text
stringlengths
0
57
اس تفتہ دل کا نخلِ تمنا ہرا نہ ہو
گِرنا ترے حضور میں اس کی نماز ہے
ننھّے سے دل میں لذّتِ سوز و گداز ہے
کچھ اس میں جوشِ عاشقِ حُسنِ قدیم ہے
چھوٹا سا طُور تُو، یہ ذرا سا کلیمِ ہے
پروانہ، اور ذوقِ تماشائے روشنی
کِیڑا ذرا سا، اور تمنّائے روشنی
عقل و دِل
عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا
بھُولے بھٹکے کی رہنما ہُوں میں
ہوں زمیں پر، گزر فلک پہ مرا
دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں
کام دنیا میں رہبری ہے مرا
مثل خضرِ خجستہ پا ہوں میں
ہوں مفسِّر کتابِ ہستی کی
مظہرِ شانِ کبریا ہوں میں
بوند اک خون کی ہے تُو لیکن
غیرتِ لعلِ بے بہا ہوں میں
دل نے سُن کر کہا یہ سب سچ ہے
پر مجھے بھی تو دیکھ، کیا ہوں میں
رازِ ہستی کو تُو سمجھتی ہے
اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں
ہے تجھے واسطہ مظاہر سے
اور باطن سے آشنا ہوں میں
عِلم تجھ سے تو معرفت مجھ سے
تُو خدا جُو، خدا نما ہوں میں
علم کی انتہا ہے بے تابی
اس مرض کی مگر دوا ہوں میں
شمع تُو محفلِ صداقت کی
حُسن کی بزم کا دِیا ہوں میں
تُو زمان و مکاں سے رشتہ بپا
طائرِ سِدرہ آشنا ہوں میں
کس بلندی پہ ہے مقام مرا
عرش ربِّ جلیل کا ہوں میں
صدائے درد
جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے اے محیطِ آبِ گنگا تو مجھے
سرزمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا، یاں تو اک قُرب فراق آمیز ہے
بدلے یک رنگی کے یہ ناآشنائی ہے غضب
ایک ہی خرمن کے دانوں میں جُدائی ہے غضب
جس کے پھُولوں میں اخوّت کی ہوا آئی نہیں
اُس چمن میں کوئی لُطفِ نغمہ پیرائی نہیں
لذّتِ قُربِ حقیقی پر مِٹا جاتا ہوں میں
اختلاطِ موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں
دانۀ خرمن نما ہے شاعرِ معجزبیاں
ہو نہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں
حُسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو
شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو
ذوقِ گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں
میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں
کب زباں کھولی ہماری لذّتِ گفتار نے
پھُونک ڈالا جب چمن کو آتشِ پیکار نے
آفتاب
اے آفتاب رُوح و روانِ جہاں ہے تُو
شیرازہ بندِ دفترِ کون و مکاں ہے تُو
باعث ہے تُو وجود و عدم کی نمود کا
ہے سبز تیرے دم سے چمن ہست و بود کا
قائم یہ عُنصروں کا تماشا تجھی سے ہے
ہر شے میں زندگی کا تقاضا تجھی سے ہے
ہر شے کو تیری جلوہ گری سے ثبات ہے
تیرا یہ سوز و ساز سراپا حیات ہے
وہ آفتاب جس سے زمانے میں نور ہے
دل ہے، خرد ہے، روحِ رواں ہے، شعور ہے
اے آفتاب ہم کو ضیائے شعور دے
چشمِ خرد کو اپنی تجلّی سے نور دے
ہے محفلِ وجود کا ساماں طراز تُو
یزدانِ ساکنانِ نشیب و فراز تُو
تیرا کمال ہستیِ ہر جاندار میں
تیری نمود سلسلۀ کوہسار میں
ہر چیز کی حیات کا پروردگار تُو
زائیدگانِ نُور کا ہے تاجدار تُو
نے ابتدا کوئی نہ کوئی انتہا تری
آزادِ قیدِ اوّل و آخر ضیا تری
شمع
بزمِ جہاں میں مَیں بھی ہُوں اے شمع دردمند
فریاد در گرہ صفَتِ دانۀ سپند
دی عشق نے حرارتِ سوزِ درُوں تجھے
اور گُل فروشِ اشکِ شفَق گوں کِیا مجھے
ہو شمعِ بزمِ عیش کہ شمع مزار تُو
ہر حال اشکِ غم سے رہی ہمکنار تُو
یک بِیں تری نظر صفتِ عاشقانِ راز
میری نگاہ مایۀ آشوبِ امتیاز
کعبے میں، بُت کدے میں ہے یکساں تری ضیا
مَیں امتیازِ دیر و حرم میں پھنسا ہُوا
ہے شان آہ کی ترے دُودِ سیاہ میں
پوشیدہ کوئی دل ہے تری جلوہ گاہ میں؟
جلتی ہے تُو کہ برقِ تجلّی سے دُور ہے
بے درد تیرے سوز کو سمجھے کہ نُور ہے
تُو جل رہی ہے اور تجھے کچھ خبر نہیں
بِینا ہے اور سوز درُوں پر نظر نہیں
مَیں جوشِ اضطراب سے سیماب وار بھی
آگاہِ اضطرابِ دلِ بے قرار بھی
تھا یہ بھی کوئی ناز کسی بے نیاز کا
احساس دے دیا مجھے اپنے گداز کا
یہ آگہی مری مجھے رکھتی ہے بے قرار