id
stringlengths
8
69
url
stringlengths
33
111
title
stringlengths
8
173
summary
stringlengths
1
1.1k
text
stringlengths
110
51.6k
070919_shafi_piece
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/09/070919_shafi_piece
فوجی مشرف، سویلین مشرف
پاکستانی فوج کے لیے نیا سربراہ پاکستان کے وزیراعظم کے مشورے سے صدر مقرر کرتا ہے۔ آئین تو یہی کہتا ہے اور عموماً ہوتا بھی یہی آیا ہے۔ لیکن ہوتا یہ بھی ہے کہ کبھی کبھار وزیراعظم فوج کے سربراہِ وقت کو ریٹائر کرنے اور نئے سربراہ کو مقرر کرکے پھنس جاتا ہے (تفصیل اور دل پہ گزری، اسے جاننے کے لیے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے یا تو رابطہ کیجیے یا جنرل پرویز مشرف کی طرح ان کی بھی کسی کتاب کا انتظار کیجیے)۔
اب کی بار سرِدست فوج کا نیا سربراہ مقرر کرنے کا سوال درپیش نہیں ہے کیونکہ وہ سربراہ تو جنرل پرویز مشرف کے روپ میں موجود ہے اور تکنیکی، قانونی اور ’طاقت‘ کے لحاظ سے بھی جنرل مشرف جب تک چاہیں فوج کے سربراہ رہ سکتے ہیں (خواہ ریٹائرمنٹ کی عمر یعنی 63 یا 65 سال گزر جائیں تب بھی) اور حقیقتاً ہوا بھی یہی ہے کیونکہ جنرل پرویز مشرف عام سرکاری ملازم کی ریٹائرمنٹ کی عمر سے گزر چکے ہیں۔ سوال اب کی بار فوج کے سربراہ کے تقرر کا نہیں بلکہ فوج کے نائب سربراہ کے تقرر کا ہے کیونکہ وائس چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے کی معیاد سات اکتوبر کو ختم ہو رہی ہے اور یہ عہدہ موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے فوج کے سربراہ کو پر کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جنرل پرویز مشرف کو اپنا جانشین طے کرنا ہے کیونکہ اگر (اس اگر کو تین مرتبہ پڑھیے) واقعتاً، عمداً، اراداتاً اور حقیقتاً جنرل پرویز مشرف نے فوجی وردی اتار دی تو یہی وائس چیف آف آرمی سٹاف ان کا جانشین ہوسکتا ہے۔ لیکن اس سے قبل کہ جنرل مشرف ایسا کریں، حالیہ تاریخ پر نظر ڈالتے چلیں۔ مؤرخین اور مبصرین کہتے ہیں کہ ایسے میں میاں صاحب کی مصلحت کوشی یہ تھی کہ اس کا ’اگ پِچھ‘ کوئی نہیں۔ بعض نے اس کی تشریح یہ کی کہ جنرل مشرف ’نہ تو پنجابی اور نہ ہی پٹھان‘ اور بعض مبصرین کے بقول میاں صاحب کی سوچ میں اس وقت یہ بھی شامل تھا کہ موصوف (یعنی جنرل پرویز مشرف) کم طالع آزما، کم سیاستداں اور کام سے کام رکھنے والے جنرل ہیں، لہٰذا گڑبڑ کے امکانات کم اور احسان مندی اور شکرگزاری کے امکانات زیادہ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میاں صاحب کی رائے کو جنرل مشرف کے والد مرحوم سید مشرف الدین کی رائے سے بھی تقویت ملتی ہے۔ جنرل صاحب کے والد صاحب کے ذکر کا ایک پس منظر بھی ہے۔ ہوا یوں کہ جب جنرل پرویز مشرف کو پاکستان کی مسلح افواج کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا تو میں نے بی بی سی کی طرف سے اس دن جنرل صاحب کے والد سید مشرف الدین سے انٹرویو کیا تھا اور جاننا چاہا تھا کہ ’باپ‘ (مرحوم سید مشرف الدین) اپنے بیٹے (پرویز مشرف) کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ بچے میں صِفات، خصوصیات، خداداد اور غیرخداداد صلاحیتوں اور کمالات کی نوعیت کیا ہے؟ مرحوم سید مشرف الدین کا وہ انٹرویو (خود انہی کی آواز میں) آج بھی بی بی سی کے پاس بحفاظت موجود ہے بلکہ اس کی ایک کاپی تو صہبا مشرف بھی اسلام آباد میں بی بی سی کے دفتر سے آ کر لے گئی تھیں۔ آگے کی بات یہ ہے کہ اب کی بار وائس چیف آف آرمی سٹاف جو جنرل پرویز مشرف کو مقرر کرنا ہے وہ بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔ 7 اکتوبر تک یہ نیا وائس چیف آف آرمی سٹاف آ جانا چاہیے۔ اگر (یہ اگر بھی آپ تین مرتبہ کہہ سکتے ہیں) جنرل مشرف وردی واقعی اتارتے ہیں تو ظاہر ہے کہ پھر یہی وائس چیف آف آرمی سٹاف ان کی جگہ لے گا۔ اب تک کے فوج کے سربراہوں نے سیاستدانوں کو ٹھکانے لگانے کے علاوہ ان کی حکومتوں کا تختہ الٹا ہے لیکن اب تک فوج کے سربراہ کو ایسے ’ڈیفائننگ مومنٹ‘ یا حالات و تاریخ ساز مرحلے سے نہیں گزرنا پڑا جیسا کہ اب درپیش ہے کیونکہ اب تک جب بھی فوج کے سربراہ نے کسی نچلے عہدے والے کی تقرری کی، اپنے نائب یا اپنے دائیں بائیں کے جنرل طے کیے تو یہ دماغ میں رکھا کہ ان میں سے کسی کی بھی بساط کبھی بھی لپیٹی جا سکے اور خوامخواہ کوئی زیادہ ’کیں کیں‘ نہ کرنے پائے اور فوج کا سربراہ خود ترپ کا ’اکا‘ ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھ کر سب سے اوپر ہی رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار ہے کہ فوج کا سربراہ اپنا جانشین مقرر کر کے سویلین بننے جا رہا ہے۔ تاہم پھر بھی امید یہی ہے کہ فوج جیسا ’منظم ادارہ‘ منظم ہی رہے گا اور اپنے ساتھ ویسا نہیں کرے گا جیسا وہ سیاستدانوں کے ساتھ کرتا آیا ہے۔
pakistan-47067273
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-47067273
عظمیٰ تشدد کیس: کھانا چکھنے پر بچوں کو جان سے مارنے والے کون ہیں؟
کردار بھی ویسے ہی تھے، کہانی بھی تقریباً وہی۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے علاقے اقبال ٹاؤن میں گھریلو ملازمہ عظمٰی بی بی کو سر پر کفگیر کا وار کر کے قتل کر دیا گیا۔
پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ان کی عمر 16 برس تھی اور ان کی مبینہ قاتل اس گھر کی مالکن نکلیں جہاں وہ ملازم تھیں۔ عظمیٰ کے خاندان کے مطابق گزشتہ آٹھ ماہ کی ملازمت کے دوران انھیں کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ حالات کب اس نہج تک پہنچے، گھر والوں کو کچھ علم نہیں۔ اس دوران عظمٰی پر کیا گزری، ان کی لاش دیکھنے تک وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے۔ یہ بھی پڑھیے استحصال کی کہانیاں، کم سن ملازماؤں پر تشدد طیبہ تشدد کیس: سابق جج اور اہلیہ کی سزا میں دو برس کا اضافہ ’رضیہ کے والدین کو بھی صلح کرنی پڑی‘ کنزا کیس: ملزمہ میجر تاحال گرفتار نہ ہو سکیں پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ لاہور ہی میں گزشتہ برس گیارہ سالہ سمیرا کو ان کی مالکن نے استری سے جلا دیا تھا۔ دو بہن بھائی اقرا اور زمان کے سر منڈوا دیے گئے اور اس سے قبل سویرا کا معاملہ سامنے آیا تھا جنھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سیڑھیوں سے دھکا دیا گیا۔ وہ معذور ہوئیں اور آٹھ ماہ بعد اسی حالت میں ان کا انتقال ہو گیا۔ فیصل آباد کی 10 سالہ گھریلو ملازمہ طیبہ کا مقدمہ تو ملک بھر میں توجہ کا مرکز رہا تھا۔ اُن پر تشدد کے الزامات میں ایک جج اور ان کی اہلیہ کو عدالت کی طرف سے زیادہ سے زیادہ ممکن سزا دی گئی تھی۔ تاہم اس سب کے باوجود گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات رکنے میں نہیں آ رہے۔ ماہرین کا ماننا ہے ایسے واقعات کی وجوہات کا تدارک نہیں کیا جا رہا۔ عظمٰی اس کی حالیہ مثال ہیں۔ عظمٰی کے ساتھ کیا ہوا؟ اقبال ٹاؤن پولیس کے مطابق انھیں عظمٰی کی لاش رواں ماہ کی 18 تاریخ کو اقبال ٹاؤن میں واقع ایک گندے نالے سے ملی۔ پولیس نے ان کے قتل کے الزام میں ماہ رخ نامی ایک خاتون، ان کی بیٹی اور نند کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ہے۔ عظمٰی بی بی گزشتہ آٹھ ماہ سے ماہ رخ کے گھر پر ملازمہ تھیں۔ لاش ملنے سے ایک روز قبل ماہ رخ نے تھانے میں درخواست دی تھی کہ عظمٰی ان کا زیور چرا کر فرار ہو گئی ہیں۔ تاہم سی سی ٹی وی کیمروں نے کچھ اور ہی دکھایا۔ سنہ 2016 میں گھریلو ملازمہ طیبہ کے زخموں کی تصاویر نے پاکستانیوں کو ہلاک کے رکھ دیا تھا پولیس کو پتہ چلا کہ ماہ رخ اور دیگر دو گرفتار خواتین نے انھیں قتل کرنے کے بعد لاش کو رات کے اندھیرے میں گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر نالے میں پھینک دیا تھا۔ پولیس کے مطابق ملزمان کی نشاندہی پر ہی لاش دریافت ہوئی تھی۔ ایس پی انویسٹیگیشن اقبال ٹاؤن شازیہ سرور نے بی بی سی کو بتایا کہ پورسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ’بچی کی موت سر پر چوٹ لگنے کے تین منٹ کے اندر ہی ہو گئی تھی۔‘ عظمٰی کو کیوں مارا گیا؟ ملزمہ ماہ رُخ نے اپنے اعترافی بیان میں پولیس کو بتایا کہ انھوں نے ’عظمٰی کو ان کی بیٹی کے کھانے میں سے چکھتے ہوئے پکڑا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے سٹیل کا ہنڈیا پکانے والا چمچ اس کے سر پر دے مارا۔‘ پولیس کے مطابق یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا عظمٰی کو اس سے قبل بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا یا نہیں اور اس کے لیے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی لاہور کی تفصیلی رپورٹ کا انتظار ہے۔ تاہم سوشل میڈیا اور مقامی ذرائع ابلاغ پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے اور اگر یہ درست ہے تو عظمٰی کو واضح طور تشدد کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایس پی انویسٹیگیشن اقبال ٹاؤن شازیہ سرور کا کہنا تھا کہ ’ایسی کوئی ویڈیو پولیس کو نہیں ملی۔ عظمٰی کی لاش نالے میں رہنے کی وجہ سے خراب ہو چکی تھی۔‘ ویڈیو میں کیا ہے؟ ویڈیو میں زمین پر بچھی ایک چادر پر عظمٰی سے مشابہت رکھتی ایک بچی بیٹھی ہے۔ اس کے گال بچکے ہوئے، بال اڑے ہوئے، آنکھیں اور ہونٹ سوجے ہوئے ہیں۔ ایک خاتون اس کو پانی پلانے اور ڈبل روٹی کا نوالہ کھلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پولیس نے عظمی قتل کیس میں ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے بچی اس قدر لاغر ہے کہ پانی اس کے منہ سے گر جاتا ہے اور نوالہ چبانا محال ہو رہا ہے۔ خاتون کا چہرہ ایک زاویے سے آدھا نظر آتا ہے تاہم بظاہر اس کی مشابہت مرکزی ملزمہ سے لگتی ہے۔ پس منظر میں دیگر آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں جن میں ایک دوسری خاتون کے ہنسنے کی آواز بھی شامل ہے۔ ایک مقامی ٹی وی چینل کے مطابق انھیں یہ ویڈیو واقعہ کے بعد موصول ہوئی اور اس میں نظر آنے والی بچی عظمٰی ہی ہیں۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں ایسی کوئی ویڈیو ملزمان کے موبائل فون سے نہیں ملی تھی۔ تاہم سوال یہ ہے کہ وہ ویڈیو کس نے بنائی اور کیسے باہر آئی؟ ویڈیو بنانے والا اگر باہر سے تھا تو اس نے بچی کی حالت کے حوالے سے متعلقہ حکام کو متنبہ کیوں نا کیا؟ اگر ویڈیو کو درست مان لیا جائے تو اس سے انتہائی خوفناک حقیقت واضع ہو رہی ہے۔ عظمٰی نے کھانا اس لیے چکھا کہ وہ بھوکی تھیں اور کیا اس پاداش میں انہیں قتل کر دیا گیا؟ یہاں تک پہنچنے میں عظمٰی کا کتنا ہاتھ تھا؟ عظمٰی بی بی کے گھر پر انتہائی سوگ کا سماں ہے۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھیں۔ان کی والدہ کا انتقال ہو چکا ہے جبکہ ان کے والد محمد ریاض ایک مارکیٹ میں سکیورٹی گارڈ ہیں۔ عظمٰی بی بی کے پھوپھی زاد بھائی محمد جاوید نے بی بی سی کو بتایا کہ عظمٰی کو محض 2500 روپے ماہانہ دیے جاتے تھے۔ ’جب پیسے لینے جاؤ تو دیوار کے اوپر سے پھینک دیے جاتے تھے۔ عظمٰی سے ملنے نہیں دیتے تھے، کہتے تھے وہ بچوں کے ساتھ گھر سے باہر گئی ہے۔‘ ’انسانی نفسیات ہے کہ غصہ کمزور پر ہی نکالا جاتا ہے اور گھریلو ملازمین ایسی کسی بھی صورتحال میں پہلا اور آسان ہدف ثابت ہوتے ہیں۔' ماہ رخ کی ملاقات عظمٰی کے والد سے اسی مارکیٹ میں ہوئی تھی جہاں وہ کام کرتے ہیں۔ انہوں نے محمد ریاض سے عظمٰی کو ملازمت پر رکھنے کی بات وہیں طے کی تھی۔ بچوں پر اس قدر تشدد کون کرتا ہے؟ جلانا، فاقہ زدہ رکھنا، چھڑیوں سے مارنا، سیڑھیوں سے پھینکنا، اس قسم کا تشدد بچوں پر کب اور کیوں کیا جاتا ہے؟ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ نفسیات کی سربراہ ڈاکٹر فرح ملک کے مطابق ایک صحت مند ذہن کا انسان ایسا عمل نہیں کر سکتا۔ ’ایسے افراد خود نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ بعض اوقات پورا خاندان ایسے مسائل سے دوچار ہو جاتا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ جن گھروں میں بچوں پر تشدد ہوتا ہے وہاں تشدد کرنے والے کو روکا نہیں جاتا اور ایسا برتاؤ کرنے والے افراد کا رویہ ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ ’نہ خود انھیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ غلط کر رہے ہیں اور نہ ہی ان کے ارد گرد موجود افراد کو۔‘ ڈاکٹر فرح گزشتہ کئی برسوں سے بچوں پر تشدد کے موضوع پر تحقیق کرتی رہی ہیں۔ گزشتہ دورِ حکومت میں بچوں پر تشدد کے حوالے سے پنجاب میں ایک قانونی مسودے کی تیاری میں بھی ان کی رائے لی گئی تھی۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسے افراد زیادہ تر بائی پولر ڈس آرڈر جیسی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں۔ اس بیماری میں موڈ تیزی سے بدلتا رہتا ہے۔ ’کبھی وہ سخت غصے میں آ جاتے ہیں، انھیں خود پر ترس آتا ہے، کبھی ان کو لگتا ہے کہ لوگ ان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ ان کو لگتا ہے وہی درست ہیں اور باقی سب غلط۔۔‘ انھوں نے کہا ’انسانی نفسیات ہے کہ غصہ کمزور پر ہی نکالا جاتا ہے۔ گھریلو ملازمین ایسی کسی بھی صورتحال میں پہلا اور آسان ہدف ثابت ہوتے ہیں۔‘ ڈاکٹر فرح ملک کے خیال میں بچوں پر ایسا تشدد کرنے والے افراد کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے تاہم پاکستان میں اس حوالے سے آگاہی کی کمی پائی جاتی ہے اور انھیں روکنے کے لیے مناسب قوانین بھی موجود نہیں۔ ’بچے ریاست کی ذمہ داری ہیں‘ پاکستان میں بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے صوبہ پنجاب میں سنہ 2004 میں ’پنجاب ڈیسٹیچیوٹ اینڈ نِگلیکٹڈ چلڈرن ایکٹ‘ یعنی نظر انداز کیے گئے ہوئے بچوں کے لیے قانون منظور کیا گیا تھا۔ اسی قانون کے تحت کئی برس بعد بچوں کی نگہبانی کے مراکز یعنی چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر سینٹرز بھی قائم کیے گئے۔ تاہم پے در پے رونما ہونے والے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ یہ مراکز گھروں میں کام کرنے والے بچوں کو تشدد سے بچانے میں ناکام رہے ہیں۔ ڈاکٹر فرح ملک کا ماننا ہے کہ ’ڈیسٹیچیوٹ‘ اور ’نِگلیکٹڈ‘ دو مختلف چیزیں ہیں۔ ’آپ ٰزیادتیٰ کی بات کیوں نہیں کرتے۔ گھر سے بھاگ جانے والے بچوں میں بھی بڑا مسئلہ زیادتی کا ہے۔" قانون میں دی گئی تین برس کی سزا اور 50 ہزار جرمانہ بھی اس جرم کو نہیں روک پا رہا ہے۔ ڈاکٹر فرح ملک کے مطابق دنیا کے تہذیب یافتہ معاشروں میں ’بچے ریاست کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ترمیمی مسودے میں انھوں نے یہ تجویز دی تھی کہ پاکستان میں بھی اس بات کو یقینی بنایا جائے۔ بچوں کی حفاظت کے لیے امریکہ میں 911 کی طرز پر پاکستان میں بھی ایک ہیلپ لائن قائم کرنے کی تجویز بھی دی تھی۔ پھر حکومت بدل گئی۔ اب وہ مسودہ کہاں ہے اور اس کا کیا بنے گا، ڈاکٹر فرح کو نہیں معلوم۔ تب تک کوئی اور عظمٰی سامنے نہیں آئے گی وہ یقین سے نہیں کہہ سکتیں۔
entertainment-52815150
https://www.bbc.com/urdu/entertainment-52815150
کیا ترکی کے ڈراموں سے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو کوئی خطرہ ہے؟
پاکستان میں ترکی کے ڈرامے ’دیریلش ارطغرل‘ کی مقبولیت پر بات کرتے ہوئے پاکستان میں ڈرامہ انڈسٹری سے وابستہ بیشتر لوگوں نے اِس تاثر کو مسترد کیا ہے کہ ترکی کے ڈراموں سے مقامی انڈسٹری کو کوئی خطرہ ہے۔
پاکستان میں ڈرامہ انڈسٹری سے وابستہ بیشتر لوگوں نے اِس تاثر کو مسترد کیا ہے کہ ترکی کے ڈراموں سے مقامی انڈسٹری کو کوئی خطرہ ہے انڈسٹری کے لوگوں کا خیال ہے کہ پی ٹی وی کی ٹائمنگ کی وجہ سے اس ڈرامے نے شاندار بزنس کیا کیونکہ اسے لاک ڈاؤن کے دوران ماہِ رمضان میں نشر کیا گیا۔ ’دیریلش ارطغرل‘ کو پاکستان ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے سے پہلے نیٹ فلکس اور پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل ہم ستارے پر بھی نشر کیا جا چکا ہے۔ یہ بھی پڑھیے پاکستانی ارطغرل نے ترک ارطغرل کو پیچھے چھوڑ دیا دس پاکستانی ڈرامے جو لاک ڈاؤن میں آپ کی بوریت مٹا دیں گے ’ارطغرل پر پاکستان میں اتنا اچھا ردِ عمل آیا کہ بیان نہیں کر سکتا‘ واضح رہے کہ یکم رمضان سے ملک کے سرکاری ٹی وی چینل پاکستان ٹیلی ویژن پر ’دیریلش ارطغرل‘ نشر کرنے پر مقامی انڈسٹری کے کئی فنکار مثلاً شان شاہد، ریما اور یاسر حسین اعتراض کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ غیر ملکی ڈراموں سے مقامی انڈسٹری کو نقصان ہو گا۔ نجی ٹیلیویژن چینل ’ہم ٹی وی‘ سے وابستہ ہدایت کار و اداکار سیف حسن کہتے ہیں کہ ’دو، چار ڈرامے آ جانے سے پوری انڈسٹری کو خطرہ نہیں ہو جاتا۔ ہم ہر سہ ماہی میں درجنوں ڈرامے چلاتے ہیں۔‘ فلم ’سپر سٹار‘ اور ڈرامہ سیریل ’آنگن‘ کے ہدایت کار و اداکار احتشام الدین نے عالمی ادب کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’اچھی چیز کے لیے کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ وہ اپنی جگہ خود بناتی ہے۔‘ احتشام الدین نے ذوق کا ایک مصرعہ پڑھا ’آواز خلق کو نقارہ خدا جانو‘ اور کہا کہ ’کسی سے بھی ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لوگوں کے لیے اس ڈرامے میں ایک نیا پن ہے۔ ایک ہیرو اور اسلامی سوچ والی کہانی ہے۔ رمضان کا مہینہ ہے لیکن یہ ڈرامہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ کیسے اپنے ڈرامے کو بہتر بنایا جائے۔‘ ’لوگوں کے لیے اس ڈرامے میں ایک نیا پن ہے۔ ایک ہیرو اور اسلامی سوچ والی کہانی ہے۔ یہ ڈرامہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ کیسے اپنے ڈرامے کو بہتر بنایا جائے‘ نینا کاشف ماضی میں ایک نجی چینل میں پروگرامنگ ہیڈ کے طور پر کام کرتی رہی ہیں جہاں سے غیر ملکی زبان کے ڈرامے اردو میں ڈب کر کے نشر کیے جاتے تھے۔ نینا کا خیال ہے کہ انڈسٹری کے لیے صحت مندانہ مقابلہ ضروری ہے۔ ’دنیا اب ایک گلوبل ویلج ہے۔ سب چیزیں آن لائن دستیاب ہیں، چاہے وہ نیٹ فلِکس ہو، ایمازون ہو، یوٹیوب ہو یا آن لائن سٹریمنگ سروسز ہوں۔ وہاں تو پہلے ہی ترکی کا مواد موجود ہے۔‘ ڈرامہ نگار ابو راشد کہتے ہیں کہ ’کسی کو روک کر اپنے آپ کو اونچا کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ آپ اپنا قد اونچا کرنے کے بجائے سامنے والے کی ٹانگیں کیوں کاٹنا چاہتے ہیں؟ آپ دفاعی پوزیشن میں کیوں آ جاتے ہیں؟ ہمیں اپنی کہانیوں کو متنوع بنانا ہو گا۔ ہم ارطغرل جیسا پراجیکٹ تو کر ہی نہیں سکتے لیکن ہم لنچ باکس، رین کوٹ، حیات اور بلیو امبریلا جیسی فلمیں تو بنا سکتے ہیں۔‘ آزاد حیثیت میں کام کرنے والے پروڈیوسر علی قاضی نے بتایا کہ وہ نیٹ فلکس پر ’ارطغرل‘ کا چوتھا سیزن دیکھ رہے ہیں۔ ’ہمارے سوشل میڈیا کے مجاہد سمجھتے ہیں کہ یہ ڈرامہ اس لیے چلایا گیا ہے کہ ہم یہاں خلافت کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں تو یہ ایک خوبصورت پراجیکٹ ہے۔‘ البتہ علی قاضی کے خیال میں ان ڈراموں کو پرائم ٹائم پر نشر نہیں کیا جانا چاہیے۔ کہانیوں میں تنوع کا فقدان پاکستانی ڈرامے کی بیشتر کہانیاں ساس بہو کے جھگڑوں کے گرد گھومتی ہیں۔ ڈرامہ نگاروں سے لے کر ہدایت کار، پروڈیوسرز حتیٰ کہ پروڈکشن ہاؤسز بھی کہانیوں کی اس یکسانیت کا ذمہ دار چینلز کو ٹھراتے ہیں جو ان کے بقول ’ٹی آر پیز‘ کے چکر میں کسی نئی کہانی کو موقع دینے سے کتراتے ہیں۔ ٹی وی چینلز کا مؤقف ہے کہ ان کا ڈرامہ عورتیں دیکھتی ہیں اور وہ انھی کے لیے ڈرامہ بناتے ہیں۔ ڈرامہ نگار ابو راشد کہتے ہیں ’کہانیوں پر کام کرنے کے لیے ڈرامہ نگار کو آزادی نہیں دی گئی۔ سکرپٹ سونگھ کے بتاتے ہیں کہ یہ چلے گا یا نہیں چلے گا۔‘ عہد وفا کے ہدایت کار سیف حسن کہتے ہیں کہ اچھے ڈرامے کا دارومدار اس کی کہانی پر ہوتا ہے اور کم بجٹ میں منفرد کہانیاں تخلیق کی جا سکتی ہیں پروڈیوسر علی قاضی کے بقول ’ہماری انڈسٹری میں ایسے قابل لوگ موجود ہیں جو پیریڈ ڈرامے بنا سکتے ہیں لیکن فقدان چینل کی طرف سے ہے جو اس طرح کی کہانیوں پر یقین ہی نہیں کرتے۔‘ انڈسٹری میں سب متفق ہیں کہ ڈرامے کی کہانیوں کو گھروں سے باہر نکالنا ہو گا۔ ڈرامہ سیریل ’عہدِ وفا‘ اور ’سنگِ مرمر‘ کے ہدایت کار سیفِ حسن کہتے ہیں کہ ’اچھے ڈرامے کا دارومدار اس کی کہانی پر ہوتا ہے اور کم بجٹ میں منفرد کہانیاں تخلیق کی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح ہم نے سٹار پلس کے ڈراموں کو شکست دی۔‘ لیکن ڈرامہ نگار ابو راشد کہتے ہیں کہ ’یہاں ایسا ڈرامہ لکھا جائے تو کہا جاتا ہے کہ بھئی اسے کون دیکھے گا؟‘ محدود بجٹ پاکستان میں ڈرامے کے ماہرین کا خیال ہے کہ اچھی کہانی تخلیق بھی ہو جائیں تو انھیں بنانے میں بجٹ ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ علی قاضی کہتے ہیں ’ہم ابھی بھی بہت سستا ڈرامہ بناتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری مارکیٹ بہت چھوٹی ہے۔ ہمارے پاس وہ بجٹ ہی نہیں کہ جو اتنے مہنگے پیریڈ ڈرامہ تیار کر سکیں۔‘ ابو راشد نے کہا ’ترکی کے ڈراموں کو 53 ممالک میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اُن کے ڈرامے کی ایک قسط کی لاگت ڈیڑھ، پونے دو کروڑ ہے۔ آب آپ بتائیے، اتنے بجٹ میں پاکستان میں فلم بن جاتی ہے۔ تو آپ کیسے مقابلہ کریں گے؟ اگر آپ دو کروڑ کی ایک قسط بنا بھی لیتے ہیں تو اسے کہاں بیچیں گے؟‘ سیف حسن نے بتایا ’ترکی اور انڈیا کے ڈراموں کے بجٹ اور ہمارے بجٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم محدود وسائل میں بھی بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ اس میں اے پلس، اے اور بی کیٹیگری کے ڈرامے بھی بنتے ہیں۔‘ پاکستان کے نجی ٹی وی چینلز نے داستان جیسے ڈرامے بھی بنائے ہیں ایسا نہیں ہے کہ گذشتہ 10، 15 برسوں میں پاکستان کے نجی ٹی وی چینلز نے تاریخی موضوعات اور شخصیات پر مبنی ڈرامے یا پیریڈ ڈرامے بنانے کی کوشش نہیں کی۔ ان میں ہم ٹی وی کے ڈرامے ’آنگن‘ اور ’داستان‘ جبکہ جیو انٹرٹینمینٹ سے نشر کیے جانے والے ڈرامے ’تان سین‘ اور ’مور محل‘ شامل ہیں جبکہ پاکستان میں ہی ’ماہ میر‘ اور ’منٹو‘ جیسی فلمیں بھی بنائی گئیں لیکن ان سب کو وہ پذیرائی نہ مل سکی جو ’دیریلش ارطغرل‘ کے حصے میں آئی۔ پاکستان میں غیر ملکی ڈراموں کی مقبولیت پر نینا کاشف کہتی ہیں ’ہماری خاندانی، ثقافتی اور مذہبی اقدار ترکی سے مطابقت رکھتی ہیں۔ دنیا بھر میں کوریا کے ڈرامے بھی بڑے مقبول ہیں لیکن پاکستان میں ایک آدھ چینلز نے جب انھیں نشر کیا تو وہ مقبول نہ ہو سکے۔‘ غیر ملکی مواد نشر کرنے پر ایک تنقید یہ بھی ہے کہ ایسا مواد چینل کو سستا پڑتا ہے اور اس میں سرمایہ ڈوبنے کا خدشہ بھی نہیں ہوتا۔ نینا کہتی ہیں ’ٹی وی پر جانے والے ہر مواد میں رسک ہوتا ہے اور یہ ڈرامے سستے نہیں ہوتے۔ باہر سے منگوائے گئے ڈراموں کی بھی مختلف قیمتیں ہوتی ہیں۔ انھوں نے اپنے بڑے سٹارز کے ساتھ مہنگا شوٹ کیا ہوا ہو تو اس کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔‘ سینسرشپ، ایک اہم مسئلہ فلم اور ڈرامے کی کہانیوں میں تنوع اور بجٹ کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ ریاستی قدغنوں کا ہے۔ کراچی میں پروڈکشن ہاؤس کی مالک سعدیہ جبار نے سوال کیا کہ ’اس بات پر زور ہے پاکستانی اور مسلم تاریخ سے متعلق کہانیوں پر مبنی ڈرامہ بنایا جائے لیکن انھیں چلانے کی اجازت کون دے گا؟‘ فلم اور ڈرامے کی کہانیوں میں تنوع اور بجٹ کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ ریاستی قدغنوں کا ہے انھوں نے ہدایت کار سرمد کھوسٹ کی فلم ’زندگی تماشہ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’آج بھی اسے ریلیز کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ ریاست ہی قدغنیں لگاتی ہے ایسی کہانیوں پر جو پاکستان کی تلخ حقیقتیں بیان کرتی ہیں۔‘ سعدیہ نے مزید کہا کہ فلم ’مالک‘ کو سنیما گھروں سے اتروا دیا گیا تھا۔ ’جب ہم اپنی کہانیاں دکھانے لگتے ہیں تو پاکستان میں طاقت کے ڈھانچے کو ٹھیس پہنچنے لگتی ہے۔‘ سیفِ حسن سینسر شپ کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن ان کا مؤقف ہے کہ ’ٹی وی کے ذریعے ہم بغیر اجازت آپ کے گھروں میں داخل ہوتے ہیں۔ ایسے میں اخلاقیات کا جہاں تک مسئلہ ہے تو سینسر شپ لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر آپ کسی سیاسی آواز کو دبانے کےلیے قدغن لگاتے ہیں، تو وہ غلط ہے۔‘ ریاست سپورٹ کرے فلم اور ڈرامے سے وابستہ ہر شخص کو شکایت ہے کہ پاکستان میں ان کی انڈسٹری نہیں ہے۔ سعدیہ جبار نے نوجوان پروڈیوسرز کو مواقع دینے سمیت حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’حکومت اسے ایک انڈسٹری کا درجہ دے تاکہ ٹیکس سے لے کر تکنیکی سہولیات تک ریاستی سپورٹ حاصل ہو اور پروڈیوسرز اور سرمایہ کاری کرنے والے بلاخوف کام کر سکیں۔‘ ہدایت کار احتشام الدین نے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کر کے کہا کہ ’ڈرامہ منگوا کر یہاں دکھا دینے سے بات نہیں بنے گی۔ غیر ملکی تکنیکی ماہرین سے ہمارے لوگوں کی ٹریننگ بھی بہت ضروری ہے۔ تو اس حوالے سے سوچیے۔‘ انھوں نے فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کی ترقی کے لیے ایران اور ترکی سے ریاستی معاہدوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مشورہ دیا کہ ’کسی اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جن ممالک سے بھی آپ کے اچھے تعلقات ہیں ان سے معاہدے کریں۔ وہاں سے لوگ آ کر ٹریننگ دیں، یہاں سے بھی لوگ جا سکتے ہیں۔‘ واضح رہے کہ ترکی کا ڈرامہ ’دیریلیش ارطغرل‘ ٹرکش ریڈیو اینڈ ٹیلی ویژن (ٹی آر ٹی) کی پیشکش ہے جو ترکی میں ریاست کی سرپرستی میں چلنے والا ادارہ ہے۔
060115_suicide_afghanistan_ak
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/01/060115_suicide_afghanistan_ak
قندھار: فوجی قافلے پر حملہ،3ہلاک
جنوبی افغانستان میں حکام کا کہنا ہے کہ کینیڈا کے ایک فوجی قافلے پر ’خود کش‘ کار بم دھماکے کے ذریعے حملہ کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں کم از کم تین افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں کینیڈا کے اعلیٰ سفیر گلین بیری بھی شامل ہیں جبکہ باقی دو افغانی شہری ہیں۔ گلین بیری قندھار میں دفتر خارجہ میں سیاسی ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے اور صوبے میں تعمیر نو کے لیے ایک ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔ بی بی سی کی نمائندہ کیتھرین ڈیوس کے مطابق یہ واقعہ قندھار شہر کے قریب پیش آیا ہے اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملے کے بعد کچھ سویلین لوگوں کو بھی سٹریچرز پر لے جایا جا رہا تھا۔ رائٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق اتوار کے روز یہ حملہ اس وقت ہوا جب ایک فوجی قافلہ شہر کے وسط میں سے گزر رہا تھا۔ حملے کے فوراً بعد فوج نے جائے وقوعہ کو گھیرے میں لے لیا۔ اے ایف پی کے مطابق عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ انہوں نے فوجیوں کو دھماکے کی جگہ پر پڑے ہوئے دیکھا ہے اور جائے وقوعہ پر دور دور تک خون پڑا ہوا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران طالبان نے بیرونی افواج پر کئی حملے کیے ہیں تاہم ان کے نتیجے میں کوئی بڑا جانی نقصان نہیں ہوا۔
070621_watmore_pakcoach_ms
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2007/06/070621_watmore_pakcoach_ms
پاکستان کی کوچنگ چیلنج: واٹمور
ہرٹیم کی اپنی ترجیحات پاکستان کی ٹیم رینکنگ میں بنگلہ دیش کی ٹیم سے کافی اوپر ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بنگلہ دیش کی ٹیم کی کوچنگ کرنے سے مطمئن نہیں۔ ڈیو واٹمورآسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے کوچ ڈیو واٹمور کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ٹیم کی کوچنگ کرنا ان کے لیے ایک چیلنج ہے اور انہیں چیلنجز سے نبرد آزما ہونا پسند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کی ٹیم کی کوچنگ کے لیے خواہشمند ہیں۔
ڈیو واٹمور جمعرات کی صبح قذافی سٹیڈیم میں کوچز کا انٹرویو کرنے والی تین رکنی کمیٹی سے ملے۔ ذاکر خان، مدثر نذر اور امتیاز احمد پر مشتمل یہ کمیٹی اپنی سفارشات پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئرمین ڈاکٹر نسیم اشرف کو دے گی۔ انٹرویو کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ڈیو واٹمور نے کہا کہ پاکستان کی ٹیم اور بنگلہ دیش کی ٹیم میں موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہر ٹیم کی اپنی ذمہ داریاں اور ترجیحات ہوتی ہیں اور پاکستان کی ٹیم رینکنگ میں بنگلہ دیش کی ٹیم سے کافی اوپر ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بنگلہ دیش کی ٹیم کی کوچنگ کرنے سے وہ مطمئن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ٹیموں کی کوچنگ کرنا ان کے لیے بہتر تجربہ ہے۔ عالمی کپ 2007 میں بھارت کو پول میچز میں ہرا کر ٹورنامنٹ سے باہر کرنے والی بنگلہ دیشی ٹیم کے سابق کوچ واٹمور نے کہا کہ عالمی کپ میں پاکستان کی کارکردگی ماضی کا حصہ ہے لیکن اگر کوئی ٹیم ایسی غلطیوں سے سیکھتی ہے تو یہ اس کے لیے اہمیت رکھتی ہے اور ہم ایسا نہیں چاہتے کہ کوئی ٹیم ایسی غلطیوں سے نہ سیکھے۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی سے ان کی ملاقات کافی تعمیری رہی اور وہ مطمئن ہیں۔ واٹمور نے کہا کہ پاکستان کی ٹیم بین الاقوامی سطح پر ایک اچھی ٹیم سمجھی جاتی ہے اس کی کوچنگ کرنا بھی ان کے لیے ایک اعزاز ہو گا اور اگر آج کی میٹنگ کے بعد انہیں ہی ذمہ داری ملی تو وہ بہت خوش ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ ایک پیشہ ور کوچ ہیں اس لیے پاکستان کی ٹیم کی کوچنگ کرنا ان کے لیے ایک اچھا موقع ہے اور یہ ان کے کیریئر کے لیے کافی اہم ہو گا۔ لاہور میں کوچنگ کمیٹی سے ملاقات کے بعد واٹمور پی سی بی کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم اشرف سے ملاقات کریں گے اور پھر ایبٹ اباد میں کیمپ میں تربیت کرنے والی پاکستان کی ٹیم سے ملیں گے۔ واٹمور جمعے کو آسٹریلیا روانہ ہو جائیں گے۔ سابق بنگلہ دیشی کوچ تیسرے امید وار ہیں جنہوں نے پی سی بی کے سلیکشن پینل کو کوچ کی اسامی کے لیے انٹرویو دیا ہے۔ ان سے پہلے ان کے ہم وطن رچرڈ ڈن اور جیف لاسن انٹرویو دے کر واپس جا چکے ہیں۔ پی سی بی نے کوچ کے فیصلے کے لیے پہلے یکم جولائی کی تاریخ دی تھی لیکن اب یہ فیصلہ مؤخر کر دیا گیا ہے۔ پی سی بی کے ڈائریکٹر ذاکر خان کے مطابق اس کی وجہ پی سی بی کے چیئرمین کا آئی سی سی کے اجلاس میں شرکت کے لیے کچھ دنوں کے لیے ملک سے باہر جانا ہے۔
050529_chanderpaul_spots_ra
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/05/050529_chanderpaul_spots_ra
چندرپال کی آنکھوں کے نیچے کیا؟
چندرپال کی آنکھوں کے نیچے یہ دو کالے کالے نشان کیا ہوتے ہیں۔ پہلے مجھے لگتا تھا کہ یہ ویسٹ انڈیز کے کسی ملک یا کرکٹ کے کلب کا کوئی نشان ہے۔ لیکن باربیڈوس آ کر پتا چلا کہ یہ کچھ اور ہی چیز ہے۔
تو جناب یہ دو کالے کالے ترچھے نشان دراصل ’اینٹی گلیئر‘ سٹرپ ہیں یعنی سورج کی چمک کو کم کرنے والی سٹرپ۔ چندرپال کے مطابق یہ سٹرپ انہیں کیریبین کی سخت دھوپ کی چمک یا تیز روشنی میں گیند کو ٹھیک طریقے سے دیکھنے میں مدد کرتی ہے اور اس طرح ان کی توجہ گیند سے نہیں ہٹتی۔ بہت زیادہ غیر روایتی طریقے سے بیٹنگ کرنے والے ویسٹ انڈیز کے کپتان جو کہ باربیڈوس میں پاکستان کے ساتھ دو میچوں کی سیریز کے پہلے میچ کی پہلی اننگز میں 92 اور دوسری میں 153 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے کافی عرصے سے یہ سٹرپس پہن رہے ہیں اور ان کے دیکھا دیکھی اب ڈیون سمتھ اور دیو نارائن بھی اینٹی گلیئر سٹرپ پہننے لگے ہیں۔ اس طرح کی سٹرپس دراصل امریکہ میں امیریکن فٹ بال کے کھلاڑی پہنتے ہیں اور وہاں یہ عام ہے۔ لیکن کرکٹ میں اب تک یہ تین کھلاڑی ہی ہیں جو یہ سٹرپ پہن رہے ہیں۔
world-50491880
https://www.bbc.com/urdu/world-50491880
تسنیم کے خاندان کا راز: ’میرے باپ نے میری ماں کو قتل کیوں کیا؟‘
میرا بچپن خاصا مشکل تھا۔ میں اپنے نانا کے ساتھ رہتی تھی، اور جب پرائمری سکول میں تھی تو لوگ طرح طرح کے سوال کرتے تھے۔ تم اپنے نانا کے ساتھی کیوں رہتی ہو؟ تمہارے گھر والے کہاں ہیں؟ اصل میں ہوا کیا تھا؟
میں نہیں جانتی تھی کہ جواب کیا دوں۔ یہ تو کوئی جواب نہ ہوتا کہ ’ہیلو، میں ٹیز (تسنیم) ہوں، میرا باپ ایک قاتل ہے۔ تم مجھ سے دوستی کرو گی؟‘ جب میرے ابا، اطہر علی محمود، نے میری ماں کو قتل کر دیا، لیکن مجھے مرنے سے بچا لیا، تب میں 16 ماہ کی تھی۔ ابا نے مجھے ایک کمبل میں لپیٹا، اٹھا کر گھر سے باہر لے آئے اور باغ میں ایک سیب کے درخت کے نیچے لٹا دیا۔ اس آگ سے دُور جس میں میری والدہ لُوسی، ان کے پیٹ میں موجود بچہ، میری نانی لِنڈا لو اور میری خالہ سارہ، سب جل کر مر گئے۔ لیکن میری ماں کو آگ میں مرنے کے لیے چھوڑنے کے بعد، میرے والد نے میری کوئی خاص پرورش نہیں کی۔ تسمیم اپنی والدہ کی ان چند تصاویر میں سے ایک کے ساتھ جو جلنے سے بچ گئیں اگست 2000 میں شروپشائر کاؤنٹی کے ٹیلفرڈ نامی قصبے کے اس مکان میں آگ میرے والد نے ہی لگائی تھی۔ اگلے ہی سال ان کو عدالت نے تین افراد کے قتل کا مرتکب قرار دے دیا۔ جب میں بڑی ہو رہی تھی تو مجھے لگتا نہیں تھا کہ میرے ماں باپ میرے والدین ہیں، میرے لیے وہ دونوں محض ایک کہانی تھے۔ اسی لیے جب 2018 میں مجھے اپنے پس منظر کے حوالے سے بی بی سی تھری کے لیے ایک دستاویزی فلم بنانے کا موقع ملا تو میں نے ہاں کر دی۔ میں اس بات کی تہہ تک پہنچنا چاہتی تھی کہ آگ لگائی کیوں گئی تھی۔ میں اپنی ماں اور خود اپنی ذات کے بارے میں مزید جاننا چاہتی تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ میں لُوسی کی ہم شکل مگر گندمی رنگ کی لڑکی ہوں، کیونکہ میں جب ماں کے بارے میں سوچتی ہوں تو میرے ذہن میں ایک نوجوان لڑکی ہی آتی ہے۔ میں نے اس لڑکی کو کبھی ماں کے طور پر دیکھا ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ میں انھیں امی نہیں کہنا چاہتی۔ جب میں پیدا ہوئی تو لُوسی کی عمر 15 سال تھی، لیکن جب میں چھوٹی تھی تو یہ بات میرے دماغ میں آئی ہی نہیں کہ لُوسی اور میرے باپ کے درمیان رشتہ، کوئی صحیح رشتہ نہیں تھا۔ اگر میں کبھی سکول میں ان دونوں کے بارے میں بات کرتی تو لوگ کہتے ’یہ تو عجیب سی بات بتائی تم نے، ہے ناں۔‘ لُوسی لو (درمیان)، ان کی بہن سارہ (دائیں) اور والدہ لِنڈا میں جواب میں کہتی ’نہیں اس میں کوئی اتنی عجیب بات بھی نہیں، اُن دونوں کے درمیان ایک رشتہ (ریلیشن شِپ) تھا۔‘ میرے ذہن میں یہ ڈال دیا گیا تھا کہ میں ان دونوں کے رشتے کے بارے میں یوں ہی سوچا کروں۔ یہ چیز مجھے میرے گھر والوں نے سکھائی تھی، اور شروع شروع میں مجھے نہیں پتہ تھا کہ لوگ ایسے سوال کر کیوں رہے ہیں۔ میرے نانا کے ساتھ میرا رشتہ بہت گہرا ہے، لیکن اس کے باوجود میرا بچپن مشکل رہا ہے۔ وہ بھی اپنی اہلیہ اور دو بیٹیوں کو اس آگ میں کھو چکے تھے۔ میرے والد پر مقدمہ چلنے کے بعد، نانا نے ہی مجھے پالا پوسا ہے۔ لیکن جہاں تک میرے ماں باپ کے درمیان رشتے کا تعلق ہے، ہم دونوں کی سوچ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔ تسنیم کے والد اظہر علی محمود کو پولیس کی گاڑی میں بٹھایا جا رہا ہے لیکن اُن دنوں میرے نانا، اور کچھ اور لوگ بھی، عمر کے فرق والے رشتوں کے بارے میں مختلف سوچ رکھتے تھے۔ میرے لیے یہ بات سمجھنا بہت مشکل ہے کہ جب میں لُوسی کے پیٹ میں تھی، اس وقت وہ خود ایک بچی تھی۔ لیکن جن دنوں میں دستاویزی فلم بنا رہی تھی تو میرے نانا کو بھی یہ بات سمجھ آنا شروع ہو گئی۔ وہ مجھ سے پوچھا کرتے کہ (رشتوں میں) ٹھیک رشتہ کیا ہوتا ہے اور کیا غلط ہوتا ہے۔ نانا کو یہ بات سمجھانا مشکل تھا، لیکن اب میں سمجھتی ہوں کہ اس قسم کے مسائل پر نانا اور میرے درمیان کسی حد تک اتفاق ہو گیا ہے۔ جب میں دستاویزی فلم بنا رہی تھی تو لُوسی کی کچھ دوستوں سے بھی ملی۔ جب لُوسی میرے باپ سے ملی تو اس وقت وہ بچی تھی، اپنی دوستوں کی طرح۔ یہ تو اب وقت گزر چکا ہے تو لوگوں کو لگتا ہے کہ میرے باپ اور لُوسی کا رشتہ غلط تھا۔ لُوسی کی سہیلیوں میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ اُن دنوں میں اسے بُرا نہیں سمجھا جاتا تھا اور اپنے سے بڑی عمر کے لڑکوں سے ملنے ملانے کو ’کُول‘ سمجھا جاتا تھا۔ اگر لُوسی کی سہیلیوں کو نظر نہیں آیا کہ اُن دونوں کے درمیان کیا چل رہا تھا، تو ہو سکتا ہے کہ لُوسی بھی یہی سمجھتی ہو۔ تسنیم اور ان کے نانا کے ہمراہ اپنی والدہ، نانی اور خالہ کے لیے منعقد ہونے والی ایک دعائیہ تقریب میں یہ اتوار 11 مارچ 2018 کا دن تھا، ماؤں کا عالمی دن، جس دن ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میں ان چیزوں کے بارے میں سوچنے لگی جو مجھے میرے والدین کے بارے میں بتائی گئی تھیں۔ اس روز اخبار ’سنڈے مِرّر‘ کے صفحہ اوّل پر لُوسی کی ایک تصویر شائع ہوئی تھی۔ پہلی نظر میں مجھے اور میرے گھر والوں کو بالکل سمجھ نہیں آئی کہ یہ تصویر کیوں شائع ہوئی ہے۔ لیکن جب میں نے مضمون دیکھا تو مجھے لگا کہ شاید کسی وجہ سے اخبار نے آگ والے واقعے کی خبر دوبارہ شائع کی ہے۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ اس مضمون میں کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔ اس وقت تک میرے خاندان، اور برطانوی معاشرے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ میرے ماں باپ کی کہانی سے منسلک بہت کچھ اور بھی ہے۔ اور اب جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو مجھے لگتا ہے سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا، اور ہمیں دکھائی ہی نہیں دیا۔ سنڈے مِرّر نے اپنی اس تحقیقاتی خبر میں بتایا تھا کہ سنہ 1980 کے عشرے میں ایک اندازے کے مطابق کم و بیش ایک ہزار بچوں کو ورغلا کر جنسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ خبر میں لکھا ہوا تھا کہ میرے باپ نے کیسے لُوسی کو اس وقت سے بہلا پھسلا کر اپنے قابو میں لینا شروع کر دیا تھا جب وہ صرف 14 سال کی تھیں۔ اس کے ساتھ جن دوسری لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا تھا انہیں بھی دھمکیاں دی جا رہی تھیں کہ اگر انہوں نے زبان کھولی تو ان کا بھی ’لُوسی جیسا انجام‘ ہوگا۔ یہ پڑھ کر شروع میں تو میں بالکل ہکّا بکّا رہ گئی۔ جب آپ کو کوئی کہانی پڑھا دی جاتی ہے، تو آپ کو وہی کہانی معلوم ہوتی ہے، آپ اسی کہانی کو (سچ) سمجھتے ہیں، آپ سمجھتے ہیں کہ صرف یہی ایک کہانی درست ہو سکتی ہے۔ وہ خبر پڑھنے سے پہلے تک میں اپنے والدین کے بارے میں یہی سوچتی تھی کہ شاید ان دنوں عمر کے فرق کے باوجود (محبت کے) رشتے ہوتے تھے۔ لیکن جب اخبار میں مجھے ایک مختلف کہانی پڑھنے کو ملی تو پہلے میں نے سوچا کہ ’نہیں ایسا نہیں ہوا ہوگا، ایسا نہیں ہو سکتا۔ اخبار کو غلطی ہوئی ہے۔‘ اس سارے معاملے کو مکمل طور پر ایک نئے زاویے سے قبول کرنا، میرے لیے بہت مشکل تھا۔ اور یہ بات میری اپنی ذات سے بھی منسلک تھی۔ مجھے اس نئے زاویے کو قبول کرنے میں خاصا وقت لگا۔ لُوسی لو صرف 14 برس کی تھیں جب وہ حاملہ ہو گئیں تھیں اس تفصیلی خبر کی وجہ سے میں اپنے ماضی کی ہر چیز کے بارے میں سوال اٹھانے لگی اور میرے لیے ضروری ہو گیا کہ میں اپنے ماضی کی مزید تحقیق کروں۔ کیا مجھے کوئی اشارے مل سکتے ہیں، یہ دیکھنے کے لیے میں نے ان دستاویزات کو پڑھنا شروع کر دیا جو میرے والد پر چلنے والے مقدمے سے متعلق تھیں۔ عدالتی سماعت کے ریکارڈ کو پڑھ کر میری الجھن یا کنفیوژن میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ان دستاویزات میں میرے والد اور لُوسی کے درمیان عمر کے فرق کا ذکر موجود تھا، لیکن لگتا تھا کہ لوگوں نے سماعت کے دوران اس پر کوئی بات نہیں کی تھی۔ یہ فرق کوئی دو یا تین سال کا نہیں تھا، بلکہ تقریباً دس برس کا تھا۔ میری ماں کی ایک سہیلی کے مطابق میرا باپ میری والدہ کے جسم کا معائنہ کر کے دیکھا کرتا تھا کہ وہ کہیں دوسرے مردوں کے پاس تو نہیں گئی تھی۔ وہ میری والدہ کو فون کر کے کہتا کہ ’میں نے تمہارے پیچھے آدمی لگائے ہوئے ہیں جو تم پر نطر رکھے ہوئے ہیں‘۔ یہ شکوک پائے جاتے تھے کہ ان دنوں میری ماں مقامی چرچ کے پچھواڑے میں دوسرے مردوں کے ساتھ سیکس کرتی تھی۔ چونکہ مقدمے کی کارروائی میں اس پہلو کو نہیں دیکھا گیا تھا، اس لیے ہمیں معلوم نہیں یہ کسی پورے گروہ کے ساتھ سیکس (گینگ سیکس) تھا یا کئی مرد لُوسی کو زبردستی اپنی جنسی تسکین کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ اس حوالے سے میں اپنے نانا کے ساتھ کئی مرتبہ بات کر چکی ہوں۔ میں ہر بار ان سے یہی سوال کرتی کہ انھوں نے اس چیز کو روکا کیوں نہیں؟ وہ کیوں یہ سمجھتے تھے کہ میرے والد اور والدہ کے درمیان تعلق ایک معمول کا رشتہ تھا؟ نانا کا جواب ہوتا کہ انھوں نے کبھی ’میرے باپ میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔‘ تاہم انھوں نے تسلیم کیا کہ لُوسی اور میرے والد کے درمیان بہت تکرار ہوا کرتی تھی۔ میں نے نانا سے پوچھا کہ اس کی وجہ یہ تو نہیں تھی کہ وہ میری ماں سے سیکس کا مطالبہ کرتا تھا۔ نانا کے بقول ’وہ اوپر والی منزل پر بہت جایا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے ریپ، ریپ کا شور سنا۔ میں بھاگتا ہوا اوپر گیا، اور ٹھوکر مار کر دروازہ کھول دیا، وہ بھاگتا ہوا سیڑھیوں سے نیچے اترا اور باہر نکل گیا۔ ہماری پڑوسن کا بوائے فرینڈ اس کے پیچھے بھاگا۔‘ میں نے نانا سے پوچھا کہ کسی نے یہ بات پولیس کو کیوں نہیں بتائی؟ ’مجھے نہیں پتا آیا وہ مدد کے لیے آواز دے رہی تھی۔ اگر وہ ہمارے پاس آتی تو ہم کچھ کر لیتے۔‘ ’آپ اور لِنڈا نے اُسے ریپ ریپ کا شور مچاتے سنا، لیکن کچھ نہیں کیا۔ یہ تو (جنسی) استحصال ہو رہا تھا۔ مجھے یہ بات سوچ کر دُکھ ہوتا ہے۔‘ تسنیم اپنی والدہ کی قبر پر مجھے یہ چیز بھی پریشان کرتی ہے کہ اس کہانی میں اتنے زیادہ الزامات ہیں اور اتنے سوالات ہیں لیکن ان کے جواب نہیں ہیں۔ چونکہ میں اپنی ساری کہانی کو سمجھنا چاہتی تھی، اس لیے میرے لیے ضروری تھا کہ میں ان تمام سوالوں کے جواب تلاش کروں۔ میں سمجھتی ہوں کہ میرے نانا کو بھی بہت پچھتاوا ہے اور وہ دلگرفتہ ہیں کہ وہ اور لِنڈا بہت کچھ کر سکتے تھے لیکن انھوں نے کچھ نہیں کیا۔ اس زمانے میں معاشرے میں ہر کوئی یہی محسوس کر رہا تھا۔ کسی کے پاس اس قسم کی چیزوں سے نمٹنے کی تعلیم نہیں تھی۔ اگر میرے نانا نانی کچھ قدم اٹھا بھی لیتے تو کیا سرکاری اہلکار (پولیس، سوشل سروسز وغیرہ) اُن کی باتوں پر کان دھرتے؟ میں یہ بھی جاننا چاہتی تھی کہ میرے ابا کے احساسات کیا تھے۔ کیا وہ شرمندہ تھے؟ آگ لگانے کے واقعے کے بارے میں کیا سوچتے تھے؟ جب میں سولہ سال کی تھی تو میں ان سے ملنے جیل گئی تھی۔ یہ کوئی مشکل فیصلہ نہیں تھا۔ میں اس سے پہلے بھی ان سے ملنے جا سکتی تھی، لیکن عدالتی حکم کی وجہ سے میں 16 برس کی عمر سے پہلے ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ میں صرف ان سے ملنا چاہتی تھی، ہلکی پھلکی بات کرنا چاہتی تھی اور ان کی صورت حال کو سمجھنا چاہتی تھی۔ میں ان سے مل کر (جیل میں) ان کے مشغلوں کے بارے میں جاننا چاہتی تھی، ان کی پسند ناپسند، ان کی شخصیت کو سمجھنا چاہتی تھی اور یہ بھی کہ میں خود کہاں سے آئی تھی۔ میں ان کے بارے میں اپنی رائے ان کی شخصیت کی بنیاد پر بنانا چاہتی تھی، نہ کہ ان دنوں کے واقعات کی بنیاد پر۔ تسنیم اپنی والدہ کے سکول کے دنوں کی ڈائری ہاتھ میں لیے ہوئے۔ یہ ڈائری پولیس کی تحویل میں تھی۔ میں اب ان کے بارے میں کیا سوچتی ہوں، یہ چیز مجھے سمجھ نہیں آتی۔ یہ کوئی سیاہ یا سفید جیسی بات نہیں ہے۔ ملاقات میں انھوں نے میرے سوالوں کے جو جواب دیے وہ ایسے نہیں تھے جنھیں آپ مکمل جواب کہہ سکیں۔ مجھے ان جوابوں کو (ذہن میں) تقریباً ریکارڈ کرنا پڑا اور پھر بار بار ذہن میں دُھرا کر مجھے وہ باتیں سمجھنا پڑیں جو انھوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں کہیں تھی۔ کچھ چیزوں کے بارے میں انھوں نے کھل کے بات کی اور کچھ کے بارے میں نہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر تھا کہ میں پوچھ کیا رہی تھی۔ لیکن میں خوش ہوں کہ میں ان سے ملاقات کے لیے گئی۔ مجھے یہ کام کرنا تھا۔ میں چاہتی تھی کہ وہ مجھے زیادہ سے زیادہ باتیں بتاتے، لیکن کئی باتوں پر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ نظامِ انصاف کی ناکامی ہے کہ اس نے میرے باپ کے خلاف تین افراد کے قتل کے علاوہ ان جنسی جرائم پر مقدمہ نہیں چلایا جس کا شکار اُس نے میری والدہ کو بنایا تھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ لوگوں کے ہر جرم پر الگ الگ مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ میں نے اس بات پر غور کیا اور پولیس سے بھی پوچھا کہ میرے والد کے معاملے میں ایسا کیوں نہیں کیا گیا، لیکن پولیس افسر ہمیں کچھ زیادہ معلومات نہیں دے سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ نئے ہیں اور جب مقدمہ چل رہا تھا تو وہاں پر موجود نہیں تھے۔ سچ پوچھیں تو میں نے ان افسران کو زیادہ مددگار نہیں پایا، لیکن شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اگر وہ مجھے کچھ بتاتے تو وہ پولیس کے ان قوانین سے روگردانی کرتے جن کے تحت وہ ہر بات لوگوں کو نہیں بتا سکتے۔ تسنیم لو کا خاندانی گھر جسے آگ لگائی گئی تھی لیکن اس کے باوجود میں بہت مشکور ہوں کہ افسران نے لوُسی کی ذاتی استعمال کی کچھ چیزیں ہمارے حوالے کر دیں۔ مجھے ان کی ذاتی ڈائریاں بھی مل گئیں، جو شاید آج سے پہلے کسی نے نہیں دیکھی تھیں۔ یہ ڈائریاں پڑھنے کے بعد میں خود کو اپنی ماں کے زیادہ قریب سمجھتی ہوں کیونکہ ان ڈائریوں سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں میرے ابا کس قسم کی چیزوں میں ملوث تھے۔ اب میرے ابا کو قانون کے تحت عارضی رہائی مل سکتی ہے۔ قانون کے تحت آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ کوئی شخص قید ہو اور آپ اس پر کوئی نیا جرم عائد کر دیں۔ میں یہ بات سمجھ سکتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ ان دنوں کے نظام اور معاشرے کی ناکامی ہے کہ میرے والد کو ان زیادتیوں کا مرتکب نہیں قرار دیا گیا جو انھوں نے میری ماں کے ساتھ کی تھیں۔ تسنیم اپنے نانا کے ساتھ یہ وقت میرے لیے بہت مشکل اور درد بھرا وقت تھا، لیکن بی بی سی کے لیے دستاویزی فلم بنانے کے عمل کے بہت سے مثبت اثرات بھی ہوئے۔ میں لُوسی کے زیادہ قریب ہو گئی اور اب میں اپنے پس منظر اور اپنی شناخت کے بارے میں بہتر علم رکھتی ہوں۔ میں اپنے نانا کے بھی زیادہ قریب ہو گئی ہوں۔ اب میں بچوں کے جنسی استحصال کے معاملات کو بھی بہتر سمجھتی ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ میں اب لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے میں بھی مؤثر کردار ادا کر سکتی ہوں۔ فی الحال میں صرف ان معاملات کو ذہن سے نکالنا چاہتی ہوں اور خود اپنی ذات اور اپنی ذہنی صحت پر توجہ دینا چاہتی ہوں لیکن میں مستقبل میں بچوں کے جنسی استحصال کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے والوں کے ساتھ مل کر کام کرسکتی ہوں۔ میں بہت خوش نصیب ہوں کہ مجھے ذاتی طور پر کسی ایسی چیز کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن میری امی کے ساتھ جو ہوا اس نے میری سمجھ بوجھ میں بہت اضافہ کر دیا۔ میں لُوسی کی وہ آواز بن سکتی ہوں جو اسے کبھی نہیں ملی۔ ویسٹ مرسیہ کی پولیس نے اس پر تبصرہ کرنے سے معذرت کی ہے۔ تسنیم لو نے یہ گفتگو بی بی سی کی نامہ نگار تھیا ڈی گیلیئر کے ساتھ کی۔
140212_ww1_who_started_ra
https://www.bbc.com/urdu/world/2014/02/140212_ww1_who_started_ra
پہلی جنگ عظیم کس نے شروع کی؟
پہلی جنگ عظیم کی ابتدا کو ایک صدی ہونے کو ہے اور برطانوی قوم یہ دن منانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ ایسے موقعے پر ملک کے اہل علم حلقوں میں یہ بحث زوروں پر ہے کہ پہلی جنگ عظیم شروع کرنے میں کس ملک نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
جرمنی کے قیصر ولہیلم دوم اور برطانوی شہنشاہ جارج پنجم ایک دوسرے کے کزن تھے، یہ بات انھیں جنگ شروع کرنے سے باز نہیں رکھ سکی حال ہی میں برطانوی وزیر تعلیم مائیکل گوو کی جانب سے سکولوں میں پہلی جنگ عظیم کی وجوہات اور اس کے نتائج کے بارے میں دی جانے تعلیم کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد اس بحث میں مزید تیزی آئی ہے۔ یہاں دس تاریخ دانوں کی اس بارے میں رائے پیش کی جا رہی ہے کہ اس جنگ کا ذمہ دار کون تھا اور کیا اس سے بچنا ممکن تھا۔ سر میکس ہیسٹنگ، فوجی تاریخ دان جرمنی میرے خیال میں کسی ایک قوم پر جنگ شروع کرنے کی ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی، لیکن جرمنی وہ واحد ملک تھا جو براعظم یورپ کو اس جنگ سے بچا سکتا تھا۔ کیا تاریخ نے جرنیلوں کے کردار کو سمجھنے میں غلطی کی ہے؟ اگر جرمنی جولائی 1914 میں آسٹریا کو یہ کھلی چھٹی نہ دیتا کہ وہ سربیا پر چڑھائی کرے تو شاید جنگ سے بچا جا سکتا تھا۔ میں اس دلیل سے مطمئن نہیں ہوں کہ سربیا بدمعاش ملک تھا اور اسے سزا دینا ضروری تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ روس 1914 میں جنگ کے لیے تیار تھا۔ روس کے رہنما جانتے تھے کہ وہ دوسال بعد زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہوں گے۔ یہ سوال بالکل الگ ہے کہ کیا برطانیہ کی اس جنگ میں شرکت لازمی تھی۔ میرے خیال میں برطانیہ کے پاس غیر جانبدار رہنے کا کوئی موقع نہیں تھا۔ یورپ میں جرمنی کی فتوحات کے بعد یہ قرینِ قیاس نہیں تھا کہ وہ برطانیہ کو برداشت کرے۔ برطانیہ یہ جنگ شروع ہونے سے پہلے تک بڑی عالمی طاقت تھا۔ سر رچرڈ جے ایون، پروفیسر کیمبرج یونیورسٹی سربیا پہلی جنگ عظیم شروع کرنے میں سربیا کا سب سے بڑا کردار تھا۔ بوسنیائی سرب شدت پسند گوریلو پرنسپ نے فرانز فرڈینینڈ کو قتل کیا سربیا کی قوم پرستانہ اور توسیع پسندانہ پالیسی انتہائی غیر ذمہ دارانہ تھی۔ سربیا ’بلیک ہینڈ‘ نامی دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ لیکن آسٹریا اور ہنگری بھی پہلی جنگ عظیم کی ابتدا کے ذمہ داروں میں سے ہیں جنہوں نے تختِ ہپیس برگ کے وارث فرانز فرڈینینڈ کی ہلاکت پر جس طرح کا ردعمل ظاہر کیا وہ جنگ عظیم کے اسباب میں سے ایک تھا۔ فرانس نے روس کے جارحانہ رویہ کی حوصلہ افزائی کی اور جرمنی نے آسٹریا کی حمایت کی۔ برطانیہ پہلے کی طرح بلقان کے اس بحران میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکا۔ برطانیہ 1910 تک دنیا کی بڑی بحری طاقت تھا۔ ڈاکٹر ہیتھر جونز، ایسوسی ایٹ پروفیسر لندن سکول آف اکنامکس آسٹریا، ہنگری، جرمنی اور روس میرے خیال میں آسٹریا، ہنگری ، جرمنی اور روس کے چند سخت گیر سیاست دان اور فوج کے پالیسی ساز پہلی جنگ عظیم کے ذمہ دار تھے۔ 1914 سے پہلے شاذ و نادر ہی کوئی شاہی قتل کسی جنگ کا سبب بنا تھا۔ آسٹریا اور ہنگری کے سخت گیر فوجیوں نے سراییوو میں ہنگری کے شاہی خاندان کے افراد کے بوسنیائی سربوں کے ہاتھوں قتل کو سربیا پر قبضے کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ سربیا اس وقت انتہائی عدم استحکام کا شکار تھا، لیکن وہ اس کے باوجود اپنی سرحدوں کو وسیع کرنے کی بھی کوشش کر رہا تھا۔ وہ 1912 کی جنگ میں تھک چکا تھا اور 1914 میں مزید جنگ نہیں چاہتا تھا۔ یہ جنگ پورے یورپ میں اس وقت پھیلنے لگی جب جرمنی نے آسٹریا اور ہنگری کی سربیا پر حملہ آور ہونے کی حوصلہ افزائی کی لیکن جب روس سربیا کی مدد کرنے لگا تو جرمنی نے بلغاریہ کے راستے روس اور اس کے اتحادی فرانس پر یلغار کر دی۔ اس صورتِ حال نے برطانیہ کو بھی اس جنگ میں گھسیٹ لیا۔ جان روہل، پروفیسر آف ہسٹری، یونیورسٹی آف سسیکس آسٹریا، ہنگری اور جرمنی پہلی جنگ عظیم کسی حادثے کا نتیجہ نہیں تھی اور نہ سفارت کاری کی ناکامی۔ یہ جنگ جرمنی، آسٹریا اور ہنگری کی سازش کا نتیجہ تھی۔ ان ملکوں نے شاید سوچ رکھا تھا کہ برطانیہ جنگ سے باہر رہے گا۔ جرمنی کا حکمران قیصر ولہیلم دوم دنیا میں ’جرمن خدا‘ کا غلبہ دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ وہ اپنے جارحانہ مزاج اور آمرانہ رویہ کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ جرمن حکمران نے 20 کے قریب لوگوں کے ایک گروہ کو اپنے گرد جمع کر رکھا تھا اور انہی کے مشورے سے انہوں نے حالات کو سازگار سمجھتے ہوئے جنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ جیراڈ ہرشفیلڈ، پروفیسر آف ہسٹری، یونیورسٹی آف سٹٹگارڈ آسٹریا، ہنگری، جرمنی، روس، فرانس ، برطانیہ اور سربیا جنگ شروع ہونے پہلے جرمنی کا قدامت پسند اشرافیہ اس بات کا قائل ہو چکا تھا کہ دوسرے یورپی ممالک کی طرح نوآبادیاں قائم کرنے اور جرمنی کو عظیم سلطنت بنانے کے لیے یورپی جنگ ضروری ہے۔ میرے خیال میں برطانیہ اس جنگ کو روکنے میں زیادہ موثر کردار ادا کر سکتا تھا۔ سراییوو میں ہونے والے قتل کے ایک واقعے پر جنگ کی ابتدا غلط سوچ اور غلط فیصلوں کا نتیجہ تھی۔ ڈاکٹر انیکا مومبوئر، دی اوپن یونیورسٹی آسٹریا، ہنگری اور جرمنی ہنڈن برگ (مرکز) نے جرمنی کی فوج کو متحرک کیا میرے خیال میں پہلی جنگ عظیم کسی حادثے کانتیجہ نہیں تھی، اور میرے خیال میں اس جنگ سے بچا جا سکتا تھا۔ آسٹریا کی طرف سے 28 جون 1914 میں فرانز فرڈینینڈ کے قتل کی پاداش میں سربیا پر چڑھائی کا فیصلہ ہی اس جنگ کا باعث تھا۔ آسٹریا اور ہنگری کی پوزیشن بلقان کے خطے میں کمزور ہو رہی تھی اور انھوں نے اسی بنا پر جنگ کا راستہ اختیار کیا۔ لیکن سربیا کے خلاف جنگ کے لیے آسٹریا اور ہنگری کو جرمنی کی حمایت کی ضرورت تھی اور پھر جرمنی کی جانب آسٹریا کی غیر مشروط حمایت ہی اس جنگ کی وجہ بنی۔ آسٹریا اور جرمنی دونوں جانتے تھے کہ سربیا پر حملے کی صورت میں روس سربیا کی حمایت کرے گا اور پھر یہ جنگ مقامی جنگ نہیں رہے گی بلکہ یورپ گیر جنگ میں بدل جائےگی۔ لیکن ان ملکوں نے یہ خطرہ مول لیا اور جنگ شروع ہو گئی۔ شان میکمیکن، پروفیسر کے او سی یونیورسٹی استنبول آسٹریا، ہنگری، جرمنی، روس، فرانس، برطانیہ اور سربیا یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ سوالوں کے آسان جواب ڈھونڈتا ہے اور اسی وجہ سے سب جرمنی کو اس ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جرمنی نے آسٹریا اور ہنگری کی غیر مشروط حمایت اعلان کر کے اس جنگ کی بنیاد رکھ دی تھی لیکن اگر فرانز فرڈینینڈ کو سراییوو میں قتل نہ کیا جاتا تو پھر آسٹریا اور جرمنی کے لیے سربیا پر حملے کا جواز نہ ہوتا۔ جرمنی اور آسٹریا نے اس جنگ کو ’مقامی‘ رکھنے کی کوشش کی لیکن روس نے سربیا کی حمایت میں آ کر جنگ کو یورپی بنا دیا۔ برطانیہ کی اس جنگ میں شمولیت فرانس اور روس کی خواہش تو ہو سکتی تھی لیکن جرمنی یہ نہیں چاہتا تھا۔ لہٰذا جرمنی، روس، فرانس اور برطانیہ بھی اس جنگ کے ذمہ دار ہیں۔ پروفیسر گیری شیفلڈ، پروفیسر آف وار سٹڈی، یونیورسٹی آف وولورہمٹن آسٹریا، ہنگری اور جرمنی آسٹریا، ہنگری اور جرمنی نے یہ جانتے بوجھتے ہوئے اس جنگ کا فیصلہ کیا کہ روس سربیا کی مدد کو آئے گا۔ آسٹریا اور ہنگری نے فرانز فرڈینینڈ کے قتل کا بہانہ بنا کر اپنے علاقائی حریف سربیا کو تباہ کرنا چاہا۔ جرمنی اور آسٹریا کے رہنماؤں نے مجرمانہ خطرہ مول لیا جس نے پورے براعظم کو جنگ میں دھکیل دیا۔ ڈاکٹر کیٹریونا پینل، لیکچرار یونیورسٹی آف ایگزٹر آسٹریا، ہنگری اور جرمنی میرے خیال میں پہلی جنگ عظیم شروع کرنے کا الزام جرمنی اور آسٹریا کے پالیسی سازوں پر ہی دھرا جا سکتا ہے، جنہوں نے ایک مقامی جھگڑے کو براعظمی جنگ میں تبدیل میں اہم کردار ادا کیا۔ جرمنی نے اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر برطانیہ اور فرانس کی طرح سلطنت قائم کرنے کی کوشش کی۔ آسٹریا اور ہنگری نے 23 جولائی 1914 کو سربیا کو الٹی میٹیم دیا، جو دراصل جنگ کا اعلان تھا۔ اس طرح 28 جولائی کو پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہو گیا۔ ڈیوڈ سٹیونسن ، پروفیسر آف انٹرنیشنل ہسٹری، لندن سکول آف اکنامکس جرمنی آسٹرین بادشاہ فرانز جوزف فرڈینینڈ اور قیصر ولیہیم اتحادی تھے جرمن حکومت پہلی جنگ عظیم کی ذمہ دار تھی۔ جرمنی نے بلقان کی جنگ کو ممکن بنایا۔ انہوں نے یہ جانتے ہوئے کہ سربیا پر آسٹریا اور ہنگری کے حملے سے یہ بڑی جنگ بن سکتی ہے، اس کی حوصلہ افزائی کی۔ جرمنی نے نہ صرف آسٹریا کی غیر مشرو ط حمایت کا اعلان کیا بلکہ اس نے روس اور فرانس کو بھی الٹی میٹیم دینے شروع کر دیے تھے۔ جرمنی نے عالمی معاہدوں کی دھجیاں بکھیر دیں، اور یہ جانتے ہوئے کہ اگر بیلجیئم پر حملہ ہوا تو برطانیہ بھی اس جنگ میں شریک ہو جائےگا، اس نے لگسمبرگ اور بیلجیئم پر یلغار کر دی۔
050102_tsunami_video_am
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2005/01/050102_tsunami_video_am
سونامی: امدادی سرگرمیوں پر ویڈیو
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سماترا کے ساحل کے قریب سمندر کی تہہ میں آنے والے زلزلے کے سبب پیدا ہونے والی سونامی لہروں کے سبب ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
ادارے کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان کا کہنا ہے کہ بحر ہند کے سونامی طوفان کا نشانہ بننے والے ملکوں کو سنبھلنے میں دس سال تک لگ سکتے ہیں۔ انہوں نے اس طوفان سے پھیلنے والی تباہی کو اقوام متحدہ کے لیے اب تک کا سب سے بڑا چیلنج قرار دیا ہے۔ ادھر ماہرین زلزلہ پیمائی نے اب واضح طور پر چار ہزار کلومیٹر طویل اُس آبی راستے کی نشاندہی کر دی ہے جس پر چھ گھنٹے کی مسافت طے کر کے سونامی لہریں ساحلوں تک پہنچی تھیں۔
060803_mush_mqm
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/08/060803_mush_mqm
حکومت، ایم کیو ایم معاملات طے
صدر جنرل پرویزمشرف نے بدھ کی رات گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے راولپنڈی میں ڈیڑھ گھنٹہ طویل ملاقات کی جس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ اور حکومت نے ایک مشترکہ بیان میں اپنے تمام اختلافات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ ہی رہے گی۔ گورنر سندھ کی طلبی گورنر راج کی افواہیںگورنر کے اے ڈی سی لفٹیننٹ کاشف نے ملاقات کے بعد بی بی سی اردو ڈاٹ کام کو بتایا کہ تمام مسائل پر بڑے خوشگوار ماحول میں بات ہوئی ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کے جلد ہی تمام مسائل حل کرلیئے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق صدر اور گورنر کی ملاقات کے دوران صدر کے ایک معتمد نے لندن میں ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین سے بھی ٹیلی فون پر رابطہ قائم کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات کے دوران اعتماد کی فضا پیدا ہوئی اور ایم کیو ایم نے صدر کی قیادت کے اوپر بھی اعتماد کا اظہار کیا۔ یاد رہے کہ ایم کیو ایم نے گزشتہ ہفتے وزیر اعلی سندھ ارباب غلام رحیم کے روّیے کے خلاف صوبائی اور مرکزی وزارتوں سے استفعے دینے کا اعلان کیا تھا۔ ان استعفوں کے بعد منگل کی صبح صدر نے ایک اجلاس طلب کیا تھا لیکن ایم کیو ایم نے ارباب غلام رحیم کے ایک بیان پر احتجاج کرتے ہوئے ان مذاکرات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ اس بیان کو بنیاد بناتے ہوئے ایم کیو ایم کی رابط کمیٹی نے اپنی چار رکنی مذاکراتی ٹیم اور گورنر عشرت العباد کو اسلام آباد سے کراچی طلب کر لیا تھا۔ ایم کیو ایم کے اس بائیکاٹ پر حکومتی حلقوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔تاہم صدر نے فوری طور پر گورنر سندھ کا اسلام آباد طلب کر لیا۔ گورنر سندھ کو سارا دن صدر سے ملاقات کے منتظر رہے اور رات آٹھ بجے انہیں ایوان صدر کیمپ آفس راولپنڈی طلب کیا گیا۔
121123_bangladesh_pakistan_apology_zis
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2012/11/121123_bangladesh_pakistan_apology_zis
بنگلہ دیش سے معافی مانگی جائے یا نہیں
بنگلہ دیش کی علیٰحدگی کے دوران سنہ 1971 کے واقعات میں پاکستانی فوج پر مبینہ زیادتیوں کا الزام لگایا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش مسلسل مطالبہ کرتا رہا ہے کہ پاکستان بنگلہ دیشی عوام سے معافی مانگے۔ تاہم اب تک پاکستان سرکاری سطح پر معافی مانگنے سے گریز کر رہا ہے جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر نہیں آ رہے۔
ارم عباسی بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد ڈی ایٹ اجلاس میں بنگلہ دیش کے اعلیٰ حکام کی غیرموجودگی کو محسوس کیا گیا۔ پاکستان میں آٹھ ترقیاتی ممالک کے آٹھویں سربراہی اجلاس (ڈی ایٹ) کے لیے بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد نے شرکت سے انکار کر دیا۔ اس کی وجہ انہوں نے نجی مصروفیات بتائیں تاہم بعض لوگ زور دیتے ہیں ان کی وجہ پاکستان کا معافی نہ مانگنا ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم کی غیر حاضری کے بعد ان کی وزیرِ خارجہ ڈاکٹر دیپو مونی کی پاکستان آمد کا تذکرہ ہوا مگر پھر سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے وزیر اعظم کے بین الاقوامی امور کے مشیر ڈاکٹر گوہر رضوی اور سیکرٹری خارجہ محمد مجاریل قیس پہنچے۔ ڈی ایٹ کے بانی ہونے کے ناطے سے اس اجلاس میں بنگلہ دیش کی چھوٹی سطح پر شرکت کو میڈیا میں خاصا محسوس کیا گیا۔ تاہم دونوں ممالک سرکاری سطح پر اس معاملے کو معافی کے مسئلے سے وابستہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن دونوں ملکوں کے عہداروں کے پاس بنگلہ دیشی وزیر اعظم کی غیرحاضری کی متضاد خبریں رہیں۔ تاہم بنگلہ دیشی سیکرٹری خارجہ نے تسلیم کیا کہ معذرت کا معاملہ غور طلب ہے۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے معافی کے معاملے پر بنگلہ دیشی سیکرٹری خارجہ محمد مجاریل قیس نے کہ ’یہ ایک مسئلہ ہے اور ہم نے اپنی سوچ سے پاکستانی حکام کو آگاہ کر دیا ہے۔‘ پاکستان میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش سے معافی مانگ لینی چاہیے۔ یہ مطالبہ سماجی حلقے کئی بار حکومت پاکستان سے کر چکے ہیں۔ اجلاس میں بنگلہ دیش کی اعلیٰ قیادت کی عدم موجودگی پر میڈیا کے بعض افراد نے بھی اس مطالبے کو دہرایا۔ 1971 میں پاکستانی اور بھارتی افواج کے درمیان جنگ لڑی گئی جس کے بعد بنگلہ دیش وجود میں آ گیا۔ حال ہی میں اسلام آباد میں منعقدہ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن کی یاداشتوں پر مبنی کتاب ’دی ان فنشنڈ میموارز‘ (نامکمل آپ بیتی) کی تقریبِ رونمائی منعقد کی گئی جس میں یہ رائے سامنے آئی ہے کہ پاکستان کو معافی مانگنی چاہیے۔ اس موقعے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مقامی ٹی وی کے صحافی حامد میر نے کہا، ’حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستانی فوج نے بنگالی عوام کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ ان لوگوں کو مارا گیا، خواتین کا ریپ کیا گیا اور اب یہ بات کتابوں میں آچکی ہے، فوجی جرنیلوں نے خود تسلیم کیا ہے اس لیے پاکستان کو سرکاری سطح پر بنگلہ دیش سے مغدرت کرنی چاہیے۔‘ انہوں نے کہا ’پاکستان میں نوجوانوں کو یکطرفہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے جس کے مطابق شیخ مجیب الرحمٰن غدار ہیں۔ لیکن ہماری نوجوان نسل کویہ نہیں بتایا جاتا کہ وہ ملک توڑنے والوں میں سے نہیں بلکہ پاکستان کو بنانے والوں میں سے ایک ہیں۔‘ بنگلہ دیشی حکومت کے مطابق 1971 کی جنگ میں 30 لاکھ افراد مارے گئے۔ تاہم آزاد محققین کے مطابق اس تعداد میں بہت مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے اور اس کی تصدیق نہیں ہو سکتی۔ "دو بھائی علیٰحدہ تو ہو چکے ہیں اس لیے کبھی دوبارہ اکٹھے تو نہیں ہوں گے مگر پاکستان کی جانب معافی سے کم ازکم قریبی دوست تو بن جائیں گے۔" پاکستان میں مقیم بنگالی شہریوں کے زخم ابھی بھی ہرے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے معافی مانگنے سے باہمی تعلقات بہتر ہوں گے۔ اسلام آباد میں 34 برس سے مقیم اللہ دتا سموسوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ اٹھارہ برس کے تھے جب بنگلہ دیش اور پاکستان علیٰحدہ ہوئے۔ جنگ کا منظر بیان کرتے ہوئے وہ بہت افسردہ ہو کر بتانے لگے کہ کیسے وہ گولیوں سے بچتے بچاتے رات کے اندھیرے میں ڈھاکہ پہنچے۔ ان کے پاس نہ کچھ کھانے کو تھا نہ پہننے کو۔ جنگ کے ایک برس تک ان کے لیے زندگی نہایت دشوار رہی۔ انہوں کہا ’دو بھائی علیٰحدہ تو ہو چکے ہیں اس لیے کبھی دوبارہ اکٹھے تو نہیں ہوں گے مگر پاکستان کی جانب معافی سے کم ازکم قریبی دوست تو بن جائیں گے۔‘ تاہم پاکستان میں سرکاری سطح پر اس معاملے پر گرم جوشی نہیں دکھائی جا رہی۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے پر بنگلہ دیش سے کئی بار افسوس کا اظہار کر چکا ہے۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات
pakistan-55293554
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55293554
پی ڈی ایم کا لاہور جلسہ: ’جنوری کے آخر یا فروری کے اوائل میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ہو گا، استعفے ساتھ لے کر جائیں گے‘
پاکستان میں حزب اختلاف کے اتحاد نے لاہور جلسے میں فروری کے قریب اسلام آباد مارچ اور پارلیمان سے استعفے دینے کا اعلان کیا ہے۔ لندن میں مقیم سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی جلسے سے خطاب کیا۔
تحریک انصاف کی حکومت میں بدعنوانی کے الزامات میں مطلوب مسلم لیگ نواز کے قائد نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’چند جرنیل وار گیم کے بجائے پولیٹیکل گیم میں مصروف ہیں‘ اور یہ کہ ملک میں موجودہ بحران کے ذمہ دار صرف وزیر اعظم عمران خان ہی نہیں بلکہ سیاسی انجنیئرنگ میں حصہ لینے والے کچھ جرنیل بھی ہیں جو فوج کو متنازع بناتے ہیں۔ اتوار کو اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمان نے جلسے کے دوران واضح کیا ہے کہ ’جنوری کے آخر یا فروری کے اوائل میں اسلام آباد کی طرف پوری قوم مارچ کرے گی۔۔۔ ہم ایسی پارلیمنٹ پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی اس پارلیمنٹ کے ذریعے سے ناجائز حکومت کو چلنے دیں گے۔‘ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان نے پی ڈی ایم کے جلسے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وبا میں اضافے کے دوران ’انھیں شہریوں کی صحت و سلامتی کی رتی بھر بھی پرواہ نہیں۔‘ یہ بھی پڑھیے کورونا کے خطرے کے باوجود کارکن لاہور جلسے میں کیوں جانا چاہتے ہیں؟ 31 دسمبر تک تمام پارٹیوں کے اراکین اپنے استعفے قیادت کو جمع کروا دیں گے: اپوزیشن کا فیصلہ مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں پی ڈی ایم کے جلسے کی تیاریاں عروج پر اپنے ٹویٹ میں عمران خان نے مزید کہا ہے کہ ’لٹیرے جو حربہ چاہیں استعمال کریں، میری حکومت کبھی کوئی این آر او نہیں دے گی۔‘ نواز شریف: اراکین اسمبلی نے استعفے دینا شروع کر دیے ہیں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے خطاب میں کہا کہ اس نظام کو بدلے بغیر اب کوئی چارہ نہیں، یہ ملک مزید غیر جمہوری مداخلت کی تاب نہیں لا سکتا۔ ’جو دخل اندازی کرتے ہیں، میں ان سے کہتا ہوں کہ یہ ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے، یہ ملک اب جام ہو چکا ہے۔ اب یہاں ہائی جیک جمہوریت نہیں چل سکتی۔‘ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’آج ہمیں ایسا ملک چاہیے جس میں ریاست کے اوپر ریاست نہ ہو۔ ’کیا ہم انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد چند جرنیلوں کے غلام بن جائیں۔ کیا اس قسم کی غلامی آپ کو قبول ہے؟‘ نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’ہمارے اراکین اسمبلی نے خود اپنے استعفے ہمیں دینا شروع کر دیے ہیں اور منفی ہتکھنڈوں کی بھرمار کے باوجود چٹان کی طرح کھڑے ہیں اور کوئی کمزوری نہیں دکھا رہے ہیں۔ ’ان استعفوں سے متعلق جب بھی پی ڈی ایم اور مولانا فضل الرحمان ہدایت دیں گے ہم اس پر عمل کریں گے۔‘ ’انجنئیرنگ کی فیکٹریاں بند کرو، فوج کو متنازع نہ بناؤ‘ سابق وزیر اعظم نواز نے ملک کو درپیش بحران کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سارے معاملے کا کیا صرف عمران خان اکیلے ذمہ دار ہے؟ ’ملک کو برباد کر دیا، 22 کروڑ عوام کو برباد کر دیا، معیشت کو تباہ کر دیا اور کہا جاتا ہے کہ نام نہ لیں۔ ’آئین کو آپ توڑیں تو کیا میں واپڈا کا نام لوں۔ وزیر اعظم ہاؤس کی دیواریں پھلانگ کے وزیر اعظم کو گرفتار کریں تو کیا نام محکمہ زراعت کا لوں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف فیصلوں کے لیے گھر جا کر دباؤ ڈالو تو میں کیا اس کی شکایت محکمہ جنگلات کو لگاؤں۔ ’انتخابات چرائے گئے اور آر ٹی ایس بٹھا دیا گیا تو کیا میں اس کی شکایت محکمہ صحت کو لگاؤں۔‘ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’چند شر پسند جرنیل یہ سب کر رہے ہیں۔ انھیں اگر یہ بات پسند نہیں ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔‘ ’نواز شریف کا بیانیہ وہی ہے جو آئین کا بیانیہ ہے، جو فوج کے حلف کا بیانیہ ہے، وہی نواز شریف کا بیانیہ ہے جو قائد اعظم کا بیانیہ ہے۔ یہی میرا بیانیہ ہے۔‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’(فوج) سیاست سے دور رہے، اپنے ادارے کو سیاسی مقاصد کے لیے مت استعمال کرو، انجنئیرنگ کی فیکٹریاں بند کرو، انتخابات چوری مت کرو، ووٹ کو عزت دو، فوج کو متنازع مت کرو۔‘ انھوں نے اپنے خطاب میں نام لیے بغیر چند جرنیلوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جب آپ آئین توڑتے ہیں، جب حلف کی خلاف ورزی کرتے ہیں، جب دس دس سال حکومت کرتے ہیں۔ جب آپ سیاستدانوں کو جیل میں ڈالنے کے لیے مصروف ہو جاتے ہیں۔ وار گیم کھیلنے کے بجائے پولیٹیکل گیم کھیلنے لگ جاتے ہیں تو پھر بجا طور پر عوام کو شکایت ہو گی، پھر سوالات ہوں گے، سوالات پوچھے جائیں گے، اس کا جواب یہ نہیں ہے کہ نام کیوں لیتے ہو۔‘ آئی ایس آئی کے سربراہ کا نام لیے بغیر نواز شریف نے کہا کہ ’جب ایک جرنیل ایک جج کے گھر جاتا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو نہیں چھوڑنا، اور جب یہ بات منظر عام پر آتی ہے تو اس جرنیل کے خلاف کیا کارروائی کی جاتی ہے۔۔۔ اس کو تو الٹا ترقی دے دی جاتی ہے۔‘ مولانا فضل الرحمان: اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ عوام بھی ہو سکتا ہے پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان نے لاہور جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد مارچ کے حوالے سے کہا کہ ’عوام کو رستہ دیں ورنہ یہ اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ عوام بھی ہو سکتا ہے۔‘ انھوں نے کہا میں آج اپنی دفاعی قوت اور اسٹیبلشمنٹ کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ عوام کو راستہ دیں، عوام کو اسلام آباد پہنچنے دیں۔ حکومت عوام کی ہو گی، دھاندلی کا نظام نہیں چلے گا۔ مولانا فضل الرحمان نے متنبہ کیا کہ ’اب کہیں وہ دن نہ دیکھنے پڑیں کہ جہاں اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ پاکستان کے عوام نہ ہوں۔‘ پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ناجائز حکومت کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے جو دھاندلی کی تھی، اب اس کے زخم اب گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو: ’بات چیت کا وقت گزر چکا‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’اب کوئی اور رستہ نہیں، ڈائیلاگ شائیلاگ (بات چیت) کا وقت گزر چکا اب لانگ مارچ ہو گا، اسلام آباد ہم آ رہے ہیں۔‘ بلاول بھٹوں نے کہا ’اب فون کرنا چھوڑ دو، اب ہم اسلام آباد پہنچ کر نالائق اور جعلی حکمران کا استعفی چھینیں گے۔‘ ’ہم کٹھ پتلی کو للکار رہے ہیں، ہم اس کے سہولت کاروں کو للکا رہے ہیں۔ تا کہ ہم عوام کو ان کا حق اقتدار دلا سکیں۔‘ ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ کٹھ پتلی حکمران یہ سیلیکٹڈ حکمران گھر جانے والا ہے۔‘ مولانا فضل الرحمان نے اپنے خطاب میں اپوزیشن جماعتوں کے سربراہی اجلاس میں ہونے والے اہم فیصلوں کا اعلان بھی کیا۔ انھوں نے کہا کہ آج یہ طے کیا گیا ہے کہ ’پارلیمنٹ کی خود مختاری ہو گی، پارلیمنٹ کو یرغمال نہیں بننے دیا جائے گا۔ سیاست سے اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کے کردار کا خاتمہ کیا جائے گا اور ایک آزاد عدلہ کا تصور دیا جائے گا۔ ’آزادانہ انتخاب کا انعقاد کرایا جائے گا۔ صوبوں کے حقوق اور اٹھارویں ترمیم کا تحفظ کیا جائے گا۔‘ مریم نواز: پارلیمان آئی ایس آئی کا ایک ریٹائرڈ کرنل چلا رہا ہے لاہور جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے شرکا سے پوچھا کہ ’اگر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنا پڑے تو نکلو گے؟ اسلام آباد کی طرف، اور جتنے دن رکنا پڑے، اپنی بہن کے ساتھ رکو گے؟‘ مریم نواز نے کہا کہ ’اب عمران خان کہتا ہے کہ وہ پارلیمان میں بیٹھ کر اپوزیشن سے بات کرنے کو تیار ہے۔ اس کے بعد مریم نواز نے کہا ’کون سی پارلیمنٹ؟ ’وہی جو آئی ایس آئی کا ایک ریٹائرڈ کرنل چلا رہا ہے، کیا وہاں بیٹھ کر بات ہو گی۔‘ ’وہ والی سینیٹ جس کو آج ایک ریٹائرڈ کرنل چلاتا ہے اس میں بیٹھ کر بات کرنی ہے؟‘ جسلے میں مریم نواز نے دعویٰ کیا کہ اس ریٹائرڈ کرنل کا نام ’پورے اسلام آباد جانتا ہے۔‘ مریم نواز نے کہا کہ ’عمران خان کا 2011 کا جلسہ آئی ایس آئی کے سربراہ شجاع پاشا نے کروایا تھا۔۔۔ جس تبدیلی کی بنیاد 2011 میں اس مینار پاکستان کے نیچے رکھی گئی تھی آج لاہوریوں نے اس جعلی تبدیلی کو یہیں پر دفن کر دیا ہے۔‘ انھوں نے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اب تمھیں جانا ہو گا۔‘ حزب اختلاف کے دیگر رہنماؤں کی تقاریر بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جن جلسوں کو حکمران جلسیوں کا نام دیتے تھے میں بھی ان کو جلسے نہیں کہتا، ان کو میں ان غیر جمہوری قوتوں کا، آمروں کی پیداواروں کو، ان قوتوں نے آئین کو گھر کی لونڈی سمجھا ہوا ہے، جنھوں نے 70 سال سے زائد زنجیروں کے زور پر حکمرانی کی ہے، میں ان جلسوں کو ان کی جنازہ نماز سمجھتا ہوں۔‘ ان کے مطابق ’میرے الفاظ کو نہ گلہ سمجھیں اور نہ شکوہ سمجھیں۔ جو 70 برس سے بلوچستان کے لوگوں نے سہا ہے میں ان کے بارے میں آپ سے بات کروں گا۔ ہم نے بہت کچھ کھویا اور ایک دن بھی سکون کا نہیں دیکھا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’آج جس خلائی مخلوق کے خلاف آپ اس پنڈال میں کھڑے ہیں، ہم 70 سالوں سے ان کی دہشت کا اور ان کی وہشت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان کے ان غیر اخلاقی فیصلوں کا ذمہ دار کون ہے؟‘ ’70 سالوں سے جو ظلم و زیادتی ہو رہی ہے۔ اس کا ذمہ دار ان کو نہیں بلکہ اس بڑے صوبے کو قرار دیا ہے جو آج اس پنڈال میں موجود ہے۔ انھوں نے کہا اس جن کو قابو کرنا اب آپ کی ذمہ داری بنتی ہے۔‘ انھوں نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ملک کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر اس خلائی مخلوق کو دھکہ دیں اور اس کی حیثیت دکھا دیں۔ انھیں یہ ثابت کرائیں کہ یہ ملک اس ملک کی عوام کے لیے بنا ہے۔ اختر مینگل کے مطابق اگر آپ اس ملک کو دوسرا بنگلہ دیش نہیں بنانا چاہتے تو پھر اس خلائی مخلوق کو لگام دینا آپ کی ذمہ داری بنتی ہے۔ انھوں نے کہا آج ہماری ماؤں بہنوں کی عزتوں محفوظ نہیں ہیں۔ ان کے مطابق ہم آج بھی جمہوریت کا نعرہ لگاتے ہیں اور اس آئین کے تحفظ کے لیے نکلے ہیں، لیکن ہماری عزتیں بچانے کے لیے کوئی نہیں نکلا۔ ہماری مائیں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں مگر ان کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ اختر مینگل کے مطابق مریم نواز خود بتائیں گی کہ کس طرح بچیوں اور بہنوں نے بلوچستان میں رو رو کر اپنے پیاروں کی بازیابی کی درخواست کی۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ „کیا واقعی یہ ایک اسلامی ریاست ہے۔ کیا یہ ایک جمہوری ملک ہے؟ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟‘ اختر مینگل نے لاہور جلسے کے شرکا سے کہا کہ آپ کو ’انگریزوں کی غلامی سے نکال کر ان وردی والوں کی غلامی میں دھکیل دیا گیا ہے۔‘ انھوں نے کہا ’کوئی ایک ملک ایسا بتائیں جہاں وزیر اعظم کو پھانسی کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو، جہاں بڑے عوامی مینڈیٹ والے وزیر اعظم کو ملک سے باہر نکال دیا گیا ہو۔‘ ’اگر جمہوریت ہوتی تو پھر جنرلز ہم پر براہ راست ہم پر حکمرانی نہ کرتے۔ اور تو اور کاروبار بھی اپنے ہاتھ میں رکھ لیا ہے۔ ڈی ایچ اے بنے ہوئے ہیں، فوجی فاؤنڈیشن بنی ہوئی ہے، ایف ڈبلیو بنا ہوا ہے۔‘ ان کے مطابق ’جس طرح ڈی ایچ اے پھیل رہا ہے مجھے ڈر ہے کہ آئندہ کچھ سالوں میں یہاں لاہور میں قبرستان کی بھی جگہ نہیں بچے گی۔‘ ان کے مطابق جو ’آسٹریلیا میں جزیرے خریدتے ہیں، جو دبئی میں بیٹھے ہیں اور جو اپنے آپ کو شیر کہتے تھے اور اپنے شہروں کو ڈالروں کے عوض بیچا اور جو پیزے بیچتے ہیں ان کا بھی احتساب ہونا چائیے۔‘ انھوں نے کہا کہ جس طرح ڈی ایچ اے نے لوگوں کی زمینیں ہڑپ کی ہیں ان کا بھی احتساب ہونا چائیے۔ اختر مینگل کے مطابق گوادر کو باڑیں لگا کر وہاں کے لوگوں کو ایسٹ اور ویسٹ جرمنی کی طرز پر تقسیم کیا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم کے لاہور جلسے کی تیاریاں اگرچہ حکومتی ترجمان اس جلسے کو شروع ہونے سے قبل ہی ایک ناکام جلسہ قرار دیتے ہیں مگر پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شرکا سے کہا کہ آپ نے کثیر تعداد میں یہاں جمع ہو کر جلسے کو کامیاب بنایا ہے۔ اس دوران ان کا ایک بیان مقامی ذرائع ابلاغ پر متنازع ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ ’لاہوریوں نے انگریز کا ساتھ دیا۔‘ جلسے سے عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما میاں افتخار حسین نے اپنے خطاب میں ایک قرارداد پیش کرتے ہوئے شرکا سے چند سوالات پوچھے جن میں سے کچھ یہ سوالات بھی ہیں کہ ’کیا موجودہ حکومت کا خاتمہ آپ کو منظور ہے؟ کیا از سر نو انتخابات منظور ہیں؟‘ انھوں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کا بھی مطالبہ کیا۔ اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ 'ابھی جلسہ شروع نہیں ہوا ہے اور ٹی وی پر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا بیان چل رہا ہے کہ جلسہ ناکام ہو گیا ہے۔ پتا نہیں کس قسم کا شخص یہاں بٹھایا ہوا ہے جو نہ سن سکتا ہے اور نہ دیکھ سکتا ہے۔' قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد شیرپاؤ نے اپنی تقریر میں کہا کہ حکومتی ادارے ناکام ہو چکے ہیں اور اس وقت ملک میں مہنگائی عروج پر ہے۔ اجازت نہ ملنے کے باوجود لاہور میں جلسے کا انعقاد کیا گیا بات کی جائے آج کے جلسے کی تو مختلف شہروں سے ان جماعتوں کے کارکنان لاہور کے اقبال پارک میں جمع ہوئے ہیں۔ اس جلسے کا انعقاد مینارِ پاکستان پر کیا جا رہا ہے جہاں اب سے تقریباً 81 برس قبل پاکستان کے قیام کی قرارداد منظور کی گئی تھی۔ پنجاب اور وفاق میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومتوں نے اس جلسے کو روکنے کے لیے کورونا کے پھیلاؤ اور دہشتگردی کے خطرے سمیت کئی طریقوں سے خبردار کیا ہے لیکن حزبِ اختلاف نے یہ جلسہ ملتوی کرنے سے انکار کیا ہے۔ گذشتہ روز لاہور کے ڈپٹی کمشنر کے جاری کردہ نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ پی ڈی ایم کے رہنماؤں مریم نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمان سمیت خواجہ سعد رفیق، سردار ایاز صادق، رانا ثنااللہ اور دیگر کی زندگی کو خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ نوٹیفیکشن میں کہا گیا کہ کورونا وائرس کے دوران عوامی صحت اور تحفظ کو مدِنظر رکھتے ہوئے کسی جلسے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور ایسا کوئی بھی جلسہ غیر قانونی ہوگا۔ لاہور میں کیا سماں رہا؟ حکومت کی جانب سے کہا تو جا رہا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا، تاہم بی بی سی کی نامہ نگار ترہب اصغر کے مطابق اس جلسے کے سلسلے میں شہر بھر میں کہیں بھی کسی قسم کی رکاوٹیں نہیں لگائی گئیں۔ تاہم پولیس اور سکیورٹی فورسز کی کثیر تعداد لاہور شہر میں جگہ جگہ تعینات کی گئی۔ جلسے کے اختتام پر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جلسے کی ایک ایسی تصویر شیئر کی گئی جس میں شرکا کی تعداد کم نظر آرہی ہے۔ اس تصویر میں جلسے کے شرکا فاصلے پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس تصویر پر وزیر اعلیٰ نے لکھا کہ وہ جلسے کے شرکا کے شکریہ ادا کرتے ہیں، جنھوں نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سماجی فاصلے جیسی احتیاطی تدابیر کا خیال رکھا۔
060117_bus_service_fz
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/01/060117_bus_service_fz
’ سکیورٹی میں نرمی کر دیں گے‘
بھارتی حکومت نے کہا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان چلائی جانے والی مجوزہ بس سروس کے لیے خصوصی حفاظتی اقدامات کم کردے گا۔
توقع ہے کہ یہ بس سروس امرتسر اور لاہور کے درمیان جمعہ سے شروع کی جائے گی۔ بھارتی ریاست پنجاب میں حکام کا کہنا ہے کہ اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ زیادہ سکیورٹی چیکس مسافروں کے سفر کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہورہے ہیں۔ پیرکو اپنے بیان میں حکام نے تسلیم کیا کہ اس افتتاحی سفر کے لیے اب تک ایک بھی ٹکٹ فروخت نہیں ہوا ہے۔ امرتسر- لاہور بس سروس دونوں ممالک کے درمیان چلائی جانے والی تیسری بس سروس ہے اور یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کا حصہ ہے۔
pakistan-45783303
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-45783303
وزیر اعلی پنجاب، احسن جمیل گجر اور پنجاب کے سابق آئی جی کلیم امام کی معافی قبول
سپریم کورٹ نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے سے متعلق از خود نوٹس میں وزیر اعلی پنجاب، وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ کے بچوں کے مبینہ گارڈین احسن جمیل گجر اور پنجاب پولیس کے سابق سربراہ کلیم امام کی معافی کو قبول کرلیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ مستقبل میں دوبارہ مداخلت یا سیاسی اثرو رسوخ استعمال کرنے کا واقعہ پیش آیا تو اس از خود نوٹس کو دوبارہ کھول دیا جائے گا۔
میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اپنے دفتر میں بیٹھ کر اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ کی بیٹی کے ساتھ پولیس کے مبینہ ناروا سلوک پر صوبہ پنجاب کے شہر پاکپتن کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر کے تبادلے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران اسے قبل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ وزیراعظم عمران خان کو جا کر بتائیں کہ وہ (چیف جسٹس) ان سے ناخوش ہیں۔ نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق پیر کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم یہ کہتے ہیں کہ جب تک پی ٹی آئی کی حکومت ہو گی پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہی ہوں گے۔ میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اپنے دفتر میں بیٹھ کر اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں، تو کیا ایسا ہوتا ہے نیا پاکستان جس کا دعویٰ پی ٹی آئی کی حکومت اقتدار میں آنے سے پہلے کرتی رہی ہے۔ یہ بھی پڑھیے نمبردار کے لڑکوں سے مت الجھو پاکستان کی خاتونِ اول کے سابق شوہر عدالت میں رو پڑے کلیم امام کی رپورٹ مسترد، وزیراعلیٰ کی معافی ’کیا مجبوری تھی کہ رات دو بجے زبانی احکامات دینے پڑے‘ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کے دوران نیکٹا کے کوارڈینیٹر خالق داد لک کی طرف سے جمع کروائی گئی تحقیقاتی رپورٹ پر وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ کے بچوں کے مبینہ گارڈیئن احسن جمیل گجر کے اعتراضات کو مسترد کر دیا۔ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کہا کہ انکوائری افسر کی رپورٹ مبہم ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی نظر میں اصل حقائق وہ ہیں جو پنجاب پولیس کے سابق سربراہ کلیم امام نے اپنی رپورٹ میں لکھے تھے۔ بینچ کے سربراہ نے احمد اویس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیسے عدالت عظمیٰ کی طرف سے تحقیقات کے لیے مقرر کردہ افسر کی رپورٹ کو ایک ربڑ سٹیمپ قرار دیا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ ایک ذمہ دار افسر کے خلاف اس طرح کی زبان کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔ بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت قانون کی حکمرانی کے لیے کام کرریی ہے جبکہ بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جواب میں انکوائری افسر خالق داد لک پر براہ راست حملہ کیا گیا ہے۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’کیا ایک ڈی پی او اتنا پلید ہوگیا کہ وزیر اعلی پنجاب نے کہا کہ صبح اس کی شکل نہیں دیکھو ں گا۔‘ پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں کوئی بدنیتی نہیں تھی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو تو بدنیتی نظر آ رہی ہے اور اگر وزیر اعلی پنجاب انکوائری افسر کی رپورٹ سے مطمئن نہیں ہیں تو پھر جے آئی ٹی تشکیل دے دیتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’یہاں معافی مانگتے، اپنے کئے پر شرمندہ ہوتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ الٹا خالق داد کی رپورٹ پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔‘ انھوں نے ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کو بہت ہلکا لے رہے ہیں۔ اس کے بعد ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے وزیرِاعلیٰ پنجاب کی جانب سے جمع کروایا گیا جواب واپس لے لیا اور کہا کہ وہ وزیراعلی کی طرف سے عدالت عظمیٰ سے غیر مشروط معافی مانگتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کے بچوں کے مبینہ گاڈرین احسن جمیل گجر کی معافی کو بھی عدالت نے مسترد کر دیا اور کہا کہ وہ کیسے وزیراعلی کے دفتر میں بیٹھ اکڑ کر بیٹھے رہتے تھے۔ پنجاب پولیس کے سابق سربراہ کلیم امام نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تاہم چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ پنجاب اور سابق آئی جی پنجاب کو عدالت میں تحریری معافی نامہ جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی انکوائری رپورٹ کیا کہتی ہے؟ قومی انسداد دہشت گردی کے محکمے کے افسر مہر خالق داد لک نے ڈی پی او کے تبادلے سے متعلق انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب پولیس کے سابق سربراہ کلیم امام نے ’سب اچھا‘ کی رپورٹ دے کر محض ایک ربڑ سٹمپ کا کام کیا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خاور مانیکا کی بیٹی کے ساتھ پولیس اہلکاروں کے ناروا سلوک پر سابق آئی جی نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی رپورٹ 30 اگست کو آ گئی جبکہ انکوائری رپورٹ آنے سے پہلے ہی ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کا تبادلہ 28 اگست کو کر دیا گیا۔ کلیم امام نے اس انکوائری رپورٹ کا بھی انتظار نہیں کیا جو اُنھوں نے خود اپنے حکم پر قائم کی تھی۔ مہر خالق داد کی رپورٹ کے مطابق ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ پنجاب کے وزیرِاعلی کے دفتر سے جاری ہوا اور وزیر اعلیٰ کو اس بات کا علم بھی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے قریبی دوست احسن جمیل گجر جن کی اہلیہ خاتون اول بشری بی بی کی دوست ہیں، کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنھوں نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کو وزیر اعلی ہاؤس میں بلا کر اُنھیں خاور مانیکا کے ڈیرے پر جا کر معاملے کو سلجھانے کے بارے میں کہا تھا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈی پی او پاکپتن کے اس موقف کو بھی تقویت ملتی ہے جس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ احسن جمیل گجر کی طرف سے اُنھیں خاور مانیکا کے ڈیرے پر جاکر معافی مانگنے کے بارے میں کہا گیا تھا لیکن اُنھوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ احسن جمیل گجر نے پولیس حکام کے ساتھ دھمکی آمیز رویہ بھی اختیار کیا۔
pakistan-50850173
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50850173
خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے پر سوشل میڈیا ردِعمل: ’ڈی چوک پر مشرف کی لاش لٹکانے والا جملہ پورے فیصلے پر بھاری پڑے گا‘
پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو آئین شکنی پر سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار نے تفصیلی فیصلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو گرفتار کرنے اور سزا پر عملدرآمد کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اگر وہ مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک لائی جائے جہاں اسے تین دن تک لٹکایا جائے۔
تفصیلی فیصلے کے دیگر نکات سے زیادہ یہی بات پاکستان کے سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہے۔ سوشل میڈیا پر ’ڈی چوک‘ صفِ اول کے ٹرینڈز میں شامل ہے۔ اس کے ساتھ #MusharafVerdict اور #پیرا نمبر66 بھی ٹرینڈ کر رہا ہے جس میں صارفین فیصلے پر اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے پرویز مشرف غدار یا ہیرو، سوشل میڈیا پر بحث ’لفظ غدار کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے آج پتا تو چل گیا ہو گا‘ مشرف کو سزائے موت: ’افواج پاکستان میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے‘ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ ’افتخار چوہدری کی بحالی کے نتیجے میں ایسے لوگ بھی جج بن گئے جن کی اہلیت اور علم پر سنجیدہ سوالات ہیں، آگ سے کھیلنے کے شوقین حضرات کو علم ہی نہیں کہ جل بھی سکتے ہیں، نہ لفظ چننے کی اہلیت نہ بیان کا سلیقہ۔۔ یہ ریت نئی نہیں لیکن تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا۔‘ فواد چوہدری کے برعکس صحافی زیب النسا برکی کا کہنا تھا کہ فیصلے میں جو بھی ’پاگل پن‘ ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ مشرف کو غداری کی سزا نہ دی جائے۔ جو چیز ناقابلِ معافی ہے وہ یہ کہ کس طرح ان چند سطروں نے اصل معاملے سے توجہ ہٹا دی ہے۔ ڈاکٹر کرم مغل کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے 72 سال کے مسائل کا حل صرف ایک پیراگراف میں...` تاہم صحافی سرل المیڈا نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ججز، آپ بہت آگے نکل گئے۔۔۔ چوکوں میں لاشیں لٹکانا طالبان کا وطیرہ رہا ہے۔‘ مبشر خان کہتے ہیں ’کسی انسان کی لاش کی بےحرمتی کرنا آئین اور قانون سے ماورا تو ہے ہی، ہمارا مذہب بھی ہمیں کسی لاش کی بے حرمتی سے واضح طور پر منع کرتا ہے۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ کے فیصلے کے دور رس اور بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔‘ احمد نورانی کی رائے میں ’سیٹھ وقار اگر غدار مشرف کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک لانے اور تین دن تک لٹکائے رکھنے والی بات نہ بھی لکھتے تو بھی فیصلے پر عملدرآمد ہو جانا تھا، پاکستان کا آگے بڑھنا آمرانہ قوتوں کو پیچھے دھکیلنےاورانہیں نشانِ عبرت بنانےمیں ہی ہے، اگرایسا نہ ہوسکا تو پاکستان آگے چل ہی نہیں سکتا۔‘ زرتاج چوہدری چاہتی ہیں جس جج نے یہ فیصلہ دیا ہے ’ان کے بارے میں انکوائری ہونی چاہیے‘۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سینیٹر شیری رحمان نے لکھا کہ ’کوئی بھی عوامی سطح پر بربریت کی یا لاش کی بے حرمتی کی حمایت نہیں کر سکتا۔ لیکن وہ عملی طور پر نہیں ہو سکتا کیونکہ دوسرے جج نے اس کی مخالفت کی ہے۔ پیرا نمبر 66 مضمون کو مکمل طور پر تبدیل کرتا ہے، سخت زبان میں بحث کو الجھایا گیا ہے۔ اب کوئی بھی آئین کے تقدس اور قانون کی حکمرانی کی بات نہیں کر رہا‘۔ اعظم آفریدی کے مطابق ’اس سے یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ اس فیصلے سے ادارے کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ پورا فیصلہ بغض اور عناد سے بھرا ہوا ہے جو ردی کی ٹوکری میں جائے گا۔‘ صحافی محمل سرفراز کا کہنا ہے ’ جسٹس وقار سیٹھ کے حکم یا الفاظ پر بحث کرتے ہوئے یہ مت بھولیے کہ مشرف قانون کے مجرم ہیں۔ وہ آئین کو پامال کرنے کے مجرم ہیں۔‘ عفت حسن رضوی کہتی ہیں ’لگتا ہے ڈی چوک پر مشرف کی لاش لٹکانے والا جملہ پورے فیصلے پر بھاری پڑے گا. اب بات صرف آئین شکنی کی سزا سنانے تک نہیں رہی۔ ردِ عمل کا انتظار کیجیے!‘ عمالقہ حیدر کہتی ہیں ’تین دن تک لاش کا ڈی چوک پے لٹکانے کا کہنا صاف ظاہر کرتا کہ جج کو کوئی ذاتی رنجش یا بغض ہے مشرف سے۔‘ زیب النسا برکی کہتی ہیں ’اس فیصلے سے مجھے اس وقت کی یاد آتی ہے جب سیریل کلر جاوید اقبال کا فیصلہ سامنے آیا تھا۔ مجھے پوری طرح تو یاد نہیں ہے لیکن میرے خیال میں وہاں کی ذیلی عدالت نے اس شخص کو کیسے مارا جائے اس بارے میں کچھ انتہائی نوعیت کی ہدایات جاری کی تھیں۔‘
world-52644775
https://www.bbc.com/urdu/world-52644775
کورونا وائرس: وبا کے دنوں میں کس کا کاروبار چمکا اور کون ڈوبا؟
کورونا وائرس کی وبا نے عالمی معیشت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے لیکن اس کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے کچھ کمپنیوں کا کاروبار غیرمتوقع طور پر چمکا بھی ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن خریداری کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا لیکن ان کامیابیوں میں بھی ناکامیوں کا ذائقہ موجود ہے۔ مثال کے طور پر یہ لاک ڈاؤن ای کامرس کے شعبے کے لیے ایک شاندار خبر ثابت ہوا کیونکہ گھروں میں بند لوگ خریداری کے لیے آن لائن ہوئے۔ اس کا فائدہ یقینی طور پر کچھ کمپنیوں کو ہوا لیکن اس شعبے کے بہت بڑے نام ایمازون کے تازہ اعدادوشمار کچھ اور کہانی سنا رہے ہیں۔ دنیا کی امیر ترین شخصیت جیف بیزوس کی یہ کمپنی اپریل کے وسط میں اس وقت شہ سرخیوں میں رہی جب ایک اندازے کے مطابق اس کی ویب سائٹ پر صارفین نے اوسطاً فی سیکنڈ 11 ہزار ڈالر کی خریداری کی۔ یہ بھی پڑھیے کورونا بحران: گوگل، فیس بک، ایپل اور ایمزون کا کاروبار کس طرح چمکا لاک ڈاؤن کے دوران اپنائی گئی عادتیں کیا قائم رہیں گی؟ آن لائن خریداری: ’ریویوز پر کبھی بھروسہ نہ کیا جائے‘ سماجی فاصلوں کا دورانیہ بڑھا تو زندگی کیسے تبدیل ہو گی؟ یہ خبر سامنے آتی ہی ایمازون کے حصص کی قدر آسمان پر پہنچ گئی۔ لیکن دو ہفتے بعد ہی ایمازون کے اکاؤنٹنٹ کچھ اور ہی کہانی سنانے لگے۔ یہ اعلان کیا گیا کہ جب اپریل سے جون کے درمیان کارکردگی کا جائزہ پیش کیا جائے گا تو ممکن ہے کہ پانچ برس میں پہلی مرتبہ کمپنی خسارے میں رہے۔ جنوری سے مارچ کے دوران زیادہ آمدن کے باوجود ایمازون کے اخراجات بھی بڑھے ہیں جیسے کہ اس نے طلب پورا کرنے کے لیے ایک لاکھ 75 ہزار نئے ملازمین کو نوکری دی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ کورونا سے بچاؤ کے لیے حفاظتی ملبوسات کی فراہمی اور کمپنی کے دفاتر اور گوداموں کو جراثیم سے پاک رکھنے کے لیے چھڑکاؤ جیسے اقدامات کی مد میں اس کے اخراجات چار ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ جنوری سے مارچ کے دوران زیادہ آمدن کے باوجود ایمازون کے اخراجات بھی بڑھے ہیں یہ رقم 2019 کی پہلی سہ ماہی میں ایمازون کے منافعے سے زیادہ ہے جو کہ ڈھائی ارب ڈالر تھا۔ ایمازون ایک عرصے سے کمپنی میں ملازمین کی یونینز کو تسلیم کرنے سے گریزاں رہا ہے اور ادارے کے مطابق وہ اپنے ملازمین کے خدشات پر ان سے براہِ راست رابطے کو ترجیح دیتا ہے۔ تاہم کووڈ-19 سے جڑے اخراجات کے اعلان سے قبل ایمازون پر وبا کے دنوں میں اپنے ملازمین کے تحفظ کے معاملے میں تنقید بھی ہوتی رہی ہے۔ سٹریمنگ کی دنیا میں نیٹ فلکس آگے لاک ڈاؤن میں ہوم انٹرٹینمنٹ کی صنعت ایک کامیاب کاروبار کے طور پر ابھری ہے اور گھر پر رہ کر تفریح کا یہ رجحان جو کورونا کی وبا سے پہلے بھی موجود تھا اب مزید کھل کر سامنے آیا ہے۔ سٹریمنگ گذشتہ چند برس کے دوران بہت مقبول ہوئی ہے۔ جہاں دنیا میں سنیما جانے والے افراد کی تعداد گذشتہ دو برس میں 18 فیصد بڑھی وہیں نیٹ فلکس جیسی سٹریمنگ سروس کے صارفین میں 47 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جنوری سے مارچ کے دوران نیٹ فلکس کو 16 ملین نئے صارفین ملے یہ کوئی حیران کن بات نہیں تھی کہ ہوم انٹرٹینمنٹ کا شعبہ لاک ڈاؤن کے دوران پھلا پھولا کیونکہ بہت سے لوگوں کے پاس گھر پر رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ رجحانات کا تجزیہ کرنے والے بلیک مورگن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’اٹلی اور سپین میں مثال کے طور پر پہلی مرتبہ نیٹ فلکس استعمال کرنے والوں کی تعداد میں بالترتیب 57 اور 34 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ان حالات میں لوگ تفریح اور حقیقت سے فرار کی نئی راہیں تلاش کر رہے تھے۔‘ نیٹ فلکس نے 22 اپریل کو اعلان کیا کہ جنوری سے مارچ کے دوران ایک کروڑ 60 لاکھ نئے صارفین نے سروس کا استعمال شروع کیا ہے۔ پیداواری خدشات لیکن اس کہانی کا ایک اور پہلو بھی ہے جو کہ اتنا روشن نہیں۔ لاک ڈاؤن نے زیادہ تر نئی فلموں اور ڈراموں کی تیاری رکوا دی ہے۔ اس کے علاوہ وبا کی وجہ سے کئی ممالک میں کرنسی کی قدر کم ہو رہی ہے سو اس کا مطلب نیٹ فلکس کے عالمی صارفین کی جانب سے دی جانے والی رقم کی قدر میں بھی کمی ہے۔ کورونا کی وبا کی وجہ سے ڈزنی کو دنیا بھر میں اپنے تھیم پارک بند کرنے پڑے انٹرٹینمنٹ کی دنیا کے ایک اور بڑے نام ڈزنی نے اس وبا کے دوران کہاں کچھ فائدہ اٹھایا وہیں انھیں نقصان بھی ہوا۔ کمپنی کو لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد اپنے تھیم پارک بند کرنے پڑے اور کمپنی کے چیف ایگزیکٹو باب چاپک کے مطابق اس فیصلے سے کمپنی کو ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا۔ تاہم اسی دوران ڈزنی کی سٹریمنگ سروس کی مانگ میں بہت اضافہ دیکھا گیا ہے۔ نومبر میں شروع کی جانے والی ڈزنی پلس سٹریمنگ سروس کے اب دنیا میں پانچ کروڑ 50 لاکھ کے قریب صارفین ہیں۔ نیٹ فلکس کو اتنے صارفین تک پہنچنے میں سات برس کا عرصہ لگ گیا تھا۔ لاجسٹکس کے مسائل آپ یقینی طور پر سوچ سکتے ہیں کہ اگر آن لائن خریداری کا رحجان بڑھا تو اس کا نتیجہ سامان کی ترسیل کرنے والی ان کمپنیوں کے لیے بھی بہتر کاروبار کی صورت میں نکلا ہو گا جو یہ سامان آپ کی دہلیز تک لاتی ہیں۔ لیکن حقیقت میں صورتحال خاصی پیچیدہ ہے۔ فیڈ ایکس اور یو پی ایس دنیا میں سامان کی ترسیل کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ہیں امریکہ کی کمپنیاں فیڈرل ایکسپریس یا فیڈ ایکس اور یو پی ایس دنیا میں سامان کی ترسیل کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ہیں۔ انھوں نے اب امریکی حکومت سے مدد مانگی ہے کیونکہ لاک ڈاؤن کے تحت عائد پابندیوں کی وجہ سے انھیں لاجسٹکس کے مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ جہاں عام افراد کی جانب سے آن لائن خریداری میں اضافہ ہوا ہے وہیں اس کاروبار کا زیادہ منافع بخش پہلو یعنی کاروباری اداروں کے مابین سامان کی ترسیل رک سی گئی ہے کیونکہ کاروبار بند ہیں یا محدود سطح پر کام کر رہے ہیں۔ صرف رواں برس میں ہی یو پی ایس کے منافع میں 26 فیصد کی کمی دیکھی گئی ہے۔ فوڈ ڈیلیوری اسی طرح لاک ڈاؤن کھانے کی ترسیل کرنے والے اداروں کے لیے بھی ملے جلے اثرات لایا ہے۔ بہت سے ممالک میں ریستورانوں کو صرف ’ٹیک اوے‘ یا ڈیلیوری کے لیے ہی کھولنے کی اجازت ہے لیکن جہاں لاک ڈاؤن میں آن لائن سودا سلف کی خریداری کا رجحان دیکھا گیا ہے وہیں لوگ پکا پکایا کھانا منگوانے میں دلچسپی لیتے نہیں دکھائی دے رہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یورپ میں کھانے کی ترسیل کرنے والی کمپنیاں جیسے کہ جسٹ ایٹ یا اوبر ایٹس کو صارفین کی تعداد میں کمی کا سامنا ہے۔ سیکس کی طلب ہے لیکن سیکس ورکرز کے لیے بری خبر کولمبیا سے لے کر ڈنمارک تک سیکس ٹوائز کی طلب میں کئی گنا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ ایک بڑا عالمی کاروبار ہے جس کا حجم 2019 میں تقریباً 27 ارب ڈالر تھا۔ دنیا میں جنسی کھلونوں کی صنعت سالانہ 27 ارب ڈالر تک کماتی ہے کووڈ-19 کی وجہ سے جنسی کھلونوں کی صنعت کو تو فائدہ ہوا ہے لیکن سیکس ورکرز کے لیے نہ صرف یہ مالی طور پر گھاٹے کا سودا ثابت ہوا ہے بلکہ ان کی صحت کے بارے میں بھی خدشات بڑھے ہیں۔ بہت سے ممالک میں سیکس ورکرز کو قانونی حقوق حاصل نہیں اور وہ حکومت کے امدادی پروگرام سے فیضیاب ہونے کی حقدار نہیں جس کا نتیجہ غربت حتیٰ کہ وبا کے زمانے میں بےگھر ہونے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ تاہم جاپان ایک ایسا ملک ہے جس نے کورونا کی وبا کے دوران سیکس ورکرز کو مالی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ لاک ڈاؤن میں فٹنس لاک ڈاؤن میں نقل و حرکت اور سفر پر پابندیاں جہاں ورزش گاہوں کے لیے بری خبر بن کر سامنے آئیں وہیں اس صورتحال میں ورزش کے سامان کی فروخت بڑھی ہے۔ مثال کے طور پر آسٹریلیا میں لوگوں نے لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد یوگا میٹ سے لے کر ڈمبلز تک ورزش کے سامان کی خوب خریداری کی۔ ورزش کروانے والے پرسنل ٹرینرز نے بھی اپنا کام جاری رکھنے کے لیے آن لائن ویڈیو کا سہارا لیا ہے اس کے علاوہ اس صورتحال میں ڈیجیٹل فٹنس سیکٹر بھی پھل پھول رہا ہے۔ 2020 میں اب تک سمارٹ واچ کی فروخت میں گذشتہ برس کے مقابلے میں 22 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مشاورتی ادارے سٹریٹجی اینالیکٹس کے تجزیہ کار سٹیون والٹزر کا کہنا ہے کہ ’بہت سے صارفین سمارٹ گھڑیوں کو اپنی صحت اور ورزش کے عمل پر نظر رکھنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘ جہاں تک بات ورزش کروانے والے پرسنل ٹرینرز کی ہے تو انھوں نے بھی اپنا کام جاری رکھنے کے لیے آن لائن ویڈیو کا سہارا لیا ہے۔ لیکن لاک ڈاؤن کے منفی اثرات ایسی کمپنیوں پر پڑے ہیں جو بڑے پیمانے پر جم یا ورزش گاہیں چلاتی تھیں۔ مئی 2020 کے آغاز میں انڈیا کی مقبول کمپنی کلٹ ڈاٹ فٹ نے اعلان کیا کہ وہ اپنے 800 ملازمین کو نکال رہی ہے اور ملک بھر میں اپنی ورزش گاہیں بند بھی کر رہی ہے۔ کمپنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے بقیہ ملازمین کی تنخواہ میں بھی 50 فیصد کمی کر رہی ہے۔ اپریل 2020 میں زوم کی ایپ 13 کروڑ سے زیادہ مرتبہ ڈاؤن لوڈ کی گئی جو کہ گذشتہ برس کے مقابلے میں 60 گنا زیادہ ہے آن لائن رابطے اس صورتحال میں جب کہ دنیا بھر میں کروڑوں افراد اپنے گھروں سے کام کرنے پر مجبور ہوئے ہیں، آن لائن کمیونیکیشن کی مقبولیت آسمان کو چھو رہی ہے۔ ان حالات کا بظاہر سب سے زیادہ فائدہ ویڈیو کانفرسنگ کی سہولت فراہم کرنے والے ادارے زوم کو ہوا ہے۔ تحقیق کرنے والے ادارے سینسر ٹاور کے مطابق صرف اپریل میں زوم کی ایپ 13 کروڑ سے زیادہ مرتبہ ڈاؤن لوڈ کی گئی جو کہ گذشتہ برس کے مقابلے میں 60 گنا زیادہ ہے۔ سینسر ٹاور کے مطابق ان ڈاؤن لوڈز میں سے 18 فیصد انڈیا میں ہوئے جبکہ 14 فیصد کے ساتھ امریکہ دوسرے نمبر پر رہا۔ زوم اب کاروباری اور صحافتی اداروں کے علاوہ عوام کے لیے بھی باہمی رابطے کا چنندہ ذریعہ بن چکا ہے۔ ٹیلی کمیوٹنگ جہاں زیادہ تر افراد زوم کی ایپ کا مفت ورژن استعمال کر رہے ہیں جس میں کال کی مدت اور ایک کال میں شامل افراد کی تعداد کی قید ہوتی ہے، کمپنی ایسے صارفین سے پیسہ کماتی ہے جو اس کی پریمیئم سروس استعمال کرتے ہیں اور 2020 کے ابتدائی تین ماہ میں کمپنی نے ان سے 12 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کمائے جو گذشتہ برس اسی عرصے کے دوران کی آمدن سے دوگنے ہیں۔ ٹیلی کمیوٹنگ کے شعبے میں ایک اور کامیابی ’سلیک‘ تھی۔ اس انسٹنٹ میسیجنگ پلیٹ فارم کا، جسے کاروباری ادارے اندرونی بات چیت کے لیے استعمال کرتے ہیں، کہنا ہے کہ جنوری سے مارچ کے دوران اس کے صارفین میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ سات مئی کو بازارِ حصص میں پے پال کے حصص کی قیمت اپنی بلند ترین سطح پر بھی پہنچ گئی پے پال کے حصص ڈیجیٹل ادائیگیوں کے شعبے میں دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک پے پال بھی کووڈ-19 سے متاثر ہوئی ہے اور 2020 کے ابتدائی تین ماہ میں اس کا منافع کم ہو کر آٹھ کروڑ 40 لاکھ ڈالر رہ گیا جو گذشتہ برس اسی عرصے کے مقابلے میں آٹھ گنا کم ہے۔ لیکن اسی دوران سات مئی کو بازارِ حصص میں پے پال کے حصص کی قیمت اپنی بلند ترین سطح پر بھی پہنچی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ مبصرین کا کہنا ہے کہ جہاں لوگ مالی مشکلات کی وجہ سے کم خریداری کر رہے ہیں وہیں ایسے لوگ بھی ڈیجیٹل ادائیگیوں کا طریقہ اپنا رہے ہیں جو پہلے ایسا نہیں کر رہے تھے اور یہی پے پال میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے امید کی کرن ہے۔ رواں برس جنوری سے مارچ کے دوران پے پال کے پاس ایک کروڑ نئے اکاؤنٹ کھلے اور اس دوران کمپنی نے جس رقم کی ترسیل کی وہ 199 ارب ڈالر تھی جو 2019 کے مقابلے میں 30 ارب ڈالر زیادہ ہے۔ پے پال کے چیف ایگزیکٹو افسر ڈین شلمان نے چھ مئی کو سرمایہ کاروں کی ایک کانفرنس کے شرکا کو بتایا کہ ’ہمارے خیال میں دنیا بھر میں لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ڈیجیٹل ادائیگی کا طریقہ کس قدر آسان اور سادہ ہے۔‘ ان کے مطابق یہ صرف لاک ڈاؤن کے اثرات نہیں بلکہ اب دنیا بھر میں عام لوگ ویسے بھی اس طریقے کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔
080414_hacker_webcode_zs
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2008/04/080414_hacker_webcode_zs
کمزور ویب کوڈ، ہیکرز کا مددگار
انٹرنیٹ سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ویب سائٹس ڈیرائن کرنے والے افراد کی جانب سے پرانی غلطیوں کا دہرایا جانا ویب ہیکرز کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ان سائٹس پر جانے والے افراد کو اپنی سائٹس کی جانب لے جائیں۔
سکیورٹی ماہرین کے مطابق ویب سائٹس کے لیے بنائے جانے والے کوڈ میں موجود کئی ایسے ’لوپ ہول‘ موجود ہیں جن کے بارے میں لوگ قریباًایک عشرے سے جانتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ غلطیاں ان تکنیکی طور پر مضبوط مجرموں کے لیے نعمت ثابت ہو رہی ہیں جو اپنے شکار کی تلاش میں ہیں۔ سکیورٹی فرم سمنٹک کے مطابق اس لحاظ سے ہیکر حملوں کا ممکنہ شکار بننے والی ویب سائٹس کی تعداد سنہ 2007 کے آخری چھ ماہ میں دوگنی ہوگئی ہے۔ سمنٹک کے سکیورٹی آپریشنز کے ڈائریکٹر کیون ہوگن کا کہنا ہے کہ ’بگ‘ سے متاثر ویب کوڈ بہت سی عام ویب سائٹس پر جانے والوں کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے اور’اس سے یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہے کہ اگر آپ جوئے یا عریانیت دکھانے والی ویب سائٹس سے دور رہیں تو آپ محفوظ ہیں‘۔ کیون ہوگن کے مطابق زیادہ سے زیادہ ہیکر اب ایسی ویب سائٹس کی تلاش میں ہیں جننہیں بنانے میں یہ ویب کوڈ استعمال کیے گئے ہیں کیونکہ ایسی سائٹس کو ہیک کرنا آسان ہوتا ہے۔ سیمنٹک کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ویب سائٹس ایڈمنسٹریٹر اس تکنیکی خلاء کو پُر کرنے کے لیے بہتر کام نہیں کر رہے۔
science-44397628
https://www.bbc.com/urdu/science-44397628
اسقاطِ حمل:’جہاں قوانین سخت وہاں گولیوں کی آن لائن تلاش میں اضافہ‘
بی بی سی کو گوگل سرچ کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ گذشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں عالمی سطح پر اسقاط حمل کے لیے گولیوں کی آن لائن تلاش میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔
بی بی سی کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسوپروسٹول نامی گولی ان ممالک میں دس گنا زیادہ آن لائن سرچ کی جاتی ہے ان اعداد و شمار سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جن ممالک میں اسقاط حمل سے متعلق قوانین زیادہ سخت ہیں وہیں اسقاط حمل کی گولیاں زیادہ آن لائن تلاش کی جاتی ہیں۔ ان گولیوں کی آن لائن خریدنے اور واٹس ایپ گروپس کے ذریعے طبی مشاورت کی سہولت کی وجہ سے خواتین بڑی تعداد میں اسقاط حمل پر عائد پابندیوں سے بچنے کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لے رہی ہیں۔ ’اسقاطِ حمل میری زندگی کا سب سے بھیانک خواب تھا‘ یہ ’ڈی آئی وائے ابورشن‘ کا جدید چہرہ ہے۔ بی بی سی کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسوپروسٹول نامی گولی ان ممالک میں دس گنا زیادہ آن لائن سرچ کی جاتی ہے جہاں قوانین سخت ہیں اور صرف خواتین کی جان بچانے کے لیے ہی اسقاط حمل کی اجازت ہے یا اس پر مکمل پابندی ہے، بہ نسبت ان ممالک کے جہاں اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اسقاط حمل کے دو طریقے ہیں، آپریشن کے ذریعے یا ادویات کے ذریعے۔ ادویات کے ذریعے اسقاط حمل عام طور پر مسوپروسٹول اور مائفپروسٹون نامی دو گولیوں کے امتزاج سے کیا جاتا ہے۔ مسوپروسٹول نامی گولی سیٹوٹیک برینڈ کے نام سے بھی دستیاب ہوتی ہیں۔ تاہم برطانیہ جیسے ممالک میں ان گولیوں کو صرف ڈاکٹر کی ہدایت کے بعد ہی حاصل کیا جا سکتا ہے، جبکہ خواتین ان ادویات کے بارے میں ان ممالک میں آن لائن سرچ کرتی ہیں یا انھیں خریدتی ہیں جہاں اسقاط حمل پر پابندی ہوتی ہے اور وہ اس طرح سے قوانین کی خلاف ورزی کر کے خود کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ گوگل کے اعداد و شمار کے مطابق گھانا اور نائجیریا وہ دو ممالک ہیں جہاں سب سے زیادہ مسوپروسٹول کو آن لائن تلاش کیا جاتا ہے۔ گھانا اسقاط حمل کی صرف ریپ، جینی خرابی یا خاتون کی ذہنی صحت کو بچانے کی صورت میں ہی اجازت دیتا ہے۔ تاہم نائجیریا میں اس حوالے قوانین کافی سخت ہیں، وہاں اسقاط حمل کی صرف اسی صورت میں اجازت ہے اگر عورت کی جان خطرے میں ہو۔ جن 25 ممالک میں مسوپروسٹول سب سے زیادہ آن لائن سرچ کی جاتی ہے ان میں سے 11 افریقی ممالک ہیں جبکہ دیگر 14 لاطینی امریکی ملک ہیں۔ زیمبیا اور موزمبیق میں اسقاط حمل پر یا تو مکمل پابندی ہے یا پھر صرف اس صورت میں اجازت ہے اگر حاملہ خاتون کی جان یا صحت کو خطرہ ہو۔ آئرلینڈ میں اسقاط حمل کے لیے گولیوں کا استعمال کرنے پر 14 سال جیل کی سزا ہے، تاہم مئی میں ہونے والے ریفرینڈم میں ووٹرز نے اس قانون کو تبدیل کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ تاؤسیچ (وزیراعظم) لیو ورادکر کو امید ہے کہ اس سال کے آخر تک نئے قوانین لاگو ہو جائیں گے۔ بی بی سی نے حال میں برازیل میں کام کرنے والے اس واٹس ایپ گروپ کے بارے میں رپورٹ کیا جو خواتین کو ایسی گولیاں حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے اور ساتھ میں طبی مشورے بھی فراہم کرتا ہے۔ جولیانہ جو کے ان کا فرضی نام ہے ان خواتین میں سے ایک ہیں جنھوں نے اس واٹس گروپ کی مدد حاصل کی۔ 28 سالہ جولیانہ کا کہنا ہے کہ ’میں نے اس طریقہ کار کو تنہا گھر پر شروع کیا اور واٹس ایپ گروپ کو اس کے شروع کرنے کے وقت کے بارے میں آگاہ کیا۔‘ ’مجھے جو چیز پسند آئی وہ یہ کہ کیسے اس گروپ میں دیگر خواتین ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں، معلومات کا تبادلہ کرتی ہیں اور اس بارے میں شکوک اور خطرات پر بات کرتی ہیں۔ اس سے مجھے بھی کافی قوت ملی۔‘ ’یہ جان کر آپ کو ہمیشہ اچھا محسوس ہوتا ہے کہ آپ تنہا نہیں ہیں۔ یہ گروپ میرے لیے کافی اہم تھا، اس لحاظ سے کہ میں محفوظ محسوس کروں۔‘ گوگل کے اعداد و شمار کے تجزیے سے صرف یہ ہی نہیں معلوم ہوتا کہ کن ممالک میں سب سے زیادہ تلاش کی جا رہی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کتنی بار اس موضوع کے بارے میں کیا لکھ کر تلاش کیا گیا۔ بی بی سی نے جن ممالک کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے ان میں اسقاط حمل کے لیے سب سے زیادہ جو جملہ لکھ کر تلاش کی گئی وہ تھا ’ابورشن پلز‘۔ دو تہائی سے ممالک سے زائد میں سب سے عام سوال جو لکھ کر پوچھا گیا وہ تھا ’اسقاط حمل کیسے کیا جائے۔‘ اسقاط حمل کے بارے میں جو معلومات زیادہ سرچ کی گئی ان میں: ’مسوپروسٹول کیسے استعمال کی جائے، مسوپروسٹول کی قیمت، مسوپروسٹول کی خرید اور مسوپروسٹول کی تعداد‘ شامل ہیں۔ جن ممالک میں اسقاط حمل سے متعلق قوانین زیادہ سخت ہیں وہیں اسقاط حمل کی گولیوں کے بارے میں زیادہ سرچ کیا جاتا ہے اسقاط حمل کی گولیوں کے ساتھ ساتھ خواتین سرچ انجن کے ذریعے خود اسقاط حمل کرنے کے متابادل طریقہ کار بھی تلاش کر رہی ہیں۔ ان طریقہ کار میں جڑی بوٹیاں جیسے کے اجوائن، دار چینی، وٹامن سی، ایسپرین اور ابورشن چائے، جیسی اشیا تلاش کے نتائج میں سامنے آئی ہیں۔ ان میں ممالک میں سے نصف میں اسقاط حمل کے لیے تلاش میں جو سب سے زیادہ لکھا گیا وہ تھا ’اسقاط حمل کے گھریلو طریقۂ کار کیا ہیں۔‘ ایک تحقیق میں سب صحارا افریقہ میں اسقاط حمل کے لیے چائے کے استعمال کے بارے میں جاننے کی کوشش کی گئی، جس سے معلوم ہوا کہ بعض پودے رحم پر اثر انداز ہوتے ہیں، اس علاقائی طریقہ کار کے نقصانات بھی ہیں۔ حفاظتی معلومات کے ساتھ ساتھ تحقیق میں یہ بھی پتا چلا کہ اس عمل کو سرانجام دینے والوں کے لیے اس کی خوراک پر قابو رکھنا مشکل ہوتا ہے اور اس کے نقصانات بھی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے اوپر بیان کیے جانے والے ’گھریلوں طریقہ کاروں‘ میں سے کسی کو بھی محفوظ نہیں قرار دیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 25 ملین غیر محفوظ اسقاط حمل ہوتے ہیں۔ ان 25 ملین اسقاط حمل کو مزید لیٹیگریوں میں ڈالا گیا ہے۔ مسوپروسٹول کو عام طور پر اس صورت میں اسقاط حمل کا محفوظ طریقہ کار قرار دیا گیا اگر اسے کسی طبی ماہر کی نگرانی میں استعمال کیا جائے، لیکن اگر اسے غیر تربیت یافتہ شخص استعمال کرے تو اس کے شدید خطرات بھی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر اسے غیر تربیت یافتہ شخص کی نگرانی میں استعمال کیا جائے تو یہ ’کم محفوظ‘ ہوتی ہے۔ میری سٹوپس انٹرنیشنل میں عالمی میڈیکل ڈائریکٹر دھمیکا پریرا کا کہنا ہے کہ ’اگر اس دوا کی کوالٹی ٹھیک ہے اور اسے صحیح طریقے سے استعمال بھی کیا جائے تو بھی نقصان کا ڈر ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’جب خواتین اسے آن لائن خریدتی ہیں یا انھیں کسی غیر تربیت یافتہ شخص کی جانب سے مہیا کی جاتی ہیں تو اس سے ناکام اسقاط حمل کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔‘ اگر کچھ غلط ہو جاتا ہے تو بہت کم ایسی خواتین اسقاط حمل کے بعد کسی طبی امداد کے لیے جاتی ہیں۔ دھمیکا پریرا کا کہنا ہے کہ ’بدنامی، خرچ، علاقائی رسائی وہ چیزیں جن کی وجہ سے خواتین ہچکچاتی ہیں اور اس طرح وہ خود کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔‘ ’عالمی سطح پر کچھ اقدامات اٹھائے گئے ہیں، جیسے کہ امریکہ میں، لیکن میں اب بھی پرامید ہوں۔‘ حال ہی میں بی بی سی کو آرزو کے بارے میں معلوم ہوا، جو قانون کی طالب علم ہیں اور ایران میں رہتی ہیں۔ وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ تھیں جب انھیں معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہیں، وہ دونوں پانچ سال سے ایک ساتھ ہیں اور ماضی میں مانع حمل ادویات استمعال کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا: ’میں نے جو بھی گائناکالوجسٹ کا کلینک دیکھا میں وہاں چلی گئی۔‘ ’جب ڈاکٹروں نے میرا چیک اپ کیا اور انھیں یہ معلوم ہوا کہ میں شادی شدہ نہیں ہوں لیکن مجھے اسقاط حمل کروانا ہے تو وہ مجھے اسی وقت انکار کر دیتے۔‘ پھر انھوں نے جعلی کاغذات بنوائے جس پر لکھا تھا کہ ان کی طلاق ہو چکی ہے، اس طرح انھوں نے ایک ڈاکٹر کو مدد کے لیے قائل کر لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر نے مجھ سے آٹھ گولیوں کے لیے بہت زیادہ پیسے بھی لیے لیکن ان ادویات کا کوئی اثر بھی نہیں ہوا۔‘ آرزو نے اس کے بعد انٹرنیٹ کا رخ کیا اور وہاں انھیں ایک ایسا امدادی ادارہ ملا جو ان ممالک میں خواتین کو اسقاط حمل کی گولیاں بھیجتا ہے جہاں اس پابندی ہے۔ وہیں سے انھیں مدد اور ہدایات ملیں۔ آخرکار جو گولیاں انھوں نے ڈاکٹر سے لی تھیں اس نے کام تو کیا لیکن اسقاط حمل مکمل نہ ہوا۔ ایک ہفتے بعد آرزو اپنی بہن کے ہمراہ نجی ہسپتال گئیں۔ ’میں جھوٹ بولا، میں نے ان سے کہا کہ میرے شوہر فرانس میں ہیں اور میرے کاغذات سیف میں کہیں پڑے ہیں، اور مجھے محفوظ اسقاط حمل کروانا ہے۔‘ ہسپتال والے ایسا کرنے پر رضامند نہیں تھے اور نہ ہی انھیں ہسپتال میں داخل کرنا چاہتے تھے۔ آرزو کے مطابق یہ ایک مجعزہ ہی تھا کہ آخرکار انھوں نے ان کا یقین کر لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جھوٹ بولنے اور کہانیاں بنانے کے بعد مجھے آخرکار داخل کر لیا گیا اور 30 منٹ بعد سکشن کا عمل مکمل ہو گیا۔ یہ میری زندگی کا سب سے برا لمحہ تھا۔‘ تمام اسقاط حمل میں سے تقریباً 14 فیصد ’کم محفوظ‘ ہوتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ انھیں غیر تربیت یافتہ افراد سے خطرناک طریقہ کار کے تحت کروایا جاتا ہے۔ انفیکشن اور نامکمل اسقاط حمل جیسی پیچیدگیاں ایسے طریقہ کاروں کی وجہ سے اپھرتی ہیں۔ جب کوئی اسقاط حمل نامکمل ہوتا ہے تو طبی ماہرین یا تو مزید ادویات کا مشورہ دیتے ہیں یا پھر آپریشن کا کہتے ہیں، اس کا انحصار صورتحال پر ہوتا ہے۔ گٹمیچر انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق کم از کم 22800 خواتین ہر سال غیرمحفوظ اسقاط حمل کی پیچیدگیوں کی وجہ سے مر جاتی ہیں۔ تمام سرچ ڈیٹا جس کا استعمال کیا گیا ہے وہ گذشتہ پانچ سالوں کا ہے اور گوگل ٹرینڈز سے حاصل کیا گیا ہے، جو سرچ کی صحیح تعداد مہیا نہیں کرتا، لیکن 0-100 کے درمیان کسی موضوع پر سرچ کے بارے میں بتاتا ہے، کسی بھی موضوع، وقت اور علاقے کے حوالے سے سرچ کے نتائج میں 100 بلند ترین ہے۔ مختلف زبانوں یا ادویات کے مختلف ناموں سے سرچ (مثال کے طور پر۔ ’ابورشن پلز‘، ’مسوپروسٹول‘ یا ’سیٹوٹیک‘) اس ڈیٹا میں شامل ہیں۔ مجموعی ٹرینڈز کے لیے ہم نے عالمی سرچ ڈیٹا کا جائزہ لیا، اور 14 ممالک کو تفصیل سے دیکھا: گھانا، نائجیریا، ہونڈروس، بولیویا، ایکواڈور، نکراگوا، کینیا، میکسیکو، امریکہ، کولمبیا، برازیل، ارجنٹینا، انڈیا اور آئرلینڈ۔ ہر ملک میں اسقاط حمل کے قوانین کا ڈیٹا سینٹر فار ریپروڈکٹیو رائٹس سے حاصل کیا گیا۔
050726_eye_blink
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2005/07/050726_eye_blink
آنکھ جھپکنے سے دماغ بند
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آنکھ جھپکتے وقت دماغ کے کچھ حِصے کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کا تعلق یونیورسٹی کالج لندن سے ہے۔
کرنٹ بیالوجی(Current Biology) میں لکھتے ہوئے ان سائنسدانوں نے کہا ہے کہ آنکھ میں روشنی داخل ہونے کی صورت میں بھی پلک جھپکنے پر دماغ کے حصے کام بند کر دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق واضح کرتی ہے کہ انسان پلک جھپکنے کو کبھی اس طرح محسوس نہیں کرتا کہ اسے دیکھنے میں وقفہ محسوس ہو۔ آنک جپھکنے کے وقت نہ تو روشنی ہوتی ہے اور نہ ہی کچھ دکھائی دیتا ہے لیکن ہمیں اندھیرے کا احساس نہیں ہوتا۔ سائنسدان معلوم کرنا چاہتے تھے کہ انسان بار بار آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جانے سے پریشان کیوں نہیں ہوتا۔
050325_hanif_test_as
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/03/050325_hanif_test_as
حنیف محمد کی خواہش
پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر لٹل ماسٹر حنیف محمد پاکستان اور بھارت کے درمیان بنگلور ٹیسٹ دیکھنے کے لئے چناسوامی اسٹیڈیم میں موجود ہیں لیکن وہ اپنے آبائی شہر جوناگڑھ نہیں جاسکیں گے۔
حنیف محمد پاکستان کی اس اولین ٹیسٹ ٹیم میں شامل تھے جس نے53 -1952 میں بھارت کا دورہ کیا تھا۔61-1960 میں وہ دوبارہ بھارت کے دورے پر آئےتھے۔ حنیف محمد کہتے ہیں کہ جب بھی بھارت آنا ہوا عجب خوشی محسوس ہوئی، پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی اور پرانی یادیں پھر سے تازہ ہوئیں۔ بنگلور ٹیسٹ کے دوران بھی ان یادوں کو تازہ کرنے کا موقع ملے گا لیکن ان کی خواہش تھی کہ وہ اس شہر کو دوبارہ جاکر دیکھیں جہاں وہ پیدا ہوئے تھے لیکن ویزا نہ ہونے کی وجہ سے وہ جوناگڑھ نہیں جاسکیں گے جس کا انہیں افسوس ہے تاہم انہوں نے فون پر اپنے پرانے دوستوں سے بات کی ہے۔ حنیف محمد نے بھارت پہنچ کر اس لڑکے کے بھائی کو کولکتہ فون کرکے بات کی جو کینسر میں مبتلا ہے اور جس نے انہیں خط لکھ کر ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔حنیف محمد بنگلور ٹیسٹ میں انضمام الحق اور یونس خان کی شاندار بیٹنگ سے بہت خوش دکھائی دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ایسی اننگز روز روز دیکھنے کو نہیں ملتیں۔
world-54243671
https://www.bbc.com/urdu/world-54243671
برطانیہ میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ خطرے کا درجہ چار ہو گیا لیکن کیا کورونا وائرس کے ساتھ رہنے کا وقت آ گیا ہے؟
برطانیہ میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب خطرے کے درجہ کو تین سے بڑھا کر چار کر دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ وائرس انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے۔
چوتھے درجے کا مطلب ہے کے سماجی دوری کی اصول اپنایا جائے۔ جس کے بعد پانچواں درجہ آنے کی صورت میں پھر سے لاک ڈاؤن نافذ کر دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے برطانیہ میں حکومت کے سب سے بڑے سائنسی مشیر نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت کوئی مزید اقدامات نہیں کرتی تو اکتوبر کے وسط تک کورونا وائرس کے نئے مریضوں کی تعداد پچاس ہزار یومیہ تک پہنچ سکتی ہے۔ چیف سائنٹیفِک ایڈوائزر، سر پیٹرک والیس کے بقول اگر ایسا ہوتا ہے تو وسط اکتوبر کے ایک ماہ بعد برطانیہ میں اموات کی تعداد دو سو یومیہ تک ہو سکتی ہے۔ بورس جانسن کا کورونا کی دوسری لہر سے نمٹنے کے لیے نئی پابندیاں لگانے پر غور کورونا: اسرائیل میں تین ہفتے کا لاک ڈاؤن، فرانس میں یومیہ دس ہزار سے زیادہ متاثرین افریقہ میں کورونا کی وبا کے کم پھیلاؤ کا راز کیا ہے؟ بند کمروں میں کورونا وائرس سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ کورونا وائرس: 12 سال سے زیادہ عمر کے بچے ماسک پہنیں، عالمی ادارہ صحت کا پیغام حکومتی مشیر کی یہ تنبیہ ایک ایسے وقت آئی ہے جب وزیر اعظم بورس جانسن نے منگل 22 ستمبر کو ہنگامی صورت حال کی کمیٹی "کوبرا' کا ااجلاس بلا رکھا ہے۔ توقع ہے کہ وزیر اعظم اس اجلاس کے بعد پارلیمان میں ملک میں کورونا وائرس کی نئی لہر کے حوالے سے بیان دیں گے۔ یاد رہے کہ اتوار کو ملک بھر میں 3899 افراد میں کورونا کی تصدیق ہوئی اور 18 اموات ہوئیں۔ سر پیٹرک کا کہنا تھا کہ جو اعداد و شمار وہ پیش کر رہے ہیں وہ کوئی پیشنگوئی نہیں ہے، بلکہ ان کے بقول ’ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت وبا میں ہر ہفتے دو گنا اضافہ ہو رہا ہے۔‘ ’اور اگر، صورت حال یوں ہی رہی، یعنی ہر سات دن میں تعداد دوگنی ہوتی رہی، تو اکتوبر میں نئے مریضوں کی تعداد کم و بیش پچاس ہزار یومیہ ہو جائے گی۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں جس چیلنج کا سامنا ہے، وہ یہ ہے کہ وبا میں ہر سات دنوں میں دو گنا اضافہ نہ ہو۔ اس کے لیے تیزی دکھانے کی ضرورت ہے، اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس تعداد کو کم کیا جا سکے۔‘ حکومتی مشیر کے علاوہ برطانیہ میں ہمیں یہ بار بار بتایا جا رہا ہے کہ اس وائرس پر قابو پانا ضروری ہے۔ لیکن جب لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ انہیں کورونا وائرس لگ چکا ہے، تو ایسے میں آپ اس پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟ کئی لوگوں میں اس کی علامات ظاہر ہی نہیں ہوتیں۔ جب برطانیہ میں کورونا کی پہلی لہر آئی تھی تو پوری قوم جہاں تھی، وہیں رک گئی۔ اس سے معیشت، تعلیم اور صحت عامہ کے شعبوں میں ملک کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی اور اب جبکہ نئے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے خدشہ ہے کہ ملک بھر میں نئی پابندیاں لگا دی جائیں گی۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا کہ کہ کہیں ہم ایک ایسی جنگ تو نہیں لڑ رہے جو ہم پہلے ہی ہار چکے ہیں؟ کیا اس کی بجائے ہمیں اس وائرس کے ساتھ رہنا نہیں سیکھ لینا چاہیے؟ ’مکمل افراتفری' کا منظر آکسفورڈ یونیورسٹی کے مرکز، سیٹر فار ایویڈینس بیسڈ میڈیسن، سے منسلک پروفیسر کارل ہینیگن کہتے ہیں کہ موجودہ صورت حال ’مکمل افراتفری' کی عکاسی کرتی ہے جہاں مسلسل نئی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اور ایک بچے کا ٹیسٹ مثبت آنے پر سکول پوری پوری جماعت کو گھر بھیج رہے ہیں اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب نئے مریضوں میں کورونا وائرس کی تشخیص کی شرح بہت کم ہے۔ پروفیسر ہینیگن کے بقول یہ سب ان کوششوں کا نتیجہ ہے جن کا مقصد اس وائرس کو دبانا ہے۔ لیکن ان کا موقف ہے کہ ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ یہ وائرس جائے گا نہیں، اس لیے ہمیں وائرس سے درپیش خطرناک کو کم کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں خطرات اور بچاؤ کے اقدامات کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پروفیسر ہینیگن کو خاص طور پر خدشہ ہے کہ کووِڈ 19 کا ٹیسٹ جسم میں اس وائرس کو بھی پکڑ لیتا ہے جو عملی طور پر مر چکا ہوتا ہے، یعنی اگر کسی شخص میں دوسروں کو وائرس لگانے کی صلاحیت کے ختم ہو جانے کے مہینوں بعد بھی ٹیسٹ مثبت آتا ہے، تو اس سے ہمیں کیا مطلب نکانا چاہیے۔ اس حوالے سے ’ہمیں چاہیے کہ اپنی سوچ میں تحمل پیدا کریں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جیسا ہی نئے کیسز کی تعداد میں اضافہ دکھائی دیتا ہے، حکومت پریشان ہو جاتی ہے۔‘ اصل چیز ہسپتالوں میں داخلہ ہے نہ کہ ’نئے مریض‘ پروفیسر ہینیگن اور کئی دوسرے ماہرین کا موقف ہے کہ ہمیں زیادہ اہمیت مرض کو دینی چاہیے نہ کہ نئے مریضوں کی تعداد کو۔ اگرچہ برطانیہ میں ہپستالوں میں کووِڈ کے نئے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے، لیکن موسم بہار کے مقابلے میں یہ تعداد انتہائی کم ہے اور موجودہ اضافہ پہلے کی نسبت آہستہ آہستہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ، ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ہر سال ان مہینوں میں ہسپتالوں میں سانس کی بیماریوں کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے اور بدقسمتی سے اموات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور ہر سال خزاں اور موسم سرما میں اس قسم کے وائرس زیادہ پھیلتے ہیں۔ کچھ سال زیادہ برے ثابت ہوتے ہیں، مثلاً 2017 اور 2018 کے درمیانی مہینوں میں سال کے باقی دنوں کی نسبت پچاس ہزار زیادہ اضافی اموات ریکارڈ کی گئیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُس سال سردی بھی زیادہ پڑی تھی، زکام کے وائرس کی زیادہ خطرناک قسم دیکھنے میں آئی تھی اور اس کے خلاف ویکیسن مؤثر ثابت نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ ماہر عمرانیات اور حکومت کے مشیر، پروفیسر رابرٹ ڈنگوال کے بقول ہو سکتا ہے کہ اب عوام پریشان ہونے کی بجائے اس چیز کو قبول کر چکے ہوں کہ آئندہ ہزاروں لوگ کووِڈ سے اسی طرح مر جائیں گے جیسے وہ ہر سال فلو یا نزلہ زکام سے مر جاتے ہیں۔ پروفیسر رابرٹ ڈنگوال کا خیال ہے کہ یہ صرف صحت عامہ سے منسلک چند عناصر اور ملک کے کچھ سائنسی رہنما ہیں جنہیں کووڈ کی شرح نیچے لانے کی فکر ہے اور یہ لوگ سیاستدانوں پر تنقید کر رہے ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ سیاستدان ’اتنے بہادر‘ نہیں کہ وہ عوام کو ایمانداری سے بتائیں کہ اگر ویکسین بن بھی جاتی ہے تب بھی یہ وائرس ہمیشہ موجود رہے گا۔ حالات پر نظر نہ رکھنے سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ اگر آپ کی تمام توجہ ہپستالوں میں مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر ہو گی تو آپ اصل میں وقت سے پیچھے چل رہے ہوں گے کیونکہ ہپستال میں مریض ایک دو ہفتے بیمار پڑ جانے کے بعد پہنچتے ہیں، یعنی انفیکشن ایک دو ہفتے پہلے ہوچکی ہوتی ہے۔ یوں اگر ہپستالوں میں داخل ہونے والوں کی تعداد ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو ہمیں پہلے سے زیادہ سخت اقدامات کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ یونیورسٹی کالج لندن کی پروفیسر کرسٹینا پگل کہتی ہیں کہ ایک اور مسئلہ ’طویل یا لانگ کووِڈ‘ کا ہے، یعنی ایسے مریض انفیکشن ختم ہو جانے کے مہنیوں بعد بھی مشکل کا شکار رہتے ہیں۔ پروفیسر کرسٹینا پگل کے خیال میں وائرس کو یوں ہی پھیلنے کی اجازت دے دینا ’غیر ذمہ دارانہ‘ حرکت ہو گی کیونکہ ابھی اس وائرس کو منظر عام پر آئے ایک ہی سال ہوا اور ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ کتنے عرصے تک مریض میں اس کے اثرات موجود رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا مزید کہنا کہ اگر نوجوانوں میں انفیشکن کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے تو اس بات کو ممکن بنانا مشکل ہو جائے گا کہ یہ مرض ان لوگوں تک نہ پھیلے جن کو وائرس سے خطرہ زیادہ ہے۔ ایڈنبرا یونیورسٹی سے منسلک متعدی امراض کے ماہر پروفیسر مارک وولہاؤس بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں، لیکن ان کا موقف ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ کووڈ کے نقصانات اور اس پر قابو پانے کی کوششوں کے اثرات کے درمیان ایک محتاط توازن قائم رکھنے کی کوشش کرے۔ ان کے بقول اب اس بات کا ثبوت بڑھتا جا رہا ہے کہ اگر بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو خود مرض کی نسبت اس پر قابو پانے کے زیادہ برے اثرات سامنے آ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اموات کی کل تعداد بہت زیادہ ہے، کیونکہ اب تک کووڈ سے منسلک چالیس ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ سب سے زیادہ اموات عمر رسیدہ افراد میں دیکھی گئی ہیں، اور مرنے والوں کی اوسط عمر 80 سال رہی ہے۔ اگر آپ اسے ملک کی آبادی اور لوگوں کی عمر کے حوالے سے دیکھیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ گذشتہ چند برسوں کی نسبت 2020 بلاشبہ ایک ایسا سال رہا ہے جس میں ایسی اموات ہوئیں جن کا موازنہ دیگر برسوں سے نہیں کیا جا سکتا۔ ان کو کیسے بچایا جائے جن کو زیادہ خطرہ ہے؟ پروفیسر وولہاؤس کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن سے مسئلہ محض مؤخر ہو گیا تھا۔ اس سے ہم نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، تاہم اب ہم وقت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور یہ سوچ سکتے ہیں کہ ان لوگوں کو کیسے محفوظ رکھا جائےجنہیں وائرس سے زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں عمر رسیدہ افراد کے مراکز میں زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کرنے چاہیں تا کہ وائرس ان مراکز میں نہ داخل ہو سکے۔ یاد رہے کہ اب تک ہونے والی ہر دس اموات میں سے چار عمر رسیدہ افراد کے مراکز میں ہوئی ہیں۔ اپنے گھروں میں رہنے والے عمر رسیدہ افراد کے حوالے سے بھی اسی قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ پرفیسر وولہاؤس کہتے ہیں کہ ہمیں ’بھروسے کی زنجیر‘ کی ضرورت ہے جہاں ہم ایسے افراد سے ملنے میں احتیاط کا مظاہرہ کریں جنہیں خطرہ زیادہ ہے۔ ان کے بقول اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کسی مصروف مقام پر گئے تھے اور آپ کو خدشہ ہے کہ آپ کو وائرس لگ گیا ہو گا، تو آپ کو اپنے عمر رسیدہ عزیزوں سے نہ ملیں۔ یہ بھی قدرتی بات ہے کہ جن لوگوں کو وائرس سے خطرہ زیادہ ہے، وہ بھی باقی لوگوں کی نسبت زیادہ احتیاط کریں گے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو فروری مارچ میں نہیں کی جا رہی تھی، اور جب تک وائرس پھیل نہیں گیا، لوگوں کو احساس نہیں ہوا۔ کئی ماہرین صحت کا خیال ہے کہ پچاس سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے، تاہم احتیاطی تدابیر اور اصل خطرے کے درمیان توازن قائم رہنا چاہیے۔ اگرچہ خطرہ پچاس برس کی عمر سے شروع ہو جاتا ہے لیکن اس عمر میں خطرہ زیادہ نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے بعد جوں جوں آپ کی عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے خطرہ اسی قدر زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ باقی امراض کی نسبت کووڈ میں یہ رجحان غیر معمولی ہے۔ شاید اسے سمجھنے کا آسان طریقہ یہ ہوگا کہ اس وائرس سے ہونی والی انفیکشن سے موت کا خطرہ کسی بھی دوسرے مرض یا زخم سے موت کے خطرے کے مقابلے میں عمر میں ایک برس اضافے سے دوگنا ہو جاتا ہے۔ یعنی کسی شخص کی عمر جتنی زیادہ ہو گی اور اس کی صحت جتنی زیادہ خراب ہو گی، اس وائرس سے خطرہ اسی قدر زیادہ ہو جائے گا۔ ایک اور بات جو ہمیں ذہن میں رکھنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ اب ڈاکٹر اس مرض سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کا علاج بہتر کر سکتے ہیں۔ مثلاً دو قسم کی ایسی جان بچانے والی ادویات (سٹیرائڈز) دریافت ہو چکے ہیں جن سے لوگوں کو کووڈ سے مرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اب ڈاکٹروں کو معلوم ہو چکا ہے کہ وائرس جسم میں کام کیسے کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہپستال کا عملہ کووڈ سے خون جم جانے اور گردوں کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان کا بہتر تدارک کر سکتا ہے۔ ان چیزوں کو مد نطر رکھیں تو لگتا ہے کہ اس مرتبہ اموات اتنی نہیں ہوں گی جتنی پہلی لہر کے دوران ہوئی تھیں۔ ہرڈ امیونٹی یا اجتماعی مدافعت؟ اگر ہم یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ وائرس ختم نہیں ہوگا، تو ہمیں اس متازع اصطلاح پر بھی بات کرنی پڑی گی جسے اجتماعی مدافعت کہا گیا تھا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین بن جائے گی، لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا ہوگا؟ یا یہ کہ اگر اس ویکسین سے عمر رسیدہ افراد میں مضبوط مدافعت نہیں پیدا ہوتی تو پھر کیا ہوگا؟ ایسی صورت میں آپ کو اس چیز پر انحصار کرنا پڑے گا کہ نوجوان افراد کی اتنی تعداد کو ویکسین دی جائے کہ کہ اس سے ملک میں اجتماعی مدافعت پیدا ہو جائے۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ایسی مدافعت کے لیے ایسی ویکسین پر بھروسہ کر سکتے ہیں جو ایک ایسے وائرس کے خلاف اتنی جلدی میں تیار کی جا رہی ہے جو ہو سکتا ہے ہمارے جسم پر اتنی بری طرح اثر انداز نہ ہوتا ہوں جتنا ہم سمجھ رہے ہیں؟ مدافعت پیدا ہونے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ وائرس لگنے دیا جائے۔ کورونا وائرس کی دیگر اقسام کی طرح، تمام شواہد بتاتے ہیں کہ کووڈ سے بھی آپ کے جسم میں مدافعت پیدا ہو جاتی ہے، لیکن پھر وہ کم پڑ جاتی ہے، اور اس کے بعد آپ کو پھر انفیشکن ہو جاتی ہے مگر آپ زیادہ بیمار نہیں ہوتے۔ اس بات سے لگتا ہے کہ آنے والے برسوں میں امکان یہی ہے کہ ہر سال موسم سرما میں کورونا وائرس سے ہمارا پالا پڑے گا، اسی طرح جیسے فلو سے پڑتا ہے۔ تاہم ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ایک نیا وائرس ہے اور سائنسدان مسلسل اسے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سائسدانوں کو اس کام میں برسوں، بلکہ عشرے لگ سکتے ہیں۔ تاہم کئی دوسرے لوگ زیادہ پُر امید ہیں۔ مثلاً آکسفورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر سنیترا گپتا کے خیال میں ہو سکتا ہے کہ قدرتی مدافعت اور پچھلے عرصے میں وائرس کے اتنے زیادہ پھیلنے کے نتیجے میں کافی مدافعت پیدا ہو چکی ہو۔ ان کے بقول یہ چیز شاید ابھی کورونا کے ٹیسٹ میں سامنے نہ آ رہی ہو کیونکہ اس وائرس کے حوالے سے یقین سے کہنا مشکل ہے کہ کسی شخص میں اینٹی باڈیز کی مقدار سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسے واقعی کورونا ہو چکا ہے یا نہیں۔ پروفیسر سنیترا گپتا کہتی ہیں کہ اگر ہم موسم سرما کے دوران جوان اور صحت مند لوگوں کو کورونا وائرس لگنے دیتے ہیں تو آنے والے برسوں میں ہمیں فائدہ ہوگا۔ ’ہم نے ماضی میں بھی وائرس کا مقابلہ ہمیشہ اسی طرح کیا ہے؟ اس مرتبہ مختلف بات کیا ہے؟ اگر ہم آئے روز پابندیاں اور لاک ڈاؤن لگاتے رہتے ہیں اور ویکسین کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں، تو سب سے زیادہ نقصان نوجوانوں کو ہوگا، خاص طور پر زیادہ غریب علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو۔ ہم ایسا نہیں کر سکتے، یہ تو ناانصافی ہو گی۔‘
070507_turkish_cisis_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/05/070507_turkish_cisis_fz
صدر کےانتخاب میں تبدیلی کی تجویز
ترکی میں پارلیمان نے ابتدائی طور پر اس آئینی ترمیم کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت ملک کے صدر کا انتخاب پارلیمان کی بجائے براہ راست عوامی ووٹوں سے کرایا جائے گا۔
ترکی کے موجود آئین کے تحت صدر کا انتخاب پارلیمان کے ارکان کے ووٹوں سے کیا جاتا ہے۔ صدارتی انتخابات میں تبدیلی کی تجویز حکومتی جماعت کی طرف سے اس کے نامزد کردہ امیدوار عبداللہ گل کو پارلیمان سے منتخب کرانے میں ناکامی کے بعد پیش کی گئی ہے۔ حکمران جماعت کی طرف سے نامزد کردہ امیدوار عبداللہ گل صدر کے انتخابات کے لیے پارلیمان سے مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ عبداللہ گل پر حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ ان کا مخفی مذہبی ایجنڈہ ہے۔ تاہم عبداللہ گل اس کی تردید کرتے ہیں۔ صدر کے براہ راست انتخاب کرانے کی تجویز پر ابھی پارلیمان میں ایک جتمی ووٹ ہونا باقی ہے اور اس پر عوامی رائے لینے کے لیے رفیفرنڈم بھی کرایا جاسکتا ہے جس کے بعد اسے صدر احمد نجدت سیزر کے سامنے باقاعدہ منطوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
140313_modi_tea_party_zs
https://www.bbc.com/urdu/regional/2014/03/140313_modi_tea_party_zs
دہلی میں نریندر مودی کی ’ٹی پارٹی‘
بھارت میں انتخابی مہم ہمیشہ سے رنگین اور پرجوش مناظر کا مجموعہ ہوتی ہیں اور بہت سے لوگوں کے خیال میں اسے جمہوریت کا نچوڑ سمجھا جا سکتا ہے۔ سنہ 2014 کے انتخابات کے لیے کئی سیاست دان اپنے ووٹروں سے رابطے کے لیے انوکھے طریقے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ بی بی سی کے سنجوئے مجومدار نے ایسے ہی ایک امیدوار اور بی جے پی کے رہنما نریندر مودی کی مہم کا جائزہ لیا۔
بھارت کے الیکشن کمیشن نے بھی اس مہم کا نوٹس لیتے ہوئے مودی سے کہا ہے کہ وہ آئندہ ایسی ’ٹی پارٹی‘ سے قبل کمیشن سے اجازت لیں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں زور باغ اور لودھی کالونی کے درمیان واقع یہ بازار شہر کے دیگر عام بازاروں جیسا ہی ہے اور انھی کی طرح یہاں ایک چائے کی دکان بھی ہے جہاں محلے دار گرم گرم چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے ملکی سیاست پر زور شور سے تبصرے کرتے ہیں۔ لیکن اس شام سوہن لال کی چائے کی دکان پر ماحول ذرا مختلف تھا۔ مقامی لوگ معمول کے مطابق یہاں چائے پینے تو جمع ہوئے لیکن ان کی آنکھیں ان دو ٹی وی سکرینوں پر جمی تھیں جن پر اپوزیشن کی جماعت بی جے پی کے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کی تقریر دکھائی جا رہی تھی۔ یہی نہیں بی جے پی کے رضاکار چائے پینے والوں کو ایسے کپ پکڑا رہے تھے جن پر مودی کی تصویر چھاپی گئی تھی۔ یہ شاید آپ کو اتنی غیرمعمولی بات نہ لگے لیکن یہ عمل بھارت بھر میں ایک ساتھ ایک ہزار چائے خانوں پر سرانجام دیا گیا۔ یہ نریندر مودی کی ’چائے پر چرچا‘ یعنی چائے پر بحث نامی مہم ہے اور اس دوران اپنے پیغام میں وہ نہ صرف بھارت کے بارے میں اپنے منصوبوں سے عوام کو آگاہ کرتے ہیں بلکہ عوام کے سوالات کے جواب بھی دیتے ہیں۔ اس دن مودی وسطی دہلی میں بی جے پی کے مرکزی دفتر میں موجود تھے اور ویڈیو لنک کی مدد سے لوگوں کے سوالات سن رہے تھے اور ان پر اپنا ردعمل ظاہر کر رہے تھے۔ اس ’ویڈیو لنک چیٹ‘ کے دوران تکنیکی مسائل بھی درپیش ہوئے جیسا کہ حیدرآباد میں کنکشن ہی منقطع ہوگیا لیکن مجموعی طور پر یہ مہم کامیاب رہی۔ اسے ایک چونکانے یا توجہ حاصل کرنے والا شعبدہ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن عوامی توجہ حاصل کرنے کی یہ کوشش یقیناً کامیاب قرار دی جا سکتی ہے۔ چائے خانے میں موجود ایک بزرگ کا کہنا تھا کہ ’اکثر سیاستدان اپنا پیغام عوام تک نہیں پہنچا پاتے اور ووٹروں کے پاس ان سے براہِ راست رابطے کا کوئی طریقہ بھی نہیں ہوتا۔ یہ نیا طریقہ یقیناً کام کرے گا۔‘ ایک راہ گیر خاتون کا کہنا تھا کہ ’میں تو بس یہاں سے گزر رہی تھی، مجھے لگا کہ یہاں کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ اس لیے میں نے یہاں آنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے آج تک چائے کی ایسی دعوت نہیں دیکھی۔‘ سوہن لال کی دکان میں موجود زیادہ تر افراد پہلے ہی مودی کے حامی ہیں لیکن اس مہم کے رضاکار چائے کی یہ دعوت ایسے علاقوں میں بھی دینے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں سیاسی طور پر بی جے پی کی گرفت مضبوط نہیں۔ ’چائے پر چرچا‘ کی ایک دلچسپ بات اس کا نریندر مودی کے ماضی سے تعلق ہے۔ مودی کے والد بھی ایک چائے خانے کے مالک تھے جہاں مودی نے بھی کام کیا اور وہ اب اپنے اس ماضی کے سہارے اپنا مستقبل سنوارنے کی کوشش میں ہیں۔ اور یہ کوشش کامیاب ہوتی دکھائی دیتی ہے کیونکہ اس مہم کے بارے میں عوام بات کر رہی ہے۔ صرف عوام ہی نہیں بھارت کے الیکشن کمیشن نے بھی اس مہم کا نوٹس لیتے ہوئے مودی سے کہا ہے کہ وہ آئندہ ایسی ’ٹی پارٹی‘ سے قبل کمیشن سے اجازت لیں۔ الیکشن کمیشن اس بات کا جائزہ بھی لے رہا ہے کہ آیا ووٹروں کو مفت چائے پلانا انھیں رشوت دینے کے زمرے میں تو نہیں آتا۔ سوال یہ ہے کہ مودی کی یہ ’ٹی پارٹی‘ کتنی موثر ثابت ہوگی؟ سوہن لال کے چائے خانے کے قریب مجھے ان کا ایک ناقد ملا۔ ’یہ ایک بڑا تماشا ہے جس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہاں سب بی جے پی کے حامی ہیں اور باقی لوگ چائے کے ایک کپ پر اپنی رائے نہیں بدلیں گے۔‘
051110_hasanraza_sen
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/11/051110_hasanraza_sen
تاریخ پیدائش صحیح ہے: رضا
حسن رضا نے آج سے نو سال قبل پاکستان کے دور ے پر آئی ہوئی زمبابوے کی ٹیم کے خلاف فیصل آباد میں ٹیسٹ کیپ حاصل کی تو وہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں کیپ حاصل کرنے والے سب سے کم عمر کرکٹر تھے اسوقت ان کی عمر14 سال227 دن تھی اسطرح انہوں نے اپنے ہی ہم وطن مشتاق محمد کے ریکارڈ کو توڑا تھا جو اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلتے وقت15 سال124 دن کے تھے۔
ستم ظریفی کہ حسن رضا کا یہ عالمی ریکارڈ آج تک شک وشبے کی تہہ میں دبا ہوا ہے۔ کرکٹ کی بائبل وزڈن میں اس ریکارڈ کا اندراج ضرور ہوا ہے لیکن ان کلمات کے ساتھ کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس کی صحت پر شک ہے۔ حسن رضا کے اس عالمی ریکارڈ کے بارے میں دنیائے کرکٹ شک و شبے میں مبتلا پاکستان کرکٹ بورڈ کے اسوقت کے ایک اعلی افسر کے ایک اخباری بیان کی وجہ سے ہوئی تھی جن کا یہ خیال تھا کہ پاکستانی کرکٹرز عام طور پر اپنی عمر چھپاتے ہیں۔ عام طور پر کسی بھی شخص کی تاریخ پیدائش کی تصدیق پیدائشی سرٹیفیکیٹ سے ہوتی ہے اور پھر میٹرک سرٹیفیکیٹ میں درج تاریخ پیدائش ہی کو تسلیم کیا جاتا ہے یہ پاکستان میں عام اور مروجہ بات ہے۔ حسن رضا کی تاریخ پیدائش11 مارچ 1982ء ہے جو ان کے پرائمری اور سیکنڈری سکول کے رجسٹر پر درج ہے۔ اس بار ے میں نعمان بدر کا تبصرہ بہت دلچسپ ہے کہ ’سکول میں داخلہ کراتے وقت حسن رضا کے والد کو کیسے پتہ ہوسکتا تھا کہ ان کا بیٹا آگے چل کر ٹیسٹ کرکٹ کھیلے گا لہذا عمر کم کرکے بتائی جائے‘۔ نعمان بدر کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس ضمن میں وزڈن کو حسن رضا کی تمام دستاویزات بھیجی تھیں لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی لیکن وہ دوبارہ تمام ریکارڈ وزڈن کو بھیجیں گے۔ حسن رضا کا کہنا ہے کہ جب دوسرے تمام کرکٹرز کی تاریخ پیدائش کو میٹرک یا پیدائشی سرٹیفیکیٹ کے مطابق تسلیم کیا جاتا ہے تو پھر ان کے ریکارڈ کو کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا؟ وہ اپنے عالمی ریکارڈ کو شک و شبے سے آزاد کرنے کے سلسلے میں پاکستان کرکٹ بورڈ پر نگاہیں جمائے ہوئے ہیں اور انہیں توقع ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی کوششوں سے کرکٹ کی ریکارڈ بک میں ان کا یہ ریکارڈ کسی سوالیہ نشان کے بغیر جلد نظر آئے گا۔
031031_lahore_bar_as
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2003/10/031031_lahore_bar_as
لاہور ہائی کورٹ میں ہنگامہ آرائی
جمعہ کے روز لاہور ہائی کورٹ کے احاطہ میں چیف جسٹس افتخار چودھری کے بھتیجے چودھری فواد اور سابق وفاقی وزیر قانون خالد رانجھا کی قیادت میں وکلاء کے ایک گروہ نے چیف جسٹس کے خلاف لگائے گئے احتجاجی کیمپ کو اکھاڑ پھینکا ، احتجاجی بینرز کو آگ لگا دی اور بار کے صدر کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کرنے کا دعوی کیا۔
آج صبح ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جنرل باڈی کا اجلاس کیانی ہال میں منعقد ہوا جس میں ایک وکیل عقیل اسماعیل کے قتل اور مسلم لیگ(ن) کے قائم مقام صدر جاوید ہاشمی کی گرفتاری کی مذمت کی گئی۔ اجلاس ختم ہونے پر ساڑھے دس بجے چیف جسٹس افتخار چودھری کے بھتیجے چودھری فواد ایڈوکیٹ اور سابق وزیر قانون خالد رانجھا ، لاء آفیسروں اور ان کے حامی پچیس تیس وکلاء نے ہنگامی اجلاس منعقد کیا جسے انہوں نے بار ایسوسی ایشن کے جنرل ہاؤس کا اجلاس قرار دیا۔ چیف جسٹس کے بھتیجے وکیل فواد چودھری نے بی بی سی کو بتایا کہ اس اجلاس میں ایک وکیل عبدالواحد چودھری نے بار کے صدر حافظ عبدالرحمان انصاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جس کی تجویز وکیل آفتاب باجوہ نے دی اور وکیل ایس ایم شاد نے اس کی تائید کی۔ اس گروہ کے اجلاس نے بار کے صدر عبدالرحمان انصاری کو ان کے عہدے سے الگ کرنے کا اعلان کیا۔ چیف جسٹس کے حامی گروہ نے بار کے نائب صدر ایم ایم عالم کو بار کا نیا صدر تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد چیف جسٹس کے حامی وکلاء کے گروہ نے وکلاء کے دفاتر گراۓ جانے کے خلاف لگایا گیا بار ایسو سی ایشن کا احتجاجی کیمپ اکھاڑ دیا اور احتجاجی بینرز کو اتار کر آگ لگا دی۔ تاہم کچھ دیر بعد مخالف گروہ نے یہ کیمپ دوبارہ لگا لیا اور نئے بینرز لگا دیے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری مزمل اختر کے جاری کردہ ایک پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے بھتیجے فواد چودھری نے آج غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کی انتظامیہ نے پنجاب کے وکلاء کی ہڑتال سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ معاملے کو سلجھانے کے بجائے اوچھے ہتکنڈے استعمال کررہی ہے۔ بار کے سیکرٹری نے کہا کہ بار اور بینچ میں کوئی تنازعہ نہیں البتہ بار اور بینچ کے چیف کے درمیان تنازعہ ہے اور پچھلے آٹھ ماہ میں چیف جسٹس نے محاذ آرائی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ دوسری طرف سپریم کورٹ بار کونسل کی مجلس عاملہ کے چئیرمین کاظم خان نے بی بی سی کو کہا کہ خالد رانجھا نے آج جو کچھ کیا وہ قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کے بھتجے کے کہنے سے اور دس لاء آفیسروں کے اکٹھے ہوکر تحریک عدم اعتماد منظور نہیں ہوا کرتی اور بار کے صدر حافظ عبدالرحمان انصاری ہیں۔ کاظم خان نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد منظورکروانے کے قواعد اور طریق کار ہیں جن کو پورا کیا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد کا پہلے سے نوٹس دیا جاتا ہے اور اس طریح اچانک ہنگامی طور پر عدم اعتماد کی تحریک منظور نہیں ہوا کرتی۔ انہوں نے کہا کہ بار کے سات ہزار ارکان کی دو تہائی اکثریت تحریک عدم اعتماد میں حصہ لے تو تحریک منظور ہوتی ہے جبکہ آج ایسا نہیں کیا گیا۔ آج کے واقعات سے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری اور عدالت عالیہ کے بار ایسوسی ایشن کے درمیان لیگل فریم ورک آرڈر اور دیگر معاملات پر اختلافات دونوں کے درمیان محاذ آرائی کی صورت اختیار کرگئے ہیں۔ دو روز پہلے لاہور ہائی کورٹ بار کے مطالبہ پر صوبہ بھر میں وکلاء نے چیف جسٹس کے رویہ کے خلاف عدالتی کام کا بائیکاٹ کیا تھا اور لاہور بار ایسوسی ایشن نے چیف جسٹس افتخار چودھری کو ان کے عہدے سے ہٹانے کامطالبہ کیا تھا۔ جمعرات کو ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے بار ایسوسی ایشن کی بجلی، پانی اور گیس کی فراہمی تین دن بعد ختم کرنے کا نوٹس دیا تھا اور بار کو اپنے بل ادا کرنے کا کہا تھا۔ تاہم آج سابق وزیر قانون خالد رانجھا کے بار کے موجودہ صدر کے خلاف کھل کر آنے کے بعد بار میں حکومت کے حامی اور مخالف گروہوں کی لڑائی تیز ہوگئی ہے اور لاہور ہائی کورٹ بار میں مستقل ہنگامہ آرائی کی راہ کھل گئی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن جنرل پرویز مشرف کے لیگل فریم ورک آرڈر کے خلاف ملک بھر کے وکلاء کی تحریک میں پیش پیش رہی ہے اور چیف جسٹس افتخار چودھری ایل ایف او کو آئین کا حصہ قرار دے چکے ہیں جو دونوں فریقوں کے درمیان اختلافات کی بڑی وجہ ہے۔
pakistan-56218424
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56218424
بالاکوٹ حملے اور 'سرپرائز ڈے' کو انڈیا اور پاکستان نے رائے عامہ کی تبدیلی کے لیے کیسے استعمال کیا؟
'اگر میں پاکستانی افواج کے شعبہ تعلقات عامہ پر بھروسہ کروں جو میں کرتی ہوں تو پاکستان نے انڈیا کے دو طیارے گرائے تھے۔۔۔‘، ’26 فروری 2019 کو انڈیا کے حملے کے نتیجے میں پاکستان میں 300 افراد ہلاک ہوئے تھے۔۔۔۔‘
یہ دعوے، آج سے دو برس قبل انڈین فضائیہ کی جانب سے پاکستان کے شمالی علاقے بالاکوٹ میں شدت پسند تنظیم کے کیمپ کو نشانہ بنانے کے دعوے اور پاکستانی فضائیہ کے طیاروں کی جوابی کارروائی کے بعد پاکستان اور انڈیا کی سرحد کے دونوں اطراف موجود نوجوانوں کے ہیں۔ پاکستان کے شہر راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی مہا قیوم کا دعویٰ ہے کہ '14 فروری 2019 کو ہونے والے پلوامہ حملے کے پیچھے بھی مودی حکومت کا ہاتھ تھا۔‘ جبکہ دوسری جانب انڈیا کے شہر لکھنؤ سے تعلق رکھنے والی رتوجا تیواری کہتی ہیں کہ ’وہ 300 لوگ افسوسناک طور پر مارے گئے لیکن پاکستان نے ایک دہشتگرد حملہ کیا تھا، تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔‘ پاکستانی نوجوان مہا قیوم کا دعویٰ ہے کہ ’14 فروری 2019 کو ہونے والے پلوامہ حملے کے پیچھے بھی مودی حکومت کا ہاتھ تھا‘ یہ بھی پڑھیے بالاکوٹ میں انڈین طیارے پاکستانی طیاروں سے کیسے بچے؟ ’292 شدت پسندوں کی ہلاکت‘ کی حقیقت کیا ہے؟ ’سوچا بادلوں میں پاکستان کو طیارے دکھائی نہیں دیں گے‘ بالاکوٹ فضائی حملہ: وہ سوال جن کے جواب نہیں مل سکے لکھنؤ سے تعلق رکھنے والی رتوجا تیواری کہتی ہیں کہ 'وہ 300 لوگ افسوسناک طور پر مارے گئے لیکن پاکستان نے ایک دہشتگرد حملہ کیا تھا، تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا' انڈیا کے شہر فرید آباد سے تعلق رکھنے والی مونیکا ورما بھی اس دعوے سے اتفاق کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ 'سب کو پتا ہے کہ انڈیا میں ایسی حرکتیں اور اپنے دہشتگرد عزائم کو پورا کرنے میں کس ملک کو سب سے زیادہ مزا آتا ہے اور فائدہ ملتا ہے۔' مونیکا کے مطابق انھیں اندازہ تھا کہ 'پلوامہ حملے کے بعد پاکستان کو ’سزا‘ دی جائے گی اور وہ بالاکوٹ کی صورت میں دی گئی۔‘ ادھر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے یاسر منیر کا اب بھی یہی خیال ہے کہ ’پاکستان نے انڈیا کے دو طیارے مار گرائے تھے جن میں سے ایک کا ملبہ انڈیا کی جانب گرا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس سے ہمیں یہ احساس ہوا کہ ہماری افواج ہماری حفاظت کے لیے ہر وقت موجود ہیں۔‘ واضح رہے کہ انڈین حکومت کی جانب سے پاکستان پر حملے کے دوران تین سو افراد کی ہلاکت اور پاکستان کی جانب سے دوسرا طیارہ مار گرانے کے دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔ دو برس قبل، 26 اور 27 فروری کے روز انڈیا اور پاکستان میں جہاں افواہوں اور جھوٹی خبروں کا بازار گرم تھا، وہیں دونوں ریاستوں کی جانب سے متضاد بیانات دیے جا رہے تھے اور دونوں ممالک میں مختلف بیانیوں کو تقویت مل رہی تھی۔ آج دو برس بعد بھی سرحد کے دونوں اطراف نوجوان اس دوران دونوں ریاستوں کی جانب سے کیے گئے ایسے دعوؤں پر یقین رکھتے ہیں جن میں سے بیشتر غیر مصدقہ ہیں تاہم دونوں ممالک کی سیاسی قیادت آج بھی جنگ سے متعلق بیانیوں کو بیچتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کا ثبوت گذشتہ دو روز کے دوران دونوں اطراف سے کی جانے والی ٹویٹس سے ملتا ہے۔ انڈیا کے رکنِ پارلیمان اور حکمراں جماعت بی جے پی کے منوج کوتک نے ٹویٹ کیا کہ '26 فروری کو علی الصبح انڈین ایئر فورس نے نریندر مودی جی کی گھر میں گھس کر ماریں گے پالیسی کے مطابق اچھا سلوک کیا۔ ہمیں اپنی جانباز افواج پر فخر ہے۔' آج پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے ایک ٹویٹ میں کہا کہ 'پاکستان کے خلاف فضائی حملےکی شکل میں انڈیا کی عسکری مہم جوئی پرہماری جوابی کارروائی کو 2 برس مکمل ہونے پرمیں قوم کو مبارکباد اور اپنی افواج کو سلام پیش کرتا ہوں۔' آج سے دو برس قبل 26 اور 27 فروری کے دوران جب حالات خاصے کشیدہ تھے اور سرحد کے دنوں جانب ایک جنگی ماحول پیدا ہو چکا تھا ایسے میں دونوں ملکوں نے رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لیے ایسا کیا کیا اور اس ساری صورتحال سے انھیں کیا فائدہ حاصل ہوا؟ اس حوالے سے ہم نے پاکستان میں متعدد اخبارات کے مدیر کی حیثیت سے کام کرنے والے صحافی بدر عالم اور انڈیا میں ٹی ایف آئی پوسٹ پورٹل کی نوجوان مدیر شوبھانگی شرما سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ دونوں ریاستوں میں 26 اور 27 فروری کے بعد سے بیانیے کیسے تبدیل ہوئے۔ پاکستان اور انڈیا میں موجود بیانیوں سے کس کو فائدہ ہوا؟ بدر عالم کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے حالیہ دنوں میں ارنب گوسوامی کی واٹس ایپ پر بات چیت لیک ہونے اور عدالتی کمیشن سے انڈیا کی حد تک تو یہ واضح ہے کہ وہاں حکومت پلوامہ حملے کے بعد یہ چاہتی تھی کہ رائے عامہ کو اس طرح موڑا جائے کہ انھیں آنے والے انتخابات میں اس کا فائدہ ہو۔ خیال رہے کہ گذشتہ ماہ انڈین اینکر ارنب گوسوامی اور بھارتی براڈ کاسٹ آڈیئنس ریسرچ کونسل (بی اے آر سی) کے سابق سربراہ کی 2019 میں بالاکوٹ حملے سے پہلے کی واٹس ایپ پر بات چیت منظر عام پر آئی تھی، جس میں وہ مبینہ طور پر 'معمول سے بڑی کارروائی' کا ذکر کر رہے ہیں اور اس واقعے کی کوریج سے اپنے چینل کی ریٹینگ بڑھانے کی بات کرتے ہیں۔ بدر عالم کا مزید کہنا تھا کہ 'لوگوں کو صحیح معلومات تک رسائی نہ ہونے کا فائدہ نریندر مودی کی جماعت نے اٹھایا اور ان کی جانب سے بالاکوٹ حملے کو الیکشن مہم کا اہم حصہ بنایا گیا جس سے انھیں دوبارہ اقتدار میں آنے میں مدد ملی۔' بدر عالم کا کہنا تھا کہ 'دوسری جانب پاکستان میں اس بیانیے کو تقویت دی گئی کہ ہماری افواج ناقابلِ تسخیر ہیں اور ہمارا دفاع بہت مضبوط ہاتھوں میں ہے۔' انھوں نے کہ لیکن دونوں جانب حکومتوں نے کوئی تحقیقاتی کمیشن بٹھانے کی کوشش نہیں کی کہ ایسا کیا ہوا کہ ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات اس نہج تک پہنچ گئے۔ اس موقع کو غور و خوض کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت تھی تاکہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔ انھوں نے کہا کہ 'اس سے نہ صرف حکومتوں کے درمیان تعلقات خراب ہوئے بلکہ دونوں ملکوں کے عوام میں بھی ایک دوسرے کے بارے میں منفی خیالات پیدا ہوئے۔' ’انڈیا اب گھر میں گھس کر مار سکتا ہے‘ ادھر ٹی ایف آئی پوسٹ پورٹل کی نوجوان مدیر شوبھانگی شرما کا کہنا تھا کہ '26 فروری کی کارروائی نے بہت بڑی تبدیلی لوگوں کی اس سوچ میں لائی ہے کہ انڈیا 'اب گھر میں بھی گھس کر مار سکتا ہے' اور پاکستان اب 'ایٹمی طاقت' ہونے کی دھمکی نہیں دے سکتا۔' ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں یہ پیغام گیا کہ انڈیا اب پاکستان کی دہشت گردی کی سرگرمیوں کو اور زیادہ برداشت نہیں کر سکتا۔ انھوں نے کہا کہ ' انڈین حکومت کی اس کارروائی نے پورا بیانیہ تبدیل کر دیا ہے اور اب پاکستان یہ دھمکی نہیں دے سکتا کہ وہ ایک ایٹمی طاقت ہے اور ہم اس سے ڈریں کیونکہ اب بات کافی بدل چکی ہے۔' ہم نے اس حوالے سے پاکستان اور انڈیا کے نوجوانوں کے تاثرات پر مبنی ویڈیوز پاکستان میں موجود میڈیا کے حقوق و آزادی کے لیے کام کرنے والی تنظیم میڈیا میٹرز کی شریک بانی صدف خان کو دکھائیں۔ انھوں نے پاکستان میں موجود نوجوانوں کی باتوں سے غیریقینی صورتحال میں معلومات کے کسی معتبر ذریعے کی عدم موجودگی اور انڈیا کے نوجوانوں کی باتوں سے پاکستان کو پلوامہ حملے کے عوض 'سزا' دینے اور انڈیا میں عوام میں موجود 'غصے' کی جھلک نظر آنے کے بارے میں بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ 'انڈیا میں بغیر تحقیقات کے پلوامہ حملے کے حوالے سے پاکستان پر الزام عائد کرنے کے باعث وہاں بظاہر خاصہ دباؤ پیدا ہوگیا جو انڈیا کی جانب سے غیرذمہ داری کا ثبوت تھا اور ریاستی پروپیگینڈا کے باعث اکثر سچ کی کھوج کے حوالے سے کوئی نہیں سوچتا۔' انھوں نے کہا کہ 'دوسری جانب پاکستانی نوجوانوں کی غیر یقینی اور سوشل میڈیا کا رخ کرنا ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہاں صحیح معلومات تک عدم رسائی کا مسئلہ ہے۔' تو پھر سچ کی تلاش کیسے کی جائے؟ اس حوالے صدف خان کہتی ہیں کہ یہاں ہمیں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی ہو گی کہ دونوں ملکوں میں نقطہ نظر مختلف ہو سکتا ہے لیکن ہماری نسل کے پاس معلومات تک رسائی پھر بھی اس سے زیادہ ہے جو ہم سے پچھلی نسلوں کے پاس تھی، اور اس کی کھوج کے لیے ہمیں تھوڑی سی محنت کی ضرورت ہے۔ بدر عالم کا کہنا تھا کہ 'جب انڈیا نے یہ دعویٰ کیا کہ بالاکوٹ میں انھوں نے سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا ہے، تو بین الاقوامی اداروں کی جانب سے مختلف طریقوں سے اس بات کی تردید کی گئی۔' انھوں نے کہا کہ اچھی صحافت اسی بات کا نام ہے کہ آپ سچ کی کھوج کے لیے تحقیق کریں اور اس کی پرتوں کو ہٹا کر سچ کی تلاش کریں جس کے ذریعے آپ پرواپیگینڈا کو شکست دینے کے ساتھ صحیح معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
151212_saudi_syira_influnece_sq
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/12/151212_saudi_syira_influnece_sq
شام میں امن، سعودی دباؤ کتنا کارآمد؟
خود کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کی انتہائی ظالمانہ کارروائیوں کے طفیل جمعرات کی رات شامی حزب اختلاف اور باغی گروہوں کی جانب سے بشارالاسد کی حکومت کے ساتھ مذاکرات پر رضامندی کے بعد لگتا ہے کہ شام کے بحران کے حل کی راہ میں حائل پہلی بڑی رکاوٹ کسی قدر دور ہو گئی ہے۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ شام میں ساڑھے چار سال سے جاری جنگ کا واحد حل مذاکرات ہی ہیں لیکن دوسرے ہی دن شامی بحران کے تصفیے کے عمل میں اس وقت رخنہ پڑ گیا جب صدر اسد نے ان ’دہشتگردوں‘ سے بات کرنے سے انکار کر دیا جو بقول ان کے خود کو ایک سیاسی تنظیم کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہونے والی کانفرنس ایسے کئی ناقدین کی توقعات سے بہت بہتر ثابت ہوئی جن کا خیال تھا کہ شام میں برسرِ پیکار مختلف متحارب گروہوں کے باہمی اختلافات کی وجہ سے اس کانفرنس کا ستیاناس ہو جائے گا۔ ناقدین کے یہ خدشات بے بنیاد نہیں تھے کیونکہ ماضی میں یہ متحارب گروہ شام کے بحران کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں میں حصہ لینے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ اس کانفرنس کے وقت بھی متحارب گروہوں کے اختلافات اپنی جگہ پر قائم رہے، لیکن ریاض میں ان اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے مندوبین شام کے لیے ایک ایسے مستقبل پر رضامند ہو گئے جو کثیرالتہذیبی اور جمہوری روایات کا حامل ہو گا اور اس میں تمام فریقوں کو شامل کیا جائے گا۔ یہ بات کانفرنس میں موجود انتہا پسند گروہوں کے لیے کسی بڑی خفت سے کم نہیں تھی۔ ان نام نہاد اسلام پسند گروہوں میں سے ایک، ’احرارالشام‘ کا کہنا تھا کہ وہ اس کانفرنس سے باہر نکل جائے گا کیونکہ حتمی اعلامیہ ’ہمارے اسلامی تشخص پر زور دینے میں ناکام رہا ہے۔‘ لیکن بعد کی اطلاعات میں معلوم ہوا کہ اس گروہ نے اپنے موقف پر دوبارہ غور کیا اور اپنے ’تحفظات‘ کے باوجود اعلامیے پر دستخط کر دیے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس گروہ کے موقف میں یہ تبدیلی سعودی دباؤ کی وجہ سے آئی ہے کیونکہ سعودی عرب ہی اس گروہ کی پشت پناہی اور مدد کرتا آیا ہے۔ اسد مخالف گروہ اپنے اس مطالبے سے دستبردار ہو گئے ہیں کہ مذاکرات کے لیے صدر اسد کا اقتدار چھوڑنا ضروری ہے یہ واقع ظاہر کرتا ہے کہ شام میں تصفیے کے سلسلے میں سعودی عرب کس قدر اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ سعودی عرب یہ سب کچھ امریکہ کی بھرپور رضامندی اور حمایت کے بغیر نہیں کر سکتا۔ کانفرنس میں ایک ’اعلیٰ درجے کی مذاکراتی اتھارٹی‘ قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا جو شامی حکومت کے ساتھ اگلے سال بات چیت کے لیے باغی گروہوں اور حزب اختلاف کی رہنمائی کرے گی اور شامی حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے مذاکراتی ٹیم کا انتخاب بھی کرے گی۔ متحارب گروہوں کو قیادت فراہم کرنے والی یہ اتھارٹی ریاض میں مقیم رہے گی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اتھارٹی مکمل اور مستقل طور پر سعودی عرب کے زیر اثر رہے گی۔ ’دو حل‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب شام کے تنازعے کے حل کی کوششوں میں اپنی اتنی کھلم کھلا وابستگی کی قیمت کیا چاہتا ہے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ سعودی عرب، قطر اور ترکی ہی ہیں جو شامی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں۔ شاید سعودی عرب اپنے اس کردار کی قیمت بشارالاسد اور ان کے قریبی حلقے کے افراد کی موت اور ان ’علامات اور میناروں‘ کی تباہی کی شکل میں چاہتا ہے جن پر بشارالاسد کا اقتدار کھڑا ہے۔ یہاں تک کہ جب ریاض کانفرس جاری تھی، عین اس وقت بھی سعودی وزیرِ خارجہ عادل الجبیر نے اپنے ملک کے اس موقف پر اصرار کیا کہ ’اسد کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ بہتر اور فوری حل تو یہی ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے اقتدار سے الگ ہو جائیں ورنہ انھیں طاقت کے استعمال سے اقتدار سے باہر کر دیا جائے۔‘ لیکن ریاض کانفرنس میں سعودی عرب نے اپنے موقف میں قدرے نرمی کا مظاہرہ کیا اور اپنے اس دیرینہ مطالبے پر اصرار نہیں کیا کہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی ’اسد اینڈ کمپنی‘ کو چاہیے کہ وہ اقتدار سے الگ ہو جائیں۔ اس نرمی کے باوجود کانفرنس کے حتمی اعلامیے میں یہ بات دُہرائی گئی ہے کہ شام کے مستقبل میں اسد اور ان کے قریبی ساتھیوں کا کوئی کرادر نہیں ہونا چاہیے اور اسد اور ان کے ساتھیوں کے لیے ضروری ہے کہ دیگر ممالک کی جانب سے طے کیے جانے والے اقتدار کی منتقلی کے عمل کے شروع ہونے سے پہلے اقتدار چھوڑ دیں۔ اطلاعات کے مطابق احرارلشام وہ آخری طاقتور گروہ تھا جو مذاکرات پر رضامند نہیں ہو رہا تھا لگتا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی اپنی اس شرط سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر سعودی عرب نے ہر قیمت پر اسد کو ہٹانے کے منصوبے پر جو اتنی زیادہ سرمایہ کاری کی ہے اس کی کوئی تُک نہیں تھی۔ لیکن سعودی عرب نے شام کے مستقبل کا جو نقشہ اپنے ذہن میں بنا رکھا ہے اسے ریاض کانفرنس کے فورً بعد بشارالاسد نے اٹھا کر باہر پھینک دیا ہے۔ جس طرح اس بات کا تصور نہیں کیا جا سکتا کہ سعودی عرب کیونکر پیچھے ہٹے گا، اسی طرح اس بات کا تصور کرنا بھی محال ہے کہ روسی اور ایرانی بھی اپنے موقف سے کیسے پیچھے ہٹیں گے کیونکہ وہ بھی شام میں اپنی حکمت عملی کی کامیابی کے لیے سعودی عرب سے زیادہ سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ روس اور سعودی عرب جانتے ہیں کہ اگر شام میں ایک جمہوری حکومت قائم ہو جاتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہاں اقتدار سُنی اکثریت کے ہاتھ میں چلا جائے گا، بالکل اسی طرح جیسے عراق میں جمہوریت کے بعد اقتدار شیعہ اکثریت کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔ ریاض کانفرنس میں ہونے والی بظاہر مفاہمت کا اظہار شامی حزب اختلاف اور باغیوں کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے اس فقرے سے ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں شامی ریاست کے مستقبل کی بنیاد ’اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کے اصول‘ کو گلے لگانے میں ہے۔ شاید اس فقرے میں پوشیدہ خفیہ پیغام اس ’نرم تقسیم‘ کی جانب اشارہ کرتا ہے جو کچھ لوگوں کے خیال میں شام کے مستقبل کا واحد قابلِ عمل فارمولا ہے۔ اس فارمولے کا مطلب یہ ہے کہ وہ علاقے جو شام میں برسرِپیکار متحارب گروہوں نے اپنے قبضے میں کیے ہوئے ہیں وہاں انھی گروہوں کا اختیار قائم رہے گا اور وہ ایک بڑی فیڈریشن کے حصے بن جائیں گے۔ ان گروہوں میں دولتِ اسلامیہ کے علاوہ تمام فریق شامل ہوں گے، اور یہ تمام گروہ مل کر دولتِ اسلامیہ کا خاتمہ کر دیں گے۔ یہ ایک ایسا فارمولا ہے جس کے تحت مختلف متحارب گروہ اور ان کے پیروکار اپنا اپنا ’اسلامی تشخص‘ برقرار رکھیں گے اور اس میں ان کُردوں کی ایک الگ شناخت بھی قائم رہے گی جن کو ابھی تک شام کے مستقبل کے نقشے پر جگہ نہیں دی گئی تھی۔ کُرد چاہتے ہیں کہ ایک ’متحدہ شام کے اندر ان کے علاقے کا انتظام‘ ان کے حوالے کر دیا جائے۔ مغرب کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ روس انھیں نشانہ بنا رہا ہے مغربی ممالک کا خیال ہے کہ اگر حالیہ فضائی حملے اور زمین پر موجود کُرد اور دیگر معتدل جنگجو کامیاب نہیں ہوتے تو یہ فارمولا وہ واحد حقیقی حمکت عملی ہو سکتی ہے جس پر عمل کرتے ہوئے دولتِ اسلامیہ کا خاتمہ ممکن ہے۔ لیکن اگر اس فارمولے پر سب رضامند ہو جاتے ہیں، تب بھی لگتا ہے کہ سعودی اور ان کے اتحادی اس بات پر زور دیتے رہیں گے شام میں تنازع اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا ہے جب تک صدر اسد اور ان کے قریبی لوگوں کو اقتدار سے الگ نہیں کر دیا جاتا اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو شام میں مختلف فریقوں کے درمیان تناؤ برقرار رہے گا۔ کیا یہ حل ماسکو اور تہران کو قابل قبول ہو گا؟ آیا یہ دونوں ممالک اس بات کے متحمل ہو سکتے ہیں کہ وہ آنے والے برسوں میں شام میں پیسہ لگاتے رہیں اور وہاں ان کا اثر و رسوخ قائم نہ ہو سکے؟ اس قسم کے بڑے سوالات کی اہمیت اپنی جگہ قائم ہے، لیکن لگتا ہے کہ شام کے حوالے سے جنوری میں متوقع مذاکرات سے پہلے بہت زیادہ لے دے ہوتی رہے گی اور ہر فریق اپنا زور استعمال کرتا رہے گا۔ اگرچہ ریاض کانفرنس کے اعلامیے پر روس اور ایران نے کھل کر تبصرہ نہیں کیا ہے، تاہم انھوں نے دوسرے فریق کے موقف میں ایک واضح تضاد کی نشاندہی ضرور کی ہے۔ روس اور ایران کا کہنا ہے کہ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ احرارالشام اور اس جیسے دیگر گروہ النصرہ فرنٹ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں جبکہ النصرہ فرنٹ القاعدہ کی ساتھی تنظیم ہے جس کے نظریات وہی ہیں جو دولتِ اسلامیہ کے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ النصرہ فرنٹ ان سرگرمیوں میں ملوث نہ ہو جو دولتِ اسلامیہ کا شیوہ ہیں اور النصرہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑ بھی رہی ہو، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بین الاقوامی برادری النصرہ فرنٹ کو ایک دہشتگرد تنظیم قرار دیتی ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ شام میں دہشتگرد کون ہے اور وہ ’معتدل‘ جنگجو کون ہیں جنھیں شام میں قیام امن کے عمل میں شامل کیا جانا چاہیے؟ روس اور ایران کے برعکس صدر اسد نے یہ کہنے میں بالکل دیر نہیں لگائی کہ ریاض کانفرنس کے تمام شرکا دراصل دہشتگرد یا بیرونی طاقتوں کے گماشتے ہیں اور وہ ان میں کسی کے ساتھ بھی بات نہیں کریں گے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ شام کے مستقبل پر مذاکرات جاری رکھنے سے پہلے ہمیں کچھ ’مروڑ‘ سیدھا کرنے پڑیں گے۔
040319_taiwan_shot
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/03/040319_taiwan_shot
تائیوان:صدر پر فائرنگ
تائیوان میں صدارتی انتخابی مہم کے دوران ملک کے صدر چین شوئی بیان فائرنگ سے زخمی ہو گئے ہیں۔ ملک کے نائب صدر انیٹ لُو بھی اس واقعہ میں زخمی ہوئی ہیں۔ تاہم دونوں ہوش میں ہیں۔
تائیوان میں سنیچر کے روز صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ ملک کے ایک اعلیٰ صدارتی اہلکار نے بتایا کہ صدر چین کے پیٹ میں گولی لگی جبکہ نائب صدر کا دایاں گُھٹنا زخمی ہوا ہے۔ ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی سے تعلق رکھنے والے ملک کے صدر چین کا نیشنلسٹ پارٹی کے لین چان سے مقابلہ ہے۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے تائیوان کی انتخابی مہم کے دوران موجودہ صدر کے چین کے ساتھ تعلقات پر ریفرینڈم کے بارے میں پروگرام پر شدید اختلافات سامنے آئے ہیں۔ چین تائیوان کو آزاد ملک کی بجائے اپنا باغی صوبہ تصور کرتا ہے۔
pakistan-39529564
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-39529564
’کون سی سیاسی جماعت ہے جس میں آمریت نہیں‘
سوشلستان میں آج تو شام صفِ اول کا ٹرینڈ ہے جس کا موضوع شام میں ہونے والا کیمیائی حملہ اور اس کے ردِ عمل میں امریکہ کی جانب سے شام پر داغے گئے کروز میزائل ہیں۔ فیس بُک اور ٹوئٹر پر شامی بچوں کی ہولناک تصاویر اور ویڈیوز شیئر کی جا رہی ہیں جن کا منظر دل دہلانے کو کافی ہے۔ اس کے علاوہ مصباح الحق اور گورنر سندھ کے نام کا ٹرینڈ چل رہا ہے۔
ریحام خان نے سیاسی جماعتوں میں عدم جمہوریت پر تنقید کی آج ہم بات کریں گے ریحام خان کے بیان اور اس پر ردِ عمل کی اور اس کے بعد گورنر سندھ کے جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کے حوالے سے بیان کی۔ دہشت گردی اور ’سیاسی فائدے کے لیے حملہ‘ 'پاکستان میں آج کوئی جماعت جمہوری نہیں ہے' ریحام خان نے گذشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خواتین کی سیاسی جماعتوں میں شمولیت کے حوالے سے بیان دیا جس پر سوشل میڈیا پر شدید ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔ ریحام خان نے کہا کہ ’میرے پاس خواتین اور نوجوان آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتے۔‘ پی ٹی آئی کی رہنما ناز بلوچ نے ریحام خان کو مخاطب کر کے لکھا کہ ’ریحام بی بی، پی ٹی آئی کی تمام خواتین کارکن عزت دار ہیں اور انھیں آپ سے کردار کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں۔ اس طرح کے ہولناک تبصرے کرے سے پہلے سوچیں۔‘ پی ٹی آئی کی متعدد خواتین نے سوشل میڈیا پر ریحام خان پر تنقید کی اور ان سے معذرت کرنے کا مطالبہ کیا مگر چند ایسے بھی تبصرہ کرنے والے تھے جن کا کہنا تھا کہ ایسا تمام سیاسی جماعتوں میں ہونا یا نا ہونا الگ بحث ہے مگر سیاسی جماعتوں کو خواتین کے لیے اپنی صفوں میں مناسب جگہ پیدا کرنے اور ان کے کردار کو نمایاں کرنے کے حوالے سے بہت سارا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ریحام خان نے یہ بھی کہا کہ ’پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت جمہوری نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نواز میں جمہوریت نہیں ہے۔ کون سی سیاسی جماعت ہے جس میں آمریت نہیں ہے۔‘ ’آمروں کو تو ہم بدنام کرتے ہیں کیا فرق ہے ان آمروں میں اور جمہوری سیاسی جماعتوں میں۔ جن نوجوانوں کو آپ دروازے کھکھٹانے کے لیے استعمال کرتے ہیں کبھی اوپر بیٹھے ہوئے دیکھا ہے آپ نے؟ وہ خواتین جو آپ کے جلسوں کی رونق بنتی ہیں کبھی اوپر بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔ کس قسم کی جمہوریت کی بات کر رہے ہیں پہلے اپنی صفوں میں جمہوریت پیدا کریں۔ پہلے حوصلہ پیدا کریں کہ کوئی آپ کو کہہ سکے کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں جمہوریت۔ ‘ 'جنرل راحیل ایک عام جرنیل تھے دوسرے جرنیلوں کی طرح' گورنر سندھ محمد زبیر کی جانب سے گذشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کے دوران جنرل راحیل شریف کے حوالے سے دیا گیا بیان بہت سے حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بن رہا ہے۔ گورنر سندھ نے کہا کہ 'جنرل راحیل شریف ایک عام جرنیل تھے کسی بھی دوسرے جرنیل کی طرح ان کا حق ہے کہ انھیں زمین الاٹ کی جائے۔ انھیں ان کے قد سے زیادہ بڑا کر کے پیش نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ اس سے انھی کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔' بہت سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر محمد زبیر پر تنقید کی جا رہی ہے کہ کیا یہ سب ایک منظم مہم کا حصہ ہے کہ ایک جانب ایک سیاسی جماعت ایک فوج کے سربراہ کے خلاف بیان بازی کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب یہ بیان۔ محمد زبیر نے کراچی آپریشن کے حوالے سے بھی بات کی کہ اس کا کریڈٹ میاں نواز شریف کو جاتا ہے جس پر آصف خان نے لکھا کہ ’اس کا کریڈٹ صرف پاکستانی فوج کو جاتا ہے۔‘ اس ہفتے کا تعارف اس ہفتے ذکر کریں گے صدف خان کا جو میڈیا اور سوشل میڈیا پر خواتین کے حقوق کے حوالے سے بات کرتی ہیں۔ صدف میڈیا میں خواتین کے کردار اور ان کے مسائل پر بات کرتی ہیں اور اس حوالے سے کام کرتی ہیں۔ اس ہفتے کی تصاویر ایک بچہ مردم شماری کی ٹیم کے ساتھ حفاظت پر مامور فوجی اہلکاروں کو چائے پیش کر کے حقِ مہمان نوازی ادا کر رہا ہے۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر ایسے بہت سے میسیج گردش کر رہے ہیں جن میں مردم شماری کی ٹیموں کا خیال رکھنے انھیں پانی اور کرسی پیش کرنے کا لکھا ہوتا ہے۔ دنیا مافیہا سے بے خبر یہ بزرگ راولپنڈی کی ایک سڑک کے درمیان میں پڑے ہیں۔
051017_jumma_jnterview_ra
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/10/051017_jumma_jnterview_ra
'ہمیں خیموں کی اشد ضرورت ہے'
کاغان کے رہائشی سردار جمعہ خان نے بی بی سی کو بتایا:
زلزلے کے بعد ہر دن افراتفری میں گزرا ہے۔ زلزلہ کے روز سے زیادہ تر بارش ہوتی رہی ہے۔ کاغان منفی درجہ حرارت کا علاقہ ہے اور زلزلے سے پہلے برف آبادیوں کے قریب پہنچ چکی تھی۔ بوڑھے بچے، اور کئی لوگ سردی کی وجہ سے نمونیا کا شکار ہو کر ہلاک ہو چکے ہیں اور جو بچ گئے ہیں ان کو سر چھپانے کے لیے خمیوں کی ضرورت ہے جومل نہیں مل رہے ہیں۔ ہیلی کاپٹر کے ذریعے کبھی خیمے آتے ہیں کبھی دوائیاں آتی ہیں لیکن اس وقت لوگوں کو سب سے زیادہ ضرورت خمیوں کی ہے۔ کاغان میں مرنے والوں کی تعداد: کاغان یونین کونسل ساٹھ ستر کلو میڑ کے علاقے پر پھیلی ہوئی ہے اور اتنے قلیل وقت میں مرنے والوں کی صحیح تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ لوگوں کے مکان گر چکے ہیں، اور جو کچھ بچا ہے وہ اس کو سنبھالنے کو کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور گھروں سے باہر کم ہی جاتے ہیں البتہ اگر کسی عزیز رشتہ دار کی موت کی خبر ملے تو وہ گھر سے نکلتے ہیں۔ اموات کے بارے میں سب سنی سنائی باتیں ہیں۔ زلزلے کے روز ایک گاؤں میں ایک شخص کی تدفین کے موقع پر بہت سے لوگ ہلاک ہوئے جن میں اکثریت عورتوں کی تھی۔ کوئی کہتا ہے کہ ساٹھ ستر عورتیں ہلاک ہوئی تھیں جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ سو لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔فل الحال اموات کے صحیح اعداد وشمار نہیں بتائے جا سکتے۔ مردم شماری کا ایک محکمہ ہے۔انہیں سے یہ اعداد وشمار مل سکتے ہیں ۔ زلزلے میں شاید وہ بھی ہلاک ہو گئے ہوں گے۔ علاقے کے محکمہ مال کے لوگوں کی اکثریت کا تعلق بالا کوٹ سے تھا، شاید وہ بھی مر چکے ہیں ہمیں ان کا پتہ نہیں چلا ہے۔ کاغان میں مرنے والوں کی صحیح تعداد کا پتہ نہیں چلایا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ علاقے میں کاشتکار اور کسان ہی آباد ہیں جبکہ علاقے کے بڑے شہروں میں منتقل ہیں۔ روڈ کے بارے میں ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ کبھی بنا ہی نہیں تھا۔ جب روڈ ہی نہیں ہو گا لوگ کیسے آئیں گے۔ یقین مانیں جو لوگ نسوار ڈالتے ہیں ان کو نسوار بھی نہیں مل رہی ہے۔
030930_nagina_khanum_si
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2003/09/030930_nagina_khanum_si
فلمی دنیا میں قتل کاایک اور معمہ
نگینہ خانم کا نام اگرچہ عام شخص کو ناآشناسا سا محسوس ہوگا لیکن لاہور کی فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کے لئے یہ نام اجنبی نہیں ہے۔تاہم اب یہ نام پاکستان کے ہر شخص کے لئے خاصا جانا پہچانا بن گیا ہے جس کی وجہ قتل کی وہ واردات ہے جو چوبیس ستمبر کی صبح لاہور میں ہوئی۔ اس واردات کے دوران نامعلوم قاتلوں نے نگینہ خانم، ان کی تیس سالہ بیٹی، دو پوتوں، پشتو فلموں کے ہدایت کار ناصر رضا خان اور تین دیگر افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
اس واقعہ کے بعد لاہور کی فلمی صنعت سے وابستہ فنکاروں میں عدم تحفظ کی ایک لہر دوڑ گئی اور کئی ہیروئنوں نے راتوں رات ذاتی محافظ رکھ لئے۔ پینسٹھ سالہ نگینہ خانم کا تعلق پشاور سے تھا۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز پینتس سال پہلے بطور گلوکارہ کیا اور مختلف پشتو فلموں کے لئے ایک سو تیس گانے گانے کے علاوہ ایک سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔ انہیں بطور اداکارہ ایس ایم یوسف نے اپنی فلم ’اولاد‘ میں متعارف کرایا جہاں ان کے مدمقابل اداکار لہری تھے۔ انہوں نے کئی پشتو فلموں میں بدرمنیر کی والدہ کا کردار ادا کیا اور اس کردار کے لئے وہ پشتو فلموں کا اسی طرح ایک لازمی حصہ سمجھی جاتی تھیں جس طرح پنجابی فلموں میں اداکارہ بہار سمجھی جاتی ہیں۔ بطور اداکارہ نگینہ خانم کی آخری فلم ’مہندی والے ہاتھ‘ تھی جو دو سال قبل ریلیز ہوئی۔ نگینہ خانم نے گلوکاری اور اداکاری کے علاوہ خود بھی پانچ فلمیں بنائیں۔ ان میں سے ایک فلم (جینے دو) اردو زبان جبکہ باقی پشتو میں تھیں۔ اپنے قتل سے قبل بھی وہ ایک پشتو فلم بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں۔ قتل کی اس واردات میں کام آنے والے پشتو فلموں کے ہدایت کار ناصر رضا خان اسی مقصد کے لئے ایک ماہ سے ان کے گھر مقیم تھے۔ نگینہ خانم کا ارادہ تھا کہ وہ اپنے چھوٹے بیٹے علی نواز خان کو اس فلم میں بطور ہیرو متعارف کرائیں۔ ان کے بڑے بیٹے محمد نواز خان فلم انڈسٹری اور ٹی وی کے جانے پہچانے اداکار ہیں اور متعدد فلموں، ڈراموں اور وڈیوز میں کام کر چکے ہیں۔ نگینہ خانم کی شخصیت خاصی متنازعہ سمجھی جاتی تھی۔ وہ عرصے سے لاہور میں نگینہ آرٹ اینڈ ڈانس اکیڈیمی کے نام سے ایک ادارہ چلا رہی تھیں جس نے فلم انڈسٹری کو بہت سی اداکاراؤں سے نوازا۔ ان میں اداکاری صائمہ بھی شامل ہیں جنہیں آجکل لاہور میں تیار ہونے والی ہر فلم میں مجبوری سمجھا جاتا ہے۔ ان کے مخالفین کے مطابق نگینہ خانم آرٹ اینڈ ڈانس اکیڈیمی کی آڑ میں جسم فروشی کا اڈہ چلا رہی تھیں۔ ایک دور میں نگینہ خانم سیاست میں بھی سرگرم رہیں اور مسلم لیگ کلچرل ونگ میں خاصی سرگرم نظر آئیں۔ وہ حال ہی میں کینیڈا میں اپنی بیٹی اور سابق شوہر کے ساتھ کچھ عرصہ گزارنے کے بعد وطن واپس آئی تھیں۔ ان کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ خود بھی مستقل طور پر کینیڈا میں رہائش اختیار کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہی تھیں۔ نگینہ خانم اور ان کے ساتھ سات افراد کو کس نے قتل کیا؟ اس بارے میں مختلف رائے سامنے آئی ہیں۔ پولیس کا خیال ہے کہ یہ قتل ان لوگوں نے کیا ہے جن کا نگینہ خانم کے ساتھ ایک لڑکی کے سلسلے میں تنازعہ چل رہا تھا۔ انہوں نے نگینہ خانم کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔ قاتلوں نے چوبیس ستمبر کی صبح انتہائی مہارت سے گھر میں گھس کر تمام افراد کو ایک بیڈروم میں بند کیا، ان کے ہاتھ پاؤں باندھے، ان کے منہ میں کپڑے ٹھونس دیئے تاکہ وہ شور نے بچا سکیں اور ان کے سروں میں گولیاں مار کر چلے گئے۔ اس وقت نگینہ خانم کا چھوٹا بیٹا علی نواز اوپر والے کمرے میں سو رہا تھا۔ وہ اسے پولیس نے شامل تفتیش کرکے حراست میں لے رکھا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ جلد قتل کے اس کیس کی مختلف گتھیوں کو سلجھا لے گی۔ پولیس نے اس سلسلے میں چارسدہ سے بعض افراد کو گرفتار بھی کیا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ پولیس جو آج تک کسی بھی فنکار کے قتل کے معمے کو حل نہیں پائی نگینہ خانم اور سات دیگر افراد کے قاتلوں کو گرفتار کر پائی گی؟ سلطان راہی، نادرہ، نیناں اور نوشابہ مریم کے قتل کے مقدمات پر ہونے والی پیش رفت کو سامنے رکھا جائے تو جواب نفی میں ملتا ہے۔
150111_baat_se_baat_blog_mb
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/01/150111_baat_se_baat_blog_mb
اندھیرا تو بزدل ہے؟
بے شمار پیارے بیٹے بیٹیو،
اندھیرا جتنا بھی گھپ ہو بھلا دیے کے آگے تھوڑی ٹھہر سکتا ہے مجھے معلوم ہے کہ چھٹیوں کے بعد پہلے دن سکول جانا اکثر بچوں کو اچھا نہیں لگتا۔ مجھے بھی نہیں لگتا تھا۔ لیکن جب بہت دن بعد اپنے ساتھیوں اور ٹیچروں سے ملاقات ہوتی تھی تو اچھا لگتا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ تمھیں بھی کل سکول جا کے بہت اچھا لگے گا۔ ہاں تم میں سے بہت سوں کے ابا اماں پہلے دن سکول بھیجتے ہوئے پریشان ہوں گے۔ طرح طرح کے خدشات ہوں گے ان کے دل میں۔ تو تم اپنے ممی پاپا اور ابا اماں سے کہہ دو کہ جب ہم نہیں ڈر رہے ہیں تو آپ کاہے کو ڈر رہے ہیں۔ ہم تو آپ کی خون پسینے کی کمائی سے روشنی خریدنے جارہے ہیں۔اس روشنی سے وہ سب بھوت بھاگ جائیں گے جو روشنی سے ڈرتے ہیں۔ زندگی سے ڈرتے ہیں۔ ارے ! میں شاید کچھ غلط کہہ گیا۔ یہ بھوت ووت کچھ نہیں ہوتا۔ اندھیرے میں تو کوئی بھی آدمی بھوت نظر آ سکتا ہے۔اسی لیے تو روشنی ضروری ہے تاکہ سب ایک دوسرے کو پہچان لیں۔ مگر اس کے لیے صرف باہر ہی نہیں دماغ کے اندر بھی موم بتی روشن کرنا پڑتی ہے اور ہم سکول اسی لیے تو جاتے ہیں۔ جب تمہارا سر اندر سے روشن ہوجائے گا تو باہر بھی سب روشن روشن سا لگے گا۔ آیا کچھ اس چھوٹی سی کھپڑیا میں! حالانکہ میں کبھی تمہارے سکول نہیں گیا پھر بھی مجھے معلوم ہے کہ تمہارے سکول میں خصوصاً تمہاری کلاس میں کچھ بچے طوطے کی طرح باتونی ہیں اور کچھ خاموش خاموش سے رہتے ہیں۔ چند بچوں کا پڑھنے میں جی لگتا ہے اور بہت سوں کو کھیلنے کودنے میں زیادہ مزہ آتا ہے۔ تمہارے چند ساتھی بہت شرارتی ہیں اور کچھ اپنے آپ میں مست رہتے ہیں۔ کچھ بہت ضدی ہیں تو کچھ فرمانبردار۔ تم میں سے زیادہ تر بچے مار پیٹ بالکل پسند نہیں کرتے مگر تمہارے ہی ساتھ کے کچھ بچے خامخواہ اڑنگا لگا کے دوسروں کو گرانے اور اپنا رعب جمانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یہ بچے کبھی کبھی ٹیچروں کے لیے بھی دردِ سر بن جاتے ہیں اور کچھ کو ان کی حرکتوں پر سزا ملتی ہے۔ مگر تم میں سے بہت سوں کو شاباشی بھی تو ملتی ہے۔ پیارے بیٹے بیٹیو! سب سے اچھی بات یہ ہے کہ علم کی روشنی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوسکتی، نہ ہی اس کا بل آتا ہے اور یہ روشنی بانٹنے سے کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے یہ دنیا بھی بالکل تمہارے کلاس روم کی طرح ہے۔ جب تم چند سال میں بڑے ہوکر عملی زندگی میں قدم رکھو گے تو اچھائی اور برائی میں زیادہ بہتر فرق کر سکو گے۔ تمہیں بھانت بھانت کے لوگوں سے مل کے اندازہ ہوگا کہ کوئی مذہب، نسل، رنگ، قوم، ملک اچھا یا برا نہیں ہوتا۔ اچھائی اور برائی آدمی میں ہوتی ہے اور اسے پہچاننا بہت ضروری ہے۔ مگر بچو، برے کو صرف برا کہنے سے تو کام نہیں چلتا۔ تمہیں برے لوگوں کی مدد بھی تو کرنی ہوگی۔ وہ ایسے کہ ان کے ساتھ روشنی بانٹنی ہوگی۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ علم کی روشنی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوسکتی، نہ ہی اس کا بل آتا ہے اور یہ روشنی بانٹنے سے کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اور ایک بار جسے اس روشنی میں رہنے کا چسکہ پڑ جائے تو وہ اندھیرے سے ہمیشہ دور بھاگتا ہے۔ ہاں! اس زندگی میں اونچ نیچ، حادثے اور آفات تو آتے ہی رہتے ہیں مگر ان سے گھبرا کے کوئی چھپ تھوڑی جاتا ہے۔ایسا ہوتا تو اس وقت ہم میں سے اکثر لوگ کسی نہ کسی وجہ سے کبھی گھروں سے باہر ہی نہ نکلتے اور اندھیرا کرکے بیٹھے رہتے۔نا ۔۔۔ بالکل نہیں۔۔۔جو ڈر گیا وہ مرگیا۔ اب تم پوچھو گے کہ انکل اگر اندھیرا روشنی کا لباس پہن کے سامنے آئے تو ہم پہچانیں گے کیسے؟ ارے بھئی یہ کوئی مشکل تھوڑی ہے۔ جو دلیل کو گولی بنائے وہ روشنی ہے اور جو گولی کو دلیل بنائے وہ اندھیرا ہے۔ اگر یہ نشانی تم یاد رکھو تو اندھیرا کوئی بھی بھیس بدل کے آئے تم فوراً پہچان لوگے۔ تمہیں بس یہ کرنا ہے کہ اس کے آگے دیا لے کے کھڑے ہوجانا ہے۔اندھیرا جتنا بھی گھپ ہو بھلا دیے کے آگے تھوڑی ٹھہر سکتا ہے؟ چلو بس بہت باتیں ہوگئیں۔ اب آنے والی صبح کی تیاری کرو اور آج ذرا جلدی سوجانا۔
regional-49274979
https://www.bbc.com/urdu/regional-49274979
آرٹیکل 370 کا خاتمہ: انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر سینکڑوں افراد گرفتار
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے حکام کے مطابق ریاست کی مخصوص حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اب تک کم سے کم 300 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
عارضی حراست مراکز میں رکھے گئے ان افراد میں سیاست دان، تاجر اور کارکن شامل ہیں۔ اتوار کی رات سے وادی کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہے اور موبائل، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروس مکمل طور پر بند ہے۔ روئٹرز خبر رساں ایجنسی کے مطابق مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ احتجاج روکنے کے لیے لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ایک پولیس افسر کے بقول ’لوگوں میں بہت زیادہ غصہ ہے۔‘ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال پر بی بی سی اردو کا خصوصی ضمیمہ بی بی سی کے نامہ نگاروں نے بعض مظاہرین کو سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کرتے دیکھا۔ نامہ نگاروں نے بعض شہریوں سے گفتگو کی جنھوں نے تشدد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا۔ ایک مقامی ٹریول ایجنٹ اقبال کا کہنا تھا کہ 'کشمیر کے لوگ بہت برہم ہیں۔ وہ ایک آتش فشاں کی طرح ہیں جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے اور انڈیا نتائج سے بالکل بے خبر ہے۔' کشمیر پاکستان کا کہنا ہے کہ کشمیر کے معاملے پر انڈیا کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے باوجود کرتارپور راہداری پر کام جاری رہے گا۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے یہ بات جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران بتائی۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ‏پاکستان تمام مذاہب اور ان کے پیروکاروں کی مذہبی رسومات کا احترام کرتا ہے اور اس کشیدہ صورتحال میں بھی کرتار پور راہداری منصوبہ جاری رہے گا۔ خیال رہے کہ رواں برس جنوری میں پاکستان نے کرتارپور راہداری کے حوالے سے مجوزہ معاہدہ انڈیا کے حوالے کیا تھا۔ راہداری منصوبے میں دریائے راوی پر پُل اور ساڑھے چار کلومیٹر سڑک شامل ہے۔ منصوبہ رواں برس نومبر میں سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک کی 550ویں برسی سے قبل مکمل ہونے کا امکان ہے۔ بریفنگ میں پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان نے انڈیا سے مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا اور نہ ہی حالیہ انڈین اقدامات کے بعد پاکستانی فضائی حدود انڈیا کے لیے بند کی گئی ہے۔ تاہم پاکستان کے وزیر ریلوے شیخ رشید نے اعلان کیا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس کو معطل کر دیا گیا ہے۔ پاکستان نے بدھ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اہم اجلاس کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ وہ انڈیا کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور اسے مرکز کے زیرِ انتظام علاقہ بنائے جانے پر اس کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کرتے ہوئے، دو طرفہ تجارت معطل کر رہا ہے۔ ادھر انڈیا نے پاکستان کی جانب سے سفارتی تعلقات محدود کرنے کے فیصلے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے پر نظرِثانی کرے۔ انڈین وزارتِ خارجہ کی جانب سے جمعرات کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان نے انڈیا کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے بارے میں سفارتی تعلقات محدود کرنے کا یکطرفہ فیصلہ کیا ہے۔‘ بیان کے مطابق ’ان اقدامات کا مقصد دنیا کے سامنے دونوں ممالک کے تعلقات کے بارے میں پریشان کن تصویر پیش کرنا ہے اور پاکستان کی جانب سے جو وجوہات بیان کی گئی ہیں وہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں۔‘ یہ بھی پڑھیے پاکستان کا انڈیا سے سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ انڈیا کا کشمیر کی ’نیم خودمختار‘ حیثیت ختم کرنے کا اعلان محبوبہ مفتی:’پاکستان پر انڈیا کو ترجیح دینے میں غلط تھے‘ کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی: پاکستان اب کیا کر سکتا ہے؟ انڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’آرٹیکل 370 کے بارے میں اقدامات خالصتاً انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے اور جموں و کشمیر کے خطے کی ایک پریشان کن صورت پیش کرنا کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔‘ کرتارپور راہداری کے معاملے پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے انڈیا کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کا فیصلہ جموں و کشمیر کو ترقی کا موقع دینے کے لیے کیا گیا۔ ’حکومت اور پارلیمان کی جانب سے کیے جانے والے حالیہ فیصلے اس عزم کا مظہر ہیں کہ جموں و کشمیر کو ترقی کا موقع ملے جو کہ آئین میں ایک عارضی انتظام کی وجہ سے انھیں دستیاب نہیں تھا۔‘ انڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس فیصلے سے صنفی اور اقتصادی امتیاز کا بھی خاتمہ ہوگا اور معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی۔ بیان کے مطابق یہ حیران کن نہیں کہ اس قسم کے ترقیاتی اقدامات جو کہ جموں و کشمیر میں کسی بھی ناامیدی کو ختم کر سکتے ہیں، پاکستان منفی تناظر میں دیکھے کیونکہ وہ ان جذبات کو سرحد پار دہشت گردی کی توجیہ کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔ انڈین وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ’حکومت پاکستان کی جانب سے گذشتہ روز اعلان کردہ اقدامات پر افسوس کا اظہار کرتی ہے اور پاکستان پر زور دیتی ہے کہ وہ ان اقدامات کا جائزہ لے تاکہ سفارتی روابط کے عام راستوں کا تحفظ ہو سکے۔‘ پاکستان نے انڈیا کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’کشمیر اقوام متحدہ میں تسلیم شدہ تنازع ہے۔ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنا انڈیا کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ عالمی تنازع ہے۔‘ خیال رہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کے پانچ نکاتی اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں پرائم منسٹر آفس میں ہونے والے اجلاس میں کمیٹی نے سفارتی تعلقات محدود کرنے اور دو طرفہ تجارت معطل کرنے کے علاوہ تمام دو طرفہ معاہدوں کا ازسر نو جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق اس کے علاوہ پاکستان اس معاملے کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں بھی اٹھائے گا جبکہ 14 اگست کو پاکستان کا یومِ آزادی کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جائے گا جبکہ 15 اگست کو انڈیا کے یومِ آزادی کے موقع پر یوم سیاہ منانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ امریکہ کشمیر پر براہِ راست مذاکرات کا حامی امریکہ نے بھی پاکستان اور انڈیا کے مابین مسئلہ کشمیر پر براہ راست مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے دونوں ممالک پر اس کشیدگی کے وقت میں پرامن اور تحمل سے کام لینے پر زور دیا ہے۔ بدھ کو امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان کی جانب سے جاری کیے گیے ایک بیان میں کہا گیا ہے ’ہم انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے تنازع سمیت دیگر غور طلب امور پر براہ راست مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔‘ یہ بھی پڑھیے کشمیر میں سکیورٹی لاک ڈاؤن کے باوجود مظاہرے ’اب کشمیریوں کا انڈیا سے اعتبار اٹھ گیا ہے‘ کشمیر کی صورتحال: ردعمل ترتیب دینے کے لیے کمیٹی قائم اس سے قبل امریکی قائم مقام نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا ایلس ویلز نے انڈیا کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام سے متعلق امریکہ کو آگاہ کرنے کی خبروں کی تردید کی تھی۔ امریکی دفتر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا کے ٹوئٹر اکاونٹ سے کی جانے والی ایک ٹویٹ میں کہا گیا کہ 'میڈیا رپورٹنگ کے برخلاف، انڈین حکومت نے امریکی حکومت کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بارے میں نا تو پہلے سے بتایا اور نا ہی اس حوالے سے کوئی مشاورت کی ہے۔' اقوام متحدہ کا ردعمل اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے ترجمان نے بھی اپنے ایک بیان میں انڈیا کی جانب سے کشمیر کے لاک ڈاؤن پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت جو کچھ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہو رہا ہے، وہ پہلے بھی ایک رجحان تو تھا مگر اب ایک بالکل نئی سطح پر آ گیا ہے۔ انھوں نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں اقوامِ متحدہ کی 8 جولائی 2019 کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا کی حکومت سیاسی مخالفت کو کچلنے کے لیے بار بار ٹیلی کام نیٹ ورکس کی بندش، سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لینے، اور احتجاج اور مظاہروں سے نمٹنے کے لیے انتہائی طاقت کا استعمال جیسے اقدامات کر رہی ہے۔ جس سے نوبت سنگین زخموں اور ماورائے عدالت قتل تک پہنچتی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں تازہ ترین پابندیوں سے وہاں انسانی حقوق کی صورتحال میں مزید بگاڑ کا خدشہ ہے۔ ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پرامن اجتماعات پر پابندی اور سیاسی رہنماؤں کی حراست سے جموں و کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے جمہوری بحث میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ اقوامِ متحدہ نے نشاندہی کی کہ شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی چارٹر معلومات کے حصول اور آگے پھیلانے کو بنیادی حق تسلیم کرتے ہیں اور یہ کہ انڈیا اس چارٹر کا دستخط کنندہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کشمیر سے کسی بھی طرح کی معلومات کا باہر نہ آنا شدید تشویش کا باعث ہے۔
070922_nwfp_karkuk_gas_rs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/09/070922_nwfp_karkuk_gas_rs
کرک: گیس کی ترسیل، حقیقت کا روپ
سرسبز وادیوں اور وسیع ریتیلے علاقے پر مشتمل ضلع کرک گیس اور تیل کے علاوہ دیگر کئی زیرِ زمین قدرتی و سائل سے مالا مال ہے سالہا سال کی عوامی جدوجہد، ارادے کی پختگی اور سیاسی نظریاتی اختلاف کے باوجود نچلی سطح پر لوگوں میں مقصد کے حصول کے لیے پائے جانے والےاتفاق کی بدولت صوبہ سرحد کے کم ترقی یافتہ علاقہ ضلع کرک کے تیس سے زائد دیہاتوں کو قدرتی گیس کی ترسیل کا مطالبہ حقیقت کا روپ اختیار کرتے ہوئے نظر آرہا ہے۔
سرسبز وادیوں اور وسیع ریتیلے علاقے پر مشتمل ضلع کرک گیس اور تیل کے علاوہ دیگر کئی زیرِ زمین قدرتی و سائل سے مالا مال ہے۔ بائیس کروڑ ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری کی بدولت ضلع کرک میں منزلی کے علاقے میں دریافت ہونے والے قدرتی گیس کے ذخائر سے تجارتی بنیادوں پر استفادہ جنوری دو ہزار پانچ میں شروع ہوا جبکہ مکوڑی کے مقام پر لگے گیس فیلڈ نے تجارتی بنیادوں پر سرگرمیوں کا آغاز جنوری دو ہزار چھ میں کیا۔ اس طرح ان دو علاقوں سے حاصل ہونے والی قدرتی گیس ملک کے اُن حصوں میں مہیا کی جانے لگی جہاں گیس کی ترسیل کا باقاعدہ نظام پہلے سے موجود تھا۔ کرک میں قدرتی گیس کے حامل علاقوں میں بیرونی اور ملکی سرمایہ کاروں کی بڑھتی ہوئی تجارتی سرگرمیوں نے علاقے کے عوام میں سہولیاتِ زندگی کے فقدان کی وجہ سے جہاں ایک بھر پور ردِعمل کو اُبھارا، وہیں لوگوں کے لیے یہ احساس کرب کا باعث تھا کہ اُن کے علاقے سے حاصل ہونے والے قدرتی وسائل سے اُن کو تو کوئی فائدہ نہیں لیکن دوسرے علاقوں کے لوگ اُن کے وسائل سے مستفید ہو رہے ہیں۔ عوامی ردِعمل کی وجہ بتاتے ہوئے گُرگُری یونین کونسل کے ناظم حکم بادشاہ نے کہا کہ اُن کے علاقے کے لوگ بلوچستان کے حالات سے بخوبی واقف تھے جہاں قدرتی گیس دریافت ہونے کے باوجود گیس کی سہولت ملک کے دوسرے علاقوں کے بہت بعد مہیا کی گئی۔ گیس کی ترسیل کے حوالے سے مطالبہ کے حق میں گُرگُری اور اس سے ملحقہ دیہاتوں کے عوام نے عام گاڑیوں اور گیس فیلڈ کے افسران کے زیرِ استعمال گاڑیوں کے لیے علاقے سے گزرنے والی سڑکیں کئی بار بند کیں۔ بلآخر آٹھ ماہ قبل جب اُن کے گاؤں اور اس سے ملحقہ ایک دوسرے گاؤں کو گیس کی ترسیل شروع ہوئی تو حکم بادشاہ کے مطابق اُن کے گھر کی خواتین سمیت علاقے کی دوسری کئی خواتین کو یہ اندازہ نہ تھا کہ دیا سلائی جلاتے ہی چولہے سے آگ کا شعلہ ایک دم بھڑکے گا اور یہ کہ ایسی صورت میں اُن کے جھلسنے کا بھی خطرہ ہے۔ ’ایک مرتبہ تو میری گھر والی آگ کی لپیٹ میں آتے آتے بچی‘، حکم بادشاہ نے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ دو دیہاتوں کو گیس کی ترسیل کے بعد قریب ہی واقع دیگر دیہاتوں میں بھی گیس کی ترسیل کے حوالے سے مطالبہ نے زور پکڑا جس کے بعد مقامی اور صوبائی حکومتوں نے تقریباً ایک سال قبل تیس سے زائد دیہاتوں کو گیس فراہم کرنے سے متعلق مطالبہ مانتے ہوئے کروڑوں روپے کی لاگت سے ایک منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا۔ زیرِ زمین پائپوں کے ذریعے گیس کی ترسیل کے لیے سڑکوں کے کنارے میل ہامیل زمین کھودی گئی اور پائپوں کے انبار کے انبار جگہ جگہ لگائے گئے لیکن اس سے آگے کام کی رفتار اس قدر سست کہ عوام کو حکومت کا اعلان کسی انتخابی نعرے سے زیادہ نہ لگا۔ اس تناظر میں عوام نے متواتر حکومت پر دباؤ ڈالے رکھا، کبھی سڑکیں بند تو کبھی بیرونی سرمایہ کاری سے لگائے گئے آئل اینڈ گیس فیلڈز کی گاڑیوں کا راستہ روکا گیا اور ساتھ ہی ساتھ اخباروں میں حکومت مخالف بیانات کا سلسلہ بھی باقاعدگی سے جاری رکھا گیا جس کے بعد آخر کار صوبائی وزیرِاعلیٰ اکرم خان درانی نے حال ہی میں اعلان کیا کہ صوبائی حکومت کو تیل اور گیس کی مد میں حاصل ہونے والی سالانہ آمدن میں سے ہر سال پانچ فیصد کے برابر حصہ تیل اور گیس کی پیداوار کے حامل علاقوں کی ترقی پر لگایا جائے گا۔ البتہ مختلف طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حکومتی وعدوں کے حوالے سے کچھ خاص گرم جوشی کا اظہار نہ کیا۔ ٹیری کے رہائشی عثمان ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ’ہم اعلانات سے زیادہ وعدوں پر عمل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں‘۔ عبدل حفیظ کا کہنا تھا کہ علاقے کے ہر گھر کو گیس ملنی چاہیے’ کیونکہ یہ ہمارے وسائل ہیں اور سب سے پہلے ہمارا ان پر حق ہے‘۔ حکومت کے اعلیٰ ذرائع صوبائی حکومت کے اس اعلان کو، کہ تیل و گیس کی مد میں حاصل ہونے والی سالانہ آمدن میں سے پانچ فیصد رقم تیل و گیس کی پیداوار کے حامل علاقوں کی ترقی پر لگائی جائے گی، اہمیت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ یہ صوبائی حکومت کی سالہاسال سے جاری حکمتِ عملی میں اہم تبدیلی کے مترادف ہے۔ ایک اعلیٰ سرکاری افسر کا کہنا تھا کہ ’اس حکمتِ عملی کے آنے والے سالوں اور آئندہ حکومت پر گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس سے پہلے جن علاقوں میں بڑے ڈیم بناکر اور پانی کے ذریعے بجلی بنانے کے منصوبے کام کر رہے ہیں ان علاقوں کو آج تک کوئی اضافی مالی فائدہ نہیں دیا گیا حالا نکہ صوبائی حکومت کو ان منصوبوں سے سالانہ اربوں روپے کی آمدن ہوتی ہے۔ صوبہ سرحد کے ضلع ہری پور میں تربیلہ کے مقام پر پانی کی بڑی مقدار ذخیرہ کرنے اور بجلی گھروں سے پیدا ہونے والی بجلی سے صوبائی حکومت کو سالانہ چھ ارب روپے آمدن ہوتی ہے لیکن اس رقم میں سے ضلع ہری پور کو آج تک خصوصی طور پر علیحدہ سے کچھ نہیں دیاگیا۔
sport-50512116
https://www.bbc.com/urdu/sport-50512116
پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا: بابر اعظم کی سنچری کے باوجود آسٹریلیا نے برسبین ٹیسٹ ایک اننگز سے جیت لیا
آسٹریلیا نے پاکستان کے خلاف برسبین میں پہلا ٹیسٹ میچ ایک اننگز اور پانچ رنز سے جیت لیا ہے۔
سنیچر کو برسبین ٹیسٹ کے چوتھے روز پاکستانی ٹیم دوسری اننگز میں 335 کے سکور پر آؤٹ ہوگئی۔ بابر اعظم کی سنچری بھی پاکستان کو اس شکست سے نہ بچا سکی۔ دن کے آغاز پر آسٹریلیا کو بھاری برتری حاصل تھی تاہم بابر اعظم اور محمد رضوان نے مزاحمت دکھاتے ہوئے چھٹی وکٹ کے لیے 132 رنز کی شراکت داری قائم کی تھی۔ بابر اعظم 104 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے جبکہ محمد رضوان سنچری بنانے میں ناکام رہے اور 95 کے سکور پر انھوں نے اپنی وکٹ جاش ہیزل وڈ کی گیند پر گنوا دی۔ آسٹریلیا کی طرف سے جاش ہیزل وڈ نے چار، مچل سٹارک نے تین جبکہ پیٹ کمنز نے دو پاکستانی کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا ہے۔ پہلی اننگز میں 185 کے سکور کی وجہ سے مارنس لابوشین کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا ہے۔ آسٹریلیا کو دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں 1-0 سے برتری حاصل ہے۔ دوسرا ٹیسٹ 29 نومبر سے کھیلا جائے گا۔ میچ کا تفصیلی سکور کارڈ بابر اعظم نے آسٹریلوی بولرز کا جم کر مقابلہ کیا اور 104 رنز بنائے پاکستان نے چوتھے دن کا آغاز محتاط بیٹنگ کے ساتھ کیا لیکن آسٹریلوی بولرز اچھی لائن اور لینتھ کے ساتھ بولنگ کرواتے ہوئے پاکستانی بلے بازوں پر حاوی دکھائی دیے۔ پہلے سیشن کے آغاز میں ہی پاکستان کو دو وکٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ آسٹریلوی بولرز کے خلاف بابر اعظم نے مزاحمت جاری رکھتے ہوئے اپنے ٹیسٹ کریئر کی دوسری سنچری بنائی لیکن پھر نیتھ لائن کی ایک گھومتی گیند پر وکٹ کیپر کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوگئے۔ اس کے بعد محمد رضوان نے یاسر شاہ کے ساتھ مل کر 79 رنز کی شراکت داری قائم کی لیکن اب تک آسٹریلوی بولرز پوری طرح پاکستان پر حاوی ہو چکے تھے۔ رضوان کے آؤٹ ہونے کے بعد یاسر شاہ بھی اپنی نصف سنچری مکمل نہ کر سکے۔ پاکستان کے پانچویں آؤٹ ہونے والے کھلاڑی افتخار احمد تھے جو بنا کوئی رن بنائے جوش ہیزل وڈ کی گیند پر وکٹ کیپر کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گئے۔ انھوں نے صرف چار گیندوں کا سامنا کیا تھا۔ اس سے قبل شان مسعود آؤٹ ہونے والے چوتھے کھلاڑی تھے۔ انھوں نے 42 رنز بنائے اور آسٹریلوی بولر پیٹ کمنز کا شکار ہوئے۔ واضح رہے کہ پہلی اننگز میں پاکستان کے 240 کے سکور کے جواب میں آسٹریلیا نے 340 رنز کی برتری حاصل کی تھی۔ یہ بھی پڑھیے اظہر اور مصباح کی شراکت کیا رنگ لائے گی؟ نسیم شاہ: ’والد نے کہا انگریز والا کھیل مت کھیلو‘ آسٹریلیا کو ٹیسٹ میچ ہرانے کے لیے پاکستان کیا کرے؟ آسٹریلوی فاسٹ بولر جاش ہیزل وڈ نے چار، مچل سٹارک نے تین جبکہ پیٹ کمنز نے دو پاکستانی کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا پاکستان کی جانب سے بیٹگ کا آغاز شان مسعود اور کپتان اظہر علی نے کیا، اظہر علی اننگز کے تیسرے ہی اوور میں مچل اسٹارک کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے لیکن انھوں نے ریویو لیا جو غلط ثابت ہوا، وہ 5 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ انھیں مچل سٹارک نے آؤٹ کیا۔ آؤٹ آف فام حارث سہیل ایک بار پھر ناکام ثابت ہوئے اور صرف 8 رنز بنا کر سٹارک کی گیند پر وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ ہو گئے۔ جبکہ پہلی اننگز میں 76 رنز بنانے والے اسد شفیق اس مرتبہ بغیر کوئی رن بنائے پویلین لوٹ گئے تھے۔ پیٹ کمنز کی گیند پر سمتھ نے ان کا کیچ پکڑا۔ مارنس لابوشین پاکستانی بولرز پر بھاری تیسرے دن کے دوران آسٹریلوی بلے باز مارنس لابوشین نے اپنے کریئر کی پہلی سنچری مکمل کی اور پھر 185 رنز بنا کر شاہین آفریدی کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ میتھیو ویڈ نے نصف سنچری بنائی اور پھر 60 رنز پر آؤٹ ہوئے۔ آسٹریلوی بلے مارنس لابوشین نے 185 رنز کی باری کھیلی یاسر شاہ نے چار جبکہ حارث سہیل اور شاہین آفریدی نے دو، دو وکٹیں حاصل کیں ہیں۔ ڈیوڈ وارنر اپنے گذشتہ روز کے سکور 151 میں صرف تین رنز کا اضافہ کر کے نسیم شاہ کی گیند پر آؤٹ ہوگئے ہیں۔ جبکہ سٹیون سمتھ چار کے سکور پر یاسر شاہ کی گیند پر بولڈ ہوگئے ہیں۔ دوسرے دن کے اختتام پر آسٹریلیا نے پاکستان کی پہلی اننگز کے سکور 240 کے جواب میں ایک وکٹ کے نقصان پر 312 رنز بنا لیے تھے۔ جمعے کے روز آسٹریلیا کی جانب سے جو برنز اور ڈیوڈ وارنر نے اننگز کا آغاز کیا اور دونوں نے انتہائی پراعتماد بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلی وکٹ کی شراکت میں 222 رنز بنائے۔ ڈیوڈ وارنر 154 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے دوسرے سیشن کے آغاز میں ہی ڈیوڈ وارنر کو 16 برس کے نسیم شاہ نے 56 رنز پر آؤٹ تو کر دیا، لیکن تھرڈ امپائر سے مشورہ کرنے کے بعد اسے نو بال قرار دیا گیا اور نسیم ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی پہلی وکٹ سے محروم رہے۔ ڈیوڈ وارنر نے اس چانس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کریئر کی 22ویں سنچری مکمل کی۔ ان کے ساتھی اوپنر جو برنز نے 97 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی تاہم وہ یاسر شاہ کی گیند پر بولڈ ہو گئے۔ تاہم ان کے جانے کے بعد پاکستانی بولرز مزید آسٹریلوی بلے بازوں کو آؤٹ کرنے میں ناکام رہے۔ دوسری نئی گیند لینے کے بعد عمران کی گیند ڈیوڈ وارنر کی وکٹوں سے تو ٹکرائی لیکن بیلز نہ گریں۔ محمد عباس کی کمی، مصباح پر تنقید پاکستان کو فاسٹ بولر محمد عباس کو ٹیم میں نہ شامل کرنے کا فیصلہ مہنگا پڑا ہے۔ یاسر شاہ نے چار آسٹریلوی کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا ابھی تک ٹیم مینیجمینٹ کی جانب سے اس حوالے سے کوئی وجہ تو سامنے نہیں آئی تاہم ایسا معلوم ہوتا کہ ان کی جگہ فاسٹ بولر عمران خان کو ان کی حالیہ پریکٹس میچ میں پانچ وکٹیں ان کی ٹیم میں شمولیت کی وجہ بنی۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے محمد عباس کو ٹیم میں شامل نہ کرنے پر حیرانی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور پاکستان ٹیم مینیجمینٹ خاص کر کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک صارف نے بولنگ کوچ وقار یونس سے سوالات کیے کے محمد عباس کو کیوں نہیں کھلایا گیا اور عمران خان کو ان کی جگہ کیوں شامل کیا گیا ہے؟ ایک اور صارف حیدر نے ہارون نے مصباح کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آپ ایسے کھلاڑی کو کیوں چن رہے ہیں جس نے تین برسوں سے ٹیسٹ نہیں کھیلے اور اس کو ٹیسٹ میچوں میں بہترین کاکردگی دکھانے والے عباس سے کیوں تبدیل کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب عمران خان آج سے تین برس قبل آسٹریلیا میں فیل ہوئے تھے، تو اب ایسا کیوں نہیں ہو گا؟ پہلے دن کا کھیل، پاکستان 240 رنز پر ڈھیر اس سے قبل ٹیسٹ میچ کے پہلے دن اسد شفیق کے علاوہ دیگر پاکستانی بلے باز متاثر کن کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے اور پاکستان کی پوری ٹیم 240 رنز پر آؤٹ ہو گئی ہے۔ جمعرات کو برسبین کے گابا سٹیڈیم میں پاکستانی کپتان اظہر علی نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا تھا۔ پاکستانی بیٹنگ لائن اپ میں اسد شفیق نے سب سے بہتر کھیل پیش کرتے ہوئے 76 رنز بنائے لیکن وہ پیٹ کمنز کا شکار ہوئے۔ آسٹریلوی فاسٹ بولر مچل سٹارک نے چار پاکستانی بلے بازوں کو آؤٹ کیا۔ اسد شفیق کے علاوہ کوئی بھی بلے باز آسٹریلوی بولرز کو جم کر نہ کھیل سکا رضوان کی وکٹ اور نو بال کا اصول پہلے دن کے کھیل کی اہم بات پاکستانی بلے باز محمد رضوان کی متنازع وکٹ تھی۔ انھیں پیٹ کمنز کی گیند پر وکٹ کیپر نے کیچ کیا لیکن ایکشن ری پلے میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ کمنز کا پیر گیند کرواتے ہوئے کریز سے باہر تھا۔ یہ معاملہ تھرڈ امپائر کے پاس بھی گیا اور متعدد بار ایکشن ری پلے دینے کے بعد بھی ان کا فیصلہ آسٹریلیا کے حق میں ہی رہا۔ رضوان جب آؤٹ ہوئے تو وہ اسد شفیق کے ساتھ مل کر 49 رنز کی شراکت قائم کر چکے تھے اور ان کا انفرادی سکور 37 تھا جس میں انھوں نے سات چوکے مارے تھے۔ کسی بھی کرکٹ میچ کے دوران، ایک بولر کے اوور میں نو بال ہونے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ تاہم جہاں بات فرنٹ فٹ یعنی اگلے پاؤں اور کریز کی ہو تو آئی سی سی کا یہ اصول موجود ہے: سوشل میڈیا پر پاکستانی شائقین رضوان کی وکٹ پر کافی مایوس نظر آرہے ہیں۔ کچھ لوگ امپائر کے فیصلے پر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں تو بعض یہاں بھی ہنسنے اور ہنسانے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایاز خان نامی ٹوئٹر صارف کا کہنا تھا کہ ’ظاہر ہے یہ نو بال تھی۔‘ وہ یہ وضاحت دیتے ہیں کہ بولر کے فرنٹ فٹ کا کوئی بھی حصہ لائن کے پیچھے نہیں ہے۔ لیکن دوسری طرف حسیب نامی صارف کے مطابق اسے نو بال نہیں کہہ سکتے ’کیونکہ بولر کا فرنٹ فٹ لائن پر ہے۔‘ رضوان کی وکٹ پر پاکستانی شائقین نے مزاحیہ میمز بھی بنائے۔ ایک پوسٹ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک پاکستانی فین غصے میں ہے۔ پاکستانی بیٹنگ: اچھے آغاز سے برا اختتام دن کے آغاز پر پاکستان کی جانب سے شان مسعود اور کپتان اظہر علی نے اننگز کا آغاز کیا اور محتاط انداز میں کھیلتے ہوئے کھانے کے وقفے تک میزبان ٹیم کو کوئی کامیابی حاصل نہیں کرنے دی۔ دن کے دوسرے سیشن میں آسٹریلوی بولر کھیل میں واپس آئے اور 75 کے سکور پر پہلے شان مسعود 27 رنز بنانے کے بعد کمنز کی گیند پر سلپ میں سمتھ کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔ ان کے ساتھی اظہر علی بھی مجموعی سکور میں کسی اضافے کے بغیر اگلے اوور میں 39 رنز بنانے کے بعد ہیزل وڈ کی پہلی وکٹ بنے۔ محمد رضوان امپائر کے متنازع فیصلے کا شکار ہوئے شان مسعود کی جگہ آنے والے حارث سہیل صرف ایک رن بنا سکے اور انھوں نے اس میچ میں مچل سٹارک کو پہلی وکٹ لینے کا موقع دیا۔ ٹور میچوں کے دوران شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بابر اعظم نے انتہائی غیرذمہ دارانہ انداز میں شاٹ کھیل کر اپنی وکٹ گنوائی۔ وہ بھی ایک رن ہی بنا سکے۔ اس موقع پر پاکستان کا سکور بغیر کسی نقصان کے 75 رنز سے چار وکٹوں کے نقصان پر 78 ہو گیا۔ پانچویں وکٹ کے لیے افتخار احمد اور اسد شفیق نے 24 رنز کی شراکت قائم کی جسے نیتھن لیون نے افتخار کی وکٹ لے کر توڑا۔ افتخار کی جگہ آنے والے محمد رضوان نے تیزی سے سکور میں اضافہ کیا اور سات چوکوں کی مدد سے 34 گیندوں پر 37 رنز کی اننگز کھیلی تاہم جب وہ امپائر کے متنازع فیصلے کا شکار ہوئے تو پاکستان کا سکور چھ وکٹوں کے نقصان پر 143 رنز تھا۔ مچل سٹارک نے ایک ہی اوور میں آسٹریلیا کے لیے ساتویں اور آٹھویں وکٹ لی۔ انھوں نے پہلے 26 رنز بنانے والے یاسر شاہ کو بولڈ کیا جنھوں نے اسد شفیق کے ہمراہ ساتویں وکٹ کے لیے 84 رنز کی اہم شراکت قائم کی۔ ان کی جگہ آنے والے شاہین آفریدی بغیر کوئی رن بنائے وکٹوں کے پیچھے کیچ ہوئے۔ پاکستان کے آؤٹ ہونے والے آخری بلے باز نسیم شاہ تھے جو آسٹریلوی بولر مچل سٹارک کا شکار ہوئے۔ آسٹریلیا کی جانب سے پیٹ کمنز نے تین، ہیزل وڈ نے دو جبکہ لیون نے ایک وکٹ لی ہے۔ پاکستان نے وارم اپ میچوں میں متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے 16 سالہ فاسٹ بولر نسیم شاہ کو اس میچ میں کھلایا ہے جو اپنے کریئر کا پہلا ٹیسٹ میچ کھیل رہے ہیں۔ خیال رہے کہ 1995 سے لے کر اب تک کوئی پاکستانی ٹیم آسٹریلیا میں ٹیسٹ میچ جیت نہیں سکی ہے جبکہ گابا کے میدان پر آسٹریلیا 1988 سے کوئی ٹیسٹ میچ نہیں ہارا ہے۔ پاکستان 16 سالہ نسیم شاہ اپنے کیریئر کا پہلا ٹیسٹ میچ کھیل رہے ہیں آسٹریلیا کے اس دورے پر پاکستانی ٹیم کی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ پہلا ٹی ٹوئنٹی میچ بارش کی نذر ہوا جبکہ دوسرے میچ میں پاکستان کو سات وکٹوں سے اور تیسرے میچ میں دس وکٹوں سے شکست ہوئی۔ تاہم اس دورے کے وارم اپ میچ میں پاکستانی بلے بازوں اسد شفیق اور بابر اعظم دونوں نے آسٹریلیا اے کے خلاف سنچریاں سکور کیں ہیں۔ آسٹریلیا کی ٹیم ڈیوڈ وارنر، جو برنز، مارنس لابوشین، سٹیون سمتھ، ٹریوس ہیڈ، میتھیو ویڈ، ٹم پین (کپتان اور وکٹ کیپر)، پیٹ کمنز، مچل سٹارک، نیتھ لائن، جاش ہیزل وڈ پاکستان کی ٹیم شان مسعود، اظہر علی (کپتان)، حارث سہیل، بابر اعظم، اسد شفیق، افتخار احمد، محمد رضوان (وکٹ کیپر)، یاسر شاہ، شاہین آفریدی، محمد عباس، نسیم شاہ
040807_somali_ordeal_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/08/040807_somali_ordeal_fz
سومالی ٹرک ڈرائیور کی کہانی
سومالیہ سے تعلق رکھنے والے ٹرک ڈرائیور جس کو عراق میں اغواء کر لیا گیا تھا رہائی پانے کے بعد کویت پہنچنے پر اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے اغواء کنندگان نے کہا ہے کہ تمہارا نام پورے عراق میں پھیلا دیا گیا ہے اور اگر تمہیں دوبارہ عراق میں دیکھا گیا تو تمہیں فوراً گولی ماردی جائے گی۔
سومالیہ کے ٹرک ڈرائیور علی احمد موسی کو چوبیس جولائی کو بغداد سے دو سو کلو میٹر دور اغواء کر لیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا ان کو یرغمال بنانے کے بعد ایک عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جس نے انہیں موت کی سزا سنا دی گئی لیکن اس کے بعد ان کے اغواء کنندگان نے ان سے بہت اچھا سلوک کیا اور انہیں اچھی خوراک مہیا کرتے رہے۔ عراقی کی شدت پسند تنظیم توحید والجہاد نے اعلان کیا تھا کہ اگر علی موسی کی کمپنی نے عراق میں اپنا کاروبار بند نہ کیا تو انہیں ہلاک کر دیا جائے گا۔ موسی کو سومالیہ ، ایرٹریا اور جبوتی کی حکومت کی طرف سے کی گئی اپیلوں کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ موسی نے بتایا کہ وہ ٹرکوں کے ایک قافلے کے ساتھ بغداد جا رہے تھے اور ان کا ٹرک سب سے پیچھے تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک گاڑی سے ان کا راستہ روکا دیا گیا اور چند مسلح افراد نے انہیں اغواء کر لیا۔ موسی کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی اور گاڑی کی ڈکی میں بند کرکے ایک نامعلوم مقام پر لیے جایا گیا۔ موسی نے بتایا کہ جس کمرہ عدالت میں انہیں پیش کیا گیا وہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور اس میں ایک لمبی داڑھی والا شخص جج کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ عدالت نے انہیں امریکی فوج کی معاونت کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنادی۔ موسی نے کہا کہ انہیں دشمنوں کا ساتھی تصور کیا جاتا رہا اور اغواء کاروں نے انہیں اپنے ساتھ نماز اور کھانے میں شریک نہیں کیا۔ موسی نے بتایا کہ وہ سب عراقی تھے اور امریکی قبضے کے خلاف غصے میں تھے۔
150621_baat_say_baat_atk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/06/150621_baat_say_baat_atk
آپ ہی خیال کر لو مائی باپ
ہر ریاست اور سماج کا فرض ہے کہ وہ وطن کے لیےجان دینے والوں کو یاد رکھے اور ان کے ورثا کا پورا خیال رکھے۔
وزیرِ اعلی قائم علی شاہ نے سندھ میں فوجی شہدا کے لیے نو ہزار ایکڑ اللاٹ کی ہے اس تناظر میں سندھ حکومت کا یہ فیصلہ مستحسن ہے کہ ضلع شکار پور میں نو ہزار چھ سو ایکٹر جنگلاتی کی اراضی مسلح افواج کے پانچ سو شہدا کے ورثا کے لیےمنظور کر لی گئی تاکہ وہ کھیتی باڑی کے ذریعے زندگی سہل بنا سکیں۔ آرمی سنہ 2001 سے کوشاں تھی کہ شکار پور میں35ہزار ایکڑ زمین مل جائے۔صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف نے جانے کیوں اس مطالبے پر توجہ نہیں دی اور بعد کی حکومتیں بھی یہ معاملہ ٹالتی رہیں۔بالاخر وزیرِ اعلی قائم علی شاہ نے 14 برس بعد یہ مسئلہ جزوی طور پر نمٹایا۔ فوجی افسروں اور جوانوں کو ان کی خدمات اور بہادری کے عوض زمین الاٹ کرنے کا کام سنہ 1900 کے آس پاس برطانوی دور میں شروع ہوا لیکن اس الاٹمنٹ کی وجوہات ، مقاصد اور الاٹی کا ریکارڈ بھی رکھا جاتا تھا۔زمین کا مالک صوبہ تھا اور فوج کو لیز پر زمین طے شدہ مقاصد کے لیےدی جاتی تھی اور یہ مقاصد اصل مالک ( صوبے ) کی مرضی کے بغیر تبدیل نہیں ہوسکتے تھے۔بصورتِ دیگر مجاز الاٹی اتھارٹی لیز منسوخ کرنے کی مجاز تھی۔ مگر پاکستان بننے کے بعد فوج کو زمین کی الاٹمنٹ اور اس کی تفصیلات کا معاملہ بھی حساس قومی معاملات کی فہرست میں ڈال دیا گیا اور اس بابت کبھی فوج یا ریاست کی جانب سے کوئی جامع باضابطہ تفصیلات سامنے نہ آسکیں۔( تاہم پارلیمنٹ اگر چاہے تو تفصیلات طلب کرسکتی ہے )۔ محققین نے اپنے طور پر تفصیلات جمع کرنے کی کوشش ضرور کی۔پھر بھی شائد کبھی ٹھیک ٹھیک پتہ نہ چل سکے کہ کون سی زمین کس قیمت پر کیا کہہ کے کتنی مدت کے لیےالاٹ ہوئی اور پھر اس کا حقیقی استعمال کیا ہوا اور متبادل استعمال کی رسمی اجازت کس سے لی گئی۔ اب انگریز دور کی لاہور چھاؤنی کو ہی لے لیجئے۔یہ زمین فوج کو اے ون کیٹیگری میں لیز ہوئی تھی ۔یعنی اسےصرف بیرکوں ، قلعہ بندی ، اسلحہ خانہ ، فضائی پٹی ، پریڈ میدان ، فوجی رہائش گاہوں ، فائرنگ رینج ، گراس اینڈ ڈیری فارمز ، ہسپتال اور جوانوں کی تفریحی سہولتوں اور پارکس وغیرہ کے لیے ہی استعمال کیا جا سکتا تھا ۔ آج آپ کو کنٹونمنٹ کے 80 فیصد رقبے پر بڑے بڑے گھر، کمرشل مراکز ، پلازے ، سینما ، شادی ہال ، بیکریاں اور چکن تکے نظر آئیں گے ۔پھر بھی یہ کنٹونمنٹ ہی کہلاتی ہے۔سابق کور کمانڈر لاہور لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ ہمایوں خان بنگش نے اپنے ایک مقالے میں اے ون کیٹگری زمین کے کمرشل استعمال کو ناپسند ضرور کیا مگر یہ بھی کہا کہ کمرشل استعمال سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی آخرِ کار فوجیوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں دو ہزار ایک میں تینوں مسلح افواج کے شہدا اور ریٹائرڈ فوجیوں کے لئے سترہ ہزار سات سو اٹھاون ایکڑ زمین الاٹ ہوئی مشرف دور میں جب اوکاڑہ ملٹری فارمز کے کسان ایجی ٹیشن کررہے تھے تو فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل شوکت سلطان نے اس بابت ایک سوال کا یہ جواب دیا کہ پانچ ہزار ایکڑ ہو کہ 17 ہزار ایکڑ ۔آرمی کو ان کا کیا کرنا ہے یہ آرمی کے علاوہ کون طے کرے گا۔ایک اور موقع پر انھوں نے کہا ہم سرکاری زمینوں پر نہیں آرمی کی زمین پر گھر اور پروجیکٹس بناتے ہیں۔( ہائے بے چارہ انگریز جو لیز شدہ زمین کے استعمال کی اجازت کے لیےبھی صوبے کے رحم و کرم پہ تھا)۔ اس پر مجھے سن 50 کے عشرے کا وہ قصہ یاد آ گیا جب یہ بات پھیلی کہ سندھ کی جو بیراجی زمین فوج کو الاٹ ہوئی ہے اس کی ڈویلپمنٹ امریکی فوجی گرانٹ سے ہوئی ہے۔اس پر پنجاب کے وزیرِ خزانہ نواب افتخار حسین نے کہا کہ فوج مجاز ہے کہ وہ اپنے پیسے کو جہاں بھی استعمال کرے۔ جانے نوشہرہ میں جو زمین کبھی فائرنگ رینج کے لیےالاٹ ہوئی ہوگی وہ آہستہ آہستہ پھل دار باغات میں کب بدل گئی۔ کوئی بتائے گا کہ ڈی ایچ اے کراچی کی زمین 70 کے عشرے میں سندھ بورڈ آف ریونیو نے کس نرخ پر الاٹ کی اور کس نرخ پر آگے فروخت ہوئی۔ کوئی بتائے گا کہ 1982- 1983 میں لیہ کے علاقے رکھ کونا اور رکھ جدید میں 20500 ایکڑ زمین 146 روپے فی ایکڑ کے حساب سے 20 برس میں رقم کی ادائیگی کی سہولت کے ساتھ الاٹ ہوئی تھی یا یہ بھی کوئی بے بنیاد مفروضہ ہے۔ جانے نیشنل اسٹیڈیم کراچی کے پیچھے کرکٹ کنٹرول بورڈ کی زمین کب کنٹونمنٹ بورڈ کی تحویل میں آ گئی اور کب آرمی آفیسرز کالونی بن گئی اور کب چھ لاکھ کا پلاٹ تین ماہ میں ڈیڑھ کروڑ کا ہوگیا ۔کب جنرل توقیر ضیا کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنے اور کب چلے گئے۔ کوئی تصدیق کرے گا کہ اسلام آباد کے ای سیکٹر میں دو ہزار پانچ میں نئے جی ایچ کیو کے لیےحاصل کی جانے والی3375 ایکڑ زمین کا ریٹ40 روپے مربع گز طے ہوا ۔یا یہ بھی کسی نے بے پر کی اڑائی ہے ؟ جانے اس کی مارکیٹ ویلیو تب کیا تھی اور اب کیا ہے ؟ اس بارے میں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے کچھ پوچھنا اس لیےزیادتی ہے کہ وہ تو چک شہزاد کے زرعی فارم ہاؤسز میں سبزیوں کی جگہ محلوں کی کاشت تک نہ رکوا سکی ۔ جنوبی پنجاب اور سندھ میں سن50 کے عشرے سے جو ہزاروں ایکڑ زرعی مقاصد کے لیےالاٹ ہوئے ان میں سے اکثر کے مالک غیر حاضر کیوں ہیں اور ان کی زمینیں سویلین زمیندار کرائے پر کیسے استعمال کررہے ہیں اور جن چھوٹے کاشتکاروں کو پیڑھی در پیڑھی زرعی محصولات کی وصولی کے باوجود بے دخل کیا گیا ان میں سے اکثر اپنی بوسیدہ محصولاتی فائلیں اٹھائے ادھر سے ادھر جوتیاں کیوں چٹخا رہے ہیں یا پھر نازل مالکان کی زمینوں پر ہاری کیوں بن گئے ۔کیا آپ نے چولستان میں380 روپے ایکڑ پر زمین الاٹ کروانے والے کسی پرویز مشرف یا خالد مقبول کو اپنے ہی رقبے پر کبھی ٹریکٹر چلاتے دیکھا ؟ جنوری 1988 میں پنجاب اسمبلی کو بتایا گیا کہ 1977-1985 تک چولستان سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں5578 عسکری اہلکاروں کو ساڑھے چار لاکھ ایکڑ زمین الاٹ ہوئی ۔ اس بابت سنہ 2002 میں لاہور ہائی کورٹ میں ایم ڈی طاہر نے چولستان میں انتہائی سستے نرخ پر الاٹمنٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تو پنجاب بورڈ آف ریونیو کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ 1981-2000 کے عرصے می62 سینئر اور 56 جونئیر افسروں کو چولستان اور دیگر اضلاع میں جی ایچ کیو کی ہدایات پر زمین الاٹ کی گئی ۔اس کی تفصیلات جی ایچ کیو ہی بتا سکتا ہے۔ جی ایچ کیو کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ زمین کی الاٹمنٹ جیسے موضوعات سروس معاملات میں آتے ہیں اور سروس معاملات آرمی ایکٹ کے دائرے میں ہیں۔ لہذا آئین کے آرٹیکل ایک سو ننانوے کے تحت حاصل تحفظ کے سبب انھیں کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں سنہ 2001 میں تینوں مسلح افواج کے شہدا اور ریٹائرڈ فوجیوں کے لیے17758 ایکڑ زمین الاٹ ہوئی ۔تین برس بعد اس میں سے بارہ سو کنال زمین ایڈجوٹنٹ جنرل ویلفیئر کے دفتر سے دو بااثر سیاسی شخصیتوں کو الاٹ کردی اور اچانک ہی مشرف صاحب کے وردی اتارنے کے سوال پر ان شخصیات کا موقف حلوہ ہوگیا۔جبکہ نیوی کے شہدا کے کوٹے میں جو زمین آئی اس میں سے ڈیڑھ سو کنال خیبر پختون خواہ کے ان ریونیو افسروں کو بطور تحفہ بخش دے دی گئی جنہوں نے زرعی زمین کو کمرشل کیٹگری میں بدلوایا ۔یہ مقدمہ سنہ 2001 سے نیب کے پاس ہے ۔کچھ فیصلہ ہوا ؟ پچھلے 68 برس میں لگ بھگ پندرہ سے بیس ہزار جوانوں اور افسروں نے وطن پر جان قربان کی اور اس وقت تقریباً تیرہ لاکھ کے لگ بھگ پنشن یافتہ فوجی موجود ہیں۔ان سب کو رہائش اور زندگی کی باوقار سہولتیں فراہم کرنا ریاست کا فرض ہے مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹیز سمیت تقریباً ستائیس فوجی رہائشی اسکیموں میں پچھتر فیصد پلاٹ اور گھر سویلینز کے پاس کیوں ہیں ؟ جبکہ چاروں صوبوں میں 93 لاکھ ایکڑ سرکاری زمین میں سے لگ بھگ دس لاکھ ایکڑ سرکاری زمین فوج اور اس کے ذیلی اداروں کے زیرِ استعمال ہے ۔اس میں سے سات لاکھ ایکڑ زمین زرعی نوعیت کی بتائی جاتی ہے۔اس کے علاوہ فوج کے ریٹائرڈ افسروں اور جوانوں کی دیکھ بھال کے لیےمتعدد فلاحی اداروں کا ایک موثر ڈھانچہ بھی ہے۔ 60 لاکھ بے مکان شہری اور تین کروڑ بے زمین کسان تو رہے ایک طرف مگر مائی باپ اسی وطن میں پولیس اور نیم فوجی اداروں کے ہزاروں شہدا کے تھوڑے بہت ورثا بھی تو رہتے ہیں ۔یہ نا اہل ، کرپٹ ، سفاک ، مشکوک سویلینز تو کبھی بھی ان کے لیےکچھ نہیں کریں گے۔آپ ہی کچھ خیال کرلو مائی باپ۔۔۔۔ ۔
071119_bollywood_diary_awa
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/11/071119_bollywood_diary_awa
بالی وڈ ڈائری: بولڈ منظر، خان کی دیوانی
خان کی دیوانیدنیا روس کی نامور کھلاڑی اور حسینہ ماریا شاراپووا کی دیوانی ہے لیکن کیا آپ یقین کریں گے کہ وہ شاہ رخ خان کی دیوانی ہیں؟ ہمیں بھی یقین نہیں آیا لیکن دبئی میں’ ‎ کافی ود کرن‘ کے شو میں جب کرن جوہر نے انہیں شاہ رخ کی دستخط کے ساتھ ان کا بڑا سا پوسٹر دیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ٹینس کھلاڑی کی خواہش تھی جسے انہوں نے پورا کیا۔ ویسے ہم نے اکثر پروگراموں میں خان کے لیے لڑکیوں کو روتے دیکھا ہے۔شاید یہی وجہ ہے امریکہ میں ہالی وڈ کے مشہور اداکار ٹام کروز کی فلم ’ لائنز فار لیمبز‘ سے زیادہ اوم شانتی اوم نے بزنس کیا!
شاہد کی دوست! شاہد بھی اب اکیلے نہیں ہیں۔جی ہاں لوگوں نے ان کی کار میں بالی وڈ کی حسینہ وہی اپنی ودیا بالن کو دیکھا ہے۔آپ سوچ رہے ہوں گے اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ہاں یہ کوئی چونکانے والی بات نہیں ہے لیکن کہانی کا دوسرا رخ تو دیکھئے۔فلم ہلہ بول کی پارٹی سے ودیا باہر نکلیں۔اپنی کار میں بیٹھیں کار کچھ دور تک چلی لیکن یہ کیا۔۔۔تھوڑی دور جانے کے بعد ودیا کی کار رکی اور اس میں سے نکل کر ودیا وہیں قریب کھڑی سلور رنگ کی کار میں بیٹھ گئیں۔اور پھر وہ کار شاہد کے گھر کے پاس رکی۔ ٹھیک ہے ویسے بھی اب شاہد نے تمام پرانی یادوں کو ختم کر دیا ہے یعنی انہوں نے اپنی اور کرینہ کی مشترکہ سکریٹری کو بدل دیا۔ کرینہ کے گھر کے قریب اپنا گھر بدل دیا۔۔۔ ہمارے خیال میں اب کچھ اور بدلنے کے لیے بچا بھی نہیں ہے ۔۔۔کیوں؟ ایک ٹکٹ اور ۔۔۔۔ امیتابھ بچن کی بھوجپوری فلم ’ گنگوتری‘ کی تشہیری پارٹی میں ان کے ساتھ ان کی بہو ایشوریہ رائے بھی موجود تھیں۔اتنی مصروف اور اتنی بڑی اداکارہ کو کسی بھوجپوری فلم کی تشہیر کے لیے مدعو کرنا کتنا مشکل ہے یہ کسی پی آر ایجنسی سے پوچھئے۔فلم جودھا اکبر کی شوٹنگ ختم ہونے پر دی گئی پارٹی میں ابھیشیک بچن موجود تھے اور یہ کہ وہ ڈسکو جاکی بنے اور خوب جم کر ناچے بھی۔ ہمیں لگتا ہے کہ اب فلمساز اگر ایک ساتھ سب کو نہ سہی فیملی کے کسی ایک ممبر کو بھی فلم میں سائن کر لیتے ہیں تو پھر انہیں فلم کی تشہیر کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ انجلینا خان کی پڑوسی ممبئی میں شاہ رخ خان کا اپنا سپنوں کا محل ہے لیکن اب انہوں نے دبئی کی خوبصورت وادیوں کہیں یا صحرا، خیر وہاں ایک بیش قیمت ولا خریدا ہے۔ہمارے خبروں کے مطابق انہیں یہ ولا تحفہ میں ملا ہے۔جو دبئی حکومت کی اپنی ایجنسی ’ نخیل‘ گروپ نے دیا ہے۔اس میں سوئمنگ پول اور ساری آسائشیں ہوں گی۔وہ تو ہونی ہی ہیں لیکن جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ ان کے پڑوسی انجلینا جولی اور بریڈ پٹ ہوں گے جنہوں نے اپنی بیٹی زارا کے نام سے آئی لینڈ خریدا ہے۔ سلمان اور کیف کا جھگڑا اس خبر پر یقین کرنے کا دل نہیں چاہتا ہے لیکن ہمارے خبرو کی اس خبر کو ہم نے دکھی دل کے ساتھ سنا۔ آپ سب شاید جانتے ہیں کہ موڈی سلمان جب کسی سے ناراض ہو جاتے ہیں تو پھر اس سے ملاپ مشکل سے ہی کرتے ہیں۔آپ کو یاد ہو گا وویک کا معاملہ پھر شاہد کپور سے بھی۔ہاں بات شاہد سے جُڑی ہے۔ دراصل قطرینہ کیف نے اب تک سلمان کی ناراضگی کو سمجھ کر جان یا وویک کے ساتھ کوئی بھی فلم سائن نہیں کی تھی لیکن اب انہوں نے سلمان کو بتائے بغیر شاہد کپور کے ساتھ ایک فلم سائن کر لی۔جس سے سلمان بہت ناراض ہیں اور ان دونوں کے درمیان فون پر زبردست بحث بھی ہوئی ہے۔فون پر اس لیے اس وقت قطرینہ سنگھ از کنگ کی شوٹنگ کے لیے آسٹریلیا میں موجود ہیں۔ ویسے ہم سمجھتے ہیں کہ دوستی اور رشتوں میں ایک دوسرے کے مفاد اور جذبات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اور جب عامر رو پڑے۔۔۔۔ عامر خان اتنے جذباتی ہوں گے یہ کسے پتہ تھا۔چلڈرنس ڈے کے موقع پر عامر نے غریب بچون کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔ان بچوں نے جب ایک گیت ’ میا میری تو مجھ کو ممبئی بھیجنا‘ گایا تو عامر کی آنکھوں سے آنسو ان کے گالوں پر بہنے لگے۔عامر کی آنے والی فلم تارے زمین پر بچوں کے لیے بنائی گئی ایک فلم ہے جو دسمبر میں نمائش کے لیے پیش ہو گی۔ بولڈ منظر ہماری بالی وڈ ہیروئین بھی اب بولڈ سین کرنے میں ہالی وڈ ہیروئین سے کچھ کم نہیں ہیں۔ ہم جنس پرستی پر لکھے گئے مصنف شمیم عارف کے ناول ’ آئی کانٹ تھنک سٹریٹ ' پر فلم بن رہی ہے جس میں لیزارے کا اداکارہ شیتل سیٹھ کے ساتھ پیار کرنے کا ایک سین ہے۔ لیزارے نے اس میں اپنا ڈپلی کیٹ لینے کے بجائے وہ سین خود کیا ہے۔اسی طرح سونالی کلکرنی نے فلم ’ سٹرینجر‘ میں نیم برنہ سین دیا ہے۔کیا آپ بولڈ حسیناؤں کو سراہیں گے نہیں۔۔۔ شعیب کی چاہتراولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر بالی وڈ اداکار سنجے دت سے ملنے کے خواہشمند ہیں۔ سنجے کے لیے اختر نے ایک تحفہ بھی خریدا ہے۔سنجے اس وقت پونے کی یروڈا جیل میں ہیں اور ان کی ضمانت کی اپیل پر بیس نومبر کو سماعت بھی ہو گی اگر سنجے کو رہائی مل جاتی ہے تو شعیب ممبئی میں ان کے گھر پر ہی ملاقات کریں گے ورنہ وہ پونے کی یروڈا جیل جائیں گے۔
pakistan-38863781
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-38863781
سوشلستان: امریکہ میں اسلام بذریعہ ٹرمپ
امریکی ایئرپورٹ مساجد بن گئے
سوشلستان میں آج آصفہ بهٹو زرداری کا سالگرہ کا ٹرینڈ نمایاں ہے۔ اس کے علاوە رینجرز، بابا لاڈلا کے عنوانات بهی ہیں۔ مگر بہت سے ہیں جو ان دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سات مسلمان ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیوں پر سراپا احتجاج ہیں مگر اسی کے ساتھ کچه لوگوں کا خیال ہے کہ ہمیں اپنے گریبان میں بهی جهانکنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر مختلف جانب سے اس بات پر بھی تبصرے کیے جا رہے ہیں جن میں اس پابندی کے مضمرات اور اثرات پر بحث جاری ہے۔ ٭'ایک عورت ہو کر ایسے کرتی ہے؟' ٭’یہ اردوغان کا ملک نہیں‘ چوہدری وسیم عظمت نے لکها 'صدر ٹرمپ نے انتہا پسند مسلمانوں کے امریکہ آنے پر پابندی لگا دی ہے, جو مسلمان انتہا پسندی میں ملوث نہیں وہ پہلے کی طرح امریکہ جا سکتے ہیں' سوشل میڈیا پر کبهی ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی جائز یا ناجائز بات ہو اور اس کے حمایت یا اسے درست یا غلط ثابت کرنے کے لیے موازنے سامنے نہ آنا شروع ہو جائیں۔ اس معاملے میں بهی سوشل میڈیا پر مسلمانوں کی جانب سے مسلمانوں پر لگائی پابندیوں کا ذکر زوروشور سے جاری ہے۔ عبدالغفار عزیز نے ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکها کہ 'شکریہ #ٹرمپ آپ نے مسلمانوں پر پابندی لگا کر #امریکی ایئرپورٹ مساجد میں بدل دیے۔' رب نواز بلوچ نے لکها 'دنیا بھر کے غیر مسلم ٹرمپ کے مسلمانوں پر پابندی کے خلاف احتجاج کررہے۔ لیکن مسلم دنیا خاموش۔' اس حوالے سے چند صارفین نے سعودی عرب اور کویت کی جانب سے نکالے جانے والے پاکستانیوں کا ذکر بهی کیا جن پر ویزوں کے حوالے سے مختلف قوانین لاگو کیے گئے ہیں۔ اس پابندی پر سامنے آنے والی منافقت پر بات کرتے ہوئے یہ جملہ بہت شیئر کیا جا رہا ہے کہ 'جو اپنی مسجد میں دوسرے عقیدە کے مسلمانوں کو داخل نہیں ہونے دیتے وہ امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پریشان ہیں۔' مگر بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر امریکی ہوائی اڈوں کے مناظر شیئر کیے جہاں مسلمان اجتماعی نماز باجماعت ادا کر رہے ہیں جس پر تبصرە کرتے ہوئے مشہور امریکی کامیڈین حسن منہاج نے تبصرە کیا کہ 'جس چیز سے امریکہ میں لوگ ڈرتے تهے اب وہ سب کے سامنے ہو رہا ہے۔ امریکہ میں اسلام کا ظہور بذریعہ ٹرمپ' ٹوئٹر اور ٹرمپ کے حامی باٹس میں جنگ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی سیاسی تحریک کی قوت میں ان کی سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت کو بهی ایک اہم جزو قرار دیا ہے مگر اب اس قوت کے حقیقی ہونے پر بهی سوالات اٹهائے جا رہے ہیں۔ اگر آپ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹس پر آنے والے ردِ عمل کا جائزە لیں تو اس سے اندازہ ہو گا کە ان سب میں کافی تعداد ایسے اکاوںٹس کی ہے جن کی ٹویٹس سے اندازە ہوتا ہے کە ان سب کو ایک پروگرام کے تحت لکها گیا ہے۔ مگر ٹوئٹر نے چند ماە قبل ٹویٹس کے جواب میں لکهی جانے والے جوابات کی تعداد بهی ظاہر کرنا شروع کی ہے جس سے اب جواب میں لکهی جانے والی کمپیوٹرائزڈ ٹویٹس کا اندازە آسانی سے ہو جاتا ہے۔ اس کےنتیجے میں اہم اور مقبول ٹویٹس اوپر نظر آتی ہیں جبکە جعلی اور کمپیوٹر پروگرام سے کی جانے والی ٹویٹس نیچے جانا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس ہفتے کا تعارف پاکستان میں مختلف تنظیمیں محتلف موضوعات پر کام کرتی ہیں جن میں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم بلیو وینز ایک اہم کام کر رہی ہے اور وہ ہے خواجە سراؤں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم بلیو وینز ہے۔ بلیو وینز کے بارے میں آپ مزید جاننے کے لیے آپ اس لنک پر کلک کریں۔ http://blueveins.org/ اس ہفتے کی تصویر سخت سردی کے موسم میں ایک مدرسے میں پرھنے والی بچیاں خود کو گرم رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے پنڈ سلطانی میں بیلوں کی ریس کا ایک منظر
world-54158034
https://www.bbc.com/urdu/world-54158034
اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان امن معاہدے: اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والا اگلا عرب ملک عمان ہو گا؟
مصر، اُردن اور متحدہ عرب امارات کے بعد اب بحرین مشرق وسطیٰ کا چوتھا ملک بن گیا ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں۔
عمان کی اسرائیل کے ساتھ غیر رسمی تجارت گذشتہ کچھ برسوں سے جاری ہے اور سنہ 2018 میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے عمان کا دورہ بھی کیا تھا حال ہی میں اسرائیل اور بحرین نے اپنے تعلقات کو مکمل طور پر معمول پر لانے کے لیے ایک تاریخی معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔ گذشتہ ماہ اگست میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین ہونے والے امن معاہدے پر عملدرآمد کا باضابطہ آغاز اُس وقت ہوا جب اسرائیل سے پہلی پرواز سعودی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے یو اے ای پہنچی۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ ان امن معاہدوں نے عرب ممالک اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے کیونکہ اس سے قبل کئی عشروں سے زیادہ عرصے سے عرب ممالک مسئلہ فلسطین اور مسلم دنیا کے تیسرے مقدس شہر مشرقی یروشلم کے پیش نظر اسرائیل کا بائیکاٹ کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے کیا اسرائیل کو تسلیم نہ کر کے پاکستان غلطی کر رہا ہے؟ اسرائيل، ایران اور عمان کی 'لو ٹرائینگل کا ہیرو' اسرائیل اور عرب ریاستیں: مسئلہ فلسطین سے کویت کا تاریخی تعلق کیا ہے؟ اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کے حوالے سے عرب ممالک کی یہ دیرینہ شرط رہی ہے کہ جب تک اسرائیل فلسطین کو علیحدہ ریاست کا درجہ نہیں دیتا وہ (عرب ممالک) اس کے ساتھ کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ یاد رہے کہ فلسطین کے رہنماؤں نے علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کو ’دھوکہ دہی‘ قرار دیا تھا۔ عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات سنہ 1948 سے، یعنی جب سے اسرائیل ایک آزاد ملک کی حیثیت سے معرض وجود میں آیا ہے، عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ سنہ 1948 میں ہی کچھ عرب ممالک نے نئے قائم ہونے والے اس ملک کے وجود کو ختم کرنے کی ناکام کوششیں بھی کی تھیں۔ سنہ 1949 میں مصر کی فوج نے ایسی ایک کوشش کی تھی تاہم بعدازاں مصری افواج کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا تاہم سنہ 1979 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے والا پہلا ملک مصر ہی تھا۔ اس معاہدے کی وجہ سے عرب لیگ نے مصر کی رکنیت بھی منسوخ کر دی تھی۔ مصر کے بعد اردن نے سنہ 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اب متحدہ عرب امارات اور بحرین نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور اسی کے ساتھ ہی مشرق وسطی میں اسرائیل کے لیے نئی راہیں کھل گئی ہیں۔ دوسری جانب ایران اور ترکی جیسے ممالک نے مشرق وسطی کے ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی اس پیش رفت پر سخت اعتراض کیا ہے اور اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ عمان کے سابق سلطان قابوس اسرائیلی وزیراعظم کے ہمراہ کیا اب عمان کی باری ہے؟ اسرائیل کے حوالے سے مشرق وسطی کے ممالک کے رویوں میں آنے والی ان سیاسی تبدیلیوں کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی بڑی وجوہات میں ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت، تیل کی قیمتوں میں کمی، خلیجی ممالک میں حکومتوں کے خلاف بغاوت کے خطرات اور امریکی حمایت کے خاتمے کا خوف ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ اسرائیل کا جلد ہی عمان کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کر سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک کے مابین باضابطہ سفارتی تعلقات کا آغاز ہو سکتا ہے۔ عمان کی اسرائیل کے ساتھ غیر رسمی تجارت گذشتہ کچھ برسوں سے جاری ہے۔ سنہ 2018 میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے عمان کا دورہ بھی کیا تھا۔ اُس وقت انھوں نے عمان کے اس وقت کے رہنما سلطان قابوس سے مشرق وسطی میں امن کے قیام پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ اگرچہ عمان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ کسی بھی طرح کے معاہدے کے امکان کے بارے میں باضابطہ طور پر ابھی تک کچھ نہیں کہا ہے تاہم عمان نے بحرین اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن کے قیام کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ اسی خیرمقدم کی وجہ سے عمان کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ ہونے کی قیاس آرائیاں تیز تر ہو گئی ہیں۔ دہلی میں قائم جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ویسٹ ایشیا سینٹر کے پروفیسر آفتاب کمال پاشا نے اس بات کا امکان ظاہر کیا ہے کہ عمان، اسرائیل امن معاہدہ جلد ہو سکتا ہے۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’عمان اور اسرائیل کے درمیان پرانے تعلقات رہے ہیں۔ عمان خلیج کا پہلا ملک تھا جہاں میڈرڈ کانفرنس کے بعد سنہ 1992 میں آبی تحقیق پر مبنی ایک مرکز کھولا گیا تھا۔ اسرائیلیوں کا باقاعدگی سے یہاں آنا جانا تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اسرائیل کے اُس وقت کے وزیر اعظم رابن بھی وہاں گئے تھے اور اس کے بعد شمعون پیریز نے بھی عمان کا دورہ کیا تھا جبکہ نتن یاہو نے سنہ 2018 میں عمان کا دورہ کیا۔ اس کے علاوہ بہت سارے اسرائیلی وزیروں نے بھی عمان کے دورے کیے ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ دوسری طرف امریکہ عمان پر اسرائیل کو ساتھ لے کر چلنے پر زور دیتا رہتا ہے۔ عمان نے اسرائیلی وزیر اعظم کے استقبال کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ بھی بیک وقت دوستانہ تعلقات برقرار رکھے اور عمان کی خارجہ پالیسی کی یہی خصوصیت رہی ہے عمان کی خارجہ پالیسی لیکن عمان کی اپنی ایک مخصوص خارجہ پالیسی رہی ہے۔ عمان کے ایران کے ساتھ تعلقات بھی ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں اور سنہ 2018 میں نتن یاہو کے مسقط دورے سے محض چار روز قبل عمان کے وزیر خارجہ کے سیاسی معاون محمد بن عوز الحسان نے تہران کا دورہ کیا اور ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف سے ملاقات کی تھی۔ عمان نے اسرائیلی وزیر اعظم کے استقبال کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ بھی بیک وقت دوستانہ تعلقات برقرار رکھے اور عمان کی خارجہ پالیسی کی یہی خصوصیت رہی ہے۔ عمان نے 1970 کی دہائی سے اب تک اپنے ملک کے لیے ایک انوکھی حکمت عملی اپنائی ہے، مشرق وسطی کے ممالک میں ایسا شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر عمان علاقائی تنازعات میں عام طور پر غیر جانبدار رہا ہے۔ اس کے علاوہ عمان ایک عرب ملک کے ساتھ خلیج تعاون کونسل کا ممبر بھی ہے۔ عمان نے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی ہے جبکہ حالیہ برسوں میں مشرق وسطی میں اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، مثال کے طور پر یمن اور شام کے حالات۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ عمان نے ہمیشہ دونوں فریقوں کی حمایت کی ہے تاکہ ایک ثالث کی حیثیت حاصل کر سکے۔ عمان کو درپیش مشکلات ایران کے ساتھ اس طرح کی پُرامن خارجہ پالیسی اور اچھے تعلقات کے تناظر میں کیا عمان کے اسرائیل کے ساتھ مل جانے سے نئی الجھنیں پیدا ہو سکتی ہیں؟ پروفیسر پاشا اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’عمان کے ایران کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں۔ جب ظفار میں بغاوت ہوئی تو ایران نے وہاں اپنی فوج بھیج دی اور بغاوت کو کچل دیا۔ انقلاب کے بعد بھی ایران کے ساتھ عمان کے اچھے تعلقات رہے ہیں اور جب سنہ 1979 میں مصر نے پہلی بار اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تو عمان واحد ملک تھا جس نے اس کا کھل کر استقبال کیا تھا۔‘ ’لہذا عمان عام طور پر ایران، ترکی، اسرائیل اور یہاں تک کہ عراق کے ساتھ بھی توازن کی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔ جب خلیجی ممالک نے صدام حسین سے رشتہ توڑ لیا اس وقت بھی عمان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ سلطان قابوس کی خارجہ پالیسی کی یہ ایک خصوصیت تھی، لیکن ابھی تک نئے سلطان کا موقف واضح طور پر سامنے نہیں آ سکا ہے۔‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’لیکن جس طرح سے نئے سلطان ہیثم بن طارق السعید نے وزیر خارجہ کو ہٹا دیا ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسرائیل کے بارے میں کوئی جلد بازی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ عمان کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے کوئی بہت اچھے تعلقات بھی نہیں ہیں کیونکہ متحدہ عرب امارات عمان میں سلطان قابوس کا تختہ پلٹنا چاہتا تھا۔‘ ’سلطان قابوس اسی وجہ سے بہت ناراض تھے۔ سلطان قابوس یمن کے معاملے پر بھی ان دونوں ممالک سے ناراض تھے کیونکہ یمن کی جنگ کی وجہ سے پناہ گزین کے مسئلے سے عمان کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس لیے اب نئے سلطان پرانی پالیسی پر ہی عمل پیرا رہتے ہیں یا آزادانہ نئی پالیسی اپناتے ہیں، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔‘ اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے میں خطرہ پروفیسر پاشا کا کہنا ہے کہ عمان کے سامنے دو خطرات ہیں جن پر انھیں توجہ دینے کی ضرورت ہو گی۔ ’پہلا خطرہ یہ ہے کہ ظفار میں جس بغاوت کو کچل دیا گیا تھا وہ اب بھی سرگرم ہے۔ ظفار عمان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ وہاں کے مقامی لوگوں کی یہ شکایت ہے کہ وہاں کا تیل اور گیس اپنے عوام کے بجائے دوسرے صوبے کے لوگوں کو دیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب یمن حوثی اور جنوبی یمن میں تقسیم ہے اور ظفار کے جنوبی یمن سے اچھے تعلقات ہیں کیونکہ وہاں ایک ہی قبیلے کے لوگ آباد ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اگر وہاں صورتحال کسی بھی وجہ سے خراب ہوتی ہے تو اس کا براہ راست اثر عمان پر پڑے گا۔ دوسری طرف پریشان کُن بات یہ ہے کہ عمان ایران کو ناراض نہیں کرنا چاہتا ہے، عمان اپنی سلامتی کے لیے امریکہ پر انحصار کرتا ہے لیکن اب آہستہ آہستہ امریکہ بھی اسرائیل کو آگے کر کے خطے میں اپنی موجودگی کم کرنا چاہتا ہے۔‘ پروفیسر پاشا کہ مطابق عمان کو اس بات کا بھی خوف ہے کہ اگر ایسی صورتحال بنتی ہے تو عمان کو ایران کے ساتھ کی ضرورت ہو گی اور عمان اسرائیل کے ساتھ کسی بھی معاہدے سے پہلے یقینی طور پر اپنے ان خدشات کو ذہن میں رکھنا چاہے گا۔ ’شاید اسی لیے دوسرے عرب ممالک کے مقابلے میں اسرائیل کے ساتھ متوازن خارجہ پالیسی اپنانے کے باوجود اس نے ابھی تک اسرائیل کی جانب کسی سمجھوتے کے لیے اپنا ہاتھ نہیں بڑھایا ہے۔‘
051231_bombtoy_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/12/051231_bombtoy_sen
بلوچستان: دستی بم سے 4 ہلاک
صوبہ بلوچستان کے شہر ماشکیل میں ایک دستی بم کو کھلونا سمجھ کر کھیلنے والے بچوں کےہاتھوں میں دھماکہ ہوا ہے جس سے ایک خاتون اور دو بچیوں سمیت چار افراد ہلاک اور تین افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ادھر خضدار میں کوئلے کی انگیٹھی کے دھویں سے تین بچے ہلاک ہو گئے ہیں۔
ماشکیل کوئٹہ سے کوئی ساڑھے چھ سو کلومیٹر دور ایران کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ علاقے کے تحصیلدار محمد نصیر نے بتایا ہے کہ بچوں کو یہ دستی بم آبادی سے کافی دور جنگل میں کہیں ملا تھا جسے وہ گھر لے آئے اور کھیلنے لگے۔ بم کو چھیڑنےسے زور دار دھماکہ ہوا ہے۔ دھماکے سے بچوں کی والدہ دو بچیاں اور ایک نوجوان ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ قریب کھیلنے والے ایک لڑکی اور دو لڑکے زخمی ہوئے ہیں۔ محمد نصیر نے بتایا ہے کہ بچوں کے والد کا انتقال ہو چکا ہے اور بچے محنت مزدوری کر کے پیٹ پالتے تھے۔ بلوچستان میں اس طرح کے واقعات پہلے بھی پیش آچکے ہیں جب گزشتہ سال مستونگ کے قریب بچوں کا دستی بم ملا تھا جس کے پھٹنے سے چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ افغانستان سے بلوچستان کے راستے منشیات کے علاوہ اسلحہ بھی مختلف علاقوں کو سمگل کیا جاتا ہے۔ سمگل کیا جانے والا اسلحہ ویرانوں میں زمین کے اندر چھپا کر رکھ دیاجاتا ہے اور موقع ملنے پر اسلحہ نکال دوسری مقام پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ابھی یہ معلوم نہیں ہے کہ بچوں کو یہ دستی بم کس طرح ملا ہے۔ اس بارے مں تحقیق کی جا رہی ہے۔ ادھر خضدار پولیس نے بتایا ہے کہ فرنٹیئر کور کے کیمپ میں رہایش پذیر ایک خاندان کے تین بچے ہلاک اور والدین بہ ہوش ہو گئے ہیں۔ پولیس اہلکار نے بتایا ہے کہ ایف سے کے اہلکاروں نے انھیں بتایا ہے کہ یہ واقعہ کوئلے کی انگیٹھی کے دھویں کی وجہ سے پیش آیا ہے۔
040719_rickshaw_strike_off
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/07/040719_rickshaw_strike_off
لاہور: رکشوں کی ہڑتال منسوخ
لاہور میں رکشہ یونین نے کل بھوک ہڑتال اور بائیس جولائی کو پہیہ جام ہڑتال کرنے کا اعلان منسوخ کردیا اور کہا کہ حکومت نے ان کے مطالبے مان لیے ہیں۔ یونین کے مطابق لاہور شہر میں پینتیس ہزار رجسٹرڈ اور چند ہزار غیر رجسٹرڈ رکشے ہیں جن میں سے نوے فیصد ایل پی جی گیس پر چلتے ہیں۔
یونین کے صدر جاوید صابر کا کہنا ہے کہ تین ماہ سے پنجاب حکومت کا محکمۂ ٹرانسپورٹ اور محکمۂ ماحولیات رکشوں سے ایل پی جی کٹ اتروانے کے لیے مہم چلا رہا تھا اور ڈھائی ہزار سے زیادہ رکشوں کے چالان کیے گۓ اور پندرہ سو کی گیس کٹ اتروا دی گئی۔ حکومت کا موقف تھا کہ ایل پی جی گیس استعمال کرنے والےرکشے خطرناک ہیں جبکہ رکشہ یونین کا کہنا تھا کہ آج تک ان کی وجہ سے کوئی حادثہ نہیں ہوا اور حکومت نے خود پانچ سال پہلے انھیں پیٹرول کے بجائے گیس کٹ لگوانے کی ترغیب دی تھی۔ رکشہ یونین کے صدر جاوید صابر نے بی بی سی کو بتایا کہ صوبہ کے چیف سیکرٹری کامران رسول نے ان سے ملاقات کی اور متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہ تین ماہ سے رکشوں کے خلاف جاری مہم بند کردی جائے۔ انھوں نے بتایا کہ چیف سیکرٹری نے متعلقہ محکموں سے کہا ہے کہ جب تک ایل پی جی گیس کے استعمال کا مکمل تجزیہ نہیں ہوجاتا اس کو استعمال کرنے پر رکشوں کے خلاف کاروائی نہ کی جاۓ۔ یونین کے صدر کا کہناتھا کہ چیف سیکرٹری نے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ دو اسٹروک انجن والے رکشوں کی رجسٹریشن بند کردی جاۓ اور چار اسٹروک انجن کے رکشوں کو چلانے کے لیے تجاویز کا جائزہ لیں۔
040202_blairbushwmd_ua
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/02/040202_blairbushwmd_ua
عراق: برطانیہ کا بش سے رابطہ
برطانوی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عراق کے وسیع تباہی کے ہتھیاروں کی عدم برآمدگی اور انٹیلیجنس رپورٹو سے متعلق غیرجانبدار انکوائری کے بڑھتے ہوئے مطالبہ کے بارے میں برطانوی وزیراعظم اور امریکہ کے درمیان رابطہ ہوا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کے لئے انکوائری سے متعلق اعلان کسی تعجب کا باعث نہیں ہے اور وزیراعظم ٹونی بلیئر اس سلسلے میں صدر بش کی جانب سے اعلان کے بعد اپنا موقف واضح کریں گے۔ غیرجانبدار انکوائری سے متعلق صدر بش کا اعلان اسی ہفتہ متوقع ہے۔ اب تک حکومت عراق کے وسیع تباہی کے ہتھیاروں کے نہ ملنے کی بنا پر بلیئر حکومت پر تنقید کرنے والوں کو یہ کہہ کر خاموش کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ کہ انہیں عراق سروے گروپ کی حتمی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہئیے۔ یہ گروپ امریکہ نے تشکیل دیا ہے جو عراق میں ان ہتھیاروں کی تلاش میں مصروف ہے۔ تاہم گزشتہ دنوں سروے گروپ کے سربراہ ڈیوڈ کے نے اپنے عہدے سے یہ کہہ کر استعفی دیدیا تھا کہ ان کے خیال میں عراق کے پاس ممنوعہ ہتھیار تھے ہی نہیں۔ ان کے استعفی کے بعد غیرجانبدار انکوائری کے لئے بش انتظامیہ پر دباؤ میں ڈرامائی اضافہ ہوگیا ہے۔ بش انتظامیہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ غیرجانبدار کمیشن سے کہا جائے گا کہ وہ اپنی رپورٹ آئندہ برس پیش کریں۔ اس سال نومبر میں امریکہ میں صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں۔
071127_journalist_released
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/11/071127_journalist_released
صحافی ریاض مینگل بازیاب ہوگئے
بلوچستان کے شہر خضدار سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی ریاض مینگل جنہیں چار اکتوبر کو اغواء کرلیا گیا تھا، قید سے فرار ہو کر منگل کے روز کوئٹہ پریس کلب پہنچ گئے۔
ریاض مینگل نے خضدار سے اپنے اغواء کے بارے میں پریس کلب پہنچنے کے بعد بی بی سی اردو ڈاٹ کام کو بتایا کہ خضدار کی با اثر شخصیات کے کہنے پر ان کا اغواء کیا گیا تھا۔ ریاض مینگل نے بتایا کہ ان کے اغواء کی اصل وجہ یہ تھی کہ خضدار میں پولیس نے دو گاڑیوں کو اپنے قبضے میں لیا تھا جو چوری شدہ تھیں اور بعد میں یہ گاڑیاں پولیس نے بغیر تحقیقات کے چھوڑ دیں۔ ریاض مینگل کے مطابق اس واقعے پر ان کی رپورٹ کی وجہ سے ان کا اغواء کیا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’چار اکتوبر سے لیکر 26 نومبر تک میرا کسی بھی طرح میرے گھر سے کوئی رابطہ نہیں تھا، کیونکہ اغواء کرنے والے مجھے مختلف جگہوں پر رکھتے تھے۔ کئی بار انہوں نے مجھے کمرے میں بند رکھا اور کئی بار جھونپڑی میں رکھا اس دوران میرے نگرانی پرمامور مسلح افراد ہمیشہ نقاب پوش رہتے تھے۔‘
regional-55715480
https://www.bbc.com/urdu/regional-55715480
ایران کا جوہری پروگرام: خلیجی ملک کی جوہری تنصیبات کو حملوں کا خطرہ کیوں لاحق ہے اور یہ حملے کیسے ہو سکتے ہیں؟
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مدت صدرات کے خاتمے پر ایران نے بحیثیت مجموعی مگر محتاط انداز میں سُکھ کا سانس لیا ہے۔
ایران نے اپنے میزائل پروگرام میں کافی سرمایہ کاری کی ہے چند حلقوں کو یہ خدشہ تھا کہ اپنی صدارت کے آخری دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ ایران پر ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی اپنی پالیسی کو مزید بڑھاوا دیتے ہوئے ایران کے سویلین جوہری پلانٹس اور دیگر اہداف پر فوجی حملہ کریں گے۔ نومبر میں واشنگٹن سے حاصل ہونے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی صدر نے اس آپشن پر غور بھی کیا تھا لیکن ان کے مشیران نے انھیں ایسا کرنے سے باز رکھا۔ یہ بھی پڑھیے ایران جوہری معاہدہ: کیا کوئی راستہ بچا ہے؟ ایران: ’محسن فخری زادہ کو ریموٹ کنٹرول ہتھیار کے ذریعے ہلاک کیا گیا‘ کیا ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف اسرائیل ’خفیہ جنگ‘ جاری رکھے ہوئے ہے؟ اس کے برعکس نو منتخب صدر جو بائیڈن نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ ایران کے ساتھ سنہ 2015 کے جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہو، جس کا مطلب یہ ہو گا ایران اس معاہدے کی مکمل پاسداری کرے اور اس کے بدلے میں اس پر عائد سخت معاشی پابندیاں ہٹائی جائیں اور تہران کو کچھ رقم جاری کی جائے۔ تو کیا اب ایران حملے سے محفوظ ہے؟ اسرائیل کے وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ 'اسے حملے کے آپشن کی ضرورت ہے' سادہ الفاظ میں کہا جائے تو، نہیں۔ اسرائیل نہ صرف ایران کی سویلین جوہری سرگرمیوں سے بلکہ اس کے بلیسٹک میزائل تیار کرنے کے پروگرام کی وجہ سے بھی انتہائی تشویش کا شکار ہے۔ جمعرات کے روز ایران کے جوہری ترقیاتی پروگرام کے حوالے سے اسرائیل کے وزیر دفاع بینی گینٹز کا قول نقل کیا گیا جس میں انھوں نے کہا: ’یہ واضح ہے کہ اسرائیل کے سامنے فوجی آپشن کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے وسائل اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور میں اس کو انجام دینے کے لیے کام کر رہا ہوں۔‘ اسرائیل چونکہ اسلامی جمہوریہ ایران کا علی الاعلان دشمن ہے اس لیے وہ ایران کے ہاتھوں میں جوہری بم کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور اس نے دنیا کو اس کو روکنے کی اپیل کی ہے، اس سے قبل کہ کہیں بہت دیر ہو جائے۔ ایران نے ہمیشہ اصرار کیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام خالصتاً پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ لیکن اس کی جانب سے یورینیم کی افزودگی میں اضافے کی حالیہ کارروائی نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران کا یہ قدم سنہ 2015 کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس میں ایران کو ایک حد کے اندر ہی یورینیم کی افزودگی کی اجازت دی گئی تھی۔ سنہ 1981 میں اسرائیل کو شبہ ہوا تھا کہ عراقی صدر صدام حسین جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس نے پیشگی کارروائی کے تحت ’آپریشن بابل‘ میں اپنے ایف 15 اور ایف 16 جیٹ طیاروں کا استعمال کر کے عراق کے اوسیرک ایٹمی ری ایکٹر کو تباہ کر دیا تھا۔ سنہ 2007 میں یعنی 26 سال بعد اس نے ’آپریشن آؤٹ سائیڈ باکس‘ میں شام کے ساتھ ایسا ہی کیا اور دیر الزور کے قریب صحرا میں ایک خفیہ پلوٹونیم ری ایکٹر کو اپنا کام شروع کرنے سے پہلے ہی تباہ کر دیا تھا۔ نظروں سے دور سیٹلائٹ سے لی جانے والی تصویر جس میں نطنز کی تنصیبات کو دیکھایا گيا ہے لیکن فاصلہ، رسائی اور فضائی دفاع کی بات کی جائے تو ایران ایک بہت مشکل ہدف ہے۔ اس بات پر سوالیہ نشان ہے کہ کیا اسرائیل امریکی شراکت کے بغیر ایران پر کامیاب فضائی حملے کر سکتا ہے اور امکان یہی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ ایسا کرنے سے گریزاں ہو گی۔ امریکہ، اسرائیل اور ممکنہ طور پر خلیجی عرب ریاستوں کی طرف سے اپنے جوہری تنصیبات کو لاحق دیرینہ خطرے سے باخبر ایران نے اپنی کچھ تنصیبات کو پہاڑوں کے نیچے زیر زمین لے جانے پر رقم خرچ کی ہے۔ اگرچہ ایران کی جوہری صنعت بظاہر سویلین ہے لیکن وہ فوجی اور سکیورٹی کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ قریب سے جڑی ہوئی ہے۔ درحقیقت ایرانیوں نے جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی تیاری میں اتنا عرصہ لگا دیا ہے کہ اب اس بات امکان نہیں رہا کہ ان کی زیر زمین سہولیات ناقابل تسخیر ہیں۔ اس کے باوجود ایران کے جوہری تنصیبات تین محاذوں پر حملے کا شکار ہو سکتی ہیں۔ طبعی طور پر حملہ فردو فیسیلیٹی پر یورینیم کی افزودگی میں اضافے کی بات کہی جا رہی ہے بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ برائے سٹریٹجک سٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) میں ایسوسی ایٹ فیلو اور اسلحہ کنٹرول کے ماہر مارک فٹز پیٹرک کا کہنا ہے کہ ’ایران کی تنصیبات ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔‘ ’نطنز [میں موجود تنصیبات] کو سٹیک بنکر شکن بمباری سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور دو بار کے حملے میں وہ تباہ ہو سکتا ہے۔ یعنی پہلا حملہ شگاف بنانے کے لیے اور دوسرا حملہ اس کے ذریعے فیسیلیٹیز کو تباہ کرنے کے لیے یا کم از کم اتنا ہلا دینے کے لیے کہ نازک مشینیں ناکارہ ہو جائيں۔‘ لیکن ایران ایک وسیع و عریض ملک ہے اور اس کی جوہری تنصیبات ملک کے طول و عرض کی گہرائی میں پھیلی ہوئی ہیں۔ بہت پہلے سنہ 2012 میں ہی ماہرین نے کہا تھا کہ فردو (ایران کا ایک علاقہ) میں یورینیم کی افزودگی کی سہولت ایک پہاڑ کے اندر کم از کم 80 میٹر (یا 260 فٹ) کی گہرائی میں ہے اور ممکن ہے کہ عین امریکہ کے سٹیک ’بنکر بسٹنگ‘ بم سے بھی اس کو نقصان نہ پہنچ سکے۔ مارک فٹزپٹرک کا کہنا ہے کہ ’فردو کی زیادہ گہرائی اسے بنکر بسٹرز تو محفوظ کرتی ہے لیکن سبوتاژ کرنے سے نہیں۔ اس کے داخلی راستوں اور ہوا کے لیے بنائے گئے روشن دانوں کو دھماکے سے تباہ کر دینے سے مہینوں تک اسے کام کرنے سے باز رکھا جا سکتا ہے۔‘ لیکن ان سہولیات تک پہنچنے کے لیے ایک نہیں بلکہ ممکنہ طور پر دو بار ایرانی فضائی حدود میں اندر دور تک داخل ہو کر فضائی حملہ کرنا ہو گا اور اس کے لیے یا تو اس کے دفاعی نظام کو چکمہ دینا ہو گا یا پھر اس کے فضائی دفاع کو قابو میں لا کر ہی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ ایران نے اپنی زمین سے ہوا تک مار کرنے والی میزائل فورس تیار کرنے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے جس میں باور 373 بھی شامل ہے جو کہ روس کے ایس۔300 نظام کا ایک دیسی ساختہ ورژن ہے اور جو 300 کلومیٹر (186 میل) دور تک طیارے کو ٹریک کرنے اور نشانہ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک واحد جزوی طور پر کامیاب حملے کا امکان تو ہے لیکن اس میں خطرہ یہ ہے کہ پائلٹ کو پکڑ لیا جائے گا اور اسے ایرانی ٹی وی پر دکھایا جائے گا اور یہ وہ چیز ہے جو کسی حملے سے باز رکھتی ہے۔ انسانوں پر حملہ یہ پہلے سے ہی ہوتا رہا ہے۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے ایران کے اندر ایجنٹوں کے غیرمعمولی طور پر باخبر نیٹ ورک تیار کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اتنا باخبر نیٹ ورک کہ جب 27 نومبر کو ایران کے اعلی فوجی سائنس دان جنرل محسن فخری زادہ تہران کے مشرق میں ایک سنسان سڑک پر ایک محفوظ قافلے میں سفر کر رہے تھے تو ان کے حملہ آوروں کو ان کے راستہ اور اوقات کا بخوبی علم تھا۔ اس دن ان پر کس طرح حملہ ہوا اس کے متعلق مختلف اطلاعات ہیں۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک پک اپ ٹرک پر نصب سیٹلائٹ کنٹرولڈ مشین گن کے ذریعہ کیا گیا تھا۔ جبکہ دوسرے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ موساد کے تربیت یافتہ ایجنٹوں کی ایک بڑی ٹیم نے کیا اور وہ فرار ہونے میں کامیاب رہے اور اب تک آزاد ہیں۔ بہر حال بات کوئی بھی ہو فخری زادہ کو قتل کر دیا گیا۔ انھیں ’ایران کے ایٹمی پروگرام کے گاڈ فادر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور امریکی انٹیلیجنس کا کہنا ہے کہ انھوں نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے رازدارانہ طور پر کام کیا تھا۔ اسرائیل نے باضابطہ طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے کہ اس حملے کے پسِ پشت کون تھا۔ اس سے قبل سنہ 2010 اور 2012 کے درمیان ایران کے اندر چار سرکردہ ایرانی جوہری سائنسدانوں کو قتل کیا گیا جن میں سے بیشتر کو کار بم دھماکوں سے ہلاک کیا گیا تھا۔ ایک بار پھر اسرائیل نے نہ تو اس میں اپنی شمولیت کی تصدیق کی اور نہ ہی انکار کیا۔ لیکن ان ہلاکتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی سکیورٹی کی جانب سے زبردست تحفظ کے باوجود قاتل اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہیں اور ایران کی جوہری ٹیکنالوجی کی دانشورانہ صلاحیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ سائبر حملہ ایران کا کہنا ہے کہ جولائی سنہ 2020 میں نطنز میں آگ لگایا جانا سبوتاژ کی کوشش تھی سائبر کی دنیا میں ایک غیر اعلانیہ جنگ جاری ہے جس میں ایران ایک طرف ہے اور امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب اس کے خلاف صف آرا ہیں۔ سنہ 2010 میں سٹکس نیٹ نامی پیچیدہ مالویئر کو خفیہ طور پر نطنز میں موجود ایران کے یورینیم افزودگی کے سینٹری فیوجز کو کنٹرول کرنے والے کمپیوٹرز میں ڈال دیا گیا تھا۔ اس کے نتیجہ میں وہاں افراتفری مچ گئی اور اس کی وجہ سے سینٹرفیوجز قابو سے باہر ہو گئے اور سالوں سے افزودگی کا جو پروگرام جاری تھا اسے بہت پیچھے کر دیا گیا۔ اس سائبر حملے کو بڑے پیمانے پر اسرائیلی کی جانب سے کیا جانے والا حملہ کہا گیا اور کہا جاتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیلی ماہرین نے ’سٹکس نیٹ‘ تیار کرنے میں تعاون کیا تھا۔ ایران نے جلد ہی اس کا جواب دیا اور شامون کے نام اپنے جدید ترین مالویئر کو کامیابی کے ساتھ سعودی عرب کی سرکاری ملکیت والی تیل کمپنی آرامکو کے نیٹ ورک میں داخل کر دیا جس نے 30 ہزار کمپیوٹرز کو غیر فعال کر دیا اور سعودی عرب کے تیل کی پیداوار کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ اس کے بعد مزید حملے جاری رہے۔ مستقل خطرہ ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے سنہ 2015 کے جوہری معاہدے یعنی مشترکہ جامع منصوبے پر عمل درآمد ایران کی جوہری سرگرمیوں پر اس طرح کی سخت پابندیاں عائد کرنے والی تھیں کہ اس کے مخالفین کو فوجی حملے پر غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ لیکن اسرائیل اور سعودی عرب اس معاہدے کے بارے میں ہمیشہ شبے میں رہے کیونکہ وہ اسے بہت ہی نرم اور عارضی سمجھتے تھے کیونکہ اس میں ایران کے بلیسٹک میزائل پروگرام کو روکنے کے متعلق کچھ بھی نہیں تھا۔ آج وہ اس معاہدے کو بحال کرنے والی بائیڈن صدارت کے بارے میں کم پُرجوش ہیں جب تک کہ ان کے خدشات کو کم نہیں کر دیا جاتا۔ خلیجی خطے میں کوئی بھی مزید تنازعات نہیں دیکھنا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ سعودی عرب کے تیل کے انفراسٹرکچر پر سنہ 2019 میں ہونے والے میزائل حملے پر بھی کچھ نہیں ہوا اگر چہ ایران اور اس کے اتحادیوں پر بڑے پیمانے پر اس کے الزام لگائے گئے۔ لیکن جب تک یہ شکوک شبہات باقی ہیں کہ ایران خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار کی صلاحیت حاصل کرنے پر کام کر رہا ہے اس وقت تک اس کی سہولیات پر حفظ ماتقدم کے تحت حملے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہے گا۔
061202_quetta_afghan_na
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/12/061202_quetta_afghan_na
’افغانیوں کو حق حکمرانی دیا جائے‘
پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کہا ہے افغانستان میں قیام امن کے لیے بیرونی مداخلت بند ہونی چاہیے اور افغانستان کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ افغانیوں کو حق حکمرانی دیا جائے۔
سنیچر کو کوئٹہ میں پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے زیر انتظام جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جماعت کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان کے معاملات میں مداخلت بند کردے وگرنہ خطے میں حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے افغانستان کی عوام اور ملا عمر سمیت تمام قائدین سے کہا ہے کہ افغانستان میں بیرونی مداخلت کو روکیں اور عوام جس کو منتخب کریں اسے حق حکمرانی ملنا چاہیے۔ محمود خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں تمام پشتون ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں اور بے نام زندگی گزار رہے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ تمام پشتون متحد ہو جائیں اور اپنا ایک نام رکھیں وہ چاہے پشتونستان ہو یا افغانیہ ہو۔ یہ جلسہ جماعت کے بانی قائد عبدالصمد خان کی برسی کے موقع پر منعقد کیا گیا تھا جس سے نواب ایاز جوگیزئی اور سینیٹر عبدالرحیم مندو خیل نے بھی خطاب کیا ہے۔ یہ جلسہ کوئٹہ کے صادق شہید پارک میں ہونا تھا لیکن سارا دن بارش ہونے سے جلسہ سائنس کالج میں منعقد کیا گیا۔
pakistan-52955370
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52955370
چینی بحران: وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ ادوار میں چینی پر دی جانے والی 29 ارب کی سبسڈی کی تحقیقات نیب کے سپرد کرنے کی منظوری دے دی
وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں چینی بحران کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داران کے خلاف مجموعی طور پر سات بڑی سفارشات کی منظوری دے دی ہے۔
اتوار کو وفاقی وزیر برائے اطلاعات شبلی فراز اور وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سنہ 2014 کے بعد دی جانے والی 29 ارب کی سبسڈی کا معاملہ قومی احتساب بیورو کو فوجداری تحقیقات کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کن سات سفارشات کی منظوری دی گئی اور کون ان کی تحقیقات کرے گا؟ یہ بھی پڑھیے ’شوگر مل کو گنا دینے سے بہتر ہے ہم خود ہی گڑ بنا لیں‘ کیا پاکستان میں چینی کے بحران کی وجہ ذخیرہ اندوزی ہے؟ چینی اور آٹا بحران رپورٹ: اہم حکومتی اور سیاسی شخصیات ذمہ دار قرار شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی جانب سے منظور کردہ سفارشات کا پہلا حصہ پینل ایکشن پر مشتمل ہے یعنی ان لوگوں کے خلاف ایکشن جنھوں نے پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کی، اس میں سزا جزا کے علاوہ لوٹے گئے پیسے کی واپسی بھی ہے۔ دوسرا حصہ ریگولیٹری فریم ورک میں تبدیلیوں کی سفارشات جبکہ تیسرا حصہ ان سفارشات پر مبنی ہے کہ شوگر کی قیمتوں کے حوالے سے مستقبل میں کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے کہ چینی کی اصل قیمت کا تعین ہو جائے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں چینی کی قیمت کا تعین آج تک شوگر انڈسٹری خود ہی کرتی تھی کیونکہ اس حوالے کوئی طریقہ کار موجود ہی نہیں ہے۔ کیا قانونی کارروائی کی جائے گی؟ سبسڈی کی تحقیقات شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ سنہ 2014-15 کے دوران 6.5 ارب کی سبسڈی، سنہ 2016-17 کے دوران دوبارہ 6.5 ارب کی سبسڈی، سنہ 2016-17 میں 20 ارب کی سبسڈی اور سنہ 2018-19 میں حکومت پنجاب اور سندھ حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی کی تحقیقات بھی نیب کرے گا۔ انھوں نے آگاہ کیا کہ وزیر اعظم نے گذشتہ 20 سے 25 سال میں دی گئی تمام سبسڈیز کی تحقیقات بھی نیب کو سونپنے کے فیصلے کی منظوری دی گئی ہے اور جلد ہی اس حوالے سے ریفرنس قومی احتساب بیورو کو بھیجا جائے گا۔ سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور بے نامی لین دین کی تحقیقات شہزاد اکبر نے کہا کہ شوگر ملوں کی جانب سے سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس فراڈ اور بے نامی لین دین کی تحقیقات کا معاملہ ایف بی آر کو بھجوایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تمام ملوں سیلز ٹیکس فراڈ، انکم ٹیکس فراڈ اور بے نامی لین دین کے شواہد ملے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایف بی آر اس معاملے کی تحقیقات 90 دن میں کرے گا اور وفاقی کابینہ کو 90 دن کے اندر رپورٹ کرے گا کہ کیا تحقیقات ہوئی ہیں اور کتنی ریکوری ہوئی ہے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ اب تک 30 ارب روپے کا تعین کیا جا چکا ہے جس کی ریکوری کرنی ہے۔ معاونِ خصوصی کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ رپورٹ میں شامل نو ملوں کے علاوہ چینی کی پوری صنعت کا جائزہ لیں کیونکہ یہ صنعت کا روایتی طریقہ کار ہے۔ کارٹیلائزیشن کی تحقیقات شہزاد اکبر نے اعلان کیا کہ کارٹیلائزیشن یعنی اجارہ داری کی تحقیقات کا معاملہ پاکستان کے مسابقتی کمیشن کو بھجوایا جا رہا ہے۔ معاونِ خصوصی کا کہنا تھا کہ یہ کمیشن ریگولیٹر کے طور پر گذشتہ 12 سال سے اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مسابقتی کمیشن بھی 90 روز میں اپنی رپورٹ وفاقی کابینہ کو پیش کرے گا۔ برآمدات اور قرضوں کی معافی کی تحقیقات انھوں نے کہا کہ برآمدات، قرضوں کی معافی اور قرض ادائیگی میں ناکامی کے معاملات کی تحقیقات کا معاملہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو بھجوایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ چینی بحران کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جھوٹی برآمدات کے ذریعے باہر سے آنے والا زرِ مبادلہ حلال کروایا گیا ہے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات بطور ریگولیٹر کرے گا، اور وفاقی کابینہ کو اپنی رپورٹ بذریعہ وزارتِ خزانہ بھجوائے گا۔ کارپوریٹ فراڈ کی تحقیقات کارپوریٹ فراڈ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کئی پبلک اور پرائیویٹ چینی کمپنیاں شیئرہولڈرز کے ساتھ فراڈ سمیت دیگر اقسام کے فراڈ میں ملوث رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو بھجوائی جا رہی ہیں۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ دونوں ادارے 90 دن کے اندر اپنی تحقیقات مکمل کر کے متعلقہ عدالتوں میں مقدمات دائر کرنے کے پابند ہوں گے۔ افغانستان کو مبینہ جعلی برآمدات کی تحقیقات شہزاد اکبر نے کہا کہ حکومت نے ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ افغانستان کو ممکنہ طور پر جعلی برآمدات کرنے اور اس کے ذریعے مبینہ طور پر کالا دھن سفید کرنے کے معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے کو سپرد کی جا رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چینی بحران رپورٹ میں یہ معلوم ہوا ہے کہ 15 سے 20 ٹن وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھنے والے ٹرکوں کے ذریعے 80 ٹن تک چینی افغانستان کو برآمد کی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس میں منی لانڈرنگ کا عنصر بھی شامل ہے کیونکہ اس کے ذریعے باہر سے اتنا پیسہ آیا جتنے کی برآمدات نہیں کی گئی ہیں، اور ان کی رسیدیں موجود ہیں۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ ایف آئی اے یہ تحقیقات کرے گا کہ آیا اتنی برآمدات کی گئی ہیں یا نہیں، اور ان کی تصدیق افغانستان سے کی جائے گی۔ صوبائی قوانین کی خلاف ورزی کی تحقیقات آخری قانونی کارروائی گنواتے ہوئے شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ چینی بحران کی رپورٹ میں یہ معلوم ہوا ہے کہ شوگر ملوں نے کئی صوبائی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے جن میں بغیر اجازت اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانا اور اس سے پیدا ہونے والی چینی میں ہیر پھیر شامل ہے۔ اس کے علاوہ شہزاد اکبر نے کہا کہ شوگر ملوں کی جانب سے کسانوں کو گنے کی کم اور تاخیر سے ادائیگی اور گنے کے وزن کو کم کر کے دکھانے جیسے اقدامات کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ معاملات تین صوبوں پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ کے محکمہ انسدادِ بدعنوانی کو بھجوائے جا رہے ہیں۔ معاونِ خصوصی کا کہنا تھا کہ کیونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اینٹی کرپشن کا محکمہ صوبوں کے ماتحت ہے اس لیے اس کی شفاف تحقیقات صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ جب چینی بحران پر تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ پاکستان میں شوگر کی صنعت میں نہ تو کوئی ریگولیٹر (نگراں ادارہ) تھا، مافیاز کا گٹھ جوڑ تھا اور ملک کے تمام بڑے سیاسی کھلاڑیوں کا اس میں اپنا اپنا حصہ تھا اور اس سب کا نقصان عوام اور ٹیکس دہندگان کو ہوتا تھا۔ چینی بحران پر رپورٹ کا پس منظر یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں ملک میں ماضی قریب میں پیدا ہونے والے چینی کے بحران کے حوالے سے کہا تھا کہ اس بحران سے فائدہ اٹھانے والوں میں تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار کے قریبی رشتہ دار کے بارے میں کہا گیا کہ انھوں نے اپنے ذاتی فائدے کے لیے اس بحران سے فائدہ اٹھایا۔ حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہٰی کو بھی چینی بحران سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے فروری کے مہینے میں ایف آئی اے کو ملک میں چینی اور آٹے کے بحران سے متعلق مکمل تفتیش کر کے رپورٹ جمع کروانے کے احکامات صادر کیے تھے۔ وزیرِ اعظم کے حکم کے بعد ایف آئی اے نے تمام متعلقہ وفاقی اور صوبائی اداروں سے تحقیقات کے بعد یہ رپورٹس تیار کی تھیں۔ ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا کی سربراہی میں چھ رکنی انکوائری کمیشن نے انکشاف کیا تھا کہ حکومتی شخصیات نے سرکاری سبسڈی حاصل کرنے کے باوجود زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ فورینزک تحقیقات کا حکم اور رپورٹ رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے تحقیقات کا وعدہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ چینی بحران پر رپورٹ کے بعد اس کا فورینزک آڈٹ کروایا جائے گا، اور اس کی رپورٹ بھی عام کی جائے گی۔ 22 مئی کو وفاقی کابینہ نے چینی بحران سے متعلق فورینزک رپورٹ عام کر دی جس میں پاکستان کے نو بڑے گروپوں کی ملز کی آڈٹ کی تفصیلات شامل تھیں۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی اہم کاروباری شخصیت جہانگیر ترین، سابق حکمران شریف خاندان، گجرات کے چوہدری برادران، پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے ’فراڈ اور ہیرا پھیری کی۔‘ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں چینی کی برآمدات اور سبسڈی سے متعلق سابق وزیر خزانہ اسد عمر کے بیان کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیا۔ فورینزک رپورٹ عام کرنے کے متعلق وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کمیشن کی رپورٹ سے واضح ہو جاتا ہے کہ شوگر ملز مالکان نے عام آدمی اور کسان کے ساتھ فراڈ کیا ہے اور انھیں لوٹا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم یہ بات کرتے تھے کہ ’جو کاروباری ہوتے ہیں وہ حکومت میں نہیں ہوسکتے۔ یہ مفاد کا تضاد ہوتا ہے، اس حوالے سے آج پاکستان کی تاریخ کا اہم دن ہے۔‘
071102_pia_strike
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/11/071102_pia_strike
ہڑتال: پی آئی اے کی پروازیں متاثر
پاکستان کی قومی ائرلائن پی آئی اے کے انجینئرز نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے ہڑتال کردی ہے جس کی وجہ سے جمعہ کو پی آئی اے کی تمام ملکی اور غیرملکی پروازیں معطل ہوگئی ہیں۔کراچی ائرپورٹ سے جمعہ کی صبح اسلام آباد، لاہور اور فیصل آباد کے لیے پروازیں اڑان نہ بھرسکیں جس کی وجہ سے سیکڑوں مسافروں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
کراچی میں سول ایوی ایشن کے ائرپورٹ مینیجر سید عامر نے بی بی سی کو بتایا کہ انجینئرز کی ہڑتال کی وجہ سے جمعہ کو پی آئی اے کی پروازیں نہیں چل سکیں جس کے بعد ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن کی ہدایت پر پنڈی جانے والے مسافروں کو نجی ائرلائن ائربلیو کی پرواز میں روانہ کیا گیا۔ ادھر ائر کرافٹ انجینئرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہڑتال نہیں کی ہے بلکہ انتظامیہ کی رویے کی وجہ سے اضطراب سے دوچار ہونے کی بناء پر علالت کی چھٹی لی ہے اور وہ اس وقت تک ڈیوٹی پر واپس نہیں جائیں گے جب تک ان کے مطالبات منظور نہیں ہوجاتے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سوسائٹی فار ائرکرافٹ انجینئرز (سیف) کے ترجمان اظہر خالد نے کہا کہ پی آئی اے انتظامیہ کےاس مؤقف کی بھی تردید کی کہ مسئلے کے حل کے لیے ان کی تنظیم سے بات چیت ہورہی ہے۔’آج صبح سے اب تک پی آئی اے کے کسی افسر نے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے اور ان سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے ہم یہ بات صرف ٹی وی اور یہاں آنے والے صحافیوں سے ہی سن رہے ہیں۔‘ پی آئی اے کے جنرل مینیجر ناصر جمال نے کہا ہے کہ پی آئی اے کی لندن جانے والی پرواز بھی منسوخ کی گئی ہے۔ ان کے مطابق ’انجینئرز پچھلے پانچ چھ دنوں سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کررہے تھے اور آج انہوں نے ہڑتال کردی۔‘ پی آئی اے کے جنرل مینیجر ناصر جمال نے بی بی سی کو بتایا کہ انجینئرز کی تنظیم سوسائٹی آف ائرکرافٹ انجینئرز (سیف) نے پی آئی اے کی انتظامیہ کو اپنے مطالبات کی فہرست پیش کر رکھی ہے جس میں تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ دیگر مطالبات کیے گئے ہیں۔ ’ان کے کچھ مطالبات جائز ہیں اور پی آئی اے کی انتظامیہ ان پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پی آئی اے کو اس سال 35 ارب روپے کا خسارہ ہوا ہے اور پی آئی اے کی انتظامیہ کو اس پس منظر میں ان مطالبات پر غور کرنا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ انجینئرز سے بات چیت چل رہی ہے اور امید ہے کہ جمعہ کی شام تک صورتحال بہتر ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی پروازوں پر نشستیں بک کرانے والے مسافروں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ائرپورٹ پر آنے سے پہلے پی آئی اے کال سینٹر پر فلائٹ کی روانگی کے وقت کے بارے میں معلومات حاصل کرلیں۔ ناصر جمال نے بتایا کہ پی آئی اے کے انجینئرز کی اکثریت کراچی میں ہے کیونکہ انجینئرنگ کے شعبے کا مرکز کراچی ہے لیکن ملک کے دوسرے ائرپورٹس پر بھی انجینئرز ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے پورے ملک میں پی آئی اے کی پروازیں متاثر ہوئی ہیں۔ مسافروں نے اسلاآباد میں اناؤنسمنٹ باکس پر قبضہ کرکے اس کے شیشے توڑ دئےاور خود ناراضگی بھرے اعلانات کرنے لگے۔ مسافروں نے اسلام آباد کے اسٹیشن مینجر طارق مسعود اور دیگر سکیورٹی اہلکارو ں کو دیر گئے تک گھیرے میں رکھا اور مطالبہ کیا کہ جب تک انہیں متبادل پروازین نہیں مل جاتیں انہیں مقامی ہوٹلوں میں ٹھہرایا جائے۔ پی آئی اے کومجبوراً مسافروں کا ہوٹلوں میں ٹھہرابا پڑا۔ پی آئی اے کےاہلکاروں کا کہنا ہے کہ انجینئرنگ اسٹاف کی ہڑتال کے بعد منسوخ ہونے والی پروازوں کے مسافروں کو ان کی مقررہ منزل تک پہنچانے اور خود ان پروازوں کی بحالی میں پندرہ گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
070826_delhi_diary_rs
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/08/070826_delhi_diary_rs
دلی ڈائری: ایچ آئی وی ٹیسٹ اور سڑک حادثے
خفیہ اداروں کی کارکردگی پر سوال
حیدرآباد کے خونریز بم دھماکوں کے بعد ایک بار پھر انٹیلیجنس ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ ابھی تقریباً تین ماہ قبل حیدرآباد کی مکہ مسجد میں بم دھماکے ہوئے تھے۔ حالیہ دنوں میں شہر میں کشیدگی پیداکرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔ ان حالات میں اندازہ یہی لگایا جاتا ہے کہ سکیورٹی اور انٹیلیجنس کے ادارے زیادہ الرٹ اور مستعد ہوں گے لیکن ہر بار دہشتگردی کی واردات کے بعد یہ ایجنسیاں حرکت میں آتی ہیں۔ مکہ مسجد کے دھماکے کے پیچھے کون لوگ تھے، ابھی تک واضح نہیں ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکوں میں کس کا ہاتھ تھا۔ بظاہر کوئی پیش رفت نہيں ہوئی ہے۔ مالیگاؤں ، بنارس، دلی بم دھماکوں کی یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ ان واقعات میں دہشت گرد قانون کی گرفت میں نہیں آپائے ہیں۔ فرق صرف اتنا آیا ہے کہ گزشتہ کچھ دھماکوں کی ذمہ داری پاکستان کے بجائے بنگلہ دیش کی کئی دہشت گرد تنظیموں پر لگائی گئی ہے۔ ہندوستان۔ حادثوں کا ملک ہندوستان کی سڑکوں پر سفر کرنا کیا محفوظ ہے؟ شاید نہیں۔ سڑک حادثات اور ہلاکتوں کے لحاظ سے ہندوستان چین کے بعد دنیا کا دوسرا بدترین ملک ہے۔ 2004 کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں 92618 افراد سڑک حادثات میں ہلاک ہوئے جبکہ چین میں یہ تعداد 107077 تھی۔ روڈ ٹرانسپورٹ کے وزیر نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ 2004 میں ملک میں 429910 حادثات ہوئے تھے لیکن یہاں دوسرے ملکوں کے مقابلے حادثات میں اموات کا تناسب بہت زيادہ ہے۔ جرمنی میں 339310 سڑک حادثے میں ہلاک ہوئے تھے لیکن وہاں صرف 5842 افراد ان حادثات میں ہلاک ہوئے۔ اسی طرح برطانیہ میں 207410 حادثوں میں مرنے والوں کی تعداد صرف 3321 تھی۔ سڑک حادثات میں اموات کے لحاظ سے امریکہ تیسرے نمبر پر ہے۔ جہاں یہ تعداد 4263 تھی۔ سنگاپور سب سے کم ہلاکتوں والا ملک رہا۔ ایچ آئی وی ٹیسٹ زبردستی نہیں سپریم کورٹ نے جب مرکزی حکومت سے وضاحت طلب کی تو حکومت نے یہ واضح کیا کہ حکومتی عملہ کے لیے اس طرح کے ٹیسٹ کا کوئی جواز نہیں ہے۔ حکومت نے مزید کہا کہ اس ٹیسٹ کو لازمی کیے جانے سے بڑی تعداد وہ لوگ ٹیسٹ اور علاج سے بھاگنے لگیں گے جوابھی رضاکارانہ طور پر ٹیسٹ کراتے ہیں۔ مانجھی کی نیّا بھونر میں گزشتہ دنوں ایک پارلیمانی کمیٹی نے لالو پرساد یادو کی جماعت کے ایک رکن کمار مانجھی کو لوک سبھا کی تیس نشستوں میں شرکت کے لیے معطل کرنے کی سفارش کی ہے۔ کمار مانجھی کے خلاف یہ الزام درست پایا گیا ہے کہ وہ ایک خاتون دوست کو دلی سے ممبئی ایک سرکاری تقریب میں اپنی بیوی بتا کر لے گئے تھے۔ پارلیمانی پینل نے یہ سفارش بھی کی ہے کہ موجودہ لوک سبھا کی مدت پوری ہونے تک مسٹر مانجھی کو کسی بھی سرکاری تقریب میں اپنی اصل بیوی کو لے جانے کی اجازت نہ دی جائے۔ مسٹر مانجھی کی اہلیہ نے یہ شکایت کی تھی کہ ان کے ساتھ شوہر ان کے ساتھ بدسلکوی کرتے ہیں اور کسی دوسری عورت کے ساتھ گھوم پھر رہے ہیں۔ بغیر شور کے پارلیمنٹ نہیں سن 2004 میں موجودہ پارلیمنٹ کی تشکیل کے بعد دونوں ایوانوں میں ہنگامہ آرائی، نعرے بازی اور شور شرابے کی وجہ سے اکثر کارروائی ہی چل پائی۔ ایسا بھی ہوا کہ عام بجٹ اور ریلوے بجٹ تک کسی کے بغیر اپوزیشن کے بائیکاٹ کے درمیان منظور کیے گئے۔ لوک سبھا کے سپیکر نے گزشتہ دنوں تمام جماعتوں کے رہنماؤں کی میٹنگ طلب کی تھی لیکن اس میٹنگ میں ’کام نہیں تو تنخواہ نہیں کی‘ تجویز مسترد کردی۔ آندھرا میں نیا یورینیم پلانٹ ہندوستان کی حکومت نے گزشتہ دنوں آندھرا پردیش میں ایک نئے یورینیم پلانٹ کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔ وزیر خزانہ پی چدامبرم نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ اس پلانٹ کا ہند امریکہ جوہری معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ’یہ ہندوستان کی اپنی یورینیم کی کان اور اپنا پراسسنگ پلانٹ ہے۔ اس کان اور پراسسنک پلانٹ سے جوہری بجلی گھروں کے لیے ایندھن تیار کیا جائے گا‘۔ ایک ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والا یہ پراسسنگ پلانٹ تین برس میں کام کرنا شروع کر دے گا۔
pakistan-55807561
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55807561
جنرل قمر جاوید باجوہ کو خط لکھنے والا سابق پاکستانی جرنیل کا بیٹا فوج کی حراست میں کیوں ہے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر جنرل کے سویلین بیٹے کے خلاف بغاوت کے مقدمے کی سماعت اِن کیمرہ کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے اس معاملے کو جلد از جلد نمٹانے کا عندیہ دیا ہے۔
ریٹائرڈ میجر جنرل ظفر مہدی عسکری کے بیٹے حسن عسکری کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 131 کے تحت مقدمہ درج ہے جو فوج کے کسی بھی افسر یا اہلکار کو بغاوت پر اُکسانے کے زمرے میں آتا ہے۔ ملزم حسن عسکری پر الزام ہے کہ انھوں نے گذشتہ برس ستمبر میں بری فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ کو خط تحریر کیا تھا جس میں مبینہ طور پر اُن کی مدت ملازمت میں توسیع ملنے اور فوج کی پالیسوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے انھیں مستعفی ہونے کو کہا تھا۔ اس خط کی کاپیاں فوج میں حاضر سروس ٹو اور تھری سٹار جنرلز کو بھی بھیجی گئی تھیں۔ ملزم کے والد کی جانب سے ہائی کورٹ میں دائر کردہ درخواست کی اب تک ایک ہی سماعت اوپن کورٹ یعنی کھلی عدالت میں ہوئی ہے۔ وفاق کی جانب سے عدالت میں یہ درخواست دائر کی گئی تھی کہ چونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے اس لیے اس کی تمام تر کارروائی اِن کیمرہ کی جائے۔ وفاق کی اس درخواست پر عدالت کی جانب سے اس کیس کے مدعی کی رضامندی حاصل کی گئی جس کے بعد جسٹس محسن اختر کیانی نے اس کیس کی ان کیمرہ کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا اور اُس وقت کمرہ عدالت میں موجود تمام افراد کو کمرہ عدالت سے باہر جانے کا حکم دیا۔ یہ بھی پڑھیے لاپتہ افراد کے وکیل انعام الرحیم خود ’لاپتہ‘ آرمی چیف کے عہدے کی دوڑ سے کون کون باہر ہوا؟ جنرل قمر جاوید باجوہ ’کھلے ڈلے اور بے تکلف فوجی‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع اس درخواست میں فوج کے ایڈجوٹنٹ جنرل کو بھی فریق بنایا گیا ہے جنھیں عدالت کی جانب سے نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔ اس عدالتی کارروائی کا جو حکم جاری کیا گیا اس میں کہا گیا ہے کہ اس پٹیشن میں بنائے گئے تیسرے فریق یعنی ایڈجوٹنٹ جنرل کی طرف سے یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ حسن عسکری پاکستان آرمی کی تحویل میں ہیں اور ان کے خلاف جو مقدمہ درج ہوا ہے اس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں جبکہ اس ضمن میں آرمی ایکٹ سنہ 1952 کے حوالے سے بھی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ پٹیشنر کی طرف سے حسن عسکری کی فوج کے تحویل کے معاملے کو غیر قانونی قرار دینے اور ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کو روکنے کے بھی استدعا کی گئی۔ اس عدالتی حکمنامے میں پٹیشنر کی طرف سے حسن عسکری کے ساتھ ان کے اہلخانہ کی ملاقات کی استدعا کرنے کا بھی ذکر ہے۔ اس معاملے میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ قانون کے مطابق چونکہ یہ حساس معاملہ ہے اس لیے ملزم کے ساتھ اُن کے اہلخانہ کو ملنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اُنھوں نے کہا کہ تفتیشی اداروں کی طرف سے اس ضمن میں جو بھی ہدایات یا تحریری جواب ملے گا وہ اس کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کریں گے۔ اس درخواست کی اگلی سماعت اب یکم فروری کو ہو گی۔ اس معاملے کے دیگر فریقوں نے اس مقدمے پر تبصرہ کرنے سے یہ کہہ کر انکار کیا ہے کہ یہ درخواست بند کمرے میں زیرسماعت ہے اس لیے وہ اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کریں گے۔ درخواست میں کیا کہا گیا ہے؟ ریٹائرڈ میجر جنرل ظفر مہدی عسکری کی طرف سے اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے جو درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ہے اس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ان کے بیٹے کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی پالیسوں کو ایک خط کے ذریعے تنقید کا نشانہ بنانے پر حراست میں لیا گیا ہے۔ حسن عسکری کمپیوٹر انجینیئر ہیں۔ ظفر مہدی سنہ 1953 سے لے کر سنہ 1993 تک فوج کے آرٹلری اور ہوا بازی کے شعبوں میں اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اُنھوں نے اپنی درخواست کے ذریعے آگاہ کیا ہے کہ کچھ عرصہ قبل اسلام آباد پولیس اور سادہ کپڑوں میں ملبوس چند سکیورٹی اہلکار، جن کے بارے میں شبہ ہے کہ ان کا تعلق ملٹری انٹیلیجنس سے ہے، اُن کے گھر پر آئے اور ان کے بیٹے کو گرفتار کر کے لے گئے۔ اس کے بعد حسن عسکری کے خلاف تھانہ شالیمار میں مقدمہ درج کیا گیا اور بعدازاں مقامی مجسٹریٹ نے اس معاملے کی چھان بین اور ممکنہ طور پر اس کا کورٹ مارشل کرنے کے حوالے سے ملزم حسن عسکری کو فوج کے ایک کمانڈنگ افسر کے حوالے کر دیا۔ درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ اُنھیں اس مجسٹریٹ کا وہ حکم نامہ ابھی تک نہیں ملا جس کے تحت ان کے بیٹے کو فوج کے حوالے کیا گیا۔ درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ اس ضمن میں جب سیشن جج کی عدالت سے رابطہ کیا گیا تو ان کے سٹاف نے بتایا کہ ان کے ریکارڈ میں ابھی تک ایسا کوئی مقدمہ پیش نہیں کیا گیا۔ اس درخواست میں ریاست پاکستان کے علاوہ پاکستانی فوج کے ایڈجوٹنٹ جنرل کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔ فوج کے قانونی معاملات کی نگرانی کرنے والے جج ایڈووکیٹ جنرل اور جیگ برانچ بھی ایڈجوٹنٹ جنرل کے ماتحت ہوتی ہے۔ ایڈجوٹنٹ جنرل کے عہدے پر تھری سٹار جنرل یعنی لیفٹیننٹ جنرل کو تعینات کیا جاتا ہے جو فوج کے ڈسپلن کو قائم رکھنے اور کسی بھی شخص کے خلاف کورٹ مارشل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ حسن عکسری نے موجودہ چیف آف آرمی سٹاف کو جو خطوط لکھے اس میں فوج کی موجودہ قیادت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ خطوط لکھنے کا مقصد نہ تو موجودہ حکومت کی قانونی پوزیشن کو متنازع بنانا تھا اور نہ ہی فوج کو اس بات پر اکسانا ہے کہ وہ اقتدار پر قبضہ کر لیں۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ جو خطوط آرمی چیف اور فوج کے دیگر افسران کو بھیجے گئے ان کے بارے میں درخواست گزار سمیت اُن کے گھر والوں کو کوئی علم نہیں تھا۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے آرمی ایکٹ اور تعزیرات پاکستان کی دفعات میں فرق نہیں کیا اور درخواست گزار کے بیٹے حسن عسکری کو فوجی کمانڈگ افسر کے حوالے کر دیا۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ان کو بارہا بتایا گیا ہے کہ ان کے بیٹے کے خلاف مقدمہ تیار کیا جا رہا ہے تاہم اس حوالے سے مذید معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں۔ ان کے مطابق حسن عسکری کے خلاف تھانہ شالیمار میں جو مقدمہ درج ہوا ہے اس میں صرف اس خط کا ہی ذکر کیا گیا ہے جبکہ اس خط میں ایسا کوئی ثبوت شامل نہیں ہے جس میں یہ ثابت ہو سکے کہ ملزم نے کسی فوجی یا فوجی افسر سے ملاقات کر کے انھیں فوج کی موجودہ قیادت کے خلاف بغاوت پر اکسایا ہو۔ اس درخواست میں ایڈجوٹنٹ جنرل کو حسن عسکری کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی روکنے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 131 کیا ہے؟ پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ میجر جنرل کے بیٹے کے خلاف جو مقدمہ درج کیا گیا ہے وہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 131 کے تحت ہے۔ اس مقدمے کے مدعی رائے تنویر احمد ہیں جو کہ ایف آئی آر کے مطابق راولپنڈی کے علاقے چکلالہ کے رہائشی ہیں۔ تعزیرات پاکستان کی اس دفعہ کے تحت اگر کسی شخص پر آرمڈ فورسز کے کسی اہلکار کو بغاوت پر اُکسانے کا جرم ثابت ہو جائے تو اس کی سزا موت ہے۔ اس کے علاوہ اس قانون کے تحت مجرم کو عمر قید یا دس سال قید اور جرمانے کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص کا کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے درج ہونے والی ایف آئی آر میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ملزم حسن عسکری نے اپنے خطوط میں فوج کی اعلی قیادت کے خلاف غیر قانونی ریمارکس بھی دیے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملزم کا تعلق ملک دشمن عناصر سے ہے جو پاکستانی فوج میں انارکی پھیلانا چاہتے ہیں۔ آرمی ایکٹ کا سیکشن 31 ڈی آرمی ایکٹ کے سیکشن 31 ڈی کے تحت صرف کوئی فوجی اہلکار یا افسر ایسے مقدمے میں ملوث پایا جائے تو اس کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے جبکہ سویلین یعنی عام شہری پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس آرمی ایکٹ کی شق 2 ون ڈی کے تحت کسی بھی سویلین کا معاملہ 31 ڈی میں لا کر اس کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے پہلے اس سویلین کے خلاف کسی تھانے میں مقدمہ کے اندارج اور مجسٹریٹ کی اجازت ضروری ہے۔ آرمی ایکٹ میں اس شق کو پاکستان کے پہلے فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے متعارف کروایا تھا۔ واضح رہے کہ جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کی درخواستوں کی پیروی کرنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کو کچھ عرصہ قبل حساس اداروں کے اہلکاروں نے اپنی حراست میں لیا تھا تو ان کا معاملہ بھی اسی قانون کے تحت کورٹ مارشل کے لیے لے کر آئے تھے لیکن وہاں پر نہ تو کوئی مقدمہ درج کروایا گیا اور نہ ہی کسی مجسٹریٹ کے سامنے اُنھیں پیش کیا گیا جس کی بنا پر لاہور ہائی کورٹ نے اُنھیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ گذشتہ برس پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے سابق چیئرمین ابصار عالم اور صحافی اسد علی طور کے خلاف بھی تعزیرات پاکستان کی دفعہ 131 کے تحت ہی مقدمات درج کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ مذہبی جماعت تحریک لبیک کی قیادت نے جب فوج کی قیادت کے خلاف باتیں کی تھیں تو ان کے خلاف بھی اسی قانون کے تحت مقدمات درج ہوئے تھے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی وکیل حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی کارروائی کھلی عدالت میں ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی ایسا معاملہ ہے کہ جس میں تفتیشی اداروں نے کوئی مواد جج صاحب کو دکھانا ہے یا پیش کرنا ہے تو وہ اس کو ان کے چیمبر میں لے کر جا سکتے ہیں اور اس کو خفیہ رکھ سکتے ہیں لیکن اس سارے معاملہ کی ان کیمرہ کارروائی کرنا کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ملکی قانون جب فیئر ٹرائل کی بات کرتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ انصاف صرف ہو ہی نہ بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی ایک مقدمے میں قرار دیا ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو فوجی عدالتوں میں ہونے والی کارروائی کا جائزہ لینے اور ان کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کا اختیار حاصل ہے۔
regional-41316185
https://www.bbc.com/urdu/regional-41316185
فوٹوگرافی کی طالبہ اور افغان خواتین
افغانستان ثقافتی تنوع کی سرزمین ہے۔
اس کے ہر صوبے اور ہر خطے کی اپنی خاصیت، اپنی آب و ہوا ہے۔ کہیں دور تک پھیلا میدانی علاقہ ہے، کہیں سرسبز وادی ہے تو کہیں پہاڑ سینہ تانے کھڑے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب افغانستان کے علاقے میں اتنا تنوع ہے تو ان علاقوں میں آباد لوگوں کی بھی اپنی منفرد شناخت ہوگی۔ ان کے خورو نوش، بود و باش، آرائش و زیبائش وغیرہ مختلف ہوں گی۔ فاطمہ حسینی ایران میں فوٹوگرافی کا ایک طالب علم ہیں اور وہ افغان خواتین پر تحقیق کر رہی ہیں۔ سنہ 17-2016 کے دوران ایران اور افغانستان میں ان کی تصاویر کی کئی نمائشیں کیں۔ انھوں نے بی بی سی کے فارسی سروس کو کچھ تصاویر فراہم کیں۔ ان تصاویر کے ذریعہ فاطمہ نے مختلف افغان خواتین کے چہرے اور ان کے رہن سہن کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جو مختلف قبائل اور جرگوں میں منقسم ہے اور وہاں مختلف نسل قبائل آباد ہیں۔ تہران کے ایک سٹوڈیو میں فاطمہ نے پختون، تاجک، ازبک، قزلباش قبائل کی مختلف خواتین کی تصاویر لی ہیں۔ ان تصاویر میں فاطمہ حسینی کی یہ کوشش نظر آتی ہے کہ وہ روایتا پردہ نشین اور برقہ نشین خواتین کے حسن کو مختلف طور پر پیش کریں۔ انھوں نے روایت اور جدیدت کے امتزاج کے طور پر ان کے روایتی لباس میں ان کی عکاسی کی ہے۔ فاطمہ حسینی فوٹو گرافی میں گریجویشن کر رہی ہیں اور ان کی تحقیق کا موضوع 'افغان خواتین' ہے۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ افغانستان کی خواتین رنگ، قوت اور حسن و نزاکت سے لبریز ہیں۔ طویل عرصے سے ملک میں جاری تشدد اور ظلم و استبداد بھی ان خواتین سے ان کی خوبیاں نہیں چھین پائيں۔
070504_khar_press
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/05/070504_khar_press
وردی میں منتخب نہیں کریں گے: کھر
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر نے کہا ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف کو وردی میں منتخب کرنے میں مدد دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، تاہم انہیں واپسی کا محفوظ راستہ دینے پر بات ہوسکتی ہے۔
لاہور پریس کلب میں جمعرات کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کے لیے تمام راستے بند ہوچکے ہیں اور ان کو واپسی کا محفوظ راستہ دینا چاہیے۔ ’جنرل مشرف کی واپسی فوج کے مفاد میں ہوگی اور جنرل مشرف کو محفوظ راستہ نہ دینے کی صورت میں پانچ سو آدمی مر سکتے ہیں جس کا میں حامی نہیں ہوں‘۔ غلام مصطفی کھر نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو چھ ماہ کے لیے بیرون ملک جانے کی پیشکش کی گئی تھی لیکن انہوں نے کوئی ڈیل نہیں کی۔ ’میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ بے نظیر بھٹو کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے جنرل مشرف مضبوط ہوں۔ اب آمریت کے خلاف آخری فیصلہ کن جنگ ہورہی ہے۔ پیپلز پارٹی کوئی ایسا کام نہیں کرے گی جس سے اس کی تاریخ شرمسار ہو‘۔ سابق گورنر پنجاب نے تجویز دی کہ سیاسی جماعتوں کو ملک میں استحکام کے لیے کم از کم دس برس مل کر چلنے کا معاہدہ کرلینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پانچ مئی کو چیف جسٹس پاکستان کا لاہور میں پرتپاک استقبال ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ پنجابی ثابت کریں گے کہ وہ آمریت کے ساتھ نہیں اوریہ استقبال آمریت کے خلاف ریفرنڈم ہوگا۔
050624_minister_attack_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/06/050624_minister_attack_zs
عامر لیاقت حسین کی پٹائی
ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام ’ عالم آن لائن‘ کے پیش کار اور مذہبی امور کے وزیرِ مملکت عامر لیاقت حسین کو جمعہ کے روز مشتعل ہجوم نے اس وقت زد و کوب کر کے زخمی کر دیا جب وہ جامعہ بنوریہ کے شیخ الحدیث مفتی عتیق الرحمٰن کے جنازے میں شرکت کے لیے سائٹ ایریا میں واقع جامعہ بنوریہ آئے۔
ڈاکٹر عامر لیاقت جیسے ہی اپنی گاڑی سے اترے تو ہزاروں افراد نےانہیں گھیر لیا اور پولیس لوگوں کے سامنے بے بس ہوگئی۔ مشتعل ہجوم نے مذہبی امور کے وزیرِ مملکت کو جامعہ بنوریہ کے ہاسٹل کے ایک کمرے میں بند کر دیا جہاں سے مقامی وقت کے مطابق پونے آٹھ بجے کے قریب رینجرز کی ایک بڑی تعداد اور بکتر بند گاڑی نے موقع پر پہنچ کر انہیں نکالا۔ محبوسی کے دوران عامر لیاقت موبائل فون کے ذریعے حکام سے مسلسل اپیل کرتے رہے کہ انہیں فوری طور پر بچایا جائے کیونکہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار علی حسن سے موبائل فون پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے کہا:’ میں اس وقت لہولہان ہوں، زخمی ہوں اور مجھے مارا گیا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’میں بتا نہیں سکتا کہ میں کہاں پر ہوں البتہ کوئی میری مدد نہیں کر رہا۔ یہاں ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہے اور جنونیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔‘ اپنے دوسرے موبائل فون سے انہوں نے رینجرز سے رابطہ کرتے ہوئے اپیل کی کہ انہیں فوری طور پر بچایا جائے کیونکہ ان کی جان خطرے میں ہے۔ جامعہ بنوریہ کے قاری سیف اللہ نے بتایا ہے کہ سیکیورٹی کے مسئلے کی وجہ سے وزیرِ مملکت کو روکا گیا تھا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت نے آزاد ہونے کے بعد بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ جنونی لوگ تھے اور انہوں نے میرے ہاتھوں پیروں اور پیٹھ پر زخم دیے ہیں اور وہ شاید مجھے جانی نقصان پہچانا چاہتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ اسپتال جا رہے ہیں۔
pakistan-54199427
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54199427
انور جلال شمزا: پاکستانی آرٹسٹ کے وہ دس فن پارے جنھیں حقیقی مالکان تک پہنچنے میں 35 برس لگے
یہ کہانی ہے برصغیر میں تجدیدی آرٹ کے بانیوں میں شامل انور جلال شمزا کے اُن دس فن پاروں کی جنھیں نمائش کی غرض سے سنہ 1985 میں برطانیہ سے پاکستان لایا گیا مگر اِن فن پاروں کو اُن کے اصل مالکان تک واپس پہنچانے میں 35 برس کا عرصہ لگا۔
انور جلال شمزا کی وفات کے بعد سنہ 1985 میں اُن کے فن پاروں کی سرکاری سطح پر پاکستان میں نمائش کا انعقاد کیا گیا تھا اور اسی غرض سے یہ فن پارے برطانیہ سے پاکستان لائے گئے۔ شمزا کی وفات کے بعد ان فن پاروں کو پاکستان سے واپس حاصل کرنے کے لیے برطانیہ میں مقیم اُن کے اہلخانہ کو طویل قانونی اور سفارتی جنگ لڑنا پڑی۔ انور جلال شمزا کون تھے؟ تجدیدی آرٹ پر ڈاکٹریٹ کرنے والی ثمینہ اقبال، جو خود بھی ایک آرٹسٹ اور آرٹ کی تاریخ دان بھی ہیں، نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انور جلال شمزا سے واقف لوگ زیادہ تر انھیں ایک مصور کے طور پر جانتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ریڈیو پاکستان پر ان کے لکھے بے شمار ڈرامے نشر ہو چکے ہیں اور وہ سات ناولوں کے مصنف اور پاکستان میں تجدیدی آرٹ کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ شمزا ڈیزائنر بھی تھے اور سنہ 1964 میں بننے والے پاکستان کے معروف مشروب برانڈ ’شیزان‘ کا لوگو انور جلال شمزا نے ہی ڈیزائن کیا تھا۔ یہ بھی پڑھیے ’آئیں مل کر فن پارے تلاش کریں‘ بھارتی مصور کے فن پارے کی ریکارڈ قیمت میں نیلامی اربوں پاؤنڈز کے فن پارے، ’محض تین فیصد نمائش پر‘ ثمینہ اقبال کے مطابق شمزا سنہ 1928 میں انڈین پنجاب میں پیدا ہوئے۔ انور جلال شمزا کا تعلق قالین ساز خاندان سے تھا۔ پاکستان بننے سے پہلے شمزا پنجاب یونیورسٹی سے فارسی اور فلسفے کے تعلیم حاصل کرنے لاہور آئے مگر آرٹ کی طرف اپنے رجحان کی وجہ سے انھوں نے ’میو سکول آف آرٹس‘ سے سنہ 1947 میں کمرشل ڈیزائن کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ میو سکول آف آرٹس کو اب نیشنل کالج آف آرٹس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انور جلال شمزا (درمیان) نے سنہ 1964 میں بننے والے پاکستان کے معروف مشروب کے برینڈ ’شیزان‘ کا لوگو بھی ڈیزائن کیا تھا وہ بتاتی ہیں ’پاکستان میں تجدیدی آرٹ کی ترویج کے لیے سنہ 1952 میں اس وقت کے آرٹ کے چند بڑے ناموں نے مل کر لاہور آرٹ سرکل کی بنیاد رکھی۔ ان افراد میں انور جلال شمزا، شاکر علی، معین نجمی، احمد پرویز، سید علی امام، مریم حبیب اور رضیہ فیروز شامل تھے۔ تقریباً چھ سال تک لاہور آرٹ سرکل فعال رہا، جس کے بعد انور جلال شمزا سکالر شپ پر آرٹ کی مزید تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے، پھر پاکستان آتے جاتے تو رہے تاہم مستقل طور پر برطانیہ میں ہی مقیم ہو گئے۔‘ شمزا کے فن پارے پاکستان کیسے آئے؟ انور جلال شمزا کی بھانجی رخسانہ خان جو خود بھی لاہور میں آرٹ کے شعبے سے وابستہ ہیں بتاتی ہیں کہ ’میرے ماموں سنہ 1985 میں پاکستان میں مختلف شہروں میں روٹس کے نام سے اپنے فن پاروں کی نمائش کرنا چاہتے تھے، تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں کہ پاکستان آنے سے قبل برطانیہ میں ہی حرکت قلب بند ہو جانے سے ان کا انتقال ہو گیا۔‘ رخسانہ خان کے مطابق پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس جو اس دور میں ادارہ ثقافتِ پاکستان کہلاتا تھا، نے انور جلال شمزا کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ میری شمزا، جو خود بھی نامور آرٹسٹ ہیں، کو ان کا کام پاکستان لانے اور نمائش کے انعقاد کو یقینی بنانے پر آمادہ کیا۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق انور جلال شمزا کی اہلیہ نے ان کے دس فن پارے ’روٹس‘ نمائش جو لاہور، کراچی اور پشاور میں منعقد ہوئی، کے لیے نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے حوالے کیے۔ ان میں پانچ پینٹنگز اور پانچ ڈرائنگز شامل تھیں۔ فن پاروں کی حوالگی کے اس دستاویز میں ان کا میری شمزا کی ملکیت ہونا اور عارضی وقت کے لیے پاکستان کو فراہمی واضح طور پر درج ہے۔ برصغیر میں تجدیدی آرٹ کے بانیوں میں شامل انور جلال شمزا کی وفات کے بعد سنہ 1985 میں ان کے فن پاروں کی سرکاری سطح پر پاکستان میں نمائش کا انعقاد کیا گیا تھا فن پارے کہاں گئے؟ رخسانہ خان بتاتی ہیں ’روٹس نمائش کے اختتام پر میری شمزا نے بذریعہ خط ادارے سے اپنے مرحوم خاوند کے فن پارے واپس مانگے تو انھیں یہ جواب دیا گیا کہ یہ فن پارے بیرون ممالک میں منعقد ہونے والی نمائشوں میں بھیجے جائیں گے۔ پھر کچھ عرصہ گزرا تو اس کے بعد میری شمزا نے دوبارہ فن پاروں کی واپسی کا تقاضہ کیا مگر بارہا خطوط لکھنے کے باوجود انھیں ادارے کی جانب سے کوئی جواب نہ دیا گیا۔‘ وہ کہتی ہیں ’سنہ 1988 میں میری شمزا کو پی این سی اے کے اس وقت کے سربراہ غلام رسول کا ایک خط موصول ہوا جس میں انھیں ان دس فن پاروں کی چالیس ہزار روپے قیمت دینے کی پیشکش کی گئی۔ جسے میری شمزا نے قبول نہیں کیا۔‘ رخسانہ خان کے مطابق اگر سرکاری سطح پر میری شمزا کو کبھی کوئی جواب ملتا بھی تھا تو اس میں یہ مؤقف اختیار کیا جاتا کہ ادارہ اس بارے میں معلومات اکٹھی کر کے جلد ان سے رابطہ کرے گا۔ اس عرصے میں ادارہ ثقافت پاکستان ’نیشنل کونسل آف دی آرٹس‘ میں بدل گیا۔ اس ادارے کے ہر نئے آنے والے سربراہ کو انور جلال شمزا کی اہلیہ رابطہ کرنے کی کوششیں کرتیں رہیں۔ پاکستان نیشنل کونسل میں اس حوالے سے موجود دستاویزات کے مطابق انور جلال شمزا کی اہلیہ نے ناصرف کونسل کو خود خطوط لکھے بلکہ برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمیشن اور پاکستان میں برطانوی سفارتی مشن کے ذریعے بھی اپنے شوہر کے فن پارے واپس لینے کے لیے کوششیں کیں۔ رخسانہ خان کے مطابق سنہ 1988 میں میری شمزا کو پی این سی اے کے اس وقت کے سربراہ غلام رسول کا خط موصول ہوا جس میں انھیں ان دس فن پاروں کی چالیس ہزار روپے قیمت دینے کی پیشکش کی گئی ثمینہ اقبال بتاتی ہیں کہ وہ اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے لاہور آرٹ سرکل پر تحقیق کے سلسلے میں سنہ 2013 میں لندن میں انور جلال شمزا کی اہلیہ سے ملیں۔ ’ملاقات میں میری شمزا نے مجھے درکار تمام معلومات فراہم کیں۔ ملاقات کے دوران انھوں نے اپنے خاوند کے 28 سال سے لاپتہ فن پاروں کے بارے میں بھی بتایا اور مجھ سے درخواست کی کہ وہ مجھے ڈائریکٹر جنرل پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے نام اپنے ہاتھ کا لکھا ایک خط دینا چاہتی ہیں اور پوچھا کہ کیا میں یہ ان تک پہنچا سکتی ہوں؟ شاید انھیں میرے (میری شمزا) خط اب نہیں ملتے ہیں۔‘ ثمینہ اقبال بتاتی ہیں کہ انھوں نے وطن واپس آ کر میری شمزا کا وہ خط ڈی جی پی این سی اے کو پہنچایا، دوبارہ بھی گئیں مگر کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔ فن پارے واپس نا دینے کی وجہ کیا تھی؟ ڈائریکٹر جنرل پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس ڈاکٹر فوزیہ سعید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ظاہری طور پر فن پاروں کے واپسی نہ ہونے کی وجہ صرف ارادے کا نہ ہونا نظر آتا ہے۔ سنہ 1985 کے بعد سے پی این سی اے کے بورڈ کی متعدد میٹنگز میں ان فن پاروں کی واپسی پر بات ہوئی مگر نتیجہ صفر رہا۔‘ سرکاری دستاویزات کے مطابق انور جلال شمزا کی اہلیہ نے ان کے دس فن پارے روٹس‘ نمائش جو لاہور، کراچی اور پشاور میں منعقد ہوئی، کے لیے نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے حوالے کیے ڈاکٹر فوزیہ سعید کے مطابق سنہ 2007 میں پی این سی اے کی ’ذاتی یا مستقل کولیکشن‘ میں انور جلال شمزا کے ان دس فن پاروں کو بھی شامل رکھتے ہوئے شائع کیا گیا جس پر میری شمزا نے شدید ناراضی کا اظہار کیا اور پی این سی اے کی اس وقت کی انتظامیہ سے رابطہ کر کے مؤقف اختیار کیا کہ وہ ’عارضی طور پر نمائش کی غرض سے فراہم کردہ کسی آرٹسٹ کے کام ادارے کی ذاتی کولیکشن میں شمار نہیں کر سکتے۔‘ ڈاکٹر فوزیہ سعید کے مطابق پی این سی اے کے بورڈ کے اجلاسوں میں اس معاملے پر بحث جاری رہی، جس میں سرکاری حکام کی جانب سے یہ نکتہ اٹھایا جاتا کہ اب چونکہ ان فن پاروں کو ادارے کی ذاتی کولیکشن کے طور پر شائع کیا جا چکا ہے لہٰذا ان کی واپسی سے ایک پینڈورہ باکس کُھلے گا۔ جس سے پی این سی اے کو وہ فن پارے بھی واپس کرنے پڑیں گے جو خود آرٹسٹوں نے ادارے کو کولیکشن کے لیے دیے تھے۔‘ وہ کہتی ہیں ’یہ وہ موقع تھا کہ میری شمزا نے پی این سی اے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا اور ملک کی معروف وکیل اور سماجی رہنما عاصمہ جہانگیر کی خدمات حاصل کیں۔ انھوں نے کونسل کے نام ایک قانونی نوٹس بھیجا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ادارہ انور جلال شمزا کے فن پارے ان کی اہلیہ کو واپس کرے، ورنہ ان فن پاروں کا دنیا میں گمشدہ املاک کی فہرست میں انداج کرانے کے لیے قانونی کاروائی کی جائے گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ قانونی نوٹس کے جواب میں میری شمزا کو یہ معاملہ حل کرانے کی یقین دہانی کرائی گئی تاہم یہ معاملہ جوں کا توں التوا کا شکار رہا۔ ڈاکٹر فوزیہ سعید کے مطابق 17 اگست 2020 کو انور جلال شمزا کے تمام فن پارے انور جلال شمزا کی بھانجی اور ان کے خاندان کی جانب سے قانونی طور پر مقرر کردہ نمائندہ رخسانہ خان کے حوالے کر دیے گئے ہیں فن پارے اپنے حقیقی مالک تک کب اور کیسے پہنچے؟ ڈاکٹر فوزریہ سعید کہتی ہیں کہ انھیں انور جلال شمزا کے فن پاروں کے بارے میں پی این سی اے کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے علم تھا۔ ’بطور ڈی جی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد میں نے وفاقی وزیر تعلیم و خصوصی تربیت اور قومی ورثہ شفقت محمود کو اس بارے میں مطلع کیا کہ انور جلال شمزا جیسے لوگ اس ملک و قوم کا اثاثہ ہیں مگر ان کا کام زبردستی ہمیں اپنے پاس نہیں رکھنا چاہیے۔‘ ’جس پر انھوں نے قانونی پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر ان فن پاروں کو حقدار تک پہنچانے کا کہا۔ ہم نے پہلے پی این سی اے کی کولیکشن پر از سر نو غور کے لیے آرٹ کے شعبے سے منسلک افراد کی ایک کمیٹی تشکیل دی، قانونی پہلوؤں کو دیکھا اور پھر ادارے کے نئے تشکیل شدہ بورڈ کے سامنے یہ معاملہ رکھا۔‘ ثمینہ اقبال کہتی ہیں کہ وہ انور جلال شمزا کی پینٹگز اُن کے خاندان کے حوالے کرنے کے سلسلے میں ڈاکٹر فوزیہ سعید سے بھی ملیں تھیں۔ وہ بتاتی ہیں ’چھ ماہ قبل پی این سی اے کی جانب سے مجھ سے رابطہ کیا گیا اور ان فن پاروں سے متعلق کمیٹی میں شمولیت کی پیشکش کی گئی۔ کمیٹی میں تمام افراد نے پینٹگز انور جلال شمزا کے خاندان کے حوالے کر نے کی سفارش کی۔‘ ڈاکٹر فوزیہ سعید کے مطابق سترہ اگست 2020 کو انور جلال شمزا کے تمام فن پارے انور جلال شمزا کی بھانجی اور ان کے خاندان کی جانب سے قانونی طور پر مقرر کردہ نمائندہ رخسانہ خان کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ انور جلال شمزا کی نواسی افراح شمزا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پینتیس سال تک ان کی نانی اپنے مرحوم شوہر کے فن پارے حاصل کرنے کے لیے کوشش کرتی رہیں، فن پاروں کی واپسی پر ان کا پورا خاندان بہت خوش ہے اور وہ ان تمام افراد کا شکریہ ادا کرتے ہیں، جو میری شمزا کی اس سلسلے میں مدد کرتے رہے ہیں۔‘
151210_islamic_state_finance_chief_killed_ak
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/12/151210_islamic_state_finance_chief_killed_ak
دولت اسلامیہ کے مالیاتی امور کے سربراہ ’ ہلاک‘
امریکی فوج نے اتحادیوں کے فضائی حملے میں خود کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کے مالیاتی امور کے سربراہ کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔
فوج کے ترجمان نے کہا کہ’حالیہ ہفتوں‘ میں کی جانے والی فضائی کارروائیوں میں دولتِ اسلامیہ کے مالیاتی امور کے انچارج موافق مصطفیٰ محمد الکرموش اپنے دو ساتھیوں سمیت مارے گئے۔ موافق الکرموش ابوصالح کی کنّیت سے پہنچانے جاتے تھے۔ عراقی دارالحکومت بغداد سے ویڈیو کال کے ذریعے ترجمان نے ان ہلاکتوں کی تصدیق تو کی لیکن کارروائی کے حوالے سے مزید معلومات فراہم نہیں کیں۔ انھوں نے بتایا کہ’ابو صالح شدت پسند گروپ کے مالیاتی نیٹ ورک کے سینیئر اور تجربہ کار رکن تھے۔‘ دولت اسلامیہ کے خلاف کاروائیوں کے عالمی اتحاد متعلق امریکی صدر کے خصوصی ایلچی بریٹ مکگرک نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں دولت اسلامیہ کے تین جنگجوؤں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ دولتِ اسلامیہ کے مالیاتی ڈھانچے کو تباہ کرنے کی مہم کا حصہ ہے۔‘
060410_dallademo_sen
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/04/060410_dallademo_sen
امیگریشن قوانین: ڈلاس میں مظاہرہ
ڈلاس میں دسیوں ہزار مظاہرین نے امریکہ میں ان غیر قانونی تارکین وطن کی حمایت میں ریلی نکالی ہے جن کے خلاف سخت قوانین بنائے جا رہے ہیں۔امریکہ میں تارکینِ وطن کے حامی اور مخالفامریکہ میں ان غیر ملکی تارکینِ وطن کی تعداد گیارہ ملین یا ایک کروڑ دس لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے ۔
مظاہرین مطالبہ کر رہے تھے کہ کانگریس ان غیر قانونی تارکینِ وطن کو امریکہ میں قانونی طور پر رہنے کی قانونی منظوری دے۔ ان مظاہرین امریکی پرچم اٹھا رکھے تھے اور بہت سے لوگوں کے پاس سفید پرچم تھے جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ امن کی علامت ہیں۔ غیر قانونی تارکین وطن کی حامی تنظیمیں اب ملک گیر سطح پر مظاپرے کرنے کے پروگرام بنا رہی ہیں تا کہ اس مسئلہ پو دباؤ میں اضافہ کیا جا سکے۔ جمعہ کو امریکی سینیٹ کے ارکان اس معاملے پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکے کہ غیر قانونی تارکین کو شہریت اختیار کرنے کے لیے درخواست کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ اس سے پہلے امریکہ کے کئی اور شہروں میں بھی تارکینِ وطن کی حمایت میں مظارے ہو چکے ہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان تارکینِ وطن کے بارے میں ایک بل کی منظوری دے چکا ہے لیکن سینیٹ میں اس پر بحث جاری ہے۔اس بل کے نفاذ کے بعد درست کاغذات کے بغیر کوئی بھی امریکہ میں داخل نہیں ہو سکے۔ نیو یارک میں مظاہرین نے جو بینر اٹھا رکھے تھے ان میں سے زیادہ تر پر یہ نعرے درج تھے: ’اگر تم تارکین وطن کو تکلیف پہنچاؤ گے تو امریکہ کو تکلیف پہنچاؤ گے‘، ’ہم تمہاری معیشت ہیں‘ اور ’میں نے گراؤنڈ صاف کیا‘۔
121012_malala_condition_ispr_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2012/10/121012_malala_condition_ispr_fz
ملالہ کے لیے اب بھی اگلے اڑتالیس گھنٹے اہم
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عاصم باجوا نے کہا ہے کہ ملالہ یوسفزئی کی حالت بہتر ہوئی لیکن ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ابھی بھی اگلے چھتیس سے اڑتالیس گھنٹے بڑے اہم ہیں۔
راولپنڈی میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے آئی ایس پی آر نے کہا کہ چودہ سالہ ملالہ کے کئی ٹیسٹ کئیے گئے ہیں اور اگلے چھتیس سے اڑتالیس گھنٹے ان کی زندگی کے لیے بہت اہم ہیں۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ ایک میجر جنرل سطح کے سرجن کی سربراہی میں ایک طبی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جو ملالہ کا علاج کر رہی ہے۔ ملالہ کو علاج کے لیے ملک سے باہر بھیجنے کا فیصلے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ میڈیکل بورڈ کی سطح پر کیا جائے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ سردست ملالہ کا علاج کرنے والی طبی ٹیم میں تمام ڈاکٹر پاکستانی ہیں لیکن دو غیر ملکی ڈاکٹروں سے بھی مستقل مشورہ کیا جا رہا ہے۔ فوج کے ترجمان نے کہا کہ حملہ آووروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انھوں نے قوم سے کہا کہ وہ ملالہ کے لیے دعا کریں۔ متعلقہ عنوانات
041109_wana_killed_si
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/11/041109_wana_killed_si
وانا: تین فوجیوں سمیت سترہ ہلاک
پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں منگل کی صبح فوجی توپخانے اور گن شپ ہیلی کاپٹروں نے مشتبہ عسکریت پسندوں کے خلاف تازہ کارروائی شروع کی ہے جس میں حکام کے مطابق چودہ شدت پسندوں کے علاوہ تین فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
یہ تازہ کارروائی ایک ایسے وقت شروع کی گئی ہے جب امریکی نائب وزیر خارجہ رچرڈ آرمٹیج اسلام آباد میں موجود ہیں اور پاکستانی حکام سے مختلف موضوعات پر جن میں دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی شامل ہے بات چیت کر رہے ہیں۔ وانا سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق یہ کارروائی محسود قبائل کے علاقے میں کی جا رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پیر اور منگل کی درمیانی شب کو وانا کے فوجی ٹھکانوں پر حملے کئے گئے تھے لیکن وہ اتنے شدید نہیں تھے جتنی شدید جوابی کارروائی کی جا رہی ہے۔ تین فوجیوں کے ہلاک ہونے کے علاوہ چودہ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ عسکریت پسندوں کے ایک ترجمان نے ان کے دو ساتھیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ سحری کے فوراً بعد شروع کی جانے والی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی فائرنگ آٹھ بجے تک مسلسل جاری تھی۔ اس کے بعد جنگی ہیلی کاپٹروں نے دو دو کی جوڑیوں میں علاقے پر پروازیں جاری رکھی ہوئی ہیں اور مشتبہ ٹھکانوں پر گولہ باری کی ہے۔ فوج نے علاقے کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے اور ہر طرح کی آمد و رفت پر پابندی ہے۔ ِادھر عید میں چند روز رہ جانے کے باوجود وانا بازار میں خریداروں کی کوئی رش دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ اکثر قبائلی تازہ لڑائی کو امریکی نائب وزیر خارجہ کے دورے کے ساتھ منسلک کر رہے ہیں۔
pakistan-50462224
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50462224
نواز شریف کی بیرون ملک روانگی: کیا سابق وزیراعظم کے ساتھ ان کا مزاحمتی بیانیہ بھی چلا گیا؟
قطر کی ایئر ایمبولینس کے لاہور سے پرواز کے بعد سابق وزیرِاعظم اور مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے وقتی طور پر اوجھل ہو گئے ہیں۔
نواز شریف کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالیں تو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ جب بھی ملک سے باہر گئے، وہ جلاوطنی ہو یا علاج کی غرض، جلد یا بدیر پاکستان واپس ضرور لوٹے ہیں۔ آخری مرتبہ وہ گذشتہ برس اپنی علیل اہلیہ کلثوم نواز کو لندن کے ہسپتال میں چھوڑ کر گرفتاری دینے واپس لوٹے تھے۔ انھیں پاکستان کی احتساب عدالت نے ان کی غیر موجودگی میں ایون فیلڈ ریفرنس میں 10 برس قید کی سزا سنائی تھی۔ وہ جیل میں تھے جب کلثوم نواز انتقال کر گئیں۔ اس کے برعکس سنہ 1999 کے مارشل لا کے بعد نواز شریف نے بظاہر جیل سے بچ کر ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب کی طرف جلاوطنی کو ترجیح دی تھی۔ ان دونوں منظرناموں میں فرق کی بنیادی وجہ نواز شریف کے بیانیے میں تبدیلی کو سمجھا جا رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیے سابق وزیراعظم نواز شریف علاج کے لیے لاہور سے لندن روانہ پارٹی کی قیادت کا میچ شہباز شریف اور مریم نواز کے بیچ؟ نواز شریف پھر سیاست کا محور! اس بار نواز شریف کا بیانیہ مزاحمت کا تھا۔ اسی بیانیے کے ساتھ ن لیگ عام انتخابات لڑی، وہ خود اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے مقدمات کا سامنا کیا اور دونوں جیل بھی گئے۔ تاحال ان کی جماعت کا بیانیہ نہیں بدلا۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا نواز شریف کی عدم موجودگی میں ن لیگ نواز شریف کے مزاحمت کے بیانیے ہی کو لے کر چلے گی یا پھر اس میں تبدیلی آنے کا امکان موجود ہے۔ سنہ 1999 کے مارشل لا میں دوسری مرتبہ وزارتِ عظمٰی چھننے، خاندان سمیت ملک بددری، سات برس کی جلا وطنی اور سیاست سے بے دخلی کے بعد مزاحمت نواز شریف کے نظریے کا حصہ بننا شروع ہوئی۔ اس کا نصف جواب تو اس سوال میں چھپا ہے کہ نواز شریف کے بیانیے سے ن لیگ کو سیاسی طور پر فائدہ ہوا یا نقصان۔ زیادہ تر سیاسی تجزیہ کار بات یہیں سے شروع کرتے ہیں۔ بعض کے خیال میں نواز شریف کے بیانیے سے ن لیگ کو سیاسی نفع ہوا یا نقصان، اس بات کا انحصار اس پر بھی ہے کہ جماعت کی فعال قیادت شہباز شریف کے ہاتھ میں رہتی ہے یا مریم نواز کے پاس جاتی ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہمیشہ ایک نہ ایک مزاحمت کرنے والی جماعت ضرور رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے معاملے میں سنہ 1999 کے مارشل لا میں دوسری مرتبہ وزارتِ عظمٰی چھننے، خاندان سمیت ملک بدری، سات برس کی جلا وطنی اور سیاست سے بے دخلی کے بعد مزاحمت نواز شریف کے نظریے کا حصہ بننا شروع ہوئی۔ صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے 2018 کے الیکشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ’یہ پہلی مرتبہ تھا کہ دائیں بازو کی مڈل کلاس نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ووٹ دیا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس میں نواز شریف کے کردار کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ ’مزاحمتی بیانیے نے ان کی جماعت کو کھڑا رکھا‘ صحافی سہیل وڑایچ کے مطابق سنہ 2017 میں حالات کے پیشِ نظر نواز شریف نے مزاحمت کا راستہ اپنایا۔ ورنہ دوسرا راستہ یہ تھا کہ ’جا کر معافیاں مانگتے، بالکل چپ ہو جاتے اور سیاست چھوڑ دیتے۔ کچھ لوگوں نے پاکستان میں وہ بھی کیا۔ ’وزیرِاعظم کے بعد تو کوئی بڑا عہدہ نہیں ہوتا۔ تو جب نواز شریف نے تین مرتبہ وزارتِ عظمٰی دیکھ لی اور ان کو یہ لگا کہ اس طرح نہیں چل سکتا، تو انھوں نے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ چاہے اس میں کچھ ملا یا نہیں، لوگ اپنے نظریات کے لیے بھی تو جدوجہد کرتے ہیں۔‘ ’نواز شریف جب آخری بار اقتدار میں آئے تو وہ اپنے اس فیصلے پر قائم نظر آئے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو ایکسٹینشن یا ملازمت میں توسیع نہیں دیں گے‘ سہیل وڑائچ کے مطابق ان کو فائدہ یہ ہوا کہ ایک مزاحمتی بیانیہ مل گیا اور دائیں بازو کی قوت جس نے کبھی مزاحمت نہیں کی تھی اس کو ایک آواز مل گئی۔ اس کی وضاحت وہ اس طرح کرتے ہیں کہ ماضی میں ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چل کر اور ترقیاتی بجٹ کے ساتھ اپنا ووٹ بینک محفوظ بناتی تھی لیکن اب کافی عرصے سے ترقیاتی بجٹ بھی بند ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی۔ ’تو پھر وہ جماعت (ن لیگ) ختم ہو جاتی۔ ایسے میں نواز شریف کا جو مزاحمتی بیانیہ تھا اس نے جماعت کو کھڑا رکھا۔‘ مسلم لیگ (ن) کو فائدے یا نقصان کا انحصار ان کی واپسی پر ہے صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی سیاست سے مسلم لیگ (ن) کو فائدہ ہوا یا نقصان، اس بات کا انحصار نواز شریف کی واپسی پر ہے۔ ’اگر نواز شریف صحت مند ہونے کے باوجود جلد واپس نہیں آتے تو اس کا ناقابل تلافی نقصان ان کی پارٹی کو پہنچے گا۔‘ حامد میر نے کہا کہ نواز شریف اگر واپس نہ آئے تو جو بیانیہ انھوں نے گذشتہ برس میں لوگوں کو دیا ہے وہ زمیں بوس ہو جائے گا۔ اس صورت میں شہباز شریف بھی پارٹی سنبھال نہیں پائیں گے۔ ’نواز شریف کو نظام کی پیداوار کے طور نہیں دیکھا جا رہا‘ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار راشد رحمان کہتے ہیں ’نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہوں گے مگر جب بھی وہ اقتدار میں آئے تو ان کی آپس میں نہیں بنی۔ ’اس کی وجہ یہ تھی کہ نواز شریف کا مؤقف یہ رہا ہے کہ اگر مجھے وزیرِاعظم بنایا ہے تو پھر حکومت کو چلانے کی اتھارٹی میرے پاس ہونی چاہیے اور یہ کہ مجھے احکامات نہ دیے جائیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی سرکشی نے حالات کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ سنہ 1993 اور 1999 کے بعد پاکستان واپس آنا اور پھر حال ہی میں لندن سے واپس آنا اور جیل چلے جانا یہ جانتے ہوئے کہ مشکلات ہوں گی، اس نے ان کے بارے میں تاثر کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ’اب ان کو اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار اور اس کے مہرے کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا۔ ان کو اب ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو پیداوار تو اسٹیبلشمنٹ کی ہے مگر وہ ان کے خلاف کھڑا ہوا ہے۔‘ ’احتساب ہوا، انتخاب ہارے‘ تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق اس مزاحمتی سیاست کا نواز شریف کی جماعت کو نقصان یہ ہوا کہ انھیں سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ’احتساب ہوا، جیل جانا پڑا، جماعت کے نچلے طبقے تک کو یہ دھچکے برداشت کرنے پڑے، سیاسی انتقام کا سامنا کرنا پڑا، شہرت بھی خراب ہوئی اور انھیں الزامات بھی برداشت کرنے پڑے۔‘ تاہم اس کا مثبت پہلو یہ رہا کہ دوسری طرف ’نواز شریف نے سیاست میں اپنا مقام واپس لینے کی کوشش کی ہے اور جیل میں بیٹھ کر اپنی مزاحمت سے وہ عدالت کی ذریعے رہا ہو کر باہر چلا گیا۔‘ ’پنجاب کو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ دیا‘ پاکستان کے مستند جریدے دی نیوز آن سنڈے کی سابق مدیر اور تجزیہ کار فرح ضیا بھی سہیل وڑائچ کی اس بات سے متفق ہیں کہ نواز شریف کی مزاحمت کی تاریخ بن چکی ہے۔ وہ جب بھی اقتدار میں آئے ہیں انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کا سامنا کیا ہے۔ فرح ضیا کے مطابق ’نواز شریف جب آخری دفعہ اقتدار میں آئے تو وہ اپنے اس فیصلے پر قائم نظر آئے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں دیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناؤ کافی عرصے تک چلتا رہا مگر نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں کی۔ ’اس طرح انھوں نے اپنی جماعت کو مشکل میں ڈالا، جماعت کے انتخابات جیتنے کے مواقع کم ہوئے اور محاذ آرائی کا ماحول بھی بنا۔‘ تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف جب بھی اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرتے ہیں وہ اپنے بیانیے کو اپنے ووٹر اور حلقے تک لے کر جاتے ہیں۔ ’شہباز شریف کا تاثر ایک بہتر منتظم کا ضرور رہا ہے تاہم کیا وہ لوگوں کو بھی جمع کر سکتے ہیں؟ وہ ہم نے دیکھا ہے کہ مریم نواز کر پائی ہیں‘ ’شہباز شریف یا مریم نواز‘ تجزیہ نگار فرح ضیا کا کہنا تھا کہ اس بات کا اندازہ اس وقت بھی بہتر لگایا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کے بیانیے سے ان کی جماعت نے کیا کھویا کیا پایا، کہ جماعت کی قیادت کس کے ہاتھ آتی ہے، شہباز شریف یا مریم نواز۔ ان کے خیال میں گو کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ فی الوقت ن لیگ میں اس سمت سوچا نہیں جا رہا ہو گا۔ تاہم جب ایسا ہو گا تو صحیح علم ہو پائے گا کہ نواز شریف کے بیانیے کا ن لیگ کو کتنا فائدہ ہوا اور کتنا نقصان۔ ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کبھی اس پوزیشن میں نہیں رہے جہاں وہ جماعت کا بیانیہ ترتیب دیں، اب اگر وہ اس پوزیشن میں آتے ہیں تو دیکھنا ہو گا کہ ان کا بیانیہ کیا ہوتا ہے۔ مزید پڑھیے نواز شریف کا متبادل کون؟ نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں عبوری ضمانت منظور چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی ضمانت منظور ’اگر آپ دیکھیں تو جب ڈان لیکس کا مسئلہ ہوا تو اس وقت شہباز شریف نے سامنے آ کر بات تو کی مگر وہ بات نواز شریف کے کہنے پر ہی کی، بیانیہ تو نواز شریف کا ہی تھا۔‘ ان کا کہنا تھا ’شہباز شریف کا تاثر ایک بہتر منتظم کا ضرور رہا ہے تاہم کیا وہ لوگوں کو بھی جمع کر سکتے ہیں؟ وہ ہم نے دیکھا ہے کہ مریم نواز کر پائی ہیں۔‘ ’زیادہ تر لوگ مفاہمت پسند ہوں گے‘ تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے مطابق نواز شریف کے جانے کے بعد ’ن لیگ میں زیادہ تر لوگ مفاہمت پسند ہوں گے اور وہ چاہیں گے کہ مفاہمت پسندی کی طرف جایا جائے اور شہباز شریف اس کی قیادت کریں گے۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ کا ووٹ بینک نواز شریف کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا نواز شریف اس ووٹ بینک کو مفاہمت کی طرف جانے دیں گے یا اپنے ووٹ بینک کو اسی جگہ کھڑا رکھیں گے۔ تجزیہ نگار راشد رحمان سہیل وڑائچ کی اس بات سے متفق ہیں کہ ووٹ بینک نواز شریف کا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف اپنے بھائی کے خلاف نہیں جا سکتے ہیں کیونکہ نواز شریف وہ ہیں جن کے پاس ووٹ ہے، جو جماعت کو یکجا رکھے ہوئے ہیں۔ ’جب تک نواز شریف موجود ہیں چاہے وہ لندن ہی میں کیوں نہ ہوں، ن لیگ پر ان کی گرفت اور ان کے اثر و رسوخ کو ختم نہیں کیا جا سکے گا۔‘ ’نواز کا وارث موجود ہے‘ تجزیہ نگار راشد رحمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جو کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف چلے جائیں گے اور شہباز شریف واپس آ جائیں گے اور کوئی صلح ہو جائے گی۔ ’ایک تو یہ بات کہنا تھوڑا قبل از وقت ہے اور دوسرا ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آتا۔‘ ان کا کہنا تھا ’مریم نواز کو نواز شریف کی جماعت کی طرف سے ان کی مزاحمت کی میراث آگے لے کر چلنے کے لیے وارث کے طور پر تیار کیا گیا اور اس جگہ لایا گیا ہے جہاں وہ اس کو سنبھال سکیں۔‘ ’کچھ لوگ یہ قیاس آرائی کر رہے ہیں کہ نواز کے جانے کے ساتھ ن لیگ کی سیاست ختم ہو جائے گی، میرا نہیں خیال۔ میرے خیال میں ان کا وارث موجود ہے جو کہ ان کی میراث کو آگے بڑھائے۔ میرا نہیں خیال کہ شہباز شریف اس کو روک سکتے ہیں۔‘
160620_panama_tor_meeting_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2016/06/160620_panama_tor_meeting_fz
پاناما لیکس: ضابطہ کار بنانے کا معاملہ ٹھپ
پاناما پیپرز میں کرپشن کے انکشافات کی تحقیقات کے لیے ضوابط کار طے کرنے کے لیے بنائی گئی پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی میں شامل حزب مخالف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ حکومت اس میں مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے علاوہ ایبٹ آباد میں القاعدہ کے رہنما اُسامہ بن لادن کی ہلاکت جیسےمعاملات کو بھی شامل کرنا چاہتی ہے جو کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔
پاناما پیپرز کے انکشافات کے بعد شریف خاندان کی طرف سے متضاد بیانات دیئے گئے اور اسی بنا پر اپوزیشن کی طرف سے ان کے احتساب کا مطالبہ شدت اختیار کر گیا پیر کے روز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے حزب مخالف کی دیگر جماعتوں کے رہنماوں کے ساتھ مل کر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعات کو شامل کرنے کا مقصد ایشو سے لوگوں کی توجہ ہٹانا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ضوابط کار طے کرنے ولی پارلیمانی کمیٹی میں حزب مخالف کی جماعتوں کے ارکان کا موقف تھا کہ صرف پاناما لیکس میں جن افراد کے نام آئے ہیں اُن کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے لیکن اس کا آغاز وزیر اعظم اور اُن کے خاندان سے ہوگا۔ چوہدری اعتراز احسن کا کہنا تھا کہ حکومت اور حزب مخالف کی جماعتوں کے درمیان ضوابط کار طے کرنے کے لیے ڈیڈ لاک موجود ہے اور جب تک حکومت کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں آتا اس وقت تک کمیٹی کا اجلاس بلانا بےسود ہوگا۔ واضح رہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے آٹھ اجلاس ہوچکے ہیں اور ابھی تک کمیٹی پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے متفقہ ضوابط کار طے کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ چوہدری اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اگر ضوابط کار طے نہ ہوئے تو پھر حزب مخالف کی جماعتیں احتجاج کریں گی تاہم اس کا فیصلہ سیاسی جماعتوں کے قائدین ہی کریں گے۔ اس پریس کانفرنس میں حزب مخالف کی پانچ جماعتیں شریک تھیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف قابل ذکر ہیں۔ حزب مخالف کی جن جماعتوں نے اس پریس کانفرنس میں شرکت نہیں کی ان میں عوامی نینشل پارٹی کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ اور قومی وطن پارٹی شامل ہیں۔ دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ وہ پاناما لیکس کے معاملے پر ضوابط کار طے کرنے کو تیار ہیں لیکن اس میں حزب مخالف کی دھونس نہیں چلنے دی جائے گی۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے وفاقی وزرا زید حامد اور انوشہ رحمان کے ہمراہ پارلیمٹ ہاؤس کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ حکومت دباو میں آکر کوئی بھی کالے قوانین نہیں بنائے گی۔ اُنھوں نے کہا کہ پاناما لیکس کی آڑ میں حزب مخالف حکومت کا میڈیا ٹرایل کر رہی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ حکومت سنہ 1956 انکوائری ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اس معاملے میں حزب مخالف کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ حزب مخالف کی کچھ جماعتوں کا ایجنڈہ غیر جمہوری روایات کو فروغ دینا ہے جس میں وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔
050713_london_suicide
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2005/07/050713_london_suicide
برطانیہ میں پہلے خود کش حملے
برطانوی تفتیش کاروں کے مطابق جمعرات کو لندن میں ہونے والے بم دھماکے خود کش حملے تھے۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ چار حملہ آوروں میں سے تین پاکستانی نژاد برطانوی شہری تھے۔
برطانیہ کی انسداد دہشت گردی کی پولیس نے منگل کے روز لیڈز میں چھاپے مار کر ایک شخص کوگرفتار کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ پولیس نے لندن کے نواحی علاقے لوٹن میں ایک کار کو دھماکے سے اڑا دیا ہے جس کے بارے میں شبہ تھا کہ ان میں بارودی مواد پڑا ہوا تھا۔ چاروں حملہ آور تھیمز لنک ٹرین کے ذریعے لندن کے کنگ کراس سٹیشن پر پہنچے جہاں سے انہوں نے شہر کے مختلف حصوں میں پھیل کر دھماکے کیے جن میں باون لوگ ہلاک اور سات سو زخمی ہو گئے تھے۔ پولیس کے مطابق نہ صرف برطانیہ میں بلکہ مغربی یورپ میں یہ پہلے خود کش حملے ہیں۔ اس سے پہلے برطانوی شہری خود کش حملوں میں ملوث رہے ہیں لیکن برطانیہ میں یہ اپنی نوعیت پہلی کارروائی ہے۔ ان تمام خبروں پر آپ کا کیا رد عمل ہے؟ برطانیہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟ خود برطانیہ میں عام برطانوی مسلمانوں کے خلاف کس طرح کا اور کتنا رد عمل ہو سکتا ہے؟ اور مسلم کمیونٹی کو برطانیہ میں انتہا پسندی روکنے کے لیے کس طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے؟ اگر آپ اپنا پیغام موبائل فون سے ایس ایم ایس کے ذریعے بھیجنا چاہتے ہیں تو ہمارا نمبر ہے: 00447786202200 جاوید اقبال ملک، چکوال:یقینی طور پر یہ ایک انتہائی افسوسناک صورتحال ہے اور اس پر دل بہت اداس ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد پوری دنیا کی صورت حال مکمل طور پر چینج ہوچکی ہے، انگلینڈ کو اس سے پہلے ورلڈ کا محفوظ ترین کنٹری تصور کیا جاتا تھا، مگر اب تو کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ عثمان اکرم، لاہور:ایسا لگتا ہے کہ سوسائیڈ ٹیرورسٹ کے لئے دنیا کا کوئی کونا محفوظ نہیں ہے، وہ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں، بس یہ ایکسٹریمِسٹ تمام مسلمانوں کو ڈبوئیں گے۔ عبداللہ لغاری، دبئی:لندن میں ہونے والے سات بم بلاسٹ میں پچاس سے زیادہ لوگ مارے گئے اور اب صرف چار ملزمان کی نشان دہی کی گئی ہے اور وہ بھی پاکستانی نژاد برطانوی سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ آیا وہ لوگ مجرم ہیں بھی کہ نہیں۔ قمر جاوید، فیصل آباد:یہ پاکستان کے خلاف کوئی نئی چال ہے۔ دنیا میں کیا ہم پاکستانی رہ گئے ہیں دہشت گردی کے لئے؟ یہ صلیبی جنگوں کا آغاز ہے۔ مسلمانوں کے خلاف کارروائی ہے، سازش ہے۔ اقبال درویش سندھی، سندھ:ہم سندھی اور بلوچی جانتے ہیں کہ یہ آئی ایس آئی کی کارروائی ہے مغرب کے خلاف۔ مغرب اور آئی ایس آئی، طالبان اور القاعدہ ایک دوسرے کے خلاف لڑرہے ہیں ڈِکٹیٹر ضیاء کی موت کے وقت سے۔ اب صرف دو ہی سوپر پاور ہیں: امریکہ اور پاکستان۔ دونوں بظاہر ’دوست‘ ہیں ایک دوسرے کے لئے لیکن حقیقت میں دونوں ایک دوسرے کے خلاف لڑرہے ہیں۔ محمد احمد، لاہور:یہ یقینا ایک افسوسناک واقعہ ہے۔ یہ واقعہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا کہ بےگناہ لوگ مارے گئے۔ شاہدہ اکرم، ابوظہبی:ان تمام خبروں پر پہلا ردعمل تو یہی ہے کہ ظاہر ہے کہ دہشت گردی کوئی اچھی چیز تو ہے نہیں کہ ہم اس سے خوش ہوں، ظاہر ہے قابل مذمت بات ہے۔ لیکن اس وقت دکھ صرف اس بات پر ہے کہ سب انسان ایک سے ہی ہوتے ہیں، لہو کا رنگ بھی ایک ہی ہوتا ہے تو ہم سب میں یہ تفریق کیوں؟ عطا حق، امریکہ:میری عمر ستاسی سال سے اوپر ہے، میں پاکستان سے چار بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ آیا۔ مجھے اس واقعے پر کافی صدمہ پہنچا ہے۔ محمد فیصل جمال، چکوال:یہ انسانیت کے لئے کافی صدمے کی بات ہے۔ یہ اتنی ہی مذمت کی بات ہے جتنا امریکی اور برطانوی فوجوں کی عراق، کشمیر اور دوسرے ممالک میں ہے۔ جب بھی مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی اس طرح کے واقعے ہوں گے۔ پہلے آپ مسلمان کے خلاف ناانصافی کا خاتمہ کریں۔ علی ساجد رضوی، لاس اینجلس:بڑے شرم کی بات ہے کہ مسلمان ہوتے ہوئے ہم کہیں بھی محفوظ نہیں، چاہے وہ اپنا ملک ہو یا یورپ یا امریکہ۔ محمد ناظر، ہڈرسفیلڈ، انگلینڈ:یہ جو کچھ بھی ہوا ہے انتہائی غلط ہوا ہے۔ اسلام شدید مذمت کرتا ہے ایسے واقعات کی۔ ہم سب برطانوی مسلمان حکومت کو اپنے ٹاؤن کا یقین دلاتے ہیں۔ میری تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح پرورش کریں اور ان کے سامنے اپنا بہترین کردار اور اخلاق پیش کریں۔ وسیم رفیع، لاہور:وجہ کچھ بھی ہو لیکن اسلام میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ کسی بےگناہ کی جان لی جائے۔ یہ سب جہاد نہیں ہے بلکہ فساد ہے۔ اور جو لوگ ان میں مارے گئے ہیں وہ مسلم نہ صحیح کسی ماں کے بچے تھے، کسی کے بہن بھائی تھے اور کسی کے ماں باپ تھے، ان کا خون ان جھوٹا جہاد کرنے والوں کی گردن پر ہوگا۔ محمد جمیل، دبئی:ناانصافی اس طرح کے واقعات کو جنم دیتی ہے اور جب تک اصل وجہ دور نہیں ہوگی اس طرح ہوتا رہے گا۔ کچھ بھی ہو مارے بےگناہ لوگ جاتے ہیں۔ عاطف بٹ، بارسلونا:جو کچھ بھی ہوا اچھا نہیں ہوا۔ لیکن اس کی سب سے بڑی ذمہ دار برِٹش گورنمنٹ بھی ہے۔ اور عراق اور افغانستان اور کشمیر اور فلسطین میں اتنے لوگ روزانہ مر رہے ہیں وہ بھی تو بےگناہ ہیں۔ پھر ان کو بچانے کے لئے اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے ہیں؟ یہ قدرت کا قانون ہے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ یہ کوئی انوکھا کام نہیں ہوا۔ سیف اللہ، امریکہ:مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ بمبار اپنی آئڈینٹیٹی کارڈ جیب میں کیوں رکھ ہوئے تھے۔ یہ کنسپائریسی لگتی ہے۔ عمر صدوزئی، ڈی آئی خان:میرے خیال میں یہ ایک ماسٹرمائنڈ کا کام ہے جو چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو یورپ سے ایکسپیل کردیا جائے۔ اس طرح کی کارروائی کسی بھی حال میں مسلمانوں کے لئے فائدہ مند نہیں ہے۔ اس کا فائدہ صرف مسلمانوں کے دشمنوں کو ہے۔۔۔۔۔ صمد علی، امریکہ:جس نے یہ سب کچھ کیا ہے اس کے ذہن میں یہ بات ڈالی گئی ہوگی۔ تم یہ سب کرکے سیدھا جنت میں جاؤگے۔ عبدالحنان چودھری، فیصل آباد:کیا ورلڈ میں سارے کے سارے دہشت گرد مسلمان ہیں؟ کوئی شخص ویسے اپنی جان کی بازی نہیں لگادیتا، بالخصوص برطانیہ میں۔ اس کے پیچھے کچھ اسباب ہوتے ہیں اور آپ اور میں ایسے کیوں نہیں کرتے؟ امین اللہ شاہ، پاکستان:پٹھو حکمرانوں کی بدولت دنیا کے تمام مسلمانوں کی اس وقت حیثیت گھڑے والی مچھلی سے زیادہ نہیں، جب چاہے امریکہ، برطانیہ، اسرائیل نوالہ بنالیں۔۔۔۔ شاد خان، ہانگ کانگ:لندن دھماکوں کے بعد مسٹر ٹونی بلیئر نے کہا ہے کہ ہم بدل جائیں لیکن وہ نہیں بدلیں گے۔ خالد، آسٹریلیا:دہشت گردی جہاں بھی ہو قابل مذمت ہے۔ بے گناہ انسانوں کا خون بہانا کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔ لیکن اس سب کی وجہ مغرب کا دوہرا معیار ہے۔ جب تک ناانصافیاں ہوتی رہیں گی اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مغرب والے پازٹو سوچ کے ساتھ مسائل کے حل کی کوشش کریں نہ کہ مزید ناانصافیاں ہوں۔ انصاف شیخ، ممبئی:جی نہیں برطانیہ کے مسلمان جاہل نہیں، یہ سب جانتے ہیں۔ یہ سب حکومت کی غلط پالیسی کا نتیجہ ہے۔ یہ عراق میں جنگ کا نتیجہ ہے۔ میں حملوں کی حمایت نہیں کر رہا ہوں مگر انصاف کی بات کہہ رہا ہوں۔ جعفر صدیق مومن، امریکہ:میری نظر میں حملے کرنے والے انسان نہیں بلکہ جانوی سے بھی بدتر ہیں۔ یہ لوگ اسلام کے نام پر حملے کرتے ہیں جبکہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ سید رحمان، کینیڈا:یہ تو نیوٹن کا تیسرا قانون ہے۔۔ہر ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے۔۔اور کیا امید کی جا سکتی ہے؟ شفیع علی، ٹوکیو، جاپان:بے گناہ لوگ جہاں بھی مارے جائیں، وہ قابل مذمت ہے۔ افغانستان، عراق، بوسنیا، کشمیر، چیچنیا، سب جگہ بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں۔ لیکن اس حادثے کے بعد برطانیہ میں رہنے والے زیادہ تر بےحس مسلمان بیدار ہوں گے اور برطانوی حکومت بھی اپنے دوہرے معیاروں پر ضرور نظر ڈالے گی۔ احمد معین، برازیل:یہ انسانیت کے خلاف بہت بڑی سازش ہے۔ ایسے لوگوں کا انسانیت کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ عمران جلالی، سعودی عرب:آج کل جو حالات ہیں ان میں تو الزامات کا سلسلہ کچھ یوں ہوتا ہے : نمبر ایک - ذمہ دار القاعدہ، نمبر دو - مسلمان بنیاد پرست خود کش لوگ ملوث۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت یہ کیوں نہیں سوچتی کہ دہشت گردی کی وجہ کیا ہے؟ انسان چاہے خودکش حملے میں اپنے آپ کوہلاک کر ڈالے یا دوسرے کو مار ڈالے، مرنے اور مارنے کا شوق لے کر کوئی پیدا نہیں ہوتا۔ ابو عمر، دبئی:ریاستی دہشت گردی انفرادی دہشت گردی کو جنم دیتی ہے۔ کیا عراق، فلسطین اور افغانستان میں مرنے والوں کے خون سے امریکی اور برطانوی عوام کے بھی ہاتھ رنگے ہوئے نہیں ہیں؟ اظفر خان، کینیڈا:میں کافی وقت سے مغرب میں رہتا ہوں۔ میرا یہاں رہنا اس بات کی عکاسی ہے کہ یہاں کا معاشرہ مجھے اچھا لگتا ہے۔ اس لیے اس معاشرے کی تباہی کا میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہاں کی اچھائیوں میں قانون کی حکمرانی سب سے اہم ہے۔ تعصب اور برے لوگ تو ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ اسد فاروقی، کینیڈا:خودکش حملوں میں پاکستانیوں کا شامل ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے لیکن اس چیز کو پاکستانی معاشرے سے ختم کرنا ہوگا اور مسجد، امام بارگاہ صرف نماز اور مجلس حسین کے لیے استعمال کی جانی چاہیئے، کوئی تعلیمی مدارس نہیں ہونے چاہیئے۔ سادیہ سید، پیرس، فرانس:یہ اچھا نہیں ہوا۔ اس سے یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔ ہمیں اپنے بچوں کو صحیح تربیت دینی ہوگی۔ عالم گیر بیگ، سویڈن:ان گرفتاریوں کے بعد پوری دنیا میں پاکستانیوں کا امیج مزید خراب ہو گا۔ یہ انتہا پسند سب مسلمانوں کو یورپ سے نکلوا کر ہی دم لیں گے۔ ان لوگوں کو برطانیہ سے نکال دین، خود ہی امن ہو جائے گا۔ بابر خان، راولپنڈی، پاکستان:جب تک امریکہ اور برطانیہ ان وجوہات کو ختم نہیں کرتے، جن کی وجہ سے کوئی شخص اپنی زندگی داو پر لگا دیتا ہے۔ اس وقت تک ایسے حملے نہیں رک سکتے۔ اپنی زندگی کس کو پیاری نہیں ہوتی؟ سجاد احمد، قطر:ٹونی بلیئر اور جارج بش اگر واقعی انسانیت کا درد اپنے دل میں رکھتے ہیں تو وہ یقیناً اپنی دہشت گردی اب بند کر دیں گے جسے انہوں نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا نام دے رکھا ہے۔ انگریز قوم کی عسکریت واقعی سمجھدار ہوتی ہے اس لیے برطانوی مسلمانوں کے خلاف غیر انسانی شدت پسندی کی امید نہیں، لیکن ہو سکتا ہے کہ قوم کی غیرت کے نام پر کچھ لوگ کوئی غیر انسانی حرکت کریں۔۔۔ عاصف سلیم مٹھا، برطانیہ:ان دھماکوں میں صاف صاف لگتا ہے کہ کسی مسلم دشمن کی سازش ہے اور برطانوی پولیس کمشنر کا پہلے ہی بیان آ گیا تھا کہ لوکل برطانوی ہو سکتے ہیں بلکہ ان کا بیان سو فیصد لوکل مسلمانوں پر تھا۔ ان کو یہ ثبوت عوام کو دکھانے چاہیئے اور مسلمان ممبران پارلیمان کو خود انکوائیری بورڈ میں شامل ہونا چاہیئے۔ محمد حمید الحق، کراچی، پاکستان:اس طرح کے حملے سے کسی بھی مذہب یا فرقے کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ صرف وہ ہی کر سکتا ہے جس کا ضمیر مر گیا ہو۔ چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو۔ نہ یہ جہاد ہے نہ شہادت۔ غلام فرید شیخ، سندھ، پاکستان:ایک تو یہ امریکی ظلم پر رد عمل ہے جو مسلمانوں پر ہو رہا ہے۔ میں تو پوری دنیا سے یہی کہوں گا کہ اب یہ خون کی ہولی بند ہونی چاہیئے۔
050607_norway-birthday-sq
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/06/050607_norway-birthday-sq
ناروے کی’سویں سالگرہ‘
ناروے سویڈن سے اپنی آزادی کی صد سالہ سالگرہ منا رہا ہے۔
1905 میں ناروے کی پارلیمان کے اس یکطرفہ فیصلے کے بعد جس کے تحت سویڈن کے شاہ کی حکومت کاخاتمہ کر دیا گیا تھا، دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے لیے تیار ہو گئے تھے۔ لیکن ناروے میں ایک ریفرنڈم کے بعد سویڈن اور ناروے کے اکٹھا یا الگ الگ رہنے کا فیصلہ پُرامن طور پر ہوگیا۔ ناروے کی آزادی کی سویں سالگرہ کے موقع پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے کہا کہ جس طرح سویڈن اور ناروے نے آپس میں معاملات طے کیے آج کی دنیا کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے۔ انہوں نے سویڈن کے اخبار کو بتایا کہ یہ امن کے لیے کام کرنے والوں کے لیے ولولہ انگیز موقع ہے کیونکہ یہ کسی بھی تنازعہ میں دو فریقین کی سمجھوتہ کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اگرچہ 1905 میں ناروے کسی حد تک آزاد تھا لیکن بادشاہ اور ملک کے پالیسی ساز بہرحال سویڈن میں ہی بیٹھتے تھے۔ اسی لیے جب ناروے کی پارلیمان نے بادشاہ کو نظرانداز کرنے کا یکطرفہ فیصلہ کیا توسویڈن میں کچھ طاقتوں نے ناروے پر حملے کی تجویز بھی دی تھی۔ اس کے جواب میں ناروے نے بھی سویڈن کے ساتھ اپنی سرحد پر فوجوں کو مضبوط کرنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن باوجود اس کے کہ دونوں ملکوں میں قومیت کے جذبات عروج پر تھے، فتح جمہوریت کی ہوئی۔ بات چیت کے بعد دونوں ممالک اس بات پر متفق ہو گئے کہ ناروے میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ مکمل آزادی چاہتے ہیں یا نہیں۔ آج سو سال بعد دونوں ممالک کے درمیان صرف اس بات پر جھگڑا ہوتا ہے کہ فٹبال کے میدان میں کون جیتےگایا یورووِژن کے گانوں کے مقابلے میں کس ملک کی ٹیم جیتے گی کیونکہ یہ مقابلے بہرحال ایک ہی ٹیم جیت سکتی ہے۔
regional-55452590
https://www.bbc.com/urdu/regional-55452590
شمس الرحمان فاروقی کی یاد میں: وہ جو چاند تھا سرِ آسماں۔۔۔
اردو زبان کے معروف ادبی نقاد، ناول نگار اور شاعر شمس الرحمان فاروقی سات بھائیوں میں سب سے بڑے اور تیرہ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ انھیں پڑھنے لکھنے سے دلچسپی ورثے میں ملی تھی۔ دادا حکیم مولوی محمد اصغر فاروقی تعلیم کے شعبے سے وابستہ تھے اور فراق گورکھ پوری کے استاد تھے۔
نانا محمد نظیر نے بھی ایک چھوٹا سا سکول قائم کیا تھا جو اب کالج میں تبدیل ہو چکا ہے۔ سکول کے دنوں میں ہی شاعری سے ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ سات برس کی عمر میں ایک مصرع لکھا :'معلوم کیا کسی کو میرا حال زار ہے۔' مگر مدتوں اس پر دوسرا مصرع نہ لگ سکا۔ پہلا ہی شعر مکمل نہ ہوا تو شاعری کا پیچھا چھوڑ دیا اور ایک قلمی رسالے گلستان کی ترتیب و اشاعت شروع کر دی۔ رسالہ کیا تھا یہ سمجھیے کہ 16، 20 یا 24 صفحات کاٹ کر ان پر اپنی 'تصانیف' درج کرتے جاتے۔ والد کی نظر سے یہ رسالہ گزرا تو انھوں نے ٹوکا کے تم نے بعض اشعار ناموزوں درج کئے ہیں۔ والد نے ہر مصرع کی تقطیع کر کے سمجھایا کہ کہاں غلطی ہوئی ہے۔ فعولن فعولن کی تکرار انھیں اتنی اچھی لگی کہ اسی دم ارادہ کر لیا کہ آئندہ زمانے میں عروضی ضرور بنیں گے۔ یہ بھی پڑھیے ’جاتے جاتے یہ سال شمس الرحمان فاروقی صاحب کو بھی لے گیا‘ ’جشن ادب‘ میں ’ماورائے ادب‘ گفتگو اردو کے فروغ کی ویب سائٹ ’ریختہ‘ انڈیا میں مقبول کیوں؟ میٹرک کے بعد افسانہ نگاری کا باقاعدہ آغاز ہوا مگر انھیں نہ اپنے پہلے افسانے کا نام یاد رہا نہ اس پرچے کا جس میں وہ افسانہ چھپا تھا۔ 1949-50 میں ایک ناول 'دلدل سے باہر' تحریر کیا جو معیار میرٹھ میں چار قسطوں میں شائع ہوا پھر نثر کو ہی ذریعہ اظہار بنا لیا۔ یہ تھے ہمارے شمس الرحمان فاروقی۔ وہ 30 ستمبر 1935 کو اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے تھے۔ اعظم گڑھ سے میٹرک اور گورکھ پور سے گریجویشن کرنے کے بعد الٰہ آباد یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ الٰہ آباد میں وہ ایک عزیز کے یہاں رہتے تھے جن کے گھر سے یونیورسٹی کئی میل دور تھی۔ وہ اکثر پیدل ہی آیا جایا کرتے تھے اور دوران سفر بھی ان کے ہاتھ میں کتاب کھلی ہوتی اور وہ ورق گردانی کرتے ہوئے چلتے رہتے۔ وہ زمانہ ہی اور تھا، راہ چلتے لوگ ان کے مطالعے کی محویت دیکھتے ہوئے خود ہی انھیں راستہ دے دیتے۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے انھوں نے انگریزی میں ایم اے کیا اور اس شان سے کہ یونیورسٹی بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ان کی تصویر انگریزی روزنامے امرت بازار پتریکا میں شائع ہوئی تو تمام خاندان والوں نے اس پر فخر کیا۔ اس زمانے میں ان کی ملاقات اپنی کلاس فیلو جمیلہ خاتون ہاشمی سے ہوئی جو ان کی ذہانت سے بہت متاثر تھیں، یہی جمیلہ ہاشمی بعد میں جمیلہ فاروقی کے نام سے خاندان کی بہو بنیں۔ ایم اے کے بعد شمس الرحمان فاروقی تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئے مگرساتھ ہی مقابلے کے امتحان کی تیاری بھی کرتے رہے۔ 1957 میں انھوں نے یہ امتحان پاس کیا اور انھیں پوسٹل سروس کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ اس کے بعد ان کی پوسٹنگ انڈیا کے مختلف شہروں میں ہوتی رہی اور انھیں بیرون ملک سفر کے بھی بہت مواقع میسر آئے۔ اسی دوران شمس الرحمان فاروقی کے تنقیدی مضامین اور تراجم شائع ہونا شروع ہوئے جس نے ادبی دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترقی پسند ادبی تحریک کا زور ٹوٹ رہا تھا۔ ترقی پسند ادیبوں نے شمس الرحمان فاروقی کو جدیدیت اور ادب برائے ادب کا علم بردار سمجھ کر انھیں اپنا حریف سمجھنا شروع کیا مگر وہ اپنے محاذ پر ڈٹے رہے۔ ان کی علمیت اور وسعت مطالعہ حیران کن تھی، تجزیہ کاری اور ترکیب کاری کے اوصاف نے ان کی تنقید میں استدلال کا ایک منفرد انداز پیدا کر دیا تھا جس سے ان کے حریف بھی متاثر ہوئے۔ جون 1966 میں شمس الرحمان فاروقی نے ایک ادبی رسالے 'شب خون' کی بنیاد رکھی۔ گو اس رسالے پر ان کا نام بطور مدیر شائع نہیں ہوتا تھا لیکن پوری ادبی دنیا کو علم تھا کہ اس رسالے کے روح و رواں کون ہیں۔ شب خون کے پہلے شمارے پر مدیر کی حیثیت سے ڈاکٹر سید اعجاز حسین کا، نائب مدیر جعفر رضا اور مرتب و منتظم کی حیثیت شمس الرحمان فاروقی کی اہلیہ جمیلہ فاروقی کا نام شائع کیا گیا تھا۔ شب خون کو جدیدیت کا پیش رو قرار دیا گیا اور اس نے اردو قلم کاروں کی دو نسلوں کی تربیت کی۔ شب خون 39 برس تک پابندی کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ جون 2005 میں شب خون کا آخری شمارہ دو جلدوں میں شائع ہوا جس میں شب خون کے گزشتہ شماروں کی بہترین تخلیقات شامل کی گئی تھیں۔ شمس الرحمان فاروقی کے تنقیدی مضامین کے متعدد مجموعے شائع ہوئے جن میں نئے نام، لفظ و معنی، فاروقی کے تبصرے، شعر غیر شعر اور نثر، عروض، آہنگ اور بیان، تنقیدی افکار، اثبات و نفی، انداز گفتگو کیا ہے، غالب پر چار تحریریں، اردو غزل کے اہم موڑ، خورشید کا سامان سفر، ہمارے لیے منٹو صاحب، اردو کا ابتدائی زمانہ اور تعبیر کی شرح کے نام سرفہرست ہیں۔ تاہم تنقید کے میدان میں ان کا سب سے معرکہ آرا کام 'شعر شور انگیز' کو سمجھا جاتا ہے۔ چار جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں میر تقی میر کی تفہیم جس انداز سے کی گئی ہے اس کی کوئی مثال اردو ادب میں نہیں ملتی۔ اس کتاب پر انھیں 1996 میں سرسوتی سمان ادبی ایوارڈ بھی ملا۔ شمس الرحمان فاروقی نے ارسطو کی بوطیقا کا بھی ازسرنو ترجمہ کیا اور اس کا بہت شاندار مقدمہ تحریر کیا۔ 1980 کے لگ بھگ وہ کچھ عرصے کے لیے ترقی اردو بیورو سے وابستہ ہوئے، اس وابستگی نے اس ادارے میں نئی روح پھونک دی۔ ان کے دور وابستگی میں اس ادارے نے نہ صرف یہ کہ اردو کے کلاسیکی ادب اور لغات کو ازسر نو شائع کیا بلکہ کئی نئی کتابیں بھی شائع کیں۔ اس ادارے کا ایک جریدہ بھی اردو دنیا کے نام سے شائع ہونا شروع ہوا جس نے اردو کی کتابی دنیا کو آپس میں مربوط کر دیا۔ شمس الرحمان فاروقی کی شاعری کا سلسلہ بھی جاری رہا، ان کے کئی مجموعے شائع ہوئے جن میں گنج سوختہ، سبز اندر سبز، چار سمت کا دریا اور آسماں محراب کے نام شامل تھے۔ ان کی تمام شاعری کی کلیات بھی 'مجلس آفاق میں پروانہ ساں' کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ شمس الرحمان فاروقی کو لغت نویسی سے بھی بہت دلچسپی تھی، اس میدان میں ان کی دلچسپی کا مظہر لغات روزمرہ ہے جس کے کئی ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں مگر ان کا اصل میدان داستان اور افسانہ تھا جس کا اندازہ اس وقت ہوا جب انھوں نے داستان امیر حمزہ پر کام شروع کیا۔ انھوں نے داستان امیر حمزہ کی تقریباً پچاس جلدیں لفظ بہ لفظ پڑھیں اور پھر ان کی معرکہ آرا کتاب 'ساحری ،شاہی، صاحب قرانی: داستان امیر حمزہ کا مطالعہ' کے عنوان سے منظر عام پر آئی۔ 1990 کی دہائی میں شمس الرحمان فاروقی نے فرضی ناموں سے یکے بعد دیگرے چند افسانے تحریر کئے جنھیں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ افسانے شب خون کے علاوہ پاکستانی جریدے آج میں بھی شائع ہوئے۔ بعدازاں ان افسانوں کا مجموعہ 'سوار اور دوسرے افسانے' کے عنوان سے شائع ہوا تب لوگوں نے جانا کہ یہ افسانے شمس الرحمان فاروقی کے لکھے ہوئے تھے۔ سوار اور دوسرے افسانے نے انھیں مائل کیا کہ وہ برصغیر کی مغلیہ تاریخ کے پس منظر میں کوئی ناول تحریر کریں۔ یہ ناول 'کئی چاند تھے سر آسماں' کے عنوان سے شائع ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ناول 2006 میں پہلے پاکستان سے اور پھر انڈیا سے شائع ہوا۔ اس ناول نے شائع ہوتے ہی کلاسک کا درجہ حاصل کیا۔ اردو کے تمام بڑے فکشن نگاروں، نقادوں اور قارئین نے اس کا والہانہ استقبال کیا جس کا اندازہ اس ناول کے متعدد ایڈیشنز اور تراجم کی اشاعت سے لگایا جاسکتا ہے۔ انڈیا کے مشہور اداکار عرفان خان اس ناول کو پردۂ سیمیں پر منتقل کرنے کے خواہش مند تھے۔ شمس الرحمان فاروقی نے انھیں اس بات کی اجازت بھی دے دی تھی مگر افسوس کہ ان سے پہلے ہی عرفان خان بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ شمس الرحمان فاروقی کو 2009 میں انڈین حکومت نے پدم شری کے اعزاز سے سرفراز کیا جبکہ 2010 میں حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ شمس الرحمان فاروقی کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے 'ڈی لٹ' کی اعزازی ڈگری بھی تفویض کی تھی جبکہ انھیں ان کی کتاب 'تنقیدی افکار' پر ساہتیہ اکیڈمی کا ایوارڈ بھی دیا تھا۔ رواں برس دو ماہ قبل دنیائے اردو اس خبر سے بہت مضطرب ہوئی کہ شمس الرحمان فاروقی کووڈ 19 کے وائرس کا شکار ہو گئے ہیں۔ انھیں علاج کے لیے دہلی منتقل کیا گیا جہاں گزشتہ ماہ وہ اس وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کے بے حد اصرار پر 25 دسمبر 2020 کی صبح انھیں واپس الٰہ آباد منتقل کر دیا گیا مگر وہاں پہنچنے کے آدھے گھنٹے بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ خبر سماجی رابطوں کے ذرائع سے فوراً پوری ادبی دنیا میں پھیل گئی۔ انڈیا، پاکستان اور جہاں جہاں اردو بولی، لکھی اور پڑھی جاتی ہے وہاں اسے خاندان کے کسی بزرگ کی موت کی خبر کی طرح سمجھا گیا۔ ان کی وفات سے اردو ادب ایک بلند قامت ادبی شخصیت سے محروم ہو گیا۔ انھیں ان کی زندگی میں جو شہرت، مقبولیت اور پذیرائی ملی وہ بہت کم افراد کو ملتی ہے مگر وہ اس سے کہیں زیادہ کے حق دار تھے۔
pakistan-52919761
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52919761
کورونا ریلیف ٹائیگر فورس: رضاکار کچھ کر بھی رہے ہیں یا صرف اعلانات ہو رہے ہیں؟
پاکستان میں کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کی تشکیل اور ذمہ داریوں کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔ یہ فورس دو ماہ میں زیادہ متحرک نہیں ہو سکی اور تجزیہ کار اس فورس کو ماضی کی امن کمیٹیوں اور خدمت کمیٹیوں کی ہی ایک نئی شکل سمجھتے ہیں۔
دیر اپر کے بازاروں میں کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے جوان لوگوں کے درمیان فاصلے کو یقینی بنا رہے ہیں وزیر اعظم عمران خان نے کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کا اعلان 31 مارچ کو کیا تھا اور اگلے ہی روز کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے سربراہ عثمان ڈار نے اس فورس کے لیے رجسٹریشن کا اعلان کر دیا جس کے لیے 10 اپریل تک تاریخ مقرر تھی۔ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس قائم کر دی گئی لیکن یہ فورس کیا کرے گی اس بارے میں کوئی واضح روڈ میپ نظر نہیں آیا۔ اس ٹائیگر فورس کا منصوبہ بظاہر کورونا وائرس کی طرح نوول ہی ہے جو ہر دوسرے روز شکل یا ذمہ داری تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ بھی پڑھیے کرسی سلامت رہے! عمران خان: ’گھبرانا نہیں ہے‘ سے ’چلو مری چلیں‘ تک قوم کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہم یہ جنگ جیتیں گے: عمران خان ذمہ داریوں میں ترامیم اس فورس کی بنیادی ذمہ داریوں میں یہ شامل تھا کہ فورس نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی یعنی این ڈی ایم اے کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں لوگوں کے گھروں تک راشن اور خوراک فراہم کریں گے۔ یہ رضا کار فورس یونین کونسل، تحصیل اور ضلع کی سطح تک قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر اتھارٹیز کے ساتھ مل کر امدادی سرگرمیوں میں شامل رہیں گے۔ یہ رضا کار مستحق افراد کی نشاندہی کریں گے اور ذخیرہ اندوزی میں ملوث افراد کے بارے میں انتظامیہ کو آگاہ کریں گے جس پر پولیس کارروائی کرے گی۔ اس کے علاوہ قرنطینہ قرار دیے گئے علاقوں کی نگرانی اور اور متاثرہ علاقوں میں متاثرہ افراد کے بارے میں معلومات حاصل کریں گے اور نماز جنازہ اور دیگر مذہبی اجتماعات میں انتظامیہ کی مدد کریں گے۔ بنیادی طور پر لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں محدود افراد کو کھانا یا راشن فراہم کرنے کے منصوبے سے لے کر لوگوں کو آگہی فراہم کرنا اور امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے سے مساجد میں ڈیوٹیاں دینے تک سب کچھ تبدیل ہوتا رہا ہے۔ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے انچارج عثمان ڈار کے مطابق صوبہ پنجاب میں 93000، خیبر پختونخوا میں 19000 اور صوبہ بلوچستان میں 1500 جوان ٹائیگر فورس کا حصہ بنے ہیں وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ٹائیگر فورس کے رضا کار ماہ رمضان میں تراویح کے دوران ایس او پیز یا ضابطہ کار پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے اس کے علاوہ لوگوں میں اس وائرس سے بچاؤ کے لیے آگہی کے پیغامات دیں گے۔ لیکن ماہِ رمضان اور اس کے بعد عید کے دنوں میں کم ہی ایسے رضاکار سامنے نظر آئے ہیں جو اس بارے میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہوں۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ چند ایک علاقوں میں بعض اوقات کچھ نوجوان بازاروں میں لوگوں کو آگاہی دیتے نظر آئے ہیں لیکن ان کی تعداد انتہائی کم بتائی گئی ہے۔ بنیادی طور پر جوں جوں نوول کووڈ 19 کی شکلیں اور اس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے جس طرح پالیسیوں میں تبدیلیاں آتی رہیں اسی طرح ٹائیگر فورس کے ذمہ داریاں بھی یا بدلتی رہیں یا ان میں اضافہ اور کمی ہوتی رہی ہے ۔ اب یہ ٹائیگرز کیا کریں گے؟ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے انچارج عثمان ڈار کے مطابق صوبہ پنجاب میں 93000، خیبر پختونخوا میں 19000 اور صوبہ بلوچستان میں 1500 جوان ٹائیگر فورس کا حصہ بنے ہیں۔ انھی میں سے ایک نوجوان رفیع اللہ خان خیبر پختونخوا کے صوبائی حلقہ پی کے 77 میں کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے انچارج ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ صوبے کے تمام اضلاع میں کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کی کمیٹیاں قائم کی جا رہی ہیں، بیشتر اضلاع میں پہلے ہی یہ کمیٹیاں قائم کر دی گئی ہیں جبکہ چند ایک اضلاع میں جلد یہ کام مکمل کر لیا جائے گا۔ اٹک میں کورونا ریلیف ٹائیگرز فورس کے رضاکاروں کی تقریب حلف برداری صوبہ سندھ کے علاوہ کسی بھی صوبے میں کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کا سربراہ ابھی تک کسی کو مقرر نہیں کیا گیا جبکہ صوبہ سندھ میں جہاں گورنر سندھ کو اس فورس کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے وہاں اب تک کورونا ریلیف ٹائیگر فورس قائم ہی نہیں کی گئی۔اضلاع کی سطح پر ڈپٹی کمشنرز اس فورس کی نگرانی کریں گے۔ رفیع اللہ خان نے بتایا کہ انھوں نے اپنے علاقوں میں آگہی مہم شروع کر دی ہے جن میں وہ ان مارکیٹوں اور بازاروں میں جاتے ہیں جہاں دکانیں کھلی ہوتی ہیں وہاں وہ دکانداروں اور گاہکوں کو کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر بتاتے ہیں ماسک کے استعمال اور ہاتھوں کی صفائی کے بارے میں بتاتے ہیں اور انھیں سماجی دوری کے مقررہ فاصلے سے آگاہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی بنیادی ذمہ داری لوگوں کو آگاہی دینا اور انھیں بتانا ہے کہ غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نہ جائیں۔ اس کے علاوہ احساس سینٹرز میں لوگوں کی مدد کرنا اور انھیں بتانا کہ وہ کیسے اس وائرس سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ رفیع اللہ نے بتایا کہ اگر انھیں معلوم ہوتا ہے کہ کسی علاقے میں کوئی کورونا وائرس کا مشتبہ مریض موجود ہے تو وہ اس کی نشاندہی کرکے متعلقہ حکام کو آگاہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹائیگر فورس اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ اور ضلع کے طبی افسران سے رابطے میں رہیں گے اور اگر کسی کو گھروں میں قرنطینہ کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کو مدد کرنا ان رضاکاروں کی ذمہ داری ہوگی۔ رفیع اللہ کا کہنا تھا کہ ٹائیگر فورس صرف کورونا ہی نہیں بلکہ اپنے اپنے حلقوں میں لوگوں کے بنیادی مسائل جیسے پانی کی فراہمی، بجلی اور گیس کے مسائل کے علاوہ گلیوں میں توڑ پھوڑ اور نکاسی آب جیسے مسائل کے حل کے لیے، انتظامیہ اور لوگوں کے درمیان رابطے کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ رضاکاروں کی اس فورس کے قیام کا مقصد کیا ہے؟ بظاہر چین میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد سرکاری سطح پر ایسے رضاکار تیار کیے گئے تھے جو ان لوگوں کے گھروں میں کھانا پہنچاتے تھے جو کافی دنوں تک گھروں میں محدود رہے تھے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں سے باہر نہیں نکل رہے تھے۔ ان رضاکاروں کو لوگوں کی جانب سے اطلاع دی جاتی تھی کہ انھیں کھانا چاہیے تو اس کے لیے رضاکار کھانا ان کے گھروں کے سامنے رکھ دیتے تھے اور لوگ کھانا اٹھا لیتے تھے۔ یہی منصوبہ پاکستان میں بھی نافذ کیا گیا لیکن جب تک کورونا وائرس کا اعلان کیا گیا اور انھیں ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا گیا تب تک پالیسیاں بڑے پیمانے پر تبدیل کر دی گئیں۔ اس رضا کار فورس کے سربراہ عثمان ڈار نے ماہ رمضان کے آغاز میں کہا تھا کہ 115000 رضاکار مساجد میں لوگوں کو آگاہی دیں گے اور خاص طور پر عید کے دنوں میں یہ رضا کار عید کی نماز اور دیگر مواقع پر لوگوں کو محدود رہنے کی تلقین کریں گے۔لیکن ماہ رمضان اور عید کے دنوں میں اس رضا کار فورس کے جوان کہیں نظر نہیں آئے۔ عثمان ڈار نے کہا تھا کہ صوبہ سندھ میں 154000 ٹائیگر فورس کے رضا کار تیار ہیں لیکن اب تک صوبہ سندھ میں یہ جوان سامنے نہیں آ سکے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مساجد اور بازاروں کے علاوہ احساس پروگرام اور یوٹیلیٹی سٹورز پر یہ ٹائیگرز اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور ان رضا کاروں کی تعداد بڑھائی جائے گی جو دس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے اور یہ نوجوان اس ملک کا اہم اثاثہ ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رضا کار ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے۔ حکومت کے فیصلے اور منصوبے اپنی جگہ پر لیکن جب سے اس فورس کے قیام کا اعلان ہوا ہے تب سے لے کر اب تک اس فورس کی کوئی سرگرمی نظر نہیں آئی بلکہ اکثر شہروں میں ان نوجوانوں نے شکایات کی ہیں کہ انھیں اجلاس کے لیے طلب کیا جاتا ہے اور حکام اس اجلاس سے غائب ہوتے ہیں۔ چند ایک علاقوں میں بعض اوقات کچھ نوجوان بازاروں میں لوگوں کو آگاہی دیتے نظر آئے ہیں لیکن ان کی تعداد انتہائی کم بتائی گئی ہے تجزیہ کاروں اور لوگوں کے رائے مختلف کیوں ہے؟ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے قیام کے اعلان کے بعد سے حکومت کے اس منصوبے پر ذرائع ابلاغ نے اپنے اپنے تجزیے کیے ہیں اور منصوبے کے ثمرات اور اس کے منفی پہلوں پر نظر ڈالی ہے۔ سینییر صحافی محمود جان بابر کہتے ہیں کہ دراصل یہ منصوبہ امن کمیٹی اور مسلم لیگ نواز کے دور میں قائم خدمت کمیٹی کی مانند ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنے ووٹ بینک کو یکجا رکھنا چاہتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ خدمت کمیٹی بھی ان رضا کاروں پر مشتمل تھی اور اس کا مقصد بڑی تعداد میں لوگوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔ اسی طرح اس فورس کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگ جو سیاسی جماعت کے حمایتی ہوتے ہیں انھیں یہ احساس دلایا جا سکے کہ وہ جماعت کے لیے اہم ہیں اور اس بنیاد پر ضلع اور تحصیل کی سطح پر افسران ان رضاکاروں کو اہمیت بھی دیتے ہیں۔ محمود جان بابر نے بتایا کہ انھیں ملک کے مختلف علاقوں سے لوگوں نے فون کالیں کی ہیں اور اس فورس کی حمایت میں کم ہی لوگ بولے ہیں بیشتر نے ان پر تنقید کی ہے اور ایسے رضا کار بھی سامنے آئے ہیں جو انتظامیہ پر تنقید کرتے نظر آئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے نوجوانوں کو انتخابات کے دوران بھی یکجا کیا تھا اور اس کے ثمرات یہ سامنے آئے تھے کہ جماعت کو اچھے خاصے ووٹ ملے لیکن اب صورتحال مختلف نظر آتی ہے کیونکہ حکومتی دعوؤں اور پالیسیوں میں تضاد سامنے آیا ہے اور حکومتی وعدوں کے مطابق عام لوگوں کو کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں ملا جس وجہ سے ان رضا کار فورس کو بھی کڑے چیلینج کا سامنا ہوگا اور حکومت کے لیے بھی اس منصوبے پر عمل درآمد مشکل ہوگا۔
world-55855780
https://www.bbc.com/urdu/world-55855780
میوزک انڈسٹری کے ’گندے راز‘: ’مجھے زبان بند رکھنے کے لیے بیس ہزار پاؤنڈ کی پیشکش کی گئی‘
خواتین کے لیے میوزک انڈسٹری کتنی محفوظ ہے؟ بی بی سی تھری کی ایک ڈاکومینٹری میں اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ یہ صنعت جنسی تشدد جیسے الزامات کے جواب میں کیا کرتی ہے۔ اس حوالے سے بی بی سی نے مشہور ریپر اوکٹیوئن کی سابقہ گرل فرینڈ سے بات کی۔ ( انتباہ: اس مضمون میں جنسی تشدد کے واقعات کی تفصیل شامل ہے۔ )
کرسٹن نائیٹ ’اس نے مجھے ٹھوکر ماری اور دروازے میں پٹخ دیا۔' میرا ہونٹ پھٹ گیا اور مجھے کئی زخم آئے۔' 23 سالہ ہانا لندن کی رہائشی ہیں اور بی بی سی کے 2019 کے ساؤنڈ آف میوزک نامی مقابلے میں پہلے نمبر پر آنے والے ریپر اوکٹیوئن کی سابقہ گرل فرینڈ ہیں۔ اوکٹیوئن بڑے بڑے بین الاقوامی فنکاروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں اور ان کی نئی میوزک ایلبم ’ایلفا' کو نومبر میں ریلیز ہونا تھا جس کا انتظار شائقین بڑے عرصے سے کر رہے تھے۔ ہانا نے اپنے سابق بوائے فرینڈ پر تشدد کے الزامات انسٹا گرام پر شائع کیے تھے اور اب وہ بی بی سی تھری کی ایک دستاویزی فلم میں سامنے آ رہی ہیں۔ ’میوزک کے گندے راز' کے عنوان سے بننے والی اس ڈاکومینٹری میں یہ دکھایا جا رہا ہے کہ میوزک انڈسٹری میں خواتین سے زیادتی کے الزامات کو کیسے ڈیل کیا جاتا ہے۔ ہانا کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں نے کوشش کی کہ وہ خاموش ہی رہیں اور اس حوالے سے کوئی بات نہ کریں۔ ہانا نے یہ الزامات انسٹاگرام پر 11 نومبر کو شیئر کیے تھے کیونکہ اوکٹیوئن کی نئی البم اگلے ہی دن ریلیز ہونا تھی۔ چنانچہ اس کا اثر یہ ہوا کہ میوزک کمپنی ’بیلک بٹّر ریکارڈ' نے اوکٹیوئن کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیا۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی قسم کے گھریلو تشدد کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ اوکٹیوئن تشدد کے الزامات سے انکار کرتے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ہانا پر تشدد نھیں کیا اور نہ ہی کوئی زور زبردستی کی ہے۔' یہ بھی پڑھیے ’فلم انڈسٹری ایسی ہی ہے، آپ یہاں آئی ہی کیوں؟' زائرہ کی فلمی دنیا میں واپسی کی حقیقت کیا ہے؟ بلیک نارسیسس: راہباؤں کی زندگیوں پر مبنی دنیا کی ’پہلی ہیجان انگیز فلم‘ ’اس نے مجھے فرش پر دھکا دیا' ہانا کی ملاقات اوکٹیوئن سے سنہ 2017 میں ایک ہاؤس پارٹی میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ نئی نئی ایڈنبرا سے لندن منتقل ہوئی تھیں۔ کچھ ہی عرصہ بعد اس جوڑے نے اکھٹا رہنا شروع کر دیا لیکن ان کے رشتے میں جلد ہی زہر گھُل گیا۔ پھر 2019 کی گرمیوں میں ہانا حاملہ ہو گئیں اور ان کا الزام ہے کہ حمل ضائع کرانے کے فوراً بعد ہی زیادتی اور تشدد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ’میں صرف یہ چاہتی تھی کہ وہ مجھے گلے لگائے تاکہ مجھے یہ احساس ہو کہ میں نے کوئی بہت بُرا کام نہیں کیا، لیکن اس نے مجھے دھکا دے کر فرش پر گرا دیا، مجھے میرے منہ سے پکڑا اور پیچھے دھکیل دیا۔' ہانا کے بقول اوکٹیوئن نے انھیں ٹھوکر ماری اور پیچھے دھکیلا، جس کے نتیجے میں وہ دروازے پر جا گریں۔ ہانا نے اس واقعہ کی اطلاع پولیس کو دے دی اور اوکٹیوئن کو بھی بتا دیا کہ ان کے ساتھ جو ہوا، وہ اسے سوشل میڈیا پر شائع کر دیں گی۔ لیکن انھیں جلد ہی اوکٹیوئن کے وکیل کی جانب سے ایک معاہدے کا مسودہ ملا جسے زبان بندی کا معاہدہ یا نان ڈِسکلوژر ایگریمنٹ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ تھا کہ ان دونوں کے رشتے میں جو کچھ ہوا، ہانا اس کے بارے میں کسی سے بات نھیں کریں گی۔ ’وہ لوگ مجھے اپنی زبان بند رکھنے کے عوض 20 ہزار پاؤنڈ کی پیشکش کر رہے تھے۔' معاہدے میں لکھا تھا کہ تم کبھی کسی اشاعتی ادارے کو نھیں بتاؤں گی، کبھی کسی دوست کو نھیں بتاؤ گی، کبھی بھی اوکٹیوئن یا اس کے کیریئر کے بارے میں بات نھیں کرو گی، اور کسی قسم کی کوئی بات نھیں کرو گی۔ تمام تصویریں ضائع کر دو گی، تمام ثبوت، تمام ویڈیوز۔ تم ایسے ظاہر کرو گی کہ جیسے کسی چیز کا کوئی وجود ہی نھیں تھا۔' ہانا نے اس دستاویز پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ ’اس نے کہا میں بدل جاؤں گا، اور میں دھوکے میں آ گئی' اس مبینہ حملے کے بعد ہانا اور اوکٹیوئن دوبارہ اکٹھے رہنے لگے۔ لیکن ہانا کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی جاری رہی۔ اور پھر جون 2020 میں، جب اسقاط حمل اور تشدد کے پہلے واقعے کو ایک سال گزر چکا تھا تو ہانا نے ایک وکیل کی خدمات حاصل کر لیں تاکہ وہ اوکٹیوئن پر ہرجانے کا دعویٰ کر دے۔ اس خط کی ایک نقل بلیک بٹّر کمپنی کے سربراہ کو بھی بھیج دی گئی۔ اس خط میں مبینہ تشدد کی تفصیلات شامل تھیں اور ہانا نے یہ بھی لکھا تھا کہ ان کے پاس ان کو لگنے والے زخموں کی تصاویر اور ویڈیوز بھی موجود ہیں۔ اس پر اوکٹیوئن نے ہانا سے رابطہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنا نفسیاتی علاج کرا رہے ہیں اور اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے جواب میں ہانا نے وہ قانونی خط واپس لے لیا جو ان کے وکیل نے بھیجا تھا۔ اس کے بعد ’وہ بہت نرم، مخلص اور ہمدرد ہو گیا۔ میں نھیں جانتی وہ اتنی اچھی اداکاری کیسے کر لیتا ہے۔ مجھے یہ باتیں اتنی حقیقت لگیں کہ میں اس کے دھوکے میں آ گئی کہ وہ واقعی بدل جائے گا۔` ہانا کو امید ہو گئی کہ وہ واقعی تبدیل ہو چکا ہے، لیکن ایک ہی ماہ بعد جولائی 2020 میں ہانا نے ہمیشہ کے لیے یہ رشتہ ختم کر دیا۔ لگتا ہے کہ اس وقت تک اوکٹیوئن اور ان کے ساتھیوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ ہانا کے پاس ویڈیوز اور تصاویر موجود ہیں، اور پھر ستمبر تک انھوں نے بھی اپنی کوششیں ترک کر دیں۔ ہانا کو محسوس ہوا کہ کوئی شخص ان کی مدد نھیں کر رہا۔ چانچہ انھوں نے 11 نومبر کو تشدد اور زیادتی کی ویڈیوز اور تصویریں انسٹاگرام پر شائع کر دیں۔ اور اگلے ہی دن کمپنی نے اوکٹیوئن کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیا۔ اوکٹیوئن نے بی بی سی سے کہا کہ ’میں ہانا کے الزامات سے مکمل انکار کرتا ہوں، جو کہ بات کا بتنگڑ بنانے کے مترادف ہیں۔ اس نے جو کچھ کہا ہے، اس میں سے اکثر پہلے ہی شائع ہو چکا ہے، اسے توڑ مروڑ کے پیش کیا جا چکا ہے۔ یہ بالکل بھی حقیقت پر مبنی نھیں ہے۔ میں میڈیا کے ہاتھوں اپنا ٹرائل نھیں ہونے دوں گا، تاہم میں اپنی یہ بات دہرانا چاہتا ہوں کہ میں نے ہانا کے ساتھ کوئی زیادتی یا تشدد نہیں کیا اور نہ ہی میں خواتین کے خلاف کوئی بُرے جذبات رکھتا ہوں۔' ہانا اور اوکٹیوئن دونوں نے اپنے اپنے بیان پولیس کو دے دیے ہیں اور اس معاملے کی تفتیش جاری ہے۔ ’ریپ کے بعد میرا کام مانند پڑ گیا ہے' بدقسمتی سے زیادتی کے الزامات لگانے والی ہانا اکیلی خاتون نھیں ہیں۔ کئی خواتین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ میوزک انڈسٹری جنسی حملوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ درجنوں خواتین نے بتایا کہ انھیں اس انڈسٹری میں ہر مقام پر جنسی حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خواتین کے بقول فنکاروں، مینیجروں، انجنیئروں سے لے کر پروڈیوسروں اور بڑے افسران سب ہی اس میں ملوث ہیں۔ بی بی سی کی ڈاکومینٹری میں امریکی ریاست میامی میں مقیم کرسٹین نائٹ کا ایک انٹرویو بھی شامل ہے۔ وہ خود ڈی جے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ ایک دوسرے ڈی جے اور موسیقار ایرک موریلو دونوں نے ان کو ریپ کیا تھا۔ ’میں جب ایرک کے گھر پہنچی تو ان دونوں نے جلد ہی میرے ساتھ دست درازی شروع کر دی۔ میں نے کہا کہ مجھے یہ اچھا نھیں لگ رہا۔ صورت حال اتنی خراب ہو گئی کہ میں اس کے گھر سے نکل آئی۔' کرسٹین کے مطابق ایرک نے اس بات پر معذرت کر لی اور انھیں قائل کر لیا کہ وہ واپس ان کے گھر آ جائیں۔ کرسٹین کہتی ہیں کہ انھوں نے ایسا ہی کیا کیونکہ انھیں یہ بھی ڈر تھا کہ اتنے مشہور آرٹسٹ سے تعلقات خراب کرنا اچھی بات نھیں ہے کیونکہ ہر کوئی ایرک کی اتنی عزت کرتا ہے۔ کرسٹین کہتی ہیں کہ ایرک کے گھر پر پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد انھیں غنودگی ہونے لگی اور وہ سو گئیں۔ ’جب میری آنکھ کھلی تو میں ہڑبڑا کے اٹھی، مجھے لگا کہ میں تو برہنہ ہوں۔ اسی غنودگی میں میری آنکھوں کے سامنے یہ منظر گھومنے لگا جیسے ایرک مجھے ریپ کر رہا ہو۔' کرسٹین یہ خیال آتے ہی گھبرا کے اٹھیں اور سیدھی پولیس کے پاس پہنچ گئیں۔ ایرک موریلو کے خلاف ریپ کا مقدمہ درج ہو گیا اور یہ بڑی خبر بن گئی۔ لیکن اس سے پہلے کہ ایرک کے خلاف عدالتی کارروائی کا آغاز ہوتا وہ اپنے گھر میں مردہ حالت میں ملے۔ انھوں نے بہت زیادہ مقدار میں بے ہوشی کی دوا کیٹامائن کھا لی تھی۔ جس دن ان کی موت ہوئی اس کے تین دن بعد ایرک کو عدالت میں پیش ہونا تھا۔ کرسٹین کہتی ہیں کہ پولیس نے ایرک پر فرد جرم عائد کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود میوزک انڈسٹری میں کسی نے کرسٹین کا ساتھ نہ دیا۔ ان کا نام لِیک کر دیا گیا کہ ایرک پر الزام کرسٹین نے لگایا تھا۔ اس کے بعد سے کرسٹین کا کام بھی متاثر ہونے لگا۔ ’فوراً ہی میری بُکنگز میں کمی ہونا شروع ہو گئی۔ یہاں تک کہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ ڈی جے کی ذمہ داریوں سے لمبے عرصے کی چھٹی پر چلی جاؤں۔' ایرک کی موت کے بعد جہاں انٹرنیٹ پر بہت سے لوگوں نے انھیں خراج تحسین پیش کیا، وہاں کئی لوگوں نے ایرک کی زندگی کے سیاہ پہلوؤں سے بھی پردہ اٹھایا۔ اس کے بعد مزید ایسی خواتین بھی سامنے آئیں اور انھوں نے کہا کہ ایرک موریلو کے جنسی حملوں کی تاریخ بہت طویل تھی۔ ’کوئی اثر نھیں پڑتا' میوزک انڈسٹری کی یونین نے 2019 میں ایک سروے کیا تھا، جس کے مطابق کہ ان ہر دس خواتین میں سے نو نے، جن کا کہنا تھا کہ وہ جنسی حملوں کا شکار ہوئی ہیں، پولیس کو اس بارے میں کچھ نھیں بتایا۔ ہانا اور کرسٹین نے تو اپنے الزات کا اظہار کھلے عام کیا، لیکن ایسی بہت سی خواتین ہیں جو اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈرتی ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ خواتین کو ملازمت ختم ہو جانے کے خوف کے علاوہ یہ خوف بھی ہوتا ہے کہ ان کی بات کو کوئی اہمیت نھیں دی جائے گی۔ اور پھر انھیں قانونی طور پر مجبور کر دیا جائے گا کہ وہ اپنی زبان بند رکھیں۔ حقوقِ نسواں کی معروف وکیل گلوریا ایلرڈ آج کل ان خواتین کے مقدمات لڑ رہی ہیں جو آر کیلی، ہاروی وائنسٹین اور جیفری ایپسٹین کے ہاتھوں جنسی تشدد کا نشانہ بنیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فلم اور میوزک انڈسٹری میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کے ہاتھ میں طاقت بہت زیادہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کو نشانہ بنانے والا یہ رویہ جاری رہے گا۔ گلوریا ایلڑ کے بقول ’یہ خوف اتنا زیادہ ہے کہ متاثرہ خواتین کو ڈر لگتا ہے کہ اگر وہ زبان کھولیں گی تو انھیں بُرے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جب تک کوئی متاثرہ خاتون کچھ نھیں کرتی، اس وقت تک کچھ بھی تبدیل نھیں ہوگا۔ جب کوئی مشہور شخصیت عورتوں سے زیادتی کرتی رہتی ہے اور اسے کسی برے انجام کا سامنا نھیں کرنا پڑتا، تو ان لوگوں کے اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے کہ وہ اپنی حرکتیں جاری رکھ سکتے ہیں۔'
080224_taliban_demand_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/02/080224_taliban_demand_sen
طالبان کا سیاسی جماعتوں کو پیغام
پاکستان میں مقامی عسکریت پسندوں کی تنظیم نے حالیہ انتخابات میں کامیاب ہونے والی سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس راستے پر چلنے کی کوشش نہ کرے جس پر صدر پرویز مشرف اور انکی حامیوں نے چل کر الیکشن میں شکست کھائی بلکہ عوامی رائے کا احترام کریں اور اس کا حق ادا کیا جانا چاہیے۔
تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مولوی عمر نے اتوار کو کسی نامعلوم مقام سے بی بی سی کو ٹیلی فون پر بتایا کہ تحریک نے انتخابات سے قبل وزیرستان سے لے کر سوات تک غیر مشروط طورپر جنگ بندی کی تاکہ ملک میں انتخابی عمل پرامن ماحول میں مکمل ہوسکے۔ ان کے مطابق سیاسی جماعتوں سے ان کی پہلے کبھی دشمنی تھی اور نہ اب ہے بلکہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کی تنظیم نے الیکشن سے پہلے غیر مشروط طورپر جنگ بندی کرکے ملک میں پرامن انتخابات کےلیے راہ ہموار کی تاکہ عوام بغیر کسی خوف وخطر کے انتخابی عمل میں حصہ لے سکیں۔ ترجمان نے کہا کہ ’انتخابات میں صدر مشرف اور ان کی حامیوں کی شکست امریکہ اور ان کی پالسیوں کی شکست ہے جو طالبان کی قربانیوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔‘ مولوی عمر نے بتایا کہ عوام نے صدر مشرف اور امریکی پالیسوں کے خلاف جو رائے دی ہے، سیاسی جماعتوں کو اب چاہیے کہ وہ اس عوامی رائے کا احترام کریں اور ان پالسیوں اور غلطیوں کو نہ دہرائیں جو اس سے پہلے حکمران کرتے رہے ہیں۔ ترجمان کے بقول طالبان اس ملک کے محب وطن شہری اور بغیر تنخواہ کے سپاہی ہے۔ واضح رہے کہ اٹھارہ فروری دو ہزار اٹھ کے عام انتخابات سے قبل صوبہ سرحد کے چوبیس اضلاع میں سے اٹھارہ کو حساس قرار دیا جاچکا تھا۔ یہ خدشات عام تھے کہ انتخابات کے دن سرحد میں بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعات رونما ہونگے لیکن غیر متوقع طورپر صوبہ میں الیکشن بڑے پرامن ماحول میں ہوئے اور کسی بھی علاقے میں کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا جب کہ اس کے برخلاف پنجاب اور سندھ میں تشدد کے واقعات زیادہ پیش آئے۔
science-52433259
https://www.bbc.com/urdu/science-52433259
کورونا وائرس: ’انفلوئنسرز‘ کی چمک دمک سے بھرپور زندگی ماند کیوں پڑ رہی ہے؟
یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران انسٹاگرام پر زندگی اتنی دلکش نظر آ سکتی ہے۔
گذشتہ ماہ مانچسٹر سے تعلق رکھنے والے جیک مورس نے انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں لی گئی اپنی ایک تصویر انسٹاگرام پر پوسٹ کی۔ اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ تیراکی کا لباس پہنے ایک سوئمنگ پول پر کھڑے ہیں اور ان کے عقب میں گلابی سورج غروب ہونے کو ہے۔ اس تصویر کے ساتھ انھوں نے یہ تحریر درج کی ’لورین اور میں اپنے وِلا (شاندار گھر) کے اندر جتنا مکمن ہو سکے اتنا زیادہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم سماجی دوری کے اصول کی تعمیل کر رہے ہیں۔‘ ’ایسا کرنا بہت مشکل ہے لیکن اگر ہر شخص اس پر عمل پیرا ہو گا تو یہ (کورونا کی وبا) جلد ہی ختم ہو جائے گا۔‘ اس پوسٹ کے جواب میں جیک کو انسٹاگرام پر فالو کرنے والے ان کے 27 لاکھ مداحوں میں سے بیشتر کی جانب سے کھری کھری سننے کو ملیں۔ اس پوسٹ کے جواب میں کچھ اس طرح کے کمنٹس بھی آئے کہ ’دوست، صورتحال بدترین بھی ہو سکتی ہے۔‘ جیک مورس کورونا وائرس کی وبا کا عالمی معیشت پر بہت گہرا اثر ہوا ہے اور یہ اثرات شاید بہت طویل مدتی ہوں۔ ان اثرات سے بچنے اور مارکیٹ میں اپنا وجود قائم رکھنے کی غرض سے بہت سے کاروباری ادارے سب سے پہلا کام یہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنی ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ کے بجٹ میں تخفیف کر رہے ہیں۔ اس اقدام کا سب سے پہلا اور بڑا نقصان میڈیا کی صنعت کو ہو گا جو اشتہاروں کی مد میں پیسہ نہیں کما سکے گی۔ مگر یہ اثرات میڈیا تک محدود نہیں رہیں گے اور ان کی تپش بڑے اخبارات سے لے کر فرد واحد پر مبنی سوشل میڈیا تخلیق کاروں تک پہنچے گے۔ یہ بھی پڑھیے سوشل میڈیا ستاروں کی نئی نسل نے پانسہ کیسے پلٹا؟ انسٹاگرام پر ’فیک فالوورز‘ کیسے خریدے جا سکتے ہیں؟ انفلوئنسرز کو ’سیکس کے بدلے ہزاروں پاؤنڈز کی پیشکش‘ اور سوشل میڈیا پر موجود ان نام نہاد ’انفلوئنسرز‘ (عوامی سطح پر لوگوں کی سوچ پر اثر انداز ہونے والی شخصیات) کے لیے نہ صرف سپانسرشپس (معاوضے کے عوض کسی کی تشہری مقاصد کے لیے خدمات حاصل کرنا) ختم ہو رہی ہیں بلکہ مختلف برانڈز نے ایسی شخصیات کو تشہیر کی غرض سے اپنی مصنوعات کی فراہمی کا سلسلہ بھی منقطع کر دیا ہے۔ ٹریول بلاگرز کیسے متاثر ہوئے ہیں؟ ایلیکس اوتھویٹ ٹریول بلاگر (سفر کے موضوع پر لکھنے والی لکھاری) ایلیکس اوتھویٹ کہتی ہیں کہ ’میں نے آخری سفر رواں برس فروری میں کیا تھا۔ اس کے بعد مارچ میں مجھے فن لینڈ جانا تھا، اپریل میں ایتھوپیا اور پھر مالدیپ۔ عمومی طور پر میں سال میں چھ ماہ سے زیادہ کا وقت بیرونی ممالک میں گزارتی تھی۔‘ سفر کے موضوع پر ان کا اپنا یوٹیوب چینل بھی ہے جس کے ذریعے وہ ماہانہ ایک ہزار برطانوی پاؤنڈز تک کما لیتی تھیں۔ مگر اب یوٹیوب چینل کے ذریعے ان کی آمدن 100 پاؤنڈز سے بھی کم ہو چکی ہے۔ ان کی جمع پونجی کا کچھ حصہ ان فلائٹس پر بھی ضائع ہوا جو اب منسوخ ہو چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’سب کچھ الٹ پلٹ ہو چکا ہے۔ اپنی آمدن اور جمع پونجی کی مدد سے میں مزید بہت کم عرصے تک گزارہ کر سکتی ہوں۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے۔‘ کیرن بیڈڈو نے چار برس قبل وکالت کے شعبے کو خیر آباد کہہ کر اپنا فیملی ٹریول بلاگ، مِنی ٹریول، چلانے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ رواں ماہ ان کی آمدن صرف 350 پاؤنڈز رہی جو کہ جنوری کے مہینے میں ہونے والی آمدن سے 95 فیصد کم ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ چھوٹے پیمانے کا ایک کاروبار ہے جو کہ میں نے زندگی کے چھ سال اور بہت سارا وقت صرف کر کے کھڑا کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ لوگ اس بات پر بالکل توجہ نہیں دیتے کہ پسِ پردہ ہم اس کام کے لیے اپنی کتنی توانائیاں صرف کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ کو اچھی تصاویر لینے کے قابل ہونا پڑتا ہے، ویڈیوز کی کانٹ چھانٹ کرنی پڑتی ہے، اپنی ویب سائٹ کو مستحکم کرنا ہوتا ہے اور ای میلز کا جواب دینا پڑتا ہے۔‘ کیرن بیڈڈو نجی کمپنی ’دی لائف سٹائل ایجنسی‘ کی خاصیت لگژری لائف سٹائل کی سوشل میڈیا اور بلاگز کے ذریعے تشہر کرنا ہے۔ اس کمپنی کا کہنا ہے کہ انفلوئنسرز وہ پہلے لوگ ہوں گے جنھیں اب کام نہیں ملے گا۔ ایجنسی کے ڈیجیٹل ڈائریکٹر خیارا راناویرا کہتے ہیں کہ ’مارکیٹنگ اور اشتہارات کا بجٹ یا تو یکسر ختم کر دیا گیا ہے یا اس میں بہت زیادہ تخفیف کر دی گئی ہے۔‘ ’بہت سے کاروباروں کا پہلا ردعمل پریشانی پر مبنی ہے۔ انھوں نے اپنے دروازوں کے ساتھ ساتھ اپنے سوشل اکاؤنٹس بند کر دیے ہیں اور اخراجات روک دیے ہیں۔‘ ’سب کچھ منسوخ ہو چکا ہے‘ انفلوئنسر اسرائیل کاسول کو تقریبات میں شرکت کرنے اور بڑی کمپنیوں کے برانڈز کی تشہیر اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر پوسٹ کرنے کی مد میں سینکڑوں پاؤنڈز کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ تاہم اب ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں گزر اوقات کے لیے انھوں نے اپنے والد سے کچھ رقم ادھار لی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’سب کچھ منسوخ ہو چکا ہے۔ عموماً میں لگژری ملبوسات پہنے اپنی تصاویر پوسٹ کرتا ہوں مگر اس وقت کوئی بھی ان تصاویر کو دیکھنا نہیں چاہتا۔ چونکہ لوگ اپنے گھروں تک محدود ہیں اس لیے اب کسی کو بھی فیشن میں دلچسپی نہیں رہی ہے۔‘ اسرائیل کاسول اسرائیل آج کل اپنے انسٹاگرام پر اپنے کپڑوں کی الماری کو منظم کرنے، کپڑے استری کرنے اور ڈیزائنر فیس ماسک کی تصاویر پوسٹ کر رہے ہیں۔ تصاویر لینے کے حوالے سے مشہور مقامات جیسا کہ 'ناٹنگ ہل' آج کل بالکل سنسان ہیں اور سوشل میڈیا پر زیادہ تر پوسٹس ہیش ٹیگ ’سٹے ایٹ ہوم‘ کے عنوان سے کی جا رہی ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بہت سے بلاگرز اپنے تعلقات رفاحی تنظیموں سے جوڑتے ہوئے عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ انھیں پیسہ اور تحائف بھجوائے جائیں تاکہ وبا کے دوران ضرورت مندوں کی مدد کی جا سکے۔ انفلوئنسر مینڈی روز جونز نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’وہ لوگ جنھیں میرے ’ایمازون وِش لسٹ‘ یا ’بائی مِی اے کافی‘ جیسے ٹرینڈ سیٹ سے کوئی مسئلہ ہے تو میں ان کو کہنا چاہتی ہوں کہ فی الحال میرے پاس کوئی روزگار نہیں ہے۔‘ ’وہ لوگ جو مدد کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے پیغام یہ ہے کہ مزاحیہ مواد تخلیق کرنے میں صرف ہونے والی توانائی اور سخت محنت کا معاوضہ ملنا اچھی بات ہے۔‘ تابی وارلے بھی ایک جُز وقتی انسٹاگرامر ہیں۔ انھیں امید تھی کہ آئندہ چند مہینوں کے دوران وہ برانڈز کے ساتھ شراکت داری کی بنیاد پر پانچ ہزار پاؤنڈز تک کما پائیں گی مگر اب اس کاروبار میں بہت مندا ہے۔ ’میں بہت خوش نصیب ہوں کہ آمدن کے حوالے سے میرا انسٹاگرام پر دارومدار جُز وقتی ہے۔ انسٹا سے حاصل ہونے والی آمدن کو میں اپنا گھر خریدنے کے لیے جمع کرتی ہوں۔ ملبوسات کا کام بند ہو چکا ہے، جن لوگوں کے ساتھ میں زیادہ تر کام کرتی تھی انھوں نے خود حکام سے کاروبار قائم رکھنے میں مدد کی اپیل کر دی ہے۔‘ تابی وارلے ’کورونا کی وبا پھیلنے سے قبل یہ ایک عام ٹرینڈ تھا کہ کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر کی غرض سے انفلوئنسرز پر پیسہ خرچ کرتی تھیں۔ عام عقل میں آنے والی بات یہی ہے کہ وبا کا اثر سب سے پہلے جس چیز پر پڑے گا وہ یہی ہو گا یعنی تشہیری اخراجات میں بے تحاشہ کمی۔‘ تاہم وبا کے دوران فیس بک پر عوامی مصروفیت میں 40 فیصد ہوا ہے جبکہ ’ٹِک ٹاک‘ ریکارڈ تعداد میں ڈاؤن لوڈ کیا گیا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹارگٹ کرنے کے لیے صارفین بدستور موجود ہیں۔ ’دی لائف سٹائل‘ ایجنسی کی ڈیجیٹل ڈائریکٹر خیارا راناویرا کہتی ہیں کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران انسٹاگرام پر ملنے والے ’لائیکس‘ کی تعداد میں سات فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ انفلوئنسرز سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ لائف سٹائل اور صحت کے شعبے سے متعلق پوسٹس کریں۔ ’سوشل میڈیا پر ہر کوئی ہوشیار رہنے، فٹنس، بیوٹی اور اپنے آپ میں بہتری لانے پر مبنی مواد پر بات چیت کر رہا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ انفلوئنسرز کے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ گھروں میں بیٹھ کر کچھ مختلف مواد تخلیق کریں، یعنی وہ کام جو وہ پہلے سے نہیں کر رہے تھے۔ انسٹاگرامر تابی وارلے کہتی ہیں کہ ’پہلے مجھے موسم گرما اور موسم بہار کے کپڑوں کے ٹرینڈز پر شوٹ کرنے تھے مگر اب میں 'ورک فرام ہوم وارڈروب' پر کام کروں گی۔‘ ’یہ (وبا) مجھے مجبور کر رہی ہے کہ میں کچھ تخلیقی کام کروں۔ اس سدا بہار کام سے کچھ مختلف جو میں پہلے لندن سٹریٹ میں گھومتے پھرتے تصاویر بنوا کر کر رہی تھی۔‘ تاہم لگژری مصنوعات کے انفلوئنسرز، جیسا کہ اسرائیل، کہ لیے یہ ایک ایسا موقع ہے جس میں وہ اس انڈسٹری پر نظر دوڑا سکیں۔ ’فی الوقت میں حقیقت کے بہت قریب ہونا چاہ رہا ہوں۔‘ انھوں نے کہا کہ وہ رواں برس مزید ’„ہرمیز‘ برانڈ کے بیگ نہیں خریدیں گے۔ ’کورونا وائرس سے مجھے یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ پیسہ دیکھ بھال کر خرچ کرنا چاہیے۔ مجھے لگژری اشیا پر پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنے ایک دفعہ پہنے ہوئے کپڑے دوبارہ پہن سکتا ہوں۔‘
050128_us_heli_crashed_ra
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/01/050128_us_heli_crashed_ra
عراق: ایک اور ہیلی کاپٹر تباہ
امریکی فوج کی جانب سے جاری کی گئی اطلاعات کے مطابق جنوبی عراق میں ایک امریکی ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا ہے۔ابھی تک کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔
اتوار کو ہونے والے انتخابات سے پہلے عراق میں تشدد کی متعدد کارروائیوں میں پانچ امریکی اور چھ عراقی فوجیوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے حادثے کی وجوہات معلوم نہیں ہو سکیں ہیں البتہ خیال کیا جا رہا ہے کہ ہیلی کاپٹر کی تباہی مزاحمت کارروں کی کارروائی نہیں ہے۔ہیلی کاپٹر پر سوار عملے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ایک دن پہلے بھی بغداد میں ایک امریکی ہیلی کاپٹر گر تباہ ہو گیا تھا جس میں اکتیس امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ شدت پسندوں نے اتوار کو عراق میں ہونے والے انتخابات کو ناکام بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
040320_afgahn_stampede_uj
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/03/040320_afgahn_stampede_uj
افغانستان میں نوروز پر ہلاکتیں
افغانستان کے شمالی شہر مزار شریف میں نوروز کے موقع پر چار افراد بھگدڑ مچنے سے ہلاک اور بیس کے قریب زخمی ہوگۓ ہیں۔
آج جب ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس مقام پر نوروز کی تقریبات کے لۓ جمع ہونا شروع ہوۓ جسے افغانستان میں حضرت علی کا مزار سمجھا جاتا ہے تومجمعے میں بھگدڑ مچ گئی اور اسی دوران دو عورتیں اور دو بچے پیروں کے نیچے کچلے جانے سے ہلاک ہوگۓ۔ یاد رہے کہ طالبان دور میں نوروز منانے پر پابندی عائد تھی اور آج اس موقع پر مزار شریف میں اضافی پولیس تعینات کی گئی تھی تاکہ یہاں آنےوالوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔
050918_musharraf_ajc_speech
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/09/050918_musharraf_ajc_speech
’اسرائیل سےتعلقات قائم کریں گے‘
صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جیسے جیسے قیام امن کا عمل آگے بڑھے گا، پاکستان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لئے اقدامات کرےگا۔ امیریکن جیوِش کانگریس کے رہنماؤں سے ایک خطاب میں جنرل مشرف کا کہنا تھا کہ فلسطینی ریاست کے قیام سے اسلامی دہشت گردی روکنے میں مدد ملے گی اور ساتھ ہی پاکستان اور اسرائیل کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات ممکن ہوں گے۔
نیویارک میں یہودی رہنماؤں کے ساتھ ایک تاریخ ساز عشائیے میں جنرل مشرف نے کہا کہ پاکستان کا ’اسرائیل کے ساتھ کوئی تنازعہ یا براہ راست مسئلہ‘ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل سیاسی۔جغرافیائی حقائق کو سمجھے اور فلسطینیوں کے لئے انصاف کی بالادستی ممکن بنائے۔‘ یہودی رہنماؤں کے ساتھ یہ عشائیہ رسمی طور پر روٹی توڑنے اور قرآن پاک کی تلاوت کے ساتھ شروع ہوا۔ پاکستانی رہنماء نے کہا: ’جیسے جیسے قیام امن کا عمل ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب بڑھتا ہے، ہم (اسرئیل کے ساتھ) تعاون اور نارمل تعلقات کے لئے اقدامات کریں گے، تاکہ مکمل سفارتی تعلقات قائم ہوں۔‘ انہوں نے غزہ سے اسرائیلی انخلاء کو سراہا اور فلسطینی ریاست کے قیام کو دہشت گردی ختم کرنے اور اسرائیل کی سکیورٹی کے لئے اہم قرار دیا۔ جنرل مشرف کا کہنا تھا کہ ایسے اقدام سے اسلام اور یہودیت کے تاریخی تعلقات کو بحال کیا جاسکے گا۔ اس اعشائیہ میں لگ بھگ تین سو بااثر یہودی رہنماؤں نے شرکت کی۔ جنرل مشرف نے اپنے خطاب میں اسلامی معاشروں پر جدیدیت اپنانے میں ناکامی کے لئے تنقید بھی کی۔جنرل مشرف اور یہودی رہنماؤں کے درمیان یہ بات چیت اقوام متحدہ میں اجلاس کے دوران ان کے اسرائیلی وزیراعظم ایریئل شیرون کے ساتھ ایک ’اتفاقیہ‘ ہاتھ ملانے کے تین دن بعد پیش آئی ہے۔ عشائیہ کے دوران جنرل مشرف کا خیرمقدم کرتے ہوئے امیریکن جووِش کانگریس کے جیک روزین نے کہا: ’صدر پرویز مشرف کا اس شب ہمارے ساتھ ہونا انفرادی جرات، قیادت اور دوراندیشی کا عمل ہے۔‘ جیک روزین نے کہا کہ پاکستانی رہنماء کو یہاں تک لانے کا عمل دو سال قبل شروع ہوا جو پاکستانی حکام اور پاکستانی۔امیریکن برادری کے ساتھ غیررسمی بات چیت سے شروع ہوئی تھی۔ جیک روزین نے کہا کہ اس سال ’مئی میں، میں اور ہمارے کونسل آن ورلڈ جوری کے وائس چیئرمین مسٹر فِل بوم۔۔۔ (اور دیگر رہنما) چپکے سے اسلام آباد کے دورے پر گئے۔ کیوں کہ ہم اس بات سے آگاہ تھے کہ سیاسی سطح پر کئی حساس معاملات اس میں شامل تھے۔‘ اس موقع پر جنرل مشرف نے کہا: ’میں تصور نہیں کرسکتا کہ ایک مسلم اور وہ بھی ایک پاکستانی، اور اس سے بھی اہم یونیفارم میں ایک شخص (فوجی) کا یہودی برادری کی جانب سے اس طرح سے والہانہ استقبال کیا جائے گا۔‘ جنرل مشرف کا خطاب پاکستان میں عوامی سطح پر سیاسی دلچسپی کا باعث رہےگا۔
050821_boycott_pm_rs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/08/050821_boycott_pm_rs
بدسلوکی: صحافیوں کااحتجاج
کراچی میں صحافیوں نےاخبارات کے ایڈیٹروں سے بدسلوکی کے معاملے پر وزیر اعظم شوکت عزیز کے دورہ کراچی کے تمام پروگراموں کی پریس کوریج کےبائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔
پریس کلب میں ایک احتجاجی پریس کانفرنس میں صحافیوں نےمتفقہ طور پر گورنرہاؤس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس واقعہ پر تمام اخبارات سے تحریری طور پر معافی مانگے۔ یہ واقعہ اتوار کو اس وقت پیش آیا جب وزیراعظم شوکت عزیز کی پریس کانفرنس کے موقع پر اگلی نشتوں پر بیٹھنے والے چند اخبارات کے ایڈیٹروں کو سرکاری اہلکاروں نے یہ کہہ کر ان کی نشستوں سے اٹھادیا کہ یہاں حکومتی وزراء اور سکیریٹری بیٹھیں گے۔ جس پر سینئر صحافیوں نے گلہ کیا کہ یہ پریس کانفرنس ہے لہذا یہاں صحافیوں کا ہی کام ہے۔ مگر حکومتی اہلکاروں کے اصرار پر صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے احتجاجاً پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا اور کراچی پریس کلب پہنچ کر ایک احتجاجی جلسہ بھی منعقد کیا۔
pakistan-56080959
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56080959
’لیبارٹری میں غلط تشخیص‘: ’غلط خون لگنے سے میری بہن موت کی دہلیز پر پہنچ گئیں‘
صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے ایک شہری نے الزام عائد کیا ہے کہ ایک نجی لیب کی جانب سے ان کی بہن کے بلڈ گروپ کی مبینہ غلط تشخیص اور اس کے نتیجے میں نجی ہسپتال کی جانب سے انھیں غلط خون لگانے کے باعث وہ (بہن) موت کی دہلیز پر پہنچ چکی ہیں جبکہ متعلقہ حکام اس مبینہ غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔
لاہور کے رہائشی ثمر حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بہن سیدہ کرن ایک سکول میں پڑھاتی ہیں اور چند روز قبل ان کی طبیعت خراب ہوئی تو انھیں لاہور کے ایک نجی ہسپتال لے گئے جہاں انھیں علاج معالجے کی غرض سے داخل کر لیا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ابتدائی ٹیسٹ کرنے کے بعد ڈاکٹروں نے خون کی کمی کی بیماری تشخیص کی اور فوری طور پر اے بی پازیٹیو خون کی بوتلیں لگانے کی تجویز دی گئی۔ ثمر حسین کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے خون کا گروپ بھی اے بی پازیٹیو تھا اس لیے انھوں نے اپنی بہن کو خون عطیہ کر دیا۔ ثمر کے مطابق خون لگنے کے بعد اُن کی بہن کی طبیعت سنبھلنے کی بجائے مزید بگڑتی چلی گئی اور جلد ہی ان کے گردے متاثر ہونے لگے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ کچھ دن تو وہاں پر اپنی بہن کا علاج کرواتے رہے لیکن جب کوئی افاقہ نہ ہوا تو وہ انھیں شہر کے دوسرے نجی ہسپتال لے گئے جہاں پر جب ان کے خون کے نمونے لے کر خون کا گروپ چیک کیا گیا تو مریضہ کے خون کا گروپ بی پازیٹیو تھا۔ یہ بھی پڑھیے دنیا کا نایاب ترین خون ’بامبے نیگیٹو‘ ہے کیا؟ زینب کی زندگی بچانے کے لیے نایاب خون کی تلاش ’مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرا خون اور سپرم زہریلے ہیں‘ اُنھوں نے کہا کہ اس ہپستال کے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ان کی بہن کی طبیعت غلط گروپ کا خون لگنے سے مزید بگڑی۔ ثمر حسین کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے اس کی شکایت اس نجی ہسپتال کے مالک ڈاکٹر ظفر شیخ کو کی تو اُنھوں نے واقعے کو ماننے سے انکار کیا۔ ثمر حسین نے الزام عائد کیا کہ ہسپتال کی انتظامیہ نے نجی لیبارٹری سے مبینہ طور پر سازباز کر کے اس کی بہن کے خون کا گروپ اے بی پازیٹیو ہی بتایا اور اس کی رپورٹ بھی فراہم کر دی۔ انھوں نے کہا کہ اس رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہسپتال کی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ مریضہ کو اسی گروپ کا خون لگایا گیا ہے جو اُن کے گروپ سے میچ کرتا تھا۔ ثمر حسین کا کہنا تھا بہن کی طبعیت زیادہ خراب ہونے پر وہ انھیں کراچی لے گئے جہاں پر ان کے خون نے نمونے دوبارہ لیے گئے تو اس میں بھی کرن بخاری کے خون کا گروپ بی پازیٹیو ہی تشخیص ہوا۔ اُنھوں نے کہا کہ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اُنھوں نے گھر کا پتا اور رابطہ نمبر تبدیل کر کے اسی نجی لیبارٹری سے اپنی بہن کے نمونے لے کر ٹیسٹ کروایا تو اس رپورٹ میں اسی لیبارٹری نے ان کی بہن کا گروپ بی پازیٹیو بتایا جبکہ اس سے پہلے یہی لیبارٹری اس نجی ہسپتال کو کرن بخاری کے خون کا گروپ اے بی پازیٹیو ہونے کی رپورٹ دے چکی تھی۔ نجی لیب کا موقف اس ضمن میں جب بی بی سی نے نجی لیب کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو وہاں پر موجود ڈاکٹر عائشہ نے اس بارے میں کوئی ردعمل دینے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ کسی مریض کی بیماری کے بارے میں تفصیلات مریض کی اجازت کے بغیر نہیں بتا سکتیں۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ ایک ہی مریض کے بلڈ گروپ کی دو متضاد رپورٹس کیوں جاری کی گئیں تو ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں جب انھیں پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن سے کوئی نوٹس موصول ہو گا تو ان کا ادارہ صرف اسی کو جواب دینے کا پابند ہے۔ ہسپتال کا موقف اس نجی ہسپتال سے جب رابطہ کیا گیا تو اس ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر ظفر شیخ سے تو رابطہ نہ ہو سکا البتہ ان کے سیکریٹری کا کہنا تھا کہ مریضہ کرن بخاری کو اسی گروپ کا خون لگایا گیا جو ان کے خون گروپ کے ساتھ میچ کرتا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ دو مرتبہ لیب سے خون کے ٹیسٹ کروائے گئے اور دونوں مرتبہ مریضہ کرن بخاری کے خون کا گروپ اے بی پازیٹیو ہی آیا تھا۔ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے مریضہ کے بھائی ثمر حسین نے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے لیے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن میں درخواست دی ہے۔ ثمر حسین کا کہنا تھا کہ متعلقہ حکام نے ناصرف اس درخواست کو وصول کیا بلکہ اس پر کارروائی کے لیے اس پر ڈائری نمبر بھی لگا کر دیا لیکن ابھی تک ذمہ داران کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں ہو سکی ہے۔ اس ضمن میں جب پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن سے رابطہ کیا گیا تو ان کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر عامر وقاص چوہدری نے بتایا کہ ان کے محکمے کو جنوری کے پہلے ہفتے میں درخواست موصول ہوئی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ مریضہ کی بیماری کا ریکارڈ حاصل کر لیا گیا ہے اور ان کا ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔ ثمر حسین کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس واقعہ سے متعلق سیٹیزن پورٹل پر بھی درخواست دی تھی لیکن ان کے بقول اس پر یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے اس درخواست کو نمٹا دیا گیا۔ کون سے بلڈ گروپ کے حامل افراد کو کون سا بلڈ لگ سکتا ہے؟ ڈاکٹر عامر تاج نے بی بی سی کو بتایا کہ غلط بلڈ گروپ لگانے کی وجہ سے انسانی جسم میں ردعمل آتا ہے جس سے پھیپھڑوں اور گردوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان کے مطابق اگر پھپھڑے زخمی ہو جائیں تو پھر یہ نقصان مزید بڑھ سکتا ہے۔ برطانوی ادارے این ایچ ایس کے مطابق اے بی پازیٹیو بلڈ گروپ کی بات کی جائے تو اس بلڈ گروپ کے حامل افراد کو صرف اے بی پازیٹیو خون لگ سکتا ہے جبکہ اس گروپ کے حامل افراد تمام گروپس کے حامل افراد کو خون عطیہ کر سکتے ہیں۔ بی پازیٹیو بلڈ گروپ کی بات کی جائے تو اس بلڈ گروپ کے حامل افراد کو صرف بی پازیٹیو اور او پازیٹیو خون لگ سکتا ہے جبکہ اس گروپ کے حامل خون کے افراد بی پازیٹیو اور اے بی پازیٹیو گروپ کے افراد کو خون دے سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بہت زیادہ ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے اور صارفین حکام سے اس معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
060703_france_trial_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/07/060703_france_trial_fz
گوانتانامو کے بعد پیرس میں مقدمہ
خیلج گوانتانامو کے حراستی مرکز سے رہائی پانے والے چھ فرانسیسی قیدیوں پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات پر قائم کیئے جانے والے مقدمات کی سوموار سے پیرس میں سماعت شروع ہورہی ہے۔
ان چھ قیدیوں کو افغانستان پر امریکی حملے کے بعد افغانستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ انہیں طالبان کی طرف سے لڑنے کے لیئے بھرتی کیا گیا تھا۔ پیرس سے بی بی سی کے نمائندے نے کہا ہے کہ ان مقدمات کی سماعت سے ایک مرتبہ پھر گوانتانامو کے حراستی مرکز کے حالات زیر بحث آئیں گے۔قیدیوں میں شامل خالد بن مصطفیٰ نے ایک فرانسیسی اخبار کو انٹرویو میں کہا کہ گوانتانامو کے حراستی مرکز پر تعینات فوجی ان پر مسلسل تشدد کرتے رہے اور ان سے روزانہ مارپیٹ کی جاتی تھی۔ خالد مصطفیٰ نے کہا کہ وہ تجسس کی وجہ سے افغانستان گئے تھے اور ان کا لڑائی میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ گزشتہ دو سال کے دوران ان قیدیوں کو فرانس کے واپس کیا گیا ہے اور ان قیدیوں کے لیے امریکہ اور فرانس کے حکام میں طویل مذاکرات ہوئے تھے۔
060116_spinbolduk_blast_zs
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/01/060116_spinbolduk_blast_zs
افغانستان: خودکش حملہ، 20 ہلاک
افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر واقع افغان قصبے سپن بولدک میں خودکش حملے میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق بیس افراد ہلاک اور چالیس زخمی ہو گئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق یہ خود کش حملہ ایک مقامی میلے میں ہوا جہاں پر ایک موٹر سائیکل سوار حملہ آور نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اطلاعات کے مطابق مرنے والے افراد میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ چمن سول ہسپتال کے سول سرجن ناصر اچکزئی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہسپتال میں آٹھ لاشوں اور تیس زخمیوں کو لایا گیا ہے۔ سرحدی قصبہ ہونے کی وجہ سے سپن بولدک اور چمن کے درمیان لوگوں کی آمدورفت ہوتی رہتی ہے۔ مزید اطلاعات آ رہی ہیں۔
051022_quake_rathor_eyewitness
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/blog/story/2005/10/051022_quake_rathor_eyewitness
کشمیر میں طوفانی برفباری کا انتظار
میرا تعلق مظفرآباد سے ہے، چار روز قبل راولپنڈی پہنچا ہوں۔ مظفرآباد میں میں امدادی کاموں میں مصروف تھا، وہیں ایک این جی او کے ساتھ میں دو سال سے کام کرتا رہا ہوں۔ میرا جوگاؤں ہے وہاں کوئی امداد نہیں پہنچ رہی تھی جس وجہ سے میں اسلام آباد آگیا اور لوگوں سے بات کی کہ وہ کچھ امداد وہاں پہنچانے کی کوشش کریں۔
جب زلزلہ آیا اس وقت ہم اپنے والدین کے ساتھ صحن میں کھڑے ہوکر باتیں کررہے تھے، اچانک گونجدار آواز شروع ہوئی، کافی شور تھا اور اس کے ساتھ ہی زمین اتنی زور سے ہلنے لگی جیسے کہ پھٹنے والی ہو، مکان ایسے ہِل رہا تھا جیسے یہ یا تو زمین کے اندر چلاجائے گا یا اوپر جاکر ہم پر گر پڑے گا۔ اس وقت عجیب سا منظر تھا، جیسے قیامت کی گھڑی آپہنچی ہو۔ ہمارے مکان کی دیواریں گر گئیں، شہر کے ساتھ ہی ہم رہتے ہیں، وہاں پہ زیادہ مکان تباہ نہیں ہوئے، لیکن شہر کے مکمل مکان تباہ ہوگئے۔ تب سے ہم ٹینٹ میں رہ رہے ہیں، گھر کے باہر ٹینٹ لگایا ہے۔ ابھی مظفرآباد میں وہی افراتفری کا عالم ہے، اور بیشتر شہر خالی ہوچکے ہیں، لوگ شہر سے نقل مکانی کرچکے ہیں، کچھ لوگ اپنے عزیزوں کے پاس اسلام آباد، راولپنڈی یا دیگر شہروں میں منتقل ہوگئے ہیں، اور کچھ لوگ وہیں سائیڈ میں جھونپڑیاں بناکر یا کیمپ میں رہائش پزیر ہیں۔ ابھی گورنمنٹ نے بھی بڑے لیول پر کوئی کیمپ نہیں قائم کیا ہے۔ میرے خاندان والے ابھی بھی وہیں ہیں۔ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ ہم راولپنڈی میں مکان لے سکے، ہمارے رشتہ داروں میں وہاں سے کافی لوگ اسلام آباد آچکے ہیں۔ مظفرآباد میں سردیوں کی حالت یہ ہے کہ اب جلد ہی وہاں برف گرے گی، شہر میں تو شاید نہیں لیکن پہاڑوں پر اور دیہاتوں میں، ایک دو کلومیٹر کی اونچائی پر، اور چونکہ آزاد کشمیر کا جو ایریا ہے وہ بیشتر پہاڑیاں ہیں اس لئے وہاں برفباری سے زندگی کے آثار مشکل ہوں گے، اور زیادہ لوگ جو زلزلے سے بچ چکے ہیں شاید وہ طوفانی برفباری کی نذر ہوجائیں۔ گورنمنٹ کے پاس وسائل کی کمی ہے، خاص کر لوگ نہیں ان کے پاس۔ اتنے لوگ ان کے پاس ہیں ہی نہیں کہ وہ دیہاتوں میں جائیں اور لوگوں کو خوراک، خیمے اور دیگر امداد پہنچائیں۔ میرے عزیز و اقارب میں لگ بھگ پندرہ بیس لوگ مارے گئے ہیں۔ باقی لوگ جو بچے ہوئے ہیں ان پر تو عموما سکتے ہی کیفیت طاری ہے۔ وہ لوگ نہ تو کسی سے سپورٹ لینے کا حوصلہ رکھتے ہیں نہ ہی وہ کہیں جاکر کہہ سکتے ہیں کہ جی ہمیں اپنی زندگی کو باقی رکھنے کے لئے ان اشیاء کی ضرورت ہے، وہ لوگ غم سے نڈھال کہیں پڑے ہوئے ہیں۔ کہیں دور دراز علاقوں میں جہاں اموات ہوئی ہیں وہاں تو لوگوں کو ابھی تک ریلیف بھی نہیں دیا جاسکا۔ بڑی ابتر حالت ہے، گورنمنٹ کی سطح پر جو کام ہورہا ہے اسے کوآرڈینیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ این جی اوز جو کام کررہی ہیں ان کی پہنچ کافی محدود ہے، کچھ ہی علاقوں تک کام کررہی ہیں، ان کے پاس بھی وسائل نہیں ہیں، کوئی مربوط کوشش نہیں ہوئی ہے اب تک۔ بالخصوص خیموں کی ضرورت ہے، ان لوگوں کے لئے جو کھلے آسمان تلے کھیتوں میں بسے ہیں۔
040807_afghan_taliban_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/08/040807_afghan_taliban_fz
طالبان کا حملہ دو افراد ہلاک
افغان حکام کے مطابق ملک کے جنوبی علاقے میں طالبان کے ایک حملے میں دو انتخابی کارکنوں ہلاک ہو گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق جنوبی افغانستان کے صوبے ارزگان میں اکتوبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے انتخابی عملہ لوگوں کا اندارج کرنے میں مصروف تھا کہ اس پر طالبان نے حملہ کر دیا۔ صوبائی گورنر نے بتایا کہ انتخابی قافلے پر فائرنگ کی گئی اور دستی بم بھی مارئے گئے۔ طالبان کے ذرائع نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور انہوں نے انتخابات کو درم بھرم کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔
051223_noor_jahan_an
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2005/12/051223_noor_jahan_an
نور جہان کی پانچویں برسی
ملکہ ترنم نور جہان کی آج پانچویں برسی ہے۔ چھ دہائیوں پر محیط اپنے فنی کیریئر میں نور جہان نے تقسیم سے پہلے بھارت میں فلموں میں کام کیا اور بعد میں پاکستان کی ہی نہیں بلکہ برصغیر کی مقبول ترین گلوگارہ کے روپ میں نمایاں ہوئیں۔
اپنے فنی سفر کے دوران نورجہاں نے چھبیس فلموں میں مرکزی کردار ادا کرنے کے علاوہ ہزار کے قریب فلموں کے لیے گانے گائے۔ نور جہان سے آپ کی کون سی یادیں وابسطہ ہیں؟ آپ کے خیال میں نور جہان نے برصغیر میں موسیقی کے حوالے سے کیا کردار ادا کیا؟ نور جہان کا گایا ہوا کون سا گیت آپ کا پسندیدہ گیت ہے اور کیوں؟ صوبیہ مخدوم، لاہور، پاکستان:کچھ لوگ اس دنیا میں صرف ایک مرتبہ پیدا ہوتے ہیں، جیسا کہ تان سین، بدھا، قائداعظم۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو کلون کرلینا چاہیے کیونکہ ہمیں یہ لوگ ہمیشہ چاہیں۔ نور جہاں نے بے شمار گانے گائے لیکن مجھے ان کا یہ گانی بہت پسنا ہے ’میں تے میرا دلبر جانی‘۔ یہ پنجابی کا سب سے اچھا گانا ہے جیسا کہ انگلش میں ’ایویری تھینگ آئی ڈو‘۔ آپ اس گانے میں رومانس محسوس کر سکتے ہیں۔ محمد آصف چودھری، کینیڈانور جہاں ایک نور تھیں۔ ہمیشہ نور رہیں گی۔ لیکن مجھے رہتی دنیا تک افسوس رہے گا کہ لاہور کی نور جہاں کو کراچی کے گم نام قبرستان میں دفن کیا گیا ہے۔ نور جہاں کو مقبرہ ِجہانگیر یا شالامار باغ میں دفن کرنا انتہائی ضروری تھا۔ نور جہاں کو ان کی شان کے مطابق پذیرائی نہیں دی گئی۔ شفیق اعوان، سرگودھا، پاکستان:میری عمر ساٹھ سال ہے۔ میں نے آنکھ کھولی تو اپنے گھر میں والد کے گراموفون پر یہ گانا سنا ’یہاں بدلہ وفا کا‘۔ اس حوالے سے مجھے نور جہاں ہمیشہ یاد رہیں گیں۔ خاص کر یہ گانا ’کل تک جو کہتے تھے اپنے‘ بہت خوبصورت گانا ہے۔ خلیل خان، سعودی عرب:دنیا میں دو نور جہاں تھیں ایک ہندستان کی ملکہ اور دوسری موسیقی کی ملکہ میڈم نور جہاں، جس نے برصغیر کواپنی آواز سے فتح کر لیا وہ پہلی والی ملکہ سے بھی عظیم تھیں۔ علی رضا بلوچ، فیصل آباد، پاکستان:نور جہاں کے نام پر اکیڈیمی ہونی چاہیے پاکستان میں۔ بابر راجہ، جاپان:ابھی میری عمر چونتیس سال ہے بچپن سے نور جہاں کو ریڈیو پر سنتے تھے ۔ میں نے 1992 میں سنگاپور جاتے ہوئے جہاز میں ”دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا‘ اور’مجھ سے پہلی سی محبت نہ مانگ‘ سنے اور بہت مزہ آیا۔ آج بھی میرے پاس میڈم کے پرانے گانوں کی البم ہے اور جب بھی میں کسی سے ان کا ذکر کرتی ہوں تو یہ کہہ کر یاد کرتی ہوں کہ اللہ میڈم کو جنت میں جگہ دے۔ صابر خٹک، کوہاٹ، پاکستانمیڈم نور جہاں کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہو گی گلوکارہ کے لحاظ سے وہ خوش قسمتی سے پاکستان کو انمول موتی ملی تھیں اور ملکہ ترنم نور جہاں نے 65 کی پاک انڈیا جنگ میں جن نغموں سے جوانوں میں جذبہ پیدا کیا تھا وہ کردار کوئی اور گلوکارہ ادا نہیں کر سکتی۔ مجھے میڈم نور جہاں کا وہ گانا بہت ہی پسند ہے ’ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں‘۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ان کو جنت میں جگہ نصیب کرے۔ آمین قمر عباس سید، بکھر، پاکستان:میں نے زندگی میں صرف نور جہاں کو ایسا گلوکار پایا کہ ان کی گلوکاری کے آغاز سے لے کر آخری عمر تک ان کی آواز میں مٹھاس اور سریلے پن میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔ جس کی صرف وجہ یہ تھی کہ انہوں نے دل سے، مخلصی سے گلوکاری کی اور پیشہ وری کو نذدیک ٹپکنے نہیں دیا۔ ’آواز دے کہاں ہے دنیا میری جواں ہے‘ ان کا یہ گانا بہت پسندہے۔ کیونکہ اس گانے سے مجھ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ شاہدہ اکرم، ابوظہبی، یو اے ای:نور جہاں ترنم کی ملکہ تو تھیں لیکن اپنی سادہ طبیعت کی وجہ سے بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ ہم دنیا داروں کی دنیا جو صرف یہی سمجھتی ہے کہ پانچ دفعہ ماتھا ٹیک کر اور نماز روضہ کر کے عبادت گزار ہو گئے ہیں۔ ظاہری طور پر گانے بجانے کی وجہ سے ان کو کسی بھی نظر سے دیکھتے ہوں اور جو بھی سمجھتے ہوں آپ کو پتہ ہی ہو گا کہ ان کی وفات ستائیس رمضان کو ہوئی۔ ساجد عثمان، لاہور، پاکستان:میڈم کو زبان سے نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے یاد کیا جاتا ہے، اللہ نے ہمیں انمول موتی بخشا تھا اور ایسا دوبارہ نہیں مل سکتا۔ عبدالغفار، ملتان، پاکستان:میں گزارش کرتا ہوں کہ ہمیشہ میڈم نور جہاں کی برسی منائی جائے، یہ بہت اچھا خیال ہے۔ دلدار اسلم، دبئی، یو اے ای:نور جہاں کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ دوسری نور جہاں کبھی پیدا نہیں ہو گی۔ زاہد عثمان، کویت:کون سے گیت بتاؤں اور کیا خطاب دوں جب کسی کو ملکہ کا خطاب مل جائے تو اس سے بڑا خطاب مل نہیں سکتا اور نہ ہی کسی کو ملے گا۔ ان کے سب گانے بہت ہی خوبصورت ہیں، خاص طور پر 65 کی جنگ میں جو ترانے گائے وہ لاجواب ہیں سنتے ہی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے سارا واقعہ ہمارے سامنے ہو رہا ہو۔ طارق محمود راجہ، یو اے ای:وہ ایک قومی گلوکارہ تھیں اور ان کے قومی نغمے ابھی بھی میرے دل میں ہیں۔ امین اللہ شاہ، پاکستان:مجھے فلم ’انمول گھڑی‘ کا یہ گانا بہت پسند ہے۔ ’ہمیں تو شامِ غم میں کاٹنی ہے زندگی‘ کیونکہ میرے والد صاحب یہ گانا بہت پسند کرتے ہیں۔ تنویر رزاق، فیصل آباد، پاکستان’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘، فیض احمد فیض صاحب کا یہ گیت میڈم نے گا کر اسے چار چاند لگا دیے۔ میڈم ہیں ہی داد و تحسین کی حقدار۔ جاوید اقبال ملک، چکوال، پاکستان:اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ ایک عظیم گلوکارہ تھیں اور 1965 کی پاک بھارت جنگ میں ان کا قردار بےمثال ہے اور اس کے بعد ان کو ایک قومی شخصیت کے طور پر جانا گیا۔ وہ صدیوں عوام کے دلوں پر راج کریں گی۔ وہ بے ضرر اور خوبصورت شخصیت کی مالک تھیں۔ شہریار خان، سنگاپور:نور جہاں ایک عظیم گلوکارہ اور ایک عظیم شخصیت تھیں جنہوں نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے برصغیر میں بسنے والے تمام لوگوں کو متاثر کر دیا تھا اورمو سیقی کی دنیا میں ہمیشہ ان کا ایک مقام ہے اور رہے گا۔ نور جہاں کو عام لوگوں سے لے کر اعلیٰ عہدیدار اور مشہور شخصیات نے دل سے اور عقیدت کے مقام تک چاہا تھا۔ نور جہاں نے اپنے اور غیر سب کو ’ میرے نغمے تمہارے لیے ہیں‘ گا کر اپنا ہمنوا بنا لیا تھا۔ پاکستان اور برصغیر میں لوگوں کو ان کی یاد میں ایک اعلیٰ سطح کا اعزام قائم کرنا چاہیے تا کہ موسیقی کو ایک اعلیٰ مقام عطا ہو اور اس کا نام ’موسیقی کا نور‘ دیا جائے۔ ہارون راشد، سیالکوٹ، پاکستان:جس سے لتا جیسی گلوکارہ نے گانا سیکھا ہو اس کا مقام آپ خود سوچیں کیا ہو سکتا ہے۔ نور جہاں بلا شبہ برصغیر کی عظیم گلوکارہ تھیں۔ مجھے ان کے کافی گانے پسند ہیں لیکن یہ غزل بہت پسند ہے۔’ کبھی کتابوں میں پھول رکھنا، کبھی درختوں پہ نام لکھنا‘۔ اسحاق ملک، ملتان، پاکستان:فلم جگنو کےلیے نور جہاں کا گانا بہت پسند ہے جو انھوں نے محمد رفیع کے ساتھ گایا تھا۔ ’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘، کیونکہ یہ گانا آج بھی اسی طرح صحیح ثابت ہوتا ہے جیسے آج سے نصف صدی پہلے تھا۔ محمد عارف راجہ، ہالینڈ:نور جہاں ابھی بھی میری پسندیدہ گلوکارہ ہیں۔ ہیر رانجھا کے گیت میرے پسندیدہ گیت ہیں۔ قدیر قریشی، ٹورانٹو، کینیڈا:نور جہاں کے انتقال کا سب سے بڑا نقصان پاکستان آرمی کو ہوا۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ اب جنگ کیسے جیتیں گے۔ افتخار احمد کشمیری، نامعلوم:گائے گی دنیا گیت میرے۔۔۔۔ اس لیے اچھا لگتا ہے کہ نور جہاں کے مرنے کے بعد ان ہی کے لیے گایا جا سکتا ہے۔ شاہ شفیق پرویز، اٹک، پاکستان:نور جہاں آواز کی ملکہ تھیں ان کی آواز میں پنجابی کے لہجے کی خوشبو تھی۔ ان کی یاد ہمیشہ زندہ رہے گی۔ مجھے ان کا گانا ’اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے توں لبدی پھریں بازار کڑے‘ پسند ہے۔ آصف محمود میاں، لاہور، پاکستان:میں بہت چھوٹا تھا تو سمجھتا تھا کہ ملکہ نور جہاں مر چکی ہیں پر ابھی تک ریڈیو پر گاتی ہیں۔ ہوش سنبھالا تو علم ہوا کہ ملہ ترنم نور جہاں وہ ہیں جو موسیقی کی ملکہ ہیں۔ غالباً چودہ یا پندرہ سال کا تھا کہ شاہنور سٹوڈیو یا باری سٹوڈیو میں گانا سننے کا اتفاق ہوا، میں نے نور جہاں کو اپنے سامنے گاتے دیکھا، وہ حقیقی ملکہ لگ رہی تھیں۔ اس سے پہلے سن 65 کی جنگ میں ان کے گائے ہوئے گیت گنگناتا رہتا تھا خاص طور پر ’اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے‘ اور ’اے وطن کے سجیلے جوانوں، میرے نغمے تمھارے لیے ہیں‘ بہت ہی اچھے لگتے تھے بلکہ ابھی تک لگتے ہیں۔ امتیاز احمد خان، کراچی، پاکستان:جوش اور ولولہ اپنے گیتوں کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں پیدا کیا، جو بڑی سے بڑی طاقت اور کسی بھی ملک کی اپنے دفاع کے لیے نہایت مشکل کام ہے۔ ایسی خاتون کو دعاؤں میں یاد رکھنا ہمارا فرض ہے۔
061008_israel_abbas_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/10/061008_israel_abbas_fz
اولمرٹ اور عباس کی ملاقات متوقع
اسرائیل کے وزیر اعظم ایہود اولمرٹ اور فلسطین کے صدر محمود عباس کے اعلی مشیروں نے کہا ہے کہ وہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات کرانے کے لیئے کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات کرانے کا مقصد امن کی کوششوں کو دوبارہ سے شروع کرنا ہے۔ حکام کے مطابق اسرائیلی چیف آف سٹاف یورم ٹربوز اور فلسطین کے اعلیٰ مذاکرات کار صائب ارکات کے درمیان اس ہفتے کے آغاز ملاقات ہو چکی ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات اسرائیل کے لبنان پر حملے سے کچھ دن پہلے ہوئی تھی۔ اسرائیل حماس کی حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکار کر رہا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے وہ حماس سے اس وقت تک بات چیت نہیں کرے گا جب تک حماس اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کر لیتی۔
040329_saf_games_fz
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2004/03/040329_saf_games_fz
نویں سیف گیمز کا افتتاح
جنوبی مشرقی ایشیا کے سات ملکوں کے درمیان کھیلوں کے مقابلوں کے سلسلے کی نویں سیف گیمز کا افتتاح پیر کے روز اسلام آباد کے جناح اسٹیڈیم میں سخت حفاظتی انتطامات کے تحت ہونے والی ایک رنگا رنگ تقریب میں ہوا۔
صدر جنرل پرویز مشرف نے کھیلوں کا افتتاح کیا ہے جو دس دن تک جاری رہیں گے۔ ان کھیلوں کا انعقاد پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر ہونے کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ دس روز تک جاری رہنے والے ان مقابلوں کا باقاعدہ آغاز منگل کے روز سے ہو گا۔ان مقابلوں میں پندرہ مختلف کھیل شامل ہیں جن میں جنوب مشرقی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ملکوں کے کھلاڑی ایک دوسرے کا سامنا کریں گے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں پاکستان ، بھارت ، سری لنکا ، بنگلہ دیش، مالدیپ، نیپال اور بھوٹان علاوہ ان کھیلوں میں افغانستان کے کھلاڑی بھی خصوصی طور پر شرکت کر رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے کشیدہ تعلقات اور پاکستان میں سیکورٹی کی صورت حال پر رکن ملکوں کی تشویش کی بنا پر نویں سیف گیمز کو تین مرتبہ موخر کرنا پڑا۔
pakistan-51060069
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51060069
#RosieGabrielle : موٹر سائیکل گرل روزی گیبریئل کے مطابق ’قسمت‘ انھیں پاکستان لائی
اب تک یہ تو آپ سبھی جانتے ہیں کہ 2019 میں پاکستان کی سیر کے لیے آنے والی موٹر سائیکل گرل روزی گیبریئل نے اسلام قبول کر لیا ہے لیکن روزی گیبریئل ہیں کون؟ کہاں سے آئی ہیں، انھیں پاکستان آنے کا مشورہ کس نے دیا اور روزی نے پاکستان کو کیسا پایا۔
’میرا نام روز (گلاب) خدا کی ایک خوبصورت تخلیق ہے۔ میرے والد نے میرا نام یہی رکھا تھا اور میں اپنے باپ کی یاد میں اپنا نام نہیں تبدیل کر رہی‘ بی بی سی بات کرتے ہوئے روزی گیبریئل نے اپنی زندگی اور ایڈونچرز کے بارے میں کچھ دلچسپ باتیں بتائیں۔ روزی گیبریئل کون ہیں؟ روزی گیبریئل کا تعلق کینیڈا سے ہے۔ وہ خود کو ایک زندہ دل سولو ٹریولر کہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے 15 سال قبل دنیا کا سفر شروع کیا۔ پھر چار سال پہلے مجھے خیال آیا کیوں نہ ایک اکیلی عورت کے طور پر جسے آسانی سے نقصان پہنچایا جا سکتا ہو، اپنے سفر، تجربات، اور دنیا کو میں نے کیسا پایا، یہ سب جمع کرنا شروع کروں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ اس سے ان کا مقصد لوگوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک اور وہاں رہنے والوں کے بارے میں ان کی رائے تبدیل کرنا بھی تھا تاکہ وہ اپنی محدود سوچ سے باہر نکل کر دنیا کی خوبصورتی کے بارے میں جان سکیں۔ یہ بھی پڑھیے پاکستان کے نئے ’سفید فام مداح‘ پاکستانی ٹوئٹر پر ’سنتھیا‘ کا نام کیوں ٹرینڈ کر رہا ہے؟ ’مختلف ایشوز کو اجاگر کرنے اور لوگوں کو ان کے بارے میں معلومات دینے کے ساتھ ساتھ اپنے سفر کے دوران میں جن جسمانی اور ذہنی تکالیف سے گزری اس سب کے بارے میں بھی میں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شئیر کیا۔‘ وہ کہتی ہیں ’اب میرا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایک ایسی جگہ بن چکی ہے جہاں میں اپنی ذاتی زندگی میں آنے والی تبدیلیوں سے لے کر اپنے سفر اور تجربات سب کچھ شئیر کرتی ہوں۔‘ روزی بتاتی ہیں کہ ’پہلا سفر جو میں نے ڈاکیومنٹ کیا وہ اُومان کا تھا۔ وہاں میں 10 سال تک رہی اور وہ جگہ میرے دل کے بہت قریب تھی۔‘ ’میں نے ایک مسلمان ملک سے اپنے تجربات شئیر کیے اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں دنیا کو بتایا۔ یہ ایسا وقت تھا جب دنیا کو واقعی اس ملک اور وہاں کے نرم دل لوگوں کے بارے میں جاننے کی ضرورت تھی۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ ’اومان میں سفر کرتے ہوئے ایک جگہ میری موٹر سائیکل خراب ہوئی۔ میں بہت بے بس تھی لیکن اس وقت دو انجان لوگوں نے میری مدد کی۔ میں نے اس پر ویڈیو بنائی جو وائرل ہو گئی۔‘ ’تبھی مجھے احساس ہوا کہ خدا نے مجھے دنیا کا سفر کرنے اور اس سب کے بارے میں لوگوں کو بتانے کا ہنر عطا کیا ہے اور میں ایسی پوزیشن میں ہوں کہ لوگوں کے ذہنوں میں بہت مثبت تبدیلی لا سکتی ہوں۔‘ روزی کہتی ہیں ’میں نے جتنی مشکلات کا سامنا کیا انھوں نے مجھے مزید مضبوط بنایا تاکہ میں اکیلے سفر کر سکوں‘ قسمت مجھے پاکستان لے کر آئی روزی کہتی ہیں کہ گذشتہ سال انھیں ایک ہفتے کے لیے پاکستان آنے کا موقع ملا۔ ’میں پاکستان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی اور خبروں میں کبھی پاکستان کے بارے میں کچھ بھی اچھا نہیں سنا تھا۔‘ ’لیکن میرے جتنے بھی دوست پاکستان آ چکے تھے وہ سب یہی بتاتے تھے یہاں کے لوگ بہت اچھے ہیں۔ میں نے سوچا کیوں نہ پاکستان جا کر دیکھوں کہ کیا واقعی ایسا ہے، اور اکیلے موٹر سائیکل پر سفر کرکے عام لوگوں کی زندگی کے بارے میں جانوں کہ انھیں کن کن مشکلات کا سامنا ہے۔‘ وہ کہتی ہیں ’اس سے میرا مقصد پاکستان اور یہاں کے لوگوں کے بارے میں لوگوں کی منفی رائے بدلنا تھا۔‘ ’بس پھر میں نے موٹر سائیکل لی اور پاکستان کا سفر شروع کیا۔ اب تک مجھے یہاں 10 مہینے ہو گئے ہیں اور میں نے تقریباً 11000 کلومیٹر کا اکیلے سفر طے کر لیا ہے۔‘ ’جو چیز پاکستان کو باقی دنیا سے مختلف بناتی ہے وہ یہاں کے لوگ ہیں۔ میں نے اتنے مہمان نواز اور نرم دل لوگ کہیں نہیں دیکھے‘ پاکستان کو کیسا پایا؟ روزی کہتی ہیں ’پاکستان دنیا کا ایک ’پوشیدہ نگینہ‘ ہے اور یہاں کے لوگ بہت ہی ’انمول‘ ہیں۔ میں نے زندگی میں اتنی خوبصورت جگہیں اور اتنی متنوع ثقافت کہیں اور نہیں دیکھی۔ نہ ہیں اتنے مزیدار کھانے کہیں پہلے کھانے کو ملے۔‘ ’لیکن جو چیز پاکستان کو باقی دنیا سے مختلف بناتی ہے وہ یہاں کے لوگ ہیں۔ میں نے اتنے مہمان نواز اور نرم دل لوگ کہیں نہیں دیکھے۔ ایک اکیلی عورت کے طور پر میں نے ایک بار بھی خود کو پریشان، ڈرا ہوا یا کسی خطرے میں نہیں پایا۔‘ وہ کہتی ہیں ’میں جہاں بھی گئی لوگوں نے میرا خیال رکھا، ہر جگہ میری حفاظت اور مدد کی۔‘ پاکستان میں ایک اکیلی عورت کے لیے سفر کتنا آسان ہے؟ روزی کہتی ہیں پاکستان میں میرے تجربات کمزور دل والوں کے لیے نہیں۔ ’میں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لوں گی اور یہ ہر گز نہیں کہوں گی کہ پاکستان میں اکیلے سفر کرنا بڑا آسان ہے۔ یہ مشکل ترین اور چیلینجنگ سفروں میں سے ایک تھا۔‘ ’کیونکہ یہاں سیاحوں کے لیے سہولیات کا شدید فقدان ہے اور چیلینجز بے حساب ہیں۔‘ گزشتہ سال روزی پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان سے بھی ملیں روزی کہتی ہیں میں ایک عام سیاح کی طرح سفر نہیں کرتی، مجھے جہاں رستہ لے جائے میں چل پڑتی ہوں اور راستے میں لوگوں سے ملتی جاتی اور ان کے گھروں میں ہی رہائش بھی رکھنے کی کوشش کرتی ہوں یا کیمپ لگانے کی کوئی جگہ ڈھونڈ لیتی ہوں۔‘ ’شمال میں سفر آسان رہا لیکن جنوبی پاکستان بہت مشکل تھا، خاص کر سکیورٹی پروٹوکول کے ساتھ۔ خوش قسمتی سے میں نے کسی طرح اس سے جان چھڑا لی۔‘ وہ بتاتی ہیں ’ایک عورت کے طور پر مجھے کوئی خاص مسائل کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا بلکہ لوگ زیادہ دوستانہ رویے اور مہمان نوازی کا مظاہرہ کرتے تھے کیونکہ میں ایک لڑکی تھی اور وہ میرا خیال رکھنا چاہتے تھے۔‘ ’لیکن سب سے بڑا مسئلہ جو مجھے پیش آیا وہ مناسب قیمت میں اچھا ہوٹل یا رہنے کی جگہ ڈھونڈنا ہوتا تھا۔ خاص کر شہروں میں۔ پاکستان کے کسی شہر میں ہوٹل انتہائی مہنگے ہیں۔ یہاں کے ہوٹلوں کی قیمتیں سن کر مجھے انتہائی شدید جھٹکا لگتا اور جو کچھ تصویر میں دکھایا جاتا، اصل جگہ کبھی بھی ویسی نہیں ہوتی تھی۔‘ وہ کہتی ہیں کام اور آرام کے لیے کوئی ایسی جگہ تلاش کرنے میں بہت مشکل پیش آئی۔ روزی کہتی ہیں ’پاکستان میں میرے تجربات کمزور دل والوں کے لیے نہیں‘ روزی کہتی ہیں کہ ’آپ خود لوگوں کے متعلق جو رویہ رکھتے ہیں آپ کو لوگ بھی ویسے ہی ملتے ہیں۔‘ ’اپنے 15 سالہ تجربے کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ مجھے آج تک کوئی ایک برا انسان نہیں ملا نہ ہی میں کسی برے تجربے سے گزری۔‘ روزی کہتی ہیں ’بہت سی خواتین کو بس یہ یقین دلا دیا جاتا ہے کہ ایک اکیلی عورت کے طور پر سفر کرنے کے لیے یہ دنیا بہت ہی خطرناک اور غیر محفوظ ہے۔ اسی لیے وہ یہی ڈر دل میں دبائے رکھتی ہیں۔‘ ’آپ مجھے پاگل سمجھ لیں لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے آج تک کبھی اکیلے سفر سے ڈر نہیں لگا اور میرا ماننا ہے کہ جب تک میں لوگوں کو عزت اور احترام سے ملتی رہوں گی خدا میری حفاظت کرے گا۔‘ روزی کہتی ہیں ’جب میرا جسم اور چھٹی حس مجھے کہیں نہ جانے یا کچھ نہ کرنے کا بتاتی ہے تو اسے اہمیت دیتی ہوں ہاں بس لوگوں کے بارے میں اپنی سوچ مثبت رکھیں اور مزے سے اپنی زندگی جئیں۔‘ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ روزی گیبریئل نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام تبدیل نہیں کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’کچھ لوگ اسلام قبول کرنے کے بعد کوئی ایسا نام رک لیتے ہیں جو پیغمبرِ اسلام نے اپنی تعلیمات میں بتایا ہو یا کسی قابلِ احترام شخصیت کا نام ۔ یہ ضروری نہیں، بس آپ کے نام کا مطلب اچھا ہونا چاہیے کیونکہ نام ایک مثبت توانائی ظاہر کرتا ہے۔‘ میرا نام روز (گلاب) خدا کی ایک خوبصورت تخلیق ہے اور میرے والد نے میرا نام یہی رکھا تھا۔ میں اپنے باپ کی یاد میں اپنا نام نہیں تبدیل کر رہی۔‘ ’آپ خود لوگوں کے متعلق جو رویہ رکھتے ہیں آپ کو لوگ بھی ویسے ہی ملتے ہیں‘ سوشل میڈیا پر ردِعمل: پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین روزی کے اس فیصلے سے بہت خوش ہیں اور انھیں مبارکبادیں دیتے ہوئے ساتھ ہی انھیں احساس بھی دلا رہے ہیں کہ اب آپ پر زیادہ ذمے داری آگئی ہے۔ مریم نامی صارف روزی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتی ہیں آپ کو پاکستان میں جتنا پیار ملا یہ سب دنیا کو بتانے کا بہت شکریہ۔ کومن مین نامی صارف ان کی دوپٹے میں تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’اِس لباس کو اگر کوئی بھی دیکھے تو شاید یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے کہ اِس گیٹ اپ نے اِس عورت کو کسی بھی ذہن پر بننے والی سوچ میں معتبر کر دیا ہے اور ایک عجیب طرح سے پابند کر دیا ہے کہ اِسے عزت دی جائے۔‘
060201_derabugti_clashes_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/02/060201_derabugti_clashes_fz
ڈیرہ بگٹی میں جھڑپیں جاری
صوبہ بلوچستان کے شہر ڈیرہ بگٹی میں جھڑپیں جاری ہیں جس میں ضلعی رابطہ افسر عبدالصمد لاسی کے مطابق تین مسلح قبائلی ہلاک اور نو زخمی ہوئے ہیں اور فرنٹیئر کور کی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔
ڈیرہ بگٹی سے مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ کل رات سے گولہ باری کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے لیکن یہ پتہ نہیں چل رہا کہ گولے کس طرف سے داغے جا رہے ہیں۔ ڈیرہ بگٹی کے ضلعی رابطہ افسر عبدالصمد لاسی نے کہا ہے کہ بگٹی قبیلے کے مسلح افراد نے ایف سی کے قلعے پر بڑی تعداد میں راکٹ داغے ہیں جس سے مسجد لائبریری اور جنریٹر کو نقصان پہنچا ہے لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ایف سی کے اہلکاروں نے جوابی کارروائی کی ہے جس میں مزاحمت کاروں کے تین افراد ہلاک اور نو کے زخمی ہونے کی اطلاع ملی ہے۔ اس بارے میں جمہوری وطن پارٹی کے جنرل سیکرٹری آغا شاہد بگٹی نے مقامی لوگوں سے رابطے کے بعد بتایا ہے انہیں ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی لیکن انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ماضی کی طرح ہو سکتا ہے کہ جو لوگ ایف سی کی حراست میں انہیں میں سے کسی کو ہلاک کر دیا ہو لیکن ان کے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بیس سے پچیس افراد گرفتار ہیں کچھ ڈیرہ بگٹی اور کچھ سوئی میں ہیں۔
060404_butagaram_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/04/060404_butagaram_sen
بٹہ گرام میں زلزلے سے انیس زخمی
بٹہ گرام میں زلزلے کے دو جھٹکے، انیس افراد زخمی۔ کئی عمارتیں زمیں بوس ہوگئیں۔زلزلہ زدہ علاقے پھر لرز گئےآٹھ اکتوبر کے زلزلے سے صوبہ سرحد کے کئی متاثرہ علاقوں میں آج زلزلے کے دو جھٹکے محسوس کیے گئے۔ جس کے نتیجے میں بٹہ گرام میں کئی عمارتیں گرگئیں اور آخری اطلاعات تک بٹہ گرام اور آس پاس کے علاقوں سے خواتین اور بچوں سمیت کم از کم انیس زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔
ہسپتال ذرائع نے بتایا ہے کہ شدید زخمیوں میں پانچ طالب علم اور ایک خاتون شامل ہیں۔ ایک دینی مدرسے کے چودہ سالہ طالب علم سمیت دو شدید زخمیوں کو ایبٹ آباد کے ایوب میڈیکل کالج ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل قمر الزماں نے بی بی سی کو بتایا کہ پہلے جھٹکے کی شدت ریکٹر سکیل پر پانچ اعشاریہ دو تھی جبکہ دوسرا جھٹکا چار اعشاریہ دو شدت کا تھا اور یہ زلزلہ بٹہ گرام کے علاوہ بالاکوٹ، مانسہرہ ایبٹ آباد اور وادی سوات میں بھی محسوس کیا گیا۔ پاکستان کے وقت کے مطابق ٹھیک دو بج کر گیارہ منٹ پر آنے والے اس زلزلے کی گڑگڑاہٹ ایسی تھی جیسے کوئی گاڑی پتھروں پر چل رہی ہو۔ تھائی ہوٹل کی عمارت سے باہر آتے ہی مجھے اردگرد کے پہاڑوں میں کئی جگہ سے گرد اور دھواں اٹھتا دکھائی دیا۔ ہوٹل کے بالکل سامنے ذرا بلندی پر واقع پولیس سٹیشن کی عمارت منہدم ہو چکی تھی۔اس کے علاوہ آٹھ اکتوبر کے زلزلے میں تباہ ہوجانے والی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی عمارت کے بچے کچے حصے بھی گرچکے تھے۔ شدید زخمیوں میں بٹہ گرام سیشن کورٹ کا چوکیدار منصف خان بھی شامل ہے جو ملبے سے کوئی چیز سر پر لگنے سے زخمی ہوا۔ تھائی ہوٹل کے مالک نعیم خان کا کہنا ہے کہ اس زلزلے کی شدت اور انداز آٹھ اکتوبر والے زلزلے جیسا تھا جب کہ دورانیہ کم تھا۔ آٹھ اکتوبر کے زلزلے کی وجہ سے پہلے ہی کھنڈر بن جانے والے بٹہ گرام میں یہ کہنا مشکل ہے کہ کون سے عمارتیں نئے جھٹکوں کا نشانہ بنی ہیں لیکن تھائی ہوٹل جہاں میں بی بی سی کے وسعت اللہ خان، رفیہ ریاض، احسان داور اور اظہر ترمذی پر مشتمل ٹیم کے ساتھ ٹھہرا ہوا ہوں، دیواروں پر اب کئی نئی دراڑیں پڑچکی ہیں۔
080623_nawaz_disqualify_update_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/06/080623_nawaz_disqualify_update_zs
نااہلی پر اپیل حکومت کرے گی:اشتر اوصاف
مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف اور ان کے بھائی شہبازشریف نے لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بنچ کے فیصلہ کے خلاف داد رسی کے لیے خود عدالتِ عالیہ سے رجوع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور شریف خاندان کے وکیل اشتر اوصاف علی کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کو وفاقی حکومت عدالت میں چیلنج کرے گی۔
پیر کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی بینچ نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے سے نااہل قرار دیا ہے جبکہ عدالتی حکم کے مطابق مسلم لیگ کے صدر اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف اس وقت تک وزارتِ اعلیٰ کے عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں جب تک ان پر لگائے جانے والے اعتراضات پر الیکشن کمیشن طرف سے فیصلہ سامنے نہیں آ جاتا۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل نے کرنے کا فیصلہ پیر کی رات ہونے والے ایک ہنگامی اجلاس میں کیا گیا جس میں نواز شریف، شہباز شریف ، اشتراوصاف علی ایڈووکیٹ، خواجہ حارث ایڈووکیٹ اور اکرم شیخ ایڈووکیٹ شامل ہوئے۔ اجلاس کے بعد اشتر اوصاف علی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف اپنے سابقہ موقف قائم ہیں اور پی سی او کے تحت حلف لینے والوں ججوں جج کو تسلیم نہیں کرتے اس لیے وہ اپنے بارے میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف داد رسی کے لیے عدالت سے رجوع نہیں کریں گے۔ اشتر اوصاف علی کے بقول نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کو وفاقی حکومت عدالت میں چیلنج کرے گی کیونکہ اس فیصلے سے صرف نواز شریف کو نااہل قرار نہیں دیا گیا بلکہ ایک نئی ریت اور روایت ڈالی گئی ہے جس پر پیپلز پارٹی کو تحفظات ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے پر مایوسی اور ناامیدی کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ وفاقی حکومت کا یہ مؤقف ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف درخواستیں ہائیکورٹ کے سامنے قابل سماعت نہیں تھیں۔ ادھر وزیراعلیْ پنجاب شہباز شریف نے بعد ازاں ایک نجی ٹی وی چینل سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ کٹ جائیں گے لیکن ان ججوں کو جج نہیں مانیں گے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ’عدلیہ کی آزادی اور انصاف کے لیے حکومت کیا ہر چیز بھی چلی جائے تو یہ بڑی قربانی نہیں ہے‘۔ یاد رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ سید خرم شاہ اور نور الہی کی طرف سے نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف دائر کی گئی دو علیحدہ علیحدہ درخواستوں پر کیا ہے۔لاہور ہائی کورٹ کا تین رکنی بینچ جسٹس عبدالشکور پراچہ، جسٹس ایم بلال خان اور جسٹس شبر رضا رضوی پر مشتمل تھا۔ عدالت نے پیر کے روز تین گھنٹے کی کارروائی کے بعد ان درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا اور سوموار ہی کی شام کو اس فیصلہ کا اعلان کر دیا۔عدالت کے فیصلہ سناتے ہی مسلم لیگ کے حامی وکلاء نے کمرہ عدالت میں ’پی سی او جج نامنظور‘ اور ’گو مشرف گو‘ کے نعرے لگائے۔یاد رہے کہ ان مقدمات میں نواز شریف اور شہباز شریف احتجاجاً پیش نہیں ہو رہے تھے۔ خیال رہے کہ شہباز شریف پنجاب کے علاقہ بھکر کی صوبائی اسمبلی کی نشست اڑتالیس سے بلامقابلہ منتخب ہونے کے بعد پنجاب کے وزیر اعلٰی چنے گئے ہیں جبکہ ان کے بھائی نوازشریف لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ ایک سو تئیس سے ضمنی انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ سماعت کے دوران درخواست گزار نور الہیْ کے وکیل ڈاکٹر قاضی محی الدین نے دلائل میں کہا کہ نواز شریف کے کاغذات نامزدگی اٹھارہ فروری کو ہونے والے انتخابات کے دوران بھی مسترد کیے گئے تھے۔ وکیل کا کہنا ہے کہ جب عام انتخابات میں کوئی امیدوار نااہل ہوجاتا ہے تو کس طرح اس امیدوار کے کاغذات ضمنی انتخابات میں اہل ہوسکتا ہے۔ وکیل کا کہنا ہے کہ نواز شریف عدالت سے سزا یافتہ ہیں اور اس لیے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔کارروائی کے دوران سید خرم شاہ نے وکیل رضا کاظم نے دلائل میں کہا کہ شہباز شریف کے خلاف الیکشن ٹربیونل نے اختلافی فیصلہ دیا ہے اس لیے شہباز شریف کے انتخاب لڑنے کی اہلیت کی جانچ پڑتال ہونی چاہئے۔ سماعت کے دوران مسلم لیگ نون لائیرز فورم کے صدر خواجہ محمود نے بنچ کے رکن جسٹس شبر رضا رضوی پر اعتراض کیا جس پر بنچ کے سربراہ جسٹس عبدالشکور پراچہ نے انہیں ہائی کورٹ آفس میں باضابطہ درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی جس پر فورم کے صدر نے اس معاملہ پر درخواست دائر کردی۔ فورم کی طرف سے دائر کردہ درخواست میں کہاگیا کہ جسٹس شبر رضا رضوی مسلم لیگ قاف کے سینیٹر ڈاکٹر خالد رانجھا کے ایسوسی ایٹ رہے ہیں اور انہیں اس وقت ہائی کورٹ کا جج مقرر نہیں کیا گیا تھا جب نوازشریف وزیراعظم اور شہبازشریف وزیراعلیْ پنجاب تھے۔
061028_qader_khan_interview
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2006/10/061028_qader_khan_interview
قادرخان، اسلامی تعلیمات پر ریسرچ
آپ بالی وڈ اداکار اور مکالمہ نویس قادر خان کو فلموں میں ایک کامیڈین یا ایک شفیق باپ کے کردار میں دیکھتے رہے ہیں لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات پر ریسرچ کررہے ہیں اور ایک اوپن یونیورسٹی قائم کرنے جارہے ہیں؟ کسے پتہ تھا کہ قادر خان جنہوں نے 700 سے زائد فلموں میں اداکاری کی اور مکالمے لکھے وہ کبھی اسلامیات پر ریسرچ بھی کریں گے؟
قادرخان کی شخصیت کا یہ پہلو شاید ابھی دنیا کے سامنے کھل کر نہیں آیا ہے۔ لوگ انہیں آج بھی ایک ہمہ جہت فنکار کے طور پر جانتے ہیں۔ کیونکہ وہ فلموں میں کبھی ویلن بنے تو کبھی کامیڈین، کبھی شفقت کرنے والے باپ کا کردار نبھایا تو کبھی ایک عیاش مرد اور بدعنوان سیاستداں۔ ان کے با معنی مکالموں پر ہال تالیوں سے گونج جاتے ہیں۔ لیکن وہی قادر خان آج دنیا کو قرآن کی تعلیمات اور خصوصی طور پر مسلمانوں کو عربی زبان سمجھانے اور دنیا کی ہر زبان میں اس کی ڈکشنری تیار کرنے کے لئےگزشتہ دس برسوں سے ریسرچ کر رہے ہیں۔ ن کی شخصیت کے اس پہلو کو سمجھنے اور ان کے اس ریسرچ ورک کی تفصیلات جاننے کے لئے بی بی سی اردو ڈاٹ کام نے ان سے ملاقات کی۔ ممبئی کے علاقے سانتاکروز میں اپنے دفتر میں اسلامی، دین و فقہ جیسی کتابوں سے اٹی پڑی کتابوں میں گھرے قادر خان روزانہ دس سے بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ قادر خان اس وقت لوگوں کو عربی زبان سکھانے، اس کے قواعد، اس کا صحیح تلفظ ادا کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے لئے وہ کتابیں لکھ رہے ہیں۔ پہلے وہ اردو، ہندی، انگریزی زبانوں میں کتاب لکھنے کا کام مکمل کریں گے پھر اسے دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کریں گے۔ قادرخان کہتے ہیں کہ چونکہ یہ ان کا خواب تھا، اس لئے فلموں میں اداکاری کرنے کے دوران ہی انہوں نے حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی سے عربی زبان میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ عربی کی ان کتابوں کی تکمیل کے بعد قادر خان پہلے ممبئی سے دور پونے میں اسکول قائم کریں گے جہاں ابتدائی تعلیم کے بعد اس کا ڈپلومہ اور ڈگری کورس ہو گا۔ رفتہ رفتہ یہ اسکول انڈیا سے باہر دبئی، لندن، کینیڈا میں قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے بعد اسلامی تعلیمات کے ساتھ ایک اوپن یونیورسٹی قائم کرنا بھی ان کے پروجیکٹ میں شامل ہے۔ اسکول قائم کرنے سے پہلے وہ کتابیں مکمل کرنا چاہتے ہیں جن میں عربی زبان کی گائیڈ سمیت ایک سو پچاس کتابیں ہیں۔ آخرعربی زبان سکھانے اور اسلامی تعلیمات عام کرنے کا خیال ان کے دل میں کیوں آیا؟ اس کا جواب تھا کہ ان کے والد عبدالرحمن جو عربی کے عالم تھے کہا کرتے تھے کہ ’تم چاہے جہاں کہیں چلے جاؤ فلم کرو یا تھیئٹر، ایک دن تمہیں لوٹ کر تعلیم اور مذہب کی طرف ہی آنا ہے اور ان کا یہ قول پورا ہوا۔’ قادرخان کے مطابق ’کسی بھی ملک کا قانون جاننے کے لئے اس ملک کی زبان میں اس کے قانون کی کتابیں پڑھنا لازمی ہے، اس لئے قرآن پاک کو سمجھنے کے لئے عربی زبان کا جاننا ضروری ہے۔’ قادرخان کے نزدیک قران اور حدیث یہ دونوں کتابیں انسانی زندگی کی مکمل ترجمان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کا دور مسلمانوں پر سب سے برا دور کہا جا سکتا ہے۔ انڈیا میں آج مسلمان غریب ہیں، اس لئے اس کی بڑی تعداد ان پڑھ ہی نہیں، جہالت کے دور سے گزر رہی ہے۔ اسے گھر میں سکون نہیں۔ چند لوگوں کی وجہ سے پوری مسلم قوم کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ بم دھماکوں کے خون کے چھینٹے عام مسلمانوں کے دامن پر پڑے ہیں۔ لیکن کیا آج کی نئی نسل عربی کی تعلیم حاصل کرے گی اور ان کا یہ پروجیکٹ کتنا مقبول ہو گا؟ لیکن قادرخان پراعتماد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ میں اپنے انداز میں ان تک لے جاؤں گا اور مجھے یقین ہے کہ یہ پروجیکٹ کامیاب ہو گا۔’ دنیا بھرمیں اسلام اور اس کی تعلیمات کے تئیں ایک احساس بیداری پیدا ہوا ہے اور ایسے میں ان کی لکھی کتابیں، بنائے گئے کیسیٹ اور اوپن یونیورسٹی مسلم اور غیرمسلم دونوں کی توجہ کا مرکز بنے گی۔ لوگ بذات خود قرآن کو آسان انداز میں سمجھنے کے قابل ہوجائیں گے۔ فلمی دنیا میں ان کا کوئی رول ماڈل نہیں ہے لیکن وہ اپنی زندگی کا رول ماڈل اپنے استاد سید شہاب الدین دسنوی کو مانتے ہیں جنہوں نے ان کی ہی نہیں، ان سے تعلیم حاصل کرنے والے ایسے کئی طلباء کی زندگی سنوار دی جن میں شہنشاہ جذبات دلیپ کمار بھی شامل ہیں۔ قادرخان کا رجحان ہمیشہ سے مذہب کی طرف رہا اس لئے وہ فلم کی شوٹنگ کے دوران سیٹ پر بھی نماز پڑھتے دیکھے گئے۔ انہیں ان کی فلمی کرئیر میں تین فلم فیئر ایوارڈ مل چکے ہیں اور درجنوں دوسرے ایوارڈ۔ ان کے تین بیٹے ہیں: قدوس، سرفراز اورشاہنواز۔ سرفراز نے فلم ’تیرے نام میں’ سلمان خان کا دوست بن کر فلمی دنیا میں قدم رکھ دیا لیکن شاہنواز ابھی دو نئی فلموں کے ساتھ فلمی دنیا میں قدم رکھ رہے ہیں۔
world-54623287
https://www.bbc.com/urdu/world-54623287
امریکی صدارتی انتخاب 2020: کیا امریکہ کے سپر پاور کے درجے کو صدر ٹرمپ سے خطرہ ہے؟
’ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے لیے ایک خطرہ ہیں۔۔۔ یہ امریکہ کی عالمی بالادستی کے لیے ایک خطرہ ہیں۔ اگر وہ صدر بن گئے تو امریکہ ایک سپر پاور نہیں رہے گا۔ امریکی تاریخ میں آج تک کسی صدارتی امیدوار نے امریکہ کے سپر پاور سٹیٹس کو سنجیدہ انداز میں چیلنج نہیں کیا، سوائے اِس ٹرمپ کے!‘
یہ کہہ کر میرا ایک امریکی دوست میز سے اٹھا اور میں یہ سوچتا رہ گیا کہ وہ غصے میں ہے یا حالتِ غم میں۔ ہماری یہ نشست واشنگٹن میں اکتوبر 2016 میں ہوئی تھی جب ٹرمپ بطور صدارتی امیدوار پہلی مرتبہ میدان میں تھے۔ آج جب چار سال بعد صدر ٹرمپ دوبارہ امریکی صدرات کا الیکشن لڑ رہے ہیں تو میرے ذہن میں وہی سوال دوبارہ سر اٹھا رہا ہے جو آج سے لگ بھگ چار برس قبل میرے امریکی دوست نے کیا تھا یعنی کیا صدر ٹرمپ امریکہ کے سپر پاور سٹیٹس کے لیے خطرہ ہیں؟ اس سوال کا جواب جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ کسی ملک کے ’سُپر پاور‘ ہونے کا مطلب کیا ہے؟ اور امریکہ کب اور کیسے سپر پاور بنا تھا؟ بین الاقوامی امور اور سیاست کے ماہرین لفظ ’سُپر پاور‘ کی کسی ایک تعریف پر متفق نہیں ہیں تاہم چند حوالوں سے اس بارے میں یکسانیت ضرور ہے۔ دوسری جنگِ عظیم سے پہلے طاقتور ممالک کے لیے ’گریٹ پاور‘ کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے۔ کسی ملک کے لیے لفظ سپر پاور کا استعمال سنہ 1945 کے بعد امریکہ اور سویت یونین کے لیے ہوا۔ یہ بھی پڑھیے امریکہ اب بھی ایشیا کی واحد فوجی سپرپاور ہے؟ ’چین کی موجودہ طاقت کا امریکہ سے کوئی موازنہ نہیں‘ امریکہ کے لیے ’انکل سیم‘ کی اصطلاح کیسے وجود میں آئی سنہ 2050 میں دنیا کی پانچ عالمی طاقتیں کون سی ہوں گی؟ عام فہم زبان میں بات کی جائے تو سپر پاور ایک ایسے ملک کو کہا جاتا ہے جو معاشی، عسکری، ثقافتی، سفارتی طور پر طاقتور ہو۔ سپر پاور ملک میں یہ صلاحیت ہونا بھی ضروری ہے کہ وہ جغرافیائی قید سے آزاد اور بیک وقت دنیا کے مختلف حصوں میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتا ہو۔ اب اس اعتبار سے امریکہ آج دنیا کی سب سے بڑی اور کچھ ماہرین کے خیال میں واحد سپر پاور ہے۔ امریکہ کے اس وقت دنیا بھر میں آٹھ سو سے زیادہ فوجی اڈے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق امریکہ اس وقت عسکری اعتبار سے دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو دنیا کے کسی کونے میں 'زمینی، بحری، فضائی یا خلائی جنگ کی منصوبہ بندی کر کے اسے کافی عرصے تک لڑ سکتا ہے۔‘ امریکہ کے اس وقت دنیا بھر میں آٹھ سو سے زیادہ فوجی اڈے ہیں امریکہ مجموعی عالمی عسکری اخراجات کا 38 فیصد تک خرچ کرنے والا ملک ہے، امریکہ کے عسکری اخراجات سنہ 2019 میں 732 ارب ڈالر تھے جو کہ دوسرے نمبر پر آنے والے ملک چین سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔ (انڈیا اور روس کے مقابلے میں امریکہ دس گنا زیادہ خرچ کرتا ہے)۔ معیشت کی بات کریں تو بھی کہانی کچھ ایسی ہی ہے۔ چین کی معیشت تیزی سے بڑھ رہی ہے مگر اگر ہم مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کو دیکھیں تو امریکہ کے حصے میں اس وقت دنیا کی پیداوار میں سے تقریباً ایک چوتھائی سے کچھ کم آتا ہے۔ امریکی معیشت کا حجم ’نومینل جی ڈی پی‘ کے لحاظ سے 21.44 ٹریلین ڈالر ہے جبکہ چین کی معیشت کا حجم 14.14 ٹریلین ڈالر ہے۔ (یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ پرچیزنگ پاور پیریٹی یعنی مقامی طور پر قوتِ خرید کے لحاظ سے چینی معیشت امریکی معیشت سے زیادہ بڑی ہے۔) سفارتی اثر و رسوخ کے حوالے سے امریکہ کا اس وقت کوئی ثانی نہیں ہے۔ امریکی کمپنیاں دنیا بھر میں کام کرتی ہیں اور سویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکی عقائد جیسا کہ جمہوریت کو عالمی سطح پر فوقیت حاصل ہے۔ امریکہ کے اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کہنے کو جہاں امریکی فوج نہیں پہنچ سکتی، وہاں بھی امریکی کوکا کولا کاروبار ضرور کر رہی ہوتی ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی جگہ ہو جہاں لفظ برگر یا مکڈونلڈز سے لوگ شناسا نہ ہوں۔ دنیا میں شاید ہی کوئی جگہ ہو جہاں لفظ برگر یا مکڈونلڈز سے لوگ شناسا نہ ہوں سی این این کے بارے میں آپ کی جو بھی رائے ہو، دنیا میں کوئی چینل بھی اس سے زیادہ مقامات پر اپنی نشریات نہیں پہنچاتا یا کون سا ملک ہے جہاں ہالی وڈ کی فلمیں نہیں دیکھی جاتیں۔ امریکہ سپر پاور کیسے بنا؟ یہ کہانی کافی دلچسپ ہے۔ جب 18ویں صدی کے آخر میں امریکی کالونیوں نے برطانوی راج سے آزادی حاصل کی تو امریکی اشرافیہ نوآبادیاتی نظام کے بالکل خلاف تھے۔ بطور صدر اپنے خطاب میں امریکہ کے بانیان میں سے ایک تھامس جیفرسن نے امریکی خارجہ پالیسی کے لیے یہ اصول وضع کیا تھا کہ ’امن، تجارت، تمام ممالک کے ساتھ ایمانداری سے دوستی اور کسی کے ساتھ بھی الجھنے سے گریز۔‘ مگر اپنے وجود کے ابتدائی 70 برسوں میں امریکہ براعظم شمالی امریکہ کے مشرقی کونے سے بڑھتا ہوا تقریباً پورے شمالی امریکہ تک پھیل گیا۔ امریکی پالیسی ساز اسے ’مینیفیسٹ ڈسٹنی‘ کہتے تھے جس کے مطابق امریکہ کو آباد کرنے والوں کا یہ حق تھا کہ وہ پورے براعظم پر پھیل جائیں اور بحر الکاہل سے بحرِ اقیانوس تک پہنچیں۔ اس پھیلاؤ میں براعظم کی مقامی آبادی کا کئی مرتبہ قتلِ عام کیا گیا۔ امریکی خانہ جنگی کے بعد ملک میں اس سوال پر کہ امریکہ کو دیگر دنیا کے معاملات میں دخل اندازی کرنی چاہیے یا نہیں، ایک شدید بحث چل نکلی۔ ایک طرف امریکہ نے روس سے الاسکا تو خرید لیا مگر امریکی کانگریس نے گرین لینڈ حاصل کرنے کی کوششوں کو روک دیا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ امریکی رائے عامہ میں توسیع پسندی کے حق میں آوازیں بڑھنے لگیں اور آخر کار امریکہ اپنی پہلی جنگ کا حصہ بنا جس میں کوبا کے معاملے پر امریکہ اور سپین میں جنگ ہوئی۔ اس دوران امریکہ نے گوائم، ہوائی، سموعا اور فلپائن کے بیرونی علاقوں پر قبضہ کیا اور خود ایک نوآبادیاتی پاور بن گیا۔ چند سال بعد امریکہ نے پاناما کینال کا کنٹرول بھی حاصل کیا۔ تھامس جیفرسن: ’امن، تجارت، تمام ممالک کے ساتھ ایمانداری سے دوستی اور کسی کے ساتھ بھی الجھنے سے گریز‘ پہلی جنگِ عظیم نے امریکہ کو عالمی سٹیج پر ایک اہم کھلاڑی بنا دیا۔ اس جنگ کے بعد یورپ کی معیشت تباہ ہو چکی تھی اور امریکی معیشت بڑھتی جا رہی تھی۔ اس جنگ میں امریکہ داخل تو قدرے دیر سے ہوا مگر اس کا کردار اتنا کلیدی رہا کہ امریکی صدر ووڈرو ولسن نے لیگ آف نیشنز کی شکل میں عالمی سربراہی امریکی گود میں ڈالنے کی کوشش کی۔ مگر آئیسولیشن ازم (یعنی الگ تھلگ رہنا) ابھی بھی امریکہ میں مقبول تھا اور امریکی کانگریس نے لیگ آف نیشنز میں شمولیت نہ اختیار کر کے صدر ولسن کا خواب توڑ دیا۔ ہٹلر کے عروج کے دوران امریکہ کی توجہ اپنے داخلی مسائل کی طرف رہی کیونکہ 30 کی دہائی میں عالمی کساد بازاری نے امریکی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ جاپانی سلطنت کے پھیلاؤ اور جرمنی کے عزائم کی وجہ سے امریکہ کو عالمی میدان میں اترنا ہی پڑا اور یہ ہوا دوسری جنگِ عظیم میں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکہ دنیا کی واحد بڑی معیشت تھا جو مکمل طور پر تباہ حال نہیں ہوئی تھی اور عسکری اعتبار سے دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے امریکہ نے جنگی لیڈر شپ بھی حاصل کر لی۔ مگر یہاں امریکہ نے ایک دو ایسی چالیں چلیں جن کی وجہ سے امریکہ کا سپر پاور سٹیٹس عالمی نظام کا حصہ بن گیا۔ معاشی اعتبار سے امریکہ نے دنیا بھر کے ممالک میں تجارت اور معیشت کو ریگولیٹ کرنے کے لیے بریٹن وڈ معاہدہ بنایا جس کا مقصد تو دنیا بھر کی معیشتوں کو مضبوط کر کے ایک اور عالمی جنگ روکنا تھا مگر اس سے آئی ایم ایف، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ بینک کے وجود کی بنیاد بھی ڈالی گئی جہاں امریکہ اور امریکی ڈالر کی عالمی بالادستی کو یقینی بنا لیا گیا۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی بنیاد تو رکھی گئی مگر امریکی اثر اس قدر زیادہ تھا اور ہے کہ یہ تنظیم امریکہ کے بغیر آج بھی ناکارہ ہے۔ امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین نیٹو سنہ 1949 میں نیٹو کے قیام کے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے دیگر عالمی رہنماؤں کے ساتھ عسکری اعتبار سے امریکہ نے نیٹو بنایا جس کا مقصد سویت یونین کے پھیلاؤ کو روکنا تھا مگر اس کے ذریعے ویتنام اور افغانستان جیسے ممالک میں مداخلت کی گئی۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کے دوران امریکہ نے لاطینی امریکہ میں اور دیگر کئی ممالک جیسا کہ ایران اور سعودی عرب میں آمرانہ حکومتوں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ جہاں کا ڈکٹیٹر پسند نہیں آیا، جیسا کہ یوگوسلاویا، وہاں مخالف باغیوں کی مدد بھی کی۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ نے سینکڑوں تنازعات میں مداخلت کی اور دنیا کے ہر کونے میں کسی نہ کسی قسم کا اتحاد قائم کر لیا۔ سوویت یونین کی شکست کے بعد امریکہ کے پاس ایک موقع تھا کہ وہ اپنے بین الاقوامی معاہدوں سے دستبردار ہو جاتا، مگر امریکہ نے ایسا نہ کیا۔ امریکی صدور ریگن، جارج بش سینیئر، بل کلنٹن، اور جارج بش جونیئر نے یہی فلسفہ اپنایا کہ امریکہ کو دنیا میں امن ساز طاقت بننا ہے۔ مگر دنیا میں کئی لوگ اس رائے کو درست نہیں مانتے ہیں اور اسے امریکی سامراجی عزائم چھپانے اور امریکی معاشی مقاصد حاصل کرنے کا بہانہ تصور کرتے ہیں۔ اور اب آ جائیں 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات پر۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو ممالک سے کہا ہے کہ وہ اپنے دفاعی اخراجات کا زیادہ حصہ خود برداشت کریں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی بار کہا ہے کہ شاید یہ بہتر ہو کہ ہم جاپان اور جنوبی کوریا کو کہیں کہ وہ خود شمالی کوریا کے خلاف اپنا دفاع کریں۔ صدر ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدوں سے دستبردار ہوئے ہیں، شمالی امریکہ میں تجارتی معاہدے نیفٹا کو ازسرِنو تشکیل دینا چاہتے ہیں، افغانستان سے فوجیں نکالنا اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مداخلت سے پیچھے ہٹنا چاہتے ہیں۔ وہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اصول بھی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح کی کئی اور مثالیں ہیں جن کے تحت ٹرمپ امریکہ کے ان اتحادوں اور معاہدوں کے اس نازک جال کو ادھیڑ رہے ہیں جن کے ذریعے وہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کی سب سے بڑی اور واحد سپر پاور بنا تھا۔ میں آج پھر سوچتا ہوں کہ میرا وہ امریکی دوست جو آج سے چار سال پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں پیش گوئیاں کر رہا تھا، آج وہ غصے میں ہو گا یا حالت غم میں۔
science-52447125
https://www.bbc.com/urdu/science-52447125
کورونا وائرس اور حفظان صحت: لوگوں کے ہاتھ نہ دھونے کی کیا وجہ ہے؟
دنیا میں اگر کروڑوں نہیں تو لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو ہاتھ نہیں دھوتے۔ وہ صفائی کے اتنے سادہ سے طریقے کو نہیں اپناتے اور ہم انھیں ہاتھ دھونے پر کیسے مائل کر سکتے ہیں؟
کورونا سے بچاؤ کے لیے ہاتھ دھونے کا کہا جاتا ہے فاکس نیوز کے ایک مشہور اینگر پیٹ ہیگسیتھ نے 2019 میں کہا کہ ’میرا نئے سال کا عہد یہ ہے کہ میں ایسی چیزیں آن ایئر کہوں گا جنھیں میں پہلے کہنے میں ہچکچاتا تھا۔‘ پیٹ ہیگستھ نے اپنے بارے میں جو پہلی بات کہی اس سے انٹرنیٹ پر آگ سی لگ گئی۔ انھوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ میں نے پچھلے دس برسوں سے ہاتھ نہیں دھوئے۔‘ ان کے اس انکشاف پر خوب بحث ہوئی۔ ہیگسیتھ اکیلے ایسے شخص نہیں ہیں جو ہاتھ دھونا معیوب سمجھتے ہیں۔ اداکارہ جنیفر لورینس نے 2015 میں اس وقت لوگوں کو حیران کیا جب انھوں نے کہا کہ وہ باتھ روم میں جانے کے بعد کبھی ہاتھ نہیں دھوتیں۔ ان دونوں لوگوں نے بعد میں کہا کہ انھوں نے مذاق میں ایسا کہا تھا۔ کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟ کورونا وائرس کا ٹیسٹ کیسے ہوتا ہے اور کیوں ضروری ہے؟ مدافعتی نظام بہتر بنا کر کیا آپ کووِڈ 19 سے بچ سکتے ہیں؟ ’امیونیٹی پاسپورٹ‘ کورونا کی وبا کو پھیلا سکتے ہیں: ڈبلیو ایچ او کیا کورونا کے شدید علیل مریضوں کا علاج صحت یاب مریضوں کے خون سے ممکن ہے؟ کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟ فاکس نیوز کے ایک مشہور اینگر پیٹ ہیگسیتھ نے 2019 میں کہا کہ میرا خیال ہے میں نے پچھلے 10 برسوں سے ہاتھ نہیں دھوئے۔‘ لیکن بعد میں انھوں نے اسے مذاق قرار دیا 2015 میں نارتھ شمالی کیرولائنا میں ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر نے کہا کہ ان کی نظر میں ریستوران کے ملازمین کے لیے بار بار ہاتھ دھونے کی شرط غیرضروری ہے۔ دس برسوں تک ہاتھ نہ دھونا تو شاید کوئی ورلڈ ریکارڈ ہو لیکن یہ ہر کسی کے مشاہدے میں ہے کہ باتھ روم میں جانے کے بعد ہاتھ نہ دھونے کا رجحان کافی پھیلا ہوا ہے۔ 2015 میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ باتھ روم جانے کے بعد، جہاں انسانی فضلہ ہاتھ میں لگنے کے امکانات ہوتے ہیں، صرف 26 فیصد لوگ ایسے ہیں جو رفع حاجت کے بعد صابن سے ہاتھ دھوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 74 فیصد ایسا نہیں کرتے۔ عام بات جسے اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن کے ایک ماہر رابرٹ انگر کے مطابق یہ ایک سادہ سا رویہ ہے۔ رابرٹ انگر کہتے ہیں کہ ہم 25 برسوں سے لوگوں کو ہاتھ دھونے پر قائل کر رہے ہیں لیکن اب بھی باقاعدگی سے ہاتھ دھونے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق صرف 27 فیصد آبادی ایسی ہے جس کے پاس صابن کے ساتھ بیت الخلا کی ضروری سہولیات ہیں ہاتھ نہ دھونے کی ایک وجہ تو وسائل کی کمی ہو سکتی ہے۔ ایسے غریب یا ترقی پذیر ممالک کے شہریوں کے لیے صابن کی عدم دستیابی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق یہاں کی صرف 27 فیصد آبادی ایسی ہے جس کے پاس صابن کے ساتھ بیت الخلا کی ضروری سہولیات ہیں۔ لیکن ایسے ممالک جہاں یہ مسئلہ نہیں ہے وہاں لوگ ہاتھ دھونے میں کیوں عار محسوس کرتے ہیں؟ ڈبلیو ایچ اور اور یونیسیف کے مطابق دنیا کی تین ارب آبادی کے گھروں میں ہاتھ دھونے کی مناسب سہولیات موجود نہیں ہیں۔ امیر ممالک میں بھی باتھ روم میں جانے کے بعد صابن سے ہاتھ دھونے کی شرح 50 فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار حیران کن ہیں۔ زندگی بچانے والی ترکیب انسانی تاریخ میں ہاتھ دھونے کی عادت نے انسانی زندگی کی طوالت کو تقریباً دگنا کر دیا ہے۔ برطانیہ جیسے امیر ممالک میں اب اوسط عمر 80 سال کے قریب ہے۔ اسی برطانیہ میں 1850 میں جب پہلی بار ہاتھ دھونے کی عادت کو فروغ دیا گیا اس وقت یہاں اوسط عمر صرف 40 برس کے لگ بھگ تھی۔ اگر آپ باقاعدگی سے ہاتھ دھوتے ہیں تو آپ وبائی امراض اور سپر بگز سے بھی بچ سکتے ہیں۔ ہاتھ دھونے سے سانس لینے سے متعلق دوسری بیماریوں سے بھی بچا جاسکتا ہے 2006 میں ہونے والے ایک جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ باقاعدگی سے ہاتھ دھونے سے آپ کے سانس کی بیماریوں سے بچنے کے امکانات چھ سے 44 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔ کووڈ 19 کی وبا کے دوران سائنسدانوں نے یہ محسوس کیا کہ ہاتھ دھونے کے عادت نے برطانوی عوام کو اس وبا سے بچنے میں مدد کی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ تو ہینڈ سینیٹائزر کے لیے 360 پاؤنڈ خرچ کرنے کے لیے تیار ہیں جبکہ کچھ ہاتھ دھونا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اگر نئے وائرس کے پھیلاؤ اور ہوٹل کے کمرے میں موجود ریمورٹ کنٹرول کے ساتھ انسانی فضلہ لگا ہونے کی کہانیاں بھی ہمیں ہاتھ دھونے پر آمادہ نہیں کر سکتیں تو کیا چیز ہمیں ایسا کرنے کی ترغیب دے سکتی ہے۔ باتھ روم میں جانے کے بعد ہاتھ نہ دھونے کی عادت کو آپ صرف سستی اور کاہلی سے تعبیر نہیں دے سکتے۔ ایسے کئی نفسیاتی عناصر ہیں جو خفیہ طور پر لوگوں کو ہاتھ دھونے سے روکتے ہیں۔ اس میں لوگوں کے سوچنے کا انداز اور خود کو دھوکہ دینے والی خوش فہمی بھی شامل ہیں۔ ’عام‘ سوچنا اور گندگی سے گھن نہ آنا دیگر وجوہات ہوسکتی ہیں۔ رابرٹ انگر کے مطابق ایک مسئلہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں آپ ہاتھ دھوئے بغیر کئی مرتبہ بیمار نہیں ہوتے۔ ہسپتال کا عملہ بھی کبھی کبھار ہاتھ دھونے میں غفلت دکھاتا ہے خوش فہمی سے بچیں خوش فہمی کی ایک وجہ وہ انسانی رویہ ہے کہ ہم بُری چیزوں سے بچ جائیں گے اور یہ تو دوسرے لوگوں کے لیے ہی ہیں۔ یہ رویہ کسی ایک قوم، قیبلے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ عالمگیر ہے اور دنیا کے کونے کونے میں پایا جاتا ہے۔ انسانوں میں اس کی ایک واضح شکل تمباکو نوشی ہے یا کچھ لوگ ایسے کریڈٹ کارڈ لینا پسند کرتے ہیں جو انھیں مہنگا پڑتا ہے۔ لوگ ان کے نقصانات کو جانتے ہوئے بھی یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ انھیں اس سے نقصان نہیں ہو گا۔ 2009 میں جب سوائن فلو کی وبا کے دوران امریکہ میں ایک بڑی یونیورسٹی نے ایک تحقیق کی جس میں یہ سامنے آیا کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کہ سمجھتی تھی کہ یہ وبا انھیں متاثر نہیں کر سکتی اور اسی وجہ ان میں ہاتھ دھونے کی شرح دوسری عمر کے لوگوں کی نسبت بہت کم تھی۔ یہ خوش فہمی یا پرامیدی ان طالب علم نرسوں میں بھی پائی گئی جنھیں صفائی ستھرائی کی تربیت دی جا رہی تھی۔ ان نرسوں کو صفائی کے حوالے سے اپنی تعلیم پر بہت اعتماد تھا، ایسے ہی جیسے خوراک کے کاروبار سے منسلک لوگ اپنی عدم صفائی سے دوسرے لوگوں میں بدہضمی کے امکانات کو بہت کم اہمیت دیتے ہیں۔ سماجی رویوں کی اہمیت ہے؟ ہاتھ دھونے کی نفسیات میں مختلف ثقافتی رویوں کا بہت عمل دخل ہے۔ اس حوالے سے فرانس میں ایک تحقیق ہوئی جس میں 63 ممالک کے 64002 لوگوں نے شرکت کی۔ اس سروے میں لوگوں سے یہ سوال پوچھا گیا: ’کیا آپ ٹوائلٹ کے استعمال کے بعد لازمی طور پر صابن سے ہاتھ دھوتے ہیں؟‘ جاپان، جنوبی کوریا، ہالینڈ سے اس تحقیق میں شریک آدھے سے بھی کم لوگوں نے اس سے اتفاق کیا۔ سعودی عرب وہ واحد ملک تھا جہاں کے شرکا کی 98 فیصد نے اتفاق کیا کہ وہ ٹوائیلٹ کے استمعال کے بعد وہ عادتاً صابن سے ہاتھ دھوتے ہیں۔ عورتوں میں ہاتھوں کی صفائی مردوں سے زیادہ ہاتھ دھونے کی عادت کے بارے میں ہونے والی تحقیققات میں خواتین ہمیشہ مردوں سے بہتر پائیں گئیں۔ کورونا کی حالیہ وبا کے حوالے سے ایک سروے یہ سامنے آیا کہ باون فیصد مرد اور 65 فیصد عورتیں باقاعدگی کے ساتھ اپنے ہاتھ صاف کرتی ہیں۔ ماہر صفائی انگر کے خیال میں ہاتھ دھونے کے حوالے سے مختلف عادات کی وجہ وہ سماجی رویے ہیں جو مختلف معاشروں میں پائےجاتے ہیں۔ 'یہ پیچیدہ نفسیاتی نظام ہیں جس میں لوگ وہ کرتے ہیں جو دوسرے لوگ کر رہے ہوتے ہیں اور لوگ اس کے بارے میں حساس ہوتے ہیں کہ اگر ایسا نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے۔‘ اگر ہم باتھ روم میں دوسرے لوگوں کو ہاتھ دھوتا ہوا دیکھتے ہیں تو ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں لیکن جب کوئی بھی نہیں کر رہا ہوتا ہے تو آپ پر بھی پریشر ہوتا ہے کہ آپ بھی ایسا نہ کریں۔ عوامی جگہوں پر عورتوں اور مردوں کے لیے الگ الگ ٹوائیلٹ ہوتے ہیں اور شاید دونوں صنفوں ہاتھ دھونے کے بارے میں مختلف رویوں کا اظہار ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق خواتین مردوں کی نسبت زیادہ ہاتھ دھوتی ہیں عقل بمقابلہ عملی سوچ سائنسدانوں کی جانب سے ہاتھ نہ دھونے کی نفسیات کو سمجھنے کی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ ہسپتالوں میں لوگوں کی زندگیوں کو بچانے کی تربیت حاصل کرنے والوں میں سے بھی اگر کچھ ہاتھ دھونے کی بنیادی سی عادت کو اپنانے سے گریز بہت سے مہلک وائرسوں کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔ دوہزار سات میں سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ آسٹریلیا کے ہسپتالوں میں صرف دس فیصد ایسے سرجن ہیں جو آپریشن شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتے ہیں اور آپریشن کے بعد ان میں ہاتھ دھونے کی شرح 30 فیصد ہے۔ ایک حالیہ ریسرچ میں بھی ڈاکٹروں میں اسی طرح کے رجحانات سامنے آئے ہیں۔ 2019 میں کیوبیک کے ہسپتال میں ہونے والی ریسرچ میں یہ سامنےآیا ہے کہ ہیلتھ کیئر ورکروں میں صرف 33 فیصد ایسے ہیں جن میں ہاتھ دھونے کی عادت ہے۔ حتیٰ کہ سعودی عرب جہاں ہاتھ دھونے کے رواج پر بہت سختی سے عمل ہوتا ہے، وہاں کا میڈیکل عملہ بھی اکثر ہاتھوں کی صفائی کا زیاد خیال نہیں رکھتا۔ عام لوگوں کی طرح تمام ڈاکٹر بھی بے قصور نہیں ہیں۔ 2008 میں ہونے والی ایک تحقیق میں معلوم ہوا کہ ایسے ڈاکٹروں میں ہاتھ دھونے کی شرح زیادہ ہے جو واجدانی کیفیت کے سہارے فیصلہ کرتے ہیں ایسے اکٹروں کی نسبت جو فیصلہ کرتے ہوئے استدال کا سہارا لیتے ہیں۔ اس تحقیق سے ہمیں یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہاتھ دھونے سے متعلق دلیلیں شاید لوگوں کو ہاتھ دھونے پر قائل کرنے کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔ ایک ماہ پہلے برازیل میں ہونے والی تحقیق میں ایک نیا وصف سامنے آیا ہے اور وہ ہے باضمیری۔ اس تحقیق کے نتائج کے تحت باضمیر لوگ 'سماجی فاصلوں' اور ہاتھ دھونے کے حوالے سے سب سے بہتر نظر آئے۔ زیادہ دھیان رکھنے والا شخص ہی ہاتھ دھونے کو زیادہ فوقیت دے سکتا ہے کراہت کا عنصر اور آخر میں ہاتھوں کی صفائی کے حوالے سے کراہت بھی ایک اہم عنصر ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو کیڑوں مکوڑوں سے آلودہ جگہ پر گوشت کے ٹکڑے دیکھ کر اگر آپ کو کراہت محسوس ہوتی ہے تو یہ احساس آپکو ایسا کوشت کھانے سے روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اسی طرح اگر ٹرین میں کوئی ایسا مسافر دیکھ کر جس نے گندہ ٹشو ہاتھ میں پکڑ رکھا ہے اور آپ اپنی جگہ بدل لیتے ہیں تو آپ مرض آور جراثیموں سے بچ سکتے ہیں۔ چڑیا گھر میں چیمپینزی اپنی گندگی بھی کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن وہ بھی کسی اور کے جسم سے نکلے ہوئے مادے سے کراہت محسوس کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ کراہت صرف انسانی تمدن کی پیدوار نہیں ہے بلکہ اس کا ارتقا انسانی تحفظ کے لیے ہوا ہے۔ چمپینزی بھی گندگی کو بُرا سمجھ کر ایک دوسرے سے دور ہوسکتے ہیں انسانوں میں دوسرے جذبات کی طرح کراہت کا احساس بھی مختلف ہوتا ہے۔ کراہت درحقیقت ایک طاقتور قوت ہے جو ہمارے سیاسی فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ مثال کے طور ایسے لوگ جن میں کراہت کا احساس بہت شدید ہوتا ہے وہ اکثر کنزرویٹو پارٹی کے حامی ہوتے ہیں۔ حسب توقع تمام تحقیقات اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ ایسے لوگ جو زیادہ نازک مزاج نہیں ہیں ان میں ہاتھ نہ دھونے کی عادت زیادہ پائی جاتی ہے اور جب ہاتھ دھوتے بھی ہیں تو زیادہ دیر تک ہاتھ پانی کے نلکے کے نیچے نہیں رکھتے۔ ایتھوپیا اور ہیٹی میں ہونے والی ایک ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کراہت کی شدت کے احساس کا اس بات سے زیادہ تعلق نہیں کہ لوگ حفظان صحت کے اصولوں کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں یا نہیں۔ ہاتھ دھونے کو فروغ دینے والی تشہیری مہم کارآمد ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی ان تعصبات پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے پچھلے کچھ ہفتوں میں صحت کے ادارے، خیراتی ادارے، سیاستدان اور عام لوگوں نے مل کر ہاتھ دھونے کی ایک ایسی پرجوش مہم چلا رکھی ہے جس کی کوئی حالیہ مثال ہمارے سامنے موجود نہیں ہے۔ مشہور اداکار بھی اس مہم کا حصہ بن گئے اور یہ صحیح ہاتھ دھونے کے طریقے بتانے لگے ہیں۔ انٹرنیٹ صفائی کی مہم سے بھر پڑا ہے، حتیٰ کہ پورن ویب سائٹس بھی صفائی کی مہم میں شریک ہو گئی ہیں۔ پورن ہب نامی ویب سائٹ بھی ہاتھوں کی صفائی کے حوالے سے اپنے صارفین کو طریقے سکھا رہی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حفظان صحت کے منافی نفسیاتی رویوں کو جانتے ہوئے حفظان صحت کی مہم سے لوگوں کو ہاتھ دھونے پر مائل کیا جا سکتا ہے؟ آسٹریلیا کی میگوائر یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر سٹیونسن کے خیال میں ہاتھ دھونے کے عمل کو زیادہ پرکشش اور پرمسرت بنانے کے بجائے کراہت کے راستے پر چل کر لوگوں کو اس طرح مائل کیا جانا چاہیے۔ 2009 میں پروفیسر سٹیونسن نے کچھ طالب علموں پر ایک تجربہ کیا۔ ان طالب علموں سے ہاتھ دھونے کی عادات اور کراہت کے احساس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بعد ان طالب عملوں سے کہا گیا کہ وہ ان تین فلموں میں سے ایک کو منتخب کر کے اسے دیکھیں۔ جو تین فلمیں طالب علموں کو پیش کی گئیں ان میں ایک خاص تعلیمی ویڈیو تھی جبکہ دوسری ویڈیو کراہت انگیز مناظر سے بھرپور جبکہ تیسری ایک غیر متعلق فطرت پر ڈاکومنٹری تھی۔ گندگی سے بھرے مناظر دیکھنے سے ہم ہاتھ دھونے کی اہمیت جان سکتے ہیں ایک ہفتے کے بعد ان طالب علموں کو واپس بلایا گیا اور ایک ہی میز پر بٹھا دیا گیا۔ ان کے قریب ہی جراثیم کش وائپس، اورالکوہل ہینڈ جیل بھی رکھ دی گئیں۔ پھر ان طالب علموں کو ایسی کراہت انگیز چیزیں پیش کی گئی جنھیں عام طور پر لوگ ہاتھ لگانا بھی پسند نہیں کرتے۔ اس تجربے میں طالب علموں سے کہا گیا کہ ان کراہت انگیز چیزوں کو چھوئیں اور پھر انھیں پلیٹ میں کھانے کی چیز پیش کی گئی۔ تحقیق کار یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ رضاکار کھانے سے پہلے قریب ہی پڑے ہوئے جراثیم کش وائپس یا الکوہل جیل کا استمعال کریں گے یا نہیں۔ ایسے طالب علم جنھوں نے کراہت والی فلم دیکھی تھیں وہ ہاتھوں کی صفائی کی جانب زیادہ مائل تھے۔ اس تحقیق میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ کراہت والی تکنیک کو عام زندگی میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کچھ باتھ رومز میں خفیہ طریقے سے فلمنگ کر کے تحقیق کار اس نتیجے پر پہنچے کہ ایسے لوگ ہاتھ دھونے پر زیادہ مائل تھے جنھیں نے ایسے پوسٹر رکھے تھے جن میں روٹی پر پاخانہ لگا ہو۔ ایسے پوسٹرز کا مقصد یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ اگر آپ ہاتھ نہ دھوئیں تو جراثیم کیسے پھیلتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ رضاکار ہاتھ دھونے میں زیادہ پُرجوش دکھائی نہیں دیے جنھوں نے تعلیمی نوعیت کی ویڈیو دیکھی تھیں۔ کسی کو نہیں معلوم کہ ہاتھ دھونے کے بارے میں ہونے والے تجربے کے دوران جو چیزیں سیکھی گئی ہیں اس پر کتنے عرصے تک کاربند رہتے ہیں۔ لیکن یہ واضح ہے کہ صرف زبانی ہدایت کرنے سے انھیں مستقل ایسا کام پر نہیں لگایا جا سکتا لیکن اگر انھیں کراہت کے ذریعے جھٹکا دینے والی تکنیک کو اپنایا جائے تو وہ زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے۔ اب جب کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ ہاتھ دھونے پر توجہ دے رہے ہیں لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا اسے عادات میں بدلا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ہاتھ دھونے کے موجودہ رجحان کو برقرار رکھا جا سکتا ہے یا نہیں لیکن ایک چیز واضح ہےکہ اب مشہور شخصیات آ کر لوگوں کو یہ نہیں بتا پائیں گیں کہ انھوں نے اتنے عرصے سے ہاتھ ہی نہیں دھوئے۔
041025_fashion_styles_yourviews
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2004/10/041025_fashion_styles_yourviews
فیشن اور جینے کا سلیقہ
انڈیا اور پاکستان میں حالیہ برسوں میں دلہن کے لباس میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں۔ عروسی ملبوسات میں پہلے روایات کا زیادہ اثر ہوتا تھا مگر اب کچھ عرصے سے جدیدیت کا ایک عنصر صاف دکھائی دے رہا ہے۔ دلہن کے لباس میں مغربی فیشن کے اثرات بھی کہیں کہیں نظر آنے لگے ہیں۔
فیشن میں اس تبدیلی کی وجوہات فلمیں، سیٹیلائٹ ٹی وی پروگرام، فیشن کے غیرملکی رسالوں کی مقبولیت وغیرہ ہیں۔ فیشن میں تبدیلیاں صرف شادی کے جوڑوں تک محدود نہیں بلکہ روزمرہ کی زندگی میں بھی نمایاں ہورہی ہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ فیشن انڈسٹری عام لوگوں کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کررہی ہے اور فیشن کی وجہ سے اب عوام بھی ایک سلیقے سے جینے کا ڈھنگ سیکھ رہے ہیں۔ آپ کی نظر میں گزشتہ چند عشروں میں لباس، فیشن اور عوام کے طرز زندگی میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں اور کیوں؟ ایک عشرے قبل آپ کون سا لباس پہنتے تھے اور اب آپ کی لباس کیا ہے؟ کیا آپ کی نظر میں یہ تبدیلیاں ذرائع ابلاغ کی وجہ سے آرہی ہیں؟ کیا فیشن کے لئے روایات کو ترک کردینا ٹھیک ہے؟ یہ فورم اب بند ہوچکا ہے۔ قارئین کی آراء نیچے درج ہیں۔ آصلہ صدیقہ، کراچی: فیشن انڈسٹری نے ہم کو جینے کا نہیں، رونے کا ہنر سکھایا ہے کیونکہ اس صنعت کی بنیاد ہی سرمایہ داری پر ہے جس میں امیر امیر اور غریب غریب ہوتا جا رہا ہے۔ میڈیا ہمیں یہ دکھا رہا ہے کہ فیشن بہت اچھی چیز ہے اور فیشن کرنے والے کامیاب اور خوش لوگ ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ مومنہ عروج، امریکہ: فیشن آج کل کی ضرورت ہے۔ جوں جوں وقت بدلا ہے، لباس بھی بدلا ہے۔ میری نظر میں جس طرح ملک ترقی کر رہا ہے، یہ سب ٹھیک ہے۔ نوید عاصم، جدہ: ایک عشرہ پہلے میں پندرہ سال کا تھا اور طالبِ علم تھا اور اب پچیس سال کا ہوں اور ملازمت کرتا ہوں۔ لباس کا سائز اور انداز دونوں ہی بدل گئے ہیں۔ کیونکہ اب میں تھوڑا بڑا ہوں۔ روایت کوئی مذہب کا حصہ تو نہیں کہ بدل نہیں سکتی۔ یہ تو علاقے اور ماحول پر منحصر ہے کہ کون سا لباس پہنیں۔ علی عمران شاہین، لاہور: بھائی ہم تو میڈیا ویڈیا سے متاثر ہونے والے لوگ نہیں۔ کیوں کسی کو دیکھ کر اپنا آپ بدلیں۔ ہم جیسا پہنتے تھے، ویسا ہی پہنتے ہیں اور ایسا ہی پہنتے رہیں گے۔ فیشن شوز لوگوں کے مسائل میں اضافہ کا باعث ہیں اور یہی حال میڈیا کا ہے۔ میرا خیال ہے کہ انسان کو دوسروں کی پسند کی خاطر اپنی مرضی تبدیل نہیں کرنی چاہیے۔ آفتاب خانزادہ، حیدرآباد: فیشن میں روایت کو زندہ رہنا چاہیے کیونکہ ہماری روایات اچھی اور تہذیب کے دائرے میں ہوتی تھیں۔ فیشن کے اس نئے رحجان پر قابو پانا چاہیے کیونکہ یہ ہمیں روایت سے دور لے جا رہا ہے۔ فیشن میں بے راہ روی کی ذمہ داری میڈیا پر ہی ہے۔ عفاف اظہر، ٹورنٹو: فیشن کرنا جائز ہے مگر اسی حد تک کہ انسان انسان ہی لگے نہ کہ کوئی اور مخلوق جیسا کہ آج کل ہورہا ہے۔ اچھی خاصی شکلیں فیشن کے چکر میں بھیانک ہوجاتی ہیں۔ فرزانہ اسلم، ٹورنٹو: فیشن اور اپنی زندگی بہتر بنانے میں ایک واضح فرق ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ جب تک فیشن اچھا محسوس کرنے اور آپ جو پہنتے ہیں، اس پر توجہ دینے کے لیے کرتے ہیں تو یہ آپ تک محدود رہتا ہے۔ لیکن جب آپ معاشرے کے دیکھا دیکھی فیشن صرف دکھاوے کے لیے کرتے ہیں تو نہ صرف آپ اپنا بوجھ بڑھا لیتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی زندگی دشوار بنا دیتے ہیں جو اتنا خرچ نہیں کر سکتے۔ لوگوں کے اس ان دنوں زیادہ پیسہ ہے۔ کچھ برس پہلے مجھے رنگوں کا ویسے اندازہ نہیں تھا لیکن آج میڈیا ہماری زندگی پر بہت اثرانداز ہورہا ہے اور حقیقت کی اصل شکل نہیں دکھا رہا۔ ’ٹرینڈی‘ ہونے میں کوئی حرج نہیں لیکن اپنی حدود اور اقدار سے باہر نکل جانا درست نہیں ہے۔ فواد احمد قریشی، پاکستان: تبدیلیاں آئی ہیں لیکن زیادہ تر خواتین کے فیشن میں۔، مرد تو ابھی تک وہی پتلون یا شلوار قمیض ہی پہنتے ہیں۔ عورتوں نے تو اپنی روایت ہی بدل ڈالی ہے۔ جسم کے دکھانے پر لڑکی کو ’ماڈ‘ اور بہتر کپڑے پہننے والی سمجھا جاتا ہے اور اس میں میڈیا کا بہت ہاتھ ہے۔ نبیل رانا، سیالکوٹ: جی ہاں فیشن ہماری زندگی میں بہت اہم ہے اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ ہم پر بہت اثر پذیر ہورہا ہے۔ عمران خان سیال، پاکستان: پہلے لوگ فیشن اس لیے کرتے تھے کہ وہ بار بار ایک جیسے کپڑے پہن کر بور ہوجاتے تھے لیکن اب یہ جسم دکھانے کا طریقہ بنتا جارہا ہے۔ طاہر نواز، پاکستان: دوسرے لوگوں سے بہتر نظر آنے کے لیے ہم فیشن کرتے ہیں اور فیشن ہی روایت ہے کیونکہ ہر روایت کبھی نہ کبھی فیشن رہی ہوتی ہے۔ یاسر ہزاروی، اٹک: وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی تو آتی ہی ہے اور ویسے بھی ہم لوگوں پر انگریزوں کا رنگ بہت چڑھتا ہے کنول زہرا، لاہور، پاکستان: رواج چاہے کسی بھی ملک کا ہو، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہے۔ پہلے یہ تبدیلیاں کسی اور علاقے کے لوگوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے آتی تھیں لیکن اب چونکہ دنیا ایک گلوبل ولیج میں بدل چکی ہے تو یہ تبدیلیاں تیزی کے ساتھ رونما ہورہی ہیں اور ذرائع ابلاغ اس میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ تبدیلیوں کو قبول کرنا ہی دنیا میں خوش رہنے کا اچھا اصول ہے۔ پھر روایات تو بدلتی ہی رہتی ہیں۔ محمد فیصل، چکوال: فیشن جنسی ترغیب کا شریفانہ انداز ہے۔ یہ غربت کا مذاق ہے اور تباہی کا راستہ ہے۔ زہرہ جبیں، بشاور: فیشن کے بغیر عورت نامکمل ہے۔ ہمارے ہاں فیشن میں اتنی ترقی نہیں ہوئی جتنی کہ ہونی چاہیے۔ نعمان احمد، راوالپنڈی: فیشن میں نت نئی تبدیلیوں کی وجہ اگرچہ میڈیا تو ہے لیکن اسکے پیچھے دراصل سرمایہ دار کا چالاک ذہن ہے۔ برصغیر جیسے پس ماندہ خطے میں جہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں، وہ بھلا کیا فیشن کریں گے۔ تہذیب کے دائرے میں رہ کر فیشن کرنا کوئی بری بات نہیں اور مثبت تبدیلیوں کو خوش آمدید بھی کہنا چاہیےلیکن کسی بھی نئے فیشن کو اپنانے سے قبل اگر اپنے معاشرے کی روایات کو بھی مدِّ نظر رکھ لیا جائے تو بہت بہتر ہے ورنہ مشرق اور مغرب میں کیا فرق رہ جائے گا۔ صوفیہ بٹ، ناروے: مجھے فیشن کے حساب سے کپڑے پہننا اچھا لگتا ہے لیکن مجھے وہ فیشن ہرگز نہیں پسند جو ہماری ثقافت کے خلاف ہو۔ آج کل فیشن صرف جنسی کشش کو ابھارنا ہی رہ گیا ہے۔ راحیل علوی، لاہور: یہ بات درست ہے کہ گزشتہ ایک عشرے میں فیشن کے حوالے سے کافی تبدیلیاں آئی ہیں اور اس میں سب سے بڑا کردار میڈیا کا ہے۔ پاکستان میں میڈیا نے کافی ترقی کی ہے۔ یہاں تک کہ فیشن چینلز تک آگئے ہیں خاص طور پر مشرف کے دور میں۔ ہمارے ہاں انڈیا کے ڈراموں اور فلموں کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ پھر انٹرنیٹ بھی ایک ذریعہ ہے جس سے پوری دنیا تک رسائی ہوجاتی ہے۔ اسی ایک عشرے میں پاکستان کے ماڈلز اور ڈیزائنر بھی بہت مقبول ہوئے ہیں اور ان کی نقل بھی بہت کی جاتی ہے۔ اب ہم بازار جاتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ ’ڈیزائنرز کلاتھز‘ خریدیں۔ میں ساٹھ فیصد تک ایسے ہی کپڑے پہنتا ہوں اور اس کا سہرا میڈیا ہی کے سر ہے، خصوصاً سٹار پلس کے ڈراموں کا۔ جاوید اقبال ملک، چکوال: ایک مسلمان کے طور پر میں فیشن کا قائل نہیں۔ یہ سب امیروں کے چونچلے ہیں۔ اصل مزا سادگی میں ہے۔ ویسے بھی کسی کی نقل کرنا انسان کی شخصیت پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اے ایس خان، اٹک: میرے خیال میں تبدیلی آنی چاہیے لیکن اتنی نہیں کہ ہم اپنا سب کچھ بھول جائیں۔ عبداللہ احمدزادہ، پاکستان: میرے نزدیک درزی کی غلطی ہی نیا فیشن ہے۔ آج کل ویسے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ ننگے گھومیں یا کپڑے پہن کر۔ دیکھیں انسانی آزادی کہاں تک لے جاتی ہے۔ راجہ عبدالجبار، دوبئی: میرے خیال میں کوئی بھی عورت جتنا اپنے جسم کو ڈھانپ کر رکھے گی اتنا ہی خوبصورت لگے گی۔ عدیل امتیاز، لندن: ہم مسلمانوں کی عقلوں پر پردے پڑ گئے ہیں۔ ہماری عورتیں سمجھتی ہیں کہ ننگا ہونے میں بہت آزادی ہے۔ عمران ہاشمی، برطانیہ: یہ میڈیا کی جنگ کا زمانہ ہے۔ جن قوموں کی معیشت اور مستقبل کی منصوبہ بندی بہتر ہوگی وہ ہر میدان میں جیتیں گے۔ حمید الحق، کراچی: کھاؤ ہمیشہ وہ جو دل کو بھائے اور پہنو ہمیشہ وہ جو دیکھنے والے کو بھائے۔ ہلال باری، لندن: فیشن اور جہادیت کی وجہ سے پوری پاکستانی سوسائٹی میں شدید فرسٹریشن پیدا ہورہی ہے۔ پیسہ کمانے کے لیے ہر طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ معاشرے کو ہر طبقے میں سادگی کی شدید ضرورت ہے۔ فیصل چانڈیو، حیدرآباد: بیہودگی کو فیشن کا نام دے دیا ہے، بس یہی ترقی ہوئی ہے دنیا میں اور وہ بھی صرف رئیسوں تک ہی ہے، غریب آدمی تو بھوک مٹانے کے لیے ہی پریشان رہتا ہے۔
051116_quake_sheets_corrugated
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/11/051116_quake_sheets_corrugated
جستی چادروں کی بلیک
شاہراہ قراقرم پر بٹل کے پاس چنار کوٹ گاؤں میں زلزلہ متاثرین کے لیے کام کرنے والے ایک رضاکار خالد ضیاء صدیقی کا کہنا ہے کہ برف باری کے باعث خیمہ کار آمد نہیں رہا۔ وہ لاہور سے جستی چادریں (کوروگیٹڈ شیٹس) خرید کر لے گئے ہیں جن سے عارضی مکان بنا کر زلزلہ متاثرین کی رہائش کا بندوبست کیا جائے گا۔
لاہور میں فولاد کے تھوک بازار کی منڈی لنڈا بازار میں ہے جہاں سے این جی اوز گزشتہ ایک ہفتہ سے دھڑا دھڑ جستی چادریں خرید رہی ہیں اور منڈی میں جست کی تہ چڑھی ان فولادی چادروں کی قیمت ہر روز بڑھتی چلی جارہی ہے۔ جستی چادروں کو تکنیکی زبان میں گیلوانائزڈپلین شیٹس (جی پی ایس) کہا جاتا ہے۔ ان جست کی تہہ چڑھی سادہ فولادی چادروں میں نالیاں سی بنادی جاتی ہیں جسے کوروگیشن کہتے ہیں اس لیے ان کا نام کوروگیٹڈ شیٹس بھی ہے۔ لنڈے بازار کے تاجر مذاق کرتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ زلزلہ لنڈے بازار کے لیے آیا تھا۔ شروع میں پرانے کپڑوں، ترپالوں اور کمبلوں کا کاروبار کرنے والوں نے سیزن کے معمول کے کاروبار سے تین چار گنا زیادہ مقدار میں اور مہنگے داموں اپنا مال بیچا۔ اب جستی چادریں بیچنے والوں کی چاندی ہوگئی ہے۔ لنڈے بازار میں فولادی چادروں کا کام کرنے والے ایک تاجر انجم بٹ نے بتایا کہ جستی چادروں کی قیمت میں دس سے بارہ روپے فی کلوگرام اضافہ ہوگیا ہے۔ ان کے مطابق ایک ہفتہ پہلے چوبیس سے چھبیس گیج کی چادر چھپن سے ستاون روپے فی کلوگرام فروخت ہوتی تھی وہ آج چھیاسٹھ روپے فی کلوگرام سے سڑسٹھ روپے فی کلوگرام میں فروخت کی جارہی ہے۔ کراچی کے سٹیل ملز کے ڈیلر حاجی اسلم نے بی بی سی کو بتایا کہ کراچی میں دس پندرہ روز میں مکان بنانے والی جستی چادر کا نرخ پچپن ہزار فی ٹن سے بڑھ کر ساٹھ ہزار روپے فی ٹن ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا پہلے جو چادر سو دو سو ٹن کی مقدار میں بازار میں عام مل جاتی تھی اب وہ دستیاب نہیں بلکہ لوگوں نے سٹاک کرلی ہے۔ کراچی میں معین مارکٹ اور سریاگلی اس کاروبار کے بڑے مراکز ہیں۔ لنڈے بازار کے ایک اور تاجر اور سٹیل ملز کے ڈیلر حافظ صادق کا کہنا ہے کہ پاکستان سٹیل ملز جست کی موٹی چادریں بناتی ہے جو بائیس سے چوبیس ملی میٹر موٹی ہوتی ہیں اور وہ مکان بنانے کے لیے استعمال نہیں ہوسکتیں کیونکہ وہ زیادہ وزنی ہوتی ہیں۔ مکان بنانے کے لیے چھبیس ستائیس گیج ( یا اعشاریہ چار سے اعشاریہ پانچ پیمائش) کی جستی چادر موزوں سمجھی جاتی ہے۔ لنڈے بازار کے تاجر کا کہنا ہے کہ زلزلہ کے بعد سٹیل ملز نے پتلی جستی چادریں بنا کر حکومت کو مہیا کی ہیں لیکن عام بازار میں نہیں دیں۔ بازار میں جو جستی چادریں مکان بنانے کے لیے دستیاب ہیں وہ بیرون ممالک سے درآمد کی گئی ہیں۔ کراچی کے تاجروں کے مطابق گزشتہ روز (منگل) ہی کراچی میں جنوبی افریقہ سے سات ہزار ٹن جستی چادریں لے کر ایک بحری جہاز کراچی بندرگاہ پر لگا ہے۔ جن دوسرے ملکوں سے جستی چادریں درآمد ہورہی ہیں ان میں سرفہرست سعودی عرب، انڈونیشیا اور بھارت بذریعہ دبئی شامل ہیں۔ لاہور کے ایک بڑے امپورٹر انجم بٹ کا کہنا ہے کہ جنوبی افریقہ میں جستی چادریں بڑے پیمانے پر تیار ہوتی ہیں کیونکہ افریقی ممالک میں ان کا مکان بنانے کے لیے استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ جنوبی افریقہ جستی چادریں مہیا کرتا ہے۔ انجم بٹ کے مطابق جنوبی افریقہ میں مختلف سائزوں کی متفرق جستی چادریں (بڑے آرڈرز کی بچی ہوئی) اچھی خاصی مقدار میں دستیاب ہیں جنہیں کاروباری لوگ اپنی زبان میں جاب لاٹ کہتے ہیں اور یہ مال عام نرخ سے سستا مل جاتا ہے۔ اس لیے پاکستان میں زیادہ تر مال جنوبی افریقہ سے آرہا ہے۔ تاجر اور امپورٹرز حضرات نے نہ صرف جستی چادروں کی قیمت میں ایک دم اضافہ کردیا ہے بلکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے گیج کے فرق کو عام گاہکوں سے چھپا کر بھی دھوکہ دہی کی جارہی ہے۔ تاجر حافظ صادق کاکہنا ہے کہ ہزارہ اور کشمیر کے لیے زیادہ تر مال راولپنڈی میں راجہ بازار کے پاس فولاد کی مارکٹ سے لیا جاتا ہے جہاں جستی چادریں وزن کے بجائے فی چادر کے حساب سے فروخت کی جاتی ہے۔ گیج جستی چادر کی موٹائی ناپنے کا پیمانہ ہے۔ گیج جتنی زیادہ ہو فولادی چادر اتنی پتلی ہوتی ہے اور اس کا وزن کم ہوتا ہے۔ فولادی چادروں کو ملی میٹر میں بھی ناپا جاتا ہے اور انہیں وزن کے حساب سے فی کلوگرام یا فی ٹن کے حساب خریدا یا بیچا جاتا ہے۔ مثلا تین ضرب آٹھ فٹ کی چوبیس گیج کی جستی چادر کا وزن بارہ کلوگرام ہوتا ہے جبکہ اتنے سائز کی اٹھائیس گیج کی چادر کا وزن صرف آٹھ کلوگرام ہوتا ہے۔ این جی اوز اور عام لوگوں کو جستی چادروں کے کاروبار کی ان باریکیوں کا علم نہیں اس لیے حافظ صادق کے مطابق دکاندار پتلی (زیادہ گیج والی) چادریں جیسے اٹھائیس گیج کی چادر اس نرخ پر بیچ رہے ہیں جس نرخ پر انہیں موٹی اور چوبیس گیج کی چادریں دینی چاہئیں۔ اس طرح ایک دکاندار کو فی جستی چادر (تین ضرب آٹھ فٹ) میں سو سے دو سو روپے زیادہ منافع ہوتا ہے۔ یہ پتلی جستی چادریں جلد ہی برف باری میں پچک سکتی ہیں اور گر سکتی ہیں۔ حافظ صادق کا کہنا ہے کہ اس وقت لاہور کے فولاد بازار میں بعض تاجر ناواقف گاہکوں کو گھی کے ڈبے بنانے والی ٹن پلیٹ شیٹس بھی جستی چادروں کی شکل میں بیچ رہے ہیں۔ یہ ٹن پلیٹیں پانی لگتے ہی خراب ہوجاتی ہیں اور زلزلہ زدگان کو دی گئیں تو ان کے لیے خطرہ کا باعث ہوں گی۔ چنار کوٹ میں کام کرنے والے خالد ضیائی کا کہنا ہے کہ اگر ایک متاثرہ گھرانہ کو سات سے آٹھ جستی چادریں (تین ضرب آٹھ فٹ) مہیاکردی جائیں تو لوگ انہیں جوڑ کر اپنی ٹھکانہ خود بناسکتے ہیں۔ پہلے خیموں اور کمبلوں کے نرخوں میں اضافہ اور اب جستی چادروں کی بلیک مارکٹنگ سے یوں لگتا ہے کہ آٹھ اکتوبرکے زلزلہ نے حکمرانوں کی ہنگامی حالات سے نپٹنے کی صلاحیت کو ہی نہیں پاکستان کے کاروباری طبقہ کی اخلاقیات کو بھی عریاں کردیا ہے۔
regional-51153501
https://www.bbc.com/urdu/regional-51153501
ایران کے سپریم لیڈر: رہبرِ اعلیٰ کون ہے اور ایرانی آئین میں اس کا کردار کیا ہے؟
ایران کے رہبر آیت اللہ سید علی خامنہ ای اس وقت ایران کی سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں۔ آئینی لحاظ سے 'رہبرِ ایران' ہونے کی وجہ سے ایران کے ہر بڑے عہدے پر تقرری اور تنزلی کے اختیارات یا تو براہِ راست یا بالوسطہ طور پر ان کے ہاتھ میں ہیں۔ اس کے علاوہ ایران میں اربوں ڈالر کا حجم رکھنے والی کئی ایک فاؤنڈیشن اور اوقاف بھی ان ہی کی زیرِ نگرانی کام کرتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے پہلے رہبر، آیت اللہ خمینی۔ ایران کے آئین کے آرٹیکل 57 کے مطابق 'اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے تین ادارے ہیں، مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ۔ اور یہ تینوں ادارے ولایت امر اور امت کی رہبریت کی نگرانی میں آئین کی مختلف شقوں کے مطابق کام کریں گے۔' تاریخی پس منظر ایران کے آئین میں رہبر کا عہدہ سنہ 1979 کا انقلابِ اسلامی آیت اللہ خمینی کی قیادت میں کامیاب ہوا تھا۔ جب آیت اللہ خمینی نے ایران کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا تو اس کی توثیق ایک ریفرنڈم کے ذریعے عوام سے کرائی گئی تھی جس میں اس وقت 98.2 فیصد ایرانی ووٹروں نے آیت اللہ خمینی کے اعلان کی تائید کی تھی۔ آیت اللہ خمینی کی قیادت میں شاہ ایران کی طاقت کو چیلینج کرنے والی کامیاب تحریک کا آغاز سنہ 1978 میں قم سے ہوا۔ اس ’اسلامی انقلاب‘ میں اگرچہ کئی طبقوں نے حصہ لیا تھا لیکن اس میں مرکزی حیثیت آیت اللہ خمینی کی رہی۔ ایران کے دائیں اور بائیں بازو اور ایران میں لبرل اصلاحات لانے والے گروہوں نے بھی آیت اللہ خمینی کی قیادت کی حمایت کی۔ اس مرکزی کردار اور انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرانے کی وجہ سے ان کی شخصیت نے ایران کی آئین سازی میں بھی ایک غالب کردار ادا کیا۔ ایران کے موجودہ رہبر آیت اللہ سید علی خامنہ ای۔ رہبرِ اعلیٰ کا تصور ایران میں رہبر اعلیٰ یا 'رہبرِ ایران' ملک کے آئین کے لحاظ سے سب سے زیادہ طاقتور عہدہ ہے۔ اگرچہ ایران کی سیاست میں تنوّع ہے لیکن ملکی سلامتی اور انقلاب اسلامی کے وجود کو پہلے دن ہی سے مبینہ خطرات کے خدشات کی وجہ سے رہبراعلیٰ کا منصب عوامی اور سیاسی تحریکوں کا محور بنا رہا ہے۔ حالانکہ آئین میں رہبر کی بھی نگرانی کی گنجائش موجود ہے اور اختلافِ رائے بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن رہبر کو انقلاب اسلامی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اس کی مخالفت کو انقلاب سے بغاوت تصور کیا جاتا ہے۔ رہبر اعلیٰ کی مرکزیت ایران کے موجودہ رہبراعلیٰ آیت للہ خامنہ ای ہیں جو آئین کے آرٹیکل 91 کے تحت 'شوریٰ نگہبان' کے 12 ارکان میں سے 6 کو نامزد کرتے ہیں اور آرٹیکل 157 کے تحت چیف جسٹس کا تقرر بھی رہبر کرتے ہیں۔ آرٹیکل 110 انہیں اختیار دیتا ہے کہ وہ ’مجمع تشخیص مصلحت نظام‘ سے مشاورت کر کے ایران کی عمومی حکمت عملی تشکیل دے۔ اس کے علاوہ حکومت کے پورے نظام کی نگرانی کرے۔ ریفرنڈم کرانے کا اختیار بھی رہبر کے پاس ہے۔ وہی پاسدارانِ انقلاب سمیت ایران کی تمام مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری کرتا ہے اور صرف رہبر ہی اعلان جنگ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ صدر مملکت کے انتخابات کے بعد کامیاب امیدوار کا تقررنامہ بھی رہبر کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے۔ رہبر کے پاس صدر کو برطرف کرنے کا بھی اختیار ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے اگر چیف جسٹس صدر کو کسی جرم کا مرتکب پائے یا پارلیمان نے صدر کو آرٹیکل 89 کے مطابق نا اہل قرار دے دیا ہو۔ اگر حکومت کے مختلف اداروں کے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے تو رہبر سے رجوع کیا جاتا ہے۔ تاہم آئین کی تشریح کے لیے ’شورایٰ نگہبان‘ سے رجوع کیا جاتا ہے۔ ایران کے سرکاری براڈکاسٹنگ کے ادارے کا سربراہ بنانے کا اختیار بھی ان کے پاس ہے۔ رہبر عدلیہ سے سزا پانے والوں کو معاف کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ رہبر اپنے اختیارات کسی اور کو بھی تفویض کر سکتا ہے۔ ایرانی آئین کے مطابق رہبر کے بعد سب بڑا عہدہ صدر کا ہے آئین کے آرٹیکل 60 کے مطابق، انتظامیہ کے تمام اختیارات صدر اپنے وزارا کی مدد کے ساتھ استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے سوائے ان انتظامی اختیارات کے جو آئین نے رہبر کے لیے مخصوص کیے ہیں۔ تاہم عملاً ایسا ہوتا رہا ہے کہ رہبر مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کے اختیارات صدر کو تفویض کردیتا ہے۔ انقلاب کے بعد پہلی بڑی اصلاحات آیت اللہ خمینی کی زندگی کے دوران ہی ایرانی سیاست میدان اور ریاستی اداروں میں موجود کئی اہم شخصیات نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ ان کے آئین میں کچھ ایسے بنیادی مسائل ہیں جن کی وجہ سے طاقت کی تقسیم غیر واضح ہے اور مسائل جنم دے رہی ہے۔ اس وقت زیادہ تر اختلافات صدر اور وزرِ اعظم کے درمیان پیدا ہوتے تھے۔ انقلاب اسلامی ایران کو پہلے ریفرنڈم میں 98.2 فیصد عوام کی تائید حاصل ہوئی تھی اس پر سنہ 1988 میں آیت اللہ خمینی نے 'مجمعِ تشخیص مصلحتِ نظام' کے نام سے ایک کونسل تشکیل دی جس نے آئین میں کئی ساری ترامیم تجویز کیں اور وزیراعظم کا عہدہ ختم کردیا۔ سنہ 1989 میں آیت اللہ خمینی کے انتقال کے بعد جب آیت اللہ خامنہ ای کو رہبر منتخب کرلیا گیا تو ان کی جگہ حجۃ الاسلام علی اکبر ہاشمی رفسنجانی ایران کے صدر منتخب ہوئے۔ اب کیونکہ آیت اللہ خامنہ ای اپنے پیش رو آیت اللہ خمینی کی طرح نہ طاقتور تھے اور نہ بے انتہا مقبول، تو صدر رفسنجانی کو کھل کر صدارتی اختیارات استعمال کرنے کا موقعہ ملا۔ تاہم رہبر اعلیٰ اور صدر کے درمیان اختلافات اس وقت منظرِ عام پر سامنے آنا شروع ہوئے جب رفسنجانی کے بعد محمد خاتمی اس وقت کے قدامت پسند صدارتی امیدوار علی اکبر ناطق نوری کو بری طرح شکست دے کر ریکارڈ ووٹوں کے ساتھ صدر منتخب ہوگئے۔ خاتمی اصلاحات کے ایجنڈا لے کر آئے تھے اس لیے انھوں نے آزائِ اظہارِ رائے اور اختلافِ رائے کی آزادی سمیت لبرل پالیسیاں تشکیل دینے کی کوششیں کیں۔ لیکن ان کی راہ میں اس وقت کھل کر جو ادارے رکاوٹ بنے ان میں اس وقت کی پارلیمان تھی جس میں قدامت پسندوں کی بھاری اکثریت تھی۔ اس کے علاوہ شوریٰ نگہبان نے بھی ان کی مخالفت کی۔ لہٰذا انھوں نے رہبراعلیٰ کی کہیں بھی کھل کر مخالفت نہیں کی۔ احمدی نژاد بحیثیت صدر، رہبر کے سامنے بہت کمزور تھے تاہم محد خاتمی نے اپنے زمانے کے حالات کے لحاظ سے خارجہ امور میں ایسے اقدامات کیے جن کو رہبر کی حمایت تو حاصل نہیں تھی لیکن یا تو انھوں نے مخالفت نہیں کی یا وہ مخالفت کر نہیں سکے۔ ان میں خاتمی کی مغربی ممالک سے 'تہذیبوں کے مکالمہ' کے نام سے کی گئی روابط کی کوشش تھی اور جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے آئی اے ای اے سے ایرانی جوہری تنصیبات کی اضافی نگرانی کے لیے رضا مندی تھی۔ محمد خاتمی کے بعد محمود احمدی نژاد ایران کے صدر منتخب ہوئے۔ کیونکہ احمدی نژاد ایرانی سیاست کے ایوانِ اقتدار میں ایک نئے شخص تھے اس لیے ابتدا میں ان کے رہبر سے اچھے تعلقات رہے۔ لیکن ان کے پارلیمان سے اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ ایران کے دوسرے منتخب صدر محمد علی رجائی بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ حسن روحانی سنہ 2013 میں پہلی مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔ انھوں نے ایران کا عالمی سطح پر اقتصادی بائیکاٹ ختم کروانے کے لیے پانچ عالمی طاقتوں اور جرمنی کے ساتھ ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کا معاہدہ سنہ 2015 میں کیا جو 'جے سی پی او اے' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایران کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای اس معاہدے کے مخالف تھے، ان کا موقف تھا کہ امریکہ ناقابلِ اعتبار ہے۔ رہبر اعلیٰ کی مخالفت کے باوجود بھی ایرانی عوام نے معاہدے کی حمایت کی تھی۔ اور جب حسن روحانی دوبارہ صدارتی انتخاب لڑے تو انھیں عوام نے بھاری اکثریت سے منتخب کیا۔ لیکن جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 'جے سے پی او اے' سے یکطرفہ طور پر علحیدگی کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کیں تو ایرانی عوام کی نظر میں رہبر کا موقف درست ثابت ہوا۔ مصبرین کے مطابق، اس طرح رہبر اعلیٰ سیاسی طور پر پھر سے زیادہ مضبوط ہو گئے۔ جب اسلامی جمہوریہ کے صدر خامنہ ای کو آیت اللہ خمینی کے انتقال کے بعد رہبر منتخب کرلیا گیا تھا تو سپیکر پارلیمان رفسنجانی انتخاب لڑنے کے بعد صدر منتخب ہوئے۔ رہبر اعلیٰ اور صدر کے اختیارات ماضی میں اور، بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق حال میں بھی، رہبر اعلیٰ اور ایرانی صدر کے درمیان تعلقات میں کشیدگی رہی ہے جس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا رہا ہے۔ پہلی مرتبہ رہبر اور صدر کے درمیان اختلافات خود انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی اور اسلامیہ جمہوریہ ایران کے پہلے منتخب صدر ابوالحسن بنی صدر کے درمیان پیدا ہوئے تھے۔ آیت اللہ خمینی نے کچھ امور پر شکایات موصول ہونے کے بعد بنی صدر کو افواجِ ایران کے کمانڈر ان چیف کے دیے گئے اختیارات واپس لے لیے تھے۔ یہ سیاسی بحران اتنا زیادہ بڑھ گیا تھا کہ کچھ عرصے بعد بنی صدر ملک چھوڑ کر چلے گئے اور آج تک فرانس میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آیت اللہ خمینی اگلے آنے والے صدور کی تقرری کے بعد انھیں مسلح افواج کا سپریم کمانڈر بناتے رہے۔ اس لحاظ سے ایران کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر تو رہبر اعلیٰ ہیں لیکن روایت یہ رہی ہے کہ وہ منتخب صدر کو یہ اخیارات تفویض کردیتے ہیں۔ بعد میں منتخب ہونے والے صدر محمد علی رجائی اپنے وزیرِ اعظم جواد باہُنر سمیت دہشت گردی کے ایک حملے میں ہلاک ہو گئے۔ تاہم رجائی کے صدر منتخب ہونے سے پہلے ابوالحسن بنی صدر کے وزیرِ اعظم رہے تھے۔ چند مبصرین کا کہنا ہے کہ بنی صدر نے رجائی کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔ سنہ 1981 میں محمد علی رجائی کی بم دھماکے میں ہلاکت کے بعد موجودہ رہبر آیت اللہ خامنہ ای صدر منتخب ہوئے۔ خامنہ ای کے آیت اللہ خمینی سے اختلافات پیدا نہیں ہوئے کیونکہ خامنہ ای ان کے قابلِ اعتماد اور اہم شاگردوں میں سے تھے۔ ایرانی آئین میں درجہ بندی کے لحاظ سے رہبر کے بعد سب سے اعلیٰ عہدہ صدر کا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 113 کے مطابق حکومت کا چیف ایگزیکٹو صدر ہے سوائے ان معاملات کے جو آئین نے خاص طور پر رہبر کو دیے ہوئے ہیں۔ صدر چار برس کے لیے منتخب ہوتا ہے، تاہم ایرانی صدر مسلسل دوسری مرتبہ بھی انتخاب لڑ سکتا ہے، لیکن مسلسل تیسری مرتبہ انتخاب لڑنے پر پابندی ہے۔ تمام صدارتی امیدواروں کی اہلیت کو جانچنے کا کام مجلسِ شورایٰ نگہبان کرتی ہے۔ اگرچہ صدر عوامی ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے اور اسے جہموریہ اسلامی کے صدر کی حیثیت سے تمام پروٹوکول ملتا ہے، لیکن اس کے اختیارات کو آئین نے کم کر دیا ہے۔ شاید ایران واحد ملک ہے جہاں مسلح افواج کا کنٹرول انتظامیہ کے پاس نہیں ہے۔ رہبر اعلیٰ اور ایران کی مسلح افواج ایران کی مسلح افواج میں سپاہِ پاسداران انقلاب، اور اس کے بری، بحری اور فضائیہ کے دستوں کے علاوہ القدس نامی سٹریٹجک فورس بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایران کی روایتی مسلح افواج بھی جنھیں 'ارتشِ ایران' (مسلح افواجِ ایران) کہا جاتا ہے وہ بھی ایران کی کی کل فوجی طاقت کا حصہ ہیں۔ ان تمام مسلح افواج کے سپریم کمانڈر رہبرِ اعلیٰ ہیں اور وہی ان کے سربراہو ں کا تقرر کرتے ہیں۔ انقلاب کے فوراً بعد آت اللہ خمینی نے رضا کاروں پر مشتمل ایک تنظیم بنانے کا اعلان کیا تھا جس کے آج ایک کروڑ سے زیادہ ارکان ہیں کہا جاتا ہے کہ ایران میں رضاکاروں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہے جسے ’بسیج‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے قیام کا اعلان آیت اللہ خمینی نے کیا تھا اور اس کا مقصد ’انقلابِ اسلامی کو محفوظ بنانا تھا‘۔ یہ 'نیروی مقاومت بسیج' کے نام سے بھی جانی جاتی ہے لیکن اس کا سرکاری نام 'سازمان بسیج مستضعفین' ہے۔ ابتدا میں تو یہ ایک آزاد ادارہ تھا لیکن بعد میں اسے پاسدارن انقلاب کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس کے سربراہ کی تقرری بھی رہبر کرتے ہیں۔ بسیج کی انتظامیہ کا ایک سٹاف ہے جسے ریاستی ملازم کے طور پر تنخواہ ملتی ہے لیکن اس کے عام رضاکار بغیر تنخواہ کے کام کرتے ہیں۔‎ اختتامیہ ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک ایرانی سکالر کے مطابق ایرانی معاشرے کا سیاسی اور آئینی سفر جاری ہے۔ موجودہ رہبر کی عمر اور صحت کے مسائل کی وجہ سے ایران کو جلد یا بدیر ایک نئے رہبر کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ایران کے باخبر سیاسی حلقوں میں بلاواسطہ طور پر منتخب رہبر کے اختیارات اور براہِ راست عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدر کے اختیارات کی تقیسم پر بحث بھی ہو رہی ہے۔ اگر ایرانی تاریخ کو دیکھا جائے تو اختیارات اور طاقت کے محور میں تبدیلی لائے جانے کے امکانات موجود ہیں۔ منطقی طور پر تبدیلی کا پینڈولم کبھی ایک طرف جاتا ہے تو کبھی دوسری طرف۔ لیکن ایرانی نظام کس حد تک موجودہ تسلسل سے ہٹنا پسند کرے گا یا نہیں اس کا تعین ایک حد تک بیرونی عناصر اور طاقتیں کریں گی۔
050707_blasts-yourviews
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2005/07/050707_blasts-yourviews
لندن دھماکے: آپ نے کیا دیکھا
مرکزی لندن میں جمعرات کی صبح زیرِ زمین ٹرین سٹیشنوں اور ایک مسافر بس میں بم دھماکوں میں تینتیس افراد کے ہلاک ہونے اور ڈیڑھ سو کے قریب زخمی ہونے کی تصدیق ہو گئی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عرب ذرائع نے کہا ہے وہ یہ بات تقریباً یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ لندن میں ہونے والے دھماکے القاعدہ نے کیے ہیں۔ کیا آپ یا آپ کے دوست رشتہ دار ان دھماکوں کے وقت شہر میں تھے؟ کیا آپ ان واقعات سے کسی بھی طرح متاثر ہوئے ہیں؟ ہمیں اپنے تجربات کے بارے میں لکھئیے۔ ان دھماکوں کے بارے میں اپنی رائے بھی آپ ہمیں بھیج سکتے ہیں۔
080425_mardan_blast_taliban_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/04/080425_mardan_blast_taliban_zs
مردان میں بم دھماکہ، تین ہلاک
پاکستان کے صوبہ سرحد کے شہر مردان میں حکام کے مطابق ایک کار بم دھماکے میں اے ایس ائی سمیت تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔ادھر مقامی طالبان نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ حال ہی میں مردان پولیس کے ہاتھوں مقامی طالبان کمانڈر کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے کیا گیا۔
مردان سے ملنے والی اطلاعات میں پولیس کے مطابق یہ واقعہ جمعہ کی صبح چھ بجے کے قریب مردان شہر میں سٹی تھانہ کے قریب پیش آیا۔سٹی تھانہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ تھانے کے قریب ایک نامعلوم کار کھڑی کی گئی تھی جس میں اچانک زوردار دھماکہ ہوا جس سے تین افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں میں اے ایس آئی فرخ سید اور دو راہگیر شامل ہیں جبکہ زخمیوں میں اکثریت پولیس اہلکاروں کی بتائی جاتی ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکہ اتنا زور دار تھا کہ اس سے تھانے کا ایک کمرہ مکمل طورپر منہدم ہوگیاہے جس سے کئی پولیس اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔زخمیوں کو مردان اور پشاور کے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے جہاں دو پولیس اہلکاروں کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ پاکستان میں بیت اللہ محسود کی قیادت میں قائم مقامی عسکریت پسندوں کی تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان نے مردان میں پولیس سٹیشن پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کارروائی ان کے ایک کمانڈر کی ہلاکت کے بدلے میں کی گئی ہے۔ تاہم تنظیم کا کہنا ہے کہ اس واقعہ سے حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مولوی عمر نے بی بی سی سے ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران دعوٰی کیا کہ کچھ روز قبل مردان میں پولیس نے ان کے ایک کمانڈر حافظ سعید الحق کو اس وقت ہلاک کیا تھا جب وہ شادی کی ایک تقریب میں شرکت کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے کمانڈر کو ایسے وقت قتل کیا گیا جب حکومت اور عسکریت پسندوں کے مابین بات چیت کا سلسلہ جاری تھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی تھی اسی وجہ سے تنظیم نے بھی اپنے ساتھی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے یہ کارروائی کی ہے۔ واضح رہے کہ صوبہ سرحد کے دوسرے بڑے شہر مردان میں اس سے پہلے بھی کئی بار پولیس تھانوں اور اہلکاروں پر متعدد مرتبہ حملے ہوچکے ہیں جس میں کچھ واقعات کی ذمہ داری مقامی طالبان قبول بھی کرچکے ہیں۔ تاہم حالیہ حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود نےایک روز قبل اپنے ساتھیوں کو پاکستان میں تمام حملے بند کرنے کے ہدایت کی تھی۔ خود کو مردان کے مقامی طالبان کا ترجمان ظاہر کرنے والے عبداللہ نامی ایک شخص نے بی بی سی کو فون پر بتایا ہے کہ انہیں بیت اللہ محسود کی طرف سے حکم ملا ہے کہ جنگ بندی کے دوران اگر کوئی ان پر حملہ کرتا ہے تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے کمانڈر کو حکومت کے ساتھ فائر بندی ہونے کے بعد قتل کیا گیا تھا لہذٰا انہوں نے اپنی ساتھی کا بدلہ لینے کے لیے یہ کارروائی کی ہے۔
regional-50804969
https://www.bbc.com/urdu/regional-50804969
شہریت کے متنازع قانون کے خلاف دلی میں مظاہرے: اکھڑے ڈیوائیڈر، ٹوٹی اینٹیں اور جلی ہوئی بسیں، بی بی سی کے نمائندے نے کیا دیکھا
پیر کی صبح ساڑھے سات بجے جب دفتر کے لیے نکلا تو سڑکیں سنسان تھیں۔ جامعہ ملیہ سے گزرنے والی سڑک مولانا محمد علی جوہر روڈ پر ڈیوائڈر اکھڑے ہوئے تھے، سڑک پر ٹوٹی ہوئی اینٹیں بکھری پڑی تھیں، لاوارث موٹر سائیکلیں ٹوٹی پڑی تھیں۔
جامعہ ملیہ سے گزرنے والی سڑک پر ڈیوائڈر اکھڑے ہوئے تھے اور لاوارث موٹر سائکلیں ٹوٹی پڑی تھیں یہ سب شہریت کے متنازع قانون کے خلاف طلبا کے احتجاج اور پھر پولیس کی ان کے خلاف کارروائی کے بعد کا منظر تھا۔ جامعہ کے گیٹ نمبر آٹھ پر جامعہ میں کینٹین چلانے والے فیضی سے ملاقات ہو گئی جنھوں نے بتایا کہ اتوار کی رات پولیس حراست سے 54 طلبا کو رہا کروا لیا گیا ہے اور اب وہ زخمیوں کو دیکھنے ہولی فیملی ہسپتال جا رہے ہیں۔ جامعہ ملیہ کے طلبہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے تشدد کی راہ اختیار نہیں کی اور ان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سیسودیا بھی اس معاملے میں طلبا کے ہمنوا دکھائی دیتے یں اور انھوں نے دہلی پولیس پر آگ لگانے کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ پولیس کارروائی انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ کے حکم پر کی گئی اور یہ کہ اس کی غیرجانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہییں۔ یہ بھی پڑھیے دلی: پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر احتجاج کے بعد 50 طلبہ رہا انڈین ریاستیں شہریت کے قانون کو روک سکتی ہیں؟ شہریت کا متنازع ترمیمی بل، انڈیا بھر میں مظاہرے انھوں نے ایسی ویڈیوز بھی شیئر کیں جن میں پولیس اہلکاروں کو موٹر سائیکلیں توڑتے دیکھا جا سکتا ہے لیکن پولیس ان سے انکار کرتی ہے۔ دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سیسودیا نے دہلی پولیس پر آگ لگانے کا الزام لگایا ہے دہلی کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے احتجاج، مظاہرے، دھرنے، بھوک ہڑتال کوئی غیر معمولی چیز نہیں اور میں خود ان کا شاہد رہا ہوں لیکن اتوار کی شام جب اپنے دفتر سے نکلا تو یہ وہم و گمان میں نہیں تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ میری رہائش دہلی کی سینٹرل یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قریب ہے۔ جب میں آٹو رکشے سے متھرا روڈ سے بستی حضرت نظام الدین سے آگے بھوگل پہنچا تو ٹریفک جام تھا۔ بستی حضرت نظام الدین دہلی کی قدیم ترین آبادی ہے جہاں کبھی اپنے زمانے کے صوفی بزرگ حضرت نظام الدین اولیا قیام کرتے تھے اور اب ان کی وہاں درگاہ ہے جہاں دنیا بھر سے ان کے عقیدت مند تشریف لاتے ہیں۔ آگے آشرم کا پل تھا۔ آٹو ڈرائیور سے بات ہو رہی تھی اور دونوں اس بات پر حیران تھے کہ اتوار کے روز اس جگہ جام کیوں کر ہو سکتا ہے۔ جب پل پر آئے تو دو کلومیٹر کے فاصلے پر کالے کالے دھوئیں کے بادل اٹھ رہے تھے۔ ٹریفک کو آشرم کے رنگ روڈ پر موڑ دیا گیا کیونکہ سیدھی متھرا شہر جانے والی سڑک بند تھی۔ سامنے سے ایک ڈی ٹی سی بس گزری جس کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے اور راہگیر اس کی تصویر لے رہے تھے۔ وہاں سے نصف کلو میٹر دور دہلی کی امیر ترین کالونیوں میں سے ایک نیو فرینڈز کالونی کے سامنے آگ کے شعلے اور سیاہ دھوئیں کے مرغولے صاف دیکھے جا سکتے تھے۔ گھر فون کرنے کی کوشش کی تو نیٹ ورک کام نہیں کر رہا تھا۔ ہم دہلی کے اہم بازار لاجپت نگر کی طرف بڑھ گئے لیکن آٹو والا گھبرا رہا تھا۔ اس نے ماتھے پر تلک لگا رکھا تھا ہم نے اسے تسلی دی اور کہا کہ جہاں کہیں بھی خطرہ ہوگا ہم دونوں واپس ہو جائیں گے اور کسی دوست کے یہاں چلے چلیں گے۔ ٹریفک کو دوسری جانب موڑنے کی وجہ سے سبزی منڈی کے راستے پر بھی جام تھا۔ خیر اوکھلا سبزی منڈی ہوتے ہوئے جب جامعہ کے پاس دہلی کے معروف ہارٹ سکورٹ اور ہولی فیملی ہسپتال کے درمیان پہنچے تو راستے سارے بند تھے پولیس نے ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ پولیس سے بات کرنا چاہی لیکن وہ صرف ڈنڈے دکھا رہے تھے۔ میں نے اپنے آٹو ڈرائیور کو کہا کہ آپ واپس چلے جاؤ کیونکہ اس کے چہرے پر خوف زیادہ تھا۔ اس کی بظاہر وجہ تھی کہ کہیں پولیس والے اس کی گاڑی کو نہ ضبط کرلے یا کوئی توڑ پھوڑ نہ ہو۔ میں نے پولیس سے بات کرنا چاہی لیکن وہ صرف ڈنڈے دکھا رہی تھی ایک پولیس والے نے مجھے ڈنڈا دکھاتے ہوئے جانے کا حکم دیا لیکن میں نے بھی پوچھ ہی لیا کہ آخر وہاں کیا ہو رہا ہے؟ ہم گھر کیسے جائیں گے؟ اس نے کہا کہ 'بھاگ جاؤ پولیس جامعہ کے سٹوڈنٹس کے خلاف ایکشن کر رہی ہے۔' آنسو گیس کے گولے چھوڑے جا رہے تھے اور فائرنگ کی آوازیں بھی سنی جا سکتی تھیں۔ میں نے اپنے افسروں کو فون پر صورت حال بتائی کہ پتہ نہیں میں گھر پہنچ بھی سکوں گا کہ نہیں۔ گھر سے بیٹی نے فون کیا 'ابو آپ ماموں کے یہاں چلے جاؤ۔' اب مجھے گھر جانے کی زیادہ فکر لاحق ہوگئی اور میں جامعہ کی سڑک سے کوئی ایک کلومیٹر دور گلیوں سکھ دیو وہار کالونی سے راستہ پوچھتے ہوئے گھر کے لیے روانہ ہوا۔ میرے آگے ایک لوگوں کا ایک سیلِ رواں تھا، سب کے سب پیدل تھے، ایک تانتا لگا ہوا تھا راستے میں لوگ متفکر تھے۔ پھر میں نے لوگوں کو ایک پتلی سی راہ داری کی جانب مڑتے دیکھا۔ وہاں کوئی راستہ بتانے کے لیے نہیں تھا اس لیے میں اسی بھیڑ کا حصہ بن گیا۔ وہ ایک کار کے گزرنے کا راستہ تھا جو ایک نالے کے کنارے سے گزرتا تھا۔ پھر میں نے لوگوں کو ایک پتلی سی راہ داری کی جانب مڑتے دیکھا تو میں بھی اسی بھیڑ کا حصہ بن گیا آگے مجھے ایک قبرستان نظر آیا جو کہ مسیحی برادری کا قبرستان تھا۔ وہاں بہت زیادہ سناٹا تھا کیونکہ دونو جانب شہر خموشاں آباد تھا، لوگ سر جھکائے چلے جا رہے تھے۔ یہ راستہ حاجی کالونی کو نکلتا تھا۔ وہاں پہنچ کر پھر میں نے لوگوں سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ کالونی کے اختتام پر راستہ نالے کے دوسری جانب مڑ جائے گا وہیں سے آپ نے مڑنا ہے۔ اب میں تہنا ہو چکا تھا راہ گیر ادھر ادھر مڑ گئے تھے یا اپنی اپنی منزل کو پہنچ گئے تھے۔ حاجی کالونی میں لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے کوئی بتا رہا تھا کہ ماتا مندر کے پاس بسیں جلی ہیں تو کوئی کہہ رہا تھا جولینا کے پاس بسیں جلی ہیں۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ کوئی شاکر نامی بچے کی موت ہو گئی ہے تو کوئی کہہ رہا تھا کہ بہت سے زخمی ہسپتال لے جائے جا رہے ہیں۔ کئی جگہ راستہ پوچھنے کے لیے رکا جبکہ وقفے وقفے سے زوردار دھماکے سنائی دے رہے تھے۔ راستے میں اوکھلا وہار کی دکانیں بند پڑی تھیں یہاں سے وہاں تک ایک ہجوم نظر آ رہا تھا سب کے چہروں پر تفکر تھا اور لوگ انڈے اور دودھ کے لیے پریشان نظر آ رہے تھے۔ جامعہ ملیہ کے ایک پروفیسر نے پر بتایا 'ہم لوگ ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں' بڑی جدوجہد کے بعد گھر پہنچا تو پھر وہاں کے مقامیوں سے رابطہ شروع کیا۔ جامعہ ملیہ کے پروفیسر سہراب نے فون کیا اور کہا کہ 'ہم لوگ ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں۔' انھوں نے ایک لڑکے کے مرنے کی تصدیق بھی کی۔ اس سے قبل جمعے کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مظاہرے ہوئے تھے اور اس دوران بھی پولیس نے طلبہ پر لاٹھی چارج کیا تھا۔ مظاہرین سے زیادہ پرجوش پولیس نظر آ رہی تھی۔ اس کے بعد ویڈیو کا تانتا لگ گیا اور سارے ویڈیو خوفزدہ کرنے والے تھے۔ جامعہ کے چیف پراکٹر کا پیغام دیکھا کہ پولیس زبردستی کیمپس میں گھس آئی ہے جو خود میں ایک میں نئی بات تھی کیونکہ انڈیا کی یونیورسٹیوں میں بغیر یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت کے پولیس داخل نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اسی دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے یہ خبر آنے لگی کہ وہاں بھی پولیس کی کارروائی چل رہی ہے اور پولیس کیمپس میں داخل ہو گئی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر نے چند ویڈیوز ارسال کی جس میں باب سرسید پر پولیس ایکشن ہوتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ مجھے جے این یو کے طلبہ کا ایک مظاہرہ یاد آ گیا جب دہلی کے قلب میں جنتر منتر پر احتجاجی مظاہرے میں شرکت کے لیے وہ سب دہلی کے قلب پٹیل چیسٹ پر یکجا تھے اور ان کو روکنے کے لیے پولیس بھی وہاں موجود تھی۔ ایک لڑکے نے ڈیوائڈر پھلانگ کر سڑک پار کی تو وہاں موجود پولیس سپرنٹنڈٹ نے کہا پکڑو وہ جے این یو کا نہیں ہے۔ اسے پکڑ کر لایا گیا تو پتہ چلا کہ واقعی وہ جے این یو کا نہیں بلکہ دہلی یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے کس طرح پہچانا کہ وہ جے این یو کا نہیں ہے تو انھوں نے کہا کہ جے این یو والے ڈیوائڈر نہیں پھلانگتے بلکہ جہاں سے جانے کا راستہ ہوتا ہے وہاں سے جاتے ہیں اور انھوں نے دکھایا کہ دور کئی لڑکے لڑکیاں سڑک پار کرنے والے نشان سے سڑک پار کر رہے تھے۔ خیال آیا کہ نہ تو پولیس والے اب اتنے قابل رہے اور نہ ہی طلبہ میں وہ تمیز نظر آتی ہے کہ جمہوری طرز سے احتجاج کرنا کیا ہوتا ہے!
131008_earthquake_kashmir_killed_nj
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/10/131008_earthquake_kashmir_killed_nj
دو ہزار پانچ کا زلزلہ ذہن میں آج بھی تازہ
وہ اکتوبر دو ہزار پانچ کی ہی ایک دوپہر تھی جب مجھ سے کچھ فاصلے پر میرے بھانجے بھانجیاں کھیلنے میں مصروف تھے۔ایک چھ سالہ بچی دوپٹہ اوڑھے بیٹھی ہے، ایک چار سالہ بچہ آتا ہے اور ایک فرضی دروازے پر دستک دیتا ہے۔ بچی دروازہ کھولتی ہے اور اسے دیکھ کر خوشی سے گلے لگاتی ہے اور کہتی ہے ’میرا بچہ نہیں رہا لیکن شکر ہے بھائی صاحب آپ زندہ ہیں۔‘ بچہ اذیت اور امید بھرے لہجے میں کہتا ہے ’بہن جی میرے بچوں کی کوئی خبر‘؟؟؟
آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کے زلزلے سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوئے تھے میرے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا تھا۔ جو ہوا تھا بھولنا اتنا آسان نہیں تھا جب ایک ہنستی مسکراتی صبح قیامت میں تبدیل ہوگئی تھی۔ اتنی سی کہانی۔۔مجھے اب مرنا ہوگا؟ کشمیر میں آٹھ اکتوبر 2005 کو آنے والے بھیانک زلزلے سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوئے تھے۔ جہاں بڑی تعداد میں بچے اپنے سکولوں میں ہی دفن ہو گئے وہیں بچ جانے والے ننھے دماغوں پرگہرے نقوش ثبت ہو گئے۔ بچوں کے کھیل بھی زلزلے کی ہی کہانیوں کے اردگرد گھومنے لگے۔ ایک قیامت تھی جو آ کر گزر گئی تھی۔ لوگ سکتے کی کیفیت میں تھے۔ یقین آتا بھی تو کیسے؟ نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔ یوں بھی کبھی ہوتا ہے کہ آن کی آن میں گاؤں کے گاؤں اور بستیوں کی بستیاں خاک ہو جائیں؟ لینڈ سلائیڈنگ کے باعث راستے معدوم ہو چکے تھے۔ میلوں پیدل دشوار راستوں پر سفر کر کے لوگ اپنے آبائی علاقوں تک جا رہے تھے کہ کسی اپنے کو زندہ سلامت دیکھ سکیں۔ کئی بچے سکولوں کے نام سے گھبرانے لگے۔ خوف کیسے نہ محسوس ہوتا اپنے ہی کئی ہم جماعتوں کو اپنے ارد گرد جس حال میں وہ دیکھ کر آئے تھے ان کے معصوم ذہنوں کے لیے وہ سب ناقابلِ قبول تھا۔ ایک نو عمر لڑکی اپنی ہم جماعت کے اُس پیغام کا بوجھ اٹھائے نڈھال تھی جو اس کے ہمراہ ملبے تلے دبی زندگی کی جستجو کرتے اس نے دیا تھا۔ جس میز پر وہ کتابیں رکھ کر پڑھا کرتی تھی اسی کا ایک کونہ اس کے پیٹ میں پیوست تھا۔ اس نے اپنے آخری پیغام میں اپنی سہیلی سے کہا تھا’ اگر میرے ماں باپ سے ملو تو انہیں بتانا میں بہت اذیت میں مری ہوں۔‘ کئی بچوں کو اس آفت نے وقت سے پہلے بڑا کر دیا ۔ مجھے یاد ہے وہ چودہ سالہ بچی جس کے ماں باپ زلزلے کی نذر ہو گئے اور اس پر پانچ بہن بھائیوں کے ساتھ ضعیف نانی اور دادی دونوں کی ذمہ داری آن پڑی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھی ہوتے اور کمزور نہ پڑنے کی لگن بھی ہوتی۔ اتنے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے بعد اچھی خبر کو جیسے کان ترسنے لگے تھے وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کا ایک دوسرے سے حال احوال پوچھنے کا انداز بدلنے لگا ۔ پہلے لوگ ملتے تو پوچھتے زلزلے میں آپ کا کون گیا؟ لیکن اب کوئی شناسا چہرے دکھائی دیتا تو لوگ کہتے شکر ہے آپ زندہ ہیں۔ یہ شاید مثبت زندگی کی طرف پہلا قدم تھا۔ آج آٹھ برس بعد ان علاقوں میں جانے پر شاید ہی اس زلزلے کی کوئی یاد دکھائی دے۔ کیونکہ تعمیرِ نو کے بعد مظفرآباد سمیت کئی علاقے پہلے سے بہتر تعمیر ہو چکے ہیں۔ مگر ایک جگہ شاید آج بھی آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کا منظر پیش کر رہی ہے وہ ہے اس قدرتی آفت کو جھیلنے والوں کے دل اور دماغ جہاں آج بھی کئی کہانیاں ان کہی ہیں۔
vert-fut-52028722
https://www.bbc.com/urdu/vert-fut-52028722
’سلیپ اپنیا‘: وہ لوگ جنھیں نیند کے دوران سانس رکنے کی بیماری ہوتی ہے
مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں مر رہا ہوں۔ دن کے وقت میں اتنا تھکا ہوا محسوس کرتا تھا کہ اکثر میرے گھٹنے اکڑ جاتے، ڈرائیونگ کرتے ہوئے مجھے نیند کا جھونکا آ جاتا اور پھر میں اپنے آپ سنبھالتا۔ میرے چہرے پر تھکاوٹ نمایاں رہتی تھی۔
رات کے وقت میں وقفے وقفے سے سوتا، ٹانگیں ہلتی رہتیں، اور پھر اچانک دم گھٹنے سے میری آنکھ کھل جاتی، دل تیزی سے دھڑک رہا ہوتا تھا۔ میرے ڈاکٹر پریشان تھے۔ انھوں نے خون اور پیشاب ٹیسٹ اور الیکٹرو گرام کروانے کا کہا۔ شاید انھیں لگا کہ یہ مسئلہ دل کی کسی بیماری کی وجہ سے ہے۔ نہیں میرا دل ٹھیک تھا۔ میرا خون ٹھیک تھا۔ انھوں نے کولونو سکوپی کا کہا۔ یہ سنہ 2008 کے آواخر کی بات ہے، میں اس وقت 47 سال کا تھا۔ چنانچہ میں نے چار لیٹر نلیٹیلی کو پیا تاکہ میری آنتیں صاف ہو جائیں اور گیسٹرو اینٹولوجسٹ ٹھیک طریقے سے ان کے اندر دیکھ سکے۔ جب مجھے ہوش آئی تو ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ میری بڑی آنت بالکل ٹھیک تھی۔ کوئی کینسر نہیں تھا، رسولی نہیں تھی۔ تاہم ایک چیز غیر معمولی تھی۔ یہ بھی پڑھیے اچھی نیند کے چھ نسخے زبان پر چربی ’نیند میں خلل کی وجہ بنتی ہے‘ صرف چند راتوں کی خراب نیند صحت خراب کر سکتی ہے ڈاکٹر نے بتایا کہ ’جب آپ نیند میں تھے تو آپ نے ایک مقام پر پہنچ کر سانس لینا بند کر دی تھی۔ آپ کو اسے چیک کر لینا چاہیے، اسے سانس کی عبوری بندش یا ’سلیپ اپنیا‘ کہتے ہیں۔‘ میں نے پہلے اس کے متعلق کبھی نہیں سنا تھا۔ نیند میں جسم میں متحرک تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ یہ مختلف مراحل سے مل کر بنتی ہے اور جوں جوں آپ اس سے گزرتے ہیں آپ کی سانس، آپ کا بلڈ پریشر اور آپ کے جسم کا درجہ حرارت بڑھتا اور کم ہوتا رہتا ہے۔ جب آپ اٹھ بھی جاتے ہیں تو آپ کے پٹھوں میں تناؤ اسی طرح رہتا ہے۔ یہ صرف آر ای ایم مرحلے کے دوران نہیں ہوتا جس میں آپ کی نیند کا ایک چوتھائی حصہ ہوتا ہے۔ اس دوران اکثر اہم پٹھے کافی حد تک آسان باش ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کے گلے کے پٹھے زیادہ آرام دہ ہو جائیں تو آپ کی سانس کی نالی کام کرنا بند کر دیتی ہے اور یہ بلاک ہو جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ سانس کی عبوری بندش یا ’سلیپ اپنیا‘۔ سلیپ اپنیا یونانی لفظ ’اپونیا‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب پھولی ہوئی سانس ہے۔ ’سلیپ اپنیا‘ میں آپ کی ہوا کی ترسیل میں متواتر مداخلت درپیش رہتی ہے، جس کی وجہ سے خون میں آکسیجن کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے۔ اس کے بعد آپ ہلتے ہیں، ہانپتے ہیں اور سانس لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا ایک رات میں سینکڑوں مرتبہ ہو سکتا ہے اور اس کے بُرے اثرات بہت زیادہ اور شدید ہیں۔ پوری دنیا میں ایک ارب کے قریب لوگ ’سلیپ اپنیا‘ کا شکار ہیں۔ ’سلیپ اپنیا‘ کا برا اثر دل پر بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ آکسیجن کی کمی کو پورا کرنے کے لیے زیادہ تیزی سے خون پمپ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آکسیجن لیول کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے شریانوں میں مادہ جمع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے دل کی بیماری، ہائی بلڈ پریشر اورفالج کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ 90 کی دہائی کے وسط میں یو ایس نیشنل کمیشن آن سلیپ ڈس آرڈرز ریسرچ کے اندازے کے مطابق امریکہ میں ہر سال تقریباً 38000 افراد دل کی اُن بیماریوں سے مر رہے تھے جو اپنیا کی وجہ سے مزید بگڑ گئی تھیں۔ اس بات کے بھی قوی شواہد ملے ہیں کہ یہ حالت گلوکوز میٹابولزم پر اثر انداز ہوتی ہے جو ٹائپ 2 ذیابیطس کی وجہ بنتا ہے اور اس سے وزن بھی بڑھتا ہے۔ اس کے بعد پوری رات ٹھیک طریقے سے نہ سونے کی تھکن بھی ہے، جس کا تعلق یادداشت میں خرابی، پریشانی اور ڈپریشن سے ہے۔ کم نیند آنے سے توجہ پر بھی اثر پڑتا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کے حادثات ہوتے ہیں۔ سنہ 2015 میں سویڈن میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ’سلیپ اپنیا‘ کی وجہ سے حادثات ڈھائی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ دفاتر سے غیر حاضری کا سبب بنتا ہے جس کا نتیجہ نوکریوں سے لوگوں کو نکالے جانے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جن لوگوں کو ’سلیپ اپنیا‘ ہوتا ہے ان کے 18 سال میں مرنے کے امکانات ان سے زیادہ ہوتے ہیں جنھیں یہ نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے متعلق بھی سگریٹ نوشی کی طرح جب پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ یہ خطرناک ہے سنجیدگی نہیں دکھائی گئی اور لوگوں نے اسے ایک خطرہ نہیں سمجھا۔ امیریکن اکیڈمی آف سلیپ میڈیسن کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ’وہ سلیپ اپنیا سے ہونے والی دوسری شدید بیماریوں سے اس کا تعلق جوڑنے میں ناکام رہے ہیں۔‘ رپورٹ کے مطابق امریکہ کے 12 فیصد بالغ افراد اس سے متاثر ہوتے ہیں لیکن 80 فیصد میں اس کی تشخیص ہی نہیں ہوتی۔ یہ پھیلاؤ عالمی طور پر بھی دیکھا گیا ہے۔ سنہ 2019 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں تقریباً ایک ارب افراد ہلکے سے شدید ’سلیپ اپنیا‘ کا شکار ہوتے ہیں۔ اب اس پر مزید تحقیق ہو رہی ہے۔ میڈیکل سائنس اس کا کوئی حل نکالنے کر سر توڑ کوشش کر رہی ہے۔ دنیا بھر میں جو ایک ارب یا اس سے زیادہ لوگ ’سلیپ اپنیا‘ کا شکار ہیں انھیں شاید اس کے متعلق پتا بھی نہیں ہے، علاج کرانا تو دور کی بات ہے۔ مجھے اس کی ذہنی کیفیت کے متعلق پتا ہے اور وہ میں ہی ہوں۔ جب مجھے احساس ہوا کہ میں ایک ایسے مسئلے کا شکار ہوں جس کے متعلق زیادہ تحقیق نہیں ہوئی لیکن یہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے تو میری مرکزی تشویش یہی تھی کہ میں اس کو کس طرح ٹھیک کروں؟ اگرچہ ’سلیپ اپنیا‘ کی وجہ کئی مستقل خطرات ہیں جیسا کہ موٹاپا، موٹی گردن اور گلے کے بڑے غدود، چھوٹا جبڑا یا بوڑھا ہونا، لیکن یہ اس وقت نمودار ہوتے ہیں جب انسان سو رہا ہوتا ہے۔ اس کی تشخیص کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ دوسرے انسان کی نیند کو مانیٹر کیا جائے۔ سو سنہ 2009 میں تھکاوٹ اور اپنے ڈاکٹر کے مشورے پر میں نے نارتھبروک، الینوئے میں واقع نارتھ شور سلیپ میڈیسن سے وقت لیا۔ وہاں میری ملاقات سلیپ میڈیسن کی ماہر لیزا شائیوز سے ہوئی۔ انھوں نے میرا گلا دیکھا، اور اس کے بعد مشورہ دیا کہ مجھے پولی سومنوگرام کرانا چاہیے۔ یہ ایک سلیپ سٹڈی ہے جس میں میرا سانس لینا، خون میں آکسیجن کا لیول، دل کی دھڑکنوں کی شرح اور دماغ اور پٹھوں کی ایکٹیویٹی یا کام کرنے کا عمل ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ کچھ ہفتے بعد ایک جمعرات کو رات نو بجے اس کے لیے میں وہاں پہنچا۔ ایک ٹیکنیشن مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گیا جہاں ایک ڈبل بیڈ اور ایک بڑی الماری تھی۔ بیڈ کے پیچھے ایک کھڑکی تھی جس سے ایک لیبارٹری نما کمرہ نظر آ رہا تھا جس میں آلات بھرے ہوئے تھے۔ میں نے کپڑے بدلے اور ٹیکنیشن کو بلایا۔ اس نے میرے سینے اور سر پر الیکٹروڈز لگائے اور مجھے ایک جالی والی شرٹ پہننے کے لیے دی تاکہ تاریں جڑی رہیں۔ 10 بجے کے قریب میں نے بتیاں بند کیں اور جلد ہی سو گیا۔ میں ساڑھے چار بچے صبح اٹھ گیا اور دوبارہ سونے کی کوشش کی لیکن ٹیکنیشن نے کہا کہ ان کے پاس چھ گھنٹے کا ڈیٹا آ گیا ہے اور میں اب گھر واپس جا سکتا ہوں۔ جب میں نے کپڑے پہن لیے تو اس نے مجھے بتایا کہ میرا اپنیا بہت شدید تھا اور وہ مجھے بعد میں تفصیل بتائیں گے۔ پہلے میرا خیال تھا کہ میں کہیں جا کر زبردست ناشتہ کروں گا لیکن بعد میں میں نے سیدھا گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ مجھے بھوک نہیں تھی، میں ڈرا ہوا تھا۔ کئی ہفتوں بعد میں دوبارہ نارتھ شور آیا، لیکن اس مرتبہ میں دن میں آیا تھا۔ شائوز نے مجھے ایک سکرین کے سامنے بٹھایا جو آڑھی ترچھی لائنوں اور نمبروں سے بھری پڑی تھی، جن کے پیچھے میں ایک بلیک اینڈ وائٹ ویڈیو میں ایک کونے میں سوتا ہوا بھی نظر آ رہا تھا۔ وہ کافی پریشان کن تھا، جیسے کہ میں کسی کرائم سین میں اپنے آپ کو مرا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ شائوز نے مجھے بتایا کہ میں نے 112 سیکنڈ، تقریباً دو منٹ تک سانس نہیں لیا تھا۔ پلس آکزیمیٹر کے مطابق خون میں آکسیجن کا نارمل لیول 95 سے 100 فیصد کے درمیان ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو دائمی پلمونری آبسٹرکٹیو (سانس میں رکاوٹ) ہو ان کا یہ نمبر 80 سے ذرا اوپر آتا ہے۔ میرا کسی وقت 69 فیصد تک گر جاتا تھا۔ یہ کتنا برا ہے؟ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اگر کسی انسان کی خون میں آکسیجن کی مقدار 94 فیصد یا اس سے کم ہو جائے تو فوراً ان پر توجہ دینی چاہیے کہ کہیں ان کی کوئی سانس کی نالی تو بند نہیں ہے، پھیپھڑا تو کام کرنا نہیں بند کر گیا یا کہیں خون کی گردش میں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ شائوز نے کہا کہ ایک آپریشن کے ذریعے میرے گلے میں سانس کی نالی کو کھلا کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں کافی خون نکل سکتا ہے اور ٹھیک ہونے میں بڑا وقت بھی لگ سکتا ہے۔ دوسرا آپشن ماسک تھا۔ سلیپ اپنیا کی دریافت کے بعد پہلی دہائی میں تو صرف ایک آپشن تھا۔ آپ ٹریکیٹومی کروائیں جو کہ آپ کے گلے میں ایک سوراخ کرنا ہوتا ہے خراب ہوتی ہوئی سانس کی نالی کو بائی پاس کیا جا سکے۔ اس سے کام تو ہو جاتا لیکن ساتھ ساتھ اس میں بڑا رسک بھی تھا۔ بالٹی مور میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر آف میڈیسن ایلن شوارٹز کہتے ہیں کہ ’شروع کے دنوں میں ڈاکٹروں کو زیادہ علم نہیں تھا۔ 80 کی دہائی میں (تحقیق) شروع کی تو ہم برف کے بڑے تودے کا ایک سرا دیکھ رہے تھے، جن میں اپنیا کے شدید مریض بھی تھے۔ وہ اپنے جسم کے ٹشوز میں وافر مقدار میں آکسیجن نہ پہنچنے کی وجہ سے سر درد کے ساتھ نیند سے اٹھتے تھے۔ آپ سوچ ہیں کہ وہ کتنے تھکے ہوئے محسوس کرتے تھے۔ وہ انتہائی ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے، ان کا موڈ بدلتا رہتا، اور بہت جلد غصہ آ جاتا۔‘ ان مسائل کے باوجود مریضوں کے ٹریکیٹومی سے گھبرانے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ کیونکہ یہ سرجیکل عمل کو آخری آپشن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور وہ بھی صرف انتہائی ہنگامی حالت میں۔ ہاٹ سپرنگ آرکنساس کی اینجیلا کیکلر کہتی ہیں کہ ’میں ہمیشہ سے اونچے خراٹے لیتی تھی، اور آدھی رات کو ہانپتی ہوئی اٹھتی۔‘ انجیلا کو 2008 میں سلیپ اپنیا کا مرض تشخیص ہوا تھا، اگرچہ وہ کہتی ہیں کہ یہ انھیں بہت چھوٹی عمر سے تھا۔ سنہ 2012 تک ان کو دل کی بیماری ہو چکی تھی۔ انجیلا کہتی ہیں کہ ’میں ایمرجنسی میں گئی کیونکہ میں بہت تھکی ہوئی اور بالکل اچھا محسوس نہیں کر رہی تھی۔ مجھے پتہ چلا کہ یہ دل کا دورہ ہے۔ اگلی صبح انھوں نے بتایا کہ ہم ٹریکیٹومی کر رہے ہیں۔‘ تو کیا انھیں سات سال میں اس کی عادت پڑ گئی ہے؟ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک جنگ ہے۔ بہت ساری صفائی کرنی ہوتی ہے۔ بہت گندا کام ہے۔ آپ آسانی سے سانس نہیں لیتے۔ آپ کا قدرتی ہیومیڈیفائر (مرطوب گر) خراب ہو گیا۔ آپ کو اس کی مدد کرنی ہے۔ آپ کو انفیکشنز ہو سکتی ہیں۔‘ ان کے لیے اس کا سب سے بڑا اثر یہ ہے کہ وہ سوئمنگ نہیں کر سکتیں اور یہ وہ چیز ہے جو وہ سب سے زیادہ انجوائے کرتی ہیں۔ جب لوگ ان کی طرف غور سے دیکھتے ہیں تو بھی انھیں اچھا محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن اس عمل سے ان کا اپنیا ختم ہو گیا۔ ’میں خراٹے نہیں لیتی اور سانس لے سکتی ہوں اور بہتر سوتی ہوں۔‘ یونیورسٹی آف سڈنی کے پرافیسر آف میڈیسن کولن سلیون نے اس عمل سے بچنے کے لیے کونٹیووس پازیٹیو ایئرویے پریشر مشین (سی پی اے پی) ایجاد کی جو اس کے علاج کے لیے ایک نئی چیز ثابت ہو سکتی ہے۔ ستر کی دہائی کے آخر میں وہ یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں ایک محقق کی مدد کر رہے تھے جو کتوں کے نیند کے دوران سانس کے کنٹرول پر کام کر رہے تھے۔ اس تحقیق میں ٹریکیسٹرومی کے ذریعے کتوں کو تجرباتی گیسیں فراہم کرنا تھا۔ آسٹریلیا واپس آ کر سلیون نے کتے کی ناک پر فٹ آنے والا ماسک بنایا تاکہ اس کے ذریعے گیسز جا سکیں۔ سلیون کہتے ہیں کہ ایک مریض نے جس کی ٹریکٹومی ہونے تھی لیکن وہ اس کا کوئی متبادل ڈھونڈ رہے تھے انہیں تحریک دی کہ کتے کے ماسک میں تبدیلیاں لا کر انسانوں کا ماسک بنائیں۔ انھوں نے اس مریض کے ناک کا پلاسٹر کا سانچہ لیا اور اس سے ایک فائبر گلاس کا ماسک بنایا جس کے ساتھ ٹیوبیں لگائی جا سکتی تھیں۔ ایک ویکیوم کلینر سے بلوئر لیا اور سائیکل پر پہننے والے ہیلمٹ سے سر کو سنبھالنے والی پٹی نکالی۔ انھوں نے 1981 میں لکھی گئی ایک دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح پانچ مریضوں کی ناک پر فٹ کرتے ہوئے سی پی اے پی نے مکمل طور پر اوپر کی ہوا کے راستے کی بندش روک دی تھی۔ سلیون نے اس آلے کو پیٹنٹ کرایا اور کچھ عرصہ بعد انھوں نے اس کا ایک ایسا ماڈل بنایا جو اپنیا کی بیماری میں مبتلا لوگوں کو لیبارٹری سے باہر دیا جا سکتا تھا۔ آج لاکھوں لوگ سی پی اے پی مشینیں استعمال کرتے ہیں۔ شوارٹز کہتے ہیں کہ 80 کی دہائی کے آواخر میں ہم مریض کے ساتھ بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ ماسک کیسا چل رہا ہے؟ مریض اکثر جھوٹ ہی بولتا کہ ماسک زبردست ہے۔ ’جب ہم نے 90 کی دہائی کے آخر میں اس میں الیکٹرانک چپ لگانے شروع کیے تو ہمیں پتہ چلا کہ وہ اپنی مشینوں کو کتنا کم استعمال کر رہے تھے۔‘ نیو یاک ٹائمز کے ایک مضمون میں سنہ 2012 کو لکھا ہوا تھا کہ ’ماسک کچھ بری سائنس فکشن کی فلموں کی طرح ہے: بڑا، وزنی، اور رکاوٹ پیدا کرنے والا۔‘ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ایک چوتھائی سے آدھے کے درمیان مریض پہلے سال کے اندر ہی مشین کو چھوڑ دیتے تھے۔ میں نے یقیناً یہی کیا۔ پہلی رات تو جب میں نے اسے پہنا تو سی پی اے پی نے مجھے بہتر محسوس کرایا۔ میں تروتازہ اٹھا، چاک و چوبند، ایسی توانائی محسوس کی جو سالوں میں نہیں کی تھی۔ لیکن پہلی اچھی رات کے بعد ماسک کے مثبت اثرات ختم ہوتے گئے۔ لیبارٹری کے باہر میں اس کے فوائد نہیں محسوس کر سکا۔ اس میں مسئلہ یہ تھا کہ جب آپ سانس لیتے ہیں تو یہ سانس کو اندر دھکیلتا ہے، لیکن جب آپ سانس باہر کی طرف نکالتے ہیں تو یہ تب بھی اسے اندر کی طرف ہی دھکیلتا ہے۔ آپ اس کے مخالف کوشش کر رہے ہوتے ہیں، اور میں دم گھٹنے سے اٹھ بیٹھتا۔ اکثر راتوں کو میں اٹھتا اور ماسک کو چہرے سے الگ کر دیتا۔ صبح میں اعدادوشمار چیک کرتا کہ یہ کتنا کم کام کر رہا تھا۔ میں نارتھ شور واپس گیا، جہاں شائوز نے پریشر سیٹنگز کو کچھ کیا اور مجھے کہا کہ میں کوئی دوسرے ماسک ٹرائی کروں۔ میں کئی مرتبہ وہاں گیا۔ لیکن لگتا تھا کہ کچھ کام نہیں ہو رہا۔ آخر شائوز نے مجھے کہا کہ ’اگر میں 30 پاؤنڈ وزن کم کر دوں تو شاید مسئلہ ختم ہو جائے۔‘ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ آپ دبلے پتلے بھی ہوں اور پھر بھی آپ کو سلیپ اپنیا ہو لیکن موٹاپا اس کے امکانات کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ میں پانچ فٹ نو انچ ہوں اور جب میں نے گریجویٹ کیا تھا تو میرا وزن 150 پاؤنڈ تھا۔ 2009 میں میرا وزن 210 پاؤنڈ ہو گیا تھا۔ سو 2010 میں میں نے وزن کم کرنے کا فیصلہ کیا۔ شائوز نے 30 پاؤنڈ کے قریب کم کرنے کو کہا تھا۔ اور میں نے ایسا کر لیا۔ یکم جنوری کو 208 پاؤنڈ سے میں اسے 31 دسمبر تک 178 پاؤنڈز پر لے آیا۔ وزن کم کرنے نے کام کر دکھایا۔ اب مزید ماسک کی ضرورت نہیں ہو گی۔ لیکن پھر پتہ چلا کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ میرا وزن پھر بڑھنے لگا اور اس کے ساتھ ہی اپنیا بھی واپس آ گیا۔ سنہ 2017 کی جرمن تحقیق کے مطابق اگرچہ آبسٹرکٹیو سلیپ اپنیا 40 فیصد جرمن آبادی میں ہو سکتا ہے لیکن صرف ہسپتالوں کے اندر 1.8 فیصد مریضوں میں اس کی تشخیص ہوئی ہے جو کہ محققین کے مطابق مریضوں اور ہسپتال کے عملے میں ممکنہ طور پر اس کے متعلق کم آگہی کی وجہ سے ہو۔ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن کے ایک مضمون کے مطابق امریکہ کے سرجیکل مریضوں میں سلیپ اپنیا کی ویک ’وبا‘ ہے۔ الیکٹیو سرجری کے ہر چار مریضوں میں سے ایک میں یہ موجود ہے لیکن کئی گروہوں میں یہ تناسب اس سے بھی زیادہ ہے۔ مثلاً موٹاپے کا علاج کرانے والے 10 میں سے آٹھ مریضوں میں یہ موجود ہے جس کی وجہ کئی خطرے موجود ہیں۔ رپورٹ میں لکھا ہوا ہے کہ ’وہ مریض جو ہڈیوں کا آپریشن یا جنرل سرجری کرا رہے ہیں اگر انھیں سلیپ اپنیا ہے تو ان میں سانس کی تکلیف کی پیچیدگیوں کے بڑھنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے اور انھیں انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہے جس سے ہیلتھ کیئر کا خرچہ بڑھ جاتا ہے۔‘ میری ریڑھ کی ہڈی کی سرجری جلدی سے ہو گئی تھی لیکن اس دوران بھی ہسپتال نے اصرار کیا کہ میں گھر پر سونے کی مشق کروں تاکہ میرے اپنیا کی شدت کا پتہ چل سکے۔ سلیپ سینٹر میں جانے کی بجائے میں کٹ ہی گھر لے آیا جس میں یہ درج تھا کہ میں نے اپنے سینے پر سینسر بینڈ کس طرح لگانے ہیں، انگلی پر نبض جانچنے کا آلہ کس طرح لگانا ہے اور ناک کے نیچے چپ تاکہ سانس لینے کے عمل کو مانیٹر کیا جا سکے۔ ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ مجھے معتدل اپنیا ہے، شاید یہ 10 پاؤنڈ وزن کم کرنے کا نتیجہ تھا۔ جان ہاپکنز سکول آف میڈیسن کے پروفیسر آف میڈیسن فلپ سمتھ کہتے ہیں کہ وزن کم کرنا خود ہی ایک علاج ہے۔ ’مسئلہ یہ ہے کہ لوگ یہ نہیں کر سکتے۔‘ 1990 کی دہائی کے وسط میں دندان سازی میں استمعال کیے جانے والے ایک آلے کو ان لوگوں کے لیے استعمال کیا جانے لگا جو ماسک برداشت نہیں کر سکتے۔ جنرل ڈینٹسٹ ڈیوڈ تروک کہتے ہیں کہ ’آبٹرکٹیو سلیپ اپنیا آپ کے منھ کے پچھلے حصے میں ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر آپ کی زبان کے پاس منھ میں اتنی جگہ نہیں اور وہ آپ کی سانس کے راستے کی طرف دھکیلی جاتی ہے۔ سی پی اے پی زبان کو ہوا کو نچے دھکیلتے ہوئے زبان کو باہر نکلنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایک آلہ نچلے جبڑے کو سامنے لاتا ہے اور زبان اس کے ساتھ ہی آ جاتی ہے۔‘ اس کو ایک بریس کی طرح سمجھیں، جس میں اوپر والے دانتوں کو نچلے دانتوں کو دھکیلنے کے لیے اینکر بنایا جاتا ہے اور ان کے ساتھ ہی نچلا جبڑا آگے آتا ہے اور آپ کے گلے کے پچھلے حصے میں ہوا کا راستہ کھلا ہو جاتا ہے۔ لیکن سی پی اے پی کی طرح یہ اورل آلہ بھی ایک نامکمل حل ہے۔ یہ جبڑے کو ایک غیر فطری پوزیشن میں رکھتا ہے، جو کہ غیر تکلیف دہ ہو سکتا ہے اور اس کا لمبے عرصے تک استعمال آپ کے کھانے کے طریقے کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس کا دباؤ آپ کے دانتوں کی پوزیشن کو بھی بدل سکتا ہے۔ لیکن تروک کے زیادہ تر اپنیا کے مریض اس اورل آلے سے فیضیاب ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر شدید بیمار نہیں تھے۔ ’جن کو شدید سلیپ اپنیا ہو تو ان کے لیے سی پی اے پی کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ میں کبھی نہیں کہتا کہ آپ کے پاس چوائس ہے۔ آپ کو سی پی اے پی کو پہلے ٹرائی کرنا چاہیے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ وہ مریض جو اپنیا کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سی پی اے پی اور نہ ہی اورل آلے سے ایڈجسٹ کر سکتے ہیں اچھا طریقہ جبڑے کی ایڈوانسمنٹ کی سرجری ہے، جو کہ گلے کے سافٹ ٹِشوز کو چوڑا کرنے سے بہتر عمل ہے۔ تروک کہتے ہیں کہ ’صحتیابی آسان ہے کیونکہ یہ ٹِشو کی صحتمندی کی بجائے ہڈی کی بہتری ہے۔‘ تاہم اس سرجری کے بھی اپنے مسائل ہیں جن میں آپ کے نچلے جبڑے کو دو جگہوں سے توڑنا اور سرجری کے بعد آپ کے منھ کو تار کے ساتھ بند کرنا بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور حکمتِ عملی اورل آلے کے الیکٹریکل ورژن ہائپوگلوسل نروو سٹیمولیشن (این ایچ ایس) میں ہے۔ جہاں ایک ہلکے سے کرنٹ سے زبان کھنچتی ہے اور نیند کے دوران پیچھے نہیں گرتی۔ باسٹن کے برگھم اینڈ ومنز ہاسپیٹل کے سلیپ ڈس آرڈرز سروس کے اسسٹنٹ میڈیکل ڈائریکٹر لارنس ایپسٹین جو کہ امریکن اکیڈمی آف سلیپ میڈیسن کے سابق صدر بھی ہیں کہتے ہیں کہ سی پی اے پی ’ایک تجویز شدہ فرسٹ لائن تھراپی ہے۔‘ لیکن علاج دراصل ’سبھی آپشنز کو جاننا ہے اور اس طرح کی تھراپی تیار کرنا ہے جو مریض کے پاس ہو اور جس کے استعمال کے لیے وہ تیار بھی ہو۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ آبٹسرکٹیو سلیپ اپنیا کو ایک اکیلی حالت کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن یہ کئی وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے ۔ چہرے اور گلے کی ترتیب، پٹھوں کا تناؤ، موٹاپا۔ اس لیے ہر مریض کا ایک ہی علاج نہیں ہوتا۔ ’ہمارے پاس بہت موثر علاج ہیں لیکن ہر ایک کے کچھ نقصانات بھی ہیں۔ بس یہ بات ہے مریض اور اس کے طریقہ علاج میں ہم آہنگی کی۔‘ وہ کہتے ہیں کہ صرف ایک ٹیسٹ ہے۔ ’یقنی بنائیں کہ وہ ہو۔‘ بالکل درست علاج کے حصول میں ’ہمیں ابھی بہت دور تک جانا ہے۔‘ گولیوں سے علاج پر بھی بہت امیدیں لگی ہوئی ہیں۔ جان ہاپکنز کے سمتھ کہتے ہیں کہ ’مستقبل نیورو کیمیکل ہے۔ ہم چوہے میں اپنیا کا علاج کر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اگلے دس، یا شاید پانچ برسوں میں آپ سلیپ اپنیا کی دوائیاں لے سکیں، کیونکہ یہ نیروکیمیکل مسئلہ ہے۔ یہ موٹاپا خود نہیں، نہ ہی چربی جو ہوا کے راستے کو دباتی ہے بلکہ یہ وہ کچھ ہارمونز ہیں جو ہوا کے راستے کو دبا دیتے ہیں۔ انسانوں پر بھی کچھ مفید تجربات ہوئے ہیں۔ فلس زی 2017 کی اس تحقیق کے شریک بانی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ڈرونابینول، جو کہ کینیبیز (بھنگ) میں پایہ جانے والا ایک مولیکیول ہے، سلیپ اپنیا کی شدت کو کم کرتا ہے۔ جب یہ تحقیق شائع کی گئی تھی تو اس وقت کہا گیا تھا کہ ’سی پی اے پی ڈیوائس جسمانی مسئلے کو ٹارگٹ کرتی ہے وجہ کو نہیں۔ یہ دوائی دماغ اور ان اعصابی رگوں کو ٹارگٹ کرتی ہے جو اوپر والے ہوا کے راستے کے پٹھوں کو قابو کرتے ہیں۔ یہ دماغ کے ان نیروٹرانسمیٹرز کو تبدیل کرتی ہے جو پٹھوں کے ساتھ رابطہ کرتے ہیں۔‘ اور بھی امید افزا اشارے ہیں۔ ایک بین الاقوامی تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ دو دواؤں ایٹموکزٹین اور آکزیبٹنین کے مرکب کو پینے سے اپنیا میں کافی حد تک کمی آتی ہے، اور تحقیق میں حصہ لینے والے سبھی شرکا کی نیند کے دوران ہوا کے راستے میں رکاوٹ 50 فیصد کم ہوئی ہے۔ لیکن مجھ جیسے شخص کے لیے جو اپنیا کا شکار ہے، شاید ابھی لمبا انتظار ہے۔ شوارٹز کہتے ہیں کہ ’وہ گذشتہ 20 سال سے اندازہ لگا رہے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی دوائی آ جائے گی۔ واحد مسئلہ یہ ہے کہ یہ 20 سال کا نامکمل کام ہے۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ ہم وہاں پہنچ جائیں گے۔‘ صبر اور ہیلتھ کیئر کو اکثر اکٹھا دیکھا جاتا ہے، چاہے یہ کسی نئے علاج کا مارکیٹ میں آنا ہو، اچھے نتیجے کے انتظار میں طرز زندگی میں تبدیلیوں کا انتظار ہو یا کسی ٹھیک سپیشلسٹ سے ملنے کا انتظار۔ میرے لیے یہ ایک طویل عرصے تک ڈائٹنگ اور نارتھ ویسٹرن میں سلیپ سپیشلسٹ سے ملاقات کی طرف واپس جانا تھا۔ جب میری سرجری ہوئی اور مجھے پتہ چلا کہ میرا اپنیا واپس آ گیا تو میں نے جولائی میں نارتھ ویسٹرن سے رابطہ کیا تو انھوں نے مجھے بتایا کہ میری ملاقات اکتوبر کے آخر سے پہلے ممکن نہیں۔ خود ہی اندازہ لگائیے کہ کتنے لوگ اس مسئلے کا شکار ہیں۔
041219_peer2peer_zs
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2004/12/041219_peer2peer_zs
ڈاؤن لوڈنگ کے لئے P2P اب قانونی
اس وقت جب زیادہ تر ممالک میں موسیقی کی کمپنیاں انٹر نیٹ پر موسیقی کا تبادلہ کرنے والے افراد پر مقدمے کر رہی ہیں ، صارفین میں موسیقی ڈاؤن لوڈ کرنے کی خواہش میں اضافے نے موسیقی اور فلم کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ آن لائن موسیقی کا کاروبار کرنے والے افراد کے ساتھ مل کر غیر قانونی ڈاؤن لوڈز کا کوئی قانونی متبادل پیش کریں۔
اب جب کہ ابھی تک پیئر ٹو پیئر(P2P ) نیٹ ورک کے ذریعے کاپی رائٹ موسیقی کا غیر قانونی تبادلہ مقبولِ عام ہے یہ نئی ویب سائٹیں ان لوگوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جو ایک پاؤنڈ یا اس سے بھی کم میں قانونی طور پر موسیقی خریدنے میں دلچسی رکھتے ہیں۔ تیز براڈ بینڈ سروس کی موجودگی سے آن لائن مواد کا تبادلہ کرنے والوں کی نظریں اب فلموں کے آن لائن تبادلے پر ہیں۔ ایک برطانوی رسالے کے مدیر کا کہنا ہے کہ ’فلم سٹوڈیوز آج اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں موسیقی کی صنعت چار برس قبل کھڑی تھی‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فلمی صنعت کو چاہیے کہ وہ مان لیں کہ ڈاؤن لوڈنگ ایک حقیقت ہے اور انہیں اس سلسلے میں قانونی خدمات فراہم کرنی چاہییں۔اس سے پہلے کہ پیئر ٹو پیئر(P2P ) نیٹ ورک کے ذریعے فلموں کا تبادلہ ایک چام بات بن جائے اور لوگ مفت فلمیں دیکھنے کے عادی ہو جائیں۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ پیئر ٹو پیئر(P2P ) نیٹ ورک کے ذریعےفلموں کا غیرقانونی تبادلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہالی وڈ سے متعلقہ افراد بھی اب اس بات سے متفق ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ فلموں کے قانونی ڈاؤن لوڈ کا کاروبار اب ترقی کرے گا۔ سینما ناؤ اور مووی لنک جیسی ویب سائٹیں ہالی وڈ کی مشہور فلموں کی ریلیز کے قریباً چھ ماہ بعد انہیں چار ڈالر فی ڈاؤن لوڈ کے حساب سے اپنے صارفین کو مہیا کر رہی ہیں جبکہ دو اور امریکی کمپنیاں اگلے برس یورپی ممالک کے صارفین کے لیے امریکی فلمیں فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ چند برس پہلے تک تفریحی صنعت انٹر نیٹ پر موسیقی اور فلموں کے تبادلہ کو چوری سے تعبیر کرتی تھی لیکن اب بی بی سی جیسے اس صنعت کے بڑے نام اس دنیا میں قدم رکھنے کو تیار ہیں۔ آئندہ برس سے بی بی سی کے زیادہ تر پروگرام ڈاؤن لوڈ کے لیے دستیاب ہوں گے۔ بی بی سی کے نیو میڈیا کے ڈائریکٹر ایشلے ہائی فیلڈ کا کہنا تھا کہ فائلوں کا آن لائن تبادلہ ٹی وی پروگراموں جیسی بڑی فائلوں کے نشر کرنے پر آنے والی لاگت کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ P2P ہمارے خرچ کو کم کرنے میں مددگار ہوگا۔ ہمیں پروگرام ایک بار بھیجنا پڑے گا اور صارفین بعد میں اس کا آپس میں تبادلہ کر لیں گے۔
pakistan-44725052
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-44725052
نواز شریف اور عدالتیں
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے سیاستدان میاں نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں جرم ثابت ہونے پر سزا دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی ہے۔
نواز شریف اور ان کی صاحبزادی، مریم نواز 80 سے زائد مرتبہ احتساب عدالت میں سماعت کے لیے حاضر ہوئے تاہم فیصلہ سننے کے لیے وہ عدالت میں موجود نہ تھے ان کے علاوہ مریم نواز کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ بھی پڑھیے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ، بی بی سی اردو کی لائیو کوریج پارک لین کے فلیٹس کب خریدے گئے، کب بِکے کیا ملزم کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنایا جا سکتا ہے؟ سپریم کورٹ کے احکامات پر ستمبر 2017 میں شروع ہونے والے اس کیس کا فیصلہ دس ماہ کی سماعت کے بعد جمعے کو نیب عدالت کے جج محمد بشیر نے سنایا۔ تاہم نواز شریف سمیت کوئی بھی ملزم اس موقع پر کمرۂ عدالت میں موجود نہیں تھا۔ ماضی میں بھی نواز شریف کو اپنے سیاسی مخالفین کی جانب سے مختلف نوعیت کی عدالتی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان میں سے دو مقدمات میں انھیں سزا بھی ہوئی تھی تاہم ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ان کے خلاف عدالتی کارروائی ان کی اپنی جماعت کے دورِ حکومت میں شروع ہوئی ہو۔ لندن کے علاقے پارک لین میں واقع ایون فیلڈ فلیٹس کے بارے میں مزید جانیے۔ واضح رہے کہ گذشتہ سال 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے مقدمے میں نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے قومی احتساب بیورو کو حکم دیا تھا کہ وہ نواز شریف کے خلاف لندن میں واقع ایون فیلڈ پراپرٹیز کی ملکیت اور اس کی خریداری میں ناجائز ذرائع کے استعمال کے حوالے سے ریفرینسز دائر کریں اور چھ ماہ میں کارروائی مکمل کریں۔ سات مارچ کو پہلی ڈیڈلائن ختم ہونے پر احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے توسیع کی پہلی درخواست کی جس کے بعد مدت 12 مئی تک بڑھا دی گئی۔ اس توسیع کے بعد بھی دلائل مکمل نہ ہونے کے سبب دوسری توسیع نو جون اور تیسری توسیع دس جولائی تک کے لیے دی گئی۔ گذشتہ سال 26 ستمبر کو پہلی بار عدالت میں پیش ہونے کے بعد سے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی، مریم نواز 80 سے زائد مرتبہ احتساب عدالت میں سماعت کے لیے حاضر ہوئے تاہم حسن اور حسین نواز ایک مرتبہ بھی عدالت میں نہیں آئے اور عدالت انھیں اشتہاری قرار دے چکی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999 میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا پاناما کیس میں نااہلی ماضی میں وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائیوں پر نظر ڈالیں تو گذشتہ برس 28 جولائی کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پاناما لیکس کے معاملے میں اپنے متفقہ فیصلے میں وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے ان کے اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس سے قبل ان کے خلاف مختلف ادوار میں مختلف نوعیت کے مقدمات درج ہوتے رہے ہیں لیکن پہلی بار سزا انھیں سابق آمر جنرل مشرف کے دور میں ہوئی تھی۔ طیارہ سازش کیس پرویز مشرف کے دور میں نواز شریف کے خلاف لگائے جانے والے مقدمات میں سب سے اہم کیس طیارہ سازش کیس تھا جس میں تختہ الٹنے والے جرنیل نے نواز شریف پر دہشت گردی، قتل کی سازش، ہائی جیکنگ اور اغوا کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔ جنوری 2000 میں کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس کیس کی سماعت شروع کی اور اپریل 2000 میں جج رحمت حسین جعفری نے نواز شریف کو چار میں سے دو الزامات، ہائی جیکنگ اور دہشت گردی کا مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی۔ یاد رہے کہ دسمبر 2000 میں سعودی بادشاہ اور لبنان کے وزیر اعظم رفیق حریری کی درخواست پر پرویز مشرف نے نواز شریف اور ان کے خاندان کو دس سالہ جلاوطنی کی شرط پر معافی دے دی۔ اس معافی کے بعد نواز شریف سمیت شریف خاندان کے بیشتر ارکان نومبر 2007 تک سعودی عرب میں قیام پذیر رہے۔ 1999-2000: مشرف دور کے نیب ریفرینس 1997 میں جب نواز شریف نے دو تہائی اکثریت سے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے دوسری دفعہ وزارت عظمی سنبھالی تو لگتا تھا کہ ان کے سیاسی مخالفین اب کچھ بگاڑ نہ سکیں گے لیکن ڈھائی برس کے قلیل عرصے بعد ہی ان کے چنندہ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999 میں ان کا تختہ الٹ دیا۔ حکومت سنبھالنے کے بعد پرویز مشرف نے نواز شریف کے خلاف بدعنوانی اور دہشت گردی کے مختلف مقدمات درج کرائے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے 1999 اور 2000 کے اوائل میں نواز شریف کے خلاف کل 28 مقدمات شروع کیے جن میں سے 15 ناکافی شواہد کی وجہ سے اگلے چار برسوں میں خارج ہو گئے جبکہ نو مقدمات 18 سال گزر جانے کے بعد ابھی بھی زیرِ تفتیش ہیں۔ نیب کی جانب سے شروع کیے جانے والے مقدمات میں سب سے اہم وہ چار ریفرینسز تھے جو احتساب عدالت کو بھیجے گئے تھے۔ ان چار میں سے ہیلی کاپٹر کیس کے نام سے مشہور ہونے والا پہلا ریفرینس اٹک قلعے میں قائم احتساب عدالت میں سنا گیا اور جج فرخ لطیف نے نواز شریف کو 1993 میں خریدے جانے والے چھ لاکھ پاؤنڈ مالیت کے ہیلی کاپٹر پر ٹیکس نہ دینے اور اثاثے ظاہر نہ کرنے کی پاداش میں 14 سال قید کی سزا اور دو کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا۔ نواز شریف کے خلاف سب سے پہلی عدالتی کارروائی 23 سال قبل بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں ہوئی تھی احتساب عدالت کے آج کے فیصلے سے قبل اب تک کے لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات میں یہ واحد کیس تھا جس میں نواز شریف کو سزا ملی تھی۔ نواز شریف نے اس سزا کے چھ ماہ جیل میں گزارے تاہم دسمبر 2000 میں اس وقت ملک کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کی جانب سے معافی دیے جانے پر وہ پاکستان چھوڑ کر سعودی عرب چلے گئے۔ حدیبیہ ملز ریفرینس یہ وہ معاملہ ہے جس کا ذکر پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ اور پھر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی دو ماہ کی تحقیقات کے دوران بھی سنائی دیتا رہا۔ حدیبیہ ملز ریفرینس دائر کرنے کی منظوری مارچ 2000 میں نیب کے اس وقت کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد نے دی تھی۔ اگرچہ ابتدائی ریفرینس میں میاں نواز شریف کا نام شامل نہیں تھا تاہم جب نیب کے اگلے سربراہ خالد مقبول نے حتمی ریفرینس کی منظوری دی تو ملزمان میں میاں نواز شریف کے علاوہ ان کی والدہ شمیم اختر، دو بھائیوں شہباز اور عباس شریف، بیٹے حسین نواز، بیٹی مریم نواز، بھتیجے حمزہ شہباز اور عباس شریف کی اہلیہ صبیحہ عباس کے نام شامل تھے۔ یہ ریفرینس ملک کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سے 25 اپریل 2000 کو لیے گئے اس بیان کی بنیاد پر دائر کیا گیا تھا جس میں انھوں نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے شریف خاندان کے لیے ایک کروڑ 48 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ رقم کی مبینہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔ اسحاق ڈار بعدازاں اپنے اس بیان سے منحرف ہو گئے تھے اور ان کا موقف تھا کہ یہ بیان انھوں نے دباؤ میں آ کر دیا تھا۔ رائیونڈ کے علاقے جاتی امرا میں شریف خاندان کے رہائش گاہیں واقع ہیں رائیونڈ سٹیٹ کیس اس معاملے کا تعلق جاتی امرا میں 401 کنال زمین پر 1992 سے 1999 کے درمیان شریف خاندان کی رہائش گاہ اور دیگر عمارات کی تعمیر کے حوالے سے تھا اور اس میں میاں نواز شریف اور ان کی والدہ شمیم اختر ملزمان تھے۔ ریفرینس میں نواز شریف پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے ان تعمیراتی سرگرمیوں کے لیے جو رقم ادا کی وہ ان کے ظاہر کردہ اثاثوں سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ ان دونوں ریفرینسز کی سماعت نواز شریف کی ملک بدری کے بعد روک دی گئی اور جب 2013 میں نواز شریف تیسری مرتبہ برسرِاقتدار آئے تو ان کے اس دور میں لاہور ہائی کورٹ نے مارچ 2014 میں یہ دونوں مقدمات خارج کر دیے۔ حیران کن طور پر مضبوط شواہد ہونے کے باوجود نیب کی جانب سے اس اخراج پر سپریم کورٹ میں کوئی اپیل دائر نہیں کی گئی۔ اتفاق فاؤنڈری قرضہ کیس اس مقدمے میں نیب نے شریف خاندان پر بینکوں کے تین ارب 80 کروڑ روپے کے قرضوں کی عدم ادائیگی کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ ادائیگی سے بچنے کے لیے کمپنی نے جان بوجھ کر خود کو دیوالیہ ظاہر کیا۔ اتفاق فاؤنڈری کی فروخت سے حاصل شدہ رقم کی بینکوں کو ادائیگی کے بعد یہ مقدمہ بھی فروری 2015 میں لاہور ہائی کورٹ نے ختم کر دیا۔ کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے طیارہ سازش کیس کی سماعت کی تھی 1994: بینظیر بھٹو دور میں ایف آئی اے کے چالان ماضی میں وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائیوں پر نظر ڈالیں تو ان کے خلاف سب سے پہلی کارروائی 23 سال قبل بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں ہوئی جب اکتوبر 1994 میں ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف رمضان شوگر ملز کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دی گئی۔ اس کیس میں شریف خاندان پر رقم کی خوردبرد اور غیر مجاز استعمال کا الزام تھا اور اس کی تفتیش سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے کی تھی تاہم 20 سال بعد یعنی سنہ 2014 میں یہ معاملہ رمضان شوگر ملز اور مدعی کے درمیان طے پا گیا۔ 1994 میں ہی نومبر کے مہینے میں میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے حدیبیہ پیپر ملز اور حدیبیہ انجنیئرنگ کمپنی کے خلاف خصوصی عدالت میں چالان جمع کرایا جس میں نواز شریف پر دھوکہ دہی اور رقم خورد برد کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔ یکن تین سال بعد جون 1997 میں نواز شریف نے، جو اس وقت ملک کے وزیر اعظم بن چکے تھے، لاہور ہائی کورٹ میں ان دونوں مقدموں سے متعلق رٹ پٹیشنز اس استدعا کے ساتھ جمع کروائیں کہ ایف آئی اے کے دونوں چالانوں کو خارج کر دیا جائے۔ لاہور ہائی کورٹ نے یہ درخواست منظور کر لی اور ایف آئی نے اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل دائر نہیں کی۔
regional-47782078
https://www.bbc.com/urdu/regional-47782078
انڈیا کے امیر لوگ خیرات کم کیوں دیتے ہیں؟
انڈیا کے آئی ٹی شعبے سے منسلک ارب پتی عظیم پریم جی حال ہی میں انڈیا کے سب سے زیادہ فلاحی کاموں میں پیسے دینے والے شخص بن گئے ہیں۔ وہ دنیا کے سرفہرست انسان دوست مخیر افراد میں شامل ہیں، لیکن ان کی دریا دلی نے ایک ایسے ملک میں خدمت خلق پر خرچ کرنے کے متعلق سوال کھڑا کیا ہے جہاں کے امراء اپنی دولت کی مناسبت سے خیرات نہیں کرتے۔ بی بی سی کی ارپنا الیوری کی تحریر پڑھیے۔
عظیم پریم جی نے حال ہی میں خیراتی کے کاموں کے لیے مزید ساڑھے سات ارب امریکی ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے اور اب وہ خدمت خلق کے مد میں مجموعی طور پر ایک کھرب 45 ارب روپیہ یا 21 ارب ڈالر دے چکے ہیں۔ اس عطیے کے ساتھ وہ بل اینڈ ملنڈا گیٹس اور وارن بفیٹ جیسے انسان دوست مخیر (فیلانتھراپسٹ) افراد کی صف میں شامل ہو گئے۔ ان سب میں انھیں جو چیز زیادہ ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ پریم جی ان کی طرح دنیا کے امیرترین افراد میں سر فہرست نہیں ہیں۔ ’بلوم برگ کی ارب پتی افراد کی فہرست کے مطابق وہ 51 ویں نمبر پر ہیں تاہم مخیر افراد ان کی اس دریا دلی پر حیران نہیں ہیں۔ خیرات کے کاموں کے متعلق حکمت عملی تیار کرنے والی کمپنی 'دسرا' کے شریک بانی دیول سانگھوی نے کہا: 'یہ ان کے لیے کوئی غیر معمولی بات نہیں کیونکہ وہ انڈیا کے ہی نہیں بلکہ اس بر اعظم میں خیرات میں حصہ ڈالنے کی وجہ سے پہلے نمبر پر ہیں۔ یہ بھی پڑھیے پاکستان میں ہر سال 240 ارب روپے کی خیرات عراقی دنیا کی سب سے فراخ دل قوم سافٹ ویئر کے شعبے سے تعلق رکھنے والے 73 سالہ پریم جی ایک عرصے سے اپنی دولت بانٹ رہے ہیں۔ سنہ 2013 میں وہ بل گیٹس اور بفیٹ کے پروگرام ’دینے کا عہدنامہ‘ پر دستخط کرنے والے پہلے انڈین بنے۔ اس عہدنامے کے تحت امیروں کی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی دولت کا نصف خیر کے کاموں میں دے دیں۔ جب وہ محض 21 سال کے تھے تو انھوں نے سٹینفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم ادھوری چھوڑ کر 'ویپرو' میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ کمپنی ان کے والد نے سنہ 1945 میں شروع کی تھی۔ (بعد میں انھوں نے سنہ 2000 میں اپنی تعلیم مکمل کر لی)۔ یہاں (بائیں سے دائیں) بل گیٹس، عظیم پریم جی، میلنڈا گيٹس اور وارن بفیٹ کو دہلی میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں دیکھا جا سکتا ہے ان کی قیادت میں ویپرو سبزی سے تیل بنانے کے کارخانے سے نکل کر آئي ٹے کے شعبے میں انڈیا کی سب سے بڑی اور کامیاب ترین کمپنیوں میں شامل ہو گئی۔ عظیم پریم جی بہت ہی عزلت پسند شخص ہیں جو عوامی تقریبات اور میڈیا سے دور ہی رہتے ہیں۔ لیکن ان کی سادہ طرز زندگی اور ان کی دریا دلی نے اس دوران ان کے بہت سے مداح پیدا کر دیے ہیں۔ اتنی ساری دولت کے باوجود ان کے اکانومی کلاس میں سفر کرنے یا بعض اوقات آٹو رکشے میں چلنے کی کہانیاں ایسے ملک میں لوگوں کو بہت متاثر کرتی ہیں جو کفایت شعاری کی قدر کرتے ہوں۔ ان کے ’دینے کے عہدنامے‘ کا حصہ بننے کے بارے میں عظیم پریم جی فاؤنڈیشن کی ایک سادہ سی پریس کانفرنس میں خبر آئی جس کے ساتھ ان کا کوئی ذاتی بیان نہیں تھا۔ ایک اخبار نے تو یہاں تک لکھا کہ جب انھیں بتایا گیا کہ ان کا عہدنامہ سوشل میڈیا میں گرما گرم بحث کا موضوع بنا ہوا ہے اور اخباروں کی سرخیاں بن رہا ہے تو انھوں نے کہا کہ 'آخر اتنے شور شرابے کی ضرورت کیا ہے۔' عظیم پریم جی اپنی اس دریا دلی میں بالکل تن تنہا نہیں ہیں۔ آئی ٹی ارب پتی نندن اور روہنی نیلکانی نے اپنی دولت کا نصف خیر کے کاموں کے لیے مختص کیا ہے۔ بایوکون کے کرن مزومدار شا نے اپنی دولت کا 75 فیصد دینے کا عہد کیا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے خاندان ہسپتال، سکول، کمیونٹی کچن، آرٹس اور سائنسی تحقیق کو فنڈ کرتے ہیں۔ عظیم پریم جی کی طرح یہ سب اپنی دولت کا کچھ حصہ خیر کے کاموں کے لیے دینے کا عہد کر رہے ہیں اور یہ دولت انھوں نے اپنی زندگی میں کمائی ہیں۔ انڈیا کی سب سے پرانی اور بڑی کمپنیوں کے مجموعے کی سرپرستی میں جاری' دی ٹاٹا ٹرسٹ' ایک عرصے سے انڈیا کا سب سے بڑا مخير ادارہ رہا ہے۔ اب اس کے مقابلے میں صرف پریم جی فاؤنڈیشن ہے جو تعلیم، صحت اور آزاد میڈیا کے شعبے میں فنڈز فراہم کرتا ہے۔ اگر آپ انڈیا کے تمام امیر ترین لوگوں کی جانب سے دیے جانے والے عطیے (14 لاکھ امریکی ڈالر سے زیادہ کے) کو دیکھیں تو دسرا کی حالیہ رپورٹ کے مطابق عظیم پریم جی کا حصہ 80 فیصد ہوتا ہے۔ عظیم پریم جی فاؤنڈیشن سرکاری سکولوں کے ساتھ تعلیم کے شعبے میں تعاون کر رہا ہے مسٹر سانگھوی کا کہنا ہے کہ انڈیا میں خدمت خلق کے لیے دینے کے جذبے میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس میں مناسب تیزی نہیں ہے۔ سنہ 2014 سے 2018 کے درمیان ذاتی سخاوت میں 15 فیصد سالانہ اضافہ نظر آيا ہے۔ دسرا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے یہ اس وقت 'زیادہ پریشان کن' نظر آتا ہے جب یہ نظر آتا ہے کہ انتہائی امیر گھرانے گذشتہ پانچ سالوں میں 12 فیصد کی شرح سے بڑھے ہیں اور سنہ 2022 تک ان کی شرح اور دولت دونوں کے دوگنے ہونے کا امکان ہے۔ امریکہ میں جس قدر سالانہ خیرات کے کاموں کے لیے دیا جاتا ہے اگر اس کا مقابلہ انڈیا کے امیروں سے کیا جائے تو انڈیا کے امیر سالانہ پانچ ارب سے آٹھ ارب مزید خیرات کر سکتے ہیں۔ ان کو کون سی چیز روکتی ہے؟ دلی کی اشوک یونیورسٹی میں سوشل امپیکٹ اینڈ فیلانتھراپی کے شعبے کی ڈائریکٹر انگرد سریناتھ کا کہنا ہے 'ٹیکس آفیسر کا خوف سب سے زیادہ ہے۔' 'وہ (امراء) یہ نہیں چاہتے کہ کسی کی نظر میں آئیں اور ان سے زیادہ پیسے کا مطالبہ کیا جائے۔' وہ کہتی ہیں کہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انڈیا میں ابھی دولت صرف ایک نسل پرانی ہے اور جن کے پاس یہ ہے وہ خود کو اتنے محفوظ نہیں سمجھتے کہ وہ اسے خیرات کر دیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ انڈیا میں خیرات کے بارے میں اعداد و شمار پر مکمل اعتبار کرنے پر بھی تنبیہ کرتی ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ نامکمل ہے اور اس طرح انڈیا میں خیرات کے رجحان کے بارے میں کچھ بھی وثوق سے کہنا مشکل ہے۔ آئی ٹی ارب پتی نندن نیلکانی نے اپنی دولت کا نصف خیر کے کاموں میں دینے کا عہد کیا ہے انڈیا میں خیرات کی ٹریکنگ کے لیے کوئی مرکزی ڈائریکٹری بھی نہیں ہے۔ ٹیکس کے قانون بھی پیچیدہ ہیں اور عطیہ کرنے پر کوئی مراعات بھی نہیں۔ اس لیے دسرا جیسی رپورٹس مختلف ذرا‏ئع پر منحصر ہیں جن میں حکومت، تھرڈ پارٹی ٹریکرز سے لے کر انفرادی طور پر اعلان کرنے والے شامل ہیں۔ اس کے ساتھ بعض افراد بغیر کسی نام کے عطیہ کرتے ہیں جس سے یہ اندازہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ سریناتھ کہتی ہیں کہ 'یہاں اس کے متعلق باتیں کرنا اچھا تصور نہیں کیا جاتا کہ آپ کتنا دے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اشوک یونیورسٹی کو جزوی طور پر تقریباً 100 ڈونرز نے فنڈ کیا ہے جن میں سے ہر ایک نے 14 لاکھ ڈالر دیا ہے لیکن انھوں نے اپنا نام ظاہر کرنے سے پرہیز کیا ہے۔ لیکن دسرا رپورٹ کے ایک مصنف آننت بھگوتی کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار حاصل کرنے کا طریقہ خواہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو لیکن عطیے میں دی جانے والی بڑی رقم کا ظاہر نہ ہونا بہت مشکل ہے۔ انھوں نے کہا کہ 'اگر آپ امیر لوگوں پر نظر ڈالیں تو آپ پائیں گے کہ وہ نہیں دے رہے ہیں۔' لیکن وہ اس بات سے متفق ہیں کہ 'وسیع تر جذبات و احساسات یہ ہیں کہ ہم (انڈین) بہتر کر سکتے ہیں۔' سخاوت بہ مقابلہ بنی نوع انسان کی ہمدردی مسٹر بھگوتی ان مخیر حضرات کو کم نہیں گنتے جو کسی یونیورسٹی یا ہسپتال کو فنڈ فراہم کرتے ہیں لیکن ان کے حساب سے انڈیا میں بنی نوع انسانی کی ہمدردی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مسئلہ سلجھایا جائے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ترقی کے کسی قابل عمل ہدف کو حاصل کیا جائے۔ اس میں غربت اور بھوک کے خاتمے سے لے کر لوگوں کی آلودگی سے پاک توانائی تک رسائی شامل ہے۔ دسرا انسان دوستی کے لیے خرچ کی جانے والی حکمت عملی پر زور دیتی ہے اور وہ سخاوت اور انسان دوستی میں فرق کرتی ہے۔ ان کے مطابق سخاوت میں غریبوں کو کسی دن کھانا کھلانا شامل ہے لیکن فیلینتھراپی میں ایسے غیر منافع بخش کام میں شرکت کرنا ہے جس سے بھوک کا مسئلہ ہی ختم ہو جائے۔ اس تعریف کے مطابق انڈیا کے لوگ مخیر تو ہو سکتے ہیں لیکن بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے کام کرنے والے زیادہ نہیں ہیں۔
pakistan-51716064
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51716064
شاہ محمود قریشی: ’افغان صدر اشرف غنی قیدیوں کے تبادلے پر فراخدلی سے غور کریں‘
پاکستان نے کہا ہے کہ وہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان معاہدے کے تحت قیدیوں کی رہائی کے فیصلے کو فریقین میں اعتماد کی بحالی کی جانب ایک کوشش کے طور پر دیکھتا ہے اور افغان صدر کو بھی اس معاملے پر کھلے دل سے غور کرنا چاہیے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امن کا راستہ ہمیشہ آسان نہیں ہوتا، مذاکرات میں بھی مشکلات تھیں مگر امید ہے کہ فریق معاہدے پر پختگی سے قائم رہیں گے۔ بی بی سی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ماضی میں بھی قیدیوں کے تبادلے ہوتے رہے ہیں اور ’اگر یہ تبادلہ ماحول کو سازگار بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے تو میرے خیال میں صدر اشرف غنی کو فراخدلی سے اس پر غور کرنا چاہیے۔‘ دوحہ میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے میں پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا گیا تھا تاہم اتوار کو افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ ان کی حکومت نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا وعدہ نہیں کیا اور افغان حکومت ہی اس بارے میں فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ یہ بھی پڑھیے طالبان کا افغان افواج پر حملے دوبارہ شروع کرنے کا اعلان وہ افغان عورت جس نے طالبان سے مذاکرات کیے امریکہ کے ساتھ معاہدے کے بعد طالبان کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’امن کا راستہ ہمیشہ آسان نہیں ہوتا، مذاکرات میں بھی مشکلات تھیں۔ مگر امید ہے کہ فریق معاہدے پر پختگی سے قائم رہیں گے۔‘ انھوں نے کہا اس تمام امن عمل کے دوران امریکہ ’صدر اشرف غنی کو گاہے بگاہے اعتماد میں لیتا رہا ہے اور ان سے مشاورت جاری رکھی گئی تھی۔‘ انھوں نے بتایا کہ دوحہ میں اس وقت ایک چھ رکنی افغان وفد موجود ہے جو قیدیوں کی رہائی سے متعلق بات چیت کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’قیدیوں کا تبادلہ یکطرفہ تو نہیں ہو گا بلکہ دونوں جانب سے قیدی رہا کیے جائیں گے۔‘ وزیر خارجہ کے مطابق دنیا کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے تشدد میں مسلسل کمی کی ضرورت ہو گی تاکہ مومینٹم درست سمت میں رہے خیال رہے کہ طالبان نے کہا ہے کہ وہ بین الافغان مذاکرات میں اس وقت تک نہیں بیٹھیں گے جب تک 5000 قیدی رہا نہیں کیے جاتے، جبکہ امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے مطابق دس مارچ کو بین الافغان مذاکرات شروع ہونے سے پہلے 5000 طالبان قیدی اور ایک ہزار دیگر قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے گی۔ تاہم افغانستان کی حکومت کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آئے ہیں کہ قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ افغان حکومت مذاکرات کے دوران کرے گی۔ وزیر خارجہ نے گذشتہ ہفتے دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے اور اس کے بعد پاکستان کی توقعات اور خدشات پر تفصیلی بات کی۔ کیا دنیا کو طالبان پر بھروسہ کرنا چاہیے؟ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ طالبان یہ کہتے ہیں کہ ’وہ اب تبدیل ہو چکے ہیں۔ انھوں (طالبان) نے ان سالوں میں سیکھا ہے کہ اب نئی حقیقتیں ہیں، دنیا بدلی ہے، افغانستان بدلا ہے اور یہ کہ دنیا انھیں دیکھ رہی ہے اور میرے خیال میں طالبان اتنے ہوشیار ہیں کہ وہ اس بدلتی صورتحال کو سمجھ سکتے ہیں۔‘ وزیر خارجہ کے مطابق دنیا کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے تشدد میں مسلسل کمی کی ضرورت ہو گی تاکہ مومینٹم درست سمت میں رہے۔ ’میں تمام فریقین کو کہوں گا کہ وہ تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور بڑے مقاصد کو نظر میں رکھیں۔‘ وزیرخارجہ نے گزشتہ روز بیان دیا تھا کہ افغانستان کے اندر اور باہر بعض عناصر افغان امن معاہدے اور ملک میں قیام امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'امریکہ اور عالمی برادری کو ایسے 'سپائلرز' پر نظر رکھنا ہو گی' افغان امن عمل میں ’سپائلرز‘ کون ہیں؟ وزیرخارجہ نے گذشتہ روز بیان دیا تھا کہ افغانستان کے اندر اور باہر بعض عناصر افغان امن معاہدے اور ملک میں قیام امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ اور عالمی برادری کو ایسے ’سپائلرز‘ پر نظر رکھنا ہو گی۔‘ بی بی سی کے اس سوال پر کہ ان کا اشارہ کس طرف ہے، پاکستانی وزیر خارجہ نے کسی ملک یا فریق کا نام لیے بغیر کہا کہ ’میرا اشارہ ان کی طرف ہے جو افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتے تھے، اور وہ بھی جو جنگ کی معیشت پر یقین رکھتے ہیں۔‘ وزیر خارجہ نے کہا کہ ایسے عناصر موجود ہیں جو اس معاہدے سے خائف تھے، ’درحقیقت یہ دیرپا امن کے لیے پہلا اور درست سمت میں ایک قدم ہے۔ کچھ لوگ جو نہیں چاہتے کہ پیش رفت ہو،ان کے اپنے اندرونی معاملات ہیں۔‘ خیال رہے کہ پاکستان انڈیا پر الزام لگاتا رہا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے، تاہم آج وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر افغانستان اس بات پر قائل اور متفق ہوتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی دہشت گرد فرد یا تنظیم کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا، تو پاکستان کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو جائے گا۔ ’پاکستان نہیں چاہتا کہ ان کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو اور نہ ہی ہم چاہیں گے کہ ہماری سرزمین کسی اور کے خلاف استعمال ہو۔‘ 'ان کا ملک اور مستقبل ہے۔ یہ فیصلہ افغان (شہریوں اور قیادت) نے کرنا ہے کہ انھیں کیسا افغانستان چاہیے' کیا پاکستان کی سہولت کاری جاری رہے گی؟ پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے اس معاہدے میں ایک سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ اس سوال پر کہ کیا پاکستان اب بین الافغان بات چیت میں اختلافات پیدا ہونے کی صورت میں یہ کردار دوبارہ ادا کرنے کے لیے تیار ہے، اور کیا پاکستان طالبان کو رویے میں لچک پیدا کرنے پر آمادہ کر سکتا ہے، وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کی زیرِ قیادت اور حمایت یافتہ امن عمل کی پاکستان پہلے بھی حمایت کرتا تھا اور آئندہ بھی کرتا رہے گا، تاہم اب آگے پاکستان نے نہیں بلکہ افغانستان نے بڑھنا ہے۔‘ ’ان کا ملک اور مستقبل ہے۔ یہ فیصلہ افغان (شہریوں اور قیادت) نے کرنا ہے کہ انھیں کیسا افغانستان چاہیے۔‘ اس سوال پر کہ کسی فریق کے معاہدے سے پیچھے ہٹنے کی صورت میں پاکستان کا موقف کیا ہو گا، شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس سطح پر ہونے والا معاہدہ سوچ سمجھ کر اور طویل نشستوں اور مذاکرات کے بعد کیا جاتا ہے اور اس سے پیچھے ہٹنے کا مطلب عوام کی توقعات پر پانی پھیرنا ہے۔ ’لوگ بھی تو دیکھ رہے ہیں۔‘ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے وزیرِ خارجہ اس امید کا اظہار کر رہے تھے کہ فریقین معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، ایسی خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ طالبان نے معاہدے کی بعض شرائط سے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا ہے کہ وہ افغان فورسز کے خلاف کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ انھوں نے کہا پاکستان کا افغانستان کے معاملات میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دیرپا امن کے لیے افغانستان میں سوچ کو لچکدار رکھنا ہو گا اور سب کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ 'پاکستان توقع کرتا ہے کہ افغان امن عمل میں سب فریق ساتھ چلیں گے اور کوششیں انکلوسِو ہوں گی۔‘ 'پاکستان کی خواہش ہوگی کہ ہم اپنے ملک کو محفوظ رکھیں، ہم نے اس کے لیے بڑی جانی اور مالی قربانی دی ہے، ہم افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ بھی لگا رہے ہیں تاکہ 'کراس بارڈرموومنٹ' کے الزامات نہ لگیں' فوجی انخلا کے بعد کیا خانہ جنگی کی صورت پیدا ہو سکتی ہے؟ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ خانہ جنگی کی صورتحال سے بچنے کے لیے ہی یہ مذاکرات کیے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کی خواہش ہو گی کہ ہم اپنے ملک کو محفوظ رکھیں، ہم نے اس کے لیے بڑی جانی اور مالی قربانی دی ہے، ہم افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ بھی لگا رہے ہیں تاکہ ’کراس بارڈر موومنٹ‘ کے الزامات نہ لگیں۔‘ ’پاکستان امید کرتا ہے کہ اس جذبہ خیرسگالی کو مثبت انداز میں دیکھا جائے گا۔‘ پاکستان کے وزیر خارجہ نے یہ واضح کیا کہ ’ماضی سے سیکھتے ہوئے‘ پاکستان افغانستان میں کسی ’پاور گیم‘ کا حصہ کبھی نہیں بنے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ’ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے درست فیصلے کیے ہیں جو افغانستان اور خطے کے لیے بہتر ہیں۔‘ پاکستان اور افغانستان میں امریکہ کی ثالثی ناقابلِ قبول ہے انھوں نے امریکہ کے ثالثی کے کردار سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے برملا کہا ہے کہ ہم اپنی سرزمین افغانستان یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، اگر افغان حکومت کو تشویش ہے تو بیٹھ کر، سفارتی ذرائع کے ذریعے بات چیت کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔‘ ’انڈیا کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت نہیں کی جا سکتی‘ انٹرویو کے دوران دیگر امور پر بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے اس بات کی نفی کی کہ انڈیا یا پاکستان کسی معاملے پر بات چیت کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حالیہ ماحول میں انڈیا کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت نہیں کی جا سکتی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ 'اس ماحول میں جہاں کشمیر میں سات ماہ سے لاک ڈاؤن برقرار ہے، بنیادی حقوق سلب کیے گئے ہیں، امتیازی قوانین رائج کیے جا رہے ہیں، ایسے ماحول میں کیا مذاکرات ہوں گے۔‘ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کا قانون ملک کے قیام سے پہلے کا ہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکا جائے کیا آسیہ بی بی کو پاکستان میں تحفظ ملے گا؟ آسیہ بی بی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ جب پاکستان آنا چاہیں آ سکتی ہیں۔ ان سمیت تمام پاکستانیوں کی حفاظت کی ذمہ داری حکومتِ پاکستان کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کا قانون ملک کے قیام سے پہلے کا ہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکا جائے۔ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی موجودگی کے الزامات انھوں نے حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں موجودگی سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ حقانی نیٹ ورک نے القاعدہ سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں سے لاتعلقی کا واضح اعلان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین امریکہ یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال کی اجازت نہیں دیں گے۔ انھوں نے ایک بار پھر ان الزامات کی تردید کی جن میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔
040405_rahulnominations_nj
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2004/04/040405_rahulnominations_nj
راہل امیٹھی سے انتخاب لڑیں گے
بھارت میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے بیٹےراہل گاندھی نےحالیہ ماہ میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے اتر پردیش میں امیٹھی کے حلقے سے کاغذاتِ نامزدگی داخل کر دیے ہیں۔
پیر کوسلطان پور میں کاغذات نامزدگی داخل کرتے وقت ان کی والدہ سونیا ، بہن پرینکا اور بہنوئی رابرٹ واڈرا ان کے ساتھ تھے۔ امیٹھی میں ہزاروں لوگوں کے ہجوم نے ان کا خیر مقدم کیا۔ جس وقت کمانڈوز سے گھرے ہوئے راہل سلطان پور پہنچے تو ان کے حامیوں نے ناچ کر اور پٹاخے چھوڑ کر اپنی خوشی ظاہرکی ۔ نہرو گاندھی خاندان کا امیٹھی سے بہت پرانا رشتہ ہے اس حلقے سے سنجے گاندھی ، راجیو گاندھی اور سونیا گاندھی ایوانِ زیریں کے لئے منتخب ہو چکے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کے راہل گاندھی کو امیٹھی سے جیتنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ سونیا گاندھی نے راہل کے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کو ایک جذباتی موقع قرار دیا۔ سونیا گاندھی منگل کو رائے بریلی کے انتخابی حلقے سے اپنے کاغذاتِ نامزدگی اخل کریں گی۔
world-54364042
https://www.bbc.com/urdu/world-54364042
امریکی صدارتی انتخاب 2020: اہم معاملات پر صدر ٹرمپ کہاں کھڑے ہیں؟
ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2016 کا صدارتی انتخاب ’امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانا ہے‘ کے نعرے پر جیتا تھا۔
ایک ایسے وقت میں جب وہ دوسری مدت کے لیے حزب اقتدار ریپبلکن جماعت کی طرف سے صدراتی امیدوار ہیں تو امریکہ کو کورونا وائرس اور اس کے منفی معاشی اثرات جیسے گھمبیر مسائل کا سامنا ہے۔ آئندہ صدارتی انتخاب میں حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے عوام گذشتہ چار سال میں ان کی کارکردگی کو ضرور سامنے رکھیں گے۔ اِن انتخابات میں صدر ٹرمپ یہ پروگرام لے کر آ گے بڑھ رہے ہیں کہ وہ معیشت کو ٹھیک کریں گے، روزگار کے مواقع بڑھائیں گے، امریکہ کے تجارتی مفادات کا تحفظ کریں گے اور ان سب کے ساتھ ساتھ امیگریشن کے بارے میں اپنی پالیسی کو نرم نہیں کریں گے۔ ذیل میں آٹھ ایسے نکات ہیں جن کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کہاں کھڑے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا سے تباہ حال معیشت کو بحال کرنا صدر ٹرمپ طویل عرصے سے ’امریکہ فرسٹ‘ یا سب سے پہلے امریکہ کے اصول پر سیاست کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے صنعتی شعبے میں نوکریاں یا روزگار کے مواقع جو امریکہ سے باہر منتقل ہو گئے تھے انھیں امریکہ واپس لانے پر زور دیا ہے۔ اپنی پہلی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ نے عامل یا کام کرنے والے شہریوں کے لیے ٹیکسوں میں بڑی چھوٹ دینے، کارپوریٹ یا بڑی کمپنیوں کے ٹیکس کی شرح کم کرنے، تجارت کے عدم توازن اور امریکی صنعت کو زندہ کرنے کے وعدے کیے تھے۔ یہ بھی پڑھیے ڈونلڈ ٹرمپ بمقابلہ جو بائیڈن: پہلا صدارتی مباحثہ کس کے نام رہا؟ موسیقار،آئی ٹی ماہر، سابقہ ایکٹر: ملیے امریکہ کے صدارتی امیدواروں سے کملا، کشمیر اور ’مودی کے دوست‘ انڈین نژاد امریکیوں کے ووٹ پر کیسے اثر انداز ہوں گے؟ ان میں کچھ وعدے انھوں نے پورے کیے۔ گذشتہ چار برس میں انھوں نے کاروبار پر وفاقی قواعد و ضوابط کو ختم کیا، انکم ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس میں چھوٹ دینے کی قانون سازی کی اور مقامی صنعتوں کے لیے ترجیحی احکامات جاری کیے۔ امریکہ میں جنوری سنہ 2017 کے بعد سے صنعتی شعبے میں چار لاکھ 80 ہزار نوکریاں نکلیں، گو کہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس شعبے میں ترقی کی شرح سست پڑ رہی ہے اور صدر ٹرمپ کی پالیسیاں نے اصل مسائل کے بارے میں کچھ نہیں کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے امید دلائی ہے کہ معیشت کورونا وائرس کی وبا ختم ہوتے ہی بحال ہو جائے گی لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 پر رد عمل نے معیشت کو طویل المعیاد نقصان پہنچایا ہے۔ چین پر انحصار ختم کر کے امریکی صنعت کو تحفظ فراہم کرنا صدر ٹرمپ نے گذشتہ انتخابی مہم میں اس بات پر زور دیا تھا کہ امریکہ کو اپنے معاشی مفادات پر توجہ دینی چاہیے لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ کہا تھا کہ ’امریکہ فرسٹ‘ کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکہ اکیلے یا امریکہ تنِ تنہا۔ عالمی تجارت میں صدر ٹرمپ نے چین کے بارے میں سخت موقف اختیار کیے رکھا اور مقامی صنعتی کو بیرونی مقابلے سے محفوظ رکھنے کی پالیسی اپنائے رکھی اور یہ ہی ان کی تجارتی پالیسی کے دو پہلو تھے۔ اپنی پہلی مدتِ اقتدار میں صدر ٹرمپ نے اپنی پوری توجہ اس بات پر مرکوز کیے رکھی کہ ان تمام تجارتی معاہدے جنھیں وہ امریکہ کے خلاف تصور کرتے ہیں ان پر نظر ثانی کی جائے جیسے کہ نیفٹا جو امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو کے درمیان تجارتی معاہدہ تھا۔ ان معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کیے جائیں یا ان کو یکسر ختم کر دیا جائے اور اس فہرست میں بین البحرلکاحل یا ’ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ‘ بھی شامل تھا۔ سنہ 2016 کی انتخابی مہم کے دوان انھوں نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ امریکہ کے تجارتی خسارے کو ختم کریں گے جو سنہ 2019 میں گذشتہ چھ برس میں پہلی مرتبہ کچھ کم ہوا مگر معاشی ماہرین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس سے معیشت میں بہتر کی نشاندہی ہوتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں سرحدی محصولات میں اضافہ کیا اور سالانہ پانچ سو ارب ڈالر کے قریب ہے اور اس سال دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے کے پہلے سال ان محصولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس سال اگست میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ امریکی کمپنیوں کو ترغیب دینے لیے ٹیکسوں کی چھوٹ دیں گے تاکہ وہ چین سے اپنی فیکٹریاں امریکہ منتقل کریں اور امریکہ کا چین سے انحصار پر ختم ہو سکے۔ صدر ٹرمپ نے یورپی یونین سے درآمد کی جانے والے تجارتی مال پر بھی محصولات میں اضافہ کیا جن میں سٹیل اور فرانس میں بنائی جانے والے شراب شامل ہے۔ انھوں نے برازیل اور ارجنٹینا سے المونیم اور سٹیل کی برآمد پر محصولات بڑھائے اور کینیڈا سے آنے والے ایلمونیم پر دوبارہ ڈیوٹیاں لگا دیں۔ امریکہ فرسٹ اور امریکی خومختاری پر زور تجارتی محاذ کی طرح صدر ٹرمپ نے خارجہ امور میں بھی امریکہ فرسٹ کی پالیسی اپنانے کا عزم کیا تھا۔ وائٹ ہاؤس کے الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ امریکی خومختاری پر زور دیا اور دوسرے ملکوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے تحفظ اور خوشحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کا خود تعین کریں۔ عملاً اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب کثیرالملکی بین الاقوامی معاہدوں جیسا کہ پیرس کا ماحولیاتی معاہدہ شامل ہے اس سے پیچھے ہٹنا اور کچھ بین الاقوامی اداروں مثلاً عالمی ادارۂ صحت سے علیحدگی اختیار کرنا ہے۔ انھوں نے برس ہا برس سے کام کرنے والے بین الاقوامی اتحادوں پر بھی سوالات اٹھائے ہیں جیسا کہ شمالی بحیرہ اوقیانوس (نیٹو) کے اتحادی ممالک سے یہ کہتے رہے کہ وہ اس فوج اتحاد کے لیے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کریں۔ حال ہی میں انھوں نے اس بات کو دہرایا کہ وہ بیرونی ممالک میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کریں گے۔ جو اس وقت وہی ہے جو ان کے اقتدار سنبھالنے کے وقت تھی خاص طور پر جرمنی اور افغانستان میں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ انھوں نے روس اور شمالی کوریا کی طرف ہاتھ بڑھا کر تاریخی طور پر امریکہ کے اتحادی ممالک سے تعلقات میں کشیدگی پیدا کی ہے۔ خارجہ امور میں ان کی کامیابی حال ہی میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے معاہدے طے کرانا ہے۔ اپنی کامیابیوں میں وہ نام نہاد دولت اسلامیہ نامی تنظیم کے سربراہ ابو بکر بغدادی اور ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کو بھی اپنی کامیابیوں میں شمار کرتے ہیں۔ امیگریشن امیگریشن یا امریکہ منتقل ہونے والے افراد کی تعداد کو کم کرنے کا وعدہ ان کی سیاسی زندگی کی بنیاد کی طرح ہے۔ اب جب کہ وہ دوبارہ اقتدار کی دوڑ میں ہیں تو انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس دیوار کی تعمیر جاری رکھیں گے جس کو وہ اپنے چار سالہ اقتدار میں مکمل نہیں کر سکے۔ میکسیکو کی سرحد پر تعمیر کی جانے والی اس 722 میل طویل دیوار کے لیے جو پیسہ جمع کر پائیں ہیں وہ صرف 445 میل طویل دیوار تعمیر کرنے کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے ویزا لاٹری اور امریکہ میں مقیم خاندانوں کے رشتہ داروں کو معیار پر پورا اترنے کی صورت میں ویزا جاری کرنے کے نظام جسے ’چین امیگریشن‘ بھی کہا جاتا ہے ختم کرنے کا عزم کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی امیگریشن نظام میں اصلاحات کرنے کی کوششوں کو اس برس گرمیوں میں اس وقت دھچکہ لگا تھا جب سپریم کورٹ نے ’ڈیفرڈ ایکشن فار چالڈ ہڈ آروائل‘ یعنی جو بچے اپنے ماں کے ہمراہ امریکہ میں داخل ہوئے تھے اور ان کے پاس اس وقت سفری دستاویزات نہیں تھیں ان کے بارے میں تاخیر سے لیے جانے والے اقدام کو منسوخ کرنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے رد کر دیا تھا۔ اس نظام کے تحت ساڑھے چھ لاکھ افراد کو تحفظ فراہم کرتا ہے جو بچپن میں بغیر کاغذات کے امریکہ پہنچے تھے۔ ادویات کی قمیتوں میں کمی اور سستے علاج کے قانون کو ختم کرنا صدر ٹرمپ نے سنہ 2016 میں اپنی مہم کے دوران سابق صدر اوباما کی طرف سے 'افورڈ ایبل کیئر ایکٹ' کو منسوخ کرنے کی بات کی تھی۔ گو کہ صدر ٹرمپ اس قانون کو پوری طرح ختم نہیں کر پائے لیکن ان کی انتظامیہ نے اس کے کچھ حصوں کو ختم کردیا ہے جس میں انفرادی ذمہ داری بھی شامل ہے جس کے تحت لوگوں کو ہیلتھ انشورنس لینی پڑتی ہے یا ان کو ٹیکس جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے امریکہ میں ادویات کی قیمتوں میں کمی کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا اور اس سال جولائی میں کئی ایسے اقدامات اٹھائے جن سے سستی ادویات کی درآمد ممکن ہو سکی مگر کچھ مبصرین کا کہنا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ انہوں نے سنہ 2017 میں افیون کے بحران کو قومی صحت کی ہنگامی صورت حال قرار دے دیا تھا اور ریاستوں کو وفاقی کی طرف سے ایک اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کی مالی مدد کا اعلان کیا تھا تاکہ وہ انسداد، علاج اور بحالی کے اقدامات پر خرچ کیے جا سکیں۔ انہوں نے افیون کو دوا کے طور پر تجویز کرنے پر بھی پابندی لگائی۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ لاکھوں افراد کو علاج کی سہولت فراہمی کو یقینی بنانے والے افورڈ ایبل کیئر ایکٹ کے خلاف ان کے اقدامات سے افیون کے بحران سے نمٹنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ توانائی کے ذرائع میں اضافہ جب سے انھوں نے اقتدار سنبھالا تھا صدر ٹرمپ نے سینکڑوں ایسے منصوبے ختم کر دیے جو کہ ماحولیات کو محفوظ بنانے کے لیے شروع کیے گئے تھے۔ ان میں بجلی بنانے والے کارخانوں اور گاڑیوں سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو کم سطح پر رکھنے اور وفاقی آبی گزرگاہوں کو محفوظ بنانے کے اقدامات شامل تھے۔ یہ وعدے ان کی گذشتہ انتخابی مہم میں بھی شامل تھے۔ انھوں نے پریس کے ماحولیاتی معاہدے سے بھی امریکہ کو نکال لیا تھا اور کہا تھا کہ یہ معاہدے امریکی مفادات کے خلاف اور صرف دوسرے ملکوں کے فائدہ میں ہے۔ اس معاہدے سے مکمل طور پر علیحدگی باضابطہ طور پر اکتوبر کے انتخابات کے بعد ہی ہو پائے گی۔ حال ہی میں ان کی انتظامیہ نے تیل اور گیس کی دریافت کے کام کی اجازت الاسکا کے آرٹک نیشل وائلڈ لائف رفیوج میں بھی دے دی ہے جو کئی دہائیوں سے قدرتی وسائل کی دریافت کے لیے بند تھا۔ پولیس کے نامناسب رویے کا پتا لگانے کے لیے اعداد و شمار جمع کرنا صدر ٹرمپ 'فرسٹ سٹیپ ایکٹ' کو جرم اور انصاف کے نظام میں اصلاحات کی طرف ایک اہم قدم قرار دے رہے ہیں۔ سنہ 2018 میں دونوں جماعتوں کے اتفاق سے پیش کیا جانے والی قانونی مسودہ ایک اہم پیش رفت تھی جس کا مقصد وفاق کی سطح پر قانون میں اصلاح کرنا، ججوں کو سزا سناتے وقت زیادہ صوابدیدی اختیار دینا اور قیدیوں کی بحالی کے اقدامات کو مستحکم کرنا تھا۔ صدر ٹرمپ نے ’سیکنڈ سٹیپ ایکٹ‘ کا وعدہ کیا تھا جس سے سابق قیدیوں کو روزگار حاصل کرنے میں دشواریوں کو ختم کرنا شامل تھا لیکن اس بارے میں کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی۔ سنہ 2016 کی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ نے اپنے آپ کو قانون پر علمدرآمد یا بالادستی کا سب سے بڑا حامی اور داعی قرار دیا تھا اور وہ اپنے دورِ اقتدار میں اس پر کاربند بھی رہے۔ حال ہی میں قومی سطح پر نسل پرستی کےخلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران انھوں نے بھرپور طریقے سے پولیس کی حمایت جاری رکھی۔ اس سال جون میں صدر ٹرمپ نے بہت سے سرکاری حکمناموں پر دستخط کیے جو پولیس اصلاحات سے متعلق تھے۔ ان میں پولیس کے لیے وفاقی مالی معاونت میں اضافہ بھی شامل تھا تاکہ پولیس کے طریقہ کار کو بہتر کیا جا سکے اور ایسے پولیس اہلکاروں کے اعداد و شمار اکھٹے کیے جا سکیں جن کے خلاف نامناسب رویہ اختیار کرنے کی شکایات ہوں۔ صدر ٹرمپ نے یہ تو کہا کہ مشتبہ افراد کو قابو کرنے کے لیے ایسے متنازع طریقہ اختیار کرنے پر جس سے ان کی سانس رک جائے پابندی ہونی چاہیے لیکن ان پر پابندی لگانے کے لیے انھوں نے کچھ نہیں کیا۔ سیکنڈ ترمیم کا دفاع امریکی ریاست ٹیکساس اور اوہائیو میں سنہ 2019 میں عوامی فائرنگ کے واقعات سے جب پورا ملک صدمے کا شکار تھا اس وقت صدر ٹرمپ نے اصلاحات کی بات کی تھی۔ ان اصلاحات میں اسلحہ خریدنے والوں کا پس منظر کی جانچ پڑتال کرنا اور ’ریڈ فلیگ لا‘ شامل تھے تاکہ معاشرے کے لیے خطرہ تصور کیے جانے والے عناصر کی رسائی مہلک اسلحے تک محدود یا مشکل کی جا سکے۔ ابتدائی جوش خروش دکھانے کے بعد صدر ٹرمپ نے ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس کے برعکس نے امریکی آئین کی دوسری ترمیم کی حمایت جاری رکھی جو امریکی شہریوں کو اسلحہ رکھنے کا آزادی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ملک کی طاقت ور اور با اثر ’گن لابی‘ اور نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کی بھی حمایت کرتے رہے۔