text
stringlengths
0
57
کیوں بڑی بی مزاج کیسے ہیں
گائے بولی کہ خیر اچھّے ہیں
کٹ رہی ہے بُری بھلی اپنی
ہے مصیبت میں زندگی اپنی
جان پر آ بنی ہے، کیا کہیے
اپنی قِسمت بُری ہے، کیا کہیے
دیکھتی ہوں خدا کی شان کو مَیں
رو رہی ہوں بُروں کی جان کو مَیں
زور چلتا نہیں غریبوں کا
پیش آیا لِکھا نصیبوں کا
آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے
اس سے پالا پڑے، خدا نہ کرے
دُودھ کم دوں تو بڑبڑاتا ہے
ہوں جو دُبلی تو بیچ کھاتا ہے
ہتھکنڈوں سے غلام کرتا ہے
کِن فریبوں سے رام کرتا ہے
اس کے بچوں کو پالتی ہوں مَیں
دُودھ سے جان ڈالتی ہوں مَیں
بدلے نیکی کے یہ بُرائی ہے
میرے اﷲ تری دُہائی ہے
سُن کے بکری یہ ماجرا سارا
بولی، ایسا گِلہ نہیں اچھّا
بات سچّی ہے بے مزا لگتی
مَیں کہوں گی مگر خدا لگتی
یہ چراگہ، یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
یہ ہری گھاس اور یہ سایا
ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں
یہ کہاں، بے زباں غریب کہاں
یہ مزے آدمی کے دَم سے ہیں
لُطف سارے اسی کے دَم سے ہیں
اس کے دَم سے ہے اپنی آبادی
قید ہم کو بھلی کہ آزادی
سَو طرح کا بَنوں میں ہے کھٹکا
واں کی گُزران سے بچائے خُدا
ہم پہ احسان ہے بڑا اس کا
ہم کو زیبا نہیں گِلا اس کا
قدر آرام کی اگر سمجھو
آدمی کا کبھی گِلہ نہ کرو
گائے سُن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گِلے سے پچھتائی
دل میں پرکھا بھلا بُرا اُس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اُس نے
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
بچے کی دُعا
لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے
ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
عِلم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
دردمندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا
مرے اﷲ بُرائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو
ہمدردی
بچوں کے لیے
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اُڑنے چُگنے میں دن گزارا
پہنچوں کِس طرح آشیاں تک
ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا
سُن کر بُلبل کی آہ و زاری
جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا
حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے
کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
مَیں راہ میں روشنی کروں گا
اﷲ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دِیا بنایا
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے
آتے ہیں جو کام دوسرں کے
ماں کا خواب
بچوں کے لیے
میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب
یہ دیکھا کہ مَیں جا رہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ مِلتی نہیں
لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال
قدم کا تھا دہشت سے اُٹھنا محال
جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی
تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی
زَمرّد سی پوشاک پہنے ہوئے
دِیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے
وہ چُپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں
خدا جانے جانا تھا اُن کو کہاں
اسی سوچ میں تھی کہ میرا پِسر
مجھے اُس جماعت میں آیا نظر
وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا
دِیا اُس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا
کہا مَیں نے پہچان کر، میری جاں
مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں؟
جُدائی میں رہتی ہوں مَیں بے قرار
پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار