url
stringlengths
14
138
Summary
stringlengths
39
3.22k
Text
stringlengths
230
2.44k
/ur/پیرس-منعقدہ-لیبیا-کانفرنس-15-ارب-ڈالر-کے-منجمد-اثاثے-بحال/a-15359919
جمعرات کو فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں تقریباً 60 ملکوں کے نمائندے جمع ہوئے تاکہ آپس میں صلاح و مشورے اور اتفاقِ رائے سے لیبیا کی عبوری قومی کونسل کے لیے اربوں ڈالر کی امداد کا معاملہ طے کر سکیں۔
عبوری قومی کونسل نے، جسے اب دُنیا کے تقریباً 80 ممالک لیبیا کا جائز نمائندہ تسلیم کر چکے ہیں، پیرس کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ بیرونی دُنیا میں لیبیا کے جو بھی اثاثے منجمد کیے گئے تھے، اُنہیں جلد از جلد بحال کیا جائے۔ کونسل اس رقم کی مدد سے پبلک سروس کے ملازمین کو ادائیگی کرنا چاہتی ہے، جنہیں گزشتہ کئی مہینوں سے اُن کی تنخواہیں اور اجرتیں نہیں دی گئیں۔ اُدھر دارالحکومت طرابلس میں بنیادی سہولتوں کے نظام بحال کرنے کے لیے بھی رقم کی ضرورت ہے۔ کئی ملین کی آبادی والے طرابلس میں ابھی بھی ہر دَس میں سے چھ شہریوں کے پاس پانی نہیں ہے اور فراہمیء آب کے ساتھ ساتھ نکاسیء آب کے نظام کو بھی فوری طور پر بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اس کانفرنس کے میزبان تھے۔ اِس کانفرنس میں روس اور چین بھی شریک ہوئے، جنہوں نے جرمنی ہی کی طرح عالمی سلامتی کونسل میں لیبیا سے متعلق قرارداد میں اپنا حق رائے دہی محفوظ رکھا تھا۔ چین محض ایک مبصر کے طور پر پیرس کانفرنس میں شریک ہوا۔ روس نے اس کانفرنس کے آغاز سے کچھ ہی پہلے عبوری قومی کونسل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
/ur/سنگاپور-کی-پابندیوں-کے-خلاف-بڑی-انٹرنیٹ-کمپنیاں-یکجا/a-16936055
سنگاپور کی جانب سے نیوز ویب سائٹس کے خلاف پابندیاں مزید سخت کرنے پر تنقید جاری ہے۔ اب اس تنقید میں بڑی بڑی انٹرنیٹ کمپنیاں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نئے قوانین انٹرنیٹ صنعت کے لیے نقصان دہ ہیں۔
’ایشیا انٹرنیٹ کولیشن‘ نامی صنعتی تنظیم کی طرف سے ان خیالات کا اظہار ایک خط میں کیا گیا ہے جو سنگاپور کے کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن کے وزیر کے نام لکھا گیا ہے۔ یاد رہے کہ گوگل، ای بے، فیس بُک اور یاہو اس یک شہری ریاست میں بڑی کمپنیوں کے طور پر موجود ہیں۔ گُوگل کی طرف سے ایک علیحدہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسے انٹرنیٹ کے حوالے سے ان نئے قوانین کے طویل المدتی اثرات سے متعلق تحفظات ہیں، خاص طور پر انٹرنیٹ سے وابستہ مقامی کمپنیوں کے لیے جو قانونی حوالے سے زیادہ خطرات اور بے یقینی کا شکار ہوں گے۔ رواں برس مئی کے آخر میں سنگاپور کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ایسی ویب سائٹس جو سنگاپور کے بارے میں رپورٹس دیتی ہیں ان کو لائسنس حاصل کرنا ہوگا۔ حکومت کی طرف سے ایسی 10 ویب سائٹس کے نام بھی جاری کیے گئے تھے جن پر نئے رولز کا اطلاق ہونا تھا، انہی میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ایسی ویب سائٹ پر ہر ماہ سنگاپور سے کم ازکم یونیک وزیٹرز ہونے چاہییں۔ سنگاپور کی میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (MDA) کے مطابق نئی تبدیلیوں سے نیوز ویب سائٹ سے متعلق قوانین کو یکساں بنانے میں مدد ملےگی۔ تاہم اس ادارے کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس کی طرف سے ویب سائٹس پر جاری کیے جانے والے مواد کے حوالے سے اس کے پہلے سے طے شدہ معیارات میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
/ur/ایشیا-کے-لیے-امریکا-کا-عزم-اور-شکوک-وشبہات/a-17146702
امریکی صدر باراک اوباما کی طرف سے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا دورہ منسوخ کرنے کی وجہ سے اس خطے کے لیے واشنگٹن کے عزائم کے بارے میں کچھ شکوک وشبہات پیدا ہو گئے ہیں۔
گزشتہ کچھ سالوں میں یہ تیسری مرتبہ ہوا ہے کہ اوباما نے ملک کے داخلی مسائل کی وجہ سے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا دورہ منسوخ کیا ہے۔ ناقدین کے بقول اس صورتحال میں بحر الکاہل کے علاقوں میں چین اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ یہ طے تھا کہ امریکی صدر باراک اوباما بحرالکاہل کے علاقوں میں سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی سے متعلق معاملات میں اپنا تعاون بڑھانے کے عزم کی یقین دہانی کے لیے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا دورہ کریں گے۔ آسیان کی سربراہی سمٹ میں امریکی صدر اوباما کی عدم موجودگی پر ملا جلا ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ کچھ ناقدین کے بقول واشنگٹن انتظامیہ ایشیا کے لیے اپنی طویل المدتی پالیسی میں تسلسل رکھنے میں کامیاب رہے گی۔ امریکی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم (آسیان) امریکی برآمدات کی چوتھی سب سے بڑی منڈی ہے۔2009ء میں اس خطے میں تجارت کا حجم 145 بلین ڈالر تھا جو 2012ء میں بڑھ کر 198 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
/ur/افغانستان-میں-نیٹو-کے-لئے-خونریز-ہفتہ-ہیلی-کاپٹر-تباہ/a-5668373
طالبان عسکریت پسندوں نے جنوبی افغانستان میں نیٹوکا ایک ہیلی کاپٹر مار گرایا ہے۔ اس حادثے میں چار امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے ساتھ اس ہفتے ہلاک ہونے والے غیر ملکی فوجیوں کی تعداد 23 تک جا پہنچی ہے۔
انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس آئی سیف کا یہ ہیلی کاپٹر ہلمند صوبے میں عسکریت پسندوں کی کارروائی کا نشانہ بنا۔ افغانستان میں تعینات تقریبا ایک لاکھ تیس ہزارغیر ملکی فوجی وہاں افغان حکومت کی مضبوطی کے لئے عسکریت پسندوں سے برسرپیکار ہیں۔ افغانستان میں غیر ملکی فوج کے ایک ترجمان لیفٹینٹ کرنل جوزف بریسیلے نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس ہیلی کاپٹر کو زمین سے نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ مرنے والے تمام فوجی امریکی تھی۔ طالبان عسکریت پسندوں کے ایک ترجمان یوسف احمدی نے ایک نامعلوم مقام سے فرانسیسی خبررساں ادارےAFP کو ٹیلی فون کر کے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی۔ انہوں نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر کو ایک راکٹ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ہیلی کاپٹر کو ہلمند کے سنگین ضلع کے ایک بازار میں مارگرایا گیا۔ اتوار سے اب تک افغانستان میں23 نیٹو فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ صرف پیرکے روز 10 فوجی عسکریت پسندوں کی مختلف کارروائیوں کا نشانہ بنے۔ دس فوجیوں کی ہلاکت نے پیرکے دن کو افغانستان میں متعین نیٹو افواج کے لئے سب سے خونریز دن بنا دیا ہے۔ ان ہلاک شدگان میں سے سات امریکی، دو آسٹریلوی اور ایک فرانسیسی فوجی تھے۔ رواں برس ہلاک ہونے والے غیر ملکی فوجیوں کی مجموعی تعداد اب 253 ہو چکی ہے۔ گزشتہ برس مجموعی طور پر 520 غیر ملکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
/ur/نگران-وزير-اعظم-کا-انتخاب-اليکشن-کميشن-کا-اجلاس/a-16695241
اسلام آباد ميں نگراں وزير اعظم کے انتخاب کے ليے ہونے والا اليکشن کميشن کا اجلاس آج 24 مارچ تک کے ليے ملتوی کر ديا گيا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق يہ اجلاس چیف الیکشن کمشنرکی ناساز طبیعت کی وجہ سے ملتوی کیا گیا ہے۔
اسلام آباد سے موصولہ اطلاعات کے مطابق سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے آج بروز ہفتہ اجلاس کے پہلے دن کے اختتام پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہيں مطلع کيا کہ اگرچہ نگران وزير اعظم کے نام پر حتمی سمجھوتہ تاحال نہیں ہو سکا تاہم ايسا بھی ممکن ہے کہ اس حوالے سے فيصلہ آج ہی کسی وقت ہو جائے۔ دريں اثناء مقامی رپورٹوں کے مطابق الیکشن کمیشن کے ايک رکن جسٹس ریٹائرڈ ریاض کیانی نے بتايا کہ اجلاس کو چیف الیکشن کمشنر فخرالدين جی ابراہيم کی ناسازی طبیعت کی وجہ سے ملتوی کیا گیا ہے۔ اس سے قبل موصولہ اطلاعات کے مطابق چيف اليکشن کمشنر کی صدارت ميں ہونے والے اس اجلاس ميں صوبہ بلوچستان، خيبر پختونخوا اور پنجاب کے نمائندے شريک تھے جبکہ سندھ کے نمائندے روشن عیسانی کو آج شام اسلام آباد پہنچنا تھا۔ اليکشن کميشن آف پاکستان کے سيکرٹری اشتياق احمد نے اجلاس سے قبل ذرائع ابلاع کو مطلع کيا تھا کہ مجوزہ ناموں ميں سے کسی ايک پر سمجھوتے کے ليے کميشن ہفتے اور اگر ضرورت پڑی تو اتوار کے روز بھی يہ اجلاس جاری رکھے گا۔ مقامی ميڈيا کے مطابق اليکشن کميشن آف پاکستان کو حکومت اور اپوزيشن کی جانب سے جو چار نام ديے گئے ہيں، ان ميں جسٹس ريٹائرڈ ناصر اسلم زاہد، جسٹس ريٹائرڈ مير ہزار خان کھوسو، ڈاکٹر عشرت حسين اور رسول بخش پليجو شامل ہيں۔
/ur/قحط-زدہ-قرن-افريقہ-کے-ليے-مزيد-جرمن-امداد/a-15319103
جرمنی قرن افريقہ کے خشک سالی کے شکار ممالک کو زيادہ مدد دے گا ليکن جرمن ترقياتی امداد کے وزير نيبل نے کہا کہ اس امداد کا زيادہ تر حصہ اس علاقے کی تعمير نو کے لمبی مدت کے منصوبوں پر خرچ کيا جائے گا۔
جرمنی کے ترقياتی امداد کے وزير ڈرک نيبل نے نيروبی ميں کينيا کے صدر موائی کيباکی سے ملاقات کے بعد، جس ميں کينيا کے نصف اراکين حکومت موجود تھے صحافيوں سے باتيں کرتے ہوئے کہا: ’’جرمن حکومت نے فيصلہ کيا ہے کہ قرن افريقہ کی بہت مشکل صورتحال کی وجہ سے وہ اپنی امداد ميں مزيد اضافہ کرے گی۔‘‘ نيبل نے يہ خبر سنانے کے ليے اپنے کينيا جانے اور وہاں کی حکومت سے بات چيت کا انتظار کيا حالانکہ پچھلے دنوں کے دوران اپوزيشن اور بہت سی امدادی تنظيموں کی طرف سے جرمن حکومت کی امداد ناکافی ہونے پر تنقيد مسلسل بڑھتی رہی تھی۔ اُن کا مطالبہ تھا کہ جرمنی قرن افريقہ کے ليے کم از کم اُتنی مدد تو فراہم کرے جتنی کہ برطانيہ، امريکہ يا ہالينڈ نے دينے کا وعدہ کيا ہے۔ ڈرک نيبل نے مزيد 118ملين يورو تک کی امداد دينے کا اعلان کيا ہے۔ اس طرح اب جرمنی 150 ملين يورو سے زيادہ مدد دے گا۔ ترقياتی امداد کے وزير اس رقم کو ضروری سمجھتے ہيں کيونکہ وہ خشک سالی کے شکار بہت سے افراد کی جان بچانے کے ليے درکار ہے۔ کينيا کے مہاجر کيمپ داداب ميں مندرج شدہ 4 لاکھ 20 ہزار مہاجر رہ رہے ہيں۔ ان ميں سے زيادہ تر کا تعلق صوماليہ سے ہے۔ کيمپ کے مہاجرين سے حسد کو روکنے کے ليےارد گرد رہنے والی کينيا کی آبادی کو بھی غذا کی فراہمی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
/ur/کشمیر-بھارتی-سفارتکار-کا-متنازعہ-بیان-پاکستان-کی-طرف-سے-مذمت/a-51451545
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اسرائیلی ماڈل اپنانے سے متعلق نیو یارک میں بھارتی قونصل جنرل کے مبینہ بیان کے بعد تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے اس بیان کی مذمت کی جبکہ بھارت نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
آئینی شق 370میں ترمیم ایک سفارتی جنگ سندیپ چکرورتی نے جموں ارو کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی بھارتی آئین کی شق 370 کے مودی حکومت کی طرف سے منسوخ کیے جانے کی تعریف کرتے ہوئے کہا، ''بھارت سرکار صرف آئینی ترمیم کے لیے اتنا بڑا بین الاقوامی خطرہ مول نہیں لیتی۔ یہ ایک بین الاقوامی سفارتی جنگ تھی اور ہم اس میں کامیاب رہے۔ ہم میں سے کوئی بھی کشمیر کے بغیر بھارت کا تصور نہیں کر سکتا۔" نئی دہلی میں مودی حکومت نے اسی سال پانچ اگست کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے ریاست جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے جموں و کشمیر اور لداخ کے نام سے مرکز کے زیر انتظام دو مختلف یونین علاقے قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ عمران خان کی طرف سے مذمت بھارتی قونصل جنرل کے اس بیان پر پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا تھا، ''یہ بیان کشمیر میں آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی والی بھارتی حکومت کی فسطانی ذہنیت کا مظہر ہے۔ کشمیر میں محاصرے کو سو دن ہو چکے ہیں۔ وہاں عوام کو سنگین صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کے انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ لیکن دنیا کے طاقت ور ممالک اپنے تجارتی مفادات کی وجہ سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔" ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی مربی تنظیم ہے اور بھارت میں ایک ہندو ریاست قائم کرنے کا بار بار سرعام اعلان کرتی رہی ہے۔
/ur/کھلاڑی-میچ-فکسنگ-کے-خطرات-سے-آگاہ-ہیں-آفریدی/a-5980217
پاکستان کرکٹ ٹیم کے ون ڈے کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ ان کے کھلاڑی میچ فکسنگ کے خطرات سے آگاہ ہیں اور انہیں اس کی سنجیدگی سمجھا دی گئی ہے۔
خبررساں ادارے AFP کے مطابق بعض تجزیہ کاروں نے سوال اٹھائے ہیں کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو ممکنہ کرپشن کے خطرات سے مناسب طور پر آگاہ کیا گیا تھا یا نہیں؟ تاہم شاہد آفریدی نے پیر کو صوفیہ گارڈنز میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ’آئی سی سی کے لوگ ہمارے پاس آ رہے ہیں اور فکسنگ سے متعلق معاملات پر گفتگو کر رہے ہیں. مجھے لگتا ہے کہ ہم سب کو اس بارے میں معلوم ہے اور آئی سی سی کے اہلکار اپنا کام کر رہے ہیں۔ ‘ پاکستان کے ٹیسٹ کپتان سلمان بٹ، باؤلرز محمد عامر اور محمد آصف کو انٹرنیشنل کرکٹ سے عبوری طور پر معطل کیا جا چکا ہے۔ آئی سی سی نے یہ فیصلہ ان کھلاڑیوں کے بارے میں برطانوی اخبار ’دی نیوز آف دی ورلڈ‘ میں میچ فکسنگ کے الزامات کی اشاعت کے بعد کیا۔ اُدھر محمد عامر کی کم عمر کے حوالے سے بعض سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ آئی سی سی کے سربراہ ہارون لوگاٹ اور انگلینڈ کے سابق کپتان Michael Atherton کی جانب سے محمد عامر کے خلاف الزامات ثابت ہونے پر، اس کے خلاف سزا کا فیصلہ کرتے ہوئے، اس کی عمر کا لحاظ کئے جانے کی تجویز سامنے آ چکی ہے، جسے پاکستانی ٹیم کے ایسوسی ایٹ منیجر شفقت رانا نے خارج از امکاں قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’میرے خیال میں سزا سب کے لئے ایک جیسی ہونی چاہئے۔‘
/ur/خیبر-پختونخوا-تعلیم-صحت-اور-توانائی-کی-ایمرجنسی/a-16889264
خیبر پختونخوا حکومت نے اگلے مالی سال کے لیے اپنا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ اس بجٹ کے تحت صوبے میں تعلیم، توانائی اور صحت کے شعبہ جات میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
خیبر پختنوخوا میں اگلے مالی سال کے بجٹ میں صوبے کی حدود میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت زمینی یا فضائی راستے سے سامان کی ترسیل پر ٹیکس نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ دوسری جانب افغانستان میں قیام پذیر نیٹو افواج کو اشیائے ضرورت سپلائی کرنے والی گاڑیوں سے کوئی صوبائی ٹیکس نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نیٹو کی سپلائی کو غیر قانونی سمجھتی ہے اور وفاق سے اسے بند کرنے کے لیے بات کی جائے گی۔ صوبائی حکومت کے مطابق اس پر ٹیکس عائد کرنے کا مطلب یہی ہوگا کہ یہ سپلائی قانونی ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ سراج الحق نے سال دو ہزار تیرہ و چَودہ کے بجٹ کو ٹیکس فری بجٹ قرار دیا ہے۔ بجٹ دستاویزات کی رُو سے خدمات پر ٹیکس وصول کرنے کے لیے ایک ریوینو اتھارٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا:”بجٹ کا کُل حجم 344 ارب روپے ہے اور یہ کہ اس میں سے زیادہ تر رقم تعلیم، صحت، توانائی اور امن و امان کی صورتحال میں بہتری لانے کے لیے مختص کی گئی ہے۔ اس بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے 66 ارب روپے سے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے اور کوشش کی ہے کہ عام اور غریب آدمی کو ریلیف پہنچائیں۔ چار لاکھ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ بھی کیا اور اب ان سے نظام میں بہتری لانے کے لیے توقعات بھی وابستہ کی ہیں۔ بے روزگار ہُنر مند نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق تین سال کے لیے قرضے دیں گے تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکیں۔“
/ur/لیڈی-گاگا-ایم-ٹی-وی-ایوارڈز-نامزدگیوں-میں-سب-سے-آگے/a-5866786
پاپ سٹار لیڈی گاگا وہ پہلی گلوکارہ بن گئی ہیں، جنہوں نے ایم ٹی وی میوزک ویڈیو ایوارڈز میں تیرہ نامزدگیاں حاصل کرنے کا ایک منفرد ریکارڈ قائم کر لیا ہے۔
موسیقی کی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز کہلانے والے ایم ٹی وی ویڈیو ایوارڈز میں سال کے بہترین میوزک ویڈیو کے لئے لیڈی گاگا کے تیرہ گانوں کو منتخب کیا گیا ہے۔ اس سے قبل سب سے زیادہ نامزدگیاں مشہور زمانہ پاپ گلوکار ایمینم کے ویڈیوز کی ہوئی تھیں، جن کی تعداد آٹھ رہی تھی۔ رواں برس لیڈی گاگا کے مشہور ترین گانے ’’بیڈ رومانس‘‘ اور ’’ٹیلی فون‘‘ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایم ٹی وی میوزک ایوارڈز کے لئے لیڈی گاگا کے منتخب کئے گئے ویڈیوز میں ’’فلورینس‘‘ ، ’’ دی مشینز ڈاگ ڈیز آر اوور‘‘ اور ’’کنگز اینڈ کوئنز بائے 30 سیکنڈز ٹو مارس‘‘ شامل ہیں۔ اس بار ایمینم کا صرف ایک گیت ایوارڈز کے لئے منتخب کیا گیا ہے اور وہ ہے ’’ناٹ ایفریڈ‘‘۔ ایم ٹی وی ایوارڈز میں لیڈی گاگا اتنی زیادہ نامزدگیاں حاصل کرنے والی پہلی گلوکارہ بن گئی ہیں لیڈی گاگا نے اپنے بیان میں اپنے مداحوں اور ایم ٹی وی کا شکریہ بھی ادا کیا۔ ایم ٹی وی میوزک ایوارڈز اگلے ماہ کی 12 تاریخ کو امریکہ میں منعقد ہوں گے۔ ان گلوکاروں کے لئے فینز کی ووٹنگ کا سلسلہ ایم ٹی وی کی ویب سائٹ پر ابھی سے شروع کر دیا گیا ہے۔
/ur/ایران-ٹکراؤ-کے-راستے-پر-ہے-امریکی-سینیٹر-کی-تنبیہ/a-15464772
ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی ممتاز امریکی سینیٹر ڈائیان فائن سٹائن نے خبردار کیا ہے کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیوں میں تیزی اور امریکہ میں سعودی سفیر کے قتل کی مبینہ منصوبہ بندی کرتے ہوئے ’ٹکراؤ کے راستے‘ پر ہے۔
ڈائیان فائن سٹائن نے، جو امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی کی سربراہ بھی ہیں، کہا کہ یہ ایران کے ساتھ جنگ کا وقت تو نہیں تاہم سخت بین الاقوامی پابندیاں لگا کر تہران حکومت کے رویے میں تبدیلی کی ضرورت بہرحال موجود ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز کے ایک پروگرام کے لیے اپنے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ ایران کے مرکزی بینک کے خلاف سخت ترین پابندیوں کی حمایت کرتی ہیں۔ ’’ایران اپنی جوہری سرگرمیوں میں تیزی لا رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایران مخالفانہ رویے پر تلا ہوا ہے اور یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔‘‘ فائن سٹائن نے کہا کہ ابتدا میں انہیں بھی ان اطلاعات پر شک تھا کہ ایران کی القدس فورس منشیات کے میکسیکن سمگلروں کا سہارا لے کر امریکہ میں سعودی سفیر کے قتل کی منصوبہ بندی میں ملوث ہو سکتی ہے، تاہم شواہد کا بغور جائزہ لینے کے بعد ان کے یہ شکوک دور ہو چکے ہیں۔ ان کا اشارہ گرفتار کیے جانے والے اس ایرانی نژاد امریکی شہری کے اعتراف جرم کی جانب تھا، جس میں اس نے قبول کیا تھا کہ اس نے ایک امریکی ریستوراں پر کار بم حملے کے ذریعے سعودی سفیر کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی۔ جب فائن سٹائن سے یہ پوچھا گیا کہ آیا امریکہ ایران کے اندر القدس فورس کے خلاف کوئی کارروائی کر سکتا ہے، تو ان کا کہنا تھا، ’یہ غالبا ایک جنگ کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے اور سوال یہ ہے کہ آیا ہم اس وقت ایران کے ساتھ جنگ چاہتے ہیں؟ میرا جواب ہو گا، نہیں۔‘‘
/ur/ٹرمپ-نے-ماحولیاتی-تحفظ-سے-متعلق-اوباما-دور-کے-قوانین-کا-خاتمہ-کر-دیا/a-38181548
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ماحولیاتی تحفظ سے متعلق ان قوانین کے خاتمے کے لیے صدارتی فرمان پر دستخط کر دیے جو سابق صدر باراک اوباما کے دور میں بنائے گئے تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے گزشتہ روز جاری کیے گئے صدارتی حکم نامے میں خاص طور پر ان ضابطوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن کی رُو سے امریکی ریاستوں کو پاور پلانٹس سے خارج ہونے والی کاربن کی مقدار کو کم کرنا تھا۔ پیرس میں 2015ء میں طے پانے والے ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے پر عملدرآمد کے لیے امریکا کے لیے ضروری تھا کہ وہ فضا میں چھوڑی جانے والی ضرر رساں گیسوں کی مقدار میں کمی لائے۔ صدارتی حکم نامے پر دستخط کے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا، ’’میں آج اپنے وعدے پر عملدرآمد کا دلیرانہ قدم اٹھا رہا ہوں۔ میری انتظامیہ کوئلے کے خلاف جنگ کا خاتمہ کر رہی ہے۔ ہم اب کوئلے سے ماحول دوست توانائی حاصل کریں گے۔ آج کے صدارتی حکم نامے سے، میں امریکی توانائی پر لگائی گئی پابندیوں کے خاتمے کا تاریخی قدم اٹھا رہا ہوں، حکومتی مداخلت کا خاتمہ کر رہا ہوں اور روزگار کے خاتمے کی وجہ بننے والے قوانین کو معطل کر رہا ہوں۔‘‘ صدارتی حکم نامے سے، میں امریکی توانائی پر لگائی گئی پابندیوں کے خاتمے کا تاریخی قدم اٹھا رہا ہوں، حکومتی مداخلت کا خاتمہ کر رہا ہوں اور روزگار کے خاتمے کی وجہ بننے والے قوانین کو معطل کر رہا ہوں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
/ur/فلسطینی-فیملی-آتشگیر-حملے-میں-ہلاک-انتہا-پسند-یہودی-مجرم-قرار/a-53483988
اسرائیل میں ایک ضلعی عدالت نے ایک یہودی انتہا پسند کو 2015 ء کے ایک آتش گیر حملے میں ایک فلسطینی بچے اور اس کے والدین کے قتل کا مجرم قرار دیا ہے۔
پیر کو عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جولائی 2015 ء کی ایک شب یہودی آبادکار امیرم بن الیل نے مغربی اُردن میں ایک فلسطینی فیملی کے گھر پر اُس وقت آتشیں بم پھینکا تھا جب فیملی کے تمام لوگ سو رہے تھے۔ اس حملے کے نتیجے میں 18 ماہ کا علی دواب شہ وقوعہ پہ ہی ہلاک ہو گیا تھا جبکہ اُس کی ماں ریحام اور اُس کا والد سعد بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چک بسے۔ تاہم علی کا ایک چار سالہ بھائی احمد اس دہشت گرد حملے میں بچ گیا تھا۔ تاہم ناقدین نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہودی انتہا پسند کی طرف سے کیے گئے حملے کے مقابلے میں کم غیر مہلک حملے، جیسے کے مساجد اور گرجا گھروں کو نقصان پہنچانے کے لیے کیے جانے والے حملوں کو کئی کئی سال بغیر کسی سزا کے نظر انداز کیا جاتا رہا اور جب ڈوما حملے کی تفتیش کو گھسیٹا گیا تو فلسطینیوں نے دوہرے معیار کی شکایت کی۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ انہیں فوجی قوانین کے تحت عسکریت پسندی کے شبے میں جلد گرفتار کرلیا جاتا ہےاوران کے خلاف بہت جلد قانونی کارروائی کی جاتی ہے جبکہ یہودی اسرائیلیوں کو ملک کے فوجداری قوانین سے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔
/ur/کیا-واقعی-داعش-نے-دو-ترک-فوجیوں-کو-زندہ-جلا-دیا-ہے/a-36921648
داعش نے مبینہ طور پر دو ترک مغوی فوجیوں کو زندہ جلا دینے کی ایک ویڈیو جاری کی ہے۔ تاہم ترک حکام کا کہنا ہے کہ انہیں اس حوالے سے ابھی تک کوئی مصدقہ اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں۔
اسی طرح گزشتہ ہفتے جہادی گروپوں پر نظر رکھنے والے امریکی ادارے ’سائٹ‘ نے ایک ویڈیو جاری کی تھی، جس میں دو فوجیوں کو آگ میں جلتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ اس ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جن دو مغوی فوجیوں کو آگ لگائی گئی ہے، ان کا تعلق ترکی سے ہے۔ ترک نائب وزیراعظم نعمان قورتولموش نے کہا ہے کہ انہیں اس ویڈیو کے حوالے سے ابھی تک کوئی مصدقہ اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں تاہم آج اس حوالے سے ترک نائب وزیراعظم نعمان قورتولموش نے کہا ہے کہ انہیں اس ویڈیو کے حوالے سے ابھی تک کوئی مصدقہ اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں۔ ترکی فوجیوں کی یہ مبینہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی ریلیز کی گئی تھی، جس کے بعد ترک صارفین کا کہنا تھا انہیں سوشل میڈیا کے استعمال میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ نائب ترک وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے انٹرنیٹ بیسڈ سوشل میڈیا نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے تاکہ دہشت گرد گروپوں کا ’مکروہ‘ چہرہ نہ دکھایا جائے۔ ترک حکام کا کہنا تھا کہ اگر ترک فوجیوں کے زندہ جلائے جانے کے حوالے سے انہیں کوئی مصدقہ اطلاعات موصول ہوئیں تو وہ ایسی اطلاعات عوام کے ساتھ شیئر کریں گے۔ نعمان قورتولموش کا کہنا تھا کہ دہشت گرد گروپ اپنے ’نیچ میکنزم‘ کے تحت ترک عوام میں مایوسی پھیلانا چاہتے ہیں۔ نائب وزیراعظم کا کہنا تھا۔ ’’اصل میں ترکی داعش کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔‘‘ قبل ازیں اس ویڈیو کے ریلیز ہونے کے بعد ترک وزارت دفاع نے اقرار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے تین فوجی داعش کے قبضے میں ہیں لیکن کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی گئی تھیں۔
/ur/جرمنی-سے-چوری-شدہ-سائیکلیں-یوکرائن-کیسے-پہنچتی-ہیں/a-58791237
جرمنی میں سالانہ لاکھوں سائیکلیں چوری ہو جاتی ہیں اور چوری شدہ سائیکلوں میں پریمیئم ماڈل کی مہنگی سائیکلوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسی اعلیٰ کوالٹی کی چوری شدہ سائیکلیں یوکرائنی مارکیٹ تک کیسے پہنچتی ہیں؟
چوری شدہ سائیکلیں جرمنی میں فقط انٹرنیٹ یا فلومارکیٹ (پرانی اور سستی چیزوں کی فروخت کے بازار) میں بیچنے کے لیے لائیں گیں، تاہم مہنگی سائیکلوں کو حصوں میں توڑ دیا جاتا ہے یا انہیں مجموعی طور پر فروخت کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے، لیکن یورپی یونین میں یہ فعل زیادہ محفوظ نہیں کیوں کہ پولیس چوری شدہ سائیکلوں کو ان کے فریم نمبر کے ذریعے شناخت کر سکتی ہے۔ اس لیے ایسی مہنگی سائیکلیں عموماﹰ یورپی یونین سے باہر لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جرمنی سے چوری ہونے والی سائیکلوں کی ایک منزل یوکرائن ہوتی ہے۔ یوکرائنی انٹرنیٹ 'جرمنی اور یورپی یونین کی استعمال شدہ سائیکلوں‘ کی فروخت کے اشتہارات سے بھرا پڑا ہے۔ یوکرائن میں ایسی دکانوں کی بھی بھرمار ہے جو ایسی سائیکلیں فروخت کرتی ملتی ہیں۔ اس بابت کوئی حتمی ڈیٹا موجود نہیں کہ یوکرائن میں مجموعی طور پر کتنی سائیکلیں یورپی یونین سے پہنچتی ہیں، تاہم اندازوں کے مطابق ہر سال قریب ایک لاکھ تک ایسی سائیکلیں پہنچتی ہیں۔
/ur/ایمن-الظواہری-کی-باراک-اوباما-پر-تنقید/a-3806973
ویب سائٹ پر جاری کیے گئے ایک صوتی پیغام کے مطابق القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری نے نو منتخب امریکی صدر باراک اوباما کے خلاف شدید نسل پرستانہ کلمات استعمال کیے ہیں۔
القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے نائب اور القاعدہ کے نظریاتی رہنما ایمان الظواہری نے نو منتخب امریکی صدر باراک اوباما کو ’ہاؤس نیگرو‘ قرار دیا ہے جو ان سیاہ فام افراد کو کہا جاتا ہے جو سفید فام افراد کے گھروں میں ملازمت کرتے تھے۔ الظواہری نے نو منتخب امریکی صدر کو دھمکی دی ہے کہ ان کا افغانستان میں مزید امریکی افواج بھیجنے کا فیصلہ ناکامی سے دوچار ہوگا۔ باراک اوباما یا ان کی ٹیم میں سے کسی نے القاعدہ کے رہنما کے اس بیان پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ مزکورہ صوتی پیغام میں القاعدہ کے رہنما نے باراک اوباما کو ایک ایسے مسلمان باپ کا بیٹا قرار دیا جو اسلام کے خلاف اسلام دشمنوں کی صف میں کھڑا ہے۔ الظواہری نے مشہور سیاہ فام امریکی رہنما میلکم ایکس کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ اوباما میلکم ایکس کے مقابلے میں سفید فام افراد کی غلامی کو ترجیح دیتے ہیں۔ القاعدہ کے رہنما نے امریکہ کے خلاف ’جد و جہد‘ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ انور اقبال نے یہ بھی کہا کہ القاعدہ کے لیے امریکی صدر جارج ڈبلیو یش جیسا صدر اس لیے موزوں ہے کہ بش جیسے افراد پتھر کا جواب اینٹ سے دیتے ہیں، اور اس طرح کا اندازِ سیاست القاعدہ جیسی عسکری تنظیموں کے لیے فائدہ مند ہے۔ دوسری جانب باراک اوباما ایک لبرل زہنیت کے حامل ہیں اور وہ مسلمانوں کے ساتھ مکالمت پر یقین رکھتے ہیں۔ انور اقبال کے مطابق اس طرح کے پیغامات امریکہ اور مغربی دنیا میں مسلمانوں کے لیے ہزیمت کا باعث بن رہے ہیں۔
/ur/مصنوعی-ذہانت-ٹیکنالوجی-چین-امریکا-پر-برتری-رکھتا-ہے/a-59468335
اس وقت ترقی یافتہ اور ترقی پذیر اقوام مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں برتری حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ایک سابق اعلیٰ امریکی اہلکار کے مطابق اس میدان میں امریکا پر چین برتری حاصل کر چکا ہے۔
چین کا آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے میدان میں امریکا پر برتری کا بیان نکولس شائلان نے دیا جو امریکی ڈیفنس ہیڈ کوارٹرز کے اولین چیف سوفٹ ویئر آفیسر تھے نکولس شائلان نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ مصنوعی ذہانت کی جنگ میں امریکا کو چین کی برتری کا سامنا ہے اور عالمی سطح پر چین اس میدان میں بالادستی بڑھاتا جا رہا ہے۔ مغربی انٹیلیجنس ذرائع کا کہنا ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے حامل ملک چین کو کئی ابھرتی ٹیکنالوجیز میں سبقت حاصل ہو چکی ہے۔ فنانشل ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے نکولس شائلان کا کہنا تھا کہ امریکا کا اگلے پندرہ سے بیس برسوں تک چین سے ٹیکنالوجی میں کوئی مقابلہ نہیں رہے گا بلکہ اس کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ شائلان نے واضح طور پر کہا،'' مقابلے کا فیصلہ ہو چکا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس میدان میں چین یقینی طور پر بالادستی رکھے گا اور یہ میڈیا سے لے کر علاقائی سیاست تک سب پر ظاہر ہو گی۔ نکولس شائلان نے پیچھے رہ جانے کو امریکا کا سست انداز قرار دیا اور امریکی کمپنیوں کی ہچکچاہٹ کو بھی اس کا ذمہ دار ٹھہریا۔ ان کا خیال ہے کہ بڑے ڈیجیٹل ادارے گوگل کو ریاست کے ساتھ مصنوعی ذہانت اور ٹیکانالوجیکل اخلاقیات کی بحث میں تعاون کرنا چاہیے تھا۔ امریکی عسکری صدر دفتر کے اعلیٰ سابق اہلکار نے واضح کیا کہ چین کی کمپنیاں اپنے کاروباری اہداف کے حوالے سے اپنی حکومت کی تابع ہوتی ہیں اور انہوں نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے شعبے میں اخلاقیات کو نظرانداز کرتے ہوئے بڑی سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔
/ur/دریائے-ڈارلنگ-کی-لاکھوں-مچھلیاں-مر-گئیں/a-47269120
حالیہ کچھ عرصے کے دوران یہ تیسرا ایسا واقعہ رونما ہوا ہے کہ آسٹریلیا کے مغرب میں بڑے پیمانے پر مچھلیاں مردہ حالت میں پائی گئی ہیں۔ مقامی ماہرین اسے خشک سالی کا نتیجہ جبکہ ناقدین اسے حکام کی غفلت قرار دیتے ہیں۔
اس سال کے دوران ابھی تک دنیا بھر میں کئی مرتبہ بڑے پیمانے پر مچھیلوں کے ایک ساتھ مرنے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اس تصویر میں دکھائی دینے والی مچھلیوں کا وزن تینتیس ٹن کے برابر ہے۔ یہ واقعہ 2015ء میں برازیل کی ایک بہت بڑی جھیل میں پیش آیا تھا۔ رودریگو ڈے فرائتاس نامی یہ جھیل انتہائی آلودہ ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے مچھیلوں کو مناسب آکسیجن مہیا نہیں ہو پاتی۔ گزشتہ برس امریکی شہر سان فرانسسکو سے لے کر برٹش کولمبیا کے ساحلوں تک تقریباً دس ہزار سمندری پرندے اچانک مر گئے تھے۔ اس سال ایسا ہی ایک اور واقعہ بھی رونما ہو چکا ہے تاہم اس مرتبہ ان پرندوں کی بڑی تعداد الاسکا کے ساحلوں پر ہلاک ہوئی۔ محقیقن نے ایک وجہ پرندوں کی خوراک کی کمی کو قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق پانی کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ان پرندوں کی خوراک بننے والی مچھلیاں غائب ہو گئی ہیں۔ مقامی سیاحتی ایسوسی ایشن کے صدر روب گریگوری کا کہنا تھا کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران حکومت نے کسانوں کو فصلوں کی آبپاشی کے لیے بہت بڑی مقدار میں پانی استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ ان کے مطابق حکومت کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، ’’میرے خیال میں یہ مردہ حالت میں ملنے والی آخری مچھلیاں تھیں، اب یہاں کچھ بھی باقی نہیں بچا۔‘‘
/ur/بھارت-میں-دماغی-بخار-سے-چار-سو-تیس-افراد-ہلاک/a-15465053
بھارت میں شعبہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی شمالی ریاست اتر پردیش میں دماغی بخار یا انسیفلائٹس کے نتیجے میں کم از کم 430 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔
ریاست کے سب سے متاثرہ ضلع گورکھ پور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج کے ماہر اطفال کے پی کُشوَہا کا کہنا ہے کہ یہ غربت زدہ خطہ انسیفلائٹس کا سب سے زیادہ شکار ہوا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’صورت حال گھمبیر ہے اور گزشتہ برسوں کے مقابلے میں رواں برس اس کے شکار ہونے والے افراد کی تعداد اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ ہسپتالوں میں بستر کم پڑ گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر ہلاکتیں جولائی کے بعد ہوئی ہیں۔ کے پی کشوہا نے بتایا کہ رواں سال اب تک 2,400 سے زائد افراد کو سرکاری ہسپتالوں میں داخل کرایا جا چکا ہے جن میں سے کم از کم 430 ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 334 بچے تھے۔ انسیفلائٹس سے ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے گزشتہ سال گورکھ پور میں 215 افراد انسیفلائٹس کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ سن 2005ء میں اس موذی مرض کے ہاتھوں اتر پردیش میں 1,400 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ریاست کے مشرقی حصوں میں ہر سال خوراک کی کمی کے شکار بچے اس وائرس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انسیفلائٹس دماغ کی سوزش کا سبب بنتی ہے اور اس کے نتیجے میں دماغ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کی علامات میں سر درد، دورے، اعضاء کو حرکت دینے میں دشواری اور بخار شامل ہیں۔ صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 7 کروڑ سے زائد بچے انسفیلائٹس میں مبتلا ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ بھارت کی سب سے گنجان آباد ریاست اتر پردیش میں کئی برسوں سے انسیفلائٹس کی روک تھام کا پروگرام چل رہا ہے اور اب تک لاکھوں بچوں کو اس وائرس کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگائے جا چکے ہیں۔
/ur/75-سال-پہلے-کا-قانون-جس-نے-جرمنی-میں-جمہوریت-کی-بِساط-لپیٹ-دی/a-3229794
جس روز (23 مارچ سن 1933ء) جرمن پارلیمان Reichstag اپنے ہی اختیارات سے دستبردار ہو گئی، اُس سے اگلے روز اُس دَور کے نازی سوشلسٹ اخبار "Völkischer Beobachter" نے پورے جوش و جذبے کے ساتھ یہ شہ سُرخی لگائی کہ Reichstag نے حکمرانی اڈولف ہٹلر کو منتقل کر دی ہے۔ درحقیقت ہٹلر کے رائش چانسلر منتخب ہونے کے تقریباً دو مہینے بعد 23 مارچ سن 1933ء کا دِن، اُس وقت کے جرمنی میں جمہوریت اور آئینی ریاست کے خاتمے کا دِن تھا۔
یہ قانون ایک ایسی فضا میں عمل میں آیا، جب مسلح نازی سوشلسٹ پارلیمانی اراکین کو ہراساں کر رہے تھے اور اُن پر دُشنام طرازی کر رہے تھے۔ اِس قانون کا مقصد ہٹلر حکومت کو اِس قابل بنانا تھا کہ وہ پارلیمان کی منظوری اور پارلیمان کے اسپیکر کے دست خطوں کے بغیر ہی قوانین جاری کر سکے، آئین میں ترمیم کر سکے اور دیگر ممالک کے ساتھ معاہدے طے کر سکے۔ ہٹلر اور اُس کے قریبی ساتھیوں کے لئے یہ قانون کیوں ضروری ہو گیا تھا، اِس کی وضاحت کرتے ہوئے میونخ کے تاریخ سے متعلق ایک ادارے کے ماہر Thomas Raithel کہتے ہیں: اِس قانون کی منظوری Reichstag کے جس اجلاس میں عمل میں آئی، اُس میں 81 منتخب کمیونسٹ اراکین سرے سے شریک ہی نہیں ہوئے تھے کیونکہ اُن کی نشستیں اُسی مارچ کے مہینے کے اوائل میں منسوخ کر دی گئی تھیں۔ 26 سوشل ڈیموکریٹ اراکین سیاسی تعاقب کا شکار ہو کر یا تو گرفتار ہو چکے تھے یا ملک سے فرار ہو گئے تھے۔ یوں یہ قانون قدامت پسند اراکینِ پارلیمان کی مدد سے عمل میں لایا گیا، جنہیں دھمکیاں دے کر ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ یہ قانون منظور تو چار برسوں کے لئے ہوا تھا لیکن اِس کی مدت میں کئی مرتبہ توسیع کی جاتی رہی اور یوں یہ قانون سن 1945ء تک نافذالعمل رہا۔
/ur/آسکر-نامزدگی-حاصل-کرنے-والے-روسی-ہدایت-کار-کو-تنقید-کا-سامنا/a-18197705
روسی ہدایت کار آندری زویاگِنٹسیف کی فلم لیویاتھن کو چند روز قبل آسکر ایوارڈ کی بہترین فارن لینگوئج فلم کی کیٹگری میں نامزدگی حاصل ہوئی ہے۔ اب انہیں اپنے ملک میں تنقید کا سامنا ہے۔
روس کے مشہور ہدایتکار آندری زویاگِنٹسیف (Andrei Zvyagintsev) کی تخلیق کردہ سنجیدہ سماجی فلم لیویاتھن (Leviathan) کو کئی فلمی میلوں میں پذیرائی حاصل ہو چکی ہے۔ بھارت میں منعقدہ پینتالیسویں انٹرنیشنل فلم فیسٹول میں اِسے بہترین فلم کا ایوارڈ حاصل ہوا تھا۔ آسکر کے لیے نامزدگی کے بعد اُن کے ملک روس میں اِس فلم پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ روس کے وزیرِ ثقافت ولادیمیر میدِنسکی نے فلم کے موضوع پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فلم روس کے تشخص کو مجروح کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ لیویاتھن فلم کو روس میں عام نمائش کے لیے اگلے ماہ کی پانچ تاریخ کو پیش کیا جا رہا ہے۔ فلم لیویاتھن کو گزشتہ اتوار کوگولڈن گلوب ایوارڈز کی تقریب میں بہترین غیر ملکی فلم کا ایوارڈ دیا گیا۔ کَن فلمی میلے میں اِس کو بہترین اسکرین پلے کی حامل فلم قرار دیا گیا تھا۔ فلم کا پلاٹ روس کے ایک شمالی شہر کے ایک کار مکینیک کے گرد گھومتا ہے، جو شہر کے بدعنوان میئر کے خلاف جدوجہد کر رہا ہے۔ میئر کار مکینیک کی چھوٹی موٹی جائداد پر قابض ہونے کی خواہش رکھتا ہے۔ روس کے وزیر ثقافت ولادیمیر میدنِسکی نے آسکر نامزدگیوں کے روز روسی روزنامے آئزویستیا کو دیے گئے انٹرویو میں ہدایتکار آندری زویاگِنٹسیف کو خاص طور پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ میدنِسکی کا کہنا تھا کہ فلم میں ناامیدی کا جو مزاج پیش کیا گیا ہے، اُس کے تناظر میں کوئی مثبت ہیرو نہیں ہے۔ روسی وزیر کے مطابق ہدایتکار نے اعزازات اکھٹے کرنے کی خاطر روس کے تشخص کو مجروح کیا ہے۔
/ur/جوہری-توانائی-ترک-کرنے-کا-فیصلہ-مثال-بن-سکتا-ہے-میرکل/a-15118427
چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ جوہری توانائی کا استعمال ترک کرنے کا فیصلہ جرمنی کو قابل تجدید توانائی کے حوالے سے مثال بنا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی کو خطرات سے مختلف انداز سے نمٹنا ہو گا۔
انگیلا میرکل نے کہا کہ رواں برس مارچ میں جاپان کے فوکو شیما جوہری پاور پلانٹ کے حادثے کے تناظر میں جرمنی نے توانائی کی پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا، جس سے کاروبار اور ماحولیاتی تحفظ کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے برلن میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا: ’ہمیں یقین ہے کہ قابل تجدید توانائی کے ذرائع کے نئے دَور میں ہم ایک ملک کی حیثیت سے مثال ہو سکتے ہیں۔‘ جرمنی کی جانب سے جوہری توانائی ترک کرنے کا فیصلہ پیر کی صبح رات بھر جاری رہنے والے اجلاس کے بعد سامنے آیا۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 2021ء تک زیادہ تر ایٹمی بجلی گھر بند کر دیے جائیں گے جبکہ تین جوہری پاور پلانٹس کھلے رہیں گے، جنہیں بجلی کی قلت کی صورت میں استعمال کیا جائے گا۔ تاہم یہ تینوں ایٹمی بجلی گھر بھی 2022ء میں بند کر دیے جائیں گے۔ جرمنی نے جوہری توانائی کا استعمال مکمل طور پر ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے قبل ازیں 28 مئی کو کلیسائی نمائندوں، ماہرین تعلیم اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایک 17 رُکنی پینل نے چانسلر انگیلا میرکل کومشورہ دیا تھا کہ جرمنی اپنے آٹھ ایٹمی بجلی گھر ابھی بند کر دے۔ اس پینل کا کہنا تھا کہ باقی نو ایٹمی پلانٹس میں بجلی پیدا کرنے کا کام آئندہ دس برسوں میں بتدریج ختم کر دیا جائے۔ اُدھر فرانس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس حوالے سے جرمنی کی پیروی نہیں کرے گا۔ فرانس جوہری توانائی کی پیداوار کے لحاظ سے یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ تاہم پیرس حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ جرمنی کے فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
/ur/دنیا-کا-سب-سے-بڑا-مہاجر-کیمپ-نومبر-میں-بند-کر-دیا-جائے-گا/a-19554934
کینیا کی حکومت نے آج جمعرات کے روز اعلان کیا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے مہاجر کیمپ کو رواں برس نومبر تک بند کر دیا جائے گا۔ اس کیمپ میں قریب تین لاکھ پناہ گزین قیام پذیر ہیں۔
کینیا کی وزارت داخلہ کے پرنسپل سیکرٹری کارانجا کابیچو نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’ کیمپ بند کرنے کی ہماری حتمی حد اس سال نومبر تک ہے۔ ہم مہاجرین کے معاملات میں صحت اور شفافیت قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ایک خود مختار ملک ہیں جو سلامتی سے متعلق ایک معاملے سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور جس حد تک ممکن ہے ہم انسانی بنیادوں پر اس مسئلے سے ڈِیل کر رہے ہیں۔‘‘ دوسری جانب کینیا میں یو این ایچ سی آر کے ایک ترجمان نےکہا ہے کہ اس معاملے پر کسی قسم کا رد عمل ظاہر کرنے سے پہلے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے گا۔ کینیا نے رواں برس مئی میں اعلان کیا تھا کہ وہ ’دباب‘ نامی مہاجر کیمپ کو صومالی اسلام پسند گروپ الشباب کے مہلک حملوں کے تناظر میں نومبر تک بند کر دے گا۔ اس کیمپ میں تین لاکھ سے زائد مہاجرین قیام پذیر ہیں جن میں زیادہ تر کا تعلق صومالیہ سے ہے۔ کینیا کی حکومت کا مؤقف ہے کہ الشباب نے’ دباب ‘ مہاجر کیمپ کو عسکریت پسندوں کو بھرتی کرنے کے کیمپ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ خیال رہے کہ صومالیہ کو اسلامی شورش کا سامنا ہے اور عشروں سے جاری تنازعہ کے بعد اب تعمیر نو کی جد و جہد میں مصروف ہے۔
/ur/چمن-بم-حملہ-جے-یو-آئی-کے-سرکردہ-رہنما-سمیت-تین-ہلاک/a-50625431
بلوچستان کےسرحدی شہرچمن میں ایک بم دھماکے میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی رہنما مولانا محمد حنیف سمیت تین افراد ہلاک ہوگئے۔
مولانا محمد حنیف جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے قریبی رفقاء میں شمار ہوتے تھے۔ انہیں ضلع قلعہ عبداللہ سمیت بلوچستان میں جے یوآئی (ف) کا ایک بااثر رہنما سمجھا جاتا تھا۔ کوئٹہ میں ایک سینیئر سیکیورٹی اہلکار جاوید بلوچ کے بقول بم دھماکہ چمن کے بارونق علاقے تاج روڈ پرہوا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ، " بظاہر اس بم دھماکے کا ہدف مولانا محمد حنیف ہی تھے۔ جس وقت دھماکہ کیا گیا مولانا حنیف وہاں سے گزر رہے تھے۔ اس دھماکے میں زخمی ہونے والے دیگر افراد میں بھی جمعیت کے کارکن شامل ہیں ۔ حملے کے نتیجے میں مولانا محمد حنیف شدید زخمی ہو گئے۔ ریسکیو اہلکار انہیں فوری طبی امداد کے لئے کوئٹہ لے جارہے تھے جب وہ راستے میں دم توڑ گئے۔" اس بم حملے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔ بلوچستان میں حالیہ برسوں میں کوئٹہ میں مولانا فضل الرحمن، مستونگ میں مولانا غفور حیدری اور پشین میں مولانا محمد خان شیرانی پر بھی خودکش حملے ہوچکے ہیں۔ مولانا محمد حنیف تین سال قبل سیاسی اختلافات کی وجہ سے جے یوآئی (ف) کے منحرف رہنماؤں کے دھڑے جے یوآئی (نظریاتی) کا حصہ بن گئے تھے۔ بعد میں مولانا فضل الرحمن نے انہیں واپس منا کر جماعت کی شوریٰ کا حصہ بنادیا تھا۔ ایک بیان میں جے یوآئی (ف) نے مولانا محمد حنیف کی ہلاکت کو ملک میں امن کے خلاف ایک گہری سازش اور اسے پارٹی کے لیے ایک بڑا سانحہ قرار دیا ہے۔
/ur/عباس-میرے-امن-کے-پارٹنر-ہیں-نیتن-یاہو/a-5966538
آج دو ستمبر سے امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں بیس ماہ سے تعطل کی شکار اسرائیلی فلسطینی بات چیت میں فریقین ایک بار پھر آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ ان کی میزبان امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن ہوں گی۔
بدھ کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات کی۔ بعد میں ان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں نیتن یاہو نے پہلی بار فلسطینی لیڈر محمود عباس کو اپنا امن پارٹنر قرار دیا۔ مبصرین کے خیال میں یہ مذاکرات کی ابتدا پر مثبت سوچ کا اظہار ہے۔ اس بیان میں انہوں نے فلسطینی قیادت کو متنبہ بھی کیا کہ امن کے سلسلے کا مخالفین کے سامنے بھی دفاع کرنا ضروری ہے۔ اس میں ان کا اشارہ غزہ پٹی پر حکومت کرنے والی انتہاپسند فلسطینی تنظیم حماس کی جانب تھا، جو مذاکراتی عمل کو تسلیم نہیں کرتی۔ حماس کی جانب سے مذاکرات کی شروعات پر کہا گیا کہ وہ ان کو سبوتاژ کرنے کے لئے اسرائیل اور یہودی عوام پر اگلے دنوں میں مزید حملے کرے گی۔ وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان کے مطابق بدھ کو صدر اوباما کی مشرق وسطیٰ کے لیڈران سے ملاقاتوں کا بنیادی مقصد مذاکرات سے قبل اعتماد کی فضا قائم کرنا تھا تا کہ فریقین مثبت انداز فکر کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کر سکیں۔ امریکی صدر نے مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقے میں چار اسرائیلی شہریوں کی حالیہ ہلاکت کے تناظر میں کہا کہ ایسی کارروائیوں سے امن مذاکرات کا سلسلہ روکا نہیں جا سکتا۔ اوباما نے اسرائیل اور فلسطین کے رہنماؤں سے کہا کہ امن کے اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔اسرائیلی فلسطینی مذاکرات آج جمعرات سے شروع ہوں گے اور امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن ان کی میزبانی کریں گی۔
/ur/پی-ایس-ایل-ملتوی-کر-دیا-گیا/a-56767357
پاکستان میں کھیلے جانے والے کرکٹ ٹورنامنٹ پی ایس ایل کو ملتوی کر دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ اس ٹورنامنٹ میں شریک چھ کھلاڑیوں میں کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد کیا گیا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے مطابق پاکستان سپر لیگ کے باقی ماندہ میچز کو ملتوی کر دیا گیا ہے جس کی وجہ اس ٹورنامنٹ میں شریک چھ کھلاڑیوں میں کورونا وائرس پائے جانے کی تصدیق ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ ( پی سی بی) کے مطابق یہ فیصلہ ٹورنامنٹ میں شریک چھ ٹیموں کے مالکان سے صلاح ومشورے کے بعد کیا گیا ہے۔ پی سی بی نے اس سلسلے میں مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ فوری قدم کے طور پر سب سے پہلے ٹورنامنٹ کے تمام شرکاء کی صحت وسلامتی کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ مزید یہ کہ کووڈ ٹیسٹنگ کو بڑھایا جائے اور آئسولیشن کی سہولت فراہم کرنے میں بھی مدد کی جائے گی۔ آج جمعرات کو بتایا گیا کہ دو مزید ٹیموں کے تین کھلاڑیوں میں کووڈ انیس کی تشخص ہونے کے بعد پی ایس ایل میں شریک کھلاڑیوں اور اہلکاروں میں سے کورونا کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد سات ہو گئی ہے۔ کراچی کنگز کو پی ایس ایل میں ایک مضبوط ٹیم ہے لیکن کپتان عماد وسیم کے ساتھی اسپنر عمر خان کو استعمال کرنے کے فیصلوں پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ عمر خان کو ملتان میں باولنگ ہی نہ کرائی گئی اور لاہور کے خلاف انہیں لیفٹ ہینڈر بین ڈنگ کے سامنے کر دیا گیا۔ لاہور میں یہ ٹیم اپنے دونوں میچ اچھی پوزیشن میں آنے کے باوجود نہ جیت سکی۔ اس سال پی ایس ایل میں ملتان سلطانز کی غیر معمولی کامیابیوں میں جنوبی افریقی اسپنر عمران طاہر نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ عمران دس وکٹوں کے ساتھ اسپنرز میں سب سے آگے ہیں۔ وکٹ لینے کے بعد انہوں دیوانہ وار گراونڈ میں بھاگنا تماشایوں کو ہر شہر میں بھایا ہے۔
/ur/پاکستان-مانع-حمل-مصنوعات-کے-اشتہارات-پر-پابندی/a-19290840
پاکستان میں ٹیلی وژن اور ریڈیو پر نشر ہونے والے مانع حمل مصنوعات کے اشتہارات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق ایسا ان خدشات کے سبب کیا گیا ہے کہ اس طرح جنس کا موضوع متجسس بچوں کو متاثر کر سکتا ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے یہ خبر پاکستان کے مقامی میڈیا میں اٹھائیس مئی کو شائع ہونے والی رپورٹوں کے حوالے سے جاری کی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ ہدایات پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے جاری کی گئی ہیں۔ پیمرا کے مطابق اُس نے یہ قدم والدین کی جانب سے ملنے والی شکایات کی روشنی میں اٹھایا ہے اور یہ کہ اس پابندی کا اطلاق مانع حمل، برتھ کنٹرول اور خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق تمام تر مصنوعات پر ہو گا۔ پیمرا کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’عام عوام اس طرح کی مصنوعات کی تفصیلات ایسے معصوم بچوں تک پہنچنے کے حوالے سے بہت فکر مند ہیں، جو ان مصنوعات کی خصوصیات اور ان کے استعمال کے حوالے سے تجسس کا شکار ہوتے ہیں‘۔ واضح رہے کہ بہبودِ آبادی کے صوبائی محکمے باقاعدگی کے ساتھ ایسے پروگرام عمل میں لاتے رہتے ہیں، جن کا مقصد لوگوں کو برتھ کنٹرول اور کم بچوں کے حامل گھرانوں کے فوائد سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں کنڈومز اور برتھ کنٹرول کی دیگر صورتوں کے بارے میں اشتہارات عام طور پر بہت کم نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں کنڈومز کا استعمال ویسے ہی بہت کم ہے بلکہ گزشتہ سال اس کے استعمال کی شرح میں مزید 7.2 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ یہ اعداد و شمار پاکستان میں مانع حمل مصنوعات کے استعمال کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شُدہ پیمانے سی وائی پی (کَپل ایئرز آف پروٹیکشن) کی روشنی میں پاکستانی حکومت نے جاری کیے ہیں۔
/ur/ہتھیاروں-کی-عالمی-تجارت-میں-اضافہ-فائدہ-کس-کو-پہنچ-رہا-ہے/a-47848394
ہتھیاروں کی عالمی سطح پر تجارت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ہتھیار فروخت کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک امریکا ہے، جو عالمی سطح پر بیچے گئے ہتھیاروں کا چھتیس فیصد حصہ فروخت کرتا ہے۔
اسٹاک ہولم میں قائم امن پر تحقیق کرنے والے انسٹیٹیوٹ سِپری کے مطابق سن دو ہزار نو سے سن دو ہزار تیرہ کے مقابلے میں دنیا بھر میں سن دو ہزار چودہ سے لے کر دو ہزار اٹھارہ تک ہتھیاروں کی تجارت میں تقریبا آٹھ فیصد اضافہ ہوا۔ امریکا کے بعد اسلحہ برآمد کرنے والے سب سے بڑے ممالک بالترتیب روس، فرانس، جرمنی اور چین ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والے ممالک میں سعودی عرب پہلے نمبر پر ہے۔ سِپری کی اس رپورٹ کے مطابق حقائق کچھ یوں ہیں: سپری کی اس رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار چودہ سے لے کر دو ہزار اٹھارہ تک بڑے جنگی طیاروں، ٹینکوں اور میزائلوں جیسے بھاری ہتھیار زیادہ فروخت کیے گئے جبکہ دستی بموں اور رائفلوں جیسے چھوٹے ہتھیاروں کی فروخت میں کمی آئی۔ رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات کی وجہ سے خطے کے امیر ممالک میں اسلحہ خریدنے کی دوڑ میں بھی مزید اضافہ ہوا۔ ا ا / م م (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)
/ur/ڈرامہ-پناہ-کے-متلاشیوں-کی-جبری-واپسی/a-16728023
8 اپریل کو روما باشندوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ جرمن شہر کولون کے ایک تھیٹر ہاؤس میں اسٹیج کیے جانے والے ایک ڈرامے میں پناہ گزینوں کی جبری وطن واپسی کو موضوع بناتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ متاثرین پر کیا کچھ بیتتا ہے۔
بیورن بیکر (Björn Bicker) کے لکھے اس ڈرامے کا ٹائیٹل ہے، ’ڈی پورٹیشن کاسٹ‘ اور اس میں جرمنی سے جبری واپس بھیجے جانے والے تارکین وطن کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ بیکر کو 2012ء میں اپنی اس تخلیق کے لیے نوجوان ادیبوں کو دیا جانے والا جرمن لٹریچر پرائز ملا تھا۔ بچوں اور نوعمروں کے لیے ڈرامائی ادب تخلیق کرنے والوں کے لیے یہ جرمن ریاست کے اہم ترین انعامات میں سے ایک ہے۔ تب جیوری نے اپنے فیصلے کے جواز میں کہا تھا کہ اس ڈرامے میں داخلی زاویہ ہائے نظر سے بتایا گیا ہے کہ کہاں کہاں ایک معاشرہ اپنی آخری حدوں تک پہنچ گیا ہے۔ تماشائیوں کو پتہ چلتا ہے کہ انسانوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے کسی نظام میں کہاں کہاں سقم پائے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ ڈرامہ شہر ہینوور میں اسٹیج کیا گیا تھا۔ تب سے اسے جرمنی کے مختلف شہروں میں اسٹیج پر پیش کیا جا چکا ہے، جن میں کولون بھی شامل ہے، جہاں اس کے ہدایتکار گیرہارڈ روئس ہیں۔ کولون کے ’تھیاٹر اِم باؤ ٹُرم‘ میں تماشائی اسٹیج کے بہت ہی قریب بیٹھ کر کرداروں کو چلتے پھرتے اور باتیں کرتے دیکھ سکتے ہیں۔ ہدایتکار روئس نے خود جا کر روما نسل کے باشندوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور اُن کی زندگی اور مسائل کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ وہ کہتے ہیں:’’مجھے لگا کہ اس موضوع کی اُس سے کہیں بڑی جہتیں ہیں، جتنی کہ عام بحث مباحثے میں نظر آتی ہیں۔ اسی لیے میں لازمی طور پر اس ڈرامے کو اسٹیج پر پیش کرنا چاہتا تھا تاکہ انفرادی طور پر لوگوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو بیان کر سکوں۔‘‘
/ur/امریکا-ہتھیاروں-کی-خریداری-زور-و-شور-سے-جاری/a-19522714
امریکی شہریوں کی جانب سے خود کو مسلح کرنے کا سلسلہ مکمل رفتار سے جاری ہے۔ ہتھیار ساز امریکی ادارے اسمتھ اینڈ ویسن نے بتایا ہے کہ سال کی دوسری سہ ماہی میں ان کا منافع دوگنا ہو گیا ہے۔
امریکا میں آج کل نجی سطح پر اتنی بڑی تعداد میں ہتھیار خریدے جا رہے ہیں، جس کی مثال پہلے بہت کم ہی دیکھنی کو ملی ہے۔ ہتھیار ساز ادارے اسے انتہائی منفرد صورتحال سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ امریکی ادارے ایف بی آئی کے مطابق قانونی طور پر ہتھیاروں کی خریداری سے قبل صارف کا پس منظر جانچنے کے لیے دی جانے والی درخواستوں میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے، ’’جولائی کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ایسی درخواستوں میں 28 فیصد کا اضافہ ہوا ہے‘‘۔ رواں برس کے دوران اب تک ایسی سولہ ملین درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح سے جاری رہا تو گزشتہ برس کا 23 ملین کا ریکارڈ ٹوٹ جائے گا۔ اس رجحان میں اضافے کی نمایاں وجوہات میں دہشت گردانہ حملوں اور اندھا دھند فائرنگ کے واقعات سے خود کو تحفظ فراہم کرنا بھی شامل ہے۔ ہتھیار بنانے والے امریکی ادارے اسمتھ اینڈ ویسن کے مطابق دستی ہتیھاروں جیسے کہ پستول اور ہبنڈ گن کی فروخت چالیس فیصد اضافے کے ساتھ 207 ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اس ادارے کے سربراہ جیمز ڈیبنی کا خیال ہے کہ رواں برس فروخت اور منافع کے حوالے سے تمام اہداف حاصل کر لیے جائیں گے، ’’ہم سہ ماہی کی اپنی کارکردگی سے بالکل مطمئن ہیں، جو ہمارے پہلے سے لگائے جانے والے اندازوں سے بھی زیادہ ہے‘‘۔
/ur/دنیا-بھر-میں-شہری-آبادی-کو-بیت-الخلاء-کی-کمی-کا-سامنا/a-36440605
پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کے دس ممالک ایسے ہیں جہاں مختلف شہروں کے باسیوں کو محفوظ اور گھریلو استعمال کے لیے مناسب بیت الخلاء میسر نہیں ہیں۔
برطانیہ کی غیر سرکاری تنظیم واٹر ایڈ کی جانب سے جاری ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر ہر پانچ میں سے ایک شہری یا سات سو ملین افراد کو ایک مناسب بیت الخلاء کی سہولت میسر نہیں ہے۔ دنیا میں چھ سو ملین افراد ایسے ہیں جو ناپاک اور غلیظ عوامی ٹوائلٹس کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں جبکہ ایک سو ملین افراد کو رفع حاجت کے لیے کسی بھی طرح کی سہولت میسر نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے ہیضہ اور دیگر بیماروں کے پھیلنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ ہر سال ٹوائلٹس کی کمی اور گندے پانی کے باعث تین لاکھ سے زائد بچے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ واٹر ایڈ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں 157 ملین افراد کو محفوظ اور گھریلو ٹوائلٹس میسر نہیں ہیں۔ اِس برطانوی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر اولمپکس گیمز کے آٹھ سوئمنگ پول بھارت کے 41 ملین شہریوں کے فضلے سے بھرے جا سکتے ہیں۔ یہ لاکھوں لوگ کھلے میدانوں میں رفع حاجت کرتے ہیں۔ چین، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، روس، انڈونیشیا، نائجیریا، کانگو، برازیل، اورایتھوپیا وہ دس ممالک ہیں جہاں دنیا میں سب سے زیادہ شہروں میں رہنے والے افراد کو محفوظ اور پرائیویٹ بیت الخلاء میسر نہیں ہیں۔ وہ دس ممالک جہاں سب سے کم تعداد میں محفوظ اور گھروں میں بیت الخلاء موجود ہیں ان میں جنوبی سوڈان، مڈغاسکر، کانگو، گھانا، سیرا لیون، ٹوگو، ایتھوپیا، لائبیریا اور یوگنڈا شامل ہیں۔
/ur/افغان-طالبان-مزید-ضلعوں-پر-قابض/a-57867509
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں زوردار دھماکا سنا گیا ہے۔ دوسری جانب طالبان عسکریت پسندوں نے مزید دو اضلاع پر کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
شورش زدہ ملک افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کی مزید علاقوں پر بتدریج کنٹرول حاصل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک ضلعے کے انتظامی گورنر نے قبضہ مکمل ہونے پر خود کو طالبان کے سامنے پیش کر دیا۔ ان قبضوں کی تصدیق صوبائی پارلیمنٹیرین نے بھی کر دی ہے۔ شمالی افغان صوبے بلخ کے ایک ضلع زارا کے بارے بھی بتایا گیا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ اس ضلع کے مرکزی علاقے میں واقع حکومتی دفاتر میں سے ملازمین کو جبری طور پر باہر نکال دیا گیا۔ اس شہر کے ایک کونسلر افضل حدید نے یہ بھی بتایا کہ طالبان نے حکومتی سکیورٹی فورسز کو پانی کی سپلائی روک دی ہے۔ حالیہ چند ہفتوں کے دوران افغانستان کے کئی علاقے طالبان عسکریت پسندوں کے کنٹرول میں چلے گئے ہیں۔ علاقوں پر قبضے میں شدت امریکی اور مغربی دفاعی اتحاد کی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد سے پیدا ہوئی ہے۔ رواں برس یکم مئی کے بعد اب تک سترہ اضلاع پر طالبان قبضہ کر چکے ہیں۔ غیر ملکی فوجوں کا انخلا اسی سال مکمل ہو جائے گا۔ افغانستان کے چونتیس صوبوں میں چار سو کے قریب اضلاع ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس جن پانچ اضلاع پر طالبان نے قبضہ کیا تھا، ان میں سے چار کو ملکی فوج نے آزاد کروا لیا تھا۔
/ur/برلن-میں-پھر-برلینالے-کی-رونقیں/a-17409746
جرمن دارالحکومت برلن میں جمعرات چھ فروری سے اپنی نوعیت کا چونسٹھ واں سالانہ بین الاقوامی فلمی میلہ ’برلینالے‘ شروع ہو رہا ہے، جو سولہ فروری تک جاری رہے گا۔ گولڈن اور سلور بیئر کے اعزازات کے لیے بیس فلمیں میدان میں ہیں۔
ان بیس فلموں میں اس بار جرمنی سے اکٹھی چار فلمیں اعلیٰ ترین اعزازات کے لیے مقابلے میں شامل ہیں۔ اس بار میلے کی آٹھ رکنی جیوری کی سربراہی ممتاز امریکی فلم پروڈیوسر جیمز شیمَس کر رہے ہیں جبکہ جیوری کے ارکان میں دو مرتبہ آسکر ایوارڈ جیتنے والے آسٹرین اداکار کرسٹوف والٹس بھی شامل ہیں۔ اس سال برلینالے کے دوران فلم بین ڈنمارک کے ہنگامہ خیز فلم ڈائریکٹر لارس فان ٹریئر کی فلم ’نمفومینیک والیم وَن‘ کے خاص طور پر منتظر ہیں۔ برلن میں اس فلم کا وہ ورژن دکھایا جائے گا، جس میں فان ٹریئر نے اپنی مرضی سے مناظر میں کمی بیشی کی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ برلن میں دکھائی جانے والی یہ فلم ڈنمارک میں دکھائی جانے والی فلم سے تیس سے پینتیس منٹ زیادہ طویل ہو گی۔ برلن فلمی میلے کے پینوراما سیکشن میں بھارتی ہدایتکار امتیاز علی کی فلم ’ہائی وے‘ کا بھی ورلڈ پریمیئر ہو گا۔ اس فلم میں مرکزی کردار عالیہ بھٹ اور رندیپ ہُودا نے ادا کیے ہیں اور یہ اکیس فروری سے سنیماؤں کی زینت بنے گی۔ امتیاز علی نے، جو اس سے پہلے ’جب وی مَیٹ‘، ’لَوّ آج کل‘ اور ’رَوک سٹار‘ جیسی فلموں کی ہدایات دے چکے ہیں، اپنی فلم ’برلینالے‘ کے لیے چُنے جانے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔
/ur/ايشيا-ذيا-بيطس-کی-لپيٹ-ميں/a-15532464
عالمی ادارہ ء صحت کے ذیابیطس کے حوالے سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار لرزہ خیز ہیں۔ ادارے کے مطابق دنیا بھر میں اس مرض میں مبتلا افراد کی تعداد 346 ملين کے قریب ہو چکی ہے۔
گزشتہ عشروں کے دوران يہ بيماری مغربی ممالک میں عام تھی مگر اب یہ تیسری دنیا کے ملکوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ ايشيا ميں خاص طور پر چين اور بھارت اس کی زد ميں ہيں۔ چين ميں ذ‌یابیطس کے مريضوں کی تعداد 92 ملين ہے، جو دنيا ميں سب سے زيادہ ہے۔ نئے جائزوں کے مطابق بھارت ميں اُن کی تعداد 51 ملين ہے۔ پاکستان میں بھی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ان کی تعداد 10 ملین تک پہنچ چکی ہے۔ خاص طور پر جوان نسل خطرے ميں ہے۔ بھارت ميں شوگر کے مريضوں کی اوسط عمر 42.5 سال ہے جبکہ مغربی ممالک ميں عام طور پراس سے کہيں زيادہ عمر والوں ميں ذيا بيطس کا مرض ملتا ہے۔ ايک ارب سے بھی زيادہ آبادی والے بھارت ميں علاج کا بيمہ اب بھی ايک خواب ہے۔ بھارت کے صحت و علاج کے امور کے مشير، نئی دہلی کے ڈاکٹر اگروال جو کئی انعام بھی حاصل کر چکے ہيں کہتے ہيں: ’’اگر ذيا بيطس ايک وبا کی طرح پھيلتی رہی تو بھارت ميں اندھوں، دل کے مريضوں اور اعضاء کاٹ ديے جانے کے باعث معذور ہو جانے والے مريضوں کی تعداد دنيا بھر ميں سب سے زيادہ ہو جائے گی۔ افسوس ہے کہ ابھی تک شکر کے مرض کو کنٹرول کرنے کا کوئی منصوبہ نہيں ہے۔‘‘ بھارتی حکومت نے صحت و علاج کے ليے رکھی جانے والی رقم کو مجموعی قومی پيداوار کے ايک فيصد سے بھی کم سے بڑھا کر تين فيصد کر دينے کا اعلان کيا ہے۔
/ur/چین-میں-برطانوی-باشندے-کی-سزائے-موت-پر-عملدرآمد/a-5067761
آج چین میں منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں ایک برطانوی باشندے کو زہریلے انجکشن کے ذریعے موت کی سزا دے دی گئی۔ چین میں کسی یورپی ملک کے باشندے کی سزائے موت پر عملدرآمد کا نصف صدی کے عرصے میں یہ پہلا واقعہ ہے۔
دو سال تک انسانی حقوق کی تنظیمیں اور برطانوی حکومت اکمل شیخ کے لئے رحم کی اپیلیں کرتی رہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ لندن کے رہائشی پاکستانی نژاد کو آج منگل کی صبح زہریلا انجکشن لگا کر سزائے موت دے دی گئی۔ 53 سالہ اکمل شیخ کو سن دو ہزار پانچ میں مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس کو اُس کے سامان میں سے چار کلوگرام ہیروئن ملی تھی۔ منشیات کی اسمگلنگ چین میں اُن اڑسٹھ جرائم میں سے ایک ہے، جن کے لئے موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔ چینی ججوں کا کہنا تھا، اِس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ اکمل شیخ ایک نفسیاتی مریض ہے۔ چینی وَزارتِ خارجہ کی ترجمان ژِیانگ یُو کا کہنا تھا کہ اِس برطانوی باشندے کو ایک سنگین جرم کے لئے سزا دی گئی ہے اور پوری دُنیا میں اِس طرح کے جرم کیلئے اتنی ہی سخت سزا دی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ اِس مقدمے کی پوری کارروائی کے دوران برطانیہ کو ہر مرحلے پر پوری طرح سے باخبر رکھا گیا اور یوں سزائے موت پر عمدرآمد بالکل درست طریقے سے عمل میں آیا ہے۔ موت کی سزا پر عملدرآمد کے روز برطانوی وزارتِ خارجہ کے اسٹیٹ سیکریٹری ایوان لیوئس نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا:’’شیخ ایک نفسیاتی مریض ہے اور اُسے سزائے موت دینا ایک انتہائی غیر مناسب بات ہے۔ ہم نے شیخ کے معاملے پر چینی حکام کے ساتھ وَزارتی سطح پر ستائیس مرتبہ مذاکرات کئے۔ چین میں شیخ کی نفسیاتی حالت کے بارے میں کوئی طبی تجزیہ ہی نہیں کروایا گیا۔ یہ ناقابلِ قبول ہے۔‘‘
/ur/انڈونیشیا-تاریک-راہوں-میں-مارے-جانے-والوں-کا-کھوج/a-19195702
انڈونیشی حکومت نے کہا ہے کہ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں ہونے والی ہلاکتوں پر سے پردہ اٹھایا جائے گا۔ پچاس برس قبل ایک ناکام تحریک کو ختم کرنے کے سلسلے میں پانچ لاکھ کے قریب افراد سکیورٹی کارروائیوں میں ہلاک ہوئے تھے۔
آج پیر سے انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں ایک خصوصی سیمپوزیم کا آغاز ہوا ہے۔ اِس میں سن 1965 اور سن 1966 میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے افراد کو یاد کیا جائے گا۔ اِس دو روزہ سیمپوزیم میں صدر ودودو کی حکومت کے کئی وزرا بھی شریک ہیں۔ تقریباً پچاس برس قبل کمیونسٹ پارٹی کی تحریک کو جڑ سے اکھاڑنے کے عمل میں پانچ لاکھ کے قریب انسان تہ تیغ کر دیے گئے تھے۔ کچھ انڈونیشی حلقے حکومتی معذرت کے بھی طلب گار ہیں۔ اس مناسبت سے سکیورٹی منسٹر لہوت پنجائتان کا کہنا ہے کہ اُن ہلاکتوں کی مکمل چھان بین ضرور کی جائے گی لیکن حکومتی معافی خارج از امکان ہے۔ مختلف علاقوں میں سے کمیونسٹوں کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز نے کئی مقامی حکومت نواز گروپوں کی مدد سے کمیونسٹ قرار دیے جانے والے افراد کا قتلِ عام جاری رکھا۔ اِس دوران ہزاروں افراد کو طویل مدت تک جیلوں میں مقید کر دیا گیا۔ انڈونیشیا میں امریکی سفیر رابرٹ بلیک نے سن 1965 اور 1966 دور کی خفیہ امریکی دستاویزات کو جاری کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ امریکی حکومت اِن دنوں انڈونیشیا میں تقریباً پچاس برس قبل ہونے والی ہلاکتوں کے حوالے سے خفیہ دستاویزات کو عام کرنے کے عمل کی حمایت کر رہی ہے۔ رابرٹ بلیک نے جکارتہ میں ہونے والے سمپوزیم کو درست سمت کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ یہ اُس تاریک دور پر روشنی ڈالنے میں کامیاب ہو گا۔
/ur/ایک-بچے-کا-عزم-کروڑوں-نئے-درخت/a-5766784
’پلانٹ فار دی پلینٹ‘ زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کا ایک ایسا منصوبہ ہے، جو دُنیا کے ستّر سے زیادہ ملکوں میں کامیابی سے فروغ پا رہا ہے۔ دنیا کو سرسبز بنانے کی اس منفرد تحریک کے پیچھے ایک باہمت جرمن بچے کی سوچ کارفرما ہے۔
جرمن صوبے باویریا کا فیلکس فِنک بائنر تب صرف نو سال کا تھا، جب اُس کے ذہن میں دیگر لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ مل کر پوری دُنیا میں درخت اُگانے کا خیال آیا۔ ایک جرمن بچے کے ذہن میں جنم لینے والا یہ خیال کچھ ہی عرصے میں ایک بین الاقوامی تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ آج کل فیلکس کی عمر بارہ برس ہے اور اُس کی تحریک دُنیا کے 70 سے زیادہ ملکوں میں کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اپنی تحریک کے بارے میں وہ بتاتا ہے:’’ہم بچے یہ نہیں پوچھتے کہ اِس بحران کے لئے قصور وار کون ہے، ہم تو ایک عالمگیر کنبے کے طور پر مل کر کام کرتے ہیں، ہم دُنیا کے ہر ملک میں ایک ملین درخت لگا رہے ہیں۔ ہم بچے سادہ اور بھولے نہیں ہیں، ہم جانتے ہیں کہ درخت اُگا کر ہم مسائل کو حل نہیں کر سکیں گے لیکن ہمارا لگایا ہوا ہر درخت موسمیاتی حوالے سے انصاف کی ایک علامت ہے۔ ہمارا نعرہ ہے:’باتیں کرنا بند کریں اور درخت اُگانا شروع کریں۔‘ صرف باتیں کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، نہ ہی گلیشئرز پگھلنا بند ہوں گے اور نہ ہی گھنے جنگلات کے غائب ہونے کا عمل رُکے گا۔‘‘ فیلکس کی شروع کردہ تحریک ’پلانٹ فار دی پلینٹ‘ کہلاتی ہے۔ جرمنی میں ایک ملین درخت لگانے کا ہدف اِس بارہ سالہ بچے نے حال ہی میں حاصل کیا ہے اور یہ دَس لاکھ واں پودا بون میں پیٹرز برگ کے مقام پر لگایا گیا۔
/ur/برطانوی-نوآبادیاتی-دور-کی-ناانصافی-لندن-جزیرے-لوٹانے-پر-مجبور/a-47694025
بین الاقوامی عدالت انصاف نے فیصلہ سنایا ہے کہ برطانیہ کو بحر ہند میں چاگوس کا مجموعہ جزائر لازماﹰ ماریشیس کو لوٹانا ہو گا۔ ماضی میں لندن نے ان جزائر کو اپنی سابقہ نوآبادی ماریشیس سے غیر قانونی طور پر علیحدہ کر دیا تھا۔
ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے پیر پچیس فروری کی شام سنائے گئے ایک فیصلے کے مطابق برطانیہ نے، جو ماضی میں ماریشیس پر حکمران نوآبادیاتی طاقت رہا ہے، 1960ء کے عشرے میں ان تقریباﹰ 60 چھوٹے بڑے جزائر کے مجموعے کو غیر قانونی طور پر ماریشیس سے کاٹ کر علیحدہ کر دیا تھا۔ اسی لیے لندن حکومت کو اب یہ جزائر اور ان کا انتظام ’جتنا جلد ممکن ہو‘، واپس بحر ہند کی جزائر پر مشتمل ریاست ماریشیس کو لوٹانا ہوں گے۔ لیکن 1968ء میں جب ماریشیس نے آزادی اور خود مختاری حاصل کی اور وہاں برطانوی نوآبادیاتی دو رکا خاتمہ ہو گیا، تو اس سے کچھ ہی عرصہ قبل لندن حکومت نے ان جزائر کو باقی ماندہ ماریشیس سے علیحدہ کر کے انہیں براہ راست اپنی حکمرانی اور انتظام میں لے لیا تھا۔ تب ماریشیس نے ایک نوآبادیاتی طاقت کے طور پر برطانیہ کا یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں ایک مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ جس مقدمے میں اب آئی سی جے نے فیصلہ سنایا ہے، اس کی سماعت کے دوران گزشتہ برس ستمبر میں برطانیہ نے یہ اعتراف بھی کر لیا تھا کہ اس کی طرف سے ان جزائر کے مقامی باشندوں کا جبراﹰ دیگر ممالک میں آباد کیا جانا ایک ’شرمناک اور غلط اقدام‘ تھا، جس پر لندن حکومت نے معافی بھی مانگ لی تھی۔ ساتھ ہی لندن حکومت کی طرف سے ماریشیس پر یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ اس کی طرف سے اس مقدمے کا بین الاقوامی عدالت انصاف میں لایا جانا ایک ’غلط اقدام‘ تھا۔
/ur/زير-تعليم-و-تربيت-مہاجرين-کو-رہائش-کی-اجازت-دی-جائے/a-43695461
جرمنی ميں کاروباری لیڈران اميگريشن نظام ميں اصلاحات کی کوششوں ميں ہيں۔ جرمنی ميں افرادی قوت کی کمی کو پورا کرنے کے ليے ملک ميں زير تعليم و تربيت مہاجرين کو رہائش کی اجازت کی صورت ميں تحفظ فراہم کيے جانے کی ضرورت ہے۔
جرمنی ميں افرادی قوت کی شديد کمی پائی جاتی ہے۔ ايسی صورتحال ميں متعدد درميانے اور چھوٹے درجے کی کمپنيوں نے تارکين وطن کو ملازمتوں پر رکھ کر کام کاج جاری رکھا۔ اب ان ميں سے کئی افراد کے اجازت نامے ختم کر ديے جانے کے سبب ان کمپنيوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ جرمنی کے فيڈرل ليبر آفس کے مطابق اس وقت جرمنی ميں 1.2 ملين ملازمتيں ايسی ہيں، جن کے ليے ملازمين ہی دستياب نہيں۔ اينگلمائر نے کہا ہے کہ تارکين وطن ملازمين کو سکيورٹی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے ميں زير غور لائحہ عمل ميں دو طرفہ حکمت عمل اپنائی جانے پر بات چيت جاری ہے، جس کے تحت جرمنی ميں موجود مہاجرين کے ليے مقابلتاً نرم اور نئے آنے والے مہاجرين کے ليے سخت قوانين بنائے جا سکتے ہيں۔ باويريا کی انڈسٹری اينڈ کامرس چيمبرز کے صدر ايبر ہارڈ ساسے نے کہا ہے کہ جرمنی ميں زير تعليم، تعليم يافتہ يا پھر ٹرينگ کرنے والے مہاجرين کو رہائش کی اجازت دی جائے۔
/ur/بن-لادن-کی-ہلاکت-کا-سال-پورا-ہونے-کے-موقع-پر-حملوں-کا-خطرہ-نہیں-وائٹ-ہاؤس/a-15913853
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ صدر اوباما نے آئندہ ہفتے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کو ایک سال پورا ہونے کی مناسبت سے امریکا کو درپیش ممکنہ خطرات کا جائزہ لیا ہے مگر اس موقع پر القاعدہ کے انتقامی حملوں کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا۔
جمعرات کو وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جے کارنی نے کہا: ’ہمارے پاس اس وقت کوئی ایسی مصدقہ اطلاع نہیں ہے کہ القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیمیں بن لادن کی موت کا ایک سال پورا ہونے پر کسی قسم کے حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔‘ اسی تخمینے کی بازگشت ایف بی آئی اور ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی کے بدھ کو شائع ہونے والے اطلاعاتی بلیٹن میں بھی دکھائی دی۔ اِس بلیٹن میں کہا گیا تھا کہ مختلف امریکی انٹیلی جنس اداروں کا ’تخمینہ ہے کہ القاعدہ کے اراکین اور اتحادی شاید بن لادن کی موت کا بدلہ لینے کے لیے اب بھی ملک پر حملوں کا ارادہ رکھتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ حملے آئندہ ماہ ہوں۔‘ امریکا میں گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے حملوں کے منصوبہ ساز بن لادن کی موت پر کافی خوشی کا اظہار کیا گیا تھا مگر اس خبر سے مسلم دنیا اور خاص طور پر پاکستان میں امریکا مخالف جذبات کو ہوا ملی۔ وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جے کارنی نے کہا کہ صدر کے دوبارہ انتخاب کی مہم کے تناظر میں بن لادن کی ہلاکت کی کامیابی کا ذکر کرنا بالکل جائز ہے۔ انہوں نے کہا: ’اسامہ بن لادن کی زیر قیادت القاعدہ نے اِس ملک کے خلاف حملے کیے تھے جن میں ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ لہٰذا یہ ان کی خارجہ پالیسی کے ریکارڈ کا حصہ تو ہے مگر اُس کے ساتھ ہی یہ ہمارے ملک کو محفوظ رکھنے کی ایک بڑی کوشش بھی ہے۔‘ امریکی انٹیلی جنس اداروں کے بلیٹن میں تاہم خبردار کیا گیا ہے کہ خطرے کا ثبوت نہ ہونے کے باوجود القاعدہ اس موقع پر کسی بھی حملے کو علامتی فتح تصور کر سکتی ہے۔
/ur/اسامہ-پر-حملے-کے-وقت-پاکستانی-ریڈارز-جام-کر-دیے-گئے-تھے/a-15044599
پاکستان کے شمال مشرقی صوبے خیبر پختونخوا کے شہر ایبٹ آباد میں دنیا کے انتہائی مطلوب دہشت گرد اسامہ بن لادن کے ٹھکانے پر امریکی حملے سے قبل تمام پاکستانی ریڈارز کو جام کر دیا گیا تھا۔
پاکستانی فوج ، خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور دفتر خارجہ کے اہلکاروں نے چند سینئر صحافیوں کو بیک گراؤنڈ بریفنگ میں بتایا کہ اسامہ بن لادن پر حملے کے لیے امریکی سپیشل فورسز کے 2 ہیلی کاپٹر افغانستان کی بگرام ایئربیس سے اڑان بھر کر اتوار کی رات 12 بجے کے قریب ایبٹ آباد پہنچے۔ ڈان نیوز سے منسلک سینئر صحافی طلعت حسین نے ڈوئچے ویلے کو اس بریفنگ کے حوالے سے بتایا، ’ امریکی اہلکار اسامہ بن لادن کے ہمراہ موجود ان کے کویتی محافظ کی سیٹلائٹ فون کے ذریعے گفتگو کو مانیٹر کر رہے تھے۔ کویتی گارڈ نےگزشتہ سال مئی اور اگست میں ایبٹ آباد میں موجود اس کمپاؤنڈ سے سیٹلائٹ فون کے ذریعے چارسدہ اور کوہاٹ میں رابطہ کیا تھا‘۔ پاکستانی حکام کے مطابق کارروائی کے دوران 2 امریکی ہیلی کاپٹروں میں سے ایک فنی خرابی کے سبب کمپاؤنڈ کے قریب گر کر تباہ ہوگیا۔ جس کے بعد امریکی حکام نے اسامہ بن لادن کی دو بیویوں اور ان کے 8 بچوں کو وہیں چھوڑ دیا جبکہ اسامہ بن لادن کی لاش اور ان کے ایک زخمی ساتھی کو دوسرے ہیلی کاپٹر میں ڈال کر ہمراہ لے گئے۔ پاکستانی وزیراعظم نے اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کے حوالے سے دونوں ممالک سے مثبت اور تعمیری پیغامات کے تبادلے کی ضرورت پر زور دیا۔اس موقع پر امریکی نمائندہ خصوصی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی حکومت کے تعاون کو سراہا جو بالآخر اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا سبب بنا۔ مارک گروس مین کل (منگل) کو اسلام آباد میں پاک امریکہ افغان سہ فریقی مذاکرات میں شرکت کریں گے۔
/ur/جرمنی-ميں-پناہ-کی-کچھ-درخواستوں-پر-فيصلے-غلطيوں-کا-ثبوت/a-38724206
جرمنی ميں ايک فوجی خود کو مہاجر بتانے کے بعد کسی دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا کہ اسے حراست ميں لے ليا گيا۔ يہ کيس اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ مہاجرين کے بحران سے نمٹنے والے حکام سے کوتاہياں بھی ہوئی ہيں۔
اسی دوران انہيں نہ صرف رہائش کے ليے ايک کيمپ ميں جگہ بلکہ ماہانہ قريب چار سو يورو بھی ديے جا رہے تھے۔ اس معاملے کی تفتيش کرنے والے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ البريشٹ دائيں بازو اور مہاجرين مخالف جذبات کے حامل ہيں اور وہ در اصل کسی دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، جس کا الزام وہ مہاجرين پر ڈالنا چاہتے تھے۔ يہ دو مثاليں بنيادی طور پر اس بات کی عکاسی کرتی ہيں کہ اتنی بڑی تعداد ميں مہاجرين کی آمد اور پھر ان کی درخواستوں پر کارروائی کے دوران متعلقہ حکام سے غلطياں بھی سرزد ہوئی ہيں۔ سن 2015 ميں جب مہاجرين کا بحران اپنے عروج پر تھا تو ہر ہفتے ہزاروں کے تعداد ميں تارکين وطن جرمنی پہنچ رہے تھے۔ وفاقی جرمن دفتر برائے ہجرت و مہاجرين (BAMF) پر دباؤ اچانک بڑھ گيا۔ ادارے کو بڑی تعداد ميں مہاجرين کے انٹرويو لينے اور پھر ان کی درخواستوں پر کارروائی کے ليے اضافی عملہ رکھنا پڑا۔ BAMF کی افرادی قوت تين ہزار سے سات ہزار تين سو تک جا پہنچی۔ ضرورت پوری کرنے کے ليے جغرافيہ کے ماہرين، اکاؤنٹنٹس حتیٰ کہ سابقہ فوجيوں تک کو اس کام کے ليے رکھا گيا۔ عملے کی تربيت کے عرصے کو بھی چودہ ہفتوں سے گھٹا کر صرف دس دن کر ديا گيا۔ يوں نا تجربہ کار اور کم عرصے ميں تربيت حاصل کرنے والے عملے سے غلطياں قابل فہم بات ہے۔
/ur/کرائسٹ-چرچ-حملے-تفتیش-کے-لیے-رائل-کمیشن-کا-قیام/a-48250809
نیوزی لینڈ کی دو مساجد پر رواں برس مارچ میں ہونے حملوں کی تفتیش کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کر دیا گیا ہے۔ مساجد پر کیے گئے دہشت گردانہ حملوں میں کم پچاس نمازیوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے کہا ہے کہ کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر پندرہ مارچ کو کیے گئے حملوں کی تفتیش کے لیے قائم کیا گیا رائل کمیشن اپنی رپورٹ رواں برس کے اختتام پر پیش کر دے گا۔ وزیر اعظم نے یہ نہیں بتایا کہ دس دسمبر کو پیش کی جانے والی رپورٹ پر حتمی عمل درآمد کس انداز میں اور کب سے کیا جائے گا یا کمیشن کی سفارشات فوری طور پر نافذ العمل تصور کی جائیں گے۔ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر فائرنگ کر کے انچاس افراد کو ہلاک کرنے والے ملزم برینٹن ٹیرنٹ کو ہفتہ سولہ مارچ کو عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ اپنی پہلی پیشی کے وقت ملزم برینٹ قیدیوں کے سفید لباس میں ملبوس تھا اور عدالتی کارروائی کے دوران خاموش کھڑا رہا۔ اُس پر قتل کی فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے جمعہ پندرہ مارچ کے دہشت گردانہ حملے اور ہونے والی ہلاکتوں کے تناظر میں اس دن کو اپنے ملک کا ایک سیاہ ترین دن قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے ملک میں گن کنٹرول کے قوانین میں رد و بدل کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے تیسرے بڑے شہر کی دو مساجد پر جمعے کی نماز کے وقت کیے گئے حملے میں ہلاک ہونے والے نمازیوں کے لیے مسلم دنیا کے کئی شہروں میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اس تصویر میں بیت المقدس کی مسجد اقصیٰ کے باہر فلسطینی غائبانہ نماز جنازہ ادا کر رہے ہیں۔
/ur/بغداد-حملوں-کی-تازہ-لہر-میں-28-افراد-ہلاک/a-15455672
بدھ کو بغداد میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے خودکش بم حملوں اور سڑک کے کنارے نصب بم دھماکوں کے واقعات میں کم از کم 28 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔
پولیس کے مطابق ایک خودکش بمبار نے اپنی دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی گاڑی مرکزی ضلع علویہ کے ایک پولیس اسٹیشن سے ٹکرا دی، جس کے نتیجے میں 8 پولیس اہلکاروں سمیت 14 افراد ہلاک اور 28 زخمی ہو گئے۔ ایک اور خودکش بمبار نے شہر کے علاقے حریہ میں پولیس کی عمارت کے باہر اپنی گاڑی کو بارود سے اڑا دیا۔ اس حملے میں 8 افراد ہلاک اور 27 زخمی ہوئے۔ پولیس کے لیفٹیننٹ نادر عادل نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’ایک گاڑی حفاظتی جنگلے کو توڑتی ہوئی آئی اور سیمنٹ کی رکاوٹ سے ٹکرا کر رک گئی، جس کے بعد اس کے ڈرائیور نے گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا۔‘‘ حریہ کے دھماکے میں پولیس کی گاڑیاں جل گئیں اور عمارت کی حفاظتی دیواروں کو نقصان پہنچا۔ حریہ میں ہی فوج کی ایک گشت کرنے والی گاڑی سڑک کے کنارے نصب بم سے ٹکرا گئی، جس کے نتیجے میں ایک شہری ہلاک اور 12 زخمی ہوئے۔ جنوبی ضلع علام میں ہونے والے ایک کار بم دھماکے میں پولیس کی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، جس میں تین افراد مارے گئے جبکہ بغداد کے مغربی حصے میں واقع ضلع وشاش میں پولیس کی گاڑی سڑک کے کنارے نصب بم سے ٹکرانے کے باعث دو پولیس افسران ہلاک اور سات زخمی ہو گئے۔
/ur/خواتین-کی-کم-تر-سماجی-حیثیت-ایشیا-کے-مستقبل-کے-لیے-خطرہ/a-15894585
بر اعظم ایشیا کی رہنے والی دو بلین خواتین کو مردوں کی طرح کے فرائض انجام دینے پر آج بھی مردوں کے مقابلے میں کم اجرت ملتی ہے۔ اس کے علاوہ انتہائی اعلیٰ عہدوں پر تو خواتین کو بہت ہی کم نمائندگی حاصل ہے۔
چین کے شہر شنگھائی سے ملنے والی رپورٹوں میں خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ بہت اعلیٰ عہدوں پر فائز ایشیائی خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں انتہائی حد تک کم ہونے کی مثال ایشیا کے جاپان جیسے امیر اور ترقی یافتہ ملکوں میں بھی نظر آتی ہے۔ یہ بات اُس رپورٹ میں کہی گئی ہے جو آج جمعرات کو جاری کی گئی۔ ایشیا سوسائٹی کی آج جاری کردہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایشیائی معاشروں میں خواتین کی کم تر سماجی حیثیت کا مسئلہ بچیوں کی پیدائش سے بھی پہلے سے شروع ہو جاتا ہے۔ اس کا سبب وہاں اسقاط حمل کے وہ واقعات ہیں جو ماں کے پیٹ میں بچے کی جنس کا پتہ چلنے کے بعد کرائے جاتے ہیں۔ کئی ملکوں میں پیٹ میں موجود بچے کے بارے میں اگر یہ پتہ چلے کہ وہ لڑکی ہے تو اسے پیدائش سے پہلے ہی مار دیا جاتا ہے۔ ایسے سب سے زیادہ واقعات چین اور بھارت میں دیکھنے میں آتے ہیں۔ ان ملکوں میں بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کی پیدائش کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہی دونوں ایشیائی ملک دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دو سب سے بڑے ملک بھی ہیں۔
/ur/لادن-کا-پتہ-چلانے-میں-امریکا-کی-مدد-کی-آئی-ایس-آئی/a-15915452
پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا ہے کہ امریکا کو دہشت گرد گروہ القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کا سراغ دیا گیا تھا۔
یہ بات امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ میں سامنے آئی ہے، جس میں آئی ایس آئی کے سینئر اہلکار کا حوالہ نام لیے بغیر دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی انٹیلی جنس سروس کا ماننا ہے کہ اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے میں امریکی خفیہ اداروں کی مدد پر انہیں بھی سراہا جانا چاہیے۔ اس اخبار نے آئی ایس آئی کے دوسرے ایک اہلکار کا حوالہ بھی دیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ وہ بن لادن سمیت القاعدہ کے سینئر آپریٹروں کو ڈھونڈنے کی کوششوں میں شامل رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی ایس آئی نے سی آئی اے کو ایک موبائل فون نمبر دیا جو بالآخر القاعدہ کے ایک کوریئر تک رسائی کا باعث بنا، جو ابو احمد الکویتی کا فرضی نام اختیار کیے ہوئے تھا۔ ان اہلکاروں کا کہنا ہے کہ نومبر 2010ء میں انہوں نے یہ نمبر ان معلومات کے ساتھ سی آئی اے کو دیا کہ آخری مرتبہ اس کا پتہ ایبٹ آباد سے چلایا گیا تھا۔ ایک اہلکار نے اس اخبار کو بتایا: ’’وہ جانتے تھے کہ نمبر کس کا ہے۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے ہمارے ساتھ تعاون بند کر دیا۔‘‘ آئی ایس آئی کے اس اہلکار کا کہنا تھا کہ یہ اعتماد کی انتہائی کمی اور دھوکے کی کہانی ہے۔ اخبار کے مطابق واشنگٹن انتظامیہ کے ایک اہلکار نے آئی ایس آئی کے اس مؤقف سے انحراف کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نمبر کا پتہ ان کے ذریعے سے نہیں چلا تھا اور یہی حقیقت ہے۔ پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو گزشتہ برس دو مئی کو امریکی فورسز نے ایک خفیہ آپریشن میں ہلاک کر دیا تھا۔ اس کی ہلاکت کو ایک برس ہونے کو ہے۔
/ur/سکھ-جنگجو-کمانڈر-ڈرامائی-طور-پر-جيل-سے-فرار-اور-پھر-گرفتار/a-36550387
بھارتی پوليس نے ايک سکھ جنگجو کمانڈر ہرمندر سنگھ منٹو کو دارالحکومت نئی دہلی سے گرفتار کر ليا ہے۔ منٹو کو ایک روز قبل ہی بڑے ڈرامائی انداز ميں پوليس کے کپڑے پہنے ہوئے ايک گروہ کے ارکان نے جيل سے فرار کرايا تھا۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے خبر رساں ادارے اے ايف پی کی پير اٹھائيس نومبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق ہرمندر سنگھ منٹو پنجاب کی جس جيل سے فرار ہوئے تھے، اس سے قريب دو سو کلوميٹر دور دہلی کے ايک مضافاتی علاقے سے اسے دوبارہ حراست ميں لے ليا گيا۔ ايک مقامی پوليس اہلکار اے ايس چاچل نے اس خبر کی تصديق کرتے ہوئے بتايا، ’’اسے پير کی صبح دہلی کے قريب سے گرفتار کيا گيا اور اب اسے پنجاب بھيجا جائے گا۔‘‘ چاچل نے مزيد بتايا کہ اب بھی چار قيدی فرار ہيں، جو ہرمندر سنگھ منٹو کے ساتھ ہی جيل توڑ کر فرار ہونے ميں کامياب ہو گئے تھے۔ يہ قيدی ايک مقامی گروہ کے ارکان ہيں اور انہيں قتل کے الزام میں گرفتار کيا گيا تھا۔ خالصتان لبريشن فورس کے سربراہ کو کم از کم دس افراد پر مشتمل ايک گروہ نے کارروائی کرتے ہوئے بھارتی پنجاب کی انتہائی سخت سکيورٹی والی ايک جيل سے چھڑايا تھا۔ ملزمان پوليس کے لباس پہنے ہوئے تھے اور منٹو کو چھڑانے کی کارروائی کے دوران انہوں نے ايک محافظ کو گولی مار کر زخمی کيا جبکہ گاڑی ميں فرار ہوتے وقت اندھا دھند فائرنگ بھی کی۔ بعد ازاں ايک قريبی شاہراہ پر ايک عورت کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکت کی بھی اطلاع ملی۔ رپورٹوں کے مطابق پوليس اہلکاروں نے گاڑی نہ روکنے کے سبب اس عورت کی گاڑی پر فائرنگ کی تاہم بعد ازاں ايک بيان ميں کہا کہ مقتولہ کا گروہ سے کوئی تعلق نہيں تھا۔
/ur/امدادی-کیمپوں-میں-کسمپرسی-کی-حالت/a-5916850
حکومت کی جانب سے متاثرین کو صرف عارضی خیمہ بستی قائم کر کے دی گئی ہے لیکن اس میں کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔
سندھ کے اضلاع شکار پور اور جیکب آباد سے کراچی پہنچنے والے افراد انتہائی کسمپرسی کے عالم میں دکھائی دئیے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے انہیں صرف عارضی خیمہ بستی قائم کر کے دی گئی ہے لیکن اس میں کوئی سہولت میسر نہیں ہے ۔ تاہم شہری حکومت کراچی کے ای ڈی او ریونیو روشن علی شیخ نے کہا کہ کراچی میں اس وقت پانچ ہزار متاثرین کا انتظام کیا گیا ہے مگر ضرورت پڑنے پر یہ تعداد چالیس ہزار تک پہنچ سکتی ہے ۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے کراچی پہنچنے والے افراد کے لئے قائم کردہ خیمہ بستی میں ضروریات زندگی کے بنیادی انتظامات بظاہر دیکھنے میں نہیں آئے ۔ متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے رکن اور صوبائی وزیر رضا ہارون کا کہنا ہے کہ متاثرین کی رجسٹریشن کا عمل ضروری ہے ۔ اور خیر سگالی کے تحت ایم کیو ایم نے اپنے تمام دفاتر کو امداد جمع کرنے کےلیے کیمپوں کا درجہ دے دیا ہے۔ ان خیمہ بستیوں میں پہنچنے والے افراد بھی چودہ اگست کو پہنچے جبکہ آج سے چونسٹھ برس قبل برصغیر کی آزادی کے مناظر بھی اس سے کچھ مختلف نہ ہوں گے ۔
/ur/چین-نے-نوبل-امن-انعام-یافتہ-رہنما-لیُو-شیاؤبو-کو-رہا-کر-دیا/a-39417608
چینی حکومت نے نوبل امن انعام یافتہ جمہوریت نواز رہنما لیُو شیاؤبو کو جیل سے قبل از وقت رہا کر دیا ہے۔ لیُو سرطان کے مریض ہیں اور ان کی بیماری اپنے آخری مرحلے میں ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق وہ اب زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہیں گے۔
چینی دارالحکومت بیجنگ سے پیر چھبیس جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق لیُو کو جیل سے رہا کرنے کا فیصلہ طبی بنیادوں پر ان کے ساتھ ہمدردی کی وجہ سے کیا گیا۔ لیُو شیاؤبو کے وکیل نے بتایا کہ لیُو کے بارے میں ڈاکٹروں نے گزشتہ ماہ تشخیص کی تھی کہ وہ جگر کے کینسر میں مبتلا ہیں جو اب ناقابل علاج ہو چکا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق لیُو کے وکیل مو شاؤپنگ نے بتایا کہ اس نوبل انعام یافتہ شخصیت کو چنی حکام نے گیارہ برس قید کی سزا سنائی تھی، جس میں سے وہ قریب آٹھ برس کی سزا کاٹ چکے تھے اور انہیں مزید تقریباﹰ تین سال ابھی جیل میں رہنا تھا۔ شاؤپنگ نے بتایا کہ لیُو جگر کے سرطان کے مریض ہیں، ڈاکٹروں نے یہ تشخیص 23 مئی کو کی تھی اور اس کے چند ہی روز بعد انہیں جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔ عشروں تک چین میں جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والے اکسٹھ سالہ لیُو اس وقت شمال مشرقی چین کے شہر شین یانگ کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ لیُو کو امن کا نوبل انعام دینے کا فیصلہ اس پیش رفت کے ایک سال بعد کیا گیا تھا۔ نوبل امن انعام کی تاریخ میں لیُو دنیا بھر میں آج تک کی ان محض تین شخصیات میں سے ایک ہیں، جنہیں یہ اعزاز اس وقت دیا گیا، جب انہیں انہی کے وطن میں حکومت نے جیل میں قید کر رکھا تھا۔
/ur/سوڈان-میں-انسانی-حقوق-کی-پامالی-اقوام-متحدہ-کی-رپورٹ/a-15318714
اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس آفس نے بارہ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ میں سوڈان کے جنوبی علاقے کوردوفان میں حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں کی تفصیلات بیان کی ہیں، جنہیں خرطوم حکومت نے ’بے بنیاد‘ قرار دیتے ہوئے رَد کر دیا ہے۔
اس رپورٹ میں تشدد اور حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے تقریباً تیس واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے ان واقعات کی تحقیقات کیے جانے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ ان واقعات کے درست ثابت ہونے کی صورت میں انہیں ممکنہ طور پر جنگی جرائم بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ جون کے اوائل میں سوڈانی فوج اور ملک کی جنوبی ریاست کوردوفان کے زیادہ تر نُوبا نسل سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں۔ تب ہزاروں شہری اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اقوام متحدہ نے 22 جون کو اپنے ایک بیان میں گھر بار چھوڑ کر فرار ہونے والے ان شہریوں کی تعداد 73 ہزار بتائی تھی۔ سوڈان کی سرکاری نیوز ایجنسی SUNA کے مطابق دارالحکومت خرطوم میں خارجہ امور کی وزارت کے ایک ترجمان نے اقوام متحدہ کی جاری کردہ اس رپورٹ کو ’بے بنیاد‘ اور ’معاندانہ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ بغیر کسی طرح کے شواہد کے لگائے گئے ان الزامات کا مقصد حکومت سوڈان کے خلاف جاری لڑائی اور بغاوت کی پشت پناہی کرنا ہے اور یہ کہ یہ الزامات کوردوفان کی حقیقی صورتحال سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔
/ur/سعودی-عسکری-اتحاد-کے-فضائی-حملے-بائیس-یمنی-بچے-خواتین-ہلاک/a-47865660
جنگ زدہ یمن کے شمال میں ایک گاؤں پر سعودی عرب کی قیادت میں قائم عسکری اتحاد کے جنگی طیاروں کے فضائی حملوں میں دس عورتوں اور بارہ بچوں سمیت کم از کم بائیس عام شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ بات اقوام متحدہ کی طرف سے بتائی گئی۔
متحدہ عرب امارات میں دبئی سے ملنے والی رپورٹوں کی مطابق یمن میں طبی ذرائع نے وہاں اقوام متحدہ کی انسانی بنیادوں پر امداد کی رابطہ کار خاتون اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سعودی عسکری اتحاد کے یہ فضائی حملے یمنی صوبے حجہ کے ضلع کشر میں کیے گئے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ تمام ہلاک شدگان یا تو خواتین تھیں یا پھر کم عمر بچے۔ ان حملوں کے بارے میں یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں کے ٹیلی وژن المسیرہ نے بتایا کہ سعودی عرب کی قیادت میں قائم عسکری اتحاد کے ان فضائی حملوں میں کم از کم 23 عام شہری مارے گئے۔ اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یمن کی جنگ میں اب تک ہزارہا افراد ہلاک اور دو ملین سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔ یمن پہلے بھی عرب دنیا کا غریب ترین ملک تھا لیکن اس کئی سالہ جنگ نے اسے مکمل تباہی سے دوچار کر دینے کے علاوہ وسیع تر قحط کے دہانے پر بھی لا کھڑا کیا ہے۔ یمن کے تنازے میں حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف سعودی عرب اس وقت ایک فریق بن گیا تھا جب ریاض حکومت نے اپنی قیادت میں ایک بین الاقوامی عسکری اتحاد قائم کرتے ہوئے یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کی بحالی کے لیے باقاعدہ مسلح مداخلت شروع کر دی تھی۔
/ur/ہزارہا-پاکستانی-بیروزگاروں-کے-لیے-کام-لاک-ڈاؤن-کے-دوران-شجر-کاری/a-53099480
پاکستانی حکومت کی طرف سے ملک میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث لاک ڈاؤن کے دوران روزانہ اجرت پر کام کرنے والے لیکن اب بیروزگار ہزارہا کارکنوں کو شجرکاری مہم میں حصہ لینے کی صورت میں روزگار کی پیشکش کی جانے لگی ہے۔
اسلام آباد سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق دنیا کے دیگر ممالک کی طرح کورونا وائرس کی وبا سے پاکستانی معیشت اور روزگار کی منڈی کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ تاہم سب سے زیادہ متاثر غربت کا شکار وہ محنت کش طبقہ ہے، جس سے تعلق رکھنے والے شہری روزانہ اجرت کی بنیاد پر کام کر کے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالتے تھے لیکن جن کی بہت بڑی تعداد اب بیروزگار ہو چکی ہے۔ ایسے میں پاکستانی حکومت نے کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والی بیماری کووڈ انیس کے باعث وسیع پیمانے پر بیروزگاری سے بچنے کے لیے اب شجر کاری مہم میں حصہ لیتے ہوئے ایسے ہزارہا کارکنوں کو روزانہ کی بنیاد پر روزگار کی پیشکش کر دی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث لاک ڈاؤن، ملک کے چند علاقوں میں مسلح سکیورٹی دستوں کی مدد سے لگائے گئے کرفیو اور عام شہریوں کی نقل و حرکت محدود کیے جانے کے باعث ملک میں روزگار کے 18 ملین سے زائد مواقع کے لیے خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ برطانیہ بھی کورونا وائرس سے شدید متاثر ہو رہا ہے، یہاں تک کے اس ملک کے وزیر اعظم بورس جانسن بھی اس وبا کا نشانہ بن چکے ہیں۔ برطانیہ میں لاک ڈاؤن کيا گیا ہے لیکن کچھ لوگ اس پابندی پر عمل درآمد کرتے نظر نہیں آ رہے۔ تاہم پولیس کی کوشش ہے کہ بغیر ضرورت باہر نکلنے والے لوگوں کو واپس ان کے گھر روانہ کر دیا جائے۔
/ur/معدے-میں-کوکین-کی-اکتالیس-تھیلیاں-آسان-نہیں/a-49456847
جرمن پولیس نے منشیات کے ایک ایسے سوداگر کو گرفتار کیا ہے، جو اپنے معدے میں کوکین بھر کے اسمگل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ شخص ہیمبرگ سے ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن جا رہا تھا۔
جرمن حکام نے بتایا ہے کہ اس تینتیس سالہ شخص کے معدے میں کوکین سے بھری اکتالیس تھیلیاں موجود تھیں اور ہر تھیلی میں کم از کم دس گرام کوکین تھی۔ یہ شخص ٹرین کے ذریعے ایمسٹرڈیم سے ہیمبرگ کے راستے کوپن ہیگن جا رہا تھا۔ جرمن کسٹم حکام نے بتایا ہے کہ جیسے ہی ٹرین نے بالٹک جزیرے فیہمان کو پار کیا تو پولیس نے اس شخص کی تلاشی لی۔ اس کے بیگ سے اٹھاون چھوٹے چھوٹے بیگ ملے، جس میں کوکین کو دبا کر رکھا گیا تھا۔ ان بیگز کا سائز کبوتر کے انڈوں کے برابر تھا۔ پولیس حکام ریو ڈی جنیرو میں کریک (کوکین کی ایک قسم) کی عادی ایک حاملہ عورت کو گرفتار کر رہے ہیں۔ امریکا میں وباء کی صورت اختیار کرنے کے بیس برس بعد یہ منشیات برازیل میں بھی بڑے پیمانے پر استعمال کی جاتی ہے۔ پیرو کے انسداد منشیات یونٹ کے پولیس اہلکار ایمیزون کے قریبی علاقے میں کوکا پودوں کے ایک کھیت کو تباہ کر رہے ہیں۔ یہاں منشیات کے زیادہ تر کاروبار کی سرپرستی ایک مقامی گوریلا گروپ کرتا ہے۔ پیرو کی یہ مارکسی زیر زمین تحریک اسی کی دہائی سے حکومت مخالف کارروائیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ دو مرتبہ جیل سے فرار ہونے کے بعد جنوری دو ہزار سولہ میں گزمان الچاپو کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔ الچاپو کا شمار بھی دنیا کے اہم ترین اسمگلروں میں ہوتا تھا۔ اس اسمگلر نے ایک انٹرویو کے سلسلے میں امریکی اداکار شین پین کے ساتھ ایک جنگل میں ملاقات کی تھی۔ میکسیکن حکام کو اسی ملاقات کے بعد اس اسمگلر کے ٹھکانے کا پتہ چلا تھا اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔
/ur/معاوضے-کا-تو-سوال-ہی-نہیں-پیدا-ہوتا/a-54932926
بھارت میں لاک ڈاون کے دوران ہلاک ہوجانے والے مہاجر مزدوروں کے اہل خانہ کو کسی بھی طرح کا معاوضہ نا دینے کے مودی حکومت کے اعلان کی اپوزیشن جماعتوں نے شدید مذمت کی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے مودی حکومت کے اس بیان پر کہ اسے اس بات کا کوئی علم نہیں کہ کورونا کی وجہ سے لاک ڈاون کے سبب کتنے مہاجر مزدور ہلاک ہوئے، حیرت اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے غیرانسانی رویہ قرار دیا۔ خیال رہے کہ بھارتی پارلیمان کے مانسون اجلاس کے پہلے دن پیر کے روز اپوزیشن جماعتوں نے کورونا اور اس کی وجہ سے لاک ڈاون کے سبب بے روزگار سے محروم ہوجانے والے کروڑوں مزدوروں نیز ہلاک ہوجانے والے سینکڑوں افراد اور معیشت کی بدحالی کے سلسلے میں متعدد سوالات پوچھے۔ مودی حکومت کے اس جواب کی اپوزیشن نے سخت نکتہ چینی کی ہے۔ بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسی) کے رہنما سیتا رام یچوری نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ وزیر اعظم مودی کے اچانک، غیر منصوبہ بند اور کسی تیاری کے بغیر لاک ڈاون نے لاکھوں مزدوروں کومہاجرت پر مجبور کردیا اور اپنے گھر پہنچنے کے لیے ہزاروں میل پیدل چلنا پڑا۔ حکومت اب کہتی ہے کہ اس کے پاس اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے کہ اپنے گھر واپس لوٹتے ہوئے اور ملازمت ختم ہوجانے کی وجہ سے کتنے لوگ موت کا شکار ہوگئے۔" اپوزیشن جماعتیں اور سماجی تنظیمیں مسلسل شکایت کرتی رہی ہیں کہ حکومت مہاجر مزدوروں اور ان کی موت کے تئیں انتہائی بے حس ہے۔ وزیر اعظم نے صرف چار گھنٹے کے اندر لاک ڈاون نافذکرنے کا اعلان کردیا اور یہ بھی نہیں سوچا کہ بے سہارا مزدور کس طرح اپنے گھر لوٹیں گے۔
/ur/باگبو-کو-بھاگنے-پر-مجبور-کرنے-کے-لئے-آئیوری-کوسٹ-میں-ہڑتال/a-14737977
آئیوری کوسٹ میں گزشتہ ماہ کے متنازعہ صدارتی انتخابات کا تنازعہ مزید شدت اختیار کر گیا ہے، جن میں جیت کا دعویٰ کرنے والے امیدوار الاسان وتارا کی حامی سیاسی جماعتوں نے آج سے ہڑتال کی کال دی ہے۔
اس ہڑتال کا مقصد صدر لاراں باگبو کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کرنا ہے، جنہوں نے 28 نومبر کے انتخابات میں خود کو فاتح قرار دیتے ہوئے اقتدار چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔ وتارا کے ترجمان پیٹرک آچھی نے اتوار کو کہا، ’میں اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ ہم نے کل (پیر) سے ملک میں عام ہڑتال کی کال دی ہے‘۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکہ، افریقی یونین اور مغربی افریقہ کی علاقائی تنظیم ایکوواس ان کی جانب سے جیت کا دعویٰ مسترد کرتے ہوئے وتارا کو فاتح تسلیم کر چکی ہے۔ باگبو نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ ان کے خلاف ایک بین الاقوامی منصوبہ بنایا گیا ہے، جس کی قیادت امریکہ اور فرانس کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ اقوام متحدہ اور فرانس کے فوجی ملک چھوڑ دیں۔ تاہم اقوام متحدہ نے ان کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ اُدھر ایکوواس کے تین ریاستی سربراہان کا ایک وفد منگل کو آئیوری کوسٹ پہنچ رہا ہے۔ وفد کے ارکان باگبو کو اقتدار کی کرسی چھوڑنے پر قائل کرنا چاہتے ہیں۔ آئیوری کوسٹ کے وزیر داخلہ Emile Guirieoulou کا کہنا ہے کہ وفد کے ارکان کا دوستوں کے طور پر استقبال کیا جائے گا اور ان کا پیغام سنا جائے گا۔ اُدھر سوئٹزرلینڈ کی وزارت خارجہ نے بتایا ہے کہ بازل ملہاؤس ایئرپورٹ پر باگبو کا ایک طیارہ اتار لیا گیا تھا اور اُسے آئیوری کوسٹ کی نئی جائز حکومت کے کہنے پر اڑنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
/ur/جرمنی-بین-الاقوامی-سطح-پر-مزید-ذمہ-داریاں-اٹھائے-بان-کی-مون/a-17397482
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے جرمنی سے کہا ہے کہ وہ عالمی سطح پر مزید ’قائدانہ‘ کردار ادا کرے۔ ادھر جرمن چانسلر میرکل کا کہنا ہے کہ برلن حکومتی جنگی محاذوں پر اپنے فوجی نہیں بھیجے گی۔
اپنے چار روزہ دورہ جرمنی کے پہلے روز بان کی مون نے برلن میں چانسلر میرکل سے ملاقات کی۔ وہ رواں اختتام ہفتہ پر میونخ میں سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کریں گے، جہاں وہ روسی وزیرخارجہ سیرگئی لاوروف اور امریکی وزیرخارجہ جان کیری سے بھی ملیں گے۔ برلن میں چانسلر میرکل کے ساتھ اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں بان کی مون نے زور دیا کہ وسطی افریقی جمہوریہ میں مسلم اور مسیحیوں کے درمیان جاری خونریزی کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کے امن مشن کو مزید فوجی دستے درکار ہیں، تاہم انہوں نے یہ نہیں کہا کہ آیا اس سلسلے میں جرمنی ممکنہ طور پر اپنے فوجی بھیجنے پر آمادہ ہے یا نہیں۔ تاہم میرکل نے کہا کہ جرمنی اس معاملے میں بہت واضح پوزیشن رکھتا ہے کہ وہ جنگی کارروائیوں کے لیے فوجی کہیں نہیں بھیجے گا۔ انہوں نے چانسلر میرکل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’میں نے اسی لیے ان سے کہا ہے کہ وہ شام، وسطی افریقہ اور دیگر جگہوں پر قائدانہ کردار ادا کریں۔ ہمیں ان مسائل سے نمٹنا ہو گا تاکہ ہم ایک بہتر دنیا قائم کر سکیں۔‘ انہوں نے مزید کہا، ’آپ کو سیاسی حل بھی درکار ہوتا ہے۔ ترقی کا عنصر بھی ضروری ہوتا ہے، حکومتی ڈھانچے کی تعمیر بھی اہم ہوتی ہے اور کچھ مواقع پر فوجی عنصر کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ جرمنی کیس کی نوعیت کے اعتبار سے فیصلہ کرتا ہے کہ کہاں کس شے کی زیادہ ضرورت ہے۔‘
/ur/ن-لیگ-کا-مستقبل-اور-گاڈ-فادر-والے-جملے-پاکستان-میں-زیر-بحث/a-38534076
پاناما فیصلے کے بعد جہاں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے وزیرِ اعظم کے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا ہے وہیں جسٹس کھوسہ کے گاڈ فادر والے جملے بھی کئی حلقوں میں زیرِ بحث ہیں۔
ن لیگ کا اعتماد بھی عرفان چوہدری کی اس بات کو صیح ثابت کرتا ہے۔پارٹی کے ایک سینیئر رہنما راجہ ظفر الحق نے عمران خان کے احتجاج اور حزب اختلاف کی طرف سے وزیرِ اعظم کے استعفے کے مطالبے کے حوالے سے کہا، ’’ہم اُن کے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ یہ جلسہ کریں، جس طرح یہ جلسے ماضی میں ناکام ہوئے ہیں، اب بھی ایسے ہی ناکام ہوں گے۔ وزیر اعظم استعفیٰ نہیں دیں گے۔ پیپلز پارٹی والے پہلے کہتے تھے کہ عدالت ہمارے خلاف فیصلہ نہیں دے گی اور اب بھی وہ ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ حکومت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
/ur/صدر-اوباما-کی-جیت-اور-پاکستانیوں-کا-ردعمل/a-16363920
باراک اوباما کی بطور امریکی صدر مسلسل دوسری مرتبہ کامیابی پر پاکستان میں ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے اپنے امریکی ہم منصب کو مبارکباد پیش کی ہے۔
پاکستانی صدر نے امید ظاہر کی ہے کہ صدر اوباما کی دوسری مدت کے دوران پاک امریکا تعلقات بہتر ی آئے گے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی قیادت باہمی مفادات اور احترام پر مبنی دوطرفہ تعلقات کو مزید وسعت دے گی۔ امریکی صدر باراک اوباما کی کامیابی کے بعد اسلام آباد میں امریکی نائب ناظم الامور رچرڈ ہاگلینڈ کی رہائش گاہ پر ایک تقریب کا انعقاد بھی کیا گیا، جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی۔ اس تقریب کے اکثر شرکاء صدر باراک اوباما کی کامیابی کے بعد اس بات پر متفق نظر آئے کہ پاکستان کے حوالے سے امریکی رویے میں کوئی بڑی تبدیلی متوقع نہیں اور فی الحال حالات جوں کے توں ہی رہیں گے۔ ادھر پاکستان کے عام شہریوں کا کہنا ہے کہ اوباما کے دوبارہ صدر منتخب ہونے سے پاکستان کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اسلام آباد کی آبپارہ مارکیٹ میں جوتوں کی مرمت کا کام کرنے والے سرفراز کا کہنا تھا، ’’اوباما نے پہلے چار سالوں میں جو کیا اب بھی وہی کرے گا‘‘۔ دریں اثناء پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بہتری آئے گی۔ صدر اوباما کی دوسری مدت کے دوران بھی پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے کام جاری رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں امریکی تشخص کو بہتر بنانے کے لیے بھی کوششیں کی جائیں گے۔
/ur/فاکلینڈز-کے-دفاع-کے-لیے-مناسب-اقدامات-اٹھائے-جائیں-گے-لندن/a-15736681
متنازعہ فاکلینڈز پر برطانیہ اور ارجنٹانئن کے مابین پائی جانے والی کشیدگی میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے اطراف پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کریں۔
اقوام متحدہ کے لیے برطانوی سفیر مارک لائل گرانٹ نے ارجنٹائن کو خبردار کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو فاکلینڈز کا بھرپور طریقے سے دفاع کیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ لندن حکومت ان جزیروں کی خود مختاری کے سوا تمام تر معاملات پر بیونس آئرس سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ ہیکٹر ٹمر مین نے اس معاملے پر اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون اور سلامتی کونسل کے صدر سے ملاقاتیں کیں اور اصرار کیا کہ خطے میں عسکری تناؤ میں کمی کے لیے عالمی ادارہ اپنا کردار ادا کرے۔ ارجنٹائن کے وزیر خارجہ کی طرف سے اقوام متحدہ کے اعلیٰ اہلکاروں سے ملاقات کےبعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے لیے برطانوی سفیر مارک لائل گرانٹ نے کہا، ’ ہم الفاظ کی جنگ کو شدت نہیں دینا چاہتے، لیکن یہ واضح ہے کہ اگر فاکلینڈز جنگ کے تیس برس مکمل ہونے کے موقع پر کوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی تو ہم اس کا مناسب اور بھرپور جواب دیں گے‘۔ برطانوی سفارتکار کے اس بیان سے ایک روز قبل برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی انہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ فاکلینڈ جزیروں کا مناسب طریقے سے دفاع کیا جائے گا۔ مارک لائل گرانٹ نےایسے الزامات کو مسترد کیا ہے کہ برطانیہ لاطینی امریکی علاقوں میں اسلحے کی ایک نئی دوڑ شروع کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لندن حکومت نے فاکلینڈ جزیروں کے لیے جو فوجی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے، وہ صرف دفاعی نوعیت کی ہے۔ تاہم انہوں نے بحر اوقیانوس میں جوہری ہتھیاروں سے لیس ایٹمنی آبدوز روانہ کرنے کی خبروں کی نہ تو تصدیق کی اور نہ ہی تردید۔
/ur/مراکش-الجزائر-اور-تیونس-محفوظ-ممالک-ہیں/a-19084575
نئے سال کی آمد پر جرمن شہر کولون میں ہونے والے ناخوشگوار واقعات کے بعد شمالی افریقی باشندوں کو جرمنی سے جلد از جلد ملک بدرکرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس عمل میں جرمن حکومت کے ساتھ تعاون کا یقین دلایا ہے مراکش اور الجزائر نے۔
مراکش اور الجیریا کے حکومتی اہلکاروں نے جرمنی کو یقین دلایا ہے کہ وہ اپنے اپنے باشندوں کو جرمنی سے واپس اپنے ملک بلانے کے عمل کو سہل تر اور تیز رفتار بنانے میں مکمل تعاون کریں گے۔ جرمن حکام ملک بدری کے سلسلے میں پہلے اپنی توجہ مراکش اور الجیریا سے آئے ہوئے اُن باشندوں پر مرکوز کریں گے جو گزشتہ سال جرمنی کی طرف آنے والے مہاجرین کے طوفان کے ساتھ جرمنی پہنچے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر اقتصادی مہاجرین ہیں، جو اپنی اقتصادی صورتحال میں بہتری کے لیے جرمنی آئے ہیں۔ جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے کہا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والے مراکشی باشندوں کا نہ تو کوئی کوٹا مختص کیا گیا ہے اور نہ ہی ان کی تعداد کی کوئی حد طے ہے۔ سب سے پہلی کھیپ میں ایسے 29 مراکشی باشندوں کو ملک بدر کیا جانا ہے جن کی شناخت بالکل واضح طور پر ہو چُکی ہے۔ اس عمل کو سہل بنانے کے لیے مراکشی حکومت ایسے سفری دستاویز جاری کرے گی جو معمول کی مدت سے زیادہ عرصے تک جائز اور قابل استعمال ہو گی۔ اب تک اس نوعیت کی سفری دستاویزات چند دنوں کے لیے قابل استعمال ہوا کرتی تھیں جو اکثر و بیشتر ملک بدری کے عمل میں رکاوٹ کا سبب بنتی تھیں۔
/ur/امریکی-صدر-تین-ملکی-دورے-پر-افریقہ-میں/a-16910470
امریکی صدر باراک اوباما اپنے تین ملکی دورہ افریقہ کے پہلے مرحلے میں سینیگال پہنچ گئے ہیں۔ ایک ہفتے پر محیط اس دورے میں وہ تنزانیہ اور جنوبی افریقہ بھی جائیں گے۔
صدر اوباما ایک ایسے موقع پر سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار پہنچے ہیں، جب جنوبی افریقہ کے سابق صدر اور نوبل امن انعام یافتہ رہنما نیلسن میڈیلا شدید علیل ہیں اور ان کی حالت تشویش ناک ہے۔ خبر رساں ادارے AFP کے مطابق نیلسن مینڈیلا کی صحت کی صورتحال صدر اوباما کے اس دورے میں کسی تبدیلی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ صدر اوباما بدھ کے روز اپنی اہلیہ میشیل اور بیٹیوں سازا اور مالیا کے ہمراہ سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار پہنچے۔ وہ آج جمعرات 27 جون کو سینیگال کے صدر میکی سال سے ملاقات کریں گے۔ روئٹرز کے مطابق صدر اوباما کے دورہ ڈاکار کا مقصد سینیگال میں جمہوریت کی ترقی پر امریکی یکجہتی کا اظہار کرنا ہے۔ اس موقع پر مقامی میڈیا پر خصوصی گیت نشر کیے گئے جن میں باراک اوباما کی سن 2008ء کی صدارتی مہم کے دوران ان کی تقاریر کے ٹکڑے بھی لگائے گئے تھے۔ سن 2008ء میں امریکی تاریخ کے پہلے سیام فام صدر منتخب ہونے والے باراک اوباما کا انتخابی نعرہ ’یس وی کین‘ یا ’جی ہاں ہم کر سکتے ہیں۔‘ بھی ان گیتوں میں شام کیا گیا تھا۔ AFP کے مطابق صدر اوباما کا دورہ افریقہ اس لیے بھی انتہائی اہم ہے کہ براعظم افریقہ کے سب سے ممتاز رہنما نیلسن مینڈیلا کی حالت انتہائی نازک ہے اور دنیا بھر میں لوگ ذہنی طور پر تیار ہیں کہ وہ کسی بھی لمحے مینڈیلا کو جدائی کی خبر سن سکتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان کے مطابق، ’’وہ مینڈیلا کی صحت کے لیے دعاگو ہیں اور ان کی صحت پر نظر رکھے ہوئے ہیں تاہم ایسا لگتا ہے کہ نیلسن مینڈیلا کی صحت کی وجہ سے صدر اوباما کے دورے پر فرق پڑے گا۔‘‘
/ur/مصری-حکمران-جماعت-کی-اعلیٰ-قیادت-مستعفی-مظاہرے-بدستور-جاری/a-14819914
ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق مصری صدر حسنی مبارک کے بیٹے سمیت حکمراں جماعت کے کئی اعلیٰ عہدیداروں نے اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے ہیں۔ حکمران جماعت کے عہدیداروں نے یہ استعفے عوامی احتجاج کے ردعمل میں دیے ہیں۔
مصری صدر حسنی مبارک کی جماعت کے جن پارٹی عہدیداروں نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے ان میں مبارک کے بیٹے جمال مبارک بھی شامل ہیں۔ آزادانہ ذرائع سے فی الحال ان خبروں کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ مصر میں حکومت مخالف مظاہرین مسلسل بارہویں دن بھی اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ جمعہ کے دن ایک لاکھ سے زائد مظاہرین التحریر چوک پر اکٹھے ہوئے تھے، جن میں سے مظاہرین کی ایک بڑی تعداد اب بھی وہیں موجود ہے۔ دوسری طرف گزشتہ تین دہائیوں سے برسر اقتدار مصری صدر حسنی مبارک پر عالمی دباؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ وہ اقتدار سے الگ ہو جائیں۔ دوسری طرف امریکی صدر باراک اومابا نے اپنے مصری ہم منصب حسنی مبارک پر زور دیا ہے کہ وہ عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے ’ٹھیک فیصلہ کریں‘۔ قاہرہ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ امر واضح ہے کہ حسنی مبارک فوری طور پر اقتدار سے الگ ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اطلاعات کے مطابق نائب صدر عمر سلیمان نے اپوزیشن سے مذاکرات شروع کر دیے ہیں کہ انتقال اقتدار کا مرحلہ کس طرح شروع ہوگا۔ دوسری طرف اپوزیشن اخوان المسلمین نے کہا ہے کہ یہ مذاکرات اسی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں اگر صدر حسنی مبارک فوری طور پر اقتدار سے الگ ہو جائیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق مصر میں ان مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی تعداد تین سو سے زائد ہو چکی ہے۔
/ur/بھارتی-کشمیر-مظاہرے-جاری-مزید-پانچ-افراد-ہلاک/a-5863311
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری مظاہروں میں منگل کو مزید پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔ ریاستی وزیراعلیٰ کی جانب سے عوام اور سکیورٹی فورسز سے صبر کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کے باوجود پرتشدد واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔
پیر کو ریاستی وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ہنگامی ملاقات کی۔ ان کی اس ملاقات کا مقصد امن کی مزید خراب ہوتی صورتحال کو قابو میں لانے کے لئے مرکزی حکومت سے تعاون طلب کرنا تھا۔ انہوں نے نئی دہلی میں عوام اور فورسز سے صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل بھی کی تاکہ گزشتہ دو برسوں کی بدترین کشیدگی کا خاتمہ ممکن ہو۔ تازہ ترین ہنگاموں کا سلسلہ رواں برس جون میں ایک 17 سالہ نوجوان کی پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے شیل کا گولہ لگنے سے ہونے والی ہلاکت کے بعد شروع ہوا تھا، جس میں روز بروز تیزی آتی چلی گئی۔ صرف جمعہ سے اب تک تقریباﹰ روزانہ مظاہرین اور فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے واقعات میں اب تک 27 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ حالیہ ہلاکتوں کے بعد ہنگاموں کی تازہ لہر میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد اب 44 ہو چکی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سکیورٹی فورسز مظاہرین پر آتشیں اسلحے کے استعمال کو تمام ممکنہ حد تک محدود کرے۔ ایشیا پیسیفک کے لئے اس عالمی تنظیم کے ڈائریکٹر سیم ظریفی نے ایک بیان میں کہا، ’کشمیر میں ہونے والے مظاہروں میں سے چند ایک پرتشدد تھے، تاہم سکیورٹی فورسز کو عوام کے احتجاج کے حق کا احترام کرنا چاہئے۔ فورسز آتشیں اسلحے کا استعمال صرف اس وقت کر سکتی ہیں، جب انسانی جانوں کے ضیاع کا خطرہ ہو۔ تاہم کشمیر کے تازہ واقعات میں صورتحال اس سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔’
/ur/صورتحال-واضح-ہونے-تک-نقاب-لینے-سے-گریز-کریں-سری-لنکن-علماء/a-50179599
سری لنکا میں علماء نے مسلم خواتین سے کہا ہے کہ وہ اُس وقت تک نقاب لینے یا چہرے کا پردہ کرنے سے گریز کریں جب تک حکومت کی طرف سے صورتحال کی وضاحت نہیں کر دی جاتی۔
سری لنکن علماء نے خواتین سے کہا ہے کہ ملک میں ایمرجنسی کے خاتمے کے بعد چہرے کا نقاب لینے کا سلسلہ فوری طور پر شروع نہ کریں بلکہ اس وقت تک انتظار کریں جب تک حکومت کی طرف سے اس بارے میں صورتحال واضح نہیں کر دی جاتی۔ ان علماء کو خدشہ ہے کہ کہیں مسلم خواتین کو دوبارہ نشانہ بنانے کا سلسلہ نہ شروع ہو جائے۔ سری لنکا میں رواں برس اپریل میں ہونے والے خودکش حملوں کے بعد ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی۔ ایسٹر سنڈے کو سری لنکا میں تین گرجا گھروں اور تین ہوٹلوں پر ہونے والے ان دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں 260 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ ان حملوں کی ذمہ داری ملک کے دو مسلم شدت پسند گروپوں پر عائد کی گئی تھی جس کے بعد ملک میں آباد مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ انہی واقعات کے بعد سری لنکا کے صدر میتھری پالا سری سینا نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی جس کے تحت ملکی سکیورٹی اداروں کو وسیع اختیارات حاصل ہو گئے تھے۔ دیگر اقدامات کے علاوہ چہرے کا نقاب لینے یا چھپانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ سری لنکا میں مسلم علماء کے سب سے بڑے پلیٹ فارم ''آل سیلون جمیعت العلماء‘‘ کے ترجمان فاضل فاروق نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ مسلم خواتین سے کہا گیا ہے کہ وہ چہرے کا پردہ کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے میں جلد بازی نہ کریں۔ فاروق کے مطابق حکومتی پابندی کے بعد بعض خواتین نے چہرے کے نقاب کے بغیر باہر نکلنے کا سلسلہ ہی ختم کر دیا تھا کیونکہ وہ اس کی عادی ہو چکی ہیں۔
/ur/ٹڈی-دل-کے-نئے-اور-بڑے-حملے-کا-خدشہ/a-52422479
اقوام متحدہ نے مشرقی افریقہ اور پاکستان میں ٹڈی دل کے حملے سے پیدا شدہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
مشرقی افریقہ میں ٹڈی دل کے حملوں کے باعث تیرہ ملین سے زائد انسانوں کے فاقوں کا شکار ہو جانے کا شدید خطرہ ہے۔ خطرناک ٹڈی دل مغربی ایشیا اور مشرقی افریقہ میں کئی ملین انسانوں کی بقا خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے صورت حال کو انتہائی تشویش ناک قرار دے رکھا ہے۔ صحرائی ٹڈیوں نے ایتھوپیا، صومالیہ، کینیا تنزانیہ اور یوگنڈا کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ پاکستان نے بھی جنوری میں صحرائی ٹڈیوں سے نمٹنے کے لیے قومی ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔ ماہرین نے اس برس مارچ اور اپریل کے مہینوں کے دوران ٹڈی دل کے ایک نئے اور بڑے حملے سے خبردار کیا ہے۔ فصل کی کاشت کے موسم میں نئے حملے سے خوراک کی قلت پیدا ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ مشرقی افریقی ممالک کی ڈیویلپمنٹ سے متعلق بین الاحکومتی تنظیم آئی جی اے ڈی نے اپنے ایک بیان میں بتایا ہے کہ ان ممالک میں موجود ٹڈیاں تیزی سے افرائش نسل کر رہی ہیں اور ان کے انڈوں سے اپریل کے مہینے تک مزید صحرائی ٹڈیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ مشرقی افریقی ممالک میں فصلوں کی کاشت انہی مہینوں کے دوران کی جاتی ہے۔ صحرائی ٹڈیوں نے ان ممالک میں پہلے ہی فصلوں کو تباہ کر رکھا ہے اور مزید تباہی کی صورت میں خوراک کی شدید قلت پیدا ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ٹڈیوں نے شمالی سوڈان کی جانب بھی سفر شروع کر دیا ہے۔ اس جنگ زدہ ملک میں پہلے ہی چھ ملین سے زائد شہریوں کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ ماہرین نے ٹڈیوں کے حملے سے صورت حال مزید سنگین ہو جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
/ur/لیبیا-کے-تنازعے-میں-بے-گھر-ہونے-والے-پناہ-گزینوں-کی-جرمنی-آمد/a-16217798
لیبیا میں گزشتہ برس کی شورش کے نتیجے میں اپنے گھر بار کھونے والے غیرملکیوں میں سے 195 جرمنی پہنچ گئے ہیں۔ یہ پناہ گزین ایک برس سے زائد عرصے سے تیونس کے ایک مہاجر کیمپ میں زندگی گزار رہے تھے۔
یہ پناہ گزین پیر کو جرمن شہر ہینوور پہنچے، جن میں سے بیشتر سوڈانی ہیں جبکہ باقی کا تعلق صومالیہ، اریٹریا، عراق، ایتھوپیا اور پاکستان سے ہے۔ اس گروپ میں بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ ان پناہ گزینوں کی بحالی کا پروگرام اقوام متحدہ نے بنایا تھا اور جرمنی نے گزشتہ برس اس میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا۔ جرمنی نے حال ہی میں سالانہ بنیادوں پر ایسے 300 لوگوں کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا تھا، جو کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں اور سیاسی پناہ کے منتظر ہیں۔ اکتوبر میں اسی پروگرام کے تحت ایک سو عراقی جرمنی آئیں گے، جس سے رواں برس کے لیے طے شدہ تعداد پوری ہو جائے گی۔ لیبیا میں گزشتہ برس سابق آمر رہنما معمر قذافی کے خلاف شروع ہونے والے احتجاج اور اس کے نتیجے میں باغیوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں، وہاں سے ایسے لوگوں کو فرار اختیار کرنا پڑا تھا، جو لیبیا کے شہری تو نہیں تھے لیکن وہ روزگار کی وجہ سے وہاں رہائش پذیر تھے۔ یہ لوگ وہاں پر کئی دہائیوں سے آباد تھے۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق ان کی جانب سے لیبیا چھوڑنے کی وجہ یہ تاثر تھا کہ وہ معمر قذافی کے حامی رہے تھے۔ مہاجرین کو سیاسی پناہ دیے جانے کے حامی گروپوں نے اقوام متحدہ کے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ تیونس میں شوشہ کے علاقے میں قائم کیمپ میں ابھی تک اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ دو ہزار 200 پناہ گزین موجود ہیں، جن میں سے صرف ایک ہزار 320 کو پناہ دینے کے وعدے سامنے آئیں، جو مغربی ملکوں نے کیے ہیں۔
/ur/عالمی-یوم-خواندگی-آج-کا-پاکستان-کہاں-کھڑا-ہے/a-45403797
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے والا پاکستان وہ واحد مسلم اکثریتی ملک ہے جو ایٹمی طاقت بھی ہے۔ لیکن اپنی شرح خواندگی کے حوالے سے ایک دو راہے پر کھڑے پاکستان کی آج تک کی تعلیمی پیش رفت غیر متاثر کن ہے۔
پاکستان میں لازمی بنیادی تعلیم قانونی طور پر ہر بچے کا حق ہے۔ لیکن کیا یہ حق ہر پاکستانی بچے کو مل رہا ہے اور تعلیم پر ملک کے سالانہ بجٹ کا کتنے فیصد حصہ خرچ کیا جاتا ہے؟ یہ سوال جب ڈوئچے ویلے نے پوچھا معروف ماہر اقتصادیات اور تجزیہ نگار اکرم ہوتی سے، تو انہوں نے بتایا، ’’ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں حقیقی شرح خواندگی ستائیس فیصد کے قریب ہے۔ قریب دس برس قبل ملکی بجٹ میں تعلیم کا حصہ دو فیصد تھا۔ پھر گزشتہ برس حکومت نے اعلان کیا کہ تعلیم کے لیے وفاقی بجٹ میں رکھی گئی رقوم تین اعشاریہ چار فیصد کر دی گئی ہیں۔ تعلیمی بجٹ کا استعمال دو طرح سے ہوتا ہے۔ ایک نئے منصوبوں پر اور دوسرا پرانے منصوبے چلاتے رہنے پر۔ ان میں پہلے سے قائم اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ پاکستان میں قریب ستر فیصد تعلیمی بجٹ تو تنخواہوں پر خرچ ہو جاتا ہے، جو باقی بچتا ہے، اس سے نئے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں۔ اتنی تھوڑی رقوم سے آپ پورے ملک میں کس معیار کے کتنے نئے منصوبے شروع کر سکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک اپنے تعلیمی اداروں سے بچے بچیوں کی ڈراپ آوٹ شرح ہی بہتر نہیں بنا سکے۔‘‘
/ur/جرمنی-کے-تھوماس-باخ-انٹرنيشنل-اولمپک-کميٹی-کے-نئے-صدر/a-17081592
جنوبی امريکا کے ملک ارجنٹائن کے دارالحکومت بيونس آئرس ميں گزشتہ روز جرمنی سے تعلق رکھنے والے تھوماس باخ کو انٹرنيشنل اولمپک کميٹی کے صدر کے طور پر منتخب کر ليا گيا ہے۔
انٹرنيشنل اولمپک کميٹی کے نويں صدر کے انتخاب کے ليے رائے شماری دس ستمبر کے روز کميٹی کے ايک سو پچيس ويں سيشن کے اختتام پر ہوئی۔ دو مراحل پر مبنی اس ووٹنگ ميں ’آئی او سی‘ کے رکن ممالک کے نمائندگان نے حصہ ليا۔ رائے شماری کے نتائج کے مطابق انسٹھ سالہ تھوماس باخ کو انچاس ووٹ ملے جبکہ ان کے قريب ترين حريف پورٹو ريکو سے تعلق رکھنے والے رچرڈ کاريون رہے، جن کے حق ميں چھبيس ووٹ ڈالے گئے۔ کميٹی کی صدارت کے منصب کے ليے ديگر اميدواروں ميں سنگاپور کے سر ميانگ کو چھ ووٹ، سوئٹزرلينڈ کے ڈينس اوسوالڈ کو پانچ اور يوکرائن کے سيرگئی ببکا کو چار ووٹ ملے۔ جرمن چانسلر انگيلا ميرکل نے ايک بيان ميں اپنے ہم وطن تھوماس باخ کو انٹرنيشنل اولمپک کميٹی کے نويں صدر منتخب کيے جانے پر مبارک باد پيش کی۔
/ur/طوفان-کی-سائیں-سائیں/a-59573511
ہر طرف ایک طوفان ہے اور پوری قوم اس طوفان میں گھری ہوئی ہے۔ ایک افراتفری کا عالم ہے۔ چیخ و پکار بڑھتی جا رہی ہے لیکن حیرت ہے کہ کچھ لوگوں کو نا تو طوفان نظر آ رہا ہے اور نہ ہی وہ چیخ و پکار سن رہے ہیں۔
کم از کم عمران خان کو یہ تو احساس ہے کہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ ان کے لائے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کو یہ طوفان نظر نہیں آ رہا۔ موصوف نے حال ہی میں برطانیہ میں بیٹھ کر فرمایا ہے کہ جب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرتی ہے تو پاکستان سے باہر رہنے والے نوے لاکھ تارکین وطن کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ رضا باقر بیرون ملک سے آئے اور راتوں رات گورنر اسٹیٹ بینک بن گئے۔ ذہنی طور پر وہ بدستور بیرون ملک مقیم ہیں اور اسٹیٹ بینک کی گورنری ختم ہونے پر وہ بیرون ملک واپس چلے جائیں گے۔ رضا باقر نے جو کہا ہے وہ کم عقلی نہیں بلکہ سنگ دلی ہے۔ وہ پاکستان کے اندر رہنے والوں کا نہیں بلکہ پاکستان سے باہر رہنے والوں کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ رضا باقر کے اس بیان پر بیرون ملک رہنے والے بہت سے پاکستانی بھی ناخوش ہیں۔ حکومت کے کچھ وزراء نے بھی اس بیان پر نجی محفلوں میں تنقید کی۔ حکومت کے وزراء کی ایک بڑی تعداد آج کل یا تو حیران ہے یا پریشان ہے۔ بلوچستان میں جام کمال کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد سامنے آ چکی ہے۔ 65 کے ایوان میں 33 ارکان نے تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ اس تحریک پر ووٹنگ 25 اکتوبر کو ہو گی۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والے ارکان وزیراعلیٰ جام کمال کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ استعفیٰ دے دیں جبکہ جام کمال تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے ناراض ارکان کے ساتھ رابطوں میں مصروف ہیں۔ کسی کو پیار سے پچکار رہے ہیں اور دورِ جدید کے ''لولی پاپ‘‘ دے رہے ہیں اور کسی کو ڈرایا یا دھمکایا جا رہا ہے۔
/ur/سعودی-عرب-نے-ایران-کے-ساتھ-سفارتی-تعلقات-ختم-کر-دیے/a-18956726
سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرتے ہوئے ایرانی سفارتی عملے کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔ ایران نے اس فیصلے کو سعودی عرب کی طرف سے خطے میں کشیدگی بڑھانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
سفارتی روابط توڑنے کا اعلان سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اتوار تین جنوری کو ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ اِس کانفرنس میں الجبیر نے ایرانی سفارتی عملے کو 48 گھنٹوں کی مہلت دی کہ وہ سعودی سرزمین کو چھوڑ دیں۔ انہوں نے تہران میں واقع سعودی سفارتخانے پر حملے کو ایران کے منفی ہتھکنڈے سے تعبیر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت ایران کو اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ وہ اس کی سکیورٹی کو داؤ پر لگائے۔ ایرانی حکومت نے سعودی عرب کے تہران کے ساتھ سفارتی روابط کو منقطع کرنے کے اقدام کے ردعمل میں کہا ہے کہ ریاض حکومت تہران میں سعودی سفارت خانے پر مشتعل ہجوم کے حملے کو بہانہ بنا کر کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔ جابر انصاری کے مطابق ایران اپنی سرزمین پر سفارتی سکیورٹی انٹرنیشنل معاہدوں کی روشنی میں فراہم کرنے کا پابند ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سفارتی تعلقات میں کشیدگی دراصل سعودی عرب کی ’’علاقے میں تشدد اور تناؤ میں پیدا کرنے کی پالیسی کا تسلسل ہے‘‘۔
/ur/چین-کی-شہر-کاری-ماحولیات-کے-لیے-نقصان-دہ/a-15194669
اونچی اونچی عمارتوں کا جنگل، آسمانوں کو چھوتی ہوئی کُہر میں لپٹی کرینزاور سڑکوں پر ٹریفک جام، یہ ہے منظر جنوبی چین کے ایک میگاسٹی Chongqing کا، جس کا سائز یورپی ملک آسٹریا جتنا ہے۔
اس چینی شہر میں 32 ملین سے زاید باشندے آباد ہیں۔ اس شہر کی انتظامیہ شہری آبادی میں ہونے والے ہوش رُبا اضافے کے سبب گہری تشویش کا شکار ہے۔ تاہم یہ مسئلہ محض اس ایک شہر کا نہیں۔ 1.3 بلین کی آبادی والے اس ملک کے باشندوں کو زیادہ تر شہروں کی صورتحال ایسی ہی دکھائی دیتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ چند برسوں کے دوران 350 ملین سے زاید افراد چین کے مختلف علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کریں گے۔ اس طرح چین کی شہری آبادی 2030ء تک ایک بلین ہونے کے امکانات قوی ہیں۔ اس سلسلے میں McKinsey & Company نے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ یہ آجرین اور شہری انتظام کے امور میں مشورہ دینے والا ایک ایسا ادارہ ہے جس کی شاخیں دنیا کے 52 ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس ادارے کی تازہ ترین رپورٹ سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ چین میں ہونے والی بے مثال شہر کاری بہت جلد ایسے شہروں کی تعداد میں دو گنا اضافے کا باعث بنے گی، جہاں کی آبادی ایک ملین یا اس سے زیادہ ہوگی۔ اس کے سبب پانچ ملین نئی عمارتوں کی تعمیر، جن میں 50 ہزار فلک بوس عمارتیں شامل ہوں گی،کی ضرورت پڑے گی۔ یہ نیو یارک جیسے دس شہروں جتنا ہو گا۔ اُدھر سڈنی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر لو ڈوان فنگنے کہا ہے کہ تیز رفتار شہر کاری ماحولیات پرسنگین اثرات مرتب کرے گی، کیونکہ شہروں سے متصل زرعی رقبے کو اونچی عمارتوں کی تعمیر کے لیے استعمال میں لایا جا رہا ہے اور توانائی اور پانی کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
/ur/خطے-میں-اسرائیل-کی-عسکری-برتری-برقرار-رکھیں-گے-پنیٹا/a-15432662
امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے کہا ہے کہ وہ اپنے ملک کی جانب سے اسرائیل کو سلامتی کی ضمانت سے متعلق یقین دہانی کرانے اور ترکی و مصر کے ساتھ اس کے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کریں گے۔
مشرق وسطیٰ اور یورپ کے دورے پر روانہ ہونے والے لیون پنیٹا نے طیارے میں اخباری نمائندوں سے گفتگو میں یہ بات کہی۔ طیارے میں گفتگو کے دوران پنیٹا نے کہا، ’’ضروری یہ ہے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ اپنے مضبوط دفاعی تعلقات کا از سر نو اعادہ کریں اور یہ واضح کردیں کہ ہم خطے میں اسرائیل کی عسکری برتری قائم رکھیں گے۔‘‘ امریکی وزیر نے کہا کہ اسرائیل کو قیام امن کے لیے خطرات مول لینا ہوں گے اور امریکہ اس کی سلامتی کو ممکن بنانے کا بندوبست کرے گا۔ امریکی خفیہ ادارے سی آئی کے سابق سربراہ پنیٹا کا کہنا تھا کہ محض عسکری برتری کافی نہیں، اسرائیل کی حقیقی سلامتی اُس صورت میں ممکن ہے جب اسے سفارتی محاذ پر بھی کامیابی حاصل ہو۔ لیون پنیٹا اسرائیل میں اپنے ہم منصب ایہود باراک اور وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملنے کے بعد فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس اور وزیر اعظم سلام فیاض سے ملیں گے۔ مشرق وسطیٰ میں قیام امن سے متعلق امریکی مؤقف کی وکالت کرتے ہوئے پنیٹا نے کہا کہ فریقین کو چاہیے کہ پیشگی شرطیں عائد کیے بغیر مذاکرات شروع کرکے مسئلہ حل کریں۔ فلسطینی قائدین اقوام متحدہ میں علیٰحدہ ریاست کے طور پر رکنیت کے لیے درخواست جمع کر واچکے ہیں۔
/ur/غزہ-پٹی-فلسطینی-اسرائیلی-کشیدگی-جاری/a-15334074
گزشتہ جمعرات سے جاری پر تشدد واقعات کی تازہ لہر کے بعد گزشتہ رات اسرائیلی اور فلسطینی شہریوں نے فائر بندی کی افواہیں سنیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی اس سلسلے میں پہل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
خطّے سے موصولہ خبروں کے مطابق گزشتہ رات کی فائر بندی سے متعلق خبریں غلط ثابت ہوئی ہیں۔ تل ابیب سے ایک اسرائیلی فوجی ترجمان نے بتایا کہ آج پیر کوعلی الصبح فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل پر تقریباً پانچ میزائل فائر کیے گئے ہیں۔ ان میزائلوں کے جواب میں اسرائیلی فضائی اَفواج نے شمالی غزہ پٹی پر ایک حملہ کیا ہے۔ گزشتہ پانچ روز سے جاری ان حملوں کے دوران پیش آنے والے اِن تازہ واقعات میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے بارے میں ابھی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اتوار کو فائر بندی کے حوالے سے افواہیں غزہ پٹی کو کنٹرول کرنے والی انتہا پسند فلسطینی تنظیم حماس کے ایک سینئر عہدیدار احمد یوسف کی جانب سے دیے جانے والے اس بیان کے بعد شروع ہوئی تھیں کہ غزہ میں سرگرم عمل عسکریت پسند فلسطینی دھڑوں کے درمیان اتوار اور پیر کی درمیانی شب اسرائیل پر راکٹ حملے روک دینے کے بارے میں اتفاقِ رائے ہو گیا ہے۔ احمد یوسف نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ یہ فلسطینی دھڑے اسرائیل کی جانب سے اس حوالے سے ایسے کسی ’مثبت جواب‘ کے منتظر ہیں کہ اسرائیل بھی غزہ پٹی پر اپنے فضائی حملے بند کر دے گا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ایک ترجمان نے اِس بیان پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ فائر بندی کے حوالے سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مصر کی ثالثی میں روابط البتہ جاری ہیں اور اِنہی کے سلسلے میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے مصری دارالحکومت قاہرہ کا دورہ بھی کیا ہے۔
/ur/پاک-بھارت-کرکٹ-کی-تاریخ-کے-پانچ-تلخ-ترین-واقعات/a-39279974
کرکٹ میں مقابلہ اگر پاکستان اور بھارت کی قومی ٹیموں کے مابین ہو تو ہر لمحہ کھلاڑیوں اور شائقین کے جوش و جذبے سے بھرپور ہوتا ہے۔ اتوار اٹھارہ جون کو ہونے والا چیمپئنز ٹرافی کا فائنل بھی ایسا ہی ایک تاریخی مقابلہ ہو گا۔
نمبر ایک: 1992ء میں ورلڈ کپ مقابلوں کے دوران پاکستان اور بھارت کے مابین سڈنی میں ہونے والے ایک میچ میں بھارتی وکٹ کیپر کرن مورے نے پاکستان کے سٹار بیٹسمین جاوید میانداد کو امپائر سے بار بار کی گئی ان کے آؤٹ ہو جانے کی اپیلیں کر کر کے کافی ناراض کر دیا تھا۔ ایک گیند پر تو میانداد رن لیتے ہوئے واپس کریز میں آ چکے تھے تو بھی کرن مورے نے ان کے رن آؤٹ ہونے کی ایک اور اپیل کر دی تھی۔ اس پر میانداد بہت سیخ پا ہو گئے تھے۔ نمبر تین: 2007ء میں جب پاکستانی ٹیم بھارت کے دورے پر تھی، تو کانپور میں کھیلے جانے والے ایک ون ڈے میچ میں پاکستان کے شاہد آفریدی اور بھارتی اوپنر گوتم گمبھیر کے مابین جسمانی تصادم تقریباﹰ ہو ہی گیا تھا۔ گمبھیر نے آفریدی کی ایک گیند پر چوکا لگایا، جس کے بعد دونوں کے مابین کڑوے جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔ پھر اگلی ہی گیند پر جب گوتم گمبھیر ایک رن لینے کے لیے دوڑ رہے تھے، تو انہی دونوں کھلاڑیوں کی آپس میں ٹکر بھی ہو گئی تھی۔ پھر ایک گرما گرم مکالمہ ہوا، جس میں دونوں کھلاڑیوں نے ایک دوسرے کو گالیاں دی تھیں۔ آفریدی نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں اس تلخ واقعے کا ذکر بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ گوتم گمبھیر سب سے زیادہ دوست مزاج کرکٹر نہیں تھے اور خود آفریدی عنقریب ہی گوتم کے ساتھ بیٹھ کر کہیں کافی پیتے تو نظر نہیں آئیں گے۔
/ur/چینقومی-سلامتی-کے-لیے-نقصان-دہ-نغموں-پر-پابندی-کا-فیصلہ/a-58827102
چین کے باروں میں کراؤکے پر بجنے والے ایسے گانوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہوں۔ اس میں وہ نغمے بھی شامل ہیں جو مذہبی روایات کے خلاف یا پھر منشیات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوں۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا نے منگل کے روز بتایا کہ چین تفریحی مقامات پر 'نقصان دہ مواد‘ والے کراوکے گانوں پر پابندی عائد کرنے جا رہا ہے۔ ژنہوا کے مطابق چینی وزارت ثقافت اور سیاحت تفریحی مقامات میں کراؤکے پر بجنے والے ایسے نغموں کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے ایک ''بلیک لسٹ'' تیار کر رہی ہے جو اس کی نظر میں معاشرے کے لیے خطرہ ہیں۔ اس ''بلیک لسٹ'' میں ایسے نغمے بھی شامل ہوں گے جن سے ملک کی قومی وحدت، خود مختاری یا علاقائی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو اور ساتھ ہی وہ گانے بھی جو ریاستی مذہبی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوں۔ چینی وزارت ثقافت اور سیاحت کا کہنا ہے جو ادارے، مئے خانے یا دیگر کراؤکے تفریحی مقامات میں گانا بجانے لیے نغمے فراہم کرتے ہیں ان پر یہ ذمہ داری عائد کی جائے گی کہ وہ ممنوعہ مواد والے نغمے مہیا نہ کریں۔ وزارت نے اس کے بجائے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ ان مقامات کے لیے صحت مند، ترقی یافتہ اور روح کو تر و تازہ کرنے والی موسیقی فراہم کریں۔ چین میں ایسے تقریباً پچاس ہزار تفریحی مراکز یا بار ہیں جہاں زور شور سے کراؤکے پر نغمے بجائے جاتے ہیں۔ ژنہوا کے مطابق اس کے پاس ایسے مقامات پر بجانے کے لیے اس کی موسیقی کی لائبریری میں تقریبا ًایک لاکھ سے بھی زیادہ نغمے بھی موجود ہیں۔ چین میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تشدد، فحاشی، یا سیاسی تنقیدی تبصرے جیسے مواد کو بہت سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ملک میں میڈیا اور پریس کے لیے بھی ایک طرح سے پابندی کا ماحول ہے۔
/ur/کشمیریوں-کا-عدم-اتحاد-کشمیر-کاز-کی-ناکامی-کی-وجہ-بن-رہا-ہے/a-54461674
اسلام آباد کی طرف سے کشمیر کے دیرینہ تنازعے کی طرف عالمی برادری کی توجہ مبذول کروانے کی کوششوں میں غیر معمولی تیزی آئی ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل تاہم مستقبل قریب میں نکلتا نظر نہیں آرہا۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟
بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے ایک سال مکمل ہونے پر اسلام آباد کی طرف سے کشمیر کے دیرینہ تنازعے کی طرف عالمی برادری کی توجہ مبذول کروانے کی کوششوں میں غیر معمولی تیزی آئی ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل تاہم مستقبل قریب میں نکلتا نظر نہیں آ رہا۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ موجودہ صورتحال پر ڈی ڈبلیو نے یورپ میں کشمیریوں کے حقوق کے لیے سرگرم اہم شخصیات کے ساتھ بات چیت کی۔ کشمیر کونسل ای یو کی روح رواں علی رضا سید نے یورپی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ ڈوئچے ویلے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے علی رضا سید نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف اور صرف کشمیری عوام کی اپنی کوششوں سے نکل سکتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان کی طرف سے تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے کی جانے والی سیاسی اور سفارتی کوششیں کا کوئی مثبت نتیجہ نظر آ رہا ہے؟ اُن کا کہنا تھا،'' گزشتہ ایک سال کے دوران کشمیری عوام کے مصائب و آلام میں تو کوئی کمی نہیں آئی۔ جتنی بھی کوششیں کی جا چُکی ہیں اُن کے کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ اب تک عالمی برادری کو ہم اس بات کے لیے قائل نہیں کر پائے ہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کا خاتمہ ہونا چاہیے۔‘‘
/ur/امریکی-اہلکار-ریمنڈ-ڈیوس-پاکستانیوں-کا-غصہ/a-14861535
امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں منظر عام پر آنے والی نئی معلومات سے نہ صرف پاکستانی عوام کے غم وغصے میں اضافہ ہوا ہے بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی بد اعتمادی کا بھی پتہ چلتا ہے۔
پاکستانی اور امریکی میڈیا میں یہ رپورٹس شائع ہوچکی ہیں کہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید امریکی اہلکار امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے سے وابستہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ کا کہنا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس ایک سفارتی اہلکار ہے اور اسے استثنیٰ حاصل ہے۔ دوسری جانب پاکستانی وزارت خارجہ نے ابھی تک یہ اعلان نہیں کیا کہ آخر ڈیوس کی سفارتی حیثیت کیا ہے۔؟ پاکستانی مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مقتولین کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کو علم ہے کہ گرفتار امریکی خفیہ ایجنسیوں اور بلیک واٹر جیسی فرم کے ساتھ کام کرتا رہاہے۔ حکومت کو یہ ساری باتیں واضح طور پر بتانی چاہئیں۔ ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونے والے محمد فہیم کے بھائی محمد وسیم کا کہنا ہے، ’ڈیوس معافی کے قابل نہیں ہے۔ ہمیں پہلے دن سے علم ہے کہ وہ سی آئی اے اور بلیک واٹر کے لیے کام کر رہا تھا۔ ڈیوس جیسے لوگ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اس پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے اور سزائے موت دی جانی چاہیے۔‘ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے پیر کی اشاعت میں لکھا کہ ڈیوس سی آئی اے کے اُس آپریشن کے لیے کام کر رہا تھا، جس کا مقصد پاکستان کے مشرق میں لشکر طیبہ جیسی اسلامی انتہا پسند تنظیموں سے باخبر رہنا ہے۔ اس اخبار کے مطابق ڈیوس سی آئی اے کا اہلکار ہے اور بلیک واٹر کے ساتھ بھی کام کرتا رہا ہے۔ پنجاب حکومت کے ترجمان پرویز رشید کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق بلیک واٹر سے ہے یا وہ سی آئی اے کا ایجنٹ ہے یا وہ کوئی اور ہے، ان حقائق سے پردہ اٹھانا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
/ur/کشمیر-سے-متعلق-بیان-فاروق-عبداللہ-تنقید-کی-زَد-میں/a-18882878
’پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پاکستان کے پاس اور بھارت کے زیر انتظام بھارت کے پاس رہے گا‘، اپنے اس بیان پر بھارتی زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعلٰی فاروق عبداللہ علیحدگی پسند کشمیری گروپوں کی کڑی تنقید کی زَد میں ہیں۔
بھارتی نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق علیحدگی پسند گروپوں نے دعویٰ کیا ہے کہ فاروق عبداللہ کا بیان زمینی حقائق سے بہت دور ہے۔ سخت گیر مؤقف کی حامل جماعت حریت کانفرنس کے رہنما سید علی شاہ گیلانی نے ایک بیان میں کہا ہے: ’’فاروق عبداللہ کا بیان بے معنی اور بعید از حقیقت ہے۔ کوئی ایک شخص اس بات کا مجاز نہیں ہے کہ وہ کوئی تجویز (مسئلہٴ کشمیر کے حل کے لیے) پیش کرے۔‘‘ نیشنل کانفرنس کے سربراہ فاروق عبداللہ نے جمعہ 27 نومبر کو کہا تھا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر آئندہ بھی پاکستان ہی کے پاس رہے گا جبکہ جموں و کشمیر بھارت کے پاس رہے گا اور یہ کہ جنگ کوئی آپشن نہیں ہے۔ میر واعظ عمر فاروق نے بھی، جو حریت کانفرنس کے ایک نسبتاً اعتدال پسند دھڑے کے سربراہ ہیں، سابق وزیر اعلیٰ کے بیان کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے اسے ’تاریخی اعتبار سے غلط‘ قرار دیا ہے۔ اُن کی جماعت کے ایک ترجمان کا کہنا تھا: ’’کشمیر ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شُدہ متنازعہ علاقہ ہے اور اس تنازعے کا حل صرف اور صرف تب ممکن ہے، جب اسے کشمیر میں بسنے والوں کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے۔‘‘ فاروق عبداللہ کے بیٹے اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی اپنے والد کے بیان کا یہ کہتے ہوئے دفاع کیا ہے کہ اُن کا ہمیشہ سے یہی نقطہٴ نظر رہا ہے۔
/ur/امریکا-نے-یمن-پر-سعودی-حملوں-کی-حمایت-روک-دی/a-56464699
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ وہ چھ برس سے جاری جنگ کے پر امن اختتام کے لیے کوشش کرے گا۔ یمن میں اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ خونریز تنازعہ مسلسل ایک بہت بڑے انسانی بحران کی وجہ بنا ہوا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کے روز کہا کہ امریکا یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں جاری فوجی کارروائیوں کے لیے اپنی حمایت ختم کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چھ بر س سے جاری یہ جنگ "ختم ہونی چاہیے" تاہم انہوں نے اس با ت پر بھی زور دیا کہ امریکا اپنے دیرینہ حلیف سعودی عرب کی حمایت کرتا رہے گا۔ جو بائیڈن کا کہنا تھا، ”میں نے اپنی مشرق وسطیٰ کی ٹیم سے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قیادت میں جنگ بند کروانے کی کوششوں میں ہماری مدد کرے۔ دیرپا امن مذاکرات بحال کیے جائیں۔ یہ امر یقینی بنایا جائے گا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد یمنی عوام تک پہنچے، جو تکلیف اور ناقابل برداشت تباہی سے گزر رہے ہیں۔" سن 2014 میں شروع ہونے والی اس جنگ میں اب تک ایک لاکھ سے زائد انسان ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس جنگ کی وجہ سے لاکھو ں یمنی باشندے فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن میں دنیا کا بد ترین انسانی بحران پایا جاتا ہے، جہاں 80 فیصد آبادی یا تقریباﹰ دو کروڑ چالیس لاکھ شہریوں کو امداد یا تحفظ کی ضرورت ہے۔ چین دنیا میں فوجی اخراجات کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے اور گزشتہ برس بیجنگ حکومت نے اس ضمن میں 261 بلین ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقم چین کی جی ڈی پی کا 1.90 فیصد بنتی ہے اور اس فہرست میں وہ دنیا میں 50ویں نمبر پر ہے۔
/ur/ٹیلی-کوم-سکینڈل-نئی-دہلی-حکومت-پریشان/a-6256843
بھارت میں حکمران جماعت کو ٹیلی کوم سکینڈل نے پریشان کر رکھا ہے جبکہ اسی کے سبب پارلیمنٹ کی کارروائی بھی معطل چلی آ رہی ہے۔ یہ سکینڈل ملک کے سیاسی حلقوں کی مزید بدنامی کا باعث بھی بن رہا ہے۔
وزیر اعظم منموہن سنگھ کی حکومت کو ایک ہفتے سے بھی زائد عرصے سے اس سکینڈل کی بناء پر اپوزیشن کے دباؤ اور الزامات کا سامنا ہے۔ سابق وزیر مواصلات اے راجا پر الزام ہے کہ انہوں نے 2007ء میں 2G موبائل لائسنس اونے پونے داموں فروخت کر کے قومی خزانے کو 40 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ اس رقم کے تناظر میں بھارتی تاریخ کا یہ سب سے بڑا مالی سکینڈل ہے۔ پیر کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت میں اپوزیشن نے ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ کی کارروائی میں خلل ڈالا۔ انہوں نے اپنا مطالبہ دہرایا کہ مبینہ سکینڈل کی تفتیش کے لئے ایک کثیرالجماعتی کمیٹی قائم کی جائے۔ پیر کو پارلیمنٹ کی کارروائی مسلسل ساتویں روز ملتوی کی گئی، جس کے بعد وزیر خزانہ پرناب مکھر جی نے ایک کُل جماعتی اجلاس طلب کیا، جس کا مقصد پارلیمنٹ کی کارروائی میں خلل کو روکنا تھا۔ دوسری جانب بھارت کے مرکزی تفتیشی ادارے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے اعلان کیا ہے کہ ٹیلی کوم سکینڈل کے اس مقدمے کی تحقیقات آئندہ برس مارچ تک مکمل ہوں گی۔ پیر کو سپریم کورٹ نے بھی اینٹی کرپشن کے نئے عہدے دار کی تقرری پر شبہات ظاہر کئے ہیں، جس سے ایک مرتبہ پھر اس مؤقف کو ہوا ملی ہے کہ حکومت اس سکینڈل کے حل کے لئے سنجیدہ نہیں ہے۔ پی جے تھامس نے سینٹرل ویجیلنس کمشنر کے عہدے کا حلف ستمبر میں اٹھایا تھا۔ اس وقت بی جے پی نے ان کی تقرری پر اعتراضات اٹھائے تھے۔ خیال رہے کہ 187 بدعنوان ریاستوں سےمتعلق ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ درجہ بندی میں بھارت کا نمبر 87 واں رہا ہے۔
/ur/چین-کے-نئے-سرحدی-قانون-سے-بھارت-پریشان-کیوں/a-59648620
مئی 2020 جاری فوجی تعطل دور کرنے میں ناکامی کے لیے بھارت اور چین ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ اس دوران بھارت نے چین کے نئے سرحدی قانون کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے باہمی سرحدی معاہدے متاثر ہو سکتے ہیں۔
چین کے نئے سرحدی قانون 'لینڈ بارڈرز لاء‘ کے سلسلے میں نئی دہلی کا سخت ردعمل کچھ اسی طرح کا ہے جیسا ردعمل بیجنگ نے بھارت کی جانب سے اگست 2019ء میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے فیصلے پر کیا تھا۔ حالانکہ بھارتی وزارت خارجہ نے اس وقت کہا تھا، ”بھارت کسی دوسرے ملک کے داخلی معاملات پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا اور دیگر ملکوں سے بھی اسی طرح کی توقع رکھتا ہے۔" بھارت نے کہا،''نئے قانون کی منظوری سے 1963ء کے نام نہاد چین پاکستان سرحدی معاہدہ کو ہماری نگاہ میں کوئی قانونی جواز حاصل نہیں ہوجاتا ہے۔ بھارت سرکار کا دیرینہ موقف ہے کہ یہ ایک غیر قانونی اور غلط معاہدہ ہے۔" بھارت کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے تحت پاکستان نے پاک مقبوضہ علاقے میں 5180 کلومیٹر بھارتی علاقے کو غیر قانونی طور پر چین کو دے دیا تھا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت کو دراصل اس بات سے فکر لاحق ہے کہ چین کے اس نئے قانون سے سرحد پر فوجی پوزیشن پر کافی اثر پڑ سکتا ہے۔ چین قانون کی آڑ میں سرحدی علاقوں میں اپنی دفاعی پوزیشن اور انفرا اسٹرکچر کو مزید مضبوط کر سکتا ہے۔کیونکہ نئے قانون کے تحت چینی فوج کوملک کی کسی بھی سرحد پر پیش آنے والے کسی بھی طرح کے ”حملے، غیر قانونی قبضے، دراندازی یا اشتعال'' کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کی اجازت ہو گی۔
/ur/جاپان-افریقہ-کو-14-ارب-ڈالر-امداد-دیں-گے/a-16853340
ٹوکیو میں ایک سہ روزہ کانفرنس میں 40 افریقی ممالک سے گئے ہوئے رہنما شریک ہیں۔ جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے نے آج شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جاپان اگلے پانچ سالوں میں افریقی ملکوں کو 14 ارب ڈالر کی امداد فراہم کرے گا۔
جاپانی دارالحکومت میں منعقدہ اس اجتماع میں شینزو آبے نے ایک ٹرلین ین کی اس امداد کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہا کہ اس رقم کا نصف حصہ اقتصادی ڈھانچے کو ترقی دینے کے لیے صرف کیا جائے گا۔ یہ اعلان اُن جاپانی کمپنیوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے، جو جدید سہولتوں سے بڑی حد تک محروم اس براعظم کو ٹرانسپورٹ سسٹمز اور پاور گرڈز برآمد کرنا چاہتی ہیں۔ شینزو آبے نے کہا کہ افریقہ کے ساتھ ٹوکیو حکومت کی کمٹمنٹ دیگر اقوام سے مختلف ہے۔ وہ غالباً چین کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ ’قدرتی وسائل سے محروم جاپان کے لیے معدنی وسائل سے مالا مال افریقہ میں کاروبار کے اہم مواقع موجود ہیں تاہم جاپان ان وسائل کی تلاش اور حصول کی کوششیں محض ان وسائل کو جاپان لانے کے لیے نہیں کرے گا‘۔ آبے نے کہا:’’ہم افریقہ کی مدد کریں گے تاکہ افریقہ کے قدرتی وسائل افریقہ کی اقتصادی ترقی کا باعث بنیں۔‘‘ کانفرنس کے شرکاء نے نجی شعبے میں سرمایہ کاری کی جاپانی پالیسی کو سراہا۔ جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما نے کہا کہ افریقی ملکوں کو صنعتی ترقی اور اقتصادی ڈھانچے کی ترقی کا راستہ اپنانا ہو گا۔ جاپانی وزیر اعظم آبے نے یہ بھی کہا کہ اگلے پانچ برسوں کے دوران اپنی یونیورسٹیوں میں تعلیم یا جاپانی کمپنیوں میں تربیت کے لیے ایک ہزار افریقی طلبہ کو جاپان آنے کی دعوت دے گا۔ مزید یہ کہ افریقی سرزمین پر روزگار کے تیس ہزار مواقع پیدا کیے جائیں گے۔
/ur/ساٹھ-سال-سے-زائد-عمر-میں-آئی-وی-ایف-ٹریٹمنٹ-نقصان-دہ-ہے/a-19252065
بھارتی ڈاکٹر ایک ستر سالہ بھارتی خاتون کی ’آئی وی ایف‘ ٹریٹمنٹ کیے جانے پر تنقید کر رہے ہیں۔ اس علاج کے ذریعے یہ معمر بھارتی خاتون پہلی بار ماں بن پائی تھی۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی پنجاب کے شہر امرتسر کی رہائشی ستر سالہ دالجندر کور نے گزشتہ ماہ ایک صحت مند بچے کو جنم دیا تھا، کور کے خاوند کی عمر 79 سال ہے۔ بچے کی پیدائش کے لیے دالجندر کور کا دو سال تک ہریانہ کے ایک ہسپتال میں ’آئی وی ایف‘ طریقہ کار سے علاج کیا گیا تھا۔ دالجندر کور کے ہاں یہ اولاد اس کی شادی کے 46 برس بعد ہوئی ہے اور دونوں میاں بیوی اپنے ہاں اولاد ہونے سے انتہائی خوش ہیں۔ اس حوالے سے دالجندر نے اے ایف پی کو بتایا، ’’اپنی اولاد کو گود میں اٹھانے پر میں بے حد خوش ہوں مجھے امید نہیں تھی کہ میں بھی کبھی ماں بن سکوں گی۔‘‘ دالجندر اپنی عمر 70 سال بتاتی ہیں تاہم ہسپتال کی جانب سے ان کی عمر 72 سال بتائی گئی ہے۔ ممبئی کے قریب میرٹھ میں ایک گائنیکولوجسٹ انشو جندال کا کہنا ہے کہ وہ ’ماں اور اولاد دونوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات کے باعث 60 سال سے زائد عمر کی خواتین کوآئی وی ایف علاج کرانے سے گریز کرنے‘ کی رائے دیتی ہیں۔ دوسری جانب دالجندر کے ہسپتال کے ڈاکڑوں کا کہنا ہے کہ میڈیکل ٹیسٹ سے ثابت ہوا تھا کہ دالجندر ماں بن سکتی ہیں۔ بھارت میں ایسا واقعہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا سن 2008 میں ایک 72 سالہ عورت نے جڑواں بچوں کو جنم دیا تھا۔
/ur/ممبئی-گائے-کا-گوشت-برآمد-بھی-ہوا-تو-پانچ-برس-قید/a-18293910
بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹر نے میں گائے کے گوشت کے استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے ٹوئٹر یوزر سونیکا مہتا نے لکھا ہے کہ بھارت میں لڑکی کی بجائے گائے کے طور پر پیدا ہونا زیادہ محفوظ ہے۔
بھارت کی اکثریتی ہندو آبادی گائے کو انتہائی مقدس خیال کرتی ہے اور ملک کی متعدد ریاستوں میں ان کے ذبیحہ پر پہلے ہی پابندی عائد ہے لیکن مہاراشٹر ریاست کے تازہ اقدامات اس سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ اب بھارت کے تجارتی مرکز ممبئی میں نہ صرف گائے کا گوشت بیچنے والے کو سزا دی جا سکے گی بلکہ اگر کسی کے گھر یا کسی کی ملکیت میں سے بھی گائے کا گوشت نکلا تو اسے پانچ برس تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے یا پھر اسے ایک ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ تاہم بھارت میں اس قانون کی منظوری پر سوشل میڈیا پر شدید بحث جاری ہے۔ ٹوئٹر یوزر رمیش سریوات نے لکھا ہے، ’’ مہاراشٹر کی تمام مرغیاں، بکریاں اور بھیڑیں یہ سوچ رہی ہیں کہ تمام مزے گائیوں ہی کے کیوں ہیں ؟۔‘‘ اس فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر شخصی آزادی، مذہبی اعتقاد، تاریخ، ماحول اور جانوروں کے حقوق کے حوالے سے گرما گرم بیانات پڑھنے کو بھی مل رہے ہیں۔ سونیکا مہتا نے لکھا ہے، ’’ بھارت میں لڑکی کی بجائے گائے کے طور پر پیدا ہونا زیادہ محفوط ہے۔‘‘ بھارت میں گائے کے گوشت کا کاروبار زیادہ تر مسلمان کرتے ہیں۔ یہ بھارت کی مجموعی آبادی کا تیرہ فیصد بنتے ہیں۔ بھارت کے انتہا پسند ہندو اپنی مذہبی کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے پورے ملک میں تمام جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
/ur/یورپ-میں-ای-کولی-کی-وباء-کیسے-پھیلی/a-15140435
جرمنی سمیت کئی یورپی ملکوں میں ای کولی کہلانے والے مہلک بیکٹیریا کی وبا کیسے پھیلی، اس بارے میں کوئی بھی بات ابھی تک یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔ اس بارے میں یورپی یونین کے رکن ملکوں کے درمیان مشورے مسلسل جاری ہیں۔
اس جان لیوا مرض نے اب تک جرمنی کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ جرمنی میں اب تک اس بیکٹیریا کے ہاتھوں کم از کم 22 افراد ہلاک اور ڈھائی ہزار کے قریب بیمار ہو چکے ہیں۔ اب تک اس بیکٹیریا کی جرمنی سمیت یورپی یونین کے کم از کم 11 دیگر ملکوں میں موجودگی ثابت ہو چکی ہے۔ یورپ سے باہر یہ بیکٹیریا امریکہ بھی پہنچ چکا ہے۔ یورپ میں اس بیکٹیریا سے متاثرہ افراد کی تشخیص ہالینڈ، فرانس، برطانیہ اور کئی دیگر ملکوں میں ہو چکی ہے۔ عام طور پر یہ بیکٹیریا نقصان دہ نہیں ہوتا۔ اگر کبھی کوئی انسان اس کے باعث بیمار ہو بھی جائے تو نتیجہ اسہال سے لے کر نمونیا تک کی بیماری کی صورت میں نکلتا ہے۔ لیکن زیادہ تر ای کولی اپنی اصلی حالت میں جان لیوا نہیں ہوتا۔ تاہم جرمنی میں اس قسم کا بیکٹیریا mutation کے عمل سے گزر کر جن دیگر ملکوں تک پہنچ گیا، اس کا سائنسی نام 0104H4 ہے۔ یہ بیکٹیریا بہت زہریلے مادے پیدا کرتا ہے۔ اسی لیے اسے Shiga toxin-producing ای کولی یا STEC بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ STEC نامی یہ بیکٹیریا انسانوں میں وبائی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اس بیکٹیریا کا شکار ہونے والے اکثر مریض چند روز میں دوبارہ صحتیاب ہو جاتے ہیں لیکن STEC یا EHEC جو زہریلے مادے پیدا کرتا ہے وہ آنتوں سے دوران خون میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر ایک ایسی جان لیوا بیماری کا سبب بنتے ہیں جو HUS کہلاتی ہے۔ اس بیماری میں مریض کے خون میں سرخ خلیے تباہ ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی گردوں پر بھی اثر پڑتا ہے۔
/ur/اسلام-اور-یہودیت-مخالف-جذبات-میں-اضافہ-ہوا-ہے-تازہ-امریکی-رپورٹ/a-16825836
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے مذہبی آزادی سے متعلق جاری کی گئی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اسلام اور یہودیت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔
واشنگٹن حکومت نے اس تازہ رپورٹ کے تناظر میں تمام اقوام پر زور دیا ہے کہ وہ مذہبی آزادی کو یقینی بنائیں۔ اس جامع سالانہ رپورٹ کے مطابق متعدد ممالک بالخصوص چین، میانمار، ایران، شمالی کوریا اور سعودی عرب میں اقلیتوں اور مذہبی آزادی کے حوالے سے صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ متعدد ممالک میں اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس رپورٹ کا اجراء کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ اس مخصوص حوالے سے امریکا کا ریکارڈ بھی بہترین نہیں ہے۔ انہوں نے آزادی مذہب کو ایک ’عالمگیر قدر‘ قرار دیا اور کہا کہ کسی عقیدے پر یقین کرنا، اس پر عمل کرنا یا نہ کرنا یا پھر اسے تبدیل کر لینا، ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مصر اور وینزویلا میں سامیت مخالف رویوں میں اضافہ ہوا ہے۔ سال 2012 کی اس رپورٹ کے مطابق اسی طرح بالخصوص یورپ اور ایشیا میں اسلام مخالف بیانات اور اقدامات میں بھی واضح اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میانمار کے علاوہ چین میں بھی مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں اضافہ ہوا ہے، جہاں ایغور نسل کے علاوہ تبتیوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس رپورٹ میں امریکی اتحادی ملک بحرین کی صورتحال پر بھی تنقید کی گئی ہے، جہاں اس رپورٹ کے مطابق شیعہ کمیونٹی کو ریاستی سطح پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب میں مسلمانوں کے علاوہ کسی اور مذہب کے شخص کو اپنے عقائد پر عمل نہ کر سکنے کی حکومتی پالیسی پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
/ur/ایم-کیو-ایم-پر-نیا-الزام-فوج-کے-ساتھ-نئی-محاذ-آرائی-کا-خدشہ/a-18423300
کراچی پولیس کے متحدہ قومی موومنٹ پر بھارتی خفیہ ادارے را کا ایجنٹ ہونے سے متعلق الزام پر الطاف حسین کے ردعمل کی نوعیت سے یہ معاملہ پاکستانی فوج اور ایم کیو ایم کے مابین بظاہر نئی محاذ آرائی کی جانب بڑھتا محسوس ہورہا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس نئی صورت حال میں ایم کیو ایم کی کراچی میں موجود قیادت کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب کراچی میں ملیر کے ایس ایس پی راؤ محمد انوار نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران دو دہشت گردوں کی گرفتاری سے متعلق چند انکشافات کیے۔ گرفتار شدگان کے نام طاہر ریحان اور جنید ہیں جو ایم کیو ایم کے کارکن ہیں، اور جن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ بھارتی خفیہ ادارے RAW کے تربیت یافتہ ہیں۔ راؤ انوار نے نہ صرف الطاف حسین سمیت لندن میں مقیم ایم کیو ایم کی قیادت کو را کے ایماء پر کراچی میں دہشت گردی میں ملوث قرار دیا بلکہ اس پارٹی کے فلاحی ادارے ’خدمت خلق فاؤنڈیشن ‘پر بھی الزام عائد کیا کہ یہ تنظیم تربیت کے لیے بھارت جانے والے دہشت گردوں کی مالی معاونت کرتی ہے۔ جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ایم کیو ایم کے لندن میں مقیم قائد الطاف حسین نے کارکنوں سے ایک ٹیلی فونک خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مہاجروں سے دوسری بار مہاجرت نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا، ’’اگر ظلم نہ روکا گیا تو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ پاکستان بنانے والوں کی اولادوں پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا بار بار الزام لگایا جاتا ہے اور انگریزوں کے جوتے صاف کرنے والے معزز بنے بیٹھے ہیں۔‘‘ دوسری طرف ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ الطاف حسین نے اپنی تقریر کے دوران فوجی قیادت پر تنقید نہیں بلکہ اس کی تعریف کی اور آرمی چیف سے اپیل کی کہ وہ ایم کیو ایم کےساتھ انصاف کریں، کیونکہ جس طرح کے الزامات پولیس کی جانب سے لگائے گئے ہیں ان پر ’کسی کے بھی جذبات بھڑک‘ سکتے ہیں۔
/ur/حج-کے-بعد-بھی-پاکستانی-حاجی-مسائل-کا-شکار/a-6248603
سعودی عرب سے موصولہ اطلاعات کے مطابق پہلے مہنگی رہائش گاہوں، صاف پانی اور صفائی کی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے پریشان پاکستانی حاجیوں کو اب واپسی کے لیے ٹرانسپورٹ کے حصول میں مشکلات درپیش ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ وہ سعودی حکام سے پاکستانی حاجیوں کو ہرجانے کی ادائیگی کے لئے بات کریں گے، ''ہم نے جو معاہدہ کیا تھا اس معاہدے پر ٹھیک عملدرآمد نہیں ہوا اس بارے میں موسسہ جنوبی ایشیاء کے نمائندے میرے ساتھ خود ان کیمپوں کے دورے پر گئے اور بتایا گیا کہ یہ تمام حاجی مشکل صورتحال سے دوچار ہیں اور جب انہوں نے صورتحال دیکھی تو اس بات سے اتفاق کیا کہ صورتحال واقعی پریشان کن ہے اور معاہدے پر ٹھیک سے عملدرآمد نہیں ہو سکا۔'' ادھر پیر کے روز سعودی ایئر لائن کی دو پروازیں پرائیویٹ طور پر حج کے لئے جانے والے عازمین کو لے کر پاکستان واپس پہنچ گئی ہیں۔ سرکاری سکیم کے تحت حج کرنے والے 75 ہزار افراد کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کے ذریعے 21 نومبر کو وطن واپسی کا عمل شروع ہوگا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حاجیوں کی وطن واپسی اور ممکنہ شکایات کے بعد یہ معاملہ حکومت کے لئے مزید مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔
/ur/مغربی-یروشلم-کو-اسرائیلی-دارالحکومت-تسلیم-کرتے-ہیں-آسٹریلیا/a-46753376
آسٹریلیا اب اُن چند ممالک میں شامل ہو گیا ہے، جنہوں نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کر چکے ہیں۔
آسٹریلیا کے وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے یروشلم کو اسرائیل کا باضابطہ دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان میں انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امن کے قیام تک آسٹریلوی سفارت خانے کو تل ابیب سے منتقل نہیں کیا جائے گا۔ اس مناسبت سے ابھی تک اسرائیلی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ بندرگاہی شہر سڈنی میں تقریر کرتے ہوئے وزیراعظم موریسن نے کہا کہ آسٹریلیا مغربی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت، پارلیمنٹ کنیسٹ اور حکومتی اداروں کے صدرمقام کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل میں سفارت خانے کو اُس وقت منتقل کیا جائے گا جب یہ قابل عمل ہو گا اور اس شہر کے حتمی اسٹیٹس کا تعین ہو جائے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ فلسطینی بھی یروشلم کو مستقبل کی آزاد ریاست کا دارالحکومت بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ دونوں فریقوں کے درمیان ایک برس سے زائد عرصے سے امن مذاکرات کا سلسلہ معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ اس دوران فلسطینی علاقے غزہ میں اسرائیل مخالف پرتشدد مظاہروں اور احتجاج میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
/ur/کیا-پی-ٹی-آئی-ریاستی-اداروں-کی-لاڈلی-ہے/a-46725653
پاکستان سپریم کورٹ کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کی بہن علیمہ خانم کو جرمانے کی رقم ادا کرنے کے حکم کو ملک میں حزب اختلاف تنقید کا نشانہ بنارہی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی ریاستی اداروں کی لاڈلی بن گئی ہے۔
علیمہ خانم نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے یہ جائیداد دو ہزار آٹھ میں تین لاکھ ستر ہزار ڈالرز کے عوض خریدی تھی اور اسے دو زار سترہ میں بیچ دیا گیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس میں سے پچاس فیصد رقم انہوں نے قرض لے کر ادا کی تھی۔ حزب اختلاف کی جماعتیں اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ عدالتیں اور کئی تحقیقاتی اداروں کا پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ ایک دوسرا رویہ ہے جب کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ یہ رویہ مختلف ہے۔ مسلم لیگ ن کے ایک رہنما اور سابق وزیر برائے ماحولیات مشاہد اللہ خان نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’لوگ فیصلے دیکھ بھی رہے ہیں اور ان کا جائزہ بھی لے رہے ہیں۔ علیمہ خان تو کوئی کام نہیں کرتیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اربوں روپے چندے کی مد میں حاصل کیے۔ عمران خان کی ایک اور ہمشیرہ پر بھی اربوں روپے جمع کرنے کا الزام ہے۔ علیمہ شوکت خانم اور نمل کے بورڈ آف گورنرز کی رکن ہیں اور ان کے کوئی ذرائع آمدنی نہیں ہیں۔ ان سے کوئی سوال نہیں کیے جا رہے کہ یہ پیسے کہاں سے آئے۔ لیکن نواز شریف سے یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ یہ جوتے کہاں سے آئے اور جرابیں کہاں سے آئیں۔ ان سے تو تین نسلوں کا حساب لیا جا رہا ہے۔ عوام سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایف آئی اے، نیب اور عدالتوں کا رویہ سب کے ساتھ ایک جیسا نہیں ہے۔‘‘ تاہم پی ٹی آئی اس تا ثر کو غلط قرار دیتی ہے کہ عدالتیں یا ریاستی ادارے حزب اختلاف اور پی ٹی آئی کے ساتھ مختلف رویے رکھے ہوئے ہیں۔
/ur/مسافر-بردار-طیارے-کی-تباہی-میں-روسی-ملوث-ہیں-یوکرائن/a-17796355
یوکرائن کے کاؤنٹر انٹیلی جنس چیف نے کہا ہے کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ MH17 پر میزائل حملہ کرنے میں روسی شہری ملوث تھے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ روس نواز باغی اس سلسلے میں جاری تحقیقات میں رخنے ڈال رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بتایا ہے کہ ہفتے کے دن ایک نیوز کانفرنس میں یوکرائن کے کاؤنٹر انٹیلی جنس چیف وٹالی نائیڈا نے الزام عائد کیا کہ روس نواز علیحدگی پسند ملائیشیا ایئر لائنز کی پرواز MH17 پر میزائل حملے میں براہ راست شریک تھے۔ جمعرات کے دن اس مسافر بردار طیارے کے تباہ ہونے کے نتیجے میں مجموعی طور پر 298 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ یوکرائن حکومت نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ مشرقی یوکرائن ميں جہاں یہ طیارہ گر کر تباہ ہوا ہے، روس نواز علیحدگی پسند لاشوں اور جہاز کے مختلف پرزوں کو وہاں سے ہٹا رہے ہیں تاکہ اس حادثے کی تحقیقات کو اثر انداز کیا جا سکے۔ ادھر ملائیشیائی حکام نے بھی کہا ہے کہ حادثے کے مقام کو محفوظ نہیں رکھا گیا ہے اور اہم شواہد کو مسخ کیا گیا ہے۔ اس صورتحال میں مشرقی یوکرائن کے باغیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے لاشوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا ہے تاہم وہ اس بارے میں فکر مند ہیں کہ یہ لاشیں شدید گرمی میں پڑی ہوئی ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اس جہاز کی تباہی کے لیے روس نواز باغی ذمہ دار ہیں تو ماسکو حکومت پر الزام جائے گا کہ وہ اس ملک کو عدم استحکام کا شکار بنانے کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے یورپی یونین کے رکن ممالک کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ کریملن کے خلاف ایکشن لینے میں سست ثابت ہو رہے ہیں۔
/ur/اٹلی-جانے-والے-مہاجرین-کے-بارے-میں-آپ-کیا-جانتے-ہیں/a-19295694
گزشتہ ہفتے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹکتے تیرہ ہزار مہاجرین کو بچا لیا گیا۔ اس دوران کم از کم تین حادثات میں سینکڑوں افراد مارے بھی گئے۔ لوگ آخر اس خطرناک راستے سے یورپ پہنچنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔ (29.05.2016) اطالوی ساحلی محافظوں نے بتایا ہے کہ بحیرہ روم میں بھٹکتے ہوئے مزید انیس سو مہاجرین کو بچا لیا گیا ہے۔ موسم کی شدت میں کمی کے بعد شمالی افریقہ سے یورپ پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔ (27.05.2016) گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔ موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔
/ur/ترکی-آرمینیا-باہمی-تعلقات-بحالی-کا-معاہدہ/a-4776560
ترکی اور آرمینیا باہمی تعلقات کی بحالی کے ایک معاہدے پر آج ہفتہ کو سوئٹرزلینڈ کے شہر زیورخ میں دستخط کئے جائیں گے۔ امریکی، روسی اور فرانسیسی وزرائے خارجہ دستخط کی تقریب میں شریک ہوں گے۔
سوئٹزرلینڈ کی مسلسل مشاورت اور ثالثی کے باعث دونوں ملک اِس بات پر راضی ہو گئے ہیں کہ وہ دو مختلف دستاویزات پر دستخط کریں گے، جن میں سے ایک کے تحت دونوں ملکوں کے دارالحکومتوں یعنی انقرہ اوریریوان میں ایک دوسرے کے سفارت خانے قائم کئے جائیں گے اور دوسری دستاویز کے تحت سرحدیں کھولی جائیں گی تا کہ عوامی آمدورفت سے حکومتوں کے درمیان بھی بہتر تعلقات استوار ہوں۔ اِن پروٹوکول پر ترک وزیر خارجہ احمد داؤد اوگلو اور آرمینیا کے وزیر خارجہ ایڈورڈ نالبندیان دستخط کریں گے۔ ہفتہ کو سوئٹزر لینڈ کےشہر زیورخ میں ہونے والی اس تقریب میں شرکت کے لئے خاص طور مہمانوں کو معو کیا گیا ہے۔ خاص مہمانوں میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن، روسی وزیر خاجہ سرگئی لاوروف، فرانسیسی وزیر خارجہ بیرنارد کوشنیر خاص طور پر شامل ہوں گے۔ جب کہ سلووینیہ کے وزیر خارجہ Samuel Zboga یورپی یونین کے خارجہ امور کے چیف خاوئیر سولانہ کی نمائندگی کریں گے۔ ہفتہ کو زیورخ میں دستخط کے بعد ترکی اور آرمینیا کے درمیان ورلڈ کپ کوالیفائنگ مرحلے کے میچ کا دوسرا مرحلہ بھی شڈیول ہے۔ اِس میچ کو بھی سفارتی تعلقات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ ترکی کے صدر عبداُللہ گُل نے آرمینیا کے صدر Serzh Sarkisian کو میچ دیکھنے کے لئے مدعو کر رکھا ہے۔ یہ میچ آئندہ بدھ کو کھیلا جائے گا۔ اس سے قبل ترکی کی فٹ بال ٹیم جب اپنا میچ کھیلنے یراوان گئی تھی تو ترک صدر وہ میچ دیکھنے آرمینیا گئے تھے۔
/ur/بیلٹ-اینڈ-روڈ-منصوبوں-میں-کرپشن-برداشت-نہیں-کی-جائے-گی-جن-پنگ/a-48495613
چینی صدر شی جن پنگ نے دوسرے عالمی ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان منصوبوں میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ فورم میں چالیس ممالک کے سربراہوں سمیت ایک سو سے زائد ممالک کے نمائندے شریک ہیں۔
بیجنگ میں جاری دو روزہ دوسرے عالمی ’بیلٹ اینڈ روڈ فورم‘ میں روسی صدر پوٹن اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سمیت چالیس ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت شریک ہیں۔ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر شی جن پنگ نے کہا کہ ان کا ملک بنیادی ڈھانچے کے اس بین الاقوامی منصوبے میں شفافیت کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ دو روزہ کانفرنس کے دوران ’بیلٹ اینڈ روڈ 2.0‘ کا منصوبہ متعارف کرایا جائے گا۔ بیجنگ نے اس منصوبے میں مزید ممالک کو شامل کیا ہے جن میں جی سیون ممالک میں شامل اٹلی کے ساتھ پہلے ہی معاہدے طے پا چکا ہے جب کہ سوئٹزلینڈ کو بھی اس منصوبے کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کا ملک چین کے ساتھ مشترکہ طور پر اب سی پیک کے دوسرے مرحلے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے جس کے ذریعے پاکستان سے غربت کا خاتمہ ہو پائے گا۔ پاکستان اور چین آزاد تجارت کا ایک نیا معاہدہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق اس معاہدے میں مقامی کاروبار اور صنعتوں کا تحفظ یقینی بنانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ بیجنگ میں جاری اس دوسرے عالمی فورم میں ایک سو سے زائد ممالک کے نمائندے شریک ہیں جن میں چالیس ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت بھی شامل ہیں۔ نمایاں عالمی رہنماؤں میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن، سوئٹزرلینڈ کے صدر اولی ماؤرر، ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد، اطالوی وزیر اعظم جوزیپے کونٹے، آسٹرین چانسلر سباستیان کرز اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان شامل ہیں۔
/ur/کرغزستانقربان-بیک-باقییف-ملک-سے-روانہ/a-5473695
کرغزستان میں سن دو ہزار پانچ کے مقبول اور عوامی لیڈر قربان بیک باقییف کو پانچ سال بعد عوامی تحریک میں مسترد کردیا گیا۔ باقییف کا ٹیولپ انقلاب اب ماضی کا حصہ ہے۔ اُن کا ملک اب اُن کے لئے پرایا ہوچکا ہے۔
وسطی ایشیائی ملک کرغزستان کے معزول صدر قربان بیک باقییف اپنے ملک میں سات اپریل کی کامیاب عوامی تحریک کے بعد جہاں منصب صدارت سے فارغ ہوئے، وہیں ان پر اُن کا ملک تنگ ہو گیا تھا۔ وہ ملک چھوڑکر ہمسایہ ملک قزاقستان پہنچ گئے ہیں۔ باقییف نے دو روز قبل منصب صدارت سے مستعفی ہونے کے علاوہ ملک چھوڑنے کا بھی عندیہ دیا تھا۔ وہ ملک چھوڑنے سے قبل جنوبی کرغزستان میں اپنے حامیوں کو اکھٹا کرنے کی کوششوں میں بھی تھے۔ معزول صدر کے مستعفی ہونے کی تصدیق عبوری حکومت نے کردی ہے۔ کرغزستان کی عبوری حکومت کی سربراہ Roza Otunbayeva نے روپوش صدر پر واضح کیا تھا کہ وہ عدالتی کٹہرے میں لائے جائیں گے کیونکہ اُن کے ہاتھ نہتے شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ عبوری حکومت کی سربراہ اور سابق وزیر خارجہ Roza Otunbayeva نے اِن خیالات کا اظہار بشکیک میں امریکی نائب وزیر خارجہ رابرٹ بلیک سے ملاقات کے بعد کیا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ باقییف نے عام شہریوں کا خون بہا کر اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔ بشکیک میں عوامی تحریک کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت نے معاملات پر مزید کنٹرول سنبھالتے ہوئے کئی اہم اقدامات کئے ہیں۔ ان میں معزول صدر کے ایک بڑے حامی سابق وزیر دفاع بکتی بیگ کال یف کو جنوبی کرغزستان میں پابند کردیا گیا ہے۔ بکتی بیگ کال یف معزول صدر کے انتہائی قریبی ساتھی بتائے جاتے ہیں۔ اُن پر الزام ہے کہ بشکیک میں سیکیورٹی فورسز کو نہتے عوام پر گولیاں چلانے کا حکم انہوں نے دیا۔
/ur/بھارت-میں-ہاکی-کھیل-کا-زوال/a-3230340
بھارتی ہاکی ٹیم ،اِس سال کے بیجنگ اولمپکس کھیلنے کا اعزاز حاصل کرنے میں ناکام رہی اور اس کی جگہ اب برطانیہ شریک ہو گا۔۔
گزشتہ سال بھارت کی وزارت کھیل نے فیصلہ کیا تھا کہ ہاکی اب ترجیحی کھیلوں میں شمار نہیں کی جائے گی۔ اب اِس میں انڈین ہاکی فیڈریشن کو مزید دہچکا اُس وقت لگا جب گرمائی اولمپک کھیلوں کے آخری مرحلے سے، بھارتی ہاکی ٹیم کا اخراج ہوا ۔ سن اُنیس سو اٹھائیس کے بعد پہلی بار بیجنگ اولمپکس وہ مقابلے ہوں گے جن میں بھارتی ٹیم شامل نہیں ہو گی۔بھارت نے آٹھ مرتبہ اولمپکس طلائی تمغہ جیتنے کا اعزا بھی حاصل کیا۔بھارت نےہاکی کی دنیا کو کئی نامور کھلاڑی دیئے ہیں جن میںدھیان چند، ان کے بیٹے اشوک کمار، اور اجیت پال سنگھ وغیرہ کئی نام ہیں۔ سابق کھلاڑی جو ابھی زندہ ہیںوہ تو اِس صورت حال پر بہت پریشان ہوں گے۔پہلی بار سن اُنیس ساٹھ کے روم اولمپکس مقابلوں میں بھارتی ہاکی ٹیم طلائی تمغہ جیتنے میں ناکام رہی اورتب اسے پاکستان سے شکست کھانا پڑی تھی۔ کئی سال بھارتی ہاکی کی نمائندگی کرنےوالے بھارتی ہاکی کے مشہور کھلاڑی دھن راج پلے کا کہنا ہے کہ کئی سال بھارتی ہاکی کی نمائندگی کرنےوالے بھارتی ہاکی کے مشہور کھلاڑی دھن راج پلے کا کہنا ہے کہ وہ بہت پریشان ہیں اور بھارتی ہاکی کی تاریخ یہ سیاہ دِن ہے۔ برطانیہ کےخلاف کوالیفائنگ میچ میں بھارتی ہاکی ٹیم کی جانب سے معیاری کھیل پیش نہ کرنے پر بھی دھن راج پلے کو افسوس ہے۔
/ur/شمالی-کوریا-کا-جوہری-پروگرام-مالیاتی-مشکلات-کا-شکار/a-16812767
شمالی کوریا کو سخت مالیاتی پابندیوں، ہتھیاروں کی خریداری میں رکاوٹ اور دیگر اقوام کےساتھ تجارت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس وقت شمالی کوریائی جوہری پروگرام میں وسعت کا عمل شدید متاثر ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کے ماہرین نے شمالی کوریا کے متنازعہ جوہری پروگرام کے حوالے سے ایک خفیہ رپورٹ مرتب کی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ پیونگ یانگ حکومت کو اقوام متحدہ کی جانب سے عائد کی جانے والی مختلف پابندیوں کی وجہ سے اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس رپورٹ میں مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان پابندیوں کے باعث کیمونسٹ کوریا کے جوہری پروگرام کی رفتار میں واضح کمی آئی ہے۔ باون صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیوں کا نفاذ شمالی کوریا کے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام کو مکمل طور پر نہیں روک سکا۔ ان پابندیوں کو اس حوالے سے ضرور کامیاب کہا جاسکتا ہے کہ ان کے نفاذ سے پیونگ یانگ حکومت اپنے اہداف پہلے سے طے کردہ وقت میں حاصل کرنے سے قاصر رہی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی پابندیوں کے نفاذ اور ہتھیاروں کی تجارت پر پابندی کی وجہ سے شمالی کوریا کو زری اعتبار سے شدید مشکلات کا سامنا ہے اور مالی مشکلات سے سماجی پیچیدگیاں بھی ابھرنے لگی ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بیان کیا گیا کہ شمالی کوریا کے لیے بیرونی دنیا سے دی جانے والی فنڈنگ بھی اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
/ur/دو-نومبر-کو-اسلام-آباد-بند-نہیں-ہوگا-تھرڈ-امپائر-صرف-عدلیہ-ہے/a-36168029
اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی خواہش کے برعکس دارالحکومت اسلام آباد کی انتظامیہ کو احکامات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو نومبر کو اسلام آباد بند نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستان تحریک انصاف نے حکومت مخالف احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے اور اس منصوبے کے تحت اس سیاسی جماعت نے دو نومبر کو اسلام آباد کو ’’بند‘‘ کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کا کہنا ہے کہ نہ تو سڑکیں بند کرنے کی اجازت دی جائے گی اور نہ ہی کنٹینر رکھے جائیں گے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہونے دیے جائیں گے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا سوال اٹھاتے ہوئے کہنا تھا کہ کس قانون کے تحت عمران خان دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’تھرڈ امپائر صرف عدلیہ‘‘ ہے۔ عمران خان کے دھرنے کو روکنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے حکومت کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ دارالحکومت میں احتجاج کی صورت میں قانونی راستہ اختیار کیا جائے۔ عدالت کا انتظامیہ سے کہنا تھا کہ جلسے یا احتجاج کے لیے ایک مخصوص جگہ فراہم کی جائے اور مظاہرین کو صرف وہاں تک ہی محدود رکھا جائے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس درخواست کی سماعت کے دوران احکامات جاری کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو اکتیس اکتوبر کے روز عدالت طلب کیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیمرا کو بھی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کی تقاریر کی وہ ریکارڈنگز پیش کی جائیں، جن میں دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا تھا۔ جسٹس صدیقی کا اسلام آباد انتظامیہ سے مزید کہنا تھا کہ دو نومبر کے روز روزمرہ کی زندگی معمول کے مطابق ہونی چاہیے۔ نہ تو کوئی ہسپتال، نہ کوئی اسکول اور نہ ہی کوئی مارکیٹ بند ہونی چاہیے۔
/ur/افغانستان-امریکی-فوج-کے-انخلاء-اور-چہ-مگوئیوں-کا-آغاز/a-15249884
افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کا سلسلہ شروع ہوتے ہی ملک میں مغربی اتحاد کے اصل منصوبوں اور مقاصد کے بارے میں نئی نئی چہ مگوئیاں اور سازشی نظریات پیش کیے جا رہے ہیں۔
چند افغان باشندوں کا خیال ہے کہ 2014 ء کے اواخر تک افغانستان میں جاری جنگی مشن کے خاتمے کا عمل مکمل کرنے کے لیے غیر ملکی فوجی انخلا کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ محض ایک دکھاوا ہے۔ جیسا کہ شمالی افغان شہر مزارشریف کا ایک 36 سالہ دکان دار محمد علی کہتا ہے،’امریکی افغانستان کو کبھی نہیں چھوڑیں گے‘۔ مزار شریف اُن سات علاقوں میں شامل ہے جن کی سکیورٹی کی ذمہ داری رواں ہفتے افغان سکیورٹی فورسز کو سونپ دی جائے گی۔ محمد علی کا مزید کہنا ہے،’’امریکی افغانستان سے اپنے چند ہزار فوجیوں کو اس لیے واپس بلا رہے ہیں تاکہ اُن کے طویل المدتی منصوبوں کی طرف کسی کی توجہ نہ جائے اور وہ انہیں چھپا کر رکھ سکیں۔ امریکیوں نے افغانستان میں ایک طویل وقت گزارا ہے اور وہ اتنی آسانی سے افغانستان سے نہیں نکلیں گے۔‘‘ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے کہا ہے کہ اُس کے تمام جنگی فوجی وقت مقررہ تک افغانستان چھوڑ دیں گے۔ رواں ہفتے افغانستان کے چند علاقوں کو مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کرنے کا مرحلہ وار سلسلہ شروع کر دیا گیا، ساتھ ہی افغان صدر حامد کرزئی نے طالبان سے مفاہمت کے ذریعے سیاسی حل تلاش کرنے کی اپیل بھی دہرائی ہے۔ تاہم بہت سے افغان باشندوں میں امریکی جنگی مقاصد کے بارے میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ بحران یا تنازعہ ہمیشہ کسی نا کسی سازش کا حصہ ہوتا ہے اور اس کا مقصد افغانستان کے قدرتی معدنی ذخائر کو لوٹنا ہے۔ یہ ذخائر اب تک غیر مستعمل ہیں۔ افغان عوام مغربی اتحاد کے اصل مقاصد کے بارے میں شکوک وشبہات رکھتے ہیں
/ur/جنوبی-کوریا-اور-امریکہ-متفق-شمالی-کوریا-کا-جوہری-پروگرام-قبول-نہیں/a-4336270
شمالی کوریا کے جوہری تجربے کے بعد جنوبی کوریا کے صدر کا دورہٴ امریکہ غیر معمُولی اہمیت کا حامل تصور کیا گیا ہے۔ دونوں صدور، کمیونسٹ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے حوالے سے یکسان نکتہ نظر رکھتے ہیں۔
جنوبی کوریائی صدر کے دورہٴ امریکہ کے دوران واشنگٹن میں امریکی صدر اوباما کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے مشترکہ طور پر یہ موقف اختیار کیا کہ شمالی کوریا کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کے حوالے سے واشنگٹن اور سیئول کا نقطہ نظر ایک ہے۔ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں امریکہ اور جنوبی کوریا کی مشترکہ حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہوئے باراک اوباما نے کہاکہ وہ اور صدر لی اس بارے میں قطعی طور پر ہم خیال ہیں کہ جزیرہ نما کوریا کو مکمل طور پر ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ہونا چاہئے۔ امریکہ جمہوریہ کوریا کے دفاع کا تہیہ کئے ہوئے ہے اور واشنگٹں اور سیئول کے مابین تعاون کی بنیاد دیرپا اتحاد پر ہے۔ امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ بات چیت میں اُن اقدامات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جو خِطے میں رُوس، چین اور جاپان جیسے پارٹنر ملکوں کے ساتھ مل کر کئے جارہے ہیں۔ اوباما کے نزدیک اِن تمام اقدامات کا مقصد شمالی کوریا پر یہ واضح کرنا ہے کہ وہ دھمکیوں اور غیر قانونی ہتھیاروں کے ذریعے اپنے لئے نہ تو عزت حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی سلامتی کا احساس۔