمیں کھائیں گے۔ آپ کو پتہ ہے نا کہ ایب نے کرشمہ خاندان کے کسی بھی فرد کے ساتھ فلم نہ کرنے کی قسم کھائی تھی۔ اب انہوں نے وویک کے ساتھ فلم میں کام کرنے سے انکار کر دیا۔ پتہ چلا ہے کہ اپوروا لکھیا وویک کو اپنی فلم شوٹ آؤٹ ایٹ لوکھنڈوالا کی کامیابی کے لیے لکی مانتے ہیں اس لیے اب انہوں نے اپنی فلم ' مشن استانبول ' کے لیے ایب کے ساتھ وویک کو سائن کر لیا۔ بس یہ سننے کے بعد ایب نے فلم میں کام کرنے سے انکار کردیا۔ وجہ آپ کو شاید بتانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ ہے نا! اجے بڑے دل والا اجے دیوگن کو بڑے دل والا کہیں یا بڑے دماغ والا۔ دراصل اجے اپنی فلم ’ یو می اور ہم‘ بنا رہے ہیں۔ اس کا ایک سین فلمانے کے لیے انہوں نے صرف تین دن کی شوٹنگ کے لیے ایک کیمرہ کرائے پر لیا جس کے لیے انہیں پچاس لاکھ روپے خرچ کرنا پڑے۔ یہ کیمرہ ہیلی کاپٹر میں فٹ رہتا ہے اور اکثر سمندر یا اونچائی سے فلمائے جانے والے مناظر کے دوران اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہیری پوٹر، مشن ام پوسیبل ٹو اور جیمز بونڈ کی فلموں میں اس کا استعمال کیا جا چکا ہے۔ شلپا کی مصیبت شلپا چاہے کتنی ہی مشہور کیوں نہ ہوگئی ہوں مصیبتیں ان کا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہی ہیں۔ جب بھی وہ ملک سے باہر جانے کے لیے ائیر پورٹ پہنچتی ہیں، انہیں گھیر لیا جاتا ہے۔ کیونکہ رچرڈ گیئر کے بوسے کےمعاملے میں عدالت نے ان کے خلاف وارنٹ جاری کیا تھا اور ایک بار جس کے خلاف وارنٹ جاری ہو جائے، اس کے بارے میں سب ایجنسیوں کو الرٹ کیا جاتا ہے کہ وہ شخص کہیں ملک چھوڑ کر نہ چلا جائے۔ بیچاری شلپا کو پہلے آئیفا فنکشن میں جاتے وقت پریشان کیا گیا اور اب ایک بار پھر وہی مصیبت۔ اب شلپا عدالت کا حکم نامہ بھی اپنے ساتھ ہی لے کر چلتی ہیں۔ فلم کھونے کا خوف فلم حاصل کرنے کے لیے بہت سی ہیروئینوں کو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ لیکن بیچاری اروشی شرماکو فلم ہاتھ سے نہ جانے کے لیے جان بھی جوکھم میں ڈالنی پڑی۔ فلم نقاب میں ہیروئین کو دبئی میں ایک منظر میں سمندر میں موٹر بوٹ چلانی تھی۔ اروشی کو بوٹ چلانی نہیں آتی تھی لیکن اس نے اس خوف سے کچھ نہیں کہا کہ شاید اس وجہ سے فلم ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ نتیجہ جب وہ بوٹ چلانے لگی تو توازن بگڑا اور وہ سمندر میں! ڈائرکٹر کی کنجوسی ڈائریکٹر کی کنجوسی کا مزہ ہماری سوہا علی خان اور نندیتا داس کوچکھنا پڑا۔ دونوں کو سکرپٹ سنانے کے لیے ڈائریکٹر صاحب نے شہر کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں بلایا۔ ہوٹل کے لاؤنج میں بیٹھے گھنٹوں سکرپٹ پر باتیں ہوئیں لیکن کیا مجال کہ ان صاحب نے ایک کپ کافی کا ہی آرڈر دیا ہو۔ کرن جوہر کا نیا بزنس اب فلمی ستارے بڑے پیمانے پر بزنس بھی کرنے لگے ہیں اور کیوں نہ کریں جب لوگ اس طرح ان کی ہر کام میں نقل کرتے ہیں۔ نہیں ہم ایکٹنگ کی بات نہیں کر رہے ہیں وہ تو ان کا بزنس ہے بلکہ ہم بات کر رہے ہیں ان کے اپنے کپڑوں کی۔اب دیکھیے جان ابراہم نے تو اپنے نام کی جینس پیٹنٹ کرالی ہے اور اب باری ہے کرن جوہر کی۔ انہوں نے فلم کبھی الوداع نہ کہنا میں اپنے دوست کنگ خان کے کپڑے خود ڈیزائن کیے تھے اس لیے اب وہ اپنے ڈیزائن کیے کپڑے مارکیٹ میں لانچ کرنے جا رہے ہیں۔ کچھ دنوں میں لوگ دیگر ڈیزائنرز کے کپڑے چھوڑ کر اپنے فلمی سٹارز کے کپڑے پہنتے دکھائے دیں گے۔ سٹارز کی چمک ہمارے یہ ستارے صرف پردے پر ہی نہیں چمکتے بلکہ اگر آپ کی جیب میں لاکھوں روپئے ہیں تو یہ آپ کے گھر آنگن میں بھی چمکنے سے گریز نہیں کریں گے۔ جی ہاں، ایک مشہور صنعت کار کے گھر میں آج کے دور کی اول نمبر ہیروئین اور ایکشن ہیرو نے استانبول پہنچ کر محفل جمائی تو ممبئی میں ہی ایک بزنس مین کے گھر میں بالی وڈ کے نامور ستارے موسیقی کی لَے پر رات بھر تھرکتے رہے۔اسی لیے ہم انہیں فنکار نہیں سٹارز کہتے ہیں۔ ڈیڈی کا البم اگر آپ کے سر اور تال ٹھیک نہیں ہیں تو کیا ہوا، آپ کا کسی بھی فلمی ہستی سے ناطہ ہے تو پھر غم مت کیجئے۔ خوبصورت پرینکا چوپڑا کے ڈیڈی اپنے گیتوں کا ایک میوزک البم لانچ کرنے والے ہیں۔ ڈاکٹر ڈیڈی کا کہنا ہے کہ انہیں گانے کا شوق عرصہ سے تھا۔ ڈیڈی جی غم کس بات کا آپ کا البم تو ہٹ ہونا ہی ہے۔ وویک کے دام بڑھے شوٹ آؤٹ ایٹ لوکھنڈوالا کی کامیابی کے بعد اب وویک نے اپنے دام بڑھا دئےہیں ۔ایک اشتہاری ایجنسی کا دعوی ہے کہ وویک نے ان سے پہلے پانچ لاکھ روپے میں کام کرنے کی بات قبول کی تھی لیکن جیسے ہی فلم کامیاب ہوئی انہوں نے اپنے دام اکیس لاکھ روپے بڑھا لیے۔ اب ایجنسی نے دوسرے ہیرو کو سائن کر لیا ہے۔ وویک جی سنبھل کر کہیں دام بڑھانے کے چکر میں فلمیں بھی ہاتھ سے نہ نکل جائیں۔ چلتے چلتے خبر گرم تو یہی ہے کہ میٹرو کی کامیابی کے بعد اب اس کا سیکوئیل بننے جا رہا ہے اور ہدایت کار انوراگ باسو نے اس کے لیے رتک روشن کو لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کنگ خان نے آخر کار ممبئی میں اپنا آفس خرید ہی لیا اور وہاں سے وہ اپنا پروڈکشن ہاؤس ' ریڈ چلی ' کا کاروبار سنبھالیں گے۔ رامائن پر مہابھارت ہونے والی ہے کیونکہ راج کمار سنتوشی کی فلم میں اجے اور کاجول تو رام سیتا بن ہی رہے ہیں لیکن سنا ہے کہ اب غیر مقیم ہندستانی اورو پٹیل بھی رامائن بنا رہے ہیں اور ان کی اس فلم کی سیتا ہوں گی شلپا شیٹی۔ سلّو نے فلم ’میری گولڈ‘ کی ہیروئین علی لارٹر کو تاج محل تحفہ میں دیا۔اور فلم ’ اپنے‘ دیکھنے کے بعد ہیما جی نے ایک بار پھر اپنے شوہر دھرم پاجی کے ساتھ کام کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ |
120705_raza_jaffery_book_as | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2012/07/120705_raza_jaffery_book_as | راستے کھول دو: رضا جعفری کے افسانے | نام کتاب: راستے کھول دو | مصنف: رضا جعفری صفحات: 192 قیمت: 300 روپے ناشر: الحمد پبلیکیشنز، کراچی یہ رضا جعفری کے ان افسانوں کا انتخاب ہے جو انھوں نے 1966 سے2011 تک کے پچھلے پینتالیس برسوں کے درمیان لکھے۔ اس انتخاب میں ستائیس افسانے ہیں اور ایک مضمون جو انھوں نے مشہور ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری پر لکھا ہے۔ علی سردار جعفری ان کے ماموں تھے۔ وہ اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں اور ان کے یہ افسانے انڈیا میں نکلنے والے ’آج کل‘،’نیادور‘، ’شمع، دہلی‘، ’یوجنا‘،’گفتگو‘، ’بلٹز، اردو‘، ’ کتاب‘، ’ روبی‘ اور ’بانو‘ وغیرہ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان رسائل و جرائد میں سے اکثر بڑی اشاعتوں والے ہیں۔ ان افسانوں کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے ذریعے نہ صرف انڈیا میں تقسیم کے بعد کی زندگی کی تصویریں سامنے آتی ہیں بلکہ تقسیم کے نتیجے میں بٹ جانے اور متاثر ہونے والے لوگوں کی زندگیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ ایک اور اہم پہلو ان افسانوں کا ان خاندانوں کی زندگیاں ہیں جن کے بچے بہتر مستقبل اور زندگی کی تلاش میں انڈیا سے باہر چلے جاتے ہیں۔ لیکن زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام کی تمام کہانیاں زیادہ تر مسلمانوں اور ان کے خاندانوں کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کا پیرایہ کیوں کہ سماجی حقیقت نگاری کا حامل ہے اس لیے یہ بات کچھ کھٹکتی بھی ہے اور ایک حقیقت کا اظہار بھی کرتی ہے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ رضا جعفری کے افسانوں کی اکثریت کا تعلق درمیانے اور نچلے درمیانے طبقے سے ہے۔ اس انتخاب میں کم از کم، نہ تو نچلا طبقہ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی بالائی طبقہ۔ لیکن ان افسانوں سے یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ تقسیم کے دور میں انڈیا میں جو سماجی اتھل پُتھل پیدا ہوئی تھی اس نے اب تک وہ ٹھہراؤ حاصل نہیں کیا جو آزادی کی جد و جہد اور تقسیم کے دنوں سے پہلے موجود تھا۔ ان افسانوں کو پڑھتے ہوئے محسوس یہ ہوتا ہے کہ آزادی نے لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں جو توقعات پیدا کی تھیں وہ نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گذرنے کے باوجود یقیناً بڑی حد تک پوری نہیں ہوئیں۔ اس عرصے میں فائدہ اٹھانے والوں نے ضرور فائدے اٹھائے ہیں اور بنے ہیں کیوں کہ ایسے زمانے ایسے ہی لوگوں کے لیے انتہائی سازگار ہوتے ہیں۔ لیکن رضا جعفری کے افسانوں کا ایسے لوگوں سے کوئی علاقہ نہیں۔ اُن کے افسانے ان لوگوں کے بارے میں ہیں جو ٹوٹے اور بکھرے ہیں۔ ان افسانوں کا ایک اور اہم پہلو وہ کردار ہیں جو عمر رسیدہ اور ضعیف ہیں۔ وہ گھریلوں عورتیں ہیں جن کے بچے جوان ہو کر اپنے اپنے گھروں اور اپنی اپنی منزلوں کو جاچکے ہیں اور اب ان کے دلوں میں اُن بچوں اور ان کے بچوں کی محبت بھی ہے اور موت کی دہلیز پر کھڑے شوہروں کی بیماریاں اور بے بسی بھی۔ ’راستے کھول دو‘ کے عنوان سے لکھا جانے والا افسانہ جسے اس انتخاب کا نام بنایا گیا ہے، پاکستان اور انڈیا کے درمیان موجود اس صورتِ حال کی عکاسی کرتا ہے جس کا شکار دونوں ملکوں میں رہنے والے وہ لوگ ہے جو ان دونوں ملکوں میں آنا جانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں سے ان کے لیے تو یہ آنا جانا اس لیے اہم ہے کہ ان کے عزیز اور رشتے دار ادھر اور اُدھر میں بٹے ہیں لیکن ان لوگوں کو تو اور زیادہ مشکلات کا شکار ہونا پڑتا ہے جو اِن ملکوں اور اِن کے لوگوں کو دیکھنے کے لیے آنا جانا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے لگائی جانے والی پابندیوں سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے؟ اس بارے میں پابندیاں لگانے والے آج تک کوئی خاطر خواہ جواز پیش نہیں کر سکے لیکن دونوں ملکوں کے شہریوں میں ایک دوسرے کے بارے میں جو جو خوف اور وسوسے پیدا کیے گئے ہیں ان کے اثرات کا ایک رخ رضا جعفری کے افسانے ’آئینے‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن کیا یہ بات انتہائی مضحکہ خیز نہیں ہے کہ بھارت اور پاکستان کی نئی نسلیں اگر کسی ملک اور اس کے لوگوں کے بارے میں سب سے کم اور سب سے غلط جانتی ہیں تو وہ پاکستان اور اس کے شہری اور بھارت اور اس کے شہری ہیں؟ رضا جعفری کے یہ منتخب افسانے کم و بیش ایک ہی سطح کے ہیں سوائے ’دردِ لا دوا‘ کے جو انہوں نے 1976 میں لکھا تھا۔ مجھے یہ افسانہ رضا جعفری کی تخلیقی قدرت کے اعتبار سے زیادہ اچھا لگا ہے۔ باقی افسانوں میں ان کا انداز، اسلوب اور پیرایہ یہاں تک کہ زبان سے برتاؤ تک میں پینتالیس سال گذرنے کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہاں تک کہ ان کے موضوعات کا دائرہ تک نہیں پھیلا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ ترقی پسندی کے ایک مخصوص اور بندھے لگے انداز سے وابستہ ہیں اور انھیں باقی دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں۔ جو بھی ہو، ان کا یہ انتخاب افسانے پڑھنے والے عام قارئین کے لیے ضرور دلچسپی کا باعث ہو گا۔ |
160325_pak_australia_analysis_sq | https://www.bbc.com/urdu/sport/2016/03/160325_pak_australia_analysis_sq | یہ کیا تھا، کیسے ہوا اور کیوں ہوا؟ | یہ کیا تھا؟ | سمتھ وکٹیں چھوڑ کر کئی فٹ دور جا کر کھڑے ہو گئے تھے یہ کیسے ہوا؟ یہ کیوں کِیا؟ یہ ان سوالوں میں سے چند سوال ہیں جو ہماری آنے والے نسلیں ہاتھوں میں ایک تصویر لیے پوچھ رہی ہوں۔ یہ تصویر دیکھ کر آئندہ نسلوں کا پہلا ردعمل یہ ہو گا کہ یہ اس عظیم بلے باز کی مہارت تھی، یہ اس بلے باز کا مخصوص انداز تھا۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد وہ سوچنا شروع ہو جائیں گے کہ آخر بولر نے یہ بال اس جگہ کرائی ہی کیوں تھی۔ اس سوال کا جواب شاید یہی ہوگا کہ یہ تصویر میچ کے ان لمحات کی ہے جب بیٹنگ کرنے والی ٹیم نے بولنگ کرانے والی ٹیم کے اوسان خطا کر دیے تھے اور بولروں کو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ وہ کریں تو کیا کریں۔ جب یہ بال آپ کے بہترین بولر نے کرائی ہو، تو اس کے علاوہ کوئی اور جواب آپ کے ذہن میں آ بھی نہیں سکتا۔ جس بال کی ہم بات کر رہے ہیں وہ، آج کے میچ کی وہ بال ہے جو وہاب ریاض نے سٹیون سمتھ کو کرائی تھی۔ بال آنے سے پہلے ہی سمتھ وکٹیں چھوڑ کر کئی فٹ دور جا کر کھڑے ہو گئے تھے۔ اور اگر اس موقع پر وہاب بال سیدھی وکٹوں پر کراتے تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ سمتھ کو بولڈ کر سکتے تھے۔ لیکن وہاب نے ایسا نہ کیا، بلکہ انھوں نے سمتھ کا پیچھا کیا اور انھیں آف سٹمپ کے مزید باہر بال کرائی، جسے سمتھ نے آف سائیڈ کی بجائے بڑے اطمینان سے لیگ سائیڈ پر فِلک کر دیا۔ یہ منظر پاکستانی کرکٹ کے اس نہایت ہی برے دن کی پوری عکاسی کرتا ہے جو انھوں نے آج موہالی میں گزارا۔ آج جب آسٹریلیا کی ٹیم موہالی کے میدان میں اتری تو اس سے پہلے ان کا مڈل آرڈر مسلسل ناکامی کا منہ دیکھ چکا تھا، اور ان کے مڈل آرڈر بلے باز گذشتہ میچوں میں اپنے اوپنرز کے کیے کرائے پر بار بار پانی پھیر چکے تھے۔ آج وہاب ریاض نے آسٹریلیا کے بہترین بلے بازوں، عثمان خواجہ اور ڈیوڈ وارنر کو شروع ہی میں آؤٹ کر دیا تھا، اور پھر عماد عثمان نے فِنچ سے بھی ہماری جان چھڑا دی، لیکن اس کے باوجود پاکستان نے آسٹریلیا کے کمزور مڈل آرڈر کو رنز بنانے سے نہ روکا۔ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سمتھ اور میکسوئل نے پاکستانی سپنررز کو کھیلتے ہوئے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ جب سپنرز ان کے راستے سے ہٹ گئے تو اس کے بعد آسٹریلوی بلے بازوں نے ایک مرتبہ پھر آستینیں چڑھا لیں اور ’مہلک‘ ڈیتھ اوورز میں ہمارے تیز بولروں کی خوب دھلائی کی۔ اس کے جواب میں آج پاکستان کی بیٹنگ اتنی بری نہیں تھی جس کی توقع کی جا رہی تھی، لیکن وہ اس معیار سے کوسوں دور تھی جو میچ جیتنے کے لیے درکار تھا۔ شرجیل نے ایک مرتبہ پھر اچھا آغاز فراہم کیا، اور وہ جب تک میدان میں رہے یہ لگتا تھا کہ میچ ان کے قابو میں ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس ٹورنامنٹ میں آسٹریلیا کی بولنگ بالکل اچھی نہیں رہی، لیکن یہ توقع بہرحال کسی کو نہ تھی کہ وہ بے چارے پاکستان کے خلاف بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ لیکن اصل چیز جس نے آسٹریلیا کا ساتھ دیا وہ یہ تھی کہ آج پاکستانی بیٹنگ خود کو شکست نہ دے سکی۔ شرجیل ، عمر اکمل اور شاہد آفریدی کے علاوہ تمام بلے بازوں کو اچھا آغاز ملا ، لیکن ان میں سے کوئی بھی کریز پر اتنی دیر نہ رک سکا کہ پاکستان یہ میچ جیت جاتا۔ اگرچہ خالد لطیف خاصی دیر وکٹ پر رہے، لیکن ان کی رنز بنانے کے اوسط وہ نہیں تھی جس کی ضرورت پاکستان کو تھی۔ آج کم از کم یہ تو ہوا کہ آفریدی اپنی مبینہ آخری اننگز میں بھی اسی انداز میں میدان سے باہر گئے جو ان کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ دو چار بہت اچھی شارٹس، اس کے بعد جذبات کا بہاؤ، اور پھر ایک جذباتی شارٹ پر آؤٹ۔ پچھلے 20 سالوں میں چاہے وہ میچ اچھا کھیلے ہوں یا برا، آفریدی جب بھی میدان سے واپس لوٹے ان کے شائقین یہی پوچھتے رہ گئے کہ، آفریدی صاحب: یہ کیا تھا؟ یہ کیسے ہوا؟ یہ کیوں کِیا؟ اور آج شاہد آفریدی اور ان کی ٹیم بھی ایک ایسے ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی ہیں جس کے آغاز سے انجام تک شائقین مسلسل یہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ ۔۔۔ |
science-49515393 | https://www.bbc.com/urdu/science-49515393 | پاکستانی ماہرین کا کارنامہ: ایسا پلاسٹک تیار کر لیا جسے کھایا بھی جا سکتا ہے | یہ بھی پڑھیے | پاکستان نے ایسا پلاسٹک تیار کر لیا جسے کھایا بھی جا سکتا ہے کبھی آپ نے اپنے اردگرد نظر دوڑا کر دیکھا ہے؟ یہ موبائل فون جس پر آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہیں۔ رات کا کھانا جس پلیٹ میں کھایا ہے یا وہ شاپنگ بیگ جس میں آپ مہینے بھر کا سودا سلف بازار سے لے کر آتے ہیں۔ یا وہ کھلونے جن سے آپ کے بچے کھیلتے ہیں۔ کوئی چیز بھی تو ایسی نہیں جس میں پلاسٹک استعمال نہ ہوا ہو۔ کیا پولی تھین کے تھیلوں سے آزادی ممکن ہے؟ شجرکاری جب جنون بن جائے کیا ہمیں اپنے کپڑے نہیں دھونے چاہییں؟ لیکن یہی پلاسٹک جب استعمال کے بعد تلف کیا جاتا ہے تو اپنی مخصوص ساخت کی وجہ سے ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں سال تک ماحول میں موجود رہ کر اُسے آلودہ کرتا ہے۔ اب ایک پاکستانی نے اِس مسئلے کا حل نکالا ہے اور ایسا پلاسٹک تیار کیا ہے جو نہ صرف بائیو ڈیگریڈیبل ہے بلکہ اُسے کھایا بھی جا سکتا ہے۔ ماحول دوست پلاسٹک اِس منفرد پلاسٹک کی تیاری کا خیال کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر انجم نواب کو آیا۔ ڈاکٹر انجم نے بی بی سی کو بتایا کہ بائیو ڈیگریڈیبل اور ایڈیبل (جسے کھایا بھی جا سکے) کی اصطلاح آج کل ایک ہی معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ ’آسان الفاظ میں اگر کوئی چیز بائیو ڈیگریڈیبل ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ استعمال کے بعد جب اُس کو پھینک دیا جائے گا تو فضا میں موجود جراثیم اُسے ختم کر دیں گے۔‘ ڈاکٹر انجم نواب نے بتایا کہ اگر جراثیم کسی چیز کو ختم کر سکتے ہیں تو پھر اِسے انسانوں کے کھانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ’یہ پلاسٹک کیونکہ قدرتی اجناس سے کشید کیے جانے والے اجزا سے تیار کیا گیا ہے لہذا اِسے کھایا بھی جا سکتا ہے۔ ایسے پلاسٹک کو نیم گرم پانی میں گھول کر بھی تلف کیا جا سکتا ہے۔‘ ماحول دوست پلاسٹک کے برعکس پیٹروکیمیکلز کے ذریعے تیار کیے جانے والے پلاسٹک کو فضا میں موجود جراثیم ختم نہیں کر سکتے اور اس سے تیار کی جانے والی اشیا سیکنڑوں سال تک ماحول میں موجود رہتی ہیں اور آلودگی کا باعث بنتی ہیں۔ ماحول دشمن پلاسٹک ایک اندازے کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں تین سو ملین ٹن پلاسٹک کا اضافہ ہو رہا ہے جس میں سے پچاس فیصد صرف ایک بار استعمال کیا جاتا ہے۔ ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر وقار احمد بتاتے ہیں کہ کراچی جو دنیا کے چند بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے، روزانہ پندرہ ہزار ٹن کچرا پیدا کرتا ہے جس میں سے پچاس فیصد سے زائد پلاسٹک ہوتا ہے۔ ڈاکٹر وقار احمد کے مطابق یہ پلاسٹک بوتلوں، شاپنگ بیگز اور سٹائروفوم سے بنی اشیا کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کچرے میں سے کچھ تو لینڈ فلز میں ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے جبکہ بقیہ ندی نالوں کے ذریعے سمندر میں پہنچ کر مچھلیوں کی خوراک بن جاتا ہے اور پھر فوڈ چین کا حصہ بن کر انسانوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق پلاسٹک کے استعمال سے فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر وقار احمد کہتے ہیں کہ کوڑے کرکٹ کو تلف کرنے کے مناسب انتظامات نہ ہونے کے باعث اکثر لوگ کچرے کو جلا دیتے ہیں۔ اِس سے زہریلی گیسیں دھوئیں کی صورت میں فضا میں شامل ہو جاتی ہیں اور ماحول کو آلودہ کرتی ہیں۔ ’اِس کے علاوہ پولیتھین بیگز کی وجہ سے سیوریج کی نالیاں بند ہو جاتی ہیں جبکہ پلاسٹک کی تھیلے اکثر برساتی نالوں اور پانی کی گزرگاہوں کو بلاک کر دیتے ہیں۔‘ آموں کا موسم جامعہ کراچی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر انجم نواب کا پی ایچ ڈی کا مقالہ کھانے پینے کی اشیا کی پیکجنگ کے لیے قدرتی اجناس کے فضلے سے تیار کیے جانے والے پلاسٹک کی تیاری پر تھا۔ ’اُس زمانے میں آموں کا سیزن چل رہا تھا تو مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ آم کی گٹھلی سے بائیو ڈیگریڈیبل اور ایڈیبل پلاسٹک تیار کرنے کا تجربہ کیا جائے۔‘ پاکستان میں آم کافی مقدار میں پیدا ہوتا ہے اور پراسیسنگ پلانٹس سے نکلنے والا فضلہ جانوروں کی خوراک کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔' ڈاکٹر انجم نواب بتاتی ہیں کہ پلاسٹک کی تیاری میں آم کی گٹھلی کھول کر اُس میں سے بیج نکالا جاتا ہے اور پھر اُس بیج سے سٹارچ یا نشاستہ کشید کیا جاتا ہے۔ اِس کے بعد اُس سٹارچ میں مختلف اجزا شامل کر کے پلاسٹک کی شکل دے دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر انجم کا دعویٰ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں ایڈیبل بائیو ڈیگریڈیبل پلاسٹک تیار کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن جامعہ کراچی میں تیار کیا جانے والا پلاسٹک اس لیے مختلف ہے کہ یہ آم کی گٹھلی سے تیار کیا جا رہا ہے۔ ماحول دوست پلاسٹک کا استعمال ماہرین کا خیال ہے کہ ایڈیبل بائیو ڈیگریڈیبل پلاسٹک کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر انجم نواب کہتی ہیں کہ اِس پلاسٹک کے شاپنگ بیگز تیار کیے جا سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا میں استعمال ہونے والی رواتی پیکجنگ کو اِس پلاسٹک سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ 'ہم نے مصالحاجات کی موجودہ المونیم کی پیکنگ کو ماحول دوست پلاسٹک سے تبدیل کر کے دیکھا تو اُن کی شیلف لائف میں قابلِ ذکر اضافہ ہو گیا۔' ڈاکٹر انجم نواب کا دعوی ہے کہ اُن کے کام کو بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا ہے۔ 'میں نے ملکی اور غیرملکی کانفرنسوں اور سیمیناز میں اِس ریسرچ پر مقالے پیش کیے ہیں۔ اِس کے علاوہ میرے مقالات عالمی معیار کے ریسرچ جریدوں انٹرنیشنل جرنل آف بائیولوجیکل میکرو مالیکیولز، سٹارچ اور جرنل آف فوڈ پراسیسنگ اینڈ پریزرویشن میں شائع ہو چکے ہیں۔ صنعتی شعبے کی دلچسپی ڈاکٹر انجم نواب بتاتی ہیں کہ اُن کی تحقیق فی الحال تجرباتی سطح پر ہے۔ 'ہم اِس منصوبے کو آزمائشی سطح پر چلانے کے لیے فیزیبلٹی بنا رہے ہیں۔ اِس کے بعد اِس پلاسٹک کو بڑے پیمانے پر تیار کر کے عوام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ صنعتی شعبے نے بھی اِس منصوبے کے لیے سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور اس وقت ہمارے پاس کئی پیشکشیں موجود ہیں۔' ڈاکٹر انجم کا کہنا ہے کہ ایڈیبل بائیو ڈیگریڈیبل پلاسٹک کی لاگت ابتدا میں کچھ زیادہ ہو گی۔ 'کیونکہ ماحول دوست پلاسٹک کی تیاری میں آم کا فضلہ استعمال کیا گیا ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی لہذا اُمید ہے کہ ہم اِس پلاسٹک کی لاگت کافی حد تک کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اِس طرح ایڈیبل بائیو ڈیگریڈیبل پلاسٹک کی قیمت عام پلاسٹک کے برابر ہو جائے گی۔' پلاسٹک بیگز پر پابندی دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی پلاسٹک بیگز کی وجہ سے ہونے والی آلودگی کے باعث حکومت کی جانب سے پابندی کا اطلاق کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے 14 اگست 2019 کے بعد اسلام آباد میں پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس پابندی کے نتیجے میں پلاسٹک کے تھیلے بنانے، بیچنے اور خریدنے والوں پر پانچ ہزار سے پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکے گا۔ مارچ 2019 میں خیبرپختونخوا میں بھی پلاسٹک بیگز پر پابندی لگا دی گئی جبکہ مئی 2019 میں حکومتِ بلوچستان نے شاپنگ بیگز کی خرید و فروخت روک دی۔ حکومتِ سندھ نے بھی اس سال اکتوبر سے صوبے بھر میں پولیتھین بیگز کے استعمال پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ عوام کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ پولیتھین کے بجائے بائیو ڈیگریڈیبل یا کاغذ کے بنے تھیلے استعمال کریں۔ پلاسٹک کا مکمل خاتمہ ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر وقار احمد کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے استعمال کو مکمل طور پر ختم کرنے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں لیکن اگر اِس کے استعمال کو کم بھی کر لیا جائے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ 'حکومت اور عوام دونوں کو چاہیے کہ پلاسٹک کے استعمال کو کم کر کے دیگر ذرائع پر انحصار کریں۔ مثلاً کپڑے کے تھیلوں اور شیشے کی بوتلوں کا استعمال روایتی پلاسٹک کی جگہ لے سکتا ہے۔' ڈاکٹر انجم نواب دعوی کرتی ہیں کہ ایڈیبل بائیو ڈیگریڈیبل پلاسٹک مرّوجہ پلاسٹک کا انتہائی موزوں متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اِس پلاسٹک کے استعمال سے نا صرف گلی کوچوں میں بکھرے کچرے میں کمی ہوگی بلکہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔ |
pakistan-46273680 | https://www.bbc.com/urdu/pakistan-46273680 | پاکستان چین بس سروس کیا قابلِ عمل ہے؟ | چلتے ہو تو چین کو چلیے! | چین: ’چلتے ہو تو بس پر چلیے‘ پاکستان سے اس سفر کے خواہاں افراد کے لیے کچھ عرصہ قبل تک ہوائی سفر ہی واحد ذریعہ تھا تاہم اب زمینی راستہ بھی ایک آپشن بن گیا ہے جب چین پاک اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت پہلی مسافر بس کا آغاز کیا گیا ہے۔ نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ نیٹ ورک نامی کمپنی کے تحت چلنے والی بس پاکستان کے شہر لاہور کو چین کے تاریخی شہر کاشغر سے ملائے گی۔ اس سلسلے کی ابتدائی بسیں اپنے آزمائشی سفر مکمل کر چکی ہیں۔ لاہور، اسلام آباد اور گلگت بلتستان کے دلفریب علاقوں سے گزرتی یہ بس سوست کے مقام پر سرحد عبور کرتی چین میں داخل ہوتی ہے۔ یہ بھی پڑھیے ’۔۔۔ دوست مجھے سی پیک کی ایجنٹ کہتے ہیں‘ سی پیک منصوبہ: گوادر پورٹ سے پہلا قافلہ روانہ سی پیک: گیم چینجر یا ہوائی قلعہ؟ ایک طرف کا یہ سفر لگ بھگ 36 گھنٹے جبکہ مجموعی طور پر دو طرفہ سفر تقریباٌ 72 گھنٹے پر محیط ہے۔ بس پر سوار ہونے سے قبل ضروری سفری دستاویزات یعنی ویزہ وغیرہ ہونا ضروری ہے۔ گو کہ سی پیک روٹ پر چلائے جانے والی یہ بس جدید طرز کی ہے، پھر بھی کیا بس کی سیٹ پر اس قدر طویل سفر کیا آسان ہو گا؟ جہاز پر لاہور سے چین کے دارالخلافہ بیجنگ کا سفر تقریباً آٹھ گھنٹے میں کیا جا سکتا ہے۔ سیاحت کی غرض سے جانے والوں کے لیے شاید یہ سفر طویل اور کٹھن نہ ہو، مگر بس کمپنی کے مطابق یہ سروس کاروباری افراد کو سامنے رکھ کر چلائی گئی ہے۔ ایک کاروباری شخص کے پاس اتنا وقت ہو گا؟ وہ اس قدر طویل سفر کیوں اختیار کرے گا جبکہ وہ کچھ پیسے زیادہ خرچ کر کے ہوائی جہاز کی سہولت میسر ہے؟ بس پاکستان کے شہر لاہور کو چین کے تاریخی شہر کاشغر سے ملائے گی اگر کاروباری افراد اس کا استعمال نہیں کرتے تو کیا یہ بس سروس کاروباری طور پر قابلِ عمل ہو گی؟ کیا ایک لمبے عرصے تک اس بس کو چلانا ممکن ہو گا؟ ایسے تمام خدشات یا ان کی نفی چند بنیادی سوالوں کے جوابات اور ابتدائی مراحل کے نتائج کے گرد گھومتی ہے؟ بس پر کون سفر کر رہا ہے؟ این ایس ٹی این کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر محمد انور نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مسافر بس سروس کی پاکستان کی تاجر برادری میں کافی مانگ تھی۔‘ ان کا دعوٰی ہے کہ ’ابتدائی دو بسوں میں چین جانے والے زیادہ تر افراد کا تعلق تاجر طبقے سے تھا۔‘ محمد انور کا کہنا تھا کہ چین میں پاکستانی طلبا کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اس بس سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔ ’سیاح بھی ہمارے پاس کافی آ رہے ہیں تاہم سب سے پہلے نمبر پر کاروباری افراد ہیں جو پاکستان اور چین کے درمیان سفر کرنا چاہتے ہیں۔‘ لاہور سے حال ہی میں روانہ ہونے والی دوسری بس میں مقامی تاجر کاظم سوانی پہلا سفر کر رہے تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’بس انتہائی سستی پڑے گی۔‘ لاہور، اسلام آباد اور گلگت بلتستان کے دلفریب علاقوں سے گزرتی یہ بس سوست کے مقام پر سرحد عبور کرتی چین میں داخل ہوتی ہے کیا بس ہوائی جہاز کو پیچھے چھوڑتی ہے؟ کاظم سوانی کپڑے کی صنعت میں استعمال ہونے والے رنگ اور کیمیائی اجزا وغیرہ کی درآمد کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کا چین آنا جانا لگا رہتا ہے۔ بس کے ذریعے وہ اپنا سفری خرچ کم کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ وہ آزمائشی طور پر پہلا سفر کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر بس معیاری ہو اور یہ سفر آرام دہ ہو تو میں کافی پیسے بچا سکتا ہوں۔‘ این ایس ٹی این کے چیف ایگزیکیوٹو آفیسر محمد انور نے بی بی سی کو بتایا کہ سی پیک بس کا یکطرفہ کرایہ 13 ہزار جبکہ ریٹرن ٹکٹ 23 ہزار رکھا گیا ہے۔ کاظم سوانی کا کہنا تھا کہ اس طرح وہ ہر دورے پر 50 سے 60 ہزار روپے بچا سکتے ہیں۔ ’ویسے چین تک ہوائی جہاز کا ٹکٹ آپ کو 80 ہزار سے ایک لاکھ روپے میں پڑتا ہے۔‘ مگر اس کے لیے انھیں 72 گھنٹے بھی تو بس میں گزارنا ہوں گے؟ بس کے عقبی حصے میں دو بیڈ بھی نصب کیے گئے ہیں یہ بس کتنی آرام دہ ہے؟ سی پیک کے اس روٹ پر چلائے جانے والی یہ بس چین کی ہی ایک کمپنی کی تیارکردہ ہے۔ ایک وقت میں اس میں 36 مسافر سوار ہو سکتے ہیں۔ بس میں دونوں جانب دو، دو نشستیں لگائی گئی ہیں جو زیادہ کشادہ نہیں ہیں۔ تاہم سیٹ کو چند سینٹی میٹر باہر کی طرف کھولا اور اسے پیچھے جھکا کر لمبا بھی کیا جا سکتا ہے۔ بس کے عقبی حصے میں دو بیڈ بھی نصب کیے گئے ہیں جن پر بیک وقت دو افراد کے لیٹنے کی گنجائش ہے مگر سوال یہ ہے کہ 36 گھنٹے کے سفر میں 36 مسافروں میں سے کتنوں کو کمر سیدھی کرنے کا کتنا موقع مل پائے گا؟ بس میں کیا نہیں ہے؟ ایک لمبے زمینی سفر کے لیے درکار ضروریات میں سب سے بنیادی سہولت جو بس پر میسر نہیں وہ بیت الخلا یا غسل خانے کی ہے تاہم محمد انور کے مطابق ’سفر کے دوران بس مقررہ مقامات پر رکے کرے گی جس دوران مسافروں کو کھانے پینے، نماز اور رفع حاجت وغیرہ کا موقع ملے گا۔‘ بس کے اندر مسافروں کی تفریح کا بھی کوئی خاطر خواہ بندوبست نظر نہیں آیا۔ جدید طرز کی بسوں میں سیٹوں کے عقب میں سکرینین نصب ہوتی ہیں جن پر مسافر تفریح کا سامان کر سکتے ہیں۔ تاہم کمپنی کے آپریشنز مینیجر قمر اعجاز کے مطابق ہر بس پر وائی فائی کے علاوہ موبائل فون کو چارج کرنے کی سہولت موجود ہے۔ بس میں سکیورٹی کے لیے کیمرے لگائے گئے ہیں اور ایک مسلح محافظ بھی تعینات ہے کیا بس محفوظ ہے؟ ہر بس کے اندر چار سکیورٹی کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔ قمر اعجاز نے بی بی سی کو بتایا کے ان کیمروں کی مدد سے ہمہ وقت کمپنی کے کنٹرول روم سے بس کے اندر اور باہر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ ’سیٹلائٹ کی مدد سے بس کی تقل و حرکت کو بھی سفر کے آغاز سے اختتام تک دیکھا جاتا ہے۔‘ ان سہولیات کے علاوہ بس پر ایک مسلح سکیورٹی گارڈ بھی تعینات کیا گیا ہے۔ بی بی سی کو ملنے والی معلومات کے مطابق سی پیک کی وجہ سے بس کو مختلف علاقوں میں پولیس کی جانب سے خصوصی سیکیورٹی بھی فراہم کی جائے گی۔ بس میں ایک اضافی ڈرائیور بھی موجود ہو گا۔ این ایس ٹی این کے چیف ایگزیکیوٹو آفیسر محمد انور کے مطابق بس پر دوران سفر کسی شخص کو بس میں سوار ہونے یا اسے چھوڑنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ’صرف وہی شخص اس پر سفر کر پائے گا جس کے پاس چائنہ کا ویزہ اور دیگر ضروری سفری دستاویزات مکمل ہوں گے۔‘ ان کا کہنا تھا پاکستان اور چین دونوں حکومتوں نے انہیں مکمل سکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ سی پیک کے اس روٹ پر چلائے جانے والی یہ بس چین کی ہی ایک کمپنی کی تیارکردہ ہے کاشغر ہی کیوں؟ لاہور سے چلنے والی بس پر راولپنڈی سے بھی مسافر سوار ہو سکیں گے۔ اس کے بعد وہ کاشغر پر ہی رکتی ہے۔ راستے میں آنے والے دلکش مناظر سے بس کے اندر سے یا پھر مختصر وقفے کے مقامات ہی سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ محمد انور کا کہنا تھا کہ چین میں کاشغر کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ وہ ایک کاروباری مرکز ہے۔ ’کاشغر میں ریل اور ہوائی سفر سمیت مواصلاتی نظام موجود ہے۔ تجارتی اعتبار سے وہ اہمیت کا حامل ہے جہاں بڑی تعداد میں پاکستانی تاجر جاتے ہیں۔‘ ان کے مطابق پاکستان سے کاشغر کوئی جہاز نہیں جاتا۔ تاہم وہاں سے چین کے دیگر شہروں تک رسائی انتہائی آسان بھی ہے اور سستی بھی۔ ’ہم نے اس کے تجارتی طور پر قابلِ عمل ہونے کا مکمل حساب کر رکھا ہے جو منافع بخش ہے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لوگوں کی طرف سے ملنے والا ابتدائی ردِ عمل ’مثبت اور تسلی بخش ہے۔‘ |
031209_diary_michael_4_ms | https://www.bbc.com/urdu/interactivity/blog/story/2003/12/031209_diary_michael_4_ms | زندہ بچ رہنے کی کوشش | سات دسمبر دو ہزار تین | کسی بھی معاشرے میں اور خاص طور پر ایک ایسے معاشرے میں جو مسلسل حالتِ جنگ میں ہو، عورتیں، بچے اور بوڑھے سب سے زیادہ کمزور ہوتے ہیں جیسے کہ غزہ میں۔ تاہم عموماً ایسے حالات کا سب سے بڑا نفسیاتی شکار جوان مرد ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد کو ڈیپریشن اور ذہنی امراض سے گزرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو بالکل کمزور محسوس کرتے ہیں۔ اس ہفتے میں ایک ایسے تجربے سے گزرا جس سے مجھے یہ اندازہ کرنے میں آسانی ہوئی کہ ایک عام فلسطینی مرد کو کتنی مرتبہ روزانہ اس صورت حال سے دوچار ہونا پڑتا ہوگا۔ ہماری ایم ایس ایف کی گاڑی غزہ کے جنوبی کنارے پر واقع ایک اسرائیلی چوکی پر بڑے سیکیورٹی آپریشن میں پھنس گئی۔ فوجی بہت مستعدی سے ٹریفک کو چیک کر رہے تھے، صرف پہلے ہی گیٹ سے گزرنے میں ہمیں ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔ جس کے بعد ہمیں ایک چیک پوائنٹ پر تقریباً تیس دوسری گاڑیوں کے ساتھ کھڑا کر دیا گیا۔ ہمیں گاڑی کے اندر ہی رہنے کا حکم دیا گیا جبکہ ایک بڑے چبوترے سے ایک ہیوی مشین گن کی نالی گاڑیوں کی قطار سے باری باری گزرتی رہی۔ سپاہی جس طرح گاڑیوں کے درمیان سے بار بار گزر رہے تھے اس سے لگتا تھا کہ انہیں خاص لوگوں کی تلاش ہے۔ یہ تقریباً چار گھنٹے جاری رہا جس کے دوران صرف لوگوں کو اتنی اجازت دی گئی کہ وہ سب کے سامنے جاکر ایک دیوار کی طرف منہ کرکے پیشاب کر سکتے تھے۔ ان میں سے چند ایک کو، جواپنی قمیضیں اور پتلونیں اوپر کر کے دکھا چکے تھے کہ انہوں نے اپنے کچھ نہیں چھپا رکھا، پیدل جانے کی اجازت دے دی گئی۔ میں انہیں بتانا چاہتا تھا کہ ہم ایک طبی عملے کے افراد ہیں اور ہمیں اس طرح نہیں روکا جانا چاہئے لیکن مجھے گاڑی سے باہر نکلنے تک کی اجازت نہیں دی گئی۔ مجھے مکمل طور بے بس اور محکوم کر لئے جانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تکلیف اور غصے کا احساس ہوا۔ میں محسوس کر سکتا تھا کہ کیسے ایک زبردست فوجی طاقت کا پورا جبر ان لوگوں کی روزمرہ کی زندگی میں استعمال کیا جاتا ہے جن کے ساتھ میں کام کررہا ہوں۔ ایک فلسطینی ڈرائیور نے جو دیکھ چکا تھا کہ ہم غیرملکی ہیں، اپنی گاڑی کی کھڑکی سے باہر کو جھک کر کہا ’اب تم بھی ہم میں سے ہو‘۔ طبی طور پر ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ خطرے کی حد سے باہر نکل جائیں۔ لیکن مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ زمین کا قبضہ فلسطینیوں کی سیاسی جدوجہد کے لئے مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ایک انتہائی حساس اور جذباتی مسئلہ ہے۔ کسی مرد، کسی باپ، کسی شوہر کو اپنے مقبوضہ علاقوں سے فرار کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ اپنے خاندانوں اور ذمہ داریوں سے غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اپنے کنبے کو کچھ نہیں دے سکتے کیوں کہ روزگار نہیں ہے، نہ ہی وہ انہیں تحفظ فراہم کر سکتے ہیں کیونکہ تشدد روز کا معمول ہے۔ کم از کم مائیں بچوں کی دیکھ بھال، گھر کے کام کاج اور اگلے وقت کے کھانے کی تلاش کے ضروری اور عملی کام میں مصروف رہ سکتی ہیں مگر زیادہ تر مرد مایوسی اور دماغی تکلیف کا شکار رہتے ہیں۔ درحقیقت یہی چیزیں ہیں جو میں ان کے علاج کےلئے استعمال کرتا ہوں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ یہ مرد ان چیزوں کی فکر کرنا چھوڑ دیں جو ان کے بس میں نہیں ہیں جیسے کہ اسرائیلی فوج، ان کے گھر کو لاحق خطرات یا اقتصادی حالات۔ ان کی گھبراہٹ اور احساسِ بے بسی کو کم کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ وہ ان پہلوؤں پر نظر رکھیں جہاں وہ کوئی تبدیلی لا سکتے ہیں یا منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔ اس سے انہیں اپنی زندگیوں پر کسی قدر اختیار کا احساس واپس لوٹ آتا ہے۔ سب سے خوفناک مسئلہ گھروں کا ہے اور ایک ڈاکٹر کے طور پر یہ میرا بھی مسئلہ ہے۔ جو مرد خطرناک ترین علاقوں میں رہتے ہیں وہ مسلسل اپنے کنبوں کو نسبتاً زیادہ محفوظ علاقوں کی طرف ہجرت اور اپنے گھروں اور زمین سے چپکے رہنے کے درمیان بھٹکتے رہتے ہیں کیونکہ یہی ایک مزاحمت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ ہم ان گھروں کو چھوڑ کر گئے تو اسرائیلی آکر انہیں گرا دیں گے اور ہم کبھی واپس نہیں لوٹ سکیں گے۔ میرے لئے مسئلے کا گمبھیر پہلو یہ ہے کہ میں ان کی مدد کروں کیوں کہ طبی طور پر ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ خطرے کی حد سے باہر نکل جائیں۔ لیکن مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ زمین کا قبضہ فلسطینیوں کی سیاسی جدوجہد کے لئے مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ایک انتہائی حساس اور جذباتی مسئلہ ہے۔ جو مجھے قبول کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ میں ان کا عارضی علاج کرتا رہوں۔ میں ان کے اردگرد موجود حالات میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا اور انہیں معلوم ہے کہ کوئی امید رکھنا انتہائی تکلیف دہ ہے۔ ہم صرف یہی کرسکتے ہیں کہ زندہ بچ رہنے کی کوشش کرتے رہیں اور عموماً کسی کنبے کے سربراہ کے لئے یہی سب سے مشکل کام ہے۔ مائیکل میکالک غزہ کی پٹی میں طبی امداد کی بین الاقوامی تنظیم میڈیسنز سانز فرنٹیئرز کی ایک گشتی ٹیم کے رکن ہیں جو علاقے میں جاری تشدد سے متاثرہ خاندانوں کے لیے کام کرتی ہے۔ یہ متاثرین عموماً بمباری، تباہ کاری اور جنگی صورت حال کے باعث صدمے اور خوف کا شکار رہتے ہیں۔ ڈاکٹر میکالک نے اپنے ہفتے بھر کی مصروفیات کے دوران پیش آنے والے واقعات اور مریضوں کا احوال اپ کی آواز میں ایک روز نامچے کی صورت میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے اس تازہ ترین ڈائری پر آپ کیا رد عمل ہے؟ ہمیں لکھئے۔ آپ اپنی رائے اردو، انگریزی یا رومن اردو میں بھیج سکتے ہیں |
entertainment-46686288 | https://www.bbc.com/urdu/entertainment-46686288 | لائن کنگ یا سٹار وارز: 2019 میں آپ کو کون سی فلمیں دیکھنی چاہییں؟ | کیپٹن مارول (Captain Marvel) | ہماری رائے میں سنہ 2019 میں یہ وہ فلمیں ہیں جو مداحوں کی توجہ کا مرکز بنیں گی! خلائی مخلوق! ایکشن! پہیلیاں! مارول سٹوڈیو کے تازہ ترین سپر ہیرو کردار کیرول ڈنورز جو خود کپیٹن مارول کی خصوصیات دریافت کریں گی، اداکارہ برئی لارسن پیش کرنے والی ہیں۔ سال 1990 کی دہائی میں سیٹ کی گئی ڈنورز کی کہانی ان کی اپنی شناخت کی کھوج کی داستان ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ زمین پر خلائی مخلوق کے حملے سے انسانیت کو بچائیں گی بھی۔ اگر وہ یہ سب نہیں کر سکتیں تو اور کون کر سکتا ہے؟ اس کہانی میں ڈنورز کی پرورش کریز قبیلے میں ہوئی جو کہ ایک باوقار جنگجوؤں کا قبیلہ ہے۔ فلم کے ٹریلر میں اداکار جوڈ لا بھی نظر آتے ہیں مگر ان پر اپنے کردار کے بارے میں میڈیا سے بات کرنے پر پابندی ہے جبکہ سیمئیول ایل جیکسن ایونجرز سیریز کے اہم کردار نک فیوری میں واپس نظر آئیں گے۔ مارول یونیورس کی ہی فلم ایونجرز: اینڈ گیم کو شاید آئندہ سال زیادہ توجہ ملے مگر کیپٹن مارول اس سلسلے کی زیادہ دلچسپ فلم ثابت ہو سکتی ہے۔ ونس اپون آ ٹائم ان ہالی وڈ (Once Upon A Time in Hollywood) معروف فلمساز کوئنٹن ٹیرنٹینو کی فلمیں عموماً کافی تہلکہ مچاتی ہیں اور اس فلم میں تو سٹار پاور کا دوہرا پنچ بھی ہے۔ آسکر ونر اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو ایک اپنے عروج کو ماضی میں چھوڑ جانے والے فلمی ستارے کا کردار ادا کر رہے ہیں اور ان کے سٹنٹ ڈبل بریڈ پٹ ہیں! یہ فلم 1969 کی دہائی میں بنائی گئی ہے اور اس کی کہانی مینسن خاندان کے گرد گھومتی ہے۔ مینسن کی مقتولہ شیرن ٹیٹ کے کردار میں مارگوٹ رابی ہوں گی جبکہ الپاچینو ڈی کیپریو کے ایجنٹ کا کردار پیش کریں گے۔ اتنے سارے ستارے سستے میں فلمیں نہیں کرتے۔ اطلاعات کے مطابق اس فلم کی لاگت 95 ملین ڈالر ہے اور کوئنٹن ٹیرنٹینو جب ہدایتکار ہوں تو ظاہر ہے ونس اپون آ ٹائم اِن ہالی وڈ سے بہت ساری امیدیں ہیں۔ عس (Us) جارڈن پیل کی شاندار فلم ’گیٹ آؤٹ‘ جس نے شرارتی، مزاحیہ انداز میں ڈراؤنی فلم بنائی گئی فلم سال 2017 کی ہت بڑی ہٹ تھی۔ ان کی نئی فلم کو ’ایک نیا خوفناک خواب‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس فلم کی کہانی کے بارے میں لوگ اس قدر خاموش ہیں اور اسے اتنا خفیہ رکھا گیا ہے کہ آپ کو شاید لگے کہ وہ ایک مارول فلم ہے۔ موجودہ اطلاعات کے مطابق اس میں دو جوڑے ہیں، ایک سیاہ فام اور ایک سفید فام۔ اس فلم کے ستاروں میں لوپیتا یونگ، ونسٹن ڈیوک، اور الزابتھ ماس ہیں۔ لائن کنگ (Lion King) ڈزنی نے اپنی مقبول ترین فلم کا جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ریمیک بنایا ہے جس میں انتہائی اصلی لگنے والے کمپیوٹر امیجز ہیں۔ جیمز ارل جونز ایک مرتبہ پھر فلم کے کرمزی کرداد سمبا کے والد ‘مُفاسا‘ کی آواز دے رہے ہیں اور بظاہر 1994 والی فلم کے وہ واحد اداکار ہیں جنھیں تبدیل نہیں کیا گیا۔ بڑی عمر کے سمبا کی آواز ڈونلڈ گلور دے رہے ہیں اور ان کی محبت نالا کی آواز گلوکارہ بیونسے پیش کریں گی۔ فلم کے ویلن سکار کے پیچھے شووٹل جیوفور ہوں گے۔ مزاحیہ کرداروں میں پومبا اور تیمون کی آوازیں سیتھ روجن اور بیلی آئیخنر دے رہے ہیں جبکہ فلم کا میوزک ایٹلن جان کی پیشکش ہوگا۔ ڈاؤن ٹن اے بی (Downton Abbey) پہلے سے ہی تیار تماشائی ہوں تو ایسے ہوں! معروف ٹی وی شو کی بڑی سکرین پر سامنے آنے والی اس فلم میں کرالی فیملی اور ان کے تمام ملازمین واپس آ رہے ہیں (ان کرداروں کے علاوہ جن کی کہانی میں موت ہوگئی ہے)! اور معاف کیجیے گا، بھوت کا کردار بھی نہیں ہے۔ مگر ہیو بونول، الزابتھ مگورن، میشل ڈوکری، جم کاٹر اور میگی سمتھ سمیت سب اپنے مزے دار کردار اور ان کی شاندار شخصیات لے کر آ رہے ہیں۔ یہ کہانی 1927 کے آس پاس شروع ہوتی ہے جو کہ ٹی وی پر چلنے والی سیریز کے اختتام کے بعد کا حصہ ہوگا۔ فلم ساز جولیئن فیلوز نےفلم میں ایک نیا کردار میں متعارف کروایا ہے امیلڈا سٹاؤٹن کا جو کہ لارڈ گرینتھم کی کزن ہیں۔ ایڈ آسٹرا (Ad Astra) بریڈ پٹ اس سائنس فکشن ایڈونچر فلم میں خلا کا رخ کر رہے ہیں۔ ہدایتکار جیمز گرے کی فلم لاسٹ سٹی آف زی 2016 کی بہترین فلموں میں سے ایک تھی۔ بریڈ پٹ کا کردار اپنے والد (ٹامی لی جونز) کی تلاش میں ہے جو دو دہائیوں قبل سیارے نیپٹیون کی جانب ایک مشن میں لاپتہ ہوگئے تھے۔ ظاہر ہے ’اے رنکل ان ٹائم‘ کی کہانی جس کا محور بھی خلا میں لاپتہ ہوئے باپ پر تھا، بالکل ایک اتفاق ہے۔ جیمز گرے نے ایڈ آسٹرا کا موازنہ جوسف کانریڈ کی ’ہارٹ آف ڈارکنس‘ سے کیا ہے اسی لیے ہم توقع کر سکتے ہیں کہ کہانی میں خاندان کا ایک شخص ذرا پاگل سا ہوجائے گا اور ہدایتکار گرے کے ہاتھوں میں ہم کہیں اور ہی نکل جائیں گے! راکٹ مین (Rocket Man) سکرین پر نہ ہوتے ہوئے بھی ایلٹن جان کا فلموں کے حوالے سے یہ ایک بڑا سال ہے۔ اس منظور شدہ آبپیتی (جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ایک حقیقی فینٹسی ہے) میں ٹیرن ایگرٹن ایلٹن جان کے بڑا ستارہ بننے سے پہلے کے سالوں کی کہانی دیکھائیں گے۔ اس میں چمکتی جیکٹیں، بڑی بڑی عینکیں، اور منشیات سے ان کی لڑائی کے دنوں کی یاد ہوں گی۔ ہدایتکار ڈیکسٹر فلیچر وہ فلم ساز ہیں جنھوں نے گلوکار فریڈی مرکری کی کہانی پر مبنی ’بوہیمیئن ریپسڈی‘ کی کمان اس وقت سنبھال لی تھی جب ہدایتکار برائن سنگر فلم چھوڑ گئے تھے۔ دی ومن ان دی ونڈو (The Woman in Window) اے جے فن کے مقبول ناول کو ایلفرڈ ہچکاک کی فلموں سے تشبیہ دی گئی تھی، کہ یہ ایک ایسا تھرلر ہے جو سکرین کے لیے تیار ہے۔ اور اب وہ سکرین پر آ رہا ہے۔ آسکر جیتنے والوں اور اس کے لیے نامزد ہونے والے ستاروں سے لیس! ایمی ایڈمز ایک ماہرِ نفسیات ہیں جو اپنے ہمسایوں کی جاسوسی کرتی ہیں اور پھر انھیں دنیا کی اس بات کا یقین دلانا ہوتا ہے کہ ان کے سامنے والے گھر میں ایک جرم پیش آیا ہے اور یہ ان کے صرف ذہن کی تخلیق نہیں ہے۔ جولیئن موور اور گیری اولڈمین فلم کے ستارے ہیں۔۔۔ اور برائن ٹائری بطور ایک تفتیشکار معاون کردار میں ہیں۔ ہدایتکار جو رائس اپنے پیریڈ پیسز کے لیے مانے جاتے ہیں جیسے کہ ڈارکسٹ آور اور اٹونمنٹ مگر وہ 2011 کی فلم ہینا کے بھی ہدایتکار رہے جو کہ جتنی کمال فلم تھی شاید اتنی نہیں چل سکی۔ سٹار وارز: ایپیسوڈ نائن (Star Wars: Episode IX) یہ فلمیں ختم نہیں ہوں گی! ایک اور سٹار وارز فلم! یہ والی فلم دی فورس اویکنز اور دی لاسٹ جیڈائی کے بعد ان فلموں کی اگلی قسطوں کی تیسری کڑی ہے۔ ان فلموں کے سلسلے میں نئی سوچ تو شاید نہ ملے مگر نوجوان کاسٹ کے جذبے پر یہ سلسلے کامیاب رہا ہے۔ ڈیزی ریڈلی ہیروئن ہیں اور شاید اپنے دادے ڈارتھ ریڈر کے بعد بہترین کردار کائلو رین کے کردار میں ایڈم ڈائیور ہیں۔ پرانی فلموں کی اضافی فوٹیج میں کیری فشر (جو بطور شہزادی لیئہ) اب مزاحمتکاروں کی جنرل ہیں۔ دی فورس اویکنز کے ہدایتکار جے جے ابراہمز اس فلم کے بھی ڈائریکٹر ہیں۔ لاسٹ کرسمس (Last Christmas) کبھی کبھی صرف دو لفظ ہی ایک فلم کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔۔۔ ایما تھامسن! وہ اس رومانوی فلم کی سٹار اور شریک مصنف ہیں جو کہ جارج مائیکل کے گانے لاسٹ کرسمس پر مبنی ہے اور ان کا اور میوزک بھی اس میں شامل ہے۔ کیٹ کے کردار میں امیلیا کلارک ہیں جو کہ گیم آف تھرونز سے بہت دور آ چکی ہیں اور اس فلم میں وہ ایک کرسمس شاپ میں کام کرتی ہیں اور ایک ایلف کے کپڑوں میں ملبوس رہتی ہیں۔ |
science-46825179 | https://www.bbc.com/urdu/science-46825179 | نقطے کی تاریخ کیا ہے؟ | نقطے کا کیا مقصد ہے؟ | ہم اسے پہنتے ہیں، سنتے ہیں، پڑھتے ہیں اور گھورتے ہیں۔ یہاں تک کے ہم اسے ہواؤں کے دوش پر اور لہروں کی طے میں بھیجتے ہیں۔ آپ نے شاید غور نہ کیا ہو لیکن اس چھوٹے سے نشان کے بہت سے پہلو ہیں۔ یہاں اس چھوٹے لیکن ناگزیر نشان کے چند دلچسپ حقائق پیش کیے جا رہے ہیں۔ کونمارا پبلک لائبریری، انڈیا کا قدیم کتب خانہ کتب خانوں اور کتب بینی میں کمی پاکستان میں جعلی کتب سے نقصان کس کا؟ 1۔ پہلا رموز اوقاف یعنی نقطہ، تیسری قبل مسیح میں بنایا گیا نقطہ متعارف کروانے سے قبل الفاظ بغیر کسے وقفے کے لکھے جاتے تھے۔ کچھ اس طرح سے: ( wordsusedtorunintoeachother) پھر تقریباً 200 قبل مسیح میں لائبریری آف ایلگزینڈریا کے پانچویں لائبریرئن نے جن کا نام ایرسٹوفینز تھا مہربانی کی اور تھکے اور پریشان قاریئن کے لیے ایک راستہ نکالا، کہ کب سانس لینی ہے۔ وہ راستہ تھا تحریر میں نقطے ڈالنے کا۔ نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے قاریئن کو الفاظ کے درمیان مثالی وقفے کے بارے میں بھی بتایا اور اس کے لیے انھوں نے کچھ لکیریں لگائی تاکہ نقطہ دکھائی دے سکے۔ کسی تحریر میں لمبے وقفے کے لیے جسے کالن کہا جاتا ہے، ایک نقطہ تحریر کے نیچلے حصے پر ڈال دیا گیا۔ چھوٹے وقفے کے لیے کوما کا استعمال کیا گیا اور تحریر کے بالکل برابر (·) اس طرح سے نقطہ ڈال دیا گیا۔ اور اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ یہ تو جدید رموز اوقاف کا نشان کوما ہے، تو آپ بالکل صحیح ہیں۔ 2۔ نقطہ کو ’1996 میں امریکہ کے سب سے مفید لفظ کا خطاب دیا گیا‘ ویسے تو اس کا استعمال بہت کم ہی ہوتا تھا لیکن ای میلز اور ویب سائٹس کے آنے کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 2018 کے اختتام تک دنیا بھر میں 3.8 بلین ای میل اکاؤنٹس سے ہر روز کوئی 205 بلین ای میلز بھیجی اور موصول کی جا چکی ہیں۔ جس کا مطلب ہے بہت سے ڈاٹ کام۔ 3۔ پولکا ڈاٹ کا نام پولکا ڈانس پر پڑا سنہ 1850 کی دہائی میں پولکا پیٹرن بالکل ویسے ہی فیشن بن گیا جیسے اس وقت ڈانس کے لوگ دیوانے تھے۔ ڈاٹی پیٹرن کے معروف مداحوں میں مارلن منرو بھی شامل ہیں جن کی سنہ 1951 میں پولکا ڈاٹ بکنی پہنے ایک تصویر بہت مشہور ہوئی۔ باب ڈیلن نے اپنے گانے ’جسٹ لائک ٹام تھمبز بلیو‘ کی ویڈیو میں ہری پولکا ڈاٹ شرٹ پہنی تھی۔ 4۔ ’کنگ آف ماؤنٹینز‘ پولکا ڈاٹ جرسی پہنتا ہے ٹوور ڈی فرانس میں ’کنگ آف دی ماؤنٹینز‘ کا خطاب پانے والے سائکلسٹ کو پولکا ڈاٹ جرسی دی جاتی ہے، جو سفید رنگ کی ہوتی ہے اور اس پر سرخ ڈاٹ ہوتے ہیں۔ یہ ٹائٹل سائکلنگ روڈ ریس میں بہترین کھلاڑی کو دیا جاتا ہے، جسے باقاعدہ طور پر ماؤنٹینز کلاسیفیکیشن کہا جاتا ہے۔ 5۔نقطے یورپ میں سب سے قدیم کیوو آرٹ ہے سپین میں ایک غار کی دیوار پر ماہرین آثارِ قدیمہ نے سرخ نقطے دریافت کیے، جو کم از کم 40 ہزار سال پرانے ہیں۔ اس طرح یہ یورپ میں سب سے قدیم کیوو آرٹ ہیں۔ ان نقطوں نے نیندرتھل قوم کی صلاحیتوں، سوچ اور مہارت کے بارے میں ہماری پہلے سے قائم رائے کو چیلنج کرنے پر ہمیں مجبور کیا ہے۔ ماقبل تاریخ کے عہد کے دیگر لوگ پتھروں پر تصاویر بنا کر، اکثر نقطوں سے اپنے بارے میں بیان کرنے کو ترجیح دیتے تھے جسے نقش حجر کہا جاتا ہے، یعنی پتھروں پر نقاشی۔ یہ پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں، ہوائی کے ساحلوں سے چلی کے صحراؤں تک، اور نمیبیا کے دور دراز دیہاتوں سے منجمد سربیا تک۔ 6۔ نقطے ٹائٹینک کو بچا سکتے تھے اگر کوئی صرف توجہ ہی دے دیتا۔۔۔۔ مارس کوڈ سگنل کا ابتدائی استعمال بحری جہاز ٹائٹینک سے بھی کیا گیا تھا۔ جب اس ڈوبنے والے بحری جہاز کا انجن روم پانی سے بھر گیا تو وہاں سے ایک ایسا ہی پیغام بھیجا گیا تھا۔ تاہم اس ڈوبنے والے بحری جہاز میں موجود سگنل آپریٹرز کا ابتدائی طور پر پیغام نظر انداز ہو گیا تھا، جو ڈاٹ اور ڈیشز میں تھا۔ یہ پیغام ایک دوسری کشتی سے بھیجا گیا تھا اور اس پیغام میں برف کے حوالے سے خبردار کیا گیا تھا۔ اگر یہ تھوڑی سی توجہ دیتے اور اس پیغام کو آگے کپتان کو بھیج دیتے تو شاید وہ برفیلی چٹان سے بچ جاتے۔ 7۔ آسٹریلیا کے قدیم باشندے 1970 کی دہائی سے قبل ڈاٹ پینٹنگ شروع نہیں کر پائے آسٹریلوی آدی باسیوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے قدیم جاری رہنے والی تہذیب ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ جدت سے خوفزدہ نہیں تھے۔ تاریخی اعتبار سے وہ رسمی طور پر سینڈ پینٹگز اور اپنے جسموں پر ڈاٹز (نقطوں) کا استعمال کرتے تھے، اور وہ 1970 کی دہائی تک ان نقطوں کو کینوس پر نہیں لا پائے تھے۔ بعد میں انھیں 1970 کی دہائی کے آغاز میں سفید فام آرٹ سکول کے ٹیچر جن کا نام جیفری بارڈن تھا نے حوصلہ دیا۔ یہ پینٹنگز اس طرح سے سامنے آئیں کہ انھیں 20ویں صدی کی لاسٹ گریٹ آرٹسٹک موومنٹ کہا گیا۔ 8۔ دنیا کی ریکارڈ توڑ ڈاٹ-ٹو-ڈاٹ میں 6239 نقطے تھے ورلڈ ریکارڈ ’کنیکٹ دی ڈاٹس‘ پزل کو میلبرن کے آرٹسٹ اور ڈیزائنر تھاٹس پیووٹ نے بنایا تھا۔ اس میں مونا لیسا کو پیش کیا گیا تھا اور اسے 6239 نقطوں یعنی ڈاٹس سے بنایا گیا تھا۔ پیووٹ نے سخت محنت سے اپنی زندگی کے 9.5 گھنٹوں میں اس پزل کو مکمل کیا۔ 9۔ پوائنٹلزم ڈاٹس سے پینٹنگ ہے سیرت کی یہ پینٹنگ پوائنٹلزم کو نئی اونچائی تک لے گئی سنہ 1886 میں فرانسیسی فنکار جارج سیرت اور پال سگنیک نے ایک تکنیک بنائی جسے ’پوائنٹلزم‘ کے نام سے جانا جانے لگا۔ اس تکنیک کے ذریعے چھوٹے اور مختلف رنگوں کے ڈاٹس کو اس طرح سے جوڑا جاتا کہ اس سے کوئی تصویر بن جائے۔ قریب سے آپ کو صرف چھوٹے نقطے ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن جب آپ تھوڑا پیچھے ہٹتے ہیں تو بے ساختہ منھ سے نکلتا ہے۔۔۔۔ یہ ہوئی نہ بات! سیرت کی ’دی برڈج ایٹ کووبووا‘ اس تکنیک کی سے سب اہم مثال سمجھی جاتی ہے۔ اس آرٹسٹ کا مشہور جملہ ہے ’بعض کہتے ہیں کہ انھیں میری پینٹنگز میں شاعری دکھائی دیتی ہے، میں ان میں صرف سائنس دیکھتا ہوں۔‘ 10۔ بریل ایک ’زبان‘ ہے جو صرف نقطوں سے بنی ہے جے کے رولنگ کی ہیری پورٹر اور آرڈر آف دی فینیکس کا بریل ورژن 38 جلدوں میں آتی ہیں بریل ایک قوت لامسہ سے متعلق لکھنے کا نظام ہے جو نابینا افراد استعمال کرتے ہیں۔ اس میں ابھرے ہوئے نقطوں کا امتزاج ہے جس کی مدد سے رموز اوقاف اور حروف کو پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کے بنانے والے لوئس بریل جو بچپن میں ایک حادثے میں اپنی قوت بینائی سے محروم ہو گئے تھے، لیکن وہ اپنے پڑھنے لکھنے کے شوق سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے۔ پندرہ سال کی عمر میں بریل نے فرانسیسی حروف کے لیے ایک کوڈ بنایا، جبکہ انھوں نے میوزک نوٹیشن میں بھی ایک نظام کو شامل کیا، جو اب تک بڑی حد تک تبدیل نہیں کیا جا سکا ہے۔ بریل کے حروف عام طور پر بڑے ہوتے ہیں اور زیادہ جگہ لیتے ہیں اس لیے بریل کی کتابیں دیگر کتابوں کی نسبت زیادہ بڑی ہوتی ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ بریل نقطوں والا ایک ٹیبلیٹ مارکیٹ میں بس آنے کو ہی ہے۔ 11۔ ہلکے نیلے نقطہ (ڈاٹ) زمین کی تصویر ہے جو 3.7 بلین میل کی دوری سے لی گئی ریکارڈ دوری سے لی گئی زمین کی تصویر یہ تصویر 14 فروری 1990 کو وئیجر 1 خلائی مشن نے زمین سے ریکارڈ دوری سے لی تھی۔ اپنا مشن ختم کرنے کے بعد جب وئیجر1 نظام شمسی کو چھوڑنے ہی والا تھا تو خلائی ادارے ناسا نے اس سے سیارے زمین کی ایک آخری تصویر لینے کو کہا۔ اس تصویر میں زمین خلا میں ایک چھوٹے سے نقطے کی صورت میں دکھائی دے رہی ہے۔ |
071118_delhi_diary_awa | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/11/071118_delhi_diary_awa | فضا میں شراب، سپر کمپیوٹر | مودی مقبولیت میں آگے | گجرات میں امیدواروں کے ناموں کے اعلان کے ساتھ ہی اسمبلی کے لیے انتخابی سرگرمیاں کافی تیز ہو گئی ہیں ۔ وزیر اعلی نریندر مودی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر رائے دہندگان سے ایک بار پھر انہیں منتخب کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ایک حالیہ سروے میں بتا یا گیا ہے کہ گجرات کے ووٹروں میں نریندر مودی سب سے مقبول ہیں ۔ان کی حکومت کی کارکردگی سے ریاست کے بیشتر عوام مطمئن ہیں۔لیکن سروے کے مطابق بی جے پی اپنی حریف کانگریس سے صرف پانچ پوائنٹ آگے ہے ۔ گزشتہ تین انتخابات میں بی جے پی نے دس پوائنٹ کے فرق سے ریاست میں انتخاب جیتا تھا ۔ ابھی انتخابات میں ایک مہینے باقی ہیں اور اس گھٹتے ہوئے فرق پر بی جے پی کے حلقوں میں ہلکی سی تشویش پیدا ہوئی ہے ۔ ہندوستانی ہائی کمشنر کے گھر میں چوری پاکستان میں ایمرجنسی کی گہما گہمیوں اور سیاسی ہلچل کے درمیان گزشتہ دنوں اسلام آباد میں واقع ہندوستانی ہائي کمشنر کی رہائش گاہ پر چوری ہوگئی ۔چوری کے وقت ہائی کمشنر ستیہ برت پال اپنے گھر میں موجود نہیں تھے ۔دلی میں حکام نے ہائی کمشنر کی رہائش گاہ میں چوری ہونے پر حیرت ظاہر کی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کا یہ رہائش گاہ انتہائی پہرے والے علاقے میں واقع ہے اور وہاں چوروں کا کسی کے گھر میں داخل ہونا حیرت انگیز ہے ۔ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا ۔ ہندوستان کے بعض سابق سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ اس واقع میں واضح طور پر آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے ۔ایک سفارت کار نے کہا ’چاہے وہ ملک کے چیف جسٹس ہوں یا سفیر ،آئی ایس آئی اسی طرح سفاکی سے کام کرتی ہے‘۔ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ ہائی کمشنر کے گھر سے کیا کیا چیزیں چوری ہوئی ہیں۔ پروازوں میں شراب اگر سب کچھ خوش اسلوبی سے ہوا تو ہندوستان میں جلد ہی اندرونی پروازیں فضا میں مزید ’اونچائیوں‘ پر پرواز کریں گی۔ شہری ہوابازی کی وزارت سے منسلک مشاورتی کمیٹی کے کئی ارکان نے مشورہ دیا ہے کہ مغربی ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی مسافر طیاروں کو ’وائن‘ اور ’ بیر‘ جیسی ہلکی مشروبات پیش کی جانی چاہیں۔ مشوہ دینے والوں میں بعض ارکان پارلیمان بھی شامل تھے ۔ ارکان کی دلیل تھی کہ اس قدم سے ملک کی وائن اور بیر کی صنعت کو کافی فروغ حاصل ہوگا۔ شہری ہوا بازی کے وزیر نے کہا ہے وہ اس مشورے پر غور کریں گے ۔ کچھ فضائی مسافروں کا کہنا تھا کہ جب زمین پر پینے کی اجازت ہے تو فضا میں تکلف کیوں ۔ سابق ڈپلومیٹ اور فوجی سربراہ جوہری معاہدے کے حق میںپارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس سے ایک روز قبل ملک کے متعدد سابق سفارت کاروں ، فوج کے سبکدوش جرنیلوں اور ایٹامک انرجی کے سابق سربراہوں سمیت با اثر شخصیات کے ایک گروپ نے ہند – امریکہ جوہری معاہدے کی حمایت میں پارلیمنٹ کو ایک کھلا خط لکھا ہے۔ اس گروپ میں دیگر اہم افراد کے علاوہ فوج کے چھ سابق جنرل، تین سابق خارجہ سکریٹریز ، دو سابق کابینہ سیکریٹریز اور ایٹامک انرجی کمیشن اور خلائی کمیشن کے سابقہ سربراہان شامل ہیں ۔ جوہری معاہدے کی حمایت کرتے ہوئے ان با اثر شخصیات نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’اس معاہدے سے ہندوستان کو بہت کچھ حاصل ہوگا ۔لیکن بین القوامی سطح پر بہت سی ایسی طاقتیں ہیں جو ہمارے حالات کو پیچیدہ کر سکتی ہیں ۔یہ دوسرا موقع ہے جب پارلیمنٹ کو اس طرح کا خط لکھا گیا ہے ۔ اس سے پہلے گزشتہ اجلاس میں رٹائرڈ جوہری سائنسدانوں نے معاہدے کی مخالفت میں ایک خط لکھا تھا۔ ہندوستان کا سپر کمپیوٹر ٹاٹا کمپنی کے اس سپر کمپیوٹر کا نام ’ایکا ‘ رکھا گیا ہے جس کا مطلب ہے اول ۔ یہ کمپیوٹر دنیا کا چوتھا سب سے تیز رفتار کمپیوٹر ہے ۔ پہلا مقام امریکہ اور دوسرا مقام جرمنی کو حاصل ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب ہندوستان عالمی سطح پر ٹاپ – 100 کی فہرست میں آیا ہے۔ |
060809_nida_fazli | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/08/060809_nida_fazli | یاد ماضی | میرا ایک شعر ہے | ایک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیاکوئی جلدی میں کوئي دیر سے جانے والا ، زندگی کی طرح موت بھی ایک حقیقت ہے۔ مہاتما بدھ سے ایک مرتبہ ایک ایسی ماں ملنے آئی جسکا بیٹا مر چکا تھا۔ اس نے مہاتما سے اس کے بیٹے کو زندہ کرنے کی درخواست کی ۔ بدھ نے کہا ’مائی یہ ناممکن چیز اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب تو کسی ایسے گھر سے آگ لائیگی جہاں کبھی موت نہیں ہوئی ہو‘۔ بدھ کی بات سننے کے بعد وہ عورت کئی گھروں میں گئی اور پھر تھک ہار کر بیٹھ گئی۔ اسے صبر آ گیا تھا۔ وہ عورت موت کی حقیقت کو تسلیم کر چکی تھی۔جگر مرادآبادی نے اس حقیقت کو دوسری شکل میں تسلیم کیا تھا۔ ان کی غزل کا مطلع ہے بنا بنا کے جو دنیا مٹائی جاتی ہےضرور اس میں کوئی کمی پائی جاتی ہے ہر انسان اس وقت تک اپنے ماضی کو جیتا ہے جب تک وہ خود ماضی نہ بن جائے۔ ماں کی گود سے قبر اور شمشان کی آگ تک کے چھوٹے سے سفر میں انسان کی یادوں سے بہت کچھ گزرتا ہے۔ لیکن ان تمام یادوں میں سے وہی یاد رہ پاتا ہے جو ان سب میں قدرے مختلف ہوتا ہے۔ فلم ہدایت کار اور اداکار راج کپور میری ایسی ہی یادوں میں سے ایک ہیں۔ ان سے میری پہلی ملاقات بمبئی کے کھار علاقے میں واقع میرے فلیٹ میں ٹیلیفون کے ذریعے ہوئی تھی۔ اس فون کال کی ایک چھوٹی سی داستان ہے۔ ایک دن دوپہر کے وقت میں لوکل ٹرین سے چرچ گیٹ میں ادیبوں کے ایک جلسے میں شرکت کرنے جا رہا تھا۔ ٹرین کے اس ڈبے میں دو ایک مزيد فلمی دنیا کے لوگ بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھ کر وہ لوگ میرے قریب آگئے۔ جب انہوں نے اپنی تعریف پیش کی تو میں نے اپنی مزاحیہ عادت کے مطابق اپنے پاس بیٹھے ہوئے شخص کے بارے میں بتایا کہ وہ پاکستان کے مشہور شاعر احمد فراز ہیں۔ ان میں سے ایک شخص نے ’احمد فراز‘ ميں کافی دلچسپی دکھائی کیونکہ انہیں شاعری میں تھوڑی بہت دلچسپی تھی۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ’احمد فراز‘ نے بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھا دیئے۔ وہ شخص ممبئی سینٹرل کے سٹیشن پر اتر گیا۔ ان دنوں ممبئی سینٹرل کے قریب تاڑدیو میں کئی فلمی دفتر ہوا کرتے تھے۔ لیکن روانگی سے قبل وہ شخص کافی احترام کے ساتھ میرے بنائے ہوئے ’فراز‘ سے مل کر گیا تھا۔ اپنے پسندیدہ شاعر سے ملنے کی خوشی کی خبر وہ کسی نئی خبر کی طرح جگہ جگہ پھیلاتا رہا۔ ایک منہ سے دوسرے منہ، دوسرے سے تیسرے منہ سے گزرتی ہوئی یہ خبر چیمبور میں واقع راجکپور کے سٹوڈیو تک پہنچی اور وہاں سے اس سٹوڈیو کے کاٹج میں پہنچ گئی جہاں راج صاحب آرام بھی کرتے تھے اور کام بھی کرتے تھے۔ ان سے ملنے جو بھی آتا تھا وہ اسی کاٹج میں آتا تھا۔ اسی کاٹج کے نزدیک ایک باورچی خانہ تھا جہاں سے تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کھانے پینے کی چیزيں آتی رہتی تھيں۔ یہ بات دوسرے دن کی ہے کھار میں میں اپنے گھرپر تنہائی میں کسی کتاب سے دل بہلا رہا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ اس وقت کوئی ڈھائی بجا ہوگا۔ میرے ’ہلو‘ کہنے کے ساتھ ہی کئی فلموں میں سنی ایک آواز میرے کانوں ميں گونجی۔ یہ آواز بڑی تہذیب سے بات کر رہی تھی۔ ’کیا میں ندا فاضلی صاحب سے بات کر سکتا ہوں؟‘ ’میں بول رہا ہوں ۔ کون بول رہا ہے ؟‘ ’جی خاک سار کا نام راج کپور ہے۔‘ میں نے جیسے ہی راج صاحب کا نام سنا مجھے لگا کہ شاید وہ اپنی نئی فلم میں نغمے لکھوانے کا آفر دینے والے ہیں لیکن پتہ چلا کہ انہوں نے کسی دوسری وجہ سے فون کیا ہے ۔ دوسروں کی طرح انہیں بھی معلوم ہوا کہ پاکستان کے شاعر ندا فاضلی کے مہمان ہیں۔ میں نے جب انہیں اس خبر کی اصلیت سے واقف کروایا تو بڑی دیر تک ٹیلیفون کا رسیور انکے قہقہوں سے گونجتا رہا ۔ قہقہوں کے بعد انکے الفاظ تھے، ندا صاحب میں تو آپ کو سنجیدہ شاعر سمجھتا تھا لیکن آپ تو ’کامیڈی‘ میں بھی ماہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کی اس خوبی کو ضرور استعمال کروں گا۔ اور جب انہوں نے اپنے بینر پر ’بیوی او بیوی‘ کا اعلان کیا تو اپنے وعدے کو نبھایا بھی۔ اسی فلم کے سلسلے میں جب ان سے ملاقت ہوئی تو ٹیلیفون پر سنی ہوئی آواز چہرہ اور جسم بن چکی تھی۔ یہ چہرا اور جسم اس راج کپور سے بالکل مختلف تھا جو ’آوارہ‘، ’سنگم‘، ’میرا نام جوکر‘ اور ’جاگتے رہو‘ جیسی فلموں میں اداکار کے طور پر نظر آیا تھا کیونکہ بھرے ہوئے چہرے اور بھاری جسم کے سبب وہ راج کپور کم اور پرتھوی راج کپور زيادہ نظر آ رہے تھے۔ فلم ’بیوی او بیوی‘ میں سنجیو کپور اور رندھیر کپور نے اہم کردار ادا کیا تھا اور آر ڈی برمن فلم کے موسیقار تھے۔ اس فلم کے پہلے نغمے کی ریکارڈنگ تھی۔ گیت میں لکھ چکا تھا اور موسیقی بھی تیار تھی اور آر ڈی برمن کے میوزک روم میں آخری ریہرسل پوری تیاری میں تھی۔ فلم کے ہدایت کار رویل اور رندھیر کپور بیٹھے تھے۔ گیت کی دھن اور بول سب پسند کرچکے تھے۔ پنچم کا میوزک روم ان دنوں سانتاکروز کی دوسری منزل پر تھا۔ ساز کھنکھنا رہے تھے۔ پنچم گیت گا رہے تھے۔ رندھیر تعریف میں سر ہلا رہے تھے کہ اچانک لفٹ کھلنے کی آواز آئی۔ سب نے دیکھا ایک ہاتھ میں بھیل پوری تھامے راج صاحب آرہے ہیں۔ انھیں دیکھ کر سب لوگ کھڑے ہو گئے۔ مسکراتے ہوئے ، جہاں میں بیٹھا تھا، اسکے سامنے بیٹھ گئے ۔ ریہرسل پھر شروع ہوگئی۔ راج صاحب کی آنکھوں اور گردن کے اشارے سے لگتا تھا کہ انہیں موسیقی پسند ہے۔ سازوں کی آواز بند ہونے کے بعد انہوں نے کہا بھی ’ جی بہت اچھا ہے، دھُن بھی خوب ہے۔ پھر مجھے اپنے پاس بلاکر پوچھا، آپکو گانے کی ’سچویشن‘ کس نے سمجھائی تھی۔ میں نے رندھیر کپور کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے سر ہلایا اور کہا اگر کل آپ کو فرصت ہو تو چیمبر میں ہماری کٹیا میں آکر ہم سے سچویشن سن لیجیۓ۔ پنچم سمجھ چکے تھے کہ کل گیت رکارڈ نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مجھے اکیلے میں بتایا کہ اگر تم کل راج صاحب کے کاٹج جاکر ان سے گیت کا موضوع سن کر وہیں اسی دھن پر گیت لکھ دو گے تو ریکارڈنگ ہوگی نہیں تو نہیں ہوگی۔ میں دوسرے دن راج صاحب کے سامنے تھا۔ پہلے اپنے ماضی اور چھوڑے ہوئے پشاور کی باتیں کرتے رہے پھر اچانک بولے ’دئیر از آ گرل۔ دئیر از آ بواے۔ دئیر واز آ گرل ۔ دئیر واز آ بوائے۔ دئیر ول بی آ بوائے۔۔ اینڈ دیٹ از دی ہول لائف۔۔‘ انگریزی کے ان جملوں کے بعد بولے ’جی بس اسی خیال کو ہی نغمہ بنانا ہے‘۔ دھن میرے ذہن میں تھی ۔ دماغ بھی تھوڑا کام کررہا تھا۔ میں نے فورا انہیں مکھڑا بنا کر سنایا۔ : صدیوں سے دنیا میں یہی تو قصہ ہےایک ہی تو لڑکا ہے اور ایک ہی تو لڑکی ہےجب بھی یہ مل گئے پیار ہوگیا بول انہیں پسند آئے اور اسے آر ڈی برمن نے ریکارڈ کیا۔ راج کپور اب نہیں ہیں۔ لیکن وہ یادوں کی شکل میں میری طرح آج بھی کئی ذہنوں میں زندہ ہیں۔ میری ان سے آخری ملاقات چیمبور میں انہی کے بنگلے میں ہوئی تھی۔ وہ اس وقت تک شوگر کے مریض ہو چکے تھے۔ انکی بیوی کرشنا جی انکی شراب پر کنٹرول لگانے کے لیئے ان پر پہرا لگائے رکھتی تھیں۔ لیکن جیسے ہی وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوتی وہ ایک پیگ چڑھا لیتے۔ ’نشا نشے کے لیئے ہے عذاب میں شامل،کسی کی یاد کو کیجیئے شراب میں شامل‘ |
041102_bush_kerry | https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/11/041102_bush_kerry | بُش اور کیری کون ہیں؟ | سینیٹر جان کیری | سینیٹر جان کیری 11 دسمبر 1943 میں پیدا ہوئے۔ان کے والد دوسری جنگ عظیم کے فوجی اور ان کی ماں سرگرم سماجی خاتون تھیں۔ انہوں نے ییل یونیورسٹی سے گریجوایشن کی اور امریکہ کی بحری فوج میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے ویت نام کی جنگ میں حصہ لیا اور کئی اعزازی تمغے حاصل کئے۔ جنگ سے واپسی پر انہوں نےویت نام جنگ کی مخالف تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور اپنے اعزازی تمغے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیئے۔ سینیٹر کیری نے اپنے سیاسی زندگی کا آغاز سرکاری وکیل کے طور پر شروع کیا اور اس میں کافی شہرت حاصل کی۔ وہ 1982 میں میساچیوسٹ ریاست کے نائب گورنر منتخب ہوئے لیکن اس کے دو سال بعد ہی امریکہ کی سینٹ کے ممبر منتخب ہوگئے۔ وہ بیس سال سے سینٹ کے ممبر ہیں اور اس کی خارجہ امور کی اہم ترین کمیٹی کے ممبر ہیں۔ ان کو امریکی سینٹ کا سب سے زیادہ آزاد خیال سینیٹر مانا جاتا ہے۔ سینیٹر کیری کے صدارتی ایجنڈے میں عوام کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنا، بجٹ کا بڑھتا ہوا خسارہ کم کرنا، امیروں کو دی گئی ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ کرنا ، درمیانے طبقے کو مزید معاشی رعایتیں دینا اور ماحولیات کا تحفظ جیسے امور شامل ہیں۔ وہ مسلمان اقلیت اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطالبے پر پیٹریاٹ ایکٹ کی سِول آزادیوں کے خلاف شقوں کو ختم کرنے کا بھی وعدہ بھی کر چکے ہیں۔ دہشت گردی کو کم کرنے اور عراق کی جنگ کو ختم کرنے کے لئے وہ یورپ اور دوسرے اتحادیوں کے ساتھ اشتراک عمل چاہتے ہیں۔ وہ ایران اور شمالی کوریا کے جوہری پروگراموں کے خاتمے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ وہ پاکستانی امریکیوں کو بار بار یقین دلاتے رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے بارے میں موجودہ حکومت کی پالیسی کو تبدیل نہیں کریں گے۔ ان کی پہلی شادی سے دو بیٹیاں الیگزنڈرا اور وینسا ہیں۔ ان کی موجودہ شادی ارب پتی خاتون ٹریسا ہینز کیری کے ساتھ 1995 میں ہوئی۔ سینیٹر کیری کو سائیکل چلانے، کوہ پیمائی اور پیراکی کا بہت شوق ہے ۔ انہون نے ییل یونیورسٹی سے بی اے کیا اور 1968 میں ویت نام جنگ کے دوران ٹیکساس ایئر نیشنل گارڈ میں پائلٹ کے طور پر بھرتی ہوگئے۔ ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ ویت نام جنگ میں جبری بھرتی سے بچنے کے لیے سفارش سے نیشنل گارڈ میں گئے جہاں انہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کی۔ صدر بش نے 1975 میں ہارورڈ ینیورسٹی کے بزنس سکول سے ایم اے کی سند حاصل کی اور واپس ٹیکساس جا کر تیل کے کاروبار میں لگ گئے لیکن کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ انہوں نے 1988 میں اپنے والد کی صدارتی مہم میں حصہ لیا اور 1989 میں بیس بال کی ٹیم ٹیکساس رینجرز خریدی اور اس کے مینیجر جنرل بن گئے۔ وہ1994 اور 1998 میں دو بار ٹیکساس کے گورنر منتخب ہوئے۔ وہ 2000 میں نائب صدر الگور کو شکست دے کر امریکہ کے تینتالیسویں صدر منتخب ہوئے۔ ان کے عہد صدارت میں 11/9 کا سانحہ پیش آیا اور امریکہ نے افغانستان اور عراق پر حملہ کیا۔ بقول صدر بش کہ انہوں نے افغانستان اور عراق کو آزاد کراوایا۔ انہوں نے اپنے عہد صدارت کا زیادہ وقت دہشت گردی اور عراق کے خلاف جنگ میں گزارا ہے۔ انہوں نے پیٹریاٹ ایکٹ منظور کروایا جو ان کے ناقدین کے بقول سول آزادیوں پردست درازی کے مترادف ہے۔ جارج بُش کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے تعلیمی نظام کو بہتر بنایا ہے، بوڑھے لوگوں کی صحت پر آنے والے اخراجات کم کیے ہیں اور شہریوں پر ٹیکس کا بوجھ کم کر کے معیشت بحال کی ہے۔ وہ ہم جنس شادیوں کی روک تھام کے لیے امریکہ کے آئین میں تبدیلی کروانا چاہتے ہیں اور اسقاط حمل کو روکنے کے لیے سخت قسم کے قوانین منظور کروانا چاہتے ہیں۔ صدر بُش اپنے آپ کو بنیاد پرست عیسائیوں میں شمار کرتے ہیں اور اپنے سیاسی اعمال کو خدا کی رضا قرار دیتے ہیں۔ جنوبی ریاستوں کے بنیاد پرست عیسائی بھی ان پر جان چھڑکتے ہیں۔ صدر بُش پاکستان کے صدر جنرل مشرف کواپنادوست قرار دیتے ہیں اور ان کی بر ملا تعریف کرتے ہیں۔ وہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کو اپنا اتحادی قرار دیتے ہیں اور اس کی مالی امداد کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ لارا بش سابقہ ٹیچر اور لائبریرین ہیں۔ ان کی دو جڑواں بیٹیاں باربرا اور جینا ہیں۔ان کے خاندان میں بارنی نام کا کتا اور انڈیا نامی بلی بھی شامل ہے۔ |
120801_book_review_zz | https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2012/08/120801_book_review_zz | الف لیلہ: واہ کیا کہانیاں ہیں | نام کتاب: الف لیلہ | سیریز کے ایڈیٹر شمس الرحمٰن فاروقی ہیں جو اردو کے معروف نقاد، ناول و افسانہ نگار ہیں مترجم: رتن ناتھ سرشار صفحات: جلد اوّل 342، جلد دوم 321، جلد سوم 464، جلد چہارم 566 قیمت: جلد اوّل 795 روپے، جلد دوم 795 روپے، جلد سوم 895 روپے، جلد چہارم 895 روپے ناشر: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس پاکستان۔ کراچی الف لیلہ دنیا میں کہانیوں کی مشہور و مقبول ترین کتابوں میں سے ایک کتاب ہے۔ اسے شام میں لکھا گیا۔ کس نے لکھا؟ کسی ایک نے یا زیادہ نے یا یہ کہانیاں وہاں کے قصہ گو سنایا کرتے تھے جسے وہاں کے کسی مصنف نے لکھ کر ایک جگہ جمع کر دیا، اس بارے میں اب تک یقین سے کچھ نہیں کہا گیا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد یہ ایرانی، مصری اور ترک زبانوں میں پہنچی اور ان زبانوں کے قصہ گو اس میں اضافے کرتے رہے۔ بعد میں جب یہ کہانیاں ایک ہزار ایک راتوں پر پھیل گئیں تو اس نام ’الف لیلۃ و لیلۃ‘ یعنی ’ایک ہزار ایک راتیں‘ ہو گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے بعد کسی لکھنے والے نے ان کہانیوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ الف لیلہ کی کہانیوں کی کہانی کچھ یوں ہے کہ سمرقندکا ایک بادشاہ شہریار اپنی ملکہ کی بے وفائی سے دل برداشتہ ہو کر عورتوں سے ہی بدظن ہوگیا، اُس نے یہ دستور بنا لیا کہ روزانہ ایک نئی شادی کرتا اور دلہن کو رات بھر رکھ کر صبح کو قتل کرا دیتا۔ آخر اس کے ایک وزیر کی لڑکی شہرزاد نے اپنی صنف کو اس عذاب سے نجات دلانے کا ارادہ کیا اور اپنے والد کو بمشکل راضی کر کے شہریار سے شادی کر لی۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی کا ایڈیشن انتہائی عمدہ ہے۔ عام خریداروں کے لیے اس کی قیمت کچھ زیادہ ہو سکتی ہے لیکن عمدگی کو دیکھتے ہوئے زیادہ نہیں ہے اُس نے پہلی رات ہی سے بادشاہ کو ایک کہانی سنانا شروع کی۔ رات ختم ہوگئی مگر کہانی ایک ایسے موڑ پر تھی کہ بادشاہ شہرزاد کو ہلاک کرنے سے باز رہا۔ ہر رات شہرزاد کہانی شروع کرتی اور صبح کے قریب اسے ایک ایسے موڑ پر ختم روکتی کہ اس میں ایک نئی کہانی کا تجسس بھرا سرا دکھائی دیتا اور اتنا دلچسپ ہوتا کہ بادشاہ اس کے بارے میں جاننے کے لیے شہرزاد کا قتل ملتوی کرتا چلا گیا۔ یہ سلسلہ اتنا ایک ہزار ایک راتوں پر پھیل گیا اس دوران بادشاہ اور شہر زاد کے تعلقات میں تبدیلی آتی گئی اور ان کے ہاں دو بچے ہوگئے اور بادشاہ کی بدظنی جاتی رہی۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ عرب مورخ محمد بن اسحاق نے کتاب الفہرست میں کہانیوں کی جس کتاب کا ذکر ’ہزار افسانہ‘ کے نام سے ہوا ہے وہ دراصل الف لیلہ ہی ہے اور اس میں جو کہانی بطور نمونہ ہے وہ الف لیلہ کی پہلی کہانی ہے۔ کچھ لوگ اس سے یہ نتیجہ بھی نکالتے ہیں کہ الف لیلہ پہلے ’ہزار افسانہ‘ کے نام سے موجود تھی۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے جو کتاب شائع کی ہے اس میں مرتیبین نے یہ تفصیل بیان کرنے پر توجہ ضروری نہیں سمجھی اگرچہ رتن ناتھ سرشار کے بارے میں خاصی تفصیل موجود ہے۔ جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انھوں نے صرف پہلی جلد پر کام کیا تھا جب کہ دوسری جلد مولوی محمد اسمٰعیل نے تیار کی‘۔ لیکن اوکسفرڈ کی چاروں جلدوں پر رتن ناتھ سرشار ہی کا نام ہے۔ کیوں ہے؟ اس بارے کچھ نہیں کہا گیا۔ یورپ میں سب سے پہلے ایک فرانسیسی ادیب آنتون گلاں کو اس کتاب کا مخطوطہ 1690 میں ملا اور اس نے اس کا فرانسیسی ترجمہ گیارہ سال بعد شائع کیا، یہی ترجمہ اردو سمیت کم و بیش دوسری زبانوں میں ہونے والے تمام تراجم کی بنیاد بنا۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں الف لیلہ اور اس نوع کی دوسری کتابوں کے انتہائی سستے اور خراب ایڈیشن ملا کرتے تھے لیکن اب وہ ایڈیشن بھی دکھائی نہیں دیتے۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ سرشار کی الف لیلہ کا ایک تلخیص شدہ ایڈیشن انتظار حسین اور سید وقار عظیم ترتیب دیا تھا جو لاہور سے 1962 میں شائع ہوا تھا اس میں مولوی اسمٰعیل کی تیار کردہ دوسری جلد کی کہانیاں شامل نہیں تھیں۔ اب یہ ایڈیشن بھی دستیاب نہیں ہے۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس پاکستان سے چار جلدوں شائع ہونے والی الف لیلہ کے بارے میں اگرچہ یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ رتن ناتھ سرشار ہی کی پہلی جلد ہے یا اس میں دوسری تمام کہانیاں بھی شامل ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں الف لیلہ اور اس نوع کی دوسری کتابوں کے انتہائی سستے اور خراب ایڈیشن ملا کرتے تھے چوتھی جلد 784ویں رات پر ختم ہوتی ہے اور پانچویں جلد زیر طبع ہے، ہو سکتا ہے کہ پانچویں جلد میں اس باتوں کا بھی خلاصہ کر دیا جائے لیکن ان باتوں سے کا چار جلدوں میں شامل کہانیوں کی دلچسپی سے کوئی تعلق نہیں۔ الف لیلہ کی اہمیت یہ ہے کہ عام لوگ تو اس کا لطف اٹھا ہی سکتے ہیں فکشن لکھنے والوں کے لیے خاص طور پر یہ ایک ایسی کتاب ہے جس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ اس کی زبان ضرور ایسی ہے جو اردو کے بہت سے اساتذہ کے لیے بھی امتحان ہو سکتی ہے لیکن اس کے باوجود اس کتاب کو اردو جاننے سے دلچسپی رکھنے والے ہر گھر میں ہونا چاہیے۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی کا ایڈیشن انتہائی عمدہ ہے۔ عام خریداروں کے لیے اس کی قیمت کچھ زیادہ ہو سکتی ہے لیکن عمدگی کو دیکھتے ہوئے زیادہ نہیں ہے۔ سیریز کے ایڈیٹر شمس الرحمٰن فاروقی ہیں جو اردو کے معروف نقاد، ناول و افسانہ نگار ہونے کے علاوہ ہندوستان سے شائع ہونے والے ادبی جریدے ’شب خون‘ کے مدیر رہے ہیں جب کہ ایڈیٹر اجمل کمال ہیں جو پاکستان سے شائع ہونے والے سہ ماہی ’آج‘ کے مدیر ہیں اور اپنے ترجموں کے علاوہ تنقیدی مضامین اور کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ |
030822_piratedcdsscience | https://www.bbc.com/urdu/science/story/2003/08/030822_piratedcdsscience | اصلی نمبر دو | تحریر: اشعر رحمان | مجاہد بالکل زاہد جیسا لگتا ہے۔ یہ دونوں بالکل ایک جیسے لگتے ہیں۔ یہ دونوں نوجوان جڑواں بھائی ہال روڈ پر الیکڑونکس کے سامان کی دکان کرتے ہیں۔ جیسے ایک ناواقف کار کے لئے مجاہد اور زاہد میں فرق کرنا ناممکن ہے، اسی طرح یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ ہال روڈ لاہور پر جو بھی کچھ، جس بھی نام سے بک رہا ہے۔ کیا یہ واقعی اصل ہے، یا پھر یوں کہ کیا یہ واقعی اصل نمبر دو ہے۔ مجھے خود تو ان بیچارے دکان داروں کی سادہ لوحی پر ترس آتا ہے، چلیے مانا کہ ٹیلی ویژن سیٹ چین سے برآمد شدہ ہے مانا کہ اس کا مقابلہ جاپان یا ملیشا کے بنے ہوئے ٹی وی سیٹ سے نہیں کیا جا سکتا۔ مگر صاحب، یہ راز سب کو بتانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس ٹیلی ویژن سیٹ کی قیمت ہے چار ہزار پانچ سو روپے لیبل (یعنی برانڈ نیم) آپ اپنی پسند کا لگوا سکتے ہیں۔ یہ کہنا ہے ہال روڈ کے ایک ایسے دکاندار کا جو آجکل چینی ٹیلی ویژن فروخت کرتا ہوا پایا جاتا ہے۔ اس کی دکان میں سلیٹی رنگ کے چینی ٹی وی سیٹ سلیقہ مندی کے مروجہ معیار کے مطابق اوپر نیچے قطار در قطار رکھے ہوئے ہیں۔ جس وقت میں دکان میں گیا اس وقت وہاں رکھے ہوئے تمام ٹی وی سیٹوں پر SONY کی مہر قبولیت ثبت تھی۔ ویسے آپ کی مرضی ہے، آپ جو لیبل پسند کریں۔ دکاندار اسی برانڈ میں چینی ٹی وی کو ٹرانسفارم کر دے گا۔ اسی لئے مجاہد کہتے ہیں کہ یہاں کسی چیز کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ یہ الفاظ مجاہد اور زاہد کی دکان کی طرح ہال روڈ پر تقریباً تمام دکانوں کی دیواروں پر جلی حروف میں لکھے نظر آتے ہیں۔ کہیں ایک دکاندار اپنے ایک ملازم کو دھمکی آمیز الفاظ میں جھڑکتا سنائی دیتا ہے، محض اس لئے کہ وہ ملازم نمبر دو فعل کا مرتکب پایا گیا تھا۔ یعنی کام اپنی دکان پر اور کمائی کسی اور دکاندار کے لئے۔ سب چلتا نہیں بلکہ چل رہا ہے۔ اور لوگ جنہیں جدید زبان میں صارف یا کنزیومر کہا جاتا ہے، خوش ہیں۔ عزیر ابھی صرف سات آٹھ سال برس کا ہے۔ مگر اس میں ایک اچھا صارف بننے کی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ جہاں میں نے کوئی ایک ڈیڑھ گھنٹے کی دوڑ دھوپ کے بعد صرف ایک سی ڈی خریدی۔ اس نے صرف چند منٹوں میں اپنی پسند کی سی ڈی کا ڈھیر لگا دیا وہ کہتا ہے کہ اب اس کی چھٹیوں کے چند روز مزے سے گزریں گے۔ مگر کیا اسے یقین ہے کہ یہ CDs اصل ہیں اور اس کے کمپیوٹر کو خراب نہیں کریں گی۔ عزیر کے کندھے اچکانے کے انداز سے پتہ چلتا ہے کہ اسے اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں یا اسے یقین ہے کہ یہ CDs اصل نہیں ہے۔ یہ سب CDs کراچی میں تیار ہوئی ہیں۔ دکاندار مجھے بتاتا ہے ’جی ہاں پہلے ایک وقت تھا کہ CDsباہر سے پاکستان آتی تھیں۔ اب CDs یہاں سے باہر لیجائی جاتی ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ اصل سامان کا کاروبار کر رہے ہیں وہ میرے خیال میں سچ نہیں کہہ رہے۔ مگر بھائی سچ بولنے کی ضرورت کیا ہے؟ اور وہ لوگ جواب ہم یہ اپنی سچائی جتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا وہ واقعی ان روایتی دکانداروں سے مختلف ہیں۔ جن کا کام جیسے تیسے اپنا مال بیچنا ہے؟‘ اگر آپ ہال روڈ کو تھوڑا اور وقت دے سکیں تو آپ کو یہ اندازہ ہو گا کہ سچ کا کوئی ایک معیار یہاں پر نہیں ہے۔ جو CDمیں نے پنتالیس روپے کی خطیر رقم میں خریدی وہی آپ کو تیس روپے میں بھی مل سکتی ہے۔ اور جو ٹی وی سیٹ پنتالیس سو روپے میں آپ کو بہت سستا لگ رہا ہے، وہ ایک اور دکان پر صرف انتالیس سو روپے میں دستیاب ہے۔ آپ چاہیں تو اس پر کئی ایک لیبل چسپاں کروالیں اور ٹی وی سیٹ بنانے والی بڑی کمپنیوں کا ایک Conglomerateگھر لے جائیں۔ جیسا میں پہلے کہہ چکا ہوں، کسی کو بتانے کی کیا ضرورت ہے۔ آج بھی ہمارے درمیان ایسے سادہ لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو دکاندار کے بتائے بغیر یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو ٹی وی وہ خرید رہے ہیں وہ واقعی SONY ہے یا اس کا چینی نقال۔ میں نے اپنی زندگی کے ابتدائی چند سال ہال روڈ پر ایک گھر میں گزارے۔ بہن بھائیوں میں میرا نمبر دوسرا ہے۔ مگر اچھے زمانوں کا نمبر دو۔ اصلی نمبر دو میں دیکتھے ہی دیکتھے ہال روڈ پر صارفین کے ہجوم کا قبصہ ہو چکا ہے۔ اور جلدی یا بدیر سب کو اس ہجوم میں شامل ہونا ہے۔ |
130622_book_reviews_rh | https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2013/06/130622_book_reviews_rh | زبیر احمد، محمود اعوان کے نئے شعری مجموعے | نام کتاب: سد | شاعر: زبیر احمد صفحات: 96 قیمت: 150 روپے ناشر: سانجھ پبلیکیشنز، 2/46 مزنگ روڈ، لاہور sanjhpks@gmail.com پنجابی ادب اور شاعری کے پڑھنے والوں میں بہت کم لوگ ہوں گے جو زبیر احمد کے نام سے واقف نہ ہوں۔ اس مجموعے سے پہلے ان کا ایک شعری مجموعہ ’دم یاد نہ کیتا‘ 1996 میں شائع ہو چکا ہے اور کہانیوں کے بھی دو مجموعے آ چکے ہیں۔ ایک مجموعہ ’مینہ بوہے تے باریاں‘ کے نام سے اور ایک ’کبوتر بنیرے تے گلیاں‘ کے نام سم سے۔ زبیر احمد کے اس مجموعے میں 63 نظمیں ہیں۔ اکثر نظمیں غنائی اور حقیقت پسندانہ مصوری سے بہت قریب ہیں۔ یوں بھی لکھنے کے بارے میں ان کا تصور یادداشت کی بازیافت، فراموش کی تلاش، سیکھے ہوئے سے نجات، یعنی کاتے ہوئے کو بار بار کاتنا، پھر سے سینا، سی کر پہننا اور برتنا ہے۔ لکھنا ان کے لیے: نہ جینے میں جینا، انتہائی پیچھے جا کر بالکل آگے آنا، الٹا تیرنا، چوبارے میں پر بیٹھ کر اندھی گلیوں سے گذرنے والوں کو دیکھنا، آنکھ کو اس کے لیے خالی رکھنا جسے ان دیکھی سے آنا ہے اور ان سے دوستی ہے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے۔ اس لکھنے یا تثور ِ شعر کی ان کے ہاں کئی شکلیں ہیں: ایک نظم ہے، ’تاری وال‘۔ میں یہ نظم آپ کو اردو میں سناتا ہوں: میں نے تاری وال نہیں دیکھا شاید کبھی دیکھ بھی نہ پاؤں گا ماں باتیں کیا کرتی تھی صبح جب سائرن بجتا تمھارا ماموں تاری وال چل دیتا وہاں کارخانے تھے میاں جی کمبل لاتے تھے باتوں باتوں میں ماں تاری وال کی سیر کراتی کیسا تھا تاری وال کیسی تھی وہاں کی ہوا آج لاہور شہر کے بادلوں میں تاری وال کی سی ہوا بہہ رہی ہے مٹی کتنا لمبا فاصلہ کرتی ہے زبیر کی شاعری میں آپ کو نجم حسین سیّد کا قرب بھی محسوس ہو سکتا ہے لیکن بہت قریبی نہیں، ان کے ہاں اتنی پیچیدگی نہیں ہے لیکن نظم بنانے کے انداز کو نجم حسین سید نے جیسے اردو کی آزاد نظم اور غزل سے الگ کیا ہے، یہ اس سے قریب ہیں۔ خاص طور پر پہلی ہی نظم، جس کے عنوان کو اس مجموعے کا نام بنایا گیا ہے ہر اس پڑھنے والے کو زبیر کی شاعری ضرور لطف دے گی جو بہت زیادہ توقعات نہیں بندھے گا۔ لیکن جیسے جیسے آپ اس شاعری کو پڑھیں گے یہ آپ میں اپنے جگے بناتی چلی جائے گی۔ محفوظ مستقبل کی قیمت نام کتاب: وینی لکھیا دن شاعر: محمود اعوان صفحات: 144 قیمت: 200 روپے ناشر: سانجھ پبلیکیشنز، 2/46 مزنگ روڈ، لاہور sanjhpks@gmail.com محمود اعوان کا نام یقینی طور پنجابی پڑھنے والوں کے لیے بھی کم و بیش اتنا ہی مانوس ہو گا جتنا پاکستان کی کسی بھی اور زبان کا ادب پڑھنے والوں کے لیے ہو سکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ کل وقتی ادیب یا شاعر نہیں ہیں اور نہ ہی غالبًا شاعری ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ لیکن ان کے بارے میں زبیر احمد اورمشتاق صوفی نے جو کچھ لکھا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جیسے جوانی میں عشق ہو جاتا ویسے ہی جو پڑھتے لکھنے والوں سے قریب رہتے ہیں انھیں پڑھنے کا چسکا لگ جاتا اور اگر یہ چسکا لت بن جائے تو تعلیم وغیرہ تو ایک طرف رہ جاتی ہے اور ادب سر چڑھ آتا ہے۔ اس مرحلے پر جو خود پر قابو نہیں رکھ پاتے وہ آخر کار مس فٹ قرار پاتے ہیں۔ لیکن محمود اعوان کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ وہ 1977 میں پیدا ہوئے اور 2000 میں الیکڑیکل انجینئرنگ کر لی اور ملازمت شروع کر دی۔ 2002 میں ان کا پہلا مجموعہ ’رات سمندر کھیڈ‘ شائع ہوا اور 2005 میں پاکستان سے چلے گئے۔ اب آئر لینڈ میں رہتے ہیں۔ اس تفصیل کو سامنے رکھیں تو کوئی ٹیڑھ دکھائی نہیں دیتی۔ جیمز جوائس اور سموئل بیکٹ کو پڑھتے پڑھتے محمود اعوان ڈبلن میں جا بسے، ان کا مستقبل یہاں بھی تاریک نہ ہوتا لیکن شاید وہاں جیسا محفوظ بھی نہ ہوتا۔ لیکن جو وہ چھوڑ گئے ہیں اس کا انت ان پر نہیں بیتا، امیدوں اور مکانات کا انجام سامنے نہیں آیا تو اُس کی ایک کسک تو دل سے جائے گی نہیں۔ وہی کسک ان کی اُس شاعری میں موجود ہے جسے انھوں نے اِس مجموعے میں جمع کیا ہے۔ وہ کم کم کیوں لکھتے ہیں اس کا اندازہ ان کی نظمیں پڑھ کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ کسک کی شاعری مسلسل اذیت اور درد کی نہیں۔ لیکن ایک بات ہے کہ محمود اعوان کی شاعری میں زندگی کی سچائی ہے، وہ اس سچائی سے آگاہ بھی ہیں اور اس کا رنج بھی اٹھاتے ہیں۔ اس کی مثال ان کی نظم ’نی مائے‘ ہے جس کا حوالہ زبیر احمد نے بھی دیا ہے: نی مائے ہُن بھیڑ لے بوہا پے گئیاں نے شاماں بہہ جا اندر منجی اُتے کھول کے چٹے وال میں نئی اونا! میز اُتے میں چھڈ آیا ساں ادھ کھلے اخبار کچیاں پکیاں یاداں نسدے بھجدے ساہ رکھ دیویں او شیلفاں اندر تے مینوں نہ لبھیں میں نئی لبھنا گلیاں ملکاں خاباں اندر واواں دے ہتھ کوئی چٹھی نہ گھلیں میڈے ناں دی پکھو واپس اوندے تک کے پیڑ لکائیں ہانہہ دی اب آپ خود دیکھ لیں کہ جو محمود اعوان یہاں سے جاتے ہیں وہ کن خوشیوں اور دردوں میں رہتے ہیں۔ ایسی کئی نظمیں مجموعے میں شامل ہیں۔ یہ نظمیں ان لوگوں کو ضرور پڑھنی چاہیں جن کے پیارے کہیں باہر جا کر بس گئے ہیں یا باہر جانے والے ہیں۔ اور ہاں مشتاق صوفی نے ان کے اور ان کی شاعری کے بارے میں لکھا ہے کتاب کے بیک ٹائٹل پر اچسے پڑھنا نہ بھولیے گا۔ |
130720_taliban_letter_malala_hanif_2 | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/07/130720_taliban_letter_malala_hanif_2 | اللہ پہ چھوڑ دیں: دوسرا حصہ | مکرمی عدنان رشید! | ’ان پائلٹ لڑکیوں نے اگر یہ سوچ لیا کہ اللہ پر چھوڑ کے بہت دیکھ لیا اب خود ہی کچھ کرتے ہیں تو خدا جانے انجام کیا ہوگا‘ باقی قوم کی طرح میں بھی اس بات سے متفق ہوں کہ ہمارا مسئلہ تعلیم نہیں ہے۔ اگر قلم تلوار سے واقعی طاقتور ہوتی تو ہندوستان کا حکمران غالب ہوتا انگریز صاحب بہادر نہیں۔ کروڑوں لوگ تعلیم حاصل کرکے بیٹھے ہیں اور غلاموں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ اللہ پر چھوڑ دو: پہلا حصہ اصل مسئلہ تو عورتیں ہیں۔ آپ نے سوات کے پہلے انقلاب پر تحقیق کی تھی تو یقیناً دیکھا ہوگا کہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا جس میں عورتیں نہ گھس گئی ہوں۔ کھیتوں میں، ہسپتالوں میں، تھانے کچہریوں میں، کمپیوٹر سکولوں میں، کوئی چادر پہن کر نکلی کسی نے فیشن حجاب کیا، کسی نہ شٹل کاک پہنا، کوئی سر پر دوپٹہ پہن کر چل پڑی جس سے اور کچھ نہ بن پایا وہ گھر کے کمرے میں ہی بیوٹی پارلر کھول کر بیٹھ گئی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب سوات میں مولانہ فضل اللہ والا دوسرا انقلاب آیا اور نظام عدل رائج ہوا تو ایک سینیئر صحافی نے انہیں مشورہ دیا کہ طالبان اگر چوک پر لوگوں کے گلے کاٹیں گے تو برداشت کر لیا جائے گا، اگر ہر گلی میں ٹکٹکی لگا کر کوڑے ماریں گے تو کچھ نہیں ہوگا لیکن لڑکیوں کے سکول بند نہ کریں عورتوں کو کام پر جانے سے نہ روکیں۔ لیکن نظام عدل میں ظاہر ہے کہ اس طرح کی گنجائش نہیں تھی۔ سوات میں نظام عدل کو نہ فوج نے شکست دی نہ گنے چنے سرخوں نے انقلاب کی ناکامی کی اصل وجہ یہ تھی کہ عورتوں کا گھروں سے نکلنا بند کیا گیا، جواباً ان ’ناہنجار‘ عورتوں نے قوم کا ناطقہ بند کر دیا۔ ثابت یہ ہوا کہ آپ پاکستانی فوج سے لڑ سکتے ہیں امریکہ کو نیچا دکھا سکتے ہیں اپنی فوج کے سربراہ کو قتل کرنے کی کوشش کرنے کے بعد جیل سے فرار ہو سکتے ہیں لیکن اگر آپ اپنی محلے کی ان عورتوں سے دشمنی کریں گے جنہیں اپنی روزی روٹی کمانے کی مجبوری ہے تو ناکامی آپ کا مقدر بن جاتی ہے۔ اور یہ لعنت صرف سوات تک محدود نہیں ہے۔ ملک میں ہر جگہ آپ کے جذبہ جہاد کی قدر پانے والے لوگ پائے جاتے ہیں دامے، دامے سخنے آپ کا مشن آگے بڑھاتے ہیں لیکن دل ہی دل میں یہ ہوکا لگا رہتا ہے کہ بیٹی کا داخلہ کسی اچھی یونیورسٹی میں ہو جائے۔ کوئی ڈاکٹر بنا رہا ہے کوئی کمپیوٹر انجینیر اب تو فیشن ڈیزائن پڑھانے والے سکولوں میں بھی اپنی بیٹیوں کو بھیجنے میں عار نہیں سمجھتے۔ اور یہ مسائل صرف سویلین آبادی تک محدود نہیں رہے آپ نے پائلٹ لڑکیوں کی وہ تصویریں دیکھی ہوں گی جو ایئرفورس پروپیگنڈے کے لیے اخباروں کو جاری کرتی ہے۔ ان میں سے کئی لڑکیاں اب فائٹر پائلٹ بھی بن چکی ہیں۔ آپ فوج کو مجھ سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اس نے اپنے مسلمان بھائیوں کو مارنے یا امریکہ سے مروانے کے علاوہ کبھی کیا ہی کیا ہے۔ لیکن کل کلاں ان پائلٹ لڑکیوں نے اگر یہ سوچ لیا کہ اللہ پر چھوڑ کے بہت دیکھ لیا اب خود ہی کچھ کرتے ہیں تو خدا جانے انجام کیا ہوگا۔ |
45534513 | https://www.bbc.com/urdu/45534513 | انڈیا کےخلائی راز آئی ایس آئی کو بیچنے کا جعلی پلاٹ | یہ بھی پڑھیے | انڈیا نے خلائی تحقیق میں کافی ترقی کی ہے انڈیا کے خلائی تحقیق کے ادارے اسرو کے ایک سرکردہ سائنسداں ، دو غیر ملکی خواتین اور پاکستان کی خفیہ سروس آئی ایس آئی۔ اسرو کے راکٹ پراجکٹ کا راز، یہ بالی ووڈ کی کسی سنسی خیز جاسوسی فلم کا ایک مکمل پلاٹ نظر آتا ہے۔ لیکن دراصل یہ انڈیا کی پولیس اور خفیہ سروس کا پلاٹ تھا جو جعلی نکلا۔ انڈیا کی خلائی شعبے میں دلچسپی کی وجوہات کیا انڈیا انسانوں کو خلا میں بھیج سکتا ہے؟ انڈیا کا خلائی مشن میں نیا ریکارڈ چوبیس برس قبل1994 میں کیرالہ کی پولیس اور خفیہ سروس نے اسرو کے ایک سرکردہ خلائی سائنسداں اور کرائیوجینک راکٹ پروجکٹ کے سربراہ ایس نامبی ناراینن کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ ان پر دو مالدیپ سے تعلق رکھنے والے دو خواتین کے توسط سے انڈیا کے خلائی پروگرام کے راز پاکستان کی خفیہ سروس آئی ایس آئی کو فروخت کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ چوبیس برس بعد سپریم کورٹ نے گزشتہ جمعہ کو ناراینن کے خلاف تمام الزامات اور جاسوسی کے سارے پلاٹ کو جعلی قرار دیا۔ عدالت عظمی نے حکومت کو انہیں پچاس لاکھ روپے بطور معاوضہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ اس فرضی جاسوسی کے واقعے کے ذمہ دار پولیس افسروں اور خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ جاسوسی کا یہ سنسی خیر واقعہ کیرالہ میں سیاحت کے لیے آنے والی مالدیپ کی دو خاتون سیاحوں مریم رشیدہ اور فوزیہ حسن کی گرفتاری سے شروع ہوا۔ پولیس نے انہیں ویزا کی مدت ختم ہونے کے بعد ملک میں رکنے کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔ تفتیش کے دوران پولیس کو مریم کی ڈائری سے اسرو کے ایک سائنسداں ڈی ششی کمارن کا ٹیلی فون نمبر ملا۔ ایک مہینے کے اندر پولیس نے مریم، فوزیہ، سائنسدان نمبی ناراینن، ڈی ششی کمارن اور روسی خلائی ایجینسی کے ایک ایجنٹ چندر شیکھر کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ ناراینن اور ششی کمارن پر اسرو کے خلائی راز مالدیپ کی دونوں خواتین کے توسط سے پاکستان کی خفیہ سروس آئی ایس آئی کو فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا۔ مریم اور فوزیہ کو پاکستان کی خفیہ سروس کا ایجنٹ بتایا گیا۔ ملک میں سنسنی پھیل گئی۔ اسرو کے سائسندان حیران رہ گئے۔ اس معاملے کی سی بی آئی سے تحقیق کرائی گئیں۔ تفتیشی بیورو نے دو برس کے اندر 1996 میں اس کیس کو پوری طرح جعلی قرار دیا اور اس فرضی پلاٹ کے ذمے دار پولیس افسروں اور انٹیلی جنس بیورو کے اہلکاروں کے خلاف ایک رپورٹ حکومت کو بھیجی۔ سی بی آئی کی تفتیش اور رپورٹ کے باوجود ناراینن کو انصاف ملنے میں 24 برس لگ گئے ۔ تفتیش سے یہ بھی پتہ چلا تھا کہ مالدیپ کی مریم رشیدہ دراصل پولیس افسر کے پاس یہ بتانے گئی تھیں کہ ان کے پاس ٹکٹ ہونے کے باوجود وہ اس روز ہڑتال کے سبب واپس نہیں جا سکیں گی۔ پولیس افسر نے انہیں حراست میں رکھ کر جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ ان کی ڈائری سے اسرو کے سائسندان ششی کمارن کا جو فون نمبر ملا تھا وہ ان کی بیوی نے دیا تھا جو ایک ڈاکٹر ہیں اور جن کو مریم نے دکھایا تھا۔ ششی کمارن کرائيوجینک پروجکٹ کے سربراہ ناراینن کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ پولیس اور انٹیلی جنس بیورو کے بعض اہلکاروں کی وجہ سے ان سائندانوں کی زندگی تباہ ہو گئی۔ وہ 24 برس تک 'دشمن کے لیے جاسوسی' کرنے کے الزام کا داغ لیے پھرتے رہے۔ ان کے ساتھ ان غیر ملکی سیاحوں کے بارے میں بھی طرح طرح کی کہانیاں شائع کرائی گئیں اور انہیں مہینوں تک جیل میں بھی رکھا گیا ۔ ملک کے ایک بہترین سائنسداں ناراینن کے گزرے ہوئے دن تو نہیں لوٹائے جا سکتے لیکن ان اہلکاروں کو ہر حالت میں سزا ملنی چاہیئے جواس کے ذمےدار تھے۔ اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ اس فرضی پلاٹ کا مقصد کیا تھا۔ ناراینن کی گرفتاری سے کرائیوجینک انجن کی تحقیق اور تیاری کم از کم دس برس پیچھے چلی گئی ۔ کہیں اس کا مقصد اس پراجکٹ کو نقصان پہنچانا تو نہیں تھا۔ اور اگر ایسا تھا تو اس کے پیچھے کون تھا؟ |
140903_warning_about_hashmi_type_wusat_rk | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/09/140903_warning_about_hashmi_type_wusat_rk | بادشاہ تو ننگا ہے ابا | ضروری انتباہ | اب ہاشمی صاحب 23 برس کے شعلہ بیاں طالبِ علم رہنما بھی نہیں بلکہ 66 برس کے میچور سیاستداں ہیں ہر خاص و عام کو مطلع کیا جاتا ہے کہ جاوید ہاشمی اور از قسمِ ہاشمی دیگر لوگوں سے آئندہ نہایت ہوشیار رہا جاوے۔ان کا بھرپور احترام ضرور کیا جاوے ۔ان کی قربانیوں کا بھی کھل کے اعتراف ہونا چاہیے۔ان کی ضمیر پرستی کی بھی پوری پوری داد دی واجب ہے۔ وہ جلسوں کی گرمائش کے لیے بھی خاصے موزوں ہیں۔ان کی عوام دوست باغیانہ طبیعت کو بھی مشعلِ راہ بنانے کا عہد کیا جاسکتا ہے۔ پر بنامِ خدا کوئی بھی قومی جماعت ( بشمول عوامی نیشنل پارٹی و جمیعت علمائے اسلام ) کہ جسے اپنی دنیا و دین نیز جان و دل عزیز ہو ، جاوید ہاشمی کو بقائمی ہوش و حواس یا بلا ہوش و حواس اپنا مرکزی عہدیدار بنانے سے پرہیز کرے۔ ایسے لوگ چلتے میچ میں عین جب فالو آن قریب ہو وکٹ اکھاڑ کے بھاگ جاتے ہیں یا پچ کھود ڈالتے ہیں۔ ( منجانب ۔ہمدردانِ تحریکِ انصاف پاکستان ) اقبال نے شاید یہ مقطع جاوید ہاشمی جیسوں کے لیے ہی کہا ہے۔ چپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبال کرتا کوئی اس بندہِ گستاخ کا منہ بند۔ حالانکہ گرگانِ باراں دیدہ نے لاکھ سمجھایا کہ جاوید ہاشمی کو مت لو۔ وہ یس سر الیون میں نہیں چل پائیں گے۔انھیں نہ تو گیم ڈالنے کی تمیز ہے، نہ کرکٹ کا پتہ، نہ میچ فکسنگ کی شد بد اور نہ ہی ڈریسنگ روم کلچر سے واقفیت۔زود رنج آدمی ہیں۔کہیں کبھی کسی بھی میچ میں بات بے بات غضب ناک ہوگئے تو اپنی ہی وکٹ پر بلا نہ دے ماریں۔کہیں جان بوجھ کر آخری اور فیصلہ کن کیچ ہی نہ چھوڑ دیں۔ کسی خفگی کی بنا پر وکٹ چھوڑ کے ہی کھڑے نہ ہوجائیں۔ سامنے والے کو رن آؤٹ ہی نہ کروادیں۔ مانا کہ جاوید ہاشمی ذات کے سید ہیں پر طبیعت میں خانصاحبی دھرمٹ سے کوٹی گئی ہے۔ایک پارٹی میں ایک وقت میں ایک ہی خان صاحب بہت ہیں۔ مگر کپتان خان کا ایک ہی جواب تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ میں نے میاں داد جیسے لا ابالیے کی ایک نہیں چلنے دی۔ قاسم عمر کے ٹیسٹ کیرئر پر اس کی لمبی زبان کے سبب بریک لگوا دی۔ یونس احمد کے لیے وکٹ تنگ کردی۔گرم مرطوب جسٹس وجیہہ الدین کو معتدل مزاج بنا دیا۔ حامد خان جیسے آتش گیر مادے پر ٹھنڈی بالٹی ڈال دی تو جاوید ہاشمی بھی کانِ نمک میں نمک ہو ہی جائیں گے۔ میں بھی باغی وہ بھی باغی۔ خوب گزرے گی دونوں کی۔ ویسے بھی ن لیگ میں وہ ہرگز جانا پسند نہیں کریں گے۔ پیپلز پارٹی سے ان کا ہمیشہ نظریاتی مسئلہ رہا ہے۔ جماعتِ اسلامی کا ڈھانچہ، رینج اور ڈسپلن ایسا ہے کہ ہاشمی جیسوں کا دم گھٹ جاتا ہے۔ اب ہاشمی صاحب 23 برس کے شعلہ بیاں طالبِ علم رہنما بھی نہیں بلکہ 66 برس کے میچور سیاستداں ہیں۔ عمر کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ صحت بھی مزید مہم جوئی کی اجازت نہیں دیتی۔ان سب عوامل کی بنا پر ہاشمی آخری دم تک تحریکِ انصاف میں ہی باعزت زندگی گزارنا پسند کریں گے۔ان میں اچھی بات یہ بھی ہے کہ ایک سیدھے کھرے شخص کی طرح جتنی جلد ناراض ہوتے ہیں اتنی جلدی من بھی جاتے ہیں۔اس لیے فکر نہ کرو میں سنبھال لوں گا۔اپنے کپتان پر پہلے کی طرح بھروسہ رکھو۔ جاوید ہاشمی کے بارے میں کپتان کی ریڈنگ بہت صحیع تھی۔ پر ایک چوک ہوگئی، جیسا کہ روایتی کہانیوں میں ہیرو سے اکثر ہو ہی جاتی ہے۔ کپتان خان ہاشمی کی اسکیننگ رپورٹ میں وہ طفلِ آزاد منش نہیں دیکھ پائے جو کہیں بھی موقع محل کی پرواہ کیے بغیر کسی بھی خلافِ طبیعت بات پر پسر جاتا ہے۔ وہ بچہ جو جھوٹ بولنا بھی چاہے تو فوراً پکڑا جاتا ہے۔ وہ بچہ جو غیر سیاسی ہوتا ہے۔ وہ بچہ جو بادشاہ کے لباس کی تعریف میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے والے جی حضوری ہجوم کا حصہ ہوتے ہوئے بھی نتائج و مصلحت سے آزاد یکدم چیخ پڑتا ہے، بادشاہ کے تن پر تو کپڑے ہی نہیں ۔بادشاہ تو ننگا ہے ابا۔۔۔ |
world-38051763 | https://www.bbc.com/urdu/world-38051763 | 100 وومن ایک بار پھر | 100 خواتین آخر ہے کیا؟ | اس سیزن کے تحت ہم اگلے تین ہفتوں تک پیش کریں گے خواتین کی غیر معمولی جرات مندی پر مبنی کہانیاں۔ اس میں سیاہ فام تحریک نسواں کا جائزہ لیں گے اور موسیقی، کھیل اور سیاست سے وابستہ ایسی قائدانہ صلاحیتوں کی خواتین سے بات کریں گے جن کے متعلق شاید آپ نے پہلے کبھی نہ سنا ہو، اگرچہ ان کے پاس آپ کو بتانے کے لیے حیران کن کہانیاں ہیں۔ بی بی سی ہر برس دنیا بھر کی سو بااثر اور متاثر کن خواتین پر مبنی کہانیاں پیش کرتا ہے۔ دنیا بھر کی خواتین پر مرکوز پروگرام کے تحت ہم ایسی چنیدہ خواتین پردستاویزي فلم بناتے ہیں، ان پر فیچر کہانیاں لکھتے اور ان کا انٹرویو کرتے ہیں۔ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ہم ایسا اپنے تمام پروگراموں میں خواتین کی نمائندگی کو بڑھانے کے لیے کرتے ہیں اور خواتین ناظرین و سامعین کا اضافہ بھی اس کا ایک مقصد ہے۔ ہمارے اہم سوال یہ ہوتے ہیں: جہاں آپ رہتے ہیں آخر وہاں 21ویں صدی میں خواتین کے ساتھ کیسا رویہ برتا جاتا ہے؟ امتیازی سلوک ہوتا ہے یا برابری کا؟ کیا سیاست اور تجارت میں خواتین اور اہم کردار ادا کریں گی یا پھر عالمی سطح پر ان کے لیے ایک حد مقرر ہے؟ آپ کی نظروں میں خواتین کو کون سے بڑے خطرے کا سامنا ہے؟ بڑے مواقع سے متعلق آپ کے خیالات کیا ہیں؟ اور ہاں میڈیا سے متعلق آپ کے خیالات کیا ہیں؟ کیا ہم خواتین سے متعلق غلط بیانی سے کام لیتے ہیں یا پھر ان کی کہانیاں ہم مناسب طریقے سے پیش کرتے ہیں۔ 100 وومن سیزن کے سلسلے میں گلوکارہ علیشیا کیز امریکہ میں نسل پرستی، اوبامہ کے بعد اور ٹرمپ سے پہلے کے امریکہ، فیمینزم، میک اپ، شہرت اور بچوں کی پرورش کے موضوعات پر بات کریں گی ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی اپنے تبصروں، تاثرات اور خیالات کے ذریعے اس میں حصہ لیں۔ ایسا کرنے کے لیے آپ فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب پر جا سکتے ہیں۔ ہیش ٹیک 100 وومن کو استعمال کر کے اپنی پسندیدہ پوسٹس اور اس سے متعلق اپنی کہانیاں شیئر کریں۔ یہ 100 وومن کا چوتھا سیزن ہے اور اس سال کسی بھی گزشتہ سیزن کی نسبت زیادہ کہانیاں پیش کی جا رہی ہیں۔ 100 وومن سیزن کے سلسلے میں گلوکارہ علیشیا کیز امریکہ میں نسل پرستی، اوباما کے بعد اور ٹرمپ سے پہلے کے امریکہ، فیمینزم، میک اپ، شہرت اور بچوں کی پرورش کے موضوعات پر بات کریں گی۔ بی بی سی 100 وومن اس سال میکسیکو سٹی کے مرکز میں ایک فیسٹول بھی منعقد کر رہا ہے جس میں اور چیزوں کے علاوہ موسیقی، آرٹ، رقص اور مذاکرہ شامل ہے۔ اس موقع پر 100 وومن اینی میٹذ ورچل ریئلٹی ڈاکیومنٹری بھی ریلیز کی جائے گی جو ظلم کا شکار ہونے والی خواتین کے ذاتی تجربات پر مبنی ہے۔ اس کے ذریعے آپ اس خاتون کی کہانی کو ’محسوس‘ کر سکتے ہیں جس کو ایک منظم گروہ نے سمگل کیا ہے اور اسے ان کے چنگل سے چھڑایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر ہونے والے مذاکرے کا موضوع ہے ’کیا فیمینزم میں تمام عورتیں شامل ہیں؟‘ جس میں کمبرلے ولیئمز کرینشا، ہیدر راباٹس اور گیل لیوئس اس بات کا جائزہ لیں گی کہ کیا فیمینسٹ تحریک بغیر کسی نسلی، قومی اور جنسی تخصیص کے تمام خواتین کو اپنے دھارے کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہے یا نہیں۔ آئیے ملیے ’درختوں کی ماں‘ سے۔ ہم نے 105 سالہ خاتون سے بات کی جن کے ہاں اولاد نہیں ہے انھوں نہ انڈیا کے دیہی علاقوں میں بڑھ کے سینکڑوں درخت لگائے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ سیزن کا اختتام ایک سوال سے کیا جائے گا: کیا انٹرنیٹ جنسی تفریق روا رکھتا ہے؟ وِکی پیڈیا دنیا کی ساتویں پسندیدہ ترین سائٹ ہے لیکن اس کی صرف 15 فیصد ایڈیٹرز خواتین ہیں اور اس پر چھپنے والے شخصی خاکوں میں سے 15 فیصد سے بھی کم خواتین کے ہیں۔ ہم وِکی پیڈیا کے ساتھ مل کر ایک 12 گھنٹے کی خصوصی مہم منعقد کر رہے ہیں جس میں خواتین کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ وِکی پیڈیا کو ایڈٹ کریں اور خواتین کے متعلق زیادہ سے زیادہ مضمون اور شخصی خاکے لکھیں۔ آٹھ دسمبر کو ہم چاہیں گے کہ آپ اس مہم کا حصہ بنیں، ہمارے ویب سائٹ پر آئیں، ایڈٹ کرنا سیکھیں۔ اس کا ہیش ٹیگ ہے 100 وومن وِکی۔ |
140425_pakistan_media_freedom_analysis_rk | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/04/140425_pakistan_media_freedom_analysis_rk | حضورِ والا، ہر کتا کتا نہیں ہوتا | حضورِ والا، آداب | جی جی ، ہاں جی ، کمال ہے جی ، واہ جی۔۔۔ میں بھی ہزاروں صحافیوں میں شامل ایک ادنیٰ صحافی ہوں۔ آپ کے پیشے کی طرح میرے پیشے میں بھی سفید اور کالی بھیڑیں ہیں۔ مگر بدقسمتی سے میرے پیشے میں مقدس دیوتا ایک بھی نہیں۔ شاید اسی لیے میری برادری کے اکثر ارکان کو تمیز نہیں کہ دیوتاؤں کے روبرو ہونے، بات کرنے اور اختلاف کے کیا ضروری آداب ہوتے ہیں۔ لیکن جب سے حضورِ والا نے گنوار صحافیوں کی تربیت کے لیے مقدس دیوتاؤں کے احترام کے عملی اصولوں کے ورکنگ مینوئل پر عمل درآمد شروع کیا ہے، تب سے صحافیوں نے بھی تمیز کے ناخن لینے شروع کر دیے ہیں۔ اگرچہ یہ عمل سست رفتار ہے مگر ایک نہ ایک دن ہم صحافی پورے پورے سدھ جائیں گے یا پھر سدھار جائیں گے۔ گو حضورِ والا آپ ہی کے پیشرو تین حضورِ والا جات نے ماضی بعید میں ہم بدتمیزوں کے منہ ایسے سینے کی کوشش کی کہ دورانِ پٹائی سی کی آواز بھی نہ نکلے، مگر آپ ہی میں سے ایک چوتھے محترم بالشان نے ہمارے منہ کی سلائی کھولنے کا تاریخی کام بھی کیا ۔ ہم بہت خوش تھے کہ کسی بھلے مانس نے تو ہماری اہمیت کو سمجھا ۔مگر رفتہ رفتہ چوتھے محترم کی مہربانی کا راز بھی ہمارے منہ کی سلائی کی طرح کھلتا چلا گیا اور وہ یہ راز تھا کہ پہلے اپنی اوقات تولو پھر بولو۔ بھونکو ضرور مگر تھوتھنی دوسری طرف کر کے۔ چیخو ضرور مگر میرے کان میں نہیں۔ انگلی ضرور اٹھاؤ مگر آسمان کی جانب۔ حضورِ والا یہ سچ ہے کہ ہم نے آپ کی عطا کردہ آزادیِ اظہار کو اس فاقہ زدہ کی طرح برتا جسے بہت دن بعد کھانے کو ملے تو وہ لقموں کے بجائے پوری روٹی کو نوالہ بنا کے ٹھونس لیتا ہے۔ مگر حضورِ والا یہ فاقہ بھی تو آپ ہی کے پچھلوں کی دین تھا۔ بجا فرمایا حضورِ والا، آپ کی عطا آزادی ہم سے بعضوں بعضوں کو بالکل اسی طرح ہضم نہیں ہوئی جس طرح کتے کو گھی ہضم نہیں ہوتا۔ مگر ہمیں بلڈی کتے کی طرح آپ ہی کے پرکھوں نے تو پٹے میں باندھ کے رکھا تھا، اور پھر آپ نے ہمیں شاید اس امید پر چھوڑ دیا کہ اب یہ صرف سیٹی پر گیند پکڑ کے لائے گا اور شو شو کی آواز پر جسے کہوں گا اس کی ٹانگ پکڑ لے گا۔ مگر نہ تو آپ نے کسی سے پوچھا نہ کسی نے آپ کو بتایا کہ ہر کتا کتا نہیں ہوتا۔ ہر کتا صرف ہڈی پر ہی قناعت نہیں کرتا۔ لیکن حضور آپ تو پٹہ کھول بیٹھے تھے اور کتے کے منہ کو آزادی کا خون لگ چکا تھا، لہٰذا اب ایک ہی تدارک تھا کہ کتا مار مہم شروع کی جائے۔ اور پھر مہم شروع ہوگئی اور پھر اس ثوابِ جاریہ میں دیگر شکاری بھی ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ ’بولو کہ پہچانے جاؤ،‘ یہ قول ِعلی پچھلے چند دنوں سے مجھ جیسوں پر جیسا کھل رہا ہے، پہلے کبھی نہ کھلا تھا۔ اس آئینے میں ہر قلم باز اور قلم بازی گر، اپنا چہرہ، کلام، نیت، انداز اور اندرون دیکھ سکتا ہے (جیسا کہ وہ اصل میں ہے، نہ کہ جیسا نظر آتا ہے)۔ حضورِ والا، اب جب کہ یہ بھی کھل چکا ہے کہ بعض صحیفے نہ تو مقدس پنڈتوں کی اجازت کے بغیر کھولے جا سکتے ہیں، پڑھے جاسکتے ہیں، نہ سنے جاسکتے ہیں ورنہ کانوں اور زبان پر پگھلا سیسہ ڈال دیا جائے گا۔ اب جب کہ یہ یاددہانی بھی بارِ دگر کرائی جارہی ہے کہ قومی مفاد، قومی سلامتی، قومی وقار، قومی غیرت، حب الوطنی جیسی اصطلاحات (مع طے شدہ تشریحات) سے بس وہی استفادہ کرنے کا مجاز ہے جس کے پاس متعلقہ ادارے کا جاری کردہ لائسنس ہو اور اس لائسنس پر ایک اور ذمہ دار ادارے کے کسی مجاز افسر کے کاؤنٹر سائن بھی ہوں، مگر اس شرط کے ساتھ کہ مذکورہ اصطلاحات کے بے موقع، بے جا، غیر ذمہ دارانہ اور ذومعنی استعمالات کی صورت میں اجازت منسوخ بھی ہو سکتی ہے اور حد بھی جاری ہو سکتی ہے۔ حضور کیا ہی اچھا ہو کہ بار بار کے اس ٹنٹے کو ایک ہی بار نمٹانے کے لیے درجِ ذیل سفارشات کو بھی تحفظِ پاکستان ایکٹ کی طرح کسی اچھے سے ایکٹ کی شکل دے دی جائے۔ (ایک) اب کے بعد متعلقہ ذمہ دار اداروں کی چھان پھٹک کے نتیجے میں سالانہ بنیادوں پر جاری کردہ اجازت ناموں کے حامل اہلِ زبان کو ہی میڈیا پر گفتگو کا حق حاصل ہوگا۔ (دو) مضمون، اداریے، کالم، قطعہ اور سکرپٹ کے لیے صرف وہی قلم استعمال کیا جاوے گاجو آرمز ایکٹ کے تحت جاری کیا گیا ہو۔ نیز اسلحے کی مختلف کیٹگریز کی طرح قلم کی بھی درجہ بندی کی جاوے گی جیسے آتشیں، غیر آتشیں، خودکار، نیم خودکار، تیز دھار، کند، ممنوع، غیر ممنوع، وغیرہ۔ (زبان و قلم کی بابت پکا اجازت نامہ جاری کرنے سے پہلے تین یا چھ ماہ کا کچا اجازت نامہ جاری کیا جاوے گا تاکہ بولنے اور لکھنے والے کی ذات کا اندازہ ہو سکے)۔ حضور کیا ہی اچھا ہو کہ بار بار کے اس ٹنٹے کو ایک ہی بار نمٹانے کے لیے تحفظِ پاکستان ایکٹ کی طرح کسی اچھے سے ایکٹ کو لاگو کیا جائے (تین) فی البدیہہ بولنا اور لکھنا یا فی البدیہہ اشارے کنائے کرنا یا ان کی نیت باندھنا بھی قابل ِ دست اندازیِ قانون جرم تصور ہو گا۔ (چار) ایسے اخبارات، ریڈیو، ٹی وی چینلوں اور ویب سائٹوں کی علیحدہ علیحدہ فہرست مرتب کر کے جلد شائع کی جائے گی جنھیں پڑھنا، سننا اور دیکھنا لازمی، واجب، غیر واجب نیز حلال، مکروہ یا حرام ہے۔ (پانچ) جو اخبارات و رسائل، ریڈیو و ٹی وی چینل ذمہ دارانہ رویے، قومی مفاد، حب الوطنی، تعمیری تنقید اور اداروں کے احترام کے طے شدہ گزیٹڈ معیارات و تشریحات پر مثالی عمل کریں گے انھیں توصیفی سرٹیفیکیٹ اور دیگر مناسب مراعات سے نوازا جائے گا تاکہ ذرائعِ ابلاغ کے مابین صحت مند مقابلے کی فضا پروان چڑھ سکے۔ (چھ) کرنسی نوٹوں کی طرح پرانے فرسودہ اخباری و نشریاتی لائسنسوں کو بھی فوری منسوخ کر کے انھیں جدید فول پروف فور جی لائسنس سے تبدیل کروانے کی سہ ماہی مہلت دی جائے گی۔ فور جی لائسنس کی عبارت میں صاف صاف چاروں جی نمایاں ہوں گے: جی جی، ہاں جی، کمال ہے جی، واہ جی۔۔۔۔۔۔۔۔ |
080608_delhi_diary_awa | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/06/080608_delhi_diary_awa | انتخابی مہم کا آغاز، مایاوتی کی سیاسی مایا | انتخابی مہم کا آغاز | ہندوستان میں اگر پارلیمانی انتخابات اپنے وقت پر ہوتے ہیں تو ان میں ابھی کم از کم دس مہینے باقی ہيں لیکن یہ ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ میں شاید پہلا موقع ہے جب ملک کی اہم سیاسی جماعتیں ابھی سے ہی انتخابی مہم میں مصروف ہوگئی ہوں۔ اس برس دلی سمیت کئی اہم صوبوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان صوبائي انتخابات کے ساتھ ساتھ قومی جماعتوں نے باضابطہ طور پر پارلیمانی انتخابات کی تیاریوں کا اعلان کردیا ہے۔ کانگریس نے وزیر دفاع اے کے انٹونی کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو پارلیمنٹ کے ممکنہ امیدواروں کی ایک فہرست جلد ہی کانگریس قیادت کو پیش کرنے والی ہے۔ ادھر حزب اختلاف کی جماعت بی جے پی آئندہ ڈیڑھ مہینے میں پارلیمانی انتخابات کے لیے اپنے دو سو امیدواروں کی فہرست جاری کرنے والی ہے۔ کرناٹک میں جیت کے بعد بی جے پی کے حوصلے بہت بلند ہيں۔ کرناٹک میں جیت کے بعد بی بے پی نے دعوٰی کیا ہے کہ اب وہ اور اس کے اتحادی کانگریس سے زیادہ صوبوں میں برسرِاقتدار ہیں۔ اکتوبر نومبر میں چھتیس گڑھ، دلی، راجستھان اور مدھیہ پردیش سمیت کئي ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہيں اور مختلف جائزوں کے مطابق ان سبھی ریاستوں میں بی جے پی کی حالت بہتر نظر آتی ہے۔ مایاوتی کی سیاسی مایا مایاوتی نےگزشتہ دنوں اپنے بدترین سیاسی دشمن ملائم سنگھ کو ایک اجلاس میں شرکت کی دعوت دی اور ملائم سنگھ اپنے کئی سینئر رفیقوں کے ساتھ اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ مایاوتی اور ملائم سنگھ کے درمیان گزشتہ تیرہ برس ميں یہ پہلی براہ راست ملاقات تھی۔ اس ملاقات کے بعد دونوں سیاسی جماعتیں میں کچھ قربت کے اشارے ملے ہيں۔ اگر بات مزید آگے بڑھتی ہے تو یہ کانگریس کے لیے آئندہ پارلیمانی انتخابات میں اچھا شگون نہيں ہے۔ اروناچل پردیش کے بعد سکم پر چین کی نظر ہندوستان کو امید تھی کہ ان اقدامات سے تعلقات میں مزید بہتری آئے گيلیکن جب پرنب مکھرجی اپنے چینی ہم منصب سے بیجنگ میں ملے تو انہوں نے سکم کا سوال اٹھایا اور انہيں بتایا کہ اس کے بعض علاقے 1890 سے چین کے زیر انتظام رہے ہيں۔ پرنب مکھرجی نے اس دعوے پر کوئي تبصرہ نہیں کیا لیکن یہ کہا کہ معاملات خارجہ سیکرٹری بات چیت میں اٹھائے جائیں گے۔ چین پچھلے کچھ عرصے سے اروناچل اور سکم کے بعض علاقوں پر اپنے دعوے کا اعادہ کرتا آیا ہے۔ جیلوں کی جگہ اصلاحی مرکز مرکزی وزارت داخلہ جیلوں میں اصلاح کا ایک وسیع منصوبہ تیار کیا ہے جس کے تحت ملک کی 1300 جیلوں کواقوام متحدہ کے طے کردہ معیار کے مطابق بنایا جائے گا۔ اس وقت بیشتر جیلوں میں طے شدہ تقریبا تین گناہ زیادہ قیدی رہ رہے ہیں۔ چار ہزار کروڑ روپے کی نئی قومی پالیسی کے تحت مزید دو سو جیلیں بنائی جائیں گی۔ آئندہ برس محکمہ جیل محکمہ اصلاحی خدمات کے نام سے جانا جائے گا۔ نئی جیلوں میں ویڈیو کانفرنسنگ کا انتظام ہوگا، وہاں کلوز سرکٹ کیمرے لگے ہوں گے اور قیدیوں کو آرام دہ گدے فراہم کیے جائیں گے۔ نئی پالیسی کا مقصد قیدیوں کی اصلاح کرکے انہیں الگ قانون کا احترام کرنے والا جسمانی اور ذہنی طور پر توانا شہری بنانا ہے۔ اس پروگرام کو جلدی ہی کابینہ کی منظوری کے لیے پیش کیا جانے والا ہے۔ بدلتا موسماپریل کے وسط سے پنجاب اور ہریانہ سے لے کر دلی، راجستھال، مدھیہ پردیش، اترپردیش اور بہار تک گرم لو کی زد میں ہوتےتھے۔ مئی اور جون شمالی ہندوستان میں سخت ترین موسم ہوا کرتے تھے۔ لیکن گزشتہ تین برس سے اس خطے میں نہ تو لو چل رہی ہے اور نہ ہی شدید گرمی ہوئی ہے۔ پارہ جیسے ہی دو تین دنوں تک اوپر چڑھتا ہے اور بارش ہوجاتی ہے۔ مئی میں دلی اور اطراف کے صوبوں میں گرمی کا کوئی خاص اثر نہیں رہا۔ دلی میں تو اتنی بارش ہوئی ہے کہ کئی دہائیوں میں اتنی بارش نہیں ہوئی۔ جون کا پہلا ہفتہ بھی بارش کے ساتھ شروع ہوا۔ جون کے موسم میں اتنا خوشگوار موسم کبھی نہیں ہوتا تھا۔ ملک کے شمالی مشرقی علاقوں اور جنوب میں مون سون پہنچ چکا ہے۔ بارش ممبئی تک آگئی ہے۔اس بدلتے موسم میں شمال میں بارش اور آندھی سے آم اور لیچی کی فصل کو نقصان پہنچا ہے۔ |
140107_india_diary_suhail_kajrewal_austerity_zs | https://www.bbc.com/urdu/regional/2014/01/140107_india_diary_suhail_kajrewal_austerity_zs | ایک محل ہو سپنوں کا، ایک گاڑی بھی! | محترم کیجریوال صاحب، | اروند کیجریوال کے نام کھلا خط دہلی کے نئے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے سرکاری رہائش گاہ لینے سے انکار کیا ہے بہت شکریہ کہ آپ نے بجلی سستی اور پانی مفت کردیا۔ ہوا، آلودہ ہی سہی، پچھلی سرکار نے فری کر دی تھی۔ اب بس سورج کی روشنی بچتی ہے، کہرا کچھ کم ہو تو اس کے بارے میں بھی سوچیے گا! میں یہ خط آپ کو ڈاک سے بھی بھیج سکتا تھا لیکن ڈاک میں پیسے خرچ ہوتے ہیں اور جب سے آپ حکومت میں آئے ہیں، آپ کی قربانیوں کو دیکھ کر بس یوں ہی پیسے ضائع کرنے کا دل نہیں کرتا۔ مجھے احساس ہے کہ حکومت سنبھالنے کے بعد سے آپ کو کچھ غیر معمولی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایسے بھی کچھ سوال ہیں جن کا جواب آپ کے پاس بھی نہیں ہے! مثال کے طور پر یہ کہ ایک عام آدمی کا گھر کتنا بڑا اور اس کی گاڑی کتنی چھوٹی ہونی چاہیے؟ آپ نے وسطی دلی میں وزیر اعلی کا سرکاری بنگلہ لینے سے انکار تو آپ کی سادگی کی تعریف ہوئی، پھر آپ پانچ پانچ کمروں کے دوگھر لینے پر تیار ہوگئے تو کچھ لوگوں کو لگا کہ دس کمرے اور دو بڑے لان ملا دیے جائیں تو بنگلے میں کیا کمی رہ گئی؟ لیکن آپ نے کہا کہ یہ گھر سابق وزیر اعلی شیلا دکشت کی کوٹھی سے پھر بھی چھوٹا ہے۔ اعتراض جاری رہا تو آپ نےشاید اپنی اور پارٹی کے ’امیج‘ کو نقصان سے بچانے کے لیے یہ گھر لینے سے بھی انکار کردیا۔ اب آپ کے حکم پر اس سے بھی چھوٹے گھر کی تلاش شروع ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ گھر کتنا چھوٹا ہو؟ آپ جس بھی گھر میں جائیں گے وہ شیلا دکشت کی کوٹھی سے چھوٹا ہی ہوگا اور آپ کے موجودہ فلیٹ سے بڑا! اور فرض کیجیے کہ آپ کے نئے گھر پر بھی اعتراض ہوا تو آپ کیا کریں گے؟ گھر کا انتخاب بھی عوامی ریفرینڈم اور میڈیا کی رائے سے کیا جائے یہ کوئی زیادہ سمجھداری کی بات نہیں۔ اگر آپ اپنا ارادہ بدلیں تو شیلا دکشت کی کوٹھی اب بھی خالی ہے! کیجریوال کی عام آدمی پارٹی نے اب پارلیمانی الیکشن میں بھی حصہ لینے کا اعلان کیا ہے اور جب آپ اپنے گھر کے بارے میں فیصلہ کرلیں تو گاڑی کے بارے میں بھی ضرور سوچیے گا! جس دن اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ تھا تو آپ کے کچھ لیڈر آٹو رکشا سے آئے اور کچھ میٹرو ٹرین سے۔ آپ خود میٹرو سے آئے اور اب بھی آفس آنے کے لیے اپنی چھوٹی سی کھٹارا گاڑی استعمال کر رہے ہیں حالانکہ آپکے وزرا نے اب سرکاری گاڑیاں استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ میری مانیں تو اس میں کچھ غلط نہیں ہے۔ لیکن یہ غلط ہے کہ جب آپ کے وزرا سے پوچھا گیا کہ وہ سرکاری گاڑی استعمال کرنے کے لیے کیوں تیار ہوگئے تو ایک نے جواب دیا کہ صبح میں انہوں نے اپنا اے ٹی ایم کارڈ اپنی بیوی کو دیدیا تھا اور ان کی گاڑی میں اتنا بھی پیٹرول نہیں تھا کہ دفتر آ سکتے جبکہ آپ کے نمبر ٹو وزیر نے کہا کہ ان کی گاڑی خراب ہوگئی تھی! ہمیں تو حکمرانی کا کوئی تجربہ نہیں لیکن لگتا نہیں کہ کوئی آپ سے یہ توقع کرتا ہوگا کہ آپ میٹرو یا بس کی لائن میں کھڑے رہیں، اور حکمران جو کچھ بھی کام کرتے ہیں وہ آپ کے دفتر پہنچنے کے انتظار میں رکے رہیں! آپ بے شک نئی گاڑیاں مت خریدیے لیکن حکومت کے پاس پہلے سے جو گاڑیاں موجود ہیں سرکاری کاموں کے لیے انہیں استعمال کرنے میں کیا شرم ہے؟ ذرا سوچیے کہ آپ کو چین کے وزیراعظم سے ملنا ہو، آپ دیر سے پہنچیں اور کہیں کہ’معاف کیجیے گا گاڑی میں پنکچر لگوانے کے لیے رک گیا تھا، ٹائر بہت پرانے ہوگئے ہیں!’ آپ نے اپنی کھٹارا گاڑی میں سفر کر کے دہلی کا الیکشن جیت لیا، اب کچھ مہینوں کے لیے اسے سنبھال کر رکھیے، پارلیمنٹ کے الیکشن میں کام آئے گی! فقط آپ کا خیر خواہ |
060127_student_drama_rza | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/01/060127_student_drama_rza | ڈرامۂ بحالی وتعمیرِ نو | سین ون | آٹھ اکتوبر تک ’آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی‘ کے مظفر آباد میں واقع دو اور راولاکوٹ، میرپور اور کوٹلی کے ایک ایک کیمپس کے گیارہ شعبوں میں مجموعی طور پر سولہ سو طلباوطالبات زیرِ تعلیم تھے۔آٹھ اکتوبر کی صبح آنے والے زلزلے میں مظفر آباد کا اولڈ کیمپس گرلز ہوسٹل سمیت مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ایک سو ساٹھ طلباو طالبات اور عملے کے آٹھ افراد ہلاک اور دو سو سے زائد زخمی ہوگئے۔جبکہ نیو کیمپس کے بیشتر بلاکوں میں شگاف پڑگئے۔مجموعی طور پر نقصانات کا تخمینہ بارہ کروڑ روپے سے زائد لگایا گیا ۔اور ماہرین نے مشورہ دیا کہ کیمپس ازسرِ نو تعمیر کیا جائے۔ سین ٹو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے دسمبر کے آخر میں تعلیم اور طلبا کے وسیع تر مفاد میں فیصلہ کیا کہ مزید تعلیمی نقصان سے بچنے کے لئے کشمیر یونیورسٹی کے طلبا و طالبات اور عملے کو مظفر آباد سے عارضی طور پر ایک سو سینتیس کیلومیٹر دور پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد منتقل کردیا جائے۔اس سلسلے میں کرائے پر عمارتیں حاصل کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں جہاں کلاسوں اور طلبا و طالبات کی اقامت کا انتظام ہوسکے۔ لیکن زیادہ تر طلبا و طالبات اسلام آباد جیسے مہنگے شہر میں کس طرح رہیں گے۔اس سوال کے جواب میں یونیورسٹی انتظامیہ نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کا ادارہ یونسیف غور کررہا ہے کہ طلبا کو انکی فیسوں، اقامت اور کھانے کی مد میں آٹھ ہزار روپے ماہانہ ادا کئے جائیں تاکہ وہ اسلام آباد میں اطمینان کے ساتھ تعلیم جاری رکھ سکیں۔ سین تھری پاکستان ترکی انٹرنیشنل ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے دو ماہ پہلے اعلان کیا کہ وہ زلزلے سے متاثرہ صوبہ سرحد اور کشمیر میں دوملین ڈالر کے خرچ سے بیس سکول تعمیر کرے گی۔اسکے علاوہ ترک حکومت کی امداد سے تین ملین ڈالر کے صرفے سے کشمیر یونیورسٹی کے تباہ شدہ مظفر آباد اولڈ کیمپس میں پری فیبریکیٹڈ میٹریل سے سات بلاک تعمیر کئے جائیں گے جن میں پچاس پچاس طلبا کی گنجائش والے چھتیس کلاس روم، چودہ سائنسی لیبارٹریاں، مسجد، کیفے ٹیریا اور آڈیٹوریم شامل ہو گا۔ اور یہ تمام تعمیرات ساڑھے آٹھ شدت کا زلزلہ برداشت کر سکیں گی۔پاکستان ترکی ایجوکیشنل فاؤنڈیشن کا کہنا تھا کہ وہ ماسٹر پلان کے تحت مطلوبہ جگہ ملنے، اولڈ کیمپس سے ملبہ اٹھ جانے اور مقامی انتظامیہ کے تعاون سے یہ پورا پروجیکٹ اکتیس مارچ تک مکمل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ ترک وزیرِ اعظم رجب طیب اردگان کشمیر یونیورسٹی کے نوتعمیر کیمپس کا افتتاح کرسکیں۔ سین فور (فائنل سین) کشمیر یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اعلان کردیا ہے کہ نئے سمسٹر کی کلاسیں تیرہ فروری سے اسلام آباد میں شروع ہوجائیں گی۔ابھی تک یونیسیف نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ طلبا و طالبات کو اسلام آباد میں اخراجات کی مدد میں ماہانہ آٹھ ہزار روپے دے گی یا نہیں۔نہ ہی یہ واضح ہے کہ طلبا و طالبات کے لئے سو فیصد اقامتی سہولتیں حاصل کرلی گئی ہیں یا نہیں۔یونیورسٹی ذرائع کہتے ہیں کہ اب بھی اسلام آباد میں مزید عمارات کے حصول کی کوششیں جاری ہیں۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ تدریسی اور غیر تدریسی عملے میں سے کتنے لوگ اسلام آباد منتقل ہونے کے خواہش مند ہیں اور انکی رہائش کے کیا انتظامات کئے گئے ہیں۔اسوقت بیشتر تدریسی اور غیر تدریسی عملہ مظفر آباد میں خیموں میں رہ رہا ہے۔ طلبا تنظیمیں یونیورسٹی کی منتقلی کے خلاف ایک بڑا مظاہرہ کرچکی ہیں۔انکی دلیل ہے کہ جب بین الاقوامی این جی اوز سردیوں سے بچاؤ والے خصوصی خیموں میں کام کرسکتی ہیں۔جب کالج اور سکول کی کلاسیں مظفر آباد میں جاری رہ سکتی ہیں تو یونیورسٹی کے طلباوطالبات یہاں سے کیوں منتقل کیئے جارہے ہیں۔جب تھانے اور لاک اپ کنٹینرز میں قائم ہوسکتے ہیں تو یونیورسٹی لیبارٹریاں عارضی طور پر کنٹینرز میں کیوں قائم نہیں ہوسکتیں جیسا کہ مانسہرہ یونیورسٹی میں ہوا ہے۔ ترک تعمیراتی ٹیم دو ماہ بعد بھی اس بات کی منتظر ہے کہ اولڈکیمپس سے ملبہ صاف ہوجائے۔ماسٹر پلان کے مطابق اولڈکیمپس سے متصل جو اضافی جگہ چاہئے وہ ہاتھ آجائے تو اسکے ہاتھ پر ہاتھ دھرے انجینئرز فوراً تعمیراتی کام شروع کرسکیں۔ترک ٹیم کے سربراہ رمضان اردم کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے کیمپس کی تعمیر کے لیئے جتنی جگہ کی پیشکش کی ہے اس میں ایک اچھا پرائمری سکول تو بن سکتا ہے۔یونیورسٹی کے سات بلاک ہرگز نہیں بن سکتے۔ رمضان اردم کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے دو ماہ سے فٹبال بنے ہوئے ہیں۔ہر آدمی اور ہر محکمہ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رھا ہے۔یونیورسٹی انتظامیہ، پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ اور فوجی حکام میں ری کنسٹرکشن کے سلسلے میں ضروری رابطے کا فقدان ہے۔ماسٹر پلان میں تین مرتبہ تبدیلی کی جاچکی ہے۔ہر محکمہ کہتا ہے کہ وہ اسلام آباد سے نئی تعمیراتی پالیسی اور زلزلے سے متعلق رپورٹوں کا منتظر ہے۔جب تک انکا اعلان نہیں ہوجاتا ترکوں کو صبر سے بیٹھنا چاہئے اور زیادہ تیزی نہیں دکھانی چاہئے۔ |
pakistan-51923866 | https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51923866 | عاصمہ شیرازی کا کالم: لاک ڈاؤن کی دنیا | سب کچھ ہی تو بدل گیا ہے۔ | سونے کی تاروں سے تجارت کرنے والے، تیل کی دھاروں سے عالمی منڈیوں کا رخ طے کرنے والے، دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹ کو بے بھاؤ خریدنے والے، وقت کی رفتار کو قابو کرنے والے۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب بدل گئے۔ عالمی وبا سے پہلے کی دنیا دیکھیے۔۔۔ اقوام عالم پر راج کے سپنے، بین الاقوامی منڈیوں پر کنٹرول کے خواب اور اعداد کے بےشمار کھیل میں مشغول دنیا نے کہاں سوچا ہو گا کہ ایک وائرس۔۔۔ محض ایک وائرس، تعبیر کو خواب میں بدل دے گا۔ عالمی معیشت کو کھربوں ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔ زمانہ قسمیں کھا رہا ہے کہ انسان خسارے میں ہے۔ اونچے کلیساؤں، مندروں، گرودواروں، بلند میناروں، درباروں، خانقاہوں، مزاروں، مسجدوں، امام بارگاہوں پر سوگ طاری ہے۔ عقیدہ یقین ڈھونڈ رہا ہے اور ایمان اپنے ہی اندر بھٹک رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیے وائرس کا مقابلہ بذریعہ مسخرہ پن وبا کے دنوں میں محبت! ۔۔۔شامت آئی اے! دنیا بھر سے موصول ہونے والی تصویروں نے جہاں غم میں مبتلا کیا ہے وہیں اعتقاد اور یقین میں جنگ بھی چھیڑ دی ہے۔ ایک تصویر میں پوپ ویٹیکن سٹی کے گرجا گھر میں دبیز تہہ والے شیشے کے پیچھے دعا گو ہیں تو دوسری تصویر میں خالی خانہ خدا کا اداس کر دینے والا منظر۔ کسی کو اندازہ ہی کہاں تھا کہ 157 ملک اس وبا کا شکار ہو جائیں گے۔ سائنسی ترقی کے اس دور میں یوں بے بسی ہو گی کہ دعا سے اٹھے ہاتھ دوا مانگیں گے۔ مراد سے طلب کا سامان کیا جائے گا اور بے یقینی سے یقین کا سوال ہو گا۔ پل ہی پل میں لاکھوں افراد اس انہونی کا شکار ہیں۔ ہزاروں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پزیر اس وباء سے کوئی محفوظ نہیں۔ کہیں گناہوں کی مغفرت کی دعائیں ہیں تو کہیں پیدا کرنے والے کی ناراضگی کا غم۔ قیامت نہیں ہے مگر قیامت سے کم بھی نہیں۔ اکیسویں صدی کے ان لمحوں میں فقط ایک لمحے کا انتظار ہے کہ کب کوئی دوا ایجاد ہو گی اور کیونکر تجربہ ہو گا۔ جو بھی صورت ہے دنیا حقیقت ڈھونڈ رہی ہے۔ جدید ترین نظام مواصلات بند پڑا ہے، تعلیمی ادارے خالی، دفتروں میں تعداد نہ ہونے کے برابر، بغل گیر ہونے والے ہاتھ ملانے سے بھی قاصر۔۔۔ کاروباری مراکز بند اور اسپتال آباد ہو رہے ہیں۔ ایک لاک ڈاؤن ہے جو جاری ہے۔ کسی نے کیا خوب لکھا کشمیری پوچھ رہے ہیں کہ ہیلو دنیا، کیسا لگا لاک ڈاؤن۔۔۔؟ وائرس چین سے شروع ہوا اور جس طرح چین اس بحران سے نکل رہا ہے وہ دنیا کے لیے مثال بن چکا ہے۔ جنوری کے آغاز پر شروع ہونے والی اُفتاد نے چین کو ہلا کر رکھ دیا تاہم کم سے کم عرصے میں چین نے یقین کی وہ منزلیں طے کیں جو پیغام دیتی ہیں کہ آفتوں، بحرانوں سے قومیں نکل سکتی ہیں ہجوم نہیں۔ چین کے شہر ووہان میں کرونا وائرس جنوری میں انتہائی تیزی سے پھیلنا شروع ہوا تو چین نے ایمرجنسی اقدامات کیے۔ پورے کے پورے شہروں میں قرنطینہ ڈکلیئر کر کے وائرس کو مزید پھیلنے سے روک دیا گیا، چند دنوں میں چودہ خصوصی اسپتال کھڑے کر دیے گئے جن میں سے اب گیارہ اسپتال ختم بھی کر دیے گئے ہیں۔ عوام اور ریاست ایک ساتھ نظر آئے۔ 80 ہزار متاثرہ لوگوں میں سے 67 ہزار تندرست ہو چکے جبکہ نئے کیسز کی تعداد اب کم ہو چکی ہے۔ اب جب یہ وبا پاکستان پہنچ چکی ہے، کیا ہم اس سے نمٹنے کو تیار ہیں؟ معاشی اعتبار سے نہ سہی مگر کیا ہم ایک قوم بن کر اس افتاد سے نمٹ سکتے ہیں؟ خلیل جبران نے اپنی نظم Pity The Nation میں لکھا جس کا ترجمہ فیض احمد فیض نے یوں کیا: قابلِ رحم ہے وہ قوم جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں مگر دل یقیں سے خالی ہیں اور قابلِ رحم ہے وہ قوم جو ٹکڑوں میں بٹ چکی ہو اور جس کا ہر طبقہ اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو |
151019_china_uk_expectations_sq | https://www.bbc.com/urdu/world/2015/10/151019_china_uk_expectations_sq | چین برطانیہ سے چاہتا کیا ہے؟ | وقت کتنا بدل گیا ہے۔ | صدر شی جِن پنگ کے پہلے دورۂ برطانیہ کے موقعے پر ان کے لیے سرخ قالین بچھایا جا چکا ہے جون سنہ 2013 میں وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو بی بی بی کی عالمی سروس نے اپنے پروگرام ’آپ کی رائے‘ میں مدعو کیا تھا تو میں بھی ان لوگوں میں شامل تھی جنھیں ڈیوڈ کیمرون سے سوالات پوچھنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ جب میں اور وزیرِ اعظم دونوں اپنا اپنا کام کر چکے اور ہال میں حاضرین گپ شپ لگا رہے تھے تو میں نے ڈیوڈ کیمرون سے وہ سوال پوچھ ہی لیا جو میرے ذہن پر سوار تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا واقعی وہ چین کا دورہ کرنے جا رہے ہیں؟ یاد رہے یہ وہ وقت تھا جب چین اور برطانیہ کے تعلقات شدید سرد مہری کا شکار تھے۔ دونوں اطراف سے دورے منسوخ کیے جا چکے تھے اور مذاکرات کے دور بھی۔ اس تمام جھگڑے کی بنیاد یہ تھی کہ سنہ 2012 میں ڈیوڈ کیمرون دلائی لاما سے ملاقات کر چکے تھے۔ وزیر اعظم میرے سوال پر مسکرائے اور گویا ہوئے: ’آپ فکر نہ کریں۔ تمام معاملات طے ہو چکے ہیں اور اس سال کے ختم ہونے سے پہلے میرا دورہ ہو جائے گا۔‘ اور پھر یہی ہوا اور دسمبر کے اوائل میں وزیرِ اعظم بیجنگ چلے گئے۔ اس دورے میں کئی معاہدے ہوئے، پھر چینی زبان کی معاشرتی رابطوں کی ویب سائٹ ’ویبو‘ پر اس دورے کے حوالے سے لوگوں نے خوب بحث بھی کی اور آخر چین اور برطانیہ کے باہمی تعلقات ایک مرتبہ پھر پٹری پر چڑھ گئے۔ سنہری دور اور آج وہ دن بھی آ گیا ہے جب چین کے صدر شی جِن پنگ کے پہلے دورۂ برطانیہ کے موقعے پر لندن میں ان کے لیے سرخ قالین بچھایا جا چکا ہے اور وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کے بقول ’چین اور برطانیہ کے تعلقات کا سنہری دور‘ شروع ہو چکا ہے۔ برطانیہ کے اخبارات میں دھواں دھار بحث ہو رہی ہے کہ برطانیہ کس طرح چینی صدر کے اس دورے سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ دسمبر 2013 کے اوائل میں وزیرِ اعظم برطانیہ نے بیجنگ کا دورہ کیا تھا دوسری جانب چین میں بھی اس دورے کے حوالے سے خاصی گہماگہمی دکھائی دے رہی ہے اور چین کے ذرائع ابلاغ میں صدر شی کے دورے کی تفصیلات اور اس حوالے سے مختلف تجزیے، تبصرے اور تصاویر شائع ہو رہی ہیں۔ . شاید یہ پہلا موقع ہے کہ چین میں ملک کے سب سے بڑے رہنما کے دورۂ برطانیہ کو اُتنی، یا شاید اس سے زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے جو چینی رہنماؤں کے دورۂ امریکہ کو دی جاتی ہے۔ اس جوش وخروش کی وجہ کیا ہے؟ برطانیہ کے ساتھ بہتر تعلقات سے چین کو کیا توقعات ہو سکتی ہیں؟ اپنے اس دورے کے بارے میں صدر شی نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو جو تحریر شدہ انٹریو دیا ہے اس میں انھوں نے برطانیہ کی تعریف کی ہے کہ وہ مغرب میں چین کا بہترین ساتھی بننے پر رضامند ہے۔ صدر شی کا خیال ہے کہ برطانیہ نے اپنے لیے جس راستے کا ’انتخاب کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ دور اندیش ہے کیونکہ اسی طرح برطانیہ اپنے طویل المدتی مفادات کے حصول کو یقینی بنا سکتا ہے۔‘ ایک ایسے وقت میں جب چین اور امریکہ کے تعلقات شدید مشکل دور سے گزر رہے ہیں، چین میں برطانیہ کو ایک ایسی طاقت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو امریکہ کے ساتھ اس کے بگڑتے تعلقات کا بدل ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ کے ساتھ بہتر تعلقات کو چین یورپی یونین کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری کا راستہ بھی سمجھتا ہے۔ صدر شی کے دورے کے دوران تخلیقی صنعت، تعلیم اور ثقافتی تبادلے کے شعبوں میں بھی معاہدے ہوں گے اگر آپ ان حقائق کو مد نظر رکھیں کہ امریکہ کی جانب سے شکوک کے باوجود برطانیہ وہ پہلا مغربی ملک تھا جس نے چین کی قیادت میں بننے والے ’ایشیا انفراسٹرکچر بینک‘ کی رکنیت حاصل کی اور انسانی حقوق کی تنطیموں کی شدید تنقید کے باوجود برطانوی وزیرِ خزانہ چین کا دورے کر چکے ہیں، تو آپ کو صاف دکھائی دیتا ہے کہ برطانوی حکومت مصصم ارادہ کر چکی ہے کہ وہ وہی کرے گی جو اس کے خیال میں برطانیہ کے بہترین مفاد میں ہوگا۔ سب کا فائدہ چین کے ایک معروف تھنک ٹینک سے منسلک مسٹر فینگ ژونگ پنگ نے بی بی سے کے لیے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’جہاں تک عالمی سطح پر چین کے ابھرتے ہوئے کردار کا تعلق ہے تو اس معاملے پر بین الاقوامی سطح پر رائے منقسم ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے باقی دنیا کے لیے اچھے مواقع پیدا ہوں گے جبکہ دیگر لوگ اسے کئی ممالک کے لیے ایک امتحان یا چیلنج سے تعبیر کرتے ہیں۔ ’برطانوی حکومت ان لوگوں میں شامل ہے جس کی نظر چین کے ابھرتے ہوئے کردار کے ساتھ منسلک مواقع اور فوائد پر ہے۔‘ چین سمجھتا ہے کہ اگر برطانیہ کے ساتھ تعلقات سے دونوں ممالک کو فائدہ اٹھانا ہے تو اس کے لیے بہترین وقت آج ہے کیونکہ لوہا گرم ہے۔ ایک چیز جس پر چین جلد از جلد اپنا ہاتھ رکھنا چاہتا ہے، وہ برطانیہ کے انفراسٹرکچر یا ذرائع آمدورفت وغیرہ کے منصوبے ہیں۔ برطانیہ میں چین کے سفیر کے بقول وزیر خزانہ جارج اوزبورن کے اس اعلان کے بعد کہ برطانوی حکومت ہنکلی پوائنٹ نیوکلیئر پلانٹ کی ضمانت مستحکم کرنے کے لیے چین کو دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش کرے گا، دونوں ممالک کے درمیان اس معاملے پر مذاکرات میں ’خاطر خواہ پیش رفت‘ ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ چین کو توقع ہے کہ برطانیہ اسے ریلوے کے بڑے منصوبے (ایچ ایس2) میں بھی سرمایہ کرنے کی اجازت دے دے گا۔ ان منصوبوں سے برطانیہ میں کام کرنے والی چینی کمپنیوں کے کام میں بہت اضافہ ہو جائے گا جس سے چین کو خاصا مالی فائدہ ہو گا۔ چین کے ساتھ تعاون کے بعد برطانیہ کا مالیات یا فنانس کا شعبہ بھی خاصا مستفید ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے لندن میں موجود ایک چینی بینک نے چینی کرنسی میں سرکاری بانڈز جاری کرنا شروع کر دیے ہیں۔ لندن مغربی دنیا کا وہ پہلا شہر بن گیا ہے جہاں چینی کرنسی میں بین الاقوامی تجارت کی کلیئرنس اور تبادلۂ زر کا کام ہو رہا ہے۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان مالیات کے شعبے میں تعاون یوں ہی جاری رہا تو ایک دن ایسا بھی ہو سکتا ہے جب لندن اور شنگھائی کے بازارِ حصص ایک دوسرے سے منسلک ہو جائیں گے اور یوں دونوں ممالک کے سرمایہ کار ایک دوسرے کے ہاں سرمایہ کاری کر سکیں گے۔ صدر شی کے دورے کے دوران تخلیقی صنعت، تعلیم اور ثقافتی تبادلے کے شعبوں میں بھی معاہدے ہوں گے اور یہ وہ شعبے ہیں جن کے بارے میں چین کا خیال ہے کہ برطانیہ ان شعبوں میں اس سے بہتر ہے اور وہ ان شعبوں میں برطانوی تعاون سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ سرکاری سطح پر چینی صدر کے دورے کی گہماگہمی کے علاوہ عام چینی بھی اپنے صدر کے دورۂ برطانیہ سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ چین کی مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ’ویبو‘ پر اس وقت جس موضوع پر سب سے زیادہ بات ہو رہی ہے وہ صدر کا دورہ ہی ہے۔ چینی عوام برطانیہ کی سیر کے لیے ویزوں میں آسانی کی خواہش مند ہے صدر شی کے دورے کی تفصیلات کے علاوہ، دونوں ممالک کے رہنماؤں کے تاریخی دوروں کی تصاویر، برطانیہ میں اشرافیہ کے ساتھ بات کیسے کرتے ہیں، انگریزی ادب آداب کیا ہوتے ہیں، اور یہ کہ مشہور انگریزی شو ’شرلک ہومز‘ کی اگلی قسطیں چین میں کب دیکھی جا سکیں گی، الغرض لوگ ہر موضوع پر خوب بحث کر رہے ہیں۔ بی بی سی کی چینی سروس کے ساتھیوں نے بیجنگ میں کچھ لوگوں سے بات کی تو انھوں نے جن خواہشات کا اظہار کیا ان میں برطانیہ کی سیر کے لیے ویزوں میں آسانی، چین میں فیس بُک، یو ٹیوب اور جی میل پر عائد پابندی کا خاتمہ اور دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی طائفوں کے تبادلے جیسی خواہشات سرفہرست تھیں۔ ہاں فٹمبال کو مت بھولیے۔ روئٹرز کو دیے جانے والے انٹرویو میں صدر شی کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ چین کی فٹ بال ٹیم دنیا کی بہترین ٹیموں میں سے ایک بن جائے گی۔ صدر کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں، کوچوں اور ریفریئوں کی تربیت کے شعبے میں چین اور برطانیہ کے درمیان تعاون کے بہت امکانات موجود ہیں۔ اپنے دورے کے آخری دن صدر شی مانچسٹر سٹی فٹ بال کلب کا دورہ بھی کریں گے اور اس وقت ہر کسی کی نظر اسی پر ہوگی کہ صدر فٹبال کو کِک لگائیں گے یا نہیں۔ |
130725_book_review_hoodbhoy_rh | https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2013/07/130725_book_review_hoodbhoy_rh | پاکستان اور انڈیا کے لیے مشترکہ خطرہ | نام کتاب: بم کے مقابل | (پاکستانی اور ہندوستانی سائنسدانوں کیا کہتے ہیں) مصنف و مرتب: پرویز ہوڈبائی صفحات:392 قیمت: 1395 روپے ناشر: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس پاکستان۔ پی او بکس 8214، کراچی۔ 74900 کیا یہ حیران کن بات نہیں کہ پاکستانی اور ہندوستانی ذرائع ابلاغ نے اس کتاب اتنی بھی اہمیت نہیں دی جتنی انھوں نے وینا ملک کی ان نیم ملبوس تصویروں کو دی تھی، جن میں ان کے ایک بازو پر آئی ایس آئی لکھوا کر بنوائی جانے والی تصویر بھی شامل تھی۔ پاکستان کے دو ایک انگریزی اخباروں نے پھر بھی اس کا تذکرہ کیا اور اس کی کچھ تفصیلات بتائیں لیکن اردو ذرائع ابلاغ نے تو اسے بالکل بھی توجہ کے لائق نہیں سمجھا۔ کیا یہ بات دونوں ملکوں کے ذرائع ابلاغ کے بارے میں یہ سوچنے کا اشارہ نہیں دیتی کہ اگر ذرائع ابلاغ پر دونوں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹوں کا دباؤ نہیں تو وہ ایک طرح کی سیلف سنسر شپ کو ضرور روا رکھتے ہیں؟ اصولًا تو ذرائع ابلاغ کو اطلاعات تک رسائی اور تحفظ کا جو استحقاق حاصل ہے وہ انھیں ان لوگوں کی بنیاد پر ہی حاصل ہے کہ وہ اُن اطلاعات کو ان تک پہنچائیں گے، جو جلد یا بدیر ان پر اثر انداز ہونے والی ہیں۔ یہ کتاب (Confronting the Bomb-Pakistani and Indian Scientists Speak Out) یا ’بم کے مقابل، پاکستانی اور ہندوستانی سائنسداں کیا کہتے ہیں‘ ڈاکٹر پرویز ہوڈ بائی نے مرتب کی ہے۔ اس میں، 1:سائنسداں اور ہندوستان کا نیوکلیئر بم (این وی رامن) 2:پاکستان میں اٹامک عہد کی آمد (ضیا میاں) 3: پاکستان: نیوکلیئر سیڑھیوں پر، 4: پاکستان: دنیا تیز تر پھیلتے ہتھیاروں کی تفہیم، 5: کشمیر: نیوکلیئر فلیش پوائنٹ سے جنوبی ایشیا میں امن کے پُل تک؟ 6: قوم پرستی اور بم، 7: ایران، سعودی عرب، پاکستان اور اسلامی بم، 8: بن لادن کے بعد: پاکستان کے نیوکلیئر ہتھیاروں کا تحفظ اور سلامتی، 9: کمانڈ اینڈ کنٹرولنگ نیوکلیئر ہتھیار (ضیا میاں)، 10: جلد از جلد انتباہ کا عدم امکان (ضیا میاں، آر راجہ رامن اور ایم وی رامن)، 11: پاکستان کا میدانِ جنگ نیکلیئر ہتھیاروں کا استعما (ضیا میاں، اے ایچ نیّر) 12: ایٹمی جنگ جنوبی ایشیا کے ساتھ کیا کر سکتی ہے (میتھیو میکنزی، ضیا میاں، اے ایچ نیّر، اور ایم وی رامن)، 13: پاکستان کی نیوکلیئر ڈپلومیسی (ضیا میاں، اے ایچ نیّر)، 14: نیوکلیئر ساؤتھ ایشیا کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں، 15: امریکہ کی گلوبل بالا دستی اور گلوبل تحدید اسلحہ (پرویز ہوڈ بائی/ ضیا میاں) 16: نیوکلیئر الیکٹرسٹی پاکستان کا جواب نہیں (پرویز ہوڈ بائی) اور 17: نیوکلئر الیکٹرسٹی ہندوستان کا جواب نہیں (سورت راجو) کے عنوانات سے مضامین ہیں۔ لکھنے والوں کے پورے تعارف ممکن نہیں ہوں گے لیکن یہ سب فزکس کے مختلف شعبوں اور کیمسٹری کے پی ایچ ڈی ہیں۔ نیوکلیئر یا ایٹم بم کے سلسلے میں سب اہم نام رابرٹ جے اوپن ہائمر کا ہے۔ وہ امریکہ میں ہونے والی ایٹمی تحقیق کی ٹیم کے سربراہ تھے۔ جب انھوں ایٹمی قوت دریافت کر لی تو انھیں احساس ہوا کہ انھوں نے کیا کر لیا ہے۔ خود ان کے الفاظ میں: ’I have become death, the destroyer of worlds‘ (میں موت بن گیا ہوں، دنیاؤں کا تباہ کار)۔ تبھی سے انہوں نے بم بنانے کی مخالفت شروع کی اور تبھی سے امریکی اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں نے انھیں پہلے امریکہ کا بے وفا قرار دیا، پھر ان کی سکیورٹی کلیئرنس ختم کی اوران دنوں جب امریکہ میں کمیونسٹوں کا جینا حرام کیا جا رہا تھا انھیں کمیونسٹ قرار دے دیا گیا۔ اوپن ہائمر کی پوری روداد پڑھنے کے لائق ہے۔ اس کتاب میں بھی اس کا تھوڑا سا حوالہ ہے۔ جیسا کہ اب تک آپ کو کسی حد تک اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کتاب میں شامل سترہ مضامین جنوبی ایشیا کی ایٹمی سیاست کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ ایسے پہلوؤں کو جن پر عام بحث ہونی چاہیے۔ کیونکہ ان کا تعلق کسی ایک طبقے نہیں ہے۔ سب سے ہے، ہر ایک سے ہے۔ ان سب سے جنھیں ایسی قوم پرستانہ جذباتیت اور پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کے پیچھے عزت، غیرت، نفرت اور موقع ملتے ہی ایک دوسرے کو مٹانے کا جذبہ ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایٹمی قوت سے کیا دونوں ملکوں کو مطلوبہ سکیورٹی حاصل ہوئی یا صرف ان کی ہلاکت خیزی میں اضافہ ہوا ہے؟ کتاب کا جواب ہے کہ صرف ہلاکت خیزی میں اضافہ ہوا ہے۔ کتاب میں شامل مضامین ایک تو اپنے اپنے شعبوں میں مہارت رکھنے والوں نے لکھے ہیں اور پھر پوری تحقیق اور احتیاط سے لکھے ہیں، ایک اور اہم بات ان مضامین کے انداز اور زبان کا غیر جذباتی اور غیر جغرافیائی ہونا ہے۔ ان سے ہمیں ان تمام کرداروں کے بارے میں علم ہوتا ہے جو بم کے پیچھے رہے ہیں اور وہ جو سامنے کھڑے ہوئے اور ہیں۔ لیکن اس سے کیا ہوگا جب تک دونوں ملکوں کے سیاست داں، جنرل اور مذہبی رہنما ہی نہیں ذرائع ابلاغ بھی یہ بات محسوس نہیں کریں گے کہ ان ہتھیاروں سے ہونے والی جنگ میں فتح صرف تباہی کو ہو گی۔ ہوڈبائی کو کتاب کے متنازع ہونے کا اندازہ ہے، اس لیے انھوں نے تعارف میں ہی متنبہ کر دیا ہے کہ ’یہ کوئی مقبول کتاب نہیں ہے‘ لیکن انتہائی ضروری ہے۔ اس کا پیش لفظ 1986 میں کیمسٹری کا نوبل انعام حاصل کرنے والے جون پولیانی نے لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’نیوکلیئر بم اس زمین پر ایک ایسا طاعوں ہے جسے انسان نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے‘۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ نہیں کہ اس میں تکنیکی مہارت کو عمدگی سے بروئے کار لایا گیا ہے بلکہ یہ ہے کہ بم کے حوالے سے دونوں ملکوں کی فوجی قیادتوں کی سوچ اور نفسیات کو بھی سمجھنے کو کوشش کی گئی ہے۔ لکھنے والے بم کے تاریخی اور سیاسی پس منظر سے واقف ہیں۔ وہ بم کے بعد لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں، وار آن ٹیرر اور خود کو ایٹمی طاقت سمجھنے والے پاکستان میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے حوالے سے حقیقی اور تلخ سوال اٹھاتے ہیں، مثلًا پاکستان یہ سوچتا ہے کہ سارے پتے اس کے ہاتھ میں ہیں اور اس کے ساتھ یہ سوچ بھی موجود ہے کہ امریکہ عناد رکھتا ہے، پاکستان کو اس کے ایٹمی ہتھیاروں سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ اب فرض کریں کے ایسی صورت پیدا ہو جائے اور اپنے ہتھیاروں پر پاکستان کا کنٹرول ختم ہو جائے تو ایسے دونوں ملکوں کا انجام کیا ہوگا جہاں ایک دوسرے کو مٹانے کو خواہش بھی موجود ہو؟ آخر میں ایک اقتباس دیکھ لیں جو کتاب کے صفحہ 181 پر ہے اور میرے خیال میں تو بہت ڈرانے والی صورت حال کے بارے میں متنبہ کرتا ہے: “Currently, it might perhaps be more accurate to consider the Pakistan Army to be consisting of two armies. The first is headed by Gen. Kayani: let us call it Army-A/ISI-A. This army considers the protection of national borders its primary goal. It also seeks to maintain the status quo, giving the army extraordinary powers in national decision-making and financial privileges. The second, Army-B/ISI-B – is Allah’s army. It is silent, subterranean, currently leaderless but inspired by the philosophy of Abul Ala Maudoodi and Syed Qutb. Possessed by radical dreams, it seeks to turn Pakistan into a state run according to the Sharia”. اس کتاب میں جو کچھ ہے اُسے دونوں ملکوں کے عام لوگوں تک پہنچنا چاہیے۔ اس کتاب کو صرف اردو اور ہندی ہی میں نہیں دونوں ملکوں کی تمام زبانوں میں ہونا چاہیے۔ لیکن اس سے پہلے انھیں تو ضرور پڑھنا چاہیے جو انگریزی پڑھ سکتے ہیں۔ |
081128_mumbai_wrap_up_ra | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/11/081128_mumbai_wrap_up_ra | ممبئی: کب کیا ہوا | فائرنگ کی شروعات | چھبیس نومبر کی رات تقریبا 10 بجے جب کچھ ٹی وی چینلز نے ممبئی میں کئی مقامات پر فائرنگ کی خبر نشر کرنی شروع کی تو اس وقت کسی کو گمان بھی نہیں تھا کہ یہ کوئی عام فائرنگ نہیں بلکہ یہ شدت پسندی کے سب سے بڑے واقعہ کا آغاز تھی۔ رات بارہ بجے تک جیسے جیسے خبروں کے تاروں کو ایک ساتھ جوڑا گیا تو پتہ چلا کہ جنوبی ممبئی کے کم از کم سات مقامات پر شدت پسند حملے ہوئے ہیں۔ یہ حملے اپنی نوعیت کے پہلے حملے تھے جس میں شہریوں پر اندھا دھند گولیاں چلائی گئیں ، انہیں یر غمال بنایا گیا اور کئی مقامات پر دستی بم پھینکے گئے۔ اس وقت شاید یہی سوال ان لوگوں کے ذہن میں ابھر رہا تھا ۔۔یہ ہو کیا رہا ہے ممبئی میں؟ ہلاکتیں، یرغمالی اور زخمی آہستہ آہستہ یہ واضح ہوتا گیا کہ ممبئی کے مشہور چتھرپتی ریلوے ٹرمینل ، گیٹ وے آف انڈیا کے سامنے واقعہ تاریخی سیون سٹار تاج محل ہوٹل ،دیگر سات ستارہ ہوٹل اوبرائے ٹرائڈ ہوٹل ، کاما ہسپتال، لیوپوڈ ریستوران اور نارمن ہاؤس کو شدت پسندوں نے اپنا نشانہ بنایا ہے۔ اس وقت تک ممبئی کا پولیس محکمہ اور دیگر سکیورٹی فورسز حرکت میں آ چکی تھی۔ شہر کے متاثرہ علاقوں کو سیل کر دیا گیا تھا۔ انسداد دہشتگردی کے دستے نے شہر کے متاثرہ مقامات کا رخ کیا اور صورتحال کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ لیکن کچھ دیر میں خبر آنی شروع ہو گئی کہ انسداد ہشتگردی دستے کے سربراہ ہیمنت کرکرے ، ممبئی پولیس کے ایک سیئنر افسر اور اینکاؤنٹر سپیشلسٹ وجے سلسکر اور ممبئی پولیس کے سیئنر اہلکار اشکو کامٹے شدت پسندوں کی فائرنگ ميں ہلاک ہو گئے ہیں۔ ہوٹلز پر قبضے اور فوجی کاروائیاں جمعرات کی صبح تک یہ تصویر صاف ہو گئی کہ شدت پسندوں نے تاج محل ہوٹل، اوبیرائے ہوٹل ، اور ناریمن ہاؤس میں لوگوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔ ان مقامات سے رک رک کر فائرنگ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اس وقت تک ان مقامات کو فوج نے اپنے قبضے ميں لے لیا تھا۔ اس سے قبل بحریہ کے کمانڈوز کی کارروائی جاری تھی۔ صبح ہونے تک ان مقامات پر نیشنل سکیورٹی گارڈز یعنی این ایس جی کے کمانڈوز ممبئی پہنچ گئے اور انہوں نے کمان اپنے ہاتھ میں سنبھال لی۔ کارروائی میں بظاہر نظر آیا کہ ان کا مقصد سب سے پہلے ان لوگوں کو حفاظت سے باہر نکالنا ہے جنہیں شدت پسندوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ لیکن وقت فوقتاً یرغمالیوں کی ہلاکتوں کی خبریں، دستی بموں اور فائرنگ کی آوازیں آتی رہیں۔ ہرگولی کی آواز پر ایسا محسوس ہوا کہ شاید یہ آخری آواز ہو اور انتظامیہ کہے کہ ممبئی پر چھائے دہشت کے کالے بادل اب چھٹ چکے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہندوستان کا نائن الیون جمعرات کا دن بھی گزر گیا لیکن ان مقامات پر سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان مقابلہ جاری رہا۔ پورے ملک کی عوام یہ جاننے کے لیے بےچین تھی کہ ممبئی میں اس وقت کیا ہو رہا ہے۔اس واقعہ نے ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہلچل مچا دی۔ اس کی ایک وجہ یہ رہی کہ جن مقامات پر حملے ہوئے اور لوگوں کو یرغمال بنایا گیا وہاں غیر ملکیوں کی بڑی تعداد موجود تھی ، ناریمن ہاؤس یہودیوں کا ایک اہم مرکز ہے اور دوسرا یہ کہ ہندوستان کی تاریخ میں یہ اب تک کا سب سے بڑا شدت پسندوں کا حملہ تھا۔ پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ نے ممبئی کے حملوں کو اپنی اہم خبروں میں شامل کیا۔ پاکستان سمیت پوری دنیا کے ممالک نے ان حملوں کی مذمت کی اور ہندوستان کو ہر قسم کے تعاون کی پیش کش کی۔ فوج کی پہلی کامیابی جمعہ کی دوپہر این ایس جی کمانڈو کو اس وقت بڑی کامیابی ملی جب اوبیرائے ہوٹل میں ان کا قبضہ ہوگیا اور انہوں نے دو شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا۔ اس سے قبل جمعہ کی صبح اوبیرائے ٹرائڈینٹ ہوٹل سے سو کے قریب افراد کو رہا بھی کرا لیا گیا تھا۔این سی جی کمانڈو کے چیف نے یہ بھی بتایا انہوں نے ہوٹل سے چوبیس لاشیں نکالی ہیں اور کل یعنی جمعرات کو چھ لاشیں نکالی گئی تھی۔ لیکن ديگر دو مقامات ناریمن ہاؤس اور تاج ہوٹل میں فوج اور شدت پسندوں کے درمیان تصادم جاری رہا۔ پاکستان کا نام ہندوستان کے وزیر خارجہ پرنب مکھرجی نے جب ایک نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ ان حملوں میں کچھ عناصر کا تعلق پاکستان سے ہے تو پاکستان میں ردعمل پیدا ہونا لازمی تھا۔ پاکستان سے خبر آئی کہ حکومت ملک کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ کو ہندوستان بھیج رہی ہے۔اس سے قبل یہ کہا گیا کہ شدت پسند ایک کشتی کے ذریعے سمندر کے راستے ممبئی میں داخل ہوئے اور ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں آنے لگیں تھیں کہ ان حملوں میں لشکرطیبہ کا ہاتھ ہے۔ سیاست کے درمیان جمعہ کی شام تک ناریمن ہاؤس پر بھی این ایس جی کمانڈوز کا قبضہ ہو چکا تھا۔ کمانڈوز نے وہاں موجود دونوں شدت پسندوں کو مار گرایا تھا لیکن اس آپریشن کا انجام اس تکلیف دہ حقیقت کے ساتھ ہوا کہ شدت پسندوں نے اپنے پانچوں یرغمالیوں کو قتل کر دیا تھا۔ ان کی شناخت اس وقت تک نہیں ہو پائی تھی۔ دوسری جانب تاج ہوٹل کی کئی منزلوں پر رک رک کر فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں آتی رہیں۔ کمانڈوز آپریشن میں مصروف تھے۔ ممبئی کی علامت اور ہمیشہ روشن رہنے والا تاج ہوٹل اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ کبھی کہیں دھماکوں کے ساتھ ہوٹل کے کسی کمرے میں آگ لگ جاتی ہے۔ سبھی کو اس بھیانک واقعہ کے اختتام کا انتظار ہے |
121221_wake_up_sharifa_bibi_mb | https://www.bbc.com/urdu/india/2012/12/121221_wake_up_sharifa_bibi_mb | ہوش کی دوا لو، شریفہ بی! | پیاری شريفہ بی! | راجیش جوشی بی بی سی ہندی دو ہزار دو کے گجرات فسادات کی شکار شریفہ بی بی تم اتنی ضدی کیوں ہو؟ جو کچھ ہوا اسے بھول جاؤ نا! دس سال گزر گئے ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ آٹھ سال کے بچے اب اٹھارہ سال کے جوان ہو چلے ہیں۔ دیکھو! تمہارے شہر کی سڑکیں کتنی وسیع ہو گئی ہیں، کتنی ہی اونچی اونچی كالونياں بن گئی ہیں۔ نہ جانے کتنی چمچماتی کاریں آ گئی ہیں، اور شاپنگ مال؟ ان کا تو کہنا ہی کیا۔ اب تو مسلسل تیسری بار تمہارے رہنما تمہیں ترقی کی راہ پر لے جانے کو تیار ہیں۔ لیکن تم ہو کہ اب بھی ہر آنے جانے والے کو وہی پرانی کہانی سنانے لگتی ہو۔ جیسے تم نے مجھے سنائی تھی اپنی رام کہانی کہ کس طرح اس صبح تم چائے پی کے بیٹھی ہی تھیں کہ اچانک تم نے دیکھا کہ ایک کے بعد ایک لوگوں کی ٹکڑیاں، ہتھیاروں سے لیس لوگوں کی بھیڑ آ رہی تھی۔ کس طرح تم اور تمہارے آدمی پولیس والوں کے پاس مدد مانگنے پہنچے اور پھر پولیس والوں نے تمہیں یہ کہہ کر بھگا دیا کہ آج تمہارے مرنے کا دن ہے، واپس گھر جاؤ۔ اب اتنے بڑے مجمع کے سامنے پولیس والے کیا کہتے بھلا؟ بور ہوگیا میں تمہاری داستان سن کر۔ اور اب تم یہ سب یاد کرکے کروگی بھی کیا کہ جب تم اور تمہارے بچے جان بچانے کو ادھر ادھر بھاگ رہے تھے تو تمہارا سب سے بڑا بیٹا پیچھے چھوٹ گیا تھا؟ یہ یاد کر کے بھی کیا کرو گی کہ اس کو بھیڑ نے پائپ، لاٹھيوں اور تلواروں سے مار ڈالا۔ اور یہ یاد کر کے بھی کیا کروگی کہ جب اس کا قتل کیا جا رہا تھا تو تم ایک جالی کے پیچھے سے چھپ كر دیکھ رہی تھی اور تمہاری آنکھوں کے سامنے ہی بھیڑ نے اس پر مٹی کا تیل ڈال کر اسے جلا ڈالا تھا؟ دیکھو سب آگے بڑھ گئے ہیں، زمانہ آگے بڑھ چکا ہے۔ تم کب تک ان یادوں میں الجھی رہوگی؟ تم لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ تم بھول نہیں سکتے۔ غصہ سب کو آیا تھا اس وقت۔ آیا تھا کہ نہیں؟ سب پڑھے لکھے انگریزی بولنے والے لوگوں نے رندھے گلے سے کہا تھا: ’دِس اِز ان ایكسیپٹیبل‘ (یہ ناقابلِ قبول ہے) پھر ایكسپٹ (قبول) کر لیا نا؟ امیتابھ بچن نے کیا۔ امبانی نے کیا۔ رتن ٹاٹا نے کیا۔ شريفہ بی بی تم بڑی ہو کہ رتن ٹاٹا؟ تم بڑی ہو کہ امبانی، یا پھر تم بڑی کہ امیتابھ بچن؟ رہو اپنی ضد پر اڑي۔ ارے کہاں اتنے نامور لوگ اور کہاں تم؟ کچھ سوچو! اب دیکھو نا! احمد آباد میں اپنے ہوٹل کے کمرے میں بیٹھ کر جس وقت میں تمہیں یہ خط لکھ رہا ہوں، ٹی وی کی سکرین سے پورے ملک کا غصہ پھوٹا پڑتا ہے۔ دلی کی ایک بس میں چار لوگوں نے نرسنگ کی تعلیم حاصل کرنے والی ایک تئیس سالہ لڑکی کے ساتھ چار لڑکوں نےاجتماعی زیادتی کی، لوہے کے سریوں سے اس کے پیٹ پر اتنے وار کیے کہ اس کی آنتیں کچلی گئیں۔ حملہ آور اس لڑکی اور اس کے دوست کے کپڑے اتار کر دونوں کو چلتی بس سے پھینک کر چلتے بنے۔ ابھی پھر سے تمام رہبران اور اداکار رو رہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ ’دس از ان ایكسپٹیبل۔‘ آج جسے ’ناقابل قبول‘ کہا جاتا ہے، پڑھے لکھے لوگ کل اسے ’قابل قبول‘ مان لیتے ہیں یا پھر اس کا ذکر ہی نہیں کرتے۔ تمہاری کیا سدھ ماری گئی ہے، شريفہ بی بی؟ تم بھی دھیرے سے کہنا سیکھ لو: ’یہ ناقابل قبول ہے‘ اور پھر بھول جاؤ۔ ہوش کی دوا لو، شريفہ بی بی، ہوش کی دوا! (نوٹ: شريفہ بی بی کوئی خیالی کردار نہیں ہے۔ (وہ احمد آباد کی نرودا پاٹيا بستی میں رہتی ہیں)۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات |
080706_delhi_diary_awa | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/07/080706_delhi_diary_awa | منموہن ناکام وزیراعظم، بدعنوانی میں کمی | ناکام وزیراعظم | ہندوستان کے دارالحکومت دلی میں ایک بار پھر نئی سیاسی صف بندی اور سیاسی سودے بازیوں کے لیے سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ جوہری معاہدے کے سوال پر کانگریس اور بائیں محاذ کے اختلاف اتنے بڑھ چکے ہیں کہ وہ حکومت سے حمایت واپس لینے سے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ اس صورتحال میں وزیراعظم منموہن سنگھ کو اب ملائم سنگھ یادو اور امرسنگھ کی شکل میں نئے اتحادی ملے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ نئے اتحادی حکومت کی حمایت کے لیے اپنا حصہ مانگیں گے۔ وزیراعظم منموہن سنگھ اقتصادیات کے ماہر ہیں اور ان سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ایک اہل اور باصلاحیت منتظم ثابت ہوں گے لیکن گزشتہ دو برس سے ان کی حکومت تقریباً مفلوج ہے۔ اقتصادی صورتحال یہ ہے کہ افراط زر کی شرح نے پندرہ برس کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور غریب آدمی سے لیکر متوسط طبقے تک میں نفسا نفسی کا عالم ہے۔ منموہن سنگھ کی حکومت پر پریشانی کے لیے تیل کی قیمتوں میں اضافے کو ذمے دار قرار دے رہی ہے۔ انتخابات قریب ہیں اور بظاہر وزیر اعظم کے ہاتھ سے ہر چیز نکلتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ بہار میں قانون کی بالادستی ایک حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ صوبے کے بیشتر لوگ ترقیاتی کاموں، امن و قانون کی صورتحال اور نیتش کی کارکردگی کے بارے میں مثبت رویہ رکھتے ہیں۔بہار میں حکومت کے بدلنے کے بعد سب سے اہم تبدیلی امن و قانون کی سطح پر ہوئی ہے۔ بہار کی ایک فاسٹ ٹریک عدالت نے گذشتہ دنوں جرائم سے سیاست میں آنے والے لوک جن شکتی پارٹی کے رکن پارلیمان سورج بھان سنگھ کو ایک مجرمانہ معاملے میں دوبرس سے زیادہ کی قید کی سزا سنائي۔انتخابی ضابطوں کے تحت وہ اب انتخابات لڑنے کے اہل بھی نہیں رہے۔ بہار میں گذشتہ چند مہینوں میں یہ تیسرے رکن پارلیمان ہيں جنہيں عدالتوں نے سزائیں دی ہیں۔ اس سے پہلے شہاب الدین اور پپو یادو کو سزا ملی ہے اور وہ جیل میں ہيں۔ ایک سابق رکن پارلیمان آنند موہن کو بھی حال ہی میں سزا سنائی گئی ہے جبکہ بہار کی فاسٹ ٹریک عدالتوں نے بھاگلپور کے فسادات مں درجنوں قصورواروں کو بھی سزائیں دی ہيں۔ لاقانونیت کے لیے بہار کی بار بار مثال دینے والے اترپردیش، مہاراشٹر اور گجرات جیسے صوبوں کے لیے اب بہار قانون کی بالادستی کی مثال بن رہا ہے۔ ہندوستانی ایذا رسانی کے حق میں اقوام متحدہ کے تحت عالمی رائے عامہ کے ایک جائزہ سے پتہ چلا ہے کہ 59 فیصد ہندوستانی دہشتگردی کے مشتبہ ملزموں سے سچائی اگلوانے کے لیے اذیتیں دینے کی حمایت کرتےہیں اور صرف 28 فیصد ہندوستانی ایسے ہیں جو ریاست کے ذریعے کسی طرح کی ایذا رسانی پر پابندی لگانے کے حق میں ہیں۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس طرح کے ایک سروے میں 2006 میں صرف 32 فیصد ہندوستانی مشتبہ ملزموں پر تشدد کے حق میں تھے اور ڈیڑھ برس کے عرصے میں اذیت دینے کے حامی بھارتیوں میں 27 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بدعنوانی میں کمیہندوستان میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال، بیداری اور اقتصادی اصلاحات اور اطلاعات حاصل کرنے کے حق کے قانون جیسے اقدامات سے رفتہ رفتہ بدعنوانی میں کمی آرہی ہے۔ آزاد بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پوری دنیا میں بدعنوانی کی صورتحال کے بارے میں جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں ہندوستان 180 ممالک کی فہرست میں 74 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں بدعنوانی کے حالات زیادہ برے ہیں اور وہ اس فہرست میں ایک سو چالیسویں مقام پر ہے۔ روس ایک سو پینتالیسویں درجے کے ساتھ اس سے بھی بری حالت میں ہے۔ جنوبی ایشیا میں سب سے کم بدعنوان ملک بھوٹان ہے جو اس فہرست میں اکتالیسویں مقام پر ہے۔ ڈنمارک، فن لینڈ، نیوزی لینڈ، سنگاپور اور سویڈن دنیا کے سب سے کم بدعنوان ممالک ہیں جبکہ برما اور صومالیہ میں سب سے زیادہ بدعنوانی ہے۔ |
040110_womeninnews_samana_one | https://www.bbc.com/urdu/interactivity/guest/story/2004/01/040110_womeninnews_samana_one | خواتین اور پاکستانی اخبارات | دس جنوری: خواتین اور جرائم | آج پاکستانی اخباروں میں عورتوں کے ساتھ ہونیوالے جرائم کو خاص جگہ دی گئی ہے۔ نوائے وقت میں ایک خبر ہے: ’غریب محنت کش کی بیٹی، ایک سال تک برائی کے اڈوں پر لٹتی رہی۔‘ بورے والا گاؤں کے سردار محمد کی چودہ سالی بیٹی کی یہ کہانی ہے جسے اغوا کرکے ایک اڈے پر، جسم فروشی کے لئے لے جایا گیا جس کا مالک وکیل تھا۔ اخبار نے اس خبر کو سنسنی خیز طریقے سے پیش کیا۔ یہ خبر اخبار کے آخری صفحے پر شائع کی گئی ہے۔ اگر میں ایڈیٹر ہوتی تو اسے صفحۂ اول پر جگہ دیتی۔ اس خبر کو پڑھنے سے لگتا ہے کہ رپورٹر نے غربت پر زور زیادہ دیا ہے، نہ کہ واقعہ کی تفصیل پر۔خبر کو اس طرح سے پیش کیا جانا چاہئے تھا جس سے اس کا اثر ختم نہیں ہوتا۔ اخبار جنگ نے بھی ایک خبر شائع کی ہے جس کے مطابق نوشہرہ کے قریب ایک بیس سالہ لڑکی کو اس کے شوہر نے شادی کی دوسری رات طلاق دے دی۔ وہ والدین کے پاس آگئی، بعد میں والدین نے دھمکی دی کہ اگر وہ اپنے شوہر کے یہاں نہیں گئی تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ جان بچانے کے لئے وہ لاہور پہنچی جہاں اسے سرکاری ادارے دارالامان بھیج دیا گیا۔ یہ خبر پڑھ کر ذہن میں کئی سوالات ابھرتے ہیں۔ آخر طلاق کیوں دی گئی؟ طلاق کے بعد بھی اس کے ماں باپ نے اسے واپس جانے کو کیوں کہا؟ نوبت قتل تک کیوں پہنچی؟ رپورٹ کو تفصیل سے لکھنا چاہئے تھا تاکہ قارئین کسی نتیجے پر پہنچتے۔ جرائم کی باقی خبروں کی طرح اخبار کے اندرونی صفحات میں یہ خبر بھی ٹنڈر نوٹسوں اور اشتہارات کے درمیان گم ہوگئی ہے۔ آج جنگ نے گزشتہ سال ہونیوالے جرائم کی وارداتوں پر ایک خصوصی صفحہ بھی شائع کیا گیا ہے لیکن اس خصوصی اشاعت میں عورتوں کے خلاف ہونیوالے جرائم کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ اردو روزنامہ ایکسپریس نے اوکاڑہ سے اغوا کی جانیوالی عورت کے بارے میں ایک خبر شائع کی ہے۔ اس کے مطابق احمد علی کی شادی شدہ بیٹی کو چار ماہ قبل آصف اور راشد نے اغوا کرلیا۔ بعد میں پنچایت کے ذریعے لڑکی کو واپس بلایا گیا۔ شمیم کو اس کے بہن کے گھر سے ایک بار پھر اغوا کرلیا گیا۔ رپورٹر نے اس خبر کے کئی پہلوؤں کو نظر انداز کیا ہے: جیسے اسے اغوا کیوں کیا گیا؟ پنچایت نے انہیں کیوں چھوڑا؟ ان کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی گئی؟ روزنامہ دن لاہور میں ایک مثبت خبر یہ بھی ہے کہ خواتین کا معاشی تحفظ موجودہ دور کی ضرورت ہے۔ خواتین و بہبود کی پنجاب کی صوبائی وزیر عاشفہ ریاض سے انٹرویو پر مبنی یہ خبر ایک خاتون رپورٹر نے لکھی ہے جس میں وزیر نے کہا ہے کہ عورتوں کو ہنر مند بناکر معاشی طور پر مضبوط اور خودمختار بنایا جائے۔ اخبار جنگ نے ایک خبر شائع کی ہے: امام بخش پر لگائے گئے الزامات کی تردید۔ اس کے مطابق مرضی کی شادی میں تشدد کی گنجائش نہیں۔ اس خبر میں اعتراف کیا گیا ہے کہ بِسما کی ماں اس رشتے سے خوش نہیں تھی اور اسے بلیک میلِ کیا کرتی تھی۔ رپورٹر نے خبر کے صرف ایک پہلو کو بیان کیا ہے۔ یہ خبر پڑھ کر ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ لڑکی امام بخش کے تشدد کا نشانہ بنی؟ یا اس نے اعتراف کیا؟ اور اگر کیا تو اس کا میڈیکل چیک اپ کیوں نہیں کیا گیا کیونکہ لڑکے نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ اسے سگریٹ سے نہیں داغا گیا؟ اچھا ہوتا کہ خبر کو یک طرفہ انداز میں پیش نہ کیا جاتا بلکہ میاں بیوی دونوں کے موقف کو سامنے رکھا جاتا۔ رپورٹر نے لڑکی والوں سے بات نہیں کی ہے۔ عموما پاکستان کے ٹی وی چینل عورتوں کے خلاف جرائم کو اپنی خبروں میں شامل نہیں کرتے۔ اوپر جو واقعات بیان کیے گئے ہیں انہیں کسی ٹی وی چینل نے آج نشر نہیں کیا ہے۔ مگر ٹی وی چینل پر عورتوں کے عمومی مسائل پر بحث ضرور ہوتی ہے۔ لیکن ہفتے کے روز انڈس ٹی وی کے پروگرام ’شہر شہر گاؤں گاؤں‘ میں رپورٹر مجاہد بریلوی نے قصبے قصبے جاکر خواتین کونسلروں سے انٹرویو کیے اور عورتوں کے مسائل کے بارے میں ان کے کام کاج سے متعلق دریافت کیا۔ میڈیا میں عورتوں سے متعلق مسائل کی کوریج ہورہی ہے۔ لیکن عورتوں کی معاشی زندگی، سماجی سرگرمیوں اور زندگی کے مختلف پہلو اخبارات کی توجہ سے محروم نظر آتے ہیں۔ تاہم ٹی وی چینلوں کا دائرہ کار اخبارات کی نسبت زیادہ وسیع ہے۔ نوٹ: سیدہ سمانہ زہرا زیدی پنجاب یونیورسٹی میں لسانیات کی طالبہ ہیں۔ اور بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے لئے ذرائع ابلاغ میں خواتین سے متعلق مسائل پر ڈائری لکھ رہی ہیں۔ آپ اس ڈائری پر اپنی رائے دیں۔ |
031204_diary_michael_three | https://www.bbc.com/urdu/interactivity/blog/story/2003/12/031204_diary_michael_three | شعدی بلا سے لڑسکتا ہے | چار دسمبر، دو ہزار تین | شعدی غزہ پٹی کے جنوبی کنارے پر رہتا ہے جہاں اسرائیلی فوج کافی سرگرم ہے اور ٹینک اور بلڈوزر شہری نقشے کا حصہ بن گئے ہیں۔ شعدی کے والد نے لگ بھگ تین ماہ قبل اس کی مدد کے لئے ہم سے ملاقات کی۔ شعدی میں ذہنی پریشانی کی کچھ علامتیں نمایاں تھیں: اسے نیند نہیں آتی تھی، بھوک کی کمی تھی، وہ اداس رہتا تھا اور اسے اپنی زندگی اور اپنے مستقبل میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ جب میں نے اس سے ملاقاتیں شروع کیں تو یہ بات ابھر کر سامنے آئی کہ اسے خوفناک خواب آتے تھے۔ خود اس کے الفاظ میں: ’ایک بلا میرا پیچھا کررہی ہے، میرا قتل کرنے کے لئے۔ میں اس سے بچ نہیں سکتا اور جب وہ میرے قریب پہنچنے کو ہوتی ہے اسی وقت میں جگ جاتا ہوں، میرے اوپر خوف طاری ہوتا ہے۔ وہ پیلے یا کبھی کبھی سبز رنگ کی ہے۔ وہ ایک انسان کی طرح دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے جسم پر کافی بال ہیں اور وہ ایک بالٹی، ایک چاقو، ایک تلوار اور ایک کلہاڑی لیے ہوتی ہے جیسے وہ مجھے قتل کردینا چاہتی ہے۔‘ شعدی اور اس کے گھر والے اس علاقے میں فائرنگ سے بچنے کے لئے اکثر راتوں کو تہہ خانے میں پناہ لیتے ہیں۔ شعدی نے مجھے حقیقی انسانوں کے بارے میں بھی بتایا جو اس کے پڑوس میں مارے گئے۔ اس کا ایک دوست اسکول کے ایک کمرے میں تھا جب وہ بندوق کی ایک گولی کا نشانہ بن گیا۔ شعدی کے خوفناک خواب اور نہ جینے کی خواہش کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ میں شعدی پر یہ واضح کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں کہ اس کا ردعمل غلط نہیں ہے، کہ اس کے سامنے ایک مستقبل ہے اور وہ اس بلا کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کئی ملاقاتوں کے بعد شعدی اور میرے درمیان بھروسہ قائم ہوسکا۔ میں غیرملکی ہوں لیکن میرا غیرملکی ہونا شعدی کے ساتھ اعتماد قائم کرنے میں رکاوٹ نہ بنا، بلکہ ہمارے درمیان ایک مترجم کو بھی قابل اعتماد سمجھا گیا۔ اس طرح کی مشاورتی ملاقاتوں کے بارے میں میرا اجنبی ہونا ضروری ہے کیونکہ ایک اجنبی شعدی جیسے لوگوں کی زندگی کی کہانی بہتر طور پر سن سکتا ہے۔ ہماری کوشش تھی کہ اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ اس طرح کے خوفناک خواب دیکھنا غلط نہیں ہے۔ میں شعدی کو بتاتا ہوں کہ میں نے اس طرح کی کہانیاں اور جذبات کا سامنا بچوں میں پہلے بھی کیا ہے۔ شعدی کے بھائی بہن خوش قسمت ہیں کہ انہیں اس طرح کے ذہنی مسائل نہیں ہیں۔ ہم طبی ماہر ایک طریقہ استعمال کرتے ہیں: بچوں کو بتاتے ہیں کہ انہیں جس چیز سے ڈر لگتا ہے وہ اس کی تصویر بنائیں۔ میں نے شعدی سے کہا کہ وہ اس طرح کا نقشہ کھینچے جس سے اس بلا سے نمٹا جاسکتا ہے۔ اس نے جو اگلی تصویر بنائی اس میں وہ خود اس بلا پر ایک گرینیڈ پھینک رہا تھا جس کے نتیجے میں یہ بلا تباہ ہوجاتی ہے۔ میں اور شعدی اس بات پر متفق ہوئے کہ یہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے اس بلا سے نمٹا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی ملاقاتوں کے ذریعے پیدا ہونے والے اعتماد کی بنیاد پر ہم نے شعدی کی خوفناک یادداشتوں کے بارے میں باتیں جاری رکھیں۔ شعدی کی حالت میں اب بہتری آرہی ہے۔ اس کے والد اس بات پر یقین نہیں رکھتے تھے کہ غزہ کے جو حالات ہیں ان میں شعدی کی حالت بہتر ہوسکتی ہے۔ لیکن اب ان کا کہنا ہے کہ شعدی اب دوبارہ ایک استاد بننے کی خواہش ظاہر کررہا ہے۔ اب وہ ہمیشہ غمگین نہیں رہتا اور کھانا بھی ٹھیک وقت پر کھاتا ہے۔ اس کے والد نے مجھے بتایا: ’میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ وہ آپ سے کچھ حاصل کررہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ آپ اس سے ملاقات کے لئے کب آنیوالے ہیں، وہ اس کے بارے میں بات بھی کرتا ہے، اور تیار ہوکر آپ سے ملنے کا منتظر رہتا ہے۔‘ مجھے اس بات کی امید ہے کہ میں جلد ہی اس کی بہتری کے ساتھ ساتھ اس سے اپنی ملاقاتوں میں کمی کرنا شروع کروں گا۔ ہماری کوشش رہی ہے کہ مریض کی زندگی کو بہتر بنایا جائے اور اسے اس طریقۂ کار سے روشناس کرایا جائے جس کے ذریعے وہ اپنی پریشانیوں کو ہلکا کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کام میں اس کے ذہن میں یہ بات اہم رہی ہے کہ میں اس کے گھروالوں کے ہمراہ رہا ہوں۔ انہیں بھی معلوم ہے کہ حالات خراب ہونے پر میں واپس آسکتا ہوں اور اس کے ذہن میں جو تصویر بن رہی ہے اس سے یہ واضح ہے کہ وہ کن حالات سے گذر چکا ہے۔ مائیکل میکالک غزہ کی پٹی میں طبی امداد کی بین الاقوامی تنظیم میڈیسنز سانز فرنٹیئرز کی ایک گشتی ٹیم کے رکن ہیں جو علاقے میں جاری تشدد سے متاثرہ خاندانوں کے لیے کام کرتی ہے۔ یہ متاثرین عموماً بمباری، تباہ کاری اور جنگی صورت حال کے باعث صدمے اور خوف کا شکار رہتے ہیں۔ ڈاکٹر میکالک نے اپنے ہفتے بھر کی مصروفیات کے دوران پیش آنے والے واقعات اور مریضوں کا احوال یوں بیان کیا۔ ان کے اس مضمون پر آپ کیا رد عمل ہے؟ ہمیں لکھئے۔ |
061022_delhi_diary_rs | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/10/061022_delhi_diary_rs | دلی ڈائری: وزیر خارجہ کیلیئے دوڑ | وزیر خارجہ بننے کی دوڑ | نٹور سنگھ کے استعفی کے بعد وزیر خارجہ کا عہدہ ابھی بھی خالی پڑا ہوا ہے لیکن گزشتہ دنوں وزیراعظم منموہن سنگھ نے کہا ہے کہ وہ جلد ہی اس عہدے پر کسی کو مقرر کریں گے۔ اسی وقت سے اس عہدے کے لیئے بھاگ دوڑ شروع ہوگئی ہے۔ وزیر خارجہ کے امیدواروں میں سب سے پہلا نام پرنب مکھرجی کا لیا جارہا ہے جنہیں سونیا گاندھی اور وزيراعظم دونوں کا اعتماد حاصل ہے اور وہ نرسمہا راؤ کے زمانے میں وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں۔ مکھرجی کے علاوہ کپل سبل، سابق خارجہ سیکریٹری ایم کے رسگوترا، پی چدامبرام اور کرن سنگھ بھی اس دوڑ میں شامل ہیں لیکن وزیراعظم نے ابھی تک کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔ وزارت داخلہ کی کار دیوالی کے تہوار پر دلی میں حفاظت کے بڑے سخت انتطامات کیے گئے تھے لیکن دیوالی سے پہلے وزارت داخلہ کے دو اہلکاروں کی کاروں کی چوری سے سکیورٹی کے اداروں میں بھگڈر مچ گئی ہے۔ ان کاروں پر تمام اہم اور حساس مقامات پر جانے کے لیئے وزارت داخلہ کے’پاس‘ لگے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں کاریں الگ الگ مقامات سے چوری ہوئیں اور بظاہر یہ معمولی کار کی چوری کا معاملہ نظر آتا ہے لیکن پولیس ان پر وزارت داخلہ کے پاس لگے ہونے کی وجہ سے کافی پریشان ہے کہ کہیں انہیں دہشت گردی کے مقصد کے لیئے استعمال نہ کیا جائے۔ دفاعی تحقیق کی بدحالی دفاعی تحقیق کے ادارے ڈی آر ڈی او کے اوپر آج کل برے دن آئے ہوئے ہیں۔ ملک کے اس باوقار ادارے کو دفاعی سازوسامان ملک کے اندر بنانے کے لیئے تحقیق کی ذمہ داری دی گئی تھی لیکن اس کا ریکارڈ اتنا خراب رہا ہے کہ اب اس پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ ترشول میزائل کا کام 1983 میں شروع ہوا اور کئی ’ کامیاب‘ تجربوں کے بعد ابھی تک تیار نہیں ہوسکا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ اس کی تیاری کے لیئے حکومت نے اب ادارے کو ایک برس کی مہلت دی ہے۔ اس طرح آکاش میزائل اور ناگ ٹینک شکن میزائل 1983 میں شروع کیا گیا لیکن ابھی تک تیار نہیں ہوسکا۔ 1974 سے بننے والا ارجن ٹینک قابل استمعال نہیں پایا گیا۔ یہ ادارہ ایک ہلکا جنگی طیارہ تیئیس برس سے بنا رہا ہے۔ تین برس کے بعد اس کا فائنل تجربہ ہونا ہے۔ ظاہر ہے یہ ریکارڈ اچھا تو نہیں ہے۔ تیز رفتار ترقی حکومت نے معیشت کے موجودہ بہتر رجحان کو دیکھتے ہوئے اقتصادی ترقی کی رفتار کو مزید تیز تر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن نے گزشتہ دنوں دوہزار سات سے دو ہزار بارہ تک کے جس منصوبے کی منظوری دی اس کے تحت مجموعی ترقی کی شرح کا ہدف نو فی صد طے کیا گیا ہے۔ حکومت افراط زر کو چار فی صد پر برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ آئندہ پانچ سال میں زرعی پیداوار کو دوگنا کرنے، سات کروڑ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے اور غریب لوگوں کی تعداد گھٹا کر دس فی صد تک نیچے لانے کا منصوبہ ہے۔ سیاحت کے فروغ کے لیئے حکومت جلد ہی متعدد ملکوں کے سیاحوں کو بار بار آنے جانے کے لیئے ملٹی انٹری دس سال کا ویزا جاری کر رہی ہے۔ اسی طرح’ویزا آن آرائیویل‘ یعنی ہندوستان پہنچ کر ویزا دینے پر بھی غور کر رہی ہے۔ سیاحت ہندوستان کی معیشت کا ایک اہم سیکٹر بن کر ابھر رہا ہے۔ اس سے لاکھوں لوگوں کو ملازمت ملی ہوئی ہے۔ غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں ہر سال تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس سے ملازمت کے لاکھوں نئے مواقع پیدا ہورہے ہیں اور کئی بلین ڈالر کا غیر ملکی زرمبادلہ حاصل ہو رہا ہے۔ |
070604_bollywood_diary_ns | https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2007/06/070604_bollywood_diary_ns | کوئنا کی ویڈیو، خان کی دعوت، وویک گینگسٹر | کوئنا کے مداح | ممبئی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل کے سوئمنگ پول میں نہانے کے بعد کوئنا مترا اپنے سوئمنگ سوٹ میں لیٹی دھوپ سینک رہی تھیں۔ ہوٹل میں موجود دو لڑکوں نے اپنے موبائل فون سے ان کی ویڈیو شوٹنگ شروع کر دی۔ اب اگر ہیروئین اس طرح کھلے عام نظر آئے تو پھر مداحوں کا کیا قصور؟ کوئنا نے جب یہ دیکھا تو ان کا پارہ چڑھ گیا اور انہوں نے ان کے موبائیل فون لے کر اسے سوئمنگ پول میں پھینک دیا۔ کوئنا پبلسٹی کے اور بھی تو طریقے ہیں۔ یہ دوستی کنگ خان اور سلو بھیا کی دوستی کے آج کل بالی وڈ میں کافی چرچے ہیں۔ کنگ خان کی بیٹی سوہانہ کی سالگرہ پارٹی تھی اور کنگ خان نے سب سے پہلے دعوت نامہ کِسے بھیجا؟ آپ ٹھیک سمجھے سلو بھیا کو، اور اب سلو نے اپنی دو پینٹنگز کنگ خان کو بطور تحفہ اس شرط پر دی ہیں کہ انہیں صرف وقت کھولا جائے تاکہ جب وہ اپنے نئے گھر میں منتقل ہوں( کنگ خان نے اپنے بنگلہ منت کے عقب میں ایک عالیشان کئی منزلہ عمارت بنائی ہے جس میں وہ جلد ہی منتقل ہوں گے اور منت ان کے دفتر اور دیگر کاروباری مقاصد کے لیے استعمال ہو گا) ۔ اب کنگ خان کو اپنے نئے گھر منتقل ہونے کی کچھ زیادہ ہی جلدی ہے۔ میں چپ رہوں گی پرینکا چوپڑہ سے جب بھی کسی نئی فلم کے بارے میں بات کریں تو وہ کہتی ہیں کہ وہ چپ رہیں گی۔اور کیوں نہ ہوں انہوں نے کنگنا رناوت کا حشر دیکھ ہی لیا۔ کنگنا کو عامر خان کی آنے والی فلم میں ہیروئین کے طور پر لینے کی بات چل رہی تھی، بس کیا تھا ان سے اپنی خوشی چھپائے نہیں گئی اور انہوں نے ہر کسی سے اس کا ذکر کرنا شروع کر دیا ہا۔۔۔پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا اب فلم میں کنگنا کی جگہ پرینکا ہیں اور پرینکا نے کچھ نہ بولنے کی قسم کھا لی ہے۔ مایوس پرستار روز صبح باندرہ کی سڑکوں پر ایک مخصوص سائیکل نظر نہیں آتی ہے۔ عمارت گیلیکسی کے باہر دیر رات تک لوگوں کی بھیڑ جمع رہتی ہے لیکن وہ مایوس چلے جاتے ہیں کیونکہ آج کل صبح سویرے سلو نہ تو سائیکل چلاتے دکھائی دیتے ہیں اور نہ رات کو وہ اپنے فلیٹ کی بالکنی میں آ کر باہر منتظر اپنے پرستاروں کو ہاتھ ہلا کو الوداع کہتے ہیں اور کہیں بھی تو کیسے بھئی وہ تو چھٹیاں گزارنے لندن چلے گئے ہیں۔ کنگ خان کی دعوت کنگ خان اس برس بھی اپنی بیوی گوری اور دونوں بچوں کے ہمراہ لندن میں ہی چھٹیاں گزارنے پہنچ گئے ہیں، لیکن انہوں نے لندن کو منی بالی وڈ بنا دیا ہے۔ انہوں نے سلو، قطرینہ کیف، سہیل خان اور ان کی بیوی اور ان کے بیٹے کے علاوہ اپنے دوستوں کرن جوہر، چنکی پانڈے،سنجے کپور ارجن رام پال کو بھی اپنا مہمان بنا لیا ہے۔ اب بالی وڈ کی ساری مستی دھمال لندن میں ہو گی۔ ہم دونوں ہیں الگ الگ فلم شوٹ آؤٹ ایٹ لوکھنڈ والا کا پریمیئر تھا۔ فلم میں اگر وویک اوبرائے انڈر ورلڈ کے شارپ شوٹر تھے تو فلم میں ارباز بھی ایک پولیس انسپکٹر کے رول میں تھے۔ اب بھیا سلو بھی بھائی کی فلم دیکھنے پہنچے۔ جیسے ہی فلمساز کو پتہ چلا کہ سلو آ رہے ہیں، انہوں نے فوراً اس طرح انتظام کیا کہ وویک ملٹی پلیکس کے ایک تھیٹر میں فلم دیکھ رہے تھے تو دوسرے میں سلو اپنی فیملی کے ساتھ۔ شکر ہے کہ فلم ملٹی پلیکس میں لگی تھی، اگر ایک پردے والے سنیما ہال میں ہوتی تو ۔۔۔۔۔آگے آپ ہی سوچئے فیشن کی دنیا حقیقی زندگی کی کڑوی سچائیوں کو پردے پر لانے کے لیے مشہور ہدایتکار مدھر بھنڈارکر اب فیشن کی دنیا پر فلم بنا رہے ہیں، آپ کہیں گے یہ تو پرانی خبر ہے۔ ٹھہریے تو صحیح۔ اصل خبر یہ ہے کہ فیشن کی دنیا کا سچ خاتون ماڈلز کی زندگی نہیں بلکہ دو مرد فیشن ڈیزائنرز کی جنگ ایک مرد ماڈل کے لیے ہے اور یہ حقیقی کہانی ہے۔ دیکھئے اب کس طرح کتنے لوگوں کے چہروں سے نقاب اترتا ہے۔ مہیما کی اداکاری مہیما چودھری اب ماں بننے والی ہیں۔ حیران مت ہویئے انہوں نے بغیر کسی تشہیر کے شادی رچالی اور میڈیا کو اس کی بھنک تک نہیں لگی۔مہیما جب ڈھیلے لباس میں نظر آتیں تو حیرت بھی ہوتی تھی۔ان سے جب سوال کیا جاتا تو ہنس کر ٹال جاتی تھیں۔ اب جب کہ وہ ہسپتال کے بستر تک پہنچ چکی ہیں تب اس بات کی تصدیق ہوئی۔ مہیما فلموں میں آپ کی اداکاری چاہے جیسی رہی ہوں زندگی میں آپ کی اداکاری کے تو ہم قائل ہو گئے۔ ہمیش کا سرور سونو نگم اور ہمیش ریشمیا کے درمیان کی تلخیاں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ سونو محمد رفیع کو خراج عقیدت کے طور پر ان کے گائے نغمے گا رہے تھے۔ ہزاروں کا مجمع دم بخود سونو کو سن رہا تھا کہ یکایک ایک شخص اٹھا اور اس نے ہمیش کی بطور ہیرو آنے والی فلم ’ آپ کا سرور‘ کے نغموں کے کیسٹیں مجمع پر پھینکنے شروع کر دیے۔ ہنگامہ مچ گیا۔ سونو کے غصہ کی انتہا نہیں رہی۔ ہمیش ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں کل آپ فلم کے ٹکٹ مفت میں اس طرح لوگوں پر پھینکنے پر مجبور نہ ہو جائیں۔ سیف کا ڈر سیف خوفزدہ ہیں؟ یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوئی۔ بالی وڈ میں یہ افواہ گشت کر رہی ہے کہ سیف نے کرن جوہر کی آنے والی فلم میں کام کرنے سے صرف اس لیے انکار کر دیا کیونکہ اس میں ایب اور ایش کی جوڑی کو سائن کیا گیا ہے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ سیف اداکاری میں کسی سے کم ہیں۔ ویسے یہ افواہ دشمنوں کی اڑائی ہوئی لگتی ہے۔ گینگسٹر وویک وویک بیچارے آج بھی ایک ہٹ فلم کی آس میں جی رہے ہیں۔ ویسے ان کی فلم شوٹ آؤٹ ایٹ لوکھنڈ والا اچھا بزنس کر رہی ہے لیکن اس کی وجہ کچھ اور بتائی جاتی ہے وہ یہ کہ وویک جب بھی کسی فلم میں گینگسٹر کا رول کرتے ہیں تو وہ فلم ہٹ ہوتی ہے۔ پہلی فلم ' کمپنی میں انہوں نے انڈرورلڈ ڈان چھوٹا راجن کا کردار کیا، مشہور ہوئے۔ لیکن اس کے بعد وہ ہیرو کے طور پر کئی فلموں میں ناکام ہوئے۔ بعد میں اوم کارا میں باہو بلی بنے اور ان کے کام کی تعریف ہوئی اور اب وہ گینگسٹر مایا ڈولس بنے اور فلم ہٹ۔ ہم کیا سمجھیں وویک جی؟ یاروں کے یار ساجد نڈیاڈ والا واقعی یاروں کے یار ہیں۔ان کی سلو کے ساتھ دوستی بھی کافی پرانی ہے اور اسی لیے انہوں نے سلو کی ہالی وڈ فلم ’میری گولڈ‘ کی نمائش کے لیے اپنی فلم ’ہے بے بی‘ کی نمائش کو کچھ عرصہ تک کے لیے ملتوی کر دیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ایک فلم کی نمائش روکنے میں کروڑوں روپے کا خسارہ ہوتا ہے؟ انوراگ پر حملہ شائقین کسی فلم یا کسی فلمی کمپنی کے اتنے زیادہ دیوانے ہو سکتے ہیں، اس کا اندازہ اس روز ہوا جب مشہور ہدایت کار انو راگ باسو پر ایک جوڑے نے حملہ کر دیا۔ انہیں تھپڑ بھی مارا۔ بات صرف اتنی تھی کہ انوراگ نے اپنی انٹرنیٹ سائٹ پر یش چوپڑہ کی فلم ’تارارم پم پم‘ کے مقابلہ میں فلم میٹرو کو اچھی فلم قرار دیا۔اچھاہی ہوا ہم نے فلم پر تبصرہ نہیں کیا۔ پرینکا کے آنسو پرینکا اچھی طرح جھوٹ بھی نہیں بول پاتی ہیں۔ فلم میٹرو وہ اپنی چند دوستوں کے ساتھ دیکھ رہی تھیں اور فلم کے کچھ جذباتی مناظر پر سسکیاں لے کر رونے لگیں، دوستوں نے پوچھا تو آنکھ میں کچرے کا بہانہ کر کے آنسو پوچھنے لگیں۔ہمیں لگتا ہے پرینکا کو جذباتی رول ملنے ہی چاہیئے۔ اچھی اداکاری کے لیے اور کس لیے؟ کنگ خان کا ڈپلی کیٹ دلیپ کمار کا ڈپلی کیٹ سب کنگ خان کو مانتے ہیں اب کنگ خان کا ڈپلی کیٹ بھی آگیا ہے، جی ہاں اور وہ کوئی اور نہیں شاہد کپور ہیں۔ اسی لیے ہمیشہ کنگ خان کو لے کر فلم بنانے والے عزیز مرزا نے اب شاہد کو اپنی آنے والی فلم میں سائن کر لیا ہے۔ |
071224_bollywood_diary_ka | https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2007/12/071224_bollywood_diary_ka | تارے آسماں پر، جودھا کی تقدیر | تارے آسماں پر | عامر کے تارے آسمان کی بلندیوں پر آب و تاب کے ساتھ چمک رہے ہیں۔ بعض ناقدین کے مطابق عامر کی فلم ’ تارے زمین پر‘ اس سال کی سب سے کامیاب فلم ثابت ہو سکتی ہے۔ مسٹر پرفیکٹ نے ثابت کردیا کہ وہ ایک پرفیکٹ اداکار ہی نہیں ایک بہترین ہدایت کار بھی ہیں۔ سال میں صرف ایک لیکن منفرد موضوع کی فلم بنانے والے عامر نے بتا دیا کہ سنیما کمرشل اور ہلکی پھلکی تفریح کے ساتھ بھی کتنا بامقصد ہو سکتا ہے۔آفریں! جان اور انڈروئیر جان ابراہام اب انڈروئیر بیچیں گے۔آپ ہمیں یا جان کو غلط مت سمجھیے۔دراصل جان اپنے نام کا استعمال کر کے اپنی برانڈ JA کے لیبل کے ساتھ جینس پینٹس بیچ چکے ہیں اور اب اس سال وہ بیلٹ اور انڈروئیر لانچ کریں گے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گول اور نو سموکنگ جیسی چند فلمیں فلاپ ہو گئیں تو شاید جان نے فلم انڈسٹری چھوڑ دی۔ نہیں بھئی، ایسا نہیں ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ جان دوسرے ساتھی اداکاروں سے زیادہ عقلمند ہیں۔وہ شاید اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہی وقت ہے نام اور روپیہ کیش کرلو ورنہ پتہ نہیں کل کیا ہو۔ اُف ۔۔پھر غلطی وویک نے پھر غلطی کر دی۔اگر انہیں غلطیوں کا پُتلا کہا جائے تو شاید غلط نہیں ہو گا۔امیتابھ بچن کی والدہ تیجی بچن کی آخری رسومات کی ادائیگی کے موقع پر وویک شمشان بھومی پہنچ گئے اور انہیں دیکھ کر کئی چہروں پر ناگواری اور حیرت کے تاثرات آسانی سے دیکھے جا سکتے تھے۔وویک نے ان سب کو نظر انداز کر کے ابھیشیک کو گلے لگایا اور ہاتھ جوڑ کو باہر چلے آئے۔وویک کی موجودگی نے ایشوریہ کو مضطرب کر دیا۔وویک۔۔۔اگر جگہ شمشان بھومی نہیں ہوتی تو پتہ نہیں آپ کے ساتھ کیا ہوتا۔بھئی کوئی تو سجھائے وویک کو۔۔۔۔۔ رنبیر کی سانوریا رنبیر اور سونم کی’سانوریا‘ چاہے فلاپ ہو گئی ہو لیکن محبت کے دیوتا کا تیر نشانے پر بیٹھ گیا۔ہمارے خبرو نے اکثر دونوں کو ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کبھی ہوٹل میں داخل ہوتے دیکھا ہے تو کبھی لانگ ڈرائیو پر۔بالی وڈ کی ایک اور جوڑی نے جنم لے لیا ہے لیکن اسی کے ساتھ اب ان افواہوں پر بھی روک لگ گئی کہ دیپکا پڈوکون اور رنبیر ’اچھے دوست‘ ہیں۔ ملکہ سیاسی میدان میں چونکیے مت ملکہ شیراوت اصلی زندگی نہیں بلکہ پردے پر سیاست کریں گے۔ ویسے یہ اور بات ہے کہ وہ ہمیشہ ہی سیاستدانوں کی طرح بیان دے کر پلٹ جانے میں ماہر رہی ہیں۔ خیر اصل بات یہ ہے کہ وہ کندن شاہ کی فلم میں اہم رول کریں گی۔ کہانی کے مطابق ملکہ ایک عصمت فروش خاتون ہیں اور سیاست کے گلیاروں میں داخلے کے بعد وہ سیاسی چالیں چلتے ہوئے وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچ جاتی ہیں۔واہ شاہ صاحب بہت سمجھداری سے ہیروئین کا انتخاب کیا۔ سوہا کی خوشی سوہا نےباندرہ میں اپنے نئے گھر میں جب اپنے پاپا منصور علی خان پٹوڈی، مما شرمیلا ٹیگور اور بھیا سیف کو ایک ساتھ دیکھا تو حیرت کے ساتھ ان خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور یہ خوشی اس وقت دوگنی ہو گئی جب سب نے انہیں سدھارتھ کے ساتھ شادی کی اجازت دے دی۔ سدھارتھ آپ کو یاد ہے نا۔ فلم رنگ دے بسنتی میں کام کے دوران ان میں دوستی ہوئی اور یہ دوستی اب جلد ہی رشتے میں بدل جائے گی۔شہنائی بجنے کا ہمیں بھی انتظار ہے۔ لٹکے جھٹکے چاہیئے قطرینہ کیف اب خود کو دیسی رنگ میں رنگنا چاہتی ہیں۔ شاید اسی لیے تو انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں خواہش ظاہر کی کہ وہ کسی فلم میں بالکل دیسی انداز میں لٹکے جھٹکے والا رقص کرنا چاہتی ہیں۔حیرت انگیز نا! ویسے دیکھا جائے تو حیرت کی بات ہی نہیں ہے۔کیٹ بے بی نے سلمان خان کو انگریزی لب و لہجہ دے دیا تو سلمان نے انہیں دیسی انداز۔ ویسے کیا کوئی فلمساز سن رہا ہے کیٹ کی فرمائش۔۔۔ چند منٹ اور ایک کروڑ روپے شاہ رخ خان کا بالی وڈ میں طوطی بول رہی ہے۔ان کی شہرت کے ڈنکے امریکہ لندن جرمنی ہی میں نہیں بلکہ خلیج میں بھی سنائی دے رہے ہیں۔شاید اسی لیے گلف فائنانس ہاؤس نے خان کو اپنی پارٹی میں مدعو کیا اور انہیں محض تیس منٹ کی شرکت کے لیے ایک کروڑ روپے دیے۔اس طرح خان امیتابھ بچن سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔فلم انڈسٹری، اشتہاری کمپنیوں اور اب نجی صنعت کاروں کی اولین پسند خان ہیں۔اور آخر کار۔۔۔ اور آخر کار ملائکہ ارورہ خان نے فلم میں آئٹم رقص کرنے پر اکتفا کرنے کے بجائے فلم سائن ہی کر لی۔اب وہ بہت جلد پردے پر اداکاری بھی کرتی نظر آئیں گی۔ادھر ملائکہ نے فلم ایزی منتھلی انسٹالمینٹ سائن کی اور وہیں ارباز خان کو ہدایت کار مدھربھنڈارکر نے اپنی فلم ’فیشن‘ میں بطور ہیرو سائن کر لیا۔وہ پرینکا چوپڑہ اور کنگنا رناوت کے ساتھ کام کریں گے لگتا ہے دونوں کا کرئیر ایک ساتھ بلندی پر پہنچے گا۔ ابھیشیک کا آئٹم آپ سب جانتے ہیں کہ ابھیشیک مہمان اداکار کے طور پر فلموں میں زیادہ کامیاب مانے جاتے ہیں لیکن اب ابھیشیک خصوصی طور پر آئٹم رقص کریں گے۔ اسی کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والی ایکشن سے بھر پور فلم ’مشن استنبول‘ میں ابھیشیک آئٹم پیش کریں گے۔کوئی بات نہیں ابھیشیک فلم گرو کے بعد ویسے بھی آپ کو ایک کامیاب فلم کی ضرورت ہے کیا پتہ آئٹم رقص کے طور پر ہی سہی لوگ آپ کو یاد رکھیں۔ جودھا اکبر کی تقدیر پتہ نہیں کیا وجہ ہے کہ جودھا اکبر کی نصیب میں پردے پر نظر آنا کیوں نہیں لکھا ہے۔ایشوریہ رائے اور رتیک روشن کی یہ فلم پہلے اکتوبر میں نمائش کے لیے پیش ہونے والی تھی لیکن ایش اپنی فلم پنک پینتھر اور سرکار راج کی شوٹنگ میں مصروف ہو گئیں اور فلم کی ڈبنگ نہیں ہو سکی۔پھر خبر آئی کہ فلم جنوری میں پیش ہو گی لیکن اب ہمارے خبرو کے مطابق فلم مارچ تک ریلیز ہو جائے تو غنیمت ہے، لیکن اس مرتبہ غلطی ایش کی نہیں ہدایت کار گواریکر کی صحت کی ہے۔ کرینہ سب سے مہنگی اداکارہ کرینہ اس وقت فلم انڈسٹری کی سب سے مہنگی اداکارہ بن گئی ہیں جی ہاں انہیں کرن جوہر نے اپنی فلم کے لیے ساڑھے تین کروڑ روپیوں میں سائن کیا ہے۔رانی مکھرجی ،ایشوریہ رائے ، پرینکا چوپڑہ ایک فلم کے دو کروڑ روپے لیتی ہیں لیکن کرینہ نے بازی مارلی۔ |
140314_swastika_history_sq | https://www.bbc.com/urdu/world/2014/03/140314_swastika_history_sq | سواستکا: ہِٹلر نے کِیا بدنام | سواستکا۔۔۔ | اپنی قدیم اور جدید شکل میں سواستکا برطانیہ میں بہت مقبول علامت ہے اس ایک لفظ اور اس سے منسلک نشان میں بہت کچھ پوشیدہ ہے۔ ایک ارب سے زیادہ ہندوؤں کے لیے اس لفظ کا مطلب ’اچھائی‘ اور اچھی قسمت ہے، جبکہ دوسرے لوگوں کو صلیب اور اس کے مُڑے ہوئے سِروں سے بنا ہوا یہ نشان ہٹلر کی نازی حکومت اور اس کی پالیسیوں کی یاد دلاتا ہے۔ لیکن اپنی نازی نسبت کے باوجود سواستکا کی علامت آپ کو انگلینڈ میں ہر جگہ نظر آئے گی۔ ایسا کیونکر ہوا؟ سواستکا دراصل سنسکرت زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ’اچھائی‘ کے ہیں، لیکن اس کے باوجود اس لفظ اور اس سے منسلک علامت کو آج کل بالکل مختلف اور منفی معنوں میں لیا جاتا ہے۔ اس علامت سے لوگ اس قدر خائف ہیں کہ ایک شخص نے اپنی مقامی حکومت سے مطالبہ کر دیا تھا کہ برطانیہ کی ایسکس کاؤنٹی کونسل کی عمارت پر سنہ 1930 میں کندہ کیا جانے والا سواستکا مٹایا جائے۔ کئی دیگر مقامی لوگوں نے بھی اس مطالبے کی تائید کی تھی۔ ایسکس کاؤنٹی کونسل کی عمارت پر سواستکا ہٹلر کے منظر عام پر آنے سے پہلے کا کندہ ہے اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی ممالک میں سواستکا کے بارے میں سوچ کس قدر بدل چکی ہے اور لوگ نازی جرمنی کے حوالے کی وجہ سے اس نشان کے کتنے خلاف ہو چکے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اڈولف ہٹلر اور نازی پارٹی نے اپنے لیے اس نشان کا انتخاب کِیا کیوں؟ نازی پارٹی نے سواستکا کو سنہ 1920 میں باقاعدہ طور پر اپنایا۔ انھوں نے اس کو ’ہاکن کروز‘ کا نام دیا جس کا مطلب ہے ’مڑے ہوئے سِروں والی صلیب‘۔ لندن کی یونیورسٹی آف آرٹس سے منسلک ڈاکٹر میلکم کوِن کہتے ہیں کہ نازی پارٹی کی اس نشان کو منتخب کرنے کے وجہ یہ تھی کہ یہ نشان تاریخی طور پر فاتح آریاؤں کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ بیسویں صدی کے اوائل کے کچھ دانشوروں کا خیال تھا کہ آریا نسل کے لوگوں نے کئی صدیاں پہلے ہندوستان کو فتح کر کے وہاں اپنی دھاک بٹھائی تھی۔ ان دانشوروں کا کہنا تھا کہ جن آریاؤں نے ابتدائی طور پر انڈیا کو زیر تسلط کیا وہ دراصل سفید فام لوگ تھے جن کے آباؤ اجداد کا تعلق جرمن نسل سے تھا۔ ڈاکٹر میلکم کوِن کہتے ہیں کہ ’ہٹلر نے اصل میں یہ کِیا کہ قدیم جرمنی کے پرچم پر ایک فاتح قوم کے سواستکا کے نشان کو چسپاں کر کے اسے اپنی جماعت کا پرچم بنا دیا۔اور یوں انھوں نے جرمنی کو ایک نئی شناخت دی، ایک ایسی قوم کی شناخت جس کا نصب العین دنیا کو فتح کرنا اور دوسرے ممالک کو اپنے زیر تسلط کرنا ہے۔ ’یوں نازیوں نے خود اپنی ایک نئی تاریخ گڑھ لی اور چند ہی دہائیوں میں سواستکا کو اس کے اصل معانی سے الگ کر کے اسے نئے معنی دے دیے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ سواستکا کی تاریخ ہٹلر اور نازی پارٹی سے صدیوں پرانی ہے۔ آکسفرڈ یونیورسٹی کے ہندو مت کے مطالعے کے شعبے سے منسلک ڈاکٹر جسیکا فریزئر نے بی بی سی کو بتایا کہ سواستکا کے آثار چین، منگولیا، قدیم امریکہ سمیت برطانیہ کے جزیروں پر جا بجا ملے ہیں۔ ’سواستکا کے اصل معنی کیا ہیں۔ میرا خیال ہے یہ ایک معمہ ہی رہے گا۔ شاید مختلف تہذیبوں میں اس نشان کے مقبول ہونے کی وجہ اس کی مخصوص دلچسپ ساخت سے زیادہ نہ ہو۔‘ یا شاید قدیم زمانے میں اس نشان کے مذہبی یا فلکیاتی علم کے حوالے سے کوئی معنی تھے۔ اس بات کا امکان نہیں رہا کہ آئندہ یہ نشان کسی عوامی عمارت پر کندہ کیا جائے جہاں تک برطانیہ میں بے شمار مقامات پر سواستکا کے نشانات پائے جانے کا تعلق ہے، تو ان کا آغاز اٹھارہویں صدی میں ہوا اور برطانیہ میں سواستکا انڈیا سے آیا۔ مشہور مصنف رُڈیارڈ کِپلنگ چونکہ انڈیا سے بہت متاثر تھے، اس لیے ان کی تمام کتابوں کی جلدوں پر سواستکا بنا ہوا ہوتا تھا۔ آکسفرڈ یونیورسٹی کے ہندو مت کے مطالعے کے مرکز کے ڈائریکٹر شانُوکا رِشی داس کا کہنا ہے کہ مغربی لوگوں کی اکثریت کو سواستکا دیکھتے ہی نازی جرمنی کی یاد آ جاتی ہے۔ لیکن آپ کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ سواستکا کی روایت نازی جرمنی سے صدیوں پرانی ہے اور نازیوں نے اس نشان کا غلط استعمال کر کے اس کی شہرت کو خراب کر دیا ہے۔ ہندؤوں کے لیے یہ نشان مذہبی اہمیت رکھتا ہے، اسی لیے برطانیہ میں جن دو پہلی عمارتوں میں اس کے آثار ملتے ہیں، وہ دونوں عمارتیں لارڈ کرشنا کی پوجا کے لیے مختص رہی ہیں۔‘ لگتا یہی کہ مستقبل میں بھی ہندو عبادت گاہوں وغیرہ میں تو لوگ سواستکا بناتے رہیں گے، لیکن نازی پارٹی نے اس نشان کو جو منفی معنی پہنا دیے ہیں ، اس کے بعد اس بات کا امکان نہیں رہا کہ آئندہ یہ نشان کسی عوامی عمارت پر کندہ کیا جائے۔ |
071209_delhi_diary_awa | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/12/071209_delhi_diary_awa | مودی کے ستارے، بابری مسجد مقدمہ | مودی کے ستارے عروج پر | گجرات میں انتخابی مہم کے دوران کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کی جانب سے وزیر اعلی نریندرمودی کو ’موت کا سوداگر‘ کہے جانے کے بعد اسمبلی انتخابات میں اچانک گرمی پیدا ہوگی ہے۔ مودی نے اس کے جواب میں، سہراب الدین جیسے ’ دہشت گردوں‘ کے قتل کو جائز ٹہرانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتانے کی کوشش کی صرف وہی گجرات کے ہندوؤں کو ’اسلامی شدت پسندوں‘ سے تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔ مودی کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین برس میں مسلم دہشت گردوں نے ساڑھے پانچ ہزار سے زیادہ ہندوستانیوں کو قتل کیا ہے لیکن کانگریس کی مرکزی حکومت پارلمینٹ پر حملہ کرنے والے سزا یافتہ دہشت گرد افضل گرو کو پھانسی پر نہیں لٹکا سکی۔ نریندر مودی نے ایک بار پھر گجرات کے انتخابات کو بہت خوبصورتی سے ہندو بمقابلہ مسلم دہشت گرد اور گـجراتی بمقابلہ غیر گجراتی میں تبدیل کردیا ہے۔ فی الحال مودی کا ستارہ عروج پر نظر آرہا ہے لیکن کانگریس کی قیادت اس بار کافی پر اعتماد ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ چھ دسمبر کو بابری مسجد کے انہدام کی برسی تھی۔ اس بار بھی ہندوؤں کی کچھ انتہا پسند تنظیموں کے کچھ کارکنوں نے اس دن کو ’یوم شجاعت‘ کے طور پر منانے کی کوشش کی لیکن کسی نے ان کی طرف توجہ بھی نہیں دی۔ ادھر بابری مسجد کے انہدام کے پندرہ برس بعد گزشتہ دنوں انہدام کے مقدمے کی سماعت شروع ہوگئی۔ انہدام کا ایک مقدمہ رائے بریلی اور ایک لکھنؤ کی عدالت میں درج ہے۔ پندرہ برس بعد اس کی سماعت شروع ہوئی ہے تو اس مقدمے کا انجام کیا ہوگا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ انسانی سمگلنگ کا ایک منافع بخش کاروبار غیر قانونی طور پر لوگوں کو امریکہ اور یوروپی ممالک پہنچانےکا کاروبار اتنا منافع بخش ہے کہ اس کے لالچ میں بظاہر کئی با اختیار لوگ بھی آچکے ہیں۔ گزشتہ دنوں تفتیشی ادارے سی بی آئی نے فوج کے ایک بریگیڈیر اور ایک لفٹینٹ کرنل کی بیوی کو انسانی سمگلنگ کے معاملے میں حراست میں لے لیا۔ فوج کے بعض افسران فوجی بینڈ کو جاری کیے جانے والے مخصوص ’ سفید پاسپورٹ ‘ میں دھاندلی کر کے دیگر افراد کو خطیر رقم لے کر یوروپ پہنچاتے تھے۔ ’را ‘ اور ’ آئی بی میں ہلچل‘ کٹھمنڈو باہر کی دنیا میں صرف سیاحت کے لیے جانا جاتا ہے۔ لیکن مقامی صحافیوں دانشوروں اور سیاسی حلقوں میں یہ مختلف بیرونی ’ایجنسیوں ‘ کی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہے۔ نیپال کے دارالحکومت میں سی آئی اے، ایم آئی فائیو، آئی ایس آئی اور را انٹیلی جینس بیورو کافی سرگرم ہیں۔ اطلاع کے مطابق ہندوستان کے را اور انٹیلیجنس بیورو کا ہندوستان کے باہر سب سے بڑا مرکز کٹھمنڈو میں ہی ہے۔ان تمام ایجنسیوں کی سرگرمیوں سے دانشوروں اور سیاسی حلقوں میں کافی تشویش رہی ہے لیکن اب جب کہ شاہی نظام اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایک مکمل جمہوری نظام کے قیام کا آثار نظر آرہے ہیں۔ کٹھمنڈو میں بیرونی خفیہ اداروں کی سرگرمیوں کے بارے میں بے چینی بڑھنے لگی ہے۔ گزشتہ دنوں نیپال کے ایک ہفتہ روزہ اخبار نے کٹھمنڈو میں واقع ہندوستانی سفارتخانے میں تعینات ’را ‘ اور انٹیلی جنس بیورو کے اعلٰی افسروں کے نام اور انکے عہدے وغیرہ کی تفصیلات شائع کردیں۔ خفیہ اہلکاروں کے نام سامنے آتے ہی ان اداروں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ ہندوستان میں اس بات پر تشویش ہے کہ اخبار نے بغیر سیاسی تحفظ اور ترغیب کے خفیہ ایجینسوں کی فہرست شائع نہیں کی ہوگی۔ یوپی: بندوقوں کی ریاست یو پی میں نو لاکھ سے زیادہ لائسنس یافتہ بندوقیں اور پستول موجود ہیں۔ ترقی کے اعتبار سے یہ ملک کی بدترین ریاستوں میں شامل ہے یہاں اب بھی بندوق اور پستول لے کر چلنا سماجی حیثیت اور دبدبے کا حصہ مانا جاتا ہے۔ کانپور میں سب سے زیادہ لائسنس یافتہ بندوقیں ہیں جن کی تعداد دو لاکھ ساٹھ ہزار ہے۔ ضلع مجسٹریٹ کے مطابق اس وقت تقریباً پچاس ہزار مزید درخواستیں زیرِ التوا ہیں۔ پولیس کے اندازے کے مطابق ریاست میں بغیر لائسنس بندوقوں اور پستولوں کی تعداد لائسنس والی بندوقیں بہت زیادہ ہیں۔ گزشتہ برس تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار غیر قانونی بندوقیں برآمد کی گئی تھیں۔ 2005 میں اترپردیش میں 1187 افراد غیر قانونی بندوقوں سے قتل کیے گئے تھے۔ |
040923_mush_majority_rza | https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/09/040923_mush_majority_rza | پاکستان یا دو صوبوں کا ملک؟ | فارسی کا ایک شعر ہے | با ہر کمال اندکے آشفتگی خوش استہر چند عقلِ کُل شدہ ای بے جنوں مباش اس شعر کا سیدھا مطلب تو یہی ہے کہ ہر کمال کے ساتھ تھوڑی سی دیوانگی کا ہونا اچھا رہتا ہے اور یہ کہ بے شک آپ عقلِ کل ہو جائیں، (تھوڑا سا) جنون ساتھ رہنا چاہیئے۔ معلوم نہیں کہ شعر لکھنے والے نے یہ مشورہ کیوں اور کس کو دیا تھا لیکن یہ شعر مجھے یوں یاد آیا کہ جنرل مشرف نے حال ہی میں دعوی کیا ہے کہ ملک کی اکثریت انہیں وردی میں دیکھنا چاہتی ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیا صدر کو وردی میں دیکھنے کی آرزو مند اکثریت ضرورت سے زیادہ جنون میں مبتلا ہے یا پھر خُود اقلیت عقلِ کل ہوگئی ہے؟ ایک بات بہر حال طے ہے کہ صدر پرویز مشرف کو وردی میں دیکھنے والی یہ اکثریت پاکستانیوں کی ہے۔ کیونکہ اگر یہ اکثریت غیر ملکیوں کی ہے تو پھر پوچھنے والے صدر مشرف سے پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ حضور! آپ پاکستانیوں کے لیے باوردی صدر رہنا چاہتے ہیں یا غیر ملکیوں کے لیے؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ یہ اکثریت پاکستان کے کون سے طبقے کی نمائندگی کرتی ہے؟ کیا اس طبقے کی جو جمہوریت پسند ہے یا اس طبقے کی جو جہوریت پسند نہیں ہے۔ ظاہر ہے صدر مشرف کے پرستار یہی کہیں گے کہ پاکستان کا وہ طبقہ جو ’باوردی صدر مشرف‘ کی زیارت کا دائمی ثواب حاصل کرنا چاہتا ہے جمہوریت پسند ہے۔ کیونکہ اگر وہ طبقہ جمہوریت پسند نہیں ہے تو جنرل مشرف جن کی وردی پر لگا ہوا ڈکٹیٹر کا تمغہ وردی کے حسن ہی کو مانند کر رہا ہے ، نئی مشکل میں پھنس جائیں گے۔ کہنے والوں کی زبانیں یہ کہنے سے کیسے رُکیں گی کہ پرویزمشرف غیر جمہوری قوتوں کے بل پر شیروانی پہننے کے ساتھ ساتھ اصل حکمرانی کی خلعت اوڑھنا چاہتے ہیں۔ لہذا مجبوراً یہ کہنا پڑے گا کہ صدر صاحب کے دعوے کے مطابق وہ اکثریت جو انہیں وردی میں دیکھنا چاہتی ہے، جمہوریت پسند ہے۔ پاکستان میں شاید مسلم لیگ سے بڑا کوئی ایسا ’جمہوریت پسند‘ طبقہ نہیں ہے جو ملک کے سربراہ کو وردی میں دیکھنا پسند اور قبول کرے۔ مسلم لیگ کبھی یہ سب کچھ جمہوریت بحال کرانے اور کبھی جمہوریت بچانے کے بہانے کرتی ہے۔ مجھے تو یقین ہے کہ پاکستان کی تقدیر لکھنے والے نےمسلم لیگیوں کوحکمرانی حاصل کرنے کے سارے گُر ودیعت کر دیئے ہیں۔ آج کل لیگی حضرات اسمبلیوں میں ’قراردادِ مشرف‘ پیش کرتے پھر رہے ہیں اور ایسی قراردادیں منظور کر کے فوج کے سربراہ کو ملکی سیاست میں گھسیٹنے کی التجائیں ہو رہی ہیں۔ لہذا فوج کا کہنا کہ خود سیاست دان انہیں اس ’گند‘ میں دھکیلتے ہیں درست ہے اس فرق کے ساتھ کہ جنہیں فوج سیاست دان کہتی ہے وہ پاکستان کی سیاست سے دان وصول کرنے والے لوگ ہیں۔ مجلس عمل والوں نے ایک سال پہلے جنرل پرویز مشرف کو صدر پرویز مشرف بنانے کا جو ’گناہ‘ کر دیا تھا آج کل وہ اس گناہ کا داغ دھونے کی کوشش میں ہیں۔ جنرل مشرف کی حمایت کا جواز انہوں نے پہلے بھی پیش کیا تھا صدرمشرف کی مخالفت کی دلیل ’ظالموں‘ کے پاس اب بھی ہے۔ خیر! مجلس والوں کے ہنگاموں کا شور مسلم لیگیوں کے وفاداری کے نغموں میں دب سا گیا ہے۔ جنرل صاحب کو یقین ہوگیا ہے یا پھر دلا دیا گیا ہے کہ اکثریت انہیں وردی میں دیکھنا چاہتی ہے۔ ایک ’ثبوت‘ تو یہی ہے کہ دو اسمبلیوں یعنی سندھ اور پنجاب کی صوبائی اسمبلیوں میں ’قراردادِ مشرف‘ منظور ہو چکی۔ لیکن سرحد اسمبلی نےاس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا ہے جبکہ بلوچستان میں ناکامی کے ڈر سے قرارداد پیش کر کے واپس لے لی گئی۔ لہذا حساب تو صاف ہو گیا۔ چار میں سے دو صوبائی اسمبلیاں نہیں چاہتیں کہ صدر مشرف وردی پہننے والے صدر ہوں۔ تو پھر یہ اکثریت کا دعویٰ کیسا؟ ہُوا تو اصل میں یوں ہے کہ ملک کے دو صوبوں نے صدر کو وردی والا صدر بنانے کے خلاف ووٹ دے دیا ہے۔ خرابی بس یہ ہے کہ صدر کی مخالفت کرنے والے یہ بے چارے دونوں صوبے چھوٹے ہیں۔ ممکن ہے کہ اپنی مرضی کے دو صوبوں کی رائے ہی کواکثریت کی رائے شمار کرنے کا رواج پڑ گیا ہو۔ شاید صدر مشرف کی عقل نے بھی انہیں یہی سمجھا دیا ہو کہ اکثریت اپنی مرضی کے دو صوبوں کی اسمبلیوں کے فیصلے کانام ہے۔ مگر ایسا سمجھنے والےصرف وہی صاحبانِ عقل ہو سکتے ہیں جنہیں یہ زُعم ہو کہ وہ عقلِ کُل ہیں۔ کیونکہ جن میں عقل کے ساتھ ساتھ ذرا سا جنون بھی ہے انہیں پتہ ہے کہ انٹیلی جنس کی رپورٹوں سے یہ فیصلے نہیں ہُوا کرتے کہ اکثریت کا دل کیا چاہتا ہے۔ |
060820_iraq_violence_na | https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/08/060820_iraq_violence_na | عراق تشدد: اعداد و شمار کے آئینے میں | عراق میں خونریزی | عراق میں جاری خونریزی کے مصدقہ اعداد و شمار جمع کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ تاہم مختلف ذرائع سے ملنےوالی تعداد کی بنیاد پر ایک ایسے علاقے کی تصویر کشی ہوتی ہے جہاں مزاحمت کاروں کے حملے اور فرقہ وارانہ ہلاکتیں معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ 2003 کے بعد سے عراق کے کچھ علاقوں میں مزاحمت کاروں کے حملے بڑھ گئےہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران صدام حکومت کے خاتمے کے بعد سے عراق میں بدترین تشدد دیکھنے میں آیا ہے۔ 2005 میں اتحادی فوج پر کئے گئے حملوں میں ہلاک یا زخمی ہونے والے اسی فیصد عام شہری تھے۔ فروری 2006 میں سمارا میں شیعہ مزار پر حملے کے بعد سے فرقہ وارانہ تشدد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ حملوں میں اضافے کے ساتھ حملوں کے طریقوں میں بھی جدت آئی ہے۔ 2004 کی نسبت 2005 میں کار بم حملوں اور خودکش کار بم حملوں میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ جون 2006 میں 57 کار بم حملے کیئے گئے۔ مزاحمت کاروں کی تعداد کے بارے میں بھی مختلف اندازے پائےجاتے ہیں۔امریکی ذرائع کے مطابق 2004 تک یہ تعداد 5000 تھی جوکہ بعد میں بڑھ کر 12000 سے 16000 تک جاپہنچی۔ 2006 میں یہ تعداد 8000 سے لے کر 20000 تک بتائی گئی۔ عراقی انٹیلیجنس ذرائع یہ تعداد 40000 کے قریب بتاتے ہیں، جن کے 160000 حامی موجود ہیں۔ بیشتر مزاحمت کار عراقی سنی بتائے جاتے ہیں جبکہ عراق میں آنے والے بیرونی مزاحمت کار صرف 10 فیصد ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد 2005 کے اوائل سے تشدد کا ایک نیا اور بیہمانہ انداز سامنے آیا ہے۔ حملہ آور کئی لوگوں کو اجتماعی طور پر ہلاک کرکے ان کی لاشیں کسی دور دراز مقام یا کسی خالی بس پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ان لاشوں پر تشدد کے نشانات بھی پایے جاتے ہیں۔ ایسی ہلاکتوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ انہیں واقعات کے بعد سمارا بم حملے کا واقعہ ہوا۔ لاشوں کی شناخت کی بنیاد پر بیشتر ہلاکتوں کو فرقہ وارانہ کہا جاسکتا ہے۔ تاہم عراق میں فرقہ وارانہ ہلاکتوں اور دیگر ہلاکتوں کی تعداد میں فرق کرنا مشکل ہے۔ کل ہلاکتوں کا اندازہ ملک کے مردہ خانوں کی حالت سے ہوتا ہے تاہم نامہ نگاروں کے مطابق یہ اندازہ بھی اتنا درست نہیں کیونکہ تمام کاشیں مردہ خانوں میں نہیں لائی جاتیں۔ بے گھر عراقی عراق میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد میں بھی سمارا واقعہ کے بعد سے تیزی سےاضافہ ہورہا ہے۔ اگست تک 137862 افراد بے گھر ہوچکے تھے۔ یہ لوگ عارضی خیموں یا دوست رشتہ داروں کے گھروں پر قیام پذیر ہیں۔ مذہبی طور پر ملی جلی آبادی والے علاقوں سے لاکھوں لوگ دوسرے علاقوں میں منتقل ہوچکےہیں جہاں ان کے خیال میں وہ محفوظ ہیں اور جہاں ان کے اپنے فرقہ کے لوگوں کی اکثریت ہے۔ |
070708_delhi_diary_rs | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/07/070708_delhi_diary_rs | دلی ڈائری: صدر کی سادگی، مہنگی کاریں | صدر کلام کی سادگی | ایک طرف حکمراں اتحاد کی صدراتی امیدوار پرتبھاپاٹل پر مالی بدانتظامیوں سے لے کر اقرباء پروری تک کے الزامات لگ رہے ہیں تو دوسری جانب حزب اختلاف کے حمایت یافتہ بھیروں سنگھ شیخاوت کی ماضی کی منفیات تلاش کی جارہی ہیں۔ ان سرگرمیوں سے الگ موجودہ صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام خاموشی سے اپنے عہدے کی مدت پوری کر رہے ہیں۔ صدر کلام بہت سادہ لوح انسان ہیں۔ چند ماہ قبل تمل ناڈو کے ان کے گاؤں سے ان کے بڑے بھائی سمیت تقریباً ساٹھ افراد ان سے ملنے دلی آئے۔ یہ سب ہی لوگ 340 کمرے والے ایوانِ صدر میں ایک ہفتے تک ٹھہرے۔ ڈاکٹر کلام نے ان افراد کے ٹھہرنے سے لیکر کھانے پینے تک کے اخراجات اپنے اکاونٹ سے ادا کیے۔ یہی نہیں تاریخی مقامات کی سیر اور دوسرے مقامات پر جانے کے لیے ایک بار بھی سرکاری کار کا استعمال نہیں کیا گیا۔ صدر نے ان کے لیے اپنے پیسوں سے بس کرائے پر لی تھی۔ ڈاکٹر کلام چوبیس جولائی کو سبکدوش ہونے کے بعد اناملئی اور میگھلیہ یونیورسٹی میں لیکچرز دیا کریں گے۔ ہندوستان کی جنگ آزادی میں لاکھوں افراد نے حصہ لیا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے۔ ہزاروں جیل گئے۔ آزادی کے بعد حکومت نے ان مجاہدین کی خدمات کے عوض انہیں پینشن اور سفر وغیرہ میں کچھ مراعات دینی شروع کیں۔ آزادی حاصل کیے ساٹھ برس گزر چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہزاروں مجاہدین آزادی اس دوران انتقال کرگئے تاہم دلچسپی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں مجاہدین آزادی کی تعداد بجائے گھٹنے کے بڑھ رہی ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق مجاہدین آزادی کی تعداد میں پچھلے تین سال میں دو ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔ اب پینشن پانے والے مجاہدین کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ ستر ہزار ہوگئی ہے۔ کہتے ہیں مجاہدین آزادی ہمشہ ’امر‘ رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہندوستان اور پاکستان نے مذاکرات کے دوران اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ تمام شہری اور ماہی گیر جو غلطی سے بھٹک کر ایک دوسرے کی بری اور بحری حدود میں آنے کی وجہ سے جیلوں میں ہیں اور اپنی سزائیں پوری کرچکے ہیں انہیں رہا کر دیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس طرح کے سمجھوتے دونوں ملکوں کے درمیان تقریباً ہر سال ہوتے رہے ہیں اور جب تک کچھ شہری اور ماہی گیر رہا کیا جاتے ہیں تب تک اس سے بھی کہیں زیادہ تعداد میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کی جیلوں میں اس وقت سینکڑوں افراد قید ہیں جو سزائیں پوری کرنے کے بعد بھی بغیر کسی جرم کے سات سات آٹھ سال تک قید میں گزارتے ہیں۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ ان غریب شہریوں کے لیے دونوں ملکوں میں کوئی ہمدردی نہیں ہوتی اور یہ سمجھوتے بھی دونوں ملکوں کی خارجی سیاست کی مجبوریوں کے تحت ہوتے ہیں۔ جرمنی کی مہنگی کار مرسیڈیز ہندوستان میں امیر ترین لوگوں کے لیے مخصوص ہے۔ ملک میں جیسے جیسے پیسے کی فراوانی بڑھ رہی ہے ویسے ویسے مہنگی کاروں کی فروخت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ ہندوستان میں اس وقت سوا لاکھ سے زيادہ ایسے افراد ہیں جن کی دولت اور اثاثے چار کروڑ روپے سے زيادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے لدھیانہ جیسے چھوٹے شہر میں سات سو پچاس سے زائد مرسیڈیز کاریں ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ مرسیڈیز جیسی مہنگی کاروں کی فروخت میں اب کولہاپور، جے پور اور بھنیشور جیسے چھوٹے شہر آگے آ رہے ہیں۔ |
060415_deccandairy_sen | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/04/060415_deccandairy_sen | بش کے حلیف کی آمد: دکن ڈائری | بش کے بعد بش کے حلیف | صدر جارج بش کے بعد اب لگتا ہے کہ حیدرآباد ان کے قریبی حلیفوں کی منزل بھی بن گیا ہے۔ چنانچہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے اس ہفتے حیدرآباد میں دو مصروف ترین دن گزارے۔ ان کے ساتھ ایک 85 رکنی وفد بھی تھا جس میں روایتی لباس میں ملبوس اور سر پر بڑے بڑے صافے باندھے قبائلی افغانی مرکز توجہ بنے ہوئے تھے۔ بڑی روانی کے ساتھ انگریزی بولنے والے حامد کرزئی اور ان کے ساتھ آئے پشتو بولنے والے دوسرے ارکان افغانستان کی دو الگ الگ تصویریں پیش کررہے تھے۔ حیدرآباد میں حامد کرزئی کی مصروفیات اور ان کی باتیں افغانستان کی اس امیج سے بہت مختلف تھی جو یہاں لوگوں کے ذہنوں میں ہے۔ کرزئی نے اپنا پورا وقت ہائی ٹیک سٹی اور دوسرے سائنسی اور تعلیمی مراکز میں گزارا اور خواہش کی کہ ایسے مراکز ان کے ملک میں بھی بنیں اور اسی ٹکنالوجی سے ان کی قوم کو بھی فائدہ پہنچے۔ امریکہ کی پشت پناہی رکھنے والے حامد کرزئی اور ان کے وفد کے دوسرے ارکان کو اپنے ایک پروگرام میں اس وقت ایک دلچسپ صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب کہ حیدرآباد میں ایران کے قونصل جنرل آغا حسین راوش بھی ایک مہمان کی حیثیت سے وہاں پہنچے۔ حامد کرزئی نے تو خیر ان سے ملاقات کی، مصافحہ کیا اور ان کے خیریت دریافت کی لیکن دوسرے عہدیدار کے چہرے سے ہچکچاہٹ عیاں تھی کہ پتہ نہیں اس مرحلہ پر افغان۔ایران ملاقات سے ’دوسروں‘ کو کیا پیام ملے؟ اب حیدراباد میں لوگ پوچھہ رہے ہیں کہ کیا حامد کرزئی کے بعد پرویز مشرف بھی حیدراباد کا رخ کرنے والے ہیں۔ بنگلور کا امیج تباہ جنوبی ہند میں فلموں اور فلم اسٹارز کے لیےلوگوں کی دیوانگی ایک افسانوی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں کے لوگوں کو فلموں کا اس قدر جنون ہے کہ وہ اپنے ایک اور جنوبی ریاست کرناٹک میں حالانکہ کسی بھی فلمی ہیرو ہیروئن کی حکومت نہیں رہی لیکن کنڑ فلمی صنعت کے سب سے بڑے اداکار راج کمار کئی برسوں تک کرناٹک کے عوام کےدلوں پر راج کرتے رہے۔ انہیں کنڑ بولنے والے لوگوں میں ایک خاص مقام حاصل تھا اور انہیں اس زبان اور ثقافت کی علامت کی حیثیت سے دیکھا جاتا تھا۔ راج کمار کے مداح انہیں جس جنونی انداز میں چاہتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اپنی سینکڑوں فلموں میں سے کسی بھی فلم میں انہیں اسکرین پر مرتا ہوا نہیں دکھایا گیا تھا۔ حالانکہ ایک ہندو دیومالائی کہانی پر مبنی ایک فلم میں انہیں قتل ہونا تھا لیکن راج کمار کے پرستاروں کے قہر سے بچنے کے لیے فلم ساز کو کہانی ہی بدلنی پڑی لیکن جب اسی فلمی ہیرو کی اس ہفتے حقیقی زندگی میں موت ہوگئی تو یہ پرستار اس حقیقت کو بھی قبول کرنے پر تیار نہیں ہوئے اور پورا بنگلور شہر ان کے جذبات کی آگ سے بھڑک اٹھا۔77 سالہ راج کمار کی طویل علالت کے بعد جب موت ہوئی تو شہر بنگلور لاقانونیت کی لپیٹ میں آگیا۔ ریاست کے کونے کونے سے ہزاروں لاکھوں پرستاروں کا ایک سیلاب شہر میں امڈ آیا اور جو چیز بھی اس کے راستے میں آئی وہ اسے روندتا چلا گیا۔ دکانوں، پٹرول پمپس، تھیٹروں پر حملے کیے گئے سرکاری اور نجی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔ پولیس والوں کی پٹائی کی گئی۔ ایک پولیس والے کو کچل کر مار دیا گیا اور ان کے ارتھی کے جلوس تک صورتحال اس قدر خراب ہوگئی کہ پولیس کو فائرنگ کرنی پڑی اور اس میں سات افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ وہ اس تشدد کی یاددہانی تھی جو کچھ برس قبل صندل کی لکڑی کے اسمگلر ویرپن کے ہاتھوں راج کمار کے اغواء کے بعد دیکھنے میں آئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کی کرناٹک کی حکومت نے ایک بھاری زر تاوان ادا کر کے راج کمار کو ویرپن سے چھڑایا تھا۔ بہرحال راج کمار کے پرستاروں کی لاقانونیت تشدد اور ہلاکتوں نے بنگلور کی ہائی ٹیک امیج کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور اس سے آئی ٹی کمپنیوں اور کال سنٹرز کی صنعت کو بھی بہت نقصان ہوا کیونکہ اس کا اثر براہِ راست امریکہ اور برطانیہ کے ان لوگوں پر پڑا جو ان کال سنٹرز سے رابطہ قائم کرتے ہیں۔ آئی ٹی کمپنیوں کو ڈر ہے کہ اس سے مستقبل میں ان کے کاروبار پر برا اثر پڑے گا ویرپن کی بیوہ انتخابی میدان میں ویرپن کے ذکر پر یاد آیا کہ تامل ناڈو کے اسمبلی انتخابات میں صندل کی لکڑی کے اس خطرناک اسمگلر ویرپن کی بیو ہ متھو لکشمی بھی حصہ لے رہی ہیں۔ وہ پیناگرام حلقہ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑیں گی۔ متھو لکشمی |
pakistan-55614432 | https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55614432 | چوہدری اسلم: ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ کہلائے جانے والے سندھ پولیس کے افسر ہیرو تھے یا ولن؟ | چیخ انتہائی دردناک تھی۔۔۔ | مجھ جیسے کمزور دل انسان سے رہا نہیں گیا۔ دل کڑا کر کے میں نے پوچھ ہی لیا۔ ’کون چیخ رہا ہے؟ کیا ہو رہا ہے؟‘ ’کچھ نہیں، سرکاری کام ہو رہا ہے،‘ چوہدری اسلم نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ یہ غالباً سنہ 1999 کی ایک سرد صبح تھی اور لگ بھگ صبح دس بجے کا وقت تھا۔ کراچی کے ناظم آباد تھانے کی عمارت کے عقب میں آرام کے لیے مخصوص اپنے ’بیڈروم‘ میں بستر پر نیم دراز (اُس وقت کے) ڈی ایس پی ناظم آباد چوہدری اسلم ابھی میرے آنے پر ہی نیند سے بیدار ہوئے تھے۔ اور میں اُسی ’بیڈ روم‘ کی دیوار کی دوسری جانب کسی کے مسلسل چیخنے سے انتہائی بے چین تھا۔ ’تم آئے کیوں ہو؟‘ اب چوہدری اسلم نے مجھ سے سوال کیا۔ ’نا تو یہ میرے جاگنے کا وقت ہے نہ تیرے۔۔۔ کیوں آیا ہے تو؟‘ چوہدری اسلم نے پھر پوچھا۔ یہ بھی پڑھیے عابد حسین ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ عابد باکسر کیسے بنا؟ گردن توڑ کر قتل کرنے والا لاہور کا مالشیا ’سیریل کِلر‘ کیسے بنا؟ سونے کی سمگلنگ میں انڈیا کی اجارہ داری ختم کرنے والے پاکستان کے ’گولڈ کنگ‘ سیٹھ عابد میں نے چوہدری اسلم کو جواب دینے کی بجائے اپنے ’استاد‘ اور (اُس وقت اُردو کے اخبار) ’جسارت' کے کرائم رپورٹر اے ایچ خانزادہ کی جانب مدد طلب نگاہوں سے دیکھا۔ خانزادہ کو ساتھ لے کر ہی میں چوہدری اسلم سے ملنے آیا تھا۔ ’یار اسلم، تم کسی پلمبر کو (گرفتار کر کے) لائے ہو کیا؟‘ مجھ سے کیے گئے سوال کے جواب میں اے ایچ خانزادہ نے چوہدری اسلم سے سوال کیا۔ ’ہاں، لائے ہیں۔ مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو؟‘ اسلم خان نے سوال کیا۔ ’بھئی اب یہ تم ہی بتاؤ۔‘ اے ایچ خانزادہ نے گردن میری جانب گھمائی۔ میں اُس وقت کراچی کے انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کا کرائم رپورٹر تھا۔ چوہدری اسلم کی بات بالکل درست تھی۔ یہ وقت نہ میرے جاگنے کا تھا نہ اے ایچ خانزادہ کا اور نہ ہی چوہدری اسلم کا۔ شدید ترین تشدد کا شکار اُس زمانے کے کراچی میں کام کرنے والے ہم تمام کرائم رپورٹرز اور پولیس افسران عموماً رات بھر کام کیا کرتے تھے اور دن چڑھے تک سویا کرتے تھے۔ آج سے لگ بھگ سات برس قبل، یعنی نو جنوری 2014 کو ایک مبینہ خودکُش حملے میں ڈرائیور اور محافظ کے ساتھ ہلاک ہو جانے والے چوہدری اسلم نہ تو خاندان یا ذات کے لحاظ سے چوہدری تھے، نہ چوہدری کا خطاب اُن کے نام کا حصّہ تھا اُس صبح میں بھی عمران اسلم کی ایک بے وقت فون کال سے بیدار ہوا تھا۔ عمران اسلم اُس وقت دی نیوز کے ایڈیٹر اور میرے ’باس‘ تھے۔ عمران اسلم نے مجھے بتایا کہ پولیس ان کے گھر میں کام کرنے والے پلمبر کو گرفتار کر کے لے گئی ہے۔ ’کیا تم جا کر میرا پلمبر واپس لاسکتے ہو؟‘ عمران اسلم نے مجھ سے پوچھا۔ فون بند ہوا تو میں نے ایچ اے خانزادہ کو فون کیا اور ذرا ہی دیر میں ہم یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ پلمبر کو چوہدری اسلم لے گئے ہیں۔ اور اب میں نے اور ایچ اے خانزادہ نے ناظم آباد تھانے پہنچ کر بے وقت چوہدری اسلم کو بھی نیند سے اٹھا دیا تھا۔ میں، خانزادہ صاحب اور چوہدری اسلم تینوں اُس بیڈروم میں تھے جس کی دیوار کی دوسری جانب سے آنے والی چیخیں سُن سُن کر میرا دل دہلا جا رہا تھا۔ اور چوہدری اسلم ان چیخوں کی وجہ ’سرکاری کام‘ قرار دے رہے تھے۔ بالآخر چائے کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں پر مشتمل چوہدری اسلم کے عملے کے کچھ ارکان ایک پریشان حال شخص کو لے کر کمرے میں داخل ہوئے۔ ’کیا بتایا اِس نے؟‘ چوہدری اسلم نے پولیس اہلکاروں سے پوچھا۔ ’بول ہی نہیں رہا صاحب۔۔۔‘ ایک اہلکار نے جواب دیا۔ چوہدری اسلم میری طرف مڑے اور کہا ’سرکاری کارروائی پر بھی نہیں بول رہا تیرا یہ۔۔۔پلمبر۔‘ چوہدری اسلم کے لہجے میں اب تک نیند سے جلد بیدار ہو جانے والی بیزاری تھی۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ یہی وہ پلمبر ہیں جنھیں میں ’چھڑوانے‘ کے لیے آیا ہوں اور چیخیں بھی ان ہی کی تھیں جنھیں سُن سُن کر میرا دل ڈوبا جا رہا تھا۔ صحافی اے ایچ خانزادہ: ’کوئی چیز تو تھی جس نے اُس کو ایس پی بلکہ طاقتور ترین پولیس افسر بنا دیا، اور میرے خیال میں وہ اس کا کام تھا۔' ’کیوں ہو رہا ہے آپ کے ساتھ یہ سب کچھ؟‘ میں نے پلمبر سے پوچھنا چاہا۔ ’میں بتاتا ہوں۔‘ چوہدری اسلم نے مداخلت کی۔ ’اس کا بھائی دہشت گرد ہے۔ ہم اُسے ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس کو پتا ہے کہ بھائی کہاں چھپا ہوا ہے۔ اِس کو کہہ دے اُس بھائی کا پتا ہم کو بتا دے ہم اسے سرکاری کارروائی کے بغیر تیرے حوالے کر دیں گے۔‘ چوہدری اسلم نے اپنے طور پر مجھے ’سودے بازی‘ کی پیشکش کی۔ میں نے پلمبر سے پوچھا ’آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے وہ بھائی کہاں ہیں، جن کا پتا پولیس جاننا چاہتی ہے؟' میرا سوال سُن کر پریشان حال پلمبر کے آنسو بہنے لگے۔ تھوڑی دیر ہونے والی گفتگو کے بعد حیرت انگیز طور پر (یا شاید خانزادہ سے دیرینہ دوستی کو مد نظر رکھتے ہوئے) چوہدری اسلم نے پلمبر کو ’رہا‘ کرنے اور ہمارے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا ’لے جا، لے جا، مگر چائے تو پوری پی لے۔‘ اب اس معاملے میں پولیس افسر چوہدری اسلم میرے لیے ’ہیرو‘ تھے یا ’ولن‘ ۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم۔ تاہم ایک بات جو مجھے ضرور پتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ’چوہدری‘ ہرگز نہیں تھے۔ کراچی پولیس کے (شاید) سب سے معروف افسر بننے والے محمد اسلم خان کو آپ سب ’چوہدری‘ اسلم کے نام سے جانتے ہیں۔ آج سے لگ بھگ سات برس قبل، یعنی نو جنوری 2014 کو ایک مبینہ خودکُش حملے میں ڈرائیور اور محافظ کے ساتھ ہلاک ہو جانے والے چوہدری اسلم نہ تو خاندان یا ذات کے لحاظ سے چوہدری تھے، نہ چوہدری کا خطاب اُن کے نام کا حصّہ تھا۔ پھر نہ معلوم کیوں ،کب ،کس نے اور کیسے اُن کے نام کے ساتھ چوہدری کا سابقہ لگایا جو بالآخر اُن کے نام کا ایسا حصّہ بنا کہ اب تو شاید کم ہی لوگ اُن کے اصل نام سے واقف ہوں۔ سینیئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ سابق ڈی ایس پی ناظم آباد عارف جاہ صدیقی چوہدری اسلم کے استاد تھے۔ عارف جاہ صدیقی کے صاحبزادے آفتاب جاہ صدیقی اب لندن میاں مقیم ہیں اور نہ صرف تجزیہ نگار ہیں بلکہ کراچی اور کراچی پولیس کے اُمور پر بہت گہری نگار رکھتے ہیں۔ اپنے کریئر کی ابتدا میں یہی چوہدری اسلم 'کافی کم گو اور شرمیلے تھے‘ محکمہ پولیس میں شمولیت آفتاب صدیقی کی تحقیق کے مطابق چوہدری اسلم سنہ 1964 میں ضلع مانسہرہ کی تحصیل ’ڈُھڈیال‘ میں پیدا ہوئے اور 31 اکتوبر 1984 کو پولیس میں شمولیت اختیار کی۔ قریباً تمام ہی عرصہ ملازمت کے دوران تنازعات اور تضادات سے گھرے چوہدری اسلم کو قریب اور دور سے جاننے والوں کی رائے ہمیشہ حیرت انگیز طور پر تقسیم رہی ہے۔ جن لوگوں نے انھیں ٹی وی چینلز پر دنیا کے سب سے خطرناک سمجھے جانے والے دہشت گردوں کو دبنگ الفاظ میں للکارتے اور ’چھوڑوں گا نہیں‘ کہتے دیکھا اور سُنا ہے اُن کے لیے اس دعوے پر یقین کرنا بہت مشکل ہے کہ ابتدا میں یہی چوہدری اسلم ’کافی کم گو اور شرمیلے تھے۔‘ چوہدری اسلم کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار ہونے والے کراچی پولیس کے سابق ایس پی لیاری فیاض خان نے کرائم انویسٹگیشن ڈپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) سمیت کراچی پولیس کے کئی شعبہ جات میں چوہدری اسلم کے ساتھ برسوں کام کیا اور ’اچھے بُرے‘ وقتوں میں چوہدری اسلم کے ساتھ رہے۔ فیاض خان کے مطابق چوہدری اسلم کی شمولیت تو ’سندھ ریزرو پولیس‘ کی مشہور زمانہ ’ایگل سکواڈ‘ میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) ہوئی مگر وہ جلد ہی کراچی کی ریگولر (باقاعدہ) پولیس فورس کا حصّہ بن گئے۔ آفتاب صدیقی کے مطابق چوہدری اسلم ترقّی کرتے کرتے پہلے انسپکڑ بنے اور تھانہ گلبہار کے ایس ایچ او مقرر کیے گئے اور 25 فروری 1999 کو ڈی ایس پی ناظم آباد مقرر ہوئے۔ پھر 2000 کی دہائی میں وہ مختلف اوقات میں سپیشل برانچ لاڑکانہ، ایس آر پی سکھر، اینٹی کار لفٹنگ سیل کراچی میں تعینات رہے۔ سنہ 2010 کے دہائی سے اپنی آخری دن تک چوہدری اسلم نے بطور ایس پی، سی آئی ڈی اور انچارج اینٹی ایکسٹریم ازم کرائم خدمات انجام دیں۔ پولیس کی قریباً تیس برس پر مشتمل ملازمت کے دوران وہ ہمیشہ تنازعات اور زبردست اُتار اور چڑھاؤ کا شکار بھی رہے۔ چوہدری اسلم کے ساتھ کام کرنے والے ایک پولیس افسر کے مطابق 'پھر اسلم نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ آئے دن کسی 'پولیس مقابلے' یا متنازع اور 'ماورائے عدالت ہلاکت' سے اُن کا نام جڑنے لگا شہرت کا آغاز چوہدری اسلم کو شہرت یا توجہ تب ملنا تب شروع ہوئی جب وہ سنہ 1992 میں بدترین تشدد کا شکار کراچی میں تھانہ گلبہار تھانے کے ایس ایچ او مقرر کیے گئے۔ یہ وہ دور تھا جب شہر میں خوف و دہشت کا راج قائم تھا۔ نیم فوجی ادارے کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق یہ وہ دور ہے جب کراچی میں عجیب ماحول تھا۔ ’تب کراچی کے کئی علاقوں میں عقوبت خانے (ٹارچر سیل) قائم ہو چکے تھے، مخالفین کا کھلے بندوں اغوا اور قتل ہوتا تھا، ان کی لاشوں کو باقی تمام مخالفین کے لیے عبرت بنا کر بوری میں بند کر کے پھینک دیا جاتا تھا، زندہ انسانوں کے گھٹنوں میں ڈرل مشین سے سوراخ کیے جاتے تھے، کھمبوں سے لٹکا کر ان کو زندہ اور مردہ ٹکڑے کر دیا جاتا تھا، آری، ہتھوڑے اور چھینی سے کاٹنا، ہاتھ پاؤں میں کیلیں ٹھونک دینا، گلے کاٹ دینا، زبان کی بنیاد پر شناخت کر کے لوگوں کو بسوں سے اتار کر مار دیا جانا سب کچھ روز ہوتا تھا۔‘ وہ افسر مزید بتاتے ہیں کہ ’یہی وہ وقت تھا جب شہر میں اسلحے کی بھر مار اور مسلح گروہوں کی حکمرانی قائم ہو چکی تھی۔ کم و بیش ہر سیاسی، لسانی، مذہبی، دینی و فرقہ وارانہ گروہ، تنظیم اور جماعت نے صرف بندوق کے لہجے میں بات کرنی شروع کر دی تھی اور اپنے اپنے مسلح جتھّے قائم کر لیے تھے۔‘ حال یہ تھا کہ خود پولیس کے سربراہ اور 25 ہزار کی فورس کے کمانڈر ڈی آئی جی شعیب سڈل کی حفاظت کے لیے پولیس کی بجائے نیم فوجی ادارے فرنٹئیر کور (ایف سی) کی نفری بھیجی گئی تھی۔ ہر تنظیم کے کارکن اور ہر سیاسی جماعت و گروہ کے ارکان موت کے اس بھیانک کھیل کا شکار ہوئے۔ شہر بھر میں موت کا رقص جاری تھا۔ بالآخر وزیر اعظم بے نظیر بھٹّو کے دوسرے دور حکومت میں ریاست نے کراچی کی بگڑتی ہوئی اس صورتحال پر قابو پانے کا فیصلہ کیا اور جون 1992 میں سندھ میں پہلے ہی سے جاری آپریشن کلین آپ کا دوسرا مرحلہ ’کراچی آپریشن‘ کے عنوان سے شروع کیا۔ اس آپریشن میں اگرچہ پولیس افسران نے آپریشن کے اہداف حاصل کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی مگر خوف اور طاقت کا جواب خوف اور طاقت سے ہی دینے کے اس فیصلے سے پولیس اور سیاسی طور پر متحرک جرائم پیشہ اور دہشت گرد عناصر کے درمیان ایک ایسی جنگ کا آغاز ہوا جو اگلے کئی برس تک جاری رہی۔ اس دوران انتہائی مشکوک اور متنازعہ ’پولیس مقابلے‘ شروع ہوئے اور ان مقابلوں میں شریک پولیس افسران و اہلکاروں کی لگاتار ہلاکتوں کے ایسے سلسلے کا بھی آغاز ہوا جس نے کراچی کو دنیا کے چند خطرناک ترین شہروں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ حکام نے آپریشن کے دوران کراچی کے ضلع وسطی کو شہر کا سب سے زیادہ حساس علاقہ قرار دیا اور اسی ضلع میں چند سب سے اہم تھانوں میں سے ایک تھانہ گلبہار سمجھا جاتا تھا۔ اور اسی گلبہار تھانے میں چوہدری اسلم کی بطور ایس ایچ او تعیناتی نے اُن کی زندگی کا رُخ بدل کر رکھ دیا۔ آفتاب صدیقی بتاتے ہیں کہ ’تقریباً چار برس جاری رہنے والے کراچی آپریشن کے دوران سینکڑوں پولیس مقابلوں میں سو سے زائد مطلوب ملزمان کو ہلاک یا گرفتار کر کے جیل یا قبرستان تک پہنچانے والے ایس ایچ او تھانہ گلبہار چوہدری اسلم جلد ہی ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ سمجھے جانے لگے تھے۔‘ اور پھر جلد ہی انھیں ذرائع ابلاغ میں ان کارروائیوں سے متعلق خبروں کی بنا پر زبردست شہرت ملنا شروع ہوئی اور کراچی شہر کے چند نامور پولیس افسران میں اُن کا شمار بھی ہونے لگا۔ چوہدری اسلم کے ساتھ کام کرنے والے ایک پولیس افسر کے مطابق 'پھر اسلم نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ آئے دن کسی ’پولیس مقابلے‘ یا متنازع اور ’ماورائے عدالت ہلاکت‘ سے اُن کا نام جڑنے لگا اور وہ پولیس کے ایسے افسر بن کر ابھرے جن کا نام ہی ’دہشت‘ کی علامت بن گیا۔‘ اُن کی قیادت میں ہونے والے آپریشن کلین اپ کے دوران متحدہ قومی موومنٹ کے سینکڑوں کارکنوں (یا مقدمات میں مطلوب ملزمان) کی ایسی ہلاکتیں ہوئیں جنھیں حکام 'پولیس مقابلہ' قرار دیتے رہے اور سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی ’ماورائے عدالت ہلاکتیں‘ کہتی رہیں۔ یہی وہ دور تھا جب چوہدری اسلم یا اُن جیسے پولیس افسران کے بارے میں یہ ’منقسم رائے‘ اور سوال سامنے آئے کہ ’چوہدری اسلم ہیرو ہیں یا ولن؟‘ یاد رہے کہ پولیس افسر عمر شاہد کے والد کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر صولت مرزا کو پھانسی کی سزا ہوئی تھی اور صولت مرزا کو چوہدری اسلم نے گرفتار کیا تھا بظاہر ریاستی اداروں اور سرکاری حکام کے نزدیک وہ ’ہیرو‘ تھے مگر متنازع ’پولیس مقابلوں‘ میں ہلاک ہونے والوں کے متاثرین اور لواحقین کی رائے میں وہ واضح طور پر ’ولن‘ قرار پائے۔ یہاں تک کہ خود کراچی پولیس میں بھی ایسے افسران تھے جو آج بھی چوہدری اسلم کو ہیرو ماننے پر تیار نہیں ہیں۔ ایسے ہی ایک اعلیٰ ترین افسر جو پاکستان کی پولیس میں مختلف تعیناتیوں کے دوران آئی جی اور دیگر حساس محکموں میں بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے وہ آج بھی چوہدری اسلم کو ’کرائے کا قاتل‘ اور اسی نوعیت کے دیگر القابات سے نوازتے ہیں۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انھوں نے مجھ سے گفتگو میں کہا ’میں نے چوہدری اسلم کو بطور ایس ایچ او دیکھا اور ڈی ایس پی دیکھا۔ مگر مجھے نہ تو وہ کبھی بہت ہی شاطر و شاندار، عقلمند و دانشور پولیس افسر لگے اور نا ہی کبھی ماہر و مشّاق تفتیش کار یا انتظامی اُمور پر گرفت رکھنے والے قابل افسر۔‘ ’وہ تو ہمیشہ ریاستی اداروں کے ایما پر کام کرتے رہے۔۔۔اسلم یا راؤ انوار جیسے لوگ تو وہ ہیں کہ ’کسی ادارے‘ نے پکڑ کر دے دیا اور آپ نے مار دیا۔۔۔‘ مگر کراچی پولیس کی موجودہ قیادت میں ایسے افسر بھی ہیں جو چوہدری اسلم سے زیادہ ’بہادر، نڈر، مخلص اور اپنے کام سے لگن رکھنے والا افسر‘ کسی کو مانتے ہی نہیں۔ عمر شاہد اب کراچی میں ڈی آئی جی کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ چوہدری اسلم کے ’ہیرو‘ یا ’ولن‘ ہونے کے سوال پر ڈی آئی جی عمر شاہد نے مجھ سے ہی سوال کیا کہ ’آپ کس زاویے سے پوچھ رہے ہیں؟‘ ’اگر صولت مرزا یا آرمی پبلک اسکول پر حملہ کی ذمہ داری قبول کرنے والے طالبان کے ترجمان احسان اللّہ احسان چوہدری اسلم کو ’قاتل‘ کہتے ہیں تو یہ لوگ تو قاتل خود ہیں۔ جن کے خلاف چوہدری اسلم نے کارروائی کی اُن میں سے کوئی بھی معصوم نہیں تھا۔‘ ڈی آئی جی عمر شاہد کے مطابق ’صولت مرزا اور احسان اللہ احسان سب مجرم ہیں۔ اور ایسا نہیں تھا کہ ان میں کوئی ملزم یا مشکوک ہو سب کے سب عدالتوں سے سزا یافتہ تھے۔ اور اگر اسلم نے ان کے خلاف کارروائی کی تو کیا غلط کیا؟‘ انھوں نے کہا کہ پھر وہ ماحول دیکھیے جب یہ سب کچھ ہوا، جب تھانوں کے باہر روز بوری بند لاشیں ملیں، آئی جی وائرلیس پر پیغام دیتے کہ وردی نہ پہنیں ورنہ مارے جا سکتے ہیں تو پولیس کی ایک نفسیات بھی تو بن جاتی ہے۔ ’سنہ 2011 میں چوہدری اسلم کے گھر پر بم سے حملہ ہوا۔ آٹھ لوگ مارے گئے، پورا گھر تباہ ہو گیا۔ اپنی آرام دہ کرسی میں بیٹھ کر میں یا آپ صحیح یا غلط کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں کہ کیا ہوا یا کیا ہونا چاہیے تھا؟‘ اس دلیل کے جواب میں چوہدری اسلم پر تنقید کرنے والے سابق اعلیٰ پولیس افسر نے بھی تسلیم کیا کہ پاکستان ایک ایسا معاشرہ بن گیا ہے جہاں 'طویل عرصے سے کرمنل جسٹس سسٹم (انصاف کی فراہمی کا نظام یا جرم و سزا کا نظام) بظاہر ناکام ہو چکا ہے۔ عدالتیں، پولیس، قانون نافذ کرنے والے، خفیہ ادارے، سیاسی نظام، مقننّہ، انتظامیہ، عدلیہ کوئی بھی ادارہ اپنا کام صحیح نہیں کر رہا۔' انھوں نے کہا کہ ’جب جج کا قلم فیصلہ نہ کر رہا ہو تو پھر چوہدری اسلم جیسے پولیس افسروں کا ہتھیار فیصلہ کن قوّت حاصل کر لیتا ہے۔‘ یاد رہے کہ پولیس افسر عمر شاہد کے والد کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر صولت مرزا کو پھانسی کی سزا ہوئی تھی اور صولت مرزا کو چوہدری اسلم نے گرفتار کیا تھا۔ چوہدری اسلم پر تنقید کرنے والے سابق پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ’چوہدری اسلم نے پہلے جس ایم کیو ایم کے کارکنوں کے خلاف آپریشن کیا پھر اسی ایم کیو ایم کے گورنر عشرت العباد سے اپنے سینے پر تمغے لگوائے اور اسی ایم کیو ایم کے وزیر داخلہ رؤف صدیقی کی گاڑی سے اترتے تو میں نے بھی دیکھا اور تم نے بھی دیکھا۔‘ ڈی آئی جی عمر شاہد کہتے ہیں کہ ’الزامات چوہدری اسلم کے بارے میں بھی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ درست بھی ہوں مگر کام کرتے ہوئے ایسے خطرات کسی نے مول نہیں لیے جیسے اسلم نے لیے۔‘ سابق ایس پی لیاری فیاض خان بھی عمر شاہد کی تائید کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’کام کا تو وہ بہت جنونی تھا۔‘ ’ہر وقت کام یا پھر کام سے متعلق بات چیت۔ ایک اور چیز تھی وہ یہ کہ پولیس کے خلاف حملہ کرنے والے اور پولیس اہلکاروں یا افسروں کا قاتلوں کے لیے چاہے وہ کوئی بھی ہوں اسلم کے پاس رحم کا کوئی گوشہ نہیں تھا۔‘ صحافی اے ایچ خانزادہ بھی کہتے ہیں کہ ’بلاشبہ کام بڑی محنت اور جانفشانی سے کیا اسلم نے۔ پولیس میں ہزاروں اے ایس آئی بھرتی ہوتے ہیں، کوئی چیز تو تھی جس نے اُس کو ایس پی بلکہ طاقتور ترین پولیس افسر بنا دیا، اور میرے خیال میں وہ اس کا کام تھا۔‘ چوہدری اسلم کی کہانی کراچی پولیس کے موجودہ ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر جیسے افسروں کے رائے کے بغیر نہیں لکھی جا سکتی۔ عرفان بہادر کے والد کراچی آپریشن کے سب سے نامور مانے جانے والے پولیس افسر سابق ایس ایچ او نیو کراچی انسپکٹر بہادر علی کو بھی 28 جون 1994 کو گھات لگا کر کیے جانے والے حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ چوہدری اسلم ہیرو ہیں یا ولن کے سوال پر عرفان بہادر کے جذبات اُن کے لہجے سے جھلک رہے تھے۔ ’چوہدری اسلم کے ہاتھوں ہمیشہ مارے جانے والوں کا ذکر کیوں ہوتا ہے، آپ لوگ کبھی اُن کی بات کیوں نہیں کرتے جو لوگ چوہدری اسلم نے گرفتار کیے؟‘ ’میں ہوں یا چوہدری اسلم، ہم تو پیشہ وارانہ طور پر ریاست کے ملازم ہیں۔ اگر آج ریاست کو عسکریت پسندوں سے خطرہ ہے تو ہمارا کام عسکریت پسندوں سے ریاست کو محفوظ بنانا ہے۔ اگر شدت پسندی سے خطرہ ہے تو ہمارا کام شدت پسندی کے خلاف کارروائی ہے۔ اور یہ فیصلہ ہم نہیں کرتے کہ کون مجرم ہے اور کون ریاست کا دشمن۔ ہم تو ریاست کو بچانے اور قانون کو نافذ کرنے کے لیے دیے جانے والے احکامات کی بجا آوری کرتے ہیں۔‘ عرفان بہادر نے چوہدری اسلم کے حق میں دلائل دیتے ہوئے وضاحت کی۔ مزید پڑھیے راؤ انوار ضروری ہے ! کھجی گراؤنڈ: کھیل کا وہ میدان جہاں کبھی موت مقبول ترین کھیل تھی اس سوال پر کہ جب کوئی جماعت حکومت میں نہیں ہوتی تو چوہدری اسلم جیسے پولیس افسران کے نزدیک اُس کے ارکان مجرم بن جاتے ہیں اور جب وہی جماعت حکومت میں آجاتی ہے تو پھر چوہدری اسلم جیسے افسر اس کے ارکان کے خلاف کارروائی روک دیتے ہیں اور نئی حکمران جماعت کے مخالفین اُن کے نشانے پر آ جاتے ہیں۔ تو چوہدری اسلم کی شبیہ تو ’کرائے کے قاتل‘ یا ولن جیسی ہی بن جاتی ہے، عرفان بہادر نے دلیل دی کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ’لیاری گینگ وار کا سرغنہ رحمٰن ڈکیت پیپلز پارٹی سے قربت رکھتا تھا اور چوہدری اسلم کے ہاتھوں پیپلز پارٹی ہی کے دور حکومت میں ہونے والے پولیس مقابلے میں مارا گیا۔‘ اس دور کے ایک تجربہ کار سیاسی رہنما کا کہنا ہے کہ ’1990 کی دہائی کے وسط میں ریاست کی کھلی حکمت عملی یہ تھی کہ دہشت گردی کے نام پر سیاسی قیادت کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔ جون 1992 میں آپریشن کا آغاز تو ایسے افسران کی ضرورت محسوس ہوئی جو بس حکم کے غلام ہوں اور ہر قیمت پر حکم بجا لائیں یہ نہ دیکھیں کہ وہ جو کر رہے ہیں وہ ظلم ہے یا انصاف۔ بس پھر ایسے کئی نام اس زمانے میں ابھر کر آئے جنھوں نے فرضی یا جعلی پولیس مقابلوں کے ذریعے نام یا بدنامی کمائی اور چوہدری اسلم بھی ان میں سے ایک تھے۔‘ ’وہ منھ بھر بھر کہ کہتے تھے کہ میں نے ایک سو بیس لڑکے مارے ہیں۔ پھر جب یہی ایم کیو ایم جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ریاست کے ساتھ پارٹنر بن گئی تو یہی چوہدری اسلم اُسی ایم کیو ایم کی آنکھ کا تارہ بن گئے۔‘ اس سوال پر کہ پولیس افسران کہتے ہیں کہ وہ تو شہریوں کو اُن لوگوں سے بچانے آئے تھے جو لوگوں کو مار رہے تھے سیاسی رہنما نے کہا کہ یہ کھوکھلا جواز بھی دلیل ہرگز نہیں بن سکتا کہ ریاست بے دریغ شہریوں کا قتل عام شروع کر دے اور غیر قانونی فعل کو قانونی ثابت کرنے لگے۔ ’پھر جب پالیسی لشکر جھنگوی کے خلاف بنی تو بھی ان افسران نے وہی طریقہ اپنایا، یعنی طالبان ہو یا نہ ہو لشکر سے تعلق ہو یا نہ ہو سہراب گوٹھ سے کسی بھی پختون کو اٹھایا، بس بال لمبے ہوں، ڈاڑھی ہو پشتو بولتا ہو تو پہلے پکڑ کر بند کر دو پھر خبر بنانی ہو تو لاک اپ سے نکال کر مار دو۔ نقیب اللّہ کی مثال سب کے سامنے ہے۔‘ چوہدری اسلم ہیرو ہیں یا ولن کے سوال پر عرفان بہادر: 'چوہدری اسلم کے ہاتھوں ہمیشہ مارے جانے والوں کا ذکر کیوں ہوتا ہے، آپ لوگ کبھی اُن کی بات کیوں نہیں کرتے جو لوگ چوہدری اسلم نے گرفتار کیے؟' دوسرا دور جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر کے فوجی حکومت قائم کی تو آنے والے کئی برسوں میں کراچی آپریشن کے ان نمایاں کرداروں یعنی پولیس افسران کے پراسرار قتل کی کئی وارداتیں بھی یکے بعد دیگرے ہوتی رہیں اور بیشتر کو گھات لگا کر یا باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیے گئے منظم حملوں میں قتل کر دیا گیا۔ ریاستی پالیسی تبدیل ہوئی اور توجہ ایم کیو ایم سے ہٹ گئی۔ سابق پولیس افسر کے مطابق پھر چوہدری اسلم کی بندوق اور ہتھکڑی کا رُخ لیاری کے بدنام زمانہ گینگسٹر رحمٰن ڈکیت یا پھر شعیب خان جیسے جرم کے بے تاج بادشاہوں کی طرف مڑگیا۔ ’کتنی حیرت کی بات ہے رحمٰن ڈکیت اور شعیب خان دونوں ایم کیو ایم کے بدترین مخالف سمجھے جاتے تھے۔‘ اس افسر نے سوال کیا۔ شعیب خان کی مشکوک و متنازع ہلاکت جرائم پیشہ سمجھے جانے شعیب خان کا نام پاکستان میں سامنے آیا تو داؤد ابراہیم سے جڑا ہوا تھا۔ داؤد ابراہیم 12 مارچ 1993 کو انڈیا کے تجارتی دارالحکومت ممبئی میں ہونے والے 13 بم دھماکوں کے ملزم ہیں اور انڈیا کے سب سے مطلوب ملزم ہیں۔ کراچی پولیس کے اُس وقت کے سربراہ طارق جمیل کے مطابق خود شعیب خان قتل، اقدام قتل، اسلحہ اور اغوا جیسے جرائم کے 17 مقدمات میں مطلوب تھے۔ جبکہ شعیب خان پر یہ الزام بھی تھا کہ انھوں نے 27 دسمبر 1996 کو ایم کیو ایم کے دو کارکنوں ادریس پریڈی اور محمد اکبر کو قتل کر دیا تھا۔ شعیب خان کو چوہدری اسلم نے لاہور سے گرفتار کیا اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق 29 دسمبر 2004 کو کراچی منتقل کیا گیا۔ چوہدری اسلم کے ہاتھوں گرفتار اور سینٹرل جیل میں قید شعیب خان 27 جنوری 2005 کو کراچی کی سینٹرل جیل میں متنازع ’دل کا دورہ‘ پڑنے سے ہلاک ہوگئے۔ بعد ازاں اہلخانہ نے ذرائع ابلاغ کے سامنے خدشہ ظاہر کیا کہ شعیب خان کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا۔ اور اگر قواعد کے مطابق پوسٹ مارٹم کیا جاتا تو شعیب خان کی موت کی وجہ معلوم کی جاسکتی تھی۔ مگر کراچی ڈپٹی سپرنٹینڈینٹ جیل امان اللّہ نیازی اور جیل حکام اصرار کرتے رہے کہ انھیں سینے میں درد کی شکایت پر ہسپتال لایا گیا لیکن وہ 'دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوگئے۔' یہ پاکستان کے قانون سازوں کو طے کرنا ہے کہ مجرم یا بے گناہ ہونے کا فیصلہ جج کے قلم سے ہوگا یا پولیس افسر کی بندوق سے؟ معشوق بروہی یا رسول بخش؟ اب جنرل مشرف کے دور میں ہی چوہدری اسلم کی توجہ اور بندوق کا رُخ اندرون سندھ منتقل ہوا۔ مگر اس بار کام کے دھتّی اور قسمت کے دھنی چوہدری اسلم کو کام اور قسمت نے ہی دھوکہ دے دیا۔ 11 جولائی 2006 جب چوہدری اسلم کراچی پولیس کی لیاری ٹاسک فورس (ایل ٹی ایف) کے سربراہ تھے تو پولیس نے دعویٰ کیا کہ ایل ٹی ایف نے تھانہ گڈاپ کی حدود میں ایک ’مقابلے‘ میں معشوق بروہی نامی مطلوب ملزم کو ہلاک کر دیا ہے جو قتل و اقدام قتل، اغوا اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث تھا۔ اُس وقت کے ڈی آئی جی کراچی نیاز صدیقی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ جب چوہدری اسلم اور اُن کی ٹیم نے اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی تو معشوق بروہی مزاحمت کرتے ہوئے مارا گیا۔ مگر جلد ہی مرنے والے کے اہلخانہ اس دعوے کی ساتھ سامنے آئے کہ ہلاک ہونے والا نہ تو معشوق بروہی تھا اور نہ ہی ملزم یا جرائم پیشہ، بلکہ دراصل رسول بخش تھا جس کا تعلق سندھ کے نواب شاہ کے قریب واقع شہر سکرنڈ سے تھا اور مرنے والا پئشے سے ہاری (کسان) تھا جسے سکرنڈ سے گرفتار کر کے کراچی لایا گیا اور کئی روز کی حراست کے بعد مشکوک و متنازع اور جعلی 'پولیس مقابلے' میں ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا، تاکہ اس کے سر کی قیمت کے طور پر خطیر رقم اور ترقیاں حاصل کر سکیں۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس متنازع ’مقابلے‘ میں چوہدری اسلم، اس وقت کے لیاری کے ٹاؤن پولیس آفیسر (اور آج کے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی) عمر شاہد حامد، (آج کے ایس ایس پی ملیر) عرفان بہادر اور چوہدری اسلم کے کئی اور بھی قریبی ساتھی شریک تھے۔ اس دعوے اور ذرائع ابلاغ میں اس کی کوریج اور بڑھتے ہوئے عوامی و سیاسی دباؤ کے نتیجے میں اس وقت سندھ پولیس کے سربراہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) جہانگیر مرزا نے تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی جس نے جانچ پڑتال کے بعد لواحقین اور ذرائع ابلاغ کا دعویٰ درست تسلیم کیا اور 22 جولائی 2006 کو ذرائع ابلاغ نے خبر دی کہ پولیس نے اپنی رپورٹ میں یہ حقیقت سرکاری طور پر تسلیم کرلی ہے کہ مرنے والا معشوق بروہی نہیں تھا۔ پولیس کے اعتراف کے بعد چوہدری اسلم، عمر شاہد اور عرفان بہادر سمیت چوہدری اسلم کے کئی ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج ہوا، کئی معطل اور گرفتار ہوئے اور چوہدری اسلم جیل بھیج دیے گئے۔ مگر بالآخر ان تمام افسران کو جلد ہی سپریم کورٹ نے عدالتی کارروائی کے بعد بے گناہ قرار دے کر باعزّت بری بھی کر دیا اور چوہدری اسلم سمیت کئی افسران اپنی ملازمتوں اور پولیس عہدوں پر بحال بھی کر دیے گئے۔ لیاری کے بے تاج بادشاہ سمجھے جانے والے بدنام زمانہ گینگسٹر سردار عبدالرحمٰن بلوچ (یا رحمٰن ڈکیت) نو اگست 2009 کو چوہدری اسلم کے ہاتھوں مارے گئے رحمٰن ڈکیت کا پولیس مقابلہ اب 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان اور سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تو چوہدری اسلم کا رخ اس لیاری کی جانب ہوگیا کو اب بھی حکمران پیپلز پارٹی کا سیاسی گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ لیاری میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال اور گینگ وار کے پیش نظر پولیس اور سندھ میں تعینات نیم فوجی ادارے رینجرز کی مشترکہ کارروائی شروع ہوئی اور مرکزی کردار کے طور پر ایک بار پھر چوہدری اسلم سامنے اور نمایاں نظر آئے۔ گینگ وار کے کئی نمایاں کردار آئے دن متنازع اور مشکوک ’پولیس مقابلوں‘ میں مارے جانے لگے جن میں سب سے بڑا نام رحمٰن ڈکیت کا تھا۔ لیاری کے بے تاج بادشاہ سمجھے جانے والے بدنام زمانہ گینگسٹر اور قتل، اقدام قتل، اغوا اور اغوا برائے تاوان اور منشیات فروشی جیسے سنگین جرائم کی درجنوں وارداتوں میں ملوّث سردار عبدالرحمٰن بلوچ (یا رحمٰن ڈکیت) جو پیپلز امن کمیٹی کے بانی سربراہ بھی سمجھے جاتے تھے، نو اگست 2009 کو چوہدری اسلم کے ہاتھوں مارے گئے۔ لیکن اہلیان لیاری ذرائع ابلاغ اور صحافی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہلاکت کے وقت رحمٰن ڈکیت بلوچستان سے گرفتار کر کے لائے گئے تھے جبکہ پولیس نے اُن سے مقابلے اور ان کی ہلاکت کہیں اور دکھائی تھی۔ چوہدری اسلم پر ہونے والے حملے میں تباہ ہونے والی ان کی گاڑی طالبان، شدت پسند اور چوہدری اسلم رحمٰن ڈکیت کے مرنے کے بعد ایک اور کارروائی میں چوہدری اسلم رحمٰن ڈکیت کے جانشین اور پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔ کچھ عرصے کے بعد چوہدری اسلم کو سی آئی ڈی میں تعینات کر دیا گیا جو شدت پسندوں مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشت گردوں اور طالبان انتہا پسندوں کے خلاف نبرد آزما تھی۔ جلد ہی چوہدری اسلم طالبان، لشکر جھنگوی، اور مذہب یا فرقے کے نام پر دہشت گردی کرنے والے ان شدت پسند اور انتہا پسند عناصر کے عین سامنے جا پہنچے، اور اب آئے دن اُن کے ہاتھوں ان عناصر اور اُن کی تنظیموں کے شدت پسند ارکان سے چوہدری اسلم کی قیادت میں سی آئی ڈی کے مسلح تصادم کی خبریں آنے لگیں۔ پاکستان بھر کے سیاسی و عوامی حلقوں کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ میں بھی شدت پسندی کے خلاف ریاستی اداروں کی کارروائی کو سراہا جانے لگا تھا اور متنازع مسلح تصادم پر تنقید کم ہونے لگی۔ اب چوہدری اسلم ولن کم اور ہیرو زیادہ لگنے لگے تھے۔ سی آئی ڈی کے دفتر پر طالبان کا حملہ ایسے میں خدشہ تھا چوہدری اسلم اب جو کچھ کر رہے ہیں اس کا جواب تو کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی روز ضرور آئے گا۔ اور یہ جواب 11 نومبر 2010 کو تب آیا جب کراچی کے سب سے محفوظ سمجھے جانے والے علاقے سول لائنز میں سی آئی ڈی کے دفتر پر بارود سے بھری ایک گاڑی سے حملہ ہوا اور قریباً 20 لوگ مارے گئے۔ حملے کی ذمہ داری طالبان اور لشکر جھنگوی نے قبول کی جن کے خلاف سی آئی ڈی خاص طور پر چوہدری اسلم بہت سرگرم تھے۔ مگر قسمت کے دھنی چوہدری اسلم اس حملے میں محفوظ رہے۔ دفتر کے بعد اپنے گھر پر اس حملے میں بھی بچ جانے والے چوہدری اسلم نے صحافیوں کے سامنے کہا کہ وہ دہشت گردوں کو قیامت تک نہیں چھوڑیں گے گھر پر حملہ مگر مزید حملوں کے خدشات بہرحال موجود رہے۔ ایسے میں طالبان اور لشکر جھنگوی نے چوہدری اسلم پر ایک اور وار تب کیا جب 19 ستمبر 2011 کو کراچی کے نسبتاً محفوظ سمجھے جانے والے علاقے ڈیفنس میں چوہدری اسلم کے گھر پر حملہ ہوا۔ اس بار بھی بارود سے بھری ایک گاڑی فیز ایٹ میں واقع اُن کے گھر کی دیوار سے ٹکرا دی گئی۔ خودکش حملہ سمجھے جانے والے اس حملے میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے جن میں سے چھ چوہدری اسلم کے گھر پر تعینات پولیس اہلکار ایک راہگیر خاتون اور اُن کا بیٹا شامل تھے۔ قسمت کے دھنی چوہدری اسلم اس حملے میں بھی معجزانہ طور پر بچ گئے۔ طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی۔ عسکریت پسند تنظیم کے ترجمان احسان اللہ احسان نے نامعلوم مقام سے دعویٰ کیا کہ آئندہ بھی مزید پولیس حکام کو نشانہ بنایا جائے گا۔ دفتر کے بعد اپنے گھر پر اس حملے میں بھی بچ جانے والے چوہدری اسلم نے صحافیوں کے سامنے کہا کہ وہ دہشت گردوں کو قیامت تک نہیں چھوڑیں گے۔ اگرچہ خطرات کے پیش نظر وہ خود بھی محتاط رہتے تھے اور سرکاری طور پر بھی انھیں بم حملے سے بھی محفوظ رہنے والی گاڑی فراہم کی گئی تھی مگر دھماکے کے وقت چوہدری اسلم کی 'بم پروف گاڑی مرمت کے لیے گئی ہوئی تھی' جنوری کا ہلاکت خیز حملہ بالآخر جمعرات 9 جنوری 2014 کو چوہدری اسلم خود دہشت گردی کا نشانہ بن گئے اور بم سے ہونے والے حملے میں اپنے قریبی ساتھی کامران اور محافظ سمیت ہلاک ہو گئے۔ اس حملے سے چند گھنٹے قبل بھی انھوں نے ناردرن بائی پاس پر منگھوپیر کے علاقے میں ہونے والے ایک مبینہ ’پولیس مقابلے‘ میں تین طالبان شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا۔ پولیس افسران کے مطابق چوہدری اسلم پر یہ جان لیوا حملہ شام چار بجکر چالیس منٹ کے قریب شہر کے علاقے حسن سکوائر سے متّصل عیسیٰ نگری کے علاقے میں اس وقت ہوا جب چوہدری اسلم اپنی بلٹ پروف گاڑی میں ڈرائیور کامران اور محافظ کے ہمراہ لیاری ایکسپریس وے سے دفتر کی سمت روانہ ہوئے۔ اگرچہ خطرات کے پیش نظر وہ خود بھی محتاط رہتے تھے اور سرکاری طور پر بھی انھیں بم حملے سے بھی محفوظ رہنے والی گاڑی فراہم کی گئی تھی مگر دھماکے کے وقت چوہدری اسلم کی ’بم پروف گاڑی مرمت کے لیے گئی ہوئی تھی۔‘ اس وقت کے ایس ایس پی انویسٹی گیشن نیاز کھوسو کے مطابق چوہدری اسلم کے حفاظتی قافلے (یا سکواڈ) میں شامل دوسری پولیس موبائل چوہدری اسلم ہی کے لیے دوا خریدنے گئی تھی۔ اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ چوہدری اسلم کی وفات کے بعد ان کے خاندان سے تعزیت کے لیے گئے نیاز کھوسو کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ چوہدری اسلم پر حملہ کرنے والا خودکش بمبار سوزوکی پک اپ میں سوار اُن کا منتظر تھا۔ مبینہ خودکش بمبار کی شناخت 26 سالہ نعیم اﷲ صدیقی ولد رفیع اﷲ صدیقی کے نام سے کی گئی جو قصبہ کالونی کا رہائشی اور اس کا آبائی تعلق مہمند ایجنسی سے تھا اور نعیم نے عسکری تربیت مبینہ طور پر افغانستان سے حاصل کی تھی۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے قبول کی۔ طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ ’انھیں اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ تحریک طالبان کے پچاس سے زیادہ کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل میں ملوث تھے۔‘ پولیس حکام کے مطابق چوہدری اسلم کی ہلاکت کے کچھ ہی عرصے بعد کراچی پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے حوالے سے خبریں سامنے آئیں کہ چار گرفتار دہشت گردوں سید حسان علی، ظفر علی عرف سائیں، قاری محمدجاوید اور وزیر نے انکشاف کیا ہے کہ چوہدری اسلم کے گھر پر خودکش حملے میں ان کا قریبی گن مین پولیس اہلکار کامران ملوث تھا۔ حکام کے مطابق کامران پولیس میں بھرتی ہونے سے قبل لشکر جھنگوی سے وابستہ تھا اور لشکر کے رہنما سمجھے جانے والے نعیم بخاری سے رابطے میں تھا۔ ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کہتے ہیں کہ نعیم بخاری اب تک کسی سرکاری حراست میں ہیں اور دوران تفتیش عرفان بہادر کے سامنے تسلیم کر چکے ہیں کہ شدت پسندوں نے اپنے سارے زیر غور منصوے ترک کر کے چھ ماہ تک صرف چوہدری اسلم پر حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ عرفان بہادر کہتے ہیں کہ ’یہ جو آج میں اور آپ شہر میں گریبان کھول کر پھرتے ہیں یہ امن اُسی جیسے افسر قائم کر سکتے تھے۔‘ یہ داستان لکھنے کے بعد بھی میں طے نہیں کر سکا کہ چوہدری اسلم ہیرو تھے یا ولن۔۔۔ مگر یہ پاکستان کے قانون سازوں کو طے کرنا ہے کہ مجرم یا بے گناہ ہونے کا فیصلہ جج کے قلم سے ہوگا یا پولیس افسر کی بندوق سے؟ اور یہ پاکستان کے معاشرے کو طے کرنا ہے کہ سڑک پر مسلح کون ہوگا؟ عسکریت پسند یا پھر پولیس افسر۔۔۔ اور یہ آپ کو طے کرنا ہے کہ چوہدری اسلم ہیرو تھے یا ولن؟ |
030828_bangladesh_team_ms | https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2003/09/030828_bangladesh_team_ms | حبیب البشر: ہاری فوج کا سپاہی | تحریر: عبدالرشید شکور | بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کی پاکستان کے خلاف بہتر کارکردگی سے ان کے شائقین کی مایوسی میں کسی حد تک کمی واقع ہوئی ہے اور حالیہ ٹیسٹ میچوں کے دوران انہیں منہ چھپانے کی ضرورت نہیں۔ بنگلہ دیش کے ایک سینیئر صحافی کے مطابق ٹیسٹ کرکٹ میں ’بے بی‘ ٹیم کی بدلی ہوئی کارکردگی میں جہاں نئے کوچ ڈیو واٹمور کی ’پروفیشنل سوچ‘ کا عمل دخل نمایاں نظر آتا ہے وہاں بلے بازی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرنے والے حبیب البشر کی مستقل مزاجی کا عمل دخل بھی نمایاں ہے جو ہاری ہوئی فوج کے بہادر سپاہی کی طرح حریف ٹیموں کے ورلڈ کلاس بولروں کا مقابلہ اعتماد اور حوصلہ مندی سے کررہے ہیں۔ حبیب البشر کو جن کی ٹیسٹ کرکٹ میں آمد میڈیا کے شدید ردعمل کے نتیجے میں ممکن ہو ئی ہے، سلیکٹرز نے انیس سو ننانوے کے عالمی کپ کے ساتھہ ساتھ انہیں اپنے ملک کے اولین ٹیسٹ میں بھی نظرانداز کردیا گیا تھا لیکن میڈیا کے پرزور مطالبے پر کرکٹ بورڈ کے صدر صابر حسین چوہدری نے مداخلت کرتے ہوئے ٹیم میں ان کی شمولیت یقینی بنائی جس کے بعد سے انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ ان کی صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اب تک بنگلہ دیش کی ٹیسٹ میچوں میں سب سے تیز رن بنانے والے بلے باز ہیں اور ٹیسٹ کرکٹ میں اب تک بنگلہ دیش کی دس سینچر یارٹنرشپز میں سے آٹھ میں حبیب البشر شریک رہے ہیں۔ مقامی کوچ مشیر الرحمٰن کی جوہر شناس نگاہوں نے ان میں آگے بڑھنے اور خود کو منوانے کی لگن دیکھی اور وہ کلب کی سطح پر ان کے ساتھ انتھک محنت کرتے ہوئے جلد ہی بنگلہ دیش کی ایک روزہ قومی ٹیم میں اپنی جگہ بنانےمیں کامیاب ہوگئے۔ تاہم انیس سو پچانوے میں شارجہ میں ہونے والے ایشیا کپ کے بعد ٹیم سے نکالےجانے کے بعد وہ انیس ستانوے کے ایشیا کپ میں واپس آئے۔ اس کے بعد انہوں نے نیروبی میں ہونے والی سہ فریقی ایک روزہ سیریز میں زمبابوے کے خلاف عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرکے اپنا اعتماد بحال کر لیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ان کی بیٹنگ میں جارحیت کا عنصر غالب ہے اور وہ ٹیسٹ میں بھی ایک روزہ ہی کی طرح کھیلتے ہیں جس کی وجہ سے کبھی کبھی اپنی وکٹ جلدی بھی گنوا دیتے ہیں۔ حبیب البشر کا کہنا ہے کہ یہ ان کا اپنا مخصوص انداز ہے اور انہیں پل اور ہک کرنے میں بہت مزا آتا ہے لیکن انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس رہتا ہے۔ شمن کے عرف سے جانے جانے والے حبیب البشر ٹیم کے چند پڑھے لکھے کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔ بھارت کے اظہرالدین ان کے آئیڈیل کرکٹر رہے ہیں۔ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کا ایک بیٹا بھی ہے۔ ان کی دونوں سنچریوں کے موقعہ پر یہ دونوں ان کے ہمراہ تھے جسے وہ اپنی خوش قسمتی کی علامت سمجھتے ہیں۔ وہ شاندار اور جارحانہ بلے بازی کے باوجود انساری کا پیکر ہیں اور مسکراہٹ ہر وقت ان کے چہرے کو سجائے رکھتی ہے۔ دنیا بھر کے صف اول کے کرکٹر ان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ بنگلہ دیشی سلیکٹر اطہر علی خان کے خیال میں حبیب البشر اپنے ملک کی کرکٹ کا پہلا سپر سٹار ہے اور اگر اس جیسے ایک دو بولر بھی ٹیم کو مل جائیں تو بنگلہ دیش کسی بھی حریف کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ |
080323_delhi_diary_awa | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/03/080323_delhi_diary_awa | اڈوانی کا سیاسی اخلاق، پاکستان پر تشویش | اڈوانی کا سیاسی اخلاق | بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور وزارت عظمٰی کے امیدوار لال کرشن اڈوانی کی کتاب ’مائی کنٹری ،مائی لائف ‘ کا گزشتہ دنوں اجرا ہوا ۔ اس کتاب میں اڈوانی نے بابری مسجد کے انہدام ، پاکستان کے اپنے دورے ، کرگل کی لڑائی اور واجپئی سے اپنے تعلقات جیسے متعدد اہم اور دلچسپ سوالوں پرمفصل روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ حکمراں اتحاد کی رہنما سونیا گاندھی سے اختلافات اتنے زیادہ ہو گئے کہ حزب اختلاف بی جے پی اورحکمراں جماعت کانگریس کے درمیان کوئی رابطہ ہی باقی نہ رہا ۔ انہوں نے لکھا کہ سونیا گاندھی سے کوئی تعلق نہ ہونے کے سبب وزیر اعظم سے بھی ان کا کوئی ناطہ نہ رہا ۔ انہوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس طرح کے حالات پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ سنیچر کو ہولی کا تہوار تھا اور اڈوانی نے موقع دیکھ کر تعلقات کی پہل کر دی۔ پہلے وہ سونیا گاندھی کے گھر گئے ۔ انہیں ہولی کی مبارکباد دی اور اپنی کتاب انہیں پیش کی۔ اس کتاب میں انہوں نے سونیا گاندھی پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے وزارت عظمی کو کمتر بنا دیا ہے۔ بعد میں بی جے پی کے رہنما وزیراعظم منموہن سنگھ کے پاس بھی گئے اور ان سے دیر تک بات کی۔ اڈوانی نے اپنے اس قدم سے نہ صرف یہ کہ منقطع رابطے بحال کر لیے بلکہ اپنے حریفوں پر اخلاقی برتری کا اسکور بھی کیا ہے۔ پاکستان کے حالات پر ہندوستان میں تشویش اس رپورٹ میں جموں کشمیر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں شدت پسندی کے واقعات میں قابل ذکرکمی آئی ہے لیکن بقول اس کے سرحد پار سے شدت پسندی کی اعانت اب بھی جاری ہے ۔ حادثوں کا ملک ہندوستان روڈ ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کی وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق 2006 میں ہندوستان میں 105749 افراد سڑک حادثوں میں ہلاک ہوئے تھے۔ جبکہ چین میں ہلاکتوں کی تعداد89455 تھی۔ پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق چین نے سڑکوں کی صورتحال اور حفاظتی و طبی انتظامات بہترکر کے گزشہ چار برسوں میں اوسط دس فی صد کی شرح سے حادثوں میں ہونے والی اموات کی تعداد میں کمی کی ہے ۔ لیکن اس کے برعکس ہندوستان میں ہر برس اموات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ’را‘ افسر کے خلاف را کی جوابی کاروائی ہندوستان کے خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ انالیسس ونگ یعنی را کے خلاف کچھ لکھنا مہنگاپڑ سکتا ہے۔ گزشتہ برس ’را‘ کے ایک سبکدوش افسر میجر جنرل وی کے سنگھ نے را کے طریقہ کار اور تنطیم پر ایک کتاب لکھی ۔ اس میں انہون نے تنطیم میں بدعنوانی اور بد انتظامی کا ذکر کیا تھا۔ اس کتاب میں انہون نے را کے طریقہ کار بھی انگلیاں اٹھائی تھیں۔ کتاب کی ریلیز کے تین مہینے بعد ستمبر میں سنگھ کے خلاف سی بی آئی نے ایک مقدمہ درج کر لیا تھا اور ان کی رہائش گاہ اور دفتر پر چھاپے مارے تھے۔ اب سی بی آئی میجر جنرل سنگھ کے خلاف سرکاری رازداری قانون کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرنے جا رہی ہے۔ سی بی آئی کا کہنا ہے کہ را کے بعض افسروں نے بتایا ہے کہ سنگھ نے اپنی کتاب کے لیے جو معلومات استعمال کی ہیں وہ خفیہ نوعیت کی تھیں اور انہیں عام نہیں کیا جانا چاہیۓ تھا۔ پٹودی کے ساتھ اداکاربیٹی بھی مصیبت میں سابق کرکٹر منصور علی خان کے خلاف 2005 میں ہریانہ کے جھجھر علاقے میں ایک نایاب ہرن کا شکار کرنے کا ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا اور یہ معاملہ زیر سماعت ہے۔ لیکن گزشتہ دنوں اس معاملے نے ایک نیا موڑ اس وقت لے لیا جب مبینہ طور پر شکار والی بندوق کے سلسلے میں پولیس کی طرف سے پٹودی کی بیٹی اراکارہ سوہا علی خان کو ’وجہ بتاؤ‘ نوٹس جاری کیا گیا۔ سوہا کو دو ہفتے کے اندر جواب دینا ہے۔ گڑگاؤں کے ڈپٹی پولیس کمشنر کی طرف سے جاری کیے گئے نوٹس میں سوہا سے پوچھا گیا ہے کہ کیا انہوں نے یہ رائفل غیر قانونی طریقے سے حاصل کی تھی۔ پولیس کے مطابق بندوق کا لائسنس حاصل کرنے کی کم سے کم عمر ایکس برس ہے اور بقو ل اس کے سوہا نے نومبر 1996 میں جب لائسنس حاصل کیا تھا اس وفت ان کی عمر اٹھارہ برس تھی۔ اس بندوق کا لائسنس کیسے جاری ہوا اور کیا یہی بندوق مبینہ شکار میں استعمال ہوئی تھی یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2005 میں سوہا کے نام اس بندوق کے لائسنس کی تجدید ہوئی تھی۔اس بندوق کے اصل کاغذات سرکاری دفتر سے غائب ہیں۔ |
regional-55321652 | https://www.bbc.com/urdu/regional-55321652 | بنگلہ دیش کا قیام: جب جنگ شروع کرنے کے لیے انڈیا بہتر وقت کے انتظار میں تھا؟ | تین دسمبر 1971 کی شام ہے۔ | 16 دسمبر کو انڈین فوج کے ڈھاکہ میں داخل ہونے پر خوشی منائی جا رہی ہے انڈیا کے اس وقت کے آرمی چیف جنرل سیم مانیکشا کی ٹیلی فون کال انڈین فوج کی مشرقی کمان کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل جیک جیکب کو موصول ہوتی ہے۔ آرمی چیف نے جنرل جیکب کو پیغام دیا کہ پاکستانی طیاروں نے مغربی انڈیا میں واقع فوجی اڈوں پر بمباری کی ہے۔ جنرل جیکب سے کہا گیا کہ وہ اس واقعے کی اطلاع انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی کو دیں۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی اس وقت کلکتہ کے دورے پر تھیں اور ’راج بھون‘ میں ٹھہری ہوئی تھیں۔ انڈین فوج کو اس خبر پر بالکل بھی تشویش نہیں ہوئی کہ پاکستان نے انڈیا پر فضائی حملے کیے ہیں درحقیقت وہ اسی نوعیت کی کسی خبر کا بےصبری سے انتظار کر رہی تھی۔ جنرل جیکب نے اپنی کتاب ’سرنڈر ایٹ ڈھاکہ‘ میں لکھا ہے کہ ’اروڑا (جگجیت سنگھ اروڑا) بہت خوش تھے۔ انھوں نے اپنے اے ڈی سی سے کہا کہ میس سے وہسکی کی ایک بوتل لے آؤ۔ ہم سمجھ گئے کہ آئندہ دنوں میں کوئی آرام نہیں ہو گا۔‘ یہ بھی پڑھیے را کے بانی کاو: ’آپ نہ ہوتے تو 1971 بھی نہ ہوتا‘ بنگلہ دیش کا قیام: جنرل نیازی نے ہتھیار کیوں ڈالے؟ قیامِ بنگلہ دیش اور آپریشن ’جیک پاٹ‘: جب پاکستانی بحری جہاز پانیوں میں ڈبو دیے گئے اس کے بعد سے انڈیا اور پاکستان میں جنگ چھڑ گئی۔ جنگ شروع ہونے کے محض 13 روز بعد ہی پاکستان کو سرنڈر کرنا پڑا۔ اس سے قبل انڈیا اور پاکستان دونوں نے مغربی سرحد پر اپنے فوجی دستے متحرک کر رکھے تھے۔ کئی ماہ قبل ایسی صورتحال تھی کہ یہ متوقع تھا کہ دونوں ملکوں میں جنگ چھڑ سکتی ہے۔ انڈین فوج کی مشرقی کمان کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل جیک جیکب جنگ میں مداخلت کے لیے انڈیا بہتر وقت کے انتظار میں تھا مشرقی پاکستان میں حالات بہت زیادہ خراب ہونے کے چند ماہ بعد قریب ایک کروڑ پناہ گزین بنگلہ دیش کی سرحد پار کر کے انڈیا میں داخل ہو گئے تھے۔ درحقیقت بنگلہ دیش کے قیام میں انڈیا بلاواسطہ ملوث رہا تھا۔ 16 اپریل 1971 میں بنگلہ دیش میں عارضی حکومت کے قیام کے ایک ہفتے کے اندر اندر بنگلہ دیشی حکومت کے قائم مقام صدر سید نذر الاسلام نے انڈیا کی آشیرباد حاصل کرنے کے لیے ایک خط بھی تحریر کیا تھا۔ علاقائی وجوہات کی بنا پر اس وقت انڈیا نے احتیاط برتی لیکن درحقیقت بنگلہ دیش کی عارضی حکومت کو انڈیا کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ مکتی باہنی کے اراکین کو انڈیا میں ٹریننگ دی گئی اور انڈیا نے ہی انھیں ہتھیار فراہم کیے تھے۔ دوسری جانب انڈیا نے ایک کروڑ بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو جگہ دی تھی۔ انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جون میں دنیا بھر کے مختلف ممالک کا دورہ شروع کیا تاکہ پاکستانی فورسز کی جانب سے مشرقی پاکستان میں کیے گئے مبینہ قتل عام کے بارے میں سب کو بتا سکیں۔ انھوں نے متعدد حکومتوں کے سربراہان کو بتایا کہ مشرقی پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور اس سے انڈیا کو کس طرح نقصان پہنچ رہا ہے۔ انھی دوروں کی مدد سے اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کی بنیاد رکھی۔ اندرا گاندھی جب اندرا گاندھی نے جنگ کا اشارہ دیا 24 مارچ 1971 میں لوک سبھا سے مخاطب ہو کر اندرا گاندھی نے بتایا کہ جس بات کو پاکستان کا اندرونی مسئلہ قرار دیا جا رہا ہے وہ انڈیا کا بھی اندرونی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس تقریر کو ڈھاکہ میں انڈین سفارتخانے کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا ہے۔ مشرقی پاکستان سے آئے پناہ گزینوں کا حوالہ دیتے ہوئے اندرا گاندھی نے کہا کہ پاکستان اپنے مسائل کا حل انڈین سرزمین کے ذریعے یا انڈیا کو نقصان پہنچا کر حاصل نہیں کر سکتا۔ ’اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘ سنہ 1971 کے وسط میں بی بی سی کو دیے انٹرویو میں وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ سرحد پر مسئلہ واضح ہو چکا ہے۔ جب اندرا گاندھی سے پوچھا گیا کہ آیا وہ پاکستان پر حملہ کر سکتی ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ’مجھے امید ہے انڈیا ایسا نہیں کرے گا۔ ہم ہمیشہ امن کے حق میں رہے ہیں۔ ہم بات چیت پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن اسی دوران ہم اپنے ملک کی سکیورٹی پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔‘ اندرا گاندھی نے بارہا کہا کہ پاکستان پہلے جیسا نہیں رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ جو کچھ ہمسایہ ملک میں ہو رہا ہے اس پر انڈیا اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔ اندرا گاندھی کی واشنگٹن میں امریکی صدر نکسن سے ملاقات اور مشرقی پاکستان کے بارے میں بات چیت ہنری کسنجر کا دورہ چین: ایک گیم چینجر اب بنگلہ دیش کے قیام سے متعلق انڈیا کے خدشات اور غیر مستحکم صورتحال میں اضافہ ہو چکا تھا۔ بنگلہ دیش سے آئے ایک کروڑ پناہ گزینوں کے دباؤ سے صورتحال پیچیدہ ہو چکی تھی اور بین الاقوامی سیاست اس کی ایک دوسری وجہ تھی۔ پاکستانی حکومت کو ہمیشہ یہ خدشہ رہا تھا کہ انڈیا مشرقی پاکستان میں کسی بھی وقت فوجی مداخلت کر سکتا ہے۔ صدر یحییٰ خان کے ایک مشیر جی ڈبلیو چوہدری کے مطابق جولائی میں پاکستانی حکومت کو خبر ملی کہ انڈیا فوجی تیاریاں کر رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا خفیہ دورۂ چین تھا۔ چوہدری اپنی کتاب ’متحدہ پاکستان کے آخری ایام‘ میں لکھتے ہیں کہ ہنری کسنجر چین کے دورہ سے قبل خفیہ طور پر راولپنڈی پہنچے تھے۔ چین سے واپسی پر واشنگٹن پہنچ کر ہنری کسنجر نے امریکہ میں انڈین سفیر کو بتایا کہ اگر انڈیا نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو چین مداخلت کرے گا۔ کسنجر کے دورۂ چین کے بعد اندرا گاندھی کافی مایوس ہوئیں اور اس کے ایک ماہ بعد انڈیا اور روس میں اتحاد قائم ہوا۔ جی ڈبلیو چوہدری کے مطابق انڈیا اور روس میں اتحاد کے معاہدے کے بعد صورتحال نے ایک مختلف موڑ اختیار کر لیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’روس اور انڈیا کے معاہدے کے بعد پاکستان کی فوجی حکومت کو احساس ہوا کہ انڈیا کے ساتھ جنگ ہونے والی ہے اور پاکستان کو اس جنگ میں شکست ہو گی۔‘ امریکی صدر نکسن اور پاکستان کے فوجی سربراہ یحیٰ خان انڈیا اور روس کے مابین اتحاد کا معاہدہ انڈیا نے اگست 1971 میں روس کے ساتھ اتحاد کے معاہدے پر دستخط کیے جس سے امریکہ ناخوش ہوا۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اس اتحاد کو ’بڑی مایوسی‘ قرار دیا تھا۔ انھوں نے پاکستان کے ساتھ انڈیا کی جنگ کا الزام انڈیا، سوویت معاہدے پر ڈالا۔ وہ اپنی کتاب ’وائٹ ہاؤس ایئرز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سوویت یونین انڈیا کو روک سکتا تھا۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ درحقیقت سوویت یونین نے اتحاد کے معاہدے کے ذریعے جنگ کے لیے اشتعال انگیزی کی۔‘ کسنجر لکھتے ہیں کہ 24 نومبر 1971 میں اندرا گاندھی نے یہ مانا کہ انڈین فوجی دستے سرحد پار کر کے پاکستان داخل ہو چکے ہیں۔ اندرا گاندھی نے کہا کہ انھوں نے ایسا صرف ایک مرتبہ کیا ہے۔ سوویت یونین کی حمایت کے بعد ہی انڈیا نے بھرپور جنگ کی جرات کی۔ تین دسمبر 1971 کو پاکستان میں مداخلت کے بعد انڈیا براہ راست اس جنگ میں فریق بن چکا تھا اور اندرا گاندھی نے چھ دسمبر 1971 کو بنگلہ دیش کو بطور ریاست تسلیم کر لیا۔ سات دسمبر کو وزیر اعظم تاج الدین نے ایک ریڈیو خطاب میں کہا کہ ’ہمارے جنگجو اب انڈین فوج کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں اور ان کا خون اس مٹی میں بہہ رہا ہے۔‘ اس خطاب میں تاج الدین نے اندرا گاندھی کا شکریہ ادا کیا تھا۔ انڈیا کی جنگ میں مداخلت کے بعد اتحادی فوج قائم ہوئی۔ کچھ ہی دنوں میں جیسور، کھلنا اور نوخالی انڈیا اور مکتی باہنی کے قبضے میں آ گئے۔ اب جنگ میں پاکستانی فورسز کی شکست کسی بھی وقت ہو سکتی تھی۔ اتحادی فوج 14 دسمبر تک ڈھاکہ پہنچ گیا۔ پاکستانی فوج کے افسران کی پریشانی اس جنگ میں جیسے جیسے پیشرفت ہوتی رہی ویسے ویسے پاکستانی فوج کے افسران کے بیچ رابطہ ختم ہوتا گیا۔ ہر شخص کے لیے حکمت عملی مختلف تھی۔ سنہ 1971 کی جنگ پر پاکستانی فوج کے سینیئر افسران کی لکھی گئی کتابوں میں ہر کوئی دوسرے پر الزام لگاتا نظر آتا ہے۔ سنہ 1971 میں لیفٹیننٹ جنرل گل حسن خان پاکستانی فوج کے چیف آف جنرل سٹاف تھے۔ ان کے مطابق انڈیا سے جنگ کے کچھ ماہ قبل فوج کا ہیڈ کوارٹر بظاہر غیر موثر ہو چکا تھا۔ وہ اپنی کتاب میں سنہ 1971 کی جنگ سے جڑے واقعات ’میموریز آف گل حسن خان‘ میں لکھتے ہیں کہ جنرل نیازی کے فہم میں نہیں تھا کہ انڈیا براہ راست پاکستان پر حملہ کر دے گا۔ ’مجھے لگا کہ ہم میں سے کوئی شاید کسی کو سمجھ نہیں سکا۔ انڈیا پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا، مجھے نہیں معلوم انھیں اس بات کی تسلی کس نے دی تھی۔‘ میجر جنرل راؤ فرمان علی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستانی فوج کے افسران جنگ کی حکمت عملی کے بارے میں کتنے لاعلم تھے۔ سنہ 1971 میں وہ ڈھاکہ میں تعینات تھے اور فوج کی طرف سے انھوں نے سول انتظامی امور سنبھالے ہوئے تھے۔ جنرل فرمان علی لکھتے ہیں کہ انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ نے انڈین حملے کو ایک ’مذاق‘ سمجھا تھا۔ جی ڈبلیو چوہدری لکھتے ہیں کہ انڈیا کی مدد کو سوویت یونین کی سپر پاور آ گئی تھی۔ دوسری طرف امریکہ اور چین نے پاکستان کو صرف ’مورل سپورٹ‘ دی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کو ان دونوں ملکوں سے کوئی فوجی مدد نہیں ملی تھی۔ ان کے مطابق سنہ 1971 کی جنگ میں پاکستان کو ہرانے کے بعد انڈیا نے برصغیر میں غالب شخصیت کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ تاہم کئی بنگلہ دیشی آج بھی اپنی ’جنگِ آزادی‘ میں انڈیا کے کردار کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ سنہ 2012 میں بنگلہ دیش نے ’جنگ آزادی‘ میں خدمات پر 63 غیر ملکیوں کو اعزاز سے نوازا تھا۔ ان میں سے 31 انڈین شہری تھے۔ یہ تقریب مرحوم اندرا گاندھی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے شروع ہوئی تھی۔ |